FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ویران مقبروں   کے مسافر

                   انیس اشفاق

 

ویران میدانوں   سے گزرتے ہوئے اچانک ایک مقام پر میں   رکا۔ میری نگاہ راہ کے ایک پتھر پر ٹکی جس پر یہ عبارت کندہ تھی۔ ’’ یہ راستہ ان مقبروں   کی طرف جاتا ہے جہاں   سوگواروں   کو مارا گیا تھا۔ ‘‘ عبارت پڑھ کر میں   آگے بڑھا ہی تھا کہ ایک آواز نے مجھے روکا۔ میں   نے پلٹ کر دیکھا تو سیاہ لباس میں   ملبوس ایک عورت میرے سامنے کھڑی تھی۔

’’تم نے عبارت پڑھی‘‘۔ میرے مڑتے ہی اس نے پوچھا۔

’’پڑھی ‘‘۔ میں   نے کہا۔

’’پھر ‘‘؟ اس نے سوالیہ نگاہوں   سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’میں   خاموش رہا۔ ‘‘ اس نے پھر پوچھا :

’’اس طرف جاؤ گے؟ ‘‘

’’کس طرف ؟ ‘‘

’’جہاں   لوگوں   کو مارا گیا تھا۔ ‘‘

’’انھیں   کیوں   مارا گیا تھا؟ ‘‘

’’انھوں   نے مرنے والوں   کا سوگ کیا تھا۔ ‘‘ اس نے کہا: پھر کہا۔ ’’ جس دن انھوں   نے سوگ کیا اسی دن انھیں   مارا گیا۔ ‘‘پھر پوچھا : تم جاؤ گے اس طرف؟۔

’’جاؤں   گا۔ ‘‘ میں   نے بے خیالی میں   کہہ دیا۔

’’تو چلو میرے ساتھ۔ ‘‘

میں   اس عورت کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ کچھ ہی دیر میں   ہم ان مقبروں   میں   پہنچ گئے۔ میں   دیر تک اس عورت کے ساتھ ان ویران مقبروں   میں   گھومتا رہا۔ جو ایک بڑے میدان میں   تھوڑی تھوڑی دور پر بنے ہوئے تھے۔ میدان کے چاروں   طرف دیواریں   تھیں   جن میں   جگہ جگہ شگاف تھے۔ انھیں   دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ اب گرنے ہی والی ہیں ۔ مقبروں   کے میدان میں   چاروں   طرف جھاڑیاں   اگی ہوئی تھیں ۔ انہی جھاڑیوں   میں   تھوڑے تھوڑے فاصلے پر وہ پیڑ کھڑے تھے۔ جنھیں   کبھی مقبروں   کی زمینوں   کو ہرا بھرا رکھنے کے لیے لگایا گیا تھا لیکن اب یہ پیڑ جنگلی بِیلوں   کی لپیٹ میں   تھے اور یہی بیلیں   مقبروں   کے ان گنبدوں   کو لپیٹے ہوئے تھیں   جو برسوں   کی دھوپ کھا کھا کر سیاہ پڑ چکے تھے۔ میں   نے ان مقبروں   کو چاروں   طرف سے گھوم گھوم کر دیکھا۔ پھر ان کے سنگی چبوتروں   کی ان سیڑھیوں   پر چڑھ کر جن کے جوڑوں   میں   گھاس اگ آئی تھی، ان کٹاؤ دار جالیوں   سے اندر جھانکا جو مقبروں   کی تعمیر کے وقت بہت خوبصورتی سے بنائی گئی تھیں ۔ مقبروں   کے اندر روشنی زیادہ نہیں   تھی لیکن میں   دیکھ سکتا تھا کہ ان کے فرش خاک سے اٹے ہوئے ہیں   اور قبروں   کی جالیوں   پر گرد کی تہیں   جمی ہوئی ہیں ۔ چھتوں   پر جگہ جگہ جالے ہیں   اور طاقوں   میں   فاختاؤں   نے اپنے آشیانے بنا لیے ہیں ۔ کچھ کچھ دیر بعد ان کے اندر مجھے ابابیلیں   بھی چکر لگاتی ہوئی نظر  آئیں  ۔ سیڑھیوں   سے اتر کر میں   نے مقبروں   کے گنبدوں   کو دیکھا اور ان کی ایک سی گولائیوں   کو دیکھ کر مجھے ان کے بنانے والوں   پر حیرانی ہوئی۔ کبھی یہ دور سے بہت صاف اور چمکتے ہوئے نظر آتے ہوں   گے لیکن اب ان پر جنگلی کبوتروں   کے ڈیرے تھے۔ میں   ا ن کبوتروں   کو گنبدوں   کے اوپر ٹکڑیوں   کی شکل میں   اڑتے ہوئے اور کچھ کچھ دیر بعد انھیں   گنبدوں   پر جھنڈوں   کی شکل میں   اترتے ہوئے دیکھتا رہا۔ میں   نے سوچا: ’’ زمانوں   کے ساتھ سب کچھ بدلتا رہا ہو گا‘‘۔ مقبروں   کے اندر آشیانے بنانے والی فاختائیں  ، چکر لگاتی ہوئی، ابابیلیں  ، گنبدوں   پر اڑتے اور ان پر اترتے ہوئے کبوتر۔ میں   گنبدوں   کے اوپر کبوتروں   سے بھرے ہوئے آسمان کو دیکھ رہا تھا، اسی وقت میری پشت سے ایک آواز آئی۔

’’دیکھ چکے‘‘؟

میں   پیچھے مڑا تو وہی سیاہ پوش عورت کھڑی تھی جس نے ان مقبروں   تک میری رہنمائی کی تھی۔

’’دیکھ چکا۔ ‘‘ میں   نے کہا۔ پھر پوچھا:’’مگر ان کی قبریں   کہاں   ہیں ۔ ‘‘

’’ان کی قبریں   نہیں   ہیں ۔ ‘‘ اس نے کہا۔ پھر بولی: جس دن انھیں   مارا گیا تھا، مقبرے کا میدان لاشوں   سے بھر گیا تھا۔ پھر اسی لہجے میں   کہا: انھیں   ان مقبروں   کی زمینوں   پر جلا دیا گیا۔ ‘‘ پھر مقبروں   کی دیواروں   کی طرف اشارہ کرتے ہوئی بولی ’’ یہ سیاہی دیکھ رہے ہو؟ ‘‘

’’دیکھ رہا ہوں  ‘‘۔

’’یہ انہی کی جلی ہوئی لاشو ں   کا دھواں   ہے جو ان دیواروں   پر جم گیا ہے‘‘۔ اس نے کہا۔

سیاہ پوش عورت نے میرے پیچھے آتے ہوئے مجھ سے پوچھا :’’ کہاں   جا رہے ہو’’؟

’’باہر ‘‘۔ میں   نے کہا’’ مجھے آگے جانا ہے ‘‘

’’آج یہیں   ٹھہرو۔ ‘‘

’’کیوں  ؟ ‘‘

’’وہ رات کے اندھیرے میں   روز یہاں   آتے ہیں  ‘‘ اس نے میرے سوال کے جواب میں   کہا۔

’’کون؟ ‘‘

’’سوگوار۔ ‘‘

’’وہ تو مارے جا چکے ہیں ۔ ‘‘ میں   نے کہا۔

’’یہ نئے سو گوار ہیں ۔ ‘‘ اس نے کہا۔ پھر بولی :’’ یہ مارے گئے سوگواروں   کا سوگ منانے آتے ہیں ۔ ‘‘

’’انھیں   بھی مارا جائے گا ؟‘‘ میں   نے پوچھا۔

سیا ہ پوش عورت خاموش رہی۔

’’مجھے آگے جانا ہے۔ ‘‘ میں   نے کہا ؟۔

’’تم کس طرف سے آ رہے ہو۔ ‘‘

’’شہر کی طرف سے۔ ‘‘

’’کون سا شہر۔ ‘‘

’’نام نہیں   معلوم۔ ‘‘

’’نام نہیں   معلوم ؟‘‘ اسے حیرانی ہوئی۔

’’ اس شہر کا کوئی نام نہیں   ہے۔ ‘‘

’’کیوں  ؟ ‘‘

’’نہیں   معلوم۔ ‘‘میں   نے کہا۔ ’’ہم اسے شہر کہتے ہیں ۔ ‘‘

’’وہاں   کتنے لوگ رہتے ہیں ۔ ‘‘اس نے پوچھا۔

’’کوئی نہیں ۔ ‘‘

’’کوئی نہیں   ؟‘‘ اسے پھر حیرانی ہوئی۔

’’وہ شہر مکینوں   سے خالی ہے۔ ہم اس کی پہچان مکانوں   سے کرتے ہیں   ‘‘

’’کتنے مکان ہیں   وہاں   ‘‘

’’نہیں   معلوم۔ ‘‘ وہاں   مکان گنے نہیں   جاتے۔ ‘‘

’’کیوں  ؟ ‘‘

’’مکانوں   کی گنتی کرنے والے مارے جاتے ہیں ۔ ‘‘

’’تم وہاں   سے کب نکلے تھے؟ ‘‘

’’ جب انھیں   مارا جا رہا تھا۔ ‘‘

’’کنہیں  ؟ ‘‘

’’مکان گننے والوں   کو۔ ‘‘

’’کتنے لوگ مارے گئے ؟ ‘‘

’’معلوم نہیں  ۔ ‘‘

’’مارنے والے کون تھے۔ ‘‘

’’یہ بھی نہیں   معلوم۔ ‘‘

’’تمھارے سوگواروں   کوکس نے مارا‘‘؟ میں   نے پوچھا۔

’’مجھے بھی نہیں   معلوم۔ مارنے والے نظر نہیں   آتے۔ ‘‘

’’دن ڈھل رہا ہے۔ مجھے آگے جانا ہے ‘‘۔ میں   نے اسے یاد دلایا۔

’’ میں   نے کہا نا آج یہیں   ٹھہرو۔ رات ہوتے ہی سوگوار آنا شروع ہو جائیں   گے۔ ‘‘

میں   خاموش رہا اور رات ہونے کا انتظار کرنے لگا۔

اندھیرا پھیلتے ہی ان ویران مقبروں   میں   سوگوار آنے لگے۔ وہ سب سیاہ لباس میں   ملبوس تھے۔ احاطے میں   ایک قطار بنا کر وہ دیر تک خاموش کھڑے رہے۔ پھر انھوں   نے باری باری ان مقبروں   کا طواف کیا۔ پھر مقبروں   کے چبوتروں   پر چراغ روشن کیے۔ چبوتروں   کی زمینوں   پر ان کی آہٹیں   پا کر مقبروں   کے اندر موجود ابابیلیں   اپنے پروں   کو پھڑپھڑاتی ہوئی ادھر سے ادھر اڑنے لگیں ۔ چبوتروں   پر جلتے ہوئے چراغوں   کی لویں   تیز ہواؤں   میں   دیر تک نہیں   ٹھہر سکیں   اور کچھ دیر بعد خاموش ہو گئیں ۔ چراغوں   کے بجھتے ہی سوگوار بھی نظر سے اوجھل ہو گئے۔ میں   یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ کہاں   گئے، چبوتروں   کی طرف بڑھنے لگا تو سیاہ پوش عورت نے مجھے روکا :

’’فضول ہے۔ ‘‘

میں   نے مڑ کر اس سے پوچھا :’’وہ سب کہاں   گئے ‘‘

’’مارے گئے۔ ‘‘

’’میں   نے کہا نا مارنے والے نظر نہیں   آتے۔ ‘‘

’’ان کی لاشیں  ؟ ‘‘

’’اٹھا لی گئیں ۔ ‘‘

’’میں   نے انھیں   مرتے ہوئے نہیں   دیکھا۔ ‘‘ میں   نے کہا۔

’’ اور نہ ان کی لاشوں   کو اٹھتے ہوئے ‘‘اب یہی کہو گے۔

’’ہاں   ‘‘

’’ وہ بڑی خاموشی سے مارے جاتے ہیں ۔ ‘‘ اس نے کہا۔ ’’ پہلے ان کی لاشیں   اسی احاطے میں   جلا دی جاتی تھیں ۔ اب اٹھا کر کہیں   اور لے جائی جاتی ہیں ۔ ‘‘ اس نے مزید کہا۔

’’کہاں  ؟ ‘‘

’’یہ نہیں   معلوم۔ :کل نئے سو گوار آئیں   گے۔ کئی دن وہ اسی طرح آئیں   گے اور ایک دن اسی طرح مار دیے جائیں   گے۔ ‘‘

’’تمھیں   آگے جانا ہے۔ ’’ اس نے مجھے یاد دلایا۔

’’ہاں ۔ ‘‘

’’نکل جاؤ، ورنہ تم بھی مارے جاؤ گے۔ ‘‘

’’میں   ان کا سوگوار نہیں   ہوں ۔ ‘‘

’’لیکن میں   ان کی سوگوار ہوں   اور تم میرے ساتھ ہو۔ ‘‘

’’تمھیں   اب تک نہیں   مارا گیا۔ ؟ ‘‘

’’ میں   سوگواروں   میں   شامل نہیں   ہوتی۔ ‘‘اس نے کہا۔ ’’ جب وہ سب مار دیے جاتے ہیں   اور جب مارنے والے یہاں   سے چلے جاتے ہیں   تو میں   اکیلے ان کا سوگ مناتی ہوں ۔ ‘‘پھر بولی : ’’اب تم جاؤ۔ میں   انھیں  یاد کروں   گی۔ ‘‘

میں   مقبروں   کے احاطے سے باہر نکلنے لگا تو اس نے مجھ سے پوچھا :

’’لیکن جاؤ گے کس طرف؟ ‘‘

’’آگے ایک شہر ہے، اس طرف ‘‘

’’تمھارا شہر؟ ‘‘

’’نہیں   میرا کوئی شہر نہیں ۔ ‘‘

’’وہاں   کیوں   جا رہے ہو ‘‘

’جب ایک شہر چھوڑنا پڑتا ہو تو۔ ۔ ۔ ۔ میں   کہتے کہتے رک گیا۔

’’تو ؟ ‘‘

’’دوسرے شہر کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ ‘‘ میں   نے جملہ مکمل کیا۔

’’جاؤ۔ ‘‘ اس نے کہا۔ میں   چلنے لگا تو اس کی آواز پھر آئی :

’’کبھی وہاں   سے لوٹنا تواس طرف ضرور آنا۔ میں   یہیں   ملوں   گی’’۔ ’’ لیکن تب تک بہت لوگ مارے جا چکے ہوں   گے‘‘۔ میں   نے کہا۔

’’ہاں  ۔ لیکن جب تک وہ مجھے نہیں   مارتے، میں   مارے جانے والوں   کا سوگ مناتی رہوں   گی۔ ‘‘

میں   آگے بڑھ گیا۔ کچھ دیر چلنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ وہ اپنی جگہ کھڑی ہے اور مجھے جاتا دیکھ رہی ہے۔

میں   نے ان مقبروں   کو سورج نکلنے سے پہلے چھوڑ دیا تھا۔ دن بھر میں   سفرکرتا رہا۔ شام ہوتے ہوتے میں   ایک ایسے سنسان مقام پر پہنچا جہا ں   کئی خیمے لگے ہوئے تھے۔ میں   خیموں   کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ ہر خیمے کے اوپر ایک سیاہ پرچم لگا ہے اور ہر خیمے کے باہر راکھ کے ڈھیر موجود ہیں ۔ ان میں   کچھ ادھ جلی لکڑیاں ۔

’’کسی قافلے نے شاید ابھی ابھی کوچ کیا ہے‘‘۔ میں   نے سوچا۔

لیکن خیمے کیوں   نہیں   اٹھائے گئے۔ میں   نے پھر سوچا۔ یہی سوچتے سوچتے میں   ان خیموں   کے اندر داخل ہوا۔ نہ خیمہ دار نہ ان کا سازو سامان۔ لیکن آخری خیمے سے نکلتے وقت مجھے ایک کونے میں   سیاہ چادر میں   لپٹی ہوئی کوئی چیز نظر آئی۔ اسے دیکھتے ہی میں   پھر خیمے میں   داخل ہوا۔ اور اب مجھے محسوس ہوا کہ اس چادر کے اندر کوئی انسانی وجود ہے۔

’’کون ہے؟‘‘ میں   نے پوچھا۔

’’دعا کرنے والی۔ ‘‘ سیاہ چادر کے اندر سے آواز آئی۔

لیکن تم ہو کون ؟

’’دعا کرنے والی۔ ‘‘چادر کے اندر سے پھر آواز آئی۔ اس بار چادر میں   حرکت ہوئی اور اس کے اندر موجود شے ایک مکمل انسانی وجود میں   تبدیل ہو گئی۔ میں   نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا :

ؓ خیمے خالی کیوں   ہیں  ؟

’’انھیں   خیمے چھوڑ کر جانا پڑا۔ ‘‘

’’کیوں  ؟ ‘‘

’’نہ جاتے تو مارے جاتے۔ ‘‘

’’وہ سب کدھر گئے؟ ‘‘

’’نہیں   معلوم۔ ‘‘

’’تمھیں   چھوڑ کر چلے گئے؟ ‘‘

’’میں   ان میں   سے نہیں   ہوں ۔ ‘‘

’’مگر تم انہی کے خیموں   میں   ہو۔ ‘‘

’’یہ خیمے ان کے نہیں   ہیں ۔ ‘‘

’’پھر کس کے ہیں  ؟ ‘‘

’’ان کے جو ان خیموں   میں   نہیں   رہ سکے، میں   انہی میں   سے ہوں ۔ ‘‘

’’جو نہیں   رہ سکے وہ کہاں   ہیں  ؟ ‘‘

’’مارے گئے۔ ‘‘

’’جو خیموں   میں   رہے اور چھوڑ کر چلے گئے وہ کہاں   ہیں  ؟ ‘‘

’’نہیں   معلوم بتا تو چکی ہوں ۔ ‘‘

لیکن وہ پرائے خیموں   میں   کیوں   رہے۔ ؟ ‘‘

’’ یہاں   انھوں   نے پناہ لی تھی۔ وہ جہاں   سے آئے تھے وہاں   انھیں   مارے جانے کا ڈر تھا۔ ‘‘

’’وہ کہاں   سے آئے تھے ؟ ‘‘

’’نہیں   معلوم۔ ’’

’’تم یہاں   کیوں   ہو؟ ‘‘

’’جو مارے گئے انہیں   روتی ہوں ۔ جو نکل گئے ان کے لیے دعا کرتی ہوں ۔ ‘‘

’’جو چلے گئے وہ آئیں   گے ؟ ‘‘

’’زندہ رہے تو ضرور آئیں   گے‘‘۔ اس نے کہا۔ پھر کہا: اب تم جاؤ میں   ان کے لیے دعا کروں   گی۔ ‘‘

میں   دعا کرنے والی کو ان ویران خیموں   میں   اکیلا چھوڑ کر آگے نکل آیا لیکن یہ بھول گیا کہ مجھے کس طرف جانا ہے۔ بڑی دیر تک میں   ایک جگہ پر کھڑا سوچتا رہا کہ مجھے کس طرف جانا ہے۔ اور پھر میں   یہ بھی بھول گیا کہ میں   نے سفر شروع کہاں   سے کیا تھا۔ پھر مجھے یہ بھی یاد نہ رہا کہ میرا ٹھکانہ کہاں   تھا۔

میں   چل رہا تھا اور چلتا جا رہا تھا۔ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ میرا گلا سوکھ رہا ہے۔ مجھے یاد آیا کہ میں   سامان کے بغیرسفر پر نکلا تھا۔ میرے سر پر سورج پوری طرح سے چمک رہا تھا۔ پیاس کی شدت سے میری زبان باہر نکلی آ رہی تھی۔ مجھے پانی کی تلاش تھی۔ میں   نے اپنے چاروں   طرف نگاہ دوڑائی لیکن پانی کا ٹھکانہ کہیں   نہیں   تھا۔ چلتے چلتے میرے پاؤں   جواب دینے لگے تھے۔ میرے لیے ضروری تھا کہ میں   کچھ دیر سائے میں   ٹھہر کر آرام کروں   لیکن سایہ کہیں   نظر نہیں   آ رہا تھا۔ مجھ پر غشی طاری ہو رہی تھی، اسی عالم میں   مجھے محسوس ہوا کہ میں   ایک سایہ دار درخت کے نیچے لیٹا ہوا ہوں   اور ایک شخص پانی سے بھری ہوئی مشک کا دہانہ کھول کر مجھے پانی پلا رہا ہے۔ مجھے نہیں   معلوم کہ میں   کتنی دیر بیہوش رہا لیکن جب مجھے ہوش آیا تو منظر کچھ اور ہی تھا۔ میرا گلا پہلے ہی کی طرح سوکھا ہوا تھا اور میرے منہ سے پانی۔ ۔ ۔ پانی کی آواز نکل رہی تھی۔ میں   نے دیکھا کہ میرے چاروں   طرف کچھ لوگ سرخ پوشاکوں   میں   ملبوس ہاتھوں   میں   ننگی تلواریں   لیے کھڑے ہیں ۔ ان میں   ایک نے آگے بڑھ کر گرجدار آواز میں   مجھ سے پوچھا :

’’کس طرف سے آ رہے ہو؟ ‘‘

’’کسی طرف سے نہیں  ۔ میں   نے کہا‘‘۔

’’تمھیں   بتانا ہو گا کہ تم کس طرف سے آ رہے ہو۔ ‘‘اس بار اس نے تلوار میر ی گردن پر رکھتے ہوئے پہلے سے بھی زیادہ بلند آواز میں   کہا۔

میں   خوف سے لرز رہا تھا لیکن میری آنکھیں   اب پوری طرح کھل چکی تھیں   اور آس پاس کے منظر مجھے صاف نظر آنے لگے تھے۔ میں   شاید کسی قلعے میں   تھا جس کے چاروں   طرف اونچی اونچی دیواریں   تھیں   اور اس کی فصیل بہت دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ جس شخص کی تلوار میری گردن پر تھی وہ شاید ان سرخ پوشوں   کا سردار تھا۔

’’پانی۔ ۔ ۔ ۔ بہت پیاسا ہوں  ‘‘ سردار کی بات کا جواب دینے کی بجائے میں   نے پانی طلب کیا۔ ’’ ملے گا۔ لیکن پہلے بتاؤ کہ تم کس طرف سے آ رہے ہو۔ ‘‘ سرخ پوشوں   کا سردار اب کے اور غضبناک ہوتے ہوئے بولا۔

’’بتاتا ہوں  ۔ لیکن پہلے یہ تلوار میری گردن سے ہٹاؤ اور مجھے تھوڑا پانی پلاؤ‘‘۔

سرخ پوشوں   کے سردار نے تلوار میری گردن سے ہٹاتے ہوئے مجھے پانی پلانے کا حکم دیا۔ فورا ہی ایک طشت میں   پانی بھرے ہوئے کئی کوزے میرے سامنے رکھ دیے گئے۔ میں   نے جی بھر کر پانی پیا اور سیراب ہوتے ہی اپنی بات کہنا شروع کی :

’’میں   ان ویران مقبروں   کی طرف سے آ رہا ہوں   جہاں   شام ہوتے ہی ایک سوگوار عورت اپنے مرنے والوں   کا سوگ مناتی ہے اور میں   ان اُجاڑ خیموں   کی طرف سے آ رہا ہوں   جہاں   سیاہ چادر میں   لپٹی ہوئی ایک عورت مر جانے والوں   کے لیے روتی ہے اور بچ کر نکل جانے والوں   کے لیے دعا کرتی ہے۔ ‘‘

میں   آگے کچھ اور کہنے والا تھا کہ سرخ پوشوں   کے سردار نے مجھے بیچ ہی میں   روک دیا۔ میں   نے دیکھا کہ تلوار کے قبضے پر اس کی گرفت مضبوط ہو رہی ہے اور اس کی آنکھوں   میں   خون اتر رہا ہے۔ سردار کے ساتھ ساتھ میں   نے دوسرے سرخ پوشوں   کی آنکھیں   بھی لال ہوتے ہوئے دیکھیں ۔ کچھ دیر تک وہ سب ایک دوسرے کو سوالیہ نگاہوں   سے دیکھتے رہے پھر اس گہرے سکوت میں   سردار کی آواز گونجی :

’’تم ہمیں   ان جگہوں   تک پہنچا سکتے ہو؟ ‘‘

’’نہیں  ۔ ‘‘ میں   نے کہا۔ ’’میں   وہ جگہیں   پہچانتا ہوں   لیکن وہ علاقے نہیں   پہچانتا جہاں   میں   نے انھیں   دیکھا تھا‘‘۔

’’تم وہاں   کیوں   جانا چاہتے ہو؟‘‘ میں   نے سردار سے پوچھا۔ ‘‘ ہم بچ کر نکل جانے والے انہی لوگوں   میں   سے ہیں   جن کے لیے وہ سیاہ پوش بی بی دعا کرتی ہے‘‘۔ سردار نے کہا۔ پھر کہا:’’مقبروں   میں   دفن لو گ ہم میں   سے تھے اور جو خیموں   کے اندر مارے گئے وہ بھی ہمارے ہی لوگ تھے‘‘۔ سردار کی آواز میں   غم بھی تھا اور غصہ بھی۔

وہ چپ ہوا تو میں   نے کہا:’’لیکن دعا کرنے والی بی بی کہتی تھی جو بچ کر نکل گئے وہ ان میں   سے نہیں   ہے۔ ‘‘

’’یہی تو ہم جاننا چاہتے ہیں   کہ وہ ہم میں   سے نہیں  ، پھر بھی ہمارے لیے دعا کیوں   کرتی ہے۔ ‘‘ سردار کی آواز میں   تجسس تھا۔ ’’وہ سمجھتی ہے کہ تم سب بھی مارے جاؤ گے۔ ‘‘میں   نے کہا۔ پھر اپنی بات کو مزید سمجھاتے ہوئے کہا :’’ اور جب تم مارے جاؤ گے تو اسی کے قبیلے میں   شمار کیے جاؤ گے اور کیونکہ تم مارے جاؤ گے اس لیے وہ تمہیں   اپنے قبیلے کا جان کر تمہاری سلامتی کی دعا کرتی ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر میں   نے سردار کے چہرے پر نگاہ کی۔ وہ کہیں   کھویا ہوا تھا۔

’’کیا سوچ رہے ہو۔ ‘‘ میں   نے اسے مخاطب کیا۔

’’یہی کہ ہم ان بی بیوں   سے کیسے ملیں   گے‘‘ سردار چونکتے ہوئے بولا۔

’’انھیں   مارا جا چکا ہو گا۔ ‘‘ میں   نے کہا۔ ’’آخر وہ کب تک چھپتی پھریں   گی۔ ‘‘

’’ایسا مت کہو۔ ‘‘ سردار لرزتی ہوئی آواز میں   بولا۔ پھر بولا:’’ ان کا زندہ رہنا ضروری ہے۔ ‘‘

’’کیوں  ؟‘‘میں   نے پوچھا۔

’’ان تک پہنچ کر ہم مقبروں   کے میدان میں   دفن لوگوں   کا حال معلوم کریں   گے اور ان لوگوں   کا بھی حال معلوم کریں   گے جو اپنے بنائے ہوئے خیموں   میں   نہیں   رہ سکے اور مارے گئے۔ ‘‘

’’کیا میں   پوچھ سکتا ہوں   کہ تم اس قلعے میں   کب سے ہو اور کیوں   ہو؟‘‘ میں   نے بات بدلتے ہوئے سردار سے پوچھا۔

’’جب سے ہم ان خیموں   سے نکلے ہیں  ، ہم نے یہیں   پناہ لی ہے‘‘ سردار نے کہا۔ پھر سخت لہجے میں   کہا:‘‘جب تک ہم انھیں   مار نہیں   لیں   گے، یہیں   رہیں   گے’’۔

’’کنھیں   مار نہیں   لو گے؟ ‘‘

جنھوں   نے ہمیں   مارا ہے۔ ‘‘

سردار کی بات سنتے سنتے میری آنکھوں   میں   بہت سے بھولے ہوئے منظر گھومنے لگے۔ مجھے یا د آیا کہ میں   نے ایک زمانہ مسافرت میں   گزار دیا ہے۔ سفر کے دوران راستوں   کو عبور کرتے وقت میں   نے طرح طرح کے منظر دیکھے تھے اور بہت سے منظروں   کو دیر تک دیکھنے کے لیے میں   نے اپنا سفر موقوف بھی کر دیا تھا۔ ان منظروں   کو دیکھنے کے لیے میں   نے ان مقامات پر قیام کیا اور دوسروں   کی آنکھوں   میں   آئے بغیر میں   وہ سب کچھ دیکھتا رہا جسے یاد رکھنے اور دیر تک یاد رکھنے میں   اذیت اٹھانے کے سوا میرے ہاتھ کچھ نہیں   آیا۔

٭٭٭

ماخذ: اخبارِ اردو، پاکستان

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید