فہرست مضامین
- وہ جو دل پہ تیر لگا گئے
- غفار بابر :دنیا چلی گئی مری دنیا لیے ہوئے
- محمد شفیع بلوچ:وہ جا چُکا ہے پھر بھی سدا محفلوں میں ہے
- نور زماں ناوک : اُٹھ گیا ناوک فِگن مارے گا دِل پر تیر کون
- ڈاکٹر عبدا لحق خان حسرت کا س گنجوی: فصیلِ دِل کے کلس پر ستارہ جُو تیرا غم
- عبداللہ حسین:قدح قدح تری یادیں ، سبو سبو ترا غم
- دانیال طریر : کوئی کہاں سے تمھارا جواب لائے گا
وہ جو دل پہ تیر لگا گئے
(کچھ مرحوم ادیبوں کی یاد میں)
غلام ابن سلطان
غفار بابر :دنیا چلی گئی مری دنیا لیے ہوئے
غلام ابن سلطان
ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک دُور اُفتادہ قصبے ’’کیچ‘‘ میں مقیم پاکستان کے نامور ادیب غفار بابر نے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔وہ گزشتہ نصف صدی تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی مساعی میں جس انہماک کا مظاہرہ کر رہا تھا اس کا ایک عالم معترف تھا۔ اس کی تخلیقی فعالیت سے اردو شاعری اور نثر کی ثروت میں جو اضافہ ہوا وہ تاریخ ادب میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔اس زیرک، فعال، مستعد اور عصری آگہی سے متمتع تخلیق کار نے نظم و نثر کی بیس کے قریب وقیع تصانیف سے اردو ادب کا دامن گل ہائے رنگ رنگ سے بھر دیا۔تین برس قبل اس کی رحلت کی خبر سن کر روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو گیا۔غفار بابر کے ساتھ میرا جو تعلق خلوص، مروّت اور دردمندی کی اساس پر استوارتھا، وہ مسلسل تین عشروں پر محیط تھا۔ جب بھی ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ور ق گردانی کرتا ہوں تو قریۂ جاں میں اس کی حسین یا دیں اس طرح پھیلی ہیں کہ جس سمت بھی نگاہ اُٹھتی ہے اس کی آواز کی باز گشت کانوں میں رس گھولتی ہے۔رخشِ حیات مسلسل رو میں ہے انسان کا ہاتھ نہ تو باگ پر ہے اور نہ ہی اس کے پاؤں رکاب میں ہیں ۔ہم یہ نہیں جانتے کہ ہماری مسافت کب کٹے گی اور کس لمحے ہم زندگی کا سفر طے کر کے اپنی آخری منزل کی جانب رختِ سفر باندھ لیں گے۔زندگی کا یہ سفر بھی عجیب سفر ہے جس کی اصلیت کی تفہیم ہمارے بس سے باہر ہے۔ احباب کی دائمی مفارقت کے بعدانسان کی زندگی کا سفر تو اُفتاں و خیزاں کٹ جاتا ہے لیکن رفتگاں کی یاد کے صدموں سے پس ماندگان کا پُورا وجود کِر چیوں میں بٹ جاتا ہے۔ہجوم یاس میں جب میرا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جاتا ہے اور میں یاس و ہراس اور گھبراہٹ کے عالم میں غمِ جہاں کا حساب کرنے لگتا ہوں تو غفار بابر مجھے بے حساب یاد آنے لگتا ہے۔وہ شخص جا چُکا ہے لیکن اس کے احباب کے دل کی انجمن آج بھی اس کی یادوں کی عطر بیزی سے مہک رہی ہے۔وقت بڑی تیزی سے گزر گیا اور اس کی یادیں اب خیال و خواب بن کر ر ہ گئی ہیں ۔شہر یار کے یہ اشعار میرے جذبات حزیں کی ترجمانی کر تے ہیں :
عجیب چیز ہے یہ وقت جس کو کہتے ہیں
کہ آنے پاتا نہیں اور بِیت جاتا ہے
جو ہونے والا ہے اس کی فکر کیا کیجیے
جو ہو چکا ہے اُسی پر یقیں نہیں آتا
اس حادثے کو سُن کے کرے گا کوئی یقیں
سُورج کو ایک جھونکا ہوا کا بُجھا گیا
اگرچہ اس کی عمر بڑھ رہی تھی لیکن ضعفِ پیری کے کہیں آثار نہ تھے۔اس کے تخلیقی مزاج کے تمام عناصر اعتدال پر تھے اوراس کے اعضا پر کبھی اضمحلال طاری نہ ہوا۔ زندگی بھر غفار بابر کی تخلیقی فعالیت پورے جو بن پر رہی۔ہوائے جور و ستم میں بھی اس زیرک شاعر نے شمع وفا کو فروزاں رکھا اورسفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔زبان و بیان پر اس کی خلاقانہ دسترس کا ایک عالم معترف تھا۔اردو شاعری کی تمام اصناف میں اس نے اپنی فنی مہارت کا لوہا منوایا۔اس نے حمد، نعت، سلام، منقبت، قصیدہ، غزل، رباعی، نظم، قطعہ، ہائیکو اور مسدس میں خوب طبع آزمائی کی۔اردو شاعری میں ہئیت کے تجربات پراس نے اپنی توجہ مرکوز رکھی۔رجائیت پسندی اس کی فطرت ثانیہ تھی یہی وجہ ہے کہ عملی زندگی میں فکر و خیال اور طرز عمل میں اس نے ہمیشہ مثبت انداز فکر اپنانے پر زور دیا۔اس کی مثبت اور تعمیری سوچ نے اسے ہر قسم کی تخریب سے دور رکھا اور اپنی دیوارِ چمن کی بلندی اس کا نصب العین رہا۔غفار بابر کو پاکستان کے طول و عرض میں بولی جانے والی تمام علاقائی زبانوں کے ادب سے کامل آگہی حاصل تھی۔لوک ادب بالخصوص لوک گیتوں اور لوک داستانوں میں اس نے گہری دلچسپی لی اور ان سے وابستہ تلمیحات اس کی شاعری میں اس طرح سما گئی ہیں کہ قاری ان سے گہرا اثر قبول کرتا ہے۔اپنے جذبات و احسات کو اشعار کے قالب میں ڈھالنے کے سلسلے میں اس نے جس قدرت اور ندرت کا ثبوت دیا وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے۔عملی زندگی میں اپنے تجربات اور مشاہدات وہ نہایت خلوص، درد مندی اور دیانت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔اس کے اسلوب کی سادگی، سلاست اور شیرینی اپنی جگہ اہم ہے لیکن اس کا سہل ممتنع انداز قاری پر فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتا چلا جاتا ہے۔ ایک وسیع النظر ادیب کی حیثیت سے اس نے اردو، کشمیری، پنجابی، انگریزی، فارسی، عربی، سرائیکی، ہندکو، پشتو، سندھی اور بلوچی زبانون کے کلاسیکی ادب کا بڑی توجہ سے مطالعہ کیا۔
غفار بابر کا تعلق صوبہ خیبر پختون خوا کے ایک ممتاز علمی و ادبی خاندان سے تھا۔اس کے والد نامور ماہر تعلیم تھے اور شعبہ تعلیم میں انھوں نے طویل تدریسی خدمات انجام دیں ۔ جنھوں نے اپنے ہو نہار بچے کی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دی۔ غفار بابر نے اردو زبان و ادب اوراسلامیات میں ایم۔ اے کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ اس کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں واقع سرکاری کامرس کالج میں اردو زبان و ادب کی تدریس پر مامور ہوا اور بائیس سال تک تدریسی خدمات انجام دیں ۔ زمانہ طالب علمی ہی میں پاکستان کے بڑے شہروں میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں شرکت کی اور کل پاکستا ن بین الکلیاتی مشاعروں میں بھی حصہ لیا۔ اسے ڈیرہ سماعیل خان میں کام کرنے والی علمی و ادبی تنظیموں کی روح رواں سمجھا جاتا تھا۔ وہ کئی بڑی ادبی تنظیموں کے اہم تنظیمی عہدوں پر فائز رہا اور فروغ علم و ادب کے لیے گراں قد ر خدمات انجام دیں ۔مجلس ترقی اردو ڈیرہ اسماعیل خان، ارباب قلم ڈیرہ اسماعیل خان، گلستان اقبال ڈیرہ اسماعیل خان میں اس کی خدمات اس علاقے کی تاریخ کا زریں باب ہے۔ اپنی علمی، ادبی اور تدریسی زندگی میں غفار بابر کو جن نامور ادبی شخصیات سے ملنے کا موقع ملا ان میں ساغر صدیقی، اطہر کاشمیری، قتیل شفائی، سید عبدالحمید عدم، جوش ملیح آبادی، محمد شیر افضل جعفری، سعداللہ کلیم، سید جعفر طاہر، کبیر انور جعفری، محمد فیروز شاہ، ارشاد گرامی، سجاد بخاری، سید ضمیر جعفری، این میری شمل، رالف رسل، خضر تمیمی، کرنل محمد خان، امیر اختر بھٹی، رفعت سلطان، اشفاق احمد، شفیع عقیل، عطا شاد، ڈاکٹر نثار احمد قریشی، انعام الحق کوثر، محسن بھوپالی، خاطر غزنوی، احمد فراز، خادم مگھیانوی، سید مظفر علی ظفر، صابر آفاقی، نیاز سواتی، صابر کلوروی اور گدا حسین افضل کے نام قابل ذکر ہیں ۔ عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار جانے والے یہ عظیم اور با کردار لوگ علم و ادب کے وہ آفتاب و ماہتاب تھے جو حریتِ ضمیر سے جینے کے لیے اسوۂ شبیرؓ سے وابستہ رہے اور جن کے افکار کی ضیا پاشیوں سے سفاک ظلمتیں کافور ہوئیں اور اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہوا۔یہ نابغۂ روزگار فاضل محشرِ عمل تھے ، تاریخ ہر دور میں ان کے نام کی تعظیم کرے گی۔ غفار بابر جب بھی ان یگانۂ روزگار ہستیوں کا ذکر کرتا تو اس کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں ۔غفار بابر کی وقیع تصانیف جادۂ نور، ضرب گل، بر گ زرد، چاند چنبیلی، پھل کنڈے ( پنجابی اور سرائیکی زبان میں شاعری )نمکیات( ظریفانہ کلام ) کی اشاعت سے پاکستانی ادبیات کی ثروت میں اضافہ ہوا۔ غفار بابر کی گل افشانیِ گفتار سے ہر محفل رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے استعاروں کی مظہر بن جاتی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شگفتہ مزاجی اور ہنسنے ہنسانے کا شوق اس کی جبلت میں شامل تھا۔ اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں نہاں کر کے سدا بہار مُسرتیں اور قہقہے عیاں کرنا اس کے اسلوب کا امتیاز ی پہلو تھا۔ بادی النظر میں اس کی ذات تقدیر کی گردشِ ہفت آسماں کی خزا ں رسیدگی کے باعث مضمحل سی تھی اور ہوا کے دوش پر اُڑتے ہوئے برگِ زرد کے مانند اس کا گلشنِ زیست تازگی سے محروم رہا۔جب اس کی مسافت کٹ گئی تو صرف سفر کی دھُول ہی اس کا پیرہن تھا۔اپنی داخلی شکستگی کو اپنے اسلوب کی شگفتگی سے اس نے اس طرح ڈھانپ رکھا تھا کہ کسی کو اس کے داخلی کرب و اضطراب کا احساس تک نہ ہوتا تھا۔ اس نے جس بے ساختگی سے قندیلِ محبت کو ضیا اور آئینہ ء ہستی کو جِلا بخشی وہ اپنی مثال آپ ہے۔وہ اپنی جان کو دوہرے عذاب میں مبتلا محسوس کرتا تھا۔وہ زندگی کے تضادات، نا ہمواریاں اور بے اعتدالیاں دیکھ کر تڑپ اُٹھتا اور اس کے بعد معاشرتی زندگی پر ان کے مسموم اثرات کے بارے میں سوچ کر کُڑھتا رہتا تھا۔اس کے خندہ زن ہونے کی دو کیفیتیں تھیں کبھی تو وہ دوسروں پر ہنستا تھا لیکن اکثر عالی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ پر بھی ہنستا تھا۔ غفار بابر ایک پیکرِ ملال اور تصویرِ درد تھا یہی وجہ ہے کہ اس نے خود کو غم کے قبیلے کا ایک فرد قرار دیا اور اپنے غموں سے سمجھوتہ کر کے بہاروں کا سوگ منانے کے بجائے خوشیوں کی جستجو کی اور معاشرے میں خوشیاں بانٹنے پر اپنی توجہ مرکوز کر دی۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ اس لیے ہنستا تھا کہ کہیں دیدۂ گریاں کی نہر صبر اور ضبط کے شہرِ آرزو کو بہا کر اپنے ساتھ نہ لے جائے۔انتہائی نا مساعد حالات میں بھی غفار بابر نے صبر و تحمل اور ایثار کی شمع فروزاں رکھی۔ تحلیلِ نفسی کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی شخصیت ایک اکائی کے روپ میں سامنے آتی ہے لیکن سمے کے سم کے ثمر نے اسے جن مسموم حالات کی بھینٹ چڑھا دیا، اس کے باعث اس کی روح کو ناقابلِ اندمال صدمات سے دو چار ہونا پڑا۔اس نے زندگی کی پُر خار راہوں پر ایک آبلہ پا مسافر کی طر ح اپنا سفر جاری رکھا۔ وہ جانتا تھا کہ شیشوں کا مسیحا کہیں موجود نہیں اس کے باوجود اپنی شخصیت کی یہ کر چیاں وہ اپنے دامن میں لیے وہ کسی معجزے کا منتظر رہا۔ آزمائش و ابتلا اور آلامِ روزگار کے خارِ مغیلاں سے اپنی فگار اُنگلیوں سے وہ زندگی بھر ملبوس بہار کی تزئین میں ہنسی خوشی مصروف رہا۔اس کے رنگِ سخن میں اس کا بے ساختہ پن متکلم دکھائی دیتا ہے۔ تحریف نگاری کے ذریعے وہ اپنی شاعری کو پُر لطف بنا دیتا ہے :
کتابیں چھین کر ہاتھوں سے بیگم نے یہ فرمایا
مجھے کچھ بھی نہیں غم، امتحاں تیرا ہے یا میرا
مجھے لکڑی بھی لادو اور سبزی بھی پکانے کو
اگر تُو فیل ہو جائے زیاں تیرا ہے یا میرا
پڑوسن نے کہا کچھ تو جھپٹ کر اُس پہ یوں برسیں
تجھے کیا ہے پڑی؟’’بابر میاں تیرا ہے یا میرا‘‘
مرد امیدوار ہوتے ہیں
بیویاں امتحان ہوتی ہیں
مرد منہ میں لگام رکھتے ہیں
عورتیں بے عنان ہوتی ہیں
مرد چُپ سادھ لیتے ہیں اکثر
بیویاں ترجمان ہوتی ہیں
ایک شگفتہ مزاج تخلیق کار کی حیثیت سے غفار بابر نے اپنے اسلوب کو جاذبِ نظر اور خندہ آور بنا دیا۔یبوست زدہ قنوطی جب آلامِ روزگار سے گھبرا کر گریہ و زاری کر تے ہیں تو ان کا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جاتا ہے۔ان حالات میں طنزو مزاح ان کے زخموں کا مرہم بن جاتا ہے اور ہر درد کا درماں ثابت ہوتا ہے۔غفار بابر کی شگفتہ مزاجی، حاضر جوابی، بذلہ سنجی، فقرے بازی، ضلع جُگت اور پھبتی ایک دھنک رنگ منظر نامہ سامنے لاتی تھی۔ اس کی شگفتہ مزاجی سے اس کی علمی سطحِ فائقہ صاف دکھائی دیتی تھی۔اس کی شگفتہ مزاجی کے سوتے اس کے ذہن و ذکاوت اور بصیرت سے پھُوٹتے تھے۔
یوں زیست کے لمحات کو میں کاٹ رہا ہوں
اک بحرِ الم ہے کہ جسے پاٹ رہا ہوں
تعلیم نے بخشی ہے وہ افلاس کی دولت
چھے سال سے ایم اے کی سند چاٹ رہا ہوں
مبتلائے قبض ہو جائے نہ قوم
اس کو تھوڑا سا انیمہ چاہیے
ہو مبارک آپ کو عہدِ جدید
ہم کو بس دورِ قدیمہ چاہیے
اپنی ظریفانہ شاعری میں غفار بابر نے تہذیب و تمدن اور معاشرت و ثقافت کی اقدار و روایات کو اپنی گل افشانیِ گفتار سے اس مہارت سے ہم آہنگ کر دیا ہے کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔وہ اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھا کر محفل کو کشتِ زعفران بنانے کا ہنر جانتا تھا۔اس نے قارئینِ ادب پر یہ بات واضح کر دی کہ معاشرتی زندگی میں برداشت اور صبر و تحمل کی افادیت مسلمہ ہے۔کسی بھی قوم کے متمدن اور مہذب ہونے کی کسوٹی معاشرتی زندگی میں اس قوم کا عمومی طرز عمل اور شیوہ ء گفتار ہی ہے۔اگر کوئی قوم کٹھن حالات کا خندہ پیشانی سے سامنا کرتی ہے ، ہجوم غم میں دِل کو سنبھال کر ہنستے مسکراتے موجِ حوادث سے کشتیِ جاں کو نکال کر ساحلِ عافیت تک پہنچانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ بات اس کے انتہائی مہذب ہونے کی دلیل ہے۔غفار بابر کی آنکھوں نے وطن اور اہلِ وطن کو درپیش مسائل کا بہ نظر غائر جائزہ لیا تھا۔عام طور پر اس کی شگفتہ مزاجی محض تفننِ طبع تک محدود رہتی ہے اور ظرافت کا عمدہ نمونہ پیش کرتی ہے۔اس کی شاعری کا مطالعہ کرتے وقت بعض اوقات یہ احساس ہوتا ہے کہ شاعر کی شگفتہ بیانی کا قصرِ عالی شان شعوری یا لاشعوری مقصدیت کی اساس پر استوار ہے۔اسی مقام پر اس کا اسلوب طنز کا روپ دھار لیتا ہے۔
خون کی ندی بھی ہم نے پار کی
ہم سے باتیں کر رہے ہو دار کی
ہے یہاں کانٹوں سے اپنا واسطہ
کر رہا ہوں بات میں گلزار کی
اک غریبِ شہر کو حق مل گیا
یہ خبر ہو گی کسی اخبار کی
عدل کی زنجیر کو مت چھیڑئیے
کون سنتا ہے یہاں نادار کی
خا ک کی چادر پہ سونا چاہیے
بس یہی ہم کو بچھونا چاہیے
خون مکھن بن کے نکلے جسم سے
قوم کو اتنا بلونا چاہیے
طنز اور مزاح میں موجود حدِ فاصل کا غفار بابر کو احساس تھا۔اس نے طنز کی کلاسیکی روایت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا اور معاشرتی زندگی کی قباحتوں کو بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکنے کے سلسلے میں طنز کو کامیابی سے استعمال کیا۔ ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے اپنے گرد و نواح کے ماحول پر اس کی گہری نظر تھی۔سماجی زندگی میں جامد و ساکت بتوں ، سنگلاخ چٹانوں اور بے حس پتھروں نے انسانی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔رہزنوں سے بچ کر بھاگ نکلنے والوں کو جب رہبر گھیر لیتے ہیں تو راہِ جہاں سے گزرنے والے آبلہ پا مسافروں کی کوئی امید بر نہیں آتی اور نہ ہی انھیں بچ نکلنے کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں چلتے پھرتے ہوئے مُردوں نے بے بس و لاچار انسانیت کا جینا دشوار کر دیا ہے اور زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی ہیں ۔معاشرتی زندگی کے تضادات پر غفار بابر کا طنز زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے۔ایک ظریف الطبع تخلیق کار کی حیثیت سے غفار بار اپنے داخلی کرب کو محض خندۂ استہزامیں نہیں اُڑاتا بل کہ طنز کے وار سے جبر کی دیوار کو منہدم کرنے کا آرزو مند دکھائی دیتا ہے۔اپنے معاشرے کے تضادات پر اس کے طنز کا اہم اور بنیادی مقصد صرف یہ دکھائی دیتا ہے کہ اصلاحِ احوال کی کوئی صورت تلاش کی جائے۔یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں کہ حکومت کفر سے تو قائم رہ سکتی ہے لیکن فسطائی جبر اور نا انصافی کی اسا س پر قائم ہونے والی حکومت ریگِ ساحل پر نوشتہ وقت کی ایک ایسی تحریر کے مانند ہے جسے سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے پلک جھپکتے میں نیست و نابود کر کے صفحۂ ہستی سے مٹا دیتے ہیں ۔ دُکھی انسانیت کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کے وسیلے سے غفار بابر نے ہمیشہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو مطمح نظر بنایا اور اسی فعالیت کو اپنی تخلیقی شخصیت کے فروغ کا وسیلہ بنایا۔
ہم نے جو بویا وہی کاٹا میاں
اپنے کرتوتوں پہ رونا چاہیے
پوچھتی ہے بم دھماکوں کی صدا
قوم کے بچو!کھلونا چاہیے
خود اُگانے اور کھانے کے لیے
حسرتوں کا بیج بونا چاہیے
زبان و بیان پر خلاقانہ دستر س غفار بابر کے اسلوب کا نمایاں وصف سمجھا جاتا ہے۔ صنائع بدائع، رنگ، خوشبواورحسن و خوبی کے جملہ استعارے اس کے اسلوب میں سمٹ آئے ہیں اس کی علمی فضیلت، لسانی مہارت، بصیرت اور ذہن و ذکاوت کی سطحِ فائقہ اس کے اسلوب کو زر نگار بنا دیتی ہے۔گلدستہ ء معانی کو نئے ڈھنگ سے سجانے اور ایک پھُول کا مضمون سو رنگ سے باندھنے میں وہ جس فنی مہارت کا مظاہرہ کرتا تھا وہ اس کے صاحبِ اسلوب ادیب ہونے کی دلیل ہے۔ اس کی خارجی زندگی کے معمولات، تجربات اور مشاہدات جب اس کے لاشعور ی اور داخلی محرکات سے ہم آہنگ ہو جاتے تواس کا تخلیقی عمل اپنی صد رنگی کے ساتھ جلوہ گر ہوتا۔ اپنے ترکش میں طنزو مزاح کے تیر لیے ایک کہنہ مشق اور آزمودہ کار ناوک فگن کی طرح وہ مسلسل تیر اندازی میں مصروف رہتا تھا۔معاشرتی زندگی کے تضادات، کجیوں ، بے اعتدالیوں ، استحصال اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کے بتوں پر وہ تیروں کی بو چھاڑ کر دیتا تھا۔ اس کے منفرد اسلوب سے وجدان کی ایک ایسی موثر لہر قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے جس کے معجز نما اثر سے ہجوم غم کے سیاہ بادل چھٹ جاتے اور قاری دِل کو سنبھال کر آگے بڑھنے کا حو صلہ محسوس کرتا ہے۔زبان و بیان اور اظہار و ابلاغ کی راہ میں حائل تمام دشواریوں پر قابو پا لینے کے بعد وہ ہنستا مسکراتا طوفانِ حوادث سے گزر جاتا ہے۔ غفار بابر جیسے ناوک فگن کے اُٹھ جانے کے بعد ظلم و استبدادکے بتوں پر طنز و مزاح کے تیر برسانے والا کہیں دکھائی نہیں دیتا۔غفار بابر نے ہر قسم کی عصبیت، تنگ نظر ی اور کینہ پروری کو ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔اس کا خیال تھا کہ سادیت پسندی کے عارضے میں مبتلا ذہنی مریض کینہ پروری سے معصوم لوگوں کا جینا دشوار کر دیتے ہیں ۔ اس نے واضح کیا کہ کینہ پرور جن ہتھکنڈوں سے لذتِ ایذا حاصل کرتا ہے وہ مظلوم انسانیت کے لیے عقوبت، اذیت اور کرب کا باعث بن جاتے ہیں ۔جو کام کینہ پرور اپنے لیے خوش گوار خیال کرتا ہے وہی کام اس کا ہدف بننے والے بے بس انسانوں کے لیے انتہائی ناخوش گوار ثابت ہوتے ہیں ۔اُردو کی ظریفانہ شاعری کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو ذہانت اور ذکاوت کا مظہر ایسا اسلوب ہر دور میں قابلِ قدر سمجھا گیا ہے۔
اہلِ زر کی کمین گاہوں میں
نفرت و غم کے ناگ پلتے ہیں
فقر کے بے ریا خرابوں میں
زندگی کے چراغ جلتے ہیں
آج کی بات نہ کل پر کبھی ٹالی جائے
ان سے ملنے کی کوئی راہ نکالی جائے
جو بھی اس در پہ محبت کا سوالی آئے
دامنِ دل نہ کبھی لے کے وہ خالی جائے
اپنے آنچل کے تقدس کا بھرم رکھنے کو
میری پگڑی نہ سرِ راہ اُچھالی جائے
یہ معجزہ بھی جہاں کو دکھا کے بیٹھے ہیں
چراغ دوشِ ہوا پر جلا کے بیٹھے ہیں
نہیں ہے جس کا کوئی اندمال بھی ممکن
وہ زخم گردشِ دوران سے کھا کے بیٹھ ہیں
غفار بابر کو اس بات کا قلق تھا کہ دلوں کے چمن سے بے لوث محبت اور بے باک صداقت کی عطر بیزی اب رخصت ہو چُکی ہے۔ کالا دھن کما کر نو دولتیے بن جانے والے ، منشیات فروش، عقوبت خانے ، چنڈو خانے اور قحبہ خانے کے دادا گیر اور جرائم پیشہ درندے ہر طرف دندناتے پھرتے ہیں ۔ان لرزہ خیز، اعصاب شکن اور مسموم حالات میں مظلوم اور بے بس انسانیت کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ۔ جنسی جنونی، ہوس پرست، ابن الوقت، چڑھتے سورج کے پجاریوں ، بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں اور کُوڑے ہر عفونت زدہ ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نوچنے اور بھنبھوڑنے والے خارش زدہ آوارہ سگانِ راہ سے وہ شدید نفرت کرتا تھا۔اس کا خیال تھا کہ ما دی دور کی لعنتوں نے زندگی کو ایک ادق زبان بنا دیا جیسے بچے اپنی نصابی کتابوں کے مندرجات کے مفاہیم سے نا آشنا ہیں اسی طرح عام انسان بھی زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم کی استعداد سے عاری ہیں ۔ اللہ کریم نے غفار بابر کو جس جمالیاتی حس سے متمتع کیا تھا وہ اس کے اسلوب میں واضح دکھائی دیتی ہے۔وہ زندگی کے حسن و جمال کا مداح ہے اور اس کی مہک سے قلبی سوز اور روحانی سکون حاصل کرتا ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ غفار بابر کی تخلیقی فعالیت کے سوتے حسنِ فطرت کے مظاہر سے پھُوٹتے ہیں ۔اس کی ظریفانہ شاعری میں فصیلِ جبر کو تیشۂ حرف سے منہدم کرنے کی جو سعی کی گئی ہے وہ قاری کو ایک ولولۂ تازہ عطا کرتی ہے۔طنز کے تیر چلا کر ہر انتہا کو چھلنی کرنا اس کے شگفتہ اسلوب کا نمایاں وصف سمجھا جاتا ہے۔
ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے غفار بابر نے معاشرتی زندگی کے تضادات پر اپنی تشویش کا برملا اظہار کر نے میں کبھی تامل نہ کیا۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں المیہ یہ ہوا کہ دردمند ادیب دُکھی انسانیت کے مصائب و آلام سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں کے سامنے بیان کرنے پر مجبور ہے۔ غفار بار اس صورتِ حال پر بہت دل گر فتہ تھا کہ منزلوں پر ان طالع آزما، مہم جُو اور ابن الوقت استحصالی عناصر نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے جو شریک سفر ہی نہ تھے۔وہ اپنے دل کے افسانے جب الفاظ کے قالب میں ڈھالتا تو یہ قاری کے دل میں اُتر جاتے۔اس کا ذوقِ سلیم اور دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی باتیں موثر ابلاغ کو یقینی بنا دیتیں اور تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت کی متعدد جہات حقیقی روپ میں سامنے آتیں ۔اس کی مستحکم شخصیت کا تلاطم، ندرت تخیل، مد و جزرِ افکار کے گرداب، بھنور اور اشہبِ قلم کی جولانیاں اسے منفرد و ممتاز مقام عطا کرتی ہیں ۔شدتِ احساس نے اس کے شعور کی رو کو اُس ندرت، تنوع، برق رفتاری اور کاٹ سے آشنا کیا تھا کہ اس کی فنی بصیرت اور جمالیاتی حس کے اعجاز سے اس کا اسلوب نکھرتا چلا جاتا ہے۔ایک علمی و ادبی تقریب میں اس کی ملاقات ایک ایسے مشکوک نسب کے کرگس زادے سے ہو گئی جو اپنے اہلِ خانہ کو سیڑھی بنا کر ایک محل کی بلند چوٹی پر جا بیٹھا اور مسلسل کائیں کائیں کر کے ا نسانیت کی توہین، تذلیل اور تضحیک اس متفنی کا وتیرہ بن گیا۔ کارواں کے دل سے احساسِ زیاں رخصت ہو جائے تو مسلسل شکستِ دِل کے باعث بے حسی کا عفریت ہر سُو منڈلانے لگتا ہے اور متعدد سانپ تلے کے ایسے بچھو بُوم، شپر اور زاغ و زغن رواقیت کے داعی بن بیٹھتے ہیں ۔ غفار بابر اس چربہ ساز، سارق، کفن دُزد مسخرے کے قبیح کردار سے واقف تھا اور ہمیشہ اس سے دُور رہتا تھا۔ اُسی ادبی نشست میں اس ابلہ بُزِ اخفش نے غفار بابر سے پُوچھا :
’’آپ کو جدید اردو شاعری کاجو شاعر بہت پسند ہے اس کے چند اشعار سنائیں ۔‘‘
غفار بابر نے اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے نہایت خندہ پیشانی سے جواب دیا ’’جدید اردو شاعری میں حریتِ فکر کی روایت کو پروان چڑھانے میں محسن بھوپالی کی شاعری کو سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔محسن بھوپالی کی کتاب’’ شہر آشوبِ کراچی ‘‘تم جیسے سادیت پسندی کے عارضے میں مبتلا لوگوں کو آئینہ دکھا کر آشوبِ ذات کے پُر پیچ سلسلوں سے آگاہ کرتی ہے۔ ‘‘
’’آپ نے صحیح فرمایا ‘‘مسخرے نے ہنہناتے ہوئے کہا ’’ براہِ کرم محسن بھوپالی کے منتخب اشعار سنائیں جو اس جری شاعر کی حق گوئی اور بے باکی کے نقوش واضح کر دیں ۔‘‘
غفار بار نے کہا ’’میں محسن بھوپالی کے یہ شعر تمھاری نذر کرتا ہوں :
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
مے خانے کی توہین ہے رِندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
یہ اشعار اس کرگس زادے کو پانی پانی کر گئے لیکن اس نے ڈھٹائی سے موضوع کو بدل دیا اور چُلّو بھر پانی میں غواصی کے لیے بے چین ہو گیا۔حسب عادت بے غیرتی، بے ضمیری اور بے حسی کی تصویر بنا وہ سفلہ یہ کہتے ہوئے وہاں سے رفو چکر ہو گیا :
’’ اس وقت تو مجھے ایک اہم کام کے سلسلے میں لاٹ صاحب کے پاس جانا ہے پھر کبھی تفصیلی ملاقات ہو گی۔‘‘
بُلو، ماڑی اور شاکر میں تھل کے صحرائی علاقے میں گیدڑ، بجو، خرگوش اور لومڑیاں کثرت سے پائی جاتی ہیں ۔ یہاں حدِ نگاہ تک ریت کے بڑے بڑے ٹیلے ہیں جنگلی حیات اور نباتات کی روئیدگی کے کہیں آثار دکھائی نہیں دیتے۔ بعض مقامات پر جنڈ، کریریں ، پیلوں ، اکڑا، بھکڑا، ڈیہلے ، سنجاونا اور پوہلی موجود ہے۔ ناصف کھبال یہاں کا ایک ایسا جعل ساز تھا جس کے باپ نے تو کبھی پِدی نہ ماری تھی لیکن یہ خو دکو بہت بڑا شکاری اور تیر انداز قرار دیتا تھا۔یہ بہروپیا ہر ادبی نشست میں ایک ایسا کوٹ پہن کر آتا جو شیر کی کھال سے مشابہ تھا۔یہ کوٹ اس متفنی نے لُنڈا بازار کے تاجر کی دُکان سے اس وقت اُچک لیا تھا جب وہ سو رہا تھا۔ایک ادبی نشست میں ناصف کھبال اور غفار بابر کا آمنا سامنا ہو گیا۔ جون کی سخت گرمی میں بھی ناصف کھبال شیر کی کھال کا کوٹ پہنے وہاں آ دھمکا۔ناصف کھبال اپنی عادت سے مجبور لا ف زنی پر اُتر آیا اور اپنے منہ میاں مٹھو بن کر بولا :
’’میں پیشہ ور شکاری ہوں ، یہ جو کوٹ میں نے پہن رکھا ہے ، یہ شیر کی کھال سے تیار کیا گیا ہے۔یہ شیر میرے دادا مرحوم نے شاکر کے صحرا میں اس وقت مُکوں سے مار گرایا جب یہ شیر کسی خرگوش، چوہے ، چھپکلی، سانڈے یا گرگٹ کے شکار کی تلاش میں ریت کے ایک ٹیلے کے پیچھے چھُپا، دُم دبا کر مُردوں سے شر ط باندھ کر سویا ہو ا تھا۔ دادا مرحوم نے شیر کو پاؤں کی ٹھوکر مار کر جگایا اور پھر شیر پر ضعیفانہ وار چڑھائی کر کے اس سے گتھم گتھا ہو گئے۔ دادا مرحوم نے عالمِ پیری میں بھی شیر پر گھونسوں ، لاتوں اور مُکوں کی بو چھاڑ کر دی بُزدل شیر اس ضعیف مرد کے وار کی تاب نہ لا سکا اور وہیں ڈھیر ہو گیا۔میرے دادا نے اسی وقت اپنی جیب سے چاقو نکالا اور مردہ شیر کی کھال اُتار کر پہن لی، شیر جو ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا اس پر ریت ڈالی اور اس ریت کے اس ڈھیر کے نیچے پڑے شیر پر حسرت بھری کم زور نگا ڈالی اور خراماں خراماں گھر آ گئے۔ اس کے بعد دادا مرحوم کی بہادری کی دھاک بیٹھ گئی۔ ‘‘
غفار بار نے یہ بے سروپا باتیں بڑے صبر و تحمل سے سُنیں اور کہا:
’’مجھے اس وقت اردو زبان کی کلاسیکی شاعری کے نامور شاعر مرزا سودا کا وہ شعر یاد آ رہا ہے جواسی نوعیت کے واقعے کی یاد دلاتا ہے۔لکھنو کے ایک نواب نے بھِیلوں کے علاقے میں واقع گھنے جنگل میں ایک آدم خور خونخوار شیر کو ہلاک کیا تو سودا نے کہا:
یارو !یہ ابنِ مُلجم پیدا ہوا دوبارہ
شیِر خدا کو جس نے بھِیلوں کے بن میں مارا
تمھارے دادا نے جس چوہا خور شیر کو مارا شاید وہ سرکس کا شیر ہو گا۔سرکس کی عقوبت، اذیت، بھُوک اور مار پیٹ نے جس کی شیرانہ خُو ختم کر دی تھی اسی لیے تو وہ چند ٹھوکریں کھا کر زینۂ ہستی سے اُتر گیا۔ تم اس شعر میں بھِیلوں کو بدل کر حسب حال بنا سکتے ہو۔
تلمیحات اور ان میں نہاں گنجینۂ معانی کے طلسم سے نا آشنا ناصف کھبال یہ باتیں سُن کر خوشی سے پھُول کر کپا ہو گیا اور ہنہناتے ہوئے یوں ہرزہ سرائی کی:
یارو ! یہ اِبنِ مُلجم پیدا ہو ا دوبارہ
شیرِ خدا کو جس نے شاکر کے بن میں مارا
بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ غفار بابر کو قدرتِ کاملہ کی طر ف سے جو بصیرت عطا ہوئی تھی، اس کے اعجاز سے وہ حالات کی پیش بینی کی صلاحیت سے متمتع ہوا۔ وہ ایک عابد و زاہد، متقی اور پرہیز گار انسان تھا اس لیے لوگ اس سے دعا کی استدعا کرتے تھے۔وہ ایام کا مرکب نہیں بل کہ ایام کا ایک ایسا راکب تھا جو مہر و مہ و انجم کے محاسب کا کردار بھی ادا کرتا تھا۔ آئینہ ء ایام میں وہ سب لوگوں کی کارگزاری اور ان کی شامت اعمال کے بارے میں جو پیش گوئی کرتا وہ حرف بہ حر ف درست ثابت ہوتی۔اس کی فغانِ صبح گاہی پر مبنی دعائیں جو درد مندوں ، ضعیفوں اور مظلوموں کے حق میں دل کی گہرائیوں سے نکلتیں وہ خالقِ کائنات کے حضور منظور ہو جاتی تھیں ۔ ٹاہلی کے علاقے میں مُراد نامی ایک فرعون نے غریبوں اور مزارعوں پر عرصۂ حیا ت تنگ کر دیا۔اس شقی القلب درندے کی بے رحمانہ مشقِ ستم اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کے باعث مظلوم انسانیت کی زندگی کی تمام رُتیں ہی بے ثمر ہو کر رہ گئیں ۔اس کا ذکر چلا تو غفار بابر نے بے ساختہ کہا کہ ایسے لوگ بالآخر نا مرادانہ زیست کرتے ہیں ، یہ شخص نا مراد ہی رہے گا۔چند ماہ بعد معلوم ہوا کہ منشیات، سٹے بازی، قحبہ خانوں اور جوئے میں مرادسب کچھ ہار گیا۔اس کی اہلیہ باقی زر و مال سمیٹ کر ایک مزارع کے ساتھ فرا ر ہو گئی اور ہر طرف نحوست، بے برکتی اور خجالت کے کتبے آویزاں ہو گئے۔ اب ٹاہلی کے پُورے علاقے میں مُراد کو مانگنے پر بھیک بھی نہیں ملتی۔ٹھٹہ میں ورکنگ ویمن ہاسٹل میں مقیم خواتین اس ہاسٹل کی مہتمم شباہت ثمر نامی ایک ڈھڈو کٹنی سے عاجز آ گئیں ۔اگست 2004میں اس ہاسٹل میں یوم آزادی کے مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ اس مشاعرے میں غفار بابر کو بھی بلایا گیا۔شباہت ثمر نے مشاعرے کی اجازت نہ دی اور مشاعرے کی رات ورکنگ ویمن ہاسٹل کی بجلی اور پانی کی سپلائی روک دی۔غفار بابر اس صورت حال کو دیکھ کر بہت دُکھی تھا۔خواتین کی پریشانی پر اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ان اعصاب شکن حالات کے باوجود سب حاضرین نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، پانی اور بجلی کا متبادل انتظام کیا گیا اور مشاعرے کی انتظامیہ اس ایثار اور صبر و تحمل کے بعد وطن، اہلِ وطن اور انسانیت کے ساتھ درد کا رشتہ نبھانے میں کامیاب ہو گئی۔اس موقع پر غفار بابر نے کہا:
’’ ورکنگ ویمن ہاسٹل کی کرتا دھرتا جس خاتون نے بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے رحمی سے خواتین اور بچوں کا پانی بند کیا ہے مجھے تو یہ خاتون شباہتِ شمر محسوس ہوتی ہے۔ عورتوں ، بچوں اور تشنہ لبوں کا پانی بند کر کے اس نے اپنے جدِ امجد شمر کی یا د تازہ کر دی ہے۔نظامِ کہنہ کی گرتی ہوئی عمارت کے سائے میں عافیت سے بیٹھنے والے یا د رکھیں کہ سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے اس کے بعد یہ سب کرو فر خاک میں مِل جائے گا۔‘‘
چھے ماہ کے بعد ایک چھاپے کے دوران شباہت ثمر کے دفتر سے بڑی مقدار میں منشیات اور ناجائز اسلحہ بر آمد ہوا۔سب درندے پسِ دیوارِ زنداں تھے ، ان کا سب ٹھاٹ پڑا رہ گیا اور سب گھسیارے اپنی دکان بڑھا گئے۔ اب شباہت ثمر اور کے پروردہ عشاق کا کہیں اتا پتا نہیں ملتا۔
بدھوانہ کا ایک متشاعر جس کا نام حیات چمار تھا اس قدر بے حس تھا کہ اس نے مرگ آفرین قوتوں کا آلۂ کاربن کر زیرک تخلیق کاروں کی اُمیدوں کی فصل غارت کر دی اور حساس ادیبوں کی اصلاح معاشرہ اور زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں سب محنت اکارت جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔ لوگ اسے حیات حمار کے نا م سے پُکارتے اور یہ نا ہنجار اپنا یہ بگڑا ہوا نام سن کر بھی ٹس سے مس نہ ہوتا۔ وجھلانہ شہر کے ڈُوم، ڈھاری، بھانڈ، بھڑوے ، مسخرے ، لُچے ، شہدے ، اُچکے ، رجلے ، خجلے اور بھگتے سب اس کے شریکِ جرم ہم نوالہ ا ور ہم پیالہ تھے۔یہ متفنی، غبی اور خسیس متشاعرہر مشاعرے میں بِن بلایا پہنچ جاتا اوراس کے ساتا روہن اس کی تُک بندی سن کر اسے بے تحاشا داد دیتے ہر طرف سے واہ !حیات واہ !کے اس قدر فلک شگاف نعرے بُلند ہوتے کہ کان پڑی آواز سُنائی نہ دیتی۔ یہ اُجرتی بد معاش صرف حیات حمار کی بے جا تعریف پر اکتفا نہ کرتے بل کہ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت کہنہ مشق اور بزرگ شعرا کی بلا وجہ تضحیک اور دشنام طرازی بھی کرتے۔ یہ پیشہ ور مسخر ے سنجیدہ تخلیق کار کا جینا دشوار کر دیتے اور ان کی لاف زنی سے ہر شخص ذہنی اذیت اور روحانی کرب میں مبتلا ہو جاتا۔ ایک مشاعرے میں غفار بابر نے جب ان جعل سازوں کی ہُلڑ بازی اور تحسین نا شناس کی کیفیت دیکھی تو بر ملا کہا :
’’ متشاعر حیات کے حامی سب لوگ صحیح کہہ رہے ہیں ، صرف سمجھنے کا فرق ہے۔حیات کے جوڑ کریں یہاں حیات کا جوڑ حلوائی والے ’’ح‘‘ نہیں بل کہ دوسرے یعنی ہاتھی والے ’’ ہ‘‘ سے کیا گیا ہے۔اس ہذیان گو شاعر حیات حمار کے بارے میں جو نعرے لگائے جا رہے ہیں وہ نعرے یوں ہیں :
واہیات! واہ، واہیات! واہ
مزاح میں زبان و بیان کی بازی گری بہت اہم سمجھی جاتی ہے۔اسی اسلوب کو اس تحریف میں برتا گیا ہے ، یہ سن کر محفل کشت زعفران میں بدل گئی اور سب مسخرے دُم دبا کر وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے۔
اپنی عمل زندگی میں غفار بابر نے مقدور بھر کوشش کی کہ قارئین ادب کو معاشرتی زندگی کے تضادات سے آگاہ کیا جائے اور ان کے بارے میں اعتدال پر مبنی سوچ کو پروان چڑھانے کی مساعی کو آگے بڑھایا جائے۔ زندگی کی جمالیاتی اور اخلاقی اقدار کو اپنے فکر و فن کی اساس بنا کر غفار بابر نے نہ صرف زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کر نے کی سعی کی بل کہ ادب کے وسیلے سے تہذیبی، ثقافتی، روحانی اور انسانی اقدار و روایات کے تحفظ پر بھی اصرار کیا۔اسے اس بات کا پُختہ یقین تھا کہ انسانیت کے وقار اور سر بُلندی کے لیے ان اقدار عالیہ کا تحفظ نا گزیر ہے۔حیف صد حیف اجل کے بے رحم ہاتھوں نے بزم ادب کے ہنستے بولتے چمن کو مہیب سناٹوں اور جان لیوا سکوت کی بھینٹ چڑھا دیا۔دکھی انسانیت کے ساتھ درد کا رشتہ استوار کرنے والا ادیب ہماری بزم وفا سے کیا اُٹھاکہ درو دیوار حسرت و یاس کی تصویرپیش کر ر ہے ہیں ۔اس کی رحلت کے بعد درد کی جو ہوا چلی ہے اس کی وجہ سے تنہائیوں کا زہر رگ وپے میں سرایت کر گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ غفار بابر کے الفاظ زندہ رہیں گے۔ایک جری تخلیق کار کی حیثیت سے وہ اندھیروں کی دسترس سے دُور سدا روشنی کے مانند سر گرمِ سفر رہے گا۔اس کا ہر نقشِ پا ہمالہ کی رفعت کا مظہر ہے۔اپنی ذات میں سمٹے ہوئے اس زیرک تخلیق کار کے افکار میں سمندر کی سی بے کرانی تھی۔خورشیدِ جہاں تاب کبھی غروب نہیں ہوتا وہ تو کسی اور اُفق پر ضو فشاں ہونے کے لیے آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے۔غفار بابرکاسدا بہار اسلوب اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔پروین شاکر نے سچ کہا تھا :
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھُلا ہی دیں گے
لفظ میرے ، میرے ہونے کی گواہی دیں گے
٭٭٭
محمد شفیع بلوچ:وہ جا چُکا ہے پھر بھی سدا محفلوں میں ہے
جھنگ شہر کے ایک دُور اُفتادہ قدیم قصبے درگاہی شاہ میں مقیم جدید اُردو ادب کے ممتاز تخلیق کار، ماہر تعلیم، نقا د، محقق، مورخ، ماہر لسانیات اور فلسفی محمد شفیع بلوچ نے بیس جنوری 2010 کو داعیِ اجل کو لبیک کہا۔وہ ہماری بزمِ وفا سے یوں اٹھا کہ پھر ستاروں کی روشنی ماند پڑنے لگی اور درو دیوار حسرت و یاس کی تصویر پیش کرنے لگے۔اس کی وفات پر شہر کا شہر سوگوار دکھائی دیتا تھا۔ فرشتۂ اجل نے وہ زیرک، فعال اور مستعد ادیب ہم سے چھین لیا جو گزشتہ تین عشروں سے پرورشِ لوح و قلم میں مصروف تھا۔ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز، اپنی فن کارانہ انا اور خود داری کا بھرم بر قرار رکھتے ہوئے محمد شفیع بلوچ نے تخلیقِ فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اترنے کی جو سعی کی ہے ، اس کے اعجاز سے اس کا ا سلوب پتھروں سے بھی ا پنی تاثیر کا لوہا منوا لیتا ہے۔وہ منفرد اسلوب کا حامل ایسا ہر دل عزیز ادیب تھا جس کی خیال افروز اور فکر پرور تحریریں قلب اور روح کی ا تھا ہ گہرائیوں میں اُتر کر قاری کو مسحور کر دیتی تھیں ۔اس کے دلکش اسلوب کا کرشمہ قاری کو حیرت و استعجاب کی ایسی فضا سے آشنا کرتا جو اُس کے لیے تازہ ہوا کے جھونکے کی حیثیت رکھتا تھا۔وہ ایک حال مست درویش تھا جو تعمیری سوچ رکھتا تھا اور کسی کی تخریب سے اس نے زندگی بھر کوئی تعلق نہ رکھا۔اپنے تمام احباب اور ملاقاتیوں کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے لبریز سلوک کرنا اس کے مزاج کا امتیازی وصف تھا۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اس نے ہمیشہ اپنا مطمحِ نظر بنایا۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں حوصلے ، اعتماد اور یقین کا علم بلند کر کے مشرقی تہذیب و تمدن اور معاشرت و ثقافت کی شیرازہ بندی کے سلسلے میں محمد شفیع بلوچ کی خدمات تاریخ ادب کے اوراق میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔ اس نے غیر یقینی حالات اور ہوائے جور و ستم میں بھی شمعِ وفا کو فروزاں رکھا، حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ اپنائی اور جبر کا ہر انداز مسترد کر کے حق گوئی و بے باکی کو شعار بنایا۔ وہ اپنے عہد کا ایک ہر دل عزیز ادیب تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔اسے ایک ایسے رانجھے کی حیثیت حاصل تھی، جو سب کا سانجھا تھا۔ اس کی گل افشانی ء گفتار کا ایک عالم معترف تھا۔اس کی رحلت کے بعد تو وفا کے سب ہنگامے ہی دم توڑ گئے۔ممتاز شاعر ساغر صدیقی نے سچ کہا تھا :
محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا
ہر مُسرت غمِ دیرو ز کا عنوان بنی
وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا
محمد شفیع بلوچ نے ایک محنتی کسان علی خان کے گھر 1957میں جنم لیا۔ پُورے علاقے میں اس خاندان کی علمی فضیلت اور خاندانی شرافت مسلمہ تھی اور لوگ اس خاندان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ اس کے والد کو گاؤں کا نمبر دار اور مقامی پنچایت کا سر براہ مقرر کیا گیا۔محمد شفیع بلوچ کی آنول نال بھمبے والا موضع درگاہی شاہ میں گڑی ہے۔اسی کنویں کے دیہی ماحول سے محمد شفیع بلوچ نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا اور اس کے بعد پاکستان کی ممتاز جامعات سے اردو زبان و ادب اور ایجوکیشن میں ایم۔اے اور ایم۔فل کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ اپنی محنت، لگن اور فرض شناسی سے اس زیرک تخلیق کار نے بڑے بڑے شہروں میں مقیم دانش وروں کو متاثر کیا۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ محکمہ تعلیم حکومت پنجاب میں ثانوی سکول معلم کی حیثیت سے تدریسی خدمات پر مامور ہوا۔اس کا شمار پاکستان کے نامور ماہرین تعلیم میں ہوتا تھا۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ اپنے گاؤں کے نزدیک واقع موضع لشاری کے سرکاری ثانوی مدرسے میں انگریزی اور اردو ادبیا ت کی تدریس پر مامور تھا۔ پرانے زمانے میں مطلق العنان بادشاہ اپنی آمرانہ مہم جوئی سے علاقے فتح کر کے انھیں اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنی اقلیم میں شامل کر لیتے تھے لیکن محمد شفیع بلوچ علم و ادب کی اقلیم کا ایسا منکسرالمزاج فرماں روا تھا جو اپنی علمی فضیلت اور شگفتہ بیانی کے مسحورکن انداز سے قلب و نظر کو مسخرکر لیتا تھا۔ محمد شفیع بلوچ کی مندرجہ ذیل تصانیف سے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا:
حسنِ کلامِ محمد ﷺ، شیخ اکبر محی الدین ابن عربی، جاوید نامہ (ایں کتاب از آسمانِ دیگر است)، مشرق کا فراموش کردہ نابغہ(مولانا احمد رضا بریلوی کے بارے میں انگریزی سے ترجمہ)، سیرِ آفاق
محمد شفیع بلوچ کی مندرجہ ذیل تصانیف تکمیل کے مراحل طے کر نے والی تھیں کہ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اس جری تخلیق کار سے قلم چھین لیا:
مغرب اور اسلام، مذاہبِ عالم، فلسفہ اورفلاسفہ، تصوف کی دنیا، ٹھہرو(افسانے )، مضامین علمی و ادبی، انشائیے ، تحریکِ پاکستان اور علما و مشائخ، بلوچ تاریخ کے آئینے میں ، جیون اک عذاب(شاعری)
کتب بینی کی عادت محمد شفیع بلوچ کی فطرت ثانیہ بن گئی تھی۔قابلِ مطالعہ کتب کی جستجومیں وہ دیوانہ وار تمام مآخذ تک پہنچتا اور ہر چشمۂ فیض سے اپنا ساغر بھر کر واپس آتا۔نادر و نایاب کتب اور قدیم مخطوطات سے اسے زندگی بھر گہری دلچسپی رہی۔ ساٹھ کے عشرے میں زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رختِ سفر باندھ لینے والے ممتاز ادیبوں کے سر خیل غلام علی خان چین، سردار باقر علی خان، خادم مگھیانوی اور حاجی محمد یوسف ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے اس شہرِ نا پُرساں کی قدیم تاریخ کے بارے میں جو احوال بیان کرتے تھے اس کی سرگزشت کا عینی شاہد محمد شفیع بلوچ تھا، اس کے جاتے ہی درو دیوار کی صورت ہی بدل گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہونے والی اکثر مُلاقاتیں ادھوری رہ جاتیں اور متعدد ضروری باتیں دل میں نا گفتہ رہ جاتیں ۔ لوک ادب، لوک داستانوں اور قصے کہانیوں کا مزاج سمجھنے والا بہت دور اپنی نئی بستی بسا نے جا پہنچا۔ اب پتھر کے زمانے کاماحول پیش کرنے والی اس قدیم ترین بستی کے یہ قصے کون سنائے گا ؟ مختلف قدیم روایات کے حوالے سے جو باتیں میں نے محمد شفیع بلوچ سے سُنیں ان کا ملخص میں اپنے الفاظ میں پیش کرتا ہوں :
’’ مگھیانہ شہر میں سطحِ زمین سے تیس فٹ گہرے دو تالاب طوفان نوحؑ کی باقیات سمجھے جاتے تھے۔712میں محمد بن قاسم کی شورکوٹ آمد سے صدیوں قبل مگھیانہ شہرسے ملتان جانے والی شاہراہ کے جھنگ میں نقطہ ء آغاز پر گندے پانی کا ایک جوہڑ ہوا کرتا تھا۔اس جوہڑ کی شناخت ’’گندا ٹوڑا ‘‘ کے نام سے ہوتی تھی۔ دوسرے تالاب میں دریائے چناب سے آنے والی نہر کا صاف پانی ذخیرہ کیا جاتا تھا جو پینے کے کام آتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی کی ضروریات میں اضافہ ہوا تو نظام سقے نے تالاب کی توسیع کی اور شہر کے ہر چوک پر گھڑونچی پر گھڑے رکھوا دئیے اور کئی ما شکی بھرتی کیے اور آب خورے مہیا کیے۔یہ پُر اسرار ماشکی کسی نا معلوم جانور کی متعفن کھال میں پانی بھر کر راہ گیروں کو پلاتے تھے۔جو ماشکی یہ مشکیں بھر کر تشنہ لبوں کی تشنگی اور ان کے جگر کی آگ بجھاتے تھے ان پر یہ الزام تھا کہ وہ ان مشکوں میں آتشِ سیال بھر کر لاتے ہیں اور مے گلفام پلا کر سب کو بے خود کر دیتے ہیں ۔ آتشِ سیال کے دلدادہ عیاش ان مفلس و قلاش ماشکیوں کو زر و جواہر سے مالا مال کر دیتے۔نظام سقے کے بعد آنے والوں نے ان ناہنجار ماشکیوں سے مشکیں چھین لیں اور اُن کی مُشکیں کس کر انھیں زندان میں ڈال دیا تا کہ ان کی شورش پر قابو پایا جا سکے۔آب خورے اب عنقا ہیں ان کے بجائے مفت خورے اور حرام خورے دندناتے پھرتے ہیں ۔ اس تالاب کے آثار تو اب بھی علامہ اقبال ہال کے قریب پائے جاتے ہیں مگر مشکیزے اُٹھانے والے ماشکی اپنی دکان بڑھا گئے ہیں ۔سنا ہے اب ان ماشکیوں کی اولاد ہر سڑک کے کنارے خیمے لگا کر بھنگ کے گھوٹے سر عام تشنہ لبوں کو پلانے کے دھندے میں مصروف ہے اور ان کی پانچوں گھی میں ہیں ۔اس قدیم تاریخی تالاب کی حالت سقیم ہونے لگی تو بلدیہ نے ایک سکیم کے تحت اسے کثیر المقاصد کھیل کے میدان میں بدل دیا ہے مگر اس کی گہرائی اب بھی جوں کی توں ہے۔ ہر قماش کے کھلاڑی جان ہتھیلی پر رکھ کر کئی سیڑھیوں سے گُزر کر یوں کھیل کے میدان میں اُترتے ہیں جیسے لحد میں اتر رہے ہوں ۔ وقت کے ستم اور آبی آلودگی نے اب دریائے چناب کو گندے نالے میں بدل دیا ہے جس میں کئی سیم نالے اور برساتی نالے گرتے ہیں ۔ شہریوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کی غرض سے بلدیہ نے تالاب کے کنارے پر ٹیوب ویل لگا کر اس کے ساتھ ایک فلٹر پلانٹ لگا دیا ہے جس سے بجلی ہونے کی صورت میں پانی پیا جا سکتا ہے۔بلدیہ کے حکام نے حاتم کی قبر پر جس طرح لات ماری ہے ، اسے دیکھ ک لوگ پانی پانی ہو گئے ہیں ۔جن کے آبا سو کا سو پشت سے کُتے گھسیٹنے اور گھاس کاٹنے پر مدار تھا، اور کالا دھن کما کر اپنا منہ کالا کرنے والے جن سیاہ کاروں کو کالے پانی بھیجا جانا چاہیے تھا وہ یہیں دندناتے پھرتے ہیں اور بے بسوں کا بھیجا چاٹ رہے ہیں ۔ کچھ ناظم تو چُلّو بھر پانی لے کر اس میں غواصی پر اُدھار کھائے بیٹھے ہیں اور لا حاصل ستم کش سفر رہنے کے بجائے زینۂ ہستی سے اُترنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔ شہر کے جنوب میں گندا ٹوڑا گزشتہ صدیوں کی تاریخ کا ایک ورق اور عبرت کا ایک سبق تھا۔گزشتہ کئی صدیوں سے اس قدیم تاریخی جوہڑ میں شہر بھر کا کچرا بے دریغ پھینکا جاتا رہا اس طرح یہ گڑھا کچرے سے لبا لب بھر گیا تو بلدیہ کو خیال آیا کہ کیوں نہ کچرے کے اس تیس فٹ گہرے اور چار ہزار مربع فٹ پر پھیلے انبار پر ایک فٹ صاف مٹی کی ایک تہہ بچھا دی جائے اور اس پر ہری خالی گھاس اُگا کر اسے ایک عقوبتی پارک کی شکل دے دی جائے۔اس چنگیزی منصوبے پر عمل کیا گیا اب گندا ٹوڑا تو دب چکا ہے لیکن وہاں ایک مندا پھوڑا نمودار ہو چُکا ہے۔اس جگہ پر اُگی کُتا گھاس کو جب پانی سے سیراب کیا جاتا ہے تو تمام پانی نیچے دبے ہوئے کچرے کے ڈھیر میں جذب ہو جاتا ہے اس کے بعد عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے ہیں اور راہ چلنا دشوار ہو جاتا ہے۔کئی مضرِ صحت گیسیں یہاں سے ہر وقت خارج ہوتی رہتی ہیں ۔علم کیمیا کے طالب علم ان مہلک گیسوں کی شناخت اور تجزیے کی خاطر علم کیمیا کی اس کتاب کو ڈھونڈنے نکلتے ہیں جو اُنھوں نے دسویں جماعت کے امتحان سے فارغ ہونے کے بعد رنگو کباڑئیے کو ردی میں فروخت کر دی تھی۔ان کا خیال ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے شاید وہ کسی ایسی گیس کو دریافت کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو مسموم ماحول میں لاحول پڑھتے راہ گیروں کی اکھڑتی سانس کو بحال کر سکے۔
مختلف مضامین کی کتب کا مطالعہ محمد شفیع بلوچ کا مشغلہ تھا۔نادر و نایاب کتب اور مخطوطوں کی تلاش میں اس نے جس محنت اور جگر کاوی کا ثبوت دیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔کبھی وہ رنگو کباڑئیے کے پاس کتابوں کے ڈھیر میں سے اپنے ذوق سلیم کے مطابق کتابوں کی چھان پھٹک میں مصروف دیکھا گیا تو کبھی جھنگ کے علامہ اقبال ہال اور جناح ہال میں قائم کتب خانوں میں مطالعہ میں مشغول پایا گیا۔جھنگ کے تمام تعلیمی اداروں کی کتب کا اس نے مطالعہ کر لیا تو اس نے پاکستان کے بڑے کتب خانوں سے استفادہ کیا۔ان میں تمام جامعات اور سرکاری اور نجی کتب خانے شامل ہیں ۔اس کے باوجود مطالعہ کے سلسلے میں اس کا مرحلۂ شوق طے نہ ہو پایا۔زندگی کے آخری ایام میں اس کے چہرے پر اطمینان اور قناعت کے آثار دیکھ کر حافظ حاجی محمد حیات نے اس سے پُوچھا :
’’کیا بات ہے کئی دنوں سے آپ کو کسی کتب خانے میں نہیں دیکھا گیا، کیا آپ نے کتب بینی ترک کر دی ہے ‘‘
’’کتب بینی تو میری فطرتِ ثانیہ بن چُکی ہے ‘‘ محمد شفیع بلوچ نے کہا ’’علم و ادب کی ویب سائٹس اور سائبر کتب خانوں نے سارا مسئلہ ہی حل کر دیا ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ سے فاصلے سمٹ گئے ہیں ۔اب میں دنیا بھر کے اخبارات و رسائل اور کتب کا مطالعہ انٹر نیٹ پر آسانی کے ساتھ کر لیتا ہوں ۔برقی ڈاک کے ذریعے میرا پوری دنیا کے دانش وروں سے رابطہ ہے اور میرے مطلوبہ مآخذ انٹر نیٹ پر میری دسترس میں ہیں جنھیں میں ڈاؤن لوڈ کر کے ان کے پرنٹ حاصل کر لیتا ہوں ۔ان دنوں میں علامہ اقبال سائبر لائبریری سے استفادہ کر رہا ہوں ۔‘‘
دُکھی انسانیت کے ساتھ خلوص، دردمندی اور بے لوث محبت کے ذریعے اس نے اپنی ذات کے فروغ اور شخصیت کی نشو و نما کا موثر اہتمام کیا۔بے لوث محبت کو وہ ایک ہاتھ کی تالی اور یک طرفہ عمل سے تعبیر کرتا تھا۔اس کا خیال تھا کہ محبت کو تجارت بنا کر ہوس پرستوں نے محبت کا مفہوم ہی بدل دیا ہے ، بے لوث محبت میں محبوب تک رسائی کے لیے اپنی ذات اور شخصیت کو بالکل اسی طرح نکھار عطا کرنا پڑتا ہے جس طرح فطرت لالے کی حنا بندی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔حسنِ ماہ جب بہ ہنگامِ کمال ہو تو اس کی چاندنی سے فیض یاب ہونے کے لیے مقاصد کو رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کرنا لازم ہے۔بے لوث محبت میں محبوب کی جستجواس امر کی متقاضی ہے کہ پہلے عاشق اپنی ذات کے جُملہ اسرار و رموز کی گرہ کُشائی کا مر حلہ طے کرے۔اپنی حقیقت کا شناسا بننے کے لیے جس تپسیا کی ضرورت ہے محمد شفیع بلوچ زندگی بھر اس چلہ کشی میں مصروف رہا۔محمد شفیع بلوچ ایک جواں ہمت اور پُر عزم تخلیق کار تھا، اس نے انتہائی صبر آزما حالات میں بھی سعیِ پیہم کو شعار بنایا۔وہ جب تک زندہ رہا مرگ آفریں قوتوں کے خلاف قلم بہ کف مجاہد کی حیثیت سے سینہ سپر رہا۔اس نے حیات آفریں قوتوں کی نمو اور تحفظ کے لیے مقدور بھر جدو جہد کی۔جب وہ محفلوں کی جان تھا تو اپنے دبنگ لہجے میں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتا تھا۔اس کی آنکھیں مُند جانے اور نہ ہونے کی ہونی کی خبر سن کر اس کے لاکھوں مداح سکتے کے عالم میں ہیں ۔مرگِ ناگہانی اور تقدیر کے چاک سوزنِ تدبیر سے کبھی رفو نہیں ہو سکتے۔ محمد شفیع بلوچ نے تو بھری بزم سے اُٹھ کر یہاں سے بہت دور اپنی بستی بسا لی لیکن اس کی یادوں کے زخم کبھی نہیں بھر سکتے۔
اپنے گرد و نواح کے ماحول، زندگی کے نشیب و فراز، ذاتی مشاہدات اور تجربات سے گزرتے ہوئے اس کی مستحکم شخصیت پروان چڑھی۔ اس نے اپنے سماج اور معاشرے میں رہتے ہوئے ہوئے تکمیلِ ذات کے کٹھن مراحل طے کیے۔عملی زندگی میں خیر و شر اور سُود و زیاں کے مابین پائی جانے والی حدِ فاصل کی تفہیم کی جو صلاحیت اسے حاصل تھی اسے وہ معاشرے اور سماج کی عطاسمجھتا تھا۔ محمد شفیع بلوچ نے آثارِ قدیمہ میں ہمیشہ گہری دلچسپی لی وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ اس کی آنکھوں نے شہر کے جوہڑوں اور آثار قدیمہ کو برباد ہوتے دیکھا ہے۔سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے شہر کے جوہڑوں کو تو بہا لے گئے لیکن ان سے وابستہ یادیں اب بھی فضاؤں میں پھیلی ہیں ، جس سمت بھی نظر اُٹھتی ہے کئی مانوس اور منحوس چہرے دکھائی دیتے ہیں جن کی وجہ سے یہ مقامات سقر میں بدل گئے۔گندے ٹوڑے کے جنوبی کنارے پر واقع ہوش رُبا دھریس پارٹی کا ڈیرہ ہوا کرتا تھا۔ان بھانڈوں کا جو گی والا پھیرا اور رقص و سرود کا پھریرا دیکھ کر ہر وڈیرہ اپنی زندگی کی شبِ تاریک کا سویرا کرتا تھا۔اسی عفونت زدہ گندے ٹوڑے کے مشرقی کنارے پر ہر قسم کے کباڑ خانے ، چنڈو خانے ا ور قحبہ خانے تھے۔ان میں سے رنگو کباڑئیے کا نام تو ہر شخص جانتا ہے۔ ردی فروش رنگو کباڑیا سو پشت سے اس دھندے سے وابستہ تھا اور اب تو اس کی حیاتِ رائیگاں بھی ایک گورکھ دھندے کا روپ دھار چُکی تھی۔اس کے پاس پرانی کتابیں ، مخطوطے ، مکاتیب اور درسی کتابیں ردی کے بھاؤ تُل کر بِک جاتی تھیں ۔کبھی کبھی یہ چربہ ساز، سارق اور کفن دُز د متفنی کباڑیا شاعری کو بھی منہ مار لیتا تھا۔اس کے کباڑ خانے کے شکستہ دروازے کے بے خواب کواڑوں پر ذلت و تخریب کے جو کتبے نصب تھے ، ان میں یہ نمایاں تھا:
مال ہے کم یاب پر سارق ہیں کتنے بے خبر
شہر میں کھولی ہے رنگو نے دکاں سے الگ
رنگو کباڑیے نے قارئین ادب کو کتب خانوں سے بے نیاز کر دیا۔اس کے کباڑ خانے میں عالمی کلاسیک کی کتابیں ، کوک شاستر، لوک داستانیں ، جادو ٹونے ، حسن و رومان، علم نجوم اور لوک گیتوں کی کتب زمین پر بکھری پڑی ہوتی تھیں ۔یہ کتابیں یا تو بڑے بڑے کتب خانوں سے چوری کی گئی تھیں یا مرحوم ادیبوں کے علم و ادب سے بے بہرہ لواحقین انھیں یہاں ردی کے بھاؤ فروخت کر جاتے تھے۔رنگو کباڑئیے نے ردی کی دکان کیا کھولی کتب خانوں کے مہتمم صاحبان اور مرحوم ادیبوں کے پس ماندگان نے اپنی علمی و ادبی میراث یہاں کھودی۔ملک کے کئی چربہ ساز محققین اپنی جسارت سارقانہ کے سلسلے میں رنگو کباڑئیے کے شرمندۂ احسان ہیں ۔
گندے پانی کے جوہڑ کے کنارے پر رہنے والا تُفتہ فرنگی نامی ایک کندۂ نا تراش جاہل متفنی ڈُوم اس قدر شوم تھا کہ اپنی جہالت کا انعام پانے کی توقع میں رواقیت کا داعی بن بیٹھا۔ تُفتہ فرنگی بھی عجیب خبطی تھا۔مشکوک نسب کا یہ ابلہ کھینچ تان کر اپنا شجرہ نسب واسکوڈے گاما سے ملاتا یہ جو پُرانی وضع کا جامہ پہنتا، اُسے خودسکوڈے گاما نے عالمِ شباب میں پہنا تھا۔یہ کالا انگریز اپنے موہوم اور مشکوک نسلی تفاخر پر خوب ہنہناتا، سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو جاتا اور پریوں کا اکھاڑہ سجا کر اس میں راجا اندر بن کر دادِ عیش دیتا۔یہ متفنی بر صغیر میں برطانوی استعمار کا سودائی تھا اور 1857کے بعد برطانوی استبداد کو اپنے آبا و اجداد کی حکومت کا یادگار دور قرار دیتا۔مقامی یونین کونسل کا ایک انگوٹھا چھاپ کونسلراس کا بہنوئی تھا۔تُفتہ فرنگی جہاں جاتا اپنے بہنوئی کا نام لے کر سب حاضرین کو مرعوب کرتا مگر زیرک تخلیق کار اس رسوائے زمانہ چربہ ساز، سارق، کفن دُزد اور جعل ساز کو دیکھ کر لاحول پڑھتے اور جل تُو جلال تُو، آئی بلا کو ٹال تُو کا ورد شروع کر دیتے۔ دو سال قبل ایک دیہی ادبی تنظیم کے زیر اہتمام محمد شفیع بلوچ کی تصنیف ’’سیر آفاق ‘‘کی تقریب رونمائی تھی۔ ادبی نشستوں میں بِن بلائے شامل ہونا تُفتہ فرنگی کا وتیرہ تھا۔ اپنی قبیح عادت سے مجبور تُفتہ فرنگی بھی اس تقریب میں جاگھُسالیکن محمد شفیع بلوچ نے اس گھُس بیٹھیے پر کوئی توجہ نہ دی اور اس کی آمد سے بے خبر ر ہا۔محمد شفیع بلوچ نے تقریب میں شامل ہونے والی ممتاز علمی و ادبی شخصیات کا پُر جوش خیر مقدم کیا اور اپنے دست خط کے ساتھ کتاب ان کی خدمت میں پیش کی۔ تُفتہ فرنگی کو اس بات کا شکوہ تھا کہ کسی نے اس کی آمد پر خوشی کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی اس کا خیر مقدم کیا گیا۔ تُفتہ فرنگی کھسیانی بلی کی طرح آگے بڑھا اور ناک بھوں چڑھاتے ہوئے نہایت ڈھٹائی سے بو لا: ’’ آپ کے ساتھیوں نے تو یہ سمجھ رکھا ہے کہ میں نہ تین میں ہوں نہ تیرہ میں ۔شاید آپ نے بھی مجھے نہیں پہچانا، مقامی کونسلر سارق خان میرے بہنوئی ہیں ۔میں ، میری بہن اور میرا بہنوئی آپ کے مداح ہیں اور آپ کو اچھی طرح سے جانتے ہیں لیکن کسی نے ہماری یہاں قدر ہی نہیں کی۔‘‘
’’ یہ میری بد قسمتی ہے کہ آپ مجھے اچھی طر ح جانتے ہیں ۔کیا آپ نے کبھی میری کوئی کتاب پڑھی ہے ؟‘‘ محمد شفیع بلوچ نے پوچھا ’’وادیِ جنوں کے خارزار اور پُر پیچ راستوں پر چلنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔یہ تو بتائیں آپ مجھے کس حوالے سے اور کب سے جانتے ہیں ؟‘‘
’’میری بہن اور بہنوئی دونوں ان پڑھ ہیں لیکن انھوں نے آپ کا نام سُن رکھا ہے ، اس شہر کا ہر شخص آپ کا شیدا اور نام لیوا ہے۔میں پڑھنا لکھنا تو بالکل نہیں جانتا لیکن پڑھے لکھے لوگوں سے ملتا رہتا ہوں ۔ یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔گاؤں کے اصطبل میں جتنے خر، بُو زنے ، گرگٹ، خچر اور استر ہیں میں انھیں دیکھ کر پکڑ لیتا ہوں اور ان کے رنگ کا آسمان کے بدلتے ہوئے رنگوں سے موازنہ کرتا ہوں ۔پڑھے لکھے لوگوں نے میرا آؤ، جاؤ اور تاؤ نہیں دیکھا ہے۔اب میں سب کو تیل بھی دکھاؤں گا اور تیل کی دھار بھی دکھاؤں گا۔میں نے زندگی بھر گدھوں کے ہل چلائے ہیں اب میں کولھو چلا کر اپنے حاسدوں کو اس میں کچل کر سب کا تیل نکالوں گا۔‘‘
محمد شفیع بلوچ نے ا س بُزِ اخفش، مخبوط الحواس اور فاتر العقل جاہل کی بے سر و پا باتیں سن کر مسکراتے ہوئے کہا’’ دیوانگی کے لیے جس فرزانگی کی احتیاج ہے تم اس سے عاری ہو۔اچھا! تو یہ بات ہے ، کسی شخص کو تین سے یا تیرہ کون نکال سکتا ہے۔ یہ سب تشویش یا اضطراب بلاوجہ اور قبل ا ز مرگ واویلا ہے اب آپ ایک کے بجائے تین کتابیں لے جائیں اور تین کرسیوں پر براجمان ہو جائیں ۔پہلے ہی آپ یہاں لیٹ آئے ہیں اب ظاہر ہے ادبی نشست تاخیر سے شروع ہو گی تو آپ کو لیٹ جانا ہو گا۔‘‘
یہ سُنتے ہی تُفتہ فرنگی بے ساختہ انداز میں سامنے میدان میں کچی مٹی کی کلر زدہ خاک پر لیٹ گیا اور گرد سے اٹے ہوئے راستے کی دھُول اس کا پیرہن بن گئی۔
گدا حسین افضل نے کہا ’’ یہ شخص تین میں بھی ہے اور مارِ آستین میں بھی ہے اب تواس پر صر ف تین حرف بھیجنے کی گنجائش ہے۔‘‘
رانا ارشد علی بولا ’’ الفاظ کی بچت کرنا بہت ضروری ہے ، اس پر صر ف دو حرف بھیجیں جو اس کے نام کا مخفف بھی ہے۔ تُفتہ سے ’’ت‘‘ اور فرنگی سے ’’ف ‘‘ لے لیں تو’’ تُف‘‘ بنتا ہے۔‘‘
ہذیان ویرانی کا تعلق نواحی گاؤں بدھوانہ سے ہے اس کی ہزل گوئی چربہ ساز اور لفاظ حشراتِ ادب کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہے :
تُف ہے تم پر اے تُفتہ فرنگی
خذف ریزے ہیں تیرے سارے سنگی
کرگس چشم اور شِپرانہ خُو ہے
ہے رشکِ بُوم تُو متفنی بھنگی
’’یہ تو آپ کی بندہ پروری ہے جو میری اس طرح عزت کی جا رہی ہے۔‘‘ تُفتہ فرنگی نے اپنی کور مغزی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا ’’میرا عر ف ’’تُف ‘‘ ہی ہے سب لوگ مجھے پیار سے کہتے ہیں تُف ہے تم پر۔ یہ بے تکلفانہ انداز گفتگو مجھے بہت اچھا لگتا ہے اور میں احباب کی پُر تکلف ضیافت کرتا ہوں ۔دعوت کے بعد سب مجھ پر تُف بھیجتے ہیں اور ہنسی خوشی اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں ۔‘‘
تُفتہ فرنگی نے جب تین کتابیں اُچک لیں تو خوشی سے پھُول کر کُپا ہو گیا اور وہاں سے ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
معاشرتی زندگی کے تضادات، بے ہنگم کیفیات، نا ہمواریوں ، کجیوں اور ناگوار ارتعاشات کو دیکھ کر محمد شفیع بلوچ بہت دل گرفتہ ہوتا اور ان سب کے بارے میں فن کارانہ انداز میں ہمدردانہ شعور پیدا کر کے عصری آگہی کو پروان چڑھانے کی سعی کرتا تھا۔جھنگ کی سڑکیں اور چوک جو شیر شاہ سوری کے عہد میں تعمیر ہوئے قدیم فنِ تعمیر کی یاد دلاتے ہیں ۔اپنی تعمیر کے زمانے سے لے کر اب تک یہ سڑکیں اور چوک اپنے قدیم گڑھوں کی امانت اپنے سینے پر سنبھالے تاریخ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے حسرتِ تعمیر میں خجل ہو رہے ہیں ۔ اس شہرِ نا پُرساں میں جولوگ بلدیہ کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں وہ ایسے کا م کر تے ہیں جنھیں دیکھ کر ہر شخص دنگ رہ جاتا ہے اور فیصلے کرنے والوں کی عقل پر ماتم کرنے لگتا ہے۔کچھ عرصہ قبل ایک انہونی یہ ہوئی کہ اس شہر کی چار ہزار سال قبل مسیح کی تہذیب و ثقافت کی یاد تازہ کرنے کے لیے شہر کے ہر مصروف چوک پرکسی گدھے ، خچر، گھوڑے ، چِیل، تانگے ، رتھ، کوچوان، گدھا گاڑی اور نیزہ باز کا بہت بڑا دھاتی مجسمہ نصب کر دیا گیا۔ ان بد وضع اور بے رنگ مجسموں کو ہر چوک پر نصب دیکھ کر شہر کے دانش ور ششدر رہ گئے۔ایک ادبی نشست میں شہر کے ہر مصروف چوک اور ہر سڑک کے کنارے نصب کیے جانے والے ان کریہہ مجسموں کے بارے میں بات چیت کا سلسلہ جاری تھا۔ سب کی متفقہ رائے تھی کہ جانوروں کے ان مجسموں کے بجائے آیات قرآنی، احادیث، اقوالِ زریں ، مینار، گنبد اور بُور لدے اشجار سے شہر کے حسن میں اضافہ ہو گا۔ ممتاز ادیب امیر اختر بھٹی نے کہا :
’’کیا پہلے اس شہر میں گدھے ، خچر، گھوڑے اور کوّے کم تھے ؟ان کے مجسموں کی تنصیب کی کیا ضرورت تھی؟ یہ دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ بلدیہ نے ہر چوک کو اصطبل اور طویلا بنا دیا ہے ‘‘
شہر میں جانوروں کے بُتوں کی تنصیب پر ادیبوں اور دانش وروں کی تشویش اور اضطراب کو محسوس کرتے ہوئے محمد شفیع بلوچ نے بے ساختہ کہا :
ابتدائے جہل ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
’’پُوری دنیا میں یہ روایت پروان چڑھ رہی ہے کہ وہاں کے لوگ اپنی محبوب شخصیات کے بڑے بڑے مجسمے گزر گاہوں کے کنارے نصب کر کے ان کے ساتھ اپنی عقیدت، ممنونیت، قلبی وابستگی اور اپنے ان محسنوں کے ساتھ سعادت مندی کا اظہار کرتے ہیں ۔اپنے رفتگاں کو یاد رکھنے اور انھیں خراجِ تحسین پیش کرنے کا یہ طریقہ دنیاکے تمام ممالک میں مقبول ہو رہا ہے۔ امریکہ میں ابراہم لنکن، چین میں ماوزے تنگ اور روس میں لینن کے مجسمے شاہراہوں پر نصب ہیں ۔اگر اس شہر میں بھی یہ سلسلہ چل نکلا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے ؟ ‘‘
’’سچ ہے اب یہاں بھی چام کے دام چلائے جائیں گے اور مقتدر لوگ اسی طرح اپنے ابنائے جنس اور نایاب نسل کے جانوروں کے مجسمے سر عام نصب کر کے خوابوں کے صورت گروں کے حقوق غصب کریں گے۔‘‘سجاد بخاری (بار ایٹ لا) نے پُر نم آنکھوں سے کہا ’’وہ دن دور نہیں جب چُغد، کرگس، بُوم، شپر، زاغ و زغن، گندی مچھلیاں اور کالی بھیڑیں یہاں عام ہوں گی۔‘‘
’’اپنی اصلاح کر لیں سجاد بخاری صاحب ‘‘محمد شفیع بلوچ نے گلو گیر لہجے میں کہا’’جس مخلوق کا آپ نے ذکر کیا ہے وہ تو تخت و کُلاہ و تاج کی بارہ دریوں اور ایوانوں میں جا گھُسی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری شامت اعمال کسی ہلاکو، چنگیز اور نادر کی صورت میں سامنے آئے گی اور سیلِ زماں کے تھپیڑوں میں سب گدھے ، خچر، استر، گھوڑے ، لوٹے ، لُٹیرے ، کرگس زادے ، بُوم، شپر، گندی مچھلیاں ، سفید کوے ، بگلا بھگت، گرگٹ اور مگر مچھ نیست و نابود ہو جائیں گے۔‘‘
فصیلِ جبر کو تیشۂ حرف سے منہدم کرنے کے سلسلے میں محمد شفیع بلوچ وہ کام کر دکھاتا جو اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں ۔ محمد شفیع بلوچ نے ہمیشہ اپنی ذات کو معاشرے کے حوالے سے دیکھا اور احتسابِ ذات کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا۔طنز کے شدید وار سے ہر انتہا کا کام تما م کرنا زندگی بھر اس کا شیوہ رہا۔ہوسِ زر، افراتفری اور بیگانگی کے اس دور میں ابن الوقت عناصر کی بو العجبی نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے۔اللہ کریم نے محمد شفیع بلوچ کو انسانی ہمدردی اور انسان شناسی کی جن صفات سے نوازا تھا ان کے اعجاز سے اس کی شخصیت میں نکھار پیدا ہو گیا۔انسانی ہمدردی کے جذبات لہو کے مانند اس کے ریشے ریشے میں سرایت کر گئے تھے۔ وہ عجز و انکسار کا پیکر اور سراپا شفقت و خلوص تھا۔وہ کیا گیا کہ دیوار و در کی صور ت ہی بدل گئی اور گلشن ہستی سے فصلِ گُل نے مستقل طور پر رختِ سفر باندھ لیا۔اس شہر نا پرساں کی بے چراغ گلیوں میں اُداسی بال کھولے آہ و فغاں میں مصروف ہے۔ پُورا شہر سائیں سائیں کر رہا ہے ، اُداس بام اور کھُلے در حسرت و یاس کی تصویر بن گئے ہیں ۔ حسن و عشق کی لفظی مرقع نگاری کرنے والا جب سے اُٹھا ہے زندگی کی رعنائیوں کا اعتبار ہی اُٹھ گیا ہے۔
زندگی کے آخری ایام میں محمد شفیع بلوچ نے اپنی حقیقت سے آگاہی اور شہر عرفان کی جانب روشنی کا سفر جاری رکھا۔ جب اس نے پھنکارتی ہوئی تنہائیوں سے نجات حاصل کر لی۔ تو پرچھائیوں سے دور ذات کے عرفان و ادراک کی منزل اس کی منتظر تھی۔ یہاں پہنچ کر اس نے خیال و خواب کے راز ہائے سر بستہ اور وارداتِ قلبی کے انکشاف کے مراحل سے آگہی حاصل کی۔آگہی کے سرور کے حصول کے لیے وہ آبلہ پا مسافر کے مانند دشتِ عرفان میں پیہم صحرا نوردی کر تا رہا۔ یہ آگہی کا دان اس کی زندگی میں ایک ایسا نیا اور غیر معمولی ورد ان بن کر سامنے آیا جس کے چمتکار نے قارئین ادب کو حیرت زدہ کر دیا۔ چربہ ساز، سارق اور کفن دزد عناصر نے رواقیت کا جو مکھوٹا چڑھا رکھا ہے اس کا پردہ فاش کر کے محمد شفیع بلوچ نے اہم خدمت انجام دی۔ حریتِ فکر کے اس مجاہد کی زندگی کا سفرتو جیسے تیسے کٹ گیا مگر اس کا پورا وجود کرچیوں میں بٹ گیا۔ تیر کھا کر جب وہ کمین گاہ کی طرف دیکھتا تو اس کی اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو جا تی۔کئی جو فروش گندم نما لوگ اس کے در پئے پندار رہتے۔اس کے عزیز و اقارب میں بھی کئی عقرب گھس آئے جن کی نیش زنی سے اس کی روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو جاتا مگر اس نے اپنوں کے دکھوں کا بھید کبھی نہ کھولا اور بغیر آنسوؤں کے گریہ میں مصروف رہا اور اس طرح تزکیہ نفس کی ایک صورت تلاش کر لی۔ جن لو گوں سے اسے توقع تھی کہ وہ اسے راحتوں ، مسرتوں اور سکون کا دوشالہ اوڑھنے کو دیں گے اُن کی طرف سے مصائب و آلام کی رِدا اُس کے سرپر رکھی گئی۔ خزاں کے لہجے میں متکلم اشجار نے یہ با ت ببا نگ دہل کہی کہ ابھی بہار کا کوئی امکان نہیں ۔ وہ زندگی بھر بگولوں اور سرابوں کا ہم سفر رہا یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ اسے عجیب کیفیت کا سامنا تھا نہ تو وہ سیراب تھا اور نہ ہی تشنہ کا م۔ اسی کشمکش میں اس کی زندگی بیت گئی اور وہ راہِ جہاں سے گُزر گیا۔اس وقت میرے لبوں پر لفظ پتھرا گئے ہیں ۔اس دیرینہ رفیق کی دائمی مفارقت کی خبر سن کر پُورا وجود کرچیوں میں بٹ گیا ہے۔جیسے جیسے وقت گزرے گا اس عظیم انسان کی جدائی اور احساسِ زیاں کے کرب میں اضافہ ہو تا چلا جائے گا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں محمد شفیع بلوچ کبھی نہیں مر سکتا۔اگرچہ و ہ ہماری بزمِ ادب سے جا چکا ہے لیکن اس کے مداح اس کی آواز کی باز گشت پر کان دھرے اس کے منتظر ہیں اور ہر محفل میں اس کے وجود کی مہک قریۂ جاں کو معطر کر دیتی ہے۔حسین، منفرد اور ابد آشنا اسلوب کی بنا پر ہر عہد کے ادب میں محمد شفیع بلوچ کے اثرات ملیں گے۔ ممتاز شاعر سردار جعفری نے کہا تھا :
لیکن میں یہاں پھر آؤں گا
بچوں کے دہن سے بولوں گا
چڑیوں کی زباں سے گاؤں گا
میں پتی پتی ، گلی گلی
اپنی آنکھیں پھر کھولوں گا
٭٭٭
نور زماں ناوک : اُٹھ گیا ناوک فِگن مارے گا دِل پر تیر کون
اجل کے بے رحم ہاتھوں نے ایک چرغ اور گُل کر دیا۔ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے اردو اور پنجابی زبان کے اس کوہ پیکر تخلیق کار کو بہا لے گئے جو گزشتہ چھ عشروں سے بڑے انہماک اور بے باکی سے تیشۂ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے میں مصروف تھا۔ ستائش اور صلے کی تمناسے سدا بے نیاز رہنے والا اور جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے والا وہ جری تخلیق کار اب ہم میں نہیں رہا جس نے حرفِ صداقت لکھنے کی اس عظیم الشان روایت پروان چڑھایا جو پاکستانی ادبیات کا امتیازی وصف ہے۔ فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کرنے والا حریتِ فکر کا مجاہد اور حریتِ ضمیرسے زندگی بسر کرنے والا مردِ کوہستانی نور زماں ناوک اٹھائیس جون ۲۰۱۵کی شام ہماری بزمِ وفا کو سوگوار چھوڑ کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔ اس شامِ الم کے ڈھلتے ہی درد کی مسموم ہوا چلنے لگی جس نے بزمِ ادب سے وابستہ تما م افراد کو دل شکستہ کر دیا ہے۔ یکم دسمبر ۱۹۴۸کو تلہ گنگ (پنجاب۔ پاکستان)سے طلوع ہونے والا پاکستانی زبانوں کے ادبیات کا یہ تابندہ ستارہ اجل کے بے رحم بگولوں سے بجھ گیا۔ تلہ گنگ کے شہر خموشاں کی سنگلاخ زمین نے پاکستانی زبانوں میں تخلیقِ ادب کے اُس آسمان کو اپنے دامن میں چھپا لیا جس نے پاکستان کے مظلوم و محروم پس ماندہ طبقے کو آلامِ روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھنے کے لیے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔ اس کے پس ماندگان میں ایک بیوہ، سات بیٹیاں اور دو بیٹے شامل ہیں۔ وہ اپنی پانچ بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کر چکا تھا اور اس کے ایک بیٹے کی شادی بھی ہو چکی تھی۔ وہ جری تخلیق کار جس نے ہمالیہ ہوٹل تلہ گنگ کے نواح میں اپنی کٹیا میں بزمِ ادب سجا رکھی تھی اب ہم سے بہت دُور اپنی الگ دنیا بسا چکا ہے۔ نور زماں ناوک ایک وسیع المطالعہ تخلیق کار تھا جسے پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں کے علاوہ اردو، عربی، فارسی، ہندی اور بنگالی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ اس نے عالمی کلاسیک کے تراجم کا بڑی توجہ سے مطالعہ کیا اور ان سے گہرے اثرات قبول کیے۔
نور زماں ناوک نے اپنی اولاد بالخصوص اپنی بیٹیوں کی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دی۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ اس عالم پیری میں جب میرے اعضا مضمحل ہو گئے ہیں اور عناصر میں اعتدال عنقا ہے میری بیٹیاں میرے لیے ایساعطیہ خداوندی ثابت ہوئیں ہیں جن کے خلوص، درد مندی اور بے لوث محبت نے مجھے خود اپنی نظر وں میں معززو مفتخر کر دیا۔ شادی سے پہلے میرا بیٹا بھی بہت مودب اور سعادت مند رہا لیکن جب میں اس کی دلہن گھر میں لایا تو اس کی عقیدت، مروت اور احترام میں واضح کمی محسوس ہوئی لیکن میری بیٹیاں شادی کے بعد بھی اسی طرح حسن سلوک اور احسان روا کھتی ہیں۔ وہ میرے گھر آنگن سے چڑیوں کی طرح پرواز کر کے اپنا نیا آشیانہ بسا چکی ہیں لیکن ہم ضعیف والدین کے دل میں ان کی سعاد ت مندی، حیا اور عفت و عصمت کی یادیں ہمارے لیے حوصلے اور راحت کا وسیلہ ہیں۔ وہ اس بات پر خدا کا شکر ادا کرتا کہ اس کی پانچ بیٹیاں جو اس کی گھر میں محض بیٹیاں تھیں اور ان کا میکے میں چڑیوں جیسا چنبہ تھا، جب وہ اپنے سسرال پہنچیں تووہ اپنے اپنے گھر کی مالکن بن گئیں اور اپنے آشیانے بناکراس میں سکون سے زندگی بسر کر رہی ہیں۔ ا ن کے گھر کے آنگن میں اللہ کریم کے فضل و کرم سے پھول کِھل اُٹھے جن کی عطر بیزی سے والدین کا قریۂ جاں مہک اُٹھا۔ اب وہ اپنی اولاد کی تعلیم و تر بیت میں مصروف ہیں اور اپنے گھر کو جنت کانمونہ بنادیا۔ یہ ہماری تر بیت کا اعجاز ہے کہ ہماری بیٹیا ں آج بھی اپنی ماں کے نقش قدم پر چل رہی ہیں اور ہمیں ان کے گھر سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے تو د ل کی کلی کھل اٹھتی ہے۔ اس کا خیال تھاکہ بچہ اس عالم آب و گل میں آنکھ کھولتا ہے تو والدین اس نو نہال کو اس کی زند گی عطا کر تے ہیں لیکن وقت گزرنے کے سا تھ بچے کے والدین اپنی زندگی بھی اپنی اولاد پر وار دیتے ہیں۔ والدین کے اسی ایثار کی وجہ سے والدین کے ساتھ احسان کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ تعلیم نسواں کو اس نے معاشرتی اور سماجی ترقی کے لیے نا گزیر قرار دیا۔ اپنی بیٹیوں کی پیدائش کو وہ ہمیشہ اللہ کریم کی رحمت سے تعبیر کرتا۔ اس نے اپنی دلی کیفیات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا:
عطا ہوا میرے آنگن کو غول چڑیوں کا
بہ طورِ خاص مجھے رحمتوں نے گھیرا ہے
نور زماں ناوک جن ممتاز معاصر ادیبوں سے متاثر تھا ان میں استاد دامن، خضر تمیمی، چراغ مولائی، سید ضمیر جعفری، کرنل محمد خان، منشا یاد، ڈاکٹر نثار احمد قریشی، رحیم بخش شاہین، نظیر صدیقی اور حسرت کاس گنجوی شامل ہیں۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی اولاد نرینہ سے محروم تھے لیکن ان کی سعادت مند بیٹیوں نے ان کا نام روشن کیا اور علم و ادب اور طب و سائنس کے شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ وہ بھی بیٹیوں کی تربیت کو اہم قرار دیتے اور بیٹیوں کو اللہ کریم کی رحمت سے تعبیر کرتے تھے۔ اسی موضوع پر میاں والی شہر(پنجاب۔ پاکستان) سے تعلق رکھنے والے نور زماں ناوک کے دیرینہ رفیق اور معتمدساتھی محمد محمود احمد نے بھی اپنے جذبات کو نہایت موثر انداز میں شعر کے قالب میں ڈھالا ہے۔ نور زماں ناوک محمد محمود احمد کے اسلوب کے شیدائی تھے اور ان کے اس شعر کو اپنے حسبِ حال قرار دیتے تھے :
بیٹیاں سب کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں
گھر خدا کو جو پسند آئے وہاں ہوتی ہیں
اپنی گُل افشانیِ گفتار سے نور احمد ناوک ہر محفل کو کشت زعفران میں بدل دیتا۔ وہ جب بولتا تو اس کے منہ سے پھُول جھڑتے اور سامعین اس کی باتوں کے سحر میں کھو جاتے۔ بعض اوقات جب وہ ترنگ میں آتا تو اپنے دبنگ لہجے میں مقفیٰ اور مسجع نثر پر مشتمل ایسا دل کش و حسین پیرایۂ اظہار اپناتا کہ اس کی باتوں سے سماں بندھ جاتا۔ سامعین یوں محسوس کرتے کہ گویا الفاظ دست بستہ اس کے حضور کھڑے ہیں اور وہ موقع، محل اور موضوع کی مناسبت سے ان ا لفاظ کے بر محل استعمال سے اس طرح تزکیہ نفس کرتا ہے کہ اس کی گفتگو قلب اور روح کی ا تھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے مزین ہو کر سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں کو بھی موم کر کے اپنی بے پناہ اثر آفرینی کا لوہا منو ا لیتی ہے۔ اگرچہ وہ کم گو تھا لیکن اس کی مختصر بات بھی گہری معنویت کی حامل ہوتی تھی۔ اس کے اسلوب کے مداحوں میں غفار بابر، نور احمد ثاقب، اقتدار واجد، دیوان الیاس نصیب، اللہ دتہ سٹینو، میاں اقبال زخمی، آصف خان، احمد حسین قریشی، سمیع اللہ قریشی، گدا حسین افضل، مہر بشارت خان، امیر اختر بھٹی، غلام علی خان چین، راجا رسالو، سبط الحسن ضیغم، صابر کلوروی، شفیق الرحمٰن، شریف خان، رام ریاض، افضل توصیف، فضل بانو، خاطر غزنوی، صابر آفاقی، انعام الحق کو ثر، محمد محمود احمد، فیض لدھیانوی، ارشاد گرامی، بشیر سیفی، کبیر انور جعفری، سیف زلفی، سید اختر حسین، دلدا ر پرویز بھٹی اور محمد بخش گھمنانہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ غفار بابر کا کہنا تھا کہ نور زماں ناوک نے اس مسحور کُن انداز میں اپنے دِل کی بات لبوں پر لاتا کہ اس کے صاحب اسلوب تخلیق کار ہونے کے بارے میں سب متفق ہو جاتے اور اسے داد و تحسین سے نوازتے۔ غفار بابر نے ایک ادبی نشست میں اپنی یاد داشت پر انحصار کرتے ہوئے نور زماں ناوک کے انداز گفتگو کی جو کیفیت بتائی وہ ذرا سنیے اور سر دھنیے۔ چُولستان کا ایک چربہ ساز، سارق اور کفن دُزد متشاعر جو خود کو نعمت خان کلا نونت کا پوتا ظاہر کرتا اور جس کے دماغ کی چُولیں ڈھیلی ہو چُکی تھیں ادبی حلقوں کے لیے بلائے بے درماں بن چکا تھا۔ یہ گھُس بیٹھیا ہر ادبی محفل میں اپنے ساتا روہن کے ہم راہ بِن بُلائے پہنچ جاتا اور نظم و نثر میں قافیہ پیمائی، تُک بندی اور بات چیت میں مہمل حاشیہ آرائی سے سامعین کو دِق کرتا تھا۔ لوگ اس متفنی کو چُلو میں اُلو بناتے اور وہ چُلو میں پانی بھر کر اس پانی میں غواصی کے لیے سد ا اُدھار کھائے بیٹھا رہتا۔ یہ جعل ساز جید جاہل ابلہ علم و ادب کی سنجیدہ باتیں سُن کر دُور کی کوڑی لانے کے لیے بے تاب رہتا اور خودستائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا۔ اس کی بے بصری، کور مغزی اور ذہنی افلاس کا یہ حال تھا کہ یہ بونا خود کو باون گزا سمجھنے لگا اور سنجیدہ ادیبوں کی تضحیک اس کا وتیرہ بن گیا۔ ایک مرتبہ بھری بزم میں کفن پھاڑ کر یوں ہرزہ سرا ہوا :
’’ تخت و کلاہ و تاج کے سب بکھیڑے، سب جھگڑے اور جھیڑے، خواہ وہ دُور ہوں یا نیڑے، کون ان تنازعات کو سہیڑے، سیلِ زماں کے تھپیڑیسب کچھ بہا کر لے جاتے ہیں۔ آلامِ روزگار کے مہیب بگولے ہمارے گنجِ نہاں کے اوپر پر تولے یوں چھائے کہ بڑے بڑے بڑ بولے تھر تھرائے اور سب کا دِل گھبرائے۔ وقت کے گرداب کے عذاب نے سب رشتے ناتوں کے بلند نخل اس طر ح جڑسے اکھیڑے کہ نہ رانجھے رہے نہ کھیڑے۔ یہاں تک کہ انسان قبروں میں جا سمائے کوئی بدرقہ ساتھ نہ جائے، پیٹ بھر کے کھاؤ پھجے کے پکائے ہوئے سری پائے۔ جس کو قولنج کا عارضہ ہو وہ کھائے ہر ڑ اور بہیڑے۔ اندھیری گو ر کے تصور سے کلیجہ منہ کو آئے اور کہیں سکون نہ پائے۔ میرا ہر مداح پُوتوں پھلے اور دودھوں نہائے۔ جہاں سلاطین کے نرم و نازک اجسام ملخ و مُور کے جبڑوں میں آ گئے تو سب کے سینے حسرتو ں سے چھا گئے اور حشرات نے ان ننگِ اسلاف فرعونوں کے بدن کے بخیے اُدھیڑے۔ جو بھی میرے کمالِ ہنر کو نہیں مانیں گے، اُن کے غرق ہو ں گے بیڑے۔ جس کے جی میں آئے وہ میرے سامنے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے حاضرین کو جھنجھوڑے، میرے دل کے ساز چھیڑے تو پھر دیکھے کہ میں کس طرح کرتا ہوں سب نکھیڑے۔ ‘‘
’’ بہت ہو چُکی !کب تک اپنے منہ میاں مٹھو بنتے رہو گے ؟‘‘ نور زماں ناوک نے اس مجہول الاحوال ابلہ کی لا ف زنی پر اسے ٹو کتے ہوئے کہا ’’وجہی سے بھی قدیم زمانے کی اُردو بول کر مت ڈالو سننے والوں کی آنکھوں میں تریڑے۔ ‘‘
یہ سنتے ہی سب حاضرین کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔
اپنے بارے میں یہ تاثرات سنتے ہی وہ متشاعر وہاں سے تین پانچ کرتا ہوا نو دو گیارہ ہو گیا اور ہنہناتا ہوا ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ جاتے وقت وہ اپنے سُو جے ہوئے کان سہلا رہا تھا اور کریہہ چہرہ چھُپا رہا تھا، اُس کی یہ ہئیتِ کذائی دیکھ کر سامعین میں سے ایک شخص نے بر ملا کہا ’’معلوم ہوتا ہے اس جعلی ادیب کو نکل آئے ہیں سخت کن پیڑے۔ ‘‘
زندگی کی نا ہمواریوں، تضادات، بے اعتدالیوں اور کجیوں کے بارے میں ہمدردانہ شعور کی آئینہ دا ر نور زماں ناوک کی فکری اور فنی بصیرت کی مظہر ا س قسم کی خندہ آور باتیں ادبی محفلوں میں روز کا معمول تھا۔ اس کی باتیں سن کر سامعین خوب حظ اُٹھاتے تھے۔ اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں نہاں کرنا اور اپنے غم کا بھید کسی پر نہ کھولنا نور زماں ناوک کا شیوہ تھا۔
تلہ گنگ کا صو مالیہ ہوٹل اپنے سستے اور لذیذ کھانوں کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور ہے۔ اس ہوٹل کا ضعیف اور نحیف خانساماں جو نصف صدی سے یہاں کام کر رہا ہے غمِ دوراں سے ہارا گور کنارے پہنچ کر بھی زندہ دلی، ضلع جگت اور پھبتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اس ہوٹل کے نواح میں کچھ عرصہ نور زماں ناوک کی رہائش رہی۔ فارغ وقت میں نور زماں ناوک اپنے احباب کے ساتھ اسی ہوٹل میں آ جاتا اور ایک ادبی نشست ہو جاتی۔ اس ہوٹل کی چائے کا خاص ذائقہ ہے جس کی وجہ سے ڈرائیور یہاں رک کر چائے پی کر تھکان سے نجات حاصل کرتے ہیں۔ صومالیہ ہوٹل کے سامنے ایک بہت وسیع میدان ہے جو کھیلوں اور گھڑ دوڑ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ہر سال مارچ کے مہینے میں جشن بہار کے موقع پر اس کھُلے میدان میں خوب چہل پہل ہوتی ہے۔ تھر کے علاقے سے ریگستانی سرکس بھی ہرسال یہاں پہنچتا ہے۔ اس سرکس میں ہاتھی، گینڈا، دریائی گھوڑا، بڑے بڑے چُغد، شِپر، کرگس، پانچ ٹانگوں والا خچراور اُلو بھی ہوتے ہیں۔ دیہی علاقوں کے مکین ان عجیب الخلقت جانوروں کو دیکھنے کے لیے جو ق در جوق سرکس میں پہنچتے ہیں اور پچاس روپے کا ٹکٹ خرید کر اپنی زندگی میں پہلی بار ان عجیب الخلقت جانوروں کو دیکھ کر بے حد خوش ہوتے ہیں۔ صومالیہ ہوٹل کے خانساماں کا ایک یتیم بھتیجا نواحی گاؤں میں رہتا تھا۔ مفت خور اور لیموں نچوڑ قماش کا یہ نوجوان مفت کی روٹیاں توڑتا اور کوئی کام نہ کرتا۔ ورزش اور جسمانی مشقت نہ کرنے اور ڈٹ کر مرغن غذائیں کھانے کی وجہ سے یہ نوجوان پھُول کر کُپا ہو گیا اور سفر کرنے کے قابل بھی نہ رہا اور اپنے گھر تک محدود ہو کر رہ گیا۔ اس نوجوان نے اپنی ماں سے سرکس دیکھنے کی فرمائش کی۔ صومالیہ ہوٹل کے بوڑھے خانساماں نے بہت بڑی توند والے اپنے بے حد فربہ نوجوان بھتیجے کی فرمائش کو ٹالنا اس لیے مناسب نہ سمجھا کہ کہیں وہ یتیم نوجوان احساسِ محرومی کا شکار نہ ہو جائے۔ کار تو اس مقصد کے لیے بے کار تھی کیوں کہ وہ اس دیو پیکر نوجوان کی کاٹھی کے بوجھ کو سہار نہ سکتی تھی۔ مجبوراً ایک ٹریکٹر اور ٹرالی کا انتظام کیا گیا اور نوجوان کو اٹھا کر اس میں ڈال کر سرکس میں ہاتھی، گینڈا اور دریائی گھوڑا دکھانے کے لیے صومالیہ ہو ٹل میں پہنچا دیا گیا۔ اتفاق سے نور زماں ناوک کا وہا ں سے گزر ہو ا جسے ان باتوں کو کوئی علم نہ تھا۔ صومالیہ ہوٹل کے ضعیف خانساماں کے بھتیجے کو پہچان کر اس نے خانساماں سے پوچھا :
’’آج کس لیے اس نوجوان کو یہاں آنے کی تکلیف دی ہے ؟‘‘
خضاب آلودہ، معمر اور جہاں دیدہ خانساماں، جس کی بینائی کم زور ہو چکی تھی اور ضعیفی سے مضمحل عناصر میں اعتدال عنقا تھا۔ ضعف پیری اور رعشے کے باعث اس کا سارا جسم کانپ رہا تھا۔ اس نے نور زماں ناوک کو پہچان کر آنکھیں ملتے ہوئے کہا ’’ گزشتہ ماہ میں نے اپنی نوجوان بیوہ پڑوسن سے عقد چہارم کر لیا ہے یہ نوجوان میری نئی اہلیہ کی تیسری شادی سے ہے۔ اس کی ماں نے مجھے حکم دیا ہے کہ یہ ہاتھی، گینڈا اور دریائی گھوڑا دیکھنے کا تمنائی ہے اس کی خواہش کا احترام کیا جائے اور اسے سرکس دکھایا جائے۔ آج شام اسے ریگستانی سرکس میں یہ جانور دکھانے کا ارادہ ہے۔ ‘‘
نور زماں ناوک نے بر جستہ کہا ’’ خود کردہ را علاجے نیست، آپ اپنی زندگی کی شام کو صبحِ بہار میں بدلنے کے سرابوں میں اُلجھ گئے ہیں اور خود اپنی ذات کو عذابوں میں ڈال رکھا ہے لیکن آپ نے ناحق اس نوجوان کو مشکلوں میں ڈالا اور اسے سفر کی صعوبت برداشت کرنا پڑی۔ اگر آپ ہاتھی، گینڈے اور دریائی گھوڑے کو اس نوجوان کی جسامت اور اپنی رومانوی شخصیت سے آگاہ کر دیتے تو یہ سب عجیب الخلقت جانور اس قدر حیرت زدہ ہوتے کہ دُم دبا کر اور تھوتھنی جھُکا کر آپ دونوں کو دیکھنے کے لیے آپ کے درِ عسرت پر پہنچ جاتے اور واپسی پر اس قدر خجل ہوتے کہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے اور کہتے پھرتے کہ جس دیو کے آگے پہاڑ بھی پست ہوا س کے آگے ہماری حقیرجسامت کیا حیثیت رکھتی ہے۔ سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہونے والے بڈھے کھوسٹ ڈھگوں سے بے تعلقی اور بیگانگی مناسب نہیں بل کہ یہ دیکھنے کی چیز ہیں انھیں تو بار بار دیکھنا چاہیے۔ ‘‘
صومالیہ ہوٹل کا نوجوان جاروب کش جس کا باپ تسمہ کش تھا بھری دنیا میں مجرد زندگی سے عاجز آ کر ایک گونہ بے خودی کی خاطر بھرے سگریٹ کا کش لگا کر بولا ’’زندگی کشا کش میں بوڑھی گھوڑی لال لگام کی بات تو سُنی تھی لیکن آج تک بوڑھا خچر لال لگام کا قصہ کبھی نہیں سنا۔ اس پرانے بادہ کش خانساماں نے ہوس اور جنس و جنوں کی جونئی خو نچکاں حکایت رقم کی ہے اس کی شکایت ہم کس سے کریں۔ اس کی آنکھوں میں تو جنبش نہیں لیکن اس کے جسم کا دم خم دیکھو کہ خم ٹھونک کر میدانِ عشق میں جان کی بازی لگانے بے خطر کُود پڑا۔ ایسے شخص کو تو سرکس میں سب کو دکھانا چاہیے۔ ‘‘
ایک پیٹو نوجوان کی بسیارخوری اور غیر معمولی فربہی اور ایک ایسا معمر خانساماں جو چراغِ سحری تھا، جب وہ سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہونے کی مجنونانہ کوشش کر کے خود تو تماشا بنا دیتا ہے تو اس کے جنسی جنون اور آشفتہ سری پر یہ طنز سُن کر سب زیرِ لب مسکرانے لگے۔
پاکستانی زبانوں کے ادب سے نور زماں ناوک کو گہری دلچسپی تھی۔ اس نے مست توکلی، قلندر مہمند، شاہ عبداللطیف بھٹائی، رحمٰن بابا اور متعدد شعرا کا کلام نہایت توجہ سے پڑھا اور اس سے گہرے اثرات قبول کیے۔ پنجابی زبان و ادب کے ارتقا کے لیے نور زماں ناوک نے جس قدر محنت اور لگن کا مظاہرہ کیا وہ پنجابی ادب کی تاریخ میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ وہ اردو اور بالخصوص پنجابی کلاسیکی ادب کا شیدائی تھا، اس نے سلطان باہوؒؒؒؒ، شاہ حسینؒ، بلھے شاہؒ، وار ث شاہ اور میاں محمد بخش کے کلام کا تجزیاتی مطالعہ کیا اور اس سے مستفید ہونے کی کوشش کی۔ نور زماں ناوک کی پنجابی شاعری کا مجموعہ ’’دو گھُٹ پانی‘‘ شائع ہو چکا ہے، جسے پنجابی ادب کے شائقین کی طرف سے زبردست پذیرائی ملی۔ اس کی شاعری کا یہ مجموعہ امر تسر اور جالندھر میں بھی مقبول ہوا اور اسے گرُ مکھی کے قالب میں ڈھالا گیا۔ پنجابی ادب، پنجابی ثقافت اور پنجابی لوک گیتوں اور موسیقی کی ترویج و اشاعت پر اس نے بہت توجہ دی۔ لوک ورثہ کے اہل کار اس کی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ عبد الغفور درشن نے نور زماں ناوک کو پنجابی تہذیب و ثقافت کا ترجمان قرار دیا۔ اسے پٹھانے خان، عنایت حسین بھٹی، عالم لوہار، سائیں اختر حسین، خمیسو خان، استاد جُمن، مائی بھاگی، زر سانگا، فیض محمد بلوچ اور الن فقیر کی گلوکاری بہت پسند تھی۔ اس کی اردو شاعری کا مجموعہ زیر ترتیب تھا کہ فرشتۂ اجل نے اس فعال ادیب سے قلم چھین لیا۔ نور زماں ناوک کی اردو شاعری میں عصری آگہی کا عنصر فکر و نظر کو مہمیز کرتا ہے :
نمونہ ء کلام
عجب طرح کے کئی وسوسوں نے گھیرا ہے
کچھ ایسے وقت کے ان پر بتوں نے گھیرا ہے
گئے دنوں کی صعوبت ابھی نہیں بھُولی
نئی رُتوں میں نئی صُورتوں نے گھیرا ہے
یہ روز و شب مِرے ہم وار ہو نہیں پائے
رادائے زیست کو یوں سلوٹوں نے گھیرا ہے
یہ کیا غضب ہے کہ سانسیں تو ہیں رواں میری
فصیلِ جاں کو مگر کر گسوں نے گھیرا ہے
خدائے نطق عطا کر اسے حسیں لہجہ
مِرے لہو کو کڑی تلخیوں نے گھیرا ہے
عطا ہوا مِرے آنگن کو غول چڑیوں کا
بہ طورِ خاص مجھے رحمتوں نے گھیرا ہے
مِرے طواف کو نکلی ہیں تتلیاں ناوک
مِرے وجود کو رعنائیوں نے گھیرا ہے
زندگی بھر نور زمان ناوک اگرچہ مُلکی سیاست سے کوسوں دور رہا لیکن وطن، اہلِ وطن اور دُکھی انسانیت کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت اس کے ریشے ریشے میں سما گئی تھی۔ انسا نیت کا وقار، سر بلند ی اور سلطا نیِ جمہور کی فضا کو پروان چڑھانا ہمیشہ اس کا مطمح نظر رہا۔ اس کا خیال تھا کہ بد ترین جمہوریت بھی آمریت کے دھنک رنگ سرابوں سے بدرجہا بہتر ہے۔ عملی زندگی میں تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر ہمیشہ اس کی گہری نظر رہی۔ اس کا کہنا تھا کہ دنیا کی جو اقوام تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں تاریخ انھیں عبرت کا سبق بنا کر ان کا پُورا جغرافیہ اس طرح اُلٹ پلٹ کر رکھ دیتی ہے کہ ان کی داستان بھی اقوامِ عالم کی داستانوں سے عنقا ہو جاتی ہے۔ ایک مو قع پر اس نے کہاکہ آمریت کبھی سبز باغ دکھاتی اور کبھی کالا باغ، جسے دیکھ کر سادہ لوح عوام کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ جب بھی کوئی آمر اپنے منطقی انجام کو پہنچتا ہے تو اس وقت تک پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہوتا ہے۔ اُس کا خیال تھا کہ انسانی زندگی میں وقت کی مثال بھی سیلِ رواں کی مہیب موجوں کی سی ہے۔ کوئی بھی شخص اپنی جہاں گیر عظمت، بے پناہ قوت و ہیبت اور شدید ترین تمناؤں کے باوجود بہہ جانے والے آبِ رواں کے لمس اور بیتے لمحات کے تلخ و شیریں ذائقوں سے دوبارہ کبھی فیض یاب ہو ہی نہیں سکتا۔ اس نے زندگی کو ایک ایسی ادق زبان سے تعبیر کیا جس کی تفہیم ہر کہ و مہ کی دسترس میں نہیں۔ آمریت کے ہراساں شب و روز اور مسموم ماحول معاشرتی زندگی کی تمام رُتوں کو بے ثمر کر دیتے ہیں اور یہ سانحہ قوم کا جسم داغ داغ کر دیتا ہے۔ ہر چارہ گر یہ سوچتا ہے کہ تقدیر کے ہاتھوں لگنے والے ان زخموں اور چرکوں کے اندمال کے لیے کیا تدبیر کی جائے لیکن اس کی کوئی امید بر نہیں آتی اور نہ ہی اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ قوم کے تنِ نازک کو فگار کر نے کے بعد بھی جب بے حِس آمر کی گردن تن جاتی ہے تو دردِ دِل رکھنے والے اصلاحِ احوال کے لیے ہمہ تن مصروف ہو جاتے ہیں اور آمریت کی پھٹکار سے نجات حاصل کر کے سلطانیِ جمہور کے لیے قربانیاں دیتے ہیں اور جگرِ لخت لخت اور دلِ ریزہ ریزہ کو جمع کر کے فروغِ گلشن و صوت ہزار کے موسم کی تمنا میں دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ سلطانیِ جمہور کو آندھیوں اور بگولوں سے محفوظ رکھنے کی خاطر نئے سرے سے تعمیرِ وطن پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے لیکن سیاست دانوں کی خود غرضی، عاقبت نا اندیشی اور باہمی نفاق کے باعث ہمیں یہ دن دیکھنے پڑے کہ ہر بار انتخابی عمل کو مشکوک بنا دیا گیا۔ قومی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر ہوسِ زر اور جلبِ منفعت پر مبنی انتہائی پست ذاتی مفادات کے حصول کی دوڑ شروع ہو گئی اور مظلوم انسانیت کے مصائب و آلام کو نظر انداز کر دیا گیا۔ ان پُر آشوب حالات میں پھر کوئی طالع آزما اور مہم جو آمریت کا لٹھ لے کر عوامی امنگوں کے گُلِ نو دمیدہ کو سر اُٹھاتے ہی پامال کر دیتا ہے اور پورے نظام کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ ہماری سیا ست کا اب تک یہی المیہ اور بحران رہا ہے جس کے لرزہ خیز، اعصاب شکن اور مسموم اثرات نے اجالوں کو داغ داغ اور سحر کو شب گزیدہ بنا کر رکھ دیا ہے۔
مشاعروں میں شرکت نور زماں ناوک کی اہم علمی و ادبی مصروفیت رہی۔ ان مشاعروں میں شرکت کے لیے اس نے پاکستان کے دُور دراز علاقوں کے متعدد طویل سفر کیے اور مشاعروں کے سامعین سے داد حاصل کی۔ ان مشاعروں میں وہ جن ممتاز شعرا سے ملا ان کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے لبریز سلوک کیا اور ان سے جو پیمانِ وفا باندھا زندگی بھر اسے استوار رکھنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ جھنگ کے جن ممتاز ادیبوں اور دانش وروں کے ساتھ نور زماں ناوک کے قریبی تعلقات تھے ان میں سید جعفر طاہر، محمد شیر افضل جعفری، غلا م علی خان چین، غلام محمد رنگین، امیر اختر بھٹی، خادم مگھیانوی، بلال زبیری، کبیر انور جعفری، مجید امجد، خضر تمیمی، صدیق لالی، سجاد بخاری، احمد تنویر، خیر الدین انصاری، نور احمد ثاقب، حیات خان سیال، حکیم احمد بخش نذیر، اللہ دتہ حجام، صاحب زادہ رفعت سلطان، حاجی محمد یوسف، اللہ دتہ سٹینو، یوسف شاہ قریشی، رام ریاض، ظفر سعید، مہر بشارت خان، گدا حسین افضل، سمیع اللہ قریشی اور محمد بخش گھمنانہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ جھنگ کو محمد شیر افضل جعفری نے شہرِ سدا رنگ کا نام دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نور زماں ناوک نے ہمیشہ اس شہر کے ساتھ اپنی والہانہ محبت کا بر ملا اظہار کیا اور یہاں وہ کئی بار ادبی نشستوں میں شرکت کے لیے پہنچا۔ اس کا قیام جھنگ شہر کے قدیم علاقے میں واقع محمد شیر افضل جعفری کے گھر ’’چغتائی بسیرا ‘‘میں ہوتا۔ یہاں قیام کے دوران وہ احباب کی دعوت شیراز کا اکثر ذکر کرتا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ جھنگ کے لوگ ذوقِ سلیم سے متمتع ہیں اور ہر مہمان ادیب کے لیے دیدہ و دِل فرشِ راہ کر دیتے ہیں اور اُ ن کی راہ میں آنکھیں بچھانا ان کا شیوہ ہے۔ محمد شیر افضل جعفری نے اپنی شاعری میں اس علاقے کی تہذیب و ثقافت، رہن سہن اور رسوم و رواج کو جس دل نشیں انداز میں پیرایۂ اظہار عطا کیا اس کا کرشمہ قاری کے قلب و نظر کو مسخر کر لیتا ہے۔ پچاس کے عشرے میں جھنگ سے مجید امجد کی ادارت میں شائع ہونے والے اخبار ’’عروج‘‘ کی ادبی خدمات کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔
نور زماں ناوک نے زندگی بھر اپنی تہذیبی اور ثقافتی اقدار و روایات کی ترویج و اشاعت کے لیے انتھک جد و جہد کی۔ بر طانوی استعمار کے غاصبانہ تسلط کے بعد اس خطے کی تہذیب و ثقافت کو انتہائی دشوار حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا خیال تھا کہ کسی بھی خطے کی تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنا ممکن ہی نہیں اس ایک سبب یہ ہے کہ اس کی جڑیں اس خطے کے باشندوں کے دلوں میں ہو تی ہیں۔ وہ قوم جو اپنے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں مثبت شعور و آگہی سے محروم رہے اور جلتے روم کو دیکھ کر نیرو کے مانند چین کی بانسری بجائے اس کی مثال ایسے ٹنڈمنڈسوکھے درخت کی سی ہے جس کی جڑیں سمے کی دیمک چپکے چپکے کھا جاتی ہے اور سیل زماں کے مہیب تھپیڑے اسے خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتے ہیں۔ اپنی تہذیبی و ثقافتی اقدار سے محبت کرنے والے حریت فکر کے مجاہدوں کی شاعری میں تہذیبی، ثقافتی، سما جی اور معا شرتی زندگی کا جو معتبر و موقر حوالہ موجود ہے وہ قلب اور روح کی ا تھاہ گہرائیوں میں اتر کر اذہان کی تطہیر و تنویر اور وسیع النظری کو یقینی بنا تا ہے۔ جو قو میں اپنی تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی اور سما جی روایات اور اقدار سے غافل ہو جا تی ہیں ان کی تاریخ ہی نہیں جغرافیہ پر بھی ابلق ایام کے سموں کی گرد پڑ جاتی ہے اور ان کا حال اور مستقبل غیر یقینی ہو جاتا ہے۔
ادب اور فنون لطیفہ سے نور زماں ناوک کی دلچسپی زندگی بر برقرار رہی۔ کلاسیکی موسیقی، لوک داستانوں اور لوک گیتوں کو وہ تہذیبی اور ثقافتی اثاثہ قرار دیتا تھا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ جب لفظ ہونٹوں پر پتھرا جائیں اور اظہار و ابلاغ کی کوئی صورت دکھائی نہ دے تو ان لرزہ خیز حالات میں موسیقی اپنا رنگ جماتی ہے اور دل و نگاہ کے سب افسانے سُر اور لے کے آہنگ میں ڈھل جاتے ہیں۔ موسیقی کی مسحور کُن دھُن دلوں کو مسخر کرنے پر قادر ہے۔ شاعری میں الفاظ کی معنی آفرینی اپنی جگہ درست ہے لیکن تنہا الفاظ جذبات و احساسات کی اقلیم کی تسخیر کی استعداد نہیں رکھتے بل کہ اس مقصد کے لیے شاعری کو مو سیقی کی ساحری کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ وہ موسیقی کو قلب اور روح کی داخلی کیفیات کو سامنے لانے والی ایک ایسی ولولہ انگیز زبان کا نام دیتا تھاجسے دنیا کے ہر علاقے میں سمجھاجاتا ہے۔ آلامِ روزگار کے مسموم ماحول میں مسلسل شکستِ دِل کے باعث جب سکوتِ مرگ کا جان لیوا ماحول روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر دے تو ان اعصاب شکن حالات میں بھی موسیقی نسیم سحر کے جھونکے کے مانند نہاں خانہ ء دِل کو اپنی عطر بیزی سے مہکا دیتی ہے۔ موسیقی دلوں کے بے خواب دروازے کھول کر چپکے سے اند ر داخل ہو جاتی ہے اور رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے سننے والوں زندگی کی رعنائیوں میں اضافہ کر تے ہیں اور مضمحل و ملول دِلوں کو ایک ولولۂ تازہ مل جاتا ہے، اس طرح موسیقی تزکیہ نفس کی ایک صورت سامنے لاتی ہے۔ لوک ادب اور موسیقی کے بارے میں اس کے خیالات اس کے ذوقِ سلیم کے مظہر تھے۔ ا س کا یہ تجزیہ تھا کہ موسیقی انسان کو ایک ایسے نشاط آور، مقام تک لے جاتی ہے جہاں اک گونہ بے خودی کا احساس اس کے درد کا درماں بن جاتا ہے۔ وہ کلاسیکی موسیقی کو جذبات و احساسات کے لیے ایک محفوظ قلعہ قرار دیتا جہاں رہ نوردانِ شوق فریبِ سُود و زیاں کے اندیشوں سے بے نیاز رہ کر تسکینِ قلب کی صورت تلاش کر سکتے ہیں۔ وہ اس بات پر پُختہ یقین رکھتا تھا کہ موسیقی کے اعجاز سے ہر قلبِ پریشاں کو راحت کی نوید ملتی ہے۔ تہذیب و ثقافت کے سوتے بھی لوک مو سیقی ہی سے پھُوٹتے ہیں۔ نور زماں ناوک نے کلاسیکی موسیقی، لوک گیتوں پنجابی ماہیے، ڈھولے اور دوہڑے کو پنجاب کی تہذیبی و ثقافتی پہچان سے تعبیر کیا۔ وہ اس بات پر خوش تھا کہ اردو زبان میں بھی ماہیے لکھے جا رہے ہیں جنھیں زبردست پذیرائی ملی ہے یہ پنجابی صنف شاعری ماہیا کی اثر آفرینی کی واضح دلیل ہے۔ وہ چراغ حسن حسرت کے اردو ماہیے بہت پسند کرتا تھا جنھیں نامور گلو کار برکت علی خان نے گایا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ ماہیے بعد میں غلام علی اور سجاد علی نے بھی گائے لیکن برکت علی خان کی گائیکی اپنی مثال آپ ہے۔ نور زماں ناوک تنہائی کے لمحوں میں کبھی کبھی یہ ماہیے گنگناتا تو اس کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں :
باغوں میں پڑے جھُولے
تم بھُول گئے ہم کو،
ہم تم کو نہیں بھُولے
ساون کا مہینا ہے
ساجن سے جُدا رہ کر
جینا کوئی جینا ہے
یہ جشن بہاروں کا
سُن لو کبھی افسانہ
تقدیر کے ماروں کا
راوی کا کنارا ہے
ہر موج کے ہونٹوں پر
افسانہ ہمارا ہے
اب اور نہ تڑپاؤ
یا ہم کو بُلا بھیجو
یا آپ چلے آؤ
اللہ کریم نے نور زماں ناوک کو ایک مستحکم شخصیت سے نوازا تھا۔ وہ بدلتے ہوئے حالات میں اقتضائے وقت کے مطابق اپنی شخصیت کو نئے سانچے میں ڈھال لیتا۔ اپنی عملی زندگی میں وہ طرزِ کہن کو خیر باد کہہ کر آئینِ نو کو زادِ راہ بنانے میں کبھی تامل نہ کرتا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے عروج کے موجودہ زمانے میں وہ زندگی کی برق رفتاریوں سے ہم آہنگ ہونے میں ہمہ تن مصروف رہتا۔ کمپیوٹر، انٹر نیٹ، موبائل ٹیلی فون اور دیگر ذرائع مواصلات میں وہ گہری دلچسپی لیتا تھا۔ اسے اس بات کا قلق تھا کہ جدید دور نے ہماری معاشرت کو قدیم پیشوں اور ان سے وابستہ یادوں سے نا آ شنا کر دیا ہے۔ نئی نسل کو یہ معلوم نہیں کہ ماضی میں سقے، ماشقی، کنجڑے، لکڑہارے، بنجارے، ملاح، موہانے، گھسیارے، بنیے، بزاز، پنساری، رمال، نجومی، کو چوان، فیل بان، رتھ بان، کمان گر، کہار اور مہاری کیا کرتے تھے۔ اب نہ تو گھڑے رہے نہ گھڑونچیاں اور گھڑولیاں، اب شترِ بے مہار تو بے شمار ہیں لیکن ان کی نکیل کھینچنے والے مہاری کا کہیں اتا پتا نہیں ملتا۔ تانگے، رتھ، منجنیق، غلیل، تیر، کمان، گُرز، خود، زرہ بکتر، تلوار، ڈھال، بیل گاڑی، پنگھٹ، پنہاریاں، مشاطہ اور عطار نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے ؟۔ ایام گزشتہ کی یادوں سے وابستہ اس انوکھے موضوع پراس کے خیالات سن کر اکثر گمان گزرتا کہ ناسٹلجیانے اسے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے لیکن جب وہ انٹر نیٹ کا استعمال کرتا اور سائبر کتب خانوں سے برقی کتب سے استفادہ کرتا، موبائل فون، ای میل اور ایس ایم ایس کے ذریعے احباب کے ساتھ معتبر ربط برقرار رکھتا تو یہ یقین ہو جاتا کہ اس معمر ادیب کے نحیف و ناتواں جسم میں ایک طوفانی روح سما گئی ہے اور نو جوان دل دھڑک رہا ہے۔
نور زماں ناوک نے اپنے تخلیقی تجربات سے اپنے اسلوب کو نکھار عطا کیا۔ اس نے عالمی کلاسیک کے تراجم کا بڑی توجہ سے مطالعہ کیا تھا۔ وہ گنٹر گراس، رولاں بارتھ، این میری شمل، رالف رسل، سوسئیر، موپساں اور گبریل گارسیا مارکیز کے اسلوب کو بہت پسند کرتا تھا۔ گبریل گارسیا مارکیز کی تصنیف ’’Chronicle of a Death Foretold‘‘اس کی پسندیدہ کتاب تھی۔ عالمی شہرت کے حامل مایۂ ناز پاکستانی ادیب اور دانش ور افضل احسن رندھاوا نے جب اس کتاب کو پنجابی زبان کے قالب میں ڈھالا تو نور زماں ناوک نے اس ترجمے کو بہت سراہا اور اسے پنجابی زبان میں ترجمہ نگاری کے ارتقا میں سنگِ میل قرار دیا۔ اس کتاب کا ترجمہ ’’پہلوں توں دسی گئی موت دا روزنامچہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے، جس کی عالمی ادبیات کے قارئین نے بہت پذیرائی کی۔ نور زماں ناوک ترجمہ نگاری کی اہمیت و افادیت کا دل سے معترف تھا۔ وہ ترجمہ نگاری کو دو تہذیبوں کے سنگم کا نام دیتا تھا۔ اسیر عابد نے جب دیوان غالب کا پنجابی ترجمہ کیا تو نور زماں ناوک خوشی سے پھُولا نہ سمایا۔ چکوال شہر کی ایک ادبی نشست میں اس نے اسیر عابد کو گلے لگا لیا اور کہا کہ اگر غالب یہ ترجمہ دیکھ لیتا تو اس ترجمے کو تخلیق کا ہم پلہ قرار دیتا۔ اس نے ایک مثال دی:
دِل نہیں ورنہ دکھاتا تجھ کو داغوں کی بہار
اس چراغاں کا کروں کیا کارفرما جل گیا (غالب)
اسی شعر کا اسیر عابد نے جس خوش اسلوبی سے پنجابی زبان میں منظوم ترجمہ کیا ہے وہ قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔ نور زماں ناوک اسیر عابد کی ترجمہ نگاری کے اسی سحر کا گرویدہ تھا:
دِل ہوندا تے آپے تینوں بلدے داغ وکھاندا
میں ایہہ ڈیوے کِتھے بالاں، بالن والا بلیا
نور زمان ناوک کے نہ ہو نے کی ہو نی دیکھ کر دنیا بھر میں اس کے لاکھوں مداح سکتے کے عالم میں ہیں۔ ان کے دلِ حزیں پر اس حساس اور درد مند تخلیق کار کی موت نے جو گہرا گھا ؤ لگا یا ہے وہ کبھی مندمل نہیں ہو سکتا۔ اس کے سب احباب یہی کہتے ہیں کہ نور زمان ناوک ان کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ہر سا نس اور دل کی ہر دھڑکن اس کی مو جو دگی کا احساس دلا تی ہے۔ کو ئی دیرینہ آشنا جب دائمی مفار را قت دے جا تا ہے تو دل و جگر پر ایسا زخم لگتا ہے جس کا مر ہم کہیں سے دستیا ب نہیں لیکن اس کی یا دیں مہکتے گلا ب کی طرح قریۂ جاں کو معطر کر تی رہتی ہیں۔ یہ سدا بہا ر یا دیں ایا م گز شتہ کی کتا ب کے تمام اوراق کی امین ہیں اور اس قدر حسین ہیں کہ دل کی انجمن ان سے ضیا بار رہتی ہے۔ وہ جنھیں ہم ٹوٹ کر چاہتے ہیں، جب ملکِ عدم کی جا نب سدھار جا تے ہیں تو پس ما ند گا ن کی پو ری شخصیت ٹو ٹ پھوٹ کا شکار ہو جا تی ہے۔ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے ہیں ان کی دائمی مفارقت پر ہم مرنے کی آرزو پہ مر تے ہیں۔ نور زمان ناوک تم نے تو شہر خموشاں میں اپنی الگ دنیا بسا لی۔ تمھاری آنکھیں مند گئیں، دل کی دھڑکن رک گئی، سانس کی ڈوری ٹوٹ گئی، تمام فعالیتں ختم ہو گئیں، بزمِ ادب ویران ہو گئی۔ ایک قیامت گزر گئی کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اب ہم کیا کریں تمھارے جانے کے بعد ہم کہاں جائیں ؟
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور
٭٭٭
ڈاکٹر عبدا لحق خان حسرت کا س گنجوی: فصیلِ دِل کے کلس پر ستارہ جُو تیرا غم
حیدر آباد (سندھ )میں مقیم اُردو زبان و ادب کے باکمال تخلیق کار ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کا سگنجوی نے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ اس روز حیدر آباد کا شہر کا شہر سوگوار تھا اور لوگ فرطِ غم سے نڈھال تھے۔ تقدیر کے ستم سے یہ حقیقت عیاں تھی کہ حیدرآباد کی زمین نے اردو ادب کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں نہاں کر دیا جو گزشتہ چھے عشروں سے اپنے افکار کی ضیا پاشیوں سے اذہان کی تطہیر و تنویر کو یقینی بنا رہا تھا۔ وہ لافانی تخلیق کار جس کی اسلام پسندی، حب الوطنی، روشن خیالی اور حریتِ فکر و عمل نے اردو زبان و ادب کو پُوری دنیا میں معزز و مفتخر کر دیا، ہماری بزمِ وفا کو سوگوار چھوڑ کر اس قدر دور چلا گیا ہے کہ اب یادِ رفتگان پر بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ مجلسی شائستگی، علم دوستی، ادب پروری، بے لوث محبت اور بے باک صداقت کی درخشاں روایت اپنے اختتام کو پہنچی۔ ستائش اور صلے کی تمنا سے سدا بے نیاز رہتے ہوئے حق گوئی و بے باکی کو شعار بنانے والے اس فطین، فلسفی، جری، فعال اور مستعد ادیب کی رحلت سے اُردو زبان و ادب کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس ہفت اختر دانش ور کے بزم ادب سے اُٹھ جانے کے بعد ہر طرف ہجومِ غم کے باعث یاس کی فضا ہے اور دِلِ حزیں کو سنبھالنا بہت مشکل ہے۔ اب کوئی اور ادیب ایسا دکھائی نہیں جسے ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی جیسا کہا جا سکے۔ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ان کی وفات کے سانحہ نے اُردو زبان و ادب کو مفلس و قلاش کر دیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی کمی شدت سے محسوس کی جائے گی اور فکری تہی دامنی کا احساس اہلِ درد کے لیے سوہانِ روح بن کر جان لیوا مصائب کا سبب بن جائے گا۔ اس سانحہ سے پاکستانی ادبیات کے فروغ کی مساعی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ ان کی وفات سے ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جو کبھی پر نہیں ہو سکے گا۔ اُردو زبان و ادب کا وہ خورشید صفت ادیب جو بارہ نومبر ۱۹۳۶کو کاس گنج ضلع ایٹہ، یو پی (بھارت) سے علی شیر خان کے گھر سے طلوع ہوا۔ وہ ۳۰۔ جولائی ۲۰۱۵کی شام حیدرآباد سندھ میں غروب ہو گیا۔ وہ گزشتہ کچھ عرصے سے شوگر کے عارضے میں مبتلا تھے لیکن مناسب علاج اور پرہیز کی وجہ سے وہ رو بہ صحت تھے۔ دور روز قبل ان کو سانس لینے میں دشواری محسوس ہوئی اور شدید کھانسی کی تکلیف ہوئی۔ ان کے دو ڈاکٹر بیٹے انھیں شہر کے ممتاز معالجین کے پاس لے گئے۔ سب کی متفقہ رائے تھی کہ سانس کی نالی میں پانی چلا گیا ہے۔ معالجین کی سب تدبیریں اُلٹی ہو گئیں اور دوا نے کچھ کام نہ کیا اور چشم کے مُرجھا جانے کا سانحہ ہو کے رہا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اردو ادب کا ہنستا بولتا چمن جان لیوا سکوت اور مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ فرشتہ ء اجل نے اس ادیب سے قلم چھین لیا جس نے اپنی زندگی پرورشِ لوح و قلم کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ ان کے پس ماندگان میں ایک بیوہ، چار بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور ادبی دائرۃ المعارف تھے۔ ان کا وجود پروردگارِ عالم کی رحمت تھا جو تشنگانِ علم کو سیراب کرنے کا موثر ترین وسیلہ ثابت ہوا۔ آہ!یہ خورشید جمال تخلیق کار آلامِ روزگار کے مسموم بگولوں کی زد میں آ کر نظروں سے اوجھل ہو گیا :
اس حادثے کو سُن کے کرے گا کوئی یقیں
سُورج کو ایک جھونکا ہوا کا بُجھا گیا
علم و ادب، فنون لطیفہ، علم بشریات، نفسیات، عمرانیات، لسانیات، سماجیات، ادیانِ عالم، عالمی کلاسیک اور تنقید و تحقیق کا نباض اور رمز آشنا ہمیں دائمی مفارقت دے گیا۔ اپنی پچاس کے قریب وقیع تصانیف اور پانچ سو سے زائد مقالات سے اردو زبان و ادب کی ثروت میں اضافہ کر کے ابد آشنا اسلوب کے حامل اس عظیم ادیب نے لوحِ جہاں پر اپنا دوام ثبت کر دیا اور شہرتِ عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام پر فائز ہوئے۔ ڈاکٹر عبدالحق خان حسر ت کا س گنجوی کی وفات کی خبر سن کرہر آنکھ اشک بار ہے اور اب دِل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے۔
ایک محنتی، ذہین اور جذبۂ مسابقت سے سرشار طالب علم کے طور پر ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی نے تمام تعلیمی امتحانات میں امتیازی حیثیت سے کام یابی حاصل کی۔ ان کے سب اساتذہ اور ہم جماعت طالب علم ان کی قابلیت اور خداداد صلاحیتوں کے معتر ف تھے۔ زمانہ طالب علمی میں انھوں نے کل پاکستان بین الکلیاتی مقابلوں میں شرکت کی اور تقریری مقابلوں میں کئی بار انعام حاصل کیا۔ انھوں نے گورنمنٹ کالج دادو سے بی۔ اے کیا۔ سندھ یونیورسٹی جام شورو سے انھوں نے ایم۔ اے (اردو)، ایم۔ اے (انگریزی)اور پی ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ایل ایل بی کی تعلیم انھوں نے حیدر آباد کالج (حیدر آباد۔ سندھ )سے حاصل کی۔ انھوں نے ملازمت کام آغاز محکمہ ٹیلی فون سے کیا، جہاں اُنھوں نے سترہ برس (۱۹۵۴ تا ۱۹۷۱) خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد انھوں نے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ میں ماہر مضمون اردو کی حیثیت سے ۱۹۷۱تا۱۹۹۶ خدمات انجام دیں۔ جب وہ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے و ہ سینئیر ماہرِ مضمون کے منصب پر فائز تھے۔ انھوں نے متعدد ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمینارز میں شرکت کی۔ پاکستان میں نصاب سازی کے حوالے سے پالیسی ساز اداروں میں ان کی شرکت کو سبہت اہم سمجھا جاتا تھا۔ ان کا شمار پاکستان کے صفِ اول کے قانون دانوں اور ماہرینِ آئین میں ہوتا تھا۔ انھوں نے با ضابطہ وکالت تو نہ کی لیکن شعبہ قانون سے وابستہ ماہرین ان سے اکثر قانونی امور کے بارے میں مشاورت کرتے رہتے تھے۔ تدریس اور تخلیقِ ادب ہی ان کی پہچان تھی۔
ڈاکٹر عبد الحق خان حسرت کاس گنجوی عالمی شہرت کے حامل نامور پاکستانی ماہر تعلیم اور دانشور تھے۔ رسمی اور فاصلاتی تعلیم کے عظیم ماہر کی حیثیت سے انھوں نے دنیا بھر میں اردو زبان کے فروغ کے لیے جو بے مثال جد و جہد کی اس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔ پُوری دنیا میں جہاں جہاں اُردو زبان بولی، پڑھی اور سمجھی جاتی ہے وہاں ان کے کروڑوں مداح موجود ہیں جنھوں نے اس عظیم ماہرِ تعلیم سے اکتسابِ فیض کیا۔ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ میں انھوں نے اردو کے ماہرِ مضمون کی حیثیت سے طویل خدمات انجام دیں۔ تدریسِ اُردو کے لیے ان کے مرتب کیے ہوئے نصابی یونٹ اس وقت دنیا کے کئی ممالک کے بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جا رہے ہیں۔ درس و تدریس اور نصاب سازی میں ان کی اختصاصی مہارت کا ایک عالم معترف تھا۔ پاکستان کی ابتدائی، وسطانی، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی جماعتوں کے لیے انھوں نے جو نصاب مرتب کیا اس سے فروغِ علم وادب کی راہ ہموار ہو گئی۔ جامعات میں اردو تحقیق، تنقید، لسانیات، کلاسیکی ادب، ناول اور افسانہ کے موضوع پر ان کے مقالات کی افادیت کابر ملا اعتر اف کیا گیا۔ اردو میں ایم۔ اے، ایم۔ فل اور پی ایچ۔ ڈی سطح تک کے طلبا و طالبات کے لیے ان کی تحریریں ہمیشہ خضرِ راہ ثابت ہوتی تھیں۔ انھوں نے فلسفہ، عمرانیات، جدید لسانیات، ساختیات، پسِ ساختیات، جدید یت اور ما بعد جدیدیت جیسے اہم موضوعات پر اقتضائے وقت کے مطابق اہم مقالات تحریر کیے جن کے مطالعہ سے اردو ادب کے طلبا میں عصری آگہی پروان چڑھانے میں مدد ملی۔ انھوں نے تاریخِ زبان و ادب، لسانیات، فکشن، کلاسیکی ادب اور دیگر تحقیقی اور تنقیدی موضوعات پر اپنی جامع اور وقیع تصانیف پیش کر کے ارد و ادب کے طلبا کو امدادی کتابوں کی بیساکھیوں سے بے نیاز کر دیا۔ جدید لسانیات کے حوالے سے انھوں نے سوسئیر، رولاں بارتھ، دریدا، مشل فوکو، ژاک لاکاں کے لسانی تصورات کی جس طرح توضیح کی وہ ان کی بصیرت کا ثبوت ہے۔ علامت، نشان اور نشان نما کے بارے میں جب وہ بات کرتے تو ان کے منہ سے پھول جھڑتے۔ اپنی تخلیقی تنقید کے اعجاز سے انھوں نے اردو تنقید کو نئے آفاق سے آشنا کیا۔ اُن کی اس عظیم خدمت کی بنا پر تاریخ ہر دور میں ان کے نام اور فقید المثال کام کی تعظیم کرے گی۔ ایک باکمال مترجم کی حیثیت سے اُنھوں نے ترجمے کو تخلیق کی چاشنی عطا کی اور ترجمہ نگاری میں اپنی مہارت کے اعجاز سے تراجم کی تاثیر کو چار چاند لگا دئیے۔ وہ پا کستان کی تمام علاقائی زبانوں کے علاوہ عربی، فارسی، انگریزی، چینی، ترکی، جرمن اور جاپانی زبانوں پر خلاقانہ دسترس رکھتے تھے۔ ان کی ترجمہ نگاری کو بہت پسندکیا گیا اور اس کاوش کے ذریعے وہ دنیا کی مختلف زبانوں کے ادب اور تہذیبی، ثقافتی، سماجی اور معاشرتی اقدار کو قریب تر لانے میں کام یاب ہو گئے۔ ۱۹۹۷میں جب ان کی سندھی افسانوں کے اُردو تراجم پر مشتمل کتاب ’’ہم لوگ‘‘ شائع ہوئی تو پاکستانی ادبیات سے دلچسپی رکھنے والے با ذوق قارئین نے اس کی بہت پذیرائی کی۔ وہ ترجمے کے معجز نما اثر سے دو مختلف تہذیبوں کو قریب تر لانے کی مقدور بھر کوشش کرتے تھے۔ اس معرکہ آرا کتاب کے اسلوب سے متاثر ہو کر پروفیسر گدا حسین افضل نے اس کتاب کو پنجابی زبان کے قالب میں ڈھالنے کا فیصلہ کیا۔ محترمہ پروفیسر ذکیہ بدر نے ’’ہم لوگ‘‘ کا پشتو زبان میں ترجمہ کرنے کا قصد کیا جب کہ پروفیسرعاشق حسین فائق کہا کرتے تھے کہ ’’ہم لوگ‘‘ میں ترجمہ نگاری کا کرشمہ واقعی دامنِ دِل کھینچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ’’ہم لوگ‘‘ کی اہم تخلیقات کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا اور اس اہم کتاب کو انٹر نیٹ کے ذریعے دیار مغرب کے مکینوں سے متعارف کرایا۔
ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کی زندگی اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی درخشاں مثال ہے۔ ۱۹۳۶میں جب یہ گلاب کھلا تو تو تقدیر نے پہلے ہی برس اس کی پتیوں میں کانٹے چبھو دئیے اور ہر سُو دُکھوں کے جال بچھا دئیے۔ ان کی کتاب زیست کے ابتدائی ابواب کو ابتلا اور آزمائش کی تیز و تند ہواؤں نے ورق ورق کرنے کی کوشش کی مگر ان کی والدہ نے اپنے جگرِ لخت لخت کو تھام کر سمے کے سم کے ثمر اپنے لیے الگ کر لیے اور اپنے ہو نہار فرزند کے سکون، مُسرت اور روشن مستقبل کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ کہتے ہیں تقدیر کے چاک سوزنِ تدبیر سے کبھی رفو نہیں ہو سکتے لیکن عزم و استقلال کے پیکر اپنی تقدیر خود بناتے ہیں۔ ایک سال کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیاتو چرخِ کج رفتار نے ان کی والدہ کو عالمِ شباب میں بیو گی کی چادر اوڑھنے پر مجبور کر دیا۔ اس صابر، باہمت اور پُرعزم خاتون نے اس نو نہال کو آلامِ روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھنے کی کی مقدور بھر کوشش کی۔ قلزمِ ہستی کی ہر موج میں حلقۂ صد کام نہنگ کی سی کیفیت ہے اس میں قطرے کو گہر ہونے کے لیے بڑی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان کی والدہ نے خونِ دِل دے کے اپنے لختِ جگر کی تعلیم و تربیت کی اور اس گلاب کو اس طرح نکھارا کہ اس کی عطر بیزی سے قریۂ جاں معطر ہو گیا۔ طویل مسافت طے کرنے کے بعد اپنی حسرتوں کے چیتھڑے سنبھالے جب اس صابر و شاکر خاتون نے نشیبِ زینۂ ایام پر عصا رکھے نگاہ کی تو ان کا نورِ نظر عملی زندگی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکا تھا۔ اب ماں کا دل باغ باغ ہو گیا اور اس ثمرِ نورس کو رحمتِ خداوندی سمجھ کر سدا اس کے لیے دِل کی گہرائیوں سے دعا کی۔ اپنی زندگی کی کامرانیوں کو وہ اپنی والدہ محترمہ کی دعائے نیم شب کا اعجاز قرار دیتے اور ماں کی خدمت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھتے۔
پنجابی زبان و ادب سے انھیں گہری دلچسپی تھی۔ انھوں نے پنجابی کلاسیکی ادب کا نہایت دلچسپی سے مطالعہ کیا، خاص طور پر وہ سلطان باہو، شاہ حسین۔ بلھے شاہ، میاں محمد بخش اور وارث شاہ کی شاعری کے مداح تھے۔ قیام پاکستان کے بعد پنجابی ادب کے ارتقا پر ان کی گہری نظر تھی۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ جدید پنجابی افسانے کے فکری سوتے پنجابی لوک داستانوں ہی سے پھُوٹتے ہیں۔ وہ ۱۹۵۲تک پنجاب کے مشہور شہر راول پنڈی میں مقیم رہے اور اسی قدیم شہر کے تاریخی مسلم ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس دوران وہ شباب کی حدود میں قدم رکھ چُکے تھے۔ اس عرصے میں انھوں نے جن پنجابی لوک داستانوں کے بارے میں آگہی حاصل کی ان میں راول اور جُگنی، سوہنی اور مہینوال، سسی اور پُنوں، ہیر اور ر انجھا، مرزا اور صاحباں اور سیف الملوک قابلِ ذکر ہیں۔ اپنی اہم سرکاری یا نجی مصروفیات کے سلسلے میں جب بھی وہ راول پنڈی آتے تو اپنی مادر علمی میں ضرور حاضری دیتے اور اپنے کمرۂ جماعت کو دیکھ کر اپنے ہم جماعت طالب علموں کو یاد کرتے تو ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے کرتے ان کی ٓآنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں۔ شدت جذبات سے مغلوب ہو کر وہ یہ شعر ضرور پڑھتے :
اے وادیِ جمیل میرے دل کی دھڑکنیں
آداب کہہ رہی ہیں تیری بارگاہ میں
راول پنڈی میں اپنے قیام کے دوران وہ ادبی محفلوں میں بھی شرکت کرتے۔ اس عرصے میں وہ راول پنڈی کے کئی ممتاز ادیبوں سے متعارف ہوئے جن سے معتبر ربط کا سلسلہ زندگی بھر بر قرار ہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے وفاقی دار الحکومت اسلام آباد، راول پنڈی اور شمالی علاقوں کے جن نابغہ ء روزگار ادیبوں کے ساتھ باہمی خلوص اور اعتماد کی اساس پر ان کے قریبی تعلقات استوار ہو گئے، ان میں نذیر احمد شیخ، شفیق الر حمن، سید ضمیر جعفری، ڈاکٹر نثار احمد قریشی، نور زماں ناوک، محمد محمود احمد، صابر کلوروی، صاحب زادہ رفعت سلطان، کرنل محمد خان، صابر آفاقی، خاطر غزنوی، عطا شاد، غفار بابر، محمد فیروز شاہ، محمد منشایاد، بشیر سیفی، رحیم بخش شاہین، ڈاکٹر محمد ریاض اور منصور قیصر کے نام قابل ذکر ہیں۔ جن دنو ں ’’ہفت کشور‘‘ کے مصنف اور اردو شاعری میں صنف ’’کینٹوز‘‘ کو متعارف کرانے والے ممتاز شاعر کیپٹن (ر)سید جعفر طاہر ریڈیو پاکستان راول پنڈی سے وابستہ تھے اور ر یڈیو پاکستان پر ’’فوجی بھائیوں کا پروگرام‘‘ پیش کرتے تھے انھی دنوں میں ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کا رابطہ ان سے ہوا۔ انھوں نے اس ہونہا ر ادیب کی صلاحیتوں کو سراہا۔ ان کی نظم’’ ایک سو سپاہی‘‘ کو حسرت کاس گنجوی نے بہت پسند کیا۔ اُسی زمانے میں صاحب زادہ رفعت سلطان بہ حیثیت ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر راول پنڈی میں خدمات پر مامور تھے۔ وہ راول پنڈی کی ادبی محفلوں کی روحِ رواں تھے۔ وہ ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کا سگنجوی کی تخلیقی فعالیت کے مداح تھے۔
ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کا س گنجوی ایک کثیر التصانیف ادیب تھے ان کی تصانیف کی مجموعی تعداد پچاس کے قریب ہے۔ ان کی تصانیف کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے جو ان کی مقبولیت کی دلیل ہے۔ ان کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :
راجندر سنگھ بیدی اور ایک چادر میلی سی، خدیجہ مستور بہ حیثیت ناول نگار، عصمت چغتائی اور نفسیاتی ناول، فیض احمد فیض اپنی شاعری کے آئینے میں۔ یہ چاروں وقیع تنقیدی کتب دہلی (بھارت )سے شائع ہوئیں۔ ان کی تنقیدی تصنیف ’’کھرے سکے ‘‘کے عنوان سے اردو اکیڈمی سندھ (کراچی)کے زیرِ اہتمام سال ۲۰۰۹میں شائع ہوئی۔ اس تنقیدی کتاب میں انھوں نے مطالعۂ احوال کا بلند معیار پیشِ نظر ر کھا ہے اور پینسٹھ (۶۵)کے قریب اردو زبان کے نامور ادیبوں کی بلند پایہ تخلیقات کا اسلوبیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ ان کے تنقیدی و تحقیقی مقالات پر مشتمل پانچ کتب قارئینِ ادب میں بہت مقبول ہوئیں۔ ان میں پرکھ، بیسویں صدی میں اُردو ادب، ادب:علمی اور فکری زاویے، مطالعہ اقبال:بانگِ درا کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ، ادبی ورثہ شامل ہیں۔ اقبالیات کے موضوع پر ان کی اہم تصنیف ’’مطالعہ اقبال :بانگِ درا کا تحقیقی اور تنقید ی جائزہ ‘‘ کو فکرِ اقبال کی تفہیم میں سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کتاب کو این میری شمل اور رالف رسل نے منفرد سوچ سے تعبیر کیا اور اسے اقبالیاتی ادب کے اثاثہ کا نام دیا۔ پاکستان کے طول و عرض سے انھیں روزانہ بڑی تعداد میں خط موصول ہوتے۔ وہ ان تمام مکاتیب کا باقاعدگی سے جواب لکھتے۔ ممتاز ادیبوں کے مکاتیب کو انھوں نے ’’مکتوبات معاصرین ‘‘کے عنوان سے دو جلدوں میں شائع کیا۔ ان مکاتیب میں ان یگانۂ روزگار ادیبوں کی شخصیت متکلم دکھائی دیتی ہے۔ ان مکاتب کی تاریخی اہمیت بھی مسلمہ ہے جن کے مطالعہ سے ان ادیبوں کے روزو شب اور مہ و سال کے بارے میں حقیقی شعور و آگہی پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہے۔
عالمی ادبیات بالخصوص فکشن سے ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کا س گنجوی کو گہری دلچسپی تھی۔ عالمی ادب کے نمائندہ افسانہ نگاروں کی اہم تخلیقات کا انھوں نے بڑی دلچسپی سے مطالعہ کیا اور ان سے گہرا اثر قبول کیا۔ انھوں نے عالمی ادب کے جن ممتاز افسانہ نگاروں کی تخلیقات کا تنقیدی اور تجزیاتی انداز میں مطالعہ کیا ان میں ایڈگر ایلن پو، او ہنری، مارک ٹوئن، چیخوف، آسکر وائلڈ، موپساں، کافکا، ارنسٹ ہیمنگوے، رڈ یارڈ کپلنگ، ٹالسٹائے، اگا تھا کرسٹی اور جیمز جوائس کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کا س گنجوی نے اپنے افسانوں میں حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا۔ ان کے افسانوی مجموعے آدھا سورج آدھا سایہ، زخم بنے پھول، محوِ تماشا ہوں، زہر جیسی کڑوی، کو قارئینِ ادب نے بہت پسند کیا۔ ان کے افسانے استحصالی عناصر کے لیے عبرت کے تازیانے سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے افسانے ان کی حوصلہ مندی، خلوص، بے باکی، بصیرت، قوت، مشاہدہ اور باریک بینی کے مظہر ہیں۔ وہ پوشیدہ ہاتھ جنھوں نے دُکھی انسانیت کی زندگی کی تمام رتوں کو بے ثمر کر کے مظلوم طبقے کی آہوں کو بے اثر کر دیا ہے اس کے جبر اور مکر کا پردہ فاش کر کے اس کے کریہہ چہرے سے نقاب اٹھایا گیا ہے۔ وحدت تاثر کے حامل ان افسانوں کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر ان تما م سر بستہ رازوں کی گرہ کشائی کی گئی ہے جن کو جاننے کے لیے قاری بے چین رہتا ہے۔ ان کے مقبول افسانوی مجموعوں میں یہی خوبی موجود ہے۔ وہ جس محفل میں جاتے ان کی گل افشانیِ گفتار سے وہ محفل کِشتِ زعفران میں بدل جاتی۔ ان کی شگفتہ بیانی کا اظہار ان کی انشائی تحریروں میں ہوتا ہے۔ ان کے انشائیوں پر مشتمل کتاب ’’شگوفے ‘‘جو ۱۹۹۵میں شائع ہوئی، انشائیہ نگاری کا حسین و دل کش معیار پیش کرتی ہے۔ ترتیب و تدوین میں بھی انھوں نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ صبیح رحمانی کے بارے میں ان کی مرتبہ کتاب ’’جادۂ رحمت کا مسافر ‘‘ترتیب و تدوین کا ارفع معیار پیش کرتی ہے۔
اردو ناول کے فروغ میں ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی نے بڑی دلچسپی لی۔ ان کے جو ناول قارئین میں بہت مقبول ہوئے ان میں نغمۂ محبت، پیار کی راہیں، بے شرم، دل کے داغ جلے، مفت ہوئے بد نام، بہاریں اُداس ہیں، خار زاروں میں، شامل ہیں۔ ان کے نا ول اور افسا نے اس قدر مقبول ہوئے کہ قارئین ادب ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ان کے مطالعہ میں مصروف ہو جا تے تھے۔ ان کے اسلوب کے مداح ان کی تحریروں کے بارے میں اپنے تاثرات اخبارات کو ارسال کر تے تھے۔ قارئین ادب کی رائے پڑھ کر وہ اس کا مدلل جواب دیتے تھے۔ کسی بھی ادیب کے اسلوب کے بارے میں اگر قارئین چپ سادھ لیں تو یہ با ت اس ادیب کے اسلو ب کے ارتقا کے لیے ایک برا شگون سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عبد الحق خان حسرت کاسگنجوی کے ناول پڑھ کر یہ تاثر قو ی ہو جاتا ہے کہ انھوں نے عام آدمی کی زند گی کے معمولی واقعات کو بھی اس باریک بینی اور دلکشی سے اپنے اسلوب میں جگہ دی ہے کہ قا ری کے لیے وہ غیر معمولی اہمیت کے حامل ثابت ہوتے ہیں اور وہ ان میں گہری دلچسپی لینے لگتا ہے۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے انھوں نے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔ وہ تیشۂ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے کے آرزو مند تھے۔ انسانیت کی توہین، تذلیل، تضحیک اور بے توقیری کرنے والے درندوں سے انھیں شدید نفرت تھی۔ ہر ملاقاتی کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے لبریز سلوک کرنا ان کا شیوہ تھا۔ ان کے ہاں جو بھی آتا وہ اس کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کر دیتے اور ایک بردبار اور وضع دار میزبان کی حیثیت سے اس کی خاطر مدارت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے۔ پُر تکلف ضیافتوں کی صورت میں ان کی مہمان نوازی ہر ملاقاتی کا دل موہ لیتی تھی۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ کچھ بِن بلائے اجنبی مہمان بھی ان کے ہاں کسی دیرینہ آشنا کے حوالے سے وارد ہوتے لیکن یہ ان کے لیے بھی نہ صرف اپنے مہمان خانے کے بل کہ اپنے دِل کے دروازے بھی ہمیشہ کھلے رکھتے۔ ایسے مہمانوں کی خاطر تواضع کرنا بڑے دِ ل گُردے کا کام ہے مگر ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کے اہلِ خانہ ہمیشہ دل پر ہاتھ رکھ کر اور طبیعت پر جبر کر کے ایثار پر مبنی مہمان نوازی کی اِس روایت کو بر قرار رکھتے اور مہمان کی خدمت کو اپنا فرض اولین قرار دیتے تھے۔ میزبانی کرتے وقت ان کی دریا دلی گھر کے میزانیے کو ذرا سی آب جُو میں بدل دیتی مگر وہ اپنی وضع ہر گز نہ چھوڑتے اور خیالِ خاطرِ احباب کو اس لیے مقدم سمجھتے کہ کہیں کسی آبگینے کو ٹھیس نہ لگ جائے۔ جب اس قسم کا کوئی مہمان رخصت ہونے لگتا تو ان بیتے ہوئے حسین لمحات اور خوان نعمت کے ذائقوں کو یاد کر کے اس کا دل بھر آتا لیکن اسے کیا معلوم کہ پُر نم آنکھوں سے اسے خیرباد کہنے والے فرشتہ صفت اور درویش منش میزبان کے ساتھ وہ ایسا ہاتھ کر کے جا رہا ہے کہ اس کے چند روزہ قیام کے بعد میزبان کی جیب کی تہی دامنی کے چاک رفو کرنے میں کئی ماہ لگ جائیں گے۔ ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کی زندگی میں اس قسم کے واقعات معمول کا حصہ تھے اور وہ ان سے کبھی دِل بُرا نہ کرتے۔
ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کا شباب بے داغ رہا لیکن آخر یہ شاہین زیرِ دام آ ہی گیا۔ ایک نیک سیرت، خوش اطوار اور با کردار تعلیم یافتہ نوجوان لڑکی ان کے دل میں بس گئی۔ دونوں ایک دوسرے کو ٹُوٹ کر چاہتے تھے اور ایک دوسرے کے کردار کی عظمت کے دل سے معترف تھے۔ اللہ کریم نے اس لڑکی کو مشرقی تہذیب و شائستگی، حسن سیرت اور حسن صورت کی فراواں دولت سے متمتع کیا تھا۔ دل کے افسانے نگاہوں کی زباں تک پہنچ گئے اور پھر نو عمر بچوں کے والدین بھی ان سے آگاہ ہو گئے، یہ لڑکی ان کے چچا کی بیٹی تھی۔ والدین کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کہ نہ صرف باہمی احترام اور خلوص سے معمور دو عزیز یک جان دو قالب ہو گئے بل کہ دو حقیقی بھائیوں کی اولاد اور قریب آ گئی۔ سال ۱۹۶۰میں ان کی شادی اپنے چچا کی اسی بیٹی سے ہوئی۔ ان کے والدین نے باہمی افہام و تفہیم اور بچوں کی رضامندی سے یہ شادی ترتیب دی جو بہت کامیاب رہی۔ اس سلیقہ شعار اور وفادار خاتون نے اپنے سسرال میں آنے کے بعد صبر و استغنا اور ایثار و مروت کے اعجاز سے اپنے گھر کو جنت کا نمونہ بنا دیا۔ ان کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، جن کی تربیت پر والد اور والدہ نے بہت توجہ دی۔ ان کے دو بیٹے میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور بیٹیاں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے عملی زندگی میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ سال ۱۹۹۸میں ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی نے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ مل کر فریضۂ حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیے ارض مقدس روانہ ہوئے۔ حج سے واپسی کے بعد ان کے فکر و نظر کی کایا پلٹ گئی۔ توحیداور رسالت سے والہانہ محبت اور روحانیت ان کے ریشے ریشے میں سما گئی۔ انھوں نے اردو ادب میں حمد نگاری، نعت گوئی، سیرت نگاری اور حج کے سفرناموں پر تحقیقی کام کیا۔ وہ اپنے حج کے سفر کی یادداشتوں کو کتابی صورت میں لانے کے آرزو مند تھے لیکن فرشتۂ اجل نے مہلت نہ دی۔ حیف صد حیف یہ مسودہ تشنۂ تکمیل رہ گیا اور قارئینِ ادب ایک عظیم اور مبار ک سفر نامے سے محروم رہ گئے۔
وطن، اہلِ وطن، ملتِ اسلامیہ اور پُوری انسانیت کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کی شخصیت کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز سمجھا جاتا ہے۔ ان کا خلوص اور دردمندی دیکھ کر یہ احساس ہوتا تھا کہ سارے جہاں کا درد ان کے دل و جگر میں سما گیا ہے۔ مہینے میں ایک بار وہ مقامی سول ہسپتال کے او پی ڈی میں چلے جاتے اور نادار مریضوں کی بیمار پُرسی کر تے اور ان کو پھول، پھل اور کچھ رقم دیتے۔ دکھی انسانیت کی خدمت کرنے والی فلاحی تنظیموں کی وہ دل کھول کر مد د کرتے تھے۔ مفلس و نادار فاقہ کش انسانوں کے ساتھ انھوں نے جو درد کا رشتہ قائم کیا، اسے ہمیشہ پروان چڑھایا۔ آلامِ روزگار کے مہیب پاٹوں میں پسنے والے قسمت سے محروم پس ماندہ طبقوں سے انھوں نے جو عہدِ وفا استوار کیا اسے علاجِ گردشِ لیل و نہار سمجھتے ہوئے سدا حرزِ جاں بنایا۔ وہ تعلیم نسواں کے پر جوش حامی تھے اس مقصد کے لیے انھوں نے چائلڈ لیبر کی بھینٹ چڑھنے والی کم سن بچیوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے انتھک جد و جہد کی اور ان کو تعلیم حاصل کرنے پر مائل کیا۔ ان غریب بچیوں کے تمام تعلیمی اخراجات وہ خود ادا کرتے تھے۔ ان کے لیے کتب اور سکول یونیفارم کی فراہمی بھی انھوں نے از خود اپنے ذمے لے رکھی تھی۔ یتیم، مسکین اور مفلس و قلاش بچیوں کی شادی کے لیے انھوں نے کئی بار جہیز کے لیے درکار قیمتی اشیا فراہم کیں مگر اس بات کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی امداد سے مفلوک الحال بچیوں کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ عملی زندگی میں ہر قسم کی عصبیت اور منافرت سے وہ دور رہے۔ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور محب ِ وطن پاکستانی تھے اور ان کے لبوں پر ایک ہی دعا رہتی کہ اے نگارِ وطن تو سلامت رہے۔ وہ چاہتے تھے کہ ارضِ وطن پر ایسی فصلِ گُل اُترے جسے اندیشۂ زوال نہ ہو۔ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے اپنی دنیا میں مگن اس گوشہ نشین ادیب نے معاشرتی زندگی میں جو گراں قدر تعلیمی، اصلاحی، فلاحی اور قومی خدمات انجام دیں ان کا عدم اعتراف نہ صرف احسان فراموشی ہے بل کہ اسے ناشکری پر محمول کیا جائے گا۔ ان کی یہ گراں قدر خدمات تاریخ کے اور اق میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ ان کے بارِ احسان سے ان کے حضور ہر پاکستانی کی گردن خم رہے گی۔
تخلیق ادب در اصل تعمیرِ سیرت و کردار ا کا ایک موقر و معتبر حوالہ ہے۔ ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کا س گنجوی نے مختلف اصناف ادب میں پنے اشہبِ قلم کی خوب جولانیاں دکھائیں اور اپنی خداد اد علمی و ادبی صلاحیتوں اور تخلیقی بصیرت کا لوہا منوایا۔ انھوں نے ہر جگہ جہانِ دیگر کا سماں سامنے لانے کی کوشش کی اور اس میں بڑی حد تک کام یاب رہے۔ ان کے اسلوب میں رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے اس طرح سمٹ آئے ہیں کہ اس منفرد اسلوب میں ایک دھنک رنگ کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ ان کی تحریروں کی روانی اور رعنائی قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔ ان کے اسلوب میں کیف و مستی کا ایک سیلِ رواں ہے جو پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لو ہا منوا لیتا ہے۔ انھوں نے جس صِنفِ ادب میں بھی طبع آزمائی کی متعدد رنگینیاں اور سحر آفرینیاں بہار و کیف کے فراواں مناظر کے ساتھ وہاں موجود ہیں لیکن ان کی مکتوب نگاری کی بات ہی نرالی ہے۔ وہ اپنے مکاتیب کو قلب و روح کی گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے مزین کرنے کا فن جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی مکتوب نگاری کی ہر طرف دھوم مچ گئی۔ ان کے مداح ان کے مکاتیب کا شدت سے انتظار کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے احباب کی شخصیت کے ورقِ نا خواندہ پر جس انداز سے نگاہ ڈالی ہے، و ہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان مکاتیب کے مطالعہ سے مکتوب نگار کے تخلیقی عمل کے داخلی اور خارجی محرکات کے بارے میں مثبت شعور و آگہی ملتی ہے۔ ان کے خطوط کے مطالعہ سے وجدان کی لہر قوی تر ہوتی چلی جاتی ہے اور قاری ان کی مسحور کن مرقع نگاری کی گرفت میں آ جاتا ہے۔ یہ خطوط مسرت کا ایک ایسا سر چشمہ ہیں جس کے وسیلے سے تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں حقیقی شعور کو مہمیز کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کے عزیز اور مداح پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی جو ممتاز پنجابی صوفی شاعر بلھے شاہ کی دھرتی اور پنجاب کے شہر قصور میں مقیم ہیں، ان مکاتیب کے شیدائی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی نے انھیں جو خطو ط ارسال کیے وہ انھوں نے سکین کر کے انٹر نیٹ پر پہنچا دئیے ہیں۔ اب جس کا بھی جی چاہے و ہ ان مکاتیب کا درج ذیل لنک پر مطالعہ کر سکتا ہے :
www.tafrehmella.com/thread/kuch-ahbab-ke-khatoot.278237/
http://online.fliphtml5.com/luxu/hgeo/#p=1
انٹر نیٹ پریہ مکاتیب دیکھ کر دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ اردو زبان کے کسی محنتی محقق کو یہ توفیق ہو کہ وہ اس کام کو مزید آگے بڑھائے اور ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کے مشاہیر کے نام لکھے گئے تمام مکاتیب کو یک جا کر کے ان کی کتابی صورت اور برقی کتاب کی صورت میں اشاعت پر توجہ دے۔ آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ کارواں کے دل سے احساسِ زیاں عنقا ہو چکا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مشاہیرِ ادب کے بے شمار خطوط ملخ و مُور کے جبڑوں میں چلے گئے مگر کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔ پس ماندہ علاقوں اور بڑے شہروں کے مضافات میں مقیم پبلک ریلیشننگ سے ناآشنا کئی گم نام اور خاک نشیں تخلیق کاروں کی تخلیقات کے مسودے ابلقِ ایام کے سُموں کی گرد میں اس طرح اوجھل ہوئے کہ اب ان کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔ ان یادگارِ زمانہ لوگوں کو سہل نہیں سمجھنا چاہیے، ایسے لوگ بلاشبہ نایاب ہوتے ہیں۔
نوآموز محقق جب اپنے تحقیقی کا م کا آغاز کر تے ہیں تو ان کی راہ میں متعدد سخت مقام آتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کے عظیم الشان ذاتی کتب خا نے میں، ادب، فلسفہ، مذہب، نفسیات، تاریخ، سائنس اور عالمی کلا سیک کی دس ہزار سے زائد نا در اور نا یا ب کتب مو جود ہیں، جب کو ئی نو آموز محقق ان سے بنیا دی مآخذ کے حصول کے سلسلے میں رابطہ کرتا تو وہ اپنے ذا تی کتب خانے سے استفادہ کی اجازت دے دیتے۔ ملک کے دور دراز علاقوں میں مقیم طلبا و طالبات کووہ ان کے مطلوبہ مآخذ کی عکسی نقول کرا کے بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک ارسال کرتے۔ تحقیق و تنقید کی وادیِ پُر خار کے آبلہ پا مسافروں کے لیے وہ ایسے خضر راہ ثا بت ہو تے جس نے کبھی صلے یا معاوضے کی تمنا نہ رکھی بل کہ صرف دعا کی استدعا کی۔ ادبی گروہ بندی سے وہ ہمیشہ دور رہے وہ جانتے تھے کہ ذاتی اختلافات اور دھڑے بندی ایک منفی طرزِ عمل ہے جو تخلیقی فعالیت کی راہ میں سدِ سکندری بن کر حائل ہو جاتی ہے۔ وہ علی گڑھ تحریک سے بہت متاثر تھے، ان کا کہنا تھا کہ مغلوں کے زوال اور برطانوی استعمار کے بر صغیر میں قدم جمانے کے بعد یہاں کے مسلمانوں کی فلاح کے لیے علی گڑھ تحریک نے جو کارہائے نمایاں انجام دئیے وہ تاریخ کا ایک اہم حوالہ ہیں۔ علی گڑھ تحریک نے جمود کا خاتمہ کیا اور مسلمانوں کے لیے جدید سائنسی تعلیم کے دروازے کھو ل دئیے۔ انھوں نے رومانوی تحریک، ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق سے وابستہ ادیبوں سے قریبی تعلقات برقرار رکھے مگر خود کسی ادبی تنظیم میں شامل نہ ہوئے۔ وہ حریتِ فکر کے ایسے مجاہد تھے جنھوں نے حریتِ ضمیر سے جینے کے لیے ہمیشہ اسوۂ شبیرؓ ہی کو پیش نظر رکھا۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے عروج کے موجودہ زمانے میں زندگی کی برق رفتاریوں نے حالا ت کی کایا پلٹ دی ہے۔ ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی مستحکم شخصیت کے مالک اور عصری آگہی سے متمتع زیرک اور معاملہ فہم تخلیق کار تھے۔ ہوا کا رُخ پہچانتے ہوئے اُنھوں نے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں اپنے لیے ایک واضح لائحۂ عمل مرتب کیا۔ انھوں نے طرزِ کہن سے کوئی واسطہ نہ رکھا بل کہ آئینِ نو کا پر تپاک خیر مقدم کیا۔ وہ افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے جہانِ تازہ کی جانب اپنا سفر جاری رکھنے پر اصرار کرتے تھے۔ ان کے منفرد اسلوب میں ہر لحظہ نیا طُور نئی برقِ تجلی کی جو جاذبِ نظر کیفیت ہے اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا مرحلۂ شوق ابھی طے نہیں ہوا۔ ان کے اسلوب کا اہم وصف یہ ہے کہ وہ خون بن کے رگِ سنگ میں اُتر جانے کی صلاحیت سے متمتع تھے اور قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل دکھا کر وہ قارئین کو حیرت زدہ کر دیتے تھے۔ وہ نوجوان طلبا و طالبات کو اکثر یہ نصیحت کرتے تھے کہ ا گر وہ دل و نگاہ کی شدید تمنا، سعیِ پیہم اور عزمِ صمیم کو رو بہ عمل لانے میں کام یاب ہو جائیں تو ہ نا ممکن کو بھی ممکن بنا سکتے ہیں۔ وہ کمپیوٹر سے خوب واقفیت رکھتے تھے اور اُنھیں انٹر نیٹ میں گہری دلچسپی تھی۔ سائبر کتب خانوں، برقی ڈاک، برقی کتب اور دیگر جدید مواصلات کو وہ اکیسویں صدی کے ایسے کرشمات سے تعبیر کرتے تھے جن کے اعجاز سے تقدیرِ جہاں کے عقدوں کی گرہ کشائی کے امکانات روشن تر ہو گئے ہیں۔ دنیا بھر کی علمی و ادبی ویب سائٹس سے وہ مستفید ہوتے اور اپنے احباب کو بھی ان کے افادی پہلو سے آگاہ رکھتے۔ وہ نوجوانوں کو مشورہ دیتے کہ وہ علامہ اقبال سائبر کتب خانے کے علمی ذخائر کی خوشی چینی میں ہر گز تامل نہ کریں۔ دنیا کے اس جدید اور عظیم سائبر کتب خانے نے تشنگانِ علم کو روایتی کتب خانوں سے بے نیاز کر دیا ہے۔ سائبر کتب خانوں اور برقی کتب کی اہمیت و افادیت کے وہ معترف تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی تصانیف کی سکین شدہ نقول اگر پی ڈی ایف کی صورت میں برقی کتب کے طور پر انٹر نیٹ پر پیش کی جا سکیں تو ان سے دنیا بھر میں کروڑوں طلبا و طالبات مستفید ہو سکتے ہیں۔ وہ اس بات پر مطمئن تھے کہ سائنس کی ترقی نے فاصلوں کی طنابیں کھینچ دی ہیں۔ فاصلے اس قدر سمٹ گئے ہیں کہ اقوامِ عالم ایک دوسرے کے قریب آ گئی ہیں اور پُوری دنیا نے ایک گلوبل ویلج کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ای میل اور ایس ایم ایس نے تو ہتھیلی پر سرسوں جما دی ہے پلک جھپکنے سے بھی پہلے مکتوب نگار کا پیغام مکتوب الیہ تک پہنچ جاتا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب ڈاک کا قدیم نظام اور ڈاک کے ہرکاروں کی باتیں اسی طرح تاریخ کے طوماروں میں دب جائیں گی جس طرح تار بابو اور تار گھر اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ ڈاکٹر عبد الحق خان حسرت کاس گنجوی کے ساتھ دنیا کے جن ممتاز ادیبوں نے جدید ذرائع مواصلات سے زندگی بھر معتبر ربط بر قرار رکھا ان میں رالف رسل، گبریل گارسیا مارکیز، ڈاکٹر این میری شمل، ژاک دریدا، گنٹر گراس، رشید حسن خان، مغنی تبسم، شہر یاراور ڈاکٹر نثار احمد قریشی کے نام شامل ہیں۔
ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی معا صر ادب کے نباض تھے وہ اردو کے تمام اہم ادبی مجلات و جرائد ان کے ہاں باقاعدگی سے آتے تھے۔ وہ اردو زبان کے ان رجحان ساز ادبی مجلات میں شائع ہونے والی تخلیقات پر اپنی وقیع رائے مدیر کے نا م ارسال کرتے تھے۔ ان کی بے لاگ رائے پڑھ کر تخلیق کا ر خوش اسلوبی سے روشنی کا سفر جاری رکھتے۔ پاکستان کے ممتاز ادبی مجلات کے مدیر ان کی تخلیقات اور تجزیاتی آرا کو اپنے ادبی مجلات شامل اشاعت کرنا اپنے لیے لائق صد افتخار اور باعث اعزاز خیال کرتے تھے۔ دنیا دائم آباد رہے گی، تخلیقِ ادب کی روایت بھی اسی طرح پروان چڑھتی رہے گی اور علمی و ادبی مجلات کی باقاعدہ اشاعت کا سلسلہ بھی جاری رہے گا لیکن اب قارئینِ ادب کی نگاہیں اُ ن زندہ الفاظ کے لیے تر س جائیں گی جو ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کے ابد آشنا اسلوب کو زر نگار بنا دیتے تھے۔ اسی کا نام تو تقدیر ہے جو ہر لمحہ اور ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑ ا دیتی ہے۔ ہمارے رفتگاں تو اپنا عرصۂ حیات پورا کرنے کے بعد زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار جاتے ہیں لیکن جاتے وقت اپنی زندگی کی تمام یادیں اپنے احباب کے دلوں میں چھوڑ جاتے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی اپنے مداحوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ فرشتۂ اجل نے اس ساز کو توڑ دیا جو دل کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہو کر قلب اور روح کی ا تھاہ گہرائیوں میں اُتر کر قارئینِ ادب کو مہر و وفا کی مدھر لے سے مسحور کرنے پر قادر تھا۔ شاید موت کو اس بات کا ادراک نہیں کہ ساز تو خاموش ہو جاتے ہیں لیکن ٹوٹنے سے پہلے ساز سے جو دھُن فضا میں بکھر جاتی ہے اور فضا جس آہنگ سے معمور ہو تی ہے وہ ہمیشہ کے لیے فضاؤں میں بکھر جاتی ہے۔ یہ دھُن ابد تک کانوں میں رس گھولتی رہتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کی یادیں لوحِ دِل پر ثبت رہیں گی اور ان کے خلوص اور بے لوث محبت سے دامنِ دِل معطر رہے گا۔ انھوں نے اپنی زندگی کے ساز پر انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی جو مسحور کُن دھُن چھیڑی وہ ابد تک فضاؤں میں گونجتی رہے گی۔ قلب و نظر کو مد ہو ش کرنے والی اس دھُن کی باز گشت لمحوں تک محدود نہیں ہو گی بل کہ کئی صدیوں تک چشمِ بینا اس کے لامحدود اثرات دیکھے گی اور یہ مدھر آواز کانوں میں رس گھولتی رہے گی۔
پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تیری یادیں
جس سمت نظر اُٹھی آواز تیری آئی
٭٭٭
عبداللہ حسین:قدح قدح تری یادیں ، سبو سبو ترا غم
چار جولائی 2015 ہفتہ کے دن اجل کے ہاتھ میں کاتبِ تقدیر نے جو پروانہ دیا تھا اس میں عبداللہ حسین کا نام بھی رقم تھا۔ عبداللہ حسین کے نہ ہونے کی ہونی پر بزمِ ادب سے وابستہ ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار ہے۔ خون کے سرطان کے عارضہ میں مبتلا اس صابر و شاکر ادیب نے سدا قناعت و استغنا کے دامنوں میں اپنے آنسو چھپائے رکھے اور کبھی اپنے غم کا بھید نہ کھولا۔ معاشرتی اور سماجی زندگی کے بہیمانہ نظام کے خلا ف دبنگ لہجے میں بات کرنے والا ایسا حساس اور با کمال تخلیق کار اب ملکوں ملکوں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ اس روز ڈیفنس کالونی، لاہور کا پورا ماحول اپنے ایک مکین کی دائمی مفارقت کے غم میں سائیں سائیں کرتا محسوس ہوتا تھا۔ زندگی کی حقیقی کہانیاں سنانے والا تخلیق کار اپنی زندگی کی کہانی کی آخری سطور رقم نہ کر سکا اور خاموشی سے زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔ فرشتۂ اجل نے اس تخلیق کار سے قلم چھین لیا جس نے پیہم عذابِ در بہ دری بر داشت کرنے والے قسمت سے محروم مظلوم اور بے بس و لاچار انسانوں کے مصائب و آلام کو اپنے تخلیقی عمل کی اساس بنایا۔ مظلوم انسانیت جو جنگوں کی زخم خوردہ تھی ان کے زخموں پر الفاظ کا مرہم رکھ کر ان زخموں کے اندمال کی صورت تلاش کی۔ اردو فکشن کو عالمی ادب کے پہلو بہ پہلو لانے کی انتھک جد و جہد کو شعار بنانے والا زیرک، فعال اور مستعد ادیب گلزارِ ہست و بُود سے دامن جھاڑ کر رخصت ہو گیا۔ معاشرتی زندگی کے تضادات، ارتعاشات اور حالات و واقعات کا نباض ہماری بزمِ وفاسے ہمیشہ کے لیے اُٹھ گیا۔ عملی زندگی میں شائستگی، سنجیدگی، خلوص و مروت، وفا و دردمندی، اخلاق و اخلاص اور معصومیت کا ایک پیکر اپنے لاکھوں مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر اپنے ہم زباں رفیقوں سے اس قدر دور اپنی بستی بسانے چلا گیا کہ اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی۔ مصلحت وقت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جبر کے ہر انداز کو مسترد کر کے حریتِ فکر کا علم بلند رکھنے والا جری ادیب اب ہمارے درمیان موجود نہیں، اب دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے۔ ان کے پس ماندگان میں ایک بیوہ، ایک بیٹی اور ایک بیٹا شامل ہیں۔ عبداللہ حسین(محمد خان) نے14۔ اگست 1929کوراول پنڈی میں گجرات کے ایک چھوٹے کاشت کار کے گھر جنم لیا۔ اس زمانے میں عبداللہ حسین کے والد ایکسائز انسپکٹر کی حیثیت سے راول پنڈی شہر میں تعینات تھے۔ عبداللہ حسین ان کی پانچویں بیگم کے بطن سے پیدا ہوئے۔ عبداللہ حسین کی عمر ابھی چھے ماہ تھی کہ ان کی والدہ نے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ ان کے والد نے اپنے اس ہو نہار بچے کی تعلیم و تربیت پر اپنی توجہ مرکوز کر دی۔ جب عبداللہ حسین کی عمر پانچ سال ہوئی تو وہ اپنے والد کے ہمراہ اپنے آبائی شہر گجرات منتقل ہو گئے۔ دریائے چناب کے کنارے پر آباد عالمی شہرت یافتہ لوک داستان سوہنی اور مہینوال کے رومان کے امین اس قدیم اور تاریخی شہر کی مٹی سے انھیں بہت محبت تھی۔ یہ گجرات کی مٹی کا اثر تھا کہ عبداللہ حسین کو بچپن ہی سے کہانیوں اور لوک داستانوں سے گہری دلچسپی تھی۔ انھوں نے اسی شہر میں اپنے تعلیمی مدارج طے کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ پاکستان کے ممتاز تعلیمی ادارے زمیندار کالج، گجرات سے 1952میں بی۔ ایس سی کرنے کے بعد دلمیہ سیمنٹ فیکٹری ڈنڈوت پہنچے جہاں اپرنٹس کیمسٹ کی حیثیت سے ایک سال خدمات انجام دیں۔ 1954میں وہ کیمیکل انجینئیرنگ میں ڈپلومہ حاصل کرنے کی خاطر کینیڈا چلے گئے۔ 1956 میں عبداللہ حسین نے داؤد خیل(میاں والی) میں واقع میپل لیف سیمنٹ فیکٹری میں کیمسٹ کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ اگلے برس ان کے شفیق والد ان کا انتقال ہو گیا۔ عبداللہ حسین کی زندگی کا یہ عرصہ ان کے لیے مصائب و آلام کا ایک لرزہ خیز اور اعصاب شکن دور بن گیا۔ والد کی وفات کے صدمے سے نڈھال پچیس سال کے اس نوجوان نے داؤد خیل جیسے دُور اُفتادہ شہر کی سیمنٹ فیکٹری میں ملازمت کے عرصے میں جان لیوا تنہائیوں سے سمجھوتہ کر لیا اور اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈال کر زندگی کا سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا لیکن اس کا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا گیا اور ہجومِ غم اوریاس و ہراس کے لرزہ خیز ماحول میں وہ دِ ل کو سنبھالنے کی کوششوں میں کام یاب نہ ہو سکا اور اس کی روح زخم زخم اور دِل کِرچی کِرچی ہو گیا۔ شدید ذہنی دباؤ اور اعصابی تناؤ نے اسے اس قدر مضمحل کر دیا کہ اسے علاج کے لیے معالج کے پاس لے جانا پڑا۔ جلد ہی عبداللہ حسین نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ اس دھرتی کے سب سہارے وقت گزرنے ساتھ ساتھ خیال و خواب اور سراب ثابت ہوتے ہیں۔ اس عالمِ آب و گِل میں یہ سب سہارے محض تجارتی نوعیت ہیں ، انسان کا سارا بوجھ اس کی اپنی ٹانگیں ہی سہارتی ہیں۔ داؤد خیل کی تنہائیوں میں جب شام الم ڈھلتی تو درد کی ہو ا چلنے لگتی۔ راتوں کو دیر گئے تک جاگنے والے اور دکھوں کے کالے کٹھن پہاڑ اپنے سر پرجھیلنے والے اس نوجوان نے تنہائیوں اور سمے کے سم کے ثمر کے مسموم اثرات سے نجات حاصل کرنے کی خاطر قلم و قرطاس کو تزکیۂ نفس کا وسیلہ بنایا۔ داؤد خیل میں قیام کے دوران جو کچھ اس کے دل پر گزرتی اس کو آلامِ روزگار سے فگار اپنی اُنگلیوں میں قلم تھام کر زیب قرطاس کر کے وہ تنہائیوں کے مسموم اثرات سے نکلنے کی سعی میں مصروف رہتا۔ عبداللہ حسین نے اپنے ناول ’’اُداس نسلیں ‘‘کا آغاز داؤد خیل سے کیا تھا۔ اس ناول کو عبداللہ حسین نے پانچ برس(1956-1961) میں مکمل کیا اور یہ ناول پہلی بار 1963میں نیا ادارہ(لاہور) کے زیرِ اہتمام شائع ہوا۔ اس ناول کو دنیا بھر کے قارئینِ ادب کی طرف سے بہت پذیرائی ملی اور ہر طرف اس کے اسلوب بیان کا غلغلہ بلند ہوا اور عبداللہ حسین کی شہرت اور مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ بہترین اسلوب کی بنا پر’’اداس نسلیں ‘‘ کا شمار اردو ادب کے زندۂ جاوید ناولوں میں ہوتا ہے۔ عبداللہ حسین کے ناول ’’اداس نسلیں ‘‘پر انھیں 1963میں پاکستان کے ممتاز ادبی انعام’’ آدم جی ادبی ایوارڈ ‘‘سے نوازا گیا۔ اپنے ناول’’اداس نسلیں ‘‘کا انگریزی زبان میں ترجمہ عبداللہ حسین نے خود کیا جو انگریزی زبان پر ان کی خلاقانہ دسترس کا ثبوت ہے۔ اس ترجمے کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ اس میں مصنف نے ترجمے میں تخلیق کی چاشنی سے حسن پیدا کیا ہے جس سے قاری گہرا اثر قبول کرتا ہے۔ اردو زبان کے اس اہم اور مقبول ناول ’’اداس نسلیں ‘‘ کا یہ تر جمہ’’The weary Generations‘‘کے نام سے 1999میں فرانس، برطانیہ اور بھارت سے شائع ہوا۔ عالمی سطح پر اس ترجمے کو جو پذیرائی نصیب ہوئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ 1959کے اوائل میں کو لمبو پلان فیلو شپ پر کیمیکل انجینئیرنگ میں ڈپلوما کی تعلیم کے سلسلے میں عبداللہ حسین کینیڈا پہنچے۔ یہاں میک ماسٹر یونیورسٹی ہمیلٹمن آنٹیریو سے چودہ ماہ کا ڈپلومہ حاصل کیا۔ 1960میں واپس آ کر انھوں نے میپل لیف سیمنٹ داؤدخیل میں سینئیر کیمسٹ کے عہدے پر ترقی پائی۔ 1965میں عبداللہ حسین نے فاروقیہ سیمنٹ فیکٹری ٹیکسلا میں چیف کیمسٹ کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی لیکن جلد ہی وہ برطانیہ چلے گئے۔ 1967میں انھوں نے کول بورڈ بر منگھم (برطانیہ)میں اپرنٹس کیمسٹ کی حیثیت سے کام کیا۔ دنیا کی سیرو سیاحت کرنا ان کا دیرینہ خواب تھا اس لیے وہ اس سفر پر بہت مطمئن تھے۔ کینیڈا میں قیام کے دوران عبداللہ حسین کو بڑے کتب خانوں میں موجود عالمی کلاسیک کے مطالعہ کے مواقع ملے اور اس طرح انھیں نئے ادبی رجحانات سے آگاہی ملی۔ نامور امریکی ناول نگار اور افسانہ نگار ارنسٹ ہیمنگوے (Earnest Hemingway,B-21.7.1899,D-2-7-1961)سے ملنے کا موقع ملا۔ سال 1954میں ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے والے اس امریکی ادیب نے سات ناول اور چھے افسانوی مجموعے لکھ کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ عالمی شہرت کے حامل اس رجحان ساز امریکی ادیب کے منفرد اسلوب نے بیسویں صدی میں فکشن کے ادب پر دور رس اثرات مرتب کیے یہی وجہ ہے کہ اس کی اہم تصانیف کو امریکہ میں کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ عبداللہ حسین نے ارنسٹ ہیمنگوے کی تمام اہم تصانیف کا عمیق مطالعہ کیا بالخصوص 1952میں شائع ہونے والی اس کی تصنیف ’’The Old man and the Sea ‘‘عبداللہ حسین کو بہت پسند تھی۔ ارنسٹ ہیمنگوے کی اس معرکہ آرا تصنیف پر اُسے فکشن کے پو لٹزر انعام (Pulitzer Prize for Fiction)سے نوازا گیا۔ 1961 میں جب ارنسٹ ہیمنگوے نے امریکہ میں خود کشی کا ارتکاب کیا تو عبداللہ حسین کو اس سانحہ پر دلی صدمہ ہوا۔ کینیڈا سے عبداللہ حسین برطانیہ پہنچے اور برطانوی شہریت حاصل کرنے کے بعد یہاں طویل قیام کیا۔ اپنے قیام لندن کے عرصے میں انھوں نے ایک ذاتی مے خانہ (Off License)چلایا جہاں لندن کے رِند، ساقی، مے، خُم، پیمانہ اور پیرِ مغاں یک جا ہو کر بے خودی اور نشا ط کے فراواں مواقع سے فیض یاب ہوتے تھے۔
برطانیہ کے ایک نشریاتی ادارے بی بی سی نے عبداللہ حسین کی ایک کہانی ’’The return journeys‘‘کی اساس پر ’’Brothers in trouble ‘‘ کے نام سے ایک فیچر فلم بنائی۔ برطانیہ کے اسی نشریاتی ادارے نے عبداللہ حسین کے مشہور ناول’’اداس نسلیں ‘‘پر بھی ایک دستاویزی فلم تیار کی۔ ہجرت کے مسائل اور مہاجرین کے مصائب و آلام کے موضوع پر عبداللہ حسین کا پہلا انگریزی ناول ’’Emigre Journeys‘‘کے نام سے سال 2000میں لندن سے شائع ہوا۔ سال 2007میں عبداللہ حسین کی مقبول تصانیف (اداس نسلیں، باگھ، قید، رات، نشیب) پر مشتمل ایک مجموعہ شائع ہوا۔ اس مجموعے کو بھی قارئین ادب نے بہ نظر تحسین دیکھا۔ ان کے بیانیہ اسلوب میں جزئیات نگاری اور کردار نگاری میں حقیقت نگاری کو بالعموم بہت اہم خیال کیا جاتا ہے۔ انسانی زندگی کے نشیب و فراز کا احوال بیان کرنا عبداللہ حسین کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ زندگی اپنی اصلیت کے اعتبار سے جوئے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہی تو ہے۔ انسان کے جوہر محنت شاقہ ہی سے کھلتے ہیں اور خانۂ فرہاد میں روشنی کی شعاع دراصل شرر تیشہ کی مرہونِ منت ہے۔ عبداللہ حسین نے انسانی زندگی کی صبر آزما جد و جہد کو بہت اہم قرار دیا۔ پیدائش سے لے کر وفات تک انسان خوب سے خوب تر کی جستجو میں مصروف رہتا ہے۔ عملی زندگی میں انسان کو متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جبر کے کئی انداز اس کی راہ میں حائل ہو کر اس کے حوصلے کو پست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عبداللہ حسین نے اس بات پر اصرار کیا کہ جبر کے ہر انداز کو پائے استقامت سے ٹھکراتے ہوئے منزلوں کی جستجو جاری رکھی جائے۔ انتہائی نا مساعد حالات میں بھی حوصلے اور امید کی شمع فروزاں رکھنا دانش مندوں کا شیوہ رہا ہے۔ اپنے ناول ’’باگھ‘‘ میں انھوں نے مسموم ماحول میں آس اور امید کی کلیوں کے نمو پانے کی کیفیت سامنے لانے کی کو شش کی ہے جو در اصل گردشِ حالات سیء مزاحمت کی ایک عملی صورت ہے۔ عبداللہ حسین کا شمار ان زیرک، فعال، مستعد اور جری تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے ہوائے جورو ستم میں بھی شمعِ وفا کو فروزاں رکھنے پر اصرار کیا اور تیشۂ حر ف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنا اپنا نصب العین بنایا۔ عبداللہ حسین کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :
اداس نسلیں ( ناول۔ 1963)، باگھ (ناول۔ 1981)، The weary Generations(اداس نسلیں کا ترجمہ۔ 1999)، قید (ناولٹ 1989)، رات (ناولٹ۔ 1994)، نشیب (فکشن۔ 2011)، فریب (چھے کہانیاں۔ 2012)، نادار لوگ (ناول۔ 2014)
ادب اور فنون لطیفہ سے عبداللہ حسین کو قلبی لگاؤ اور والہانہ محبت تھی۔ اداس نسلیں کی اشاعت کے موقع پر اس کے سرِ ورق کی تیاری کے لیے انھوں نے دنیا کے مایہ ناز مصور عبدالرحمٰن چغتائی کا انتخاب کیا، جو ان کے ذوق سلیم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عبداللہ حسین کی ادبی کامرانیوں کے اعتراف میں اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے انھیں کمالِ فن ایوارڈ (پانچ لاکھ روپے)سے نوازا گیا۔ عبداللہ حسین نے تخلیقی تجربوں کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ انھوں نے ہمیشہ وہی کچھ لکھا جو ان کے دل کی آواز تھا۔ ان کا خیال تھا کہ جب ایک تخلیق کار پرورشِ لوح و قلم میں مصروف ہوتا ہے تو زندگی کی حقیقی معنویت اور مقصدیت کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں حریتِ فکر اور حریتِ ضمیر کو مشعلِ راہ بنانا لازم ہے۔ ان کے اسلوب کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انھوں نے ہمیشہ حق گوئی و بے باکی کو شعار بنایا اور کبھی مصلحت وقت کی پروا نہ کی۔ ایک جری تخلیق کار کے جملہ افعال اور تخلیقی فعالیت کی بو قلمونی کے سوتے اس کے کردار سے پھوٹتے ہیں۔ عبداللہ حسین کے کردار کا اہم پہلو یہ رہا کہ انھوں نے جو لکھا وہ اپنے ذہن و ضمیر کے مطابق لکھا اور خارجی دباؤ کے سامنے سپر انداز ہونے سے ہمیشہ انکار کیا۔ بر محل، حقیقی اور صحیح کردار نگاری کے اعجاز سے عبداللہ حسین نے اپنے اسلوب کو نکھار عطا کیا۔ کئی مقامات پر سخت لہجہ اور چبھتے ہوئے تلخ الفاظ کی بھرمار قاری کے ذوقِ سلیم پر گراں گزرتی لیکن عبداللہ حسین نے الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے سے ہمیشہ گریز کیا۔ ہماری معاشرتی زندگی میں مسلسل شکستِ دل کے باعث وہ بے حسی ہے کہ چلتے پھرتے ہوئے مُردوں سے ملاقاتیں روز کا معمول ہے، سماعتیں معدوم، گویائی عنقا اور الفا ظ معانی سے محروم ہوتے چلے جار ہے ہیں۔ آج کے انسان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ انسان شناسی کی صلاحیت سے محروم ہے اور وہ اپنے وجود کے بارے میں بھی تشکیک میں مبتلا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ معاشرتی زندگی بے ہنگم انتشار، خود غرضی اور افراتفری کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ اداس نسلیں کے بعد باگھ کی تخلیق میں عبداللہ حسین نے بارہ سال صرف کیے۔ ان بارہ برسوں میں انھوں نے اپنی زندگی کے مشاہدات، تجربات اور معاشرتی اور سماجی حالات و واقعات کے بارے میں نہایت خلوص اور دردمندی کے ساتھ اپنے تاثرات کو پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے۔ اپنے ناول ’’باگھ‘‘ کو وہ اپنی سب تخلیقات سے زیادہ عزیز خیال کرتے تھے۔ اس کے باوجود اس ناول کو قارئین کی جانب سے وہ پذیرائی نہ مل سکی جس کی مصنف کو توقع تھی۔ کرنل محمد خان کو بھی اسی نوعیت کے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی تصنیف ’’بجنگ آمد ‘‘کو اردو نثر میں طنز و مزاح کی بہترین کتاب قرار دیا جاتا ہے لیکن ان کی بعد میں لکھی جانے والی کتب جن میں بسلامت روی، بزم آرائیاں اور بدیسی مزاح شامل ہیں قارئین کی اس نوعیت کی والہانہ پذیرائی حاصل نہ کر سکیں جو بجنگ آمد کے حصے میں آئی۔
سال 1960کے اختتام پر عبداللہ حسین برطانیہ کا سفر کیا اور 1967میں انھیں برطانوی شہریت مل گئی۔ انھوں نے 1963میں فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی میڈیکل ڈاکٹر فرحت آرا سے شادی کی۔ 1964میں ان کی بیٹی نور فاطمہ پیدا ہوئی اور 1966میں بیٹا علی خان پیدا ہوا۔ یہ دونوں بچے کامیاب عملی زندگی بسر کر ر ہے ہیں۔ وہ 1992 میں وطن واپس آئے تھے اور اس کے بعد وہ مسلسل فروغ علم و ادب میں مصروف رہے۔ برطانیہ میں اپنے طویل قیام کے دوران میں ایک جہاں گرد سیاح کی حیثیت سے عبداللہ حسین نے دنیا کے جن ممتاز ادیبوں سے ملاقات کی ان میں گیبریل گارسیا مارکیز، گنٹر گراس، ٹی۔ ایس ایلیٹ، ژاں۔ پال۔ سارتر، ڈاکٹر این میری شمل، ژاک دریدا، اور رالف رسل کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان ملاقاتوں میں عبداللہ حسین کو عالمی ادب کے نئے رجحانات کو سمجھنے میں مدد ملی۔ سال 1948میں ادب کا نوبل انعام پانے والے امریکی ادیب ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ (پیدائش:225-9-1988وفات:4-1-1965)سے عبداللہ حسین نے کئی ملاقاتیں کیں اور جدیدیت کے موضوع پر اس کے خیالات معلوم کیے۔ ممتاز فرانسیسی ادیب اور ممتاز دانش ور ژاں پال سارتر (پیدائش:21-6-`1915 وفات:15-4-1980)سے بھی عبداللہ حسین نے ملاقات کی۔ ژاں پال سارتر کے مابعد الطبیعات، علم بشریات، مذاہبِ عالم اور تخلیقِ ادب کے بارے میں خیالات کی تفہیم میں مدد ملی۔ لندن میں اپنے قیام کے عرصے میں عبداللہ حسین نے جدید اردو نظم کے ممتاز شاعر اور ’’ماورا‘‘ اور’’ ایران میں اجنبی ‘‘جیسے اہم شعری مجموعوں کے خالق ن۔ م۔ راشد(راجا نذر محمد راشد، پیدائش:1-8-1910، وفات:9-10-1975)سے بھی کئی بار ملاقات کی۔ ممتاز شاعر ن۔ م۔ راشد کی زندگی کا یہ دور ان کے لیے نہایت کٹھن اور بہت صبر آزما تھا، ان کی پہلی بیوی صفیہ کا 1961میں انتقال ہو گیا تھا۔ اپنی اہلیہ صفیہ کی اچانک وفات کے بعد ن۔ م۔ راشد بہت دل گرفتہ اور مایوس رہنے لگے۔ عبداللہ حسین نے ان ملاقاتوں میں ن۔ م۔ راشد کا غم با نٹنے کی کوشش کی اور انھیں جذباتی صدمے سے نکلنے کے کئی مفید مشورے دئیے۔ اپنی تنہائیوں کا مداوا کرنے کے لیے ن۔ م۔ راشد نے 1964میں ایک اطالوی خاتون شیلا انجلینی(Sheila Angelini) سے عقدِ ثانی کر لیا۔ اس کے بعد بھی ن۔ م۔ راشد اور عبداللہ حسین کے باہمی رابطوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ن۔ م۔ راشد ایک وسیع المطالعہ شاعر تھے اور عالمی کلاسیک پر ان کی گہری نظر تھی۔ ان کی شاعری پر جان کیٹس، رابرٹ براؤننگ اور میتھیو آرنلڈ کے جو اثرات ہیں، ان سے قاری کے دل کو ایک ولولۂ تازہ نصیب ہوتا ہے۔ ن۔ م۔ راشد سے ان کا کلام ان کی زبانی سن کر عبداللہ حسین بہت متاثر ہوئے۔ اس شاعری میں زیرِ گرداب ڈوبتی مظلوم انسانیت کی نوائے حزیں سُن کر عبداللہ حسین کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں۔ قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اس شاعری میں ایسے شرارے ہیں جن سے دِلوں کے خرابے روشن ہو سکتے ہیں اور کاخ و کُو اور شہر و قریہ میں مقیم بے بس و لاچار انسان جو اپنی تمناؤں کی وسعت سے نا آشنا سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہے، اپنی حقیقت سے آشنا ہو سکتے ہیں۔ اس شاعری میں تخلیق کار نے زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی ہے:
موت کتنی تیرہ و تاریک ہے
ہو گی، لیکن مجھ کو اس کا غم نہیں
قبر کے اندھے گڑھے کے اس طرف
اس طرف، باہر، اندھیرا کم نہیں
ن۔ م۔ راشد کے اسلوب میں واضح اور شگفتہ خاطر معائر کی پاسداری، سماجی اور معاشرتی زندگی کے ارتعاشات کی حقیقی لفظی مرقع نگاری، جذبات و احساسات کو پیرایۂ اظہار عطا کرنے کا منفرد انداز قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ ادبی محفلوں میں جب بھی ن۔ م۔ راشد اپنی نظم’’ حسن کوزہ گر‘‘ سناتے تو عبداللہ حسین اور وہاں موجود سب سا معین ہمہ تن گوش ہو کر اس نظم کو سنتے :
زمانہ جہاں زاد وہ چاک ہے جس پہ مینا و جام و سبُو
اور فانوس و گُلداں کے مانند بنتے بگڑتے ہیں انساں
عبداللہ حسین نے اگرچہ زندگی بھر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم کو شعار بنایا لیکن زندگی کے آخری ایام میں انھوں نے اپنے انداز فکر میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایوارڈز قبول کرنے میں کبھی تامل نہ کیا۔ سال 2004میں عبداللہ حسین کو قطر سے عالمی فروغِ ادب ایوارڈ ملااورسال 2012میں انھیں اکادمی ادبیاتِ پاکستان کی جانب سے کمالِ فن ایوارڈ عطا کیا گیا۔ سال 2002میں عبداللہ حسین کو رائل سوسائٹی آف لٹریچر کی فیلو شپ سے نوازا گیا۔ عبداللہ حسین کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ اپنی ذات میں سمٹے رہے اور کم آمیز رہنے میں سداعافیت محسوس کی۔ اس کے باوجود ان کی یہ کوشش ہوتی کہ معیاری ادبی نشستوں میں اپنی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ لاہور آرٹس کونسل کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ادبی تقریبات میں شرکت کر کے وہ دلی مسرت محسوس کرتے تھے۔ اردو میں تنقید کے بارے میں عبداللہ حسین اور کلیم الدین احمد کے خیالات میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ ان کے ناول ’’اداس نسلیں ‘‘کی اشاعت کے بعد اس پر جو تنقیدی تحریریں سامنے آئیں عبداللہ حسین ان سے ناخوش و بیزار تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ’’اداس نسلیں ‘‘پر جتنے بھی تنقید ی مضامین تحریر کیے گئے ہیں ان میں سے ایک مضمون بھی لائقِ اعتنا نہیں۔ ایک تخلیق کار کی طرف سے تنقیدی مطالعات پر اس نوعیت کے شدت پسندانہ ردِ عمل کے باعث بعض اوقات اختلافِ آرا میں ناگوار تلخی کی صورت پیدا ہونے کا اندیشہ پیدا ہو جاتا۔ اردو تنقید کے معیار سے عبداللہ حسین نہ صرف مایوس تھے بل کہ وہ اردو نقادوں کی تنقید سے اپنی تصانیف کو محفوظ رکھنے کے آرزومند بھی تھے۔ ان کے خیالات سے یہ تاثر ملتا تھا کہ اردو نقادوں سے غیر جانب دارانہ تجزیاتی مطالعہ کی توقع اُٹھ جانے کے بعد وہ ان سے بچنے کے جتن کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی تصنیف ’’نادار لوگ ‘‘شائع ہوئی تو انھوں نے ادبی نقادوں پر یہ بات واضح کر دی کہ اس کتاب کا تجزیاتی مطالعہ ان کے لیے وقت اور محنت کا سکوئی صحیح مصرف نہ ہو گا۔ اب یہ قارئین ادب کا کام ہے کہ وہ اس تصنیف کے مطالعہ کے بعد اپنی آزادانہ رائے قائم کریں۔ عالمی ادبیات کے مطالعہ سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ تنقید ہر دور میں تخلیقی عمل پر کڑی نظر رکھتی ہے۔ اردو زبان کے نقادوں نے عبداللہ حسین کی تخلیقات اور لا شعوری محرکات کے بارے میں تاریخی تناظر میں کئی حقائق سامنے لانے کی کوشش کی۔ ناقدینِ ادب کا خیال ہے کہ قرۃالعین حیدر کے ناول ’’آگ کا دریا ‘‘کی اشاعت کے بعد ’’اداس نسلیں ‘‘کا منصۂ شہود پر آنا کئی سولات کو جنم دیتا ہے۔ اکثر ناقدین کا کہنا ہے کہ جہاں تک واقعات کا تعلق ہے ’’اداس نسلیں ‘‘کے بیش تر موضوعات کی ’’آگ کا دریا ‘‘کے واقعات کے ساتھ حیران کن حد تک مماثلت ہے۔ ناقدینِ ادب کی رائے ہے کہ بادی النظر میں اس سے ’’اداس نسلیں ‘‘ میں واقعات کی حد تک سرقہ کے گمان کو تقویت ملتی ہے۔ خود قرۃ العین حیدر نے بھی اپنی تصنیف ’’کارِ جہاں دراز ہے ‘‘میں اس جانب اشارہ کیا ہے۔ احمد فراز اور عبداللہ حسین کے درمیان بھی تلخی پیدا ہو گئی تھی، جس کا ازالہ نہ ہو سکا۔ پاکستان میں آدم جی ایوارڈ کے حصول کے سلسلے میں ادا جعفری اور مصطفٰی زیدی کی معاصرانہ چشمک بھی تاریخِ ادب میں مذکور ہے۔ آدم جی ایوارڈ کے حصول کی اس جد و جہد میں ادا جعفری تو اپنے شوہر نور الحسن جعفری (جو وفاقی حکومت میں بہت بڑے افسر تھے) کی اعانت سے یہ انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں لیکن مصطفٰی زیدی یہ سب کچھ دیکھ کر ادا جعفری کی ہجو لکھ کر اپنا تزکیہ نفس کرنے پر مجبور ہو گئے۔ در اصل معاصرانہ چشمک ادیبوں کی زندگی کا ایک المیہ رہا ہے اور اس نوعیت کے سانحات ہر دور میں ہوتے رہے ہیں۔ اس دنیا میں تمام انسان زینہ زینہ وقت کی تہہ میں اتر جاتے ہیں اور آخر کار وہ لمحہ آ پہنچتا ہے جب وہ قلزمِ خوں پار کر جاتے ہیں اور ان شخصیات کی زندگی سے وابستہ اس نوعیت کے تلخ واقعات تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں۔ آنے والا وقت اس قسم کے نا خوشگوار واقعات کا کڑا احتساب کرے گا۔ بہ قول شاعر :
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دئیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا
اردو ادب کی تاریخ میں ساٹھ کی دہائی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، یہی وہ عشرہ ہے جسے اردو فکشن کے عہدِ زریں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس عرصے میں اردو فکشن میں تخلیقی تنوع اور اور نئے تجربات کے اعجاز سے جمود کا خاتمہ ہوا اور افکار تازہ کی مشعل تھام کر ادیبوں نے جہانِ تازہ تک رسائی کو یقینی بنانے کی مقدور بھر کوشش کی۔ قرۃ العین حیدر کا ناول ’’آگ کا دریا‘‘ اور عبداللہ حسین کا ناول ’’اداس نسلیں ‘‘ کواسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھا جاتا ہے۔ عبداللہ حسین نے عالمی جنگوں کی تباہ کاریوں، ہلاکت خیزیوں اورتقسیمِ ہند کے مسائل کو نہایت خلوص اور دردمندی سے ’’اداس نسلیں ‘‘کا موضوع بنایا ہے۔ اس ناول میں پنجاب کی دیہی اور شہری معاشرت اور یہاں کی زندگی کے معمولات کی لفظی مرقع نگاری جس حقیقت پسندانہ انداز میں کی گئی ہے، اس کے مطالعہ سے اُردو زبان و ادب کا قاری چشمِ تصور سے اس زمانے کی اجتماعی زندگی کے تمام حالات، واقعات، ارتعاشات اور نشیب و فراز چشمِ تصور سے دیکھ لیتا ہے۔ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے عبداللہ حسین نے الفاظ کے بر محل استعمال سے اپنے ذہن، ضمیر اور روح کے جملہ احساسات و تجربات کو پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے۔ کسی بھی معاشرے کے تغیرِ حال پر جانے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ یہ سب کچھ تو زمانے کے اتفاقات کا ثمر ہے۔ ہمارا رخشِ حیات مسلسل رو میں ہے، ہمارا نہ تو ہاتھ باگ پر ہے اور نہ ہی ہمارا پاؤں رکاب میں ہے۔ اس عالمِ آب و گِل میں ہماری حیاتِ مستعارایک جبرِ مسلسل کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔ عبداللہ حسین کے اسلوب کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے انھوں نے زندگی کو ایک حباب اور کارِ جہاں کو ایک سراب سے زیادہ اہمیت نہ دی۔ یہ بے ثبات کارِ جہاں اس قدر گنجلک، پیچیدہ اور الجھا ہوا ہے کہ اسے جس قدر سلجھانے کی سعی کی جائے یہ اسی قدر مزید اُلجھتا جاتا ہے۔ عبداللہ حسین کی تحریروں کے مطالعہ کے بعد یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ جب طائرانِ خوش نوا دانہ چُگنے کی ہوس میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے انجام سے بے خبر، دام کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بے اختیار دانہ چگنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں اور صیاد کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔ اب قفس میں پھنس جانے والے یہ طیور خواہ کتنا ہی پھڑ پھڑائیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ اسی طرح انسانوں کے لیے بھی دکھوں اور اتفاقات کے متعدد چھوٹے بڑے جال ہر سُو بکھرے ہوئے ہیں۔ بے بس و لاچار انسان جب دکھوں کے ان جالوں میں جکڑے جاتے ہیں تو نہ تو ان کی کوئی امید بر آتی ہے اور نہ ہی اصلاحِ احوال کی کوئی صورت دکھائی دیتی ہے۔ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں اور نامیوں کے نشان کا کہیں اتا پتا نہیں ملتا۔ قلزمِ ہستی کی ہر موج میں حلقۂ صد کام نہنگ کے دام کی موجودگی ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ جنگوں، ترکِ وطن کے باعث عذابِ در بہ دری، آفاتِ ارضی وسماوی، اتفاقات اور سانحات کے چار سُو بکھرے ہوئے جال دُکھی انسانیت کے لیے وبال بن گئے ہیں۔
تاریخ اور اس کے مسلسل عمل سے عبداللہ حسین کو قلبی لگاؤ تھا۔ انھوں نے فرد کی آزادی اور آزادی کے مجموعی احساس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ حریت فکر کے معجز نما اثر سے فکر و خیال، ذہن و ذکاوت اور شعور کی جِلا کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ یہ تاریخ ہی ہے جو ماضی کے واقعات پر پڑ جانے والی ابلقِ ایام کے سموں کی گرد کو صاف کرتی ہے اور آفاقی صداقتوں کی جانب متوجہ کر کے اوہام کے تارِ عنکبوت صاف کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل سے اسی دلچسپی کی بنا پر ناول ’’باگھ ‘‘میں عبداللہ حسین نے 1965کی پاک بھارت جنگ کے مسائل کو موضوع بنایا ہے۔ اپنے ناول ’’نادار لوگ ‘‘میں عبداللہ حسین نے 1971میں سقوطِ ڈھاکہ کی اساس پر اپنے اسلوب کا قصر تعمیر کیا ہے۔ عبداللہ حسین کو اس بات کا قلق تھا کہ مسلسل شکستِ دِل کے باعث معاشرتی زندگی سے امن و عافیت نے کُوچ کر لیا ہے اور بے حسی کا عفریت ہر سُو منڈلا رہا ہے۔ قحط الرجال کا یہ عالم ہے کہ معاشرہ اپنے لیے خود ساختہ عمو می معائر کا انتخاب کر کے من مانی کرتا ہے۔ عفو و درگزر اور عدل و انصاف کو بارہ پتھر کر دیا گیا ہے۔ خیر اور شر میں امتیاز کی روایت اب عنقا ہے۔ عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک گھنے جنگل اور بھیانک تیرگی میں پھنس گئے ہیں جہاں جنگل کا قانون پوری ہیبت کے ساتھ نافذ ہے۔ آج مغربی تہذیب اپنی جن روایات پر نازاں ہے ان کے کھوکھلے پن سے ہر شخص آگاہ ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ مغربی معاشرے میں سقراط کو 399قبل مسیح میں زہر کا پیالہ پلا دیا گیا اور اٹلی کے فلسفی گیوارڈانوبرونو(Giodano Bruno)کو نظریاتی اختلافات کے باعث زندہ جلا دیا گیا۔ مغرب میں اسی نوعیت کا انتہائی سخت سلوک تینتیس سالہ امریکی نوجوان ڈک ٹرپن( DickTurpin) کے ساتھ ہوا جسے گھوڑا چوری کرنے کے جرم کی پاداش میں 1739میں دار پر کھنچوا دیا گیا اور بوٹملے( Horatio Bottomley)کے ساتھ بھی سیاست میں اسی نوعیت کا سلوک روا رکھا گیا۔ مغرب میں لذتِ ایذا (Sadism)کو ہمیشہ ایک پسندہ مشغلہ سمجھا گیا ہے۔ عبداللہ حسین کی دلی تمنا تھی کہ مشرقی تہذیب و ثقافت کو فروغ ملے اور ان کے وطن میں ایسی فصلِ گُل اترے جو زوال کے اندیشے سے نا آشنا ہو اور اہلِ وطن ظلمتِ شب کے شاکی رہنے کے بجائے اپنے حصے کی شمع فروزاں رکھ کر سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اپنی تاریخ اور تہذیب سے ان کی قلبی وابستگی اور والہانہ محبت ان کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے۔ اگر افرادِ معاشرہ اخوت کا بیاں اور محبت کی زباں بن جائیں تو معاشرتی زندگی امن و عافیت کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ عبداللہ حسین کی دلی تمنا تھی کہ مغربی طرزِ زندگی سے حذر اور مشرقی روایات و اقدار سے بیزاری کے بجائے اقتضائے وقت کے مطابق معاشرتی زندگی کی ناہمواریوں ، بے اعتدالیوں، سفاکی اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ معاشرتی زندگی میں انصاف کُشی سے وہ سخت نفرت کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا جس معاشرے میں مظلوم کو انصاف نہ مل سکے وہاں حالات کا تمام منظر نامہ تہس نہس ہو جاتا ہے اور زندگی کی رعنائیاں گہنا جاتی ہیں اور رُتیں بے ثمر ہو جاتی ہیں۔ معاشرتی زندگی میں عدل و انصاف کو یقینی بنانے سے شبِ تاریک کو سحر کیا جا سکتا ہے۔ عبداللہ حسین کے منفرد اسلوب کے اعجاز سے زندگی کی حقیقی معنویت اجاگر کرنے میں مدد ملتی ہے، ان کی مستحکم شخصیت کا اہم پہلو یہ تھا کہ ان سے مِل کر زندگی سے والہانہ محبت کے جذبات کو نمو ملتی۔
عملی زندگی میں عبداللہ حسین نے فروغِ علم و ادب میں ہمیشہ گہری دلچسپی لی۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان کی نئی نسل زندگی کی برق رفتاریوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنے سلسلۂ روز و شب کو وقت کے تقاضوں کے مطابق اس سانچے میں ڈھالے کہ طلوعِ صبحِ بہاراں کے امکانات کو یقینی بنایا جا سکے۔ نوجوان نسل سے ان کا یہ تقاضا رہا کہ وہ اپنی پرانی دلچسپیوں کا متبادل تلاش کریں اور نئی ایجادات میں دلچسپی لیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ بے لوث محبت اور بے باک صداقت کے وسیلے سے افراد اپنی ذات کے صنم خانے سے باہر نکل کر سماج اور معاشرے کے ساتھ ایک حیاتیاتی رشتے میں منسلک ہو جاتے ہیں۔ معاشرے اور سماجی زندگی میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کرنے سے مستقبل کے لیے ایک واضح لائحۂ عمل مرتب کیا جا سکتا ہے۔ طالب علموں کی علمی اعانت کر کے عبداللہ حسین دل خوشی محسوس کرتے تھے۔ پنجاب کے شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تعلق رکھنے والے نوجوان محقق شبیر احمد اختر کو ایم۔ فل سطح کے اپنے تحقیقی مقالے ’’اردو افسانے کا ارتقا‘‘ کے لیے مواد کے حصول میں دشواریوں کا سامنا تھا۔ اس سلسلے میں عبداللہ حسین کی مشاورت اس نو جوان محقق کے لیے خضرِ راہ ثابت ہوئی اور وہ بر وقت اپنا تحقیقی کام مکمل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ خوشاب کی ایک ذہین طالبہ ذکیہ بدر جب ایم۔ فل اردو کا تحقیقی مقالہ ’’خواجہ دِل محمد :حیات و ادبی خدمات‘‘ لکھ رہی تھیں تو تحقیقی مواد کی عدم دستیابی ان کی راہ میں سدِ سکندری بن گئی۔ عبداللہ حسین نے اس پریشان حال طالبہ کی مآخذ تک رسائی میں مدد کی اور وہ موضوعِ تحقیق سے انصاف کر سکی۔ دنیا بھر کی جامعات میں زیرِ تعلیم طلبا و طالبات ان سے مسلسل رابطے میں رہتے تھے۔ عالمی ادب اور اردو ادب کے موضوع پر عبداللہ حسین کی رائے کو سب قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اپنے اس علمی و ادبی محسن کا نام سن کر نوجوان طالب علموں کی آنکھیں ممنونیت کے جذبات سے بھیگ بھیگ جاتیں۔ عبداللہ حسین کی رحلت کے بعد سب طالب علم یہی کہتے ہیں کہ اب ایسی نایاب ہستیاں کہاں ملیں گی؟
پاکستانی ادیبوں کے ساتھ معتبر ربط کا سلسلہ عبداللہ حسین نے زندگی بھر بر قرار رکھا۔ پاکستانی ادیبوں کے مسائل و مشکلات سے آگاہ رہتے اور ان کے مسائل کے حل اور مشکلات کے ازالے کے لیے مقدور بھر کوشش کرتے تھے۔ جب بھی کو ئی انھیں فون کرتا وہ اس کی بات توجہ سے سنتے اور نہایت مختصر، جامع اور مدلل جواب دیتے۔ موصول ہونے والی ٹیلی فون کا ل کے جواب میں اختصار کا سبب یہ ہوتا کہ کال کرنے والے پر کم سے کم مالی بوجھ پڑے۔ اس کے بر عکس جب عبداللہ حسین خود کسی سے رابطہ کرتے تو اس کے ساتھ جی بھر کر باتیں کرتے اور اسے اپنا محرم راز سمجھ کر اسے اپنی زندگی کے روز و شب کے معمولات سے ضرور آگاہ کرتے تھے۔ خون کے سرطان کے عارضے میں مبتلا پروفیسراطہر ناسک کا تعلق راجن پور سے تھا سال 2012 کے اواخر میں وہ میو ہسپتال، لاہور میں زیر علاج تھے تو عبداللہ حسین اپنے اس دیرینہ آشنا اور مداح کی عیادت کے لیے میو ہسپتال پہنچے اور مقتدر حلقوں کو اس زیرک ادیب کے مصائب و آلام سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر اطہر ناسک نے عبداللہ حسین اور اپنے احباب کی موجودگی میں جب اپنے یہ اشعار پڑھے تو سب کی آنکھیں نم ہو گئیں :
یقین برسوں کا امکان کچھ دنوں کا ہو ں
میں تیرے شہر میں مہمان کچھ دنوں کا ہوں
گزر ہی جائیں گے ناسک یہ دن بغیر گِنے
میں اپنے وقت کی پہچان کچھ دنوں کا ہوں
پروفیسر اطہر ناسک کے ساتھ زندگی نے وفا نہ کی اور اس تخلیق کار نے 11۔ نومبر2012کی شام میو ہسپتال، لاہور میں آخری سانس لی۔ پروفیسر اطہر ناسک کی نظر میں عبداللہ حسین کی بہت عزت تھی اور وہ عبداللہ حسین کے خلوص اور انسانی ہمدردی کے دل سے معترف تھے۔ عبداللہ حسین نے جن ادیبوں کے ساتھ خلوص و دردمندی کا تعلق زندگی بھر استوار رکھا ان میں رام ریاض، بشارت خان، دیوان احمد الیاس نصیب، معین تابش، نور زماں ناوک، عطا شاد، خادم مگھیانوی، سید مظفر علی ظفر، غفار بابر، فیض لدھیانوی، گداحسین افضل، صابر کلوروی، بشیر سیفی، صابر آفاقی، نثار احمد قریشی، امیر اختر بھٹی، مظہر اختر، خیر الدین انصاری، محمد محمود احمد، آفاق صدیقی، عاشق حسین فائق، احمد تنویر، انعام الحق کوثر، سمیع اللہ قریشی، نظیر صدیقی، فیروز شاہ، رحیم بخش شاہین، محمد علی صدیقی، سرشار صدیقی، رفعت سلطان، اقبال زخمی، آصف خان، اشفاق احمد، خاطر غزنوی اور سجاد بخاری کے نام قابل ذکر ہیں۔ حیف صد حیف کہ گلشن ادب کے یہ سب کے سب آبلہ پامسافر راہِ جہاں سے گزر گئے اور ایک ایک کر کے ستاروں کے مانند افق علم و ادب سے ہمیشہ کے لیے غروب ہو گئے۔ ان کی یادیں فضاؤں میں اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ جس سمت بھی نگاہ اُٹھتی ہے ان کی تصویر دکھائی دیتی ہے اور ان کے دبنگ لہجے کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔
بیسویں صدی کی معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز جس حقیقت پسندانہ انداز میں عبداللہ حسین کے اسلوب میں سماگئے ہیں ان کے مطالعہ سے تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں مثبت شعورو آگہی پروان چڑھانے کی مساعی کو تقویت ملتی ہے۔ تاریخ سے عبداللہ حسین کی دلچسپی ان کی تحریروں میں نمایاں ہے۔ یہ تاریخ ہی ہے جو فرد کو اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی پر مائل کرتی ہے۔ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے تخلیق کار اپنے ہر عمل کا خود احتساب کرنے میں کوئی تامل نہیں کرتے۔ ایسے یگانۂ روزگار ادیبوں کا منفرد اسلوب قارئین کے فکر و نظر کو بھی مہمیز کرتا ہے۔ تاریخ اوراس کے مسلسل عمل کی مسحور کن اثر آفرینی جب فکر و خیال اور ذہن و ذکاوت میں ر چ بس جاتی ہے تو تخلیق کار جب اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھانے کے لیے قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تو اس کا ہر لفظ گنجینۂ معانی کا طلسم بن جاتا ہے۔ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ عبداللہ حسین کی تحریریں صرف تاریخ کے معتبر حوالوں کی وجہ سے مقبول ہوئیں۔ ان کی تصانیف کے مطالعہ سے ذہن و شعور کی گتھیاں سلجھانے میں مدد ملتی ہے اور فہم و ادراک کو نئے آفاق تک رسائی ملتی ہے۔ عبداللہ حسین نے ہمیشہ تہذیبی اور ثقافتی اقدار کے تحفظ پر اصرار کیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اقوام اور ملل کے جاہ و جلال اور تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے سیلِ زماں کے تھپیڑوں میں دریا برد ہوسکتے ہیں لیکن تہذیب انتہائی کٹھن حالات میں بھی اپنا وجود بر قرار رکھتی ہے۔ تہذیبی اقدارو روایات افراد کو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر تہذیب کو نسلِ نو میں منتقل کرنے میں ایک صدی کی مجرمانہ غفلت کا ارتکاب ہو جائے تو پھر بد قسمتی سے وہ قوم پتھر کے زمانے کے ماحول میں پہنچ جاتی ہے۔ عبداللہ حسین نے اپنے منفرد اسلوب میں تہذیب و تمدن کے فروغ اور ارتقا کو اپنا مطمح نظر بنایا اور عصری آگہی کو پروان چڑھانے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ جہد للبقا کے موجودہ دور میں صرف وہی تہذیب و ثقافت اپنا وجود بر قرار رکھ سکے گی جو تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور وقت کے تقاضوں کی تفہیم کی صلاحیت سے متمتع ہو۔ اگر ہماری تہذیب و ثقافت میں نئے دور کے چیلنج سے عہدہ بر آ ہونے کی استعداد پیدا ہو جائے تو اس کی بقا اور دوام کالنقش فی الحجر ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو تہذیب و تمدن بدلتے ہوئے زمانے کے حالات کے چیلنج کی تفہیم سے عاری رہے اور اس کا جواب دینے کی استعداد سے محروم تھے وہ لوحِ جہاں سے حرفِ غلط کی طرح مٹ گئے۔ عبداللہ حسین نے اپنے اسلوب میں تاریخی واقعات اور صداقتوں کواس طرح پیش کیا ہے کہ قاری سمجھ جاتا ہے کہ زمانہ ماضی کے یہ سب واقعات محض آثارِ قدیمہ نہیں بل کہ یہی تو ہماری میراث ہے جس میں ہمارے اسلاف کی فکر کے بیش بہا خزینے پوشیدہ ہیں۔ ان کا مطالعہ اس لیے افادیت کا حامل ہے کہ آنے والی نسلیں ان حقائق کو جاننے کے بعد اپنے لیے ایک واضح دستور العمل مرتب کر سکتی ہیں۔
عبداللہ حسین نے اپنی تخلیقی فعالیت سے اردو زبان و ادب اور اردو فکشن کی ثروت میں جو گراں قدر اضافہ کیا ہے اس کا عدم اعتراف نا شکری اور احسان فراموشی کے مترادف ہے۔ ان کی تخلیقات انھیں شہرتِ عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام عطا کریں گی۔ ان کی تخلیقی تحریروں کے مطالعہ سے قارئینِ ادب کو نہ صر ف قلبی طمانیت، روحانی سکون، اور ذہنی مُسرت اور حقیقی حظ نصیب ہوتا ہے بل کہ ان سدا بہار، پُر تاثیر اور بیانیہ ادب پاروں کے وسیلے سے قاری اپنی جنم بھومی کے ارضی و ثقافتی حوالے، اس خطے کی صدیوں کی تاریخ کے نشیب و فراز اور ماضی کے اوراقِ نا خواندہ پربھی نگاہ ڈال سکتا ہے۔ عبداللہ حسین نے فروغِ علم و ادب کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی۔ پرورشِ لوح و قلم ہی ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا اور جو کچھ ان کے دل پر گزرتی، اسے و ہ بلا کم و کاست زیب قرطاس کر دیتے۔ اپنی شدید علالت کے دوران بھی وہ تخلیق فن میں مصروف رہے۔ وہ اپنے احباب سے کبھی غافل نہیں رہے بل کہ کمپیوٹر پر ان کا دنیا بھر کے ادیبوں سے مسلسل رابطہ رہا۔ یہ بات ان کے صبر و تحمل اور قوت برداشت کی دلیل ہے۔ مختلف ویب سائٹس پر ان کے ادبی تبصرے اور علمی موضوعات پر تجزیاتی آرا نہایت توجہ سے پڑھی جاتی تھیں۔ نہ صر ف پاکستان بل کہ دنیا بھرمیں انٹر نیٹ پر ان کے لاکھوں مداح موجود تھے جو ان کی وفات کی خبر سن کر شدید صدمے سے دو چار ہو گئے۔ فرشتۂ اجل کے ہاتھوں ایک دبنگ لہجہ، ایک بے خوف آواز اورمستند تخلیقی اسلوب جان لیوا سکوت اور مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ آہ!اردو ادب کا ہنستا بو لتا چمن ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا ہے۔ اب اور کیا لکھوں اور کیسے لکھوں ، ہجومِ غم میں ڈوبتے دل کو اپنے ہاتھوں سے تھام رکھا ہے اور ہاتھ دِل سے جُدا کرنے پر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اللہ حافظ :عبداللہ حسین
٭٭٭
دانیال طریر : کوئی کہاں سے تمھارا جواب لائے گا
یکم اگست2015کو پروفیسر غلام قاسم خان نے ٹیلی فون پر گلو گیر لہجے میں مجھے اس اندوہ ناک خبر سے مطلع کیا کہ پروفیسر مسعود دانیا ل طریر اس دھوپ بھری دنیا سے رختِ سفر باندھ کر ملکِ عدم کی جانب کُوچ کر گیا ہے۔ وہ یگانۂ روزگار فاضل اور عالمی ادبیات کا وہ نیّرِ تاباں جو چوبیس فروری 1980کو لورالائی (بلو چستان)سے طلو ع ہوا اجل کے ہاتھوں اُفقِ ادب سے غروب ہو کر عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو گیا۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور میں بے بسی کے عالم میں بستر پر لیٹ گیا۔ میری آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح بر س رہی تھیں۔ ایک صابر و شاکر، قناعت و استغنا کا پیکر اور عظیم انسان جو نہایت جرأت اوراستقامت کے ساتھ خون کے سرطان جیسے جان لیوا عارضے کا مردانہ وار مقابلہ کر رہا تھا جان کی بازی ہار گیا۔ اپنی قوتِ ارادی سے کام لیتے ہوئے اس نے ہر سُو بچھے دُکھوں کے جال ہٹا کر نہایت خندہ پیشانی سے ہرقسم کی ابتلا و آزمائش کا سامنا کیا۔ اس نے صبر کی روایت میں لبِ اظہار پر ایسے تالے لگائے کہ اپنے غم کا بھید کبھی نہ کھولا اور ضبط کا ایسا کڑا معیار پیش نظر رکھا کہ ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں اپنے آنسو چُھپا کر تزکیہ ء نفس کی صورت تلاش کر لی۔ اطہر ناسک کی طرح اجل کے بے رحم ہاتھوں نے حریتِ فکر کے اس مجاہد سے بھی قلم چھین لیا جس نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ اپنائی اور کبھی کسی مصلحت کی پروا نہ کی۔ اُردو، فارسی، پشتو اور عربی کے ممتاز نقاد اور دانش ورسعید گوہر کے اس چشم و چراغ نے زمانہ طالب علمی ہی سے اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوا یا۔ دانیال طریر کا تعلق ایک ممتاز علمی اور ادبی گھرانے سے تھا۔ نامور ادیب اور دانش ور رب نواز مائل اُن کے تایا تھے۔ ان کے چچا محمود ایاز اُردو اور پشتو کے مقبول شاعر تھے۔ سال 2005 میں دانیال طریر کے پہلے شعری مجموعے (آدھی آتما)کی اشاعت سے پہلے ہی علمی و ادبی حلقوں میں نظم و نثر کی مختلف اصناف میں اس کی قابلِ قدر تخلیقی فعالیت اور جدت و تنوع کی اساس پر استوار منفرد اسلوب کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔ اردو نثر ہو یا شاعری دانیال طریر کے منفرد اسلوب کا جادو ہمیشہ سر چڑھ کر بولتا۔ وہ زیرک، فعال اور مستعد تخلیق کار جس نے اردو تحقیق، تنقید، لسانیات، فکشن، شاعری، فلسفہ، نفسیات، تاریخ، علمِ بشریات اور اسلوبیات کو افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ تک رسائی کی راہ دکھائی اب ہم میں نہیں رہا۔ سیلِ زماں کے تند و تیز بگولے وطن، اہلِ وطن اور انسانیت کے لیے امن، سلامتی، وقار اور تحفظ کے خواب دیکھنے والے ادیب کی ہستی کو خیال و خواب بنا گئے۔ پاکستانی زبانوں ، عالمی ادبیات، ادیانِ عالم اور عالمی کلاسیک کا نابغۂ روزگار دانش ور ہماری بزمِ ادب سے اُٹھ کر بہت دُور چلا گیا، اب تو یادِ رفتگاں سے بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ گلشنِ ادب میں ہر طرف ہُو کا عالم ہے، اب دِل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے۔ کیسے کیسے پیارے لوگ اس جہاں سے اُٹھ گئے، ہجومِ غم میں دل کو سنبھالنا اب ممکن ہی نہیں۔ اپنی تخلیقی فعالیت کو رو بہ عمل لاتے ہوئے چودہ وقیع تصانیف سے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ کرنے والا ادیب اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ دانیال طریر نے اپنے اسلوب میں روایات سے ہٹ کر نئی علامات کو ایک نفسیاتی کُل کی صورت میں اشعار کی زینت بنا کر لا شعور کی حرکت و حرارت کو متشکل کرنے کے جو تجربے کیے، وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہیں۔ وہ اسطور کی فضا میں جس انوکھے انداز میں اپنے جذبات واحسات اور تخیل کی جولانیاں دکھاتا ہے، اُسے قدیم روایات اور جدید ترین تصورات کے مابین سنگم کی ایک صورت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس نے دُکھی انسانیت کے ساتھ درد کا ایک ایسا رشتہ استوار کر رکھا تھاجسے وہ علاجِ گردشِ لیل و نہار کے لیے نا گزیر سمجھتا تھا۔ بعض اوقات یہ گُمان گزرتا ہے کہ ایام کا راکب یہ مردِ درویش کسی ایسی دیومالائی دنیا کا مکین ہے جس کو ماضی، حال اور مستقبل کے تمام مسائل کے بارے میں مکمل آگہی حاصل ہے۔ وہ پلک جھپکتے میں ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں حقائق کی گرہ کشائی کر کے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی استعداد سے متمتع ہے۔ ایسا محسوس ہوتا کہ دنیا بھر میں موجود دُکھی انسانیت کا درد اس کے جگر میں سما گیا تھا اور وہ درد مندوں اور الم نصیبوں کے دُکھ بانٹنے اور اُن کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ہمیشہ بے چین رہتا تھا۔ اس کی وفات کے بعد مجھے جن اعصاب شکن حالات کاسامنا کرنا پڑا اس وقت میرے ذہن میں دانیا ل طریر کے یہ شعر گونجنے لگے:
خاموشی کی قرأت کر نے والے لوگ
اَ بوُّ جی اور سارے مر نے والے لو گ
روشنیوں کے دھبے، ان کے بیچ خلا
اور خلاؤں سے ہم ڈرنے والے لوگ
مٹی کے کُوزے اور اُن میں سانس کی لو
رب رکھے یہ برتن بھر نے والے لوگ
میرے چاروں جانب اُونچی اُونچی گھاس
میرے چاروں جانب چرنے والے لوگ
آخر جسم بھی دیواروں کو سونپ گئے
دروازوں میں آنکھیں دھرنے والے لوگ
کسی کی نہیں تھیں وہ آنکھیں اور پلکیں
کسی کی تھی نمی میری نہیں تھی
عجیب گرد سی اُڑنے لگی ہے رستوں میں
میں ڈر رہا ہوں سفر پر روانہ ہونے سے
نئی نئی صورتیں بدن پر اُجالتا ہوں
لہوسے کیسے عجیب منظر نکالتا ہوں
دانیال طریر نے اپنی شاعری میں گِرد و پیش کے حالات و واقعات اور معاشرتی زندگی کے جُملہ ارتعاشات کی ایسی لفظی مرقع نگاری کی ہے کہ اس کی شاعری بے حسی کی جامد و ساکت فضا کا خاتمہ کر کے جہد و عمل کی راہ دکھاتی ہے۔ اس کے اشعار میں ہر لفظ زبانِ حال سے محوِ گفتگو ہے اور تقدیرِ جہاں کا عقدہ کھول رہا ہے۔ جس جر أت اور بے باکی سے دانیا ل طریر نے تیشۂ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے کی سعی کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ا س کے اسلوب میں رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے اس فنی مہارت سے سمٹ آئے ہیں کہ قاری ان کے سحر میں کھو جاتا ہے۔ ا س کی شاعری دھنک رنگ منظرنامہ سامنے لاتی ہے جس میں موجود دل کش رنگ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ کبھی تو اس شاعری میں سوز وسازِرومی کی کیفیت قاری کے دِل کو مرکزِ مہر و وفا کر تی ہے اور کبھی پیچ و تابِ رازی کا سماں قاری پر ہیبت طاری کر دیتا ہے۔ یہ شاعری اس کے ذہن و ذکاوت، بصیرت اور ذوقِ سلیم کی آئینہ دار ہے۔ اس کی شاعری قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر کر پتھروں کو موم کر دیتی ہے اور جامد و ساکت چٹانوں ، احساس سے عاری بُتوں، اور بزعم خود اُونچے پربتوں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔ اس طرح یہ شاعری اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک ساحری کا روپ دھار لیتی ہے جو قاری کے قلب و روح اور فکر و نظر کو مسخر کر کے اس پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتی ہے۔ جدید اُردو نظم میں معانی اور ہئیت کے جو متنوع تجربات کیے جا رہے ہیں دانیا ل طریر نے انھیں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ یہ تجربات قارئین ادب کو عصری آگہی سے آشنا کرنے کا اہم وسیلہ ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان اہم تخلیقی تجربات کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھے گی اور قارئین ان کی اہمیت کو سمجھ کر ان کا استحسان کر سکیں گے۔ جد ید اردو شاعری بالخصوص اُردو نظم میں تخلیق کاروں نے ہمیشہ ید بیضا کا معجزہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ جدید اردو نظم کے زیرک، فعال اور مستعد تخلیق کاروں نے زندگی کے سب نشیب و فراز پیشِ نظر رکھے ہیں۔ دانیال طریر کی نظمیں اس کے منفرد اسلوب اور جداگانہ سوچ کی مظہر ہیں۔
____________________
عجائب
____________________
عجب گھٹا تھی
لہو بہاتی
عجب ہوا تھی
تمام رستوں میں ناچتی اور موت گاتی
عجب دعا تھی
جو ٹوٹتی تو ہزار ہا کرگسوں کو بھی اپنے ساتھ لاتی
عجب بقا تھی
قریب آتی تو اپنی ہر اک ادا سے ہم کو فنا دکھاتی
عجب سزا تھی
کہ پھر بھی غم سے پھٹی نہ چھاتی
دانیال طریر کی شاعری میں قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل کی حقیقی کیفیات کی جلوہ گری اس کی فنی مہارت اور تخلیقی بصیرت کی مظہر ہے۔ اس نے تقلید کی روش کو ہمیشہ ہدفِ تنقید بنایا۔ اس کا خیال تھا کہ تقلید کی رو ش اپنا کر ایک تخلیق کار اپنے تخلیقی عمل کو بیزار کُن یکسانیت، اور اعصاب شکن جمود اور اکتاہٹ کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔ ان حالا ت میں نئے خیالات، نئے اسالیب اور ہئیت کے نئے تجربات تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند ہیں جن کے اعجازسے دِل میں ایک لہرسی اُٹھتی ہے۔ دانیال طریر کی شاعری میں خواب اور حقیقت کے درمیان پائے جانے والے فاصلے اس طرح سمٹ جاتے ہیں کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ دانیال طریر کی شاعری اپنی نوعیت کے اعتبارسے زندگی کی حقیقی اور موثر مرقع نگاری قرار دی جا سکتی ہے۔ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے شاعر نے اس قدر کا میا بی کے ساتھ اپنے خیالات کا ابلاغ کیا ہے کہ لسانی عمل، شعری اظہار اور فکری نظام کا بلند ترین معیار قاری کو چونکا دیتا ہے۔ اس شاعری کے مطالعہ سے ہمیں اپنی حقیقت اور گرد و نواح کے ما حول کے بارے میں کا مل آگہی نصیب ہو تی ہے۔ حوصلے، ولولے اور افادیت سے لبریز یہ شاعری حسن و خوبی کے دلکش استعاروں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ اس کے مطالعہ سے زندگی کی تا ب و تواں میں نما یاں اضافہ ہو تا ہے۔
امبر کی کالی آنکھوں سے کاجل جیسی رین
بام و در پر برس رہی ہے بادل جیسی رین
میں تنہا، سناٹا اور یہ دیو آسا اشجار
چارو ں اور ہے پھیلی بالکل جنگل جیسی رین
کیا عجب شرطیں رکھیں ہم پر ہدایت کار نے
مسخرے کا رُوپ دھاریں مُسکرائیں بھی نہیں
اجالا ہی اجالا، روشنی ہی روشنی ہے
اندھیرے میں جو تیری آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
درختو! مجھ کو اپنے سبز پتوں میں چھپا لو
فلک سے ایک جلتی آنکھ مجھ کو دیکھتی ہے
تسلسل سے گماں لکھا گیا ہے
یقیں تو ناگہاں لکھا گیا ہے
میر ا دو پل ٹھہر کر سا نس لینا
سرِ آبِ رواں لکھا گیا ہے
تیز ہوا میں رکھتا میں خامو شی کو
کاش صدا دے سکتا میں خاموشی کو
کیسی لا یعنی خواہش ہے یہ خواہش
موت سے پہلے چکھتا میں خاموشی کو
مرگِ ناگہانی اور مرگِ نوجوانی کے مسموم اثرات سے دائمی مفارقت دے جانے والے عزیزوں کے پس ماندگان پر قیامت گزر جاتی ہے۔ اس نوعیت کے جان لیوا سانحہ سے دو چار ہونے والا تخلیق کار جب اپنے ہاتھ میں قلم لے کر پرورشِ لوح و قلم میں مصروف ہوتا ہے تو دبے پاؤں آنے والی موت کی آہٹ کوسننے کے بعد اس کا اظہار لا شعوری انداز میں اپنی تحریروں میں بھی کرتا ہے۔ ادبیاتِ عالم کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ جو تخلیق کار عالمِ شباب میں دائمی مفارقت دے گئے ان کی تخلیقات میں موت کے دبے پاؤں چلے آنے کی آہٹ صاف سنائی دیتی ہے جس سے یہ گُمان گزرتا ہے کہ ان عظیم ادیبوں کو اپنے نہ ہونے کی ہونی کا شدت سے احساس تھا۔ رام ریاض، عاشق حسین فائق، بشیر سیفی، اطہر ناسک، میراجی، قابل اجمیری، پروین شاکر، اقتدار واجد، آنس معین، شکیب جلالی، ظفر سعید، سجاد بخاری، بائرن، کیٹس اور شیلے کی تحریریں پڑھنے کے بعد اس احساس کو تقویت ملتی ہے کہ ایک داخلی کرب نے ان سب ادیبوں کے تخلیقی عمل کو اپنی گرفت میں لیے رکھا۔ زندگی کے بارے میں غیر یقینی حالات میں جب سب دعائیں بے اثر ہو جائیں ، کلیاں شر ر ہو جائیں، سب بلائیں جب تمام ہو جاتی ہیں تو مرگِ ناگہانی کے اندیشے بڑھنے لگتے ہیں اور اس کے بعد زندگی کے لمحات مختصر ہو جاتے ہیں۔ اُفقِ ادب سے جب یہ چودہویں کے چاند ہمیشہ کے لیے غروب ہو جاتے ہیں تو سفاک ظلمتوں میں ہمارا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جاتا ہے۔ ہجومِ یاس میں جب دل گھبراتا ہے توہم آہیں بھرتے اور احساسِ زیاں سے نڈھال کفِ افسوس ملتے ہیں کہ اپنی دل کش، حسین ا ور طویل عرصہ تک یاد رکھی جانے والی تخلیقات سے علم و ادب کا دامن معمور کر دینے والی یہ نایاب ہستیاں کس قدر جلد پیمانۂ عمر بھر گئیں۔ موت کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ یہ ہمیشہ زندگی کے تعاقب میں رہتی ہے۔ ان با کمال ہستیوں نے اپنی موت کی آہٹ سُن کر بھی زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی۔ تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُتر جانے والے ان زیرک تخلیق کاروں نے خونِ دِل دے کے گلشنِ ادب کو اس طرح سیراب کیا کہ اس کے معجز نما اثر سے گلشن ادب میں گل ہائے رنگ رنگ سے سماں بندھ گیا اور ان کی عطر بیزی سے قریۂ جاں معطر ہو گیا۔ دانیال طریر اس تلخ حقیقت سے آگاہ تھا کہ مشعلِ زیست کے گُل ہونے کے خطرات کو کسی طور بھی ٹالا نہیں جا سکتا لیکن خوف اور اندیشوں کے سم کے مسموم اثرات سے گلو خلاصی ممکن ہے۔ اللہ کریم نے اسے مستحکم شخصیت سے نوازا تھا اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ زندگی کے سفرمیں جب بھی کوئی موہوم ڈر یا اضطراب سد راہ بنتا تو وہ اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے اسے دُور کر دیتا اور کبھی دِل میں ملال نہ آنے دیتا۔ اس نے موت کو کبھی دل دہلا دینے والا لرزہ خیز سانحہ نہیں سمجھابل کہ وہ جانتا تھا کہ رخشِ حیات مسلسل رو میں ہے، انسان کا نہ تو ہاتھ اس کی باگ پر ہے اور نہ ہی پاؤں رکاب میں ہیں۔ کسی بھی وقت اور کسی بھی مقام پر اس کی روانی تھم سکتی ہے۔ اس کی شاعری کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ واضح کر نا چاہتا تھا کہ ماحول کی سفاکی کے باعث جب آہیں اور دعائیں اپنی تاثیر سے محروم ہو جائیں تو زندگیاں بھی مختصر ہو جاتی ہیں۔ گلزارِ ہست و بُود میں سمے کے سم کے ثمر سے ایسی فضا پیدا ہو جاتی ہے کہ نرگس کی حسرت کی صدائے باز گشت کرگس کی کریہہ صورت میں دکھائی دیتی ہے اور بقا کی تمنا اپنی ہر اداسے فنا کے سیکڑوں مناظر سے آشنا کرتی ہے۔ خزاں کے اس نوعیت کے بے شمار تکلیف دہ مناظر کو دیکھنے کے بعد طلوعِ صبحِ بہارا ں کی اُمید وہم و گُماں اور سراب سی لگتی ہے۔ دانیال طریر کی شاعری میں نُدرت، تنوع اور جدت پر مبنی خیال آفرینی قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ کورانہ تقلید سے اسے سخت نفرت تھی اس لیے وہ خضر کا سودا چھوڑ کر اظہار و ابلاغ کی نئی راہیں تلاش کرتا ہے۔ اس کی تحریریں کلیشے کی آلودگی سے پاک ہیں۔ اس کے دل کش، حسین اور منفرد اسلوب میں ہر لحظہ نیا طُور نئی برقِ تجلی کی کیفیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ تخلیقِ فن میں اُس کا مرحلۂ شوق پیہم نئی منازل کی جانب روا ں دواں رہتا ہے۔ مثال کے طور وہ پر نئی تراکیب اور الفاظ کے بر محل استعمال سے اپنی شاعری کو گنجینہ ء معانی کا طلسم بنا دیتا ہے، بھنور کے بھید، خیال کی جوت، جھرنے کا ساز، کوئل کی کوک، گیت کی لے، وقت کی نے اور خوابوں کے سرابوں جیسے الفاظ میں زندگی کی کم مائیگی کا احساس قاری پر فکر و خیال کے متعدد نئے در وا کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ موت کی دیمک ہر فانی انسان کے تن کو چاٹ لیتی ہے۔ وہ چشمِ تصور سے زندگی کی راہوں میں ناچتی، مسکراتی اور ہنستی گاتی موت کی اعصاب شکن صدا سُن کر بھی دِ لِ برداشتہ نہیں ہوتا بل کہ نہایت جرأت کے ساتھ شاعری کو تزکیۂ نفس کا وسیلہ بناتا ہے۔ حرفِ صداقت سے لبریزاس کی شاعری اس کے داخلی کرب اور سچے جذبات کی مظہر ہے۔ موت کی دستک سُن کر وہ موت کے بارے میں جن چشم کشا صداقتوں کا اظہار کرتا ہے وہ زندگی کی حقیقی معنویت کو سمجھنے میں بے حد معاون ہیں۔ ا س کی شاعری کے مطالعہ کے بعد قاری کے لیے اپنے آنسو ضبط کرنا محال ہو جاتا ہے۔ اس حساس تخلیق کار کی دلی کیفیات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں جو موت کی دستک زنی کے دوران بھی اپنے قلبی احساسات کو پیرایۂ اظہار عطا کرنے میں پیہم مصروف رہا۔
جو اپنے مر گئے تھے، جی اُٹھے ہیں سو چتا ہوں
حقیقت سے تو بہتر واہمے ہیں سو چتا ہوں
فلک پر رنگ و روغن ہو رہا ہے میری خاطر
فرشتے مجھ کو لینے آ رہے ہیں سوچتا ہوں
اِک بار جا کے قبر میں بھی دیکھوں تو طریر
کیسی دکھائی دیتی ہے باہر سے زندگی
میں چاند بن کے سوچتارہتا ہوں ساری رات
کالے گگن پہ کس نے لٹکا دیا مجھے
خواب جزیرہ بن سکتے تھے، نہیں بنے
ہم بھی قصہ بن سکتے تھے، نہیں بنے
ہم دو چار محبت کرنے والے لوگ
دنیا جیسا بن سکتے تھے، نہیں بنے
پیڑ میں آدمی بناؤں میں
کو ئی دنیا نئی بساؤں میں
برف جمنے لگی ہے آنکھوں میں
خواب کمخواب ہی بناؤں میں
جرس اور سار بانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
یہ دل اگلے زمانوں تک پہنچتا چاہتا ہے
درندے ساتھ رہنا چا ہتے ہیں آدمی کے
گھنا جنگل مکانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
اک طرز پُر اسرار میں دیکھا ہے خدا خیر
سایا کو ئی دیوار میں دیکھا ہے خدا خیر
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ دانیال طریر کی شاعری کے سوتے اُس کے جذبات، احساسات اور حسین خوابوں سے پُھوٹتے ہیں۔ اس کی زندگی کے تجربات، مشاہدات، جذبات، میلانات اور احساسات اس کی شاعری میں سما گئے ہیں۔ اس کے قلب اور روح پر پڑنے والے موت کے سائے اُس کی شاعری میں صاف دکھائی دیتے ہیں۔ راتوں کے پچھلے پہر میں وہ ٹمٹما کر غروب ہونے والے ستاروں سے بھی ٹوٹ کر محبت کرنے کا آرزومند دکھائی دیتا ہے۔ زندگی اور موت کے بارے میں اس قسم کے خیالات جب اس کے نہاں خانۂ دِ ل میں نمو پانے کے بعد اظہار کی راہ تلاش کرتے ہیں تو وہ ابلاغ کے لیے موثر ترین پیرایہ ء اظہار اپنا تا ہے اورحسین ترین الفاظ کا انتخاب کرتا ہے۔ اس کی شاعری کا اہم ترین وصف یہ ہے کہ وہ ہر مقام پر اچھوتا، منفرد اور نیا رنگ اور آہنگ پیشِ نظر رکھتا ہے۔ صنائع بدائع، قافیہ، ردیف، تشبیہہ، استعارہ، تراکیب، تمثالیں، مضامین اور موضوعات سب کے سب اس کی ذات کی انفرادیت کوسامنے لاتے ہیں۔ اس کی بصیرت، فکری اُپج، جدتِ اظہار اور حریتِ فکر کا عنصر اس کے اسلوب کو سحر نگار بنا دیتا ہے۔ اسے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ مسلسل شکستِ دل کے باعث معاشرہ بے حسی کا شکار ہو گیا ہے اور ہر کوئی اپنی فضا میں مست پھرتا ہے۔ شہرِ نا پُرساں میں تنہائیوں کا زہر پینے والے دُکھی انسانوں کی چشمِ تر پر نگاہِ التفات ڈالنے والا کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں وہ گونگے، بہرے اور نا بینا علاقوں کے بُتوں میں گویائی، سماعت اور بصارت بانٹنے کا آرزو مند تھا۔ حیف صد حیف کہ ایک دردمند انسان ہماری بزم سے رخصت ہو گیا اب بام و در حسرت ویاس کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ اس کی صبحِ بہار کو خزاں نے جس بے دردی سے جھلسا دیا اس کے اثرات اس کے تخلیقی عمل پر بھی مرتب ہوئے۔ اسی لیے اس کا تخلیقی عمل جہاں اس کی انفرادیت کا منہ بولتا ثبوت ہے وہاں اس کا داخلی کرب بھی اس میں سمٹ آیا ہے۔ بادی النظر میں یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ دانیال طریر آئینہ ء ایام میں اپنی ہر ادا پر کڑی نظر رکھتا ہے اور ایام کا مرکب بننے کے بجائے وہ ایام کا راکب بن کر مہر و مہ و انجم کے محاسب کا کردار اد اکرتا ہے۔ وہ اپنے جذبات و احساسا ت کو مناسب حدود اور نا گزیر قیود کا پابند بنا دیتا ہے۔ اس کی شاعری پڑھتے ہوئے کئی مقامات پر قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی شخصیت میں جو لائقِ صد رشک و تحسین توازن اور اعتدال موجود ہے اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس کے اندر موجود محتسب اس کی تسبیحِ روز و شب کے دانے دانے پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جذباتی سطح سے ہٹ کر سوچتا ہے اور اپنی ایک ایسی الگ دنیا بسانے کا آرزو مند ہے جس کا تعلق حقیقت پسندانہ اندازِ فکر سے ہو۔ اس کی خطر پسند طبیعت وادیِ خیال کو مستانہ وار طے کرنے کے بجائے زندگی کے تُند و تلخ حقائق اور درپیش خطرات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آگے بڑھنے کی عادی ہے۔ اس کی شاعری میں محض اظہارِ ذات کا کہیں بھی گُماں نہیں گزرتا بل کہ اس نے اپنی ذات کے بجائے حیات و کائنات کے مسائل کو اس خوش اسلوبی سے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے کہ سارا زمانہ اس کا ہم راز اور ہم نوا دکھائی دیتا ہے۔ ایک زیرک فعال اورمستعد تخلیق کار کی حیثیت سے دانیال طریر نے اپنی شاعری میں افکارِ تا زہ کی جانب سفر جاری رکھا ہے۔ اس کی شاعری محض خیال و خواب، مفروضوں اور تصورات کی مظہر نہیں بل کہ یہ تو ہماری سماجی معاشرتی، تہذیبی اور ثقافتی اقدار کا ایسا خاکہ پیش کر تی ہے جس کی اساس پر مستقبل کے قصرِ عالی شان کی تعمیر ممکن ہے۔ وہ خواب اور حقیقت کے مابین پائے جانے والے فاصلوں کو اس طرح سمیٹتا ہے کہ تمام موہوم اندیشے اور وسوسے اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔ زندگی کے حقائق کی گرہ کشائی کر نے والی دانیال طریر کی شاعری قاری کواس مسموم ماحول کے بار ے میں سب کچھ بتا دیتی ہے جس نے زندگی کے تمام رتیں بے ثمر، کلیاں شرر، آبادیاں پر خطر اور آہیں بے اثر کر دی ہیں۔ جب شہر سنسان ہو جائیں اور جھونپڑیاں نذر آتش کر دی جائیں تو بے بس و لاچار لوگ کو اپنے جلے ہوئے نشیمن کی راکھ کو بھی حسرت سے دیکھتے ہیں۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ معاشرے کے پس ماندہ طبقے کے خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے۔
ایک بجھا ؤ ایک جلاؤ خواب کا کیا ہے
آنکھوں میں رکھ کر سوجاؤ خواب کا کیا ہے
لا یعنی ہے، سب لا یعنی، یعنی یعنی
اور کہانی لکھ کر لاؤ خواب کا کیا ہے
ایک کباڑی گلیوں گلیوں واج لگائے
راکھ خریدو، آگ کے بھاؤ خواب کا کیا ہے
بکھرنے کا سبب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
میں تہذیبِ ادب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
آتشیں لہر نہ برفاب میں رکھی جائے
شب غنودہ مِرے اعصاب میں رکھی جائے
تیری آنکھوں کی اجازت سے اُٹھیں گی پلکیں
دیکھنے کا تجھے حق لے کے تجھے دیکھوں گا
اردو زبان و ادب میں ایم۔ اے کرنے کے بعد دانیال طریر شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گیا۔ وہ جامعہ بلوچستان (کوئٹہ)کے شعبہ اردو میں تنقید کی تدریس پر مامور تھا۔ فروغِ علم و ادب کے لیے اس نے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی۔ وہ علمی و ادبی محفلوں کی جان تھا، اس نے کچھ عرصہ کوئٹہ سے شائع ہونے والے مقبول ترین کتابی سلسلے ’’مہر نامہ ‘‘کے اعزازی مدیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ تحقیق، تنقید، شاعری، تہذیب و ثقافت، علم بشریات، نفسیات، تاریخ، لسانیات اور پاکستانی ادبیات کے موضوع پر اس کے اشہبِ قلم کی جولانیوں کا ایک عالم معترف تھا۔ رنگ اور خوشبو سے محبت کرنے والے دانیال طریر کی زندگی دھنک رنگوں سے مزین تھی۔ اس کی گھریلو زندگی بہت خوشگوار رہی۔ اللہ کریم نے اُسے دو جڑواں بچوں (ایک بیٹی اور ایک بیٹا) سے نوازا۔ وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا تھا نہ جانے کس کی نظر لگی کہ یہ ہنستا مسکراتا چمن مہیب سناٹوں کی زد میں آ گیا۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں وہ ہر کام جلد مکمل کرنے کی فکر میں رہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے نہایت تیزی سے اپنی تصانیف کے مسودات کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ اس کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :
۱۔ آدھی آتما (شاعری)۔ یہ شعری مجموعہ سال 2005میں شائع ہوا اور ذوقِ سلیم رکھنے والے دنیا بھر کے قارئین نے اس کی بے حد پذیرائی کی اس شعری مجموعے کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس شعری مجموعے کو حکومت بلوچستان نے صوبائی ایوارڈ سے نوازا۔
۲۔ بلوچستانی شعریات کی تلاش(جلد اول ) سال اشاعت 2009
۳۔ معنی فانی (شاعری) سالِ اشاعت، 2012
۴۔ معاصر تھیوری اور تعینِ قدر (تنقید) سالِ اشاعت 2012
دانیا ل طریر کی دیگر تصانیف جو اشاعت کے آخری مراحل میں ہیں وہ درج ذیل ہیں :
جدیدیت، مابعد جدیدیت اور غالب(تحقیق و تنقید)۔ دانیال طریر کی یہ معرکہ آرا تصنیف برقی کتاب کی صورت میں شائع ہو چُکی ہے۔ دنیا بھر کے قارئین اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اس لنک پر کتاب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے:lib.bazmeurdu.net ۔ اس کتاب میں دانیال طریر نے اُردو کلاسیکی شاعری کے عمیق مطالعہ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اُردو شاعری میں جدیدیت کے حوالے سے سب سے پہلے جس شاعر نے اپنے خیالات او دبنگ لہجے سے اس جانب توجہ دلائی وہ میرزا اسداللہ خان غالب ہے۔ پامال راہوں اور تقلیدی روش سے بچ کر نئے راستوں اور نئی منازل کی جستجوغالب کی شاعری کا نمایاں وصف ہے۔ دانیال طریر نے جدیدیت کے حوالے سے یہ واضح کیا کہ جدیدیت کی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ پہلے سے مروج و مقبول سانچے اور تقلیدی ڈھانچے، قدیم بنے بنائے نظام اور فرسودہطرزِ کلام کو لائقِ استرداد ٹھہرا کر نئے انداز میں روشنی کا سفر جاری رکھنے پر اصرار کرتی ہے۔
خواب کمخواب (شاعری)، خدا میری نظم کیوں پڑھے گا(طویل نظم)، پانی کے صحیفے (شاعری)، بلو چستانی شعریات کی تلاش(جلد دوم)، ادب، تنقید اور تھیوری(تنقید)، تعبیری شعریات کی حدود(تنقید)، بھوکے بھبھوکے(شاعری) ٭
۔۔۔۔۔
٭ خواب کمخواب، خدا میری نظم کیوں پڑھے گا بزم اردو لائبریری میں شائع ہو چکی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
جدید تنقید میں دانیال طریر نے ہمیشہ گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ ادبی تخلیقات پر اس کی تنقیدی تحریریں جہاں اس کی علمی فضیلت کی مظہر ہیں وہاں ان میں تخلیقی عمل میں مصروف ادیب کے ساتھ خلوص پر مبنی اصلاحی رویہ بھی صاف دکھائی دیتا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ تخلیقی عمل کو صحیح سمت عطا کرنے میں تنقید کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اللہ کریم نے دانیال طریر کو عظمتِ کردار اور ضبطِ نفس کے جن ارفع اوصاف سے نوازا تھا ان کا اظہار اس کی تنقید میں نمایاں ہے۔ اس کی تنقید میں غیر جانب دارانہ اور منصفانہ تجزیاتی انداز تخلیق کار کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوتا ہے۔ سوشیالوجی، فلسفہ، جدید تنقیدی لسانیات، تنقیدی ڈسکورس اور تنقید و تحقیق کے موضوع پر اس نے دنیا کے ممتاز نقادوں کے فکر پرور اور خیال افروز مضامین سے بھر پور استفادہ کیا۔ ایک وسیع المطالعہ نقاد کی حیثیت سے اس نے اپنی تنقیدی تحریروں میں وسعت نظر اور تحقیق و تجزیہ پر مبنی جو انداز اپنا یا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس نے جدیدیت، مابعد جدیدیت، ساختیات، پسِ ساختیات اور تحقیق کے موضوع پر جن مباحث کا آغاز کیا وہ اس کی محنت اور تنقیدی بصیرت کا ثبوت ہے۔ اس نے ٹیری ایگلٹن، گنٹر گراس، نوم چومسکی، رولاں بارتھ، سوسئیر، ژاک لاکاں، ژاک دریدا، مشل فوکو اور کلاڈ لیوی سٹراس کی تصانیف کا بڑی توجہ سے مطالعہ کیا تھا۔ ایک وسیع المطالعہ نقاد ہونے کی وجہ سے اس کے مداح اُسے عالمی ادبیات کا دائرۃ المعارف قرار دیتے تھے۔ تنقیدی تھیوری کے موضوع پر اس کے خیالات کو ادبی حلقوں نے قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ اس کی دلی تمنا تھی کہ سماج، معاشرے اور تہذیب و ثقافت جیسے اہم موضوعات پر اقتضائے وقت کے مطابق ادبی تنقید اور سوشل سائنسز کے باہمی اشتراک سے حقیقت پسندانہ انداز میں تحقیق و تجزیہ کو فروغ دیا جائے۔ ادبی تنقید اورسوشیالوجی میں دانیال طریر نے جس دلچسپی کا اظہار کیا، ا س کے اعجاز سے اس کی تنقیدی تحریروں کی ثقاہت میں اضافہ ہوا۔ دنیا بھر میں لاکھوں طالب علموں اور ریسرچ سکالرز نے انٹر نیٹ پر دانیال طریر کے تنقیدی مضامین اور تحقیقی مقالات سے استفادہ کیا۔ عالمی شہرت کے حامل نقادوں اور دانش وروں نے دانیال طریر کی تنقید کو خراج تحسین پیش کیا۔ دانیال طریر کی تنقیدی بصیرت کو جن ممتاز ادیبوں نے قدر کی نگاہ سے دیکھا ان میں غفار بابر، بشیر سیفی، گدا حسین افضل، ڈاکٹر نثار احمد قریشی، ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی، صابر کلوروی، فرمان فتح پوری، محمد علی صدیقی، شہر یار، مغنی تبسم، وارث علوی، سرشار صدیقی، صابر آفاقی، امیر اختر بھٹی، سعداللہ کلیم، محسن بھوپالی، خاطر غزنوی، احمدحسین قریشی، محمد بخش گھمنانہ، سمیع اللہ قریشی، ڈاکٹر انعام الحق کوثر، میاں اقبال زخمی، آصف خان، راجا رسالو، سبط الحسن ضیغم، دیوان احمد الیاس نصیب، عبد اللہ حسین، محسن احسان اورسجاد بخاری کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
دانیال طریر کی وفات پر ہر آنکھ اشک بار اور دِل سوگوار ہے۔ یوں تو انسان اس دنیا میں پہلی سانس لینے کے ساتھ موت کی جانب سفر کا آغاز کر دیتا ہے لیکن جب ایک کوہ پیکر ادیب کی آنکھیں مند جاتی ہیں تو لوگ اسے بالعموم دائمی نیند سے تعبیر کرتے ہیں لیکن دراصل یہیں سے زیرک تخلیق کار کی دائمی بیداری کی عظیم الشان طویل منزل کا آغاز ہوتا ہے اور اس کا ابد آشنا اسلوب اپنے وجود کا اثبات کر دیتا ہے۔ اس سے یہ حقیقت کُھل کر سامنے آتی ہے کہ اگر چہ ساز خاموش ہو گیا ہے لیکن اس کے سُریلے بول اور مدھر موسیقی رہتی دنیا تک کانوں میں رس گھولتی رہے گی۔ کیسے کہہ دوں کہ دانیال طریر اب ہمارے درمیان مو جود نہیں ہے ہا ں یہ بات ضرور کہہ سکتا ہوں کہ دانیال طریر جیسی ہفت اختر شخصیت کے یو ں ہماری بزم سے اُٹھ جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہیں ہو سکتا۔ یہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ اردو تنقید و تحقیق اور تخلیق شعر و ادب کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی اجل کے ہاتھوں زمیں بوس ہو گئی۔ اس بات کا دلی قلق ہے کہ کوئٹہ کی سنگلاخ زمیں نے اردو ادب کے آسماں کو اپنے اندر چُھپا لیا۔ ہم الم نصیبوں اور جگر فگاروں کے لیے یہ بات دلاسے اور تسلی کا باعث ہے کہ ہم نے دانیال طریر کا زمانہ دیکھا، وہ ہمارے درمیان موجود رہا۔ یہ بات بھی بزمِ ادب سے وابستہ اس کے لاکھوں مداحوں کے لیے لائقِ صد افتخار ہے کہ وہ اس نابغہ ء روزگار ادیب کی فقید المثال تخلیقی اور تنقیدی بصیرت سے فیض یاب ہوئے۔ ایسے نایاب لوگ مُلکوں مُلکوں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ ممتاز شاعر علی زریون کے درج ذیل اشعار میرے جذباتِ حزیں کی تر جمانی کرتے ہیں۔
’’تعزیت کیا کروں تری، مرے دوست
روشنی بھی کبھی مری، میرے دوست
تو ابھی بات کر کے سویا تھا
ایسی کیا نیند آ گئی میرے دوست
بُجھ گیا سانس کا دیا تو کیا
جل اُٹھی، تیری شاعری، مرے دوست
کون بولے گا اب مجھے ایسے
او مِری جان، ا و علی، مِرے دوست
موت سے کیسے ہار سکتی ہے!
اتنی پُر جوش زندگی، مِرے دوست
تُو نے دھوکا دیا ہے مجھ کو طریر
یوں بھی کرتا ہے کیا کوئی ! مِرے دوست
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے فائلیں فراہم کیں
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید