FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

وہی آبلے مرے پاؤں کے

               سرور ارمان

 

انتساب

ترقی پسند ادبی تحریک کے ممتاز رہنما

جناب عارف عبدالمتین

کے قابلِ تقلید اور لائق تحسین فکری میلان

اور فلسفۂحیات کے نام!

سرور ارمان

ڈپٹی ایڈیٹر ماہنامہ پائلٹ آئینہ لاہور

مدیر ادبی سلسلہ ’زربفت، نارووال

برائے رابطہ:

0301-6360741

sarwararman2009@yahoo.com

 

تخلیقی سفر

۱۔         سرابِ مسلسل                (شعری مجموعہ)

۲۔       زنجیر بولتی ہے                 (شعری مجموعہ)

۳۔       تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو     (انتخاب)

۴۔        وہی آبلے مرے پاؤں کے            (شعری مجموعہ)

زیرِ طبع کتب:

۵۔        عارف عبدالمتین                         (فن اور شخصیت)

۶۔        مرے مہرباں مرے ہم نشیں        (مضامین)

۷۔        صریرِ خامہ                                  (کالموں کا مجموعہ)

 

سرکشی کو جب ہم نے ہمرکاب رکھنا ہے

ٹوٹنے بکھرنے کا کیا حساب رکھنا ہے

ایک ایک ساعت میں زندگی سمونی ہے

ایک ایک جذبے میں انقلاب رکھنا ہے

رات کے اندھیروں سے جنگ کرنے والوں نے

صبح کی ہتھیلی پر آفتاب رکھنا ہے

ہم پہ اس سے واجب ہیں کوششیں بغاوت کی

تم نے جس قبیلے کو کامیاب رکھنا ہے

رکھ دو ہم فقیروں کی اس کشادہ جھولی میں

اپنی بادشاہی کا جو عذاب رکھنا ہے

تم تو خود زمانے میں جبر کی علامت ہو

تم نے جبر کیا زیرِ احتساب رکھنا ہے

شہرِ بے اماں ہم نے، نقدِ جاں لٹا کر بھی

تیرے ہر دریچے پر کل کا خواب رکھنا ہے

٭٭٭

 

زمانوں سے درِ امکان پر رکھے ہوئے ہیں

چراغوں کی طرح طوفان پر رکھے ہوئے ہیں

فضاؤں میں مہک جلنے کی بو پھیلی ہوئی ہے

کسی نے پھول آتش دان پر رکھے ہوئے ہیں

ذرا سا بھی گماں تیری شباہت کا تھا جن پر

وہ سب چہرے مری پہچان پر رکھے ہوئے ہیں

خوشی کو ڈھونڈنا ممکن نہیں اس کیفیت میں

کچھ ایسے سانحے مسکان پر رکھے ہوئے ہیں

کوئی تیری پرستش کی نہیں صورت نکلتی

ہزاروں کفر اک ایمان پر رکھے ہوئے ہیں

شکم سیری سے پہلے لمحہ بھر کو سوچ لینا

ہمارے خواب دستر خوان پر رکھے ہوئے ہیں

کسی کے روز و شب بکنے کی قیمت چند لقمے

تو کیا وہ بھی ترے احسان پر رکھے ہوئے ہیں

٭٭٭

 

یہ بے نیازیِ تزئینِ بام و در تو نہیں

سیاہ بخت ہیں ہم لوگ، بے ہنر تو نہیں

اگرچہ لمحۂ موجود کے حصار میں ہیں

ہم اپنے عہدِ گزشتہ سے بے خبر تو نہیں

فضا مہکنے لگی دفعتاً تو دل نے کہا

چمن بدوش، گلی میں وہ نامہ بر تو نہیں

بہت دنوں سے یہ احساس ہو رہا ہے کہ یہ

ملے تھے جس پہ کبھی ہم وہ رہگذر تو نہیں

زباں غلام، نگاہیں غلام، فکر غلام

کہ ایک بوجھ ہے شانوں پہ اپنے سر تو نہیں

ہمارا حق ہے جو ہم کو بہ شکلِ بھیک نہ دے

کہ ہم غریب گدایانِ دربدر تو نہیں

ضرورتوں کے جہنم ہیں، مسئلوں کے پہاڑ

گھروں کے نام پہ پھیلے ہوئے یہ گھر تو نہیں

٭٭٭

 

شگاف شہر پناہوں کے بھر بھی سکتے ہیں

ہوا کے سامنے، تنکے ٹھہر بھی سکتے ہیں

نہیں یہ جانتے پتھر اچھالنے والے

سکوں شناس سمندر بپھر بھی سکتے ہیں

بدن شعور پہ قربان ہو بھی سکتا ہے

بقا کی جنگ میں ہم لوگ مر بھی سکتے ہیں

بہ زعمِ دشنہ و خنجر یہ ہم لباس غنیم

شکوہِ فرد کو نیلام کر بھی سکتے ہیں

ڈبو دیا تھا جنہیں تیرے دستِ قاتل نے

وہ سطحِ آب پہ پھر سے ابھر بھی سکتے ہیں

تصورات کی تپتی ہوئی زمینوں پر

کسی کی یاد کے سائے بکھر بھی سکتے ہیں

جمالِ یار مرے غم کدے کی زینت ہے

ستارے آج زمیں پر اتر بھی سکتے ہیں

٭٭٭

 

آؤ شہرِ تصور کا ماتم کریں!

نیم تاریکیاں، نیم خاموشیاں

گاہ آبادیاں، گاہ ویرانیاں

آج کے مسئلے، کل کی دشواریاں

قیدِ جاں میں بلکتی ہوئی خواہشیں

سرخ آنکھوں میں جلتے ہوئے رتجگے

خشک ہونٹوں کی بے ربط سرگوشیاں

زرد چہروں پہ چھائی ہوئی مردنی

طوق و زنجیر پہنے ہوئے سرکشی

خوف سے کسمسائی ہوئی راحتیں

مصلحت میں لپیٹے ہوئے قہقہے

صحن تصویر خانوں کے اجڑے ہوئے

رنگ پھیلے ہوئے عکس سکڑے ہوئے

رخشِ امید کے پاؤں اکھڑے ہوئے

ہمصفیرانِ دامن فگاراں چلو!

انتظاماتِ شب زندہ داری کریں!

جشنِ اظہارِ خود اختیاری کریں!

گریِ  مرگِ توقیرِ آدم کریں!

آؤ شہرِ تصور کا ماتم کریں!

٭٭٭

 

شبِ تاریک چپ تھی، در و دیوار چپ تھے

نمودِ صبحِ نو کے سبھی آثار چپ تھے

تماشا دیکھتے تھے ہمارے ضبطِ غم کا

مسلط ایک ڈر تھا، لبِ اظہار چپ تھے

ہوائیں چیختی تھیں، فضائیں گونجتی تھیں

قبیلہ بٹ رہا تھا مگر سردار چپ تھے

گراتا کون بڑھ کر بھلا دیوارِ ظلمت

اجالوں کے پیمبر پسِ دیوار چپ تھے

متاعِ آبرو کو بچا سکتے تھے لیکن

محافظ سرنگوں تھے تو پہرے دار چپ تھے

نہیں ہے اس سے بڑھ کر کوئی توہین فن کی

خریدے جا رہے تھے مگر فنکار چپ تھے

زمانہ چاہتا تھا کہانی کا تسلسل

مگر پردے کے پیچھے سبھی کردار چپ تھے

٭٭٭

 

سحر و شام میں تنظیم کہاں ہوتی ہے

خواہشِ صبح کی تجسیم کہاں ہوتی ہے

لُوٹ لے جاتا ہے بس چلتا ہے جس کا جتنا

روشنی شہر میں تقسیم کہاں ہوتی ہے

ان محلّوں میں جہاں ہم نے گزاری ہے حیات

مدرسے ہوتے ہیں، تعلیم کہاں ہوتی ہے

شہر یاروں نے اجاڑا ہو جسے ہاتھوں سے

پھر سے آباد وہ اقلیم کہاں ہوتی ہے

تیرتے ہیں جو غلاموں کی جھکی آنکھوں میں

ان سوالات کی تفہیم کہاں ہوتی ہے

جس کا اعزاز ترے در کی گدائی ہو اسے

عمر بھر خوئے زر و سیم کہاں ہوتی ہے

ہم غریبوں کی جبیں پر کسی جابر کے حضور

تہمتِ سجدۂتسلیم کہاں ہوتی ہے

٭٭٭

 

طاق پر عہدِ گزشتہ کو اٹھا کر رکھ دیں

آ تجھے چشمِ زمانہ سے چھپا کر رکھ دیں

کن بہاروں سے در و بام کی تزئین کریں

کتنی شمعیں ترے رستے میں جلا کر رکھ دیں

ہوش مندی ہے یہ کیا قریِ  عشاق میں لوگ

ہر جگہ ایک ہی تصویر بنا کر رکھ دیں

غمِ جاناں غمِ دوراں میں سمٹ جاتا ہے

جب چراغوں کو سرِ شام بجھا کر رکھ دیں

پردۂ ذہن پہ محفوظ رہے نقش تمام

ہم نے چاہا تو بہت تھا کہ مٹا کر رکھ دیں

کب کوئی مانگتا ہے ایسی بہاروں کی دعا

آگ جو ایک رگ و پے میں لگا کر رکھ دیں

خواب بکتے نہیں بازار میں دُکّانوں پر

اپنے بے خواب دریچے میں جو لا کر رکھ دیں

چلو ویرانے کو تنہائی سے آباد کریں

شہر سے دور کہیں شہر کو جا کر رکھ دیں

٭٭٭

 

نظامِ نو

تم ایک خواب ہو بے اختیار لوگوں کا

تم ایک منزلِ امید دلفگاروں کی

تم ایک شہرِ تصور، تم ایک ارضِ خیال

تم ایک سحرِترنم ہو آبشاروں کا

تمھارے دم سے ہے توقیر لالہ زاروں کی

تمھی تو ہو کہ نظر جس کو آج ڈھونڈتی ہے

تمھی تو ہو کہ شبِ غم جسے پکارتی ہے

تمھی وہ فکر ہو جو زیست کو نکھارتی ہے

شعورِ اوجِ بشر ذہن میں اتارتی ہے

ہمارے خون سے رنگیں ہیں رہبروں کے لباس

ہمارا کربِ مسلسل ہے رتجگوں کی اساس

اگرچہ مل نہ سکا ہم کو صبحِ نو کا سراغ

اگرچہ ثبت ہیں ہر جا شبِ سیاہ کے داغ

جھلک رہے ہیں امیدوں کے ہر نظر میں چراغ

کہاں ہو تم کہ زمیں جبر کے حصار میں ہے

حیات آج تمھارے ہی انتظار میں ہے

٭٭٭

 

اپنے اترن کا ہمیں دان بھی کر سکتے ہیں

لوگ اب ہم پہ یہ احسان بھی کر سکتے ہیں

ہمیں معلوم نہ تھا، چاک قبا پھولوں کی

صحنِ گلشن کے نگہبان بھی کر سکتے ہیں

خون خواری پہ درندوں کو برا کیا کہنا

یہ تو اس عہد کے انسان بھی کر سکتے ہیں

نسل در نسل بنا کر جنہیں رکھا ہے غلام

اک بپا دہر میں طوفان بھی کر سکتے ہیں

آج اس موڑ پہ لے آئے ہیں حالات کہ لوگ

تار تار اپنے گریبان بھی کر سکتے ہیں

یہ سلگتے ہوئے ایندھن کی طرح، مہر بہ لب

وقت کو ششدر و حیران بھی کر سکتے ہیں

اب ترا جبرِمسلسل ہمیں منظور نہیں

ہم کسی روز یہ اعلان بھی کر سکتے ہیں

٭٭٭

 

اعلان ہو رہا ہے، ضرورت ہے رقص کی

مطلوب زندگی کو حرارت ہے رقص کی

تعمیر ہو رہے ہیں ضمیروں کے مقبرے

کچھ روز پاگلوں کو اجازت ہے رقص کی

سیلن زدہ مکاں ہی نہیں اس میں مبتلا

محلوں کو بھی پسند تجارت ہے رقص کی

محرومیوں کا جشن منانے کا وقت ہے

بے تاب ہے جنوں کہ یہ ساعت ہے رقص کی

ہیں پاؤں زخم زخم تو ملبوس تار تار

دیدہ ورو! یہ کون سی صورت ہے رقص کی

مذہب جدا ہے اس کا تو ایمان بھی جدا

اپنی الگ ہی ایک شریعت ہے رقص کی

زیور پہن کے شہر میں زنجیر و طوق کا

حاصل کسی کسی کو سعادت ہے رقص کی

٭٭٭

 

دشتِ مسافت

ہزاروں خواب ان بے خواب آنکھوں کی ضرورت ہیں

ہماری آرزوئیں گم شدہ بچوں کی صورت ہیں

ہماری زندگی بے آبروئی کا تماشا ہے

یہ کس آذر نے ابوالہول ظلمت کا تراشا ہے

یقیں آمیز سوچیں ہیں، حصارِ بدگمانی ہے

مکاں کے گوشے گوشے میں سراغِ لامکانی ہے

یہ کیسی مرثیہ گوئی، یہ کیسی نوحہ خوانی ہے

جبینِ وقت پر تحریر صدیوں کی کہانی ہے

نہ جذبوں میں تلاطم ہے نہ دریاؤں میں پانی ہے

یہ کس دشتِ مسافت کی طلب نے خاک چھانی ہے

سحر لپٹی ہوئی ہے یاس کی بے نور چادر میں

ارادے سو رہے ہیں بے حسی کے نرم بستر میں

نظر آتی نہیں ہیں ٹوٹتی پیروں کی زنجیریں

تماشا دور سے کرتی ہیں آزادی کی تنویریں

گھسیٹا ہم کو بالوں سے پکڑ کر عہدِ حاضر نے

ہمارے منہ پہ ماریں وقت نے گستاخ تحریریں

٭٭٭

 

شب خون

ڈسنے کو لپکتے سائے ہوں دیواروں کے

مٹی میں ملیں مضبوط بھرم جی داروں کے

فولاد کے بازو اور جگر کہساروں کے

سب ناز اٹھانے لگتے ہیں درباروں کے

تسکینِ سماعت شور کہاں بازاروں کے

کھلتے ہیں دہانے شہر میں آتش زاروں کے

یہ عہد کرے گا ہاتھ قلم معماروں کے

نیزوں پہ سجیں گے جذبے شاہسواروں کے

جب لفظ خریدے جاتے ہوں اخباروں کے

گھر ہوتے ہیں آسیب زدہ فن کاروں کے

تحریر کوئی، عنوان کوئی، مضمون کوئی

ترتیب کوئی، تہذیب کوئی، قانون کوئی

معلوم کسے، احساس کسے، امید کسے

اک روز بہا لے جائے گا شب خون کوئی

٭٭٭

 

فرازِ طورِ انا سے اتر کے دیکھتے ہیں

حیات کیا ہے کسی روز مر کے دیکھتے ہیں

جہاں بلندی و پستی میں امتیاز نہ ہو

ہم ایسے لوگ وہاں کب ٹھہر کے دیکھتے ہیں

یہ آگہی کا سفر ضبط کی ریاضت ہے

برہنہ پا بھی خوشی سے گزر کے دیکھتے ہیں

چلو کہ پھول بچھاتے ہیں راہِ یاراں میں

چلو کہ جھولیاں کانٹوں سے بھر کے دیکھتے ہیں

ہتھیلیوں پہ لیے شب نصیب آنکھوں کو

ہم اہلِ قافلہ امکاں سحر کے دیکھتے ہیں

اٹھائیں گے وہ کہاں انقلاب کا پرچم

جو لوگ خواب بھی دیکھیں تو ڈر کے دیکھتے ہیں

٭٭٭

 

کیا لوگ بے بسی کی ردائیں اتار کر

انصاف آسمان سے لائیں اتار کر

فریاد کر رہا ہے تنفس کا زیر و بم

لاؤ کہیں سے تازہ ہوائیں اتار کر

ممکن نہیں جب ان کا تحفظ زمین پر

کیوں بھیجتا ہے عرش سے مائیں اتار کر

آنکھوں کو دے گیا وہ سحر کی تسلیاں

ہونٹوں سے لے گیا ہے دعائیں اتار کر

اٹھو کہ اب بساطِ غلامی لپیٹ دیں

آؤ گلے سے طوق دکھائیں اتار کر

اعلان کر رہے ہیں یہ زنداں کے منتظم

لے جاؤ سولیوں سے انائیں اتار کر

بدمست نوچتے ہیں حویلی کے رات بھر

جسموں کو آبرو کی قبائیں اتار کر

رکھیں کہاں سنبھال کے گاؤں کی لڑکیاں

نازک ہتھیلیوں سے حنائیں اتار کر

٭٭٭

 

کتنی عمر کٹے گی دیواروں سے سر ٹکرانے میں

صدیوں سے محبوس ہوں میں احساس کے پاگل خانے میں

میں بھی کچھ کچھ شامل ہوں تیری تصویر سجانے میں

تیرا اک کردار بھی ہے میرے گمنام فسانے میں

جھونپڑیوں میں رہنے والے ہی یہ بہتر جانتے ہیں

کتنی لاشیں دفن ہوئی ہیں اک مینار بنانے میں

طوفانوں کو پیچھے مڑ کر دیکھنے کی کب فرصت ہے

برسوں لگ جاتے ہیں پھر سے اجڑے شہر بسانے میں

میں بستی کا چپہ چپہ چھان کے گھر لوٹ آیا ہوں

نسلیں مٹ جائیں گی شاید خوشحالی کے آنے میں

گرم ہوا بھی ٹھیک ہے لیکن گل چیں بھی معصوم نہیں

دونوں کا ہے جرم برابر پھولوں کے مرجھانے میں

چہروں پر حالات کی تلخی کچھ آثار تو چھوڑے گی

ہاتھ تو زخمی ہوں گے صاحب کانٹوں کے یارانے میں

٭٭٭

 

بے بسی

اپنی محبوب ہستیوں کے لیے

ہم کہ اتنا بھی کر نہیں سکتے

عہدِ الفت نِباہنے کے لیے

ہم قیامت سے لڑ نہیں سکتے

زندگی کی سیاہ زلفوں میں

کوئی خورشید جڑ نہیں سکتے

روشنی کی تلاش میں اپنی

بے ثمر جہدِ ماہ و سال گئی

جاتے جاتے ہوائے تُند مزاج

سَر سے دستار بھی اچھال گئی

شیش محلوں کے سُرخ شیشوں سے

بس ہیولے دکھائی دیتے رہے

حاجتوں کی صلیب پر چڑھ کر

چند جذبے دہائی دیتے رہے

فصلِ گل میں بھی اب نہیں ممکن

لالہ زاروں کے چاک سِل جائیں

دشتِ امکاں کے تیرہ بختوں کو

منزلوں کے سراغ مل جائیں

اب کے ہم دلبروں کے رستے میں

اپنی آنکھیں بچھا نہیں سکتے

ایک موہوم صبحِ نَو کے لیے

بام و در کو سجا نہیں سکتے

جینا چاہیں تو جی نہیں سکتے

مرنا چاہیں تو مر نہیں سکتے

ان کے دامن وفا کے پھولوں سے

انتقاماً بھی بھر نہیں سکتے

٭٭٭

 

تم ہار بھی سکتے ہو

تم ایسی عدالت کے خود ساختہ منصف ہو

آنکھوں سے جو اندھی ہے کانوں سے جو بہری ہے

احساس سے عاری ہے، طاقت کی پجاری ہے

پیروں کے تلے جس کے تقدیر ہماری ہے

زرخیز زمینوں میں، افراد کے سینوں میں

وہ فصل اُگاتے ہو ماحول سے نفرت کی

شفاف ہواؤں میں معصوم فضاؤں میں

کچھ یوں پھیلاتے ہو تم زہر تعصب کا

تفریق کی دیواریں ذہنوں میں اٹھاتے ہو

قوموں کو قبیلوں کو آپس میں لڑاتے ہو

دنیا کو غلامی کے آداب سکھاتے ہو

تم ایسی عدالت کے خود ساختہ منصف ہو

تہذیب کا اُجلا پن، اقدار کی زیبائی

باتیں ہیں کتابوں کی، خوش رنگ سرابوں کی

یوں دُور زمانے سے کرتے ہو اندھیروں کو

شمعوں کو بجھاتے ہو، شہروں کو جلاتے ہو

رستے ہوئے زخموں کو ناسُور بناتے ہو!

انصاف کے تم ایسے دستور بناتے ہو؟

لیکن یہ سمجھ رکھو! مغرور خداوندو !

ظالم کی اطاعت سے انکار بھی ممکن ہے

گر جائیں یہ نخوت کے مینار بھی، ممکن ہے

چھن جائے کبھی تم سے دستار بھی، ممکن ہے

خود جال میں پھنس جائے صیاد بھی، ممکن ہے

اک روز پگھل جائے فولاد بھی، ممکن ہے

بے رحم خدائی کے دن بیت بھی سکتے ہیں

تم ہار بھی سکتے ہو، ہم جیت بھی سکتے ہیں

٭٭٭

 

گنہگاروں کو تعزیریں سنائی جا رہی تھیں

وفا کی آخری شمعیں بجھائی جا رہی تھیں

جنازے آدمیت کے اٹھائے جا رہے تھے

بغاوت خیز آوازیں دبائی جا رہی تھیں

بچھائے جا رہے تھے جال دیوانوں کی خاطر

خرد مندوں کی تقدیریں سلائی جا رہی تھیں

عدالت میں انھی پر جرم ثابت ہو رہے تھے

سروں سے جن کے دستاریں گرائی جا رہی تھیں

گھروں کے صحن اتنے تنگ ہوتے جا رہے تھے

دلوں میں جتنی دیواریں بنائی جا رہی تھیں

کہیں نزدیک گہری نیند منصف سو رہے تھے

کہیں نزدیک زنجیریں ہلائی جا رہی تھیں

٭٭٭

 

ستم رساں بھی نہیں، مائلِ کرم بھی نہیں

وہ بے وفا بھی نہیں اور ہم قدم بھی نہیں

یہ دوستی بھی عجب ہے، یہ کیفیت بھی عجب

جدا جدا بھی نہیں ہم مگر بہم بھی نہیں

دل و نگاہ کے محور کا یوں بچھڑ جانا

پیامِ مرگ نہیں تو یہ درد کم بھی نہیں

وہ حشر ہے کہ پہاڑوں کے چاک ہیں سینے

سکوت وہ ہے کہ سانسوں کا زیر و بم بھی نہیں

فراز بخت کہ اعدا بھی اعتبار کریں

وہ کم نصیب کہ اپنوں میں محترم بھی نہیں

یہ دل کہ تیری تمناؤں کا جہان بھی ہے

وجودِ حرف تری بارگہ میں خم بھی نہیں

٭٭٭

 

بے لوث دعاؤں کا احسان نہیں لیتے

بچے اب ماؤں کا احسان نہیں لیتے

جی لیتے ہیں جسموں پر ہم اوڑھ کے زخموں کو

خوش رنگ قباؤں کا احسان نہیں لیتے

ہم لوگ بھی پاگل ہیں تپتے ہوئے صحرا میں

خیرات کی چھاؤں کا احسان نہیں لیتے

ہم ریت گھروندوں کی اوقات ہے اتنی سی

بس تیز ہواؤں کا احسان نہیں لیتے

جا اپنی وفاؤں کو اب بانٹ فقیروں میں

ہم ایسی وفاؤں کا احسان نہیں لیتے

٭٭٭

 

پانیوں کا یہ بہاؤ نہیں دیکھا جاتا

ہم سے دھرتی کا کٹاؤ نہیں دیکھا جاتا

ہم سے ہر بار ترے شوقِ تماشا کے لیے

اسی بستی کا چناؤ نہیں دیکھا جاتا

روئے تاریخ پہ دھبے نہیں دیکھے جاتے

سینۂوقت کا گھاؤ نہیں دیکھا جاتا

قریِ  جاں میں دہکتا ہوا اب راتوں کو

آرزوؤں کا الاؤ نہیں دیکھا جاتا

جنسِ بازار کی صورت، خس و خاشاک کی مثل

اپنا گرتا ہوا بھاؤ نہیں دیکھا جاتا

ہر طرف خون، ہر اک سمت بلکتے ہوئے لوگ

اب یہ منظر نہ دکھاؤ، نہیں دیکھا جاتا

٭٭٭

 

شہید عامر نذیر چیمہ کی نذر

یہ جبر و اختیار کا نظام بھی عجیب ہے

نہ احترامِ آدمی، نہ اہتمامِ منصفی

نہ سیرتوں کی رفعتیں، نہ صورتوں کا بانکپن

نہ مقبروں کی آبرو، نہ معبدوں میں روشنی

کہ آمرانہ فکر پر محیط ہے درندگی

شعور فتنہ ساز ہے، عمل ستم پسند ہے

نجوم و ماہتاب پر خیال کی کمند ہے

ہے پست ہر نگاہ میں وہ جس قدر بلند ہے

کہیں مٹھاس شہد کی، کہیں وہ جوئے شیر ہے

بہ زعم خود جریدہ ہائے امن کا مدیر ہے

مگر جو غور کیجیے، پسِ نقاب دیکھیے

تو زہر میں بجھا ہوا ہلاکتوں کا تیر ہے

سجا ہوا وجود ہے، مرا ہوا ضمیر ہے

بھلا اسے خبر نہیں کہ ہم جو اٹھ کھڑے ہوئے

تو اس کریہہ جسم کو کہیں چھپا نہ پائے گا

وہ اپنے گرد سو طرح کے دائرے بنائے گا

کوئی اسے یہ جا کہے، وہ پیکرِ دلاوری

وہ خوگرِ سپہ گری، ہماری دسترس میں ہے

ہماری دور بیں نگاہِ عسکری کی حد میں ہے

کہ وہ کہیں بھی ہو ہمارے خنجروں کی زد میں ہے

٭٭٭

 

شجر باہیں تو پھیلائے ہوئے تھے

ہمی سایوں سے گھبرائے ہوئے تھے

کہیں گلزار تھے محرومِ نکہت

کہیں خورشید گہنائے ہوئے تھے

کسی کی آرزوئیں نوحہ گر تھیں

کسی کے خواب زخمائے ہوئے تھے

جو خود بے پیرہن تھے انجمن میں

ہمیں آئینہ دکھلائے ہوئے تھے

ترا پیغام بھی اس وقت آیا

ہمیں جب درد راس آئے ہوئے تھے

کھنڈر کھودا گیا جس زاویے سے

وہیں ہم لوگ دفنائے ہوئے تھے

تجارت بن گئی تھی آدمیت

دکانوں پر ضمیر آئے ہوئے تھے

٭٭٭

 

مکتبِ عشق میں جس کو لایا گیا

پہلے خاموش رہنا سکھایا گیا

تیری یادوں کا میلہ لگایا گیا

جشن فرقت کا شب بھر منایا گیا

کس قدر مشکلوں سے تجھے کیا خبر

دل کی محرومیوں کو چھپایا گیا

یوں بچائی گئی ضبط کی آبرو

گردشوں سے تبسم چرایا گیا

خود فراموشیوں کی وہ معراج تھی

جب ہر اک موڑ پر تجھ کو پایا گیا

اب تو مدت ہوئی ہے کوئی نامہ بر

اس گلی میں نہیں جیسے آیا گیا

خانۂ جاں میں اتنی قیامت ہوئی

جس قدر کربِ جاں کو دبایا گیا

تیری یکتائی میں شرک ممکن نہیں

اہلِ دل کو بہت آزمایا گیا

مقتلوں میں وہی لوگ مشہور تھے

سچ کی راہوں سے جن کو ہٹایا گیا       ٭٭٭

 

ہم سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے

ہم سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے

کون سے ہم نواب زادے ہیں

ہم تو بے دست و پا ارادے ہیں

گرد آلود سے لبادے ہیں

ہم نہ جاگیردار ہیں نہ کوئی

کارخانہ ہمارے نام کا ہے

بے بضاعت ہیں، بے وسیلہ ہیں

شب گزیدہ ہیں، آبلہ پا ہیں

جانے کب سے سپردِ صحرا ہیں

ہم سیاست میں نامور بھی نہیں

زرپرستوں میں معتبر بھی نہیں

مسندِ اقتدار تک پہنچیں

اتنے مضبوط بال و پر بھی نہیں

جس کی منزل ہو صرف تاجوری

اپنے کاندھوں پہ ایسا سر بھی نہیں

اپنے فن کا خراج مانگتے ہوں

ہم تو وہ صاحبِ ہنر بھی نہیں

زیرِ پا رہگذر ہے وہ جس پر

دور تک سایِ شجر بھی نہیں

ہم نواؤں، وفا شعاروں کو

ہر جگہ مستفید رکھا ہے

اہلِ دانش کی اکثریت کو

تم نے یوں بھی خرید رکھا ہے

٭٭٭

 

حسرتِ تعمیر

ہر نظر اُٹھ کے اُسی بام پہ جا رُکتی ہے

زندگی گردشِ ایام پہ جا رُکتی ہے

بین کرتی ہوئی نیلامیِ عصمت پہ ہوا

اُڑ کے بازار سے اَہرام پہ جا رُکتی ہے

نرمیِ کیفیتِ عرضِ تکلم بڑھ کر

تلخیِ طعنہ و دُشنام پہ جا رُکتی ہے

زیست بیچارگیِ حسرتِ تعمیر لیے

اِک نئے حشر کے پیغام پہ جا رُکتی ہے

گھر کی خواہش میں بھٹکتی ہوئی عورت اک دن

پھر اسی کوچۂ بدنام پہ جا رُکتی ہے

اس جگہ عظمتِ انسان کی ہر ایک دلیل

سرحدِ عالمِ ابہام پہ جا رُکتی ہے

٭٭٭

 

شبوں کی روشنیاں چھین کر قبیلوں سے

سویر جھانک رہی تھی اداس ٹیلوں سے

ملا جو حکمِ رہائی تو جاں نثار ترے

لپٹ کے روتے رہے جیل کی فصیلوں سے

وہاں تلاش نہ کر رونقیں جبینوں پر

ضرورتیں ہوں سوا جس جگہ وسیلوں سے

کہا کہ ڈوبنا کس کس کا کوئی یاد رکھے

سوال جب بھی کیا پرسکون جھیلوں سے

بدل چکے تھے کہیں اور مجرموں کے نصیب

لواحقین الجھتے رہے وکیلوں سے

٭٭٭

 

کوزۂ چشم سے یوں کرب کے آثار گرے

طاق سے جیسے پرانا کوئی اخبار گرے

کر سکے پھر نہ کناروں کی تمنا ہم لوگ

دستِ ملاح سے یوں چھوٹ کے پتوار گرے

گر پڑے بام پہ رکھے ہوئے مایوس چراغ

موت کی گود میں جیسے کوئی بیمار گرے

تجھ کو معلوم ہے اک جنبشِ ابرو سے تری

کس بلندی سے ترے حاشیہ بردار گرے

ان کی آنکھوں میں ندامت کے سوا کچھ بھی نہیں

اس کی دہلیز پہ جا جا کے جو بے کار گرے

ہم نے دیکھے ہیں یہاں اہلِ ہنر کے آگے

منہ کے بل حرف و معانی کے خریدار گرے

تو خدا ہے تو بکھرنے سے بچا لے مجھ کو

اس سے پہلے کہ مرے ضبط کی دیوار گرے

٭٭٭

 

درِ امکان وا ہونا ضروری ہے

ہواؤں کا پتہ ہونا ضروری ہے

گھٹن کتنی بھی ہو لیکن ہر اک لب پر

حدیثِ برملا ہونا ضروری ہے

ضروری ہے جبینوں کے لیے کعبہ

دلوں میں بھی خدا ہونا ضروری ہے

تو کیا لازم ہے تشہیرِ الم اتنی

تو کیا ماتم سرا ہونا ضروری ہے

نظر کے سامنے منزل نہ ہو بے شک

تمہارا نقشِ پا ہونا ضروری ہے

ضرورت ہے بدن کو ایک سر کی بھی

اگر دستار کا ہونا ضروری ہے

سفر تنہا بھی کٹ تو جائے گا لیکن

شریکِ قافلہ ہونا ضروری ہے

نظر کو چاہیے تعبیر خوابوں کی

ہر آنگن میں دیا ہونا ضروری ہے

خموشی موت کی جانب نہ لے جائے

کوئی محشر بپا ہونا ضروری ہے

ہماری آبلہ پائی کو مت دیکھو

سفر منزل رسا ہونا ضروری ہے

٭٭٭

 

بڑے طوفان تھے حائل مگر جانا ضروری تھا

دوا جس روز لے کر ماں کی گھر جانا ضروری تھا

وہیں جینا پڑا ہے بے سرو سامانیاں لے کر

ہمارا جس جگہ گھبرا کے مر جانا ضروری تھا

بہم تھی ہر کسی کو موسمِ گل کی جنوں خیزی

گلستاں سے ہمی کو بے ثمر جانا ضروری تھا

ہمیں معلوم ہیں مجبوریاں اہلِ طریقت کی

خدا پیشِ نظر رکھتے تو سَر جانا ضروری تھا

تو کیا اس چشمِ بے پروا پہ لازم تھی مسیحائی

تو کیا دل کے سبھی زخموں کا بھر جانا ضروری تھا

نہیں رکنے دیا حالات نے اس آستانے پر

زمانوں کے لیے جس پر ٹھہر جانا ضروری تھا

دبا رکھا سدا ان کو ترے احکامِ مطلق نے

فضا میں جن صداؤں کا بکھر جانا ضروری تھا

٭٭٭

 

صبحِ نو

اپنے گرد کیوں اتنے دائرے بناتے ہو

کیوں فریب دیتے ہو، کیوں فریب کھاتے ہو

فکرِ نو کسی جابر کے حضور جھکتی ہے

روشنی بھلا ایسے دائروں سے رکتی ہے

صبحِ نو کے منکر ہو، رات کے پیمبر ہو

حبس کا تواتر ہو، خوف کا تسلسل ہو

سنگِ میل ہونا تھا، راستے کا پتھر ہو

ہر کسی کو ماضی کی داستاں سناتے ہو

وقت کے تقاضوں سے کیوں نظر چراتے ہو

یوں نظر چرانے سے،

اپنے گرد نخوت کے دائرے بنانے سے

زخم دان کرنے سے، تلخیاں لٹانے سے

خواہشیں کچلنے سے، ولولے دبانے سے

دلربا امیدوں کی بستیاں جلانے سے

بے شمار خوابوں کا قتل عام کرنے سے

تیغِ آمریت کو بے نیام کرنے سے

عزم کی چٹانوں کا انہدام کرنے سے

روز ایک محشر کا انتظام کرنے سے

وہ دیے جو روشن ہیں آدمی کی آنکھوں میں

کس طرح بجھاؤ گے

روشنی کے مرکز کو، آگہی کے سورج کو

تیرگی مٹانے سے کیسے روک پاؤ گے

٭٭٭

 

عکس در عکس

گھاؤ اتنے کہ گننے بیٹھیں تو

گنتے گنتے حیات کٹ جائے

درد اتنا کہ دلفگاروں کی

ایک پل کے لیے نہ آنکھ لگے

اتنے موہوم منزلوں کے سراغ

راستہ کوئی اختیار نہ ہو

زندگی وہ کہ جینے والوں کو

ایک ساعت پہ اختیار نہ ہو

خوشیاں اتنی ہوں پیش منظر میں

انگلیوں پر شمار ہو جائیں

ظلم ایسے کہ عہد سازوں کی

ہستیاں بے وقار ہو جائیں

لمحہ بھر میں سفید پوشوں کے

پیرہن داغ دار ہو جائیں

روز و شب سوگوار ہو جائیں

اتنی آزادیاں کہ لفظوں کی

آبرو بیچنا بھی ممکن ہو

اتنی پابندیاں کہ آنکھوں کو

خواب تک دیکھنا نصیب نہ ہو

خامشی اس قدر کہ سینے میں

دھڑکنیں چیختی سنائی دیں

شور اتنا سماعتیں یکسر

بے بسی کی مثال ہو جائیں

بھیڑ اتنی کہ جس طرف دیکھیں

ایک میدانِ حشر کا ہو گماں

اور تنہائی اس قدر گہری

اپنے ہونے کا بھی یقین نہ ہو

٭٭٭

 

لب و رخسار کی باتیں، نگاہِ یار کی باتیں

وقارِ سرو قامت، گیسوئے خم دار کی باتیں

وہ عہدِ بے یقینی تھا، مؤرخ کیا رقم کرتے

تمہاری جیت کے قصے، ہماری ہار کی باتیں

در و دیوار مقتل کے سناتے ہیں زمانے کو

کہانی جبرِ پیہم کی، صلیب و دار کی باتیں

کتابِ زندگی کی اہمیت اس کے سوا کیا ہے

کہیں اپنوں کے قصے ہیں کہیں اغیار کی باتیں

ہوا کو، روشنی کو چھین کر اے چارہ گر ہم سے

سنانے آ گئے ہو روزنِ دیوار کی باتیں

فضا میں پھیل جاتے ہیں جہنم سوگواری کے

جو یاد آتی ہیں راتوں کو سمندر پار کی باتیں

تجارت میں، سیاست میں ابھی تک کچھ نہیں بدلا

وہی مضموں رسالوں کے، وہی اخبار کی باتیں

ابھی فرصت نہیں بخیہ گری سے ہم غریبوں کو

ابھی محفوظ رکھو جبّہ و دستار کی باتیں

٭٭٭

 

مدارِ زیست اک پیمان پر رکھا ہوا ہے

بھروسہ کیا دلِ نادان پر رکھا ہوا ہے

تجھے کھو کر میں اپنا آپ پانا چاہتا ہوں

یہ کیسا فائدہ نقصان پر رکھا ہوا ہے

یہ کس نے وا کیے عہدِ گزشتہ کے دریچے

یہ کس کا خط مرے سامان پر رکھا ہوا ہے

کئی آتش فشاں حائل ہیں جس کے راستے میں

ہمارا رزق اس چٹان پر رکھا ہوا ہے

ترے دیدار کی ہر آرزو کو اہلِ دل نے

اٹھا کر حشر کے میدان پر رکھا ہوا ہے

کہیں بکنے کے خوگر ہیں گہر پاکیزگی کے

کہیں دل کا حرم دکّان پر رکھا ہوا ہے

ہماری زندگی کا فیصلہ روزِ ازل سے

تری خودساختہ میزان پر رکھا ہوا ہے

٭٭٭

 

سچ

(کارل مارکس کی نذر)

انسان مرے شعر کا عنوان ہے، سچ ہے

دھرتی مرے افکار کی پہچان ہے، سچ ہے

نسلِ بنی آدم ہے مری سوچ کا محور

بے معجزہ عیسیٰ کا یہ فیضان ہے، سچ ہے

تا حدِّ نظر اس کی قلمرو کی ہے وسعت

وہ سلطنتِ فہم کا سلطان ہے، سچ ہے

اس پیکرِ اوصاف کی للکار کے آگے

اوہام کا بت بے حس و بے جان ہے، سچ ہے

سرمایہ پرستی جو ہے احساس کی دشمن

اقوام کی تحقیر کا سامان ہے، سچ ہے

وہ فلسفہ جو ظلم سے ہے برسرِ پیکار

ان گنت غلاموں کا وہ ارمان ہے، سچ ہے

اک روگ ہے، طبقات میں عالم کی یہ تقسیم

یہ فکر اسی جنگ کا اعلان ہے، سچ ہے

واعظ کا یہ بڑھتا ہوا مذہب پہ تصرف

غارت گرِ شیرازۂ جزدان ہے، سچ ہے

بے سمت عقائد کا گلا گھونٹ کے رکھ دے

سینوں میں بغاوت کا وہ طوفان ہے، سچ ہے

یہ سچ ہے کہ میں حرمتِ انساں کا ہوں قائل

بنیاد مری سیرت و قرآن ہے، سچ ہے

تخلیقِ دو عالم جسے زیبا ہے بلا شرط

ہے قادرِ مطلق، مرا ایمان ہے، سچ ہے

٭٭٭

 

تو ہم سفر نہیں تو سفر کچھ نہیں رہا

کہنے کو سارا کچھ ہے مگر کچھ نہیں رہا

اس کی عطا ہے اتنی بلندی پہ جاگزیں

اپنی کسی دعا میں اثر کچھ نہیں رہا

شب بھر تھے تاجدار کسی سلطنت کے ہم

لیکن دمِ طلوعِ سحر کچھ نہیں رہا

جس روشنی کے دم سے منور تھے بام و در

جب وہ نہیں رہی تو یہ گھر کچھ نہیں رہا

موسم نے تتلیوں کی نزاکت کو کھا لیا

ذوقِ جمال، حسنِ نظر کچھ نہیں رہا

بینائی چھن گئی تو مناظر بھی مر گئے

دل بجھ کے رہ گیا تو بشر کچھ نہیں رہا

تجسیمِ فکر کی کوئی صورت نہیں رہی

دستِ ہنر میں اب کے ہنر کچھ نہیں رہا

اس کم نظر کو جانے یہ احساس کیوں نہیں

دستار کے بغیر یہ سر کچھ نہیں رہا

اب اہتمامِ گریہ و ماتم ہو کس طرح

حلقومِ خشک، دیدۂ تر کچھ نہیں رہا

٭٭٭

 

طلب تھی جس کی یہ وہ کائنات تھی ہی نہیں

ہمارے بخت میں شاید حیات تھی ہی نہیں

کہ جس میں تیرا سراپا دکھائی دے سکتا

وہ روشنی تو دعاؤں کے سات تھی ہی نہیں

جو ہم نے ڈوب کے دیکھا تو ان نگاہوں میں

ہمیں تلاش تھی جس کی وہ بات تھی ہی نہیں

ہر ایک سمت اندھیرے تھے جبرِ پیہم کے

کسی کے سامنے صبحِ نجات تھی ہی نہیں

سجا لیا تھا جبینوں پہ جس کو لوگوں نے

غنیمِ شہر کو حاصل وہ مات تھی ہی نہیں

قبول تھیں ہی نہیں بخششیں زمانے کی

ہمیں پسند یہ توہینِ ذات تھی ہی نہیں

٭٭٭

 

رنگوں کی چاہتوں کی جاگیر نامکمل

رہ جائے گی تمھاری تصویر نامکمل

اس شہرِ بے اماں کا ہر زاویہ ادھورا

بنیاد نامکمل، تعمیر نامکمل

آباد قید خانے، اجڑے ہوئے ٹھکانے

انصاف بے ترازو، تعزیر نامکمل

کتنی بدل گئی ہیں اب دوستی کی قدریں

لاتے ہیں نامہ بر بھی تحریر نامکمل

پُر پیچ راستوں کی ہمت شکن مسافت

موہوم منزلوں کے رہگیر، نامکمل

ہے جن کے دم سے تیرے دیر و حرم کی رونق

رکھتا ہے تُو انھی کی تقدیر نامکمل

٭٭٭

 

وہی آبلے مرے پاؤں کے

وہی الجھنیں دلِ زار کی

وہی جسم و جاں کی اذیتیں

سرِ بزمِ شوق ہیں جلوہ گر

انھی صورتوں کی شباہتیں

وہی کربِ ذات کے سلسلے

وہی سنگ و خشت کی بارشیں

وہی بے یقین سی منزلیں

وہی بے مراد مسافتیں

وہی شہرِ جاں کی اداسیاں

وہی نارسائی کی وحشتیں

وہی انتظار کے وسوسے

وہی نامہ بر کی وضاحتیں

وہی آزمائشیں ہجر کی

وہی خواب عہدِ وصال کے

وہی ذوق چشمِ نیاز کا

وہی رنگ عکسِ جمال کے

وہی ایک حسنِ خیال کش

وہی اک صباحتِ دلنشیں

جسے سوچیے تو قرینِ جاں

جسے دیکھیے تو کہیں نہیں

وہی رتجگوں کا خمار ہے

وہی سلوٹیں ہیں لباس کی

وہی ضابطے ہیں سماج کے

وہی التجائیں ہیں پیاس کی

وہی یادگارِ گذشتگاں

وہی سوگ مرگِ بہار کے

وہی سینہ کوبیِ حسرتاں

وہی مرثیے دلِ زار کے

وہی خار ہیں تری راہ کے

وہی آبلے مرے پاؤں کے

تری چشمِ ناز کے منتظر

وہی قافلے ہیں دعاؤں کے

وہی لا علاج سے درد ہیں

وہی بے نیاز طبیب ہیں

مرے خونِ دل پہ پلے ہوئے

وہی میرے اپنے رقیب ہیں

وہی بے مکین حویلیاں

وہی بے چراغ سے بام و در

وہی آنسوؤں کی شہادتیں

غمِ زندگی کے محاذ پر

وہی دشمنانِ سناں بہ کف

وہی دوستانِ بہانہ جُو

وہی ایک حشر قدم قدم

وہی اک تماشۂ چار سُو

وہی بادلوں کی عدالتیں

وہی بجلیوں کی گواہیاں

وہی موسموں کی نوازشیں

وہی گھونسلوں کی تباہیاں

وہی اختیار کی دہشتیں

وہی اقتدار کی مستیاں

وہی چیختے ہوئے روز و شب

وہی سونی سونی سی بستیاں

وہی سال خوردہ روایتیں

وہی کم نگاہ سے نظریے

وہی بے شعور سی منطقیں

وہی بے ثبات سے فلسفے

وہی پرچموں کی بلندیاں

وہی خوئے مشقِ سپہ گری

وہی خوں نصیب معاشرت

وہی انتہائے درندگی

وہی گردشوں کا ہجوم ہے

وہی آگہی کے عذاب ہیں

وہی دشت حدِ نگاہ تک

وہی آرزو کے سراب ہیں

وہی آنچلوں کی شکستگی

وہی پگڑیوں کے وقار ہیں

وہی عارضوں کی ہیں زردیاں

وہی حسرتوں کے مزار ہیں

اُسی سنگلاخ زمین پر

وہی مرحلے ہیں تلاش کے

وہی بین کرتی ضرورتیں

وہی گھاؤ فکرِ معاش کے

وہی رہنما ہیں کہ آج بھی

جنھیں خود تمیزِ سفر نہیں

جنھیں راستوں کا پتہ نہیں

جنھیں منزلوں کی خبر نہیں

وہی پتھروں کا غرور ہے

وہی آئنوں کا مزاج ہے

وہی منصفوں کے ہیں فیصلے

وہی بیڑیوں کا رواج ہے

٭٭٭

 

وحشتوں کے جنگل سے گھر کو لوٹ آنے کا راستہ نہیں ملتا

تیرے غم نصیبوں کو تجھ کو بھول جانے کا حوصلہ نہیں ملتا

اُن سیاہ بختوں کی بے بسی کا اندازہ لفظ کیا لگائیں گے

اپنے گھر کے اندر بھی جن کو سر چھپانے کا آسرا نہیں ملتا

قہقہوں کی آوازیں کیسے پھوٹ سکتی ہیں ان اداس صحنوں سے

جن کی داستانوں میں کوئی مسکرانے کا واقعہ نہیں ملتا

روشنی سدا اس کی سوگوار راتوں سے دُور دُور رہتی ہے

قصرِ بادشاہی سے جس غریب خانے کا سلسلہ نہیں ملتا

آندھیاں پرندوں سے واپسی کی امیدیں یوں تو چھین لیتی ہیں

کوئی لوٹ آئے بھی تو کہیں ٹھکانے کا کچھ پتہ نہیں ملتا

٭٭٭

 

کبھی تعمیر کر لینا، کبھی مسمار کر لینا

گھروندوں کا مرتب اک الگ معیار کر لینا

نظر انداز کر دینا کبھی بے باک جلووں کو

کبھی چشمِ دروں کو طالبِ دیدار کر لینا

ندامت کی خلش دیتا تو ہوگا موسمِ گل کو

کسی کا ٹوٹ کر ویرانیوں سے پیار کر لینا

یہ خوئے مصلحت زیبا نہیں ہم اہلِ خامہ کو

کبھی خاموش رہ جانا، کبھی اظہار کر لینا

علاجِ آبلہ پائی بھی ہے غیروں کے ہاتھوں میں

رہِ ہستی کو بھی ممکن نہیں ہموار کر لینا

ہمیں اکثر اٹھا کر لے گیا ہے دور منزل سے

خود اپنی ذات ہی کو راہ کی دیوار کر لینا

اسے ہر اک قدم پر زندگی نے مار ڈالا ہے

جسے آیا نہیں ہے سرنگوں دستار کر لینا

٭٭٭

 

حروفِ اوراق بجھ گئے ہیں، نقوشِ دیوار مٹ گئے ہیں

محبتیں دفن ہو گئی ہیں، وفا کے آثار مٹ گئے ہیں

کچھ اب سپردِ قلم کریں بھی تو لائیں وہ بانکپن کہاں سے

کہ سب تصاویر جل گئی ہیں کہ سارے شہکار مٹ گئے ہیں

وہی شب و روز کی گھٹن ہے، وہی اداسی چمن چمن ہے

یہ آبلہ پائی بے ثمر ہے کہ ہم تو بے کار مٹ گئے ہیں

غریب خانوں میں زندگی کا گمان ہوتا تھا جن کے دم سے

وہ دھڑکنیں آج رک گئی ہیں وہ غم سرِ دار مٹ گئے ہیں

وہ طائرانِ کمال جن کو غرور اپنی اڑان پر تھا

چھپا کے منقار سو گئے ہیں لٹا کے گھر بار مٹ گئے ہیں

نگاہِ تاریخ دیکھ ان کو، ضمیرِ عالم پکار ان کو

طلب کی دشوار رہ پہ جو لوگ چل کے ہر بار مٹ گئے ہیں

پکارتے تھے اٹھا کے بازو کبھی جو اے صبحِ نور تجھ کو

افق کی چلمن سے دیکھ تیرے وہی طلب گار مٹ گئے ہیں

٭٭٭

 

صدام حسین

30دسمبر2006ء بروز عیدالاضحی عراق کے معزول صدر کی پھانسی کے موقع پر لکھی گئی

ظلم تمہارا مشغلہ، جبر تمہارا فلسفہ

مستیِ اقتدار میں

تم ہو کچھ ایسے مبتلا

کوئی تمہارے روبرو

حیثیتِ بشر نہیں

ہے کوئی سلطنت کہ جو

آج تمھارے ہاتھ سے

دست کشِ سپر نہیں، قتل گہِ ہنر نہیں

ایسی تماشا گاہ میں بدلی ہوئی ہے ہر گلی

کیسی برہنگی ہے یہ سازِ فنا کی تال پر

رقص کناں ہے زندگی

واہ رے عہدِ بے بسی

لیکن یہ انقلاب کی جیسے کوئی نوید ہو

حبسِ بلا کے باوجود

شکوۂسامراج کی، نعرۂ احتجاج کی

چند صدائیں بے اثر

ابھری تو ہیں کہیں کہیں

اسپِ ہوا کے دوش پر

٭٭٭

 

زوالِ فن کی طرح، عہدِ بے اماں کی طرح

کہ بے وقار تھے ہم جنسِ رائگاں کی طرح

حیات ایک تذبذب کا بس شکار رہی

کبھی یقین کی صورت، کبھی گماں کی طرح

نہ رہ سکیں گے کسی کنجِ بے چراغ میں ہم

تری نظر کے فراموش خاک داں کی طرح

ہمیں قبول نہیں زندگی بسر کرنا

خمیدہ سر، کسی معزول حکمراں کی طرح

درِ حبیبؐ تری عظمتوں پہ جان نثار

ہے تیری خاک ہمیں تختِ آسماں کی طرح

وہ کم نصیب کہاں جا کے ہاتھ پھیلائیں

خوشی بھی جن کو ملے دردِ بے کراں کی طرح

کھلا یہ بھید کہ وہ مخبری پہ تھا مامور

رہا وجود میں برسوں جو نقدِ جاں کی طرح

کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں وہ پیکرِ شفقت

جو میرے سر پہ تھا بے لوث سائباں کی طرح

نہ منزلوں کا تعین، نہ راستوں کا چناؤ

سفر نصیب ہیں بے سمت کارواں کی طرح

٭٭٭

 

مزدور

دن نکلتا ہے تو یہ لوگ نکل پڑتے ہیں

اک نئے کام کی امید میں چل پڑتے ہیں

ایک مخصوص سڑک پر سبھی ہوتے ہیں بہم

یہ وہ مزدوروں کی دنیا ہے جہاں ہر کوئی

اپنی حاجات و مسائل کا نمائندہ ہے

شہر جس محنتِ افراد سے تابندہ ہے

اپنے خستہ در و دیوار سے شرمندہ ہے

جب بھی آتا ہے کوئی ان کی طرف تو یہ سبھی

اس کے گرد اپنا ہنر بیچنے آ جاتے ہیں

بات طے جس کی ہو وہ کام پہ لگ جاتا ہے

جاری رہتا ہے اسی طرح یہ مانوس عمل

گھٹتی رہتی ہے یہ تعداد بتدریج ان کی

جبکہ بڑھ جاتی ہے سورج کی تمازت بھی یہاں

ایسے کم بخت جنہیں کام نہیں مل پاتا

روٹیاں باندھے ہوئے میلے سے رومالوں میں

اپنی آنکھوں میں لیے تیرتے ان گنت سوال

گھر کی اطراف پلٹتے ہوئے بوجھل بوجھل

اپنے حالات پہ کڑھتے ہوئے یہ سوچتے ہیں

کون لکھتا ہے مقدر میں غموں کے یہ پہاڑ

کون یہ زخم جبینوں پہ سجا دیتا ہے

کون ہم درد کے ماروں کا لہو چوستا ہے

کس نے پہنائی ہے زنجیر غلامی کی ہمیں

کس نے دروازے جہنم کے ہیں کھولے ہم پر

موت کی نیند تمنا کو سلا دیتا ہے

کون سرمایہ پرستی کو ہوا دیتا ہے

٭٭٭

 

تم یہی سمجھتے ہو

تم یہی سمجھتے ہو

اس زمیں پہ ہر جانب

بے حیات چہروں کا

اک وسیع جنگل ہے

تم یہی سمجھتے ہو

ماہتاب کی چاندی، آفتاب کا سونا

اک تمھاری مرضی سے دوسروں میں بٹتا ہے

زندگی کا ہر رستہ

بس تمھارے محلوں کے بیچ سے گزرتا ہے

تم یہی سمجھتے ہو

تم اگر نہ چاہو تو

ان گنت چراغوں کو روشنی نہیں ملتی

بے شمار لوگوں کو زندگی نہیں ملتی

منجمد خیالوں کو شعلگی نہیں ملتی

عہدِ بے یقینی کو پختگی نہیں ملتی

ڈھونڈتے رہیں برسوں پر خوشی نہیں ملتی

تم یہی سمجھتے ہو

کارواں تمھارے ہیں، منزلیں تمھاری ہیں

رونقیں تمھاری ہیں، راحتیں تمھاری ہیں

کشتگانِ عسُرت کی آبرو کے مالک ہو

آئنوں کے مالک ہو، صورتوں کے مالک ہو

عصمتوں کے مالک ہو، قسمتوں کے مالک ہو

تم یہی سمجھتے ہو

یہ غلام زادے تو ہڈیوں کے ڈھانچے ہیں

بے بسی کے سانچے ہیں

دھول رہگذاروں کی، کانچ کے کھلونے ہیں

حاجتوں کے پیکر ہیں

بھوک کے پیمبر ہیں

پر یہ تلخ سچائی تم کبھی نہیں سمجھے

یہ غلام زادے بھی

ہڈیوں کے ڈھانچے بھی، بے بسی کے سانچے بھی

اک یقین رکھتے ہیں، اک زبان رکھتے ہیں

دل کے بند کمروں میں خواب سر پٹختے ہیں

بے تکان پیروں میں آبلے چٹختے ہیں

نم شناس آنکھوں میں خواب جھلملاتے ہیں

استخوانی ماتھوں کے برف زار کے پیچھے

ذہن جگمگاتے ہیں

٭٭٭

 

یاد آ نہ جائے عہدِ گزشتہ کبھی ہمیں

لینے نہ دے گی چین کہیں زندگی ہمیں

یوں جذبہ ہائے دل کے الاؤ ہیں منجمد

جیسے کبھی کسی کی طلب ہی نہ تھی ہمیں

چہرے کی فکر تھی تو کوئی جانتا نہ تھا

پہچان دے گئی ہے یہ بے چہرگی ہمیں

آنکھوں کو اپنے خواب مقدم نہیں رہے

مہنگی پڑی ہے شہر کی منظر کشی ہمیں

کرتے رہو گے کیا یونہی توہینِ آدمی

دیتے رہو گے بھیک میں کیا روشنی ہمیں

٭٭٭

 

اب وہ خوشیاں کہاں، ملال کہاں

عمرِ رفتہ کے ماہ و سال کہاں

صبح کے دل نواز ماتھے پر

ضو فشاں سرخیِ جمال کہاں

دوستی اپنے آپ سے کر لی

ڈھونڈتے ہم شریکِ حال کہاں

وضع داری عزیز تھی اِتنی

کرنے دیتی ہمیں سوال کہاں

بن گئے روح کی غذا یہ زخم

اب انہیں خوئے اندمال کہاں

بھیس ہی اس قدر مکمل تھا

ہم سمجھتے تمہاری چال کہاں

وار احباب کے رویوں کا

روک سکتی تھی کوئی ڈھال کہاں

٭٭٭

 

قدم رکے بھی نہیں، شوق مضمحل بھی نہیں

یہ تیرگی رخِ عالم پہ مستقل بھی نہیں

تمہارا قطعِ تعلق کا فیصلہ اے دوست

بلا کا غم ہے مگر ایسا جاںگسل بھی نہیں

بس اک ذرا غمِ دوراں عزیز ہے ورنہ

معاملاتِ محبت میں ہم مخل بھی نہیں

کسی کی چارہ گری کا بھرم مقدم تھا

وگرنہ دل کا کوئی گھاؤ مندمل بھی نہیں

کھلی ہوئی ہیں جہنم کی کھڑکیاں ہرسو

یہ زندگی کسی جنت پہ مشتمل بھی نہیں

سلگ رہی ہیں فضائیں غریب خانوں کی

امیرِ شہر کو دیکھو وہ منفعل بھی نہیں

٭٭٭

 

فیضؔ کے حضور

زباں کو جرأتِ اظہار کی سوغات بخشی ہے

وجودِ نیم جاں کو شدتِ جذبات بخشی ہے

پسِ دیوارِ زنداں تھے مگر ہم دلفگاروں نے

فضاؤں کو سدا شیرینیِ نغمات بخشی ہے

ہمی نے تجربہ گاہِ جہاں میں خود فنا ہو کر

بشر کو خواہشِ تسخیرِ موجودات بخشی ہے

اندھیروں سے ہمی نے جنگ کی ہے صبح کی خاطر

زمینِ شب نما کو نور کی برسات بخشی ہے

ہمیں اس سے ہمیشہ برسرِ پیکار رہنا ہے

کہ جس منشور نے یہ غم گزیدہ رات بخشی ہے

٭٭٭

 

سکھلا ہمیں نہ پیاس کے آداب ہم نشیں

رکھتے ہیں ہم تو شدتِ سیلاب ہم نشیں

ویرانیِ حیات کا گھاؤ نہ بھر سکا

ویسے تو بے شمار تھے احباب ہم نشیں

تم پاس تھے تو ایسے منور تھا عرشِ دل

روشن ہوں جیسے سینکڑوں مہتاب ہم نشیں

طوفان سے ہو کیسے ہماری مفاہمت

اپنے تو مدتوں سے ہیں گرداب ہم نشیں

اک تم ہو اور شہرِ جنوں خیز ہم قدم

اک ہم ہیں اور فرصتِ بے خواب ہم نشیں

دن بھر رہی سرابِ مسلسل کی ہمرہی

شب بھر رہے گا دجلۂ بے آب ہم نشیں

تم سامنے تو ہو مگر افسوس، جس طرح

تاریخِ کہنہ رُو کا کوئی باب ہم نشیں

٭٭٭

 

ان خستہ گھروں میں جو پسِ اہلِ نظر ہیں

ہر چیز سے لپٹے ہوئے آسیب ہیں، ڈر ہیں

جس راہ پہ ہم آبلہ پا گرمِ سفر ہیں

جذبوں کے سمندر، کہیں خوابوں کے نگر ہیں

کعبہ تو علامت ہے فقط ایک خدا کی

کیوں مسندِ سرمایہ پہ مسجود بشر ہیں

تہذیب کی یہ کون سی منزل ہے کہ جس پر

روندے ہوئے اجسام ہیں کچلے ہوئے سر ہیں

اس شہرِ اذیت کے شب و روز نہ پوچھو

ہر طائرِ امید کے نوچے ہوئے پَر ہیں

فرسودہ رویوں سے الجھتے ہوئے خود سر

مطلوبِ قفس ہیں تو کبھی شہر بدر ہیں

٭٭٭

 

سال بھر سوگ مناتے ہوئے تہواروں کا

پوچھ مت حال محبت کے عزاداروں کا

ماند پڑ جائیں گی آرائشیں محرابوں کی

رنگ کچھ روز میں اڑ جائے گا دیواروں کا

حسنِ مجبور کا آنا تھا سرِ بزم کہ بس

پل میں موجود تھا سیلاب خریداروں کا

رات بھر میتیں اٹھتی رہیں ارمانوں کی

رات بھر تیز رہا رقص قدح خواروں کا

نشۂمسندِ انصاف جو سر سے اترے

کرنا محسوس کبھی کرب گنہگاروں کا

دور سے ہی ترے دیدار کی خیرات ملی

یہ بھی احساں ہے ترے حاشیہ برداروں کا

٭٭٭

 

تعمیر کچھ ایسی کرتے ہیں مختار عبادت گاہوں کے

کھلتے ہی نہیں ہم لوگوں پر اسرار عبادت گاہوں کے

بارود بہ دامن ہیں ہر سُو سالار عبادت گاہوں کے

اب کون بچانے آئے گا آثار عبادت گاہوں کے

ہر سمت جنازے خوابوں کے، ہر جانب سوگ اجالوں کا

جس طرح کوئی مسمار کرے مینار عبادت گاہوں کے

ہے شہر میں اب ملحوظ کسے توقیر جبیں فرسائی کی

ہر شخص اٹھائے پھرتا ہے بازار عبادت گاہوں کے

ایماں کی حرارت بکتی ہے، مذہب کا تقدس بکتا ہے

دکّان سجا کر ہوتے ہیں بیوپار عبادت گاہوں کے

میزانِ عدالت میں جن کا خود اپنا کوئی معیار نہیں

وہ لوگ بنانے والے ہیں معیار عبادت گاہوں کے

جذبات عقیدت مندوں کے رکھتے ہیں دبا کر مٹھی میں

پیتے ہیں لہو انسانوں کا سردار عبادت گاہوں کے

ایمان کی اجلی چادر پر فرقوں کی سیاہی پھیل گی

تبدیل ہوئے ہیں ظلمت میں انوار عبادت گاہوں کے

کون ان کو تحفظ دیتا ہے جن کے سفاک رویوں نے

مجروح کیے ہیں عالم میں کردار عبادت گاہوں کے

٭٭٭

 

صراطِ جبر

نورِ سرمایہ سے روشن نازنیں عشرت کدے

حسنِ صنّاعی کا پرتَو مرمریں عشرت کدے

جل رہا ہے جن میں آشفتہ مشقت کا لہو

ہاں وہی ہم رُتبۂ خلدِ بریں عشرت کدے

مرتکز ہے زیست کی ہر ایک آسائش جہاں

ناز کرتی ہے بصد انداز زیبائش جہاں

لفظ ہوتے ہیں جہاں واقف نئے مفہوم سے

سیم و زر کردار کی کرتے ہیں پیمائش جہاں

کب تلک کھاتے رہیں گے لوگ قسمت کے فریب

یہ تمدن کی فُسوں کاری، ثقافت کے فریب

یہ عقائد کی اسیری، یہ تَوَہّم کے سراب

یہ بصیرت کے تماشے، یہ بصارت کے فریب

غم بہ چشماں، دل فگاراں کی طرف جاتے ہوئے

جنتِ محشر بداماں کی طرف جاتے ہوئے

ہر قدم پر سوچتا ہے خسروِ آسودگی

بستیِ خانہ بدوشاں کی طرف جاتے ہوئے

نیل کی طغیانیاں ہیں، دجلۂ آفات ہے

زندگی پروردۂسنگینیِ حالات ہے

خون میں لتھڑی ہوئی ہیں خواہشوں کی ڈولیاں

زادِ رہ کی شکل میں کیا کیا ہمارے ساتھ ہے

ہم غریبوں کی کوئی تہذیب کر سکتا نہیں

اس صراطِ جبر سے کوئی گزر سکتا نہیں

اس جہنم میں ہمارے ساتھ جی سکتا نہیں

اس قیامت میں ہمارے ساتھ مر سکتا نہیں

بے بسی کے زخم اب ناسور ہو جانے کو ہیں

صبر کے فرماں روا مجبور ہو جانے کو ہیں

لے رہی ہے جن کے نیچے آخری سانسیں حیات

وہ قرینے آج نامنظور ہو جانے کو ہیں

٭٭٭

 

زندگی کو موت کے پہلو میں سونا ہے ابھی

خواہشوں کو بھوک پر قربان ہونا ہے ابھی

نامکمل ہے ابھی تصویرِ دشتِ آرزو

آخری کانٹا رگِ جاں میں چبھونا ہے ابھی

زرد چہروں کو لہو کی سرخیاں درکار ہیں

منجمد لفظوں میں جذبوں کو سمونا ہے ابھی

ہم کو تزئینِ گلستاں کے لیے اک دن ندیم!

اپنے ارمانوں کو خاروں میں پرونا ہے ابھی

سامنے رکھ کر وفا کی سربریدہ لاش کو

خشک آنکھوں سے ہمیں سو بار رونا ہے ابھی

اک جگہ سے دوسری تک ہم کو ہجرت کے لیے

جانے کتنی مرتبہ اسباب ڈھونا ہے ابھی

٭٭٭

 

تلخیِ گردشِ حالات کے مارے ہوئے ہیں

کہ سیہ بخت جہنم میں اتارے ہوئے ہیں

آن پہنچا ہے وہیں کوئی تعاقب میں بھنور

جب بھی نزدیک ذرا ہم سے کنارے ہوئے ہیں

بارہا تم نے یہی بازیاں جیتی ہوئی ہیں

بارہا ہم نے یہی معرکے ہارے ہوئے ہیں

حاجتیں یاد ہیں بس نام و نسب یاد نہیں

کس اذیت سے یہ افراد گزارے ہوئے ہیں

سر پہ سورج ہے مگر راہ نظر سے اوجھل

کتنے بے نور مقدر کے ستارے ہوئے ہیں

وہ جگہ جنتِ ارضی تو نہیں ہو سکتی

زہر آلود جہاں شہد کے دھارے ہوئے ہیں

شمعِ توقیر ہوئی گل سرِ محفل اپنی

خواب رسوا سرِ بازار ہمارے ہوئے ہیں

٭٭٭

 

ترقی پسند

ہم وہ خامہ بدست ہیں جن کو

فکر کی آبرو عزیز رہے

ہم وہ تاجر نہیں کہ جن کے لیے

شاعری بیچنے کی چیز رہے

یہ دعا ہے کہ عمر بھر ہم کو

ظلمت و نور کی تمیز رہے

گو کہ تعداد میں زیادہ نہیں

آخری فیصلہ یہی ہے مگر

اس ہجومِ سخنوراں میں ہمیں

اک الگ امتیاز رکھنا ہے

عزمِ راسخ کے، جہدِ پیہم کے

سلسلوں کو دراز رکھنا ہے

حرف کو سرفراز رکھنا ہے

٭٭٭

 

سعداللہ شاہ

ان عقائد کا ذکر کیا کرنا جن کی بنیاد ہی گمان پہ ہو

حرمتِ لفظ کی جو بات چلے ایک ہی نام ہر زبان پہ ہو

ہمسری اس کی کیسے ممکن ہے فہم و ادراک کی فضاؤں میں

کوئی اس تک پہنچ نہیں سکتا طائرِ فکر جب اڑان پہ ہو

خار زاروں پہ مشتمل رستے منزلوں کا یقین ہوتے ہیں

کامیابی اسے نہیں کہتے منحصر جو نہ امتحان پہ ہو

سچ کی راہوں پہ چلنے والوں کی تلخیوں کا شمار ہو کیسے!

چھاؤں تب ہی سروں پہ ہوتی ہے دھوپ جس وقت سائبان پہ ہو

سرفرازی سی سرفرازی ہے استقامت سی استقامت ہے

دور سے بھی دکھائی دیتا ہے جس طرح اک دیا چٹان پہ ہو

٭٭٭

اسیرانِ بے لباس

ابو غریب اور گوانتاناموبے کے اذیت خانوں میں کئے گئے جسمانی اور جنسی تشدد کے پس منظر میں لکھی گئی

ہمارے دیس کا سورج تمازت کھو چکا ہے

ہمارے نام کی خوشیاں کہاں کھوئی ہوئی ہیں

ہمارے عہد کے منصف کہاں سوئے ہوئے ہیں

ہم اپنی دھرتی ماں کے سینۂغم آشنا پر

بہت بے آبرو، بے خانماں، بے آسرا ہیں

ہماری بے گنہ معصوم بہنوں، بیٹیوں کی

متاعِ زندگی اس طرح لوٹی جا رہی ہے

لرز اٹھے ہیں اس دہشت گری سے قید خانے

شرافت سرنگوں، عریاں بدن تہذیب کا ہے

ہر اک آنگن میں ظلمت بال کھولے سو رہی ہے

مہذب قاتلوں کے ظلم حد سے بڑھ رہے ہیں

مسلط ہم پہ کیسی بے بسی، بے چارگی ہے

اشاعت پا رہے ہیں ہر طرف عریاں مناظر

ہماری آبرو ریزی ہے اخباروں کی زینت

یہ ہمدردی ہے یا سامانِ رسوائی ہے لوگو!

ہم اپنے گھر میں بھی جبرِ غلامی سہ رہے ہیں

ہوائیں بھی نہیں لاتیں رہائی کا سندیسہ

ہمارے تن، ہمارے گھر جلائے جا رہے ہیں

کہیں مینار لاشوں کے بنائے جا رہے ہیں

اسیری کے قرینے یوں سکھائے جا رہے ہیں

دیئے امید کے ہر سو بجھائے جا رہے ہیں

لہو میں تر بہ تر جکڑے ہوئے طوق و رسن میں

برہنہ جسم اپنے تم سے اتنا پوچھتے ہیں

ہمیں تہذیب کے پرچم بدستو یہ بتاؤ!

تمھارے دعویٰ و کردار میں اتنا تفاوت!

پسِ پردہ تمھاری اس قدر مکروہ صورت!

٭٭٭

 

طلب کے قافلے اس بار منزل تک نہیں پہنچے

کہ ہم گھر سے نکل کر تیری محفل تک نہیں پہنچے

ہجومِ منتظر کو حیرتوں نے گھیر رکھا ہے

بھروسہ جن پہ تھا وہ ہاتھ قاتل تک نہیں پہنچے

بہت ممکن ہے جل اٹھتا چراغِ آرزو لیکن

عروسِ زندگی کے پاؤں محمل تک نہیں پہنچے

بچھڑنے پر جہاں ہر سانس اک آزار ہو جائے

ابھی اپنے مراسم ان مراحل تک نہیں پہنچے

چٹانیں زیرِ سطحِ آب کچھ ایسی رہی ہوں گی

سفینے جن سے ٹکرائے تو ساحل تک نہیں پہنچے

ابھی ماحول میں فقدان ہے اس خوش نوائی کا

گلوں کے تذکرے شہرِ عنادل تک نہیں پہنچے

کہانی اس قدر بے جان کرداروں پہ مبنی ہے

ابھی جو منزلِ طوق و سلاسل تک نہیں پہنچے

٭٭٭

 

رفاقتوں کے عزیز موسم

سید وامقؔ عابدی ، متوفی 13ستمبر2004ء کے لیے لکھی گئی

رفاقتوں کے عزیز موسم

وفا کی وہ خار زار راہیں

وہ آزمائش کے تازیانے

وہ استقامت، وہ عزمِ پیہم

خزاں کے لشکر،

مہک فشاں گلشنوں کو اپنے

ستم کے جوہر دکھا رہے تھے

ضیائے خورشید کے مقابل

فصیلِ ظلمت بنا رہے تھے

مگر وہ طاقوں پہ ایستادہ

چراغ جو ٹمٹما رہے تھے

مسافرانِ شکستہ پا کو

نویدِ منزل سنا رہے تھے

وہ رہروانِ دریدہ دامن

کہ سوئے منزل رواں دواں تھے

شعورِ ہستی سے متصف تھے

حمیتِ انتظار وامق کے معترف تھے

وہ جانتے تھے،

یہی وہ احساس کا لہو ہے

کہ جو نہ ہوتا،

تو ٹمٹماتے ہوئے چراغوں کی

روشنی دیرپا نہ ہوتی

مسافتِ روز و شب کی قسمت میں

حوصلوں کی ضیاء نہ ہوتی

قلم حقیقت نوا نہ ہوتے

نشیب عظمت رسا نہ ہوتے

قدم قدم سرخرو نہ ہوتے

ادب کی ہم آبرو نہ ہوتے

٭٭٭

 

ایک خبر

کبھی آنسوؤں کو چھپانا پڑے گا

کبھی خواہشوں کو دبانا پڑے گا

اندھیروں سے دامن بچانے کی خاطر

دئیے سے دئیے کو جلانا پڑے گا

محبت ہے جس جس کو اس سر زمیں سے

اسے اپنا سب کچھ لٹانا پڑے گا

نئی شاہراہوں کی تعمیر ہوگی

کئی بستیوں کو گرانا پڑے گا

٭٭٭

 

ارفع کریم کے لیے

ارفع کریم نازشِ عمرِ رواں ہے تُو

اس کم سِنی میں رہبرِ آئندگاں ہے تُو

حرماں نصیب کیسے تجھے بھول پائیں گے

جن کے لیے حدیثِ غمِ بے کراں ہے تُو

مینارِ فہم و عقل ہے اہلِ ہنر کے بیچ

زیرِ زمیں نہیں ہے سرِ آسماں ہے تُو

دستورِ کائنات کے آگے تو خم ہیں سر

سوچوں کا کیا کریں کہ مجسم جہاں ہے تُو

ارضِ وطن ہے تیری فطانت سے سرفراز

تو افتخارِ قوم ہے، عظمت نشاں ہے تُو

اک جہدِ مستقل کی علامت ہے تیرا عزم

بزمِ جہاں میں پیکرِ تاب و تواں ہے تُو

قربان تیری ذات پہ سو جگمگاہٹیں

جگنو نہیں، چراغ نہیں، کہکشاں ہے تُو

راہِ عمل ہے تیرے تحرّک کی زیر بار

ہیں منزلیں تلاش میں تیری، کہاں ہے تُو      ٭٭٭

 

ماتمِ بختِ نارسا بن کر

رہ گئی زیست اک سزا بن کر

دُور بیٹھا رہا نگاہوں سے

وہ رعونت کا دیوتا بن کر

آگہی تن بدن میں پھیل گئی

ایک آزارِ لا دوا بن کر

وقت سے ہم کو یہ شکایت ہے

خار دیتا رہا صبا بن کر

پوچھ مت کن بلندیوں پر ہیں

ہم درِ یار کے گدا بن کر

واعظِ شہر سے کہو اک دن

دیکھ رندوں کا پیشوا بن کر

کعبۂ دل میں جا گزیں رہنا!

میرے احساس کا خدا بن کر

٭٭٭

 

امیدِ بہار

باغِ امید میں ہر طرف شور ہے

ہر کلی آرزو کی نکھر جائے گی

اپنے دامن میں خوشیاں سمیٹے ہوئے

زندگی مثلِ دلہن سنور جائے گی

لوگ کہتے ہیں جس دم بہار آ گئی

زخم سل جائیں گے، درد سو جائیں گے

پیار خوابوں کو تعبیر مل جائے گی

روز و شب پھر سے آباد ہو جائیں گے

اپنے دامن میں عہدِ گزشتہ لیے

گلستاں میں بہار آ بھی جائے تو کیا

لوٹ کر فصلِ گل، روند کر خوشبوئیں

باغبانوں کو پیار آ بھی جائے تو کیا

کیا خبر صبحِ نو آ تو جائے مگر

لطفِ ساقی نہ ہو، قربِ یاراں نہ ہو

ہر طرف ہوں دکانیں مسیحاؤں کی

کچھ علاجِ غمِ دلفگاراں نہ ہو

٭٭٭

 

پھر یوں ہوا

پھر یوں ہوا کہ وقت کے تیور بدل گئے

پھر یوں ہوا کہ راستے یکسر بدل گئے

پھر یوں ہوا کہ منزلیں دشوار ہو گئیں

پھر یوں ہوا کہ خواہشیں مسمار ہو گئیں

پھر یوں ہوا کہ حشر کے سامان ہو گئے

پھر یوں ہوا کہ شہر بیابان ہو گئے

پھر یوں ہوا کہ گرد سے آئینے اَٹ گئے

پھر یوں ہوا کہ آنکھ میں دریا سمٹ گئے

پھر یوں ہوا کہ رابطے سورج سے کٹ گئے

پھر یوں ہوا کہ رنگ گلابوں سے ہٹ گئے

پھر یوں ہوا کہ پاؤں سے صحرا لپٹ گئے

پھر یوں ہوا کہ یار گھروں کو پلٹ گئے

پھر یوں ہوا کہ لوگ قبیلوں میں بٹ گئے

پھر یوں ہوا کہ رنگتِ عارض جھلس گئی

پھر یوں ہوا کہ زلف ہوا کو ترس گئی

پھر یوں ہوا کہ ٹوٹ کے شیشے بکھر گئے

پھر یوں ہوا کہ اپنے سبھی خواب مر گئے

پھر یوں ہوا کہ راحتیں کافور ہو گئیں

پھر یوں ہوا کہ بستیاں بے نور ہو گئیں

پھر یوں ہوا کہ غلبۂ آفات ہو گیا

پھر یوں ہوا کہ قتلِ مساوات ہو گیا

پھر یوں ہوا کہ ظلمتیں ہمدوش ہو گئیں

پھر یوں ہوا کہ صبحیں سیہ پوش ہو گئیں

٭٭٭

 

نوحۂ حرف

(۱)

ہالۂ ماہ کبھی، گرمیِ خورشید کبھی

موسمِ گل کی سلگتی ہوئی تمہید کبھی

کیا ضروری ہے یہی مشغلۂزیست رہے

خدشۂ ہجر کبھی، وصل کی امید کبھی

اک عجب کشمکشِ جاں میں گرفتار ہیں لوگ

خوئے تسلیم کبھی، نعرۂ تردید کبھی

حاصلِ فن، کبھی بے شکل زمانوں کے نقوش

مرگِ احساس کبھی، فکر کی تولید کبھی

کتنے گم گشتہ جہانوں کی الٹتے ہیں نقاب

دستِ ادراک کبھی، جوہرِ فہمید کبھی

مرثیہ خواں کبھی سینوں میں محرم کے جلوس

شہر احساس ہے ہنگامہ گہِ عید کبھی

(۲)

قطرۂ آب کبھی، وسعتِ قاموس کبھی

جشنِ امکان کبھی، عالمِ مایوس کبھی

ہونے لگتی ہے کبھی تیری پرستش کی سبیل

بجنے لگتے ہیں تری یاد کے ناقُوس کبھی

ایک بے نام سی حالت ہے تخیل پہ محیط

اجنبی غم سے کبھی، درد سے مانوس کبھی

پردۂ ذہن پہ رہ رہ کے ابھر آتا ہے

سوزِ آہو کبھی، سرمستیِ طاؤس کبھی

یوں بھی ہوتا ہے، مکینوں کو ترس جاتے ہیں

خواب گاہوں میں لٹکتے ہوئے فانوس کبھی

کعبۂ عدل سمجھتا ہے زمانہ جس کو

آ کے لٹتی ہے وہیں دولتِ ناموس کبھی

(۳)

تائبِ جام کبھی، رندِ بلانوش کبھی

شہرتِ عام کبھی، جذبۂ خاموش کبھی

سر جھٹکتے ہوئے افراد کا انبوہِ کثیر

واعظِ شہر کی لفاظیِ پُر جوش کبھی

پھول کھلتے ہیں کبھی آتشِ کہسار کے بیچ

آگ جلتی ہے سرِوادیِ گل پوش کبھی

شاہراہوں پہ بھٹکتے ہوئے اربابِ ہنر

نازشِ فہم کبھی، نوحہ گرِ ہوش کبھی

جاگ اٹھے تو مرا عہد بھی ہو سکتا ہے

ہمسفر وقت کا تہذیب کا ہم دوش کبھی

زندگی تیری عنایات کا کیا ذکر کریں

بارشِ سنگ کبھی، نرمیِ آغوش کبھی

(۴)

ظلمتِ دہر کبھی، سرخیِ آفاق کبھی

شب کی تمثیل کبھی صبح کے مصداق کبھی

دوپہر سر پہ کبھی شدتِ جاں سوز کے ساتھ

دھندلکا شام کا نظارۂ اشراق کبھی

زندگی بس کہ عبارت اسی احساس پہ ہے

زہر کا جام کبھی، کوزۂ تریاق کبھی

مکتبِ عشق میں جاری اسی فیضان کی رو

غم کی تعلیم کبھی، رنج کے اسباق کبھی

ٹمٹماتے ہوئے خاموش رویوں کے چراغ

خطِ معیار سے گرتے ہوئے اخلاق کبھی

درد یکجا کبھی مربوط مضامیں کی طرح

بستۂفکر کے بکھرے ہوئے اوراق کبھی

(۵)

قرب مطلوب کبھی، فاصلہ درکار کبھی

باعثِ آتشِ پا جلوہ گہِ یار کبھی

حسنِ ترتیب کبھی نظمِ معرا کی طرح

لفظ کرتے ہوئے پابندیِ اشعار کبھی

سرخ ہر موڑ کہانی کا بنا دیتے ہیں

پیش منظر میں لہو تھوکتے کردار کبھی

تیرے عشاق کے بس دو ہی ٹھکانے ہیں یہاں

رونقِ تخت کبھی، رقص سرِ دار کبھی

ہے ہر اک شخص، بہرطور تجارت میں شریک

صورتِ جنس کبھی، جیبِ خریدار کبھی

بے گنہ لوگ صلیبوں پہ کبھی جھول گئے

برتر از عدل ہوئے جبہ و دستار کبھی

(۶)

قامتِ عام کبھی، حسنِ دلآویز کبھی

شاخِ مفلوج کبھی، برگِ مہک بیز کبھی

چُور ہوتے ہوئے پندار مسیحاؤں کے

لادوا درد کبھی، زخم لہو ریز کبھی

بند مٹھی سے پھسلتی ہوئی لمحات کی ریت

ضعفِ اعصاب کبھی، گردشِ خوں تیز کبھی

عشق ہر دور میں ایمان کا معیار رہا

کشفِ منصور کبھی، منصبِ تبریز کبھی

ارضِ فارس کی فضاؤں میں بہت گونجتا ہے

عزمِ فرہاد کبھی، سطوتِ پرویز کبھی

عمر گزری ہے مگر حسنِ توازن کے بغیر

ایک ٹھہراؤ کبھی، رقصِ جنوں خیز کبھی

(۷)

خشک سالی کبھی، اندیشۂ غرقاب کبھی

چشمِ دہقاں میں مچلتے ہوئے سیلاب کبھی

طیش میں ہو تو پہاڑوں کو بہا کر لے جائے

سنگ ریزوں سے الجھتا ہوا پایاب کبھی

اس کے ہاتھوں میں نہیں رزقِ فراواں کی لکیر

اس کی قسمت میں نہیں ریشۂ کمخواب کبھی

وقفِ طوفانِ حوادث ہیں شب و روزِ حیات

ہمسرِ خاک کبھی، غیرتِ سیماب کبھی

دامنِ دل میں سمٹتے ہوئے آثارِ شکست

عرصۂ جنگ میں لٹتے ہوئے اسباب کبھی

ہر پڑاؤ پہ بدلتی رہی قسمت کی لکیر

کشتِ ویران کبھی، منظرِ شاداب کبھی

(۸)

زینتِ فرش کبھی، رفعتِ افلاک کبھی

حرمتِ نوعِ بشر دامنِ صد چاک کبھی

اب کے جمہور ہے اشیائے ضرورت کی غلام

بزمِ تحسین کبھی، مجمعِ بے باک کبھی

ہم کو رہنا ہے سدا کارگہِ ہستی میں

گردِ رَہ بن کے کبھی، صورتِ خاشاک کبھی

خوں میں نہلائی ہوئی سلطنتِ فکر و خیال

خاک میں لتھڑی ہوئی ضبط کی پوشاک کبھی

نوکِ خامہ کا مقدر، لبِ اظہار کا بخت

عارضِ زرد کبھی، دیدۂ نمناک کبھی

اوجِ پرواز کہ انگشت بدنداں ہو شعور

دفن خوابوں کے محل زیرِ تہِ خاک کبھی

(۹)

حرفِ محجوب کبھی، نامۂ مشہور کبھی

عجزِ گفتار کبھی، لہجۂ مغرور کبھی

منجمد جوشِ جنوں قطبِ شمالی کی طرح

ہر طرف آگ اُگلتے ہوئے تنور کبھی

سرحدوں کے لیے کٹتے ہوئے لوگوں کے ہجوم

آدمیت کو کچلتے ہوئے دستور کبھی

وہ تو چاہیں گے مرض تشنۂ آرام رہے

ٹھیک ہو جائے نہ رِستا ہوا ناسور کبھی

غیر مانوس رہے خلق اجالوں سے سدا

اس کا چھوڑے نہ تعاقب شبِ دیجور کبھی

کیوں نہ یہ نظمِ بہیمانہ بدل کر رکھ دیں

کیوں نہ طاقت کا عناں گیر ہو مزدور کبھی

٭٭٭

تشکر: عمران شناور جنہوں نے فائل فراہم کی

انپیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید