FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

نقدِ فن

 

(پاکستان کی معتبر ادبی شخصیات کے حوالے سے تنقیدی شذرات کا مخزن )

 

حصہ اول

 

 

 

               شبیر ناقِدؔ

 

 

 

 

 

انتساب

 

شعر و ادب کے اُن متوالوں کی نذر

جنہوں نے احساسِ سود و زیاں سے بالاتر

ہو کر ادب کی خدمت کو روح کی ریاضت جانا

 

 

 

میزانِ فکر

 

               ابوالبیان ظہور احمد فاتحؔ

 

مالکِ حقیقی کی لا تعداد مخلوقات میں سے بنی نوع انسان کو ایک نمایاں درجہ حاصل ہے، دیگر کئی وجوہ کے علاوہ اس کی ایک وجہ انسان کا با شعور ہونا ہے، کیوں کہ اسے بے پناہ دماغی قوت حاصل ہے۔ جس کا ذہن حیرت انگیز طور پر کام کرتا ہے۔ مزید براں یہ آدم زاد قوتِ ناطقہ سے بھی بہرہ مند ہے۔ قدرت نے اسے جو طاقتِ گفتار بخشی ہے، وہ کسی کرشمے سے کم نہیں۔ علاوہ ازیں حضرتِ  انسان علم و ہنر کی دولتِ غیر مترقبہ سے بھی نوازا گیا ہے۔ یہ تمام اوصافِ حمیدہ اس پیکرِ خاکی کو وہ شان و شوکت عطا کرتے ہیں جس کی بدولت کوئی اور مخلوق اس کے پائے کو نہیں پہنچتی۔

جہاں تک جوہرِ دانش و فن کا تعلق ہے، اس میں شعرو ادب کو ایک مقام ممتاز حاصل ہے۔ مرورِ ایّام کے ساتھ ساتھ بے شمار شعراء  و ادباء منصہ شہود پر آئے، جنہوں نے گراں قدر نگار شات بنی نوع انسان کے لئے چھوڑیں۔ بعض تخلیقات نے تو انھیں زندۂ جاوید بنا دیا۔ شاعر و ادیب جو کچھ لکھتا ہے، اس کے پسِ پردہ کیا کیا محرکات ہوتے ہیں ، اُس کے عصری پس منظر اور سوانحی واقعات سے کیا ثابت ہوتا ہے، اُس نے زبان و بیان کے تقاضے کس حد تک نبھائے، یہ سب امور محلِ نظر رکھتے ہوئے ایک ماہرِ تنقید جسے عرفِ عام میں نقاد بھی کہا جاتا ہے، اُس اہلِ فن کا بے لاگ محاکمہ کرتا ہے۔ وہ اس کے حسن و قبح کا جائزہ لیتا ہے۔ فنی باریکیوں کی احاطہ بندی کرتا ہے اور جامع اشتہادات کی روشنی میں ایک نظامِ محاکات کے ذریعے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر کے دکھاتا ہے۔ وہ ایک بھرپور تحقیقی سفر سے گزرتا ہے، جس کے نتائج اس کے بعد میں آنے والے اصحابِ تحقیق کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوتے ہیں۔ وہ اپنے وجدان کی روشنی میں زیرِ نظر نگار شات کا غیر جانب دارانہ تجزیہ پیش کرتا ہے جو تشنگانِ علم و دانش کے لئے ساغرِ آبِ حیات سے کم نہیں ہوتا۔

زیرِ نظر کتاب، ’’نقدِ فن‘‘، نقادِ عصر شبیر ناقِدؔ کی ایک وقیع کاوش ہے جو اُن کے شب و روزِ حیات کی تحقیق و تد قیق کا حاصل ہے۔ ان کی فنی مہارت اور ناقدانہ صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ خدا معلوم کن کن شخصیات اور ان کی کن کن تالیفات و تصنیفات کا مطالعہ کر کے حاصلِ مطالعہ پوری امانت و دیانت کے ساتھ سپردِ قلم کیا ہے۔ اُن کا ہُنر کثیر الجہات ہے۔ کیوں کہ وہ بنیادی طور پر خود شاعر و ادیب بھی ہیں۔ لہٰذا فنی لطائف کو حسن و خوبی سمجھتے ہیں۔ وہ ایک روکھے پھیکے نقاد نہیں بلکہ ان کی تنقید بھی فی نفسہٖ ایک نگارش کا درجہ رکھتی ہے جس میں دل چسپی کے بہت سے سامان مضمر ہیں۔ وہ ظالمانہ آپریشن کے قائل نہیں ہیں بلکہ محرمانہ طرزِ فکر رکھنے والے انسان ہیں۔ وہ تخلیقات کا سر سری جائزہ نہیں لیتے بلکہ ان میں مستغرق ہو جاتے ہیں۔ وہ شاعرو ادیب سے اجنبیت کا انداز نہیں برتتے بلکہ اُس کے راز دار بن کر بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ وہ حالات و واقعات سے طائرانہ نہیں گزر جاتے بلکہ ایک فاضل محقق کی طرح ایک ایک جزو کو نہایت باریک بینی سے پرکھتے اور جانچتے ہیں۔ ان کا جائزہ مبنی بہرِ حقائق اور مخزنِ سوادات ہوتا ہے۔ ان کا قلم قاتل کا خنجر نہیں بلکہ چارہ گر کا نشتر ہے۔ وہ بہت عمدہ محاکات قائم کرتے ہیں اور ان کے محاکمات ایک مضبوط بنیاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ قدرت نے انھیں تیز قوتِ مشاہدہ اور بھرپور حسیات سے نوازا ہے۔ تنقید کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد بڑے متوازن انداز میں قدیم و جدید سے تعلق نبھایا ہے۔ وہ جہاں معقول انداز میں روایات کا ساتھ نبھاتے ہیں … وہاں مناسب رنگ میں انحرافات کے بھی قائل ہیں ، جنھیں جدت تو کہا جا سکتا ہے مگر کسی طرح بدعت نہیں گردانا جا سکتا۔

شبیر ناقدؔ کی ’’ نقدِ  فن‘‘، ایک ایسا ادبی اثاثہ ہے جسے گنجِ شائقان قرار دیا جا سکتا ہے۔ کتابِ ہذا میں محققانہ شذرے بھی ہیں۔ بھر پور مکمل تجزئیے بھی ہیں۔ دل کش تنقید بھی ہے۔ تالیفِ قلب کے متعدد پہلو بھی ہیں۔ یہ جوان جن کی بیشتر زندگی عسکری خدمات میں بسر ہوئی ہے، حیران کن طور پر ادبی خدمات کے لئے بھی وقت پس انداز کرتے رہے ہیں۔ دن بھر کی خدمات کے تھکے ہارے لوگ جب نیند کی آغوش میں خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے ہیں تو ان اوقات میں بھی شبیر ناقدؔ قلم کی شمعیں روشن کرنے کے لیے نگارِ ادب کی آرائشِ گیسو میں مصروف و منہمک نظر آتے ہیں۔ چناں چہ انہوں نے یہ ثابت کر کے دکھا دیا ہے کہ ایک انسان بیک وقت صاحبِ سیف بھی ہوسکتا ہے اور اہلِ قلم بھی۔

ہماری دعا ہے کہ رب العزت شبیر ناقدؔ کو مزید علمی و ادبی نیز تنقیدی و تحقیقی کارناموں کی توفیق عطا فرمائے … آمین

٭٭٭

 

 

 

 

تنقیدی جوئے شیر

 

عصرِ حاضر میں جہاں اچھا شعر تخلیق ہو رہا ہے وہاں بے جان، بے روح اور سپاٹ قسم کی شاعری کرنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں بلکہ مؤخر الذکر شعرا و شاعرات کا تناسب اوّل الذکر سے کچھ زیادہ ہی ہے۔  نوبت بہ ایں جارسید کہ دو سوصفحات کا شعری مجموعہ ملاحظہ کریں تو اس میں سے پانچ اشعار ایسے ہوں گے جو شرفِ انتخاب پائیں گے۔ ان پانچ اشعار میں بھی تین اشعار محض رواداری کا نتیجہ ہوں گے بقیہ دو شعری بھی مسندِ انتخاب پر براجمان ہوتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کریں گے۔ عصری تنقیدی روش میں مروتوں کو اس لئے فروغ میسر ہے کہ انہیں بھر پور انداز میں سراہا جاتا ہے۔ کیونکہ حقیقی تنقید جسے یاران جہاں منفی تنقید سے موسوم کرتے ہیں، کی تاب لانے کا کسی میں یارا نہیں ہے۔عصری تنقید ایک بانجھ شجر کی مثیل بن گئی ہے جس پر کوئی ثمر نہیں لگتا۔  بلکہ صرف ایک جملے کے گرد طواف کر رہی ہے کہ مَن ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو۔  اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے اکثر و بیشتر ناقدانِ شعر کلاسیکی تخلیقی و تنقیدی اور تحقیقی ورثے سے محروم ہیں۔  لسانِ اردو کی تین بڑی اشتراکی زبانوں ہندی، فارسی اور عربی سے ان کا دامن تہی ہے لسانی اور فنی ادراکات سے عاری ہیں موزونیت کے علم، جسے علم العروض کا نام دیا جاتا ہے ، سے نا آشنا ہیں۔علمِ بدیع، جسے علمِ بیان سے بھی معنون کیا جاتا ہے،  سے نابلد ہیں۔ جنہوں نے زندگی میں کوئی شعر موزوں نہیں کیا وہ تخلیقِ شعر کے نقد و نظر کے حوالے سے فیصلے صادر فرما رہے ہیں۔ یہ معاملات حضرات و خواتین دونوں کے ہاں پائے جاتے ہیں لیکن خواتین جن میں فطری فکری و فنی بالیدگی کی نسبت قدرے کم ہے ان کے ہاں یہ معاملہ زیادہ گھمبیر نوعیت کا ہے۔  شاعرات کے کلام کی تحقیق و تنقید کے دوران ہمیں اکثر یہ محسوس ہوا کہ فکری و فنی بلوغت ان سے گریزاں ہے اور اس سلسلے میں خاطر خواہ رسائی حاصل کرنے کی سعیِ مشکور نہیں کی گئی۔  کیونکہ اس امر کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوئی۔  ان کے مجموعوں کے نام عمومی اور سطحی فکر کے حامل ہوتے ہیں جن میں کسی نوع کا رفعت آمیز تاثر معدوم ہوتا ہے اور کلام میں معائبِ  سخن کا وفور نظر آتا ہے۔ متروکات کے استعمال کو عار نہیں سمجھا جاتا۔  تنافرِ حرفی چاہے وہ جلی نوعیت کا ہو یا خفی حیثیت کام شعر کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔  ضائع بدائع، رموز  و وقائع، تشبیہات و ترکیبات، خال خال اور محاورات و استعارات عید کے چاند کی طرح نظر آتے ہیں۔  جن آموز گاران سخن سے وہ مشاورتِ شعر کرتی ہیں وہ غزل میں تو جیسے تیسے کر کے عروضی ارکان پورے کر دیتے ہیں لیکن آزاد نظم میں عروضی ارکان کی تعددی مغائرت پائی جاتی ہے۔  کسی سطر میں دو رکن ہوتے ہیں تو کسی میں پانچ ارکان ہوتے ہیں تو کسی میں ڈیڑھ رکن ہوتا ہے۔  فنی چابکدستی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔ اس لئے ان کی آزاد نظم یا تو نیم آزاد ہو جاتی ہے یعنی کہیں کہیں لا شعوری یا شعوری طور پر عروضی تلازمات کا اہتمام ہوتا ہے جب کہ کہیں عروضی ارکان یکسر مفقود ہو جاتے ہیں یوں وہ نیم آزاد یا نظمِ منثور بن جاتی ہے۔  شاعرات و شعرا کے شعری مجموعوں  میں یہ بھی اکثر مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ادبی حوالے سے مشہور و معروف شخصیات سے مقدمہ جات، تنقیدی شذرات یا تاثرات لکھوائے جاتے ہیں جو بے بنیاد تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں حالانکہ جس کتابِ شعر کے حوالے سے وہ رقمطراز ہوتے ہیں اسی میں بہت سے اشعار ساقط الوزن اور خارج از بحر ہوتے ہیں۔  ان کے کھوکھلے تعریف و توصیف کے پل جہاں ممدوحان کے خلاف تاثر پیدا کرتے ہیں وہاں متعلقہ ناقدانِ فن کی فنی بساط کا بھی مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں۔  شعری معیار کے حوالے سے کلاسیکی مفروضہ یہ ہے کہ اگر کسی شاعر کی ہر غزل سے دو یا تین عمدہ اشعار بر آمد ہوں تو وہ اچھا شاعر ہے جبکہ آج کل معاملہ بالکل بر عکس ہے۔  کہا جاتا ہے کہ اگر کسی شاعر یا شاعرہ کے شعری مجموعہ سے دو یا تین اچھے اشعار نکل آئیں تو وہ لائقِ تحسین ہے۔  شاعرات کے ساتھ یہ سلوکِ ناروا بھی ہوتا ہے کہ احباب غیر حقیقی دادو تحسین کے ڈونگرے محض اس لئے برساتے ہیں کہ موصوفہ ناراض نہ ہو جائیں کیونکہ تعلقات کے خراب ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔ ا س لئے انہیں ان کے عیوبِ سخن باور نہیں کرائے جاتے جس کے باعث وہ بے معنی احساسِ برتری میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ اکثر احباب شعر جن میں حضرات و خواتین شامل ہیں،  میں لا یعنی ادبی برتری کا زعم پروان چڑھتا رہتا ہے حتیٰ کہ ان کا یہ رویہ میرو غالب کے تعلیاتی افکار کی حدود قیود کو بھی پھلانگنے لگتا ہے۔ نہ فن پر دسترس ہوتی ہے نہ فکری بالیدگی۔  اس کے باوجود اپنے حوالے سے حقیقی رائے قائم کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ حالانکہ داخلی طور پر ہر سخنور کو اپنے فکری و فنی ادراکات کا شعور ہوتا ہے لیکن خارجی طور پر اس امر کا اعتراف نہیں کیا جاتا حالانکہ اس امر کی اشد ضرورت ہے۔  یوں غیر جانبداری کی فضا میں شاعری کو پنپنے کا موقع میسر نہیں آتا۔ جملہ اہلِ ادب اور اربابِ نقد و نظر سے مؤدبانہ التماس ہے کہ خدارا کچھ ادب پر بھی ترس کھائیں اور اپنے حالِ زار پر بھی رحم کریں۔  یوں شعری اور تنقیدی فضا کو مکدّر کرنے کی سعیِ نا مشکور سے گریز کریں۔  ہمارے تنقیدی معروضات خالصتاً فنِ شعر اور نقدِ فن شعر کے ضابطوں کی پاسداری کے ضمن میں تھے،  امید ہے کہ قارئین بھی انھیں ایک فنی بحث پر محمول کریں گے اور اربابِ نقد و شعر بھی انھیں اپنی دل آزاری کا سامان خیال نہیں کریں گے۔

 

شبیر ناقدؔ

( تونسہ شریف)

فون نمبر:۔ 0333-5066967

26؍اپریل 2014ء دوپہر دو بجے

٭٭٭

 

 

 

 

آفتاب مضطرؔ کی نازک خیالی

 

اگر عصرِ حاضر کے شعری سرمائے کو فکری و فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو شعرو سخن کا عمیق ادراک رکھنے والے ایک دلدوز کیفیت سے دوچار ہو جاتے ہیں کیونکہ ایک جیسے خیالات کی جگالی کی جا رہی ہے اور چربہ سازی کا عمل جاری ہے یکسانیت نے مہیب صورت اختیار کر لی ہے جس میں تازہ کاری ، نادرہ کاری اور نازک خیالی مفقود ہے یوں لگتا ہے جیسے شعرا اور شاعرات کے ہاں کہنے کو کچھ باقی نہیں رہا اور تخیلات کی سوتیں خشک ہو گئی ہیں مشتے از خوروارے کے مصداق معدودے چند سخن وروں کے ہاں جدت و ندرت ، شعری لطافتیں اور نزاکتیں پائی جاتی ہیں انہیں اربابِ شعر میں ایک نام آفتاب مضطر کا بھی ہے ان کا شعری مجموعہ’،  قبول ورد کے فیصلے ’’مطبوعہ فروری 2009ء ہمارے زیرِ نظر ہے جس کے ربع اوّل کی منتخب غزلیات کے منتخب اشعار مذکورہ موضوع کے تناظر میں شامل تجزیہ کرتے ہیں واضح رہے قبل ازیں ‘‘ سورج کے اس پار‘‘ سے موسوم شعری مجموعہ 1997ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا جس میں ہائیکو مع جاپانی تراجم ’’ازشیگی یو کی اتاکا ‘‘ شامل ہیں۔

ان کے ہاں نادر النظیر تراکیب وفور کے ساتھ پائی جاتی ہیں شعری اظہار کی جملہ نزاکتوں کو ملحوظِ خاطر رکھے ہوئے ہیں زبان و بیان کی مقتضیات کا بھر پور اہتمام ملتا ہے افکار کی قرینہ کاری ان کی فنی کرشمہ کاری کی برہانِ قاطع ہے اس سلسلے میں ان کی غزل کا ایک شعر لائقِ توجہ ہے   ؎

یہ ہم جو دیپ جلاتے ہیں روز پلکوں پر

یہ انتظارِ مجسم کے استعارے ہیں

خدائے سخن میر تقی میرؔ کی زبان دانی اور ادبی قدرو منزلت کا اعتراف ہر عہد کے اربابِ سخن نے کیا ہے اور اس امر کو اپنے لیے باعثِ اعزاز و افتخار سمجھا ہے شاعرِ موصوف کی زبانی عظمتِ میرؔ کے اظہار کا انداز دیکھیے   ؎

کٹھن تھا کھولنا اردو کی زلف کا ہر پیچ

کھلا ضرور مگر میرؔ کے سخن سے کھلا

ان کے تخیلات میں فکری اعتبار سے ایسی نزاکتیں پائی جاتی ہیں کہ قاری حیرت و استعجاب میں مستغرق ہو جاتا ہے ترکیبات کا حسن اسلوب کی دلکشی بڑھا رہا ہے    ؎

شورشِ پیہم کی سنت

ہم نے قفس میں جاری کی

وہ ادب برائے زندگی کے قائل ہیں اس لیے ان کا سخن مقصدیت آمیز اور بہت سے افادی پہلو خود میں سموئے ہوئے ہے رفعتِ تخیل کی پیوند کاری ان کے کلام کو تاثیر کی بے پناہ دولت سے ہم کنار کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔

ان کا ایک تنہا شعر زیبِ قرطاس ہے    ؎

زندگی کے بھی کچھ تقاضے ہیں

سانس لینا ہی زندگی تو نہیں

رومانوی حوالے سے ان کے ہاں لطیف احساسات اور خوشگوار جذبات پائے جاتے ہیں ان کے کلام میں ایک عمیق رومانویت رچی بسی ہے   ؎

بھلانے کی اُنہیں اس سے زیادہ کیا کریں کوشش

انہیں جب بھولنا چاہیں تو خود کو بھول جاتے ہیں

عند البیان جا بجا مشاہیرِ ادب کو انہوں نے بھر پور نوعیت کا خراجِ تحسین پیش کرنے کی جسارت کی ہے جس میں وہ انتہائی عمدگی سے کامیاب ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں رومانوی حوالے سے کہیں کہیں محبوب کی جفا شعاری کو بھی انہوں نے موضوعِ سخن بنایا ہے شعری تمثیلات کی عمدگی بھی ان کے کلام کے حسن کو دو چند کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے   ؎

خوبوں سے خوب ہم نے کسبِ سخن کیا ہے

تب جا کے گفتگو میں حسن و کمال آیا

تشہیر کی ہے کیا کیا تقصیر پر ہماری

اور نیکیاں وہ ساری دریا میں ڈال آیا

دانے پہ ٹوٹ گرنا پانی پہ جاں چھڑکنا

اپنے لئے پرندہ خود لے کے جال آیا

سخن سنجی اُن کے لیے کارِ دشوار نہیں ہے لیکن اُن کے نزدیک اتنا سہل بھی نہیں جتنا عام طور پر سمجھا جاتا ہے اس متضاد اور متنوع موضوع کو انہوں نے اپنے ایک شعر میں یوں خوبصورتی سے باندھا ہے   ؎

شعر کہنا،  شاعری کرنا،  نہیں مشکل مگر

جس قدر سمجھا گیا ہے اس قدر آساں نہیں

اُن کے فکری کینوس میں بے پناہ وسعت پائی جاتی ہے اور اپنے موضوع کی وسعتوں کو دفعتاً سمیٹنے کے ہنر سے واقف ہیں شعر کے مختصر پیمانے میں فکر کا بحرِ بیکراں سمودیتے ہیں   ؎

گاہ دل میں گُم ہے آفاقیت

اور کبھی دل میں آفاق ہیں گم

رجائی حوالے سے ان کے سخن میں بسیط امکانات پائے جاتے ہیں ان کے ہاں حزن و ملال کی بجائے آس،  امید اور امنگ کی فضا پائی جاتی ہے عصری آشوب کے شواہد ناپید ہیں بلکہ ایک اعتماد کی فضا پائی جاتی ہے   ؎

اگرچہ روز ہی بے آس لوٹ آتا ہوں

بہ ایں ہمہ تری چوکھٹ پہ روز جاتا ہوں

مشمولہ استخراجات شاہد ہیں کہ فکری یکسانیت کے عہدِ سخن میں آفتاب مضطر کے ہاں متنوع موضوعات پائے جاتے ہیں ان کی شاعری کثیر الجہات ہے فکری نزاکتیں جس کا امتیازی وصف ہے انہوں نے مفردو مرکب ہر نوع کی بحور میں بڑی عمدگی سے سخن سنجی کی ہے خدائے بزرگ و برتر اُن کے فکرو فن کو دولتِ دوام سے نوازے۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

 

 ’’ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا نظریۂ خرد

 

 

شاعری ایک بسیط کائنات ہے جو افکارو مضامین کے تنوع سے عبارت ہے اہلِ سخن ہر نوع سے طبع آزمائی کرتے ہیں اور جو شاعر زیادہ دور کی کوڑی لانے میں جتنا زیادہ کامیاب ہے اس قدر لائقِ تحسین ٹھہرتا ہے ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے وسیع و عریض کلام کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس میں بھی بے شمار مضامین اور لا تعداد عنوانات اہلِ ذوق کو دعوت فکر دیتے ملیں گے آج ہم جس موضوع کو زیرِ بحث لا رہے ہیں وہ ہے ان کا نظریۂ خرد،  در حقیقت خرد عقل کا دوسرا نام ہے اکثر شعرا کے ہاں عقل و خرد کی مذمت کی گئی ہے یا اس کا مذاق اڑایا گیا ہے یا اُسے منفی  وصف کے طور پر لیا گیا ہے یا پھر متاعِ کم سواد گردانا گیا ہے جیسے اقبال کے یہ اشعار دلالت کرتے ہیں   ؎

عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے

عشق بے چارہ نہ مُلَّا ہے، نہ زاہد، نہ حکیم

 

عشق فرمودۂ قاصد پہ سبک گامِ عمل

عقل سمجھی ہی نہیں معنیِ پیغام ابھی

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

 

بہتر ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

یا حسرتؔ موہانی کا یہ شعر   ؎

خرد کا نام جنوں رکھ دیا،  جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

عہدِ جدید میں اپنے شعرا کے ہاں خرد کے حوالے پائے جاتے ہیں بعض شعرا نے تو اس کی طرف داری میں قلم اٹھایا ہے بطورِ مثال راقم الحروف کے یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں    ؎

 

محبتوں کی بساط لپٹی پڑا ہے جب سے خرد سے پالا

جنوں کا ناقدؔ فسوں نہیں ہے خرد کی حاصل حمایتیں ہیں

 

ہے اعزاز حاصل کہ اہلِ خرد ہیں

نہیں ہے جنوں سے ہمیں کوئی نسبت

 

خرد نے نبھائے ہیں کردار دل کے

مگر میرا اصلی حوالہ خرد ہے

 

یہی اس کی خاطر ہے اک نیک نامی

سپر ڈال دی دل نے آگے خرد کے

 

جو ہیں اہلِ دل وہ سدا ہیں پریشاں

جو اہلِ خرد ہیں سدا شادماں ہیں

 

آئیے اب ہم ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے حاصلِ مطالعہ کے طور پر خرد کے حوالے سے ایک تحقیقی شذرہ قلم بند کرتے ہیں جس سے اندازہ ہو گا کہ خرد کی نسبت سے ان کا نقطۂ نظر کیا ہے اس سلسلے میں ان کا مجموعۂ کلام ’’کچھ دیر پہلے وصل سے‘‘ ہمارے زیرِ نظر ہے شذرہ ہذا میں شامل بیشتر اشعار اسی سے لیے گئے ہیں سب سے پہلے جنابِ فاتحؔ کا یہ شعر ملاحظہ ہو   ؎

وسعتِ دشت و بیاباں بھی خرد نے چھین لی

اب جنوں کے پاس کوئی مورچہ باقی نہیں

یہاں خرد کی چیرہ دستی اور قوتِ غاصبہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ جنوں کی سادگی و معصومی کہیئے یا کمزوری و غفلت کہ ایسے مقامات جو جنوں کی جاگیر سمجھے جاتے رہے جیسے دشت و بیاباں وغیرہ خرد نے غاصبانہ طور پر جنوں کو بے دخل کر دیا ہے گویا خرد سامراج کی علامت بن کے رہ گئی ہے۔

ایک اور شعر ملاحظہ ہو    ؎

ہم نہیں حاملِ خرد مندی

عمر دیوانہ پن میں گزری ہے

حضرتِ فاتحؔ سخنِ ہٰذا میں اپنی زندگی کے حوالے سے بات کر رہے ہیں خیال رکھنا حاشا وکلّا یہ نہ سمجھنا کہ ہم کوئی خرد مند انسان ہیں فراست و زیر کی ہم پر ختم ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری ذات جنوں سے عبارت ہے ہم نے دیوانگی میں عمر بسر کر ڈالی ہے ہوسکتا ہے یہ پاگل پن اختیاری ہو جو اپنی پسند پر انہوں نے خود پر طاری کیا ہو یا پھر یہ بھی ممکن ہے یہ ان کی حیات کا کوئی کمزور پہلو ہو جس کا ذکر وہ اعترافِ حقیقت کے طور پر کر رہے ہیں صورتِ حال کچھ یوں ہے کچھ بھی ہو یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ دیوانگی شاعر کا جوہرِ  خاص ہے گوہر ذات ہے جزوِ لاینفک کا درجہ رکھتا ہے۔ ایک نسبتاً معتدل شعر جس میں جنون و خرد کے مابین توازن برتا گیا ہے دامنِ توجہ کھینچ رہا ہے   ؎

خرد بھی مطمئن ہم سے ہے فاتحؔ

جنوں نے بھی اماں پائی ہوئی ہے

مقطعِ ہٰذا میں فصاحت و بلاغت کا نشان ہے فاتحؔ جی فرماتے ہیں کہ ہماری ہستی سے خرد کو بھی اطمینان حاصل ہے جس کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہماری ذات سے عقل کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے یا جس رنگ میں عمرِ عزیز گزر رہی ہے خرد کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے دریں حال یہ کہ جنوں بھی ہمارے حلقۂ اثر میں خود کو محفوظ و مامون سمجھتا ہے۔ یہ علامت ہے ایک مرنجان مرنج انسان کی جو نہ دوسروں کو شکایت کا موقع دیتا ہے اور نہ خود فطرتِ دیگراں سے برسرِ پیکار ہوتا ہے جنوں و خرد کے مابین اس قدر متوازن حکمتِ عملی شاذ ہی کہیں نظر آئے گی۔

آئیے اب خرد کے حوالے سے ایک اور پُر حکمت شعر دیکھتے ہیں    ؎

اسے اہلِ خرد کہہ لیں کہ ہم اہلِ جنوں کہہ لیں

جو اک بوٹے سے کر کے پیار جنت ہار بیٹھا ہے

صنعتِ تلمیح کا حامل یہ شعر حضرت آدم کے واقعۂ خروج بہشت کی طرف مشیر ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باوا جی کا شجرِ ممنوعہ کو تناول فرما نا کس زمرے میں آئے گا خرد مندی تھی یا جنونِ شوق تھا ادب مانع ہے ہم تو کچھ عرض نہیں کرسکتے البتہ قارئین کرام کی سمجھ میں آئے تو مرقومہ پتے پر خبر فرما دیں۔

اب ایک اور سخن پارہ دعوتِ نظارہ دے رہا ہے لیجئے پڑھیئے   ؎

نظر کی گرم بازاری خرد کا مُک مُکا ہو گا

کوئی بہرِ تماشا چند لمحوں کو رُکا ہو گا

شاعر اپنی یا پھر محبوب کی سیرِ حیات کے حوالے سے رقمطراز ہے بازارِ جہان کی رونقیں زوروں پر ہیں عقل و دانش کی گرم بازاری ہے نگاہوں کے ذریعے معاملات طے پا رہے ہیں اہلِ جہاں اپنے اپنے کارناموں میں لگے ہوئے ہیں ایسے میں ایک انسان ذرا سی دیر کے لئے آ کر رکتا ہے اچٹتی سی نگاہ گردو پیش پر ڈالتا ہے اپنی راہ لیتا ہے   ؎

فقیرانہ آئے صدا کر چلے

میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے

معاملہ صیغۂ راز میں رہ جاتا ہے کہ طائرانہ نظر ڈالنے والا راہی حالات سے کیوں لا تعلق ہو جاتا ہے آیا یہ ہنگامے اس کی طبعِ نازک پر گراں گزرتے ہیں یا وہ بیزاری محسوس کرتے ہوئے اغراض کر لیتا ہے۔ یہاں ایک ایسا شعر ہمارے ہاتھ لگ رہا ہے جو شاعر کے نظریۂ خرد کو نسبتاً زیادہ واضح کر رہا ہے چنانچہ فرماتے ہیں   ؎

شہر والوں کی خرد مندوں کی حالت دیکھ کر

یہ فضائے دشت یہ دیوانگی اچھی لگی

مصرعِ اوّل میں اہلِ خرد کی حالت کا تذکرہ ہے جن کا محل شہر ہے اور مصرع ثانی میں اہلِ جنوں کا حوالہ ہے جن کے مسکن دشت زار ہیں اظہار یہ فرماتے ہیں کہ اول الذکر حضرات کی کیفیت دیکھتے ہوئے مؤخر الذکر احباب کی حیات و بو دو باش کے سلوک و رویہ ہمیں بھلا لگا ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ اس شعر میں اہلِ جنوں اور ان کے رہن سہن کو سنجیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

آخر میں ایک اور شعر ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا ہدیۂ قارئین ہے    ؎

خرد نے عقل و دل پر اس قدر قبضہ جمایا ہے

خیالوں اور خوابوں سے مجھے الجھن سی ہوتی ہے

اُن کا یہ شعر خرد کی بالا دستی اور کیفیتِ جبر  و اکراہ پر دال ہے مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دل و دماغ کو عقل و خرد نے اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے کہ اب خواب و خیال ہماری نظر میں جچتے ہی نہیں ہیں۔ مفروضوں سے ہم بیزار ہو چکے ہیں حقیقت پسندی نے ہمیں اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اب نظری حیات کی بجائے عملی زندگی اپنی نگاہ میں مندوب و مستحسن ہے یہ وہ مقام ہے جہاں پر آخرِ کار آزمودہ کار ہونے کے بعد تکمیل دانش کے موقع پر اہلِ فکرو نظر پہنچ جایا کرتے ہیں یہی ابو البیان کا اعتبارِ کلام ہے۔

مندرجہ بالا استشہادات سے پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے نظریۂ خرد پر بخوبی روشنی پڑتی ہے اور حقیقت پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ وہ خرد کی چیرہ دستی اور جبر کے خلاف ہیں اور غلبۂ خرد کا اعتراف کرتے ہیں جس نے طرز فکر کو بدل کر رکھ دیا ہے لوگوں میں سائنسی انداز فکر پیدا کر دیا ہے یہاں تک کہ ضرورت سے بھی کچھ زیادہ حقیقت پسندی نظر آنے لگی ہے وہ جنوں ،  وہ سادگی،  وہ بانکپن ،  وہ دیوانگی وہ معصومیت اور سرمستی جوجنوں کا طرۂ امتیاز ہے اب عنقا ہے ابو البیان ظہور احمد فاتح کو اس کا استحضار ہے وہ حمایتِ مظلومان کے مصداق جنوں سے ہمدردی رکھتے ہیں تاہم جنوں کی کمزوری انہیں شاق گزرتی ہے پھر بھی یہ تسلیم ضرور کرتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ خرد نے لوگوں کو حقیقت پسند بنا دیا ہے اور ان کا وہ من موجی پن جاتا رہا جو کبھی بانکپن کے طور پر دلوں کو گدگداتا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

امان اللہ کاظمؔ ایک بالیدہ فکر شاعر

 

انسانی ادراکات محوِ ارتقا ہیں حکمت و دانش کا یہ سفر جب اپنے منطقی مدارج کو پہنچتا ہے تو انسان کو مقامِ اعتبار میسر آتا ہے ویسے بھی فہم و فراست اور تدبر و تفکر فطری خصائص ہیں جو کسی فرخندہ نصیب کے حصے میں آتے ہیں فن شاعری جس کی اساس فکر پر رکھی گئی ہے فن قالب کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ فکر روح ہے اس لئے فکر کی اہمیت مسلمہ و مصدقہ ہے بدوں از روح قلب چہ معنی وارد جس سخنور کا فکری کینوس بسیط و عریض ہو گا ا س کا کلام وقیع اور گراں قدر ہو گا ہر شاعر عمیق ریاضت کے جاں گداز عمل سے گزرنے کے بعد فکر کی وسعتوں سے ہم کنار ہوتا ہے گویا فکری بلوغت اس کی طویل المیعاد عرق ریزیوں کا ثمر ہوتا ہے جبکہ کچھ شعرا میں یہ معاملہ فطری نوعیت کا ہوتا ہے کسی بھی تخلیق کار کی تخئیلی استعداد ہی اس کے مقام و مرتبے کا تعین کرتی ہے شذرہ ہذا میں ہم امان اللہ کاظمؔ کے کلام بلاغت نظام کے حوالے سے رقمطراز ہیں جن کے سخن میں فکری زاویے عمق کے ساتھ پائے جاتے ہیں اور ان کا شعری ادراک قاری کو محوِ حیرت و استعجاب کر دیتا ہے ان کے اولین شعری مجموعہ ’’قندیلِ دل‘‘ مطبوعہ 2006ء کی منتخب غز لیا ت  کے اشعارِ منتخبہ ان کی بالیدہ فکری کے حوالے سے شامل شذرہ ہیں ان کی متعدد نثری و شعری تصانیف کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

1۔       قندیلِ دل                      (اُردو شعری مجموعہ)

2۔       پپلیں ہنجھ نہ ماوے         (سرائیکی شعری مجموعہ)

3۔       کِٹن پُر               (سرائیکی اکھاڑ اُردو شرح پہلا حصہ)

4۔       پیکرِ جلال و جمال  (ناول بحوالہ ٹیپو سلطان)

5۔        فاتح اندس           (ناول بحوالہ طارق بن زیاد)

6۔       ابو سلیمان سیف اللہ        (ناول بحوالہ حضرت خالد بن ولیدؓ)

7۔       بطلِ حریت        (ناول بحوالہ سلطان صلاح الدین ایوبی)

8۔       منگو لیا کا دجال     (ناول بحوالہ چنگیز خان)

9۔       خوانخواربھیڑیا    (ناول بحوالہ ہلا کو خان)

10۔    کم سن فاتح           (ناول بحوالہ محمد بن قاسم)

11۔     زیوس کا بیٹا         (ناول بحوالہ سکندرِ اعظم)

12۔    شرح بانگِ درا     (کلامِ اقبالؒ)

13۔    شرح بالِ جبریل (کلامِ اقبال ؒ)

14۔     شرح ضربِ کلیم  (کلامِ اقبالؒ)

15۔    شرح ارمغانِ مجاز             (کلامِ اقبالؒ)

16۔    خونناب خم          (شرح دیوان حکیم مومن خان مومنؔ)

17۔     ماء الحیات           (شرح دیوان خواجہ میر دردؔ)

18۔    تلخابہ شیریں        (شرح دیوان ساغرؔ صدیقی)

اس سے قبل ہم ان کی شعری استشہادات سے تنقیدی استخراجات اخذ کریں ان کے سوانحی کوائف پر طائرانہ نظر ڈالنا انتہائی ناگزیر ہے ان کے آباء و اجداد کا مولدو مسکن غزنی تھا ،  ان کے پر دادا احمد شاہ ابدالی کی سپاہ سے منسلک تھے ان کے جد امجد محمود غزنوی کی فوج کا حصہ رہے اسی دور میں ہی انہوں نے ہجرت کی بستی ٹبہ امام تحصیل تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خان میں سکونت اختیار کی ان کے داد ا مولوی عبدالجبار مدرسہ دیو بند کے فارغ التحصیل تھے ان کے والد عطا محمد خان ایک مذہبی مزاج کی شخصیت تھے وہ ایک سرائیکی نعت گو شاعر تھے عوامی مذہبی اجتماعات میں اپنا نعتیہ کلام ترنم سے پڑھا کرتے تھے۔ خوش الحان اس درجہ تھے کہ سامعین عش عش کر اٹھتے تھے اور ان پر وجد و حال کی کیفیت طاری ہو جایا کرتی تھی۔ 1945ء میں بستی ٹبہ امام تحصیل تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خان میں امان اللہ کاظمؔ کی پیدائش ہوئی سکول کی عمر سے ہی شاعری کا آغاز کیا اولاً دامن عباسی جو نتکانی تونسہ شریف سے تعلق رکھتے تھے، سے اصلاح لی۔ 1964ء گورنمنٹ ہائی اسکول وہو ا سے میٹرک کیا 1965ء میں سینئر ورنی کولر ایس وی ٹیچر کا امتحان گورنمنٹ ٹیچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ بہاولپور سے پاس کیا 1968ء میں گورنمنٹ مڈل اسکول باطل تحصیل و ضلع ڈیرہ غازی خان میں مدرس تعینات ہو گئے 1969ء میں ایف اے کا امتحان انٹر میڈیٹ بورڈ حیدرآباد سندھ سے نجی طور پر دیا جس میں کامیاب قرار پائے بعد ازاں ان کا تبادلہ گورنمنٹ ہائی اسکول نتکانی تحصیل تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خان میں ہو گیا 1969ء تا 1974ء تک گورنمنٹ مڈل اسکول ٹبی قیصرانی تحصیل تونسہ شریف میں تعلیمی خدمات سر انجام دیں جبکہ 1975ء سے ہی آپ نے تبادلہ کی وجہ سے لیہ میں مستقل سکونت اختیار کی تا دمِ تحریر لیہ میں ہی مقیم  ہیں دس سال قبل از وقت ریٹائر منٹ لے لی دسمبر 1995ء میں کچھ عرصہ کپڑے کا کاروبار کیا جسے خرابیِ صحت کے باعث ترک کرنا پڑا ادبی تنظیم ’’بزمِ تخلیقِ نو‘‘ جس کے سر پرست نسیمؔ لیہ تھے، کے ہفتہ وار مشاعروں میں بھی شرکت کرتے رہے۔ ڈاکٹر خیالؔ امروہوی، غافلؔ کرنا لی، ارمانؔ عثمانی، عدیمؔ صراطی اور امان اللہ کا ظمؔ ان مشاعروں کی روحِ رواں ہوا کرتے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے نادر سرائیکی سنگت کی بنیاد رکھی جس کے سر بر آوردہ اراکین میں نادرؔ قیصرانی واصف حسین واصفؔ، نسیمؔ لیہ اور امان اللہ کاظمؔ تھے جہاں جنوبی پنجاب کے مختلف علاقوں سے اہل ذوق جوق در جوق مشاعروں میں شریک ہوا کرتے تھے امان اللہ کاظمؔ نے اپنی زندگی بھر پور ادبی فعالیت میں گزاری۔ اب بھی اگرچہ ضعفِ پیری نے آ لیا ہے مگر پھر بھی مختلف النوع کی تصنیفی سر گرمیوں میں مصروف و منہمک رہتے ہیں۔

ان کی غزل کا ایک شعر قابلِ توجہ ہے۔

جب کبھی موجِ حوادث میں تری یاد آئی

بڑھ کے ساحل کے کناروں نے مرا ساتھ دیا

وہ خدا کی قدرتِ کاملہ پر مکمل یقین رکھتے ہیں ان کی شخصیت کا اعتماد بھی اس امر کی غمازی کرتا ہے اس لئے زیست کے ہر کام میں مشیت ان کی رفیق و دمساز رہتی ہے یہ بصیرت و حکمت عرفان و آگہی کا سر چشمہ ہے تمام دنیاوی سہاروں کا بطلان ہے بقول کسے   ؎

یوں تو جہاں میں ہزاروں ہیں یار دوست

مشکل کے وقت ایک ہے پروردگار دوست

بقول راقم الحروف   ؎

سہارے یہ سب عارضی سے ہیں ناقدؔ

سہارا ہے اک ان سہاروں سے آگے

غزل کا ایک شعر دیدنی ہے   ؎

جب اپنے گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے

تو پھر وحشت نہ ہو کیوں ہر بشر سے ؟

امان اللہ کاظمؔ زبان و بیان پر دستگاہ رکھنے والے شاعر ہیں ان کے کلام میں کہیں کہیں محاورات کا استعمال بھی فنی چابکدستی سے ہوا ہے مذکورہ شعر میں بھی محاورے کو قرینہ کاری کے ساتھ برتا گیا شعر ہذا میں عمرانی کج روی اور عصری روئیوں کی بازگشت عمدگی سے سنائی دیتی ہے اس شعر میں اخلاقی اقدار کی پامالی پر اظہارِ تاسف کیا گیا ہے۔

رومانوی حوالے کا حامل شعر لائقِ التفات ہے

تجھ سے ایفائے عہد کی توقع پر

ہم نے اپنا ہی احتساب کیا

ان کے شعری کینوس میں جہاں اظہارِ معرفت کے شواہد ملتے ہیں وہاں کہیں کہیں رومان بھی ضوپاشیاں کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے شعر ہٰذا میں وفا کی پالنا انتہائی مؤثر طریقے سے کی گئی ہے حتیٰ کہ اپنی ذات کو ہدفِ احتساب بنایا گیا خود احتسابی کا یہ بسیط عمل شاذ ہی کہیں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اس غزل کا مطلع معرفت کے تناظر میں درِ دل پر دق الباب کر رہا ہے۔

جب سے اُس نے خود کو بے حجاب کیا

ذرّے ذرّے کو آفتاب کیا

شعر مذکور میں تصوف کا فلسفہ ہمہ اوست کار فرما ہے ذرے ذرے میں فطرت کے رنگ ملاحظہ کرنا بھی عرفان و آگہی کی بہترین تمثیل ہے اسی فلسفے کو خواجہ میر دردؔ نے بھی عند البیان خوبصورت انداز میں بر پایا ہے بقول خواجہ میر دردؔ    ؎

جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا

تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

بقول راقم الحروف    ؎

زمان و زمیں میں اسے میں نے پایا

مکان و مکیں میں اسے میں نے پایا

جہاں یہ اسی کا بنایا ہوا ہے

کہاں اور کہیں میں اسے میں نے پایا

کلاسیکی طرزِ فکر کے حامل غزل کے دو اشعار زیبِ  قرطاس ہیں    ؎

دنیا نے زہرِ غم کے سوا کیا دیا

آئے تو آنکھ نم تھی گئے تو چشم تر گئے

خلق و وفا کا ہائے جنازہ نکل گیا

جو پیکرِ وفا تھے نجانے کدھر گئے

غم کائنات کا اساسی جذبہ ہے فلاسفۂ دہر نے اپنے افکار میں اس پو تر جذبے کا اعتراف کیا ہے کہ حزن تمام تر حیاتِ انسانی پر محیط ہے دوسرے شعر میں خلوص و مروت کے ناپید ہونے کی بات کی گئی ہے اور اہلِ وفا کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کیا گیا ہے بقول راقم الحروف   ؎

اے خدا کس دیس میں ہم آ گئے؟

پیار عنقا ہے جہاں نفرت فزوں

ترقی پسند فکر کا حامل ایک شعر نذرِ قارئین ہے    ؎

پڑھ لو کھلی کتاب ہے چہرہ غریب کا

مفلس کی کوئی اس کے علاوہ زباں نہیں

امان اللہ کاظمؔ کے کلام میں انسان دوستی کے بہت سے مظاہر ملتے ہیں وہ سماج کے محروم اور مفلوک الحال طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں ان کے دکھ درد کو خود بھی محسوس کرتے ہیں اور اپنے قاری کو بھی یہ جانکاری باور کراتے ہیں۔

غزل کا مطلع ملاحظہ ہو

جب دکھائی آسمان نے کج روی

کام آئی کب کسی کی دوستی؟

شعرِ ہٰذا ایک عمیق فلسفے پر مبنی ہے جس میں ارضی و سماوی بے حسی کا ذکر کیا گیا ہے وہ مشیت سے بھی شاکی نظر آتے ہیں اور اہل جہاں سے بھی نالاں ہیں نالہ و شیون کا ایک غالب عنصر ان کے کلام میں در آیا ہے۔

عصری رویوں کے تناظر میں غزل کے دو اشعار آپ کے ذوقِ طبع کے نذر ہیں۔

نئی تہذیب نے شکل و شباہت ہی بدل ڈالی

جسے سمجھے تھے محترمہ مگر وہ محترم نکلے

ملّمع ساز دنیا نے ملے چہرے پہ وہ غازے

مروت کے پیمبر بھی شہنشاہِ ستم نکلے

پہلے شعر میں نئی تہذیب کی چکا چوند کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے شاعرِ ممدوح مشرقیت پسند ہونے کے ساتھ ساتھ مشرقی تہذیب کے تقدس کے علمبردار بھی ہیں نئی تہذیبی یلغار سے وہ خائف نظر آئے ہیں جس کے باعث وہ مجبورِ نوا ہو جاتے ہیں دوسرے شعر میں اہل جہاں کے دوہرے روئیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور سماج کے نام نہاد فرشتہ صفت لوگوں پر کڑی طنز کی گئی ہے اور ان کی منافقت کے لبادے کو اتار پھینکا ہے اس نوعیت کا ایک اور شعر دیکھئے۔

تقدس کے گھونگھٹ میں چھپائے ہوئے چہرہ

ابلیس کو سر گرمِ عمل دیکھ رہا ہوں

یہ موضوع ان کے ہاں وفور سے پایا جاتا ہے اور ایک شعر آپ کے ذوقِ طبع کی نذر ہے۔

حقیقت میں یہ سانپ ہیں آستیں کے

خلوص و مروت ہے جن کا لبادہ

ایک اور غزل کا شعر درِ دل پر دق الباب کر رہا ہے

کیا تھا جو روزِ الست اپنے رب سے

ضروری ہے اس عہد کا پھر اعادہ

امان اللہ کاظمؔ ایک درویش منش انسان ہیں اس لئے صوفیانہ افکار ان کے مزاج کا حصہ ہیں عرفانِ خالق کائنات ان کے شعور اور لاشعور میں رچا بسا ہوا ہے وہ عبد اور معبود کے رشتے کو مستحکم بنیادوں پر استوار رکھنا چاہتے ہیں اس شعر میں یومِ الست کے میثاقِ اول کی یاد دہانی کرائی گئی ہے جس میں ارواحِ انسانی نے اپنے رب کی ربوبیت کا اعتراف کیا تھا اور اس کے امرو نواہی پر عمل پیرا ہونے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔ راقم الحروف نے اپنی نظم ’’بے تابی‘‘ میں اس موضوع کو یوں نبھایا ہے   ؎

کب سے بے چین ہے مضطرب ہے مری جاں ،  مری آتما؟

جب سے بچھڑا ہے ارواح کے عالمِ ابتدائی سے تو

لوگ لاکھوں گناہوں کے با وصف بے چین ہوتے نہیں

ایک میں ہوں کہ بے چین رکھتی ہے موہوم سی اک خطا

امان اللہ کاظمؔ کا سخن کثیر الجہات ہے زیست کے دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ رومان کی دلاویزی بھی اپنی ایک خاص تاثیر رکھتی ہے ان کی غزل کے ایک شعر میں انتظارِ یار کا منظر ملاحظہ کرتے ہیں   ؎

مرنے کے بعد مری آنکھیں کھلی رہیں

بس ان کے انتظار کا چسکا نہیں گیا

بقول شاعر   ؎

مرنے کے بعد بھی تو آنکھیں کھلی رہیں

عادت جو پڑ گئی تھی ترے انتظار کی

بقول ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ   ؎

آنکھ بند ہو جائے پھر بھی روبرو رہتے ہو تم

جاگتا ہے غم تمہارا پہرے داروں کی طرح

الغرض امان اللہ کاظمؔ کے تخیّلات ان کی بالیدہ فکری اور بالغ نظری کی عکاسی کرتے ہیں ان کا اسلوب انتہائی سادہ اور رواں دواں ہے جس کے باعث قاری کو کسی نوع کی لسانی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا خالقِ ارض و سما سے استدعا ہے کہ ان کے شعری و ادبی کارناموں کو دولتِ دوام سے نوازے۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

 

ڈاکٹر اخترؔ ہاشمی…  رِجائی امکانات کا شاعر

 

عصرِ حاضر میں جب کہ اخلاقی اقدار اپنی بساط لپیٹ چکی ہیں باہمی خلوص و مروت کے جذبات نا پید ہو چکے ہیں خود غرضی اور نفسا نفسی بامِ عروج پر پہنچ چکی ہے جس کے باعث انسانیت منہ ڈھانپے فریاد کناں نظر آتی ہے ہر نفس محوِ فغاں ہے عصری آشوب نے مہیب صورت اختیار کر لی ہے یقیناً اس کا اثر انسانی روئیوں پر بھی ہوا ہے جس کے لازمی نتیجے کے طور پر حزن و ملال اور یاسیت و قنوطیت نے روئے ارضی پر اپنے جھنڈے گاڑھ دیئے ہیں ان عصری تغیرات سے ہمارا ادب متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا عمومی طور پر ادب کے تمام شعبے متاثر ہوئے اور خصوصی طور پر فنِ شعر کا نازک ہنر بھی اس کی دست برد سے نہیں بچ سکا ان اثرات کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے شعرا نے دامنِ شعر کو افسردگیوں ،  مایوسیوں اور بیزاریوں سے لبریز کر دیا جس کے باعث قارئین شعر شاعری سے اعراض برتنے پر مجبور ہو گئے شعر اور قاری کے درمیان خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی ایسے میں اس امر کی شدت سے ضرورت محسوس کی گئی کہ عوام الناس کو پھر شعر و سخن کی طرف راغب کیا جائے چنانچہ عصری مقتضیات یہ ٹھہریں کہ شاعری میں یاس و حسرت،  حزن و ملال،  سوز و گداز اور غم و الم کی بجائے رجا و نشاط کا پیغام دیا جائے جن شعرا نے اس عصری تقاضے کو محسوس کیا اور قابلِ اعتنا سمجھا وہ نشاط انگیز اور پُر اُمید شاعری کے جادۂ پُر بہار پر گامزن ہو گئے انہیں بالیدہ فکر اور فرخندہ نصیب احباب میں ڈاکٹر اخترؔ ہاشمی کا اسمِ گرامی بھی لائقِ تحسین ہے جنہوں نے رجائی امکانات سے مملو شاعری کر کے قاری اور شعر کے درمیان تعلق کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا ہم ان کے شعری مجموعہ ’’خاموش آئینوں کی طرح‘‘ مطبوعہ ستمبر 2012ء کے منتخب غزلیات کے اشعار مذکورہ موضوع کے تناظر میں شاملِ تجزیہ کرتے ہیں۔

ان کے ہاں زندگی کرنے کا بسیط و عمیق عزم و حوصلہ ملتا ہے ان کے کلام میں آموزگاری کے امکانات بھی وسعت کے ساتھ پائے جاتے ہیں جو قاری کو حیات کے حوالے سے بے پناہ شعور سے ہم آہنگ کرتے ہیں وہ مصائب و آلام کے پر آشوب عہد میں بھی روشنی،  زندگی اور مردنی رکھنے کا آدرش دیتے ہیں اس تناظر میں ان کی غزل کے تین اشعار ملاحظہ ہوں   ؎

دوستو! خود کو روشنی رکھنا

کوئی عالم ہو زندگی رکھنا

ایک سے ایک آفتیں بھی ہیں

راہِ عرفاں میں دل جری رکھنا

راہِ ہستی میں سرخوشی کے لیے

بس محبت کی روشنی رکھنا

وہ بنی نوع انسان کی مخفی صلاحیتوں اور اس میں موجود سر بستہ رازوں کی بات کرتے ہیں وہ انسان کے ہر وصف کو بے مثال اور ہر ادا کو باکمال گردانتے ہیں ان کا کلام سراپا رجائیت ہے اور ہر شعر سے امید کی کرنیں پھوٹتی نظر آ رہی ہیں اسی نسبت سے ان کی غزل کا مطلع لائقِ التفات ہے   ؎

آدمی وصفِ بے مثال میں ہے

ہر ادا منزلِ کمال میں ہے

ان کے فکری کینوس میں روشنیوں کے ہالے ہیں مسکراہٹوں کے حوالے ہیں دنیائے دروں میں ایک جگ مگ ،  سرشاری اور سرخوشی کا سماں ہے ان کے تخیل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ رجائی اور طربیہ تاثرات پہلو بہ پہلو چلتے ہیں گویا ان کے جذبات رجا اور طرب کے حسیں احساسات کا خوبصورت امتزاج ہیں ان کی غزل کا مطلع دیدنی ہے    ؎

روشنی بن کے مسکرایا تھا

روح میں سب کی جگمگایا تھا

انہوں نے اپنے قاری کو یاس کے اندھیروں سے نکال کر آس کی روشنی میں لانے کی سعیِ جمیل کی ہے اور اس جدوجہد میں خاصے کامیاب بھی نظر آئے ہیں اس لئے وہ مایوس اور افسردہ احباب سے سراپا سوال نظر آتے ہیں   ؎

کیوں اندھیروں میں تم بھٹکتے ہو؟

دوستو! روشنی میں آؤ نا

امامِ عالی مقام سے ان کی عقیدت وموانست مثالی نوعیت کی ہے کربلا ان کے نزدیک ایک آس اور امید کا مینارہ ہے اور رجا کا بھرپور استعارہ ہے اس لئے وہ قاری کو اس کی پاسداری کی تلقین کرتے ہیں ان کی رجائیت کے تمام تر چشمے محبت سے پھوٹتے ہیں اس لئے وہ محبت کے دیئے جلائے رکھنے کی تاکید کرتے ہیں   ؎

کربلا اہلِ صداقت کے لئے نور ہے اک

نور یہ روح میں تم اپنی بسائے رکھنا

یاد رکھو یہ بھٹکنے سے بچا لیتی ہے

تم محبت کا دیا اپنا جلائے رکھنا

زیست کے پُر بیچ سفر میں رجا کی بھر پور دولت کے باعث انہیں راہوں سے محبت ہے اور سفر سے دوستی ہے اسی امر سے ہی ان کی زندہ دلی کا جواز ملتا ہے اسی انداز سے ہی وہ اپنی زندگی اور دنیا کا تعارف کراتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں   ؎

ہے راہوں سے محبت اور سفر سے اپنی یاری ہے

یہی ہے زندگی اپنی یہی دنیا ہماری ہے

ان کی رجائیت کا یہ عالم ہے کہ وہ ہر حال میں مطمئن اور شانت نظر آتے ہیں مشیت کا شکوہ کرنے کی بجائے ان کے ہاں ایک احساسِ سپاس گزاری ملتا ہے اس لیے وہ اپنے منعمِ حقیقی سے شاکی و نالاں ہونے کی بجائے شکر گزاری کا انداز اپنائے ہوئے ہیں جو ان کی عمیق ریاضت کی غمازی کرتا ہے وہ خداوندِ عالم کا شکر بجا لاتے ہیں اور مالکِ ارض و سما کا احسانِ عظیم گردانتے ہیں کہ اس ذاتِ کبریا نے ساری مخلوق میں سے حضرتِ انسان کو خوبصورت شبیہ خلق فرما کر اعزاز بخشا اسے عقل و دانش اور فہم و بصیرت کی دولت سے بہرہ ور فرمایا ایسی بھر پور رجائیت شاذ ہی کہیں ملے گی۔

مذکورہ تصریحات سے یہ امر اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر اخترؔ ہاشمی کا کلام رجائیت کا ایک بحرِ بیکراں ہے جس میں غواصی کے بعد قاری اپنے آپ کو ہر قسم کے تفکرات سے آزاد پاتا ہے ان کی قوتِ متخیلہ نشاط ور جاکی وہ قوسِ قزح ہے جس میں امیدوں اور امنگوں کے تمام تر رنگ پائے جاتے ہیں فکری خلفشار اور ذہنی تناؤ کے اس عہدِ پُر آشوب میں مسرت و رجا کے جذبے کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں یاسیت و قنوطیت کے عہد میں ذہنی اور روحانی آسودگیوں کا اہتمام بھی کسی اعجاز مسیحائی سے کم نہیں اور حیات کے تنِ مردہ میں روح پھونکنے کے مترادف ہے صانعِ لوح و قلم سے استدعا ہے کہ انہیں خوشگوار اور بھر پور انداز میں فزوں سے فزوں تر شعر و ادب کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

 

ابو الحسن واحدؔ رضوی کا نقدِ فن

 

راقم الحروف کو قدرت نے کثیر ذوقِ مطالعہ سے نوازا ہے جس کے باعث شعرائے کرام اور ادبائے عظام کی تصانیف و نگارشات سے استفادہ کیا ہے اور معتبر اربابِ علم و دانش سے حتی المقدور کسبِ فیض کیا ہے اسی امر کے باعث مختلف النوع تصانیف و تخلیقات اور شخصیات نے اقلیمِ خرد پر اپنے نقوش ثبت کیے ہیں یہ امر کسی سعادت مندی سے کم نہیں ہے یہ کسی کا فیضِ نظر ہے ورنہ من آنم کہ من دانم۔ سرورو فرحت، نشاط و تازگی جو راحت و طمانیت کسبِ علم و ادب میں ہے وہ دنیا کے کسی فرمانروا کے گنجِ سیم و زر میں نہیں ہے جو حصولِ علم کی کاوش میں قرار ہے جو اس راہ میں بھٹکنے میں سکھ سکون ہے وہ شادمانی تو راحتِ خانہ میں بھی نہیں ہے مختلف قسم کی تنقیدی کتب کا مطالعہ کیا جو مشاطگیِ فن کا باعث بنیں جو تاثر ابو الحسن واحدؔ رضوی کی تصنیف ’’نذرِ صابری‘‘ مطبوعہ 2011ء نے بخشا وہ یقیناً لازوال ہے اس سے پہلے کہ ہم مذکورہ تصنیف کے اسرار و رموز سے پردہ اٹھائیں یا نذرِ صابری کا مختصر تعارف زینتِ قرطاس کریں کتابِ ہذا کے مصنف کا اجمالی تعارف نا گزیر ہے کیونکہ کسی بھی تصنیف یا نگارش کی تفہیم کے لئے اس کے خالق کو جاننا از حد ضروری ہوتا ہے اس لئے کوئی بھی فن پارہ یا کتاب اپنے مصنف کا پر تو ہوتا ہے دونوں میں کسی ایک کو نظر انداز کرنا غیر مناسب ہوتا ہے ابو الحسن واحدؔ رضوی کا مولد و مسکن اور سوانحی کوائف کیا ہیں اس حوالے سے کتابِ ہذا کے اوراق خالی ہیں ان کی مطبوعہ غیر مطبوعہ تصانیف و تراجم کی تعداد تین سو نو ہے ابو الحسن واحد رضوی اٹک کے معروف شاعر، ماہرِ علمِ عروض، ادیب و نقاد، محقق، ماہرِ علمِ حدیث و تفسیر و فقہ، ماہرِ لسانیات اور مشرقی علوم پر دسترس  رکھنے والے نقاد ہیں ان کے تبحرِ علمی کا اندازہ ان کی کسی بھی تصنیف سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

اس سے قبل کہ ہم کتاب ہٰذا کے فکری و فنی امور کا تجزیہ کریں اور اس کے مصنف کے فنِ  تنقید کے حوالے سے کچھ لکھیں کتابِ ہٰذا کے ممدوح جناب نذر صابری کا مختصر تعارف بھی از حد ضروری ہے ان کے آباء و اجداد موضع سنگھ پورہ تحصیل و ضلع جالندھر کے مکین تھے بعد ازاں ان کے والدین نقل مکانی کر کے ملتان پہنچے وہیں ان کی پیدائش یکم نومبر 1923ء بروز جمعرات ہوئی قرآن مجید گلستانِ سعدی اور قرات و تجوید کے چند رسائل اپنے والد گرامی مولوی علی بخش سے سبقاً سبقاً پڑھے مڈل تک ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سنگھ پورہ میں حاصل کی بعد ازاں گاؤں سے جالندھر آ گئے اور بی اے آنرز ڈگری حاصل کی اردو، فارسی اور انگریزی ادب کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی تقسیمِ ہند کے بعد کچھ عرصہ لاہور میں مقیم رہے 3جنوری 1948ء بروز ہفتہ اٹک آ گئے اور پنجاب پبلک لائبریری میں ملازمت اختیار کی یہیں سے ریٹائر منٹ اختیار کی ابھی تک یہیں اقامت گزیں ہیں۔

مذکورہ کتاب میں مصنف نے اپنے ممدوح کے فکرو فن اور شخصیت کے حوا لے سے انتہائی جامع انداز میں لکھا ہے فنِ تنقید میں اسلوبیات کو ایک خاص مقام حاصل ہے اسلوب کی حیثیت کسی بھی فن پارے میں ایک قالب کی سی ہوتی ہے جب قالب ہی پر کشش اور دیدہ زیب نہ ہو تو حسنِ روح چہ معنی دارد اسلوبیاتی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو ابو الحسن واحد رضوی روایت و جدت کے سنگم پر کھڑے ہیں ان کا پیرائے اظہار متقدمین و متاخرین کے طرزِ بیان کاحسیں امتزاج ہے ان کے ہاں شعوری طور پر دقیقہ سنجی کا عنصر پایا جاتا ہے مگر کہیں عبارت کو بو جھل، ثقیل اور گنجلک نہیں ہونے دیتے اور یہی رنگ انشا پرداز کا کمال ہوتا ہے ان کی دقیقہ سنجی ان کے تبحرِ علمی اور طویل المیعاد ریاضتِ ادب کا باعث ہے وہ عربی و فارسی کا گہرا شعور و شغف رکھتے ہیں اگر عربی ان کی روح ہے تو فارسی ان کی جان ہے ان کے اسلوب پر فارسیت کی چھاپ ہے لسانیات کے ذوق و شوق کی بدولت ان کا اسلوب منفرد مقام رکھتا ہے عصرِ حاضر کے جدید نقاد کا دامن عربی وفارسی کے جواہر سے تہی ہے اس لیے اسی میں وہ شوق و شگفتگی مفقود ہے جس کے باعث قاری کے مطالعے کے دوران انہماک پیدا ہوتا ہے اس لیے اس کا اسلوب ادبی کم اور صحافتی زیادہ ہے نذر صابری کی غزل کے حوالے سے مصنف کے پیرائے بیان کا اسلوب بطور نمونہ ہدیۂ قارئین ہے۔

’’صابری کی غزل ان کے خمیر کی لطیف تعبیرات سے عبارت ہے ان کی غزل روشن اور رواں ہے لب و لہجہ میں زور، اندازِ اسلوب میں توانائی اور بیان میں بلا کی دلکشی پائی جاتی ہے الفاظ و تراکیب کی جزالت و براعت، شگفتگی و رعنائی اور معنی کی لطافت و ندرت دامن دل کو اپنی طرف کھینچتی چلی جاتی ہے وہی کہنہ الفاظ و تراکیب لیکن معانی و مفاہیم جدت و تازگی سے لبریز ان کی فارسی غزلیات کے مطالعہ سے حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے مستعمل زمینوں میں بھی ایسی مضمون آفرینیاں کی ہیں جن میں انفرادیت اور تنوع پایا جاتا ہے وہی تنوع جو ان کی تلوّن پسند طبع کا خاصہ ہے اور یہی ان کی قادر الکلامی کی برہانِ قاطع اور بیّن دلیل ہے۔ ‘‘

کتاب کے بابِ اول میں مصنف نے نذر صابری کی حیات و شخصیت کے حوالے سے اجمالی انداز میں لکھا ہے باب دوم ان کی علمی و ادبی خدمات کے حوالے سے ہے جس میں انہوں نے ان کی تخلیقات جن میں نظم و نثر دونوں شامل ہیں پر بڑی صراحت سے لکھا ہے ان کا تجزیاتی انداز ایسا ہے کہ فکر وفن کے خد و خال نمایاں طور پر نظر آتے ہیں انہوں نے ان کی نظم و نثر کے نمونے بھی پیش کیے ہیں بعد ازیں ان کی تالیفات و ترتیبات پر سیر حاصل بحث کی ہے اس باب کے آخر میں چند کتب و رسائل کا تعارفی جائزہ بھی شامل کیا ہے چوتھے اور پانچویں باب میں نذر صابری بحیثیتِ شاعر کی نسبت سے ہے جس میں اولاً شعر کے مفہوم و تعریف اور اجزائے ترکیبی کے حوالے سے انتہائی مدلل انداز میں بات کی گئی ہے نذر صابری کی شاعرانہ بصیرت، غزل گوئی، نعت نگاری اور ان کی دیگر اصناف کے حوالے سے خدمات کو تفصیل سے لکھا ہے ان کی فارسی شاعری کو بھی شاملِ تجزیہ کیا گیا ہے اور ان کے کلام کا عروضی جائزہ پیش کیا گیا ہے جو مصنف کی علم العروض پر دسترس کی غمازی ہے ضائع بدائع کا بیان بھی انتہائی تفصیل سے ہوا ہے بابِ ششم نذر صابری کی ناقدانہ حیثیت کے حوالے سے ہے جس میں نقد یا تنقید کے لغوی و اصطلاحی معافی کے حوالے سے بات کی گئی ہے ان کے اسلوبِ تنقید کے حوالے سے تصریح ہے ان کے تنقیدی نظریات کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے جن میں نقد یا تنقید کی اہمیت، نظری و عملی تنقید، معیارِ تنقید اور قضیۂ لفظ و معنی کو شامل کیا گیا ہے اور ساتھ ہی چند تنقیدی نمونے پیش کیئے گئے ہیں ساتواں باب تحقیق سے علاقہ رکھتا ہے اور تحقیق سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے جس میں مبادیاتِ تحقیق پر بحث کی گئی تحقیقی کے لغوی و اصطلاحی معانی، تحقیق ادبی لوازم، نذر صابری کا محققانہ شعور اور نذر صابری کے اندازِ تحقیق کے حوالے سے نمونے شامل کیئے گئے ہیں بابِ ہشتم نذر صابری کی ادیبانہ حیثیت کے بارے میں ہے جس میں ان کے اسلوب کے خصائص و محاسن بیان کیئے گئے ہیں اور ان کے نثری شذرات کے نمونے بھی اس باب کا حصہ ہیں بابِ نہم نذر صابری کے افکارو نظریات پر مبنی ہے جس پر مصنف نے منفرد انداز میں تجزیہ پیش کیا ہے باب دہم منظوم انتخابِ کلام پر مشتمل ہے۔

کتابِ ہذا کے مصادر و مراجع اور اشاریہ جس میں آیات، احادیث، رجال، اماکن اور کتب و رسائل کے عنوانات شامل ہیں ملاحظہ کرنے سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اس کتاب کی تیاری میں مصنف نے عرق ریزی سے کام لیا ہے تحقیق و تنقید اور تخلیق کا شوق و شغف رکھنے والوں کے لئے ابو الحسن واحدؔ رضوی کی یہ تصنیف بیش بہا خزانہ ہے اور انشا پردازی کا کمالِ جوہر ہے مالک ارض و سما سے دعا ہے کہ ان کی ادبی خدمات کو دوام نصب فرمائے۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

 

 

امینؔ اُڈیرائی… غمِ ذات کا شاعر

 

کسی بھی شاعر کی کائنات انواع واقسام کے موضوعات پر محیط ہوتی ہے اور وہ اپنے موضوعات کا مجازی خدا ہوتا ہے جس موضوع کو چاہے زیادہ نواز دے جس کو چاہے کم نوازے سخنورجس موضوع پر زیادہ طبع آزمائی کرتا ہے وہ اس کی خامہ فرسائیوں کا مستقل حوالہ بنتا ہے موضوعات کی تخلیق میں سخن گستر کے معاشی و معاشرتی حالات اہم کردار ادا کرتے ہیں اور وہ ان کا عکاس ہوتا ہے اس کے کلام کے آئینے میں اس کی تصویر صاف و شفاف ملاحظہ کی جا سکتی ہے نامساعد اور پر آشوب حالات کے باعث اکثر و بیشتر شعراء میں حزینہ شعری طبع پائی جاتی ہے جس کا معتبر حوالہ غم ذات ہے جسے داخلی احساس کا نام بھی دے سکتے ہیں ہم نے جب امینؔ  اُڈیرائی کے شعری مجموعہ ’’احساس کی خوشبو‘‘ مطبوعہ 2008ء کا بنظرِ  غائر مطالعہ کیا تو ہمیں غمِ ذات اپنے پورے کروفر سے نظر آیا کرب کا یہی احساس زریں ان کے سخن کی پہچان بنا آج ہم ان کے مذکورہ شعری مجموعہ کے تناظر میں منتخب اشعار کو بطور استشہاد دلاتے ہوئے موضوعِ ہٰذا کے حوالے سے فکری و فنی تجزیہ پیش کر رہے ہیں۔

مشرقی کلاسیکی شعری ادب کی یہ روایت رہی ہے کہ شعراء غربت و افلاس سے شاکی رہے ہیں یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اہلِ ادب مفلسی اور تنگ دستی کا نشانہ ہر دور میں بنتے رہتے ہیں کیونکہ علم و ادب اور مال و دولت ایک دوسرے کی ضد ہوتے ہیں ان دونوں کا بہم ہونا محالات میں سے ہے اسی حوالے سے ان کا یہ شعر دیدنی ہے۔

تمام عمر گزاری ہے اک سزا کی خاطر

ہمارا جرم بھی ٹھہرا تو مفلسی ٹھہری

راقم الحروف نے اسی موضوع کو یوں برتا ہے   ؎

میرا غریب ہونا میرا قصور ٹھہرا

سوز سخن کا باعث میرا شعور ٹھہرا

بقول شاعر   ؎

میری غربت نے اُڑایا ہے مرے فن کا مذاق

تیری دولت نے ترے عیب چھپا رکھے ہیں

شاعر یا تخلیق کار علمی، ادبی، فکری اور فنی اعتبار سے معاشرے کے اعلیٰ طبقے کا نمائندہ ہوتا ہے قاری اس کی ذہنی اُپج تک رسائی حاصل کیئے بغیر اس کا ادراک نہیں کرسکتا اس کی اصل وجہ سخن دان کا تبحرِ علمی اور مسلسل ادبی ریاض ہوتا جس کے باعث وہ دقیقہ سنجی کا مظہر ہوتا ہے بہ ایں صورت اسے عوام سے شکوہ نارسائی رہتا ہے اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اہل دنیا مادہ پرستی کے رسیا ہوتے ہیں جس سے اہل ادب کا دور سے تعلق نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ذہنی تفاوت  وقوع پذیر ہوتا ہے اور ہم آہنگی مفقود دہو جاتی ہے اور اہلِ جہاں اسے سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اس فکر کی ترجمانی ان کے اس شعر میں ملاحظہ کریں۔

سمجھ سکا نہ مرے دل کی بات کوئی امینؔ

زبانِ اُردو بھی شاید کہ فارسی ٹھہری

انسان جب معاشی و معاشرتی سنگینیوں سے نبرد آزما ہوتا ہے طرح طرح کے مسائل مختلف روپ دھار کرسامنے آتے ہیں کبھی مہنگائی کے روپ میں تو کبھی کساد بازاری کی حالت میں تو کبھی دہشت گردی کے انداز میں کوئی بھی کیفیت ہو جاں گداز ہوتی ہے خارجی مشکلات داخلی خدشات کو جنم دیتی ہیں اور وہ اس کیفیت کا مداوا چاہتا ہے اسی صورت کی ترجمانی ان کا یہ شعر کرتا ہے

میں اپنے آپ سے ڈرنے لگا ہوں

مجھے اس خوف سے باہر نکالو

جب ہر طرف غم و الم کے بادل منڈلا رہے ہوں ہر سو نفسا نفسی کا عالم ہو اور کوئی پرسان حال نہ ہو جب اخلاقی اقدار پا مال ہو رہی ہوں جب انسانیت منہ ڈھانپے فریاد کناں ہو جب ہر فرد یاس و حزن کی تصویر بنا ہوا ہو، جب احساسِ مروّت ناپید ہو جائے جب دامن ہستی تار تار ہو جائے اور کوئی رفوگر میسر نہ ہو تو پھر شاعر یوں مجبورِ بیاں ہو جاتا ہے اور اسے اپنی ذات طرفہ تماشہ دکھائی دیتی ہے۔

خود آپ میں گم چاک گریباں لیئے پھرتا ہوں

اس دشت میں اپنا یہ تماشا بھی نیا ہے

سانسیں جب اذیت بن جائیں اور جیون غم و اندوہ کا مرقع ہو جائے مسلسل صعوبتیں معمولِ حیات کے طور پر دکھائی دیں پھر ہستی و نیستی میں فرق ناپید ہو جاتا ہے دنیا قیامت کا منظر پیش کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے جب پوری زندگی سے کرب چھلک رہا ہو پھر حزن محتاج بیاں نہیں رہتا درد کا ہر مرحلہ قیامت کے مرحلوں کا مثیل دکھائی دیتا ہے امینؔ اُڈیرائی کے ہاں یہ کیفیت کچھ یوں جلوہ گر ہوتی ہے۔

کسے بتائیں کہ کیا کربِ زندگی ہے امینؔ

ملے ہیں درد قیامت کے مرحلوں کی طرح

جب حیات کا پورا منظر نامہ ہی آشوب زدہ ہو اور ہر طرف امواجِ خوں اٹھ رہی ہوں جب ظلمت کالے بادلوں کا لبادہ اوڑھ لے اور روشنی سیماب پا نظر آئے پھر راحت کے لمحے عنقا ہو جایا کرتے ہیں زندگی زہر آلود ہونے کی بجائے خود زہر بن جاتی ہے دریں اثنا انسان کو مفر مطلوب ہوتا ہے ان خیالات کو ذرا شاعرِ موصوف کی زبانی سنتے ہیں۔

چار سو آگ لگی آؤ کہیں بھاگ چلیں

خوں کی امواج اٹھی آؤ کہیں بھاگ چلیں

ہر طرف اٹھنے لگے کالے دھوئیں کے بادل

روشنی ماند پڑی آؤ کہیں بھاگ چلیں

ایک لمحہ بھی میسر نہیں راحت کا امینؔ

زندگی زہر بنی آؤ کہیں بھاگ چلیں

زندگی جب محرومیوں سے عبارت ہو جائے تو انسان احساسِ محرومی میں مبتلا ہو جاتا ہے ماحول کی چکا چوند اس احساس میں مزید اضافہ کر دیتی ہے تو انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ میرے حصے میں اتنی تیرگی کیوں ہے جبکہ چارسو اجالا ہے اسی حوالے کا حامل شعر دیکھیں۔

روشنی تو ڈگر ڈگر میں ہے

تیرگی صرف میرے گھر میں ہے

بقول حمیرا راحتؔ   ؎

کیوں گھور اندھیرا ہے مقدر میں تمھارے

بجھتے ہوئے سورج کی کرن پوچھ رہی ہے

مذکورہ تصریحات شاہد ہیں کہ امینؔ اڈیرائی زیست کی تلخیوں اور آشوب زدگیوں کا گہرا شعور رکھتے ہیں ، غم و آلام کے لازوال جذبوں کے امین ہیں ان کے تخیلات میں احساس حزن اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ پایا جاتا ہے بقول ابو البیان ظہور احمد فاتح۔

جاتا ہے ان کے پاس جو اصحابِ ظرف ہوں

یہ نامراد غم بڑا مردم شناس ہے

ان کی کتھا قاری کو اپنی بپتا معلوم ہوتی ہے اور ان کی کیفیات قاری پر طاری ہو جاتی ہیں غمِ ذات ان کے ہاں پوری شدت کے ساتھ موجود ہے ان کی فکری اپج کی بدولت قاری کے حزنیہ طبع کو مہمیز ملتی ہے ان کے اس مجموعہ کلام کے مطالعہ کے بعد ان کے بہتر شعری مستقبل کی نوید دی جا سکتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

پروفیسر اقبال ندیمؔ… حقیقی زندگی کا ترجمان افسانہ نگار

 

کسی بھی افسانہ نگار کی کامیابی کا راز اس امر میں مضمر ہوتا ہے کہ اس کا افسانہ حقیقی زندگی سے کتنی مشابہت رکھتا ہے آیا وہ اپنے عصر کی صحیح ترجمانی کر پاتا ہے یااس کا طرز اظہار فکری نوعیت کا حامل ہے کیا اس کے فن میں حقیقتوں کا فروغ ہے کیا اس میں مافوق الفطرت عناصر تو نہیں پائے جاتے، کیا اس کی فکر میں ربط و ضبط اور تسلسل ہے کیا اس کے کردار فطری انداز میں مکالمہ کرتے ہیں کیا کرداروں نے اپنی آنکھوں پر تصنع کے چشمے تو نہیں لگائے ہوئے کیا افسانہ کا تانا بانا فنی چابکدستی کا مظہر ہے کیا اس کے افسانے کا نقطۂ آغاز، پلاٹ اور نقطۂ اختتام میں کوئی تناقص تو نہیں ہے کیا اس میں سماج کی فلاح کا جذبہ موجزن ہے کیا وہ معاشرے کی نفسیات کا عمیق ادراک رکھتا ہے کیا وہ اپنی معاشرے کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتا ہے کیا وہ اپنے معاشرے کی اچھائی اور برائی کو من و عن کرتا ہے کیا عمرانی خبائث کا کوئی مد اوا تجویز کرتا نظر آتا ہے ان امور سے معلوم ہوتا ہے کہ افسانہ نگار اپنے فن پر کتنی دسترس رکھتا ہے ہم نے جب پروفیسر اقبال ندیمؔ کے دوسرے افسانوی مجموعہ ’’برگِ  آوارہ‘‘ مطبوعہ 2008ء کا بنظرِ  نمائر مطالعہ کیا تو مذکورہ خصائص بدرجہ اتم نظر آئے ہم ان کے چند افسانوں کا مختصر تجزیہ پیش کرتے ہیں تاکہ طول بیاں قاری پر گراں نہ گزرے ان کے اس افسانوی مجموعہ میں کل تیرہ افسانے شامل ہیں۔

’’بدلتے موسم ‘‘ ان کا پہلا افسانہ ہے افسانے کا عنوان اس کے موضوع کی مناسبت سے جچ رہا ہے یہ فطری نوعیت کا افسانہ ہے جس کے کردار اور زمرہ انداز میں گفتگو کرتے ہیں افسانہ نگار نے اپنے کرداروں کی زبان کو بھاری بھر کم نہیں بنایا اور نہ ان کی زبان دقیق ہونے دی، نہ کردار ناجائز معزز بننے کی کوشش کرتے ہیں بنیادی طور پر یہ افسانہ مضافاتی معاشرت کا آئینہ دار ہے جس میں گھریلو رہن سہن کو بلا تغیر و تبدل پیش کیا گیا ہے اس افسانے میں نام نہاد پیروں کا پول کھولا گیا ہے جو اپنے سفلی جذبات کی تسکین کے لیے لوگوں کی مرادیں پوری کرنے کا  کھوکھلا اور بے بنیاد دعویٰ کرتے ہیں اور سادہ لوح لوگ ان کا شکار ہو جاتے ہیں۔

دوسرا فسانہ ’’امر پریتم ‘‘ ہے جو رومانوی افکار کا علمبردار ہے جس میں منظر نگاری اور جزئیات نگاری حدِ کمال کو چھو رہی ہے وہ تسلسل اور روانی ہے جس سے پہلو بہ پہلو جاذبیت اجاگر ہوتی ہے بین السطور کہیں بھی قاری کو سر سری گزر جانے کی اجازت نہیں ملتی خیالات کا تانا بانا زنجیر کی کڑیوں کی طرح جڑا ہوا اور پیوست ہے اس میں حب الوطنی کے جذبات و احساسات بھی اپنی بہادر دکھا رہے ہیں جس سے یہ جانکاری ہوتی ہے کہ افسانہ نگار کے شعور کی جڑیں اس کی اپنی دھرتی میں ہی پیوست ہیں اور اس کے افکار میں اپنی مٹی کی خوشبو رچی ہوئی ہے جو اس کی فکر کو پریشانی کی نذر نہیں ہونے دیتی کہیں کہیں مذہبی خیالات کا ورود اور اسلامی تعلیمات کے احساسات بھی رونق افروزی کرتے نظر آتے ہیں اس میں کرب کا ایک لطیف احساس بھی ہے اس افسانے میں انتھک جوش اور ولولہ بھی اولوالعزمی کا مظہر ہے شہداء سے محبت اس میں جلوہ گر ہے ازدواجی زندگی کا حسن بھی موجود ہے اس میں ہندی لفظیات کی مٹھاس بھی پائی جاتی ہے حادثات کا مذکور بھی ہے اور سنبھلنے کی سعیِ پیہم بھی ہے مجموعی طور پر یہ افسانہ نادر النظیر افسانوں کی فہرست میں شامل ہونے کا استحقاق رکھتا ہے۔

’’سفرِ آرزو‘‘ چوتھا افسانہ ہے جس کا عنوان ان کے پہلے افسانوی مجموعے کے نام پر رکھا گیا ہے بنیادی طور پر اس کی فضا رومانوی ہے۔ اس میں ثقافتی پہلو بھی اجاگر کیئے گئے ہیں قرآن و حکمت کی باتیں بھی ہیں افسانہ نگار کے اندر کا شاعر بھی کہیں کہیں شعر کے ساتھ حاضر ہو کر دلچسپی کو دوبالا کر دیتا ہے عمومیت اس افسانے کا وصفِ خاص ہے۔

’’بنتِ صحرا‘‘ مجموعہ ہٰذا کا چھٹا افسانہ ہے جس میں مصنف کے سوانحی خاکے بھی ہیں اور اس کی دلچسپیوں کا مذکور بھی ہے دیسی بدیسی روایات کا احوال بھی ہے اورنسائی نفسیات کی جھلک بھی شامل ہے علم و دانش کے قصے بھی ہیں عقل و شعور کی کرم فرمائیاں بھی ہیں۔

’’کنفیوژن ‘‘ نواں افسانہ ہے جو روح عصر کی بھر پور ترجمانی کرتا ہے حقیقت حال سے باخبر کرتا ہے حالات کی آشوب زدگیوں کا بر ملا اظہار بھی ہے اور اس میں سیاحت کا سواد بھی شامل ہے۔ زندگی کی حقیقی تصویریں بھی ہیں۔

پروفیسر اقبال ندیمؔ کے اس افسانوں مجموعے کے مطالعہ کے بعد یہ راز منکشف ہوا کہ موصوف فنِ افسانہ نگاری کا گہرا درک رکھتے ہیں زبان و بیان کے حوالے سے بھی ایک قادر الکلامی پائی جاتی ہے ان کے افسانے میں آغاز تا انجام کہیں بھی دلچسپی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنے پاتا وہ ایک منجھے ہوئے افسانہ گار ہیں اگر اسی تواتر سے ان کا سفر جاری وساری رہا تو ان کا افسانہ ان کو اس سے کہیں آگے لے جائے گا مجموعہ ہٰذا کے تمام افسانے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

ارشد محمود ارشدؔ  کا شعری عمق

 

اقلیمِ سخن قلب و خرد کے حسیں افکار و خیالات سے عبارت ہے جذبات و احساسات میں حسن و خوبی کی پیوند کاری مختلف اسالیب سے کی جا سکتی ہے اور پیرائے اظہار کا ہر انداز خود میں احساسِ دلفریبی رکھتا ہے بشرطیکہ اسلوبیاتی ضابطوں کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے یہ امر لابدی ہے کہ اسلوب جس قرینے کا حامل ہو اسے اسی زاویے سے دیکھا جائے کیونکہ اگر سادہ اور سہلِ ممتنع ہو تو اس حوالے سے خصائص کو مد نظر رکھا جائے اگر دقیقہ سنجی کا وصفِ خاص رکھتا ہو تو اسے اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے جہاں تک فکری زاویوں کا تعلق ہے تو سخن گستر پاسدارِ قلب و خرد ہونا چاہیے اگر اس کا شعری میلان کسی خاص طرف واضح جھکاؤ رکھتا ہے تو وہ اچھا شاعر تو کہلائے جانے کا استحقاق رکھتا ہے لیکن اس پر اعلیٰ درجہ کے فنکار کی سجل ثبت نہیں کی جا سکتی افکار میں گیرائی و گہرائی کے لئے ناگزیر ہے کہ ارفع قوتِ متخلہ اور وجدانی صلاحیتیں حاصل ہوں تو پھر کلام شعری عمق سے ہم آغوش ہو گا شذرہ ہٰذا میں ہم ارشد محمود ارشدؔ کی سخن سنجی کے حوالے سے رقمطراز ہیں ان کا تعلق دبستانِ سرگودھا سے ہو جو اعلیٰ شعری و ادبی روایت کا امین بھی ہے جس نے شعر و ادب کی مہان ادبی شخصیات کو جنم دیا اور ایک ادبی دبستان کا درجہ رکھتا ہے اپنے اس مضمون میں ہم ارشد محمود ارشدؔ کے تیسرے شعری مجموعہ ’’شام کی دہلیز پر‘‘ مطبوعہ جنوری 2014ء کے ثلث اول اور دوم کی غزلیات کے منتخب اشعار ان کے شعری عمق کے حوالے سے بطور استشہاد برائے تجزیہ سپردِ قرطاس کرتے ہیں واضح رہے قبل ازیں 2007ء میں ’’عجب سی بے قراری ہے‘‘ اور پھر 2009ء میں ’’کبھی میں یاد آؤں تو‘‘ کے نام سے ان کے دو شعری مجموعے منصہ شہود پر آچکے ہیں ان کے آخر الطباعت مجموعۂ کلام سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا فکری ارتقاء حوصلہ افزا ہے کیونکہ پہلے دو مجموعوں میں موضوعاتی اعتبار سے رومان کا رنگ فزوں تر رہا ہے جبکہ ’’شام کی دہلیز پر‘‘ میں رومان کے علاوہ حیات و کائنات کے کچھ دیگر موضوعات بھی پائے جاتے ہیں یوں ان کا فکری کینوس وسیع تر ہو گیا ہے جو حوصلہ افزا ہے

ان کی غزل کا ایک شعر لائقِ توجہ ہے

جلتے خوابوں کو اشکوں سے ٹھنڈا کیا

دل سے اٹھنے لگا ہے دھواں خیر ہو

شعرِ مذکور کتھارسس کا ایک عمیق حوالہ خود میں سموئے ہوئے ہے صبر و تحمل کی داستان ہے جو عند البیان ہے محرومیوں اور حسرتوں کی بازگشت ہے جو سنائی دیتی ہے اس شعر میں ایک رجائی اور استدعائی فضا بھی کار فرما ہے زورِ بیان اور تاثیر کی فراوانی ہے اتنے بسیط فکری زاویوں کا شعر کے مختصر پیمانے میں اہتمام کرنا فکری بالیدگی کی بیّن دلیل ہے

آخر خود کو یہ سمجھانا پڑتا ہے

دل والوں کے بیچ زمانہ پڑتا ہے

مطلع ہٰذا حقیقت پسندی،  مصلحت اندیشی اور خرد آموزی کی عمدہ تمثیل ہے جس سے شاعر کا وجدانی شعور چھلکتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور ادراک کی بالا دستی کا مظہر بھی ہے اگرچہ تخیل روایتی نوعیت کا ہے لیکن پیشکش کا انداز خالصتاً فطری ہے جو خود میں اثر آفرین ی کی خصوصیت رکھتا ہے۔

کب تک رہے گا ریشمی زلفوں کے جال میں ؟

اس قید سے نجات کی گرہیں تلاش کر

ارشدؔ تو اپنی زیست کے پاتال میں اتر

اس اجنبی حیات کی گرہیں تلاش کر

غزل کے اس شعر اور مقطع میں شعوری ارتقا کا واضح عمل دکھائی دیتا ہے جو ان کی بالغ نظری کی طرف واضح اشارہ ہے جس میں ان کے تجربات و مشاہدات کی واضح جھلک محسوس کی جا سکتی ہے آموزشِ حیات کے وسیع تر پہلو موجود ہیں جن میں رخسارو عارض کی قید معدوم ہو گئی ہے جو روایت سے جدت کی طرف اٹھنے والا قابلِ تحسین قدم ہے۔

کہا میں نے چراغِ دل کو آخر بجھ ہی جانا ہے

کہا اس نے مری راہوں میں کچھ تنویر رہنے دے

کہا میں نے چلو توڑیں زمانے کی یہ زنجیریں

کہا اس نے کہ پرکھوں کی بھی کچھ توقیر رہنے دے

کہا میں نے نئی راہیں تراشیں اب محبت کی

کہا اس نے یہ بے مقصد ہے سب تعمیر رہنے دے

کہا میں نے محبت کے صحیفے دل پہ اترے ہیں

کہا اس نے تو ان آیات کی تفسیر رہنے دے

یہ تمام تر مکالماتی نوعیت کی غزل ہے جس کے دو مرکزی کردار محب اور محبوب ہیں محب قلب و جنوں کا نمائندہ ہے جبکہ،  محبوب خردو جفا کا ترجمان ہے یوں اس طریقے سے جنوں اور خرد کا حسیں امتزاج قائم کیا گیا ہے اس غزل کی تمام تر چاشنی انہیں امور کی مرہونِ منت ہے شاعرِ مذکور نے دونوں کرداروں کو حسنِ خوبی سے نبھایا ہے۔

اس لئے بھر بھری مٹی سے مجھ کو پیار ہے

خاک ہوں ہو جاؤں گا اس خاک میں تحلیل میں

ارشدؔ ایک دیش بھگت شاعر ہیں بلکہ دیش بھگتی ہونے پر فاخر و نازاں بھی ہیں اس لیے ان کے افکار میں وطن کی محبت اور بو باس رچی بسی ہے دیس سے ان کا رشتہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہے انسانی جنم حیات و مرگ کے دو استعاروں میں مقید ہے وہ ان دونوں تلازمات کے ڈانڈے خاک سے ملاتے ہیں اور یوں خود خاکی ہونے کا جواز بھی پیش کر جاتے ہیں

ایسا دریا ہوں جو کہ ہے سوکھا ہوا

آ کے ملتی ہے جس سے ندی مختصر

اس شعر میں تشبیہات کی قرینہ کاری دیدنی ہے جس میں محرومیوں اور حسرتوں کی بپتابیان کی گئی ہے اس میں رومان کا لطیف حوالہ بھی پنہاں ہے۔

معرفت و مجاز کے حوالے کے حامل دو اشعار آپ کے ذوقِ طبع کی نذر ہیں   ؎

اسے کیوں در بدر ڈھونڈتا ہوں

بسی ہے جبکہ اس کی ذات مجھ میں

جو میری سوچ کا محور ہے ارشدؔ

دکھائی دے بسا اوقات مجھ میں

ان دو اشعار میں صنعتِ ایہام کا فطری التزام کا رفرما ہے جنہیں معرفت و مجاز دونوں حوالوں پر منضبط کیا جا سکتا ہے عرفان و آگہی اور ادراکِ ذات کے خصائص نمایاں ہیں۔

اے شبِ تاریک تُو اُتر رہی ہے کس لئے ؟

ایک جگنو ہی بہت ہے روشنی کے واسطے

ان کے فکری کینوس میں صرف حزن و ملال،  ہجر و وصال اور یاسیت ہی نہیں بلکہ عمیق رجائی امکانات بھی موجود ہیں جن کی جھلک اس شعر میں دیکھی جا سکتی ہے۔

اس کار زارِ عشق میں اترو تو سوچنا

اس راہِ پر خطر میں ہزاروں کے سر گئے

ہاتھ میں آئینہ تھا مرے اور کچھ نہ تھا

ارشدؔ تمام شہر کے کیوں لوگ ڈر گئے

وہ معاملات اور ابنائے زمانہ کو انتقادی زاویوں سے دیکھنے کے قائل ہیں اس لئے ان کے ہاں ایک غیر جانبداری کا عنصر بھی کار فرما ہے ان کے فکری زاویے وسیع ہیں کیونکہ وہ حقیقت پسندانہ طرزِ فکر رکھتے ہیں۔

مشمولہ استشہادات و استخراجات سے یہ بھر پور غمازی ہوتی ہے کہ ارشد محمود ارشدؔ کی فکرو فن پر گرفت ایک ارتقائی انداز میں مضبوط ہو رہی ہے انہوں نے مختلف النوع بحور میں احسن طریقے سے مشاطگیِ سخن کی ہے ہر قسم کے قوافی اور ردیفوں کو بخوبی برتا ہے جو ایک اعتماد کی فضا کی عکاس ہے ان کے فکری زاویے شعری عمق سے ہم آغوش ہیں مستقبل میں ان سے کچھ مزید نئے امکانات کی امید کی جا سکتی ہے اگر ان کی ریاضتِ سخن فرطِ تسلسل سے جاری رہی تو ان کا ریاضِ شعر ان کو اس سے کہیں آگے لے جائے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

انوار احمد علوی کی تبسم ریز تحریریں

 

عمومی مشاہدے اور تجربے کی بات ہے کہ سنجیدہ ادب کی بجائے طنزو مزاح اور ظرافت زیادہ مؤثر اور کارگر ثابت ہوئی ہے۔ مقصدیت اور افادی پہلو بکثرت پائے جاتے ہیں ادب برائے ادب کے زمرے میں یہ طرزِ اظہار مفید اور متداول ہوتا ہے اس سے نہ صرف مطلوبہ مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں بلکہ اس میں تفریح طبع کا ساماں بھی موجود ہوتا ہے اس طریقہ سے تہذیب و تمدن اور معاشرت و ثقافت کے خدوخال صحیح معنوں میں اجاگر کئے جا سکتے ہیں طنزو مزاح ایک مخصوص طبع کی متقاضی ہے جو ہر کہ و مہ کے بس کا روگ نہیں۔ ایک مزاح نگار حیات و کائنات کو مخصوص زاویوں سے دیکھتا ہے جس سے کئی طرح کے انکشافات ہوتے ہیں اس کے سوچنے کا رنگ ڈھنگ منفرد اور جداگانہ ہوتا ہے اسلوب سادہ و شستہ اور مثالی نوعیت کا ہوتا ہے آج کے عصری آشوب میں بسورتے چہروں پر خوشگواری لانا،  حزن و ملال میں جکڑے ہوئے لوگوں کو قہقہوں سے ہمکنار کرنا اور تلخ و سنجیدہ زیست میں تبسم سامانی کرنا کسی کار مسیحائی سے کم نہیں جو تفریح طبع بھی ہے تنقیدی انداز بھی ہے اور حقیقی مقاصد کا حصول بھی ہے شذرہ ہٰذا میں ہم انوار احمد علوی کی طنزو مزاح اور ظرافت نگاری کے حوالے سے رقمطراز ہیں جن کی نگارشات نے ایک بار پھر پطرس بخاری کی یادوں کو مہمیز دی ہے جن کی طنزو مزاح،  ظرافت نگاری اور بذلہ سنجی لائقِ تحسین و ستائش ہے جن کے مزاحیہ شخصی خاکوں اور تجزیوں کا مجموعہ  ’’نامعلوم افراد‘‘ مطبوعہ جولائی 2013ء ہمارے زیرِ نظر ہے جس میں کل اٹھارہ خاکے شامل ہیں قبل ازیں ان کی چار کتب ،  ’’ جملہ حقوق غیر محفوظ(طنزیہ و مزاحیہ مضامین)‘‘، ’’مس گائیڈ(طنزیہ و مزاحیہ مضامین)‘‘، ’’سود کے تعاقب میں (ظریفانہ اسلوب میں مستقل کتاب)‘‘ اور ’’غالب کا دستر خواں (پیرو ڈی خطوطِ غالب)‘‘ منصہ شہود پر آ چکی ہیں۔ ان کی اوّل الذکر کتاب کے ُسدس اوّل کو جس میں تین مزاحیہ خاکے شاملِ تجزیہ کرتے ہیں۔ مذکورہ کتاب کا نام بھی سیاق و سباق کی روشنی میں خوب جچ رہا ہے جو ان کی طنزو مزاح اور ظرافت کا غماز ہے۔

کتابِ ہٰذا کا اوّلین خاکہ ’’اور اب ہماری امی‘‘ سے موسوم ہے جس کے دقتِ نظر سے مطالعہ کے بعد قاری داد دینے پر مجبور ہو جاتا ہے بیان بھر پور اور دل آویز ہے تمثیلات کی دلکشی اپنی بہار دکھاتی نظر آتی ہے جس سے مصنف مذکور کی بالیدہ فکری اور ذہانت و فطانت عیاں ہوتی ہے اور حقیقی زندگی کا عمیق و بسیط شعور جلوہ نما نظر آتا ہے تہذیب و تمدن اور معاشرت و ثقافت سانس لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جس میں گھر گرہستی کے ادراکات بھی لائقِ اعتنا ہیں ان کے پیرایۂ اظہار کی دلفریبی اولین اقتباس میں ملاحظہ کرتے ہیں۔

’’اور اب ہماری امی جن کی شخصیت میں آپ کو یقیناً اپنی امی کی صورت نظر آئے گی کیونکہ ہماری عمر کے لوگوں کی مائیں کم و بیش ایسی ہی ہوا کرتی ہیں سرکار کے کماؤ محکموں میں ایماندار لوگوں کے لیے چھوٹے شہر موزوں سمجھے جاتے ہیں ہمارے والد صاحب بھی ایسے ہی محکمے کے دیانت دار ملازم ہونے کی وجہ سے ساری زندگی ایمانداری کا خمیازہ بھگتتے رہے اور زیادہ تر چھوٹے شہروں میں تعینات کئے گئے ورنہ ہم جیسے لوگ ایماندار اس لئے کہلاتے ہیں کہ خیانت کرنے کے مواقع میسر نہیں آتے جس طرح محمود غزنوی ہندوستان پر تیس سال میں سترہ حملوں کے بعد کامیاب ہوا اس طرح وہ تیس سال سترہ تبادلوں کے بعد ریٹائر ہوئے اس  ناانصافی کے خلاف امی نے ان کا پورا پورا ساتھ دیا اور ان کے ساتھ بار بار رخصت ہوتی رہیں ہو سکتا ہے نکاح کے بعد رخصتی میں کوئی رسم رہ گئی ہو جس کا ازالہ قدرت نے یوں فرما دیا اگر وہ خفا ہو جاتیں اور روز روز نئی جگہ جانے سے انکار کر دیتیں تو عین ممکن تھا کہ والد صاحب کے قدم لڑ کھڑا جاتے مگر وہ ڈٹی رہیں اور حوصلہ نہ ہارا اگر ان کی جگہ کوئی اور عورت ہوتی تو یہ شعر پڑھتے ہوئے اپنے میکے میں جا بیٹھتی   ؎

نامہ بر ان کی میں غلام نہیں

جا کے کہہ دے، قمر نہیں جاتی

وہ اپنے سماج کے معائب و محاسن پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں اس لئے ان کے ہاں بھر پور نوعیت کے تنقیدی رویے ملتے ہیں طنزو مزاح اور ظرافت کی چاشنی ان کے سوا ہے عمرانی نقطۂ نگاہ سے ان کی نگارشات کا مطالعہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔

مذکورہ کتاب کا دوسرا خاکہ ’’باتیں حفصہ کی‘‘ ہے جس میں مصنف کے تین بچوں عمیر،  سارہ اور حفصہ کی خاکہ نگاری کی گئی ہے جس میں تینوں بچوں کے عادات و معمولات و خیالات کا طنز و مزاح کے انداز میں تجزیہ کیا گیا ہے ان کی طرفہ طباع کو آشکار کرنے کی سعیِ جمیل کی گئی ہے جس میں قاری کے لئے دلچسپی کے شواہد ہیں اس خاکہ سے اقتباس ملاحظہ کریں جس سے مصنف کی سنجیدگی اور مزاح کی جھلک ملتی ہے اور انداز کلائمکس نوعیت کا ہے۔

’’ایک بار سارہ نے ہم سے فرمائش کر ڈالی ہم نے کہا،  ہم غریب ہیں ‘‘ تمہاری یہ خواہش کہاں پوری کرسکتے ہیں ’’وہ بجھ سی گئی ہمیں سخت ملال ہوا اور اسے بہلانے کی غرض سے شام کو سیرو تفریح کا پروگرام بنایا اہلیہ نے سارہ سے تیار ہونے کو کہا تو انتہائی معصومیت سے بولی ’’آپ لوگ چلے جائیں مجھے غریبوں کے ساتھ گھومنے نہیں جانا‘‘

بہر حال یہ بھر پور خاکہ ہے جو بچوں کے لئے خصوصی دلچسپی کا حامل ہے جس میں بچوں کی معصومانہ شرارتیں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

تیسرا خاکہ ’’یا جوج ماجوج‘‘ جو نام کے اعتبار سے منفرد ہے جو زیست کی طرفہ تصویروں کو منعکس کرتا ہے جس میں طنزو مزاح اور ظرافت کے انداز میں زندگی کے مختلف شعبہ جات کی تلخیوں کی عکاسی کی گئی ہے جس میں تنقید کا ایک بھر پور انداز پایا جاتا ہے۔

الغرض انوار احمد علوی کی یہ کتاب ایک دلچسپ سوغات کا درجہ رکھتی ہے جس کے مطالعہ سے قاری حیات کے بسیط ادراکات سے ہم کنار ہوتا ہے جس میں اصلاح معاشرت کے زبردست امکانات پر کشش پیرایۂ اظہار میں ملتے ہیں اس نوع کی کتب کے مطالعہ سے کتاب دوستی کو تقویت ملتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

میرے شہر کی کہانی …  ارمؔ زہرا کی زبانی

 

کچھ شخصیات عمیق حسیات کی حامل ہوتی ہیں جنہیں مجسم اور مجرد احساس کہنا چاہیے غور و  خوض اور تفکر و تدبر کے عوامل ان کے شخصی خصائص کا حصہ ہوتے ہیں وہ ایک چلتے پھرتے مائیکرو فون کی مانند ہوتی ہیں وہ زیست کے ہر جزو کا بغور مطالعہ و مشاہدہ اور تجزیہ کرتی ہیں اس لیے ان کا مطالعاتی اور تجزیاتی انداز جزئیاتی نوعیت کا ہوتا ہے جس سے کلی استخراجات بخوبی حاصل کئے جا سکتے ہیں شذرہ ہٰذا میں ہمارا موضوعِ بحث ارمؔ زہرا کی کہانیوں کا مجموعہ ’’میرے شہر کی کہانی‘‘ مطبوعہ جنوری 2014ء ہے جس کی طباعت کا اہتمام ’’رنگ ادب پبلی کیشن کراچی‘‘ نے دیدہ زیب سرورق اور عمدہ درامدی نوعیت کے کاغذ کے ساتھ کیا ہے اگر کتابِ ہٰذا کو رنگِ ادب پبلی کیشن کی شاہکار مطبوعات میں شمار کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا کتابِ مذکور خود میں دلچسپی کے متعدد مظاہر سموئے ہوئے ہیں جو کل انتالیس کہانیوں پر مبنی ہے جس کے چار سو چونسٹھ صفحات ہیں اور یہ ادبی سوغات سات سو ثمن میں دستیاب ہے دراصل کتابِ ہٰذا اُن کی اُن کہانیوں کا مجموعہ ہے جو ماہنامہ ’’سچی کہانیاں ‘‘ ڈائجسٹ میں تواتر سے شائع ہوتی رہی ہیں ارم زہرا کا تعلق چونکہ کراچی سے ہے ان کہانیوں میں بھی شہر قائد کی آشوب زدگی اور اس میں ہونے والی دہشت گردی کو موضوعِ بیان بنایا گیا ہے ان سے جڑے ہوئے واقعات کو سچی کہانیوں کے قالب میں ڈھال دیا گیا ہے یہ تمام تر بیانیہ طرز کی کہانیاں ہیں جن میں انہوں نے اپنی ذات کو بھی کہانیوں کا حصہ بنائے رکھا گویا یہ ان کے مشاہدات کا بے تکلفانہ اظہار ہے مذکورہ کتاب کے حوالے سے محمد ایوب صابر،  منزہ سہام اور ناصر رضا کی آرا ثبت ہیں تاثرات نگاروں میں شاعر علی شاعر،  حمیدہ سحرؔ اور راقم الحروف شامل ہیں۔

محمد ایوب صابر کتابِ ہٰذا کے حوالے سے یوں لکھتے ہیں :

’’میرے شہر کی کہانی‘‘ پڑھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اس کتاب کو ضبط تحریر میں لانے کے لئے انہوں نے خود کسی کربناک راستے سے اپنا سفر طئے کیا ہے جہاں ہر قدم پر پاؤں کانٹوں سے الجھتے ہوں وہاں جہدِ مسلسل سے چلتے رہنا ایک کارنامے سے کم نہیں انہوں نے ہر کہانی کو تحریر کرتے ہوئے کتنی دفعہ اپنی پلکوں کی منڈیر ٹشو پیپر سے خشک کی ہو گی۔ کتابِ مذکور کے حوالے سے معروف شاعر و نقاد اور مدیر و ناشر شاعر علی شاعر رقمطراز ہیں۔

’’ارم زہرا کی نظر معاشرے میں رونما ہونے والے ان واقعات پر ہے جن پر توجہ نہ دی گئی تو وہ اس معاشرے کی تباہی کا باعث بھی بن سکتے ہیں اور کسی قوم و ملت کے زوال کا سبب بھی ان کی کہانیوں میں نہ صرف سفاکی و درندگی پر مبنی واقعات کا بیان ہے بلکہ ان کے مسائل کا حل بھی پوشیدہ ہے اس قسم کے فن اور عمیق نظری کا شمار ارم زہرا کی انفرادیت میں ہوتا ہے اور یہ انفرادیت ارم زہرا کو ان کی ہم عصر خواتین سے ممتاز و منفرد کرتی ہے۔ ‘‘

ان کی کہانیوں کے اس مجموعہ کے سُدس اول کا انتقادی جائزہ زیب قرطاس ہے جس میں چھ کہانیاں شامل ہیں۔

’’رسموں کے غلام‘‘ ان کی اولین کہانی ہے بقیہ تمام کہانیوں کی طرح اس کا آغاز بھی معمولاتِ حیات سے ہوتا ہے اس کہانی میں جمیلہ اور اکبر شاہ دو مرکزی کردار ہیں جمیلہ جدید طرزِ حیات کی نمائندہ لڑکی ہے جس میں روشن خیالی اور جدت پسندی و فور سے پائی جاتی ہے اس کے مقابلے میں اگرچہ اکبر شاہ کا تعلق مضافاتی اور قبائلی معاشرت سے ہے جو قدامت پرستی کا حوالہ گردانی جاتی ہے لیکن شہر میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باعث وہ بھی جدت پسند خیالات کا حامل ہے یوں ان کی ایک ذہنی ہم آہنگی بن جاتی ہے اگرچہ اس کہانی کے شروع میں اخبار کی ایک خبر کی بدولت دہشت گردی کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے جو کہانی میں تھوڑی دیر تک چلتی ہے اس کے بعد کہانی میں رومان کی حاشیہ آرائی شروع ہو جاتی ہے جمیلہ اور اکبر شاہ کے کردار رومانوی نوعیت کے ہیں جن کے باعث رومانویت کی چاشنی پائی جاتی ہے کہانی کا اسلوب،  زبان و بیان فطری،  برجستہ اور بے تکلفانہ نوعیت کا ہے جس کے باعث بناوٹ اور تصنع کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں ان کی اسلوبیاتی رعنائی کے استشہاد کے طور پر ایک اقتباس نذرِ قارئین ہے۔

’’اکبر شاہ وہ پہلا لڑکا تھا جس نے جمیلہ کے درِ دل پر دستک دی تھی اور جیسے وہ بھی بے دھیانی میں کھول بیٹھی تھی ورنہ تو وہ لڑکوں سے دور بھاگتی تھی کالج میں کتنے ہی لڑکے اس کی دوستی کے خواہاں تھے مگر وہ خامشی سے نظریں جھکائے اپنا راستہ ناپتی ’’نو لفٹ‘‘ کاسگنل دیتی نکل جایا کرتی لیکن جب سے اکبر شاہ جمیلہ کی کلاس میں آیا تھا اس کے لئے جمیلہ کے دل میں نرمی کا گوشہ اپنے آپ جگہ بناتا چلا گیا تھا شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ اکبر شاہ لیٹ ایڈمیشن تھا اب تک اس کی کسی سے دوستی نہیں ہوئی تھی اس لئے اس نے کلاس کی سب سے لائق فائق لڑکی جمیلہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو وہ انکار نہیں کرسکی اور پڑھائی کے سلسلے میں اس کی مدد کرنے لگی نوٹس کے ساتھ جذبات و احساسات اور نظروں کا تبادلہ بھی شروع ہو گیا تب جمیلہ کو احساس ہوا کہ متاثر ہونے کا یہ احساس دو طرفہ ہے اور یوں ان کی دوستی کی کونپل یونیورسٹی کے زیر سایہ نمو پانے لگی۔ ‘‘

جمیلہ اپنے نظریات و خیالات کی بدولت قبائلی رسم و رواج کو ہدفِ تنقید بناتی رہتی ہے جسے اکبر شاہ خاموشی سادھے سنتا رہتا ہے خوشگوار اور رومانی اثرات کے تحت ان کی دوستی محو سفر رہتی ہے کہ اچانک کہانی ایک نیا رخ بدلتی ہے ایک عذرا نامی لڑکی جس نے پسند کی شادی کی تھی اور جمیلہ حسنِ اتفاق سے اس کی ہم شکل تھی عذرا کے مغالطے میں اس کا چچا سجاد غیرت کے نام پر جمیلہ کا قتل کرا دیتا ہے اور یوں اپنی قبائلی غیرت کی آگ ٹھنڈی کرنے کا سامان کرتا ہے یوں اکبر شاہ کے خوابوں اور امنگوں کا محل دھڑام سے گر جاتا ہے یوں کہانی کا اختتام حزینہ اور المیہ انداز میں ہوتا ہے کہانی کا نام اس کے موضوع کی مناسبت سے خوب جچ رہا ہے مجموعی طور پر فطری نوعیت کی کہانی ہے جو بہترین کہانیوں کی فہرست میں شامل کئے جانے کا استحقاق رکھتی ہے۔

’’آخر قصور کیا تھا؟‘‘ مجموعہ ہٰذا کی دوسری کہانی ہے اس کا عنوان بھی ایک مکمل کہانی کا درجہ رکھتا ہے جس میں کلثوم نامی خاتون کی بپتا بیان کی گئی ہے جس کی یکے بعد دیگرے تین شادیاں ہوئی ہیں اور تینوں مرد سفاک اور ظالم ثابت ہوتے ہیں بالآخر انجام اس کی بھیانک موت پر ہوتا ہے اس کہانی میں مردوں کے ظلم و ستم،  ان کی سفاکیت اور ظلم و بربریت کو بھر پور طریقے سے بیان کیا گیا ہے جس سے مرد حضرات کی لو بھی طبیعت اور خود غرضی کی برملا عکاسی ہوتی ہے۔

’’چہرہ بنا سوال‘‘ یہ اس کتاب کی تیسری کہانی ہے جس کا آغاز ایک سڑک حادثے سے ہوتا ہے فرح اور فیصل اس کہانی کے کردار ہیں فرح ایک نرس ہے جس کا کام اور مقصد دکھی انسانیت کی خدمت کرنا ہے فیصل جب ٹریفک حادثے میں زخمی ہونے والے مریض کو اسپتال لاتا ہے تو اس کی ملاقات فرح سے ہوتی ہے جب فرح کو معلوم ہوتا ہے کہ فیصل زخمی شخص کو محض انسانی ہمدردی کے تحت لایا ہے اور اس کی زخمی ہونے والے فرد سے کوئی جان پہچان نہیں ہے تو فرح کے دل میں فیصل کے لئے مخلصانہ رویہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی یوں ان کی دوستی کا آغاز ہوتا ہے بعد ازاں ان کی شادی ہو جاتی ہے فیصل اپنے ہی گھر میں دہشت گردی کا نشانہ بن جاتا ہے یوں فرح سراپا سوال بن جاتی ہے وہ اپنے ننھے بیٹے کے ساتھ زندگی گزارتی ہے جو فیصل کی نشانی ہے یوں اسے سماج کی کج روی کا سامنا کرنا پڑتا ہے دہشت گردی کے تناظر میں لکھی جانے والی یہ کہانی خود میں ترقی پسند افکار کے شواہد بھی رکھتی ہے جو فیصل اور فرح کے روپ میں مشاہدہ کیئے جا سکتے ہیں۔

’’دکھ دریا کے پار‘‘ کتابِ ہٰذا کی چوتھی کہانی ہے جس کا نام اس کے موضوع کی ترجمانی کرتا ہے اس کا آغاز پُر آشوب اور دہشت زدہ انداز میں ہوتا ہے جو اس کہانی کی روح رواں ہے جس سے عصری حالات کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے کہ انسان کے اندر غیر محفوظ ہونے کا احساس قوی تر ہوتا جا رہا  ہے جس کے باعث سوچ کے زاویوں میں مہیب نوعیت کی تبدیلی وقوع پذیر ہوئی ہے کلاسیکی اور پر امن عہد کا فرد کچھ اس انداز میں سوچتا ہے جس سے ایک عافیت کا اظہار ہوتا ہے کوئی خوف اور کوئی واہمہ دامن گیر نہیں ہوتا انسان کھلے آسمان کے نیچے اپنی من مرضی کی زندگی بتاتا ہے کہیں آنے جانے یا کسی کے آنے جانے کے سلسلے میں کسی قسم کا جوکھم روا نہیں ہوتا خوشیوں اور امنگوں کی فضا میں جیون سانس لیتا ہے بقول شاعر

آ جائے کوئی شاید دروازہ کھلا رکھنا

لیکن عصر حاضر میں عدم تحفظ کا احساس اتنا پروان چڑھ گیا ہے کہ انسان اب دروازہ کھولنے کی بجائے بند کرنے کی تاکید پر مجبور و مصر ہے بقول راقم الحروف

غیر محفوظ اپنا جیون ہے

در کو اپنے کھلا نہیں رکھتے

اس کہانی میں عاشر،  اس کی ماں اور اس کی بہن عدم تحفظ اور خوف و حراس کی تصویر بنے ہوئے ہیں یہ کہانی شہر کراچی کی بدامنی کا صحیح منظر نامہ پیش کرتی ہے کہانی کے آخر میں حب الوطنی اور ہمت و حوصلے کے جذبات و احساسات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے ترقی پسند افکار بھی ضو پاشیاں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

’’کہانی کی تلاش‘‘ پانچویں کہانی ہے جس میں مصنفہ کی حساسیت واضح طور پر مشاہدہ کی جا سکتی ہے اس میں مختلف کہانیوں کے مختصر لفظی خاکے پیش کئے گئے ہیں یوں بہت سی کہانیوں کو اجمالی انداز میں متعارف کرایا گیا ہے جس سے ان کی انسان دوستی کی عکاسی ہوتی ہے اور یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے سینے میں ایک درد مند دل رکھتی ہیں اور درد مند جذبات کی امین ہیں۔ پاسدارِ خلوص و مروت ہیں جس سے ان کی دور رس نگاہی کی جھلک ملتی ہے۔

’’خواہشوں کا بھنور‘‘ یہ چھٹی کہانی ہے کہانی ہٰذا کا نام بھی اس کے موضوع کی طرف واضح اشارہ ہے جس کا آغاز خوشگوار رجائی اور طربیہ انداز میں ہوتا ہے کہانی کا پلاٹ عمدگی کا مظہر ہے جس میں کلاسیکی اور جدید نوعیت کے کردار سامنے لائے گئے ہیں حیدر شاہ غازی کے مزار پر ہونے والی دہشت گردی کے نتیجے میں حیدر بم دھماکے میں شہید ہو جاتا ہے ا س کی بیوی،  بچہ اور ماں افسوس و حیرت کی تصویر بنے بے یارو مدد گار رہ جاتے ہیں۔

مشمولہ استخراجات سے یہ یقین بخوبی ہو جاتا ہے کہ ارم زہرا نے اپنی کہانیوں میں شہرِ قائد کی بدامنی کو واضح اور نمایاں طور پر پیش کیا ہے ان کی کہانیاں ان کی تخلیقیت کی پیداوار نہیں بلکہ حقیقی نوعیت کی ہیں یوں ان کی کتاب ’’میرے شہر کی کہانی‘‘ ایک دستاویزی اہمیت کی حامل ہے جب بھی کراچی کے پر آشوب عہد کی تاریخ لکھی جائے گی تو ارم زہرا اور اس کی یہ کتاب ایک معتبر حیثیت اور حوالے کی حامل ہو گی وہ کہانی کے فن پر دستگاہ رکھنے والی کہانی نویس ہیں ان کی کہانیوں کے پلاٹ فطری اور فنی چابکدستی کے شاہکار ہیں ان کا اسلوب قاری کے ذہنی معیار سے ہم آہنگ ہے اس لئے قاری کہیں بھی اجنبیت کی فضا محسوس نہیں کرتا اگر کہانی افسانے اور ناول کے میدان میں ان کی ریاضت فرطِ تسلسل سے جاری و ساری رہی تو ازمنۂ فردا میں افسانوی ادب میں نمایاں مقام و مرتبہ پانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

ارشد عباس ذکیؔ شاعرِ زیست و اُلفت

 

زندگی اور محبت کائنات کے کلیدی تلازمے ہیں جو جہاں کی روح رواں ہیں جن کی بدولت نبضِ حیات تپش آمادہ ہے یہ دونوں عناصر مختلف کیفیات سے عبارت ہوا کرتے ہیں محبت زندگی کی اساس ہے اور زندگی محبت آمیز ہے اس لئے ان دونوں کی نفسیات میں گہرا ربط و ضبط ہے ان دونوں کے رویئے اور معاملات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں حزن و ملال حیرت و استعجاب، یاس و حسرت، نشاط و طرب اور عیش و عشرت یہ سارے جذبات و احساسات یہ منجملہ روپ سب حیات و محبت سے مربوط ہیں جیون اور چاہت دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے راہِ حیات پر گامزن ہیں قبل ازیں راقم الحروف نے اپنے ایک شذرے میں رقم کیا تھا ’’کائنات کا سرنامۂ موضوع پریم ہے باقی سب موضوعات اس کے امدادی اور ذیلی عنوانات ہیں ‘‘ زندگی کے تمام شعبے محبت سے عبارت ہیں اور زندگی محبت سے ہم آغوش ہوئے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتی شاعر جو ایک پیکرِ احساس اور پاسدارِ شعور ہوتا ہے مذکورہ امور کی آگہی سے مالا مال ہوتا ہے اور دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ سخنور اپنی فکر کی راہیں کیسے متعین کرتا ہے فکر کے فرسودہ راستوں کو جادۂ منزل بناتا ہے یا اپنی بصیرت اور قوتِ متخیلہ کی بدولت اپنے لیئے نئی راہیں متعین کرتا ہے اپنے افکار کو مثبت خیالات کے قالب میں ڈھالتا ہے انھی اصحاب تگ و تاز میں ایک نام ارشد عباس ذکیؔ کا بھی ہے جس نے انتہائی قلیل عرصے میں اپنے آدرش میں بے پناہ ابلاغیت پیدا کی ہے اس کے ہاں زندگی و محبت ہمہ گیر اور پہلو دار ہے اس کے جذبے نرول اور ندرت آمیز ہیں اور اسلوب جاذبیت کی حدوں کو چھوتا ہوا نظر آتا ہے وہ دھیمے لہجے میں بات کرتا ہے جو دل کے تاروں کو چھو کر اور چھیڑ کر گزر جاتی ہے فکرو فن کی بالید گی اس کا طرۂ امتیاز ہے ریاضِ سخن اس کی طاقتِ پرواز ہے اچھا قلمکار ہونا اتنی عظمت کی دلیل نہیں ہوتا جتنی اچھی شخصیت ہونا باعثِ افتخار ہے وہ خلوص اور مروت کے حسیں احساسات سے مرصع ہیں اس کے کلام کے مطالعہ سے قلب و خرد پر خوشگوار اثرات نقش ہوتے ہیں تو اس سے ملاقات کا احوال تو کوئی ملاقاتی ہی بتا سکتا ہے شذرہ ہٰذا میں آج ہم اس کے مجموعہ کلام ’’زندگی سے ملتے ہیں ‘‘ مطبوعہ مئی 2012ء کے منتخب کلام کا فکری و فنی تجزیہ پیش کرتے ہیں ، واضح رہے کہ بعد ازیں مئی 2013ء میں ارشد عباس ذکی کا سلام کا انتخاب بعنوان ’’میر انیسؔ سے سرتاج سعیدؔ تک ‘‘ بھی اگست 2013ء میں منصہ شہود پر آیا ملتان میں مقیم ہے اسٹیٹ لائف انشورنس میں خدمات سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ پبلی کیشن کا کام بھی کرتا ہے ادب کے فروغ اور ترویج میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ’’سخن سرائے پبلی کیشن ‘‘ کے تحت بہت سی مطبوعات منظر عام پر لائی جاچکی ہیں۔

انسان دوستی شعرا کا فرضِ منصبی رہا ہے احترامِ آدمیت کسی سخن گستر کی پہچان ہوا کرتا ہے دوستوں کے لئے دستِ دعا دراز کرنا دوستی کے تقاضوں کا حصہ ہے لیکن دشمنوں کے لئے لبوں پہ حرفِ دعا رکھنا اسوۂ حسنہ کی دلیل ہے اس کے اس شعر میں اسی احساسِ زرّیں کی جلوہ سامانی دیکھتے ہیں۔

دوست آباد رہیں اور عدو شاد رہیں

ہاتھ زخموں کو لگاتے ہیں دعا کرتے ہیں

جہاں کے ناروا روئیوں پر برہمی ایک فطری امر ہے اور انسان سراپا سوال بن جاتا ہے جب اسے کوئی جواب سجھائی نہیں دیتا تو پھر وہ مجبورِ بیاں ہو جاتا ہے اور اہلِ جہاں سے سبب دریافت کرتا ہے زندگی میں ہر طرح کے دکھ کا مداوا ممکن ہوتا ہے اور ہر زخم کی چارہ گری کے لئے مرہم ہوتا ہے لیکن زخمِ دوستی ہر قسم کے مداوا سے مبّر او بے نیاز ہوتا ہے جو لازوال اور دائمی ہوتا ہے انہیں خیالات کی ترجمانی انتہائی سادہ وشستہ اسلوب میں بطور نمونہ دو اشعار ملاحظہ ہوں۔

ہم کسی پہ نہیں ہیں بوجھ مگر

لوگ کیوں بے رخی سے ملتے ہیں ؟

ان کا مرہم نہیں زمانے میں

زخم جو دوستی سے ملتے ہیں

زندگی میں رجائی جذبے اور رویئے آبِ حیات کے مصداق ہوا کرتے ہیں جو کار زارِ حیات میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ زیست کی رعنائی اور جلوہ آرائی امید افزا و امکانات پر منتج ہے عصرِ حاضر کا نوجوان قلمکار یاست و قنوطیت کی ظلمت میں ڈوبا ہوا ہے اور اسے اپنی منزل کا دور دراز تک کوئی نشاں نظر نہیں آتا اور وہ اسی ذہنی تناؤ اور ڈپرشن کے دور میں نا آسودگیوں کو فروغ دے رہا ہے اس کے افکار نا اُمیدی کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں اس کا فن مجبوری اور معذوری کا پلندہ بن گیا ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے نئے سرے سے رجائیت کی آبیاری کی جائے تاکہ گلشنِ حیات میں رنگا رنگی، ہریالی آئے اور گلوں میں آس و امید کی چہکار آئے ارشد عباس ذکیؔ کے افکار بھی اس امر کے آئینہ دار ہیں انہوں نے امید اور امکان کا حسین امتزاج قائم کیا ہے اور عمومیت کے پیرائے میں اظہار کرتے ہوئے کہا ہے۔

اس کے قدموں میں یہی سوچ کے دل پھینک دیا

خوبصورت ہے وفادار بھی ہوسکتا ہے

اتنی جلدی نہ کرو ترکِ تعلق میں ذکیؔ

بے وفا کل کو وفادار بھی ہوسکتا ہے

سماج میں دوہرے رویئے اور معیار پائے جاتے ہیں جہاں شرافت کے لبادے میں دہشت پنہاں ہے اور انسانیت منہ ڈھانپے بین کرتی دکھائی دیتی ہے مسیحاؤں نے جلادوں کا روپ دھار لیا ہے چارہ گرستم گر بن گئے ہیں اچھائی نے اپنی پہچان کھودی اور برائی نے اپنی راجدھانی قائم کر لی۔ سخنور جو درد مند جذبوں کا امین ہوتا ہے اس ناروا سماجی رویئے کے بھید سے پردہ اٹھاتا ہے اس تناظر میں موصوف کی غزل کا ایک شعر پیشِ خدمت ہے۔

جو بہاتا ہے سرِ عام غریبوں کا لہو

وہ یہاں صاحبِ توقیر بھی ہو سکتا ہے

جب ظلم و ستم معمول بن جائے جب جبر دستور کی حیثیت اختیار کر لے پھر جو رو جفا کوئی طرفہ امر نہیں رہتا اور حیاتِ انسانی اسے قبول کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہے اس قسم کی آموزش   ان کے ہاں پائی جاتی ہے۔

سنگ باری سے پریشاں نہ ہو میرے حبیب

یہ تو اس شہر کا دستور بھی ہو سکتا ہے

گردشِ دوراں کے کئی روپ ہیں امتدادِ زمانہ کی بدولت زندگی شکست و ریخت کا شکار ہے تعمیری و تحزیبی قوتیں مصروفِ کار ہیں۔ یہ سب کاتبِ تقدیر کے ہاتھ میں ہے کس نے کس حیثیت میں رہنا ہے اور کس نے کس مقام پر پہنچنا ہے خوف اور امید کے سائے ساتھ ساتھ چلتے ہیں کبھی خوف طاقتور ہو جاتا ہے اور کبھی امید غالب آ جاتی ہے اسی خوف اور امید سے انسان کی حیثیت کا تعین ہوتا ہے دنیا جائے مکافاتِ عمل ہے انسانی اعمال بھی مقام و مرتبے کو متعین کرتے ہیں اس کا اسی نوع کا شعر زینتِ قرطاس کرتے ہیں۔

کیا خبر کون ہو اب گردشِ دوراں کا شکار؟

حاکمِ شہر بھی، مزدور بھی ہو سکتا ہے

جب شعوری اور لاشعوری طاقتیں یقین کی معیت میں عشق کے تابع ہو جاتی ہیں تو پھر عشق ایک لازوال طاقت بن کر سامنے آتا ہے اسی امر کا شعور ایک مثالی آگہی کا آئینہ دار اور علمبردار ہوتا ہے جس سے ایک مثبت طرزِ عمل وجود میں آتا ہے جسے کسی سخن دان کے فرخندہ نصیب ہونے کا عکاس کہا جا سکتا ہے۔ شاعرِ موصوف کا اسی نوع کا شعر نذرِ قارئین ہے۔

میں ابھی تک اسی یقین میں ہوں

عشق کر دے گا لازوال مجھے

عالمِ ہجراں حزن و ملال کی پر آشوب کیفیات سے عبارت ہوتا ہے جہاں عمومی طور پر امید کی رمق دور دور تک بعید از قیاس ہوتی ہے رجا کی شمعیں روشن رکھنا، وصل کے خواب دیکھنا زندگی سے محبت کی دلیل ہے حیات و الفت کا یہ امتزاج انتہائی پرکشش اور روح افزا ہے اسی تناظر میں شاعرِ ممدوح کے تخیل کی کرشمہ کاری دیکھئے۔

وہ ایک شخص جو اپنا بنا کے بھول گیا

کبھی ملا تو اسے زندگی بنا لیں گے

دوست و دشمن کی شناخت ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے دیدہ ور اور صاحبِ بصیرت شخص ہی اس معرکے میں کامیاب و کامران ٹھہرتا ہے یہ منزل اس کی ژرف نگاہی کا ثبوت بنتی ہے اور اس کے ادراکات کے روشن امکانات کی بیّن دلیل ہوتے ہیں اس کیفیت کا غماز شعر درِ التفات پہ دستک دے رہا ہے۔

پر کھا اسے تو وہ بھی مرے دشمنوں میں تھا

جس کا شمار مرے دوستوں میں تھا

زندگی کے اصل جلوے اور حقیقی نقاب کشائی مضافات میں ہی مشاہدے میں آتی ہے شہروں کی بھیڑ بھاڑ میں صنعتی شور شرابے میں حیاتِ انسانی ایک میکانی عمل بن کر رہ جاتی ہے جس میں اس کی تمام رعنائیاں اور جلوہ آرائیاں معدوم ہو جاتی ہیں انسان فطری طور پر، پُر امن اور پُرسکون زندگی گزارنے کا خواہش مند ہے جو شہری زندگی میں عنقا اور محال ہے مضافات سے اس کے گہرے شغف کی عکاسی کچھ یوں ہوتی ہے۔

شہروں میں زندگی کی خبر ہے نہ چین ہے

جینے کا جو سکون تھا وہ بستیوں میں تھا

ارشد عباسی ذکیؔ کے ہاں جہاں حمدو نعت کا قرینہ ہے وہاں سلام کا بھی سلیقہ ہے غزل کے ساتھ ساتھ انہوں نے بھر پور قسم کی آزاد نظمیں بھی کہی ہیں سادگی تسلسل جزئیات نگاری اور محاکات نگاری جن کے خصائص ہیں ان کی نظمیں رومانویت اور جمالیات کا حسیں مرقّع ہیں رومانوی افکار کی حامل اس کی نظم ’’محبت‘‘ کا نصف اول آپ کی ضیافتِ طبع کے لئے زیبِ  قرطاس کرتے ہیں۔

مرے دل میں محبت ہے

مری ہر سوچ پاکیزہ خیالوں سے سنورتی ہے

مرے وجدان میں تم ہو

مری آنکھوں میں جنتے خواب ہیں

وہ سب تمہارے ہیں

مرے ہر ذکر میں تم ہو

تمہیں تو علم ہے میری دعاؤں میں صداؤں میں

تمھارا نام رہتا ہے

مگر میں اک مسافر ہوں

سفر میرا مقدر ہے

مگر میں ہر سفر میں تیری یادیں ساتھ رکھتا ہوں

مسافر کے لیے زادِ سفر بھی تو ضروری ہے

مجھے اب لوگ کہتے ہیں

بڑی مدت ہوئی میں نے نہیں دیکھا تمہیں جاناں

مگر میں نے تو دیکھا ہے تمہیں پل پل

زمانہ یہ سمجھتا ہے کہ اب ہم مل نہیں سکتے

مگر ہم روز ملتے ہیں

اس کے علاوہ بھی ان کی بھرپور طرزِ فکر کی حامل نظمیں ہیں جو انتخاب کا استحقاق رکھتی ہیں  مگر طولِ بیاں کا خوف دامن گیر ہے اسی لیے اسی پر ہی اکتفا موقوف ہے۔

ارشد عباس ذکیؔ کی غزلیات میں زندگی کا حوالہ محبت سے قوی تر ہے جبکہ نظمیات میں رومان کے تندرست و توانا حوالے پائے جاتے ہیں مگر کہیں کہیں غزلیات و  نظمیات میں یہ دونوں حوالے پہلو بہ پہلو چلتے ہیں وہ دھیمے لہجے میں گہری رمز کی بات کر جاتے ہیں ان کا اسلوب سادگی کے رنگ کا حامل ہے انہوں نے سادہ نگاری کی روایت کو تقویت بخشی ہے۔ ان کے ہاں لاشعوری اور شعوری طور پہ دقیقہ سنجی سے گریز کی کیفیت پائی جاتی ہے وہ ابلاغ پر زور دیتے ہیں اس لئے ان کا کلام ابلاغیت سے معمور ہے وہ اپنے آپ کو فلسفیانہ موشگافیوں اور لسانی گو رکھ دھندوں سے دور رکھتے ہیں اگر عروضی اعتبار سے دیکھا جائے تو انہوں نے مختلف بحور میں سخن گستری کی ہے زحافات کا استعمال بھی بخوبی کیا ہے مذکورہ تصریحات کے علی الرغم ارشد عباس ذکیؔ کے بہتر ادبی مستقبل کی نوید دی جا سکتی ہے بشرطیکہ پورے خلوص اور لگن کے ساتھ ریاضِ سخن جاری و ساری رہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

اظہر رانجھاؔ… ایک معاشرتی کہانی نویس

 

کہانی انسان کی فطری اور نفسیاتی ضرورت ہے کیونکہ ہر انسان اپنے بڑوں سے کہانیاں سن کر اپنے بچپن کی حسیں لمحات بتاتا ہے کہانی ایک صنفِ ادب ہے جو ہر عہد میں تر و تازہ رہی ہے اور یہ یوں ہی سدا بہار رہے گی کسی بھی کہانی کی کامیابی اس امر میں ہے کہ وہ عصری تقاضے کس حد تک پورے کرتی ہے اور روحِ عصر سے کتنی مشابہت رکھتی ہے کس قدر اپنے معاشرے کی ترجمانی کرتی ہے کہانی کے ابتدائی دور میں موضوعاتی اعتبار سے مافوق الفطرت کہانیاں لکھی گئیں جن کا بنیادی مقصد انسان کی تفریح طبعِ تھا مرور ایام کے ساتھ ساتھ انسانی افکار اور مقتضیات میں انقلابی تغیر رونما ہوا انسانی اقدار میں مغائرت کے باعث عصری روئیوں اور رجحانات میں بھی تغیرّاتی عوامل آشکار ہوئے پھر کہانی کار کی توجہ تفریحِ طبع سے کچھ کم ہو کر تعلیم و تربیت اور پند و موعظت کی طرف زیادہ ہو گئی اس لیئے جدید کہانی میں تفریحِ طبع کی بجائے تعلیم و تربیت کا عنصر غالب نظر آتا ہے چنانچہ وہی کہانی نویس مقبول و معروف ٹھہرے جو اپنی معاشرت سے جڑے رہے آج ہمارا موضوعِ بیان اظہر انجھا بحیثیت معاشرتی کہانی نویس ہے جنہوں نے اپنی کہانی کی تخلیق کے لئے اپنے ارد گرد سے موضوعات و کردار لیئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانی فطری نوعیت کی نظر آتی ہے ان کی کہانی ہماری معاشرت کی خوبصورت ترجمان ہے جس میں زندگی اپنے تمام تر محاسن و مصائب کے ساتھ سانس لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور یہ کسی کہانی نویس کا کمالِ  فن ہوا کرتا ہے شذرہ ہٰذا میں ہم ان کی کہانیوں کے مجموعہ ’’قیدِ حیات‘‘ مطبوعہ2008ء کے حوالے سے رقمطراز ہیں کل دو درجن کہانیاں شامل ہیں ہم ان کی چار منتخب کہانیوں کو جو مجموعی طور پر اس کتاب کا ایک سُدس بنتا ہے شاملِ تجزیہ کرتے ہیں۔

کتابِ ہٰذا کی پہلی کہانی ’’پیر بابا‘‘ ہے کہانی کا آغاز انتہائی بھرپور انداز میں ہوتا ہے جس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ کہانی کی فکری کی اڑان آسمان کی وسعتوں سے ہم آغوش ہونا چاہتی ہے جس میں منظر نگاری اور جزئیات نگاری عمق کے ساتھ پائی جاتی ہے اسلوب کی جاذبیت حدِ کمال کو چھوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے استشہاد کے طور پر مذکورہ کہانی کا اولین اقتباس ملاحظہ کریں جس میں متذکرہ بالا تمام خصائص بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔

’’آفتاب کی پہلی کرن فضائے بسیط پر پھیل کر دنیا کو نویدِ صبح کا پیغام دے رہی تھی مشرق کے پردے سے نکلتا ہوا سورج سفر کا آغاز کر رہا تھا پھولوں اور پھلوں سے ڈھکے ہوئے اونچے درخت اور ان کے درمیان مقبرے کا دودھیا گنبد بہت سندر دکھائی دے رہا تھا مختصر سی آبادی کے اس گاؤں کے شمال مشرق میں واقع مزار پر لوگوں کا بندھا تانتا عجیب سماں پیش کر رہا تھا ٹھیک دو دن بعد اس علاقے کی تمام رونقیں اس مزار پر سمٹ آئیں گی۔ ‘‘

مذکورہ کہانی روایتی پیر پرستی کے گرد گھومتی ہے جس میں ہماری ان پڑھ معاشرت کی زبردست عکاسی کی گئی ہے مذہبی اور ثقافتی حوالے سے عمدہ تمثیلات ملتی ہیں اس کہانی میں پیر بابا کی زبانی روایتی پیر پرستی کی مذمت کی گئی ہے عصری حوالے سے اس کی حقیقت آشکار کی گئی ہے پیر بابا کی زبانی مذہبی افکار کی جھلک بھی ملتی ہے جو سراپا تصنع ہے موقع بہ موقع ارشادات نبوی اور اسلامی تعلیمات ضو فشانیاں کر رہے ہیں یہ ایک روایتی طرز کی کہانی ہے جیسے بیانیہ انداز میں رقم کیا گیا ہے جسے بہ الفاظ دیگر کی بجائے مصنف کی زبانی ضبطِ تحریر میں لایا گیا ہے معاشرتی اور ثقافتی حوالے سے یہ کہانی خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔

’’ادھوری دوستی ‘‘ اس کتاب کی دوسری کہانی ہے جو روایتی اور اور رومانوی طرز کی حامل ہے جس میں محبت کے حوالے سے مصنف کے معروضات بھی شامل ہیں زیست کے نشیب و فراز کا بیانِ ذیشان ہے غلط فہمی کا کردار کلیدی نوعیت کا حامل ہے شمع نامی حسیں دوشیزہ کا کردار خصوصی اہمیت رکھتا ہے جو کئی رومانوی داستانوں کو جنم دیتا ہے خود عرضی اور مطلب پرستی کا استعارہ ہے جس سے زیست کی آموز گاری کا درس ملتا ہے۔

’’غلط فہمی ‘‘ اس مجموعے کی تیسری کہانی ہے جس کی بنیاد ایک غلط فہمی پر استوار کی گئی ہے جس میں ایک ٹریفک حادثے کا مذکور ہے جس میں کہانی نویس سڑک پر زخمی حالت میں پڑے ہوئے عصری روئیوں کو ہدفِ تنقید بناتا ہے اس کہانی میں ایک سسپنس اور تجسس کی فضا پائی جاتی ہے جب کسی مسیحا نفس خاتون کے ذریعے اسے ہسپتال پہنچایا جاتا ہے تو اس کے ہاں امیدوں اور تمناؤں کا ایک نیا جہاں آباد ہو جاتا ہے وہ اسے محسن کے ساتھ ساتھ ایک محبوبہ کے روپ میں دیکھتا ہے حالانکہ وہ اسے اپنے بھائی کا ہم شکل سمجھتے ہوئے ہسپتال میں لے آئی تھی جو ایک ٹریفک حادثے کے نتیجے میں جاں بحق ہو گیا تھا جب اسے معاملے کی حقیقت کا پتہ چلتا ہے تو وہ اس کے روئیے پر بہت افسوس کرتی ہے اس کہانی میں مردوں کی ایک فطری اور روایتی سوچ کی عکاسی ہوتی ہے جس میں سبق آموزی کا گہرا تاثر موجود ہے۔

’’شک کا زیور‘‘ کتاب کی ترتیب کے اعتبار سے چھٹی کہانی ہے جو عمومی معاشرتی نوعیت کی ہے جس میں مردوں کی روایتی سوچ کی غمازی ملتی ہے جس سے ایک مرد کی شکی ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے جو اپنی بیگم کے پوتر جذبات کو تشکیک آمیز نگاہوں سے دیکھتا ہے حقیقت معلوم ہونے پر کفِ افسوس مَلتا ہے۔

’’تمام تر کہانیاں فنی اعتبار سے بیانیہ طرز کی ہیں۔ مصنف نے بہ الفاظ دیگر لکھنے کی بجائے اپنی ذات کو کہانی میں شامل رکھا ہے بہر حال اس کتاب میں نوک پلک سنوارنے کی ابھی کچھ گنجائش باقی ہے مذکورہ استخراجی تصریحات سے اس امر کو تقویت ملتی ہے کہ اظہر رانجھا کی کہانی کا فن فکری پختگی کا آئینہ دار ہے اگر ان کا تسلسل سے سفر جاری و ساری رہا تو ان کے ہاں بالیدہ فکری کے مزید آثار نمایاں ہوں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

باقیؔ احمد پوری کا طرفہ اندازِ سخن

 

طرفگیِ سخن سے مراد کلام کا فکری اعتبار سے عمومی ڈگر سے ہٹ کر ہونا یعنی سخنور کے تخیّلات کا غیر روایتی نوعیت کا حامل ہونا ہے جب شاعر کا اندازِ فکر غیر معمولی ہو گا تو اس کے بیان میں طرفگی کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے جس کے لازمی نتیجے کے طور پر جدت و ندرت کے مظاہر آشکار ہوتے ہیں بہت ہی کم شعرا کے ہاں ایسے شواہد پائے جاتے ہیں ایسے اصحاب فکرو نظر میں باقیؔ احمد پوری کا اسمِ گرامی بھی شامل ہے جنہوں نے اپنے شعری اظہار کے لئے عمومی افکار کو جادۂ منزل نہیں بنایا بلکہ فکر کی نئی راہیں تلاش کی ہیں ان کا تعلق سید خانوادے سے ہے اصل نام سید مقبول حسین بخاری ہے لیکن دنیائے ادب میں باقیؔ احمد پوری کے نام سے مقبول و معروف ہیں 21مارچ 1950ء کو احمد پور لمہ میں سید عبدالقادر بخاری کے گھر چشم کھولی ان کے والد گرامی سید عبدالقادر بخاری ایک درویش منش انسان تھے باقیؔ احمد پوری کی شخصیت سازی میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا باقی نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے اردو کیا علاوہ ازیں میکنیکل کے شعبے میں ڈپلومہ آف ایسو ایٹ انجینئر بھی ہیں ادبی حوالے سے ان کا تعلق حضرت علامہ ماہر القادری کے حلقۂ تلمذ سے ہے جن کا شمار پاک و ہند کے ممتاز و منفرد نعت گو شعرا میں ہوتا ہے موصوف دشتِ سخن کا ایک بسیط سفر طئے کر چکے ہیں ان کے تا دمِ تحریر دس شعری مجموعے زیور طباعت سے آراستہ ہو کر اربابِ نقد و نظر اور قارئین شعرو سخن سے خراجِ تحسین کی دولت سمیٹ چکے ہیں باعثِ طمانیت امر یہ بھی ہے کہ فارسی میں بھی خامہ فرسائی کرتے ہیں ان کا فارسی کلام بھی ان کے اردو شعری مزاج سے ہم آہنگ ہے اسلوبیاتی اعتبار سے ان کے ہاں فارسی لفظیات کا چلن بھی کہیں کہیں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے شعوری طور پر اپنے کلام کوفارسیت آمیز بنانے کی کوشش نہیں کی اس لئے ان کے کلام پر فارسیت کی چھاپ نہیں ہے ان کے مجموعہ ہائے کلام کے نام حسبِ ذیل ہیں۔

1۔       باقیات

2۔       نقشِ باقی

3۔      صدر شکِ غزالاں

4۔      اب شام نہیں ڈھلتی

5۔       محبت ہمسفر میری

6۔       غزل تم ہو

7۔      اداسی کم نہیں ہوتی

8۔       اگر آنکھیں چھلک جائیں

9۔      روانی

10۔   ہمارا کیا ہے ؟

اول الذکر تین مجموعوں کا انتخاب ’’ اب دل ہی نہیں لگتا‘‘ سے موسوم منظرِ عام پر آ چکا ہے، علاوہ ازیں متعدد کتب بھی مرتب کر چکے ہیں جن کے نام درج ذیل ہیں۔

1۔       دھوپ کے شاعر

2۔      غزل نامہ

3۔      بین الاقوامی اردو شاعری

4۔       غزل آشنائی

5۔      غزل آفرینی

6۔        غزل فہمی

7۔       ہمارے شاعر(حصہ اول و دوم)

8۔        جدید غزلیں

ان کے مجموعہ ہائے کلام اور مرتب کردہ کتب کو اگر دیکھا جائے تو وہ ایک طویل ادبی مسافت طے کر چکے ہیں تنقیدی اکائی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان کے آخر الطباعت شعری مجموعہ ’’ہمارا کیا ہے؟‘‘ مطبوعہ ستمبر 2011ء کے نصف اول کی غزلیات کے منتخب اشعار برائے استشہادات شامل تجزیہ کرتے ہیں کتابِ ہٰذا سراپا غزل ہے جس میں تمام تر غزلیات شامل ہیں جس سے حضرت باقی کی غزل سے موانست کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

ایک غزل کا مطلع قابلِ غور ہے

اپنا الگ جہان بناتا ہے کوئی کوئی

دھرتی کو آسمان بناتا ہے کوئی کوئی

جنابِ باقی کے تخیّلاتی کینوس میں کلاسیکیت رچی بسی ہوئی ہے اس لیے وہ تاریخ پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور وہ مشاہیر کو منفرد انداز میں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جسے وہ اپنے قاری کے لئے ذریعۂ آموزش بناتے ہیں مطلع بالا میں بھی انہوں نے اپنی دھرتی کے تابندہ کواکب کو بھر پور طریقے سے دادو تحسین سے نوازا ہے ان کی پیش کش کا انداز غیر عمومی نوعیت کا ہے ’’ہے کوئی کوئی‘‘ کی ردیف بھی اسلوبی رعنائی پیدا کر رہی ہے۔

غزل کا ایک شعر آپ کے ذوقِ طبع کی نذر ہے

ہزاروں لوگ ملتے ہیں جنہیں میں بھول جاتا ہوں

مگر تجھ سے تعلق غائبانہ یاد رہتا ہے

شعرِ ہٰذا میں صنعتِ ایہام کا فطری التزام ہے اس کو معرفت و مجاز ہر حوالے پر منضبط کیا جا سکتا ہے جس کے باعث سخن میں طرفگی کا عنصر در آیا ہے ایک گہرے فلسفے کی بات کو انہوں نے انتہائی آسانی سے بیان کر دیا ہے جس سے ان کی تخیلاتی دستگاہ کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

ایک طرفہ فکر کا حامل مطلع دیدنی ہے

شام ہوتی ہے تو ہم گھر سے نکل جاتے ہیں

اور کچھ دیر کو غم گھر سے نکل جاتے ہیں

مذکورہ شعرسے ان کی منفرد شعری اپج آشکار ہو رہی ہے شام کو محض اس لئے گھر سے نکلنا کہ کچھ دیر کے لئے غم گھر سے نکل جائیں گے ایک ندرت آمیز امر ہے اسلوب انتہائی سادہ و شستہ اور سہلِ ممتنع کے رنگ کا حامل ہے مصرعوں کے دروبست میں ایک فطری قرینہ کاری کار فرما ہے جو ہر قسم کے تصنع سے مبّرا و ماورا ہے انہوں نے عند البیان سادہ نگاری کی روایت کو تقویت بخشی ہے۔

انسان دوستی کے حوالے کا حامل شعر طالبِ التفات ہے

اپنے لوگوں پہ ہی بس ہاتھ اُٹھے ہیں اپنے

ہم تو آپس میں ہوئے دست و گریباں جاناں

ان کے کلام میں انسان دوستی کے مظاہر و فور سے ملتے ہیں جا بجا ترقی پسند افکار ضو فشانی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اس شعر میں بھی روحِ عصر کی ترجمانی عمدگی کے پیرائے میں ہوئی ہے اور مکارمِ اخلاق کا آدرش اس شعر کی روحِ رواں ہے عمرانی نقطۂ نگاہ سے بھی ان کے سخن کا مطالعہ خصوصی اہمیت رکھتا ہے یہ شعر حالاتِ حاضرہ کا خوبصورت منظر نامہ پیش کرتا ہے جس میں عصری روئیوں کا کرب بھی ہے اور آشوبِ زیست کی بپتا بھی شدومد سے موجود ہے۔

ان کی ناقدانہ فکر سے عبارت غزل کا مطلع نذرِ قارئین ہے

نظامِ دہر میں جو خامیاں ہیں

زمیں زادوں کی سب ناکامیاں ہیں

وہ حیات و کائنات کو انتقادی زاویوں سے دیکھنے کے قائل ہیں جو ایک سچے اور کھرے تخلیق کار کی پہچان بھی ہے مصائب ارضی کا دقتِ نظر سے مطالعہ کرنا اور ان کا حل تلاش کرنا قلمکار کا فریضۂ منصب ہے یہ شعر بھی اس سلسلے کی کڑی ہے جس میں بتایا جا رہا  ہے کہ انسان کے بہت سے مسائل اس کے اپنے ہی پیدا کردہ ہیں جو اس کی ناکامی کی دلیل ہیں اتنا عمیق تنقیدی اندازِ فکر شاذ ہی کہیں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

غزل کا ایک شعر دامنِ دل کھینچتا ہوا محسوس ہوتا ہے

تو نے جو راہ دکھائی تھی وہ معدوم ہوئی

تیرے رستے سے ترے لوگ ہٹے جاتے ہیں

شاعرِ مذکور کا اعجازِ فن یہ ہے کہ وہ فطری انداز میں عارفانہ شواہد چھوڑ جاتے ہیں اس شعر میں بھی مشیت سے ایک مکالمے کی فضا پائی جاتی ہے بنی نوعِ انسان کی بے راہروی کا حوالہ ہے شعر کی فضا عرفان و آگہی سے مربوط ہے اور ابنائے آدم کو راہِ گم گشتہ کی بازیافت کرائی گئی ہے۔

ایک اور شعر ملاحظہ کریں

خرد کو بھی جنوں سے آشنا کیا

لیا ہے کام دل کا بھی دماغ سے

عام طور پر خرد اور جنوں الگ الگ مکتب فکر سمجھے جاتے ہیں لیکن حضرتِ باقی نے ان دو مکاتیب کا حسین امتزاج قائم کیا ہے لیکن جنوں کی بالا دستی کو بھی بر قرار رہنے دیا ہے۔

بقول راقم الحروف

خرد نے نبھائے ہیں کردار دل کے

خرد کا جنوں یا دل کے تابع ہو جانا بھی خرد کی ہزیمت کا ایک روپ اور کمزور ترین درجہ ہے خرد کے ساتھ یہ سلوکِ ناروا متقدمین و متوسطین اور متاخرین کے ہاں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے اس لئے شعرا کو جنوں پیشہ بھی کہا جاتا ہے۔

خالص شعری مزاج کا ایک شعر زیبِ قرطاس ہے

وہ شاعرانِ خوش نوا نہیں رہے

یہاں تو صرف چیختے ہیں زاغ سے

یہ شعر اپنے اندر ایک تنقیدی طرزِ فکر رکھتا ہے اور عصری شاعری کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے کیونکہ جنابِ باقی جب موجودہ شاعری اور قدما کے سخن کا تقابلی مطالعہ کرتے ہیں تو محوِ تاسف ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں وہ معیار نظر نہیں آتا جو متقدمین کا خاصا رہا ہے عصرِ حاضر کے سخن پر یہ تلخ مگر حق بجانب تنقیدی رویہ ہے جس کا اعتراف ارباب نقد و فن بھی کرتے ہیں۔

غزل کے دو اشعار شامل شذرہ ہیں   ؎

تنگ آئے ہوئے لوگ یہ کہتے ہیں خدا سے

پھر نوح کا طوفان کسی طوفان میں آوے

 

جتنے بھی ستم گر ہیں انہیں پیس کے رکھ دے

یوں گردش گردوں کبھی گردان میں آوے

 

شعر اول میں آشوب ہستی کی روداد ہے اور زندگی سے بھر پور بیزاری کا اظہار ہے یہ ایک فطری امر ہے کہ جب انسان حالات کی چیرہ دستیوں سے تنگ آ جاتا ہے تو پھر اس کی حیات سے انسیت کم ہو جاتی ہے پھر وہ شہنازِ مرگ سے ہم آغوش ہونا چاہتا ہے شعر ثانی میں ایک جارحانہ اور انقلابی فکر کار فرما ہے شاعرِ ممدوح ظلم اور ظالم کو صفحۂ ہستی پر تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں جو انسان کا ایک فطری جذبہ بھی ہے وہ ہر قسم کے جبرو جور کی بیخ کنی چاہتے ہیں۔

ہمیں یہ خوف دامن گیر ہے کہ کہیں طوالتِ شذرہ قاری کی طبع نازک پر گراں نہ گزرے اس لئے چند اشعار بدونِ تبصرہ ہدیۂ قارئین ہیں    ؎

 

یہاں تو لوگ فقیروں کو لوٹ لیتے ہیں

ہمارے شہر میں سادہ نہ تو دکھائی دے

 

ہم بھی ہیں میرؔ کے قبیلے سے

غم سے ہر شعر میں اثر ایا

 

گردشوں میں حیات گزری ہے

گھر میں رہتے ہوئے نہ گھر آیا

 

چھوڑ دے اس کو آوارہ کہیں

دل کی دربانی سے حاصل کچھ نہیں

 

دل یہاں ملتے ہیں دشواری کے ساتھ

یعنی آسانی سے حاصل کچھ نہیں

 

فارسی کی چاشنی جس میں نہ ہو

اس غزل خوانی سے حاصل کچھ نہیں

 

مشمولہ تصریحات سے یہ امر حدِ تیقن کو پہنچتا ہے کہ باقیؔ احمد پوری فکرو فن پر دسترس رکھنے والے شاعرِ طرفہ نوا ہیں جن کی سخن سنجی میں جدت و ندرت کی حاشیہ آرائی ہے انہوں نے ہر طرح کی بحور و قوافی اور ردیفوں کو خوش اسلوبی سے نبھایا ہے عروضی محاسن کی پاسداری بدستور قائم رکھی امیدِ واثق ہے کہ باقی احمد پوری کا کلام ہر عہد کے قاری کو اپنی طرف راغب کرتا رہے گا اور یوں اس عندلیبِ خوش نوا کی آواز سنائی دیتی رہے گی ان کے اس شعر کے ساتھ ہی اجازت کے خواستگار ہیں

مرے سخن کا فیض ہے نگر نگر

چراغ سو جلے ہیں اس چراغ سے

٭٭٭

 

 

 

 

بقاؔ بلوچ نیرنگیِ افکار کا شاعر

 

اقلیمِ سخن اپنے جلو میں ہر عہد کا شعری مزاج رکھتا ہے کسی سخنور کے فکرو فن کے معیار کو جانچنے، قدرو منزلت اور مقام و مرتبے کو متعین کرنے کے لئے یہ امر لابدی ہے کہ اس کا انتقادی مطالعہ اس تناظر میں کیا جائے کہ اس نے اپنے تخیلی کینوس پر اپنے دور کے رنگ اور خال و خد اجاگر کرنے کی کتنی حد تک کوشش کی ہے اور وہ اس سلسلے میں کہاں تک کامیاب ہوا اگر اس حوالے سے اس کی کاوشیں کار گر ہوں گی تو اس کے اس عمل کو سعی مشکور پر محمول کیا جائے گا اس لئے یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ روح عصر کے نئے زاویے صفحۂ قرطاس پر منعکس کر پایا ہے یا نہیں اگر التزام فطری اور برجستہ پیرایۂ اسلوب میں کرنے پر قادر ہے جس میں زورِ بیان کے ساتھ ساتھ اثر آفرین ی کے خصائص پائے جاتے ہیں تو یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے عصر کو بہتر انداز میں متاثر کر پائے گا اور دنیائے شعر میں منفرد مقام پائے گا۔

پاکستان میں اعلیٰ درجے کا شعری ادب تخلیق کیا جا رہا  ہے مختلف علاقوں میں فروغ سخن کے حوالے سے قابلِ قدرمساعی کی جا رہی ہیں اخبارات و جرائد اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں نئی نئی کتب منظر عام پر آ رہی ہیں جدید معاونات میں نیٹ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے اب آپ سنگل کلک سے بہت سے فنی شاہ پارے ملاحظہ کرسکتے ہیں شاعری کی ترقی و ترویج کے سلسلے میں پاکستانی شعر و ادب کو اگر صوبائی لحاظ سے دیکھا جائے تو پنجاب اور سندھ کا کردار مثالی رہا ہے مگر اس سلسلے میں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان جو سنگلاخ پہاڑی سلسلوں اور سر سبز وادیوں سے عبارت ہے جہاں مست توکلی،  دیورگ رند،  جواں سال بگٹی اور عطا شاد جیسی عظیم ادبی شخصیات نے جنم لیا آج بھی انہی شاندار ادبی روایت کو بر قرار رکھے ہوئے ہے اور اس نے ہر عہد میں شعرو سخن کے سپوتوں کو اپنی آغوش میں پروان چڑھایا آج کا شعری ادب بھی اس حسیں روایت کا علمبردار ہے عصرِ حاضر میں اٹھنے والی جدید آوازوں میں ایک آواز بقاؔ بلوچ کی بھی ہے جس نے اپنے برجستہ اندازِ فکر اور ندرتِ اظہار کی بدولت اپنے معاصرین میں ایک نمایاں مقام پایا ہے فکری و فنی اعتبار سے ایک غیر معمولی اہمیت حاصل کی ہے ان کی پیدائش 3فروری 1978ء میں ڈیرہ بگٹی میں ہوئی ان کے آباؤ اجداد کا مولد و مسکن بھی ڈیرہ بگٹی ہی ہے ان کے والد اللہ بخش(مرحوم) زمینداری کے پیشہ سے وابستہ تھے اور ایک دین دار آدمی تھے جن کی وفات 2005ء میں ہوئی سایۂ پدری سے محروم ہونے کے باوجود بھی انہوں نے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا۔ ابتدائی تعلیمی مدارج ڈیرہ بگٹی میں ہی طئے کئے انٹر کالج ڈیرہ بگٹی سے ایف سی کیا اور گریجویشن گورنمنٹ کالج کوئٹہ سے کی پنجاب یونیورسٹی لاہور سے انجینئرنگ کا امتحان پاس کیا 2003ء تا 2006ء پی سی بی کوئٹہ ریڈیو استیشن پر خدمات سر انجام دیں 2003ء میں ان کا اولین شعری مجموعہ ’’صحرا ہماری آنکھ میں ‘‘ منصہ شہود پر آیا جس میں ان کے حوالے سے بلوچستان کی معتبر ادبی شخصیات کی آرا ثبت ہیں علاوہ ازیں ملک کے طول و عرض سے چھپنے والے متعدد شعری انتخابات میں شمولیت کا اعزاز بھی رکھتے ہیں بلوچستان سے چھپنے والے مجموعہ ہائے کلام پر تحقیقی نوعیت کا کام بھی کر رہے ہیں 2004ء تا 2005ء میں کوئٹہ سے چھپنے والے روزنامہ ’’انتخاب‘‘ کے ادبی ایڈیشن کے انچارج بھی رہے علاوہ ازیں 2005ء میں ہی روزنامہ ’’اعتماد‘‘ میں بحیثیت کالم نگار اور انچارج ادبی ایڈیشن کے طور پر بھی کام کیا جون 2006ء میں سوئی گیس فیلڈ میں بطور انجینئر ملازمت کا آغاز کیا تا دمِ تحریر ڈپٹی انجینئر کے عہدے پر فائز ہیں۔ بقاؔ بلوچ کے سوانحی کوائف کی جھلک سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے ایک بھر پور نوعیت کی زندگی گزاری بظاہر انجینئرنگ اور شعرو ادب کی بلحاظِ مزاج کوئی مطابقت نہیں ہے لیکن انہوں نے عملی طور پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ انسان کسی بھی شعبہ سے وابستہ ہو وہ زبان و ادب کی خدمت کرسکتا ہے بشرطیکہ دُھن اور جذبہ جواں ہو تو سب کچھ ممکنات کا حصہ ہے اس شذرے میں ہم ان کے مذکورہ شعری مجموعہ کی منتخب غزلیات کے منتخب اشعار شاملِ شذرہ کرتے ہیں تنقیدی استخراجات کی بدولت اس امر کو آشکار کرنے کی سعیِ بلیغ کریں گے کہ وہ اپنے سخن کی وساطت سے اپنی عصری نیرنگیوں کو کسی حد تک احاطۂ تحریر میں لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

نئے امکانات کے حوالے کے حامل ان کی غزل کے دو اشعار لائقِ التفات ہیں۔

کئی سماں ہیں اگر دیکھنے کی خواہش ہو

کئی جہاں ہیں اگر کوئی ڈھونڈنا چاہے

نیا سفر ہے، نئے خواب ہیں ، نئی پرواز

وہ ہم سے آن ملے جو اُفق نیا چاہے

بقاؔ بلوچ کی تخیّلاتی جولانی نئے امکانات کی متلاشی رہتی ہے ان کا ذہنی کینوس غور و  خوض، فکرو تدبر اور فہم و فراست سے عبارت ہے ان کی مہم جو طبیعت نئی منزلوں کا سراغ لگانا چاہتی ہے اس لئے ان کے ہاں ایک بسیط موضوعات کی شمع فروزاں رہتی ہے جس کی روشنی کے ہالے قاری کو اپنے سحر میں محصور کر لیتے ہیں پھر وہ نئی دنیاؤں کے خواب دیکھنے لگ جاتا ہے پھر رجا کی وسیع و عمیق فضا میں کھو جاتا ہے ان کے فکری کینوس میں نئے سفر،  نئے خواب اور نئے افق کی روداد ملتی ہے جس میں جدت و ندرت کے شواہد ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں۔

غزل کا ایک شعر اور مقطع نذرِ قارئین ہے    ؎

میں آنسوؤں کا سفینہ کہاں اُتاروں گا؟

جو آنکھ کا بھی کنارا نہیں رہا مرے پاس

وگرنہ اور مرے پاس کیا نہیں ہے بقاؔ؟

بس ایک درد کا دھارا نہیں رہا مرے پاس

ان کے افکار میں حیرت و استعجاب کی کیفیات بھی دیدنی ہیں غم کی آنچ شدید نوعیت کی ہے جس کا اظہار دلگداز انداز میں ہوا ہے ان کا کلام کلبۂ کلفت نہیں ہے بلکہ کہیں کہیں حزن و الم کے معدوم ہونے کی استشہادات بھی ملتی ہیں شعرِ اول حزنیہ اور استعجابیہ شعری طبع کا غماز ہے جبکہ شعر دوم رنج و الم سے مبّرا و ماورا ہے ایسے متنوع موضوعات ان کی تلوّن مزاجی کا حصہ ہیں جس سے ان کا شعری کینوس وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے۔

غمِ ذات کے تناظر میں ان کی غزل کے دو اشعار دیدنی ہیں۔

اشک بوئے تو میرے آنگن میں

روز باہر سے آگرے پتھر

جب بھی تعبیر ڈھونڈنے نکلے

خواب پلکوں پہ ہو گئے پتھر

ان کے سخن میں کربِ ذات کے نقوش شوخ، تیکھے اور نمایاں ہیں جن میں ان کے احساسات کی شکنیں ہیں محرومیوں کی پر چھائیاں ہیں حسرتوں کی داستان ہے دکھ درد کے حوالے ہیں جو انہوں نے اپنے فکر و فن میں پالے ہیں جو درونِ ذات کا منظر پیش کرتے ہیں اسلو بیاتی ندرت نے اثر آفرینی اور شیرینی کو فزوں تر کر دیا ہے۔

حزنیہ تاثر سے مربوط ان کی ایک غزل کا مطلع اور ایک شعر زیب قرطاس ہے

خواہشوں میں کھو گیا میرا بدن

ریزہ ریزہ ہو گیا میرا بدن

تھا کبھی گلشن مگر اب دیکھیئے

ایک تنکا ہو گیا میرا بدن

خواہشیں ایک تجسیم سے عاری حوالہ ہیں جن میں بدن کا کھو جانا  طرفگیِ سخن کی عکاسی ہے پیرایۂ اظہار کی نادرہ کاری کی دلیل ہے شعرِ ثانی میں ذات کا مکمل ارتقائی سفر موجود ہے عروج سے زوال تک تمام کتھا مذکور ہے ان کا لہجہ بلند بانگ اور پر تاثیر ہے جو قاری پر اثر انداز ہو کر ہی رہتا ہے اور غیر ارادی طور پر متوجہ ہونے پر مجبور کر دیتا ہے اور یہی ان کے طرزِ اظہار کا کمال ہے۔ دو جنوں آمیز اشعار ملاحظہ ہوں

جب سے اترا ہے نظر میں اک سمندر کا جنوں

میرے اندر بولتا ہے میرے اندر کا جنوں

ہر گھڑی بے تاب رکھتا ہے مرے وجدان کو

ایک جنگل ایک صحرا ایک پتھر کا جنوں

مذکورہ بالا اشعار داخلی اظہار کی خوبصورت تمثیلات ہیں ان کی داخلیت بھی اپنے اندر اک سامان دلفریبی رکھتی ہے ان کا وجدانِ شعر خود میں کئی منفرد تلازمات رکھتا ہے دوسرے شعر میں جنوں کی ردیف کے ساتھ جنگل،  صحرا اور پتھر کے تلازمات لانا جزئیات نگاری کی عمدہ تمثیل ہے۔ غزل کے دو اشعار شاملِ شذرہ ہیں۔

زندگی سے زندگی روٹھی رہی

آدمی سے آدمی برہم رہا

رہ گئی ہیں اب وہاں پرچھائیاں

اک زمانے میں جہاں آدم رہا

اگر کسی بھی عہد کے شعری مزاج کو پرکھنا ہو تو اس دور کے عصری روئیوں کو ملاحظہ کرنا ہو گا جس سے اس عہد کے فکری خد و خال مشاہدہ کئے جا سکتے ہیں مذکورہ بالا اشعار جہاں عصری روئیوں کے تناظر میں ہیں وہاں ایک تنقیدی حوالہ بھی رکھتے ہیں۔

انسان دوستی اور وفا پرستی کے حوالے کا شعر دیکھیں

بقاؔ جب تک یہ سانسیں ہیں

وفا کا نور پھیلاؤ

عند البیان بقاؔ بلوچ ترقی پسند افکار کی ضیا پاشی بھی کرتے ہیں انسانیت کا درس بلیغ دیتے ہیں وہ ایک سچے اور کھرے تخلیق کار کی طرح ایک مثالی دنیا کا وجود چاہتے ہیں جہاں کسی نوع کے آزار کا عمل دخل نہ ہو جہاں وفا،  مروت اور خلوص کو پنپنے کے مواقع میسر آئیں ایک اور شعر دیکھیئے۔

خوشنما تصویر تھی یہ زندگی

لوگ اس کو بدنما کرتے گئے

عصری کج روی کی بازگشت شعرِ ہٰذا میں سنائی دیتی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر موصوف ایک درد مند دل رکھتے ہیں اور زندگی کو خالص اور حقیقی انداز میں دیکھنا چاہتے ہیں کھوٹ،  تصنع اور ہر قسم کی چیرہ دستی کے وجود کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔

اشوبِ عصر کے حوالے سے ایک شعر نقل ہے

ہر کوچے میں ارمانوں کا خون ہوا ہے

شہر کے جتنے رستے ہیں سب خونی ہیں

عصری آشوب ان کے فکری کینوس کا ایک نمایاں موضوع ہے جو اپنے اندر اپنے عہد کی تمام تر ظلمتیں سموئے ہوئے ہے بقاؔ کا سخن عمیق حسیات سے عبارت ہے جو تاثیر کی دولت سے مالا مال ہے۔

ان کی غزل کے مطلع اور قطع میں ان کے ریاضِ شعر کے حوالے سے تنقیدی شعور ملاحظہ کرتے ہیں۔

مجھے شعر ایسا گوارا نہیں ہے

جو دستِ ہنر نے سنوارا نہیں ہے

بقاؔ شعر کہنا تو آیا ہے تجھ کو

یہ لفظوں کو تو نے سنوارا نہیں ہے

شاعر مذکور فنی ریاضت کے حوالے سے بھر پور عرق ریزی کے قائل ہیں جس سے ان کی فنِ شعر سے محبت کی عکاسی ہوتی ہے زبان و بیان کے تقاضوں کو بھی وہ بخوبی نبھانے کے قائل ہیں۔

بقاؔ بلوچ کے فکری و فنی گوشوں کی سیر حاصل سیر کے بعد یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ فکرو فن پر دستگاہ رکھتے ہیں ان کے کلام میں عروضی محاسن کی پاسداری ملتی ہے انہوں نے مختلف بحور کو اظہار شعر کے لئے بخوبی برتا ہے لیکن بحر متدارک مثمن مقبوض مقصور ان کی مرغوب ترین بحر ہے جسے ماہرینِ عروضِ بحر میر کا نام بھی دیتے ہیں جس کا وزن فعلن فعلن فعلن فعل یا مفعولاتن مفعولات ہے۔ ان کی اس کتاب میں اس بحر کے حوالے سے کافی کلام موجود ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ بقا بلوچ بلوچستان کے وہ جوان فکر شاعر ہیں جن کی سخن سنجی طرفہ بیانی اور نیرنگیِ فکر کی عمدہ مثال ہے اور ہمیں امید ہے کہ ان کا شعورِ شعر مستقبل میں مزید نکھر کر سامنے آئے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

جاوید رسول جوہرؔاشرفی…  ایک زمانہ شناس شاعر

 

خالقِ ارض و سما کا اُس فردِ فرید پر بے پایاں لطف و کرم ہے جسے عقل و بصیرت فہم و فرا ست ،  دانش و حکمت حیات و کائنات کے اسرار و رموز اور عمیق عصری ادراکات سے بہرہ ور فرمایا انسانی فکر کے یہی اوصافِ بالیدہ اسے اپنے عہد میں ممتاز ممیز کرتے ہیں جس سے اس کی منفرد پہچان منصہ  شہود پر آئی ہے یہی فکری خصائص دنیائے شعرو ادب میں کسی شاعر یا ادیب کی شناخت بنتے ہیں اقلیم شعرو سخن میں جو سخن ور اپنی خامہ فرسائیوں کی بدولت اپنے عہد کی حقیقی تصویریں پیش کرتا ہے اس کے افکار میں اس کی معاشرت بھر پور انداز میں سانس لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے تو اس کے ادبی دوام کی ضمانت دی جا سکتی ہے کیوں کہ وہ ادب برائے زندگی کے نظریئے سے سرشار ہوتا ہے۔ جن شعراء نے اپنے کلام میں بھر پور عصری ادراکات کی غمازی کی انہوں نے اپنے آپ کو شعری تاریخ میں امر کر لیا۔ انہیں زمانہ شناس سخن وران میں ایک جواں فکر نام جاوید رسول جوہرؔ کا بھی ہے جن کا شعری اظہار بسیط عصری حسیّات کا حامل ہے۔ شذرہِ ہٰذا میں ہم ان کی سخن سنجی کا جائزہ مذکور موضوع کے تناظر میں لیں گے اس سے قبل کہ ہم ان کی غزلیات کے منتخب اشعار زیرِ تجزیہ لائیں ان کا اجمالی سوانحی تعارف ناگزیر ہے کیوں کہ قاری کے لیے شخصیت اور فن دونوں کی تفہیم ضروری ہے شخصیت سے واقفیت کے بغیر قاری کے لیے آشنائے ہنر کا مرحلہ دشوار ہوتا ہے ان کے آبا و اجداد کا مولد و مسکن ہندوستان کے مردم خیز خطہ صوبہ بہار کا شہر مظفر پور تھا ان کے والد گرامی محمد غلام رسول ہجرت کر کے مشرقی پاکستان آ گئے تھے اور یہیں 25دسمبر 1967ء کو جاوید رسول جوہرؔ پیدا ہوئے۔ ابھی جوہرؔ صرف سات برس کے تھے کہ فروری 1974ء کو ان کے والد گرامی اپنے اہل و عیال کے ساتھ دوسری ہجرت کر کے پاکستان کے شہر کراچی آ گئے۔ ان کے والد نے ان کا نام جاوید رسول جوہرؔ رکھا اور ادبی دنیا میں اسی نام سے مقبول ہوئے آپ کے اساتذہ میں مرحوم عبدالستار فائق قاسمی،  مرحوم روشنؔ علی عشرت اور کاوشؔ عمر رہے ہیں۔ کاوشؔ عمر جو بنگلہ دیش کے قیام سے قبل گیسوئے شعر و سخن سنوارنے میں مصروف و منہمک رہے کراچی آنے کے بعد ان کی شعری سر گرمیوں نے کچھ سکوت اختیار کیا مائل بہ گوشتہ نشینی اور درویشی ہو گئے۔ بہر حال ان کے شاگرد ان کا یہ ادبی فریضہ ہے کہ وہ اپنے محسن و مربی کی تخلیقات کو زیورِ طباعت سے آراستہ کریں اپنے آموز گارِ ادب کے حوالے سے جاوید رسول جوہرؔاشرفی کچھ یوں رقمطراز ہیں۔ ذرا ان کے خراجِ تحسین کے انداز کو ان کی مثنوی بعنوان ’’کاوشؔ عمر‘‘ کے دو اشعار ملاحظہ کریں   ؎

اس کی تابِ فکر سے حیرت زدہ چشمِ فلک

اس کے روشن ذکر سے مدّھم ستاروں کی چمک

اس کی خاموشی میں پوشیدہ سمندر کا وقار

شاہراہِ علم و حکمت کا یگانہ شہسوار

جاوید رسول جوہرؔاشرفی کے تا حال چار شعری مجموعی ’’رنگ و آہنگ‘‘ مطبوعہ 1995ء ’’دارورسن‘‘ مطبوعہ 2006ء (دونوں مجموعے غزلیات و نظمیات و قطعات پر مشتمل ہیں ) ’’گنبدِ خضریٰ‘‘ مطبوعہ 2009ء (مبنی بر نعتیہ کلام) اور ’’صحائفِ اشرفی‘‘ مطبوعہ 2011ء (حمد نعت منقبت اور عارفانہ کلام اس کے مشمولات کا حصہ ہیں ) منصّہ شہود پر آ چکے ہیں مذکورہ مجموعوں کے نام بھی ان کی فکری انفرادیت کے غماز ہیں۔ وہ ایک نجی ادارے میں ملازم ہونے کے ساتھ ساتھ معروف مؤقر ادبی جریدہ ’’عالمی رنگِ ادب‘‘ کی مجلس ادارت سے بھی منسلک ہیں اور ’’رنگ ادب پبلی کیشن‘‘ کے خاص رفقائے کار میں شامل ہیں نظم و نثر کے دونوں شعبوں میں گلشنِ شعر و ادب کی آبیاری انتہائی عرق ریزی سے کر رہے ہیں اب ہم ان کے دوسرے شعری مجموعہ کے نصف آخر کے منتخب اشعارِ شامل تجزیہ کرتے ہیں۔

عہدِ موجود میں حضرتِ انسان اپنے فطری اوصاف سے بہت دور ہوتا جا رہا  ہے موانست جو انسانیت کا وصفِ خاص ہے عصرِ حاضر کے انسان میں مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ مکارمِ اخلاق اور اعلیٰ سماجی اقدار کی پاس داری نہیں رہی اس لیے خلوص و مروّت نے اپنی بساط لپیٹ لی ہے اور انسانیت بین کرتی ہوئی محوِ فغاں نظر آتی ہے۔ یہ وہ تلخ تاریخی حقائق ہیں جو حیات و کائنات کی عکاسی کرتے ہیں جو سخن و راس نوع کے افکار کا پاس دار ہے وہ زمانہ شناسی کے ہنر سے  بہرہ ور ہے۔ اسی نسبت سے شاعرِ مذکور کی غزل کا ایک شعر دیدنی ہے    ؎

اس دور میں انسان کی پہچان ہے مشکل

کس روپ میں پوشیدہ ستمگر نہیں ہوتے

عصری آشوب کی عکاسی بھی زمانہ شناسی کا ایک بھر پور اظہار ہے جو تخلیق کار اس طرزِ اظہار کا حامل ہے وہ نباضِ حیات بھی ہے اور رموز دانِ کائنات بھی ہے زیست کی آشوب زدگیوں کا تذکرہ در حقیقت انسانیت اور انسان دوستی کا ایک بالواسطہ طور پر درسِ بلیغ ہے دراصل آج ہمیں قحط الرجال کا سامنا ہے کیوں کہ احکاماتِ خداوندی،  فرموداتِ نبوی اور تعلیماتِ اسلاف کو فراموش کر چکے ہیں حمیت و جسارت ناپید ہو چکی ہے اور ہم ایک کمزور کردار کے آئینہ دار ہیں اسی حوالے سے جاوید رسول جوہرؔاشرفی کی غزل کا مطلع اور ایک شعر طالبِ التفات ہے   ؎

آ رہی ہے یہ صدا اب ہر در و دیوار سے

گردنیں اپنی بچاؤ وقت کی تلوار سے

اس سے کیا رکھے کوئی حرفِ انا الحق کی اُمید

آج کا منصور تو لرزاں ہے خوفِ دار سے

انسانی روئیوں کا پیشگی شعور بھی دور اندیشی کی عمدہ تمثیل ہے جو اس نوعیت کی آگہی سے لیس ہے وہ زمانہ شناس اور رمز داں کہلانے کا حقیقی معنوں میں مستحق ہے کج روی اور جفا شعاری انسانی فطرت کا خاصہ رہی ہے اسی تناظر میں جوہرؔ جی کی غزل کا یہ شعر قابلِ غور ہے    ؎

مری آستیں میں برسوں جو پلے ہیں دودھ پی کر

وہی چاہتے ہیں ڈسنا مجھے کیا پتا نہیں ہے

سماجی چیرہ دستیوں کے احساس کو باور کرانا بھی زمانہ شناسی کی عمدہ دلیل ہے اور بالواسطہ طور پر ایک مقصد اصلاح بھی ہے جس سے انسان کو حالات میں سدھار لانے کی تحریک بھی ملتی ہے ملکی حالات کو شعری اظہار کے سانچے میں ڈھال کر درسِ انسانیت دینا بھی عصری ادراکات کا مظہر ہے سماج کے دوہرے روئیوں کو ہدفِ تنقید بنانا بھی ایک سخن ور کا فرضِ منصبی ہے کیوں کہ تخلیق کار اپنی معاشرت کا غیر جانبدار نقّاد ہوتا ہے اس کے ہاں معائب ومحاسن کا مذکور ملتا ہے محاسن کا اظہار ان کی مدحت کے زمرے میں ہوتا ہے تاکہ انہیں فروغ میسر آسکے جبکہ معائب کا بیانِ مذّمت کے ضمن میں ہوتا ہے تاکہ ان کی حوصلہ شکنی کر کے ان کا تدارک کر کے مداوا تلاش کیا جا سکے۔ انہیں افکار سے مزّین جوہرؔ صاحب کی غزل کے تین اشعار زیبِ قرطاس ہیں   ؎

کب خوئے بربریت تبدیل ہو رہی ہے

انسانیت کی اب بھی تذلیل ہو رہی ہے

اب بھی وطن میں ہر سو لاشوں کے سلسلے ہیں

بارود کی مسلسل ترسیل ہو رہی ہے

رہزن لباسِ نو میں رہبر بنے ہوئے ہیں

مذموم خواہشوں کی تکمیل ہو رہی ہے

عموماً چوں کہ حالات نا مساعد رہتے ہیں جن کا اظہار بین السطور عصری تنقیدی روئیوں کی صورت میں ہوتا ہے اگر سماج میں نظامِ عدل کی حالت دگرگوں ہو جائے اور وہ فعال نہ ہو تو پھر ظلم و بربریت اور سفاکیت کو فروغ میسر آتا ہے ایسے تخیلات سخن ور کے عصری ادراکات کا مظہر ہوتے ہیں جو اس کی زمانہ شناسی کی بین دلیل قرار پاتے ہیں اسی احساس کا حامل شاعرِ ممدوح کی غزل کا یہ شعر لائق توجہ ہے   ؎

بیڑیاں کٹتی ہیں یا کٹتا ہے قیدی کا گلا

دیکھنا ہے کاٹ کیسی خامۂ عادل میں ہے

سب سے بڑی انسانی صداقت انسان کا اپنا ذاتی محاسبہ اور غیر جانبدارانہ تنقیدی جائزہ ہے جس سے اس کے کھرے پن کی تصدیق ہوتی ہے انسان کے عادات و خصائل بھی عمرانی روئیوں کے مثیل ہوتے ہیں اس لیے اسے اپنی معاشرت کا ترجمان گردانا جاتا ہے معاشرتی بے حسی سے اس کی ذات متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی جاوید رسول جوہرؔ اشرفی کی خود تنقیدی کا عکاس غزل کا مطلع نذرِ قارئین ہے    ؎

بے حسی میری غضب ہے نفرتوں کی لہر میں

میں بھی پتھر ہو گیا ہوں پتھروں کے شہر میں

نفسانفسی عروج پر ہے خود غرضی کا راج ہے اعلیٰ اخلاقی اقدار دم توڑ چکی ہیں محبتیں مفقود ہیں جفا شعاری کا چلن عام ہے انسان بغض و نفرت کا استعارہ بن چکا ہے ہے یہ امر اربابِ فکر و دانش کے لیے لمحۂ فکریہ بنا ہوا ہے جیسے راقم الحروف کی غزل کا ایک مطلع ہے    ؎

سماج سارا سوگیا ہے بے حسی کو اوڑھ کر

سپرد خاک ہو گیا ہے بے حسی کو اوڑھ کر

اس حوالے سے جوہرؔ جی یوں گویا ہیں   ؎

اس دور کے احباب سے کیا ہاتھ ملائیں

اخلاص کا شمّہ نہ محبت کی رمق ہے

ان کے فکری کینوس میں بے پناہ وسعت پائی جاتی ہے ان کا بنیادی موضوع حیات و کائنات ہے ان کے ہاں سنسار کی بے چینی اور کرب کی عمدہ لفظی تصویریں پائی جاتی ہیں انفرادی حوالوں کی نسبت اجتماعی حوالے وفور سے ملتے ہیں اس لیے ان کے افکار ذاتی نوعیت کے نہیں بلکہ کائناتی اہمیت کے حامل ہیں کیوں کہ ذات کے سفر کے اختتام کے بعد کائناتی فکر کے ارتقاء کا آغاز ہوتا ہے اس لیے ان کے گنجِ شعر میں سوچ کا ایک مجموعی انداز ملتا ہے  عند البیان وہ زندگی کو درپیش خطرات اور انسانی مسائل زیر بحث لاتے ہیں جو ان کی زمانہ شناسی کی برہانِ قاطع ہے ان کی غزل کے چار اشعار دنیائے شعرو سخن کی نذر ہیں    ؎

کیا ٹھکانہ زندگی کا زندگی خطرے میں ہے

کس طرف جائے کہ ہرسو آدمی خطرے میں ہے

 

قتل گاہیں بن گئی ہیں شاہراہیں شہر کی

ایک دو کا تذکرہ کیا ہر کوئی خطرے میں ہے

 

مٹتے جاتے ہیں دلوں سے مہر و الفت کے نشان

عمر بھر کے دوستوں کی دوستی خطرے میں ہے

 

درس گاہیں بن گئی ہیں جہل کی آماج گاہ

دانش و علم و شعور و آگہی خطرے میں ہے

 

مندرجہ بالا تصریحات اس امر کی وقیع شاہد ہے کہ جاوید رسول جوہرؔ کا سخن ان کی زمانہ شناسی کا بھر پور ترجمان ہے جس میں ان کے تلخ تجربات و مشاہدات کا عکس بھی ہے جس سے ان کی فکر میں شدت وحدت اور جدت کے مظاہر ضو پاش ہوئے ہیں ان کے کلام کا غائرانہ مطالعہ سے یہ استخراجی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے عہد سے گہری حساسیت کے جلو میں اثر قبول کیا ہے اور اسے متاثر کرنے میں بھی کامیاب نظر آئے ہیں خدائے لم یزل سے دعا ہے کہ ان کے فکرو فن کو مزید معیارات سے ہمکنار کرے اور دولتِ دوام ودیعت فرمائے۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

 

جسارتؔ خیالی… ترقی پسند افکار کا علم بردار

 

اگر ادب کی مقصدیت اور افادی پہلوؤں کو مد نظر رکھا جائے یا ادب کو ادب برائے زندگی کے تناظر میں دیکھا جائے تو ترقی پسند ادب ہی صحیح معنوں میں ادب کہلانے کا مستحق ہے عصری مقتضیات میں انقلابی تغیر رونما ہو چکا ہے گل و بلبل کے فسانے ،  لیلیٰ مجنوں ،  شیریں فرہاد،  ہیر رانجھا،  سسی پُنوں ،  صاحباں مرزا اور سمی راول کی داستانوں کا عہد بیت چکا ہے آشوبِ  عصر کے باعث یہ امر انتہائی ناگزیر ہے کہ ادب اور ادیب کو انسانیت کی فلاح اور خدمت کے جذبے سے سرشار ہونا چاہیے شذرہ ہٰذا میں ہم معروف ترقی پسند شاعر جسارتؔ خیالی کی سخن سنجی کے حوالے سے رقمطراز ہیں جو مارکسی طرز فکر اور نظریہ کی نابغہ روز گار تمثیل ہیں جن کی خامہ فرسائیوں کی طویل داستاں ہے، ان کی کتاب ’’لا زماں سے زماں تک‘‘ مطبوعہ 2006ء جس میں ڈاکٹر خیال امرو ہوی کی شخصیت اور فن کے حوالے سے بسیط انداز میں لکھا گیا ہے جس میں انہوں نے اپنے آموز گارِ ادب کو بھر پور طریقے سے خراجِ تحسین پیش کرنے کی سعی جمیل کی ہے ان کا اولین شعری مجموعہ شعاع فردا ’’سے موسوم 2007ء میں منصہ شہود پر آیا جس میں غزلیات و نظمیات شامل ہیں فاختہ کی فریاد،  نوید ،  اور مزدور کی یاد،  جس کی معرکۃ الآرا نظمیں ہیں ’’اقبال سوکڑی فن اور شخصیت‘‘ کے نام سے ایک کتاب 2009ء میں قارئین شعرو ادب کو فراہم کر چکے ہیں علاوہ ازیں سہ ماہی ’’نیا قدم انٹر نیشنل‘‘ کی ادارت بھی کر رہے ہیں جو پہاڑپور لیہ سے تواتر سے چھپ رہا ہے جس کے دو خصوصی نمبر ڈاکٹر خیال امروہوی مطبوعہ 2010ء اور پروفیسر اقبال ندیم مطبوعہ 2013ء بھی منظرِ عام پر آ چکے ہیں ان کا دوسرا شعری مجموعہ سطوتِ حرف ،  مطبوعہ ستمبر 2013ء ہمارے زیرِ نظر ہے جو غزلیات و نظمیات اور قطعات پر مشتمل ہے جس میں زیادہ تر غزل شامل ہے جو ہیستی اعتبار سے اُن کے فطری و طبعی رجحان و میلان کی عکاسی کرتی ہے تاہم للکار اور یقین حوالے کی نظمیں ہیں جو دولتِ تاثیر سے مالا مال ہیں جسارتؔ خیالی بلا امتیاز رنگ و نسل،  جغرافیائی و لسانی اور مذہبی تعصبات سے ماورا ہو کر زبان و ادب کی ترویج اور فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں شذرہ ہٰذا میں ہم اُن کے مؤخر الذکر شعری مجموعہ کی منتخب غزلیات کے منتخب اشعار ناقدانہ صراحت سے پیش کرنے سے قبل مذکورہ مجموعہ کے معروف ناقدین کی آرا قلم بند کرتے ہیں۔

ملک کے مشہور شاعر و نقاد ڈاکٹر اختر ہاشمی یوں رقمطراز ہیں :

’’جسارتؔ خیالی کے کلام کے بغور مطالعہ کے بعد یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کے کلام میں بلند خیالی،  تخیل کی پرواز،  ندرتِ فکر اور خیال کی جدت پائی جاتی ہے ان کو اشعار کی بنت ،  نئی ردیفوں کے انتخاب،  قوافی کے چناؤ،  الفاظ و تراکیب کے استعمال اور خیال کو سجا کر پیش کرنے میں ایسی مہارت ہے جیسا کہ احمد فرازؔ کو حاصل تھی اس خوبی نے جسارتؔ خیالی کو ان کے ہم عصروں اور ہم عمروں میں ممتاز و منفرد کر دیا ہے یہ انفرادیت ہی ان کی پہچان و اسلوب ہے۔ ‘‘

جاوید رسول جوہرؔ نے موصوف کی نسبت سے یوں خیال آرائی کی ہے:

’’میں جسارتؔ خیالی کی حقیقت نگاری اور حق گوئی کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک سچے قلم کار کی طرح اپنی ذات کے خول میں مقید انا پرستوں کو منفی رجحانات سے نکال کر زندگی کے سچے اظہار کا راستہ دکھایا ہے جس کی ہمارے عہد کو اشد ضرورت تھی آسان اور سہل زبان میں ہلکے پھلکے الفاظ سے بڑا کام لینا جسارتؔ خیالی کا خاصہ ہے ان کے اشعار کا ابلاغ عام فہم اور آسان ہے جو اپنے قاری کو اپنی طرف متوجہ کرانے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔ ‘‘

معروف شاعر،  نقاد،  افسانہ نگار،  ناول نگار،  مرتب اور صحافی شاعر علی شاعرؔ نے شاعرِ مذکورکی سخن سنجی پر کچھ یوں خامہ فرسائی کی ہے:

’’ان کی غزل اپنے اندر خیالات کی رعنائی،  فکر کی گہرائی،  خیال کی ندرت،  مفہوم و آگہی،  تخیل کی بلند پروازی اور جذبات کی جدت کے ساتھ ساتھ چاہتوں کی شدت لیئے ہوئے ہے انسان بہت جلد فنا ہو جاتا ہے مگر اس کی تخلیقات زندہ رہتی ہیں مجھے بھی یقین ہے کہ جسارتؔ خیالی کی شعری تخلیقات ان کے بعد بھی زندہ رہیں گی اور ان کے آدرش کی روشنی سے عالمِ شعر و ادب تا دیر منور رہے گا۔ ‘‘

ہر صاحبِ بصیرت انسان اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قائل ہے کیونکہ اسی امر میں دنیا و عقبی کی کامیابی کا راز مضمر ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اسوۂ کل بنی نوعِ انسان کے لئے مشعلِ راہ ہے کیونکہ ابنِ آدم کی تخلیق کچھ اعلیٰ و ارفع مقاصد سے منسوب ہے لہو و لعب اور رنگینیوں میں زندگی کرنا مقصدِ حیات نہیں ہے جسارتؔ خیالی زیست کی مقصدیت کے قائل ہیں اور اسے متاعِ ہستی گردانتے ہیں مشعلِ راہ سمجھتے ہیں جسے فروزاں رکھنے کو وظیفۂ حیات سے تعبیر کرتے ہیں اسی نسبت سے اُن کی ایک غزل کے دو اشعار نذرِ قارئین ہیں   ؎

سرفرازی اب اسی میں ہے تری

سیرتِ ختمِ رسل کی نقل کر

ذات کی تخلیق کا مقصد سمجھ

عمر ساری یوں نہ رنگیں شغل کر

وہ درد مند دل رکھنے والے انسان ہیں درد مند جذبوں کے امین ہیں اس حوالے سے ان کی حسیات بسیط و عمیق ہیں وہ مفلوک الحال طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں عام آدمی کے مصائب و آلام کی ترجمانی کو مقصدِ حیات سمجھتے ہیں سماج کے پسے ہوئے اور ٹھکرائے ہوئے انسانوں سے وہ ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں عصری مقتضیات سے خوب واقف ہیں یہی آدرش اُن کے کلام میں جا بجا ملتا ہے جیسے راقم الحروف اپنی ایک نظم ’’نوائے وقت‘‘ میں یوں گویا ہیں   ؎

وقت کی آواز سن

وقت کا کچھ ساتھ دے

بے کسوں کے ساتھ رہ

اور بے کسوں کا ساتھ دے

عصری آشوب کی نمایاں جھلک اُن کے ہاں مشاہدہ کی جا سکتی ہے وہ اپنے عہد کی ناہمواریوں کو شعری پیرہن عطا کرتے ہیں کھوکھلی تہذیب کے کھوکھلے دعووں کا بطلان کرتے ہیں اُن کی ایک غزل کے ذیل کے شعر میں یہی بازگشت موجود ہے    ؎

تجھے کیا علم ہو،  بچوں کا کیسے پیٹ پالا ہے

غریبِ شہر نے اپنا تو گردہ بیچ ڈالا ہے

ایسی عمیق حسیات کی تمثیل شاذ ہی کہیں مشاہدہ کی جا سکے گی وہ ایک حُب الوطن انسان ہیں دھرتی کی محبت اُن کے ضمیر میں رچی بسی ہوئی ہے اس لئے وہ پر آشوب حالات میں شاکی اور نالاں نظر آتے ہیں جو ایک کھرے اور سچے قلم کار کی دلیل ہے دہشت گردی کی اٹھنے والی لہر انہیں ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے پھر وہ سراپا سوال بن جاتے ایک حساس انسان کی مانند وہ اسباب و محرکات جاننا چاہتے ہیں جس کے باعث خوابوں اور امنگوں کا خون ہوا ہے جس نے پورے چمن کو جلا کر راکھ کر دیا ہے وہ اپنے سماج اور قیادت کو بھی ہدفِ تنقید بناتے ہیں فرشتہ صفت نام نہاد راہبروں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں ان کے یہی فکری اطوار ان کی ایک غزل کے تین اشعار میں مشاہدہ کئے جا سکتے ہیں   ؎

یہ کس نے چُرالی مہک پھر گلوں کی؟

کہ مغموم سارے چمن کی فضا ہے

یہ کس نے ہوا دی کہ شُعلے اٹھے ہیں

شجر ہی نہیں ہر نشیمن جلا ہے

یہ کس نے اسے باغباں ہے بنایا؟

کہ ظالم تو غنچے مسل ہی رہا ہے

جسارتؔ خیالی ایک مردِ قلندر ہیں اور خدائے بزرگ و برتر کی ذات پر پختہ یقین رکھتے ہیں یہی یقین ان کا ایک بھر پور رجائی حوالہ ہے ان کے ہاں صرف غم و یاس اور حزن و ملال کی  بِپتا نہیں ہے بلکہ کہیں کہیں رجائیت بھی اپنی بہار دکھاتی نظر آتی ہے ہر اچھائی کو قدرتِ الہیہ سے منسوب کرتے ہیں ایسا عمیق رجائی انداز شاذ ہی کہیں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ان کے سخن میں سماج  کے اعلیٰ طبقے کی چیرہ دستی اور کج روی کا مذکور ہے جو انہوں نے نادار طبقہ سے روا رکھی ہے یہی انسان دوستی کی برہانِ قاطع ہے وہ اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ دنیا مکافاتِ عمل ہے ظلم و ستم اور جبر و جور کی عمر بہت قلیل ہوتی ہے انجامِ کار سچ کی بالا دستی ہوتی ہے اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ محرومی کا شکار انسانیت سے خلوص و مہر کا معاملہ کیا جائے اور کسی سے کسی نوع کی زیادتی روانہ رکھی جائے وہ سماج کے ناسور روئیوں کو بے نقاب کرتے ہیں احساس کی شدت اور فراوانی کے باعث ان کا لہجہ بلند بانگ ہو جاتا ہے عند البیان انسانی دوستی کا درسِ بلیغ ملتا ہے    ؎

خدا کا شکر ہے سر سے ٹلی ہے

غموں کی شام مشکل سے ڈھلی ہے

نہ اتنا ناز کر اپنے کئے پر

ستم کی شاخ کب پھول پھلی ہے؟

امیرِ شہر کی ہی غفلتوں سے

غریبِ شہر کی کٹیا جلی ہے

جسارتؔ جی کے ہاں انقلاب آگیں افکار وفور سے ملتے ہیں اگر انہیں دائمی انقلاب کہا جائے تو بے جانہ ہو گا جو بھی بات کہتے ہیں اعتماد سے کہتے ہیں دولتِ یقین سے مالا مال ہیں انہیں اس امر کا بخوبی ادراک ہے کہ انقلاب کچھ قربانیوں کا متقاضی ہوتا ہے جب کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا شبِ تیرہ کا راج ختم ہو جائے گا ظلمتِ شب سے بغاوت کو ناگزیر سمجھتے ہیں وہ بحیثیتِ قوم اپنا محاسبہ کرتے ہوئے خود تنقیدی کے دل سوز عمل سے گزرتے ہیں وہ تمام تر تنزلی کا ذمہ دار اپنے آپ کو سمجھتے ہیں اور خلوصِ نیت کے فقدان کی نشاندہی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں دہشت گردی،  لاقانونیت کے باعث ایک عدم تحفظ کا احساس ان کے ہاں پنپتا نظر آتا ہے جس کے باعث یاسیت و قنوطیت کی دل دوز کیفیت پائی جاتی ہے زیست کی رونق و رعنائی کے معدوم ہونے کا تذکرہ بھی شدومد سے ملتا ہے آرزو کے گریز پا ہونے کے شواہد ملتے ہیں غم و یاس کا یہ عالم ہے کہ فانیؔ بدایونی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور قاری حزن و الم سے ہمکنار ہونے کے بعد محوِ تفکر ہو جاتا ہے ان کی ایک غزل کے چار اشعار زیبِ قرطاس ہیں   ؎

ظلمتِ شب سے بغاوت شرط ہے

پھر بھلا کیسے سحر ہوتی نہیں

باغبانی میں کمی ہو گی ضرور

شاخ کوئی بے ثمر ہوتی نہیں

دن گزرتا ہے بموں کے خوف سے

رات سوچوں میں بسر ہوتی نہیں

زندگی تنہا ہوئی ہے اس قدر

آرزو بھی ہم سفر ہوتی نہیں

حضرتِ جسارتؔ کے ہاں احساس کی پونجی وافر ہے بے پایاں خلوص ہے بے پناہ مروتیں ہیں وہ دوست کیا دشمنوں کے لئے بھی بے انت محبت رکھتے ہیں جو ان کے بڑے پن کی دلیل ہے اور انسان دوست ہونے کا واضح ثبوت ہے اس لئے وہ دشمنِ جاں کی بھی مدارات کے حامی ہیں اور اسے تمام مصائب و آلام کا مداوا سمجھتے ہیں   ؎

ایک حل ہے اب سلگتے شہر کا

درد کی تقسیم سوغاتیں کریں

راحتِ دل چاہتے ہیں ہم اگر

دشمنِ جاں کی مداراتیں کریں

طولِ بیاں کے خوف اور قاری کی طبع نازک کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ان کی ترقی پسند افکار کی حامل ایک پوری غزل بدونِ تبصرہ پیشِ خدمت ہے   ؎

نہ آٹا ہے،  نہ چینی ہے،  نہ ملتا گھی ادھارا ہے

غریبِ شہر نے ہر پل اذیت میں گزارا ہے

چھپا کر مال بیٹھے ہیں جو غاصب شہر میں تیرے

جھپٹ کر چھین لو ان سے کہ اس پر حق تمہارا ہے

نہ کر ناداں غرور اتنا تو اپنی جاہ و حشمت پر

نہ خسرو ہے نہ قیصر ہے نہ کسریٰ ہے نہ دارا ہے

کڑی اس دھوپ میں یوں رقص کرتے ابر کے ٹکڑے

یہ موسم کے بدلنے کا پرندوں کو اشارا ہے

یقین سے میں یہ کہتا ہوں نہ ہارو حوصلے اپنے

نہیں امروز گر اپنا تو فردا پھر تمہارا ہے

ملی عظمت اس کو ہے زمانے میں جسارتؔ جی

گلے سے طوق جس نے بھی غلامی کا اُتارا ہے

اگر کلامِ جسارتؔ کو فنی پہلوؤں سے دیکھا جائے تو عروضی تلازمات کا التزام فطری انداز میں ملتا ہے بحور میں ایک تنوع ہے جو اُن کی تلوّن مزاجی کا حصہ ہے مفرد و مرکب اور مخذوف بحور میں انتہائی کامیابی سے سخن سنجی کی ہے ان کی بحور میں ایک مخصوص آہنگ اور موسیقیت کی فضا پائی جاتی ہے اسلوب ابلاغ سے ہم آہنگ ہے شعوری اور لاشعوری طور پر تعلیاتی شواہد معدوم ہیں جس سے ان کی منکسر المزاجی کی عکاسی ہوتی ہے اُن کے ہاں خوبصورت تر کیبات کا ایک جہاں آباد ہے جن میں بحرِ غم،  غریبِ شہر،  نظامِ میکدہ،  دستِ حنا،  لبِ آتش فشاں ،  چہرۂ خونچکاں ،  شبِ الم ،  ورطۂ ظلمات ،  گردشِ حالات ،  دشمنِ جاں ،  تلاشِ منزل، منزلِ نو،  جشنِ سحر،  اندازِ فصاحت،  فصلِ گل،  شہرِ تمنا،  خونِ جگر،  بے آسرا و مجبور، نانِ جویں ،  فرشِ عشرت،  متاعِ نظر،  روز گارِ رفتگاں ،  قلب و نظر ،  آبلہ پائی،  عزمِ جادہ،  قسامِ ازل،  زخمِ ہستی،  رختِ سفر،  لختِ جگر ،  دیدۂ تر،  اہلِ جہاں ،  عزمِ نو بہ نو،  نغمۂ آزاد،  نوعِ بشر،  قوتِ بازوئے حیدر،  پیغامِ سحر،  صفحۂ ہستی،  غرقِ غم،  زخمِ جگر،  بحرِ تلاطم،  عالمِ انسانی،  فہمِ قرآنی،  بدعتِ فکری،  تیشۂ تخریب،  مرکزِ اوہام،  زیرِ دام،  موجبِ آزار،  نرگسِ بیمار،  داغِ جبیں ،  احساسِ تشنگی،  دخترِ زر،  جدتِ اظہار،  رندِ حق ،  شہرِ سخن،  عزمِ بیکراں ،  جوشِ عمل،  سیلِ اشک،  حصارِ ذات،  تسخیرِ جہاں ،  خاکۂ زیست،  ہوسِ زر اور شرفِ انسانی جیسی نادر ا لنظیر تراکیب شامل ہیں جن سے اُن کے لسانی تبحر کا اندازہ ہوتا ہے اُن کے ہاں فارسی لفظیات کا چلن وفور سے ملتا ہے۔

مشمولہ استخراجات شاہد کہ جسارتؔ خیالی کا کلام سراپا انقلاب ہے ظلمتِ شب میں صبح درخشاں کی نوید ہے انہوں نے ادب کی مقصدیت اور افادی پہلوؤں کو ہی فوقیت دی ہے اُن کی شاعری کے غائرانہ مطالعہ سے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ جسارتؔ خیالی دنیائے سخن میں ترقی پسند افکار کے نہ صرف علم بردار ہیں بلکہ مشعل بردار بھی ہیں۔ خالقِ ارض و سما انہیں مزید طاقت و توانائی سے نوازے تاکہ وہ ریاضِ شعر میں اپنی عرق ریزیاں صرف کر کے اپنے سخن میں فزوں سے فزوں تر ابلاغیت پیدا کرسکیں۔

٭٭٭

 

 

 

جاوید احسنؔ کا فنِ نعت گوئی

 

نعت گوئی ایک گراں مایہ سعادت ہے جو کسی خوش نصیب کو میسر آتی ہے اس کے لیئے صرف شاعر ہونا ہی ضروری نہیں ہے بلکہ حبِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اس کا مرکزی تلازمہ ہے کسی سخن دان کا یہ وہ عمل ہوتا ہے جو آخرت کے سفر میں اس کے لئے زاد راہ ثابت ہوتا ہے اس کے لئے جہاں فنی ریاض ضروری ہے وہاں سیرتِ نبویؐ کا مطالعہ و ادراک بھی ناگزیر ہے مزید برآں اسلامی تعلیمات کی جانکاری اور قرآن و حدیث کی تفہیم بھی نعت نگار کے لئے از حد ضروری ہے۔ خلوص و والہانہ پن بھی فنِ نعت کا ایک کلیدی خاصہ ہے شذرہ ہٰذا میں ہم جاوید احسنؔ کے نعتیہ مجموعہ ’’لوحِ شفاعت، ،  مطبوعہ 2009ء کے آئینے میں ان کے منتخب نعتیہ اشعار کا فکری و فنی تجزیہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

وادیِ طیبہ سے محبت کے حوالے کا حامل ان کی نعت کا مطلع ملاحظہ ہو۔

آباد رہیں تیرے مدینے کی فضائیں

ہر وقت برستی رہیں رحمت کی گھٹائیں

مصرعِ اوّل میں وہ شہرِ نبی کے لئے محوِ دعا ہیں یہ بھی ان کی سرکار دو عالم سے محبت کا ایک رنگ ہے وہ گویا ہیں کہ ابد تک مدینے کی فضا شاد و آبا در ہے اور ہر دم اس پر خدا کے کرم کی رحمتوں کا نزول ہوتا رہے۔ شعرِ ہذا سہلِ ممتنع کے رنگ کا حامل ہے جس میں وفورِ محبت و عقیدت پایا جاتا ہے ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ دھیمے لہجے میں بات نہیں کرتے اس لیے ان کی فکر قاری کو جلد اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔

نعت کے ایک اور شعر میں ان کی حبِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عالم دیکھیں۔

دیارِ شوق میں پہنچوں غبارِ کارواں بن کر

مجھے جنت سے بھی خوش ترتری زلفوں کے سائے ہیں

اس شعر میں شوق مدینہ کروفر سے جلوہ نما ہے۔ خواہشِ وصل شدید تر ہے وہ کہتے ہیں کہ میں سرکار مدینہ کے پاس کارواں کا غبار بن کے پہنچوں یہ بھی ان کی محبت کا عمیق احساس ہے وہ کہتے ہیں کہ آپ کی زلفوں کے سائے مجھے جنت سے بھی زیادہ مرغوب ہیں۔

ان کی نعت کے دو اشعار ہدیۂ قارئین ہیں۔

میں تمام عمر کی نیکیاں ترے پائے ناز پہ واردوں

مجھے ایک پل جو نصیب ہو تری بزم راز و نیاز میں

جو ترے حضور گزر گیا تری بارگہ میں بسر ہوا

وہی ایک لمحہ ہے قیمتی مری ساری عمرِ دراز میں

شعرِ اوّل میں بھی محبت و عقیدت کا تاثر بڑے شدومد سے اپنی بہار دکھا رہا ہے وہ یوں کہتے ہیں کہ میں اپنی تمام زندگی کی نیکیاں ترے پائے ناز پر قربان کر دوں اگر مجھے ایک پل کی عمر ملے تو میں وہ تری بزمِ راز و نیاز میں گزار دوں یہ الفت کا وہ رنگ ہے جو شاذ ہی کسی نعت نگار کے ہاں پایا جاتا ہے شعرِ دوم میں رقمطراز ہیں کہ میری زندگی کا وہ لمحہ قیمتی اور باسعادت ہے جو آپ کی محبت میں گزر گیا حقیقت میں جیون کا وہ لمحہ قیمتی ہوتا ہے جو خیالِ محبوب میں گزرتا ہے

سیرتِ نبوی کے حوالے سے ان کی نعت کے تین اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

جن کو دشمن بھی سمجھتے تھے امین و صادق

حسنِ کردار کا معیار ہے سیرت ان کی

ان کی انگشتِ شہادت کے اشارے کی قسم

چاند کو چیر دے یہ ہے طاقت ان کی

غیر تھے دین میں داخل ہوئے بھائی ٹھہرے

حاملِ عہدِ مواخات ہے امت ان کی

پہلے شعر میں صفاتِ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و کردارِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بات کی گئی ہے کہ آپ کو دشمن بھی صادق و امین کے لقب سے پکارتے تھے لہٰذا آپ کی سیرت معیارِ حسنِ کردار ہے دوسرا شعر ایک تاریخی حوالے کا حامل ہے جس میں واقعۂ شق القمر کی بات کی گئی ہے جس کی تصدیق قرآن مجید نے بھی کی ہے کہ سرورِ کو نین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی مبارک کے اشارے سے چاند کو دو ٹکڑے کر دیا واقعہ ہذا بھی معجزاتِ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سے ایک ہے جس سے طاقت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اندازہ ہوتا ہے واضح رہے کہ شعر میں شق القمر کی نسبت سے بات ہوئی ہے عموماً یہ تاثر پایا جاتا کہ یہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا معجزہ ہے کہ انہوں نے اپنی انگشتِ مبارک کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے کر دیا معاملہ کچھ مختلف ہے کہ کرشمۂ قدرت کے تحت چاند پہلے دو ٹکڑے ہوتا ہوا نظر آیا پھر آپؐ انگلی مبارک کا اشارہ فرمایا سید ابو الاعلی مودودی نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں ایسی صراحت کی ہے تیسرے شعر میں مواخاتِ مدینہ کا مذکور ہے جو بھائی چارے کا ایک معاہدہ تھا جس کے تحت ایک انصار کو دوسرے مہاجر کا بھائی بنا دیا گیا تھا تاریخ عالم میں بھائی چارے کی عمدہ اور عملی مثال ہے حتیٰ کہ انصار نے مہاجرین کے ساتھ اپنی جائیداد بھی تقسیم کیں اور انہیں برابر کا حصہ دیا اس شعر میں شاعر موصوف یہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ ایک دوسرے کے لئے غیر تھے فیضانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے انہیں حقیقی بھائیوں سے بھی زیادہ آپس کی موانست سے نوازا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اُمت حاملِ عہدِ مواخات ہے۔ یہ فضیلت صرف آپ کی اُمت کو حاصل ہے۔ رسالتِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعتراف کے حوالے کا ایک شعر دعوتِ توحید دے رہا ہے۔

منکر سے کہو خود کو ہلاکت میں نہ ڈالے

رحمن کا انکار ہے انکارِ محمد

شعرِ ہٰذا میں منکرانِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہلاکت کی وعید سنارہے ہیں کہ منکرِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اصل میں خود کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے کیوں کہ آپ کا انکار خدائے قدوس کی ذات کے انکار کے برابر ہے اس شعر میں انتہائی خوبصورتی سے انہوں نے محبتِ خدا اور نعتِ رسو ل صلی اللہ علیہ  و آلہ وسلم کو یکجا کر دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انکار رب کی توحید کے انحراف کا مثیل ہے۔ حبِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حوالے سے یہ شعر اپنی نظیر آپ ہے۔

نعت کے مقطع میں ان کی عاجزی کا انداز دیکھیں۔

جاویدؔ تری نعت کہاں فخر کے لائق

مصرع نہیں کوئی بھی سزاوارِ محمد

اس شعر میں سخنور کا عاجزانہ انداز جلوہ گر ہے نعت کہنے والے شعرا کے لئے ایک رمزِ انکساری ہے تاکہ نعت گو کسی قسم کے فخر و مباہات میں مبتلا نہ ہو وہ کہتے ہیں کہ میں اپنی نعت پر فاخر و نازاں نہیں ہوں کیونکہ میری نعت کا ایک حصہ بھی شایان شان محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہیں ہے۔ ایک اور تلمیحی حوالے کا حامل شعر دیکھیں

سدرۃ المنتہیٰ بھلا کیا ہے؟

وہ وراء  الورا جہاں تک ہیں

اس شعر میں واقعۂ معراج کا حوالہ دیا گیا ہے سدرۃ المنتہیٰ آخری سرحد ہے جہاں تک کسی انسان کو عروج نصیب ہوا یقیناً یہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اعزاز ہے۔

یہ تو چند نعتیہ جھلکیاں تھیں جو ہم نے جاوید احسنؔ کے نعتیہ کلام کے منتخب اشعار سے پیش کیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا فنِ نعت گوئی بہت وقیع ہے اور ان کی فکر گہرائی و گیرائی کی حامل ہے ان کی نعت نگاری ان کی کہنہ مشقی کا مظہر بھی ہے جس میں حبِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عروج پر ہے زبان و بیان کا معیار بھی بہت عمدہ ہے۔ دعا ہے کہ نعت گوئی کے حوالے سے ان کی کاوشیں راہِ عقبیٰ میں زادِ راہ ٹھہریں۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

جلیل حیدر کا افسانہ… ’’منت کشِ بے رخی‘‘  ایک عمیق حسیّاتی تاثر

 

 

کسی بھی افسانہ نگار کی کامیابی کا راز اس امر میں مضمر ہے کہ اس کا افسانہ کتنی حد تک ترجمانِ عصر ہے اس میں عصری رجحانات کی پیوند کاری کس قدر ہے وہ اپنے عہد کی مقتضیات کا احاطہ کیسے کرتا ہے کیا وہ حیات و کائنات کی صاف و شفاف تصویر پیش کرتا ہے کیا اس میں زندگی فطری انداز میں سانس لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کیا اس پر مافوق الفطرت عناصر کی اثر اندازی تو نہیں کیا اس میں بناوٹ یا تصنع جیسے فکری خبائث تو نہیں ہیں کیا اس کا اسلوبیاتی اور مکالماتی انداز حقیقی نوعیت کا ہے کیا وہ حیات کا مشاہداتی،  جزئیاتی،  حسیاتی،  عمرانیاتی اور تجزیاتی مطالعہ پیش کرتا ہے کیا اس کے لسانیاتی زاویے صعودی طرزِ فکر کے حامل ہیں کیا قاری پر اس کے لسانی ادراکات تہہ در تہہ کھلتے چلے جاتے ہیں کیا اس کی فکر اثر  آفرینی کے وصف سے متصف ہے کیا وہ زیست کی چھوٹی چھوٹی جزئیات کو زیر بحث لاتا ہے کیا اس میں حیات کا تمثیلاتی انداز کار فرما ہے کیا وہ خود میں قاری کی فکری آموزش کا سماں رکھتا ہے کیا اس میں ایک زندہ کہانی کے طور پر خود کو منوانے کی صلاحیت ہے کیا اس کے پیرایۂ اظہار کا تسلسل ارتقائی اندازِ فکر کا حامل ہے کیا اس کا ابتدائیہ، وسطانیہ اور اختتامیہ شدتِ احساس کا پہلو سموئے ہوئے ہے کیا اس کا پلاٹ فنی جابکدستی کا مظہر ہے کیا اسے قاری اپنے ارد گرد کی کہانی پر محمول کرسکتا ہے کیا افسانہ اپنی جنم بھومی کی تہذیب و ثقافت کا واضح پر تو ہے کیا اس میں موجود حالات و واقعات میں ایک ربط و ضبط کی فضا پائی جاتی ہے افسانہ نگاری کے حوالے سے یہ مثالی تنقیدی معروضات ہیں جو کسی بھی افسانے کو شاہکار افسانوں کی فہرست میں شامل کرنے پر قادر ہیں ہم نے جب جلیلؔ حیدر کے افسانے ’’منت کشِ بے رخی‘‘ کو نقد و نظر کے آئینے میں دیکھا تو ہمیں متذکرہ خصائص کی جلوہ سامانی عمق کے ساتھ نظر آئی ہے یہی سبب ہے کہ ہم اس کا انتقادی جائزہ سپردِ قرطاس کرنے پر مجبور ہوئے۔ معروف شاعر و نقاد ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ ان کے افسانے کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں۔

’’جلیل حیدر کا پلاٹ حیرت انگیز طور پر سادہ مگر پر کار ہے وہ ہمارے ہی سماج میں سے ایک ایسی کہانی اجاگر کرتے ہیں جو خود میں ایک جہانِ محسوسات لئے ہوئے ہوتی ہے جس کا مطالعہ کرنے کے بعد قاری کافی دیر تک سوچتا رہ جاتا ہے ان کے کردار نہ ماورائی ہیں اور نہ طبقۂ اشراف سے تعلق رکھتے ہیں حقیقتاً وہ عام لوگ ہوتے ہیں مگر ان کا کوئی وصف انہیں درجۂ تخصیص پر فائز کر دیتا ہے یوں وہ ایک ناقابل فراموش کردار بن جاتا ہے جسے مکالمات کا برجستہ استعمال اور زیادہ دلکشی عطا کرتا ہے جلیلؔ حیدر کی اٹھان کا جب یہ عالم ہے تو دیدہ باید جب وہ ایک منجھے ہوئے افسانہ نگار بن جاتے ہیں تو ان کا رسوخ انہیں کہاں تک لے جاتا ہے۔ ‘‘

جلیلؔ حیدر کے اس افسانے کا نام شاعرانہ اور نظمیاتی نوعیت کا حامل ہے جو اس میں موجود کہانی کا تقاضا بھی ہے اس افسانے میں ایک معروف شاعر کی شاعرانہ زندگی کے ایک واقعے کو سوانحی بپتا کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ پیش کش کا انداز فطری اور حقیقی تاثر سے مربوط ہے جس میں اس کے شاعرانہ اعزاز میں ایک پر وقار تقریب کا انعقاد کسی بڑے شہر کے عالی شان ہوٹل میں کیا گیا ہے مضافاتی معاشرت سے تعلق ہونے کی وجہ سے کسی بڑے شہر کے سفر کا تجربہ بھی اس کے لئے کچھ پرانا نہیں تھا لیکن اس کی شاعرانہ شہرت کے چرچے اطراف و اکناف میں زباں زدِ عام تھے ا س کے شاعرانہ اعتراف میں ہونے والا بر نامج اسے احساسِ طمانیت سے سرشار کئے ہوئے تھا مسافر کوچ میں سفر کے دوران وہ باہر کے گزرتے ہوئے مناظر کو شاعرانہ زاویوں سے دیکھتا رہا اور اس کے تمثیلاتی شواہد حقیقی زندگی میں تلاش کرنے لگا وہ ان خیالات کو منظوم کرنے کا خواہاں تھا کہ موبائل ٹون خلل پذیری کا باعث بنی اظہارِ کوفت میں خود کلامی کے انداز میں اس نے فون کو بھی طنزیہ کلمات سے نوازا اور اس کے استعمال کے ضرررساں پہلوؤں پر مختصراً مگر اجمالی اظہارِ خیال کیا جونہی وہ لاری اڈے پر پہنچا تو ایک چمکتی ہوئی بڑی سفید کار اس کے پر تپاک استقبال کے لئے موجود تھی جو اسے جائے تقریب پر لے گئی ایک عوامی سیاسی لیڈر کے انداز میں تالیوں کی گونج میں حاضرینِ مجلس نے کھڑے ہو کر اس کا استقبال کیا وہ ایک ناقابل بیاں احساس مسرت سے مسرور تھا پروگرام میں اس نے خوب اپنا کلام سنایا اور سامعین نے بھی اپنے منفرد انداز میں دادو تحسین کی انتہا کر دی آخر کار رات کافی بیت چکی تھی اسے معذرت سے کام لینا پڑا پھر محفل برخاست ہونے لگی اور لوگ رفتہ رفتہ اپنے گھروں کو جانے لگے اسے بھی مجبوراً کہنا پڑا کہ وہ صاحب کہاں ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ آج رات آپ ہمارے مہمان ہیں۔ اس جملے پر اس کے یارانِ سخن محوِ حیرت و استعجاب ہو کر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے بالآخر اسے اپنے انتہائی قریبی دوست سے بڑے مان سے کہنا پڑا کہ آج رات میں تمہارا مہمان ہوں دوست نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میرے گھر میں تو گاؤں سے آنے والے مہمانوں کا ہجوم ہے یوں اس نے جواز پیش کرنے کے بعد عافیت محسوس کی دوسرے دوست کو اپنی عرضداشت پیش کی تو اس نے بھی پہلو تہی کرتے ہوئے اپنی بیگم کو طالبان کا ہم پلہ قرار دے دیا مجبوراً اسے ایک غریبانہ ہوٹل میں رات بھر کے لئے قیام کرنا پڑا اور واپسی کا کرایہ بمشکل بچانے میں کامیاب ہوا پھر اس نے اپنے ا س کرب کا کتھارسس نظم کی صورت میں کیا جس کے باعث وہ مسرت و شادمانی کی بازیافت میں کامیاب ہوا لیکن پھر بھی وہ اپنے ادبی رفقا کے لیے احساسِ ممنونیت رکھتا تھا کہ وہ اس خوبصورت نظم کی تخلیق کا سبب بنے یوں اس المیاتی طرز کے افسانے کا فرحت آمیز اختتام ہوا یہ افسانہ اردو کے المیہ مگر رجائیت آمیز افسانوی ادب کا نمائندہ ہے۔

افسانے کا آغاز غیر روایتی انداز میں ہوتا ہے یہ افسانہ اپنی تمام تر جزئیات کے جلو میں سفر کرتا ہے کوچ میں بیٹھے ہوئے مناظر کا آنکھوں سے تیزی سے گزرنا اور اس معاملے کا زندگی کے دیگر وقوعات سے ایک تمثیلی رشتہ قائم کرنا افسانے کے مرکزی کردار کے داخلی احساسات کی جزئیات اس کی شاعرانہ وجاہت کا بیان،  سفر کی روداد کو نظم کرنے کا خیال ،  موبائل ٹون کی خلل انگیزی پھر اس کا تھوڑی دیر کے لئے موبائل فون کو کوسنا اس کی ضرر رسائی کا احساس،  موبائل فون کی عدم موجودگی کی عافیت،  لاری اڈے سے چمکتی ہوئی بڑی سفید کار کا موصوف کے لئے محوِ انتظار ہونا پھر پروگرام میں اس پر دادو تحسین،  اختتامِ محفل پر حاضرین کا آٹو گراف لینا،  شاعر مذکور کو اپنی محبوبہ کا خیال آنا اور اس کی یہ خواہش کہ وہ اس کی قدرو منزلت کو ملاحظہ کرتی تو اس سے رشتہ ازدواج استوار کرنے کے سلسلے میں اعراض نہ برتتی پھر اس خیال کو اس حقیقت پسندی سے جھٹک دینا کہ وقیع اور گراں قدر الفاظ بھوکے انسان کا پیٹ نہیں بھرتے پھر اس کے احباب کا اسے اپنے ہاں رات ٹھہرانے سے انکار کرنا اپنے گھر اور بیگم کے حوالے سے مختلف النوع بیانات صادر فرمانا۔ پھر اس کا سستے ہوٹل کیبیرے کا مخصوص اندازِ تکلم، سادہ کاغذ کی فراہمی سے انکار پھر موصوف کا ایک شاندار نظم تخلیق کرنے کے بعد کتھارسس کے باعث اپنے آپ کو پر اطمینان اور شانت محسوس کرنا یہ جملہ معاملات جلیلؔ حیدر کی افسانوں جزئیات نگاری فکری و فنی بالیدگی،  افسانے کے فن پر دسترس اور ان کے عمیق حسیاتی شعور کے واضح اور روشن امکانات ہیں افسانوی لحاظ سے ان کے درخشاں مستقبل کی نوید دینا قرینِ فطرت ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

حمیدہ سحرؔ کی افسانہ نگاری…  حقیقی زندگی کے تناظر میں

 

 

افسانے کی کامیابی حیات کی مشابہت و مماثلت سے عبارت ہے جو افسانہ جتنا ترجمانِ زیست ہو گا وہ اتنا ہی کامیاب و کامران ہو گا جو افسانہ نگار اپنے عصر اور معاشرے کی اپنے افسانے میں بہتر تصویر کشی کرتا ہے وہ زندۂ جاوید ہوتا ہے آج ہم حمیدہ سحر کی افسانہ نگاری کے حوالے سے رقمطراز ہیں ان کا افسانوی مجموعہ ’’سحر انگیز افسانے‘‘ مطبوعہ جنوری 2014ء ہمارے زیر نظر ہے جس میں کل بیس افسانے شامل ہیں اس سے قبل کہ ہم ان کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کریں ان کے افسانوں کے حوالے سے اربابِ نقد و نظر کی آراء پیش کرنا بھی ضروری خیال کرتے ہیں۔

معروف شاعر اور نقاد ڈاکٹر اختر ہاشمی حمیدہ سحر کی افسانہ نگاری کے حوالے سے یوں لکھتے ہیں۔

’’حمیدہ سحر کے افسانے اس دور،  اس سماج اور موجودہ معاشرے کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں ان کی نظر حالاتِ حاضرہ پر مرکوز ہے اور وہ عمیق نظری سے اپنے ارد گرد کا مشاہدہ کر رہی ہیں اور وہ اپنے انہی مشاہدات کو اپنے افسانوں کا موضوع بناتی ہیں اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے قرب و جوار میں رونما ہونے والے واقعات سے باخبر اور ذرائع ابلاغِ عامہ سے منسلک ہیں۔

شاعر و ادیب اور افسانہ نگار شاعر علی شاعرؔ نے کچھ یوں اظہارِ خیال کیا ہے۔

’’وہ اپنے افسانوں کا مرکزی خیال اپنے ارد گرد معاشرے میں پھیلے ہوئے موضوعات کو بناتی ہیں انہیں نہ صرف کہانی بیان کرنے کا سلیقہ آتا ہے بلکہ وہ کہانی کو افسانوی رنگ دینے کے ہنر سے بھی اچھی طرح واقف ہیں ان کے ’’سحر انگیز افسانے‘‘ قارئین کو ضرور متاثر کریں گے۔

مشہور ڈرامہ نگار امتیاز علی تاج کہتے ہیں۔

’’ایک ایمان دار سرکاری نوکر کی مجبوریاں اور فرض شناسی کا قصہ ہو یا ایک عورت کے گھریلو جھگڑے کی کہانی ہو وہ کسی دفتر کا منظر نامہ ہو یا کسی گاؤں کی چوپال کا افسانہ ان کا قلم ہر کردار کے ساتھ انصاف کرتا ہے منظر کشی اور کہانی کی بنت بہت سلیقے اور مہارت سے کی گئی ہے۔

ان کے چار افسانوں کے حوالے سے اپنے تجزیات پیش کرتے ہیں جو کتابِ مذکور کا خمس اوّل قرار پاتا ہے۔

’’ناسور‘‘ کتاب ہذا کا اولین افسانہ ہے جس میں ایک معمولی دفتری اہل کار کی کتھا بیان کی گئی ہے جس کی مدتِ ملازمت ختم ہونے کے قریب ہے جس کی چار بیٹیوں کی ابھی شادی ہونی ہے جو ملازمت میں توسیع کا خواہاں ہے لیکن افسرِ بالا رشوت کے بغیر آمادۂ کار نہیں ہے بیگم کی طرف سے بھی اسے جلی کٹی باتیں سنائی جاتی ہیں وہ مسائل کی ایک طویل داستان ایک سانس میں سنادیتی ہے بالآخر وہ رشوت دینے پر مجبور ہو جاتا ہے اس طرح اس افسانے کا  پُراسرار اختتام ہو جاتا ہے یہ ایک کلائمکس نوعیت کا افسانہ ہے جس میں درمیانے اور سفید پوش طبقے کی عکاسی کی گئی ہے اس کی مجبوریوں اور مصائب و آلام کا بھر پور بیان ہے رشوت کے تناظر میں افسانے کا نام ’’ناسور‘‘ بھی خوب جچ رہا ہے۔

’’طوائف‘‘ کتابِ مذکور کا دوسرا افسانہ ہے جس کے مطالعہ سے ایک طوائف کی زندگی پر روشنی پڑتی ہے جس سے اس طبقہ کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اس افسانے میں ایک طوائف کے تمام تر دکھ درد پنہا ں ہیں جس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ دوسروں کے لئے تفریح طبع کا سامان کرنے والے خود کتنی رنجیدہ زندگی بسر کرتے ہیں ؟

’’سدِباب‘‘ اس افسانوں مجموعے کا تیسرا افسانہ ہے جو اگرچہ رومانوی طرز کا افسانہ ہے لیکن اس میں زیست کے تمام تر نشیب و فراز چھپے ہیں جو حیات کی تلخ و شیریں روداد پیش کرتے ہیں جس سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ زندگی کی تلخ حقیقتیں جیون کی رونق و رعنائی کو کس طرح معدوم کر دیتی ہیں اس افسانے میں ہمارے معاشرے میں موجود جو جنسی بے راہروی یا بے اعتدالی پائی جاتی ہے خوبصورت غمازی کی گئی ہے جس سے ازدواجی زندگی کے حسن و قبح کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔

’’محبت‘‘ سحر انگیز افسانے‘‘ کے سلسلے کا چوتھا افسانہ ہے جہاں معاشرے کے غریب طبقے کی مجبوریوں کو مشاہدہ کیا جا سکتا ہے یہ امر بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے کہ انسان عمر بھر اپنی ذمہ داریوں سے اعراض نہیں برت سکتا اس افسانے میں ایک عورت کی اعلیٰ ظرفی بھی دیکھی جا سکتی ہے جس نے اپنی ہمت کے بل بوتے پر نہ صرف زندگی گزاری بلکہ گھر اور بچوں کی ذمہ داریوں کو نبھایا معاشرے میں ایک معزز حیثیت حاصل کی پھر اپنے شوہر کو بھی ناگفتہ بہ حالت میں قبول کر لیا جس سے رشتوں کی اہمیت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔

ابھی حمیدہ سحرؔ کے افسانوی سفر کا نقطۂ آغاز ہے جو حوصلہ افزا ہے لیکن ابھی ان کے افسانے کو لسانی اور فنی چابکدستی مطلوب ہے انہیں افسانے کے پلاٹ پر خاطر خواہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ فنی گرفت کا حصول سہل تر ہو جائے اگر ان کا یہ سفر اسی انہماک سے جاری رہا تو مستقبل میں ان کے افسانے سے بہتر توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

خادمؔ عظیم آبادی کا قرینہ حمد و نعت

 

خالقِ ارض و سما کا خصوصی لطف و کرم اور نگاہِ استحسان ہے کہ اقلیمِ شعر و سخن حمدو نعت کے جواہر پاروں سے مالا مال ہے ہمارا شعری ادب حمدو نعت کی مضبوط و مستحکم اور تندرست و توانا شعری روایت کا امین ہے حبِ  خدا اور حب رسول اس سلسلے کا ایک تلازمہ ہے مذہبیات کا مطالعہ اور عمیق ادراک بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے یہ عمل گہری احتیاط کا متقاضی ہوتا ہے۔

آج کے شذرے میں ہم خادمؔ عظیم آبادی کے حمد و نعت کے مجموعہ ’’نورِ سحر ‘‘ مطبوعہ 2011ء کے تناظر میں ان کا منتخب حمدیہ و نعتیہ کلام سلسلہ وار زیر تجزیہ لائیں گے یہ فن ایک بے انت ریاضت کا طلبگار ہوتا ہے ویسے تو ہر شاعر اس حوالے سے کچھ نہ کچھ لکھ لیتا ہے لیکن جب کوئی دین کا شغف رکھنے والا اور پابندِ صوم و صلوٰۃ اس تخلیقی عمل سے گزرتا ہے تو اس کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا ہے جس میں وفورِ  عقیدت و الفت کے احساسات جلوہ افروز ہوتے ہیں خادمؔ عظیم آبادی کا فن حمد و نعت ہمہ پہلو و ہمہ گیر ہے ان کے ہاں موضوعاتی و اصنافی تنوع بھی ضوپاشیاں کر رہا ہے ان کے کلام میں عربی و فارسی اور کہیں ہندی لفظیات کا چلن بھی جلوہ گری کر رہا ہے حمدو نعت کاسلیقہ صرف الفاظ کی شعبدہ بازی یا صرف افکار کا گورکھ دھندا نہیں بلکہ خلوص اور لگن شرطِ اوّل ہے منفرد شعری وجدان، صنائع بدائع، رموز و وقائع اور عروضی محاسن کی پاسداری بھی فنی تقاضوں میں شامل ہے جو ان کے فکری و فنی کینوس کا حصہ ہے۔

ان کی کچھ حمدیات و نظمیات و مناجات قرآنی تعلیمات سے ماخوذ ہیں کہیں عقیدت کا رنگ ہے تو کہیں محبت کا طرز کہیں آموز گاری کا طور ہے تو کہیں ملت پہ غور اس کے علاوہ  کہیں حب الوطنی کا عکس بھی غالب آجاتا ہے کہیں اللہ تعالیٰ کی صفات کی جلوہ گری کے حوالے ہیں تو کہیں اس کی قدرتِ کا ملہ کی کرشمہ کاریوں کا اظہارِ پر وقار ہے کہیں محوِ مناجات ہیں تو ان کا طرزِ استدعا عاجزی و انکساری کا حامل ہے مانگنے کا رنگ ایسا ہے کہ بخشنے والا مائل بہ عطا ہو جائے اور احساسِ سپاس گزاری کا وفور بھی ہے۔

احساسِ سپاس گزاری کی حامل ایک حمد کے چند اشعار ہدیۂ قارئین ہیں۔

ہم نہ کر پائیں گے جب اپنے گناہوں کا شمار

کام آئے گی عزیز و اس کی رحمت بار بار

کوئی اندازہ نہیں انساں کو رب کے فیض کا

ہے وہی مالک فقط اور ہے وہی با اختیار

کیسی کیسی نعمتیں کر دیں عطا اس نے ہمیں

مالکِ ارض سما پہ کر دیں اپنی جاں نثار

نعمتیں ایسی کہ جن کا کچھ بدل ممکن نہیں

شکرِ رب کے سجدے کرو تاکہ کرے رب تم سے پیار

کاش کچھ اعمال ہوں ایسے کہ مولا روزِ حشر

ہو تری چشمِ کرم ہو جائے نیّا میری پار

یہ ایک غیر مردَّف حمد ہے ردیف کے تکلف سے مبرّا و بے نیاز ہے۔ اس میں ان کی سوچ کے مختلف زاویئے سامنے آتے ہیں لا تعداد گناہوں کا اعتراف بھی ہے اور مالک قدوس کی بے پایاں رحمت کا اظہار بھی ہے کہ انسان رب کے فیض کا اندازہ نہیں کرسکتا کیونکہ اس کا لطف و کرم بعید از شمار ہے اس نے ہمیں طرح طرح کی نعمتیں ودیعت فرمائیں ہمارا حق یہ ہے کہ اس زمین و آسمان کے مالک پر اپنی جاں نثار کر دیں یہ ایک ایسا حق ہے جو جاں نثار کرنے سے بھی پورا نہیں ہوتا بقولِ شاعر۔

جان دی دی ہوئی اسی کی تھی

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

یہ شعور بھی کار فرما ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کوئی نعم البدل نہیں ہے ساتھ ہی دعوتِ عمل بھی دے دی گئی ہے آخر میں ایک حسرت کا بیان بھی ہے اس کی چشم کرم سے اپنی نیا پار کرنے کی امید بھی ہے۔

ان کے بیان میں سادگی و سلاست جاذبیت و لطف آفرینی ہے جو قاری کو اپنے سحر میں لے لیتی ہے اس پر وجد طاری ہو جاتا ہے قاری کو سر سری گزر جانے یا اعراض برتنے کی جسارت نہیں ہوتی۔

ایک اور حمد کا مطلع اور ایک شعر لائقِ توجہ ہے۔

اشکوں سے جو لبریز مرا دیدۂ تر ہے

اس میں بھی مرے رب کی محبت کا اثر ہے

وہ کون سی شئے ہے جو ترے گن نہیں گاتی

کرنوں کے بھی ہونٹوں پہ ثناء وقتِ سحر ہے

روحِ کل جو خدا کی روح ہے اور روحِ جز انسان کی روح ہے یوم الست میں ارواح کو ملن میسر آیا تھا اس کے بعد انسان کی روح فرقت کی اذیت سے دوچار ہے روحِ جز روحِ کل سے ملنے کو بے قرار ہے اس لیئے سالک کی آنکھ فرقت میں نمناک رہتی ہے یہی روداد اس حمد کے مطلع میں موجزن ہے وہ کہتے ہیں کہ مرا دیدۂ تر اشکوں سے لبریز ہے جو مرے محبوبِ حقیقی کی محبت کا اثر ہے عالمِ ہجراں میں سیلِ گریہ بھی پیار کی نشانی ہے دوسرے شعر میں ایک قرآنی آیت کے مفہوم کی ترجمانی ہے کہ کائنات کی ہر چیز خالقِ کائنات کے گن گاتی ہے تسبیح کرتی ہے کرنوں کے ہونٹ کے بھی وقتِ سحر محوِ ثناء ہوتے ہیں دوسرے شعر کا دوسرا مصرع ایک اسلو بیاتی جدت کا مظہر ہے اور فکر کی کرشمہ کاری بھی ہے۔

لیجئے حمد کے دو اور عقیدت آمیز اشعار لائق توجہ ہیں۔

کھل رہا ہے ہر چمن میں اس کی عظمت کا گلاب

نور سے معمور ہے خوش رنگ و حدت کا گلاب

لکھ رہا ہوں حمد تیری نور ہے چاروں طرف

اس عمل سے بام پر ہے میری قسمت کا گلاب

خادمؔ عظیم آبادی کے ہاں اسلامی تعلیمات و نظر یات اپنے پورے کروفر کے ساتھ جلوہ نما ہیں شاعرِ موصوف کو ہر کہیں اپنے محبوبِ حقیقی کی صورت جلوہ گر نظر آتی ہے جیسے میرؔ درد نے کہا تھا۔

جگ میں آ کر اِدھر اُدھر دیکھا

تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

مطلع میں جہاں ان کو ہر جگہ قدرت اپنے درشن کرا رہی ہے، وہاں فطرت کی عظمت کے گلاب بھی چشمِ بصیرت کو فروزاں کر رہے ہیں توحید کا گلاب انہیں نور سے معمور اور خوش رنگ و خوش نما نظر آتا ہے اس پوری حمد میں گلاب کی ردیف کی نادرہ کاری ایک دلکشی پیدا کر رہی ہے شعرِ ثانی میں وہ حمد نگاری کی برکات و فیوض کا ذکر کر رہے ہیں اور اس سعادت کی بدولت اپنی قسمت کے گلاب کو بام پر دیکھتے ہیں۔

ایک اور مقطع دیکھئے۔

اسمِ خدا ہے خادمؔ سب سے بڑا سہارا

مشکل کشا وہی ہے بندہ نواز بھی ہے

شاعر زمینی سہاروں کا بطلان کر رہا ہے اور حقیقی سہارے کو آشکار کر رہا ہے کیونکہ وہی مشکلیں آسان کرتا ہے اور وہی انسان کو اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے جیسے راقم الحروف کا ایک مقطع ہے۔

سہارے یہ سب عارضی سے ہیں ناقدؔ

سہارا ہے اک ان سہاروں سے آگے

حمد کا ایک اور شعر ملاحظہ ہو

مشہور ہے سخاوت حاتم طائی جہاں میں

اس کو بھی ہے عطا تیری وہ بے اختیار ہے

شعرِ ہٰذا ایک تلمیحی حوالے کا حامل ہے حاتم طائی کی سخاوت کے قصے تاریخ میں بہت مشہور ہیں شاعر یوں عرض پر داز ہے کہ اس کی سخاوت بھی بے اختیار ہے اس کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب تیری عطا ہے خادمؔ عظیم آبادی کا ایک اور وصفِ خاص ہے کہ وہ اسلامی تہذیب و تمدن کا گہرا ادراک رکھتے ہیں اور اس کے خد و خال اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ شعر بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ان کی حمد کے اکثر و بیشتر اشعار میں خدائی صفات کا بیان ذیشان ہوتا ہے یہاں بھی قادرِ مطلق کی صفتِ سخاوت کو اجاگر کیا گیا ہے۔

ایک اور شعر دعوتِ تبصرہ دے رہا ہے۔

عالمِ ہست و بود میں تیرے وجود کا ظہور

اپنی سمجھ سے ماورا، تیرے لیئے وہ ممکنات

ان کی حمدیات میں فارسی الفاظ کا چلن بھی عام ہے ان کے حمدیہ اشعار میں ہمہ اوست اور ہمہ ازاوست دونوں نظرئیے کار فرما ہیں وہ اپنے اشعار کو مختلف فکری پیرہن عطا کرتے ہیں اس شعر میں یوں گویا ہیں کہ دونوں عالم میں اے خدا تیرے وجود کا ظہور ہے اور یہ امر اپنی سمجھ سے بالا تر ہے جسے ہم سمجھ نہ پائیں جو ہمارے لیے مشکل ہو وہ تیری ذاتِ با بر کات کے لیے بہت آسان ہے۔

اب ان کا رنگِ استدعادیکھتے ہیں۔

امن و اماں آئے وطن میں مرے کریم

اب اس کے دشمنوں کا کہیں بھی نشاں نہ ہو

یہاں وہ محو مناجات ہیں اور پاک دھرتی کے لیے دعا کر رہے ہیں کہ میرے وطن کو امن و امان کا گہوارہ بنا اور اس کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دے ان کی حمد میں ایسے موضوعات جن کا تعلق براہ راست خدا یا بالواسطہ طور پر خدا کی ذات سے ہو وفور سے پائے جاتے ہیں ان کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جو حب الوطنی کا مظہر ہیں۔

اب ذرا ان کے نعتیہ اشعار زیر تجزیہ لاتے ہیں ان کی نعت حبِ رسولؐ کا مظہرِ عالیہ ہے جس میں نبی آخر الزماں کی صفات کا بیان ہے اور سیرتِ طیبہ کے حوالے بھی شامل ہیں۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ جس نے سیرت النبیؐ کا مطالعہ اختصار و جامعیت کے ساتھ کرنا ہو وہ خادمؔ عظیم آبادی کی نعت زیر مطالعہ لائے ان کے دروں میں حبِ رسول کا بحرِ بیکراں ہے جو قاری کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے ان کی نعت میں بے پناہ فکری و سعت پائی جاتی ہے اسی حوالے کا ایک شعر دیکھتے ہیں۔

جب بھی لکھیں گے وصفِ نبی پر کتاب ہم

قرطاس کم پڑیں گے ضخامت نہ پوچھیے

درود پاک ایک ایسی فضیلت کا حامل ہے جس کے پڑھنے سے مشکل کام آسان ہو جاتے ہیں اگر کسی کام کے آغاز سے پہلے پڑھ لیا جائے اور انسان صاحب عقیدت بھی ہو تو اسے ضرور کامیابی ہوتی ہے خود خدا کی ذات بھی آپ کی ذات پر درود بھیجتی ہے یہ محبت کا ایک سلیقہ ہے جس کے پڑھنے سے دونوں جہانوں کے مرحلے آسان ہو جاتے ہیں اسی نوعیت کا یہ شعر دیکھیں۔

جو کام بھی کیا تو پڑھا پہلے ہی درود

اس سے جہاں کے مرحلے آسان ہو گئے

خادمؔ عظیم آبادی کے افکارِ اقبالؔ سے بھی مما ثلت رکھتے ہیں مذکورین اتحادو اتفاق کا درس دیتے ہیں اور مسلمانوں میں یگانگت کے خواہاں ہیں کہ موافقت و موانست کی وہ فضا قائم ہو جس کی عملی تصویر سرورِ کو نین کے عہد میں دیکھنے کو ملی ان کی یہی خواہش اس شعر میں یوں جلوہ گر ہو رہی ہے۔

ایک ہو جائیں مسلماں کاش ہم ایسا کریں

پھر سے ملت آپ کی زندہ و تابندہ کریں

وہ ایک دردمند دل رکھنے والے انسان ہیں وہ سنتوں کا فروغ چاہتے ہیں سنت کے خلاف انہیں کچھ بھی گوارا نہیں ہے ان کی حساسیت کو قلق پہنچتا ہے جب وہ سماج میں سنن کی خلاف ورزیاں ملاحظہ کرتے ہیں پھر وہ مجبور بیاں ہو جاتے ہیں کہ ہمارے دعوے کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں ہم کہاں با کردار ہیں ہمارے کردار داغدار ہیں۔ امت کا یہ غم انہیں چبھن کی طرح محسوس ہوتا ہے فرقہ بندی کے خلاف ہیں اور کہتے ہیں کہ اتنے فرقوں میں بٹنے کے باوجود بھی ہم شاداں و فرحاں ہیں جو ہماری بے راہ روی کی مبینہ دلیل ہے انہیں خیالات کو ان کی زبانی دیکھیں اور ان کی اسلو بیاتی سادگی کا حظ اٹھائیں۔

کتنی باتیں مختلف ہیں آپ کی سنت سے آج

پھر بھی دعویٰ ہے ہمارا کتنے با کردار ہیں ؟

اک ستم امت میں یہ بھی ہو گیا ہے آج کل

فرقوں فرقوں میں بٹے ہیں اور سب سرشار ہیں

وادیِ بطحا و طیبہ میں جہاں دیگر متفرقات ہیں وہاں ایک بہت بڑا فرق لوگوں کے روئیوں کا ہے مکہ کے لوگ سخت مزاج کے حامل ہیں کیونکہ خداوند کی صفت قہاری و جباری کا معمولی حصہ انہیں ودیعت ہوا ہے جب کہ رحمت العالمین کے شہر مدینہ کے لوگ انتہائی نرم دل اور خلوص کی دولت سے مالا مال ہیں یہ سب ہمارے نبی کی رحمت کا فیضان ہے جس پہ جہاں حیران ہے یہی منظر اسی شعر میں بھی جلوہ نما ہو رہا ہے۔

کتنے سادہ لوگ ہیں شہر محمد میں مقیم

بات میں نرمی ہے سب کے یہ کر م آقا کا ہے

القصہ مختصر خادمؔ عظیم آبادی کی حمد و نعت منفرد شعری مزاج اور معیار کی حامل ہے جس میں سلاست و روانی بھی ہے اور عروضی تقاضے بھی احسن طریقے سے پورے کیے گئے ہیں تاثیر کی دولت بھی بے پایاں ہے خلوص کا بحر بیکراں ہے عقیدت کی زور دار موجیں ہیں ادراکات کی بے شمار کرنیں ہیں جو انسانی بصیرت کو مہمیز کرنے پر قادر ہیں وہ اقبال کے فکری مقلد ہیں جو کام اقبال نے اپنی غزلوں اور نظموں سے لیا وہی مقصد خادم عظیم آبادی نے اپنی حمد و نعت سے پورا کرنا چاہا جس میں وہ کامیاب ہوتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں وہ ملتِ اسلامیہ کا عمیق درد رکھتے ہیں اور اس دکھ درد کو ذاتی دکھ درد سے فزوں تر جانتے ہیں دعا ہے ان کی کاوشیں زاد راہ ٹھہریں اور ان کا یہ سفرِ سعادت تا حیات جاری و ساری رہے۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

 

دُردانہ نوشین خان کی برجستہ افسانہ نگاری

 

 

خالقِ کائنات، موجودات و معدومات نے اپنی تمام ارضی و سماوی تخلیقات کو حسین و جمیل خلق فرمایا۔ اس نے اپنی ہر تخلیق میں کچھ خواص رکھ دیئے۔ حضرتِ انسان کو اس سنسار کا شاہکار قرار دیا گیا۔ روئے ارضی پر اسے کلیدی حیثیت حاصل ہے اور اسے تمام تر فطری حسیات سے بھی نوازا گیا۔ نہ صرف اپنے ادراکات کا کھوج لگاتا ہے بلکہ ادراکاتی فروغ کا التزام و انصرام و استخدام بھی کرتا ہے۔ اگر یہ عمل فطری اور بے تکلفانہ انداز میں وقوع پذیر ہو تو اس کی اہمیت و فوقیت اور افادیت و مقبولیت مسلمہ و مصدقہ ہوتی ہے۔ اپنے اس انتقادی شذرے میں ہم معروف افسانہ نگار دردانہ نوشین خان کے حوالے سے رقمطراز ہیں جو مذکورہ خصائص سے متصف ہیں۔ جن کے سوانحی کوائف اختصار و جامعیت کے پیرائے میں سپردِ قرطاس ہیں۔

دردانہ نوشین خان کی پیدائش مظفر گڑھ میں ہوئی جو علمی و ادبی اعتبار سے ایک زرخیز خطۂ ارضی ہے، جس نے شعرو ادب کی مہان ادبی شخصیات کو جنم دیا۔ ان کے والدِ گرامی کا نام غلام محمد خان،  قلندرانی بلوچ (مرحوم) ہے جن کی رسمی تعلیم بی اے تھی اور محکمہ انہار سے وابستگی تھی۔ دردانہ نوشین خان نے ابتدائی تعلیمی مدارج مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی میں ہی طے کئے۔ گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ سے بی اے اور بی ایڈ کیا۔ انگریزی ادبیات اور سیاسیات میں پوسٹ گریجویٹ کیا۔ علاقہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ٹی او ایف ایل کا امتحان پاس کیا۔ کچھ عرصہ ماہرِ مضمون کے عہدہ پر بھی فائز رہیں۔ درویش منشِ طبع کے باعث ملازمت ترک کر دی۔ لیل و نہار کا مصرف یادِ الٰہی اور خامہ و قرطاس کی خدمت کو بنایا۔ ان کے شام و سحر ادب کی سیوا کے حوالے سے جنون کی حد تک غماز ہیں۔ 2005ء میں سعادتِ حج بیت اللہ بھی حاصل کر چکی ہیں۔ ان کے شوہر ارشد حفیظ مخدوم پیشۂ بینکاری سے وابستہ ہیں اور ایک اعلیٰ عہدیدار کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں جو ان کے ادبی معاملات میں معاون و مدد گار ہیں۔ ان کا ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔ لکھنے کا آغاز ماہنامہ ’’دوشیزہ ‘ ڈائجسٹ سے کیا اور انہیں مختلف اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ ان کی چار کتب مطبوعہ ہیں ، جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:

۱۔         پہلا زینہ            (افسانے)                    مطبوعہ 2002ء

۲۔        اندر جال           (ناول)             مطبوعہ 2007ء

۳۔        ریت میں ناؤ       (افسانے)        مطبوعہ 2010ء

۴۔        پھولوں کی رفوگری          (نثری نظمیں ) مطبوعہ 2013ء

ابھی تک ان کی چار وقیع اور گراں قدر کتب منصہ شہود پر آ چکی ہیں۔ تاہم مزید تخلیقی ارتقا سبک روی سے رو بہ منزل ہے۔ دردانہ نوشین خان بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں ، لیکن انہوں نے ناول اور نثری نظم کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر بھی دکھائے ہیں۔

دردانہ نوشین خان کے اجتماعی تخلیقی کار ناموں کے حوالے سے خامہ فرسائی کے لئے تو دفتروں کے دفتر درکار ہیں۔ تاہم ’’مشتے از خوروارے‘‘ کے بمصداق ان کے دوسرے افسانوی مجموعہ ’’ریت میں ناؤ‘‘ مطبوعہ جون 2010ء کو زیرِ تجزیہ لاتے ہیں۔

مجموعہ ہٰذا کے حوالے سے معروف نقاد ڈاکٹر رشید امجد کچھ یوں رقمطراز ہیں :

’’دردانہ نوشین خان کی افسانوں کی قرأت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گھریلو زندگی کے چھوٹے چھوٹے روئیوں کو گرفت میں لا کر ہنر مندی سے کہانی کی تعمیر کرتی ہیں۔ وہ کہانی کی تعمیر کرتے وقت جہاں زندگی کی ٹھوس حقیقتوں میں پیوست رہتی ہیں ، وہاں کرداروں کے ذریعے قاری کے ذہنوں پر دستک دیتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان کی اپنے کرداروں کے ذہنی مطالعہ پر گرفت اس قدر مضبوط ہوتی ہے، اس عمارت کی فضا میں سانس لینے والے کو قطعی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی بلکہ خود کو عمارت کا حصہ سمجھتا ہے۔ ‘‘

دردانہ نوشین خان کا افسانہ اظہار کی برجستگی و بے ساختگی ،  بے تکلفی اور فطری پن سے مربوط ہے جو زیست کا جزئیاتی مطالعہ پیش کرتا ہے، وہ حیات کی چھوٹی چھوٹی جزئیات کو افسانے کا حصہ بناتی ہیں جس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ حقیقی زندگی کا عمیق ادراک رکھتی ہیں اور ہر جزو کو نظری عمق سے ملاحظہ کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں گیرائی و گہرائی کے فلسفے کار فرما نظر آتے ہیں۔ وہ حیات کی معمولی حقیقتوں سے اپنے افسانوی حسن کو آشکار کرتی ہیں۔ ان کی افسانوی فضا میں ایک جزئیاتی مرصع کاری کار گر نظر آتی ہے۔

ان کا افسانہ عصری روئیوں کا بھر پور غماز ہے جس میں عہدِ موجود کی واضح اور نمایاں جھلک محسوس کی جا سکتی ہے۔ ان کی افسانہ نگاری عصری رجحانات و میلانات سے ہم آہنگ بھی ہے، وہ اپنے افسانے کے توسط سے اپنے عہد کو بھر پور انداز میں متاثر کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں جو ان کی کامیابی کی دلیل ہے۔

انتقادی اکائی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور قارئین کی طبعِ نازک کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے تاکہ ان پر طوالتِ شذرہ گراں بار ثابت نہ ہو۔ مجموعہ ہٰذا کے دو افسانوں کو شاملِ تجزیہ کرتے ہیں اور ایک استخراجی عمل کے نتیجے میں ان کی افسانہ نگاری کی تصویر کشی کی سعیِ بلیغ کرتے ہیں۔ ان کا افسانہ ’’ سرخ گلاب کے دن‘‘ اور ’’ صافی‘‘ اور ’’ رومال‘‘ شاملِ تجزیہ کرتے ہیں۔

’’ریت میں ناؤ‘‘ میں کل انیس افسانے شامل ہیں۔ ’’سرخ گلاب کے دن‘‘ کتاب کی ترتیب کے اعتبار سے دسواں افسانہ ہے جس کا آغاز غیر روایتی طور پر پند و موعظت کے انداز میں ہوا ہے جس میں تنبیہاتی واژ گونی و سنگینی بھی پائی جاتی ہے۔ اس افسانے میں طبعِ انسان کی ایک فطری سچائی کو موضوع بحث بنایا گیا ہے جو ایک تلخ حقیقت کا درجہ رکھتی ہے کہ انسان صرف اپنی ذات سے محبت کرتا ہے اور اس کی تمام تر محبتیں اسی احساس کے گرد گھومتی ہیں۔ اس افسانے میں دردانہ کی اظہاری بے تکلفی اور برجستگی کھل کر سامنے آئی ہے۔ ان کا اسلوب ہر نوع کے تصنع و تکلف سے مبر او ماورا ہے۔ اسلوبیاتی اشتہاد کے طور پر ان کے اس افسانے کا ایک اقتباس نذرِ قارئین ہے۔

’’آئی لو…آئی…لو …بٹ اونلی مائی سیلف، سن لیا تم نے؟ ہاں یہی ایک فطری سچائی ہے۔ انسان،  حیوان ہر جاندار اپنے آپ سے پیار کرتا ہے حالانکہ پیکرِ خاکی کی ساری دوڑ اپنے آپ کے محور پر ہوتی ہے۔ ذات سے انخلا اس کی کیمسٹری میں ہی نہیں ، ارے کوئی مہان دیوتا تھا جس نے یہ قول دیا کہ اپنی ذات عشق سے سچا باقی سب افسانے ہیں۔ ‘‘

’’صافی او رومال‘‘ بلحاظِ ترتیبِ کتاب گیارہواں افسانہ ہے جو ایک گھریلو اور مضافاتی معاشرت کی عکاسی کرتا ہے، جس میں گھر گرہستی کے ادراکات بھی مبینہ طور پر مطالعہ کئے جا سکتے ہیں۔ افسانے کا عنوان اس کے موضوع کے اعتبار سے خوب جچ رہا ہے جس میں ایک گھریلو اور مضافاتی خاتون کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے جس کا ’’صافی‘‘ کو ’’ رومال‘‘ بنانا، اس کی کثرتِ مصروفیت کا عکاس ہے۔ یہ ایک کلائمکس اور بیانیہ طرز کا عمدہ افسانہ ہے، اگر ان کے افسانوں کا ارتقا فرطِ تسلسل سے رو بہ جادۂ منزل رہا تو افسانوی دنیا میں اپنی نمایاں شناخت بنانے کے عمل میں کامیاب و کامران ٹھہریں گے۔

٭٭٭

 

 

 

ذوالفقارؔ گادھی کی خارجیت آمیز شاعری

 

 

مرورِ اّیام کے ساتھ ساتھ انسانی فراست و ذکاوت بھی محوِ ارتقاء رہی۔ انسان صدیوں کی مسافت طے کرنے کے بعد آج اس مقام پر کھڑا ہے۔ اس لئے اس کا دماغ و شعور تجربات و مشاہدات کا ایک گراں قدر مخزن رکھتا ہے۔ اس نے افکار و نظریات کے ابلاغ کے لئے اظہار کے مختلف پیرائے دریافت کیے ان ذرائع میں ایک معتبر پیرایۂ اظہار شاعری بھی ہے جو اثر آفرینی کے خصائص سے مالا مال ہونے کے باعث درجۂ قبولیت پر فائز ہے جس طرح ہر شعبۂ حیات ترقی کے مختلف مدارج سے گزرتا ہے پھر اس میں جدت و تنوع کے مظاہر آشکار ہونا شروع ہو جاتے ہیں پھر اس میں ایک درجہ بندی کا مقام آتا ہے۔ اسے مختلف حصوں میں منقسم کیا جاتا ہے یہی معاملہ فنِ شاعری کا ہے جسے ہئیتوں اور موضوعات کے دائروں میں رکھا جا سکتا ہے شعری پیرایۂ اظہار کو داخلی او ر خارجی اظہار سے موسوم کیا گیا ہے شاعر کے درونِ ذات کے جذبات و احساسات اور خیالات داخلیت سے متعلق ہوتے ہیں جب کہ خارج سے علاقہ رکھنے والے معاملات و تخیلات خارجیت سے نسبت رکھتے ہیں ہر شاعر کا اپنا مخصوص زاویۂ اظہار ہوتا ہے کوئی داخلیت پر دستگاہ رکھتا ہے تو کوئی خارجیت میں یدِ طولیٰ رکھتا ہے آج ہم ذوالفقار گادھی کی سخن سنجی کے حوالے سے رقمطراز ہیں جن کے کلام میں خارجیت کے شواہد بکثرت ہیں ان کا اولین شعری مجموعہ ’’دریچہ بے صدا‘‘ مطبوعہ 2014ء ہمارے زیر نظر ہے۔

ان کے فکری کینوس پر حزن و ملال کا رنگ چھایا ہوا ہے وہ کائناتی مصائب و آلام کا مشاہدہ و مطالعہ کرتے ہیں جہاں میں رونقیں اور رعنائیاں انہیں معدوم نظر آتی ہیں شبِ ظلمت انہیں دراز محسوس ہوتی ہے لیکن رجائیت اور عزم و حوصلہ ان کے رگ رگ میں سرایت ہے اس لئے ان کے ہاں انقلاب آفریں درس ملتا ہے وہ جہدِ مسلسل کے قائل ہیں اس لئے افکار میں ایک شکتی نظر آتی ہے عصری آشوب کی تمثیلات پر زور اندازِ بیان کی حامل ہیں سماجی بے حسی کی ایک بازگشت سنائی دیتی ہے اخلاقی اقدار کی پامالی کا کرب عند البیان مترشح ہو رہا ہے یوں بالواسطہ طور پر مکارمِ اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں۔

ان کے موضوعات میں ایک تنوع اور تلّون کی فضا پائی جاتی ہے، مناظرِ فطرت سے لطف اندوز ہونے کی کیفیات بھی ملتی ہیں عصری روئیوں کا مذکور بھی دیدنی ہے حقیقت پسندی کے مظاہرے ان کی فکری بالیدگی پر دلالت کرتے ہیں زندگی کرنے کی آموزش بھی ان کے کلام کا حصہ ہے ان کی لفظیات میں ہندی بھاشا کی سُندرتا اور کو ملتا ہے شبدوں کی کرشمہ کاری ہے بہر حال ان کے شعری کینوس میں خارجی عوامل کی کرم فرمائی بخوبی ملاحظہ کی جا سکتی ہے ابھی انہوں نے جہانِ فن کے ہفت آسمان سر کرنے ہیں اگرچہ منزل بہت دور ہے لیکن ان کی شعری صلاحیتیں ان کی قوتِ متخیلہ کے نئے امکانات کا پتا دیتی ہیں۔

ان کے مذکورہ مجموعہ سے چند شعری استشہادات نذرِ قارئین ہیں   ؎

 

دور تک ہے دھواں ہی دھواں

چل سکو تو سحر تک چلو

 

روشنی کا نگر دور ہے

دور حدِ نظر تک چلو

 

وقت مرہم کہاں لگاتا ہے

زخم دیتا ہے بھول جاتا ہے

 

تو نے دیکھا ہے اپنے گرد کبھی

آدمی آدمی کو کھاتا ہے

 

اپنی مرضی چلانے آتے ہو

یا مجھے آزمانے آتے ہو

 

یہ بھی کیا بات ہے جو تم اکثر

اپنے احساں جتانے آتے ہو

 

کاغذی گلابوں میں سادگی نہیں ملتی

موسمی ہواؤں میں تازگی نہیں ملتی

 

ساز دھڑ کن کے تھم گئے ہیں اب

جینے والے تو کیا نہیں کرتے؟

 

دنیا والو اجاڑ کر ہم کو

ہاتھ افسوس کے ہو اب ملتے

 

کیوں پاٹ کروں نا گیتا کا

یہ گیتا پاک کویتا ہے

٭٭٭

 

 

 

رفیع الدین رازؔ اور ناقدانہ روئیے

 

تنقید کا خمیر انسان کی سرشت میں ہے اس لیے انسان جب بولنے کے عمل کا آغاز کرتا ہے تو اس کے تنقیدی رویئے بھی آشکار ہونا شروع ہو جاتے ہیں قبل ازیں خد و خال کے تیور اور اس کی حرکات و سکنات سے بھی اس کی تنقیدی سوچ کی غمازی ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ بچے بہت زیادہ ناقدانہ طرزِ فکر کے حامل ہوتے ہیں وہ اپنے والدین، اساتذہ، اپنے ساتھیوں اور اپنے اردگرد کو تنقیدی انداز میں دیکھتے ہیں اور ان کے روئیوں میں استفہامیہ اور استفساری اشاریئے وفور سے ملتے ہیں علاوہ ازیں حیوانات و حشرات اور کچھ دیگر مخلوقات میں بھی حسِ تنقید پائی جاتی ہے تنقید فکر کا وہ وصفِ خاص ہے جس نے اپنے لیے زندگی کے ان شعبوں اور موضوعات میں بھی گنجائش پیدا کر لی ہے جہاں ازمنۂ گزشتہ میں قرینِ قیاس نہیں تھی اس لیے ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ تنقیدی روئیوں کی اہمیت مسلمہ و مصدقہ ہے جو شخص نا قدانہ طرزِ فکر سے عاری ہے اس کی مثال ایک ایسے فرد سے دی جا سکتی ہے جس کی اپنی کوئی رائے نہ ہو۔ افکار میں انقلابی تغیر صرف ناقدانہ روئیوں کا مرہونِ منت ہے اب تو انسا ن نے فطرت اور رومان جیسے موضوعات کو بھی تنقیدی نقطۂ نگاہ سے دیکھنے کا عمل شروع کر دیا ہے اس وقت رفیع الدین رازؔ کا چوتھا شعری مجموعہ ’’اتنی تمازت کس لیے؟‘‘ مطبوعہ 2007ء ہمارے سامنے ہے جس کے بعد ان کی دو اور کتابیں نعتیہ مسدس ’’روشنی کے خدوخال‘‘ اور نظموں کا مجموعہ ’’ابھی دریا میں پانی ہے‘‘ منظر عام پر آئیں ان کے شعری کینوس میں ناقدرانہ روئیے فرطِ تسلسل سے ملتے ہیں جو ان کے ایک مستقل فکری حوالے کی حیثیت رکھتے ہیں یہاں ہم ان کے اول الذکر شعری مجموعے کے خمس اول کی منتخب غزلیات کے منتخب اشعار مذکورہ موضوع کی نسبت سے زیرِ تجزیہ لا رہے ہیں۔

رفیع الدین رازؔ حیات و کائنات کو تنقیدی زاوئیے سے دیکھنے کے قائل ہیں اس لیے ان کا طرزِ اظہار فلسفیانہ نوعیت کا ہے حتیٰ کہ وہ اپنی ذات کو بھی ایک کڑے تنقیدی عمل سے گزارتے ہیں بسا اوقات وہ زیست کو غالبؔ کی طرح مضحکہ خیز زاویوں سے بھی دیکھتے ہیں اور اسے اپنا کمال فن گردانتے ہیں ان کی ایک غزل کا ایک شعر دیدنی ہے :

ہم نے کچھ گردِ کثافت مل دی اُس کے جسم پر

لو ہمیں بھی آئینے پر مسکرانا آ گیا

ان کی تنقیدی تخیلات کی اُڑا ن بہت بلند ہے حتیٰ کہ قدرت بھی ان کے تنقیدی اہد ا ف  میں شامل ہے ان کے افکار بسیط و عمیق ہیں خیالات ہمہ پہلو اور ہمہ گیر ہیں ایک گیرائی و گہرائی ہے جو بین السطور جلوہ سامانی کرتی دکھائی دیتی ہے ان کے ہاں مضمون آفرینی زبردست نوعیت کی ہے جو قلب و خرد کو بھر پور انداز میں متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے انہیں احساسات سے مملو ان کی ایک غزل کے دو اشعار نذرِ قارئین ہیں۔

تھام کر انگلی اگر تا عمر چلنا ہے تو پھر

یہ تصور، یہ سماعت، یہ بصارت کس لیے

ساتھ تیرا ہر قدم پر ہے تو پھر اتنا بتا

پڑتی رہتی ہے مجھے اپنی ضرورت کس لیے

نقدِ فکر کا ایک روپ نالہ و شیون بھی ہے رفیع الدین راز کے ہاں شکوہ و شکایت کی حکایت بھی بھر پور انداز میں ملتی ہے جس کے باعث ان کی فکر کا حزنیہ پہلو نمایاں ہو جاتا ہے زندگی سے طرب و تمکنت کے معدوم ہونے کی بپتا پورے شدومد سے ملتی ہے۔

سبب کیا ہے جو ہونٹوں پر تبسم کا قصیدہ ہے

عروسِ زندگی شاید ابھی تک آب دیدہ ہے

ان کی قوتِ متخیلہ بڑے بڑے فلسفے تخلیق کرنے کی قدرت رکھتی ہے اس لیے ان کے افکار میں نادرہ کاری جلو ہ گر نظر آتی ہے رفعتِ تخیل کے بھرپور  شواہد ان کے کلام کا طرۂ امتیاز ہے۔

دوست کی خاطر نہ دشمن کی نصیحت کے لئے

آئینے کا ذکر ہے اپنی ضرورت کے لیے

خاک سے تخلیق کرنے کا سبب شاید تھا یہ

آدمی کو وقف کر دینا تھا، ہجرت کے لئے

دنیا کا مشکل ترین کام اپنی ذات کا محاسبہ کرنا یا خود تنقیدی کے عمل سے گزرنا ہے اور وہ اپنی ذات میں یہ جسارت رکھتے ہیں ناقدانہ طرز فکر کے باعث ان کے ہاں شکوک و  شہبات اور خدشات کا بھی ایک غالب عنصر ملتا ہے۔

عین ممکن ہے گواہی دوں میں خود اپنے خلاف

اعتبار اتنا تو رکھتا ہوں میں اپنی ذات پر

ہاں مجھے بھی اک گماں سا ہے کہ ہستی کی بنا

غالباً رکھی گئی ہے نت نئے خدشات پر

رفیع الدین رازؔ کے فکری و فنی گوشوں کی سیر حاصل سیر کے بعد یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوئی ہے کہ ان کے کلام میں ناقدانہ طرزِ فکر کے بھر پور شواہد ضوپاشیاں کر رہے ہیں ان کا اسلوب سادگی کا حامل ہے انہوں نے زیادہ تر مفرد اور رواں دواں بحور میں سخن سنجی کی ہے ان کی شاعری میں مزید امکانات روشن ہونے کی نوید ملتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ریاض ندیمؔ نیازی… شاعرِ بحرِ تجلیات

 

حمدو نعت کا فن عمیق ریاضت کا متقاضی ہے جس کے تلازمات میں جسمانی روحانی ریاضتوں کے پہلو بہ پہلو قرآن و حدیث،  سیرت النبی اور اسلامی تعلیمات کا گہرا شوق و شغف شامل ہے صرف روایتی حبِ خدا اور حُبِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تخیلات حمدو نعت کو فکری بالیدگی سے ہم آغوش نہیں کرسکتے مذکورہ مبادی اصولوں کے ساتھ ساتھ فنِ شاعری پر بسیط دسترس حاصل ہونا بھی انتہائی ناگزیر ہے جس کے لئے طویل المیعاد مشاطگِی عروسِ سخن مطلوب ہے اس سلسلے میں متقدمین و متوسطین و متاخرین کی حمدو نعت کا مطالعہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے جس سے حمدو نعت کے ارتقائی سفر کی جانکاری میسر آئے گی ایک حمدو نعت گو شاعر کے لیے حمدو نعت کے انتقادی اصولوں سے بھی آشنا ہونا ضروری ہے تاکہ اس کے فنی ادراکات جلا پاتے رہیں اور ان کا اہتمام اپنے ہاں کرنے میں کامیاب ہو جائے نعت گوئی کے حوالے سے عمومی مشاہدے میں آیا ہے کہ شعرا اسلامی تعلیمات کے فقدان کے باعث غلو سے کام لیتے ہیں حالانکہ ایسی اعلیٰ اور ارفع ذاتِ ستودہ صفات کے لیے مبالغہ آرائی کی قطعاً نہ گنجائش ہے اور نہ ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں بین السطور ایسے افکار پائے جاتے ہیں جن کے حوالے سے قرآن و حدیث اور سیرت النبی سے کسی قسم کی صراحت نہیں ملتی بہت ہی کم نعت گو شعرا ایسے ہیں جن کی نعت ہر قسم کے غلو سے مبرا و ماورا ہے ان معدودے چند معتبر نعت گو شعرا میں ریاض ندیمؔ نیازی کا نامِ نامی بھی شاملِ فہرست ہے جنہوں نے عمدہ نوعیت کی حمد گوئی بھی کی ہے ان کے افکار میں جا بجا عرفانِ خالقِ کائنات ضو پاشیاں کرتا دکھائی دیتا ہے شذرہ ہٰذا میں ہم ان کی حمدو نعت گوئی کے حوالے سے رقمطراز ہیں ان کا مجموعۂ حمدو نعت بعنوان ’’بحرِ تجلیات‘‘ ہمارے زیرِ نظر ہے جس کے نصف اوّل کی منتخب حمدو نعت کے منتخب اشعار بطور استشہادات شاملِ تجزیہ ہیں۔ مذکورہ کتاب کی طباعت اگست 2012ء میں عمل میں آئی قبل ازیں واضح رہے ’’خوشبو تری جوئے کرم‘‘ سے موسوم نعتیہ مجموعہ مطبوعہ فروری 2010ء بھی اربابِ نقد و نظر سے دادو تحسین سمیٹ چکا ہے اول الذکر نعتیہ مجموعہ کی نسبت سے ہم یہ مذکور لازمی گردانتے ہیں کہ کراچی کے دبستانِ وارثیہ نے جو ردیفی نعتوں کے مشاعروں کی طرح ڈالی ہے وہ انتہائی خوش آیند ہے اس خوبصورت روایت کے زیرِ اثر ریاض ندیمؔ نیازی کے ہاں بھی ایک ایک ردیف کے تحت بہت سا حمدیہ و نعتیہ کلام موجود ہے جو ان کی فکری و فنی دستگاہ کی علامت ہے۔

خدائے بزرگ و برتر کی ذات سراپا فیوض و برکات ہے جس کے بنی نوع انسان پر الطاف و اکرام کے لا متناہی سلسلے جاری و ساری ہیں ابنائے آدم پر اس قادرِ مطلق کی اطاعت ہر رنگ،  ہر حالت اور ہر عالم میں فرض ہے ایک عبدِ حقیقی کی تمنا یہی ہوتی ہے کہ دل میں محبوبِ حقیقی کی الفت کی شمعیں ہر دم فروزاں رہیں یہی حق عبدیت اور طرزِ الفت ہے اسی نوع کی بے پایاں محبت کا اندازہ ان کی حمد کے دو اشعار میں ملاحظہ کرتے ہیں   ؎

جسم و جاں کو روشنی دے اس کی رحمت کا چراغ

خلوت و جلوت میں روشن ہو اطاعت کا چراغ

میرے دل میں ہے فروزاں تیری الفت کا چراغ

ہے مری آنکھوں میں روشن تیری عظمت کا چراغ

مدحتِ باری تعالیٰ کلبۂ فیوض و برکات ہے اُس پاک ذات کی حمدو ثناء سراپا عبادات اور باعثِ جملہ ترقیات ہے انسان کی دینی و دنیاوی فلاح کا راز اس میں مضمر ہے جس سے روحِ کو بالیدگی۔ دل کو پاکیزگی اور جاں کو شگفتگی میسر آتی ہے خرد اور نگاہ کا فروغ اسی کا مرہونِ منت ہے جب ایک شاعر خالقِ ارض و سما کی تحمید کو وظیفۂ لوح و قلم بنا تا ہے تو پھر اس کا ذوقِ ہنر ثریا کی رفعتوں پر کمندیں ڈالنے کی اہلیت رکھتا ہے اسی نسبت سے ان کی حمد کے دو روح پرور اشعار لائقِ التفات ہیں یہ امر دیدنی ہے کہ انہوں نے ایک مشکل ردیف کو کس قادر الکلامی سے برپایا   ؎

حمد باری میں ہے پوشیدہ بشر کا ارتقا

ہے اسی میں جاں کا دل کا اور نظر کا ارتقا

ہے مری نوکِ قلم پر صرف حمدِ ربِ پاک

حمد ہی سے ہے مرے ذوقِ ہنر کا ارتقا

فکری اور اسلوبیاتی اعتبار سے ان کی حمد اپنے جلو میں ایک بے انت دلکشی سموئے ہوئے ہے حب خدا میں ڈوبی ہوئی کیفیات ہیں و جد و حال کے معاملات ہیں نادر النظیر تشبیہات و استعارات ہیں بین السطور کہیں کہیں قرآنی تعلیمات کی جھلک بھی ضو فشانی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ان کی حمد میں ہمہ اوست اور ’’ہمہ ازاوست ‘‘ کا فلسفہ بھی جلوہ سامانی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے ریاض ندیمؔ نیازی کی حمد سے حمد کے فروغ کا درسِ زریں نمو پاش ہو رہا ہے اسی تناظر میں ان کی حمد کے تین اشعار پیشِ خدمت ہیں   ؎

تری حمد کے جگمگائے ہیں تارے

کہ جب ہو گیا دیدۂ تر چراغاں

ہیں مصروف سب تیری حمدو ثنا میں

شب و روز ہوتا ہے گھر گھر چراغاں

لکھے جائیں اشعار حمدِ خدا کے

کیے جائیں یوں ہی سخنور چراغاں

ریاض ندیمؔ نیازی کی حمدو نعت کا امتیازی و صف یہ ہے کہ ان کے ہاں افراط و تفریط والا معاملہ نہیں ہے جو اکثر نعت گو شعرا کے ہاں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ان کی نعت کا یہ وصف جلیلہ انہیں اپنے ہمعصر نعت گو شعرا سے ممتاز و منفرد کرتا ہے وہ حمد کو حمد کے درجے اور نعت کو نعت کے زمرے میں رکھنے کے قائل ہیں اسی نوعیت کا ان کی حمد کا ایک مطلع زیبِ قرطاس ہے   ؎

ہے احترامِ نبی تیرے احترام کے بعد

نبی کا نام جو لکھوں تو تیرے نام کے بعد

خالق ارض و سما کی ذاتِ فوادو جواد ہے اس نے اپنی تمام مخلوقات پر اپنے لطف و کرم کو مساوی بنیاد پر استوار کیا ہے اس لئے تمام مظاہر فطرت کے فوائد و ثمرات اس کی تمام تخلیقات کے لئے یکساں ہیں روشنی،  پانی اور ہوا یہ وہ نعمتیں ہیں جو سب کے لئے برابر نوعیت کی ہیں۔ اس اعلیٰ و ارفع خیال کو شاعرِ موصوف کی زبانی دیکھیئے   ؎

روشنی، پانی، ہوا دیتا ہے رب مخلوق کو

کم نہیں ہوتی ہے اُس جود و سخا کی آن بان

عند البیان اسلامی تعلیمات کی جلوہ آرائی اُن کی خامہ فرسائی کے حسن کو فزوں تر کر رہی ہے اُن کی حمد سے بسیط رجائی امکانات کی مشعل فروزاں ہے جو دور از قیاس نور پاشیاں کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے   ؎

ندیمؔ اُس کا وعدہ ہے محشر میں ہم کو

دکھائے گا خود اپنا جلوہ مبارک

اُن کے افکار میں گیرائی و گہرائی کی حامل عرفانی صداقتیں پائی جاتی ہیں مصرع در مصرع، شعر در شعر اور حمد در حمد وہ ایک راسخ العقیدہ سالک کی طرح جلوہ گر نظر آتے ہیں تخیلات میں ایک ترفع ہے جو اُن کے بسیط اندازِ فکر کا مظہر ہے اُن کا اس امر پر یقینِ واثق ہے کہ شانِ قدرت بے حد و بے حساب ہے اس لیے وہ زمانی و مکانی حدود و قیود سے ماورا ہو کر سوچتے ہیں   ؎

ہے تری عظمت کے جلوے کی نشانی کائنات

تو ہی جانے ہے کہاں تک لامکانی کائنات

پھول کھلتے ہیں تو لگتی ہے ترو تازہ ابھی

ورنہ کس کو علم کتنی ہے پرانی کائنات

اُنہیں اپنی چشمِ بصیرت سے سنسار کے ذرے ذرے میں محبوبِ حقیقی کی جلوہ سامانی نظر آتی ہے اس امر کا ادراک ایک چشمِ بینا ہی کرسکتی ہے جیسے خواجہ میر درد نے کہا تھا   ؎

جگ میں آکر اِدھر اُدھر دیکھا

تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

اب ذرا ہم اُن کی نعت کی بابت بات چلاتے ہیں حُبِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت و عقیدت اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے امکانات ریاض ندیم نیازی کی نعت کے اوصاف جلیلہ ہیں نبی ختمیِ مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی توضیح و تشریح اُن کی نعت کا حصہ ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعرِ مذکور قرآن و حدیث اور امت مسلمہ کی تاریخ سے بخوبی آشنا ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ ابنائے عالم کے لیے ایک زریں باب کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے قابلِ اتباع بھی ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد نے حیات و کائنات کا نقشہ بدل دیا ہے جس کی وجہ سے بنی نوع انسان کی زندگی میں انقلاب برپا ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات انسانیت کے لئے خدا تعالیٰ کے تعارف اور رابطے کا ذریعہ بنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بدولت آگہی کے باب وا ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوۂ کامل اور تعلیمات کے سبب جسم و جاں کو روشنی ملی قلب و خرد کے سارے طبق روشن ہوئے اس لئے ابنائے امت پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت فرض ہے اگر انسان چشمِ بصیرت سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے الطاف و اکرام کا نظارا کرتے تو دل میں حب اور عقیدت کے دیپ جلتے ہیں تو پھر حیاتِ انسانی منور و معنبر ہو جاتی ہے اس حوالے سے ان کی نعت کے تین اشعار درِ دل پر دستک دے رہے   ؎

دل لگا کر میں نے جس دم آپ کی سیرت پڑھی

ہر ورق ،  ہر سطر ، سارے حاشیئے روشن ہوئے

ان کے دم سے ہو گئی توحید سے وابستگی

عبد کے معبود سے سب رابطے روشن ہوئے

اب گزر جائیں گے روز و شب یہ ماہ و سال بھی

آدمی پر زندگی کے دائرے روشن ہوئے

آدمی پر زندگی کے دائرے روشن ہوئے ان کی دروں کی دنیا میں حبِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بحرِ بیکراں ٹھاٹھیں مار رہا ہے جس میں عظمت کے حوالے بھی ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غلامی انسان کو اس جہاں کے فرمانرواؤں سے بے نیاز کر دیتی ہے اسی نسبت سے ان کی نعت کے دو اشعار نذرِ قارئین ہیں   ؎

لیتا ہے احترام سے آقا کا نام دل

پہچانتا ہے عظمتِ عالی مقام دل

خاطر میں تب سے لاتا نہیں بادشاہوں کو

جب سے ہوا ہے سرور دیں کا غلام دل

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نعت کا حق لفظوں میں ادا کرنا نا ممکنات کا حصہ ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بے نظیر و بے مثال ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ والا صفات بے انت رفعتوں کی امین ہے جس کا ادراک صرف خالقِ دو جہاں کو ہے اور وہی ذاتِ کبریا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیجتی ہے انہیں افکار کے مظہر اُن کی نعت کے دو اشعار پیشِ خدمت ہیں   ؎

ہوں بیاں لفظوں میں کیسے مدحتِ خیر البشرؐ

بے مثال و بے بدل ہے عظمتِ خیر البشرؐ

اُن کی ذاتِ محترم پر بھیجتا ہے رب درود

کس کو اندازہ ہو،  کیا ہے رفعتِ خیر البشرؐ

ریاض ندیمؔ نیازی کی نعت میں حُبِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بے پناہ مظاہر ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اسوۂ حسنہ امتِ مسلمہ کے لیے صراطِ مستقیم کا درجہ رکھتا ہے وہ ایک سچے اُمتی کی حیثیت سے درِ انوار کے درشن کی حسرت رکھتے ہیں اُن کی نعت کے دو اشعار زیبِ قرطاس ہیں   ؎

جس کی منزل آپؐ ہیں وہ گمشدہ راہی ہوں میں

ہے صراطِ استقامت امتی کا راستہ

حاضری میری بھی ہو گی جب درِ انوار پر

مدتوں سے تک رہا ہوں اس گھڑی کا راستہ

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت و رفعت جس کا کوئی ثانی نہیں ہے آپ کے مقام و مرتبے کی بلندی کو دیکھ کر ارضی و سماوی رفعتیں بھی مسرت زدہ اور متحیر ہیں شذرہ ہٰذا کی آخری کڑی کے طور پر اُن کی نعت کا ایک شعر پیشِ خدمت ہے    ؎

یوں تو کتنے ہی پہنچے ہوئے لوگ ہیں آسماں کی بلندی کو چھوتے ہیں جو

میرے آقا تو ان منزلوں تک گئے دیکھتی ہیں بہ حسرت جہاں رفعتیں

مشمولہ تصریحات اس امر کی بھر پور غماز ہیں کہ ریاض ندیمؔ نیازی کی حمدو نعت عقیدت و الفت کا مخزنِ گراں بہا ہے جو قاری کی حبِ خدا اور حبِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مہمیز دیتا ہے قرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات کا مزید مطالعہ اُن کے ذوق و شوق اور فنِ حمدو نعت کو فزوں تر بالیدگی سے ہمکنار کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو گا۔

٭٭٭

 

 

 

رضیؔ عظیم آبادی کا عارفانہ سخن

 

عام طور پر عارفانہ سخن سے مراد ایسا کلام لیا جاتا ہے جو عشقِ حقیقی سے عبارت ہو جسے عرفِ عام میں معرفت سے تعبیر بھی کیا جاتا ہے یہ ایک عمومی تاثر ہے جو عارفانہ سخن کی تعریف و توضیح کے لئے پیش کیا جاتا ہے جب کہ حقیقی مفاہیم کے مطابق ایسی شاعری جو بصیرت،  دانش ،  حکمت اور معرفت سے متصف ہو عارفانہ کلام کے زمرے میں آتی ہے جو فکر انگیز بھی ہوتی ہے اور بصیرت آموز بھی۔ شذرہ ہٰذا میں ہم رضیؔ عظیم آبادی کی سخن سنجی کے حوالے سے قمطراز ہیں جن کے کلام میں مذکورہ موضوع کے شواہد بکثرت ملتے ہیں جہاں تک ان کے سوانحی کوائف کا تعلق ہے تو ان کا اجمالی تعارف کچھ یوں ہے ان کے والدین کی جنم بھومی صوبہ بہار بھارت ہے سید خانوادے سے ان کا تعلق ہے جس کے جدِ اعلیٰ حضرت سید ابراہیم سپاہ گری کے شعبے سے منسلک تھے اور حضرت شاہ شبستانی کے ہم عصر تھے جو فنِ حرب میں ایک مثالی حیثیت رکھتے تھے جن کی سلطان محمد تغلق کے دربار سے بھی وابستگی بھی تھی بہار کی جغرافیائی خوبصورتی اور سبزہ زاروں سے مانوس ہو کر وہ یہیں کے ہوکے رہ گئے رضیؔ عظیم آبادی کے والدِ گرامی غلام مصطفیٰ ایک ادب فہم اور ادب دوست شخصیت کے مالک تھے جو اردو،  فارسی،  ہندی اور سنسکرت کا لسانیاتی تبحر رکھتے تھے اور اکثر اپنے بیٹے کو شیخ سعدی کے اشعار اور کبیرؔ داس کے دوہے سنایا کرتے تھے اور یوں اپنے فرزندِارجمند میں ذوقِ ادب ودیعت کرنے میں سر خرو ہوئے علاوہ ازیں مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش کے شہر چاٹگام کے سر سبز و شاداب کھیت،  سبز زار وادیاں ،  بلند و بالا کوہسار،  چائے،  ربڑ کے باغات،  ساگوان کے دراز قامت درخت اور پٹ سن کی کھیتیاں بھی ان کی شعری تحریک کا سبب بنیں ،  انہوں نے ابتدائی تعلیم کرنا فلی پیپر مل انگلش میڈیم ہائی اسکول سے حاصل کی یہ وہی فرخندہ نصیب علاقہ ہے جسے ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں جنت الفردوس سے موسوم کیا ہے بعد ازاں چاٹگام پورٹ ٹرسٹ ہائی اسکول سے 1968ء میں میٹرک کیا علاوہ ازیں چاٹگام سٹی کالج سے ایف اے پاس کیا۔

مشرقی پاکستان میں جب قتل و فسادات بامِ عروج پر پہنچے تو اکتوبر 1971ء میں ہجرت کر کے کراچی میں سکونت اختیار کی علامہ اقبال کالج ڈرگ روڈ کراچی سے 1974ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی بعد ازیں نیشنل موٹر لمیٹڈ کراچی میں ملازمت کرنے لگے کچھ برس بیت جانے کے بعد 1987ء میں کراچی سے ہی ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اگرچہ 1965ء سے بے ضابطہ طور پر شاعری کی طرف راغب ہو چکے تھے لیکن اس کا ریکارڈ رکھنے سے قاصر رہے اس کے کچھ عرصہ بعد شاعری کی طرف سنجیدگی سے مراجعت کی اب تک ان کے دوشعری مجموعے منضۂ شہود پر آچکے ہیں پہلا مجموعۂ حمد یہ و نعتیہ کلام پر مشتمل ’’آئینۂ یزداں ‘‘ منظرِ عام پر آیا جس میں زیادہ تر نعتیہ کلام شامل ہے دوسرا مجموعہ ’’حلقہ مِری زنجیر کا‘‘ 2012ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا جو تمام تر غزلیات پر مشتمل ہے شذرہ ہٰذا میں ہم ان کے آخری شعری مجموعہ کے ربع اول کی منتخب غزلیات کے منتخب اشعار برائے تجزیہ شامل کرتے ہیں۔

ان کی ایک غزل کا مطلع اور ایک شعر لائقِ التفات ہے

اپنے لب پر سوال رکھتا ہوں

کیا میں روزی حلال رکھتا ہوں ؟

آئینے پاتے ہیں جِلا مجھ سے

میں یہ کس کا جمال رکھتا ہوں

اپنی ذات کو کڑے محاسبے کے عمل سے گزارنا جہاں جہاں خود تنقیدی کی دلیل ہے وہاں صاحبِ بصیرت ہونے کی عمدہ تمثیل ہے اکتسابِ معاش کے سلسلے میں احتیاط برتنا اس حوالے سے روزی کے حلال ہونے کی فکر کرنا انسان کے نجیب النفس ہونے کی علامت ہے اللہ رب العزت کے اوامر و نواہی کو ملحوظِ خاطر رکھنے کا معتبر حوالہ ہے جو انسان ان اوصافِ حمیدہ سے متصف ہو تو اس کی شخصیت آئینے کے بمصداق صاف و شفاف ہوتی ہے اس کا وجودِ مسعود مبارک  و مطہر ہوتا ہے یہ وہ جمال ہے جو کل سے جز کو ودیعت ہوا ہے جس کے جز نے کل کے پر تو کی صورت اختیار کر لی ہے عرفان و آگہی کا یہی انداز مذکورہ بالا غزل کے مطلع اور ایک شعر میں کارفرما ہے۔

صنعتِ تضاد کا حامل مذکورہ غزل کا یہ شعر بھی دیدنی ہے۔

تلخیاں پی گیا زمانے کی

تشنگی لازوال رکھتا ہوں

انسانی شخصیت کی تکمیل دولتِ ضبط کی بازیافت میں مضمر ہے یہ امر انتہائی صبر آزما اور طویل المیعاد بھی ہے جس تک رسائی حاصل کرنا  ہر کہ و مہ کے بس کا روگ نہیں ہے جو اس مقامِ اعتبار پر پہنچ جاتے ہیں وہ یقینا بلند اقبال ہوتے ہیں۔

ان کی ایک اور غزل کا مطلع نذرِ قارئین ہے

اس کی صبحِ زندگی بھی شام ہے

جو رہینِ حسرتِ ناکام ہے

درویشانہ صفت کی حامل ہستیاں قناعت پسند ہوتی ہیں دنیاوی خواہشات اور آرزوؤں کے باب ان پر بند ہو چکے ہوتے ہیں وہ ایسی زیست کو لائقِ اعتنا نہیں سمجھتیں جس کے گرد حسرتوں کی حاشیہ آرائی ہو وہ خوابوں اور امنگوں سے دور رہ کر جیون بتاتی ہیں اور مشیت کی ہر رضا پر راضی رہتی ہیں حسرت سے معمور جیون کی سحر ان کے نزدیک شام سی ہے وہ اس لئے حسرتوں کی مذمت کا آدرش دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

عمیق معرفت کا حامل غزل کا ایک مطلع قابلِ غور ہے

زندگی آلام ہی آلام ہے

موت آرام و سکوں کا نام ہے

رضیؔ زندگی کو سراپا آلام گردانتے ہیں یہ بھی ان کی بصیرت و حکمت کا ایک تابناک پہلو ہے مرگ ان کے نزدیک سکونِ جاں سے عبارت ہے گویا حزن و ملال و زیست کا ایک جزو لاینفک ہے جس سے فرار کسی طور ممکن ہی نہیں غم و الم کو جب حیاتِ انسانی میں اس قدر اہمیت حاصل ہے تو پھر پریشانی و بے کلی چہ معنی دارد؟

ان کا عکسِ بصیرت غزل کے ذیل کے چار اشعار میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

آج کل کس بلندی پہ انسان ہے؟

پھر بھی اخلاص کا اس میں فقدان ہے

دیکھ کر کے ترقی نئے دور کی

عقل انسان کی آج حیران ہے

وہ قلندر بھی ہے اور درویش بھی

ذات کا اپنی جس کو بھی عرفان ہے

اب کسی کی قناعت پہ تکیہ نہیں

اس نئے دور کا یہ بھی فیضان ہے

سوچ مغرب کی تہذیب نے چھین لی

ساری دنیا کا انساں پریشان ہے

ان کا کلام معرفت کی دولت سے مالا مال ہے اخلاقی اقدار کی پامالی ان کے لئے باعثِ اذیت ہے وہ انسان کی مادی ترقی کو بھی ہدفِ تنقید بناتے ہیں مادیت اور اخلاقیات کا تقابلی مطالعہ ان کے کلام میں بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ان کا سخن سر چشمۂ عرفان و آگہی ہے ذات کے ادراک کو وہ ایک درویشانہ صفت گردانتے ہیں انسان کی شخصیت کے اعلیٰ و ارفع خصائص عصرِ حاضر میں ناپید و مفقود ہیں قناعت کی بلند صفتی عنقا ہو گئی ہے انسان حرص و ہوس کا اسیر ہو چکا ہے۔ مغربی تہذیبی یلغار نے حیاتِ انسانی کی دلکشی اور رعنائی چھین لی ہے کرۂ ارضی پر انسان کا وجود ایک تصویرِ الم بن گیا ہے اس قدر حکمت و دانش شاذ ہی کسی سخنور میں مشاہدہ کی جا سکتی ہے۔ غزل کے دو اشعار زیبِ قرطاس ہیں

نظروں میں وقت کی وہی ٹھہرے ہیں محترم

جو دوسروں کے خواب پریشاں سمیٹ لائے

جچتی نہیں ہیں اس کو سمندر کی وسعتیں

وہ ناخدا جو کشتی میں طوفاں سمیٹ لائے

انہوں نے عند البیان مکارمِ اخلاق کی بھر پور تعلیم دی ہے ان کے جذبے ایثار و مروت سے معمور ہیں ان کے تخیلات رفعتوں کی حدوں کو چھوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ان کے تخیّل کی پرواز بہت بلند ہے ان کا سخن شخصیت سازی کے وسیع تر امکانات خود میں سموئے ہوئے ہے آموزش کا عمیق آدرش ان کی شاعری کا طرۂ امتیاز ہے۔

رخ موڑتا رہا ہوں بگولوں کا عمر بھر

طوفان بھی میری راہ میں حائل نہیں رہا

رضیؔ عظیم آبادی کا تخیّل عزم و حوصلے کی بے انت داستاں ہے رجا کا بھر پور حوالہ ہے بصیرت کی کرن ہے حکمت کی مشعل ہے جو ہر دم فروزاں رہتی ہے جس سے قاری کو فزوں تر شکتی ملتی ہے دنیا کے جھنجھٹ زیست کی کٹھنائیاں اور مصائب و آلام ان کا بال بھیگا کرنے کے قاصر ہیں وہ ہر حال میں پر امید نظر آتے ہیں بقول کسے   ؎

طوفان کر رہا تھا مرے عزم کا طواف

دنیا سمجھتی رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے

سلسلہ ہٰذا کی آخری کڑی کے طور پر ان کی غزل کا ایک شعر لائقِ اعتنا ہے۔

اب کیوں دکھائی دیتی نہیں روشنی مجھے

کیا میں سحر سے پہلے ہی بیدار ہو گیا

ان کے ہر شعر میں معرفت و حکمت اور دانش و بصیرت کے باب وا ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ان کا پیشگی شعور حیرت و استعجاب کی ایک دنیا آباد کرتا ہوا نظر آتا ہے جس سے قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا ان کے ہاں روشنی،  بیداری اور سحر کے دلکش استعارات پائے جاتے ہیں۔

اب جبکہ اقلیمِ شعر لا یعنی خیالات و تصورات کی آماجگاہ بن چکی ہے جہاں افکار کی معرفت فرو ہو چکی ہے ایسے عالم میں رضیؔ عظیم آبادی جیسی پر مغزو پر حکمت اور معرفت سے لبریز شاعری کسی نعمتِ کبریٰ سے کم نہیں اگر ان کا ریاضِ شعر تواتر سے جاری و ساری رہا تو ان کا سخن مزید بالیدگی کی بازیافت میں کامیاب و کامران نظر آئے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

راشدؔ ترین… رومانی جذبات کا شاعر

 

اگرچہ جدید عصری روئیوں میں ناقدین کے مابین جذبۂ رومان ریشہ دوانیوں کا شکار رہا ہے مگر اس سلسلے میں کی جانے والی ہر کاوش ناکام ہوئی ہے یہ وہ احساس ہے جو شعری تاریخ کے ہر عہد میں سدا بہار اور ترو تازہ رہا ہے اگر شاعری میں عشق و محبت کا مذکور نہ ہو تو وہ بے کیف و بے سرور ہوتی ہے اور تمام تر رعنائیوں سے محروم ہوتی ہے جن شعر او شاعرات نے اپنے کلام میں ان جذبات و احساسات کی پیوند کاری کی ہے وہ پسندیدگی اور پذیرائی سے ہم آغوش ہوئے شذرہ ہٰذا میں آج ہم راشد ترین کے شعری مجموعہ ’’آؤ لوٹ جاتے ہیں ‘‘ کے تناظر میں ان کے منتخب غزلیہ اشعار کا تجزیہ مذکورہ موضوع کی مناسبت سے کریں گے مجموعہ ہٰذا کی طباعت جون 2012؁ء میں عمل میں آئی اس میں زیادہ تر غزلیات شامل ہیں ان کا ادبی سفر نوے کی دہائی سے شروع ہوا ابھی تک ان کے تین مجموعہ ہائے کلام منظر عام پر آ چکے ہیں ان کا اولین شعری مجموعہ ’’ریت پر سفر‘‘ تھا جبکہ دوسرا مجموعہ کلام ’’محبت ہار دی ہم نے ‘‘ سے معنون ہے موصوف جنوبی پنجاب کی اہم ادبی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں اور انہیں ادبی حلقوں میں نگاہِ استحسان سے دیکھا جاتا ہے ان کا شمار استاد الشعرا میں ہوتا ہے۔ بہت سے تلامذہ و تلامذات گیسوئے شعر و سخن سنوارنے میں ان سے راہ نمائی حاصل کرتے ہیں۔

ان کے افکار و خیالات میں ایک ندرت کا پہلو کا فرما نظر آتا ہے ان کا اسلوب ان کے سخن میں بھر پور تاثیر پیدا کر دیتا ہے ان کے احساسات میں رفعتِ تخیل بھی ہے اور زبان و بیان کی شیرینی بھی ہے ان کا پیہ ائیہ اظہار جاذبیت سے لبریز ہے ان کے ہاں جہاں محبت کے خالص جذبے ہیں وہاں پندارِ انا کی بات بھی ہے پاسِ انا ان کے سخن کا امتیازی وصف ہے کہیں کہیں ان کے ہاں وصل کی خواہش کے حوالے سے مناجات کا رنگ بھی چھلکتا ہے اس حوالے ان کی غزل کے دو اشعار ہدیۂ قارئین ہیں۔

ایسے نہ اپنی زلف کی زنجیر کر مجھے

میں آسماں کا چاند ہوں تسخیر کر مجھے

ویسے تو اس سے وصل کا امکان تک نہیں

مولا اسی کے ہاتھ کی تقدیر کر مجھے

راشدؔ ترین ایک وضع دار شخصیت کے مالک ہیں اس لیئے ان کی طبیعت میں ایک طنطنہ پایا جاتا ہے وہ محبت کے جذبات و احساسات میں بھی ایک پندار انا رکھتے ہیں اسی نسبت سے ان کی غزل کا ایک شعر زیبِ قرطاس ہے۔

قدموں میں مرے آ کے انائیں لپیٹ گئیں

اس کی گلی کے چاند نگر تک نہیں گیا

وہ عصری روئیوں کا عمیق ادراک رکھتے ہیں ان کے ہاں سماجیات کا گہرا شعور ملتا ہے وہ زمانہ شناس ہیں اسی نوع کے افکار ان کے کلام میں و فور کے ساتھ پائے جاتے ہیں وہ جانتے ہیں نفسانفسی عروج پر ہے لوگ مطلب پرست ہیں محبت نے کاروبار کا لبادہ اوڑھ لیا ہے محبتیں اغراض کی محتاج ہو گئی ہیں اسی فکر کی غمازی ان کے ذیل کے شعر میں نظر آتی ہے۔

اب کہاں لوگ محبت سے ملا کرتے ہیں ؟

اب ملاقات بھی ہوتی ہے مفادات کے ساتھ

وہ دل کو مقدس اور پَوِتر پیکر تسلیم کرتے ہیں اور اسے کسی الہامی اور اساطیری کتاب سے تعبیر کرتے ہیں دل مقامِ محبت ہے اگر چاہت کا مسکن اتنا پاکیزہ ہے تو اس میں سکونت پذیر الفت کتنی ممتا ز و مطہر ہو گی اس حوالے سے ان کی غزل کا ایک شعر پیشِ خدمت ہے۔

دل کے اوراق مقدس بھی ہوا کرتے ہیں

زندگی صورتِ انجیل بھی ہوسکتی ہے

راشدؔ ترین کا کلام رومان کی دولت سے معمور ہے ان کے افکار میں جاذبیت اور اسلوب میں ایک اپنائیت کا احساس رچا بسا ہوا ہے ان کے ہاں غضب کی روانی اور جولانی پائی جاتی ہے ان کے جذبوں میں وہ خلوص اور چاشنی ہے کہ قاری سر سری نہیں گزر پاتا یہ تو ان کے کلام سے چند استشہادات تھیں جو ہم نے قارئین پر آشکار کیں ان کا کلام سراپا انتخاب ہے اگر ان کی مشاطگیِ عروسِ سخن جاری و ساری رہی تو ان کی غزل ان کو اس سے بہت آگے لے جائے گی۔

٭٭٭

 

 

 

رضوان بابرؔ کی شعری رنگ سامانیاں

 

زیست رنگوں سے عبارت ہے اور رنگ رونق و رعنائی کی علامت ہیں تخیّل کی رنگ آمیزی کلام کو ہر دلعزیز کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے جس کے باعث سخن میں تا دیر تاثیر قائم رہتی ہے اور شاعری بقائے دوام سے ہم آغوش ہو جاتی ہے ایسے ہی جواں فکر اور زندہ دل شعرا میں ایک نام رضوان بابرؔ کا بھی ہے جنہوں نے انتہائی کم دورانیئے میں سخن سنجی کر کے قارئین شعر کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے ان کے اظہار کی نادرہ کاری فطری اور سماجی ناہمواریوں پر رد عمل کے طور پر بھی سامنے آئی ہے جس کے باعث وہ مجبور نوا ہو جاتے ہیں۔

میں ٹھکانہ بدلنے والا ہوں

اب زمینیں لپیٹ دی جائیں

یہی وجہ ہے کہ ان کا شعری مجموعہ بھی ’’زمینیں لپیٹ دی جائیں ‘‘ سے موسوم قرار پاتا ہے مذکورہ مجموعہ ان کی وفات کے بعد اگست 2013ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا جس کے نصفِ اوّل کی منتخب غزلیات کے اشعار متذکرہ موضوع کی نسبت سے شاملِ شذرہ ہیں کتابِ ہٰذا تمام تر غزلیات پر مشتمل ہے جس سے ان کے غزل سے والہانہ پن کی عکاسی ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے شعری اظہار کے لئے مختلف رنگوں کے استعارے استعمال کیئے ہیں جن میں ستارے، شمع، وصال، بہار، نشانی، لمس، خزاں ، اجالا اور ہجر شامل ہیں۔

رضوان بابرؔ کے ہاں محبت کی عمومی اداؤں کا تذکرہ بڑے کروفر سے ملتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ آخری دم تک محبت کا دم بھرنے کے قائل تھے ان کی رومان نگاری میں داستانِ الفت سموئی ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنی قدرتِ متخیّلہ کے زور پر محبت کے احساسات و جذبات کو تقویت بخشی ہے ان کے اشعار میں محبت کی بوباس رچی بسی ہوئی ہے اشتہادات کے طور پر ان کی ایک غزل کے اشعار ملاحظہ کریں۔

بچھڑتے وقت وہ بوسہ تمھارے ماتھے کا

وہ تیرا لمس تری آخری نشانی تھی

خزاں میں بھی مرا سارا بدن گلابی تھا

وہ تیرا لمس تری آخری نشانی تھی

مذکورہ اشعار میں مصرع ثانی کا اعادہ بھی ان کی فنی قرینہ کاری کا مظہر ہے اور دو مختلف کیفیات کی عکاسی ہے۔

ان کے ہاں رجائی جذبے بھی حوصلہ افزا نوعیت کے حامل ہیں جس سے یہ غمازی ہوتی ہے کہ ان میں زندگی کرنے کی بے پناہ شکتی موجود تھی ان کے فکری کینوس میں جہاں بے پناہ حزن و الم ہے وہاں رجائیت بھی بامِ عروج پر دکھائی دیتی ہے ان کی غز ل کا ایک شعر لائق توجہ ہے۔

وہ پھول لے کے مرا ساتھ دینے آئی تھی

وہ اس لیئے کہ خزاؤں سے جنگ جاری تھی

انہیں زندگی کا پر آشوب روپ انتہائی بھیانک نظر آتا ہے وہ حیات کو اپنے حقیقی روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں جہاں خوشیاں ہوں مسرتیں ہوں جہاں مایوسی اور افسردگی کا گماں تک نہ ہو طرب افزا کیفیات ہوں امن ہو آشتی ہو جہاں مسرت رو بہ زوال نہ ہو اور غم کو حاصل کمال نہ ہو اسی حوالے سے ان کی ایک غزل کا ایک شعر دیدنی ہے۔

سرخ پھولوں سے مجھے خون کی بو آتی ہے

ان گلابوں کو ذرا دور ہٹایا جائے

رضوان بابرؔ کے تخیلات کا اعجاز یہ ہے کہ امید افزا امکانات پورے اہتمام سے ملتے ہیں ان کی داخلیت اور خارجیت ایک دوسرے سے ہم آہنگ نظر آتی ہے جس سے احساسات کا ایک نیا جہان آباد ہوتا ہے محبت کا عمومی اظہار ان کے ہاں پورے شان و شوکت سے نظر آتا ہے ان کی ایک غزل کا مطلع درِ دل پر دق الباب کر رہا ہے۔

تمہاری شال پر کچھ پھول اور ستارے تھے

ہماری آنکھ میں کچھ خواب تھے تمھارے

وہ اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ صبحِ بہار کچھ قربانیوں کی خواستار ہوتی ہے اس لیے وہ جذبہ ایثار کی پالنا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں یہی سبب ہے کہ ان کے سخن میں رنگ سامانی کے بے پناہ شواہد ہویدا ہیں اور وہ اپنے قاری کو شعورِ حیات سے مرصع دیکھنا چاہتے ہیں اس شذرہ کی آخری کڑی کے طور پر ان کی غزل کا ایک شعر نذرِ قارئین ہے۔

خزاں میں جس نے درختوں کا درد بانٹا ہے

مجھے یقیں ہے وہ صبحِ بہار دیکھے گا

مشمولہ اشتتہادات شاہد ہیں کہ رضوان بابرؔ کا کلام اپنے اندر بے انت رنگ سامانیاں رکھتا ہے جس سے یہ امر اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ ان کا شعری کینوس بسیط و عمیق ہے اگر حیاتِ چند روزہ ان سے کچھ مزید و فا کر جاتی تو ان کی شعری روانی اور جولانی ان کو کہیں سے کہیں لے جاتی۔

٭٭٭

 

 

 

 

زاہدؔ علی سید کا خیال آفرین بیان

 

کسی بھی سخنور کی جولانیِ طبع کا اندازہ اس کی مضمون آفرینی سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے اگر اس کے فکری کینوس میں خیال آفرین ی کے جواہر بکثرت موجود ہیں تو اس کی فنی بالیدگی قابلِ تحسین و صد ستائش ہے آج ہمارا موضوعِ بیان زاہدؔ علی سید کے کلام کی خیال آفرینی ہے جو ان کے سخن کا امتیازی وصف ہے ان کے شعری مجموعہ ’’چراغِ فکر ’’مطبوعہ جنوری 2012ء کے سدس اول کی منتخب غزلیات کے منتخب اشعار برائے تجزیہ شاملِ مضمون ہیں۔

ان کی اولین غزل کے تین اشعار زیبِ قرطاس ہیں

آئینہ آئینہ پتھر کے نگر کو کر دوں

مجھ کو ہو جائے میسر جو ہُنر سورج کا

تم اندھیروں کو سمجھ بیٹھے ہو سورج کی زمیں

تم نے دیکھا ہی نہیں کبھی گھر سورج کا

یوں اندھیروں کے ہر اک وار کو رد کرتے ہیں

تذکرہ کرتے ہیں اربابِ ہنر سورج کا

ان کے ہاں بے پناہ ہمت و حوصلہ ہے مگر اپنی بشری کمزوریوں کا ادراک بھی رکھتے ہیں جو اس امر کی روشن دلیل ہے کہ وہ ایک حقیقت پسند انسان ہیں وہ اپنی قوتِ متخیلہ کی بدولت بنی نوع انسان کے گلشنِ ادراک کی آبیاری میں ہمہ وقت مصروف و منہمک ہیں وہ قاری کو اس کی حماقتوں سے آشنا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہ ظلمتوں کے خلاف برسرِ پیکار نظر آتے ہیں اس سلسلے میں وہ مشاہیر کے کارناموں کو مشعلِ راہ بناتے ہیں ان کا آدرش پڑھنے والے کے قلب و خرد کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر اپنی ابلاغیت کا ثبوت دیتا ہے مندرجہ بالا اشعار ان کے ایسے ہی خیال آفرین  بیاں کی بین دلیل ہیں۔

ان کی غزل کا ایک مطلع کیجیے

زاہدؔ بہت ہی سخت ہیں تصوف کی منزلیں

جنت نہیں ملے گی تمنائے خام سے

ان کا بیشتر کلام سراپا انتخاب ہے عند البیان وہ ایسی مضمون آفرین ی کرتے ہیں کہ پڑھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں مقطع بالا میں انہوں نے زبردست نوعیت کی خیال آرائی کی ہے اور اپنے مؤقف کی بالا دستی کو باور کرایا ہے اپنے تخلص کی رعایت سے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے وہ مسلسل خلوص اور ریاضت پر یقین رکھتے ہیں اور یہی تلقین ان کے کلام میں دکھائی دیتی ہے۔

ان کی ایک غزل کے تین اشعار زیبِ قرطاس ہیں

الفت ہے تو اظہارِ تمنا بھی کیا کر

اے دوست کبھی ذکر ہمارا بھی کیا کر

کچھ گردشِ حالات گوارا بھی کیا کر

ہونٹوں پہ تبسم کا اجالا بھی کیا کر

کیوں تجھ پہ گراں حرف ہنرمند ہے زاہدؔ؟

شاعر ہے تو تنقید گوارا بھی کیا کر

زاہدؔ علی سید کی شاعری صرف سنجیدہ اور تلخ موضوعات کا مرقع نہیں ہے بلکہ خوشگوار اور لطیف احساسات بھی اس میں شامل ہیں رومانویت کی ایک بھر پور لہر ہے جو موجزن نظر آتی ہے چنانچہ شعر اول میں وہ اپنے محبوبِ دل نواز سے یوں گویا ہیں کہ الفت کے لئے اظہارِ تمنا بھی ضروری ہے اور وہ اپنے یارِ ہزار شیوہ کی زبانی اپنا ذکرِ خیر سننے کے بھی متمنی ہیں شعرِ ثانی میں دولتِ ضبط کا ایک عمیق احساس پایا جاتا ہے انسانی فطری طور پر نا شکرا ہے اور ضبط و تحمل جیسے خصائص سے بہت دور ہے معمولی سی گردشِ حالات اسے حالتِ ناشکیبائی سے دوچار کر دیتی ہے اس لئے وہ گردشِ دوراں کو گوارا کرنے کا سندیس دیتے ہیں اور ہونٹوں پر تبسم کے اجالے کی ترغیب دیتے ہیں عام طور پر شاعروں کا یہ المیہ رہا ہے کہ منفی تنقید کے قائل نہیں ہوتے بلکہ صرف اپنی مدح و ستائش کے شید او شیفتہ ہوتے ہیں اور نقائص پر یقین نہیں رکھتے یہی وجہ ہے کہ شاعر و نقاد کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہو گئی ہے جب کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اہلِ سخن ناقدانہ آراء کا احترام کریں کیونکہ اسی میں ہی ان کی اصلاح و بہتری سے انہوں نے اپنے مقطع میں اسی عقدہ کی کشود کی ہے جس میں انہیں خاطر خواہ کامیابی ہوئی ہے۔

مذکورہ بالا استشہادات کے علاوہ بھی ان کے متعدد اشعار ہیں جو خیال آفرین ی کے مظاہر ہیں لہٰذا ہم انہیں بلا تبصرہ شاملِ شذرہ کرتے ہیں۔

وہ مجھے یہ روگ کیسا ناگہانی دے گیا؟

آگ دل کو دے گیا آنکھوں کو پانی دے گیا

تھا بدن پھولوں سا اس کا تتلیوں سا پیرہن

جو بہاروں کو بھی ذوقِ گل فشانی دے گیا

٭

روئے روشن کتاب کی صورت

خال و خد انتساب کی صورت

ہے وہ چہرہ کتاب کی صورت

ذہن و دل میں نصاب کی صورت

ہیں سوالات آپ کی آنکھیں

میرے آنسو جواب کی صورت

٭

ہر سلوک اپنوں کا لگتا ہے عداوت کی طرح

مجھ کو سائے بھی ملے ہیں تو تمازت کی طرح

لیلیٰ کے حسنِ تغافل کی طرح آپ کا ذوق

اور انداز مرا قیس کی وحشت کی طرح

 

ہر آرزو کے عکس میں ہے آپ کا جمال

دل سے نکالوں آپ کی تصویر کس طرح

 

مشمولہ استخراجات اس امر کی بھر پور غماز ہیں کہ خیال آفرین ی زاہدؔ علی سید کے کلام کی شناخت کی حیثیت رکھتی ہے ان کا سخن فکری و فنی پختگی سے ہم آہنگ ہے جس سے جدت و ندرت کے مظاہر ضو پاش ہوئے ہیں مزید ریاضت ان کے مقامِ اعتبار کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

سہیلؔ غازی پوری ۔۔ وسیع الموضوعات شاعر

 

اقلیمِ شعر و سخن فاخر و نازاں ہے کہ اسے اعلیٰ پائے کے شعرا میسر آئے جن کے تخلیقی جواہر پاروں کی بدولت آج شہری تاریخ مالا مال ہے فکرو فن کے مشاہیر نئی نسلوں کے لیے مینارِ نور کی طرح ہوتے ہیں چند ایک موضوعات و اصناف پر تو ہر شاعر طبع آزمائی کر لیتا ہے بہت سے مضامین اور بہت سی ہیئتوں میں شعر گوئی ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہوا کرتی انہیں وسیع الموضوعات احباب میں سہیلؔ غازی پوری کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے جو چھ دہائیوں سے مشق شعر و سخن میں مصروف و منہمک ہیں ہمارے پاس ان کے مکمل شعری مجموعوں کا ریکارڈ تو نہیں ہے کہ ہم انھیں سلسلہ وار زیر بحث لائیں ہاں البتہ ان کے حوالے سے جمال ضیا اور احمد کمال کی تالیفی دستاویز مطبوعہ ۲۰۱۱ء ’’ سہیلؔ غازی پوری سے ملیے ‘‘ کے نام سے موجود ہے جس میں بر صغیر پاک و ہند کے سواسو کے قریب ادباء جن میں کچھ شعرا بھی شامل ہیں کے غیر منظوم و منظوم تنقیدی معروضات شامل ہیں ان کے مختلف مجموعہ ہائے کلام کے منتخب اشعار کے تناظر میں ہم سہیلؔ غازی پور ی کے فکرو فن کے حوالے سے اپنے تنقیدی تجزیات پیش کرتے ہیں۔

جب سخن گستر فکر و فن کے عمیق تجربوں سے گزرتا ہے تو اس قسم کے خیالات کا صدور ہوتا ہے اس حوالے سے سہیلؔ غازی پوری کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

میرے لیے یہ بات بڑی ہے کہ اب مجھے

پہچانتے ہیں لوگ مری داستان سے

 

مجھے بھی اپنی طرف دیکھنے نہیں دیتی

یہ کیسی ہجر کی دیوار ہے میرے اندر

یہ کیا کہ صرف ہدف دوسرے ہی بنتے رہیں

خود اپنے آپ کو بھی آئینہ دکھایا کر

سہیلؔ غازی پوری کی شعری ریاضت میں وہ خلوص اور چاہت ہے جو قاری کا دل موہ لیتی ہے یہ امر ان کے تجربے کا غماز ہے اور وہ بذاتِ خود اس امر سے آگاہ ہیں اور وہ اپنے آس پاس کے ماحول پر گہری نگاہ رکھتے ہیں پہلے شعر میں بھی اس حوالے سے بات کی گئی ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ بات میرے لیئے باعثِ افتخار ہے کہ لوگ مجھے میرے فن کی بدولت جانتے ہیں جو ایک داستان کی سی حیثیت اختیار کر چکا ہے دوسرا شعر ایک رودادِ ہجر بھی ہے اور محرومیوں کا قصہ بھی اصل میں لفظ ہجر ایک کثیر المعانی مفہوم کا حامل ہے کسی بھی چیز کا معدوم ہونا یا کسی بھی چیز کی عدم دستیابی اس کی جدائی سے تعبیر کی جاتی ہے جب ہجر بھیانک اور وحشیانہ صورت اختیار کرتا ہے تو انسان فطری طور پر خود اعراضی پر مجبور ہو جاتا ہے اور یہ وحشت دیوار کا روپ دھار لیتی ہے دیوار کے پار اپنے وجود کا نظر آنا محال ہو جاتا ہے تیسرے شعر میں ایک سماجی عمومی روئیے کی عکاسی کی گئی ہے فطری طور پر انسان دوسروں کو ہدف تنقید بناتا ہے جبکہ سہیلؔ غازی پوری خود احتسابی اور اپنی ذات پر تنقید کرنے کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہر بار دوسرے ہی تنقید کا نشانہ بنتے رہیں بلکہ انسان کو اپنے آپ کو بھی آئینہ دکھانا چاہیے کہ اس کی تصویر آئینے میں کیسی ہے یعنی اپنی ذات پر بھی تنقید روا ہے ایسی بات تب کی جاتی ہے جب اپنا من ہر قسم کی کثافت اور آلائش سے محفوظ ہواس شعر میں موصوف نے اپنی ذات کے سچ کو بیان کیا ہے اور حقیقت کی ترجمانی کی ہے۔

ان پر قدرت کی لطف و عنایت کیا ہے دیکھیے اس شعر میں۔

دعائیں مانگی تھیں دو چار پھول پتوں کی

چمن میں شاخ ثمر بار گر پڑی مجھ پر

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ شعراء اپنی قسمت سے شا کی ہوتے ہیں کبھی مقدر کا گلہ کرتے ہیں اور کبھی گردوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور یہ موضوع شعری روایات کا حصہ بن چکا ہے لیکن یہاں شاعرِ مذکور نے ایک غیر روایتی انداز میں بات کی ہے اور کہا ہے کہ میں نے تو استدعا کی تھی کہ مجھے دو چار پھول اور پتے میسر آئیں لیکن مشیت نے ایسی یاوری کی کہ گلستاں میں شاخِ ثمر جو ثمر سے معمور تھی میرے اوپر آ کر گر پڑی یعنی مجھے میر ے تقاضے سے بھی فزوں تر نواز دیا گیا۔ اب ذرا بیدادِ زمانہ کی شکایت ان کی زبانی سنتے ہیں۔

پچھلی قطار میں ہیں کھڑے ساٹھ سال سے

شہرِ ہنر میں کون سے فنکار ہم ہوئے

دنیا میں نا انصافی کا راج ہے اور شعرو سخن جیسا مقدس شعبہ بھی اس کی چیرہ دستی سے محفوظ نہیں رہ سکا، وہ لوگ جنہوں نے اپنی عرق ریزیوں سے دنیائے شعر کو مہکا دیا ہے وہی ناقدری کا شکار ہیں اور بونوں کی علم داری ہے جنھیں انعامات و  اعزازات سے نوازا جاتا ہے وہ لوگ جنھوں نے گیسوئے شعر سنوارنے میں شب و روز صرف کیے ان کا کہیں نام و نشان تک نہیں ہے سہیلؔ غازی پوری کا یہ شعر اصل میں ناقدریِ جہاں کا ایک نوحہ ہے جو اپنے اندر بھرپور تاثر رکھتا ہے۔ سہیلؔ صاحب کی ندرت نگاری ملاحظہ ہو۔

وہ ایک شخص غموں کا اسیر تھا کب سے

خبر نہیں کہ پرستارِ میرؔ تھا کب سے

 

کچھ ایسے حرف لکھوں شاعری کے ماتھے پر

کہ تیرگی نہ رکے روشنی کے ماتھے پر

 

آنکھوں میں کوئی رنگ نہ دل میں کوئی امنگ

جیسے کہ بند تالے پہ قبضہ جمائے زنگ

 

فکر کے چراغوں کو کوئی تو جلائے گا

اے سہیلؔ ڈرنا کیا تند خو ہواؤں سے

پہلاشعر حزنیہ طرزِ فکر کا حامل ہے جس میں سہیلؔ غازی پوری صاحب بھی معتقدِ میرؔ نظر آتے ہیں۔ انہوں نے ایک شخص کا حوالہ دے کر اس کے مصائب و آلام کے ڈانڈے حزنِ میرؔ سے جا ملائے ہیں یہ شعر عظمتِ میرؔ کا عکاس بھی ہے اور حزن و ملال کا شاہکار بھی جس میں وقت کا کوئی تعین نہیں ہے دوسرے شعر میں شعر گوئی کا حسیں ضابطہ رقم کیا گیا ہے جس میں لکھنے والوں کو روشنی کا ایک ہالہ متعارف کرایا گیا ہے کہ میں ایک ایسی شعری روایت رقم کر جاؤں جس میں روشنی کے عکسِ جمیل پر تیرگی کا احتمال نہ رہے یہ شعر دنیائے شعر کے لیے ایک قند یل کی حیثیت رکھتا ہے جس سے شعور و آگہی کی لویں پھوٹ رہی ہیں اور شاعرِ موصوف کا فیض جاری ہے تیسرے شعر میں کئی شعری تلازمے کارگر نظر آتے ہیں جن میں آنکھیں رنگ، امنگ، بند تالے، قبضہ جمائے اور زنگ جیسی خوبصورت تمثیلات ہیں جہاں منظر نگاری کا دلکش رنگ آشکار ہو رہا ہ وہاں ان کی کہنہ مشقی بھی عیاں ہو رہی ہے اس شعر میں دل کی ویرانی کا دلکش اسلوب ہے جو اس امر کی غمازی کر رہا ہے کہ فکر ی تنوع کے ساتھ ساتھ قاری کے لیے ان کا اسلوبیاتی انداز بھی دلچسپ اور قابلِ غور ہے آخری شعر میں رجائیت کی جڑیں پھوٹ رہی ہیں اور اس امید کا بیانِ ذیشان ہے کہ فکر کے چراغوں سے روشنی کے سلسلے جاری وساری رہیں گے اور خود آموزی کے انداز میں کہا گیا ہے کہ تندو تیز او سرکش ہواؤں سے ڈرنے کی قطعاً ضرورت نہیں جیسے کسی شاعر نے خوب کہا ہے۔

روشنی گر خدا کو ہو منظور

آندھیوں میں چراغ جلتے ہیں

ان اشعارسے شاعرِ بزرگوار کی فکر و فن سے دلی وابستگی کی عکاسی جلوہ ریز ہو رہی ہے میرے فاضل دوست اختر شاہ جہاں پوری نے اپنے تنقیدی شذرے میں سہیلؔ غازی پوری صاحب کو پاکستان کے صفِ اوّل کے شعرا میں شمار کیا ہے ہم سمجھتے ہیں یہ ان کے ساتھ زیادتی ہے ہمارے خیال میں وہ عصر حاضر کی دنیائے شعر کے صفِ اوّل کے شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔

شعور آگہی کی سطحوں کو اجاگر کرنے والا ان کا ایک اور شعر نذرِ قارئین ہے

فصیلِ جاں پہ اندھیرا ہے اے شبِ ہجراں

چراغ رکھنے کا کچھ اہتمام کرتے ہیں

موصوف زندگی کی آشوب زدگیوں کا گہرا ادراک رکھتے ہیں اور ان کا مداوا چاہتے ہیں وہ جہاں دوسروں کو ظلمتوں اور وحشتوں کے خلاف عملی تلقین کرتے ہیں وہاں خود بھی عملی طور پر فعال نظر آتے ہیں اور یہ امر ان کے خلوص کا مظہر ہے اس شعر میں بھی کچھ ایسا ہی سماں نظر آتا ہے اور فصیل جاں کی تیرگی سے رستگاری پانے کے لئے چراغ کا اہتمام کر رہے ہیں۔

آمدہ شعر میں شاعر کا تنقیدی شعور دیدنی ہے۔

نہیں ضوابطِ شعر و سخن مقرر کیا؟

جو حرف حرف نہ پرکھے وہ سخن ور کیا؟

اساتذۂ سخن کو بہت قلق ہوتا کہ جب کوئی شعری ضابطوں کی پاس داری نہیں کرتا یا ان کی حدود و قیود کو پھلانگتا ہے یہاں بھی وہ یہ فرما رہے ہیں کہ ضوابط شعر و سخن مقرر ہیں اور جو حرف حرف کو پر کھنا نہیں جانتا شاعر کہلانے کا استحقاق نہیں رکھتا یہاں ایک گہری شعری رمز کی بات کی گئی ہے۔

ان کا ایک سماجی خدمت کے حوالے کا حامل شعر دعوتِ التفات دے رہا ہے  ؎

کسی کو ہنس کر کسی کو روکر دلاسے دینا

یہ درحقیقت عبادتیں ہیں خیال رکھیئے

شاعر یا تخلیق کار کے اندر جب تک خلوص کی جڑیں گہری نہیں ہوتیں اس وقت تک وہ معتبر نہیں ہوپاتا لیکن بفضلِ تعالیٰ جنابِ سہیلؔ خلوص کی دولت بے پایاں سے مالا مال ہیں ان کے اسی خلوص کا فیض ان کے کلام میں ایک موجزن سمندر کی مانند ہے شعر ہٰذا میں بھی یہی بات ہے جو قابل غور ہے جس میں یہ آدرش دیا جا رہا  ہے کہ دکھی انسانیت کی خدمت عین عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور انسانیت کے زخموں پر مرہم کے لئے انہوں نے طریقہ ہائے کار بھی وضع کر دیئے ہیں کہ کسی کوہنس کردلاسہ دیں یا روکر یہ خیال رہے کہ یہ کارِ عبادت ہے۔

دو اور اشعار مجبورِ تبصرہ کر رہے ہیں   ؎

اپنے حروفِ عصر کی تحقیر کیوں کریں ؟

جو بات سچ نہ ہو اسے تحریر کیوں کریں ؟

ہم نے بدل دیں سینکڑوں قوموں کی قسمتیں

اہلِ قلم ہیں خواہشِ شمشیر کیوں کریں

شعرِ اوّل میں موصوف نے عصری ادب کو حروف عصر سے موسوم کر کے حسن ایمائیت پیدا کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے ادب کی تحقیر کس لیے کریں اور جو بات صداقت کا درجہ نہیں رکھتی اسے ہم تحریر کیوں کریں صداقت پرستی ہر کھرے قلم کار کا شیوہ اور وطیرہ ہوا کرتی ہے اور موصوف بھی اس صفتِ عالیہ سے متصف ہیں شعرِ دوم میں بھی حزب القلم کی عظمت کا اعتراف ہے اور قلم کی حرمت کا بیانِ دل نشیں ہے اور یہ شعر بھی ایک تاریخی دستاویز کی سی حیثیت رکھتا ہے وہ کہتے ہیں کہ اہلِ قلم نے سینکڑوں قوموں کی قسمت بدل دی اور ہم قلم کے وارث ہیں اور ہمیں شمشیر کی چنداں ضرورت نہیں ہے ہم اپنے قلم کے توسط سے اپنا لوہا منوا سکتے ہیں۔

گہری حساسیت کا آئینہ دار شعر دعوتِ غور دے رہا ہے  ؎

ذرا سی بات سے دل ٹوٹ بھی تو سکتے ہیں

اس بات کا اکثر خیال رکھنا ہے

اس شعر میں روز مرہ زندگی کا ایک ضابطۂ اخلاق بتایا گیا ہے اگر ہر فرد اس کا عملی اطلاق اپنی ذات پر کرے تو یہ دینا بہشت بن سکتی ہے اصل میں بہشت کی تعریف بھی یہی ہے کہ ایک ایسا مقام جہاں آزار کو عمل دخل نہ ہو اس شعر میں ایک بسیط احساس پایا جاتا ہے کہ چھوٹی سی بات سے کسی کا دل ٹوٹ سکتا ہے اور زندگی میں اس بات کو خصوصی طور پر خاطر میں لانا ہے اصل میں حدیث مبارکہ کی روشنی میں مسلمان کی تعریف بھی یہی ہے کہ وہ صحیح معنوں میں مومن ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

یہ چند جھلکیاں تھیں جو ہم نے سہیلؔ غازی پوری کے فکرو فن کے حوالے سے ہدیہ قارئین کی ہیں ان کے تمام تر اشعار سراپا انتخاب ہیں اور حوالے کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کے حوالے سے خامہ فرسائی کے لئے دفتروں کے دفتر درکار ہیں ان کے فن کی کئی حیثیتیں ہیں اور ہر حیثیت معتبر سے انہوں نے کامیابی سے نعت گوئی بھی کی اور حمد نگاری بھی۔ اس نسبت سے ان کے مجموعے بھی آ چکے ہیں غزل تو ویسے بھی ان کی فنی پہچان ہے اس کے علاوہ انہوں نے ہائیکو پر بھی کامیابی سے مشا طگیِ فن کی ہے منظوم تبصروں کی کتاب کے بھی دو ایڈیشن آچکے ہیں حال ہی میں انہوں نے تضمین نگاری کی نئی طرح ڈالی ہے اور تضمین کے کلاسیکی انداز سے تغیر کی راہ نکالی ہے جو ان کا جدا گانہ انداز ہے اور روایت کا روپ دھار نے کی بساط رکھتا ہے سہیلؔ غازی پوری کا غزل نگاری سے ایک دم آزاد نظم کی طرف راغب ہونا مذکورہ ہیئت کی پذیرائی پر دال ہے جس سے یہ قیاس بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ آزاد نظم اپنے وجود کو تسلیم کرانے میں مصروف و  منہمک ہے اور اس سلسلے میں اسے اطمینان بخش کامیابی بھی میسر آئی ہے یہی وجہ سے کہ بیشتر سخنوران کے ہاں اس کا طوطی بولتا نظر آتا ہے ابھی تک سہیلؔ غازی پوری کے ایک درجن کے قریب شعری مجموعے زیور طباعت سے مرصع ہوچکے ہیں موصوف سہ ماہی کتابی سلسلہ شاعری کی ادارت بھی کر رہے ہیں جس میں پاک و ہند کے شعرا کی شعری تخلیقات شامل ہوتی ہیں جو سراپا سخن ہے جس میں نثر کا کوئی سروکار نہیں ہوتا یوں اپنی نوعیت کا واحد جریدہ ہے خالقِ کائنات سے استدعا ہے کہ ان کے فن کو زندہ و تابندہ رکھے۔ آمین

٭٭٭

تشکر: جلیل حیدر لاشاری جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید