فہرست مضامین
نَربَدا
اسد محمد خان
ابھی کوئی کہتا تھا کہ ساوَنت اور دلاور ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ Endangered Species میں سے ہیں۔ یہ بھی سنا تھا کہ بالکل ختم ہو گئے، ڈوڈو پرندے کی طرح۔ اور اگر کہیں اُن کا ذکر ملتا ہے تو بس افسانوں کہانیوں میں۔ مارکیٹ اکونومی اور کنزیومر ازم اور احتیاج اور ازلی خود غرضی اور خونی بواسیر اور ریموٹ کنٹرول نے اُنھیں بالآخر نمٹا دیا، اس لیے اُن پر اصرار کرنا anachronism پر اصرار کرنا ہے۔
چلیے یوں ہی سہی… ذکر کرنے میں تو کچھ نہیں جاتا۔ اس لیے آئیے ذکر کرتے ہیں ساوَنتوں کا۔ ایک کہانی جوڑتے ہیں۔
تو پہلے اُس کا ڈھانچا کھڑا کر لیا جائے۔ زمانہ، جگہیں، لوگ:
زمانہ؟ وہی جو مجھے کہانیاں سنانے کے لیے اچھا لگتا ہے __Sur Interregnum __ بلکہ خود فرید خان شیر شاہ سوری کی بادشاہت کے ساڑھے چار برس کہ جب اُس نے سات آٹھ سو کوس لمبی ایک شاہ راہ بنوائی، زمینوں کا اِنصرام درست کیا اور ہند کے شورش زدہ علاقوں میں امن قائم کیا تھا اور اپنی تلوار اور تدبّر سے فتنہ انگیزیوں کا خاتمہ کر کے خلقت کے لیے خدا کی زمین رہنے لائق بنا دی تھی۔
جگہیں؟ جگہوں میں دریا، پہاڑ، مسطّح میدان، چھوٹی بستیاں، گاؤں، جنھیں جاننا اچّھا لگتا ہے۔
تو لیجیے، دریا… مگر دریا کو آدمی اور آدمی کو دریا دو سو برس میں اپناتا ہے اور کہیں پان سو برس میں جا کے دوست بناتا ہے۔ میرا اپنا دریا کوئی نہیں، اس لیے لیجیے، میرے پُرکھوں کا اپنایا ہوا دریا نَربَدا۔ (نرَبَ دا میّا!)
اور پہاڑ؟ سَت پُڑا، یا پھر سموچا وِندھیاچل۔ (جَے وِندھیا!)
اور بستی؟ مانڈو، جسے فارسی میں مَندو لکھا اور بولا جاتا تھا۔ اور ایک گاؤں، بہت چھوٹا سا گاؤں، تَل وَنڈی (جسے فارسی بولتے ہوے مغل "تَل وَند” پکارتے تھے۔ جیسے پچاس گھروں کا گاؤں نہ ہوا اَلوند، ہلمند ہو گیا۔)
اور لوگ؟ دو راج پُوت باپ بیٹے، نارنگ اور سارنگ __ کنور بِکرم نارنگ سنگھ اُوجّینی اور کنور بِکرم سارنگ سنگھ اُوجّینی۔ اور ایک نوعمر لڑکی، کہ جیسی ساوَنتی کہانیوں میں لڑکیوں کو ہونا چاہیے: بلند قامت، گوری چٹّی، مظلوم __ یا شاید مظلوم نہیں۔ اور چار حرام زادے ٹھگ۔ اور بہت سے پِٹے پِٹائے محروم لوگ، اور صاحبِ ثروت با اختیار لوگوں کے بے اختیار lackies اور زر خرید پَنڈے اور جی حضوریے اور دوسرے حشرات الارض۔
ہمارے پرِنسی پَل کردار __ ساوَنت اور لڑکی اور ٹھگ __ خاندیش سے آتے ہوے دریا پار کریں گے اور دریا کے پاس ہی بسے اُس گاؤں تل ونڈی میں رُکیں گے اور اگر گئے تو آگے شمال کی طرف مانڈو کو روانہ ہو جائیں گے۔ یعنی یہ منصوبہ ہے۔ کیوں کہ خاندیش کے کھیت مزدوروں کے قافلے کے قافلے مانڈو پہنچ رہے تھے۔ ویسے شیر شاہی بندوبست (کم رفتاری سے ہی سہی) خاندیش کے بدحال مزارعوں تک پہنچنا شروع ہو گیا تھا۔ اُن کے بادشاہ میاں مبارک شاہ نے سلطانِ عادل کی اطاعت قبول کر لی تھی اور اپنی بیٹی کا ڈولا شیر شاہی حرم میں پہنچا دیا تھا۔ مگر بادشاہوں کے دستور کے مطابق شیر شاہ نے مبارک شاہ کی بیٹی کو ملکہ نہیں بنایا۔ فرمان جاری ہوا کہ یہ شاہ زادی اب سلطانِ عادل کی منھ بولی بیٹی ہے، اِسے ملک مالوہ بُندیل کھنڈ کے فلاں علاقے میں خاصے کے فلاں فلاں گاؤں عطا کیے جاتے ہیں۔ اس طرح خاندیش والوں نے خواب دیکھنا شروع کر دیے کہ ملک پنجاب و دوآبہ کی طرح اُن کے کھیتوں میں بھی اب سونا اُگنے لگے گا۔
پرانے خوش حال علاقوں کی طرف نقل مکانی شروع ہو گئی۔ خاندیش میں جن کے پاس ایک بِیگھے زمین تک نہ ہو گی اُنھیں امید تھی کہ سلطانی قلمرو میں چند روز میں اپنی محنت سے وہ ایک کھیت، ایک باڑے کے تو مالک بن ہی جائیں گے۔
تو اب… آگے چلتے ہیں۔
خاندیش کے میکھی بار علاقے کے مفلوک الحال کسانوں کی ایک خراب و خستہ بیل گاڑی۔ بیل گاڑی کو بھُک مَرے بیلوں کی جوڑی چیونٹی کی رفتار سے کھینچتی ہوئی دریا کی طرف لے جانے کا جتن کر رہی ہے۔
اِس بیل گاڑی میں وہ تینوں سوار ہیں __ بڈّھا بکرم نارنگ سنگھ، اُس کا بیٹا بکرم سارنگ سنگھ اور وہ لڑکی۔
نارنگ سنگھ کو پرانا دَمہ تھا۔ بیٹے نے بارہ پندرہ دن سے ڈاڑھی کو اُسترا نہیں لگایا تھا، باپ کے سامنے بیٹھ کر اُسترا چلانا اُسے اچھا نہیں لگتا تھا۔ ہاں اپنی مونچھوں کو آنکھ بچا کے وہ کبھی تاؤ ضرور دے لیتا تھا۔ لڑکی کے شانے پر تلوار کا پُرانا زخم تھا __ پانچ چھ دن پرانا۔
لڑکھڑاتی ہوئی بیل گاڑی گڑواٹ پکڑے پکڑے برگد کے ایک چھَتنار کے نیچے پہنچ کر رُک گئی۔ یہاں جا بہ جا بےقاعدہ چولھے بنے تھے اور نئے پرانے الاؤوں کے نشان تھے۔
گاڑی رُکتے ہی لڑکا سارنگ ٹھِیے سے اٹّھا اور تکیے کی مُوٹھ پر ہتھیلی جما کے پھُرتی سے اُلٹی چھلانگ لگاتا زمین پر آ کھڑا ہوا۔ اُس نے یہ سب دکھاوے کے لیے نہیں کیا تھا۔ ایک پہر سے وہ گاڑی ہانکتا ہوا آیا تھا تو گاڑی کی ماٹھی چال نے ہاتھ پیروں میں آلکس بھر دی تھی، اُس سے پیچھا چھڑانا ضروری تھا۔ اب اُس نے پچھلے تختے سے بندھا مشکیزہ کھولا اور باپ کو پانی پلایا۔ بوڑھے نے اوک سے پانی پیا تھا۔ لڑکی اُسے محویت سے دیکھ رہی تھی۔ بوڑھے نے ایک قطرہ بھی نہ گرنے دیا۔ پانی پی کر اُس نے گیلے ہاتھوں سے اپنا چہرہ تَر کیا اور دھیرے سے کہا، "مااائے بھَوانی!”
لڑکے نے مشکیزہ لڑکی کی طرف بڑھایا تو وہ سٹپٹا گئی۔ بولی، "کوئی برتن، آبخورہ… پانی کے لیے کچھ نہیں تمھارے پاس؟”
لڑکے نے انکار میں سر ہلایا۔ بولا، "ٹوٹ گیا تھا۔ پھینک دیا۔ اوک سے پی لو۔”
لڑکی کہنے لگی، "مجھے نہیں آتا۔ ہم لوگ تمھاری طرح اوک سے نہیں پیتے۔” پھر جلدی سے بولی، "ہم پی نہیں سکتے۔ بہت سا پانی گرا دیتے ہیں۔ آتا نہیں پینا۔”
لڑکا مسکرا دیا۔ بونگے پن سے بولا، "تو چھاگل سے منھ لگا کے پی لو۔”
بوڑھے نے، جو ابھی تک بے تعلقی سے دونوں کی باتیں سن رہا تھا، پہلو بدلا اور منھ سے غرّاہٹ کی آواز نکالی۔ لڑکی انکار میں سر ہلاتے ہوے جلدی جلدی کہنے لگی، "نہیں نہیں۔ مشکیزہ جوٹھا ہو جائے گا۔ بتایا تو ہے۔ میں تمھاری قوم سے نہیں ہوں۔”
"تو کیا ہوا۔ پر ہاں، ٹھیک کہتی ہو۔ بابا کے لیے جوٹھا ہو جائے گا۔”
"اور تمھارے لیے بھی۔”
اُس نے انکار میں سر ہلایا۔ "ناں۔ میرے لیے نہیں۔” یہ کہہ کے وہ گاڑی میں بچھے پیال میں اِدھر اُدھر ہاتھ مارنے لگا۔ لڑکی کو اس کی بات عجیب لگی تھی تو وہ اس کی طرف دیکھنے لگی، مگر لڑکے کے چہرے پہ سادگی تھی۔ وہ سمجھ گئی کہ بات میں کوئی پینترا نہیں ہے۔
بوڑھے نے پوچھا، "ارے کیا ڈھونڈ را ہے رے؟”
لڑکا جھونجھل سے بولا، "ایک گڑوی بھی تو تھی اپنے پاس؟”
بوڑھے نے گہری سانس بھری، "ہاں یہ رہی۔ پر اس میں تو نمک کی ڈلی بھر دی ہے۔”
"لاؤ اِدھر دو۔”
بوڑھے نے پیتل کی گڑوی لڑکے کی طرف بڑھائی۔ "لے، پر کرے گا کیا؟” اتنی سی بات میں اُس کا سانس پھُول گیا۔
"دیکھتے جاؤ،” کہہ کر لڑکے نے گڑوی اپنے انگوچھے پہ اُلٹ لی، اُسے کپڑے سے صاف کر کے مشکیزے سے پانی لے لڑکی کی طرف بڑھا دیا۔
لڑکی بہت پیاسی تھی۔ سارا پانی پی گئی۔
لڑکے نے پوچھا، "اَور چیّے؟”
"نہیں،” وہ بولی۔ "ابھی بہت دور جانا ہے۔ چار چھ کوس آگے ملے گا دریا۔ بیچ میں کوئی کنواں باؤلی بھی نہیں۔”
لڑکے نے پانی پینا شروع کر دیا تھا۔
پانی پی چکا تو اُس نے گیلی ہتھیلیوں سے اپنے پپوٹے مَلے اور کہا، "ہاہا… کیا مَجے کا پانی ہے!” پھر بولا، "ای جگے تمھاری دیکھی بھالی ہے؟”
"ہُوں۔”
"کیسے؟”
"میرے بابا مَلّو خان کے بندوبست میں… اہلکار تھے۔”
مَلّو خان کبھی مانڈو کا حکمراں تھا۔ شیر شاہ کے سالار شجاعت خان سُوری نے اُسے کھدیڑ کے گجرات میں پناہ لینے پہ مجبور کر دیا تھا۔ بوڑھے نے، جو منھ پہ چادر ڈالے پیال پر گٹھری بنا ہانپ رہا تھا، سر اٹھایا اور لڑکی کو کڑی نظروں سے دیکھا۔ "کیا تھے تیرے باپ؟ … ملّو کھان کے پاس کیا کرتے تھے؟”
جواب دینے سے پہلے لڑکی نے لڑکے کی طرف دیکھا۔ اُس نے سر کے اشارے سے تسلّی دی کہ گھبراؤ مت۔ لڑکی بولی، "شحنہ تھے میرے بابا۔”
بوڑھے کو جیسے اِتنے ہی بُرے جواب کی توقع تھی۔ ہلکی جھُلسن کے ساتھ بولا، "اچّھا، کوتوال کی بِٹیا ہے؟ … کیا نام ہے کوتوال کا؟”
"جمرُو شا نام تھا میرے بابا کا… گزر گئے۔”
بوڑھا "اُوں” کہہ کے چپ ہو گیا۔ اس "اُوں” کا کچھ بھی مطلب ہو سکتا تھا۔ مرضی مالک کی… ہمیں کیا… یا یہ تو ایک دن ہونا ہی تھا… کچھ بھی۔
لڑکی نے پوچھا، "آپ جانتے تھے بابا کو؟”
"آں ں ں؟ … نہیں نہیں، بس نام سنا ہے۔ لوگ کہتے ہیں بھلا آدمی تھا جمرُو شحنہ۔”
کانٹا سا نکل گیا۔ لڑکی نے پھر لڑکے کو دیکھا، وہ مسکرا رہا تھا۔ مگر دونوں سمجھ گئے تھے کہ بڑے میاں کو جتنا علم ہے اُس سے کم بتا رہے ہیں۔
لڑکی سمجھی بات ختم ہو گئی۔ وہ گاڑی میں اپنی جگہ سنبھالنے کو بڑھی تھی کہ بوڑھے کی ہانپتی ہوئی آواز آئی۔ "بھلا تُو مانڈو کا اَمَن امان تج کے چَندیری میں کھوار ہونے کائے کو گئی تھی؟”
لڑکی نے سوچا کھیل میں شامل ہوے بِنا چارہ نہیں۔ اُس نے بھی ایک گول مول لفظ کہہ دیا۔ بولی، "بس۔”
بوڑھا راج پوت گرمی کھا کے بولا، "چندیری رائے سین میں تو اُس… اُس پورن مَل کی تانا شاہی چل رہی ہے… حرام جادے کی۔”
لڑکے نے دھیمی ملامت سے کہا، "اُہُوں… بابا!”
"ہاں ہاں سُن لیا،” بوڑھے کی خجِل آواز آئی۔ لڑکی نہ ہوتی تو وہ اُس حرام جادے کے لیے اَور بھی کچھ کہتا۔
چَندیری کا نام سن کے لڑکی کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا تھا۔ اُس نے اپنا لہنگا لُگڑا سمیٹ کے جیسے کسی نا موجود خنکی سے بچاؤ کرنا چاہا۔ لڑکے نے سوچا شانے کا زخم کھٹک رہا ہو گا جبھی بےچاری کانپتی ہے۔ اُس نے باپ کو سر کے اشارے سے منع کیا __ مطلب، رہنے دے بابا کوئی اَور بات کر __ مگر وہ اپنی رو میں بولے چلا جا رہا تھا۔ "چندیری رائے سین میں تیرے اپنے کوئی ہیں؟”
لڑکی بےچین ہو کے بولی، "میں وہاں سے نہیں آ رہی، چندیری سے۔ میرا کوئی نہیں وہاں۔”
بوڑھا حجّت کرنے پہ تُل گیا تھا۔ "سَبیرے تو تُو نے یہی بتایا تھا…”
"چھوڑ بابا، یہ کیا لے بیٹھا۔”
بوڑھا پھر گرمی کھا گیا۔ "کیا چھوڑوں بھلا؟ بات بھی نہیں کرنے دیتا… ارے جب تُو اِسے بئوڑی سے اٹھا کے لایا ہے، کھُونم کھُون، جب تو یہ ایسے ہی بولتی تھی کہ چندیری کی ہوں۔ ارے ہَے تو ہَے چندیری کی۔ اس میں لُکانے چھپانے کی کون بات ہے۔” بڑبڑاتے ہوے اُس کی آواز ڈوب سی گئی۔ اُس نے اوپر چادر لے لی تھی مگر پھر چادر سرکا کے ایک بار پوچھا، "اُدھر تیری شادی تو نہیں ہوئی تھی… چندیری میں؟”
جواب نہیں ملا تو ہانپتے ہوے اُس نے چادر میں دوبارہ سر چھپا لیا۔
لڑکا مزے میں سر ہلا ہلا کے ہنسنے لگا۔ ساتھ میں ڈر بھی رہا تھا کہ بابا کہیں بُرا نہ مان جائے۔ اُس نے مَٹھارنے کو پوچھا، "کہو تو گاڑی بڑھائیں۔ ہاں رے بابا؟ … گھنا رستا پڑا ہے؟”
بڑے میاں نے منھ لپیٹے لپیٹے کچھ کہا جو بیٹے کی سمجھ میں نہ آیا۔ دھیمی آواز میں لڑکی سے کہنے لگا، "تم کہو تو چلتے ہیں۔ یا روٹی بنا لیں؟ … بھوک لگی ہو گی؟”
"نہیں نہیں… ٹھیک ہے۔”
"کیا ٹھیک ہے؟”
"یہی… ہاں، روٹی بنا لو۔ مَیں بنا دوں گی روٹی۔” وہ لڑکے سے بات کر رہی تھی مگر دھیان اُس کا رستے پر ہی تھا۔
لڑکے نے نرمی سے اُس کے سر کو ہاتھ لگایا۔ "ڈرو مت۔ بہت آگے آ گئے ہیں۔ اب تو مانڈو کا پڑوس لگ گیا ہے۔ اب کوئی نہیں آئے گا۔”
لڑکی نے کئی بار ہاں میں سر ہلایا۔ وہ گاڑی سے اُترنے کو اُٹھی، تختے پر ہاتھ جماتی تھی کہ تکلیف سے چکرا کے پھر بیٹھ گئی۔ گھاؤ میں کھٹک ہو رہی ہو گی۔ لڑکا بولا، "بیٹھی رہو۔”
"نہیں میں اتروں گی۔”
"تو ٹھیرو… میری بانہہ تھام کے اترو۔” اُس نے اپنے مضبوط بازو تختے پر جما دیے، پشتہ سا بن گیا۔ لڑکی پہلے جھجھکی مگر اُس کے بازوؤں پر اپنی کہنی اور بازو ٹکاتی سہولت سے اتر آئی۔ اُس کا پیر زمین پر لگتے ہی لڑکا دور ہٹ کے کھڑا ہو گیا۔ "کھیال سے ہِلو ڈُلو گی تو جلدی بھر جائے گا۔ گھاؤ کوئی گہرا نہیں، ای بات اچھی ہے۔”
گاڑی کے ہچکولے سے بوڑھے کی آنکھ کھل گئی۔ اُس نے جھپکی لی تھی، سمجھا ہو گا گاڑی چل رہی ہے۔ پھر وہ لڑکے اور لڑکی کو برتن بھانڈے اُٹھاتے دیکھ کے تسلّی سے سر ہلانے لگا۔ بولا، "ہاں رے سارنگا! کچھ کھا پی لے۔ پھر چلنا آگے۔”
لڑکے نے کہا، "ہَئو!” مگر بوڑھا اُس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ لڑکی کے لباس کو ایک ٹک دیکھے جا رہا تھا۔ لڑکے سے کچھ کہتی ہوئی لڑکی اُس کے رُخ گھومی تو کسی یاد سے بوجھل آواز میں بوڑھا جیسے خود سے کہنے لگا، "ٹَھکُرائن نے یہ لہنگا لُگڑا آکھری دفعے شِو راتری پہ پہنا تھا۔ ہاں رے سارنگا؟ … اب پھر شِو راتری آ رئی ہے۔ کِتّے ایک دن رہ گئے؟”
لڑکے نے کوئی جواب نہ دیا تو اونچی آواز سے بوڑھے نے لڑکی کو مخاطب کیا۔ "یہ لہنگا لُگڑا جو تُو پہنے ہے نئیں، یہ سارنگ سنگھ کی ماں ٹَھکُرائن نے…”
لڑکے نے اُسے بات ہی پوری نہ کرنے دی۔ بولا، "ہاں ہاں، شِو راتری پہ پہنا تھا۔ ای بتاؤ روٹی کھاؤ گے کی سکر کندی بھُون دوں؟”
"جو تیرا جی چاہے کر… بات بھی نہیں کرنے دیتا، شالُو! … ٹرٹر کیے جاتائے۔”
لڑکے نے شرارت سے مینڈک کی آواز نکالی مگر باپ نے تیوریاں چڑھائے رکّھیں۔ وہ پیال پر پھیل کے لیٹ گیا تھا اور موٹی دُولائی پیروں پر ڈال پھر سے اونگھنے لگا تھا۔ لڑکے نے تھوڑی چلت پھِرت سے لکڑیاں اکٹھی کر لی تھیں اور اینٹ پتّھر کے کام چلاؤ چولھے میں آگ جلا دی تھی۔
لڑکی چولھے کے پاس جا بیٹھی، بالکل ویسے ہی جیسے ہزاروں برس سے عورتیں چولھوں کے پاس جا جا کے بیٹھتی رہی ہیں۔ لڑکے نے اُسے مسکرا کے دیکھا اور دو پھیروں میں گاڑی سے بہت سی پوٹلیاں اور کلَسیاں اُٹھا لایا۔ ان میں گھی، دالیں، مسالے، چاول، یہی سب کچھ تھا۔ ایک ہانڈی میں پانی نمک ڈال اُس نے دال پکنے کو چڑھا دی۔ لڑکی نے چھاگل سے پانی لے ہاتھ دھوئے اور پرات اور آٹے کی پوٹلی کھینچ کے اپنے سامنے کر لی۔
لڑکے نے پوچھا، "کیا کرتی ہو؟”
"آٹا گوندھوں گی۔”
"تم گوندھو گی آٹا؟”
لڑکی نے ہاں میں سر ہلایا۔
لڑکا بولا، "سنو… پہلے بابا کی روٹی مَیں بنا لیتا ہوں۔ پیچھے تمھارا جی چاہے تو اپنے میرے لیے روٹی بنا لینا۔”
ریشم کے کورے تھان کے سے رنگ والے چہرے پہ گلال پھیل گیا۔ "اخّا! میں تو بھول ہی گئی تھی کہ تم لوگ میری بنائی ہوئی روٹی نہیں کھاؤ گے۔”
"نہیں نہیں… میں تو کھاؤں گا۔ بابا بھی کھا سکتا تھا پر اِس وَخَت دُکھی ہو رہا ہے۔ اُلجھے گا۔ … سنا نہیں، ابھی ماں کو یاد کر رہا تھا۔”
لڑکی سمجھ داروں کی طرح سر ہلاتی چولھے سے دور جا بیٹھی اور لڑکے کو آٹا گوندھتے دیکھنے لگی۔ پھر بولی، "سارنگ سنگھ!”
"ہَئو!”
"تم نے اپنی ماں کا سب سے اچھا جوڑا مجھے پہننے کو دیا ہے تو تمھارا بابا اس بات سے ناخوش تو نہیں ہے؟”
لڑکے نے آٹے کو مُکّی لگاتے ہوے ایک بار لڑکی کی طرف دیکھا۔ "میرا بابا بڑے دل کا آدمی ہے۔ اُوجّینی راج پوت ہے، چھوٹی بات من میں نہیں آنے دیتا۔”
لڑکی نے ہاتھ اٹھا کے جیسے اپنی بات سمجھانی چاہی۔ "ناں ناں، چھوٹے دل کی بات نہیں ہے… بابا سوچتا ہو گا اِنہیں سنبھال کے رکھنا تھا… ماں کی نشانی تو ہیں نا یہ؟”
"ٹھیک ہے۔ پر بابا نے کچھ رکّھا ہی نہیں۔ گھربار کھتم کر کے آگ لگا دی گرھستی کو۔ بس … کپڑے بچا لیے تھے میں نے۔”
لڑکی چولھے کے پاس کھسک آئی۔ "گھربار ختم کر دیا؟ … کیوں؟”
وہ دھیرے سے بولا، "ماں نہیں رہی تو گھربار کس کام کا؟”
"گھربار نہ سہی، پھر بھی۔ رُکتا کچھ نہیں۔ جینا مرنا تو چلتا رہتا ہے۔”
"ہوں۔ سب چلتا رہے گا۔ راج دھانی پہنچ کے میں سواروں میں نام لکھا لوں گا۔ … اپنی گرہستی پھیلا لوں گا۔”
"اور تمھارے بابا؟”
"بابا سادھ لے لے گا۔”
"سادھ؟”
"ہاں… جوگی کا بانا پہن لے گا بابا۔ سادھو بن جائے گا۔”
"اوہ!” لڑکی بڈّھے راج پوت کے لیے دُکھی ہو گئی۔
لڑکے نے ہاتھ کا کام روک دیا۔ "بابا کہتا ہے… اب ایسا ہے کی جِندَگی سے مَنے جِتّا کچھ لینا تھا لے لیا۔” وہ رُکا، دھیرے سے ہنس کر کہنے لگا، "بابا میرا کہتا ہے کہ تُو مل گیا مجھے۔ بس اُوجّینیوں کا نام، اُن کی پَرَم پَرا چل پڑی۔ اور اپنا کہتا ہے کی آگے سُونّیہ ہے اور سنّاٹا جیسا ہے۔ سمجھو ایک اَپار چُپ سی جس کے بیچ اور جس کے آگے کوئی آکار نہیں، کوئی اَواج نہیں… بس مَون ہے… کھاموسی۔ ای بات کرتا ہے میرا بابا۔”
باپ ہِل ڈُل رہا تھا۔ لڑکے نے گاڑی کی طرف دیکھا، اونچی چمک دار آواز میں لاڈ سے بولا، "ہاں بابا، تُو اٹھ گیا؟ آ روٹی کھا لے۔”
لڑکا باپ کو روٹی کھلا چکا تو پرات سنبھالے لڑکی کی طرف آیا۔ بولا، "اب اپنے لیے، میرے لیے روٹی بنا لو۔”
لڑکی نے روٹی بنا لی، دونوں نے ساتھ بیٹھ کے کھا پی لیا۔ برگد تلے ایک پہر گزار کے یہ چل پڑے۔ رات آ گئی۔ یہ کچھوے کی رفتار سے چلتے رہے۔
نربدا کے پتّن تک پہنچتے پہنچتے اگلے دن کا سورج اُگنے کو تھا۔ لڑکی نے ایک دھیمی اُداسی اور شکر گذاری کے ملے جُلے سُبھاؤ سے نئے دن کا استقبال کیا۔ لڑکا جو ٹِھیے پہ بیٹھا اونگھتا ہوا، کبھی بیلوں کو ٹِٹکارتا، کبھی آلھا کے بول کہتا، بوڑھے کو باتوں میں اُلجھاتا چلا آ رہا تھا، آسمان کی گلابی دیکھ کے ٹِھیے سے کود گیا۔ اُس نے ہاتھ باندھ کے ایک بار اپنی پیشانی کو چھوا، پھر دونوں مٹّھیاں کس کے جیسے کسی اَدیکھی کٹار کے قبضے پر گرفت جمائے ہوے ہوا میں وار کیا۔ "جے! ماآاائے نربَ دا!”
وہ نربدا ماں کی جے کار کرتا تھا۔ لڑکی ہولے سے مسکرائی۔ اُس نے روشن آنکھوں سے دیکھا، سامنے گلابی دریا بہہ رہا تھا __ نربدا __ جیحونِ گلگونہ رنگ… مگر یہ تو آسمان ہے جو دریا میں اُتر آیا ہے۔
ابھی اُس نے دریا کے چہرے سے نظریں ہٹائی بھی نہ تھیں کہ صبح کا سنّاٹا بوڑھے راج پوت کی کوڑے جیسی آواز سے چٹخ گیا۔ "سارنگا! ندی کی اور دیکھ۔” لڑکے نے سر گھمایا۔ "دیکھ ٹیلے کی اوٹ سے نکل رہے ہیں۔”
لڑکی نے اُس کے اشارے کی سیدھ میں دیکھا۔
وہ چار تھے۔ گھوڑوں پہ سوار، اپنے ہتھیار دکھاتے ہوے، سیدھے بیل گاڑی کی طرف آ رہے تھے۔ اُن کی کئی رنگ کی مَندِیلیں اور بھَگوا، بینجنی، مُشکی اور لال صدریاں نئے دن کی روشنی میں چمک کر اُجَل گئی تھیں اور اصل سے کہیں زیادہ رنگین دکھائی پڑتی تھیں۔
باپ بیٹے کی آنکھیں جیسے شِکرے بن گئیں۔ دونوں ایک ساتھ بڑبڑائے، "بَٹ مار ہیں سَسُرے!” بوڑھے نے پتّن کی ریت پہ تھوک دیا۔
دوبارہ اُس نے کہا، "ٹھگ ہیں حرام کے جَنے!” اور شانوں پر پڑی ہوئی اپنی دُولائی گرا دی۔ پھر کانوں سے لپٹی چادر پھینک گاڑی کے پیال میں ہاتھ ڈال دیا۔ ذرا کی ذرا میں اُس نے اپنی نیام کی ہوئی سروہی، کٹار اور سَوا بالشت چوڑی راجپوتانی ڈھال پیال سے نکال لی تھی۔ پٹکے میں کٹار اُڑس کے کمر سے نیام کا پَرتَلا باندھتے ہوے "ماآاائے بھوانی!” کہتا وہ گاڑی چھوڑ رَسان سے زمین پہ آ کھڑا ہوا۔ ایک بار اُس نے اپنی تلوار کے قبضے کو چھوا۔ وہ ہاتھ اپنے ماتھے اور آنکھوں پہ پھیرتا ہوا ہونٹوں تک لایا، اُسے چوم کر تلوار کے قبضے پر مضبوط گرفت قائم کی اور بیٹے کی طرف دیکھ کر کہا، "ہاں رے سُپتر سارنگ سنگھ!”
لڑکے نے بھی یہی سب کرتے ہوے دھیرے سے کہا، "ہاں رے بابا!”
دونوں نے اپنی اپنی تیّاری کی خبر دی تھی۔
لڑکے کی کمر سے کھانڈا بندھا تھا۔ کھانڈا بوڑھے کی سروہی سے کوئی سَوائی ڈیوڑھی لمبائی کا تھا۔ ایسے ہتھیار بلَخ اور بخارا سے منگائے جاتے تھے اور صرف نوجوان تَلوَریوں میں مقبول تھے۔ پُرانے اسکول کے ساوَنت انھیں دیکھ دیکھ کے ہنستے تھے اور طنز کرتے تھے کہ گنوار کھا مَرے یا اُٹھا مَرے… کہتے تھے، "ای کھانڈا چھوڑو، کلھاڑا کاہے نئیں باندھ لیہو کمر سے، ہاں بھیّا؟”
لڑکی یاد کر کے مسکرائی۔ اُس نے بٹ ماروں کو بڑھتے اور باپ بیٹے کو تیاری کرتے دیکھا۔ باپ بیٹے کی حرکات میں ایک طرح کی ہمواری، اُن کے سُبھاؤ میں دھیما پن تھا __ گھات کرتے چیتے کا دھیما پن کہ جب وہ زمین سے پیٹ لگائے ایک ایک قدم بڑھ رہا ہوتا ہے۔ ٹھگوں کے تو مرکب تک اُوبڑ کھابڑ ٹانگیں مارتے آ رہے تھے۔
لڑکے نے اب اپنی طرف کے پیال میں ہاتھ ڈال دیا۔ اُس نے ایک سُبک سی برچھی اور راجپوتانی ڈھال کھینچ نکالی۔ "ای لو… دونوں تمھارے ہی مطبل کے ہیں۔” اُس نے یہ ہتھیار لڑکی کی طرف بڑھا دیے۔
"اَخّا!” لڑکی نے برچھی ڈھال سنبھالتے ہوے بے اختیار تعریف کی۔ چاروں سوار خاصا بڑھ آئے تھے۔ اُس نے برچھی ہاتھ میں تولی۔ زخمی شانے کو آرام دینا تھا سو ڈھال کا تسمہ اُلجھا کر اُس نے ہاتھ کو دوسرے شانے پر ٹکا لیا اور ریت میں قدم جما کے کمر سے اوپر اپنا بدن دائیں بائیں جھُلاتے ہوے نیزہ زَنی کی ابتدائی مشقیں دُہرانی شروع کر دیں۔ وہ منھ ہی منھ میں شمار کرتی جا رہی تھی، "ایک، دو، تین، دائیں! ایک، دو، تین، بائیں! تین، دو، ایک، ہا! ایک، دو، تین، ہا!” ہر "ہا!” پر اُس کا برچھی والا ہاتھ ہوا میں مار کرتا تھا۔
لڑکا دیکھ کے مسکرانے لگا۔ مسخرے پن میں اُس کی تعریف کی۔ بولا، "ہاں آں، تمھیں تو یاد ہے۔ وا وا! پورا سبک یاد ہے!” پھر اُس نے خود بھی یہ مشقیں دُہرائیں۔ "ایک، دو، تین، دائیں! ایک، دو، تین، بائیں! تین، دو، ایک، ہو! ایک، دو، تین، ہو!” "ہو!” پر اُس کا بھی ہاتھ نیزہ پھینکنے کا دکھاوا کرتا تھا۔
گاڑی سے سَو قدم دور رہ گئے تو سواروں نے ایک دوسرے کو اشارہ دیا اور رُخ مار کے گھوڑوں کو ایڑ دیتے مختلف سَمتوں میں انھیں دور تک دوڑائے چلے گئے جیسے کبوتروں کی ٹکڑی پہ باز جھپٹّا مارے اور ٹکڑی پلک جھپکتے بکھر جائے۔ باپ بیٹا تو پھر لڑاکے تھے، لڑکی تک سمجھ گئی کہ چاروں کچھ دور تک اپنے گھوڑے لے جائیں گے، پھر مڑیں گے اور ایک دم نعرے مارتے ہوے جھپٹ پڑیں گے۔ یہ پینترا طاقت دکھانے، دہشت زدہ کرنے کے لیے تھا۔
بیسیوں جنگیں، سینکڑوں معرکے جھیلے ہوے بوڑھے تَلوَریے نے منھ سے حقارت کی آواز نکالی، "لِہہ! سؤر پالنے والوں کی اولاد! کِھلواڑ کرتے ہیں کُچّودی کے!”
وہ بیلوں کے برابر کھڑا تھا اور اُنھیں تھپکی دیتا جاتا تھا۔ لڑکی نے جس بوڑھے کو اونگھتے اور گاڑی کے دھچکوں سے بےحال ہوتے، کراہتے ہوے سُنا تھا، یہ وہ بوڑھا ہی نہیں تھا۔
اپنی بیماری میں جو راستے بھر ہانپتا ہوا آیا تھا، اِس وقت لگتا تھا بہت آرام سے ہے۔
دیکھتے ہی دیکھتے وہ جھکا، اُس نے دریا کنارے کی ریت اپنے سیدھے ہاتھ کے انگوٹھے پر لگائی اور "جے ہو!” کہتے ہوے اُسے اپنی پیشانی پر تلک کر لیا۔ تلک لگاتے ہوے اُس نے لڑکی کی طرف دیکھا تھا۔ اُن بوڑھی انگارہ آنکھوں میں ایسی جوت تھی کہ لڑکی نظر نہ ملا پائی۔ سمجھ گئی کہ یہ آخری نیئم ہے۔ وہ اپنی ندی کے قدموں میں پہنچ گیا تھا اور لڑتے ہوے مر جانے کو تیّار تھا۔
مّڑ کے دیکھے بِنا لڑکی جان گئی کہ اُسی وقت لڑکے نے بھی ندی کی ریت سے تلک کیا ہو گا۔
سواروں نے وہی کیا جس کی یہ تینوں توقع کر رہے تھے۔ وہ گھوڑے پھِرا کے نعرے مارتے گاڑی کی طرف جھپٹے۔
لڑکی نے کم عمری سے ہی سواروں کو آمنے سامنے کی جنگ کرتے، پہلو سے گھات کرتے، تعاقب اور پسپائی کی لڑائی لڑتے دیکھا تھا۔ اُس نے سیکھا تھا کہ لڑائی میں گھڑ سوار کے ارادے اُس کی چلت پھرت سے زیادہ گھوڑے کے بدن کی حرکات میں نظر آ جاتے ہیں۔ جس تُرکمانی استاد نے اسے شہسواری تعلیم کی تھی وہ کہتا تھا کہ لڑتا ہوا سوار اپنا اگلا قدم اپنے گھوڑے کے رگ پَٹّھوں پہ لکھ دیتا ہے، پڑھنے والی نظر ہونی چاہیے۔ وہ یہ بھی کہتا تھا کہ بُرے سوار کی پہچان یہ ہے کہ وہ اور اُس کا گھوڑا دو الگ الگ بدن نظر آتے ہیں۔ لڑکی نے چند قدموں کے بعد دیکھ لیا تھا کہ حملہ آور نہ اصیل شمشیر زن ہیں نہ اُن کے گھوڑے اصیل جانور۔ یہ تو چار ٹٹّوؤں کو چار چڑی مار دوڑائے لیے آتے ہیں۔ زخمی شانے کے باوجود برچھی لہراتے ہوے اُس نے عجب توانائی محسوس کی۔
جھپٹتے ہوے سواروں نے گاڑی والوں پر وار نہ کیا۔ وہ برچھیوں کی زد سے پَرے پانچ پانچ دس دس قدم کی چھُوٹ دے کے کاوا مار گئے اور تھوڑی دور جا کر گاڑی کے گرد ایک ڈھیلے ڈھالے دائرے میں گردش کرنے لگے۔ انھوں نے دیکھ لیا تھا کہ گاڑی والوں پر اِن سب باتوں کا اثر نہیں ہونے کا۔ لڑکی نے سُنا، بوڑھا راج پوت اپنے بیلوں کو تھپکتا ہوا کھانسی مِلی ہنسی ہنس رہا تھا۔ پھر اُس نے اپنی بُندیل کھنڈی میں اونچی آواز میں ایک کہاوت سنائی۔ بولا، "سنو رے سنو! اوچھا ہاتھ چلا کے بَھگ لیتے تو آدھی پونی، ماشے رتی پھر بھی بات بنی رہ جاتی۔ ارے اِس گیدڑ بھبھکی نے تو سسرے! سَبرائی بھانڈا پھوڑ دیائے… ہو ہو ہو۔” ہنستے ہنستے اُسے پھر کھانسی آ گئی۔
لڑکے نے زمین پر بےچینی سے پاؤں مارا۔ پکار کے بولا، "ارے کون ہو رے تم؟ دھُول اُڑانے کو کیا اے ای جگے رہ گئی تھی؟ جاؤ! کھیل تماسے کرنے کو مُلُک کی جمِین پڑی ہے… چلو چلو اِدھر سے۔”
سواروں نے اپنی گردش روک دی۔ اُن میں جو بڑی عمر کا تھا، جس نے ڈاڑھی کو مانگ نکال کے اُسے کلّوں کانوں پہ چڑھا رکّھا تھا، بھاری آواز میں بولا، "ای کئونوں کھیل تماسا نئیں رے۔ تُرنت جواب دے۔ کون ہے تُو؟ کاں سے آرا ہے؟ کدھر جاتا ہے؟”
بوڑھا راج پوت بولا، "بھلا تُو کون پوچھنے والا؟ شیر شاہ کی رعیّت ہیں۔ جِدھر کو مَرجی کرے گی جان گے۔ چل اِدھر سے سَورے! گھوڑا کدُانا بند کر نئیں بیل بِدکے گا۔”
مانگ دار ڈاڑھی والا حقارت سے بولا، رعیّت سیرساہ کی؟ واہ رے وا! اُدھر کا کر رئے تھے کھاندیس ماں؟ … ای جنانی تِہاری کون ہے؟”
سارنگ سنگھ کڑک کے بولا، "جنانی ٹھاکروں کے سنگ ہے۔ سمجھو ٹھَکُرائن ہے۔ نجَر نیچی کر، نہیں ہم آنکھ نکال لیں گے۔”
لڑکی نے سوچا لہنگالُگڑا ہوتے بھی یہ جان گئے ہیں کہ ٹھاکروں کی عورت نہیں، میں اَور قوم کی ہوں۔
بٹ ماروں میں جو سب سے نوعمر تھا اور لڑکی کو برابر گھورے جا رہا تھا، سارنگ کی بات سُن کے اُس نے بے سوچے سمجھے گھوڑا بڑھا دیا۔ لڑکی نے دیکھا، راج پوت لڑکے نے ٹھُکی ہوئی ریت میں آسانی سے ترچھے ڈیڑھ قدم لیے، پھر نیزے کو تول کے اَنی کی چمک میں اُسے پہلے بائیں طرف، پھر دائیں طرف دکھایا۔ اگر مانگ دار ڈاڑھی والا اپنے نوعمر ساتھی کو گھوڑا پھِراتے میں ایک بازو ٹھیل نہ دیتا تو لڑکی نے سارنگ کی چَلَت کی آخری گنتی دل ہی دل میں گن لی تھی۔ تین، دو، ایک، ہا! اِس آواز پر اُس نے خیال ہی خیال میں لڑکے کا نیزہ جیسے سوار کی لال صدری کے بائیں طرف کے تُکمے پر مار کرتے دیکھا۔ مگر نہیں، راج پوت لڑکے کا ہاتھ رُکا ہوا تھا۔ ہدف نے جگہ چھوڑ دی تھی، نیزہ لڑکے کے ہاتھ ہی میں رہا۔ آگے آنے والے دونوں سواروں کے جانور چمک کے ہٹ گئے۔
مانگ دار ڈاڑھی والا گھوڑا سنبھالتے ہوے بولا، "جیادہ گرمی مت دکھا ٹھاکُر۔ بات سُن بات۔”
بوڑھے ٹھاکر نے حقارت سے "لِہہ!” کہا۔ لڑکے کو سوار کی بات میں مصالحت سی سنائی دی تھی۔ وہ بولا، "بات سناتا ہے تو گھڑ سواروں کو ہٹا اِدھر سے۔”
بڑی عمر کا بٹ مار، جو اُن کا مہتر ہو گا، گھوم گیا۔ اُس کے اشارے پہ تینوں نے گھوڑے پھِرائے، دور جا کھڑے ہوے۔ لڑکا بولا، "ہاں سُنا کیا بات ہے۔”
مہتر بولا، "ٹھاکر ہے تُو۔ اِس کر کے ہم بات کھَری کرتے ہیں۔”
لڑکا اُس کی آنکھوں میں دیکھ کے بولا، "اچّھا۔”
مہتر نے نظریں چُرا لیں۔ بولا، "ہاں… جو پلّے پار جانے کی صَلا ہے تو ٹھاکُر! تین جَنوں کی تین مُہریں دے ای دو۔ بس… اور نکل جاؤ۔”
بوڑھے کی آواز آئی، "دَھت تیری اوکات پہ!”
لڑکے نے پوچھا، "اچّھا؟ پر مُہریں کس بات کی؟”
بولا، "ٹھاکر! ای دریا کی گھاٹ چوکی اَبئے اپنے پاس ہے۔”
لڑکے کو اُس سے بات کرنے میں مزہ آ رہا تھا۔ پوچھنے لگا، "اَپن کون؟”
"مبارک ساہی بندوبست ماں سَوار ہیں ہم۔ ای دریا کی گھاٹ چوکی کے مہتر ہیں۔”
بوڑھے راج پوت نے ٹھٹّھا لگایا۔ "لِہہ حرامی جھوٹھے! ارے مبارک شاہی بندوبست اب کون بات کا؟ تجھے کھبر نئیں پلّے پار مانڈو ہے مانڈو؟ دریا کے دوئی کنارے پہ شیر شاہ کی تلوار بجتی ہے۔ گیا مبارک شاہ، سسرو! گھر جاؤ گھر۔ نچِنت ہو کے بیٹھو… جاؤ سؤر چَراؤ اپنے۔” اُس نے لڑکی کی طرف دیکھا۔ "اے لاڑی! … او رے سارنگ! … چل بیٹھو دوئی گاڑی ماں۔” بوڑھے نے اپنی بیزاری جیسے ایک ایک لفظ پہ لکھ دی تھی۔
لڑکی سوچ میں پڑ گئی۔ وہ سوار ہونے کو رَستا چھوڑ گاڑی کے پہلو سے جا ٹکی، انتظار کرنے لگی۔
سارنگ نے باپ کے حکم کا جواب دیا۔ "ہئو!”
یہ فیصلے کا وقت تھا۔ باپ بیٹا جانتے تھے سوار اُنھیں غافل سمجھ کے یا تو حملہ کر دیں گے یا اَور کچھ دور جانے دیں گے۔ بوڑھے تَلوَریے نے گاڑی میں بیٹھنے کو کہا ہے، لڑکا سمجھ گیا وہ سواروں سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔
لڑکی نے سر ہلایا۔ گھڑ سوار بالکل ہی گھامڑ ہوے تو گاڑی پہ ان کے سوار ہوتے وقت حملہ کریں گے، اگر ہُشیار ہوے تو اَبھی جانے دیں گے، گاڑی کا پیچھا کریں گے۔
لڑکا سارنگ گاڑی پہ بیٹھنے کو مڑا ہی تھا کہ جیسے طوفان پھٹ پڑا۔ سواروں نے گھوڑوں کو ایڑ دیتے ہوے ہلّہ بول دیا تھا۔
سارنگ نے گاڑی پہ چڑھنے کو اپنا دایاں پَیر تختے پر ٹکایا تھا تو یہ آوازیں سنائی دیں۔ اُس نے اپنے پیر کو ٹیک بنا کر، بدن کے ایک ہی جھکولے میں گھومتے ہوے، نیزے والے ہاتھ کو اوجّینی کھڑگ داروں کے نعرے کے ساتھ پورے یَش سے پھینکا، "جے ے ے وِکرَما!”
"جے جے وِکرَما!” بوڑھے کنور نے بازگشت دی۔
لڑکی کچھ زیادہ دیکھ نہ پائی۔ لال صدری والا بٹ مار دھچکا کھا کے اُلٹ گیا، گھوڑے سے گرا اور ٹھُکی ہوئی ریت پر اُچھل اُچھل کے ایڑیاں رگڑنے لگا۔ ایک نیزہ __ سارنگ کا نیزہ __ اُس کی صدری میں ترازو تھا۔
دو سوار بھاگ لیے۔ اُنھوں نے، اُن کے مرکبوں نے، خاندیش کی سَمت پکڑی تھی۔
بوڑھے نے نہ معلوم کس طرح اپنی سروہی کے ایک ہی جمے ہوے وار سے مانگ دار ڈاڑھی والے کا پہلو کھول دیا تھا۔ وہ اپنی تلوار پھینک، جیسے دُہرا ہو کے، ایک ہاتھ سے اپنا گھاؤ بند کرنے اور دوسرے سے گھوڑے کو قابو کرنے میں لگا تھا کہ توازن قائم نہ رکھ سکا اور زِین سے لٹک گیا۔ مُشکی نے الف ہو کے اُسے پھینک دیا۔
بوڑھے نے چیخ کے لڑکی سے کہا، "لاڑی، باندھ لے اِسے۔ میں اِس کا جانور گھیرتا ہوں۔”
لڑکا اُدھر لال صدری والے کے گھوڑے کو گھیرتا ہوا اُسے ہُشکانے لگا تھا کہ بدقسمت جانور اُلٹے قدموں ہَٹا اور ہڑبونگ میں اپنی پِچھاڑیاں گِرے ہوے مہتر کی کھوپڑی اور چھاتی پہ مارتا، چھ سات قدم نکلا چلا گیا۔ اس بھاری بُندیل کھنڈی ٹٹّو کی ہَڑبَڑی نے مانگ دار ڈاڑھی والے کی کھوپڑی کھول دی تھی۔
باندھنے کو اب کچھ نہیں رکھا تھا۔ لڑکی نے بےبسی میں بڑے میاں کو دیکھا جو مہتر کے جانور کو قابو کرنے ہانپتے ہوے اُس کے پیچھے چل پڑے تھے۔
ذرا سی دیر میں گاڑی والوں اور بٹ ماروں کی لڑائی ختم ہو گئی تھی۔
لڑکی نے سوچا یہ ٹھگ، جو آدھے کھیت رہے اور آدھے بھاگ لیے، کوئی بہت ہی گئے گزرے بےعقل لوگ ہوں گے۔ کھوپڑیوں میں اُن کی اتنی سی بات کیوں نہیں گھُسی کہ یہ خستہ حال لڑاکے، جن کے بدن پہ ڈھنگ کے کپڑے بھی نہیں ہیں، جو اپنے مَرے ڈَوبے بیلوں اور ٹوٹی پھوٹی گاڑی کے ساتھ ایسے دَرشَنی ہتھیار لیے پھِرتے ہیں، خطرناک لوگ ہوں گے، ایسوں پہ چڑھ دوڑنا جوکھم میں پڑنا ہوتا ہے۔ کیوں نہ سمجھے وہ اتنی سی بات؟ گِیدی!
جتنی دیر میں باپ اور بیٹا ٹھگوں کے گھوڑے گھیر کے لائے اتنی دیر میں لڑکی نے گاڑی کے بیل کھول دیے تھے۔ دونوں بیل بہت پیاسے ہوں گے، پانی کے قُرب نے انھیں بےتاب کر رکھا تھا۔ جوئے سے کھُلتے ہی دریا کی طرف چلے۔ ایک اُن میں سے دوڑ گیا، دوسرا ڈگمگاتا ہوا پیچھے چلا۔ بوڑھا راج پوت دیکھ رہا تھا۔ بیٹے سے بولا، "سارنگا! گاڑی کھول دے۔ جوڑی بگڑ گئی۔ پانی سے آ جاویں تو پتّن ماں ہنکا دینا بَیلوں کو۔ مُلُک کا گھاس پانی ہے۔ اِدھر دوئی پَشُو گُجار لیں گے اپنے دن۔”
لڑکے نے کہا، "ہئو!”
لڑکی اور لڑکے نے سب ہتھیار، کلھاڑی، مشکیزے، کام کے چھ آٹھ برتن بھانڈے اور چادر دُولائی ایک گھوڑے پہ باندھ لی۔ لاشوں کو ٹھکانے لگانا تھا تو دونوں جوان لوگ برابر کی پَٹھار سے اُپلے لکڑی اکٹّھا کر لائے۔ راج پوتوں نے اپنی گاڑی پر ہی لاشوں کو ڈال، اِدھر اُدھر گھاس پھُوس لکڑی اُپلے جما، بٹ ماروں کی چِتا سی بنا دی جسے بڑے میاں نے "لے بھئی چلتے بنو!” کہہ کے آگ دکھا دی۔
لڑکی نے سوچا دریا کے اِس پار کا جنجال اِسی پار ٹھکانے لگ گیا۔
دریا کی گھاٹ چوکی کوس بھر دور تھی۔ مہتر کے مُشکی پہ باپ بیٹے نے ضد کر کے لڑکی کو بٹھا دیا تھا۔ لال صدری والے کے ٹٹّو پہ ہتھیار اور سامان بندھا تھا اور اس کی راس بڑے میاں نے سنبھال لی تھی۔ تو کبھی پیدل، کبھی سواری کر کے وہ پیچھے پیچھے چلے آتے تھے۔ مگر لال صدری والے کا جانور برابر کچھ نہ کچھ گڑبڑ کرتا آ رہا تھا۔ اُس کی حیوانی سمجھ میں یہ بات آ چکی تھی کہ نیا سوار اُس کے مالک کا دوست نہیں ہے۔
جب تک لڑائی یا اُس کی تیّاری ہوتی رہی تھی بوڑھے راج پوت کا دل لگا رہا تھا، مگر اب اُس کی سانس پھُول پھُول جاتی تھی اور چڑچڑا پن لوٹ آیا تھا۔ سوار ہوتا تو وہ کچھ ہی دیر بعد اُتر آتا، گھوڑے کو بُرا بھلا کہتا اور بیٹے کو ہدایت کرتا کہ مانڈو پہنچ کے اس بَدجناور کو چَمَر قسائیوں کے حوالے کرنا تاکہ اسے مار کے وہ اس کے کھَجیائے چمڑے سے ڈھول مَڑھیں اور تَسمے بنائیں، ہڈّیوں کھُروں سے اِس کی سَریش نکالیں۔ بیٹا اُسے تسلّی دیتا آ رہا تھا کہ ہاں رے بابا، ایسا ہی کروں گا۔
ایک بار جب بوڑھے نے یہی چمر قسائیوں والی بات دُہرائی تو لڑکی نے کہا، "بابا کنور نارنگ! ایک روز پہلے آپ نے کسی بات پہ کہا تھا کہ گھوڑا شَتریوں کا مِیت اور جانوروں میں سُوریہ وَنشی ہے۔ اِس پہ تو سُوروِیر لڑائی کے ہنگام بھی وار نہیں کرتے۔”
بوڑھے کنور نے اُسے کڑی نظر سے دیکھا۔ "ہاں، سو تو ہے۔”
"تو پھر ٹھنڈے سُبھاؤ سے اور جانتے بوجھتے اِس گھوڑے کو کیوں قسائی کو دیں گے، کیوں ماریں گے آپ؟ … کیسے؟”
بوڑھا عیّاری سے مسکرایا۔ "ارے اِسے جانتے بوجھتے کون مارے گا لاڑی؟ دوک روج ماں سسرے کی یہ اگلی سدّھی ٹانگ ٹوٹ جاوئے گی تبھی چمرکسَیّے کو دیں گے نا… ایسے کون دیں گے۔”
لڑکا جو گھوڑوں کے ساتھ پیدل چلا آتا تھا اور اُن کی باتیں سن رہا تھا، ایک دم ہنس پڑا۔ پیٹ پکڑ کے بیٹھ گیا۔ کتنی ہی دیر بیٹھا ہنسی میں جیسے اُمگتا رہا۔
باپ بھی ہنسنے لگا۔ مڑ کے بیٹے سے بولا، "چل چل… آ جا… ہنسوڑ نئیں تو! … لاڑی سمجھے گی بابا ٹھٹھول کرتا ہے۔”
لڑکی نے گھوڑا روک لیا۔ باپ بیٹے کی طرف باری باری دیکھا۔ سمجھ گئی اور خود بھی ہنس پڑی۔
مگر یہ ایک ڈیڑھ کوس بڑے جوکھم کے تھے۔
آگے بھی گھاٹ چوکی پہ ایک پرِیکشا اُن کا رَستا دیکھتی تھی… نہ، بلکہ ایک سے زیادہ آزمائشیں انتظار میں تھیں۔
گھاٹ پہ ایک ہی کشتی تھی جس کا پیندا توڑ کے چنڈالوں نے پتّھر پُور دیے تھے۔ کشتی ایک بازو جھُکی پڑی تھی۔ بس ایک ہی ڈیڑھ بالشت پانی سے باہر دکھائی دیتی ہو گی۔ چوکی کے رَکھشَک پرانے مبارک شاہی سپاہی مَرے پڑے تھے۔ ٹھگوں نے کچھ کھِلا پِلا کے بے خبری میں اُن کے ٹینٹوے دبا دیے تھے۔ بارہ تیرہ برس کا ایک ننگا لڑکا کشتی کی اوٹ لیے اُتھلے پانی میں کھڑا تھر تھر کانپ رہا تھا۔
بوڑھے نے جھُلَس کے کہا، "جے ہو پربھو!” مطلب، یہی سب دِکھانے کو رہ گیا تھا سو دِکھا رہے ہو۔
کہانی کا immediately آگے کا حصّہ روٹِین اور mundane اور شاید اس لیے غیر دلچسپ ہو جائے گا اگر ہم یہ سوچنے بیٹھیں گے کہ اُنھوں نے رکھشکوں کی لاشوں کا کیا کِیا ہو گا؟رکھشک کب سے مَرے پڑے تھے؟ یا ہمارے لوگ دریا پار کرنے میں کیسے کامیاب ہوے؟ ویسے پار اُترنا اتنا کوئی مشکل نہیں ہو گا کیوں کہ نربدا کو باڑھ دینے والی برساتیں ابھی دور تھیں اور جنیاتریوں کے پاس ایک چھوڑ دو گھوڑے ہوں اُن سے کھیج نہیں کرتا یہ دریا نربدا۔
کیسا ہے یہ دریا نربدا؟ تیکھے مزاج کا نَرسِمہا یا نرم خُو آبجو؟ یہ دیواروں سی اٹّھی چٹانوں کے بیچ سے گرجتا، جھاگ اُڑاتا گزرتا ہے تو میدانوں کھلیانوں کے پاس سے شیشہ دکھاتا نکل جاتا ہے۔ انوٹھا ہے یہ دریا۔ یہ اَبھی لڑاکوں، تَلوَریوں کا مِیت ہے تو اَبھی نایک اور کویراج اِس کے بَندھو ہیں جو ندی کے بَریجوں، گھاٹوں پہ اپنے اچھوتے گیتوں، راگ راگنیوں کی وَرشا کرتے مِٹّی سے اُمگتے ہیں اور سَت رنگی دَھنُش پہ جا نِواس کرتے ہیں کہ بہتا رہے یہ دریا نربدا۔
اور بہتا رہے یہ دریا نربدا۔
سو اُنھوں نے دریا پار کیا۔ پَرلے پار وہی گاؤں تل ونڈی تھا جو ہم سوچ کے بیٹھے ہیں __ پچاس باون گھروں کا چھوٹا سا پَسارا۔ لڑکا جو کشتی کے پاس ملا تھا تل ونڈی کا ہی تھا۔ باپ اُس کا مر چکا تھا۔ اُس کا، اس کی دو بہنوں اور ایک چھوٹے بھائی کا خرچ اٹھانے کو ماں چکّی پیس کے گزارہ کرتی تھی۔ مگر کام کم تھا، چھوٹا سا گاؤں جو تھا، عورتیں خود ہی پیس رِیندھ لیتی ہوں گی۔ کام کم ملنے کی وجہ سے سب کو کبھی فاقے بھی کرنے پڑتے تھے، اس لیے ماں نے اِسے کشتی والے کے پاس نوکر رکھا دیا تھا۔
شیر شاہی بندوبست میں گھاٹ چوکی کی کنجی سنبھالنے والا ابھی کوئی آیا نہیں تھا، پُرانوں ہی سے کام چل رہا تھا، کہ یہ حرامی ٹھگ آ کے چوکی پہ بیٹھ گئے اور آتے جاتوں کو لُوٹنے اور دریا میں بہانے لگے۔
تل ونڈی والے لڑکے کو اِن بٹ ماروں نے پہلے ہی دَھر لیا تھا۔ یہ کام کا نظر آیا تھا اس لیے اِسے مار کے دریا میں نہیں پھینکا تھا انھوں نے۔ گاؤں میں جا کے وہ اُس کے جھونپڑے اور گھر والوں پہ قبضہ کر کے بیٹھ گئے۔ وہاں اُنھوں نے کہہ دیا کہ ہم عورت کے بھائی بند اور بچّوں کے مامے ہیں۔
لڑکے کی ماں بہنیں اُن مامے لوگوں کی روٹی بناتی تھیں۔ چھوٹا بھائی دریا کنارے تک روٹی پہنچا دیتا تھا اور اِدھر سے خبریں لے جاتا تھا کہ کون کون آیا اور کام کی اَسامی ہے کہ نہیں۔ کام کی اَسامی ہوتی تو اِس پار آ کے وہ ٹھگ اُسے لُوٹتے اور ندی میں بہا دیتے۔ لڑکے سے وہ کہتے رہتے تھے کہ سیدھے سُبھاؤ مسافروں کی خبر رکھ، انھیں لاتا لے جاتا رہ۔ اگر کسی کو کچھ بتایا تو ہم اُدھر تیرے گھر میں بیٹھے ہیں۔ تجھے، تیرے بھائی کو تو مار ہی دیں گے۔ ماں بہنوں کے ساتھ جو کریں گے وہ تجھے پتا ہے۔
ایک دو مامے گھاٹ چوکی پہ ہر وقت لڑکے کے پاس رہتے تھے۔ رات بے رات یا دن میں دارُو پی کے جب جی کرتا تھا وہ اُسے ستاتے بھی تھے __ وہ مامے حرام کے جنے۔
لڑکے نے یہ سب کچھ روتے ہوے اور بڑی دیر میں بتایا تھا۔ لڑکی نے اور راج پوت لڑکے نے تل ونڈی جاتے ہوے اُسے بہت تسلّی دی تھی۔ بوڑھے نے بس ایک بار یہ کہہ دیا تھا کہ مامے کُچّودی کے اب ادھر نہیں آئیں گے۔ دو مر گئے ہیں، دو بھاگ گئے۔
لڑکے کو لے کے راج پوت باپ بیٹا اور لڑکی تل ونڈی پہنچے تو رات پڑ گئی تھی۔ سب گاؤوں کی طرح یہاں بھی آباد گھروں کے حاشیے پہ چماروں، ڈھیڑوں، پاسیوں کی جھونپڑیاں ہوں گی جو کتّے اور سؤر ضرور پالتے ہوں گے۔ ہمارے لوگ ان جھونپڑیوں کے برابر سے گزرے تو کتّے بھونکنے لگے اور باڑوں میں بند سؤر وقت بےوقت کی جُفتی چھوڑ کے الگ ہو گئے اور تنگ جگہوں میں بےچین ہو ہو کے کھڑبڑانے لگے۔
تل ونڈی والا لڑکا اپنے گھر پچھواڑے کی باڑ پھلانگ کے دوڑتا ہوا ڈھائی ہاتھ کے اپنے باڑے میں آواز دیتا ہوا گھُس گیا۔ اندر باہر کوئی نہیں تھا۔ پڑوس کی وہ بُڑھیا بھی جس کے ہاں ٹھگوں کے آئے پہ لڑکے کی ماں بہنوں نے شَرَن لی تھی، جھونپڑی خالی کر گئی تھی۔
دوئی گھروں میں اندھیرا اور سنّاٹا راج کرتا تھا۔ لڑکا رونے لگا۔
بوڑھا راج پوت جھونپڑی کے باہر سر نیہوڑائے کھڑا تھا۔ اُس کا بیٹا مُکھیا سر پنچ کو بُلانے گیا تھا۔ لڑکی نے ڈھونڈ کے دِیا جلا دیا، کچھ روشنی کر دی۔
دو حصّوں کی خستہ حال جھونپڑی تھی جس کے کچّے سِیلے ہوے فرش پہ ہاتھی کی جھول کا پرانا موم کپّڑ سا ٹکڑا پڑا تھا جس پر گھِسے پِٹے، چھوٹے بڑے لہنگے، لُگڑے، اَنگے، دھوتیاں، چولیاں، چُنریاں گلہریوں کے اکٹّھا کیے ہوے گوُدڑ سی بکھری ہوئی تھیں۔
تل ونڈی والے لڑکے نے اُکڑوں بیٹھ کے اِنہیں سمیٹنا شروع کیا۔ یہ بے مصرف کام کرتے ہوے وہ یوں کانپ رہا تھا جیسے تاپ چڑھی ہو۔
لڑکی پاس جا بیٹھی اور خود بھی وہ گودڑ سمیٹنے لگی جو کبھی اچّھے دنوں میں چھوٹی بڑی عورتوں کے پہننے کے کپڑے ہوں گے۔ اِنھیں میں لاکھ کا ٹوٹا ہوا ایک کڑا، بےجوڑ منکوں سے بنایا گیا ایک ہار، گِلٹ چڑھی ایک آدھی پونی کردَھنی، دانتے ٹوٹی سینگ کی دو کنگھیاں، چُٹلے، مُوباف، گودڑ نکلی دو گڑیاں، مٹّی کا ایک طوطا جس کی چونچ اور دُم جھڑی ہوئی، چھوٹی چھوٹی کُپّیاں جو گاؤں کے اَن گھڑے کاریگر مٹّی کے سانچے پہ جانور کی آنت چڑھا کے بناتے اور سُکھا لیتے ہیں، پھر اُن میں بھُٹّے کی چھُوچھَن کا ڈاٹ لگا تیل پھُلیل رکھنے کے کام میں لاتے ہیں… تو وہ کُپّیاں، ایک ٹوٹا شیشہ، ایک اَور قلعی اُترا کانچ کا ٹکڑا، ایسی بہت سی… بہت سی چیزیں جن کی سنگت میں چھوٹی لڑکیاں بچپن کا اور لڑکپن کا جادو بھرا زمانہ گزارتی ہیں اور جوانی کی حیران کرنے والی سِیما پار کر جاتی ہیں۔ تب یہ طوطے، گوُدڑ نکلی گڑیاں، پھُلیل کی کپّیاں، چُٹلے موباف، ٹوٹے شیشے، لاکھ اور کانچ کے ٹکڑے، یہ سارے جادو ٹونے دوسرے ارمانوں بھرے طلسمات میں بدل جاتے ہیں۔
لڑکی نے سوچا، جیسے الہ دین کہانی کا جادوگر پرانے چراغ سے نئے چراغ بدل دے۔
تو بس اِسی طرح یووَن آتا ہے اور سب کچھ رنگوں بھرا اور کولاہل کرتا اور چمچماتا چمکتا دکھائی دینے لگتا ہے، کس لیے کہ یہ دوسری گڑیوں، طوطوں، موبافوں، چٹلوں اور جادوؤں کی رُت ہوتی ہے۔ اس کے آکار اور رنگ ہی بڑے انوٹھے ہیں۔
لڑکی ہاتھی کی جھول پر ایک طرف سرَک کے بیٹھ گئی۔ اُس نے اِن پیاری، بےحیثیت، بے قیمت، انمول چیزوں کو اپنے لمس سے مَیلا نہ ہونے دیا۔ یہ تو تیرہ برس کے اِس اکیلے لڑکے کی دنیا تھی، اور وہ خود باہر سے آئی تھی۔ لڑکے کی اِس باقی بچی دنیا میں اِس طرح گھُستے چلے جانا اُسے اچھا نہ لگا۔ اُس کے گلے میں کچھ اٹکنے سا لگا۔ اُس نے یاد کیا کہ پھیلی ہوئی اس زمین پہ کہیں اُن میں سے دو ابھی زندہ ہیں جنھوں نے اپنے کِیٹ بھرے پنجوں سے چھوٹی لڑکیوں کا یہ اچھوتا طلسم گوڈ کے رکھ دیا ہے۔
لڑکی نے خود کو بتایا کہ بالکل خالی کوئی نہیں ہوتا، ہر ایک کے پاس وہ کچھ تو ہوتا ہی ہے جسے مٹایا جا سکے۔ لمبی خشک سالی میں زندہ رہ جانے والی چڑیوں کی طرح محرومی کی بھئے اَنکر سِیما پہ جینے والے ان یتیموں کے پاس اتنا کچھ تو تھا کہ جسے آرام سے برباد کر دیا گیا۔ اور ملیامیٹ کرنے والوں میں سے دو… اُس نے پھر یاد کیا کہ وہ دو کہیں نہ کہیں موجود ہیں اور وہ اِس پھیلی ہوئی دھرتی پہ سانس لے رہے ہیں۔
لڑکی کو سانس لینا دُوبھر ہو گیا۔ وہ جھونپڑی سے نکل آئی۔
دُور گاؤں کی اکیلی سڑک سے لوگوں کے چلنے، باتیں کرنے کی آوازیں اور گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دینے لگیں۔ شور قریب آتا گیا۔ سارنگ سنگھ گاؤں والوں کو لا رہا تھا۔
لڑکی بڑے میاں کے پاس جا کھڑی ہوئی۔
بھانت بھانت کی بولیاں بولتے، کھانستے، کھنکھارتے، طرح طرح کے ہتھیار اور دیہاتی مشعلیں اٹھائے گاؤں کے کوئی تیس پینتیس بوڑھے، جوان اور لڑکے سارنگ سنگھ کے پیچھے پیچھے آئے اور جھونپڑی کے آگے کے میدان میں کھڑے ہو گئے۔
باپ اور لڑکی کو باہر دیکھ کے سارنگ سمجھ گیا کہ وہ کہانی جو گاؤں والے سنانے آئے ہیں انھیں معلوم ہو چکی۔
مُکھیا ہجوم سے نکل کے آیا۔ کہنے لگا مہینے بھر سے یہ ڈکیت جھونپڑی پہ کبضہ کیے بیٹھے تھے۔ کہتے تھے ہم چالیس پرگنے کے ویاپاری ہیں۔ خود کو عورت کا بھائی بند بتلاتے تھے۔ کہتے تھے برسات لگنے سے پہلے چلے جائیں گے… یہ سسرے جھونپڑی میں رہتے تھے۔ عورت بچاری بچوں کو لے کے پڑوس کی بُڑھیا ڈھیڑی کنے اُٹھ آئی تھی۔
"کا کرتی بچاری۔ اُن ڈکیتوں کھوسڑی والوں کو پکا پکا کے کھِلا رئی تھی۔”
آگے کسی نے بتایا کہ چاروں بٹ مار عورت سے، نہ اُس کے بیٹوں بیٹیوں سے، کسی کو بات ہی نہیں کرنے دیتے تھے۔ وہ باہر نکلتی تو کٹار، بلّم، بھالا لے کے ایک جرُور ساتھ نکلتا تھا، ہنس ہنس کے باتیں مٹھارتا ہوا۔ جیسے سب ائی کھیم کُشَل ہے، کہیں کوئی گڑبڑی نہیں ہے۔
"اِتّے حرامی تھے چاروں۔ سچی بات تو یہ ہے بھیّا کی عورت اکیلی ایکانت میں ہوتی تو بھی کسی کے سامنے منھ نہ کھول پاتی۔ پکّی بات ہے۔ ان حرام جادوں کو جبھی بھی وہ میکے سے آیا ہوا ہی بتلاتی بچاری۔ اِتّی ڈری ہوئی تھی۔ ویسے وہ اُسے اکیلا ہی کب چھوڑتے تھے۔”
ایک کہنے لگا، "کبھی ہتھیار باندھ کے ایک دو روج کو لمبے نکلتے تو اونچی اَواج میں سب کو سنا سنا کے کہہ جاتے تھے کی اپنا بھائی بند اِدھری ہے، سب جنے ہماری بھین کا، اس کے بچوں کا دھیان کرنا۔ اور بھیّا! سچ بتائیں، کبھی تو لگتا تھا کی سچ مچ کے ویاپاری ہیں۔ یے بُکچے باندھ باندھ کے لاتے تھے اور بساطی کی جھونپڑی میں رکھتے جاتے تھے۔”
ایک بتانے لگا کہ بچوں کا باپ بساطی تھا۔ "جِندگی ماں بھی اُس نے بال بچّہ کو کون سُکھ دیا۔”
مکھیا بولا، "ویسے چاروں بٹ ماروں نے عورت کو کوئی چیج کی کمی نئیں ہونے دی۔ ناج، گھی، تیل، دال، گڑ، سبھئی ڈھیر کر کے رکّھا تھا سسروں نے۔ ایک بات بھل منسئی کی یہ تھی کی بساطی کی وِدھوا سے ماس اُوس کدے نئیں پکوایا۔ کھُد پچھواڑے جا کے بکرا مُرگا مار کے اپنا چولھا بنا، اپنے مٹّی کے باسنوں میں کھا پکا لیتے تھے۔ دارو چینڈو بھی اِدھر گاؤں میں نہیں پیا۔”
"ہاں۔ اور جو گھاٹ سے پی پا کے کبھی آ گئے تو اِتّی کوئی کھاص اُدّھم نئیں کی۔”
"ہاں رے، جو بات جِتّی ہو اُتّی کہنا چیّے۔ بھگوان کو بھی اک روج منھ دکھانا ہے۔”
یہ آخری بات گاؤں کے پَنڈے نے کہی تھی جو ہلدی چندن سے خوب اپنا ماتھا اور اپنی بھُجائیں رنگے آیا تھا اور دھوتی کے پلّے میں ہاتھ ڈالے اَنڈوے کھجائے جا رہا تھا۔
بوڑھا نارنگ سنگھ جو دھیان سے ایک ایک کی بات سنتا اور صورت دیکھتا رہا تھا، کھانسنے لگا۔ پھر ہلدی چندن لگے پنڈے کے سامنے اپنا کھنکھار گرا کے ہانپتا ہوا بولا، "ہئو۔ جو بات جتّی ہو اُتّی کہنا چیّے۔ اوئی چار مہاپُرُش دھرماتما لوگ نے جرور ہی پیسا کوڑی دے دلا کے تیرے سے اکھنڈ پاٹھ دھرم کاریہ کرایا ہوئے گا۔ ہاں۔ جتّی بات ہو اُتّی بتانا پَنڈے۔ کس لیے کی اک روج تیرے کو ای بھنڈسار پیٹ، ای تھال جیسو بوُتھا بھگوان کو جرور ہی دکھانا ہوئے گا۔ ہاں۔ پکّی بات۔”
پنڈا غصّہ ہو کے ہاتھ ہلانے، آنکھیں چلانے لگا۔ کچھ کہنے کو ہوا تو ٹھاکر لڑکے نے کڑک کے گالی دی۔ ہجوم سے بولا، "گنتی میں ایک بِیسی سے جیادہ جوان مَرَد ہو اس گاؤں میں۔ لڑیّوں جیسی چڑھی ہوئی ڈاڑھیاں بھی نجَر آ رئی ہیں۔ ارے نئے نویلے کڑیل بچھیرے کھڑے ہیں مونچھوں کو موم لگائے۔ جے پٹھار پہ ایڑی ماریں تو پانی نکلے… ایسے دَھوں تال سورما… تَروار برچھی اٹھائے پھرتے ہیں سَبرے… پر لعنت ہے تِہاری اوکات پہ، لعنت ہے! چار کتّے کے جنے بٹ ماروں سے اُس بِدھوا کو، اُس کے بچونگڑوں کو نئیں بچا پائے۔ تھُک ہے اِس مَری مردانگی پہ، تھُک ہے!” پھر وہ راج پوت لڑکا بےبسی میں ہاتھ پھیلائے مشعلوں کے دھوئیں میں گہرے گہرے سانس لیتا سب کی صورتیں تکنے لگا __ طوفان میں آئے درخت کی طرح بس کانپے جا رہا تھا۔
بوڑھے ٹھاکر نے بیٹے کے بازو پہ ہاتھ رکھ دیا۔ "ٹھاکُر! ٹھاکُر! صبَر! … ارے سُپتر سب تیری طرحے جان ہتھیلی پہ لیے نئیں پھرتے۔ سارئے پُرُش لڑیّے نئیں ہوتے رے سارنگا! ارے اِن ماں دھُنیے، جُلاہے، بکروٹے، کھٹِیک، بَلاہی، پَنڈے، گھَس کھُدے، بانیے، مُکھیے، سرپنچ سبھئی پرکار کے جِیو ہیں۔ جو اپنی اپنی جان کی کھیم کُشَل مناتے ہیں تو کون بُرا کرتے ہیں۔ صبَر، ٹھاکر، صبَر!”
لڑکی کا جی چاہا کہ اب یا تو بساطی کے لڑکے کی طرح وہ چیخ چیخ کے رونا شروع کر دے یا سارنگ کی طرح خود کو غصّے کے حوالے کر دے۔
مگر پھربھی اُس نے دِھیرج سے سوچنے کی کوشش کی __ ذرا انصاف کرو، یہ سب شیر شاہی قلمرو میں ہوا ہے۔ مانڈو یہاں سے دن بھر کی مَسافت پہ ہو گا اور حاکم شجاعت خان سُوری بڑا منصف مزاج مَعدَلت گسُتر حاکم ہے۔ تو پھر کوئی بتلاؤ یہ سب کیسے ہوا۔
سو اُس نے اونچی آواز میں ہجوم سے کہا، "سنو۔ اِس گاؤں سے مانڈو بہت ہوا تو دن بھر کا رَستا ہے۔ ان تیس دنوں میں کیا ایک سوار بھی گاؤں سے نکلنے کی جِیوَٹ نہیں کر پایا؟ … ایک بھی؟”
مکھیا بولا، "ناں ناں جی بائی ٹَھکُرائن! ایسی بات نئیں ہے۔ بساطی کی عورت کے کنے دو دفعے مَنے آدمی بھیجا، کی بول بائی مانڈو کھبر کراؤں؟ پر وہ مانتی نئیں تھی۔ بولتی تھی لڑکا گھاٹ چوکی پہ بَندی ہے… مار دیں گے اُسے۔”
ہجوم میں رَستا بناتا ایک نیم وحشی بوڑھا آگے آنے کی کوشش میں دھکّا پیل کر رہا تھا۔ کوئی اُسے رستا دینے کو تیّار نہیں تھا۔ سب دھُتکار رہے تھے۔ کسی نے کچھ پوچھا تو وہ جواب میں مم مم کر کے رہ گیا۔ ایک لڑکے نے برچھی کی ڈانڈ سے کچوکا دیا۔ "چال اِیدر سے… چنڈال!” لڑکی کی اُس کی نظر ملی۔ اُسے لگا وہ کچھ کہنا چاہتا ہے۔ "آنے دو، آگے آنے دو اِسے۔”
"ارے باؤلا ہے چنڈال۔ بھگاؤ اسے اِدَر سے،” بھیڑ میں بہت سے بولے۔ دو ایک نے اُس کی ٹانٹ پہ چپت جما دیا۔ "کاہے آ گیا رے… تُو بھاگ جھاں سے۔”
"مم… میری سُن ٹھاکر! ای مُکھیا مُکھیا مُکھیا حرام کا جھوٹا ہے، جھوٹا جھوٹا۔” ایک لڑکے نے منھ پہ اُس کے اُلٹے ہاتھ کا جھانپڑ دیا۔ "چال! سَوری کے!” لڑکے کا رنگ روپ کھائے پیے مکھیا جیسا تھا۔
وحشی نظر آتے بڈّھے کو چوٹ آئی۔ منھ سے لار اور خون بہنے لگا۔ اب دو تین اَور اُسے دھکّے دے کے ہٹانے لگے۔
"ٹھیرو، ٹھیرو رے!” بوڑھا ٹھاکر بولا۔ "آنے دو اِسے!”
مکھیا نے حقارت سے کہا، "سِڑی باؤلا ہے سوری کا… جانے دے ٹھاکُردا!”
"نن نن نئیں ٹھاکر! ماں بولوں… ای ای حرام کا… جھوٹا ہے۔”
مکھیا کے ناتےدار دکھائی پڑتے جوان نے ایسی ٹکا کے لات ماری کہ بڈّھا ہجوم کے دائرے سے باہر جا گرا۔ کوئی بولا، "اَور ایک لگے جما کے!”
سارنگ نے اب نیام کا پَرتلا سیدھا کیا، مشعلوں کی روشنی میں آیا اور سب کو جیسے دِکھاتے ہوے دو انگلیوں سے گھُنڈی تُکمہ کھول دیا۔ اُس کی تلوار اب کھینچی جا سکتی تھی۔
بوڑھے نارنگ اور لڑکی نے بھی اپنے دائیں بائیں پھیل کے جگہ بنائی اور بھیڑ کو ہتھیاروں کے درشن کرائے۔
مکھیا نے خواہ مخواہ ہاتھ اٹھا دیا جیسے سب لوگوں کو، جو ویسے ہی پیچھے سرکنے لگے تھے، پُر سکون رہنے کو کہہ رہا ہو۔
سارنگ ڈپٹ کے بولا، "بڈّھے کو اٹھاؤ۔ آگے آنے دو اسے۔ کہنے دو کیا کہتا ہے۔ بات سنو اس کی۔”
کسی نے بڈّھے کا ہاتھ پکڑ کے آگے کر دیا۔ وہ لڑکھڑاتا تھا اور اپنے ہاتھ کی پُشت سے ہونٹوں پر لگا خون پونچھتا تھا۔
"بولو کیا بولتے تھے۔”
"یہ یہ… مکھیا حرام کا۔”
سارنگ نے سمجھا کے کہا، "گالی مت دو کوئی کو۔ اپنی بات کہو، اپنی۔”
"ای ی، جھجھوٹ بولتا۔”
"اچّھا؟ کیا جھوٹ ہے؟”
"ہاں، چنڈال ہے مکھیا۔ جھوٹھا… جھوٹ۔” ہجوم نے ایک ساتھ ہنس کے اُس کی آواز دبانی چاہی۔ نارنگ ٹھاکر نے ہاتھ اٹھا کے چپ کرایا۔ وحشی دکھائی دیتے بڈّھے کو حوصلہ ہوا۔
بولا، "لکھمی کے کنے… بساطی کی بِدھوا کے کنے آدمی بھیجا تھا، مکھیا نے… لکھمی کے کنے۔”
سارنگ بولا، "اچھا پھر؟”
"آدمی بھیجا تھا لکھمی کے کنے۔”
"ہاں ہاں، پھر؟”
"… بساطی کے، مسلمان کے گھر بیٹھ گئی تھی نا۔”
ہنستی ہوئی بھیڑ کو جیسے سانپ سُونگھ گیا۔
"ہاں اِس چنڈال چودے نے آدمی بھیجا تھا کی مر گیائے بساطی اَبی اَبی اَبی… گونا کر لے مجھ سے گونا۔ پنڈے بھی راجی تھے۔ سُدّھی کرنے کو راجی تھے… بولتے تھے گونا کر لے اِس حرام کے سے…”
ہجوم کے اندھیرے سے ایک کم زور آواز آئی۔ "چنڈال ہے۔ جھوٹ بولتا ہے سَوری کا۔”
کھُلے میں تیس پینتیس جانوں کے ہوتے بھی لگتا تھا کوئی نہیں خالی میدان پڑا ہے۔
جھونپڑی سے اُٹھتی بس ایک بار بساطی کے لڑکے کی سسکیاں سنائی دی تھیں۔
بوڑھا ٹھاکر آگے آیا۔ اُس نے سُرخی تھوکتے اُس آدمی کے شانے پہ ہاتھ رکھ دیا۔ رَسان سے پوچھا، "لڑکے کا باپ مسلمان تھا کا؟ … ہاں بھیّا؟”
اُس سے پہلے خود مُکھیا بول پڑا، "ہئو مسلمان تھا۔”
ٹھاکر بکرم نارنگ سنگھ اُس کی طرف گھوم گیا۔ "… جبھئی تم نے… سبرے گاؤں نے کھبر نئیں پُنچائی؟ … لکھمی مسلمان کے گھر بیٹھ گئی تھی… بچّے پہ بچّہ جَن رئی تھی… ہاں؟ … کا اے مَرجی تھی تِہاری؟ کی گاؤں کا کلنک ٹھگوں کے ہاتھ سے میٹ جائے؟ … پھر گدّے پہ گانڑ دَھر کے، نچِنت ہو کے بیٹھو سبئی کے سب… ہاں؟” ہاں کہتے ہوے راج پوت کی آواز ٹوٹ گئی۔ بیٹا سنبھالنے کو بڑھتا تھا مگر پھر رُک گیا۔
مُکھیا دھیمی آواز میں بولا، "نئیں… ای بات نئیں ٹھاکردا!”
"تو؟ پھر؟”
"اُس سے… لکھمی سے، مَنے مانڈو کا پوچھا تھا۔ پر… نائیں کر دی اُس نے۔” اِدھراُدھر دیکھ کے وہ کھسیائی ہوئی ہنسی ہنسا۔ "آپ جانو ٹھاکردا! جنانی کی اَکَل میں جو ایکئی بار بیٹھ جائے سو…”
"تھپّڑ مار کے سبرے دانت جھاڑ دوں گا۔ کوکری کے جَنے! مُکھیا ہے تُو کی بدجَناوروں کی بھَڑوَت کرتائے؟ سَوری کے کلنک!” بوڑھے نارنگ سنگھ کی آواز جیسے کنویں کے جگت پہ گرائی ہوئی تھالی تھی جو باہر کے پھیلاؤ میں اور اندر کی گہرائی میں بجتی چلی جا رہی تھی۔
"بابا! بابا!” سارنگ نے باپ کے شانوں کو اپنی میٹھی گرفت میں لے لیا۔ "بابا! ای تلونڈی جِندوں کا گاؤں نئیں مَرے مُردوں کا گاؤں ہے۔ مُردے نِواس کرتے ہیں اِدھر۔ پہلے میں سمجھا تھا اِس گرام میں ہیجڑے بستے ہوں گے، اِس کارَن گصّہ کرتا تھا۔ پر اَب سمجھا ہوں… ایجِندوں کا گاؤں نئیں سَمسان ہے… ہم چار بِلاوجے نکل آئے اِدھر۔”
گاؤں کے لوگ پہلے ایک ایک دو دو کر کے، پھر ٹکڑیوں میں، اپنی جوتیاں کھسَر کھسَر کرتے اندھیرے میں گھُل گئے۔
خالی میدان میں کب تک کھڑے رہتے __ راج پوت باپ بیٹا اور وہ لڑکی جھونپڑی کی پھٹکی کھول سایوں کی طرح چلتے ہاتھی کی جھُول پہ جا بیٹھے۔
چیتھڑا کپڑوں کے ڈھیر پہ سجدے کی مُدرا میں پڑا تل وَنڈی والا لڑکا سسکیاں لیتا تھا۔
٭٭
صبح ہوئی تو لڑکی نے گاؤں کے چھوٹے کنویں سے، جو ڈھیڑوں، چماروں، پاسیوں کے لیے اور بساطی کے گھر والوں کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا، پانی بھرا۔ پانی لاتی تھی تو اُس نے دیکھا کہ بوڑھا کنور جھونپڑی کے کھُلے دروازے کے آگے ہاتھی کی جھول بچھائے، دُولائی اوڑھے بیٹھا ہے۔ پانی کے بھانڈے رکھ لڑکی نے پالاگن کیا تو ٹھاکر نے اُس کے سر کو ہاتھ لگا کچھ بُدبُدا دیا۔ وہ جا کے آگ چَیتانے کا جتن کرنے لگی۔ ٹھاکر اُداس، اَدھ کھلی آنکھوں سے اُسے دیکھتا رہا۔ سامنے اُس کا بیٹا چھَتنار کے سائے میں پیال ڈالے بے خبر پڑا سوتا تھا۔
آگ چیتا کے لڑکی بوڑھے کے پاس آئی۔ بولی، "ٹھاکر ددّا! ابھی تمھارے لیے شکرقندی بھُونے دیتی ہوں۔ سارنگ اٹھے گا تو روٹی بنا دے گا تمھاری۔”
ٹھاکر نے پہلے لڑکی کی طرف، پھر اُسارے سے ٹیک لگائے بیٹھے بساطی کے لڑکے کی طرف دیکھا، کھنکھار کے دھیرے سے بولا، "نئیں لاڑی! شکرکندی رہنے دے۔ میرے اور اِس لالِت کے لیے ایک ایک روٹی ڈال دے۔ تَنِک اچار دے دے… ہم دوئی جنے اَہار کر لیں گے۔” ٹھاکر نے لا وارث لڑکے کو لالِت کہا تھا __ لاڈلا __ اور اس نے لڑکی سے اپنے لیے روٹی بنانے کو کہا تھا۔ لڑکی نے اپنے دل کی مسرّت میں کچھ بولنا چاہا۔ مگر نہیں… چپ رہنا اچھا ہے۔ اُس نے جو سنا سب ٹھیک ہی سنا ہے، اور اس میں حیران ہونے کی کیا بات ہے؟ اُس نے بوڑھے کنور کی آج سویرے کی آنکھوں کا لَکشَن یاد کیا جن میں غصّہ تھا اور نمی تھی۔ وہ اپنی اُمگتی ہنسی والا چہرہ چھپائے شکر گذاری میں مڑی اور چولھے کے پاس آ بیٹھی۔
ٹھاکر اور چھوٹے لڑکے کے لیے اُس نے دو روٹیاں بنائیں، اُن پہ گھی لگایا اور مٹّی کے کونڈے میں روٹیاں اور اچار رکھ کے ٹھاکر کے پاس لے آئی۔ وہ اُسارے کے برابر کھڑا کلّی کر کے منھ پہ چھینٹے مارتا تھا۔ پھر اُس نے چادر لپیٹی، چھوٹے لڑکے کو اشارہ کیا۔ بولا، "لاڑی کے ہاتھ سے کونڈا لے لے رے اور چل میرے سنگ۔” خود وہ ایک ہاتھ میں رسّی بندھی پیتل کی جگر جگر کرتی گڑوی لیے، دوسرے میں نیام کی ہوئی تلوار سنبھالتا احاطے سے نکل گیا۔ بساطی کا لڑکا پتّے سے ڈھکا ہوا کونڈا اٹھائے پیچھے پیچھے تھا۔
ٹھاکر چھوٹے لڑکے سے اونچی آواز میں بات کرتا، مانو سب کو سُناتا، گاؤں کے بڑے کنویں کی طرف چلا تھا۔ یہ کنواں تین اونچی جاتیوں کے لیے تھا۔ چوتھی جاتی شُودر، اور وہ سب جو شودر تک نہیں تھے، بڑے کنویں کے پاس پھٹک نہیں سکتے تھے۔ یہ اُن کی پرچھائیں سے بھی خراب ہو سکتا تھا، یہ اونچی جاتیوں والا کنواں۔
کنور تو شَتری تھا۔ بڑا کنواں بےشک اُس کا کنواں تھا __ وہ جب چاہے جا سکتا تھا، آ سکتا تھا، پھر جا سکتا تھا __ مگر یہ کیا کر رہا ہے ٹھاکر؟ لڑکے کو ساتھ کیوں لے جا رہا ہے؟
بوڑھا ٹھاکر اُسے اونچی آواز میں یہی بتاتا آ رہا تھا کہ ہم دوئی جنے بڑے کھُو سے پانی کھینچیں گے، پھر اُدھر ہی کھُو کے مَنچ پہ بیٹھ کے اَہار کریں گے۔
لڑکا چپ تھا، یا بہت سے بہت بڑے میاں کی ہر بات پہ ہُوں ہاں کر کے سر ہلا دیتا تھا۔ کنور گلیاروں سے گزرتے ہوے اونچی آواز میں اُسے بار بار سمجھا رہا تھا کہ ہم مَنچ پہ بیٹھ کے روٹی توڑیں گے۔ یہ کھُو تیرے باپ کے اور تیری ماں کے گاؤں کا کھُو ہے… میرا بھی ہے۔ کوئی ہم کو کائےکو ٹوکنے لگا۔ ہم دوئی جنے کسی کا کیا لیتے ہیں۔ بس پانی کھینچیں گے، اُدھر مَنچ پہ بیٹھ کے روٹی توڑیں گے دوئی جنے۔ روٹی ابھی گَرَم ہے۔ لاڑی کے ہاتھ کی روٹی ہے۔ اُس نے گھی چُپڑ کے دیا ہے اِتّا اِتّا۔ ساتھ میں اَمبی کا اچار ہے۔ وہ دھیمی ہنسی ہنسا۔ ہہہ ہا۔ ارے سوبھاگیہ ہے اپنا کی گھی چُپڑی گرَم روٹی امبی کا اچار ملا ہے۔ روج روج کون ملتا ہے۔ آ، آ جا۔ اِدھر رکھ دے کونڈا منچ پہ۔ لے مَیں پانی کھینچے لیتا ہوں۔
گاؤں کی جو عورتیں پانی بھر رہی تھیں وہ کنور اور چھوٹے لڑکے کو آتا دیکھ کے اپنے برتن بھانڈے سنبھال ہٹ گئیں۔ چلی گئیں اپنے گھروں کو۔ وہیں گاؤں کے لڑکے بھی کھیلتے تھے۔ دو تین خبر کرنے کو دوڑ گئے۔ تین چار وہیں کھڑے رہے۔ سمجھتے تھے کوئی ایسی بات ہونے والی ہے جو اُنھیں دیکھنی چاہیے۔
لڑکی اور سارنگ سنگھ ہتھیار سنبھالے دوڑے دوڑے آ گئے تھے۔ انھوں نے دیکھا ٹھاکر نے کنویں کے جگت سے تلوار ٹِکا دی ہے، گڑوی سے پانی کھینچ وہ منچ کی کچی مٹّی پہ کلّی کرتا ہے۔ پھر اُس نے چھوٹے لڑکے کو اشارہ کیا۔ اُس نے بھی گڑوی سے پانی لے منچ کے برابر کلّی کی۔
سارنگ سنگھ نے مسکراتی آنکھوں سے لڑکی کی طرف دیکھا۔ کہنے لگا، "مَنے بولا تھا نا؟ بابا میرا بڑا جِدّی ہے۔”
لڑکی نے مسکراتے ہوے ہاں میں سر ہلایا۔
چوراہے میں کھُلنے والی سب گلیوں میں لوگ اکٹّھے ہو گئے تھے۔ بساطی کے بیٹے نے کنویں کے منچ پہ بیٹھ کے کلّی کی تھی تو ایسا لگا تھا کہ جیسے ہزار چھَتّوں سے لاکھوں مَدھوماکھیاں گُنجن کرتی اُٹھی ہیں۔ سارنگ نے اور لڑکی نے سر گھما کے دیکھا، گاؤں کے سبھی دیکھتے تھے۔ پنڈا اور مکھیا نہیں آئے تھے۔
بوڑھے کنور نے کونڈے پہ ڈھکا کیلے کا پتّا ہٹایا۔ ایک روٹی لڑکے کی طرف سرکائی، دوسری اپنی طرف کھینچی۔ اَمبی کا ایک ٹکڑا اپنی روٹی پہ رکّھا، دوسرا لڑکے کو بڑھا دیا۔ پھر چاروں طرف ناراض آنکھوں سے دیکھتے ہوے نوالا توڑ لیا۔
لڑکا اپنا نوالا منھ کی طرف لے جاتا تھا کہ نارنگ ٹھاکر جھَنجھَناتی ہوئی آواز میں بولا، "تجھے بِسملّا بولنی کوئی نے نئیں سکھائی رے؟”
بساطی کا لڑکا چمک گیا۔ ڈری ہوئی آواز میں بولا، "بِس مِلّا!”
کنور نے تسلّی دی۔ "ہاں شاباش… اب کھا۔”
اور خود اِدھر اُدھر دیکھتے ہوے اُس نے منھ میں نوالا رکھ لیا۔ "جَے جَے پربھو!”
جتنی دیر وہ دونوں کنویں کے منچ پہ کھانا کھاتے، پانی پیتے، ہاتھ منھ دھوتے رہے، گاؤں والے گلیوں کے دہانوں پہ موجود رہے۔ بوڑھے ٹھاکر کے اٹھتے ہی گلیارے خالی ہو گئے۔ بستی کے بیرونی حاشیے سے چھ آٹھ ڈھیڑ، پاسی، چمار دوڑے دوڑے آ گئے تھے۔ وہ پرانے پیپل کی اوٹ لیے اونچی جاتیوں کے کنویں کی دُرگتی دیکھتے رہے۔ وہ ڈرے ہوے تو ہوں گے ہی، پر بوڑھے ٹھاکر کو عقیدت سے بھی دیکھتے جاتے تھے اور دانت نکالے مسکرا رہے تھے۔
لڑکی نے اُن لوگوں کو مسکراتے دیکھا اور دل ہی دل میں کہا، ہاں یہ ٹھیک ہے۔
کنور بکرم نارنگ سنگھ اُوجّینی ایک ہاتھ میں رسّی بندھی گڑوی، دوسرے میں جوٹھا کونڈا اٹھائے کنویں کا منچ چھوڑ کے اپنے بیٹے اور اُس لڑکی کی طرف چل پڑا۔ چھوٹا لڑکا دونوں ہاتھوں سے اُس کی تلوار سنبھالتا پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید