FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

نبوت و رسالت

               مفتی ڈاکٹر عبد الواحد

 

            کسی مذہب سماوی سے تعلق ہونے کے باوجود جو لوگ انبیا ء علیہم السلام اور ان کی تعلیمات کے متعلق کج فہمی میں مبتلا ہیں ان کو ہمیشہ سے یہ مغالطہ رہا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کا تعلق صرف ایک ایسی غیر محسوس حیات کے ساتھ وابستہ ہے جس کے وجود میں بھی یہ کج فہم لوگ بہت سے شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک گویا مذہبی تعلیمات کا تعلق اگر ہے تو صرف قبر، حشر و نشر اور مابعد الموت زندگی کے مسائل کی حد تک ہے دنیوی نظم و نسق کے ساتھ ا س کا کوئی محکم تعلق ثابت نہیں۔ دوسری طرف عالم غیب اور اس کے علوم سے چونکہ یہ مادی عقول بالکل خالی ہوتی ہیں اس لیے وہ انبیاء علیہم السلام اور ان کی تعلیمات کے لیے کوئی بلند مقام تجویز کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔

            لیکن حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اصل حقیقت یوں بیان فرماتے ہیں  :

            ”اگر تم نبی اور اس کے خواص جاننا چاہتے ہو تو یوں سمجھو کہ حیات انسانی کے نظم و نسق کے لیے جن جن صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ بیک وقت نبی کی ذات میں تمام انسانوں سے بڑھ کر پیدا فرمائی جاتی ہیں۔

            (١)  وہ حاکم کی طرح ہوتا ہے جس کی قوت عاقلہ اور عاملہ کے سایہ کے نیچے اہل قلم بھی، بڑے بڑے جرنیل اور سیاست دان بھی، کاشتکار اور تاجر بھی غرض تمام عالم اپنی اپنی زندگی کے مطابق تربیت حاصل کرتا ہے اور ہر ہر شعبہ کا نظام اس کے اقوال و افعال کے دم سے قائم رہتا ہے۔

            (٢)  وہ ایک حکیم و مدبر بھی ہوتا ہے جو علم اخلاق و تدبیر منزل اور سیاست مدن کا ماہر ہو اور یہ تمام صفات اس کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہوں حتی کہ اس کے حرکات و سکنات سے یہ علوم ٹپکتے نظر آ رہے ہوں۔

            (٣)  وہ مرشد کامل بھی ہوتا ہے جو کرامات و خوارق کا مصدر بنا ہوا ہو اور طاعات و عبادات کے ان تمام طریقوں سے آگاہ ہو جو تہذیب نفس کے لیے ضروری ہیں اور ان علوم فقہ کا ماہر ہو جن سے انسانوں پر ملکوت کے خفیہ اسرار روشن ہوتے ہیں اور اسی طرح اعمال جوارح اور اذکار لسانی کے علیحدہ علیحدہ تمام خواص سے پورا پورا آشنا ہو۔ اللہ کے ہر حکم کو پورا کرنا اس کی شان بن چکی ہو اور اس کی فطرت کو عالم بالاسے وہ مناسبت حاصل ہو کہ علوم الہیہ اور یقین و اطمینان کی نعمت اس کے قلب پر بہہ رہی ہو ”۔  (ترجمان السنۃ  ٣ /١١٥)

            اس کا کلام حاصل یہ ہے کہ نبوت کے تین رکن ہیں۔

                (۱)  حکومت و سیاست

            اس کی حقیقت یہ ہے کہ نبی خلیفۃ اللہ ہوتا ہے اور احکام الہیہ کی تلقین کرتا ہے، اور جب موقع ہوتا ہے تو حکومتی سطح پران کو خود جاری بھی کرتا ہے۔اسی وجہ سے نبی کی حکومت وسیاست کی اہم بنیاد عالم غیب سے اس کا رشتہ اور تعلق ہوتی ہے اور قدرت خود بھی نبی کے اندر اعلیٰ قابلیتیں اور صلاحیتیں ودیعت رکھتی ہے۔

                (٢)  علم و حکمت

            علوم نبوت کی خصوصیات یہ ہیں

            (  ا  )   وہ انسانیت کے حقوق کا تحفظ اور  مصالح عالم کی رعایت کرتے ہیں۔

            (ب)  وہ حقیقت کی صحیح صحیح ترجمانی کرتے ہیں کبھی باطل ثابت نہیں ہوتے۔

            (ج)  وہ قطعیت اور یقین کے اس نقطہ پر پہنچے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

                (٣)  رشدو ہدایت

            (ا)  انبیا ء علیہم السلام کے رشدو ہدایت اور جمیع کمالات اتنے بلند درجہ کے ہوتے ہیں کہ یہ کہنا بجا ہے کہ گویا ان کی نوعیت ہی علیحدہ ہوتی ہے مثلاً جو ان کی صحبت میں ایمان کے ساتھ ایک مرتبہ آ بیٹھا وہ باجما ع امت جنید  و شبلی  سے کہیں فائق بن کر اُٹھا۔

            (ب)نبی کی عام صفات مثلاً صداقت، دیانت، امانت، بلندی اخلاق اور انصاف وغیرہ بھی دیگر انسانوں میں موجود ان صفات کے مقابلہ میں کہیں زیادہ بلند ہوتی ہیں۔

انبیا ء علیہم السلام سب کے سب بشر تھے اور اللہ تعالی کے برگزیدہ بندے تھے  :

عن عبداللّٰہ بن مسعود ان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم صلی  الظھر خمسا فقیل لہ ازید فی الصلٰوۃ فقال وما ذاک قالواصلیت خمسا فسجد سجدتین بعدماسلم وفی روا یۃ قال انما انابشر مثلکم انسی کما تنسو ن فاذانسیت فذکرونی  (بخاری ومسلم)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (بھول سے )ظہر کی پانچ رکعتیں پڑھا دیں۔اس پر آپ سے عرض کیا گیا کہ کیا ظہر کی نماز کی رکعتیں بڑھا دی گئیں ہیں۔آپ نے پوچھا کیا ہوا ؟لوگوں نے عرض کیا (آج آپ نے پانچ رکعتیں ادا فرمائی ہیں۔یہ سن کر آپ نے ایک رکعت اور پڑھی اور تشہد پڑھ کر سلام کے بعد سہو کے لیے دو سجدے کیے (یہ ا س وقت کا واقعہ ہے جب نماز میں با ت کرنے کی اجازت تھی )۔ایک روایت میں ہے کہ آپ نے یہ فرمایا میں (اگرچہ اللہ کا رسول ہوں لیکن اصل کے اعتبارسے )ایک بشر ہوں جیسے تم بشر ہو اور (مجھ کو بھی بشری عوارض پیش آتے ہیں جو میری رسالت اور برگزیدگی کے منافی نہیں ہیں اور بشری عوارض کی وجہ سے میں )بھول جاتا ہوں جیسے تم بھول جاتے ہو اس لیے جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو۔

انبیاء علیہم السلام کو بھی بشری عوارض پیش آتے تھے

                (۱)  بھول چوک

            اوپر کی حدیث میں انما انا بشر انسی کما تنسون یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں بھی ایک بشر ہوں جیسے تم بشر ہو اور بھول بھی جاتا ہوں جیسے تم بھول جاتے ہو۔

عن عائشۃ ان رجلا قام من اللیل فقرأ فرفع صوتہ بالقرآن فلما اصبح قال رسول اللّٰہؐ  یرحم اللّٰہ فلا نا کاین من آ یۃ اذ کرنیھااللیلۃکنت قد اسقطتھا                                    (ابو داؤد )

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ایک صاحب (یعنی عبداللہ بن یزید)رات کے  وقت اُٹھے اور اونچی آواز سے قرآن پڑھا۔(ان کی آواز نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کے کان میں بھی  آئی۔جب صبح ہوئی تو رسول اللہ علیہ وسلم نے فریایا اللہ فلاں (یعنی عبداللہ بن یزید )پر رحم فرمائے کتنی ہی آیتیں ہیں جو آج رات انہوں نے مجھے یاد دلا دیں جو مجھے مستحضر نہیں رہی تھیں۔

            فائدہ  :  عارضی طور پر مستحضر نہ رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ان کو بالکل بھول ہی گئے تھے جو کوشش کے باوجود بھی یا د نہ آ رہی ہوں بلکہ وقتی طور پر توجہ نہ ہونے کے باعث جب وہ کان میں پڑیں تو ایسے معلوم ہوا گویا بھولی ہوئی تھیں جو یاد دلا دیں۔

               (٢)  بھوک کی شدت محسوس کرنا

عن ابی طلحۃ قالشکوناالی رسول اللّٰہ ؐ الجوع ورفعناعن بطوننا عن حجر حجرفرفع رسول ؐ عن بطنہ عن حجرین                                           (ترمذی)

  حضرت ابی طلحہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے(غزوہ خندق میں )شدت بھوک کی شکایت کے طور پر اپنے پیٹ کھول کر دکھائے کہ ان پر ایک پتھر بندھا ہوا ہے۔(تاکہ اس کے دباؤ کی وجہ سے خالی پیٹ کا درد محسوس نہ ہو اور کمر سیدھی رہے ) اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پیٹ جو کھولا تو اس پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔

               (٣)  بچھو کا کاٹنا

عن علی قال بینارسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم ذات لیلۃ یصلی فوضع یدہ علی الارض فلدغتہ عقرب فاولھارسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بنعلہ فقتلھا فلما انصرف قال لعن اللّٰہ العقرب ماتدع مصلیا ولا غیرہ اونبیہ ولا  غیرہ ثم دعا بملح وماء فجعلہ فی اناء ثم جعل یصبہ علی اصبعہ حیث لد غتہ ویمسحھا ویعوذھا بالمعوذ تین۔  (بیہقی فی شعب الایمان)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے آپ نے اپنا دست مبارک زمین پر رکھا تو کسی بچھو نے آپ کے ہاتھ میں کاٹ لیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چپل لے کر (عمل قلیل سے) اس کو مار دیا۔جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے تو فرمایا خدا تعالی بچھو پر لعنت کرے نہ نمازی کو بخشے نہ غیر نمازی کو یا یہ فرمایا کہ نہ نبی کو چھوڑے نہ غیر نبی کو۔ اس کے بعد ذرا سا نمک اور پانی منگا کر ایک برتن میں ڈالا اور جس جگہ پر بچھو نے کاٹا تھا اس جگہ اس کو ڈالتے رہے اور معوذتین پڑھ کر انگلی پر ہاتھ پھیرتے اور دم کرتے رہے۔

               (۴)  جادو کا اثر ہو جانا

عن عائشۃ قالت کان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سحرحتی کان یری انہ یاتی النساء ولا یا تیھن فانتبہ من نو مہ ذات یوم فقال یا عائشۃ اعلمت ان اللّٰہ قد افتانی فیما استفتیتہ فیہ اتانی رجلان فقعد احد ھما عند راسی والآخرعند رجلی فقال الذی عند راسی للاخر مابال الرجل قال مطبوب قال ومن طبہ قال لبید بن الا عصم رجل من بنی زریق حلیف لیھود کان منافقا قال وفیم قال فی مشط و مشاقۃ قال فاین قال فی جف طلعۃذکر تحت رعوفۃ فی بئر ذی اروان قال فاتی البرحتی استخرجہ فقال ھذہ البر التی اریتھا وکان ماء ھا نقاعۃالحنا وکان نخلھا رء وس الشیاطین قال فاستخرج قالت فقلت افلا تنشرت فقال امااللّٰہ فقد شفانی واکرہ ان اثیرعلی احد من الناس شرا                      (بخاری)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک بار رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا (جس کا اثر یہ ہوا کہ آپ خیال کرتے تھے کہ آپ(اپنی )بیویوں سے صحبت کریں مگر کر نہ پاتے تھے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے اور فرمایا اے عائشہ جانتی ہو آج اللہ تعالی نے جس بات کو میں نے اس سے پوچھا تھا اس نے ا س کی مجھے خبر دے دی ہے۔(اس کی صورت یہ ہوئی کہ )دو فرشتے میرے پاس آئے ایک میرے سرہانے بیٹھا اور دوسرا میرے پیروں کی طرف بیٹھ گیا جو میر ے سرہانے بیٹھا تھا اس نے دوسرے سے پوچھا ان کو کیا تکلیف ہے۔ دوسرے نے جواب دیا ان پر جادو کیا گیا ہے۔پہلے نے پوچھا کس نے جادو کیا ہے ؟اس نے جواب دیا لبید بن اعصم نے جو قبیلہ بنی زریق کا ایک آدمی ہے اور یہود کا حلیف ہے۔یہ شخص منافق تھا۔پہلے نے پوچھا اچھا یہ جادو کس چیز پر کیا ہے ؟اس نے کہا کہ ایک کنگھی اور کنگھی کشیدہ بالوں پر۔پہلے نے پوچھا تو وہ ٹونا کہاں ہے۔اس نے کہا وہ ایک نر کھجور کے خوشہ کے غلاف میں رکھ کر ذی اروان کنویں  کے اندر کے پتھر کے نیچے ہے۔چنانچہ آپؐ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور اس جادو کو نکالا اور فرمایا یہی کنواں تھا جو مجھ کو دکھایا گیا تھا۔ اس کا پانی ایسا تھا جیسا مہندی کا پانی سرخ ہوتا ہے  اور اس کے ارد گرد درختوں پر ا یسی وحشت برستی تھی گویا وہ شیطانوں کے سر ہیں۔حضرت عائشہ کہتی ہیں میں نے عرض کی آپ ؐ نے اس کو کھول (کر لوگوں کو دکھا) کیوں نہیں دیا۔آپ ؐ نے فرمایا مجھ کو تو اللہ تعالی نے شفا عطا فرما ہی دی اور اب مجھ کو یہ بات گوارا نہیں کہ کسی بھی شخص کے خلاف شر اُٹھاؤں۔

               (۵)  زہر کے اثر سے متاثر ہونا

عن جا بر ان یھودیۃ من اھل خیبر سمت شاۃ مصلیۃ ثم اھدتھا لرسول اللّٰہ صلّی ا للّٰہ علیہ وسلّم فاخذ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم الذراع فاکل منھا واکل رھط من اصحا بہ معہ فقال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ارفعوا ایدیکم وارسل الی الیھود یۃ فدعاھافقال سممت ھذہ الشاۃ فقا لت من اخبرک قال اخبرتنی ھذہ فی یدی للذراع قالت نعم قلت ان کان نبیا فلن تضرہ وان لم یکن نبیا استرحنا منہ فعفاعنھا رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ولم یعا قبھاوتو فی اصحابہ الذین اکلو امن الشاۃ واحتجم رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم علی کاھلہ من اجل الذی اکل من الشاۃ حجمہ ابو ھند بالقرن والشفرۃ وھو مولی لبنی بیاضۃ الانصار                                                   (ابو داؤد)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ خیبر کی ایک یہودی عورت نے ایک بھونی ہوئی بکری زہر ملا کررسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بطور ہدیہ پیش کی۔آپؐ نے اس کی دستی لی اور اس میں سے کچھ کھایا اور آپؐ کے بعض صحابہ نے بھی کھا لیا۔ آپؐ نے فرمایا کھانے سے ہاتھ اُٹھا لو اور اس یہودی عورت کو ایک آدمی بھیج کر بلوایا اور اس سے پوچھا تو نے بکری میں زہر ملایا ہے ؟ اس نے کہا آپ کو کس نے بتا یا؟آپ نے دستی کے اس ٹکڑے کی طرف جو آپ کے ہاتھ میں تھا اشارہ کر کے فرمایا کہ اس نے۔ یہ سن کر وہ بولی جی ہاں (اور )میں نے اپنے دل میں سوچا تھا اگر یہ نبی ہوں گے تو ان کو یہ زہر ہرگز نقصان نہ دے گا اور اگر نبی نہ ہوں گے تو ان سے ہماری جان چھوٹ جائے گی۔ آپ نے اس یہودن کو معاف کر دیا اور اس کو کوئی سزا نہیں دی اور آپؐ کے جن صحابہ نے وہ گوشت کھا لیا تھا ان (میں سے بعض کا یعنی بشر رضی اللہ عنہ )کا تو انتقال ہو گیا اور آپﷺ  نے بھی اس زہر آلود بکری کے اثر سے اپنے شانوں کے درمیان سینگی لگوائی۔سینگی لگانے والے ابو ہند تھے جو انصار کے قبیلہ بنو بیاضہ کے ایک آزاد کردہ غلام تھے۔انہوں نے سینگ اور نشتر سے آپ کے سینگی لگائی تھی۔

               (٦)  دنیوی امور کی فکر لا حق ہونا

عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا ان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کان یقول لنسائہ ان امرکن لمما یھمنی من بعد ی ولن یصبر علیکن الا الصابرون الصد یقون قالت عائشۃ یعنی المتصدقین ثم قالت عائشۃ لابی سلمۃ بن عبد الرحمن سقی اللّٰہ اباک من سلسبیل الجنۃ وکان ابن عوف قد تصد ق علی امھات المومنین بحد یقۃ  بیعت بار بعین الفا                                                         (ترمذی، مشکٰوۃ)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاسے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے فرمایا کرتے تھے۔میر ی وفا ت کے بعد کا تمہارا معاملہ بھی ایسا ہے جو مجھے فکر مند کرتا ہے اور تمہاری دیکھ بھال میں حصہ لینے والے صرف وہی لوگ ہوں گے جو بڑے ضبط و ہمت والے ہوں گے (کہ خود قلت برداشت کر کے تم پر زیادہ خرچ کریں گے ) اور کثرت و اخلاص سے صدقہ کرنے والے ہوں گے (کیونکہ تمہاری دیکھ بھال کی ضرورت تو تمہاری وفات تک مسلسل رہے گی ا س لیے کہ تمہارا کسی دوسری جگہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا )۔حضرت عائشہ  ابو سلمہ سے دعائیہ کلمات فرمایا کرتی تھیں کہ اللہ تعالی تمہارے والد کو جنت کے اس چشمہ کے پانی سے سیراب کرے جس کا نام سلسبیل ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے والد عبدالرحمن بن عوف نے امہات المومنین کو ایک باغ ہدیہ کیا تھا جو چالیس ہزار دینار میں فروخت ہوا تھا۔

               رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ خصوصیات

 (١)  اللہ تعالی کانبیﷺ   کو غیر معمولی طریقے سے کھانا پلانا

عن ابی ھریرۃ قال نھی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الوصال فی الصوم فقال لہ رجل من المسلمین انک تواصل یا رسول اللّٰہ قال وایکم مثلی انی ابیت یطعمنی ربی ویسقینی                   (بخاری ومسلم )

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ممانعت فرمائی ہے کہ دو روزے درمیان میں افطار کیے بغیر ایک ساتھ رکھے جائیں اس پر ایک مسلمان شخص نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ   آپ بھی تو ایسا کر لیتے ہیں۔آپ نے فرمایا (جی ہاں )مگر کیا تم میں کوئی میری طرح ہے ؟میں شب بسر کرتا ہوں اس حالت میں کہ میرا رب مجھ کو (غیر معمولی طریقے سے نیند میں حقیقتًا )کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی ہے (اس لیے میری توانائی بحال رہتی ہے)۔

(٢)  غیر معمولی بصارت

عن انس قال اقیمت الصلوٰۃ فاقبل علینا رسول اللّٰہ  صلی اللّٰہ علیہ وسلم  بوجہہ فقال اقیمو ا صفو فکم و ترا صّوا فانی ارا کم من ورائِ ظھری۔(بخاری)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ جماعت کھڑی ہوئی تو رسول اللہﷺ   نے ہماری طرف اپنا رخ پھیر کر فرمایا اپنی صفیں سیدھی کرو اور خوب مل کر کھڑے ہو کیونکہ (اللہ تعالی نے مجھے یہ غیر معمولی بصارت عطا کی ہے کہ پشت کی طرف کی روشنی کی شعاعیں میرے دائرہ بصارت میں داخل ہو جاتی ہیں اور )میں تم کو اپنی پشت کی طرف سے بھی دیکھ لیتا ہوں۔

 (٣)  نیند میں خصوصیت

عن عائشۃ قالت یا رسول اللّٰہ اتنام قبل ان توترفقال یا عائشۃ ان عینی تنا مان ولا ینام قلبی            (بخاری ومسلم )

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (انہوں نے جب دیکھا کہ آپﷺ  نوافل پڑھ کر وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں اور پھر اُٹھ کر بلا وضو کیے وتر پڑھ لیتے ہیں تو )انہوں نے پوچھا یا رسول اللہﷺ   کیا وتر کی نماز پڑھنے سے پہلے آپ (اس طرح ) سو سکتے ہیں۔آپ نے فرمایا اے عائشہ  میری آنکھیں سوتی ہیں (لیکن ) میرا دل(و دماغ)نہیں سوتا (بلکہ وہ بیدار رہتا ہے اور کام کرتا رہتا ہے جس سے مجھے پتہ رہتا ہے کہ میرا وضو ٹوٹا ہے یا نہیں جبکہ اور لوگوں کو یہ غیر معمولی وصف حاصل نہیں ہے اس لیے وہ جب لیٹ کر یا ٹیک لگا کر سوتے ہیں تو ان کو پتہ نہیں ہوتا کہ ان کے وضو کا کیا حال ہے اور چونکہ نیند میں جسم و جوڑ ڈھیلے ہو جانے کی وجہ سے ہوا خارج ہوسکتی ہے اس لیے محض نیند کی وجہ سے وضو ٹوٹنے کا حکم ہے )۔

 (٤)  شیطان سے حفاظت

عن ابن مسعود قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما منکم من احد الاوقد وکل بہ قر ینہ من الجن وقرینہ من الملا ئکۃ قالو وایا ک یا رسول اللّٰہ قال وایای ولکن اللّٰہ اعاننی علیہ فا سلم فلا یا مرنی الابخیر۔        (مسلم)

حضرت عبداللہ بن مسعو د  سے روایت ہے رسول اللہﷺ   نے فرمایا تم میں سے ہر شخص کے ساتھ اللہ تعالی (کی جانب سے ) دو ساتھی مقرر کیے گئے ہیں جو اس کے ساتھ رہتے ہیں ایک جن دوسرا فرشتہ۔لوگوں نے پوچھا یا رسولﷺ   کیا یہ دونوں آپ کے ساتھ بھی ہیں۔ آپ نے فرمایا ہاں میرے ساتھ بھی ہیں لیکن شر کی قوت کے مقابلہ میں اللہ تعالی نے میری مدد فرمائی ہے اس لیے میں اس کے فریب سے محفوظ ہوں۔ (اس لیے کوئی زور نہ پاکر ) وہ جن مجھے (اگر کچھ مشورہ دیتا ہے تو) بھلائی کا ہی مشورہ دیتا ہے۔

                عالم غیب سے تعارف کی ابتداء

عن ابن عباس قال  :  اقام رسول اللّٰہﷺ   بمکۃ خمس عشرۃ سنۃ یسمع الصوت ویری الضوء سبع سنین ولا یری شیأ وثمان سنین یو حی الیہ واقام بالمدینۃ عشر ا۔                    (مسلم )

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ   مکہ مکرمہ میں پندرہ سال اس طرح قیام پذیر رہے کہ ان میں سے سات سال تک آپ صرف (فرشتے یعنی حضرت جبریل علیہ السلام کی غائبانہ )آواز سنتے تھے اور (فرشتے کے ساتھ کی ) روشنی دیکھا کرتے اس کے علاوہ (فرشتہ وغیرہ) کچھ نہ دیکھتے (تاکہ آپ کا طبعی خوف جاتا رہے اور آپ کے اندر فرشتے کو دیکھنے کی قوت اور استعداد پیدا ہو جائے۔استعداد حاصل ہو جانے پر فرشتہ نے ظاہر ہو کر وحی لانے کا کام شروع کیا ) اور (مکی دور کے )آٹھ سال آپ پر وحی نازل ہوتی رہی۔اس کے بعد آپ نے دس سال مدینہ ( طیبہ) میں قیام فرمایا۔

            فائدہ  :  سالوں کی یہ تحدید عربوں کے اسلوب کے مطابق ایک اندازے کی ہے۔

عن جابر بن سمرۃ قال قال رسول اللّٰہﷺ   انی لا عرف حجراًبمکۃ کان یسلم علی قبل ان ابعث انی لاعرفہ الان                              (مسلم)

حضرت جابر بن سمر ۃ   نقل کرتے ہیں رسول اللہﷺ   نے فرمایا میں مکہ مکرمہ میں اس پتھر کو خوب پہچانتا ہوں جو میری بعثت سے قبل مجھ کوسلام کیا کرتا تھا میں اب بھی اس کو خوب پہچانتا ہوں۔

               عالم غیب کے ساتھ تعلق اور  ربط

وحی کا نزول اور فرشتوں کے ساتھ ہمکلامی

عن عائشۃ قالت اول مابدیٔ بہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم من الوحی الرویا الصالحۃ فکان لا یری رویا الا جاء ت مثل فلق الصبح ثم حبب الیہ الخلاء وکان یخلوابغار حراء فیتحنث فیہ وھوالتعبد اللیا لی ذوات العدد قبل ان ینزع الی اھلہ ویتز ود لذ لک ثم یر جع الی خدیجۃ فیتزود لمثلھا حتی

جاءہ الحق وہو فی غارحرا ء فجاءہ الملک فقا ل اقرأ فقال ماانا بقاریٔ قال فاخذنی فغطنی حتی  بلغ منی الجھد ثم ارسلنی فقال اقرأ فقلت ما انا بقاریٔ فاخذنی فغطنی الثا نیۃ حتی بلغ منی الجھد ثم ارسلنی فقا ل اقرأ فقلت ما انا بقاریٔ فاخذنی فغطنی الثا لثۃ حتی بلغ منی الجھد ثم ارسلنی فقال اقرأ باسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرأ و ربک الاکرام الذی علم بالقلم علم الا نسان مالم یعلم فرجع بھا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم  یرجف فوادہ فدخل علی خدیجۃ فقال زملونی زملونی فزملوہ حتی ذھب عنہ الر وع فقا ل لخدیجۃ واخبرھا الخبرلقد خشیت علی نفسی فقالت خدیجۃ کلا واللّٰہ لا یخز یک اللّٰہ ابدا انک لتصل الرحم وتصدق الحدیث وتحمل الکل وتکسب المعدوم و تقری الضیف وتعین علی نوائب الحق ثم انطلقت بہ خدیجۃ الی ورقۃ بن نوفل ابن عم خد یجۃ فقالت لہ یا ابن عم اسمع عن ابن اخیک فقال لہ ورقۃ یا ابن اخی ماذا تری فاخبرہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خبر مارآی فقال ورقۃ ھذا ہو الناموس الذی انزل اللّٰہ علی موسی …                                                           (بخاری و مسلم )

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ ل صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی اول ابتدا ء سچے خوابوں سے ہوئی۔آپ (رات کو )جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح سامنے آ جاتا(یعنی خواب کے موافق ہی واقعہ رونما ہوتا ) پھر آپ کو خلوت نشینی محبوب ہو گئی اور آپ غار حرا میں خلوت اختیار کرتے اور گھر واپس جانے سے پہلے وہاں چند (دن اور ) رات عبادت کرتے۔پھر گزارہ کا کچھ سامان عبادت و خلوت کی غرض سے لے جاتے۔پھر چند دنوں بعد واپس خدیجہ کے پاس آتے اور اتنے دنوں کے لیے مزید سامان لے جاتے۔(یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا ) یہاں تک کہ آپ کے پاس حق آ گیا (جس کی صورت یہ ہوئی کہ )آپ غار حرا میں تھے تو آپ کے پاس فرشتہ آیا ( یعنی جبرئیل علیہ السلام آئے )اور کہا پڑھیے۔آپ نے فرمایا میں (نے چونکہ لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا لہٰذا میں پڑھ نہیں سکتا۔انہوں نے مجھے پکڑ ا اور زور سے بھینچا( جس سے غرض یہ تھی کہ وحی کے تحمل کی جو توانائی انہیں حاصل تھی اس میں سے کچھ نبیﷺ   کی طرف بھی منتقل ہو جائے )پھر انہوں نے مجھے چھوڑ ا اور کہا پڑھیے۔میں نے کہا میں پڑھ نہیں سکتا۔انہوں نے مجھے (پھر ) پکڑا اور دوسری مرتبہ مجھے زور سے بھینچا (تاکہ مزید توانائی منتقل ہو جائے ) پھر اُنہوں نے مجھے چھوڑا اور کہا کہ پڑھیے۔میں نے (پھر یہی )جواب دیا کہ میں پڑھ نہیں سکتا۔جبرئیل نے ( پھر ) مجھے پکڑا اور تیسری مرتبہ مجھے زور سے بھینچا (تاکہ مزید توانائی منتقل ہو جائے ) پھر مجھے چھوڑا اور کہا(یہ آیتیں )پڑھیے۔ اقرأباسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرأ  وربک الاکرم الذی علم با لقلم علم الانسان مالم یعلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان آیتوں کو لے کر(گھر کی طرف لوٹے ) آپ کا دل ( رعب کی وجہ سے ) زور زور سے دھڑک رہا تھا۔(جب )آپ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے تو فرمایا مجھے کپڑا اوڑھا دو مجھے کپڑا اوڑھا دو۔گھر والوں نے آپ کو کپڑا اوڑھا دیا یہاں تک کہ آپ کا خوف (اور رعب )جاتا رہا آپﷺ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کو پور ا واقعہ سنایا اور فرمایا مجھے اپنی جان ( پر ہلاکت ) کا خوف ہے خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہرگز نہیں (آپ ایسا خوف نہ کیجیے )اللہ کی قسم اللہ آپ کو کبھی بھی رسوا نہ کرے گا (کیونکہ آپ کا جو کردار ہے ایسے کو برباد و رسوا کرنا اللہ تعالی کی عادت نہیں ہے ) آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں اور سچ بات کہتے ہیں اور بے کسوں کی خبر گیری کرتے ہیں اور محتاجوں پر خرچ کرتے ہیں اور مہمان نوازی کرتے ہیں اور قدرتی حوادث میں (مبتلا لوگوں کی ) مدد کرتے ہیں۔پھر خدیجہ رضی اللہ عنہا آپﷺ  کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں (جو کہ عیسائی ہو چکے تھے اور اس وقت کی دینی کتابوں کے بڑے عالم تھے )او ر ان سے کہا اے میرے چچازاد بھائی ذرا اپنے بھتیجے کی بات تو سن لیجیے۔ورقہ نے آپﷺ   سے پوچھا اے بھتیجے آپ کیا (چیزیں )دیکھتے ہیں رسول اللہﷺ   نے جو کچھ دیکھا تھا اس کا قصہ ورقہ کوسنایا۔(وہ سن کر)ورقہ نے کہا (جو فرشتہ آپ نے دیکھا ) یہ وہی فرشتہ ہے جو اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام  پر اتارا تھا۔

عن عائشۃ قالت فترالوحی حتی حزن النبی ؐ  فیما بلغنا حزنا غدامنہ مراراکی یتردی من رؤس شوا ھق الجبل فکلمااوفی بذروۃ جبل لکی یلقی نفسہ منہ تبدی لہ جبریل فقال یامحمد انک رسول اللّٰہ حقا فیسکن لذلک جاشہ وتقرنفسہ                                                                      (بخاری )

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں (غار حرا میں پہلی وحی کے بعد کچھ ایا م کے لیے وحی بند رہی۔اگرچہ غار حرا کی وحی آنے پر آپ خوف زدہ ہو گئے تھے لیکن ایک تو ویسے بھی وہ خوف جاتا رہادوسرے حقیقت حال بھی واضح ہو گئی تھی۔خوف اور رعب کی جگہ فرشتہ سے ملاقات اور وحی کا اشتیاق دل میں بہت زیادہ پیدا ہو گیا تھا لہٰذا وحی جو کچھ عرصہ رکی رہی تو آپﷺ   اتنے زیادہ غمگین ہوئے کہ آپ کئی مرتبہ اس غرض سے نکلے کہ اپنے آپ کو پہاڑ کی بلندیوں سے نیچے گرا دیں۔اس ارادے سے آپ جب بھی کسی چوٹی پر پہنچتے تاکہ وہاں سے اپنے کو گرا دیں تو جبرئیل علیہ السلام آپ کے سامنے ظاہر ہو تے اور کہتے اے محمدؐ بے شک آپ اللہ کے واقعی ر سول ہیں اس سے آپﷺ   کے جوش و قلق کو سکون ملتا اور آپ کے نفس کو قرار آ تا۔

عن جابر انہ سمع رسول اللّٰہ ؐ  یحدث عن فترۃ الوحی قال فبینا انا امشی سمعت صوتا من السماء فرفعت بصری فاذا الملک الذی جاء نی بحرا ء قاعد علی کرسی بین السما والارض فجشت منہ رعبا حتی ہویت الی الارض فجئت الی اھلی فقلت زملونی زملونی فانزل اللّٰہ تعالی یا ایھا المدثر قم فاندر وربک فکبرو ثیابک فطھر ثم حمی الوحی وتتابع    (بخاری ومسلم )

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ   کو فترت وحی ( یعنی چند ایام کے لیے وحی کے انقطاع کی بات کرتے ہوئے سنا آپﷺ   نے فرمایا اس دوران کہ میں چل رہا تھا کہ میں نے آسمان کی طرف سے آوازسنی۔میں نے جو نظر اُٹھائی تو دیکھا کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے۔ میں رعب کی وجہ سے اس سے اتنا خوفزدہ ہوا کہ میں زمین پر گر گیا اور (تیزی سے ) اپنے گھر والوں کی طرف آیا اور کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیتیں نازل فرمائیں    یا ایھا المدثرقم فانذر وربک فکبر وثبا بک فطھر (سورہ مدثر )پھر تو وحی کی گرمی تیز ہو گئی اور بار بار آنے لگی۔

عن ابن عباس عن میمونۃ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم اصبح یوما و اجما …و قال ان جبرئیل کان و عد نی ان یلقا نی اللیلۃ فلم یلقنی ام واللّٰہ ما اخلفنی…ثم وقع فی نفسہ جروکلب تحت فسطاط لنا فامربہ فاخرج ثم اخذ بیدہ ماء فنضح مکانہ فلما امسی لقیہ جبرئیل فقال لقد کنت وعد تنی ان تلقانی البارحۃ قال اجل ولکنا لا ند خل بیتا فیہ کلب ولا صورۃ۔ (مسلم)

حضرت عبداللہ بن عباس  حضرت میمونہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہﷺ   صبح کے وقت کچھ مغموم تھے اور  (اس کی وجہ سے ) آپ نے یہ بات بتائی کہ جبرئیل ( علیہ السلام ) نے آج کی رات مجھ سے ملاقات کا وعدہ کیا تھا مگر آئے نہیں خدا کی قسم انہوں نے مجھ سے (کبھی ) وعدہ خلافی نہیں کی۔ پھر آپ کے دل میں تخت کے نیچے موجود کتے کے پلہ کا خیال آیا۔آپ نے اس کے بارے میں حکم دیا تو اس کو فوراً نکال دیا گیا۔آپ نے اپنے دست مبارک سے پانی لے کر اس جگہ پر چھڑکا ( تاکہ آپ کے ہاتھ لگے پانی کی برکت سے کتے کے معنوی اثرات اس جگہ سے دور ہو جائیں )جب شام ہوئی تو حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے۔آپ نے فرمایا آپ نے تو گزشتہ شب مجھ سے ملاقات کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا جی ہاں لیکن جس گھر میں (شوقیہ یا بلاوجہ ) کتا (رکھا گیا ) ہو یا تصویر ہو اس میں ہم (یعنی فرشتے )داخل نہیں ہوتے۔

وحی کا نعمت ہونا

عن انس قال ابو بکر لعمر بعد وفاۃ رسول للّٰہؐ بنا الی ام ایمن نزورھا کما کان رسول للّٰہ ؐ یز ورھا فلما انتھینا الیھابکت فقا لا لھا ما یبکیک اما تعلمین ان ما عنداللّٰہ خیرلرسول اللّٰہ ؐ فقالت انی لا ابکی انی لاعلم ان ما عند اللّٰہ تعالی خیر لرسول اللّٰہ ؐ ولکن ابکی ان الوحی قد انقطع من السماء فھیجتھما علی البکاء فجعلا یبکیان معھا۔                            (مسلم)

حضرت انس  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ   کی وفات کے بعد ( حضرت ) ابو بکر نے (حضرت عمر سے کہا ( آؤ بھئی)جس طرح کبھی رسول اللہﷺ   ام ایمن کی ملاقات کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے ہم بھی ان کی ملاقات کے لیے چلیں (یہ ام ایمن رسول اللہﷺ   کو اپنے والد کے ترکہ میں بطور باندی ملی تھیں اور نبیﷺ   کی خدمت آیا کی طرح انجام دیا کرتی تھیں۔نبیﷺ  نے ان کو آزاد بھی کر دیا تھا اور آپ ماں کی طرح ان کا اکرام کیا کرتے تھے اور ان کی ملاقات کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے ) جب یہ دونوں حضرات ان کے گھر پہنچے تو (ان حضرات کو دیکھ کر بے ساختہ) ام ایمن پر گریہ طاری ہو گیا انہوں نے پوچھا آپ کیوں روتی ہیں کیا آپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہﷺ   کے لیے اللہ تعالی کے ہاں جو سامان ہیں وہ بہت خیر (اور تحسین ) کے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا میں اس پر تو نہیں روتی کیونکہ بلا شبہ میں اتنا تو جانتی ہوں کہ اللہ تعالی کے یہاں آپ کے لیے خیر کے سامان ہیں، بلکہ میں تو اس پر روتی ہوں کہ اب آسمان سے وحی کی آمد کاسلسلہ ختم ہو گیا ہے ( جو ہمارے لیے اللہ تعالی کی جانب سے دین و دنیا کی براہ راست رہنمائی کا ذریعہ تھا ) یہ کہہ کر ام ایمن نے ان دونوں حضرات کو بھی خوب رلایا اور یہ بھی ان کے ساتھ مل کر رونے لگے۔

وحی آنے کی کیفیت

عن عائشۃ ان الحارث بن ہشام سأل رسول اللّٰہ ؐ فقال یا رسول اللّٰہ کیف یا تیک الوحی فقال رسول ا للّٰہ ؐ احیانایا تینی مثل صلصلۃ الجرس وہو اشدہ علی فیفصم عنی وقد وعیت عنہ ما قال واحیا نا یتمثل لی اللملک رجلافیکلمنی فا عی ما یقول قالت عائشۃ ولقد رأ یتہ ینزل علیہ الوحی فی الیوم الشد ید البرد فیفصم عنہ وان جبینہ لیتفصد عرقا۔         (بخاری و مسلم)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حارث بن ہشام  نے رسول اللہﷺ   سے پوچھا یا رسول اللہﷺ   آپ پر وحی کیسے آتی ہے آپﷺ  نے فرمایا کبھی تو یہ صورت ہوتی ہے کہ مجھے ایک گھنٹی کی سی آواز آتی ہے اوریہ قسم مجھ پر سب سے زیادہ دشوار ہوتی ہے(کیونکہ اس میں فرشتہ اپنی اصلی صورت پر رہتا ہے اور وہ رسول اللہﷺ   کی روح مبارکہ کو مسخر کر کے اس میں کلام الہی کا القا ء کرتا ہے روح مبارکہ کے مسخر کیے جانے کے عمل میں آپ کو گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی تھی )اس کے بعد جب وہ کیفیت دور ہو جاتی ہے تو جو وحی میں ارشاد ہوا تھا وہ مجھ کو محفوظ ہو جاتا ہے اور  کبھی یوں ہوتا ہے کہ فرشتہ خود کسی انسانی مرد کی صورت بن کر میرے سامنے آ جاتا ہے اور مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے۔پھر جو کچھ وہ کہتا ہے میں اس کو یاد کر لیتا ہوں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے سخت جاڑوں کے دن میں آپ کو خود  دیکھا ہے کہ جب آپ پر (پہلی صورت میں )وحی آ کر پوری ہو جاتی تو آپ کی پیشانی (وحی کی مشقت کی وجہ سے ) پسینہ پسینہ ہو جاتی تھی۔

عن صوان بن یعلی ان یعلی قال لعمرارنی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم حین یوحٰی الیہ قال فبینما النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم با لجعرانۃ ومعہ نفرمن اصحابہ جاءہ رجل فقال یا رسول اللّٰہ کیف تری فی رجل احرم بعمرۃ وھومتضمخ بطیب فسکت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ساعۃ فجاءہ الوحی فاشار عمر الی یعلی فجاءہ یعلی فجاء یعلی وعلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثوب قداظل بہ فادخل رأسہ فاذا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم محمرالوجہ وھو یغط ثم سری عنہ فقال این الذی سأل عن العمرۃ۔                                    (بخاری )

حضرت یعلی نے حضرت عمر سے درخواست کی کہ جب کبھی رسول اللہﷺ   پر وحی آئے تو اس وقت آپﷺ  کا مجھے بھی مشاہدہ کرائیے گا۔اتفاق ہوا کہ جب آپﷺ  مقام جعرانہ میں تھے اور صحابہ کی ایک جماعت آپﷺ   کے ساتھ تھی کہ ایک شخص آیا پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ایک شخص خوشبو میں لت پت ہو رہا تھا اور اسی حالت میں اس نے عمرہ کا احرام باندھ لیا اب وہ کیا کرے۔آپ کچھ دیر خاموش رہے اور آپ پر وحی کا نزول شروع ہوا حضر ت عمر  نے یعلی کو اشارہ  کیا آگے آؤ۔وہ آ گئے اس وقت آ پﷺ  کے اوپر ایک کپڑا سائبان کے طور پر ڈالا ہوا تھا انہوں نے اپناسر اس کپڑے کے اندر کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپﷺ   کا چہرہ مبارک سرخ ہو رہا ہے اور وحی کی شدت سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے آپﷺ   کا دم گھٹ رہا ہو۔ اس کے بعد جب وہ کیفیت جاتی رہی تو آپﷺ نے پوچھا عمرہ کا مسئلہ دریافت کرنے والا شخص کہاں ہے۔

وحی کا بوجھ

 ان زید بن ثابت اخبران رسول اللّٰہﷺ   املی علیہ لا یستوی القاعد ون من المومنین والمجاہدون فی سبیل اللّٰہ فجاءہ ابن ام مکتوم وھویملھاعلی قال واللّٰہ یا رسول اللّٰہ لو استطیع الجھاد لجا ھدت وکان اعمی فانزل اللّٰہ علی رسولہ وفخذہ علی فخذی فثقلت علی حتی خفت ان ترض فخذی ثم سری عنہ فانزل اللّٰہ غیر اولی الضرر۔                                                    (بخاری )

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت لا یستوی القاعدون من المؤمنین والمجاھدون فی سبیل اللّٰہ (مومنوں میں سے جو لوگ جہاد سے بیٹھ رہے اور جنہوں نے اللہ کے راستہ میں جہاد کیا برابر نہیں ہوسکتے)زید بن ثابت سے قلمبند کرائی۔ ابھی آپ اس کو قلمبند کر ہی رہے تھے کہ آپ کی خدمت میں ابن ام مکتوم آ گئے۔انہوں نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ  بخدا اگر میں جہاد کر سکتا تو ضرور جہاد کرتا۔بات یہ تھی کہ وہ نابینا تھے۔(ان کے عذر کرنے پر ) اللہ تعالی نے اپنے رسول پر وحی نازل فرمائی۔اس وقت آپﷺ کی ران میری ران کے اوپر رکھی ہوئی تھی( یعنی بے تکلفی کے ساتھ گھٹنا سے گھٹنا ملائے بیٹھے تھے ) تو میری ران پر اتنا وزن پڑ ا کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ اب چورا چورا ہوئی۔اس کے بعد جب وحی کی کیفیت آپ سے دور ہو گئی تو جو کلمہ اللہ تعالی نے نازل فرمایا تھا وہ یہ تھا غیراولی الضرر (یعنی یہ حکم ان کاہے جو معذور نہ ہوں )۔

عن عائشۃ ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان اذا اوحی الیہ وھو علی ناقتہ وضعت جر انھا فما تستطیع ان تتحول حتی یسری عنہ وتلت انا سنلقی علیک قولا ثقیلا۔                                                              (احمد )

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ   پر جب وحی اترتی اور آپ اپنی اونٹنی پر ہوتے تو وحی کے وزن سے وہ بھی اپنی گردن نیچے ڈال دیتی اور جب تک وحی ختم نہ ہو لیتی اپنی جگہ سے گردن نہ ہلا سکتی تھی اس کے بعد ا س مضمون کی تصدیق میں حضرت عائشہ  نے یہ آیت تلاوت فرمائی اناسنلقی علیک قولا ثقیلا (ہم آپ پر ایک بہت وزنی کلام اتارنے والے ہیں )۔

رسول اللہﷺ   کی معراج جسمانی و روحانی

عن مالک بن صعصعۃ ان نبی اللّٰہ ؐ حدثھم عن لیلۃ اُسری بہ بینماانا فی الحطیم وربما قال فی الحجر اذ اتانی اٰت فشق ما بین ھذہ الی ھذہ یعنی من ثغرۃ نحرہ الی شعرتہ فاستخرج قلبی ثم اتیت بطست من ذھب مملو ایمانا فغسل قلبی ثم حشی ثم اعید وفی روایۃ ثم غسل البطن بما ء زمزم ثم ملی ء ایمانا وحکمۃ ثم اُتیت بدابۃ دون البغل وفوق الحمار ابیض یقال لہ البراق یضع خطوہ عند اقصی طرفہ فحملت علیہ فانطلق بی جبرئیل حتی اتی السماء الدنیافاستفتح قیل من ھذاقال جبر ئیل قیل ومن معک قال محمد قیل وقد ارسل الیہ قال نعم قیل مر حبا بہ فنعم المجییٔ جاء ففتح فلما خلصت فاذا فیھاآدم فقال ھذا ابوک آدم فسلم علیہ فسلمت علیہ فردالسلام ثم قال مرحبا بالابن الصالح والنبی الصالح ثم صعد بی حتی اتی السماء الثانیۃ فاستفتح قیل من ھذا قال جبرئیل قیل ومن معک قال محمد قیل وقد ارسل الیہ قال نعم قال مرحبا بہ فنعم المجییٔ جاء ففتح فلما خلصت اذ ا یحییٰ وعیسٰی وھما ابناخا لۃ قال ھذا یحیٰی وھذاعیسٰی فسلم علیھما فسلمت فرداثم قالا مرحبا بالاخ الصاح والنبی الصالح ثم صعد بی الی السماء الثالثۃ فا ستفتح قبل من ھذاقال جبرئیل قیل ومن معک قال محمد قیل وقد ارسل الیہ قال نعم مرحبابہ فنعم المجییٔ جاء ففتح فلما خلصت اذا یوسف قال ھذا یوسف فسلم علیہ فسلمت علیہ فرد ثم قال مرحبا با لاخ الصالح والنبی الصالح ثم صعدبی حتی أتی السماء الرابعۃ فاستفتح قیل من ھذا قال جبرئیل قیل ومن معک قال محمد قیل و قد ارسل الیہ قال نعم قیل مرحبا بہ فنعم المجیء جاء ففتح فلما خصلت فاذا ادریس فقال ھذا ادریس فسلم علیہ فسلمت علیہ فردثم قال مرحبا بالاخ الصالح والنبی الصا لح ثم صعد بی حتی أتی السماء الخامسۃ  فاستفتح قیل من ھذا قال جبرئیل قیل ومن معک قال محمد قیل وقد ارسل الیہ قال نعم قیل مرحبا بہ فنعم المجییٔ جاء ففتح فلما خلصت فاذا ہارون قا ل ہذاہارون فسلم علیہ فسلمت علیہ فردثم قال مرحبا بالاخ الصالح والنبی الصا لح ثم صعد بی حتی اتی السماء السادسۃ فاستفتح قیل من ھذا قال جبرئیل قیل ومن معک قال محمد قیل وقد ارسل الیہ قال نعم قال مرحبا بہ فنعم المجییٔ جاء ففتح فلما خلصت الیہ فاذا موسیٰ قال ھذاموسٰی فسلم علیہ فسلمت علیہ فردثم قال مرحبا بالاخ الصالح والنبی الصالح فلما جاوزت بکیٰ قیل لہ مایبکیک قال ابکی لان غلاماًبعث بعدی یدخل الجنۃ من اُمتہ اکثر ممن ید خلھا من امتی ثم صعد بی الی السماء السابعۃ فاستفتح جبرائیل قیل من ھذا قال جبرائیل قیل ومن معک قال محمد قیل وقد بعث الیہ قال نعم قیل مرحبا بہ فنعم المجییٔ جاء فلما خلصت فاذا ابراہیم فسلم علیہ فسلمت علیہ فرد السلام ثم قال مرحبا بالابن الصالح والنبی الصالح ثم رفعت الی سدرۃ المنتھٰی فاذا نبقھا مثل فلال ہجرواذا ورقھا مثل آذان الفیلۃ قال ھذہ سدرۃ المنتھٰی فاذا اربعۃ انھارنھران باطنان ونھران ظاہران قلت ما ھذان یا جبرئیل قال اما الباطنان فنھران فی الجنۃ واما الظاہران فالنیل وا لفرات ثم رفع لی البیت المعمور ثم اُتیت باناء من خمرواناء من لبن وانا ء من عسل فاخذت اللبن فقال ھی الفطرۃ انت علیھا و امتک ثم فرضت علی الصلاۃ خمسین صلاۃ کل یوم فرجعت فمررت علی موسی فقال بما امرت قلت امرت بخمسین صلوۃ کل یوم   قال ان امتک لا تستطیع خمسین صلوۃ کل یوم و انی واللّٰہ قد جربت الناس قبلک وعالجت بنی اسرائیل اشد المعا لجۃ فارجع الی ربک فسلہ التخفیف لا متک فرجعت فوضع عنی عشرا فرجعت الی موسٰی فقال مثلہ فرجعت فوضع عنی عشرا فرجعت الی موسٰی فقال مثلہ فرجعت فوضع عنی عشر افرجعت الی موسٰی فقال مثلہ فرجعت فوضع عنی عشرا فامرت بعشرصلوات کل یوم فرجعت الی موسٰی فقال مثلہ فرجعت فامرت بخمس صلوات کل یوم فرجعت الی موسٰی فقال بما اُمرت قلت امرت بخمس صلوات کل یوم قال ان امتک لا تسطیع خمس صلوات وانی قد جربت الناس قبلک و عالجت بنی اسرائیل اشد المعالجۃ فارجع الی ربک فسلہ التخفیف لا متک قال سئالت ربی حتی استحییت ولکنی ارضی واسلم قال فلما جاوزت نادی مناد امضیت فریضتی و خففت عن عبادی      (بخاری و مسلم)

حضرت مالک بن صعصعہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ   نے صحابہ سے اس شب کا واقعہ جس میں آپ کو بیت المقدس اورآسمانوں کی سیر کرائی گئی تھی بیان فرمایا کہ میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا (اور حجر بھی حطیم کو کہتے ہیں )کہ ایک فرشتہ آیا اور اس کے یہاں سے لے کر زیر ناف تک۔اس نے میرے قلب کو نکالا اور اس کے بعد ایک سونے کا طشت ایمان و حکمت (کے نور)سے بھرا ہوا لایا گیا اور میرے قلب کو دھویا گیا پھر اس کو محبت خداوندی سے بھرا گیا اور اس کو اس کی جگہ میں لوٹا دیا گیا ایک روایت میں ہے کہ پھر میرے سامنے ایک جانو ر پیش کیا گیا جو خچر سے ذرا چھوٹا اور گدھے سے ذرا بڑا سفید رنگ کا تھا اس کو براق کہا جاتا ہے۔(اس کی رفتار کی حالت یہ تھی کہ ) وہ اپنا قدم اس جگہ ڈالتا تھا جہاں اس کی نظر پہنچتی تھی۔مجھے اس پر سوار کیا گیا اور جبرئیل علیہ السلام مجھے لے کر اوپر چلے یہاں تک کہ جب اس دنیا کے آسمان تک پہنچے (یہ آسمان اس نیلگونی سے بہت اوپر ہے جو ہمیں نظر آتی ہے بلکہ وہ ہماری اس تاروں بھری کائنات کو گھیرے ہوئے ہے تو انہوں نے دروازہ کھلوایا پوچھا گیا کون ہے جواب دیا جبرئیل ہوں پوچھا گیا آپ کے ہمراہ کون ہے انہوں نے کہا محمد ؐ ہیں۔پوچھا گیا کیا ان کو بلایا گیا ہے جواب دیا ہاں۔اس پر دربان فرشتے نے کہا خوش آمدید کیا ہی مبارک تشریف آوری ہے۔ یہ کہہ کر دروازہ کھول دیا۔جب میں دروازہ سے اندر گیا کیا دیکھتا ہوں وہاں (حضرت ) آدم علیہ السلام(اپنے جسم مثالی کے ساتھ)بیٹھے ہیں۔(ان کی دائیں جانب بھی کچھ اشخاص ہیں اور ان کی بائیں جانب بھی کچھ اشخاص ہیں۔جب وہ دائیں جانب کے اشخاص کو دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اور جب بائیں جانب کے اشخاص کو دیکھتے ہیں تو رنجیدہ ہوتے اور روتے )جبرائیل علیہ السلام نے کہا یہ آپ کے والد ہیں ان کو سلام کیجیے تو میں نے ان کو سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دے کر فرمایا فرزند صالح اور نبی صالح آؤ خوش آمدید۔(جبریل نے مجھے بتایا کہ ان کے دائیں بائیں جو اشخاص ہیں وہ ان کی اولاد کی ارواح ہیں۔ان میں سے داہنے ہاتھ والے جنتی ہیں اور بائیں ہاتھ والے جہنمی ہیں۔ جب وہ داہنے ہاتھ والوں کو دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اور جب بائیں ہاتھ والوں کو دیکھتے ہیں  تو رنجیدہ ہو تے ہیں اور روتے ہیں )پھر جبرئیل مجھ کو لے کر او اوپر چلے یہاں تک کہ جب دوسرے آسمان پر پہنچے تو انہوں نے دروازہ کھلوایا پوچھا گیا کون ہے کہا جبرئیل ہوں پھر پوچھا گیا آپ کے ہمراہ کون ہے۔کہا محمدﷺ  ہیں۔پوچھا گیا کیا ان کو بلایا گیا ہے جواب دیا کہ ہاں۔اس پر دربان فرشتے نے کہا خوش آمدید کیا ہی مبارک تشریف آوری ہے اور دروازہ کھول دیا میں جب آگے بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ (حضرت )یحییٰ اور (حضرت)عیسیٰ (علیہم السلام )ہیں دونوں خالہ زاد بھائی تھے۔جبرئیل نے کہا یہ تو حضر ت یحییٰ ہیں اور یہ حضرت عیسیٰ ہیں ان کو سلام کیجیے۔میں نے ان کو سلام کیا۔انہوں نے سلام کا جواب دے کر کہا آئیے برادر صالح اور نبی صالح آئیے خوش آمدید۔پھر جبرئیل مجھ کو لے کر تیسرے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوا یا۔پوچھا گیا کون ہے کہا جبرئیل ہوں پوچھا کیا آپ کے ہمراہ کون ہیں کہا کہ محمد ہیں پھر پوچھا گیا کیا ان کو بلایا گیا ہے جواب دیا کہ ہاں اس پر دربان فرشتے نے کہا خوش آمدید کیا ہی مبارک تشریف آوری ہے اور دروازہ کھول دیا جب میں آگے بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ یوسف علیہ السلام ہیں (او ر ان کو حسن کا بہت بڑا حصہ دیا گیا ہے )جبرئیل نے کہا یہ یوسف ہیں ان کو سلام کیجیے۔میں نے ان کو سلام کیا۔انہوں نے سلام کا جواب دے کر کہا آئیے برادر صالح اور نبی صالح آئیے خوش آمدید۔ پھر جبرئیل مجھ کو لے کر چوتھے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا۔ پوچھا گیا کون ہے کہا جبرئیل ہوں پوچھا آپ کے ساتھ کون ہیں کہا محمد ؐ ہیں پھر پوچھا گیا کیا ان کو بلایا گیا ہے جواب دیا کہ ہاں۔ دربان فرشتے نے کہا خوش آمدید کیا ہی مبارک تشریف آوری ہے اور دروازہ کھول دیا گیا۔جب میں آگے بڑھا کیا دیکھتا ہوں کہ ادریس علیہ السلام ہیں۔جبرئیل نے کہا یہ ادریس ہیں ان کو سلام کیجیے میں نے ان کو سلام کیا۔انہوں نے سلام کا جواب دے کر کہا آئیے برادر صالح اور نبی صالح آئیے خوش آمدید۔پھر جبرئیل مجھ کو لے کر پانچویں آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا۔پوچھا گیا کون ہے۔ کہا جبرئیل ہوں پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں۔کہا محمد ہیں۔پھر پوچھا گیا کیا ان کو بلایا گیا ہے جواب دیا کہ ہاں۔دربان فرشتے نے کہا خوش آمدید کی ہی مبارک آمد ہے اور دروازہ کھول دیا۔جب میں آگے بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہارون علیہ السلام ہیں۔جبرئیل نے کہایہ ہارون ہیں ان کو سلام کیجیے۔میں نے ان کو سلام کیا۔انہوں نے سلام کا جواب دے کر کہا آئیے برادر صالح اور نبی صالح آئیے خوش آمدید۔ پھر جبرئیل مجھ کو لے کر چھٹے آسمان پر پہنچے اور دروازہ کھلوایا۔پوچھا گیا کون ؟کہا جبرئیل ہوں پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں کہا محمد ؐ ہیں پھر پوچھا گیا کیا ان کو بلایا گیا ہے جواب دیا کہ ہاں اس پر کہا گیا خوش آمدید کیا  ہی مبارک آمد ہے اور دروازہ کھول دیا گیا جب میں آگے بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں۔جبرئیل نے کہا یہ موسیٰ ہیں ان کو سلام کیجیے۔میں نے ان کو سلام کیا۔انہوں نے سلام کا جواب دے کر کہا آئیے برادر صالح اور نبی صالح آئیے خوش آمدید۔جب میں آگے بڑھنے لگا تو موسیٰ علیہ السلام پر گریہ طاری ہو گیا ان سے پوچھا گیا آپ کیوں روتے ہیں۔فرمایا اس وجہ سے کہ ایک نوجوان جو میرے بعد مبعوث ہوئے ہیں ان کی اُمت کے لوگ میری اُمت سے بھی زیادہ جنت میں جائیں گے پھر جبرئیل مجھ کو لے کر ساتویں آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا پوچھا گیا کون؟کہا جبرئیل ہوں پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں۔کہا محمد ؐ ہیں پھر پوچھا گیا کیا ا ن کو بلایا گیا ہے جواب دیا کہ ہاں اس پر کہا گیا خوش آمدید کیا ہی مبارک تشریف آوری ہے جب میں آگے بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام (بیت معمور کے ساتھ اپنی کمر لگائے بیٹھے )ہیں جبرئیل نے کہا یہ آپ    کے والد ابراہیم ہیں ان کو سلام کیجیے میں نے ان کو سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دے کر کہا آؤ فرزند صالح اور نبی صالح آؤ خوش آمدید اس کے بعد مجھ کو سدرۃ المنتہیٰ (یعنی بیری کا درخت) نظر آیا (جس کی جڑیں اور تنے کا نچلا حصہ چھٹے آسمان پر ہے جبکہ اس کا فوقانی حصہ اور شاخیں وغیرہ ساتویں آسمان پر ہیں ) کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے پھل مقام ہجر کے (بڑے)مٹکوں کے برابر تھے اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی مانند تھے جبرئیل نے کہا یہ سدرۃالمنتہیٰ ہے (جو نیچے والے فرشتوں کے چڑھنے کی آخری حد ہے۔ اس سے آگے کوئی نہیں بڑھ سکتا۔اس کے آگے جانے کی صرف رسول اللہ ؐ کو ہی اجازت ملی۔اوپر سے جو وحی اور احکام نازل ہوتے ہیں وہ یہاں نیچے والے لے لیتے ہیں اور نیچے سے جو ارواح اور اعمال اوپر چڑھتے ہیں وہ یہیں تک پہنچتے ہیں اس درخت پر اللہ تعالی کی تجلیات کی روشنیاں تھیں اور چمکدار ٹڈیوں اور پتنگوں کی صورت میں فرشتے ان انوارات کے شوق میں اس درخت کو گھیرے ہوئے تھے )وہاں چار نہریں تھیں (جو سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ سے نکل رہی تھیں )دو اندر کی جانب اور دو باہر کی جانب۔میں نے پوچھا اے جبرئیل یہ نہریں کیسی ہیں انہوں نے کہا جو اندر کی جانب ہیں یہ جنت کی نہریں ( کوثر اور نہر رحمت ) ہیں اور جو باہر کی جانب ہیں یہ نیل و فرات ہیں۔ ا ن ناموں کی وجہ یہ ہے کہ آگے جا کر غیر محسوس طور پر ان کا تعلق دنیا کے دریائے نیل اور دریائے فرات سے ہے۔پھر میرے سامنے بیت معمور لایا گیا (جو خانہ کعبہ کے عین اوپر ایک مسجد ہے جس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں۔پھر دوبارہ کبھی ان کی باری نہیں آتی۔اس کے بعد میرے سامنے ایک برتن شراب کا، ایک دودھ کا اور ایک شہد کا پیش کیا گیا۔ میں نے دودھ لے لیا۔جبرئیل نے کہا یہی فطرت ہے جس پر آپ اور آپ کی اُمت رہے گی۔(اور مجموعی حقیقت کے اعتبار سے بہکے گی نہیں )۔

            (پھر مجھے اور اوپر لے جایا گیا یہاں تک کہ میں ایک بلند مقام پر چڑھا جہاں میں نے لکھائی کے دوران قلموں کے گھسیٹنے کی جو آواز ہوتی ہے وہ سنی جو فرشتوں کے لوح محفوظ سے احکام خداوندی کو لکھتے ہوئے پیدا ہو رہی تھی )۔اس کے بعد مجھ پر ہر دن میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔جب میں واپس لوٹا تو موسیٰ علیہ السلام پر میرا گزر ہوا  انھوں نے پوچھا آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے میں نے کہا روزانہ پچاس نمازوں کا۔انہوں نے کہا آپ کی اُمت روزانہ پچاس نمازیں نہیں پڑھ سکتی بخدا میں نے آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر لیا ہے اور بنی اسرائیل کے ساتھ بڑی کوشش کی ہے لہٰذا آپ اپنے پروردگار کی طرف واپس جائیں اور اپنی اُمت کے لیے تخفیف کی درخواست کیجیے چنانچہ میں لوٹ گیا۔اللہ تعالی نے پانچ نمازیں کم کر دیں۔جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس لوٹا تو انہوں نے پھر وہی بات کہی۔میں لوٹ کر گیا تو اللہ تعالی نے پانچ اور نمازیں کم کر کے کل )دس نمازیں کم کر دیں۔ جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پھر وہی بات کہی۔ میں پھرلوٹ کر گیا تو اللہ تعالی نے دس نمازیں اور کم کر دیں (یہ کمی بھی دو مرتبہ میں ہوئی اور آگے بھی ایسا ہی ہوا )۔ پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پھر وہی بات کہی چنانچہ میں پھر لوٹ گیا۔اللہ تعالی نے دس نمازیں اور معاف فرما دیں۔میں پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پھر وہی بات کہی چنانچہ میں پھر لوٹ گیا۔اللہ تعالی نے دس نمازیں اور معاف کر دیں اور اب مجھ کو ہر دن میں دس نمازوں کا حکم رہ گی ا۔پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس لوٹ آیا تو انہوں نے پھر وہی بات کہی چنانچہ میں پھر لوٹ گیا تو اللہ تعالی نے مجھ کو ہر دن میں پانچ نمازوں کا حکم دیا۔پھر میں موسیٰ علی السلام کے پاس لو ٹ کر آیا تو انہوں نے پوچھا ( اس مرتبہ)آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے۔میں نے کہا  روزانہ پانچ نمازوں کا۔انہوں نے کہا آپ کی اُمت روزانہ پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھ سکتی اور میں آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر چکا ہوں اور بنی اسرائیل کے ساتھ بڑی کوشش کر چکا ہوں لہٰذا آپ پھر جائیں اور اپنے رب سے (ابھی مزید )تخفیف کی درخواست کیجیے آپ نے فرمایا میں نے اپنے رب سے بار بار درخواست کی اب اور زیادہ درخواست کرتے مجھ کو شرم آتی ہے لہٰذا اب میں اس پر راضی ہوں اور اس کو قبول کرتا ہوں۔اس کے بعد آپ نے فرمایا جب میں آگے بڑھا تو ایک منادی نے آواز دی اب میں اپنا آخری حکم جاری کر چکا اور اپنے بندوں پر جو تخفیف کرنی تھی کر چکا۔

            فائدہ  : (١)  پچاس نمازوں کا سن کر بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ پھر تو دنیا کا کوئی کام ہی نہ کر سکتے تھے بس ہر وقت مصلے پر بیٹھے رہتے۔یہ خیال بہت ہی غیرمناسب ہے کیونکہ اول تو اگر ہمیں اللہ تعالی یہی حکم دیتے کہ بس روکھی سوکھی کھا کر اور موٹا جھوٹا پہن کر سارا وقت عبادت ہی میں خرچ کرو تو یہ بھی ناجائز نہ ہو گا کیونکہ ہم اللہ تعالی کے بندے اور غلام ہیں دوسرے یہ بھی تو ضروری نہیں کہ اس وقت موجودہ پانچ نمازوں کی طرح کی ترتیب اور طریقہ ہوتا۔ہو سکتا ہے کہ بہت مختصر سی نماز مثلاً صرف ایک یا دو رکعتوں پر مشتمل نماز کا حکم دیا جاتا جو آدمی جلدی سے ادا کر لیتا۔

            (٢)  پچاس کا کہہ کر پھر تخفیف کرنے میں بہت سی حکمتیں ہیں مثلًا

             (الف )  اللہ تعالی کا اُمت پر احسان ظاہر ہونا۔

            (ب)  رسولوں کی اُمت کے حال پر شفقت کا ہونا۔

عن عبدالرحمن بن عائش قال قال رسول اللّٰہ ؐ رأیت ربی عزوجل فی احسن صورۃ قال فیم یختصم الملا الا علی قلت انت اعلم قال فوضع کفہ بین کتفی فوجدت بردھا بین ثدیی فعلمت ما فی السماوات والارض وتلا وکذالک نری ابراہیم ملکوت السماوات والارض ولیکون من المومنین۔

                                                                                    (دارمی)

حضرت عبدالرحمن بن عائشہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا میں نے اپنے رب عزوجل کو (تجلی کی)بہترین صورت میں دیکھا رب تعالی نے (مجھ سے )پوچھا ملااعلی (یعنی مقرب فرشتے) کس بارے میں بحث کر رہے ہیں۔میں نے جواب دیا کہ آپ زیادہ باخبر ہیں آپﷺ  نے کہا میرے رب (کی تجلی)نے اپنا ہاتھ میرے کندھوں کے درمیان رکھا تو میں نے اس (کی راحت کے لطف )کی ٹھنڈک اپنے پستانوں کے درمیان پائی (یعنی مجھ پر رحمت اور علوم کا نزول ہوا )تو میں نے آسمانوں اور زمین کی درمیان کی (نبوت کی ضرورت کی ) چیزوں کو جان لیا (جن میں مقرب فرشتے اور ان کا مباحثہ کا بھی مجھ کو علم ہو گیا پھر آپﷺ  نے یہ آیت تلاوت فرمائی وکذلک نری ابراہیم مراد یہ ہے کہ جیسے اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو آسمانوں اور زمین میں اپنی بادشاہت دکھائی اسی طرح آپ کو بھی دکھائی۔

               جنت و دوزخ کا مشاہدہ

عن عبداللّٰہ بن عباس قال انخسفت الشمس علی عھدالنبی ؐ فصلی….. قالوا یارسول اللّٰہ رأیناک تناولت شیئا فی مقامک ثم رأیناک تکعکعت فقال انی رایت الجنۃ فتنا ولت منھا عنقوداولواصبتہ لا کلتم منہ ما بقیت ا لدنیا ورایت النار فلم ار کا لیوم منظرا قط افظع                                                (بخاری)

حضرت عبداللہ بن عباس  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ   کے دور میں ایک بار سورج کا گرہن ہوا تو آپﷺ  نے نماز کسوف ادا کی لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے رسولﷺ   ہم نے (نماز پڑھنے کے دوران )آپ کو دیکھا تھا کہ آپﷺ  نے اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے کوئی چیز سامنے سے لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا۔اس کے کچھ دیر بعد ہم نے دیکھا کہ آپ اپنے پیچھے کی جانب کو کچھ ہٹے تھے (تو یہ کیا بات تھی ؟) آپﷺ  نے فرمایا (جب میں نے سامنے کی جانب ہاتھ بڑھایا تو اس وقت ) میں نے جنت دیکھی تھی (کہ وہ بالفعل میرے بالکل قریب کر دی گئی تھی ) میں نے ارادہ کیا تھا کہ میں اس میں سے ایک خوشہ لے لوں اور اگر کہیں میں لے لیتا تو تم اس کو کھاتے رہتے جب تک دنیا باقی رہتی (اور وہ ختم نہ ہوتا) اور میں نے دوزخ دیکھی تو ایسا خوفناک منظر کبھی نہیں دیکھا جیسا آج دیکھا تھا۔

عن بریدۃ قال اصبح رسول اللّٰہﷺ   فدعا بلا لافقال بما سبقتنی الی ا لجنۃ ما دخلت الجنۃ قط الاسمعت خشخشتک امامی قال یا رسول اللّٰہ ما أذنت قط الا صلیت رکعتین وما اصا بنی حدت قط الا توضات عندہ ورایت ان للّٰہ علی رکعتین فقال رسول اللّٰہﷺ  بھما                                                          (ترمذ ی)

حضرت بریدہ  روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ صبح کے وقت رسول اللہ ؐ  نے (حضرت ) بلال کو بلایا اور پوچھا تم کس عمل کی وجہ سے مجھ سے بھی پہلے جنت میں جا پہنچے۔میں جب بھی (خواب میں روحانی معراج کے طور پر)جنت میں داخل ہوتا ہوں تمہارے پیروں کی آہٹ اپنے آگے آگے سنتا ہوں انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ؐ میں جب بھی اذان دیتا ہوں تو دو رکعت نفل ضرو ر پڑھ لیتا ہوں اور جب بھی میرا وضو ٹوٹ جاتا ہے میں فورًا وضو کر لیتا ہوں اور مین اللہ کے لیے دو رکعت نفل بطور منت سمجھتا ہوں (یعنی جیسے منت کو پورا کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے ایسے ہی میں وضو کے بعد تحیۃ الوضو کے ) دو رکعت نفل پڑھنے کا پورا اہتمام کرتا ہوں )آپﷺ   نے فرمایا انہی دونوں باتوں کی وجہ سے ہے۔

                معراج کے موقع پر دیدار الہی کی نوعیت

            اللہ تعالی کا ایک تو نور ذاتی ہے جس پر پھر مزید نور کا حجاب ہے۔

عن ابی موسٰی قال قال رسول اللّٰہﷺ  ان اللّٰہ…..حجابہ النور لوکشفہ

لا حرقت سبحات وجھہ ماانتھی الیہ بصرہ من خلقہ               (مسلم)

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ   نے فرمایا اللہ تعالی کا حجاب (یعنی اس کے دیدار سے مانع بھی ) انور ہے۔اگر وہ اس کو دور کر دے تو اس کے چہرے(یعنی ذات ) کے انوار اس کی نظر ہے جلا ڈالیں۔

               جنت میں مومنین کو جو دیدار الہٰی نصیب ہو گا اس وقت حجاب اُٹھا دیا جائے گا

عن صہیب عن النبی ؐ  قال اذا دخل اہل الجنۃ الجنۃ قال یقول اللّٰہ تبارک وتعالی تریدون شیئا ازیدکم فیقولون الم تبیض وجوھنا الم تدخلنا الجنۃ وتنجینا من النار قال فیکشف الحجاب فما اعطوا شیئا احب الیھم من النظر الی ربھم۔  (مسلم)

حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبیﷺ   نے فرمایا جب جنتی جنت میں داخل ہو چکیں گے اللہ تبارک و تعالی فرمائیں گے (اے جنتیو!) تم کچھ اور چاہتے ہو جو میں تمہیں مزید دے دوں۔جنتی کہیں گے (آپ نے تو ہمیں بہت کچھ دے دیا)آپ نے ہمارے چہرے روشن کر دئیے۔ہم کو جنت میں داخل کر دیا اور ہم کو جہنم سے نجات دی (اب ہمیں مزید کیا چاہئے )اس وقت حجاب اُٹھا دیا جائے گا تو جنتیوں کو اپنے رب کے دیدار سے بڑھ کر کچھ محبوب نہ دیا گیا ہو گا۔

               جنت میں داخلہ سے پہلے آنکھوں سے بلا حجاب دیدار ممکن نہیں اور نہ ہی ایسا دیدار  معراج کے موقع پر نبیﷺ  کو حاصل ہوا

عن مسروق قال کنت متکئا عند عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا فقالت یا ابا عائشۃ ثلاث من تکلم بواحدۃ منھن فقد اعظم علی اللّٰہ الفریۃ قلت ماھن قالت من زعم ان محمدا راٰی ربہ فقد اعظم علی اللّٰہ الفریۃ قال وکنت متکئا فجلست فقلت یا ام المؤمنین انظر ینی ولا تعجلینی الم یقل اللّٰہ تعا لی ولقد راٰہ بالافق المبین ولقد راٰہ نزلۃ اخری فقالت انا اول ھذہ الا مۃ سأل عن ذلک رسول اللّٰہﷺ  فقال انما ہو جبریل علیہ السلام لم ارہ علی صورتہ خلق علیھا غیر ھاتین المرتین رأیتہ منھبطا من السماء سادا عظم خلقہ مابین السماء الی الارض فقالت اولم تسمع ان اللّٰہ عزوجل یقول لا تدرکہ الابصاروہویدرک  الابصار وہواللطیف الخبیر اولم تسمع ان اللّٰہ یقول وماکان لبشران یکلمہ اللّٰہ الا وحیا اومن وراء حجاب اویر سل رسولا الی قولہ علی حکیم۔(مسلم)

مسروق رحمہ اللہ کہتے ہیں میں حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ٹیک لگائے بیٹھا تھا کہ انہوں نے (مجھ سے میری کنیت بولتے ہوئے)کہا اے ابو عائشہ (یعنی مسروق )تین باتیں ایسی ہیں کہ جو شخص ان میں سے کسی ایک کو بھی کہے تو اس نے اللہ تعالی پر بڑا جھوٹ باندھا۔ کہتے ہیں میں نے پوچھا وہ (تین باتیں )کیا ہیں۔انہوں نے فرمایا جو شخص یہ کہے کہ محمدﷺ   نے اپنے رب کو (بلا حجاب اپنی آنکھوں سے ) دیکھا تو اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ باندھا۔کہتے ہیں میں ٹیک لگائے ہوئے تھا (یہ سن کر )میں سنبھل کر بیٹھ گیا اور کہا اے ام المومنین ذرا ٹھہرئیے اور جلدی نہ کیجئے (کیونکہ مجھے آپ کی بات سے اتفاق نہیں ہو رہا )کیا خود اللہ تعالی نے (قرآن پاک میں )نہیں فرمایا ولقد راہ بالافق المبین اور اس نے دیکھا ہے اس کو آسمان کے کھلے کنارہ کے پاس (سورۃ تکویر )اور ولقد راہ نزلۃ اخری  اور دیکھا ہے اس کو اترتے ہوئے ایک بار اور بھی (سورہ نجم)۔

            حضرت عائشہ نے کہا اس امت مسلمہ میں سب سے پہلے میں نے رسول اللہﷺ   سے اس کے بارے میں پو چھا تھا تو آپ نے فرمایا اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں۔میں نے ان کو ان کی (اصلی)صورت میں جس پر وہ پیدا کئے گئے ہیں ان دو موقعوں کے علاوہ نہیں دیکھا۔میں نے ان کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا۔ان کی عظیم خلقت آسمان و زمین کے درمیان تمام جگہ کو گھیرے ہوئے تھی حضرت عائشہ نے کہا کیا تم نے اللہ عزوجل کا یہ قول نہیں سنا لا تدرکہ الابصار وہو یدرک البصار وہواللطیف الخبیر ( آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرتیں وہ آنکھوں کا ادراک کرتا ہے اور وہی باریک بین اور با خبر ہے ) اور کیا تم نے یہ ارشاد الہی نہیں سنا وما کان لبشران یکلمۃ اللّٰہ الا وحیا او من وراء حجاب او یرسل رسولا الی قولہ علی حکیم (اور کسی آدمی کی طاقت نہیں کہ اللہ اس سے باتیں کرے مگر اشارہ سے یا پردہ کے پیچھے یا بھیجے کوئی پیغام لانے والا ) ………… (سورہ شوری  :  ٥١)

عن مسروق قال سالت عائشۃ ھل راٰی محمد ؐ  ربہ فقالت سبحان اللّٰہ لقد قف شعری لماقلت۔                                                                                       (مسلم)

مسروق رحمہ ا للہ کہتے ہیں میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کیا حضرت محمدﷺ   نے اپنے رب کو دیکھا تھا۔انہوں نے فرمایا سبحان اللہ (تعجب ہے تم نے کیا بات کہی۔تم نے تو ایسی سخت بات کہی کہ)تمہاری بات کے خوف سے تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں (رسول اللہﷺ  نے اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو بلا حجاب ہرگز نہیں دیکھا)

عن ابی ذر قال سألت رسول اللّٰہ ؐ ھل رأ یت ربک قال نور انی اراہ۔                                                                                (مسلم)

 حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ   سے پوچھا کیا آپ نے (معراج کے موقع پر )اپنے رب کو دیکھا تھا۔آپ نے فرمایا اللہ تعالی ( کانور ذاتی ) تو نور ہے میں اس کو (اپنی آنکھوں سے )کیسے دیکھ سکتا ہوں۔

               اللہ تعالی کے نور ذاتی کو دل سے دیکھنا ممکن ہے

            دل سے دیکھنے سے مراد فقط علم کا حاصل ہونا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ہے کہ جیسے کوئی صورت آنکھوں میں آ جاتی ہے ایسے ہی دل میں آ جائے۔

عن عطاء عن ابن عباس قال راٰہ بقلبہ۔(مسلم )

عطا رحمہ اللہ سے روایت ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہﷺ  نے اپنے رب کا دیدار اپنے قلب سے کیا۔

عن عطاء عن ابن عباس قال لم یرہ رسول اللّٰہﷺ  بعینہ انما راٰہ بقلبہ۔                                                                    (ابن مردویہ)

عطاء رحمہ اللہ سے روایت ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہﷺ   نے اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا بلکہ صرف اپنے دل سے دیکھا۔

عن عکرمۃ عن ابن عباس قال راٰی محمد ربہ قلت الیس اللّٰہ یقول لا تدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار قال ویحک ذاک اذا تجلی بنورہ الذی ھو نورہ وقد راٰی ربہ مرتین۔                                                            (ترمذی)

عکرمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت محمدﷺ   نے اپنے رب کو دیکھا۔(اس پر)میں نے کہا کیا اللہ تعالی یہ نہیں فرماتے  :  لا تد رکہ الابصار وھو یدرک الا بصار آنکھیں اس کا  ادراک نہیں کرتیں اور وہ آنکھوں کا ادراک کرتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ارے یہ تو اس وقت ہے جب اللہ تعالی اپنے نور ذاتی کے ساتھ جلوہ افروز ہوں ( اور معراج کے موقع پر اس کی نفی تو ہم بھی کرتے ہیں ہم تو اور طریقے سے یعنی دل سے دیکھنے کے قائل ہیں اور دوسرے طریقے سے )آپﷺ   نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا۔

رسول اللہﷺ  نے حجاب نوری کو آنکھوں سے دیکھا  :

عن عبداللّٰہ بن شقیق قال قلت لأ بی ذرلورأیت رسول اللّٰہﷺ   لسألتہ فقال عن ای شیء کنت تسألہ قال کنت اسألہ ھل رأیت ربک قال ابو ذر قد سألتہ فقال رأیت نورا۔                                                                          (مسلم)

عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے کہا اگر میں نے رسول اللہﷺ   کی زیارت کی ہوتی تو میں نے آپﷺ  سے ضرور پوچھا ہوتا۔انہوں نے پوچھا (ہاں بھئی )تم رسول اللہﷺ   سے کیا بات پوچھتے۔ میں نے کہا میں پوچھتا کہ کیا آپؐنے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ تو حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا (بھئی) یہ بات تومیں نے آپﷺ   سے پوچھی تھی تو آپ نے فرمایا کہ میں نے (اپنی آنکھوں سے ) نور ( کے حجاب) کو دیکھا تھا۔

               نبوت کے دلائل

معجزات

عن انس ان اھل مکۃ سالوارسول اللّٰہ ؐ ان یر یھم ایۃ فاراہم انشقاق القمر وفی روایۃ شقتین حتی راواحراء بینھما وفی روایۃ فقال النبی ؐ  اشھدوا                                                                                         (بخاری)

حضرت انس بن ملک سے روایت ہے اہل مکہ نے رسولﷺ   سے اس بات کی فرمائش کی کہ آپ ان کو کو ئی معجزہ دکھائیں تو آپ نے ان کو چاند کے پھٹ کر دو ٹکڑے ہو جانے کا معجزہ دکھایا یہاں تک کہ انہوں نے کوہ حرا ء کو ان دونوں ٹکڑوں کے درمیان دیکھ لیا اور آپ نے (ان سے) فرمایا دیکھو گو اہ رہنا۔

            فائدہ  :  چاند کا پھٹنا چونکہ خلاف معمول تھا اس لیے کسی حساب کتاب سے ان کو معلوم نہیں کی جا سکتا رہا یہ اعتراض کہ اس کو حدیث سے ہٹ کر اور لوگوں نے نقل ہی نہیں کیا تو اس کا جواب یہ ہے۔

            (١)  بہت سی دنیا میں چاند اس وقت طلوع ہی نہیں ہوا ہو گا۔

            (٢)  عربوں میں سائنس کا رواج ہی نہ تھا۔ویسے بھی مشاہدہ کا اس وقت اہتمام کیا جاتا ہے جب کسی واقعہ کی حساب سے توقع ہو۔

            (٣)  سب سے بڑ ی بات یہ ہے کہ اس کے خلاف کوئی واقعاتی شہادت موجود نہیں عنی کوئی ی کہے کہ فلاں وقت میں چاند کو دیکھ رہا تھا مجھے تو وہ پھٹا ہوا نظر آیا ایسا نہیں ہوا۔چاند کونہ دیکھنے کی تو مذکورہ بالا دو وجہوں کے علاوہ بھی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

عن ابی ھریرہ قال قال رسول اللّٰہ ؐ لقد رأیتنیفی الحجروقریش تسالنی عن مسرای فسالتنی عن اشیا من بیت المقدس لم اتبتھا فکر بت کربا ما کربت مثلہ فرفعہ اللّٰہ لی انظرالیہ ما یسالونی عن شیء الا انبا تھم  (مسلم)

حضرت ابو ہریرہ  سے روایت ہے رسو ل اللہﷺ  نے فرمایا کہ میں حطیم میں کھڑا تھا اور قریش مجھ سے میرے (شب میں )سفر معراج کے متعلق (بطور امتحان ) طرح طرح کے سوالات کر رہے تھے۔چنانچہ انہوں نے بیت المقدس کی بہت سی چیزوں کے متعلق بھی کھود کرید کر نی شروع کی جو مجھ کو ٹھیک ٹھیک یاد نہ رہی تھی (کیونکہ آپﷺ  بیت المقدس کی عمارت وغیرہ کی تفصیلات تو یاد کرنے نہیں گئے تھے )تو اب مجھے ان کی تکذیب کے اندیشے سے ) ایسی بے چینی پیش آئی کہ اس سے پہلے ایسی کبھی پیش نہ آئی تھی تو (اس وقت اللہ تعالی نے بیت المقدس کو میرے سامنے اس طرح کر دیا کہ میں اس کو دیکھ دیکھ کر ان کے ہر ہر سوال کا جواب دیتا رہا۔

عن ابن شھاب من روایۃ سراقۃ نفسہ قال جاء نارسل کفارقریش یجعلون فی رسول اللّٰہ ؐ وابی بکر دیۃ کل واحد منھا لمن قتلہ اواسرہ فبینماانا جالس فی مجلس من مجالس قومی بنی مدلج اذ اقبل رجل منھم حتی قام علینا و نحن جلوس فقال یاسراقۃ انی رأیت انفا أسودۃ بالساحل اراہما محمدا واصحابہ قال سراقۃ فعرفت انھم ہم فقلت لہ انھم لیسوابھم ولکنک رایت فلانا وفلانا انطلقواباعینناثم لبثت فی المجلس ساعۃ ثم قمت فدخلت بیتی فامرت جاریتی ان تخرج وھی من وراء اکمۃ فتحبسھا علی واخذت رمحی فخرجت بہ من ظھرالبیت فخططت بزجۃ الارض وخفضت عالیہ حتی اتبت فرسی فرکبتھا فرفعتھاتقرب بہ حتی دنوت منھم فعثرت بی فرسی فخررت عنھا فقمت فاھویت یدی الی کنا نتی فاستخرجت منھا الازلام فاستقسمت بھا اضرہم ام لا فخرج الذی اکرہ فرکبت وعصیت الازلام تقرب بی حتی اذا سمعت قراء ۃ رسول اللّٰہ ؐ وھولایلتفت وابوبکر یکثرالالتفات ساخت یدا فرسی فی الارض حتی یلغتا الرکبتین فخررت عنھا ثم زجرتھا فنھضت فلم تکد تخرج ید یھا فلما استوت قا ئمۃ ادا لاثرید یھا غبارساطع فی السماء مثل الدخان فاستقسمت بالا زلام فخرج الذی اکرہ فنا دیتھم بالامان فوقفوا فرکبت فرسی حتی جئتھم ووقع فی نفسی حین لقیت من الحبس عنھم ان سیظھرامررسول اللّٰہ ؐ   (بخاری و مسلم)

ابن شہاب زہری رحمہ اللہ حضرت سراقہ بن مالک   کا خود اپنا بیان نقل کرتے ہیں کہ ہمارے پاس کفار قریش کے قاصد یہ پیغام لے کر آئے کہ جو شخص رسول اللہ ؐ اور ابو بکر کو قتل کرے یا قید کرے تو ا س کو ان میں سے ہر ایک کے عوض میں دیت کے برابر مال ملے گا۔یہ کہتے ہیں کہ ابھی کچھ دیر گزرنے نہ پائی تھی کہ میں اپنی قوم بنی مدلج میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص سامنے آیا اور  کہنے لگا اے سراقہ دریا کے کنارے میں نے ابھی ابھی کچھ لوگ دیکھے ہیں جن کے متعلق میرا غالب گمان یہی ہے کہ وہ محمد (ؐ ) اور ان کے ساتھی ہوں گے۔اس کے پتہ دینے پر میں سمجھ گیا کہ ہوں نہ ہوں یہ وہی ہیں مگر (یہ سوچ کر کہ میں تنہا جا کر ان کو پکڑ لوں اور پورا انعام خود لے لوں بات ٹالنے کے لیے ) میں نے اس سے کہہ دیا وہ نہیں ہو سکتے شاید تو نے فلاں فلاں کو دیکھا ہو گا جو ہمارے سامنے گئے ہیں۔پھر ذرا سا وقفہ دے کر میں اُٹھ کھڑا ہوا اور اپنے گھر جا کر اپنی باندی سے کہا کہ میرا گھوڑا باہر نکالے جو کہ ایک ٹیلے کے پیچھے تھا اور اس کو لے کر کھڑی رہے ادھر میں اپنا نیزہ لے کر گھر کی پشت کی طرف سے نکلا اور اس کا پھل زمین کی طرف کر دیا اور اس کے اوپر کے حصہ کو نیچا کر دیا (تاکہ کسی کی نظر نہ پڑے اور وہ ساتھ نہ ہولے اور انعام میں شریک نہ ہو جائے یا سبقت نہ لے جائے )یہاں تک کہ میں اپنے گھوڑے پر آ کر سوار ہو گیا اور اس کو تیز کر دیا کہ وہ جلد ان کو جا پکڑے۔جب میں ان کے نزدیک پہنچا تو میرا گھوڑا دفعۃً پھسلا اور میں اس کے اوپر سے جا پڑا۔کھڑے ہو کر میں نے فال کے تیر نکالے اور ان کا پانسا گھمایا تاکہ یہ دیکھوں کہ میں ان کو نقصان پہنچا سکوں گا یا نہیں۔فال میں جو بات نکلی وہ تھی جو میں نا پسند کرتا تھا مگر پھر میں نے رسول اللہﷺ   کی قرآن پڑھنے کی آواز سنی۔آپ کسی طرف التفات نہ فرماتے تھے جبکہ ابو بکر بار بار مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھے۔جب میں اتنے قریب جا پہنچا تو (اس مرتبہ ) میرے گھوڑے کے دونوں ہاتھ زمین میں دھنس گئے یہاں تک کہ گھٹنوں تک جا پہنچے اور میں پھر اس پر سے گر پڑا۔ میں پھر اُٹھ کھڑا ہوا اور گھوڑے کو زور سے ڈانٹا مگر وہ اپنے ہاتھ زمین سے نہ نکال سکا۔پھر جب وہ بمشکل سیدھا کھڑا ہوا تو زمین دھوئیں کی طرح ایک غبار نکلا۔میں نے پھر اپنے فال کے تیر گھمائے مگر وہی بات نکلی جو مجھے پسند نہ تھی۔ اس پر میں نے امن کے لیے آواز دی۔وہ ٹھہر گئے میں اب یہ یقین ہو گیا کہ آپ کا دین ضرور غالب ہو کر رہے گا۔

    عن عمران بن حصین قال کنت مع النبی ؐ فی مسیرلہ …… وجعلنی فی رکوب بین یدیہ یطلب الماء وقد عطشنا شدید اً فبینما نحن نسیراذا نحن بامراۃ سادلۃ رجلیھا قالت مسیرۃ یوم ولیلۃٍ قلناانطلقی الی رسول اللّٰہ ؐ قالت ومارسول اللّٰہ ؐ فلم نملکھا من امرھا شیئا حتی انطلقنا بھا فا ستقبلنا بھارسول اللّٰہ ؐ فسالھا فاخبرتہ مثل الذی اخبرنا واخبرتہ انھاموتمۃ لھا صبیان ایتام فامربراویتھافانیخت فمج فی الغرلاوین العلیاوین ثم بعث براویتھافشربناونحن اربعون رجلا عطا شاحتی روینا وملا نا کل راویۃ وملانا کل قریۃ معنا واداوۃ غسلنا صاحبنا غیرانا لم نسق بعیراوھی تکاد تتفرج من الماء یعنی المزادتین ثم قال ھاتواماعندکم فجمعنا لھا من کسروتمر صرلھا صرۃ وقال لھا اذھبی فاطعمی عیالک واعلمی انا لم نرزا من ماء ک شیئا فلما اتت اھلھا قالت لقد رایت اسحرالبشراوانہ لنبی کمازعم کان من امرہ ذیت فھدی اللّٰہ عزوجل ذلک الصوم بتلک المراۃ فاسلمت واسلموا ( بخاری و مسلم)

حضرت عمر ان بن حصین  بیان کرتے ہیں میں ایک سفر میں نبیﷺ   کے ساتھ ….. (رستے میں ) ہم کو سخت پیا لگی تو آپ نے پانی کی تلاش کے لیے ایک قافلہ جو آگے جا رہا تھا اس کی طرف جلدی سے ہم کو روانہ کیا (تاکہ اس سے ہم کو کچھ پانی حاصل ہو جائے ) ہم جا رہے تھے ک کیا دیکھتے ہیں کہ ایک عورت اپنی چھاگلوں کے درمیا ن اونٹنی پر پیر لٹکائے جارہی ہے۔ہم نے اس سے پوچھا پانی کہاں ملے گا اس نے کہا پرے ہو پرے تمہارے لیے پانی نہیں ہے۔پھر میں نے اس سے تو رسول اللہ ؐ کے پاس چل۔ اس نے پوچھا اللہ کا رسول کیا ہوتا ہے۔ہم اس کو بے بس کر کے اپنے ساتھ لے آئے اور رسول اللہ ؐ کے سامنے لا کر اس کو پیش کر دیا۔ آپ نے پانی کے متعلق اس سے دریافت کیا۔اس نے آپﷺ   کو وہی جواب دیا جو ہم کو دیا تھا اور آپﷺ   کہ یہ بھی بتایا کہ میں ایک بیوہ عورت ہوں اور میرے بچے یتیم ہیں آپﷺ  نے حکم دیا کہ اس کی اونٹنی بٹھا دی جائے تو اس کو بٹھا دیا گیا۔آپﷺ  نے اس کی چھاگلوں کے اوپر کے دہانوں میں دہن مبارک سے کلی کر کے پانی ڈال دیا۔اور پھر اونٹنی کو کھڑا کر دیا (تاکہ نیچے کے دہانے سے پانی لیا جا سکے) اس وقت ہم چالیس آدمی تھے اور سب پیاسے تھے۔سب نے پیٹ بھر کر پانی پیا اور اپنے اپنے اونٹوں پر رکھے ہوئے مشکیزے اور جتنے برتن تھے سب نے پیٹ بھر لیے اور ہم نے ایک د و سرے پر پانی بھی ڈالا البتہ ہم نے اونٹوں کو پانی نہیں پلایا لیکن چھاگلیں تھیں کہ پانی کے جوش کے مارے پھٹی جا رہی تھیں۔اس کے  بعد آپﷺ  نے ہم لوگوں سے کہا اب جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ لے کر آؤ تو ہم نے اس عورت کے لیے کچھ روٹی کے ٹکڑے اور کھجوریں جمع کر دیں۔آپﷺ  نے ان کو ایک تھیلی میں ڈال کر اس سے فرمایا جا یہ جا کر اپنے بچوں کو کھلا دے اور یہ یاد رکھنا کہ ہم نے تیرے پانی میں کچھ کمی نہیں کی ہے۔ جب وہ اپنے گھر آئی تو اس نے کہا میں نے بہت بڑا جادوگر دیکھا ہے ورنہ وہ واقعی نبی ہیں جیسا کہ ان کو دعوٰی ہے انہوں نے یہ یہ کرشمے دکھائے۔اس عورت کی بدولت اللہ تعالی نے اس کے پورے قبیلے کو ہدایت نصیب فرمائی چنانچہ وہ خود بھی مسلمان ہوئی اور باقی لوگ بھی مسلمان ہوئے۔

               ختم نبوت

عن سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ خلفہ علیہ السلام(ای علیا)فی بعض مغازیہ فقال لہ عَلِیّ یا رسول اللّٰہ خلفتنی مع النساء والصبیان فقال لہ رسول    اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اما ترضی ان تکون بمنزلۃ ھارون من موسیٰ الا انہ لا نبوۃ بعدی ( وفی البخاری ) الا  أنہ لانبی بعدی  (بخاری و مسلم)

حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے رسول اللہﷺ   نے ایک جنگ کے موقع پر حضرت علی  کو (عورتوں اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ) پیچھے چھوڑ دیا ( اور جنگ میں ساتھ لے کر نہ گئے )تو حضرت علی نے آپ کی خدمت میں (حسرت سے ) عرض کیا یا رسول اللہ آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جا رہے ہیں۔ آپ نے ( اُن کی تسلی کے لیے ) فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہ نسبت حاصل ہو جو ہارون علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام سے حاصل تھی (اور اسی نسبت و تعلق ہی کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی عدم موجودگی کے زمانے میں اپنی قوم کی نگرانی کے لیے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کا انتخاب کیا تھا اسی طرح میں اپنی عدم موجودگی میں تمہارا انتخاب کرتا ہوں۔ لیکن حضرت ہارون علیہ السلام نبی بھی تھے اس لیے کسی کو کم فہمی سے وہم ہو سکتا تھا کہ شاید حضرت علی   کو نبوت بھی مل رہی ہو تو صاف صاف اس وہم کو دُور کر دیا کہ ) مگر فرق یہ ہے کہ میرے بعد کچھ بھی نبوت باقی نہیں اور بخاری کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میرے بعد کسی بھی قسم کا کوئی (نیا نبی)نہیں ہے۔

عن ابی ھریرۃ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال ان مثلی ومثل الانبیا ء من قبلی کمثل رجل بنی بیتا فأَحسنہ وأَجملہ الا موضع لبنۃ من زوایۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ و یقولون ھلا وضعت ھذہ ا للبنۃ وأَناخاتم النبیین (وفی روایۃ لمسلم فجئت انا واتممت تلک اللبنۃ (بخاری ومسلم )

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ  نے فرمایا میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے گھر بنایا اور اُسے خوب آراستہ و پیراستہ کیا مگر اس کے ایک گوشہ میں صرف ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔لوگ آ آ کر (اسے دیکھنے کے لیے )اس کے گرد گھومنے لگے اور تعجب کرنے لگے اور کہنے لگے یہ اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی گئی (تاکہ یہ نقص بھی نہ رہتا ) تو میں ہی خاتم النبیین ہوں (اور ایک روایت میں ہے تو میں نے  آ کر اس اینٹ کی جگہ کو پُر کر دیا ) تو جیسے وہ مکان اور محل جو ہر طرح سے مکمل ہو چکا ہو اس میں اب کسی اور اینٹ کی گنجائش نہیں اسی طرح میرے آنے کے بعد انبیاء کا سلسلہ مکمل ہو چکا اور اب کسی اور نبی کے آنے کا احتمال باقی نہیں رہا۔

عن ثوبان قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أِنہ سیکون فی أُمتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم أَنہ نبیّ وأَنا خاتم النبیین لا نبی بعدی (مسلم)

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آئندہ میری اُمت میں تیس سخت جھوٹے پیدا ہوں گے ان میں ہر ایک اپنے متعلق دعوٰی کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں سب نبیوں کے آخر میں آیا ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

               نبوت کے اثرات

عن أَبی ھریرۃ قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول لم یبق من النبوۃ الا المبشرات قالوا وما المبشرات قال الرؤیا الصالحۃ (بخاری) وفی روایۃ یراھا المسلم أَوترٰی لہ  (کنزالعمال)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نبوت میں سے صرف مبشرات باقی رہ گئے ہیں۔صحابہ نے پوچھا اے اللہ کے رسول مبشرات کیا چیزیں ہیں۔آپ نے فرمایا اچھے (یعنی سچے ) خواب (جو مسلمان خود دیکھے یا اُس کے لیے کوئی دوسرا دیکھے)۔

  تنبیہہ ١  :   یہ ضروری نہیں کہ سچے خواب ہمیشہ خوشی و مسرت کے متعلق ہوں رنج و غم کے متعلق بھی ہو سکتے ہیں۔مگر رویاء صالحہ یعنی اچھے خواب میں یہ حصہ مغلوب ہوتا ہے اور بشارت کا حصہ غالب۔اس کے برعکس شیطانی خواب اکثر خوفناک ہوتے ہیں اور مسرت و خوشی کے شاذو نادر کیونکہ شیطان کا مقصود ہی مسلمان کو غم ہو حزن پہنچانا ہے۔

  تنبیہہ٢ :   نبوت سے قبل عالم میں عام طور سے کفر و گمراہی اور ظلم و فساد کی تاریکیاں چھائی ہوتی ہیں۔ جب نبوت کا سورج طلوع ہوتا ہے تو پورے عالم میں اس کے بر کات و انوار پھیل جاتے ہیں۔ظلم و فساد کی جگہ رشد و صلاح کا دور دورہ ہوتا  ہے۔انسانی عادتوں میں تبدیلی آتی ہے اور افراط و تفریط، عجلت و جلد بازی کی بجائے متانت و بردباری، وقار و میانہ روی پیدا ہو جاتی ہے۔ انسان کے باطن کا رشتہ شیطان سے یکسر کٹ جاتا ہے اور عالم بالا کے ساتھ ایسا تعلق قائم ہو جاتا ہے کہ اس میں (عالمِ حِس سے ماورا ) وہاں کے کچھ مغیبات کے انعکاس کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے ان ہی اوصاف کو نبوت کے اجزا ء یا نبوت کے آثار و برکات کہا جاتا ہے۔ یہ اوصاف نبوت اور نبی کی برکت سے تو حاصل ہوتے ہیں لیکن ان کے حاصل ہونے سے کوئی شخص نبی نہیں بنتا۔ رویاء صا لحہ یعنی اچھے خواب دیکھنا انسان کے باطن کے متاثر ہونے کی نشانی ہے اور عادتوں کا انقلاب انسان کے ظاہر کے متاثر ہونے کی علامت ہے۔ احادیث میں ایک طرف رویا ء صالحہ کو نبوت کا چھیالیسواں حصہ کہا گیا ہے دوسری طرف بعض بلند اخلاق کو نبوت کا چھبیسواں حصہ قرار دیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے التؤدۃ والاقتصاد وحسن السمت من ستۃ وعشرین جزء من النبوۃ (ترمذی)بردباری و متانت، میانہ روی اور اچھی روِش نبوت کا چھبیسواں جزء ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان اخلاق کی وجہ سے کسی کو نبی نہیں کہا جا سکتا جب کہ یہ چھبیسواں جزء ہیں تو چھیالیسویں جز و کو نبوت کیسے کہا جا سکتا ہے۔

عن أَبی ھریرۃ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لقدکان فیما قبلکم من الأُمم محد ثون فان یک فی أُمتی أَحد فانہ عمر (بخاری و مسلم)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے پہلی اُمتوں میں (یعنی بنی اسرئیل میں )محدث ہوا کرتے تھے (یعنی جن سے غیبی طور پر باتیں کی جاتی تھیں مگر وہ نبی نہ ہوتے تھے )اگر میری اُمت میں صرف ایک شخص ہی ایسا ہوتا تو وہ عمر ہیں۔

            فائدہ  :   غیبی طور پر باتیں کی جانے کی یہ صورتیں ہیں۔

            (١)  فرشتے اس سے ہم کلام ہوں۔

            (٢)  فرشتوں کی جانب سے کوئی بات اس طرح دل میں ڈالی جائے گویا اس سے کسی نے کہہ دی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس شخص کی زبان سے صدق و صواب والی بات ہی نکلتی ہے۔

انبیاء علیہم السلام کی یہ ذمہ داری نہیں کہ دنیا کے کاموں کی تفصیلات بتائیں  :

عن رافع بن خدیج قال قدم النبیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم المدینۃ وھم یأ برون النخل فقال ما تصنعون قالوا کنا نصنعہ قال لعلکم لولم تفعلوا کان خیرا فترکوہ فنقصت قال فذکروا ذٰ لک لہ فقال أنما أَنا بَشَراذا أمرتکم بشیٔ من أمر دینکم فخذ وا بہ واذا أمرتکم بشیٔ من رأیی فأنما أَنا بشر وفی روایۃ قال أنتم أعلم بأُموردُنیا کم  (مسلم)

حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو اس وقت لوگوں کی عادت یہ تھی کہ وہ اپنے کھجور کے درختوں کی تابیر کرتے تھے ( یعنی مذکر درخت کا خوشہ لے کر مؤنث درخت کے ساتھ ملا دیتے تھے۔ اس کے بعد جب پھل آتا تو بہت کثرت سے آتا ) آپ نے پوچھا ایسا کیوں کرتے ہو لوگوں نے عرض کیا (پھلوں کی پیداوار میں کثرت کے لیے )ہم یہ کام پہلے سے کرتے آئے ہیں۔آپ نے فرمایا اگر نہ کرو تو شاید بہتر ہو۔ یہ سن کر لوگوں نے تابیر کرنا چھوڑ د یا پھل کم آنے لگا اس پر لوگوں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا۔ آپ نے فرمایا دیکھو میں بشر ہوں جب تمہیں تمہارے دین کے بارے میں کسی بات کا حکم دوں اُسے تو فوراً بِلاپس و پیش اختیار کر لو اور جب (دنیا کے معاملات میں ) کوئی بات اپنی رائے سے کہوں تو میں صرف بشر ہوں اور ایک روایت میں ہے آپ نے فرمایا اپنی دنیوی زندگی کے معاملات کو تم خود بہتر جانتے ہو۔

            فائدہ  :  اللہ تعالی نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے واسطے سے اپنے بندوں پر اپنی اطاعت کی کچھ باتیں مقرر فرمائی ہیں تاکہ ان کے ذریعے سے وہ اللہ تعالی کا قرب اور اس کی رحمت حاصل کریں۔ ان سب باتوں کے مجموعہ کو دین کہتے ہیں۔وہ باتیں یہ ہیں  :  عقائد، عبادات، معاملات، حدود اور آداب۔

            معاملات میں مالی، عائلی اور عدالتی معاملات بھی شامل ہیں اور امانت و ترکہ کے معاملات بھی دنیوی امور کا ایک بڑا شعبہ ان ہی معاملات پر مشتمل ہے اور اس طرح سے وہ براہ راست دین کا ایک جز و ہے۔اس شعبہ کی رہنمائی ہمیں دین ہی سے ملتی ہے اور انبیاء علیہم السلام ہی اس کے مو سس اور معلم ہوتے ہیں۔تجارت میں ایجاب و قبول، جواز اور صحت کی شر ا ئط، بائع و مشتری کے اختیارات، اختلاف کی صورت میں فیصلہ کی راہ، مزارعت کن شرائط سے کرنا مناسب ہے۔ جنگ و صلح کی کیا شرائط ہوں یہ سب باتیں دین کے دائرے میں آتی ہیں جنہیں انبیا ء خود سکھاتے بتاتے ہیں لیکن ان کے بعد زراعت کی یہ تفصیلات کہ اس کے لیے کس کس سامان کی ضرورت ہے، کس کس قسم کی مصنوعات درکار ہیں، کس زمین میں کیسی کھاد ڈالی جاتی ہے، کس موسم میں کیا بویا جاتا ہے، فولاد کیسے بنایا جاتا ہے اور نئی نئی ایجادات کیسے ہوتی ہیں۔یہ دنیا کا دوسرا شعبہ ہے جو دین سے متعلق نہیں۔ان باتوں کو دنیا انبیا ء کے آنے سے پہلے بھی جانتی تھی اور ان کے بعد بھی ان میں ہزاروں ترقیاں کرتی رہتی ہے اس لیے فرمایا کہ یہ تمہاری دنیا ہے اسے تم خود جانتے بوجھتے ہو۔

               انبیاء کو سب سے زیادہ تقوٰیٰ اور معرفتِ الہی حاصل ہوئی ہے

عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا قالت کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أذا أمرہم من الأعمال بما یطیقون قالوا أنا لسنا کھیئتک یارسول اللّٰہ ان اللّٰہ قد غفرلک ماتقدم من ذنبک وما تأخر فیغضب حتی یعرف الغضب فی وجھہ ثم یقول ان اتقاکم واعلمکم باللّٰہ أنا   (بخاری )

حضرت عائشہ   کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بات کا صحابہ کو حکم دیتے تو ایسی بات کا حکم دیتے جو اُن سے (سہولت سے ) ہو سکے۔ وہ (شوق شوق میں ) عرض کرتے یا رسول اللہ (کچھ اور بڑھا دیجئے کیونکہ ) ہم آپ کی طرح تو نہیں۔آپ کی تو اللہ تعالی نے اگلی پچھلی سب لغزشیں (جو کہ صرف اجتہادی ہیں وہ بھی ) معاف کر دی ہیں (ہماری کوتاہیاں تو معاف نہیں کیں لہٰذا ہمیں زیادہ عمل کرنا چاہیے )۔اس پر آپ کو اتنا غصہ آتا کہ اس کا اثر چہرہ مبارک پر نمایاں ہونے لگتا پھر آپ فرماتے دیکھو تم سب میں زیادہ خدا سے ڈرنے والا اللہ تعالی کی ذات و صفات کا سب سے زیادہ عالم میں ہوں۔

عن عائشۃ قالت صنع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم شیأ فرخص فیہ فتنزہ عنہ قوم فبلغ ذٰلک النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فخطب فحمد اللّٰہ وأثنٰی علیہ ثم قال ما بال أقومٍ یستنزھون عن الشیٔ أصنعہ فواللّٰہ أنی لأعلمھم باللّٰہ وأشد ھم لہ خشیۃ۔  (بخاری )

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ   (نے ایک مرتبہ)کوئی ایسا عمل کیا جس میں رخصت کا پہلو اختیار کیا۔بعض لوگوں نے اس عمل کے اختیار کرنے سے(اس لیے )احتراز کیا (کہ آپ تو بخشے بخشائے ہیں جب کہ ہم ایسے نہیں ہیں )یہ بات آپ تک پہنچ گئی۔اسی وقت آپ نے خدا کی حمد و ثنا ( خطبہ) کے بعد فرمایا لوگوں کا بھی کیا حال ہے بھلا اس عمل سے احتراز کرتے ہیں جسے میں کرتا ہوں۔ خدا کی قسم ان سب میں زیادہ خدا کا علم رکھنے والا اور سب سے زیادہ اس سے خشیت کرنے والا یعنی ڈرنے والا تو میں ہوں۔

            فائدہ  :   خشیت اُس خوف کو کہتے ہیں جو کسی ذات کی عظمت کے استحضار کے ساتھ ہو ہر خوف کو خشیت نہیں کہتے۔عالم اگر ڈرتا ہے تو وہ خدا کی ذات کی عظمت و جلال کا تصور کر کے ڈرتا ہے جب کہ غیر عالم کو ان اُمور کا اتنا علم نہیں ہوتا اس لیے وہ ڈرتا ہے تو صرف اس کے عذاب کا تصور کر کے ڈرتا ہے۔ ان  حدیثوں سے معلوم ہوا کہ وقت کے نبی کے سب سے زیادہ عالم ہونے کا مطلب یہی ہے کہ خدا کی ذات و صفات کا سب سے زیادہ علم اسی کو ہوتا ہے اور اس لیے سب سے زیادہ خدا سے ڈرانے والا بھی وہی ہوتا ہے۔

            یہاں غصہ صرف رخصت پر عمل نہ کرنے پر نہیں ہے بلکہ ان کے اس احتراز اور پرہیز پر ہے جو ایک غلط بنیاد پر ان کے دماغوں میں پیدا ہوا۔ نبی کے بخشے بخشائے ہونے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اب خدا کی عبادت کا محتاج نہیں رہا بلکہ اس کی عبادت اور بڑھ جاتی ہے اور اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ وہ اس نعمت کا شکر ادا کرنا چاہتا ہے اور ادا نہیں کر سکتا أفلا أکون عبدًاشکورًا(کیا میں اس کا شکر گزار بندہ نہ بنوں )کا یہی مطلب ہے۔

               اللہ اور رسول کے ساتھ محبت کا تعلق

            اللہ تعالی کی اطاعت محبت کے ساتھ کرے کیونکہ محبت کے جو تین اسباب ہیں یعنی کمال، جمال اور جو دو سخا ء وہ اللہ تعالی کو غیر متناہی حاصل ہیں۔ اللہ تعالی نے ہمیں وجود دیا اور ہمیں سب سے عمدہ اور احسن طرز پر بنایا پھر وہ مستقل طور سے ہماری پرورش کرتے ہیں ہماری دنیا و آخرت کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں فرشتوں کے ذریعے ہماری حفاظت کا انتظام کر رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی ذات جمال والی بھی اور تمام صفات کمال کے ساتھ متصف بھی ہے۔یہ سب باتیں تقاضا کرتی ہیں کہ ہمارے اندر ایسی ذات کی محبت اور شکر کا جذبہ موجزن ہو۔ پھر جب یہ ذات ہمیں کچھ حکم دے اور وہ حکم بھی ایسے کہ جن میں ہمارے ہی فائدے کو ملحوظ رکھا گیا ہو اور تابعداری کے عمل پروہ ہمیں اپنی خوشی اور محبت کا پروانہ دے تو محبت، شکر اور ممنونیت کے احساس کے ساتھ اس کی تابعداری کریں اور اس کے حکم بجالائیں۔

عن ابن عباس قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أحبوا اللّٰہ لما یغذوکم من نعمۃٍ وأحبونی لحب اللّٰہ۔  (ترمذی)

حضرت عبداللہ بن عباس  کہتے ہیں رسول اللہﷺ   نے ارشاد فرمایا اللہ سے محبت رکھو اس لیے کہ وہ تمہیں طرح طرح کی نعمتیں عطا فرماتا ہے اور (چونکہ رسول اس بارگاہ محبت کا پیغامبر ہوتا ہے اور اس بارگاہ کا محبوب اُسوہ و سیرت اپنی ذات میں لے کر آتا ہے اس لیے)مجھ سے محبت کرو خدا کی محبت کی وجہ سے۔

عن انس بن مالک قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یؤمن أحد کم حتی أکون أحب الیہ من وَلَدِہِ و وَالِدِہ والناس أجمعین۔ (بخاری ومسلم)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی (کامل ) مومن نہیں ہے جب تک میں اُسے اپنے بیٹے اور باپ (اور تمام رشتہ داروں ) اور دیگر تمام لوگوں سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں۔

            فائدہ  ١  :   رسول اللہﷺ   سے محبت کرنے کی جو وجہ سابقہ حدیث میں ذکر ہوئی اس کے علاوہ بھی رسول اللہﷺ  میں دیگر اسباب محبت یعنی کمال و جمال علی وجہ الاتم موجود تھے۔

            فائدہ   ٢  :  ماں باپ اور اولاد کی محبت طبعی ہے جب کہ رسول اللہﷺ   کی محبت عقلی ہے۔ کمالِ ایمان یہ ہے کہ عقل کا تقاضا طبیعت کے تقاضے پر غالب رہے اور خدا اور رسول کی محبت سب محبتوں پر غالب ہو۔اسلام قبول کرنے  کا معاملہ ہو یا مسلمان ہونے کے بعد اللہ تعالی کے احکام پر عمل کرنے کا مرحلہ ہو ایسانہ ہو کہ دیگر محبتوں کو اپنے اوپر غالب کر کے اللہ کے فرامین اور رسول اللہﷺ  کے بتائے ہوئے احکام کو نظر انداز کر دیا جائے۔

 عن عبداللّٰہ بن ھشام قال کنا مع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وھوآخذ بید عمر بن الخطاب فقال لہ عمر یا رسول اللّٰہ لأ نت یا رسول اللّٰہ أحب ألَیَّ من کل شیٔ الا من نفسی فقال لا والذی نفسی بیدہ حتی أکون أحب الیک من نفسک فقال عمر فأنک الآن واللّٰہ أحب ألَیَّ من نفسی فقال الأٰن یا عمر۔ (بخاری )

حضر ت عبداللہ بن ہشام کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ   کے ساتھ تھے آپ عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ہاتھ لیے ہوئے تھے۔عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ مجھے میری جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے جب تک تم کو میں اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوں تم (کامل )مومن نہیں ہو (رسو ل اللہﷺ   کی صحبت کی برکت تھی اور حضرت عمر کے ایمان کی قوت تھی کہ ان کو اس بات کو اپنے اندر اُتارنے میں کچھ بھی دیر نہ لگی فوراً)عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اچھا اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہو گئے۔تو آپ نے فرمایا ہاں اب اے عمر(تم پکے مومن بھی ہو گئے )۔

               نبیﷺ   کی تعریف و تعظیم میں غلو سے ممانعت

عن انس قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم انی لا ارید ان ترفعو نی فوق منزلۃ التی انزلنیھا اللّٰہ تعالی انا محمد عبداللّٰہ ورسولہ۔  (رزین )

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ   نے فرمایا میں نہیں چاہتا کہ تم مجھے میرے اس مرتبہ سے آگے بڑھاؤ جس پر اللہ نے مجھے رکھا ہے۔ میں عبداللہ کا بیٹا محمد ہوں اور (انسان ہوں مجھ میں خدائی نہیں ہے۔البتہ انسان ہونے کے بعد یہ وصف مجھے حاصل ہے کہ )میں اللہ کا رسول ہوں۔

عن عمرقال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا تطرونی کما اطرت النصارٰی عیسی ابن مریم فانما انا عبدہ فقولواعبداللّٰہ ورسولہ                                        (بخاری و مسلم)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ   نے فرمایا تم مجھے حد سے مت بڑھانا جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حد سے بڑھایا۔میں تو محض اللہ کا بندہ ہی ہوں (اللہ نے مجھے کوئی خدائی اختیار نہیں دئیے )تو مجھے اللہ کا بندہ اور اس کارسول کہو۔

عن قیس بن سعد قال اتیت الحیرۃ فرایتھم یسجد ون لمرزبان لھم فقلت لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم احق ان یسجد لہ فاتیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقلت انی اتیت الحیرۃ فرایتھم یسجدون لمر زبان لھم فانت احق ان یسجدلک فقال لی ارایت لو مررت بقبری اکنت تسجد لہ  فقلت لا فقال لا تفعلو ا۔ (ابو دا ود)

حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مقام حیرہ میں پہنچا تو میں نے وہاں کے باشندوں کو دیکھا کہ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں تو میں نے دل میں سوچا کہ اللہ کے رسول (تو زیادہ عظمت والے ہیں اور زیادہ قابل تعظیم ہیں اس لیے وہ ) اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ ان کو سجدہ کیا جائے۔ پھر جب میں رسول اللہﷺ   کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کیا کہ میں مقام حیرہ میں گیا تھا۔میں نے وہاں کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں اور آپ تو زیادہ حقدار ہیں کہ آپ کو سجدہ کیا جائے آپﷺ   نے مجھ سے فرمایا یہ بتاؤ کہ اگر تم میری قبر پر گزرتے تو کیا تم اس کو بھی سجدہ کرتے۔میں نے جواب دیا کہ نہیں (کیونکہ دین میں اس سے منع کیا گیا ہے ) آپ نے فرمایا تو پھر اب بھی مت کرو(کیونکہ سجدہ انتہائی درجے کی تعظیم ہے جو انتہائی درجے کی عظمت والے ہی کے لائق ہے۔اس لیے وہ عبادت ہے اور عبادت کے لائق بھی صرف وہ ذات ہے جو ہر حال میں عبادت کی حقدار ہو اور وہ صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔

عن عائشۃ قالت من اخبرک ان محمدا صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعلم الخمس التی قال اللّٰہ تعالی ان اللّٰہ عندہ علم الساعۃ فقد اعظم الفریۃ۔ (بخاری )

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا جو کوئی تمہیں یہ کہے کہ محمدﷺ   ان پانچ باتوں کو جانتے تھے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے آیت ان اللّٰہ عندہ علم السّاعۃ ( سورہ لقمان کی آخری آیت ) میں فرمایا ہے تو اس نے بڑ ا زبردست بہتان باندھا۔

               انبیاء کی عالم برزخ میں حیات کی کیفیت

عن انس قال قال رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ وسلم الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون ۔                   (بیہقی)

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں (اور اُن کو برزخی حیات حاصل ہے جس کی توجیہ یہ ہے کہ اگرچہ ان کی ارواح مبارکہ کا ٹھکانا اعلی علیین ہے لیکن ان کا قبروں میں موجود اجسام مبارکہ کے ساتھ قوی تعلق ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ عالم برزخ میں ) نماز پڑھتے ہیں۔

 عن انس ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال مررت علی موسیٰ لیلۃ اسری بی عندالکثیب الاحمر وھو قائم یصلی فی قبرہ۔ (مسلم)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺ   نے فرمایا میں معراج کی رات سرخ ٹیلے کے پاس موسیٰ علیہ السلام (کی قبر ) کے پاس سے گزرا تو وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے (یعنی ہمارے محسوس عالم میں تو جسم لیٹے ہوئے نظر آتے ہیں اور قبر بھی اتنی اونچی نہیں ہوتی کہ کوئی اس میں کھڑا ہو سکے لیکن ان پر عالم برزخ کھل جاتا ہے جیسا کہ سونے والے پر عالم خواب کھل جاتا ہے اور جیسے سونے والا عالم خواب میں اپنے آپ کو اپنے اسی جسم کے ساتھ چلتا پھرتا  دیکھتا ہے اسی طرح انبیاء علیہم السلام عالم برزخ میں اپنے انہی اجسام کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔

عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم انہ قال مامن رجل یسلم الا رد اللّٰہ علی روحی حتی ارد علیہ السلام۔ (ابوداود)

حضرت ابوہریرہ رضی للہ عنہ سے روایت ہے نبیﷺ   نے فرمایا کوئی ایسا شخص نہیں جو مجھ پر سلام کہتا ہے مگر یہ کہ اللہ تعالی مجھ پر میری روح کو لوٹا دیتا ہے (یعنی آپﷺ  کی روح مبارک کی جو تمام تر توجہ اللہ تعالی کی جمالی و جمالی تجلیات کے مشاہدہ میں مصروف رہتی ہے کسی اُمتی کے سلام کہنے پر اس کی طرف بھی متوجہ ہو جاتی ہے ) اور (آپ فرماتے ہیں کہ) میں سلام کا جواب دیتا ہوں۔

            فائدہ  :  اگر یہ خیال ہو کہ دنیا میں تو ہر وقت کتنے ہی لوگ درود و سلام پڑھتے ہیں تو آپ تو ہر وقت جواب دینے میں ہی مصروف رہتے ہوں گے بلکہ ہزاروں لاکھوں آدمیوں کے بیک وقت سلام کہنے پر تو شاید آپ کو ہر ایک کا علیحدہ جواب دینا دشوار ہو تا ہو گا اور تجلیات کے مشاہدہ کا وقت ہی نہ ملتا ہو گا۔

            اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے محسوس عالم کے وقت اور مکان) (Time And Space کے جو پیمانے ہیں عالم مثال، عالم برزخ اور عالم آخرت کے پیمانے ان سے بہت مختلف ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وزیرنے اپنی کرامت سے ملکہ سبا کے تخت کو پلک جھپکنے میں حاضر کر دیا حالانکہ عالم محسوس میں ایک قوی جن نے بھی اس کو لانے کی اتنی مہلت مانگی تھی کہ آپ کے مجلس سے اُٹھنے سے پہلے حاضر کر دوں گا جیسا کہ قرآن پاک کی سورہ نمل میں یہ قصہ مذکور ہے۔

عن اوس بن اوس عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال ان من افضل ایا مکم یوم الجمعۃ فیہ خلق آدم و فیہ قبض و فیہ النفخۃ وفیہ الصعقۃ فاکثروا علی من الصلاۃ فیہ فان صلا تکم معروضۃ علی قال قالوا یا رسول اللّٰہ و کیف تعرض صلوٰ تنا علیک و قد ارمت فقال ان اللّٰہ عزوجل حرم علی الارض اجساد الانبیاء۔(ابوداود)

حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ  نے فرمایا بے شک تمہارے افضل ترین دنوں میں سے ایک جمعہ کا دن ہے۔ اسی میں (حضرت )آدم(علیہ السلام )پیدا کیے گئے اور اسی میں ان کی وفات ہوئی اور اسی میں (قیامت کا پہلا )نفخہ ہو گا اوراس میں (دوسرا) نفخہ ہو گا سوتم جمعہ کے دن مجھ پر بکثرت درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ نے کہا اے اللہ کے رسول ہمارے درود آ پ پر کیسے پیش کئے جائیں گے۔ حالانکہ آپ تو (اپنی قبر میں ) ریزہ ریزہ ہو چکے ہوں گے۔آپ نے فرمایا اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء کے اجسام (کھانے اور بوسیدہ کرنے ) کو حرام کر دیا ہے۔

عن ابی ھریرۃ عن ا لنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال من صلی عند قبری سمعتہ ومن صلی علی من بعید ابلغتہ۔(بیہقی فی شعب الایمان)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو میری قبر کے پاس درود پڑھتا ہے تو میں اسے خود سنتا ہوں اور جو دُور سے مجھ پر درود پڑھتا ہے تو وہ مجھے (فرشتوں کے و اسطہ سے )بتلا دیا جاتا ہے۔

انبیا ء علیہم السلام کا ترکہ صدقہ ہوتا ہے  :

عن عائشۃ ان رسول اللّٰہ صلی علیہ وسلم قال لا نورث ما ترکنا فھو صدقۃ۔ (ترمذی)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم انبیا ء کا (مال میں ) کوئی وارث نہیں ہوتا۔ جو مال چھوڑ جائیں وہ (فقراء پر) صدقہ ہوتا ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

انوار مدینہ، لاہور کے شمارے

تشکر: اسد جن سے فائل کا حصول ہوا

تسوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید