فہرست مضامین
- مے کدہ
- جمع و ترتیب: حسنین حیدر
-
- نہ کوئی آنکھ ملتی ہے نہ کوئی جام ملتا ہے
- کر لیں نہ اتصال ترا کیا خیال ہے
- جب وہ میرے قریب ہوتا ہے
- میرا ہی سب گناہ ہے تم بے قصور ہو
- ہم گئے تو ملنے کو صرف ایک خار آیا
- دن گزر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں
- ناشناسِ ادا نہیں ہوں میں
- اُن سے محبت ہو گئی
- فرہاد تو اِک نام ہے
- حسینوں ! نہ یُوں بدگمانی کرو
- یہ وحشت طبیعت کی ایجاد ہے
- ہم نے تم کو پیار کیا ہے
- سردیوں کی طویل راتیں ہیں
-
مے کدہ
عبدالحمید عدمؔ کے مجموعوں "عکسِ جام” اور "گلنار” سے انتخاب
جمع و ترتیب: حسنین حیدر
نہ کوئی آنکھ ملتی ہے نہ کوئی جام ملتا ہے
ابھی تو مے کدہ ہم کو برائے نام ملتا ہے
مجھے اے دوست وہ تکلیف دے اپنی نگاہوں سے
کہ جس تکلیف سے تکلیف کو آرام ملتا ہے
مجھے محسوس ہوتا ہے عبادت ہو گئی میری
کوئی زہرہ جبیں جب صُبح کے ہنگام ملتا ہے
شکایت کیوں کریں ہم اُس پری وَش کے نہ ملنے کی
برنگِ صبح ملتا ہے، بہ شکلِ شام ملتا ہے
خُدا کا شکر کر تہمت اگر اُس آنکھ کی آئے
بڑی مشکل سے ایسا قیمتی الزام ملتا ہے
بسا اوقات دُنیا بھی کچھ ایسے پیش آتی ہے
کہ جیسے مُسکرا کر ساقیِ گلفام ملتا ہے
غریبوں کی خُوشی کا کب زمانہ فکر کرتا ہے
غریبوں کو زمانے میں کہاں آرام ملتا ہے
انہیں بندوں کو ہوتی ہے خدا کے نام سے رَغبت
کہ جن کے پاس ہر رُت میں خدا کا نام ملتا ہے
ولایت میکدے کی اُس جگہ پر ختم ہوتی
جہاں سے کچھ سُراغِ گردشِ ایام ملتا ہے
مَحبت اُس اجل کی جستجو کا نام ہے شاید
جسے رسماً حیاتِ جاوداں کا نام ملتا ہے
عدمؔ وجدان اب راحت کی اُس منزل پہ پہنچا ہے
جراحت سے جہاں احساس کو آرام ملتا ہے
٭٭٭
کر لیں نہ اتصال ترا کیا خیال ہے
اے صاحبِ جمال! ترا کیا خیال ہے
ہو باغ میں وصال تو ہے اس میں حرج کیا
ہے چرخ پر ہلال ترا کیا خیال ہے
توبہ کو توڑ دیں کہ نگاروں کو بخش دیں
اے عہدِ برشگال ترا کیا خیال ہے
میں تیرے التفات کے شایاں نہیں ہوں کیا
مجھ پر نظر تو ڈال ترا کیا خیال ہے
میرا تو جو خیال ہے وہ ٹھیک ہے مگر
اے صاحبِ جمال! ترا کیا خیال ہے
تھوڑی سی پی کے صحنِ خرابات میں عدمؔ
کر لیں نہ آنکھ لال ترا کیا خیال ہے
٭٭٭
جب وہ میرے قریب ہوتا ہے
وہ سماں کیا عجیب ہوتا ہے
ہائے بیچارگی پتنگے کی
کیسے قرباں غریب ہوتا ہے
غم کو دل سے لگا کے کیوں نہ رکھوں
یہ تو میرا حبیب ہوتا ہے
آپ کا اِس میں کوئی دوش نہیں
اپنا اپنا نصیب ہوتا ہے
دل میں آ کر تو جانِ من دیکھو
دل کا عالم عجیب ہوتا ہے
اے عدمؔ درد مٹ ہی جائے گا
کیوں پریشاں طبیب ہوتا ہے
٭٭٭
میرا ہی سب گناہ ہے تم بے قصور ہو
میری وفا گواہ ہے تم بے قصور ہو
تم نے تو روشنی کا کیا تھا کچھ اہتمام
دُنیا اگر سیاہ ہے تم بے قصور ہو
جینا تمہارا قرضِ نظر کب تھا جانِ من!
جینا اگر گناہ ہے تم بے قصور ہو
یہ اور بات ہے کہ تمہیں تھے قرارِ دل
گو میرا دل تباہ ہے تم بے قصور ہو
تم نے تو کہہ دیا تھا عدم سے کہ خوش رہو
اَب وہ جو صَرفِ آہ ہے تم بے قصور ہو
٭٭٭
ہم گئے تو ملنے کو صرف ایک خار آیا
دھوم تھی گلستاں میں موسمِ بہار آیا
آج اُن کی نیت پر مجھ کو بد گمانی ہے
آج میری باتوں پر اُن کو اعتبار آیا
لے کے شیشہ و بربط آ بھی جاؤ اے یارو
موسمِ بہار آیا موسمِ بہار آیا
موت مل گئی تھی کل راہ میں مجھے میں بھی
زیست کے اندھیرے کو قبر میں اُتار آیا
مَوت کی دعائیں تم روز ہم کو دیتے تھے
اب تو ہو گئی تسکیں، اب تو کچھ قرار آیا
فیصلہ عدمؔ اپنا رکھ دیا تھا دنیا پر
وہ بھی شرمسار آئے، میں بھی شرمسار آیا
٭٭٭
دن گزر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں
زخم بھر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں
آپ کا شہر اگر بار سمجھتا ہے ہمیں
کُوچ کر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں
آپ کے جَور کا جب ذکر چھڑا محشر میں
ہم مُکر جائیں گے سرکار۔ ۔ کوئی بات نہیں
رو کے جینے میں بھلا کونسی شیرینی ہے
ہنس کے مَر جائیں گے سرکار۔ ۔ کوئی بات نہیں
نکل آئے ہیں عدمؔ سے تو جھجکنا کیسا
در بدر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں
٭٭٭
ناشناسِ ادا نہیں ہوں میں
اس قدر پا رسا نہیں ہوں میں
کون ہے جس کو ڈھونڈتا ہے دل
کیوں کہیں مبتلا نہیں ہوں میں
کسی واقف سے بات کیجے گا
آپ سے آشنا نہیں ہوں میں
پھر ذرا ایک مرتبہ کہنا
کیا کہا با وفا نہیں ہوں میں
ظلم سب سے بڑی مروت ہے
قائلِ اعتنا نہیں ہوں میں
آپ سے یوں ہی پیار سا ہے مجھے
صاحبِ مُدعا نہیں ہوں میں
آدمی ہوں یہ فخر کیا کم
آپ فرمائیں کیا نہیں ہوں میں
میں صدا ہوں تو آپ کے دل کی
اپنے دل کی صدا نہیں ہوں میں
مجھ کو کیوں فکر ہو سفینے کا
اے عدمؔ ناخدا نہیں ہوں میں
٭٭٭
اُن سے محبت ہو گئی
جینے کی صورت ہو گئی
تھا انتظار اُس شوخ کا
صُبحِ قیامت ہو گئی
اب تم سے ہم کو کیا گلہ؟
تم سے محبت ہو گئی
اُس آنکھ سے جب دل ملا
شرحِ حقیقت ہو گئی
یہ بھی فسانہ بن گیا
وہ بھی حکایت ہو گئی
تکلیف جو بھی ٹھیک تھی
پیغامِ راحت ہو گئی
دل اب تقاضا بَن گیا
ضِد اب ضرورت ہو گئی
اب تجھ کو پیہم دیکھنا
آنکھوں کی عادت ہو گئی
اب بھی عدمؔ سے بے رُخی
تصدیقِ اُلفت ہو گئی
٭٭٭
فرہاد تو اِک نام ہے
مرنا لگن کا کام ہے
کیا پوچھتے ہو حالِ دل
آرام ہی آرام ہے
میرے خلوصِ عشق پر
اُس آنکھ کا الزام ہے
قصہ مرے پرہیز کا
اے ساقیا دشنام ہے
مَیں نے جو توبہ کی تھی کل
وہ آج نذرِ جام ہے
صرف اُس صنم کو چھوڑ کر
باقی خدا کا نام ہے
دل پُر سکوں، شیشہ تہی
کیا دست ہے کیا جام ہے
کہتے ہیں جس کو زندگی
وہ خود اسیرِ دام ہے
جس سے عبارت ہے وفا
تیری جفا کا نام ہے
دُنیا کی کیا ہستی عدمؔ
عقبیٰ درونِ جام ہے
٭٭٭
حسینوں ! نہ یُوں بدگمانی کرو
فقیروں پہ کچھ مہربانی کرو
مَحبت سے چلتا ہے کارِ جہاں
کوئی بات ہو آنی جانی کرو
تَسلی مرے قلبِ ناشاد کی
عمل سے نہیں تو زبانی کرو
مری جاں کو رکھ لو خمِ زلف میں
یہ اک کام تو جانِ جانی کرو
کرو اس کو خوشبو میں غلطاں کبھی
کبھی آتشِ ارغوانی کرو
جوانی بڑی قیمتی چیز ہے
عدمؔ احترامِ جوانی کرو
٭٭٭
یہ وحشت طبیعت کی ایجاد ہے
مرا درد دردِ خدا داد ہے
گریبانِ غنچہ ہے اس کا ثبوت
تبسم بھی اک شکلِ فریاد ہے
ستائے گا کیا ہم کو تیرا فراق
ملاقاتِ صبحِ ازل یاد ہے
ذرا دیکھنا اس کی تصویر کو
خموشی بھی اُسلوبِ رُوداد ہے
عجب نوع کے آدمی ہیں یہ شیخ
محبت کو کہتے الحاد ہے
تمہاری پریشان زلفوں کی خیر
ہمارے لیے کوئی ارشاد ہے
مٹائے گا مجھ کو عدمؔ کیا کوئی
محبت مرا سنگِ بنیاد ہے
٭٭٭
ہم نے تم کو پیار کیا ہے
اور دیوانہ وار کیا ہے
پروانے نے جل کر شاید
اُلفت کا اظہار کیا ہے
توڑ دیا ہے ساغر میرا
یہ کیا تم نے یار کیا ہے
کیوں ہم سے ناراض ہو اتنے
کیا ہم نے سرکار کیا ہے
کیوں کرتے ہو قطعِ تعلق
کس نے یہ اصرار کیا ہے
دل بھی حاضر جاں بھی حاضر
کب ہم نے انکار کیا ہے
آپ نے میرے دل میں بس کر
جنگل کو گلزار کیا ہے
تم کو ہی کل دُکھ یہ ہو گا
کیوں مجھ کو بیمار کیا ہے
آج عدمؔ پھر توڑ کے توبہ
شیشے کو گلنار کیا ہے
٭٭٭
سردیوں کی طویل راتیں ہیں
اور سودائیوں سی باتیں ہیں
کتنی پُر نور تھیں قدیم شبیں
کتنی روشن جدید راتیں ہیں
حسن کے بے حساب مذہب ہیں
عشق کی بے شمار ذاتیں ہیں
تم کو فرصت اگر ہو سننے کی
کرنے والی ہزار باتیں ہیں
زیست کے مختصر سے وقفے میں
کتنی بھرپور وارداتیں ہیں
اے عدمؔ اُن سے پیار مت کرنا
اُن کی زُلفیں طویل راتیں ہیں
٭٭٭
انتخاب: حسنین حیدر
ریختہ بلاگ
http://raikhtablog.blogspot.com/2015/05/blog-post_50.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید