FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

مہاراجاؤں اور نوابوں کے عجیب و غریب مشاغل

اختر بلوچ

جمع و ترتیب

اعجاز عبید

ہندوستان کے راجاؤں، مہاراجاؤں اور نوابوں کے بڑے ہی عجیب و غریب شوق اور مشاغل تھے۔ اُن میں سے کچھ تو قابلِ بیان ہیں اور بہت سے ناقابلِ بیان۔ ان والیانِ ریاست کا انجام بہت دردناک ہوا۔ عصرِ حاضر میں اُن کی وہ شان و شوکت اور مشاغل اب صرف تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ لیکن اُن کے معمولات اتنے سطحی تھے کہ لوگ اب صرف ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے حوالے سے سب سے دردناک انجام نواب آف جونا گڑھ اور ان کے خاندان کا ہوا۔

جونا گڑھ کا شمار متحدہ ہندوستان کی اُن ریاستوں میں ہوتا ہے جس کے نواب نے تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ جونا گڑھ کے نواب مہابت خانجی مسلمان تھے جب کہ ریاست کی 80 فیصد آبادی غیر مسلموں پر مشتمل تھی۔ مہابت خان نے ریاست کی باگ ڈور 31 مارچ 1920ء کو باقاعدہ طور پر سنبھالی۔ نواب مہابت خان کو ریاستی امور میں قطعی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اپنا بیشتر وقت کتوں کے ساتھ گزارنا پسند فرماتے تھے۔ ریاست کا تمام انتظام اور حکومتی امور وزیر  ِ اعظم کے حوالے ہوتے تھے، جسے دیوان کے لقب سے بھی پکارا جاتا تھا۔ ریاست کے آخری وزیرِ اعظم محترمہ بینظیر بھٹو کے دادا سر شاہنواز بھٹو تھے۔

مصنف اقبال پاریکھ اپنی کتاب جونا گڑھ اجڑی دیار کی کہانی میں لکھتے ہیں کہ برطانوی حکومت نے نواب صاحب کو بہت سے خطابات سے نواز رکھا تھا۔ ایک مرتبہ ریاست کے پولیٹکل ایجنٹ نے اُنہیں ایک اور خطاب کی پیشکش کر دی اور یہ سنتے ہی وہ تلملا کر بولے،

’نہیں نہیں مجھے اور کوئی خطاب نہیں چاہیے، خواہ مخواہ مجھے وائسرائے کا شکریہ ادا کرنے دہلی جانا پڑے گا‘۔

وہ مزید لکھتے ہیں کبھی کبھی نواب صاحب باغ میں بھی نظر آ جایا کرتے تھے۔ وہ کھلی کار میں خود ڈرائیور کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھے ہوتے اور پچھلے سیٹ کتوں کے حوالے ہوتی۔ کار دھیمی رفتار سے چلتی رہتی اور کتے زبان نکالے ہوا خوری کے مزے لیتے رہتے۔ نواب صاحب ہر کتے کو اس کے الگ نام سے پکارتے تو وہ اچک کر باہر نکل جاتا اور کار کے ساتھ ساتھ چلنے لگتا۔ پاریکھ صاحب کا قلم نواب صاحب کے کتوں کا ذکر بڑے دھیمے لہجے میں کرتا ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ نواب مہابت خان کا کتوں کا شوق اپنی جگہ مگر اُنہیں عام لوگوں سے بھی بے پناہ محبت تھی۔ وہ ان کی فلاح و بہبود کا ہر ممکن خیال رکھتے تھے، خاص طور پر مسلمانوں کا درد ان کے دل میں بہت تھا۔

تقسیمِ ہند کے حوالے سے نوابوں، راجاؤں اور مہا راجاؤں کا ذِکر صحافی لیری کولنس، دامنک لیپئر کی کتاب آزادی نیم شب (فریڈم ایٹ مڈ نائٹ) میں بھی ہوا ہے، جس کا ترجمہ سعید سہروردی نے کیا ہے۔ اِن دونوں صحافیوں نے اپنی کتاب کے ایک باب ’محل اور شیر، ہاتھی اور جواہرات‘ میں تقسیم کے وقت راجاؤں، مہا راجاؤں اور نوابوں کے حالات بڑے دلچسپ اور بے باک پیرائے میں بیان کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ جونا گڑھ کے نواب کا کتے پالنے کا شوق جنون کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔ اس کے محبوب کتوں کے کمروں میں بجلی اور پانی کا بندوبست تو تھا ہی، مگر ساتھ ساتھ ٹیلیفون کی سہولت بھی موجود تھی۔ یہی نہیں، بلکہ کتوں کی خدمت کے لیے ملازم ہر وقت تعینات رہتے تھے۔ حال یہ تھا کہ جونا گڑھ کے محض 10 سے 20 افراد کے علاوہ کسی اور کا معیارِ زندگی اِن کتوں سے زیادہ بلند نہیں تھا۔

جونا گڑھ کے نواب نے اپنی چہیتی کُتیا ’روشن‘ کی شادی ایک لیبرڈ کتے ’بابی‘ کے ساتھ کی، جس میں شرکت کے لیے اُنہوں نے ہندوستان کے ہر مشہور و معروف آدمی، راجاؤں، مہا راجاؤں، یہاں تک کے وائسرائے کو بھی مدعو کیا۔ وائسرائے تو خیر نہیں آئے لیکن مدعو حضرات میں سے بیشتر تشریف لے آئے اور ڈیڑھ لاکھ مہمان جمع ہو گئے۔ بارات بڑی ہی شاندار بارات انداز سے نکلی جس میں نواب کے ہاتھی اور باڈی گارڈز نے بھی شرکت کی۔ سب کی ضیافت لذیذ اور مرغن کھانوں سے کی گئی۔ اِس تقریب پر نواب صاحب نے 60 ہزار پاؤنڈ خرچ کیے۔ اِس خطیر رقم کو اگر اُس زمانے کی قیمتوں کے مطابق سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یوں سمجھ لیجیے کہ اِس رقم سے 12 ہزار افراد کی پورے سال پرورش ہو سکتی تھی۔

اِسی طرح مہاراجہ گوالیار نے لوہے کی ایک بہت بڑی میز بنوائی۔ اُس پر چاندی کی پٹڑیاں بٹھائی گئیں جن کی لمبائی 250 فٹ سے زیادہ تھی۔ یہ میز کھانے کے کمرے میں رکھ دی گئی۔ دیوار میں سوراخ کر کے پٹڑیاں اِس طرح آگے بڑھائی گئیں کہ اُس میز کا ربط مہاراجہ کے باورچی خانے سے قائم ہو گیا۔ اُس کے بعد ایک کنٹرول پینل بنایا گیا، جس میں نہ جانے کتنے سوئچ، الارم، سگنل اور لیور لگے تھے۔ یہ پینل میز پر فٹ کر دیا گیا۔ مہاراجہ کے مہمان میز کے چاروں طرف بیٹھتے اور مہاراجہ خود کنٹرول پینل کو قابو کرتے تھے۔ وہ سوئچ دباتے، لیور اُٹھاتے گراتے، نہ جانے کیا کھٹر پٹر کرتے۔

چاندی کی پٹڑیوں پر ٹرین دوڑتی، رکتی، سرکتی اور بھاگتی رہتی تھی۔ وہ ٹرین باورچی خانے میں جاتی تھی جہاں ملازم چپاتی، ترکاری اور دوسرے کھانے ٹرین کے کھلے ڈبوں میں رکھ دیتے تھے۔ مال سے لدی ہوئی ٹرین کھانے کے کمرے میں آتی تھی۔ مہا راجہ کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ جس مہمان کے سامنے چاہتے ٹرین کو روک دیتے اور وہ اپنی پسند کی چیزیں نکال لیتا۔ اِسی طرح وہ جسے بھوکا رکھنا چاہتے تو کنٹرول کے مخصوص بٹن دبا دیتے تو مال سے لدی ہوئی ٹرین بچارے مہمان کے سامنے سے بغیر رُکے سرسراتی ہوئی آگے نکل جاتی تھی۔

اب بھی گوالیار میں کھاتی پھلاتی ٹرین بڑی بڑی میزوں پر نظر آ جاتی ہے

ایک رات مہاراجہ نے وائسرائے اور اُس کے اہلِ خانہ کو کھانے پر مدعو کیا تو کنٹرول پینل میں شارٹ سرکٹ ہو گیا۔ مال سے لدی ہوئی گاڑی باورچی خانے سے تیر کی طرح آئی اور طوفانی رفتار سے میز کا چکر کاٹنے لگی اور رُکنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ کھُلے ڈبوں سے سبزی، دال، گھی، تیل اچار اُچھل، اُچھل کر مہمانوں کے کپڑوں پر گرنے لگا، مہمان توبہ بول گئے۔ ریلوں کی تاریخ میں اِس قسم کا حادثہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔

یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ عیش اور نفس پرستی کے علاوہ مذہب سے گہری وابستگی بھی راجاؤں کی ایک اہم خصوصیت تھی۔ بنارس کے مہاراجہ کا معمول یہ تھا کہ صبح کے وقت اُس کی پہلی نظر گؤ ماتا پر پڑنی چاہیے۔ ہر صبح اُن کی خواب گاہ کی کھڑکی پر ایک گائے کھڑی کر دی جاتی۔ نوکر اُسے کونچتے، وہ رمباتی۔ اس سے مہاراجہ کی آنکھ کھُل جاتی اور پہلی نظر گائے پر پڑتی۔ ایک بار مہاراجہ بنارس اپنے دوست نواب رام پور کے مہمان ہوئے۔ وہاں اُنہیں دوسری منزل پر ٹھہرایا گیا۔ اب اتنی اونچائی پر ان کی خواب گاہ کی کھڑکی پر گائے کیسے پہنچائی جائے؟ آخر خاص طور پر صرف اِسی مقصد کے لیے نواب رامپور نے بلا تاخیر کرین خرید لی۔

جب کرین سے گائے کو اوپر اُٹھایا جاتا تو ہوائی سفر کی عادی نہ ہونے کی وجہ سے گائے رمبانا شروع کر دیتی اور کسی نوکر کو کونچنے کی ضرورت نہ پڑتی اور مہاراجہ بنارس کی آنکھ کھل جاتی اور پہلی نظر گائے پر پڑنے کا معمول پورا ہو جاتا۔

نواب آف جوناگڑھ کے خاندان کا دردناک انجام کیوں ہوا اور اِس کی وجوہات کیا تھیں اِس کا تفصیلی ذکر بھوپال کی شہزادی، عابدہ سُلطان نے اپنی خود نوشت میں کیا ہے۔ وہ اِس ضمن میں لکھتی ہیں کہ:

1950ء میں جب میں پاکستان آئی تھی تو میں نے دیکھا کہ شاہی جونا گڑھ ہاؤس، عجیب بے ڈھنگا اور عیش کوش طرزِ زندگی کا نمونہ پیش کر رہا ہے۔ ان کا رویّہ حکومتِ پاکستان اور ہم جیسوں، جو شاہی ریاستوں سے تعلق رکھتے تھے، کے لیے باعث شرمندگی تھا۔ نواب جونا گڑھ کا مستقل مشغلہ اپنے کتوں کی فوج میں مشغول رہنا تھا، جو وہ جونا گڑھ سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ اُن میں سے زیادہ تر بازاری کتے تھے۔ یہ کُتے ہر صبح ہِز ہائی نس کے سامنے باقاعدہ پریڈ کرتے اور اکثر اُن پالتو جانوروں کی شادی کی تقریبات منعقد کی جاتیں، جس میں ان کو دُلہا دُلہن کے مخصوص لباس پہنائے جاتے، موسیقی کی محفل جمتی اور حاضرین دربار خراج تحسین پیش کرتے۔ نواب صاحب کے ساتھ اُن کے خوشامدیوں اور طرح طرح کے مسخروں کی ٹولی رہتی اور اپنے محبوب بازاری کتوں اور تین جونا گڑھی بیویوں کے درمیان گھرے رہتے۔ ان کا اُن کی بڑی بیگم یعنی ماں صاب سے ہمیشہ اختلاف رہا جنہیں الگ گھر میں علیحدہ کر دیا گیا تھا۔ دلاور منزل کا نام ان کے بیٹے دلاور خانجی کے نام پر رکھا گیا تھا جو خوبصورت جوان، پبلک اسکول کا تعلیم یافتہ اور ان کا اکیلا وارث تھا۔

دلاور منزل میں ماں صاب اپنے اور بھی زیادہ عیش کوش خاندان پر حکومت کرتی تھیں جو اُن کے بھوپالی رشتہ دار، طفیلیوں اور ذاتی ملازمین پر مشتمل تھا۔ ماں صاب نے اپنے خاوند کے خلاف باقاعدہ جنگ کا اعلان کر رکھا تھا۔ دونوں گھر سازشوں کا گڑھ بن گئے تھے اور ایک دوسرے کے خلاف جاسوسی، بے وفائی اور دوغلے پن کے الزامات تراش کرنا ان کا روزمرہ کا معمول بن چکا تھا۔

نواب صاحب کی طرف سے ناکافی ماہانہ مشاہرے کی وجہ سے ماں صاب اپنے شاہانہ طرزِ زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے زیورات بیچنے پر مجبور ہو گئی تھیں۔ ماں صاب اپنی کشادہ دلی کی عادت کی وجہ سے اپنے گھر کے دروازے کھلے رکھتیں، جہاں اُن کے گھر کے 30 افراد کے علاوہ تقریباً اتنے ہی ملنے جُلنے والے ہر روز رات کا کھانا کھاتے۔ اُن کے گھر کے اخراجات تو کافی زیادہ تھے ہی لیکن مالی وسائل میں خلا کی وجہ ان کا اپنے لیے دوڑ کے گھوڑے خریدنا اور ریس کے میدان میں سٹے بازی کا شوق تھا۔

ماں صاب ہر صورت باقاعدگی سے کراچی ریس کلب جاتی تھیں۔ اُن کے ساتھ شیروانیوں میں ملبوس رشتے داروں کا مجمع ہوتا اور وہ بیش قیمت ساڑھی اور کالے چشمے پہنے وی آئی پی انکلوژر میں بیٹھتیں۔ وہاں وہ بے ایمان جواریوں اور دھوکے باز گھڑ سواروں کے کہنے پر بڑا بڑا سٹہ کھیلتیں۔ بڑی بڑی رقم ہارنے کے باوجود کبھی کبھی معمولی کامیابی سے بہت خوش ہوتیں اور کراچی کے رہنیوں کے ہاں مزید اپنے قیمتی زیورات رہن رکھتیں جنہوں نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ بیگم صاحب جب بھی ریسوں میں پیسہ ہارتی ہیں تو ان کی موج ہو جاتی ہے۔

دلاور منزل میں ماں صاب اپنے ملنے والوں کے ساتھ جتنی کشادہ دلی سے پیش آتی تھیں، اپنے ذاتی ملازمین کے ساتھ برتاؤ میں وہ اتنی ہی بے رحمی کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ ماں صاحب کے گھر کی دیکھ بھال اللہ رکھی نامی ایک سخت خوفناک، چھ فٹ لمبی، حبشن کے ذمے تھی۔ ملازمین کی چھوٹی موٹی کوتاہیوں پر ماں صاب کو آنے والا غصہ اس لمبی عورت کے ذریعے اتارا جاتا جو اُن غریب ملازم عورتوں کو اذیت دیتی رہتی۔

میں نے اکثر ماں صاب کو سمجھایا کہ وہ ملازمین پر ظلم کرنا چھوڑ دیں اور اُنہیں خبردار کیا کہ وہ اب شاہی ریاست میں نہیں رہتیں جہاں وہ قانون کی پہنچ سے بالاتر تھیں۔ پاکستان میں رہ کر حد سے تجاوز کرنا اُنہیں کسی مصیبت میں پھنسا سکتا ہے۔ ماں صاحب میرے انتباہ کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دیتی تھیں کہ لڑکیاں مبالغہ کر رہی ہیں اور ضرورت سے زیادہ جذباتی ہوئے جا رہی ہیں، اور اللہ رکھی تو ان کو قابو میں رکھنے کے لیے محض ہلکی پھلکی سزائیں دیتی ہے۔

29 جنوری 1952ء کو میں دلاور منزل آئی تو دیکھا کہ پولیس کے ایک دستے نے گھر کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ گھر میں سبھی افسردہ خاطر اور دم بخود تھے۔ مجھے بیا جی نے خاموشی سے بتایا کہ ملازمین میں سے ایک عورت بانو فوت ہو گئی ہے۔ پوسٹ مارٹم سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اُس کی موت بُری طرح مار پیٹ سے واقع ہوئی ہے۔ پولیس ماں صاب، اُن کے ملازمین اور گھر کے تمام افراد سے تفتیش کر رہی ہے۔

جب بیا جی مجھے اِس وحشت ناک واقعے کے متعلق بتا رہی تھیں تو ایک پولیس انسپکٹر نیچے آیا اور مجھے پہچاننے کے بعد مجھے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا کیونکہ تفتیش میں کافی وقت درکار تھا۔ اُس نے تصدیق کی کہ بانو کی موت مار اور خوف ناک قسم کی زیادتی کے نتیجے میں واقع ہوئی ہے۔ میں نے انسپکٹر سے ماں صاب سے چند منٹ ملاقات کی درخواست کی جسے اُس نے کچھ تامل کے بعد منظور کر لیا۔ جب ماں صاب کے کمرے میں گئی تو اُنہیں بڑی جذباتی اور گستاخانہ کیفیت میں پایا۔ وہ بڑی بے باکی سے دعویٰ کر رہی تھیں کہ قانون بیگم جونا گڑھ کو چھو بھی نہیں سکتا۔ مگر اِسی دوران انہوں نے اللہ رکھی کو یہ کہہ کر موردِ الزام ٹھہرایا کہ اِس نے بانو کو اُس کے جرم سے زیادہ سزا دی تھی۔ میں نے ماں صاب کو تسلی رکھنے اور اپنے قانونی حقوق کے سلسلے میں سیکریٹری خارجہ جناب اِکرام اللہ اور اپنے خاوند نواب صاحب سے بھی مشورہ کرنے کے لیے کہا، اگرچہ اُن کے اپنے شوہر سے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ اِس کے بعد میں بانو کے قتل کے نتائج کے خوف میں مبتلا، واپس گھر آ گئی۔

اگلے دن اخبارات نے بانو کے قتل کی سرخیاں جمائیں۔ ماں صاب قتل کے جرم میں بغیر ضمانت گرفتار کر لی گئیں اور اُنہیں کراچی جیل لے جایا گیا۔ اللہ رکھی نے ماں صاب کے خلاف گواہی دے دی کہ دوپہر کے وقت ماں صاب کو پتہ چلا کہ بانو نے اُن کے باتھ روم میں پیشاب کیا ہے۔ ماں صاب کو سخت غصہ آیا، لیکن اُنہیں ریس میں جانا تھا اور دیر ہو رہی تھی، لہٰذا اُنہوں نے بانو کو چند تھپڑ مارے اور اللہ رکھی کو حکم دے گئیں کہ وہ اُسے مارے اور اُس کے مخصوص حصوں میں مرچیں بھر دے تاکہ باقی سب ملازمین بھی سبق سیکھ لیں۔

خوفناک اللہ رکھی نے ماں صاب کی خواہش سے بڑھ کر اُن کے حکم کی تعمیل کی اور جب ماں صاب ریس دوڑ سے واپس لوٹیں تو بند کمرے سے بانو کی کراہنے کی آوازیں آ رہی تھیں جہاں اُسے قید رکھا گیا تھا۔ کسی کی جرأت نہیں تھی کہ اُس غریب کی کوئی مدد کرتا۔ جلد ہی اُس کی دردناک چیخیں بھی دم توڑ گئیں۔ بالآخر جب دروازہ کھولا گیا تو بانو مر چکی تھی۔ بانو کو خاموشی سے دفن کر دینے کی کوشش کی گئی، لیکن دلاور منزل میں سبھی سازشی اور مخبر تھے، مقامی پولیس کو بانو کو دی گئی اذیت اور بعد ازاں اس کی موت کی اطلاع دے دی گئی۔ ماں صاب اور شقی القلب اللہ رکھی کا آپس میں جھگڑا کھڑا ہو گیا کیونکہ وہ جرم کی نزاکت کو سمجھ گئی تھیں اور ایک دوسرے پر الزام دھرنے لگی تھیں۔

سنسنی خیز خبریں اِس معاملے کو ہر طرف پھیلا رہی تھیں جب ماں صاب، سینئر بیگم آف جونا گڑھ، گھڑ دوڑ کی باقاعدہ شوقین، سوسائٹی کی مشہور شخصیت اور نواب جونا گڑھ کی بیوی، جنہوں نے اپنا دارالحکومت چھوڑنے سے پہلے ریاست کو پاکستان میں ضم کرنے کارنامہ انجام دیا تھا، جیل بھیج دی گئیں اور ان پر بانو کے قتل کی فردِ جرم عائد کی گئی۔

مجھے ان بدلتے ہوئے حالات سے خوف آنے لگا تھا، نہ صرف اِس لیے کہ میری عزیز اور خبطی دوست قتل کے الزام میں جیل پہنچ گئی تھیں، بلکہ اس لیے کہ پورا پاکستان جونا گڑھ خاندان کی عیاشی اور اخلاقی تباہی کو قریب سے دیکھ رہا تھا اور غالباً یہ سمجھ رہا تھا کہ سب شاہی خاندانوں کی طرزِ زندگی ایسی ہی ہوتی ہے۔ جوں ہی مجھے پتہ چلا کہ ماں صاب قتل کے الزام میں جیل گئی ہیں تو میں نے کوشش کی کہ کسی طرح صورتحال کو قابو میں لایا جائے۔ سب سے پہلے میں نواب جونا گڑھ کی رہائش گاہ پر گئی تو انہیں بالکل بے فکر اور لاتعلق پایا۔ میں نے ان سے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ میں سینئر بیگم کے ساتھ اُن کی ناراضگیوں سے آگاہ ہوں، لیکن اِس وقت جونا گڑھ خاندان کی عزت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ مگر اُن پر کوئی اثر نہ ہوا، لہٰذا میں اکرم اللہ صاحب کے پاس گئی۔ اُنہیں ہمدردی تھی لیکن انہوں نے کہا کہ میں قانون میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ دلاور منزل پر مایوسی چھائی ہوئی تھی۔ پولیس کو اطلاع دینے کے بارے میں ہر کوئی دوسرے پر شک کر رہا تھا۔

اِن سخت مشکل دنوں کے بعد ماں صاب کے جیل میں لمبے قیام کی حقیقت سب کی سمجھ میں آ گئی، جو جونا گڑھ خاندان کو ایک اکتا دینے والا معمول درپیش ہوا۔ دوست، رشتہ دار، سٹے باز اور کاروباری شرکاء کراچی جیل میں باقاعدگی سے ماں صاب سے ملتے رہتے اور روزانہ ان کا مخصوص کھانا اُنہیں پہنچایا جاتا۔

گو میں ماں صاب کے اِس عمل سے دہل گئی تھی لیکن میری وفاداری نے مجھے باقاعدگی سے جیل میں اُن سے ملاقات کرنے پر مجبور کیا۔ یہ ایک ایسا تجربہ تھا جسے میں کبھی نہیں بھلا سکوں گی۔ ماں صاب نے چند ہفتوں ہی میں جیل کے سارے عملے کو اپنا گرویدہ کر لیا تھا۔ عملے نے اُنہیں زیادہ سے زیادہ سہولیات کے ساتھ رہائش فراہم کی۔ اُن کے کمرے نے دربار کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔ جہاں چیف جیلر اور اُس کے ساتھی اُن کی خوشامد میں لگے رہتے تھے۔ ماں صاب نے مجھے راز داری سے بتایا کہ یہ احمق جیلر میری مُٹھی میں ہے۔

ماں صاب تقریباً دس ماہ جیل میں رہیں اور اُن کے وکلاء الزامِ قتل کو بلا ارادہ قتل میں کم کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ جس میں اُن کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔ ماں صاب کو سزا میں مناسب تخفیف کے بعد رہا کر دیا گیا اور وہ بڑے فاتحانہ انداز سے دلاور منزل واپس گئیں۔ لیکن سابقہ طمطراق اور اصراف قصہ ماضی بن چکا تھا اور زیادہ تر زیورات بک چکے تھے۔ کراچی میں اُن کے باقی ماندہ سال غربت اور مایوسی میں گزرے۔ یہ میرے جاننے والوں میں ایک سب سے زیادہ دلچسپ اور رنگا رنگ شخصیت کا افسوس ناک انجام تھا۔

نوابوں کے مشاغل اپنی جگہ، مگر اُن کی پُر اسرار روحانی طاقتیں اور راجاؤں، مہا راجاؤں کے شیروں کے شکار کے بہادرانہ قصے بہت مشہور ہیں، لیکن نواب آف بہاولپور نے شیر کے حوالے سے ایک ایسا غیر معمولی کارنامہ انجام دیا کہ ہم ان کے اس کرشماتی واقعے کا ذکر خود پر لازم سمجھتے ہیں۔ یہ قصہ ان کے ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے صاحبزادہ محمد قمر الزمان عباسی نے اپنی کتاب، ’بغداد سے بہاولپور‘ کے صفحہ نمبر 376 اور 377 پر کچھ یوں تحریر کیا ہے:

چڑیا گھر بہاولپور کا واقعہ تو آج بھی بہاولپور کے لوگوں کو اچھی طرح یاد ہے۔ 1964ء میں ایک روز شیر چڑیا گھر میں موجود اپنے پنجرے سے باہر نکل گیا، شیر کے نکلتے ہی شہر میں خوف و ہراس پھیل گیا اور لوگ اپنے گھروں میں بند ہو گئے۔ اس واقعے کی اطلاع نواب سر صادق محمد خان عباسی کو اُن کے محل صادق گڑھ پیلس ڈیرہ نواب صاحب پہنچائی گئی، تو وہ فوراً اپنی کار میں سوار ہو کر بہاولپور پہنچ گئے۔

وہ بہاولپور شہر سے دریائے ستلج کی طرف روانہ ہوئے تو دور سے دیکھا کہ شیر ستلج کی طرف سڑک پر چلا جا رہا تھا، کار کی آواز سن کر شیر نے مُڑ کر دیکھا، نواب صاحب گاڑی سے نیچے اُترے، اسے آواز دے کر سرائیکی زبان میں کہا کہ ’تجھے شرم نہیں آتی، اپنے مالک سے اجازت لیے بغیر ہی چوروں کی طرح بھاگ کر جا رہا ہے۔‘ شیر واپس مڑا اور وہیں رُک گیا۔ نواب صاحب شیر کے پاس چلے گئے شیر نے اپنا سر ان کے قدموں پر رکھ دیا۔ اس کی آنکھوں سے ندامت کے آنسو ٹپک پڑے۔ نواب صاحب اسے کان سے پکڑ کر واپس چڑیا گھر لے آئے اور دوبارہ پنجرے میں بند کر دیا۔ نواب صادق عباسی کو چرند و پرند سے بہت محبت تھی اور وہ جب بھی چڑیا گھر تشریف لاتے تو تمام پرندے اور جانور انہیں دیکھ کر ادب سے جھک جاتے۔

نواب سر صادق محمد خان عباسی۔

نواب صاحب کے ایسے بے شمار علم الغیب کے کارنامے ہیں، لیکن ان کا ذکر کرنے سے قبل بہتر ہے کہ ہندوستان میں ریاستوں کی تاریخ کا ایک مختصر جائزہ لیا جائے تاکہ ہمیں اس بات کا مکمل ادراک ہو سکے کہ آخر ریاستوں کے امورِ مملکت اور طرزِ سیاست کن ستونوں پر استوار تھی۔

تقسیمِ ہند کے موقعے پر ہندوستانی رجواڑوں کے والیانِ ریاست کو اس بات کی شدید پریشانی لاحق تھی کہ آخر ان کا مستقبل کیا ہو گا۔ ایک جانب کانگریس کی قیادت کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ ریاستوں کا ہندوستان میں انضمام ضروری ہے وگرنہ ہندوستان میں کاروبارِ مملکت اور امورِ سیاست کو چلانا بہت دشوار ہو گا۔ دوسری جانب جناح صاحب کی قیادت میں مسلم لیگ کی خواہش تھی کہ زیادہ سے زیادہ ریاستیں پاکستان سے الحاق کریں۔

جونا گڑھ کے بارے میں ہم اپنے گزشتہ بلاگ میں لکھ چکے ہیں کہ وہاں کے نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا لیکن اگر جونا گڑھ کی جغرافیائی صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو یہ نا ممکن نظر آتا ہے اور اس کا آخری نتیجہ یہی نکلا کہ جونا گڑھ انڈیا کے قبضے میں چلا گیا۔ انگریز راج نے ریاستوں کے حوالے سے جو قانون وضع کیا تھا اُس کے مطابق ریاستوں کو اس بات کا اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق ہندوستان یا پاکستان سے الحاق کر سکتے تھے، لیکن اگر آزاد بھی رہنا چاہیں تو آزاد بھی رہ سکتے تھے اور یہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کے لیے قابلِ قبول ہو گا لیکن کم از کم پاکستان کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا، اس کی مثال جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق ہے۔ مسلم ریاستوں میں صرف 4 ریاستیں ایسی تھیں جو پاکستان کی تخلیق کے بعد پاکستان میں شامل ہوئیں جن میں قلات، خیرپور اور چترال شامل تھیں باقی 16 مسلم ریاستیں ہندوستان میں شامل ہوئیں۔ اُن ریاستوں کی پاکستان میں شمولیت کے حوالے سے بھی بہت سی کہانیاں ہیں جن کا ذکر پھر کبھی کریں گے۔

بعض مسلم ریاستیں ایسی تھیں جن پر بھارت نے زبردستی فوج کشی کر کے قبضہ کیا، اُن میں حیدر آباد دکن نمایاں ہے۔ اُن ریاستوں کا جغرافیہ انوکھا تھا، ایک طرف 82700 مربع میل پر مشتمل نظام حیدرآباد کی ریاست تھی جس کی آبادی 1930ء میں ایک کروڑ 45 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی اور اس کی سالانہ آمدنی ساڑھے 8 کروڑ روپے تھی، تو دوسری طرف مغربی ہندوستان میں 282 کے قریب ایسی ریاستیں بھی تھیں جن کی حدود آئرلینڈ کے برابر بھی نہیں تھیں، جبکہ کاٹھیاواڑ جیسی ریاستیں چند مربع کلومیٹر کے رقبے پر مشتمل تھیں اور ان کی سالانہ آمدنی 10 ہزار روپے سے زائد نہ تھی۔ ایک ریاست ایسی بھی تھی جس کا رقبہ 22 ایکڑ اور آبادی 200 نفوس پر مشتمل تھی، جن سے وہاں کا ٹھاکر 450 روپے سالانہ ٹیکس وصول کرتا تھا۔

تقسیمِ ہند کے حوالے سے نوابوں، راجاؤں اور مہا راجاؤں کا ذکر صحافی لیری کولنس، دامنک لیپئر کی کتاب آزادی نیم شب (فریڈم ایٹ مڈ نائٹ) میں ملتا ہے، جس کا اردو ترجمہ سعید سہروردی نے کیا ہے۔ اِن دونوں صحافیوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ،

پٹیالہ کے آٹھویں مہاراجا ہِز ہائی نس یادویندر سنگھ ایک ایسی تنظیم کے صدر تھے جو ساری دنیا میں اپنی مثال نہیں رکھتی تھی۔ ایسی تنظیم شاید نہ ماضی میں کبھی بنی اور نہ مستقبل میں کبھی بنے گی، اس کا نام تھا، ’چیمبر آف انڈین پرنسسز‘۔ یادویندر کو اس کا چانسلر بنایا گیا تھا۔

جس لڑائی نے ہیروشیما کو تباہ کیا اور دنیا کی بنیاد ہلا دی تھی اسے ختم ہوئے دو سال گزر چکے تھے، ہندوستان میں 565 راجا، مہا راجا، نواب اور شہزادے اپنی اپنی ریاستوں میں بغیر کسی مداخلت کے حکومت کر رہے تھے۔ ہندوستان کی چوتھائی آبادی پر اُن کا حکم چلتا تھا۔ 400 سے زیادہ راجا ایسے تھے جن کا رقبہ 20 مربع میل سے زیادہ نہیں تھا۔ اُن میں سے چند حکومتیں ایسی تھیں جن کا انتظام انگریزی راج سے بہتر تھا۔ لیکن ایسے بھی راجا تھے جو اپنی رعایا کی بھلائی کا خیال کرنے کے بجائے عیاشی کے نئے نئے ڈھنگ تلاش کرتے اور ریاست کی آمدنی کو اسی میں صرف کرتے تھے۔ اُن راجاؤں، مہا راجاؤں کی ذاتی زندگی خواہ کیسی بھی رہی ہو لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مئی 1947ء میں اُن کے لیے تشویشناک صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔ برِصغیر پاک و ہند کے نظم و نسق کی کوئی اسکیم خواہ کتنی ہی بہتر ہوتی ان راجاؤں، مہا راجاؤں کی منظوری کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔

ویسے تو ہندوستانی والیانِ ریاست انگریزوں کے تابعدار تھے لیکن اُن پر اور خصوصاً مسلمان نوابوں پر اُس وقت بُرا وقت آیا جب انہیں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ 1857ء کی جنگِ آزادی میں وہ کمپنی کے ساتھ ہیں یا آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے ساتھ۔ اُن حکمرانوں پر عوامی دباؤ بہت زیادہ تھا جس کے باعث انہوں نے نا چاہتے ہوئے بھی بادشاہ کی حمایت کا کشٹ اٹھایا۔ پی سی جوشی اپنی کتاب ’انقلاب اٹھارہ سو ستاون مطبوعہ’ قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی‘ سنہ اشاعت، تیسرا ایڈیشن 1998ء کے صفحہ نمبر 257 پر رقم طراز ہیں کہ

ہندوستانی والیانِ ریاست پر عوام کا دباؤ

نامور والئ فرخ آباد، تفضل حسین خاں نے دور ہی سے بادشاہ کے حضور میں جبہ سائی کی اور اطاعت کا اظہار کیا۔ بریلی کے خان بہادر خاں نے حضورِ شاہ میں 101 سونے کی مُہریں، ایک ہاتھی اور ایک گھوڑا چاندی کے ساز کے ساتھ بطور ہدیہ بھیجا۔ رام پور کے نواب یوسف علی خاں بہادر جنہوں نے مدّت سے انگریز حکمرانوں کے ساتھ پیمانِ وفا باندھ رکھا تھا، بادشاہ سے وفاداری کا رسمی پیغام بھیجنے پر مجبور ہو گئے۔ اس طرح انہوں نے اپنے نکتہ چیں ہمسایوں کا منہ بند کر دیا۔ لکھنؤ میں دانشمند وزیر (لفظی معنی ’معاملہ فہم‘) شرف الدولہ نے واجد علی شاہ کے بیٹوں میں سے ایک 10 سال کے لڑکے کو تخت پر بٹھا دیا اور خود اس کے پیشکار اور مشیر بن گئے۔ اس نے دہلی میں شاہی دربار کو بیش بہا تحائف کے ساتھ اپنا سفیر بھیجا۔ الغرض بادشاہ کی قسمت کا ستارہ اتنا بلند ہوا کہ فرنگیوں (لغوی معنی خاکی وردی پہننے والے ’خاکیوں‘) کا چہرہ گہنا گیا۔

حیدرآباد دکن کی ریاست ایک ایسی ریاست تھی جس کے حصول کے لیے پاک و ہند دونوں ہی کوشش میں تھے کہ اس کو اپنی مملکت میں شامل کر لیا جائے۔ یہ کوئی آسان معاملہ نہ تھا۔ نظام مالی، معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر ایک بہت بڑی شخصیت تھے۔ آخرکار ایسا کیا ہوا کہ یہ ریاست پاکستان کے بجائے ہندوستان میں شامل ہو گئی؟ سردار شوکت حیات اپنی کتاب ’The Nation That Lost It’s Soul‘ کے صفحہ نمبر 176 پر لکھتے ہیں کہ،

ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن لاہور آئے۔ ایک عشائیے کے موقعے پر، جس میں لیاقت علی خان، گورنر مودی اور مغربی پنجاب کے چار وزراء بھی موجود تھے، ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستان کی با اثر سیاسی شخصیت پٹیل (سردار ولبھ بھائی پٹیل) کا پیغام لیاقت علی خان تک پہنچایا کہ ان قوانین کی پاسداری کرنی چاہیے جن پر ہندوستانی ریاستوں کے تقسیم کے حوالے سے انڈین کانگریس اور مسلم لیگ میں اتفاقِ رائے تھا کہ وہ ریاستیں جن میں کسی ایک برادری کی اکثریت ہو اور وہ کسی بھی ریاست سے متصل ہو وہ اسی ریاست سے الحاق کر سکتی ہیں۔

پٹیل نے مزید کہا کہ کشمیر پاکستان میں شامل ہو جبکہ حیدرآباد دکن کو انڈیا میں شامل ہونا چاہیے کیونکہ وہاں اکثریت ہندوؤں کی ہے اور وہ سمندری خواہ زمینی راستے سے کسی بھی طرح پاکستان کے قریب نہیں۔ یہ پیغام دینے کے بعد ماؤنٹ بیٹن سونے کے لیے پنجاب ہاؤس چلے گئے۔ چونکہ میں کشمیر کے تمام معاملات کا نگران تھا، اسی لیے میں لیاقت علی خان کے پاس گیا، میں نے اُنہیں مشورہ دیا کہ انڈین فوج کشمیر میں داخل ہو چکی ہے اور ہم قبائلی مجاہدوں یا محدود تعداد میں سپاہیوں کے بل پر کشمیر کو پاکستان میں شامل نہیں کر سکتے اس لیے ہمیں پٹیل کی تجویز ماننے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ لیاقت علی خان نے پلٹ کر میری جانب دیکھا اور گویا ہوئے، ’سردار صاحب، کیا میں پاگل ہو گیا ہوں کہ کشمیر کی پہاڑیاں لے کر حیدرآباد کی ریاست سے دستبردار ہو جاؤں، جو پنجاب سے بہت بڑی ہے۔‘

وزیر ِاعظم کے اس ردِ عمل اور ہماری جغرافیہ سے نابلد ہونے اور کم فہمی نے مجھے سکتے میں ڈال دیا۔ میں نے سوچا کہ وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں اور کشمیر کی پاکستان کے حوالے سے اہمیت سمجھنے سے قاصر ہیں، وہ سمجھ رہے ہیں کہ حیدرآباد ان کو ملے گا جو کہ ایک خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ حیدرآباد کسی بھی طرح سے پاکستان کے قرب و جوار میں واقع نہیں تھا۔ اس صورتِ حال کے پیشِ نظر احتجاج کرتے ہوئے میں اپنے اس عہدے سے مستعفی ہو گیا، جو مجھے کشمیر میں ہونے والی سرگرمیوں کے حوالے سے سونپا گیا تھا۔

اس تحریر میں ہم نظام آف دکن کا ذکر کر چکے ہیں۔ صحافی لیری کولنس، دامنک لیپئر کے مطابق ہندوستان میں دو ریاستیں ایسی تھیں جن کے حکمرانوں کو 21 توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔ دونوں میں حکمرانوں کا مذہب رعایا کے مذہب سے مختلف تھا، دونوں ریاستیں سمندر سے دور تھیں۔ حیدرآباد کے 7ویں نظام کے خطابوں کی فہرست بہت لمبی تھی۔ یہ ریاست ہندوستان کے وسط میں تھی، وہاں 2 کروڑ ہندو تھے اور 30 لاکھ مسلمان۔

نظام کا قد صرف پانچ فٹ تین انچ تھا، بدن اتنا چھریرا تھا کہ ان کا وزن مشکل سے 90 پونڈ رہا ہو گا۔ زیادہ پان کھانے سے ان کے دانت بھورے لال ہو کر بالکل سڑ گئے تھے۔ انہیں ہر لمحہ ڈر لگا رہتا تھا کہ کوئی درباری انہیں زہر دے دے گا۔ ہمیشہ ایک آدمی ان کے ساتھ رہتا تھا، جو ان کے کھانے کی ہر چیز پہلے ہی چکھ کر دیکھتا تھا۔ پھل، کریم، پان اور رات کو افیم۔ ہر چیز پہلے وہ چکھتا اور بعد میں نظام کھاتے۔ 1947ء میں نظام دنیا کے سب سے زیادہ دولت مند آدمی مانے جاتے تھے۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران انہوں نے انگریزوں کو ڈھائی کروڑ پونڈ کی مالی مدد دی تھی۔ جس کے صلے میں انگریزوں نے انہیں ایگزالٹڈ ہائینس ’Exalted Highness‘ کا خطاب دیا تھا۔

نظام کی دولت اور اس کی کنجوسی سے متعلق بہت سے قصے مشہور تھے۔ وہ بغیر استری کیا ہوا سوتی پاجامہ پہنتے تھے۔ مقامی بازار کی سستی گھٹیا چپلیں ان کے پیروں میں ہوتی تھیں۔ ان کے سر پر تقریباً 35 برسوں سے ایک ہی میلی کُچیلی ترکی ٹوپی رہتی تھی۔ نظام تقریباً 135 اداروں کے مالک تھے، جہاں سونے کے برتنوں میں کھانا کھلایا جاتا تھا لیکن وہ خود اپنی خواب گاہ میں بچھی دری پر بیٹھ کر معمولی ٹین کے برتنوں میں کھانا کھاتے تھے۔

نظام کا قد صرف پانچ فٹ تین انچ تھا، بدن اتنا چھریرا تھا کہ ان کا وزن مشکل سے 90 پونڈ رہا ہو گا۔

نوابوں کے پاس سونے کے برتن ایک عام سی بات تھی۔ یہ برتن پاکستان سے الحاق کرنے والی ریاست بہاولپور کے نواب کے پاس بھی موجود تھے۔ مختلف ضیافتوں میں شرکت کرنے والے امراء اور اعلیٰ سیاسی شخصیات ان برتنوں میں کھانا کھانے کے بعد ان برتنوں کے حصول کی خواہش بھی کرتی تھیں، لیکن نواب صاحب بہت جہاں دیدہ تھے وہ کمال ہوشیاری سے انکار فرماتے۔ صاحبزادہ محمد قمر الزمان عباسی اپنی کتاب، بغداد سے بہاولپور کے صفحہ نمبر 394 پر رقم طراز ہیں کہ،

کرنل سعید ہاشمی نے ایک اور دلچسپ واقعہ بتاتے ہوئے کہا کہ جب شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی اور ملکہ فرح پہلوی پہلی بار پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تو نواب سر صادق محمد خاں عباسی نے اُن کے اعزاز میں ملیر الشمس پیلس کراچی میں شاندار ضیافت کا اہتمام کیا۔ اس ضیافت میں گورنر جرنل پاکستان اسکندر مرزا اور ان کی اہلیہ ناہید اسکندر بھی شامل تھیں۔ ضیافت کے اختتام پر بیگم ناہید اسکندر نے نواب بہاولپور سے مخاطب ہو کر کہا کہ نواب صاحب کیا ہی اچھا ہوتا کہ ضیافت کے بعد یہ برتن مہمانوں میں تقسیم کر دیے جاتے۔ کرنل سعید ہاشمی نے نواب صاحب سے جواب کی اجازت لیتے ہوئے کہا کہ بیگم صاحبہ اگر مہمانوں میں برتن تقسیم کرنے کا رواج ہوتا تو آج آپ کو یہاں کھانے کے لیے مٹی کے برتن بھی میسر نہ ہوتے یہ بات سن کر محترمہ خاموش ہو گئیں۔

1973ء میں جب وزیر ِاعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے تمام ممالک کے سفیروں کے ہمراہ صادق گڑھ پیلس میں نواب محمد عباس عباسی گورنر پنجاب کی طرف سے ضیافت میں شریک ہوئے تو ضیافت کے اختتام پر مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے اس گولڈ کے ڈنر سیٹ کو پیک کروا کر اپنے ہمراہ لے جانے کا تقاضا کیا جس میں انہوں نے کھانا تناول فرمایا تھا، لیکن نواب عباس عباسی نے معذرت کرتے ہوئے ان کی خواہش کو پورا کرنے سے انکار کر دیا۔

ہاں تو ہم ذکر کر رہے تھے نظام حیدرآباد دکن کا، لیری کولنس، دامنک لیپئر کے مطابق وہ اتنے کنجوس تھے کہ اگر کوئی مہمان سگریٹ کا ٹوٹا چھوڑ جاتا تو اسے ہی اٹھا کر پینا شروع کر دیتے۔ انگریز ریزیڈنٹ ہر ہفتے نظام سے ملنے آتا تھا۔ نظام اور ریزیڈنٹ دونوں کے لیے وفادار ملازم چائے کا صرف ایک پیالہ، ایک بسکٹ اور ایک سگریٹ پیش کرتا تھا۔ زیادہ تر ریاستوں میں رواج تھا کہ سال میں ایک بار رعایا کے اہم لوگ اپنے حکمران کی خدمت میں سونے کی کوئی چیز بطور تحفہ پیش کرتے تھے۔

عام طور پر راجا اس کو چھو کر نذر گذار کر وہ چیز واپس کر دیتا تھا۔ لیکن نظام واپس کرنے کے بجائے ہر چیز کو لے کر اپنے تخت کے بغل میں رکھے کاغذ کے تھیلے میں ڈالتے جاتے تھے۔ ایک بار ایک اشرفی گر کر لڑکھنے لگی، نظام خود گھٹنوں اور ہتھیلیوں کے بل اس کے پیچھے چلنے لگے۔ آخر سکے کے مالک نے خود ہی دوڑ کر اسے اٹھایا اور نظام کو دے دیا۔ ایک مرتبہ نظام کے دل کی حالت جاننے کے لیے اس کا الیکٹرو کارڈیا گرام لیا جانے والا تھا، اس کے لیے بمبئی سے ڈاکٹر آیا تھا، جب وہ محل میں اپنا آلہ نہ چلا سکا تو اسے بڑی حیرت ہوئی۔ آخرکار یہ معلوم ہوا کہ بجلی کا بل کم کرنے کے لیے نظام نے بجلی کا کنکشن کٹوا دیا تھا۔

نظام کی خواب گاہ غربت اور پھوہڑ پن کی زندہ مثال تھی۔ ایک ٹوٹی میز، سڑی ہوئی تین کرسیاں، راکھ سے لدی ایش ٹرے، کچرے سے بھری ردی کی ٹوکریاں، ریاست کے کاغذات کے گرد آلود ڈھیر، کونے میں مکڑی کے جالوں کا جنگل، اور نظام کی ردی کی ٹوکریاں اور ایش ٹرے سال میں صرف ایک بار صاف کی جاتی تھیں اور وہ ان کے یومِ پیدائش کے موقع پر۔

ان سب کے باوجود اُن کے محل کے کونے کونے میں جو سامان بکھرا ہوا تھا، اس کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنا آسان نہیں۔ ان کی میز کے خانے میں پرانے اخبار میں لپٹا مشہور ہیرا جیکب پڑا ہوا تھا، جو لیموں کی شکل کا تھا۔ وہ 280 کیرٹ کا تھا، دور سے ہی جگمگاتا تھا۔ نظام اسے پیپر ویٹ کی طرح استعمال کرتے تھے۔ ان کے باغ کی کیچڑ میں ایک درجن ٹرک کھڑے تھے جو لدے سامان کی وجہ زمین میں دھنسے جا رہے تھے۔ ان ٹرکوں میں سونے کی اینٹیں لدی ہوئی تھیں۔ نظام کے جواہرات کا خزانہ اتنا بڑا تھا کہ اگر اس سے صرف موتی چادر کی طرح بچھائے جائیں تو دور تک سڑک کے فٹ پاتھ بھر جائیں۔ اسی طرح یاقوت، موتی، نیلم، پکھراج وغیرہ کے ٹوکرے بھر بھر کر تہہ خانوں میں رکھے ہوئے تھے جیسے کوئلے کے ٹوکرے بھرے ہوئے ہیں۔

نظام کے پاس اسٹرلنگ، روپیوں اور دیگر نقدی کی صورت میں 20 لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ رقم پڑی ہوئی تھی۔ یہ کرنسی پرانے اخباروں میں لپیٹ کر تہہ خانوں اور برساتیوں کے گرد آلود فرش پر چھوڑ دی گئی تھی۔ وہاں چوہے تھے اور چوہوں کے دانت ہوتے ہیں، کتنی ہی رقم ہر سال ان چوہوں کے دانتوں کے ذریعے نظام کے لامحدود خزانے سے کم ہو جاتی تھی، اس کا حساب دنیا میں کسی کے پاس نہیں۔ نظام کے پاس مضبوط فوج تھی، فوج کا اپنا توپ خانہ تھا، ہوائی جہاز بھی تھے۔ سچ پوچھو تو اپنی ریاست کو آزاد ریاست کا درجہ دینے کے لیے نظام کے پاس دو چیزوں کے علاوہ سب کچھ تھا، ایک تو بندرگاہ اور دوئم عوام کی محبت اور تعاون۔ نظام کی رعایا کی ہندو اکثریت اپنے مسلمان حُکمران کو پسند نہیں کرتی لیکن وہ اس کے باوجود بھی اپنی ریاست کو آزاد رکھنے کا خواب دیکھ رہا تھا۔

ہندوستان سے تعلق رکھنے والے لکھاری اوی بھٹ کی تصنیف ’The Life and Times of the Nawabs of Lucknow‘ ریاست اودھ کے نوابین کے روز و شب، مشاغل اور امور جہانبانی پر تفصیل سے روشنی ڈالتی ہے۔ اُن کی کتاب کے صفحہ نمبر 135 میں مذکور ہے کہ ریاست اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی رنگین مزاج طبیعت کے قصے ہر خاص و عام کی زبان پر تھے۔

نواب واجد علی شاہ کی سب سے بڑی کمزوری عورت تھی۔ نواب صاحب کا دل وزیراں نامی ایک لڑکی پر آ گیا، یہ لڑکی ایک طرف سریلی آواز میں گانے پر ملکہ رکھتی تھی تو دوسری جانب رقص پر بھی اسے کمال عبور حاصل تھا۔ وزیراں نامی یہ لڑکی اپنی خوبصورتی کی وجہ سے نواب صاحب کی نظروں میں آ گئی اور اُس پر دل و جان سے کچھ یوں فریفتہ ہوئے کہ اس سے شادی رچانے پر تیار ہو گئے۔

تاہم اس وزیراں نامی لڑکی کی والدہ بی جان ایک طوائف تھیں اور وہ کسی صورت اپنی بیٹی کی شادی نواب صاحب سے کرانے پر راضی نہ تھیں۔ بی جان کے انکار نے نواب واجد علی شاہ کی آتش عشق کو مزید بھڑکا دیا۔

نواب صاحب وزیراں کے عشق میں کچھ ایسے گھلے کہ ایک بار انہوں نے خودکشی کے بارے میں بھی سوچا تاہم حالات نے کچھ یوں پلٹا کھایا کہ نواب صاحب کی وزیراں سے خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا، دونوں نے ایک مہینے تک خفیہ ملاقاتیں کیں اور بالآخر نواب واجد علی شاہ وزیراں سے شادی کرنے میں کامیاب ہوئے اور اپنی نئی بیوی کو انہوں نے ’نگار محل‘ کے خطاب سے نوازا۔

تاہم وزیراں کی والدہ بی جان اس شادی کی مخالفت کرتی رہیں۔ نواب واجد علی شاہ کے حُکم پر بی جان کو قید میں تو ڈال دیا گیا مگر نواب صاحب نے اُنہیں اس شادی پر قائل کرنے کی کوششوں کو ترک نہ کیا۔ اس کے باوجود بی جان نے اس شادی کو منظور نہ کیا تو ان کی بیٹی وزیراں نے اپنی ماں سے ترک تعلق کر لیا۔

روی بھٹ اپنی اسی کتاب کے صفحہ نمبر 187 میں مذکور ہیں کہ لکھنؤ کو نوابین اودھ کے دورِ اقتدار میں برِصغیر کا امیر ترین شہر گردانا جاتا تھا۔ اس ریاست کے نوابین کی دولت و ثروت اور جاہ و حشم کے قصے زبان زدِ عام ہیں لیکن اس لکھنو شہر کا ایک تاریک پہلو بھی تھا کہ اس شہر میں بسنے والے عام افراد کی زندگیاں کس قدر ناگفتہ بہ صورت حال سے دوچار تھیں۔ غربت، افلاس اور کسمپرسی کی جیتی جاگتی تصویریں اس لکھنو شہر میں دیکھی جا سکتی تھیں جس کے نوابین کی دولت کے قصے آج تک یاد کیے جاتے ہیں۔

میجر ای سی آرچر اپنے ایک سفرنامے ’Tours in Upper India‘ میں کچھ یوں رقم طراز ہیں کہ ’میں نے 1827ء میں لکھنو کے ایک سفر کے دوران مرد و زن، بوڑھوں، بچوں اور جوانوں کو ان سکوں پر جھپٹے دیکھا جو نواب اودھ کے عمائدین کی جانب سے کھلے میدان میں پھینکے جاتے تھے جس میں ہاتھیوں کو کھلا چھوڑا ہوا تھا۔ یہ عام افراد ان سکوں کو لوٹنے کے لیے جب میدان میں اِدھر اُدھر بھاگتے تو ان ہاتھیوں کے نیچے آ کر کچلے جاتے۔

دیوان سنگھ مفتون ہندوستان کی صحافت کے حوالے سے ایک بہت بڑا نام تھے۔ اُنہوں نے اپنی کتابوں ’ناقابلِ فراموش‘ اور ’سیف و قلم‘ میں ایسے بہت سارے حقائق بیان کیے ہیں جو والیانِ ریاست، نوابوں اور راجاؤں کے حوالے سے ہوش رُبا تھے۔

اس حوالے سے اُن کی دوسری سوانح حیات سیف و قلم تھی، جس کے ابتدائیے میں جوش ملیح آبادی اُن کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں، ’سیرِ چشم، کوتاہ قامت، بُلند حوصلہ، مہمان نواز، شیر دل، دوست پرور، دشمن کانپتے، سلطانِ شکار، گدا نواز، بدترین اور بہترین دوست۔ جب وہ ’ریاست‘ نکالتے تھے تو ہر میجسٹی کے قلعوں اور ہز ہائینسوں کے ایوانوں میں زلزلے ڈالتے تھے۔ والیانِ ریاست کی نیندیں حرام کر دی تھیں، اُن کے قلم سے بڑے بڑے فرماں روا کانپتے تھے۔

وہ لکھتے ہیں کہ‘دہلی کا واقعہ ہے، ایک روز شام میں ریاست کے وزیر اعظم میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ دیوان سنگھ آ گئے۔ انہیں دیکھتے ہی وزیر اعظم صاحب کا رنگ فق ہو گیا اور جب گلاس بھر کر میں نے ان کے سامنے رکھا تو انہوں نے دیوان سنگھ کی جانب اشارہ کیا کہ ان کے سامنے نہیں پیوں گا۔ دیوان سنگھ نے اُن کی طرف دیکھ کر مجھ سے کہا، جوش صاحب! پرائم منسٹر صاحب سے کہہ دیجیے، وہ شوق سے پئیں، ان کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں لکھوں گا۔ یہ والیِ ملک نہیں ہیں۔ میں تو فقط والیانِ ملک پر حملہ آور ہوتا ہوں، جس کے معنی یہ ہیں کہ میں انسان کا نہیں، سور کا شکار کھیلتا ہوں۔‘

جوش ملیح آبادی کے مطابق ’ریاست‘ کے دور میں انہوں نے بے حد کمایا، لیکن کبھی اپنے پاس کچھ نہیں رکھا۔ کھایا پیا اور کھلایا پلایا۔ اس لیے ان پر تونگری اور مُفلسی کے دورے پڑا کرتے تھے۔ لیکن اگر مفلسی میں کوئی دوست یا مہمان آ جاتا تھا تو وہ خفیہ طور پر اپنے گھر کی چیزیں فروخت کر کے اُس کی دعوت کیا کرتے تھے اور جب کوئی ان کی مفلسی کو بھانپ کر ان کو دعوت کرنے سے روکتا تھا تو وہ لڑ پڑتے تھے۔

مجاز (معروف اردو شاعر اسرار الحق مجاز) نے آ کر ایک دن مجھ سے کہا کہ کل تو سردار صاحب نے کمال ہی کر دیا، میں شام کو اُن کے وہاں پہنچا، انہوں نے ملازم سے کہا، 12 درجن سوڈے کی بوتلیں لے آ۔ محلے میں ان کا بڑا بھرم تھا، تھوڑی دیر میں 12 درجن بوتلیں آ گئیں۔ انہوں نے ایک درجن بوتلیں رکھ کر نوکر کو حُکم دیا کہ فلاں دکان پر جا کر ان کو فروخت کر دے اور اُن کو فروخت کر کے جو روپیہ ہاتھ آئے اس کی ایک وسکی کی بوتل اور کچھ کھانے کا سامان لے آئے۔ یہ تھا دیوان سنگھ مفتون کا ایک مختصر سا تعارف۔ آئیے اب آگے بڑھتے ہیں۔

ہندوستان کے نوابوں اور سابق والیانِ ریاست کے حوالے سے دیوان سنگھ مفتوں اپنی کتاب سیف و قلم مطبوعہ 2006ء زیرِ اشاعت ساگر پبلشرز، 7-A لوئر مال، داتا دربار روڈ، لاہور، میں صفحہ نمبر 161 سے 164 تک، ’سابق والیانِ ریاست کی خوش فعلیاں‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ، ’مرحوم مہاراجہ نابھہ، سال میں 9 ماہ کے قریب تو مسوری یا ڈیرہ دون میں قیام فرماتے کیونکہ اُن مقامات کی آب و ہوا آپ کو بہت پسند تھی اور صرف 3 ماہ کے قریب اپنی ریاست نابھہ میں رہتے۔

ایک بار آپ چیمبر آف پرنس کے اجلاس میں شرکت کے لیے دہلی تشریف لے گئے اور وہاں لیڈیو کیسل روڈ کی ایک کوٹھی میں مقیم تھے کہ آپ کے پاس ڈیرہ دون سے اطلاع پہنچی کہ آپ کا ایک بِلّا جو ایرانی نسل کا تھا، ایک پرندے کو پکڑنے کی کوشش میں درخت پر چڑھ گیا۔ اس کے درخت پر چڑھنے کے بعد پرندہ اُڑ گیا مگر پرندے کو پکڑنے کی کوشش میں یہ درخت سے گِر گیا ہے اور اس کی گردن پر چوٹ آئی ہے۔

اِس اطلاع کے پہنچنے پر مہاراجہ نے ڈیرہ دون اپنے اسسٹنٹ سیکریٹری کو تار بھیجا کہ بلّے کی خیریت کی بذریعہ تار اطلاع دی جائے اور اُس کی حالت کی نہ صرف ہر روز بذریعہ تار اطلاع دی جائے بلکہ اس کے علاج کے لیے سول سرجن کی خدمات بھی حاصل کی جائیں کیونکہ مقامی ویٹرنری ہسپتال کا ڈاکٹر زیادہ اعلیٰ کوالیفائیڈ نہ تھا۔ چنانچہ اس بلّے کے علاج کے لیے 16 ہزار روپیہ روزانہ فیس پر سول سرجن مقرر کیا گیا۔ ہر روز ایکسپریس تار کے ذریعے بلّے کی خیریت اور حالت کے متعلق ڈیرہ دون سے دہلی اطلاع پہنچا کرتی۔ یہ بلّا غالباً ایک ماہ کے قریب بیمار رہا۔

اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سول سرجن اور ویٹرنری سرجن کی فیسوں اور ایکسپریس تاروں (کیونکہ ریاستوں سے تار صرف ایکسپریس ہی جایا کرتے، وہاں روپیہ کے مصارف کا کوئی سوال نہ تھا) پر کتنا روپیہ صرف ہوا ہو گا اور اس سلسلہ کا دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ اسٹاف کے لوگ منہ سے تو کچھ کہنے کی جرات نہ کرتے مگر جب تار آتا تو آپس میں مُسکراتے ہوئے مذاقاً صرف یہ کہا کرتے کہ بلّا صاحب پہلے سے اچھے ہیں اور ان کی زندگی خطرے سے محفوظ ہے۔

پنجاب کی ایک رانی صاحبہ ایک بار دہلی تشریف لائیں۔ آپ ’ریاست‘ کو بہت پسند فرمایا کرتیں اور راقم الحروف کی بہت مداح تھیں۔ دہلی پہنچنے کے بعد آپ راقم الحروف کو نیاز حاصل کرنے کا موقع دینے کے لیے دفتر ’ریاست‘ میں بھی تشریف لائیں۔ اُن کے اعزاز میں چائے کا انتظام کیا گیا اور چائے کی میز پر دوسری بہت سی اشیاء کے ساتھ پھل بھی تھے۔

اُن پھلوں کے ساتھ انگور بھی تھے۔ چنانچہ راقم الحروف یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اُن کے پرائیویٹ سکیریٹری صاحب انگوروں کی ڈنڈیاں توڑ کر رانی صاحبہ کو انگور پیش کرتے، یعنی رانی صاحبہ کا انگوروں سے ڈنڈیاں خود توڑ کر انگور کھانا بھی اُن کی ریاستی شان کے خلاف تھا۔

سینٹرل انڈیا کی ریاست کے نواب صاحب نے ایک اچھی نسل کا جوڑا لندن میں خریدا، اور یہ جوڑا آپ اپنے ساتھ ولایت سے لائے۔ ایک برس کے بعد اس جوڑے کے بچے پیدا ہوئے جو بہت خوبصورت تھے۔ مگر نواب صاحب کے حُکم سے ان تمام بچوں کو ابلتے ہوئے پانی میں ڈلوا کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس ظلم کی وجہ یہ تھی کہ نواب صاحب نہیں چاہتے تھے کہ اس نسل کے بچے کسی دوسرے کے پاس بھی جائیں اور لوگ یہ کہیں کہ اس نسل کے بچے فلاں کے پاس بھی ہیں۔ (مصنف نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ یہ جوڑے کس جانور کے تھے، لیکن گمان ہے کہ یہ بچے بلّی کے ہوں گے کیونکہ کتّوں کے بچوں کو ہم ’پِلّے‘ کہتے ہیں جبکہ بلّی کے بچوں کو ’بچے‘ کہا جاتا ہے۔ )

ایک مہا راجہ کو مچھلی کے شکار کا بہت شوق تھا۔ آپ ایڈمنسٹریشن میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ ریاست کا تمام کام آپ نے وزیرِ اعظم ڈاکٹر ڈھینگرہ پر چھوڑ رکھا تھا۔ آپ دن بھر کسی جھیل یا بڑے جوہڑ کے کنارے بیٹھے مچھلیاں پکڑتے اور رات کو ریلوے سیلون میں آرام فرماتے۔ ایک بار آپ کی سیلون کئی روز تک ایک چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر کھڑی رہی۔ یہ اسٹیشن ایک جھیل کے قریب تھا۔

کئی روز تک کھڑے رہنے کے باعث سیلون کی بیٹریاں ختم ہو گئیں، تو سوال پیدا ہوا کہ بیٹریاں کس طرح چارج کی جائیں، کیونکہ اگر گاڑی حرکت میں ہو تو بیٹریاں بھی ساتھ ساتھ چارج ہوتی رہتی ہیں۔ لہٰذا آپ نے حُکم دیا کہ سیلون کو اُس گاڑی کے ساتھ لگا دیا جائے جو ٹرین اُس اسٹیشن سے بٹھنڈہ جا رہی تھی۔ چنانچہ یہ سیلون صرف بیٹریاں چارج کرنے کے لیے معہ مہاراجہ کے اس اسٹیشن سے بٹھنڈہ گئی اور واپس آئی۔ 200 میل سفر کرنے کے بعد بیٹریاں چارج ہوئیں اور مہاراجہ پھر مچھلی کے شکار میں مصروف ہو گئے۔

پنجاب کی ایک مہارانی کا کُتا جس کی قیمت زیادہ سے زیادہ 50 روپے تھی، لاہور میں گم ہو گیا، جبکہ مہارانی اپنے شوہر کے ساتھ وہاں مقیم تھیں۔ مہاراجہ کا تمام اسٹاف کتے کی تلاش میں دن بھر مارا مارا پھرتا رہا، مگر کُتا نہ ملا۔ آخر مہارانی کی طرف سے لاہور کے ایک اخبار ’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ اور ’ٹریبون‘ میں اشتہار دیا گیا کہ اس حُلیے کا کُتا گم ہو گیا ہے، جو شخص اس کتے کو لائے گا، اسے 500 روپے انعام دیا جائے گا۔ مگر کتا نہ ملا، کیونکہ وہ شخص شاید انگریزی اخبارات نہیں پڑھتا ہو گا جس نے آوارہ پھرتے اس کتے کو باندھ لیا تھا۔

میر صاحب خیرپور سندھ سے بے اختیار کر دیے گئے اور خیرپور میں ایک انگریز پورے اختیارات کے ساتھ بطور وزیر اعظم بھیج دیا گیا۔ اس انگریز نے نہ صرف میر صاحب پر بہت پابندیاں عائد کر دیں بلکہ اُن کے ذاتی معاملات میں بھی مداخلت شروع کر دی۔ میر صاحب جب بہت پریشان ہوئے تو آپ نے اپنا ایک معتمد بھیج کر راقم الحروف کو اپنے پاس بلوایا تاکہ اس انگریز کی زیادتیاں بتاسکیں اور اُن زیادتیوں کو ’ریاست‘ میں بے نقاب کیا جائے۔

مئی کا مہینہ تھا اور سندھ کی گرمی اور لو اپنے جوبن پر تھی۔ راقم الحروف دہلی سے خیرپور پہنچا۔ ریلوے اسٹیشن پر میر صاحب کی کار موجود تھی۔ یہ کار خیرپور سے کئی میل فاصلے پر مجھے وہاں لے گئی، جہاں میر صاحب مقیم تھے۔ اس جگہ نہ کوئی محل تھا، نہ مکان اور میر صاحب ریت کے ایک ٹیلے پر کیمپ لگائے تشریف فرما تھے۔ اس کیمپ کی کیفیت یہ تھی کہ اس کے چاروں طرف قناتیں اور قناتوں کے اندر خس کی ٹٹیاں (بید کی لکڑیوں سے بنی ہوئی چکیں، جن کو کھڑکیوں اور دروازوں پر آویزاں کرنے کے بعد جب اُن پر پانی چھڑکا جاتا تھا تو باہر سے آنے والی گرم ہوا بھی ٹھنڈی ہوا میں تبدیل ہو جاتی تھی) لگی تھیں اور چھت کی جگہ سائبان تھا۔

خیرپور میں واقع تالپور میروں کا فیض محل

اس کیمپ کے باہر تو آگ برس رہی تھی اور لُو کے باعث کھڑا ہونا مشکل تھا۔ مگر کیمپ کے اندر درجنوں ملازم پانی کی مَشکیں ٹٹیوں پر چھڑک رہے تھے، جس سے اندر کی فضا گرم ہونے کے بجائے ٹھنڈی ہو رہی تھی۔ میر صاحب لکڑی کے ایک چبوترے پر تشریف فرما تھے، تمام کیمپ کے اندر قالین بچھے ہوئے تھے۔ راقم الحروف جب کیمپ کے اندر پہنچا تو ایسا معلوم ہوا کہ دوزخ سے بہشت میں آ پہنچا ہے۔ دو گھنٹے کے قریب میر صاحب سے باتیں ہوئیں۔

باتیں کرنے کے بعد راقم الحروف جب کیمپ سے باہر آیا تو ایسا محسوس ہوا کہ پھر سے بہشت سے دوزخ میں پہنچ گیا ہے۔ میر صاحب کا سیکریٹری جو باہر چھوڑنے کے لیے آیا، اس سے راقم الحروف نے پوچھا کہ، ’میر صاحب اس گرمی میں بھی اپنے محلات میں کیوں نہیں رہتے اور ریت کے ٹیلے پر کیوں کیمپ لگا رکھا ہے ؟‘ تو سیکریٹری نے مسکراتے ہوئے صرف یہی جواب دیا کہ، ’سرکار کھلی ہوا میں رہنا پسند کرتے ہیں۔‘

اِس جواب کو سُن کر میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ نواب اور راجے جتنی جلدی بھی ختم ہو جائیں، اچھا ہے، یہ چاہے انگریزوں کے ہاتھوں ختم ہوں یا کمیونزم کے ہاتھوں۔

ہندوستان کی ریاست میں والیانِ ریاست کو خوش کرنے کے لیے مختلف قسم کے لوگ ہوا کرتے تھے جن کو سرکاری خزانے سے تنخواہ ملتی اور جن کا کام کبھی کبھی والیانِ ریاست کو خوش کرنا تھا اور ان میں پہلوان، موسیقار، شاعر اور دوسرے اہلِ فن ہوا کرتے۔

ریاست نابھہ میں ایک صاحب کپتان شیو دیو سنگھ تھے جو مہاراجہ کے دُور کے رشتہ دار بھی تھے۔ عہدے کے لحاظ سے آنریری کپتان، تنخواہ 100 روپے ماہوار اور کام صرف یہ کہ کبھی مہاراجہ طلب کریں تو حاضر ہو جائیں۔ کپتان شیو دیو سنگھ بہت شریف، ملنسار، سادہ طبیعت اور ’خوش خوری‘ کے اعتبار سے آپ ’آفتابِ خوش خوری‘ یا ’رستمِ خوش خوری‘ (موسیقار کے خطاب آفتابِ موسیقی اور پہلوانوں کے خطاب رستمِ ہند کی طرح) کے خطاب کے مستحق تھے اور اس فن کے اعتبار سے شاید تمام ہندوستان میں کوئی دوسرا شخص آپ کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا۔

نابھہ میں ڈیرہ بابا اجے پال سنگھ کے نام سے ایک تاریخی گوردوارہ ہے جہاں ہر پورن ماشی کو مہاراجہ کی طرف سے اڑھائی سو روپے کا کڑاہ پرشاد (حلوہ) چڑھایا جاتا۔ اس زمانے میں کھانے کی ہر شے مثلاً گھی، کھانڈ اور گندم بہت ارزاں تھی۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اڑھائی سو روپے کا کڑاہ پرشاد مقدار میں کتنے من ہوتا ہو گا۔

پورن ماشی کے روز دوپہر کو اس گوردوارے میں چند سو کے قریب سرکاری ملازم، افسر اور دوسرے لوگ آیا کرتے اور چونکہ کڑاہ پرشاد کئی من ہوتا تو وہاں شامل ہونے والے ہر ایک کو اتنا کڑاہ پرشاد دیا جاتا جو دونوں ہاتھوں میں بھی آنا مشکل ہو جاتا تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ سب میں تقسیم ہو جائے۔ ایک آدمی کے حصے کا کڑاہ پرشاد کھانے کے بعد اس کو کھانے کی ضرورت ہی نہ رہتی۔ چنانچہ ہر پورن ماشی کو کپتان شیو دیو سنگھ بھی آتے تو آپ کے قریب بیٹھے 8 سے 10 سرکاری افسر بالکل تھوڑا سا کڑاہ پرشاد اپنے لیے رکھ کر باقی تمام کپتان صاحب کو دے دیتے اور کپتان صاحب تمام کے حصے کا کڑاہ پرشاد وہاں بیٹھے بیٹھے کھا جاتے جس کی مقدار کسی صورت میں بھی 6 یا 7 سیر سے کم نہ ہوتی۔

مہاراجہ نے ایک بار کپتان صاحب کو طلب فرمایا۔ آموں کا موسم تھا اور بنارس و لکھنؤ سے آموں کے ٹوکرے آئے تھے۔ مہاراجہ نے فرمایا کہ ’کپتان صاحب! اگر آموں کا ایک پورا ٹوکرا بغیر ہاتھ لگائے کھا جاؤ تو آپ کو 200 روپے کا انعام ملے گا۔ کپتان صاحب نے اس شرط کو منظور کیا اور آپ بغیر ہاتھ لگائے تمام کے تمام آم کھا گئے اور 200 روپے وصول کیے۔

سرکاری شکاری ایک روز جنگل سے ہرن مار لائے، مہاراجہ نے کپتان صاحب کو طلب کیا اور کہا کہ اگر ایک دن میں تمام کا تمام ہرن کھا جاؤ تو 500 روپے کا انعام ملے گا۔ کپتان صاحب نے یہ شرط منظور کر لی۔ ہرن کو صاف کیا گیا، سرکاری باورچی خانے میں پکایا گیا اور کپتان صاحب 12 گھنٹے میں ہرن کے اس تمام گوشت کو کھا گئے۔

مہاراجہ نے ایک بار کپتان صاحب کو طلب کیا اور فرمایا کہ اگر 5 سیر دودھ میں دو سیر جلیبیاں ڈال کر کھا جائیں تو 200 روپے انعام ملے گا۔ چنانچہ 5 سیر دودھ میں دو سیر جلیبیاں ڈالی گئیں اور کپتان صاحب نے کھانا شروع کیا۔ جب آپ دودھ اور جلیبیوں کا مکسچر بہت زیادہ کھا چکے اور تھوڑا سا باقی رہ گیا تو آپ کے معدے نے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور آپ کا جی متلانے لگا مگر آپ نے پھر بھی پرواہ نہ کی اور متلی پر غالب آتے ہوئے اس مکسچر کو ختم کر گئے اور انعام حاصل کیا۔

ایڈیٹر ’ریاست‘ نے ایک بار 6 یا 7 سرکاری افسروں کی اپنے ہاں دعوت کی۔ جب تمام لوگ آ گئے اور کھانا تیار ہو چکا تو فیصلہ ہوا کہ پہلے کپتان شیو دیو سنگھ کو کھانا کھلا دیا جائے اور بعد میں دوسرے لوگ کھانا کھائیں۔ چنانچہ کپتان صاحب نے کھانا شروع کیا اور آپ 6، 7 آدمیوں کے لیے پکے ہوئے پراٹھے، پلاؤ، مختلف قسم کے سالن اور پڈنگ وغیرہ سب ختم کر گئے اور اس کے بعد باورچی کو نئے سرے سے آٹا گوند کر روٹیاں پکانی پڑیں اور وقت تنگ ہونے کے باعث مہمانوں کو صرف انڈے تل کر کھانا کھلایا گیا۔

ریاستوں کے ختم ہونے کا اثر پہلوانوں، موسیقاروں، شعراء اور دوسرے اہل فن لوگوں کے علاوہ کپتان شیو دیو سنگھ جیسے خوش خوروں پر بھی پڑا جس کا بہت حد تک افسوس ہوا۔

لیری کولنس، دامنک لیپئر اپنی کتاب آزادیِ نیم شب (فریڈم ایٹ مڈ نائٹ)، جس کا ترجمہ سعید سہروردی نے کیا ہے، میں لکھتے ہیں کہ بعض راجہ اپنے محل کی وسعت اور شان و شوکت بڑھانے کی فکر میں رہتے تھے۔ مہاراجہ کپورتھلہ فرانس گئے جہاں انہوں نے ورسلیز کا شاندار محل دیکھا۔ اچانک انہوں نے محسوس کیا کہ وہ کسی پچھلے جنم میں فرانس کے بادشاہ، لوئی چہار دہم تھے۔

بس پھر کیا تھا انہوں نے ٹھان لیا کہ وہ اس محل کے طرز پر اپنی ریاست میں ایک محل تعمیر کریں گے تاکہ لوگوں کو چہار دہم لوئی کی یاد آ جائے۔ اس محل کی تعمیر کے لیے فرانس سے کاریگر بلائے گئے اور محل کی سجاوٹ فرانس کے ورسلیز محل کے نمونے پر کی گئی۔ دربار کی زبان فرانسیسی رکھی گئی۔ دربار کے سکھ افسر پاؤڈر لگے وِگ پہن کر لوئی چہار دہم کی پوشاک پہن کر تعینات ہوئے۔

محل کے علاوہ راجاؤں کو اپنے تخت کی شان و شوکت کی فکر ہوتی تھی۔ میسور کے مہاراجہ کا تخت ایک ٹن ٹھوس سونے کا بنا ہوا تھا۔ اس پر چڑھنے کے لیے نو سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ ہندوؤں کی ایک مذہبی روایت کے مطابق وشنو بھگوان نے 9 قدموں میں ساری دنیا کو ناپ لیا تھا۔ تخت کی 9 سیڑھیاں ان کے 9 قدموں کی علامت تھیں۔

اُڑیسہ کے ایک راجہ کا تخت پلنگ کی طرح تھا۔ وہ اس پلنگ کی ہو بہو نقل تھا جس پر ملکہ وکٹوریہ نے شادی کے بعد آرام کیا تھا۔ راجہ نے اسے لندن کی ایک دکان سے خریدا تھا۔ اسے تخت کی شکل دینے کے لیے راجہ نے اس پر متعدد ہیرے موتی جڑوائے۔

رامپور کے نواب کا تخت ایک بہت بڑے ہال میں رکھا ہوا تھا۔ اس ہال کے ستون سنگِ مرمر کے تھے۔ جو ستون تخت کے چاروں طرف تھے ان پر برہنہ حسیناؤں کی مورتیاں بنی ہوئی تھیں۔ تخت میں ایسا انتظام کیا گیا تھا جسے لوئی چہار دہم کے دماغ کی ایجاد کہتے ہیں۔ سونے کی کشیدہ کاری کی اس گدی میں ایک خاص جگہ سوراخ کر دیا گیا تھا۔ اس سوراخ کے نیچے ایک برتن رکھا رہتا تھا۔ ضرورت پڑنے پر نواب صاحب تخت پر بیٹھے ہی بیٹھے اپنے آپ کو ہلکا کر لیتے تھے۔

1947ء میں ہندوستان میں شیروں کی تعداد 20 ہزار کے آس پاس تھی۔ راجہ، مہاراجہ اُن کا شکار بڑے شوق سے کرتے تھے۔ مہاراجہ بھرت پور جب صرف 8 سال کے تھے اس وقت اپنا پہلا شیر مار چکے تھے۔ 35 برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے انہوں نے اتنے شیر مار لیے تھے کہ ان کی کھالیں ان کے مہمان خانوں میں بطور قالین بچھی ہوئی تھیں۔

گوالیار کے مہاراجہ نے اپنی زندگی میں 1400 شیر مارے اور اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی۔ بات یہ تھی کہ راجاؤں کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اپنا وقت کس طرح گزاریں ؟ شکار وقت گزارنے کا اچھا ذریعہ ہے۔ خوبصورت لڑکیوں کا شکار بھی وقت گزارنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ ان دونوں میدانوں میں پٹیالہ کے ساتویں مہاراجہ سر بھوپندر سنگھ نے جو نام کمایا اُس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ ایک وقت ایسا تھا جب سر بھوپندر سنگھ کے حرم میں 35 حسینائیں تھیں۔

معروف محقق مجاہد حسین اپنی کتاب بہاولپور ڈویزن کے صفحے نمبر 177 اور 178 پر رقم طراز ہیں کہ، 1939ء میں جب آزادی کے متوالوں اور جمہوریت کے دیوانوں نے تحریک چلائی تو ریاست بہاولپور کے طول و عرض میں عوامی مظاہروں کا ایک زبردست سیلاب اُمڈ آیا۔ بہاولپور شہر میں لوگ روزانہ زبردست جلوس نکال کر بہاولپور کے متشدد مزاج سندھی وزیرِ اعظم خان بہادر نبی بخش محمد حسین کی کوٹھی کی جانب روانہ ہوتے۔ پولیس انہیں فرید گیٹ پر روکتی۔ لاٹھی چارج ضرور ہوتے لیکن آنسو گیس یا گولی کی نوبت کبھی نہیں آئی۔

اس صورتِ حال سے گھبرا کر انتظامیہ نے عوامی تحریک کو دبانے کے لیے لیڈروں کے خلاف 124 الف کے تحت بغاوت کا مقدمہ درج کر کے رات کی تاریکی میں انہیں گرفتار کر لیا۔ پولیس کی عام روایت اور عادت کے مطابق بہاولپور کی پولیس نے اس جھوٹے مقدمے کو کامیاب بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اس تحریک میں چونکہ مسلمان پیش پیش تھے اس لیے پولیس نے بیشتر گواہ ہندو طبقے سے پیش کیے۔

ان جھوٹے گواہوں میں بستہ الف کا ہندو بدمعاش اور پولیس ٹاؤٹ مولا بھگت بھی تھا۔ حکومت کی طرف سے ملک عبدالحمید (ریٹائرڈ جج ہائی کورٹ مغربی پاکستان) بطور پبلک پراسیکیوٹر پیش ہوئے۔ مولا بھگت نے رٹی رٹائی کہانی عدالت کو سنا دی تو اس کے بعد پبلک پراسیکیوٹر نے پوچھا۔ ’اس کے بعد کیا ہوا؟‘ مولا بھگت نے کہا، ’بس حضور مجھے پولیس نے اتنا ہی سمجھایا تھا‘ پھر تھانے دار کی طرف رخ کر کے کھڑا ہو گیا اور کہا، ’حضور میں کوئی بات بھول تو نہیں گیا؟‘

مولا بھگت یہ بیان جیل خانے کے ہیبت ناک ماحول میں دے رہا تھا۔ اس کے بعد اس بیان پر عدالت میں سناٹا چھا گیا۔ اس پر پبلک پراسیکیوٹر (ریٹائرڈ جج ملک عبدالحمید) نے گھبرا کر عدالت سے کہا، ’میں اس گواہ کو ترک کرتا ہوں۔‘

صاحبزادہ قمر الزمان عباسی کی تحریر کردہ کتاب، ’بغداد سے بہاولپور‘ میں نواب بہاولپور سر صادق خان عباسی کے بارے میں بہت سے قصے مرقوم ہیں۔ اس کتاب کے صفحے نمبر 390 میں مذکور ہے کہ ’نواب صاحب بہاولپور نے ریاست کا اقتدار سنبھالنے کے بعد جیلوں کے دورے کا پروگرام بنایا اور آغاز بہاولپور جیل سے کیا۔

مہربان طبیعت کے نواب صاحب مختلف بیرکوں میں جاتے، قیدیوں سے ان کے جرم کی تفصیل پوچھتے اور اُنہیں معمولی قرار دے کر رہائی کا حکم صادر فرماتے۔ ایک قیدی کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ اس جیل کا سب سے پُرانا قیدی ہے جسے اپنا جرم بھی اب معلوم نہیں تو نواب صاحب نے اسے بلایا اور تفصیل معلوم کی۔ ضعیف العمر قیدی نے ہاتھ باندھ کر کہا، ’سائیں ! مجھے اعلیٰ حضرت خلد آشیانی نے سزائے قید سنائی تھی اور آج تک معلوم نہ ہو سکا کہ میرا قصور کیا تھا؟’

نواب صاحب نے برجستہ کہا، ’پھر تو تم بابا سائیں کی نشانی ہو جیل میں ہی رہو۔‘

٭٭٭

ماخذ:

https://www.dawnnews.tv/news/1070913/rajaon-maharajaon-aur-nawabon-ke-dilchsp-mashagal-akhtar-baloch

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

OOOOO

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل