FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

مچھلی مچھلی کتنا پانی

فہمیؔ بدایونی

غزلیں

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

۱

محبت درد ہجراں کے بغیر
حرم جیسے مسلماں کے بغیر

شب فرقت مچایا خوب شور
بہاروں نے گلستاں کے بغیر

بڑی خوبی سے کی نقاد نے
تجارت ساز و ساماں کے بغیر

ہماری تو گزر ہوگی نہیں
ترے دشوار و آساں کے بغیر

ادھوری ہے لباسوں کی دکاں
مرے تار گریباں کے بغیر
٭٭٭

۲

دیر سے اپنے اپنے گھیرے میں
لوگ بیٹھے ہوئے ہیں رستے میں

ایک گاہک تھا وہ بھی چھوڑ گیا
اب رکھیں گے دکان اکیلے میں

میں نے پنجرا تو توڑ ڈالا مگر
فاختہ آ گئی لپیٹے میں

بین بجتے ہی ایک اور ناگن
ناچنے لگتی ہے سپیرے میں

اس کے قدموں میں ڈال پہلا پھول
جس نے مٹّی بھری تھی گملے میں

گھر میں اک آئنہ بھی ہوتا تھا
بس وہی ڈھونڈنا تھا ملبے میں

بچّے بچے کو کر رہا ہوں سلام
اس کے کوچے کے پہلے پھیرے میں
٭٭٭

۳

یہاں یوں ہی نہیں پہنچا ہوں میں
کہیں پر عمر بھر ٹھہرا ہوں میں

تری زنجیر کا حصّہ ہوں میں
رِہا ہو بھی نہیں سکتا ہوں میں

تمہاری اوٹ میں جتنا ہوں میں
بس اتنا ہی نظر آتا ہوں میں

تمہارے سامنے بیٹھا ہوں میں
یہی تو سوچ کے زندہ ہوں میں

ڈراتا ہے خدا سے جب کوئی
خدا کے پیچھے چھپ جاتا ہوں میں

پریشاں دھوپ کرتی ہے مجھے
شکایت چاند سے کرتا ہوں میں

اسے مجبور کرنے کے لیے
بہت مجبور ہو جاتا ہوں میں

مری الجھن بھی سلجھا دو میاں
نہیں ہوں کچھ بھی تو پھر کیا ہوں میں

بہت کچھ کہنا پڑتا ہو جہاں
وہاں پر کچھ نہیں کہتا ہوں میں
٭٭٭

۴

چشم تر سے نکل نہ جائے کہیں
غم نیا ہے پھسل نہ جائے کہیں

بھیڑ میں ڈھونڈنا پڑے ہے تجھے
تو کسی سے بدل نہ جائے کہیں

اس نے پہلا دیا جلایا ہے
آج کی رات ڈھل نہ جائے کہیں

زور گھٹنے لگا ہواؤں کا
زلف اس کی سنبھل نہ جائے کہیں

اب توجہ سے سن رہا ہے وہ
میرا دکھڑا بدل نہ جائے کہیں

کچی دیوار ہے مرے گھر کی
تیری تصویر گل نہ جائے کہیں

پوچھتا ہے وہ بار بار مزاج
قصہ غم مچل نہ جائے کہیں
٭٭٭

۵

وہ کہیں تھا کہیں دکھائی دیا
میں جہاں تھا وہیں دکھائی دیا

اس میں آنکھوں کا کچھ قصور نہیں
جو نہیں تھا، نہیں دکھائی دیا

آئینے کو زمیں پہ رکھا تو
آسماں بھی زمیں دکھائی دیا

اس کی آنکھوں کو چومنے کے بعد
جو بھی دیکھا حسیں دکھائی دیا

بس یہ دیکھا بہت اداس ہے وہ
پھر ہمیں کچھ نہیں دکھائی دیا
٭٭٭

۶

چارہ سازوں کے بس کی بات نہیں
میں دواؤں کے بس کی بات نہیں

چاہتا ہوں میں دیمکوں سے نجات
جو کتابوں کے بس کی بات نہیں

تیری خوشبو کو قید میں رکھنا
عطر دانوں کے بس کی بات نہیں

آنسوؤں میں جو جھلملاہٹ ہے
وہ ستاروں کے بس کی بات نہیں

ختم کر دیں عذاب قبروں کا
تاج محلوں کے بس کی بات نہیں

اس کے ہونٹوں کو کیسے سمجھاؤں
اب میں باتوں کے بس کی بات نہیں

بے پئے ہی ہرا دیں رندوں کو
پارساؤں کے بس کی بات نہیں

ایسا لگتا ہے اب ترا دیدار
صرف آنکھوں کے بس کی بات نہیں
٭٭٭

۷

پوچھ لیتے وہ بس مزاج مرا
کتنا آسان تھا علاج مرا

چارہ گر کی نظر بتاتی ہے
حال اچھا نہیں ہے آج مرا

میں تو رہتا ہوں دشت میں مصروف
قیس کرتا ہے کام کاج مرا

کوئی کاسہ مدد کو بھیج اللہ
میرے بس میں نہیں ہے تاج مرا

میں محبت کی بادشاہت ہوں
مجھ پہ چلتا نہیں ہے راج مرا
٭٭٭

۸

ذرا محتاط ہونا چاہیے تھا
بغیر اشکوں کے رونا چاہیے تھا

اب ان کو یاد کر کے رو رہے ہیں
بچھڑتے وقت رونا چاہیے تھا

مری وعدہ خلافی پر وہ چپ ہے
اسے ناراض ہونا چاہیے تھا

چلا آتا یقیناً خواب میں وہ
ہمیں کل رات سونا چاہیے تھا

سوئی دھاگہ محبت نے دیا تھا
تو کچھ سینا پرونا چاہیے تھا

ہمارا حال تم بھی پوچھتے ہو
تمہیں معلوم ہونا چاہیے تھا

وفا مجبور تم کو کر رہی تھی
تو پھر مجبور ہونا چاہیے تھا
٭٭٭
۹

تیرے جیسا کوئی ملا ہی نہیں
کیسے ملتا کہیں پہ تھا ہی نہیں

گھر کے ملبے سے گھر بنا ہی نہیں
زلزلے کا اثر گیا ہی نہیں

مجھ پہ ہو کر گزر گئی دنیا
میں تری راہ سے ہٹا ہی نہیں

کل سے مصروف خیریت میں ہوں
شعر تازہ کوئی ہوا ہی نہیں

رات بھی ہم نے ہی صدارت کی
بزم میں اور کوئی تھا ہی نہیں

یار تم کو کہاں کہاں ڈھونڈا
جاؤ تم سے میں بولتا ہی نہیں
٭٭٭

۱۰

نمک کی روز مالش کر رہے ہیں
ہمارے زخم ورزش کر رہے ہیں

سنو لوگوں کو یہ شک ہو گیا ہے
کہ ہم جینے کی سازش کر رہے ہیں

ہماری پیاس کو رانی بنا لیں
کئی دریا یہ کوشش کر رہے ہیں

مرے صحرا سے جو بادل اٹھے تھے
کسی دریا پہ بارش کر رہے ہیں

یہ سب پانی کی خالی بوتلیں ہیں
جنہیں ہم نذر آتش کر رہے ہیں

ابھی چمکے نہیں غالبؔ کے جوتے
ابھی نقاد پالش کر رہے ہیں
٭٭٭

۱۱

کوئی ملتا نہیں خدا کی طرح
پھرتا رہتا ہوں میں دعا کی طرح

غم تعاقب میں ہیں سزا کی طرح
تو چھپا لے مجھے خطا کی طرح

ہے مریضوں میں تذکرہ میرا
آزمائی ہوئی دوا کی طرح

ہو رہیں ہیں شہادتیں مجھ میں
اور میں چپ ہوں کربلا کی طرح

جس کی خاطر چراغ بنتا ہوں
گھورتا ہے وہی ہوا کی طرح

وقت کے گنبدوں میں رہتا ہوں
ایک گونجی ہوئی صدا کی طرح
٭٭٭

۱۲

جب ریتیلے ہو جاتے ہیں
پربت ٹیلے ہو جاتے ہیں

توڑے جاتے ہیں جو شیشے
وہ نوکیلے ہو جاتے ہیں

باغ دھوئیں میں رہتا ہے تو
پھل زہریلے ہو جاتے ہیں

ناداری میں آغوشوں کے
بندھن ڈھیلے ہو جاتے ہیں

پھولوں کو سرخی دینے میں
پتے پیلے ہو جاتے ہیں
٭٭٭

۱۳

جاہلوں کو سلام کرنا ہے
اور پھر جھوٹ موٹ ڈرنا ہے

کاش وہ راستے میں مل جائے
مجھ کو منہ پھیر کر گزرنا ہے

پوچھتی ہے صدائے بال و پر
کیا زمیں پر نہیں اترنا ہے

سوچنا کچھ نہیں ہمیں فی الحال
ان سے کوئی بھی بات کرنا ہے

بھوک سے ڈگمگا رہے ہیں پاؤں
اور بازار سے گزرنا ہے
٭٭٭

۱۴

موت کی سمت جان چلتی رہی
زندگی کی دکان چلتی رہی

ارے کردار سو گئے تھک کر
بس تری داستان چلتی رہی

میں لرزتا رہا ہدف بن کر
مشق تیر و کمان چلتی رہی

الٹی سیدھی چراغ سنتے رہے
اور ہوا کی زبان چلتی رہی

دو ہی موسم تھے دھوپ یا بارش
چھتریوں کی دکان چلتی رہی

جسم لمبے تھے چادریں چھوٹی
رات بھر کھینچ تان چلتی رہی

پر نکلتے رہے بکھرتے رہے
اونچی نیچی اڑان چلتی رہی
٭٭٭
۱۵

نہیں ہو تم تو ایسا لگ رہا ہے
کہ جیسے شہر میں کرفیو لگا ہے

مرے سائے میں اس کا نقش پا ہے
بڑا احسان مجھ پر دھوپ کا ہے

کوئی برباد ہو کر جا چکا ہے
کوئی برباد ہونا چاہتا ہے

لہو آنکھوں میں آ کر چھپ گیا ہے
نہ جانے شہر دل میں کیا ہوا ہے

کٹی ہے عمر بس یہ سوچنے میں
مرے بارے میں وہ کیا سوچتا ہے

برائے نام ہیں ان سے مراسم
برائے نام جینا پڑ رہا ہے
٭٭٭

۱۶

پرندے سہمے سہمے اڑ رہے ہیں
برابر میں فرشتے اڑ رہے ہیں

خوشی سے کب یہ تنکے اڑ رہے ہیں
ہوا کے ڈر کے مارے اڑ رہے ہیں

کہیں کوئی کماں تانے ہوئے ہے
کبوتر آڑے ترچھے اڑ رہے ہیں

تمہارا خط ہوا میں اڑ رہا ہے
تعاقب میں لفافے اڑ رہے ہیں

بہت کہتی رہی آندھی سے چڑیا
کہ پہلی بار بچے اڑ رہے ہیں

شجر کے سبز پتوں کی ہوا سے
فضا میں خشک پتے اڑ رہے ہیں
٭٭٭

۱۷

وفا داری غنیمت ہو گئی کیا
محبت بھی مروت ہو گئی کیا

عدالت فرش مقتل دھو رہی ہے
اصولوں کی شہادت ہو گئی کیا

ذرا ایمان داری سے بتاؤ
ہمیں تم سے محبت ہو گئی کیا

فرشتوں جیسی صورت کیوں بنا لی
کوئی ہم سے شرارت ہو گئی کیا

کتابت روکنے کا کیا سبب ہے
کہانی کی اشاعت ہو گئی کیا

مزار پیر سے آواز آئی
فقیری بادشاہت ہو گئی کیا
٭٭٭

۱۸

وہ کہیں تھا کہیں دکھائی دیا
میں جہاں تھا وہیں دکھائی دیا

خواب میں اک حسیں دکھائی دیا
وہ بھی پردہ نشیں دکھائی دیا

جب تلک تو نہیں دکھائی دیا
گھر کہیں کا کہیں دکھائی دیا

روز چہرے نے آئنہ بدلے
جو نہیں تھا، نہیں دکھائی دیا

بد مزہ کیوں ہیں آسماں والے
میں زمیں تھا، زمیں دکھائی دیا

اس کو لے کر چلی گئی گاڑی
پھر ہمیں کچھ نہیں دکھائی دیا
٭٭٭

۱۹

بس تمہارا مکاں دکھائی دیا
جس میں سارا جہاں دکھائی دیا

وہ وہیں تھا جہاں دکھائی دیا
عشق میں یہ کہاں دکھائی دیا

عمر بھر پر نہیں ملے ہم کو
عمر بھر آسماں دکھائی دیا

روز دیدہ وروں سے کہتا ہوں
تو کہاں تھا کہاں دکھائی دیا

اچھے خاصے قفس میں رہتے تھے
جانے کیوں آسماں دکھائی دیا
٭٭٭

۲۰

چلتی سانسوں کو جام کرنے لگا
وہ نظر سے کلام کرنے لگا

رات فرہاد خواب میں آیا
اور فرشی سلام کرنے لگا

پھر میں زہریلے کارخانوں میں
زندہ رہنے کا کام کرنے لگا

صاف انکار کر نہیں پایا
وہ مرا احترام کرنے لگا

لیلیٰ گھر میں سلائی کرنے لگی
قیس دلی میں کام کرنے لگا

ہجر کے مال سے دل ناداں
وصل کا انتظام کرنے لگا
٭٭٭

۲۱

سہارے جانے پہچانے بنا لوں
ستونوں پر ترے شانے بنا لوں

اجازت ہو تو اپنی شاعری سے
ترے دو چار دیوانے بنا لوں

ترا سایہ پڑا تھا جس جگہ پر
میں اس کے نیچے تہہ خانے بنا لوں

ترے موزے یہیں پر رہ گئے ہیں
میں ان سے اپنے دستانے بنا لوں

ابھی خالی نہ کر خود کو ٹھہر جا
میں اپنی روح میں خانے بنا لوں
٭٭٭

۲۲

وہ مسافر سفر سے باہر ہے
جو تری رہ گزر سے باہر ہے

پیدا کرتا ہے گھر میں سناٹا
وہ جو کہرام گھر سے باہر ہے

بام و دیوار و در پریشاں ہیں
گھر کی بنیاد گھر سے باہر ہے

لگنے والا ہے شہر میں کرفیو
اور مہمان گھر سے باہر ہے

عشق بکھرا پڑا ہے کمروں میں
دست ترتیب گھر سے باہر ہے
٭٭٭

۲۳

ظلم پر چپ نہیں رہیں گے ہم
اور سن لو، یہیں رہیں گے ہم

مٹی کو مٹی راس آتی ہے
آسماں میں نہیں رہیں گے ہم

اک حسیں نے دیا ہے درد ایسا
زندگی بھر حسیں رہیں گے ہم

کچھ نہ کچھ روز ہو رہا ہے کم
ایک دن۔ کچھ نہیں رہیں گے ہم

خاک اڑائیں گے جا کے صحرا میں
یعنی پردہ نشیں رہیں گے ہم

اب وہ اس شہر میں نہیں رہتا
اس لئے اور کہیں۔ رہیں گے ہم
٭٭٭

۲۴

ولولے جب ہوا کے بیٹھ گئے
ہم بھی شمعیں بجھا کے بیٹھ گئے

وقت آیا جو تیر کھانے کا
مشورے دور جا کے بیٹھ گئے

عید کے روز ہم پھٹی چادر
پچھلی صف میں بچھا کے بیٹھ گئے

کوئی بارات ہی نہیں آئی
رت جگے گا بجا کے بیٹھ گئے

ناؤ ٹوٹی تو سارے پردہ نشیں
سامنے نا خدا کے بیٹھ گئے

بے زبانی میں اور کیا کرتے
گالیاں سن سنا کے بیٹھ گئے
٭٭٭

۲۵

آپ دیتے نہیں سزا کوئی
کس بھروسے کریں خطا کوئی

اب جو دیکھیں گے آئنہ کوئی
پہلے سوچیں گے چٹکلا کوئی

میں نے مسجد میں جانا چھوڑ دیا
روز مل جاتا تھا خدا کوئی

رو رہا ہوں میں بچوں کی مانند
اور بہلا نہیں رہا کوئی

چھوڑ کر جا رہا ہوں گھر لیکن
مجھ کو سمجھا نہیں رہا کوئی

مر گئے سب خرد کے حملے میں
دل میں وحشی نہیں بچا کوئی
٭٭٭

۲۶

جب کوئی زاویہ نہیں ہوتا
دیکھنا دیکھنا نہیں ہوتا

مجھ کو اپنا نہیں سمجھتے لوگ
میں اگر آپ کا نہیں ہوتا

تیری چوکھٹ پہ بیٹھ جاتا ہوں
جب کوئی راستہ نہیں ہوتا

اس نے باتیں جو کیں تو علم ہوا
باتوں باتوں میں کیا نہیں ہوتا

وہ جو ہوتا ہے ہر جگہ موجود
اس کا کوئی پتا نہیں ہوتا

جو خفا ہو گیا ہو دنیا سے
وہ کسی سے خفا نہیں ہوتا
٭٭٭

۲۷

ایک مہماں کا ہجر طاری ہے
میزبانی کی مشق جاری ہے

صرف ہلکی سی بے قراری ہے
آج کی رات دل پہ بھاری ہے

کوئی پنچھی کوئی شکاری ہے
زندہ رہنے کی جنگ جاری ہے

بس ترے غم کی غم گساری ہے
اور کیا شاعری ہماری ہے

آپ ظالم ہیں شبنمی باتیں
اور مری پیاس ریگ زاری ہے

اب کہاں دشت میں جنوں والے
جس کو دیکھو وہی شکاری ہے
٭٭٭

۲۸

صحراؤں نے مانگا پانی
دریاؤں پر برسا پانی

بنیادیں کمزور نہیں تھیں
دیواروں سے آیا پانی

آخر کس کس نیم کی جڑ میں
کب تک ڈالیں میٹھا پانی

چھت کا حال بتا دیتا ہے
پرنالے سے گرتا پانی

فکر و مسائل یاد جاناں
گرم ہوائیں ٹھنڈا پانی

پیاسے بچے کھیل رہے ہیں
مچھلی مچھلی کتنا پانی
٭٭٭
ماخذ: ریختہ اور فہمی بدایونی کی فیس بک وال
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل