FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

’مٹی کا سفر‘ مجموعے کا پہلا حصہ

               ڈاکٹر نگہت نسیم

 

مٹی کا سفر

            مٹی اپنی ذات میں کتنی خوبصورت تھی۔ بارش کی پہلی بوند پر ہی مہکی مہکی اِتراتی پھرتی تھی۔ ہوا ذرا سی تیز ہو جائے تو اِٹھلا اِٹھلا کر اُڑتی پھرتی۔۔۔ جمع کر لو تو برتن، بانڈے ، جو مرضی بنا لو اور جب نقش و نگار کا سنگھار بھی کر دو تو یہی مٹی انمول اور بے دام ہو جاتی ہے اور جب رب اِسے گوندھ کر اِنسان بنا دے تو ایک بھی دوسرے سے نہ ملے۔۔۔ یہ مٹی اپنی ذات میں جتنی خوبصورت تھی اِتنی ہی عجیب تھی۔ ہر رنگ میں ایک پہیلی تھی۔۔۔

            مٹی کا سفر ہر طرف تھا، ہر جانب، ہر سمت۔۔۔ جدھر دیکھو ہر طرف مٹی ہی مٹی تھی۔ شہروں شہروں ، ملکوں ملکوں اُڑتی پھرتی تھی۔۔۔ ہر روپ میں سفر کرتی تھی اپنی منزل کی طرف  اور پاک بھی اِتنی کہ پانی نہ ملے تو وضو بھی اِسی سے کر لو۔ یہ سارا فلسفہ میری بی بی جی کا تھا جو اصل میں میری دادی جان تھیں۔

            میرے بابا جو اُن کے اکلوتے بیٹے بھی تھے اور دراصل ان دونوں میں ایک دوسرے کی جان بھی بند تھی۔ لہٰذا ہمیں دِن رات اپنی بی بی جی کی عادت سی تھی۔

            اُن کی باتیں۔۔۔

            اُن کی کہانیاں۔۔۔

            بابا فریدؒ کی کافیاں۔۔۔

            بابا بلھے شاہؒ کا کلام ایسے سناتیں کہ دِل میں اُترتا سا لگتا تھا۔ بی بی جی کو یہ سب کیوں آتا تھا،  کہاں سے سیکھتی تھیں ، ہمیں کچھ پتہ نہ چلتا۔۔۔ ان کی ذات کا سفر کچھ اِتنا کشفی سا تھا   میں اور عبد اللہ ، جو مجھ سے صرف دو سال چھوٹا تھا ، ہمیشہ ان کے گرد ہی رہا کرتے تھے اور ہمارے گھر میں ہماری اکلوتی پھوپھو مدیحہ بھی رہتی تھیں جو ہماری دوست زیادہ اور پھوپھو کم لگتی تھیں۔ پھوپھو یونیورسٹی میں ہسٹری میں ماسٹر کر رہی تھیں اور ہاں امی جی جو ہم سب کے ساتھ دوستوں کی طرح رہتی تھیں ، ہمیں کبھی لگا ہی نہیں کہ کوئی ایک دوسرے کے بغیر رہ سکتا ہے۔ خوشی ، امن ، پیار ہمارے چھوٹے سے گھر کی پہچان تھی۔۔۔ وہ ہمیشہ کہتیں ’’کاش تعلیم عام ہو جائے۔ ‘‘اور میں ہمیشہ کہتی ’ بی بی جی ہم سب ا سکول جاتے ہیں۔‘

            ’’نہیں پُتر میں تو گاؤں کی بات کر رہی ہوں۔ ہمارے زمانے کی بات اور تھی اب تو بغیر پڑھے لکھے آپ زندہ نہیں رہ سکتے۔ دنیا کا مقابلہ کیسے کریں گے۔ ‘‘ اور وہ ہمیشہ اپنی حرماں نصیبی کا اختتام ایسے کرتیں کہ’’ لڑکیوں کو پڑھا لکھا ہونا چاہیے۔ اگر اِس دنیا کو ڈاکٹر،  انجینئر، سائنسدان چاہئیں تو ماؤں کو پڑھا لکھا ہونا پڑے گا۔۔۔‘‘

            ’’لیکن بابا تو بہت پڑھے لکھے ہیں اور آپ؟ ‘‘ عبداللہ کو کون چپ کراتا۔

            ’’ہاں بیٹا! تمہارے بابا بہت ذہین ہیں ، اُنہوں نے اَن پڑھ ماں کی لاج رکھ لی بیٹے ! شکر رب کا۔۔۔ اُس نے مجھے اس کی ماں ہونے کا اعزاز دِیا۔ ‘‘ان کے خوبصورت بوڑھے ، دِلکش چہرے پر نمی سی اُترنے لگتی۔ اُنہیں اپنے ان پڑھ ہونے کا قلق دِن رات رہتا  اور اسی لیے دِن رات توجہ سے وہ ہم تینوں کو سمجھاتی رہتی کہ ’انسان ان پڑھ بے شک ہو پر جاہل نہ ہو۔‘

            ’’بھئی بی بی جی اب اس قصے میں اِس بات کا کیا تعلق؟‘‘ مدیحہ پھوپھو جو کب سے اپنی کتابوں سے مغز ماری کر رہی ہوتی تھیں ، جھلّا جاتیں۔

            ’’ارے پگلی ہوئی ہو۔۔۔ ‘‘ بی بی جی انہیں گھُرکتیں۔

            ’’جاہل ہمیشہ جھگڑے کرتے ہیں ، انہیں سمجھ تو ہوتی نہیں ہے اور نہ ہی تعلیم اور نہ ہی کوشش کرتے ہیں۔ سو وہ کانوں کے بھی کچے ہوتے ہیں۔بھروسہ بھی کرتے ہیں تو اپنے ہی جیسوں کا۔ تو جاہل تو خسارے میں رہا ناں !! ‘‘ وہ ہلکی سی چپت مدیحہ پھوپھو کے سر پر مار کر اپنے کمرے کی طرف چلی جاتیں۔

            ’’بی بی جی اگر پڑھی لکھی ہوتیں نہ تو قسم سے خلیل جبران تک کے فلسفے کو چیلنج کر دیتیں۔‘‘

            ’’خیر کر تو وہ ابھی بھی سکتی ہیں۔ بس ذرا انہیں کتابیں سنانے کی دیر ہے۔‘‘

            ’’بھئی میں تو چلا۔۔۔ عبد اللہ کو پڑھنے میں دلچسپی اتنی سی تھی جتنی اچھے نمبروں کے لئے ضروری ہوتی ہے اور میرا تعلق بھی اسی طرح کے قبیلے سے تھا۔۔۔ ہاں انہیں پڑھ کر سنا تا  کون تھا۔ یہ تھیں ہماری امی جی۔۔۔ جو اُنہیں قرآن پاک سے لے کر بابا فریدؒ کی کافیاں تک سنایا کرتی تھیں۔ جنہیں بی بی جی بڑی محبت سے یاد کرتی رہتیں۔ شکر خدا کا ، امی جی کو خلیل جبران کے فلسفے میں کوئی دلچسپی نہ تھی لیکن یہ سچ تھا کہ بی بی جی کا فلسفہ سارے فلسفوں سے انمول تھا۔ اب بھلا امن کا خوشی سے اور خوشی کا پیار سے جو تعلق تھا ، اس کا تمام تر سہرہ تعلیم کو دیتی تھیں۔ تعلیم بھی ایسی جو جاہل نہ بنا دے اور پھر ان جاہلوں کو ان پڑھ سے کم تر ہونے کا اِدراک صرف بی بی جی کو ہوا کرتا تھا۔ اگر علم کو صرف کتابی علم سے دور رکھ دیا جائے تو میری بی بی جی سب سے زیادہ پڑھی لکھی تھیں۔

            اُنہیں اَن پڑھ اور جاہل کا فرق پتہ تھا۔۔۔

            انہیں مٹی کے سفر کا اِدراک تھا۔۔۔

            اُنہوں نے ہر قدم پر کچھ سیکھنے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔

            اور پھر ہمارے بزرگ ہمارے رول ماڈلز ہی تو ہوا کرتے ہیں۔۔۔

            اندر ہی اندر میں بھی بی بی جی کی ہی طرح سوچنے لگی تھی یا پھر کوشش کرتی رہتی تھی۔ ہمارے چار کمروں کے اس گھر میں بی بی جی کا کمرہ ہمارے ساتھ والا ہی تھا۔ اس طرح سے بابا نے یہ گھر بنایا تھا کہ بیچ میں دروازہ ہونے کی وجہ سے ان کا اور ہمارا کمرہ ایک بڑا سا کمرہ لگتا تھا۔ عبد اللہ کا کمرہ اس کے ساتھ والا تھا۔ تینوں کمروں کے سامنے ڈرائینگ ، ڈائیننگ کے ساتھ امی بابا کا کمرہ اور بیچ میں کچن اور بڑا سا ہال نما کمرہ جسے ہم T.Vلاؤنج کی طرح استعمال کرتے تھے۔ گرمی ہوتی یا سردی، صبح فجر کی نماز بابا ، بی بی جی کے ساتھ ہی پڑھا کرتے تھے۔ سالوں کا معمول تھا۔ بابا اُٹھتے ، پانی گرم کرتے ، ہلکے سے بی بی جی کو اُٹھاتے ، ان کے واش روم جانے کا اہتمام کرتے ، وضو کراتے ، جائے نماز بچھاتے ، دونوں ماں بیٹا اِکٹھے نماز پڑھتے۔ دعائیں مانگتے۔ پھر بابا ان کے لئے چائے بناتے اور وہ دونوں اِکٹھے چائے پیتے اور باتیں کرتے جاتے۔ بی بی جی با آواز بلند دعائیں دیتے ہوئے انہیں کام کے لئے رخصت کر دیتیں۔ کبھی کبھی امی بھی ان کے ساتھ شریک ہو جاتیں۔ لیکن ایسا کم ہوتا تھا۔

            لوگوں کو بڑا حیران کن لگتا تھا۔ لیکن ہم سب کو دیکھنے کی عادت سی تھی۔

            ہم سب کو دعاؤں کے ساتھ باری باری رخصت کرتیں ، پھر امی جی کے ساتھ گھر کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتیں۔ واپسی پر ہم سب کو بھی تلقین کرتیں کہ’ کام سب کو پیارا ہوتا ہے نہ کہ خوبصورتی۔‘ جب بھی وہ مجھے یا پھوپھو کو کبھی ہار سنگھار کرتے دیکھ لیتیں یا کپڑوں کی ٹرائیاں مارتے ہوئے پکڑ لیتیں تو پھر سارا دن ان کی نصیحتوں کی نذر ہو جاتا۔

            مدیحہ پھوپھو اکثر کہتیں کہ’ آخر آپ اس قدر سیریس کیوں رہتی ہیں۔ ‘

            ’’ارے ! تم نے زندگی کو عیش سمجھ لیا ہے۔ پوچھو ان سے جنہیں دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہے اور تم لوگ کپڑے اس طرح پھینک رہی ہو جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ ابھی پچھلے مہینے ہی تو لیئے تھے۔ ‘‘ وہ دوبارہ سارے کپڑے تہہ کرتی جاتیں اور ہمیں سمجھاتی جاتیں۔

            ’’دیکھو تمہارے بابا کتنی محنت سے کماتے ہیں۔ ایک اکیلا وہ اور ہم کھانے والے کتنے۔۔۔ ذرا خیال کیا کرو۔ پیسوں کو صحیح طریقے سے خرچ کرنا بھی ایک طرح سے مدد ہے۔ جانے تم کب سمجھو گی۔ ‘‘

            ’’بی بی جی پلیز۔۔۔ ‘‘ مدیحہ پھوپھو میدان چھوڑ کر جا چکی تھیں۔

            اور میں بس کپڑے ہی سمیٹتی رہ گئی۔ لیکن تھوڑے سے وقت کے بعد ہی وہ نارمل ہو جاتیں۔ سہیلیوں کی طرح بیٹھ کر ہر موضوع پر رائے دے رہی ہوتیں۔ امی جی دھیرے دھیرے مسکراتی رہتیں۔ ان کی بھی تو بی بی جی کل کائنات تھی۔ اکلوتی تھیں۔ ایک حادثے میں نانا نانی فوت ہو گئے تھے۔ خالاؤں نے پالا تھا۔ سولہ سال کی عمر میں بی بی جی اُنہیں بہو بنا لائی تھیں۔ سو بی بی جی تو ان کی بھی ماں تھیں اور بابا کی بھی اور ہم سب کی بڑی ماں تھیں۔۔۔ ماں بھی ایسی کہ جو صندوق کی طرح ہوتی ہے۔ جس میں رنگ برنگے سارے رنگوں کے کپڑے ہوتے ہیں۔ جو ہر خوشی اور غمی پر چھا جاتے ہیں۔ انہیں سنبھالنے اور چھپانے کا ہنر آتا ہے۔

            یا پھر ماں ایک ایسی البم کی طرح ہوتی ہے۔ جسے جدھر، جہاں سے پلٹو، وہیں ایک لمحہ پڑا مل جاتا ہے۔ ان کی آنکھوں میں ، دل میں لمحے ایسے قید ہوتے ہیں جیسے تصویریں۔۔۔

            تمہارے بابا جب پیدا ہوئے تو وہ ایسے تھے۔۔۔

            اور جب مدیحہ ہوئی تو ایسی تھی۔۔۔

            کب گردن اُٹھا کر ان کو دیکھا۔ کب بیٹھنا شروع کیا۔۔۔

            کس دن اور تاریخ کو ان کو بی بی جی کہہ کر بلایا۔۔۔

            کب چلنا شروع کیا۔۔۔

            کب ا سکول کا پہلا دِن تھا۔۔۔ کب کالج یونیورسٹی گئے۔۔۔ کب ان کی زندگی ویران ہو گئی تھی اور کب انہوں نے جینا سیکھا تھا، کب امی جی دلہن بن کر آئیں۔ پھر میں اور عبد اللہ۔۔۔ ان کے پاس سارے لمحے آباد اور موجود ملتے تھے۔بس وہ ایک صندوق کی طرح تھیں یا پھر کوئی پرانی البم۔۔۔ جس میں بلیک اینڈ وائٹ کے ساتھ کلر تصویریں بھی ہوتی ہیں۔ مدیحہ پھوپھو کو ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ ان باتوں کو درمیان میں ہی چھوڑ کر اُٹھ جایا کرتی تھیں۔

            ’’بی بی جی آپ کے پاس تو وقت ہی وقت ہے لیکن میرے پاس نہیں۔ میں تو چلی پڑھنے۔۔۔ ‘‘

            ’’ہاں بیٹے ضرور پڑھ۔ میں اور کیا کروں۔ پتہ ہے جب تو نے پہلی بار ’ا،  ب‘ لکھا تھا تو تجھے  ’ج‘ لکھنی نہیں آتی تھی۔‘‘

            ’’تب تو آپ نے مجھے ضرور مارا ہو گا۔ ‘‘ مدیحہ پھوپھو کتابیں اُٹھا کر باہر کی طرف نکل گئیں۔۔۔ بغیر بی بی جی کا جواب سُنے۔

            ’’ارے بھئی سُنو تو۔۔۔ ‘‘

            ’’مجھے سنا دیجئے۔۔۔‘‘ میں ان کے پاس ہی بیٹھ گئی اور اپنا سر ان کے کندھوں پر ڈال دِیا۔

             اُنہوں نے دلار سے میرے ماتھے پر پیار کیا۔

            ’’بیٹی اپنی ماں سے پوچھو ، تم کیا تھیں اور کیسے اِتنی بڑی ہو گئیں۔۔۔ ماں ہی کو پتہ ہوتا ہے۔ جانے کیسے وہ ساری تاریخیں یاد کر لیتی ہے۔ یہ سارے خزانے تو ماں کے پاس ہوتے ہیں ، تحفے کی طرح، جتنے چاہے بٹور لو۔۔۔ تمہیں امیر ہونا ہے تو ماں سے باتیں کیا کرو۔ اس سے پوچھو وہ باتیں جو تمہیں پتہ بھی نہیں اور یاد بھی نہیں۔۔۔ ‘‘

            ’’اونہوں۔۔۔ ‘‘ میں نے ان کی گود میں ہی آنکھیں موند لیں۔ بھلا امیری کا ماں کی باتوں سے کیا تعلق تھا۔شاید مجھے اپنی ماں ایسی ہی لگتی تھی جیسے مدیحہ پھوپھو کو اپنی ماں۔ غیر اہم سی۔۔۔ عام سی عورت۔

            لیکن کچھ دِنوں سے کچھ عجیب ہو رہا تھا۔ بی بی جی اکثر چیزیں رکھ کر بھولنے لگی تھیں۔ ہم سب ان کی عمر کو وجہ بتلا رہے تھے اور امی جی شاید ایک بار پھر ایک اچھے رشتے اور مدیحہ پھوپھو کے انکار کو وجہ بتا رہی تھیں۔ ڈپریشن اور Stressبھی وجہِ بحث رہا۔۔۔ ہر شخص نے مدیحہ پھوپھو کو وجہ جان کر خوب ہی لتاڑا۔

            ’’بھئی یا تو مجھ سے پوچھا نہ جائے اور ہاں کر دی جائے اور اگر آپ واقعی مجھ سے پوچھتے ہیں تو پھر جو مجھے اچھا لگے گا اور صحیح ہو گا وہی بتاؤں گی۔۔۔‘‘

            بی بی جی نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا۔ دونوں ہاتھوں سے دوپٹہ ان کے شانوں پر پھیلا دِیا اور ماتھے پر پیار کرتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں۔ مدیحہ پھوپھو نے ان کی آنکھوں میں اُترتی نمی سے آنکھیں چرانے کی کامیاب کوشش کی تھی۔ دیر تک ناخنوں سے کھیلتی رہیں۔۔۔ امی جی تڑپ کر بی بی جی کے پیچھے لپکیں۔

            ’’بی بی جی بچی ہے۔ مان جائے گی۔

            سُنیں تو۔۔۔

            پلیز سمجھئے نا!

            یہ زمانہ اور ہے۔۔۔

            دیکھئے گزارا تو اس نے کرنا ہے۔۔۔ پھر مذہب اور قانون نے بھی تو اجازت دے رکھی ہے۔۔۔ ‘‘ امی ان کے قدموں میں بیٹھی ہوئی ان کے ہاتھ سہلا رہی تھیں۔ وہ اپنی کرسی پر بیٹھی ساکت انہیں سن رہی تھیں۔ ایک دفعہ بھی آنکھ نہ اُٹھائی تھی۔

            ’’بی بی جی۔۔۔ !! میں مدیحہ سے بات کروں گی۔ ‘‘ امی جی کی آواز میں اُمید کے جگنو چمک رہے تھے۔ بی بی جی نے انہیں ایسے دیکھا جیسے وہ ان کی بات نہ تو سمجھ رہی ہیں اور نہ جان رہی ہیں۔ اِتنی اجنبیت، اِتنی حیرانگی، اِتنی ویرانی۔۔۔ وحشت۔۔۔ کیا کچھ نہ تھا ان کی نظروں میں۔ امی جی نے اُنہیں زور زور سے ہلایا۔

            ’’بی بی جی۔۔۔‘‘

            ’’ہاں آں۔۔۔ کیا کہا بیٹی تم نے۔۔۔ ‘‘ بی بی جی ایسے چونکیں جیسے کسی خواب سے واپسی ہوئی ہو۔

            ’’آپ ٹھیک تو ہیں نا بی بی جی۔ ان کی آنکھوں میں اجنبیت ابھی تک امی جی کے لئے حیرت کا باعث تھی۔

            ’’ہاں۔ کیا ہوا۔۔۔ ‘‘ اُنہوں نے ایسے کہا جیسے ابھی کچھ دیر پہلے کچھ نہیں ہوا تھا۔ امی جی گھبرا کر بابا کے پاس چلی گئیں۔ وہ بہت فکر مند تھیں۔ خدا جانے کیوں۔ اُنہوں نے پہلی بار مدیحہ پھوپھو کو ڈانٹا تھا۔

            ’’سب مجھے ہی ڈانٹ رہے ہیں ، میرے ہی پیچھے پڑ گئے ہیں۔‘‘ ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

            ’’ارے میری گڑیا۔ بس کاش تم بی بی جی کی آنکھیں دیکھ لیتیں۔۔۔ دیکھو میں بہادر نہیں ہوں۔ میں ڈر گئی تھی۔ میں اُنہیں کھونا نہیں چاہتی۔ میرا ان کے سوا ہے کون۔ ‘‘ امی جی کی بے قراری کو کہیں قرار نہ تھا۔

            ’’تو بھابی میرا بھی کون ہے ان کے سوا۔۔۔ ‘‘

            ’’یہ کیسے کہا تم نے۔ میں ہوں ، تمہارے بھائی ہیں۔ لیکن میری تو صرف بی بی جی ہیں۔ ‘‘ وہ دونوں ایک دوسرے سے گلے لگے بلا وجہ روئے جا رہی تھیں۔

            ’’ارے کیا ہوا تم دونوں کو۔ ‘‘ بی بی جی نے دونوں کو گلے سے لگا لیا۔ آخر ماں جو تھی۔ معاف کرنے والی۔۔۔ پیار لٹانے والی۔۔۔

            ’’میں ڈر گئی تھی بی بی جی ‘‘ امی جی انہیں دیوانہ وار دیکھ رہی تھیں۔

            ’’اور بھابھی نے مجھے ڈرا دیا! ‘‘ مدیحہ ابھی تک ان سے لپٹی ہوئی تھی۔

            ’’اور میں ہی ایک بہادر تھا۔‘‘ بابا بھی وہیں چلے آئے اور یوں ہم سب سارے واہموں سے آزاد ہو گئے۔

            کئی ہفتے گزر گئے۔ پھر کئی مہینے بھی گزر گئے۔

            کوئی خاص بات نہ ہوئی۔ سب اپنی اپنی جگہ سیٹل ہو چکے تھے۔

            ہلکی سی سردیاں شروع ہو چکی تھیں۔ شام گئے خنکی بڑھ جاتی تھی۔ خاص طور پر ہمارے اور بی بی جی کے کمرے کی طرف اگر ذرا سی کھڑکی بھی کھلی رہ جائے یا دروازہ۔ لان سے سیدھی ٹھنڈی ہوائیں کمروں میں آتی تھیں لہٰذا سختی سے ہر چیز پر نظر رکھی جاتی تھی۔حسبِ معمول بی بی جی ہمیں پڑھتا دیکھ کر خوشی سے دعائیں دے کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں۔

            پھر وقت گزرتا گیا۔ رات کا کوئی ایک بجا ہو گا ، مدیحہ پھوپھو لائٹ بند کرنے اُٹھیں تو بی بی جی کے کمرے کی لائٹ جل رہی تھی۔ وہ حیرانگی سے آگے بڑھیں تو بی بی جی اپنے کمرے میں نہ تھیں۔

            ’’سنو گڑیا۔ بی بی جی اپنے کمرے میں نہیں ہیں۔ ‘‘ انہوں نے مجھے گھبرا دِیا۔

            ’’کہاں گئیں۔۔۔‘‘ وہ اِدھر اُدھر اُنہیں ڈھونڈنے لگیں۔ میں بھی ان کے پیچھے پیچھے آ گئی۔ لان کی طرف کا دروازہ کھلا تھا۔

            ’’وہ سخت خنکی میں گھاس پر ٹہل رہی تھیں یا چکر کاٹ رہی تھیں ، پتہ لگانا مشکل تھا۔

            ’’بی بی جی۔۔۔ ! ‘‘ مدیحہ پھوپھو نے زور سے انہیں آواز دی مگر وہ مستقل ہمیں نظر انداز کر رہی تھیں۔ کوئی جواب نہ آیا۔

            ’’بی بی جی۔۔۔ ! ‘‘اب میں نے انہیں متوجہ کرنا چاہا۔

            پھر امی جی اور بابا بھی وہیں آ گئے۔ عبد اللہ بھی جاگ گیا۔

             لیکن خدایا۔۔۔ !بی بی جی کی آنکھوں میں جو اجنبیت اور حیرانگی تھی اس نے ہمیں ہلا کر رکھ دِیا۔

            ’’بی بی جی۔۔۔! ‘‘ بابا انہیں ہلا رہے تھے۔ انہوں نے ایک ٹک غور سے انہیں دیکھا اور چونک گئیں جیسے انہیں کچھ یاد آ گیا ہو۔

            ’’کیا ہوا بیٹے ؟ کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے ؟؟ ‘‘ انہوں نے حیرانگی سے پوچھا۔

            ’’چلئے اندر چلئے۔ ‘‘

            ’’اتنی سخت سردی میں آپ باہر کیوں آئیں۔

            طبعیت خراب ہو جاتی تو۔۔۔

            کوئی چیز چاہیے تھی تو مجھے آواز دے دیتیں۔

            اور تم لڑکیو! کب بڑی اور ذمہ دار ہو گی۔۔۔‘‘ خدایا! امی کی تقریر اب عروج پر تھی۔ ان کی آواز میں لڑکھڑاہٹ تھی اور آنکھوں میں نمی۔ اپنی بانہوں میں سمیٹ کر انہیں کمرے میں لے آئیں۔بابا نے ہیٹر قریب کیا لیکن تھوڑی دیر بعد بی بی جی پھر نارمل ہو گئیں۔

            ’’کیا ہو جاتا ہے آپ کو؟

            آپ ذرا اپنا خیال نہیں رکھتیں۔

            ہمارا ہی خیال کر لیا کریں۔ کیا کروں گا آپ کے بغیر۔ ‘‘ بابا بے قرار سے ہو گئے۔

            ’’ارے تم لوگوں نے ذرا سی بات کا بتنگڑ بنا لیا ہے۔ ‘‘ بی بی جی نارمل لگ رہی تھیں۔

            ’’کچھ نہیں ہوا ہے مجھ کو۔

            اور کچھ نہیں ہو گا تم لوگوں کو۔۔۔

            جاؤ تم سب آرام کرو۔ میں بھی تھک گئی ہوں۔ ‘‘ انہوں نے ہم سب کو اپنے اپنے کمروں میں بھیج دِیا لیکن رات گئے جانے کتنی بار امی جی اور بابا انہیں دیکھنے آئے تھے۔ اور پھر تو یہ معمول ہو گیاسب کا۔ بس بی بی جی پر نظر رکھنی ہے۔ ان کا بستر ہمارے ساتھ ہی لگ گیا اور ان کا کمرہ نماز اور دیگر پڑھائی کے لئے استعمال ہونے لگا۔اگر میں اس کمرے میں پڑھ رہی ہوتی تو مدیحہ پھوپھو ان کے پاس پڑھ رہی ہوتیں یا کوئی اور کام کر رہی ہوتیں اور پھر میں ان کی جگہ آ جاتی اور امتحانوں کے دِنوں میں امی جی کی ڈیوٹی ہوتی کہ ان کی دیکھ بھال کرتی رہیں۔

            دِن ایک ایک کر کے گزر رہے تھے۔

            کبھی کبھی بی بی جی وضو ہی کرتی رہتیں جیسے بار بار بھول جاتی ہوں۔ یا پھر نماز ہی پڑھتی رہتیں۔۔۔ سلام پھیرنا بھول جاتیں۔اور اب تو حد ہو گئی تھی کہ کھانا کھانا بھول جاتی تھیں۔ یہ سب کچھ کبھی بہت جلدی جلدی ہو جاتا اور کبھی کبھی ہفتوں بعد ایسا ہوتا۔ لیکن آہستہ آہستہ وقفہ کم ہوتا جا رہا تھا۔

            تشویش بڑھ رہی تھی۔

            ڈاکٹر کریم ہمارے فیملی فزیشن تھے۔۔۔ ان کے ساتھ بابا کی لمبی لمبی ڈسکشن چلنے لگی۔ بابا فکرمند سے دِکھتے تھے۔ وہ امی جی سے کہہ رہے تھے۔

            ’’یہ ساری علامات یا تو Dementiaکی ہیں یا پھر شاید برین ٹیومرBrain Tumerہے۔ کہتے کہتے ان کی آواز حلق میں پھنس گئی تھی۔

            آنِ واحد میں پورا گھر ساکت ہو گیا تھا اور بی بی جی کی اپنی دنیا تھی۔ ان کی دنیا جو ہماری دنیا سے مختلف ہو گئی تھی۔ ایک وقت تھا وہ ایک لمحہ بھی ہم سے جدا نہ ہوتی تھیں۔

            اب ایسے دیکھتیں جیسے ہم ان کے کچھ نہ لگتے تھے۔

            اتنی حیرت سے کہتیں کہ ’’تم کون ہو؟ ‘‘ یہ سب کچھ ہوا تو بہت آہستہ تھا لیکن پتہ بہت اچانک چلا تھا۔

            جس دِن انہوں نے سی ٹی برین CT Brainکے لیے جانا تھا اسی دن پڑوس کی یاسمین خالہ کے ہاں ان کے دیور کی شادی بھی تھی۔ بی بی جی گھر سے غائب تھیں۔ خدا جانے کب دروازہ کھلا اور وہ باہر چلی گئی تھیں۔ ہر شخص انہیں ڈھونڈ رہا تھا۔ پڑوس کی شادی میں آیا ہوا ہر شخص ہماری بی بی جی کو پوچھ رہا تھا اور ہم سب پریشان تھے۔ بوکھلا کر سڑک سڑک انہیں کھوج رہے تھے۔

            ’’ہائے اگر انہیں کچھ ہو گیا تو۔۔۔‘‘

            خدانخواستہ ایکسیڈنٹ۔۔۔ بابا دِل پکڑ کر فون کی طرف دوڑے کہ ہسپتال فون کریں۔ گھر آئے تو بی بی جی اپنی جگہ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔بابا کے پیچھے سب مایوس مایوس گھر میں داخل ہوئے تو بابا ، بی بی جی کی گود میں سر رکھے بچوں کی طرح رو رہے تھے۔

            ’’بی بی جی۔۔۔ میری بی بی جی۔۔۔! ‘‘ امی جی ان کے گلے لگ گئیں۔

            ’’کیا ہوا تم لوگوں کو ؟ کیوں رو رہے ہو ؟‘‘ وہ حیران ہو کر پوچھ رہی تھیں۔

            ’’آپ کہاں گئی تھیں ؟ ‘‘ مدیحہ پھوپھو نے ان کے سر پر اپنا سر ٹکا دِیا۔

            ’’پتہ نہیں۔۔۔ میں تو یہیں تھی۔‘‘ وہ مستقل حیران گی سے دیکھ رہی تھیں۔ اِتنے میں یاسمین خالہ بھی آ گئیں۔ وہ امی جی کو سونے کی بالیاں واپس کرنے آئی تھیں جو بی بی جی ان کو شادی پر تحفتاً دے کر ابھی ابھی لوٹی تھیں۔

            ’’تمہیں مبارک ہو بہن۔۔۔ بزرگوں کی عطا کی ہوئی ہر بات ہر چیز تحفہ ہوتی ہے۔ ہماری بی بی جی کا تحفہ آپ کو مبارک ہو۔ہمیں واپس دے کر شرمندہ نہ کریں۔ ‘‘

            ’’لیکن یہ تو اپنے ہوش میں نہیں ہیں پھر یہ تو زیادتی۔۔۔‘‘ یاسمین خالہ نے جھجھک کر بات کو نامکمل ہی رہنے دِیا۔

            ’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ دِیا تو بی بی جی نے ہے ناں۔‘‘ امی جی نے بڑی محبت سے بالیاں دوبارہ ان کے ہاتھ پر رکھ دِیں۔ ان کے جانے کے بعد بی بی جی کے سارے ٹیسٹ ہو گئے۔

            بلڈ ٹیسٹ سے لے کر CTبرین پھر ایم آر آئیMRI۔ پھر اسپیشلسٹ کا بلاوا۔ہم سب دم سادھے بیٹھے تھے کہ جانے اب کیا سُنیں گے۔

            ڈاکٹر حسین ماہر نیورولوجسٹ Neurologist تھے۔ انہوں نے مسکرا کر ہمیں دیکھا اور پھر بی بی جی کو جو ہم سب سے بے نیاز سی بیٹھی ہوئی تھیں۔ بالکل ایک ایسے بچے کی طرح اپنے آپ میں مگن تھیں جو اپنی من پسند جگہ پر آ کر گھر والوں کو ایک منٹ میں بھلا دیتا ہے اور بس مگن ہو جاتا ہے۔

            ڈاکٹر حسین کہہ رہے تھے۔ بابا اور امی جی دِل تھامے سن رہے تھے۔

            ’’اللہ کا شکر ہے کہ تمام رزلٹ آ چکے ہیں اور وہ کسی ٹیومر کی نشاندہی نہیں کرتے ہیں۔ سو آپ کی بی بی جی کو ’’Dementia‘‘ یعنی یاد داشت کے کھو جانے کا مرض ہے۔

            ’’جی۔۔۔! ‘‘ بابا کی آواز مدھم ہو گئی تھی۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ٹیومر نہ ہونے کی خوشی کریں کہ Dementiaہونے کا غم۔۔۔دونوں صورتوں میں وہ ساکت ہی رہ گئے تھے۔

            ’’Dementiaجنرل پاپولیشن میں 2 فی صد عام ہے۔ اور یہ عمر کے ایک خاص حصے میں ہوتا ہے۔ تقریباً 65 سال سے 70 سال کی عمر میں زیادہ تر ہوتا ہے۔اگر یہی عمر 80 سال سے اوپر کی ہو تو تقریباً 20 فی صد چانس ہوتا ہے کہ کسی کو بھی Dementiaہو جائے۔‘‘ ڈاکٹر حسین حتیٰ الامکان کوشش کر رہے تھے کہ آسان سے لفظوں میں سمجھا سکیں۔

            عبد اللہ پہلو بدل رہا تھا۔

            مدیحہ پھوپھو بی بی جی کے پیچھے کھڑی کانپ رہی تھیں۔

            امی جی کبھی بابا کو دیکھتیں اور کبھی بی بی جی کو جو کبھی بے نیازی سے مسکرا دیتیں اور کبھی مدیحہ پھوپھو کے اپنے شانوں پر ٹکے ہاتھوں کو چومنے لگتیں۔

            ’’اس دنیا میں کئی ملین لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں۔ ‘‘

            ڈاکٹر حسین کی بات سن کون رہا تھا۔

            ہمیں ملین لوگوں سے کیا غرض۔ مسئلہ تو ہماری بی بی جی کا تھا۔ ہمیں اس دنیا سے کیا لینا دینا۔

            مدیحہ پھوپھو کے آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے اور بی بی جی کے دوپٹے میں جذب ہو رہے تھے اور انہیں کچھ خبر نہ تھی۔ جو ان کی ذرا سی اداسی پر دل گرفتہ سی ہو جاتی تھیں۔

            ’’میری بچی۔۔۔ کیا چاہیے تمہیں ؟

            اچھا یہ کھا لو۔ یہ لے لو۔

            ’’اچھا کیا یہ پکا دوں ؟؟ ‘‘بی بی جی مدیحہ پھوپھو کی پسند کی چیزوں کے نام گنوا گنوا کر پوچھتیں۔

            ’’اچھا چلو تم گڑیا کے ساتھ یا اپنی بھابی کے ساتھ بازار ہو آؤ۔۔۔‘‘

            انہیں بہلانے کا ہنر آتا تھا۔ وہ سب کو بہلا لیتی تھیں لیکن ابھی ابھی ہم میں سے کوئی بھی بہل نہیں رہا تھا۔

            ’’دیکھئے آپ سب کو بی بی جی کا بہت خیال رکھنا ہو گا۔‘‘ ڈاکٹر حسین اپنے مریض کی ہر طرح کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ہم سب پر ڈال رہے تھے۔

            ’’گھر کی ترتیب میں کوئی فرق نہ آئے۔‘‘ یعنی سیٹنگ وغیرہ بدلنے سے پرہیز کریں۔ خاص طور پر ان کا کمرہ۔

            ’’انہیں کوئی تکلیف دہ خبر نہ سنائی جائے۔

            کبھی کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کو لگے گا کہ یہ پاگل ہو گئی ہیں اپنے آپ سے باتیں بھی کر سکتی ہیں۔ خود بخود ہنستی رہیں گی۔ آپ سب کو گھبرانے یا ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس یہ دھیان رہے کہ کہیں چولہے کے پاس نہ چلی جائیں۔ یا اکیلی باہر نہ چلی جائیں۔ چھُری ان کی پہنچ سے دور رکھیں کہیں خود پر ہی استعمال نہ کر لیں۔ اور ہاں ! ان کو نہانے کے لیے بھی اکیلا نہ چھوڑیں۔

            ’’ہر وقت نگرانی کرتے رہیں۔‘‘

            ہم سب حیرانگی سے ڈاکٹر حسین کو دیکھ رہے تھے  اور وہ مدّبر سے چشمے کے پیچھے اپنی ذہین، چمکتی آنکھوں سے ہم سب کو باور کرا رہے تھے کہ کوئی گڑبڑ نہ ہو نے پائے۔ باتیں کرتے ہوئے وہ کبھی میز پر جھک جاتے اور کبھی سیدھے ہو جاتے۔

            ’’میری بی بی جی ٹھیک تو ہو جائیں گی ناں ؟

            کوئی دوا تو ہو گی ڈاکٹر صاحب! ‘‘ بابا کی بے چارگی دیکھی نہ جاتی تھی۔

            ’’I am sorry.

            Brain cell has been damage.

            ہاں اِتنا ہو سکتا ہے کہ مزید تباہ(Deterioration)نہ ہو۔ میں اس کے لیے دوائی لکھ رہا ہوں۔ اور ہاں۔۔۔! اکثر و بیشتر مریض کو ہوش نہیں رہتا کہ اسے واش روم جانا ہے لہٰذا کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی Infectionہو جاتا ہے۔‘‘

            ’’یعنی ہماری بی بی جی کبھی ٹھیک نہ ہو سکیں گی۔ ‘‘ عبد اللہ نے بے چینی سے پہلو بدلا۔

            ’’انسان تو مہمان ہوتا ہے اس دنیا میں۔ ہم سب کو جانا ہے۔ کبھی پہلے ، کبھی بعد میں۔ ‘‘

            ’’کیا؟ ‘‘ ڈاکٹر حسین کی بات پر امی جی جو کب سے خاموش تھیں تڑپ کر بی بی جی کے پاس آ گئیں۔

            ’’دیکھئے اکثر ایسا ہوتا ہے۔ ‘‘

            ’’جی ڈاکٹر صاحب ہم سمجھ چکے ہیں۔ شکریہ آپ نے اِتنا وقت ہمیں دِیا۔ ‘‘ بابا میں مزید سننے کی سکت نہ تھی۔ اُٹھ کھڑے ہوئے۔

            ’’Best of luck.‘‘ ڈاکٹر حسین نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بابا سے ہاتھ ملایا۔ اگلی پیشی کی تاریخ باہر سیکرٹری سے لینے کی ہدایت لے کر ہم سب باہر آ چکے تھے۔

            گھر وہی تھا۔

            مکین بھی وہی۔

            پر وقت اچھا نہیں تھا۔

            ہر فرد بی بی جی کی بیماری یاد کر رہا تھا۔ سو لگ بھگ دو سال سے وہ آہستہ آہستہ کبھی سالن میں نمک ڈالنا بھول رہی تھیں اور کبھی چائے میں دودھ۔ کبھی نماز پڑھنا تو کبھی نماز ختم کرنا بھول جاتیں۔کبھی کچھ اور کبھی کچھ۔۔۔ لیکن اتنی ساری یادوں کے ساتھ جیا کیسے جائے گا، یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔

            ہر شخص بی بی جی کا سایہ بنا ہوا تھا۔

            بابا اُداسی کی مورت ہو گئے تھے۔ لیکن ان کی صبح والی روٹین میں فرق نہ آیا تھا۔ امی جی کو چپ سی لگ گئی تھی۔ گھبرا گھبرا کر بی بی جی کو چیک کرتی رہتیں۔ اپنے ہاتھ سے نہلاتیں ، کپڑے بدلتیں ، کنگھی کرتیں ، باتیں کرتیں۔ انہیں یاد کرانے کے سارے جتن کرتیں لیکن وہاں پر کبھی شناسائی کی جھلک ہوتی اور کبھی سرد مہری اور اجنبیت۔

            مدیحہ پھوپھو کو بھی ایک چپ سی لگ گئی تھی۔

            دیکھئے اگر آپ بھی ایسی ہو جائیں گی تو ہم سب کا کیا ہو گا۔ ایک دن میں نے انہیں خلاؤں میں کچھ ڈھونڈتے دیکھا تو پریشان سی ہو گئی۔

            ’’گڑیا۔۔۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میری ماں مجھ سے عمر میں بہت بڑی ہیں اور وہ کبھی بھی کمزور پڑ سکتی ہیں۔۔۔ مجھے چھوڑ کر بھی جا سکتی ہیں۔ میں تو اس واہمے میں رہی کہ جن سے ہم پیار کرتے ہیں وہ کبھی بچھڑ ہی نہیں سکتے۔

            میں غلط تھی گڑیا! میں تو بچھڑ جانے کی اذیت سے گزر رہی ہوں۔۔۔اپنے ہی سوالوں سے ڈر رہی ہوں۔۔۔ میں اب کس سے پوچھوں گی کہ میں بچپن میں کیسی تھی۔ میں نے ’’ج‘‘ کب لکھنا شروع کیا تھا۔

            کونسا رنگ مجھ پر جچتا تھا۔

            میرے ابا جی مجھے کیا کہہ کر بلا تے تھے۔

            میرے پڑھنے پر انہیں کیوں روحانی خوشی ہوتی تھی۔

            گڑیا میں نے تو کبھی ان کی بات دھیان سے سُنی ہی نہیں۔

            میری البم کھو گئی ہے گڑیا! میرے پاس کوئی یاد نہیں ہے۔ کوئی تصویر نہیں ہے۔

            میری یادوں کے صندوق سے بھری میری ماں مجھ سے زندگی میں ہی بچھڑ گئی ہے۔

            بچھڑنے کی اذیت ایسی ہوتی ہے۔مجھے یقین نہیں آتا۔۔۔مجھے قرار نہیں آتا۔۔۔

            وہ مجھے اب دعا نہیں دے سکے گی۔

            وہ مجھے رخصت بھی نہیں کر سکے گی۔

            وہ ہم میں رہتے ہوئے بھی ہم میں نہیں ہیں۔

            وہ ہم سے اتنی دور جا چکی ہیں جہاں سے واپسی ممکن ہی نہیں۔

            وہ زندہ ہیں ، پر زندگی سے کتنی دور جا چکی ہیں۔۔۔

            ہائے میں کیا کروں ! ‘‘ مدیحہ پھوپھو بے قراری سے رو رہی تھیں۔

            کبھی اُٹھ کھڑی ہوتیں اور کبھی بیٹھ جاتیں۔

            ’’کتنا بڑا نقصان ہو گیا ! یہ Dementiaکہاں سے آ گیا ہمارے بیچ میں۔ کتنا بڑا خسارا ہے۔ کسی انسان کا زندہ رہتے ہوئے بے بس ہو جانا۔ زندہ نہ رہنا۔ دنیا کے لیے بیکار اور فالتو سا ہو جانا۔

            ان کی بے نیازی ، اجنبیت، خالی خالی آنکھیں مجھے تڑپا رہی ہیں گڑیا! تم کتنی خوش نصیب ہو۔ تمہاری ماں ہوش و حواس میں ہے۔ سر سے پیر تک۔ اندر سے باہر تک ہوش مند، با خبر! تم نہ کھونا اپنی البم کو ! ہر لمحہ باتیں کرنا! تمہیں یاد ہے ناں بی بی جی کیا باتیں کرتی تھیں۔ ’ ماں سے باتیں کرنا ہی امیری ہے۔ ‘

            ’’دیکھو میں فقیر ہو گئی ہوں۔ غریب ہو گئی ہوں۔ ‘‘ مدیحہ پھوپھو کی بے بسی سنبھالنی میرے بس سے باہر ہو رہی تھی۔

            وہ دِن بدن اُداس ہوتی جا رہی تھیں۔

            خاموش، ویران، تنہا تنہا سی۔ ان کی کیفیت ایسی تھی جیسے پہلی بار کوئی بچہ اپنی ماں سے جدا ہوتا ہے۔ دنیا کو حیرانگی سے دیکھتا ہے۔ پلٹ پلٹ کر آنسوؤں بھری آنکھوں سے ماں کو تکتا ہے۔ جو اس کی کل کائنات ہوتی ہے۔ ایک یقین اور بھروسہ ہوتی ہے۔

            سارے دکھوں سے بچا لینے والی ماں۔

            خوش رنگ کھلونے کی طرح بہلانے والی ماں۔

            پیار کی طرح برس جانے والی ماں کو ایسے دیکھتا ہے جیسے اب کبھی نہ دیکھے گا۔سارا دِن بے چین رہنے کے بعد گھر آتا ہے تو ماں کی گود میں چھپ کر پھر سب کچھ بھول جاتا ہے۔

            بچہ ماں کو اکثر بھول جاتا ہے۔ لیکن ماں کبھی بچے کو نہیں بھولتی۔

            لیکن کبھی کبھی عمر کے آخری حصے میں ماں بچے کو بھول سکتی ہے۔ انہیں آزمائشوں کے کٹہرے میں کھڑا کر سکتی ہے۔ اِسی کی بے اعتباری تھی۔۔۔

            بابا ، مدیحہ پھوپھو اور امی جی، ہم سب ہی کا خسارا ہوا تھا۔بی بی جی کی صورت دعاؤں کا نقصان ہوا تھا۔۔۔       گھر کی خوشیوں کو گھات لگی تھی۔

            مکینوں کے دِلوں پر حملہ ہوا تھا۔

            اس طرح بچھڑنے کی اذیت کسی کے مر کر بچھڑ جانے کی اذیت سے بہت مختلف تھی۔ اپنی سب سے پیاری اور عزیز ہستی کی بے بسی اور اجنبیت کے ساتھ دیکھنا بڑے ہی حوصلے کی بات تھی۔۔۔

            تب ہی تو امی جی مدیحہ پھوپھو کو گلے سے لگا کر تسلی دے رہی تھیں۔

            مٹی اپنی ذات میں بڑی عجیب ہوتی ہے۔ ہوا کے دوش پر ملکوں ، شہروں اُڑتی پھرتی ہے۔

            اسی مٹی کے بنے ہوئے انسان بھی بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ ملکوں ، شہروں اُڑتے پھرتے ہیں۔

            اپنی اپنی منزلوں کی طرف۔

            اُس رب کا حکم جو ہوا۔ مٹی کو تو سفر ہی کرنا ہے اپنی منزل کی طرف۔

            ہماری بی بی جی کی یہی منزل تھی۔

            یہی منزل تھی ان کی۔۔۔

            مٹی کا سفر کب رکا ہے۔

            کون روک سکا ہے۔

———————–

 

روشنی

وہ یوں جلد بازی میں چل دیا

کہ میں ہاتھ تک نہ ہلا سکا

وہ جدا بھی کیسے ہوا کہ میں

کوئی رسم بھی نہ نبھا سکا

’’دِل میں اِک دِیا بھی جلتا رہے تو مسافر بھٹکنے نہیں پاتے۔‘‘

            اینا گریٹا میں کیا تھا ؟ یہ کہنا میرے لیے بہت مشکل تھا۔ ساری لڑکیوں کو چھوڑ کر میں صرف اسی پر کیوں مرتا تھا۔۔۔ یہ سمجھنا بھی نا ممکن تھا۔ دن رات چکور کی طرح اُسی کی طرف کیوں پھیریاں کھاتا رہتا تھا۔ اس کا جواز بھی مشکل۔۔۔ کیوں جواب نہ بن پڑتا۔

            جو کچھ بھی تھا ، نہ میں سمجھ پاتا اور نہ کسی اور کو بتا پاتا کہ ایسا کیا ہے اس میں کہ اسے میں زندگی کا مرکز بنا بیٹھا ہوں۔

            ’’یونیورسٹی کے ہر فنکشن میں یہی تمہارے پاس کیوں کھڑی ہوتی ہے شکیل؟‘‘

            امی کی کھوجتی آنکھیں کبھی تصویر اور کبھی مجھ پر ٹک جاتیں اور شک میں ڈوبی ہوئی آواز دونوں میرا پیچھا کرتیں مگر ہر بار مجھے سب کچھ کہہ دینے سے روک دیتیں۔

            ’’ارے بھئی، یہ ولایت ہے ، پاکستان نہیں ہے۔ ‘‘ ابا جی چونکا دیتے۔ ’’لڑکا ہے اور پھر امریکن ہے ، یہ اینا گریٹا اس کی یونیورسٹی فیلو ہے۔ ‘‘

            ابا جی امریکا میں رہنے کے باوجود ’’ڈیڈ ‘‘ نہ ہو سکے تھے۔ ہمیشہ ہی میرے ساتھ رہتے۔ میرا ہی ساتھ دیتے تھے۔

            ’’یہ اینا گریٹا تو نہ ہوتی کم از کم۔ ‘‘ امی جی غصے میں ہم دونوں کو گھورتیں۔

            ’’چلو اگر کوئی سلمہ، سمیرا ہوتی تو تب بھی تم یہی کہتیں۔ بھئی دوستی بھی کبھی مذکر مونث کی حدود اور درجہ بندی رکھتی ہے کیا؟ یہ تو اعتبار ہے ، کسی پر بھی ہو جائے ، اور ہمارا بیٹا تو ہمارا دوست ہے ، ہے کہ نہیں ؟‘‘

            ابا جی ایک ہاتھ میرے کندھے پر اور ایک امی جی کے کندھے پر رکھ کر بیچ میں ایک ستون سا بن جاتے۔ پھر کہنے کے لئے سارے لفظ ڈر جاتے اور سہم کر میرے دل میں چھپ جاتے اور امی جی شاید سارے واہموں کی پٹاریاں بند کر دیتی ہوں گی۔۔۔ مگر میں شاید بے ایمان بھی تھا۔ جب ہی تو نظریں چرا جاتا، ہر حقیقت سے۔

            اینا گریٹا فرسٹ ائر ہی سے میری کلاس فیلو تھی۔ وہ اسپین سے پڑھنے آئی تھی۔ یونیورسٹی Accommodationمیں رہتی تھی۔ دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی لیکن اس نے کبھی اکیلے پن کو روگ کی طرح گلے نہ لگایا تھا۔ ہنس مکھ ، مست ملنگ سی اینا گریٹا میرے ساتھ ہی جرنلزم میں ماسٹرز کر رہی تھی۔

شوق ایک!

کلاس ایک!

کتابیں ایک!

            تو پھر ساری گھڑیاں بھی اکٹھی ہو گئیں۔ ہر وقت ایک ہی سا وقت رہنے لگا۔

            گو کہ میں پیدا پاکستان میں ہوا تھا مگر پلا بڑھا امریکا میں تھا۔مگر پھر بھی پنجابی ، اُردو بول سکتا تھا اور تھوڑی تھوڑی پڑھ بھی سکتا تھا۔ یہ سب امی جی نے ہی مجھے سکھایا تھا۔ بقول ان کے ، مذہب پیدا ہوتے ہی کانوں میں پھونک دِیا جاتا ہے اور ساری عمر کے ساتھ پلتا بڑھتا رہتا ہے مگر مذہب کی آبیاری کے لئے ، اسے نکھارنے کے لئے ، کلچر اور تہذیب کے پودے بھی لگانے پڑتے ہیں۔ اپنا کلچر ، اپنی تہذیب اُگاتی پڑتی ہے۔ اس کی دیکھ ریکھ کرنی پڑتی ہے۔تاکہ فصل اچھی ہو۔ ورنہ جو بویا ہے وہی کاٹو گے !! ان کا یہ فلسفہ کسی کے بھی پَلے نہ پڑتا تھا۔ سوائے ابا جی کے۔۔۔ شاید اس لیے کہ وہ آپس میں بہت اچھے اور بہت گہرے دوست بھی تھے۔

            ہم لوگ ہر تیسرے سال پاکستان جاتے۔ پھر اپنے گاؤں بھی جاتے۔ جہاں بی بی جی ہزاروں دعاؤں سے استقبال کرتیں اور ہم بہت ساری یادیں لیے واپس آ جاتے۔ شروع شروع میں بہت بوریت ہوتی تھی۔ زندگی رُکی رُکی سی لگتی۔

            کبھی کبھی مہک بھی ابکائی لے آتی اور واش روم کی اجنبیت ناقابلِ بیان ہوتی۔ پھر ابا جی مجھے اور ارم ، جو سارے ددھیال میں اکلوتی اور میری چھوٹی بہن تھی ، گود میں لے کر سمجھاتے۔

            ’’دیکھو بیٹے ، بہت ساری باتیں ایک دم کوئی نہیں بدل سکتا۔ ‘‘ بہت ساری تبدیلیوں کے لئے بہت سارا وقت بھی چاہیے ہوتا ہے۔

            ’’کیوں ابا جی؟ ‘‘  ارم زیادہ ہی خفا تھی۔

            ’’اس لیے کہ وہ ہماری نہیں ہوتیں ! یہ باتیں ، یہ چیزیں اوروں کی ہوتی ہیں انہیں پیاری جو ہوتی ہیں ! اب یہی سوچو دادی جی یعنی بی بی جی اگر امریکا رہنے کے لئے آئیں تو انہیں کیسا لگے گا۔

            یہی بوریت، بھاگتی دوڑتی زندگی، اجنبی زبان۔۔۔ انگریزی کلچر اور واش روم تو شاید انہیں استعمال ہی نہ کرنا آئے تو کیا ہم ان کے تین مہینے آرام کی خاطر سب کچھ بدل سکتے ہیں ؟ ‘‘

            میرا اور ارم کا سر بے ساختہ ’’نہیں ‘‘ میں ہل جاتا۔ ابا جی کی وہ مسکراہٹ اب بھی میرے ذہن کے کسی کونے میں چپکی ہوئی ہے۔ جیت اور فتح کی چمک بھری مسکراہٹ۔ اپنے بچوں پر فخر کی چمک! کیا کچھ نہ تھا ان کے چہرے پر۔ انہوں نے ہم دونوں کو گود میں بھر لیا تھا۔

            ’’تو پھر وہ کیوں بدلیں ہماری خاطر۔۔۔ ہمارے صرف دو مہینوں کی خاطر۔۔۔‘‘

            ’’لیکن بی بی جی نے ہمارے لئے نیا واش روم بنوا دِیا ہے۔ ‘‘ اِرم کی آنکھیں حیرت سے پھیل رہی تھیں۔

            اس لیے کہ وہ سب سے زیادہ گریٹ ہیں۔ ان کے دِل میں آسمان جتنی بلندی ہے اور زمینوں پھیلی وسعت ہے اور اس میں بھرا صرف پیار ہی ہے۔ جو صرف نچھاور ہونا جانتا ہے۔ بے لوث سا پیار۔۔۔ ہر وقت ناقدروں اور نا شکروں کو ہی ملتا ہے۔ ‘‘

وہ ہمیں چھوڑ کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔

            ’’لیکن میں اپنی بی بی جی کو تھینکس بولوں گا۔ ‘‘ مجھے تو اس وقت بس یہی سمجھ آیا تھا۔

            ’’گڈ۔۔۔ ویری گڈ! ‘‘ انہوں نے مجھے اور ارم کو پھر گلے لگا لیا اور پھر میرے ابا جی نے مجھے سکھایاکہ ہمیں کو ئی بھی چیز For Granted( اپنا حصہ سمجھ کر ) نہیں لینی چاہیے۔ شکریہ ضرور کہنا چاہیے۔ ہر بار۔۔۔ چاہے جتنی بار کہنا پڑ جائے۔

            یوں ہم سب گاؤں جانے کا انتظار کرنے لگے۔ بقول امی جی کے ، ارم تو نئے کپڑوں  کے چکر میں گاؤں جاتی ہے اور تم صرف بی بی جی کے Spoil Kidکے طور پر جاتے ہو۔ جو کچھ بھی تھا، یہ سب کچھ وقت کے ساتھ ساتھ ایک ضرورت سا بن گیا تھا۔ ہمارے گھر کے بھی بڑے عجیب سے قانون تھے۔ امی ابا جی کی طرف سے ہدایت تھی کہ گھر میں زیادہ سے زیادہ اُردو یا پنجابی بولی جائے تاکہ یاد رہے ورنہ رابطے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اپنے لوگوں سے۔ اگر یہ ناتے ٹوٹ جائیں تو نسلیں ولایتی ہو جاتی ہیں۔ پھر مذہب صرف کاغذوں میں لکھا رہ جائے گا اور کلچر بھی نہ رہے گا۔ پہچان ختم ہو جائے گی۔نہ مسلمان نہ پاکستان! سب اِدھر اُدھر۔۔۔!

            کپڑے ہم انگریزی پہن سکتے تھے مگر مکمل اور مناسب انداز میں۔ اِرم گھر میں شلوار قمیص اور دوپٹہ اوڑھتی۔ کالج میں پینٹ شرٹ پر بڑا سا مفلر لیتی جو اس پر بہت سوٹ کرتا تھا۔

            امی جی ہمیشہ کہتیں۔ ’’ملکوں کے بدل جانے سے ذمے داریاں تھوڑی سی بدل جاتی ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہمیں عزت سے جینا ہے اور جو حدیں مقرر ہیں ، اُن سے باہر نہیں ہو سکتے۔ یہی حرام، شراب، بے حیائی نے۔۔۔ دیکھو کن حالوں پہنچا دِیا ہے ! توبہ استغفار۔۔۔ اللہ نے شاید لوگوں کو اس لئے دُنیا میں پھیلا رکھا ہے جانے کب کس سے ہدایت پا جائے۔۔۔ پر بیٹا کچھ تو ایسا کرو کہ اُنہیں تم بھی کچھ سِکھا سکو۔‘‘

امی جی کی آواز اب قدرے تیز ہو چکی تھی۔ اب انہیں کون چپ کرائے گا۔

            ’’ماں جی کیوں اتنا بولتی ہو آپ۔‘‘ میں ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو گیا۔ ’’چپ ہو جائیے ، جس کو سنا رہی تھیں وہ جانے کب سے اپنے کمرے میں جا چکی ہے۔‘‘

            ’’تم تو سُن رہے ہو نا! بتا دینا لاڈلی کو، زمین بدلی ہے خود تو نہیں بدلے۔ ‘‘

            وہ واقعتاً خفا تھیں اِرم سے۔ بس اِتنی سی بات تھی کہ وہ دیر تک اپنی کسی سہیلی کے گھر رک کر پڑھنا چاہتی تھی۔ امی جی کے انکار کرنے کے بعد انہیں Too much over protectiveہونے کا تعنہ مل گیا تھا۔ بس پھر وہ بپھر گئی تھیں۔

            ’’اپنے گھر جانا پھر کرنا سب کچھ۔ مسلمان لڑکیاں اپنی حیا اور سادگی کے ساتھ رہتی ہیں۔ تم سب نے پڑھائی کے بہانے صرف کھی کھی کرنی ہے یا پھر فیشن کی باتیں۔ وہ بھی یہاں ، جہاں رشتوں کا لحاظ نہ بڑے چھوٹے کی تمیز نہ عزت۔۔۔ ‘‘

            ’’ارے امی، جانے دیجئے ، دیکھئے اس نے پوچھا تو! ‘‘ میں نے ارم کی طرفداری کی۔

            ’’اِسی بات کا تو غم ہے کہ پوچھا کیوں۔ اس نے وہیں کہہ دینا تھا کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ ابھی تک اسے کیا یہی تربیت ملی ہے ؟ ‘‘

            ’’چلیے میں سمجھا دوں گا مگر آپ تو ریلیکس ہو جائیں۔‘‘

            میں انجانے میں ابا جی ہی کی کاپی کرتا تھا۔ صلح صفائی، بیچ کی راہ، اعتدال پسندی،اپنی ماں سے بے حد پیار اور ان کی سب سے زیادہ عزت۔

            امی جی اپنے کمرے میں جا چکی تھیں۔میں نے انہیں ایسے دیکھا جیسے ابا جی بی بی جی کو دیکھا کرتے تھے۔ جیسے اب کبھی نہ دیکھیں گے۔ وہ کتنے پیار سے ہر مہینے بی بی جی کو ہزاروں روپے بھیجتے تھے۔ جنہیں وہ دعاؤں کے ساتھ رکھ لیتی تھیں اور ہر بار کہتیں۔

            ’’زمینوں کا ہزاروں آ جاتا ہے پُتر۔۔۔ کیوں تکلیف کرتے ہو۔‘‘

            ابا جی ہمیشہ کہتے۔

            ’’میرے پاس جو کچھ ہے ، سب آپ کا ہے۔ میں تو برکت کے لئے بھیجتا ہوں۔ پھر ہر بیٹے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ماں باپ سے پیار کرے۔ ان کی خدمت کرے۔ مجھے اس خدمت سے مت روکیے۔ویسے بھی میں اِتنا دور ہوں۔‘‘ ان کی آواز بھرا جاتی۔

            دِل سے دور نہ ہونا بیٹے ، یہ سارے فاصلے تو رب دے فیصلے ہیں۔ اس کو یہی منظور تھا۔ رزق کے سلسلے میں تو دِل نہ میلا کیا کر۔ سب یہاں میرا خیال رکھتے ہیں۔تو بھی سب کا خیال رکھا کر۔‘‘

            ’’آپ خوش ہیں نا ں مجھ سے ؟‘‘ وہ ہر بار بے قراری سے پوچھا کرتے۔

            ’’ماں واری بیٹے۔۔۔ بہت زیادہ۔‘‘

            پھر بی بی کی ہنسی اسپیکرپر مہک بن کر لپٹ جاتی۔ ابا جی کی آنکھیں جھلملا جاتیں اور امی جی پیار سے۔ ’’چائے پیتے ہیں۔ ‘‘ کہتی ہوئی اُٹھ جاتیں۔

یہ سب کچھ ہر ہفتے ہوا کرتا تھا۔

            امی ابا جی اپنے اپنے گھروں میں فون کا اسپیکر آن کر کے ہی بات کیا کرتے تھے۔مجھے اور ارم کو بھی بٹھا لیا کرتے۔ ان کا خیال تھا کہ اپنوں سے رابطہ ضرور رہنا چاہیے۔ چاہے پل بھر کا ہی کیوں نہ ہو اور دیر بعد ہی کیوں نہ رکھا جائے۔

            جب ہم سب مل کر ایک ہی جگہ رہتے ہیں تو مذہب تہذیب خود بخود انسانوں کی تعمیر کرتا چلا جاتا ہے۔ لیکن جب ہم دور رہتے ہیں تو یہی رابطے ہماری تعمیر کرتے ہیں۔ انہیں اس کا احساس اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ سب مل کر رہ رہے ہیں اور ہم تھوڑے سے لوگ یہاں رہ کر ان جیسا ہونے کی محنت مسلسل میں مبتلا۔۔۔

            ’’بیٹے رشتوں اور رابطوں کو نبھانا ہی تو اصل تربیت ہے۔ ‘‘

            اور پھر واقعی ہمیں یونہی لگتا جیسے ہم امریکا بیٹھ کر پاکستان میں رہتے ہیں۔

            ماں باپ کی عزت۔۔۔

            سمجھداری کے لیکچر۔۔۔

            نماز، قرآن کی باتیں۔۔۔

            عید، شب برات کا اہتمام۔۔۔

            پاکستان کی محبت۔۔۔

            کلچر، تہذیب، فیشن، فلم، سیاست، کیسی باتیں تھیں جو ختم ہی نہ ہوتی تھیں۔ جو کوئی بھی ہم سے ملنے آتا۔ وہ جلدی جاتا ہی نہ تھا۔ امی ابا جی کی باتیں۔ دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلنے کی باتیں۔ سیدھا سادہ رہن سہن۔ مقابلے بازی پر ہنسنے والے میرے ابا جی۔ سب کو اتنے مختلف اور اچھے لگتے کہ کوئی بات کہنے میں انہیں ڈر نہ لگتا تھا۔ میرے ابا جی ہمیشہ کہا کرتے۔

            ’’میں نے اپنے دین اور کلچر کو امریکا میں آ کر جانا ہے اور دِل میں بسایا ہے۔ وہاں تو میں نا شکرا تھا۔ اپنے رب کا بھی اور انسان کا بھی۔ خدا جانے لوگ یہ کیوں کہتے ہیں کہ پردیس انسان کو گم کر دیتا ہے۔ میں تو دیے کی طرح روشن ہو گیا ہوں۔ پور پور اپنے رب کو ماننے لگا ہوں اور اس کی رضا پر راضی رہنے کی دعائیں کرنے لگا ہوں۔ ‘‘ ان کی آنکھوں میں نمی سی تیر جاتی۔

            نماز کا ہمیشہ اہتمام کرتے اور ہمیں بھی کہتے۔

            ’’میں نہیں کہتا کہ پانچ نمازیں پڑھا کرو حالانکہ فرض ہیں اور نہ پڑھنے والوں کو سخت سرزنش ہے۔ لیکن یار ’’ایک ‘‘ پڑھنے سے تو سٹارٹ کرو۔

            میری بی بی جی کہتی ہیں۔ ’’جو شخص ایک نماز بھی روز پڑھتا ہے وہ ایک روز پانچ بھی پڑھے گا۔ اللہ کی توفیق ہو گی اُسے۔‘‘

            ان کے انتہا پسند دوست ان کی اس چھوٹ دینے پر خفا ہو جاتے تو وہ ہنس کر کہتے۔

            ’’یار ، رحم کرو ان بچوں پر ، بھول گئے اپنا وقت۔ مسجد کے سامنے سے گزر جاتے تھے اور کبھی نماز نہ پڑھی تھی۔ لگا تار تین جمعے ادا کرنے بھی مشکل لگتے تھے۔‘‘

            ’’یارو، اپنے بچوں میں دین سے پیار پیدا کرو، آسانیوں سے نہ کہ سختیوں سے۔ سختی سے سیکھا ہوا علم نہ پائیدار ہوتا ہے اور نہ ہی لگاتار۔ ‘‘

            اُنہوں نے مذہب کو اتنا آسان اور پیارا بنا کر ہمیں سکھا یا تھا کہ ہمیں پتا ہی نہیں چلا کہ کب وہ اتنا مضبوط تناور درخت بن گیا۔

            ارم ہر ہفتے ہم سب کے لئے ناشتا بناتی۔ سب سے پہلے اُٹھ جاتی۔ ابا جی ضرور ہی اس کی حمایت میں امی جی سے کہتے۔

            ’’سونے دِیا کرو۔ سارا ہفتہ کم ہے صبح اُٹھنے کے لئے۔ ‘‘

            امی جی کہتیں۔ ’’ویک اینڈ پر سب کا آرام کرنے کو دِل کرتا ہے۔ لیکن اچھی لڑکیاں دوسروں کے آرام کا خیال سب سے زیادہ رکھتی ہیں اور ذمے دار لڑکیاں ہر روز جلدی اُٹھتی ہیں۔‘‘

            ان کا منطقی ہونا کبھی کبھی ارم کو گھبرا ڈالتا۔ لیکن وہ بھی چپکے چپکے امی جی اور بی بی جی کا مکسچر بن گئی تھی۔

            ہمارے گھر میں سارے کلچر آباد رہتے تھے لیکن ان سب پر حاوی پاکستانی کلچر تھا جو ہم پر ماں باپ نے تھوپا نہیں تھا۔ محبت سے پروان چڑھایا تھا۔ وہ کہتے تھے۔

            ’’ہر ملک کے بنیادی کلچر میں ان کے مذہب کی بنیادیں ہوتی ہیں ، انسان غرض کی خاطر اپنا مذہب بدل لیں یا تہذیب و تمدن بدل لیں ، اپنی بنیادیں نہیں بدل سکتے۔ یہ مضبوط بنیادیں اچھے ماں باپ رکھتے ہیں۔ تم جہاں بھی جا کر رہو، جس کے ساتھ چاہے رہو۔ تم اندر سے پاکستانی ہو اور پاکستان کا بنیادی مذہب اور کلچر مسلم ہے۔ اس کی کمی تم ہر جگہ پاؤ گے۔ اگر تم نے اپنے بچوں اور گھروں کی بنیادیں مضبوط نہ رکھیں تو تمہیں اندر ہی اندر روگ لگ جائے گا۔ ‘‘

            عید، شب برات کے دن میں ڈھونڈو گے ! ریڈیو پر ، دیوانہ وار اُردو کے اسٹیشن لگاؤ گے ! اور اندر ہی اندر کہیں کسی کونے میں تمہارا دل کرے گا کہ تمہاری بیوی ، تمہاری فیملی ایک ساتھ بیٹھ کر اپنی زبان میں چاہے اچھی ہوں یا بری۔۔۔ ہر بات شیئر کیا کریں ! باتیں کیا کریں۔ اور تم بچپن کی شرارتوں کے قصے سناؤ!

            بی بی جی کے صحن میں لگے امرود اور بیری کے پیڑوں پر لٹکنے پر ناراضگیوں کی کہانی سناؤ۔۔۔ اپنے ابا جی کی باتیں کرو۔

            نماز و حدیث کی تلقین کرو۔ بھولنے پر پھر نئے سرے سے یاد کراؤ! یہ سب کیا ہے بیٹے ؟ یہ سب ایک بندھن ہے۔ ناتا ہے اپنے وطن سے۔ جو ایک حوالے کی طرح ساری عمر ہر ایک کے ساتھ رہتا ہے۔ ہر جگہ، ہر پل ایک رشتہ۔۔۔ایک گہرا پیار بن کر جتنا مرضی بھاگ کر دیکھ لو، سکون اپنے ہی گھر میں ملتا ہے۔‘‘

            یہی بات اینا گریٹا نے بھی کہی تھی۔

            ’’امریکا میں سالوں سے رہ رہی ہوں لیکن جو مزا اسپین میں ہے وہ تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہاں کی بات ہی اور ہے۔ سڑکیں ، سینما، چرچ، آنٹی کا گھر اور پھر ہمارا گھر ، میرا ا سکول، میری فرینڈز، شاپنگ سینٹرز۔۔۔ ‘‘

            پھر وہ گھنٹوں باتیں کرتی رہتی۔

I don’t know why sometime, I miss my homeland too much…

اور میں کہ دیتا۔ ”Sometime we all miss ours own homeland”

            ’’اپنے وطن سے رشتہ بہت علیحدہ سا ہوتا ہے۔ اتنا مضبوط اور گہرا کہ ہمیں خود بھی پتا نہیں لگتا! اور اس کا ادراک اس دن ہوتا ہے جب وہاں دنگے فساد ہو جائیں یا پھر کوئی اسے برا کہہ دے۔ ‘‘

            ’’ہاں۔۔۔!! لیکن ایسی باتیں نہ تو کوئی سنتا ہے اور نہ سمجھتا ہے۔ ‘‘

            اینا گریٹا کی ایسی ہی عجیب باتیں جو مجھ سے ملتی جلتی تھیں ، مجھے اس کے ارد گرد رکھتی تھیں۔ شاید ابھی تک اس کے گرد چکر پھیریاں کھانے کا یہی جواز تلاش کر پایا تھا لیکن جو کچھ بھی تھا اور جو ہو رہا تھا وہ میں کسی سے شیئر نہ کر سکتا تھا۔ نہ ارم سے حالانکہ وہ مجھ سے صرف دو سال ہی چھوٹی تھی۔ مگر وہ حقیقتاً گھر میں چھوٹی ہی تھی یا پھر میں ہی رسک نہ لینا چاہتا تھا۔ امی ، ابا جی سے بھی نہیں ، انہیں کیا بتاتا کہ میں ایک غیر مسلم ، غیر زبان اور غیر ملک کی حسین ترین اینا گریٹا سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ انہوں نے تحمل سے سننا تھا اور آخر میں ضرور پوچھتے ،

            ’’شکیل، تم اپنی نسل کو کون سی تربیت دینا پسند کرو گے۔۔۔ مسلم یا غیر مسلم۔ ‘‘

            "Of course, Muslim!”

            میں بڑے یقین سے یہی کہتا پھر ابا جی مجھ سے ضرور پوچھتے کہ ’’کیا اینا گریٹا سے پوچھا ہے ؟ ‘‘

            اس سے پہلے کہ میں کچھ اور سوچتا اور سوال جواب کے تانے بانے بنتا ، میں نے اینا گریٹا سے خود ہی پوچھ لیا۔

            ’’بھئی شکیل، میرے لئے تو مذہب صرف سنڈے چرچ تک ہی ہے۔ چلو تمہاری خاطر مسجد سے بدل لیں گے۔ ‘‘

            لیکن مجھے شاید یہ سب سے پہلی بات اینا گریٹا کی بالکل اچھی نہیں لگی۔ اس کی غیر سنجیدگی یا پھر مذہب سے نا واقفیت کچھ بھی اچھا نہ لگ رہا تھا۔ اگر یہی سوال وہ مجھ سے کرتی تو میرا جواب بلا سوچے سمجھے شدید انکار میں ہوتا۔ مجھے یاد آ رہا تھا۔ جب امی جی مجھے اور ارم کو کلمے سکھا رہی تھیں تو سب سے زیادہ ارم ہی شور مچا رہی تھی۔ ‘‘

            ’’کیا ضروری ہے کہ کلمے بھی سیکھے جائیں۔ مسلمان ہونا کافی نہیں ہے ؟ ‘‘

            تب امی نے گرج کر ناراضگی کا اظہار کیا تھا پھر ذرا سی نرمی آواز میں پیدا کی۔ جیسے غصہ اندر ہی اندر پی رہی ہوں۔

            ’’دیکھو، اگر تم یہ سب نہیں سیکھو گے تو اپنے بچوں کو کیا سکھاؤ گے ؟ ‘‘

            ’’میں تو سب کو آپ کے پاس بھیج دوں گی۔ ‘‘ ارم کے پاس اس مسئلے کا یہی حل تھا۔

            امی نے محبت سے اسے گلے لگا لیا تھا اور اتنی ہی محبت سے گویا ہوئیں۔

            ’’سارے مسئلو ں کا حل ہے اس دنیا میں۔ لیکن ایک مسئلے کا حل نہیں ہے کہ اچھے ماں باپ کیسے تیار کیے جائیں جو باتیں ایک اچھے ماں باپ چلتے پھرتے ، باتوں سے ، عمل سے اپنے بچوں کی تربیت کر سکتے ہیں وہ کوئی ا سکول ، کالج ہزاروں کتابیں اور ہزاروں استاد بھی نہیں کر سکتے۔ اسلام ٹی وی اور ریڈیو سے نہیں پھیلا، انسانوں سے پھیلا ہے۔ اچھے انسانوں سے۔

پیغمبروں ؑسے۔۔۔

ولیوں سے۔۔۔

            اسلام اور ہماری اسلامی تہذیب کسی میڈیا کی محتاج نہیں ہے ، یہ اچھے انسانوں سے لے کر اچھے ماں باپ کی محتاج ہے۔ یہ سب صدقۂ جاریہ ہے۔

            وہ پیار سے اسے روشن کر رہی تھی۔ اچھے انسان سے لے کر اچھے ماں باپ بننے کی تربیت کر رہی تھی۔ جس کی بنیاد مذہب اور کلچر میں رکھی ہوئی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے تھے۔

ابا جی کتنے جذب سے کہا کرتے تھے۔

            ’’کلمہ ہے تو مسلمان ہے۔ بڑے ہی کم لوگوں کو ہدایت ملتی ہے اس کلمے کی، جس کو بھی توفیق ہوئی۔۔۔ ولی ہو گئے۔‘‘

            ابا جی کے پاس ہزاروں غیر مسلموں کے مسلمان ہونے کی اطلاع تھی۔’’نصیب والے ہیں جو ہدایت پا گئے بغیر کسی لالچ کے ‘‘ صرف اللہ کی خاطر، کلمہ پڑھنا بڑے نصیب کی بات ہے۔ ہم صدیوں سے ناشکرے ، مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے۔ بغیر کسی لالچ کے اس کا کلمہ بھی نہ پڑھ سکے ، ناشکرے ، بد نصیب ہم لوگ، اللہ فضل کرے ہم پر۔۔۔

            اور اس اینا گریٹا نے بغیر سوچے سمجھے ، بغیر جانے کہ مذہب اسلام کیا ہے ، کہہ دِیا کہ چرچ نہ سہی ، مسجد ہی سہی۔ صرف مجھ سے شادی کی خاطر! صرف اپنی خوشیوں کا لالچ۔۔۔ تم! اینا گریٹا تم! میں ابھی تک حیران تھا۔

            ’’ارے یار، تمہیں تو نہیں کہا کہ مذہب بدل لو۔‘‘ اینا گریٹا نے مجھے چونکا دِیا۔

            ’’میں چرچ کا احترام ضرور کرتا ہوں لیکن اپنی مسجد سے بدل نہیں سکتا۔‘‘ میری آواز میں نہ چاہتے ہوئے بھی سختی سی آ گئی تھی۔ شاید میرے ماں باپ کی تربیت کی یہ پہلی جیت تھی۔

            ’’تمہیں کون کہہ رہا ہے۔ میں بدل رہی ہوں ناں۔‘‘ اینا گریٹا نے یقین دِلایا۔

            ’’تمہیں معلوم ہے مذہب اِسلام کیا ہے ؟‘‘ میں نے اُس کی طرف دیکھا۔

            ’’ضرورت کیا ہے جاننے کی، بس یہ بتاؤ کہ کرنا کیا ہے Changeکرنے کے لئے ؟ مسجد جانا ہے یا یہیں اس یونیورسٹی کمپاؤنڈ میں مسلمان ہو سکتے ہیں۔ ‘‘ اس نے لاپروائی سے کندھے اُچکائے۔

            ’’ضرورت ہے مذہب جاننے کی، اینا گریٹا۔۔۔! ‘‘ میری آواز بلند ہو رہی تھی۔

            ’’فیملی بنانی ہے ، Growکرنا ہے۔ اس دُنیا کو اچھے لوگ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ ‘‘ میں بحث پر اُتر آیا۔

            ’’جرنلزم زیادہ پڑھ لیا ہے تم نے۔ دیکھو مذہب اہم ہے لیکن میں نارمل ہوں ، مذہب کو لائٹ سا لیتی ہوں۔ ‘‘

            ’’بچوں کو کیا سکھاؤ گی۔ ‘‘

            ’’کیا سکھاؤ گی تم اپنے بچوں کو۔‘‘ یہی بات ایک دفعہ امی جی نے غصے سے ارم سے پوچھی تھی۔ جب وہ مفلر نہیں لینا چاہتی تھی کہ شو خراب ہوتی ہے۔

            ’’جو وہ بننا چاہیں ، جو وہ سیکھنا چاہیں۔ ‘‘ اینا گریٹا نے اطمینان سے میرے قریب ہو کر مسکراتے ہوئے کہا۔

            اور مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ ارم نے امی جی سے کہا تھا۔

            ’’اچھے انسان اور اچھا مسلمان۔‘‘

            امی جی نے پلٹ کر کہا تھا کہ ’’جب کوئی بھی انسان دیسی پھل پھول، بدیسی زمین اور آب و ہوا میں پروان چڑھانا چاہے تو اس پر دُہری ذمہ داری آن پڑتی ہے۔ دیسی زمین کی نمی اور آب و ہوا دینا بہت کٹھن مرحلہ ہے۔ ان معصوم پودوں کو تناور درخت بنانے کے لئے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ تھوڑا تھوڑا سب ہی کو دان دینا پڑتا ہے۔ کبھی وقت کا۔۔۔ کبھی خواہشوں کا۔۔۔ بچے اور پودے سب ایک جیسے ہی تو ہیں۔‘‘

            ’’تم چپ کیوں ہو؟ ‘‘ اینا گریٹا نے مجھے ہلا کر جیسے ایک گہرے خواب سے بیدار کر دِیا ہو۔

            ’’ہم اپنے بچوں کو کلچر کیا دیں گے ؟

            اسپین کا!

            پاکستان کا!

            یا پھر امریکن!‘‘

            میں ابھی بھی جیسے خواب کے اندھیرے میں جگنو چاہتا تھا۔

            ’’امریکن! ‘‘

            یہ بات اینا گریٹا نے ہنستے ہوئے کہی تھی مگر لہجے کا حتمی سا انداز مجھے حیران کر گیا۔

            ’’میرا خیال ہے کہ امریکن کلچر سب سے اچھا رہے گا۔ دیکھو اگر تم پاکستانی زبان اور کلچر سکھاؤ گے تو میرے لئے اجنبی ہو گا۔ اگر میں Spanishسکھاؤں گی تو تمہارے لئے۔ اس سے بہتر ہے کہ بچوں کو کنفیوژ نہ کیا جائے اور سیدھی سادھی انگریزی پر گزارہ کر لیا جائے اور مذہب وہ جو چاہے اپنا لیں۔ ان کی مرضی، ان کی چوائس اور آزادی۔

            مذہب!

            چوائس!

            آزادی!

            سائیکالوجی!

            میرا رواں رواں بے چین ہو گیا تھا۔ میری بی بی جی نے تو میری امی جی سے ہی کہہ رکھا تھا کہ جب لڑکی ماں بنتی ہے تو سمجھو اس کی آزادی، انجوائے شنجوائے سب ختم۔۔۔ یہ ایک ذمہ داری ہے اس سے بھاگنا بزدلی، ریت میں منہ چھا کر زندگی گزارنا ہے۔ اللہ نے تمہیں شکیل اور ارم دیے ہیں۔ ان کی تربیت ہی تمہاری انجوائے منٹ ہے۔‘‘

            اُنہوں نے اتنی خوبصورتی سے انجوائے منٹ کہا تھا کہ میرے ابا جی واری صدقے ہو گئے تھے اور ہر شخص بی بی جی سے پوچھ رہا تھا کہ یہ لفظ انجوائے منٹ کہاں سے سیکھا تھا اور وہ بس دھیمے دھیمے مسکرا رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں۔

            ’’امریکن کی ماں ہو ں۔‘‘

            ابا جی نے تڑپ کر بی بی جی کو گلے لگا لیا تھا۔

            ’’میں ایک پاکستانی کا بیٹا ہوں۔‘‘

            ’’اینا گریٹا! میرے بچے پاکستانی ہوں گے۔‘‘

            ’’امریکہ میں ! ‘‘ وہ حیرانی سے میرے پاگل پن پر ہنس پڑی۔

            ہاں ، یہاں پر، میری طرح !

            ایک اچھی ماں کے ساتھ رہیں گے !

            مذہب ، کلچر کی باتیں سیکھیں گے !

            عید، تہوار، شب براتیں منائیں گے !

            بڑے چھوٹے کی عزت کریں گے !

            ماں باپ کی خدمت، ذمہ داری کی طرح اُٹھائیں گے !

            صدقہ جاریہ کے دیے روشن کریں گے !

            اور اپنے ماں باپ کی باتیں اپنے بچوں کو سکھائیں گے !

            اپنا ماضی، حال شیئر کریں گے !

            اور کہیں گے کہ اسلام انسانوں نے پھیلایا ہے۔ کسی میڈیا نے نہیں ، وہ دنیا کو بتائیں گے کہ اسلام ایک سچے پیار کی طرح جادو اور سحر کر دینے والا ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہو، ایک ایڈریس کی طرح ساتھ رہتا ہے۔

            اسلام ایک کلچر کا نام ہے ، جس میں زندگی ہے !

            پیار فلسفہ ہے !

            عزت اور وقار سے جینے کا گر ہے !

            اُمید اور اعتبار کا موسم ہے !

            میں جو اینا گریٹا پر مرتا تھا، ایک چکور کی طرح چک پھیریاں کھاتا رہتا تھا۔ ساری دُنیا کی لڑکیاں چھوڑ کر صرف اسی کے ساتھ رہنا چاہتا تھا ، اسے یہ سب کچھ نہ سمجھا سکتا تھا کہ اس کے پاس سالوں سال سے سینہ بہ سینہ چلنے والے مذہب کا بیک گراؤنڈ تھا اور نہ تہذیب۔ بہت دِنوں کی کشمکش کے بعد میں نے اس سے آخر کہہ ہی دِیا۔

            ’’اگر تم مذہب بدل لو تو ہم شادی ضرور کر سکیں گے لیکن ایک مضبوط اور اچھی فیملی نہیں بنا سکیں گے۔ کیوں کہ ہماری زبان ایک نہیں ہے۔ کلچر ایک نہیں ہے۔۔۔ ہمارے تہوار الگ ہیں۔

            ہمارا اوڑھنا بچھونا ایک جیسا نہیں ہے بلکہ ہمارا تو کچھ بھی ایک جیسا نہیں ہے۔ تم کتنا کچھ بدلو گی میری خاطر، اور میں کتنا کچھ برداشت کر لوں گا تمہاری خاطر۔۔۔ پھر ایک دن ہماری محبت دم توڑ دے گی اور ہم میں سے کوئی نہ کوئی فیملی کے دائروں کو توڑ کر آزاد ہو جائے گا اور باقی سب لوگ بکھر جائیں گے۔ ‘‘

            وہ سراسیمگی سے سن رہی تھی، اس کی بلوریں آنکھیں آنسوؤں سے بھر رہی تھیں۔

            ’’اینا گریٹا پلیز! سمجھنے کی کوشش کرو، ہمارا کلچر بیک گراؤنڈ ایک جیسا نہیں ہے جو مذہب کی طرح By birth growنہیں کرتا بلکہ اچھے ماں باپ بدیسی زمین میں اپنی تربیت کے ہنر سے ایک پودے کو تناور درخت میں بدل دیتے ہیں۔یہ صرف وہ ماں باپ ہوتے ہیں جن کا کلچر ، بیک گراؤنڈ اور زبان ایک ہو۔ جو کلچر میں مذہب اور مذہب میں کلچر آباد رکھتے ہوں۔ میں ساری عمر یہ جنگ نہیں لڑ سکتا۔ Sorryاینا! مجھے معاف کر دینا، پلیز۔ ‘‘ میں واپس مُڑ رہا تھا۔

            اینا گریٹا روتی ہوئی اپنی Accommodationکی طرف بھاگ رہی تھی۔ اس کی دوست ایمی کہہ رہی تھی۔۔۔ ’’میں تمہیں یہی سمجھا رہی تھی کہ مسلمان سے کبھی دِل نہ لگانا کہ وہ کسی بھی وقت مسلمان ہو سکتا ہے اور انجام کم و بیش یہی ہوتا ہے ، تم تو خوش نصیب ہو جو شادی نہ ہوئی۔ ‘‘

            لیکن اینا گریٹا دوڑتی جا رہی تھی۔ اس نے کچھ نہیں سُنا تھا۔

            پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا کہ میں نے اس کا دِل توڑا تھا۔ چوٹ بھی گہری تھی۔ میں کیا کرتا، میرے اندر ماں باپ کی تربیت کا دِیا جلتا رہتا تھا۔ ابا جی ٹھیک کہتے تھے کہ ’’لڑکے لڑکیاں اس لئے غیر مسلم سے شادی نہیں کرتے کہ وہ اچھے مسلمان نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنے کلچر اور وطن سے پیار نہیں کرتے۔ ‘‘

            ’’توبہ جی ! کتنا مشکل ہے۔ باہر سے انگریزی ، گھر میں بھی انگریزی ، میری تو زبان ہی تھک جائے۔ ‘‘ امی جی نے اتنی خوبصورتی سے کہا تھا۔ ’’اپنی زبان میں شکایت کا مزہ ہے۔ ‘‘

            باوجود صدمے کے ، میں ہنس پڑا ان کی باتیں یاد کر کے۔

            کانووکیشن کے گروپ فوٹو میں اینا میرے ساتھ نہیں تھی۔

            ’’ارے ، اسے کیا ہوا، آج تم سے اتنی دور کیوں کھڑی ہے۔ کھٹ پٹ ہو گئی ہے کیا؟‘‘ امی جی نے راز داری سے پوچھا۔

            ’’نہیں بھئی!‘‘ میں نے تصویریں اُٹھاتے ہوئے کہا۔

            ’’بیٹا!‘‘

            امی جی نے مجھے سیدھا کھڑا کر دِیا لیکن میری آنکھوں کی نمی شاید ان سے آنکھیں نہ ملانے کا جواز بن رہی تھی۔

            ’’مجھے فخر ہے کہ تو میرا بیٹا ہے۔ ‘‘

            اُنہوں نے مجھے گلے سے لگا لیا۔ آج بھی ہمیشہ کی طرح وہ سب کچھ جان چکی تھیں۔ بغیر کچھ کہے ، بغیر بتائے وہ دِلوں کی تہوں تک ہو آئی تھیں لیکن کسی کو بھی خبر ہی نہ ہوئی تھی۔

            ’’نہیں امی جی ! میں خوش نصیب ہوں کہ آپ کا بیٹا ہوں۔ ‘‘ میں نے ان کے ہاتھوں کو چومتے ہوئے کہا۔

            ’’اللہ پاک تمہیں ایک اچھا ساتھی عطا کرے !‘‘ اُنہوں نے میری پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے بڑے جذب سے کہا۔

            ’’آمین! ‘‘ میرا روم روم کہہ رہا تھا۔

———————–

 

ہجرت

            انگریزوں کے شہر آنے کی تمنا تو بہت تھی مگر اس تمنا کے ہاتھو ں رسوائیاں بھی قابل دید تھیں۔ اس کا آغاز اُس دن سے ہو گیا تھا، جب حبیب صاحب کا ویزہ لگ کر آ گیا تھا۔ عائشہ اور عثمان کا خوش ہونا بجا مگر اس کا سارا بارِ گراں خاتونِ خانہ نفیسہ بیگم پر آ پڑا۔ مبارکباد کے لیے لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔پھر تیاریاں کیونکر اور کہاں سے شروع کی جائیں ، اس کا قصہ علیحدہ تھا۔ ماموں رشید ننگے پیر ویزے کی زیارت کو آئے آ خر کو فرسٹ ورلڈ آ نے کا سندیسہ تھا بلکہ دعوت نامہ۔

            ’’آہ ! بڑی مقدر والی ہے میری بہن۔‘‘ اُنہوں نے مارے شفقت کے نفیسہ بیگم کو لپٹا لیا۔

۔          ’’بھئی کہاں ہے ہمارا بھانجا؟‘‘ماموں رشید نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں۔

            ۔’’بھیا ہو گا کہاں۔۔۔ کہیں کالر کھڑی کر کے ہانک رہا ہو گا بے پر کی ‘‘۔

            ’’اور یہ بھانجی۔ ‘‘ اُنھوں نے بیٹھتے ہوئے کہا۔

            ’’وہ اپنی سہیلی نرگس کے ہاں گئی ہے۔ کپڑوں کے ڈیزائن ڈسکس کر نے۔‘‘ نفیسہ بیگم نے چائے کی پیالی انھیں تھماتے ہوئے کہا۔

            ’’اور تمہارے میاں محترم۔۔۔‘‘

            ’’وہ مزید معلومات کے چکرّ میں گھر سے بے گھر ہوئے پھر رہے ہیں۔‘‘

            ’’یا اللہ۔۔!‘‘ماموں یوں گویا ہوئے جیسے لاؤ تمہی سے بات کر لیتے ہیں۔

            باتیں کیا ہونی تھیں۔ تیاری میں کفایت سے ہوتی ہوئی جہاز میں حلال کھانے کا ٹکٹوں پر لکھوانا نہ بھولنا اور وہاں جا کر مذہب پر قائم رہنے کی ہدایت کے ساتھ ساتھ اپنی اُداسی کو بھی باور کرانے تک بات چلتی رہی۔

            نفیسہ بیگم دل مسوس کر رہ گئیں۔ ماں باپ کے مرنے کے بعد فقط ماموں رشید ہی اُن کا کل میکہ تھے۔ بھاوج بھی اللہ نے بے حد نیک دی تھی مگر اولاد کے نہ ہونے سے وہ دونوں عائشہ اور عثمان ہی کو اپنی اولاد سمجھتے۔ اس لحاظ سے امن و امان تھا۔ یوں بیٹھے بٹھائے جو آسٹریلیا کا ویزا لگا تو مانو گھر نے دل کی ویرانی کی راہ دیکھ لی تھی۔ منع کرنا تو کیا وہ تو سرے سے ہی جانے کے قائل نہ تھے۔ لیکن ماموں رشید ایسا کوئی حماقت آمیز لفظ ادا کرنا تو درکنار مُنہ تک سے بھی نکالنا نہ چاہتے تھے جس سے اُن کی بہن کے گھر میں کسی بھی فرد کی دل شکنی ہوتی۔

            دعوتوں نے الگ ناک میں دم کر رکھا تھا۔ گھر سے بازار پھر کسی کے گھر۔ بس اسی تکون میں ایک مہینہ گزر گیا اور وہ وقت بھی آ گیا جس دِن جانا تھا۔

            رات حساب کتاب لگایا تو پتا چلا ، گھر کا سارا سامان اونے پونے پھینکا ہے۔ اس کا قلق صرف نفیسہ بیگم کو تھا جنہوں نے بے حد شوق سے گھر بنایا تھا۔ کبھی کمیٹی ڈال کر اور کبھی میاں سے ضد کر کے۔ اب یوں جانے سے ایک ہفتہ پہلے جب واشنگ مشین پڑوسی لُوٹ کا مال سمجھ کر لے گئے تو وہ روہی پڑیں۔ مگر میاں کی ایک ہی رٹ تھی۔

             ’’یوں دو کشتیوں میں سوار ہو کر میں نہ رہ سکوں گا۔ جانا ہے تو ساری کشتیاں جلا کر جانا ہے۔‘‘

             فرنیچر وغیرہ ماموں رشید کے ڈلوا دیا اور اُنھوں نے اپنے کباڑیے کو دے ڈالا۔

            اب بھلا پیسوں کا حساب کون کرتا ہے۔ یوں ہوا کہ اس کل جمع شدہ رقم سے بہ مشکل عائشہ کی تیاری ہو سکی تھی۔

            ’’یا اللہ ‘‘گھر تنکا تنکا بنتا ہے تو یہی تنکا تنکا مل کر جھاڑو بھی پھیر دیتا ہے۔ چلو یہ تو آنی جانی چیزیں ہیں۔ لوگوں نے تو دل بھی لے کر توڑا۔ وہ یوں کہ اشفاق انکل جو قریبی ملنے والوں میں سے تھے ، بڑے مفید مشورے بھی دیتے تھے۔ چونکہ فیملی والے تعلقات تھے اس لیے حبیب صاحب اکثر غائب ہو جاتے اور نفیسہ بیگم کو تن تنہا اِن میاں بیوی کو بھگتنا پڑتا۔

            ’’نفیسہ ، پھر بھی سوچ لو۔ لوگ اس عمر میں لڑکیوں کو باہر کے ملکوں سے لے آتے ہیں اور تم لے جا رہی ہو۔ ‘‘ مسز اشفاق نے پل بھر میں اُنھیں جاہل کر دیا۔

            ’’ہاں آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔‘‘ اس رضا مندی کے علاوہ کیا کہتیں بھلا نفیسہ بیگم۔۔۔

            ’’تو تم نے کوئی لڑکا دیکھا؟ ‘‘ وہ بڑی راز داری سے بولیں۔

            ’’کک۔۔۔کیسا۔۔۔؟‘‘ نفیسہ بیگم ہکلا کر رہ گئیں۔

            ’’لڑکا۔۔۔‘‘ وہ پھر تمہید باندھنے والی تھی کہ نفیسہ بیگم کو ہوش آ گیا۔

            ’’نہیں نہیں ابھی عائشہ کی عمر ہی کیا ہے۔ ابھی تو سولہ برس کی بھی نہیں ہوئی۔ پھر پتا نہیں ، وہاں کیسے حالات ہوں۔ ہم کب آئیں  اور بچے بڑے ہو کر کیا چا ہیں۔ میں کوئی رسک نہیں لے سکتی ‘‘

            نفیسہ بیگم کی تفصیل نے تیر کا کام کیا اور ’’گھر میں بچے اکیلے ہیں ‘‘ کا بہانہ بنا کر دونوں چلے گئے۔

            ’ یا الٰہی سب کو اپنی اپنی پڑی ہے ‘ اب تمام لوگ مجھے عائشہ کے جوان ہونے کی اطلاع دے رہے ہیں اِن سب کے لڑکے جوان ہو چکے تھے۔ یہ بھی ساتھ ہی اطلاع مل رہی تھی۔

            ’’اے نفیسہ لڑکی تو ٹھیک ہے گھر پر رہے گی۔ ویسے بھی مشرقی ماحول میں اُٹھی بیٹھی ہے۔ لڑکے کے بگڑنے کا سو فیصد چانس ہوتا ہے۔ تم ذرا کڑی نظر رکھنا حبیب کو پتا نہیں کیسی مصروفیت نے گھیرا ہے جو بچوں پر نظر نہیں رکھتے۔۔۔‘‘

            محلے کی بڑی بی جن سے کبھی کبھی کسی مسئلے پر کچھ دعائیں وغیرہ پوچھا کر تے تھے وہ کیسے پیچھے رہتیں۔

            ’’جی اچھا۔‘‘نفیسہ بیگم سعادت مندی سے بولیں۔

            سچ کوئی پوچھتا تو سفر کی۔۔۔ اور وہ بھی سات سمندر پار سفر کی گھبراہٹ اور ہول کیا ہوتی ہے ، یہ لفظوں میں بتانا ممکن نہیں۔ رہ رہ کر اجڑے گھر کی ویرانی دل کو گھیر لیتی ہے۔مستقبل کی فکر ،  نئے گھر کو بسانے کی فکر دل لگ جانے کی دُعا۔ اور جانے کیا کیا۔ بہر حال اس سے نظریں کو ن چُرا سکتا ہے۔ سب کی دُعائیں اور الوداعی جُملے رقت آمیز ہوتے ہیں۔ ایسے میں عائشہ اور عثمان کی آنکھوں کا چمکنا، سر فخر سے بلند کیے پھرنا۔ اور اچانک حبیب صاحب کی پاسپورٹ اور ٹکٹیں سنبھالنے کی ہدایت۔ اتنا کچھ بو کھلانے کو کافی تھا ، چنانچہ اپنی تیاری فقط دل کی تیاری تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ ماموں رشید کا آخری دنوں میں وقت بے وقت آنکھوں میں نمی کا بس جانا ، نفیسہ بیگم کے لیے تازیانے سے کم نہ تھا۔ مگر گھر اور گھر والوں کی خاطر کتنا کچھ سہنا پڑتا ہے۔ آخر عورت ہی کو کیوں ؟ وہ کئی بار خود سے بڑبڑا پڑتیں۔

            ’’امی! آ پ کیوں پریشان ہوتی ہیں۔۔۔ لائیے مجھے بھی کچھ بتائیے میں بھی پریشان ہو جاؤں۔۔۔ ‘‘ نفیسہ بیگم نے چونک کر اپنی بیٹی کو دیکھا۔

            میرون رنگ کے ڈھیلے ڈھالے کُرتے شلوار پر ہم رنگ دوپٹے میں اُس کا حسین شہابی رنگ حسین تر لگ رہا تھا۔ پھر اُس کی نشیلی آنکھیں اور اُس پر لمبی پلکوں نے تو اُسے قیامت خیز کر دِیا تھا۔ وہ دھیمے دھیمے مسکراتی ہوئی سوبر اور گریس فل لگ رہی تھی۔ ہجرت کے ساتھ اُس کی شوخی بھی ہجرت کر رہی تھی۔

            ’’امی! میں آپ کی ہیلپ کرنا چاہتی ہوں۔ ‘‘ اُس نے قریب آ کر اپنی ماں کو چونکا دِیا۔

            ’’بس سب ہو چکا۔ تم سارے سامان کو اپنی نگرانی میں رکھو میں تیار ہو کر آتی ہوں۔ ‘‘ شاید آخری پل تھا نفیسہ بیگم کی پریشانی کا، لوگ سچ کہتے ہیں کہ ایسی عمر میں تو لوگ اپنی بیٹیوں کو پردیس سے واپس لے آتے ہیں میں کیسی ماں ہوں جو حسین تحفہ لیے جا رہی ہوں۔،

            ’ اوہ میرے خدا! میں کتنی نادان ہوں۔۔۔ لیکن اب کیا۔ ‘ اب تو سب گاڑیوں میں بیٹھے کم ٹھونسے زیادہ جا رہے تھے۔

            ’’چلو آسٹریلیا نہ سہی، آسٹریلیا جانے والے لوگوں کو خدا حافظ ہی کہہ آئیں۔ ‘‘ ماموں رشید ہنستے جاتے اور آنسو پونچھتے جاتے۔ کبھی فرطِ محبت سے عائشہ کو پیار کرتے اور کبھی عثمان کو۔ ائیر پورٹ پر تو ایسے بلکے کہ نفیسہ بیگم کے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔ ایسے لگا جیسے دنیا سے جا رہی ہوں۔ ’ ہائے اتنی دور جانا تو کچھ ایسا ہی تھا۔ پتا نہیں ، واپس آؤں تو کیا رہے اور کیا نہ رہے اور اس کی بھی کیا گارنٹی تھی کہ اپنے ملک لوٹ آؤں گی۔۔۔ !‘ شائد میرے جیسا سب کا ہی حال تھا۔ ، ویٹنگ لاؤنج میں سب چُپ بیٹھے تھے۔ بلا مقصد مسکرا رہے تھے۔

            ’’امی ، وہاں دِل لگ جائے گا نا؟ ‘‘

            ’’شاید! ‘‘ نفیسہ بیگم نے عائشہ سے سچ ہی کہا تھا۔

            ’’کیوں نہیں امی۔ اتنا حسین ہے آسٹریلیا۔ ‘‘ عثمان نے خوابوں جیسے نشے میں کہا۔

            ’’تمہیں کیسے پتا ہے۔ ‘‘ نفیسہ بیگم تقریباً ایک ہفتے بعد مسکرائی تھیں۔ ایسے جیسے ایک ہفتہ بارش رہنے کے بعد سورج نکل آئے تو کتنا اچھا اور سب کچھ آسودہ لگتا ہے۔ایسی ہی آسودگی حبیب صاحب تک نے محسوس کی۔ یوں ماحول پر چھائی بے کیفی ہلکی پھلکی بے تکلفی سے شروع ہوتے ہوتے نارمل ہونے لگی۔ جہاز کے پرواز کرنے تک کافی حد تک خوابوں کی کہانیاں شروع ہو چکی تھیں۔ ایسے میں سب سے زیادہ جو سمجھ داری کی باتیں کر رہا تھا، وہ عائشہ تھی۔ اُس کی چھوٹی چھوٹی معقول باتیں نفیسہ بیگم کے اندر بیٹھی ، سہمی ہوئی عورت کو تسلی دے رہی تھیں۔

            ’ آخر لڑکی کی قسمت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اور جو لوگ لڑکیاں پیدا کرتے ہیں ، پڑھاتے لکھاتے ہیں ، کیا وہ با حیا اور مذہبی نہیں ہوتیں۔ کیا وہ اچھی اور پُر وقار نسلیں نہیں تیار کرتیں۔ وہ خود کو ہر بار مطمئن سا کر لیتیں۔‘

            ’’ارے بیگم ، پہنچ تو لو۔ پھر فیصلے کرنا۔ پہلے ہی سے کیوں ہلکان ہو رہی ہو۔ ‘‘ حبیب صاحب جو چہرہ پڑھنے کا ہنر رکھتے تھے ، بھلا اٹھارہ سالہ رفاقت کا چہرہ نہ بھانپ لیتے۔

            ’’ڈرنے کی تو بات نہیں ہے نا ؟ ‘‘ نفیسہ بیگم خوف کا آخری کنارہ پار کرنے کے لئے اُن سے ایسے ہی پوچھتی تھیں۔

            ’’نہیں ! ‘‘ حبیب صاحب کی اس ’ نہیں ‘ میں اتنا تجربہ ہوتا تھا اور کبھی کبھی یہ گمان بھی کہ میرے ہوتے ہوئے کیا ڈرنا۔ وہ اس قدر مطمئن ہو جاتیں کہ بعض اوقات وہ باتیں اور سوچیں ہی بے اوقات لگنے لگتیں۔

            ابھی ابھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ وہ بالکل آزاد تتلیوں کی طرح اُڑنے لگی تھیں۔ اپنے ہی دشت و صحرا میں۔

            جہاز ہزاروں میل آسمانی اور زمینی فاصلہ طے کرتا ہوا اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔

            ’’یار۔۔۔اس سے ا چھا تو اپنی ٹرین کا سفر ہوتا ہے۔ کم از کم گردن باہر نکال کر جھانک تو سکتے ہیں۔ ‘‘ عثمان جو عمر میں عائشہ سے ایک سال چھوٹا تھا اور قد میں ایک فٹ بڑا، سخت بور ہو گیا تھا۔

            ’’اور تو اور پکوڑے بھی خریدے جا سکتے ہیں۔ اسٹیشن سے اُتر کر ہاتھ مُنہ دھویا جا سکتا ہے۔ ٹانگیں سیدھی کھڑی کی جا سکتی ہیں۔ ورنہ ٹرین کی زِگ زیگ میں بیلنس آؤٹ ہو جاتا ہے۔‘‘ عائشہ ہنستے ہوئے کہہ رہی تھی۔ نفیسہ بیگم پُر لطف نوک جھونک سے آنکھیں موندے ہوئے مسکرا رہی تھیں۔

            راستے بھر کھانے کو کسی نے چھُوا بھی نہیں۔ اسی وہم میں کہ جانے کیسے بنا ہے اور کس نے بنایا ہے۔

            ’’لو بھئی، ایمان کی آزمائش شروع۔ ‘‘ جیسے ہی ائر ہوسٹس کھانا لے کر آتی عثمان نعرہ لگا دیتا۔ آس پاس بیٹھے ہوئے لوگ بھی ہنس دیتے۔ لہٰذا شک و شبہے والی چیزیں چھوڑ کر باقی مُنہ ماری کا شغل جاری رہا۔

            جہاز کراچی سے روانہ ہو کر پینتالیس منٹ کے لئے دہلی میں رکا۔ سواریاں بٹھائیں اور چل دِیا۔ سب نے کراچی کی ’ کے ٹی سی‘ کو بہت یاد کیا۔ اندھا دھن گولیوں کی طرح چلی اور فٹ ہو گئی۔

            پھر جہاز ۱۲ گھنٹوں کے لئے کوالالمپور رُکا جس میں زیادہ وقت کمریں سیدھی کی گئیں اور صرف حیرانی سے باہر کی دنیا دیکھی۔

            ’’یار ، یہ تو بڑے امیر ہیں۔ ‘‘ عثمان نے عائشہ کے کان میں سرگوشی کی۔

            ’’فرسٹ ورلڈ کے لوگ بنتے جا رہے ہیں ! ‘‘ اُس نے بڑی ہونے کے ناتے معلومات فراہم کیں۔

            ’’یار ، عائشہ دیکھ کتنا بڑا ، کتنا پیارا کمرہ ہے ہوٹل کا۔ حفاظت سے سامان اوپر آیا۔ کھانا میز پر لگ گیا۔ پھر ٹیکی والے نے دروازہ بھی کھول دِیا۔ اپنے ملک کی طرح دھُتکارا نہیں۔ جاؤ مجھے نہیں جانا! ‘‘

            ’’واہ یار کیا ملک ہے ، کیا ترقی ہے۔ ‘‘ عثمان اپنی رائے دے دے کر حیران ہو رہا تھا اور عائشہ خاموشی سے سب سُن رہی تھی مگر کتنی عجیب بات تھی۔ اس ترقی میں ترقی دینے والے کا نام کوئی نہیں لے رہا تھا۔ اسلامی ملک ہونے کے باوجود کوالالمپور کہیں سے بھی اسلامی نہیں لگ رہا تھا۔ نہ لباس سے ، نہ آزادی سے۔۔۔ رنگینی اور روشنی سے آنکھیں خیرہ ہو رہی تھیں۔ بارہ گھنٹوں کے سفر میں حیران ہونے اور کھانے سے صرف ایک گھنٹہ بچا تھا تو گھوم پھر کر بازار کی رونق دیکھی اور واپس منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔

            جب جہاز ملبورن اُترا تو صبح ہونے والی تھی۔ ہلکے ہلکے بادل رات کے پچھلے پہر چاند کا حسن ماند پڑ رہا تھا اور ساتھ ہی سورج سر اُٹھا رہا تھا۔ نیچے پہاڑوں ، سڑکوں اور گاڑیوں کا ہجوم۔

            ’’زندگی حیرانی کی حد تک تیز ہے۔ ‘‘ عائشہ نے خود کو باور کرایا کہ وہ اس تیزی کا حصہ بننے والی ہے۔

            ’’باپ رے باپ۔ تیرا کیا ہو گا کالیا!‘‘ اُس نے عثمان کو چھیڑا۔

            ’’عائشہ ، جہاز سڈنی کب پہنچے گا۔ میں بور ہو گیا ہو ں اس جہازی سائز کے جہاز سے۔ یار ، اب تو ائیرہوسٹس کا چارم بھی ختم ہو گیا ہے۔ ‘‘ دونوں بہن بھائی کھل کھلا کر ہنس پڑے۔

            آخر کار دو دن کے سفر وسیلۂ ظفر کے بعد جہاز نے سڈنی پہنچا ہی دِیا۔ سب تھکے تھکے سے باہر نکلے اور اپنے اپنے لوگوں کی طرف بڑھ گئے۔

            ’’اُف خدایا۔ کوئی بھی لینے نہیں آیا اور ہم ابھی ایک ہجوم پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ کتنا فرق ہو گیا تھا۔ ‘‘

            ’’امی ! ماموں بہت یاد آ رہے ہیں۔ ‘‘ عائشہ کی خوبصورت آنکھیں جھلملا گئیں۔ یہ پہلا فرق۔ یہ پہلا دکھ سولہ سال کو لگا کہ اُس کا بچپنا ،  شوخی، بات بے بات کھلکھلائے جانا ایک دم رخصت ہو گیا۔ اُس کی جگہ ایک با وقار حسین سی گُڑیا بن گئی۔ جو ہنستی مسکراتی تھی۔ یہ اعجازِ ہجرت تھا جو اُس کی آنکھوں میں تیر رہا تھا۔

            ’’مجھے بھی۔ ‘‘ عثمان بھی سوچ میں تھا۔

            ’’اور میرا تو وہ اکلوتا بھائی ہے۔ میری کل کائنات میکے کی طرف سے مجھے تو۔۔۔ ‘‘ ابھی بس نفیسہ بیگم شاید آنسو بہا دیتیں جو حبیب صاحب ٹھاہ کر کے یزدانی صاحب کے گلے لگ کر قہقہے نہ لگا رہے ہوتے۔ انکل یزدانی کب سے ائیرپورٹ پر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ دیر ہونے پر ریسپشین سے پتا کرنے گئے تھے۔ حبیب صاحب کے بچپن کے جگری دوست تھے۔ باقی اُن کو کوئی دمساز میسر نہ تھا۔ ماں باپ کے فوت ہونے کے بعد اکلوتے کی حیثیت سے تنِ تنہا ہی نفیسہ بیگم کو ملے تھے۔ سو اُن کے دوست کو دیکھ کر اُن کی محبت میں جھلکتی بے تکلفی کو دیکھ کر نفیسہ بیگم مطمئن ہو گئیں کہ چلو کوئی تو بہلا رہے گا اور ہوتا بھی یونہی ہے کہ ایک بہلا رہے تو باقی سب بھی دیکھا دیکھی بہلے رہتے ہیں یا پھر وہی سب کو بہلا لیتا ہے۔ بس زندگی کو مطمئن اور آسودہ گزارنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ایک شخص کم از کم آسودہ اور مطمئن ہو۔

            ایک ہفتہ اُن کے گھر رہنے اور تواضع کرانے کے بعد اپنے گھر شفٹ ہو گئے جو Castle Streetپر تھا۔ تین عدد کمروں پر مشتمل بے حد آرام دہ اور بڑا گھر تھا۔

            ’’ارے بیگم ، لندن اور امریکہ والوں کو ایسے گھر بھی نصیب نہیں۔ سب ڈربوں میں رہتے ہیں۔ ‘‘ حبیب صاحب کا صاف مطلب تھا کہ تم سب اپنی اپنی قسمت پر رشک کرو کہ امریکہ اور لندن نہ گئے۔

             لو بھلا کچھ ہی دِنوں میں فرسٹ ورلڈ کا مقابلہ فرسٹ ورلڈ سے ہونے لگا۔ اسی طرح کچھ اور دِن گزرے۔۔۔ دِن ہفتے اور ہفتے مہینے ہوئے تو سب ہی بہل گئے بلکہ اچھی طرح ایڈجسٹ ہو گئے تھے۔ اُدھر ماموں رشید بے حد اُداس تھے۔ تنہا رہ گئے تھے ناں۔۔۔ خاص طور پر عائشہ ، عثمان کے لئے بہت بے قرار تھے۔ فون پر اکثر اُن کی آواز بھر ا جاتی تھی۔

            ’’جی ماموں جان ، ابھی ا سکول نہیں گئی ہوں۔ انگریزی سیکھ رہی ہوں۔ A.M.E.S.سے۔ ‘‘ عائشہ او ور سیز کال کو لوکل کال سمجھ کر تفصیل بتا رہی تھی۔

            ’’یہ کیا بلا ہوتی ہے۔۔۔؟ ‘‘ غالباً ماموں نے مزید معلومات کی غرض سے پوچھا تھا۔

            ’’ماموں یہ ہجرت کر کے آنے والے نوجوانوں کا تعلیمی سینٹر ہوتا ہے۔ ‘‘

            ’’تمہاری ماں انگریزی سیکھ رہی ہے کہ نہیں ؟ ‘‘ وہ ہنستے ہوئے پوچھ رہے تھے۔

            ’’نہیں ، وہ ہم سے سیکھیں گی۔‘‘ عائشہ سے فون عثمان لے چکا تھا۔ ‘‘ ماموں بہت مزہ آ رہا ہے۔ آپ بھی آ جائیے ! ‘‘ ابھی عثمان اُنہیں آنے کے طریقے بھی بتاتا کہ حبیب صاحب نے فون کاٹ دِیا۔

            ’’یار ، حد کرتے ہو۔ آدھ گھنٹے سے تم تینوں میں سے کسی نے کام کی کوئی بات نہیں کی۔‘‘

            ’’تو کیا کرتے ، زمین جائیداد کی بات کرتے۔ سیاست بازی کرتے یا بچوں کے رشتے طے کرتے۔ ‘‘ نفیسہ بیگم اپنے بچوں کی طرف داری ایسے ہی کرتی تھیں۔ حبیب صاحب زیرِ لب مسکراتے رہتے اور بچے اپنے کمرے میں۔

            A.M.E.S.کے چکر میں عائشہ پر مزید کپڑوں کا بوجھ آ پڑا تھا۔ کپڑے فیشن کے مطابق ہوں۔ ماحول سے مطابقت بھی رکھیں اور شرم و حیا بھی برقرار رہے۔ یہ آخری جملہ نفیسہ بیگم کے لئے نشے کا کا م کرتا کہ اُن کی تربیت رائیگاں نہیں جا رہی۔

            ٹھیک ایک ہفتہ کلاسیں جوائن کیے ہو چکا تھا۔ عائشہ کافی حد تک انگریزی سیکھ چکی تھی۔ زیادہ مشکل اس لیے پیش نہ آئی کہ ہمیشہ انگلش میڈیم سے ہی پڑھا تھا۔ بس بولتے کم تھے۔ اس لیے جھجک تھی اور کچھ لب و لہجے کے فرق کی وجہ سے اچھی بھلی انگریزی فرنچ لگنے لگتی تھی۔

            مگر اُس نے بھی کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی تھی۔ ٹی وی اور ریڈیو پر صرف انگلش ہی دیکھتی اور سُنتی۔کجا تو وہ لتا اور کشور کے گانے سنتی۔ جب وہ کلاس اٹینڈ کر رہی ہوتی تو سب اُسے حیرانی سے دیکھتے اتنی کم عمری میں اتنی پختہ باتیں شاید یہاں کم یاب تھیں۔

            آج بھی وہ کچھ ایسی ہی تقریر کر رہی تھی کہ ہمارے ہاں لڑکیاں ایسے بے پردہ نہیں گھومتیں۔ بے لگام آزادی نہیں مانگتیں ، شرمیلی ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ اور آخر میں ہمیشہ کی طرح ایک ہی حسرت کہ کاش، کاش میری انگریزی بولنے میں اچھی ہو جائے تو انقلاب لے آؤں۔ ‘‘

            ’’Monomanic(خبطی) ‘‘رابرٹ ، جو خاصی کم سن ساحرہ کی زبان سے سب سے اچھی انگریزی میں دیوانگی کی باتیں سن کر بولے بغیر نہ رہ سکا۔

            ’’کیا ؟ ‘‘ عائشہ اب اُس کی طرف پلٹ آئی۔

            ’’یہی کہ یہ سب حماقت ہے۔ یہ Crazy wishہونا سب بے کار۔ بھئی اگر یہاں آئے ہیں تو سب کو انگریزی ہی بولنی ہے۔ ‘‘ رابرٹ کافی بریک میں کافی اور پاپ کارن کی تھیلی لا کر اطمینان سے شغل کر رہا تھا۔

            ’’تمہیں پتا ہے رابرٹ، میری پڑوسن بہتر سالہ ہے اور وہ انگریزی نہیں بول سکتی۔ ‘‘ عائشہ نے ٹھہر ٹھہر کر انگریزی میں سمجھایا۔

            ’’لک پلیز۔ ‘‘ رابرٹ کی زبان سے انگلش ایسے نکلتی جیسے پھول جھڑتے ہوں۔ کوئی ا سکالر ہو۔ بڑے صاف اور سادہ طریقے سے بتا رہا تھا۔ وہ عائشہ سے آئشہ ہو چکی تھی اور کچھ لوگ تو صرف ایش کہتے تھے۔

            ’’بہتر سالہ کبھی بھی نہیں سیکھ سکتے۔ اِس لیے کہ اُن کو ضرورت نہیں ہے۔ اور وہ ضرورت والی زندگی گزار چکے ہیں۔ ہماری ضرورت والی زندگی آج شروع ہوئی ہے۔ آج ہے الیکٹرونک میڈیا، میٹریل کی تہذیب، انگریزی کا زمانہ۔ ہم بھلا کیسے نہیں سیکھ سکتے۔ ‘‘ عائشہ نے جانا کہ چھ فٹ دو انچ والا رابرٹ یوگوسلاویہ سے آسٹریلیا آ تو گیا تھا مگر اپنے حساب سے جینا چاہتا تھا۔ یقین اور اعتماد تو جیسے اُس پر ختم تھا۔ سر مارک روز کو تو منٹوں میں آ لیتا تھا۔ اُس کی چمکیلی سبز آنکھیں جس طرف اُٹھتیں ہریالی پھیل جاتی۔ جب وہ اُس کی برابر والی سیٹ پر بیٹھتا تو اُس کا پانچ فٹ قد مزید بونا ہو جاتا اور خواہ مخواہ ایک رعب سا پھیل جاتا۔ ابھی ابھی کافی بریک میں وہ اُسے خاصا مرعوب کر چکا تھا۔ بس اب مجھے بھی اس قدر بدحواس نہیں ہونا۔ویسے بھی اعتدالی کا راستہ ہی ہمارا راستہ ہے۔ ، ماموں جان نے اُسے علیٰحدگی میں بڑی اچھی طرح اخلاقیات کا قاعدہ پکڑا دِیا تھا۔

            ’’دیکھو بیٹی، وہ ماحول آزاد ہے۔ خیالات آزاد ہیں۔ ہر میڈیا آزاد ہے لیکن ہم مشرق کے لوگ اللہ کے پابند ہیں۔ سمجھو وہاں جا کر ہم پر اخلاق اور اسلام کے ساتھ زندہ رہنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ اِنہی فرنگیوں سے آزادی ہم نے صرف اسلام کی خاطر حاصل کی تھی۔ وہاں رہ کر اپنے ملک اور اسلام کا پرچار کرنا جہاد ہے لیکن مشکل وقت میں یہ ضرور یاد کرنا اپنے ماموں کی بات کہ جیسے یہ دِن نہیں رہے ہیں ، وہ دِن بھی نہیں رہیں گے۔ اللہ کی خاطر ایک غلط بات کو صرف غلط سوچ لینا ہی ایک ادنیٰ جہاد کے برابر ہے۔ تم بڑی ہو، میری توقع، میری اُمید ہو، تم ہی میرا جہاد ہو۔ ‘‘

            ’’ہاں ماموں جان، میرا ہر قدم امتحان ہوتا ہے۔ ‘‘

            ’’کیا تم مسلمان ہو؟ ‘‘

            ’’عائشہ ایک اچھی مسلمان لڑکی ہے۔‘‘

            اسی طرح ہر روز کئی بار جملے اُسے سننے کو ملتے۔ اب تو یہ کورس محض وقت گزاری کے لئے جوائن کیا تھا۔ کچھ ہفتوں بعد ہائی سکول جوائن کرنا تھا۔ ’ باپ رے باپ، ایمان کو کیسے بچایا جائے گا۔‘  وہ اکیلے ہی سوچ سوچ کر پاگل ہو چکی تھی۔خیر رابرٹ صحیح کہتا ہے۔ وقت پر سب کچھ حل ہو جاتا ہے۔ ان ساری باتوں کے باوجود رابرٹ میں کیا بات تھی۔ دِل اُسے محسوس کرنے لگا تھا۔ جانے کیسے اُس کے شہابی رنگ میں آسٹریلین شہابیت گھُل گئی تھی۔ اور اس وقت یہ احساس شدید تر ہو گیا جب سر مارک نے رابرٹ کا نام پکارا اور وہ نہیں آیا تھا۔

            اگلے دِن سے دو چھٹیاں تھیں اور اُس کے پاس فون نمبر تک نہ تھا۔ کوئی وجہ تو بتا کر جانا چاہیے تھا۔ وہ جھنجلا گئی۔

            ’’ کیوں عائشہ جی۔ کیوں آپ ہی کیوں ؟ ‘‘ اُس کے ضمیر نے اُسے چھیڑا۔

            ’’اس لیے کہ ہم اچھے دوست ہیں۔ ساتھ اُٹھتے بیٹھتے ہیں۔ ‘‘ اُس نے خود کو ہی بہلایا۔

            ’’بس لڑکی یہ دوستی ہی ہونی چاہیے !! ‘‘ اُس کے دماغ، دل، ہر ایک نے سرزنش  اور تنبیہ کی۔

            ’’ارے ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ اس قدر نمایاں فرق کے ساتھ تو میں اچھی دوستی بھی برداشت نہیں کر سکتی کُجا کہ۔۔۔ اوہ ہرگز نہیں۔ No way.‘‘

            ’’کیا کہہ رہی ہو پارٹنر؟ ‘‘عثمان حبیب صاحب کے ساتھ Aubunکی مسجد میں نمازِ جمع ادا کر کے ابھی ابھی گھر پہنچا ہی تھا جو اُسے خود سے بڑبڑاتے سُنا تو اندر آ گیا۔

            ’’کچھ نہیں بھئی۔ ‘‘ وہ مسکرا دی۔ ’’اچھا تم سُناؤ، آج دورۂ مسجد کیسا رہا؟ ‘‘ وہ اُلٹا اُس پر ہو لی۔

            ’’ونڈر فل! مجھے احساس ہو رہا ہے کہ ہم سب لوگوں کو عنقریب صحیح و کامل مسلمان بننا پڑے گا۔ بے حد نالج فل درس تھا۔ یعنی ہم پھر مسلمان بن سکتے ہیں۔ ‘‘

            ’’چلو میری فکر تو ختم ہوئی۔ ‘‘ نفیسہ بیگم نے حبیب صاحب کے ساتھ زیادہ تر عثمان کو ساتھ اُٹھتے بیٹھتے ہوئے دیکھ کر شکرانے کا سانس لیا۔

            یہاں کے سکولوں میں خاص طور پر ہائی سکول میں بچوں کو اکثر نشہ آور اشیاء کو استعمال کرنے کی اور گرل فرینڈ کی لتیں بھی لگ جاتی تھیں۔ ایک پڑوسن نے نفیسہ کو ڈرایا تھا۔ پورے سات ماہ بعد تو عثمان ہائی ا سکول گیا تھا۔ وہ واپسی پر باقاعدگی سے ساری رپورٹ لیتی۔ بیگ چیک کرتی کبھی کبھی تو سانسیں بھی۔

            ’’امی پلیز۔ وہم میں مت پڑیے میں آپ کا بیٹا ہوں۔ اچھا برا سوچ سکتا ہوں۔ کوئی کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتا اور کیا پاکستان میں یہی سب نہیں ہوتا؟ بس فرق اِتنا ہے کہ وہ چھُپ کر کرتے ہیں اور یہ آزادی سے۔

            ’’آزاد نہیں۔ شُتر بے مہار ہیں۔ ‘‘عائشہ نے کمرے سے نکل کر جملہ مکمل کیا۔

            ’’یہ کیوں کہا تم نے۔ ‘‘ نفیسہ بیگم بیٹی کی سمجھ داری پر نہال تھیں۔

            ’’میری کلاس میں ایک انڈونیشین مسلمان لڑکی ہے۔ اُس نے ایک عراقی لڑکے کو باقاعدہ پھنسا رکھا ہے۔ خود وہ شادی شدہ ہے۔ آسٹریلین سے پاسپورٹ کے چکر میں شادی کی تھی۔ لڑکے نے حال ہی میں عراقی لڑکی سے منگنی کی ہے اور انڈونیشی نے اِتنا بُرا جال پھینکا ہے کہ علی کہہ رہا تھا کہ شاید میں منگنی توڑ دوں۔ ‘‘

            ’’آزادی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اپنے خدا کی مقرر کردہ حد سے باہر ہو جائیں۔ پتا ہے امی رابرٹ نے کتنا مذاق اُڑایا تھا میرے خیالات کا ، ہمارے مسلمان ہونے کا۔ اُس نے تو آج مجھے جھنجلا کر جنونی تک کہہ دِیا تھا۔ اب کم از کم فرنگیوں کی دُنیا میں تو بھرم رکھنا چاہیے۔ آسٹریلیا میں رہتے ہیں تو کیا ویسے ہی ہو جائیں۔‘‘

            ’’بس بیٹی جو پاسپورٹ نیشنلٹی لینے کے لیے مذہب بیچ دیتے ہیں ، اچھا ہے جو مسلمان نہ رہیں۔ تمہارا کیا خیال ہے ، انڈونیشین مسلمان لڑکی نے اپنے آسٹریلین شوہر کو مسلمان کیا ہو گا؟ نفیسہ بیگم نے اطمینان سے اُسے سمجھایا۔

            ’’ہاں ، یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔ اگر مسلمان کر کے شادی کی ہوتی تو یقیناً بھرم رہ ہی جاتا۔ ایسی باتوں میں ایسا ہوتا ہے لیکن مجھے دکھ ہوا امی جو رابرٹ کے سامنے شرمندگی ہوئی ہے۔ پتا ہے وہ کیا ہے۔ امی وہ آرتھوڈکس ہے جو کسی کو بھی نہیں مانتے۔ یقین کریں ، وہ خاصا ذہین ہے ، سمجھ دار ہے لیکن کافر ہے۔ ‘‘ عائشہ نے بے بسی سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔

            ’’ساری نیکی کا ٹھیکہ تمہارے پاس نہیں ہے پارٹنر۔۔۔ ویسے بھی اسلام زبردستی کا سودا نہیں ہے۔ جب ہدایت نصیب ہو جائے ، جب توفیق ہو جائے ، جب سمجھ آ جائے ، اپنے ہونے اور نہ ہو کر بھی ہونے کی تو سب کچھ بغیر کہے ہو جاتا ہے۔ ‘‘ عثمان کے اتنے سنجیدہ خیالات دونوں ماں بیٹی کے لیے حیران کن تھے۔ بظاہر شوخ اور لاپروا سا عثمان اندر سے کتنا ذمے دار اور سمجھ دار تھا۔

            عائشہ کو صرف رابرٹ کی فکر تھی۔ اُس کا تمسخر بھرا قہقہہ ، تضحیک آمیز نظریں اُسے رات بھر انگاروں پر رکھتی تھیں۔ اِس غصے میں یہ بھی نہ پوچھ سکی کہ آخر وہ تین روز کیا کرتا رہا تھا۔سارا وقت تکلیف دہ بحث میں ہی گزر گیا۔لیکن وہ اُسے باور نہ کرا سکی تھی کہ مسلمان اس لیے بزرگ و برتر ہیں کہ وہ اپنی حدود سے باہر نہیں ہوتے۔ حرام و حلال کا فرق سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی ذات سے لے کر دوسروں کی ذات تک پڑھنے کا ہنر رکھتے ہیں ، عزت کرتے ہیں با کردار و با حیا ہوتے ہیں لیکن سومی انڈونیشین مسلمان تھی۔ اُس نے نیشنیلٹی کے چکر میں آسٹریلین سے چرچ میں شادی کی تھی اور اب علی سے شادی کرنا چاہتی تھی۔شاید اُس کے ضمیر کا بوجھ اتنا بڑھ گیا تھا کہ علی کے مسلمان کاندھے پر اپنا سر رکھ کر بقیہ خواب دیکھنا چاہتی تھی۔ لیکن کاش میں اُسے سمجھا سکتی کہ پہلا قدم جب غلط ہو تو پھر سارے قدم ہی غلط سمت کی طرف مُڑ جاتے ہیں۔میں تمہیں کیسے سمجھاؤں رابرٹ کہ ہر مذہب و نسل میں ہر رنگ کا آدمی پلتا ہے۔ پناہ لے سکتا ہے۔ ہائے تم نے کتنا مذاق اُڑایا تھا میرا۔ میرے جنون کا۔میرے خیالات کا۔۔۔ بس اب میں کسی بحث میں نہ پڑوں گی لیکن میں لا تعلقی کا یہ سبق کہاں سے لوں۔۔۔ ! یہ تو بہت بڑا جہاد ہو گا ماموں۔۔۔ میں اکیلے ڈر جاؤں گی، سہم جاؤں گی۔ ماموں ! یہ ہجرت مجھے ، مجھ سے جُدا کر رہی ہے۔ چپ چاپ کتنے آنسو ماموں رشید کی تصویر پر گرتے رہے اور پھر صبح ہو گئی۔وہی ہنگامہ، کچھ نہ کرتے ہوئے بھی ایسی مصروفیت جیسے پورے آسٹریلیا کو صرف ہم نے ہی کاندھے پر اُٹھا رکھا ہے۔

            ’’عائشہ! آج جاؤ گی۔۔۔؟ ‘‘ نفیسہ بیگم ہر روز ایسے ہی پوچھا کرتیں جیسے پہلا دِن ہو۔

            ’’جی امی جی۔۔۔ ‘‘ اس نے انتہائی سلیقے سے جواب دِیا۔

            ’’آج تم بڑی چپ چپ ، بڑی خاموش خاموش ہو پارٹنر، کیا بات ہے ؟

            ’’کچھ نہیں !! ‘‘ اس کا بڑا مختصر جواب تھا۔

            ’’ماموں یاد آ رہے ہیں۔۔۔ ‘‘ اُس نے پوچھا عائشہ سے تھا مگر آنسو نفیسہ بیگم کے گالوں تک لُڑھک آئے۔

            ’’میں چلتی ہوں۔۔۔ ‘‘ عائشہ اپنا بیگم اور کتابیں اُٹھا کر باہر کی طرف نکل گئی۔

            ’’میں چھوڑ آؤں۔۔۔ ؟ ‘‘ عثمان نے وہیں سے پوچھا۔

            ’’جانے دو بیٹا! ‘‘ نفیسہ بیگم نے دوپٹے سے آنکھیں رگڑتے ہوئے منع کیا۔

            ’’ہوا کیا ہے۔ ؟‘‘

            ’’پتا نہیں۔۔۔ ‘‘ نفیسہ بیگم نے لا علمی کا اِظہار کیا اور خود کو گھر کے کاموں میں اُلجھا لیا۔

            ’’میں سمجھتا ہوں عائشہ تمہیں۔۔۔ تمہارے اندر کی لڑکی بے حد معصوم ہے ، یہ باہر کے اختلافات اِس زندگی کا حصہ ہیں۔ ان کے ساتھ جینا سیکھو۔ تم نیک ہو، ہر شخص نہیں ہو سکتا۔ ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمے دار ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہماری پہچان رہے مگر تم اس طرح مسئلہ بنا لو گی تو ہر روز ٹوٹتی رہو گی میری بہن۔ ‘‘ عثمان چائے کے گھونٹ کے ساتھ ساتھ فیصلے بھی اندر اُتار رہا تھا۔ ہجرت ایک آزمائش ہی تو ہوتی ہے۔ ایمان کی، صبر کی، Financeکی۔ ‘‘ اُس کو اپنے باپ کی بات یاد تھی جو اُنہوں نے مسجد سے واپسی پر کہی تھی۔

            ’’لیکن بیٹے ، کانٹوں کے ڈر سے پھولوں کی خواہش نہ کرنا کسی بھی اچھے انسان کے لئے میں جائز نہیں سمجھتا۔بُرے ماحول میں بُرے لوگوں میں اپنا ایمان بچا کر رکھنا بھی ولی بنا دیتا ہے۔اعتدال اپنی سوچوں میں رکھو۔ میرے بیٹے اس دُنیا میں سوچوں اور خیالوں میں انتہا پسندی رکھو گے تو شاید جی بھی نہ سکو۔ سکون اور اطمینان تو بڑی دور کی بات ہے۔ اپنی بات اپنے مذہب کے حوالے سے ہمیشہ کرتے رہو۔ دوسروں کو نصیحت یا ہدایت ہوتی ہے یا نہیں ، یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے ، یہ سب منجانب اللہ ہے۔ تم دعا کر سکتے ہو۔ ‘‘ عثمان یہ ساری باتیں عائشہ کو بتانا چاہتا تھا جو حبیب صاحب کے تجربے میں اپنا راستہ دیکھ رہا تھا۔ آنکھیں اُس کی ضرور تھیں مگر نور اُن کا تھا۔

            لیکن عائشہ کی ہی مصیبت تھی۔ وہ انتہا کی انتہا پسند لڑکی تھی۔ کم عمری میں تجربے بھی کم تھے۔ سب کو اچھا دیکھنا چاہتی تھی۔ اچھا رہنے کے ساتھ ساتھ اچھا ہی کرنا چاہتی تھی۔ نادان، اس کو یہ خبر نہ تھی کہ کسی کی بھی ڈور اُس کے ہاتھ میں نہ تھی۔ اوپر سے دِل کو رابرٹ کی ہریاول جیسی آنکھیں بھا گئی تھیں۔ اُس کے اندر متضاد سوچیں ، لہجے اُس کو مسلسل دو حصوں میں بانٹ رہے تھے اور وہ کسی طرح بھی سنبھل نہ پا رہی تھی۔

            ’’کیا بات ہے ، آج کوئی لیکچر نہیں دو گی ینگ گرل۔ ‘‘ رابرٹ کہتے کہتے اُس کی طرف جھُک آیا تھا۔ عائشہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹی جیسے کرنٹ لگ گیا ہو۔

            ’’ینگ گرل! ‘‘ رابرٹ نے حیران ہوتے ہوئے اُس کا شرمیلا سا وجود دیکھا۔

            ’’تم سے بحث بیکار ہے رابرٹ۔ قطعی بے سود اور بے فائدہ۔ ‘‘عائشہ نے تاسف سے کہا۔

            ’’نہیں ، اب میں کم سمجھ بھی نہیں۔ بات یہ ہے کہ تم سمجھاتی ہو تو سمجھنے کو دِل نہیں کرتا کہ بار بار کہو، بار بار سمجھاؤ! ‘‘ رابرٹ کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ اُس کا پیغام، اُس کا مفہوم، اُف خدایا! عائشہ لرز گئی حالانکہ وہ بھی کچھ ایسے ہی سوچ رہی تھی مگر وہ اکیلے ہی سوچنا چاہتی تھی۔ ابھی اُس نے خود سے ہی کچھ فیصلہ نہ کیا تھا۔

            ’’یہ بے ایمانی ہے۔۔۔ ‘‘ وہ دبے دبے لہجے میں انگریزی میں بولی۔

            ’’ممکن ہے۔ مگر سچ ہے کہ میں تم سے ایمپریس ہو گیا ہوں۔ مجھے افسوس ہے کہ تمہیں میری باتیں ناگوار گزری ہیں مگر ینگ گرل، اس میں میرا کیا قصور ہے۔ سچ پوچھو تو تمہارے مذہب کا کوئی بھی واضح تصور میرے ذہن میں نہیں ہے۔ میرا مذہب میری اکلوتی زندگی ہے اور اُس کی خوشیاں ہیں۔ اور مزید یہ کہ کسی کو مجھ سے آزار نہ ہو بس یہی مذہب ہے میرا!! خدا اور اُس کی کائنات میری سمجھ میں نہیں آتی! اور یہ تمہارے اسلام کی لڑکی اُس کی حیا ، اُس کی وفا سب احمقانہ سی باتیں ہیں۔ میری مانو تم بھی باز آ جاؤ ایسی باتوں سے۔۔۔ !!‘‘

            ’’رابرٹ!!‘‘ عائشہ چیخ پڑی۔ اُس کی آنکھیں انگارے برسا رہی تھیں۔ ایک لمحے کو اُس کو احساس بھی ہوا جیسے وہ رابرٹ جس کے لیے اُس کے اندر سافٹ کارنر تھا اُسے اپنی نظروں سے گرا گیا ہو۔۔۔ ! اُسے یوں لگا جیسے اُس نے ایک عام سی لڑکی کی طرح اپنے نفس کی غلامی کر لی تھی۔

            ’’رابرٹ، بہتر ہے ہم اچھے کلاس فیلوز کی طرح صرف ہیلو ہائے پر گزارہ کر لیں۔ ‘‘ عائشہ نے حتمی فیصلہ کر لیا تھا۔

            ’’نہیں۔ یہ اب ممکن نہیں ہے۔ !! ‘‘ رابرٹ نے بھی اپنا فیصلہ دے دیا تھا۔

            پھر اگلے دِن اُس نے اپنی سیٹ بدل لی۔ لیکن ہمہ وقت رابرٹ کی نظروں میں رہی پر یہ بھی ہوا کہ رابرٹ کے برابر والی سیٹ خالی ہی رہی۔اُس نے کسی کو بیٹھنے ہی نہ دِیا۔

            ’’تم نے ایسا کیوں کیا؟ ‘‘ کافی بریک میں عائشہ کے راستے میں رابرٹ کھڑا تھا۔

            ’’اس لیے کہ مجھے ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔‘‘

            ’’ٹیک اِٹ۔۔۔ ‘‘ رابرٹ نے کافی اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

            ’’نہیں ! ‘‘ عائشہ نے سر بھی ہلا دِیا۔

            ’’سویٹ گرل کافی ہے یہ۔ میرے ہاتھوں میں ہونے سے کافی آرتھوڈکس تھوڑی ہو گئی ہے۔ ‘‘ رابرٹ نے ہنستے ہوئے کہا۔

            ’’بے وقوفی کی باتیں نہ کرو۔۔۔! ‘‘ عائشہ نے اُسے جھڑک دِیا۔

            ’’بھئی دوستی کر لو۔۔۔ !! دیکھو عائش تم چھوٹی ہو۔ ابھی مائنر ہو، کم سِن اور نابالغ ہو۔ یعنی اٹھارہ سال کی بھی نہیں ہو۔ اِتنا سوچو گی تو مر جاؤ گی۔‘‘

            ’’تمہیں اِس سے کیا؟ ‘‘ عائشہ کو رابرٹ کی کوئی بات مزہ نہ دے رہی تھی۔

            ’’ہے نا! میں چاہتا ہوں کہ وقت کے ساتھ تم میچورڈ ہو۔ تاکہ کم عمری کی تازگی اور بے فکری سے تم لطف لے سکو۔ جو لوگ وقت سے پہلے بڑے ہو جاتے ہیں وہ کھردرے ، غم ذ دہ ، پتھروں جیسے ہوتے ہیں۔

            ’’رابرٹ۔۔۔ ‘‘ عائشہ نے حیرانی سے اُسے دیکھا جو سیریس ہو چکا تھا۔

            ’’میں نہیں چاہتا مائی ینگ گرل، تم سے وہ سب کچھ اچانک چھِن جائے جو مجھ سے چھن چکا ہے۔‘‘

            ’’کیا کیا۔۔۔ ‘‘ عائشہ اس سے آگے پھر نہ پوچھ سکی۔

            سر مارک روز کلاس میں آ چکے تھے۔ پھر ہر طرف وہی ماحول چھا چکا تھا۔ باہر بادل گھر گھر کر آ نے والے اور برسنے والے تھے۔ جارج اسٹریٹ کے سامنے جہاں یہ سنیٹر تھا ، وہیں دائیں طرف ایک اور آ فس تھا۔ جنرل آفس ، جس کو آرکیٹیکٹ نے ایسا ترتیب دیا تھا کہ جیسے جیسے تیز ہوائیں چلتی تھیں ،  وہاں سے سیٹی جیسی آوازیں آتی تھیں جو آ پس میں مل کر پُر اسراریت اختیار کر جاتی تھیں۔ ایسے ہی کچھ عائشہ کو لگ رہا تھا جیسے اللہ میاں نے اُسے ایسا ہی بنا دیا تھا۔ اس کی آگہی کی سیٹی اُسے پُر اسرار بنا رہی تھی۔ رابرٹ سر جھُکائے بظاہر بے انتہا مگن لگ رہا تھا مگر وہ جانتی تھی کہ وہ کہیں اور تھا۔ میں ،جو اُس کی دوست ہوں ، وہ مجھے ان سارے آ زاروں سے بچا لینا چاہتا تھا جو اُس نے بھی اس تکلیف دینے والی دنیا میں اَن فٹ ہو کر برداشت کیے لیکن تم نہیں جانتے رابرٹ کہ آگہی ، اپنے ہونے کا ادراک کوئی جنگلی پھُول تھوڑی ہیں جو ہر جگہ اُگ جائیں۔ یہ تو بڑی خاص بیلیں ہوتی ہیں۔ انھیں خاص لوگ ہی سنبھال سکتے ہیں۔ مجھے اپنی آگہی اپنے ہونے کا ادراک عزیز تر ہے۔ میں اس راستے پر چلنے سے نہیں رُک سکتی۔ اور نہ ہی میں اس خواہش سے جان چھُڑا سکتی ہوں کہ کاش تم میرے ہم سفر ہو سکتے۔،

            عائشہ نے ایک لمحے کے ایک پل میں سارے اعتبار کر لیے اور ہتھیار ڈال دیے۔

جوش جنوں تجھے ہوش کہاں

 شہر تمنا ملی اک گھر لے لیا ہے

            عائشہ کی خاموشیاں بڑھتی جاتی رہی تھیں۔ دوسرے روز وہ پھر رابرٹ کی برابر والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔

            ’’یعنی سیز فائر۔۔۔‘‘رابرٹ نے سفید رومال لہراتے ہوئے کہا۔

            ’’ہاں۔‘‘ اُس نے سر ہلا دیا۔

            ’’گڈ گرل۔‘‘ رابرٹ نے چپکے سے کہا۔‘‘ اور وہ تمہارے پاگل پن کا کیا ہوا۔۔۔؟‘‘

            ’’وہ ابھی ہے ‘‘

            ’’پلیز عائشس۔۔۔!‘‘ رابرٹ کی آنکھوں میں جانے کیا کچھ تھا ، وہ نظریں نہ ملا سکی۔

            ’’! اوہ مائی فرینڈ سویٹ گرل ! خدا تمہاری مدد کرے ‘‘ رابرٹ نے ٹھنڈی سانس لی۔

            ’’تو تم نے بھی خدا کو مان لیا۔‘‘ عائشہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

            ’’ہاں تمہارے لیے۔‘‘ وہ بھی ہنس دیا۔

            سر کلاس میں آ چکے تھے۔ پھر وہی ٹاپک اور وہی کہانیاں۔ وہی سب کی بولیاں۔

            کافی بریک میں وہ رابرٹ سے کچھ پوچھنا چاہتی تھی۔ کل کی اَدھوری باتیں مکمل کرنا چاہتی تھی۔ مگر وہ جان بوجھ کر علی کے ساتھ باتیں کرتا رہا اور اُسے ہزار سے سر کھپائی کرنا پڑی۔ ایک وہی پوری کلاس میں سوبر اور اچھی لڑکی تھی جس سے چند باتیں کی جا سکتی تھیں۔ ورنہ سب کی سب لڑکیاں کپڑوں اور جوتوں کی خریداری تک محدود تھیں اور کچھ لوگ اپنے بچوں کے پرابلمز سے باہر نہ آتے تھے۔ وہ سب سے زیادہ کم عمر مگر سنجیدہ مزاج حسین لڑکی تھی۔ سرمارک روز بھی اُس کی دیانت سے متاثر تھے۔

            کلاس کے اختتام پر رابرٹ نے اُس سے کہہ دیا کہ آئندہ ہم کسی ایسی بات پر بحث نہ کریں گے جو نظریاتی اختلافات کہلاتے ہیں ، یہ تم بھی اور میں بھی جانتا ہوں کہ ہم بے انتہا مختلف قسم کا طرز زندگی اور جدا گانہ معاشرت رکھتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود ایک قدرِ مشترک ہے کہ تم نہیں دیکھ سکتیں کہ میں بگڑا ہوں بقول تمہارے کافر ہوں۔۔۔!!اگر میں بھی تمہارے لیے یہی سوچوں تو۔‘‘

            ’’اللہ توبہ۔۔۔! توبہ ‘‘ عائشہ نے آخری سیڑھی پر کھڑے کھڑے اپنے دونوں ہاتھ کانو ں تک ایسے لگائے اور ایسے پیچھے ہٹی جیسے اُس پر رابرٹ نے کیچڑ اچھال دیا ہو !

            ’’دیکھا تم نے۔۔۔؟؟سب اپنے BROUGHT-UPمیں ایسے ہی مگن ہیں تم کسی کو BRAKEنہیں کر سکتیں۔‘‘

            ’’لیکن کوشش تو کی جا سکتی ہے۔‘‘عائشہ ابھی بھی مُصر تھی۔

            ’’ہاں اگر میرے جیسا کوئی احمق مل جائے۔ لیکن سنو ہم اب کوئی اختلاف والی بات نہیں کریں گے۔۔۔!!تم جو ہو خوب ہو۔ اور میں جو ہوں ، وہ بھی خوب ہوں۔‘‘

            ’’تو ہم کیا کریں گے۔۔۔؟‘‘عائشہ نے گرین سگنل کے لیے بٹن دباتے ہوئے پوچھا۔

            ’’ہم سیاست پر بات کریں گے۔ سرمارک روز کی غلطیاں ڈھونڈیں گے۔ سوزی کو کوسیں گے۔ مغربی تہذیب کی کچھ اچھائیاں ڈھونڈیں گے۔‘‘ رابرٹ نے مسکراتے ہوئے کہا اور سگریٹ سُلگا لی۔

            ’’یعنی سارے کام تنقیدی ہی کریں گے۔۔۔؟ کوئی ارتقائی و تعمیری کام ہر گز نہ ہو گا؟ ‘‘

            ’’کیوں نہیں ہو گا۔ ہم مغرب کے ماڈرن ہونے کے سلسلے میں بہت سی اچھی باتیں کریں گے۔۔۔‘‘

            ’’انشا اللہ۔۔۔‘‘ عائشہ بے دھیانی میں کہہ گئی۔ رابرٹ کھِلکھِلا کر ہنس پڑا۔ اور بائے کہہ کر اپنی سڑک پر مُڑ لیا۔

            ’’آج کیسی رہی کلاس۔۔۔؟‘‘  نفیسہ بیگم نے عائشہ کو مسکراتے ہوئے دیکھا۔

            ۔۔’’شکر اللہ کا تمہارا موڈ بہتر ہوا۔‘‘ عثمان بھی کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ گیا۔

            دوپہر کو حبیب صاحب اپنے کام پر ہوتے تھے۔ ایک ملازمت انہیں یہاں خوش قسمتی سے آ تے ہی مل گئی تھی، بس مستقل نہ تھی۔

            ’’وہ بھی ہو ہی جائے گی‘‘ وہ بڑے سکون سے کہتے اور کبھی پریشانی کا اظہار نہ کرتے اور یہ عثمان اُنہی پر جا رہا تھا۔ کوئی بات مشکل نہ لگا کرتی ہر بات کا حل وقت پر تلاش کرنا ،اپنے آپ کو درست اور سیدھے راستے پر بدستور چلائے رکھنا اور لوگوں کی پرواہ نہ کرنا اُسے اپنے سارے ہم عصر وہم عمر دوستوں میں ممتاز کر دیتا تھا۔ ویسے بھی خوبرو حسین چھ فٹ کا عثمان اپنے خیالات سمیت بڑا دل فریب تھا، بڑی آ سانی سے جوتوں سمت دل میں گھُس جاتا تھا۔ نفیسہ بیگم ہر وقت بس اپنے بچوں میں کھوئی رہتیں اور نظریں اُتارا کرتیں اور ہمیشہ اپنے اور اپنے سے متعلق ہر شخص کے لئے ایمان مانگا کرتیں اور یہ اُنہی کی دعاؤں کا اعجاز تھا کہ اُن کی اولادیں اچھی اور بُری باتوں کا امتیاز رکھتی تھیں۔

            ’’لیکن پارٹنر آجکل تم مجھے ایسی نہیں دِکھتی ہو جیسے آئی تھیں۔‘‘

            عثمان نے جیسے اگلوانے کا آج مشن بنا لیا ہو۔

            ’’کیوں کیا ہوا مجھے ؟‘‘عائشہ نے روٹی توڑتے ہوئے پوچھا۔

            ’’کچھ سنجیدہ ، کچھ قنوطی اور کچھ دقیانوسی۔ اور ‘‘

            ’’کچھ وحشت۔۔۔‘‘ عائشہ نے عثمان کا جملہ مکمل کر دیا۔ اور ہنس پڑی۔’’امی جی سال ہونے کو آ یا ہے کبھی کبھی مجھے وحشت ہونے لگتی ہے۔ ماموں بہت یاد آ تے ہیں اور باقی سب بھی۔‘‘ عائشہ نے بڑی ہوشیاری سے ساری باتوں کا رُخ کسی اور طرف موڑ دیا تھا۔ خود عثمان بھی ماموں کو بہت مِس کرتا تھا۔ وہ تو اُن کا دوست بھی تھا اور بیٹا بھی ساری باتیں شیئر کرتے تھے۔ اب اتنی ہزاروں میل آسمانی اور زمینی مسافت نفیسہ بیگم کے حلق میں محبت سے کانٹے پڑ گئے اور وہ پھر اپنے بھائی میں اپنی ماں اور اپنے باپ کی شفقتوں کو کھوجنے لگیں۔ تینوں اپنے اپنے خیالوں میں گُم اپنے اپنے محوروں کے گرد دائرے بنانے لگے۔ یوں بظاہر سب کھانا کھا رہے تھے۔

            ’’تمہارا کورس کب ختم ہو گا۔ ‘‘ نفیسہ بیگم نے خاموشی کو توڑا۔

            ’’بس پندرہ دن رہے گئے ہیں۔ پھر ہائی سکول جوائن کر لو ں گی۔‘‘

            ’’یہ تمہاری ضد تھی۔ حالانکہ تم ڈائریکٹ ہائی سکول جوائن کر سکتی تھیں۔ بس خواہ مخواہ وقت ضائع کیا۔ اچھلا بھلا تمہیں آتا ہے۔ ‘‘ نفیسہ بیگم نے جوش محبت سے کہا۔

            ’’ہاں امی جان مگر کیا ہوا۔ ساری عمر پڑھنا ہی توہے۔‘‘

            ’’بالکل درست یہ جو سال ضائع ہوا ہے کیا اس کا رونا بعد میں روؤ گی۔‘‘عثمان بولا۔

            ’’ہرگز نہیں میں تم ایک ہی کلاس میں رہیں گے تاکہ دیکھ سکوں ، تم کیا کرتے ہو۔ گھر آ کر شیخیاں نہ مار سکو۔‘‘ عائشہ نے ہنستے ہوئے عثمان کے بال بکھرا دیے۔

            ’’سیانی بلی۔‘‘ وہ بھی ہنس دیا۔

            ہاں پھر وہ دن بھی آ گیا۔جب کلاس کا آخری دن تھا۔ ایک فیئر ویل تھا۔ سرمارک روز کو بوُکے کے ساتھ گفٹ بھی پیش کیے گئے۔سب اپنے ملک کے مشہور کھانے گھر سے پکا کر لائے۔ اُس نے بُرے طریقے سے محسوس کیا کہ لبنانی ، ترکش اور انڈونیشین مسلمان بالا تفریق سب کھانے کھا رہے تھے کہ یہ حلال ہیں یا حرام۔ بلکہ شاید اُنھوں نے خود بھی کھانا پکاتے وقت کسی گوشت اور چکنائی میں تمیز نہ رکھی تھی۔ بلکہ چائینز لڑکے رین کے گھر کے کباب سبھی نے شوق سے کھائے تھے۔

            ’’تم کیوں نہیں کھا رہیں ؟‘‘ سرمارک روز نے عائشہ سے پوچھا۔

            ’’سروہ۔۔۔‘‘ وہ ابھی کوئی بہانہ بنانے ہی والی تھی کہ رابرٹ نے اُس کی مشکل آسان کر دی۔

            ’’سر اِن کے مذہب میں یہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔‘‘

            ’’وہ حرام ہے۔۔۔‘‘ سر نے بڑے آ رام سے کہہ دیا۔

            ’’یس سر۔۔۔‘‘ عائشہ نے بڑے فخر اور اعتماد سے کہا۔

کچھ تو تھا جس سے رابرٹ کو اپنا آ پ بڑا کم تر لگا تھا۔ اور اپنے اندر وہ خود کو بونا سا سمجھنے لگا تھا۔

            ’’اس چھوٹی سی لڑکی سے میں مات کھانے لگا ہوں۔‘‘ رابرٹ نے خود کلامی کی۔

            ’’کیا ہوا ؟‘‘ عائشہ نے بہت پوچھا مگر وہ کچھ نہ کہہ سکا۔

            پھر وہ خود ہی بول پڑا۔۔’’پھر کبھی ملو گی؟‘‘

            ’’پتا نہیں۔۔۔؟‘‘ وہ جُو س کے سِپ لیتے ہوئے بولی۔

            ’’ہاں ظاہر ہے کہاں ملو گی۔ کلب تم نہیں جاتیں۔ پَب میں تم نہیں آتیں۔ شاپنگ تمہیں اچھی نہیں لگتی۔ تفریح کا تمہیں خبط نہیں۔۔۔‘‘ وہ کھِل کھِلا کر ہنس پڑا۔

            ’’اور شاید تمہیں پتا نہیں کہ مسجد یہاں سے دُور ہے۔ اور عورتیں مسجد اتنی جلدی جلدی نہیں جاتیں اور انگریزی میری اتنی اچھی نہیں ہے کہ لائبریری جا سکوں۔ ‘‘ عائشہ نے ہنستے ہوئے کہا۔

            ’’یعنی NO-WAY‘‘رابرٹ نے بھی مسکرا کر کہا۔’’ویسے عائشہ بہت یاد آ ؤ گی۔‘‘

            ’’اچھا۔۔۔؟‘‘رابرٹ کی اطلاع ہر چند کہ نئی نہیں تھی لیکن سننا اچھا لگ رہا تھا۔

            ’’اچھا سُنو ینگ گرل۔ تمہارے مذہب میں محبت کی گنجائش ہے یا نہیں یعنی بعد میں ملنے ملانے پر کوئی۔۔۔؟‘‘ اُس نے جان بوجھ کر جملہ ادھورا  چھوڑ دیا۔

            ’’NO-WAY‘‘عائشہ نے حتمی انداز میں کہا

            ’’اچھا۔‘‘ اُس نے مسکرا کر کہا اور آنکھیں پھر ہریالی بکھیرنے لگی تھیں۔

            بس یہی ایک موقع ہوتا تھا، جب عائشہ کو کچھ گرانی ، کچھ لُٹ جانے کا احساس جاگ پڑتا تھا۔ جب وہ ہر مذہب اور ہر قید سے آ زاد ہو کر صر ف رابرٹ کے لئے سوچنا چاہتی تھی۔ مگر پھر دوسرے لمحے وہ قید ہو جاتی۔ اُس کے اندر پلنے والا یہی اختلاف، یہی ضد مار ڈالتی تھی۔ مگر فرض اور محبت میں کئی جنگوں کے بعد بالٓاخر اُس کا فرض جیت جاتا تھا۔

            وہ مسلمان تھی۔

            وہ حبیب صاحب اور نفیسہ بیگم کی بیٹی تھی۔

            وہ ماموں رشید کے جہاد کی اُمید تھی۔

            دیارِ غیر میں وہ اپنی تہذیب اور اخلاق کی ذمے دار تھی۔ وہ کوئی بھی قدم دل کے ہاتھوں نہ اُٹھا نا چاہتی تھی جس کا ہرجانہ اُس کی نسلیں بھی نہ اُتار سکیں۔

            ’’کہاں کھو جاتی ہو؟رابرٹ نے اُس کے آگے ہاتھ ہلایا۔

            ’’اچھا چلو چلیں۔ دیر ہو گئی ہے۔‘‘عائشہ نے بیگ سنبھالا، سب کو گڈ لک اور گڈ بائے کہا۔      ’’اچھا ینگ گر ل، گو کہ ہم مختلف سمتوں میں چلنے والے لوگ ہیں مگر میں نے تم سے بہت کچھ سیکھا۔۔۔‘‘ یہ رابرٹ کا اعتراف تھا۔

            اور جواب میں عائشہ سوائے مسکرا دینے کے اور کیا کہتی۔۔۔ اُس کے پاس اس معلومات کے علاوہ کوئی پتا نہ تھا کہ رابرٹ یوگوسلاویہ کا رہنے والا ہے اور بلا کا خود اعتماد ،ذہین اور حسین لڑکا ہے اور اُس پر بُرے طریقے سے فریفتہ ہے۔ اس کے آگے کیا۔۔۔ کچھ نہیں۔

            ’’او۔ کے ینگ گرل گُڈ لک۔۔۔ اور گُڈ بائے۔۔۔‘‘

            عائشہ نے ہاتھ ہلایا اور ساتھ ہی لگا جیسے خوشیوں کو گُڈ بائے کہہ دِیا ہو۔ ایک دفعہ پھر ساری قید سے آزاد ہو کر صرف اُسے سوچنا چاہتی تھی۔

تنہا ہو جاتا ہے جب دِل

پھر تنہا ہی رہنا چاہتا ہے

            اور پھر یہ بھی۔

سزا دو یا دار و رسن کر دو

سچ نے مجھے رستہ بنا لیا ہے

            رابرٹ اُس کی زندگی کی پہلی بہار تھی۔ اُس کے عہدِ شباب کا پہلا گلاب تھا۔ مگر ایسا گلاب جو کسی پر ظاہر نہ کیا جا سکتا تھا۔ کتنی باتیں ایسی ہوتی ہیں ، کتنی یادیں ایسی ہوتی ہیں جو خود سے بھی دُہرانی مشکل لگتی ہیں۔ کوفت محسوس ہوتی ہے یا پھر کہیں احساسِ جرم کا آزار اور وہ ایسا ہی کچھ رابرٹ کے لیے محسوس کر رہی تھی۔

ہائے میرے دِل و نظر کی وضاحتیں

ہوں منافق دہائی دیے جاتا ہے

            نفیسہ بیگم اُس کی خاموشی کو محسوس کر رہی تھیں مگر اپنے تئیں کچھ بھی اخذ نہ کرنا چاہ رہی تھیں۔ ہر طرح سے اُس سے پوچھ چکی تھیں مگر ہر بار کمالِ ہنر سے وہ ٹال جاتی تھی۔ عثمان اُس کا بھائی اور دوست تھا ، اس بات کے لیے کہ وہ اعتبار اپنے سوا کسی پر نہ کرنا چاہ رہی تھی اور ہونا بھی کیا تھا۔ سوائے پچھتاوے کے۔۔۔ نفیسہ بیگم کی نظروں میں الگ بے اعتبار ہوتی اور ہر وقت کھوجتی نظروں کی زد میں رہتی اور عثمان، جس پر اُس کا ایک پُر وقار امیج تھا ، وہ ٹوٹ جاتا اور وہ کیا سوچتا۔ بظاہر اسلام اور اُس کی قدروں کی طرف دار کو کوئی دمساز ملا تو وہ کافر، رابرٹ جیسا۔۔۔ مگر وہ کیا کرتی۔ کسی طور پر کوئی بھی حل نہیں تھا۔

تنہا کیسے کٹے گا ویران دِل کا سفر

ایک پل ایسا آئے جو بڑھا دے مجھے

            لیکن ایسا کچھ نہ ہوا بلکہ ان حالات میں رہنے کی عادت سی ہو گئی۔ اس طرح سوچتے رہنے کی پھر سب کے ساتھ ہنس بول لینے کی پریکٹس ہو گئی تھی۔

            کرسمس کی چھُٹیوں کے بعد وہ ہائی ا سکول میں تھی۔ اگر پاکستان میں ہوتی تو کالج میں ہوتی مگر یہاں پر بارہویں جماعت بھی ہائی ا سکول کہلاتی تھی۔ اس لحاظ سے اُس کا صرف ایک سال اِدھر اُدھر ہوا تھا مگر وہ مگن تھی۔ سب سے علیٰحدہ، سب سے جُدا۔۔۔ اور اب تو طے تھا کہ ایسے ہی رہنا تھا۔

پھر وہی غم غمِ جاں کے

پھر وہی غم غمِ دوراں کے

مجھے غم نہیں ہے جاں کا

مجھے غم نہیں ہے دوراں کا

میرا نصابِ جنوں اور ہے

میرے افکارِ پریشاں اور ہے

            بس یہ کہ۔۔۔

تیرا جہاں اور ہے

میرا جہاں اور ہے

            مہینے سالوں پر محیط ہونے لگے۔ عائشہ کو ایک بار بھی رابرٹ نہ ملا تھا۔ بس ایک دفعہ علی سے پتا چلا تھا کہ وہ اب سڈنی شفٹ ہو گیا تھا، پراپر شہر میں۔

            ’ کیوں بھلا۔۔۔ تمہیں تو شور اور تیزی سے وحشت ہوتی تھی۔ پھر بھلا کیوں ؟‘  اب تو اُس نے بلاوجہ باہر نکلنا بھی چھوڑ دِیا تھا۔ اب اُسے کوئی پشت رابرٹ کی نہ لگا کرتی۔۔۔ نہ کوئی چہرہ شناسا اُس جیسا۔۔۔

            سارا شہر اجنبیوں سے بھر گیا تھا۔ یا پھر اُس نے کھوجنا چھوڑ دِیا تھا۔ سارا شہر، ساری زندگی کشش سے آزاد ہو گئی تھی۔ اُس کی ذات کا سچ تنہائی کا زہر پی پی کر مزید سحر انگیز ہو گیا تھا۔

            عثمان نے اور اُس نے ہائی سکول سے ایچ ایس سی اچھے نمبروں سے کلئیر کر لی تھی۔ اب سڈنی یونیورسٹی میں داخلے کے لیے فارم جمع کرا دِیے تھے۔

            ماموں رشید سے بچھڑے چوتھا سال لگ گیا تھا اور اپنے وطن کو دیکھے ہوئے بھی۔

            اس وقت وہ سب آسٹریلین نیشنل تھے۔

            نفیسہ بیگم کو ہر دم عائشہ کی فکر تھی۔ اور ایک دفعہ پھر گھر بنانے کے بعد وہ کچھ نہ کچھ اُس کے لیے بچا چکی تھیں۔ بچا رہی تھیں۔ اُن کی ساری فکر بے فکری میں بدل چکی تھی۔ عثمان ماشاء اللہ شاندار سا لڑکا بن چکا تھا۔اُس کے سب دوست بھی بہترین تھے۔ عائشہ کی فکر ماں کے لیے صرف ایک اچھے لڑکے تک محدود تھی۔ حبیب صاحب اُن چند صاحبِ قسمت لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے دنیا میں سب کچھ عطا کر دِیا تھا۔ آج ہی اُنہوں نے ماموں رشید اور اُن کی بیگم کے اسپانسر شپ کے فارم مکمل کر کے بھجوائے تھے۔ نفیسہ بیگم آج کتنی خوش تھیں اور اپنے شوہر کی عقیدت مند ہو رہی تھیں۔

            نازاں و فرحاں مسرور سی نفیسہ بیگم آج سرتا پا اللہ کے حضور شکر گزار تھیں۔

            صدقے خیرات کے پیسے نکالے۔۔۔

            سب کی نظریں اُتاریں۔۔۔

            اُن کی مصروفیات میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی تھی۔۔۔ وہ بے حد صابر و شا کر سی عورت تھیں۔۔۔ اِسی لیے اللہ نے اُنہیں نوازا تھا۔

            عائشہ اور عثمان جیسی اولادیں۔

            حبیب صاحب جیسا با وقار اور ہنرمند شریکِ سفر۔۔۔ اور اُنہیں کیا چاہیے تھا اور اب بھائی بھابی بھی آنے والے تھے۔

            واقعی وہ اپنی قسمت سونے کے قلم سے لکھوا کر لائی تھیں۔مگر کبھی کبھی عائشہ کی خاموشی اُنہیں فکر مند کر دیتی اور پھر وہ بھی عادت سمجھ کر بھول جاتیں۔

            عائشہ کی عادت نے خود اُسے بھی خوش رکھنا چھوڑ دِیا تھا۔سڈنی جانا اُسے اچھا نہ لگ رہا تھا۔ اب نئے سرے سے تلاش شروع ہو جانی تھی۔ جب وہ تھک جاتی تو پھر کسی سے پتا چلتا کہ وہ یہاں نہیں ہے۔ تب اُسے کتنی سُبکی ہوتی تھی۔ اپنی دیوانگی سے شرمندگی کا ایک نیا سلسلہ۔۔۔نہیں اور نہیں ، اب کبھی نہیں۔ ستمبر کی بہاریں جا رہی تھیں۔ آسٹریلیا کی بہار بھی عجیب ہے۔ اِتنے پھول کھلتے ہیں کہ اتنے انسان بھی شاید نہ ہوں۔

            ہر راستہ خوشبودار۔۔۔ اور ہر گھر پھولوں سے گھِرا ہوا مگر گھر کے اندر سارے نقلی پھول اور اِسی طرح گھر میں کوئی نہیں رہتا، گھر سے باہر سارے رشتے ایسے بکھرے رہتے ہیں جیسے خوشبو۔۔۔ یہ کیسا مغرب کا مزاج تھا۔ آوارہ مگر غم زدہ۔۔۔ اُداس، توجہ طلب۔ وہ کسی لحاظ سے بھی فِٹ نہ تھی۔ مگر یہ ہنر بھی صرف اُسی کے پاس تھا کہ ایسے رہتی جیسے یہیں پیدا ہوئی ہو۔

            انگریزی پر مکمل عبور کے ساتھ ایک پُر وقار لڑکی کا بھی رُوپ دھار لیا تھا۔ جو بھی دیکھتا، ایک منٹ کو سوچنے پر مجبور ہو جاتا۔ مگر جس نے اُسے یہ اعتماد دِیا تھا ، وہ کہا ں تھا؟؟؟

            وہ کافر۔۔۔

            وہ بُت پرست۔۔۔

            وہ سنگ دِل، جو ہر رنگ میں محبوب تھا۔ دِل کو عزیز تر۔ ہر قید اور رسم سے بالا تر۔۔۔ اُسے کھوجنا مقصدِ حیات تھا۔ مگر ایک طرح سے بے مقصد اور لاحاصل ہی تھا اور بے کار بھی۔۔۔

            ایسے ہی ایک دِن ستمبر کے دِنوں میں پھول بے اِنتہا کھلے ہوئے تھے اور اُن پر بارش ایسے گر رہی تھی جیسے امرت۔۔۔  کائنات رقصاں تھی۔ عائشہ حسبِ معمول اپنے کمرے سے اِس کا نظارہ کر رہی تھی۔ نفیسہ بیگم کچن میں تھیں۔ عثمان اپنے کمرے میں جانے کیا پڑھ رہا تھا۔

            اُس نے بلا اِرادہ ہی قدم باہر کی طرف بڑھا دِیے۔

            ’ کبھی کبھی بھیگنے میں کتنا مزہ آتا ہے۔‘ وہ سوچے بغیر نہ رہ سکی۔

            نفیسہ بیگم نے کئی بار اُسے تنبیہ کی کہ وہ باز آ جائے۔ عثمان تک نے اُسے سمجھانا چاہا۔ مگر آج وہ ہنس رہی تھی۔ کتنے دِنوں بعد آج اچھا لگ رہا تھا کہ ایسے میں پوسٹ مین اپنی مخصوص موٹر بائیک پر سوار جھُکا لیٹر بکس میں خط ڈال رہا تھا۔

            ’’ارے ماموں جان کا خط آیا ہو گا۔‘‘ وہ دوڑ کر قریب جا چکی تھی۔ اُس نے ہاتھ بڑھا کر خط لیٹر بکس سے نکال لیے۔

            ’ یہ ماموں کا۔۔۔ ‘

            ’ یہ صفیہ اُس کی دوست کا۔۔۔ یہ عثمان کے دوست کا۔ ‘

            ’ یہ حبیب صاحب کے کاروباری خط۔ مگر یہ کس کا ہے۔۔۔؟‘ نام تو عائشہ کا تھا اور ہینڈ رائٹنگ بے اِنتہا جانی پہچانی۔۔۔ یہ لکھائی تو رابرٹ کی تھی۔۔۔ عرصہ تین سال بعد۔۔۔ رابرٹ کو میری یاد آ گئی۔

            عائشہ حیران تھی۔۔۔ اُس کا روم  روم کانپ رہا تھا۔

            ایک عجیب سا احساس، خیال۔ اُسے یاد ہی نہ رہا کہ وہ بارش میں بھیگ رہی ہے اور سارے خط تھیلی سے باہر ہیں۔

            ’’میرا خط آیا ہے عائشہ؟ ‘‘ عثمان کی آواز پر وہ چونک گئی اور دوڑ کر اندر آ گئی۔ سارے خط ڈائنگ ٹیبل پر رکھ کر اپنے خط لے کر اپنے کمرے میں آ گئی۔ دِل ابھی بھی دھک دھک کر رہا تھا۔ ایک بے قراری کو قرار نہ تھا۔ کیا لکھا ہو گا۔ فسانۂ ہجر یا ایسے ہی سب کچھ۔۔۔ اُس نے لکھا تھا۔

            ’’ینگ گرل۔ السلامُ علیکم!

            تمہارا غصہ ، تمہارا شکوہ بجا کہ اِتنے دِنوں کہاں رہا مگر تمہیں شاید یاد نہ ہو کہ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ تمہارے مذہب میں محبت کی کوئی گنجائش ہے کہ نہیں تو تم نے جواب میں کہا تھا ’’نو وے۔ ‘‘ میں ڈر گیا تھا ینگ گرل۔ لیکن یہ سچ ہے ، تم ہمیشہ میرے ساتھ رہیں اور شاید تمہاری تلاش نے مجھے انسان بنا دِیا۔ کورس ختم کرنے کے بعد میں سڈنی شفٹ ہو گیا۔ وجہ یہ تھی کہ میری ماں اور چھوٹی بہن یوگو سلاویہ سے آ گئی تھیں۔ تمہیں معلوم نہیں ہے اس لیے بتا دوں کہ میرے ڈیڈ یوگوسلاویہ میں ہونے والے ہنگاموں کی نذر ہو گئے۔ وہ میرے بہتر مستقبل کے خواہش مند تھے۔ اِس لیے یہاں بھجوایا تھا۔ بڑی بہن اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ابھی بھی وہیں مقیم ہے۔ میری ماں اور چھوٹی بہن ماریہ اکیلے پن کی وجہ سے یہاں آ گئی ہیں۔ وہ کیسے پہنچیں یہ بڑی لمبی داستان ہے۔۔۔ ماریہ مجھ سے دس سال چھوٹی ہے مگر آگہی نے اُسے میرے برابر لا کھڑا کیا ہے۔ اُس سے میں کبھی کبھی ڈر جاتا ہوں ، بالکل ایسے جیسے تم سے ڈر جاتا تھا۔

            ’’عائشس! سچ سچ بتانا تمہیں اس شعور نے سوائے آزار کے کیا دِیا ہے۔ تم نے اپنی بے فکری کے دِنوں کو کھو کر کیا حاصل کیا؟ مگر تمہاری یہی قدرِ مشترک میری زندگی بن گئی ہے۔ تمہاری سچائیوں اور مستقل مزاجی نے مجھے بدل دِیا۔ اور شاید اسی اِدراک اور فہم نے مجھے مذہب اسلام کے قریب کر دِیا۔ سڈنی میں Rotting Hillروٹنگ ہل کی مسجد میں امام صاحب سے ملا اور پورے ایک سال تک دینِ اسلام کی اسٹدی کی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ تم سچ کہتی تھیں۔ یہ واحد دین ہے جو نیچرل ہے ، آسمانی ہے۔ مجھے قرآن شریف سے وہ سارے جوابات مل گئے جو کبھی مجھے بے چین کر دیتے تھے۔مجھے اپنی حدود کا احساس ہوا اور آج اللہ کے کرم سے مجھے ہدایت نصیب ہے اور میں مسلمان ہو چکا ہوں۔ میری ماں بھی اور چھوٹی بہن بھی۔ اب میرا اسلامی نام رحمان ہے اور ماریہ میری بہن کا نام ہے۔ میں بہت چاہتا تھا ، تمہیں بتاؤں اور ہمیشہ کے لیے تمہاری طرف لوٹ آؤں مگر یہ حقیقت تھی ینگ گرل کہ میری فیملی اور فیملی بیک گراؤنڈ تمہاری طرح کلر فل نہیں ہے۔ یا پھر شاید مجھے انکار کا حوصلہ نہیں ہے۔ اس لیے پھر راستہ بدل لیا ہے۔ ارینہ میری اچھی دوست تھی۔ میں نے سوچا، نیکی کا جو سفر تم نے کم عمری میں شروع کیا تھا ، میں اُسے بڑھاؤں۔ ارینہ اب مسلمان ہو چکی ہے۔ اس کا اسلامی نام فاطمہ ہے۔ اب وہ فاطمہ رحمان ہو چکی ہے۔ تمہیں اپنے اوپر رشک کرنا چاہیے کہ تمہارے اعتماد اور جلال نے مجھے کیا سے کیا بنا دِیا۔ میں اس دنیا میں تو کیا قیامت میں بھی علی الاعلان کہوں گا کہ مجھے صرف تم نے مسلمان کیا ہے۔ تم وہ حسین تحفہ ہو جو صدیوں میں ایک بار زمین والوں کو نصیب ہوتا ہے۔ تم ایک تو کیا، کئی نسلیں مسلمان کر سکتی ہو، اور یہ بھی کہ اسلام صرف مسجدیں بنا لینے سے نہیں پھیلتا بلکہ محبت ، مہربانی اور صرف تم جیسی پُر عزم لڑکی کی مستقل مزاجی سے پھیلتا ہے۔ تمہیں اب میری فکر نہیں کرنی چاہیے۔ بس نیکی پر قائم رہنے کی دعا چاہتا ہوں۔ میری اچھی دوست، تم زندگی کی آخری سانس تک ایک اعتبار بن کر میرے ساتھ رہو گی۔ تمہیں صرف ایک بار دیکھنے کی تمنا رکھتا ہوں۔ اس لیے کہ تمہیں دیکھ کر زندہ رہنے کو جی کرتا ہے۔۔۔!!

                                                                        خدا حافظ

                                                                        رحمان‘‘

            عائشہ کے کانپتے ہاتھوں میں وہ سب کچھ تھا ، جسے پانے کی تمنا تھی۔ لیکن اِتنے بڑے میرٹ سرٹیفکیٹ کی توقع ہرگز نہیں تھی۔

            رابرٹ سے رحمان تک اُس کی دُعاؤں کا سلسلہ تھا یا اُس کی محبتوں کا اعجاز۔۔۔ اُس کے لڑیوں کی صورت گرتے آنسو بارش کی طرح پھولوں پر برس رہے تھے مگر دِل کے اندر ہجرت کے بعد کٹنے والی پہلی رات کی بے سرو سامانی تھی، ویرانی تھی۔ وحشت تھی۔۔۔ خالی پن، ادھورا پن اور جانے کیا کیا۔۔۔ لیکن ایک احساس نے اُسے سرشار کر دِیا تھا۔۔۔ رابرٹ سے رحمان بن کر اُسے قیامت میں بھی سُرخرو کر دِیا تھا۔

            اُس کی ذات کا پہلا سچ۔۔۔

            اُس کا پہلا راز، پہلا اعتبار۔۔۔

            عہدِ شباب کا پہلا گلاب۔۔۔

            اُسے کتنی بلندیوں پر لے گیا تھا۔۔۔

———————–

 

مجبورِ سفر ہوں

            مجھے رات بہت اچھی لگتی ہے۔

            پُر سکون سی۔۔۔

            ہلکی ہلکی سی۔۔۔

            نیند کی طرف دھکیلتی ہوئی۔۔۔ نرم نرم سی۔۔۔

            اگر رات نہ ہوتی تو شاید دنیا میں کوئی آرام کو نہ پہچان پاتا۔ شاید اسی لیے ہزاروں بیماریوں کی ابتداء اسی کے اُڑ جانے سے ہوتی تھی۔۔۔ اس لیے بھی

            مجھے رات بہت پسند تھی کہ اکثر کوئی کام نہیں کرنا پڑتا۔ ا سکول کالج بند ہو جاتے ہیں۔۔۔ آفس میں کام ختم کر دِیا جاتا ہے۔ گھروں میں بھی سب اپنے اپنے کمروں میں آرام کرنے چلے جاتے ہیں۔ ہاں البتہ!

            کچھ آفس پھر بھی چلتے رہتے ہیں۔ فیکٹریاں شفٹ ورک کے ہیر پھیر میں انسانوں کو اُلجھا کر منافع کمانے کی سر توڑ کوشش میں لگی رہتی ہیں۔

            سارے بالا خانے آباد ہو جاتے ہیں۔ رات کا فائدہ اُٹھا کر سب اُجلی باتیں ، اُجلے کردار، اغلاف، ہنر سب کے سب کالے اور دھندلے ہو جاتے ہیں۔ اسی رات کا جادو کبھی ایسا چلتا ہے کہ انسان تمام عمر سونا اور آرام کرنا بھول جاتا ہے۔

            ڈاکٹر کہتے ہیں کہ رات ایک سُچل اور قدرتی انمول تحفہ ہے جو رّب نے انسان کو عطا کیا ہے۔ جو اس کو نہیں سنبھال کر رکھتا وہ بے چین رہتا ہے۔۔۔

            شاید رات مجھے اس لیے بھی پسند تھی کہ اس کا تعلق چیَن سے تھا۔ آرام سے تھا۔۔۔ میں اکثر جب ہسپتال میں ڈیوٹی پر ہوتی ہوں تو رات کو ضرور وارڈ کا چکر لگاتی ہوں۔۔۔ دیکھوں کہ کون آرام اور چَین سے سو رہا ہے۔

            اور پھر میں کئی لمحے تک ان کے پُر سکون چہرے دیکھتی رہتی ہوں جو دِن کے اُجالے میں حرماں نصیبی کی تصویر ہوتے تھے۔۔۔ دُکھ اور کرب ہر طرف کُرلایا کرتا ہے۔ ہسپتال کے ہر وارڈ میں کرب اور دُکھ برستے رہتے ہیں۔ خاص طور پر میں جہاں کام کرتی تھی۔ یہ نفسیاتی ہسپتال تھا۔۔۔ حال ہی میں میرا تبادلہ یہاں ہوا تھا۔ اس سے پہلے میں سرجری کے شعبے میں تھی اور اس سے پہلے میڈیسن اور گائنی میں۔۔۔ سو میری یہ چوتھی Rotation تھی۔اکثر رات کی ڈیوٹی لگتی رہتی تھی اور ہسپتال میں بھی رات آتی تھی مگر صرف ان لوگوں کے لیے جو چین اور آرام کی منزل کو یاد رہے ہوتے تھے۔ ہاں البتہ ڈاکٹروں کا تعلق بے چین، بے آرام سے لوگوں سے تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ اس بے چینی کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ رات کو بھی اُٹھ اُٹھ کر مریضوں کو دیکھتے ہیں اور ان کے پُر سکون سوئے ہوئے چہروں کے باوجود ان کی نبضیں ٹٹول رہے ہوتے ہیں اور کبھی کمر لگا کر بیٹھ بھی جائیں تو نئے آنے والے مریض کی اطلاع ان کو حیران اور پریشان نہیں کرتی بلکہ دوڑ پڑتے ہیں۔ اُنہیں بے سکونی اور بے آرامی سے بچانے کے لیے۔

            ان کے سکون اور رات کے تحفظ کے لیے ، ساری رات ، بے سکون ہو کر بِتا دیتے ہیں۔۔۔ پھر بھی اکثر لوگ یہی کہتے تھے کہ آخر ڈاکٹر نے کیا کیا؟؟

            میں شاید کبھی نہ بتا سکوں گی کہ اس دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو اپنی راتیں بانٹ دیتے ہیں صرف اُنہیں رات کا سُکھ دینے کے لیئے۔۔۔

            کتنے لوگ تھے جو ایسا ظرف رکھتے تھے ؟

            جبھی تو رات کی عبادت کا ثواب بھی دو گنا تھا۔

            اس رات کے آرام کی قربانی کا احساس تو میرے رب کو بھی تھا۔۔۔ جبھی تو اِس کی قدردانی میں جنت رکھی ہے۔

            بے شک اِنسان نا شکرا رہے۔۔۔ اپنے رب کا بھی۔۔۔ جس نے رات کو آرام کے لیے بنایا اور پھر اس انسان کا بھی ، جس نے اُسے رات کا سکون دوبارہ لوٹایا۔۔۔

            یہ رات کتنی کرشمہ ساز ہے۔۔۔ کسی کو راتوں رات ولی بنا دیتی ہے اور کسی کو راتوں رات فقیر کر دیتی ہے۔۔۔ اور اگر کبھی رات کو کھڑکی سے پردہ اُٹھا کر باہر دیکھو تو اس کالے اژدھے کی طرح ڈرا دیتی  ہے جس کا تصور امی جی نے ہزاروں بار ہمیں نماز نہ پڑھنے پر شہر میں ملنے والی سزاؤں میں سے ایک کا ذکر کیا تھا۔۔۔

            تو کیا رات کالے اژدھے کی طرح ایک سزا بھی تھی؟؟؟

            شاید اُن لوگوں کے لئے جنہیں آرام نہیں تھا۔۔۔سکون نہیں تھا۔۔۔ چین نہ تھا۔۔۔ جنہیں نیند نہیں آتی۔۔۔

            رات کی اس جادو گری سے میں حیران سی رہتی تھی۔

            اللہ پاک کی کروڑوں نعمتوں میں سے ایک تھی۔۔۔

            کسی کو میسر تھی۔۔۔

            کسی سے چھین لی گئی تھی۔۔۔

            کسی کے لئے نایاب سی تھی۔۔۔

             کسی کے لئے مصنوعی طریقے سے خریدی جا رہی تھی۔۔۔

            اور کسی کو کہیں سے بھی نہیں مل رہی تھی۔ایک عذابِ مسلسل کی طرح جگا رہی تھی۔

            انہی راتوں میں خوف اور دہشت و وحشت پلتی تھی۔ تو میں کبھی انہی وارڈز میں گھومتے ہوئے سوچتی تھی ، ہر انسان کی رات اپنی ذاتی ہوتی ہے۔۔۔

            اس کے لئے سونا کیا تھا صرف وہی جانتا تھا۔۔۔ اس کے خواب صرف اُسی کے تھے۔۔۔ اس کا آرام و چین سبھی کچھ اس کا اپنا تھا۔۔۔

            جہاں میں کھڑی تھی وہاں سے صرف مجھے ان کے معصوم چہروں پر پھیلی ہوئی معصوم سی خواہش نظر آتی تھی۔ جنہیں پڑھنے کے لئے میں اکثر بے چینی سے وارڈز کے چکر لگایا کرتی تھی۔

            کبھی ان کے معصوم چہروں پہ ہلکی سی مسکراہٹ آ جاتی جیسے اُن کے خواب درد اور کرب سے آزاد ہو رہے ہوں۔۔۔ اور کبھی ان کے آنسو پلکوں سے ٹکراتے رہتے اور یونہی گرتے رہتے۔۔۔ جیسے ان کو سحر کی اُمید ہی نہ تھی۔۔۔ اور کبھی وہ ایسے ڈر کر اُٹھ جاتے جیسے رات کالے اژدھے کی طرح انہیں نگلنے کے لئے چلی آ رہی تھی۔

            رات اور موت میں کیا فرق تھا۔۔۔ شاید لمحوں کا فاصلہ تھا۔ یا پھر پل پل دعا دینے والی موت بانگِ دہل رات کے قدموں میں لوٹ رہی ہوتی تھی۔ اسے بھی معلوم تھا کہ راتوں کو کون جاگتا ہے۔۔۔ کون پکارتا ہے۔۔۔ کون آتا ہے مدد کو۔۔۔ کون سُنتا ہے۔۔۔ ہاں ! پکارتا تو وہی ہے جو لو لگا لیتا ہے۔۔۔

            سلگتا ہے پل پل۔۔۔ لمحہ لمحہ۔۔۔ گھلتا رہتا ہے۔۔۔اپنے ہی دُکھوں میں ، اپنے ہی واہموں میں ، خود ہی سے ہارتا رہتا ہے۔

            لیکن ہاں ! ایک ہے جو مدد کو آتا ہے ، وہ رب ہے جو سدا سے جاگ رہا تھا۔ اس کے لیئے ہی دِن رات کا فرق نہیں تھا شاید صرف اس لیئے کہ کوئی اسے پکار نہ لے۔۔۔مدد مانگنے نہ آ جائے۔۔۔ رات کی عبادت ساری عبادتوں سے افضل تھی۔

            انسان سے ولی تک کا سفر رات کا سفرِ مسلسل تھا۔لیکن یہ کیسی رات تھی بے قرار سی ، لمبی اژدھے جیسی زہریلی۔ جس کا زہر جاگنے پر بھی رہ جاتا ہے۔ یہ اس رات کی بات تھی جس کے رتجگے میں نہ تو ہجر تھا نہ وصال۔۔۔ بس خون اور وحشت کی طرح مسلط کر دی جاتی ہے۔ کسی امیر کی طرف سے کسی بھی غریب پر اور کبھی بڑے ملک چھوٹے ملکوں کی نیندیں اُڑا دیتے  ہیں ، اس میں بسنے والے ہر انسان کی رات چُرا لیتے ہیں۔ اس میں خون،  ہراس، دہشت، وحشت، بے یقینی اور بے چینی بھر دیتے ہیں۔ کتنے ظالم ہوتے ہیں وہ لوگ جو دوسرے لوگوں کی راتیں چُرا لیتے ہیں۔۔۔ ان سے چین اور آرام چوری کر لیتے ہیں ، ان کے سکون اور خواب لوٹ لیتے ہیں ، کتنے ہی بہانوں سے۔۔۔ اِنسان اُجاڑ دیتے ہیں۔ پھر باقی کیا بچتا ہے ان کے پاس؟ ؟؟

Stress سٹریس،  Depressionڈپریشن۔۔۔ یہ سب کیا تھا ؟؟؟

            کسی کو نیند نہیں آتی تھی؟ نہ قدرتی ، نہ مصنوعی۔۔۔ اعصاب شکن راتوں کے عذاب کیوں کچھ انسانوں پر مسلط کر دیئے جاتے ہیں۔ بے قصور، مظلوم اور لاچار انسان۔۔۔

            میں نیندیں کہاں سے لاؤں ؟؟؟ میرے رب! میرے ہاتھوں کو جادوؤں سے بھر دے کہ میں ان بے خواب تھکی آنکھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دوں اور وہ پل بھر میں سو جائیں۔ آرام کی وادیوں میں بے فکر اُڑیں ، لہرائیں ، گھومیں ، ناچیں۔۔۔ خواب، جو مدتوں سے نہیں دیکھے وہ ایک پل میں سارا سفر کر لیں۔۔۔

            اے رب! مجھے پور پور جادو کر دے۔

            کہ میں ان کا یقین اور بھروسہ لوٹا دوں۔۔۔ کہ وہ سب ایک دفعہ ہوش میں رہنا سیکھ لیں۔۔۔ہم سب بہت عام سے انسان ہیں۔۔۔ ہم ولی نہیں بن سکتے۔ ہم یہ ریاضت نہیں کر سکتے۔ ہمیں نہ آزما۔۔۔ ہمیں ہماری نیندیں ، ہماری راتیں لوٹا دے۔میں نے اپنی دھندلی اشک بار ا آنکھوں سے مسز ڈینی کو دیکھا جو بار بار آنکھیں بند کرتی اور کبھی اپنے بازو اپنی آنکھوں پر رکھ لیتی۔ سلیپنگ پلز کے باوجود نیند ان کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔

            ’’تھوڑی دیر میں نیند آ جائے گی ، بس یونہی آنکھیں بند رکھو۔ ‘‘ میں نے آہستگی سے انگریزی میں اس سے کہا تو وہ ہنس پڑی۔ مجھے لگا جیسے میرا مذاق اُڑا رہی ہو۔

            ہر تکلیف میں سب سے پہلے نیند کا ہی انجکشن دینا پڑتا تھا۔ میں سوچے بنا نہ رہ سکی۔

            اگر میرے سارے مریضوں کو ان کی نیندیں واپس مل جائیں تو میرا سارا وارڈ خالی ہو جائے شاید۔۔۔ میں اپنے تجزیہ پر فور۱ً ہی ہنس پڑی۔

            سڈنی کے اس ٹیچنگ ہسپتال میں سائیکاٹری کے لئے پچاس بیڈ کا یہ ہسپتال میرے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر تھا۔ اور جب مجھے یہاں جاب ملی تھی میں سمجھی تھی کہ لاٹری کھل گئی تھی۔ لیکن ہر صبح کو جب سوا آٹھ بجے ان سڑکوں پر گاڑیوں کا سیلاب آتا تو میں تیرتے تیرتے ہسپتال پہنچتی اور پندرہ15 منٹ کا راستہ پینتالیس 45منٹ میں طے ہوتا تو ہر روز سوچتی کہ سنٹرل کوسٹCentral Coastکی جاب اچھی تھی۔ ایک گھنٹہ کا سفر اُڑتے اُڑتے 45منٹ میں طے کرتی تھی اور سارے راستے صرف وہی سوچتی جو میں سوچنا چاہتی تھی۔ اس وقت صرف ان 45منٹوں میں نہ تو میں ڈاکٹر ہوتی تھی اور نہ ہی رشتے میں کسی کی کچھ لگتی۔۔۔ ان45منٹوں کا سفر مجھے بے حد عزیز تھا لیکن یہ 15منٹ کا سفر 45 منٹوں میں کرنا اچھا نہ لگتا تھا۔ کار پارکنگ سے وارڈ تک کا سفر مزید 10منٹ میں گزرتا۔ یہ بھی گراں تھا۔ بڑے ہسپتالوں کی بڑی کہانیاں ہوتی ہیں۔ انڈر شیڈ کار پارکنگ، اوپن پارکنگ۔۔۔ اور دونوں کے لئے مہینوں الیکٹرانک کارڈ کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور اس دوران پارکنگ نے جان نکالے ہی رکھی ہے۔۔۔ اگر اِدھر اُدھر پارک ہو جاتی تو فائن کا انتظار الگ سے کرنا پڑتا ہے۔ خدا خدا کر کے الیکٹرانک کارڈ ملا تھا۔ لیکن اب گاڑی کے دھوپ میں کھڑی کرنے کا قلق تھا۔ بہر حال ہم کسی حال میں خوش نہیں رہ سکتے۔

            پچاس بیڈ کے سائیکاٹری وارڈ کے دو حصے تھے۔ ان پچاس بیڈ میں 4تو ایمرجنسی میں تھے۔ 14ہائی ڈپینڈنسی یونٹ کے تھے جسے ہم HDOکہتے تھے۔ جہاں پر مریضوں کو Intensive Careمیں رکھا جاتا تھا اور ہر پندرہ 15منٹ میں باقاعدہ انہیں دیکھا جاتا تھا کہ کہیں وہ اُلٹے سیدھے کام نہ کر رہے ہوں۔

            نرسنگ اسٹیشن ڈبل گلاس کورڈ تھا ہر طرف سے۔۔۔ تاکہ کوئی اندر نہ آ سکے۔ اگر کوئی آتا تو چابی کا استعمال کرتا۔ سائیکاٹری وارڈز کا یہ رونا ہر جگہ ہی تھا۔ ہر دروازہ مقفل رکھا جاتا۔ سب چابیوں کے گچھے کمر سے یا گلے میں لٹکائے پھرتے اور چھم چھم کرتے جاتے جہاں جاتے۔ہفتہ وار گرینڈ راؤنڈ میں سب کو پتہ لگ جاتا کہ سائیکاٹری ٹیم آ رہی ے چھم چھم کرتی۔۔۔ ہمارے دوست ساتھی سب مینٹل ڈاکٹر کہا کرتے تھے جو مجھے کبھی برا نہ لگتا۔۔۔ اور میں بڑے مان سے سرجن فلپ سے کہتی۔۔۔ تمہیں معلوم ہے کہ ہم لوگ تمہاری سوچیں اور تمہارے خیال پڑھ سکتے ہیں۔

            اُس نے میرا نام Brainy Doctorدماغی ڈاکٹر رکھ دِیا اور کچھ ہی عرصے میں مجھے سب اِسی نام سے پکارنے لگے۔ میرے بہت سے مریض یہی سمجھتے تھے کہ میرا نام برینی ہے۔ لیکن میں یہ کیسے سب کو یقین دِلاتی کہ دماغ ایک مسٹریMysteryہے ، عجوبہ ہے۔ آج تک ہمارے حضورﷺ کے علاوہ کسی نے 1/7.44 سے زیادہ دماغ نہیں کیا ہے۔ جن میں وہ Scientistبھی آتے ہیں جنہیں ہم آئن سٹائن، گلیلیو، مارکونی وغیرہ کے ناموں سے جانتے ہیں اور نہ جانے کتنے فلاسفر بھی۔۔۔

            مجھے اپنے برینی ہونے پر ناز تھا۔۔۔

            مجھے اپنے کام سے عشق تھا۔۔۔

            پیار کرنا کوئی بُری بات تھوڑی ہے۔۔۔

            کوئی پانے کی خاطر پیار کرتا ہے۔ میں تو کھوئے ہوئے لوگوں کو پانے کے لئے پیار کرتی تھی۔۔۔ یہ سارے لوگ کھوئے ہوئے تھے۔۔۔ اپنی سمجھ، اپنی عقل، اپنا چیَن، اپنے دِن رات۔۔۔ اُنہیں کچھ بھی نہ ملتا تھا۔

            اوپن وارڈ کے بیچوں بیچ نرسنگ اسٹیشن تھا۔ جس میں چاروں طرف شیشے لگے ہوئے تھے تاکہ ہم سب آتے جاتے ان پر نظر رکھ سکیں اور اپنا کام بھی کرتے جائیں۔ میں ابھی اپنی کالی الیکٹرانک چابی لگا ہی رہی تھی کہ میرا Razer Beepکرنے لگا۔۔۔ نمبر دیکھا تو ایمرجنسی کا تھا۔

            رات کے تین بجے۔۔۔ یقیناً لڑائی ہوئی ہو گی کلب میں۔ لڑا ئی کا چکر، شراب یا پھر ڈرگ۔۔۔ ہمیں اکثر ایسے لوگ بھی ڈیل کرنے پڑتے تھے اس لیئے کہ یہ بھی تو ایک سائیکی تھی۔ان چیزوں میں پناہ ڈھونڈنے والے کب نارمل ہوتے ہیں۔

            اور ستم یہ کہ یہ ویسٹرن کلچر کا ایک حصہ ہے بڑا لازم و ملزوم سا۔۔۔

            جانے میں کیا کیا سوچتے زینہ اُتری۔ بڑی سی راہداری کو پار کر کے پھر ایک اور کورویڈور میرا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے ایمرجنسی سٹاف سے بات کرتے وقت تیس منٹ میں پہنچنے کا وعدہ کیا تھا کیونکہ سب سے پہلے وارڈ میں بتانا پھر اپنے کمرے سے ضروری فائلیں اُٹھانی پھر ایمرجنسی تک کا سفر پندرہ منٹ تک بڑے ہسپتالوں میں نہ ہونے کے برابر تھا۔

            راستے پر بہت کچھ سوچتے ہوئے ایمرجنسی پہنچی۔

            سوشی میرا انتظار کر رہی تھی۔ وہ سینئر نرس کنسلٹنٹ میرے ساتھ ہی ڈیوٹی پر تھی۔ وہ مریض پہلے سے دیکھ چکی تھی۔ وہ جلدی جلدی سب کچھ بتانا چاہتی تھی۔ اور شاید اسی رات کی وجہ سے میں ذرا سی سست ہو رہی تھی۔ اُلجھ پڑی۔

            ’’پلیز سوشی! آہستہ آہستہ بولو یا فائل مجھے دے دو۔۔۔‘‘

            اُس نے پھر دوبارہ آہستہ آہستہ بتاتے ہوئے اس کی فائل مجھے دیدی۔

            چوّن 54سالہ عورت نے اینٹی ڈپریسنٹ کھا کر خود کشی کی کوشش کی تھی۔ بروقت طبی امداد ملنے سے بچ گئی تھی اور اب تک میڈیکل ٹیم کی نگرانی میں تھی۔

            ’’اگر وہ  Medically Clearanceمیں ہے تو مجھے کیوں بلایا ہے ؟ ‘‘

            ’’شاید مسز کونگ بہت Distressمیں ہیں۔‘‘

            ’’شاید ہم کچھ سنبھال سکیں اس لئے۔۔۔‘‘ سوشی دور کی کوڑی لائی تھی۔

            ’’شاید۔۔۔ ‘‘

            ’’جانے کیوں خود کشی کا رواج سا ہو گیا ہے۔ ‘‘

            ’’آسان سا اور سستا سا نسخہ۔۔۔ ہر چیز کا علاج۔۔۔‘‘ ابھی کچھ دِن پہلے والی ایمرجنسی ٹیم کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں ایک نرس نے کہا تھا۔

            ایک سائیکالوجسٹ چیخ پڑی۔

            ’’نہیں یہ غلط ہے۔ جب انسان کے نزدیک جینے اور مرنے میں فرق مٹ جائے تب وہ خود کشی کرتا ہے۔ کہ اب چلتے ہیں ، بہت ہو گیا، بہت سہہ لیا۔ ‘‘

            اس عمر میں یعنی 54سال کی عمر میں خود کشی۔۔۔تنہا ہے تو سمجھ آ جاتی ہے لیکن فیملی کے ساتھ۔۔۔ Unbelievable۔۔۔ یقیناً سیریس بات ہے۔۔۔ ‘‘ ایمرجنسی میں دائیں بائیں قطار سے بیڈ لگے ہوئے تھے۔ ایک طرف نرسنگ اسٹیشن اور ایک طرف ڈاکٹر اسٹیشن تھا۔ ہر طرف رش سا لگا ہوا تھا۔ باہر انتظار کرنے والوں کی بھیڑ۔ کبھی آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھ جاتے اور کچھ دوسروں کے کندھے پر سر رکھ کر بے خبر سو رہے تھے۔ رات اپنے جلووں کے ساتھ حشر برپا کیے ہوئے تھی۔

            ہر شخص کی اپنی داستان تھی۔۔۔ ہر شخص کے جاگنے رونے کی ایک وجہ تھی۔ ہسپتال میں کام کرنے والا سارا عملہ اوپر سے لے کر نیچے تک اسی کوشش اور تگ و دو میں تھا کہ آخر اِتنے سارے لوگ بے چین کیوں ہیں ؟ جاگ کیوں رہے ہیں ؟ رو کیوں رہے ہیں ؟ دُکھ اور کرب میں کیوں ہیں ؟ اِنہی لوگوں میں مسز کونگ بھی تھی۔۔۔بے چین ، بے قرار،  زرد سے چہرے والی۔۔۔ آکسیجن ما سک لگا ہوا تھا۔ دونوں بازوؤں پر ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ہارٹ مانیٹر ہو رہا تھا تو کبھی بلڈ پریشر اور نبضیں گنی جا رہی تھیں۔۔۔ زرد چہرے والی مسز کونگ اپنی عمر سے تقریباً پندرہ سال چھوٹی لگ رہی تھیں۔ ان کا حلیہ اور بالوں کا سٹائل بتا رہا تھا کہ وہ Asianہیں اور یہ بھی پتہ لگ رہا تھا کہ وہ کتنی اچھی فیملی سے تعلق رکھتی تھیں۔ سرہانے پر جو چوبیس پچیس سال کا لڑکا تھا، یقیناً اُن کا بیٹا ہو گا اور دائیں بائیں دو نازک اور پیاری سی لڑکیاں ان کی بیٹیاں لگ رہی تھیں اور کرسی پر بیٹھا بُردبار سا آدمی یقیناً مسٹر کونگ ہو گا۔ ورجینا کا شوہر۔۔۔ مسٹرکونگ نے اِنتہا کی انکساری سے اپنا تعارف میرے تعارف کے جواب میں کروایا۔ سب سے تعارف کے بعد میں مسزکونگ کے پاس آئی۔

            ’’ہیلو مسز کونگ۔ ‘‘ میں نے ان کے قریب آتے ہوئے کہا۔

            نقاہت سے اُنہوں نے آنکھیں کھول دیں اور مجھے یوں دیکھا جیسے مجھے چیلنج کر رہی ہوں کہ دیکھتی ہوں کہ تم میری مسیحا کیسے بنتی ہو۔

            ’’میرے کئی سوالوں کے جواب میں اُن کی پلکیں اُٹھتیں اور جھک جاتیں۔۔۔ شاید تھک گئی تھیں۔ بول نہ پا رہی تھیں۔

            ’’Al right میں صبح آپ سے ملوں گی۔اس وقت انہیں آرام کرنے دیں۔۔۔ اوکے !! ‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے مسز کونگ کو دیکھا۔ اُنہوں نے میرا ہاتھ محبت سے تھام لیا اور کچھ منٹ تک تھامے رکھا پھر مجھے ایک نظر دیکھا اور پھر ہاتھ بھی چھوڑ دِیا اور آنکھیں بھی بند کر لیں۔ جیسے جانے کی اِجازت دے دی ہو۔۔۔

            ’’اگر آپ لوگ بات کرنا چاہتے ہیں تو ہم Quiteروم میں بات کر سکتے ہیں۔‘‘ میں اس کمرے کی طرف بڑھ آئی جہاں ہم سب لواحقین سے بات کیا کرتے تھے۔

            ’’ڈاکٹر ہم کیا بات کریں۔ ہم تو خود حیران ہیں کہ آخر ورجینا نے خود کشی کی کوشش کیوں کی ؟ ہم سب سکون سے رہ رہے ہیں۔ بچے پڑھ لکھ رہے ہیں۔ روپے پیسے کی کمی نہیں ہے پھر کیا ہوا ہے اِسے ؟‘‘

            ’’کوئی لڑائی۔۔۔ ناراضگی کسی سے ؟ ‘‘ میں نے حیرانگی میں شامل ہوتے ہوئے پوچھا۔

            دیکھئے ڈاکٹر ! چھوٹے بڑے مسئلے ہوتے رہتے ہیں گھر میں۔ مگر ایسا ہر گز نہیں ہے کہ ایسا Reactionہو۔ ‘‘

            ’’آپ کا تعلق کس جگہ سے ہے ؟ ‘‘

            ’’کمبوڈیا(Cambodia)سے۔ ‘‘

            ’’اور ہم کہمر(Cohmer)بولتے ہیں۔ ‘‘

            ’’اور ممکن ہے کہ کل جب آپ ورجینا سے بات کریں گی تو انٹر پریٹر کی ضرورت پڑے گی۔ ‘‘

            ’’اور کچھ؟ ‘‘

            ’’جب سے ہمارا بیٹا ملبورن یونیورسٹی گیا ہے تب سے زیادہ اُداس رہنے لگی ہے ورجینا۔ ‘‘

            ’’یہی کوئی دو مہینوں سے۔۔۔‘‘

            ’’کسی ڈاکٹر کو دکھایا آ پ نے ؟‘‘

            ’’جی آ ج ہی جمعے کی شام کو۔۔۔‘‘ مسٹر کو نگ نے بتایا۔

            ’’کیا کہا انہوں نے ؟‘‘

            ’’بس کہا کہ ڈپریشن ہے اور جو دوائی لکھ کر دی تھی ، پوری کی پوری کھا کر خودکشی کی کوشش کی تھی۔۔۔‘‘اب مسٹر کونگ کی آنکھوں میں شکست میں اتر آ ئی تھی۔ چھبیس سالہ ازدواجی زندگی کو شکست ہو رہی تھی۔

            انہیں پتہ نہیں لگ رہا تھا کہ ورجینا  کا کیا مسئلہ تھا۔

            اس کے دکھ کا سرا کیا تھا۔

            اس کی خاموش اذیت کیا تھی۔

            اس نے ابھی تک کس کو اپنا ہمراز کیا تھا۔

            تنہا چلتے چلتے تھک سی گئی تھی۔

            کاش میں ان آنکھوں میں چھپی شکایت ، درد ، کرب ، کسک کو کوئی نام دے سکتی۔ کاش میں ورجینا کی آنکھوں کا چیلنج قبول کر سکتی۔۔۔

            مجھے اب تک اتنا ہی معلوم تھا۔ جتنا 26سالہ رفاقت میں مسٹر کونگ جان پائے تھے۔۔۔ کتنی عجیب سی بات تھی انہیں جاننے میں چھبیس سال لگے اور مجھے صرف چھبیس پل۔۔۔

            کبھی کبھی کتنا کچھ بیج میں آ جا تا ہے۔۔۔ہم ساتھ رہتے ہوئے بھی ہر پل دور سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پھر کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا کہ آخر اتنی لمبی رفاقتوں کے حصار میں کوئی کب تنہا ہوا کہ تنہا ہی سفر کرنا ہے۔ جب تھک کر بیٹھے اور مُڑ کر دیکھے تو خود کو تنہا پائے۔۔۔ یہ کیا کرب تھا۔شاید وہی جو میں نے کچھ دیر پہلے مسز ورجینا کو نگ کی آنکھوں میں دیکھا تھا لیکن کیوں آخر۔۔۔ کیوں ؟؟

            میں اپنے اسٹیشن پر واپس آ چکی تھی کہ جانے کل کیا گرہ کھلے گی۔

            آ ج مسز ورجینا کونگ اور میرے درمیان یہ رات ہی تھی جو انہیں تھکا رہی تھی اور مجھے جگا رہی تھی۔۔۔گناہ ثواب کا کھیل کھیلتی تھی۔۔۔

            دن رات سے جنگ کرتا تھا اور رات دن کو شکست دینے پھر چلتی آ تی تھی۔

            رات جو بڑی کرشمہ ساز تھی۔

            گناہ ثواب سے لڑتی رہتی تھی۔

            نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے پر جاگنے والوں کی نیندوں کو سولی کا بھی آسرا نہ تھا

سرد پلکوں کی صلیبوں سے اتارے ہوئے خواب ریزہ ریزہ ہیں مرے سامنے شیشوں کی طرح

  جن کے ٹکڑوں کی چبھن، جن کی خراشوں کی جلن

  عمر بھر جاگتے رہنے کی سزا دیتی ہے۔

  شدت کرب سے دیوانہ بنا دیتی ہے۔

            دوسرا دن آ پہنچا۔۔۔وہ ابھی تک میڈیکل ٹیم کی نگرانی میں تھی۔ میں گھر آ کر بھی یہی سوج رہی تھی، آخر کیوں ورجینا جیسی عورت کو خود کشی کرنی پڑ گئی حالانکہ میں سب کو کہتی تھی کہ کام اور مریض کو ہسپتال میں ہی چھوڑ کر گھر جایا کرو لیکن کبھی کبھی یہ ممکن رہتا ہی نہیں۔

            ’اگر ڈاکٹر بے حس ہو جائے تو درد کی دوا کیسے کرے گا۔۔۔‘ یہ فلا سفی میری سائکالوجسٹ درست کی تھی۔

            جذبات ، خیال کرنا سب کچھ فطرت کی طرح اپنے آپ ہوا چلا جاتا ہے۔ آج رات پھر میری ڈیوٹی تھی اور میں جلد از جلد سیڑھیاں اتر رہی تھی پھر لمبی راہداریاں۔۔۔ تقریباً پندرہ منٹ کا فاصلہ ہمارے وارڈ سے ایمر جنسی تک کا تھا جسے میں پل بھر میں طے کرنا چاہتی تھی۔ ایمرجنسی پہنچتے ہی میڈیکل ٹیم نے بتایا کہ وہ میڈیکلی کلیر ہے اب آپ کی باری ہے۔۔۔

            اس باری کا انتظار تو میں نے رات بھر جاگ کر کیا تھا۔

            زرد چہرے والی ورجینا کونگ آنکھیں موندے لیٹی ہوئی تھی۔ وہی منظر تھا اس کا بیٹا اس کا سر سہلا رہا تھا۔ دوسرے ہاتھ سے اپنی ماں کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ جسے گاہے بگاہے اس کی ماں اسے چوم رہی تھی۔

            ایک بیٹی نے مسز ورجینا کونگ کا دوسرا ہاتھ تھا م رکھا تھا۔ جسے بے قراری سے اپنے گالوں سے لگاتیں اور کبھی چوم لیتیں اس کی آنکھوں میں اپنی ماں کو دوبارہ پا لینے کی خوشی تھی۔ سکون تھا۔۔۔

            دوسری بیٹی قدموں میں بیٹھی ہلکے ہلکے ان کے پاؤں داب رہی تھی۔ میرے پہنچے پر سب کھڑے ہو گئے اور مجھے بیٹھنے کے لیے کرسی پیش کر دی۔

            ’’اصل میں ہماری ماں کو انگریزی اتنی اچھی نہیں آتی۔۔۔اس لیے ہم ان کے ساتھ ہیں۔ تاکہ انہیں تکلیف نہ ہو۔‘‘

            ’’Alright۔۔۔۔۔! نو پرابلم ہم انٹر پریٹر بلوا لیتے ہیں۔۔۔آپ لو گ انتظار کریں۔‘‘

            ’’آ ج ہفتہ کا دن ہے اور کمبوڈین انٹر پریٹر ملنا بہت مشکل ہے۔۔۔‘‘نرس جولی نے بتایا۔

            ’’تو کیا کریں ؟‘‘

            ’’اچھا کیا میں ٹرانسلیٹ کر سکتا ہوں ؟‘‘ اس کے بیٹے نے مجھ آفر کی۔

            That’s-okلیکن پھر بھی ہمیں انٹر پریٹر ڈھونڈنا چاہیے۔

            ’’پھر یہ طے پایا کہ جولی انٹر پریٹر رہے اور میں ان سب سے بات کرتی رہوں۔۔۔‘‘

            ’’اور سنائیں ورجینا آ پ کیسی ہیں۔۔۔‘‘اس کے بیٹے نے انگریزوں کو کہمر(Cohmer) زبان میں ترجمہ کرتے ہوئے اپنی ماں سے پوچھا۔

            ’’ایک اداس سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی۔۔۔‘‘

            ’’کہیے میں آ پ کی کیا مدد کر سکتی ہوں ؟‘‘میں نے شائستگی سے ان سے پوچھا۔

            ’’ڈاکٹر۔۔۔مجھے نہیں معلوم مجھے کہاں سے شروع کرنا چاہیے۔

            میری بیماری کو چھبیس سال ہو چکے ہیں۔۔۔

            میں ماں ہوں ان بچوں کی۔۔۔‘‘ اس نے اپنے بیٹے کا ہاتھ ایک دفعہ پھر چوم لیا ’’مجھے اِن سے بہت پیار ہے۔۔۔

            میں انہیں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی۔۔۔ ‘‘ کرب اس کی آنکھوں سے آنسو بن کر ٹپک رہا تھا۔ جسے اس کی بیٹی ٹشِو سے جذب کرتی جا رہی تھی۔‘‘

            ’’ہوں۔۔۔ ‘‘میں نے آہستگی سے اس کا ہاتھ دبایا۔

            ’’پھر۔۔۔‘‘

            ’’مجھے نیند نہیں آتی ڈاکٹر۔۔۔

            میری راتیں دن بن گئی ہیں۔

            میں جاگ جاگ کر پاگل ہو رہی ہوں۔‘‘ اس کے پور پور سے بے چینی ہویدا تھی۔۔۔

            ’’کیوں آ پ کو نیند نہیں آتی؟‘‘

            ’’کیوں کوئی ان دیکھی چیز ڈراتی ہے آ پ کو ؟‘‘

            اب مجھے اس کے بند دروازے کھولنے تھے۔۔۔

            ’’مجھے اپنا آ پ ڈراتا ہے۔۔۔

            مجھے اپنی ہی آوازیں آتی ہیں۔۔۔‘‘

            ’’کیا کہتی ہیں آ پ سے ؟‘‘

            ’’میں اس دنیا میں کچھ نہیں کر سکتی۔۔۔

            میں ادھوری ہوں۔۔۔

            دس سال سے میں اپنے آ پ سے لڑ رہی ہوں۔۔۔‘‘

            ’’میں بھی پتھالوجسٹ تھی یعنی اپنی کنٹری میں۔۔۔ دس سال پہلے میں یہاں آئی۔

            سب سیکھ جاتے ہیں۔۔۔ آخر مجھے کیا ہوا۔میں کیوں نہ سیکھ سکی۔ میں انگریزی نہ سیکھ سکی اس لیے کہ میں Intelligentنہیں ہوں۔۔۔‘‘

            ’’ایسا  مت کہو۔۔۔‘‘ اس کا فار ماسٹ بیٹا اپنی ماں کو پیار کر رہا تھا۔۔۔

            ’’میں پتھالوجسٹ بن کر کام کر نا چاہتی تھی جو میں بغیر یہاں کی ڈگری کے نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ میری دوسری ناکامی میں نہیں سہہ سکی۔۔۔ میرا احساسِ کمتری مجھے مارنے لگ گیا۔

            ’’میں تو لڑنا جانتی تھی سب سے۔۔۔

            اپنے ملک میں۔

            اپنے آپ سے۔

            اپنے اردگرد سے

            یہاں آ کر میں لڑنا بھول گئی ہوں۔۔۔

            میرے اندر کی بہادر عورت ہر روز مرتی رہی۔

            میں بیمار رہنے لگی۔۔۔

            مجھے بلڈ پریشر ہوا۔۔۔ پھر Diabetes بھی ہو گئی۔۔۔

            اب کیا فائدہ۔۔۔

            ان بیماریوں کے بعد میں Use lessہو گئی۔‘‘

            ’’یہ غلط ہے مسز کونگ۔ ‘‘

            دنیا میں ہزاروں لوگ ہیں جنہیں میڈیکل پرابلم ہیں۔

            جنہیں زبان سیکھنے کے مسائل ہیں۔

            اپنے پروفیشن میں کام نہیں کر رہے ہیں۔

            لیکن ان میں کوئی بھی تو خود کشی نہیں کرتا۔‘‘

            ’’انہیں نیند تو آتی ہو گی ڈاکٹر۔ ‘‘وہ ہلکے سے مسکرا دی۔ ’’ان کی رات ہوتی ہو گی۔‘‘

            رات کے بعد دن بھی نکلتا ہو گا۔۔۔

            میں تو دن رات ایک ہی وقت میں ہوں۔

            ڈاکٹر میری مدد کرو۔۔۔ مجھے نیند نہیں آتی۔۔۔

            مجھے سب ڈراتے ہیں۔ ‘‘

            ’’کون۔۔۔؟ ‘‘میں ان کے قریب ہو گئی۔

            ’’ان کے بچے حیرانگی سے ا پنی ماں کو دیکھ رہے تھے۔۔۔‘‘

انہوں نے ’نہیں ‘ میں سر ہلا یا۔۔۔ جیسے وہ کچھ بھی نہیں جانتے۔

            ’’شور ہے ہر طرف۔

            بھاگو۔۔۔ بچو۔۔۔ محفوظ مقام کی طرف دوڑو۔

            کیسے جاؤں ؟

            میرا بچہ کہاں رہ گیا۔ کوئی ماں چیخ رہی ہے۔۔۔

میری بیٹی۔۔۔ تم کہاں ہو۔۔۔ باپ پاگل ہو رہا ہے۔ ہر طرف آگ ہے بارود ہے

            جنگ ہو رہی ہے۔

            شعلے ہی شعلے۔۔۔

            دھماکے پر دھماکہ۔

            مجھے بچا لو ڈاکٹر۔۔۔‘‘اس نے میرے ہاتھ کو زور سے دبایا۔۔۔ مسز کونگ کی آنکھوں کی دہشت ، وحشت ،خوف و ہراس ایسے پھیلا ہوا تھا۔ جیسے وہ حقیقتاً اس جنگ کا حصہ تھیں۔۔۔

            ’’Relaxمسز کونگ۔ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔

            آ پ کو کچھ نہیں ہو گا۔۔۔

            آ پ محفوظ جگہ پر ہیں۔‘‘

            ’’لیکن میں نہیں ہوں۔۔۔

            دیکھو وہ مجھے مارنے آ رہا ہے۔۔۔

            اس کے ہاتھ میں بندوق ہے۔

            وہ تار تار کر د ے گا۔۔۔

            میری عزت، میری جا ن کو خطرہ ہے۔۔۔

            کوئی ہے ؟

            کوئی ہے ؟؟‘‘

            مسز کونگ چیخ رہی تھی۔۔۔

            رو رہی تھی۔۔۔

            اپنے ہوسپٹل گاؤن سے خود کو لپیٹ رہی تھی۔ جیسے اپنے آ پ کو بچا رہی ہو۔۔۔

            سارا عملہ دوڑا آیا۔۔۔ انہیں نیند کا انجکشن لگا کر سلا دیا گیا۔

            میں ان بچوں کے ساتھ اکیلی بیٹھی ہو ئی تھی۔

            میرے الفاظ کھو گئے تھے۔

            میری آنکھوں میں آنسو جاری ہو رہے تھے۔

            میرا دِل درد سے پھٹ رہا تھا۔۔۔ میں اس وقت سائکا ٹرسٹ آن ڈیوٹی نہیں رہی تھی۔

            ان کے غم کا حصہ ہو رہی تھی۔

            سارے بچے ایک دوسرے سے گلے لگ کر رو رہے تھے۔ مسٹر کونگ گھر گئے تھے۔ ورجینا کے لیے کھانا لینے اور کچھ جوڑے کپڑوں ، کے جانے کتنی دیر اسے ہوسپٹل میں رہنا پڑے۔

            اس کے بیٹے نے ہمت کر کے دھیرے دھیرے بتایا۔

            ’’انہوں نے کبھی ہمیں کمبوڈیہ کی جنگ کے بارے میں نہیں بتا یا۔ ہاں مگر وہ اس کی Eye Witness ضرور ہیں۔

            کبھی بتاتی تھیں کہ وہ 23 یا 24 سال کی تھیں جب یہ جنگ ہو رہی تھی۔ اور میں یہ کہ بڑی مشکل ہے جان بچا کر  ڈیڈ کے ساتھ دوسری جگہ پر پہنچی تھی۔۔۔

            ’’پھر کئی ہفتے انہیں نے Refuge( پناہ گزین )کیمپ میں بھی گزارے تھے لیکن اور کچھ نہیں۔۔۔ ہم سب Well Settledتھے وہاں پر۔ اوہ مائی گاڈ۔۔۔ ڈاکٹر What will Happen now? ‘‘ اس کا بیٹا اپنا سرزور زور سے ہلا رہا تھا۔

            ’’سب ٹھیک ہو جائے گا۔

            لیکن کب۔۔۔ میں اس وقت کچھ کہہ نہیں سکتی۔ ‘‘

            ’’آخر ماں نے ہمیں کیوں نہیں بتایا کہ وہ اس صدمے سے بے حال ہیں۔۔۔ ہم انہیں بہت پہلے سائکاٹرسٹ کے پاس لے جاتے۔‘‘اس کی بیٹی رو رہی تھی۔

            ’’ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔ ‘‘

            دیکھو جو کسی صدمے اور ٹارچر سے گزرتا ہے۔ وہی جانتا ہے کہ کیا ہوا۔

            کچھ لوگ بہل جاتے ہیں۔

            کچھ لوگ نہیں بہل پاتے۔

            اور یہ جو زیادہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ وہ ان صدمات کو اور طرح سے ڈیل کرتے ہیں اور اپنے تک رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی سے مدد مانگی تو وہ اپنی حیثیت اپنی Ego(انا) کو چیلنج کر رہے ہیں۔

            وہ اپنی تکلیف کو بتانے کے لیے بہت وقت لیتے ہیں۔ وہ اس وقت بتاتے ہیں جب ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچتا۔۔۔

            نہ وقت۔۔۔ نہ لفظ۔۔۔ نہ ہمت

            لیکن تمہاری ماں بہت بہادر ہے۔۔۔

            وہ مدد مانگ رہی ہے۔

            وہ جینا چاہتی ہے۔

            اپنے صدمات سے آزاد ہونا چاہتی ہے۔

            اپنا بیتا ہوا ہر پل ہم سے شیئر کرنا چاہتی ہے۔

            دیکھو اسے اپنا دکھ بانٹنے کے لیے حوصلہ چاہیے تھا۔ اور اس کو اس حوصلے کے لیے تیس سال لگے ہیں۔

            ہمیں انہیں بتانا ہو گا کہ ان کا ماضی گزر چکا ہے۔ اب ایک نیا مستقبل ان کا منتظر ہے۔ اس میں نہ خون ہے اور نہ وحشت ہے۔‘‘

            ’’All Right۔۔۔‘‘ میں نے سب کو سمجھایا۔ اور اپنے کمرے کی طرح آنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ کہ یکدم اچانک مسز کونگ کی آوازیں پھر اس کے روم سے آ نے لگیں۔

            ’’مجھے بچا لو۔۔۔

            وہ سب مجھے مار ڈالیں گے۔ ‘‘

            ’’کون لوگ۔۔۔؟‘‘ میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے پوچھا۔

            ’’وہ جو یونیفارم میں بندوقیں اٹھائے جنگلیوں کی طرح گھر گھر گھس رہے ہیں۔ ‘‘

            مار رہے ہیں۔

            لوٹ رہے ہیں۔

            ہنس رہے ہیں۔

            آگ ہی آگ۔۔۔

            بم بلاسٹ دھماکے۔ شعلے ہی شعلے۔۔۔‘‘ پھر انہوں نے گھبرا کر اپنے بیٹے کو آواز دی پھر بیٹی کو۔۔۔ جیسے وہ کہیں کھو گئے ہو ں وہ آنکھیں بند کیے دیوانوں کی طرح خلاؤں میں ہاتھ مار رہی تھی اور کبھی بستر سے اِدھر اَدھر لڑھک رہی تھی۔۔۔

            ’’میں یہاں ہوں ماں۔۔۔‘‘

            ’’اور میں یہاں۔ ‘‘

            ان کے بچوں نے پھر اپنی ماں کو گھیرے میں لے لیا۔ انہوں نے اپنا سر اپنے بیٹے کی گود میں رکھ دیا۔ اور یوں آنکھیں  بند کر لیں۔۔۔ جیسے سستانا چاہتی ہیں۔ آرام چاہتی ہیں۔

            ’’یہ کب سے ایسی بے چین ہیں۔؟‘‘

            ’’ہم نے کبھی انہیں ایسا نہیں دیکھا۔‘‘

            ’’جب سے عراق کی جنگ شروع ہو ئی ہے ہم نے اکثر انہیں بے چین دیکھا تھا لیکن ہم تو یہی سمجھتے رہے کہ سب ہی بے چین ہیں کسی نہ کسی حوالے سے۔

            پھر انہوں نے T.Vدیکھنا چھوڑ دیا۔

            پھر اخبار پڑھنی۔

            بس یہی کہتی تھیں کہ مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے سب دیکھ کر۔

            یہ ہمیں یہ بھی معمولی ہی لگا۔‘‘

            ’’پھر۔۔۔کل کیا ہوا تھا جو آپ لوگوں کو پرائیویٹ سائکاٹرسٹ کو دیکھا نا پڑا۔۔۔؟‘‘

            ’’ہم سب ا سکول کالج گئے تھے ، ڈیڈ کام پر تھے۔ ماں حسب معمول گھر پر اکیلی تھیں۔ مجھے ایک اسائنمنٹ بنانے کے لیے ایک War Documentaryکی ضرورت تھی۔۔۔ میں دو وڈیو رینٹل لے کر آئی تھی۔ اور اتفاق سے انہوں نے بھی دیکھی۔۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس کے بعد ہماری ماں ہم سے بات نہ کریں گی۔‘‘ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی مسلسل روتے ہوئے بتا رہی تھی۔’’ہم نے ان کو Confuseاور Upsetدیکھا۔ اور اس وقت بہت پریشان ہوئے جب وہ بے قراری سے ٹہل رہی تھیں۔ اور گھبرا کر کبھی اِدھر دیکھتیں اور کبھی اُدھر۔ فون کی گھنٹی پر وہ ایسی اُچھلیں جیسے کرنٹ لگ گیا ہو۔۔۔

            ہم سے دیکھا نہ گیا اور انہیں لے کر ڈاکٹر کے پاس گئے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ڈپریشن ہے اور یہی دوائی تجویز کی جو انہوں نے ساری کی ساری بظاہر نیند لانے کیلئے کھائی تھی۔ ‘‘

            ’’اوہ۔۔۔‘‘ میں نے لمبی سی سانس لی۔

            وہ پر سکون سی لیٹی ہوئی تھیں۔

            ’’آ پ لوگوں کو کوئی Indication دی تھی دوائی کھانے سے پہلے ؟‘‘

            میرے ہاتھ میں ابھی بھی کچھ سرے نہیں آ رہے تھے۔

            ’’جی۔۔۔ڈاکٹر ابھی ابھی کچھ دیر پہلے ڈیڈ کا فون آیا تھا کہ ماں نے ایک Noteبھی لکھ کر رکھا تھا۔ ‘‘

            ’’کیا۔۔۔‘‘ میں حیران رہ گئی۔۔۔

            ’’کیا لکھا تھا۔۔۔‘‘ میں جلد ی سے پوچھا

            ’’ہمیں نہیں پتہ۔۔۔ ‘‘تینوں نے انکار میں سر ہلا دیے اور مجھے ایسے دیکھنے لگے جیسے میں ان کی نجات دہندہ ہوں اور کسی جادو کے زور سے پتہ لگا لوں گی کہ اس میں کیا لکھا تھا۔

             ’’ماں آپ نے کیا لکھا تھا ؟‘‘ ان کے بیٹے نے ان کے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے پوچھا۔

            ’’میں نے کہا لکھا تھا کہ تم سب سے بڑے ہو۔،سب کا خیال رکھنا ،پیار سے رہنا اور صرف پیار ہی بانٹنا۔۔۔

            ’’میری ماں۔۔۔‘‘ اب شاید جوان بیٹے کی ہمت بھی جواب دے گئی وہ اپنی ماں سے لپٹا رو رہا تھا۔۔۔ ماں اسے تسلی دے رہی تھی۔ ’’میں ٹھیک ہو جاؤ ں گی۔

            دیکھو ہسپتال میں ہوں۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

            دل میلا نہیں کرو۔۔۔ بہادر بنو۔ تم دو بہنوں کے بھائی ہو۔ بڑے ہو تمہیں رونا زیب نہیں دیتا۔ وہ اپنے گاؤن کی آستینوں سے اس کے آنسو پونچھنے لگی۔

            پگلا میرا بیٹا ہو کر روتا ہے۔‘‘ ان کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ ہم سب کے دل پر پھوار بن کر برسنے لگی۔

            ’’اوکے مسز کونگ! میں چلتی ہوں بہت سارے مریض اور انتظار کر رہے ہیں۔ انہیں دیکھ لوں گھر جانے سے پہلے آ پ سے پھر ملاقات ہو گی۔۔۔Take Care‘‘میں نے ان کے کندھوں کو تھپتھپایا۔

            انہوں نے بڑی شائستگی سے کہا’’You Too Doc.۔‘‘

            میں نے بڑی مشکلوں سے اور مریضوں کو دیکھا اور ڈنر کے لئے اپنے کمرے میں آ گئی لیکن کچھ کھا نہ سکی۔۔۔

            پہلی بار میں نے سوچا کے مجھے سائکاٹرسٹ نہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔ میں کمزور پڑ رہی تھی۔۔۔میرے پاس تسلی کے لیے کوئی الفاظ نہ تھے۔میرے پاس ایسا کوئی Magicنہ تھا جس کے زور سے میں ان کے سارے صدمے، ان کی ساری یادیں مٹا سکتی۔۔۔

            کمزور بے بس ، لاچار انسان۔۔۔ مجبور سفر۔۔۔ سفر در سفر کرتا ہی جا رہا ہے۔ انجان سمت کی طرف پرندوں کی طرح

            کیسا دکھ ہو گا جس نے رات دن کا فرق مٹا دیا تھا۔

            رب نے تو انسان پیار کرنے کے لیے بنائے تھے۔ یہ جنگ کہاں سے آ گئی تھی۔۔۔

            پیار سے پیار بڑھتا ہے۔ پھولتا ہے ،مہکتا ہے ، برستا ہے۔۔۔

            جنگ سے جنگ چلتی ہے۔۔۔

            کمبوڈیہ سے عراق تک سارے سفر میں وہ سارے انسان مجبور سفر تھے جنہوں نے اپنے مقدر پر خود سیا ہی نہیں لکھی تھی۔

            اُن کی تقدیروں پر سیاہی پھیر دی گئی تھی۔۔۔

            اُن کی رات کو چرا لیا گیا تھا۔۔۔

            اُن کی آنکھوں میں رتجگے رکھ دیے گئے تھے جبراً قصداً

            اُن کا کیا قصور تھا؟؟بس یہی ناکہ ان کا ملک ہے۔ان کی پہچان ہے اور غریب ہیں جو کہیں اور پناہ نہیں لے سکتے نہ سیاسی اور نہ غیر سیاسی۔۔۔

            اتنی چھوٹی سے بات کی اتنی بڑی سزا اور اتنی طویل کہ مرنے دم تک ختم ہی نہیں ہوتی۔۔۔

            فلیش بیک میں ایک فلم کی طرح کہانی چلتی رہتی ہے۔

            ایک ٹارچر سے نکل کر دوسرے ٹارچر تک۔۔۔ انسان ساری عمر ٹارچر سیل میں گزر دیتا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ دوسرے ملکوں کے آنے والے اچھی انگریزی نہیں بولتے انہیں کیرئیر بڑھانا نہیں آتا۔۔۔ ان کی قوتِ اِرادی ، ان کا احساس فخر تو جنگوں کی نظر ہو گیا تھا۔وہ کیا کرتے۔؟ کس سے کہتے ، ہمیں بھی جینا ہے۔ خوش ہونا ہے۔۔۔ سُکھ چاہیے تھا سب کو، سکون چاہیے تھا۔۔۔ سکون کا ناطہ نیند سے جڑا تھا تو نیند کا رشتہ رات سے اور جب رشتے ناطوں کی ڈور ٹوٹتی ہے تو مسز کونگ کی طرح وہ صرف ایک چھوٹی سی دنیا میں رہ جاتا ہے۔ جہاں صرف جنگ کے شعلے بھڑکتے ہیں اور چھوٹے بڑے سارے رشتے جلنے لگتے ہیں۔ چٹخنے لگتے ہیں۔ خون پھواروں اور چنگاریوں کی طرح اڑنے لگتا ہے اور کبھی سُلگنے لگتا ہے۔ یوں ہر روز کے اس تماشے میں دل راکھ ہوتا جاتا ہے پھر ایک دن ایسے ہی جانے ایسے ہی کیوں ہو جاتا ہے جب اس چھوٹی سی دنیا میں رہنے والے مجبورِ سفر انسان کے لیے زندگی اور موت کا فرق مٹ جاتا ہے اور وہ ایک اچھی نیند کے لیے ترستے ترستے اس رات کو گلے لگا لیتا ہے جس کے نصیب میں صبح نہیں ہوتی۔ مسز ورجینا کونگ کی دنیا بھی چھوٹی سی تھی۔

            دوڑ دوڑ کر پاگل ہو رہی تھی۔

            نیند کر ترسی ہوئی بے خواب آنکھوں کی تھکن ان کے وجود کو نگل رہی تھی۔ میں ان کے لئے رات کہاں سے لاؤ ں جس میں نیند کا نشہ بھی ہو اور دن کا سکون بھی۔۔۔

            ’میرے رب میرے ہاتھوں کو جادوؤں سے بھر دے۔ کہ میں ان کی بے خواب تھکی تھکی آنکھوں پر رکھ دوں تو وہ پل بھر میں بند ہو جائیں۔۔۔ سو جائیں۔۔۔ آرام کی وادیوں میں بے فکر ہو کر اڑیں ، لہرائیں ، گھومیں ، ناچیں ، وہ سارے خواب دیکھیں جو انہوں نے مدتوں سے نہیں دیکھے۔ وہ ایک پل میں سارا سفر کر لیں جو انہیں کہیں برسوں میں کرنا تھا۔‘

            رات اور آگے بڑھ آئی تھی۔۔۔

            میرے جانے کا وقت ہو رہا تھا۔ مسز کونگ میری ہدایت کے مطابق انتہائی نگہداشت میں ایڈمٹ ہو چکی تھیں۔ ہر پندرہ منٹ کے بعد ہمارا عملہ انہیں چیک بھی کر رہا تھا۔

            میں انہیں اور دوسرے مریضوں کو دیکھنے کے لئے وہاں پہنچی تو وہ بڑے اطمینان کے ساتھ ڈنر کر رہی تھیں اور ساتھ ساتھ مسکراتے ہوئے لوگوں سے باتیں کر رہی تھیں۔

            مجھے دِلی سکون ہو رہا تھا۔ میں نے انہیں اشارے سے کہا کہ آپ اچھی ہو جائیں گی اور انہوں نے مجھے جوابی اشارہ کیا۔ پھر ان کا چمکتا ہوا زرد چہرہ کٹے ہوئے سیاہ کالے بال جو گردن تک لہرانے لگے ، ان کی حسین خوبصورت بڑی بڑی آنکھیں میرے تصور پر سجنے لگیں اور ان کی عجیب سی مسکراہٹ نقش بناتی چلی گئی۔ انہوں نے ابھی بھی ہاسپٹل کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ ان کا لہراتا ہوا ہاتھ میرے جوابی اشارے پر اور زور سے ہلنے لگا۔

            واپسی پر کوریڈور میں ان کا بیٹا مل گیا۔

            بڑی محبت سے میرا شکریہ ادا کیا۔ اور ہمیشہ کی طرح پوچھنے لگا ’’میری ماں اچھی ہو جائیں گی ناں ؟‘‘

            ’’کیوں نہیں۔‘‘

            ’’دیکھا آپ نے ڈاکٹر انہوں نے ڈنر بھی کیا ہے۔ باتیں بھی نارمل طریقے سے کر رہی ہیں۔Settled لگ رہی تھی۔‘‘

            ’’ہاں میں نے بھی ابھی دیکھا ہے۔‘‘میں نے مسکرا کر اسے بھی ہاتھ ہلایا۔

            ’’سنو کوئی اہم بات ہو تو مجھے ضرور بتانا۔اور میری ملاقات تم سب سے اب پیر کو ہو گی۔آل رائیٹ۔۔۔‘‘ ان کا بیٹا اطمینان سے مسکرا رہا تھا اور ایک بار پھر میرا شکریہ ادا کر کے وہ اپنے دوستوں کے ساتھ گھر چلا گیا اور میں بھی اپنے گھر چلی آئی۔

            کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ میں ایسے مریضوں کے صدمے اپنے ساتھ باندھ لیتی تھی۔مسزکونگ کا انتہائی پڑھ لکھ کر اس اذیت سے دوچار ہونا مجھے ستا رہا تھا کہ بے ہوشی اور ہذیانی کی کیفیت میں جو بھی ٹوٹا پھوٹا کہہ رہی تھیں۔ ان کے اندر کی ٹوٹ پھوٹ اس سے زیادہ تھی جو عراق کی جنگ سے ان کی یادداشت کے سارے صفحے پھر زندہ ہو گئے تھے۔ ان کے پرانے زخم بے شک ان سِلے تھے۔ مگر ان کو اس درجہ تنگ نہیں کر رہے تھے۔ عراق کی جنگ اور وہاں کے لوگوں کی آہ زاری ، فریاد، بچوں کی سہمی ہوئی شکلیں ، خوف سے بھری ہوئی بہنوں ، بیٹوں کی آنکھیں ان کے سارے زخموں کو پھر سے ہرا کر گئی تھیں۔

            لیکن انہیں یہ سبق نہیں معلوم تھا کہ ان کا چارہ گر کون ہو گا؟

            زندہ رہنا ان کا حق تھا۔

            خوش رہنا ان کا بھی مقدر ہو سکتا تھا اگر وہ یقین کر لیتیں کہ کسی سے کہنا کہ مجھے دیکھو کیا ہو رہا ہے ،مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔ صرف اتنا کہہ دینے سے انسان کمزور نہیں دکھائی دیتا ، شرمسار نہیں رہتا اور نہ ہی اس کی عزت پر دھبہ ہوتا ہے۔اگر وہ یہ مان لیتیں کہ انسان کمزور بھی ہو سکتا ہے تو شاید وہ تیس سال کا سفر ننگے پیر نہ کرتیں۔میرے ابا جی ہمیشہ کہتے تھے کہ ’لڑائی کرنا سب سے آسان ہے اور اُسے نبھانا یا برداشت کرنا سب سے زیادہ مشکل کام۔۔۔‘

            ہاں یہی تو ہوا ہے۔

            یہی تو ہو رہا ہے۔

            جنگ چاہے ورلڈ وار ون ہو یا ٹو کمبوڈیہ ہو کہ جرمنی۔

            پاکستان ہو کہ انڈیا۔

            فلسطین ہو کہ عراق۔

            جنگ تو جنگ ہے لڑائی تو لڑائی ہے۔

            کرنی آسان ، نبھانی بھی مشکل اور برداشت کرنی اس سے بھی زیادہ مشکل۔۔۔

            انسانیت کیسے برداشت کرے۔۔۔

            انسان کیسے نہ چیخیں اس بر بریت پر۔ ان کے گھر بارود کا نشانہ ہوئے اور بچنے والے صدا اپنے پیاروں کی یاد میں سلگتے رہے اور اپنے پر گزرنے والی ہر یاد پر تڑپتے رہے اور کتنی آسانی سے من مانی کرنے والوں نے ان سے ان کی عزت و وقار چھین لیا۔۔۔

            ان سے جینے کا حق لے لیا۔۔۔

            ان کی خوشیوں پر پیٹرول بم بر سا دیئے۔۔۔

            ان سے ان کی راتیں چرا لیں۔۔۔

            ان سے ان کی نیندیں اڑ لیں۔۔۔

            یہ شاطر ، عیار، دغا باز، امن کے نام پر انسانوں کا کاروبار کرنے والے درندے انہی غریبوں اور بیماروں کے اندر بھی رہنے لگے تھے۔۔۔

            یہ ہولناکیاں۔۔۔

            بر بادیاں۔۔۔ کوئی کب تک سہے ؟؟

            پھر سب کہتے ہیں کہImmigration کی وجہ سے ڈپریشن اور PTSDکا گراف بڑھ گیا ہے۔۔۔ اس گراف کے اونچا کرنے میں ، انہی اونچی قوموں کا ہاتھ تھا۔ جو طاقت کے نشے میں چور گھر گھر لوٹ رہے تھے۔۔۔ کمزور اور بے بس انسانوں سے ان کا سکون ، آرام ، چھوٹی چھوٹی خوشیاں بم کے دھماکوں میں اڑا رہے تھے۔۔۔ ان کے د ن رات کا فرق مٹا رہے تھے۔۔۔

            میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب میں کیا سوچو ں۔ T.Vپر آج بھی عراق پر بمباری کی ساری تفصیل تھی۔۔۔

            شاید یہاں کے شہری بھی تیس سال بعد مسز کونگ کو طرح ہوش و حواس کھو بیٹھیں گے۔ اپنے آپ سے جنگ کرتے کرتے ہتھیار ڈال دیں گے۔۔۔

            یکدم سے فون کی گھنٹی بجی۔۔۔ اس وقت ؟رات کے گیارہ بجے کون۔۔۔ میں سوچتی ہوئی فون کی طرف بڑھنے لگی۔

            ’’ہیلو۔۔۔‘‘

            ’’دوسری طرف سے کرسٹی ہاسپٹل سے بول رہی تھی۔ وہ آج نائیٹ پر 11:00 میں تھی۔۔۔‘‘

            ’’What’s Up?( کیا ہوا خیر ہے ؟) ‘‘

            پھر جو اطلاع تھی، وہ شاید ایک ڈاکٹر ہونے کے ناطے بالکل نئی نہیں تھی لیکن چونکہ میں دِلی طور پر رنجیدہ تھی سو سہہ نہ پائی۔ میرے آنسو زار و قطار پھیل رہے تھے۔۔۔ وہ کہہ رہی تھی۔

            ’’مسز ورجینا کونگ نے ساڑھے دس اور گیارہ بجے کے درمیان اپنے کمرے میں بیڈ شیٹ گلے میں ڈال کر خود کشی کر لی۔‘‘

            اور پھر میں کچھ نہ کہہ سکی۔

            فون بند ہو چکا تھا۔

            میں وہیں بیٹھی رہ گئی۔

            میں مسز ورجینا کو اس کی رات نہ لوٹا سکی۔ میرے ہاتھ تو جادو کے نہ ہو سکے جو اس کو سُلا سکتے۔۔۔

            اس نے آخر فیصلہ کر ہی لیا کہ اس طرح روز مرنے اور سہنے سے بہتر ہے خود ہی اپنا علاج کر لیا جائے۔۔۔

            ’’ایسے کوئی ہتھیار ڈالتا ہے۔۔۔؟ ‘‘میں اپنے آپ سے کہہ رہی تھی۔

            ’’ایسے کوئی مرتا ہے۔۔۔؟

            اتنی بے دردی سے اپنا گلا گھونٹ سکتا ہے کوئی۔۔۔ شاید وہی جو اس اذیت دے رہا ہوتا ہے۔۔۔ اپنے ماضی کے ہر ورق پر وہ کبھی اپنی عزت لٹتے ہوئے دیکھتا ہے۔

            اور کبھی اپنے پیاروں کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے۔

            کبھی اپنے تاج محل جیسے گھروں کو ملبہ ہوتے دیکھتا ہے تو کبھی اندھیری کالی راتوں میں بندوق کی نالیوں کی سنگینوں میں پروئے ہوئے انسانوں کے لہو سے گلیوں اور سڑکوں  کو خون میں لت پت دیکھتا ہے تو کہیں جبراً پکڑے ہوئے نوجوانوں کو۔۔۔

            کوئی کہاں تک سہے۔۔۔

            کوئی کہاں کہاں تک دیکھے۔۔۔

            جنگ بھی آنکھوں سے ہوتی دیکھے اور اپنے اوپر زخم بھی اوڑھے اور پھر باقی ساری عمر اس زخم کی ٹیسیں بھی سہے ، اسے رستا ہوا بھی دیکھے۔۔۔ کب تک کوئی سہے لیکن مسز کونگ کے بعد اب کس کی باری ہے۔۔۔

            جنگ تو اب بھی جاری ہے۔۔۔

            جو رات سے نیندیں چرا رہی ہے۔

            آنکھوں کے نصیب میں وہ رتجگے لکھ رہی ہے جس میں نہ ہجر ہے نہ وصال ہے۔ صرف ملال ہی ملال ہے۔

            کتنے ظالم ہوتے ہیں وہ لوگ جو لوگوں کی راتیں چرا لیتے ہیں۔ان کے خواب لوٹ لیتے ہیں۔۔۔کتنے ہی بہانوں سے انسانوں کو اجاڑ دیتے ہیں۔۔۔

            پھر باقی کیا بچتا ہے۔ ان کے پاس۔۔۔

            سٹریس ؟؟؟Stress

            Depression

            Post Traumatic Stress Disorder

            خود کشی۔۔۔

            یہ جنگ ان لوگوں کو ختم کر دیتی ہے جو مرتے وقت بھی یہی کہتے ہیں کہ جب تک جینا صرف پیار کرنا اور پیار ہی بانٹنا۔۔۔

———————–

’مٹی کا سفر‘ مجموعے کا پہلا حصہ، مصنفہ کی اجازت اور تشکر کے ساتھ

ان پیج سے تبدیلی اور تدوین: اعجاز عبید،

 پروف ریڈنگ اور ای بک: اعجاز عبید