فہرست مضامین
مومن خاں مومن(حیات اور مطالعاتی ترجیحات)
معید رشیدی
مومن خاں میرا ہم عصر تھا اور یار بھی تھا۔ بیالیس تیتالیس برس ہوئے یعنی چودہ چودہ، پندرہ پندرہ برس کی میری اور اس مرحوم کی عمر تھی کہ مجھ میں اس میں ربط پیدا ہوا۔ اس عرصے میں کبھی کسی طرح کا رنج و ملال درمیان نہیں آیا۔ حضرت چالیس چالیس برس کا دشمن بھی نہیں پیدا ہوتا، دوست تو کہاں ہاتھ آتا ہے۔ یہ شخص بھی اپنی وضع کا اچھا کہنے والا تھا۔ طبیعت اس کی معنی آفریں تھی۔
مرزا غالب
21مئی1852
پیش نامہ
مومن خاں مومن اردو کے منفرد شاعر ہیں۔ غزل کے کڑے سے کڑے انتخاب میں بھی انھیں جگہ مل جائے گی۔ پہلی بار انھوں نے ہی اردو غزل کو ’ پردہ نشیں ‘ سے روشناس کرایا۔ ان کی عشقیہ شاعری کی سب نے تعریف کی۔ قدرت نے انھیں علوم و فنون کی دولت سے مالا مال کیا تھا، لیکن کیا کیجیے کہ شاعری کو علمیت سے کہیں زیادہ بصیرت درکار ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ ان کے یہاں بصیرت کی کمی تھی۔ سچائی یہ ہے کہ ان کے یہاں علوم پر دسترس کی انا نے ان علوم کی فلسفیانہ اساس کو متاثر کیا اور زیادہ پھیلنے نہ دیا۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ انھوں نے اپنی گہری بصیرتوں سے اتنا کام نہیں لیا، جتنا غالب نے لیا۔ انھوں نے اپنے کلام پر توجہ نہ دی۔ اس لیے اس میں اغلاط موجود ہیں۔ جتنے اغلاط ان کے یہاں ہیں، کسی اور کے یہاں ہوتے تو اس کی زبان دانی اور استادی مشکوک ٹھہرتی، لیکن ان پر کوئی شک نہیں کرتا اور انھیں استاد تسلیم کرتا ہے۔ معنی آفرینی کی بحث ہویانازک خیالی کی، ان کا نام غالب کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ غالب نے خود ان کے بارے میں کہا ہے کہ ان کی طبیعت معنی آفریں تھی۔ اس لیے ان کے کلام کی بھی شرح کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور شرحیں لکھی بھی گئی ہیں۔ غالب کی طرح اگر وہ اپنے کلام پر غور و فکر کرتے تو صورت حال کچھ اور ہوتی۔ نہ اغلاط کا گزر ہوتا اور نہ اشکال کی شکایت ہوتی۔ غالب نے اپنے ابتدائی زمانے کا کلام قلم زد کر دیا تھا اور ایسا انتخاب پیش کیا جس کی داد، دنیا دینے پر مجبور ہے۔ مومن نے اپنے کلام کا کوئی انتخاب نہیں کیا۔ یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ غالب کو حالی مل گئے اور ذوق کو محمد حسین آزاد، لیکن مومن کوایسا کوئی شاگرد نہیں ملا جو ان کے کارناموں کو سلیقے اور قرینے سے دنیا کے سامنے پیش کرتا اور شرح و تعبیر کے ذریعے کلام کی تخلیقی حیثیت کو مستحکم بناتا۔ سچ تو یہ ہے کہ مومن کو بھی شیفتہ کی صورت میں ایک شاگرد نصیب ہوا۔ شیفتہ نے ان کا کلام جمع کر کے ترتیب دیا جسے مولوی کریم الدین نے 1846میں دہلی سے شائع کیا۔ مومن کی حیات میں ان کے کلیات کا یہ واحد اڈیشن تھا۔ ان کی موت کے بعد تو اس کی اشاعت متعدد دفعہ ہوئی۔ آج ان کا کلام جس شکل میں بھی ہے، شیفتہ کی کوششوں کا ثمرہ ہے۔ شیفتہ نے ان کی حیات اور کارناموں پر کوئی کتاب یا تفصیل نہیں لکھی۔ محمد حسین آزاد نے انھیں ’آب حیات ‘ کے پہلے ایڈیشن میں شامل نہ کیا تو اس پر گرفت کی گئی، اس لیے کہ وہ مستحق تھے اور یہ ان کے ساتھ زیادتی تھی۔ حالی نے ان کے حالات فراہم کیے تو دوسرے ایڈیشن میں اس کا ازالہ ہو گیا۔
عام طور پر غالب کو مومن کا حریف بنا کر پیش کیا جاتا ہے، لیکن یہ غلط ہے۔ دونوں اچھے دوست تھے۔ دونوں میں رقابت کا کوئی جذبہ نہ تھا۔ دونوں اپنے زمانے کے استاد اور مستند شاعر تھے۔ غالب نے ان کی تعریف کی، مگر کیا کیا جائے، بعض اوقات مطالعے کی بنیاد ہی غلط پڑ جاتی ہے۔ مومن کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ غالب کے ناقدین نے لکھتے ہوئے پہلے ہی طے کر لیا کہ غالب کو بڑا دکھانے کے لیے مومن کو چھوٹا ثابت کیا جائے اور مومن کے ناقدین نے بھی یہی کیا کہ لکھتے وقت تہیہ کر لیا کہ مومن کو برتر بتانے کے لیے، غالب کو کم تر دکھا یا جائے۔ مطالعے کا یہ انداز کس کروٹ بیٹھے گا، دوچار صفحات کے بعد معلوم پڑ جاتا ہے اور کچھ بیزاری کا احساس ہونے لگتا ہے۔ دونوں کا مزاج الگ ہے۔ شاعرانہ تشخص الگ ہے۔ محرکات جدا ہیں اورسخن شناسوں کے لیے دونوں عزیز ہیں۔ بڑے چھوٹے کا فیصلہ کرنا وقت کا کام ہے۔ اس سے کون انکار کرے گا کہ مومن اردو کے اچھے اور منفرد شاعر ہیں۔ اس لیے ہمارا سروکار ان خوبیوں سے ہونا چاہیے جن کی وجہ سے وہ اچھے اور منفرد ہیں۔ اردو غزل میں ان کی حیثیت تاریخی ہے اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔
مومن مطالعات کا آغاز تذکروں سے ہوتا ہے۔ اردو ادب کی جو تاریخیں لکھی گئیں، ان میں بھی مومن مطالعات کا سلسلہ قائم ہے۔ مومن پر کچھ مستقل کتابیں لکھی گئیں جن میں ان کے سوانح حیات پر خصوصی توجہ دی گئی۔ رسائل میں مومن پر مضامین چھپے اور کچھ رسائل نے مومن نمبر بھی شائع کیا۔ نیاز فتحپوری نے جنوری 1928میں ’ نگار‘ کا ’ مومن نمبر شائع کیا جو مومن مطالعات میں سنگ میل ہے۔ یہ پہلی پر زور اور اجتماعی کوشش تھی جس نے مومن کی طرف توجہ دی اور اہل نظر کی توجہ کو مائل کیا۔ عرش گیاوی نے ’ حیات مومن ‘ لکھ کر حالاتِ زندگی کی کڑیاں ملائیں۔ ضیا احمد بدایونی نے پہلی بار غزلیات اور قصائد کی شرح لکھی۔ نیاز فتحپوری، ضیا احمد بدایونی، عرش گیاوی، ان تینوں حضرات نے مومن کو غالب سے بڑا شاعر قرار دیا، لیکن اس سے نہ غالب کا کچھ بگڑا، اور نہ مومن کا کچھ بنا۔ اقبال نے مومن کو تسلیم نہیں کیا۔ اس لیے کہ مومن کا کلام ان کے مشن اور افکارسے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ اقبال کو ضیا احمد بدایونی نے مجموعۂ غزلیات بھیجا تھا۔ اقبال کی نظر سے مثنوی ’جہادیہ‘ نہیں گزری تھی۔ اگر یہ مثنوی ان کی نظر سے گزرتی تو ان کی رائے یقینی طور پر بدلتی۔ ظہیر احمد صدیقی نے مومن پر پی۔ ایچ۔ ڈی کا مقالہ تحریر کیا۔ مقالہ عمدہ ہے لیکن یہاں نصابی خطوط /حدود کی جھلک موجود ہے۔ بعد میں اس نوع کے اور بھی مقالے اور کچھ اچھے مضامین لکھے گئے۔ فرہنگ کلام مومن تیار ہوا۔ مومن مطالعات نے بھی اتنا ہی سفر طے کیا ہے، جتنا غالب مطالعات نے کیا ہے، لیکن مومن مطالعات میں اتنے موڑ نہیں آئے، جتنے غالب مطالعات میں آئے ہیں۔ مومن کے کلام کو نئی تنقیدی بصیرتوں اور وسائل کی روشنی میں پڑھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔ معاصر تنقید نے مومن شناسی کا قرض ادا نہیں کیا۔ یہ کام ابھی باقی ہے۔
آخر میں کچھ علم دوست حضرات کا شکریہ ادا کرنا لازمی ہے۔ پروفیسر عبدالحق صاحب سے مومن اور اقبال کے معاملات پر گفتگو ہوئی تو ذہن اور بھی صاف ہو گیا۔ پروفیسر معین الدین جینابڑے اور پروفیسر توقیر احمد خاں نے مقالے کی تکمیل تک کے مراحل میں میرا حوصلہ بڑھایا۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے 94صفحات پر مبنی کلب علی خاں فائق کا مضمون ’ حیات مومن ‘ فراہم کیا جو اورینٹل کالج میگزین، لاہور 1959میں شائع ہوا تھا۔ شمس الرحمن فاروقی، شمیم حنفی، زبیر رضوی، عتیق اللہ، قاضی افضال حسین، قاضی جمال حسین، ظفر احمد صدیقی، ان تمام حضرات کا ممنون ہوں، کیوں کہ ہر قدم پر مجھے ان سے حوصلہ ملا ہے۔
27جنوری 2013
معید رشیدی
نئی دہلی
باب اول
تذکرے، سوانح اور تواریخ
حالات، عصری آگہی، سیاسی شعور، شعری تشخص…
تذکروں کی حیثیت محض ادبی نہیں، تاریخی اور عمرانی بھی ہے۔ اردو کے ابتدائی تذکرے فارسی میں لکھے گئے۔ ’نکات الشعرا ‘ (میر تقی میر ) فارسی میں لکھا گیا اردو کا اولین تذکرہ ہے۔ ’تذکرہ گلشنِ ہند ‘ (مرزا علی لطف ) اردو میں لکھا گیا پہلا تذکرہ ہے۔ تذکرے کو نہ بیاض نویس کی مختصر بیانی راس آتی ہے اور نہ تاریخ نگار کی مفصل بیانی۔ تذکرہ نگار اپنے حدود میں رہ کر شعرا کے حالات رقم کرتا ہے۔ کلام پر رائے دیتا ہے اور کچھ انتخاب پیش کرتا ہے۔ اس طرح شاعر اور اس کے کلام کا مختصر تعارف ہو جاتا ہے۔ کلیم لدین احمد نے تذکروں پرسخت تنقید کی۔ انھیں لفاظی، عبارت آرائی اور لفظوں کے سیلاب سے تعبیر کرتے ہوئے ان کے ہر نقش کو نقش بر آب قرار دیا۔ لفاظی اور عبارت آرائی کی آنکھ مچولی کو تنقید نہیں کہا جا سکتا۔ یہ بھی بجا کہ تذکروں کا خاص تعلق زبان، محاورے اور عروض سے ہے، لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انھی تذکروں نے ادبی تنقید کے لیے اولین زمین ہموار کی۔ کچی زمین کو پختہ ہونے میں وقت تو لگتا ہے۔ کلیم الدین احمد کی تنقید نوآبادیاتی زبان بولتی ہے۔ نوآبادیاتی ذہن ہماری گراں مائگی کو بے مایہ بتاتا ہے۔ تذکروں کے اسالیب کو کم مایہ اور اس کے بیانیہ کو کمزور ثابت کرنے میں کہیں کہیں احساس کمتری کا پہلو نمایاں ہو جاتا ہے۔ دوسروں کی آنکھ سے دیکھنے پر خود اعتمادی مجروح ہوتی ہے۔ تذکروں کی تنقید پر توجہ نوآبادیاتی عہد میں دی گئی۔ گارساں دتاسی پہلا مستشرق ہے جس نے تذکروں کی ادبی اور تنقیدی حیثیت پر تنقیدی نگاہ ڈالی۔ تنقید کے مغربی اصولوں پر تذکروں کا مطالعہ غلط نتائج تک لے جاتا ہے۔ تذکروں کے نوآبادیاتی بیانیے بحث کودلچسپ تو بناتے ہیں لیکن ان کا فیصلہ یک رخی اور جانب دار ی پر مبنی ہوتا ہے۔ ہر عہد کی اپنی تنقیدی بصیرت ہوتی ہے۔ اس عہد کی تنقیدی بصیرت کو اسی عہد کے تہذیبی نظام، تنقیدی معائر، فکریات اور تصور کائنات کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔
تذکروں کا دوسرا دور ’آب حیات ‘ سے شروع ہوتا ہے۔ دوسرے دور کے تذکروں کو تاریخِ ادب سے ملانے کی کوشش کی گئی ہے۔ نئے تذکرے پرانے تذکروں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ پرانے تذکرے حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیے گئے۔ نئے تذکروں میں مختلف ادوار قائم کیے گئے۔ زبان کے آغاز و ارتقا کے مختلف مدارج کا ذکر کیا جانے لگا۔ یہاں سے ادبی لسانیات اور تاریخ کے ابتدائی نقوش ظاہر ہوئے۔ نئے تذکرے اجمال سے تفصیل کی طرف بڑھے۔ کلیم الدین احمد نئے تذکروں سے بھی مایوس ہیں۔ یہاں بھی انھیں وہ تنقیدی اسالیب نہیں ملتے جن کی تلاش تذکروں اور ادبی تاریخ نگاری میں بے سود ہوتی ہے۔ یعنی انھیں تنقید کی ماہیت اور اس کے ضوابط و مقاصد پر مناسب بحث نہیں ملتی۔ شعر کی ماہیت، ادب اور زندگی کا صحیح ادراک نہیں ملتا۔ تنقیدی اسالیب کا فقدان انھیں نئے تذکروں سے بھی دور کر دیتا ہے۔ کہتے ہیں، ’’ تاریخِ ادب اور ادبی تنقید الگ الگ چیزیں ہیں اور تنقید تاریخ سے زیادہ اہم ہے۔ تاریخ تنقید کی مدد کرتی ہے تو مفید ہوتی ہے ورنہ نہیں ‘‘۔ (1) ان کا فرمانا کہ تاریخ اگر تنقید کے کام نہ آئے تو غیر مفید ہو گی، حیرت میں ڈالتا ہے۔ تاریخ تنقید کے لیے معاون ہوسکتی ہے، لیکن کوئی ضروری نہیں کہ ہمیشہ اور ہر باب میں تاریخ تنقید کا ساتھ دے۔ تاریخ کو تنقید کی سند کی ضرورت نہیں۔ البتہ کبھی کبھی تنقید کو تاریخ کی سند لینا ضروری ہو جاتا ہے۔ کسی کو کم تر یا کسی کو برتر کہنا مناسب نہیں۔ نکات الشعرا (میر تقی میر )، گلشن گفتار (حمید اورنگ آبادی )، ریختہ گویان (فتح علی گرویزی )، مخزن نکات (قیام الدین قائم )، چمنستان شعرا (لچھمی نرائن شفیق )، طبقات الشعرا (قدرت اللہ شوق )، تذکرہ شعرائے اردو (میر حسن )، گل عجائب (اسد علی خاں تمنا)، گلزار ابراہیم (محمد ابراہیم خاں خلیل )، تذکرۂ ہندی (غلام ہمدانی مصحفی )، عیار الشعرا (خوب چند ذکا )، گلشن ہند (مرزا علی لطف )، ریاض الفصحا (غلام ہمدانی مصحفی )، مجموعۂ نغز (قدرت اللہ قاسم )، دیوان جہاں (بینی نرائن جہاں )، دستور الفصاحت (احمد علی خاں یکتا )، گلشن بے خار(مصطفیٰ خاں شیفتہ)، وغیرہ کا شمار قدیم تذکروں میں ہوتا ہے۔ یہ تذکرے 1752-1835کے درمیان لکھے گئے ہیں۔ 1857کے بعد جدید تذکروں کا آغاز ہوتا ہے۔ سخن شعرا (عبدالغفور نساخ )، آب حیات (محمد حسین آزاد )، گل رعنا (عبدالحی)، شعر الہند (عبدالسلام ندوی )، خم خانۂ جاوید (لالہ سری رام) وغیرہ کا شمار جدید تذکروں میں ہوتا ہے۔ ’آب حیات ‘، ’ گل رعنا ‘ اور ’ شعر الہند ‘ میں تذکرے کو تاریخ سے ملانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جدید تذکروں میں اردو کی لسانی تشکیل پر توجہ دی گئی ہے۔ شاعری کے عروج اور پھیلاؤ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ایک دور کو دوسرے سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ شعرا کے حالات اور ان کے کلام کا عمدہ انتخاب نظر آتا ہے۔ شاعر کے حالاتِ زندگی کو دلچسپ پیرایے اور خاکے، کے انداز میں پیش کرنا نئے تذکروں کا وصف ہے۔ محمد حسین آزاد سامنے کی مثال ہیں۔ تذکرے تاریخ ادب کے لیے بنیاد کا کام کرتے ہیں۔ تحقیق اور استناد کے لیے جواز فراہم کرتے ہیں۔ حنیف نقوی لکھتے ہیں :
تذکروں کے متفق علیہ بیانات سے حقائق کے عرفان اور واقعات کی تعبیر میں مدد ملتی ہے اور اختلافی مباحث نے ارباب نظر کے ذوق تجسس کو بیدار کر کے تحقیقی شعور کی پرورش اور نشو و نما کے موقعے فراہم کیے ہیں۔ چنانچہ آج بھی کوئی مورخ ان مآخذ کی جانب رجوع کیے بغیر اپنی تاریخ کے مکمل اور مستند ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ تذکروں کا یہی وہ بنیادی کردار ہے جو ہر صائب الرائے شخص کو ان کی غیر معمولی اہمیت کے تسلیم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ (2)
تذکروں کی ترتیب میں حروف تہجی کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے جبکہ تاریخ کسی عہد اور اس کے پس منظر میں آنکھیں کھولتی ہے۔ مورخ کی نگاہ پیش نظر عہد کی دھوپ چھاؤں پر ٹکی ہوتی ہے۔ حنیف نقوی تذکروں کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
تذکروں نے ایسے بے شمار فن کاروں کو بے نام و نشاں ہونے سے بچا لیا ہے جن کے کارنامے یا تو کسی وجہ سے مدون نہ ہوسکے یا مدون ہونے کے بعد ضائع ہو گئے۔ …اردو ادب کی تاریخ سے یہاں بطور مثال مصطفی خاں یکرنگ، خان آرزو اور مرزا مظہر جان جاناں کے نام پیش کیے جا سکتے ہیں۔ ان اساتذہ کے کلام کے جو معدودے چند نمونے دستبردِ زمانہ سے محفوظ رہ کر ہم تک پہنچے ہیں وہ تذکروں ہی کے واسطے سے حاصل ہوئے ہیں۔
اس عام خامی کے باوجود کہ تذکرہ نویسوں نے شعرا کے تعارف میں اکثر حد درجہ اختصار سے کام لیا ہے، تذکرے عام شاعروں کے حالاتِ زندگی، سیرت و شخصیت اور تخلیقی کاوشوں کے متعلق حصوں کی معلومات کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔
بعض تذکروں میں ان کے مولفین نے زمانی و مکانی قرب سے پوری طرح فائدہ اٹھا کر ہم عصر شاعروں کے بارے میں انتہائی اہم اور کارآمد معلومات کا وہ بیش قیمت سرمایہ فراہم کر دیا ہے جو کسی دوسرے ذریعے سے حاصل نہیں ہوسکتا۔
بعض تذکرہ نگار بذات خود بڑے شاعر ہیں۔ انھوں نے دوسرے شعرا کے کلام میں جن خوبیوں اور خامیوں کی نشان دہی کی ہے یا بعض اوقات اشعار میں لفظی ترمیم و تغیر کے متعلق جو مشورے دیے ہیں ان کا مطالعہ خود ان کے رجحان طبع اور نظریۂ فن کو سمجھنے اور اس کی روشنی میں ان کے کلام کو زیادہ بہتر طور پر پرکھنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
تذکروں کے انتخابات کا مطالعہ عام حالات میں دواوین کی تلاش و جستجو اور ورق گردانی کی زحمت سے بے نیاز کر دیتا ہے۔
تذکروں میں کبھی کبھی ایسی کتابوں کے حوالے اور اقتباسات بھی مل جاتے ہیں جو یقینی طور پر فنا ہو چکے ہیں یا جن کے بارے میں معلومات کا کوئی اور ذریعہ موجود نہیں۔
مختلف العہد تذکروں کے تقابلی مطالعے سے زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتے ہوئے ادبی رجحانات، فن کی منزل بہ منزل ترقی اور زبان کے عہد بہ عہد ارتقا کی رفتار اور کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
تذکروں میں نقل کیے گئے اشعار اور دواوین کی صورت میں مرتب شدہ کلام کے باہمی مقابلے سے متن کے ان اختلافات کی نشاندہی میں بھی مدد ملتی ہے جو بالعموم خوب سے خوب تر کی تلاش پر مبنی شعرا کے خود اصلاحی و خود تنقیدی عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
تذکروں میں اکثر ایسے اشعار بھی مل جاتے ہیں، جنھیں یا تو شاعر پست از معیار قرار دے کر خود ہی اپنے کلام سے خارج کر دیتا ہے یا کسی اور وجہ سے وہ اس کے مجموعۂ کلام میں شامل نہیں ہو پاتے۔ غالب کے منسوخ کلام کا ایک اچھا خاصہ حصہ اسی طرح دستیاب ہوا ہے۔
تذکروں سے متنازع فیہ کلام کی ملکیت کے تعین میں بھی مدد ملتی ہے۔ مثلاً قائم چاند پوری کے بعض مشہور اشعار جو بالعموم سوداؔ سے منسوب کیے جاتے ہیں، خود ان کے تذکرے میں ان کے اپنے نام سے منقول ہیں۔ (3)
مومن 1800-1852کی قدر شناسی ان کے عہد میں کم ہوئی۔ غیر جذباتی طور پر اور فنی اصولوں کی روشنی میں انھیں سمجھنے کی کوشش خال خال ملتی ہے۔ ان کی شخصیت اور ان کے کلام پر کچھ ابتدائی باتیں تذکروں اور تواریخ کا حصہ ہیں۔ اس ضمن میں چار تذکروں کا خصوصی حوالہ دیا جاتا ہے۔ ’گلشنِ بے خار‘ (مصطفی خاں شیفتہ )’، طبقاتِ شعرائے ہند‘ (منشی کریم الدین )، ’ آب حیات‘ (محمد حسین آزاد )، ’جلوۂ خضر ‘ (صفیر بلگرامی )۔ دیگر تذکرے اس ضمن میں عمومی نوعیت کے ہیں۔
مصطفی خاں شیفتہ 1806-1869نے ’گلشن بے خار ‘ 1835میں مکمل کیا۔ یہ تذکرہ اپنی تکمیل کے دو سال بعد یعنی 1837میں شائع ہوا۔ شیفتہ دہلی میں پیدا ہوئے۔ غالب، مومن، ذوق، نصیر، مفتی صدرالدین آزردہ، امام بخش صہبائی وغیرہ کا زمانہ تھا۔ عربی، فارسی اور اردو، تینوں زبانوں پر یکساں مہارت تھی۔ فارسی میں حسرؔتی تخلص کیا۔ مومن خاں مومن کے شاگرد رشید ہوئے۔ مومن کی وفات کے بعد غالب سے مشورۂ سخن کیا۔ غالب بھی ان کی فنی اور ناقدانہ بصیرت کے قائل و قدر دان تھے۔ انھیں مومن سے بڑی عقیدت تھی۔ اس عہد میں عام طور پر تذکروں کا رجحان عمدہ اشعار کا انتخاب تھا۔ شیفتہ نے تذکرہ اس مقصد کے تحت مرتب نہیں کیا۔ ان کا مقصد ذرا وسیع تھا۔ انھوں نے کلام کے عمدہ انتخاب کے ساتھ، شعرا کے حالات جمع کیے اور ان کے کلام پر تبصرہ کیا۔ تذکرے کی تکمیل کے بعد ’گلشنِ بے خار ‘ نام رکھا جو پہلی بار 1837میں مطبع لیتھو گریفک دہلی، اردو اخبار آفس سے مولوی محمد باقر کی نگرانی میں چھپ کر منصہ شہود پر آیا۔ 1843میں دہلی کے اردو اخبار پریس سے اشاعت ثانی ہوئی۔ اس کا تیسرا، اڈیشن 1874میں منشی نول کشور کی نگرانی میں لکھنؤ سے شائع ہوا۔ ’’ بظاہر نول کشور نے طباعت ثانی کا چربہ شائع کیا ہو گا۔ اسی نسخہ نول کشور کو یو پی اردو اکیڈمی لکھنؤ نے 1982عیسوی میں عکسی طباعت کے ذریعہ جوں کا توں دوبارہ شائع کیا ہے لیکن اس میں آخری دو صفحات غائب ہیں۔ ‘‘ (4)’گلشنِ بے خار ‘ کے پہلے اڈیشن کا ایک نسخہ رضا لائبریری، رام پور کی ملک ہے۔ مومن خاں مومن کا ذکر سب سے پہلے اسی تذکرے میں ہوا۔ اسلوب انشا پردازانہ ہے۔ اس عہد کے تذکروں میں آج بھی اسے سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ شیفتہ نے ہی مومن کا کلام جمع کر کے ترتیب دیا جسے مولوی کریم الدین نے 1846میں دہلی سے شائع کیا۔ مومن کی حیات میں ان کے کلیات کا یہ واحد اڈیشن تھا۔ ان کی وفات کے بعد تو اس کی اشاعت متعدد دفعہ ہوئی۔ اس سلسلے میں شیفتہ نے اپنے تذکرے میں لکھا ہے کہ ’’ اس مومن کی بیشتر شاعری اس گنہ گار کی خواہش سے ظہور پذیر ہوئی ہے اور اس کے افکار (اشعار ) کی تدوین کا باعث بھی یہ فقیر ہوا ہے۔ اس ( دیوانِ مومن ) کا دیباچہ کہ جو میرے قلم کی ریختہ ہے۔ ا س میں تفصیل کے ساتھ اس ماجرے کو کھول کر بیان کر دیا ہے اور آج کل اس کی توجہ ریختہ کی نظم پر کم کم ہے۔ کبھی کبھی جادو جگاتا اور سخن فہموں کی مسرت کاسامان کرتا ہے (یعنی شعر کہتا ہے ) لاتعداد زبانیں کہ جو خاموش اور مردہ پڑی تھیں، یکایک زندہ ہو کر نعرہ ہائے تحسین بلند کرتی ہیں۔ فقیر کا خیال ہے کہ محض اپنی شاعری کے زور پر کوئی اور کم ہی اس طرح کھڑا ہوا ہے۔ ‘‘ (5) رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں :
شیفتہ بہ نسبت شاعر کے ناقد کی حیثیت سے زیادہ مشہور ہیں۔ اپنے زمانے میں بھی ان کو یہی شہرت حاصل تھی اور اردو اور فارسی شاعری کے اعلیٰ درجے کے نقاد اور سخن سنج سمجھے جاتے تھے۔ ان کا تذکرہ گلشن بے خار ایک مبسوط اور مشہور تصنیف ہے اور ہمارے نزدیک وہ پہلا تذکرہ ہے جس میں انصاف اور آزادی کے ساتھ اشعار کی تنقید کی گئی ہے۔ (6)
شیفتہ کی سخن سنجی کو غالب نے تسلیم کیا ہے اور مومن سے ان کی جو عقیدت ہے اس سے زمانہ آشنا ہے۔ ’گلشن بے خار ‘ میں شیفتہ لکھتے ہیں :
مومنؔ تخلص، شعر گوئی کی کان کا کالا ہیرا، معانی کے سمندر کا نایاب موتی، شاعری کی سلطنت کا بادشاہ، اس فن ( یعنی شاعری ) کا درجہ بلند کرنے والا، ہوش و خرد کی شراب کا جام گردش میں لانے والا، دلکش اور دل کو لبھانے والے نغمات کا مغنی، پے چیدہ معانی کے بلند مقام کا مالک، بیان کے جملہ اوصاف کا آفتاب، نکتہ دانی کا آسمان، زمانے کے نشیب و فراز کے اسباب کا جاننے والا، فلسفہ کو پروان چڑھانے والا شاعر، بات کو واضح کر نے والا، فلسفی اپنے عہد کا بے مثل، اپنے وقت کا بے مثال، بہت سے فنون ( کو اپنی ذات میں ) جمع کرنے والا، حکیم محمد مومن خاں جن کو اللہ نے مختلف فنون میں کمال حاصل کرنے کی خوب استعداد کی ہے۔ انھوں نے کمال مہارت اور اس کے لیے استعداد کو اپنے نفس میں بخوبی سمو لیا ہے اور یہی وجہ ہے ان کے گلستانِ دل کے چشموں سے بے پناہ علم و فضل کے دریا جاری ہیں۔ بڑے اور نامور خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے فضائل اور عظمتیں حیطۂ تحریر میں نہیں آسکتے۔ اس کی بڑی بڑی خوبیوں اور پوشیدہ کرامتوں کا شمار تحریر کے بس کی بات نہیں ہے اور ان وجوہات کی بنا پر یہ مختصر تحریر ہر گز کسی تفصیل کی متحمل نہیں ہوسکتی کیوں کہ میری لکنت والی زبان پر مرغ گلستاں کا نغمہ ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے اور یہ میرا ٹیڑھا میڑھا بیان گویا خوش آواز طوطی کی بندھی ہوئی منقار کی گریہ گفتاری ہے۔ گذرے ہوئے لوگوں کی داستانیں کہ جو بڑے طمطراق سے دنیا کے گوش گذار ہوئی تھیں، جان بوجھ کر سب نے بھلا دی ہیں اور بیشتر لوگوں کی کہانیاں کہ جو ہزار دھوم دھام کے ساتھ اوراق زمانہ پر نقش ہیں بھولے سے یاد نہیں آتی ہیں۔ (7)
کلام کو غیر جانب دار ہو کر فنی کسوٹی پر پرکھنے، متن کے بطون سے پیدا ہونے والے مسائل پر رائے دینے اور عقیدت کی عینک سے متن کو دیکھنے یا قصیدہ پڑھنے میں کافی فرق ہے۔ شیفتہ کے اقتباس سے مومن کے فن کو سمجھنے میں کوئی مدد نہیں ملتی۔ بعض اوقات فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ تعریف مومن خاں مومن کی کی جا رہی ہے یا کسی غیر معمولی مخلوق یا کسی پیغمبر کی۔ مثلاً ’’ ان کے گلستانِ دل کے چشموں سے بے پناہ علم و فضل کے دریا جاری ہیں۔ اس کے فضائل اور عظمتیں حیطۂ تحریر میں نہیں آسکتے۔ اس کی بڑی بڑی خوبیوں اور پوشیدہ کرامتوں کا شمار تحریر کے بس کی بات نہیں ہے اور ان وجوہات کی بنا پر یہ مختصر تحریر ہر گز کسی تفصیل کی متحمل نہیں ہوسکتی کیوں کہ میری لکنت والی زبان پر مرغ گلستاں کا نغمہ ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے اور یہ میرا ٹیڑھا میڑھا بیان گویا خوش آواز طوطی کی بندھی ہوئی منقار کی گریہ گفتاری ہے۔ ‘‘یہ تعریف ہے یا الفاظ کا بے جا خرچ۔ منطقی اور معروضی ذہن سے جس کا کوئی علاقہ نہیں۔ تجربے اور مشاہدے سے جس کا کوئی رشتہ نہیں، لیکن کیا کیجیے کہ مبالغہ، بلکہ غلو کو اس زمانے میں برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ لوگ اسے حسن سمجھتے تھے۔ ۔ ملاحظہ ہو :
کمالات کے حساب سے ان کی شاعری جس میں غضب کا تنوع ہے دراصل دوہرے مرتبہ کی حامل ہے۔ لیکن چونکہ بات اس فن ( یعنی شاعری ) کی ہے بیجا روگردانی نہ کی جائے ( تو صاف نظر آتا ہے ) کہ اس کی جادو جگانے والی زبان سحر کو معجزہ کے درجے پر پہنچاتی ہے اور اس کی دل پذیر شاعری میں اختصار طوالت کے ہم پایہ ہوتا ہے ( یعنی کوزے میں دریا بند ) اس کی موتی لٹانے والی طبیعت سے ( بصورت اشعار ) قطرہ ہائے نیسان کی بارش ہوتی ہے جس سے مفلسوں کی جیبیں، آستینیں اور دامن جواہرات سے بھر بھر جاتے ہیں۔ وہ جب بہار کا خیال باندھتا ہے تو اس کی پھول بکھیرنے والی طبع چمن چمن پھول کھلا دیتی ہے اور دیکھنے والوں کے سامنے باغ جنت جلوہ دکھانے لگتا ہے۔ وہ یکتائے علم اپنی انوکھی جنبش کے ساتھ ماہتاب کے مانند رواں ہے۔ اس کی شمع فکر کی روشنی سے نامحسوس ذرات اس طرح روشن نمایاں اور قابل اعتماد ہو جاتے ہیں جیسے خورشید عالم تاب کی ضیا کے انعکاس سے لاتعداد ستارے چمک اٹھتے ہیں۔ اس کے سامنے کائنات (شعر ) کو زینت بخشنے والا نوری نبات النعش کے ایک ستارے سُہا کے مانند ( کم قیمت ) ہے اور اس کے دربار میں خداوند فریدون نژاد خاقانی ایک ادنیٰ درجہ کا خادم ہے اور اس کے خوان نعمت کے بہت سے وظیفہ خواروں میں سے ایک ہے اور بو فراس اس کے میدان تکریم میں اس کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر چلنے والوں میں سے ایک ہے۔ (8)
یہ ہے مومن تنقید کی ابتدائی جلوہ گری جس میں عقیدت کا چراغ، عقیدت ہی کی روشنی بکھیرتا ہے۔ جب اس نوع کے جملے پر نظر پڑتی ہے تو عقیدت کا چراغ بھی گل ہو جاتا ہے اور فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ تعریف ہے یا کچھ اور :
ملا ظہوری ترشزی نے تین سو سال پہلے یہ شعر ان کے ہی خصوص میں کہا تھا اور شاید ان کی اتنی مسلسل خوبیوں کے باعث ہی بعض حضرات شک و شبہ کی لمبی سانسیں کھینچتے ہیں۔ (9)
ادبی تنقید میں تعریف کا یہ ڈھنگ آج مستعمل نہیں۔ مبالغہ اور عبارت آرائی تذکروں کا عام مزاج ہے۔ کلیم الدین احمد نے شیفتہ کی رایوں پر گرفت کی ہے۔ ’’اس ناموزوں اور مہمل طوفانِ الفاظ سے معانی فنا ہو جاتے ہیں۔ کوئی ذی فہم اسے تنقید نہیں کہہ سکتا۔ ‘‘(10) رنگین عبارت اور مقفیٰ و مسجع نثر اس زمانے کا عام ڈھب تھی۔ شیفتہ نے غالب، مومن، آزردہ وغیرہ جیسے کچھ شعرا کے کلام کی مبالغہ آمیز تعریف کی اور زیادہ تر شعرا پر تنقید کی۔ اسی لیے شیفتہ کے تذکرے کے جواب میں حکیم قطب الدین باطن نے ’گلستانِ بے خزاں ‘(نغمۂ عندلیب) نامی تذکرہ 1875میں شائع کیا۔ نظیر اکبر آبادی، باطن کے استاد معنوی تھے اور شیفتہ نے نظیر کے کلام کو قابل اعتنا نہیں جانا تھا۔ باطن نے ان پر سخت تنقید کی۔ انھوں نے اپنے تذکرے میں مومن کی حتی المقدور تعریف کی لیکن حد سے زیادہ تعریف کو وہ ہجو میں داخل جانتے ہیں۔ وہ’ گلستان بے خزاں ‘میں لکھتے ہیں :
صاحبِ گلشنِ بے خار اپنے غم و جوش و خروش میں آ کر شراب خودی سے بیہوش ہو گئے۔ یاروں کو تقریر میں وسعت ہوئی۔ طبیعتوں کو جوش ہو گئے۔ مومن خاں صاحب جو ان کے استاد ہیں ان کی صفت حد سے زیادہ کی۔ شعر بھی اتنے لکھے کہ ہنگام شمار معلوم ہوا کہ اس قدر شعر کسی کے نہیں لکھے اور تعریف پر طبیعت آمادہ کی۔ مولانا صدر الدین خاں کی تعریف ان سے بھی زیادہ کی۔ شاید ان کے دادا یعنی استاد کے استاد ہوں گے۔ ان کو کیسے کیسے علم ہنر کسب فن جس سے آدمی نام آور ہو ، دریا سے جوہر کا شناور ہو، یاد ہوں گے۔ ان کے نزدیک سب استاد انِ ماضی و حال لیاقت سے دور ہیں۔ پس ایسے اندازوں سے فدوی نے جانا کہ یہ تالیف تذکرہ کے طرز و انداز سے ناواقف و مجبور ہیں۔ (11)
اسپرنگر کا تذکرہ ’یادگار شعرا‘ اپنی جامعیت کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میں وہ شعرا شامل ہیں جن کا پتا 1854تک چلا تھا۔ یہ مختلف اہم تذکروں کا ست نکال کر تیار کیا گیا ہے۔ ’’حکیم محمد مومن خاں، اب دہلی میں بہترین شاعر اور اچھے طبیب ہیں۔ فارسی اور ریختہ کہتے ہیں۔ ایک دیوان اور کئی مثنویاں کہی ہیں (گلشن بے خار )۔ اپنے مکان کی چھت پر سے گر کر مرے (1852)‘‘۔ (12)
’گلستان سخن ‘ مرزا قادر بخش صابر کا ضخیم تذکرہ ہے جو 1857سے پہلے لکھا گیا۔ اس پر مرتب کا مبسوط مقدمہ ہے۔ صابر، امام بخش صہبائی کے تلامذہ میں تھے۔ اپنے تذکرے میں مومن کے بارے میں لکھتے ہیں :
مومن تخلص، سخن سنجِ بے عدیل محمد مومن خان مرحوم غفراللہ کہ زمینِ سخن اس کی بلندیِ فکر سے رشکِ افلاک اور اوجِ فلک اس کی علو طبع کے مقابل ، پستی خاک عروس معنی اس کے حجلہ طبع میں شوخ و برجستہ، راز غیب اس کے سینۂ قلم میں سربستہ، خامہ اس کی سوز معنی سے نخل طور اور ورق اس کے فروغِ مضامین سے مطلع نور، مصرع آہ اس کی غزل عاشقانہ میں تضمین اور اسرار یقین اس کے ابیات عارفانہ میں گوشہ گزین، سخن سنجان عصر ہر چند بالا دوئی فکر سے عرش تاز تھے لیکن جو کہ یہ والا نگاہ اپنی ہمت عالی کے اوج سے سب کے احوال پر نگاہ کرتا تھا ہر سر بلند اس کو پست اور ہر بزرگ اس کو خرد نظر آتا اور وہ بے تصنع اس کا نام اسی پندار کے موافق زبان پر لاتا۔ (13)
1835سے 1857تک کے تذکروں میں ’انتخاب دواوین ‘ امام بخش صہبائی ، ’ بہارِ بے خزاں ‘ احمد حسین سحر ، ’ گلدستۂ نازنیناں ‘ مولوی کریم الدین ، ’ تذکرۂ خوش معرکۂ زیبا ‘ سعادت خاں ناصر ، ’طبقات شعرائے ہند ‘ مولوی کریم الدین ، ’ نسخۂ دلکشا ‘ ارمان وغیرہ کا شمار بھی اہم تذکروں میں ہوتا ہے۔ 1858سے 1900تک کے تذکروں میں ’سخن شعرا ‘ عبد الغفور نساخ ، ’ بہارستانِ ناز ‘ رنج میرٹھی ، ’ تذکرۂ نادر ‘ مرزا کلب حسین خاں نادرؔ، مرتبہ: سید مسعود حسن رضوی ادیب ، ’ شمیم سخن ‘ صفا بدایونی ، ’انتخاب یاد گار ‘ امیر مینائی ، ’گلشن ناز ‘ درد دہلوی ، ’ آب حیات ‘ مولانا محمد حسین آزاد ، تذکرہ طور و کلیم نور الحسن خاں ، ’ جلوۂ خضر ‘صفیر بلگرامی وغیرہ کا شمار اہم تذکروں میں ہوتا ہے۔
تذکروں کا دوسرا دور ’ آ بِ حیات ‘ سے شروع ہوتا ہے۔ مطالعۂ مومن میں ’ آ ب حیات ‘ کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں۔ ’آب حیات ‘ کی پہلی اشاعت وکٹوریہ پریس، لاہور سے 1880میں ہوئی۔ آزاد نے تذکرے کو تاریخ سے ملانے کی کوشش کی۔ پانچ ادوار قائم کیے اور ہر دور کے شعری خصائص پر اظہارِ خیال کیا۔ ابتدا میں اردو کے آغاز و ارتقا پر گفتگو کی جس سے اردو کی لسانی تشکیل کا ایک نظریہ بھی سامنے آ یا کہ اردو برج بھاشا سے نکلی ہے۔ اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری زبان اردو، برج بھاشا سے نکلی ہے اور برج بھاشا خاص ہندوستانی زبان ہے۔ (14)آزاد کا نظریہ کارگر نہ ہوا، اور رد کر دیا گیا۔ آب حیات کے پہلے ایڈیشن میں مومن کا ذکر نہیں ملتا۔ حالاں کہ مومن کو شامل نہ کرنے کا کوئی خاص جواز بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ آزاد نے عذر لنگ یہ پیش کیا کہ ان کے حالات انھیں نہ مل سکے۔ انھوں نے خطوط لکھ کر لوگوں سے حال جاننا چاہا لیکن ناکام رہے۔ ان کا عذر لنگ کام نہ آیا۔ جب آب حیات شائع ہوئی تو اس پر متعدد تبصرے لکھے گئے اور مومن کی عدم شمولیت پر احتجاج کیا گیا۔ دوسرے ایڈیشن میں مومن شامل کیے گئے۔ آزاد مومن کی تمہید میں لکھتے ہیں :
پہلی دفعہ اس نسخے میں مومنؔ خاں صاحب کا حال نہ لکھا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ دور پنجم جس سے ان کا تعلق ہے، بلکہ دور سوم و چہارم کو بھی اہل نظر دیکھیں کہ جو اہلِ کمال اس میں بیٹھے ہیں، کس لباس و سامان کے ساتھ ہیں۔ کسی مجلس میں بیٹھا ہوا انسان جبھی زیب دیتا ہے کہ اسی سامان و شان اور وضع و لباس کے ساتھ ہو، جو اہلِ محفل کے لیے حاصل ہے۔ نہ ہو تو ناموزوں معلوم ہوتا ہے۔ خاں موصوف کے کمال سے مجھے انکار نہیں۔ اپنے وطن کے اہل کمال کا شمار بڑھا کر اور ان کے کمالات دکھا کر ضرور چہرۂ فخر کا رنگ چمکاتا، لیکن میں نے ترتیب کتا ب کے دنوں میں اکثر اہل وطن کو خطوط لکھے اور لکھوائے۔ وہاں سے صاف جواب آیا۔ وہ خط بھی موجود ہیں۔ مجبوراً ان کا حال قلم انداز کیا۔ دنیا کے لوگوں نے اپنے اپنے حوصلے کے بموجب جو چاہا سو کہا ؛ آزاد نے سب کی عنایتوں کو دامن پھیلا کر لے لیا۔ ذوق :
دو گالیاں کہ بوسہ خوشی پر ہے آپ کی
رکھتے فقیر کام نہیں رد ّ و کد سے ہیں
البتہ افسوس اس بات کا ہے کہ بعض اشخاص جنھوں نے میرے حال پر عنایت کر کے حالات مذکورہ کی طلب و تلاش میں خطوط لکھے اور سعی ان کی ناکام رہی۔ انھوں نے بھی کتاب مذکورہ پر ریویو لکھا، مگر اصل حال نہ لکھا، کچھ کچھ اور ہی لکھ دیا۔ میں نے اُسی وقت دہلی اور اطرافِ دہلی میں ان اشخاص کو خطوط لکھنے شروع کر دیے تھے، جو خاں موصوف کے خیالات سے دل گزار رکھتے ہیں۔ اب طبع ثانی سے چند مہینے پہلے تاکید و التجا کے نیاز ناموں کو جولانی دی۔ انھی میں سے ایک صاحب کے الطاف و کرم کا شکر گزار ہوں جنھوں نے با تفاق احباب اور صلاح ہمدگر جزئیات احوال فراہم کر کے چند ورق مرتب کیے اور عین حالت طبع میں یہ کتاب مذکور قریب الاختتام ہے، مع ایک مراسلے کے عنایت فرمائے بلکہ اس میں کم و بیش کی بھی اجازت دی۔ (15)
’ آب حیات‘ کی تفصیل، تسلسل، تاریخ اور ان سب میں انشاپردازانہ رنگ، یہ وہ چیزیں ہیں جو اسے اس عہد کے تذکروں سے ممیز کرتی ہیں۔ انشا پردازی آب حیات کی خوبی بھی کہی جاتی ہے اور خامی بھی۔ ایک ہی شے بیک وقت خوبی اور خامی ہوسکتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ دیکھنے والا اسے اسی تناظر میں دیکھے۔ آب حیات کی تاریخی حیثیت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے ؟ تذکروں میں اسے ریڑھ کی ہڈی بھی کہا گیا ہے۔ گیان چند جین نے اسے تاریخ بھی بتایا ہے اور تخلیق بھی۔ اس پر کلیم الدین احمد نے سیر حاصل تنقید کی ہے۔ اس تذکرے میں مومن کے حالات زندگی سے متعلق حقائق، چند واقعات، صلاحیتوں کے ضمن میں مختلف علوم پر دستگاہ، مشغلہ، تلامذہ، اسفار، وغیرہ موضوعات کو نشان زد کیا گیا ہے۔ یہ معلومات حالی کے الطاف و کرم کا نتیجہ ہیں لیکن کلام پر رائے آزاد نے خود لکھی۔ اس کی وجہ آزاد نے یہ بتا ئی ہے :
اپنے شفیقِ مکرم کے الطاف و کرم کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے یہ حالات مرتب کر کے عنایت فرمائے، لیکن کلام پر رائے نہ لکھی اور باوجود التجائے مکرر کے انکار کیا۔ اس لیے بندۂ آ زاد اپنے فہم قاصر کے بموجب لکھتا ہے۔ (16)
اور آزاد نے مومن کے کلام پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا :
غزلوں میں ان کے خیالات نہایت نازک اور مضامین عالی ہیں اور استعارہ اور تشبیہ کے زور نے اور بھی اعلیٰ درجے پر پہنچایا ہے۔ ان میں معاملاتِ عاشقانہ عجیب مزے سے ادا کیے ہیں۔ اسی واسطے جو شعر صاف ہوتا ہے، اس کا انداز جرأت سے ملتا ہے اور اس پر وہ خود بھی نازاں تھے۔ اشعار مذکورہ میں فارسی کی عمدہ ترکیبیں اور دل کش تراشیں ہیں کہ اردو کی سلاست میں اشکال پیدا کرتی ہیں۔ ان کی زبان میں چند وصف خاص ہیں، جن کا جتانا لطف سے خالی نہیں۔ وہ اکثر اشعار میں ایک شے کو کسی صفت خاص کے لحاظ سے ذاتِ شے کی طرف نسبت کرتے ہیں اور اس ہیر پھیر سے شعر میں عجیب لطف بلکہ معانی پنہانی پیدا کرتے ہیں۔ (17)
کلیم الدین احمد نے ’آب حیات‘ کی انشا کو اس کا اہم ترین عیب بتایا ہے۔ ان کی نظر میں اس کی کوئی تنقیدی اہمیت نہیں۔ اس کے برجستہ اور چست جملوں پر وہ سبحان اللہ کہتے ہیں اور انھیں مغز سے عاری بتاتے ہیں۔ وہ تذکروں کی لفاظی اور چمک دمک سے مرعوب نہیں ہوتے۔ ان کے تمام اعتراضات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔
عبدالغفور نساخ کا شمار انیسویں صدی کی اہم شخصیات میں ہوتا ہے۔ ان کا مشہور تذکرہ ’سخن شعرا ‘ 1864میں ترتیب پایا لیکن اشاعت اس کے دس سال بعد 1874میں ہوئی۔ نساخ نے اسے اپنی بارہ برسوں کی جاں فشانی کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ ’سخن شعرا ‘ تاریخی نام ہے جس سے ۱۲۸۱ھ یعنی سالِ ترتیب برآمد ہوتا ہے۔ محمود الٰہی نے اسے انیسویں صدی میں اردو شاعروں کا اردو میں لکھا جانے والا آخری ضخیم تذکرہ قرار دیا ہے۔ (18)نساخ کثیر المطالعہ شخص تھے۔ انھوں نے ماقبل کے تمام تذکروں کا مطالعہ کیا اور شعوری طور پر کوشش کی کہ ان کا تذکرہ سب سے مختلف انداز کا ہو۔ اختصار اور جامعیت کے اصول پر چلتے ہوئے انھوں نے 2480شعرا کا تذکرہ مرتب کیا جس میں 2441شعرا، اور 39شاعرات ہیں۔ انھوں نے براہ راست اپنے عہد کے شعرا سے رابطہ کر کے حالات اور کلام جمع کیے۔ نساخ مومن کے باب میں رقم طراز ہیں :
مومن تخلص ، حکیم محمد مومن خان مرحوم ولد حکیم غلام نبی خان مغفور دہلوی ایک یا دو غزل میں نصیر دہلوی سے اصلاح لی تھی۔ اصلاح پسند نہ آئی۔ ۱۲۶۸ھ بارہ سو اٹسٹھ ہجری میں قضا کی ۔ ماتم مومن خان ان کی وفات کی تاریخ ہے۔ علم تجنیم و طب میں خوب دخل رکھتے تھے۔ جمیع اصناف سخن پر قادر تھے۔ اشعار ان کے پر مضمون و شیرین و عاشقانہ و نمکین ہوتے ہیں ۔ راقم کے زعم میں اس مزے کی طبیعت کا کوئی شاعر ریختہ گویوں میں گزرا نہیں ۔ کلیات ان کا نظر سے گزرا۔ (19)
تذکرے مومن تک پہنچنے کا براہ راست ذریعہ ہیں، لیکن تشنہ ہیں۔ مولوی کریم الدین طبقات شعرائے ہند ، امداد امام اثر کاشف الحقائق ، صفیر بلگرامی جلوۂ خضر ، مولانا عبد الحئی گل رعنا ، عبدالسلام ندوی شعر الہند وغیرہ نے بھی مومن کے احوال پر مختصر روشنی ڈال کر کلام کا انتخاب پیش کر دیا اور زیادہ ہوا تو ان کے تلامذہ پر گفتگو کر لی۔ ان کے کلام کی دو چار خصوصیات بتا کر ہاتھ جھاڑ لیا۔ تذکروں سے تاریخ تک کے سفر میں کافی نشیب و فراز ہیں۔
تذکروں کے ساتھ تاریخ کے صفحات بھی شعرو ادب کے حوالہ جات سے پُر ہیں۔ رام بابو سکسینہ نے ’تاریخ ادب اردو ‘ انگریزی میں تحریر کی تھی جس کا اردو ترجمہ مرزا محمد عسکری نے کیا۔ سکسینہ نے یہ تاریخ کیوں مرتب کی ؟ سکسینہ کہتے ہیں، ’’اس کتاب کی تصنیف کی اصلی غرض یہ ہے کہ ادب اردو کی تدریجی ترقی کا خاکہ زمانہ قدیم سے لے کر زمانہ حال تک کا مع مشہور شعرا اور نثاروں کے مختصر حالات زندگی اور ان کے کلام اور تصانیف پر ایک مختصر تنقید کے کھینچا جائے۔ ‘‘(20)’آب حیات ‘ ہو یا ’سخن شعرا ‘، ’ جلوۂ خضر ‘ ہو یا ’شعر الہند ‘، کہیں تنقید پر اصرار نہیں کیا گیا۔ پہلی دفعہ رام بابو سکسینہ نے تنقید کا لفظ استعمال کر کے تنقید کی اہمیت اور اس کی ضرورت پر زور دیا۔ پہلی بار یہ محسوس کیا گیا کہ ادب کی ترویج میں تحریکات و رجحانات کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے۔ اس لیے سکسینہ نے تحریکوں اور طرزوں کی ابتدا اور ترقی اور زوال کے اسباب پر غور کیا۔ اس تصنیف میں میرے پیش نظر یہ رہا ہے کہ زمانہ حال کے تنقیدی اصولوں کے مطابق بطور ٹکسٹ بک تیار کی جائے تاکہ انگریزی دان جماعت بھی اردو ادب سے کماحقہ واقف ہو جائے۔ (21)سکسینہ نے پروفیسر سینٹیسبری کی کتاب ’مختصر تاریخ انگریزی علم و ادب ‘ کے طرز پر یہ کتاب ترتیب دی۔ ان کو کیا خبر تھی کہ نصابی ضرورت کے لیے تیار کی گئی یہ کتاب، تاریخ ادب اردو میں اہم مقام بنا لے گی۔ مرزا محمد عسکری ’ التماسِ مترجم ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ اول سے آخر تک اس کتاب کے دیکھنے والے جانتے ہیں کہ مصنف موصوف نے جس کاوش، جس کوشش و زورِ مطالعہ اور وسعتِ نظر سے اس میں کام لیا ہے۔ اسلوبِ بیان و تنقید وغیرہ میں جو صفائی مد نظر رکھی ہے۔ شعرا اور نثاروں کے کلام کا توازن کر کے ان پر جیسی صحیح بے باکانہ اور بے لاگ آرا قائم کی ہیں وہ اس کتاب کو ہر حیثیت سے منفرد صورت میں پیش کرتی ہیں۔ ‘‘(22)عسکری نے ان کی جتنی تعریف ہو سکتی تھی، کر ڈالی، لیکن سکسینہ کو اپنی کم مائیگی کا احساس تھا۔ اسی لیے انھوں نے کوئی دعویٰ نہیں کیا اور اسے مکمل یا غلطیوں سے مبرا نہیں بتایا۔ اس کے لیے انھوں نے پروفیسر سینٹیسبری کا مزاحیہ قول بھی نقل کیا کہ اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ میں نے ایسی کتاب لکھی ہے جس میں کوئی غلطی نہیں ہے تو وہ مسخرہ جھوٹا ہے اور جو شخص کسی دوسرے سے ایسی کتاب لکھنے کی امید رکھے جس میں کوئی غلطی نہ ہو وہ اس سے بڑھ کر لغو ہے۔ (23)سکسینہ کی تاریخ میں کمیاں کافی ہیں لیکن چوں کہ یہ اولین تاریخوں میں ہے، اس لیے اس کی بعض کمیاں نظر انداز کی جا سکتی ہیں۔ سکسینہ نے مومن کے حالات، تصانیف، رنگ کلام، شاعرانہ مقام کا تعین اور ان کے تین اہم تلامذہ سے متعلق اظہار خیال کیا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں دہلی اجڑتی اور بستی رہی۔ ولی کی آمد کے بعد یہاں بھی ریختہ گوئی کا رواج ہو گیا۔ پھر ایک وقت آیا جب لوگ ہجرت کر کے لکھنؤ جانے لگے۔ ایک نیا دبستان سامنے آیا۔ نادر شاہی حملوں کے بعد دیگر مراکز بھی بنے۔ اودھ کی کشش شعرا کو کھینچ رہی تھی لیکن کچھ شعرا، ایسے بھی تھے جنھیں دہلی چھوڑنا گوارا نہ تھا۔ دہلی میں ویرانی اپنا سایہ دراز کر رہی تھی۔ محسوس ہوتا تھا کہ سب کچھ ختم ہو جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مغلیہ سلطنت اپنی آخری سانسیں گن رہی تھی اور ایک عظیم شعری روایت اپنے عروج کو پہنچنے والی تھی۔ غالب، مومن، ذوق، ظفر، شیفتہ …۔ یہ وہ ستون ہیں جنھوں نے انیسویں صدی میں اردو شاعری کو لازوال بنا دیا۔ ’ہر عروجِ را زوال ‘، زمانے کا دستور ہے۔ سیاسی و سماجی اتھل پتھل تاریخی حقیقت ہے۔ کہتے ہیں کہ پر آشوب دور داخلی کیفیات کے اظہار کے لیے بڑا راس آتا ہے۔ دہلی کو اجڑتے ہوئے میر نے بھی دیکھا تھا۔ اسی لیے میر کی شاعری کو دل اور دلی کا مرثیہ بھی قرار دیا گیا :
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
احتشام حسین نے صحیح کہا ہے کہ دلی مٹ مٹ کر بستی اور مر مر کر جیتی رہی۔ 1857کا واقعہ غالب کی زندگی کا تاریخی موڑ ہے۔ خون سے لکھی گئی تاریخ اور جذبات کے امڈتے لہو کے سیلاب میں کی جانے والی شاعری نے باور کرایا کہ ’جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکے تو پھر لہو کیا ہے ‘؟مومن 1857کے قہر تک موجود نہ تھے، کیوں کہ 1852میں ان کا انتقال ہو گیا تھا لیکن انھوں نے بغاوت کی آندھی کی آہٹ محسوس کر لی تھی۔ انگریزی تسلط کے خلاف مثنوی ’جہادیہ ‘ لکھی۔ ان کی ذہنی تشکیل میں اس عہد کے خارجی محرکات نے اہم کردار ادا کیا۔ محض داخلیت کوئی شے نہیں اور شاعری میں محض خارجیت نام کی کسی چیز کا گزر نہیں۔ دونوں کے امتزاج ہی سے تخیل رنگ آمیزی کرتا ہے۔ انیسویں صدی کے سیاسی ہندوستان کا عکس غالب و مومن کی زندگی میں صاف نظر آتا ہے۔ مومن نے ایسے وقت میں آنکھیں کھولیں جب ہندوستان کی سیاست اہم سیاسی فیصلوں کا سامنا کرنے والی تھی۔ ’’ مومن کی پیدائش سے تین سال پیشتر 1797میں افغانستان کا امیر شاہ زمان سرحد اور پنجاب کو روندتا ہوا لاہور تک چڑھ آیا تھا۔ اس کا ارادہ دلی تک جانے کا تھا اور اس کا عزم یہ تھا کہ وہ مغلیہ خاندان کے اقتدار کو بحال کرانے کے لیے شمالی ہند سے مرہٹوں کا خاتمہ کر دے۔ شاہ زمان کی فوجی مہمات سے اٹھارہویں صدی کے آخری برسوں میں کلکتہ میں بیٹھے ہوئے ایسٹ انڈیا کمپنی کے حکام کے لیے شدید خطرات پیدا ہو گئے تھے۔ یوں معلوم ہونے لگا تھا کہ دلی کی طرف بڑھتے ہوئے کمپنی کے قدم تھرتھرانے لگے ہیں مگر 1798میں شاہ زمان کو ایرانیوں کے خلاف اپنی مغربی سرحدوں کی حفاظت کرنے کے لیے لوٹ جانا پڑا۔ مومن کی پیدائش سے سال بھر پہلے مئی 1799میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار اور جبر کے خلاف جنگ کرنے والے ہندوستانی سپاہی سلطان ٹیپو کی شہادت واقع ہو چکی تھی۔ ‘‘ (24)مومن 1800میں پیدا ہوئے۔ اس وقت دلی پر مادھوجی سندھیا کے جانشین دولت راؤ سندھیا کی عمل داری تھی۔ اس کی حکومت دلی سے آگرے تک تھی۔ شاہ عالم ثانی اس وقت دہلی کے بادشاہ تھے جو سیاسی طاقت سے محروم تھے۔ مرہٹہ سرداروں کے رحم و کرم پر گزربسر ہو رہی تھی۔ قلعے کی چار دیواری میں قید و بے بس تھے۔ مومن ابھی بچے ہی تھے کہ 1806میں شاہ عالم ثانی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ (25)سلطنت مغلیہ کا زوال اورنگ زیب کے عہد ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔ جاٹوں، مرہٹوں، سکھوں اور روہیلوں کے حملوں کے بعد داخلی سازشوں نے اس سلطنت کی بنیادیں ہلا دیں۔ دہلی کا تخت گردشِ زمانہ کا شکار تھا۔ شاہانِ دہلی اقتصادی اور اخلاقی بحران میں مبتلا تھے۔ رنگ رلیاں منائی جا رہی تھیں۔ اورنگ زیب کے بعد شاہ عالم اول، کام بخش، جہاندار شاہ، فرخ سیر سے لے کر بیدار بخت، اکبر شاہ ثانی اور بہادر شاہ ثانی ظفر تک کا سیاسی، اخلاقی اور اقتصادی دیوالیہ پن تاریخ میں کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں۔ نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کی لوٹ مار کے بعد انگریزی حکومت کے تسلط نے مغلیہ حکومت کو مفلوک الحال کر دیا۔
شاہ ولی اللہ دہلوی نے اس عہد کا سورج دیکھا جب مغلیہ سلطنت کا چراغ غروب ہو رہا تھا۔ تنزلی محض خارج میں نہیں تھی، بلکہ معاشرے کا داخلی نظام ابتری کی نذر ہو چکا تھا۔ ’’مرکز کی کمزوری کے باعث شاہجہاں اور اورنگ زیب کی دلّی محض خواب بن کر رہ گئی تھی۔ بادشاہ عیش و راحت میں مشغول تھے۔ امرا اپنی رنگ رلیوں میں یا سازشوں میں محو تھے۔ علما نے گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی۔ صوفیوں کو خانقاہوں کے سوا باہر کی خبر نہ تھی۔ ‘‘ (26) جہاں دار شاہ ہو یا فرخ سیر سب نے اپنی عیاشی کے لیے شاہی خزانے کا منہ کھول رکھا تھا۔ پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا تھا۔ پے در پے حملوں نے اقتصادی طور پر مفلوج کر دیا۔ نتیجے میں فوج بھی سرکش ہو گئی اور داخلی بغاوت نے سر اٹھا یا۔ عسکری نظام میں استحکام نہ رہا۔ ایسی صورت حال میں کسی مصلح اور انقلابی ذہن کی ضرورت تھی۔ مصلح کی حیثیت سے شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا ظہور ہوا۔ ان کی سیاسی بصیرت کے سب قائل ہوئے۔ انھوں نے مغلیہ سلطنت کے زوال کے جو اسباب بتائے انھیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں :
(1)خالصہ کے علاقے کا محدود ہونا
(2)خزانے کی قلت
(3)جاگیرداروں کی کثرت
(4)اجارہ داری کے مسموم اثرات
(5)افواج کو وقت پر تنخواہ نہ ملنا (27)
شاہ ولی اللہؒ کا ذہن تصوف کی طرف مائل تھا۔ وہ تصوف کو علم و عمل کا امتزاج سمجھتے تھے۔ انھوں نے اپنے افکار سے علم و عمل کا وہ در وا کیا جس سے ایک عہد نے فیض پایا۔ شاہ عبدالعزیزؒ ان کے بڑے صاحب زادے تھے۔ شاہ ولی اللہؒ کی وفات کے بعد شاہ عبدالعزیزؒ ان کے جانشین ہوئے۔ والد کی طرح انھوں نے بھی اپنے فکر و عمل سے بڑے حلقے کو متاثر کیا۔ مومنؔ کے والد غلام نبی خاں کا مکان ان کی خانقاہ کے قریب تھا۔ مومن کے والد کا خانقاہ میں آنا جانا بھی تھا۔ وہ شاہ صاحب سے متاثر تھے۔ مومن کا شاہ صاحب کے خاندان سے گہرا رشتہ تھا۔ ان کی پیدائش کے بعد کان میں شاہ صاحب ہی نے اذان دی اور مومن خاں نام بھی انھوں نے ہی رکھا۔ ان کے شاگردوں میں شاہ رفیع الدینؒ، شاہ عبدالقادرؒ، شاہ عبد الغنیؒ ، شاہ محمد اسحقؒ ، مفتی صدرالدین آزردہ، حضرت سید احمد شہیدؒ، مولوی شاہ اسمٰعیلؒ، مولانا فضل حق خیرآبادیؒ وغیرہ جیسی ہستیاں تھیں اور بقول ظہیر احمد صدیقی ’ ایک آفتاب کے گرد اتنا بڑا نظام شمسی قائم تھا اور ان میں ہر ایک بذات خود روشنی کا ایک کر ّہ تھا۔ ‘شاہ عبدالقادرؒ، شاہ ولی اللہؒ کے فرزند اور شاہ عبدالعزیزؒ کے چھوٹے بھائی تھے۔ ’آب حیات ‘ کے مطابق، مومن نے ’’بچپن کی معمولی تعلیم کے بعد جب ذرا ہوش سنبھالا تو والد نے شاہ عبدالقادرؒ صاحب کی خدمت میں پہنچایا۔ ان سے عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھتے رہے۔ حافظے کا یہ حال تھا کہ جو بات شاہ صاحب سے سنتے تھے، فوراً یاد کر لیتے تھے۔ اکثر شاہ عبدالعزیزؒ صاحب کا وعظ ایک دفعہ سن کر بعینہ اسی طرح ادا کر دیتے تھے۔ جب عربی میں کسی قدر استعداد ہو گئی تو والد اور چچا حکیم غلام حیدر خاں اور حکیم غلام حسن خاں سے طب کی کتابیں پڑھیں اور انھی کے مطب میں نسخہ نویسی کرتے رہے۔ ‘‘ (28)شاہ عبدالعزیزؒ سے انھیں عقیدت تھی۔ ان کی وفات پر انھوں نے تاریخ لکھی :
دست بے داد اجل سے بے سروپا ہو گئے
فقر و دیں فضل و ہنر لطف و کرم علم و عمل
۱۲۳۹ھ
شاہ عبدالعزیزؒ کے انتقال کے بعد بھی ملک کے حالات میں کچھ زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ مغلیہ سلطنت اپنے آخری دن گن رہی تھی۔ مسلمانوں کے دل میں انگریزی حکومت کے خلاف غم و غصہ تھا۔ تحریک جہاد کی ضرورت محسوس کی گئی۔ سید احمد شہید رائے بریلوی نے شاہ عبدالعزیزؒسے بیعت کی۔ ان کی قیادت میں تحریک جہاد کا اعلان کیا گیا جس کا مقصد اصلاحی بھی تھا اور انقلابی بھی۔ جہاد کی دو سطحیں تھیں۔ اول تو مذہبی خرافات اور سماجی و اخلاقی گراوٹوں کی اصلاح اور دوم، سیاسی جبر سے نجات۔ انگریزی تسلط سے آزادی اور عدل و رواداری کی اساس پر حکومت کا قیام، اس تحریک کا مقصد تھا۔ انگریزوں نے اسے وہابی تحریک کا نام دیا اور وہابی اور غدّار کو ہم معنی قرار دیا۔ سید احمد شہید نے ۱۲۴۲ھ 1826ئمیں جہاد کے لیے بیعت شروع کی۔ شاہ عبدالعزیزؒ کے خاندان کے اکثر افراد نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ شاہ اسماعیلؒ کا نام سر فہرست ہے۔ مومن جو ایک طرف عاشقانہ مزاج رکھتے تھے اور کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل جانے کی بات کر رہے تھے، جذبۂ جہاد سے سرشار ہوئے۔ جوشِ جہاد میں اعلانِ جہاد کی تاریخ کہی :
جو سید احمد امامِ زمان و اہلِ زمان
کرے ملاحدۂ بے دین سے ارادۂ جنگ
تو کیوں نہ صفحہ عالم پہ لکھے سال وغا
خروج مہدی کفار سوز کلک تفنگ
۱۲۴۲ھ/1826ئ
نادم بلخی نے اپنی کتاب ’ شعاع نقد ‘ میں پہلا مضمون ’ مومن اور وہابی تحریک ‘ شامل کیا ہے جو اس ضمن میں اہم معلومات فراہم کرتا ہے۔ مومن عملی طور پر جہاد میں شرکت نہیں کرسکے لیکن لوگوں کو اس کی طرف راغب کرتے رہے۔ ان کے دل میں بھی جذبۂ جہاد موجزن تھا۔ انھیں سید احمد شہید کی تحریک سے قلبی لگاؤ تھا۔ انھوں نے متعدد قصائد فارسی میں اور ایک مثنوی ’جہادیہ ‘ اردو میں لکھی :
عجب وقت ہے یہ جو ہمت کرو
حیات ابد ہے گر اس دم مرو
جو ہے عمر باقی تو غازی ہو تم
سزا وار گردن فرازی ہو تم
یہ ملک جہاں ہے تمھارے لیے
نعیم جناں ہے تمھارے لیے
شراکت یہاں کی ہے طالع کا اوج
کہایسا مام اور ایسی ہے فوج
الٰہی مجھے بھی شہادت نصیب
یہ افضل سے افضل عبادت نصیب
اس عہد کی دہلی پر نظر ڈالیے تو نشیب و فراز، ابتری، تنزلی، سیاسی جبر، اخلاقی پستی اور اقتصادی بدحالی کی تصویریں روشن ہو جاتی ہیں لیکن انھی میں بعض شخصیات ایسی ہوئیں جنھوں نے زمانے کے رخ کو موڑا۔ تہذیب کے بنیادی ڈھانچے کے وقار کو محسوس کیا۔ ظالم سے آنکھیں ملائیں اور ظلم کا مقابلہ کیا۔ تشخص کی جنگ میں اتار چڑھاؤ بہت ہیں۔ نو آبادیات کی سائکی اپنا سایہ دراز کر رہی تھی۔ رد و قبول کا مسئلہ سامنے تھا۔ معاشرتی ہنگام اور سیاسی شکست و ریخت نے پورے تہذیبی ڈھانچے، ثقافتی نظام اور لسانی تشخص کو متاثر کیا۔ یہ معاملات ایک طرف، لیکن جب اس عہد میں دہلی کی ادبی فضا پر نظر ڈالی جائے تو حیرت ہوتی ہے۔ علما، فضلا، شعرا، مشائخ، اطبا اور کیسے کیسے اصحابِ کمال یہاں جمع تھے۔ شاہ احمد سعیدؒ، شاہ عبدالغنیؒ ، شاہ محمد آفاقؒ ، سید احمد شہیدؒ ، شاہ رفیع الدینؒ، شاہ عبدالعزیزؒ، شاہ عبدالقادرؒ، مفتی صدرالدین آزردہؒ، فضل حق خیر آبادیؒ، حکیم احسن اللہ خاں۔ حکیم محمد نجف خاں، حکیم صادق علی خاں، حکیم غلام حیدر خاں، شاہ نصیر، غالب، ذوق، بہادر شاہ ظفر، مومن، شیفتہ، امام بخش صہبائی وغیرہ۔ سیاسی اعتبار سے زمانہ بحران کا تھا، لیکن علمی و ادبی اعتبار سے نہایت توانا تھا۔ یہ اس زمانے کا امتیاز اور فخر تھا کہ ایسے باکمال بیک وقت ایک ہی جگہ جمع ہو گئے تھے۔ مومن نے اپنے عہد کے باطن میں اتر کر اسے محسوس کیا۔ تہذیبی عناصر کو اپنی شخصیت میں جذب کیا۔ مذہبی حمیت کا پاس رکھا۔ انگریزی حکومت کے خلاف جہاد کی حمایت کی۔ مذہبی خرافات کے مخالف ہوئے۔ اصلاحی تحریک سے لے کر انقلابی رویوں کا خیرمقدم کیا۔ مختلف علوم میں مہارت حاصل کی لیکن شاعری کے آگے دیگر علوم پردۂ خفا میں چلے گئے۔ آج مومن کی شناخت کا بنیادی حوالہ ان کی شاعری ہے۔ تاریخ کے صفحات ان کے شعری رنگ و آہنگ اور فکری میلانات کی گواہی دیتے ہیں۔
تواریخ ادب اردو میں مومن کی حیات اور فن پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ سرسید احمد خاں نے ’ آثار الصنادید‘ میں ان کی کافی تعریف کی ہے۔ سید اعجاز حسین نے ’مختصر تاریخ ادب اردو ‘ میں مومن کو دو صفحات دیے ہیں۔ انھی میں ان کی حیات اور کچھ شاعری سے متعلق اظہار خیال کیا ہے۔ تواریخ میں ان کی حیات سے متعلق جتنی بھی معلومات ملتی ہیں، وہ ساری تذکروں کی مرہون منت ہیں۔ اعجاز حسین نے ان پربھی لکھتے ہوئے اختصار سے کام لیا ہے۔ اصل میں ابتدا ئی تاریخیں تذکروں کے مزاج سے زیادہ الگ نہیں۔ یہاں بھی مومن کے بارے میں تاثراتی جملے لکھے گئے ہیں۔ ان تاریخوں میں نظام نقد کی تلاش مناسب نہیں۔ اس لیے کہ یہاں شعری و فکری رویوں اور نظریوں کے بجائے بنیادی معلومات اور تعارف پر توجہ رہتی ہے۔ اعجاز حسین نے مومن کی پیدائش اور ان کے خاندان کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کی شاعری پر اس نوع کی آرا قائم کیں :
۔ کلام دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ معنی آفرینی اور جدت بیان کے لحاظ سے اردو میں کم شعرا اس پایہ کے گزرے ہیں۔ فارسی ترکیبوں اور الفاظ کے الٹ پھیر سے سادی بات کو بھی شاندار بنا سکتے تھے۔ کبھی کبھی الفاظ کی تکرار تاثیر بڑھانے میں مد د، دیتی ہے۔
۔اشعار میں تھوڑی سی پیچیدگی، طنز، تشبیہ اور استعارے کی ندرت ان کی انفرادی خصوصیات میں داخل ہیں اور فرسودہ خیال کو بھی اسلوب بیان کے زور سے نیا کر لیتے ہیں جس سے پر لطف معنویت پیدا ہو جاتی ہے۔
۔ان کی جذبات نگاری میں اصلیت کا پہلو بہت نمایاں رہتا ہے، کیوں کہ وہ واردات قلب اور محبت کی نفسیات کو مد نظر رکھ کر شعر کہتے تھے۔
۔ مومٍن کو مثنوی نگار کی حیثیت سے کوئی خاص شہرت نہیں حاصل ہوئی۔ ان کی مثنویاں ان کی حیات کی آئینہ دار ہیں۔
۔ قصائد کے اعتبار سے وہ قصیدہ لکھنے والوں کی پہلی صف میں نظر آتے ہیں۔ مگر طبیعت کی خود داری کسی بادشاہ یا امیر کا قصیدہ لکھنے سے مانع رہی۔ بزرگان دین کی شان میں متعدد قصیدے کہے۔ (29)
۔اپنے طور پر انھوں نے ادوار قائم کیے ہیں۔ ہر دور کی خصوصیات لکھی ہیں۔ غالب، مومن اور ذوق کے عہد کی خصوصیات لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ غالب اور مومن خیالات اور معنویت کی طرف زیادہ مائل تھے، جبکہ ذوق اور نصیر کا رجحان زیادہ تر زبان اور عروض کی طرف تھا۔ (30)
سید احتشام حسین نے بھی اعجاز حسین سے کچھ زیادہ الگ باتیں نہیں لکھیں۔ ان کی کتاب ’اردو ادب کی تنقیدی تاریخ ‘ بھی تنقید نہیں، تاریخ و تعارف ہے۔ ان کی شاعری پر ان کے خیالات یوں ہیں :
۔ اچھے قصائد اور دلکش مثنویاں لکھنے کے با وجود ان کی شہرت کی بنیاد ان کی غزلیں ہیں۔
۔ ان کی شاعری کا موضوع عشق و محبت ہے اور اسی سے متعلق نفسیاتی اور جذباتی اظہار خیال۔
* مومن نے ایک محدود دائرے کے اندر عاشقانہ جذبات کو جن نئے نئے طریقوں سے پیش کیا ہے وہ دوسرے شاعروں کے یہاں مشکل سے ملے گا۔
۔ان کے خیالات میں صداقت بھی ہے اور نفسیاتی کیفیت بھی لیکن گہرائی نہیں ہے۔
۔ شاعری میں وہ اس روایت کا تتبع کرتے ہیں جسے جرأت نے رواج دیا تھا۔
۔ ان کا محبوب کا تصور عامیانہ نظر آتا ہے۔
۔کہا جاتا ہے کہ جوانی میں کسی طوائف سے یا ایسی ہی عورت سے محبت ہو گئی تھی جس نے ان کی مثنویوں اور غزلوں کو اسی رنگ میں غرق کر دیا۔
۔ زبان کسی قدر فارسی آمیز ہے۔ صنائع بدائع کے زیادہ استعمال سے کہیں کہیں مشکل بھی معلوم ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود اس کا اسلوب اسی طرز کے دوسرے شاعروں سے مختلف ہے۔ کیوں کہ ایک مخصوص پر کیف انداز کے علاوہ وہ جذبات محبت کے معمولی اظہار میں بھی کوئی ایسی پیچیدگی پیدا کرتے جو دلکش تو ہوتی ہے لیکن سمجھنے میں دشواری کا سبب بنتی ہے اور خیالوں کی چھوٹی ہوئی کڑیوں کو اپنی طرف سے جوڑنے ہی پر مطلب نکلتا ہے۔
۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان کی غزلوں میں حسین بے ساختگی، لذت اور کیفیت کی فراوانی ہے جو فکر کا بدل بن جاتی ہے۔ (31)
اعجاز حسین ہی کی طرح انھوں نے بھی اس دور کی خصوصیات لکھی ہیں۔ اس عہد میں غالب کا سب سے بڑا بت بنتا ہے لیکن کوئی مومن کی غزل کا عاشق تھا اور کوئی ذوق کے طرز بیان کا حامی۔ کہتے ہیں کہ اس عہد میں دہلی کی مرتی ہوئی روح جاگ اٹھی تھی۔ زبان صاف ہو گئی تھی۔ مسائل بڑھے۔ غزل غالب و مومن کے ہاتھوں میں پہنچ کر زندگی کا جیتا جاگتا عکس نظر آنے لگی تھی۔ (32)
اعجاز حسین اور احتشام حسین دونوں کے بیانات میں دلائل کا فقدان ہے۔ آرا عمومی ہیں۔ جملے نہ تو کاٹ دار ہیں اور نہ پر مغز۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری کی کتاب ’اردو ادب کی تاریخ ‘ ابتدا سے ۱۸۵۷ء تک سنجیدہ اور عمدہ کام ہے۔ اردو ادب کی تاریخ کے سلسلے میں گیان چند جین اور سیدہ جعفر کی مشترکہ کوششوں اور خصوصاً جمیل جالبی کی تاریخ ادب اردو کا اہم مقام ہے۔ تبسم کاشمیری نے بھی تذکروں اور ابتدائی تاریخوں کے عام ڈھب کو اختیار نہیں کیا۔ اجمال کے بجائے تفصیل سے کام لیا۔ مومن کی حیات کے مختلف پہلوؤں پر اچٹتی سی نظر نہیں ڈالی۔ ان کے خاندان، عہد اور اس عہد کے میلانات پر گفتگو کی۔ ان کی مختلف خصوصیات بیان کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ ’’ بہ ظاہر ان کی شخصیت میں بہت سے متضاد عناصر نظر آتے ہیں مگر انھوں نے ان چیزوں کو اپنی شخصیت میں ڈھال کر ایک امتزاجی اکائی کی شکل دے دی تھی۔ یہی امتزاجی اکائی اردو ادب کی تاریخ میں ان کی پہچان قرار پاتی ہے۔‘‘(33) مختلف تاریخی و سیاسی حوالوں کے پیش نظر تبسم کاشمیری نے مومن کے عہد، ان کی شخصیت اور فکری رویوں کو نشان زد کرنے کی کوشش کی ہے۔ مختلف سوالات اٹھائے ہیں اور معاملات کو شک کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ اردو کی تاریخوں میں یہ خوبی نہیں ملتی۔ اردو تواریخ ادب میں منطقی استدلال، تجزیاتی طریق کار اور واقعات کو تاریخی تناظر میں دیکھنے، جیسے رویوں کی سخت کمی رہی ہے۔ محض واقعہ بیان کر دینا بڑی بات نہیں۔ ان کا سیاق اور جواز فراہم کرنا بھی ضروری ہے اور یہ بغیر تجزیاتی نقطۂ نظر، فکری کاوشوں اور استدلال کے ممکن نہیں۔ سنی سنائی باتوں اور پٹی پٹائی لکیروں پر چل کر کسی بھی موضوع یا کام کے ساتھ انصاف نہیں کیا جا سکتا۔ مومن آخری عمر میں خاصے مذہبی ہو گئے تھے۔ رندی و سرمستی سے تائب ہو گئے تھے۔ مولوی کریم الدین نے اپنے تذکرے ’طبقات شعرائے ہند ‘ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ تبسم کاشمیری لکھتے ہیں :
سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا مومن کا شعری زوال، زوالِ عمر کا نتیجہ تھا ؟ کیا عمر کی تیز رفتاری نے ان کو بازارِ عشق سے نکال دیا تھا ؟ یا قدرتی طور پر شاہد بازی کی زندگی سے وہ اکتا گئے تھے ؟ یا یہ میدان لا حاصلی کی شکل دکھانے لگا تھا؟ کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ خاندان کی روحانی روایات آخر کار غالب آ گئی ہوں ؟ بچپن سے نوجوانی تک جو روحانی کلمات اور اورادِ صبح و شام گھر میں سنے تھے وہ باز گشت بن کر ان پر چھا گئے ہوں۔ روحانیت کا جذبہ مومن میں اس وقت بھی تھا جب وہ جوان تھے شاید یہی جذبہ عمر کے ایک خاص حصے میں غالب آ گیا تھا۔
شاہ حاتمؔ ، مومنؔ ، شیفتہؔ سب کے سب نے توبہ کا دروازہ کھٹکھٹایا سوائے اس ملامتی شاعر کے کہ جس کا نام غالبؔ تھا اور جس نے زندگی اس دروازے کو کھٹکھٹائے بغیر بسر کی۔ اس نے زندگی کا جو اسلوب اختیار کر لیا تھا آخر تک اسے نبھایا۔ شاید اسے آخرت سے دلچسپی نہ تھی۔ (34)
تبسم کاشمیری نے اپنے سوالات پر اصرار نہیں کیا۔ ورنہ اختلاف کی راہیں تو بہت ہیں۔ پہلے جملے میں ’زوال ‘ کا لفظ موزوں نہیں۔ یہاں زوال کی جگہ ’ ٹھہراؤ‘ ہونا چاہیے۔ سوالات قائم کرنے کا یہ ڈھب ہمیں تنقید نے سکھایا۔ تاریخ میں تنقید کی جلوہ گری اردو کی بہت کم تاریخوں میں ملتی ہے۔ یہاں اس کی واضح صورتیں موجود ہیں۔ انھوں نے مومن کے بارے میں اپنی آرا بلا تامل پیش کیں :
مومن کی شاعری میں ہمیں واضح طور پر دو شعری اسلوب ملتے ہیں۔ معنی جلی اور معنی خفی کا اسلوب۔ معنی جلی کا اسلوب وہ ہے کہ جہاں شعر میں معنی کی سطح نہایت صاف و شفاف ہے۔ کسی ابہام یا کسی پیچیدگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ قاری نہایت آسانی سے معنی و مفہوم کی تہہ میں اتر جاتا ہے۔ معنی خفی کا اسلوب وہ ہے کہ جہاں شعر میں ابہام ملتا ہے۔ درمیانی کڑیاں غائب ہیں، کوئی بات محذوف ہے، کوئی ربط غائب ہے یا کوئی سرا ٹوٹا ہوا ہے۔
کائنات اور انسان مومن کو ایک بھید کی صورت میں نظر آتے تھے۔ دنیا اور اس کے مظاہر کے پیچھے بھی ان کو ایک بھید محسوس ہوتا تھا اور وہ عمر بھر ان بھیدوں کو جاننے کے لیے محو جستجو رہے۔ علم نجوم اور رمل وغیرہ سے گہری دلچسپی اور ان پر قدرت رکھنے کا فن بھی اس تجسس کی پیداوار تھا۔ وہ شخص جو انسان اور دنیا کے اسرار جاننے کے لیے بے تاب رہتا تھا اور اپنی مقدور بھر سعی سے ان اسرار سے پردہ اٹھانے میں کوشاں رہتا تھا، اس نے اپنے فن کی دنیا کو اسراریت سے آشنا کیا۔ اس کی شاعری عمر بھر معنی کی مخفی سطحوں کا اظہار کرتی رہی اور وہ قاری کو ان اسرار و رموز کی تہیں کھولنے کے لیے دعوت دیتا رہا۔
مومن نازک خیالی کے لیے مشہور ہے مگر اس کی نازک خیالی ناسخ کی نازک خیالی نہیں ہے جہاں شعر اپنی عام سطح سے بلند ہو کر اوہام کی گہری دھند میں دھندلا جاتا ہے یا بے حد نامانوس تمثالوں کی ایک بے جان دنیا تخلیق کرتا ہے۔ ایسی تمثالیں متخیلہ کے ممکنہ حقائق سے بعید ہوتی ہیں۔ زندگی کی تمام حقیقتیں ان تمثالوں میں سرد، بے رس اور موہوم دکھائی دیتی ہیں۔ مومن اپنی نازک خیالی کی تجربہ کاری میں اس سے بہت مختلف شاعر ہیں۔
غالب کے دور اول کی شاعری کی طرح مومن کی شاعری کا وہ حصہ جو اشکال پسندی کے چیستانی اسلوب کا نمائندہ ہے اپنی قدر و قیمت اپنے ہی زمانے میں کھو بیٹھا تھا۔
گردشِ زمانہ کے بعد مومن کی شاعری کا وہی حصہ باقی رہ سکا ہے جو جذبے، احساس اور خیال سے آباد ہے۔ بہ صورت دیگر مومن کا چیستانی اسلوب غیر آباد اور بنجر دکھائی دیتا ہے۔
مومن کی غزل کو جس تخلیقی قوت نے ادبی تاریخ میں تحفظ فراہم کیا ہے وہ ان کی غزل کا کلاسیکی کمال ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ان کی بہترین تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال ہوا ہے۔
مومن انیسویں صدی کے شعرا میں اس اعتبار سے یکتا ہے کہ اس نے کسی بادشاہ کی مدح میں قصیدہ نہیں لکھا۔ حالاں کہ اس دور کا کون سا شاعر تھا کہ جس نے قصیدہ گوئی کا مظاہرہ نہ کیا تھا۔ قصیدہ اس دور میں شاعر کی قادرالکلامی کی دلیل سمجھا جاتا تھا۔
کیا مومن نے قصیدہ اس لیے نہیں کہا کہ وہ اپنے دور کی بادشاہت کو محض علامتی بادشاہت سمجھتا تھا ؟
مومن اپنے عہد کا خالص رومانوی شاعر تھا۔ وہ پنچایت سے ہٹ کر ادبی خواص کا شاعر تھا۔ وہ اس طبقے کا شاعر تھا جو ذوقِ شعری سے بہرہ مند تھا اور شعری رموز سے آشنا تھا۔ (35)
تبسم کاشمیری کا اندازِ تحریر تنقیدی و تجزیاتی لوازمات کے ہمراہ وارد ہوتا ہے۔ انھوں نے بڑی سنجیدگی سے مومن اور مطالعۂ مومن پر روشنی ڈالی ہے۔ وہاب اشرفی کی ’ تاریخ ادب اردو ‘ کو شائع ہوئے ابھی چند سال ہوئے ہیں۔ اس تاریخ میں جہاں کافی کمیاں اور غلطیاں ہیں، وہیں ایک بڑی خوبی بھی ہے، وہ یہ کہ معاصر ادبا کو بھی اس میں جگہ دی گئی ہے، لیکن یہاں بھی انتخاب میں احتیاط کی ضرورت تھی۔ انھوں نے مومن کے حالات بیان کرتے ہوئے ان کی شاعری پر اظہار خیال کیا ہے۔ تبسم کاشمیری کے مقابلے اس باب میں ان کی تحریر سرسری معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے اس نوع کے نتائج نکالے :
۔ مومن کا عشق حقیقی نہیں، بلکہ مجازی ہے۔
۔ مومن صاحب اسلوب شاعر ہیں۔
۔ مومن کے اسلوب شعر کی دو واضح جہتیں ہوئی۔ ایک مشکل اور پیچیدہ اور دوسری سہل اور رواں، لیکن ابعاد معنی سے ہم کنار۔
۔ مومن کا حساس دل اپنے عشق کو فراموش نہ کرسکا، اور وہ اس کے نت نئے شاخسانے اپنی غزلوں میں پیش کرتے رہے۔
۔ مومن کے یہاں ایک بوطیقا بنتی ہے کہ محدود دائرے میں بھی اچھی شاعری ممکن ہے۔ (36)
وہاب اشرفی کوئی نیا زاویہ پیش نہ کرسکے۔ وہی باتیں دہرائیں جو مومن تنقید میں عام ہیں۔ اردو میں سوانح نگاری کا باقاعدہ آغاز حالی سے ہوا۔ تذکروں میں کوشش ہوتی تھی کہ شاعر کی حیات کے چند پہلو اور کلام جمع کر لیے جائیں۔ ایسے میں نہ حیات کے ساتھ انصاف ہوا اور نہ کلام و انتخاب کلام کے ساتھ۔ سرسری جہان سے گزرنے کا رویہ عرصے تک قائم رہا۔ ہر جا جہانِ دیگر کا تصور بہت بعد میں آیا۔ ’ حیات و فن ‘ قسم کے مقالوں کا رجحان اب بہت عام ہے۔ اگر انصاف کیا جائے تو کسی اہم شخصیت پر اس نوع کے مقالے نہایت کارآمد ہوتے ہیں۔ عرش گیاوی نے ’حیات مومن ‘ لکھ کر مومن کی حیات اور ان کے عہد کے متعلقات کو نشان زد کیا۔ ضیا احمد بدایونی نے ’شرح دیوان مومن‘ میں مومن کے حالات کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے خاندان، تعلیم، علمی اور دیگر مشاغل، شاعری اور تلامذہ، معاش، اولاد، وضع و انداز، عادات و اخلاق، مذہب، وفات و مدفن ۔ عبادت بریلوی نے ’ مومن اور مطالعۂ مومن ‘ دل جمعی اور صراحت کے ساتھ تصنیف کی۔ مومن پر یونیورسٹی کی سطح پر پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری کے لیے عمدہ مقالہ ظہیر احمد صدیقی نے داخل کیا۔ ان کا مقالہ ’ مومن : شخصیت اور فن ‘ غالب اکیڈمی سے شائع ہو کر حوالے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ احسان دانش اور عبدالرحمن اصلاحی نے’ مومن:حیات و شاعری ‘ ترتیب دی۔ اکرام بریلوی نے ’حکیم محمد مومن خاں مومن (شخصیت اور شاعری ) ‘کراچی لکھی۔ نسرین اختر نے ’مومن اور اس کی شاعری ‘لاہور لکھی۔ توقیر احمد خاں نے مومن پر ایک مونوگراف ’مومن خاں مومن ‘ اردو اکادمی، دہلی کے لیے لکھا۔ مومن کا قلمی خاکہ سب سے پہلے مرزا فرحت اللہ بیگ نے ’۱۲۶۱ھ میں دہلی کا ایک مشاعرہ ‘ میں کھینچا۔ رشید حسن خاں کا ترتیب دیا ہوا، اس کا مستند تنقیدی نسخہ، انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دہلی نے شائع کر دیا ہے۔ انجمن کا نسخہ ’دہلی کی آخری شمع ‘ کے نام سے طبع ہوا ہے۔ یہ نام خواجہ حسن نظامی نے رکھا تھا۔ خاں صاحب نے اسی نام کو ترجیح دی۔ فرحت اللہ بیگ سے پہلے محمد حسین آزاد نے ’آب حیات ‘ میں شعرا کا خاکہ اور ان کے عہد کا مرقع کھینچا تھا لیکن جس انداز اور جزئیات کے ساتھ فرحت اللہ بیگ نے مرقع کھینچا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ مومن کا خاکہ اور ان کے گھر کا نقشہ یوں کھینچا ہے :
مومن حکیم صاحب کا مکان چیلوں کے کوچے میں۔ …حکیم آغا جان کے چھتے کے سامنے خاں صاحب کا مکان تھا۔ بڑا دروازہ ہے۔ اندر بہت وسیع صحن اور اس کے چاروں طرف عمارت ہے۔ دو طرف دو صحنچیاں ہیں اور سامنے بڑے بڑے دالان در دالان۔ پچھلے دالان کے اوپر کمرا ہے۔ سامنے کے دالان کی چھت کو کمرے کا صحن کر دیا ہے، لیکن منڈیر بہت چھوٹی رکھی ہے۔ دالانوں میں چاندنی کا فرش ہے۔ اندر کے دالان میں بیچوں بیچ قالین بچھا ہوا ہے، قالین پر گاؤ تکیے سے لگے حکیم صاحب بیٹھے ہیں۔ سامنے حکیم سکھا نند المتخلص بہ رقم اور مرزا رحیم الدین حیا مودب دو زانو بیٹھے ہیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی دربار ہو رہا ہے کہ کسی کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے اور بلا ضرورت بولنے کا یارا نہیں۔
حکیم مومن خاں کی عمر تقریباً چالیس سال کی تھی۔ کشیدہ قامت تھے، سرخ و سفید رنگ تھا جس میں سبزی جھلکتی تھی۔ بڑی بڑی روشن آنکھیں، لمبی لمبی پلکیں، کھنچی ہوئی بھویں، لمبی ستواں ناک، پتلے پتلے ہونٹ، ان پر پان کا لاکھا جما ہوا، مسّی آلودہ دانت، ہلکی ہلکی مونچھیں، خشخاشی ڈاڑھی، بھرے بھرے بازو، پتلی کمر، چوڑا سینہ اور لمبی لمبی انگلیاں، سر پر گھونگر والے لمبے لمبے بال زلفیں بن کر پشت اور شانوں پر بکھرے ہیں۔ کچھ لٹیں پیشانی کے دونوں طرف کاکلوں کی شکل رکھتی ہیں۔ کانوں کے قریب تھوڑے سے بالوں کو موڑ زلفیں بنا لیا تھا۔ بدن پر شربتی ململ کا نیچی چولی کا انگرکھا تھا لیکن اس کے نیچے کرتا نہ تھا اور جسم کا کچھ حصہ انگرکھے کے پردے میں سے دکھائی دیتا تھا۔ گلے میں سیاہ رنگ کا فیتہ، اس میں چھوٹا سا سنہری تعویذ۔ کاکریزی رنگ کے دوپٹے کو بل دے کر کمر میں لپیٹ لیا تھا اور اس کے دونوں سرے سامنے پڑے ہوئے تھے۔ ہاتھ میں پتلا سا خار پشت، پانو میں سرخ گل بدن کا پیجامہ۔ مہریوں پر سے تنگ، اوپر جاکر کسی قدر ڈھیلا۔ کبھی کبھی ایک بر کا پیجامہ بھی پہنتے تھے، مگر کسی قسم کا بھی ہو، ہمیشہ ریشمی اور قیمتی ہوتا تھا۔ چوڑا سرخ نیفہ۔ انگرکھے کی آستینیں آگے سے کٹی ہوئیں، کبھی لٹکتی رہتی تھیں اور کبھی پلٹ کر چڑھا لیتے تھے۔ سر پر گلشن کی دو پلڑی ٹوپی، اس کے کنارے پر باریک لیس، ٹوپی اتنی بڑی تھی کہ سرپر اچھی طرح منڈھ کر آ گئی تھی۔ اندر سے مانگ اور ماتھے کا کچھ حصہ اور بال صاف جھلکتے تھے۔ غرض یہ کہ نہایت خوش پوشاک اور جامہ زیب آدمی تھے۔ (37)
فرحت اللہ بیگ نے مومن کا خاکہ جن الفاظ میں کھینچا ہے، پڑھنے والے کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ انھوں نے مومن کو دیکھا نہیں تھا۔ مومن کی وفات1852میں ہوئی اور فرحت اللہ بیگ 1884میں پیدا ہوئے۔ بتیس برسوں کا فاصلہ ہے لیکن انھوں نے اس نوع کے تمام خاکے تذکروں، فوٹو یاقلمی تصاویر اور اپنے بڑے بوڑھوں سے پوچھ کر تیار کیے اور انھیں زندۂ جاوید کر دیا۔ وہ خود کہتے ہیں کہ انھوں نے ہر صورت میں شہادتِ تائیدی کے مقابلے میں شہادتِ تردیدی کو زیادہ وقعت دی ہے۔ یعنی اگر کسی واقعے کے بارے میں ایک بھی مخالف بات معلوم ہوئی تو اُس واقعے کو قطعاً ترک کر دیا۔ مومن کے حلیے کے ساتھ مشاعرے میں ان کے کلام سنانے کے انداز کوبھی انھوں نے قلم بند کیا ہے :
جب شمع حکیم مومن خاں مومنؔ کے سامنے پہنچ گئی، اس وقت لوگوں کا جوش کم ہوا اور اِس ریختے کے استاد کا کلام سننے کو سب ہمہ تن گوش ہو گئے۔ انھوں نے شمع کو اٹھا کر ذرا آگے رکھا، ذرا سنبھل کر بیٹھے، بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کی، ٹوپی کو کچھ ترچھا کیا، آستینوں کی چنٹ کو صاف کیا اور بڑی درد انگیز آواز میں دل پذیر ترنم کے ساتھ یہ غزل پڑھی ……شاعری کیا تھی جادو تھا، تمام لوگ ایک عالم محویت میں بیٹھے تھے۔ وہ خود بھی اپنے کلام کا مزہ لے رہے تھے۔ جس شعر میں ان کو زیادہ لطف آتا تھا، اُس کے پڑھتے وقت اُن کی انگلیاں زیادہ تیزی سے بالوں میں چلنے لگتی تھیں۔ بہت جوش ہوا تو کاکلوں کو انگلیوں میں بل دے کر مڑوڑ نے لگے۔ کسی نے تعریف کی، تو گردن جھکا کر ذرا مسکرادیے۔ پڑھنے کا طرز بھی سب سے جدا تھا۔ ہاتھ بہت کم ہلاتے تھے اور ہلاتے بھی کیسے، ہاتھوں کو بالوں سے کب فرصت تھی، ہاں آواز کے زیر و سبم اور آنکھوں کے اشاروں سے جادو سا کر جاتے تھے۔ غزل ختم ہوئی تو تمام شعرا نے تعریف کی۔ سن کر مسکرائے اور کہا : آپ لوگوں کی یہی عنایت تو ہماری ساری محنتوں کا صلہ ہے، میں تو عرض کر چکا ہوں :
ہم داد کے خواہاں ہیں، نہیں طالبِ زر کچھ
تحسینِ سخن فہم ہے مومن ! صلہ اپنا
(38)
محمد حسین آزاد اور فرحت اللہ بیگ کی کاوشوں نے تاریخ کو تخلیق کے دھاگے میں پرویا اور اردو تہذیب کا مرقع کھینچ کر نقشِ دوام ثبت کیا۔ مومن کی حیات کو تاریخی تسلسل میں دیکھنے کی سنجیدہ کوشش ان کی سوانح عمری میں ملتی ہے۔ تذکروں، تواریخ اور خاکوں کے حدود میں حیات کا بہ تدریج ارتقائی چہرہ روشن نہیں ہوتا۔ تذکروں میں مومن کی حیات سے متعلق اطلاعات تشنہ ہیں۔ ’آب حیات ‘ میں ان کے بارے میں جو کچھ لکھا ہوا ہے، وہ آزاد کے قلم سے نہیں، بلکہ حالی کے ’الطاف و کرم ‘ کا ثمرہ ہے اور غیر اطمینان بخش ہے۔
مومن کی حیات پر سب سے اچھی، معتبر اور مفصل کتاب عرش گیاوی کی ’ حیات مومن ‘ ہے۔ اس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عرش نے کس قدر محنت صرف کی ہے۔ اس نوع کے کام جنون کی سطح پر ہی انجام پاتے ہیں۔ عرش نے مومن کی سوانح عمری لکھنے کی ٹھانی، لیکن حیات مومن کی کڑیاں غائب تھیں۔ انھیں ملانے کے لیے انھوں نے دن رات ایک کر دیے۔ غالب کو اپنے شاگردوں میں حالی مل گئے جنھوں نے ’یاد گار غالب ‘ لکھی اور ان کے حالات تفصیل سے فراہم کر دیے۔ ذوق کو محمد حسین آزاد مل گئے جنھوں نے ’آب حیات ‘ لکھی اور ذوق کو عظیم ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مومن کو شیفتہ تو ملے، لیکن انھوں نے دور تک ساتھ نہ دیا۔ ’گلشن بے خار ‘ مومن کے حالات کا مرجع نہیں۔ شیفتہ نے ان کے حالات پر بالکل توجہ نہ دی۔ بس ان کی تعریف میں انشا پردازی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ ’آب حیات ‘ میں کم از کم ان کے حالات پر توجہ دی گئی ہے۔ ان سے متعلق آزاد کو جو تحریر ملی تھی اگر وہ اس میں کاٹ چھانٹ نہ کرتے اور پوری تحریر شامل کرتے تو کچھ اور روشنی پڑسکتی تھی۔ مدعا یہ ہے کہ پہلی سنجیدہ کوشش عرش گیاوی نے کی کہ مومن کے حالات مفصل جمع کیے جائیں۔ مومن کی تصویر کے حصول کی خاطر امیراللہ تسلیم لکھنوی کے پاس گئے، لیکن ان کی پیری نے لاحاصل کیا۔ علی گڑھ ہوتے ہوئے رام پور گئے۔ راستے میں حسرت موہانی مل گئے۔ انھوں نے بتایا کہ مومن کی ایک تصویر کتب خانہ رام پور میں ہے۔ پرانے لوگوں سے معلوم ہوا کہ مومن غدر سے بہت پہلے عہدِ نواب محمد سعید خاں میں اور بعض کے مطابق عہدِ نواب یوسف علی خاں میں نواب صدیق حسن خاں بھوپال کے ہمراہ رام پور تشریف لائے تھے۔ اسی زمانے میں ان کی تصویر کھینچی گئی تھی۔
مومن کی جو تصویر آج ہم تک پہنچی ہے وہ مرزا فرحت اللہ بیگ دہلوی کی کوششوں کا ثمرہ ہے۔ مومن کے رشتہ دار خواجہ امان دہلوی کی بنائی ہوئی مومن کی تصویر انھی کی وجہ سے پہلی بار سامنے آئی۔ پھر رسالہ’ اردو‘ حیدرآباد اور رسالہ ’نگار‘لکھنؤ1928میں بھی یہی تصویر شائع ہوئی۔
اسی طرح مومن کے مزار کی تلاش بھی انھی کی تحقیق کے بعد روشن ہوئی۔ انھوں نے تلاش کے سارے مراحل اپنی کتاب میں لکھ دیے ہیں۔ انھوں نے حیات مومن کے ان پہلوؤں پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے اور تاریخی تسلسل میں انھیں ترتیب دیا ہے۔ خاندان، وطن، صورت معاش، ولادت، نام اور تعلیم، نجوم اور شطرنج وغیرہ، علم نجوم اور رمل کا کمال، حلیہ اور وضع، شادی، تعشق، استغنائی، تلمذ، بیعت اور عقائد، طرز غزل خوانی، تصانیف، اندازِ تحریرِ ، طریقۂ اصلاح، تلامذہ اور ان کا کلام، موت، اولاد، تنقید کلام۔
عرش گیاوی کے بعد ضیا احمد بدایونی نے دیوان مومن کے معتبر نسخے کی ترتیب و شرح کے ساتھ ان کے حالات پر توجہ دی اور انھوں نے بھی عرش گیاوی سے استفادہ کیا۔ لکھتے ہیں :
سیرت کے لیے گلشن بے خار۔ آب حیات۔ گل رعنا۔ شعر الہند اور دوسرے تذکروں کے علاوہ اپنے محب مکرم فنا فی المومن حضرت عرش گیاوی کی حیات مومن اور مخدوم و معظم سید ناصر حبیب دہلوی نبیرہ مومن اور محترمہ کنیز فاطمہ بنت سید صاحب موصوف کے ارسال کردہ حالات سے استفادہ کیا۔ (39)
ضیا احمد بدایونی نے اجمالاً مومن کے حالات بیان کیے۔ ان پہلوؤں پر معلومات فراہم کیں : خاندان، تعلیم، علمی و دیگر مشاغل، شاعری اور تلامذہ، معاش، اولاد، وضع و انداز، عادات و اخلاق، مذہب، وفات و مدفن۔
مومن کے حالات کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنے والوں میں ایک اہم نام کلب علی خاں فائق کا بھی ہے۔ 1959میں ان کا مضمون ’حیات مومن ‘ اورینٹل کالج میگزین، لاہور میں شائع ہوا۔ 94صفحات پر مبنی یہ مضمون تحقیقی نوعیت کا ہے جس میں ممکنہ حوالوں کی روشنی میں مومن کے حالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ خاندان، شجرۂ نسب، ولادت، نام، ابتدائی تعلیم، تحصیل طب، علم نجوم، شطرنج، موسیقی، تعویذ نویسی، حیات معاشقہ، آغاز شاعری، عقائد اور بیعت، مشرب، مجلسی زندگی، سیاست، تصانیف، بیویاں اور اولاد کے ذیلی عنوانات کے تحت متعدد مآخذ کی نشاندہی کرتے ہوئے تفصیلی طور پر حیاتِ مومن کے اجزا کو نشان زد کیا گیا ہے۔ عرش گیاوی کے بعد کلب علی خاں فائق نے ان کی زندگی پر مفصل توجہ دی۔ انھوں نے متعدد سوالات کے ذریعے مقالے کا آغاز کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اردو شاعری میں مومن کا مقام متعین کر کے انھیں انصاف دلوانا چاہتے ہیں، لیکن مضمون پڑھ کر ایسا محسوس نہیں ہوتا۔ جس تیور میں مضمون شروع ہوتا ہے، وہ سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے اور عنوان کے بموجب ہی مضمون آگے بڑھتا ہے :
مومن کی اہم شخصیت کو آج تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور غالب کو نمایاں کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ آخر کیوں ؟ کیا واقعی مومن کی شاعری پست اور اس کا مقام شاعری فروتر ہے۔ اور غالب کا مرتبۂ سخن بلند تر، مومن کی زندگی میں معاصرین شعرا کا چراغ شاعری اس کے سامنے نہ جل سکا۔ اس کے کیا اسباب تھے؛ پھر مومن کے مرنے پر اس کو یکسر کیوں بھلا دیا گیا، کیا اس کی روش سخن گوئی جدت اور ندرت خیال اور مضمون آفرینی سے خالی ہے۔ یہ سوالات اور ایسے ہی دوسرے سوال برابر ذہن میں پیدا ہوئے تو مومن کے کلام کے مطالعے کی کوشش کی گئی۔ (40)
عبادت بریلوی کی کتاب ’ مومن اور مطالعۂ مومن ‘ اس ضمن میں اہم حوالے کی حیثیت رکھتی ہے۔ عبادت بریلوی کہتے ہیں :
میں نے اس کتاب کی ترتیب میں مومن کی شخصیت اور شاعری سے متعلق تقریباً تمام مواد کو پیش نظر رکھا ہے، اور اب تک اس موضوع پر جتنی بھی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تحریریں دستیاب ہوئی ہیں، ان سے حتی الامکان استفادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ (41)
عبادت بریلوی کی کتاب سا ت ابواب پر مشتمل ہے جو ان کی حیات اور شاعری کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔ ابواب کی درجہ بندی یوں ہے :
(1) حالات
(2)شخصیت
(3) ماحول
(4) تصانیف
(5) غزل
(6) مثنویاں
(7) اہمیت مومن پر مختلف مصنفین کی آرا
518صفحات پر مشتمل عبادت بریلوی کی کتاب مومن اور مطالعۂ مومن کے باب میں روشنی ڈالتی ہے۔ عبادت بریلوی نے پہلے باب میں تذکروں کی نارسائی کا ذکر کرتے ہوئے حیات مومن کے اہم مآخذ کی جانب اشارہ کیا ہے۔ تذکروں میں ان کے بارے میں کیا کچھ لکھا گیا ہے، اسے نشان زد کیا ہے۔ حیات کے کچھ گوشوں پر عرش گیاوی سے اختلاف کیا ہے۔ شاعرانہ مقبولیت کے اسباب پر نظر ڈالی ہے۔ ان کے معاصرین کی نظر میں ان کی کیا اہمیت تھی، اس کی وضاحت کی ہے۔ ان کے شاگردوں کا کچھ ذکر کیا ہے۔ مختلف واقعات بیان کیے ہیں۔ ان کی مثنویوں کے ذکر میں ان کے معاشقوں پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔ اس کے بعد ان کی وفات تک کے حالات تفصیل سے بیان کیے ہیں جس کے لیے انھوں نے ان کے خاندان کے بعض افراد سے رابطہ بھی کیا۔ کتاب کا دوسرا باب ان کی شخصیت کو محیط ہے، لیکن یہ کوئی الگ باب معلوم نہیں پڑتا۔ دونوں ایک ہی باب معلوم پڑتے ہیں۔ اس لیے کہ دونوں ہی مومن کے حالات اور ان کے ماحول کی روشنی میں مرتب کیے گئے ہیں۔ اس باب میں مومن کے مزاج، اخلاق و عادات اور ذہنی رویوں کو بعض واقعات کی رو سے سمجھنے کی سعی کی گئی ہے :
مومن کی زندگی کے ان حالات میں ان کی شخصیت کو سمجھنے کا بڑاسامان ہے۔ ان کو سامنے رکھا جائے توان کی زندگی کے بہت سے ایسے پہلوؤں سے واقفیت ہوتی ہے جو بظاہر تو نظر نہیں آتے لیکن جو ان کی شخصیت میں ساری زندگی اندر ہی اندر ایک ہیجان اور ہنگامہ سا برپا کرتے رہے۔ یہ حالات بتاتے ہیں کہ مومن کس خاندان سے تعلق رکھتے تھے، ان کی نسلی خصوصیات کیا تھیں اور ان نسلی خصوصیات کے اثرات ان کی شخصیت کے کن پہلوؤں میں اپنی جھلک دکھاتے ہیں۔ ان سے اس بات کا علم بھی ہو جاتا ہے کہ ان کے والد کا ان پر کتنا اور کیسا اثر تھا ؟ جب تک وہ زندہ رہے انھیں کس طرح متاثر کرتے رہے اور جب ان کا انتقال ہو گیا تو ان پر اس سانحے سے کیا گزری ؟ ان کی ذہنی کیفیت کیا ہوئی اور زندگی میں جن پریشانیوں سے انھیں دوچار ہونا پڑا، اس کے نتیجے میں ان کے یہاں کون سے ذہنی رجحانات پیدا ہوئے ؟ جس مخصوص انفرادی ماحول میں انھوں نے آنکھ کھولی اور جس نجی فضا میں ان کی زندگی کا ابتدائی زمانہ گزرا، اس نے ان کے کردار میں کون سے رنگ نمایاں کیے ؟ اس زمانے میں جن شخصیتوں سے انھیں واسطہ پڑا، اور جنھوں نے ان کی ذہنی نشو و نما میں حصہ لیا، ان سے ان کی کیا کیفیت ہوئی ؟ ان کی تعلیم کس طرح ہوئی، کن لوگوں نے انھیں تعلیم دی اور تعلیم نے ان پر کیا اثر کیا؟ ……(42)
عبادت بریلوی نے ان کے بارے میں اس قسم کی آرا قائم کی ہیں :
۔ بہت غیور و خود دار تھے۔
۔ حفظ مراتب کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔
۔ اپنے آپ کو افضل و برتر سمجھتے تھے۔
۔ انھیں اپنی خاندانی عظمت اور ریاست و امارت کا احساس تھا۔
۔ بڑے بڑوں کو خاطر میں نہ لانا ان کے مزاج میں داخل تھا۔
۔ بہت لیے دیے رہتے تھے۔
۔ لوگوں سے بہت کم ملتے تھے، لیکن جن سے ملنا جلنا تھا ان کی عزت کرتے تھے۔
۔ اٹھتے بیٹھتے اس طرح تھے گویا ایک دربار لگا ہوا ہے۔
۔ شہرت کی تمنا انھوں نے کبھی نہ کی، اس لیے کہ عمر بھر بے نیاز رہے۔
۔ وہ بنیادی طور پر ایک فن کار تھے۔
۔ تلون مزاجی ان کی شخصیت کا جز ہے۔
۔ سیلانی ضرور تھے لیکن طبیعت لا ابالی نہیں تھی۔
۔ ان کی شخصیت میں صداقت اور اخلاص مندی ہے۔
۔ ان کی شخصیت میں ایک اچھے انسان کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔
۔ روشن خیالی ان کے مزاج میں داخل تھی۔
۔ عشق و ہوس کی زندگی میں توازن برقرار رکھا۔
۔ ان میں مذہبی حمیت تھی اور سیاسی شعور پختہ تھا۔
تیسرا باب ا ن کے عہد کے تاریخی، سیاسی، معاشی، معاشرتی، تہذیبی، ثقافتی، ذہنی و فکری اور ادبی خصائص کے بیان پر مبنی ہے۔ آخر میں تصانیف، شاعری اور مصنفین کی آرا کی طرف توجہ دی گئی ہے۔ یہ کتاب محنت اور فکر و نظر کی آمیزش کے ساتھ لکھی گئی ہے۔
احسان دانش اور عبدالرحمن اصلاحی کی مشترکہ کوششوں سے ترتیب دی ہوئی کتاب ’ حیات و شاعری : مومن ‘ میں ان کے حالات زندگی لکھے گئے ہیں، لیکن یہاں وہی باتیں ہیں جو ان سے پہلے کی جا چکی ہیں۔ یہ کتاب 1958میں ’ قصر اردو ‘نے دہلی سے شائع کی۔ مومن شناسی کا ایک قدم ’نگار‘ پاکستان بھی ہے۔ اس میں شامل ایک مضمون ’ حکیم مومن خاں اور ان کی شاعری ‘ سید امتیاز احمد کا ہے جس میں مومن کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ یہاں بھی وہی معاملہ ہے۔ کوئی نئی بات نہیں۔ کوئی نئی تحقیق نہیں۔ البتہ مومن کی شاعری پر اس مضمون میں اچھی تنقید لکھی گئی ہے۔ یہ مضمون 2005میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔ ’مطالعۂ مومن کا ایک گمشدہ حوالہ ‘ کے نام سے اس کتاب کو ڈاکٹر شفیق اشرف نے ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ سے شائع کیا۔ ’غالب نامہ ‘ کا مومن نمبر بھی مطالعۂ مومن کو ایک رخ عطا کرتا ہے۔ اس میں شامل ابتدائی دو مضامین ’مومن کا سوانحی خاکہ ‘ خلیق انجم اور ’ مومن کی شخصیت کے بعض پہلو ‘ ڈاکٹر حکم چند نیر اہم ہیں۔ پہلے مضمون میں پرانی ہی باتیں ہیں، لیکن مزار مومن سے متعلق صورت حال کا علم ہو جاتا ہے۔ دوسرا مضمون حکم چند نیر کا ہے جس میں مومن کے کلام سے استفادہ کرتے ہوئے ان کے حالات اور مزاج کی کڑیاں ملائی گئی ہیں۔ یہ اپنے طرز کا انوکھا مضمون ہے جو مومن پر کچھ تحفظات کے ساتھ بے لاگ انداز میں لکھا گیا ہے۔ انھوں نے مضمون کا جواز پیش کیا ہے :
مومن کے تفصیلی حالاتِ زندگی معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں ان کے درون میں جھانکنے اور ان کی شخصیت و سیرت کو سمجھنے کے لیے ان کی تخلیقات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ تحلیل نفسی کی مدد سے ان کی تخلیقات کے داخلی عوامل تک رسائی حاصل کر کے ان کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ شخصیت اور سیرت کے تضادوں اور گتھیوں کو حل کیا جا سکتا ہے۔ اس کی شخصیت کے تیکھے اور جاذب نقوش کو اجاگر کیا جا سکتا ہے، لیکن شخصیت کے داخلی عوامل تک براہ راست نہیں پہنچا جا سکتا۔ اس کے لیے اس کے مظاہر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس کے رہن سہن، لباس پوشاک، ظاہر اعمال و افعال اور طور طریقوں کو بغور دیکھنا پڑتا ہے۔ شاعر کی تخلیقات بھی اس کے ایک نوع کے افعال ہوتے ہیں۔ (43)
حکم چند نیر نے مومن سے متعلق اس نوع کے پہلوؤں کو نشان زد کیا ہے :
دس مثنویاں مومن کی عشقیہ زندگی سے تعلق رکھتی ہیں۔ ایک مثنوی مذہب سے متعلق ہے اور ایک مثنوی میں مومن نے اپنے والد کی وفات کی تاریخ کہی ہے۔ گویا سبھی مثنویاں ان کی زندگی سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔
مومن نے اپنی پہلی مثنوی ۱۲۳۱ھ میں لکھی۔ اس وقت ان کی عمر سولہ سترہ برس تھی۔ اس مثنوی میں انھوں نے اپنے دو معاشقوں کا ذکر کیا ہے اور اپنے بچپن اور لڑکپن کے حالات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
مومن کے معاشقے کا علم ان کے والدین کو ہوا تو ان کا رد عمل وہی تھا جو ایک شریف خاندان کا اس ضمن میں ہونا چاہیے تھا۔ اس رد عمل کا حال خود مومن کی زبان سے سنیے۔
مومن نے اپنے خاندان کی عزت اور شہرت کے با وجود اپنے معاشقوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ تمام حالات پوست کندہ بیان کر دیے ہیں۔ ان مثنویوں میں کہیں کہیں جو عریانیت در آئی ہے، وہ حقیقت نگاری کی وجہ سے ہے۔
انھوں نے کسی روایت کی پابندی استواری سے نہیں کی۔ انھوں نے روایتی تعلیم مکمل نہ کی۔ بچپن ہی میں عشق بازی کا کھیل کھیلنے لگے۔ دن میں حفظ قر آن کا کام تھا، تو شب میں مصحف رخ کی یاد میں مشغول رہتے تھے۔
مومن نے ۱۲۳۵ھ یعنی ۲۱ برس کی عمر میں مثنوی قصۂ غم میں ایک زنِ بازاری سے اپنے معاشقے کا تذکرہ کیا ہے۔ ۱۲۳۶ھ کی تصنیف قول غمیں میں ’ صاحب جی ‘ سے اپنے معاشقے کے حالات قلم بند کیے ہیں۔ ۱۲۴۱ھ کی تصنیف تف آتشیں میں ایک نئے معاشقے کے حالات نظم کیے ہیں۔ کسی تقریب میں کسی عزیزہ سے ان کی آنکھ لڑ گئی تھی۔ ۱۲۴۲ھ میں مومن کی شادی ہو گئی، لیکن ان کا کاروبارِ عشق جاری رہا۔ ۱۲۴۶ھ کی تصنیف آ ہ و زاریِ مظلوم میں انھوں نے ایک نئے معاشقے کا ذکر کیا ہے۔
مومن کی طبیعت کا اضطراب و انتشار اس بات کا متقاضی تھا کہ وہ کسی ایک چیز کے ہو کر نہ رہ سکتے تھے۔
مومن کی آزاد مزاجی اور شاہد بازی ان کی سماجی زندگی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی۔
مومن اپنی آزاد روی اور شاہد بازی کی وجہ سے بدنام ہو چکے تھے۔
مومن کی شادی کے سلسلے میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ ۱۲۴۱ ھ میں ان کے والد کی وفات کے بعد ان کے شاگرد غلام ضامن علی کرمؔ نے کوشش کر کے سردھنا ضلع میرٹھ میں عظیم اللہ بیگ کی دختر کے ساتھ ان کی شادی طے کرادی۔ اس شادی کے بارے میں مومن نے اپنے ایک فارسی خط میں جو معلومات فراہم کی ہیں، وہ بڑی عبرت ناک ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ خود دولھا تھے اور خود ہی براتی۔
اگر مومن کو مذہب سے حقیقی لگاؤ ہوتا تو وہ صرف مثنوی جہادیہ لکھنے پر اکتفا نہ کرتے، بلکہ جہاد میں شریک ہو کر مذہب سے اپنی رغبت اور محبت کا عملی ثبوت دیتے۔ لیکن وہ تو صرف جہادیہ لکھ کر اپنی مذہبیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر تسکین حاصل کرنا چاہتے تھے۔ وہ اپنے اعمال و افعال کے اعتبار سے مومن نہ رہے ہوں، لیکن مثنوی جہادیہ لکھ کر کاغذ پر ضرور مومن بن جاتے ہیں اور شہادت حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کر کے ایصالِ ثواب اور اپنی انا کے لیے تسکین فراہم کرتے ہیں۔
مومن نے مولانا سید احمد کے ہاتھ پر بیعت کی تھی لیکن یہ بیعت بھی برائے بیت تھی۔
جارحانہ مذہبی اشعار نے مومن کی مقبولیت اور عظمت کو نقصان پہنچایا اور مرورِ ایام کے ساتھ ان کا حلقۂ اثر سکڑتا اور سمٹتا چلا گیا۔ (44)
پروفیسر حکم چند نیر کے مضمون کا اختتام ان جملوں پر ہوتا ہے :
اس تجزیے کا ماحصل یہ ہے کہ مومن ایک جینیس تھے۔ انھوں نے اپنی کوشش سے متعدد علوم و فنون میں مہارت اور شہرت حاصل کی تھی۔ ان کی تخلیقات میں ان کی ذہانت و فطانت کے وافر ثبوت ملتے ہیں۔ لیکن چوں کہ وہ اپنی طبیعت میں نظم و ضبط پیدا نہیں کر سکے تھے، اس لیے وہ کوئی عظیم کارنامہ یادگار نہ چھوڑ سکے۔ (45)
اس قدر معروضیت کے ساتھ اور غیر جذباتی ہو کر حکم چند نیر کے علاوہ کسی نے مومن کی شخصیت کا مطالعہ نہیں کیا۔ نصیر الدین ہاشمی نے ایک مضمون ’ مومن کا ماحول ‘ لکھا تھا جو ’یادگار مومن ‘ اردو مجلس حیدرآباد میں شامل ہے۔ اس میں انھوں نے مومن کے عہد پر گفتگو کی ہے اور اس عہد کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی محرکات کا جائزہ لیا ہے۔ سید احمد شہید کی تحریک سے مومن متاثر تھے۔ انھوں نے مثنوی جہادیہ بھی لکھی، لیکن عملاً شریک نہ ہوئے لیکن نصیرالدین ہاشمی کے مطابق ’’ اپنی نوجوانی میں سید احمد شہید کے مرید ہو چکے تھے اور آخر تک ان کے تابع رہے۔ ‘‘(46)یہاں ’ تابع ‘ رہنے سے کیا مراد ہے ؟ اگر پابندی کرنا مراد ہے تو مومن کی زندگی میں ایسے واقعات نہایت کم ہیں جو شرعی نظام پر دال ہوں۔
ظہیر احمد صدیقی نے مومن کی حیات و خدمات پر نہایت سنجیدگی سے کام کیا ہے۔ مومن پر ان کی چار کتابیں ہیں :
(1)مومن : شخصیت اور فن
(2)قصائد مومن (اردو) مع مقدمہ و شرح
(3)انشائے مومن فارسی خطوط، تقویم، دیباچے
(4)دبستان مومن
پہلی کتاب ان کی پی۔ ایچ۔ ڈی کا تحقیقی مقالہ ہے جسے دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ جامعات میں تحقیق کے لیے ایسے مقالات کو معیار قرار دیا جا سکتا ہے۔ چوں کہ ان کا کام بعد کا ہے اس لیے تحقیق کے نقطۂ نظر سے اس میں اضافے نہیں ہیں۔ وہی باتیں اور وہی حوالے ہیں جو ان سے پہلے آ چکے ہیں۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ انھوں نے ان تمام ممکنہ حوالہ جات کو جمع کیا اور انھیں منطقی ترتیب کے ساتھ پیش کر دیا۔ اس طرح ان کی کتاب کا پہلا حصہ جو حیات پر مبنی ہے، اس میں تفصیل تو ہے ؛ کوئی نیا نکتہ نہیں۔ خواجہ احمد فاروقی نے اس کتاب کا مقدمہ لکھا ہے جس میں انھوں نے ان کی محنت کا اعتراف کیا ہے :
صدیقی صاحب نے مستند مآخذ کی مدد سے مومن اور عہد مومن کا ایک مرقع پیش کیا ہے اور ادبی تاریخ میں ان کا صحیح مقام متعین کرنے کی کوشش کی ہے، ان کا ذوقِ ادب، نہایت شستہ اور تربیت یافتہ ہے۔ ان کی تنقید میں ایک خاص قسم کی شرافت ہے جو ان کو جادۂ صواب سے ہٹنے نہیں دیتی۔ ان کی تحقیق میں ایک خاص بے لوثی ہے جو انھیں مجبور کرتی ہے کہ ایک ایک مآخذ کو پرکھیں اور اس کے بعد اس مواد کو ایک لڑی میں پروئیں۔ (47)
ظہیر احمد صدیقی نے اپنے مقالے کو چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے :
(1)سیاسی، سماجی اور ادبی پس منظر
(2)حیات و سیرت
(3)مومن کی اردو شاعری
(4)فارسی تصانیف
(5)مومن تنقید کی نظر میں
(6)اردو شاعری میں مومن کا مقام
ہر باب میں ان کی محنت نمایاں ہے۔ خواجہ احمد فاروقی کی بات صحیح ہے کہ انھوں نے ممکنہ مآخذ پر نظر رکھتے ہوئے دلائل پیش کیے ہیں۔ دوسری کتاب قصائد کی شرح پر مبنی ہے جس میں مشکل اصطلاحات کی شرح کر دی گئی ہے۔ کلام مومن کا ایک حصہ نہایت گنجلک ہے۔ غالب کے بعد مومن کے کلام کی سب سے زیادہ شرح لکھنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ ان کے اس کام پر رشید احمد صدیقی اور مسعود حسین خاں نے انھیں مبارک باد پیش کی ہے اور اسے طلبہ کی ضرورتوں کے لیے تقاضائے وقت قرار دیا۔ ان سے قبل ان کے والد ضیا احمد بدایونی نے بھی 1925میں قصائد کی شرح لکھ دی تھی، لیکن انھوں نے ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اہم اشاروں کو اپنی شرح میں شامل کر لیا ہے۔ تیسری کتاب ’انشائے مومن ‘ فارسی خطوط، تقویم اور دیباچوں پر مشتمل ہے جسے ترتیب دے کر سب سے پہلے مومن کے پھوپی زاد بھائی اور انیسویں صدی کی دہلی کی اہم اور باعلم شخصیت حکیم احسن اللہ خاں نے شائع کیا تھا۔ ظہیر احمد صدیقی نے اس کتاب کا ترجمہ کر دیا ہے۔ یہ کتاب مومن کی زندگی کے بعض اہم پہلوؤں کی تفہیم میں نہایت معاون ہے۔ ’دبستان مومن ‘ میں انھوں نے بعد کے شاعروں پر مومن کے اثرات کے ساتھ مومن کے تلامذہ پر سیرحاصل مواد جمع کیا ہے۔ اردو میں استادی شاگردی کی روایت پر گفتگو کی ہے اور، رنگ مومن کو نشان زد کرتے ہوئے ان کے 48تلامذہ کا ذکر کیا ہے۔ ہر شاگرد کے مختصر حالات اور چند منتخب اشعار درج کیے ہیں۔ اس طرح بنیادی طور پر یہ مومن کے شاگردوں کا ایک تذکرہ ہے۔
’مومن اور اس کی شاعری ‘ڈاکٹر نسرین اختر، ’حکیم محمد مومن خاں مومنؔ ( شخصیت اور شاعری ) اکرام بریلوی ، اور اس نوع کے دیگر کام مطالعۂ مومن میں کوئی نیا اضافہ نہیں۔ شعری محاکمے کا ہر شخص کا اپنا نقطۂ نظر ہوتا ہے، لیکن حیات کے باب میں ایسے کاموں میں کوئی انکشاف یا نئی بات نہیں۔ طلبہ کی ضرورتوں اور جامعات میں تحقیق کے لیے اس قسم کے کام ہوتے رہیں گے، مومن کی زندگی کی تفہیم کے لیے بنیادی حوالہ جا ت سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ ہر حال میں ماضی کی طرف پلٹنا ہو گا اور پرانے اوراق کی گرد صاف کرنی پڑے گی۔ معلومات حاصل کر لینا اور ان معلومات کے استدلال کا قرینہ ڈھونڈنا الگ چیزیں ہیں۔ عرش گیاوی کے بعد کلب علی خاں فائق نے ان کی زندگی پر مفصل توجہ دی۔ ورنہ عبادت بریلوی ہوں یا ظہیر احمد صدیقی یا اکرام بریلوی، سب کے یہاں حیات مومن مقالے کا ایک حصہ ہے، مرکزی موضوع نہیں۔ پھر بھی تذکروں اور دیگر حوالوں میں جتنے اشارے موجود ہیں، ان کی روشنی میں حیات مومن کا عمدہ خاکہ مرتب ہو جاتا ہے۔
٭٭
حوالے
(1)کلیم الدین احمد، اردو تنقید پر ایک نظر، 1983، بک امپوریم، پٹنہ، ص: 44
(2)حنیف نقوی، شعرائے اردو کے تذکرے، 1998، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، ص ص : 26-27
(3)ایضاً، ص ص:35-37
(4)نواب مصطفی خاں شیفتہ، گلشن بے خار، مترجم:حمیدہ خاتون، 1998(پہلا اڈیشن )، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، ص:23
(5)ایضاً، ص:347
(6)رام بابو سکسینہ، تاریخ ادب اردو، مترجم : مرزا محمد عسکری، 2000، ادارۂ کتاب الشفا، نئی دہلی، ص ص : 191-192
(7)نواب مصطفی خاں شیفتہ، گلشن بے خار، مترجم:حمیدہ خاتون، 1998(پہلا اڈیشن )، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، ص ص :345-346
(8)ایضاً، ص ص : 346-347
(9)ایضاً، ص : 348
(10)کلیم الدین احمد، اردو تنقید پر ایک نظر، 1983، بک امپوریم، پٹنہ، ص:28
(11)قطب الدین باطن، گلستانِ بے خزاں، 2 198، اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، ص: 224
(12)اسپرنگر، یاد گارہِ شعرا، مترجمہ : تطفیل احمد، 1985، اترپدیش اردو اکیڈمی، ص: 170
(13)مرزا قادر بخش صابر، گلستانِ سخن، 1982، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، ص : 437
(14)محمد حسین آزاد، آب حیات، 2004، کتابی دنیا، دہلی، ص : 10
(15)ایضاً، ص : 342
(16)محمد حسین آزاد، آب حیات، 2004، کتابی دنیا، دہلی، ص : 349
(17)ایضاً، ص ص: 349-350
(18)عبدالغفور نساخ، سخن شعرا، 1982، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، ص : 1
(19)ایضاً، ص: 467
(20)رام بابو سکسینہ، تاریخ ادب اردو، مترجم : مرزا محمد عسکری، 2000، ادارۂ کتاب الشفا، نئی دہلی، ص :1
(21)ایضاً، ص:1
(22)ایضاً، ص: 4
(23)ایضاً، ص:2
(24)ڈاکٹر تبسم کاشمیری، اردو ادب کی تاریخ (ابتدا سے ۱۸۵۷ تک )، 2009، ایم۔ آر۔ پبلی کیشنز، نئی دہلی، ص : 766
(25)ایضاً، ص: 766
(26)ظہیر احمد صدیقی، مومن :شخصیت اور فن، 1995، غالب اکیڈمی، نئی دہلی، ص : 63
(27)ایضاً، ص:65
(28)محمد حسین آزاد، آب حیات، 2004، کتابی دنیا، دہلی، ص : 343
(29)سید اعجاز حسین، مختصر تاریخ ادب اردو، 1964، اردو کتاب گھر، دہلی، ص ص : 126-127
(30)ایضاً، ص : 128
(31)سید احتشام حسین، اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، 2009(ساتواں ایڈیشن )، قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو، نئی دہلی، ص : 125
(32)ایضاً، ص : 137
(33)تبسم کاشمیری، اردو ادب کی تاریخ، 2009، ایم۔ آر۔ پبلی کیشنز، نئی دہلی، ص : 767
(34)ایضاً، ص : 768
(35)ایضاً، ص ص : 774-783
(36)وہاب اشرفی، تاریخ ادب اردو (جلد اول )، 2005، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ص ص : 324-327
(37)مرزا فرحت اللہ بیگ، دہلی کی آخری شمع، مرتبہ : رشید حسن خاں، 2009، انجمن ترقی اردو (ہند)، نئی دلّی، ص ص : 43-44
(38)ایضاً، ص ص : 104-105
(39)حکیم مومن خاں مومن، دیوان مومن مع شرح، مرتبہ : ضیا احمد بدایونی، 1962، طبع چہارم، شانتی پریس، الہ آباد، ص: 6
(40)کلب علی خاں فائق، مضمون ’ حیات مومن ‘، مشمولہ : اورینٹل کالج میگزین، 1959، جلد : 36، لاہور: پاکستان، پنجاب یونیورسٹی پریس، مدیر : ڈاکٹر سید عبداللہ، ص : 1
(41)عبادت بریلوی، مومن اور مطالعۂ مومن، 1961، اردو دنیا، لاہور، ص : 8
(42)ایضاً، ص ص : 91-92
(43)حکم چند نیر، مضمون ’ مومن کی شخصیت کے بعض پہلو ‘، مشمولہ : مجلہ ’غالب نامہ ‘، مدیر اعلی : پروفیسر نذیر احمد، 1985، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی، ص : 23
(44)ایضاً، ص ص : 24-34
(45)ایضاً، ص : 34
(46)نصیرالدین ہاشمی، مضمون ’ مومن کا ماحول ‘ مشمولہ : یادگار مومن، اردو مجلس حیدرآباد، ص: 51
(47)ظہیر احمد صدیقی، مومن : شخصیت اور فن، 1995، غالب اکیڈمی، نئی دہلی، ص ص : 35-36
٭٭٭
باب دوم تحقیق : مسائل اور صورت حال
حیات مومن کے اہم موڑ اور اختلاف کی صورتیں
مومن اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں کہ ان کا ذکر تذکروں اور دیگر حوالوں میں موجود ہے۔ ورنہ کتنے ہی نابغۂ روزگار صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ ان کی زندگی وقت کی گرد اور آشوب میں دھندلا گئی۔ تذکروں میں مومن کا ذکر مختصر ہے۔ پہلے باب میں کہا جا چکا ہے کہ تذکروں کے مولفین نے مومن کے احوال پر مختصر روشنی ڈال کر کلام کا انتخاب پیش کر دیا اور زیادہ ہوا تو ان کے تلامذہ پر گفتگو کر لی۔ ان کے کلام کی دو چار خصوصیات بتا کر مطمئن ہو گئے۔ تذکروں سے تاریخ تک کے سفر میں کافی نشیب و فراز ہیں۔ شخصیت کو تاریخی تسلسل اور عصری تناظر میں دیکھنے کا رواج بعد میں ہوا۔ مومن کی حیات کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ ان کی زندگی کے مختلف گوشوں پر رد و قبول کا مسئلہ سامنے آتا رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ’مومن تحقیق‘ کی کڑیاں ملانے کے لیے ہمیں تذکروں تک پہنچنا ہو گا، کیوں کہ وہیں سے بات شروع ہوتی ہے۔ حکم چند نیر رقم طراز ہیں :
کسی فن کار یا شاعر کی صلاحیتوں اور تخلیقی عوامل کو سمجھنے سمجھانے کے لیے اس کے حالات زندگی اور ان کے توسط سے اس کی شخصیت اور سیرت کا مطالعہ اور تجزیہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ حکیم مومن خاں مومن دہلوی کے زندگی کے تفصیلی حالات معلوم نہیں، یہاں تک کہ ان کی صحیح تاریخِ پیدائش اور تاریخِ وفات بھی معلوم نہیں۔ ان کے سوانح نگاروں نے ان کے کچھ حالات زندگی مرتب کیے ہیں، لیکن کسی نے ان کے درون میں جھانک کر ان کی شخصیت اور سیرت کا تجزیہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ (1)
’آب حیات ‘ وہ تذکرہ ہے جس میں پہلی بار مومن کے بارے میں تھوڑی تفصیل ملتی ہے، لیکن یہاں بھی عجب قصہ ہے۔ ’آب حیات ‘ کا جب پہلا ایڈیشن چھپا تو اس میں مومن کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ لوگوں نے احتجاج کیا اور بعض اہل نظر نے اعتراض کیا تو محمد حسین آزاد نے وجہ یہ بتائی کہ ان کے لاکھ چاہنے پر بھی مومن کے حالات انھیں نہ مل سکے۔ ان جملوں پر غور کیجیے ـ:
پہلی دفعہ اس نسخے میں مومنؔ خاں صاحب کا حال نہ لکھا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ دور پنجم جس سے ان کا تعلق ہے، بلکہ دور سوم و چہارم کو بھی اہل نظر دیکھیں کہ جو اہلِ کمال اس میں بیٹھے ہیں، کس لباس و سامان کے ساتھ ہیں۔ کسی مجلس میں بیٹھا ہوا انسان جبھی زیب دیتا ہے کہ اسی سامان و شان اور وضع و لباس کے ساتھ ہو، جو اہلِ محفل کے لیے حاصل ہے۔ نہ ہو تو ناموزوں معلوم ہوتا ہے۔
خاں موصوف کے کمال سے مجھے انکار نہیں۔
اپنے وطن کے اہل کمال کا شمار بڑھا کر اور ان کے کمالات دکھا کر ضرور چہرۂ فخر کا رنگ چمکاتا، لیکن میں نے ترتیب کتا ب کے دنوں میں اکثر اہل وطن کو خطوط لکھے اور لکھوائے۔ وہاں سے صاف جواب آیا۔ وہ خط بھی موجود ہیں۔ …
البتہ افسوس اس بات کا ہے کہ بعض اشخاص جنھوں نے میرے حال پر عنایت کر کے حالات مذکورہ کی طلب و تلاش میں خطوط لکھے اور سعی ان کی ناکام رہی۔ انھوں نے بھی کتاب مذکورہ پر ریویو لکھا، مگر اصل حال نہ لکھا، کچھ کچھ اور ہی لکھ دیا۔
میں نے اُسی وقت دہلی اور اطرافِ دہلی میں ان اشخاص کو خطوط لکھنے شروع کر دیے تھے، جو خاں موصوف کے خیالات سے دل گزار رکھتے ہیں۔ اب طبع ثانی سے چند مہینے پہلے تاکید و التجا کے نیاز ناموں کو جولانی دی۔ انھی میں سے ایک صاحب کے الطاف و کرم کا شکر گزار ہوں جنھوں نے باتفاق احباب اور صلاح ہمدگر جزئیات احوال فراہم کر کے چند ورق مرتب کیے اور عین حالت طبع میں یہ کتاب مذکور قریب الاختتام ہے، مع ایک مراسلے کے عنایت فرمائے بلکہ اس میں کم و بیش کی بھی اجازت دی۔ (2)
آزاد نے عدم شمولیت کی جو وجوہ بتائیں، وہ کمزور ہیں۔ ان کے بیانات میں تضاد ہے۔ وہ کبھی کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ۔ نتیجتاً چوری پکڑی جاتی ہے۔ مومن کوئی معمولی شخص نہ تھے کہ ان کے حالات ملنا مشکل ہوں۔ آزاد نے طنز کیا ہے کہ مومن اس لباس و سامان، شان اور وضع کے نہ تھے جیسا کہ اور لوگ ہیں جو کتاب میں شامل ہیں۔ پھر خود ہی کہتے ہیں ؛ ’خاں موصوف کے کمال سے مجھے انکار نہیں ‘۔ یہ بھی فرماتے ہیں ؛ ’اپنے وطن کے اہل کمال مومن کا شمار بڑھا کر اور ان کے کمالات دکھا کر ضرور چہرۂ فخر کا رنگ چمکاتا ‘۔ مومن کے کمالات دکھا کر وہ اس لیے چہرۂ فخر کا رنگ نہ چمکا سکے کہ ان کی بہت کوششوں کے باوجود حالات دستیاب نہ ہوسکے۔ اسے ہی ’عذر لنگ‘ کہتے ہیں۔ بقول نثار احمد فاروقی آزاد نے یہ ’’عذر لنگ پیش کیا کہ میں نے ان کے حالات جاننے کے لیے بہت سے لوگوں سے رابطہ کیا، کسی نے میری مدد نہیں کی، حالانکہ محمد حسین آزاد شاہ جہاں آباد دہلی میں مومن کے گھر سے زیادہ فاصلہ پر نہ رہتے تھے اور آب حیات کی تالیف کے وقت تک دہلی میں ایسے لوگوں کی خاصی تعداد موجود تھی جو ذاتی طور پر مومن کو جانتے تھے اور ان کے حالات بتا سکتے تھے۔ دیوانِ مومن چھپا ہوا موجود تھا۔ جب حالی کو یہ عذر معلوم ہوا تو انھوں نے مومن خاں کے سوانحی حالات، ان کے فنی محاسن پر ناقدانہ تبصرہ اور انتخاب کلام تیار کر کے محمد حسین آزاد کو بھیجا۔ اب ان کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہا اور دوسرے ایڈیشن میں مومن بھی با دل ناخواستہ شامل کر لیے گئے۔ ‘‘(3)
نثار احمد فاروقی کی دو اطلاعات اہم ہیں :
محمد حسین آزاد شاہ جہاں آباد دہلی میں مومن کے گھر سے زیادہ فاصلہ پر نہ رہتے تھے۔
آب حیات کی تالیف کے وقت تک دہلی میں ایسے لوگوں کی خاصی تعداد موجود تھی جو ذاتی طور پر مومن کو جانتے تھے اور ان کے حالات بتا سکتے تھے۔
ان کا تیسرا نکتہ بھی اہم ہے کہ اس وقت دیوان مومن چھپا ہوا موجود تھا اور انتخاب کلام کوئی ایسا بڑا مسئلہ نہ تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ ’آب حیات ‘ میں مومن کے بارے میں جو بھی ہے، وہ کس کے قلم سے ہے ؟ آزاد کہتے ہیں :
اپنے شفیقِ مکرم کے الطاف و کرم کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے یہ حالات مرتب کر کے عنایت فرمائے، لیکن کلام پر رائے نہ لکھی اور باوجود التجائے مکرر کے انکار کیا۔ اس لیے بندۂ آ زاد اپنے فہم قاصر کے بموجب لکھتا ہے۔ (4)
آزاد نے مذکورہ بیان میں ایک صاحب کے الطاف و کرم کا ذکر کیا ہے۔ سوال ہے کہ کس کے ’الطاف و کرم ‘ کی بات کی جا رہی ہے ؟ ایک صاحب کیوں ؟ ان صاحب کا نام کیوں نہیں لیا گیا ؟ آب حیات کے پہلے ایڈیشن پر خواجہ الطاف حسین حالی نے بھی تبصرہ کرتے ہوئے مومن کی شمولیت نہ ہونے پر بے اطمینانی کا اظہار کیا۔ آزاد کے بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اب آب حیات میں مومن سے متعلق جو کچھ بھی موجود ہے وہ حالی کے قلم کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے کہیں حالی کا نام نہیں لیا ہے، لیکن جن صاحب کے ’ الطاف و کرم ‘ کا شکریہ ادا کیا گیا وہ الطاف حسین حالی ہی ہیں۔ اس تذکرے میں مومن کے حالات زندگی سے متعلق حقائق، چند واقعات، صلاحیتوں کے ضمن میں مختلف علوم پر دستگاہ، مشغلہ، تلامذہ، اسفار، وغیرہ موضوعات کو نشان زد کیا گیا ہے۔ یہ معلومات حالی کے الطاف و کرم کا نتیجہ ہیں لیکن کلام پر رائے آزاد نے خود لکھی ہے۔ مومن کے حالات اور مفصل ہو سکتے تھے، اگر آزاد نے حالی کی تحریر کو چھیڑا نہ ہوتا۔ آزاد کا بیان دیکھیے :
میں نے فقط بعض فقرے کم کیے، جن سے طول کلام کے سوا کچھ فائدہ نہ تھا۔ اور بعض عبارتیں اور بہت سی روایتیں مختصر کر دیں یا چھوڑ دیں، جن سے ان کے نفس شاعری کو تعلق نہ تھا۔ (5)
اگر آزاد نے بعض فقرے کم نہ کیے ہوتے، بعض عبارتیں اور بہت سی روایتیں چھوڑ نہ دی ہوتیں تو مومن کی حیات کا خاکہ کچھ اور ہی مرتب ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ مومن کو قلم انداز کرنے کی کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی ہے ؟ عبادت بریلوی اور فرمان فتحپوری کا بیان ہے :
کسی قدیم تذکرے یا کتاب میں اس کا ذکر ہویا نہ ہو لیکن ایک مدت سے یہ روایت سینہ بہ سینہ محفوظ چلی آتی ہے کہ مومن خاں مومن چونکہ محمد حسین آزاد کی ایک عزیزہ امۃ الفاطمہ صاحب جی سے عشق فرماتے تھے اس لیے آزاد نے آب حیات کے پہلے اڈیشن میں مومن جیسے نامور شاعر کو شامل کرنا پسند نہیں کیا۔ اگر یہ روایت صرف زبانی ہوتی تو خیر کوئی بات نہ تھی لیکن آج کل چونکہ ہر معاملے میں کرید و تلاش سے کام لیا جا رہا ہے اور مومن پر جو مقالات یا کتابیں لکھی جا رہی ہیں ان میں مومن اور صاحب جی کے معاشقے کا ذکر آزاد کے سلسلے میں اشارۃً و صراحتہً آنے لگا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مومن کے معاشقوں کا تحقیقی جائزہ لے کر اس روایت کی صحت و عدم صحت کا سراغ لگایا جائے۔ (6)
11صفحات کے تحقیقی مضمون ’مومن کی حیات معاشقہ مومن، صاحب جی اور آزاد ‘کے آخر میں فرمان فتحپوری اس نتیجے پر پہنچے کہ متعدد قرینوں کے باوجود یہ معاملہ ہنوز تحقیق طلب ہے۔ مومن ایک شیعہ خاتون پر عاشق تو ضرور تھے لیکن یہ شیعہ خاتون آزاد کی عزیزہ یا امۃ الفاطمہ صاحب جی تھیں، یہ ابھی تک ثابت نہیں ہوسکا۔ بعض روایتوں کے مطابق مومن کو ’آب حیات ‘ میں شریک نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ مومن سنی تھے اور آزاد شیعہ۔ شاہد ماہلی کی ترتیب دی ہوئی کتاب ’ مومن خاں مومنؔ ایک مطالعہ ‘ میں ’حکیم محمد مومن خاں مومنؔ اور آزادؔ ‘ کے عنوان سے ایک مضمون ڈاکٹر انصاراللہ کا ہے جس میں تحقیقی حوالوں سے مومن اور آزاد کے معاملات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ضمیر الدین احمد عرش گیاوی مومن تحقیق میں ایک اہم نام ہے۔ ان کی کتاب ’حیات مومن ‘ تحقیق کے کئی در کھولتی ہے۔ ضیا احمد بدایونی نے انھیں ’فنا فی المومن ‘ کہا ہے۔ مومن تحقیق میں ان کی کوششیں کافی اہم ہیں۔ عرش نے مومن کی سوانح عمری لکھنے کی ٹھانی، لیکن حیات مومن کی کڑیاں غائب تھیں۔ انھیں ملانے کے لیے انھوں نے دن رات ایک کیے۔ نہ جا نے کتنے لوگوں کی چوکھٹ پر حاضری دی۔ نہ جانے کتنے دروازوں پر دستکیں دیں۔ شہروں کی خاک چھانی، دہلی کی دھول پھانکی تو یہ کتاب وجود میں آئی۔ انھوں نے اپنی کتاب کی ’تمہید‘ میں تین اہم سوالات قائم کیے :
۔ مومن کی تصویر کس طرح عالم وجود میں لائی جائے ؟
۔ ان کے مزار کا پتا کس طرح چلے ؟
۔ موجودہ تاریخوں کے علاوہ ان کے معدوم حالات کس طرح بہم کیے جائیں ؟
مندرجہ بالا تینوں نکتوں تک پہنچ جانا آسان نہ تھا۔ جیسا کہ پہلے باب میں ذکر ہو چکا ہے کہ عرش مومن کی تصویر کے حصول کے لیے امیراللہ تسلیم لکھنوی کے پاس پہنچے، لیکن ان کی پیری نے مایوس کیا۔ علی گڑھ کے راستے رام پور گئے۔ دوران سفر حسرت موہانی مل گئے۔ انھوں نے بتایا کہ مومن کی ایک تصویر کتب خانہ رام پور کی ملک ہے اور وہاں موجود ہے۔ پرانے لوگوں سے معلوم ہوا کہ مومن غدر سے بہت پہلے عہدِ نواب محمد سعید خاں میں اور بعض کے مطابق عہدِ نواب یوسف علی خاں میں نواب صدیق حسن خاں بھوپال کے ہمراہ رام پور آئے تھے۔ اسی زمانے میں ان کی تصویر کھینچی گئی تھی۔ عرش لکھتے ہیں :
اس کے علاوہ میرے اک دیرینہ کرم فرما مولانا شاہ مبارک حسین مرحوم متوطن بہبوہ ضلع شاہ آباد کہ فقیر، حکیم اور منجم بھی تھے اور عرصہ تک رام پور میں مقیم رہے تھے۔ مجھ سے آنکھوں کی دیکھی کہتے تھے کہ کتب خانے میں مومن کی وہ تصویر میں نے خود دیکھی تھی اور اس پر مومن کے قلم سے لکھے ہوئے کچھ شعر بھی دیکھے تھے۔ چنانچہ شاہ صاحب نے بھی اپنی حیات میں بڑی کوشش کی مگر اخیر میں یہ سنا گیا کہ پرانے جو کھٹے سب ہٹا دیے گئے۔ غرض ان کے علاوہ ایک کیا صدہا کوششیں اس تصویر کے لیے کیں۔ اخبارات اور رسالوں میں تحریک کی مگر وہ نہ ملی۔ (7)
مومن کی جو تصویر آج ہم تک پہنچی ہے وہ مرزا فرحت اللہ بیگ دہلوی کی کوششوں کا ثمرہ ہے۔ مومن کے رشتہ دار خواجہ امان دہلوی کی بنائی ہوئی مومن کی تصویر انھی کی وجہ سے پہلی بار سامنے آئی۔ پھر رسالہ’ اردو‘ حیدرآباد اور رسالہ ’نگار‘لکھنؤ1928میں بھی یہی تصویر شائع ہوئی۔ عرش لکھتے ہیں :
مرزا صاحب شکریہ دوام کے مستحق ہیں اور یہ تصویر جس کا عکس اس کتاب پر ہے اور اک نئے بلوک سے تیار کرائی گئی ہے، یہ بھی انھی کی عنایات کا صفحۂ ہستی پر دم بھر رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ اگر مرزا فرحت اللہ بیگ نہ ہوتے تو میں بھی مومن کی طرح فنا ہو جاتی۔ مومن کیا غالب کی تصویر کو بھی عالم وجود میں لانے والے آپ ہی ہیں۔
خیر جویندہ پایندہ لیجیے تحریک پیہم نے سوتوں کو آخر بیدار کر ہی دیا اور مومن کی تصویر نے بزبان بے زبانی یہ کہہ بھی دیا کہ صاحبو میں اک صاحب علم ہی نہیں بلکہ صاحب جمال و وضعدار بھی ہوں۔ (8)
عرش کی دوسری کاوش مزارِ مومن کی تلاش ہے۔ انھوں نے دہلی آ کر چپے چپے زمین کی خاک چھانی، مگر مزار کا کچھ پتا نہ چلا۔ انھی کی زبانی ملاحظہ ہو:
کوئی رہنما ہو، کوئی آشنائے منزل ہو تو بتلائے، غرض ٹھوکریں کھاتا پھرا، یہاں تک کہ ایک روز سلطان جی میں پہنچ کر اتفاق سے غالب کے مزار پر پہنچ گیا جس پر آج بھی میر مہدی مجروح کی تاریخ موجود ہے۔ میں سمجھا کہ شاید مومن بھی اپنے ہم نوا یار کے قریب لیٹے ہوئے ہوں مگر لوگوں نے کہا کہ تم عجب سودائی ہو۔ مومن غدر سے بہت پہلے مرے۔ ان کا مزار جس پر نہ کوئی کتبہ نہ اینٹ، تمھیں کون بتائے کہ کہاں ہے۔ اس عہد کے لوگ مر مٹ گئے۔ اس زمانہ کی دلی پامال ہو گئی، تم ہو کہاں۔ اس کہنے پر بھی مجھے چین نہ آیا۔ خواجہ میر درد کے خاندانی مزارات سے قطب صاحب تک کے گورستان اور کتبوں کو ایک ایک کر کے دیکھا مگر مومن کے مزار کا پتا نہ چلا۔ (9)
یہاں تک کہ عرش کے پیروں میں چھالے پڑ گئے اور وہ چھالے بقول ان کے ان کی غربت اور ناکامی پر پھوٹ پھوٹ کے روئے۔ پھر بھی عقدہ حل نہ ہوا۔ تنگ آ کر وطن کو لوٹ گئے۔ مگر سچ ہے کہ دل کی لگی نہیں بجھتی۔ دو سال بعد پھر دلّی آئے اور ’آب حیات‘ میں درج بیان کے بموجب مہندیوں میں تلاش کا ارادہ کیا :
پہلے فتح پوری، پھر مسجد جامع میں آیا۔ وہاں سے سامنے کی اک گلی پکڑی چلا جاتا ہوں اور ادھر ادھر دیکھتا جاتا ہوں کہ شاید کوئی پیرِ صدسالہ مل جائے۔ خبر نہیں کن کن محلوں سے گزرا۔ البتہ اک جگہ پر مٹیا محل لکھا ہوا دیکھا۔ وہاں اک شریف صورت بوڑھا آدمی بھی نظر آیا۔ اس سے پوچھا کہ مومن خاں کا نام آپ نے سنا ہے۔ وہ کہنے لگا میاں میں شاعر وایر نہیں ہوں۔ اسی محلہ میں اک صاحب سید وحیدالدین بیخود رہتے ہیں۔ ان سے پوچھو۔ غرض آگے بڑھ کے ایک چھوٹا سا دروازہ نظر آیا جس میں ٹاٹ کا پردہ لٹک رہا تھا۔ وہاں پہنچ کر بیخود صاحب بیخود صاحب آواز دی۔ کچھ دیر کے بعد ایک پچاس برس کے آدمی کھچڑی داڑھی، الٹے ہاتھ میں حقہ لیے برآمد ہوئے۔ کہا کہ فرمائیے میں ہی بیخود ہوں۔ میں نے عرض کیا حضرت مجھے کچھ اطمینان سے گفتگو کرنی ہے۔ غرض وہ اپنے کوٹھے پر مجھے لے گئے۔ خاطر سے پیش آئے۔ سب حال سنا۔ کہا کہ صاحب میں نے مومن کو نہیں دیکھا۔ ہاں ان کے بیٹے احمد نصیر خاں کو ضرور دیکھا تھا اور وہ اس کوٹھے پر بھی اکثر تشریف لاتے تھے۔ اب رہا مزار مومن تووہ مہندیوں میں ہے۔ وہاں میرے بھی اکثر عزیز سوتے ہیں۔ چلیے میں لے چلوں۔ غرض وہاں سے چلا اور مہندیوں میں آیا۔ غرض بیخود صاحب ادھر ادھر دیکھتے بھالتے مجھے ایک ایسے مزار پر لائے جس کا حلقہ اینٹ کا تھا اور اس پر کچھ پھول بھی پڑے ہوئے تھے۔ میں نے فاتحہ پڑھنے کو پڑھی مگر دل میں یہ کھٹکا تھا کہ آج مومن کا کون سا عزیز زندہ ہے جس نے ان کے مزار پر پھول لاکے ڈالے ہیں۔ بہر حال جب محافظ گورستان سے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ مزار کسی اور کا ہے اور مومن کا مزار معدوم ہے۔ حالانکہ اسی کے قریب اک قبر میں مومن خاں صاحب پڑے ہوئے ہیں۔ مگر اتنا نہیں کہتے کہ :
وہ آئے ہیں پشیماں لاش پر اب
تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے
غرض عقدہ اب کے بھی حل نہ ہوسکا اور میں اندرون احاطہ داخل ہوا۔ وہاں حضرت مولانا شاہ عبدالعزیزؒ اور ان کے خاندان والوں کے نام فاتحہ پڑھ کے اپنی قیام گاہ میں واپس چلا آیا۔ اسی سفر اور نشان مشکوک کا ذکر ہم نے عرصہ ہوارسالہ مخزن لاہور میں بذریعہ اک نظم کے کیا ہے۔ مختصر یہ کہ بہت پریشانی کے بعد وطن کو پلٹ آیا۔ (10)
چند برس کے بعد عرش پھر دلّی آئے اور اب کے یہ فیصلہ کر کے چلے کہ کوچہ چیلان میں چل کے رہنا ہے۔ وہیں، مومن کا حال معلوم کرنا ہے۔ وہ اسی محلے کے قریب کے ہوٹل میں ٹھہرے اور صبح کو کوچہ چیلان آئے۔ وہاں ایک چھوٹی سی مسجد نظر آئی جس میں کچھ طلبہ بھی تھے۔ ان کی زبانی معلوم ہوا کہ خواجہ میر درد کی بارہ دری یہی ہے۔ انھوں نے وہاں پوچھا کہ بھئی کسی ثقہ آدمی کا پتا بتاؤ تو ان لوگوں نے اک مکان کی طرف اشارہ کیا جس میں ایک سائن برڈ بھی لگا ہوا تھا اور اس پر حکیم سید ناصر نذیر فراق جانشینِ درد لکھا ہوا تھا۔ عرش کے الفاظ میں :
دیکھا کہ کچھ شیشیاں کچھ بوتلیں قرینے سے سجی ہوئی ہیں۔ زمین پر فرش ہے۔ گاؤ تکیہ سے لگے ہوئے اک لال داڑھی والے ضعیف العمر شخص سیاہ مخمل کی اچکن اور بغیر پھندنے کی میلی سی ترکی ٹوپی پہنے ہوئے بیٹھے ہیں۔ صاف رنگ، سرخی گالوں پر، نمایاں قد، متوسط جسم گداز کوئی ساٹھ برس کی عمر ہو گی، غرض دریافت سے پتا چلا کہ فراق صاحب آپ ہی ہیں جن کے ادبی مضامین سے ہندوستان کے مشہور رسالے بھرے پڑے ہیں۔ جب ان بزرگ نے خاکسار کا نام سنا تو ملکی شہرت کے سبب پہچانا اور بغل گیر ہوئے۔ پان بڑھایا اور اسی ملاقات میں اپنی اک مثنوی موسوم بہ حسین بیتی بھی سنائی اور اس پر مجھے تقریظ لکھنے کو کہا۔ غرض آمدم بر سر مطلب میری ان کی باتیں شروع ہوئیں۔ جب میری سالہا سال کی پریشانیوں کو سنا تو کہنے لگے آپ بے کار ہی اتنی مدت سے دلی کی خاک چھان رہے ہیں اور نئی روشنی والوں کے پھیرے میں پڑے ہوئے ہیں۔ وہ مومن کو اور مومن کی عظمت کو کیا جانیں۔ آپ مجھے ملے ہوتے، میں ان بزرگوں کی کفش برداری کا شرف رکھتا ہوں۔ مومن خاں ہمارے رشتہ دار تھے۔ میرے گھرانے سے ان کے تعلقات۔ خود میرے والد فارسی میں ان کے شاگرد۔ وہ دیکھو سامنے والا کوٹھا جو نظر آ رہا ہے، اسی پر وہ رہتے تھے اور وہیں سے وہ گرے۔ غرض ان کے واقعات سن کر آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ دوران گفتگو میں پتا چلا کہ یہ وہی فراق ہیں جن کا کچھ حصہ اس گاؤں میں بھی ہے جو علاقہ شہرام ضلع آرہ میں خواجہ میر درد کو شاہانِ دہلی سے ملا تھا۔ اسی سلسلے میں یہ کبھی کبھی گیا جی میں بھی آتے جاتے ہیں۔ بہرحال مجھے یہ ہم راہ لے کر مہندیوں میں گئے اور ٹھیک اسی مقام پر لائے جس کا نشان آزاد مرحوم نے دیا ہے۔ میں مومن کی خاکی چھپرکھٹ سے لگ کے خوب رویا اور پھر فاتحہ سے فراغت پائی۔ لیجیے یہ مراد بھی پوری ہو گئی۔ اب تک تو میں نے خود اپنے صرف سے اس مزار پر کتبہ لگوا دیا ہوتا کیونکہ سارے مرحلے فراق صاحب کے ذریعہ سے طے ہو چکے تھے مگر کیا کہوں اک حادثہ عظیم نے نیز عرش پریس کے مالی ضعف نے مجھ کو اس سعادت سے محروم رکھا۔ اب یقین ہے کہ ہمارے محترم کرم فرما جناب ناصر حبیب صاحب وکیل نواسہ مومن خواہ مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب دہلوی عزیزانِ مومن عنقریب انجام فرمائیں گے کیوں کہ میں بار بار ان حضرات کو متوجہ کر رہا ہوں اور کتبہ مزار کے لیے مومن کا یہ بہترین شعر بھی نوٹ کرا چکا ہوں :
جسے آپ کہتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومنِ مبتلا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جب کوئی نہ کرے گا تو انشا اللہ میں خود اٹھوں گا۔ (11)
عرصے تک مومن کا مزار کتبے سے محروم تھا اور اس کا پہچاننا مشکل تھا۔ مومن کی پوتی عزیز بیگم دہلوی نے عرش کی کتاب کی تقریظ میں حسرت بھرا جملہ لکھا ہے کہ ’’خدا کرے مومن کے موہوم مزار پر کتبہ بھی لگ جائے اور وہ زیارت گاہِ عالم ہو کر رہے‘‘۔ (12)ضیا احمد بدایونی لکھتے ہیں ؛ ’’مزار زیر احاطہ دیوا ر مقبرہ شاہ عبدالعزیزؒ باہر کی سمت واقع ہے‘‘۔ (13)حاشیے پر انھوں نے یہ اطلاع بھی دی ہے ؛ ’’حال میں پروفیسر سید احمد علی دہلوی کے اہتمام سے مومن کی قبر پختہ بن گئی اور کتبہ نصب ہو گیا ہے ‘‘۔ (14)کتبے پر ذیل کی عبارت کندہ ہے :
حکیم مومن خاں مومن دہلوی 1268-1215ھ نصب کردہ پروفیسر احمد علی دہلوی (1333ھ/1914ئ)تاریخ وفات فرمودۂ خود ’دست و بازو بشکست‘‘۔ (15)
ڈاکٹر خلیق انجم نے ’مومن کا سوانحی خاکہ ‘ مرتب کرتے ہوئے ان کے مزار کی صورت حال سے آگاہ کیا ہے :
مومن کی ہدایت تھی کہ انھیں مہندیوں کے اس قبرستان میں مدفون کیا جائے جہاں حضرت شاہ ولی اللہؒ اور اس خاندان کے دوسرے حضرات کے مزار ہیں۔ اس قبرستان کے احاطے سے باہر مشرقی دیوار کے ساتھ انھیں مدفون کیا گیا۔ چونکہ اس قبرستان میں بزرگانِ دین کے مزار ہیں، اس لیے ممکن ہے کہ خود مومن نے ان بزرگوں کے احترام میں اپنے وارثوں کو ہدایت دی ہو کہ ان کی قبر احاطے کے باہر بنائی جائے۔ اس مزار پر کوئی کتبہ نہیں تھا۔ مرزا فرحت اللہ بیگ نے بزرگوں سے تحقیق کر کے مزار کی نشاندہی کی۔ مشہور ادیب احمد علی صاحب نے مزار کی مرمت کرا کے اس پر کتبہ لگا دیا۔ ۱۹۴۷ء میں جن مزاروں کی لوحیں سنگ مرمر کی تھیں، ان میں سے بیشتر اکھاڑ لی گئیں۔ ۱۹۶۰ء میں ابوالکلام آزاد اکاڈمی کے نام سے ایک ادبی تنظیم قائم ہوئی۔ ڈاکٹر سروپ سنگھ اس کے صدر اور میں اس کا سکریٹری مقرر ہوا۔ ڈاکٹر اسلم پرویز، انور کمال حسینی، ڈاکٹر کامل قریشی، گلزار دہلوی صاحب وغیرہ اس کی مجلس انتظامیہ میں تھے۔ اس اکاڈمی نے اردو کے کئی مشاہیر کی قبریں تلاش کر کے ان کی مرمت کرائی۔ اس وقت مومن کے مزار کی حالت بہت خستہ تھی۔ کوئی لوحِ مزار اکھاڑ کر لے جا چکا تھا۔ ابوالکلام آزاد اکاڈمی نے مزار کی مرمت کرائی اور اس پر مومن کے نام کا کتبہ لگایا۔
دو تین سال بعد مہندیوں کے قبرستان کے متولی نے مزار مومن کی پشت کی دیوار ڈھا کر نئی دیوار اس طرح بنائی کہ مومن کا مزار قبرستان کے احاطے میں آ گیا۔ مزار کی دوبارہ مرمت کرائی گئی اور ایک نئی لوحِ مزار نصب کی گئی۔ (16)
عرش گیاوی کی تحقیق کا تیسرا پہلو ترتیب واقعات مومن ہے۔ اس ضمن میں سید ناصر نذیر فراق نے عرش کی مدد کا وعدہ کیا تھا۔ عرش نے صحیح کہا ہے کہ یہ کام تلامذۂ مومن اور ان کے معاصرین کا تھا جو اک اک کر کے کاروانِ دہلی سے آواز جرس کی طرح کو چ کر گئے۔ عرش نے اپنی کاوشوں کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے :
اب غدر کے بعد کے لوگوں میں جو بعض کو اس پر توجہ ہوئی تو وہ توجہ اک سرسری لباس رکھتی ہے۔ پھر ایک صدی کے بعد کا مورخ اگر جان بھی دے دے تو کیا یہ ممکن ہے کہ آج حالات مومن جمع کر لے مگر پھر بھی مر کھپ کر بہ زور زرد پریشانی میں نے جو اطرافِ ہند اور خاص دہلی کے بچے بچائے بوڑھوں سے حاصل کیا تھا اور جن کو بڑی حفاظت سے اک جزو دان میں رکھ کے بکس کے اندر آج کے لیے بند کر دیا تھا وہ میرے دوران علالت میں ذراسی غفلت کے سبب میری اور غیر مطبوعہ تصانیف کے ساتھ (…)دیمک کی بدولت بری طرح برباد ہو گئیں۔ اور برگ گل کی طرح ان کو باد مخالف نے ایسا منتشر کر دیا کہ حشر تک بھی ڈھونڈنے سے نہیں مل سکتیں۔ نہ وہ دل و دماغ باقی ہے کہ دوبارہ ان چیزوں کو حوالہ قلم کروں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون.
میرے اس درد کو وہی مصنفین محسوس کر سکتے ہیں جن کو خدا نخواستہ ایسی روحانی تکلیف پہنچی ہو۔ ورنہ سخن فروشی سمجھیے۔ خدا کا شکر کہ میری ان کتابوں کا ذکر اکثر اخبارات وغیرہ میں ہوتا رہا ہے اور یہی میری راست گوئی کی دلیل ہے۔ ۔ بہر حال اب آسمان کج رفتار سے اس کے نعم البدل کا طلب کرنا عمر رفتہ کو بلانا ہے۔ یہ اس لیے کہ وہ تاریخی بوڑھے قبروں میں جا کے لیٹ رہے۔
افسوس اگر حسب وعدہ اپنے آج نواب سر امیر الدین خاں صاحب بہادر والیِ لوہارو میرے پاس کچھ حالات مومن بھیج دیتے یا جناب آغا طاہر صاحب جو آزاد کے پوتے ہیں پرانے بستوں سے آزاد کے مومن کے وہ واقعات جو انھوں نے قلم انداز فرمائے تھے، عنایت فرماتے تو سوانح مومن پر کا فی روشنی پڑسکتی تھی۔
اس کے علاوہ متعدد خطوط ہم نے اور حضرات کو بھی لکھے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
محمد حسین آزاد کے بعد مجھ کو بہت بڑی شکایت ناصر نذیر فراق دہلوی سے ہے جن کی امید میں دس سال کا زمانہ بیکار گزر گیا۔ اس کے اندر وہ گیا میں بھی چند بار آئے اور ہمیشہ وعدوں کی بھرمار رہی مگر احوال مومن سے نہ خاکسار کو ممنون فرمایا نہ عزیزانِ مومن تک کا پتا بتا یا جن کا ذکر آگے آئے گا۔ آخری عنایت نامہ ان کا مجھے جنوری ۱۹۲۹ء میں ملا تھا جس کا نچوڑ یہ کہ ہم فقیروں کو تنگ نہ کر۔ تیرا خط چاک کر دیا۔ میں دورۂ قلب میں (جس کو دورۂ جذب کہیے)مبتلا ہوں۔ میں حیات مومن کی ترتیب میں قطعی مدد نہیں کرسکتا۔ بار بار ان کے صاحب زادے کو لکھا۔ انھوں نے بھی یہی جواب دیا کہ آپ کا خط والد صاحب کی خدمت میں لے جانے کی ہمت نہیں پڑتی۔ ڈرتا ہوں۔ فراق صاحب کی اس تحریر کے بعد خاکسار دہلی گیا جس کا ذکر آگے آئے گا۔ اس وقت وہ اچھے ہو چکے تھے مگر ملنے ملانے کا سوال جو عقل کے نجومی سے کوچہ پنڈت میں کیا تو اس نے صاف جواب دیا کہ تجھے علم نہیں کہ وہ آزادؔ کے شاگرد ہیں۔ تیری مدد کس طرح کریں کہ حشر میں ان کو منہ دکھلانا ہے۔ بہرحال ان تمام بد خلقیوں پر بھی میں فراق صاحب کا ممنون احسان ہوں اور انشا اللہ رہوں گا۔ (17)
مومن کے حالات معلوم کرنے کی اس قدر سعی کسی نے نہ کی۔ بعد کے ہر مصنف نے مومن پر لکھتے ہوئے عرش کا حوالہ دیا۔ مومن کی پوتی عزیز بیگم نے عرش کو داد دیتے ہوئے لکھا کہ، ’’ ہواخواہانِ چمنستانِ سخن کو مژدہ کہ میر بہار ادیبِ روزگار حضرت مولانا عرشؔ نے سالہا سال کی جانکاہی کے بعد ہمارے دادا جان فخرِ ہندوستان حکیم مومن خاں دہلوی کے صحیح حالات تاریخ مومن نام اک کتاب میں مرتب کر کے اس کو رئیس صاحبِ ہنر سخندان و سخنور ارسطوئے دوراں حکیم محمد جمیل خاں صاحب خلف مسیح الملک حکیم اجمل خاں مغفور دہلوی کے نام معنون فرمایا ہے۔ خدا لگتی کہوں گی کہ اگر اظہارِ حالاتِ غالب و ذوق کے لیے حالی و آزاد آئے تھے تو خداوند عالم نے عرش سے نکتہ فہم کو مومن کے انکشافِ کمالات کے لیے بھیجا ہے۔ ‘‘(18)
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے مومن کے اجداد کی تحقیق ہو جائے، پھر ان کی ولادت اور دیگر پہلوؤں پر توجہ دی جائے۔ اس ضمن میں پہلا حوالہ ’آب حیات ‘ کا ہے :
ان کے والد حکیم غلام نبی خاں ولد حکیم نامدار خاں شہر کے شرفا میں سے تھے ( جن کی اصل نجبائے کشمیر سے تھے)۔ اول حکیم نامدار خاں اور حکیم کامدار خاں دو بھائی سلطنتِ مغلیہ کے آخری دور میں آکر بادشاہی طبیبوں میں داخل ہوئے۔ شاہ عالم کے زمانے میں موضع بلاہہ وغیرہ پرگنہ نارنول میں جاگیر پائی۔ جب سرکار انگریزی نے جھجھر کی ریاست فیض طالب خاں کو عطا فرمائی تو پرگنہ نارنول بھی اس میں شامل تھا۔ رئیس مذکور نے اِ ن کی جاگیر ضبط کر کے ہزار روپیہ سالانہ پنشن ورثہ حکیم نامدار خاں کے نام مقرر کر دی۔ پنشن مذکور میں سے حکیم غلام نبی خاں صاحب نے اپنا حصہ لیا اور اس میں سے حکیم مومن خاں صاحب نے اپنا حق پایا۔ اس کے علاوہ اِ ن کے چار طبیبوں کے نام پر سو روپیہ ماہوار پنشن سرکار انگریزی سے بھی ملتی تھی۔ اس سے ایک چوتھا ئی ان کے والد کو اور ان کے بعد اس میں سے اُن کو حصہ ملتا رہا۔ (19)
عرش گیاوی نے مومن کو عُلوی سادات اور نجبائے کشمیر سے بتایا ہے۔ انھوں نے ان کے بزرگوں کا اصل وطن کشمیر قرار دیا ہے۔ شاہ عالم کی سلطنت کا آخری زمانہ تھا۔ مومن کے بزرگوں میں دو بھائی حکیم نامدار اور حکیم کامدار دہلی آئے اور شاہی اطبا میں شامل ہوئے۔ خاں صاحب کا خطاب پایا۔ یہ دونوں بھائی جب دہلی آئے تو کوچہ چیلان میں قیام کیا۔ اس خطے سے ان کا ذہن اس قدر ہم آہنگ ہوا کہ پھر اپنے وطن کشمیر کو نہ پلٹے۔ خدمت کے صلے میں بادشاہ کی جانب سے پرگنہ نارنول کے چند مواضعات جس میں موضع بلاہہ بھی تھا بطور جاگیر حاصل ہوئے۔ کچھ دنوں کے بعد ان دونوں بھائیوں کے نام پر دو خاندان ہو گئے۔ یعنی ’نامدارخانی اور کام دارخانی ‘۔ (20)عرش کی تحقیق ہے کہ ’’نامدار خانی میں مومن خاں ہوئے اور کامدار خانی میں مسیح الملک حکیم اجمل خاں وغیرہ ہوئے ‘‘۔ (21)مومن کے یہ بزرگ صرف شاہی طبیب نہ تھے، بلکہ ان سے وزارت، صوبہ داری، سر صوبہ وغیرہ کا بھی کام لیا جاتا تھا۔ یہ لوگ جب اس خدمت کے سلسلے میں ریاست بہار کی طرف آئے تو چند مساجد بھی تعمیر کرائیں۔ جب انگریزی حکومت نے جھجھر کی ریاست نواب فیض طلب خاں کو دے دی تو پرگنہ نارنول بھی اسی کے ساتھ نکل گیا۔ (22)شاہی اثر ختم ہو چکا تھا۔ نواب نے کمزور جان کر ان کی خاندانی جاگیر بھی ضبط کر لی اور ہزار روپیہ سالانہ پینشن مقرر ہوا۔ ’’چنانچہ حکیم مومن خاں کو کہ حکیم غلام نبی خان جو حکیم نامدار خاں کے بیٹے تھے پانسو روپیہ ترکہ خاندانی حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ ان کے خاندان کے چار طبیبوں کو سرکار انگریزی کی طرف سے بھی سو روپیہ ماہوار کی پنشن مقرر ہو گئی۔ جس کے ایک چوتھائی کے وارث حکیم مومن خاں ہوئے۔ غرض یہ ممتاز خاندان عہد شاہی سے لے کر غدر سے پہلے تک نہایت فارغ البالی کے ساتھ امیرانہ زندگی بسر کرتا رہا اور اس خاندان کا ہر طبیب شاہی خصوصیت کے سبب رئیسانہ شان و شوکت رکھتا تھا۔ چونکہ حکیم نامدار خاں کا خاندان علمِ آبائی کے لحاظ سے حکیم مومن خاں کی ذات پر تمام ہو گیا۔ اس لیے ان کی اولاد ناپرسی اور گمنامی کی حالت میں پڑ گئی۔ دوسری طرف برعکس اس کے حکیم کامدار خاں کا خاندان ہے جس میں مسیح الملک کی پھونکی ہوئی روح حشر تک کام کرتی رہے گی۔ ع:میراثِ پدر خواہی علمِ پدر آموز‘‘۔ (23)
کیا مومن علوی سادات تھے ؟
کیا ان کا وطن کشمیر تھا؟
کیا مسیح الملک حکیم اجمل خاں کا تعلق کا مداری خاندان سے ہے ؟
عرش گیاوی، ضیا احمد بدایونی اور عبادت بریلوی نے مومن کے حالات مرتب کرنے میں ان کے خاندان کے کچھ افراد سے براہ راست رابطہ کیا تھا۔ ضیا احمد بدایونی نے اجمالاً مومن کے حالات بیان کیے ہیں اور ان میں بھی عرش ہی سے استفادہ کیا ہے۔ مومن پر قلم اٹھانے والے ہر مورخ نے ان کے اجداد کا وطن کشمیر بتایا ہے۔ اس ضمن میں کوئی متضاد بیا ن نہیں۔ اس لیے یہ قضیہ یہیں تمام ہوا۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ وہ سید تھے یا پٹھان۔ عرش انھیں سید بتاتے ہیں، جبکہ عبادت بریلوی انھیں پٹھان ثابت کرتے ہیں۔ دونوں کے پاس کوئی مستند ٹھوس حوالہ نہیں۔ دونوں کے اپنے قرینے ہیں۔
آپ علوی سادات و نجبائے کشمیر سے ہیں۔ حاشیہ تذکرہ شعرا، مولفہ نواب صدیق حسن خاں والیِ بھوپال اور بہ تصدیق اس کے نواسۂ مومن جناب سید ناصر حبیب صاحب وکیل ریاست دتیا ضلع بندیل کھنڈ کا خط دیکھو جس میں وہ اس کی تصدیق فرماتے ہیں نیز ہندوستان میں آج سینکڑوں ایسے ہیں جو خاں صاحب اور خان بہادر کے خطاب کی بدولت سید سے پٹھان مشہور ہو گئے۔ مختصر یہ کہ مومن پٹھان نہ تھے۔ …عرش (24)
یہ خیال صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ ان کے باپ دادا کے نام پٹھانوں کے سے معلوم ہوتے ہیں۔ مومن کے نواسے عبد الحی انصاری صاحب نے راقم الحروف کو ایک خط میں مومن کے کچھ حالات لکھے ہیں۔ اس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ان کی اصل کشمیری تھی لیکن وہ قوم کے پٹھان تھے۔ یہی صحیح معلوم ہوتا ہے۔ …عبادت (25)
اب عبادت صاحب کی توضیح ملاحظہ کیجیے:
غالباً عرش گیاوی کو کسی وجہ سے غلط فہمی ہوئی ہے۔ بہت ممکن ہے یہ غلط فہمی مومن خاں کی شادی کی وجہ سے ہوئی ہو جو خواجہ میر درد کے خاندان میں ہوئی تھی۔ عرش کو غالباً یہ خیال گزرا ہے کہ ایک پٹھان کی شادی سادات میں نہیں ہوسکتی لیکن چونکہ مومن خاں کی دوسری شادی شاہ محمد نصیر صاحب کی صاحب زادی انجمن النسابیگم سے ہوئی تھی اور وہ سید تھے۔ اس لیے عرش گیاوی نے یہ خیال قائم کر لیا۔ بہرحال مومن کے نواسے عبدالحی انصاری صاحب کا یہ خیال مستند اور صحیح معلوم ہوتا ہے کہ مومن پٹھان تھے اور ان کا خاندان پٹھانوں کا ایک اہم خاندان تھا۔ (26)
دونوں کی دلیل میں کمزور پہلو یہ ہیں :
عرش نے ناصر حبیب کے خط کا حوالہ دیا ہے لیکن اس خط کا کہیں نام و نشان نہیں۔ نہ اس کا عکس ہے، نہ اقتباس اور نہ اس کی تفصیل۔
عبادت بریلوی نے عبدالحی انصاری کے جس خط کا حوالہ دیا ہے اس کا بھی من و عن وہی حال ہے۔ انھوں نے عبدالحی انصاری کو مومن کا نواسہ بتایا ہے۔ یہ درست ہے۔ عبدالحی مومن کی بیٹی محمدی بیگم شوہر عبدالمغنی کے صاحب زادے ہیں، لیکن ان کے نام کے ساتھ انصاری انھی کی اختراع معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے کہ انھوں نے انصاری کی وجہ نہیں بتائی اور کسی بھی شجرے میں عبدالحی کے ساتھ ’انصاری ‘ نہیں ہے۔ کلب علی خاں فائق اور ظہیر احمد صدیقی نے مومن کا خاندانی شجرہ تیار کیا ہے۔
یہ کہنا دلیل نہیں کہ عرش نے یہ خیال قائم کر لیا ہو گا…۔
ان کا خاندان پٹھانوں کا ایک اہم خاندان تھا۔ یہ کہہ دینے سے بیان میں زور تو پیدا ہو جاتا ہے لیکن زور بیان دلیل فراہم نہیں کرتا۔
اس باب میں ’گلشن بے خار ‘، ’ آب حیات ‘ اور دوسرے تذکرے خاموش ہیں۔ عرش نے تو ایک تذکرے تذکرۂ شعرا، مولفہ:نواب صدیق حسن خاں، والیِ بھوپال کا بھی حوالہ دیا ہے۔ عبادت بریلوی قیاسات سے کام لیتے ہیں۔ خلیق انجم نے ’مومن کا سوانحی خاکہ ‘ مرتب کرتے وقت اس مسئلے میں دلچسپی ہی نہیں لی اور اس باب میں ان کے یہاں کوئی حوالہ نہیں۔ مومن نے شیخ غلام ضامن کرم کے نام ایک خط میں اپنے بارے میں صرف اتنا لکھا ہے :
ماناکہ میں خاک میں مل گیا ہوں لیکن اب بھی آسمان کی ہمسری کو ننگ سمجھتا ہوں اور اگرچہ بے سروسامان ہوں لیکن سفلوں کی خوشامد کو اپنے رتبہ سے فروتر خیال کرتا ہوں۔ سعد علی خاں بہادر ہمارے خاندان کے غلاموں میں سے تھا جس کو بیگم سمرو ( جو اس ذلیل شخص کی آقا تھی ) کی دولت مل گئی تھی۔ چنانچہ اس کا نام نجف خاں اور نجیب خاں کی ہم نشینی کی بدولت تاریخ عالم شاہی اور سیر المتاخرین میں رہ گیا۔ (27)
اس سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ سعد علی خاں مومن کے خاندان کے غلاموں میں تھا۔ اور بس۔ کلب علی خاں فائق ’ حیات مومن ‘ میں لکھتے ہیں :
حیات مومن کے مولف کی رائے میں مومن علوی تھے۔ (ص۳۵)سید ناصر حبیب جو مومن کے نواسے ہیں ان کا بیان ضرور قابل غور ہے۔ مومن کی بیٹی محمدی بیگم کا نکاح مولوی عبدالغنی وکیل سیتا پور سے ہوا جو سادات سے تھے، مومن کی بیوی انجم النسابقول مولف میخانۂ درد، خواجہ محمد نصیر نبیسۂ خواجہ میر درد کی بیٹی تھیں اور یہ بھی خاندان سادات سے تھے۔ مومن کی ہمشیرہ زادی سید عبدالرحمن آہی سے منسوب تھیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ مومن کا علوی ہونا غلط نہ تھا، لیکن مومن کی حقیقی پھوپھی حکیم عزیز اللہ صدیقی کے نکاح میں تھیں (حکیم احسن اللہ خاں کے والد )۔ (28)
اس باب میں ایک لطیفہ بھی ہے۔ ’گلستانِ بے خزاں ‘(نغمۂ عندلیب) نامی تذکرہ 1875‘کے مولف حکیم قطب الدین باطن نے مومن کے نام سے فائدہ اٹھا کر طنز کا پہلو پیدا کیا ہے اور انھیں جولاہا ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ یہ تذکرہ شیفتہ کے تذکرے کے جواب میں لکھا گیا تھا اس لیے ایسا کرنے کا سبب کھُل جاتا ہے۔ ظہیر احمد صدیقی نے بھی انھیں اپنی کتاب ’ مومن : شخصیت اور فن ‘ میں سید قرار دیا ہے۔
اگر ایک جملے میں کہا جائے تو حکیم اجمل خاں کا رشتہ مومن کے خاندان سے نہیں۔ اس کے مختلف شواہد ہیں۔ عرش گیاوی نے حکیم اجمل خاں کو کامداری خاندان سے بتایا ہے۔ عبادت بریلوی نے عرش کے خیال کو مدلل رد کیا ہے۔ ’سیرت اجمل ‘کے حوالے سے عبادت بریلوی رقم طراز ہیں کہ، ’’ حکیم اجمل خاں کا تعلق حکیم شریف خاں سے ہے اور اسی نسبت سے یہ خاندان شریف خانی کہلاتا ہے۔ حکیم کامدار سے اس کا کوئی تعلق نہیں ‘‘۔ (29)مومن یقیناً حکیم نامدار اور کامدار خاں کے خاندان سے ہیں۔ ’سیرتِ اجمل ‘ میں لکھا ہے :
اجمل خان اعظم کے مورثِ اعلیٰ شہنشاہ بابر کے ساتھ ہرات سے ہندوستان آئے، علم و فضل کا یہ کارواں پہلے سندھ میں مقیم ہوا اور پھر اکبر آباد میں ملّا نورالدین علی بن محمد سلطان القاری الہروی الفقیہ الحسنی سے جو وقت کے امام تھے اس خاندان کے عروج و کمال کی ابتدا ہوتی ہے جن کے بعد ملّا علی داؤد، حکیم محمد فاضل خاں اور حکیم واصل خاں اس آسمان پر آفتاب بن کر چمکے۔ حکیم محمد فاضل خاں اس خاندان میں پہلے طبیب گزرے ہیں جن کے خلف الرشید حکیم محمد واصل خاں (اول) عہد شہنشاہ اورنگ زیب میں اکبر آباد سے دہلی تشریف لائے اور عہدۂ طبابت پر ممتاز ہوئے۔ حکیم محمد واصل خاں محمد شاہ دہلی کے ابتدائی عہد حکومت میں راہیِ ملکِ بقا ہوئے۔ آپ نے دو صاحب زادے حکیم اکمل خاں جن کی عمر اس وقت ۱۶سال تھی اور حکیم اجمل خاں اول جن کی عمر ۱۱سال تھی، چھوڑے۔ بادشاہ نے بیٹوں کے باپ کا منصب مقرر کیا۔ حکیم اکمل خاں کے دو صاحب زادے تھے۔ حکیم محمد شریف خاں اور حکیم محمد سعید خاں۔ ‘‘(30)
حکیم اجمل خاں کا تعلق حکیم محمد شریف خاں سے ہے۔ کلب علی خاں فائق نے بھی ’حیات مومن ‘ میں عرش گیاوی کے خیال کو رد کیا ہے۔ وہ بھی اسی نتیجے تک پہنچے ہیں کہ اجمل خاں ان کے خاندان سے نہیں ہیں۔ حکیم غلام حیدر خاں اور حکیم غلام حسن خاں مومن کے چچا تھے۔ دونوں اپنے عہد کے مشہور اطبا میں تھے۔ سرسید احمد خاں نے تذکرۂ اہل دہلی میں ان دونوں حضرات کے علاوہ مومن کا ذکر بہت اچھے الفاظ میں کیا ہے۔ حکیم غلام نبی خاں مومن کے والد تھے۔ مشہو ر طبیب تھے۔ چیلوں کے کوچے میں ان کا مطب ہوا کرتا تھا۔ مذہبی تھے۔ شاہ عبدالعزیزؒ سے ان کے اچھے مراسم تھے۔ ان کا انتقال 1241ھ 1825ئمیں ہوا۔
مومن کی ولادت 1215ھ 1800ئمیں محلہ کوچہ چیلان میں ہوئی۔ محمد حسین آزاد آب حیات، ص:343 ، عرش گیاوی حیات مومن، ص:37، عبدالحی گل رعنا، ص : 297، نورالحسن ہاشمی دلی کا دبستان شاعری، ص: 242، کلب علی خاں فائق حیات مومن، ص: 4وغیرہ اسی تاریخ کی تائید کرتے ہیں۔ بعض مصنفین نے اختلاف بھی کیا ہے۔ مثلاً عبادت بریلوی 1801ء کو ان کی پیدائش کا سال قرار دیتے ہیں جو غلط ہے۔ کلب علی خاں فائق نے تاریخ کا جواز ڈھونڈا ہے :
چونکہ 1243ھ میں دیوان اردو کا دیباچہ تحریر کیا ہے اور اس وقت مومن کی عمر 29سال تھی۔ اس طرح سال ولادت صحیح طور پر 1215ھ قرار پاتا ہے۔ اس کی تائید ’مثنوی و شکایت ستم ‘ کے ایک شعر سے بھی ہوتی ہے۔ اس مثنوی میں 1231ھ میں عمر سترہ سال بتائی گئی ہے :
دیکھیں آگے دکھائے کیا کیا دن
ہے ابھی سترہ برس کا سن
(31)
مومن کا اصل نام کیا ہے ؟محمد مومن خاں یا مومن علی ؟ واقعہ ہے کہ مومن جب پیدا ہوئے تو ان کے والد غلام نبی خاں شاہ عبدالعزیزؒ کو بلا لائے۔ شاہ صاحب ہی نے کان میں اذان دی اور مومن خاں نام رکھا۔ گھر کی عورتوں نے کہا کہ مومن تو جولاہے کو کہتے ہیں۔ (32)اس لیے حبیب اللہ رکھا جائے، لیکن شاہ صاحب نے مومن ہی تجویز کیا۔ اسی نام سے آج وہ زندہ ہیں۔ عرش نے مومن علی غلط لکھا ہے۔ مومن علی کا ثبوت کہیں نہیں ملتا۔
مومن کی ابتدائی تعلیم شاہ عبدالعزیزؒ کے مدرسے میں ہوئی۔ اس لیے کہ یہ مدرسہ مومن کے گھر سے قریب تھا اور شاہ صاحب سے مومن کے والد کے ذاتی مراسم تھے۔ مومن کے و الد اس گھرانے کے عقیدت مندوں میں تھے۔ کلب علی خاں فائق لکھتے ہیں :
ابتدائی تعلیم مکتب میں ہوئی اور وہ حفظ قرآن تک پہنچی تھی، یہ بھی امکان ہے کہ مومن حافظِ قرآن ہوں۔ یہ ابتدائی تعلیم نو برس کی عمر تک جاری رہی کہ مومن نے کوچۂ عاشقی میں قدم رکھا اور تعلیم سے دل اچاٹ ہو گیا۔ (33)
عرش لکھتے ہیں :
تعلیم بھی ان کی اسی مدرسے میں ہوئی۔ کچھ کتابیں تبرکاً شاہ عبدالعزیزؒ صاحب سے اور بقیہ علامہ شاہ عبدالقادرؒ سے پڑھیں۔ اور یہیں عربی، فارسی، حدیث، فقہ، منطق، معانی وغیرہ کی تکمیل ہوئی۔ ذہن خدا داد کا یہ عالم تھا کہ شاہ صاحب کا وعظ جو علاوہ علوم ظاہری کے نکا ت باطنی سے بھی بھرا ہوا ہوتا تھا جو ایک روز سن لیتے تھے تو بے فرق دوسرے روز اپنے والد کے مطب میں بیٹھ کے دوہرا دیتے تھے۔ (34)
کلب علی خاں فائق کہتے ہیں کہ انکی تعلیم نو برس کی عمر تک جاری رہی، جبکہ عرش کا خیال ہے کہ عربی، فارسی، حدیث، فقہ، منطق، معانی وغیرہ علوم کی تکمیل انھوں نے یہیں کی اور نو برس کی عمر میں کوئی اتنے علوم میں کیسے مہارت حاصل کرسکتا ہے ؟ فائق آگے لکھتے ہیں :
یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نو سال کی عمر سے سلسلۂ درس مومن ختم کر چکے تھے۔ اور تیرہویں سال میں دوبارہ جبراً سلسلۂ تعلیم جاری رکھنے پر مجبور ہو گئے۔ (35)
عبداللہ خاں علوی اپنے عہد کے بڑے عالم تھے۔ مومن نے انھی سے فارسی پڑھی۔ اگر یہ روایت صحیح ہے تو صہبائی اور مومن استاد بھائی، یعنی ایک ہی استاد کے شاگرد کہلائیں گے۔ اس عہد میں غالب، مومن اور صہبائی فارسی دانی میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ دلی کالج میں فارسی پڑھانے کے لیے جب مدرس کی ضرورت پڑی تو پیشکش پہلے غالب اور پھر مومن کو ہوئی، لیکن دونوں کے انکار کے بعد یہ ملازمت صہبائی کو مل گئی۔ فائق نے مومن کو علوی کا شاگرد تو بتایا لیکن ساتھ ہی ان کے یہاں یہ اشتباہ بھی موجود ہے کہ مومن جو سعدی اور حافظ کو نہیں گردانتے تھے، علوی کا شاگرد ہونا کیسے قبول کرتے ؟ شاہ عبدالعزیزؒ سے تعلیم حاصل کرنے کی روایت سے فائق نے اختلاف کیا ہے۔ ’آب حیات ‘ میں یہ تو لکھا ہے کہ ’’شاہ عبدالعزیزؒ صاحب کا مدرسہ وہاں سے بہت قریب تھا۔ ان کے والد کو شاہ صاحب سے کمال عقیدت تھی۔ ‘‘(36)مومن کی ولادت پر شاہ صاحب ہی نے ان کے کان میں اذان دی۔ یہ سب ٹھیک، لیکن ان باتوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انھوں نے شاہ عبدالعزیزؒ سے تعلیم حاصل کی۔ عرش گیاوی اور ان کی تقلید میں عبادت بریلوی نے یہ لکھا ہے :
تعلیم بھی ان کی اسی مدرسہ میں ہوئی۔ کچھ کتابیں تبرکا ً شاہ عبدالعزیزؒ صاحب سے اور بقیہ علامہ شاہ عبدالقادرؒ سے پڑھیں۔ اور یہیں عربی، فارسی، حدیث، فقہ، منطق، معانی وغیرہ کی تکمیل ہوئی۔ عرش۔ (37)
شاہ عبد العزیزؒ اور شاہ عبد القادرؒ کے سامنے کچھ عرصے زانوئے ادب تہہ کرنے اور کسب فیض کرنے کے بعد وہ اپنے آبائی پیشے طبابت کی طرف متوجہ ہوئے۔ عبادت۔ (38)
لیکن اس کے ماخذ کا ذکر نہیں کیا۔ کلب علی خاں فائق کا اختلاف ملاحظہ ہو:
بغیر حوالہ شاہ عبدالعزیزؒ صاحب سے تعلیم حاصل کرنے کی روایت قابل قبول نہیں، پھر شاہ عبدالقادرؒ صاحب اکبر آبادی مسجد میں درس دیا کرتے تھے۔ اور یہیں سید احمد شہید نے 1223ھ کے متصل شاہ عبدالقادر صاحب سے تعلیم حاصل کرنا شروع کی تھی۔ مومن کا شاہ عبدالعزیزؒ صاحب کے مدرسہ میں پانا کسی نے نہیں لکھا ہے، قرینہ ضرور ہے کہ گھر قریب ہونے کی وجہ سے ابتدائی تعلیم شاہ عبدالعزیزؒ صاحب کے مدرسہ میں پائی ہو اور اعلیٰ کتب شاہ عبدالقادرؒ صاحب سے پڑھی ہوں۔ حدیث، فقہ اور، منطق وغیرہ کا پڑھنا بھی ثابت نہیں کیا ہے۔ (39)
اگر قرینے پر بھروسا کیا جائے تو الگ بات ہے، لیکن دلیل کی بات ہو گی تو اس سلسلے میں خاموشی بہتر ہے۔ طبابت مومن کا خاندانی پیشہ تھا۔ ’آب حیات ‘ میں مرقوم ہے کہ جب عربی میں کسی قدر استعداد ہو گئی تو والد اور چچا حکیم غلام حیدر خاں اور حکیم غلام حسن خاں سے طب کی کتابیں پڑھیں اور انھی کے مطب میں نسخہ نویسی کرتے رہے۔ (40)عرش لکھتے ہیں :
جب مومن اچھے خاصے عالم ہو گئے تو خاندانی فن کی طرف رجوع یعنی اپنے والد اور چچا غلام حسن خاں اور حکیم غلام حیدر خاں سے طب کی تکمیل کی۔ اور انھی کے مطب میں طریقہ تشخیص کے ساتھ نبّاضی اور نسخہ نویسی بہ غور سیکھی اور ان بزرگوں کے انتقال کے بعد ان کے جانشین ہوئے۔ اس فن میں یہ آبرو پائی کہ اب تک طب کی بڑی بڑی کتابوں میں ان کے نام پہ نسخے موجود ہیں۔ در حقیقت یہ ان کی انتہائی ذہانت تھی کہ یہ موجدانِ فن طب کے نقشِ پا تسلیم ہوئے اور صاحب تصنیف بھی ہوئے۔ (41)
تذکروں میں بھی ا ن کی طبابت کے پیشے کا ذکر موجود ہے۔ مولوی کریم الدین نے تو اس قدر غلو سے کام لیا ہے کہ انھیں بو علی سینا سے بھی بلند بتایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مومن اس پایے کے حکیم تھے کہ بو علی سینا اگر ساری عمر قانونِ طبابت کے سیکھنے میں گنوائے پر ان کے سامنے نبض دیکھنے کا شعور نہ آئے۔ گلدستۂ نازنیناں، ص: 102نساخ نے بھی اس فن میں ان کی مہارت کا ذکر کیا ہے۔ صاحب جی سے معاشقہ معالجے ہی کے سلسلے میں ہوا لیکن عرش کی اطلاع یہ بتاتی ہے کہ طب کی بڑی بڑی کتابوں میں ان کے نام پہ نسخے موجود ہیں۔ عرش نے نہ کوئی مثال دی اور نہ کوئی حوالہ۔
مومن کی شخصیت مختلف الجہات تھی۔ ان کا علم کسی ایک کروٹ نہیں بیٹھتا۔ نجوم، رمل، ریاضی اور موسیقی میں بھی دخل تھا۔ نجوم و رمل میں کمال کے شواہد ملتے ہیں۔ اس سے منسلک کئی واقعات ہیں۔ ’آب حیات ‘ میں مرقوم ہے :
ان کو نجوم سے قدرتی مناسبت تھی۔ ایسا ملکہ بہم پہنچایا تھا کہ احکام سن سن کر بڑے بڑے منجم حیران رہ جاتے تھے۔ سال بھر میں ایک بار تقویم دیکھتے تھے۔ پھر برس دن تک تمام ستاروں کے مقام اور ان کی حرکات کی کیفیت ذہن میں رہتی تھی۔ جب کوئی سوال پیش کرتا، نہ زائچہ کھینچتے، نہ تقویم دیکھتے۔ پوچھنے والے سے کہتے کہ تم خاموش رہو، جو میں کہتا جاؤں، اس کا جواب دیتے جاؤ۔ پھر مختلف باتیں پوچھتے تھے اور سائل اکثر تسلیم کرتا جاتا تھا۔ (42)
’آب حیات ‘ میں نجوم سے متعلق ایک واقعہ یوں درج ہے کہ ایک دن ایک غریب ہندو نہایت بے قرار اور پریشان آیا۔ ان کے بیس برس کے رفیق قدیم شیخ عبدالکریم اس وقت موجود تھے۔ خاں صاحب نے انھیں دیکھ کر کہا کہ تمھارا کچھ مال جاتا رہا ہے ؟ اس نے کہا، میں لٹ گیا۔ کہا، خاموش رہو۔ جو میں کہوں اسے سنتے جاؤ۔ جو بات غلط ہو، اس کا انکار کر دینا۔ پھر پوچھا کہ کیا زیور کی قسم کا تھا ؟ صاحب ! ہاں، وہی عمر بھر کی کمائی تھی۔ کہا تم نے لیا ہے یا تمھاری بیوی نے؟ کوئی غیر چرانے نہیں آیا۔ اس نے کہا، میرا مال تھا اور بیوی کے پہننے کا زیور تھا، ہم کیوں چراتے ؟ ہنس کر فرمایا، کہیں جلدی رکھ کر بھول گئے ہو گے، مال باہر کہیں نہیں گیا۔ اس نے کہا، صاحب ! سارا گھر ڈھونڈ مارا، کوئی جگہ باقی نہیں رہی، فرمایا، پھر دیکھو۔ گیا اور سارے گھر میں اچھی طرح دیکھا۔ پھر آ کر کہا، صاحب میرا چھوٹا سا گھر ہے، ایک ایک کونا دیکھ لیا، کہیں پتا نہیں لگتا۔ خاں صاحب نے کہا، اسی گھر میں ہے، تم غلط کہتے ہو۔ کہا، آپ چل کر تلاشی لے لیجیے۔ میں تو ڈھونڈ چکا۔ فرمایا، میں یہاں سے بتاتا ہوں۔ یہ کہہ کر ان کے سارے گھر کا نقشہ بیان کرنا شروع کیا۔ وہ سب باتوں کو تسلیم کرتا جاتا تھا۔ پھر کہا، اس گھر میں جنوب کے رخ ایک کوٹھری ہے اور اس میں شمال کی جانب ایک لکڑی کا مچان ہے۔ اس کے اوپر مال موجود ہے، جا کر لے لو۔ اس نے کہا مچان کو تین دفعہ چھان مارا، وہاں نہیں ملا۔ فرمایا، اسی کے ایک کونے میں پڑا ہے۔ غرض وہ گیا اور جب روشنی کر کے دیکھا تو ڈبا اور اس میں سارا زیور جوں کا توں وہیں سے مل گیا۔ (43)اس واقعے کو عرش نے بھی اپنی کتاب میں لکھا ہے اور حوالہ مومن کی پوتی کا دیا ہے کہ انھوں نے یہ واقعہ انھی کی زبانی سنا۔ کہیے یہ نجوم ہے یا کشف۔ حقیر عرش جب آپ کی پوتی صاحبہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے اس قصے کو بھی سنا۔ (44)مومن کو نجوم کے ساتھ رمل سے بھی لگاؤ تھا۔ عرش نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ خاں صاحب کا دربار لگا ہوا ہے۔ مختلف علوم و فنون کے شائق دامنِ طلب پھیلائے ہوئے بیٹھے ہیں۔ ایک طرف حکیم سکھانند راقم بھی مودب بیٹھے ہیں۔ یہ رمل میں خاں صاحب کے شاگرد ہیں۔ دیوار پر ایک چھپکلی نظر آتی ہے۔ خاں صاحب راقم کو فرماتے ہیں۔ بھئی ذرا دیکھنا یہ چھپکلی دیوار سے کب تک ہٹے گی۔ وہ زور لگا کر کہتے ہیں۔ حضور یہ ابھی جاتی ہے۔ خاں صاحب شطرنج کھیل رہے ہیں مگر مسکراتے ہیں اور دیوار کی طرف دیکھ کر حکم لگاتے ہیں۔ جب تک پورب سے اس کا جوڑا نہ آ جائے کیوں کر جائے گی۔ دیکھو اور پھر دیکھو۔ گھنٹہ دو گھنٹہ کے بعد بالا خانہ پر جہاں خاں صاحب جلسہ جمائے بیٹھے ہیں۔ ریشمی کپڑوں کے دو گٹھے لیے ہوئے ایک سوداگر آتا ہے (خاں صاحب کو ریشمی کپڑوں سے ازلی ذوق تھا اور کم سے کم پاجامہ ریشمی ضرور پہنتے تھے۔ ) سوداگر مزدور کے سر سے جیوں ہی ایک گٹھا کپڑے کا پورب والے دروازے سے داخل ہو کر کمرے میں اتارتا ہے، گانٹھ سے ایک چھپکلی پٹ سے گرتی ہے اور دوڑ کر دیوار والی چھپکلی سے جا ملتی ہے۔ پھر دونوں چھپکلیاں مل ملا کر ایک طرف کا راستہ لے لیتی ہیں۔ راقم خاں صاحب کا عالم تحیر میں منہ دیکھتے ہیں اور وہ مسکراکے فرماتے ہیں۔ میاں ہنوز دلی دور۔ تم چاہتے ہو شاعری کی طرح اس کو بھی حاصل کر لو، یوں تو یہ مذاق نہیں۔ (45)عرش نے افسوس ظاہر کیا ہے کہ ان کے چاہنے پر بھی کوئی ایسا نہ ملا جو اس نوع کے واقعات بتا سکے۔ تیسرا واقعہ اس سلسلے کا یہ ہے کہ کوٹھے سے گرنے کے بعد انھوں نے حکم لگایا کہ وہ پانچ دن، یا پانچ ماہ یا پانچ برس میں مر جائیں گے۔ چنانچہ پانچ ماہ کے بعد انتقال ہو گیا۔ (46)علم نجوم سے واقفیت کا اشارہ ان کے کلام میں بھی ملتا ہے۔ چھپکلی والے واقعے کے ماخذ کا حوالہ عرش نے نہیں دیا۔ زیور کی گمشدگی والے واقعے کے اختتام پر محمد حسین آزاد کا یہ نوٹ ملاحظہ ہو:
ایک صاحب کا مراسلہ اسی تحریر کے ساتھ پہنچا ہے، جس میں یہ اور اس قسم کے کئی اسرار نجومی ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں اور ان کے شاگردوں کی تفصیل بھی لکھی ہے۔ آزاد ان کے درج کرنے میں قاصر ہے، معاف فرمائیں۔ زمانہ ایک طرح کا ہے، لوگ کہیں گے، تذکرۂ شعرا لکھنے بیٹھا اور نجومیوں کا تذکرہ لکھنے لگا۔ (47)
چھپکلی والے واقعے کی صحت کا کوئی ٹھوس ثبوت دستیاب نہیں، اور بقول عبادت بریلوی بظاہر یہ سنی سنائی بات ہے لیکن ’’اس سے یہ حقیقت ضرور واضح ہو جاتی ہے کہ مومن کو علم رمل میں خاصا دخل تھا ‘‘۔ (48)عبادت بریلوی یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ جب بات سنی سنائی ہو تو اس سے اچھے خاصے دخل کا اندازہ کیسے لگایا جا سکتا ہے ؟آزاد نے جن واقعات اور تفصیلات کو درج کرنے میں خود کو قاصر جانا، اگر انھیں شامل کر لیتے تو مومن کے نجوم و رمل پر کچھ باتیں اور معلوم ہو جاتیں۔ مندرجہ بالا دونوں واقعات پر نثار احمد فاروقی کی رائے ملاحظہ ہو :
اس واقعے سے مومن کی ستارہ شناسی اتنی ثابت نہیں ہوتی، جتنا یہ ثابت ہوتا ہے کہ انھیں علم غیب بھی حاصل تھا۔ حالانکہ جس مکتب فکر سے ان کا تعلق تھا اس کا کہنا یہ ہے کہ علم غیب خدا کے سوا کسی کو نہیں۔ …اس میں بھی وہی غیب دانی والی بات ہے، یا پھر مومن اتنے ’پہنچے ہوئے ‘ تھے کہ انھیں شطرنج کھیلتے میں بھی کشف ہوتا رہتا تھا۔ …یہ چھپکلی والا قصہ متعدد بزرگوں کی کرامات کے ذیل میں بیان ہوا ہے۔ بالکل اسی طرح یہ روایت حضرت شاہ عضد الدین چشتی صابری (مصنف مقاصد العارفین ) کی کرامت کے ذیل میں سید نثار علی بخاری بریلوی نے شاہ عبدالہادی چشتی امروہوی کے ملفوظات ’مفتاح الخزاین ‘ میں لکھا ہے۔ بس اتنا فرق ہے کہ اس میں شطرنج کا ذکر نہیں۔ …مزید لطف یہ کہ مومن کی ایک رباعی کے حوالے سے ظہیر احمد صدیقی نے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ ’’اگرچہ مومن زبردست منجم تھے مگر وہ خیام کی طرح علم نجوم پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے۔ اس جملے نے تو ستارہ شناسی کی مہارت کے سارے قصوں پر پانی پھیر دیا۔ یہ تو ایسی ہی بات ہوئی کہ یوں کہا جائے ؛ اگرچہ مومن بڑے حاذق طبیب تھے مگر وہ یونانی طریق علاج میں اعتقاد نہیں رکھتے تھے۔ (49)
نثار احمد فاروقی کے یہاں اختلاف کی ایسی صورت پہلی دفعہ ظہور میں آئی۔ عقلی اور منطقی لحاظ سے فاروقی صاحب کی رائے سے انکار نہیں۔ عرش گیاوی نے مومن کی پوتی سے ملاقات کے حوالے سے لکھا ہے کہ انھوں نے مومن کی پوتی سے سنا کہ مومن عامل تھے اور گنڈے تعویذ کی بھی ان کے دھوم تھی۔ (50)ظہیر احمد صدیقی نے بس اتنا لکھا کہ نجوم کے سلسلے کی دوسری چیزیں رمل، جفر اور عملیات میں کامل دستگاہ حاصل کی جس کی تائید ان کے کلام سے بھی ہوتی ہے۔ (51)عرش سے قبل ان کے عامل ہونے اور گنڈے تعویذ کا ذکر کسی اور نے نہیں کیا۔ ضیا احمد بدایونی نے عملیات میں دخل کا ذکر کیا ہے، لیکن ان کے یہاں مثالوں کا فقدان ہے۔
مومن نے شطرنج میں بھی کمال حاصل کیا تھا۔ اس فن میں مہارت کا جتنا ذکر ’آب حیات ‘ میں ہے، بعد کے محققین، اس سے زیادہ آگے نہ بڑ ھ سکے۔ آب حیات :
شطرنج سے بھی ان کو کمال مناسبت تھی۔ جب کھیلنے بیٹھتے تھے تو دنیا و مافیہا کی خبر نہ رہتی تھی اور گھر کے نہایت ضروری کام بھی بھول جاتے تھے۔ دلّی کے مشہور شاطر کرامت علی خاں سے قرابت قریبہ رکھتے تھے اور شہر کے ایک دو مشہور شاطروں کے سوا کسی سے کم نہ تھے۔ (52)
الفاظ اور کیفیت کو گھٹا بڑھا کر بعد کے لوگوں نے مذکور ہ اطلاع ہی دہرا ئی ہے۔ البتہ کلب علی خاں فائق اور ظہیر احمد صدیقی نے شاطر، کرامت علی خاں کے انتقال پر مومن کا کہا ہوا قطعہ درج کیا ہے۔ ظہیر احمد صدیقی نے مومن کی ایک رباعی بھی لکھی ہے جس میں شطرنج کی اصطلاحات کا استعمال ہے :
صد جاست دریں عرصہ عرائی غم و رنج
مات اند ہنر و ران بہ منصوبہ گنج
افتادہ بدست ایں و آں باہمہ لہو
سلطان زمان ماست شاہ شطرنج
عرصہ، عرا، مات، منصوبہ، شاہ شطرنج، یہ سب شطرنج کی اصطلاحات ہیں۔ (53)ضیا احمد بدایونی اور ان کے حوالے سے ظہیر احمد صدیقی نے فضل حق خیر آبادی کا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ مولانا فضل حق خیر آبادی شطرنج کے بڑے ماہر تھے۔ مومن سے وہ اکثر مات کھا جایا کرتے تھے۔ مرزا غالب نے مولانا سے اس کی وجہ دریافت کی تو مولانا نے فرمایا کہ مومن بھیڑیا ہے جسے اپنی قوت کی خبر نہیں۔ اگر وہ عشق و عاشقی کے قصوں کو چھوڑ کر علمی مشغلے میں پڑتا تو اس کے ذہن کی حقیقت معلوم ہوتی۔ (54)اس ضمن میں عرش گیاوی نے بس اتنا اضافہ کیا ہے کہ اس فن میں شہزادہ مرزا رحیم الدین حیا مومن کے شاگرد رشید تھے۔ ورنہ اس نوع کی باتیں دہرانا تحقیق کا حاصل نہیں :
اس فن میں انہماک کی یہ صورت تھی کہ صبح کو بیٹھے تو چراغ جل گیا۔ اگر شام کو بیٹھے تو صبح ہو گئی۔ کھانے پینے کا بھی ہوش نہ رہتا تھا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ بساط کے کسی خانہ سے پیادہ کے ساتھ صبح کو نکلے تو منزل طے کر کے دوسری صبح کو گھر پلٹے۔ (55)
علم نجوم اور شطرنج کا ذکر تو ’آب حیات ‘ میں بھی ہے لیکن مومن ان کے علاوہ ریاضی اور موسیقی میں بھی ماہر تھے۔ ضیا احمد بدایونی نے لکھا ہے کہ ریاضی میں بھی ان کو مہارت تامّہ حاصل تھی اور خواجہ محمد نصیر کے سوا اس میں کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا۔ (56)عرش کہتے ہیں :
مومن شطرنج اور رمل وغیرہ کے شوق کے بعد بھی چین سے نہ بیٹھے۔ علم موسیقی، ریاضی، صنعت و حرفت میں، سادہ کاری میں، آتش بازی وغیرہ میں بھی ایجاد کا مادہ انھوں نے پیدا کیا۔ ان فنون سے دلچسپی رکھنے والے مومن خاں کے دربار میں برابر آیا کرتے تھے اور فیضیاب ہوتے تھے۔ سادہ کاری کی چیزیں خود ان کی بنائی ہوئی ان کے خاندان میں موجود ہیں۔ (57)
شطرنج، نجوم، رمل، ریاضی اور موسیقی کے علاوہ کسی نے بھی کسی اور فن میں مومن کی مہارت کا ذکر نہیں کیا۔ عبادت بریلوی نے اپنی کتاب ’مومن اور مطالعۂ مومن‘ ص:42میں مومن کے نواسے عبدالحی انصاری کے حوالے سے لکھا ہے کہ انھیں پتنگ بازی کا شوق تھا اور رقعے پرچے تعلقاتی گھروں میں عورتوں کے پاس بذریعہ پتنگ پہنچائے جاتے تھے۔ عرش نے پہلی دفعہ صنعت و حرفت، سادہ کاری اور آتش بازی کا ذکر کیا لیکن یقین کیسے کیا جائے ؟ انھوں نے کوئی حوالہ تو دیا ہوتا۔ بغیر ماخذ کے کوئی بات اس قدر وثوق سے نہیں کی جاتی۔ یہ بات سچ ہے کہ مومن کا ذہنی میلان موسیقی کی طرف تھا۔ کلب علی خاں فائق نے ’گل رعنا‘ ص: 171کے حوالے سے لکھا ہے:
خاندان خواجہ میر درد کو موسیقی سے انتہا ئی لگاؤ تھا۔ چنانچہ مومن کے خسر خواجہ محمد نصیر نبیسۂ خواجہ میر درد کو بھی موسیقی میں دستگاہ تھی۔ ہر مہینے کی دوسری اور چوبیسویں تاریخ کو ان کے ہاں محفل سماع منعقد ہوتی تھی اور علما و مشائخ اور اکثر امرا شرکت کرنا فخر سمجھتے تھے۔ …یہ مجلس سماع خواجہ محمد نصیر کے مرنے پر مولوی یوسف علی خاں صاحب سجادہ نشین نے جاری رکھی۔ میر ناصر احمد نبیسۂ ہمت خاں، بقول سرسید احمد خاں نغمہ سرائی اور بین نوازی میں یکتائے روز گار ہیں۔ یہ بھی خواجہ شاہ محمد نصیر کی مجلس میں شریک ہوتے تھے۔ ان کے بعدِ انتقال مولانا یوسف علی سجادہ نشین کی مجلس میں شریک ہوتے، اب جانب اودھ روانہ ہوئے ہیں (آثارالصنادید، ص: 227، طبع اول غالباً)سید ناصر حبیب نے انھیں میر ناصر احمد بین نواز کو نظیر بین باز بیان کیا ہے جو سماعی غلطی ہو گی۔ (58)
ضیا احمد بدایونی لکھتے ہیں :
کنیز فاطمہ صاحبہ اپنے والد سید ناصر حبیب صاحب ناصر دہلوی نبیسۂ مومن کے حوالہ سے بیان کرتی ہیں کہ مومن مرحوم کی رنگین مزاجی نے موسیقی کے فن لطیف کی طرف توجہ کی تو وہ نام پیدا کیا کہ لوگ ان کے کمال کے معترف ہو گئے۔ (59)
کلب علی خاں فائق نے ناصر حبیب کے ایک سہو کی تصحیح کر دی ہے کہ انھوں نے میر ناصر احمد بین نواز کو نظیر بین باز لکھ دیا ہے جو غلط ہے۔ حوالہ ’آثار الصنادید ‘ کا ہے۔ مومن کو اس فن میں کتنا کمال تھا اس سلسلے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ اس لیے کہ مثالوں کا فقدان ہے۔ انھیں اس فن میں دلچسپی ضرور تھی۔ انھوں نے اپنے ایک شعر میں موسیقی کی ایک اصطلاح چنگ نوازی کا ذکر کیا ہے :
زمزمہ سازی سے دم سازی
چنگ نوازی، گوش نوازی
ضیا احمد بدایونی نے ناصر حبیب کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب مومن کا انتقال ہوا تو نظیر بین باز میر ناصر احمد بین نواز نے بین اٹھا کر رکھ دی کہ اب اس کا دہلی میں کوئی قدر دان باقی نہ رہا۔ اس فن میں میر ناصر احمد کا درجہ استاد کا تھا۔ بعض روایتوں کے مطابق مومن ان کے سوا کسی کو اس فن میں اپنا مقابل نہیں مانتے تھے۔ موسیقی سے مومن کے فطری لگاؤ کا ثبوت محمد حسین آزاد کے اس بیان سے بھی ملتا ہے :
میں نے انھیں نواب اصغر علی خاں اور مرزا خدا بخش قیصر کے مشاعروں میں غزل پڑھتے ہوئے سنا تھا۔ ایسی درد ناک آواز سے دلپذیر ترنم کے ساتھ پڑھتے تھے کہ مشاعرہ وجد کرتا تھا۔ اللہ اللہ اب تک وہ عالم آنکھوں کے سامنے ہے۔ باتیں کہانیاں ہو گئیں۔ (60)
مرزا فرحت اللہ بیگ نے بھی مومن کے کلام پڑھنے کے انداز کو قلم بند کیا ہے :
بڑی درد انگیز آواز میں دلپذیر ترنم کے ساتھ یہ غزل پڑھی۔ …شاعری کیا تھی، جادو تھا۔ تمام لوگ ایک عالم محویت میں بیٹھے تھے۔ …آواز کے زیر و بم اور آنکھوں کے اشاروں سے جادو سا کر جاتے تھے۔ (61)
مومن نے معاش کے لیے زیادہ تگ و دو نہیں کی۔ اس عہد میں ہر شخص کی خواہش اور کوشش ہوتی کہ کسی طور اس کی رسائی شاہی دربار تک ہو جائے، تاکہ عزت بھی ملے اور منفعت بھی، لیکن مومن نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ حکیم نامدار خاں کے ورثے میں جو کچھ آیا، انھوں نے اسی پر قناعت کر لی۔ انگریزی حکومت نے ان کے خاندان کے چار اطبا کو جو سو روپے ماہوار مقرر کر دیے تھے، اس میں انھوں اپنے والد غلام نبی خاں کے حصے پر اکتفا کیا۔ انھوں نے کسی بھی حال میں اپنے فن کو رسوا نہیں ہونے دیا۔ دلی کالج میں جب فارسی کے استاد کی حیثیت سے انھیں دعوت دی گئی تو انھوں نے سو روپے ماہوار کی شرط رکھی۔ یہ رقم اس شرط پر ٹامسن نے منظور کی کہ وہ ان کے ساتھ باہر بھی جائیں گے تو انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ دلی کو سو روپے کے عوض نہیں بیچ سکتے۔ (62)’آب حیات ‘ میں مرقوم ہے :
جس طرح شاعری کے ذریعے سے انھوں نے روپیہ پیدا نہیں کیا، اسی طرح نجوم، رمل اور طبابت کو بھی معاش کا ذریعہ نہیں کیا۔ جس طرح شطرنج ان کی ایک دل لگی کی چیز تھی، اسی طرح نجوم، رمل اور شاعری کو بھی ایک اور بہلاوا دل کا سمجھتے تھے۔ (63)
راجا کپورتھلہ نے انھیں بلانے کے لیے ساڑھے تین روپے ماہوار مقرر کیے اور ہزار روپے سفر کا خرچ بھیجا۔ مومن تیار بھی ہو گئے، لیکن انھیں جیسے ہی معلوم ہوا کہ وہاں ایک گویّے کی بھی یہی تنخواہ ہے تو جانے سے انکار کر دیا۔ (64)ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ انھوں نے کسی کی تعریف میں قصیدہ لکھا ہو۔ البتہ ایک قصیدہ کیفیتِ واقعہ کے لحاظ سے مستثنیٰ ہے جو راجا اجیت سنگھ اور راجا کرم سنگھ رئیس پٹیالہ، کے لیے لکھا گیا تھا۔ دونوں دہلی میں رہتے تھے۔ کہتے ہیں بڑے سخی تھے۔ وہ ایک دن اپنے مصاحبوں کے ساتھ سرِ راہ اپنے کوٹھے پر بیٹھے تھے۔ مومن کا ادھر سے گزر ہوا۔ لوگوں نے بتایا کہ مومن خاں شاعر یہی ہیں۔ راجا صاحب نے آدمی بھیج کر بلایا۔ عزت سے بٹھایا۔ کچھ نجوم کچھ شعر و سخن کی باتیں کیں اور حکم دیا کہ ہتنی کس کر لاؤ۔ ہتنی حاضر ہوئی۔ وہ خاں صاحب کو عنایت کی۔ مومن نے کہا کہ مہاراج میں غریب آدمی ہوں، اسے کہاں سے کھلاؤں گا اور کیسے رکھوں گا ؟ راجا نے کہا کہ سو روپیے اور دو۔ خاں صاحب اسی پر سوار ہو کر گھر آئے اور ہتنی بیچ دی۔ پھر انھوں نے ایک قصیدہ شکریے کے بطور کہہ کر راجا صاحب کی خدمت میں روانہ کیا۔ اس قصیدے کے علاوہ اور کوئی مدح کسی دنیا دار کے لیے انھوں نے کبھی نہیں لکھی۔ اس لیے کہ وہ صلے سے بے پروا تھے۔ غیور اتنے تھے کہ کسی عزیز یا دوست کا ادنیٰ احسان لینا بھی گوارا نہ کرتے تھے۔ (65)
ایک اور قصیدے کا ذکر عرش گیاوی نے کیا ہے :
یہ قصیدہ نواب وزیر خاں والیِ ٹونک کے نام کا ہے۔ جو دوستانہ پکڑ کے اپنے یہاں لے گئے تھے اور جنھوں نے بڑا تپاک کیا۔ مجبوراً اس شکریہ میں قصیدہ لکھا۔ (66)
کلب علی خاں فائق لکھتے ہیں :
نواب وزیر الدولہ والیِ ٹونک کی جانب سے فریضۂ حج کی ترغیب دلائی گئی (آغاز عہد حکومت آخر ۱۲۵۰ھ)تو مومن نے، آرزوئے وصل صنم کا اظہار کر کے جان بچا لی۔ (67)
مندرجہ بالا دونوں بیانات میں تضاد ہے۔ ٹونک جانے والی با ت غور طلب ہے۔ عرش کے سواکسی اور نے ٹونک کے سفر کا ذکر نہیں کیا۔ ضیا احمد بدایونی لکھتے ہیں :
نعت و منقبت کے علاوہ صرف دو قصیدے ہیں جو ارباب دنیا کی مدح کہے جا سکتے ہیں لیکن ان کی حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ایک نواب وزیر الدولہ رئیس ٹونک کی شان میں ( جن سے مومن کو روحانی نسبت بھی تھی ) تحریر کیا ہے اور حاضریِ دربار سے معذرت کی ہے۔ (68)
عشق، مومن کی زندگی اور شاعری کا بنیادی حوالہ ہے۔ ان کے پانچ معاشقوں کا ذکر ملتا ہے۔ ان کی مثنویاں اس باب میں رہنمائی کرتی ہیں۔ پہلا عشق نو سال کی عمر میں ہوا۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ ان کی ہر مثنوی ان کے عشق کی داستان ہے تو تاریخی تسلسل میں ان مثنویوں کا جائزہ لینا آسان ہو جاتا ہے۔ ان کی پہلی مثنوی ’شکایت ستم ‘ 1815ئہے۔ اس زمانے میں مومن کی عمر سولہ برس بتائی جاتی ہے۔ عشق کا آغاز تو نو برس کی عمر ہی میں ہو چکا تھا۔ بیس برس کی عمر میں مثنوی ’قصۂ غم‘1819ئمکمل کی۔ ’’اس مثنوی سے مومن کے مزاج اور سیرت کے کچھ گوشے نمایاں ہوتے ہیں، مگر محبوبہ کے نام کا سراغ اس میں بھی نہیں ملتا۔ آخر یہ محبت بھی بار آور نہ ہوئی اور ۱۲۳۵ھ میں اس محبت کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ اور مومن کی متلون طبیعت کسی اور شوخ ادا کی تلاش میں رہنے لگی۔ ‘‘ (69)تیسرے معاشقے کا ذکر ’ قول غمین‘ 1820ئمیں ہوا ہے۔ کہتے ہیں کہ نبض دیکھنے میں نباض کے حواس اڑ گئے یعنی مسیحا خود بیمار ہو گیا۔ یہ عشق امۃ الفاطمہ سے تھاجس کے بارے میں تذکروں میں لکھا ہے کہ وہ ایک طوائف تھی اور لکھنؤ سے دہلی آئی تھی۔ عشق کا راز فاش ہونے پر اسے واپس اپنے وطن لکھنؤ جانا پڑا۔ امۃ الفاطمہ صاحب جی کے نام سے مشہور تھی۔ اس عشق میں بھی مومن کو ناکامی ہوئی۔ اس سلسلے کی چوتھی مثنوی ’ تف آتشیں ‘ 1825ئہے جو ناکام محبت کی داستان ہے۔ مثنوی ’ حنین مغموم‘ 1828ئبھی عشق میں ناکامی کا نتیجہ ہے۔
مومن نے رام پور، سہسوان، بدایوں، جہانگیر آباد، سہارنپور، سردھنہ، فیروز پور جھجر کا سفر کیا۔ جس کا محرک عشق کا جنون ہے۔ ان اسفار کے مقاصد اور نتائج سے متعلق ظہیر احمد صدیقی کے نمائندہ پہلو یہ ہیں :
اس کا مطلب یہ ہوا کہ مومن نے رام پور کا سفر اس وقت کیا جب کہ نواب محمد سعید خاں والی رام پور نہیں تھے۔ اور یہی وجہ ہے کہ عرشی صاحب کو شاہی ریکارڈ میں مومن کا ذکر نہیں ملا۔
مومن کا دو سرا سفر سہسوان کا ہوا۔ حیات العلما میں تحریر ہے کہ مومن نواب محمد سعید خاں سے جو اس زمانہ میں سہسوان میں ڈپٹی کلکٹر تھے، ملاقات کی غرض سے آئے اور یہیں پر مولانا سید تاج الدین نقوی کی خدمت میں حاضر ہو کر معتقدانہ مستفید ہوئے۔ سہسوان کی آمد کا مقصد ایک طرف ان حضرات سے ملاقات تھا اور دوسری طرف صاحب جی کا عشق۔
ان کا تیسرا سفر جہاں گیر آباد کا تھا جہاں نواب مصطفی خاں شیفتہ کی جاگیر تھی۔
ان کا چوتھا سفر نواب شایستہ خاں کے ہمراہ سہارنپور کا ہوا۔ اس سفر کے بعد انھوں نے کبھی دلی سے باہر نکلنے کی کوشش نہیں کی۔
سردھنہ کے سفر کا ذکر کسی تذکرے میں نہیں ملتا۔ انھوں نے اپنے ایک خط میں کسی سفر کے مصائب کا حال بیان کیا ہے۔ گو اس میں سردھنہ کا نام تو نہیں آیا ہے، تاہم قیاس یہ ہے کہ وہ سفر سردھنہ کا ہے۔
سردھنہ کی طرح فیروز پور اور جھجر کا ذکر بھی کسی تذکرے میں نہیں ملتا۔ اس سلسلے میں بھی انشائے مومن نے رہنمائی کی ہے۔ (70)
اس سلسلے میں ’آب حیات ‘ کی اطلاعات یہ ہیں :
خاں صاحب چار پانچ دفعہ دہلی سے باہر گئے۔ اول رامپور اور وہاں جا کر کہا :
دلی سے رامپور میں لایا جنوں کا شوق
ویرانہ چھوڑ آئے ہیں ویرانہ تر میں ہم
دوسری دفعہ سہسوان گئے۔ وہاں فرماتے ہیں :
چھوڑ دلی کو سہسوان آیا
ہرزہ گردی میں مبتلا ہوں میں
جہانگیر آباد میں نواب مصطفی خاں کے ساتھ کئی دفعہ گئے۔
ایک دفعہ نواب شایستہ خاں کے ساتھ سہارنپور گئے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دلی میں جو میسر تھا، اسی پر قانع تھے، درست ہے۔ تصدیق اس کی دیکھو غالب مرحوم کے حال میں۔ (71)
تذکروں نے ان اسفار کی طرف توجہ نہیں دی۔ ’ انشائے مومن ‘ بھی اس باب میں رہنمائی نہیں کرتی۔ اس لیے ان اسفار کی تاریخی ترتیب کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔
مومن کی پہلی شادی 1823میں ہوئی، لیکن جن خاتون سے ان کا نکاح ہوا وہ گاؤں کی رہنے والی تھیں۔ زمین دار کی بیٹی تھیں۔ اس وقت مومن کی عمر 23برس تھی۔ مومن کی آزاد روی اور رنگین مزاجی کی وجہ سے ممکن ہے کہ دونوں کے درمیان دوریاں بڑھتی گئی ہوں گی یا خود مومن کو اپنے مرتبے کے مطابق وہ خاتون نہیں معلوم ہوتی ہوں گی۔ وجہ کچھ بھی رہی ہو، انھوں نے پہلی بیوی کو چھوڑ کر خواجہ میر درد کے خاندان میں دوسرا نکاح کیا۔ خواجہ محمد نصیر خواجہ میر دردؔ کے نواسے ہیں۔ انھی کی دختر انجمن النسابیگم سے مومن نے نکاح کیا۔ انجمن النسا کو قوسین میں کلب علی خاں فائق نے انجم النسالکھا ہے، لیکن کوئی حوالہ نہیں دیا۔ اس بیوی سے پہلی اولاد احمد نصیر خاں ہیں۔ ان کے بعد ایک لڑکا اور ہوا1842۔ ان کی تیسری اولاد محمدی بیگم ہیں۔ ان کی اور بھی اولادیں ہوئیں، لیکن زندہ نہ رہیں۔ احمد نصیر خاں اور محمدی بیگم ہی سے ان کا خاندان چلا۔
مومن نے اپنی زندگی میں ایک مقدمہ بھی لڑا۔ ان کے خسر خواجہ محمد نصیر 1261ھ میں انتقال ہوا۔ میر درد کے خاندان کی روایت کے مطابق کسی کو سجادہ نشینی ملنی تھی۔ خاندان کے افراد نے خواجہ ناصر امیر کو جو خواجہ نصیر کے نواسہ پہلی بیوی سے تھے، سجادہ نشین بنا دیا۔ اس واقعے کی تفصیل ’میخانۂ درد ‘ ص:206میں موجود ہے :
انھوں نے (مومن ) بیوی اور سالی کی طرف سے دعویٰ دائر کیا کہ ساری جائداد بارہ دری کے خواجہ محمد نصیر صاحب کی ہے۔ اس لیے ہمیں ملنا چاہیے اور مقدمہ کی پیروی کے لیے میر تفضل حسین وکیل کو مقرر کیا۔ میری پر نانی اور نانی رانڈوں کا اس وقت سوائے خدا کے کوئی مدد گار نہ تھا۔ خواجہ ناصر امیر صاحب اس وقت نا تجربہ کار اور اپنی ضروریات میں مبتلا تھے۔ امانی بیگم صاحبہ اور عمدہ بیگم صاحبہ نے جواب دہی کے لیے مغل جان وکیل کو ٹھہرایا۔ (72)
یہی مقدمہ دردؔ کے خاندان اور مومن میں ناچاقی کاسبب بنا۔ مصنف ’میخانۂ درد‘ کے مطابق خواجہ میر دردؔ کے نواسے کی حیثیت سے خواجہ محمد نصیر کو چوتھائی حصہ ملا جو انجمن النسابیگم زوجہ مومن اور اشرف النسا بیگم زوجہ سید یوسف علی میں تقسیم ہوا، مگر اس مقدمے نے دونوں فریقین کو نقصان پہنچایا۔ مومن کی زوجہ اور سالی کو اپنا سکنائی مکان فروخت کرنا پڑا۔ دوسری طرف امانی بیگم اور عمدہ بیگم کو بھی اپنے مکان نیلام کرنے پڑے۔ مقدمہ بازی کی تفصیل ’میخانۂ درد ‘ ص ص : 206-207میں موجود ہے :
مومن خاں صاحب کو خواجہ ناصر امیر صاحب کی سجادہ نشینی بہت ناگوار ہوئی کیوں کہ ان کا جی چاہتا تھا کہ سسر کی جگہ میں سجادہ نشین ہوں مگر جانتے تھے کہ اگر شاعری اور طبابت چھوڑ کر فقیر بنوں گا زمانہ چٹکیوں میں اڑائے گا اور کہے گا :
اللہ رے گمرہی بت و بتخانہ چھوڑ کر
مومن چلا ہے کعبہ کو ایک پارسا کے ساتھ
اس لیے انھوں نے ڈھونگ کھڑا کیا کہ اپنے ہم زلف مولوی سید یوسف علی مدراسی کو جمعہ کے دن دلی کی جامع مسجد میں لے گئے اور نماز کے بعد ان کے گلے میں کفنی ڈالی اور ایک ناصری ان کے کندھے پر رکھی جو خواجہ میر درد صاحب کے خاندان کی خاص علامت تھی اور لوگوں سے کہا کہ خواجہ محمد نصیر صاحب مرحوم کی جگہ آپ ان کے سجادہ نشین ہوئے ہیں مگر مولوی یوسف علی صاحب کی طرف دلی والے اصلاً متوجہ نہ ہوئے۔ (73)
یہیں سے نفاق پڑا، اور نوبت مقدمے تک پہنچی۔
مومن نے شاعری کا آغاز کب کیا ؟ اس پہلو پر تحقیقی توجہ پہلے کلب علی خاں فائق اور ان سے استفادہ کرتے ہوئے ظہیر احمد صدیقی نے دی ہے۔ ظہیر احمد صدیقی فائق کے نتیجے ہی کو قرین قیاس قرار دیتے ہیں۔ ذکر ہو چکا ہے کہ مومن کی ہر مثنوی ان کے عشق کی داستان ہے۔ نو سال کی عمر میں انھوں نے پہلا عشق کیا۔ بارہ برس کی عمر میں شعر گوئی کا آغاز کیا۔ فائق نے جن حوالوں کی مدد سے اپنی بات آگے بڑھائی ہے، وہ توجہ طلب ہیں :
مومن نے اپنی پہلی مثنوی ’ شکایت ستم ‘ میں شعر گوئی کا ذکر کیا ہے، اور بارہ سال کی عمر میں محبوبہ سے پیام ملاقات کے جواب میں شعر کہہ کر آنے کا بیان کیا ہے۔ پہلی مثنوی 1231ھ میں لکھی گئی، اور محبوبہ سے ملاقات کئی سال چلتی رہی ہے۔ اس سے اس قدر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ 1231ھ سے پہلے شعر گوئی میں کا فی مہارت رکھتے تھے، اس لیے آخر 1227ھ میں آغاز شاعری ہوسکتا ہے۔ یہ مدت اس وجہ سے قرار پاتی ہے کہ 1215ھ 1800ئ مومن کا سال ولادت ہے اور 1227ھ میں ان کی عمر بارہ سال کی ہو چکی تھی، 1231ھ میں محبوبہ سے جدائی ہو جاتی ہے۔ محبت کا دوسرا واقعہ تین سال سے زیادہ چلا، پہلی محبوبہ سے محبت 1224ھ میں ہوئی۔ اور دوسری سے 1227ھ میں۔ 1227ھ سے قبل ترک تعلیم کر چکے تھے۔ دہلی میں شعر و شاعری کا چرچا عام تھا۔ اس لیے جو بچہ نو سال کی عمر میں عشق و محبت سے واقف ہو چکا تھا وہ شعر و شاعری سے بھی غالباً اسی عمر میں با خبر ہو چکا ہو گا۔ اور موزونیت سخن کا زمانہ 1227ھ سے قرار دیا جا سکتا ہے۔ (74)
مومن نے شاہ نصیرؔ کے آگے زانوئے ادب تہ کیا۔ اس کی مختلف وجوہ ہوسکتی ہیں۔ شاہ نصیر اس وقت دہلی میں استاد کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس عہد میں زیادہ تر لوگوں نے انھی کی شاگردی اختیار کی۔ مومن کے علاوہ اس عہد کی تثلیث کے دوسرے شاعر یعنی ذوق نے بھی شاہ نصیر ہی کی شاگردی اختیار کی۔ مومن نے ابتدا میں انھیں چند غزلیں دکھائیں اور سلسلہ منقطع کر لیا۔ اس کے بھی مختلف اسباب ہوسکتے ہیں۔ دونوں کا مزاج مختلف تھا۔ مومن ناسخ کی طرف مائل ہوئے۔ ممکن ہے دونوں میں کسی بات پر بگاڑ ہو گئی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی کا شاگرد کہلانا انھیں پسند نہ ہو یا اصلاح کی بندشیں انھیں بیزار کرتی ہوں۔ ان کا بنیادی مسئلہ سنگلاخ زمینوں میں شعر کہنا نہیں تھا۔ عرش لکھتے ہیں :
کہا جاتا ہے کہ ابتدائی چند غزلیں شاہ نصیر مرحوم کو بہ نظر اصلاح دکھائی تھیں۔ پھر وہ سلسلہ کچھ سمجھ کے بند کر دیا۔ قرینہ غالب ہے کہ اپنے کو شاہ نصیر کے رنگ سے بہت دور پایا اور دیکھا کہ ہونے کو تو وہ استاد کیا استاد گر ہیں اور سنگلاخ زمینوں کے بادشاہ ہیں آہ آہ اور واہ واہ میں فرق ہے …بہر حال ایک ہی دو غزل کی اصلاح سہی مگر نصیر مومن کے استاد تھے اور عمر بھر یہ ان کو ادب کے ساتھ یاد کرتے رہے۔ (75)
ظہیر احمد صدیقی نے مومن کی شاگردی کا زمانہ 1230ھ1814ء کے قریب متعین کیا ہے اور ایک شجرہ بھی پیش کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مومن کا سلسلۂ شاعری شاہ نصیر کے توسط سے سودا تک پہنچتا ہے :
ظہور الدین حاتم متوفی 1196ھ 1781ء
محمد رفیع سودا متوفی 1195ھ 1780ء
قیام الدین قائم متوفی 1210ھ 1795ء
شاہ محمدی مائل متوفی …………
نصیر الدین نصیر متوفی 1254ھ 1838ء
مومن خاں مومن متوفی 1268ھ 1851ء(76)
ظہیر احمد صدیقی نے اپنی کتاب ’ دبستان مومن ‘ میں مومن کے تلامذہ کا تحقیقی جائزہ لیا ہے۔ یہ کتاب ان کے پی۔ ایچ۔ ڈی کے مقالے مومن : شخصیت اور فن کا ایک باب ہے جو الگ سے نظر ثانی اور اضافے کے ساتھ شائع کی گئی۔ (77)کتاب کا آغاز’ اردو میں استادی شاگردی کی روایت ‘سے کیا ہے۔ مومن اسکول کے ضمن میں فنی پہلوؤں کی بنیاد پر نظری اختصاص کو نشان زد کیا گیا ہے اور یہ سب اس لیے کیا گیا ہے تاکہ ان کے تلامذہ پر مومن کے اثرات کی نشاندہی کی جا سکے۔ تلامذہ کی فہرست میں 44نام ہیں۔ ظہیر احمد صدیقی نے ان تمام تلامذہ کے حالات کے ساتھ منتخب اشعار بھی درج کر دیے ہیں۔ ایک طرح سے یہ ایک تذکرہ بھی ہے اور مومن کے تلامذہ کا تحقیقی مطالعہ بھی۔ ان کے مشہور تلامذہ میں سید عبدالرحمن آہی، مصطفی خاں شیفتہ، نسیم دہلوی، مولا بخش قلق، غلام ضامن کرم، اجودھیا پرشاد صبر، قربان علی بیگ سالک وغیرہ تھے۔ ظہیر احمد صدیقی سے قبل عرش گیاوی نے ان کے تلامذہ پر ’ شاگردان مومن اور ان کا کلام ‘ کے عنوان سے قلم اٹھایا۔ بیس شاگردوں کے حالات اور ان کے کلام پر اظہار خیال کیا۔ ان کے بعد کلب علی خاں فائق نے ان کے 38شاگردوں کے حالات اختصار کے ساتھ بیان کیے۔
مومن کی موت کے سلسلے میں ایک واقعہ مشہور ہے جس کی تصدیق کے ایک سے زائد حوالے موجود ہیں۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک دن مومن خاں کے مکان کی چھت کی مرمت ہورہی تھی جس کے لیے اسے کھول دیا گیا تھا۔ نیچے سے مزدور اوپر کی جانب کڑیاں دے رہے تھے۔ یہ اس کی منڈیر پر کھڑے تھے۔ چھت کی اونچائی کم تھی۔ اچانک انھیں کچھ جھپکی سی آئی اور پیر پھسل گیا۔ زیادہ بلندی تو نہ تھی، لیکن چوٹ کافی آ گئی۔ گرتے ہی بے ہوش ہو گئے۔ کہرام مچ گیا۔ بیوی بچوں نے رونا شروع کر دیا۔ عرش گیاوی لکھتے ہیں کہ ناصر نذیر فراق کے والد جو ان کے عزیز اور شاگرد بھی تھے، دوڑے اور انھیں اٹھا کر نیچے کے کمرے میں لٹا یا۔ عزیزوں، شاگردوں اور دوستوں کی آمد شروع ہو گئی۔ آہیؔ بھی پہنچے۔ جب ہوش میں آئے تو آہی کی طرف دیکھ کر کہا کہ میرا علم کہتا ہے کہ میں صرف پانچ مہینے بچوں گا۔ لو میرے مرنے کی تاریخ لکھو اور یہ تاریخ لکھوائی ؛ دست و بازو بشکست 1268ھ۔ مومن کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی۔ غدر سے پہلے سرجری کا رواج یا سہولت نہ تھی۔ جرّاحوں سے جو ہوسکا، کیا، لیکن ہونا تو وہی تھا جس کی طرف مومن نے واضح اشارہ کر دیا تھا۔ جمع کے دن بہ وقتِ صبح انتقال کیا۔ حسب ہدایت مہندیوں کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ یہ دہلی کا مشہور اور پرانا قبرستان ہے۔ جنازے کی نماز جامع مسجد دہلی میں ہوئی۔ شہر کے امیر غریب، علما فضلا، شعرا ادبا، شہزادے، سب جنازے کے ہمراہ تھے۔ غالب نے تو ماتم کیا ہی، ذوق کے بھی آنسونکل آئے۔ مزار زیر احاطہ دیوار مقبرہ مولانا شاہ عبدالعزیز، باہر کی سمت بہ جانب شرق واقع ہے۔ (78)مرزا قادر بخش صابر نے اپنے تذکرے ’ گلستان سخن ‘ میں اس واقعے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ’آب حیات ‘ میں ہے :
کوٹھے سے گرنے کے بعد انھوں نے حکم لگایا تھا کہ ۵ دن یا ۵ مہینے یا ۵ برس میں مر جاؤں گا، چنانچہ ۵ مہینے کے بعد مر گئے۔ گرنے کی تاریخ خود ہی کہی تھی : دست و بازو بشکست۔ مرنے کی تاریخ ایک شاگرد نے کہی۔ ماتم مومن۔ دہلی دروازہ کے باہر میدھیوں کے جانب غرب، زیر دیوار احاطہ مدفون ہوئے۔ شاہ عبدالعزیز صاحب کا خاندان بھی یہیں مدفون ہے۔ (79)
عرش گیاوی لکھتے ہیں :
بالکل بھلے چنگے تھے۔ کس بل ان کے دم خم میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔ ایک بال بھی سر کا نہ پکا تھا۔ نہ وضع داری میں کوئی کمی تھی۔ عمر کے لحاظ سے بھی جبکہ قبل غدر ساٹھ برس کی عمر میں آدمی جوان ہوتا تھا، یہ محض ترے پن 53برس کی عمر رکھتے تھے، کہ انتقال کیا۔ دیکھنے میں چالیس پینتالیس برس معلوم ہوتے تھے۔ (80)
کلب علی خاں فائق لکھتے ہیں :
مومن کی صحت اچھی تھی اور ان کو جوان تصور کرنا غلط نہ تھا۔ باون سال کی عمر ہو چکی تھی کہ ایک دن مکان مسکونہ کی مرمت کرا رہے تھے۔ یہ واقعہ غالباً 1852ء (جمادی لاول1268ھ)کا ہے۔ چھت کا عملہ اتار دیا گیا تھا۔ مومن بھی کام کی نگرانی میں مصروف تھے۔ مزدور بلیاں نیچے سے اوپر کو دے رہے تھے کہ مومن کا دھیان بٹا اور منڈیر سے نیچے گرے (عرش، حیات مومن، ص : 81، گلستان سخن، ص : 444)ہاتھ اور بازو ٹوٹ گیا۔ …عارف کی وفات (جمادی الثانی 1268ھ)کے بعد اور تسکین کی وفات ( 17شوال 1268ھ) سے پہلے ان کا انتقال غالباً رمضان المبارک 1268ھ (جون 1852ء)میں جمعہ کے روز ہوا۔ (81)
عرش کے مطابق مومن کی وفات 53برس کی عمر میں ہوئی۔ ضیا احمد بدایونی بھی یہی کہتے ہیں کہ انھوں نے 53 برس کی عمر پائی۔ کلب علی خاں فائق کے مطابق 52سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ سال ہجری 1268ہے۔ 1268ھ سے عیسوی سال 1851ء نکلتا ہے، لیکن ان کی وفات کا صحیح سال 1852بتایاجاتا ہے۔ ظہیر احمد صدیقی نے اس ضمن میں اچھی دلیل دی ہے۔ انھوں نے غالب کے ایک خط کا اقتباس پیش کیا ہے جس سے وفات کی تاریخ آسانی سے نکالی جا سکتی ہے۔ پہلے خط کا اقتباس ملاحظہ ہو۔ غالب ایک خط میں نبی بخش حقیر کو لکھتے ہیں :
سناہو گا تم نے کہ مومن خاں مر گئے۔ آج ان کو مرے ہوئے دسواں دن ہے۔ دیکھو بھائی ہمارے بچے مرے جاتے ہیں۔ ہمارے ہم عصر مرے جاتے ہیں۔ قافلہ چلا جاتا ہے۔ اور ہم پا در رکاب بیٹھے ہیں۔ مومن خاں میرا ہم عصر تھا اور یار بھی تھا۔ بیالیس تینتالیس برس ہوئے یعنی چودہ چودہ پندرہ پندرہ برس کی میری اور اس مرحوم کی عمر تھی کہ مجھ میں ربط پیدا ہوا۔ اس عرصہ میں کبھی کسی طرح کا رنج و ملال درمیان نہیں آیا۔ حضرت چالیس چالیس برس کا دشمن بھی نہیں پیدا ہوتا۔ دوست تو کہاں ہاتھ آتا ہے۔ یہ شخص بھی اپنی وضع کا اچھا کہنے والا تھا۔ طبیعت اس کی معنی آفریں تھی۔ (82)
اس خط کے اقتباس کی روشنی میں ظہیر احمد صدیقی حاشیے میں لکھتے ہیں :
نادرات غالب مرتبہ آفاق حسین۔ خط نمبر 19۔ 21مئی1852ء اس اعتبار سے مومن کی تاریخ وفات 12مئی 1852ء بروز بدھ ہونا چاہیے۔ بعض کا خیال ہے کہ مومن نے جمع کے دن وفات پائی جو غلط ہے۔ (83)
اگر 1852ء کو درست تاریخ مان لی جائے تو عرش اور ضیا احمد بدایونی کا خیال صحیح ہے کہ مومن کا انتقال 53برس کی عمر میں ہوا۔ عرصے تک مزار پر کوئی کتبہ /نشانی موجود نہ تھی۔ مشہور ادیب احمد علی نے اس پر کتبہ لگوایا۔ وفات کے بعد مومن کو کچھ لوگوں نے خواب میں دیکھا۔ محمد حسین آزاد اور مرزا قادر بخش صابر نے ایک روایت تحریر کی ہے۔ یہی روایت عرش گیاوی اور دیگر محققین نے بھی نقل کی ہے۔ ’آب حیات ‘ کی عبارت ملاحظہ کیجیے :
مرنے کے بعد لوگوں نے عجیب عجیب طرح سے خواب میں دیکھا۔ ایک خواب نہایت سچا اور حیرت انگیز ہے۔ نواب مصطفی خاں شیفتہؔ نے دو برس بعد خواب میں دیکھا کہ ایک قاصد نے آ کر خط دیا کہ مومن مرحوم کا خط ہے۔ انھوں نے لفافہ کھولا تو اس کے خاتمے پر ایک مہر ثبت تھی، جس میں مومن جنتی لکھا تھا اور خط کا مضمون یہ تھا کہ آج کل میرے عیال پر مکان کی طرف سے بہت تکلیف ہے، تم ان کی خبر لو۔ صبح کو نواب صاحب نے دوسوروپے ان کے گھر بھیجے اور خواب کا مضمون بھی کہلا بھیجا۔ ان کے صاحب زادے احمد نصیر خاں سلمہ اللہ کا بیان ہے کہ فی الواقع ان دنوں میں ہم پر مکان کی نہایت تکلیف تھی۔ برسات کا موسم تھا اور سارا مکان ٹپکتا تھا۔ (84)
خواب کے دو اور واقعات کا ذکر عرش گیاوی نے کیا ہے۔ عرش کی زبانی دوسرا واقعہ :
استادامیراللہ تسلیم مرحوم ہر پنج شنبہ کو مومن و نسیم کے نام فاتحہ دیا کرتے تھے۔ وہ اس عہد کا قصہ فرماتے تھے جب وہ مثنوی ’شام غریباں ‘ لکھ رہے تھے۔ کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ شب کا وقت ہے۔ میں چراغ جلا کے لکھ رہا ہوں۔ مومن خاں آئے ہیں۔ پوچھا کہ کیا لکھ رہے ہو۔ سناؤ۔ میں نے کچھ اشعار مثنوی کے سنائے۔ آپ نے فرمایا کہ مطلب سے اس قدر بعید ان شعروں کو یہاں سے نکال دو۔ اب جو بیدار ہوتے ہیں تو مثنوی پر غور کرتے ہیں اور واقعی چند شعروں کو بے ربط پاتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ نے ان کو نکال دیا۔ (85)
تیسرے واقعے کا تعلق خود عرش کی ذات سے ہے۔ انھی کی زبانی :
اب کہ مومن کو تقریباً اسّی برس ہو چکے، میں نے خود خواب دیکھا کہ اپنے خانہ باغ میں شب کو ننگے سر بیٹھا ہوں۔ اور چاندنی رات ہے۔ فرش زمین پر بچھا ہوا ہے۔ کچھ کاغذاتِ غزل میرے سامنے ہیں اور مومن خاں صاحب جو اپنی تصویر سے مشابہ ہیں سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے آگے اک گٹھری کپڑوں کی کھلی ہوئی ہے۔ ا س میں سے ایک ٹوپی اپنی جیسی کہ پہنتے تھے نکالی اور مجھ کو پہنا دی۔ میری آنکھیں کھل گئیں اور اس کے متعلق غور کرتا رہا۔ کچھ سمجھ میں آیا، کچھ نہ آیا۔ بہر حال ان کے مٹے ہوئے نام کو روشن کرنے کی دھن میں لگ گیا ہوں۔ خدا ان کے فیضان کا سایہ میرے سر پر رکھے۔ (86)
مومن کی موت پر غالب نے اس طرح اظہار افسوس کیا :
شرط است کہ روئے دل خراشم ہمہ عمر
خوننابہ بہ رخ زدیدہ باشم ہمہ عمر
کافر باشم اگر بہ مرگِ مومنؔ
چوں کعبہ سیہ پوش نباشم ہمہ عمر
صاحب ’ سخن شعرا‘ عبدالغفور نساخؔ نے وفات پر مادۂ تاریخ برآمد کیا:
نساخؔ فکر سال تاریخ میں نہ رہ تو
کہہ ہائے ہائے مومنؔ کیا خوب آدمی تھا
مومن پر جتنی اور جس نوعیت کی تحقیق ہوئی ہے، اس کا جائزہ لیا جا چکا ہے۔ تذکروں کے بعد کچھ اہم کام ان پر ہوئے۔ خصوصاً ’آب حیات ‘ کے بعد عرش گیاوی، ضیا احمد بدایونی، کلب علی خاں فائق اور پھر عبادت بریلوی اور ظہیر احمد صدیقی نے نہایت سنجیدگی سے مومن کی شخصیت اور احوال کی کڑیاں ملانے کا کام کیا ہے۔ کچھ اہم مضامین بھی اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، ان کا حوالہ بھی دیا جا چکا ہے۔ یہ سچ ہے کہ جتنا کام غالب شناسی میں ہوا ہے، مومن فہمی میں اس کا نصف بھی نہیں ہوا ہے۔ جامعات میں بھی مومن پر اس طرح کام نہیں ہوئے ہیں جس طرح ہونے چاہئیں۔ مومن شناسی کے باب میں جامعات کی شرکت غیر تشفی بخش ہے۔ مومن شناسی کے کتنے ہی پہلو اب بھی تشنہ ہیں۔ مومن کی شخصیت، عہد اور فن کے ابعاد اب بھی توجہ طلب ہیں۔ ممکنہ مآخذ کی روشنی میں جو کچھ مرتب ہوسکا ہے، ان سے ان کے احوال و مزاج کا مناسب اندازہ ہو جاتا ہے، لیکن ان کا کلام اب بھی تفہیم نو کی دعوت دے رہا ہے۔
٭٭
حوالے
(1)حکم چند نیر، مضمون ’ مومن کی شخصیت کے بعض پہلو ‘، مشمولہ : مجلہ ’غالب نامہ ‘، مدیر اعلی : پروفیسر نذیر احمد، 1985، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی، ص : 22
(2)محمد حسین آزاد، آب حیات، 2004، کتابی دنیا، دہلی، ص : 342
(3)نثار احمد فاروقی، مضمون ’ کچھ مومن کے بارے میں ‘، مشمولہ ’مومن خاں مومن :ایک مطالعہ ‘، مرتبہ : شاہد ماہلی، 2008، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی، ص : 21
(4)محمد حسین آزاد، آب حیات، 2004، کتابی دنیا، دہلی، ص : 349
(5)ایضاً، ص: 342
(6)فرمان فتحپوری، مضمون ’مومن کی حیات معاشقہ ‘، مشمولہ :نگار، مومن نمبر، مدیر:نیاز فتحپوری، پاکستان، ص:94
(7)عرش گیاوی، حیات مومن، 1347ہجری 1928ء، دریبہ کلاں، دہلی، ص : 17
(8)ایضاً، ص ص : 17-18
(9)ایضاً، ص: 18
(10)ایضاً، ص ص :19-20
(11)ایضاً، ص ص : 20-21
(12)ایضاً، ص: 137
(13)حکیم مومن خاں مومن، دیوان مومن مع شرح، مرتبہ : ضیا احمد بدایونی، 1962، طبع چہارم، شانتی پریس، الہ آباد، ص: 6
(14)ایضاً، ص: 31
(15)اکرام بریلوی، حکیم محمد مومن خاں مومن (شخصیت اور شاعری )، 2003، پاکستانی ادب پبلی کیشنز، کراچی :پاکستان، ص:32
(16)خلیق انجم، مضمون ’ مومن کاسوانحی خاکہ ‘، مشمولہ : مجلہ ’غالب نامہ ‘، مدیر اعلی : پروفیسر نذیر احمد، 1985، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی، ص ص : 20-21
(17)عرش گیاوی، حیات مومن، 1347ہجری 1928ء، دریبہ کلاں، دہلی، ص : 22-31
(18)ایضاً، ص: 136
(19)محمد حسین آزاد، آب حیات، 2004، کتابی دنیا، دہلی، ص : 343
(20)عرش گیاوی، حیات مومن، 1347ہجری 1928ء، دریبہ کلاں، دہلی، ص : 35
(21)ایضاً
(22)ایضاً، ص:36
(23)ایضاً
(24)ایضاً، ص: 34
(25)عبادت بریلوی، مومن اور مطالعۂ مومن، 1961، اردو دنیا، لاہور، ص : 15
(26)ایضاً
(27)مومن خاں مومن، انشائے مومن، ترجمہ و ترتیب : ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی، 1977، غالب اکیڈمی، نئی دہلی، ص:283
(28)کلب علی خاں فائق، مضمون ’ حیات مومن ‘، مشمولہ : اورینٹل کالج میگزین، 1959، جلد:36، لاہور: پاکستان، پنجاب یونیورسٹی پریس، مدیر : ڈاکٹر سید عبداللہ، ص : 3
(29)عبادت بریلوی، مومن اور مطالعۂ مومن، 1961، اردودنیا، لاہور، ص : 16
(30)ایضاً/سیرت اجمل، ہندوستانی دوا خانہ، ص: 401
(31)کلب علی خاں فائق، مضمون ’ حیات مومن ‘، مشمولہ : اورینٹل کالج میگزین، 1959، جلد:36، لاہور: پاکستان، پنجاب یونیورسٹی پریس، مدیر : ڈاکٹر سید عبداللہ، ص : 5
(32)عرش گیاوی، حیات مومن، 1347ہجری 1928ء، دریبہ کلاں، دہلی، ص : 37
(33)کلب علی خاں فائق، مضمون ’ حیات مومن ‘، مشمولہ : اورینٹل کالج میگزین، 1959، جلد:36، لاہور: پاکستان، پنجاب یونیورسٹی پریس، مدیر : ڈاکٹر سید عبداللہ، ص : 8
(34)عرش گیاوی، حیات مومن، 1347ہجری 1928ء، دریبہ کلاں، دہلی، ص : 37
(35)کلب علی خاں فائق، مضمون ’ حیات مومن ‘، مشمولہ : اورینٹل کالج میگزین، 1959، جلد:36، لاہور:پاکستان، پنجاب یونیورسٹی پریس، مدیر : ڈاکٹر سید عبداللہ، ص : 9
(36)محمد حسین آزاد، آب حیات، 2004، کتابی دنیا، دہلی، ص : 343
(37)عرش گیاوی، حیات مومن، 1347ہجری 1928ء، دریبہ کلاں، دہلی، ص : 37
(38)عبادت بریلوی، مومن اور مطالعۂ مومن، 1961، اردو دنیا، لاہور، ص : 23
(39)کلب علی خاں فائق، مضمون ’ حیات مومن ‘، مشمولہ : اورینٹل کالج میگزین، 1959، جلد:36، لاہور:پاکستان، پنجاب یونیورسٹی پریس، مدیر : ڈاکٹر سید عبداللہ، ص : 11
(40)محمد حسین آزاد، آب حیات، 2004، کتابی دنیا، دہلی، ص : 343
(41)عرش گیاوی، حیات مومن، 1347ہجری 1928ء، دریبہ کلاں، دہلی، ص : 38-39
(42)محمد حسین آزاد، آب حیات، 2004، کتابی دنیا، دہلی، ص : 343
(43)ایضاً، ص ص : 343-344
(44)عرش گیاوی، حیات مومن، 1347ہجری 1928ء، دریبہ کلاں، دہلی، ص : 43
(45)محمد حسین آزاد، آب حیات، 2004، کتابی دنیا، دہلی، ص : 349
(46)عرش گیاوی، حیات مومن، 1347ہجری 1928ء، دریبہ کلاں، دہلی، ص : 25-26
(47)محمد حسین آزاد، آب حیات، 2004، کتابی دنیا، دہلی، ص : 344
(48)عبادت بریلوی، مومن اور مطالعۂ مومن، 1961، اردو دنیا، لاہور، ص :28
(49)نثار احمد فاروقی، مضمون ’ کچھ مومن کے بارے میں ‘، مشمولہ ’مومن خاں مومن :ایک مطالعہ ‘، مرتبہ : شاہد ماہلی، 2008، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی، ص : 24-26
(50)عرش گیاوی، حیات مومن، 1347ہجری 1928ء، دریبہ کلاں، دہلی، ص : 42
(51)ظہیر احمد صدیقی، مومن : شخصیت اور فن، 1995، غالب اکیڈمی، نئی دہلی، ص ص : 91
(52)محمد حسین آزاد، آب حیات، 2004، کتابی دنیا، دہلی، ص : 344
(53)ظہیر احمد صدیقی، مومن : شخصیت اور فن، 1995، غالب اکیڈمی، نئی دہلی، ص ص : 93
(54)حکیم مومن خاں مومن، دیوان مومن مع شرح، مرتبہ : ضیا احمد بدایونی، 1962، طبع چہارم، شانتی پریس، الہ آباد، ص: 25
(55)عرش گیاوی، حیات مومن، 1347ہجری 1928ء، دریبہ کلاں، دہلی، ص : 39
(56)حکیم مومن خاں مومن، دیوان مومن مع شرح، مرتبہ : ضیا احمد بدایونی، 1962، طبع چہارم، شانتی پریس، الہ آباد، ص: 25
(57)عرش گیاوی، حیات مومن، 1347ہجری 1928ء، دریبہ کلاں، دہلی، ص : 40
(58)کلب علی خاں فائق، مضمون ’ حیات مومن ‘، مشمولہ : اورینٹل کالج میگزین، 1959، جلد:36، لاہور:پاکستان، پنجاب یونیورسٹی پریس، مدیر : ڈاکٹر سید عبداللہ، ص : 15
(59)حکیم مومن خاں مومن، دیوان مومن مع شرح، مرتبہ : ضیا احمد بدایونی، 1962، طبع چہارم، شانتی پریس، الہ آباد، ص: 25
(60)محمد حسین آزاد، آب حیات، 2004، کتابی دنیا، دہلی، ص : 345
(61)مرزا فرحت اللہ بیگ، دہلی کی آخری شمع، مرتبہ : رشید حسن خاں، 2009، انجمن ترقی اردو (ہند)، نئی دلّی، ص ص :-105 104
(62)ظہیر احمد صدیقی، مومن : شخصیت اور فن، 1995، غالب اکیڈمی، نئی دہلی، ص ص : 96
(63)محمد حسین آزاد، آب حیات، 2004، کتابی دنیا، دہلی، ص : 346
(64)ایضاً
(65)ایضاً، ص: 345
(66)عرش گیاوی، حیات مومن، 1347ہجری 1928ء، دریبہ کلاں، دہلی، ص : 55
(67)کلب علی خاں فائق، مضمون ’ حیات مومن ‘، مشمولہ : اورینٹل کالج میگزین، 1959، جلد:36، لاہور:پاکستان، پنجاب یونیورسٹی پریس، مدیر : ڈاکٹر سید عبداللہ، ص : 68
(68)حکیم مومن خاں مومن، دیوان مومن مع شرح، مرتبہ : ضیا احمد بدایونی، 1962، طبع چہارم، شانتی پریس، الہ آباد، ص: 36
(69)ظہیر احمد صدیقی، مومن : شخصیت اور فن، 1995، غالب اکیڈمی، نئی دہلی، ص ص : 98
(70)ایضاً، ص ص : 105-106
(71)محمد حسین آزاد، آب حیات، 2004، کتابی دنیا، دہلی، ص : 346
(72)ظہیر احمد صدیقی، مومن : شخصیت اور فن، 1995، غالب اکیڈمی، نئی دہلی، ص ص : 113
(73)ایضاً، ص:114
(74)کلب علی خاں فائق، مضمون ’ حیات مومن ‘، مشمولہ : اورینٹل کالج میگزین، 1959، جلد:36، لاہور:پاکستان، پنجاب یونیورسٹی پریس، مدیر : ڈاکٹر سید عبداللہ، ص ص : 34-35
(75)عرش گیاوی، حیات مومن، 1347ہجری 1928ء، دریبہ کلاں، دہلی، ص ص :55-56
(76)ظہیر احمد صدیقی، مومن : شخصیت اور فن، 1995، غالب اکیڈمی، نئی دہلی، ص ص : 117
(77)ظہیر احمد صدیقی، دبستان مومن، 1996، انجمن ترقی اردو (ہند)، نئی دہلی، ص: 3
(78)عرش گیاوی، حیات مومن، 1347ہجری 1928ء، دریبہ کلاں، دہلی، ص :81
(79)محمد حسین آزاد، آب حیات، 2004، کتابی دنیا، دہلی، ص : 349
(80)عرش گیاوی، حیات مومن، 1347ہجری 1928ء، دریبہ کلاں، دہلی، ص :80
(81)کلب علی خاں فائق، مضمون ’ حیات مومن ‘، مشمولہ : اورینٹل کالج میگزین، 1959، جلد:36، لاہور:پاکستان، پنجاب یونیورسٹی پریس، مدیر : ڈاکٹر سید عبداللہ، ص ص : 77-78
(82)خلیق انجم مرتب، غالب کے خطوط جلد سوم ، 1987، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی، ص:1111
(83)ایضاً
(84)محمد حسین آزاد، آب حیات، 2004، کتابی دنیا، دہلی، ص : 349
(85)عرش گیاوی، حیات مومن، 1347ہجری 1928ء، دریبہ کلاں، دہلی، ص :86
(86)ایضاً
٭٭٭
باب سوم تنقید: رویے اور ترجیحات
’مومن تنقید ‘کی کڑیاں بکھری ہوئی ہیں۔ اس باب میں ان بکھری ہوئی کڑیوں کو ہم رشتہ کرنا ہے۔ مومن پر اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے، ان سب کا ذکر اور ہر تحریر کا احتساب، یہاں ممکن نہیں۔ مومن تنقید کا محور وہ تحریریں ہیں جو مباحث اور افہام و تفہیم کو مستحکم کرتی ہیں۔ مومن پر لکھی گئی کچھ کتابیں اور نمائندہ مضامین احتساب کی اساس ہیں۔ مومن تنقید کی کڑیاں تذکروں سے ملتی ہیں۔ مصطفی خاں شیفتہ نے ’ گلشن بے خار ‘ میں ان کی بے جا تعریف کی تومحمد حسین آزاد نے ’ آب حیات ‘ میں انھیں شمولیت کے قابل ہی نہیں جانا۔ اس تناظر میں بلند و پست کے معیار کا تعین ممکن نہیں۔ ان کی شاعری پر سنجیدہ مکالمہ بعد میں قائم ہوا۔ تعریف و تنقیص کی ایک ایک مثال ملاحظہ ہو۔ سرسید احمد خاں ’آثار الصنادید ‘ میں لکھتے ہیں :
زبانِ ریختہ میں وہ کمال مبدء فیاض سے حاصل ہوا ہے کہ سوداؔ کو ان کے سخن کے رشک سے جنون اور میرؔ ان کے کلام کی خجلت سے مرقد میں سر نگوں۔ سخن گوئی کو بہ حد اعجاز پہنچایا اور شعر نے ان سے مرتبہ حکمت کا پایا۔ نکاتِ سخن اور دقائقِ فن ان کے قلم سے اس طرح گرتے ہیں جیسے ابر سے بارانِ لطافت۔ ان کی طبیعت اور فروغ ان کے ضمیر میں ایسی ہے جیسے آئینے میں صفا اور مشرق میں خورشیدِ درخشاں۔ ابیات ان کی مثلِ بیتِ ابرو سراپا انتخاب اور اشعار ان کے مانندِ مصرعِ زلف مجموعۂ آب و تاب۔ سخن ان کا با وصف پر گوئی کے رکاکت سے خالی اور فکر ان کا باوجود غور کے عالی۔ (1)
تعریف کی اس مثال کے بعد تنقیص کی ایک مثال ملاحظہ ہو۔ ضیا احمد بدایونی کے نام ایک خط میں علامہ اقبال رقم طراز ہیں :
میں نے مومن کو زندگی میں پہلی مرتبہ پڑھا۔ لیکن مجھے اعتراف ہے کہ ان کی شاعری سے مجھے بہت مایوسی ہوئی۔ شاذ و نادر ہی وہ تغزل کے کسی حقیقی جذبے تک پہنچ سکے ہیں۔ ان کے خیالات طفلانہ ہیں۔ وہ اکثر اپنے جذبات کے سوقیانہ پن کو چھپانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ نفسیاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو ان کے اندازِ بیان میں وضاحت کی کمی ہندوستانی مسلمانوں کے انحطاط پذیر جذبہ حکمرانی کا ایک اہم لیکن اذیت ناک ثبوت بھی ہے۔ صرف حاکم قوم میں اظہار کی وضاحت ایک لازمی امر ہے۔ یہ کیفیت یعنی وضاحت کی کمی جو مومن کے یہاں اس قدر عام ہے، کسی قدر کمی کے ساتھ مومن سے کہیں زیادہ عمیق ذہنوں میں بھی نظر آتی ہے (جیسے غالب اور بیدل)۔ اس مریض قوت ارادی کی دوسری علامات یا نتائج میں قنوطیت اور تصوف بھی شامل ہیں۔ جس میں ابہام سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور تشنہ بیانی کو گہرائی سمجھ کر مزہ لیتے ہیں۔ (2)
ایک طرف آسمان، دوسری طرف زمین۔ اثبات و نفی کے اس طوفان میں تنقید کہاں سر چھپائے اور کسے منہ دکھائے ؟ مومن تنقید اسی طرح کی صورتوں سے دوچار، رہی ہے۔ اقبال کے اعتراض کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اقبال نے مومن کے کلام کو قابل اعتنا نہیں جانا، کیوں ؟ وہ کہتے ہیں ’’ نفسیاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو ان کے اندازِ بیان میں وضاحت کی کمی ہندوستانی مسلمانوں کے انحطاط پذیر جذبہ حکمرانی کا ایک اہم لیکن اذیت ناک ثبوت بھی ہے‘‘۔ دراصل مومن کی شاعری ان کے مشن سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ان کا مقصدی رویہ مومن کے رومان کی ستائش کرنے سے قاصر ہے۔ ضیا احمد بدایونی نے انھیں ’ مجموعۂ غزلیات ‘ بھیجا تھا۔ مثنوی ’جہادیہ ‘ ان تک نہ پہنچ سکی تھی۔ اگر یہ مثنوی ان کی نظر سے گزری ہوتی تو ان کی رائے ضرور بدلتی۔
محمد حسین آزاد نے ’ آب حیات ‘ میں مومن کو دوسرے ایڈیشن میں شامل کیا۔ پہلے ایڈیشن میں شامل نہ کرنے کی جو بھی وجوہ رہی ہوں لیکن رد عمل میں اس عہد کے اہل نظر نے آزاد پر تنقید کی بوچھار کر دی۔ آب حیات کے پہلے ایڈیشن پر خواجہ الطاف حسین حالی نے تبصرہ کرتے ہوئے مومن کی عدم شمولیت پر سوال قائم کیا تو آزاد نے عذر لنگ پیش کیا کہ حالات کی دستیابی میں کسی نے ان کی مدد نہیں کی۔ جب حالی کو یہ عذر معلوم ہوا تو انھوں نے مومن پر چند صفحات لکھ کر انھیں بھیج دیے۔ اب کوئی بہانہ باقی نہ رہا اور دوسرے ایڈیشن میں مومن شامل کر لیے گئے۔ (3)آزاد کے بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ’ آب حیات‘ میں مومن سے متعلق جو کچھ بھی موجود ہے، اس میں زیادہ تر حالی کے قلم کا نتیجہ ہے، لیکن ایک جگہ آزاد رقم طراز ہیں :
اپنے شفیق مکرم کے الطاف و کرم کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے یہ حالات مرتب کر کے عنایت فرمائے، لیکن کلام پر رائے نہ لکھی اور باوجود التجائے مکرر کے انکار کیا۔ اس لیے بندہ آزادؔ اپنے فہم قاصر کے بموجب لکھتا ہے۔ (4)
آزاد کے اس بیان سے یقین ہو گیا کہ کلام پر رائے انھوں نے خود لکھی ہے۔ چونکہ مومن کو شامل کرنا ان کی مجبوری تھی، اس لیے ان سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ کلام پر غیر جانب دار ہو کر رائے لکھیں گے۔ ان کے بیان کی داخلی ساخت میں تضاد ہے۔ ملاحظہ ہو:
غزلوں میں ان کے خیالات نہایت نازک اور مضامین عالی ہیں اور استعارہ اور تشبیہ کے زور نے اور بھی اعلی ٰ درجے پر پہنچا دیا ہے۔ ان میں معاملات عاشقانہ عجیب مزے سے ادا کیے ہیں۔ اسی واسطے جو شعر صاف ہوتا ہے، اس کا انداز جرأت سے ملتا ہے اور اس پر وہ خود بھی نازاں تھے۔ اشعار مذکورہ میں فارسی کی عمدہ ترکیبیں اور دل کش تراشیں ہیں کہ اردو کی سلاست میں اشکال پیدا کرتی ہیں۔ ان کی زبان میں چند وصف خاص ہیں، جن کا جتانا لطف سے خالی نہیں، وہ اکثر اشعار میں ایک شے کو کسی صفت خاص کے لحاظ سے ذاتِ شے کی طرف نسبت کرتے ہیں اور اس ہیر پھیر سے شعر میں عجیب لطف بلکہ معانی پنہانی پیدا کرتے ہیں … اکثر عمدہ ترکیبیں اور نادر تراشیں فارسی کی اور استعارے اور اضافتیں اردو میں استعمال کر کے کلام کو نمکین کرتے ہیں۔ (5)
آزاد کا بیان ہے کہ مومن کا جو شعر صاف ہوتا ہے، وہ جرأت سے ملتا ہے اور اس پر مومن نازاں بھی تھے۔ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ شعر کا صاف ہونا، جرأت سے کیا نسبت رکھتا ہے ؟ ہم نے کہیں نہیں پڑھا کہ مومن نے خود کو جرأت سے وابستہ کیا اور اس پر فخر کیا۔ ایسی کوئی شہادت نہ مل سکی جس میں مومن نے جرأت کی چوما چاٹی اور چھیڑ چھاڑ کی تحسین کی ہو اور اپنی تقلید کا ذکر کیا ہو۔ جب ترکیبیں عمدہ اور تراشیں دل کش ہیں تو اردو کی سلاست میں اشکال کیوں کر پیدا ہو گا ؟ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ عمدہ ترکیبوں اور دل کش تراشوں سے اردو کی سلاست میں اشکال پیدا ہوتا ہے اور دوسری طرف خود ہی کہتے ہیں کہ ان سے وہ کلام کو نمکین بناتے ہیں۔ چہ بوالعجبی است ؟ انھوں نے ان کے قصائد کو عالی رتبہ بتا یا۔ مثنویوں کو درد انگیز قرار دیا، لیکن دونوں کی زبان کو ان کی غزل کی زبان کے مماثل ٹھہرایا۔
امداد امام اثر نے ’ کاشف الحقائق ‘ میں مومن کے متعلق اظہار خیال کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ مومن کی غزلیں ایک ہی رنگ میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ وہ ان کی شاعری کو داخلی قرار دیتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ پُر تاثیری میں وہ دردؔ اور میرؔ صاحب تک نہیں پہنچتے۔ اُن کے نزدیک اِن بزرگوں کا کلام فوراً دل پر اثر کرتا ہے، لیکن :
برخلاف اس کے مومن کا انداز سخن ہے کہ جب تک بغور ان کے کلام پر نظر نہ ڈالیے، لطفِ کلام حاصل ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے بعض بے مغزوں نے مومن کے دیوان کو مہمل قرار دیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مومن ایک بڑے بلیغ شاعر ہیں۔ لیکن عظمت میں میر کو نہیں پہنچتے (6)
امداد امام اثر کہتے ہیں کہ مومن ہرچند کہ وصل و فراق، غم، ملال، رنج، ضد، عداوت، حسد، رشک، اضطراب، بے تابی، بے خوابی کے مضامین خوب باندھتے ہیں لیکن ان کے کلام سے کبھی کبھی کوچہ گردی کی بو آتی ہے۔ (7)کوچہ گردی کی مثال میں انھوں نے اشعار پیش نہیں کیے۔ بعد کے ناقدین نے اس اصطلاح کو دہرایا لیکن انھوں نے بھی مثالوں سے احتراز کیا۔ سبب لا معلوم ؟ مومن کے کلام میں تشبیہ کم ہے یا موصوف کی زبان میں مومن خاں کی غزل سرائی تشبیہ سے اکثر پاک دیکھی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں استعارے بھی مومن کے یہاں کم ہیں۔ ان کا مشاہدہ ہے کہ مومن کی شاعری میں نقص مضامین کے سبب نہیں، بلکہ بندش اور تعقید کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔
مومن تنقید میں پہلا سنجیدہ نام ضیا احمد بدایونی کا لیا جاتا ہے، لیکن یہ ان کے ناقد کم، شارح زیادہ ہیں۔ 1925میں انھوں نے قصائد مومن کی شرح شائع کی۔ 1933میں انھوں نے دیوان مومن غزلیات و فردیات مع شرح شائع کیا۔ 1962تک اس کے چار ایڈیشن نکلے۔ چوتھا ایڈیشن شانتی پریس الہ آباد سے طبع ہوا۔ دیوان مومن کی تصحیح، تدوین اور تشریح ان کا خاص کارنامہ ہے۔ انھیں مومن تنقید میں کوئی جگہ مل سکتی ہے ؟ سولہ صفحات پر مشتمل ان کا مضمون ’ کلام مومن کا نفسیاتی مطالعہ ‘ اس سلسلے میں حوالے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی مضمون مرکز مطالعہ ہے، لیکن اس سے قبل ’ کلام مومن ‘ کے تحت انھوں نے کچھ پہلوؤں کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نچوڑ یہ ہے :
مومن نے تقریباً تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کے معاصرین کو تو چھوڑیے، اردو کے بہت کم اساتذہ ہوں گے جن کے یہاں قدرت کلام کے ساتھ اس قدر ہمہ گیری ہو۔
’’غالب عمر بھر انگریز حکام کی چاپلوسی کو طرۂ امتیاز سمجھتے رہے ‘‘، جبکہ ’’ مومن کے یہاں ایسے خیالات کی کمی نہیں جو ان کے دردِ قوم و ملت کے یقیناً آئینہ دار ہیں ‘‘۔
غالب کے مقابلے مومن مذہبی تھے۔
قصیدے میں سوداؔ کے علاوہ ان کا کوئی ہمسر نہیں۔ پختگی اور صفائی میں ذوقؔ کا مرتبہ بلند ہے، تاہم زور اور ندرت میں مومن کا مقابلہ نہیں۔
مومن کو مختلف علوم میں مہارت تھی۔ اس لیے شاعری میں علمی اصطلاحات در آئی ہیں جو بڑی حد تک کلام کے مغلق ہونے کی ذمہ دار ہیں۔
غزل ہی مومن کی معراج الکمال ہے اور اسی کے بدولت وہ صاحب طرز مانے گئے۔ ان کی شاعری میں عام طور پر داخلی رنگ زیادہ نمایاں ہیں۔
آخر میں غالب نے رنگ میر اختیار کیا اور مومن اپنے ذاتی طرز پر آ گئے۔ ان کے ہم عصروں میں ذوقؔ و غالبؔ دونوں ’ مقلد ‘ ہیں، یعنی ایک کے کلام میں سودا، نصیر، معروف، مصحفی، انشا، جرأت کا تتبع پایا جاتا ہے اور دوسرے کے یہاں بیدلؔ و میرؔ کا۔ صرف ایک مومن ہیں جن کو مجتہد فن کہا جا سکتا ہے۔ ابتدائے مشق میں ضرور ان کے کلام میں بھی ناسخؔ و نصیرؔ کا رنگ جھلکتا تھا۔ علاوہ بریں کہیں کہیں بیدلؔ کا انداز بھی نظر آتا تھا۔
مومن کا خاص طرز ’ تغزل ‘ ہے۔ ان کا وصف یہ ہے کہ انھوں نے غزل کو اس کے حقیقی مفہوم میں منحصر کر دیا۔ مانا کہ ایسا کرنے سے شاعری کا میدان تنگ تر ہو گیا، لیکن یہ عیب نہیں بلکہ ہنر ہے کہ ان کی دقیقہ سنج طبیعت نے ’ظرف تنگنائے غزل ‘ میں ان قیود کے باوجود وہ جولانیاں دکھائیں اور اس محدود موضوع میں وہ تنوعات پیدا کیے کہ تمام معاصرین پر سبقت لے گئے اور نفس تغزل کے لحاظ سے ’بہترین غزل گو ‘ کہے جانے کے مستحق ٹھہرے۔
نازک خیالی، مضمون آفرینی، شوخیِ ادا، مکرِ شاعرانہ، معاملہ بندی، علمیت، مذہبیت، طنز… ان کی شاعری کے بنیادی اوصاف ہیں۔ (8)
ضیا احمد بدایونی کے خیالات تضاد کا شکار ہیں۔ ان کی تفہیم کے رویوں اور فیصلوں میں جانب داری کی بو آ رہی ہے۔ مومن نے اگر تمام اصناف میں طبع آزمائی کی تو یہ کوئی بہت بڑی بات نہیں۔ ایک سے زائد اصناف میں طبع آزمائی اس زمانے کا عام رجحان تھی، اور محض طبع آزمائی سے کوئی بڑا شاعر نہیں بن جاتا، اور کیا وجہ ہے کہ’’ غزل ہی مومن کی معراج الکمال ہے اور اسی کے بدولت وہ صاحب طرز مانے گئے ‘‘۔ مومن کو بڑا ثابت کرنے کے لیے غالب کو چھوٹا کہنا ضروری نہیں۔ غالب انگریزوں کے چاپلوس تھے، یہ مان بھی لیا جائے تو اس سے ان کی شاعری کا مرتبہ کم تو نہیں ہو جاتا، یا مومن کے مذہبی ہونے کے سبب ان کی شاعری بڑی نہیں ہو جاتی۔ شخصیت کے کسی ایک جز کو پوری شخصیت فرض کر لینا، انصاف نہیں ؟ ایک طرف تو وہ یہ کہتے ہیں کہ پختگی اور صفائی میں ذوقؔ کا مرتبہ بلند ہے، اور دوسری طرف یہ بھی فرماتے ہیں کہ زور اور ندرت میں مومن کا مقابلہ نہیں۔ قصیدے میں جب سودا کے علاوہ ان کا کوئی ہمسر نہیں تو ذوق کا کیا بنے گا ؟کیا مومن کے قصائد میں پختگی اور صفائی نہیں ؟ کیا ذوق کے یہاں زور اور ندرت نہیں ؟ کیا غالب کو مقلد اور مومن کو مجتہدِ فن کہنے میں جانب داری کی بو نہیں آتی ؟’’مومن تمام معاصرین پر سبقت لے گئے اور نفس تغزل کے لحاظ سے ’بہترین غزل گو ‘ کہے جانے کے مستحق ٹھہرے …۔ ‘‘سبقت لے جانا اور بہترین غزل گو قرار دیا جانا، بحث کو کون سا رخ عطا کرتا ہے، یہ فیصلہ اہل نظر پر چھوڑ دیا جائے تو بہتر ہے۔ موصوف ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’ کسی شعر میں عشق کی روداد ہے یا اخلاق و تصوف کا فقدان ہے تو اس سے شعر میں کوئی نقص نہیں۔ دیکھنے کی بات صرف یہ ہے کہ عشق یا حسن کی نسبت جو خیال ظاہر کیا گیا ہے ، سلیقہ سے ظاہر کیا گیا ہے یا نہیں ‘‘۔ (9)جب سلیقہ ہی معیار ٹھہرا تو مومن کو اہم اور بڑا ثابت کرنے کی کوشش میں سودا، غالب اور ذوق کو بیچ میں لانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ سلیقے کی بات تو یہی ہے کہ جس طرح غالب اردو کے اہم شاعر ہیں، اسی طرح مومن بھی اہم اور صاحب طرز ہیں، اور یہ کسی فیشن، تعصب یا عقیدت میں کہی ہوئی بات نہیں۔ ضیا صاحب کہتے ہیں کہ مومن کا خاص طرز ’تغزل ‘ ہے اور ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے غزل کو اس کے حقیقی مفہوم میں منحصر کر دیا۔ ایسا کرنے سے ان کی شاعری کا میدان تنگ ہو گیا۔ لیکن یہ عیب نہیں بلکہ ہنر ہے۔ یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں :
تغزل کیا ہے ؟
غزل کا حقیقی مفہوم کیا ہے ؟
کیا تغزل سے شاعری کا میدان تنگ ہو جاتا ہے ؟ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ عیب کے بجائے، ہنر کیسے ہوا؟
شبلی ’ شعر العجم ‘ میں تغزل کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’ تغزل سے مراد ہے کہ عشق اور عاشقی کے جذبات موثر الفاظ میں ادا کیے جائیں ‘‘۔ (10)ضیا احمد بدایونی کا خیال ہے :
ہمارے خیال میں ایک غزل نگار کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ غزل کی بنیاد صرف ان واردات پر رکھے جن کا تعلق جذبات عشق و محبت سے ہے۔ دوسرے مضامین بھی ضمناً آ جائیں تو مضائقہ نہیں۔ صرف خشک فلسفہ نظم کر دینا یا مسائل تصوف کو موزوں کر دینا تغزل کیوں کر کہا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے غزل کو چھوڑ کر دوسری اصناف شعر سے کام لیا جائے تو بہتر ہے۔ (11)
شمس الرحمن فاروقی رقم طراز ہیں :
’تغزل ‘ کوئی اصطلاح نہیں۔ پرانے زمانے میں اس کا وجود نہ تھا۔ محمد حسین آزاد تک کے یہاں یہ نہیں ملتی۔ یہ ایک فضول تصور ہے جو اس بات پر مبنی ہے کہ غزل اور انگریزی Lyric ایک ہی طرح کی چیز ہیں۔ لہذٰا اگر Lyric میں Lyricism ہو تی ہے تو غزل میں تغزل ہوتا ہے۔ یہ باتیں بالکل مہمل ہیں۔ میں انھیں نہیں مانتا۔ (12)
تغزل کی تعریف نہایت مشکل ہے۔ اگر تغزل سے مراد صرف ’غزل گوئی ‘ ہے، تب تو کوئی مسئلہ نہیں۔ اس کے حدود اور خصائص متعین کرنا ممکن نہیں۔ اس ضمن میں جو تعریفیں کی گئی ہیں، ان میں بڑا تضاد ہے۔ کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ۔ فاروقی صاحب اسے فضول تصور بتاتے ہیں۔ اگر ماضی بعید میں کوئی اصطلاح موجود نہ تھی، لیکن ماضی قریب میں وہ تشکیل پا جاتی ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ’ تغزل ‘ ایک معروف اصطلاح ہے۔ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ کسی اصطلاح کا مستقبل کیا ہو گا، یہ کہنا مشکل ہوتا ہے۔ کسی اصطلاح کی معنوی اساس قائم نہ رہ پائے تو اس میں بذات خود اصطلاح کا کوئی قصور نہیں۔ یہ مسئلہ تو اس کے استعمال کرنے والوں کا ہے کہ وہ اسے کس کس سیاق میں کام میں لا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو صفات غزل سے وابستہ ہیں، وہی تغزل سے بھی وابستہ ہیں۔ مثلاً رمزیت، ایمائیت، سوز و گداز، داخلیت وغیرہ۔ یہ سچ ہے کہ غزل نے حسن و عشق کے دائرے میں بال و پر نکالے ہیں، لیکن اس وقت بھی اس کے سامنے آکاش کی وسعت تھی اور آج بھی ہے۔ تنوع اس کی جہات کو پھیلاتا ہے۔ جس طرح غزل میں موضوع اور اسالیب اظہار کے بموجب تنوع پیدا ہوا ہے، اسی طرح تغزل کے تصور میں بھی وسعت آنی چاہیے۔ لیکن ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوا۔ تغزل کو غزل کی بنیادی اصطلاح سمجھا گیا، لیکن اس کی تعریف و تعیین کی کوشش کم ہی کی گئی۔ تغزل داخلی پیرایے میں عشقیہ اظہار سے وابستہ ہو گیا۔ ہم پھر اپنی بات دہرائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو صفات غزل سے وابستہ ہیں، وہی تغزل سے بھی وابستہ ہیں۔ اس لیے ہمارے نزدیک تو تغزل کی پہلی تعریف ہی مستحسن ہے، یعنی ’ غزل کہنا‘۔ اگر یہ کہا جائے کہ فلاں شاعر کے یہاں تغزل بہت ہے تو اس کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ اس کے یہاں غزلیہ عناصر بہت ہیں۔ دو پیرایے ہیں۔ داخلی اور خارجی۔ مثنوی، مرثیہ، قصیدہ وغیرہ میں خارجی علائق زیادہ ہوتے ہیں۔ وقوعہ نگاری میں داخلی عناصر کا رول کم ہوتا ہے۔ ایسے میں ایمائی لہجے کے لیے غزل کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ایمائیت، داخلیت پیدا کرتی ہے۔ داخلی پیرایہ اگر تغزل ہے تو اس میں عشقیہ اظہار کی پابندی نہیں لگانی چاہیے۔ مومن کے وہ اشعار جن میں عشق کا واضح اظہار نہیں تو کیا ان میں تغزل نہیں ؟ ضیا احمد بدایونی کہتے ہیں کہ ایسے’’ مضامین بھی ضمناً آ جائیں تو مضائقہ نہیں۔ صرف خشک فلسفہ نظم کر دینا یا مسائل تصوف کو موزوں کر دینا تغزل کیوں کر کہا جا سکتا ہے ‘‘، یعنی تغزل میں دیگر مضامین بھی آسکتے ہیں، لیکن ان کی حیثیت ضمنی ہو گی۔ اسے کہتے ہیں دبی زبان میں قبول کرنا کہ جو غزل کے خصائص ہیں، وہی تغزل کے بھی ہیں۔ ہمارا سوال یہ بھی تھا کہ غزل کا حقیقی مفہوم کیا ہے ؟ اس سوال میں بھی وہی تغزل والی بحث پوشیدہ ہے۔ ضیا صاحب غزل کا حقیقی مفہوم تغزل کو بتاتے ہیں۔ اس سوال کا جواب دیا جا چکا ہے۔ غزل کی وسعت میں حقیقی و غیر حقیقی کی بحث اہم نہیں۔ موصوف بتاتے ہیں کہ تغزل سے شاعری کا میدان تنگ ہو جاتا ہے۔ وہ یہ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ انھیں تغزل کا مفہوم یہ معلوم ہے کہ وہ عشقیہ اظہار کا نام ہے۔ جب کہ حقیقت کچھ اور ہے۔ ایک طرف تو وہ یہ کہتے ہیں کہ تغزل سے شاعری کا میدان تنگ ہو جاتا ہے، لیکن دوسری طرف وہ اسے عیب کے بجائے ہنر بتاتے ہیں۔ اس کا مطلب آدمی تنگ میدان میں شعر کہے، کیوں کہ ایساکرنا ہنر کا کام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تغزل غزل کہنے سے شاعری کا میدان تنگ نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ عیب نہیں۔ موصوف نے نفس تغزل کے اعتبار سے مومن کو بہترین غزل گو قرار دیا ہے۔ یا تو یہ مبہم اور بعض صورتوں میں مہمل جملہ ہے یا پھر یہ مان لینا چاہیے کہ مومن نے عشقیہ اظہار کے علاوہ کچھ کہا ہی نہیں۔ ان کے یہاں ان کی مٹی، ان کی ذات، ان کا وجود، ان کا عہد … کچھ ہے ہی نہیں۔ ایسا بھی تو نہیں کہ ان کے یہاں عشق کے وسیلے سے کائنات کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ تو کس تغزل کی بات کی جا رہی ہے اور وہ بہترین غزل گو کیسے ہوئے ؟ اس کا جواب ضیا صاحب کے پاس نہیں۔
ضیا صاحب کے نزدیک نازک خیالی، مضمون آفرینی، شوخیِ ادا، مکرِ شاعرانہ، معاملہ بندی، علمیت، مذہبیت، طنز… ان کی شاعری کے بنیادی اوصاف ہیں۔
’ نازک خیالی‘ کیا ہے ؟
سادگی، پیچیدگی سے عاری ہوتی ہے۔ سادہ خیال اس لیے پیچیدہ نہیں ہوتا کہ اس میں گہرائی نہیں ہوتی۔ وسعت نہیں ہوتی۔ نازک خیالی سادہ گوئی یا معمولی اظہار یے کو نہیں کہتے۔ خیال کی نزاکت، خیال کی پیچیدگی پر دال ہے۔ پیچیدگی دو یا دو سے زائد چیزوں کے ملنے سے پیدا ہوتی ہے۔ خیال دو یا دو سے زائد تصورات ان کے ممکنات یا استعارہ در استعارہ کی صورت حال میں پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ نازک خیالی تذکروں کی اصطلاح ہے۔ آج کی تنقید میں اس نوع کی اصطلاحات کم کم ہی نظر آتی ہیں۔ پھر بھی، اس اصطلاح سے جو تصوروابستہ ہے، اس کی تفہیم کلاسکی نقد و نظر کے ایک عنصر کی بازیافت کہی جا سکتی ہے۔ ’ نیرنگ خیال ‘ میں محمد حسین آزاد نے اس اصطلاح کی بابت عرض کیا ہے کہ شعرا نے مستعمل استعاروں سے بچنے کے لیے استعارہ در استعارہ کا سہارا لیا۔ استعارہ در استعارہ کی یہی تکنیک ان کے نزدیک نازک خیالی ہے۔ اس میں دور از کار تشبیہات لائی جاتی ہیں۔ نیر مسعود لکھتے ہیں :
کسی حقیقت کو جس واسطے سے بیان کیا گیا ہے اس کا اس حقیقت سے تعلق بہت خفیف اور بعید بہ الفاظ دگر نازک ہے۔ نازک خیالی کا دارو مدار تعلق کی اس نزاکت پر ہے اور یہ تعلق جب نا محسوس حد کو پہنچنے لگے تو نازک خیالی کی سرحدیں خیال بندی سے مل جاتی ہیں۔ (13)
بعض تذکرہ نگاروں کے مطابق شاعر جب کسی مضمون کے بعض اجزا کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ شاعری کا نازک پہلو کہلاتا ہے۔ مومن کے یہاں اس صفت کی کثرت ہے جس کی نشاندہی سبھی مومن شناسوں نے کی ہے۔ ضیا احمد بدایونی نازک خیالی کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں، ’’ مبالغے کا دور از کار ہونا، یا ایہام و رعایت پر شعر کا مبنی ہونا، یا استعارہ در استعارہ کا استعمال یا بڑے خیال کو مختصر عبارت میں ادا کرنا ‘‘۔ (14)ضیا صاحب کے نزدیک یہی تعریف مضمون آفرینی کی بھی ہے۔ لیکن دونوں کی تعریف میں فرق ہے۔ نازک خیالی میں دور از کار تشبیہات و استعارات کی تلاش کی جاتی ہے جبکہ مضمون آفرینی میں کو ئی نیا مضمون وہ بات جو نئے ڈھنگ سے بیان کی جائے، نہ کہ نئی بات پیدا کیا جاتا ہے، اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب نیا استعارہ، نئی تشبیہ یا کوئی انوکھا مبالغہ سامنے آئے، یا بقول فیضؔ پرانے مضمون میں کوئی تفصیل بڑھا دی جائے، کچھ ادل بدل کر دیا جائے۔ (15) اسے جدتِ ادا بھی کہا گیا ہے۔ نازک خیالی و مضمون آفرینی کے حوالے سے مومن کے شعری خصائص پر بات کرتے ہوئے ضیا احمد بدایونی رقم طراز ہیں :
…مومن بھی فارسی کے شاعر تھے اس لیے اس رنگ نازک خیالی / مضمون آفرینی سے ان کا آشنا ہونا ناگزیر تھا۔ تاہم اردو میں سب سے پہلے اور سب سے آخر انھوں نے ہی اس کو برتا اور اپنی دوسری خصوصیات کلام سے اس کو اپنا لیا۔ اس لیے یہ کہنا ہر گز مبالغہ نہیں کہ وہ اردو میں اس طرز کے موجد اور اس انداز میں منفرد ہیں۔ غالب بھی یقیناً ایک نازک خیال استاد ہیں مگر مومن ’ شریک غالب ‘ ہیں۔ مثال کے طور پر چند شعر پیش کیے جاتے ہیں جن سے مومن کی خلاق المعانی طبیعت کا اندازہ ہو گا۔ (16)
مومن اس طرز میں سب سے اول اور سب سے آخر ہیں۔
اس طرز میں مومن کا مرتبہ غالب سے بلند ہے۔
غور کیا جائے تو مندرجہ بالا دونوں جملوں میں مغز نہیں۔ دلیل کا فقدان ہے۔ ادب میں اور خصوصاً غزل کی شاعری میں کسی کے لیے بھی ’اول و آخر‘ کے الفاظ اپنے استعمال میں احتیاط کے متقاضی ہیں۔ کیا مومن سے پہلے کسی کے یہاں نازک خیالی / مضمون آفرینی نہیں ملتی۔ کیا نازک خیالی / مضمون آفرینی کی مثالوں میں ولی، میر یا سودا کے اشعار پیش نہیں کیے جا سکتے ؟ اگر پیش کیے جا سکتے ہیں تو یہاں ’اول و آخر ‘ کا مفہوم ہماری فہم سے بالاتر ہے۔
ضیا صاحب نے ندرت اسلوب اور شوخیِ ادا کو بھی مومن کے شعری محاسن میں شمار کیا ہے۔ دونوں تذکروں کی اصطلاح ہیں۔ ندرت، اسلوب کو توانائی عطا کرتی ہے۔ کلام میں ندرت کا پایا جانا بڑی بات ہے۔ مومن کے یہاں بھی وہ رنگ موجود ہے جہاں نادر پیرایہ ندرت بیان کا احساس دلاتا ہے۔ ضیا صاحب لکھتے ہیں :
مومن کے یہاں ندرت اسلوب کی اس قدر فراوانی ہے کہ ایک ایک قدم پر دل کھینچتا ہے اور لاریب کے اس میں ان کا نظیر محال نہیں تو قریب محال ضرور ہے۔ (17)
مومن کے یہاں ندرت بیان کے ساتھ شوخیِ ادا کی بھی نشاندہی ضیا صاحب نے اشعار کے انتخاب سے کی ہے۔ شوخیِ ادا، احساس کی سطح کو مس کرتی ہے، اس لیے یہ ایک قسم کا طرز احساس بھی ہے اور بات کہنے کا لہجہ بھی۔ یہ انبساط اور شرارت کی خفیف لہر ہے جو باہم کسی خیال میں خوشگواری پیدا کر دیتی ہے۔ شعر میں یہ اضافی قدر ہے۔
مومن کے خصائصِ شعری میں ’ مکر شاعرانہ ‘ معروف اصطلاح ہے جو ضیا احمد بدایونی کی ایجاد ہے۔ انھوں نے پہلی دفعہ مومن کی شاعری میں اس عنصر کی نشاندہی کی اور اس کے لیے اصطلاح وضع کی۔ مومن فہمی میں اس اصطلاح نے کلیدی حیثیت اختیار کر لی ہے جس کا سہرا، انھی کے سر جاتا ہے۔ ندرت اسلوب کے ذیل میں مکر شاعرانہ کی تعریف میں وہ کہتے ہیں کہ مکر شاعرانہ یہ ہے کہ شاعر اپنے مطلب کو اس خوبی سے ادا کرے کہ مخاطب اس میں اپنا فائدہ تصور کرے۔ (18) اس تعریف کے بعد انھوں نے چند مثالیں دی ہیں اور اخیر میں لکھا ہے :
میں اس وصف کو مکر شاعرانہ سے تعبیر کرتا ہوں اور میرے خیال میں یہ مومن کی ملک خاص ہے۔ دراصل وہی اس رنگ کے موجد بھی ہیں اور خاتم بھی۔ (19)
اس اصطلاح میں جو کہا گیا ہے کہ بات یوں کہی جائے کہ ایسا محسوس ہو کہ مخاطَب کا فائدہ ہو رہا ہے لیکن اصل فائدہ کہنے والے یعنی متکلم کا ہو۔ متکلم طالب ہے اور مخاطَب مطلوب۔ دونوں اشعار ضیا صاحب نے مثالاً درج کیا ہے :
ہے دوستی تو جانب دشمن نہ دیکھنا
جادو بھرا ہوا ہے تمھاری نگاہ میں
اگر تم کو دشمن (رقیب) سے دوستی ہے تو اس کی طرف نظر نہ کرنا، کیوں کہ تمھاری نظروں میں جادو بھرا ہوا ہے جس سے وہ غریب مسحور ہو کر دیوانہ ہو جائے گا۔ اس شعر میں شاعرانہ مکر ہے۔ (20)
منظور ہو تو وصل سے بہتر ستم نہیں
اتنا رہا ہوں دور کہ ہجراں کا غم نہیں
قاعدہ ہے کہ عادت کے خلاف ہر بات ناگوار گزرتی ہے۔ لہٰذا اگر تم مجھ پر مشقِ جفا کرنی چاہتے ہو تو وصل سے بڑھ کر اور جفا کیا ہو گی۔ کیوں کہ میں ہجر کا اس قدر خو گر ہو گیا ہوں کہ وصل اب عادت کے خلاف ہونے کی بنا پر مجھے ناگوار ہو گا۔ (21)
ضیا صاحب کا یہ فرمانا توجہ طلب ہے کہ مومن ہی اس رنگ کے موجد ہیں اور خاتم بھی۔ یہ صحیح ہے کہ اس رنگ میں مومن کا جواب نہیں۔ یہ ان کی ملک خاص ہے۔ اس پر وہ قادر ہیں۔ ان کے یہاں اس کی مثالیں وافر ہیں، لیکن موصوف کے ’ موجد و خاتم ‘ میں غلو ہے۔
مومن تنقید میں معاملہ بندی کی اصطلاح کلیدی ہے۔ بنیادی طور پر یہ تذکروں کی اصطلاح ہے۔ معاملہ فارسی میں لین دین کو کہتے ہیں۔ معاملہ بندی کو وقوعہ گوئی بھی کہتے ہیں :
عشق و ہوس بازی میں جو حالات پیش آتے ہیں ان کے ادا کرنے کو وقوع گوئی کہتے ہیں، اہل لکھنؤ نے اس کا نام معاملہ بندی رکھا ہے، بہر حال اس طرز کے موجد جیسا کہ آزاد نے لکھا ہے، امیر خسرو ہیں …شبلی نعمانی۔ (22)
شبلی نے عشق کے ساتھ ہوس کا بھی ذکر کیا ہے۔ اہل لکھنؤ کے یہاں وصل کی چھیڑ چھاڑ، شوخیاں، حاضر جوابیاں اور بعض اوقات جنسی مضامین کا واضح اظہار نظر آتا ہے۔ جرأ تؔ سامنے کی مثال ہیں۔ معاملہ بندی معاملاتِ عشق کا بیان ہے۔ اس کا پیرایہ سطحی بھی ہوسکتا ہے اور تخلیقی وفور سے پر بھی۔ یہ اس بات پر منحصر کرتا ہے کہ شاعر معاملات کے بیان میں کن وسائل کا سہارا لیتا ہے اور اسے پیش کرنے میں کتنے احتیاط سے کام لیتا ہے۔ معاملہ بندی میں عشق مجازی کی اصطلاح بنیادی ہے۔ عشق مجازی کے مختلف پہلوؤں کو نظم کر نا یا انھیں تخلیقی بنت کا حصہ بنانا، شاعر کے مزاج و مذاق پر مبنی ہے۔ ضیا احمد بدایونی کے نزدیک معاملہ بندی کی تعریف ’ عشق مجاز کی حقیقی واردات کا بیان ‘ ہے۔ (23) مومن کے یہاں اس کا اظہار بڑے دلچسپ پیرایوں میں ہوا ہے۔ ضیا صاحب لکھتے ہیں :
حکیم مومن خاں جو مدتوں عشق کی گلیوں کی خاک چھان چکے تھے، ممکن نہ تھا کہ اس طرف مائل نہ ہوتے۔ ان سے پہلے جرأت نے بھی اس رنگ میں بہت کچھ لکھا تھا مگر ’’ بہ سبب کم علمی کے بہت کھل گئے تھے‘‘ تذکرہ جلوۂ خضر ۔ اس کے بر خلاف مومن نے ہر جگہ دہلی شعر الہند کی متانت کو نباہا ہے اور دائرہ تہذیب میں رہ کر جذبات عشق کو ادا کیا ہے۔ (24)
ضیا احمد بدایونی نے طنز کو مومن کی شاعری کا اہم عنصر قرار دیا ہے :
تغزل کے اجزائے ترکیبی میں ایک چیز طنز و تعریض بھی ہے جو اردو شعرا کے یہاں مومن کے برابر شاذ و نادر ہی کہیں نظر آتی ہے۔ طنز طعنہ دینا اور تعریض کنایہ میں بات کہنا کا مقصد کبھی تو یہ ہوتا ہے کہ مخاطب کو جلی کٹی سنا کر دل کا بخار نکالا جائے اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ اشتعال دلا کر اپنی مطلب براری کی جائے۔ کلام میں تعریض سے کام لینا ایک طرف تو شاعر کی ذکاوت حس اور ذہانت طبع کی دلیل ہے دوسری طرف اس کی قدرت زبان کا ثبوت۔ جہاں تک ہمارا خیال ہے اساتذۂ اردو میں مومن سے زیادہ طنز کا استعمال کسی نے نہیں کیا۔ ہجو طنز سے پست تر ہے۔ اس لیے ان کی مشکل پسند اور بلند فطرت نے اس کو ہاتھ نہیں لگایا۔ (25)
بات درست ہے کہ مومن کے یہاں طنز و تعریض کی لہریں موجود ہیں۔ بہت حد تک یہ ان کا غالب رنگ ہے۔ یہ پہلو انھوں نے مختلف زاویوں سے برتا ہے۔ مثال میں یہ دو اشعار ضیا صاحب نے بھی پیش کیے ہیں :
شب ہجر میں کیا ہجوم بلا ہے
زباں تھک گئی مرحبا کہتے کہتے
کیا پسند آئی اپنی جور کشی
چرخ کے انتخاب نے مارا
’ تصویر کا دوسرا رخ ‘، اس عنوان کے تحت ضیا صاحب نے مومن پر کیے گئے بعض اعتراضات کا جواب دیا ہے اور ان کے کلام کے بعض نقائص پر بات کی ہے۔ سبطین احمد بدایونی نے مومن پر غالب کو ترجیح دی اور کلام مومن پر اعتراضات کیے۔ ضیا صاحب کو احساس ہے کہ ناقد کو تصویر کے دونوں رخ سے پردہ ہٹانا چاہیے۔ اس لیے انھیں ضروری معلوم ہوا کہ نقائص پر بھی مختصر بحث کی جائے۔ پہلے انھوں نے نقائص در آنے کا سبب تلاش کیا۔ لکھتے ہیں :
اگر ان کی عمر وفا کرتی اور ان کی مجتہدانہ ایجاد پسندی اور لا اُ بالیانہ وارستہ مزاجی اتنی مہلت دیتی تو اس میں شک نہیں کہ اردو شاعری میں ان کا جواب نہ ہوتا۔ انھوں نے شاعری کو پیشہ کی حیثیت سے کبھی اختیار نہیں کیا۔ البتہ تفریح کی نیت سے پسند کیا اور اپنے دوسرے مشاغل کی طرح سامانِ دل بستگی سمجھا۔ یہی سبب تھا کہ ان کے کلام میں چند نقائص رہ گئے۔ (26)
وہ نقائص کیا ہیں اور کس حد تک ہیں ؟ ضیا صاحب نے ان نقائص کو نشان زد کیا ہے :
مومن جو الفاظ و محاورات آج ہمارے مذاقِ سماعت پر گراں گزر، رہے ہیں۔ دوسرے اساتذہ مثلاً غالب و ذوق وغیرہ کے یہاں بے تکلف پائے جاتے ہیں۔
یہ بالکل صحیح ہے کہ مومن نے اپنی ندرت پسندی اور روش عام سے علیٰحدگی کی بنا پر اپنی راہ دنیا سے الگ نکالی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خیالات کی پرواز اور اسلوب بیان کی جدت میں غالب جیسا باکمال بھی ان سے پیچھے رہ گیا۔ یہی نازک خیالی جب حد اعتدال سے بڑھ جاتی ہے تو شعر چیستاں بن کر رہ جاتا ہے۔ اس اغلاق و تکلف کی چند صورتیں ہیں، کہیں وہ مسلمات عام سے انحراف کرتے ہیں۔ اسی لیے خیال بعید از فہم ہو جاتا ہے۔
وہ کہیں مضمون کی درمیانی کڑیاں حذف کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سامع بھی اس خلا کو پر کر لے گا وسیع خیال کو یوں مختصر عبارت میں ادا کرنے سے شعر دقیق ہو جاتا ہے۔
ان کے کلام میں تعقید زیادہ ہے۔ جس سے ناہمواری اور اشکال پیدا ہو گیا ہے۔ اس باب میں وہ یقیناً بے احتیاط اور غالب سے بھی زیادہ بدنام ہیں۔
ان کی عادت ہے کہ جملے کا ایک ٹکڑا ایک مصرع میں اور دوسرا ٹکڑا دوسرے میں لاتے ہیں۔ (27)
متروک الفاظ و محاورات کے اعتراض کے جواب میں ضیا صاحب کی دلیل درست ہے کہ غالب و ذوق کے یہاں بھی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ بے اعتدال نازک خیالی سے مومن کے کلام میں اغلاق کا پیدا ہونا، مضمون کی درمیانی کڑیاں حذف کرنا، تعقید اور اشکال سے افہام و تفہیم میں دشواری پیدا ہونا، ایسی صورت حال نقائص ہے جس سے مفر نہیں۔ اس سلسلے میں ضیا صاحب کا یہ فرمانا کہ شعروں میں کسی عیب یا حسن کو دیکھ کر کلام کے عام رنگ پر رائے قائم کرنا صحیح نہیں، حق بجانب ہے۔ اس لیے کہ جز کو کُل قرار دینا، کسی طور مناسب نہیں۔
مومن کا ان کے معاصرین سے موازنہ کرتے ہوئے ضیا صاحب نے لکھا ہے کہ نقاد جب محاکمے پر آتا ہے تو ہمعصروں کے کم تر اشعار نقل کرتا ہے جس کے نتیجے میں فیصلہ عموماً ان کے ہیرو ہی کے حق میں ہوتا ہے۔ اس طریقے کو انھوں نے غیر سائنسی قرار دیا ہے، لیکن جب موازنے اور محاکمے کی باری آئی تو انھوں نے خود وہی کیا جسے وہ غیر سائنسی کہہ رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ صحیح فیصلہ کرنے کے لیے شاعر اور اس کے معاصرین کے کلام کا مطالعہ بالاستیعاب کرنا چاہیے۔ تاکہ ہر ایک کے انداز سے طبیعت مانوس ہوسکے۔ اپنے بتائے ہوئے طریقے پر جب موصوف چلے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچے ہیں :
مومن مثنوی کے بادشاہ ہیں اور ذوق قصیدے کے۔ رہی غزل اس میں تینوں کا رنگ جداگانہ اور اپنی جگہ بے مثل ہے۔ غزل میں نازک خیالی۔ معاملہ بندی اور سوز و گداز میں مومن اپنے تمام معاصرین سے فائق ہیں۔ اسی طرح صفائی، زبان اور محاورہ بندی میں ذوق، اور فلسفہ و تصوف کے بیان میں غالب سب ہم عصروں سے برتر ہیں۔ (28)
اوصاف جو نفس تغزل کے لیے ضروری ہیں، مومن کے برابر کسی کے کلام میں نہیں ملتے۔ ذوق کا تو انداز بالکل ہی جدا ہے۔ غالب کے یہاں نازک خیالی کی صفت ضرور ایسی ہے جس میں وہ مومن کے شریک ہیں لیکن شریک غالب نہیں۔ اس کے علاوہ اکثر ایک ہی بات کو دونوں ادا کرتے ہیں مگر مومن غزلیت کی رنگینی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور غالب کے یہاں وہی مضمون خشک فلسفہ بن کر رہ جاتا ہے۔ (29)
اس سے ہر گز اختلاف نہیں ہوسکتا کہ جامعیت علوم و فنون، قدرت نثر و نظم فارسی، ہمہ گیریِ اصناف شعر۔ جوش مذہب۔ مدح میں خود داری، غزل میں طرز خاص کے اوصاف ’ ’ مجموعی طور پر ‘‘ مومن کے سوا، اردو کے کسی استاد کے یہاں نظر نہیں آتے۔ (30)
پہلے اقتباس میں ضیا صاحب کہتے ہیں کہ فلسفہ اور تصوف میں غالب مومن سے برتر ہیں، دوسرے میں کہتے ہیں کہ غالب کی شاعری خشک فلسفہ بن کر رہ جاتی ہے۔ یعنی فلسفہ غالب کے کلام میں کسی مثبت معنی میں نہیں۔ اگر مثبت معنی میں ہوتا تو خشکی کی شکایت نہ ہوتی۔ ضیا صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں، ’’ رہے فلسفہ و تصوف۔ ان کو کوئی غزل کی حدود میں شامل جانے یا نہ جانے، مومن حدود غزل سے خارج مانتے ہیں ‘‘۔ (31) یعنی وہ سیدھے طور پر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مومن، غالب و ذوق سے بڑے شاعر ہیں۔ یہ ثابت کرنے کے لیے انھوں نے مومن کی غزلیت کی رنگینی اور شخصیت کی ہمہ گیری کو دلیل بنایا ہے۔ اس سے بھی اطمینان نہ ہوا تو عدم مقبولیت کے اسباب بیان کیے :
تذکروں نے انھیں نظر انداز کیا۔ محمد حسین آزاد اور صاحب ’گلستان بے خزاں ‘ نے ان کی شبیہ خراب کی۔
انھیں حالی جیسا ناقد اور آزاد جیسا شاگرد نصیب نہ ہوا۔
ان کو تصوف و فلسفہ سے ذہنی مناسبت نہ تھی۔ جبکہ بعد کی نسل نے فلسفہ کو معیار بنایا۔
خیالات کی پیچیدگی اور زبان کی ناہمواری بھی عدم مقبولیت کی ذمہ دار ہیں۔
انھوں نے خود کو دربار داری سے دور رکھا۔
ان کے یہاں مذہبیت کا عنصر زیادہ ہے۔ وہ مذہبی نوک جھونک سے بھی نہیں چونکتے۔
وہ اساتذہ کو حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے تھے۔ اس معاملے میں وہ غالب سے کئی قدم آگے رہے۔ (32)
مندرجہ بالا اسباب مومن کی عدم مقبولیت میں جزوی حیثیت رکھتے ہیں۔ آج کی تنقید تو انھیں جزوی ہی کہے گی۔ یہ سچ ہے کہ علمی اور تنقیدی اعتبار سے کلام مومن پر جتنی توجہ دینی چاہیے تھی، نہیں دی گئی۔
ضیا صاحب کے سلسلے میں شروع ہی میں عرض کیا گیا تھا کہ سولہ صفحات پر مبنی ان کا مقالہ ’کلام مومن کا نفسیاتی مطالعہ ‘ اس لیے اہم ہے کہ اس میں موصوف نے بعض نظری معاملات پر گفتگو کی ہے۔ کچھ سوالات قائم کیے ہیں اور مشرق و مغرب کے حوالہ جات کی روشنی میں افہام و تفہیم کی سعی کی ہے :
ادب کیا ہے ؟
شعر شاعری کیا ہے ؟
شاعری میں مبالغے کی کیا حیثیت ہے ؟
تفہیم شعر میں مناسبات کا کیا دخل ہے ؟
شاعری کے مطالعے میں شاعر کے عہد اور اس کی شخصیت کا کیا رول ہوتا ہے ؟
شاعری میں شاعر کی ذاتی زندگی کا عکس کیا معنی رکھتا ہے ؟
ادب میں کامل خلوص کیا ہے ؟
شعری حقیقت اور سائنٹفک حقیقت میں کیا فرق ہے ؟
اسلوب کیا ہے ؟
تخئیل کیا ہے ؟
سوالات اہم ہیں لیکن ان کا جواب تشنہ ہے۔ اس زمانے کے مزاج اور تنقیدی مطالعے کی سطح کے مطابق انھوں نے اپنی بساط بھر کوشش کی۔ آج یہ مطالعہ سرسری معلوم پڑتا ہے، لیکن اس زمانے کے مزاج کو دیکھا جائے تو اسباب کا اندازہ ہو جائے گا۔ پہلا سوال ادب کی تعریف سے متعلق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حقیقی ادب کو زندگی سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ (33) یعنی غیر حقیقی ادب بھی کوئی شے ہے۔ کوئی چیز ادب بھی ہو اور غیر حقیقی بھی ہو، یہ ممکن نہیں۔ ادب، ادب ہے اور یہ خلا میں نہیں لکھا جاتا۔ بدیہی امر ہے کہ ادب کی اساس زندگی ہے۔ شعر کی تعریف کرتے ہوئے ضیا صاحب لکھتے ہیں :
شعر کی تعریف جو کچھ بھی قرار دی جائے یہ بہر صورت تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ جذبات اور تخیل کی مدد سے زندگی کی ترجمانی کا نام ہے جو موزوں الفاظ میں کی جائے۔ ظاہر ہے کہ اس ترجمانی کا صحیح حق اسی وقت ادا ہوسکتا ہے۔ جب کہ شاعر کے شخصی تجربات شعر کے سانچے میں ڈھل جائیں۔ (34)
’ترجمانی کا صحیح حق ‘ اور ’ شاعر کا شخصی تجربہ ‘ توجہ طلب ہیں۔ یعنی ترجمانی کا صحیح حق اسی صورت میں ادا ہوسکتا ہے جب شاعر اپنے شعر میں شخصی تجربہ بیان کرے۔ یعنی اس پر جو گزرا ہو یا اس کی شخصیت سے جو واقعات وابستہ ہوں، انھی کا اظہار شعر کو کامیاب بنائے گا۔ یہ مفروضہ اب پرانا ہو چکا ہے اور، رد بھی کیا جا چکا ہے۔ اگر اس مفروضے کو درست قرار دیا جائے تو شاعری کا دائرہ نہایت تنگ ہو جائے گا۔ پھر کیا ضروری ہے کہ میرے شخصی تجربے میں آپ کی دلچسپی ہو یا آپ کی ذاتی زندگی کے واقعات و روداد میں میرے لیے دلچسپی کا سامان ہو۔ شاعری اجنبیانے کا عمل ہے۔ شعری آرٹ محسوسات کی دنیا ہے۔ اس لیے فن کار کو اخبار نہیں، دیوار پڑھنا چاہیے۔ یہاں خبر سے زیادہ بے خبری کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی اس بے خبری کو محسوس نہیں کرسکتاتواس پرافسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ بے خبری کو بے تعلقی کے اصول سے تقویت پہنچتی ہے۔ شاعری شخصیت کے اظہار کا نام نہیں۔ شاعری تجربے کے اظہار کا نام ہے، اور تجربہ اپنی ماہیت کے اعتبار سے نامیاتی اختصاص کا حامل ہے۔ یہ سچ ہے کہ شاعر یا کوئی بھی فن کار حساس ہوتا ہے، لیکن وہ ہر بات سے متاثر نہیں ہوتا۔ اس کے قبول کردہ اثرات اس کے جذبات کو بھڑکاتے ہیں، مگر تخلیق کار کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ ان اثرات اور جذبات کے ریلوں میں ترتیب و تہذیب پیدا کرے اور انھیں اپنے تجربے میں تحلیل کرے۔ ان اثرات اور شدتِ جذبات کے فوری نتائج میں پیدا ہونے والا ادب غیر مرتب ہو گا۔ شاعری بہترین تنظیم کا نام ہے۔ اس تنظیم کے لیے تجربے کی تہذیب ضروری ہے اور یہ تہذیب فوری تاثرات سے پیدا نہیں ہوتی۔ اس لیے شخصی اور فنی تجربے میں ایک فاصلہ چاہیے۔ ولیم ورڈزورتھ نے کہا تھا کہ شاعری ہیجان کے وقت نہیں، بلکہ سکون کے وقت پیدا ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی وقوعے سے فوری طور پر ظاہر ہونے والے جذبات میں سنجیدگی، کچھ وقت گزر جانے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ بے تعلقی ذہنی اور زمانی فاصلے کا نام ہے جو بے خبری کو قوتِ نمو عطا کرتی ہے۔ یہی بے خبری اور بے تعلقی استعارے کی تعمیر میں ممد ہوتی ہے، اور یہی وہ شے ہے جو استعارے کو گنجینۂ معنی کا طلسم بناتی ہے۔
شاعری میں مبالغے کی کارفرمائی پر ضیا احمد بدایونی نے مرید و مرشد کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جس کے وسیلے سے یہ بتانے کی کو شش کی ہے کہ مبالغہ شاعری کے لیے مناسب نہیں۔ تفہیم شعر میں وہ مناسبات کو کافی اہم جانتے ہیں۔ مناسبت سے ان کی مراد متن اور اس کے خالق کے درمیان کا رشتہ ہے۔ یعنی خود شاعر کی شخصیت، اس کا نظریۂ زندگی، معاصرین اور اس کے گرد و پیش کے حالات کو وہ مناسبت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسی بنیاد پر انھوں نے کلام مومن کے نفسیاتی مطالعے میں یہ لازم جانا کہ پہلے تیرہویں صدی ہجری کے ہندوستان اور خصوصاً دہلی کے عام حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس لیے کہ دلّی اس دور کی تہذیب، سیاست اور معاشرت کا مرکز تھی۔ پھر انھوں نے تحریک جہاد، اس زمانے کے شعرا، صلحا، اطبا، علما و فضلا کی تفصیل کے بعد مومن کی سیرت بیان کی اور یہ کہا کہ ان کی لائف پڑھ کر ہر شخص ان کے رجحانات کا اندازہ کرسکتا ہے۔ موصوف نے افلاطون کا قول نقل کیا ہے کہ اچھے ادب /شعر کے لیے کامل خلوص اولین شرط ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنی ذات، اپنے تجربات اور مشاہدات کے ساتھ کامل خلوص یا صدق جذبات شعر کی جان ہے۔ (35)
ضیا احمد بدایونی شعری حقیقت اور سائنسی حقیقت میں فرق کرتے ہوئے دوچار جملوں میں اپنی بات کہتے ہیں :
شعری حقیقت اور سائنٹفک حقیقت میں آسمان اور زمین کا فرق ہے۔ شعر میں حقیقت اس زاویہ سے بیان کی جاتی ہے جس سے شاعر کا ذہن اسے محسوس کرتا ہے۔ اس کے برخلاف سائنس کا نصب العین حقیقت نفس الامری کا اظہار ہے۔ ایک کا نقطۂ نظر موضوعی۔ داخلی اور جذباتی ہے۔ دوسرے کا معروضی۔ خارجی اور عقلی۔ ایک تخلیق کا ضامن ہے۔ دوسرا اضافۂ معلومات کا۔ (36)
اسلوب کی تعریف میں انھوں نے تین اقوال نقل کیے ہیں۔ ایک تو یہ ہے۔ Style is the man۔ دوسرا پوپ کا، کہ اسلوب خیال کا لباس ہے۔ تیسرا کارلائل کا قول ہے جو اس خیال کو رد کرتا ہے کہ اسلوب لباس نہیں بلکہ جلد ہے۔ (37)اس ضمن میں ان کی اپنی رائے عنقا ہے۔ انھوں نے مومن کے یہاں اسلوب کے جو عناصر طے کیے ہیں۔ وہ یہ ہیں۔ ندرت ادا، مکر شاعرانہ، شوخی اور طنز۔ آخر میں انھوں نے ’تجزیۂ تخیل ‘ کے عنوان سے کلام مومن پر بات کی ہے۔ تخئیل کو انھوں نے قوت اختراع کا نام دیا ہے۔ مومن کے یہاں اس کے اعتدال کے ساتھ بے اعتدالی کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس مقالے کے اختتام میں انھوں نے نتیجہ نکالا:
اس مختصر سے مقالہ میں کلام مومن کے تمام پہلو نمایاں کرنا نہ ممکن تھا نہ ضروری۔ مقصود صرف یہ دکھانا تھا کہ ان کی زندگی اور ان کی شاعری میں کامل ہم آہنگی رہی ہے اور جب تک ہمارے لیے زندگی اور اس کے مسائل سے دلچسپی باقی ہے۔ مومن کی شاعری اور اس کے لطائف کی دلآ ویزی کم نہیں ہوسکتی۔ (38)
ضیا احمد بدایونی کے اس مقالے میں جو مسائل اٹھائے گئے ہیں، وہ تشنہ ہیں۔ ان کی تعبیر و تشریح نامکمل اور تفصیل طلب ہے۔ نفسیاتی مطالعے میں خارجی احوال سے کہیں زیادہ داخلی کیفیات پر توجہ دی جاتی ہے۔ انھوں نے مومن کے حالات، شخصیت، ماحول، عہد اور دیگر خارجی متعلقات کا احاطہ کیا، لیکن ان کے بطن میں اتر کر جس تحلیل و تجزیے کی ضرورت تھی، وہ نہ کرسکے۔ اس لیے اس مقالے کا عنوان تو ’ نفسیاتی مطالعہ ‘ضرور ہے، لیکن نفسیات کے مراجع پر خاطر خواہ بات نہ ہوسکی۔ شخصیت کی نفسیات کے ساتھ شاعری کے تشکیلی عناصر اور اس کی تعبیرات کی نفسیات پر بھی توجہ دی جانی چاہیے تھی۔ آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ضیا احمد بدایونی مومن کے ناقد کم، شارح زیادہ ہیں۔
ضیا احمد بدایونی کے بعد دوسرا، اہم نام نیاز فتح پوری کا ہے۔ انھوں نے اپنے رسالے ’ نگار ‘ کے کئی خصوصی نمبر شائع کیے۔ ان میں پہلا قدم ’ مومن نمبر ‘ ہے جو جنوری 1928میں شائع ہوا۔ اس کے بعد مومن مطالعات کو نیا رخ ملا۔ اس نمبر کی مقبولیت کے سبب ان کی زندگی ہی میں اس کے دو ایڈیشن شائع ہوئے۔ دوسرا، ایڈیشن من و عن چھپا، جب کہ تیسرا، اڈیشن کچھ نئے مضامین کے اضافے کے بعد 1964میں پاکستان سے طبع ہوا۔ یہی نسخہ میرے پیش نظر ہے۔ اس میں ان کے چھے مضامین شامل ہیں۔ پہلا مضمون ’ کلام مومن پر ایک طائرانہ نگاہ ‘، ان کا اداریہ ہے۔ دیگر پانچ مضامین یہ ہیں :
مومن کی ہنر مندیاں
شرح کلام مومن بعض استفسارات کے جواب میں
مومن کے قصائد
قصائد مومن میں عنصر تغزل
قصائد مومن کے بعض مشکل اشعار کی شرح
مومن کی طرف اہل علم کی توجہ مرکوز کرانے میں نیاز فتح پوری نے اہم کردار ادا کیا۔ ضیا احمد بدایونی کی طرح یہ بھی ان کے ناقد کم، شارح زیادہ ہیں۔ ان کے اداریے کا آغاز و اختتام ان الفاظ سے ہوتا ہے :
اگر میرے سامنے تمام شعرا کا کلام رکھ کربہ استثنائے میر صرف ایک کے انتخاب کی اجازت دی جائے تو بلا تامل کلیات مومن اٹھا لوں گا۔ (39)
نیاز فتح پوری کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا۔ ضیا احمد بدایونی کی طرح وہ بھی ’ حدود تغزل ‘ کے قائل ہیں۔ عقیدت کا شائبہ ان کے یہاں بھی ہے، لیکن جانب داری کا رویہ غالب نہیں۔ وہ مثالوں اور دلائل سے گفتگو کرتے ہیں۔ ان جملوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا ادبی رویہ کیا ہے ؟:
دنیا میں کسی کتاب کے متعلق یہ گفتگو کر نا کہ وہ اخلاق پر اچھا اثر ڈالتی ہے یا برا، لا یعنی بات ہے۔ اگر کوئی تنقید ہوسکتی ہے تو صرف یہ کہ وہ اچھی لکھی گئی ہے یا بری۔ اسی لیے جرأت و انشا کے متعلق یہ گفتگو کرنا کہ ان کی شاعری اخلاق کو خراب کرنے والی ہے، میرے نزدیک درست نہیں۔ (40)
نیاز فتح پوری کہتے ہیں کہ’’ مومن کا محبوب بھی جرأت و انشا کی طرح بازاری ہے‘‘۔ (41)لیکن مومن تو ’ عشق پردہ نشیں ‘ کی بات کرتے ہیں۔ انھوں نے بازاری ہونے کی صراحت نہیں کی۔ ہم تو بازاری کا مفہوم یہی جانتے ہیں کہ کوئی شے جو غیر مہذب اور سستی ہو۔ انھوں نے جرأت و انشا کی طرح مومن کے عشق کو بازاری کہا اور ان کے محبوب کو بھی۔ ملاحظہ ہو :
فرق یہ ہے کہ جرأت و انشا کا عشق بھی بازاری ہے۔ اور مومن بہت بلندی سے دیکھتے ہیں اور اسی بلند فضا تک محبوب کو بھی لے جانا چاہتے ہیں۔ جرأت و انشا اگر اپنی تمنا میں کامیاب نہیں ہوتے تو وہ ترک محبت کے لیے بھی آمادہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن مومن کی پاکیزگیِ ذوق کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنی امید کو بھی اس عالمِ آب و گل سے جدا قرار دے کر ایک غیر فانی چیز بنا دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی محبت کی فضا محبوب و جلوۂ محبوب سے بھی بے نیاز ہو جاتی ہے۔ (42)
نیاز فتح پوری اگر مادی عشق طوائف سے عشق کو بازاری کہہ رہے ہیں تو یہ غلط فہمی ہے۔ یہ سچ ہے کہ مومن کا محبوب اسی عالم آب و گل کا ہے۔ وہ کسی آسمانی یا آفاقی محبوب سے کلام نہیں کرتے۔ نیاز کی مراد بھی یہی ہے کہ مومن کا محبوب ارضی یعنی مادی ہے۔ لیکن اس کے لیے انھوں نے جو بازاری کا لفظ استعمال کیا، وہ مناسب نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مومن اپنے عشق کی بے نیازی کے سبب اسے غیر فانی بنا دیتے ہیں۔ اگر یہ واقعہ ہے تو ’ بازاری ‘ سے کیا مراد ہے ؟ موصوف کے یہاں یہ تضاد بہت نمایاں ہے۔
مومن کے یہاں رقیب کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔ کچھ لوگ اسے معیوب سمجھتے ہیں۔ اس نوع کے مضامین غزل میں عام ہیں۔ محبوب، رقیب، واعظ اور ان کے متعلقات پر مبنی مضامین کا زور آج کم ہو چلا ہے لیکن اس زمانے میں یہ معیوب نہیں تھے۔ نیاز فتح پوری کا خیال درست ہے کہ ’’ اول تو مومن کے عہد میں اس قسم کے مضامین معیوب نہیں سمجھے جاتے تھے اور اگر ہوتے بھی تو میں نہیں کہہ سکتا کہ اگر اس قسم کے مضامین کوئی شخص مومن کی طرح لکھ سکے تو کیوں کر ان کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘ (43)جرأت و انشا کے یہاں تو معاملہ دائرۂ تہذیب سے خارج ہے لیکن مومن کا معاملہ ان سے بہت جدا ہے۔ مومن کی بے نیازی ان کے تصور عشق کو بازاری ہوس زدہ/خبطی ہونے سے بچا لیتی ہے۔ ان کا ستھرا ذوق انھیں پھسلنے سے بچا لیتا ہے۔ عام طور پر رقیب کو برا بھلا کہا جاتا ہے لیکن وہ صرف اس لیے رقیب کی بھی تعظیم کرتے ہیں کہ اسے محبوب سے کسی نہ کسی طور نسبت ہے۔ شعر دیکھیے:
اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل
میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا
نیاز فتح پوری نے مومن کو اسلوب ادا اور قدرت بیان کا بادشاہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے :
وہ معمولی سی معمولی بات کا اظہار کرتا ہے تو بھی اس لطف کے ساتھ کہ اس میں جدت پیدا ہو جاتی ہے اور ذہن سامع بے اختیار اس سے لطف اٹھاتا ہے، پھر وہ اسی سلسلہ میں جب انہونی کو ہونی اور ہونی کو انہونی ثابت کر جاتا ہے تو عجیب سماں پیدا ہو جاتا ہے۔ (44)
مومن کے حوالے سے اکثر ناقدین نے لکھا ہے کہ وہ کسی واقعے کے بیان میں درمیانی کڑیوں کو چھوڑ جاتے ہیں۔ اس پہلو کی طرف ضیا احمد بدایونی نے بھی توجہ دلائی تھی۔ نیاز صاحب نے بھی اس پہلو پر توجہ دی ہے۔ لکھتے ہیں :
مومن کا ایک مخصوص انداز بیان جو غالب کے ہاں کمتر اور دوسرے شعرا کے ہاں بالکل نہیں پایا جاتا، کسی واقعہ کے بیان میں درمیانی کڑیوں کو چھوڑ جانا ہے۔ وہ تمام حالات یا واقعات کو سلسلہ کے ساتھ نہیں بیان کرتے بلکہ کوئی کوئی بات لے کر انھیں منسلک کر دیتے ہیں اور درمیانی کڑیوں کو ملانے کی خدمت ذہن سامع کے سپرد کر دیتے ہیں۔ پھر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سننے والا نہایت آسانی کے ساتھ اس خلا کو پر کر کے مفہوم تک پہنچ جاتا ہے۔ (45)
نیاز فتح پوری نے متعدد اور مضبوط مثالوں کے توسط سے اپنے نتائج کو با معنی بنایا ہے۔ یہاں بھی مثالوں کی کثرت ہے۔ اس انداز بیان کو وہ مومن ہی سے وابستہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ انداز بیان ان کے کلیات میں ہر جگہ دکھائی دیتا ہے۔ یہاں تک کہ’’ کوئی غزل اس سے خالی نہیں ہے‘‘۔ (46) یہ ہوا کلیہ بنانا، جو کسی طور مناسب نہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے زیادہ تر کلام میں یہ رنگ موجود ہے لیکن یہ کہنا کہ ان کی ہر غزل اسی رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے یا ان کی ہر غزل کے کسی نہ کسی شعر میں یہ پہلو موجود ہے، مناسب نہیں۔ ان کے کلیات میں سلیس و بلیغ غزلیں موجود ہیں اور سادہ اشعار بھی کافی ہیں۔ نیاز صاحب نے ان کی فارسی تراکیب پر خاص توجہ دی ہے اور اس صفت کا غالب سے موازنہ کیا ہے :
مومن فارسی ترکیبیں استعمال کرنے میں بھی خاص ملکہ رکھتے تھے اور اس باب میں جو چیز انھیں غالب سے ممتاز کرتی ہے، وہ ترکیبوں کی نزاکت ہے، نہ کہ ان کا اغلاق۔ غالب کی فارسی ترکیبوں میں اشکال لفظی کے ساتھ دقت معنی پیدا ہوتی ہے۔ بر خلاف مومن کے کہ ان کے ہاں ترکیبوں کی لطافت کے ساتھ مفہوم وسیع ہو جاتا ہے … اس میں شک نہیں کہ مومن و غالب دونوں نے فارسی ترکیبوں کے استعمال میں عرفی و بیدل کا تتبع کیا اور بہت سی ترکیبیں وہی یا اسی نوع کی اختیار کیں جو عرفی و بیدل کے یہاں پائی جاتی ہیں لیکن یہ بھی یقینی ہے کہ اس باب میں مومن کو نہ صرف اولیت بلکہ افضلیت حاصل ہے اور غالب کے نقوش نقش ثانی کا حکم رکھتے ہیں گو ’’ بہترز اول ‘‘نہ ہوں۔ (47)
غالب کا کلام انتخاب ہے۔ نیاز صاحب نے بجا لکھا ہے کہ غالب کے اردو کلام کا بڑا حصہ محض انھی ثقیل تراکیب کی وجہ سے حذف ہو چکا ہے۔ ان کی نشاندہی درست ہے کہ موجودہ نسخے میں بھی ان کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ چونکہ یہ تراکیب مومن کے کلام میں فطری طور پر پیوستہ ہیں، اسی لیے انھیں حذف کرنے کی ضرورت نہ پڑی۔ قبولیت میں بھی کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ اس سلسلے میں نیاز صاحب نے غالب کا شعر نقل کرتے ہوئے لکھا ہے :
طرز بیدل میں ریختہ کہنا
اسد اللہ خاں قیامت ہے
یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ غالب نے بیدل کو سامنے رکھ کر فارسی ترکیبیں استعمال کیں، لیکن یہ بھی یقینی ہے کہ اس کی تحریک پیدا ہوئی مومن کے کلام کو دیکھ کر۔ پھر چونکہ غالب اپنی فطرت کی بنا پر یہ نہ چاہتے تھے کہ لوگ مومن کا متبع سمجھیں۔ اس لیے انھوں نے اس میں بہت زیادہ گہرا رنگ پیدا کرنا چاہا اور اس طرح کلام مومن سے امتیاز پیدا کرنے کی کوشش میں اول اول ان کے قلم سے اس قسم کے اشعار نکلے جو باوجود ثقل تراکیب کے کوئی ندرت مفہوم نہ رکھتے تھے۔ (48)
یہ سچ ہے کہ آدمی اپنے بعض معاصرین سے متاثر ہوتا ہے، لیکن یہ کہنا کہ غالب نے مومن سے متاثر ہو کر فارسی تراکیب استعمال کیں، محض قیاس پر مبنی ہے۔ نیاز صاحب کی اس رائے میں کو ئی تعصب نہیں۔ انھوں نے یہ وطیرہ اختیار نہیں کیا کہ مومن کو بڑا ثابت کرنے کے لیے غالب کو چھوٹا ثابت کیا جائے۔ ان کی بات سے متفق ہونا ضروری نہیں، لیکن نیت پر شبہ کرنا بھی مناسب نہیں۔ ان کا ہر نکتہ توجہ طلب ہے۔ انھوں نے مثالوں کے ذریعے فارسی تراکیب کی نشاندہی کی۔ انھوں نے مومن کی شاعری کی دو قسمیں بتائی ہیں۔ ایک تو عشقیہ رنگ ہے جو ان کا غالب رنگ ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جسے وہ خواجہ میر درد کے رنگ سے منسوب کرتے ہیں۔ حالانکہ خواجہ صاحب کا لہجہ ان سے مختلف ہے۔ میلان طبع میں یکسانیت اور چیز ہے، طبیعت کا جھکاؤ اور شے ہے۔ نیاز صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ تجسس و تفحص سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی کبھی ان پر دوسری قسم کی بھی کیفیت طاری ہوتی تھی اور اس کیفیت کے تحت جو کچھ انھوں نے لکھا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسا اسے ہونا چاہیے اور اس کو پڑھنے کے بعد ہم اس فضا میں پہونچ جاتے ہیں جہاں سے میر درد کی شاعری کے حدود شروع ہوتے ہیں۔ ‘‘ (49)اس رنگ کو میر درد سے جوڑنا مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ یہ لہجہ سادگی و پرکاری سے عبارت ہے۔ مومن کے یہاں جو سادہ گوئی ہے، وہ قیامت کی ہے۔ جہاں وہ فارسی تراکیب سے احتراز کرتے ہیں، وہاں ان کا یہ رنگ بڑا چوکھا آتا ہے۔ نیاز صاحب نے اس رنگ پر خاص توجہ دی ہے اور دلیل میں انھوں نے جو اشعار پیش کیے ہیں، وہ ندرت اسلوب اور لہجے کی تازہ کاری کے سبب دعویٰ کو توانا بناتے ہیں۔ تینتیس اشعار نقل کرنے کے بعد وہ رقم طراز ہیں :
انتخاب بالا پر سرسری نگاہ سے بھی یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ مومن کے ان اشعار میں جن جذبات کا اظہار کیا گیا ہے وہ ان سے بہت مختلف ہیں جو ان کے دوسرے اشعار میں پائے جاتے ہیں۔ یہ بالکل صحیح ہے کہ مومن کا اصلی رنگ یہ نہیں ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں ہوسکتا کہ اگر ان کی محبت ذرا اور بلند ہو جاتی تو پھر آج یہ جستجو نہ ہوتی کہ اردو شاعری میں دوسرا میرؔ کون ہوسکتا ہے۔ (50)
اچھی تنقید قیاسات پر توجہ نہیں دیتی۔ کلام میں جو شواہد ہوتے ہیں، انھی کی روشنی میں بات آگے بڑھتی ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ مومن کے یہاں فلاں صفت ہوتی تو وہ کچھ اور ہوتے، یا ان کے کلام میں یہ صفت ہوتی تو ان کی حیثیت فلاں سے کم نہیں ہوتی۔ اگر ان کے یہاں ایک آنچ کی کمی نہ ہوتی تو وہ اردو کے سب سے بڑے شاعر ہوتے …، ایسے قیاسات ادب فہمی کی راہیں ہموار نہیں کرتے۔ معاصر تنقید میں کلامیہ متن کے داخل سے کلام کرتا ہے۔ کلام مومن کے عملی مطالعے سے نیاز فتح پوری نے یہ نتیجہ اخذ کیا :
مومن کے ہاں تشبیہات تقریباً مفقود ہیں، استعارات ہیں لیکن زیادہ نہیں، کنایہ کی افراط ہے اور پوری تکمیل کے ساتھ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ جو کیفیات تشبیہات کے ذریعہ سے پیدا کی جا سکتی ہیں ان کا بھی فقدان ہے۔ (51)
الغرض مومن نے اپنے سارے کلیات میں سوائے حکایات حسن و عشق کے اور کسی چیز سے سروکار نہیں رکھا اور اس سلسلے میں جتنے پہلو گفتگو کے نکل سکتے ہیں یا جس قدر تلخ و شیریں تجربات حاصل ہوسکتے ہیں وہ سب کے سب کسی نہ کسی صورت سے ان کے کلام میں پائے جاتے ہیں اور ان کا یہ رنگ تغزل اس قدر گہرا تھا کہ قصاید تک اسی کیفیت سے لبریز ہیں۔ (52)
نیاز صاحب نے اپنے مضمون ’ مومن کی ہنر مندیاں ‘ میں معروضی انداز میں کلام مومن کے بعض نقائص کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایک غزل کو بنیاد بنا کر انھوں نے نقائص کی نشاندہی کی ہے اور یہ باور کرانے کی کو شش کی ہے کہ کلام مومن ان کے نزدیک کوئی صحیفہ نہیں۔ جس غزل کو انھوں نے بنیاد بنایا، اس کا مقطع یہ ہے :
مومن سے اچھی ہو غزل تھا اس لیے یہ زور و شور
کیا کیا مضامیں لائے ہیں کس کس ہنر سے باندھ کر
تواس شعر میں جس ہنر پر فخر کیا جا رہا ہے، اس کا اس غزل کے دیگر اشعار میں فقدان ہے۔ انھوں نے سبب بھی تلاش کیا۔ مشاہدے کے ذریعے درست رائے قائم کی کہ اس عہد میں مشکل گوئی شان کی بات تھی۔ شاعری نے ایسے فن کی صورت اختیار کر لی تھی جس کا مقصود علمیت کا اظہار، فارسی دانی اور قادر الکلامی تھا۔ چونکہ یہ خصائص قصائد سے مختص ہیں۔ اسی لیے موصوف نے اسے شاعری نہیں، بازیگری قرار دیا ہے۔ انھوں نے مومن کی غزل کے ساتھ ان کے قصائد پر خصوصی توجہ دی ہے۔ اس سلسلے کے ان کے تین مضامین ناقابل فراموش ہیں :
مومن کے قصائد
قصائد مومن میں عنصر تغزل
قصائد مومن کے بعض مشکل اشعار کی شرح
پہلے دو مضا مین میں یہ نتیجہ مشترک ہے کہ مومن کے قصائد بھی رنگ تغزل سے مبرا نہیں۔ یعنی یہاں بھی ان کا ذہن غزل کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ نیاز صاحب اسے ان کی انفرادی خصوصیت بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ سودا اور ذوق کے قصائد میں ایسا رچا ہوا رنگ تغزل آپ کو نہ ملے گا۔ ‘‘ (53)دلیل میں قصیدوں سے ایسے اشعار کی مثالیں دیتے ہیں جسے کوئی بھی غزل کا شعر کہہ سکتا ہے۔ مثالیں مضبوط ہیں۔ ان کے نتائج توجہ کھینچتے ہیں :
قصیدہ کا اصل حسن تشبیب نہیں گریز ہے اور مومن کے کسی قصیدہ کی گریز میں نہ کوئی جدت پائی جاتی ہے نہ کوئی تنوع۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ان کی تشبیب بھی بے جان ہو جاتی تھی، وہی شکایت زمانہ یا ذکر بہار جو تمام شعرا کا معمول تھا، اس سے وہ اپنا قصیدہ شروع کرتے تھے اور جب اس سے گریز کر کے وہ ممدوح کی مدح کی طرف آتے تھے تو کوئی منطقی تسلسل پیدا نہ کرسکتے تھے۔
اس لیے جہاں تک فن قصیدہ نگاری کا تعلق ہے وہ کوئی بڑے شاعر نہ تھے۔ ہر چند ان کے قصائد سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑے فاضل شخص تھے۔ تمام علوم متداولہ منطق، ہیئت، فلسفہ، تاریخ وغیرہ میں انھیں پوری دستگاہ حاصل تھی، لیکن یہ سب بازیگری تھی، شاعری نہ تھی۔
اس حقیقت کے پیش نظر قصیدہ گو کی حیثیت سے مومن کا ذکر ذوق کے ساتھ تو کیا جا سکتا ہے لیکن غالباً محض ایک متبع و مقلد کی حیثیت سے، کیوں کہ خود مومن نے قصیدہ گوئی میں اپنی کوئی راہ علٰحدہ قائم نہیں کی اور اگر ہم ان غزلیہ اشعار کو نظر انداز کر دیں جو مومن نے اپنے قصائد میں شامل کر دیے ہیں ( خواہ وہ بے محل ہی کیوں نہ ہوں ) تو پھر مومن کے قصائد محض فنی تصنعات و تکلفات کے سوا کچھ نہیں رہتے۔
بہر حال اس میں شک نہیں کہ فنی حیثیت سے مومن کے قصائد بھی کم اہمیت نہیں رکھتے اور اگر ہم قصائد کے متغزلانہ حصوں کو بھی سامنے رکھیں جہاں وہ بے اختیارانہ ایک عاشق دلباز کی حیثیت سے سامنے آ گیا ہے تو یہ اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ (54)
یہ سچ ہے کہ مومن کے قصائد میں عنصر تغزل نے نیا رنگ پیدا کیا ہے۔ نیاز فتح پوری کا نتیجہ درست ہے کہ مومن اپنے قصائد میں علم و فضل کے اعتبار سے با کمال نظر آتے ہیں، لیکن علمیت کا اظہار شاعری نہیں ہوسکتا۔ اب قصائد کا رواج ہے اور نہ قصیدہ نگار موجود ہیں۔ اس لیے اس کو سمجھنے سمجھانے والے بہت کم رہ گئے ہیں۔ نیاز صاحب نے اس کی شکایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سودا، ذوق اور مومن کے قصائد کو سمجھنے اور سمجھانے والا دانشور مشکل ہی سے کوئی ملے گا۔ شاید اسی لیے انھوں نے قصائد مومن کے افہام و تفہیم پر خاص توجہ دی اور دو مضامین خصوصاً کلام کی شرح پر تحریر کیے۔ قصائد مومن کی شرح کے مسائل پر گفتگو کی۔ مومن تنقید کے سلسلے میں ان کا نام ان اولین اکابرین میں ہے جنھوں نے مومن مطالعات کی تحریک پیدا کی۔
’ نگا ر مومن نمبر ‘ میں مزید نو مضامین دیگر اہم شخصیات کے قلم سے ہیں۔ اداریے کے بعد پہلا مضمون ’ حکیم مومن خاں اور ان کی شاعری ‘، سید امتیاز احمد کا ہے۔ یہ مضمون الگ سے کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکا ہے۔ چونکہ مضمون اہم ہے، اس لیے ضرورت تھی کہ یہ جداگانہ طور پر بھی شائع ہو۔ ڈاکٹر شفیق اشرف نے ’ مطالعۂ مومن کا ایک گمشدہ حوالہ ‘ کتاب کا نام رکھا اور 2005میں علی گڑھ سے طبع کرایا۔ اس میں شفیق اشرف نے ان کا نام سید امتیاز احمد اشرفی لکھا ہے اور مختلف حوالوں کی مدد سے ان کے حالات جمع کیے ہیں۔ امتیاز صاحب مجنوں گورکھپوری کے ہم جماعت، متوطن لکھنؤ، صحافی اور مجاہد آزادی تھے۔ سید امتیاز احمد کا یہ مقالہ جامع ہے جس میں افہام و تفہیم اور شرحیات سے گزر کر عملی تنقید کا نمونہ پیش کیا گیا ہے۔ مومن کی شاعری پر مربوط، با معنی اور مضبوط حوالہ جات سے پُر یہ تحریر اس قابل ہے کہ اسے دوسرے نمبر پر رکھا جائے۔ اِدھر اُدھر کی بات نہیں کی گئی ہے۔ علمی استدلال اور منطقی انضباط کے ساتھ مطالعے کو مربوط بنایا گیا ہے۔ اس زمانے کے مزاجِ تنقید کی روشنی میں یہ تحریر معروضی معلوم پڑتی ہے اور اپنے مشرق و مغرب کے حوالوں کی وجہ سے ممتاز بھی۔ مضمون کے دو حصے ہیں۔ حیات اور شاعری۔ حیات والے حصے میں سوانحی کڑیاں ملائی گئی ہیں، جب کہ شاعری والا حصہ انتہائی توجہ طلب ہے۔ مومن تنقید میں یہ مقالہ اہم حوالہ ہے۔ بصیرت افروز سوالات کے ساتھ مومن کی شاعری پر بات شروع ہوتی ہے اور زندگی، ذہن انسانی کے تموج اور تنوع، ادب کی ماہیت اور شاعری کے خصائص کے تسلسل میں مومن کی شاعری کا مطالعہ، محاکمہ اور مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔ شعر کے بنیادی عناصر میں مبالغے کی حیثیت واضح کرتے ہوئے کلام مومن میں اس کی اہمیت ظاہر کی گئی ہے۔ مبالغے کو وہ حس کی تیزی سے تعبیر کرتے ہیں۔ شاعری کی تعریف میں لکھتے ہیں :
شاعری ایک تخیلی جذبہ ہے۔ محسوسات کی دنیا شاعر کی جولانگاہ ہے۔ شعر شعور کا تابع ہے۔ دراصل حسیات اور شعور ہی پر شعر کی عمارت قائم ہے۔ یہ وہ عالم ہے جہاں پر معقولات کے پر جلتے ہیں اور صدق و دروغ کی تفریق جہاں بے کار ہو جاتی ہے۔ (55)
شاعری کی اپنی منطق ہوتی ہے۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی نظریۂ علمی اس کے خلاف ہو۔ یہ حسیات اور نظریۂ علمی کی تائید و تردید سے بے نیاز ہے۔ (56)وہ ملٹن کا حوالہ دیتے ہیں۔ حالی کے حوالے سے سادگی، اصلیت اور جوش کی تعریف کرتے ہیں۔ سادگی کی جو تعریف حالی نے کی ہے اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ حالی کہتے ہیں کہ سادگی لفظ کے ساتھ معنی میں بھی ہونی چاہیے۔ امتیاز احمد کہتے ہیں کہ سادگی اچھے شعر کے لیے زیادہ سے زیادہ زیور کا کام دے سکتی ہے :
شعر کا حسن بڑھا سکتی ہے مگر اپنی جگہ پر چنداں قابل اعتنا نہیں۔ معنی سے بے نیاز شعر کے لیے سادگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ محض سادگی اردو کے دوسرے نمبر کے شعرا میں با افراط نظر آتی ہے لیکن جو سادگی حسن ہے وہ یہاں صرف درد، میر، مومن اور کبھی کبھی غالب کے یہاں نظر آتی ہے۔ (57)
وہ صاحب تذکرۂ ’ گل رعنا ‘ عبد الحی کے خیال سے متفق ہیں کہ مومن کو حالی جیسا نقاد نہیں ملا۔ وہ کہتے ہیں کہ مومن کے یہاں مبالغہ تاثیر کی توسیع ہے۔ ’’ یہ صحیح ہے کہ خیال مبالغہ کے ساتھ بیان کیا ہے مگر تاثیر ہے کہ شعر سے ٹپکی پڑتی ہے اور مومن کا کمال یہی ہے کہ اسے مبالغہ کی حدود سے نکال دیا۔ ‘‘(58)انھوں نے ’ نزاکت تخئیل ‘ کو موضوع بنا کر مومن کی شاعری کا جائزہ لیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مومن کاسارا دیوان نزاکت و رفعت تخئیل سے بھرا ہوا ہے۔ لکھتے ہیں :
رفعت تخئیل اور نزاکت خیال کے تحت میں سچ پوچھیے تو علوئے مضامین، جدتِ ادا، اسلوب بیان وغیرہ سب کچھ آ جاتا ہے۔ کیوں کہ جب تک شاعر کی تخئیل بڑھی ہوئی نہ ہو گی وہ ادائے بیان میں کیا خاک جدت دکھا سکے گا۔ نزاکت خیال کا عنوان اتنا جامع ہے کہ مومن کے اکثر اشعار اس کے تحت میں آسکتے ہیں۔ (59)
سید امتیاز احمد نے بھی ضیا احمد بدایونی اور نیاز فتح پوری کی طرح کلام مومن کی اس خصوصیت پر زور دیا ہے کہ مومن کے یہاں یہ بات بہت نمایاں ہے کہ وہ اکثر موقعوں پر مضمون کے بعض اجزا چھوڑ جاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس عمل سے کلام میں خاص لطف پیدا ہو جاتا ہے اور سننے والے کا ذہن خود بخود اس جزو کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ انھوں نے ان کی زبان پر بھی توجہ دی ہے۔ اس مطالعے میں انھوں نے علوئے تخئیل کے نتیجے میں تعقید کے نقص کی طرف اشارہ کیا ہے اور زبان کی صفائی و بندش کی چستی کا بھی اعتراف کیا ہے۔ اسی خوبی کی بنا پر وہ کہتے ہیں کہ ’ شعر کڑی کمان کا تیر معلوم پڑتا ہے ‘۔ (60)انھوں نے مومن کے یہاں تشبیہ و استعارے کی ندرت کی جستجو اور محاکات کے باب میں اسے تصور کے ساتھ تخیل سے آمیز کر کے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ موصوف لکھتے ہیں کہ ’’ مومن کے کلام میں ایک مخصوص وصف ہے جس میں کوئی استاد ان سے بہتر تو درکنار ان کے برابر بھی نہ ہوسکا، وہ یہ کہ مومن اپنے مطلب کو اس طرح ادا کرتے ہیں کہ مخاطب اس میں اپنا فائدہ تصور کرتا ہے۔ ‘‘ (61)اسی خصوصیت کو ضیا احمد بدایونی نے ’ مکر شاعرانہ ‘ کا نام دیا ہے۔ امتیاز احمد کہتے ہیں کہ اردو شاعری میں مومن سے قبل طنز نہیں پایا جاتا تھا۔ (62)اس خیال سے کوئی بھی ذی شعور اختلاف کرے گا۔ انھوں نے کلام مومن کا مطالعہ ’ اجتماع ضدین ‘ کی روشنی میں بھی کیا ہے :
الغرض تمام عالم اجتماع ضدین کا مظہر ہے۔ ایک حقیقی شاعر خلقت کے اس پہلو کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ مومن کے شاعرانہ دل و دماغ نے حقیقت کو پا لیا اور مختلف طریقوں سے مختلف صورتوں میں اپنے اشعار میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے۔ (63)
امتیاز احمد نے مومن کے ان الفاظ پر بھی بات کی ہے جنھیں بعض حضرات متروکات میں شمار کرتے ہیں۔ انھوں نے ان کا جواز پیش کیا ہے۔ انھوں نے قصائد پر ایک رخ سے بات کی ہے جو پورے طور پر مدح پر مبنی ہے۔ نیاز فتح پوری نے قصائد پر مدلل اور غیر جانب دارانہ طور پر بات کی ہے۔ مثنویوں کے بارے میں ان کی رائے ہے کہ وہ مومن کی حیات معاشقہ کی منظوم تصاویر ہیں۔ مومن کے محبوب پر ان کی رائے توجہ طلب ہے :
مومن کے سارے کلیات میں ایک مصرع بھی ایسا نہیں نکل سکتا جس سے یہ وہم ہوسکے کہ مومن کا محبوب کبھی دوسری جنس کا کوئی فرد رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ مومن خاں اپنے کلام میں بار بار لفظ پردہ نشیں پر زور دیتے ہیں۔ مثنویوں کی سادگی اور ان میں کسی ( پلاٹ ) کی عدم موجودگی بھی میرے اس خیال کو یقین کے درجے تک پہنچاتی ہے کہ یہ سب مومن نے اپنی ہی سرگزشت لکھی ہے۔ ورنہ حکیم مومن ایسا نازک خیال شاعر اور یہ سادگی کوئی معنی نہیں رکھتا۔ (64)
امتیاز احمد نے مومن کی رباعیات، مرثیہ، واسوخت، تضمین، معموں اور تاریخوں پر بھی نظر ڈالی ہے اور مومن کی عدم مقبولیت کے اسباب بھی تلاش کیے ہیں۔ ’ تصویر کا دوسرا رخ ‘ کے تحت انھوں نے کلام مومن کے نقائص کو نشان زد کر کے اپنی ایمانداری کا ثبوت دیا ہے۔ اس ضمن میں خیالات کی پیچیدگی اور زبان کی ناہمواری کو خاطر نشان کیا گیا ہے۔ آخر میں مومن کے شاگردوں کا بیان ہے جس کا مقصود مومن کے اسلوب و رنگِ شاعری کی منتقلی کو دکھانا ہے اور یہ ثابت کرنا ہے کہ اس رنگ کی پیروی نے مومن کے مرتبے کو استحکام بخشا۔
’نگار‘ کی فہرست میں دوسرا مضمون ’ اردو غزل گوئی میں مومن کا مرتبہ ‘، مرزا جعفر علی خاں اثرؔ لکھنوی 1885-1967 کا ہے۔ میر، غالب اور انیس پر انھوں نے قابل قدر کام کیا ہے۔ مومن پر زیادہ توجہ نہ دے پائے جس کا انھیں احساس ہے۔ اس امر کا انھوں نے اپنے مضمون میں اظہار کیا ہے۔ انھوں نے غزلیات مومن کی چند خصوصیات کو معرض بحث میں لایا ہے۔ انھی کی بنیاد پر پورے مضمون کی عمارت کھڑی کی ہے۔ یہ بھی ان کے ناقد کم، شارح زیادہ ہیں۔ چودہ صفحات کے مضمون میں دو صفحات میں مقدمہ قائم کیا گیا ہے اور بارہ صفحات پر انھی کی روشنی میں اشعار کی شرح کی گئی ہے۔
مضمون کا آغاز منفی انداز میں ہوا ہے۔ شکایت ہے کہ مومن نے اپنے دائرۂ تخئیل کو بہت محدود کر لیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان کے یہاں مسائل تصوف، سائنس اور فلسفے کی جھلک بھی نہیں۔ محض ایک متلون شاہد مجازی سے محبت ہے اور اسی کے متعلقات نظم ہوئے ہیں۔ ناز و ادا، غمزہ و کرشمہ کی مصوری، غیر کے جذبۂ رشک و حسد و رقابت کی نقاشی، ادا بندی و معاملہ نگاری، واردات حسن و عشق کا تجزیہ، … اور یہ سب مجاز کی صورت میں ہیں۔ اس کے بعد وہ فوراً پہلو بدلتے ہیں اور منفی سے مثبت کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ تاہم اس محدود دائر ہ میں اس نے ایسی حیرت انگیز جدت اور تنوع سے کام لیا ہے کہ جو شعر ہے، نیا ہے اور اسی کے ساتھ بے حد دلکش ‘‘۔ (65)اثرؔ کہتے ہیں کہ مومن کے یہاں فلسفہ کی جھلک تک نہیں۔ اس جملے کا کوئی مطلب نہیں۔ نہ جانے وہ کس فلسفے کی بات کر رہے ہیں۔ کسی شخص کا فلسفہ، زندگی کا فلسفہ یا کائنات کے مسائل کا فلسفہ ؟ مومن کے یہاں پیرایہ مجازی ضرور ہے لیکن کوئی ضروری نہیں کہ ان کی تمام واردات بھی مجازی یا غیر حقیقی ہیں۔ مومن کے موضوعات محدود ہوسکتے ہیں، لیکن ان کے دائرۂ تخئیل کو محدود کہنا قطعی مناسب نہیں۔ البتہ یہ اعتراف با معنی ہے کہ حدود میں انھوں نے حیرت انگیز جدت اور تنوع کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے قصائد میں تو علوم و فنون کی دقت طلبی نظر آتی ہے لیکن غزل میں زیادہ تر اسلوب صاف ہے اور موصوف کا یہ نتیجہ درست ہے کہ نہ تو اسرار حکمیہ ہیں اور نہ دقیق مسائل علمیہ۔ الفاظ بھی مشکل یا غیر مانوس نہیں۔ موصوف لکھتے ہیں ؛ ’’ نہ الفاظ مشکل یا غیر مانوس ہیں، نہ محذوفات ہیں، نہ مقدرات فرض کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر بھی اکثر اشعار ایسے ہیں جن کا مفہوم سمجھنے میں نہایت کاہش اور دماغ سوزی کی ضرورت ہوتی ہے ‘‘۔ (66)محذوفات تو کلام مومن کی خصوصیت ہے۔ پھر اس کے وجود سے انکار غیر منطقی ہے۔ ان کی شاعری سادگی و پیچیدگی کا مرکب تو ہے، لیکن یہ کہنا شاید ٹھیک نہیں کہ ان کے یہاں مشکل یا غیر مانوس الفاظ نہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان کے اکثر اشعار کا مفہوم آسانی سے گرفت میں نہیں آتا۔ ہاں اور نا، کی کیفیت ہے، یعنی ہے بھی اور نہیں بھی۔ کلام سادہ بھی ہے اور پیچیدہ بھی۔ ایسے معاملات میں کامل انکار یا مکمل اعتراف، گمراہ کن ہے۔ موصوف نے یہ نکتہ اہم دریافت کیا ہے کہ ’’ دشواریِ مطالب کا ایک سبب ایہام بھی ہے۔ اپنے معاصرین میں غالباً مومن ہی ایسا شاعر ہے جس نے ایہام کا احیا کیا، ورنہ یہ اسلوب متروک ہو چکا تھا ‘‘۔ (67)وہ کہتے ہیں کہ مومن کے کلام میں ایجاز نے معنی میں تنوع پیدا کر دیا ہے۔ ان کے دریافت کردہ اس پہلو سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اپنے تخلص کا جیسا استعمال مومن نے کیا ہے ان کے عہد میں دیگر شعرا کو یہ خوبی نصیب نہ ہوئی۔ مومن کے معشوق پر دیگر ناقدین نے بھی بات کی ہے اور سب نے معشوق کے عورت ہونے کی تصدیق کی ہے۔ اثرؔ لکھنوی بھی لکھتے ہیں کہ ’’ مومن کا معشوق عورت ہے۔ میں نے جہاں تک مطالعہ کیا اُس کے دیوان میں ایک شعر بھی ایسا نہیں ملا جس سے وثوق کے ساتھ کہا جا سکے کہ یہ معشوق کوئی امرد یا سبزہ آغاز نوجوان ہے ‘‘۔ (68)موصوف نے مومن کی فارسی تراکیب کا ذکر بطور خاص کیا ہے اور اس صفت میں انھیں غالب کا مد مقابل ہی نہیں، بلکہ برتر قرار دیا ہے۔ یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کے دیوان میں ایک شعر بھی شاید ایسا نہ ملے گا جس کی بندش سست ہو یا انداز بیان شاعرانہ نہ ہو یا خیال میں تازگی نہ ہو۔ اسے ہی وہ فن کے لحاظ سے شاعری کی’ معراج کمال ‘ کہتے ہیں۔ (69)مومن کی شاعرانہ حیثیت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے :
نفسیات کے دشوار ترین مسائل کو سادہ الفاظ میں دلکش طریقہ سے بیان کیا ہے۔ البتہ جیسا پہلے عرض کیا جا چکا تصوف نہیں ہے۔ دوچار شعر کھینچ تان کر شاید اس زمرہ میں آ جائیں، ورنہ خیریت ہے مگر یہ کمی مومن کی شاعرانہ عظمت کو اور زیادہ نمایاں کرتی ہے اور شاعروں کے بیشتر اشعار میں وسعت معانی صرف ان مسائل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، حقائق و معارف کی بحث کا یہ لازمی نتیجہ ہے لیکن مجردات کو چھوڑ کر نفسیات کے مسائل کو مختصر الفاظ میں نظم کر دینا آسان کام نہیں۔ مومن کو زبان پر ایسی قدرت ہے اور فطرت انسانی کا اس قدر گہرا مطالعہ کیا ہے کہ واردات قلب اور محسوسات ذہنیہ کو متشکل کر کے آنکھوں کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ اخلاقی نقطۂ نظر سے بعض اشعار قابل گرفت ہوں تو ہوں مگر جہاں تک فن کا واسطہ ہے، اس کا ہر شعر مکمل ہے۔ (70)
’نگار‘ کے مضامین میں نظیر صدیقی کا طویل مضمون ’ مومن کا تغزل ‘ نہایت دلچسپ ہے۔ مضمون کا اختتام اس اقتباس پر ہوتا ہے :
مومن اردو شاعری کے غیر صحت مندانہ روایت کا شکار ہونے کے باوجود جس حد تک صالح تغزل کا حق ادا کر سکے وہ ان کو اردو کے چند بڑے غزل گو شعرا کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے کافی ہے۔ اردو شاعری میں ان کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ ان کے کلام سے ان کے بعد کے کئی شاعر متاثر ہوئے۔ حسرت موہانی، اصغر گونڈوی، فراق گورکھپوری وغیرہ کی شاعری مومن کے فیضان سے انکار نہیں کرسکتی۔ (71)
پورا مقالہ پڑھ لینے کے بعد بھی ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ’ صالح تغزل ‘ کیا شے ہے ؟ جس کا حق مومن نے ادا کیا۔ نظیر صدیقی کے اس اقتباس سے ذہن اس طرف منعطف ہوتا ہے کہ انھوں نے مومن کے تغزل کو موضوع بنا کر ان کی اہمیت / خصوصیات پر گفتگو کی ہے، اور ان کے ان پہلوؤں کو نشان زد کیا ہے جس سے بعد کے لوگوں نے بھی فیضان حاصل کیا، لیکن واقعہ یہ نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ مومن کی غزلیہ شاعری کے بنیادی اور اہم پہلوؤں پر دوسرے ارباب قلم کے جن خیالات سے مجھے اختلاف رہا ہے وہ معرض بحث میں آ چکے ہیں لیکن یہاں تک جو کچھ لکھا گیا ہے، اس سے میرا مقصود نہ تو مومن کے نقادوں کی تنقیص ہے اور نہ خود مومن کی تحقیر ‘‘۔ (72)انھیں یہ کہنے کی ضرورت اس لیے پڑی کہ انھیں احساس ہو چکا تھا کہ انھوں نے مومن کے ناقدین کی تنقیص بھی کی ہے اور مومن کی تحقیر بھی۔ ان کا لہجہ بعض اوقات مناظرانہ زیادہ ہے، علمی/سنجیدہ کم۔ متانت کا فقدان کہیں کہیں نظر آیا۔ وہ غالب کے پرستار ہیں۔ ان کی تحریر میں دو انتہاؤں کی جھلک ہے۔ ایک وہ جو مومن کو سوائے میر کے سب سے بڑا شاعر تسلیم کرتا ہے، دوسرا وہ جو غالب کو سب سے بڑا شاعر کہتا ہے، یہاں تک کہ میر سے بھی۔ موصوف دوسری صف میں ہیں۔ بات مومن کی ہو رہی ہے اور کم تر ثابت کرنے کے لیے حوالہ غالب کے یہاں سے آ رہا ہے۔ مومن و غالب کا موازنہ کرنے والوں میں اگر کسی نے مومن کو برتر کہہ دیا تو موصوف چراغ پا ہو گئے۔ اشعار کی منطقی تشریح کر کے اس کے مجازی مفہوم کو مجروح کر نے کی کوشش کی۔ چونکہ انھوں نے مضمون کا آغاز ہی اس اعتراف سے کیا تھا کہ ’’ مومن اردو کے ان خوش نصیب شاعروں میں سے ہیں جن کے ممتاز غزل گو ہونے پر تذکرہ نگاروں سے لے کر اس دور کے نقادوں تک کے درمیان دو رائیں نہیں ہیں …واقعہ یہ ہے کہ اگر مومن کے کلام کی قدر و قیمت متعین کرتے وقت عقیدت مندانہ مبالغہ آرائی اور طرف داری سے کام نہ لیا جائے تب بھی ان کو اردو کے بڑے غزل گو شاعروں کی فہرست میں رکھنا ہی ہو گا۔ ‘‘ (73) اس لیے لازم تھا کہ کچھ مثبت گفتگو بھی کر لی جائے۔ ایک طرف تو وہ یہ کہتے ہیں کہ مومن کے یہاں گنتی کے اچھے شعر ملیں گے اور دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے ممتاز غزل گو ہونے میں کلام نہیں۔ اشعار کی منطقی تشریح کے وسیلے سے وہ مومن کو جس قدر مجنون و خبطی ثابت کر سکتے تھے، کیا۔ یہ بھی محسوس ہوا کہ مومن کے ناقدین کو بھی وہ خاص مقصد کے تحت نشانہ بنا تے ہیں۔ ضیا احمد بدایونی، نیاز فتح پوری، سید امتیاز احمد، اثر لکھنوی، معجز سہسوانی وغیرہ کی تنقید کو بے بنیاد بتاتے ہیں۔ وہ مومن کی نازک خیالی کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ انھوں نے مومن کے تغزل کو ’ تمسخر ‘ بھی کہا ہے۔ (74)تخئیل کو ہوائی قلعہ، نازک خیالی اور مضمون آفرینی سے متعلق زیادہ تر اشعار کو غیر فطری اور مبالغہ آمیز قرار دیا ہے۔ موصوف جوش تنقید میں یہاں تک کہہ گئے کہ ’’ جس طرح دیوان مومن کے زیادہ تر اشعار خیالات و مضامین کے اعتبار سے صحیح رنگِ تغزل کے آئینہ دار نہیں۔ اسی طرح مومن کا انداز بیان بھی غزل کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ‘‘(75)وہ کہتے ہیں کہ مومن نے شعر میں تکلفات کو اوڑھ لیا تھا۔ انھوں نے مومن کی شاعری کو پیچیدگی کے سبب ذہنی ورزش قرار دیا۔ پیچیدگی کے پانچ اسباب بیان کیے :
اول تو اس لیے کہ ان کے اکثر پیچیدہ اشعار حد درجہ لا یعنی مضامین پر مبنی ہیں۔ اسی لیے وہ پڑھنے والے کو پیچ دار اور الجھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔
دوسرے اس لیے کہ مومن بعض اوقات بہت وسیع مضمون کو ایک شعر میں ادا کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب کسی وسیع مضمون کو دو مصرعوں کے پیمانے میں ادا کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس کے بعض اجزا کو لازمی طور پر چھوڑدینا پڑے گا۔ اب چونکہ مومن کے مضامین زیادہ تر تخیلی اور مفروضاتی ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کے چھوڑے ہوئے اجزا مشکل سے سامع کے ذہن میں آتے ہیں۔ نتیجتاً شعر پیچ دار بن جاتا ہے۔
تیسرے اس لیے کہ بسا اوقات مومن کے اشعار ایہام پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے بھی مطلب بہ یک نظر سمجھ میں نہیں آتا۔
چوتھے اس لیے کہ مومن کے زیادہ تر اشعار کی بنیاد روایتی مضامین پر ہے۔ ان میں ندرت و تازگی پیدا کرنے کے لیے ضروری سمجھا گیا کہ وہ سیدھے سادے پیرایہ میں بیان نہ کیے جائیں۔
پانچواں سبب یہ ہے کہ مومن کے بعض اشعار کا سمجھنا بعض باتوں کے جاننے پر منحصر ہے۔ اب جو کوئی ان باتوں سے ناواقف ہے، اس کو مومن کا اسلوب قدرتی طور پر پیچیدہ معلوم ہوتا ہے۔ (76)
فراق گورکھپوری نے چونکہ مومن کی تعریف ان کی فارسی تراکیب کی وجہ سے کی ہے اور انھیں داخلیت کا سبب بتایا ہے، اس لیے وہ فراق سے بھی نالاں نظر آتے ہیں۔ مومن کے ناقدین کے ایک رویے سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ مومن کے بعض نقادوں نے جہاں اور بہت سی دلچسپ اور بصیرت افروز باتیں کہی ہیں، وہاں اردو شعرا میں میر، غالب اور جرأت سے ان کا موازنہ بھی کیا ہے اور اس قدر انصاف کے ساتھ ہر ایک کے مقابلہ میں مومن ہی کو بہتر اور برتر دکھایا گیا ہے۔ ‘‘ (77) اصل میں موازنے کی بنیاد ہی غلط تھی۔ اس لحاظ سے موصوف یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ انصاف کا طریقہ نہیں۔ موازنے کے انھی رویوں کے سبب مومن کے نقادوں کی وہ باتیں جو جائز تھیں، انھیں بھی شک اور جانب داری کی عینک سے دیکھا گیا۔
نظیر صدیقی نے مقالے کے اختتام میں مومن کے اشعار کا ایک انتخاب پیش کیا ہے جس کی بنیاد پر انھوں نے مومن کے تغزل کا اعتراف کیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان اشعار کا حسن کبھی زائل نہیں ہوسکتا۔ تمام تر مباحث کے بعد انھوں نے مومن کے تغزل کو تسلیم کیا اور یہ لکھا کہ ان کو اردو کے چند بڑے غزل گو شعرا کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے یہ اشعار کافی ہیں۔ ہمارا معروضہ یہ ہے کہ اپنی شرطوں پر کسی کو تسلیم کرنا ذاتی مسئلہ ہے۔ اس لیے ان شرائط پر سب کو راضی نہیں کیا جا سکتا۔
’نگار‘ میں غلام ربانی عزیز کا مضمون ’ کلام مومن پر ایک نظر ‘ بھی شامل ہے جس کا نچوڑ یہ ہے کہ مومن نے لمبی بحروں میں جو غزلیں کہیں ہیں، ان میں کوئی ایسا شعر نہ ملے گا جسے حقیقی معنوں میں شعر کہا جا سکے اور انھوں نے چھوٹی بحروں میں جو اشعار نکالے ہیں، وہی تمام دیوان کا نچوڑ ہیں۔ اسی پہلو پر موصوف نے قلم اٹھایا ہے۔ انھوں نے شاعری /تخلیق کی بعض اصطلاحات اور غزل کے بعض موضوعات پر عنوان قائم کر کے افہام و تفہیم کی کوشش کی ہے۔ معلوم پڑتا ہے کہ ان کا ذہن مرکوز و مربوط نہیں۔ تعریف پر آتے ہیں تو آسمان و زمین کے قلابے ملا دیتے ہیں اور تنقیص پر آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ لمبی بحروں میں ’’کوئی ایسا شعر نہ ملے گا جسے حقیقی معنوں میں شعر کہا جا سکے۔ ‘‘(78)ان کا مزاج بھی شرح نگاری کی طرف مائل ہے۔ ’ نگار ‘ میں وقار احمد رضوی کا مضمون ’’ مثنوی ’ قول غمیں ‘ اور مومن کی دوسری مثنویاں ‘‘اداریے کے بعد ساتویں نمبر پر ہے۔ وقار احمد رضوی نے اس مثنوی کو بنیاد بنا کر مومن کی دیگر مثنویوں کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ آٹھ صفحات کا یہ مضمون اپنے موضوع کے نظری و عملی تقاضوں کی روشنی میں کافی تشنہ ہے۔ مضمون کا حاصل یہ ہے :
مثنویات مومن اسلوب کے لحاظ سے اچھی ہیں، ان میں نہ مرقع نگاری ہے اور نہ واقعات کو ڈرامائی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک عاشق جانباز کی حکایات ہیں۔ سیدھے سادے عشق کے سچے افسانے ہیں۔ غم کی کہانی اور حزن و ملال کی شاعری ہے اور ان کو اسی لحاظ سے دیکھنا چاہیے۔ (79)
’نگار‘ میں شامل ’ مومن و کلام مومن ‘ کیفی چڑیا کوٹی کا طویل ترین مضمون ہے۔ کیفی صاحب نے مضمون کا آغاز نہایت مثبت انداز میں کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ جس طرح شہرت ’ دلیل کمال نہیں ‘، اسی طرح ’ گمنامی ‘ نقص کا ثبوت نہیں۔ انھوں نے شہرت کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے اور اپنے مقالے کی وجہِ تحریر بیان کی ہے :
عرصہ سے مجھ کو خیال تھا کہ مومن کے کمال کو روشناس کرنا اردو شاعری پر بہت بڑا احسان ہے۔ مومن کا کلام اب تک جو محروم شہرت رہا، اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ مومن اور اکثر شعرا کی طرح علوم و فنون سے بے بہرہ نہ تھے، بلکہ اہل فضل و کمال شعرا میں ان کا درجہ اکثر سے بلند ہے۔ انھوں نے شاعری کے جامہ میں علوم و فنون کو اس طرح بھر دیا کہ دیکھنے اور سمجھنے والے چیستان سمجھنے لگے۔ مثلاً کہیں نجوم ہے، کہیں جفر، کہیں ریاضی ہے، کہیں فلسفہ، معانی و بیان کے اکثر مسائل کا ان کی غزلیں مرقع ہیں۔ اس طرح کہ اگر ان کے اشعار ترتیب کے ساتھ یکجا کیے جائیں تو یہ تمام مسائل مسلسل منضبط نظر آئیں، معانی و بیان کے اعتبار سے ان کے کلام میں جو جواہر ہیں ان کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے اور ’ مومن ‘ کے فضل و کمال اور اعجاز شاعری کو تسلیم کیجیے۔ (80)
یہ تو ممکن ہے کہ علم و کمال میں مومن کا درجہ ان کے اکثر معاصر شعرا میں بلند ہو، لیکن شاعری میں علمیت کا اظہار شعریت کو مجروح کرتا ہے۔ کیفی صاحب جس پہلو کو ان کی خوبی اور عظمت کا نشان بتا رہے ہیں، وہ دراصل شعریت /تخلیقیت کے لیے مضر ہے۔ شاعری معلومات فراہم کرنے کا وسیلہ نہیں۔ یہ بصیرت کی آماجگاہ ہے۔ موصوف ایسی شاعری کا خاکہ پیش کر رہے ہیں جس میں نجوم، جفر، ریاضی، فلسفہ، معانی و بیان کا دخل ہے اور یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر ان کے اشعار ترتیب کے ساتھ یکجا کیے جائیں تو یہ تمام مسائل مسلسل منضبط نظر آئیں گے۔ شاعری نہ ہوئی، علمیت کا پٹارہ ہوا۔ جب ہمیں یہی علوم پڑھنے ہوں گے تو ہم انھیں راست ان کی کتابوں کے توسط سے پڑھیں گے۔ شاعری کیوں پڑھی جائے ؟ یہ سچ ہے کہ شعروں کے افہام و تفہیم میں ان کا رویہ دلچسپ اور بامعنی ہے، لیکن مجموعی طور پر اس مضمون میں یہی کوشش کی گئی ہے کہ مومن کو اردو کا عظیم شاعر ثابت کر دیا جائے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ مومن کے فضل و کمال اور اعجاز شاعری کو تسلیم کیجیے۔ انھیں ان کے یہاں آورد میں بھی آمد نظر آتی ہے۔ مبالغے کی سطح دیکھیے :
مومن کے دیوان میں شروع سے آخر تک یہ کمالات اور کرامات شاعری موجود ہیں، جن کا وجود ابتدا سے اب تک کہیں نہیں ملتا۔ (81)
سب سے زیادہ عجیب و غریب خصوصیت مومن کی یہ ہے کہ آورد کے اہتمام میں انداز بیان سے آمد کی بیخودی اور دلیری پیدا ہو گئی ہے۔ مومن اپنی اس صفت میں دنیائے شاعری میں منفرد اور اکیلے ہیں۔ (82)
کیفی صاحب نے مومن کا موازنہ سعدی، حافظ، شیکسپیئر وغیرہ سے کیا ہے۔ مومن پر کیے گئے اعتراضات کے جواب میں وہی ’نقائص‘ انھوں نے میر، غالب اور ذوق کے یہاں ڈھونڈے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ موازنے کا یہ طریقہ ہی غلط ہے۔ یا تو تعریف مقصود ہوتی ہے یا تنقیص۔ اس نہج کے مطالعات میں پھر صحیح باتوں پر بھی شبہ ہونے لگتا ہے۔ اعتبار مجروح ہوتا ہے۔ اس لیے ناقد کا ہر لفظ دلیل، انضباط اور سلیقے کا متقاضی ہے۔ ’ نگار ‘ کے مومن نمبر میں دو مضامین اور شامل ہیں۔ ’ موازنۂ مومن و غالب ‘ عبدالباری آسی اور مومن کا فارسی کلام جوہر ٹونکی ۔ عبدالباری آسی نے اپنے مضمون میں مومن و غالب کا موازنہ کرتے ہوئے افہام و تفہیم کی بنا ڈالی ہے۔ کوئی مطالعہ ایسا نہیں ہوتا کہ اس سے صد فیصد ہر قاری اتفاق کرے۔ لکھنے والے کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ ایسے میں قاری خود فیصلہ کر لیتا ہے۔
عرش گیاوی کا شمار ان لوگوں میں ہے جنھوں نے مومن پر خاص توجہ دی۔ انھوں نے حیات مومن کی کڑیاں ملانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اپنی کتاب ’ حیات مومن ‘ میں انھوں نے ’ تنقید کلام مومن ‘ کا عنوان قائم کیا ہے، لیکن اس میں تنقید ہے ہی نہیں۔ تنقید کا عنوان قائم کر کے انھوں نے شرح لکھی ہے۔ خو د کہتے ہیں کہ ’’ہم نے تنقید کی طرف زیادہ رخ نہ کیا، بلکہ تشریح کلام مومن کی طرف رخ کیا۔ ‘‘(83) شرح بھی چند قصائد اور بعض اشعار پر مشتمل ہے۔ اس لیے ان پر کوئی تنقیدی گفتگو غیر مناسب ہے۔
حسرت موہانی نے جو تذکرۂ شعرا مرتبہ: احمر لاری لکھا، اس میں مومن پر بھی توجہ دی۔ انھوں نے مومن کے باب میں ان کا اعتراف کیا اور ان کی شاعری کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے تاریخی اور تہذیبی سلسلے کے تحت مومن کی فارسی گوئی کو موضوع بنایا۔ ان کا نتیجہ یہ ہے کہ مومن کے یہاں زبان کے ’لاتعداد ‘نقائص کے باوجود سیکڑوں ایسے اشعار مل جائیں گے جن سے ’ ’دل و دماغ کو فرحت وسرور، روح کو کشادگی اور بالیدگی ‘‘ حاصل ہوتی ہے۔ انھوں نے صحیح کہا ہے کہ جتنی خامیاں مومن کے کلام میں ہیں، اتنی شاید ان کے برابر والے معاصرین میں کسی کے دیوان میں نہیں اور اگر :
اتنی غلطیاں لکھنؤ کے کسی شاعر سے سر زد ہوتیں تو اس کی نسبت کوئی استادی کا گمان بھی نہ کرتا، لیکن مومن خاں کی استادی کو جس چیز نے قائم رکھا وہ ان کی فارسی زبان کے ساتھ طبعی مناسبت تھی جس کے زور پر انھوں نے ایسی غزلیں بھی لکھ دی ہیں جن کو دیکھ کر پڑھنے والا ان کی لغزشوں کو فراموش کر دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ (84)
حسرت کہتے ہیں کہ مومن خاں سے اس قسم کی کمزوری جو شان استادی کے خلاف ہے، ایک سے زیادہ موقعوں پر سرزد ہوئی ہے۔ اس بنیاد پر انھیں استاد یا مشاق استاد کون کہہ سکتا ہے ؟ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ نقائص ان کے یہاں بر بنائے بے پروائی پائے جاتے ہیں، نہ بہ سبب ناواقفیت۔ وہ کہتے ہیں کہ اہل لکھنؤ نے صحت زبان کا خیال زیادہ کیا اور لطف مضمون کا کم، جبکہ اہل دہلی اور خصوصاً مومن خاں نے مضمون پر زیادہ توجہ دی اور صحت زبان پر کم۔ انھوں نے مومن کی فارسی دانی اور اس زبان سے طبعی مناسبت کو ان کی شاعری کی خوبی اور استادی کی بنیاد قرار دیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ اس کی وجہ سے ثقل الفاظ کا عیب بھی پیدا ہو گیا ہے۔ یہی صورت غالب کے یہاں بھی انھوں نے دکھائی ہے۔ غالب و مومن کو ایک سلسلے میں رکھ کر انھوں نے کچھ نکتے دریافت کیے ہیں۔ یہ مطالعہ متعصبانہ نہیں ہے کہ کسی پر کسی کو برتر محض اس بنیاد پر کہا جائے کہ اس نے پہلے ہی طے کر لیا ہو کہ اسے کسے کس درجے پر فائز کرنا ہے۔ انھوں نے دونوں کے یہاں کچھ مماثلتیں ڈھونڈی ہیں۔ مثلاً فارسی پسندی، غلبۂ فارسیت اور بلندیِ مضمون کی بنا پر بعض اشعار کا مشکل ہو جانا، فارسی تراکیب سے ہٹ کر سہل ممتنع اختیار کرنا اور ’’مرزا صاحب جہاں فارسی ترکیبوں سے گزر کر سہل ممتنع پر آ جاتے ہیں تو سادگی اور روانی کا دریا ہی بہا دیتے ہیں، بالکل اسی طرح مومن بھی جب چھوٹی بحروں میں صاف صاف کہتا ہے، تو قیامت ہی ڈھا دیتا ہے۔ ‘‘ (85) وہ مومن کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ہمارے نزدیک اردو شاعری کے لحاظ سے ذوق کا درجہ غالب سے اور غالب کا درجہ مومن سے بلند ہے، لیکن درد اور تاثیرِ کلام کے لحاظ سے مومن کا کلام غالب سے افضل اور ذوق سے افضل تر ہے۔ (86)
کافر دلجو کی شگفتہ اور نئی ترکیب سے شعر میں جان ڈال دینا خاص انداز تھا، مومن مرحوم کا اور اصل تو یہ ہے کہ شگفتگی اور لطافت الفاظ کی وہ ایک خاص شان جس کی ابتدا مومن خاں نے کی اور جس کو نسیم دہلوی مرحوم نے انتہا کو پہنچایا، اس خاندان شاعری کے متوسلین کے علاوہ اور کسی کو نصیب نہیں۔ (87)
فارسی مذاق اور ترکیبوں کی آمیزش سے ان کے کلام کی ایک خاص وقعت پیدا ہو گئی ہے جس کی مثال مرزا غالب کے سوا اور کسی شاعر کے کلام میں نہیں مل سکتی۔ (88)
حسرت کے مشاہدے / مطالعے میں تعصب نہیں ہے۔ انھوں نے کوئی نئی بات نہیں کہی، لیکن جو بھی کہا یقین محکم کے ساتھ کہا۔ صاف صاف اور بے لاگ کہا۔ مومن کی مثنویوں سے انھوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ ایک عاشق مزاج کی حیثیت سے مثنویوں کا شمار بہ لحاظِ مضمون و اثر اعلیٰ درجے کی مثنویوں میں ہوسکتا ہے لیکن بہ لحاظِ زبان ان کا درجہ بہت پست ہے۔ انھوں نے اسی کو ان مثنویات کی عدم مقبولیت کا سبب بتایا۔ (89) آخر میں حسرت نے مومن کے حالات زندگی پر مختصراً روشنی ڈالی۔
عبادت بریلوی نے مومن پر با ضابطہ کتاب ’ مومن اور مطالعۂ مومن ‘ لکھی ہے جس میں انھوں نے مومن کی شاعری پر تفصیل سے لکھا ہے۔ یہ حصہ جب ہمارے مطالعے میں آیا تو ’ مجموعۂ تضادات ‘ معلوم ہوا۔ ہم سمجھنے سے قاصر رہے کہ موصوف کہنا کیا چاہتے ہیں۔ وہ نہ تو ڈھنگ سے مومن کا دفاع کر پائے، نہ مخالفت اور نہ متوازن رویہ ہی سامنے آپایا۔ وہ کہتے ہیں کہ یوں تو مومن نے تمام اصناف میں شاعری کی لیکن ان کا اصل میدان غزل ہے۔ تضادات کی مثالیں پیش ہیں۔ فرماتے ہیں کہ مومن کی شاعری :
محض قافیہ پیمائی کی شاعری نہیں ہے۔ اس میں تو ان کے ذاتی اور انفرادی تجربات کا لہو دوڑا ہوا ہے۔ اسی لیے اس میں ایک نئی زندگی نظر آتی ہے اور ایک نیا روپ دکھائی دیتا ہے جو قدم قدم پر دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ ان کے انفرادی اور ذاتی تجربے کی صداقت صحیح جمالیاتی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ان کی غزل کو ایک کرشمہ بنا دیتی ہے جو دیکھنے والے کے دل کو لبھاتا ہی نہیں اس کو چونکاتا بھی ہے۔ (90)
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ مومن کی شاعری کے بڑے قائل ہیں اور یہ بیان اس کا اعتراف ہے۔ لیکن فوراً اس کے بعد کا اقتباس ملاحظہ ہو:
اس میں شبہ نہیں کہ مومن کی غزل میں بہ اعتبار مضامین و موضوعات وسعت اور ہمہ گیری، تنوع اور رنگارنگی نہیں ہے۔ وہ بڑی حد تک محدود ہے۔ اس میں تو صرف حسن و عشق اور اس کے مختلف پہلوؤں کی ترجمانی ہے۔ اور اس ترجمانی میں بھی کسی خاص مفکرانہ گہرائی کا پتا نہیں چلتا۔ بس جذباتی زندگی کے بہت ہی عام معاملات ہیں جن کو مومن نے اپنا موضوع بنایا ہے۔ (91)
ابھی اقتباس ختم بھی نہیں ہوا کہ پھر ارشاد ہوتا ہے :
اس موضوع میں بہ ذات خود بڑی وسعتیں ہیں۔ مومن نے اپنے رنگا رنگ تجربات سے اس کو کچھ اور بھی وسیع اور ہمہ گیر بنا دیا ہے۔ (92)
عبادت بریلوی پر ایک اور الہام ہوتا ہے :
مومن محسوسات کے شاعر ہیں۔ ان کے یہاں فکر نہیں ہے۔ اسی لیے ان کی غزلوں میں ذہن کم ملتا ہے۔ انفرادی زندگی کے داخلی اور محسوساتی پہلوؤں کی ترجمانی، ان کا خاص میدان ہے۔ (93)
موصوف نے پتا لگا یا کہ مومن کی شاعری ذاتی، انفرادی، داخلی ہے اور فکر سے مبرا بھی۔ اب یہ اقتباس دیکھیے جس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مومن کے یہاں خارجیت بھی ہے، فکر بھی ہے اور اجتماعی شعور بھی۔ انھوں نے پورے باب میں اصرار کیا ہے کہ مومن عشق و عاشقی کے شاعر ہیں، لیکن یہاں یہ مفروضہ بھی وہ خود ہی رد کر دیتے ہیں :
زندگی کے اجتماعی پہلوؤں کی یہ ترجمانی ان کے یہاں غزل کے اشاروں اور کنایوں میں ملتی ہے، لیکن اس کی تہہ تک پہنچنے اور ان کے اصل مفہوم سے ہونے میں کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آتی۔ مومن اپنے آس پاس اور گرد و پیش کی زندگی کا شعور رکھتے تھے۔ ان کے سامنے اس آشوب قیامت کا پورا نقشہ موجود تھاجس سے ان کے زمانے کی اجتماعی زندگی دوچار تھی۔ مومن اس صورت حال سے خود بھی متاثر ہوئے ہیں، اور انھوں نے اس سے دوسروں کو بھی متاثر ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ اسی لیے اس کی جھلکیاں ان کی غزلوں میں بھی کہیں کہیں نمایاں ہو گئی ہیں۔ زمانے کا غم، اپنی عظمتوں کے فنا ہو جانے کا احساس، پامال اور پا بہ زنجیر ہونے کا خیال، ایک عالم کس مپرسی اور بے بسی سے باہر نکلنے کی خواہش، انقلاب کی تمنا، کچھ کرنے کی آرزو… اجتماعی زندگی کے یہ تمام پہلو ان کی غزلوں میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ … اور ان سے اس حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ مومن ایک اجتماعی شعور، رکھتے تھے اور اسی کی بدولت ان کی غزلوں میں اس زمانے کی زندگی کے اجتماعی معاملات کی ترجمانی اور عکاسی نظر آتی ہے۔ (94)
عبادت بریلوی اس کے بعد بھی فرماتے ہیں کہ مومن کے یہاں تنوع اور ہمہ گیری نہیں۔ انفرادیت ہے، اجتماعیت نہیں۔ اور انھیں اس امر کا بھی علم ہے کہ ’’ مومن سے قبل کی اردو غزل میں وہ جولانی نہیں تھی جو ان کے یہاں اتنی نمایاں نظر آتی ہے۔ ‘‘ (95)اس بات کا بھی احساس ہے :
اردو غزل کی روایت میں مومن کی غزل کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ وہ ہر اعتبار سے منفرد نظر آتی ہے۔ اور اس کے منفرد ہونے کا یہ راز زندگی اور فن کے اس حسین امتزاج میں ہے جو اس کا طرۂ امتیاز ہے ! ‘‘۔ (96)
عبادت بریلوی کو مومن کی غزل ’ ہر اعتبار سے منفرد ‘ تو نظر آتی ہے، لیکن اس میں انھیں نہ فکر نظر آتی ہے، نہ اجتماعیت، نہ گہرے معاملات، نہ تنوع اور نہ ہمہ گیری۔ ایسے تضادات کا کیا کیا جائے ؟ موصوف نے اس باب میں رقیب، عاشق، محبوب، پردہ نشیں جیسے شعری کرداروں پر اشعار کے حوالے سے گفتگو کی ہے اور پورا مضمون انھی مسائل سے دوچار ہے جس میں تنقید کم اور الفاظ کا اصراف زیادہ ہے۔ اسی طرح انھوں نے مومن کی مثنویوں پر جو باب قائم کیا ہے اس میں بھی یہی صورت جا بجا نظر آتی ہے۔ یہاں بھی تضادات سے دم الٹنے لگتا ہے۔ لکھتے ہیں :
ان مثنویوں میں زندگی کے ایسے دور کی تصویر کشی ہے جس میں انسان کی جوانی دیوانی ہو جاتی ہے اور وہ اس جوانی کے جوش جنوں میں نہ جانے کیا کیا کچھ کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے لیکن اس کو خود اس بات کی خبر نہیں ہوتی کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کیسی کیسی عجیب حرکتیں اس سے سرزد ہو رہی ہیں۔ (97)
یعنی آدمی پاگل ہو جاتا ہے۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ’ واقعیت سے لبریز اور حقیقت سے بھرپور ‘یہ مثنویاں مومن کی آپ بیتی ہیں اور ان میں نفسیاتی شعور گہرا ہے۔ اگر یہ درست ہے تو کیا مومن واقعی کسی ایسی حالت میں تھے جس میں یہ پتا ہی نہ چلے کہ ان سے کیا سرزد ہو رہا ہے ؟ وہ فرماتے ہیں کہ ان مثنویوں میں عشق نہیں ہوس ہے۔ یہ اردو مثنوی کی فنی روایت کے زیر اثر نہیں لکھی گئی۔ اسی لیے اس میں مثنوی کے فنی مقتضیات کا فقدان ہے۔ ’’ان میں قصے کا عنصر تو موجود ہے لیکن یہ باقاعدہ مکمل اور مربوط داستانیں نہیں ہیں۔ ان میں تو بعض ایسے واقعات کا بیان ہے جو بالکل سیدھے سادے ہیں اور جن میں نشیب و فراز کے باعث پیدا ہونے والی وہ پیچ دار کیفیت نہیں ہے جو کہانی میں دلچسپی کے عناصر کو پیدا کرتی ہے۔ ‘‘ (98)اس کا مطلب یہ ہے کہ مثنوی کے جن فنی عناصر کا ابھی ذکر کیا گیا، ان کی کمی سے مثنوی عیب دار ہو جاتی ہے۔ جب کوئی چیز عیب دار ہو گی تو ظاہر ہے کہ اس کا درجہ بھی کم ہو جائے گا اور وہ لائق اعتنا نہیں سمجھی جائے گی۔ موصوف کی رائے کا اندازہ ہو گیا کہ مومن کی مثنویوں میں فنی عناصر کی کمی کے سبب دلچسپی کے عناصر نہیں ہیں۔ اب یہ اقتباس اور ساتھ ہی تضاد کی صورت بھی ملاحظہ کیجیے :
یہ روایتی انداز میں نہیں لکھی گئی ہیں، لیکن یہ مثنویاں روایت میں اضافہ ہیں۔ (99)
واقعات دلچسپ ہیں کیونکہ ان میں صداقت کا حسن اور واقعیت کی دل آویزی ہے۔ ان میں انسانی زندگی کا نفسیاتی شعور اپنے شباب پر نظر آتا ہے۔
واقعات بہت مربوط نہیں ہیں۔
ہر ایک واقعے میں توازن اور ہم آہنگی کا احساس ہوتا ہے۔
کہیں کہیں طوالت کا احساس ہوتا ہے۔
طوالت طبیعت پر بار نہیں بنتی۔ (100)
ہر سطر اپنے بعد آنے والی سطر کی نفی ہے۔ کلیم الدین احمد بت شکن ناقد کہے جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنی تنقید کے ذریعے معروضی انداز نظر کا شدید احساس دلایا۔ ’ اردو شاعری پر ایک نظر ‘( اول) میں انھوں نے مومن کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ سودا، اور غالب کے تسلسل میں نازک خیالی اور معنی آفرینی کے ذکر میں کہتے ہیں کہ مومن بھی بلند اور اعلیٰ خیالات کو شعر میں باندھنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اکثر ان کا تخیل اس قدر بلند پروازی پر مائل ہو جاتا ہے کہ مضمون نظر سے غائب ہو جاتا ہے۔ اس لیے وہ غالب کے شریک ہی نہیں، بلکہ شریک غالب ہیں۔ کلیم الدین احمد شاعری کو نازک خیالی کا مترادف نہیں مانتے۔ و ہ مومن کی نازک خیالی اور معنی آفرینی کا اعتراف کرتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ مومن میں یہ نقص ہے کہ وہ نازک خیالی اور معنی آفرینی کو اصل شاعری سمجھنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے تاثیر کم ہو جاتی ہے اور کچھ لطف حاصل نہیں ہوتا۔ جہاں نازک خیالی اور معنی آفرینی اصل مدعا نہیں ہوتی، وہاں شعر خود ذہن کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ وہ اس صفت کا بھی ذکر کرتے ہیں جس میں مومن معنی آفرینی کی کاوش میں نئی نئی ترکیبیں تراشتے ہیں اور یہ ترکیبیں اکثر دل کش ہو جاتی ہیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ تراکیب اردو کی سلاست میں بعض اوقات اشکال بھی پیدا کرتی ہیں، لیکن ایسا کم ہوتا ہے۔ اور ’ ’ عموماً یہ بندشیں اپنی د ل کشی اور ندرت کی وجہ سے حسن کلا م میں اضافہ کرتی ہیں۔ ‘‘ (101) ان کا خیال درست ہے کہ الفاظ اور استعارے کتنے ہی نادر کیوں نہ ہوں، اگر محض اپنے حسن کے لیے استعمال ہوں تو وہ لائق تحسین نہیں ہوسکتے۔ انھوں نے نشاندہی کی ہے کہ مومن اکثر اس غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ میر و سودا کے مقابلے غالب کی دنیا محدود ہے، لیکن اس میں شک نہیں کہ’’ وہ صاحب طرز ہیں۔ ان کا الگ اسلوب ہے اور اپنے مخصوص رنگ میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ ‘‘(102)عشق کی حکمرانی مومن کی غزل میں بھی ہے لیکن روایتی انداز میں نہیں۔ کلیم صاحب کے مطابق یہاں مومن محض رسماً طبع آزمائی نہیں کرتے۔ اس لیے یہاں قافیہ پیمائی نہیں، حقیقت و واقعیت کا جلوہ ہے۔ (103)’’ مومن کے شعروں میں یہی واقعیت ہے جو دوسرے شعرا میں کم ملتی ہے اور اگر ملتی ہے تو رکاکت اور بازاری پن لیے ہوئے۔ مومن کے شعروں میں یہ نقص نہیں۔ ‘‘ (104)مومن کے مخالفین نے اکثر شکایت کی ہے کہ بحروں کے لحاظ سے ان کے کلام میں تنوع نہیں ہے۔ لیکن کلیم صاحب کہتے ہیں کہ ترنم کے لحاظ سے مومن کی غزلوں میں کافی تنوع ہے اور اس میں وہ اپنے معاصرین سے کسی صورت میں کم نہیں ہیں۔ لکھتے ہیں :
اسلوب کے لحاظ سے مومن کی غزلوں میں وہ ناہمواری نہیں جو غالب کے کلام میں ملتی ہے۔ اشعار مختلف پایہ کے ضرور ہیں۔ بلند، معمولی، پست لیکن طرز ادا میں وہ نمایاں فرق نہیں جس کا غالب کے سلسلے میں ذکر ہوا۔ (105)
غالب اور مومن کا موازنہ تقریباً مومن کے ہر ناقد نے کیا ہے، کلیم الدین احمد اس سلسلے میں جارحانہ انداز اختیار نہیں کرتے۔ وہ شکایت کرتے ہیں کہ اردو غزلوں میں تک بندی زیادہ ہے۔ لیکن مومن کے باب میں اعتراف کرتے ہیں :
غالب اور مومن اس حقیقت سے واقف تھے اور اپنی بہترین دماغی صلاحیتوں سے اپنے شعروں میں کام لیتے تھے۔ اس لیے غالب اور غالب سے بھی کچھ زیادہ مومن کے شعر صرف ہمارے جذبات ہی کو نہیں بھڑکاتے بلکہ ہمیں غور و فکر کی بھی دعوت دیتے ہیں۔ مومن کے سیدھے سادے شعروں میں بھی دعوتِ فکر موجود ہے۔ (106)
ظہیر احمد صدیقی نے مومن پر پی۔ ایچ۔ ڈی کا مقالہ تحریر کیا تھا جو ’ مومن : شخصیت اور فن ‘ کے نام سے غالب اکیڈمی سے طبع ہوا۔ اس مقالے میں انھوں نے مومن کی شاعری کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے لیکن افسوس کہ وہ اپنے والد ضیا احمد بدایونی سے ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکے اور وہی باتیں دہرائیں جو ان کے والد اور دیگر ناقدین پہلے کہہ چکے تھے۔ مومن کی غزل میں اپنے والد ہی کی طرح ’حقیقی تغزل ‘ ڈھونڈتے ہیں۔ والد کی تائید کی ایک واضح مثال:
مومن کے حق میں حضرت ضیا احمد بدایونی کا یہ فیصلہ کہ ’’نفس غزل میں مومن اپنے تمام ہم عصروں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ ‘‘حقیقت سے بہت قریب معلوم ہوتا ہے۔ (107)
ظہیر احمد صدیقی مومن تنقید کے باب میں چبائے ہوئے نوالے پیش کرتے ہیں۔ یہ مثالیں ملاحظہ ہوں :
مومن نے اپنی غزل کو ایک مخصوص دائرے میں محدود کر دیا، مگر ان کی ندرت پسند طبیعت نے اس محدود موضوع میں تنوعات کی وسعتیں پیدا کر دیں۔
مومن کا معشوق صنف نازک ہے جسے وہ عشق پردہ نشیں کہتے ہیں۔
وہ صاحب طرز ہیں۔
ان کی شاعری نزاکت خیال اور ندرت ادا کے لطیف امتزاج سے عبارت ہے۔
وہ خیال کی کسی کڑی کو ( جس پر مضمون کی بنیاد ہوتی ہے اور جس کی طرف شعر میں ہلکا سا اشارہ ہوتا ہے ) حذف کر دیتے ہیں۔ اس عمل میں وہ استعارے کا استعمال کرتے ہیں۔
مومن کی ندرت ادا کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنا مدعا اس طرح پیش کرتے ہیں کہ مخاطب سمجھے کہ اس میں مومن کا نہیں، بلکہ اسی کا فائدہ ہے۔ اسی کو ضیا صاحب نے مکر شاعرانہ کہا اور موصوف نے بھی اس کا حوالہ دیا۔
ان کے کلام میں شوخی اور طنز سے بھی کام لیا گیا ہے۔ (108)
ان جملوں پر سرسری نظر ڈالتے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان میں نیا پن کتنا ہے ؟ ظہیر احمد صدیقی نے مومن کے مطالعے میں میر، جرأت، غالب اور داغ کا حوالہ دیا ہے۔ لکھتے ہیں :
ہماری رائے میں جرأت کی شاعری ’چوما چاٹی‘ کی شاعری ہے اور داغ ’رندانہ بانکپن ‘ کی۔ ان کے بر خلاف مومن کے یہاں فکر اور جذبہ کا لطیف امتزاج ملتا ہے۔ (109)
ظہیر صاحب کہتے ہیں کہ مومن کے یہاں غالب کی سی آفاقیت نہیں ملتی لیکن اس کمی کو ان کے رچے ہوئے تغزل نے پورا کر دیا ہے۔ (110)قصائد، مثنویات اور دیگر اصناف پر بھی موصوف نے گفتگو کی ہے لیکن یہاں بھی افہام و تفہیم کا وہی پرانا ڈھب ہے۔ اس لیے کوئی نیا پہلو ہاتھ نہیں آتا۔ ان کا، باتیں دہرانا، تنقید میں حشو کے مترادف ہے۔
غالب کے مشہور ناقد شیخ محمد اکرام نے ’آثار غالب ‘ میں غالب کے سلسلے میں مومن پر بھی توجہ دی ہے اور دیگر شعرا سے بھی غالب کا موازنہ کیا ہے۔ موازنے کا رویہ معاندانہ نہیں ہے۔ پہلے تو انھوں نے غالب اور مومن میں جو بہت سی باتیں مشترک تھیں ان کا ذکر کیا۔ مثلاً دونوں کو فطرت نے ذہین دل و دماغ کا مالک بنایا تھا۔ ان میں خود پسندی بڑھی ہوئی تھی۔ ایک سطح پر دونوں ناسخ کے مداح اور مقلد تھے۔ ان کے یہاں فارسیت اور تصنع آمیز عناصر نمایاں ہیں۔ دونوں معنی آفرینی اور خیال بندی کے دیوانے تھے۔ دونوں زبان و مضمون کی سطح پر اعلیٰ طبقے کے ترجمان تھے اور شاہ نصیر اور ذوق کے مقبول عام اشعار اور نظیر اکبر آبادی کے عوام پسند’سوقیانہ‘ کلام کے مخالف تھے۔ نازک خیالی اور دقت پسندی کے قائل تھے۔ پرانے مضامین میں نئے اسلوب کی تلاش کے لیے دونوں بڑا دماغ صرف کیا کرتے تھے۔ محذوفات دونوں کے کلام میں پائے جاتے ہیں۔ (111)شیخ محمد اکرام نے جو نتائج نکالے ہیں، وہ قابل دید ہیں :
یہ اردو ادب کی بدقسمتی تھی کہ مومن نے چیستاں گوئی اور مضمون آفرینی کو کمال شاعری سمجھا۔ ورنہ جو معنی یاب طبیعت اور ’دل گداختہ‘ انھیں ازل سے ملا تھا اگر وہ اسے پرانے مضامین میں پیچ دے کر نئے پہلو نکالنے کے بجائے اپنی جودت طبع کے لیے نئے میدان تلاش کرنے یا غزل میں اپنے دلی جذبات کے اظہار کے لیے صرف کرتے تو اردو ادب پر ان کا بڑا احسان ہوتا۔ اب بھی ان کے کئی اشعار ہیں جن کا جواب صرف دیوان غالب میں ملے گا۔ (112)
مومن کو خدا نے زبردست دل و دماغ دیا تھا۔ اور ان کا اردو شاعری میں بہت بلند مرتبہ ہے۔ لیکن یہ امر قابل افسوس ہے کہ انھوں نے اپنی تیز نقادانہ نگاہ بیشتر دوسروں کے عیوب واسقام ڈھونڈنے کے لیے وقف رکھی۔ اس سے اپنی اصلاح میں پوری مدد نہ لی۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان کی نئی ترقی رکی رہی۔ اور شاعرانہ عروج و ارتقا کے جو مدارج غالب کے کلام میں ہیں مومن کے ہاں معدوم ہیں۔ (113)
ڈاکٹر سید عبداللہ نے مضمون ’ کلام مومن ‘ مشمولہ ’ ولی سے اقبال تک ‘ میں اس شعر کو بنیاد بنا کر دلچسپ پہلو نکالے ہیں :
ایسی غزل کہی یہ کہ جھکتا ہے سب کا سر
مومن نے اس زمین کو مسجد بنا دیا
سید عبداللہ کہتے ہیں کہ مومن ہی نے سب سے پہلے ’ پردہ نشین ‘ کے استعارے سے اردو غزل کو روشناس کرایا کہ عشق صرف بازار حسن ہی میں نہیں، بلکہ چلمن کی تیلیوں کے پیچھے بھی ہوتا ہے۔ اور اس طرح انھوں نے مقدمہ قائم کیا، ’’ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مومن نے کچھ نئی باتیں اور انوکھے خیالات ہمیں دیے اور جب اس قسم کا کوئی انکشاف کسی شاعر کے بارے میں ہو جاتا ہے تو وہ توجہ کا حق دار بن جاتا ہے۔ ‘‘ (114)مومن کی اہمیت انھوں نے یہ بتائی کہ وہ زمین کی باتیں برسرزمین ہی کرتے ہیں۔ اسی لیے صوفیانہ عشق کے بلند بانگ دعووں سے ان کی غزل خالی ہے۔ مومن تنقید میں اکثر مومن کا موازنہ جرأت سے بھی کیا جاتا ہے، لیکن سید عبداللہ کا خیال ہے کہ کلام مومن کو جرأت کا ہم رنگ کہہ دینا محض عجلت فکر ہے۔ طرز ادا کے اعتبار سے مومن سب سے الگ ہیں۔ غالب و مومن کے یہاں مضمون کی کڑیاں گم کر دینے کا ذکر اکثر کیا جاتا ہے۔ اخفا کی اس کوشش کو سید عبداللہ لطافت کا مقصد بتاتے ہیں :
مومن کے کلام میں بھی یہ بہت کم ہوتا ہے مضمون حقیقت سے اتنا دور چلا جائے کہ حقیقت منقلب ہو جائے۔ مومن کے یہاں اخفا کی ہر کوشش اظہار کی لطافت کا مقصد لیے ہوئے ہے۔ (115)
سید عبداللہ معاصرین میں مومن کے امتیاز ات کو نشان زد کرتے ہوئے لکھتے ہیں ـ :
آسانی کی خاطر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مومن لطیف ایہام اور رمزوں اور اشاروں سے کام لے کر اپنی اختراعی ذہانت کا ثبوت دیتے ہیں اور دوسری طرف قارئین کی ذہانت کا بھی ہلکا سا (اور انبساط بخش) امتحان لیتے ہیں …ذہانت کی یہ آزمائش پڑھنے والے کو مزہ دے جاتی ہے۔ مضمون حقیقت سے دور بھی نہیں ہوتا۔ حقیقت کا چہرہ دکھانے کے لیے قاری کو چونکا کر انبساط خیز تعجب میں ڈال دینے اور بالآخر ذوق دل کی پوری تشفی کرنے کی تکنیک مومن کی غزل میں بہت لطف دیتی ہے اور یہ ان کا ذہنی اور ذوقی معمول معلوم ہوتا ہے۔ ذوق و غالب کی معاصرت میں مومن نے اپنے لیے امتیاز کی یہ صورت پیدا کر لی تھی جس کی وجہ سے وہ واقعی اپنے ان نامور معاصرین سے جدا پہچانے جاتے ہیں۔ (116)
سید عبداللہ کہتے ہیں کہ مومن نے ترکیبوں کے پرانے سرمایے پر انحصار نہیں کیا۔ مومن نے نئی تراکیب وضع کیں۔ اظہار کی داخلی ساخت میں متضاد صورتوں سے لطف پیدا کیا ہے۔ جس شعر کو انھوں نے بنیاد بنایا اس سے ایک نیا پہلو لے کر آئے اور اقبال سے اس کا رشتہ ہموار کیا۔ کہتے ہیں کہ ــ ’’ ان کی غزل میں مسجد کی تعمیر ہوئی نہیں۔ اگر وہ سچ مچ مسجد تعمیر کرتے تو عاشقی اور مجاہدی کا عجیب و غریب آمیزہ ان کی شاعری میں پیدا ہو جاتا …اور ان کی شاعری اقبال کی پیش روی کا فریضہ انجام دیتی۔ ‘‘ (117)سید عبداللہ مجموعی کارنامے کے لحاظ سے مومن کو دوسرے درجے کا شاعر قرار دیتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی اول درجے کے شاعروں میں بھی انھیں بٹھادے تو اس پر کچھ زیادہ اعتراض نہ ہو گا۔ (118)
غالب انسٹی ٹیوٹ نے 1985میں ’غالب نامہ ‘ کا مومن نمبر شائع کیا تھا جس میں شامل مقالات مومن تنقید میں اہمیت کے حامل ہیں۔ رشید حسن خاں نے ’مومن کی پیچیدہ بیانی ‘ پر مقالہ تحریر کیا ہے۔ یہی مضمون ان کی کتاب ’تلاش و تعبیر‘ 1988میں بھی شامل ہے۔ رشید حسن خاں نے گفتگو کاتانا بانا یوں بنا کہ ان کے خیال کی وضاحت ہو گئی، یعنی مومن کلیات کے نہیں انتخاب کے شاعر ہیں۔ ناسخ کے اثر نے انھیں نقصان پہنچایا۔ اس کے بعد ناسخ کے اثرات کو انھوں نے مثالوں کے ذریعے دکھایا ہے اور غالب و مومن کی مشکل پسندی /پیچیدہ بیانی کے فرق کو واضح کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مومن کی ساری پیچیدہ بیانی محض لفظی ہے، اور صرف انداز بیان کی مرہون منت ہے۔ یہ پیچیدگی فکر سے عاری ہے۔ غالب کے مشکل اشعار کی شرح کے بعد طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ مومن کے ساتھ یہ معاملہ نہیں۔ ان کے یہاں فکرو فلسفے کی کمی کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا علم کم تھا۔ یہ سارا معاملہ افتاد طبع کا ہے۔ ان کی طبیعت مختلف تھی۔ اس کے باوجود ان کی شاعرانہ حیثیت مسلم ہے۔ کلیات کے شاعر کی حیثیت سے نہیں، انتخاب کے شاعر کی حیثیت سے۔ رشید حسن خاں بے لاگ اور صاف انداز میں اپنی رائے دیتے ہیں :
مومن کی شاعرانہ خوبیوں کا آج ہم سب اعتراف کرتے ہیں۔ ہاں، اس بد مذاقی میں ہم مبتلا نہیں ہوسکتے کہ کہنے لگیں کہ میر کے علاوہ اور سب کے دواوین اٹھا لے جاؤ اور ان کی جگہ مومن کا دیوان رکھ جاؤ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ان کی غزلیہ شاعری کا ایک چھوٹا حصہ ایسا ہے جو مومن کو اچھے غزل گو کی حیثیت سے ہمیشہ زندہ رکھے گا اور ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی غزلوں کا جو سرمایہ ہے اس کا بڑا حصہ ایسا ہے جس میں معنی آفرینی اور تلاشِ مضمون تازہ کے پھیر میں پڑ کر انھوں نے ایسے شعر کہے ہیں جو آج خوش مذاقی کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ (119)
یہ ممکن ہے کہ رشید حسن خاں کی ہر بات سے اتفاق نہ کیا جائے لیکن ان کے بیان میں کوئی جھول نہیں۔ ’غالب نامہ ‘ مومن نمبر میں رشید حسن خاں کے بعد وہاب اشرفی کا مضمون ’مومن کی غزل گوئی ‘ ہے جس میں انھوں نے بڑے معتدل انداز میں کلام مومن کو سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ رشید صاحب کی طرح ان کے انداز میں بھی جھول نہیں۔ پہلے تو وہ بعض دہرائی ہوئی باتوں سے گفتگو شروع کرتے ہیں ؛ مثلاً مومن کے یہاں نازک خیالی اور معنی آفرینی ہے، نئی ترکیبیں ہیں، اور وہ صاحب اسلوب ہیں، ان کے عشق کے پس منظر میں کوئی پردہ نشیں خاتون جھانکتی نظر آتی ہے لیکن ان کی دنیا محدود ہے۔ ان کے یہاں تنوع نہیں، خیالات بھی ناہموار ہیں۔ ان دہرائے ہو خیالات کے بعد وہ مقدمہ قائم کرتے ہیں :
لیکن یہ اور ایسے بہت سے امور شاعر کے حقیقی کمالات کی تفہیم میں کلی طور پر معاون نہیں ہوسکتے۔ کسی بھی شاعر کی صحیح قدر و قیمت کی تعیین میں کچھ رہنما اصول ہونے چاہئیں تاکہ ان کی بنیاد پر اس کا تنقیدی جائزہ لیا جا سکے۔ ایسے میں چند سوالات مرتب ہوتے ہیں جن کے تشفی بخش جواب کے بعد ہی جانچ پرکھ کا کام بہ طریق احسن انجام پا سکتا ہے، چنانچہ مومن کے باب میں یہ دریافت کیا جا سکتا ہے کہ کیا نازک خیالی اور معنی آفرینی اچھی یا معیاری غزل کے خصائص ہیں یا ہوسکتے ہیں ؟ کیا نئی ترکیبیں وضع کرنے والا غزل گو ( اگر اس کے یہاں معنی آفرینی اور نازک خیالی بھی ہو ) لازماً اہم شاعر ہوتا ہے ؟یا ہوسکتا ہے ؟ کیا صاحب اسلوب ہونا اچھے غزل گو یا شاعر کی شناخت ہے ؟ اگر کسی غزل گو کے یہاں کوئی پردہ نشیں خاتون نمایاں ہے تو کیا اس بنیاد پر اس کی غزل قابل لحاظ ہوسکتی ہے ؟ اگر کسی شاعر (چاہے وہ غزل گو ہی کیوں نہ ہو) کے یہاں وسعت نہیں ہے یا اس کی دنیا محدود ہے تو وہ شاعرانہ اعتبار سے اہم نہیں یا یہ لازمی طور پر اس کا نقص ہے ؟ اگر کسی غزل گو کے خیالات ناہموار ہیں تو کیا یہ ناہمواری اس کی غزلوں کا عیب ہے ؟ مومن کے سلسلے میں یہ سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں یا اٹھائے جانے چاہئیں۔ اس لیے کہ ان ہی امور کی عقبی زمین میں مومن کے فضائل اور نقائص بیان کیے جاتے رہے ہیں۔ (120)
وہاب اشرفی نے مومن کے سلسلے میں اہم سوالات قائم کیے اور ا ن کے افہام و تفہیم کی کوشش کی۔ وہ نازک خیالی اور معنی آفرینی کو شاعر کی انفرادیت کا سبب مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کی اسی انفرادیت سے مومن کا اسلوب بنا ہے۔ یہ کہا جاتا رہا ہے کہ مومن کی دنیا محدود ہے اور اسے عیب بھی سمجھا جاتا رہا ہے، لیکن وہاب اشرفی لکھتے ہیں :
میں کہتا ہوں کہ ان کی محدود دنیا ان کی اپنی دنیا ہے، جس میں وہ رچے بسے ہوئے تھے، وہ یقینی واقف تھے کہ ’ تصوف برائے شعر گفتن خوب است ‘ لیکن ان کی محدود دنیا میں روایتی اور ’ خانقاہی‘ عشق پنپ نہیں سکتا تھا۔ اس لیے کہ مجازی عشق کا تجربہ ان کی اپنی دنیا تعمیر کر چکا تھا۔ وہ اس تجربے میں سرشار تھے اور اس میں بند رہنا چاہتے تھے۔ اگر وہ یہ کرتے تو محض ایک Idealistہوتے اور عشق حقیقی کی غیر تجرباتی فضا میں معلق رہتے، یقینی ان کے یہاں عشق کی کیفیت کا اظہار سوانحی ہے اور حیرت انگیز طور پر شاعرانہ بھی۔ (121)
وہاب اشرفی نے جو نتیجہ اخذ کیا وہ قابل غور ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مومن کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حدود میں بھی شاعری ممکن ہے اور اس سے ایک بوطیقا بنتی ہے کہ محدود دائرے میں بھی اچھی شاعری ممکن ہے۔ (122)
عنوان چشتی نے ’غالب نامہ ‘ کے مومن نمبر میں ’مومن کی پیکر تراشی ‘ کے عنوان سے مقالہ تحریر کیا ہے جس میں ان کا خیال ہے کہ پیکریت کا مطالعہ شاعر کی حسی کیفیات، تصور حیات و کائنات، اور اس کے فنی شعور کا مطالعہ بھی ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
مومن ایک جمال پرست شاعر ہے۔ اس کے تصور حیات میں جنس اور جمال کو زبردست اہمیت حاصل ہے۔ اس کا ذہن اپنے دور کی مجلسی اور تہذیبی زندگی سے متاثر ہے۔ اس لیے ان کے فکر و فن کا دائرہ محدود ہے جس کا اثر پیکر تراشی پر بھی ہوا ہے۔ (123)
عنوان چشتی مومن کے فکر و فن کے محدود ہونے کی جو وجہ بیان کر رہے ہیں، وہ نہ صرف نامکمل ہے، بلکہ ایک سطح پر غلط بھی ہے۔ جنس اور جمال، مجلسی اور تہذیبی زندگی سے متاثر ہونے کے سبب کہیں شاعری محدود ہوتی ہے ؟ جنس، جما ل اور تہذیبی زندگی تو بڑے گہرے اور وسیع موضوعات ہیں۔ اصل چیز ان کا برتاؤ ہے۔ موصوف نے مومن کے یہاں پیکر تراشی کے عمل کا جائزہ لیا ہے۔ مقالہ معروضی اور تجزیاتی ہے۔ اس لیے اہمیت کا حامل ہے۔ پیکر تراشی کے سلسلے میں ان کی رائے قابل توجہ ہے :
مومن نے خالص حسی اکہرے پیکروں کی تخلیق کی ہے۔ مومن کا ذہن تجریدی اور تنزیہی زیادہ اور تجسیمی کم ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مومن نے محض حسی کیفیات کے اظہار پر اکتفا کیا اور اپنی شاعری میں زندگی کے تجربات اور تاریخِ افکار پیش کرنے سے گریز کیا ہے۔ ان کی پیکر تراشی ایک طرح کی صنعت ہو کر رہ گئی ہے، جس میں تصور کم اور تصویریت زیادہ ہے۔ اس میں ایک خاص سطح پر پہنچ کر ڈرامائیت کا رنگ پیدا ہو گیا ہے۔ مجموعی طور پر مومن کی پیکر تراشی اسلوب کا آرائشی عنصر ہے۔ زندگی کے بصیرت افروز تجربوں کا نقش نہیں۔ (124)
عنوان چشتی کہتے ہیں کہ مومن کی پیکر تراشی کرافٹ کی سطح کو پہنچ جاتی ہے۔ مومن کے یہاں زیادہ تر پیکر Figurativeہیں۔ اس لیے ان کے یہاں تصور کم اور تصویریت زیادہ ہے۔ ’غالب نامہ ‘ کے مومن نمبر میں شکیل الرحمن کا مضمون ’ مومن کی جمالیات کا معاملہ ‘ بھی شامل ہے جس میں شکیل الرحمن نے مومن کی شاعری میں جمالیات کے معاملات کی نشاندہی اور ان کے مراتب پر بات کرنے کی کوشش کی ہے۔ پہلے تو وہ مومن کی شاعری کی تعریف کرتے ہیں۔ پھر کچھ شکایتیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مومن کی شاعری اپنے عہد کے تصور حسن کی غماز ہے :
مومن ایسے ’ رومانی جمالیت پسند غزل نگار‘ کہے جا سکتے ہیں جو اپنے جمالیاتی تجربوں کے ساتھ اپنے عہد کا اخلاقی معیار بھی لے آئے ہیں۔ ان کی شاعری میں حسن و عشق دونوں اخلاقی اقدار کی علامتیں بن گئے ہیں۔ ان کا پر کیف حسیاتی لب و لہجہ Sensory Mediumاکثر ان کی شاہد بازی، صورت پرستی، رنگین مزاجی اور عاشق مزاجی کو تازگی بخش دیتا ہے۔ غزلوں کے اشعار اور خصوصاً ان کی مثنویوں کے عشقیہ واقعات ایسے ذہن کا احساس دیتے رہتے ہیں جس کی تربیت میں روایات اور اس عہد کی اخلاقی اقدار نے حصہ لیا ہے۔ تخیل کی رنگین کاریوں اور رندی اور ہجر و وصال وغیرہ کے مضامین میں جذبوں کی تہذیب کا عمل غالباً اسی وجہ سے قائم ہے۔ (125)
لیکن یہ سب اپنی جگہ، شکیل الرحمن اب یہ کہتے ہیں کہ مومن کے کلام میں گہرائی نہیں۔ عشق کا تصور گہرا اور بلیغ نہیں۔ باطن کی کرید کا فقدان ہے۔ نہاں خانے میں کوئی بڑا طوفان نہیں :
باطن کا شدید تجربہ ہی جمالیاتی حسی پیکروں کو خلق کرتا ہے، جب حسی پیکر اور ’ امیجز‘ کی کمی ہے تو ظاہر ہے کہ یہ شاعری علامتی نہیں بن پائی ہے، اس کی اگر کوئی علامتی سطح ہے تو وہ بہت معمولی اور عام سطح ہے، وہ رومانی جمالیاتی مثالیت پسند شاعر جو ہر لمحہ عشق و حسن کا ذکر کرتا ہے کسی قسم کی کوئی خوابناک فضا خلق نہیں کرتا، اپنے خوابوں اور اپنے خوابوں کی علامتوں اور ان علامتوں کی علامتی سچائیوں سے آشنا نہیں کرتا۔ مومن مشاہدات کے مثالیت پسند شاعر ہیں اور مشاہدات علامتیں عطا نہیں کرتے۔ حیرت تو یہ ہے کہ مشاہدوں کا بھی کوئی ایسا رومانی عمل ظہور پذیر نہیں ہوتا جو پیکروں اور علامتوں کو کسی بھی سطح پر خلق کرے۔ (126)
مومن کی شاعری میں جن کمیوں کی طرف شکیل الرحمن نے اشارہ کیا ان کی وجہ یہ بتائی کہ مومن اپنی انا کے شکار تھے۔ اگر وہ اپنی انا میں محصور نہ ہوتے تو ان کی شخصیت اور ان کی بصیرت کو وسعت ضرور ملتی۔ ’غالب نامہ ‘ کے اسی شمارے میں ڈاکٹر اسلم پرویز کا مضمون ’ غالب اور مومن ‘ بھی شامل ہے۔ غالب و مومن کے موازنے پر اس میں جذباتی وابستگی، فیصلے کا طے شدہ رویہ یا جانب داری نہیں ملتی۔ متوازن طرز پر گفتگو کی گئی ہے۔ ان کے کچھ اقتباسات پیش ہیں :
غالب اور مومن اردو کے دو متعارف شاعر ہیں لیکن اس بات کو بہتر طور پر یوں کہا جا سکتا ہے کہ غالب اردو کے بڑے اور مومن اردو کے اچھے شاعر ہیں۔ (127)
دراصل غالب اور مومن کی مثال ایسے دو متوازی خطوط کی سی ہے جو آپس میں کہیں نہیں ملتے لیکن ان دونوں میں ایک خط ایسا ہے جو کچھ دور جا کر ختم ہو جاتا ہے اور دوسرا بہت دور تک جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ غالب اور مومن فکر اور تخیل کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ غالب کی ذہنی فضا لامحدود ہے اور مومن کی ذہنی فضا محدود۔ ذہن کی ساخت اور پرداخت قدرت کی دین ہے جس کے لیے نہ غالب کو ذمے دار ٹھہرایا جا سکتا ہے اور نہ مومن کو۔ (128)
مومن غالب کی طرح مجموعۂ اضداد تو نہیں تھے لیکن ایک تضاد ان کے ہاں بھی ہے اور شاید اسی تضاد کی وجہ سے تاریخ ادب اردو میں ان کے وجود کو محسوس کیا جاتا رہے گا۔ یعنی یہ کہ ان کا عاشقانہ مسلک ایک راسخ العقیدہ مومن مسلما ن سے بالکل مختلف ہے۔ (129)
غالب نے اس اعتبار سے ایک سمجھ داری کا کام یہ کیا کہ اپنے کلام کے روایتی حصے کو نکال کر کم و بیش مستند حصہ ہی ہمارے سامنے پیش کیا۔ اس نقطۂ نظر سے مومن کے کلام کا مستند حصہ ان کے روایتی کلام میں کھویاہواسا ہے جس کی وجہ سے عام طور پر مومن کی کوئی ایسی واضح تصویر ابھر کر ہمارے سامنے نہیں آتی جیسی غالب کی ہے۔ (130)
ان خطوط پر مطالعے کی بنیاد مضبوط ثابت ہوئی ہے۔ اسلم پرویز نے جو نتیجہ نکالا اس میں مومن’ ادھورے شاعر‘ قرار پائے۔ اسی شمارے میں مومن کے نقادوں پر دو مضامین ہیں۔ پہلا ’مومن کے نقاد‘ از صدیق الرحمن قدوائی اور دوسرا ’ مومن اور ان کے نقاد ‘ تنویر احمد علوی۔ تنویر احمد علوی نے مومن کے اہم ناقدین کے خیالات پیش کرتے ہوئے مطالعۂ مومن کو ایک سلسلہ عطا کیا ہے اور صدیق الرحمن قدوائی نے مومن مطالعات کی تفہیم کو سنجیدہ اور بے لاگ اسلوب عطا کیا ہے۔
یہ سچ ہے کہ مومن پر اتنا نہیں لکھا گیا جتنا غالب پر لکھا گیا لیکن مومن پر جتنا بھی لکھا گیا ہے اس کی روشنی میں افہام و تفہیم کو ایک تسلسل اور تحریک ملی ہے۔ کچھ اہم لوگوں نے توجہ ضرور دی لیکن بعض حضرات سرسری بھی گزر گئے۔ اس لیے مومن کے کلام کو نئی تنقیدی بصیرتوں اور وسائل کی روشنی میں پڑھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔ معاصر تنقید نے اب تک مومن شناسی کا قرض ادا نہیں کیا۔ یہ کام باقی ہے۔
٭٭
حوالے
(1)سرسید احمد خاں، آثار الصنادید ( جلد دوم ) چوتھا اڈیشن، مرتبہ : خلیق انجم، 2003، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، ص : 191
(2) محمد اقبال، کلیات مکاتیب اقبال، مرتبہ : سید مظفر حسین برنی، جلد سوم، جنوری 1929تا دسمبر 1934، مطبوعہ : 1993، اردو اکادمی دہلی، دہلی، ص ص : 662-664
(3)نثار احمد فاروقی، مضمون ’ کچھ مومن کے بارے میں ‘، مشمولہ ’مومن خاں مومن :ایک مطالعہ ‘، مرتبہ : شاہد ماہلی، 2008، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی، ص : 21
(4)محمد حسین آزاد، آب حیات، 2004، کتابی دنیا، دہلی، ص : 349
(5)ایضاً، ص ص: 349-350
(6)امداد امام اثر، کاشف الحقائق، مرتب: وہاب اشرفی، 1982، نئی دہلی: ترقی اردو بیورو، ص ص :423-424
(7)ایضاً، ص : 424
(8)حکیم مومن خاں مومن، دیوان مومن مع شرح، مرتبہ : ضیا احمد بدایونی، 1962، طبع چہارم، شانتی پریس، الہ آباد، ص ص : 33-66
(9)ایضاً، ص : 54
(10)شبلی نعمانی، شعر العجم (جلد سوم )، 2002(طبع ششم)، دار المصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، ص: 17
(11)حکیم مومن خاں مومن، دیوان مومن مع شرح، مرتبہ : ضیا احمد بدایونی، 1962، طبع چہارم، شانتی پریس، الہ آباد، ص : 51
(12)اشعر نجمی مدیر، اردو کیمپس۔ ممبئی، شمارہ 2، 2011
(13)نیر مسعود، اردو شعریات کی اصطلاحیں، مشمولہ ’سوغات‘ 1997، ص: 322
(14)حکیم مومن خاں مومن، دیوان مومن مع شرح، مرتبہ : ضیا احمد بدایونی، 1962، طبع چہارم، شانتی پریس، الہ آباد، ص : 55
(15)فیض احمد فیض، میزان، 2002(بار دوم )، مغربی بنگال اردو اکاڈمی، کلکتہ، ص : 46
(16)حکیم مومن خاں مومن، دیوان مومن مع شرح، مرتبہ : ضیا احمد بدایونی، 1962، طبع چہارم، شانتی پریس، الہ آباد، ص : 55
(17)ایضاً، ص : 57
(18)ایضاً، ص : 59
(19)ایضاً، ص : 60
(20)ایضاً، ص : 139
(21)ایضاً، ص : 141
(22)شبلی نعمانی، شعر العجم (جلد دوم )، 2002(طبع ششم)، دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، ص: 120
(23)حکیم مومن خاں مومن، دیوان مومن مع شرح، مرتبہ : ضیا احمد بدایونی، 1962، طبع چہارم، شانتی پریس، الہ آباد، ص : 60
(24)ایضاً، ص ص : 60-61
(25)ایضاً، ص ص : 61-62
(26)ایضاً، ص : 66
(27)ایضاً، ص ص : 68-70
(28)ایضاً، ص : 73
(29)ایضاً، ص : 74
(30)ایضاً، ص : 75
(31)ایضاً، ص : 78
(32)ایضاً، ص : 81
(33)ایضاً، ص : 87
(34)ایضاً، ص : 88
(35)ایضاً، ص : 92
(36)ایضاً، ص : 96
(37)ایضاً، ص : 97
(38)ایضاً، ص : 102
(39)نیاز فتح پوری، نگار، مومن نمبر، تیسرا، اڈیشن مع اضافہ، 1964، پاکستان، ص: 18
(40)ایضاً، ص : 7
(41)ایضاً
(42)ایضاً
(43)ایضاً، ص : 8
(44)ایضاً، ص ص :-10 9
(45)ایضاً، ص : 12
(46)ایضاً
(47)ایضاً
(48)ایضاً، ص ص : 14-15
(49)ایضاً، ص :7 1
(50)ایضاً
(51)ایضاً
(52)ایضاً، ص :58 2
(53)ایضاً، ص : 361
(54)ایضاً، ص : 26
(55)ایضاً، ص : 27
(56)ایضاً، ص : 29
(57)ایضاً
(58)ایضاً، ص : 37
(59)ایضاً، ص :42
(60)ایضاً، ص : 48
(61)ایضاً، ص : 50
(62)ایضاً، ص : 53
(63)ایضاً، ص ص : 60-61
(64)ایضاً، ص : 80
(65)ایضاً
(66)ایضاً
(67)ایضاً، ص : 81
(68)ایضاً
(69)ایضاً
(70)ایضاً، ص : 139
(71)ایضاً، ص : 133
(72)ایضاً، ص : 105
(73)ایضاً، ص : 106
(74)ایضاً، ص : 118
(75)ایضاً، ص : 119
(76)ایضاً، ص : 123
(77)ایضاً، ص : 144
(78)ایضاً، ص : 169
(79)ایضاً، ص ص : 170-171
(80)ایضاً، ص : 187
(81)ایضاً
(82)یضاً
(83)عرش گیاوی، حیات مومن، 1347ہجری 1928ء، دریبہ کلاں، دہلی، ص : 67
(84)حسرت موہانی، تذکرۂ شعرا، مرتبہ : ڈاکٹر احمر لاری، مطبوعہ: 1972، ناشر: ادبستان، نظام پور، گورکھپور، ص : 101
(85)ایضاً، ص : 107
(86)ایضاً، ص : 108
(87)ایضاً، ص : 109
(88)ایضاً، ص : 111
(89)ایضاً، ص : 115
(90)عبادت بریلوی، مومن اور مطالعۂ مومن، 1961، اردو دنیا، لاہور، ص ص : 321-322
(91)ایضاً، ص : 322
(92)ایضاً
(93)ایضاً، ص : 324
(94)ایضاً، ص : 325
(95)ایضاً، ص : 410
(96)ایضاً، ص : 412
(97)ایضاً، ص : 413
(98)ایضاً، ص : 417
(99)ایضاً، ص : 476
(100)ایضاً، ص : 417
(101)کلیم الدین احمد، اردو شاعری پر ایک نظر (اول)، 2011(اشاعت ثانی )، بک امپوریم، سبزی باغ، پٹنہ، ص : 157
(102)ایضاً
(103)ایضاً، ص : 158
(104)ایضاً، ص : 159
(105)ایضاً، ص : 162
(106)ایضاً، ص : 156
(107)ظہیر احمد صدیقی، مومن :شخصیت اور فن، 1995، غالب اکیڈمی، نئی دہلی، ص : 166
(108)ایضاً، ص : 168-180
(109)ایضاً، ص : 185
(110)ایضاً، ص : 169
(111)شیخ محمد اکرام، آثار غالب، مطبع:مرکنٹائل پریس، لاہور، ناشر: تاج آفس، محمد علی روڈ، بمبئی، ص ص : 302-304
(112)ایضاً، ص : 306
(113)ایضاً، ص : 309
(114)سید عبداللہ، ولی سے اقبال تک، 2003، ساقی بک ڈپو، اردو بازار، دہلی، ص : 230
(115)ایضاً، ص : 238
(116)ایضاً، ص : 239
(117)ایضاً، ص : 248
(118)ایضاً، ص : 249
(119)رشید حسن خاں، غالب نامہ مومن نمبر، 1985، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی، مدیر اعلیٰ :پروفیسر نذیر احمد، ص : 47
(120)وہاب اشرفی، غالب نامہ مومن نمبر، 1985، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی، مدیر اعلیٰ :پروفیسر نذیر احمد، ص ص : 48-49
(121)ایضاً، ص : 53
(122)ایضاً، ص : 55
(123)عنوان چشتی، غالب نامہ مومن نمبر، 1985، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی، مدیر اعلیٰ :پروفیسر نذیر احمد، ص ص : 57-58
(124)ایضاً، ص : 58
(125)شکیل الرحمن، غالب نامہ مومن نمبر، 1985، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی، مدیر اعلیٰ :پروفیسر نذیر احمد، ص ص : 73-74
(126)اسلم پرویز، غالب نامہ مومن نمبر، 1985، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی، مدیر اعلیٰ :پروفیسر نذیر احمد، ص : 78
(127)ایضاً، ص : 116
(128)ایضاً، ص : 118
(129)ایضاً، ص : 120
(130)ایضاً، ص : 122
کتابیات
اردو ادب کی تاریخ،(ابتدا سے ۱۸۵۷ تک )،تبسم کاشمیری،ایم۔ آر۔ پبلی کیشنز، نئی دہلی،2009
اردو ادب کی تنقیدی تاریخ،سید احتشام حسین،قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو، نئی دہلی،2009،(ساتواں ایڈیشن )
اردو تنقید پر ایک نظر،کلیم الدین احمد،بک امپوریم، پٹنہ،1983،اردو شاعری پر ایک نظر (اول)،کلیم الدین احمد،بک امپوریم، پٹنہ،2011(اشاعت ثانی )
اردو غزل،کامل قریشی(مرتب)،اردو اکادمی، دہلی،2006
انتخاب دیوان مومن مع شرح و تنقید،حامد حسن قادری،انجمن ترقی اردو ہند، علی گڑھ،1957
انتخاب مومن،ظفر احمد صدیقی،اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ،2002(اشاعت ثانی )
انشائے مومن،ظہیر احمد صدیقی(ترجمہ و ترتیب)،غالب اکیڈمی، نئی دہلی،1977
آب حیات،محمد حسین آزاد،کتابی دنیا، دہلی،2004
آثار الصنادید ( جلد دوم )،سرسید احمد خاں ،مرتبہ : خلیق انجم،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی،2003( چوتھا اڈیشن)
آثار غالب،شیخ محمد اکرام،مطبع:مرکنٹائل پریس، لاہور، ،ناشر: تاج آفس، محمد علی روڈ، بمبئی
تاریخ ادب اردو،رام بابو سکسینہ،مترجم : مرزا محمد عسکری،ادارۂ کتاب الشفا، نئی دہلی،2000
تاریخ ادب اردو (جلد اول )،وہاب اشرفی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی،2005
تذکرۂ شعرا،حسرت موہانی،مرتبہ : ڈاکٹر احمر لاری،ادبستان، نظام پور، گورکھپور،1972
تذکرۂ نادر،کلب حسین خاں نادر،مرتبہ: مسعود حسن رضوی ادیب،لکھنؤ
1957،تلاش و تعبیر،رشید حسن خاں ،جمال پرنٹنگ پریس، جامع مسجد، دہلی،1988
تمنا کہیں جسے…،صدیق الرحمن قدوائی،غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی،2008
حکیم محمد مومن خاں مومن (شخصیت اور شاعری )،اکرام بریلوی،پاکستانی ادب پبلی کیشنز، کراچی :پاکستان،2003
حیات مومن،عرش گیاوی،دریبہ کلاں، دہلی،1347ہجری 1928ء
دبستان مومن،ظہیر احمد صدیقی،انجمن ترقی اردو (ہند)، نئی دہلی،1996
دلی کا دبستان شاعر ی،نورالحسن ہاشمی،اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ،2009(پانچواں ایڈیشن)
دہلی کی آخری شمع،مرزا فرحت اللہ بیگ،مرتبہ : رشید حسن خاں ،انجمن ترقی اردو (ہند)، نئی دلّی،2009
دیوان مومن مع شرح،ضیا احمد بدایونی،طبع چہارم، شانتی پریس، الہ آباد،1962
سخن شعرا،عبدالغفور نساخ،اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ،1982
شراب کہنہ (تذکرہ)،رشید نعمانی،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی،1968
شعاع نقد،نادم بلخی،دی آزاد پریس، سبزی باغ، پٹنہ،1993
شعر شور انگیز ( جلد اول )،شمس الرحمن فاروقی،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
شعر العجم (جلد دوم )،شبلی نعمانی،دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ،2002(طبع ششم)
شعر العجم (جلد سوم )،شبلی نعمانی،دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ،2002(طبع ششم)
شعرائے اردو کے تذکرے،حنیف نقوی،اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ،1998
غالب کے خطوط جلد سوم ،خلیق انجم (مرتب)،غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی،1987
غزل تنقید(حصہ اول)،اسلوب احمد انصاری(مرتب)،یونیورسل بک ہاؤس، علی گڑھ،2002
فرہنگ کلام مومن،سلمان راغب،زرنگار، بنارس،2004
قصائد مومن(اردو)مع مقدمہ و شرح،ظہیر احمد صدیقی،ادارۂ فروغ اردو، لکھنؤ،1960
کاشف الحقائق،امداد امام اثر، مرتب: وہاب اشرفی،نئی دہلی: ترقی اردو بیورو،1982
کلاسیکی اردو شاعری کی تنقید،طارق سعید(مرتب)،ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ،ندارد
کلیات مکاتیب اقبال، جلد سوم، جنوری 1929تا دسمبر 1934،سید مظفر حسین برنی(مرتب)،اردو اکادمی دہلی، دہلی،1993
کلیات مومن،مومن خاں مومن،کتابی دنیا، دہلی،2006
گلستانِ بے خزاں ،قطب الدین باطن،اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ،2 198
گلستانِ سخن،مرزا قادر بخش صابر،اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ،1982
گلشن بے خار،مصطفی خاں شیفتہ،مترجم:حمیدہ خاتون،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی،1998(پہلا ایڈیشن )
لفظ در لفظ،شین کاف نظام،راجستھان اردو اکادمی، جے پور،2002
مختصر تاریخ ادب اردو،سید اعجاز حسین،اردو کتاب گھر، دہلی،1964
مطالعۂ مومن کا ایک گمشدہ حوالہ،سید امتیاز احمد اشرفی،ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ،2005
مقدمہ شعر و شاعری،الطاف حسین حالی،ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ،2002
مومن:حیات و شاعری،احسان دانش، عبدالرحمن اصلاحی،قصر اردو، دہلی،1958
مومن :شخصیت اور فن،ظہیر احمد صدیقی،غالب اکیڈمی، نئی دہلی،1995
مومن اور مطالعۂ مومن،عبادت بریلوی،اردو دنیا، لاہور،1961
مومن خاں مومن :ایک مطالعہ،شاہد ماہلی(مرتب)،غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی،2008
مومن خاں مومن،توقیر احمد خاں ،اردو اکادمی، دہلی،2007
میزان،فیض احمد فیض،مغربی بنگال اردو اکاڈمی، کلکتہ،2002(بار دوم )
ولی سے اقبال تک،سید عبداللہ،ساقی بک ڈپو، اردو بازار، دہلی،2003
ہماری شاعری،مسعود حسن رضوی ادیب،ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ،2008
یادگارِ شعرا،اسپرنگر، مترجمہ :طفیل احمد،اترپردیش اردو اکیڈمی،1985
رسائل
اردو کیمپس،ممبئی،شمارہ 2، 2011،اشعر نجمی
اورینٹل کالج میگزین،لاہور:پاکستان، پنجاب یونیورسٹی پریس،جلد:36، 1959،ڈاکٹر سید عبداللہ
سوغات،بنگلور،1997،محمود ایاز
غالب نامہ،غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی،1985،پروفیسر نذیر احمد
نگار، مومن نمبر، تیسرا اڈیشن مع اضافہ،پاکستان،1964،نیاز فتح پوری
یادگار مومن،اردومجلس حیدر آباد،1965،محمد منظور احمد
٭٭٭
بشکریہ: معید رشیدی
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید