FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

مولسری کے پھول

اور دوسرے ڈرامے

 

 

               ڈاکٹر محمد حسن

 

مشمولہ ’اردو ڈرامے‘ اور ’اردو پلے‘ مرتبہ پروفیسر سید معز الدین احمد فاروق

 

 

 

 

 

 

 

محل سرا

 

 

 

 

 

افراد

 

 

نواب صاحب:کسی زمانے میں بڑے جاگیردار تھے۔ عمر تقریباً ۶۸ سال۔ چہرے سے وجاہت ٹپکتی ہے۔ رنگ گورا  اور   نقشہ تیکھا اس عمر میں بھی پوری بتیسی موجود ہے  اور   تندرستی اچھی ہے۔

منظور:نواب صاحب کا بڑا لڑکا جو جائداد کا سارا کاروبار سنبھالتا ہے۔ جاگیر داری ختم ہونے کے بعد فارم وغیرہ کی نگرانی کرتا ہے  اور  مکانات  اور   شہری جائداد کا کرایہ وصول کرتا ہے۔ عمر تقریباً چالیس سال۔ شکل و صورت سے رعب داب ٹپکتا ہے۔ عام طور پر مغربی لباس کا دلدادہ ہے۔

شاہانہ:نواب صاحب کی بڑی بیگم منظور کی ماں۔ بوڑھی ستر سالہ عورت ہے۔ سب بال سفید منھ میں ایک دانت بھی نہیں۔ چھوٹا قد،  تندرستی خراب، پتلا دبلا جسم ہے جب بیٹھتی ہے تو بالکل گٹھری سی لگتی ہے۔ لباس میلا ہی پہنے رہتی ہے۔ چہرے پر مظلومیت کا بڑا اثر چھایا رہتا ہے۔

ریحانہ: منظور کی بہن۔ عمر تیس سے پینتیس سال کے درمیان۔ قبول صورت لڑکی ہے۔ لباس میلا  اور   بے ترتیب۔ قد نکلتا ہوا۔

سلیم:شاہانہ بیگم کا بھانجا۔ مصور ہے  اور  ان دنوں مہمان آیا ہوا ہے۔ عمر تقریباً تیس سال۔ خاصا وجیہہ نوجوان ہے جسم گٹھا ہوا۔ ناک نقشہ تیکھا ہے۔ اس کی آنکھوں میں ایک خواب آگیں کیفیت ہر وقت چھائی رہتی ہے۔

خادم:ایک بوڑھا۔ مگر  تنو مند نوکر جو اس گھرانے کا وفادار  اور  قدیمی خدمت گا رہے  اور  جس سے گھر بھر میں کوئی پردہ نہیں کرتا۔

زمانہ:موجودہ

مقام:یو۔پی کا کوئی شہر

اس ڈرامہ کو اسٹیج کرنے میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگے گا  اور   مخصوص موسیقی، روشنی  اور  صوتی اثرات کی ضرورت پڑے گی۔

 

 

 

پہلا سین

 

(پرانے زمانے کے ایک مکان کا وسیع صحن، جس کے ایک طرف دالان کے درد کھائی دے رہے ہیں،  اور  دوسری طرف باورچی خانہ ہے۔ باورچی خانہ کے کواڑ بند ہیں  اور   دالان کے باہر چوکی کی پر جانماز بچھی ہوئی ہے۔ ایک دو پلنگ صحن میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان پر میلی چادریں بچھی ہوئی ہیں۔ ایک پلنگ پر شاہانہ بیگم بیٹھی ہوئی چھالیہ کتر رہی ہیں۔ بہت بوڑھی عورت ہیں۔ اونچی پیشانی  اور  کھلتی ہوئی رنگت سے ظاہر ہوتا ہے کہ کبھی خوبصورت رہی ہوں گی۔ )

شاہانہ بیگم      :ریحانہ۔ ۔ ۔ ریحانہ(پھر چھالیہ کترنے لگتی ہیں)ریحانہ۔ ۔ ۔  کہاں ہے بیٹی!

ریحانہ  : (دور سے آواز آتی ہے) آئی امی جان آئی۔

بیگم    :ارے بیٹی منظور آتا ہو گا  اور  چائے ابھی تک تیار نہیں ہوئی۔

(ریحانہ دالان کی طرف سے صحن میں داخل ہوتی ہے۔ میلے کپڑے، بے دھلا سر جس سے کچھ لٹیں باہر نکلی ہوئی ہیں۔ دوپٹہ آدھے سے سر ہی کو ڈھکے ہوئے۔ ہاتھ میں صرف ایک چوڑی پڑی ہے۔ عمر ڈھلنے لگی ہے،  اور  چال میں وہ ٹھسک پیدا ہو گئی ہے جو جوانی کے اخیر ایام کی نشانی ہے۔ )

ریحانہ  :امی!آج میری آنکھوں میں درد ہے  اور  ابھی دھوپ بھی نہیں اتری۔

بیگم    :نہیں بیٹا منظور اب آتا ہی ہو گا۔ چاہئے تیار نہ ہو گی تو الٹے پاؤں واپس لوٹ جائے گا۔

ریحانہ  :امی آخر میری بھی تو طبیعت خراب ہے۔ میں کیا کروں۔

بیگم    :میری اچھی بیٹی میں اتنے چائے کے برتن لگاتی ہوں تو پانی رکھ دے۔

(ریحانہ باورچی خانہ میں داخل ہوتی ہے۔ کیتلی اٹھاتی ہے۔ برابر کے نل سے پانی بھرنے لگتی ہے۔ اتنے میں دروازے سے منظور داخل ہوتا ہے۔ یہ اس ویران ماحول میں اجنبی سا لگتا ہے۔ اس وقت ڈریسنگ گاؤن پہنے ہوئے ہے مگر  بال ترتیب کے ساتھ بنے ہوئے ہیں۔ آنکھوں پر موٹے فریم کا چشمہ۔ ہاتھ میں اخبار ہے۔ )

منظور   :ریحانہ بی!چائے تیار ہو گئی؟

ریحانہ  :ابھی لائی بھائی جان۔

منظور   : (اخبار پڑھنے لگتا ہے۔ صحن میں پڑے ہوئے تخت پر بیٹھ جاتا ہے۔ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد) امی!(شبانہ بیگم جو برابر پلنگ پر بیٹھی ہیں۔ ۔ ۔  اور  اندیشہ کے احساس کے ساتھ متوجہ ہو جاتی ہیں) سنی نواب صاحب کی باتیں۔

بیگم    : (گھبرا کر)کیا کہا انھوں نے ؟

منظور   :صاف بات ہے۔ کان کھول کر سن لیجئے۔ آپ ہوں یا آپ کے شوہر نامدار۔ میں طعنے تشنے نہیں سنوں گا۔ میں نے جائداد کے کام میں خون پسینہ ایک کر دیا۔ آپ کا ہزاروں کا قرضہ قریب قریب  ادا ہی کر چکا ہوں۔ دن رات پلا رہتا ہوں  اور  پھر بھی مجھ ہی کو برا بھلا سننا پڑتا ہے۔

بیگم    :آخر بتاؤ تو سہی اللہ میرے۔ کیا کہہ دیا انھوں نے ؟

منظور   :اس جائداد پر قرضہ کرنے کا ذمہ دار کون ہے ؟میں یاوہ؟انھوں نے راتوں مجرے  اور  دنوں عیاشیاں کی ہیں یا میں نے ؟انھوں نے رام رنگی کی محفلیں  اور  اندر سبھا کے اکھاڑے سجائے ہیں یا میں نے ؟

بیگم    : (ایک آہ سرد کے ساتھ) میں جانتی ہوں۔

منظور   : اور  میری تعلیم پر ایک پیسہ خرچ کیا گیا ہوتا تو آج میں بھی کسی بڑے عہدے پر ہوتا۔ ۔ ۔ میری پرداخت پر اتنی توجہ ہوتی تو میں بھی یوں تمہاری جائداد کی نچوڑی ہوئی ہڈی کو پھر سے چچوڑنے پر مجبور نہ ہوتا۔ میری تعلیم کے پردے میں ہوس کو پورا کیا گیا۔ میرے لیے جو استانیاں رکھی گئیں ان سے عشق لڑایا گیا  اور  جب میں جوان ہوا۔ ۔ ۔

بیگم    :منظور بیٹا۔ ۔ ۔ ان باتوں سے کیا فائدہ۔ ۔ ۔ ؟

منظور   :امی، مجھ سے نہیں سہا جاتا۔ میں اس لیے جوان ہوا تھا کہ تمہاری جائداد کا غم اپنے کمزور کاندھوں پر اٹھا لوں  اور  اب وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں انھیں فاقے مار رہا ہوں۔ میں ان کے پھٹے پرانے کپڑوں کو رفو کرانے کے لیے بھی پیسے نہیں دیتا۔ مجھے طعنے دیے جاتے ہیں کہ میں ان کی بیوی  اور  بیٹی سے پکانے والی  اور  نوکرانی کا کام لیتا ہوں۔

بیگم    :وہی تو کہتے ہیں ہم تو نہیں کہتے۔ میرے لال۔ ان کے کہنے کا کیوں  برا مانتا ہے۔

منظور   :۲۴ گھنٹے تمہارے کام میں دوڑ دھوپ کرتا ہوں۔ کچہری جاتا ہوں۔ کاغذات سے مغز پچی کرتا ہوں  اور  اس کا انعام یہ ہے۔ ۔ ۔ (بیگم کی طرف گھورتے ہوئے) میں تمہارے لیے اپنی کھال کی جوتیاں بھی بنوا کر دوں تو بھی یہی انعام ملے گا۔ میں تمہیں فاقے مارتا ہوں میں۔ ۔ ۔

بیگم    :ارے توبہ ہے تو بھی کیا قصہ لے کر بیٹھ گیا۔

منظور   :نہیں امی وہ ہوں یا تم یا کوئی  اور   میں کسی کو فاقہ نہیں مارتا۔ میں کسی سے نہیں کہتا کہ نوکرانی مت رکھو اور  مجھے کھانا کھلاؤ۔ میں ہی فاقے مر جاؤں گا۔ میں آج ہی فوج میں نام لکھا سکتا ہوں کما کھا سکتا ہوں۔ جائداد کے پیچھے پھرنے والے کتے کوئی  اور   ہوں گے۔

(ریحانہ چائے لاتی ہے۔ چائے تخت پر رکھ دیتی ہے  اور  خاموش کھڑی ہو جاتی ہے۔ )

بیگم    :اب یہاں کھڑی کیا ہو۔ اگالدان اٹھا کر لاؤ۔ سچ مچ میرا کام سبھی کو بھول جاتا ہے۔ آج انھوں نے کہا ہے کل تم لوگ کہو گے۔ نہیں مجھے منظور نہیں۔

(ریحانہ اگالدان لا کر رکھ دیتی ہے۔ قریب پلنگ پر بیٹھ جاتی ہے۔ )

(سلیم اندر داخل ہوتا ہے۔ آدرش وادی، خواب پرست نوجوان مصوری کا شوقین۔ )

سلیم    :ارے کیا ہوا منظور بھائی۔ کیا منظور نہیں آپ کو ہم منظور کیے لیتے ہیں۔

منظور   :آؤ بھائی سلیم چائے پیو۔

سلیم    :بنائیے۔ شکر ڈیڑھ چمچہ۔ لیکن یہ آپ منظور نا منظور کیا کر رہے تھے۔

منظور   :کچھ نہیں، ریحانہ کا ایک رشتہ آیا تھا۔

سلیم    :اوہ۔ میں سمجھا۔ آیا تھا یا آیا ہے۔

منظور   :تفصیل بتاؤں گا تو ریحانہ ابھی یہاں سے بھاگ جائے گی۔

سلیم    :نہیں منظور بھائی مجھے  اور  کچھ جاننے کی ضرورت بھی نہیں۔ رشتہ آیا تھا ذات پات میں کھوٹ رہی ہو گی۔ آپ نے نامنظور کر دیا ہو گا ا ور بس بہت کافی ہے۔

(شاہانہ مسکراتی ہے۔ پھر چھالیہ کترنے میں مشغول ہو جاتی ہے۔ ریحانہ فیصلہ نہیں کرپاتی ہے کہ بیٹھی رہے یا چلی جائے۔ تھوڑی دیر کے بعد شاہانہ بیگم اٹھ کر چلی جاتی ہیں،  اور   دالان کی طرف غائب ہو جاتی ہیں)

منظور   :آدمی یار تم عقل مند ہو۔ آپ کے شاہکار کا کیا حال ہے۔

سلیم    :آپ میری تصویر کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ اس نمائش سے پہلے ہی مکمل ہو جائے گی۔

منظور   :تم نے حسن مغموم کا یہ تصور لیا کہاں سے۔

سلیم    :بھائی وہ تصویر پوری ہو جائے تو دیکھئے گا۔ (ریحانہ کی طرف دیکھ کر) خیر یوں حسن مغموم کا تصور تو عام ہے بلکہ حسن بیمار کا بھی۔ ہاں مجھے ان دو آنکھوں سے یہ منظر دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ اب اگر ’’موت‘‘ کی تصویر بھی بناؤں گا تو اسے کسی کامنی کی شکل ہی میں تصور کرونگا۔ فانی کا وہ شعر یاد ہے تمہیں :

ادا سے آڑ میں خنجر کا منھ چھپائے ہوئے

مری قضا کو دہ لائے دلہن بنائے ہوئے

منظور   :ہاں بہت سنا ہے۔

سلیم    :یہ بھی کہہ دو مجروں  اور رقص گا ہوں میں۔ بد مذاقی کی حد ہو گئی(رک کر) یاس حسن کی انتہا ہے  اور  موت زندگی کی یاس  اور  زندگی حسن  اور   موت یہی میرا فن ہے۔ تم بہی کھاتوں  اور  کھتونی والے اسے کیا سمجھو گے۔ ریحانہ بہن تم بہت کچھ سمجھیں اس فلسفے کو۔

ریحانہ  : (جواب کھڑی ہوئی مکھیاں جھل رہی ہے بڑی معصومیت سے سر ہلا دیتی ہے)نہیں سلیم بھائی میں نہیں سمجھی۔

سلیم    : (اسی طرح ریحانہ کو دیکھتے ہوئے (تم سمجھ سکتی ہو) مگر  منظور کی طرف اشارہ کر کے) تم نہیں۔ ہر گز نہیں جس دن تم نے حسن  اور  غم، محبت  اور   ایثار کو سمجھ  لیا حسن خودکشی کرے گا۔ خوبصورتی اپنے ہاتھ سے اپنا گلا گھونٹ لے گی  اور   آرٹ دم توڑ دے گا۔

منظور   :باتیں کم کیا کرتے ہیں۔ (سگریٹ دیتا ہے) لو سگریٹ لو۔

سلیم    : (سگریٹ لیتا ہے اسے جلاتا ہے)شکریہ۔

منظور   :جی مگر  وہ ہمارے ا سکیچ کا کیا ہوا۔

سلیم    :لاؤ ابھی کھینچ دیں۔ طبیعت موزوں ہے۔ لو”Sitting”

منظور   :جی نہیں معاف کیجئے آج مجھے کا م ہے۔

سلیم    :لعنت ہے تمہارے کام پر۔ سچ کہتا ہوں اس وقت طبیعت رواں ہے۔

منظور   :اس وقت تو کسی  اور  پر مشق ستم کیجئے۔ میں تو یہ چلا۔

(اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ )

سلیم    :ریحانہ بہن کی تصویر کھینچ دیں۔

منظور   :ہاں بھائی ریحانہ کی تصویر کھینچو۔ مگر ا سکیچ نہیں تصویر، عمدہ، صاف ستھری۔

سلیم    :ان سے اچھی ہوئی تو بات ہے۔

ریحانہ  :شکریہ، میں نہیں کھنچواتی تصویر۔

سلیم    :لیجئے  اور  سنئے۔

منظور   :نہیں ریحانہ کھنچوا بھی لو۔ اس میں حرج ہی کیا ہے۔ ۱۵۔ ۲۰ منٹ کی بات ہے۔

سلیم    :ہاں بس خاکہ تیار ہو جائے پھر ہوتا رہے گا۔

ریحانہ  :نہیں بھائی ہم سے نہیں بیٹھا جائے گا۔

سلیم    :میری اچھی ریحانہ۔

ریحانہ  :آپ نہیں سمجھتے کھانے میں دیر ہو جائے گی۔

منظور   :ہو جانے دو آج ذرا دیر ہی سے کھالیں گے۔ تم جانتی نہیں ہو، سلیم بھی بہت بڑا آرٹسٹ ہے۔ یہ موقع روز روز تھوڑا ہی آتے ہیں۔

ریحانہ  :اللہ، سلیم بھائی۔ آپ کتنا پریشان کرتے ہیں۔ اچھا لیجئے بیٹھ گئی۔

سلیم    :شکریہ۔ بھئی منظور نیچے سے میرا کچھ سامان بھجوا دینا۔ اس دن سے وہیں پڑا ہے۔

منظور   :اچھا۔

(جاتا ہے۔ )

بیگم    : (باہر آتی ہے)ریحانہ۔

ریحانہ  : (سلیم سے) دیکھا آپ نے (ذرا زور سے) جی امی۔

بیگم    :دال دھو لی ہے نا۔

ریحانہ  :ہاں امی۔

بیگم    :اچھا تومیں نیچے سے ذرا سا پودینہ توڑ لاؤں۔

(بیگم چلی جاتی ہے۔ خادم سامان لے کر آتا ہے  اور  سلیم تصویر بنانے کے لیے سامان درست کرتا ہے۔ پنسل اٹھاتا ہے  اور  خاکہ بنانا شروع کرتا ہے ریحانہ تخت پر بیٹھی ہوئی ہے۔ )

سلیم    :بھئی ہلو مت۔ ادھر دیکھو۔ پھر ہلیں۔ تمہیں ڈر لگ رہا ہے کیا؟

ریحانہ  :نہیں تو سلیم بھائی۔

سلیم    :تو پھر ادھر کیوں نہیں دیکھتیں۔

ریحانہ  :میری آنکھوں میں تکلیف ہے میں دھوپ کی طرف نہیں دیکھ سکتی۔

سلیم    :اوہ!مگر  تم تو ابھی باورچی خانہ میں تھیں۔

ریحانہ  :وہ تو کام کی مجبوری تھی۔

سلیم    : اور  یہ فن کی مجبوری ہے۔ اچھا خیر۔ نہ دیکھو(Profile)   ہی سہی میں چاہتا تھا تمہاری تصویر مونا لزا اسٹائل میں بناتا۔

ریحانہ  :کیا اسٹائل۔

سلیم    :مونالزا اسٹائل۔ یہ ایک بہت بڑے فن کار کی تصویر ہے۔ ایک عورت تھی مونالزا۔ وہ جب تصویر کھنچانے بیٹھتی تو اس کے چہرے کے نقوش میں کوئی بات بھی مصور کوInspire   نہ کر سکی مگر  جب ایک روز مصور نے اس کے لیے۔ ۔ ۔ بہار کے شاداب ترین تازہ پھول اکٹھے کیے۔ ساون کے سب سے بیٹھے سب سے پیارے گیت صرف کیے تب اس کے لبوں پروہ مسکراہٹ کھیلی جو مصور کو ایک غیر فانی شاہکار کے لیے آمادہ کر سکی  اور  اس نے اس مسکراہٹ کو اسیر کر دیا۔ بہار کے حسین ترین پھولوں سے پیدا کی ہوئی مسکراہٹ، موسم گل کے سحر آلود نغموں سے جگمگاتی ہوئی مسکان۔

ریحانہ  : (وہ بے اختیار ہنس پڑتی ہے  اور  اس کی آنکھوں سے آنسو کے دو قطرے ٹپک پڑتے ہیں  اور  اس کے رخسار پر بہنے لگتے ہیں۔ اس کی آواز رندھی ہوئی ہے) میں مسکرا نہیں سکتی سلیم بھائی۔

سلیم    : (بے خبری میں تصویر پر نظر جمائے ہوئے) یہ میں جانتا ہوں (پھر نظر اٹھا کر ریحانہ کو دیکھتا ہے  اور  اب اس کی آواز میں حیرت ہے) مگر  یہ تم رو کیوں رہی ہو۔

ریحانہ  :آپ جانتے ہیں ؟

سلیم    :ہاں جانتا ہوں۔ مگر  تم رویا تو نہیں کرتیں۔

ریحانہ  :مگر  آج۔ ۔ ۔  (سسکی بھرتی ہے) جب آپ میری تصویر کھینچ رہے ہیں۔ یہ میری خوبصورت یا بدصورت شکل کو محفوظ کر رہے ہیں، تو سوچتی ہوں میں بھی ایک عورت تھی۔ میں بھی ایک انسان تھی  اور  میں بھی زندہ رہنا چاہتی تھی۔

سلیم    :تم کو زندہ نہیں رہنے دیا گیا۔ میری تصویر ’’گلفام‘‘ دیکھی ہے تم نے، وہ جسے کنویں میں قید کر دیا گیا تھا۔

ریحانہ  :میں تصویروں کی زبان نہیں سمجھتی اپنی آواز پہچانتی ہوں۔ پیدائش سے لے کر آج تک میں اس گھرکے قید خانے میں سزا بھوگ رہی ہوں عمر قید کی سزا۔ میرے ہاتھوں پر مصالحے کی مہندی رچی ہے۔ میرا سر ابابیل کا گھونسلا بنا ہوا ہے  اور  میرے کپڑے صافی کی رنگت کے ہیں۔ میرے کندھوں پر رات دن پکانے کا بوجھ ہے  اور  خوراک میں وہ سڑی دالیں  اور  جو ملے ہوئے آٹے کی روٹی۔ میں بھی پہننا چاہتی تھی۔ میں بھی ہنسنا چاہتی تھی۔ میں جینا چاہتی تھی  اور  مجھے زندہ دیوار میں چن دیا گیا کہ میں ایک بڑے جاگیردار کے گھرانے کی بیٹی ہوں۔

سلیم    : (ایک برش اٹھاتا ہے  اور  اسے اپنے گال سے لگا کر بیٹھا ہوا ریحانہ کو تکتا رہتا ہے پھر زیرِ لب کہتا ہے) حسن مغموم۔ یاس  اور  حسن۔ ۔ ۔

ریحانہ  : (اپنی بات جاری رکھتے ہوئے)سلیم بھائی آپ میری تصویر بنا رہے ہیں اس دنیا کے لیے جسے میں نے نہیں دیکھا۔ جس کی سیر نہیں کی (اس کی آواز میں تندی ابھر آئی ہے) میں اس دنیا میں اپنی یادگار بھی کیوں رہنے دوں۔ ریحانہ کوئی نہیں تھی۔ وہ کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ اس نے دنیا میں قدم نہیں رکھا۔

سلیم    :ریحان بہن۔ میں تمہاری یہ تصویر بناؤں گا۔ ۔ ۔ ضرور بناؤں گا۔

ریحانہ  :نہیں سلیم بھائی۔ آپ کی تصویر پوری نہیں ہو گی(اٹھتی ہے  اور   سروتے سے کنویس کو چیر ڈالتی ہے) نہیں سلیم بھائی نہیں ! ریحانہ کا کوئی نشان باقی نہیں رہے گا۔ میں نہیں چاہتی کوئی مجھے دیکھے ریحانہ کو جو وہ تھی  اور   اس ریحانہ کو نہ دیکھ سکے جو وہ بننا چاہتی تھی۔

(اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیتی ہے  اور  دالان کی طرف دوڑتی ہوئی چلی جاتی ہے  اور  ایک سسکی کے ساتھ پلنگ پر گر پڑتی ہے  اور  تکیے میں منہ چھپا کر رونے لگتی ہے۔ )

سلیم    : (گھبرایا ہوا کچھ دیر اپنے کنویس کو  دیکھتا رہتا ہے۔ پھر سگریٹ کا ایک کش لیتا ہے  اور  دالان کی طرف جاتا ہے۔ ادھر سے شاہانہ بیگم آ جاتی ہیں۔ سلیم بھی دالان میں جا کر پنکھے سے ہوا کرنے لگتا ہے۔ )

بیگم    ریحانہ بیٹی!

سلیم    :خالہ جان ادھر آئیے۔

بیگم    :کیا ہوا؟

سلیم    :ریحانہ بہن کی طبیعت یکایک خراب ہو گئی ہے۔

بیگم    :اوہ، میری بچی کو پھر دورہ پڑ گیا۔ بیٹا سلیم۔ سلیم۔ تم ذرا پانی لیتے آؤ۔ میں گلاب چھڑکتی ہوں۔ پنکھا کہاں ہے۔ اے ہے خدایا اپنا فضل  کیجیو۔

(سلیم پانی لاتا ہے بیگم پانی کے دو ایک چھینٹے اس کے منھ پر دیتی ہیں  اور   گلاب سنگھاتی ہیں۔ سلیم پنکھا جھلتا ہے۔ )

(اتنے میں قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ نواب صاحب داخل ہوتے ہیں۔ ایک کالی ریشمی شال اوڑھے ہوئے آنکھوں پر سونے کے فریم کا چشمہ ہے۔ آواز میں شاہانہ وقار ہے۔ )

نواب  : (دروازے ہی سے) بیگم، بیگم، کہاں ہو۔

(سلیم کے ہاتھ پنکھا ایک لمحہ کے لیے رک جاتا ہے۔ بیگم صاحبہ اپنے ہوش و حواس کو پھر یک جا کر لیتی ہیں  اور ریحانہ کی طرف سے بے خبر ہو کر نواب صاحب کی طرف متوجہ ہو جاتی ہیں جیسے ریحانہ کو کچھ ہوا ہی نہیں ہے  اور  نواب صاحب کی آمد اس سے کہیں زیادہ اہم بات ہے۔ چہرے پر گھبراہٹ کے آثار نمایاں ہیں۔ آخر گھبرا کر پلنگ سے اٹھ جاتی ہیں  اور  نواب صاحب کی طرف چلتی ہیں۔ )

نواب  :بیگم یہ لو عظیمہ کا خط آیا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ اسے تمہارے ہاتھ کا بنا ہوا حلوہ بہت پسند آیا ہے۔

بیگم    : (اس طرح جیسے سنا ہی نہیں)ریحانہ کی طبیعت یکایک خراب ہو گئی ہے۔

نواب  :ریحانہ کیسی ہے ریحانہ؟وہی دورہ پڑ گیا ہو گا۔

بیگم    :ہاں میں نیچے پودینہ لینے گئی تھی اسے میرے پیچھے ہی دورہ پڑ گیا۔ آپ کے پاس کوئی مجرب دوا ہو گی۔

نواب  :ہاں بھتیجا ہوں۔ ۔ ۔ (ہاتھ میں جو خط ہے اسے پڑھتے ہیں) مگر  دیکھو یہ عظیمہ نے لکھا ہے کہ مجھے تمہاری بیگم کے ہاتھ کا بنا ہوا حلوہ بہت ہی پسند آیا دیکھا تم نے بڑی ہی شریر ہے یہ تمہاری بیگم کے ہاتھ بنا ہوا، گویا تم اس کی کچھ ہوہی نہیں۔ اس نے لکھا ہے۔ ہمارے علاقہ میں ان دنوں شکار کی بڑی کثرت ہے۔ تمہیں بھی تو شکار کو گئے ہوئے بہت دن ہو گئے ہیں، ادھر آ جاؤ تو بہت اچھا ہو تمہارے ساتھ ہی چلی چلوں گی۔ اب تو منظور میاں کا غصہ بھی اتر گیا ہو گا۔

بیگم    :ریحانہ کو ابھی تک ہوش نہیں آیا۔ تم ذرا جلدی جا کر کوئی۔ دوا بھیج دو۔

نواب  :ہاں بیگم۔ مگر  تم نے یہ خلوص کسی میں نہ پایا ہو گا۔ لاکھ تمہاری سوکن ہے مگر  تمہارے حلوے کی کتنی تعریف لکھی ہے اس نے تمہاری طبیعت کو پوچھا ہے  اور  لکھا ہے کہ :

(خط دیکھنے لگتے ہیں۔ )

(اتنے میں سلیم پانی لینے کے لیے باہر آتا ہے۔ )

سلیم    : (پانی کا گلاس ہاتھ میں  اور  کچھ گھبرایا ہوا ہے) خالو میاں آداب۔ (بیگم سے) خالہ ریحانہ ابھی تک بے دم پڑی ہوئی ہے اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوئی آپ۔ ۔ ۔ !

نواب  :ارے میاں سلیم جیتے رہو۔ بھئی یہ تمہاری دوسری خالہ کا خط آیا ہے۔ ایک رشتہ سے تو عظیمہ بھی تمہاری خالہ ہی ہوئی۔ تمہاری ماں کے رشتے سے نہ سہی ہمارے رشتے سے سہی۔ دیکھو تو سہی اسے تم ابھی تک یاد ہو۔ لکھا ہے کہ سلیم میاں نے ابھی تک میری تصویر نہیں بنائی۔

سلیم    :نواب صاحب بناؤں گا ضرور تصویر بناؤں گا۔

(پانی لے کر چلا جاتا ہے۔ )

نواب  :سنو تو میاں سلیم(سلیم چلا جاتا ہے) اس نے یہ ایک تصویر بھی بھیجی ہے۔ لو جی بیگم تم دے دینا سلیم کو میں جاتا ہوں۔ خط لانے والا جواب کے انتظار میں بیٹھا ہے  اور  سنو۔ ریحانہ کی دوا بھیجوں۔

بیگم    :ہاں ضرور۔ ۔ ۔ !

(چلے جاتے ہیں۔ )

(ریحانہ کو بھی ہوش آ گیا ہے  اور  اب وہ دو تکیوں سے لگی بیٹھی ہے۔ )

سلیم    :ریحانہ اب کیسی ہو۔

ریحانہ  :آپ پریشان نہ ہوں سلیم بھائی۔ یہ دورہ مجھے کبھی کبھی  پڑ جاتا ہے۔ ابھی ٹھیک ہوئی جاتی ہوں۔

سلیم    :خالہ جان اس کو باقاعدہ علاج کی ضرورت ہے۔

بیگم    : (تھوڑی دیر چپ رہتی ہے) جانتی ہوں مگر  دیکھا نہیں تم نے۔ تم نے کچھ نہیں سنا۔ بیٹی بے ہوش پڑی تھی  اور  ابا اپنی نئی نویلی دلہن کا خط سناتے پھر رہے تھے  اور  ہاں (میز پرسے تصویر اٹھاتی ہیں) میں تو بھول ہی گئی۔ ان کی تصویر بنانی ہے تمہیں۔

سلیم    : (تصویر لے لیتا ہے  اور  اسے غور سے دیکھتا ہے)تصویر بنانا ہی میرا پیشہ ہے مگر  خالہ اس صورت میں کون سی ایسی دلکشی ہے جو بوڑھے دل سے اولاد کی مامتا چھین سکتی ہو۔

ریحانہ  : (مسکراتی ہے) سلیم بھائی۔ تصویر بنانے والوں پریہ باتیں اچھی نہیں لگتیں۔ یہ بات دیکھنے والوں پر چھوڑئیے۔

بیگم    :ایک اولاد کی مامتا کیا؟گھر کا چین زندگی کا سکھ  اور ۔ ۔ ۔ !

ریحانہ  :آپ ٹھیک نہیں کر رہی ہیں امی۔ ایک کو سارا الزام دے کر باقی سب کو بے گناہ ٹھہرانا ٹھیک نہیں۔ یہ عظیمہ ہے۔ اس سے پہلے صغیرن، مشتری  اور ۔ ۔ ۔  اور ۔ ۔ ۔

(انگلی کاٹ لیتی ہے۔ )

بیگم    :ٹھیک ہے میاں سلیم۔ جب اپنے ہی گھر کو آگ لگی ہو تو بجلی کو کیوں کوسیں۔ ان کا ہی دماغ ٹھیک نہیں۔ انھیں رنگ رلیوں سے فرصت نہیں۔ نہیں تو۔

سلیم    : (دہراتا ہے)نہیں تو۔ ۔ ۔ !

بیگم    :نہیں تو میرے گھر میں بھی شہنائیاں بجتیں۔ میری لڑکی کے ہاتھ پیلے ہوتے۔ میں بھی منظور کی بہو اور   بیٹوں کو دیکھتی۔ اپنے آنگن میں نواسوں  اور  پوتوں سے گود بھرے بیٹھتے اس گھرکی نیو کس منحوس گھڑی پڑی تھی کہ یہاں اندھیرا منڈلاتا ہے۔ دکھ  اور  درد کے سوا۔ ۔ ۔ !

ریحانہ  :امی ہم نے ایک مرگھٹ میں جنم لیا ہے۔

سلیم    :مگر  جائیداد کا انتظام تو منظور کے ہاتھ میں ہے ؟

(ریحانہ کی آنکھیں چھلک جاتی ہیں۔ )

بیگم    :ہاں۔ ۔ ۔ اسی لیے جائیداد کی آمدنی اسی کے لیے ہے۔

سلیم    : اور  وہ چاہیں۔

بیگم    :مگر  وہ کیوں چاہیں۔ وہ جو چاہتے ہیں انھیں ملتا ہے اچھے سے اچھے کپڑے  اور  پوشاک سواری کو بگھی  اور  عیاشی کے لیے روپیہ  اور  ہمارے لیے بس ان کے پاس فصل میں بھروا دینے کے لیے جنس ہے  اور  گیہوں چنے کی ملی ہوئی روٹی۔

سلیم    :آپ ان سے کہتی کیوں نہیں ہیں۔

بیگم    :تم ابھی یہاں نئے نئے ہو۔ جو کچھ ملتا ہے وہ بھی بے مانگے نہیں ملتا۔ (کھانسی اٹھ جاتی ہے  اور  دیر تک کھانستی رہتی ہیں) ایک نوکرانی نہیں جو کھانا پکا سکے۔

سلیم    : (خالی نظروں سے گھرکی اونچی دیواروں کو دیکھنے لگتا ہے) مجھے یقین نہیں آتا۔

(ریحانہ ہنس پڑتی ہے۔ )

بیگم    :تم ابھی بچے ہو سلیم،  مگر  ایک کام یاد رکھنا۔

سلیم    :کیا؟

(ریحانہ اٹھنے لگتی ہے۔ )

سلیم    :ریحانہ تم کہاں جا رہی ہو؟

ریحانہ  :اب رات کی دیگچیوں کے لیے مصالحہ پیسوں گی۔

سلیم    :خالہ انھیں مت جانے دیجئے۔ طبیعت زیادہ خراب ہو جائے گی۔

بیگم    :بیٹی میں پیس لوں گی تو مت جا۔ ٹھہر جا۔ ابھی۔

ریحانہ  :امی ٹھنڈے پانی میں ہاتھ کروں گی تو تمہاری کھانسی پر زور ہو جائے گا۔

(امی منھ پھیر کر سلیم سے باتیں کرنے لگتی ہیں  اور  سلیم ریحانہ کو باورچی خانے کی طرف جاتے دیکھتا رہتا ہے۔ )

بیگم    :ہاں بیٹا سلیم ایک کام یاد رکھنا۔ یہ تصویر عظیمہ کی ضرور بنا دینا۔ جلدی بنا دینا۔ وہ تم ہی سے نہیں مجھ سے بھی خفا ہو جائیں گے۔

سلیم    :کیوں ؟

بیگم    :کہ شاید میں نے ہی تم کو بنانے سے روکا ہو گا۔

سلیم    :آپ۔ ۔ ۔ انہیں شادی کرنے سے نہ روک سکیں (گھنٹہ پانچ بجاتا ہے)تو مجھے تصویر بنانے سے کیوں روکیں گی؟

بیگم    :وہ اسے نہ سمجھیں گے۔

سلیم    :وہ تو وہ، میں بھی اسے نہیں سمجھ سکتا۔

بیگم    :تم ابھی یہاں نئے نئے ہو۔

سلیم    :خالہ جان۔ خدا نہ کرے میں کبھی اس دیس میں پرانا ہو جاؤں۔ آپ خالو جان کی حالت دیکھتی ہیں  اور   انھیں خوش رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کی آگ میں جلتی ہیں  اور  ان پر پھول چڑھاتی ہیں۔ ان کے زہر کو اپنے ہی میں نہیں۔ اس کی ایک ایک اینٹ میں سموتی ہیں  اور  ان کی پوجا کرتی ہیں۔ اس مندر کو مرگھٹ بنانے کی ذمہ دار آپ ہیں خالہ جان آپ۔

بیگم    : (چہرے پر غصہ کے آثار پیدا ہوتے ہیں،  مگر  ضبط کرتی ہیں۔ برابر سے پاندان اٹھا لیتی ہیں  اور   پان لگانے میں دھیان لگاتی ہیں) مجھے چھوٹوں کی زبان سے طعنے سننے کی عادت نہیں سلیم۔ ہمدردی کرنے سے گئے  اور   میرے ہی کلیجے میں کچوکے لگانے آئے ہو۔

سلیم    :خالہ جان۔ میں یہ سب کچھ نہیں جانتا، ہو سکتا ہے میں ہی غلط کہتا ہوں۔

بیگم    :بالکل، تم عورت کا فرض نہیں جانتے ؟

سلیم    :نہیں جانتا، پتھروں کے سامنے انسانوں کے سر کاٹ کر چڑھا دینے کا رواج زمانہ ہوا اٹھ گیا۔ آپ اسے فرض کہتی ہیں یہ فریب ہے، بہت بڑا فریب جس کے آسرے پر پچھلی نسل نے آنے والی نسل کی جوان ہڈیوں پر اپنا محل چنا  اور   آج یہ نسل پھر اسی فریب کو دہرانا چاہتی ہے۔ لفظ انسان کا ایجاد کیا ہوا سب سے بڑا فریب ہے۔ محبت؟فرض؟؟  اور   قربانی؟؟؟لفظوں کے رنگین جال!مجھے ان بے ہودگیوں سے نفرت ہے، ہمدردی نہیں۔ آپ نہیں جانتیں خالہ جان،  مگر  میرے آرٹ کی یہی پرتگیا ہے کہ وہ انسان کو ان لغو توہمات سے آزاد کرائے۔ انسان آزاد پیدا ہوا ہے  اور  اسے ساری ہی زنجیریں شکست کرنی ہیں۔

(خادم داخل ہوتا ہے۔ بوڑھا نوکر ہے۔ قمیض  اور  پاجامے میں ملبوس ہے جو زیادہ صاف ستھرے نہیں ہیں۔ اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ خادم کوکسی طرح مضحک کردار نہ بنایا جائے۔ نہ اس کی شکل پر غریبی، نفاست یا زیادہ سے زیادہ بڑھاپے کے آثار پیدا کر کے اسے قابل رحم بنانے کی کوشش کی جائے۔ یہ ایک معمولی نوکر ہے جس میں مضحکہ یا ہمدردی پیدا کرنے والی کوئی صفت نہیں ہے۔ خادم کے ہاتھ میں دوا کا پیکٹ  اور  شیشی ہے۔ )

خادم   :بیگم صاحب۔ نواب صاحب نے دوا بھیجی ہے۔

(بیگم دوا لے لیتی ہے۔ )

خادم   : (سلیم سے) آپ کو منظور میاں بلا رہے ہیں۔

سلیم    :ابھی آتا ہوں۔

خادم   :انھوں نے کہا ہے کہ ساتھ ہی لے کر آنا۔

سلیم    :اچھا۔

(سلیم چلا جاتا ہے۔ )

 

 

 

دوسرا سین

 

 (منظور کی اسٹڈی کا کمرہ۔ نہایت آراستہ و پیراستہ۔ لکھنے کی بھاری میز کے سامنے گھومنے والی کرسی پر منظور بیٹھا ہوا ہے۔ دونوں طرف مختلف فائل  اور  کاغذات ہیں جن پر خوش رنگ پیپرویٹ ہیں، بیچ میں نیلے رنگ کے شیڈ کا ایک ٹیبل لیمپ رکھا ہے۔ اس کے برابر قلم دان  اور   دوسری مختلف چیزیں آفس کی گھنٹی وغیرہ ہیں۔ برابر ہی چھوٹا سا شلف کتابوں سے پر ہے۔ دوسری طرف ایک چھوٹی سی میز پر مختلف کتابیں جن میں دو ایک کھلی ہوئی رکھی ہیں۔ یہ سب کتابیں بہت ضخیم ہیں  اور   قانون کے مختلف موضوعات پر ہیں۔ جس وقت سلیم داخل ہوتا ہے منظور کا ٹیبل لیمپ روشن ہو چکا ہے  اور  وہ اپنے ہاتھ میں ایک قلم لیے ہوئے ہے  اور   اس کا اوپری حصہ اس کے گال کو چھو رہا ہے۔ اس کے سامنے ایک فائل ہے۔ کپڑے اس وقت سادہ پہنے ہوئے ہے۔ اسٹیر پہن رکھا ہے نائٹ کیپ برابر میز پر رکھی ہے۔ چشمہ لائبریری ریم کا لگا ہوا ہے۔

میز کے سامنے دو کرسیاں پڑی ہوئی ہیں  اور  ایک کرسی دائیں طرف  اور   اوپر سے روشن دانوں میں ہلکی روشنی ہے جواس اثنا میں مدھم ہو جاتی ہے  اور  بعد کو بجلی  اور  بارش کے اثرات انھیں کے ذریعہ دکھائی دیتے ہیں۔ قدموں کی چاپ ہوتے ہی منظور فائل سے نظریں اٹھاتا ہے، چشمہ اتارتا ہے۔ )

 

منظور   :اما آدمی ہویا افلاطون۔ ڈیڑھ گھنٹے سے تمہیں بلا رہے ہیں۔ ایک بڑا با ذوق آدمی آیا تھا۔ تمہاری کچھ تصویروں کا سودا کر دیتے۔

سلیم    :مگر  مجھے تو ابھی اطلاع ملی۔

منظور   :خیر جانے دو۔ تمہاری قسمت؟میں نے تو اسے اتنی دیر روکے رکھا کہ شاید تم آ جاؤ۔ بھئی بات یہ ہے کہ یہ ہیں شہر کے مشہور رئیس بابو جگن ناتھ شراب کی ہول سیل کی دکان ہے۔ درآمد برآمد کاروبار ہے۔ اس قصبے سے گزر رہے تھے مجھ سے ملنے چلے آئے تھے۔ بڑا خوش مزاج آدمی ہے یار۔

سلیم    :سچ؟

منظور   :اس کا ڈرائنگ روم دیکھو گے تو طبیعت خوش ہو جائے گی۔ بڑے بڑے فن کاروں کے شاہکار ملیں گے۔ میں نے ’’امرت سہگل‘‘ کی سب سے پہلی تصویر اسی کے ڈرائنگ روم میں دیکھی تھی  اور  ہاں ریحانہ کی تصویر بنائی تم نے ؟

سلیم    : (سگریٹ منھ کو لگاتے ہوئے) نہیں۔

(بادل کی گرج  اور  کڑک سنائی دیتی ہے۔ روشن دانوں سے یہ باہر کا سماں دکھائی دیتا ہے۔ بارش ہونے لگتی ہے  اور  اس کی بوندیں روشندانوں کے ذریعہ اندر بھی آنے لگتی ہیں۔ )

منظور   :کیوں ؟

سلیم    :منظور سن رہے ہو بادل کس زور و شور سے گرج رہے ہیں۔

منظور   :روشن دان بند کر دوں۔

(خادم دوڑتا ہوا اندر آتا ہے۔ )

خادم   :حضور، حضور۔

منظور   : (اس سے پہلے کہ خادم کچھ کہے)روشن دان بند کرو خادم۔

(خادم ڈوری کھینچ دیتا ہے  اور روشن دان بند کر دیتا ہے۔ )

خادم   :حضور سونے کے کمرے کی چھت ٹپکنے لگی ہے۔

منظور   :بے وقوف کہیں کے، اس وقت کیا کیا جا سکتا ہے۔ ضروری چیزیں اس جگہ سے ہٹا دو(خادم جانے لگتا ہے)  اور  سنو(سلیم کی طرف مخاطب ہو کر) میں سمجھتا ہوں ٹھنڈ کافی ہے ہاتھ تمہارے بھی ٹھٹھر رہے ہیں۔

سلیم    :کیوں ؟

منظور   :ہاں دو پیالی چائے چاہئے۔ تم یہ کام کرو۔ ریحانہ بی بی سے کہہ دینا دے جائیں گی۔

خادم   :بہت اچھا حضور۔

(جاتا ہے۔ )

(سلیم کے چہرے کے سامنے سے گویا ایک سایہ گزر جاتا ہے۔ )

منظور   :ہاں تو سلیم صاحب۔ آپ نے وہ تصویر نہیں بنائی وہ بات ادھوری رہ گئی۔

سلیم    :جی نہیں۔

منظور   :مگر  کیوں نہیں بنائی؟یہی تو پوچھتا ہوں۔

سلیم    : (لائٹر سے سگریٹ جلاتا ہے) تمہیں معلوم نہیں ریحانہ بہن کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔

منظور   : (ایک خشونت کے ساتھ)وہی دورہ پڑ گیا ہو گا۔ یہی بات ہے نا؟

سلیم    :ہاں وہ کافی دیر تک بے ہوش رہیں۔ تمہیں کوئی فکر نہیں۔

منظور   : (سامنے لگے ہوئے کلنڈر کو دیکھتے ہوئے) نہیں کنواری لڑکیوں کے اختلاج کے دورے ڈھکوسلے ہوتے ہیں۔ نرے ڈھکوسلے۔

سلیم    :تم یہ کہہ رہے ہو منظور؟

منظور   :ہاں سلیم۔ تم اس گھر کو پہچانتے نہیں۔

سلیم    :یہ بات تو اس سے پہلے بھی سن چکا ہوں۔ تم پہچانتے ہو شاید۔ میں تم سے پوچھتا ہوں آخر تم اس کی شادی کیوں نہیں کر دیتے ؟

منظور   :میں ؟اونہہ، میں شادی کرنے والا کون؟تم نواب صاحب کو فراموش کر رہے ہو سلیم۔

سلیم    :جی نہیں۔ تم ہر ایک بات میں اپنے اختیار پر ناز کرتے ہو۔ یہ اعلیٰ سگرٹوں کے ٹن، یہ سگاروں کے ڈبے۔ یہ تکلفات کے انبار، تمہاری ڈنر پارٹیاں  اور  شکار کی ضیافتیں تم با اختیار ہو مگر  جب ایک لڑکی کو اس کا حق دینے کا سوال اٹھتا ہے تو۔ ۔ ۔

منظور   :میں اس کے حق سے انکاری نہیں۔

سلیم    :میں اقرار انکار کا سوال نہیں کرتا۔ میں مسئلے پر جذباتی بن کر غور نہیں کر رہا ہوں۔ جذباتی کو میں اندھا سمجھتا ہوں۔

منظور   :اخلاقی نقطہ نظر سے ؟

سلیم    : (بات کاٹ کر) نہیں میں تمہاری اخلاقی قدروں کو تسلیم نہیں کرتا۔ آگ لگاؤ ان اخلاقی قدروں کو ایک بچے کی نازک پیٹھ پر باپ کے بیجا حق کا بوجھ رکھتی ہیں  اور  اسے قربان کر دیتی ہیں۔ چھوٹے کو بڑے کی قربان گاہ پر نذر کر دیتی ہیں۔ میں سیدھی بات جانتا ہوں کہ انسان آزادی کا حق رکھتا ہے  اور  عورت انسان ہے اسے تم ہاتھ پیر باندھ کر رکھ رہے ہو۔

منظور   :نہیں سلیم، میں نے کسی کے ہاتھ پیر نہیں باندھے۔

سلیم    : (سگریٹ کا ایک کش لیتا ہے) سوال یہ ہے کہ تم ریحانہ کی شادی کیوں نہیں کرتے ؟

منظور   :بات یہ ہے سلیم۔ تم نے جب تذکرہ چھیڑا ہے توسنو۔

سلیم    :کہو۔

منظور   :پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کا کوئی ڈھنگ کا پیام ہی نہیں آتا۔ تم چاہتے ہو کہ میں بھائی ہو کر کسی ایسے ویسے جاگیردار کے ہاتھ سونپ دوں جس کی آمدنی کا کوئی بھروسہ نہ ہو، جس کی ذات پات میں کھوٹ ہو اور   جو ہماری سی عزت وقار نہ رکھتا ہو۔

سلیم    : (ہنس کر) نہیں۔ منظور بھائی تمہارے ذات پات کے ڈھکوسلے نہ جائیں گے۔

منظور   :میں سماج میں رہ کر باغی نہ ہو سکوں گا۔ میں تمہاری طرح عورت کی بے راہ روی  اور  مزاج کا قائل نہیں ہوں۔ عورت ایک ہیرا ہے  اور   اسے محفوظ ہونا چاہئے۔

سلیم    :الفاظ۔ محض الفاظ۔

منظور   :اس کے علاوہ تم میری مالی حالت دیکھتے ہو۔ شادی وہ چیز ہے جس کے لیے وافر روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے  اور   میرے پاس روپیہ نہیں۔ شاید تم کہہ دوکہ اپنے خرچ کے لیے میرے پاس روپیہ ہے مگر  ریحانہ کے لیے نہیں کہہ سکتے ہو۔ مگر  مجھے ایک گھرکی ناموس برقرار رکھنا ہے۔ آج بگھی بیچ ڈالوں قصبہ بھرمیں نوابوں کے گھرانے کا نام ڈوب جائے گا آج کوٹھی کے ساز و سامان پروہ ویرانی رکھو جو حرم سرا میں ہے تو لوگ میرے گریبان میں تھوکیں۔

سلیم    : اور  اگر زہرہ سے۔

منظور   :میں بھولا۔ تم میرے اس راز سے بھی واقف ہو۔ (مسکراتا ہے مگر  یہ فکر آلود ہے)ہاں اگر زہرہ کے پاس نہ جاؤں تو میرا دماغ اس پاگل خانے میں کس طرح کام کرے۔ ایک ستر سالہ بوڑھا جو ایک نئے رومان میں مبتلا ہے۔ عظیمہ کا خط تم نے بھی سنا ہو گا  اور   ایک ۶۵ سالہ بڑھیا جو دمے کے دائمی  اور  مہلک مرض میں مبتلا ہے  اور  ایک اختلاجی لڑکی۔ ۔ ۔  اور  زہرہ میری زندگی کا اکیلا راز ہے۔ وہ گاتی ہے۔ وہ ناچتی ہے۔ وہ مجھے سکون  اور  محبت کے سارے خزانے بخش دیتی ہے  اور  کچھ نہیں لیتی۔ وہ مجھ پر اپنی کوئی ذمہ داری نہیں ڈالتی روپیہ  اور  صرف۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ اگر وہ مجھے نہ ملی ہوتی تو اس جاگیر میں کتے لوٹتے  اور   اس محل میں لاشیں سڑا کرتیں۔

سلیم    :میں جانتا ہوں۔ تم جاگیردار ہو۔ پھر کیوں گھر والوں کو سالہا سال سے دالیں کھانا پڑ رہی ہیں  اور  یہ گیہوں چنے کی روٹیاں، تم دو بندوں کو اچھی طرح نہیں رکھ سکتے۔ تم ایک ماں کو تندرستی نہیں دے سکتے۔ تم ایک لڑکی کو مسرت نہیں دے سکتے (پھر کچھ سوچ کر وہی سلسلہ شروع کر دیتا ہے)مگر  ریحانہ کا وہ سوال ہے جس کا تم نے جواب نہیں یا۔

منظور   : اور  کیا جواب دوں۔

سلیم    : اور  اگر میں یہ کہہ دوں کہ تم ذات کی کھوٹ  اور  خاندان کی عزت کے لیے نہیں بلکہ۔

منظور   : اور  کیا چیز ہو سکتی ہے ؟

سلیم    :اس لیے کہ تمہاری جاگیر کا  حصہ تقسیم ہو جائے گا۔ تمہیں کھانے پکانے لیے ماما  اور  کام کاج کے لیے نوکرانی رکھنا پڑے گی، تم خالص لالچ  اور   ذاتی نفع کے خیال سے اس کی شادی نہیں کر رہے ہو۔

منظور   : (ہنس دیتا ہے) کہہ سکتے ہو۔

(اتنے میں قدموں کی چاپ ہوتی ہے  اور ریحانہ چائے کی ٹرے لیے داخل ہوتی ہے۔ کپڑے  اور  حلیہ وہی ہے جو پہلے ایکٹ میں تھا۔ صرف ذرا بھیگ گئی ہے بالوں میں پانی کے قطرے چمک رہے ہیں۔ منظور اسی طرح بیٹھا رہتا ہے۔ صرف ذرا فائل کی طرف توجہ کرنے لگتا ہے۔ سلیم کے چہرے سے رنگ اڑ جاتا ہے۔ وہ آتی ہے۔ )

ریحانہ  :بھائی جان چائے کہاں رکھوں ؟چاروں طرف تو کتابیں بکھیر رکھی ہیں آپ نے۔

منظور   : (دو تین فائلیں ہٹا لیتا ہے) یہاں رکھ دو۔

(چائے رکھ دیتی ہے  اور  برابر والی کرسی پر بیٹھ جاتی ہے۔ )

سلیم    :ریحانہ بہن کیا بارش ابھی تک ہو رہی ہے۔

ریحانہ  :اوہ!کچھ نہ پوچھئے۔ قیامت کا طوفان ہے۔

سلیم    :سچ۔

ریحانہ  :آپ بال دیکھ رہے ہیں میرے، ان میں تمام پانی بھر گیا ہے، اب جا کر چائے پیوں گی۔

سلیم    :یہیں کیوں نہیں پی لیتیں۔

منظور   : (جیسے بات سنی ہی نہ ہو)بھئی ریحانہ تمہاری خاطر کے لیے تو یہ کیک  اور    بسکٹ بھی لے آئیں۔

ریحانہ  :مجھے تو معلوم بھی نہ تھا کہ سلیم بھائی یہاں ہیں۔

سلیم    :ہاں بھئی بارش کی وجہ سے اتنی دیر رکنا پڑا۔ جب چائے آ گئی تو تکلف کیسا ’’لیڈیز ٹو سرو‘‘۔

منظور   : (ہنس پڑتا ہے) تم ابھی یورپ سے نہیں لوٹے سلیم۔ میں چائے بناتا ہوں۔

سلیم    : (خاموش ہو جاتا ہے  اور  ایک نظر اور  پھر ریحانہ کی طرف دیکھتا ہے۔ )

منظور   : (چائے بنا کر دیتے ہوئے)لو(چائے کی پیالی سلیم کو دیتا ہے  اور   پھر کیک کی پلیٹ سلیم کی طرف بڑھاتا ہے) آج تو تم سے بہت دنوں بعد اتنی باتیں ہوئیں۔ ہاں یار یہ تو بتاؤ تم اپنی شادی کب کر رہے ہو؟

سلیم    :میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا؟

منظور   :میں نے کہا تم شادی کب کر رہے ہو؟

سلیم    :ہونہہ۔ ضروری ہے کہ شادی کروں۔

منظور   :قطعی۔

سلیم    :میں ان ڈھکوسلوں میں یقین نہیں رکھتا۔ اگر شادی سے مراد نکاح بیاہ ہے جس میں چغد کی طرح بیٹھ کر میں بھی فلاں بنت فلاں کو اتنے معجل  اور   اتنے غیر معجل کے عوض منظور کروں تومیں کبھی شادی نہیں کروں گا۔

منظور   : اور  کیا کرو گے ؟

سلیم    :ہاں اگر شادی سے مراد ایک عورت کا ہم رفیق ہوتا ہے تو ایک عورت میرے ساتھ ضرور رہے گی۔ تم اسے بھابی بھی کہہ سکتے ہو۔

منظور   :پاگل ہو گئے ہو سلیم۔

سلیم    :نہیں کوئی غیر معمولی بات تو نہیں۔

منظور   :بہت غیر معمولی بات ہے۔ یہاں نہ رہنے پاؤ گے۔

سلیم    :نہ رہوں گا، میں ٹوٹ سکتا ہوں، جھک نہیں سکتا۔

(باہر بجلی کی کڑک تیز ہو جاتی ہے  اور  خادم اندر داخل ہوتا ہے دروازے کا پٹ چھوڑ دیتا ہے جو زور سے بند ہو جاتا ہے۔ )

خادم   :حضور۔ حضور۔ گاؤں سے منشی جی آئے ہیں۔

منظور   :اچھا۔ ان سے کہو بیٹھیں۔ میں ابھی آتا ہوں۔

خادم   :بہت اچھا۔

(جاتا ہے۔ )

منظور   : (چائے کی پیالی ختم کر کے میز پر رکھ دیتا ہے۔ منھ رومال سے پونچھتا ہے)اچھا بھائی سلیم تم چائے پیو،  میں اتنے منشی جی سے بات کر آؤں۔

سلیم    :ضرور۔

(منظور اٹھ کر چلا جاتا ہے۔ بارش کے قطرے بڑی تیزی سے روشن دان سے ٹکرا رہے ہیں۔ )

سلیم    :آج بارش نہیں طوفان ہے۔

ریحانہ  :سلیم بھائی۔ کیا شادی کے بارے میں آپ کا سچ مچ وہی خیال ہے جو آپ ابھی کہہ رہے تھے۔

سلیم    :ہاں ریحانہ میں کہتا ہوں کہ!!۔ ۔ ۔ نکاح کے دو بولوں میں آخر رکھا ہی کیا ہے۔ شاید تم سے مجھ کو یہ باتیں نہیں کہنا چاہئیں۔

ریحانہ  :نہیں سلیم بھائی۔ اب مجھ عورت پر لڑکیوں جیسی شرم نہیں پھبتی۔

سلیم    :شادی یا بے شادی۔ انسان، مرد اور   عورت کی آزادی بڑا مسئلہ ہے اسے کردار کی نشو و نما کا موقع ملنا چاہئے۔ اپنے کو بنانے  اور   طاقتوں کو آزمانے کا موقع ملنا چاہئے۔ تم چائے پیو ریحانہ۔ اب تو ایک پیالہ بھی خالی ہو گیا ہے میں ابھی اسے دھوئے دیتا ہوں۔

(اسے گلاس میں رکھے ہوئے پانی سے دھو لیتا ہے۔ پھر چائے بنانے لگتا ہے۔ اس عرصے میں ریحانہ اس کو خاموش نظروں سے دیکھتی رہتی ہے۔ )

ریحانہ  :سلیم بھائی۔

سلیم    :کیوں ریحانہ۔

(چائے دیتا ہے، وہ پیالی بے خیالی میں تھام لیتی ہے۔ )

ریحانہ  :کیا واقعی دنیا بہت بڑی ہے ؟

سلیم    :ہاں ریحانہ بہت بڑی ہے۔ ۔ ۔ تم نے الف لیلیٰ پڑھی ہے ؟

ریحانہ  :نہیں، کچھ کہانیاں سنی ہیں۔

سلیم    :سند باد کا سفر سنا ہے۔

ریحانہ  :نہیں۔

سلیم    :سند باد بہت بڑا سیاح گزرا ہے۔

ریحانہ  :کیا گزرا ہے ؟

سلیم    :سیاح!ملکوں ملکوں گھومتا پھرتا تھا۔ وہ ایک ویران پہاڑی پر اترا۔ جہاں روزانہ ایک بہت بڑا ہیبت ناک جانور آیا کرتا تھا۔ رخ۔ یہ رخ جانور بہت بڑا تھا۔ جب وہاں سے نکلنے کی کوئی تدبیر نہ بن پڑی۔ ۔ ۔  تو سندباد نے ایک گوشت کے ٹکڑے میں خود کو لپیٹ لیا  اور   وہ رخ اسے گوشت سمجھ کر اڑا لے گیا  اور  اسے آبادی میں اتار دیا۔

ریحانہ  :پوری کہانی سنائیے۔

سلیم    :کہانی پوری ہو گئی ریحانہ۔ میرا جی چاہتا ہے ریحانہ کہ میں بھی ایک رخ بن جاؤں۔

ریحانہ  : (ہنس پڑتی ہے) آپ واقعی بچے ہیں۔

سلیم    :ہاں۔

ریحانہ  :الف لیلیٰ کی کہانیاں کوئی بڑے سنا کرتے ہیں۔

سلیم    :ہاں۔ مگر  تم  سندباد  بننا نہیں چاہتیں۔ تم ایک ویران پہاڑی پر پڑی ہو۔ اس پہاڑی کی وادیوں میں لاشیں سڑ رہی ہیں  اور  گدھ منڈلا رہے ہیں۔

ریحانہ  : اور رخ؟

سلیم    :ہاں ریحانہ میں رخ بننا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم میرے ساتھ چلو۔ میں تمہیں دنیا دکھاؤں گا۔ میں بہتے ہوئے آبشاروں  اور  کھلتے ہوئے پھولوں کے پس منظر میں تمہاری تصویریں بناؤں گا۔ وہ تصویریں۔ ۔ ۔  جنھیں تم چاک نہ کر سکو گی  اور  تم دنیا پر بہار کے گیت کی طرح چھا جاؤ گی۔ ۔ ۔ اوہ!اس دن میں کتنا خوش ہوں گا۔

ریحانہ  :کیا آپ سچ کہہ رہے ہیں ؟

سلیم    :ہاں ریحانہ چلو گی میرے ساتھ۔

ریحانہ  :یہ بھی کوئی کہانی ہے۔ بھلا آپ میرے ساتھ اپنی زندگی کیوں خراب کرنے لگے۔

سلیم    :نہیں ریحانہ سچ۔

ریحانہ  :کیا آپ مجھ سے شادی۔ ۔ ۔ ؟

سلیم    :شادی نہیں۔ شادی نہیں۔ تمہیں میرے ساتھ بھاگ کر چلنا ہو گا۔

ریحانہ  :یہ کیوں۔ وہ راضی ہو جائیں گے۔

سلیم    :ہرگز راضی نہ ہوں گے۔ تم ابھی ان لوگوں کو نہیں جانتیں۔ میرے ساتھ صرف وہی عورت خوش رہ سکے گی جو آگ میں تپ کر آئے گی، جو جہنم پارکر کے آئے گی۔ تم انسان ہو طوفان سے ٹکرا سکتی ہو۔ اگر ٹکرانے کے لیے کچھ نہ ہو تو انسان فولاد نہ بنے موم بن کر پگھل جائے  اور   اگر ٹکرانے والی چیز طاقتور نہ ہو تو  ٹکرانے والے کی توہین ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم سر بلند ہو۔ تم سر اٹھاؤ بادلوں سے اونچا۔ ستاروں سے بھی بلند۔ تم آخر کس لیے ڈرتی ہو۔

ریحانہ :خاندان کی عزت سے۔

سلیم    :میں جانتا ہوں خاندان نے تمہیں کون سی عزت دی ہے جس کی عزت کا تم کو اتنا پاس ہو۔ ڈرپوک نہ بنو ریحانہ۔ ظالم  اور  مظلوم میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا  اور  بزدل کی سزا ہے عمر قید۔ ان ہی بے رحم دیواروں سے راستہ مانگتے مانگتے مر جاؤ گی  اور  یہ ایک انچ نہ ہٹیں گی۔ اسی قید خانے میں تمہاری جوانی دم توڑ دے گی  اور  خاندان کی عزت کا دامن بھیگے گا بھی نہیں۔

ریحانہ  :اوہ میرے خدا!

سلیم    :آج کی رات،  اور  آج ہی کی رات اس کا فیصلہ ہونا ہے میں آج رات کے دو بجے یہاں سے چلا جاؤں گا۔ میں چور دروازے پر تمہارا انتظار کروں گا، بولو تمہارا کیا فیصلہ ہے ؟

ریحانہ  : (سراسیمہ ادھر ادھر دیکھتی ہے، پھر نیچی نظریں کر لیتی ہے) مجھے سوچ لینے دیجئے۔ خدارا مجھے سوچ لینے دیجئے۔

(منظور کا داخلہ)

منظور   :کوڑی کام کے نہیں۔ حرام خور کہیں کے۔ جس کام کو بھیجو بہانہ بنا کر لے آتے ہیں۔

سلیم    :کیابات ہوئی؟

منظور   :ریحانہ تم جاؤ۔

(ریحانہ جو چائے کے برتن اکٹھا کر رہی تھی چلی جاتی ہے۔ )

منظور   :بارے میاں وہی الو کے پٹھے منشی جی ہیں ان سے کہا تھا ذرا زہرہ کو بلا لاؤ۔ سوچا تھا تم آئے ہو۔ آج کی رات جشن رہے گا۔

سلیم    :پھر کیا خبر لائے ؟

منظور   :کہتے ہیں گوالیار گئی ہوئی ہے۔ لاحول ولاقوۃ جی چاہتا ہے ان سب کو گولی ماردی جائے۔

(نواب صاحب داخل ہوتے ہیں۔ )

(ہاتھ میں تسبیح ہے۔ گھبرائے ہوئے ہیں، بال سونے کی عینک کی گرفت میں پھڑک رہا ہے وہی قیمتی شال اوڑھے ہوئے ہیں۔ )

نواب  :ارے میاں سلیم تم یہاں بیٹھے ہو۔

سلیم    :منظور نے بلٍا  لیا تھا۔

نواب  : اور  وہ عظیمہ کی تصویر بنائی تم نے۔

سلیم    : (حیرت سے ان کا منھ تکتا ہے) جی، جی، ابھی تو نہیں۔

نواب  :لاحول ولاقوۃ۔ توبہ۔ اس وقت سے بے کار وقت ضائع کر رہے ہو، تصویر ہی بنا لیتے۔

منظور   :ابا جان۔ خادم نے سونے والے کمرے سے کچھ سامان ہٹا دیا تھا۔ کمرہ ٹپک رہا ہے۔

نواب  : (گرج کر) میرا اس گھر میں کوئی سامان نہیں (سلیم سے) عظیمہ کی تصویر کہاں ہے سلیم۔

(سلیم میز سے تصویر اٹھا کر دیتا ہے وہ تسبیح والے ہاتھ سے تصویر سنبھال لیتے ہیں۔ )

نواب  :بس اب مجھے کچھ نہیں چاہئے۔

(باہر چلے جاتے ہیں۔ بادل کی گرج  اور  بجلی کی کڑک  اور  بھی تیز ہو جاتی ہے۔ )

 

 

 

تیسرا سین

 

 (رات کی تاریکی چھا گئی ہے۔ دالان کے اندر کا کمرہ جس پر ایک پلنگ پر شاہانہ بیگم سو رہی ہے  اور  دوسرے پلنگ پر ریحانہ لیٹی ہوئی ہے، سرہانے بڑا مدھم  اور  دھندلا بلب روشن ہے، کمرہ سیلا ہوا ہے ایک طرف مچان پر کچھ صندوق  اور  کپڑے  اور  گٹھریاں ہیں۔ ایک طرف نماز پڑھنے کی چوکی بچھی ہوئی ہے  اور  اس پر ایک لوٹا رکھا ہوا ہے دوسری طرف کپڑے ٹانگنے کی کھونٹیاں ہیں اوپر ایک چھوٹے سے مچان پر قرآن مجید رکھا ہوا ہے، ریحانہ کے پلنگ کے ایک طرف وہ تصویر پھٹی پڑی ہوئی ہے جو سلیم نے بنائی تھی۔ ریحانہ صاف شفاف کپڑے پہنے ہوئے، بال بھی سلیقے کے ساتھ بنے گئے ہیں، بیگم صاحبہ کو کبھی کبھی رہتی ہے تو ریحانہ کروٹ بدلتی ہے۔ ایک طرف سنگھار میز اور   اس پر ایک بڑا آئینہ رکھا ہوا ہے۔ )

 

بیگم    :ابھی بجلی بند نہیں کی ریحانہ بیٹی!

ریحانہ  :امی تمہیں کھانسی بہت اٹھ رہی ہے نا۔ اسی سے جلتی رہنے دی۔ تم آرام سے سو جاؤ۔

بیگم    :اری پگلی۔ کھانسی تو دم کے ساتھ ہے۔ تو ابھی تک سوئی نہیں۔

ریحانہ  :مجھے نیند نہیں آتی امی۔

بیگم    :سو جا بیٹی تیری طبیعت خراب ہو جائے گی۔ آج صبح ہی دورہ پڑ چکا ہے۔

(رضائی میں منھ لپیٹ کر کروٹ بدل لیتی ہے۔ دورے کے لفظ پر پس منظر کی چونکا دینے والی موسیقی شروع ہوتی ہے۔ )

ریحانہ  :دورہ پڑ جائے گا۔ دورہ پڑ جائے گا(آہستہ سے پلنگ سے اٹھتی ہے  اور   بڑے آئینے کے سامنے جا کر کھڑی ہو جاتی ہے  اور  غور سے اپنی شکل آئینے میں دیکھنے لگتی ہے۔ پیچھے سے آواز آتی ہے۔ )ریحانہ تمہارے پاس رکھا ہی کیا ہے۔ تندرستی مٹ چکی ہے۔ جوانی ختم ہو گئی۔ خوبصورتی (ہنستی ہے)خوبصورتی نے بدصورتی  اور  بڑھاپے کا روپ لے لیا۔ کس بھروسے پر کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دو گی۔ کس آسرے پر۔

بیگم    : (پھر کروٹ لیتی ہے) ریحانہ بیٹی۔ دروازہ بند کرنا نہ بھول جانا۔

ریحانہ  :اچھا امی۔ بھلا میں کبھی دروازہ بند کرنا بھولتی ہوں۔

بیگم    :نہیں بھولتی تو نہیں کبھی۔ پر یاد دلا دینا تو اچھا ہوتا ہے۔ خدا تجھے خوش رکھے۔

(رضائی میں منھ لپیٹ کر دوسری کروٹ بدل لیتی ہیں۔ پس منظر میں ہلکی سی موسیقی ابھرتی ہے جس میں شہنائی کی آواز بھی شامل ہے جو کہیں دور بج رہی ہے۔ )

ریحانہ  : (بڑبڑاتی ہے)تجھے اچھا رکھے خوش رکھے۔

(ہلکے قدم اٹھاتی ہوئی اپنے پلنگ پر آتی ہے۔ وہ تصویر اٹھا لیتی ہے جو ادھوری رہ گئی ہے  اور   جسے اس نے سروتے سے چیر دیا تھا۔ پھر آپ ہی آپ ہنستی ہے۔ پس منظر کی آواز پرچھا جاتی ہے۔ )

آواز   :یہ تم نے کیا کیا سلیم۔ اتنی بڑی دولت بے کہے بے مانگے میری گود میں ڈال دی۔ ساری دنیا کے دروازے میرے لیے کھول دیے۔ میرے در پر پہلی بار اور  آخری بار محبت نے دستک دی۔ میں بھی جیوں گی میں بھی زندگی کو خوشیوں سے بھر دوں گی۔ کوئی کچھ بھی کہے مجھے کیا! میں جاؤں گی۔ میں اس بار دروازہ بند نہیں کروں گی۔ ہر رات میں دروازہ بند کرتی رہی ہوں۔ آج نہیں۔ آج ہرگز نہیں۔

(پس منظر کی موسیقی چھناکے کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔ )

بیگم    :آج تو سوئے گی نہیں ؟

ریحانہ  :نیند نہیں آ رہی تھی میں نے سوچا ذرا منھ دھولوں طبیعت ٹھیک ہو جائیگی!

بیگم    :جب تک تو نہیں سوتی مجھے بھی نیند نہیں آتی۔

ریحانہ  :مجھے کب تک ساتھ باندھے باندھے پھرو گی امی۔ مجھ سے اتنی محبت نہ کرو کہ مجھے جینا دو بھر ہو جائے۔

بیگم    :ٹھیک ہی تو کہتی ہے مجھے تو کتنا ارمان تھا کہ تجھے پیار سے رخصت کرتی مگر  کیا کروں بچی، قسمت کا کس سے بس چلا ہے (کھانسی دیر تک) میری زندگی میں خوشی کہاں۔

ریحانہ  :ٹھیک ہی توہے امی۔ عورت سب کچھ قربان کرنے کے لیے ہی تو بنی ہے وہ خود کوئی قربانی نہیں مانگتی۔

بیگم    :کیا الٹی سیدھی باتیں سوچنے لگی۔ جا۔ سوجا۔ میں بھی سوتی ہوں۔

(پھر رضائی سے منھ لپیٹ کر کروٹ لے لیتی ہے۔ )

ریحانہ  :امی۔

بیگم    :کیا ہے ؟پھر باتیں شروع کر دیں۔

ریحانہ  :آج رات سلیم بھائی جا رہے ہیں۔

بیگم    :ہاں شام کو رخصت لینے آیا تھا۔ بڑا اچھا لڑکا ہے میرے دل سے سدا اس کے لیے دعا نکلتی ہے۔ خدا کرے ہمیشہ خوش رہے۔ خدا کرے اسی کی طرح کوئی قابل  اور  خوبصورت بیوی ملے۔

ریحانہ  : اور  انھوں نے قابل  اور  خوبصورت کی جگہ پھوہڑ، بدصورت  اور  جاہل لڑکی کو پسند کیا تو؟

بیگم    :خدا نہ کرے وہ کوئی پاگل ہے۔

ریحانہ  :تم نے سنا نہیں۔ فاروقی صاحب کا لڑکا تو ولایت پاس کر کے آیا تھا۔ پانسو۔ سات سو روپیہ کی آمدنی بھی ہے اس نے تو اپنی رفو سے شادی کی ہے۔

بیگم    :رفو کی عمر کیا ہو گی؟

ریحانہ  :میری سی عمر ہو گی اس کی۔ پڑھی لکھی تو بس یونہی سی ہے قرآن مجید تو اسے تم ہی نے ختم کرایا تھا امی، کچھ یونہی سی اردو لکھ پڑھ لیتی ہے۔

بیگم    :ہاں بیٹی قسمت کے کھیل ہیں۔

ریحانہ  : اور رفو کو  کوئی کہتا ہے مرگی کے دورے پڑتے ہیں۔

بیگم    :ہاں جج صاحب کے لڑکے کے ساتھ بڑا ظلم ہوا۔ اپنی رفو کو ایسا نہ چاہئے تھا۔ وہ لڑکا اس کا اتنا خیال رکھتا تھا تو اس کی زندگی اس طرح تباہ نہ کرنی تھی۔

ریحانہ  :مگر  امی اس لڑکے نے تو خود کہا تھا۔

بیگم    :اس نے اچھا کیا تھا مگر  رفو کا بھی کچھ فرض تھا۔ اسے تو کچھ سوچنا چاہئے تھا۔

ریحانہ  : (اعصابی تسبیح کے آثار، آواز کچھ بلند) کیا سوچنا چاہئے تھا اسے یہی کہ وہ آرام سے زندگی نہ گزارے، وہ عمر بھرتڑپ تڑپ کر، بلک بلک کر جان دیتی رہے۔ وہ آزادی کا سانس نہ لے۔ وہ کبھی تازہ ہوا کا سانس نہ لے۔ اس نے بڑا پاپ کیا تا کہ جج صاحب کے لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی۔ جیتے جی گھرکی دیواروں میں چنی رہتی تو بڑا ثواب ہوتا۔

بیگم    : (حیرت سے)بیٹی۔

ریحانہ  :ٹھیک کہہ رہی ہوں نا؟

بیگم    :نہیں میں تو یہ کہہ رہی تھی کہ اسے لڑکے کا بھی دھیان کرنا چاہئے تھا۔

ریحانہ  :کیا دھیان کرنا چاہئے تھا۔

بیگم    :رفو ادھیڑ تھی۔ بیمار تھی۔ ان پڑھ تھی۔ اس کے لڑکے نے اپنی شرافت میں اسے پسند کیا  اور  اپنا سکھ چین رفو پر قربان کرنے پر راضی ہو گیا۔

ریحانہ  :توا س میں رفو کا کیا قصور ہے ؟

بیگم    :اس نے اپنی خوشی کے لیے جج صاحب کے لڑکے کی خوشی قربان کر دی نا، تو سمجھتی ہے وہ اس کے ساتھ خوش رہ سکے گا۔ وہ ان پڑھ، بیمار، بوڑھی بیوی کو گلے میں باندھ کر کب تک خوش رہ سکے گا۔ رفو گردن کا طوق بن جائے گی۔ وہ پاؤں کی بیڑی بن جائے گی۔ یہ بات ٹھیک ہے نا؟

ریحانہ  :میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ میری کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔

بیگم    :اچھا اب بہت باتیں ہو چکیں اب مجھے سونے دے۔

(پھر رضائی میں منہ لپیٹ کر کروٹ لے لیتی ہے۔ ریحانہ پھر آہستہ آہستہ پلنگ سے اٹھتی ہے  اور  آئینہ کے سامنے دوبارہ آ کر کھڑی ہو جاتی ہے وہ دیر تک اسے گھورتی رہتی ہے۔ پیچھے سے اس کے لہجے میں، مگر  ذرا بھاری آواز میں کوئی کہتا ہے۔ )

آواز   :بوڑھی۔

(ریحانہ تکلیف سے اثبات میں سر ہلا  دیتی ہے۔ )

آواز   :بیمار۔

(ریحانہ پھر سر ہِلا  دیتی ہے۔ )

آواز   :وہ دورے جو تمہیں بار بار پڑتے ہیں  اور  سارے گھرکو پریشان کر دیتے ہیں وہ تمہاری زندگی کے ساتھ ہیں۔

(ریحانہ بے قراری  اور  کرب کی حالت میں اسی طرح کھڑی رہتی ہے۔ )

آواز   :ان پڑھ۔ جاہل۔ ۔ ۔ ایک کمزور لمحے میں اس نے تمہیں بلایا۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ تم اپنے بیمار۔ بدصورت  اور  ان پڑھ وجود سے اس کی زندگی تباہ کر دو۔ تم اسے کیا دے سکو گی۔ اسے اتنی بڑی سزا نہ دو۔ خدارا اسے پیار کی اتنی بڑی سزا نہ دو۔ (ریحانہ دونوں ہاتھوں سے کان بند کر لیتی ہے)تم تو انھیں دیواروں میں گھٹ گھٹ کر مر جانے کے لیے پیدا ہوئی ہو۔ تم ایک لاش ہو۔ لاشوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ زندہ انسانوں کے گلے کا طوق بن جائیں۔

(تھوڑی دیر تک ریحانہ اپنے پلنگ پر دونوں ہاتھوں سے اپنا منھ چھپا کر بیٹھی رہتی ہے۔ سسکی کی آواز کبھی کبھی سنائی دیتی ہے شاہانہ بیگم اسی طرح بے خبر پڑی رہی ہیں۔ پھر ذرا ہمت  اور  عزم کے ساتھ چہرے سے دونوں ہاتھ ہٹاتی ہے۔ سفید دوپٹے کے آنچل سے آنسو پونچھتی ہے۔ بستر میں تکیے کے نیچے سے کنجی نکالتی ہے  اور   ارادہ  اور   قوت کے ساتھ قدم اٹھاتی ہے۔ اتنے میں گھنٹہ دو بجاتا ہے جس کی جھن جھناہٹ دیر تک قائم رہتی ہے۔

آہستہ آہستہ قدم بڑھاتی ہوئی دہ کمرے سے باہر نکلتی ہے۔ ہر قدم پر پیانو کے مدھم سر سنائی دیتے ہیں۔ دالان والے دروازے کی بجلی ابھی تک جل رہی ہے۔ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اس دروازے تک پہنچتی ہے۔ آنچل سے دوبارہ آنسو خشک کرتی ہے۔ آنگن  اور  دالان کی طرف نگاہ واپسیں ڈالتی ہے۔ دروازے کے اندر داخل ہو کر دو قدم آگے بڑھتی ہے  اور  لوٹ آتی ہے۔ ایسے قدموں سے جیسے کوئی مردہ چل رہا ہو۔ بجلی بجھاتی ہے۔ دروازہ بند کرتی ہے  اور  اس کی گنڈی میں پڑے ہوئے نالے کو اٹھا کر بند کر دیتی ہے۔ پھر چند لمحے کے لیے اس سے سہارا لے کر روتی رہتی ہے۔ پس منظر میں غمناک موسیقی  اور  دالان کے اندر والے کمرے سے آتی ہوئی مدھم روشنی اس منظر کو  اور   زیادہ ویران و المناک بنا  دیتی ہے۔

پھر آہستہ آہستہ پلنگ پر واپس آتی ہے۔ پلنگ پر بیٹھتی ہے اتنے میں شاہانہ بیگم کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ )

بیگم    :کیا ہے ریحانہ۔ کیا ہے بیٹی؟

ریحانہ  : (رندھی ہوئی آواز میں) کچھ نہیں امی دروازہ بند کرنے گئی تھی۔ میں نے بند کر دیا دروازہ۔

(دور بگھی کے پہیوں کی آواز سنائی دیتی ہے  اور  اسٹیج روشنیاں بجھنی شروع ہو جاتی ہیں۔ پردہ آہستہ آہستہ گرتا ہے  اور  سارا اسٹیج اندھیرے میں دفن ہو جاتا ہے۔

***

ماخذ: ’’میرے اسٹیج ڈرامے‘‘، ادارۂ فروغ اردو نمبر، ۳۷ امین آباد پارک، لکھنؤ

٭٭٭

 

 

 

 

سچ کا زہر

 

 

 

 

 

 

کورس  :سچ مرا دیوتا

سچ ہے انجیل، قرآن، گیتا، خدا

سچ ہے سقراط، عیسیٰ، محمدؐ

سچ شہیدوں کا خوں پیار کا  حوصلہ!

سچ ہے خون کا وہ قطرہ جو مصلوب ہے جس کا سر سولیوں پر چڑھا

بے گناہی کی پاداش میں

زندگی!زندگی!! چیختا

مر رہا ہے

سچ ہے زہریلی ناگن جو ڈستی ہے انسان کے صبر و سکون کو کہ پھر زندگی بھر تڑپتے گزرتی ہے  اور  ایک کانٹا نہیں ایک بھالا۔ نہیں ایک تلوا رہے جس کو تم نے پکارا ضمیر اس کو مانو

سچ وہ بچہ ہے جس کا سر و سینہ نیزوں کی نوکوں سے مجروح ہے پھر بھی ہونٹوں پہ ایک ہلکی مسکان سی ناچتی ہے

وہ سچ اب کہاں ہے

چلو ہم اسے آج دنیا میں ڈھونڈھیں کہیں دیکھو سقراط کی طرح وہ قید خانے میں بیٹھا

زہر کا پیالہ پیتا نہ ہو

کہیں شاہراہوں پہ وہ

کسی تنگ و تاریک چورا ہے پر

پرانی سولی پر لٹکا نہ ہو اور

اس کی ہتھیلی میں کیلوں کے سوراخ ہوں

وہ شاید کسی کربلا میں

کسی شمر کے خنجروں کے تلے

خون میں لتھڑا ہوا

زندگی کے لئے خون بہا دے رہا ہو

جسے آج سچ سے محبت ہو اب بھی

مرے ساتھ آئے

قبل اس کے کہ جھوٹ آئے  اور

ہم سب کو نگل لے

ہیرا لال:مجھے سزا دیجئے سپرنٹنڈنٹ صاحب۔ مجھے سزا دیجئے۔ آپ نہیں جانتے میں کون ہوں۔ میرا نام ہے ہیرا لال میں آپ کے شہر کے ہر چورا ہے پر پچھلے دس سال سے زہر بیچ رہا ہوں۔ جی ہاں زہر!ہر روز چورا ہے پر سیکڑوں آدمی میری چکنی چپڑی باتیں سنتے رہتے ہیں۔ میں کبھی تو لکڑ توڑ چورن کے نام پر لسوڑھے کی پسی ہوئی پتیاں بیچتا ہوں۔ کبھی دانتوں کو ہر مرض سے بچانے  اور  ہر درد کو دور کرنے کا منجن بیچتا ہوں۔ جس میں پسی ہوئی کھریا کے سوا  اور   کچھ نہیں ہوتا۔ کبھی ریلوے یارڈ کی مٹی کی پڑیاں باندھ باندھ کر آنکھوں کا سرمہ کہہ کر بیچتا ہوں۔ میں کہتا ہوں میں مجرم ہوں میں نے جنتا کی تندرستی برباد کر کے اپنی جیبیں بھری ہیں۔ مجھے کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہئے۔ میں نے پاپ کیا ہے سپرنٹنڈنٹ صاحب! میں پاپی ہوں۔ آپ سن رہے ہیں سپرنٹنڈنٹ صاحب میں سچ کہتا ہوں۔

سپرنٹنڈنٹ     :سن رہا ہوں۔

ہیرا لال:تو پھر مجھے ہتھکڑی پہنائیے۔ جیل خانے بھیجئے۔ مجھے اپنے پاپ کی سزا ملنی چاہئے۔

سپرنٹنڈنٹ     : (گھنٹی بجاتا ہے) ارے کوئی ہے ؟

اردلی   :سرکار!

سپرنٹنڈنٹ     :انھیں باہر نکال دو!

ہیرا لال:آپ کیا کر رہے ہیں ؟میں اپنے جرم کی سزا مانگتا ہوں  اور  آپ مجھے پھر جرم کرنے کے لئے آزاد چھوڑ رہے ہیں۔ میں سچ کہتا ہوں۔ میں پاپی ہوں۔ دھوکے باز ہوں مجھے سزا دیجئے۔

سپرنٹنڈنٹ     :دیکھتے کیا ہو۔ ۔ ۔ لے جاؤ!

اردلی   :چلئے!

ہیرا لال:میری بات توسن لیجئے!

سپرنٹنڈنٹ     :کیا کوئی  اور  بات بھی کہنا چاہتے ہو؟

ہیرا لال:جی ہاں ؟کیا آپ کے خیال میں یہ کوئی سنگین جرم نہیں ہے۔ لوگوں کو دھوکا دینا، ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنا، انھیں طرح طرح کے بھلاوے دینا، کوڑا کرکٹ کو مرہم  اور  منجن کا نام دے کر انھیں بیوقوف بنانا، ان کی تندرستی تباہ کرنا دھوکا نہیں ہے ؟

سپرنٹنڈنٹ     :ہے۔ ضرور ہے۔

ہیرا لال:تو آپ کے خیال میں میں سچ نہیں بول رہا ہوں۔

سپرنٹنڈنٹ     :سچ کا نام نہ لیجئے۔ میرے سامنے یہ لفظ بھی زبان سے مت نکالئے۔ آپ جانتے ہیں اس شہر میں تین دن سے ہر مرد عورت بچے جوان بوڑھے کو سچ کا بخار چڑھا ہوا ہے۔ ہر آدمی سچ بول رہا ہے۔ اپنے زندگی بھرکے گناہ بیان کر کے ہم سے سزا چاہ رہا ہے آپ جانتے ہیں اس کا کیا نتیجہ ہوا ہے ؟

ہیرا لال:کیا کوئی بہت برا نتیجہ نکلا ہے ؟

سپرنٹنڈنٹ     :جی ہاں۔ برا  اور  بہت برا!اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے ہیرا لال جی کہ ہماری جیل  اور  حوالات میں تل رکھنے کی جگہ نہیں ہے۔ عدالتوں میں مقدموں کی تعداد دس گنی ہو گئی ہے۔ اسٹامپ  اور  واٹر مارک بازار سے غائب ہو گئے ہیں  اور  آپ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں آپ کو جیل بھیج دوں۔

ہیرا لال:کیا ہمارا شہر پاپیوں  اور  مجرموں سے بھرا ہوا تھا؟

سپرنٹنڈنٹ     :جی ہاں !ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ کسی کو گمان بھی ہو سکتا تھا کہ اس شہر کا ہر دسواں آدمی پاپی ہے !اس کا نتیجہ ہے کہ ہمارے شہر کی عزت آبرو مٹی میں مل گئی ہے۔ سارا ملک بلکہ یوں کہئے ساری دنیا اسے پاپیوں کا شہر سمجھتی ہے۔ اس سچ نے ہمیں غارت کر دیا ہے۔ جائیے ہیرا لال جی جائیے اس سچ کے چکر میں نہ پڑئیے۔

ہیرا لال:ہری اوم!ہری اوم!!ہری اوم!!!

سپرنٹنڈنٹ     :ہری اوم کیا ہنومان چالیسا پڑھئے ہنومان چالیسا!اگر اسی طرح سچ بولتی رہی جنتا تو مجھے بتائیے کہ دنیا کا کاروبار کیسے چلے گا۔

ہیرا لال:تو آپ کے خیال میں دنیا جھوٹ کے سہارے چلتی ہے ؟

سپرنٹنڈنٹ     :جی ہاں، بالکل یہی خیال ہے میرا۔ دیکھئے جب سے اس شہر پر سچ بولنے کا دورہ پڑا ہے وکیلوں کے گھر فاقے ہو رہے ہیں۔ ان کے بیوی بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔

ہیرا لال:کیوں ؟

سپرنٹنڈنٹ     :اس لئے کہ ان کے گھر والے جھوٹ بولنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کے موکل جھوٹ بولنے کو تیار نہیں ہیں۔

ہیرا لال:ہری اوم!ہری اوم!!

سپرنٹنڈنٹ     :اس لئے کہتا ہوں ہیرا لال جی، رام رام کیجئے  اور  اپنے گھر جائیے۔

ہیرا لال:نہیں سپرنٹنڈنٹ صاحب۔ میری آتما کو شانتی نہیں ملے گی۔ مجھے سزا دیجئے۔ مجھے جیل بھیج دیجئے۔

سپرنٹنڈنٹ     :جیل میں جگہ نہیں ہے۔ ایسے چھوٹے چھوٹے مجرم کے لئے بالکل جگہ نہیں ہے۔

ہیرا لال:سزا مجرم کا پیدائشی حق ہے۔ میں واپس جانے سے انکار کرتا ہوں۔ آپ مجھے اردلیوں سے اٹھوا کر باہر بھی پھنکوا دیں گے تومیں پھر لوٹ آؤں گا۔

سپرنٹنڈنٹ     :میں پھر باہر پھنکوا دوں گا۔

ہیرا لال:ایسا کیجئے میں انتظار کرتا ہوں۔ مجھے یہیں بیٹھا رہنے دیجئے گا۔ جب حوالات میں جگہ خالی ہو جائے مجھے بھیج دیجئے گا۔

سپرنٹنڈنٹ     :کوئی امید نہیں۔

ہیرا لال:اس میں آپ کا کیا نقصان ہے۔ مجھ پر آپ کی بڑی کرپا ہو گی۔ میں پھر دھوکا دینے کے لئے سزا کے بغیر دنیا میں واپس جانا نہیں چاہتا۔

سپرنٹنڈنٹ     :اچھا آپ کی مرضی۔ بیک روم میں بیٹھ جائیے۔

ہیرا لال:شکریہ۔

سپرنٹنڈنٹ     :اردلی۔ ۔ ۔ دیکھو اب کسی کو اندر مت آنے دینا۔

اردلی   :جو حکم سرکار!

سپرنٹنڈنٹ     :چاہے کوئی کتنا ہی سچ بولے۔ ڈنڈے مار مارکر سب کا سچ نکال دو۔ خبردار جو کسی کو اندر گھسنے دیا!

(تھوڑی دیر بعد اردلی گھبرایا ہوا داخل ہوتا ہے۔ )

اردلی   :صاحب!صاحب ڈاکٹر شرما!

ڈاکٹر شرما       :معاف کیجئے گا سپرنٹنڈنٹ صاحب بغیر اطلاع کے آنا پڑا۔

سپرنٹنڈنٹ     :ڈاکٹر صاحب۔ آپ شرمندہ کر رہے ہیں۔ آپ کے خادم ہیں۔ فرمائیے کیسے تکلیف فرمائی۔ میں آپ کی کیا سیوا کر سکتا ہوں۔

ڈاکٹر   :پہلی سیوا تو یہ ہے سپرنٹنڈنٹ صاحب کہ مجھے آج سے ڈاکٹر نہ کہئے۔

سپرنٹنڈنٹ     :تو کیا آپ بھی۔ ۔ ۔

ڈاکٹر   :آپ جانتے ہیں آج تک میں نے کیا کیا ہے۔

سپرنٹنڈنٹ     :میں کیا سارا شہر جانتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ۔ آپ نے اس شہر کے بے شمار آدمیوں کو شفا دی ہے۔ اس شہر میں کیا آس پاس کے کئی شہروں میں آپ سے بڑا ڈاکٹر۔ ۔ ۔

ڈاکٹر   :مگر  اصلیت یہ ہے کہ میں انسانوں کے دکھ درد سے ان کی بیماری آزاری سے چاندی بناتا رہا ہوں میں نے انسان کے دک درد کی تجارت کی ہے۔

سپرنٹنڈنٹ     :یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں ؟

ڈاکٹر   :میری بغل میں آئیڈیل فارمیسی کے نام سے دواؤں کی جو دوکان ہے وہ بھی میری ہی ہے آپ جانتے ہیں کیوں ؟اس لئے کہ میں اس دوکان کے ذریعے ذخیرہ اندوزی  اور  نفع بازی کرنا چاہتا ہوں اس دوکان کو ہر قسم کی دواؤں کے لائسنس مل گئے ہیں اس دوکان کی ساری دوائیں جعلی ہیں ان میں ملاوٹ ہے۔ اسٹرپٹومائی سین میں کھریا پیس کر ملائی گئی ہے۔ اصلی شیشیاں خالی کر کے ان شیشیوں میں ملاوٹ والی دوائیں انجکشن کی سوئی کے ذریعے داخل کی گئی ہیں۔ میں نے اس  بے ایمانی کے دھندے سے جنتا کو دھوکا دیا ہے۔

سپرنٹنڈنٹ     :ناممکن ہے آپ ایسا دھر ماتما یہ سب نہیں کر سکتا۔ آپ نے شہر کی دھرم شالا بنوائی ہے داؤ جی کے مندر کے لئے سب سے بڑا دان آپ ہی نے دیا تھا۔ مجھے وشواس نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر   :میں سچ کہتا ہوں بھگوان کی سوگند کھا کر کہتا ہوں۔

سپرنٹنڈنٹ     :آپ جانتے ہیں یہ جرم ہے بہت بڑا جرم ہے۔

ڈاکٹر   :جانتا ہوں  اور  اس جرم کی سزا پانے کے لئے تمہارے پاس آیا ہوں۔

سپرنٹنڈنٹ     :سوچ لیجئے ڈاکٹر صاحب۔

ڈاکٹر   :اچھی طرح سوچ لیا وشواس کرو۔ ۔ ۔ میں وہی ڈاکٹر شرما ہوں جس نے ایک ہزار روپیہ لے کر سیٹھ دلی چند کی بیوی کو زہر کے انجکشن لگائے تھے۔ کیونکہ اس کی زندگی کا بیمہ ہو چکا تھا  اور  سیٹھ دلی چند میری مدد سے اسے موت کے گھاٹ اتار کر انشورنس کی ساری رقم وصول کرنا چاہتا تھا۔

سپرنٹنڈنٹ     :آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟

ڈاکٹر   :جو کچھ کہہ رہا ہوں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہہ رہا ہوں۔

سپرنٹنڈنٹ     :یہ تو سراسر قتل ہے!

ڈاکٹر   :میں نے قتل کیا ہے!

سپرنٹنڈنٹ     :تو مجھے آپ کو گرفتار کرنا پڑے گا۔

ڈاکٹر   :گرفتار کرو ضرور کرو!بلکہ مجھے پھانسی پر چڑھا دو۔ جب ہی میرا ضمیر تسکین پائے گاجو زندگی جنتا کی سیوا میں کٹنی چاہئے تھی وہ دھوکا  اور   جعل سازی میں کٹ گئی۔ کتنے جھوٹے سرٹیفکٹ لکھے۔ کتنے جھوٹے پوسٹ مارٹم کی رپورٹیں بنائیں۔ کتنوں کو جان بوجھ کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مجھے پھانسی ہی ہونی چاہئے۔

سپرنٹنڈنٹ     :یہ میرے اختیار میں نہیں ہے۔ ۔ ۔ یہ تو بتائیے سیٹھ دلی چند کہاں ہیں ؟

ڈاکٹر   :اس نے خودکشی کر لی۔

سپرنٹنڈنٹ     :چلئے اچھا ہی ہوا۔ (گھنٹی بجاتا ہے) اردلی! ہتھکڑی لاؤ!

اردلی   :یہ لیجئے حضور!

سپرنٹنڈنٹ     :مجھے بہت افسوس ہے ڈاکٹر شرما(ہتھکڑی پہناتا ہے) اردلی! سپاہیوں کو بھیجو حوالات سے لے جائیں۔

اردلی   :بہت اچھا۔ حضور!

سپرنٹنڈنٹ     : اور  دیکھو۔ ایک سپاہی کو ہماری کوٹھی پر بھیجو۔ یہ معلوم کر کے آئے کہ میم صاحب مسوری سے آ گئیں یا نہیں۔ وہ اپنے بیٹے نریندر سے ملنے مسوری گئی تھیں۔ آج آتی ہوں گی۔

اردلی   :بہت اچھاحضور!

(ٹیلیفون کی گھنٹی بجتی ہے، بجتی رہتی ہے سپرنٹنڈنٹ اس کا جواب دیتا ہے۔ )

سپرنٹنڈنٹ     :ہیلو!۔ ۔ ۔ بول رہا ہوں۔ ۔ ۔ کیا کہا۔ ۔ ۔ دودھ والے تھانے کو گھیرے کھڑے ہیں۔ ۔ ۔ ؟کیا کہتے ہیں۔ ۔ ۔ ؟(ہنستا ہے) سزا چاہتے ہیں۔ دودھ میں پانی ملانے کی۔ ۔ ۔ کیا کہا؟۔ ۔ ۔ نہیں نہیں۔ ۔ ۔ جیل میں بالکل جگہ نہیں ہے۔ ۔ ۔ پچاس پچاس جوتے لگاؤ اور  چھوڑ دو۔ (غصے سے ٹیلیفون کا ریسیور رکھ دیتا ہے) کم بخت سب کے سب اسی مرض میں مبتلا ہیں سچ بولنے کی بیماری!ہونہہ!!بڑے آئے ایماندار کہیں کے!

(باہر سے شور کی آواز آتی ہے۔ )

اردلی   :نہیں جا سکتے !صاحب کا حکم ہے۔

پرنسپل:مجھے کوئی نہیں روک سکتا!

اردلی   :نہیں جانے دوں گا۔ منع کر دیا ہے سنتے نہیں ؟

پرنسپل:جانتا ہے کس سے بات کر رہا ہے ؟کالج کے پرنسپل کا راستہ روکتا ہے۔ نالائق!

سپرنٹنڈنٹ     :اندر آنے دو۔ پرنسپل صاحب کو اندر آنے دو۔

پرنسپل:نمستے سپرنٹنڈنٹ صاحب!

سپرنٹنڈنٹ     :معاف کیجئے گا پرنسپل صاحب میرا اردلی نرا اجڈ ہے۔ بڑا جنگلی ہے کمبخت۔ آدمی دیکھ کے بات نہیں کرتا۔ میں تو خود آپ کے پاس آنے والا تھا۔

پرنسپل:لیجئے میں آ گیا  اور  آگیا لایا گیا ہوں۔

سپرنٹنڈنٹ     :پرسوں سے جو واقعات اس شہر میں ہو رہے ہیں۔ ان سے میری عقل چکرا گئی ہے۔ میں آپ جیسے کسی عالم فاضل سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آخر  سچ کیا ہے۔ وہ جومصیبت میں ڈالے یا  انسانوں کو مصیبت سے نکالے۔

پرنسپل:یہ میں کچھ نہیں جانتا کپتان صاحب۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ ضمیر کے اندرجو کالا ناگ چھپا رہتا ہے۔ آتما کا جو زہر ہے وہی سچ ہے  اور   آج وہی کالا ناگ مجھے آپ کے پاس تک کھینچ لایا ہے۔

سپرنٹنڈنٹ     :تو کیا آپ بھی؟

پرنسپل:میں نہیں جانتا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ مجھے جاننے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ میں تو یہ بتانے آیا ہوں کہ جسے آپ عالم فاضل کہتے ہیں۔ علم کا اوتار  اور  گیان کا دیوتا جانتے ہیں وہ ایک فریبی ہے فراڈ ہے!

سپرنٹنڈنٹ     :میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔

پرنسپل:آج تک میرے کالج میں جتنے لیکچر ر رکھے گئے ہیں۔ سب کے سب میرے رشتے دا رہیں یا میرے کسی رشتے دار کے رشتہ دار ہیں۔ ہر جگہ کے لئے ایک سے ایک قابل آدمی نے درخواست دی لیکن کوئی ہماری کسوٹی پر پورا نہیں اترا۔

سپرنٹنڈنٹ     :لیکن اس میں آپ کا کیا  قصور ہے۔ تقرر سلیکشن کمیٹی کرتی ہے۔

پرنسپل: اور  سلیکشن کمیٹی ہم مقرر کرتے ہیں۔ اس کے ممبروں میں ہمیشہ میں نے ان لوگوں کو رکھا ہے جو میری ہاں میں ہاں ملا سکیں جنھیں آموں کے زمانے میں آٹھ دس ٹوکرے آم بجھوا سکوں یا ان سے وصول کر سکوں۔ جن کی کمیٹیوں میں خود جا کر ان کی ہاں میں ہاں ملا سکوں۔ ان سب کو میں نے رشوت سے زیر کر رکھا تھا۔ کنبہ پروری  اور  جعل سازی کیا پاپ نہیں ہے ؟

سپرنٹنڈنٹ     :ضرور ہے۔ لیکن آپ نے انٹرویو کر کے تقرر کئے ہیں۔

پرنسپل:انٹرویو بھی فراڈ ہے جس کو لینا ہوتا ہے۔ اس کے ہر جواب پر پورا بورڈ جھوم جاتا ہے۔ میرے کالج کے استاد اس کے نام سے مقالہ لکھتے  اور   چھپواتے۔ اس کے لئے ریسرچ کا خاکہ تیار کرتے  اور  کہہ سن کر(Examiner)   سے اسے پی ایچ ڈی کی ڈگری دلواتے تھے۔ یہی نہیں ہماری سانٹھ گانٹھ اوپر بورڈ تک رہتی تھی۔ ہم دوسرے تیسرے سال نصاب کی نئی کتاب اپنے ہی ذمے لے لیتے  اور  بک سیلروں سے رشوت لے کر پرانی کتاب کی جگہ ان کی کتابیں نصاب میں داخل کر دی جاتی تھیں  اور  ہمارے وارے نیارے ہو جاتے تھے۔ کیا آپ کے نزدیک یہ پاپ نہیں ہے ؟

سپرنٹنڈنٹ     :آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ؟

پرنسپل:میں آپ سے سزا چاہتا ہوں۔ کپتان صاحب!سخت سے سخت سزا چاہتا ہوں۔ میں مجرم ہوں۔ میں نے کنبہ پروری نفع خوری  اور  بے ایمانی ہی نہیں کی ہے۔ میں نے قوم کی امانت میں خیانت کی ہے۔ میں نے آنے والی نسل کی زندگی برباد کر دی ہے۔ انھیں اپنی سیاست میں استعمال کرنے کی غرض سے ان کے گروہ بنا کر انھیں غنڈہ گردی سکھائی۔ انھیں اپنے گروہ کی طاقت بڑھانے کے لئے استعمال کیا ہے۔ میں نے انھیں صرف خود غرضی ہوس  اور  غنڈہ گردی کی تعلیم دی ہے۔ میں نے انھیں گیان کے نور کے بجائے جہالت کا اندھیرا ہی دیا ہے۔ کیا قوم مجھے سزا نہ دے گی؟مجھے سزا  دیجئے کپتان صاحب سزا دیجئے ؟

سپرنٹنڈنٹ     :سزا دینا میرے اختیار میں نہیں ہے۔ میں صرف آپ کو گرفتار کر سکتا ہوں۔

پرنسپل:شکریہ! آپ نے میرے دل کا بہت بڑا بوجھ دور کر دیا!

سپرنٹنڈنٹ     : (گھنٹی بجاتا ہے) اردلی! ہتھکڑی لگا کے حوالات لے جاؤ!

اردلی   :جو حکم حضور!

(پچھلے کمرے سے ہیرا لال کی آواز آتی ہے۔ )

ہیرا لال:میرے لئے کوئی جگہ خالی ہوئی کپتان صاحب؟

سپرنٹنڈنٹ     :سن رہے ہو ہیرا لال!غضب خدا کا انصاف  اور   تعلیم ہی پورے سماج میں سب سے اعلیٰ محکمے تھے۔ ان کا یہ حال ہے۔ اے خدا۔ ہے بھگوان!

ہیرا لال:تو پھر میرے لئے کیا حکم ہے ؟

سپرنٹنڈنٹ     :بیٹھے رہئے خاموشی سے۔

(باہر سے کار کا ہارن سنائی دیتا ہے۔ )

اردلی   :صاحب!صاحب!!

سپرنٹنڈنٹ     :کوئی بھی ہو کسی کو اندر مت آنے دو!

اردلی   :مگر  صاحب سیٹھ چھبیل داس جی ہیں۔

سپرنٹنڈنٹ     :وہ خود!؟

اردلی   :جی ہاں وہ خود آئے ہیں اپنی کار میں بیٹھ کر۔ بلا لاؤں سرکار؟!

سپرنٹنڈنٹ     :بلا لو۔

سیٹھ    :نمسکار۔ کپتان صاحب۔ کہئے کیا حال ہیں ؟

سپرنٹنڈنٹ     :نمسکار۔ آپ کی کرپا ہے سیٹھ جی۔ آپ نے کیسے تکلیف کی؟

سیٹھ    :آپ کو ذرا سی تکلیف دینی ہے۔

سپرنٹنڈنٹ     :جی فرمائیے میں کیا سیوا کر سکتا ہوں ؟

سیٹھ    :آپ کے پاس دیا سلائی ہو گی؟

سپرنٹنڈنٹ     :دیا سلائی؟جی ہاں یہ لیجئے۔ یہ رہی دیا سلائی!

سیٹھ    :میں اپنا آخری سگار جلانا چاہتا ہوں۔ اصلی کرونا ہے۔ آپ بھی پی لیجئے۔

سپرنٹنڈنٹ     :شکریہ!

سیٹھ    :یہاں نہیں ملنا۔ خاص کیوبا کا بنا ہوا ہے بلکہ اسپیشل میرے ہی لئے بنتا ہے  اور  خاص میرے لئے اسمگل ہوتا ہے۔ ورنہ آپ کی سرکار درآمد کرنے دیتی ہے کسی اچھی چیز کو؟

سپرنٹنڈنٹ     :اسمگل؟

سیٹھ    :جی ہاں۔ سیٹھ چھبیل داس جس نے دھرم شالائیں۔ تین ودھوا آشرم  اور   پانچ اناتھ آشرم کھولے ہیں۔ آپ کے ملک کے اسمگلر کنگ ہے۔ اسمگلر کنگ!!بڑی حیرانی ہو رہی ہے آپ کو۔ جی ہاں آپ سوچتے ہوں گے جس کے دو روز نامے نکلتے ہیں۔ تین ہفتہ وار اخبار اور  پچیس اخبار جس کی تعریف میں روز کوئی نہ کوئی خبر چھاپتے ہیں۔ کیونکہ وہ سب اس کے کارخانوں کے اشتہاروں پر چلتے ہیں۔ وہ شخص جس کے اشارے پر پارلیمنٹ کے ایک دو نہیں دس بارہ ممبر ناچتے ہیں۔ بھلا ایسا آدمی اسمگلر کیسے ہو سکتا ہے ؟

سپرنٹنڈنٹ     :سگاروں کی اسمگلنگ خاصی بے ضر ر چیز ہے!

سیٹھ    :جی نہیں صرف سگاروں کی کیوں ؟کوکین کی اسمگلنگ، افیم کی اسمگلنگ، غرض ہراس چیز کی اسمگلنگ، اناج  اور  چاول کی اسمگلنگ، دواؤں کی اسمگلنگ غرض ہر چیز کی اسمگلنگ جس کا کاروبار ہو سکتا ہے۔ جو فارن ایکسینج پورے ملک نے خون پسینہ ایک کر کے جمع کیا تھا۔ وہ میں نے پانی کی طرح بہا دیا۔ اگر آپ آج پتہ لگانا چاہیں تو نیویارک،  لندن، سوئزر لینڈ کے بنکوں میں میرا حساب ایک نہیں کئی کئی ناموں سے ملے گا۔ یہ سب روپیہ چوری کا ہے۔ یہ سب کھلم کھلا دھوکے بازی کا روپیہ ہے!

سپرنٹنڈنٹ     :آپ ٹھیک کہتے ہیں۔

سیٹھ    :میرے ذخیروں میں آج بھی لاکھوں من اناج لاکھوں من شکر اور   لاکھوں من دوسری ضرورت کی چیزیں جمع ہیں۔ ۔ ۔  ان کی قیمتیں چڑھ رہی ہیں۔ جنتا فاقوں سے مر رہی ہے۔ میں اس کے خون سے سونا بنا رہا ہوں۔ مجھے دکھائی دے رہا ہے کہ بنگال کا سا قحط ایک بار پھر پڑنے والا ہے۔ مہنگائی اپنے پورے زور پر ہے۔ میں لکھ پتی سے کروڑ پتی  اور   کروڑ پتی سے ارب پتی ہونے والا ہوں۔ لیکن میں باپ کی کمائی کھانا نہیں چاہتا۔ آج میں اپنے گوداموں کی کنجیاں آپ کے حوالے کرنے آیا ہوں۔ یہ لیجئے!!

(کنجیاں دیتا ہے۔ )

سپرنٹنڈنٹ     :دھنیہ واد!آج میرے دل میں انصاف آ ہی گیا۔

سیٹھ    :آج میرے دل کے انصاف سے کیا ہوتا ہے میری پچھلی زندگی کے پاپ تو اس سے نہیں دھل سکتے۔ آپ جانتے ہیں۔ میں نے آج تک کبھی انکم ٹیکس کی پوری کیا آدھی رقم بھی ادا نہیں کی۔ میں مجرم ہوں۔ پاپی ہوں۔ میرے سارے بہی کھاتے جعلی حساب بنانے میں ماہر ہیں۔

سپرنٹنڈنٹ     :آپ کو خوشی ہو گی کہ وہ سب ماہرین اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش کر چکے ہیں۔

سیٹھ    :مجھے معلوم ہے۔ لیکن آپ کو سب معلوم نہیں ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ میری پندرہ بڑی بڑی ملیں  اور  کارخانے ہیں۔ ان میں پانچ ہزار سے زیادہ مزدور کام کرتے ہیں۔ ان کو اور   ان کی یونینوں کو قابو میں رکھنے کے لئے میرے پاس غنڈوں کی ایک فوج ہے۔ جس سے کبھی کبھی میں ہندو مسلم فسادات بھی کراتا ہوں۔ ان ہی غنڈوں میں بعض مشہور ڈکیت ہیں جن کی ڈکیتوں میں مجھے بھی حصہ ملتا ہے۔

سپرنٹنڈنٹ     :وہ سب ڈکیت خود کو گرفتار کرا چکے ہیں۔

سیٹھ    :مجھے معلوم ہے۔ جس انکم ٹیکس آفیسر نے میرے حسابات کی جانچ پڑتال کر کے بلیک کے روپیہ کی رپورٹ لکھی تھی  اور  ایک لاکھ روپیہ انکم ٹیکس کی بقایا نکالی تھی۔ آپ جانتے ہیں میں نے اس کاکیا کیا؟

سپرنٹنڈنٹ     :رشوت دی؟

سیٹھ    :مگر  اس نے رشوت نہیں لی۔

سپرنٹنڈٹ      :اسے ڈرایا دھمکایا!

سیٹھ    :وہ پھر بھی نہیں مانا۔ میں نے اسے چلتی گاڑی میں قتل کرا دیا۔ مجھے اس طرح نہ دیکھو میں نے اسے قتل کرا دیا۔ سنتے ہو میں نے اسے قتل کرا دیا! میں قاتل ہوں !سیٹھ چھبیل داس قاتل ہے۔ اسے گولی ماردو !!

سپرنٹنڈنٹ     :آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟آپ جانتے ہیں اسے اقبال جرم سمجھا جائے گا۔

سیٹھ    :اچھی طرح جانتا ہوں۔ لیکن میں تمہیں رشوت نہیں دوں گا۔ میرے چار بنک ہیں۔ ان میں سے ایک کا دیوالہ میں نے جان بوجھ کر نکالا تھا۔ ان سب کا روپیہ جمع کرنے والوں سے لیتا ہوں  اور  اپنے بزنس میں لگاتا ہوں۔ لیکن اب میں اس رقم میں سے ایک پیسے کا بھی حقدار نہیں ہوں۔ میں تمہیں رشوت نہیں دوں گا۔ میرا اقبال جرم لکھو۔ میرے اوپر مقدمہ چلاؤ۔ میں ذلت و رسوائی  اور  موت کا مستحق ہوں۔ مجھے موت دے دو۔ میرے دل پرسے یہ بوجھ اسی وقت اٹھے گا۔

سپرنٹنڈنٹ     : (زور سے کئی بار گھنٹی بجاتا ہے)اردلی!سیٹھ جی کا بیان لکھواؤ اور  ان کی کار گیراج میں بند کر دو!

اردلی   :جو حکم سرکار!

سپرنٹنڈنٹ     :تم سے کتنی بار کہا  جائے کسی کو مت آنے دو سمجھے ؟!

اردلی   :جی سرکار۔

سپرنٹنڈنٹ     :جی سرکار!جی سرکار!!کیا لگا رکھی ہے۔ اب میں کسی سے نہیں ملوں گا۔ ہر گز ہر گز نہیں ملوں گا!!

اردلی   :مگر  سرکار۔ ۔ ۔

سپرنٹنڈنٹ     :اگر مگر  کیا کرتا ہے ؟

اردلی   :حضور میم صاحب!

سپرنٹنڈنٹ     :آ گئی ہیں ؟

اردلی   :جی سرکار!

سپرنٹنڈنٹ     :تو بھیجو انھیں جلدی اندر بھیجو۔

اردلی   :بہت اچھا سرکار!

سپرنٹنڈنٹ     :اوہ ڈارلنگ!شما کرنا اس گدھے اردلی کوتو تم جانتی ہو۔ بالکل بیوقوف ہے۔ آج کام بہت تھا۔ میں نے کہہ دیا تھا آج میں کسی سے نہیں ملوں گا۔ اس کم بخت نے تمہیں بھی روک لیا۔ تم اتنی خاموش کیوں ہو۔ سفر کی تکان ہے۔ شاید چائے پیو گی؟

بیوی   :نہیں۔

سپرنٹنڈنٹ     :تم اتنی اداس کیوں ہو؟خیریت توہے نریندر تو اچھا ہے ؟

بیوی   :ہاں۔ اچھا ہے۔

سپرنٹنڈنٹ     :پھر کیا بات ہے ؟

بیوی   : (پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے) نریندر  کامنی سے شادی کر رہا ہے ؟

سپرنٹنڈنٹ     :ہمارا بیٹا نریندر شادی کر رہا ہے ؟

بیوی   :کامنی سے!

سپرنٹنڈنٹ     :کامنی؟ارے وہی اپنے یار جوگندر سنگھ کی لڑکی؟نریندر اس سے شادی کر رہا ہے تو کرنے دو۔ اس میں ایسی گھبرانے کی کیا بات ہے ڈارلنگ! میں تو ڈر گیا تھا۔

بیوی   :بڑا انیائے ہو جائے گا۔

سپرنٹنڈنٹ     :تمہارا مطلب ہے ذات برادری کا فرق ہے۔ میں نہیں مانتا ذات برادری کے ڈھکوسلوں کو۔

بیوی   :نہیں !تم سمجھتے کیوں نہیں۔ وہ دونوں سگے بہن بھائی ہیں ؟

سپرنٹنڈنٹ     :کیا کہا؟تو کیا نریندر میرا بیٹا نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تم بھی مجھ سے دغا بازی کرتی رہی ہو۔ تم میرے دوست جوگندر سنگھ کے ساتھ گلچھرے اڑاتی رہی ہو!میں برداشت نہیں کر سکتا۔ (چیخ کر) نکل جاؤ! نکل جاؤ!میرے سامنے سے دور ہو جاؤ!میں کہتا ہوں چلی جاؤ!!

بیوی   :میں تم سے کچھ بھی چھپانا نہیں چاہتی۔ میں  اور  جوگندر کالج کے زمانے سے ایک دوسرے سے پریم کرتے تھے۔

سپرنٹنڈنٹ     : (بات کاٹ کر) بند کرو، پریم کہانی۔ میں کچھ سننا نہیں چاہتا۔ نکل جاؤ!

بیوی   :میں سچ کہہ رہی ہوں۔ میں نے زندگی میں کبھی تم سے محبت نہیں کی۔ میں تمہاری محبت کے قابل نہیں تھی۔ میں نے ہر بار تمہیں فریب دینے کی کوشش کی۔ میں نے جوگندر سے پریم کیا۔ میں نے تمہیں دھوکا دیا ہے۔ میں نے ایک لمحے کے لئے بھی تمہیں نہیں چاہا۔ میں دھوکے باز ہوں مجھے سزا دو!بھگوان کی قسم میں سچ کہہ رہی ہوں۔ بالکل سچ کہہ رہی ہوں۔

سپرنٹنڈنٹ     :سچ سے مجھے نفرت ہے سنا تم نے ؟مجھے سچ سے نفرت ہے۔ سچ بولنے والوں سے نفرت ہے۔ سچ زہریلا ناگ ہے جو زندگی بھر کے سکھ  اور   شانتی کو ڈسے لے رہا ہے (زور سے گھنٹی بجاتا ہے  اور  چیختا ہے) اردلی! اردلی!!

اردلی   :جی سرکار!

سپرنٹنڈنٹ     :میم صاحب کولے جاؤ۔ ان کا بیان قلم بند کراؤ۔ ۔ ۔  لے جاؤ!!

اردلی   :بہت اچھا حضور!

(دونوں چلے جاتے ہیں)

سپرنٹنڈنٹ     :تو یہ ہے اس ڈرامے کا انجام!میں یہ توہین برداشت نہیں کروں گا۔ اس کا علاج موت ہے صرف موت!!

(وقفہ)

ہیرا لال:حوالات میں کوئی جگہ خالی ہوئی کپتان صاحب!(گولی کی آواز ہوتی ہے۔ )ارے یہ کیا؟کپتان صاحب!آپ نے یہ کیا کیا۔ آتم ہتیا۔ ۔ ۔  اردلی!سپاہیو!کپتان صاحب نے خودکشی کر لی۔ ۔ ۔ پستول سے گولی مار لی!!دیکھتے ہو سچائی کیسی بھیانک ہے ؟کیسی خطرناک ہے۔ ۔ ۔  اعلان کر دو آج سے کوئی سچ نہ بولے۔ ۔ ۔  آج سے کوئی جھوٹ کو برا نہ کہے۔ ۔ ۔ سچائی بڑی بھیانک ہے!!

(پردہ)

***

ماخذ: ’’مورپنکھی‘‘ ( اور  دوسرے ڈرامے)، مکتبۂ دین و ادب، لکھنؤ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تماشا  اور  تماشائی

(غالبؔ پر ایک اسٹیج ڈرامہ)

 

 

 

 

 

 

 

 (غالب کی غزلوں کے مختلف ٹکڑے گاتے ہوئے مختلف لوگ اسٹیج سے گزرتے ہیں ان میں کوئی ٹکڑا کتھک کے رقص کا ہے تو کوئی فلمی موسیقی کا۔ کوئی قوالی کا ہے تو کوئی کسی ڈرامے کا۔ )

 (دروازے پر دستک۔ غالب دروازے کے قریب جاتے ہیں۔ غالب دروازہ کھولنے لگتے ہیں۔ )

مرزا    : (اسٹیج کے بازو سے آواز دیتے ہیں نظر نہیں آتے) دروازہ مت کھولو۔

غالب  :آخر کیوں ؟دیکھتا ہوں کون لوگ ہیں ؟

مرزا    : (آواز) مجھے معلوم ہے۔

(دستک پھر ہوتی ہے۔ )

غالب  :تو بتاتے کیوں نہیں ؟یہ سلسلہ کیا ہے ؟

مرزا    : (آواز) یہ لوگ برسی منا رہے ہیں۔

غالب  : (پھر دروازے کی طرف بڑھتا ہے) تو پھرکیا حرج ہے ؟

مرزا    : (entry)  (پھر ٹوک لیتے ہیں) پہلے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یہ لوگ کس کی برسی منا رہے ہیں۔ میری یا تمہاری؟

غالب  :ظاہر ہے برسی غالب کی منائی جا رہی ہے شاعر غالب کی۔

مرزا    :نہیں۔ برسی مرزا اسداللہ خاں عرف مرزا نوشہ کی ہے، ۱۰۵ سال پہلے میری موت ہوئی تھی۔

غالب  :تم سے کسی کو کیا دلچسپی ہے۔ تم تو  محض ایک امیر زادے تھے۔

مرزا    : اور  تم؟

غالب  :میں شاعر غالب۔ میرا ایک ایک  شعر آج بھی زندہ ہے۔

مرزا    :کس کی بدولت؟میری  اور  صرف میری۔

غالب  :یہ جھوٹ ہے۔ شاعر امیر زادے کے محتاج نہیں۔ تم فقط میرا جسم تھے۔ میری روح میری شاعری تھی۔

مرزا    :مت بھولو، میں نے تمہیں نام دیا، ہستی دی، ہنستے ہوئے ہونٹ، روتی ہوئی آنکھیں دیں۔ ترستا ہوا دل  اور  آسمانوں سے بھی زیادہ بلند پرواز کرنے والا دماغ دیا۔

غالب  :سارے امیر زادے اسی طرح بول بولا کرتے ہیں۔ یہ صحیح ہے مرزا نوشہ مرے تم تھے زندگی بھر مرے، کبھی کسی کو مار رکھا، کبھی خود مر گئے۔

مرزا    :تمہاری قسمت میں موت کہاں ؟

غالب  :میں بے چارا اپنا آپ تماشائی تھا، لے دے کے زندگی میں کوئی آرزو کی بھی تو صرف اتنی:

تھالے دے کے زندگی میں کوئی آرزو کی بھی تو

مرزا    :تو گویا میرے بغیر تمہاری ہستی، تمہاری حسرتیں  اور  ارمان تمہاری شاعری باقی رہتی؟

غالب  :نہیں۔ لیکن تمہارے گناہ میرے نام کیوں لکھے جائیں۔

مرزا    :ٹھیک کہتے ہو، لوگ آج کل میرے پیچھے پڑے ہیں۔ مرزا نوشہ کہاں پیدا ہوا اس نے اپنے سالے کی موت پر خوشی کاکیوں اظہار کیا، اس مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا قصیدہ کیوں لکھا۔ انگریزوں کی مدح سرائی کیوں کی اس نے اپنے دوست صدر الدین آرزدؔ کی بیوی کی پنشن رکوا کر نواب رام پور سے اپنے لئے پنشن حاصل کرنے کی کوشش کیوں کی؟

غالب  :یہی نہیں  اور  سنو۔ مولوی ذکاء اللہ نے لکھا:

’’غالب کا حال یہ ہے کہ سوائے شاعر ہونے کے کوئی خوبی اس میں نہ تھی۔ حسد اس قدر تھا کہ کسی کی عزت کو دیکھ نہ سکتا۔ تنگ دل ایسا کہ سارے بھائی بندوں کا حق مارنے میں اس کی عار نہ تھا۔ ذوقؔ مرگیا تو خوش ہو کر کہتا تھا آج  بھٹیاروں کی بولی بولنے والا مرا۔ شرابی ایسا کہ کہا کرتا تھا صہبائیؔ شعر کہنا کیا جانے، نہ اس نے شراب پی، نہ معشوقوں کے ہاتھ سے جوتیاں کھائیں، نہ جیل خانے میں پڑا۔ لالچی ایسا کہ ایک ایسا قصیدہ دس دس جگہ بیچتا تھا۔ ‘‘

مرزا    : (دروازے سے لگ کر کھڑا ہو جاتا ہے  اور  دستک ہونے پربھی غالب کو دروازہ کھولنے نہیں دیتا)نہیں دروازہ مت کھولو۔ پہلے یہ طے ہو جائے کہ وہ کس کی برسی منانا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مرزا نوشہ خودغرض تھا۔ لالچی تھا تنگ دل تھا۔

غالب  :کیا غلط کہتے ہیں۔

مرزا    :لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بے ننگ و نام ہے :

یہ جانتا تو آگ لگاتا نہ گھر کو میں

غالب  :گھر، میرا کوئی  گھر نہیں۔

مرزا    :نہیں، غالب بھولتے ہو۔ غالب کے نام سے پہچانے جانے سے پہلے صرف میں تھا مرزا اسداللہ بیگ  اور  میں نے آگرے میں آنکھیں کھولی ہیں ۱۷۹۸ء کا آگرہ۔ یہاں نظیر اکبر آبادی کے ’’شہر آشوب‘‘ کا آگرہ۔ جہاں میری خاندانی حویلی تھی  اور  دیوان خانے میں راجہ بنسی دھر کے ساتھ شطرنج کی بازی جمتی تھی۔

 

 

FLASH BACK – I

 

بنسی    :چال چلو مرزا۔

مرزا    :چلتا ہوں بنسی دھر۔

بنسی    :جی ہاں شطرنج ہے، بچوں کا کھیل نہیں ہے۔

مرزا    :ہمارے لئے تو بچوں کا کھیل ہی ہے۔ لیجئے فرزیں تو گیا۔

بنسی    :میاں صاحبزادے ہوا بھی، کچھ خاندان کی پرانی رسم و راہ کا پاس کرتا ہوں۔ ورنہ مات پلا کر نوشیرواں بنٍا دیتا۔ سوچتا ہوں تمہارے نانا ہمارے نانا ایک ساتھ فوج میں نوکر ہوئے۔ ایک ساتھ نوکری چھوڑی، ایک ساتھ زندگی گزاری۔ اگر دوچار مات پلا دی تو کہو گے کہ پشتوں پرانی دوستی کا پاس نہ کیا۔

مرزا    :واہ۔ ۔ ۔ واہ۔ ۔ ۔ میاں بنسی دھر کیا کہنے ہیں عمر میں مجھ سے دو ایک برس بڑے یا چھوٹے ہی ہو گے باتیں کرتے ہو تو نانا دادا سے کم نوالہ نہیں توڑتے۔

بنسی    :خیر جی مرزا۔ یہ بازی تمہیں اٹھا لو۔ ہمیں مانے لیتے ہیں اچھا چلو دوسرے بازی لگاتے ہیں۔

مرزا    :بس جناب۔ دوسری بازی نہیں۔ آج بلوان سنگھ سے پتنگ کے پیچ لڑانا ہے۔

بنسی    :کون؟راجہ بلوان سنگھ وہی گڈریوں کے کٹرے والا وہ بھی عمر بھر بچہ رہے گا  اور  تمہارا بھی یہی حال ہے۔

مرزا    :جی بس شطرنج کے سوا تو سارے کھیل گویا لڑکپن ٹھہرے تم بھی ذرا پیچ لڑاؤ تو جانیں۔

بنسی    :اماں توبہ کرو۔ میری سنو تو لعنت بھیجو پتنگ بازی پر۔ راجہ بلاس رائے کی حویلی میں مشاعرہ ہے، چلے چلتے ہیں۔ بھئی میری تو جان جاتی ہے ان مشاعروں پر۔ اکبر آباد کے شاعر ایران کے شاعروں کو شرماتے ہیں  اور  اپنے میاں نظیرؔ کا کلام بچہ بچہ کی زبان پر ہے۔

مرزا    :کہو گے خودستائی کر رہا ہے۔ بخدا دوچار شعر تو ریختے میں ہم نے بھی کہنے شروع کر دئیے ہیں۔

بنسی    :سچ۔

مرزا    :پتنگ پر ایک قطعہ لکھا ہے۔ بخدا داد دینے میں کنجوسی نہ کرنا۔ عرض کیا ہے :

ایک دن مثل پتنگ کاغذی

لے گے دل سر رشتہ آزادگی

خود بخود کچھ ہم سے کنیانے لگا

اس قدر بگڑا کہ سر کھانے لگا

میں کہا اے دل ہوائے دل براں

بسکہ تیرے حق میں رکھتی ہے زیاں

دل یہ سن کر کانپ کر کہا پیچ و تاب

غوطے میں جا کر دیا کٹ کر جواب

(شعر کے بیچ ہی میں بول اٹھتے ہیں۔ )

غالب  :یہی لمحہ میری پیدائش کا تھا مرزا نوشہ سے غالب بننے کا لمحہ جب پہلی بار شاعر بیدار ہوا تھا۔

مرزا    :مگر  اس لمحے کی سالگرہ کوئی نہیں مناتا۔ میری برسی سب مناتے ہیں۔

غالب  :شاید اس کی ضرورت بھی نہیں۔ شمع روشنی دیتی ہے  اور  جل بجھتی ہے اس کی سالگرہ کون مناتا ہے۔

مرزا    :احساس فراموش ہو۔

غالب  :میں۔

مرزا    :ہاں تم، میرا احسان نہیں مانتے کہ غالب کے لئے مرزا نوشہ نے کیا کیا نہیں کیا، ذلتیں سہیں، ہر کس و ناکس کے آگے دامن پسارا، خوشامدیں کیں دست طلب دراز کیا، اپنوں کو اپنا نہیں سمجھا، تا کہ شاعر غالب کو فرصت کا ایک سانس میسر آ جائے، تم فکر سخن کے لئے ذرا سی آسودگی پا سکو۔

غالب  :آسودگی  اور  چین  اور  تم سے ؟تم نے مجھے زندگی بھر بے قرار رکھا۔ وہ دن یاد نہیں تمہیں۔

مرزا    :کون سادن۔

غالب  :جب مدتوں بعد میرے بچپن کا یار بنسی دھر گلی قاسم جان کے چورا ہے پر پتہ پوچھتے پوچھتے میرے گھر پہنچا تھا۔

 

 

 

FLASH BACK – II

 

 (گلی قاسم جان کے قریب ایک چوراہا، رات کا وقت مشعلیں روشن ہیں، بنسی دھرکی عمر اب ۳۵۔ ۳۰ برس کی ہے۔ غالب ان سے پانچ سات سال بڑے ہیں۔ داستان گو داستان سنا رہا ہے۔ )

 

داستان گو       :جب شہر کے دروازے پر آیا ایک نعرہ لگایا قفل کو تبر سے توڑا  اور   نگہبانوں کو ڈپٹ کر للکارا کہ اپنے خاوند کو جا کر کہو کہ بہزاد خان ملکہ مہر نگار اور   شہزادہ کامگار کو جو تمہارا داماد ہے، ہانکے پکارے کے لئے جاتا ہے اگر مردمی کا کچھ نشہ ہے تو باہر نکلو اور   ملکہ کو چھین لو۔ یہ نہ کہو کہ چپ چاپ لے گیا نہیں تو قلعے میں بیٹھے آرام کیا کرو۔

(چاوش  اور  چوب دار اور  کچھ سپاہی آگے آگے دوڑے آتے ہیں۔ بر قندازوں کے ہاتھوں میں مشعلیں ہیں ’’ہٹو بچو۔ دور باش فرنگی ریزیڈنٹ بہادر کی سواری آتی ہے۔ ‘‘ کئی آوازیں لگاتے ہیں۔ بگھی گزرنے کی آواز آتی ہے۔ داستان کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ )

مجمع سے ایک مولانا:صاحبو ملاحظہ فرمایا آپ نے۔ فرنگی نے جو اشقلہ اٹھایا  اور   قلیم میں جو غضب ڈھایا ہے آپ حضرات نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ دن رات نہ جانے کتنے ہندو مسلمان بے دین ہو رہے ہیں۔ مدرسے تباہ، خانقاہیں ویران، دہلی کالج میں علم دین کی جگہ گٹ پٹ سکھائی جا رہی ہے۔

بنسی دھر       : (ایک تماشائی سے)مجھے نواب اسداللہ بیگ کا مکان پوچھنا ہے۔

ایک  اور  تماشائی:اماں یہ اسداللہ بیگ کون ہوئے۔

داستان گو       :اماں وہی، مرزا الٰہی بخش معروف کے داماد اسداللہ خاں۔ گلی میں سیدھے جا کر الٹے ہاتھ کو مڑ جانا، وہیں سب پتہ و نشان معلوم ہو جائے گا۔ وہی تو ہیں جن کا ایک بھائی یوسف مرزا پاگل ہو گیا ہے۔ آگرے سے دہلی آئے ہیں۔

(دہلی کے لفظ پر مجمع سے اچانک یوسف مرزا اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ )

یوسف مرزا     :دلی مر گئی، مر گئی دلی۔ اب صرف میرا بھائی اسداللہ دلی ہے۔ تم سب باطل ہو۔ کاغذی تصویر و زمانہ تم سب کو مٹا  ڈالے۔ (بنسی دھر کو شاید پہچان کران کو کندھوں سے پکڑ لیتا ہے۔ )تم کون ہو؟

بنسی    :میرا نام بنسی دھر ہے۔

یوسف مرزا     :پھر تمہاری بنسی کہاں ہے ؟برادرم، یہ دلی ہے۔ دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب۔ یہاں دن رات کٹھ پتلی کا تماشہ ہوتا ہے۔ سب ناچتے ہیں۔ لال قلعہ بھی ناچتا ہے اس کے اندر بیٹھا ہوا عالم پناہ بھی ناچتا ہے فرنگی فرنگن بھی ناچتے ہیں۔ کون نچاتا ہے ؟خاموش یہ مت پوچھو۔ آؤ ہم تم بھی ناچیں۔

(اتنے میں چوبدار یوسف مرزا کو تلاش کرتے ہوئے نکل آتے ہیں۔ )

چوبدار:چھوٹے مرزا، چھوٹے مرزا چلئے گھر چلئے۔

یوسف  :ہمیں چھوڑ دو۔ ہم جا رہے ہیں۔

(چلے جاتے ہیں۔ )

بنسی دھر       :اسداللہ کہاں ہیں ؟

چوبدار:لمبی کہانی ہے۔ سب بتاؤں گا۔ دوپہر رات گئی۔ انگریزی عملداری ہے دلی کی حالت خراب ہے، گھر چلئے۔

بنسی    :میں اس طرح گھر نہیں جانے کا۔ مجھے بتاؤ اسداللہ کہاں ہے ؟ کس حال میں ہے ؟

چوبدار:کیا عرض کروں بندہ پرور، دلی اس خاندان کو راس نہ آئی۔ پورا خاندان تباہی میں آ گیا۔ سوچا تو یہ تھا کہ مرزا نوشہ رسالداری پائیں گے شادی کے بعد آل اولاد کا سکھ ملے گا تو باپ  اور  چچا کا غم بھی جی سے دھل جائے گا۔

بنسی    :کیا ہوا جلد بیان کرو۔ مرزا نوشہ خیریت سے تو ہیں ؟

چوبدار:پہلے سرکار فرنگی سے حکم ہوا دس ہزار سالانہ مرحوم رسالدار نصراللہ بیگ کے عزیزوں کو ملا کر لے۔ پھر حکم ہوا فقط پانچ ہزار سالانہ ملے  اور  اس میں سب وارث شریک ہوں۔ اتنا بڑا خاندان  اور  اتنی تھوڑی رقم کیسے پورا ہوتا۔ پھر ایک نہیں دو نہیں سات اولادیں ہوئیں مگر  کوئی ڈیڑھ سال سے زیادہ نہ جیا۔ بہو بیگم کیا کیا تڑپی ہیں کہ دیکھا نہ جاتا تھا۔ پھر چھوٹے بھائی نواب یوسف مرزا کی شادی ہوئی مگر  سکھ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ بچارے مصیبتیں جھیلتے جھیلتے پاگل ہو گئے۔

بنسی    : اور  مرزا نوشہ کیسے ہیں ؟

چوبدار:نہ پوچھو سرکار۔ شاعری ہے  اور  وہ ہیں۔ مشاعرے پڑھتے ہیں۔ غزلیں کہتے ہیں۔ گلی گلی کوچے کوچے شاعر مشہور ہیں  اور  بس۔ اب کیا کہوں۔ آخر سرکار کا پرانا نمک خوار ہوں۔

بنسی    :کہو۔ تمہیں قسم دیتا ہوں، مجھ سے کچھ نہ چھپانا۔

چوبدار:دکھ سہا نہیں گیا ان سے۔ بس اب شراب منہ کو لگی ہے  اور  سنتا ہوں کہ ایک ڈومنی بچی پر فریفتہ ہو گئے ہیں۔ اب دیکھو دوپہر رات گئی ابھی واپس گھر نہیں پہنچے ہیں۔

(اسی اثنا میں غالب ہوا دار میں سوار نشے کی حالت میں گنگناتے ہوئے گزرتے ہیں۔ کہاروں کے ہاتھ میں مشعلیں ہیں۔ غالب چوبدار کی آواز کو پہچان لیتے ہیں۔ )

غالب  :ہوادار یہیں رکھ دو۔ (چوبدار سے) اتنی رات گئے یہاں کیا کر رہے ہو۔

چوبدار:ناظر بنسی دھر بھیا اکبر آباد سے آئے ہیں۔

غالب  :بنسی دھر تم ہو تو  پھر آؤ میرے ساتھ ہوا دار میں بیٹھ جاؤ(کہاروں کو اشارہ کرتے ہیں۔ بنسی دھر بیٹھ جاتے ہیں)بنسی دھر دلی لٹ گئی۔ اب یہاں مرزا نوشہ کا کلام سمجھنے والا کوئی نہیں۔ بڑے بڑے سخن سنج طرہ و دستار والے کہتے ہیں مرزا نوشہ مہمل بکتا ہے کس کے دل میں اپنا دل ڈالوں کہ میری دھڑکنیں سمجھے۔ میرے لفظوں کی تہہ تک پہنچے۔ میرے خون جگر کی تراوش پاوے۔ چلو گھر چلیں۔ تم بھی ان باتوں کو نہیں سمجھو گے۔ میری جان انھیں سمجھنے کے لئے پتھر کا کلیجہ چاہئے۔ زندگی بڑی ظالم ہے دوست  اور  اس سے نکل بھاگنے کے لئے کوئی نہ کوئی پناہ، کوئی نہ کوئی چور دروازہ تو چاہئے :

کچھ تو دے اے فلک نا انصاف

آہ و فریاد کی فرصت ہی سہی

 

 

 

 

FLASH BACK – III

 

(نسوانی آواز ابھرتی ہے۔ )

رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

ہم سخن کوئی نہ ہو  اور   ہم زباں کوئی نہ ہو

بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہئے

کوئی ہم سایہ نہ ہو  اور   پاسباں کوئی نہ ہو

پڑئیے گر بیمار تو کوئی ہو تیمار دار

اور   اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

(نو وارد دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ گانا بند ہو جاتا ہے۔ آداب تسلیم کے بعد نو وارد ایک دم ماں سے مخاطب ہو جاتا ہے  اور  لڑکی کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ )

نو وارد:میں کہتا ہوں اب انتہا ہو چکی۔ بات گھر سے نکلی کوٹھوں چڑھی۔ شہر میں بدنامی ہو رہی ہے۔ بچے بچے کی زبان پر تمہاری بیٹی  اور   مرزا نوشہ کے قصے ہیں۔ توبہ توبہ، اب میری بات مانو اس کے ہاتھ پیلے کر دو۔ )

ماں     :کیا کروں بیرن؟کچھ بس نہیں چلتا، تم جانو پھوٹی آنکھ کا دیدہ ایک ہی تو بچی ہے، اس کا دل بھی نہیں توڑا جاتا۔ اتی بڑی ہو گئی ہیں، میں نے کبھی جواس کا جی میلا کیا ہو۔ اچھے سے اچھا کھلایا، اچھے سے اچھا پہنایا۔ کبھی اس کا کہا نہ ٹالا۔ اس بڑھاپے میں چونڈے میں کالک لگتی تھی۔

نو وارد:ہر گھر میں ایسے قصے ہو جاتے ہیں بہن مگر  آخر بزرگ کس دن کے لئے ہوتے ہیں۔ بچی ناسمجھ ہے۔ جوانی دیوانی ہوتی ہے۔ ذرا خبر کرنا پڑے گا۔ سب ٹھیک ہو جائے گی۔

ماں     : اور  جو میری چاند سی بیٹی کو کچھ ہو گیا؟

نو وارد:بہن کیسی باتیں ارے شادی بیاہ کے بعد ارمانوں میں لگ جائے گی۔ یاد بھی نہیں رہے گا کہ تھے کوئی مرزا نوشہ بھی۔ اپنی آنکھوں کے سامنے ایسے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں تماشے دیکھ لئے  اور  پھر ذرا دل میں سوچو ڈومنی ذات ہمیشہ سے عزت دار،  غیرت والی مشہور ہے۔ ہم کوئی نیچ ذات ہیں کہ جس نے چاہا ہاتھ ڈال دیا۔ یہ قصہ ہو گیا تو ہمیشہ کے لئے ڈومنی ذات بھی کسی باجنے لگے گی۔

ماں     :تم میری بٹیا کو نہیں جانتے۔ وہ بڑی ہٹیلی ہے وہ چاند کے لئے بھی مچلے گی تو اسے لے کر چھوڑے گی یا اپنا جی کھو دے گی۔

نو وارد:بالک ہٹ ہے مگر  ہٹ کے آگے ہار گئیں تو سر پکڑ کر روؤ گی، بچی ہاتھ سے نکل جائے گی۔ ذرا سوچو مرزا نوشہ اچھے گھرانے کا نواب زادہ، جیب میں کوڑی نہیں، خرچ لمبا، بیوی ہے، گھربار ہے، شاعری سے تو پیٹ پلتا نہیں۔ اول تو وہ گھر ڈالے گا کیسے  اور  گھر ڈال بھی لے تو یہ ننھے والی بات نہیں۔ آخر اس کی بیوی بھی نواب الٰہی بخش کی بیٹی، نواب لوہارو کی بھتیجی ہے، ناک چنے چبوا دے گی۔

ماں     :میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔

نو وارد:میرا کہا مانو تو اس جوکھم سے نکلو گی(جیب سے سونے کی مہریں نکال کر رکھتا ہے)یہ دو توڑے سونے رکھ لو۔ بڑی قسمت والی ہے تمہاری بیٹی۔ کوتوال کی نظروں میں ایسی جچی ہے کہ نہ پوچھو، بولو منظور ہے ؟باقی میں نمٹ لوں گا۔ تم ایک ذرا حامی بھر لو اور   پھر دیکھو چٹکی بجاتے ہی سب تصفیہ ہو جائے گا۔ شام ہوتے ہوتے منگنی کا جوڑا آ جائے گا۔

ماں     :میں اتنی جلدی کیسے حامی بھروں۔

(لڑکی کی سب کچھ سن لیتی ہے، غصے میں بھری ہوئی جالی تک آئی ہے۔ )

لڑکی   :اماں !ان سے کہئے یہاں سے چلے جائیں۔

ماں     :بیٹی!تیرے ماموں ہیں، ان کی اس طرح توہین نہیں کرتے۔

لڑکی   :میں کوئی کارچوب کی گڑیا نہیں ہوں کہ دو توڑے سونے میں بک جاؤں گی۔ یہ کون ہیں میرا مول لگانے والے، مجھے نیلام پر چڑھانے والے۔

نو وارد:بیٹی!میری بات سنو۔ تمہاری بھلائی کے لئے کہتے ہیں۔

لڑکی   :خبردار جو مجھے بیٹی کہا۔ میں آپ کے کوتوال صاحب کو تلووں سے مسل کر پھینک دوں ان سے کہہ دیجئے گا۔

نو وارد:میں کچھ نہیں کہوں گا۔ بڑھاپے نے کبھی جوانی سے قول نہیں ہارا۔ تم غصے میں ہو، جوش ٹھنڈا ہو جائے۔ ذرا معاملے پر غور کر لو، میں تھوڑی دیر بعد آؤں گا۔ سوچ لو، اچھی طرح سوچ لو۔

لڑکی   :مجھے نہیں سوچنا۔ آپ کو تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں۔

نو وارد: (ہنستا ہے) بچی نادان ہو۔ میں ان باتوں کا برا نہیں مانتا۔ سوچنے سے کبھی کسی کا کچھ نہیں بگڑا۔

(چلا جاتا ہے۔ )

لڑکی   : (جالی کے دوسری طرف آ کر) یہ آپ کیا کھچڑی پکایا کرتی ہیں اماں ؟ ہر وقت شادی، ہر وقت منگنی بیاہ۔ آپ کے نزدیک دنیا میں اس کے سوا  اور   کچھ ہے ہی نہیں۔ آپ سمجھتی کیوں نہیں ؟آپ مجھے جان بوجھ کر کیوں تڑپاتی ہیں۔ (رونے لگتی ہے) جائیے میں آپ سے نہیں بولوں گی۔

ماں     : (گلے لگا کر) بوڑھی گئی ہوں سٹھیا گئی ہوں بھول جاتی ہو، تو کچھ خیال مت کیا کرو۔

لڑکی   :بہت بڑی بھول ہے اماں۔ تم نے سوچا یہ بات انھیں معلوم ہو گئی تو ان کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا شاعر کا دل ہے اماں۔ صدیوں میں ایسا انمول دل کسی کو ملتا ہے۔ دولت نہیں، حکومت نہیں، مشاعرے کی واہ واہ تک نہیں شیشے سے زیادہ نازک  اور  ہیرے سے زیادہ انمول دل کو تم چاہتی ہو کہ میں بھی ٹکڑے کر ڈالوں۔ یہ بہت بڑا پاپ ہے ماں۔

بنسی دھر       :اس طرح بے اطلاع اندر چلا آیا، معاف کیجئے گا۔ مجھے دو باتیں کرنی ہیں میرا نام بنسی دھر ہے اکبر آباد سے آیا ہوں۔ مرزا نوشہ کا بچپن کا دوست ہوں۔

لڑکی   : (بے قرار ہو کر جالی کی دوسری طرف آ جاتی ہے ماں اٹھ کر چلی جاتی ہے)فرمائیے، کیا مرزا صاحب نے کوئی پیغام بھیجا ہے ؟کیا کہا ہے انھوں نے ؟کیسے ہیں وہ؟خود ہی کیوں نہ چلے آئے۔

بنسی    :آتے ہوں گے۔

لڑکی   :تشریف رکھئے۔

بنسی    :بہن!مرزا کے بچپن کے دوست ہوں۔ ساتھ شطرنج کھیلنے میں راتیں سیاہ کی ہیں، باہم قصے کہانیاں کہی سنی ہیں۔ پتنگیں لڑائیں  اور  بازیاں ہاری جیتی ہیں۔ اس خاندان کو اپنی نظروں کے سامنے پامال ہوتے دیکھا ہے اکبر آباد میں آج بھی عبداللہ بیگ خاں  اور  مرزا کے چچا نصر اللہ بیگ خاں  اور  مرزا کے نانا غلام حسین خاں کا نام باجتا ہے۔ کوئی رسالدار، کوئی میدان میں نے اس خاندان کا وقار اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ان کی آن بان کا سورج میرے سامنے ڈوبا ہے۔

لڑکی   :میں کچھ سمجھی نہیں۔

بنسی    :آپ کو ایک نظر دیکھا تو مرزا کے حسن نظر کی داد دی۔ بخدا خالق نے اپنے ہاتھ سے نور کے پتلے میں جان ڈال دی ہے  اور  جادو بھری آواز بخشی ہے پھر مرزا نوشہ نے جان نچھاور  کر دی تو کیا تعجب۔ اس کی جگہ کوئی  اور  ہوتا تو کئی جانیں نچھاور  کر ڈالتا۔ مجھے یہ بھی بھروسہ ہے کہ اس نورانی پیکر میں ایسا ہی نازک،  لطیف  اور  ہمدرد دل بھی ہے جو دوسروں کے درد سے تڑپ اٹھتا ہو گا۔

لڑکی   :میں کچھ نہیں سمجھی۔ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ؟

بنسی    :میں نہیں مانتا۔ مرزا نوشہ کے شعر سمجھنے والی اتنی سیدھی سی بات نہ سمجھے میں نہ مانوں گا۔

لڑکی   :خدارا پہیلیاں نہ پوچھئے۔

بنسی    :لے دے کے اس گھرانے کے پاس تھوڑی سی آن بان بچی ہے آپ چاہیں تو یہ آن بان قائم رہ جائے۔

لڑکی   :میں چا ہوں ؟میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے بھائی صاحب۔ دنیا میری مرضی پر چلتی تو مرزا صاحب کا نام آفتاب و ماہتاب کی طرح رات دن عالم پر چمکتا۔ انھیں اپنے کلام کی داد ملتی، ان کی صداؤں پر لوگ سر دھنتے میرے بس میں تو کچھ بھی نہیں۔

بنسی    :میں آپ ہی سے کچھ مانگنے آیا ہوں۔ آپ اس گھرانے کی آبرو بچا سکتی ہیں آپ نے مرزا  نوشہ کو دیکھا مگر  اس گھرکی خوشی، اس خاندان کی آبرو مندی، اس کے گھربار کی ذمہ داریوں کا خیال نہیں کیا۔ مرزا نوشہ نے اپنا سب کچھ آپ پر وار دیا مگر  آپ نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ کوئی  اور   عورت آپ ہی کی طرح نازک، آپ ہی کی طرح دردمند عورت اپنا سب کچھ مرزا پر وار چکی ہے  اور  اسے وہ پیار بھی نہیں ملا جو خوش قسمتی سے آپ کومل گیا۔

لڑکی   :میں بھی انسان ہوں، میرے سینے میں بھی دل ہے، پتھر نہیں ہے بھائی صاحب۔ مجھے بھی جینے کا حق ہے۔

بنسی    :میں نے سنا تھا محبت قربانی دیتی ہے قربانی لیتی نہیں۔

لڑکی   : (غصے سے) آپ نے غلط سنا تھا، بالکل غلط سنا تھا آپ نے۔ عورت بھی انسان ہوتی ہے ہم گانے وٍا لیاں بھی انسان کا دل رکھتی ہیں۔

بنسی    :آپ ٹھیک فرماتی ہیں مگر  بڑی بیگم بھی عورت ہیں  اور  ان کا دل بھی انسان کا دل ہے۔

لڑکی   :میں کچھ نہیں جانتی۔ میں نے صرف اتنا سوچا تھا کہ درد سے چور شاعر کے دل کو اپنے پیار سے بھر دوں۔ پھر دل سوچا سمجھا کہاں مانتا ہے اس کی تو اپنی ڈگر ہے اپنی راہ ہے۔ پھر میں اسے سمجھانے والی کون؟ یہ سب مقدر کا پھیر ہے بھلا کبھی خواب میں بھی سوچا تھا کہ جس شاعر کے کلام کو اس طرح جی جان سے گاتی رہی ہوں کبھی اسے دیکھ بھی پاؤں گی، کبھی اس سے بات بھی کرپاؤں گی۔ ہائے کیسے اچنبھے کی بات ہے۔

بنسی    :ذرا سوچئے، ایک گھر تباہ ہو جائے گا۔ آپ پسند کریں گی یہ تباہی آپ کے نام لکھی جائے۔ ایک نامور گھرانا تاراج ہو جائے  اور  اس تباہی کی لپٹوں میں ایک عورت کا دل، اس کا سہاگ ہی نہیں اجڑے گا بلکہ ایک ہونہار شاعر کا مستقبل بھی جل جائے گا۔

لڑکی   :یہ سب مجھ سے کیوں کہتے ہیں آپ اپنے دوست کو سمجھائیے۔

بنسی    :وہ نہیں سمجھے گا اسی لئے تو آپ کو زحمت دینے حاضر ہوا ہوں، ذرا سوچئے پورے خاندان کا دار و مدار مرزا نوشہ پر ہے۔ وہ جوانی دیوانی کے نذر ہو گئے تو یہ با عزت خاندان بھیک مانگے گا۔ سرکار انگریزی میں پینشن کے کاغذات پیش ہیں وہاں اس قصبے کی سن گن پہنچی تو کیا ہو گا سرکار بھی یہی سوچے گی کہ نصراللہ بیگ کی پنشن الللے تللوں میں اڑائی جاتی ہے اب میں اس میں اضافہ بے محل ہے جسے آپ حافظ و خیام کے مرثیے پر دیکھنا چاہتی ہیں۔ وہ ایک انسان بھی توہے ایک مفلوک الحال امیرزادہ بھی توہے۔ میں آپ سے اس کے وقار، اس کی زندگی کی بھیک مانگتا ہوں۔

(دامن پھیلا دیتا ہے۔ تھوڑی دیر خاموشی رہتی ہے لڑکی چلی جاتی ہے اسٹیج پر ذرا دیر تاریکی۔ جب دوبارہ روشنی ہوتی ہے تو بنسی دھر جا چکے ہیں  اور  لڑکی ستار لئے خاموش سوچ میں گم سم بیٹھی ہے۔ )

(بہت دیر تک خاموش بیٹھی کچھ سوچ رہی ہے اسی عالم میں ماں پکارتی ہے تو چونک پڑتی ہے۔ )

ماں     :بیٹی!اب ستار رکھ دو چلو کھانا کھا لیں۔ دیر ہو رہی ہے۔

لڑکی   : (ایک دم چونک کر) اماں۔

ماں     :ہاں بیٹی! ڈر گئی۔

لڑکی   :اماں میں نے شادی کا فیصلہ کر لیا ہے۔

ماں     :بیٹی!!

(خوشی سے)

لڑکی   :ماموں ٹھیک کہتے ہیں۔ انھیں بلاؤ ان سے کہو کہ منگنی کا جوڑا لائیں میں اس جوڑے میں کیسی لگوں گی۔ اماں تم نے میری شادی کے جوڑے تو سیئے ہیں میری بات مانوں گی؟

ماں     :کہو بیٹی۔

لڑکی   :مجھے دلہن بنا دو۔ مجھے شادی کا جوڑا پہناؤ، میرے ہاتھ چوڑیوں سے بھر دو، میری مانگ میں افشاں چن دو، آج سے میں نئی زندگی شروع کروں گی۔ چلو اماں چلو۔

(ماں کو گھسیٹتی ہوئی لے جاتی ہے۔ )

ماں     :پاگل ہوئی ہے۔ ذرا دم لے۔

لڑکی   :میری اچھی اماں اب دیر نہ کر۔ میری اچھی اماں۔

(دونوں چلی جاتی ہے۔ )

ماں     :ارے دوڑو۔ ۔ ۔ لوگو میں لٹ گئی۔ ارے لوگو میری بچی۔ ۔ ۔  ارے کوئی آؤ دیکھو میری چاند سی بٹیا کو کیا ہوا۔ ارے لوگو!میں لٹ گئی۔ ۔ ۔  ارے لوگو میں لٹ گئی۔ میں کیا جانتی تھی کہ میری بچی اس لئے دلہن بن رہی ہے۔ میں رنڈیا باتوں میں آ گئی۔ ۔ ۔ ہائے میں کیا کروں، کہاں جاؤں۔ ہیرے کی انگوٹھی میں زہر چھپا رکھا تھا۔ زہر کھا  لیا میری بلو نے۔ ۔ ۔  ہائے، تیرے وارے جاؤں میری لاڈلی۔ تیرے بدلے مجھے کیوں نہ موت آئی۔

غالب  :تم امیر زادے تھے۔ عورت کی محبت کو بھی کھیل جانتے تھے۔

مرزا    :نہیں، تم محض شاعر تھے  اور  شعر میں گرمی  اور  سوز پیدا کرنے کے لئے تم نے ایک عورت کی جان لے لی۔

غالب  :یہ غلط ہے۔

مرزا    :یہ بالکل صحیح ہے۔

خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار

کیا پوجتا ہوں اس بت بیداد گر کو میں

غالب  :چلو، اس بہانے تمہیں شعر تو یاد آنے لگے۔

مرزا    :تمہارے شعروں میں کیا؟میری زندگی ہی توہے۔ مجھے یاد نہ ہوں گے تو کسے یاد ہوں گے۔

غالب  :توسنو، تم نے اس عورت کو چاہا امیر زادے کے دل سے۔ تم نے اسے داشتہ کی نظر سے دیکھا یا نہیں یہ میں نہیں جانتا مگر  تم جیسے امیر زادے فقط آج کے نہیں بلکہ ابھی کے لمحے میں زندہ رہتے ہیں۔ زخم نہیں کھاتے فقط پھول چنتے ہیں۔

مرزا    : اور  آپ؟

(انتہائی طنز سے۔ )

غالب  :شاعر کے دل نے اس سے درد کی دوا پائی، درد لا دوا پایا۔ میں نے اسے چاہا  اور   اس میں زندگی کا ایک نیا روپ دیکھا۔ میں نے اسے نہ چاہا ہوتا اس کا سہارا نہ ڈھونڈا ہوتا تو میں پاگل ہو جاتا۔

مرزا    :معلوم ہے ان دنوں سخت پریشانی تھی۔ پنشن تھوڑی رہ گئی تھی۔ ایک دو نہیں سات بچے پے درپے مر چکے تھے۔ چھوٹے بھائی یوسف پاگل ہو چکے تھے  اور  ان کے گھربار کا بوجھ بھی میرے سر تھا۔

غالب  :اس وقت اس لڑکی نے مجھے سہارا دیا میری غزلوں کو گنگنایا  اور   میرے شاعرانہ وجود کو ہلا ڈالا۔

مرزا    :اسی زمانے سے شراب منہ کو لگی  اور  انہی دنوں جوئے کی عادت ہوئی۔

(لڑکی کی قریب آ جاتی ہے  اور  ان دونوں کو الزام دینے کی نظر سے دیکھتی ہے جیسے گریبان پکڑنا چاہتی ہو۔ )

لڑکی   :تم دونوں میں سے مرزا نوشہ کون ہے ؟

غالب  :

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

مرزا    :اچھا ہوا تم خود آ گئیں، ہم تمہارے پاس آ رہے تھے۔

لڑکی   :کیوں ؟

مرزا    :کچھ پوچھنا تھا۔

لڑکی   :۔ ۔ ۔ آپ دونوں میں سے مرزا نوشہ کون ہیں ؟

مرزا    :جی فرمائیے مجھے مرزا نوشہ کہتے ہیں۔

غالب  :تم غلط آدمی کو پوچھ رہی ہو، شاید تم غالب سے ملنا چاہتی ہو۔ شاعر غالب جس کی غزلیں تم نے گنگنائیں۔ جس کی زندگی میں تم نے تھوڑی دیر کے لئے سکون کی چاندنی فراہم کر دی۔

لڑکی   :بولو۔ میرے قتل کا ذمہ دار کون ہے۔ میرا خون کس کی گردن پر ہے ؟

غالب  :شاید وہ شاعر جس کا قتل زمانے کی گردن پر ہے۔

لڑکی   :میں کہتی ہوں تم دونوں میرے قاتل ہو۔ ۔ ۔ میرے قاتل!ایک نے میری آواز کا سودا کیا دوسرے نے میری خوب صورتی کا  اور   تم سے کسی نے بھی اس عورت کو نہیں دیکھا جو قربانی دے کر صرف محبت کی طلب گار تھی۔ میں کہتی ہوں تم نے مجھے کیا دیا؟

غالب  :محبت سودا نہیں۔

لڑکی   :تمہارے لئے سودا ہی تو تھی۔ شاعر، تم کو پناہ چاہئے تھی۔ کٹھور زندگی سے اپنے خیالوں میں پناہ چاہئے تھی وہ تم نے ڈھونڈ نکالی  اور  تم یہ نہ دیکھ پائے کہ میرے سینے میں بھی دل تھا، میں بھی آرزوؤں کی جھولی پھیلائے کھڑی تھی۔ مگر  تم کو میری نہیں اپنے تصور کی ضرورت تھی  اور   اپنے تصور کی چاہت میں تم نے مجھے روند ڈالا۔

غالب   :یہ جھوٹ ہے۔

لڑکی   :شاعروں کو اکثر جھوٹ سے پیار ہوتا ہے مگر  عورت ایسی سچائی ہے جسے شاعروں نے اپنی شاعری کے ذریعے جھوٹ بنا دیا ہے۔ میں بھی عورت ہوں۔ میں آج تم سے انصاف مانگنے آئی ہوں۔

غالب  :انصاف  اور  مجھ سے ؟جو زندگی بھر بے انصافی کا شکار رہا۔

لڑکی   :ہاں تم سے، میرے شاعر۔ آج جب دنیا تمہاری شہرت سے گونج رہی ہے۔ کیا کوئی ایک لمحے کے لئے بھی مجھے یاد کرتا ہے، جس کی پوری ہستی ایک کسک بن کر تمہاری شاعری کو جاوداں بنا گئی۔ ۔ ۔ بتاؤ میری فریاد کون سنے گا؟

مرزا    :تم دونوں مجھے الزام دو۔ سب مجھے الزام دیتے ہیں۔ تم میں سے کوئی مجھے نہیں جانتا۔ دس بارہ سال کی عمر میں ایک امیرزادہ دہلی آیا  اور   اس کے اوپر آسمان ٹوٹ پڑا۔ ایک دم پورے خاندان کا بوجھ سرپر، پھر ایک نہیں دو نہیں سات بچوں کا انتقال، چھوٹے بھائی پران حالات نے وہ ستم توڑا کہ پاگل ہو گیا۔ میں بھی خوان  اور  خوبصورت آدمی تھا۔ اگر شاعری، عشق و قمار بازی میں پناہ ڈھونڈی تو کیا گناہ ہو گیا  اور  اسی بے قراری میں تمہارا دامن پکڑا  اور  نتیجہ رسوائی، بے عزتی  اور  بے اندازہ غم۔

لڑکی   :میں جانتی تھی۔

غالب  :تم شرم  اور رسوائی سے خاک میں جا چھپیں، جس کا آسرا میں نے ڈھونڈا وہ موت کے پردے میں چھپ گیا۔ تم نے موت کی پناہ ڈھونڈ لی، مجھے یہ پناہ بھی نہ ملی۔ تم میری شاعری میں درد بن کر زندہ رہیں  اور  اس درد کو مجھ سے کوئی نہ چھین سکا۔

لڑکی   :میں نے بھی کبھی کبھی یہی سوچا ہے کہ میں شاعری کا ایک تصور تھی۔ محض ایک تصور جس سے تم نے پیار کیا وہ تمہارا تصور، تمہارا تخیل،  تمہاری اپنی تصویر تھی اسی لئے تم نے مجھے کوئی نام دیا  اور  وہ درد شاعری بن کر بکھر گیا۔ یاد رکھنا میں حشر میں دامن گیر ہوں گی۔ میرا خون فریادی ہو گا  اور   یہ فریاد زمین و آسمان کو نہیں عرش معلیٰ کو ہلا ڈالے گی۔ انصاف کی پکار تمہاری شہرت کے سارے فانوس گل کر دے گی۔

(ایک لمحے کے لئے اسٹیج کی ساری روشنیاں گل ہو جاتی ہیں۔ )

مرزا    :سنا تم نے ؟

غالب  :سن تومیں نے بھی لیا، لیکن وہ یہ سب کچھ تم سے کہہ رہی تھی۔

مرزا    :میں اس کا قاتل نہیں ہوں۔

غالب  :ہاں، تم صرف اسی کے نہیں ہم دونوں کے قاتل ہو۔ امیر زادے کے ہاتھوں وہ نازک سی لڑکی بھی قتل ہوئی  اور  شاعر غالب بھی۔

مرزا    :اپنے سارے الزام میرے سر منڈھ دو۔

غالب  :تم کس کس سے انکار کرو گے۔ تمہیں وہ دن یاد ہے جب شاعر نے مالی مشکلات کا حل نکال لیا تھا  اور  تم نے مجھے روک دیا۔

مرزا    :میں نے روک دیا!

غالب  :ہاں، امیر زادے۔ تمہیں نے مجھے روکا تھا!

 

 

 

 (۴)

 

 (پردہ اٹھتا ہے غالب دیوان خانے میں مسہری پر نیم دراز ہیں جیسے غم و اندوہ سے بے حال ہو گئے ہیں اچانک یوسف مرزا سرہانے جا پہنچتے ہیں۔ )

 

یوسف مرزا     :جہان آباد کا شاعر اعظم اسداللہ غالب۔ سرکاری بولی باسٹھ روپئے، ہے کوئی لینے والا۔ باسٹھ روپئے ایک، باسٹھ روپئے دو۔ ۔ ۔

غالب  : (چونک کر) یوسف مرزا، تم کب آئے، آؤ بیٹھو۔

یوسف مرزا     :بہت تکلیف ہے کیا؟

غالب  :تکلیف! کیسی تکلیف؟

یوسف مرزا     :ہم سب جانتے ہیں۔ جو جانتے ہیں وہ بولتے نہیں، جو بولتے ہیں وہ جانتے نہیں۔

(پس منظر سے ایک فقیر کی آواز ابھرتی ہے آہستہ آہستہ یہ فقیر کھڑکی کے پاس آ جاتا ہے۔ ہاتھ پھیلاتا ہے مرزا خالی صندوقچے سے دوچار پیسے نکال کراس کی ہتھیلی پر رکھ دیتے ہیں۔ فقیر یہ غزل گا رہا ہے 🙂

 

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں سنائے کیوں

دیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں

بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم غیر ہمیں اٹھائے کیوں

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

(مرزا فقیر کے ہاتھ پر پیسے رکھ دیتے ہیں۔ )

فقیر    : (دعا  دیتے ہوئے)بابا۔ اقبال بلند، دولت زیادہ!!

(مرزا کھڑکی بند کر دیتے ہیں۔ یوسف مرزا جو ابھی تک پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہے تھے اچانک قہقہہ مارکر ہنس پڑتے ہیں  اور   طنز سے دہراتے ہیں  اور  باہر نکل جاتے ہیں۔ )

یوسف مرزا     :اقبال بلند، دولت زیادہ!!اقبال بلند، دولت زیادہ!!

غالب  : (خود کلامی)اقبال بلند، دولت زیادہ، خوب!!اقبال اتنا بلند کہ بھکاری غزلیں گائیں  اور   عالم، فاضل، امیر، بادشاہ ہمت افزائی سے باز رہیں۔ رہی دولت تو اس کا یہ حال کہ ساری دنیا کا قرضدار متھرا داس درباری مل، خوب چند جین، سب تمسک مہری لے کر چاٹیں۔ ایک دن قرض خواہوں کا ہاتھ ہے  اور  یہ گردن۔ انجام موت ہے یا بھیک مانگنا کسی دکان سے دھتکارے گئے۔ کسی دروازے سے کوڑی پیسہ مل گیا۔ (اچانک نظر بیگم پر پڑتی ہے جو دیوان خانے میں آ گئی ہیں) بیگم، تم!دیوان خانے میں!!

بیگم    :آپ کو محل سرا میں آنے کی فرصت کہاں !مجھی کو آنا پڑا۔

غالب  :کہو۔

بیگم    :کیا کہوں ؟

غالب  :کہو گھر میں خرچ کی تکلیف ہے۔

بیگم    :ہاں۔

غالب  :کہو کہ قرض خواہوں کے تقاضوں سے تنگ آ گئی ہوں کہ پنشن کے باسٹھ روپیوں میں مہینے کا خرچ پورا نہیں ہوتا۔ اس طرح کب تک کام چلے گا گھرکا۔

بیگم    :پھر اس کا کچھ انتظام؟

غالب  :مجبوری۔

بیگم    :تو پھر اس امیر الامراء کو سلام کیجئے، آن بان ختم کیجئے، محنت مزدوری ہی سہی گزر بسر تو ہو۔

غالب  :اسی لئے پنشن کی وا گزاری کے لئے کلکتے کا سفر کیا۔ کمپنی کو درخواست دی، سرکار دربار میں صدا لگائی مگر ن تیجہ کچھ نہیں۔

بیگم    :آخر کام کیسے چلے گا؟قرضہ دار سود جدا، چوبدار، نوکرانی، یوسف مرزا کی دوا دارو، کھانا پینا، مکان کا کرایہ۔ یہ سب کہاں سے آئے گا۔

غالب  :کہاں سے گنجائش نکالوں۔ سنو صبح کی تبرید موقوف، رات کی شراب گلاب موقوف، چاشت کا گوشت آدھا۔

بیگم    :اس طرح پیٹ کاٹ کر کیا ملے گا؟

غالب  :جو ملے غنیمت ہے۔

بیگم    :خدا جانے میرے نصیبوں کا سکھ چین کہاں چلا گیا۔ گھر میں نہ اچھا پہننے کو نہ اچھا کھانے کو۔ نہ اولاد کا سکھ نہ دل کا چین۔

غالب  :کوئی تدبیر بن نہیں پڑتی۔ میں نے خود کو اپنا غیر تصور کر لیا ہے جو دکھ مجھے پہنچتا ہے کہتا ہوں لو غالب کے ایک جوتی  اور  لگی۔ بہت اتراتا تھا کہ میں بڑا شاعر اور  فارسی داں ہوں۔ آج دور تک میرا جواب نہیں۔ لے اب قرض داروں کو جواب دے۔ ایک قرض خواہ کا گریبان ہاتھ میں ایک بھوک سنا رہا ہے میں اس سے پوچھ رہا ہوں اجی حضرت نواب صاحب آپ سلجوقی  اور  افراسیابی ہیں یہ کیا بے حرمتی ہو رہی ہے کچھ تو اکسو کچھ تو بولو۔

بیگم    :تم اپنے کو غیر تصور کر لو میں تم کو غیر تصور نہیں کر سکتی۔

غالب  :میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا۔

بیگم    :کوئی مطلب نہیں ہے۔ کبھی تم نے یہ بھی سوچا ہے کہ تمہاری زندگی میں میں بھی شریک ہوں۔

غالب  :کیا کہہ رہی ہو بیگم؟

بیگم    :میں بھی انسان ہوں، تمہارے دکھ سکھ کی ساتھی ہوں۔ کیا میرا صرف اتنا ہی حق ہے کہ تم سے روٹی روزی، نان نفقہ چاہوں  اور  بس اس کے سوا میرا کوئی حق نہیں ؟

غالب  ۔ :کون ساحق چاہتی ہو تم؟

بیگم    :تمہیں کیا بتاؤں۔ کبھی تم نے یہ بھی سوچا ہے کہ تمہاری شاعری میں کوئی ایک شعر ایسا بھی ہے جو میرے لئے کہا گیا ہو۔ اصلی  اور  فرضی محبوباؤں کے ذکر ہیں، ہجر  اور  فراق کے چرچے ہیں۔ میں پوچھتی ہوں کہ وہ عورت ان شعروں میں کہاں ہے جس نے ہر دکھ سکھ میں تمہارا ساتھ دیا  اور  کچھ نہیں مانگا۔ کیا اس کا تمہاری شاعری پر کچھ حق نہیں ہے۔

غالب  :یہ اشعار کس کام کے ؟یہ شہرت کس گون کی۔ عاشقوں میں کوئی مجنوں  اور   فرہاد کی سی شہرت پالے تو کیا۔ شاعروں میں کوئی حافظ  اور  خیام سے زیادہ مشہور ہو جائے تو کیا۔ آخر کو تو مسئلہ وہی دو سانس چین سے گزار لینے کا ہے۔

یوسف مرزا     : (ایک دم داخل ہوتے ہیں۔ دیوانہ وار قہقہہ) جمشید کی میراث جمشید کی اولاد کو۔ آدم کی میراث رسوائی، اندوہ  اور  بہشت  اور  گناہ۔ ہم سب نیلام پر چڑھاتے ہیں  اور  گیہوں کا ایک دانا چاہتے ہیں۔ کوئی ہے جو اس ایک دانے کا سودا کر لے ؟

غالب  :یوسف مرزا خدا کے لئے خاموش ہو جاؤ۔

یوسف مرزا     : (بہت آہستہ سے)میں خاموش ہوں۔ لو میں خاموش ہو جاتا ہوں۔ اب چراغوں کا خدا حافظ۔

(چلے جاتے ہیں۔ )

غالب  :گھبراؤ نہیں بیگم!جلد کوئی صورت نکلے گی۔ کوئی صورت نکالنی پڑے گی۔

کاظم علی        :قبلہ حاضر ہو سکتا ہوں ؟(آواز سن کر بیگم اندر محل سرا کی طرف جاتی ہیں انتظام الدولہ کا داخلہ۔ )غلام کاظم علی کورنش بجا لاتا ہے، مرزا صاحب۔ نصیب دشمنان مزاج تو بخیر ہے کہ حضور نیم دراز ہیں۔

غالب  :آؤ کاظم علی، کیسے آنا ہوا؟

کاظم   :غلام کا کیا آنا جانا۔ حضور کو سلام کرنے کبھی کبھار چلا آتا ہوں  اور   جائیں بھی کہاں۔ اب تو دہلی وہ اندھیر نگری ہے کہ خدا کی پناہ۔ اپنی قسم کھا کر عرض کرتا ہوں مرزا صاحب کہ قدم قدم پر تو جاسوس ہیں۔ فرنگیوں کے جاسوس، مرہٹوں کے جاسوس، روہیلوں کے جاسوس  اور   خدا معلوم کہاں کہاں کے کس کس کے جاسوس۔ پھر وہابیوں نے غدر مچا رکھا ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے حکیم مومن خاں جیسا رند با صفا جہاد کی باتیں کرنے لگا۔ اب آپ سے بھی کیا چوری ہے مرزا صاحب قبلہ، میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ وہابیوں سے فرنگی حکومت تک پریشان ہے۔ خفیہ خفیہ کمپنی بہادر کو پرچہ لگا ہے کہ یہ لوگ انگریزوں کے خلاف جہاد بولنے والے ہیں۔ حکم ہوا ہے کہ ان کی نگرانی رکھی جائے۔

غالب  :باتیں کرتے کرتے کبھی دم بھی لے لیا کرو۔

کاظم   :آپ تو ناچیز  کو شرمندہ کرتے ہیں مرزا صاحب۔

غالب  :اپنی کہو، کیسی گزر رہی ہے ؟

کاظم   :کچھ نہ پوچھئے مرزا صاحب قبلہ، حال پتلا ہے۔ ہمارا دھندا تو آپ جانتے ہیں امیر زادوں کے ساتھ بندھا ہوا اترا ہے۔ کچھ سیر و تفریح، کچھ عیش و نشاط کا چرچا ہو تو بندۂ درگاہ کے ہاتھ بھی کچھ لگ جاتا ہے۔ ادھر اس کم بخت کوتوال شہر نے وہ ناک میں دم کر رکھا ہے کہ توبہ بھلی۔ دہلی کے شریفوں کودو چار پانسے پھینکنے  اور  دوچار بازیاں تک لگانا محال ہو گیا ہے پھر اپنی پتی کہاں ؟

غالب  :تمہیں بھلا اس کاروبار میں کیا مل جاتا ہے ؟

کاظم   :ہم بھی پچھ لگوؤں میں ہیں حضور والا۔ مگر  اصل حصہ تو اس کا ہے جس کے گھر پر جمے اس کی چاندی ہے۔ آپ کا محلہ ماشاء اللہ کوتوال کی نظروں سے بچا ہوا ہے اگر یہاں کوئی ٹھکانہ مل جائے تو بگڑی بن جائے۔

غالب  : (ڈر کر) کیسی باتیں کرتے ہو کاظم علی۔

کاظم   :ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ آخر اپنی عمر بھی اسی کاروبار میں گزری ہے اگر کسی کو کانوں کان خبر ہو جائے تو قبلہ کاظم علی انتظام الدولہ کا سر قلم کرا دیجئے گا۔ بس ایک بار ہاں، کر دیجئے۔ سب انتظامات چٹکی بجاتے میں مکمل کرا دوں گا۔ سچ پوچھئے تو مرزا صاحب، اب دھندا ہی کونسا رہ گیا ہے۔ دربار سے خلعت  اور  منصب بند ہیں جاگیریں ختم ہو چکیں، نوکری ملتی نہیں۔ اب  آخر گزارا چلے تو کیسے چلے۔ آپ ذرا اشارہ کیجئے واللہ سارے قرضے ایک ہی مرتبہ ادا ہو جائیں گے، پھر آپ دوسروں کے قصیدے نہیں لکھیں گے دوسرے آپ کے قصیدے پڑھتے پھریں گے۔

غالب  :انتظام الدولہ!!

کاظم   :بس میری خاطر، ایک بار!

غالب  :نہیں۔ ۔ ۔ اب تم جاؤ، مجھے بھی ایک جگہ جانا ہے۔

کاظم   :بہت بہتر، حضور۔ بندہ پھر حاضر ہو گا۔ آداب بجا لاتا ہوں۔

غالب  : (چوبدار کو آواز دیتے ہیں)ارے کوئی ہے، ہوا دار تیار کراؤ۔

چوبدار:کہاں جانا ہے ؟

غالب  :دلی کالج۔

 

 

 

 (۵)

 

مرزا    : (قہقہہ لگاتا ہے۔ )

غالب  :ہنستے ہو۔

مرزا    :آگے کی داستان مجھے معلوم ہے۔

غالب  :کیا جانتے ہو تم؟

مرزا    :یہی کہ تم ہوا دار میں سوار ہو کر دلی کالج پہنچے۔ تمہیں نوکری کا پروانہ مل چکا تھا۔ دلی کالج میں فارسی پڑھانے کی خدمت تمہارے سپرد ہو چکی تھی۔ تم نوکری کرنے گئے تھے  اور  اس امید پر ہوادار میں بیٹھے رہے کہ کالج کا سربراہ تمہارے استقبال کو آئے گا۔ تمہارے استقبال کو کوئی نہیں آیا  اور   تم واپس چلے آئے۔

(ہنستا ہے۔ )

غالب  :جانتے ہو کیوں ؟

مرزا    :تم نے یہی کہا تھا کہ نا کہ  ’’نوکری اس لئے کرنا چاہی تھی کہ عزت بڑھے۔ اس لئے نہیں کہ عزت  اور  کم ہو جائے۔ ‘‘

غالب  :جانتے ہو یہ لفظ کس کے ہیں ؟

مرزا    :کہو۔

غالب  :یہ لفظ تمہارے تھے۔ شاعر قصیدے لکھ کر پیٹ پال سکتا ہے۔ بہت آگے بڑھے تو مدرسی کر کے پڑھا لکھا کر جی سکتا ہے میں نے نوکری کرنی چاہی  اور  امیر زادے نے میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیں۔ تم نے مجھے عزت کا واسطہ دیا جھوٹی عزت کا واسطہ، تم نے خاندانی شان کی قسمیں دلائیں۔ جھوٹی شان کی جھوٹی قسمیں۔ امیر زادے تم نے مجھے دلی کالج کے دروازے سے واپس لوٹا دیا۔

مرزا    :میں نے روکا تھا تمہیں۔ تم نے دلی کالج کے سربراہ انگریز کی شان میں زوردار قصیدہ پڑھا ہوتا۔

غالب  :تم میرے ہمزاد تھے میری ذات کا حصہ تھا تمہیں کس طرح اپنے وجود سے کاٹ پھینکتا۔ تم نے میرے دل پروہ گھونسا مارا کہ میں جھوٹی عزت کی خاطر دلی کالج کی نوکری کا خیال چھوڑ کر گھر لوٹ آیا۔ پھر وہی کنج قفس۔

 

 

 

 (۶)

 

غالب  : (چغہ اتار کر چوبدار کو دیتے ہیں۔ نظر انتظام الدولہ کاظم علی پر پڑتی ہے۔ )

کاظم   :قبلہ، آداب بجا لاتا ہوں۔ کب سے آپ کے انتظار میں بیٹھا ہوں ؟

غالب  :کیوں ؟میں نے تم سے انتظار کرنے کوکب کہا تھا؟

کاظم   :آپ نے تو نہیں فرمایا تھا مگر  میرا دل کہتا تھا کہ مجھے انتظار کرنا چاہئے۔

غالب  :کیا کہنا چاہتے ہو؟

کاظم   :وہی پرانی بات ہے قبلہ، اپنا نہیں تو میرا خیال کیجئے آخر ایک مدت سے آپ کانیاز مند ہوں۔ ایک بار ’ہاں‘ کر دیجئے۔ وارا نیارا ہو جائے گا۔ کوتوال شہر کی کیا مجال ہے کہ آپ کی حویلی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ لے۔ اس کے فرشتوں کو خبر تک نہ ہو گی۔

غالب  :میں مجبور ہوں کاظم علی۔ مجھے منظور ہے۔

کاظم   : (خوشی سے اچھل پڑتا ہے۔ ) مبارک ہو۔ مرزا صاحب، بس اب آپ کے سارے قرضے بے باق ہو جائیں گے۔ بس اب تو چاندی ہے چاندی۔ آج شام تک پانسہ پلٹ جائے گا۔

شرابی  :اپنا میر کاظم علی بھی خدا کی قسم۔ برق ہے۔ کیا جگہ ڈھونڈ نکالی ہے۔ کوتوال شہر کے خواب و خیال میں بھی نہیں گزر سکتی۔

دوسرا جواری   :بس اب بات چیت موقوف، نقدی نکالو اور  بازی سنبھالو۔

تیسرا جواری    :نال کی رقم مرزا صاحب کی۔

کاظم علی        :مرزا صاحب قبلہ، گستاخی معاف۔ سنتا ہوں آپ بھی بے نظیر کھیلتے ہیں اجازت ہو تو دو بازیاں ذرا بد کے ہو جائیں۔

غالب  :اچھا، یوں ہی سہی۔

دوسرا جواری   :اچھا تو بازی شروع، نقدی نکالو یارو نقدی!

شرابی  :نقدی، یہ لو نقدی، ہر جگہ نقدی کی پکا رہے۔ نقدی نہ ہوئی نعوذ باللہ خدا ہو گئی۔

جواری  :اجی حضرت، اسی کی دھن پر خدائی ناچتی ہے۔

شرابی  :ناچتی ہے تو ناچے ہم ایسی کو ٹھوکر مارتے ہیں۔

(دستک)

غالب  :کون، اس وقت کون ہے ؟

باہر سے آواز   :سواریاں آئی ہیں۔

کاظم   :کوئی بات نہیں آپ اطمینان سے دروازہ کھول دیں  اور  کھیل جاری رکھیں۔

(دروازہ کھلتا ہے۔ )

کوتوال:خبردار میں کوتوال شہر کی حیثیت سے تم سب کو قمار بازی کے جرم میں گرفتار کرتا ہوں۔ مرزا صاحب قبلہ مجھے افسوس ہے۔ سپاہیو سب کو حراست میں لے (ڈانٹتا ہے۔ ) لے چلو۔

یوسف مرزا     : (اچانک داخلہ) خبردار!جو کسی نے آگے قدم بڑھایا۔ میرے بھائی کو چھوڑ دو۔ نہیں تو ایک ایک کو قتل کر دوں گا۔ (لوگ ان کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔ )تم سب دیوانے ہو۔ میرا ہاتھ روکتے ہو۔ انھیں کچھ نہیں کہتے جو ہاتھ قلم کرتے ہیں  اور  منصف کہلاتے ہیں۔ جو گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالتے ہیں  اور  خداوند کہے جاتے ہیں۔ میرا کیا ہے۔ آفتاب کو قتل کر دو، ماہتاب کو زنجیریں پہنا دو، پھولوں کو شاخوں سے نوچ لو۔ نسیم سحر کو پاؤں میں گھنگھرو پہنا کر نچاؤ، شاہراہوں پر خون دل کا چھڑکاؤ کرو، لبوں پر مہریں لگا دو، آنکھوں میں دہکتی ہوئی سلاخیں ڈال دو۔ میرا کیا ہے میں اپنے رستے جاتا ہوں۔

(چلے جاتے ہیں۔ )

غالب  :تمہارے ہاتھوں مجھے پہلی شکست ہوئی۔ ایک امیر زادے نے شاعر کو ہرا دیا۔

مرزا    :امیر زادے ہمیشہ شاعروں کو ہراتے ہیں۔

غالب  : اور  آج۔ جب میرا جشن منایا جا رہا ہے امیرزادہ کہاں ہے، آج نجم الدولہ دبیر الملک مرزا اسداللہ خان بیگ سب مر گئے ہیں، ان کی ہڈیاں گل سڑ کر خاک میں مل گئیں۔ صرف غالب زندہ ہے۔ صرف غالب۔

مرزا    :چلو جیل خانے کا تجربہ بھی اچھا تھا۔

غالب  :ہاں تمہارے کپڑے میلے کچیلے تھے کھانے میں مٹی  اور  کنکر تھے مگر  میرے ہونٹوں پر شعر تھے تمہاری روح زخمی تھی  اور  میرے لبوں پر نغمہ تھا۔

مرزا    : اور  وہاں سے واپسی پر تم نے مجھ سے انتقام لے لیا۔

غالب  :یعنی آخر مغل بادشاہ بہادر شاہ نے مجھے اپنا استاد مقرر کر کے تمہیں زک دے دی۔

مرزا    :یوں پوچھتے ہو جیسے تمہیں اس کی خبر ہی نہیں ؟

غالب  :مجھے خبر ہے میں نے ہی تو کہا تھا:

غالب وظیفہ خوار ہو دو بادشاہ کو دعا

وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں

مرزا    :مٹتی ہوئی دلی میں مٹتے ہوئے شہنشاہ کے استاد۔

(طنزیہ ہنسی)

غالب  :امیرزادہ ہار گیا، شاعر جیت گیا۔

مرزا    :میرے اوپر طنز کرتے ہو۔

غالب  :لوگوں کو زمین کے کونے، کھنڈروں میں خزانے ملتے ہیں۔ مجھے یہ خزانہ قید خانے کے ایک گوشے میں ملا۔

مرزا    :خزانہ؟

غالب  :ہاں خزانہ یہ تھا کہ سرشاری  اور  سرخوشی وہ ہے جو دکھ درد سے ڈر کر نہیں اس کے باوجود حاصل ہو نسان، وہ غم ساری تلخی  اور  ترشی کو زندگی کا حصہ سمجھ کر اسے نشاط و کیف کا جزو بنا لے میں نے اپنا ساغر سرشار صبح محشر کی ہل چل سے ڈھال لیا۔ میں نے اپنی محرومیوں پر ہنسنے کا حوصلہ پایا اس کے بعد سب کچھ ہیچ تھا۔

مرزا    :پھر یہ قصیدہ نگاری؟

غالب  :یہ بھی ہیچ تھی قصیدہ بھی اک طرح کا جوا  تھا محض بھیک کا پیالہ۔

مرزا    : اور  اسی لئے ایک نام کاٹ کر دوسرے ممدوح کا نام لکھتے رہے۔

غالب  : (طنزیہ ہنسی) مٹتی ہوئی دلی کے ایک مفلس شاعر کو اتنی آزادی بھی نہ دو گے۔ میں نے اسی خزانے کے پا لینے کے بعد ہنسنا سیکھ لیا۔

مرزا    :تم بہادر شاہ کے مورخ بنے۔ ۱۸۵۷ء کے ہنگامے میں تم نے اپنا روزنامچہ لکھا۔ دستنبو نام اچھا تھا مگر  تم نے اپنے بھائی کے ساتھ نا انصافی کی۔

غالب  :کیسی بے انصافی؟

مرزا    :کیا تمہیں معلوم نہ تھا کہ تمہارا بھائی بخار میں مبتلا ہو کر نہیں مرا فرنگی سپاہیوں نے اسے گولی کا نشانہ بنایا۔

غالب  :معلوم ہے۔

مرزا    :تو پھر؟

غالب  :جو کچھ ہوا تم دیکھو گے سنو گے۔

مرزا    :ضرور۔

(غالب دیوان خانے میں بیٹھے ہیں کہ یکایک شور و غوغا سنائی دیتا ہے۔ توپوں کی گھن گرج، شور، نالہ و فریاد رونے چیخنے کی آوازیں۔ غالب کا چوبدار گھبرایا ہوا داخل ہوتا ہے  اور  دروازہ بند کرنا چاہتا ہے۔ )

غالب  :کیا ہوا؟

چوبدار:غضب ہو گیا حضور، فرنگی سپاہی شہر میں گھس آئے ہیں۔ شہر میں فرنگیوں  اور  باغیوں کے بیچ ہنگامہ مچا ہوا ہے، مکان لوٹے جا رہے ہیں، لوگ مارے جا رہے ہیں۔

(شور پھر بڑھتا ہے۔ دین دین۔ دھرم دھرم کی آوازیں، ایک انگریز کی آواز Fire   گولیوں کی آوازیں۔ )

یوسف مرزا     : (ایک دم آگے بڑھتے ہیں  اور  دروازہ کھول کر باہر جانا چاہتے ہیں۔ )

غالب  :یوسف مرزا کیا کرتے ہو، باہر جانے میں خطرہ ہے۔

یوسف مرزا     :اب آئے ہیں کھیلن ہوری (گاتے ہوئے) اب آئے ہیں کھیلن ہوری۔ ۔ ۔

غالب  : (دوبارہ روکتے ہوئے) یوسف مرزا۔

یوسف مرزا     :وہ سب بلا رہے ہیں دلی مجھے بلا رہی ہے، کب سے چلا چلا کر بلا رہی ہے، دلی کی فریاد کوئی نہیں سنتا۔ کوئی بھی نہیں سنتا۔ (یہ کہتے ہوئے ایک دم دروازہ کھول کر باہر چلے جاتے ہیں۔ ) ملک خدا کا، خلق غالب کی، حکیم یوسف مرزا بہادر کا فرنگی مرگیا، دلی جاگ گئی۔

(Fire)  کی آواز کے ساتھ یوسف مرزاکی بھیانک چیخ  اور  شور)

غالب  : (دروازہ کھول کر دیکھتے ہیں۔ چوبدار یوسف مرزا کی لاش کو اندر لاتا ہے خون بہہ رہا ہے۔ ) گولی ماردی۔ اسے کیوں گولی ماردی؟وہ کون سے ملک کا بادشاہ تھا۔ کیا کیا تھا اس نے۔ میرے دیوانے بھائی نے ان ظالموں کا کیا بگاڑا تھا۔ (بیگم لاش پر آہ  و بکا کرنے لگتی ہیں۔ غالب انھیں روکتے ہیں۔ ) نہ روؤ بیگم۔ اب رونے سے کیا ہو گا۔ میرا دیوانہ بھائی اب اس دنیا میں نہیں۔ سب کچھ لٹ گیا۔ خدا نے اسے ایک زندگی دی تھی وہ بھی لوٹ لی۔ ایک بار اس دنیا میں آنا  اور   اس قدر ناکامی و نامرادی سے رخصت ہونا، زندگی کا ایسا انمول تحفہ  اور  اتنی بڑی سزا۔ ایسا بیش بہا موتی  اور  اس طرح کیچڑ میں بہا دیا جائے۔

مرزا    :مگر  پھر تم نے ۱۸۵۸ء کے اپنے فارسی روزنامچے میں یہ سب کیوں نہیں لکھا۔

غالب  :تم نے مجھے کہاں لکھنے دیا امیر زادے نے میرے ہاتھ سے قلم چھین لیا۔ شاعر تو مجاہد بھی بن سکتا تھا مگر  امیر زادہ بزدل ہوتا ہے اسے تو اپنے حلوے مانڈے سے کام تھا اسے تو انگریزوں کے دربار کی اگلی صف میں جگہ چاہئے تھی خطاب درکار تھا جھوٹی عزت چاہئے تھی تم میری کمزوری تھے  اور  میں نے جھوٹ لکھ دیا کہ میرا دیوانہ بھائی بخار میں مبتلا ہو کر مرگیا۔ میں یہ نہ دیکھ سکا کہ انگریز سپاہیوں نے اسے گولی ماردی تھی۔ یہ بھی نہ لکھ سکا کہ میں نے بہادر شاہ کی حکومت دوبارہ قائم ہو جانے پر ’’سکہ‘‘ کہہ کر دیا تھا۔

مرزا    :الزام میرے سر رکھتے ہو تمہیں اندازہ نہیں تھا کہ حالات اس طرح پلٹا کھائیں گے۔

غالب  :امیر زادے کو ان حالات کا پتہ ہونا چاہئے تھا۔ شاعر تو اپنی  دنیا آپ ہے میں صرف شعر گنگنا کر خاموش ہو گیا:

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں

دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں

بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم، کوئی ہمیں اٹھائے کیوں

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

مرزا    :شاعر اچھے ہو غالب۔

غالب  :قدر افزائی کا شکریہ ظل سبحانی نے بھی ایک بار غزل سن کر فرمایا، مرزا پڑھتے خوب ہو۔

مرزا    :یہ بتاؤ کہ زندگی ایسی بے دردی سے گزارنے کے بعد ایسے بے پناہ شعر کیسے کہہ لئے تم نے مجھے خبر بھی نہیں دی۔

غالب  :امیر زادوں کوکس کی خبر ہوتی ہے، تم جانتے نہیں یا جان بوجھ کر انجان بنتے ہو میں اگر کامیاب ہو جاتا پنشن پا لیتا، خلعت  اور  منصب مجھے مل جاتا میں بھی اپنے باپ چچا کی طرح رسالدار ہو جاتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تومیں امیر زادوں ہی کی باتیں کرتا کھوکھلی بے سر و پا سطحی، مگر  درد نے مجھے اس دلدل سے نکال کر پورے زمانے کے انسانوں کی صف میں لا کھڑا کیا میں نے اپنے زمانے کا درد لے لیا میں اپنے دور کے سبھی انسانوں کو عبرت  اور  عظمت کا مرقع بن گیا میں نے کہا ہے۔

مرزا    :پھر شعر سناؤ گے۔

غالب  :نہیں، شعر فہمی تم میں کہاں، تمہیں ترجمہ سناتا ہوں۔ ’’اس نے چہرہ بے نقاب کر دیا۔ میرے بے ہودہ بکنے والے ہونٹوں پر مہر لگا دی ہے میرا دل لے لیا  اور   دیکھنے والی دو آنکھیں دے دیں میرے ہاتھ سے بادشاہان عجم کا نشان لے لیا گیا  اور  اس کے بدلے میں خزانے بخشنے والا قلم دے دیا۔ ‘‘یہ شاعری جس کی تم کبھی کبھی تعریف کرتے ہو اور  سمجھتے ہو کہ اس کا حق ادا ہو گیا ہے یہ شاعری میری پوری زندگی کے دکھ درد کا مول ہے۔

مرزا    :دکھ درد کی بات نہ کرو۔ مزے سے شراب پیتے ہو، چین سے خط لکھتے ہو، بڑھاپے میں بھی تمہارے اوپر جان چھڑکنے والے دوست  اور   شاگرد سبھی موجود ہیں۔

غالب  : اور  قاطع برہان کے ہنگامے پر گالیاں دینے والے ؟

مرزا    :اس ہنگامے میں تم خواہ مخواہ پڑ گئے اپنا علم و فضل جتانے کے لئے۔

غالب  :شاعر کو لفظ  اور  لغت پر اظہار خیال کی آزادی نہیں دو گے۔

مرزا    :تمہاری اکثر رائیں غلط تھیں۔

غالب  :کیا مجھے غلط رائے رکھنے کا حق نہیں تھا۔

مرزا    :ہو گا، میں کہہ رہا تھا کہ بڑھاپے میں تمہیں سبھی عیش مل گئے تھے شہرت بچوں کا سکھ،  عارف کے بچے کیا کیا مزے کرتے تھے۔ پلنگ کی صاف چادروں پر میلے میلے پاؤں لے کر چڑھتے، کیا کیا تنگ کرتے تھے۔

غالب  :ہاں انھیں کو تو میں نے اپنے خطوں میں ہتھکڑیاں کہا ہے۔ انھوں نے زندگی کا موہ پیدا کر دیا۔

مرزا    :پھر نواب رام پور جیسے قدردان جو برابر سے ملتے تھے  اور  سلوک کرتے تھے۔

غالب  :میری مسرتوں کو روپے پیسے، دوستوں  اور  خاندان کے دکھ سکھ سے ناپتے ہو، بڑے نادان ہو۔

مرزا    :احسان فراموش ہو، امیر زادے نہ ہوتے تو زندگی سے پیار کرنا سیکھتے، عیش کا مطلب نہ سمجھتے، عزت کی تڑپ سے واقف نہ ہوتے۔

غالب  : اور  ان نعمتوں کے لئے جب تڑپتا ہوں تو تم ہنستے ہو، زندگی بھرمیں روتا رہا  اور  تم ہنستے رہے۔ ۔ ۔ تم نے زندگی سے بے پناہ پیار سکھایا مگر  فقط اس کا لالچ دیا، اس کا عرفان نہیں دیا۔ شاعری کیا ہے مرزا، صرف زندگی  اور   حسن سے بے پناہ پیار۔ اس کی لذت، اس کی بے پناہ خوبصورتی سے لگاؤ۔ پھر اپنی تنگ دامنی کو دیکھتا ہوں تو تڑپتا ہوں، اپنی مجبوری پر روتا ہوں، اپنی نارسائی پر اگر کوئی مستی  اور   محرومی کا شاعری ہو سکتا ہے تو میں ہوں، مرزا۔  اور  محرومی کے اس دورا ہے پر بانکپن سے اپنی ٹوپی ٹیڑھی کرتا ہوں  اور  غم پر قہقہہ لگاتا ہوں، درد کے زہر کو مسکراتے مسکراتے شراب ناب کی طرح پی جاتا ہوں۔ میں نے آبگینے کے ٹکڑے گلا کر شراب میں ڈال لئے ہیں کہ سینہ زخمی ہوا  اور  لب مسکراتے رہیں۔

مرزا    :یہ ہمت!

غالب  :یہ ہمت ہی میرے  اور  تمہارے درمیان مشترک ہے۔ یہ ہمت ہی میرے  اور  آج کے زمانے کے درمیان ہے۔ یہ ہمت ہی مجھے زندہ رکھتی ہے میں دیکھتا ہوں آج کے نوجوان کے چہرے مرجھائے ہوئے  اور   اداس ہیں مگر  میں نے دیکھا ہے کہ جب میرا دیوان پڑھتے ہیں۔

مرزا    :وہی چھوٹا سا رد  دیوان!

غالب  :جی ہاں وہ پڑھتے ہیں تو ان کے چہروں پراک حوصلہ ابھرتا ہے یہ کہ وہ زندگی سے ہاریں گے نہیں، یہ کہ وہ آرزومندی کی تڑپ سے دامن نہیں بچائیں گے، وہ پھر چاہیں گے دل کی گہرائیوں سے، پھر تمنا کریں گے  اور   پھر ٹوٹتی آرزوؤں کی جہنموں سے گزریں گے۔

مرزا    :تمہارا شکوہ پورا ہوا مگر  میں۔

غالب  :تمہارا کیا ہے تم ہزاروں لاکھوں امیر زادوں کی طرح ایک امیر زادے تھے عیش کئے یا عیش کی تمنا کی  اور   واپس چلے گئے۔

مرزا    :ہر وجود ایک سوال ہے، میرا وجود ایک ایسے زمانے میں جب تمام چیزیں جو مجھے عزیز تھیں مٹ رہی تھیں۔ بہت بڑا سوال تھا۔ تمہیں کیا حق تھا کہ اس طرح مجھ سے کھیلو، جو مجھے عزیز تھا وہ مجھ سے چھین لیا  اور   جو کچھ آنے والا ہے اسے قبول کرنے پر مجھے مجبور کرو۔ صبح کے وقت تم نے کبھی چراغوں کی بے بسی دیکھی ہے۔ تم تو شاعر ہو۔ ۔ ۔ کیا تم بھی اس ادھورے پن کو محسوس نہ کر سکے  اور  آج اس ادھورے انسان پر رونے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ تمہارے سب پجاری ہیں شاعر غالب کے سب شیدائی ہیں لیکن مرزا نوشہ کا کوئی ہمدم، کوئی دوست، کوئی آشنا نہیں۔

(دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ غالب کھولنے جاتے ہیں۔ اس بار مرزا نوشہ نہیں روکتے۔ دروازہ کھولنا چاہتے ہیں پھر کچھ سوچ کر خود ہی دروازہ کھولنے کا ارادہ ملتوی کر دیتے ہیں۔ )

(پس منظر سے غزل کے اشعار ابھرتے ہیں۔ )

آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

عاشقی صبر طلب  اور   تمنا بے تاب

دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک

غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

(پردہ گرتا ہے۔ )

***

ماخذ: ادارۂ تصنیف، ڈی!۷، ماڈل ٹاؤن، دہلی، ۱۹۷۵ء

 

 

 

خوابوں کا سوداگر

 

 

 

 

 

 

(بس تیزی سے قریب آنے  اور  گزر جانے کی آواز)

نرمل   :خواہ مخواہ دوڑ رہے ہیں لوگ۔ نہیں رکے گی۔

گردھاری       : (دوڑنے کی آواز) کنڈکٹر بس روکو۔ بس روکو۔

(بس گزر جاتی ہے۔ )

نرمل   :میں نے کہا تھا نہیں رکے گی۔

گردھاری       :روکو!روکو!!

(دور تک دوڑتا چلا جاتا ہے بس گزر جاتی ہے۔ گردھاری ہانپتا ہوا واپس آتا ہے۔ )

گردھاری       :دیکھا آپ نے۔ کیسے لا پرواہ ہوتے ہیں یہ ڈرائیور۔

مولانا   :اجی قبلہ۔ آپ نے ناحق زحمت کی۔ پہلے ہی عرض کیا جا رہا تھا کہ نہیں رکے گی۔

نرمل   :ہاں جی۔ بڑے ظالم ہوتے ہیں کسی کی جان بھی چلی جائے تو گاڑی نہیں روکیں گے۔

گردھاری       :مجا آتا ہے ستانے میں۔

مولانا   :اجی حضرت دراصل یہ سواری ہی نہایت نامعقول ہے۔ واللہ ایسی سواری پر بزرگ لعنت بھیج گئے ہیں جس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں نہ ہو گویا ہماری آپ کی سب کی جان نعوذ باللہ اس کنڈیکٹر بلکہ کیا کہتے ہیں اس ڈرائیور کے ہاتھ میں ہے چاہے ٹکر مار دے۔ یہ بھی کوئی سواری ہے۔

گردھاری       :مگر  جناب۔

مولانا   :قطع کلام معاف۔ پھر یہ بھی کیا بات ہوئی کہ استغفراللہ عورتیں تک شرفا کے کندھے سے کندھا ملا کر بیٹھی ہیں۔ ڈوب مرنے کا مقام ہے شریفوں کے لئے۔

گردھاری       :تو پھر جناب بس میں سفر کرنا۔

مولانا   :جی ہاں سراسر ظلم ہے، ستم ہے۔

گردھاری       :مگر  مولانا!بس میں نہ بیٹھیں تو روز پندرہ میل آنا  اور   پندرہ میل جانا! پیدل آتے جاتے جوتیاں خود گھس کر آدھے رہ جائیں گے۔

مولانا  :ہاں صاحب یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ سفر نہ کرے تو کیا کرے۔ ٹیکسی والوں کے دماغ نہیں ملتے۔ موٹر اسکوٹر ہمارے آپ کے پاس ہونے سے رہا لے دے کے غریبوں کی چشم و چراغ یہی ایک بس ہے۔

نرمل   :یہ بھی ٹھیک ہے۔ مزا یہی ہے یارو کہ اس زندگی کی ہر بات ٹھیک بھی ہے  اور  غلط بھی۔ چلو چھوڑو یارو۔ بس تو گزر گئی کوئی زندگی تو نہیں گزر گئی۔

گردھاری       :واہ صاحب واہ!یہاں دوڑتے دوڑتے پلیتھن نکل گیا  اور   آپ کے نزدیک کچھ ہوا ہی نہیں۔ آخر ذرا دھیان کیجئے کہ کوئی ایسا ہی ضرور کام رہا ہو گا۔ نہیں تومیں بھی انتظار کر سکتا تھا۔

نرمل   :ہاں صاحب یہ توہے۔

مولانا   :جی ہاں جناب کوئی اپنے اختیار سے راستے کی دھول پھانکنے آتا ہے۔ مجبوری نہ ہو تو اپنا گھر کسے برا لگتا ہے۔ مجبوری نہ ہو تو کوئی اس نامعقول سواری میں قدم رکھے۔ بے بس کر دیتی ہے کمبخت  اور  لطف یہ ہے کہ نام رکھا ہے بس۔ قدرت کی ستم ظریفی ہے۔ شاعر کہہ گیا ہے :

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے

اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

نرمل   :تو گویا بس نہ ہوئی دنیا ہو گئی۔ کوئی اپنی خوشی سے آتا ہے ؟

مولانا   :واہ برخوردار!کیا بات پیدا کی ہے۔ کوئی اپنی خوشی سے نہیں آتا  اور   واپس جانے کے لئے بہت انتظار کرنا پڑتا ہے۔

نرمل   :مگر  واپس تو خود بھی جا سکتا ہے۔

مولانا   :بے اس کے حکم کے پتا نہیں ہل  سکتا جس کی جس وقت لکھی ہے اس وقت آئے گی۔

نرمل   :میں آج خودکشی کرنے کا ارادہ کر لوں تو سامنے قطب مینار سے ایک چھلانگ لگا کر ہمیشہ کے لئے!

مولانا   :خدا نہ کرے۔ برخوردار ایسی باتیں کیوں زبان سے نکالتے ہو۔ توبہ توبہ!!

گردھاری       :آپ لوگوں کو شاعری سوجھ رہی ہے۔ وہ دیکھئے دوسری بس آنے والی ہے۔

جی نہیں موبائل کورٹ ہے۔

مولانا   :یعنی۔

نرمل   :چلتی پھرتی عدالت۔ بس میں بلا ٹکٹ سفر کرنے والوں کا چالان کیا جاتا ہے۔

مولانا   :بہت خوب۔ گویا پہلے تو بس میں سفر کرنے  پر مجبور کئے جاتے ہیں۔ پھر بلا ٹکٹ  سفر کرنے کی گنجائش پیدا کی جاتی ہے۔ پھر چالان کر کے کیفر کردار تک پہنچائے جاتے ہیں :

قرباں ہجوم رحمت پروردگار کے

(بس قریب سے گزر جاتی ہے۔ )

گردھاری       :ہماری بس ابھی تک نہیں آئی۔

نرمل   :اجی اتنی جلدی بھی کیا ہے۔ بس آتے آتے ہی آئے گی ذرا دم لیجئے۔

گردھاری       :میں زندگی بھر دم لینے کو تیار ہوں۔ مگر  کوئی دم لینے تو دے۔ بچے کی دوا آنی ہے۔ پھر سودا سلف لے جا کر گھر والی کے حوالے کرنا ہے۔ پھر دفتر کی راہ لینی ہے۔ ذرا سا وقت ہے اس میں اتنے بہت سے کام کیسے ہوں گے۔

نرمل   :سچ کہتا ہوں (مسکرا کر)مجھ سے زندگی بدل لیجئے۔ میرے پاس وقت ہے۔ وقت بے کراں سمندر ہے۔ بے  اور  چھور کا ریگستان ہے۔ خرید لیجئے۔ میں وقت بیچتا ہوں  اور  اب تک کسی نے یہ بے بہا خزانہ خریدا نہیں ہے۔ میں ابھی تک بیکار ہوں۔

مولانا   :خدا نے چاہا تو نوکری مل جائے گی۔

نرمل   :نہیں مولانا۔ میں اب زیادہ انتظار نہیں کر سکتا۔ بہت دیر ہو چکی ہے۔

گردھاری       :آپ بھاگیہ وان ہیں بھائی!یہاں ایک طرف دفتر کا چکر ہے۔ پانچ منٹ دیر ہو گئی تو ہیڈ کلرک آنکھیں نکال رہا ہے۔ ساتھی سنگی چغلی کھا رہے ہیں۔ گھر پہنچو تو نون، تیل، لکڑی کا چکر۔ گھر والی منہ پھلائے بیٹھی ہے۔ ایک بچہ بیمار ہے۔ پچھلے ہفتے دوسرا جھولے سے نیچے گر پڑا ہے۔ اس سے پچھلے ہفتے سب سے چھوٹے کو دانت نکلنے میں بخار آ گیا۔

مولانا   :تو آپ کے چار بچے ہیں۔

گردھاری       :جی آپ کی کرپا سے۔

مولانا   :ارے بھائی۔ میں نام بھولا آپ کا۔

گردھاری       :گردھاری لال۔

مولانا   :ارے بھائی گردھاری لال جی!پہلے سے کیوں نہیں بتایا آپ نے۔ پچھلے تین دن سے پریشان ہو رہا ہوں۔ بیس ہزار کا معاملہ ہے کسی ایسے شخص کی تلاش ہے جس کے چار بچے ہوں۔

گردھاری       :بیس ہزار کا!

مولانا   :جی ہاں جناب بیس ہزار کا۔ اچھا تو جناب یہ بتائیے کہ جن والدین کے چار بچے ہوتے ہیں ان کی پانچویں بچے سے کیا ہوتی ہے ؟!

گردھاری       :میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا؟

مولانا   :اوہو۔ عاقل بالغ ہیں آپ ماشاء اللہ۔ سیدھی سی بات ہے۔ یہ بتائیے کہ آپ کو اپنے پانچویں بچے سے کیا ہے۔ نفرت، محبت، چاہت، ہیبت، راحت، مروت۔

گردھاری       :میں نے کہاتا کہ میرے چار بچے ہیں۔

مولانا   :وہ تومیں سمجھ گیا۔ میں پوچھتا ہوں آپ کو پانچویں بچے سے کیا ہے ؟

گردھاری       :مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی۔

مولانا   :نہیں سمجھے آپ۔ ارے بھائی معمے کا اشارہ ہے۔ آپ سے بہتر بھلا کون بتا سکتا ہے۔ ذرا دماغ پر زور ڈالے۔ ذرا دھیان سے سوچئے۔ یعنی آپ کو اپنے پانچویں بچے سے کیا ہے۔ آ پ نے ٹھیک ٹھیک بتا دیا تو بخدا اول انعام کہیں نہیں گیا ہے۔ صاف بیس ہزار روپے ہاتھ جائے گا۔ ہاں تو کیا ہوتی ہے ؟

گردھاری       :مجھے کچھ نہیں ہوتی پانچویں بچے سے،  اور  ہوتی بھی ہے تو نہیں بتاتا۔

مولانا   :اوہ آپ تو نا حق ناراض ہو گئے۔ بھائی، گردھاری لال صاحب۔ واللہ آپ کا بڑا احسان ہو گا آخر آپ کا حرج ہی کیا ہے بتانے میں۔

گردھاری       : اور  جو میں نہ بتانا چاہوں۔

مولانا   :تو نا حق آپ کے سر بہت سی ذمہ داریاں آ جائیں گی آپ کے نہ بتانے سے بیس ہزار روپیہ کا نقصان ہو گا۔ میرے قرض خواہوں کا قرضہ ادا نہ ہو گا۔ مالک مکان سال بھرکا کرایہ نہ لے سکے گا۔ بیوی کے زیور گروی پڑے رہیں گے  اور  آپ جانتے ہیں اس سارے عذاب کی ذمہ داری آپ کی گردن پر ہو گی۔

گردھاری       :یہ تو آپ سراسر انیائے کر رہے ہیں۔

مولانا   :کاش مجھے صحیح اشارہ معلوم ہوتا۔

گردھاری       : اور  باقی اشارے۔

مولانا   :باقی سب اشارے مجھے معلوم ہیں  اور  ان تک کوئی دوسرا نہیں پہنچ سکتا۔

نرمل   :مولانا!معمہ جیتنا بہت ضروری ہے۔ لیکن کبھی کبھی ہار میں بھی مزا ہوتا ہے۔

مولانا   :نہایت ضروری ہے برخوردار۔ نہایت ضروری ہے۔ میں سارے اشارے حل کر چکا ہوں۔

نرمل   :دنیا کا ہر مذہب، ہر فلسفہ یہی کہتا آیا ہے کہ مولانا کہ اسے زندگی کے معمے کے سارے اشارے معلوم ہیں  اور  ان تک دوسرا کوئی نہیں پہنچ سکتا مگر  ایک آخری اشارہ پھر بھی باقی رہ جاتا ہے اسے کوئی نہیں جانتا۔ وہ لفظ کسے معلوم ہے جو زندگی کے معمے کو حل کر سکے شاید اس لفظ کو کوئی نہیں جانتا۔ یہی ایک لفظ ہم سب کی تقدیر ہے۔

مولانا   :حضرت!آپ خواہ مخواہ دخل در معقولات کر رہے ہیں۔

گردھاری       :وہ ٹھیک کر رہے ہیں۔ مجھے کوئی اشارہ نہیں آتا۔ مجھے آتا تو میں اس طرح بس کے پیچھے دوڑ دوڑ کر ہلکان ہوتا۔ میرے پاس بھی کار ہوتی۔ میں بھی آرام سے رہتا  اور  آپ سب پر ہنستا ہوا زوں سے کار میں گزر جاتا۔

مولانا   :دھول اڑاتا ہوا!

گردھاری       :جی؟

مولانا   :تو کیا سچ مچ کوئی ایسا نہیں ہے جو یہ اشارہ حل کر سکے۔

نرمل   :شاید کوئی نہیں۔ کوئی بھی نہیں۔

گردھاری       :اس ۱۷ نمبر بس کی سروس نہایت خراب ہے بہت دیر سے آتی ہے  اور   جب آتی ہے تو بھری ہوتی ہے۔

مولانا   :بسیں کم ہیں مسافر زیادہ ہیں۔

گردھاری       :اس لئے برتھ کنٹرول پر زور دیا جا رہا ہے کہ بسیں زیادہ  اور  آدمی کم ہو جائیں گے۔ تب سب آرام سے سفر کر سکیں گے۔

نرمل   :اجی سب بکو اس ہے گردھاری لال جی۔ پیدائش پر کنٹرول۔ مگر  زندہ رکھنے پر اصرار۔ میں کہتا ہوں کروڑوں اربوں انسان جن کی زندگی کے مسئلوں کی کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے انھیں مرنے کی آزادی کیوں نہیں دی جا سکتی۔

مولانا   :میاں صاحبزادے !تم بہت خوفناک باتیں کرتے ہو۔ مجھے موت سے نہایت ڈر معلوم ہوتا ہے۔

نرمل   :اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے مولانا۔ ہم سب بچے جواں، بوڑھے، مرد، عورت سب کے سب ایسے مجرم ہیں جنھیں سزائے موت دی جا چکی ہے۔ مگر  پھانسی کی تاریخ مقرر نہیں ہوئی ہے جس دن وہ تاریخ آ جائے گی جلاد ہماری کوٹھری میں چپکے سے داخل ہو کر ہمیں ساتھ لے جائے گا  اور  پھر ایک لمحے میں سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ پانی پانی میں، ہوا ہوا میں، مٹی مٹی میں، آگ آگ میں مل جائے گی۔ اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے۔

مولانا   :موت کا نام نہ لو برخوردار۔

گردھاری       :کچھ  اور  باتیں کرو بھائی۔

نرمل   :موت سے بڑی  اور  کوئی بات اس زندگی میں نہیں ہو سکتی۔ آپ اتنے گھبراتے کیوں ہیں۔ موت کی بھی ایک خوشبو ہوتی ہے جو انسان کو اختیار کا سبق سکھاتی ہے، بتاتی ہے کہ اس کے لئے بس کا انتظار کرنا ضروری نہیں ہے۔

مولانا   : (غصے سے) لاحول و لا قوت میاں صاحبزادے تم اس نامراد ذکر سے باز نہیں آؤ گے۔

نرمل   : (لطف لے کر) مجھے اس ذکر میں مزا آتا ہے۔

مولانا   :لاحول ولاقوۃ۔ بلکہ استغفراللہ۔ میاں جوانی میں لوگ عشق و عاشقی کی باتیں کیا کرتے ہیں۔ مرتے تو ہیں مگر  کسی پر مرتے ہیں۔

نرمل   :جی، آج کے زمانے میں ؟!

مولانا   :میاں، ہر زمانے میں۔ آج زمانے میں کیا سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں ہر زمانے میں نوجوان عشق کرتے رہے ہیں  اور  جب تک دنیا قائم ہے کرتے رہیں گے۔

نرمل   :آپ بھولتے ہیں مولانا!آج کا نوجوان عشق  اور   پریم سے بے خبر ہے اسے آپ نے روزگار، تعلیم  اور  گھربار کے جنجال میں اس طرح پھنسا دیا ہے کہ اس کے لئے زندگی کی ساری برکتیں بے معنی ہو کر رہ گئیں ہیں۔ وہ بس اسٹاپ پر چند لمحوں کی نظر بازی یا ایک مسکراہٹ ہی کو سب سے بڑی دولت جان کر خوش ہو لیتا ہے۔ اسے عشق کی آگ میں تپنے کا مزا معلوم ہی نہیں۔ اس کے لئے یہ دلاسا ہی بہت ہے۔

مولانا   :دنیا اب بھی بہت رنگین ہے صاحبزادے۔

گردھاری       :یہ تو ٹھیک کہہ رہے ہو مولانا!میں نے تو اپنی زندگی میں کبھی لڑکیوں کو بے آستین کے قمیض پہنے نہیں دیکھا تھا۔

مولانا   :تو صاحبزادے مہرولی جا کر قیام کرنے کا ارادہ ہے یا قطب مینار کی لاٹ پر رہائش اختیار کرو گے۔

نرمل   :ابھی میں نے کچھ طے نہیں کیا ہے۔ آپ کے پاس قلم ہو گا۔

گردھاری       :ہاں یہ لیجئے۔

نرمل   :مجھے ایک ضروری خط لکھنا ہے۔

مولانا   :عجیب آدمی ہو، استاد!بس اسٹاپ پر خط و کتابت یعنی چہ معنی دارد؟

(تھوڑی دیر خاموشی رہتی ہے۔ )

نرمل   :آپ دونوں مجھے اس طرح گھور گھور کر کیوں دیکھ رہے ہیں۔

(خاموشی قائم رہتی ہے۔ )

نرمل   : (ایک دم چیخ کر)آپ کیا جاننا چاہتے ہیں۔ میں خودکشی کر رہا ہوں میں پاگل ہوں۔ میری زندگی اکارت ہے  اور  میرے اس ارادے سے مجھے کوئی بھی روک نہیں سکے گا۔ جائیے آپ پولیس کو اطلاع کر دیجئے، قانون سے کہئے وہ جس بیکار نوجوان کو جینے حق نہ دے سکا اس سے مرنے کا حق بھی چھین لے۔ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟

مولانا   :کچھ نہیں!

گردھاری       :کچھ بھی تو نہیں!

نرمل   :آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں اپنا دل چیر کر اپنے زخم آپ کو گنواؤں۔ آپ کو دلیل  اور  ثبوت سے سمجھاؤں کہ میرے لئے موت کیوں ضروری ہے۔ میں کوئی دلیل نہیں دوں گا۔ میرے دل کے ناسور، میرے ساتھ چتا میں جل جائیں گے آپ ان کونہ دیکھ سکیں گے۔ آپ مجھ سے دلیل مانگتے ہیں میں آپ سے اس سوال کا جواب چاہتا ہوں ’’آپ کیوں زندہ ہیں ؟‘‘،  ’’آپ کو اس طرح زندہ رہنے کا کیا حق ہے ؟‘‘بولئے جواب دیجئے۔

مولانا   :ہم مر نہیں سکتے۔

گردھاری       :موت بھیانک ہے۔

نرمل   :زندگی اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہے۔

گردھاری:کمبخت یہاں کوئی نلکا بھی نہیں ہے سخت پیاس لگی ہے۔

مولانا   :یہیں کہیں ہوا کرتا تھا نل۔ حلق تو میرا بھی خشک ہو رہا ہے۔ چلئے دیکھتے ہیں۔

گردھاری       :چلئے۔ مگر  چلنے سے پہلے۔

مولانا   : (نرمل سے)دیکھو میاں صاحبزادے ہم لوگوں کی موجودگی میں تم نہ مر سکو گے۔ ابھی ہمارے اندر اتنا دم ہے کہ ایک آدمی کو مجبوراً زندہ رکھ سکیں۔

نرمل   :بہتر ہو اگر آپ میری فکر چھوڑ دیں۔

مولانا   :نہیں چھوڑیں گے۔

ایک آواز      : (دور سے)مولانا۔ مولانا۔

مولانا   :افوہ۔ برے پھنسے۔

گردھاری       :کیا ہوا۔

مولانا   :مالک مکان کا کارندہ۔

منشی    :کیا خوب آپ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے آنکھیں پتھرا گئیں۔ آج صبح سے آپ کے گھر پر پہرہ دے رہا ہوں بس جناب ہو چکی یاری۔ سیدھے ہاتھ سے سال بھرکا کرایہ نکالئے۔ ورنہ چل کر مکان خالی کر دیجئے۔

مولانا   :بات تو سنئے۔

منشی    :میں نہیں سنتا بات وات۔ سال بھر سے آپ ٹالے بالے بتا رہے ہیں۔ بس اب میری رقم ڈھیلی کیجئے۔ مالک مکان نے صاف صاف کہہ دیا کہ یا تو  رقم وصول کر کے لاؤ یا سامان مکان سے باہر پھینک دو۔

گردھاری       :دیکھئے۔

منشی    :آپ خواہ مخواہ بولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ سے کیا مطلب ہے۔

گردھاری       :اب اس وقت بس اسٹاپ پر جیب میں کوئی کرایہ لئے پھر رہے ہیں۔

منشی    :میں کچھ نہیں جانتا۔ مجھے جواب چاہئے۔

مولانا   :پھروہی مرغے کی ایک ٹانگ۔

منشی    :مرغے ہو گے تم۔ میں کہوں ہونے لگا مرغا۔ میاں سیدھے سادے کرایہ ادا کر دو۔

مولانا   :مجھ سے ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمائی جائے گی۔ آپ کر لیجئے جوہو سکے۔

منشی    :اچھا تو آج ہی لو۔ ابھی لو۔ سامان گھرکے باہر پھنکوائے دیتا ہوں۔ تم جیسے کرایہ داروں سے بھگتنا میں خوب جانتا ہوں۔

نرمل   :ادھر بات سنو منشی۔

منشی    :ہم پہ نیلی پیلی آنکھیں نکالنے والا کون ہوتا ہے تو۔

نرمل   :مولانا جائیے آپ پانی پی آئیے (کارندے سے) سنئے منشی جی۔ مجھے سمجھائیے معاملہ۔

منشی    :اجی معاملہ کیا ہے۔ سال بھرکا کرایہ ان کے ذمہ نکلتا ہے۔ کرایہ دلوا دیجئے۔

نرمل   :اچھا رسید بک نکالئے۔ میں دیتا ہوں ان کی طرف سے پورا کرایہ۔

منشی    :آپ۔ آپ کون صاحب ہیں۔ خیر کوئی ہوں۔ مجھے کرایہ چاہئے۔

نرمل   :رسید نکالئے  اور  سنئے آپ ریس کھیلنے کب سے نہیں گئے۔

منشی    :آپ نے کیسے جانا کہ میں ریس کھیلتا ہوں۔

نرمل   :مجھے آپ کے ماتھے پر سب کچھ پڑھنا آتا ہے۔

منشی    :سچ۔ تو آپ بتا سکتے ہیں۔

نرمل   :سب کچھ بتا سکتا ہوں۔

منشی    :کیا جیتنے والے گھوڑے کے نمبر بھی۔

نرمل   :ہاں۔ مگر  اسے ہر ایک کو نہیں بتایا جاتا۔

منشی    :بڑی مہربانی ہو گی آپ کی۔ مجھے بتا دیجئے۔ میری بگڑی بن جائے گی۔ میں آپ کا زندگی بھراحسان مند رہوں گا۔ تا عمر آپ کو یاد کروں گا۔

(سپیرے کے بین کی آواز)

نرمل   :سپیرے، سپیرے۔

سپیرا   :جی حضور۔ ہم کا بلاوا کا؟

نرمل   :دیکھو سپیرے۔ ہمارا کوٹ پہن لو۔

سپیرا   :ہم سے کا مسخری کرت  ہو صاحب۔ ہم دو کوڑی کے منئی کیا صاحب لوگ کا کوٹ پہن سکت ہیں۔

نرمل   :لے جاؤ۔ خوشی سے لے جاؤ۔ پہن لو۔ میرے لئے بیکا رہے۔

سپیرا   : (ہنستا ہے) اچھا تو پہن دیکھت ہیں۔

نرمل   : (ہنس کر)تم تو سچ مچ جنٹلمین لگ رہے ہو۔ اچھا اسی بات پر ذرا سانپ کا تماشا بھی دکھا دو۔

سپیرا   :ارے ہم کا حضور اس دفعہ کا سانپ ذرا بکٹ رہے۔

نرمل   :ہمیں اب کسی بکٹ وکٹ سے ڈر نہیں لگتا۔ کھولو۔ پٹاری کھولو۔ تنک دم لو۔

(بین کا نغمہ)

سپیرا   :اے کا کرت ہو صاحب۔ اے کا کرت ہو۔ سانپ کونہ پکڑو کاٹ لئے ٹھور مر جات۔

نرمل   : (قہقہہ لگاتا ہے) ہمیں موت سے ڈر نہیں لگتا۔

سپیرا   :رکھدو صاحب۔ سانپ کو نیچے رکھ دو صاحب۔

نرمل   :نہیں میں اسے منشی جی کے گلے میں ڈالنا چاہتا ہوں۔

منشی    :ارے۔ یہ کیا آپ غضب کر رہے ہیں۔ اسے پیچھے ہٹائیے (چیخ کر) پیچھے ہٹائیے۔

نرمل   :میں اسے آپ کی گردن میں ڈالے بغیر نہ چھوڑوں گا۔ (قہقہہ لگا کر) آپ بھی کسی سانپ سے کم نہیں ہیں۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ دو زہریلے سانپ جب ایک دوسرے کو ڈستے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔

منشی    :رحم کیجئے میں مر جاؤں گا۔

نرمل   :رحم آپ کو کرنا ہے منشی جی۔ میری طرف دیکھئے مجھے موت سے ڈر نہیں لگتا۔ مجھے اپنی زندگی پیاری نہیں ہے۔ ایسا آدمی سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ مجھے رسید چاہئے۔ آپ سمجھ گئے۔

منشی    :جی سمجھ گیا۔ رسید دینے کو میں منع تھوڑے ہی کرتا ہوں۔ لیکن رقم۔

نرمل   :مجھے آپ کی دستخطی سال بھرکے کرایہ کی رشید درکا رہے۔

منشی    : اور  اگر میں نہ دوں تو۔

نرمل   :میں ڈال دوں گا۔ پھر یہ کبھی نہ اترے گا۔

(منشی چیختا ہے۔ )

نرمل   :رسید۔

منشی    :نہیں۔

(چیختا ہے۔ )

نرمل   :رسید۔

منشی    :اچھا بابا۔ ذرا دم لیجئے میں رسید بھی دیئے دیتا ہوں۔ آپ تو واقعی بڑے خطرناک ہیں۔ آپ تو آدمی کی جان بھی لے سکتے ہیں۔

نرمل   :میں تمہیں راز کی بات بتاتا ہوں۔ اب سے کچھ دیر بعد ایک آدمی کی جان لینی ہے  اور  اس آدمی کا نام ہے نرمل کمار۔

منشی    :یہ لیجئے رسید۔

نرمل   :ٹکٹ، دستخط۔

منشی    :سب موجود ہے جناب۔ اچھا اب مجھے اجازت ہے۔ اب میں چلوں۔

نرمل   :ہر طرف خاموشی۔ زندگی تیرا بندھن کتنا کمزور  اور   کیسا مضبوط ہے۔

ولی چند:رام رام۔ یاں کوئی گردھاری لال تو نہ آیو؟

نرمل   :گردھاری لال۔

ولی چند:ہاں جی۔ ٹھگنا سا ہے۔ یہی ہو گا ۵۰۔ ۴۵ ورش کا۔ بڑے دفتر میں کلرک لگا ہوا ہے۔ ابھی گھر سے پتہ لگا سی کہ بس اسٹاپ پر گیا ہوا سی۔

نرمل   :میرا نام تو گردھاری لال نہیں ہے۔

ولی چند:بس سے چلا گیا معلوم پڑے ہے آگے کو۔

نرمل   :کام کیا ہے آپ کو۔

ولی چند:کام۔ اجی کام ہی کیا ہے دہی اپنا دھندا ہے اپنی بہن کے بیاہ میں کچھ روپیہ سود پر لیا سی اس نے۔ اب تک اس کا بھگتان نہیں کیا سی۔ اب بولو بھلا کوئی کب تک انتظار کر سکے سی۔ روپیہ والا تو سر پر ڈنڈا مار وصول کرے گا وہی سی۔

نرمل   :ٹھیک ہے۔

ولی چند: اور  میری سنو تو بیاج کے روپے سے جو بیاہ کرو وہ کبھی پروان نہ چڑھے سی۔ گردھاری لال کا اس بیاہ میں بھٹا بیٹھ گیا سی۔ پرنتو اس کی بہن کی اپنے پتی سے بن کے ہی نادی۔

نرمل   : اور  آپ کا بیاج پھر بھی گردھاری لال کو دینا ہے۔

ولی چند:بروبر۔ جو روپیہ دیتا ہے میں نے کہا نا سی وہ تو مار ڈنڈا سر توڑ وصول کر لے گا ہی سی۔

نرمل   :آپ مت کیجئے۔ گردھاری لال غریب کلرک ہے۔

ولی چند:اجی ہمیں سنت سادھوؤں کی باتیں مت سمجھاؤ سی۔ اچھا توہم اب چلے۔

نرمل   :جانے کا آپ کو اختیار ہے۔ مگر  گردھاری لال یہاں موجود ہیں ذرا پانی پینے چلے گئے ہیں۔

ولی چند:تو پھر ایسا بولو سی۔

نرمل   :میں چاہتا ہوں کہ اس کا سارا قرضہ ادا ہو جائے۔

ولی چند:ہم بھی یہی چاہتے ہیں جی۔ اصل تو سارا ادا کر دیا سی پرنتو بیاج بھی تو کوئی بھرے گاجی۔

نرمل   :تو بیاج آپ معاف کر دیجئے نا۔ آپ لکھ پتی آدمی ہیں۔ آپ کے لئے  کیا فرق پڑتا ہے۔

ولی چند:یہ کیسی بات کرتے ہو۔ ہم بیاج معاف کرنے لگیں تو پھر کھائیں گے کیا جی۔

نرمل   :میں اس کا بھی انتظام کر دوں گا۔ آپ کچھ نہیں جانتے۔ میں نے اس دنیا کو دیکھا  اور  برتا ہے۔ مجھے اب سے آدھ گھنٹہ کے اندر اندر مر جانا ہے  اور  آپ نے سنا ہو گا کہ مرنے سے پہلے آدمی کی آنکھ دنیا کے آنے والے واقعات پڑھ سکتی ہے۔ میں بھی اس وقت آپ کی قسمت کا لکھا آئینہ کی طرح دیکھ سکتا ہوں۔

ولی چند:سچ۔

نرمل   :ہاں اس لئے کہ میں اپنی موت کے لئے تیار ہوں۔ میں اس سے آنکھیں چار کر سکتا ہوں۔

ولی چند:تو پھر مجھے کچھ بتائیے مہاراج۔

نرمل   :جو بتاتا ہے وہ کچھ نہیں جانتا۔ جو جانتا ہے وہ کچھ نہیں بتاتا۔

ولی چند:تو پھر، ہمیں کی فائدہ سی۔

نرمل   :میں آپ کی قسمت میں روپیہ ہی روپیہ دیکھ رہا ہوں۔ مگر  اس کے لئے راستہ کٹھن ہے۔

ولی چند:کٹھن ہے۔

نرمل   :ہاں !مایا آپ کی تلاش میں ہے۔ ساکشات لکشمی آپ کے گھر کا راستہ ڈھونڈ رہی ہے مگر  آپ کی لالسا نے اس کا راستہ روک لیا ہے۔

ولی چند:تو پھر۔

نرمل   :مشکل کام ہے مگر  میں اس کام کو پورا کر سکتا ہوں۔ آپ کے مکان کے بہت پاس ایک ایسی جگہ ہے جہاں دولت گڑی ہوئی ہے۔ ہر رات کو دو بجے کے قریب اس دولت کے اوپر بیٹھا ہوا سانپ دولت پانے والے کو آواز دیتا ہے  اور  ہر رات کو تھک کر واپس لوٹ جاتا ہے۔

ولی چند:انداز سے بھلا کتنی دولت ہو گی۔

نرمل   :لاکھوں میں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔

ولی چند:سچی۔

نرمل   :مجھے اس جگہ کا پورا پورا پتہ نشان معلوم ہے مگر  وہ ایسے سیٹھ کے ہاتھ آ سکتی ہے جو دیالو ہو۔

ولی چند:یہ تو بڑی کٹھنائی  ہے بھئی۔

نرمل   :گردھاری لال کا قرضہ معاف کر دیجئے تومیں آپ کو اس کا پتہ بتاتا ہوں۔

ولی چند: اور  یدی وہاں نہ نکلی مایا۔

نرمل   :تومیں اس کا ذمہ دار ہوں۔ گردھاری لال کا قرضہ میں دوں گا۔

ولی چند:تو پھر لکھ  دو تحریر۔

نرمل   :ہاں۔ اس میں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ میں گردھاری لال کا سارا قرضہ اپنے ذمہ لیتا ہوں۔ اب آپ کا ایک پیسہ بھی گردھاری لال کے ذمہ باقی نہیں رہا ٹھیک ہے نا۔

ولی چند:ہاں بالکل ٹھیک ہے  اور  یدی مایا نہ نکلی تو۔

نرمل   :میرا گیان دھیان کبھی غلطی نہیں نکلتا۔ مایا نکلے گی۔ جائیے جا کر اپنے مکان کا سامنے والے میدان کا دکھنی کنارہ کھودئیے۔ جائیے !دیر نہ کیجئے مایا آپ کا انتظار کر رہی ہے۔

ولی چند:اچھا تو میں چلوں تنک، گردھاری لال سے کہہ دیجئے گا کہ مجھ سے مل لیں۔

نرمل   :اب ان کے ملنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ قرض دار میں ہوں۔ گردھاری لال نہیں ہے۔ اگر مایا نہ ملے تومیں رقم ادا کروں گا۔ مل جائے تو قرضہ بے باق۔

ولی چند:یہ ٹھیک سی۔

نرمل   :اچھا نمسکار۔

ولی چند:نمسکار۔

نرمل   : (ہنستا ہے)پاگل کتے ہڈی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں  اور   اسے زندگی سمجھتے ہیں (ہنستا ہے) ہر ایک پرچھائیں کو چھونا چاہتا ہے  اور  اسے مسرت کہتا ہے۔ انسان تو قدرت کا سب سے بڑا عجوبہ ہے۔

نرملا    :معاف کیجئے گا ۱۷ نمبر کا بس اسٹاپ یہی ہے۔

نرمل   :جی ہاں۔

نرملا    :کیا بس بہت دیر میں آتی ہے۔ مجھے بہت جلدی ہے کیا یہاں کوئی  اور   سواری نہیں مل سکتی۔

نرمل   :نہیں۔ اس وقت یہاں  اور  کوئی سواری نہیں ملے گی آپ اس قدر گھبرائی ہوئی کیوں ہیں۔

نرملا    :کچھ نہیں۔ کچھ بھی تو نہیں۔ گرمی بہت زیادہ ہے۔ یہاں ٹیکسی اسٹینڈ بھی نہیں ہے کہیں ؟!

نرمل   :نہیں۔ یہاں کے لوگ شارٹ کٹ پر یقین نہیں کرتے۔ یہاں سب کام سیدھے سادے راستوں سے ہوتے ہیں۔ بے ایمانی بھی  اور   ایمانداری بھی۔

نرملا    :آپ شاعر ہیں۔

نرمل   :نہیں فقط انسان ہوں  اور  وہ بھی پتہ نہیں کب تک۔

نرملا    :میں پریشانی میں ہوں۔ آپ میری مدد کیجئے۔

نرمل   :کیا پریشانی ہے آپ کو۔ ویسے میں اتنا پریشان رہ چکا ہوں کہ مجھے دوسروں کی پریشانیوں میں مزا آنے لگا ہے۔

نرملا    :بھگوان کے لئے مجھ سے انکار نہ کیجئے۔ اس بچے کو گود میں لے لیجئے۔

نرمل   :جی بچے کو گود میں لے لوں۔

نرملا    :جی ہاں !بچہ کس آرام سے سو رہا ہے۔

نرمل   :لائیے۔ مجھے دے دیجئے۔

نرملا    :وہ میرا پیچھا کر رہے ہیں۔ وہ مجھ سے پوچھتے ہیں اس بچے کا باپ کون ہے۔ انھوں نے میری نیند حرام کر دی ہے۔ میں ہسپتال سے بھاگ آئی ہوں۔

نرمل   :اچھا اوہوہ۔ یہ بات ہے  اور  تمہارے پتا جی!

نرملا    :پتا جی نے مجھے گھر سے نکال دیا۔ عزیز رشتے دار، سب مجھے کلموہی، کلنکنی کہتے ہیں۔ آپ ہی کہئے سچ مچ میں نے پاپ کیا ہے ؟

نرمل   :اس بچے کو  دیکھو کیسا پھول ایسا خوب صورت ہے۔ کیا پاپ اتنا سندر ہوتا ہے۔

نرملا    : (روتے ہوئے) میں لٹ گئی، برباد ہو گئی، برباد ہو گئی۔ میں نہیں جانتی کہاں جاؤں۔ بھگوان مجھے موت بھی نہیں دیتا۔ میرا کوئی سہارا نہیں۔

نرمل   :زندگی کے تجربات بڑے ستم ظریف ہیں۔ کسی کو پاگل، کسی کو مسخرا، کسی کو صرف تماشا بنا کر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک تماشا بھی ہے تماشائی بھی۔

نرملا    :یہ باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ وہ آئیں گے وہ آپ سے پوچھیں گے اس بچے کا باپ کو ن ہے۔

نرمل   :تو کیا مجھے سچ بولنے کی اجازت ہے۔

نرملا    :سچ میرے بھگوان!کیا آپ مجھے دھوکہ دے کر چلے جائیں گے۔

نرمل   :ہاں سچ تو یہی ہے کہ میں اس بچے کا باپ نہیں ہوں بلکہ اس بچے کے باپ کو جانتا بھی نہیں۔ مگر  اتنی بات جانتا ہوں کہ تم پاپن نہیں ہو۔ مجھے نہیں معلوم پاپ کیا ہے۔ بدی کسے کہتے ہیں۔ کیا من کی بات ماننا پاپ ہے۔

نرملا    :ایشور کرے جلدی سے بس آ جائے۔

نرمل   :ڈرو مت۔ مجھے ڈرپوک آدمیوں سے نفرت ہے۔

نرملا    :مگر  بس آ بھی جائے گی تو بے کا رہے۔ میں کہاں جاؤں گی جہاں جاؤں گی وہ مجھے ڈھونڈ نکالیں گے۔

نرمل   :ایسی باتیں مت کرو۔

نرملا    :میرا کوئی سہارا نہیں ہے۔ کہاں جاؤں گی۔ اس بھری دنیا میں میں اکیلی ہوں۔

نرمل   :یہاں سب اکیلے ہیں۔

نرملا    :میرا بچہ کس کے سہارے جئے گا۔ اس کا کیا ہو گا؟

نرمل   :میں نے کہانا ایسی باتیں مت کرو۔ کیا تم میرے اندر پھر زندگی کی خواہش کو جگانا چاہتی ہو۔

نرملا    :آپ نے مجھ سے کچھ کہا!

نرمل   :ہاں تم سے کہا آنسو پونچھ ڈالو۔

نرملا    :میرا دل بہت دکھی ہے بابو۔

نرمل   :مجھے بابو مت کہو۔ میرا نام نرمل ہے۔

نرملا    :میں سچ مچ بہت دکھی ہوں۔ اس پتھروں کے شہر میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو میری مدد کر سکے۔ سب کی نظریں مجھے اس طرح گھورتے ہیں جیسے مجھے کھالیں گے۔ نگل لیں گے۔ کیا یہاں انسانوں کی کوئی بستی نہیں ہے۔

نرمل   :کبھی تھی، مگر  اب وہ سب پتھر ہو گئے ہیں۔

نرملا    : (سسکنے لگتی ہے۔ )

نرمل   :روؤ نہیں۔ میں تمہاری مدد کر سکتا تو ضرور کرتا۔ میں تمہارا درد بانٹ لیتا۔ مگر  میرے پاس بہت کم وقت ہے۔

نرملا    :کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔ یہ لو وہ آ گئے۔

نرملا کا باپ     : (ہانپتے کانپتے ہوئے) یہ کون ہے ؟

نرمل   :آپ کس کو ڈھونڈ رہے ہیں۔

نرملا کا باپ     :اس بچے کا باپ کون ہے ؟میں اس کا سر توڑ دوں گا۔ جس نے ہمارے خاندان کی عزت پر بٹہ لگا دیا۔ جس نے اس بھولی بھالی لڑکی کو دھوکا دے کر اپنے پاپ کا پھل اس کے سر تھوپ دیا۔ میں اس کا خون پی لوں گا۔

نرملا    :پتا جی!

نرمل   :کہنے دو انھیں۔ بزرگوں کے کہنے کا برا نہیں مانتے۔ پتا جی۔

نرملا کا باپ     :خبردار جو مجھے پتا جی کہا۔ تجھے شرم نہیں آتی پاپی۔

نرمل   :اس بچے کی طرف دیکھئے۔ کیا پاپ اتنا سندر ہو سکتا ہے!

نرملا کا باپ     :میں بچے کو نہیں دیکھ سکتا۔ میں صرف تیرے پاپ کو دیکھتا ہوں۔ میں تجھے اس پاپ کا مزا چکھانے آیا ہوں۔

نرمل   :یہاں سڑک پر؟!

نرملا کا باپ     :تو نے بھی تو ہماری عزت سڑک پر نیلام کی ہے۔ ہم آج تیری آبرو مٹی میں ملا دیں گے۔ پھر کسی کو ایسا پاپ کرنے کی ہمت نہیں ہو گی۔

نرمل   : (شانتی سے) ایک بات پہلے سمجھ لیجئے۔ میں اسے اپنی دھرم پتنی بنانے کو تیار ہوں۔ یہ بچہ میرا بچہ ہے۔ ہمارا ایک چھوٹا سا گھر ہو گا۔ جس کے کچے آنگن میں یہ بچہ پل کر بڑا ہو گا۔ لیکن اگر آپ نے ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو سمجھ لیجئے۔ جاپانی کشتی جو جت سوکے پینترے مجھے یاد ہیں کہ آپ ابھی زمین پر الٹے پڑے نظر آئیں گے۔

نرملا کا باپ     :دھمکی دیتا ہے۔ بدمعاش کہیں کا۔

نرملا    :پتا جی اب جانے دیجئے۔ غصہ تھوک دیجئے۔ یہ اپنی غلطی مان رہے ہیں۔

نرملا کا باپ     :تو چپ رہ کلموہی۔ تیری ہی وجہ سے ہمارا منہ پہ کالک پتی۔ تو ہی بڑھ بڑھ کر باتیں بنا رہی ہے۔

نرملا    :آپ ان پر ہاتھ اٹھائیں گے۔ یہ پاپی نہیں دھرماتما ہیں۔

نرملا کا باپ     :دھرماتما(طنزیہ ہنسی) میں ابھی اس دھرماتما کی مرمت کرتا ہوں۔ دھرماتما دیکھتے کیا ہو پکڑ لو اسے۔

نرملا    :میں ہرگز ان ہر پاتھ نہیں اٹھانے دوں گی میں جان دے دوں گی پتا جی آپ کو بچے کا واسطہ۔

(بچہ رونے لگتا ہے۔ ہنگامہ شروع ہو جاتا ہے۔ )

نرمل   :خبردار جو آپ آگے بڑھے۔ میں آخری بار آپ کو ہوشیار کرتا ہوں۔

نرملا کا باپ     :ایسی تیسی تیری ہوشیاری کی۔ تو نے سمجھا کیا ہے ؟

نرملا    :پتا جی! انھیں چھوڑ دیجئے۔

نرملا کا باپ     : (لپٹ جاتا ہے) خون پی کر چھوڑ دوں گا۔ دوسروں کی عزت پہ ہاتھ ڈالتے تجھے غیرت نہیں آئی۔

نرمل   :جو جت سو کا ہاتھ سنبھالو۔

نرملا کا باپ     :ہائے۔

(گر پڑتا ہے۔ )

گردھاری       :یار نل کا پانی پی تو لیا پر اچھا نہیں کیا  اور   بس بھی آ کر نکل گئی ہو گی۔

مولانا   :کنوئیں پرجاؤ پانی پیو گے تو یہی انجام ہو گا۔

گردھاری       :ابلا ہوا پانی مل جاتا تو اچھا تھا۔

مولانا   :اماں لعنت بھیجو اخبار والوں پریہ بھی کوئی بات ہوئی کہ زندگی ابلا ہوا پانی پیتے پیتے گزر جائے۔

گردھاری       :مگر  مولانا۔

مولانا   :اگر مگر  کیا ہوتی ہے۔ خدا کے فضل سے چونچال بلکہ کیا کہتے ہیں ہٹے کٹے رہو گے کیا بیکار کے شک شبہے دل میں لاتے ہو۔ کنوئیں سے نکال کروہ ڈگ ڈگا کے پانی پیا کہ واللہ مزا آ گیا۔ بڑے زور کی پیاس لگی ہوئی تھی۔

گردھاری       :ہم تو صاحب اب کبھی بے ابلا پانی نہ پیں گے یہ بڑا خطرہ مول لینا ہے  اور   ابلنے میں لگتا ہی کیا ہے۔ دمڑی کی لکڑی ہی کاتو خرچہ ہے۔ کب تک ابلا پانی پینا ہو گاہے رام۔

مولانا   :ماشاء اللہ اب ہم ہندوستانی بھی خاصے لا مذہب ہوتے جا رہے ہیں آج پانی ابال کر پینے لگے ہیں۔ کل حکم ہو گا کہ ہوا کو بھی چھان کر استعمال کرو۔ یعنی جو ہمارے پرکھے دندناتے ہوئے زندگی گزار گئے۔ تو صاحب کیا یہ سب ابلا ہوا پانی پیتے تھے کہ سو سو سوا سو برس کی عمریں پائیں  اور  قوت کا یہ حال کہ زمین پر ٹھوکر ماریں تو خدا کی قسم پانی نکل آئے۔ مجھے اب کوئی بتا دے کہ انھیں کنوئیں کے پانی نے کیا نقصان کیا جو ہمیں کرے گا۔

گردھاری       :آپ بے کار کی بات کر رہے ہیں مولانا۔ ہمیں آگاہی دی گئی ہے کہ پانی ابال کر پئیں تو ہماری ذمہ داری ہے۔

مولانا   :اجی ہم نہیں جانتے ذمہ داری ومہ داری سب بکو اس ہے۔ میاں آگاہی تو ہمیں یہ بھی دی گئی ہے کہ شیطان ہمارا دشمن ہے، آرزو شیطان کی خالہ ہے۔ مگر  سارے پیر پیغمبر، پولیس، فوج، ملا، برہمن، قانون، عدالتیں کوئی بھی آدمی کی آرزو کے چنگل سے بچا پاتا ہے۔ ہمیں بھیا سیدھے سادے جینے میں مزا آتا ہے۔

گردھاری       :جلدی قدم بڑھاؤ۔ پتہ نہیں بس آ گئی ہے کہ نہیں۔

مولانا   :اجی تمہیں بس کی پڑی ہوئی ہے۔ مجھے اس سرپھرے لونڈے کی فکر ہے کہیں سچ مچ وہ قطب مینار سے پھاند نہ پڑا ہو۔

گردھاری       :اجی نہیں مولانا۔ جان دینا ایسا کوئی سہل ہے ہاتھ بھر کا کلیجہ چاہئے۔

مولانا   :تم نے ناپا ہے اس کا کلیجہ۔ بے ڈھب لونڈا ہے لالہ جی! یہ آج کل کی نسل ہماری تمہاری طرح نہیں ہے۔ ان کی کھوپڑی میں اول تو کچھ بات آتی نہیں ہے  اور  جو گھس جاوے ہے تو پھر نکلنا مشکل ہی ہے۔

گردھاری       :تو چلئے ذرا قدم بڑھاتے ہوئے چلئے۔

(لڑائی کا شور  شغب سنائی دیتا ہے۔ )

مولانا   :ارے غضب یہ کیا قصہ ہے۔ ارے ٹھہرو! روکو ذرا دم لو۔ اس ایک بے گناہ پرکیوں ٹوٹ پڑے ہو۔

گردھاری       :کیا قصہ ہے ؟

نرملا کا باپ     :قصہ کیا ہے میں اس کا آج سارا حساب چکا کر دم لوں گا۔

گردھاری       :الگ ہٹ جائیے۔

نرملا کا باپ     :نہیں۔ دیکھتا ہوں کون مائی کا لال مجھے الگ ہٹاتا ہے۔

مولانا   :گردھاری آؤ ہم دونوں مل کر پکڑ کر انھیں ایک طرف ہٹا دیں۔

گردھاری       :خبردار جو ہاتھ اٹھایا ٹھا کر صاحب۔ لو بس اب شانت ہو جائیے۔

مولانا   :بتائیے تو قصہ کیا ہے۔ بیٹی تم بھی ایک طرف بیٹھ جاؤ۔ بچہ روتا ہے۔ اسے دودھ دے دو۔

نرملا    :ان کی تو خیر خبر لیجئے۔

مولانا   :تم فکر مت کرو۔ ہم سب ٹھیک کر لیں گے۔ معلوم ہوتا ہے ہمارے پیچھے بہت کچھ ہو گزرا۔

گردھاری       :بس تو نہیں آئی تھی۔

نرملا    :نہیں۔ ابھی بس نہیں آئی۔

مولانا   :برخوردار آخر بتاؤ  تو سہی قصہ کیا ہے ؟

نرمل   :کچھ نہیں مولانا ساری ذمہ داری، سارا قصور میرا ہے۔ مجھ سے کسی کو بے آسرا نہیں دیکھا جاتا مولانا۔ ایک بے آسرا عورت نے پھر میرے دل میں جینے کی امنگ پیدا کر دی۔ یہ میری بیوی ہے  اور   یہ میرا بچہ ہے۔

نرملا کا باپ     :جھوٹا ہے یہ۔ اس نے میری بچی کو دھوکہ دیا ہے۔

گردھاری       :آپ ٹھہر جائیے۔ جھوٹ سچ کا فیصلہ ہوتا رہے گا۔

نرمل   :میرے دل میں پھر امنگ جاگی کہ اس بے آسرا عورت کو پناہ دوں۔ میرا بھی ایک گھر ہو۔ میرا بھی ایک کچا آنگن ہو۔ میری بھی زندگی کا ایک مقصد ہو۔ میرا پھر زندہ رہنے کو جی چاہنے لگا۔ میں زندہ رہوں گا۔

مولانا   :تم سچ کہہ رہے ہو نرمل۔

نرمل   :ہاں۔ سچ اب ہم کبھی جدا نہ ہوں گے۔

نرملا کا باپ     :یہ انیائے رہتی دنیا تک نہیں ہو گا۔ نرملا!ابھی میرے ساتھ جائے گی۔

گردھاری       :بس آنے والی ہے مولانا۔ بس آ رہی ہے۔

مولانا   :اس دفعہ خالی معلوم ہوتی ہے۔ اس دفعہ یہاں ضرور رکے گی۔

نرملا کا باپ     :جائے گی کیسے نہیں۔ تجھے میرے ساتھ جانا ہو گا۔

نرملا    :میں کہیں نہیں جاؤں گی۔ مجھے کہیں نہیں جانا۔

نرملا کا باپ     :جائے گی کیسے نہیں۔ تجھے میرے ساتھ جانا ہو گا۔

نرملا    :مجھے مجبور نہ کرو پتا جی۔ تم مجھے اپنے گھر سے نکال چکے تو پھر میرے راستے میں کیوں آتے ہو۔ میں نرمل کے ساتھ جاؤں گی۔

نرملا کا باپ     :خبردار اس کا نام نہ لینا۔

نرمل   :مولانا یہ لو تمہاری رسید۔

مولانا   :یہ کیا؟

نرمل   :ملک الموت سے رہائی۔ تمہارا مالک مکان سال بھرکے کرائے کی وصولی کی رسید دے گیا ہے۔

مولانا   :سچ!

نرمل   :اب تم آرام سے معمے کا آخری اشارہ حل کر سکتے ہو۔

مولانا   :یہ تو معجزہ کر دکھایا استاد تم نے۔ مان گئے قسم خدا کی۔ حد ہو گئی۔

نرمل   :گردھاری، یہ تمہارے قرضے کی بیباقی کی تحریر۔

گردھاری       :کیا، وہ کمبخت یہاں بھی آیا تھا۔

نرمل   :ہاں،  اور  اس نے تمہارا سارا قرضہ بیباق کر دیا اب تم دونوں نمبر ۱۷ بس میں سوار ہو سکتے ہو۔

(بس آہستہ آہستہ آتی ہے  اور  تھوڑی دیر کے لئے رک جاتی ہے۔ )

نرملا کا باپ     :نرملا پاگل ہو گئی ہے۔ اس فریبی کے ساتھ جائے گی؟

نرملا    :ہاں میں انھیں کے ساتھ جاؤں گی۔

نرملا کا باپ     :ہاں۔ اچھا۔ تومیں بچے کو لئے جاتا ہوں۔

(نرملا  اور   اس کے باپ میں کشمکش۔ بچے کی رونے کی آواز)

نرملا    :ایسا نہ کرو پتا جی!ایسا نہ کرو پتا جی!!

نرملا کا باپ     : (بچے کولے کر) بچہ میں نے لے لیا اب جا تو جہاں تیرا جی چاہے۔

نرملا    : (روتے ہوئے) نہیں پتا جی!میں آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔ میں چلتی ہوں۔

(بس چلتی ہے۔ )

نرمل   :نرملا۔ نرملا۔ کنڈکٹر۔ کنڈکٹر۔ بس روکو۔ روکو۔

(بس چلتی رہتی ہے۔ )

نرملا    :نرمل نرمل(خوفزدہ آوازیں) ٹرک، ٹرک، بچو، بچو۔

نرمل   : (بھاگتے ہوئے) روکو، روکو۔

(تصادم کی آواز)

(نرملا کی چیخ) بس ایک ساتھ جھٹکے سے رکتی ہے۔

گردھاری       :نرمل ٹرک کے نیچے آ گیا۔

دوسری آواز   :بھیجا پاش پاش ہو گیا۔ او بھگوان دیکھا نہیں جاتا۔

تیسری آواز    :زمین خون سے رنگ گئی۔

(نرملا کے رونے کی آواز ابھرتی ہے۔ )

مولانا   :دیکھتے کیا ہو؟چہرے پر چادر ڈھک دو!آج ایک بڑا آدمی گیا!! ایک عظیم الشان!!!

***

ماخذ:’’مور پنکھی‘‘( اور  دوسرے ڈرامے)، مکتبۂ دین و ادب، لکھنؤ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

گوشۂ عافیت

 

(ایک ایکٹ میں ایک طربیہ)

 

 

کردار

 

بیگم:بیس پچیس سال کی خوبصورت دوشیزہ جس کی شادی کو ابھی زیادہ مدت نہیں گزری ہے۔

انور:تیس بتیس سال کا متوسط طبقے کا ایک نوجوان۔

اختر:انور کا دوست جو تقریباً ہم عمر ہے مرنجان مرنج  اور خوش طبع نوجوان ہے۔

بوڑھا:۶۵یا۷۰ برس کا چھوٹے قد کا بوڑھا۔ اس کی خضاب سے رنگی داڑھی،  اور  شرارت سے بھری ہوئی آنکھیں اس کی کمینگی  اور  چالاکی کی غماز ہیں۔

پیر صاحب:ادھیڑ عمر کے درویش نما بزرگ جن کی داڑھی  اور  سر سیاہ ہے۔ لیکن تقدس سے زیادہ کھلنڈرا پن نمایاں ہے۔

چند پڑوسی ادھیڑ، جوان  اور نوجوان۔

زمانہ موجودہ۔ دوسرے پنج سالہ منصوبے کے مکمل ہونے سے پہلے جب ہندوستان میں مکان کا مسئلہ حل ہونے کی صورت نظر نہیں آئی ہے۔ جگہ، ہندوستان کا کوئی شہر۔

 

 

 

 

 

پہلا منظر

 

(نہایت خستہ حال، گندے  اور مختصر مکان کا کمرہ۔جس کی دیواروں پر برسوں سے قلعی نہیں ہوئی ہے چھت نیچی ہے۔ دیواروں پر مختلف لکیریں  اور کارٹون بنے ہوئے ہیں۔ فرش کہیں کہیں کچا ہے  اور  کہیں اینٹیں دکھائی دینے لگی ہیں۔ اس کمرے مین دو پلنگ بچھے ہوئے ہیں ایک کا رخ اسٹیج کی طرف ہے  اور دوسرا اسٹیج کے بائیں طرف اسٹیج کی لمبائی میں بچھا ہوا ہے ، اسی طرح جو جگہ کمرے میں نکالی گئی ہے اس میں ایک چھوٹا سا غالیچہ بچھا دیا گیا ہے  اور اس پر ایک چھوٹی سی اخروٹ کی لکڑی بنی ہوئی میز  اور  دو کرسیاں بچھی ہوئی ہیں یہ دونوں قیمتی  اور  اچھی حالت میں ہیں۔ اسٹیج کے بیچ میں پہلے پلنگ کے ٹھیک اوپر ایک کھڑکی ہے جس کی حالت اچھی نہیں ہے۔ لکڑی کا پالش کہیں کہیں سے اڑ گیا ہے کچھ حصہ دیمک نے کھا لیا ہے۔ شیشے بھی بد رنگ ہو گئے ہیں۔ لیکن اس کھڑکی کے نچلے حصہ پر بھی پھوٹے چھوٹے پردے لٹکائے گئے ہیں پردے خوشنما ہیں لیکن اس کھڑکی پر عجیب  بے جوڑ سے لگتے ہیں۔ بائیں طرف دوسرے پلنگ کے سرہانے چند بکس رکھے ہوئے ہیں ایک بکس کے اوپر میز پوش بچھا کر پاندان رکھ دیا گیا ہے دونوں پلنگوں پر صاف ستھرے بستر بچھے ہوئے ہیں مگر کمرے کی فضا پر بھی ملگجی، دھندلی  اور دھوئیں سے بھری ہوئی معلوم ہوتی ہے بائیں طرف کپڑے ٹانگنے کی کھونٹیاں بھی لگی ہوئی ہیں۔ بیچ کی میز پر گل دان رکھا ہوا ہے جس میں پھول بھی موجود ہیں ان میں سے کچھ مرجھا گئے ہیں ظاہر ہے کہ یہی کمرہ بہ یک وقت سونے کا کمرہ بھی ہے  اور ڈرائنگ روم بھی۔

اس کمرے کے دو دروازے ہیں اسٹیج کی دائیں طرف کا دروازہ باہر جاتا ہے اس پر رنگین پردے لٹکائے گئے ہیں بائیں طرف کا دروازہ مختصر سے صحن  اور باورچی خانے کی طرف جاتا ہے۔

جب پردہ اٹھتا ہے انور کرسی  پر بیٹھا جوتے کے بند کھولتا دکھائی دیتا ہے بکھرے ہوئے بال  اور گرد آلود چہرے سے ظاہر ہے کہ کافی دور گھوم گھام  کر آیا ہے۔ چیک کا گرم کوٹ اتا کر کھونٹی پر ٹانگ چکا ہے ، جوتے کے بند کھول کر جرابیں اتارتا ہے  اور ایک پاؤں گھٹنے پر رکھ کر اسے دباتا ہے معلوم ہوتا ہے بہت تھکا ہوا ہے پھر انگڑائی لیتا ہے  اور نکٹائی کھولنے لگتا ہے ابھی کھول ہی رہا ہے کہ بیگم دائیں دروازے سے داخل ہوتی ہے۔)

 

بیگم:آ گئے شہزادہ گل فام؟کہئے کچھ مکان کا بندوبست ہوا۔

(بیگم غرارہ جمپر  اور  دوپٹہ پہنے ہوئے ہیں لباس سے ان کی خوش مذاقی ظاہر ہوتی ہے۔)

انور:ابھی تھک ہار کر آیا ہوں۔ دم تو لینے دو۔ نہ چائے کو پوچھا نہ پانی کو۔ بس آتے ہی مکان کا سوال شروع ہو گیا۔

بیگم:میں کہہ چکی ہوں مجھ سے اس کمرے میں نہ گھٹا جائے گا۔ میں کل ہی اپنے میکے چلی جاؤں گی۔ نہیں تو کسی ٹھکانے کے مکان کا انتظام کرو۔

انور:یہی بات تمہاری سمجھ میں آ جاتی تو پھر رونا کا ہے کا تھامیں کہتا ہوں اسی زمانے میں چا ہو تو کولمبس کی طرح نئی دنیا ڈھونڈ نکالو مگر مکان نہیں مل سکتا۔

بیگم:آخر شہر  بھرا پڑا ہے مکانوں سے۔ دنیا جہان کے لوگ رہتے ہیں ہر کوئی تمہاری طرح کونے کھدروں میں پڑا رہے تو بھلا کیسے کام چلے۔

انور:بیگم، جی جلانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ مکان نہیں ملے گا، نہیں ملے گا، نہیں ملے گا۔

بیگم:تومیں کہتی ہوں ایسی نوکری کو جھونکو  بھاڑ میں۔ صاف صاف تم اپنے دفتر والوں سے کہہ کیوں نہیں دیتے کہ ’’اگر تمہیں نوکر رکھنا ہے تو مکان دیں نہیں تو بابا، پھٹ پڑے وہ سونا جس سے  ٹوٹیں کان۔ یہ لو اپنی نوکری۔

انور:جی ہاں !ایسے ہی تو وہ میرے عزیز دار لگتے ہیں کہ میرے ناز نخرے اٹھائیں گے۔

بیگم:جب اپنی گوں اٹکے گی تو ہزار  بار اٹھائیں گے۔ میں تو پہلے ہی جانتی ہوں تم مکان کے لئے دوڑ دھوپ ہی نہیں کرتے۔ یہ تم تو سدا سے چاہتے ہو کہ میں گھبرا کے میکے چلی جاؤں۔

انور:بیگم!بیگم!!خدا کے لئے رحم کرو مجھ غریب پر۔ دیکھ رہی ہو آج تین دن سے مارا مارا پھر رہا ہوں۔ پنواڑی، سائیکل کا پنکچر بنانے والے۔ اخبار والے بھی سے کہہ آیا ہوں  اور تم کہتی ہو کہ میں دوڑ دھوپ نہیں کرتا۔ اب کیا اپنی جان دے دوں؟

بیگم:(دوسرے پلنگ پر بیٹھ جاتی ہیں) میں بھی توسنوں کیا کہتے ہیں یہ سب لوگ؟

انور:(کچھ دیر گھبرا کر خاموش ہو جاتا ہے۔پھر یکایک جیسے کچھ یاد آ گیا ہو) ہاں خوب یاد آیا۔ اختر نے اس وقت آنے کو کہا تھا۔ وہ ضرور مکان کا کوئی انتظام کر کے لائے گا۔

بیگم:دیکھ چکی ہوں تمہارے سارے دوستوں کو۔ سب چولھے میں ڈالنے کے قابل ہیں۔ کام کے نہ کاج کے۔ دشمن اناج کے۔ ویسے انور میاں کہتے منھ سوکھتا ہے  اور کام کے وقت ادھر رخ بھی نہیں کرتے۔

انور:جی ہاں۔ میں برا۔ میرے دوست برے۔ میری قدرت میں ہوتا تو الہ دین کا چراغ کہیں سے لے آتا۔ چٹکی بجاتے میں مکان کا فراہم ہو جاتا۔ مگر افسوس انسان ہوں الہ دین نہیں ہوں۔

(دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ دستک کی آواز سن کر بیگم پہلے برا سا منہ بناتی ہے پھر سر پر دوپٹہ ٹھیک کر کے پلنگ پر بیٹھ جاتی ہے  اور پاندان اٹھا کر چھالیہ کاٹنے لگتی ہے۔)

انور:کون؟

(اختر کے کھنکھارنے کی آواز آتی ہے۔)

انور:اختر۔ آؤ بھی اندر آ جاؤ۔ خدا کی قسم بڑی عمر ہے تمہاری۔

(اختر اندر داخل ہوتا ہے۔ گرم سوٹ پہنے ہوئے ہے چھوٹی چھوٹی مونچھیں ہیں۔ ٹائی شوخ رنگ کی ہے اس کی چال  اور  چہرے سے اس کی بشاشت  اور ظرافت طبع کا اندازہ ہوتا ہے۔)

انور:ابھی تمہارا ہی ذکر ہو رہا تھا۔

اختر:آداب عرض ہے بھابھی۔ کہئے کچھ چائے وائے کا بندوبست ہے۔

بیگم:(آداب عرض سے خوش ہو گئی ہے مگر جلی کٹی سے باز آنے والی نہیں) آتے دیر نہیں چائے کی رٹ لگ گئی۔ اب بتاؤ اتنے سے کمرے میں تم لوگوں کو بٹھاؤں یا چائے کے برتن لگاؤں یا۔۔۔

اختر:(بات کاٹ کر) بس بس رہنے دیجئے صاحب۔ مکان کی تکلیف ہے آپ کو؟ تویوں کہئے نا۔

بیگم:تو کیا کوئی مکان مل گیا ہے؟

اختر:ایسی معمولی بات ہے مکان ملنا؟جناب بھابھی صاحبہ۔ دفتر کے چپراسی کو ترکی کی بنی ہوئی اعلیٰ ترین ایک چھوڑ دو سگریٹیں پلائی ہیں اس نالائق کے کندھے پر ہاتھ رکھا مکان ملنے پر انعام دینے  کا وعدہ کیا تب کہیں خدا خدا کر کے۔۔۔

انور:(بے صبری سے بات کاٹ کر) کہو کہو رک کیوں گئے۔

بیگم:تو کیا مل گیا مکان؟

اختر:جلدی کام شیطان کا۔ بھابھی اب میرے پاس کوئی جادو کا ڈنڈا تو ہے نہیں کہ گھمایا  اور مکان حاضر۔ نہ  علاؤ الدین کا چراغ ہے کہ ذرا سا گھسا  اور جن نے ایک سکنڈ میں محل چن دیا۔

بیگم:خدا کے لئے !کیا اب ساری الف لیلیٰ یہیں پر ختم ہو جائے گی یا کچھ  اور  بھی بات کرو گے۔

اختر:اچھا مٹھائی کا وعدہ کیجئے تو بتائیں۔

بیگم:وعدہ بابا، پکا وعدہ کرتی ہوں۔ کچھ کہو تو سہی۔

اختر:تو سنئے  جگر تھا م کے سنئے

اب جگر تھام کے بیٹھو مری باری آئی

کہ جناب اس چپراسی کا بیان ہے کہ ایک مکان خالی ہوا ہے  اور  آپ کو کرایہ پرمل سکتا ہے۔

بیگم/انور:(بے اختیار ہو کر) کہاں ہے؟ کیسا ہے؟ کرایہ کتنا ہے؟

اختر:آرڈر! آرڈر!!ذرا صبر سے کام لو بھائی۔

بیگم:اختر! ڈراما ختم کرو۔ سچ سچ بتاؤ مکان کہاں ہے  اور کیسا ہے؟

اختر:یہی تو بتا رہا ہوں۔ یہی کوئی یہاں سے پانچ چھ میل کے فاصلے پر ہو گا کپڑا مل سے ڈیڑھ میل کے فاصلے پر ہے۔ ویسے ہے کافی بڑا۔ تین کمرے ہیں باورچی خانہ، غسل خانہ وغیرہ وغیرہ  اور چھوٹا سا صحن بھی ہے۔آبادی اس طرف ذرا کم ہے نیچے والے حصے میں مالک مکان خود رہتے ہیں اس پار چار پانچ مکان ہیں۔

بیگم:پانچ چھ میل!

انور:وہاں تو گویا ذرا دور ہے مگر خیر کیا ہوا؟ہے تو  مکان۔

بیگم:ہر  مہینے تھوڑی بچت کر کے قسطوں پر ایک سائیکل خرید لینا۔

اختر:ایک بات  اور ہے مالک مکان خبطی قسم کا بوڑھا ہے۔ عمر بھی کوئی ۷۰ سال کے قریب ہے۔ کرایہ داروں کو بہت پریشان کرتا ہے۔

بیگم:خبطی ہو تو ہوا کرے۔ ہمارا کیا کرے گا؟اپنا کرایہ لے گا کوئی جان تھوڑا ہی لے گا۔

اختر:میں نے بتا دیا۔

انور:مالک مکان کو مارو گولی۔ یہ بتاؤ کہ کمرے کتنے ہیں اس مکان میں؟

اختر:میں نے کہانا؟تین کمرے ہیں بڑے ! بیچ میں پردہ ڈال کر دو کمرے  اور  نکل سکتے ہیں۔

انور:بس تو ٹھیک ہے۔ بھئی ایسا کریں گے بیگم کہ ایک کمرہ مردانہ بنا لیں گے وہاں ایک کمرے میں قالین  اور دری چاندنی کا فرش کرا دیں گے  اور  دوسری طرف صوفہ سیٹ  اور دیوان۔

بیگم:یہ سمجھ لیجئے کہ میں آپ کی نشست کا کمرہ  اور پڑھنے کا الگ الگ نہیں کرنے دوں گی۔ بس ایک کمرہ آپ کے قبضے میں ہو گا۔ چاہے اس میں بیٹھئے چاہے بٹھالئے۔

انور:نہیں بھئی یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ پڑھنے لکھنے کا کمرہ تو الگ ہونا چاہئے۔ تمہیں دو کمروں کا کیا کام۔

بیگم:یہ لیجئے۔ مجھے کمروں کی بھلا کیا ضرورت ہو سکتی ہے۔ یہ بھی خوب کہی بھئی۔ آپ کے ملنے والے آئیں تو سونے  اور قالین پر بیٹھیں  اور  میری سہیلیاں آئیں گی تو کیا ان کو کیا سونے کے کمرے میں بٹھاؤں گی۔

انور:بھئی تم تو نا حق خفا ہونے لگیں۔ ایسا کرو کہ اس کمرے میں ایک طرف بیڈروم بنا لو اور پردہ ڈال کر ایک طرف سنگھار کا کمرہ  بنا لو۔ وہیں کرسیاں  اور تخت ڈال کر دوسری طرف۔۔۔

بیگم:(بات کاٹ کر) آہا۔ دوسروں کو ترکیبیں بتانا کوئی ان سے سیکھے۔ تمہیں اپنے کمرے میں پردہ ڈال کر اسٹڈی کا کمرہ کیوں نہیں نکال لیتے !

اختر:بھئی اچھی خاصی خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ پہلے کمرہ کو دیکھ لو پھر طے کرنا کس کے حصے میں کون سا کمرہ آئے گا۔

بیگم:نہیں صاحب ابھی طے ہو جانا چاہئے ایک کمرہ آپ کو ڈرائنگ روم  اور  اسٹڈی کے لئے ملے گا دوسرا کھانے کا کمرہ ہو گا  اور  تیسرے میرے لئے۔

انور: اور بیڈ روم؟ سونے کا کمرہ  کدھر گیا؟

بیگم:اس کا بھی کچھ ہو جائے گا۔ یہ سب بعد میں طے ہو گا۔

اختر: اور ہاں یہ  بتانا تو میں بھول ہی گیا کہ اس میں ایک چھوٹا سا برآمدہ بھی ہے۔

انور:بہت خوب بیگم، اب توہم گھر سے رنگین پردے بھی لیتے آئیں گے۔

بیگم: اور صحن میں گلاب کی کیاریاں لگائیں گے۔

اختر:مگر بھابھی وہ تو اوپری منزل پر ہے کچی زمین آپ کو کہاں ملے گی؟

انور:گملوں میں سہی۔ پھولوں کے گملے ہمارے یہاں ہونے چاہئیں۔ مجھے تو گلاب سے عشق ہے۔ ہمارے ملک میں تو پھولوں کاشوق ہی مٹتا جا رہا ہے۔ آدمی بالکل کاروباری ہو گیا ہے۔

بیگم:تمہاری بیٹھک میں کچھ تصویریں بھی ہونا ضروری ہیں۔

انور:خداکی قسم کیا بات کہی ہے بیگم!!میرے ہاتھ بنائی ہوئی وہ خوبصورت تصویریں پڑی ہوئی ہیں کہ بس نہ پوچھو۔ جب سے کم بخت مکان کا چکر شروع ہوا ہے اس وقت سے ان تصویروں کاخیال ہی ذہن سے نکل گیا۔ ان سب کوپھر سے فریم کراکے ڈرائنگ روم میں لگاؤں گا۔

بیگم:(اخترسے)اچھابھیا۔ اب یہ بتاؤ کہ مکان کا کرایہ کیا ہے؟

اختر:پچھلا کرایہ دار توپینتیس روپیہ دیتا تھامگر میں نے سنا ہے کہ وہ کرایہ کچھ بڑھانا چاہتے ہیں۔

بیگم:زیادہ ہے کرایہ!

انور:بس اب لگیں تم باریکیاں نکالنے۔ پیسہ دانت سے پکڑو گی توبس مل چکا مکان۔ کوئی روز روز آتے ہیں یہ موقع۔ بھئی دیکھوصبح ناشتے میں روغنی ٹکیاں کم کر دیناکسی طرح توبچت کرنی ہو گی۔

بیگم:خیر!اللہ مالک ہے۔

اختر:تو پھر کیا ارادہ ہے۔

انور:ارے میاں۔ ارادہ کیا ہوتا۔ چلومیں گھڑی کی چوتھائی میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ ذرامجھے مالک مکان سے توملادو۔ سب ٹھیک کئے لیتا ہوں۔

اختر:بیگم برادر، وہ آدمی ذراخبطی قسم کا ہے۔

انور:تم چلوتوسہی میں اس سے بڑاخبطی ہوں۔

اختر:(اٹھتے ہوئے) اچھاچلو۔

بیگم:خدا کرے کامیاب ہو کر لوٹو۔ سرخروآؤ۔

(انور کھونٹی پرسے کوٹ اتارکرپہنتا ہے ٹائی لگاتا ہے جوتوں کی گرد جھاڑتا ہے  اور دائیں طرف کے دروازے سے دونوں باہر نکل جاتے ہیں۔)

 

 

 

 

دوسرا منظر

 

(لکڑی کاجنگلہ اسٹیج کے تین طرف لگا ہوا ہے اس کاصدردروازہ اسٹیج کے بائیں طرف ہے جنگلے کے پاس ہی ایک زبردست قسم کاکتاٹہل رہا ہے کبھی ٹہلتا ہے  اور کبھی آرام سے بیٹھ جاتا ہے۔ دائیں طرف اسٹیج کے بالکل آخرمیں دومنزلہ مکان کاکچھ حصہ دکھائی دیتا ہے۔ سامنے میدان میں دویاتین مونڈھے  اور ایک آرام کرسی پڑی ہوئی ہے ان میں سے ایک مونڈھے کے نیچے مرغیاں بندہیں  اور  ایک دوسرے مونڈھے کے نیچے ایک مرغابندہے۔

جب پردہ اٹھتا ہے توایک مونڈھے پربوڑھابیٹھا اخبارپڑھ رہا ہے اس وقت اس کی خاکی پتلون کے علاوہ  اور کوئی کپڑا دکھائی نہیں دے رہا ہے اس کے جوتے بغیرپالش کئے ہوئے سیاہ بوٹ ہیں۔ تھوڑی دیر بعد اسٹیج کے بائیں کنارے پر جنگلے کے صدردروازے پر انور اور اختردکھائی دیتے ہیں انور جنگلے کادروازہ کھولتا ہے  اور  کتا ایک دم اس کی طرف آتا ہے  اور بھونکتا ہے  اور انورخوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔)

 

 

انور:ارے ارے۔۔۔ میاں اختر۔ یہ توکاٹ کھائے گا۔

(کتاپھر بھونکتا ہے۔)

انور:کھڑے کھڑے دیکھ رہے ہواسے مارتے نہیں۔

اختر:تم اپنے آپ اسے مارونا۔

(کتاپھر بھونکتا ہے انورداخل ہونا چاہتا ہے پھر جھجک کرپیچھے ہٹ جاتا ہے۔)

انور:(کتے کی طرف دوبارہ بڑھتے ہوئے) ارے تم کیا مارو گے اسے۔ وہ تو کاٹ کھائے گا۔

اختر:ٹھہرو ابھی خبرلیتا ہوں۔

(اخبار میں جنبش پیدا ہوتی ہے  اور اخبارتہہ کر کے بوڑھافوراً صدر دروازے کی طرف بڑھتا ہے بوڑھا ٹھنڈی خاکی پتلون پرسیاہ صدری  اور  کالی ٹوپی پہنے ہوئے ہے داڑھی خضاب سے رنگی ہوئی ہے۔ آنکھوں پرپتلی کمانی کاچشمہ ہے جس کے شیشے  اور کمانیاں میلی ہیں چہرے پر غصے کے آثار ہیں۔)

بوڑھا:خبردارجواس پر ہاتھ اٹھایا۔ نہایت بدتمیز معلوم ہوتے ہوآپ لوگ میرے گھرمیں گھس کرمیرے ہی کتے پرحملہ کرتے ہیں۔ یہ کہاں کی شرافت ہے؟

انور:بڑے میاں آپ بھی الٹا ہمیں پر خفا ہونے لگے۔ کتے کو  کیوں باندھ کر نہیں رکھتے۔

بوڑھا:آپ میرے گھر میں مجھے مشورہ دینے والے کون ہوتے ہیں۔ میرا کتا ہے چاہے اسے کھلا رکھوں چاہے باندھوں۔ آپ سے مطلب؟

اختر:(جوابھی تک پیچھے دروازے ہی پرکھڑا ہے آگے بڑھتا ہے) آداب عرض ہے۔ معاف کیجئے گاہم ایک ضروری کام کے سلسلے میں آپ کی خدمت میں حاضرہوئے تھے۔

بوڑھا:مجھ سے ملنے آئے تھے؟میں آپ کی صورت تک سے ناواقف ہوں۔ غالباً آپ غلط مکان میں چلے آئے ہیں۔

اختر:نہیں جناب، ہم لوگ یعنی میں  اور مسٹرانور۔۔۔ ہاں ان کاتعارف کرانا تو میں بھول ہی گیا۔ یہ میرے دوست مسٹرانور ہیں یہاں سرکاری ملازمت میں ہیں ابھی حال ہی آپ کاتقرراس جگہ پرہوا ہے۔ نہایت عمدہ اعلیٰ گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں مصوری سے بھی دلچسپی ہے موسیقی کابھی آپ کومذاق ہے۔

بوڑھا:اچھا ہو گا!مگر آپ پہلے اپنی تعریف توبیان کیجئے۔

انور:(اخترکھسیانا ہو کر پیچھے ہٹ جاتا ہے  اور  آگے بڑھتا ہے) یہ میرے دوست مسٹراخترہیں سرکاری ملازمت میں نہیں ہیں مگر اس کی کوشش کر رہے ہیں۔ ویسے نہایت عمدہ  اور  شریف گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں مصوری سے دلچسپی نہیں ہے البتہ گاناسننے کاشوق ہے  اور گانے رونے دونوں میں ماہرہیں۔

بوڑھا:آپ کے یہاں آنے کا مقصد؟

انور:آپ کو کھڑے کھڑے تکلیف ہوتی ہو گی۔ آپ چل کر بیٹھک میں تشریف رکھیں  اور  اپنا مقصد بیان کریں۔

بوڑھا:بیٹھک میں میری بطخوں نے انڈے دیئے ہیں۔ بس اب بچے نکلنے والے ہیں۔ ہاں باہر بٹھایا جا سکتا ہے۔

انور:بہت خوب۔ دراصل عرض یہ کرنا تھا۔

بوڑھا:(مونڈھے پر بیٹھے ہوئے) فرمائیے فرمائیے۔

انور:تو وہ بات یہ تھی۔۔۔ (پھر کچھ سوچ کر ٹھہر جاتا ہے) تمہیں کہہ دو نا میاں اختر۔

اختر:جناب دراصل آپ کے مکان کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتے تھے۔

بوڑھا:’’گوشہ عافیت‘‘ کے بارے میں؟

اختر:جی نہیں۔ جو آپ کے مکان کے اوپر کا حصہ خالی پڑا ہے سنا تھا اس کو آپ کرائیے پر اٹھانا چاہتے ہیں۔

بوڑھا:جی ہاں اسی کا نام ’’گوشہ عافیت‘‘ ہے۔ آپ شوق سے اسے دیکھ لیجئے کرایہ چالیس روپیہ ماہوار ہو گا۔ بجلی کا بل، دھوبی، نائی وغیرہ کے اخراجات آپ کو خود ادا کرنے ہوں گے۔ لیکن ٹھہرئیے ، پہلے ایک بات بتائیے۔

اختر:جی فرمائیے۔

بوڑھا:آپ شادی شدہ ہیں یا غیر شادی شدہ؟

انور:اگر گستاخی نہ ہو تو پہلے یہ بتا دیجئے کہ آپ شادی شدہ کو مکان دینا چاہتے ہیں یا غیر شادی شدہ کو۔

بوڑھا:دیکھے میں ایسے شادی شدہ کو مکان دینا چاہتا ہوں جس کے بچے نہ ہوں۔

انور:اتفاق سے ہم لوگ شادی شدہ بھی ہیں  اور ابھی تک باپ بننے کی نوبت نہیں آئی ہے۔

بوڑھا:اس کے علاوہ مکان میں رہنے کے لئے ایک شرائط نامہ بھی ہے۔ ٹھہرئیے میں لاتا ہوں۔ میں نے احتیاطاً اس کی کچھ کاپیاں نقل کروا کر رکھ لی ہیں۔ بات یہ ہے صاحب کہ صاف بات ٹھیک ہوتی ہے۔ میں ابھی لاتا ہوں۔ اسے سن کراس پر دستخط کر دیجئے پھر آگے بات چیت ہو گی۔

(اٹھنے لگتا ہے۔)

اختر:جی ہاں ، ضرور۔

(کتا پھر بھونکتا ہے  اور اختر کی طرف آتا ہے۔)

انور:مگر معاف کیجئے گا جناب آپ اپنے کتے کو اپنے ساتھ لیتے جائیں۔

بوڑھا:(پھر بیٹھ جاتے ہیں۔) دیکھئے حضرت۔ یہ  عہد نامے کی پہلی شرط ہے۔ آپ کو اس کتے کے بارے میں کچھ بھی کہنے سننے کا حق نہ ہو گا۔ اس کے بھونکنے پر آپ کبھی اعتراض نہیں کریں گے کبھی اس کو مارنے پیٹنے کا ارادہ نہیں کریں گے  اور نہ اس کو روٹی وغیرہ کے ٹکڑے ڈال کر اپنے اوپر ہلائیں گے۔

انور:مگر صاحب یہ تو بڑی زیادتی ہے  اور اگر کتا کاٹنے کو دوڑ پڑے۔۔۔

بوڑھا:تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں کرایہ دار رکھوں تو وہ میرے گھر کے معاملات میں دخل دے۔ مجھے کتا پالنے کا بھی مجاز نہیں رہا۔ نہیں صاحب مجھے ایسے کرایہ دار کی ضرورت نہیں۔

انور:آپ تو خوامخواہ خفا ہوئے جا رہے ہیں میں نے صرف یہ عرض کیا تھا کہ آپ اپنے کتے کو زنجیر سے باندھ کر رکھا کریں۔

بوڑھا:لاحول ولاقوۃ۔ یعنی پھر گھرکی حفاظت میں اپنے آپ کروں۔ یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا۔ آپ کو شرط منظور ہو تو مکان میں رہئے ورنہ کوئی دوسرا مکان تلاش کر لیجئے۔

انور: اور کوئی شرط۔

(اختر بور ہو کر اخبار اٹھا لیتا ہے۔)

بوڑھا:جی ہاں وہ دوسری شرط یہ ہے کہ کرایہ پیشگی ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو صبح ۷ بجے ادا کرنا ہو گا۔ تیسری یہ کہ کرایہ کی کوئی رسید نہ دی جائے گی  اور  آپ کو رسید مانگنے کا کوئی حق نہیں ہو گا۔ چوتھی یہ کہ آپ بیڑی یا سگریٹ پیتے ہوئے گنگناتے ہوئے یا شعر پڑھتے ہوئے اپنے زینے پر سے نہ گزریں گے۔

انور:سبحان اللہ شعر پڑھنا بھی جرم۔

بوڑھا:میاں صاحبزادے مجھے بحث کرنے کی مہلت نہیں۔’’گوشہ عافیت‘‘ چاہئے تو یہ شرط ہے۔

انور:مگر بیڑی سگریٹ پینے یا شعر پڑھنے سے آپ کا کیا تعلق۔ یہ ہمارا ذاتی فعل ہے آپ کو میرے گھریلو معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں بڑے میاں۔

بوڑھا:واہ صاحب واہ، میاں ایسے ویسے کرایہ داروں کو رکھ کر میں اپنے بچوں کا ستیاناس مار لوں !؟میرے بچوں کے اخلاق پرکیا اثر پڑے گا۔

اختر:(اخبار پڑھتے پڑھتے ایک دم بول اٹھتا ہے) خیر اب کوئی  اور شرط تو باقی نہیں۔

بوڑھا:پانچویں شرط یہ ہے کہ اس مکان کی صفائی مرمت کرانے کے لیے آپ تقاضہ نہیں کریں گے  اور اگر آپ مرمت کرائیں گے تو مجھ سے اجازت لے لیں گے۔ چھٹی شرط یہ ہے کہ آپ کے دوست  اور مہمان سات بجے شام کے بعد  اور  نو بجے سے پہلے نہ آئیں گے۔ ساتویں شرط یہ ہے کہ آپ اگر  گراموفون بجانے  اور کوئی چیز  کوٹنے سے پہلے اطلاع کر دیا کریں گے۔

(اختر پھر اخبار پڑھنے لگتا ہے۔)

انور:آپ نے تو پوری نادر شاہی بنا رکھی ہے۔

بوڑھا:نادر شاہی؟نادر شاہی کیسی جی؟!میں نے آپ کے گلے پر چھری تو رکھی نہیں کہ آپ مکان لے لیں ، آپ کو ہزار بار غرض پڑے تو ’’گوشہ عافیت‘‘ کا رخ کیجئے ورنہ کوئی زبردستی نہیں ہے۔

انور:آپ نے کرایہ دار کو سمجھ کیا رکھا ہے۔ آخر کوئی حد ہے اس دھاندلی بازی کی۔

بوڑھا:برخوردار۔ پگڑی میں نہیں لیتا۔ کسی قسم کی زبردستی نہیں کرتا۔ کرایہ دار رکھ کر اپنے بچوں کے اخلاق کاستیا ناس مارنا نہیں چاہتا۔ میں صاف آدمی ہوں۔

انور:جی ہاں اس میں کیا شک ہے کہ آپ صاف آدمی ہیں۔

اختر:(اخبار تہہ کر کے رکھ دیتا ہے) مگر آپ جانتے ہیں بڑے صاحب کہ میرے دوست کو گانے کا بے حد شوق ہے۔

بوڑھا:جناب اس علاقے میں تو گانا نہیں ہو سکتا۔ آپ چاہیں تو اپنا شوق سنیما ہال میں پورا کر سکتے ہیں۔ میرے یہاں ناممکن ہے۔

اختر:اچھا تو آپ کا عہد نامہ ختم ہوا مکان دیکھ لینے کے بعد کچھ عرض کریں گے۔

بوڑھا:جی نہیں میرا عہد نامہ ختم کہاں ہوا ہے۔ آٹھویں شرط یہ ہے کہ میں جس وقت چا ہوں گا پندرہ  روز پہلے اطلاع دے کر مکان خالی کرا سکوں گا لیکن اگر  آپ خالی کرنا چاہیں گے تو دو مہینہ پہلے اطلاع کرنا ضروری ہو گا۔ بات دراصل یہ ہے کہ میرے کچھ عزیز جلد ہی آنے والے ہیں ممکن ہے اس وقت آپ کو مکان خالی کرنا پڑے۔ ابھی سے بتائے دیتا ہوں میں صاف آدمی ہوں۔

اختر:کیا جلد ہی عزیز آنے والے ہیں؟

انور:لیکن یہ تو مذاق ہوا بالکل۔ ایک مہینے بعد ہم کو مکان خالی کرنا پڑا تو۔۔۔

بوڑھا:(بات کاٹ کر) یہ تو خدا ہی  بہتر جانتا ہے میرا فرض تھا کہ آپ کو آگاہ کر دوں۔ عہد نامے کی باقی شرطیں آپ خود پڑھ لیجئے گا۔

انور:بہتر ہو تو مکان کو ایک نظر دیکھ لیں۔

بوڑھا:ٹھیک ہے چلئے۔

(اٹھنے کے لئے انور مونڈھا کھسکاتا ہے مرغیوں کی فوج مونڈھے کے نیچے سے نکل بھاگتی ہے  اور اسٹیج پر ہر طرف دوڑنے پھر نے لگتی ہے۔)

بوڑھا:ارے ارے۔۔۔ آپ نے تو سارا معاملہ گڑبڑ کر دیا۔ مونڈھے کے نیچے مرغیاں بند تھیں۔(جھنجھلا کر) اوہ ہو آپ سے کس نے کہا تھا کہ اس زور سے مونڈھا گھسیٹئے۔ بس یوں ہی اٹھ جاتے۔ اسے ہلانے جلانے کی کیا ضرورت تھی۔ اب بتائیے کون پکڑ کر بند کرے گا اسے۔ لاحول ولاقوۃ۔

انور:معاف کیجئے گا۔

بوڑھا:اچھا معاف کیجئے گا!آپ تو زبان ہلا کر خاموش ہو گئے یہاں جان ضیق میں ڈال دی آپ نے۔

(اختر گھبرا اٹھتا ہے تو اس مونڈھے کے نیچے سے مرغا بھی نکل بھاگتا ہے۔)

بوڑھا:لاحول ولاقوۃ۔ خوب ہیں آپ کے دوست بھی۔ انھوں نے مرغ کو بھی کھول دیا۔ بڑا سرکش مرغا ہے۔ اب بتائیے کون بند کرے گا اسے۔ آپ لوگوں کو ذرا احتیاط برتنا نہیں آتا۔

اختر:ارے تو صاحب آپ غور فرمائیے بھلا مونڈھوں کے نیچے مرغیاں بند کرنے کی کوئی تک ہے۔

بوڑھا:میں کہتا ہوں آپ کے مونڈھا کھینچنے کی کیا تک تھی۔ آپ نے میری جان عذاب۔۔۔ میں ڈال دی۔ اچھا بیٹھئے آپ کرسی پر میں ان مرغیوں کو پکڑ لوں۔

(یہ کہتے ہوئے بوڑھا مرغیوں کے پیچھے لپکتا ہے  اور دیر تک کڑی، کڑی، ڈربے ، ڈربے ، ڈربے ، کور، کور کی آوازیں آتی رہتی ہیں ایک بار مرغیوں کا پیچھا کرتے کرتے بائیں طرف اسٹیج سے باہر چلا جاتا ہے۔)

انور:(بوڑھے کو جاتا دیکھ کر اطمینان کا سانس لیتا ہے پھر آہستہ سے اختر سے مخاطب ہوتا ہے) ارے بھئی اختر۔ اب بولو۔ کیا کہتے ہو دوست۔ یہ انیس شرطوں کا عہد نامہ کون پورا کرے گا۔

اختر:میری سنو تو مکان لے لو۔

انور:مکان تولے لوں مگر یہ عہد نامہ  اور مہینے بھر بعد ان کے عزیزوں کو کون بھگتے گا۔

اختر:وہ سب بھگت لیا جائے گا۔ تم آٹھ رہ کر دیکھ لینے کو کہو۔ باقی میں سنبھال لوں گا۔

بوڑھا:(ہنستا ہوا مرغ پکڑے ہوئے بائیں طرف سے اسٹیج پر آتا ہے) ارے جلدی اٹھے ، مونڈھے پرسے بڑی مصیبت سے قبضے میں آیا ہے یہ کم بخت۔ میرا تو سانس پھول گیا اصیل ہے اصیل۔(انور مونڈھا اٹھاتا ہے۔ بوڑھا اس کے نیچے مرغ کو بند کر  کے مونڈھا سنبھال کر کھڑا ہو جاتا ہے) جناب دیکھئے خدا کے لئے مونڈھے پر جمے بیٹھے رہئے گا۔

(مرغا مونڈھے کے نیچے اذان دیتا ہے۔)

انور:آپ فکر نہ کریں اب میں ہلوں گابھی نہیں۔

بوڑھا:آپ کا نام بھولا۔

اختر:جی۔ خاکسار کو اختر کہتے ہیں۔

بوڑھا:تومیں نے کہا ذرا مرغ پکڑنے میں۔ مدد کرو۔ نوکر کم بخت کو خضاب لینے شہر بھیجا  تھا وہیں مر کر رہ گیا  اور آج کل کے لڑکے تم جانو بالکل نالائق ہوتے ہیں دو کوڑی کام کے نہیں۔

اختر:جی صحیح فرمایا آپ نے۔ اکبر مرحوم نے اسی لئے تو کہا تھا:

ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں

کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

بوڑھا:ارے اکبر کی باتیں چھوڑئیے۔ اکبر بادشاہ کو تو لال قلعہ بنوانے  اور  شعر لکھنے کے سوا کام ہی کیا تھا۔ اسی لئے تو ایسی آوارہ اولاد اٹھی ہاں تو اختر صاحب ذرا مرغیاں گھیرئیے نا۔

اختر:(ذرا ہنس کر) عجیب اتفاق ہے جناب آپ کے یہاں آتے ہوئے پاؤں میں درد محسوس ہوا اب اس وقت اچھا خاصا شدید ہو گیا ہے غالباً نزلے کا اثر ہے۔ مجھے معاف کیجئے البتہ۔۔۔

انور:میں ذرا جلدی میں ہوں دفتر سے ذرا دیر کی چھٹی لے کر چلا آیا تھا ورنہ میں آپ کا ہاتھ ضرور بٹاتا۔

بوڑھا:اچھا۔ اچھا۔ لیکن آپ ذرا دیر اسی مونڈھے پر جمے رہئے۔ ارے دیکھئے اسے ٹیڑھا مت کیجئے۔ آپ ذرا آگے جھک گئے تو مرغا نکل بھاگے گا۔

انور:بہت خوب۔ آپ فکر نہ کریں۔ میں نے سوچا مکان کے بارے میں بات پکی کر لی جائے۔

بوڑھا:آپ کا مطلب ہے ’’گوشہ عافیت‘‘ کے بارے میں۔

انور:جی ہاں۔ جی ہاں۔

بوڑھا:تو آپ  کو  ساری شرطیں منظور ہیں نا ا ور وہ ہاں وہ ایک شرط عہد نامے میں نقل کرانا بھول گیا۔

اختر:وہ کیا۔

بوڑھا:وہ شرط یہ ہے کہ آپ ’’گوشہ عافیت‘‘ کواپنا مکان نہ کہہ سکیں گے خط و کتابت میں بھی نہ لکھیں گے  اور اگر ان شرائط میں سے کسی کی خلاف ورزی کریں گے تو مجھے مکان کو فوری طور پر خالی کرا لینے کا حق ہو گا۔

انور:تو پھر کہئے تو عہد نامے پر دستخط کر دوں۔ خیال یہ ہے کہ پہلے ایک مہینے کے لئے رہ کر دیکھوں گا۔ اگر  آپ کی  اور ہماری بنے گی تو رہوں گا ورنہ کوئی  اور انتظام کر لوں گا۔

بوڑھا:مگر اس صورت میں بھی کرایہ تو ایک مہینے کا پیشگی دینا ہی ہو گا۔

انور:(روپئے نکال کر بوڑھے کو دیتے ہوئے) اچھا تو یہ لیجئے پیشگی کرایہ۔ میں کل ہی سے مکان میں آ جاؤں گا۔

بوڑھا:بہت خوب۔

انور:اچھا تو اب اجازت دیجئے۔ دفتر کو دیر ہو رہی ہے۔ آداب عرض۔

بوڑھا:آداب عرض، دیکھئے ذرا احتیاط سے اٹھئے گا مرغا نہ نکل جائے۔

(انور  اور اختر بہت احتیاط سے اٹھتے ہیں کتے سے بچتے بچاتے صدر دروازے تک پہنچتے ہیں۔)

 

 

 

 

تیسرا منظر

 

(گوشہ عافیت، کا ایک کمرہ جو زینے کے بالکل قریب ہے زینے کی دو ایک سیڑھیاں اسٹیج کے بائیں طرف دکھا دیتی ہیں کیونکہ زینے کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ اسی کمرے میں منٹل پیس پر ایک لیمپ جل رہا ہے کمرے میں ایک بڑا گھنٹہ ٹنگا ہوا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رات کے بارہ بج چکے ہیں۔ کمرے کی فضا میں ترتیب  اور بے ترتیبی دونوں موجود ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ حال ہی میں اس مکان میں منتقل ہوئے ہیں  اور ابھی پوری طرح سامان  اور گھر سلیقے سے نہیں سجایا گیا ہے مثلاً وہ کرسیاں  اور میز جو پہلے منظر میں دیکھی گئی تھی یہاں بھی موجود ہے قالین بھی وہی ہے البتہ بکسوں میں سے صرف ایک بکس یہاں اسٹیج کے دائیں طرف بے ترتیبی سے پڑا ہوا ہے  اور اس کے برابر چھوٹا موٹا سامان بھی پڑا ہوا ہے جس میں جوتے ، خالی شیشیاں ، خالی ڈبے فلٹ، ایک پرانا ہیٹ  اور ایک ہارمونیم بھی ہے چند کتابیں بھی یہاں دکھائی دیتی ہیں کچھ مینٹل پیس پر رکھ دی گئی ہیں۔ یہاں کچھ کپڑے  اور چادریں بھی بے ترتیبی سے پڑی ہوئی ہیں۔ برابر ایک پلنگ بچھا ہوا ہے جس میں بستر موجود ہے۔ دیوار پر ایک ڈھولک بھی لٹک رہی ہے۔

(جس وقت پردہ اٹھتا ہے اختر کرسی پر بیٹھا چائے پی رہا ہے۔ سلیپنگ سوٹ پہن رکھا ہے بال بکھرے ہوئے ہیں۔ چائے کی پیالی میز پر رکھ کر سگریٹ سلگاتا ہے اتنے میں انور دائیں کی طرف کے دروازے سے داخل ہوتا ہے یہ دروازہ دوسرے کمرے کی طرف جاتا ہے جبکہ اسٹیج کی بائیں طرف کا دروازہ زینے کے دروازے کے قریب ہے انور بھی شب خوابی کے لباس میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیگم بھی داخل ہوتی ہیں۔ ملگجا سا غرارہ قمیض  اور دوپٹہ پہنے ہوئے ہیں سویٹر بھی پہن رکھا ہے۔)

 

 

اختر:(ڈرامائی انداز میں کھڑے ہو کر استقبال کرتے ہوئے۔)

وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

انور:شہ۔۔۔ خاموش۔ ارے بھئی بڑے میاں سن لیں گے کہ تم گنگنا رہے ہو  اور  اس مکان کا اپنا  گھر کہہ رہے ہو تو ابھی مکان سے نکال باہر کر دیں گے۔

اختر:بڑے میاں نکالیں یا رکھیں اس وقت تو یہ کمرہ میرا ہے۔ آپ لوگ اپنے کمرے سے اس کمرے میں آئے ہیں تو گویا ہم اپنے بھائی بھابھی کا استقبال بھی نہ کریں۔ کیا بالکل پھاوڑے ہی ہو جائیں۔

بیگم:اچھا مکان لیا ہے تو کیا سچ مچ ناک کان کٹا کر رہنا پڑے گا۔

اختر:نہیں بھابھی ہرگز نہیں۔ دیکھو تو میں کیا گل کھلاتا ہوں مگر ایک شرط ہے کہ تم ذرا اپنا دل مضبوط کر رکھنا کچھ وہم دل میں نہ لانا۔

بیگم:آخر سنوں تو کیا کرنے والے ہو۔

(انور اشارے سے منع کرتا ہے۔)

اختر:اجی نہیں سننے کی بات نہیں دیکھنے کی بات ہے۔

بیگم:اے ہو گی۔ تمہاری باتیں تو سدا بے تکی ہوتی ہیں۔ میں تو یہ پوچھنے آئی تھی کہ چائے  اور لو گے یا نہیں۔ آج دن بھر سامان ٹھیک کرنے میں تو تھک کر چور ہو گئی ہوں۔ جوڑ جوڑ دکھ رہا ہے۔ میں تو جاتی ہوں سونے کو سخت نیند آ رہی ہے مگر تمہارے بھائی کو نیند نہ جانے کیوں غائب ہو گئی ہے۔

اختر:آپ آرام کیجئے۔ مردوں کی نیند زیادہ تھکن میں غائب بھی ہو جاتی ہے۔

بیگم:اچھا بھئی میں تو چلی۔

اختر:خدا حافظ۔

انور:ہاں بھئی ٹھیک ہے تم جا کر سوؤ۔ میں اختر سے دو باتیں کر کے ابھی آتا ہوں۔ خدا حافظ۔ شب بخیر۔

(بیگم باہر سونے کے کمرے کے دروازے سے چلی جاتی ہے۔)

اختر:(کچھ وقفے کے بعد) تو بھئی سارا انتظام مکمل ہے۔

انور:ہاں سب ٹھیک ہے۔ اس لڑکے سے بھی کہہ دیا ہے۔

اختر:تو پھر شروع کریں پروگرام۔ یار بہت دنوں بعد اداکاری کا موقع آیا ہے کیا پتہ تھا کہ کالج کے ڈراما کلب کے کمالات اس طرح کام آئیں گے۔

انور:مگر کمال کی اداکاری ہو تب تو بات ہے ورنہ پڑیں گی بے بھاؤ کی۔

اختر:ذرا  انسپائر کرو۔ دیکھو ذرا وہ  چادر اٹھاؤ۔ پرانا ہیٹ پہنو(انور ڈھیر سے چادر اٹھاتا ہے)اسے اوڑھ کر ذرا مردے کی طرح کمرے میں چکر تو لگاؤ جیسے ہی میں چیخ ماروں تم بھی چادر پھینک کر میری طرح چیخ مارنا۔

(انور چادر اوڑھ کر ہیٹ پہن کر مردے کی طرح لنگڑاتا ہوا کمرے کا گشت لگاتا ہے۔)

اختر:(زور سے چیختا ہے)بچاؤ۔بچاؤ۔۔۔ مار ڈالا۔۔۔ مار ڈالا۔۔۔  بچاؤ۔

(انور بھی یہ سب الفاظ دہراتا ہے۔)

اختر:ہائے۔۔۔ ہائے۔۔۔ ہوہو۔۔۔ ہاہا۔۔۔ افوہ۔۔۔ مار ڈالا۔۔۔ ارے کوئی بچاؤ۔۔۔ اے مرا۔۔۔ مرے اللہ۔۔۔ بچاؤ۔۔۔

(بیگم گھبرائی ہوئی دائیں طرف کے دروازے سے داخل ہوتی ہیں۔)

بیگم:کیا ہوا؟اختر بھائی!کیا ہوا۔

انور:کیا بات ہے؟

اختر: بھائی آپ جائیے۔ انور بھیا۔ وکیل صاحب کو بلائیے۔ میرا دم نکلا جا رہا ہے میں مر جاؤنگا۔ میری آنکھوں نے اسے دیکھا ہے۔۔۔  افوہ۔۔۔  ارے کوئی بچاؤ۔۔۔  وہ مار ڈالے گا مجھے۔

انور:تم انھیں سنبھالو۔ میں ابھی وکیل صاحب کو بلا کر لاتا ہوں۔

(انور نیچے جاتا ہے بائیں طرف دروازے زینے کی طرف جاتا نیچے سے کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ اختر کی بے قراری  اور  چیخ پکار بدستور جاری ہے۔)

اختر:ارے محلے والو مر گئے کیا؟۔۔۔  یہ مجھے مار ڈالے گا۔۔۔ ہائے۔۔۔  ہائے۔۔۔ افوہ۔۔۔ مار ڈالا۔۔۔  مرے اللہ بچاؤ۔۔۔  میری جان لے لے گا۔۔۔

بیگم:اختر بھیا ذرا صبر سے کام لیجئے۔

اختر:بھابھی۔ آپ اپنے کمرے میں چلی جائیے۔ وکیل صاحب آتے ہوں گے۔۔۔ ہائے کیسے چپ ہو جاؤں میری آنکھوں میں اسی کی صورت ناچ رہی ہے۔۔۔ (پھر چلانے لگتا ہے۔) ہائے۔۔۔  مار ڈالا۔۔۔  وہ میرا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔۔۔  وہ مجھے مار ڈالے گا۔

(انور بائیں طرف کے دروازے سے داخل ہوتا ہے۔)

انور:(تیز قدموں سے آتا ہے۔) آ جائیے۔ وکیل صاحب۔

(بیگم دائیں طرف کے دروازے سے چلی جاتی ہے۔)

اختر:ارے محلے والو مر گئے کیا؟۔۔۔  یہ مجھے مار ڈالے گا۔۔۔ ہائے۔۔۔  ہائے۔۔۔ افوہ۔۔۔ مار ڈالا۔۔۔  مرے اللہ بچاؤ۔۔۔  میری جان لے لے گا۔۔۔

(بوڑھے کا لباس وہی ہے فرق یہ ہے کہ پتلون کی جگہ پاجامہ پہنے ہوئے ہیں جو گرم ہے  اور مٹیالے رنگ کا ہے  اور سر پر کنٹوپ پہنے ہوئے ہیں جو کانوں کو ڈھکے ہوئے ہے۔)

بوڑھا:کیا بات ہے بھائی۔ کیا تکلیف ہے؟

اختر:وکیل صاحب!آپ کے گھر میں بھوت !

بوڑھا:(حیرانی  اور پریشانی میں خود بھوت کی سی شکل اختیار کر لیتا ہے)بھوت میرے گھر میں بھوت!!

اختر:جی ہاں بھوت۔ آپ کے گھر میں بھوت!!میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ سفید کپڑے پہنے ہوئے دیوار پر بیٹھا  تھا مجھے دیکھ کر مسکرایا پھر میری طرف بڑھا۔(پھر چیخنے لگتا ہے۔) ہائے مجھے بچاؤ۔۔۔  وکیل صاحب کے مکان نے میری جان لے لی۔۔۔  مجھے بچاؤ ہائے۔۔۔  ہائے !!!

(شور سن  کر چند ہمسایہ زینے پر دستک دیتے ہیں  اور دستک دے کر تھوڑی دیر میں اندر داخل ہوتے ہیں۔ یہ پڑوسی مختلف قسم کے ہیں  اور  مختلف لباس پہنے ہوئے ہیں جو عام طور پر لوگ سوتے وقت پہنتے ہیں سب کے چہروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیند سے اٹھ کر آ رہے ہیں۔ ان میں ایک پیر صاحب بھی ہیں جو گیروا کپڑے پہنے ہوئے ہیں  اور  تسبیح گلے میں ڈالے ہوئے ہیں۔)

ایک ہمسایہ:کیا ہوا؟کیا بات ہے؟

اختر:(چلا کر) بھوت!وکیل صاحب کے گھر میں بھوت!!

بوڑھا:میں کہتا ہوں اس مکان میں پینتیس سال سے رہتا ہوں کبھی میں نے بھوت نہیں دیکھا۔

اختر:میں نے تو اپنی دونوں آنکھوں سے۔ (آنکھوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔) دیکھا ہے وکیل صاحب۔

دوسرا ہمسایہ:کہاں دیکھا!کہاں تھا؟کیسا تھا؟

اختر:جناب سوتے سوتے میری آنکھ کھل گئی پیشاب کرنے کے لئے اٹھا صحن میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دیوار پر سفید کپڑے پہنے بیٹھا ہے بھوت!(پھر چلانے لگتا ہے)اللہ! اللہ کی پناہ!!بھوت!

تیسرا ہمسایہ:تو جناب پھر کیا ہوا؟

اختر:مجھے دیکھ کر مسکرایا پھر میری طرف بڑھا۔

پہلا ہمسایہ:مسکرایا؟!

دوسرا ہمسایہ:جل تو جلال تو، آئی بلا کو ٹال تو۔

بوڑھا:جھوٹ ہے بالکل جھوٹ ہے۔

اختر:آپ تو کہیں گے ہی۔ آپ کے مکان میں جان دینے نہیں آئے ہیں ہم۔

تیسرا ہمسایہ:پھر کیا ہوا؟

اختر:اس نے مجھ سے کہا۔

پہلا ہمسایہ:اس نے بات بھی کی؟!

دوسرا :کیا بات کی اس نے۔

اختر:جی ہاں اس کی نذر نیاز نہیں ہوئی ہے نہ قوالی کرائی گئی ہے یہ لوگ اسے ترساتے ہیں اسی لئے اس کی روح بھٹکی بھٹکی پھر تی ہے۔

بوڑھا:لاحول ولاقوۃ۔ میں کہتا ہوں سب فضول کی باتیں ہیں۔

انور:جی ہاں ، آپ کی نظر میں ہوں گی فضول کی باتیں؟ایسا ہی ہے تو آپ ذرا اس مکان میں آ کر رہئے۔

پہلا ہمسایہ:ہاں بھئی جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔

دوسرا ہمسایہ:کون رہے گا اس مکان میں۔ کس کی جان فالتو ہے؟!

بوڑھا:میں کہتا ہوں بھیڑ کیوں لگا رکھی ہے آپ لوگوں کوکس نے بلایا ہے کوئی  تماشا ہو رہا ہے یہاں !بے کار کی باتیں لگا رکھی ہیں۔ لاحول ولاقوۃ۔

پیر جی:(جو ابھی تک خاموشی سے ساری گفتگو سن رہے تھے)جناب بد ارواح  اور  جنات کا وجود  تو قرآن کریم سے ثابت ہے۔(اختر سے مخاطب ہو کر) حضت آپ بسم اللہ کیجئے آج ہی رات کو قوالی کا  انتظام کر لیجئے۔ انشاء اللہ ساری زحمت رفع ہو جائے گی۔

بوڑھا:اجی سب ضعیف الاعتقادی کی باتیں ہیں۔

پیر جی:بھوت نے یہ بھی کہا کہ اگر مجھے اسی طرح ترسایا  گیا تو میں محلے والوں کو بھی پریشان کروں گا۔

پہلا پڑوسی:محلے کے  اور گھروں میں بھی جائے گا؟!

دوسرا :کیا کہا؟محلے والوں کو پریشان کرے گا؟!

پیر جی:حضت آپ قوالی کا انتظام کیجئے۔

بوڑھا:میرے گھر ہرگز ہرگز قوالی وغیرہ نہیں ہو گی۔

کئی  ہمسائے :یہ سارے محلے کی خیریت کا سوال ہے۔

اختر: اور بھوت!!۔۔۔ ہائے میرے اللہ۔ ابھی تک میری آنکھوں میں بھوت کی شکل گھوم رہی ہے بھوت!!

(پھر چیخنا چلانا شروع کر دیتا ہے۔)

انور:وکیل صاحب ہم لوگ تو صبح کو اپنا سامان باندھ لیں گے۔ صاحب۔ آپ کا مکان آپ کو مبارک۔ یہاں اس چکر میں ایک آدھ کی جان چلی جائے گی۔

کئی آدمی:ہاں صاحب ٹھیک بھی توہے۔

بوڑھا:ارے انور میاں ، خدارا کہیں ایسا بھی نہ کیجئے گا بھئی جیسے تمہارے گھر کی خیریت ویسے ہی میرے گھر کی خیریت اس میں کوئی غیرت کی بات تو ہے نہیں۔

انور:نہیں صاحب میں بھر پایا ایسے مکان سے۔ بیگم کا ڈر کے مارے برا حال ہے۔

اختر:میں تو چلا واپس۔ ہر گز اس گھر میں نہ رہوں گا۔

بوڑھا:ایسی بات نہیں کرتے اختر بیٹا۔ ایسا ہی ہے تو قوالی کرالو۔

اختر:میں کیوں کرالوں؟قوالی تو مالک مکان کی طرف سے ہونی چاہئے۔

(باقی لوگ آپس میں تبادلۂ خیال کر رہے ہیں۔ کچھ غور سے اس گفتگو کو سن رہے ہیں  اور  اختر کی حمایت میں سر ہلا رہے ہیں۔)

بوڑھا:جی نہیں۔ میرے پاس اتنا فالتو روپیہ نہیں ہے۔

انور:ٹھیک ہے لیکن ہم تو ایک پل بھی اس بھوت گھر میں نہیں رہ سکتے۔ ہمارا سلام لیجئے۔

پیر صاحب:وکیل صاحب۔ قوالی کا خرچہ تو واقعی آپ ہی کو کرنا چاہئے۔ کوئی سو دو سو روپیہ کا سوال توہے نہیں۔ بس نذر فاتحہ کے لئے کچھ مٹھائی، کچھ سگریٹ پان کا خرچہ  اور قوالوں کو جو کچھ دیں۔ بس اللہ اللہ  خیر صلا۔

بوڑھا:مگر اس وقت قوال کہاں ملیں گے۔

ایک ہمسایہ:یہ تو سارے محلے کا سوال ہے۔

دوسرا ہمسایہ:محلے کے لئے وکیل صاحب کو اتنی قربانی تو کرنی ہی چاہئے۔

تیسرا ہمسایہ:وکیل صاحب، مان جائیے نہیں تو ہمیشہ مکان خالی پڑا رہے گا۔

پیر صاحب:اجی پیسہ کیا ہاتھ کا میل ہے۔ خدا کا فضل چاہئے۔ یوں بھی قوالی سے خدا کا فضل ہی ہو گا۔

بوڑھا:پیسے کی کیا بات ہے۔ چلئے میں ہی دیدوں گا مگر اب قوال کہاں ملیں گے۔

انور:وکیل صاحب۔ اس وقت ہم سب مل کر قوالی گالیں گے۔ ہارمونیم تو یہاں موجود ہے ڈھولک یہ رہی۔

پیر صاحب:بسم اللہ!بسم اللہ!!

اختر:حضرات تشریف رکھیں۔

(اختر میز  اور کرسیاں ہٹا کر ایک کنارے رکھ دیتا ہے  اور قالین پر سب لوگ بیٹھنے لگتے ہیں۔ بوڑھا کافی دیر ناگواری سے ادھر ادھر دیکھتا رہتا ہے پھر بیٹھ جاتا ہے۔)

پیر صاحب:اس وقت زیادہ تکلف کی ضرورت نہیں۔ لائیے ہارمونیم مجھے دیجئے۔ ڈھولک مرزا صاحب لے لیں گے۔

(ڈھولک اتار کر ایک پڑوسی کے سپرد کر دی جاتی ہے ، پیر صاحب ہارمونیم لے کر بیٹھتے ہیں۔)

انور:(اختر سے) پارٹنر۔ ذرا سگریٹ پلاؤ۔

اختر:(سگریٹ نکال کر دیتا ہے۔)یہ لو اور دوسروں کو بھی پلاؤ۔

بوڑھا:یعنی لاحول ولاقوۃ۔ سگریٹ بھی پینا ضروری ہے۔

پیر صاحب:آخر حرج ہی کیا ہے وکیل صاحب جس روح کو جو چیز  پسند ہو اسی پر نیاز دلا کر استعمال کرنا چاہئے۔

بوڑھا:میں کہتا ہوں کیا  غدر مچا رکھا ہے ان سب لوگوں نے۔

انور:دیکھئے وکیل صاحب جی تھوڑا نہ کیجئے نیت کا بھی بڑا اثر پڑتا ہے۔

بوڑھا:مگر صاحب، میرے گھر میں کبھی یہ نوبت نہیں آئی۔

اختر:سب کچھ اسی کا فتور ہے وکیل صاحب۔ بس قوالی ہونے دیجئے دیکھئے چند دنوں میں یہ گھر گلزار ہو جائے گا۔

پیر صاحب:صحیح فرمایا آپ نے۔ قوالی میں بڑی برکت  اور بزرگوں کی ارواح مقدسہ کا سایا سر پر ہو تو واللہ کیا کچھ نہیں ہو سکتا۔ اچھا حضرات! شروع کرتا ہوں۔

(پیر صاحب! ہارمونیم بجاتے ہیں۔ ایک پڑوسی ڈھولک بجانا شروع کرتا ہے باقی انور، اختر  اور چند لوگ تالی بجاتے ہیں قوالی شروع ہوتی ہے پہلے دو رباعیاں پڑھی جاتی ہیں۔)

گلشن میں پھروں کہ سیر صحرا دیکھوں

دشت و دریا دیکھوں

ہر جا تری قدرت کے لاکھوں جلوے

حیراں ہوں کہ دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں

 

دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی

ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی

جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا

جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی

اس کے بعد پیر صاحب غزل شروع کرتے ہیں انور لے ملاتا ہے اختر تال دیتا ہے اختر بار بار بوڑھے کو اشارہ کرتا ہے کہ آپ بھی تال دیجئے مگر بوڑھے کے چہرے پر تھوڑی  دیر ناگواری کے آثار قائم رہتے ہیں پھر تال دینے لگتا ہے۔

۔۔۔ قوالی۔۔۔

قوالی کے انتخاب کا معاملہ مکمل طور پر ڈرامے کے پروڈیوسروں کے مذاق پر چھوڑا جاتا ہے۔

(قوالی کے منظر کو مختلف ترکیبوں سے حقیقی  اور دلچسپ بنانا چاہئے۔ کبھی کبھی  پیر صاحب پر حال کے اثرات بھی ظاہر کئے جا سکتے ہیں مگر جلد ہی پھر ہارمونیم کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں لوگ فرمائش کرتے ہیں گانے والے کو نذر بھی دی جاتی ہے جو پہلے بوڑھے کو پیش کی جاتی ہے  اور  بعد کو انور کی جیب میں پہنچ جاتی ہے۔)

ایک پڑوسی:سبحان اللہ!سبحان اللہ!!جناب غزل کا پہلا شعر پھر عنایت ہو۔

انور:جناب!ٹھہرئیے۔ قوالی میں مالک مکان کو بھی  ضرور شریک ہونا چاہئے کار خیر ہے  اور پھر۔

بوڑھا:میں؟میں گاؤں؟!

انور:جی ہاں۔ تو کیا ہوا؟

وہی پڑوسی:بسم اللہ!بسم اللہ!!

دوسرا پڑوسی:جی ہاں۔ آپ کی شرکت ضروری ہے۔

بوڑھا:کیا   شعر ہے۔(انور شعر دہراتا ہے۔ پھر بوڑھا بھی وہ شعر اپنی انتہائی بھدی آواز میں گاتا ہے اس کے بعد پیر صاحب اسے دہراتے ہیں پھر سب دہراتے ہیں۔)

(ایک پڑوسی اتنے میں پان  اور سگریٹ لئے داخل ہوتا ہے بوڑھا اسے بڑی ناگواری کے ساتھ سر سے پاؤں تک دیکھتا ہے۔ا س کے آنے کے کچھ دیر بعد تک قوالی جاری رہتی ہے پیر صاحب دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں سب لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔)

انور:اب سب حضرات اپنے اپنے حصہ کی سگرٹیں  اور پان لے لیں  اور  دھواں اڑاتے ہوئے مرحوم کی روح کو ثواب پہونچاتے ہوئے اپنے گھر جائیں۔ آپ سب حضرات کا میری طرف  اور  وکیل صاحب کی طرف سے بہت بہت شکریہ۔

(بوڑھا چلنے لگتا ہے تو انور اسے روک لیتا ہے ، باقی لوگ رفتہ رفتہ چلے جاتے ہیں۔)

انور:وکیل صاحب۔ مجھے آپ سے ایک بات عرض کرنی ہے۔

بوڑھا:کیا بات ہے میاں انور؟

انور:بات یہ ہے جناب کہ صاف صاف ہی کیوں نہ کہہ دوں کہ ہم اس مکان میں شاید نہ رہ سکیں گے۔

بوڑھا:پھر وہی بات؟ اسی کے لئے سب کچھ کیا ہے  اور پھر تم کہہ رہے ہو کہ نہ رہ سکوں گا۔

انور:جی نہیں۔ بھوت پریت کے خوف سے نہیں کہہ رہا ہوں۔ بات دراصل یہ ہے کہ مجھے آپ کے عہد نامے کی شرطیں منظور نہیں  ہیں۔

بوڑھا:تمہیں جو شرط منظور نہ  ہو میں اسے کاٹ دوں۔

انور:مجھے آپ کا کتا ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ رات میں دیر سے لوٹنے کا عادی ہوں  اور پھر گانا، پان سگریٹ دونوں میری عادت میں داخل ہیں  اور  پھر مہینے بھرمیں عزیز بھی آنے والے ہیں۔

بوڑھا:کیسی باتیں فرما رہے ہیں آپ میاں انور۔ تم تو میرے بیٹے کے برابر ہو واللہ آج ہی سے کتے تو زنجیر میں باندھ کر رکھوں گا۔ رہا گانا  اور  سگریٹ یہ تو بھئی اپنا اپنا شوق ہے  اور تم کیا میرے عزیزوں سے کم ہو۔ اب تو میرے کتنے ہی عزیز کیوں نہ آئیں تم سے مکان خالی نہ کراؤں گا۔

انور: اور پھر مکان کا کرایہ بھی زیادہ ہے۔

بوڑھا:ارے بھئی تم خواہ مخواہ شرمندہ کر رہے ہو۔ اچھا چلو دس روپیہ کم کر لو۔ اس قسم کا آدھا  کرایا دے دیا کرو۔ بس اب تو خوش۔

انور:کیا عرض کروں وکیل صاحب۔ یہ رقم بھی ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو صبح ۷بجے پیشگی دینا میرے لئے مشکل ہو گا اس لئے بہتر یہی ہے کہ میں دوسرے مکان کی تلاش۔

بوڑھا:(بات کاٹ کر) لاحول ولاقوۃ۔ میں نے ایسا تکلف کرنے والا انسان نہیں دیکھا کون مردود تم سے پیشگی کرایہ مانگتا ہے جب مرضی ہو کر ایہ دے دینا۔ بات دراصل یہ ہے کہ اس طرح تمہارے چلے جانے سے پھر کوئی کرایہ دار میرے مکان میں نہ آئے گا۔

انور:پھر آپ کا عہد نامہ؟!

بوڑھا:بھاڑ میں جھونکو عہد نامے کو میں تمہارے سامنے پھاڑ کر جلائے دیتا ہوں۔

انور:بہت خوب۔ اب آپ مجبور کرتے ہیں تو اور بات ہے۔ بزرگ کی بات ٹالی نہیں جا سکتی۔

بوڑھا:اچھا بھئی اب مجھے اجازت دو۔ نیند آ رہی ہے۔

(بوڑھا چلا جاتا ہے۔)

(اختر پڑوسیوں کے ساتھ باہر چلا گیا تھا داخل ہوتا ہے۔ انور کمرے کو پھر سے ٹھیک ٹھاک کر رہا ہے  اور قالین پرسے کاغذ کے ٹکڑے  اور  سگریٹ کے ٹکڑے ہٹا رہا ہے انھیں ہٹا کر کرسیاں  اور میز پھر سے جماتا ہے۔)

اختر:(قہقہہ لگاتے ہوئے داخل ہوتا ہے۔) کہو دوست۔ مانتے ہو کیسا  رام کیا بڈھے کو۔

انور:واہ بھئی واہ۔ عہد نامہ منسوخ۔ کرایہ آدھا۔ گانے کی آزادی۔ کتے سے چھٹکارا۔ اب تو بس عیش کریں گے عیش۔ ہالا استاد۔

اختر:اس کو کہتے ہیں ’’گوشۂ عافیت‘‘۔

انور:بوڑھے کوتو اب عمر بھر بھوت نظر آئیں گے۔ مکان خالی ہو جانے سے تو وہ ڈر ہی رہا ہے خوف اسے اس بات کا بھی ہے کہ بھوت خود اس کے گھر میں نہ گھس آئیں۔

اختر:اچھا سبق ملا ہے بڑے میاں کو۔ بہت دنوں تک یاد رکھے گا ظالم۔ بہت افلاطون  اور قانون داں بنتا تھا  اور  یہ بھابی کہاں چلی گئیں۔ (آواز دیتا ہے۔)بھابھی۔

(بیگم برقعہ پہنے ہوئے داخل ہوتی ہے۔)

انور:ارے یہ تم برقعہ اوڑھے کیوں چلی آ رہی ہو۔ کیا کہیں کی تیاری ہے۔

بیگم:سامان باندھ رہی تھی تم لوگ بھی تیاری کرو۔

انور:آخر بات کیا ہے۔

بیگم:مجھ سے اس گھر میں ایک سیکنڈ بھی نہیں رہا جائے گا۔

انور:تو کیا تم سچ مچ سمجھ رہی ہو کہ اس گھر میں بھوتوں کا اثر ہے۔ بھابھی۔ وہ تو فقط ذرا مالک مکان کو ڈرانے دھمکانے کو ڈرامہ کھیلا تھا۔

بیگم:یہ تومیں بھی سمجھتی ہوں۔

انور:تو پھر کیا بات ہے تم سے تو پہلے کہہ دیا گیا تھا کہ جی میں وہم نہ لانا۔

بیگم:مگر میری آنکھوں میں تو وہی کم بخت بھوت ناچ رہا ہے۔ طبیعت میں بڑی وحشت ہے نا بابا نا۔ مجھ سے اس گھر میں ذرا دیر بھی نہ رہا جائے گا۔

انور:بچوں کی سی باتیں نہیں کیا کرتے۔ تھوڑے دنوں میں پریشانی دور ہو جائے گی بھوت پریت پر اعتقاد نہیں کیا کرتے۔

بیگم:کون اعتقاد رکھتا ہے ، مگر بھوت پریت(چیخ مارتی ہے۔) وہ دیکھو کون ہے۔کتنے بڑے بڑے دانت نکالے کھڑا ہے سفید کپڑے پہنے ہوئے۔

انور:توبہ، توبہ۔ وہ تو دیوار  پر پچھلی مرمت کا نشان ہے۔

بیگم:میں پاگل ہو جاؤں گی خدا کے لئے یہاں سے چلو۔ میرا دم گھٹ رہا ہے تم تو یونہی چاہتے ہوتا کہ میں گھبرا کر اپنے  میکے چلی جاؤں۔ مجھے ساتھ رکھنا ہے تو ٹھکانے  کا مکان ڈھونڈو۔ مجھ سے یہاں نہیں رہا جائے گا۔ہر گز نہیں رہا جائے گا۔ میں تو ڈر کے مارے مر جاؤں گی۔

انور:اچھا بابا۔ جیسی تمہاری مرضی۔ اختر چلو سامان باندھو۔

(دونوں کے چہروں پر مردنی چھا جاتی ہے  اور دونوں کرسی میں دھنس جاتے ہیں۔)

***

ماخذ: ’’میرے اسٹیج ڈرامے ‘‘، ادارۂ فروغ اردو نمبر،۳۷امین آباد پارک، لکھنؤ

٭٭٭

 

 

 

               ڈاکٹر  محمد حسن

 

 

(یہ ڈراما بارہ مناظر پر مشتمل ہے۔ اس میں پانچ سے سات سیٹ تک کی ضرورت ہو گی۔ اسمٰعیل کا خیمہ۔ خیمے کے باہر کا میدان۔ مور پنکھی  اور  سرفراز کے خیمے۔ نواب کا خیمہ۔ تالاب۔ بعض مناظر مختصر ہیں۔)

 

کردار

 

مور پنکھی:ایک الہڑ خوبصورت لڑکی عمر ۱۷!سال۔

سرفراز:ٹھگوں کانو عمر سردار عمر۲۶سال۔

اسمٰعیل:ٹھگوں کا بوڑھا سابق سردار عمر۶۰سال۔

غفور:ٹھگ، عمر۳۵سال۔

بدری:ایک  اور ٹھگ عمر۳۰سے ۳۵سال تک۔

نواب سبزی بہادر:۴۰۔۴۵ سال کے ایک عیاش طبع نواب۔

خیرو:نواب سبزی بہادر کا نوکر۔

اور دو تین سوداگر  اور دو تین ٹھگ۔

 

 

 

پہلا منظر

 

(ٹھگوں کے سردار کے خیمے میں۔ وقت ، رات ۱۸۳۵ء؁ لگ بھگ)

 

اسمٰعیل: سب لوگ آ گئے۔

بدری:ہاں سردار۔ سب۔

اسمٰعیل:بدری۔مشعلیں بجھادوچاندنی رات میں ان کی ضرورت نہیں۔ اگر   اور  لوبان کچھ  اور  آگ میں ڈال دو۔

بدری:جوحکم سردار۔

اسمٰعیل:میں نے خیمے کودلہن کی طرح سجایا  اور طرح طرح کے پھولوں سے مہکا دیا ہے۔ یہ رات ہمارے قافلے کی زندگی میں بڑی ہی مبارک ثابت ہو۔ میں نے اپنے سب ساتھیوں کو اس لئے بلایا ہے کہ میں ان سے فیصلہ چاہتا ہوں۔سرفرازخاں۔

سرفراز:سردار۔

اسمٰعیل:آؤمیرے پاس آ کرکھڑے ہو جاؤ۔ساتھیو!میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔ ٹھگی کے پیشے میں میں نے ۴۵!سال گزارے ہیں۔ دیوی بھوانی کے ایک معمولی سیوک کی حیثیت سے میں نے اپناکام  پوراکیا ہے۔۔۔  ٹھگ بڑاپاک لفظ ہے ہم دیوی بھوانی کے سچے بھگت ہیں۔بھوانی ہمارے ذریعے دنیاسے بدی کو ختم کرتی ہے۔ جب دیوی شگون دیتی ہے تو ہم اس کے حکم سے انسانوں کو موت کا پیغام سناتے ہیں۔ دیوی ہمارا ساتھ نہ دیتی تو ہمارے معمولی رومال میں تندرست سے تندرست انسان کی گردن مروڑنے کی طاقت کہاں سے آئی۔

سب:جے بھوانی کی!!

اسمٰعیل:ہمارے قافلے میں ہندو مسلمان سب برابر ہیں۔ سب دیوی بھوانی کے حکم سے قتل کرتے ہیں۔ اس قتل سے جو مال ملتا ہے۔ اس کا بڑا حصہ دیوی بھوانی کو چڑھاتے ہیں۔ میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔ میں تمہاری سرداری کے لئے اپنے لئے پالک بیٹے سرفراز کو پیش کرتا ہوں۔ بھائیو کیا تم سرفراز کو اپنا سردار بنانے پر راضی ہو؟

غفور:جے بھوانی کی!

اسمٰعیل:میں سمجھ گیا غفور!ہاں اگر  بھوانی اس معمولی سیوک کو سردار بنانے پر راضی ہو تو کیا تم سرفراز کو اپنا سردار بنا لو گے؟

غفور:بے شک، مگر سرفراز کے لئے بھوانی سے شگون لینا ضروری ہے۔

اسمٰعیل:سرفراز تمہارے لئے نیا نہیں ہے۔ تم پچھلے سفر میں اس کے کارنامے دیکھ چکے ہو۔ وہ خوبصورت جوان  اور تندرست ہے۔ اس کی باتوں میں جادو ہے۔ قیمتی پوشاک میں وہ نواب زادہ لگتا ہے۔ اس نے پچھلے سفر میں کئی اچھے اسامیوں کی مضبوط گردن میں رومال ڈال کر ایک سیکنڈ میں ختم کر دیا تھا۔

کئی آوازیں :ہمیں معلوم ہے۔

اسمٰعیل:نیزہ بازی میں اس کا جواب نہیں۔ شہسواری میں اسے کمال حاصل ہے۔ پہلوانی میں میرا بیٹا رستم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کی سرداری میں ہمارے قافلے پر ہن برسے گا۔ ہن۔

بدری:تو پھر کیا دیر ہے سردار۔ شگون سے لیا جائے۔

اسمٰعیل:(پرارتھنا کے لب و لہجہ میں) دیوی بھوانی ہمیں ہدایت دے !ہمیں راستہ دکھا، اگر تو اپنے سیوک سرفراز کو اپنے گروہ کی سرداری کے لئے قبول کرتی ہے تو ہمیں شگون دے اجازت دے دیوی!دیوی!!

اسمٰعیل:(تھوڑی دیر کے بعد)ہم خاموشی سے تیرے اشارے کا انتظار کریں گے۔

(تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہتی ہے پھر اچانک کہیں قریب ہی سے الو کے بولنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ دیر تک یہ آواز آتی رہتی ہے۔)

سب لوگ:(خوشی سے مست ہو کر)جے بھوانی مائی کی!جے بھوانی مائی کی۔

اسمٰعیل:شکر ہے لاکھ لاکھ  شکر ہے بھوانی مائی نے میری لاج رکھ لی۔ سرفراز میرے بیٹے آ میرے سینے سے لگ جا۔

غفور:مبارک ہو سرفراز۔

اسمٰعیل:میرے بیٹے سرداری مبارک ہو، خدا نے آج بڑے ارمانوں کے بعد مجھے یہ دن دکھایا ہے۔

سب:مبارک، سلامت۔

اسمٰعیل:سرفراز آؤ۔ میرے سامنے آ کر کھڑے ہو جاؤ۔ خدا کے سامنے قسم کھاؤ حلف اٹھاؤ کہ تم ٹھگی کے اصول پر چلو گے۔

سرفراز:میں قسم کھاتا ہوں۔

اسمٰعیل:ماتا بھوانی کے اس مقدس نشان پر ہاتھ رکھ  کر قسم کھاؤ کہ اپنے رومال سے ہراس انسان کی جان ضرور لو گے جس کے لئے ماتا بھوانی کا اشارہ مل جائے۔

سرفراز:میں قسم کھاتا ہوں۔

اسمٰعیل:قسم کھاؤ کہ جہاں تک ہو سکے گا عورت کے قتل سے ہاتھ نہ رنگو گے بلکہ اس کی عزت کرو گے۔ دھوبی، نائی، کنجڑے وغیرہ کے قتل سے باز رہو گے  اور ٹھگی کا راز کبھی کسی کونہ بتاؤ گے۔

سرفراز:میں قسم کھاتا ہوں۔

اسمٰعیل: اور اگر تم نے کبھی یہ راز فاش کیا تو تمہاری سزا ٹھگی کے قانون کے مطابق موت ہو گی۔

سرفراز:مجھے منظور ہے۔

اسمٰعیل:قسم کھاؤ کہ اگر عورت، مرد یا سمجھدار بچہ میں سے۔۔۔ کوئی تمہارا بھید جان لے گاتو تم اسے ٹھگی کے قانون کے مطابق جان سے مارنا اپنا فرض سمجھو گے۔

سرفراز:میں خدا  اور بھوانی ماتا کے سامنے قسم کھاتا ہوں۔

اسمٰعیل:بھائیو۔ تمہارا سردار تمہیں مبارک ہو۔

سب:بھوانی ماتا کی جے۔

اسمٰعیل:اب تم سب بھی پاک نشان پر ہاتھ رکھ کر بھوانی  ماتا کے سامنے قسم کھاؤ کہ جب تک وہ ٹھگی کے اصول پر چلے گا تم سرفراز کی سرداری قبول کرو گے  اور جب وہ اس راستے سے ہٹنے کی کوشش کرے گا۔ تم اسے بھوانی کی بھینٹ چڑھا دو گے  اور اس کے خون کا تلک لگاؤ گے۔

سب:ہم سب قسم کھاتے ہیں۔ ہم سب پرتگیا کرتے ہیں۔

(اچانک ڈھول پر زور کی چوٹ پڑتی ہے  اور جھانجھ کی آواز آتی ہے۔)

اسمٰعیل:جاؤ سب جشن مناؤ۔

(جشن شروع ہوتا ہے لوگ ناچ گانے میں محو ہو جاتے ہیں یہ آوازیں پس منظر سے آتی رہتی ہیں۔ سب لوگ خیمے سے باہر چلے جاتے ہیں  اور  ناچ گانے میں مصروف ہو جاتے ہیں صرف غفور، اسمٰعیل  اور  سرفراز رہ جاتے ہیں۔)

(موسیقی فضا میں بکھر جاتی ہے ایک مردانہ آواز سرگم کی تان لیتی ہے۔ جھانجھ  اور گھنگھروؤں کی آواز سماں باندھ دیتی ہے۔ یہ کیفیت کچھ دیر جاری رہتی ہے پھر دھیرے دھیرے موسیقی کی لے مدھم ہونے لگتی ہے  اور  اسمٰعیل کی آواز ابھرتی ہے جو سرگوشی میں سرفراز سے کچھ گفتگو کر رہا ہے۔)

اسمٰعیل:سب جشن منا رہے ہیں۔ میرے بیٹے۔ کل تمہارے امتحان کا دن ہے۔

سرفراز:میں تیار ہوں۔

اسمٰعیل:غفور کل ہی نیا شکار پھانس کر لاؤ۔ قافلے والوں کو فوراً سرفراز خاں کی سرداری کا تحفہ ملنا چاہئے۔

غفور:خان غفور آپ کی سب باتیں مانے گا مگر اس بار تو سرفراز خاں کو شگون کے لئے اپنا شکار خود ہی پھانسنا چاہئے۔

سرفراز:مگر یہ تو سوٹھائی کاکا م ہے۔

غفور:ہاں میں سوٹھائی۱؂  ہوں۔ میرا یہی کام ہے مگر سردار کو سوٹھائی سے لے کر بھٹوئی۲؂  ا ورلگھائی۳؂  تک سب کے کام آنے چاہئیں۔

سرفراز:یعنی میں اپنے آپ شکار پھانسوں۔ خود انھیں موت کے گھاٹ اتاروں  اور خود ہی قبر کھود کر دفن کروں تو پھر تم کیا کرو گے؟

غفور:جو مجھے کرنا چاہئے۔

اسمٰعیل:غفور!تمہیں اپنے سردار کی مدد سے انکا رہے؟

غفور:میری کیا مجال!

اسمٰعیل:پھر کیا چاہتے ہو؟

غفور:میں سرفراز کے ساتھ جانے کو تیار ہوں مگر شکار پھانسنے کا کام سردار کو کرنا ہو گا۔

سرفراز:مجھے منظور ہے غفور!زندگی میں ، میں نے کبھی ہار نہیں مانی۔ تمہارے ساتھ چلنے کی ضرورت نہیں۔ میں تمہیں دکھا دوں گا سوٹھائی کسے کہتے ہیں۔(بلند آواز میں) جاؤ۔

غفور:بہت اچھا، جب میری ضرورت ہو مجھے یاد کر لیا جائے۔

اسمٰعیل:میرے بیٹے۔۔۔ یہ تم نے کیا کیا؟

سرفراز:میں اپنی قسمت آزمانا چاہتا ہوں ابا جان۔ میں غفور کو اور سارے قافلے  والوں کو دکھا دینا چاہتا ہوں کہ سرفراز کے پاس ہمت بھی ہے  اور  قابلیت بھی۔ آج آپ دیکھیں گے ابا جان مجھے زندگی کی دوسری شاندار کامیابی ہو گی۔

اسمٰعیل:بھوانی ماتا کی یہی مرضی معلوم ہوتی ہے۔

سرفراز:آپ کا بیٹا صرف خدا  اور بھوانی پر بھروسہ کرنا جانتا ہے۔انسان تو کھلونا ہے جسے تباہ کرنا میرا فرض ہے۔

اسمٰعیل:کل اس کا فیصلہ ہو جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂  سوٹھائی:ٹھگی کی اصطلاح میں وہ شخص ہے جو شکار پھانس کر لائے۔

۲؂  بھٹوئی:وہ شخص جو شکار کی گردن میں رومال ڈال کراس کو گلا گھونٹے۔

۳؂  لگھائی:جو قبر تیار کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

دوسرا منظر

 

(خیموں کے باہر میدان میں صبح ہونے والی ہے۔)

 

غفور:صبح ہو گئی۔ ابھی تک سرفراز نہیں آیا۔

بدری:سرفراز نہیں سردار کہو، غفور، سردار۔

غفور:ابھی نہیں ، آج کی سوٹھائی کے بعد دیکھنا کون کس کو سردار کہتا ہے۔

بدری:کس طرف کا ارادہ ہے؟

غفور:غفور کو نہیں جانتے بدری۔ میری پانچوں انگلیوں پرلوک کے بھید ہیں۔ وہ غلطی پر ہیں  جو غفور کو آزماتے ہیں۔

بدری:مجھے معلوم ہے۔

غفور:میں گھر پھونک کر رکھ دیتا ہوں  اور کوئی میری چنگاری کو نہیں دیکھ سکتا۔

بدری:اس کا مطلب؟!

غفور:مطلب وقت بتائے گا۔۔۔ وہ دیکھو سامنے گھوڑے پر سرفراز آ رہا ہے۔

بدری:سوداگروں کے لباس میں توباء کی مہاراجہ لگ رہا ہے۔

غفور:اونہہ مہاراجہ!؟تم سب لوگ چڑھتے سورج کے پجاری ہو تم ہر چمکتی ہوئی چیز کو سونا سمجھتے ہو۔

بدری:بندہ پروری!ذرہ نوازی!!آخر شریف ہیں ، بھلی پوشاک پہن لیں۔ تو ایک ذرا میں کچھ کی کچھ صورت نکل آتی ہے۔

سرفراز:کون کہتا ہے کہ ٹھگی جرم ہے۔ ٹھگی فن ہے۔ لباس کی تبدیلی، چہرے مہرے  اور شکل و صورت کی تبدیلی، پھر ہر قبیلے کی چال ڈھال، بول چال برتنا، کوئی ہنسی ٹھٹھا ہے۔ میں اس فن کو کمال تک پہنچاؤں گا۔۔۔  غفور گھوڑے تیا رہیں؟

غفور:جی ہاں سردار۔۔۔ ہم لوگ آپ کے ہمراہ چلنے کے لئے تیا رہیں۔

سرفراز:نہیں میں تنہا جاؤں گا۔

غفور:بے کا رہے۔ اکیلے جانے سے کام نہ بنے گا۔

سرفراز:خاموش۔ جھرنی کا انتظار کرو۔۔۔ بھوانی ماتا کے اشارہ کا انتظار کرو۔

بدری:وہ دیکھئے بگلوں کی قطار پورب سے اڑتی چلی آ رہی ہے۔

سرفراز:شگون بہت اچھا ہے بھائیو۔۔۔ اچھا خدا حافظ۔ میں قسمت آزمائی کرتا ہوں۔ آج سے ہمارے قافلے میں ہن برسے گا۔ میں بھوانی ماتا کی قسم تم سب کو مالامال کر دوں گا۔

بدری:آپ کس طرف جائیں گے سردار۔

غفور:یہاں کے راستے بڑے ٹیڑھے میڑھے ہیں۔

سرفراز:میں اکثر ٹیڑھے میڑھے راستوں سے گزرا ہوں غفور۔۔۔ میں تالاب کی طرف جا رہا ہوں۔

(چلا جاتا ہے تھوڑی دیر دونوں اس کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔)

غفور:چلا گیا، چلو ہم واپس چلیں۔

بدری:کیوں؟

غفور:آج کا دن بھی بیکار گیا۔ کیا مرغابیوں کی گردن میں رومال ڈال کر شکار کرے گا!!تالاب اونہہ!!تالاب کے کنارے اسے کون ملے گا۔ سوٹھائی بڑا مشکل کام ہے تجربہ چاہئے۔

بدری:مگر بھوانی ماتا کا شگون اچھا ہے۔

غفور:بھوانی ماتا بھی کبھی کبھی اپنی مایا دکھاتی ہے آؤ چلیں۔

 

 

 

 

 

تیسرا منظر

 

(جنگل میں تالاب کے کنارے صبح کے ۸بجے)

 

نوجوان لڑکی:اے۔۔۔ اے۔۔۔ سنو۔۔۔ بات سنو۔

سرفراز:مجھ سے کچھ کہا تم نے۔

نوجوان لڑکی:ہاں ہاں تم سے کہا۔ کوئی غضب ہو گیا۔ آدمی آدمی سے بات کرتا ہے۔

سرفراز:کیا کام ہے؟

لڑکی:ارے اب میل بھر دور سے تھوڑا ہی بتاؤں گی کیا کام ہے۔ذرا پاس آؤ۔ ایک نظر دیکھوں تو، شریف آدمی ہو کہ یوں ہی چلتے پھر تے چورا چکے ہو۔

سرفراز:آپ کی تعریف؟!

لڑکی۔:میرا نام ہے مور پنکھی، شریف گھرانے کی باندی ہوں۔ نواب سبزی خاں کا نام سنا ہے۔ میری ماں کریمہ ان کی پرانی کنیز ہے۔۔۔  اور تم۔

سرفراز:میرا نام ایسا خوبصورت تو نہیں ہے۔

لڑکی:وہ تو صورت سے ظاہر ہے۔ ہو گا یہی  کلو خاں۔ حشمت بیگ وغیرہ۔

سرفراز:میرا نام ہے سرفراز مرزا۔

لڑکی:کام؟

سرفراز:بہکے ہوؤں کو راستہ دکھانا۔

لڑکی:یا راستہ چلتے ہوؤں کو ہسکانا۔

سرفراز:آپ کہئے۔ کیا ارادہ ہے؟

لڑکی:میرا ارادہ ، دیکھئے اعلیٰ حضرت۔ نواب سبزی خاں بہادر سفر پر نکلے ہیں۔ مجھے نگوڑا یہ جنگلوں میں مارے مارے پھر نا اچھا نہیں لگتا۔ نواب صاحب سال بھرمیں ایک دفعہ سسرال جاتے ہیں تو شکار کی دھت میں جنگلوں میں ٹھہرتے ہوئے جاتے ہیں ، تم بھی شکاری ہو؟

سرفراز:ہاں شکار سے مجھے شوق ہے مگر بڑے شکار سے۔

لڑکی:تم نے کبھی شکار کیا بھی ہے؟

سرفراز:شکار کرنے کا ارادہ ہے۔

لڑکی:تم نے خون کا مزہ چکھا ہے کبھی، اس جانور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی ہیں جس کی گردن مروڑ دی گئی ہو اور جو گھائل ہو کر پھٹی آنکھوں سے زمین  اور  آسمان کو دیکھ رہا ہوں  اور اپنے جوڑے پر حسرت کی نظر ڈال رہا ہوں۔

سرفراز:موت میں یہ سب کچھ ہوتا ہے۔

لڑکی:میرا دل پھٹتا ہے۔ نواب سبزی بہادر کا سارا قافلہ تو روانہ ہو چکا ہے۔ بس میں  اور  خیرو نواب صاحب کے ساتھ ہیں۔ تنہائی میں دم بولایا جاتا ہے۔ میں ذرا خیمے سے نکلی تو راستہ بھول گئی مجھے خیمے تک پہنچا دو گے؟

سرفراز:تمہیں یوں اکیلے نہیں پھر نا چاہئے۔

لڑکی:کیوں؟

سرفراز:تم جوان ہو۔

لڑکی:بس۔۔۔؟!

سرفراز:خوبصورت ہو۔

لڑکی:بس۔۔۔

سرفراز:کم عمر ہو، حسین ہو، تجربہ کار ہو، کامنی ہو، چنبیلی کی ڈالی  اور  گلاب کے پھول کی طرح نرم و نازک ہو۔

لڑکی:اوہو سچ مچ، کیا میں سچ مچ خوبصورت ہوں؟سب یہی کہتے ہیں۔ کوئی نہیں بتاتا خوبصورتی کسے کہتے ہیں۔ تمہیں معلوم ہے؟

سرفراز:ہاں معلوم ہے۔

لڑکی:بتاؤ۔

سرفراز:خوبصورتی اس شراب کو کہتے ہیں جو ایک نظر میں مست کر دیتی ہے  اور  جس کا نشہ زندگی بھر نہیں اترتا۔

لڑکی:ارے ارے۔۔۔ تب تو چلو، میں تمہیں نواب سے ملاؤ گی وہ بھی شاعر ہیں۔ کیا کیا غزلیں لکھتے ہیں۔ غضب کرتے ہیں اماں کہتی ہیں بہت قابل آدمی ہیں ایک غزل لکھی تھی:

چھپا ہے مانگ میں دل اب بتاؤ ڈھونڈوں کدھر

کہ آدھی رات ادھر ہے  اور  آدھی رات ادھر

سرفراز:اہا ہا ہا  مزا آ گیا۔۔۔ چلو میں تمہیں خیمے کے راستے کی طرف لے چلتا ہوں۔ بتاؤ تو سہی  کدھر ہے وہ خیمہ؟

لڑکی:یہ جو سامنے شیشم کے پیڑ ہیں ان سے بائیں طرف جا کر دائیں کو مڑتے ہیں تو ڈھاک  کا جنگل آتا ہے بس وہیں۔ مگر مجھے ٹھیک راستہ نہیں آتا۔

سرفراز:میں راستہ ڈھونڈھ لوں گا۔ چلو۔

(تھوڑی دیر تک خاموش چلتے رہتے ہیں۔)

لڑکی:تمہیں گانا آتا ہے۔

سرفراز:ہاں کچھ کچھ۔

لڑکی:تم جوان ہو، خوبصورت ہو، کم عمر ہو، نا تجربہ کار ہو پھر گانا بھی آتا ہے۔ ارے تم مجھے پہلے سے کیوں نہیں ملے۔ میں تم سے پیار کرتی تمہیں چرا کر لے جاتی۔۔۔ ایک بات بتاؤں۔ سچ کہنا ٹھیک ہے نا تم سوداگر  ہو(ہنستی ہے) ہے نا یہی بات۔

سرفراز:ہاں  اور اس وقت جان  اور مال کا سودا کر رہا ہوں۔

لڑکی:لاؤ۔ ہم خریدتے ہیں۔

سرفراز:گانا آتا ہے تمہیں؟

لڑکی:ہاں ناچنا بھی آتا ہے۔ وہ کتھک ناچتی ہوں کہ کالکا  اور بندادین میرے سامنے پانی بھریں۔

سرفراز:تو کب؟

لڑکی:آج رات کو؟دیکھو وہ خیمے نظر آنے لگے۔ چلو تمہیں نواب سے ملواؤں۔

 

 

 

 

 

چوتھا منظر

 

(نواب صاحب کاخیمہ۔ دن کے یہی کوئی ۹بجے)

 

نواب:کیا شربت ہے۔ خیرومگر کریمہ کے ہاتھ سے ان کی لذت ہی کچھ  اور  ہو جاتی ہے۔ اہاہا۔ خداکی قسم اگر ہم سکندر اعظم ہوتے  اور ساری دنیا پر ہماری حکومت ہوتی توسبزی کے لئے ہم اپنی آدھی حکومت بخش دیتے۔ ایک پیالہ  اور۔۔۔  اور یہ مورپنکھی کہاں چلی گئی۔ واللہ رات اس نے کیا کتھک نا چاہے۔

مورپنکھی:یہ دیکھئے۔ سوداگروں کے بادشاہ سرفراز مرزا!

نواب:آئیے حضرت۔ یعنی جنگل میں بھی سوداگر ی۔ بھئی حدہے۔ دنیا کام کی دیوانی ہے۔ اس کی قسمت میں عیش نہیں۔ میاں مسافر یہ مورپنکھی تمہیں کہاں سے پکڑلائی۔

سرفراز:یہ راستہ بھول گئی تھیں۔

نواب:یہ بھی خوب ہے۔ یہ تودوسروں کوراستہ بھلانے کے لئے کافی ہے۔ بھئی ایمان سے کہنا یہ سج دھج یہ الہڑپن یہ قیامت کی شوخی، مستی، البیلاپن خوبصورتی، گلاب کی پنکھڑی کی سی نزاکت، کہیں دیکھی ہے تم نے۔ اس کی آنکھیں شبنم سے بھرے کنول۔ اس کے بال برسات کی کالی گھٹا۔۔۔  اور  ناچنے میں بھی قیامت ہے۔ بجلی ہے۔ طوفان ہے۔۔۔  تم نے اسے دیکھ کرخداکی قدرت کے سامنے سجدہ کیا تھایانہیں؟!

سرفراز:آپ کے انتخاب کی داددیتا ہوں۔

نواب:اچھایہ بتاؤ کیا شغل کرو گے سبزی۱؂  پیو گے۔

سرفراز:جی نہیں۔ اس نعمت سے محروم ہوں۔

نواب:لاحول ولاقوۃ۔ اس کوزندگی اس لئے دی گئی ہے کہ عیش کرے۔ سوداگر ی تومرنے کے  بعدبھی ہو سکتی ہے۔ عیش کر لوعیش۔

سرفراز:جی ہاں قبلہ صحیح فرمایا۔

نواب:پھر کس چیزسے شغف ہے؟

سرفراز:شکارسے۔

نواب:خوب خوب، چلوخوب گزرے  گی جومل بیٹھیں گے دیوانے دو۔

سرفراز:میرے ساتھ تو کئی دیوانے ہیں۔

نواب:یعنی کہ سوداگروں کا پورا قافلہ ہے۔

سرفراز:جی ہاں۔

نواب:کوئی شکاری بھی ہے۔

سرفراز:ایک سے ایک بڑا شکاری ہے نواب صاحب۔ کیا مجال ہے کہ نشانہ خطا ہو جائے۔ بلم، بندوق، تلوار، لاٹھی، برچھی، تیر، ہر ہتھیار میں ماہر، ہر چیز میں استاد۔

نواب:میاں خیرو۔ بستر باندھو۔ ہم ان لوگوں کے قافلے کے ہمراہ جائیں گے۔ کچھ دن سیر شکار ہو جائے۔ کہاں روز روز گھر سے نکلنا ہوتا ہے۔

سرفراز:مگر حضور کے پاس قیمتی سامان ہے۔

نواب:ہے تو کیا ہوا۔

سرفراز:پھر اگلی منزل پر آپ کے ساتھی آپ کی راہ دیکھ رہے ہوں گے۔

نواب:وہ اپنی راہ چلے جائیں گے ہم چند دن بعد پہنچے  تو سمجھیں گے شکار چلے گئے۔

سرفراز:نہیں قبلہ میں اس کی رائے نہ دوں گا۔ سفر کا معاملہ ہے  اور وہ بھی جنگل کا۔ راستے چورا چکوں سے بھرے ہوئے ہیں۔کوئی اونچ نیچ ہو جائے تو مجھے شرمندگی ہو گی۔

نواب:(بے فکری سے ہنستا ہے) شکاری ہو کر ڈرتے ہو۔ ارے موت سے آنکھیں لڑاتے ہیں میاں خیرو سامان باندھو۔

مورپنکھی:لیجئے۔ حقہ حاضر ہے۔

نواب:لو میاں سوداگر مورپنکھی نے تمہارے لئے خود حقہ  تازہ کیا ہے پیو۔

سرفراز:میری خوش قسمتی۔

نواب:تم سچ مچ بڑے خوش قسمت ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂:سبزی۔ بمعنی بھنگ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

پانچواں منظر

 

(اسمٰعیل کا خیمہ۔ دن چڑھ آیا ہے۔ سہ پہر کا وقت)

 

سرفراز:میری بڑی خوش قسمتی کہ آپ سے نیاز حاصل ہوا۔۔۔ یہ ہیں ہمارے خیمے۔ یہ ہمارے سوداگر بھائی ہیں۔

اسمٰعیل:نیازمند کو اسمٰعیل مرزا کہتے ہیں۔

نواب:سبحان اللہ آپ لوگوں نے تو جنگل میں منگل کر دیا ہے۔ بس صرف خواتین کی کمی ہے۔ ورنہ گھر کا مزا آتا۔

اسمٰعیل:جی ہاں مگر سوداگر بچے کہاں اپنے خاندان کو لئے لئے پھریں ہمارا کیا ہے آج یہاں ہیں کل وہاں ہیں۔

نواب:مورپنکھی۔۔۔ تم آ گئیں۔

مورپنکھی:میں نہ آتی۔ میں نے ہی تو ڈھونڈھا ہے سرفراز مرزا کو۔ ٹھگوں  اور  چوروں کے جنگل میں اکیلے بڑا ڈر لگتا تھا۔ خدا کی قسم میں تو سہم گئی تھی۔

سرفراز:ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔

نواب:سبزی  اور خوبصورت لڑکی سے موت بھی بھاگتی ہے۔۔۔ ارے بھائی اب کیا دیر ہے سب کو بلاؤ۔ بھائی برادروں کو جمع کرو۔ میاں خیرو سے کہو طبلہ لائیں سازندہ تو یہاں کوئی نہ کوئی مل ہی جائے گا۔ جم جائے محفل ہمیں سونے پن پر نفرت ہے خدا کی قسم اپنی زندگی تو رنگ رلیوں ہی میں کٹ گئی۔

سرفراز:جو ارشاد، استاد غفور خان۔ نواب صاحب کے پاس بیٹھو۔ سیٹھ بدری پرشاد۔

نواب:آئیے سیٹھ جی آپ ادھر آئیے۔ بخدا ہم بہت خوش ہیں۔ آپ لوگ مل گئے۔ سفر جنت بن گیا۔ میاں زندگی کیا ہے یہی دو گال ہنسنا بولنا۔ مور پنکھی۔ آج کوئی پھڑکتی ہوئی چیز سناؤ کہ روح جھوم اٹھے۔

(مورپنکھی کی آواز رس گھولتی ہوئی فضا میں پھیل جاتی ہے۔)

(رقص)

سرفراز:حضور تعریف نہیں ہو سکتی۔ چھلاوا ہے بجلی ہے کرشمہ ہے۔

نواب:مورپنکھی، ہماری سب سے بڑی دولت ہے۔ تم جانتے ہو سرفراز۔۔۔  ہم دو چیزوں سے زندہ ہیں۔ تم کہو گے پانی  اور ہوا۔ نہیں ہم وہ نہیں ہیں (گدھا رینکتا ہے) وہ گدھے  اور  ہوں گے ہم تو سبزی  اور مورپنکھی سے زندہ ہیں۔

سرفراز:غفور خاں۔ یہ کس جانور کی بولی تھی۔

غفور:جھرنی۱؂۔

نواب:یہ کون جانور  ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۱؂:ٹھگی کی اصطلاح میں کسی جانور کی آواز جو مبارک شگون مانی جاتی ہے۔

سرفراز:یہ خاص اسی جنگل کا جانور ہے۔ بڑا لذیذ ہوتا ہے  اور اس کے شکار میں وہ مزا ہے کہ حضور شیر کا شکار بھول جائیں گے۔ سچ عرض کرتا ہوں۔ عجیب و غریب چیز ہے مگر ذرا دو چار دن میں قابو میں آتا ہے۔ بڑا ہانکا کرانا پڑتا ہے۔

نواب:کوئی بات نہیں۔ مورپنکھی۔ تم یہاں رہنا۔ شام تک خیرو کو بھیجیں گے نہیں تو یہ سب شریف آدمی ہیں یہ بوڑھے باپ کے برابر اسمٰعیل مرزا ہیں۔ گھبرانا مت۔ ہم شکار سے واپس آ کر تمہیں لے چلیں گے دراصل ہم نے بڑی غلطی کی تمہیں پہلے قافلے کے ساتھی بھیج دینا چاہئے تھا۔

مورپنکھی:ہم آپ کے ساتھ شکار پر چلیں گے۔ ہم سے نہیں رہا جائیگا۔

نواب:اچھا دیکھا جائے گا تم تھوڑی دیر آرام کر لو تھک گئی ہو گی۔

سرفراز:تمہارے لئے خیمہ سجا دیا گیا ہے۔ جاؤ آرام کرو۔

مورپنکھی:دیکھئے میرے پیچھے شکار پرنہ چلے جائیے گا۔

نواب:پگلی۔ جا آرام کر لے۔

اسمٰعیل:سفر آپ کی وجہ سے بڑا اچھا کٹ رہا ہے۔

نواب:یہ آپ کیا کہتے ہیں حضرت۔ یہاں تو مستقل دم حلق میں اٹکا رہتا تھا۔ سارے ہتھیار پاس اتنے آدمی ساتھ مگر سفر میں خطرہ لگا ہی رہتا ہے۔ اب آپ ایسے لوگوں کا ساتھ ہو گیا۔ خطرہ نہیں رہا۔ کچھ سبزی کا شغل رہا۔

اسمٰعیل:حقہ ملاحظہ کیجئے۔

نواب:خوب(حقہ کا کش لگاتے ہیں) جناب سبزی بھی خوب چیز ہے۔ چلو میں الو۔ نہ غم  زرد نہ غم کالا۔ ایک دفعہ کا قصہ ہے کہ دو پیالے غٹا غٹ چڑھا کر جو شیر کے شکار کو نکلا تو ٹانڈ تک پہنچنے بھی نہ پایا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ شیر ببر ایک ایک  کلا دس دس من کا اینڈتا اکڑتا چلا آ رہا ہے۔ مجھے دیکھتے ہی چنگھاڑ ماری جست مارکر حملہ کرنا ہی چاہتا تھا کہ ڈپٹ کر جو میں نے لنگڑی ماری ہے تو دھوبی پاٹ پر کس لیا۔ چت کر کے وہ گھونسے وہ لاتیں ماریں کہ چیں بول گیا۔ میرا بھی شباب تھا۔ زمین پر ٹھوکر ماردوں تو پانی نکل آئے۔ ایسا دم دبا کر بھاگا کہ آج تک صورت نہیں دکھائی۔

سرفراز:سبحان اللہ سبحان اللہ۔ نواب صاحب آپ پان سے شوق فرمائینگے۔

اسمٰعیل:پان حاضر ہیں۔۔۔ مگر تمباکو(بلند آواز میں)ارے ہے کوئی تمباکو لاؤ۔

(تھوڑی دیر گڑبڑ اور ہلچل مچتی ہے نواب کا گلا سرفراز رومال سے گھونٹ دیتا ہے۔ نواب بے دم ہو کر گر پڑتا ہے لوگ اس کی لاش لے جاتے ہیں۔)

سرفراز:مر گیا کم بخت۔ رومال کی گرفت کافی دیر سخت کرنی پڑی۔

اسمٰعیل:مبارک ہو سرفراز مبارک ہو۔ پہلا شکار مبارک ہو۔ شاباش میرے بیٹے شاباش۔

غفور:مبارک۔

بدری:مبارک ہو

سرفراز:اگر تم دونوں نواب کے پیر اتنی اچھی طرح نہ پکڑتے تو اس قدر تیزی سے میں اس کی گردن کو رومال میں نہ جکڑ سکتا۔ میرے بھائیو۔یہ ہم سب کا حصہ ہے۔

بدری: اور اس کا نوکر خیرو؟

سرفراز:اسے دوسرے خیمے میں قتل کر دیا گیا۔

بدری:قبر؟

سرفراز:لگھائیوں نے قبریں تیار کر  رکھی ہیں ابھی ایک منٹ میں ہم ان دونوں کا نشان ختم کر دیں گے۔

غفور:مورپنکھی  کا کیا ہو گا؟

سرفراز:عورت کا قتل نہیں ہو گا۔ ہم اس سے کہہ دیں گے کہ نواب صاحب شکار چلے گئے۔

غفور: اور مال؟

سرفراز:پانچ ہزار روپیہ نقد  اور دس ہزار کا سامان۔ یہ سب ہمارا ہے۔ ہم سب کا ہے۔ یہ میری سرداری کا پہلا تحفہ ہے۔ آج یہ سب بانٹا جائے گا۔

بدری:مبارک ہو۔ سردار کی پہلی کامیابی مبارک ہو۔

سرفراز:بدری۔ میرے بھائی یہ میرا فرض تھا۔ میں بھوانی کا ادنیٰ سیوک ہوں۔۔۔ جلدی کرو۔ لگھائیوں سے کہو قبریں پاٹ کر زمین ہموار کر دیں  اور  اس پر فرش بچھا دیں۔ آج رات کو اس جگہ مورپنکھی پھر ناچے گی  اور  سنو غفور تم قافلے کے تین چار آدمیوں کو سفر پر روانہ کر دو۔ مورپنکھی سے کہہ دیں گے کہ ہمارے آدمیوں کو بھی نواب صاحب شکار پر لے گئے ہیں۔

بدری:بہت اچھا۔

سرفراز:یہ سب کام فوراً ہونا چاہئے۔

بدری:ابھی ہو جائے گا۔

سرفراز:ابا جان آپ سارا مال جمع کر کے اس کے بٹوارے کا انتظام کریں۔

اسمٰعیل:ابھی بٹوارہ ہوا جاتا ہے۔۔۔ بیٹے تو نے آج میرے بڑھاپے کی لاج رکھ لی۔ میں بھی جوانی میں اسی طرح رومال کے ایک جھٹکے سے گردن کو چٹخا دیا کرتا تھا۔ میرا سر آج غرور سے بہت اونچا ہو گیا ہے۔

سرفراز:آج میں نے پہلی بار انسانی خون کا مزا چکھا ہے۔ پہلی بار میں نے انسان کو اپنے ہاتھوں مرتے دیکھا ہے۔ یہ انسان قدرت کے ہاتھ کا کھلونا انسان۔

(قہقہہ لگاتا ہے۔)

اسمٰعیل:بھوانی تیرے دل کو سکون  اور تیرے ہاتھوں کو طاقت دے میرے بیٹے۔

سرفراز:انسان جو مغرور گھمنڈی، فرعون، خدائی کا دعویٰ کرنے والا انسان ایک معمولی سے کپڑے کی گرفت میں دم توڑ دیتا ہے۔ اس کا سارا گھمنڈ، ساری چالاکی، ساری دانشمندی  اور علمیت بس رومال کے ایک پیچ میں ختم ہو جاتی ہے۔ کیسی آنکھیں ابل آئی تھیں۔ کیسے نرخرا خرخر کرنے لگا تھا۔ کس طرح رگیں پھٹنے لگی تھیں  اور  اشرف المخلوقات کی ساری شیخی کرکری ہو گئی۔ انسان تو دنیا کا سب سے بڑا عجوبہ ہے انسان۔

(پھر قہقہہ لگاتا ہے۔)

بدری:سب ٹھیک ہو گیا ہے۔

سرفراز:زمین برابر کر دی گئی۔

غفور:جی ہاں۔ فرش بچھا کر لوبان  اور اگر سلگا دیا گیا۔

سرفراز:یہ اس قافلے کا سات  سو انیسواں شکار تھا۔

(ایک دم مورپنکھی بھاگتی ہوئی آتی ہے شام ہونے لگی ہے۔)

مورپنکھی:نواب صاحب سچی بڑا  اچھا خواب دیکھا ہے۔ میں نے بڑا اچھا سا خواب۔۔۔ ایں۔۔۔ نواب صاحب کہاں ہیں۔

سرفراز:آؤ۔ اندر آؤ مورپنکھی۔

مورپنکھی:نواب صاحب کہاں گئے۔

سرفراز:نواب صاحب۔

مورپنکھی:مجھ سے چھپا رہے ہونا!چلے گئے ہوں گے شکار پر۔ مجھ سے چوری چوری چلے گئے۔ کہہ دیا تھامیں نے کہ مجھے لے کر جائیے گا۔ بہانے بنانا تو کوئی ان سے سیکھے۔ مجھے بیٹی کی طرح پالا پوسا لاڈ کیا مگر مجھے چھوڑ کر چلے جانے کی عادت نہ گئی۔

سرفراز:گھبرانے کی کوئی بات نہیں مورپنکھی!وہ شکار سے جلد واپس آ جائینگے۔

مورپنکھی:ان کا کوئی ٹھیک نہیں۔ اگر لمبے نکل گئے تو بھلا میں  گھر کیسے پہنچوں گی۔

سرفراز:کیا سچ مچ تمہیں گھر پہنچنے کی فکر ہے؟

مورپنکھی:کسے نہیں ہوتی!

سرفراز:بہت سے لوگوں کو گھر کی فکر ہوتی ہے مگر کچھ ایسے ہوتے ہیں جو جہاں رہتے ہیں وہیں گھر بنا لیتے ہیں۔

مورپنکھی:(کھسیانی ہنسی ہنستی ہے) اچھا۔۔۔؟(پھر اس طرح ہنستی ہے) اچھا۔۔۔  نواب صاحب کہتے ہیں۔

سرفراز:کیا کہتے ہیں۔ نواب صاحب۔

مورپنکھی:کہتے ہیں۔۔۔  اچھا تم بتاؤ کیا کہتے ہیں۔

سرفراز:مجھے کیا معلوم؟!

مورپنکھی:کہتے ہیں۔ مورپنکھی کے ہاتھ تو مور جیسے خوبصورت آدمی کے ہاتھ میں تھماؤں گا۔ اس کے ہاتھ پیلے کر دوں گاتو مجھے بے فکری ہو اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔۔۔ مجھے شرم آتی ہے۔

سرفراز:تمہیں  اور شرم؟!

مورپنکھی:کیوں؟کیا میں عورت نہیں ہوں۔ کیا میں دل نہیں رکھتی۔

سرفراز:تمہارے دل بھی ہے؟

مورپنکھی:بہت بڑا۔ بہت اچھا سا دل۔ بڑا چنچل دل ہے۔ ایک بات تمہیں بتاؤں؟

سرفراز:بتاؤ۔

مورپنکھی:جب میں تالاب کے کنارے پانی میں پاؤں لٹکائے بیٹھی تھی  اور  میں نے تمہیں اس طرح آواز دی تھی ’’اے۔۔۔ اے۔۔۔ ذرا سننا‘‘ تو میں نے تمہیں تھوڑی ہی آواز دی تھی۔

سرفراز: اور کس نے آواز دی تھی؟

مورپنکھی:میرے چنچل دل نے !

سرفراز:کیوں؟

مورپنکھی:بس یوں ہی۔ ہمیں اچھے لگے۔ ہم نے بلا لیا۔ دل نے کہا اس آدمی کو لے لو۔ اسے ہتھیا لو۔ اسے اپنا لو۔

سرفراز:سچ؟

مورپنکھی:ہاں سچ؟!ہم جھوٹ نہیں بولتے۔ کبھی کبھی بولتے ہیں بہت کم۔

سرفراز:پھر تمہارا کیا فیصلہ ہے؟

مورپنکھی:ہم نے اپنا لیا۔ ہتھیا لیا۔ تم ہمارے قبضے میں ہو۔ بولو منظور۔

سرفراز:تم جلد باز ہو بہت  جلد باز ہو مورپنکھی۔ تمہیں کیا معلوم میں کون ہوں۔

مورپنکھی:اچھے نیک دل شریف آدمی ہو۔

سرفراز:تم نے میرا دل کہاں دیکھا ہے۔

مورپنکھی:تمہارے ماتھے پر۔ ہر ایک  کا دل اس کے ماتھے پر صاف دکھائی دیتا ہے۔

سرفراز:تم میرے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتیں۔

مورپنکھی:اس کی ضرورت بھی نہیں۔ میں نے انسانوں پر بھروسہ کرنا سیکھا ہے۔

سرفراز:تم میرے اوپر بھروسہ کرو گی۔ میرے اوپر؟

مورپنکھی:(ہنستی ہے)کیوں نہیں۔ اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ انسان انسان  پر بھروسہ کرتا ہے۔

سرفراز:میرے پاس دولت نہیں۔

مورپنکھی:میرے پاس ہے۔ نواب صاحب نے اپنی ساری جائداد میرے نام لکھ دی ہے۔

سرفراز:مورپنکھی!!

مورپنکھی:تمہیں کیا ہوا۔ تم گھبرائے ہوئے کیوں ہو۔ تم آرام کرو میں تمہیں پنکھا  جھلوں گی۔

سرفراز:انسان تو دنیا کا سب سے بڑا عجوبہ ہے۔

غفور:میں اندر آ سکتا ہوں۔

سرفراز:آؤ غفور۔ کہو کیا بات ہے۔

غفور:دادا نے آپ کو بلایا ہے۔

سرفراز:ابا جان نے بلایا ہے مورپنکھی ، تم یہیں ٹھہرو میں ابھی آتا ہوں۔

 

 

 

 

 

 

چھٹا منظر

 

(اسمٰعیل کا خیمہ۔سر شام)

 

اسمٰعیل:ہاں میں نے تمہیں بلایا تھا۔

سرفراز:جی۔

اسمٰعیل:اس لڑکی کو کیوں قتل نہیں کیا گیا۔

سرفراز:آپ نے کہا تھا عورت کا قتل جب تک ضروری نہ ہو نہ کیا جائے۔

اسمٰعیل:مگر اس کی موت ضروری ہے۔

سرفراز:کیوں؟

اسمٰعیل:یہ بھید اس سے چھپنا مشکل ہے  اور اگر بھید اس پر ظاہر ہو گیا تب بھی اس کی جان لینی ہم پر فرض ہو جائے گی۔

سرفراز:اس پر کوئی بھید ظاہر نہیں ہو گا ہم اسے قافلے کے ساتھ اس کے گھر  پہنچا دیں گے۔

اسمٰعیل:یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ سرفراز!ایک بات بتاؤ۔

سرفراز:جی!

اسمٰعیل:تمہیں اس کے بونیج۱؂  قرار دیئے جانے پر اعتراض ہے۔ تم اس کی موت روکنا چاہتے ہو۔

سرفراز:میں؟ میں نہیں جانتا۔

اسمٰعیل:(گرج کر) صاف صاف جواب دو۔

سرفراز:میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

اسمٰعیل:عورت زہر کا پودا ہے۔ عورت ناگن کی پھنکا رہے۔

سرفراز:مگر بھوانی ماتا خود بھی عورت کا سروپ ہے۔

اسمٰعیل:دیویوں کی باتیں نہ کرو۔

سرفراز:ہو سکتا ہے مورپنکھی بھی دیوی کا سروپ ہو۔

اسمٰعیل:تمہارا دماغ پھر گیا ہے۔۔۔  اس لڑکی کی موت ضروری ہے  اور وہ بھی تمہارے ہاتھ سے۔

سرفراز:ابا جان!!

اسمٰعیل:کیا ہوا؟ڈرتے ہو؟

سرفراز:نہیں۔

اسمٰعیل:پھر کیا عورت کے حسن کا جادو تم  پر چل گیا ہے۔

سرفراز:نہیں۔

اسمٰعیل:پھر۔۔۔ میں کہتا ہوں اس کی موت ضروری ہے  اور اسے تمہارے ہاتھ سے مرنا ہے۔ مت بھولو کہ تم نے ٹھگی کے قانون پر عمل کرنے کا حلف اٹھایا ہے  اور اس حلف سے پھر نے کی سزا موت ہے۔

سرفراز:میں سمجھتا ہوں اس کی موت ضروری نہیں۔

اسمٰعیل:بالکل ضروری ہے۔۔۔ موقع کی تاک میں رہو۔ اسے بونیج  قرار دو۔ ضروری ہدایت دو۔ سارا انتظام کر لیا جائے۔

سرفراز:ابا جان یہ ظلم ہے !

اسمٰعیل:یہ فرض ہے سرفراز!!

سرفراز:آپ نے کبھی میری بات نہیں ٹالی۔ آج میری ایک بات مان لیجئے۔

اسمٰعیل:کہو۔

سرفراز:مورپنکھی کو اس وقت تک زندہ رہنے دیجئے جب تک اسے ہمارے بھید کی خبر نہ ہو۔ جس وقت اسے ہمارا بھید معلوم ہو گیا میں قسم کھاتا ہوں میں خود اسے اپنے ہاتھ سے مار ڈالوں گا۔ میں اسے بونیج  قرار دے دوں گا۔

اسمٰعیل:بیکا رہے۔۔۔

سرفراز:صرف ایک بار موقع دیجئے۔ آئندہ کبھی آپ کے حکم سے انکار نہ کرونگا۔

اسمٰعیل:ضد کرتے ہو۔۔۔ چلو آزما دیکھو۔۔۔ مگر جس لمحے اسے راز معلوم ہو گا ا وقت سے بونیج  قرار دے کر جان دے مارنا ہو گا۔

سرفراز:مجھے منظور ہے۔

۔۔۔۔۔۔

۱؂بونیج:وہ شخص ہے جسے ٹھگی کے قانون کے مطابق واجب القتل قرار دیا گیا ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

ساتواں منظر

 

(خیموں کے باہر کا میدان وہی وقت)

(غفور کا قہقہہ سنائی دیتا ہے۔)

 

غفور:(قہقہہ لگا کر) تین دن کی سرداری۔

بدری:غفور!تم پھر الٹی سیدھی باتیں کرنے لگے۔

غفور:ایک۔ دو۔ تین۔۔۔ تین دن کی سرداری  اور پھر اندھیری رات۔ میں بھوانی کی قسم کھا کر کہتا ہوں سرفراز کی نیت صاف نہیں۔وہ ٹھگی کے قاعدوں سے ہٹ رہا ہے۔

بدری:کیا مطلب؟!

غفور:اس لڑکی کے جال میں پھنس کروہ ٹھگی کے قانون بھول رہا ہے۔ اسے لڑکی کے بھید معلوم ہونے کا خطرہ ہے۔ اسے کیوں چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کی موت ضروری ہے۔ اس کے پاس قیمتی زیور ہیں۔ اچھی اچھی پوشاک ہے۔ پیسہ ہے۔ اس کی موت ضروری ہے۔

بدری:تم سردار پر الزام لگا رہے ہو۔

غفور:میں قانون سے ہٹنے والوں کو سردار نہیں مانتا۔ اپنے سردار سے پوچھو لڑکی قتل کیوں نہیں کی گئی۔ صرف اس لئے کہ تمہارے سردار اس کے ساتھ گلچھرے اڑا رہے ہیں۔ عیش کر رہے ہیں۔ یہ ظلم ہے۔ ہم سب کے ساتھ بے انصافی ہے۔

بدری: اور سردار  پر شک  کرنا بے انصافی نہیں؟

غفور:اگر وہ لڑکی قتل نہ کی گئی تومیں سرفراز کو سردار ماننے سے انکار کر دوں گا۔

بدری:چلو۔۔۔ مورپنکھی  کا ناچ شروع ہونے والا ہے۔

(دور سے رقص کی دھن سنائی دیتی ہے۔ جو دھیرے دھیرے قریب آتی جاتی ہے۔)

غفور:مورپنکھی  کا ناچ۔۔۔ نواب صاحب کی قبر پر(پھر اس قدر خوفناک طریقے پر قہقہہ لگاتا ہے) کل مورپنکھی کی قبر پر سرفراز کا ناچ بھی دیکھنا ہے۔

(رقص کی دھن قریب آ جاتی ہے دونوں خیمے کے اندر چلے جاتے ہیں۔)

 

 

 

 

آٹھواں منظر

 

(رات بھیگ چکی ہے۔ مورپنکھی  کا خیمہ)

 

سرفراز:تمہیں اس خیمے میں کچھ تکلیف ہے؟

مورپنکھی۔:نہیں۔ آج میرا ناچ کیسا تھا؟

سرفراز:بہت اچھا تھا۔

مورپنکھی:کیسے مرے ہوئے دل سے تعریف کر رہے ہو۔

سرفراز:ہاں میں تم سے ایک بات کہنا بھول گیا۔

مورپنکھی:کیا؟

سرفراز:نواب صاحب نے آدمی بھیجا ہے۔ ان کی طبیعت شکار میں خراب ہو گئی ہے۔ وہ گوالیار چلے گئے ہیں۔ وہیں سے گھر چلے جائیں گے۔ میری رائے میں تمہارے لئے بھی گھر جانا مناسب ہو گا۔

مورپنکھی: اور تم۔۔۔؟!

سرفراز:مجھے ابھی سوداگروں کی ٹولی کے ساتھ احمدآباد جانا ہے۔ مگر میں تمہیں واپس  پہنچوانے کا انتظام کر دوں گا۔

مورپنکھی:میرے گھر؟!

سرفراز:ہاں تمہارے گھر۔

مورپنکھی:مجھے ایک بات بتاؤ گے۔

سرفراز:ضرور۔

مورپنکھی:مگر تمہیں خدا کی قسم سچ سچ بتانا۔ جھوٹ نہ بولنا۔ دغا نہ دینا۔ نہیں تومیں سچ مچ صدمے سے مر جاؤں گی۔

سرفراز:پوچھو۔

مورپنکھی:کیا تم مجھ سے دور رہنا چاہتے ہو کیا تم مجھے پسند نہیں کرتے کیا مجھے اپنے سے ہمیشہ کے لئے دور کر دینا چاہتے ہو؟

سرفراز:مورپنکھی۔

مورپنکھی:بتاؤ۔۔۔ خدارا بتاؤ۔

سرفراز:یہ سب کیوں پوچھتی ہو؟

مورپنکھی:یہ اس لئے پوچھتی ہوں کہ میں تم سے پیار کرتی ہوں۔ تمہیں چاہتی ہوں۔ تمہارے اوپر اپنا مال، اپنی جان، اپنی عزت،  اپنی راحت، سب کچھ نچھاور کر سکتی ہوں میرے لئے تمہاری چاہت انمول ہے۔

سرفراز:مجھ سے کچھ نہ پوچھو۔ مجھ سے کچھ بھی نہ پوچھو۔

مورپنکھی:جواب دینا نہیں چاہتے۔

سرفراز:تم آخر مجھے اتنا اچھا کیوں سمجھتی ہو تم کیوں بن مانگے میرے لئے سب کچھ نچھاور کر رہی ہو۔ میں تمہاری محبت کے قابل نہیں ہوں۔ میں تمہاری پوجا کے لائق نہیں ہوں۔ مورپنکھی تم بہت اچھی ہو مگر میں دیوی کے سنگھاسن پر اپنی ناپاک پرچھائیں کیسے پڑنے دوں۔۔۔ مجھے معاف کر دو دیوی مجھے معاف کر دو۔

مورپنکھی:(ہنستی ہے)تم میری ہنسی اڑاتے ہو سرفراز مرزا(دوبارہ ہنستی ہے) بڑے بے رحم ہو تم،  میں تمہاری طرح ہوشیار نہیں ہوں۔ میں کچھ نہیں سمجھتی کچھ بھی نہیں جانتی۔ بس تم سے ایک دلاسا چاہتی ہوں۔

سرفراز:میں تمہیں کیسے دلاسا دے سکتا ہوں مورپنکھی؟!

مورپنکھی:میں تم سے صرف ایک فیصلہ چاہتی ہوں۔ اگر مجھے اپنے سے دور رکھ کر تمہارا دل خوش ہوتا ہے تو مجھے جہاں چا ہو بھیج دو میرے گھر بھجوا دو، گوالیار بھیج دو۔ کہیں بھیج دو میں  چلی جاؤں گی مگر تمہارے بغیر خوش نہ رہ سکوں گی۔ مجھے زندہ دیوار میں چن دو۔ میں زبان سے اف نہ کروں گی  اور  اگر تم مجھے پسند کرتے ہو مجھے چاہتے ہو تو مجھے کنیز کی طرح اپنے پیروں میں پڑا رہنے دو۔ ہم ایک چھوٹا سا گھر بنائیں گے۔ ہمارے بچے اس کچے آنگن میں کھیل کود کر جوان ہونگے۔ میرے لئے یہی خوشی سب سے بڑی خوشی ہے۔۔۔  میں تمہارے فیصلہ کا انتظار کروں گی۔

سرفراز:یہ سب نہ کہو۔ کچھ نہ کہو۔ مورپنکھی میرے پاس الفاظ نہیں۔ جن سے جواب دیا جاتا ہے۔ میرے پاس زبان نہیں ہے جس سے بات کہی جاتی ہے۔ خاموش کھڑی رہو۔ آج میں تمہیں جی بھرکر دیکھ لوں جب تک جتنی دیر میرا جی چاہے تمہیں دیکھتا رہوں۔۔۔ دیکھتا رہوں۔

مورپنکھی:(ہنستی ہے)تم بہت عجیب ہو۔ میرا بس چلتا تو خدا سے تمہیں سمجھنے کے لئے ساری دنیا کی عقل مانگ لیتی۔

سرفراز:کاش تم پتھر کی دیوی ہوتیں تو تمہیں سنگھاسن پر بٹھا  کر تمہاری پوجا کرتا۔ تم نے انسان کا روپ کیوں لے لیا مورپنکھی۔ تم عورت کیوں بن گئیں دیوی؟!یہ تم نے کیا کیا؟!

مورپنکھی:کیسی الٹی الٹی باتیں کر رہے ہو؟

سرفراز:میری بات مانو۔ میں تم سے درخواست کرتا ہوں تم یہاں سے چلی جاؤ۔ سمجھ لو کہ سرفراز سے کبھی تمہاری ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ بھول جاؤ کہ تالاب کے کنارے تمہیں کوئی ملا تھا۔

مورپنکھی:میں تمہاری سب باتیں مانوں گی۔ میری محبت بھوکی شیرنی نہیں سرفراز۔ میری محبت تیاگ ہے۔ وہ تمہارے اوپر سب کچھ نچھاور کرنا چاہتی ہے۔ تم سے کچھ لینا نہیں چاہتی مگر مجھ سے ایسی درخواست نہ کرو۔ جو میرے قابو میں نہ ہو۔ میں نے کہا تھا میرا دل  بڑا چنچل ہے۔

سرفراز:دل وہ چیز ہے جس پر قابو پایا جاتا ہے۔

مورپنکھی:مجھے نصیحت نہ کرو سرفراز۔ میرے بس کی بات نہیں۔

سرفراز:پرسوں ایک قافلہ شمالی ہندوستان کے لئے روانہ ہو گا۔ میں تمہیں اس کے ساتھ بھیج دوں گا۔ اچھا خدا حافظ۔

مورپنکھی:جانے سے پہلے ضرور ملنا۔ نہیں تومیں کبھی معاف نہ کروں گی۔ نہیں تو میں زندگی بھر تمہارے لئے ترستی رہوں گی۔

 

 

 

 

نواں منظر

 

(سرفراز مرزا کا خیمہ۔ رات کا پچھلا پہر)

 

سرفراز:بدری۔

بدری:میرے سردار۔

سرفراز:تم میرے دوست ہو۔ میری مدد کرو۔ مجھے بتاؤ میں کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟؟

بدری:مجھے سب معلوم ہے سردار۔

سرفراز:مجھے بتاؤ میں کیا کروں؟

بدری:آپ نے جو کچھ کیا ہے صحیح ہے۔ مگر سردار ہر  طرف سازشیں ہو رہی ہیں۔ غفور کے تیور ٹھیک نہیں ہیں۔

سرفراز:تم میری مدد کرو گے؟!

بدری:دل و جان سے۔

سرفراز:توسنو۔ آج سے پرسوں مورپنکھی کے روانہ ہونے تک اس کے خیمے کی نگرانی تمہارے سپرد ہے۔ مورپنکھی کو ہمارے بھید معلوم نہ ہونے پائیں۔ دن رات پہرہ دینا۔

بدری:میں تیار ہوں۔

سرفراز: اور پرسوں تم اپنے ساتھ مورپنکھی  کو اس کے گھر پہنچا دینا۔

بدری:جو حکم ہو دل  و جان سے بجا لاؤں گا۔۔۔ مگر غفور سے ہوشیار رہئے گا سردار۔ اس کے ارادے خطرناک ہیں۔

سرفراز:مجھے معلوم ہے۔ وہ سرداری کے خواب دیکھ رہا ہے۔

 

 

 

 

دسواں منظر

 

(اسمٰعیل کا خیمہ۔رات کا وہی وقت)

 

غفور:سب ٹھونک بجا کر دیکھ لیا ہے۔ کم سے کم دس بارہ ہزار کا مال ہے۔ چار آدمی ہیں چاروں سوداگر۔ مال لے کے دسہرہ کے بعد دکن کے لئے نکلے ہیں۔

اسمٰعیل:تمہارے اوپر پورا بھروسہ ہو گیا ہے۔ ان لوگوں کو۔

غفور:اجی سولہ آنے بھروسہ ہے سردار۔ آدھی رات کو کہئے تو آدھی رات کو بلا لاؤں۔ غفور نام ہے میرا۔ سوٹھائی ہوں کوئی مذاق ہے۔ اس میں عمر گذاری ہے حضور کے طفیل سے۔

اسمٰعیل:تو پھر کیا دیر ہے۔

غفور:حکم کی دیر ہے۔ آپ حکم کیجئے۔

اسمٰعیل:میں حکم کرنے والا کون۔ سرفراز تمہارا سردا رہے۔ اس سے حکم لو  اور  کام شروع کرو۔

غفور:اب میں اپنی زبان سے کیا کہوں۔ آپ کو تو معلوم ہے کہ وہ رنگ رلیوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ ان دنوں اسے اپنا ہوش ہی کہاں ہے؟!

اسمٰعیل:بڑی خطرناک بات ہے۔

غفور:جی ہاں۔

اسمٰعیل:میں نے کہا  دونوں باتیں خطرناک ہیں۔ سردار کا رنگ رلیوں میں کھویا رہنا  اور تمہارا سردار پر الزام لگانا۔ دونوں خطرناک ہیں۔ سرفراز تمہارا سردار ہے۔ تمہیں اس کا حکم ماننا چاہئے۔

غفور:میں اس کے حکم پر اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار ہوں۔

اسمٰعیل:لو۔ وہ خود ہی آ گیا۔ سرفراز غفور کیا کہہ رہا ہے۔

سرفراز:کیا ہے غفور۔

غفور:کل چار سوداگر  ادھر سے گزر ہے ہیں حکم ہو تو چاروں کولے آؤں۔ بڑا مال اسباب ساتھ ہے۔ میں نے استاد سے ذکر کیا تھا۔

اسمٰعیل:میں نے کہا۔ سرفراز سے پوچھو۔

سرفراز:ضرور لاؤ۔ نیکی  اور  پوچھ پوچھ۔ رات کے کھانے پران سب کا تصفیہ ہو جائے گا۔

غفور:بہتر۔

سرفراز:توکل رات کو۔۔۔ غفور:ہاں کل رات کو۔

 

 

 

 

گیارہواں منظر

 

(اسمٰعیل کا خیمہ۔دوسری رات کے ابتدائی حصے میں)

 

پہلا سوداگر :چلو اچھا ہی ہے۔ تمہارا ساتھ ہو گیا۔ نہیں تو یہ راستے سنوں ہوں بڑے کھترناک (خطرناک) ہیں۔ چلو جی۔ کس شبھ گھڑی سے کس بھاگیہ وان  کا  منہ دیکھ کر چلے تھے کہ تم لوگ مل گئے نہیں تو سوداگروں کا سفر تم جانوں بڑا جان جوکھم کا ہو وے ہے۔

غفور:سیٹھ جی۔ یہ توہمارا  سوبھاگیہ ہے کہ ہمارے ہاں آپ پدھارے۔

دوسرا سوداگر :وہ تو پرانی مثل ہے۔۔۔ جواہر کی قدر جوہری جانے یا بادشاہ۔

غفور:آپ نے بھی حضور کمال کیا۔ جوہری بچے ضرور ہیں مگر بادشاہ ہی سے بھلا کیا نسبت ہم لوگوں کو۔ آپ لوگ اونچے سوداگر  ہیں۔ آپ کی بات ہی کچھ  اور ہے۔

پہلا سوداگر :اجی ایسی بات کیوں سوچو ہو۔ سوداگر  بچہ سوداگر بچہ سب برابر ہیں۔ میں تو شگون کو بہت ہی سمجھوں ہوں۔

غفور:اس میں کیا شک ہے۔

پہلا سوداگر :اپنے منیم جی ہیں پنڈت رام لکھن۔ بھگوان سوگند۔جب بھی ان کا منہ دیکھ لیا کاروبار مندا ہی رہا کوئی نہ کوئی نکسان (نقصان) کچھ نہ کچھ گھاٹا  اور اپنا ایک رسوئیا ہے۔ نام تو اس کا ہے کلوا۔ مگر جب صبح سویرے منہ دیکھ لوں ہوں اس کا تو چاندی برسے ہے چاندی!

غفور:آئیے براجمان ہو جئے۔ یہ ہمارے استاد ہیں اسمٰعیل، یہ ہیں بڑے بازار کے جوہری سرفراز مرزا  اور یہ ہیں لالہ چپت رائے بہت بڑے بیوپاری ہیں۔

پہلا سوداگر :ا و ہو ہو ہو۔ یہاں تو مانو ساری اپنی برادری ہے۔

اسمٰعیل:ساری اپنی نگری کہئے سیٹھ جی۔

پہلا سوداگر :بڑی سجاوٹ بناوٹ کر کے رکھے ہو استاد اس جنگل میں کوئی خطرہ  دترہ نہیں۔

اسمٰعیل:اجی توبہ کیجئے۔ خطرے کا یہاں کیا کام۔

سرفراز:جی ہاں اس لئے ہم لوگ اتنا بہت انتظام کر کے نکلتے ہیں۔

غفور:سیٹھ جی۔ اپنے پاس چار چھ بندوقیں تین چار تلواریں تو ہر وقت جانو رہتی ہیں۔

پہلا سوداگر :تو اچھی سنائی۔ ہم لوگ بھی اب بے پھکر(فکر) ہو گئے۔

دوسرا سوداگر :سفر اچھا کٹے گا  اور چور ڈاکوؤں سے بھی حفاظت کا انتظام ہو جائے گا۔

غفور:اجی سیٹھ جی!چور ڈاکو تو ہماری طرف آنکھ بھر کر نہیں دیکھ سکتے۔ دیکھیں تو بھگوان سوگند آنکھیں نکال لیں۔

پہلا سوداگر :(عجب طرح ہنستے ہوئے) اچھا جی تب تو بہت ہی اچھا ہے۔

اسمٰعیل:غفور۔

غفور:جی استاد۔

اسمٰعیل:تم بھی ہو بڑے کاروباری آدمی۔ چار شریف بچے تمہارے مہمان ہیں  اور  تم نے خاطر تواضع بھی نہیں کی۔ کھانا لگواؤ۔

پہلا سوداگر :نہیں جی۔ کرپا ہے آپ کی۔ بھوجن سے نشچنت ہوکے آئے ہیں۔ اب تو سارے راستے ساتھ رہے گا۔ کیا فکر ہے ایسی باتوں کی۔

اسمٰعیل:پھر بھی کچھ حقہ پانی، کچھ جل پان۔

پہلا سوداگر :نہیں جی یہی کرپا بہت ہے آپ سب کی کہ ہمیں ساتھ لے لیا نہیں تو بھگوان سوگند آج کا زمانہ کلجگ ہے کل جگ۔ کون کس کی بھلائی سوچے ہے۔ سب اپنی اپنی پوری کچوری میں لگے ہیں بھگوان بچائے خون سفید ہو گیا ہے خون۔

اسمٰعیل:آپ نے ٹھیک کہا۔

غفور:استاد یہ کس جانور کی آواز ہے۔

(مور کی آواز سنائی دیتی ہے۔)

اسمٰعیل:مور کی آواز۔

پہلا سوداگر :بڑا اچھا شگون ہے مور کی آواز کان میں آ جائے تو مانو ہن برسنے لگے ہے۔ اس دن تومیں پھولوں نہیں سماؤں ہوں۔

سرفراز:شگون اچھا ہے۔

دوسرا سوداگر :اس شگون پرتو سیٹھ جی نے بڑے بڑے کام کئے ہیں۔

پہلا سوداگر :(ہنستا ہے)جی کچھ مت پوچھو۔ ایک دن کا قصہ کیا ہوا کہ ایک دوکان پر بیٹھا تھا لالہ مٹھن لال آئے تھے۔ ان کی لڑکی کا بیاہ تھا میں نے شگون دیکھا تو گڑبڑ۔ میں نے سوچا یہ تو برا ہوا۔ لالہ مٹھن لال کو سمجھایا تو ان کی سمجھ میں نہ آوے۔ آخر ٹھیک بیاہ کے سمے جوان کی پتری کو چھینکیں آنی شروع ہوئی ہیں تو سچ  مانیو منڈپ کی آگ مارے چھینکوں بجھ گئی۔

اسمٰعیل:(ہنستا ہے) بہت خوب۔

غفور:تو بڑے تجربے کی بات ہے۔ سیٹھ جی۔ شگون لینا بھی اب آج کل کتنوں کو آتا ہے۔

اسمٰعیل:سیٹھ جی۔ آپ تو واقعی بڑے دل چسپ آدمی ہیں۔ ارے کوئی ہے۔۔۔  پان تمباکو لاؤ۔

(سیٹھ جی  اور ان کے ساتھیوں کے گلے گھونٹ دیئے جاتے ہیں۔ وہ سب بے دم ہو کر گر پڑتے ہیں۔ ان کی لاشیں لے جائی جاتی ہیں۔)

سرفراز:سب ٹھکانے لگا دئیے گئے کم بخت۔

اسمٰعیل:شاباش۔ ساتھیو شاباش۔

سرفراز:قبریں تیا رہیں۔

مورپنکھی:(چیختی ہوئی داخل ہوتی ہے) یہ تم نے کیا کیا  ظالمو تم قاتل ہو۔تم مجرم ہو تم انسانی خون کے پیاسے ہو آہ  خدایا تو نے مجھے کن بھیڑیوں میں بھیج دیا ہے۔ تم ٹھگ ہو۔ کہو یہ جھوٹ ہے بتاؤ یہ جھوٹ ہے۔

سرفراز:(چیخ کر) بدری۔

غفور:سردار۔

سرفراز:اسے خیمے سے باہر لے جاؤ۔ یہ یہاں کیسے آ گئی؟

مورپنکھی:مجھے کسی نے آواز دی تھی خیمے میں خون ہو رہا ہے۔ میں طنابیں کاٹ کر بھاگی ہوں۔ میں نے اپنی آنکھ سے خون ہوئے دیکھا ہے۔ اپنی ان آنکھوں سے دیکھا ہے۔

سرفراز:غفور اسے خیمے میں لے جاؤ۔

مورپنکھی:(جسے گھسیٹ کر باہر لے جایا جا رہا ہے)مجھے مت گھسیٹو۔ مجھے سرفراز سے بات کر لینے دو ظالمو، خونی قاتلو میری بات سن لو۔

اسمٰعیل:میرے بیٹے تجربہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا تمہیں اپنا وعدہ یاد ہے نا؟!

سرفراز:ہاں ابا جان۔

(پس منظر میں غفور کے خوفناک قہقہہ کی آواز بلند ہوتی ہے۔)

سرفراز:یہ کون ہنس رہا ہے۔ یہ کون مجھ پر قہقہہ لگا رہا ہے خاموش ہو جاؤ (چیخ کر) سب خاموش ہو جاؤ۔

اسمٰعیل:میرے بیٹے ہمت سے کام لو۔ یہ رومال سنبھالو۔ میں نے لگھائی سے کہہ دیا ہے قبر تیار رہے گی۔

 

 

 

 

 

بارھواں منظر

 

(خیمے کے باہر۔ وہی وقت)

 

غفور:بدری۔۔۔ آج کس مزے کی ٹھنڈ ہے۔ موسم بہار دکھا رہا ہے۔

بدری:کوئی خاص بہار تو نہیں۔

غفور:چاروں طرف بہا رہے۔ ٹھنڈک دور کرنے کی دو ترکیبیں ہیں۔ انسانی جسم کی گرمی یا انسان کی جان لینے کی خوشی۔۔۔  بھگوان سوگند جب میں موت کا سامان کرتا ہوں تو مجھے ٹھنڈ نہیں لگتی۔

بدری:آج کس کی موت کا سامان ہے۔

غفور:مورپنکھی!!تمہارے دوست کی محبوبہ۔۔۔  کوئی غفور خاں کے چنگل سے بچ کر نہیں جا سکتا۔

بدری:تم نے بڑا ظلم کیا ہے۔

غفور:میں معافی نہیں چاہا  کرتا میں کبھی معاف نہیں کرتا۔ میں نے بدلہ لے لیا ہے۔ میرا کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا۔

بدری:اب کیا ہو گا۔

غفور:سرفراز کو اپنے ہاتھوں سے مورپنکھی  کا خون کرنا ہو گا۔ کتنی عجیب بات ہے۔مورپنکھی  کا خون سرفراز کے ہاتھوں ، جن ہاتھوں کو ہاتھ میں لے کر اس نے وفا کی قسم کھائی تھی۔ جن ہاتھوں کو اس نے پیار سے اپنی آنکھوں سے لگایا تھا۔ ان ہی ہاتھوں سے (قہقہہ لگاتا ہے) تم جانتے ہو کس نے اسے پکارا تھا۔ کون مور پنکھی کو وہاں بلا کر لایا تھا۔ سوچو بدری سوچو۔ سوچنے کو بہت کچھ باقی ہے۔

(ایک  اور قہقہہ لگاتا ہے۔)

 

 

 

 

 

تیرھواں منظر

 

(مورپنکھی کا خیمہ، مورپنکھی فرش پر پڑی سسک رہی ہے۔)

 

سرفراز:مورپنکھی!

مورپنکھی:تم ہو؟!

سرفراز:ہاں۔۔۔ میں ہوں۔ تم نے میرا اصلی روپ دیکھ لیا۔

مورپنکھی:ہاں۔

سرفراز:تم نے دیکھ لیا ہم سب ٹھگ ہیں۔ ہم انسانوں کے خون کے پیاسے ہیں۔ ہم لوٹتے ہیں۔

مورپنکھی:ہاں۔مجھے معلوم ہو گیا۔

سرفراز:میں اسی لئے کہتا تھا میرا اصلی روپ دیکھو گی تو میرے منہ پر تھوک کر چلی جاؤ گی۔ مجھ سے نفرت کرنے لگو گی۔ مجھ سے ہمیشہ کے لئے منہ موڑ لو گی۔

مورپنکھی:تم ٹھگ ہو۔

سرفراز:ہاں۔ ٹھگی میرا پیشہ ہے۔

مورپنکھی:تو مجھے ٹھگ لو۔ میری گردن سے یہ زیور، ہاتھوں کے سونے کے کڑے۔ یہ پازیب، یہ گلے کا جڑاؤ ہار، یہ سب اتار لو۔ میں خوشی سے تمہیں دیتی ہوں۔ لو اسے لے جاؤ۔

سرفراز:ہم خیرات نہیں لیا کرتے۔

مورپنکھی:جاؤ ساتھیو سے کہو کہ نواب نے ساری جائیداد میرے نام لکھی ہے۔ ان کے سارے روپیہ کی وارث میں ہوں۔ میں یہ سارا روپیہ سرفراز کو دیتی ہوں۔ میں یہ سارا روپیہ تم سب میں بانٹنے کو تیار ہوں۔

سرفراز:کیا کہہ رہی ہو مورپنکھی؟

مورپنکھی:میں آج بھی تمہیں چاہتی ہوں سرفراز۔

سرفراز:مورپنکھی؟!!!

مورپنکھی:ہاں میرے ٹھگ!میرے لٹیرے دوست!!میں نے تجھے چاہا ہے۔ میں نے کہا تھا نا میں نے انسانوں پر بھروسہ کرنا سیکھا ہے ، محبت زہر نہیں ہے امرت ہے  اور اگر  میرے پاس امرت ہے تو تمہارے اندر کی سچائی ضرور ابھرے گی۔ تم اتنے پیارے ہو اتنے خوبصورت ہو، تم قاتل  اور خونی نہیں رہ سکتے۔ میرا پیار تمہیں جیت لے گا۔ میری محبت تمہیں پاک کر دے گی۔ مجھے بھروسہ ہے مجھے انسان سے پیا رہے۔

سرفراز:قاتلوں میں انسانیت ڈھونڈتی ہو؟!

مورپنکھی:ہاں۔۔۔ میرا خیال غلط ہے؟!

سرفراز:بالکل غلط،

مورپنکھی:تو پھر میرا آخری تیاگ قبول کر لو۔ اپنے ہاتھ سے یہ جڑاؤ  ہار اتار لو  اور  میری گردن میں اپنا خونی رومال ڈال دو۔ اس کی گرہ باندھو۔’’تمباکو لاؤ‘‘ کی آواز دو۔ میں تمہاری آغوش میں ہنستے ہنستے جان دے دوں گی۔۔۔  لاؤتمہارا رومال کہاں ہے۔

سرفراز:مورپنکھی۔

مورپنکھی:مورپنکھی نے جان کی بازی لگائی تھی۔ وہ اسے ہنستے ہنستے ہار بھی سکتی ہے۔ تم جیت جاؤ گے میرے لئے یہی خوشی کیا کم ہے !!

سرفراز:مجھ سے آج تک کسی نے ایسی باتیں نہیں کیں۔ تم عجیب ہو۔

مورپنکھی:ہاں میں عجیب ہوں۔کیونکہ مجھے تم پر بھروسہ ہے کہ جب تم میری لاش کو قبر میں لٹکانے لگو گے تو تمہارے  اندر کا چھپا ہوا انسان جاگے گا  اور  تمہارا گریبان پکڑے گا۔ وہ تم سے پوچھے گا تم انسانوں کو کیوں مارتے ہو۔ ان انسانوں کاکیوں خون کرتے ہو۔ جو تمہیں پیارے ہیں۔ جو تمہیں پیار کرتے ہیں۔ جو زندگی کی ایک چھوٹی سی خوشی کے لئے اپنی جان تک نچھاور کرتے ہیں۔ میں تمہارے خوابوں کی ملکہ بنوں گی تمہارے خیالوں پرمیرا راج ہو گا میں تمہیں جیت لوں گی میں تمہیں ہمیشہ کے لئے جیت لوں گی۔۔۔ میں تم سے موت مانگتی ہوں میرے شہزادے لاؤ مجھے موت دے دو۔

سرفراز:لاؤ میں تمہارا ہار اتارتا ہوں۔

مورپنکھی:(سر جھکا دیتی ہے) اتار لو۔

سرفراز:(گردن پکڑ کر)اس خوبصورت گردن میں ایک لمحے بعد میرا رومال ڈال دیا جائے گا  اور یہ نازنین  کامنی ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سو جائے گی۔۔۔ میرے ہاتھوں !میرے ہاتھوں !(چیختا ہے) نہیں ! نہیں !! نہیں !!! میں نہیں مار سکتا۔ میں اسے نہیں مار سکتا۔۔۔  میں اسے نہیں مار سکتا!۔

(خیمے سے دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا کر باہر نکلنا چاہتا ہے کہ اسمٰعیل داخل ہوتا ہے  اور  اس کے پیچھے پیچھے غفور بھی ہے۔)

اسمٰعیل:سرفراز۔۔۔ خیمے سے باہر کیوں نکلتے ہو؟!

سرفراز:ابا جان میں اسے نہیں مار سکتا میں کسی انسان کو نہیں  مار سکتا۔ یہ بھلے برے سب میرے ہیں۔ سب مجھ جیسے ہیں۔ میں ٹھگ نہیں ہوں۔ میں ٹھگ نہیں ہوں۔ میں ٹھگ بننا نہیں چاہتا مجھے انسان بننے دو۔ خدا کے لئے مجھے انسان بننے دو۔

اسمٰعیل:میرے بیٹے کیا کہہ رہے ہو؟!میرے بیٹے؟!

غفور:سردار تم نے حلف اٹھایا ہے تم نے بھوانی ماتا کی سوگند کھائی ہے۔ اس کے غضب سے ڈرو۔

اسمٰعیل:تم نے قسم کھائی تھی۔

سرفراز:میں آج ساری قسمیں توڑنا چاہتا ہوں۔ یہ سب جھوٹی قسمیں ہیں۔ میں آج سے باغی ہوں۔ میں آج سے سارے قول و قرار سے پھر تا ہوں۔ مجھے جانے دو!مجھے چھوڑ دو!!

غفور:سردار تم بھول رہے ہو اس کی سزا موت ہے۔

سرفراز:اگر زندگی کی چاہت کی سزا موت ہے تو یہ مجھے قبول ہے۔میں زندہ رہنا چاہتا ہوں میں انسانوں کو نفرت کی جگہ پیار دینا چاہتا ہوں اتنا پیار اتنی محبت اتنی ہمدردی کہ یہ دنیا پیار اور خوشی سے بھر جائے۔

اسمٰعیل:اس کا دماغ پھر گیا ہے !

مورپنکھی:ایسا نہ کہو آج شاید زندگی میں پہلی بار یہ ہوش میں آئے ہیں۔

اسمٰعیل:خاموش!لڑکی، ارے کوئی ہے۔۔۔ تمباکو لاؤ۔

(سرفراز کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔)

مورپنکھی:مار ڈالا!بزدلو!تم زندگی بھر اس کی روح کا گلا گھونٹتے رہے۔ ایک بار صرف ایک بار اس کے اندر کا انسان جاگا۔ تم نے اس کا بھی گلا گھونٹ دیا۔ مجھے بھی مار ڈالو۔ میرا بھی گلا گھونٹ دو۔ میں چلاؤں گی۔ فریاد کروں گی۔ میں چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لوں گی۔

اسمٰعیل:اس لڑکی کو بھی۔۔۔

(ڈراپ سین)

***

ماخذ: ’’مورپنکھی اور دوسرے ڈرامے ‘‘، مکتبۂ دین و ادب، لکھنؤ

٭٭٭

 

 

 

 

مولسری کے پھول

 

بڑے سرکار:عبداللہ تم نے منگلاتانگے والے سے کہہ دیا ہے نا۔ کہیں ایسانہ ہو گاڑی کا وقت نکل جائے۔ آج چھوٹے میاں کو لکھنؤجانا ہے۔

عبداللہ:ہاں سرکار۔ منگلو تو اب آتا ہی ہو گا۔ لکھنؤ کی گاڑی تو پھر بھی رات گئے جاوے ہے۔ ابھی تو دیر ہے۔

بڑے سرکار:ہاں بھئی ریل کا معاملہ ہے۔ حقہ بالکل ٹھنڈا ہو گیا ہے۔

عبداللہ:ابھی بھرکے لاتا ہوں۔ اوپلا تو دبا آیا تھا۔

بڑے سرکار:نہیں رہنے دو۔ پر چوکس رہنا۔ ذرا سامان وامان ٹھیک کر دینا۔

عبداللہ:اب چھوٹے سرکار کب  آویں گے؟

بڑے سرکار:اب یہ کوئی اپنے بس کی بات ہے عبداللہ۔ اونچی پڑھائی پڑھنے جا رہے ہیں۔ جب چھٹی ملے گی تبھی آئیں گے  اور بھئی ایمان کی بات تو یہ ہے کہ ماں باپ جو سینے پر پتھر رکھ اولاد کو جدا کرتے ہیں۔ تو یہی سوچتے ہیں کہ لڑکا پڑھ لکھ کر قابل ہو جائے۔ دو تین سال بعد انگریزی کی سند لے آئے گا تو کہیں تحصیل داری ڈپٹی کلکٹری کی سند لے آئے گا۔ گھر بھر کی روٹیوں کا سہارا ہو جائے گا۔

عبداللہ:پر سرکار۔ چھوٹے میاں کی ابھی عمر ہی کیا ہے۔ ساری عمر تو کبھی  گھر سے پاؤں نہیں نکالا۔ اکیلے اتنے بڑے شہر میں ماں باپ سے دور کیسے رہیں گے؟

بڑے سرکار:جب تک زمینداریاں تھیں بات ہی  اور تھی عبداللہ(حقہ گڑگڑاتے ہیں) حقہ بالکل ٹھنڈا ہو گیا کم بخت۔زمیندار کے بچے کو لکھ پڑھ کر کرنا ہی کیا  تھا وہی کنواں کھودنا وہی پیٹ بھرنا۔ اب تو تعلیم نہ ہو گی تو کوئی بھیک بھی نہ دے گا۔ سچ کہا ہے کسی نے :

؂ جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے

عبداللہ:بڑا برا زمانہ آن لگا مالک۔ چودھویں صدی ہے سنا تھا۔ اولاد ماں باپ سے بچھڑ جائے گی بھائی  بھائی سے الگ ہو گا۔ ماں جائے سے مایا جایا جدا ہو گا۔ سو وہی ہو رہا ہے۔ جو کچھ ہو جاوے تھوڑا ہے۔

بڑے سرکار:ہاں عبداللہ۔ جو کچھ خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا۔

حفیظن:چھوٹے میاں کو اندر بلاوے ہیں۔ چھوٹے میاں !

بڑے سرکار:کون پکار رہا ہے۔

عبداللہ:حفیظن  بوا حویلی سے آئی ہے۔ چھوٹے میاں کو پکار رہی ہے۔

بڑے سرکار:کہہ دو یہاں نہیں ہیں۔ وہ اندر گھر میں اپنا سامان ٹھیک کر رہے ہوں گے۔(Change Over)

بیگم:اے ہے بچے اب ہو چکا سامان ٹھیک۔ خدا کے لئے دو گھڑی کے لئے میرے پاس آ بیٹھ۔ اب اتنے دنوں کے لئے نظروں سے اوجھل ہو رہا ہے۔ تجھے کیا معلوم کیسے سینے پر پتھر رکھ کر تجھے لکھنؤ بھیج رہی ہوں۔

چھوٹے میاں :ابھی آیا امی۔۔۔ بولو کیا بات ہے۔

بیگم:دیکھ یہ حفیظن  بوا تجھے ڈھونڈتی پھر رہی ہیں باہر مردانے تک میں آوازیں دے آئیں۔ چچی نے بلایا ہے دو قدم  پر توہے ہی حویلی سلام کرنے تو جانا ہی ہے۔

چھوٹے میاں :نہیں امی اس وقت تو بہت کام پڑا ہوا ہے۔ جاتے میں تانگہ رکوا کر تھوڑی دیر کے لئے وہاں اتر جاؤں گا۔

ریحانہ:اب بتاؤ امی۔ یہ جرابیں کسی کومل سکتی تھیں بھلا۔ کتابوں کے بیچ میں رکھی ہوئی ہیں۔ میلے کپڑے ڈھونڈتے ڈھونڈتے  مر گئی۔تم ہی بھیا کی بڑی طرفداری کرتی ہو اب بتاؤ صبح سے یہ وقت آ گیا۔ قمیص جوتوں میں پڑا ہوا ملا۔ میلا بنیائن تخت کے نیچے پڑا ہوا ہے۔

بیگم:ارے تو کیا ہوا آخر بہن ہے اتنا کام  تو کرنا ہی چاہئے۔ سہرا باندھتے وقت حق بھی تو تو ہی لے گی۔

ریحانہ:ارے یہ کیا حق دیں گے۔ صاف آنکھیں پھیر لیں گے۔

چھوٹے میاں :امی یہ تو بے صبری ہے بے صبری اے تو تم ابھی سے حق وق دلا کر کسی اسے ویسے کے سر باندھ کر چلتا کرو۔

ریحانہ:دیکھ لینا امی۔ یہ تو لکھنؤ جا  کر سارے کپڑے ادھر ادھر  کھو دیں گے۔ وہاں کون ان کی دیکھ بھال کرے گا۔ یہ ٹھہرے لاٹ صاحب وہاں جا کر معلوم ہو گی ریحانہ کی قدر۔

بیگم:ہاں بیٹی۔ یہ تو ٹھیک کہتی ہے۔ پر جیسی پڑتی ہے بھرنی ہی ہوتی ہے کیوں حفیظن  بوا۔

حفیظن:ہاں بیٹا تمہارے جی کو شاباش ہے بیگم صاحب کے اکلوتے لال کو آنکھوں سے اوجھل کر کے کالے کوسوں پڑھنے کو بھیج رہی ہو بھلا نوابوں کے خاندان میں اتنی پڑھائی کون پڑھے ہے۔ اپنے جگر کے ٹکڑے کو کون جدا کرے ہے۔

بیگم:لیکن بوا۔ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ پہلے کبھی کسی نے ہمارے گھر خاندان میں نوکری کا نام بھی نہ سنا تھا اب اس کے بغیر گذارا مشکل ہے۔

حفیظن:ہائے ہائے کیا زمانہ آن لگا۔ اچھے تھے جو اپنی مزے میں گذار گئے۔ بیگم صاحب۔ ذرا ایک چٹکی تمباکو دینا۔ خدا تمہارا بھلا کرے۔ اے لو میں تو بھول ہی گئی۔ ہماری بیوی جی نے اپنے بھتیجے کے لئے یہ امام ضامن بھیجا ہے۔

بیگم:ارے یہاں کا ہے کو بھیج دیا۔ وہ خود ہی سلام کرنے جاتا۔ اپنے ہاتھ سے باندھ دیتیں۔

حفیظن:چلتے چلتے کہہ دیا تھا کہ حفیظن اپنے ہاتھ سے بچے کے بازو میں باندھ دینا  اور  نذر اتار کر آنا۔

چھوٹے میاں :اب کتنے امام ضامن بندھیں گے میرے۔ بھلا دیکھو تو سارا ہاتھ تو جکڑ کر رہ گیا ہے۔

بیگم:چھوٹے میاں ان باتوں میں بولا نہیں کرتے۔

چھوٹے میاں :اچھا لو باندھ دو۔  اور دو۔ چار۔ چھ۔ جتنے امام ضامن چا ہو باندھ لو۔ جو ایک حرف زبان سے نکالوں تو جو چور کی سزا وہ میری۔

ریحانہ:ابھی تومیں بھی امام ضامن باندھوں گی بھیا۔

چھوٹے میاں :چل چڑیل۔

ریحانہ:میں تو باندھوں گی۔ امی دیکھو۔۔۔

چھوٹے میاں :اچھا چل باندھ جلدی۔ ہر وقت کترنی کی طرح زبان چلتی ہے۔ شریر کہیں کی۔ تجھے تو ایسے سے بیا ہوں گا کہ کبھی میکے بھیجے ہی نہیں۔

ریحانہ:دیکھو امی۔۔۔

چھوٹے میاں :(نقل اتار کر) دیکھو امی۔ ارے دیکھو امی، کیا تو تو بڑی اچھی بہن ہے ہماری۔ میں تو جب بھی لکھنؤ سے آؤں گا تیرے لئے اچھے اچھے دوپٹے۔ جمپر اور سینڈل خرید کر لاؤں گا ہاتھوں کے لئے خوبصورت خوبصورت چوڑیاں  اور جب پاس کر کے تحصیلدار ہو جاؤں گا  اور  پھر تو ہو جائے گی تحصیلدار صاحب کی بہن پانچوں انگلی گھی میں  اور  سر کڑھائی میں۔۔۔ کیا سمجھی۔

(ہنستی ہے۔)

بیگم:اے لو وہ تو باغ باغ ہوئی جا رہی ہے کیا کیا وعدہ وعید ہو رہے ہیں بہن بھائی میں۔۔۔ اچھا اب چلو ریحانہ ذرا بھیے کے لئے کھانا نکال کر لے آؤ۔ گاڑی کا وقت آن لگا ہے۔ بھوک تو اس وقت کیا لگی ہو گی پھر بھی دو نوالے پیٹ میں ڈال کرپانی پی لے سہارا ہو جائے گا۔ پتہ نہیں راستے میں کھانا ملے نہ ملے۔

ریحانہ:ابھی لائی۔۔۔ امی۔

حفیظن:اچھا بیگم صاحب تو پھر میں چلوں۔

بیگم:ہاں میرا سلام کہنا اپنی بیوی جی سے  اور کہہ دینا کہ ان کا بھتیجا ابھی آ رہا ہے سلام کرنے  اور ہاں ناہید تو اچھی ہے۔

حفیظن:ناہید بیٹا(آہ) ہاں اچھی ہی ہے۔ بچاری کا روتے روتے  برا حال ہے۔ تم جانو دونوں ایک ساتھ پلے بڑھے ہیں۔ بچپن سے کبھی ساتھ نہیں چھوٹا۔ اس نے روتے روتے آنکھیں سجائی ہیں۔ماں نے جب کل ڈانٹ بتائی تو کہیں آنکھ کا آنسو رکا۔

بیگم:ہاں پہلی بار یہ دونوں الگ ہو رہے ہیں۔ خدا جلد پھر ملائے۔

حفیظن:آمین۔ مگر ایمان کی بات یہ ہے بیگم صاحب کہ غریب بچی ہے۔ لاکھوں میں ایک ہے در نجف ہے۔ عادت کی۔ خصلت کی۔ اچھی شکل و صورت۔ چندے آفتاب چندے ماہتاب۔ تمہارے گھر میں تو ایسے گھل مل جائے گی جیسے بچپن سے یہیں ہی رہو۔ اپنا خون اپنا کنبہ تمہیں تو  خدا نے بن مانگے موتی دے دیا۔ اپنے ہاتھ سے جوڑی بنائی ہے اللہ میاں نے۔

بیگم:میں بھی یہی سوچ رہی ہوں۔ حفیظن بوا۔ ذرا تعلیم سے نبٹ جائے لڑکا تو سیدھی چچی کی چوکھٹ پر پہنچوں گی۔ ریحانہ کھانا نکال لیا تو نے ، ارے تو چپکا بیٹھا بیٹھا ہماری باتیں کیا سن رہا ہے۔ میرا لڑکا بھی بڑا بھولا ہے۔ شادی بیاہ کی باتوں سے لڑکیوں کی طرح شرماتا ہے۔

ریحانہ:یہ لو کھانا آ گیا۔

حفیظن:اللہ نظر بد سے بچائے۔ خدا شہر والوں کی آنکھوں میں خاک ڈالے۔ لاکھوں میں ایک لڑکا ہے۔ مگر دیکھنا بھیا۔ شہر والے  تو سنتی ہوں حرفوں کے بنے ہوتے ہیں۔ ان سے ذرا ہوشیار رہنا۔ بیگم صاحب تمہیں یاد ہو گا۔ نیازو میری بھانج بہو کا لڑکا اچھا خاصا تھا۔ شہر گیا تھا بس جو شہر کی ہوا لگی تو اس نے یقین مانو کینچلی بدل لی۔ اب تو وہ نیازو ہی نہیں رہا۔ سر میں تیل پھلیل۔ آنکھوں میں کجرا۔ ٹیڑھی مانگ نکالے۔ سوٹ بوٹ ڈاٹے ،  مونچھ داڑھی منڈا وہ تو پورا جنٹلمین ہو گیا وہ  تو بہن میری کوڑی کام  کا نہیں رہا۔

چھوٹے میاں :میں تو وہاں پڑھنے جا رہا ہوں حفیظن  بوا۔ کوئی جادو سیکھنے تھوڑا ہی جا رہا ہوں۔

حفیظن:میرا تو بھیا اسی دن سے شہر کے نام سے جی دھک دھک کرنے لگے ہے۔ طرح طرح کی تو چڑیلیں اپنی صورتیں بنائے پھر ے ہیں۔آڑی مانگیں نکالے ہیں۔ اونچی ایڑی کا وہ کیا ہو وے ہے کیا نام اللہ تمہارا بھلا کرے ، سینڈل پہنے پھر ے ہیں کہ پاؤں ذرا رپٹ جائے تو منہ  کھڑاؤں ہو جائے  اور جی لبھانے کے گر یاد ہیں کم بختوں کو کہ شریف آدمی کا بچ نکلنا مشکل ہو وے ہے۔ اللہ رحم کرے توبہ اللہ میری توبہ۔

بیگم:لو تم کھانا شروع کرو۔

حفیظن:اچھا تو میں چلی بیگم صاحب۔ سلام کہہ دوں گی  اور ناہید بیٹا کو پیار کر دوں گی تمہاری طرف سے۔

بیگم:ہاں  اور کہہ دینا۔یہ ابھی آ رہا ہے سلام کرنے۔

حفیظن:اچھا تو میں چلی۔

چھوٹے میاں :میرا بھی سلام کہہ دینا حفیظن بوا چچی جان  اور۔۔۔

حفیظن:اچھا تو بیگم صاحب سلام۔

بیگم:چھوٹے میاں ، سنا تم نے حفیظن کیا کہہ رہی تھی؟

چھوٹے میاں :ہاں امی۔

بیگم:پھر کیا رائے ہے تمہاری۔ مجھے تو بھیا تیری مرضی کا بھی دھیان ہے ناہید بچاری ہے تو غریب مگر اپنا خاندان ہے اپنا خون ہے پھر بچپن سے تیرے ساتھ پلی ہے۔

چھوٹے میاں :اب میں کیا کہوں گا امی۔

بیگم:میں نے تو کہہ دیا ہے کہ تعلیم پوری ہو جائے۔ ابھی سے لڑکی مانگے لیتی ہوں۔ ادھر تیری نوکری پکی ہوئی ادھر بیاہ  کا بندوبست ہو جائے گا۔

چھوٹے میاں :جیسا تم سمجھو۔

ریحانہ:اب کیسے شرمائے بیٹھے ہیں بچارے (ہنستی ہے)مگر سمجھ لو لکھنؤ سے پہلے میرے لئے دوپٹہ لانا ہو گا نہیں تو ناہید باجی  کا دوپٹہ چھین لوں گی۔

باہر سے آواز:چھوٹے میاں تانگہ آ گیا؟

چھوٹے میاں :ابھی آیا منگلو دادا۔

بیگم:کم بخت نے بچے کے دو نوالے بھی چین سے نہ کھانے دیئے۔ ارے تو نے کھایا ہی کیا ہے؟یہ لے شامی کباب تو ایک  اور  لے لے۔

چھوٹے میاں :بس بس امی۔

بیگم:دیکھو بیٹا۔ ہر روز خط لکھنا۔ میں روز تیرے خط کا انتظار کروں گی۔ ہوشیاری سے رہنا خرچہ بھی دیکھ بھال کے کرنا تو تو جانتا ہی ہے۔ آج کل تیرے ابا کا ہاتھ تنگ ہے  اور شہر کے اللوں تللوں سے ہوشیار رہنا۔ میرے بچے تیرے اوپر سارے گھر بارکو سنبھالنے  کا بار پڑے گا۔

چھوٹے میاں :امی تم اطمینان رکھو۔

بڑے سرکار:ارے بھئی چھوٹے میاں اب جلدی کرو۔ تانگہ کب کا ڈیوڑھی پر لگ گیا۔ بیگم تم ذرا پردہ میں ہو جاؤ تو عبداللہ آ  کر سامان اٹھا لے۔

بیگم:اچھا۔ ریحانہ تھوڑی دیر کے لئے دالان میں آ بیٹھو۔

بڑے سرکار:چھوٹے میاں !

چھوٹے میاں :ابا جان۔

بڑے سرکار:تم سے گھرکی حالت چھپی نہیں بیٹا۔ اپنا پیٹ کاٹ کر جمع  جتھا نکال کر تمہیں پڑھنے بھیج رہا ہوں۔ تمہاری اماں کے زیور کا ایک ایک چھلا بیچ کر تمہاری تعلیم میں خرچ کر دوں گا مگر اب اس گھرکی پتوار تمہارے ہاتھ ہے۔ چھوٹے میاں۔ جی لگا کر پڑھنا۔ یہ سمجھ کر پڑھنا کہ تم کسی کی امانت ہو اور تمہارے اوپر سارے گھر کا بوجھ ہے۔ یہ ساری نیا تمہارے ہی سہارے پھر پار لگے گی دیکھو میرے بیٹے کہیں بہک نہ جانا۔ جی جان لڑا دینا۔ میری بوڑھی ہڈیوں میں اب  اور کس بل بھی نہیں ہے۔

چھوٹے میاں :ابا جان آپ سے دور رہ کر بھی آپ کے پاس ہمیشہ رہوں گا۔

بڑے سرکار:بیٹا۔ خدا تمہیں خوش رکھے۔ اچھا اب اپنی ماں  اور بہن سے بھی رخصت ہو آؤ۔

عبداللہ:سارا سامان رکھ دیا ہے بڑے سرکار۔ منگلو بیلوں کے لئے بھوسا مانگ را ہے۔

بڑے سرکار:دے دیا ہوتا۔

عبداللہ:میں نے کہا سرکار سے پوچھ لوں۔ گاڑی کا وقت قریب آن لگا ہے۔

بڑے سرکار:اچھا تو کہہ  دو لوٹتے میں لے جائے گا۔ چلو چھوٹے میاں گاڑی کا وقت ہو گیا۔

چھوٹے میاں :آیا ابا جان۔

عبداللہ:چلو بھئی منگلو سوار ہو۔ اب دکھلا اپنی چال  اور دیکھ تیری حویلی کے سامنے دو منٹ کو روک لیجو۔ چھوٹے میاں اپنی چچی اماں کو سلام کرنے جائیں گے۔ یہ چل۔ بسم اللہ۔ بسم اللہ۔

ناہید:(آنسوؤں کو روک کر)گاڑی جانے میں بہت کم وقت رہ گیا ہے کیا؟

چھوٹے میاں :کون؟ناہید۔ ارے تم۔ زینے کے نیچے والے کمرے میں کیا کر رہی ہو؟

ناہید:(سسکی) مجھے انتظار کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے کیا۔

چھوٹے میاں :چچی جان کہاں ہیں۔

ناہید:اوپر ہیں۔

چھوٹے میاں :کوئی تمہیں یہاں دیکھ لے گا تو کیا کہے گا۔

ناہید:یہی کہے گا کہ تمہیں رخصت کرنے آ گئی تھی۔ تم اتنے بہت سے دنوں کے لئے باہر جا رہے ہونا۔

(سسکی)

چھوٹے میاں :لیکن ذرا دیکھ  تو حالت کیا بنا رکھی ہے اپنی۔ بال بکھرے ہوئے ہیں۔ چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ اسی شکل پر انتظار کرے گی میرا۔ ادھر آ۔ ٹھہر۔ لامیں تیرے بال ٹھیک کر دوں۔یہ دیکھ ایسے۔ (بالوں کی لٹ چہرے پرسے ہٹا دیتا ہے) ہت تیرے کی پھر وہی لٹ چہرے پر آ گئی۔

(ناہید کی ہنسی)

ناہید:میں تمہاری راہ دیکھو گی پردیسی۔ تم مجھے بھولو گے تو نہیں۔

چھوٹے میاں :کوئی اپنے کو کبھی بھول سکتا ہے دیوانی۔

ناہید:میری قسم؟

چھوٹے میاں :لا ہاتھ لا۔ میرا ہاتھ خوب کس کے پکڑنا۔ اس موم بتی کی لو کے اوپر رکھ کر ہم دونوں قسم کھاتے ہیں کہ دونوں زندگی کے سارے دکھ درد ساتھ جھیلیں گے۔ ہمیشہ کے لئے سدا کے لئے۔

ناہید:ہائے۔ کیسا داغ  لگا لیا ہے اپنے ہاتھ میں۔ ہائے میرے اللہ۔ بڑی جلن ہو رہی ہو گی۔

چھوٹے میاں : اور تیرے ہاتھ میں جلن نہیں ہو رہی ہے۔

ناہید:میں بہت خوش ہوں۔ آج میں بہت خوش ہوں۔ لاؤ مجھے اپنا ہاتھ دو۔

چھوٹے میاں :بس اب اچھی بچی بن جاؤ۔ آنسو پونچھو۔ میری واپسی کا انتظار کرنا میری کامیابی کی دعا کرنا۔ میں چچی جان سے ملنے جاتا ہوں۔

ناہید:وہ پوچھیں گی ہاتھ کیسے جل گیا۔

چھوٹے میاں :کہہ دوں گا آپ کی صاحبزادی نے جلایا ہے۔ بس۔

(ناہید کی ہنسی)

ناہید:شریر کہیں کے؟!

چھوٹے میاں :اچھا میں چلا۔ خدا حافظ۔ چچی جان سے مل کر رخصت ہو جاؤں گا۔ خدا حافظ۔

ناہید:خدا حافظ۔

(تانگے کی آوازChange Over   ریل گاڑی کا شور۔ شہر کی ہلچل، اخبار والوں کی آوازیں۔ بسوں  اور موٹروں کی آوازیں۔)

رمیش:(قہقہہ)کیا کہا پارٹنر۔ تمہیں ہماری جان کی قسم۔ ذرا ایک بار پھر بتانا۔ تمہیں گھرکے لوگ کس نام سے پکارتے تھے۔

چھوٹے میاں :چھوٹے میاں کہتے تھے۔

رمیش:(قہقہہ) ارے سن رہا ہے۔ رونالڈ کالمین کے بچے۔ مسٹر جاوید  کو گھر پر لوگ چھوٹے میاں کہتے تھے۔

مجید:ہاں ہاں سن رہا ہوں تو اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے ہیرو۔

رمیش:دیکھو مسٹر جاوید۔ برا مت ماننا۔ اس مجید کے بچے کو رونالڈ کالمین کہتا ہوں نا۔ مونچھوں کا بالکل وہی کٹ۔ قسمت کا ذرا ہیٹا نکل  گیا کم بخت نہیں تو کہیں ہالی وڈ میں عیش کر رہا ہوتا۔ زوں سے فرسٹ کلاس بیوک پر نکلتا تو مارے خوشبو کے راستے چلنے والے بے ہوش ہو جاتے۔ ہائے ہائے ایم اے ، ایل ایل بی میں جھک مار رہا ہے۔ اسے کہتے ہیں۔ زاغ کی چونچ میں انگور خدا کی قدرت۔

مجید:ارے ہیرو کی دم کبھی تو موقع کا شعر پڑھ دیا کر۔ اس رمیش کی باتوں میں نہ آنا جاوید میاں۔ یہ ہنسی مذاق بہت کرتا ہے۔ مگر دل کابرا نہیں ہے۔ گو دل نے اسے بری جگہ اٹکا دیا ہے۔

رمیش:میاں جاوید اب تم سے کیا چوری ہے ہمارے کلاس میں جسٹس ڈیسائی کی نور نظر مس  لیلا ڈیسائی پڑھتی ہے۔ مائی ڈیر غضب کی خوبصورت ہے بالکل ایوا گارڈنر ہے بنی بنائی۔

چھوٹے میاں :پھر کیا کہتی ہے وہ؟

رمیش:ہائے ہائے کیا بھولے پن کی بات کہی ہے تم نے پارٹنر؟!بھلاوہ کیا کہتی۔ کچھ کہتی ہی تو نہیں۔ یہی تو غضب ہے۔

مجید:چچا غالب کا شعر پڑھا ہے تم نے۔ چاہئے اچھوں کو جتنا چاہئے۔ وہ اگر  چاہیں تو پھر کیا چاہئے۔

رمیش:ہائے مشاعرہ لوٹ لیا ظالم نے۔ واہ واہ۔ اچھا رونالڈ کالمین۔ اب ذرا اسی بات پر جلدی سے تیار ہو  جاؤ آج میوزک کنسرٹ ہے۔ یہاں سے پہلے پکچر چلیں گے پھر ایک پیالی کافی پئیں گے کافی ہاؤس میں  اور  وہاں سے سیدھے میوزک کنسرٹ میں۔ آج وہ بھی تو ناچیں گی۔ یعنی کہ وہ۔ بس سمجھ جاؤ۔

مجید:سمجھا۔ چلو مسٹر جاوید۔

رمیش:لیکن دیکھو یار۔ بھگوان قسم یہ ا چکن۔ پاجامہ نہیں چلے گا۔ آج تم میرا گرم سوٹ پہن لو بھڑکیلی ٹائی لگا لو کہ جدھر سے گزرو دو چار لڑکیاں آنکھ ماریں۔ میں کہتا ہوں یار یہ کیا رٹ رٹ  کر سارے کمرے کا ٹمپریچر زیروZero   کئے رہتا ہے۔ ظالم۔ دوچار A-1   قسم کے سوٹ سلوا لو۔ عیش کر پارٹنر عیش زندگانی پھر کہاں !

چھوٹے میاں :اب کے منی آرڈر آئے گا تو ہو جائے گا ایک سوٹ۔

مجید:ہاں ہاں مگر اس وقت تو تیار ہو جاؤ۔

رمیش:ذرا پرواہ مت کر بادشاہ ہو۔ مجید۔

مجید:پھر کچھ  اور مصیبت۔

رمیش:میں سوچتا ہوں۔ زندگی یہی کچھ Student Days   کی ہے یار۔ باقی سب بکواس ہے اس سے پہلے لڑکے کو کچھ تمیز نہیں ہوتی۔ گدھے کی طرح کتابوں پر جٹا رہتا ہے  اور اس کے بعد جب نوکری کے چکر میں پڑتا ہے۔ تو نون تیل لکڑی سب کچھ بھلا دیتی ہے گھر میں چیاؤں  پیاؤں دس عدد بچے تگنی کا ناچ نچاتے ہیں۔ بیوی الگ ناک میں تیر پہناتی ہے  اور قرضدار، دفتر کا Boss   ، رشتے دار ناتے دار سب سالے گلا دبانے آ جاتے ہیں۔ اب تو عیش ہے عیش سب سمجھتے ہیں لونڈا پڑھ لکھ کر کلکٹر بن جائے گا۔

مجید:تجھے اب پتہ لگا ہے یہاں جو پیر مرد تین سال سے فیل ہو رہے ہیں تو اسے تو نے مذاق ہی سمجھ لیا ہے میری جان۔ زندگی بڑی ظالم ہے۔ یہاں یونیورسٹی ہوسٹل کی چھت کے نیچے مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں ہاتھ بڑھا کر ستاروں کو چھو سکتا ہوں۔ یہاں وہی گھاٹے میں رہتا ہے جو چھوٹی باتوں پر قناعت کر لیتا ہے۔ یہاں میں نے ہر چیز کو اپنی دسترس میں پایا۔ مجھے ایسا لگا ہے کہ سب لوگوں کی طرح میرے پاس بھی کل موٹر ہو سکتی ہے۔ بنگلہ ہو سکتا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ  اور مالدار بیوی ہو سکتی ہے  اور زندگی کی ساری نعمتیں میرے ہاتھ میں ہیں۔

چھوٹے میاں :یہ بڑی عجیب دنیا ہے مجید بھائی۔

مجید:ہاں جاوید۔ عجیب دنیا ہے لیکن اس دنیا کے باہر نکل کر یہ سارے ستارے فضا میں کہیں گم ہو جاتے ہیں  اور میں اپنے قصبے کی اندھیری گلیوں میں چھوٹی سی نوکری کے لئے مارا مارا پھر تا ہوں۔ یہاں سب کچھ مل سکتا ہے  اور بہت کچھ کھویا جاتا ہے۔

رمیش:جاوید یہ  رونالڈ کالمین فلمی ڈائلاگ بول رہا ہے۔ اسے بولنے دو۔ میری بات مانو تو صرف ایک گر یاد رکھو۔ پہلی فرصت میں ایک عدد عشق کر ڈالو۔ زندگانی پھر کہاں۔

مجید:میاں جاوید۔ اس نے تو عشق کی ایجنسی لے رکھی ہے اس کی باتوں میں نہ آنا۔

چھوٹے میاں :نہیں مجید بھائی میرا عشق وشق کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

رمیش:ہاہاہا کیا کہنے ہیں شہزادہ گل فام کے۔ کبھی آئینہ میں صورت ملاحظہ کی ہے صاحبزادے۔ اسی شکل پریہ غلط فہمی ہے۔ گویا ابھی آپ عشق کا ارادہ ظاہر کریں گے۔ ادھر رانی پدمنی تخت و تاج چھوڑ کر آپ کے قدموں میں سر جھکانے آئے گی  اور کہے گی ’’ہے پربھو۔ مجھے اپنے چرنوں میں جگہ دو۔‘‘ابھی چند دن کی بات ہے کہ آپ قصبے سے تشریف لائے ہیں۔ یہاں پر آپ کا ایسا ہے جیسے تھیلوں میں شترمرغ کو بند کر دیا ہو۔ ویسے کسی لکھ پتی خاندان کے چشم و چراغ بھی نہیں آپ کی قابلیت کا یہ حال ہے کہ ابھی گریجویٹ ہونے والے ہیں  اور  دماغ۔۔۔  کیا خوب:

اسی کو کہتے ہیں بلی کے سر میں چھچوندر کا تیل

چھوٹے میاں :رمیش بابو!

مجید:ابے ہیرو۔ کیوں Leg pulling   کرتا ہے یار خوامخواہ۔

رمیش:شہزادہ گل فام کے۔ اگر ۶مہینے کے اندر اندر یونیورسٹی کی کسی حسین لڑکی کو اپنے سے بات کرنے پر آمادہ کر لو تو یہ  رونالڈ کالمین سی مونچھیں چیل کے پیشاب میں منڈوا دوں۔

چھوٹے میاں :آپ بھول رہے ہیں رمیش بابو۔ میں بھی آپ سب کی طرح انسان ہوں۔ آپ سب کی طرح نوجوان ہوں۔

رمیش:(طنز سے) ہاں ہاں۔ کیوں نہیں۔ کیوں نہیں۔

مجید:ابے کیا ہیرو کی دم بنا پھر تا ہے۔ اگر مرد ہے تو ہاتھ  ملا شرط باندھتا ہوں کہ ۶ہفتے کے اندر اندر  جاوید سچ مچ شہزادہ گل فام ہو گا۔ اس یونیورسٹی پر تمہارے حضرت گنج  پر تمہارے Gladdar   والی سوسائٹی پر دیکھتے دیکھتے چھا جائے گا۔

رمیش:اچھا جی!

چھوٹے میاں :میوزک کنسرٹ کا ارادہ نہیں ہے کیا؟

رمیش:یار سارا موڈ اس عود بلاؤ نے تباہ کر دیا۔

مجید:چل بے میوزک کنسرٹ چل رہے ہیں۔

(بھیڑ کا شور، بات چیت، آہستہ آہستہ Fade Out Change Over  ، وقفہ۔ بارہ بجنے کی آواز۔)

رمیش:(دروازہ کھٹکھٹاتا ہے)شہزادے گل فام۔ دروازہ کھولو۔

مجید:مسٹر جاوید۔ دروازہ کھولو۔ مائی ڈیر۔

چھوٹے میاں :رات کے بارہ بجے آپ لوگوں کو گدگدی ہوئی ہے۔ میں نہیں کھولتا دروازہ سخت نیند آ رہی ہے۔

(جماہی)

رمیش:نہیں کھولے گا دروازہ۔ اچھا صبح کو مزا چکھاؤں گا۔

مجید:ابے آج اس کی کامیابی کی رات ہے ہیرو ہو گیا ہے ہیرو۔ چلو سونے دو۔

چھوٹے میاں :شب بخیر۔ گڈ نائٹ۔

(پھر جماہی)

(Change Over)

ثریا:میں نے آپ کو بلایا تھا۔

چھوٹے میاں :شکریہ۔ مس ثریا بیگم۔

ثریا:شکریہ تو مجھے ادا کرنا ہے۔ آپ نہ ہوتے تومیں سوچ نہیں سکتی کیا کچھ ہو جاتا۔

چھوٹے میاں :جی نہیں۔ آپ پر کوئی احسان نہیں کیا میں نے۔

ثریا:آپ بہت عجیب ہیں۔

چھوٹے میاں :میں بالکل عجیب نہیں ہوں آپ لوگ جو تہذیب کے شیش محلوں میں رہتے ہیں مخملی قالین جگمگاتے فانوس  اور  ریشمی پردوں کے پیچھے رہتے ہیں۔ انھیں باہر کی دنیا کی  ہر بات عجیب لگتی ہے۔

ثریا:مجھے عجیب آدمی اچھے لگتے ہیں۔

ثریا:مسٹر جاوید۔ آپ نے بڑی دیر کر دی۔ ہم سب پک نک (Picnic)   پر آپ کا انتظار کر رہے تھے۔

چھوٹے میاں :لیجئے میں آ گیا۔

چھوٹے میاں :آئیے اس مولسری کے پیٹر تک چلتے ہیں۔ دیکھیں کون پہلے پہنچتا ہے۔ ون۔ ٹو۔تھری۔ اسٹارٹ، (دوڑتے ہیں) رہ گئیں نہ پیچھے۔ یہ مولسری کے پھول میں نے تمہارے لئے کتنے بہت سے پھول چنے ہیں۔

ثریا:ان کا ایک چھوٹا سا کلپ بنا کر میں اپنے بالوں میں لگاؤں گی۔

ثریا:اوہ۔ مسٹر جاوید۔ بڑی دیر کر دی آپ نے۔ میں کتنی دیر سے آپ کی راہ دیکھ رہی ہوں۔

چھوٹے میاں :معاف کیجئے گاذرا دیر ہو گئی۔

ثریا:بھئی کمال ہے۔ آج ہماری سالگرہ کی پارٹی میں بھی آپ دیر سے آئے ہیں۔ حد ہو گئی۔

چھوٹے میاں :میری طرف سے یہ تحفہ قبول کرو۔ بہت حقیر تحفہ ہے۔ مگر بڑے خلوص سے یہ نذر پیش کر رہا ہوں۔

ثریا:میرے لئے تمہارا چھوٹے سا چھوٹا تحفہ بھی سب سے زیادہ قیمتی ہو گا۔

چھوٹے میاں :شکریہ۔

ثریا:لاؤ مجھے دو۔ دیکھوں تو کیا ہے یہ انگوٹھی۔۔۔ (حیرت، تعجب  اور صدمے سے) انگوٹھی!! یہ تم نے کیا کیا جاوید۔ یہ تم نے کیا کیا۔

نوکر:جاوید صاحب کو کوئی باہر بلا رہا ہے۔

چھوٹے میاں :کون ہے؟

نوکر:میں کیا جانوں سرکار۔ کوئی بوڑھا سا آدمی ہے۔

چھوٹے میاں :اچھا میں دیکھتا ہوں۔

چھوٹے میاں :ابا جان!آپ!

بڑے سرکار:ہاں بیٹا۔ تمہارا امتحان ختم ہو گیا۔ تو بھی تم نہیں آئے۔ تمہاری ماں نے رو رو کر برا حال بنا لیا ہے۔ ریحانہ سر ہو گئی۔ میرے پیچھے پڑ گئی تو مجھے  آنا ہی پڑا۔

چھوٹے میاں :ہاں ابا۔ مجھے دیر ہو گئی۔

بڑے سرکار:اب تمہارا یہاں کیا کام ہے بیٹا۔ چلو گھر چلیں۔ اب کاروبار سنبھالو۔ نوکری ڈھونڈو(خاموش ہو کر)  اور ناہید بیٹا کب سے تمہاری راہ تک رہی ہے اب تو تمہارا کام یہاں ختم ہو گیا ہے۔

چھوٹے میاں :ہاں کام تو ختم ہو گیا ہے لیکن وہاں اس قصبے میں میرا دل نہ لگے گا۔ یہیں کوئی نوکری ڈھونڈھ لوں گا۔

بڑے سرکار:دل نہیں لگے گا!ہمیشہ وہیں پلے بڑھے ہو اب دل کیوں نہیں لگے گا۔

چھوٹے میاں :مجھے معلوم نہیں۔ مجھے کچھ بھی معلوم نہیں۔ شاید ا س سے پہلے میں نے ایسی زندگی کے خواب نہیں دیکھے تھے۔ مجھ سے ایک اجاڑ گاؤں میں دفن ہو کر نہ رہا جائے گا۔ میں وہاں خوش نہ رہ سکوں گا۔

بڑے سرکار: اور ناہید کا کیا ہو گا۔ وہ تو ایک مدت سے تمہارے سہارے بیٹھی ہے۔

چھوٹے میاں :اس کے لئے  اور بہت سے رشتے مل جائیں گے۔

بڑے سرکار:(غصے سے) چھوٹے میاں !

چھوٹے میاں :جھوٹ نہیں کہہ رہا ہوں ابا جان۔ میں ایک جاہل ان پڑھ دیہاتی لڑکی کے لئے اپنی زندگی تباہ نہیں کر سکتا۔

بڑے سرکار:تجھے یہ لفظ کہتے شرم نہیں آئی۔ اس پاکیزہ لڑکی کی تو نے یہ قدر کی ہے۔ میں تجھے کبھی نہیں بخشوں گا چھوٹے  یہ تو نے ہماری شرافت پر طمانچہ مارا ہے۔ میں اس سے کس منہ سے یہ بات کہوں گا یہ تیری زبان یہ بات کہنے سے پہلے کٹ کر نہ گر پڑی۔

چھوٹے میاں :میں مجبور ہوں ابا جان۔

بڑے سرکار:خبردار جو مجھے  ابا جان کہا۔ سمجھ لے آج سے میں تیرا کوئی نہیں ہوں۔ میں تیرے لئے مرگیا۔

نوکر:سرکار۔ جاوید صاحب۔

چھوٹے میاں :کیا ہے؟

نوکر:ثریا بی بی نے ڈبہ دیا ہے  اور یہ پرچہ بھیجا ہے۔

چھوٹے میاں :مس صاحب نے۔ اچھا لاؤ۔

(پڑھتا ہے۔)

’’ڈیر جاوید۔ تمہارا تحفہ واپس بھیج رہی ہوں۔ یہ تم نے کیا کیا۔ انگوٹھی کا تحفہ  اور تم سے؟میں تمہاری قدر کرتی ہوں تمہیں اپنا دوست سمجھتی ہوں لیکن تمہارا تحفہ قبول کرنا میرے لئے ناممکن ہے۔ معاف کرنا۔ ثریا۔‘‘

چھوٹے میاں :(طنز کے ساتھ دو قہقہے)بولو جاوید۔ بولو۔ اب کدھر جاؤ گے۔ ستاروں پر کمند ڈالنا چاہتے ہو۔ چاند کو ہتھیلی میں پکڑنا چاہتے ہو۔ مولسری کے پھولوں سے پیاس بجھانا چاہتے ہو۔ چمکتی بھول بھلیوں میں کھو گئے ہو۔ اب کون ہے تمہارا۔ کون ہے تمہارا۔ جو تمہاری تھی اسے تم ٹھکرا چکے جس دنیا تک تم اڑ کر جانا چاہتے ہو۔ اس نے تمہیں ٹھکرا دیا۔ بولو اب کدھر جاؤ گے۔ دیوانہ جاوید!ستم زدہ جاوید! دونوں دنیاؤں میں اکیلا تنہا جاوید۔۔۔ !

(دیوانہ وار قہقہہ لگاتا ہے۔)

***

ماخذ: ’’مورپنکھی اور دوسرے ڈرامے ‘‘، مکتبۂ دین و ادب، لکھنؤ

٭٭٭

 

 

 

 

کچلا ہوا پھول

 

 

پہلا سین

 

(زور دار بارش)

 

ایک:لا الہٰ الا اللہ محمد الرسول اللہ۔

دوسرا :اللہ بس باقی ہوس۔ قبر تیا رہے۔ صاحبو مٹی دیجئے  اور مرحوم کے لئے فاتحہ۔

(سسکیوں کی آواز)

چچا:نہ روؤ بھائی، صبر سے کام لو، مرحوم کی روح کو تکلیف ہو گی، اب ان کے لئے دعائے مغفرت کرو، یہی سب کا آخری انجام ہے اللہ بس باقی ہوس۔

(بجلی کی کڑک جملہ کو کاٹ دیتی ہے۔)

ایک:بس تو یہاں قریب کہیں سے ملتی ہو گی۔

دوسرا :بارش ہے کہ آج تھمنے کا نام نہیں لیتی۔

تیسرا:قبر کی مٹی برابر کر دو بھائی  اور یہ ہار پھول سرہانے سجا دو۔

چوتھا:آؤ اس چھتری کے نیچے آ جاؤ۔ بس اسٹینڈ تک چلے چلتے ہیں۔

(بجلی کی کڑک جملے کو کاٹ دیتی ہے۔)

پہلا :اللہ بس باقی ہوس۔ اللہ باقی من کل فانی۔

دوسرا :بس یہیں قریب سے ملتی ہے۔ یہ سامنے سڑک چل رہی ہے جس پر وہ سائیکل سوار چھتری لگائے گاتا چلا رہا ہے۔(گانے کی آواز) یہ زندگی کے میلے۔ یہ زندگی کے میلے  اور۔۔۔ افسوس ہم نہ ہوں گے۔

چچا:چلو بھائی چلیں۔

بھائی جان:شبو بھائی کو تیری گود میں سونپ چلا ہوں۔ مٹی کی چادر تجھے میں نے اپنا سب سے بڑا ساتھی سونپا ہے۔شبو بھائی، الوداع شبو بھائی۔

(رونے لگتا ہے۔)

چچا:چلو۔ عزیز من اب چلو۔ اندھیرا بڑھتا جا رہا ہے۔ سب چلے گئے۔

(بارش  اور بڑھ جاتی ہے  اور بجلی کڑک کر یکبارگی خاموش ہو جاتی ہے)

آواز:تو آخر تم آ ہی گئے۔

شبو:کون ہو تم؟

وہی آواز:(ہلکی سی ہنسی)مجھے نہیں پہچانتے۔ ہاں میں بھول گئی ابھی تو تمہارا کفن بھی میلا نہیں ہوا ہے۔ ابھی تو تم جاتی دنیا کے غلام ہو۔

شبو:غلام، میں؟

وہی:ہاں ابھی تو جسم کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے ہو۔ جس میں تمہاری دنیا حسن  اور بدصورتی کے جلوے دیکھتی ہے۔ جس میں تم کمزور  اور  مضبوط، اعلیٰ  اور  ادنیٰ، مرد اور عورت، گورے  اور کالے کا بٹوارہ کرتے ہو۔(ہلکی سی ہنسی) مگر اب آزادی میں بس تھوڑی ہی دیر اور ہے۔

شبو:آزادی!کیسی آزادی؟

آواز:تمہارا بے داغ کفن زمین کے لاکھوں کروڑوں ان جانے مہمان چاٹ ڈالیں گے پھر وہ آئیں گے جنھیں تم نے کبھی مہمان نہیں بنایا وہ کیڑے مکوڑے ، سانپ، بچھو، کاکروچ، سنپولئے یہ سب کب سے تمہارے جسم کے بھوکے ہیں۔

شبو:تم کیسی ڈراؤنی باتیں کرتی ہو؟

آواز:(پھر ہلکی سی ہنسی) یہی تو کہتی ہوں ابھی ڈرتے ہو، سارے جسم ڈرتے ہیں ، ان پر گوشت نہیں خوف کا ماس ہے۔

شبو:تم نہیں ڈرتیں؟

آواز:کبھی ڈرتی تھی جب میرے ہونٹ جن پر شاعروں نے نظمیں لکھیں۔ چیونٹیوں کی خوراک بن گئے۔ جب میری سیاہ زلفیں جن کو کالی ناگن کہا گیا تھا مٹی میں مل کر راکھ ہو گئیں۔ میرے رخسار جن پر چاندنی ناچا کرتی تھی کیڑوں کی نذر ہو گئے۔ میرا گداز سینہ، میری نرم  اور  شفاف رانیں کاکروچ  اور جھینگر کھا گئے  اور دھیرے دھیرے  میں جسم  اور  ڈر سے آزاد ہو گئی۔

شبو:تم کون ہو؟

آواز:میں صرف چند بچی کچی ہڈیاں  اور ایک آواز، گھبراؤ نہیں موت بڑی مسیحا ہے تھوڑی دیر میں تم بھی آزاد  اور بے خوف ہو جاؤ گے۔ پھر تمہیں سانپ بچھو بھی ڈرا نہیں پائیں گے۔ موت آزادی دیتی ہے۔

شبو:آزادی  اور صورت۔

آواز:ہاں موت آزادی دیتی ہے۔ ہر قید اور بند سے آزادی۔ جب تمہاری آنکھیں مٹی میں مل چکی ہوں گی۔ تم دیکھو گے کہ انسانی جسم کیا تھا جس سے چند لمحے کی لذت لینے کو تم نے جرم قرار دیے رکھا تھا  اور  اس کے اصول مقرر کر رکھے تھے وہ فرق کیا تھا جو تم نے عورت  اور  مرد کے درمیان قائم کر رکھا تھا کیا ہم تم برابر نہیں ہیں۔

شبو:ہم تم!!!کون ہم تم؟

آواز:تم مرد اور میں عورت۔ کیا دونوں برابر نہیں ہیں؟

شبو:اس لمحے سب برابر ہیں۔ سب مٹی کے کھلونے مٹی میں۔

آواز:بارش زوردار ہو رہی ہے۔ کیڑے جلد ہی نکل کر تمہیں کھا جائیں گے پھر میری ہڈیاں تمہاری ہڈیاں بھی نکال لے جائے یا کوئی بھوکا کتا اسے سڑک کے کنارے لے جا کر بھنبھوڑنے لگے۔

شبو:چپ ہو جاؤ، خدا کے لئے چپ ہو جاؤ۔

آواز:خاموشی کس کس سچائی چھپا سکے گی۔ قبرستان والی سڑک کے کنارے بارش میں بھیگے جسم اب ملنا چاہ رہے ہیں۔ ایک لمحے کی لذت کی خاطر  اور  دیکھتے ہو آج بھی وہ لڑکی کن کن خطروں کو دل میں لئے سمٹی جا رہی ہے لذت سے دور بھاگتی جا رہی ہے۔ شاید اس لئے کہ وہ اس لڑکے کے ساتھ گھر نہ بسا سکے گی شادی، عصمت، خاندان یہ سب جسم سے آزاد ہونے کے بعد کیسی عجیب سی چیزیں لگتی ہیں۔

(ہنسی۔ طنز سے بھرپور ہنسی)

(بارش کا شور، بجلی کی کڑک)

شبو:موت کتنی عجیب ہے۔

آواز:یوں ہی کہہ لو۔ مگر زندگی عجیب تر ہے۔ وہ دن تمہیں یاد ہے جب میں بمبئی سے تعلیم پوری کر کے گھر لوٹی تھی۔

 

 

 

 

دوسرا سین

 

 

شبو:مارویلیس، ونڈر فل۔ آپ نے تو کمال ہی کر دیا۔ گھرکو واللہ ایسا سجایا ہے کہ بالکل اشوکا ہوٹل معلوم پڑ رہا ہے۔

بھابھی:آؤ شبو۔

شبو:آ رہا ہوں بھابی۔ آسمان سے زمین پر آ رہا ہوں۔ مگر یہ تو بتائیے کہ آپ کی جان کی قسم یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا۔ قصہ کیا ہے۔ کیا کسی فلم کی شوٹنگ کا پروگرام ہے۔

بھابھی:ہماری ساس کو جانتے ہو تم۔ ان کے آگے کسی کی چلتی ہے بھلا۔

شبو:پھر وہی کراس ورڈ پزل میں گفتگو شروع کر دی۔ اگر اتنا بھیجا اپنے پاس ہوتا تو کروڑ پتی ہوتے ، چار چھ کاریں زوں سے دائیں طرف سے نکلتیں ، آٹھ دس بائیں طرف سے ، یا اس وقت یہ بندۂ ناچیز چاند کی سطح پر چاند بگھی میں بیٹھا حوروں کو رجھا رہا ہوتا۔ سیدھی سادی اردو زبان میں بتائیے۔ واقعہ کیا ہے؟

بھابھی:ہماری ساس کے ایک اکلوتی بیٹی ہے ناہید۔

شبو:ہے۔

بھابھی:وہ پڑھ لکھ کر ایم اے پاس ہو کر بمبئی سے لوٹ رہی ہے۔

شبو:لوٹ رہی ہے تو پھر۔

بھابھی:تو پھر اس کا استقبال۔

شبو:واللہ اتنی سی بات جسے افسانہ کر دیا۔

بھابھی:نہیں شبو!افسانہ نہیں بالکل حقیقت ہے۔

شبو:آداب!اماں حضور۔

بیگم:جیتے رہو بیٹے۔ میں نے تمہیں اسی لئے بلایا تھا۔ ناہید کا ہاتھ بچپن ہی میں ہم تمہارے ہاتھ میں دے چکے ہیں۔ آج ہم چاہتے ہیں کہ منگنی کی رسم بھی ادا ہو جائے۔

شبو:کمال کر دیا اماں حضور آپ نے ایسا(شہنائی کی آواز پس منظر سے ابھرتی ہے)S.O.S.   طریقے پر بلایا کہ میں سمجھا مرمت نہ سہی گو شمالی تو ضرور ہو گی  اور  یہ معاملہ نکلا منگنی کا۔

چچا:جی ہاں برخوردار یہ بھی گوشمالی کی ایک نئی قسم ہے۔

شبو:آداب چچا جان!آپ کی منگنی نہیں ہوئی تو آپ نے اسے گوشمالی قرار دے دیا ہے معاف کیجئے گایہ رتبہ بلند  ملا جس کومل گیا، سمجھے چچا جان صاحب۔

چچا:خوب سمجھا۔ مگر سنو شبو۔ جس کے پاس آنے والی نسلوں کے لئے اولاد کے سوا  اور کچھ دینے کونہ ہو اس کے لئے یہی منگنی بیاہ کا مشغلہ ٹھیک ہے۔

شبو:آپ ٹھہرے آرٹسٹ۔ آپ کے پاس تو دنیا کو دینے کے لئے فن  اور  بصیرت کا خزانہ تھا خزانہ۔ لہٰذا آپ نے شادی نہیں کی ہے نا یہی بات! اب تو ہو جائیے قائل۔ قسم خدا کی چہرہ پڑھ کر پورے Dialogue   منہ زبانی سنا دئیے۔

چچا:عورت، شادی، خاندان، بچے۔ دوسروں کے لئے یہ زندگی ہے میرے لئے یہ رنگ ہیں جن سے میں زندگی کی تصویر بناتا ہوں۔ انسان ان جھمیلوں کے لئے نہیں یہ کھلونے البتہ انسان کے لئے ہیں۔ ان سے کبھی کبھی تسکین پائے  اور  کے ذریعے اپنی پوری طاقت کو ظاہر کر دے۔ ان سے کھیلے ان کا کھیل نہ بنے۔

بھابھی:اے ہے شبو میاں !تم کہاں الجھ پڑے۔ گاڑی آنے کا وقت ہو رہا جاؤ اپنی پھول دار شیروانی  اور چوڑیدار پاجامہ پہن آؤ۔ دلہن کا ٹھاٹھ دار استقبال ہونا چاہئے۔ برات کے ہونے والے دولہا تو تمہیں ہو۔

شبو:بھابھی!واللہ آپ تو شرمندہ کرتی ہیں۔ اپن تویوں ہی اتنا جچ رہے ہیں پھولدار شیروانی پہن لی تو پوری عورت جاتی غش کھا کر گر پڑے گی۔

(گھنٹہ چار بجاتا ہے۔)

بیگم:برجیس دلہن۔

بھابی:جی اماں حضور۔

بیگم:ذرا اسٹیشن ٹیلی فون کرو۔ یہ لوگ ابھی تک نہیں آئے گاڑی لیٹ ہے کیا؟

بھائی جان:گاڑی لیٹ نہیں تھی امی جان۔

بیگم:تمہیں ناہید کو لینے اسٹیشن بھیجا تھا۔

بھائی جان:وہ نہیں آئی۔

بیگم:یہ ناممکن ہے ایسا ہو نہیں سکتا۔

بھائی جان:امی جان!پوری گاڑی چھان ماری، ایک ایک ڈبہ کو دس دس بار دیکھا اس کا کہیں پتہ نشان نہیں ملا۔ ہو سکتا ہے دوسری گاڑی سے۔

بیگم:نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ میری بچی سے ایسا نہیں ہو سکتا۔ میرے گھر میں کوئی بے قاعدہ بات نہیں ہو سکتی۔

شبو:واللہ اماں حضور۔ آپ خوامخواہ۔

بیگم:(بات کاٹ کر) شبو!

شبو:میرا مطلب ہے سب ٹھیک ہو جائے گا دیر سویر سو ہی جاتی ہے۔

بھابھی:میں کہتی ہوں تم نے ٹھیک سے دیکھا بھی تھا۔ (ASIDE)   اماں حضور کو تو جانتے ہو وہ زمین آسمان ایک کر ڈالیں گی۔

بھائی جان:میرا  اعتبار کرو۔ میں نے انھیں دو آنکھوں سے ایک ایک ڈبہ دیکھ ڈالا جن سے تمہیں دیکھ رہا ہوں جان من۔

بھابھی:چلو ہٹو۔ تمہیں ہر وقت چونچلے سوجھتے ہیں۔

(موٹرسائیکل کی پھٹ پھٹ سنائی دیتی ہے۔)

چچا:ناہید۔

بیگم:کہاں۔

(موٹرسائیکل کی پھٹ پھٹ  اور قریب آ جاتی ہے۔)

چچا:موٹرسائیکل پراس اجنبی کی کمر میں ہاتھ ڈالے ہوئے؟

ناہید:ہیلو۔ اویری باڈی(Every Body)   امی حضور آپ نے اسٹیشن پر کسی کو نہیں بھیجا۔ اوہو گھر کو ایسا سجایا ہوا ہے کہ بس! بھائی جان، بھابی، اوہ چچا جان(سب سے ملتی ہے۔) امی حضور۔

بیگم:(کوئی جواب نہیں دیتی۔)

ناہید:اوہ میں بھول گئی یہ ہیں میرے دوست۔ ملک کے مشہور باکسنگ چمپئن ملک۔  دراصل بارش بہت زور کی ہو رہی تھی۔ ٹیکسی والے نخرے دکھا رہے تھے۔ مسٹر ملک نے مجھے لفٹ (Lift)   دے دیا میں انھیں کی موٹر سائیکل پر چلی آئی۔

شبو :ارے بھئی بہت اچھا ہوا تم نے بتا دیا ورنہ ہمیں تو ان کی موٹرسائیکل پر چاند گاڑی کا شبہ ہونے لگا تھا۔

ناہید:شبو ڈیر۔ تم!

شبو:جی ہاں یہ خاکسار بالکل فلمی ہیرو کے روپ میں !شیروانی پھول دار۔ پاجامہ چست، ٹوپی اصلی نکے دار۔

بیگم:ناہید تمہارے کپڑے بھیگ گئے ہیں اندر آ جاؤ  اور سب لوگ بھی دیوان خانے میں چل کر بیٹھیں۔

ناہید:اس برآمدے میں بھی تو کتنا  اچھا لگ رہا ہے امی حضور!بارش کے ہلکے ہلکے چھینٹے۔

ملک:اچھا اجازت دیجئے۔

شبو:اتنی جلدی۔

ملک:جلدی ہے۔

شبو:واللہ بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔ امید ہے آئندہ بھی ملاقات ہو گی مگر باکسنگ(Boxing)   والے دستانوں کے بغیر۔بات یہ ہے ملک صاحب کہ مجھے اپنی جان بہت عزیز ہے  اور باکسنگ سے میری جان جاتی ہے۔

ملک:مردوں کا کھیل ہے۔

شبو:او۔ کے باس!!او۔ کے !

ملک:او۔کے۔

(موٹرسائیکل اسٹارٹ کرتا ہے  اور چلا جاتا ہے۔)

بیگم:آپ لوگ اس طرح کب تک کھڑے رہیں گے۔

شبو:(تالیاں بجا کر) تخلیہ، تخلیہ، تخلیہ۔

بیگم:ہم نے تمہیں اپنا خون پسینہ ایک کر کے پروان چڑھایا ہے۔ راتوں کی نیند  اور دن کا آرام نہیں جانا۔ ہم جان دے سکتے ہیں۔ آبرو سے نہیں کھیل سکتے۔ تم اتنے بڑے خاندان کی چشم و چراغ ہو۔ تم اس گھرانے کی آبرو ہو۔ زندگی بھرکے ہمارے خواب تمہاری امانت ہیں  اور تم ان سے کھلونوں کی طرح کھیلنا چاہتی ہو۔ نادان لڑکی۔ ہم اس کھیل کو برداشت نہیں کر سکیں گے۔

ناہید:(خاموش رہتی ہے۔)

بیگم:ہم جاننا چاہتے ہیں (خاموشی) بولو۔

ناہید:مجھے کچھ نہیں کہنا ہے۔

بیگم:یہ ناممکن ہے۔ تم خاموش رہ کر ہمارا مذاق اڑانا چاہتی ہو۔

ناہید:نہیں۔

بیگم:ہم نے بڑے ارمانوں سے تمہاری واپسی کا  انتظار کیا۔ اس گھر کے ایک ایک کونے کو سجایا۔ آج ہماری زندگی کا سب سے بڑا خواب پورا ہونے والا تھا۔ ہم اپنے سارے قول و قرار پورے کرنے والے تھے۔ شبو کو ہم تمہارا ہاتھ سونپ چکے ہیں آج اس سے تمہاری منگنی  اور  پھر شادی۔

ناہید:مجھے منظور نہیں۔ امی حضور!

بیگم:گستاخ، بدتمیز۔

ناہید:مجھے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا۔

بیگم:تمہیں کہنا ہو۔ بہت کچھ کہنا ہو گا۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ تمہارے فیصلے کس طرح کئے گئے ہیں۔ ہمیں یہ جاننے کا پورا پورا حق ہے۔

ناہید:ممی ویری ساری (Very Sorry)   ممی ڈیر۔ خاموشی میرا بھی حق ہے کم سے کم یہ حق تو مجھے ملنا ہی چاہئے۔

 

 

 

 

تیسرا سین

 

بھابھی:اے ہے باجی اماں کو خواہ مخواہ ضد ہو گئی ہے۔آخر کون سی عمر نکلی جا رہی ہے بچہ ہی توہے۔ اس وقت چپ کھینچ جائیں کچھ دنوں میں اپنے آپ ٹھیک ہو جائے گی وہ تو ہاتھ دھوکر لڑکی کے پیچھے پڑ گئی ہیں۔

بھائی جان:اماں حضور کی بات اس گھر میں کسی نے ٹالی ہے کبھی۔

بھابی:مگر اب زمانہ  اور ہے میرے سرتاج۔

بھائی جان:کہتی توتم ٹھیک ہو۔ میرا دماغ تو کچھ کام نہیں کرتا۔اچھا لاؤ ایک پیالی گرم گرم چائے تو ادھر بڑھاؤ۔

بھابی:میری تو جیسے بھوک پیاس اڑ گئی ہے۔

بھائی جان:فکر کرنے سے کیا ہو گا۔ چائے آج اچھی بنائی ہے تم نے۔

بھابی:تم باجی اماں کو نہیں سمجھاتے۔ ضد دلا کروہ لڑکی کو ہاتھ سے گنوا دیں گی۔

بھائی جان:نا بابا۔ میرے بس کی بات نہیں ہے۔ مجھے تو آج بھی ان سے ڈر لگتا ہے۔

بھابی:لڑکپن میں کون شادی سے انکار نہیں کرتا۔ تم نے جلدی ہامی بھر لی ہو گی تو میں نہیں جانتی۔ پہلے پہل سبھی دون کی لیتے ہیں۔ رفتہ رفتہ سب ٹھیک راستے پر آ جاتے ہیں۔

بھائی جان:میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ لڑکیوں کا زیادہ  پڑھنا لکھنا اچھا نہیں اب اس معاملے میں سوائے چچا جان کے  اور کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔

 

 

 

 

چوتھا سین

 

چچا:اس طرح چپکے سے الٹے پیر مت لوٹ جاؤ۔ تصویر بناتے وقت میری آنکھیں پیچھے بھی دیکھ سکتی ہیں۔ خاموش کیوں کھڑی ہو۔ بیٹھ جاؤ۔ مجھے سب کچھ معلوم ہو گیا ہے۔

ناہید:پھر تو کہنے کو کچھ نہیں رہ گیا ہے۔

چچا:خاموشی سے زیادہ کوئی آواز نہیں گونجتی۔ میری اس تصویر کو دیکھا تم نے۔ اس کا عنوان ہو گا ’’خاموشی‘‘ کیا خیال ہے؟

ناہید:(کچھ جواب نہیں دیتی۔)

چچا:چلو یہ خیال بھی خاموشی سے ادا ہو گیا۔

ناہید:چچا جان۔

چچا:بیٹا۔

ناہید:میں سمجھتی تھی آپ کے سوا اس گھرکو اور کوئی میری بات نہ سمجھ پائے گا۔ آپ نے شادی نہیں کی۔ اپنا الگ کنبہ، الگ خاندان نہیں بنایا۔

چچا:درست۔

ناہید:تا کہ آپ فرد کی طرح آزادی کے ساتھ زندہ رہ سکیں۔

چچا:ہیں۔

ناہید:ان دوستوں میں عورتیں بھی ہیں جو آپ کی محبوبائیں نہیں ، صرف دوست ہیں۔

چچا:درست۔

ناہید:زہرہ جان ہیں۔

چچا:تا کہ میری زندگی ویران نہ رہ جائے۔ بیٹا! زندگی کی بڑی سچائیوں کے لئے چھوٹی آسودگیوں کی قربانی ضروری ہے۔

چچا:کیا کہنا چاہتی ہو؟

ناہید:فرض کر لیجئے میں بھی ایک فرد کی طرح اپنی زندگی جینا چاہوں ، فرض کر لیجئے میرے پاس بھی آنے والی نسلوں کو دینے کے لئے بصیرت  اور  نشاط کا کوئی خزانہ ہو، فرض کر لیجئے۔۔۔

چچا:(غصے سے چیخ کر) یہ ناممکن ہے ، تم عورت ہو۔

ناہید:عورت ہوں کیا اسی لئے میں انسان نہیں ہوں۔ کیا اسی لئے میری زندگی مردوں کے لئے ہے کہ وہ مجھے گڑیا کی طرح سجائیں ، بنائیں۔ زیور کا نام دے کر میرے ہاتھ پاؤں میں کڑے  اور زنجیریں ، چوڑیاں  اور پائل پہنائیں ، اپنی ہوس کی خاطر میرے چہرے پر پاؤڈر، میرے ہونٹوں پر لپ اسٹک تھوپیں۔ میرے نیم عریاں جسم کی نمائش کر کے اپنی حیوانی خواہشات کو بھڑکائیں۔ میں صرف ان کی خواب گا ہوں کی زینت، ان کے بچوں کی ماں بن کر زندہ ہوں۔ کیا میری اپنی کوئی زندگی نہیں ہو سکتی۔

چچا:نہیں۔ میری بیٹی نہیں۔

ناہید:آخر کیوں نہیں؟کیا میں انسان کی طرح اپنی خاطر اپنی پسند کی زندگی گزارنے کا حق نہیں رکھتی۔

چچا:میں مرد تھا۔ سماج سے ٹکرانا میرے لئے ممکن تھا۔ تم عورت ہو کچل جاؤ گی۔

ناہید:جانتی ہوں۔

چچا:تم خاندان کی آبرو ہو۔

ناہید:مرد کے لئے جنس کے معنی لذت  اور عورت کے جنس کے معنی اولاد کیوں؟چچا جان!آپ ایک کلی کا رس لے کر دوسری کلی پر منڈلانے لگیں  اور عورت اس ایک لمحے کی قیمت اولاد کو پالنے پوسنے میں صرف کر کے ادا کرے۔ آج تو کم سے کم عورت کے لئے جنس کو محض لذت بننے دیجئے۔ صدیوں سے وہ صرف اولاد پیدا کرنے کی مشین ہے۔

چچا:اسی لئے ماں کا رتبہ سب سے بلند ہے۔

ناہید: اور اس بلندی کو ہم نے کس قیمت پر خریدا ہے۔ کیا عورت شیکسپیئر، تان سین  اور اقبال نہیں بن سکتی تھی  اور یہ سارے جوہر خاندان کی چکی نے پیس ڈالے کیونکہ مرد کو صرف جائیداد کا وارث درکار تھا۔

چچا:زندگی بہت سفاک ہے۔ بیٹی  اور ناکامی کی سزا موت ہے۔

شبو:قسم خدا کی چچا جان۔ وہ ڈائیلاگ بولے ہیں آپ نے کہ معلوم ہوا کہ اب انارکلی کو زندہ دیواروں میں چن دیا جائے گا۔بخدا آپ تو سچ مچ مغل اعظم ہیں مغل اعظم!

چچا:(ہنستا ہے) شبو میاں آؤ آؤ۔

شبو: اور ناہید  تو سچ مچ انارکلی کی طرح سیریس ہے۔ ارے بھئی اب ریہرسل ختم زندگی شروع۔ آیا خیال شریف میں۔

ناہید:تم کب آ گئے شبو؟

شبو:لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آپ نے یہ نہیں پوچھا کہ کب جا رہے ہو۔چچا جان! ذرا معاف کیجئے گا قصہ یہ ہے کہ میں  اور ناہید ذرا باہر جا رہے ہیں ذرا۔

چچا:جاؤ، باہر گھوم آؤ

ناہید:میں کہیں نہیں جا رہی ہوں۔

شبو:اس مسئلے پر غور کریں گے۔ ذرا اپنے کمرے کی طرف تو چلو۔

 

 

 

پانچواں سین

 

شبو:بھئی واللہ حد ہو گئی کیا شاندار ستار اڑا لائی ہو۔(ستار چھیڑتا ہے) یہ آخر سلسلہ کیا ہے۔ تمہارا کمرہ تو پرستان ہو گیا ہے۔ پرستان، آرایش ، محفل ایسی کہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی Costume Play   کا سیٹ ہے ستار کی موسیقی ایسی جیسے خواب میں دور کہیں پھوار پڑ رہی ہو اور تمہارا اداس حسن ایسا جیسے میر کا شعر۔

ناہید:تم سمجھتے ہو گے شبو مجھے تم سے نفرت ہے۔

شبو:بھئی ہم تو سچ مچ کے شہزادۂ گل فام ہیں ہم سے نفرت کیسے ہو سکتی ہے کسی کے ہیرو جو ٹھہرے ہیرو۔

ناہید:تھوڑی دیر کے لئے Serious   ہو جاؤ نا۔

شبو:غضب ہے۔ یہ اداکاری!واللہ غضب ہے۔

ناہید:Please

شبو:جلتی ہوئی شمع کے پاس جا کر کہو ’’ڈارلنگ‘‘ میرا کہنا مان لے۔ دوچار پل کے لئے جلنا چھوڑ دے Please   فرسٹ کلاس Idea   ہے نا۔میں نہ ہنسوں گا تو مر جاؤں گا ڈارلنگ۔ بالکل Dead   ایک دم Dead And Gone۔

ناہید:تمہاری آنکھوں میں آنسو۔

شبو:گلیسرین کے ہیں۔ بالکل نقلی خدا کی قسم مزا تو بڑا آیا شہزادہ گل فام پھول دار شیروانی ڈالے ، بے داغ چوڑی دار پاجامہ پہنے ، نکے دار ٹوپی لگائے کھڑے ہیں  اور زن سے آئی ہیروئن۔ ٹوپی غائب، شیروانی کے پھول بوٹے ندارد  اور چوڑی دار کی چوڑی خلاص، ہیرو اور ہیروئن دونوں ایک پل میں دو بچے بن گئے۔ See   کے تختے پر بیٹھے ہیں۔ کبھی ایک آسمان پر دوسرا زمین پر۔ کبھی ایک زمین پر تو دوسرا آسمان پر۔ بڑا مزاآ رہا ہے اپنی قسم۔

ناہید:بہت ظالم ہو تم۔ کبھی اپنے سے بھی سچ نہیں بولتے۔

شبو:آداب عرض ہے کیا تخلص عطا ہوا ہے۔ جناب شبو خاں  ظالمؔ۔

ناہید:(ہنس پڑتی ہے۔)

شبو:اب ہوئی نہ بات بھئی۔ یہ نوحے مرثیے والا معاملہ ہمیں پسند نہیں ، ہمارے لئے تو موت کو بھی مسکراتے ہوئے آنا پڑے  گا ورنہ ہم اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیں گے۔

ناہید:سنو شبو۔ مجھے تم سے محبت ہے بے پناہ۔

شبو:سچGreat News

ناہید:ہاں بے پناہ محبت ہے شبو۔ اس دنیا میں اگر میں نے کسی کو چاہا تو تمہیں شاید آئندہ پوری زندگی میں بھی تمہارے سوا  اور کسی کونہ چا ہوں گی۔

شبو:آخر میرا قصور۔ میری سرکار!

ناہید:لیکن میں نے تمہیں دوست  اور محبوب بنایا ہے۔ اپنا شوہر اپنا آقا نہ بنا سکوں گی۔

شبو:تو پھر آخر وہ بدنصیب کون ہو گا؟

ناہید:کوئی نہیں !

شبو:تو کھیل بغیر ہیرو کے جاری رہے گا۔ اب ہوئی نا بات۔

ناہید:جنس میرے لئے ایک لمحہ ہو گی پوری زندگی نہیں۔ یہ خاندان کے بندھن یہ اولاد پیدا کرنے کے کارخانے  اور یہ انسانی صلاحیتوں کی بربادی۔ مجھ سے نہیں دیکھی جاتی۔

شبو:میں دیکھ لوں گا۔ میری نظر بہت تیز ہے یار۔

ناہید:تم سمجھتے کیوں نہیں۔

شبو:پہلے آدمی ٹیلی فون کے تاروں پر  باتیں کیا کرتے تھے اب وائرلیس کا زمانہ ہے۔ اب تاروں کی ضرورت نہیں لفظوں  اور آوازوں کی بھی نہیں۔ ہم تم ایک دوسرے کو  اتنی اچھی طرح جانتے ہیں کہ سب لفظ بے کار ہو گئے۔ ایک بات کہوں۔

ناہید:کہو۔

شبو:ارمان تو یہ بھی تھا ناہید ڈیر کہ اپنا ایک چھوٹا سا ماڈل چھوڑ جاتے۔ دنیا بھی کیا یاد کرتی کہ جناب شبو خاں  ظالمؔ بھی اپنے زمانے میں تھے ایک چیز۔ مگر یہ بھی کچھ براIdea   نہیں ہے کہ رہتی دنیا تک ہماری کوئی مثال ہی پیدا نہ ہو۔ بے نظیر بے مثال۔ چلو یار اچھے رہے ہم تم۔

ناہید:(رندھی ہوئی آواز میں) شبو۔ تم بڑے ظالم ہو۔ اپنے اوپر بھی ظلم کرنے سے باز نہیں رہتے۔

شبو:آنسوؤں کی نہیں ٹھہری ہے دوست!لاؤ ملاؤ پلاؤ والا ہاتھ لو اب ہنس دو۔

 

 

 

 

چھٹا سین

 

بھائی جان:مجھے افسوس ہے ناہید مگر میں مجبور ہوں۔

ناہید: بھائی جان آپ۔۔۔؟!

بھائی جان:ہاں مجھے آنا ہی پڑا۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اماں حضور کی بات رہ جائے۔

ناہید:نہیں۔

بھائی جان:تم انھیں جانتی ہو۔ وہ حکم عدولی برداشت نہیں کر سکتیں۔ اس گھر میں ہمیشہ ان کا کہنا چلا ہے۔

ناہید:مجھے معلوم ہے۔

بھائی جان:میری اکلوتی بہن! تجھے کیا یہ بھی معلوم ہے کہ تیرا بھائی تجھے کتنا چاہتا ہے۔

ناہید: بھائی جان۔

بھائی جان:ہاں۔ ناہید میں تجھے اپنے پیار کا واسطہ دیتا ہوں۔اماں حضور کی بات مان لے۔

ناہید:مجھے قسمیں نہ دیجئے بھائی جان۔ میرے قدم پیچھے نہ ہٹ سکیں گے۔

بھائی جان:کیا ایسی کوئی صورت نہیں؟

ناہید:نہیں۔ کوئی صورت نہیں۔

بھائی جان:اماں حضور کا حکم ہے۔

ناہید:میں ہر ایک حکم کے لئے تیار ہوں۔

بھائی جان:حکم ہے کہ آج  اور ابھی یہاں سے چلی جاؤ اور پھر (آواز رندھ جاتی ہے) پھر کبھی واپس نہ آنا۔ سن لیا ہے تم نے۔

ناہید:سن لیا۔ حکم کی تعمیل ہو گی۔

 

 

 

 

ساتواں سین

 

(دروازے پر دستک)

 

ناہید:کون ہے۔۔۔  اندر آ جاؤ۔ اوہ ملک تم؟

ملک:Is anything the matter

ناہید:(رندھی ہوئی آواز میں۔ آنسو پی کر)نہیں۔ کچھ نہیں۔

ملک:ہمیں بولو۔ ہم سب ٹھیک کریں گا۔(چٹکی بجا کر) ایسا موافق ٹھیک کر دے گا۔

ناہید:کسی کو ٹھیک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سنو۔

ملک:Yes

ناہید:تمہاری موٹرسائیکل خالی ہے نا!

ملک:OK – Yes

ناہید:چلو کہیں چلیں۔ میرا دل آج گھبرا رہا ہے۔ چلو کہیں دور چلیں۔

ملک:کدھر؟

ناہید:جوہو، سینڈس۔

(موٹرسائیکل اسٹارٹ کرتا ہے  اور دونوں روانہ ہو جاتے ہیں۔)

(یہی آواز نہایت تیز اور شہوانی قسم کی موسیقی میں مل جاتی ہے جو کہیں دورجو، ہو، کے  ریتیلے میدان میں بج رہی ہے۔ موسیقی ذرا ہلکی ہونے پر دونوں کی گرم گرم  اور لمبی لمبی سانسوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ دونوں ہانپ رہے ہیں۔)

ناہید:ہوا کتنی ٹھنڈی ہے۔

ملک:اوہ تمہیں تو ٹھنڈ لگی ہے قریب آ جاؤ۔

ناہید:(دور سے موسیقی کی دھن) زندہ رہنے کے لئے ایک لمحہ!یہ اندھیرا، یہ ہوا، یہ بکھرتی موسیقی۔۔۔ یہ گرم جسم۔۔۔

ملک: اور قریب آ جاؤ۔

ناہید:

ملک:

ناہید:سنو کوئی گا رہا ہے۔

ملک:

ناہید:My God

ملک:تمہارا جسم ریت کی طرح ملائم ہے۔

ناہید: اور تم پتھر کی طرح سخت۔

ملک:I Love You

ناہید:I Hate You

ملک:How Lovely

ناہید:دیکھو اور قریب نہ آؤ۔۔۔ دیکھو۔۔۔ دیکھو۔۔۔ !!!

ملک:میں نے تمہیں جیت لیا!!

ناہید:جسم، جسم، جسم۔۔۔ !!تو نے ہماری روحوں کو، ہمارے خوابوں کو کیسا غلام بنا رکھا ہے۔

(موسیقی پھر ابھرتی ہے۔)

 

 

 

 

آٹھواں سین

 

(دروازے پر دستک)

 

شبو:مطلع عرض ہے تجھے ڈھونڈ ہی لیں گے کہیں نہ کہیں۔ کہئے کچھ قائل ہوئیں اپن بھی لاجواب ہیں۔ دنیا کے آخری طبق میں بھی چھپو گی تو یار خان کی نظروں سے نہ بچو گی ہے نا یہی بات!

ناہید:شبو، حد ہو گئی۔ یہ تمہیں اس مکان کا پتہ کیسے لگ گیا؟

شبو:وہ جو ایک جیبی گھڑی ہے ہمارے سینے میں بائیں طرف، بس وہ راستہ بتاتی گئی ہم چلتے گئے  اور دیکھا تم نے۔ ایک دم تمہارے دروازے پر ٹک ٹک!

ناہید:گھر پسند آیا؟

شبو:وہ گھر تم سے بڑا تھا اس گھر سے تم بڑی ہو۔ ہے خدا  کی قسم عجائب گھر  اور  سناؤ کیا ہو رہا ہے تازہ خبر۔

ناہید:اپنی دریافت۔

شبو:واہ۔ واہ کیا مصرعہ کہا ہے۔ کولمبس نے امریکہ دریافت کیا۔ مگر اپنے کو دریافت کرنا بھول گیا تھا۔

ناہید:سچ میں اپنے کو کھوج رہی ہوں۔ جانتے ہو شبو! لوگ سب سے زیادہ کس سے ڈرتے ہیں۔ اپنے آپ سے۔ تمام زندگی وہ اپنے آپ منہ چھپائے پھر تے ہیں ، بھاگتے ہیں ، مصروفیت میں اپنے کو دفن کر دیتے ہیں  اور آخر ایک دن اپنے سے بھاگتے بھاگتے  قبر میں جا گھستے ہیں۔ موت آسان ہے۔ اپنے سے آنکھیں چار کرنا مشکل ہے۔

شبو:یہ تو ہوا مگر یہ تو کہو موہنجودارو کی کھدائی میں ملا کیا؟

ناہید:ایک بات یقینی ہے۔ یہاں آؤ کھڑکی کے پاس چاروں طرف دیکھو۔ یہاں جھگی جھونپڑیوں میں پتھر  کوٹنے والی، مٹی ڈھونے والی عورتیں آباد ہیں۔ میں ان کو کچھ سکھ  اور  کچھ غصہ دے سکوں گی۔

شبو:غصہ مردوں کے خلاف۔

ناہید:نہیں !مردوں کے خلاف غصہ عورت کو طوائف بنا دیتا ہے۔ظلم کے خلاف غصہ عورت کو انسان بنا دیتا ہے۔

شبو:نوکری مل گئی ہے کیا؟

ناہید:ان لوگوں میں رہوں گی، ان لوگوں کے لئے ہو رہوں گی تو کیا میرے جینے کا بھی  سبھیتا نہ کر پائیں گی۔ ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ، ان گھروں کی خوشحالی  اور ان کی آنکھوں میں جینے کا غرور بیدار کرنے کے لئے بغاوت کے شعلے پیدا کر سکوں گی تو کیا زندگی بھی نہیں ملے گی۔

شبو:تم سٹ گئی ہو۔ لہٰذا ہو جاؤ گی لیڈر قوم۔ لوگ تمہاری جے بولیں گے  اور  ہم جلوس کے پیچھے پیچھے چلاتے ہوں گے (چلا کر) ہم کو بھی ساتھ لے لے ہم رہ گئے اکیلے۔

ناہید:میں آزاد ہوں شبو۔ میں گیت لکھوں گی، میں تصویریں بناؤں گی، میں ناچوں گی، گاؤں گی، میں آزاد ہوں۔ شاید کبھی اپنے کو پا سکوں۔ شاید

شبو:تب تو کمال ہی ہو جائے گا یعنی انسان سے بھی آگے جا پہنچے گا۔

ناہید:میں جانتی ہوں شبو۔ میں اس سماج کونہ بدل سکوں گی۔ ایک آدمی پوری دنیا سے کیسے ٹکرائے گا مگر  وہ کم سے کم سوالیہ نشان تو لگا سکتا ہے۔ آنے والے انسانوں کے سینے میں کھٹک تو پیدا کر سکتا ہے۔ شاید پورے نظام کے بدلنے کے لئے ان سب انسانوں کی مدد چاہئے جو میرے چاروں طرف آباد ہیں۔ تپتی ہوئی دوپہر میں جلتی سڑکوں پر کنکر کوٹتی ہوئی عورتیں۔ بھاری پتھر کاٹنے والے مفلس نادار انسان جن کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں ہے  اور جیتنے کے لئے پورا جہاں ہے۔

شبو:بخدا بڑی دھواں دھار تقریر فرمائی ہے۔ تم نے ایسی دھواں دھار کہ مجھے جماہیاں آنے لگیں۔ از قسم چائے وغیرہ یہاں نہیں ہوتی ہے کیا؟

ناہید:کیوں؟

شبو:کچھ پیاس ہی بجھ جاتی  اور اگر تمہارے پاس والے ڈبے میں کچھ بسکٹ وغیرہ ہوں تب تو عیش ہو جائیں عیش۔

ناہید:(ہنس دیتی ہے)تمہارے یہ جملے تو مجھے مرنے کے بعد بھی چین سے نہیں رہنے دیں گے۔

شبو:کیوں بھئی ویسے مرنے کا ٹائم ٹیبل کیا ہے؟ذرا مفصل بیان کرو۔

ناہید:مجھے زندگی کا وہ ارمان ہے کہ مرنے کی فرصت نہیں۔

شبو:دیکھا صفا صفا ٹال گئیں نا۔ ہو تم بہت وہ یعنی سخت خبیث۔

ناہید:نہیں شبو۔ بس ایک ارمان ہے کہ اپنے ارمان کی ایک چھوٹی سی چنگاری اردگرد کے بسنے والے ان مردوں، عورتوں کے سینے میں چھوڑ جاؤں جینے کی تڑپ  اور عزت سے جینے کی تڑپ۔ زمین پر سر اٹھا کر کھڑے ہونے کا حوصلہ۔ بس جس دن یہ کام ہو گیا میں موت کے لئے تیار ہو جاؤں گی۔

شبو:اچھا بھئی!خطبہ ختم۔ چائے کا  انٹرول۔

 

 

 

 

 

نواں سین

 

بھابی:چائے لگ گئی ہے۔

بھائی جان:پی لو نہ جا کر۔ دیکھ نہیں رہی ہوا بھی دانت بھی نہیں مانجھے ہیں منہ بھی نہیں دھویا ہے۔

بھابی:تو کیا منہ بھی میں ہی دھلایا کروں۔

بھائی جان:تم ٹھیک کہتی ہو۔ ہم سب کتنے چڑچڑے ہو گئے ہیں۔ ناہید تو پہلے بھی یہاں نہیں رہتی تھی مگر اس کا اس بار جانا سب کو تلملا کر رکھ گیا ہے۔

بھابی:وہ تو نادان لڑکی ہے مگر تجربہ کار بزرگوں کو کیا ہوا ہے۔ضد پر اڑے رہنے سے کبھی کچھ ہوا ہے جو آج ہو گا۔ تم بھائی ہو کر ایسا خون سفید کئے بیٹھے ہو۔ بہن نہ جانے کہاں کہاں ٹھوکریں کھا رہی ہو گی۔ ایسے میں کھانا پینا کسے اچھا لگتا ہے۔

بھائی:کاش میں کچھ کر سکتا۔

بھابی:کر کیوں نہیں سکتے۔ صاف صاف کہہ دو۔

بھائی:کیا کہہ دوں؟

بھابی:اماں حضور سے صاف صاف کہہ دوکہ اگر ناہید اس گھر میں نہیں رہے گی تو

بھائی:تو۔۔۔؟

بھابی:توہم بھی یہ گھر چھوڑ کر چلے جائیں گے۔

بھائی:مگر کہاں جائیں گے؟دفتر کا کام کروں گا کہ مکان ڈھونڈوں گا۔

بھابی:ایسا کیسے سوچتے ہو۔ اماں حضور کوئی نکال تھوڑا ہی دیں گی۔

بھائی:تم انھیں نہیں جانتیں۔

بھابی:ان کے سینے میں بھی ماں کا دل ہے۔

بھائی:ان کے سینے میں دل ہے؟ مجھے اس میں شک ہے۔

بھابی:تم کہہ کے تو دیکھو۔

بھائی:ضرور کہوں گا۔

بیگم:بیٹے !جو کچھ کہنا ہے بعد میں کہنا پہلے چائے پی لو۔

بھائی:اماں حضور!

بیگم:چلو(تحکم کے لہجے میں) تم دونوں کی وجہ سے چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔

بھائی:دراصل اماں حضور۔ مجھے آپ سے ایک بہت ضروری بات کہنی ہے۔

بیگم:تم بہت کاہل ہو گئے ہو، ہمیں سستی نا پسند ہے ، ایسا لگتا ہے کہ تم نے ابھی تک دانت بھی نہیں مانجھے ، منہ بھی نہیں دھویا ہے۔ دلہن، تم نے بہت نرمی برت رکھی ہے۔ غضب خدا کا ساڑھے دس بج رے ہیں  اور  ابھی تک چائے ناشتہ نہیں ہوا ہے۔

بھائی:(منہ دھونا شروع کرتا ہے  اور منہ دھونے میں بولتا جاتا ہے) اماں حضور دراصل مجھے آپ سے۔

بیگم:(بات کاٹ کر) منہ دھونے میں باتیں نہیں کیا کرتے۔ دلہن اسے تولیہ دو چلو۔۔۔  اور وہ کون سی ضروری بات تھی؟

بھائی:اوہ کوئی خاص بات نہیں تھی۔ میں کہہ رہا تھا۔۔۔

بھابی:کہئے نا۔ اب کہتے کیوں نہیں۔

بیگم:کیا کہنا چاہتے ہو؟

بھائی:میں کہہ رہا تھا کہ آج کل چچا جان کی صحت گر گئی ہے۔ وہ آج کل کچھ کھا پی نہیں رہے ہیں۔

بیگم:اوہ۔ ہاں ، تم ٹھیک کہتے ہو۔ ڈاکٹر  کو ٹیلی فون کرنا چاہئے۔ دلہن بیگم۔ مغلانی بی بی سے کہو گرم چائے کی دوسری کیتلی بھیجیں۔ تم کیک پراٹھے  اور  کباب شروع کرو۔

بھائی:بہت اچھا۔۔۔  کباب آج بہت مزے دار ہیں۔

(چچا کا داخلہ)

چچا:بزدل۔۔۔ سب بزدل ہیں۔

بھائی:چچا جان!

چچا:ہمیں ایسی نظروں سے نہ دیکھو۔ تین دن ہو گئے ہیں ہمارے اسٹوڈیو کی ساری تصویریں ، ساری مورتیاں ہمیں انھیں نظروں سے دیکھ رہی ہیں جیسے ہم انسان نہ ہوں پتھر ہوں۔ آخر ہماری بھی آبرو ہے ، آخر ہمارے بھی منہ میں زبان ہے۔

بیگم:کیا کہنا چاہتے ہو؟

بھائی:چچا جان ٹھیک کہتے ہیں۔

بیگم:تم خاموش رہو۔ ہم ان کی زبانی سب کچھ سننا چاہتے ہیں۔

چچا:وہ لڑکی غلط نہیں کہہ رہی تھی، ہم تم غلطی پر ہیں۔ تم کو یہ حق کیسے حاصل ہو گیا کہ تم ہر نئے خیال کو ٹھوکر  مار کر اپنے جہان سے نکال دو۔ سراسر ظلم ہے۔

بیگم:یہ تم کہہ رہے ہو؟

چچا:صرف میں یہ کہنے کا حق رکھتا ہوں۔ میں نے اپنی بچپن کی منگیتر کو ٹھکرا دیا۔ زندگی بھرمیں نے شادی نہیں کی، میری راتیں زہرہ جان کے گھنگھروؤں سے آباد ہیں میں نے گھر نہیں بسایا۔ میں چاہتا تھا کہ میں جو کچھ بننا چاہتا ہوں بن سکوں۔ میں نے سارے بوجھ اپنے شانوں سے جھٹک کر دور پھینک دیئے  اور تم نے مجھے اس گھر سے نکال باہر نہیں کیا۔ کیوں؟میں پوچھتا ہوں کیوں؟باجی تم سے پوچھتا ہوں ، مجھے بتاؤ مجھے کیوں برداشت کیا گیا۔

بیگم:تم نے نافرمانی نہیں کی تھی۔

چچا:یہ جھوٹ ہے۔ میں نے سب کی نافرمانی کی تھی مگر باجی!میں مرد تھا۔ اس لئے مجھے برداشت کر لیا گیا۔ میں نے اپنی تصویروں کے رنگوں کے ذریعے اپنے آپ کو پا لیا  اور  دنیا کو رنگ  اور نور سے بھر دیا۔ یہ بصیرت میری جاگیر نہیں ہے باجی۔ ہو سکتا ہے ناہید کے پاس دنیا والوں کے لئے اس سے بڑا خزانہ ہو اور اگر نہ بھی ہو تو کیا اسے یہ حق نہیں کہ وہ اپنی بھرپور زندگی گذار سکے جیسے وہ چاہے جیئے۔

بیگم:کیا تم چاہتے ہو کہ عورت کو طوائف بننے کی آزادی دے دی جائے؟

چچا:نہیں۔

بیگم:تو پھر۔

چچا:صرف اتنا کہ وہ اولاد پیدا کرنے کی مشین نہیں ہے وہ بھی مرد کی طرح آزاد ہے۔ اسے بھی مرد کی طرح جنس  اور اولاد سے لطف اٹھانے کا حق حاصل ہے وہ بھی اپنی شخصیت کے جوہر سے زندگی کو نئی رعنائی دینے کے لئے آزاد ہے۔

بیگم:تو گویا عورت کتنے بلیوں کی طرح زندگی بسر کریں۔ ہم اسے برداشت نہیں کر سکتے۔ ہمارے خاندان۔۔۔

چچا:خاندان!خاندان!!خاندان!!! خاندان کو پورا شیرازہ ٹوٹ چکا، بکھر چکا آج بیسویں صدی میں کہاں ہے خاندان؟بوڑھے ماں باپ نرسنگ ہوم میں دن کاٹتے ہیں۔ بچے گھربار سے دور نوکریاں کرتے ہیں۔ عورت دفتر کی زینت ہے۔ باپ شاہراہوں پر سرگرداں۔ آج کا خاندان اکائیوں میں بکھر چکا ہے اس کے نام پر ناہید کو پھانسی نہ دو۔

چچا:نہیں باجی۔ نہیں۔ ہم نے آپ کا ہر حکم مانا ہے۔ اس چہار دیواری میں ہمیشہ آپ کی حکومت چلی مگر آج ایسانہیں ہو گا ابھی  اور اسی وقت آپ کو میرے ساتھ چلنا ہو گا ہم ناہید کو واپس لائیں گے وہ اسی گھر میں رہے گی۔

بیگم:ہرگز نہیں۔

چچا:باجی ضد نہ کیجئے۔ ہم نے آپ کی ہر بات مانی ہے۔ ایک بات ایک بار آپ بھی مان لیجئے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ پھر کبھی آپ سے کچھ نہیں کہیں گے۔

بیگم:ضد نہ کرو۔

چچا:میں آخری بار ضد کروں گا۔ دلہن جاؤ شوفر سے کہو گاڑی نکالے۔ہم لوگ ناہید کو واپس لانے کے لئے جائیں گے۔

 

 

 

 

دسواں سین

 

(موٹرسائیکل کی آواز۔ دروازے پر دستک)

 

ناہید:اندر آ جاؤ۔۔۔ اوہ تم۔

ملک:ہاں میں ہوں۔ ملک!

ناہید:تمہارے دستانے پر خون؟

ملک:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے آ رہا ہوں۔

ناہید:تم پریشان ہو؟

ملک:نہیں۔ ہم خوش ہے تھوڑا  اور خوش ہونا چاہتا ہے۔

ناہید:کیا مطلب؟

ملک:ہم۔۔۔ ہم نے پہلی بار تم سے پیار کیا ہم تمہیں ہم تمہیں چاہتا ہے ڈارلنگ ہم تم سے شادی کرنا مانگتا ہے۔

ناہید:شادی۔

ملک:ہاں شادی۔ ڈارلنگ شادی۔

ناہید:بات سنو ملک!میں نے زندگی بھر شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

ملک:جھوٹ۔۔۔

ناہید:زندگی بہت بڑی ہے  اور شادی جنسی زندگی کی صرف ایک چھوٹی سی حقیقت ہی توہے۔

ملک:ہم نہیں سمجھا ہم تم سے شادی کرنا مانگتا ہے بولوYes Or No

ناہید:No – No – No

ملک:تم ہمیں بہت پسند ہے ، بہت زیادہ پسند ہے ڈارلنگ۔

ناہید: اور میں تم سے نفرت کرتی ہوں سخت نفرت کرتی ہوں۔

ملک:کیا کہا؟

ناہید:I Hate You

ملک:تم نے اس دن تو ایسا نہیں بولا ہے۔

ناہید:ہاں اس دن تم نے مجھے صرف ایک لمحہ دیا تھا۔ لذت کا ایک لمحہ  اور  آج تم وہ ایک لمحہ لے کر میری پوری زندگی کا مول کرنے آئے ہو۔

ملک:۔۔۔ ہم نہیں دیکھ سکے گا تم ہماری ڈارلنگ ہو۔

ناہید:میں ایک انسان بھی تو ہوں میری اپنی ذات ہے۔

ملک:ہم اپنی ڈارلنگ کوکسی دوسرے کے پاس نہیں دیکھ سکے گا۔ہم تمہیں اپنائے گا تم ہماری ڈارلنگ ہو صرف ہماری۔

ناہید:کیسی باتیں کرتے ہو؟

ملک:ٹھیک۔ بالکل ٹھیک موافق بولتا ہے۔ ہم نے تمہیں چاہا ہے۔

ناہید:سنو ملک!یہ ناممکن ہے۔

ملک:سنو ڈارلنگ۔

ناہید:تم سمجھتے کیوں نہیں۔ میں بکاؤ نہیں ہوں۔

ملک:مگر ہم تمہارے بغیر نہیں جئے گا۔

ناہید:مجھے سمجھنے کی کوشش کرو۔ ساتھ ساتھ رہنے کے لئے صرف جسم ہی تو نہیں چاہئے ہم دونوں کے درمیان۔۔۔ کیا ہے۔

ملک:Love

ناہید:میں نے کب کہا مجھے تم سے محبت ہے I Hate You۔ کیا تم صرف جسم کو محبت کہتے ہو؟

ملک:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناہید:میں نے کوئی دھوکہ نہیں دیا۔

ملک:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناہید:میں نے تم سے شادی کا وعد ہ کب کیا تھا؟

ملک:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناہید:یہ جھوٹ ہے !یہ سب جھوٹ ہے !!

ملک:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناہید:بالکل جھوٹ ہے۔ میں نے کب کہا تھا مجھے چا ہو؟میں تو صرف اپنی زندگی چاہتی تھی۔

ملک:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ریوالور چلنے کی آواز، دوسری چیخ  اور اس کے بعد موٹرسائیکل کے اسٹارٹ ہونے کی آواز، جو دیر تک گونجتی رہتی ہے  اور اس کے بعد موٹر کار کی آوازوں میں مل جاتی ہے۔)

چچا:آؤ مجھے سب راستے معلوم ہیں۔ یہ ہے ناہید بیٹا کا مکان۔ دستک دو۔ کہیں سو نہ رہی ہو۔

(دستک دیتا ہے۔)

بھائی:کوئی جواب نہیں دیتا۔

بھابی:تعجب ہے۔

بھائی:دیکھئے چچا جان!آپ اسے نہ  ڈانٹئے گا۔ اس نے بہت دکھ جھیلے ہوں گے۔

چچا:دوبارہ دستک دو۔

 

 

 

گیارہواں سین

 

بھابی:کوئی آواز نہیں۔ یوں ہی چلتے ہیں۔دیکھا ہم نہ کہتے تھے سو رہی ہے بالکل غافل پڑی سو رہی ہے۔ بیٹی ناہید! بیٹی اٹھو ہم تم سے معافی مانگنے آئے ہیں۔ تم ٹھیک کہتی تھیں ہم غلطی  پر تھے۔ بیٹی ہمیں معاف کر دو۔

(چیخ پڑتی ہے۔)

چچا:خون چاروں طرف خون کیسا ہے؟

بھابی:ناہید! یہ تم نے کیا کیا؟

چچا:ناممکن ہے۔ بالکل ناممکن۔ زندگی کے ارمان سے بھرپور جوانی خودکشی نہیں کر سکتی اسے قتل کیا گیا ہے۔ آخر تمہاری بے درد دنیا ایک چھوٹے سے خیال کی تاب بھی نہ لا سکی۔

(موسیقی کی لہریں دیر تک  امڈتی رہتی ہیں۔)

(فلیش بیک:قبرستان)

ناہید:(ہنستی ہے) سنا تم نے۔

شبو:ہاں۔

ناہید:میں کب سے تمہیں یہ سب کچھ سنانے کو تڑپ رہی تھی۔ وہ ہڈیاں جن سے گولی گزری تھی مٹی میں مل گئیں۔ کیڑوں نے انھیں چاٹ ڈالا۔

شبو:ناہید! میں نے تمہیں پہچان لیا۔ زندگی میں کوئی تمہیں نہ پہچان سکا۔ مرنے کے اتنے دن بعد تمہیں پہچانا ہے کہ پھر سے جینے کی خواہش ہوتی ہے۔

ناہید:تم اپنے قہقہوں  اور چلتے ہوئے فقروں  اور ہنسی سے بھرپور جملوں میں اپنے دکھ چھپاتے رہے وہ تمہیں کب جان سکے۔ میں چلا چلا کر انھیں اپنے دل کی بات سمجھاتی رہی، وہ ہنستے رہے پھر بھی نہ سمجھ پائے  اور  ملک نے اپنی عزت  اور ناموس کی خاطر مجھے  مار ڈالا۔ وہ اپنی دنیا کا کتنا سچا، کتنا پکا غلام تھا میں اس روز سے آج تک تمہارا انتظار کر رہی تھی۔ میں تم سے پوچھنا چاہتی تھی۔

شبو:کیا؟

ناہید:یہی کہ وہ چنگاریاں ابھی زندہ ہیں یا نہیں جنھیں میں ان جھونپڑوں میں چھوڑ آئی تھیں۔ کیا اب بھی کوئی باغی جوان مرد  اور عورتیں سربلند ہو کر چلتے ہیں؟کیا جوانوں میں اب بھی خوابوں کے لئے جل جانے کا حوصلہ ہے یا نہیں۔

شبو:میں کیا جواب دوں گا ناہید!البتہ جب میرا جسم بھی تمہاری طرح کیڑے کھا جائیں گے ، میری ہڈیاں بھی تمہاری طرح سارے بندھنوں سے آزاد ہو جائیں گی تب ہم تم بارش کے پانی میں بہتے ہوئے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے چلیں گے۔

***

ماخذ:’’مورپنکھی اور دوسرے ڈرامے ‘‘۔ مکتبۂ دین و ادب، ۱۰۔لاٹوش روڈ، لکھنؤ

٭٭٭

مشمولہ ’اردو ڈرامے‘ اور ’اردو پلے‘ مرتبہ پروفیسر سید معز الدین احمد فاروق

تشکر:  ڈاکٹر شرف الدین ساحل جن کے توسط سے وہ ان پیج فائل فراہم ہوئی جس سے یہ کتاب ترتیب دی گئی۔

ان پیج سے تبدیلی اور تدوین: اعجاز  عبید