فہرست مضامین
- موسم آتے جاتے ہیں
- یہ بات تو غلط ہے
- موت کی نہر
- بوڑھا ملبہ
- بیساکھیاں
- ایک لٹی ہوئی بستی کی کہانی
- کتاب گھر کی موت
- کھیل
- ایک تصویر
- دو سوچیں
- وقت سے پہلے
- اتنی پی جاؤ
- بے خبری
- قومی ایکتا
- ایک ہی غم
- ایک بات
- بھور
- سردی
- مور ناچ
- پیدائش
- نظم
- سلیقہ
- سحر
- دوپہر
- میوزیم
- نقابیں
- سنسار
- جنگ
- کتنے دن بعد
- رخصت ہوتے وقت
- جب بھی گھر سے باہر جاؤ
- آتم کتھا
- چوتھا آدمی
- محبت
- خدا خاموش ہے
- لفظوں کا پل
- درد پرانا ہے
- جب وہ آتے ہیں
- تجھ بن مجھ کو
- کوئی نہیں ہے آنے والا
- بہت میلا ہے یہ سورج
- رستے میں نوکیلی گھام
- جیون شور بھرا سناٹا
- کھویا ہوا سا کچھ
- حمد1
- روشنی کے فرشتے
موسم آتے جاتے ہیں
ندا فاضلی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
یہ بات تو غلط ہے
کوئی کسی سے خوش ہو اور وہ بھی بارہا ہو
یہ بات تو غلط ہے
رشتہ لباس بن کر میلا نہیں ہوا ہو
یہ بات تو غلط ہے
وہ چاند رہگزر کا، ساتھی جو تھا سفر کا
تھا معجزہ نظر کا
ہر بار کی نظر سے روشن وہ معجزہ ہو
یہ بات تو غلط ہے
ہے بات ا س کی اچھی، لگتی ہے دل کو سچی
پھر بھی ہے تھوڑی کچی
جو ا س کا حادثہ ہے میرا بھی تجربہ ہو
یہ بات تو غلط ہے
دریا ہے بہتا پانی، ہر موج ہے روانی
رکتی نہیں کہانی
جتنا لکھا گیا ہے اتنا ہی واقعہ ہو
یہ بات تو غلط ہے
وہ یگ ہے کاروباری، ہر شے ہے اشتہاری
راجا ہو یا بھکاری
شہرت ہے جس کی جتنی، اتنا ہی مرتبہ ہو
یہ بات تو غلط ہے
٭٭٭
جب بھی دل نے دل کو صدا دی
سناٹوں میں آگ لگا دی
مٹی تیری، پانی تیرا
جیسی چاہی شکل بنا دی
چھوٹا لگتا تھا افسانہ
میں نے تیری بات بڑھا دی
سوچنے بیٹھے جب بھی ا س کو
اپنی ہی تصویر بنا دی
ڈھونڈ کے تجھ میں، تجھ کو ہم نے
دنیا تیری شان بڑھا دی
٭٭٭
جو ہو اک بار، وہ ہر بار ہو، ایسا نہیں ہوتا
ہمیشہ ایک ہی سے پیار ہو، ایسا نہیں ہوتا
ہراک کشتی کا اپنا تجربہ ہوتا ہے دریا میں
سفر میں روز ہی منجھدار ہو ایسا نہیں ہوتا
کہانی میں تو کرداروں کو جو چاہے بنا دیجے
حقیقت بھی کہانی کار ہو ایسا نہیں ہوتا
سکھا دیتی ہے چلنا ٹھوکریں بھی راہگیروں کو
کوئی راستہ سدا دشوار ہو ایسا نہیں ہوتا
کہیں تو کوئی ہو گا جس کو اپنی بھی ضرورت ہو
ہرایک بازی میں دل کی ہار ہو ایسا نہیں ہوتا
٭٭٭
موت کی نہر
پیار، نفرت، دیا، وفا، احسان
قوم، بھاشا، وطن، دھرم، ایمان
عمر گویا۔۔۔
چٹان ہے کوئی
جس پہ انسان کوہکن کی طرح
موت کی نہر کھودنے کے لئے،
سیکڑوں تیشے
آزماتا ہے
ہاتھ پاؤں چلائے جاتا ہے
٭٭٭
دیکھا گیا ہوں میں کبھی سوچا گیا ہوں میں
اپنی نظر میں آپ تماشا رہا ہوں میں
مجھ سے مجھے نکال کے پتھر بنا دیا
جب میں نہیں رہا ہوں تو پوجا گیا ہوں میں
میں موسموں کے جال میں جکڑا ہوا درخت
اگنے کے ساتھ ساتھ بکھرتا رہا ہوں میں
اوپر کے چہرے مہرے سے دھوکا نہ کھائیے
میری تلاش کیجئے، گم ہو گیا ہوں میں
٭٭٭
بوڑھا ملبہ
ہر ماں
اپنی کوکھ سے
اپنے شوہر کو جنما کرتی ہے
میں بھی اب
اپنے کندھوں سے
بوڑھے ملبے کو ڈھو ڈھو کر
تھک جاؤں گا
اپنی محبوبہ کے
کنوارے گربھ میں
چھپ کر سو جاؤں گا۔
٭٭٭
بیساکھیاں
(ایک ویت نامی جوڑے کی تصویر دیکھ کر)
آؤ ہم تم
اس سلگتی خامشی میں
راستے کی
سہمی سہمی تیرگی میں
اپنے بازو، اپنے سینے، اپنی آنکھیں
پھڑپھڑاتے ہونٹ
چلتی پھرتی ٹانگیں
چاند کے اندھے گڑھے میں چھوڑ جائیں
کل
انھیں بیساکھیوں پر بوجھ سادھے
سیکڑوں جنموں سے چکنا چور سورج
لڑکھڑاتا،
ٹوٹتا
مجبور سورج
رات کی گھاٹی سے باہر آ سکےگا
اجلی کرنوں سے نئی دنیا رچے گا
آؤ
ہم !
تم !
٭٭٭
ایک لٹی ہوئی بستی کی کہانی
بجی گھنٹیاں
اونچے مینار گونجے
سنہری صداؤں نے
اجلی ہواوٴں کی پیشانیوں پر
رحمت کے
برکت کے
پیغام لکھے—
وضو کرتی تمہیں
کھلی کہنیوں تک
منور ہوئیں—
جھلملائے اندھیرے
–بھجن گاتے آنچل نے
پوجا کی تھالی سے
بانٹے سویرے
کھلے دوار !
بچوں نے بستہ اٹھایا
بزرگوں نے—
پیڑوں کو پانی پلایا
–نئے حادثوں کی خبر لے کے
بستی کی گلیوں میں
اخبار آیا
خدا کی حفاظت کی خاطر
پولیس نے
پجاری کے مندر میں
ملا کی مسجد میں
پہرہ لگایا۔
خود ان مکانوں میں لیکن کہاں تھا
سلگتے محلوں کے دیوار و در میں
وہی جل رہا تھا جہاں تک دھواں تھا
٭٭٭
من بیراگی، تن انوراگی، قدم قدم دشواری ہے
جیون جینا سہل نہ جانو بہت بڑی فنکاری ہے
اوروں جیسے ہوکر بھی ہم با عزت ہیں بستی میں
کچھ لوگوں کا سیدھا پن ہے، کچھ اپنی عیاری ہے
جب جب موسم جھوما ہم نے کپڑے پھاڑے شور کیا
ہر موسم شائستہ رہنا کوری دنیاداری ہے
عیب نہیں ہے اس میں کوئی، لال پری نہ پھول گلی
یہ مت پوچھو، وہ اچھا ہے یا اچھی ناداری ہے
جو چہرہ دیکھا وہ توڑا، نگرنگر ویران کئے
پہلے اوروں سے ناخوش تھے اب خود سے بیزاری ہے
٭٭٭
کتاب گھر کی موت
یہ رستہ ہے وہی
تم کہہ رہے ہو
یہاں تو پہلے جیسا کچھ نہیں ہے!
درختوں پر نہ وہ چالاک بندر
پریشاں کرتے رہتے تھے
جو دن بھر
نہ طاقوں میں چھپے صوفی کبوتر
جو پڑھتے رہتے تھے
تسبیح دن بھر
نہ کڑوا نیم املی کے برابر
جو گھر گھر گھومتا تھا
وید بن کر
کئی دن بعد
تم آئے ہو شاید؟
یہ سورج چاند والا بوڑھا امبر
بدل دیتا ہے
چہرے ہوں یا منظر
یہ عالیشان ہوٹل ہے
جہاں پر
یہاں پہلے کتابوں کی
دوکاں تھی۔۔۔۔۔
٭٭٭
کھیل
آؤ
کہیں سے تھوڑی سی مٹی بھر لائیں
مٹی کو بادل میں گونتھیں
چاک چلائیں
نئے نئے آکار بنائیں
کسی کے سر پہ چٹیا رکھ دیں
ماتھے اوپر تلک سجائیں
کسی کے چھوٹے سے چہرے پر
موٹی سی داڑھی پھیلائیں
کچھ دن ان سے جی بہلائیں
اور یہ جب میلے ہو جائیں
داڑھی چوٹی تلک سبھی کو
توڑ پھوڑ کے گڈمڈ کر دیں
ملی ہوئی یہ مٹی پھر سے
الگ الگ سانچوں میں بھر دیں
چاک چلائیں
نئے نئے آکار بنائیں
داڑھی میں چوٹی لہرائے
چوٹی میں داڑھی چھپ جائے
قسمیں کتنا کون چھپا ہے
کون بتائے
٭٭٭
ایک تصویر
صبح کی دھوپ
کھلی شام کا روپ
فاختاؤں کی طرح سوچ میں ڈوبے تالاب
اجنبی شہر کے آکاش
دھندلکوں کی کتاب
پاٹھ شالا میں
چہکتے ہوئے معصوم گلاب
گھر کے آنگن کی مہک
بہتے پانی کی کھنک
سات رنگوں کی دھنک
تم کو دیکھا تو نہیں ہے لیکن
میری تنہائی میں
یہ رنگ برنگے منظر
جو بھی تصویر بناتے ہیں
وہ
تم جیسی ہے
٭٭٭
جتنی بری کہی جاتی ہے اتنی بری نہیں ہے دنیا
بچوں کے سکول میں شاید تم سے ملی نہیں ہے دنیا
چار گھروں کے ایک محلےکے باہر بھی ہے آبادی
جیسی تمہیں دکھائی دی ہےسب کی وہی نہیں ہے دنیا
گھر میں ہی مت اسے سجاؤ،ادھر ادھر بھی لے کے جاؤ
یوں لگتا ہے جیسے تم سےاب تک کھلی نہیں ہے دنیا
بھاگ رہی ہے گیند کے پیچھےجاگ رہی ہے چاند کے نیچے
شور بھرے کالے نعروں سے اب تک ڈری نہیں ہے دنیا
٭٭٭
دو سوچیں
صبح جب اخبار نے مجھ سے کہا
زندگی جینا
بہت دشوار ہے
سرحدیں پھر شور و غل کرنے لگیں
جنگ لڑنے کے لئے
تیار ہے
درمیاں جو تھا خدا اب وہ کہاں
آدمی سے آدمی
بیزار ہے
پاس آ کر ایک بچے نے کہا
آپ کے ہاتھوں میں جو
اخبار ہے
اس میں میلے کا بھی
اک بازار ہے
ہاتھی، گھوڑا، بھالو
سب ہو ں گے وہاں
ہاف ڈے ہے آج
کل اتوار ہے
٭٭٭
وقت سے پہلے
یوں تو
ہر رشتے کا انزام یہی ہوتا ہے
پھول کھلتا ہے
مہکتا ہے
بکھر جاتا ہے
تم سے
ویسے تو نہیں کوئی شکایت
لیکن
شاخ ہو سبز تو
حساس فضاہوتی ہے
ہر کلی زخم کی صورت ہی
جداہوتی ہے
تم نے
بیکار ہی موسم کو ستایا
ورنہ
پھول جب کھل کے مہک جاتا ہے
خود بخود
شاخ سے گر جاتا ہے
٭٭٭
اتنی پی جاؤ
اتنی پی جاؤ
کہ کمرے کی سیہ خاموشی
اس سے پہلے کہ کوئی بات کرے
تیز نوکیلے سوالات کرے
اتنی پی جاؤ
کہ دیواروں کے بیرنگ نشان
اس سے پہلے کہ
کوئی روپ بھریں
ماں بہن بھائی کی تصویر کریں
ملک تقسیم کریں
اس سے پہلے کہ اٹھیں دیواریں
خون سے مانگ بھریں تلواریں
یوں گرو ٹوٹ کے بستر پہ اندھیرا کھو جائے
جب کھلے آنکھ سویرا ہو جائے
اتنی پی جاؤ!
٭٭٭
بے خبری
پڑوسی کے بچے کو کیوں ڈانٹتی ہو
شرارت تو بچوں کا شیوہ رہا ہے
بچاری صراحی کا کیا دوش اس میں
کبھی تازہ پانی بھی ٹھنڈا ہوا ہے
سہیلی سے بیکار ناراض ہو تم
دوپٹے پہ دھبا تو کل کا پڑا ہے
رسالے کو جھنجھلا کے کیوں پھینکتی ہو
بنا دھیان کے بھی کوئی پڑھ سکا ہے
کسی جانے والے کو آخر خبر کیا
جہاں لڑکیاں ہونٹ کم کھولتی ہیں
پرندوں کی پرواز میں ڈولتی ہیں
مہک بن کے ہر پھول میں بولتی ہیں
٭٭٭
قومی ایکتا
یہ طوائف
کئی مردوں کو پہچانتی ہے
شاید اسی لئے
دنیا کو زیادہ جانتی ہے
ا س کے کمرے میں
ہر مذہب کے بھگوان کی
ایک ایک تصویر لٹکی ہے
یہ تصویریں
لیڈروں کی تقریروں کی طرح نمائشی نہیں
ا س کا دروازہ
رات گئے تک
ہندو
مسلم
سکھ
عیسائی
ہر ذات کے آدمی کے لئے کھلا رہتا ہے۔
خدا جانے
ا س کے کمرے کی سی کشادگی
مسجد
اور
مندر کے آنگنوں میں کب پیدا ہو گی!
٭٭٭
ایک ہی غم
اگر قبرستان میں
الگ الگ
کتبے نہ ہوں
تو ہر قبر میں
ایک ہی غم سویا ہوا ہوتا ہے
کسی ماں کا بیٹا
کسی بھائی کی بہن
کسی عاشق کی محبوبہ
تم
کسی قبر پر بھی
فاتحہ پڑھ کے چلے آؤ
٭٭٭
ایک بات
اس نے
اپنا پیر کھجایا
انگوٹھی کے نگ کو دیکھا
اٹھ کر
خالی جگ کو دیکھا
چٹکی سے ایک تنکا توڑا
چرپائی کا بان مروڑا
بھرےپرے گھر کے آنگن
کبھی کبھی وہ بات!
جو لب تک
آتے آتے کھو جاتی ہے
کتنی سندر ہو جاتی ہے!
٭٭٭
بھور
گونج رہی ہیں
چنچل چکیاں
ناچ رہے ہیں سوپ
آنگن آنگن
چھم چھم چھم چھم
گھونگھٹ کاڑھے روپ
ہولے ہولے
بچھیا کا منھ چاٹ رہی ہے گائے
دھیمے دھیمے
جاگ رہی ہے
آڑی ترچھی دھوپ!
٭٭٭
سردی
کہرے کی جھینی چادر میں
یوون روپ چھپائے
چوپالوں پر
مسکانوں کی آگ اڑاتی جائے
گاجر توڑے
مولی نوچے
پکے ٹماٹر کھائے
گودی میں اک بھیڑ کا بچہ
آنچل میں کچھ سیب
دھوپ سکھی کی انگلی پکڑے
ادھر ادھر منڈرائے
٭٭٭
مور ناچ
دیکھتے دیکھتے
ا س کے چاروں طرف
سات رنگوں کا ریشم بکھرنے لگا
دھیمے دھیمے کئی کھڑکیاں سی کھلیں
پھڑپھڑاتی ہوئی فاختائیں اڑیں
بدلیاں چھا گئیں
بجلیوں کی لکیریں چمکنے لگیں
ساری بنجر زمینیں ہری ہو گئیں
ناچتے ناچتے
مور کی آنکھ سے
پہلا آنسو گرا
خوبصورت سجیلے پروں کی دھنک
ٹوٹ کر ٹکڑا ٹکڑا بکھرنے لگی
پھر فضاؤں سے جنگل برسنے لگا
دیکھتے دیکھتے
٭٭٭
پیدائش
بند کمرہ
چھٹپٹاتا گھپ اندھیرا
اور
دیواروں سے ٹکراتا ہوا
میں۔۔۔!
منتظر ہوں مدتوں سے
اپنی پیدائش کے دن کا
اپنی ماں کے پیٹ سے
نکلا ہوں جب سے
میں
خود اپنے پیٹ کے اندر پڑا ہوں!
٭٭٭
نظم
میں نہیں سمجھ پایا آج تک اس الجھن کو
خون میں حرارت تھی، یا تری محبت تھی
قیس ہو کہ لیلیٰ ہو، ہیر ہو کہ رانجھا ہو
بات صرف اتنی ہے، آدمی کو فرصت تھی
٭٭٭
سلیقہ
دیوتا ہے کوئی ہم میں
نہ فرشتہ کوئی
چھو کے مت دیکھنا
ہر رنگ اتر جاتا ہے
ملنے جلنے کا سلیقہ ہے ضروری ورنہ
آدمی چند ملاقاتوں میں مر جاتا ہے
٭٭٭
سحر
سنہری دھوپ کی کلیاں کھلاتی
گھنی شاخوں میں چڑیوں کو جگاتی
ہواوٴں کے دوپٹے کو اڑاتی
ذرا سا چاند ماتھے پر اگا کے
رسیلے نین کاغذ سے سجاکے
چمیلی کی کلی بالوں میں ٹانکے
سڑک پر ننھے ننھے پاؤں دھرتی
مزا لے لے کے بسکٹ کو کترتی
سحر مکتب میں پڑھنے جا رہی ہے
دھندلکوں سے جھگڑنے جا رہی ہے
٭٭٭
دوپہر
جسم لاغر، تھکا تھکا چہرہ
ہر تبسم پہ درد کا پہرہ
ہپس پر پوری بینت کی جالی
جیب میں گول میز کی تالی
ہاتھ پر روشنائی کی لالی
اڑتی چیلوں کا جھنڈ تکتی ہوئی
تپتے سورج سے سر کو ڈھکتی ہوئی
کچھ نہ کچھ منھ ہی منھ میں بکتی ہوئی
خشک آنکھوں پہ پانی چھپکا کر
پیلے ہاتھی کا ٹھونٹھ سلگا کر
دوپہر چائے پینے بیٹھی ہے
چاک دامن کے سینے بیٹھی ہے
٭٭٭
میوزیم
سلاخیں ہی سلاخیں
انگنت چھوٹے بڑے خانے
ہر اک خانہ نیا چہرہ
ہر اک چہرہ نئی بولی
کبوتر
لومڑی
تتلی
ہرن، پتھر، کرن، ناگن
کبھی کچھ رنگ سا جھمکے
کبھی شعلے سا بل کھائے
کبھی جنگل، کبھی بستی، کبھی دریا سا لہرائے
سمٹتے، پھیلتے، پھنکارتے، اڑتے ہوئے سائے
نہ جانے کون ہے وہ
چلتا پھرتا میوزیم جیسا
شباہت سے تو کوئی آدمی معلوم ہوتا ہے
٭٭٭
نقابیں
نیلی، پیلی، ہری، گلابی
میں نے سب رنگین نقابیں
اپنی جیبوں میں بھر لی ہیں
اب میرا چہرہ ننگا ہے
بالکل ننگا
اب!
میرے ساتھی ہی
پگ پگ
مجھ پر
پتھر پھینک رہے ہیں
شاید وہ
میرے چہرے میں اپنے چہرے دیکھ رہے ہیں
٭٭٭
سنسار
پھیلتی دھرتی
کھلا آکاش تھا
میں۔۔۔
چاند، سورج، کہکشاں، کہسار ، بادل
لہلہاتی وادیاں، سنسان جنگل
میں ہی میں
پھیلا ہوا تھا ہر دشا میں
جیسے جیسے
آگے بڑھتا جا رہا ہوں
ٹوٹتا، مڑتا، سکڑتا جا رہا ہوں
کل
زمیں سے آسماں تک
میں ہی میں تھا
آج
اک چھوٹا سا کمرہ بن گیا ہوں
٭٭٭
جنگ
سرحدوں پر فتح کا اعلان ہو جانے کے بعد
جنگ!
بے گھر بے سہارا
سرد خاموشی کی آندھی میں بکھر کے
ذرہ ذرہ پھیلتی ہے
تیل
گھی
آٹا
کھنکتی چوڑیوں کا روپ بھر کے
بستی بستی ڈولتی ہے
دن دہاڑے
ہر گلی کوچے میں گھس کر
بند دروازوں کی سانکل کھولتی ہے
مدتوں تک
جنگ!
گھر گھر بولتی ہے
سرحدوں پر فتح کا اعلان ہو جانے کے بعد
٭٭٭
کتنے دن بعد
کتنے دن بعد ملے ہو
چلو اس شہر سے دور
کسی جنگل کے کنارے
کسی جھرنے کے قریب
ٹوٹتے پانی کو پی کر دیکھیں
بھاگتے دوڑتے لمحوں سے چرا کر کچھ وقت
صرف اپنے لئے جی کر دیکھیں
کوئی دیکھے نہ ہمیں
کوئی نہ سننے پائے
تم جو بھی چاہے کہو
میں بھی بلا خوف و خطر
ان سبھی لوگوں کی تنقید کروں
جن سے مل کر مجھے ہر روز خوشی ہوتی ہے
٭٭٭
رخصت ہوتے وقت
رخصت ہوتے وقت
اس نے کچھ نہیں کہا
لیکن ایئرپورٹ پر
اٹیچی کھولتے ہوئے
میں نے دیکھا
میرے کپڑوں کے نیچے
اس نے
اپنے دونوں بچوں کی تصویر چھپا دی ہے
تعجب ہے
چھوٹی بہن ہوکر بھی
اس نے مجھے ماں کی طرح دعا دی ہے
٭٭٭
جب بھی گھر سے باہر جاؤ
جب بھی گھر سے باہر جاؤ
تو کوشش کرو۔۔۔ لوٹ آؤ
جو کئی دن گھر سے غائب رہ کر
واپس آتا ہے
وہ زندگی بھر پچھتاتا ہے
گھر۔۔۔ اپنی جگہ چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔
٭٭٭
آتم کتھا
کسی کو ٹوٹ کے چاہا، کسی سے کھنچ کے رہے
دکھوں کی راحتیں جھیلیں، خوشی کے درد سہے
کبھی بگولا سے بھٹکے
کبھی ندی سے بہے
کہیں اندھیرا، کہیں روشنی، کہیں سایہ
طرح طرح کے فریبوں کا جال پھیلایا
پہاڑ سخت تھا، برسوں میں ریت ہو پایا
٭٭٭
چوتھا آدمی
بیٹھے بیٹھے یوں ہی قلم لے کر
میں نے کاغذ کے ایک کونے پر
اپنی ماں
اپنے باپ۔۔۔ کے دو نام
ایک گھیرا بنا کے کاٹ دیئے
اور
اس گول دائرے کے قریب
اپنا چھوٹا سا نام ٹانک دیا
میرے اٹھتے ہی میرے بچے نے
پورے کاغذ کو لے کے پھاڑ دیا
٭٭٭
محبت
پہلے وہ رنگ تھی
پھر روپ بنی
روپ سے جسم میں تبدیل ہوئی
اور پھر جسم سے بستر بن کر
گھر کے کونے میں لگی رہتی ہے
جس کو۔۔۔
کمرے میں گھٹا سناٹا
وقت بے وقت اٹھا لیتا ہے
کھول لیتا ہے، بچھا لیتا ہے
٭٭٭
گھاس پر کھیلتا ہے اک بچہ
پاس ماں بیٹھی مسکراتی ہے
مجھ کو حیرت ہے جانے کیوں دنیا
کعبہ و سومناتھ جاتی ہے
٭٭٭
خدا خاموش ہے
بہت سے کام ہیں
لپٹی ہوئی دھرتی کو پھیلا دیں
درختوں کو اگائیں، ڈالیوں پر پھول مہکا دیں
پہاڑوں کو قرینے سے لگائیں
چاند لٹکائیں
خلاؤں کے سروں پہ نیل گوں آکاش پھیلائیں
ستاروں کو کریں روشن
ہواوٴں کو گتی دے دیں
پھدکتے پتھروں کو پنکھ دیکر نغمگی دے دیں
لبوں کو مسکراہٹ
انکھڑیوں کو روشنی دے دیں
سڑک پہ ڈولتی پرچھائیوں کو زندگی دے دیں
خدا خاموش ہے،
تم آؤ تو تخلیق ہو دنیا
میں اتنے سارے کاموں کو اکیلے کر نہیں سکتا
٭٭٭
لفظوں کا پل
مسجد کا گنبد سونا ہے
مندر کی گھنٹی خاموش
جزدانوں میں لپٹے سارے آدرشوں کو
دیمک کب کی چاٹ چکی ہے
رنگ گلابی
نیلے
پیلے
کہیں نہیں ہیں
تم اس جانب
میں اس جانب
بیچ میں میلوں گہرا غار
لفظوں کا پل ٹوٹ چکا ہے
تم بھی تنہا
میں بھی تنہا
٭٭٭
جو ہوا وہ ہوا کس لئے
ہو گیا تو گلا کس لئے
کام تو ہیں زمیں پر بہت
آسماں پر خدا کس لئے
ایک ہی تھی سکوں کی جگہ
گھر میں یہ آئنہ کس لئے
٭٭٭
درد پرانا ہے
میرے تیرے نام نئے ہیں، درد پرانا ہے
یہ درد پرانا ہے
آنسو ہر یگ کا اپرادھی
ہر آنگن کا چور
کوئی نہ تھامے دامن ا س کا
گھومے چاروں اور
گم سم ہیں سنسار کچہری، چپ چپ تھانہ ہے
یہ درد پرانا ہے
جو جی چاہے وہ ہو جائے
کب ایسا ہوتا ہے
ہر جیون جیون جینے کا
سمجھوتہ ہوتا ہے
جیسے تیسے دن کرنا ہے، رات بتانا ہے
یہ درد پرانا ہے
٭٭٭
جب وہ آتے ہیں
سن رے پیپل! تیرے پتے شور مچاتے ہیں
جب وہ آتے ہیں
پہلا پہلا پیار ہمارا، ہم ڈر جاتے ہیں
تیری بانہوں میں جھومی پروائی
میں کب بولی
جب جب برکھا آئی تونے کھیلی
آنکھ مچولی
ایسی ویسی باتوں کو کب مکھ پر لاتے ہیں
سن رے پیپل! تیرے پتے شور مچاتے ہیں
جب وہ آتے ہیں
نردھن کے گھر میں پیدا ہونا ہے
جیون کھونا
سونی مانگ سجانے والے مانگیں
چاندی سونا
ہمسائے ہی ہمسایوں کے راز چھپاتے ہیں
سن رے پیپل! تیرے پتے شور مچاتے ہیں
جب وہ آتے ہیں
٭٭٭
تجھ بن مجھ کو
تجھ بن مجھ کو
کیسے کیسے چھیڑے کالی رات
کٹیا پیچھے چوڑی کھنکی
دو آوازیں ساتھ
جامن پر
چھم سے آ بیٹھی
کوئی پرانی بات
سونے آنگن کون بتاؤ
ریشم ریشم ہاتھ
نیل گگن
بادل کے ٹکڑے
کیا کیا روپ بنائیں
اڑتا آنچل
کھلتا جوڑا
لوری گاتی بانہیں
جلتا چولہا، بھری کڑھائی
کنی سجی برسات
٭٭٭
کوئی نہیں ہے آنے والا
کوئی نہیں ہے آنے والا
پھر بھی کوئی آنے کو ہے
آتے جاتے رات اور دن میں
کچھ تو جی بہلانے کو ہے
چلو یہاں سے، اپنی اپنی
شاخوں پر لوٹ آئے پرندے
بھولی بسری یادوں کو پھر
خاموشی دوہرانے کو ہے
دو دروازے، ایک حویلی
آمد، رخصت ایک پہیلی
کوئی جاکر آنے کو ہے
کوئی آ کر جانے کو ہے
دن بھر کا ہنگامہ سارا
شام ڈھلے پھر بستر پیارا
میرا رستہ ہو یا تیرا
ہر رستہ گھر جانے کو ہے
آبادی کا شور شرابہ
چھوڑ کے ڈھونڈھو کوئی خرابہ
تنہائی پھر شمع جلا کر
کوئی لفظ سنانے کو ہے
٭٭٭
بہت میلا ہے یہ سورج
(اپنی بیٹی تحریر کے جنم دن پر)
بہت میلا ہے یہ سورج
کسی دریا کے پانی میں
اسے دھوکر سجائیں پھر
گگن میں چاند بھی
کچھ دھندلا دھندلا ہے
مٹا کے اس کے سارے داغ دھبے
جگمگائیں پھر
ہوائیں سو رہیں ہیں پربتوں پر
پاؤں پھیلائے
جگا کے ان کو نیچے لائیں
پیڑوں میں بسائیں پھر
دھماکے کچی نیندوں میں
اڑا دیتے ہیں بچوں کو
دھماکے ختم کر کے
لوریوں کو گنگنائیں پھر
وہ جب سے آئی ہے
یوں لگ رہا ہے
اپنی یہ دنیا
جو صدیوں کی امانت ہے
جو ہم سب کی وراثت ہے
پرانی ہو چکی ہے
اس میں اب
تھوڑی مرمت کی ضرورت ہے
٭٭٭
رستے میں نوکیلی گھام
جھکے ہوئے کندھوں پہ سانسوں کی گٹھری
رستے میں نوکیلی گھام
چائے کے پیالوں میں ماتھے کی شکنیں
سمٹی ہوئی کرسیاں
سرحد، سپاہی، گیہوں، کبوتر
اخبار کی سرخیاں
سگریٹ کی ڈبیہ میں بندی سویرا
لوکل کے ڈبوں میں شام
لڑتاجھگڑتا کوئی کسی سے
بے بات کوئی ہنسے
ساگر کنارے لہروں پر کوئی
کنکر سے حملہ کرے
لمبی سی رسی پہ کپڑے ہی کپڑے
کپڑوں کے کونوں میں نام
جھکے ہوئے کندھوں پہ سانسوں کی گٹھری
رستے میں نوکیلی گھام
٭٭٭
جیون شور بھرا سناٹا
جیون شور بھرا سناٹا
زنجیروں کی لمبائی تک سارا سیر سپاٹا
جیون شور بھرا سناٹا
ہر مٹھی میں الجھا ریشم
ڈورے بھیتر ڈورا
باہر سو گانٹھوں کے تالے
اندر کاغذ کورا
کاغذ، شیشہ، پرچم، تارا
ہر سودے میں گھاٹا
جیون شور بھرا سناٹا
چاروں اور چٹانیں گھائل
بیچ میں کالی رات
رات کے منھ میں سورج
سورج میں قیدی سب ہاتھ
ننگے پیر عقیدے سارے
پگ پگ لاگے کانٹا
جیون شور بھرا سناٹا
٭٭٭
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمیں تو کہیں آسماں نہیں ملتا
بجھا سکا ہے بھلا کون وقت کے شعلے
یہ ایسی آگ ہے جس میں دھواں نہیں ملتا
تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا
کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں
چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا
یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا
چراغ جلتے ہی بینائی بجھنے لگتی ہے
خود اپنے گھر میں ہی گھر کا نشاں نہیں ملتا
٭٭٭
(پاکستان سے لوٹنے کے بعد )
انسان میں حیوان یہاں بھی ہے وہاں بھی
اللہ نگہبان یہاں بھی ہے وہاں بھی
خونخوار درندوں کے فقط نام الگ ہیں
شہروں میں بیابان یہاں بھی ہے وہاں بھی
رحمٰن کی قدرت ہو کہ بھگوان کی مورت
ہر کھیل کا میدان یہاں بھی ہے وہاں بھی
ہندو بھی مزے میں ہے مسلماں بھی مزے میں
انسان پریشان یہاں بھی ہے وہاں بھی
اٹھتا ہے دل و جاں سے دھواں دونوں طرف ہی
یہ ‘میر’ کا دیوان یہاں بھی ہے وہاں بھی
٭٭٭
ہم ہیں کچھ اپنے لئے کچھ ہیں زمانے کے لئے
گھر سے باہر کی فضا ہنسنے ہنسانے کے لئے
یوں لٹاتے نہ پھرو موتیوں والے موسم
یہ نگینے تو ہیں راتوں کو سجانے کے لئے
اب جہاں بھی ہیں وہیں تک لکھو روداد سفر
ہم تو نکلے تھے کہیں اور ہی جانے کے لئے
میز پر تاش کے پتوں سی سجی ہے دنیا
کوئی کھونے کے لئے ہے کوئی پانے کے لئے
تم سے چھٹ کر بھی تمہیں بھولنا آسان نہ تھا
تم کو ہی یاد کیا تم کو بھلانے کے لئے
٭٭٭
کہیں کہیں سے ہر چہرہ تم جیسا لگتا ہے
تم کو بھول نہ پائیں گے ہم، ایسا لگتا ہے
ایسا بھی اک رنگ ہے جو کرتا ہے باتیں بھی
جو بھی ا س کو پہن لے وہ اپنا سا لگتا ہے
تم کیا بچھڑے بھول گئے رشتوں کی شرافت ہم
جو بھی ملتا ہے کچھ دن ہی اچھا لگتا ہے
اب بھی یوں ملتے ہیں ہم سے پھول چمیلی کے
جیسے ان سے اپنا کوئی رشتہ لگتا ہے
اور تو سب کچھ ٹھیک ہے لیکن کبھی کبھی یوں ہی
چلتا پھرتا شہر اچانک تنہا لگتا ہے
٭٭٭
بے نام سا یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا
جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا
سب کچھ تو ہے کیا ڈھونڈھتی رہتی ہیں نگاہیں
کیا بات ہے میں وقت پہ گھر کیوں نہیں جاتا
وہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں
جو دور ہے وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا
میں اپنی ہی الجھی ہوئی راہوں کا تماشا
جاتے ہیں جدھر سب، میں ادھر کیوں نہیں جاتا
وہ خواب جو برسوں سے نہ چہرہ، نہ بدن ہے
وہ خواب ہواوٴں میں بکھر کیوں نہیں جاتا
٭٭٭
کھویا ہوا سا کچھ
کہیں چھت تھی، دیوار و در تھے کہیں، ملا مجھ کو گھر کا پتہ دیر سے
دیا تو بہت زندگی نے مجھے، مگر جو دیا وہ دیا دیر سے
ہوا نہ کوئی کام معمول سےگزارے شب و روز کچھ اس طرح
کبھی چاند چمکا غلط وقت پر، کبھی گھر میں سورج اگا دیر سے
کبھی رک گئے راہ میں بے سبب، کبھی وقت سے پہلے گھر آئی شب
ہوئے بند دروازے کھل کھل کے سب، جہاں بھی گیا میں گیا دیر سے
یہ سب اتفاقات کا کھیل ہے، یہی ہے جدائی، یہی میل ہے
میں مڑ مڑ کے دیکھا کیا دور تک، بنی وہ خموشی، صدا دیر سے
سجا دن بھی روشن ہوئی رات بھی، بھرے جام لنگڑائی برسات بھی
رہے ساتھ کچھ ایسے حالات بھی، جو ہونا تھا جلدی ہوا دیر سے
بھٹکتی رہی یوں ہی ہر بندگی، ملی نہ کہیں سے کوئی روشنی
چھپا تھا کہیں بھیڑ میں آدمی، ہوا مجھ میں روشن خدا دیر سے
٭٭٭
حمد1
نیل گگن پر بیٹھ
کب تک
چاند ستاروں سے جھانکوگے
پربت کی اونچی چوٹی سے
کب تک
دنیا کو دیکھو گے
آدرشوں کے بند گرنتھوں میں
کب تک
آرام کروگے
میرا چھپر ترک رہا ہے
بن کر سورج
اسے سکھاؤ
خالی ہے
آٹے کا کنستر
بن کر گیہوں
اس میں آؤ
ماں کا چشمہ
ٹوٹ گیا ہے
بن کر شیشہ
اسے بناؤ
چپ چپ ہیں آنگن میں بچے
بن کر گیند
انھیں بہلاؤ
شام ہوئی ہے
چاند اگاؤ
پیڑ ہلاؤ
ہوا چلاؤ
کام بہت ہیں
ہاتھ بٹاؤ اللہ میاں
میرے گھر بھی آ ہی جاؤ
اللہ میاں۔۔۔!
٭٭٭
روشنی کے فرشتے
ہوا سویرا
زمین پر پھر ادب سے آکاش
اپنے سر کو جھکا رہا ہے
کہ بچے سکول جا رہے ہیں۔۔۔
ندی میں سنان کرکے سورج
سنہری ململ کی پگڑی باندھے
سڑک کنارے
کھڑا ہوا مسکرا رہا ہے
کہ بچے سکول جا رہے ہیں۔۔۔
ہوائیں سر سبز ڈالیوں میں
دواؤ کے گیت گا رہی ہیں
مہکتے پھولوں کی لوریاں
سوتے راستے کو جگہ رہی ہیں
گھنیرا پیپل،
گلی کے کونے سے ہاتھ اپنے ہلا رہا ہے
کہ بچے سکول جا رہے ہیں۔۔۔!
فرشتے نکلے ہیں روشنی کے
ہرایک رستہ چمک رہا ہے
یہ وقت وہ ہے
زمیں کا ہر ذرہ
ماں کے دل سا دھڑک رہا ہے
پرانی اک چھت پہ وقت بیٹھا
کبوتروں کو اڑا رہا ہے
کہ بچے سکول جا رہے ہیں
بچے سکول جا رہا ہیں۔۔۔!
٭٭٭
ماخذ: کاویہ کوش سے
ہدی سے رسم الخط کی تبدیلی ، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید