FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

منٹو کے چار ڈرامے

 

 

               سعادت حسن منٹو

 

مشمولہ ’اردو ڈرامے‘ اور ’اردو پلے‘ مرتبہ پروفیسر سیدمعزالدین احمدفاروق

 

 

 

 

مامتا کی چوری

 

 

 

 

 

افراد

 

مسٹر بھاٹیہ

مسز بھاٹیہ

گوپال(گوپو)

مسٹر اور  مسز بھاٹیہ کا کم سن لڑکا

چپلا

گوپال کی استانی  ڈاکٹر

 

 (پانی میں ہاتھ دھونے کی آواز)

 

ڈاکٹر   :بچے کو زبردست انفکشن ہو گئی ہے اگر اس کی اچھی طرح تیمار داری  اور   خبرگیری نہ کی گئی تو مجھے اندیشہ ہے۔ ۔ ۔

چپلا    :نہیں نہیں۔ ۔ ۔ کسی بات کا اندیشہ نہیں ہے۔ آپ مطمئن رہیں ڈاکٹر صاحب اس کی اچھی طرح تیمار داری کی جائے گی۔ ۔ ۔  یہ لیجئے تولیہ!

(بچہ بخار میں ’’ہوں ہوں ‘‘ کرتا ہے)

چپلا    :گوپو۔ گوپو۔ ۔ ۔ میں تیری استانی ہوں بیٹا۔ ۔ ۔ کیا تو آج سبق نہیں پڑھے گا مجھ سے۔ ۔ ۔  اور  سیر کے لئے بھی تو جانا ہے ہمیں۔ نہیں، نہیں، کل چلیں گے۔ کل تو بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔

ڈاکٹر   :باتیں کرنے سے بچے کو تکلیف ہو گی۔

چپلا    :بہت اچھا ڈاکٹر صاحب میں باتیں نہیں کروں گی۔ پر میں اس کے پاس بیٹھ تو سکتی ہوں۔ یہ خود چاہتا ہے کہ میں اس کے بیٹھی رہوں۔

ڈاکٹر   :تو بھاٹیہ صاحب جو ہدایات میں دے چکا ہوں ان پر ضرور عمل کیا جائے۔

بھاٹیہ   :بہت بہتر ڈاکٹر صاحب!

(چلنے کی آواز۔ ۔ ۔ پھر دروازہ کھلتا ہے۔ )

مسز بھاٹیہ      :ڈاکٹر صاحب بتائیے۔ میرے بچے کا کیا حال ہے۔ ۔ ۔ بچ جائے گا خطرے کی کوئی بات نہیں ؟۔ ۔ ۔  اور ۔ ۔ ۔  اور ۔ ۔ ۔ اوہ۔ ۔ ۔ لیکن یہ کیا ظلم ہے کہ مجھے اس کے پاس جانے سے منع کیا جاتا ہے۔ (جذبات کی رو میں بہہ کر)کیا میں اس کی ماں نہیں۔ کیا وہ میرا بیٹا نہیں۔ ۔ ۔ وہ عورت کیا وہ عورت قاعدے کے چند حروف پڑھا کر اس کی ماں بن گئی ہے۔ ۔ ۔ چند روز باغ میں لے جا کر کیا اس عورت کے دل میں مامتا پیدا ہو گئی ہے ؟۔ ۔ ۔ میری اولاد پر اسے  کیا حق ہے۔ کب تک وہ میرے ہی گھر میں میری چیزوں پہ قابض رہے گی۔ ۔ ۔ میں کب تک یہ اذیت برداشت کرتی رہوں گی۔

ڈاکٹر   : (سنجیدگی کے ساتھ)بچے کی حالت نازک نہیں ہے لیکن وہ خطرے سے باہر بھی نہیں۔ بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ ۔ ۔  ہاں تو بھاٹیہ صاحب میں اب اجازت چاہتا ہوں۔

مسز بھاٹیہ       : اور ۔ ۔ ۔  اور  یہ سب احتیاط صرف وہی عورت کر سکتی ہے۔ ۔ ۔ میں بالکل ناکارہ ہوں۔ محض اتفاق ہے کہ میں اس کی ماں ہوں۔ ورنہ وہی عورت اس کی سب کچھ ہے (سسکیاں)۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ میں کتنی رکھی ہوں۔

بھاٹیہ   :ڈاکٹر صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ۔ امید ہے شام کو آپ ضرور تشریف لائیں گے۔

ڈاکٹر   :ایک ایک گھنٹے کے بعد دوا دینا  نہ بھولئے گا  اور  وہ بھاپ بھی۔ ۔ ۔

بھاٹیہ   :آپ مطمئن رہیں گوپال کی استانی ہوشیار ہے اسے سب کچھ یاد رہے گا۔

(دروازہ کھولنے  اور  بند کرنے کی آواز۔ ۔ ۔ ڈاکٹر چلا جاتا ہے۔ )

مسز بھاٹیہ       :تم یہ جھگڑا ہی ختم کیوں نہیں کر دیتے۔ یہ نئی بلا جو تم نے پالی ہے اسی کے ہو رہو اور  مجھے زہر دے کر ہلاک کر دو۔ یہ روز روز کی دانتا کلکل تو ختم ہو۔ میرا تو اس گھر میں ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ یہ چپلا جب سے آئی ہے ایساجادو اس نے تم پرکیا ہے کہ میں کیا کہوں۔ اب تو گھر میں اسی کا راج ہے۔ میں کون، تین میں تیرہ میں سعی کی گرہ میں۔ ۔ ۔ تم تو خیراس کے ہو ہی گئے تھے۔ پراس موئی نے تو میرے بچے پربھی قبضہ جما لیا ہے۔ اب بتاؤ میں کہاں جاؤں ؟

بھاٹیہ   : (بڑی متانت  اور  ٹھنڈے دل سے) میں تم سے بار بار کہہ چکا ہوں  اور   اب پھر کہتا ہوں کہ تم بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہو۔ یہ گھربار سب تمہارا ہے بچہ بھی تمہارا ہے جس عورت کا تم بار بار ذکر کرتی ہو وہ تمہاری نوکر ہے۔ ۔ ۔ تمہارے بچے کو اس نے دنوں میں سدھار دیا۔ ۔ ۔ اب بیماری میں وہ اس کی خبرگیری کر رہی ہے اس کے لئے

مسز بھاٹیہ       :تم اس کی وکالت کیوں کرتے ہو؟۔ ۔ ۔ تم کیوں اس کی اصلی خواہشوں پر پردہ ڈالتے ہو۔ ۔ ۔ کیایہ جھوٹ نہیں کہ جب سے وہ اس گھر میں داخل ہوئی ہے تم مجھ سے بالکل بے پرواہ ہو گئے ہو۔ تم اب مجھ سے بات کرنے کے بھی روادار نہیں  اور  کیا یہ جھوٹ ہے کہ بچے کولے کر کئی کئی گھنٹے تم اس حرافہ کے ساتھ باغ میں ٹہلتے رہتے ہو؟جب وہ بچے کو سبق پڑھاتی ہے تو گھنٹوں تم اس کے پاس بیٹھے رہتے ہو کیا یہ غلط ہے کیا یہ سب اس چڑیل کی کارستانی نہیں۔ ۔ ۔ اس ذلیل عورت کو جو فاحشہ سے بھی بدتر ہے۔ ۔ ۔

مسٹر بھاٹیہ      :پاربتی۔ ۔ ۔ بند کرو اس بکو اس کو(غصے کوپی کر) تم۔ ۔ ۔ تم۔ ۔ ۔  اب میں تم سے کیا کہوں۔ میری زندگی تم نے اجیرن کر دی ہے۔

مسز بھاٹیہ       : (طعن آمیز لہجے میں) میں تو بہت سکھی ہوں۔ ۔ ۔ میری زندگی تو بڑے آنند میں گزر رہی ہے۔

مسٹر بھاٹیہ      :بھگوان کے لئے اب یہ موہنا ٹھی ٹھی بند کرو۔

مسز بھاٹیہ       :زور صرف مجھی پر چلتا ہے۔ لیکن سن لو جب تک یہ عورت گھر میں موجود ہے میری زبان چلتی رہے گی۔ مجھے دیکھ دینے کے لئے جب تم یہ عورت یہاں لے آئے ہو تو میں تمہیں ایک لمحے کے لئے چین نہ لینے دوں گی  اور  اس عورت۔ ۔ ۔  اور  اس عورت کو پرماتما سزا دے گا۔ جس نے میرے بسے بسائے گھر کو برباد کیا ہے۔ جس نے میرا پتی دن دہاڑے مجھ سے چھین لیا ہے۔

مسٹر بھاٹیہ      :میں اب دفتر جا رہا ہوں زیادہ باتیں کرنے کے لئے میرے پاس وقت نہیں تم چا ہو تو دوسرے کمرے میں اپنے لڑکے کے پاس جا سکتی ہو۔

مسز بھاٹیہ       :میں نہیں جاؤں گی۔

مسٹر بھاٹیہ      :یہ  اور  بھی اچھا ہے۔

(دروازے کھولنے  اور  بند کرنے کی آواز۔ بھاٹیہ چلا جاتا ہے۔ مسز بھاٹیہ چند لمحات تک اضطراب کی حالت میں ٹہلتی ہے۔ )

مسز بھاٹیہ       :چپلا۔ ۔ ۔ چپلا۔

(دروازہ کھولنے کی آواز۔ )

چپلا    :میں نے آپ کی آواز سن لی تھی۔ آپ نے دوسری مرتبہ زور سے پکارا گوپو جاگ پڑا۔

مسز بھاٹیہ       :پھر سو جائے گا۔ کوئی حرج نہیں!

چپلا    :بڑی مشکل سے بیچارے کی آنکھ لگی تھی۔

مسز بھاٹیہ       :گوپو سے تمہیں بہت پیا رہے ؟

چپلا    :جی ہاں۔

مسز بھاٹیہ       :کیوں ؟

چپلا    :مجھے اس سے پیا رہے۔ میں دل سے اسے چاہتی ہوں۔ ۔ ۔ کیوں ؟ اس کا میں آپ کو جواب دوں۔

مسز بھاٹیہ       :کیا مجھے اس سے محبت نہیں ؟

چپلا    :آپ کو مجھ سے زیادہ اس کا علم ہونا چاہئے۔

مسز بھاٹیہ       :کیا میں اس کی ماں نہیں ؟

چپلا    :آپ یقیناً اس کی ماں ہیں۔

مسز بھاٹیہ       :تم اس کی کیا ہوتی ہو؟

چپلا    :استانی، جس کو آپ نے مقرر کیا ہے۔

مسز بھاٹیہ       :میں نے تمہیں مقرر نہیں کیا۔ میرے پتی نے تجھے نوکر رکھا ہے۔

چپلا    :میں بھاٹیہ صاحب  اور  آپ میں کوئی فرق نہیں سمجھتی۔ میں آپ کی بھاٹیہ صاحب  اور   گوپو تینوں کی خدمت گار  ہوں۔ میرا کام خدمت کرنا ہے۔

مسز بھاٹیہ       :جیسی خدمت تم میرے پتی کی کر رہی ہو۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ تم اپنے فن میں ضرورت سے زیادہ مہارت رکھتی ہو؟

چپلا    :میں آپ کا مطلب نہیں سمجھی۔

مسز بھاٹیہ       :میرے منہ میں بھاٹیہ صاحب کی زبان ہوتی تو میرا مطلب فوراً تمہاری سمجھ میں آ جاتا۔ ۔ ۔ تم۔ ۔ ۔

چپلا    :فرمائیے۔

مسز بھاٹیہ       : (لہجہ بدل کر)دیکھو چپلا۔ میں عورت ہوں۔ تم بھی عورت ہو۔ ۔ ۔  آؤ کھل کر باتیں کریں وہ پردہ اٹھا دیں جو ہمارے درمیان حائل ہے۔

چپلا    :آقا  اور   نوکر کے درمیان پردہ ہی کیا ہو سکتا ہے۔

مسز بھاٹیہ       :انجان بننے کی کوشش نہ کرو۔ ۔ ۔ میں تم سے ایک التجا کرنا چاہتی ہوں۔ ۔ ۔  میں تم سے کچھ مانگنا چاہتی ہوں۔ مجھے مانگنے دو۔ التجا کرنے دو۔ ۔ ۔  دیکھو جب سے تم اس گھر میں آئی ہو۔ میری زندگی بالکل اجیرن ہو گئی ہے۔ میرا پتی مجھ سے چھین گیا۔ میرا بچہ بھی میرا بچہ نہ رہا۔ ۔ ۔  یہ سب کچھ تم نے لے لیا۔ ۔ ۔ وہ تمام چیزیں جن کی ملکیت سے عورت بیوی بنتی ہے۔ ایک ایک کر کے تم مجھ سے چھین چکی ہو اس گھر میں جو کبھی میرا تھامیں اجنبی مہمانوں کی سی زندگی بسر کر رہی ہوں۔ ۔ ۔  دیکھو تم عورت ہو ایک مظلوم عورت تم سے بھیک مانگتی ہے اس کو وہ تمام چیزیں بخش دو جو اتفاق سے تمہارے ہاتھ آ گئی ہیں۔

چپلا    : (جذبات پر قابو پا کر)۔ ۔ ۔ آپ۔ ۔ ۔ آپ۔ ۔ ۔ اب میں آپ سے کیا کہوں، آپ ایک شریف عورت کو بدنام کر رہی ہیں۔

مسز بھاٹیہ       : (چڑ کر)شریف عورت۔ ۔ ۔ آہ تمہاری شرافت۔ ۔ ۔  تم عورت نہیں ڈائن ہو۔ لیکن میں پوچھتی ہوں، کب تک تم ان چیزوں کو اپنی ملکیت بنائے رکھو گی۔ ۔ ۔ جن پر تمہارا کوئی حق نہیں۔ کب تک تم اس گھر میں فساد برپا کئے رکھو گی۔ ۔ ۔ کب تک۔ ۔ ۔ کب تک۔ ۔ ۔ کب تک تم ان بجلیوں سے بچی رہو گی جو آکاش میں تم ایسی ناپاک عورتوں پر گرنے کے لئے تڑپتی رہتی ہیں۔

چپلا    : (کوئی فیصلہ کرنے کے انداز میں)آپ کیا چاہتی ہیں۔ میں چاہتی۔ ۔ ۔

مسز بھاٹیہ       :میں تمہارے منہ پر تھوکنا چاہتی ہوں۔ ۔ ۔ میں چاہتی ہوں کہ یہ دنیا تمہارے وجود سے پاک ہو جائے۔ میں چاہتی ہوں کہ جو دکھ تم نے مجھے دیئے ہیں۔ تمہارے حلق میں ہچکی بن کر اٹک جائیں۔ ۔ ۔ میں بہت کچھ چاہتی ہوں۔ ۔ ۔ میں چاہتی ہوں کہ گوپال مجھے ماں کہے۔ میری بے چارگی دیکھو کہ میں کیا چاہتی ہوں۔

چپلا    :گوپال کی ماں آپ کے سوا کون ہو سکتی ہے ؟

مسز بھاٹیہ       :تم۔ ۔ ۔ تم۔ ۔ ۔ جس نے میری مامتا پربھی قبضہ جما لیا۔

چپلا    : (معنی خیز لہجے میں)مامتا چرائی نہیں جا سکتی۔ آپ نے خود کہیں کھو دی ہو گی۔

مسز بھاٹیہ       :میں تم سے بحث کرنا نہیں چاہتی۔ ایک سودا کرنا چاہتی ہوں۔ ۔ ۔ مجھ سے کچھ زیورات لے لو اور   یہاں سے چلی جاؤ۔ ان سے کہہ دینا۔ ۔ ۔  میں اپنی مرضی سے جا رہی ہوں۔

چپلا    :کیا اس سے آپ کا اطمینان ہو جائے گا۔

مسز بھاٹیہ       : (خوش ہو کر) تومیں تمہیں زیور اور روپے لادوں۔

چپلا    :جی نہیں، مجھے ان کی ضرورت نہیں۔ آپ نے مجھے نوکر رکھا  اور  اب نکال دیا اس میں سودا کرنے کی نوبت ہی کہاں آتی ہے میں آج ہی چلی جاؤں گی  اور  یہ افسوس ساتھ لیتی جاؤں گی کہ آپ نے مجھے شک کی نظروں سے دیکھا۔ ۔ ۔ گوپال آپ ہی کا ہے۔ پرماتما کرے کہ وہ تندرست ہو جائے  اور  آپ کی گود ہری رہے۔

(کلاک چھ بجاتا ہے۔ )

مسٹر بھاٹیہ      : (اپنی بیوی کو آواز دیتا ہے) پاربتی۔ پاربتی۔ ۔ ۔

مسز بھاٹیہ       : (روکھے پن سے)کیا ہے ؟

مسٹر بھاٹیہ      :چپلا کہاں ہے۔ بچے کو اس نے دوا کیوں نہیں پلائی؟

مسز بھاٹیہ       :مجھے کیا معلوم۔ اپنے کمرے میں ہو گی۔

مسٹر بھاٹیہ      :کیا کر رہی ہے ؟

مسز بھاٹیہ       :اندر جا کے دیکھ لو۔

مسٹر بھاٹیہ      :دیکھتا ہوں۔

(چلتا ہے  اور  دروازہ کھول کر دوسرے کمرے میں جاتا ہے۔ )

بھاٹیہ   :چپلا، تم کیا کر رہی ہو۔ ۔ ۔ یہ اسباب وغیرہ تم نے کیوں باندھا ہے ؟

چپلا    :میں جا رہی ہوں۔

بھاٹیہ   :کہاں ؟

چپلا    :جہاں سے آئی تھی۔

بھاٹیہ   :کوئٹے میں بھونچال کے بعد، تمہارا کون باقی رہا ہے۔

چپلا    :کہیں  اور  چلی جاؤں گی۔

بھاٹیہ   :تم نے تو وعدہ کیا تھا کہ گوپال کو چھوڑ کر کبھی نہ جاؤں گی۔ جانتی ہو۔ وہ تمہیں کتنا چاہتا ہے۔ ۔ ۔

چپلا    :یہ اس کی غلطی ہے۔ اس کو اپنی ماں سے محبت کرنی چاہئے۔

بھاٹیہ   : (تھوڑی دیر خاموش رہ کر)معلوم ہوتا ہے اس کی ماں سے تمہاری گفتگو ہوئی ہے لیکن اس سے تم نے یہ کہا ہوتا کہ ماں کو بھی اپنے بچے سے محبت کرنی چاہئے۔ ۔ ۔ تم نے اس سے پوچھا ہوتا کہ ماں بننے کا خیال اب ایکا ایکی اس کے دل میں کیوں پیدا ہو گیا ہے۔

چپلا    :میں نوکر ہوں بھاٹیہ صاحب۔ ایسے گستاخانہ سوال میری زبان پر کبھی نہیں آ سکتے۔

بھاٹیہ   :لیکن وہ عورت۔ ۔ ۔ لیکن وہ عورت۔ ۔ ۔ آہ۔ اس عورت نے مجھے کتنا تنگ کیا ہے۔ جب تم یہاں نہیں تھیں تو وہ سمجھتی تھی کہ میں نے باہر ہی باہر کئی عورتوں سے تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ اب تم یہاں ہو تو۔ ۔ ۔  تو اب میں تم سے کیا کہوں کہ وہ کیا سمجھتی ہے۔ ۔ ۔ میں بہت شرمندہ ہوں چپلا کہ میرے گھر میں تمہیں ایک بے وقوف عورت کے ہاتھوں دکھ پہنچا ہے۔

چپلا    :انہیں شک ہے۔

بھاٹیہ   :ہر چیز کوشک کی نظروں سے دیکھ دیکھ کراب وہ ناقابل برداشت حد تک شکی ہو گئی ہے۔ اس کی حالت قابل رحم ہے۔ وہ مریض ہے۔ وہم اس کو مرض بن کے چمٹ گیا ہے وہ لاعلاج ہے۔ شادی کے بعد دوسرے ہی ہفتے اس نے مہندی لگے ہاتھوں سے میرا منہ نوچنا شروع کر دیا تھا۔ میں ایک مصروف آدمی ہوں سارا دن دفتر میں سر کھپاتا رہتا ہوں یقین مانو تمہارے یہاں آنے سے پہلے میں گھر آتے وقت ڈرتا تھا بہت خوف کھاتا تھا اس کی دیوانگی کا اثر صرف میری ذات ہی پر ختم ہو جاتا تو شاید میں برداشت کر لیتا مگر  اس کی بے وقوفیوں نے میرے بچے کا بھی ستیاناس کر دیا۔ اس کی عادات خراب ہو گئیں۔ میں نے پرماتما کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اس نے تم جیسی دیوی کو میرے گھر بھیج دیا۔ تمہارے آنے سے میری بہت سی پریشانیاں دور ہو گئیں بچے کو تم نے سنبھال لیا۔ اس کو پیار و محبت کی ضرورت تھی  اور  تم نے دونوں ہی اپنا گرویدہ بنا لیا۔ مگر  اب تم جا رہی ہو۔ ۔ ۔

چپلا    :جی ہاں۔ جا رہی ہوں!

بھاٹیہ   :ٹھیک ہے مگر  میرے بچے کا کیا ہو گا۔ وہ عورت تو مجھے  اور  اسے دونوں کو اپنی حماقتوں سے ہلاک کر دے گی(وقفہ) تم نہیں جاؤ گی۔ ۔ ۔  تم یہیں رہو گی۔ آخر اس گھر پر تو کچھ میرا بھی حق ہے میرے منہ میں بھی تو زبان ہے۔ اب تک میں نے اپنے اختیارات سے کام نہیں لیا۔ لیکن اب مجھے لینا پڑے گا۔

چپلا    :بھاٹیہ صاحب۔ آپ اس جھگڑے کو طول نہ دیجئے۔ ۔ ۔ میں نہیں چاہتی کہ آپ میں  اور  ان میں میری وجہ سے کشیدگی پیدا ہو۔

بھاٹیہ   :یہ کشیدگی اب پیدا نہیں ہوئی تمہارے آنے سے پہلے ہی اس گھر میں موجود تھی۔ ۔ ۔ میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ ابھی کچھ دیر ٹھہر جاؤ گوپو اچھا ہو جائے تو کیا پتہ ہے کہ اس کی ماں بھی سمجھ جائے۔ ۔ ۔  میں جانتا ہوں کہ اس کی باتوں سے تمہیں بہت دکھ پہنچا ہو گا  اور  ۔ ۔ ۔   اور  تم کو زبردستی یہاں ٹھہرانے کا مطلب یہ ہے کہ مزید توہین برداشت کرنے کے لیے تمہیں مجبور کیا جائے۔ مگر ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ نہیں چپلا۔ تم نہیں جاؤ گی۔ تمہارے انکار سے ہمیں صدمہ ہو گا۔ ۔ ۔ کھول دو اپنا اسباب!

(دروازہ کھول کر دوسرے کمرے میں چلا جاتا ہے۔ )

بھاٹیہ   :پاربتی تمہیں یہ سن کر خوشی ہو گی کہ چپلا اب نہیں جائے گی۔ اس نے اپنا ارادہ ترک کر دیا ہے۔

مسز بھاٹیہ       : (طنز بھرے لہجے میں) مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔

بھاٹیہ   : اور  دیکھو۔ اگر تم نے اس کی توہین کی یا اسے اپنی وہم پسند طبیعت کا نشانہ بنایا۔ ۔ ۔

مسز بھاٹیہ       : (تیزی سے)تو۔ ۔ ۔ تو کیا ہو گا۔ ۔ ۔ تم مجھے دھمکاتے کیا ہو۔ کیا کرو گے تم۔ ۔ ۔ مجھے دھکے مارکر باہر نکال دو گے۔ ۔ ۔ مجھے مار ڈالو گے ؟ کیا کرو گے ؟

بھاٹیہ   :میں ایک بار پھر تمہارے لیے دعا کروں گا۔

مسز بھاٹیہ       :مگر  تم اس عورت کو نہیں چھوڑو گے اس کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھو گے۔ جو تمہارا دل نہ جانے کن اداؤں سے موہ چکی ہے جو کوٹھے میں بھونچال لا کر اب اس گھر میں زلزلہ برپا کر رہی ہے۔ مگر یاد رکھو۔ ۔ ۔

بھاٹیہ   : (بلند آواز میں غصے کے ساتھ)پاربتی۔ اس بے۔ ۔ ۔ بے ہودہ بکو اس کو بند کرو۔ میں۔ ۔ ۔ میں۔ کچھ نہیں، پرماتما تمہاری حالت پر رحم کرے۔

(فرش پر اضطراب کے ساتھ ٹہلنے کی آواز)

بھاٹیہ   :اب خوش ہو گئیں۔ کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا۔ ۔ ۔ وہ عورت جس نے تمہارے خیال کے مطابق نہ جانے کن اداؤں سے میرا دل موہ لیا ہے تمہارے بچے پر اپنی جان قریب قریب فنا کر چکی ہے۔ اس کی زندگی  اور   موت میں اتنا وقت بھی باقی نہیں کہ وہ تمہارے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کر سکے۔ تمہیں کوئی بددعا ہی دے سکے۔

مسز بھاٹیہ       :میرا کیا قصور ہے ؟

بھاٹیہ   :تم نے ہر وقت اس کی توہین کی۔ اس کی ہر نیکی، ہر اچھائی کو تم نے اپنی لعنتی نظروں سے دیکھا۔ اف!جب میں اس کا تصور کرتا ہوں کہ تم نے ایک پاک  اور  معصوم عورت پر کیچڑ اچھالی ہے تو میری آتما کانپ کانپ اٹھتی ہے۔ مگر  تمہاری آتما کہاں ہے ؟تمہارا ضمیر کہاں ہے۔ ۔ ۔  جاؤ، جاؤ، میری آنکھوں سے دور ہو جاؤ۔ ۔ ۔ تم قاتل ہو۔ تمہارے ہاتھ مجھے اس بے گناہ عورت کے خون میں آلود نظر آتے ہیں۔

مسز بھاٹیہ       :کیا پتہ ہے بچ جائے۔

بھاٹیہ   :اب وہ کیا بچے گی۔ ۔ ۔ ڈاکٹر جواب دے چکا ہے۔ تمہارے بچے کو موت سے بچا کروہ خود اس کے منہ میں چلی گئی ہے۔ ۔ ۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ کاش!میں نے اسے اسی روز جانے دیا ہوتا۔ میرا اس پر کوئی زور تو تھاہی نہیں مگر  وہ میرے کہنے پر رضا مند ہو گئی اس لیے گوپو سے اسے پیار تھا۔ وہ پیار جو تمہارے دل میں ہونا چاہئے تھا۔ گوپو کو اس کے دل میں نظر آیا۔ وہ بچ گیا  اور  وہ موت جو تجھے آنا چاہئے تھی۔ اسے آ گئی۔

گوپال  : (روتا ہوا آتا ہے) پتا جی، پتا جی۔ ۔ ۔ استانی جی کہاں ہیں ؟

بھاٹیہ   :گوپال جاؤ۔ تم باہر کھیلو، تمہاری استانی بیمار ہے۔

گوپال  :میں بیمار تھا تو میرے پاس بیٹھی رہتی تھیں۔ اب میں ان کے پاس بیٹھوں گا۔ پتا جی!

بھاٹیہ   :ہاں، ہاں۔ ۔ ۔  لیکن تم اب باہر جاؤ۔

(گوپال چلا جاتا ہے۔ ۔ ۔ کچھ وقفے کے بعد)

مسز بھاٹیہ       :مجھے اجازت ہو تو میں چپلا کو دیکھنا چاہتی ہوں۔

بھاٹیہ   :اس اجازت کی ضرورت تمہیں کیوں محسوس ہوئی۔ ۔ ۔ جاؤ۔ ۔ ۔ دیکھ آؤ۔ مگر  تمہارے دیکھے سے کیا اس کا دل تمہاری طرف سے صاف ہو جائے گا۔ وہ خراشیں جو تم اس کے دل و دماغ  پر پیدا کر چکی ہو۔ یوں ایک بار دیکھنے سے مٹ تو نہیں جائیں گی۔ ۔ ۔ جاؤ ممکن ہے وہ تمہیں معاف کر دے۔ تم نے اسے بہت دکھ پہنچایا ہے۔ میں تو خیر تمہاری حماقتوں کا عادی ہو چکا تھا۔ مگر  ایک آفت رسیدہ عورت کے لیے جو اچھے دن دیکھ چکی ہو تمہاری  ہیسٹریا کے دورے ناقابل برداشت تھے۔

(وقفے کے بعد دروازہ کھولنے کی آواز۔ ۔ ۔ مسز بھاٹیہ دوسرے کمرے میں جاتی ہے۔ )

مسز بھاٹیہ       :چپلا۔ ۔ ۔ چپلا۔ ۔ ۔ میں آئی ہوں۔

چپلا    : (مردہ آواز میں) آئیے۔ ۔ ۔ آئیے۔ ۔ ۔ مگر  یہاں آپ کس جگہ پر بیٹھیں گی۔

مسز بھاٹیہ       :میں یہاں تمہاری چارپائی پر بیٹھ جاؤ گی۔ ۔ ۔ تم اٹھنے کی کوشش نہ کرو۔ ۔ ۔  لیٹی رہو۔

چپلا    :مگر ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ نہیں، نہیں، آپ کو میرے پاس نہیں بیٹھنا چاہئے۔ یہ بیماری چھوت ہے۔ نہیں، نہیں، آپ دور ہی کھڑی رہیں  اور  جلد ہی باہر چلی جائیں۔

مسز بھاٹیہ       :مجھے کچھ نہیں ہو گا۔ اگر  کچھ ہو بھی گیا تو مجھے افسوس نہ ہو گا۔ میں تم سے معافی مانگنے آئی ہوں۔

چپلا    :معافی؟۔ ۔ ۔ کیسی معافی۔ ۔ ۔ آپ مجھے شرمندہ کر رہی ہیں۔

مسز بھاٹیہ       :میں نے غلط فہمی میں تم سے کئی بار ایسی باتیں کی ہیں جن سے یقیناً تمہیں بہت دکھ پہنچا ہے۔ اب سوچتی ہوں اگر میں تمہاری جگہ پر ہوتی تو میرے دل کی کیا حالت ہوتی۔

چپلا    :میری جگہ پر آپ ہوتیں تو۔ ۔ ۔ تو یہ حالات نہ ہوتے۔ ۔ ۔ لیکن آپ میری جگہ پرکیوں ہوتیں ؟ہر ایک آدمی کے لیے ایک جگہ مقرر ہے۔ میرے لیے یہی جگہ مقرر تھی جہاں آ کر مجھے اپنی زندگی کے سب سے بڑے پاپ کا پرایشچت کرنا تھا۔

مسز بھاٹیہ       :پاپ۔ ۔ ۔ پرایشچت!

چپلا    :میں اب سوچتی ہوں اگر یہاں سے میں اس روز چلی جاتی تو میرے من کی من ہی میں رہ جاتی۔ کوئی زمانہ تھا کہ میں بھی آپ ہی کی طرح تھی۔ میرا پتی تھا جو آپ کے پتی کی طرح بڑا شریف کاروباری آدمی تھا۔ مگر  میری حاسد  اور  بات بات پر شک کرنے والی طبیعت کا برا ہو کہ میں نے اس کو ہمیشہ پریشان رکھا۔ وہ جی ہی میں کڑھتا تھا۔ میں ہر گھڑی اس کو جلی کٹی سناتی مگر  وہ چپ رہتا۔ اس کو خاموش دیکھ کر میں سمجھتی۔ چونکہ یہ مجرم ہے اس لیے کوئی بات اس کی زبان پر نہیں آتی۔ ۔ ۔

مسز بھاٹیہ       :یہ تو میری ہی کہانی ہے۔ ۔ ۔

چپلا    :گوپال جیسا میرا بھی ایک بچہ تھا  اور  میری طرح اس کی بھی ایک استانی تھی جس پر میں شک کرتی۔ کئی جھگڑے ہوئے میں نے اپنے پتی  اور   اپنی دونوں کی زندگی کو نرک بنا دیا تھا۔ ۔ ۔  اور ۔ ۔ ۔  اور  اس کا انجام یہ ہوا کہ اس معصوم عورت نے جو میرے بچے کو مجھ سے زیادہ عزیز سمجھتی تھی کچھ کھا لیا  اور   مر گئی۔ اس کے بعد بھونچال آیا  اور  بچہ  اور  اس کا باپ دونوں ہمیشہ کے لیے مجھ سے جدا ہو گئے۔ لیکن اب۔ اب میں بھی ان کے پاس جا رہی ہوں۔

مسز بھاٹیہ       : (اشک آلود آواز میں)نہیں، نہیں، تم زندہ رہو گی۔ میں تمہیں اپنی بہن بنا  کے اپنے پاس رکھوں گی۔ عین اس وقت تک جب کہ میری آنکھیں کھلی ہیں تم ان سے اوجھل نہیں ہو سکتی ہو۔

چپلا    :میں بہت خوش ہوں کہ اپنی آتما کا بوجھ ہلکا کرنے کے ساتھ میں نے ایک اچھا کام بھی کر دیا۔ ۔ ۔ بھاٹیہ صاحب  اور  آپ دونوں خوش رہیں۔ آپ کی زندگی پرماتما کرے سورگ بن جائے۔ ۔ ۔ لیکن آپ جائیے زیادہ دیر یہاں نہ ٹھہرئیے۔ ۔ ۔ ایسا نہ ہو۔ ۔ ۔

(آواز ڈوب جاتی ہے۔ )

مسز بھاٹیہ       :چپلا۔ ۔ ۔ چپلا۔ ۔ ۔

(درد ناک سروں میں ساز بجتا ہے۔ مسز بھاٹیہ کے رونے کی آواز آتی ہے۔ )

(فیڈ آؤٹ)

***

ماخذ: ’’کروٹ‘‘، ساقی بک ڈپو، اردو بازار۔ دہلی

٭٭٭

 

 

 

اس منجدھار میں

(’’پھندنے ‘‘میں سے)

 

کردار

 

 

بیگم: ماں

امجد:بیگم کے بیٹےشکستہ

مجید:بیگم کے بیٹے ثابت و سالم

سعیدہ:امجد کی نئی نویلی حسین بیوی

اصغری:خادمہ

کریم  اور  غلام محمد: نوکر

 

 

 

پہلا منظر

 

          (نگار ولا کا ایک کمرہ۔ ۔ ۔ اس کی خوبصورت شیشہ لگی کھڑکیاں پہاڑی کی ڈھلوانوں کی طرف کھلتی ہیں۔ حد نظر تک پہاڑی نظر آتے ہیں جو آسمان کی خاکستری مائل نیلاہٹوں میں گھل مل گئے ہیں۔ کھڑکیوں کے ریشمی پردے صبح کی ہلکی پھلکی ہوا سے ہولے ہولے سرسرا رہے ہی۔ یہ کمرہ جیسا کہ سازو سامان سے معلوم ہوتا ہے مجلہ عروسی میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ دائیں ہاتھ کو کھڑکیوں کے پاس ساگوان کی مسہری ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک کونے میں شیشے کی تپائی جس پر بلور کی صراحی  اور   گلاس کے علاوہ ایک ٹائم پیس رکھی ہے۔ پیچھے ہٹ کر پیازی  ٹفینے میں ملبوس صوفہ سیٹ ہے اس پر دو ملازم گدیاں سجا رہے ہیں۔ ۔ ۔ اس سے دور ہٹ کر ایک نوجوان خادمہ جو معمولی شکل و صورت کی ہے آتشدان پر سجائی ہوئی مختصر چیزوں کو اور  زیادہ سجانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کمرے کی فضا میں ایسی دوشیزگی ہے جو ذرا سی جنبش سے منکوحیت میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ ۔ ۔ باہر سے ٹائلوں پر لکڑی کی ننھی ننھی ضربوں کی آواز آتی ہے۔ تینوں خادم ہلکے سے رد عمل کے بعد اپنے اپنے کام میں مشغول رہتے ہیں۔ ۔ ۔ دروازے سے ایک ادھیڑ عمر کی وجیہہ عورت بیساکھیوں کی مدد سے اندر آتی ہے  اور  کمرے کا جائزہ لے کر اپنے اطمینان کا اظہار کرتی ہے۔ )

 

بیگم صاحب    : (بیساکھیوں کی مدد سے کمرے میں ادھر ادھر پھر کر تمام چیزوں کو صحیح مقام پر دیکھ کر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے) ٹھیک ہے !(ایک بیساکھی کو اپنی بغل سے الگ کر کے صوفے کے بازو کے ساتھ رکھ کر بیٹھنا چاہتی ہے، مگر  فوراً ہی اپنا ارادہ ترک کر دیتی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے اس کا ایک ہاتھ سہارے کے لئے صوفے کے بازو کی چمکیلی سطح کے ساتھ چھوا تھا  اور  اس پر نشان پڑ گیا تھا۔ اپنے دوپٹے کا ایک کونہ پکڑ کر وہ یہ خودبخود مٹ جانے والا نشان  بجھا دیتی ہے  اور  پھر بیساکھی اپنی بغل میں جما کر نوجوان خادمہ سے مخاطب ہوتی ہے) اصغری!

اصغری: (فوراً متوجہ ہو کر) جی!

بیگم صاحب    :ایک دم یہ محسوس کر کے کہ وہ بھول گئی ہے کہ اس نے اصغری سے تخاطب کیوں کیا تھا) میں کیا کہنے والی تھی؟

اصغری: (مسکراتی ہے)آپ یہ کہنے والی تھیں کہ آپ کا اطمینان نہیں ہوا۔ ۔ ۔  میں بھی یہی سمجھتی ہوں بیگم صاحب۔ ۔ ۔ دولہن بہت خوبصورت ہے۔ ۔ ۔ اس کمرے کی تمام سجاوٹیں اس کے سامنے ماند پڑ جائیں گی۔

(وہ آتش دان کے عین درمیان میں ریشمی ڈوریوں سے آویزاں، دولہن کی تصویر کی طرف دیکھتی ہے۔ )

بیگم صاحب    : (مسکراتی ہوئی۔ ۔ ۔ آتشدان کی طرف آہستہ آہستہ بڑھتی ہے  اور  اپنی بہو کی تصویر کو غور سے دیکھتی ہے۔ ۔ ۔ خوش ہوتی ہے لیکن ایک دم گھبرا سی جاتی ہے۔ ) اصغری!

اصغری:جی!

بیگم صاحب    :صبح سے میری طبیعت۔ ۔ ۔ کچھ گھبرا سی رہی ہے۔

اصغری:امجد میاں  جو آ رہے ہیں اپنی دولہن کے ساتھ۔

بیگم صاحب    : (اپنے خیالات میں کھوئی کھوئی) ہاں۔ ۔ ۔ بس آنے ہی والا ہے۔ ۔ ۔  کمال موٹر لے گیا ہے اسٹیشن پر۔

اصغری:اگلے سال مجید میاں کی شادی کر دیجئے۔ ۔ ۔  گھر میں رونق ہی رونق ہو جائے گی۔

بیگم صاحب    :انشاء اللہ۔ ۔ ۔ وہ بھی انشاء اللہ اسی طرح بخیر و خوبی انجام پائے گی۔ ۔ ۔  (زیر لب) انشاء اللہ۔

اصغری: (دولہن کی تصویر کی طرف دیکھتی ہے  اور  اس کے حسن سے بہت متاثر ہوتی ہے) اللہ نظر بد سے بچائے۔

بیگم صاحب    : (غیر ارادی طور پر قریب قریب چیخ کر) اصغری!

اصغری: (سہم کر) جی!

بیگم صاحب    :کچھ نہیں۔ ۔ ۔  گاڑی کب آتی ہے کراچی سے ؟

اصغری:معلوم نہیں بیگم صاحب۔

بیگم صاحب    : (ایک خادم سے) دیکھو کریم تم ٹیلی فون کرو اور  پوچھو۔ ۔ ۔ لیکن گاڑی تو کل ہی کی راولپنڈی پہنچ چکی ہے۔ ۔ ۔ مجید کا تار جو آیا تھا۔

کریم   :جی ہاں!

بیگم صاحب    : اور  میں نے کمال کوکس اسٹیشن پر بھیجا ہے۔ ۔ ۔ (گھبرا کر) خدا معلوم میرے دماغ کو کیا ہو گیا ہے۔ ۔ ۔  امجد میاں کورات راولپنڈی ٹھیرنا تھا۔ ۔ ۔ اپنے دوست سعید کے پاس۔ ۔ ۔  اور  وہ تو میرا خیال ہے اب وہاں سے چل بھی چکے ہوں گے (دوسرے خادم سے) غلام محمد؟

غلام محمد        :جی؟

بیگم صاحب    :تم دیکھو کمال کہاں ہے۔ ۔ ۔ موٹر کہاں لے گیا ہے ؟

غلام محمد:بہت اچھا!

(چلا جاتا ہے۔ )

بیگم صاحب    : (اصغری کے کاندھے کا سہارا لے کر) آج صبح سے میری طبیعت ٹھیک نہیں۔ ۔ ۔ چلنے پھرنے سے معذور نہ ہوتی۔ ۔ ۔ اس کم بخت ڈاکٹر ہدایت اللہ نے مجھے منع نہ کیا ہوتا تو میں دولہن کو ساتھ لاتی(دور سے ٹیلی فون کی گھنٹی کی آواز سنائی دیتی ہے) میرا خیال ہے شاید امجد میاں کے دوست کا ٹیلیفون ہے کہ وہ چل پڑے ہیں، جاؤ اصغری۔ ۔ ۔  بھاگ کے جاؤ۔

(اصغری دوڑی باہر جاتی ہے۔ )

بیگم صاحب    : (کریم سے۔ ۔ ۔ اپنی افسردگی دور کرنے کی خاطر) بس اب آتے ہی ہوں گے امجد میاں۔

کریم   :اللہ خیرخیریت سے لائے۔

بیگم صاحب    : (قریب قریب چیخ کر) کیا مطلب تمہارا۔

کریم   : (ڈر کر) جی یہی کہ۔ ۔ ۔ جی یہی۔ ۔ ۔

(اصغری کی چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ ’’بیگم صاحب، بیگم صاحب‘‘)

بیگم صاحب    : (سراسیمہ ہو کر) کیوں کیا ہوا؟

(اصغری سخت اضطراب کی حالت میں اندر داخل ہوتی ہے۔ )

اصغری:بیگم صاحب۔ ۔ ۔ بیگم صاحب۔

بیگم صاحب    : (بیساکھیوں کو دونوں ہاتھوں سے مضبوط پکڑ کر) کیا ہے ؟

اصغری:جی۔ ۔ ۔ مجید میاں کا ٹیلی فون آیا ہے کہ گاڑی۔ ۔ ۔ گاڑی ٹکرا گئی ہے۔

بیگم صاحب    : (بیساکھیوں پر ہاتھوں کی گرفت  اور  زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے) پھر؟

اصغری:مجید میاں  اور  ان کی دولہن دونوں زخمی ہوئے ہیں  اور   اسپتال میں پڑے ہیں۔

بیگم صاحب    : (ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے۔ ۔ ۔ بیساکھیاں بغل سے گر پڑتی ہیں۔ ایک لحظے کے لئے وہ یوں کھڑی رہتی ہے جیسے پتھر کا بت۔ ۔ ۔  پھر اس میں تھوڑی سی جنبش ہوتی ہے  اور  وہ دروازے کی جانب بڑھتی ہے) کمال سے کہو، موٹر نکالئے۔ ۔ ۔ ہم راولپنڈی جا رہے ہیں۔

(بیگم دروازے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ۔ ۔ غلام محمد  اور  اصغری دونوں حیرت زدہ ہیں۔ اصغری زور سے چیختی ہے۔ ۔ ۔ بیگم پلٹ کراس کی طرف دیکھتی ہے۔ )

بیگم صاحب    :کیا ہے ؟

اصغری:آپ۔ ۔ ۔ آپ چل رہی ہیں۔ ۔ ۔ چل سکتی ہیں۔

بیگم صاحب    :میں ؟(اپنی بغلوں میں بیساکھیوں کی عدم موجودگی کا احساس کرتے ہوئے) میں ؟۔ ۔ ۔ میں کیسے چل سکتی ہوں ؟

(ایک دم چکراتی ہے  اور  فرش پر گر کر بے ہوش ہو جاتی ہے۔ )

اصغری: (بیگم کے پاس جاتے ہوئے، غلام محمد سے) غلام محمد جاؤ ڈاکٹر صاحب کو ٹیلی فون کرو۔

(غلام محمد جاتا ہے۔ ۔ ۔  اصغری، بیگم کو ہوش میں لانے کی کوشش کرتی ہے۔ )

۔ ۔ ۔ پردہ۔ ۔ ۔

 

 

 

دوسرا منظر

 

 

 (وہی کمرہ جو پہلے منظر میں ہے۔ ۔ ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں جو ساز و سامان پہلے پڑا تھا۔ اب اپنا نیا نویلا پن کھو چکا ہے۔ اب ہر چیز دیر کی استعمال شدہ معلوم ہوتی ہے۔ ۔ ۔ صبح کا وقت ہے۔ کھڑکیوں کے ریشمی پردے صبح کی ہلکی لپکتی ہوا سے سرسرا رہے ہیں۔ ۔ ۔ دائیں ہاتھ کی ساگوان کی مسہری پر دولہن سعیدہ کمل اوڑھے لیٹی ہے۔ ۔ ۔ شیشے کی تپائی پر پڑی ہوئی ننھی ٹائم پیس جس میں نو بجے ہیں، لندنا شروع کر دیتی ہے۔ ۔ ۔ ہلکی سی گھنٹی کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ ۔ ۔ کمبلوں میں جنبش پیدا ہوتی ہے۔ ۔ ۔ سعیدہ کروٹ بدلتی ہے  اور  آنکھیں کھولتی ہے۔ جھک کر ننھی ٹائم پیس کی طرف دیکھتی ہے  اور  مسکراتی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے اس کے خوبصورت چہرے پرچھائی ہوئی گھنی پلکیں پھڑپھڑاتی ہیں۔ ۔ ۔ کروٹ بدل کر وہ بستر میں تکیوں کا سہارا لے  کر ذرا اوپر اٹھ آتی ہے  اور  باہر حد نظر تک پھیلی ہوئی پہاڑیوں کا دلکش منظر دیکھ کر بچوں کی سی مسرت محسوس کرتی ہے۔ ۔ ۔ پھر ایک دم ٹانگیں چلا کر کمبل اوپر سے ہٹاتی ہے  اور   ا چک کر مسہری سے اترتی ہے  اور  کھڑکی کا پردہ ہٹا کر باہر دیکھنا شروع کر دیتی ہے۔ ۔ ۔ کسی خوش الحان پرندے کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ ۔ ۔ سعیدہ اپنے خوابوں میں محو ہے۔ وہ جز ان ہے۔ شب خوابی کا ڈھیلا ڈھالا ریشمی لباس بھی جواس کے بدن سے دور دور اپنی حریری دنیا الگ بسائے ہے، اس کے خوبصورت خطوط سے غافل نہیں۔ ۔ ۔  اور   خود سعید کا ادراک بھی۔ ۔ ۔ اس کا سراپا حسین و جمیل ہے  اور  اپنے حسن و جمال سے آگاہ۔ ۔ ۔ اصغری کی کرخت آواز پرندے کی خوش الحافی کا تقابل پیش کرتی ہے۔ سعیدہ چونکتی ہے۔)

 

سعیدہ  : (نگاہوں ہی نگاہوں میں ’’کیا ہے ؟‘‘پوچھتی ہے۔ )

اصغری:مجید میاں ابھی ابھی ہسپتال سے آئے ہیں۔ کہتے تھے، جا کے دیکھو اب جگ گئیں یا نہیں ؟

سعیدہ  :کیا خبر لائے ہیں ؟

اصغری:میں انھیں بھیجتی ہوں۔

(اصغری چلی جاتی ہے۔ سعیدہ کھڑکی کے پاس سے ہٹ کر سنگھار میز کے پاس آتی ہے۔ آئینے میں ایک لحظے کے لئے اپنے آپ کا جائزہ لیتی ہے۔ دونوں ہاتھوں سے اپنے بکھرے ہوئے بال سرسری طور پر ٹھیک کر کے مسہری کی طرف آہستہ آہستہ بڑھتی ہے۔ مسہری کے سرہانے اس کا جارجٹ کا سفید دوپٹہ لٹک رہا ہے۔ اسے اتارتی ہے  اور   بڑی بے توجہی سے اپنے کاندھوں پر ڈال لیتی ہے۔ ۔ ۔ باہر سے بوٹوں کی چرمی آواز آتی ہے، خفیف سے رد عمل کے ساتھ سعیدہ دروازے کی جانب دیکھتی ہے۔ ۔ ۔ مجید۔ ۔ ۔ سانولے رنگ کا متوسط نوجوان، جو مضبوط ہاتھ پاؤں رکھتا ہے  اور  جس کے چہرے کے خطوط عمر کے مقابلے میں زیادہ پختہ  اور  منجھے ہوئے ہیں، اندر داخل ہوتا ہے۔ )

مجید    :سلام بھابھی جان!

سعیدہ  :سلام۔

مجید    : (صوفے کے پاس آ کر رکتے ہوئے) طبیعت کیسی ہے آپ کی؟

سعیدہ  : (بے دلی سے)ٹھیک ہے (صوفے پر بیٹھ جاتی ہے) سنائیے کیا خبر لائے راولپنڈی سے ؟

مجید    : (سعیدہ کے سامنے آ کر)کوئی خاص نہیں (آدھی سی آہ بھرکر) بس اب انھیں لے آئیں گے یہاں۔

سعیدہ  :کیوں ؟

مجید    :وہ تنگ آ گئے ہیں (ایک مونڈھا گھسیٹ کراس پر بیٹھتے ہوئے) ان کی جگہ میں ہوتا تو۔ ۔ ۔ بہت ممکن ہے میں نے خودکشی کر لی ہوتی۔

سعیدہ  : (اٹھ کر کھڑکی کی طرف جاتے ہوئے)کیا معلوم تھا میری قسمت میں یہ لکھا ہے۔ ۔ ۔ اتنے آدمی مرے۔ ۔ ۔ میں بھی ساتھ ہی مر گئی ہوتی۔

مجید    :مگر  یہ اللہ کو منظور نہیں تھا۔

سعیدہ  : (کھڑکی سے باہر پہاڑیوں کا منظر دیکھتی ہے)ہاں، یہ اللہ کو منظور نہیں تھا۔ ۔ ۔ اللہ کو یہ منظور تھا کہ میری ٹانگ پر ہلکی سی خراش آئے پر میری ساری زندگی زخموں سے چور چور ہو جائے (آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں۔ ۔ ۔  سفید دوپٹے سے وہ انھیں پر نزاکت طریقے سے ہولے ہولے خشک کرتی ہے) اللہ کو یہ منظور تھا کہ میرے سہاگ کی کمر ٹوٹ جائے  اور   میں ساری عمر ہوا میں کٹے ہوئے پتنگ کی طرح ڈولتی رہوں۔

(سسکیاں لیتی ہے۔ )

مجید    ۔ : (اٹھتا ہے)بھابھی جان حوصلے سے کام لینا چاہئے۔ ۔ ۔  کیا پتا ہے وہ ٹھیک ہو جائیں۔

سعیدہ  : (سرزنش کے طور پر) مجید، کم از کم تم تو مجھے دھوکا دینے کی کوشش نہ کرو۔ ۔ ۔ چھ مہینے ہو گئے ہیں انھیں ہسپتال کی چارپائی کے ساتھ لگے ہوئے۔ ۔ ۔ ڈاکٹروں کاجو فیصلہ ہے۔ میں اسے اچھی طرح جانتی ہوں۔ ۔ ۔  وہ کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ ۔ ۔ ان کی دونوں ٹانگیں بیکار ہو چکی ہیں۔ ۔ ۔  لیکن۔ ۔ ۔ لیکن، میں ایک بات مانتی ہوں کہ ان میں بہت حوصلہ ہے۔ ۔ ۔ میں جب بھی ان کے پاس گئی۔ انھوں نے مجھے پاس بٹھا کر کہا، سعیدہ، کچھ فکر نہ کرو، میں بہت جلد تندرست ہو جاؤں گا۔ ۔ ۔  اور   پھر میں تمہیں ان پہاڑیوں کی سیر کراؤں گا جن کا ذکر تم کراچی میں اتنی بار میرے منہ سے سن چکی ہو۔ ۔ ۔ مجھے ان پہاڑیوں سے پیار ہے۔ ۔ ۔  اتنا پیا رہے کہ تم ان کے متعلق  اور  سنو گی تو رشک کرو گی۔ ۔ ۔  اور  وہ مجھے حوصلہ دینے لگتے کہ سعیدہ دنیا حادثوں کا دوسرا نام ہے۔ ۔ ۔  میں تو خدا کا شکر کرتا ہوں کہ میری جان نہیں گئی۔ ۔ ۔ ورنہ۔ ۔ ۔ پھر وہ ایسی بات کہتے کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔

مجید    :کیا؟

سعیدہ  : (نمناک آنکھوں سے خلا میں دیکھتے ہوئے) کہ تم۔ ۔ ۔ کہ تم میرے بعد کسی  اور  کی ہو جاؤ گی۔ ۔ ۔ (کانپ جاتی ہے)۔ ۔ ۔ وہ۔ ۔ ۔  ایسی باتیں کیوں سوچتے ہیں مجید؟

مجید    :معلوم نہیں۔

سعیدہ  :تمہیں معلوم ہونا چاہئے (آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی صوفے پر بیٹھ جاتی ہے۔ ۔ ۔ دوپٹہ ڈھلک آتا ہے۔ ۔ ۔ حریری لباس میں اس کا متلاطم سینہ ریشمی اتار چڑھاؤ پیدا کرتا ہے)تم مرد ہو۔ ۔ ۔ تم اس کے بھائی ہو۔ ۔ ۔  اگر اس حادثے کے تم شکار ہوتے۔ ۔ ۔  تو؟

مجید    :میں کبھی ایسی باتیں نہ سوچتا جو امجد بھائی سوچتے ہیں ؟

سعیدہ  :کیوں ؟

مجید    :ہم دونوں مرد ہیں۔ ۔ ۔ دونوں بھائی ہیں۔ ۔ ۔ مگر  دل  اور  دماغ کے اعتبار سے ہم دونوں بہت مختلف ہیں۔

سعیدہ  : (بڑبڑاتی ہے)دل۔ ۔ ۔  اور  دماغ۔

(اصغری داخل ہوتی ہے۔ )

اصغری:مجید میاں، آپ کو بیگم صاحب بلاتی ہیں۔

مجید    :چلو، میں آتا ہوں۔

اصغری:انھوں نے کہا ہے جلدی آئیے۔

مجید    :اچھا۔ ۔ ۔ (سعیدہ کی طرف دیکھ کر) میں ابھی آتا ہوں۔

(چلا جاتا ہے۔ )

اصغری: (فرش پر بچھے ہوئے رگ پر سعیدہ کے قدموں میں بیٹھ جاتی ہے  اور   اس کے پاؤں کی انگلیاں چٹخانا چاہتی ہے۔ )

سعیدہ  : (پاؤں ایک طرف کھینچ کر) جانے دو اصغری۔

اصغری: (پاؤں سے قریب قریب لپٹ کر) نہیں دولہن بیگم۔ (انگلیاں چٹخانا شروع کر دیتی ہے)۔ ۔ ۔ کیا خبر لائے ہیں مجید میاں۔

سعیدہ  :کہتے تھے، وہ یہاں آنا چاہتے ہیں۔

اصغری:یہ تو بڑی خوش خبری کی بات ہے۔

سعیدہ  : (دکھ کے ساتھ) ہاں!

اصغری:پر بیگم صاحب تو بہت ناراض ہو رہی تھیں کہ اتنی دیر کیوں لگا دی مجید میاں نے۔

سعیدہ  :کہاں ؟

اصغری:یہاں۔ ۔ ۔ آپ کے پاس۔

سعیدہ  :میرے پاس؟۔ ۔ ۔ کیا کہتی تھیں بیگم صاحب۔

اصغری:کچھ نہیں۔ ۔ ۔ ان کا مزاج آج کل بہت چڑچڑا سا رہتا ہے۔ ۔ ۔  انھیں کوئی بات اچھی نہیں لگتی۔ ۔ ۔ انھیں۔ ۔ ۔ امجد میاں کا اتنا دکھ نہیں جتنا آپ کا ہے۔ ۔ ۔ ہر وقت آپ ہی کے متعلق سوچتی رہتی ہے۔ ۔ ۔ تو۔ ۔ ۔  امجد میاں تھیک ہو گئے ہیں نا؟

سعیدہ  : (چڑ کر، اپنا پاؤں ہٹا کر اٹھتے ہوئے) ہاں ٹھیک ہو گئے ہیں۔

(بیگم کمرے میں داخل ہوتی ہے۔ اصغری اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ )

سعیدہ  :سلام خالہ جان!

بیگم صاحب    :سلام بیٹا۔ ۔ ۔ جیتی رہو۔ (پاس آ کر سعیدہ کے سر پر پیار کا ہاتھ پھیرتی ہے) تمہیں معلوم ہو گیا مجید سے کہ۔ ۔ ۔

سعیدہ  :جی ہاں!

بیگم صاحب    :غریب تنگ آ گیا ہے وہاں ہسپتال میں۔ ۔ ۔ (اصغری کی طرف دیکھ کر) اصغری تم جاؤ۔

(اصغری چلی جاتی ہے۔ )

بیگم صاحب    :اس کی۔ ۔ ۔ اس کی خواہش ہے کہ وہ تمہارے پاس رہے۔ ۔ ۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اگر مجھے مرنا ہی ہے تو میری سعیدہ میری نظروں کے سامنے ہونی چاہئے۔ ۔ ۔

سعیدہ  : (آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ بیگم کے گلے سے لگ جاتی ہے۔ )

بیگم صاحب    : (آنکھوں سے آنسو رواں ہیں) وہ۔ ۔ ۔ وہ تم سے بے اندازہ محبت کرتا ہے۔ ۔ ۔ لیکن۔ ۔ ۔ لیکن اس نے کہا تھا تم سے پوچھ لیا جائے کہ تمہیں اس کے یہاں آ کر رہنے میں کوئی اعتراض تو نہیں۔

سعیدہ  :اعتراض۔ ۔ ۔

بیگم صاحب    :ہاں بیٹا۔ ۔ ۔ ہو سکتا ہے، یوں تمہارے دکھ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

سعیدہ  :وہ ایسا کیوں سوچتے ہیں۔ ۔ ۔ خالہ جان وہ ایسا کیوں سوچتے ہیں۔

بیگم صاحب    :بیٹا، وہ کچھ ایسے ہی دل و دماغ کا آدمی ہے۔ ۔ ۔ اس کو دوسروں کا ہمیشہ خیال رہتا ہے۔

سعیدہ  :آئیں۔ ۔ ۔ کیوں نہ آئیں (لہجے میں چیخ سی پیدا ہو جاتی ہے) وہ ایسی باتیں نہ کیا کریں۔

بیگم صاحب    :ڈاکٹروں نے کہا ہے، اگر وہ خوش رہے تو انشاء اللہ ایک دو مہینے میں بیساکھیوں کی مدد سے چل پھر سکے گا۔ ۔ ۔ (ایک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے) بیساکھیاں۔ ۔ ۔ جواس کے گاڑی کے حادثے کی خبر سن کر میری زندگی سے الگ ہو گئی تھیں۔ ۔ ۔ مجھے معلوم ہوتا کہ یہ اس کی زندگی میں داخل ہونے والی ہیں تومیں ان کو مضبوطی سے پکڑ کے رکھتی۔ ۔ ۔ مگر  بیٹا اس منجدھار میں جسے زندگی کہتے ہیں۔ مضبوط سے مضبوط کشتی لے ڈوبتی ہے  اور  ایک معمولی تنکا ہی کنارے لگا دیتا ہے۔ ۔ ۔  (توقف کے بعد) سعیدہ بیٹا، امجد نے مجھ سے ایک  اور  بات تم سے پوچھنے کا کہا تھا؟

سعیدہ  :کیا خالہ جان؟

بیگم صاحب    :کیا تم اس سے محبت کرو گی؟

سعیدہ  : (بوکھلا کر)محبت۔ ۔ ۔

بیگم صاحب    : (سعیدہ کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہے)میں تمہیں زیادہ پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ ۔ ۔

(چلی جاتی ہے۔ )

سعیدہ  : (دوپٹے سے اپنے آنسو خشک کرتے ہوئے بڑبڑاتی ہے) محبت۔ ۔ ۔  محبت؟۔ ۔ ۔ دل و دماغ(آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی، آتش دان کے عین وسط میں ریشمی ڈوریوں سے لٹکی ہوئی اپنی تصویر کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے)بتا۔ ۔ ۔ کیا تو اس سے محبت کرے گی؟

(ٹرے میں رکھی پیالیوں کی آواز آتی ہے۔ ۔ ۔ اصغری ناشتہ لئے اندر داخل ہوتی ہے  اور  پہیوں والی تپائی صوفے کے آگے لے جاتی ہے  اور   اس پر ناشتہ چن دیتی ہے۔ )

اصغری:دولہن بیگم، امجد میاں سے محبت نہیں کریں گی تو اور  کون کرے گی؟

سعیدہ  : (ایک دم چونکتی ہے) کیا کہا؟

اصغری:جی کچھ نہیں۔ ۔ ۔  ایسے ہی اپنے آپ سے باتیں کر رہی تھی۔ ۔ ۔  ناشتہ کر لیجئے۔

سعیدہ  :تم جاؤ۔

اصغری:جی اچھا۔

(اصغری، ایک نظر سعیدہ کو اور  ایک نظر اس کی تصویر کو دیکھتی باہر چلی جاتی ہے۔ سعیدہ آہستہ آہستہ سوچ میں مستغرق صوفے کی طرف بڑھتی ہے  اور  مسہری پر لیٹ جاتی ہے۔ )

سعیدہ  : (چھت کی طرف دیکھتے ہوئے بڑبڑاتی ہے)دولہن بیگم، امجد میاں سے محبت نہیں کریں گی تو اور  کون کرے گی۔ ۔ ۔ (اونچی آواز میں)  اور   کون کرے گی؟۔ ۔ ۔  اور  کون کر سکتی ہے ؟

۔۔۔پردہ۔۔۔۔

 

 

 

تیسرا منظر

 

 (نگار دلاسے ملحقہ باغیچہ۔ ۔ ۔ وسط میں پست قد ترشی ہوئی جھاڑیوں کے درمیان فوارہ ہے جس میں سے پانی کی پھوار دھڑک دھڑک کر باہر نکل رہی ہے، دھوپ کھلی ہے۔ آسمان نکھرا ہوا ہے۔ فضا میں عجیب سا کنوارا پن ہے۔ ۔ ۔ بے حجاب، ہر ذرہ نظارے کی دعوت لئے گویا قبولیت کا منتظر ہے۔ ۔ ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے۔  ہوا چلتے چلتے ٹھیر سی گئی ہے کہ باغ کی بیلیں پھر سے اپنی زلفیں سنوار لیں، پھول اپنے گالوں کی سرخی درست کر لیں،  اور  بھنوروں کو جن کلیوں کا منہ چومنا ہے بے خوف و خطر چوم لیں۔ ۔ ۔ اس فضا میں گھاس کے ہموار قالین پر کرسیاں بچھی ہیں۔ ایک میں سعیدہ گلابی لباس میں ملبوس خود اپنا ہی عکس بنی بیٹھی ہے۔ دھوپ کی حدت سے اس کے غازے کے ہلکے سے غبار سے اس کی اپنی گلابیاں، سرخیاں بن بن کر باہر نکل رہی ہیں۔ دوسری کرسی میں مجید ہے جو ہولے ہولے سگریٹ کے کش لگا کر دھوئیں کے نیلے نیلے چھلے منہ سے نکال رہا ہے۔ اس کا چہرہ مطمئن ہے۔ سامنے امجد ہے۔ ۔ ۔ اپاہجوں کی کرسی میں۔ ۔ ۔ اس کے چہرے پر اپاہجوں کی کرسی والی کیفیت ہے جو کسی  اور  کی مدد کے بغیر نہیں چل سکتی۔ ۔ ۔  اس کا رنگ بہت زرد ہے مگر  اس کی آنکھوں میں چمک ہے جو سعیدہ کے حسن و جمال کی بازگشت ہے۔ )

 

امجد    : (اپنے دائیں بائیں دیکھ کر)آج موسم کتنا دلفریب ہے۔

سعیدہ  : (فوراً متوجہ ہو کر) جی ہاں۔

امجد    :مجید جاؤ، سعیدہ کو گھما لاؤ۔ ۔ ۔ ان پہاڑیوں کی سیر کرا لاؤ۔ ۔ ۔  (پیچھے  مڑ کر دیکھنا چاہتا ہے) افسوس ہے، مجھ سے مڑا نہیں جاتا۔ ۔ ۔  مجید اٹھو۔ ۔ ۔ میری کرسی گھما کر ادھر کر دو۔ ۔ ۔  یہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ہونا چاہئے۔

(مجید اٹھتا ہے۔ لیکن سعیدہ اس سے پہلے اٹھ کر امجد کی کرسی کا رخ پھیر دیتی ہے۔ اب تینوں کا منہ پہاڑ کی طرف ہے جو دھوپ میں۔ ۔ ۔  حد نگاہ تک اپنے منہ دھو رہی ہیں۔ )

امجد    : (پہاڑیوں کے منظر کو اپنی نگاہوں سے پیتے ہوئے) سعیدہ، یہی ہیں وہ پہاڑیاں جن سے مجھے پیار ہے۔ ۔ ۔ اتنا پیار کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ ۔ ۔  (مجید سے) جاؤ، مجید، سعیدہ کو ساتھ لے جاؤ اور   ان کی سیر کراؤ (سعیدہ سے)سعیدہ، جب تم ان پر چڑھتے چڑھتے ہانپنے لگو گی  اور   تمہاری سانس رکنے لگے گی تو تمہیں ایسا محسوس ہو گا کہ اس سے بڑھ کر دنیا میں  اور  کوئی لذت نہیں۔ ۔ ۔ میں مجید کو زبردستی ساتھ لے جاتا تھا۔ مگر  یہ ایک چڑھائی کے بعد ہی ہمت ہار دیتا تھا۔ ۔ ۔ مجھ سے کہتا تھا، بھائی جان مجھے آپ کا یہ شغل پسند ہیں۔ ۔ ۔  یہ کیا کہ آدمی بیکار میں ہانپ ہانپ کر بے ہوش ہو جائے (ہنستا ہے) پہاڑیوں  اور  ان کو سر کرنے کا حسن اس کی سمجھ میں کبھی نہیں آئے گا۔ کیوں سعیدہ؟

سعیدہ  : (مسکرا کر) جی ہاں۔

امجد    : (مجید سے) جاؤ یار۔ ۔ ۔  سعیدہ کولے جاؤ۔ ۔ ۔  کبھی کام بھی کیا کرو۔

مجید    : (سعیدہ سے) چلئے بھابھی جان۔ ۔ ۔ مگر  شرط لگاتا ہوں، آج تو یہ چلی جائیں گی۔ لیکن پھر کبھی ادھر کا رخ نہیں کریں گی۔

سعیدہ  :نہیں، نہیں۔ ۔ ۔ یہ آپ کیونکر کہتے ہیں ؟

امجد    :اس لئے کہ یہ  اور  دل و دماغ کا آدمی ہے۔

سعیدہ  :دل و دماغ؟۔ ۔ ۔ یہ کیا بلا ہے دل و دماغ؟

مجید    :آپ کو ایک ہی پہاڑی چڑھنے سے معلوم ہو جائے گا۔

امجد    : (ہنستا ہے) تم بکتے ہو مجید۔ ۔ ۔ سعیدہ کی زندگی کے سامنے تو ایک پہاڑ ہے۔ ۔ ۔ اگر یہ ایک معمولی سی پہاڑی کی چڑھائی ہی سے اکتا گئی تو۔ ۔ ۔

سعیدہ  :چلئے مجید میاں۔

مجید    :چلئے۔

(دونوں چلے جاتے ہیں۔ ۔ ۔ امجد مسکراتا ہے۔ ۔ ۔ اصغری داخل ہوتی ہے۔ ۔ ۔ اس کے ہاتھ میں پلیٹ ہے جس میں چھلے  اور  کٹے ہوئے سیب ہیں۔ وہ معنی خیز نظروں سے مجید اور   سعیدہ کو دیکھتی امجد کی جانب آتی ہے  اور  اس سے مخاطب ہوتی ہے۔ )

اصغری:تھوڑے سیب کھا لیجئے۔

امجد    : (جو سعیدہ  اور  مجید کو ڈھلوانوں میں اترتے دیکھ رہا ہے) کھالوں گا۔

اصغری: (انہی کی طرف دیکھ کر) آج دولہن بیگم کتنی خوبصورت دکھائی دے رہی ہیں۔

امجد    : (ایک دم پلٹ کر اصغری کو دیکھتے ہوئے) دکھائی دے رہی ہیں ؟

اصغری: (خفیف سی بوکھلاہٹ کے ساتھ) جی۔ ۔ ۔ جی ہاں!

امجد    : (پھر سعیدہ  اور  مجید کو دیکھتے ہوئے) خوبصورت ہے۔ خوبصورت دکھائی نہیں دیتی۔ ۔ ۔ ہونے  اور  دکھائی دینے میں زمین وآسمان کا فرق ہے اصغری۔

اصغری:جی ہاں۔ ۔ ۔ یہ توہے۔

امجد    :لاؤسیب۔

اصغری: (پلیٹ بڑھاتے ہوئے) حاضرہیں۔ ۔ ۔ پرچھلے ہوئے ہیں۔

امجد    :تمہارامطلب؟

اصغری:چھلی ہوئی چیزسے کوئی بھی دھوکاکھا سکتا ہے (ہنس کر)۔ ۔ ۔  اس کے سرخ سرخ گال توچھری سے اترچکے ہیں۔

امجد    : (ہنستا ہے) اصغری!۔ ۔ ۔ تم اب بہت شیطان ہو گئی ہو۔

اصغری: (سنجیدگی سے)شیطان؟۔ ۔ ۔ امجدمیاں۔ ۔ ۔ آپ نے ایک بار مجھے بتایا تھاکہ شیطان خداکاسب سے بڑافرشتہ تھا، جس نے آدم۔ ۔ ۔  یعنی مٹی کے پتلے کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

امجد    :ہاں ہاں۔ ۔ ۔

اصغری: اور  فرشتوں کے اس ہیڈماسٹر کو اس کی سزادی گئی تھی۔ ۔ ۔

امجد    :درست ہے۔

اصغری:تویہ بھی درست ہے۔

امجد    :کیا؟

اصغری:کچھ بھی نہیں۔ ۔ ۔ درست آخرہوتاکیا ہے ؟۔ ۔ ۔ وہی جسے آپ درست سمجھ لیں، یادرست سمجھنے کی کوشش کریں یاوہ غلطی جوآپ ایک دفعہ اس لئے کر لیں کہ آئندہ درست ہوتی رہے گی۔ یاوہ درستی جسے آپ غلطی میں تبدیل کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ آپ پھر درست کر سکتے ہیں۔ ۔ ۔  لیکن یہ سب بکو اس ہے۔ ۔ ۔ میں ایک موٹی عقل کی عورت ہوں امجد میاں۔

امجد    :تم آج کیسی باتیں کر رہی ہو؟

اصغری:میں ایک موٹی عقل کی عورت ہوں۔ ۔ ۔ لیکن ایک عورت ہوں امجد میاں۔

امجد    :میں پھرنہیں سمجھا۔

اصغری: (سیب کی ایک قاش اٹھاتی ہے  اور  امجد کے منہ کے پاس لے جاتی ہے)آپ سیب کھائیے۔

امجد    : (سیب کی قاش دانتوں میں لیتے ہوئے) تم پہلے کبھی ایسی باتیں نہیں کیا کرتی تھیں۔

اصغری:آج موسم ہی کچھ ایسادلفریب ہے۔

امجد    :کیانہیں ہے ؟

اصغری: (سیب کی دوسری قاش اٹھا کر)کیوں نہیں۔ ۔ ۔  یہ لیجئے ایک  اور   قاش۔ ۔ ۔

(دوسری قاش امجد کے کھلے ہوئے منہ میں ڈالتی ہے۔ )

امجد    : (سیب کھاتے ہوئے کچھ توقف کے بعد) اصغری!

اصغری: (جوپہاڑیوں کامنظردیکھنے میں محوتھی، چونک کر) جی؟

امجد    :تمہاری شادی کر دیں ؟

اصغری:شادی؟

امجد    :ہاں۔ ۔ ۔ اب تمہاری شادی ہو جانی چاہئے۔

اصغری:کیوں امجدمیاں ؟

امجد    :شادی بڑی اچھی چیزہے۔ ۔ ۔ دنیامیں ہرشے کی شادی ہو جانی چاہئے۔ ۔ ۔ زندگی میں شادی سے بڑھ کر اور  کوئی خوشی نہیں۔ ۔ ۔  میں امی جان سے کہوں گاکہ اصغری کی جلدی شادی کر دیجئے۔

اصغری:نہ امجدمیاں ؟

امجد    :کیوں ؟

اصغری:مجھے ڈر لگتا ہے۔

امجد    :کس سے ؟

اصغری: (سبزے پربیٹھ جاتی ہے۔ لہجہ فکرمندہوتا ہے)شادی سے۔

امجد    : (ہنستا ہے) پگلی!

اصغری:سچ کہتی ہوں امجدمیاں۔ ۔ ۔ مجھے واقعی ڈرلگتا ہے۔ ۔ ۔  اول توایک نوکرانی کی شادی ہی کیا ہے۔ ہوئی ہوئی، نہ ہوئی نہ ہوئی۔ ۔ ۔  کیا فرق پڑتا ہے۔ ۔ ۔ لیکن ہو گئی توکہیں ایسانہ ہو گاڑی پٹری سے اترجائے  اور  ۔ ۔ ۔

امجد    : (دکھ کے ساتھ) اصغری!

اصغری:کہے جاتی ہے)گاڑی پٹری سے اترجائے  اور  اصغری قیمہ قیمہ ہونے سے بچ جائے۔ ۔ ۔ ایک ٹانگ سے لنگڑی، ایک بازوسے لولی  اور   ایک آنکھ سے اندھی ہو جائے۔ ۔ ۔ آدھی اصغری غائب ہو جائے۔ ۔ ۔  آدھی بچ جائے۔ ۔ ۔  نا امجدمیاں۔ ۔ ۔ میری شادی کانام نہ لیجئے۔ ۔ ۔ شادی تو ایک سالم چیزہے۔ ۔ ۔ آدھی یاچوتھائی چیزکوشادی نہیں کہتے۔

امجد    : (سوچتے ہوئے) اصغری!

اصغری: (گھٹی گھٹی آوازمیں) جی!

امجد    :تم ٹھیک کہتی ہو(آواز میں انتہادرجے کادرد پیدا ہو جاتا ہے) لیکن دیکھو مجھے رنجیدہ نہ کرو۔ ۔ ۔ میں خوش رہناچاہتا ہوں۔ ۔ ۔  اپنی ان دو شکستہ ٹانگوں پربھی خوش رہناچاہتا ہوں۔ ۔ ۔  مجھے نہ چھیڑو۔ ۔ ۔  میرے دل میں درد ہوتا ہے۔ ۔ ۔

اصغری: (امجدکے پاؤں پکڑلیتی ہے) مجھے معاف کر دیجئے امجدمیاں (آنکھوں میں آنسوآ جاتے ہیں) جانے میں کیا بک گئی۔ ۔ ۔  آپ خوش رہیں۔ ۔ ۔  خدا آپ کوخوش رکھے۔

امجد    : (بہادری کے ساتھ) خدا کانام نہ لو۔ ۔ ۔ اگر اس کومجھے خوش رکھنا ہوتا تو مجھے اس حادثے کا شکار ہی کیوں کرتا۔ ۔ ۔ کیا تھا تو مار کر اپنے شکاری تھیلے میں کیوں نہ ڈال لیتا۔ ۔ ۔ اس کا نام نہ لو۔ ۔ ۔ میری اس کی دوستی ختم ہو چکی ہے۔ ۔ ۔ مجھے اگر خوش رہنا ہے تو اپنے رہے سہے وجود ہی کے سہارے خوش رہنا ہے۔ ۔ ۔ انہی ٹوٹی ہوئی ٹہنیوں پر چند تنکے چن کر مجھے اپنی خوشی کے آشیانے بنانا  ہیں۔

اصغری:صرف اپنی خوشی کے ؟

امجد    : (بہت زیادہ دکھ کے ساتھ) اصغری خدا کے لئے۔ ۔ ۔ تم اتنی کیوں ظالم ہو گئی ہو۔ ۔ ۔ تمہارے منہ میں اگر زبان پیدا ہوئی ہے تو کیا اسی لئے کہ تم میرے دکھ میں اضافہ کرو۔ ۔ ۔ میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ میری مدد کرو۔ ۔ ۔ ایک اپاہج کی مدد کرو کہ وہ اپنی ٹوٹی ہوئی زندگی جوڑ جاڑ کے چند دن۔ ۔ ۔ صرف چند دن گزارے۔

اصغری:آپ درخواست نہ کیجئے امجد میاں۔ ۔ ۔ میرا کلیجہ پھٹتا ہے۔ ۔ ۔  آپ مالک ہیں، حکم دے سکتے ہیں۔ ۔ ۔ میری زندگی حاضر ہے۔

(اس کے موٹے موٹے آنسو امجد کے سلیپروں پر گرتے ہیں۔ ۔ ۔  اٹھ کھڑی ہوتی ہے  اور  ایک طرف چلی جاتی ہے۔ )

امجد    : (گردن جھکا کر اپنے سلیپروں کی طرف دیکھتا ہے جن پرسے اصغری کے آنسو لڑھک جاتے ہیں۔ ۔ ۔ گردن اٹھا کر اصغری کو دیکھتا ہے جو کہ جا رہی ہے)

(کوٹھی کی جانب سے بیگم نمودار ہوتی ہے۔ شال اوڑھے ہاتھ میں زیورات کے ڈبے لئے وہ امجد کے پاس آتی ہے۔ )

بیگم صاحب    :امجد بیٹا۔

امجد    : (جلدی سے اپنے پاؤں کمبل میں چھپا کر) جی!

بیگم صاحب    :سعیدہ کے لئے جو زیورات تم نے پسند کئے ہیں تیار ہو کر آ گئے ہیں۔ لو۔ ۔ ۔

(ڈبے امجد کی گود میں رکھ دیتی ہے۔ )

امجد    : (بچوں کے سے اشتیاق سے ہر  ڈبہ کھول کر سارے زیورات دیکھتا ہے  اور  ابلتی ہوئی خوشی کا اظہار کرتا ہے) بہت اچھے ہیں۔ ۔ ۔ بہت عمدہ ہیں۔ ۔ ۔ بہت حسین ہیں۔ ۔ ۔ لیکن اتنے نہیں جتنی سعیدہ ہے۔ ۔ ۔  اصغری۔ ۔ ۔  اصغری!۔ ۔ ۔  ادھر آؤ۔

(اصغری جو ایک سرو کے ساتھ لگ کر کھڑی تھی۔ امجد کے پاس آتی ہے۔ امجد اسے تمام زیورات دکھاتا ہے۔ )

امجد    :کہو کیسے ہیں ؟

اصغری:آپ خود کہہ چکے ہیں۔ ۔ ۔ حسین ہیں لیکن اتنے نہیں جتنی دولہن بیگم ہیں۔

امجد    : (ماں سے) امی جان۔ کپڑے کب آئیں گے۔

اصغری:کل تک آ جائیں گے۔

امجد    : اور  وہ بائیسکوپ مشین۔ ۔ ۔ کیوں نہیں آئی ابھی تک۔

بیگم صاحب    :بیٹا۔ ۔ ۔ مجید آرڈر دے آیا تھا۔ ایک دو روز میں آ جائے گی۔

امجد    :اچھا(رک کر) امی جان!

بیگم صاحب    :جی بیٹا۔

امجد    :کچھ  اور  بھی منگوانا چاہئے سعیدہ کے لئے۔ ۔ ۔ میں اسے ایک لحظے کے لئے بھی اداس نہیں دیکھنا چاہتا۔ ۔ ۔ ہر روز اس کے لئے کوئی نہ کوئی نئی چیز ضروری ہونی چاہئے۔

بیگم صاحب    :سب کچھ تمہارے اختیار میں ہے۔ جو چا ہو کرو۔

امجد    :اختیار؟(رک کر) ہاں۔ ۔ ۔ تو۔ ۔ ۔ امی جان۔

بیگم صاحب    :جی!

امجد    :کمال کو بھیجئے۔ ۔ ۔ اسپورٹس کی دکان جائے۔ ۔ ۔ جتنے کھیل اسے مل سکیں لے آئے۔ ۔ ۔ سعیدہ  اور  مجید کھیلا کریں گے  اور  میں دیکھا کروں گا۔ ۔ ۔   اور   دیکھئے۔ ۔ ۔ اس سے کہئے کچھ ایسے کھیل بھی لے آئے جو میں۔ ۔ ۔  میں بھی سعیدہ کے ساتھ کھیل سکوں۔

بیگم صاحب    : (بے حد متاثر ہو کر امجد کا سر اپنے ہاتھوں میں لے کر) میرے بچے!

(امجد بلک بلک کر رونا شروع کر دیتا ہے۔ ۔ ۔  اصغری ضبط نہیں کر سکتی  اور   چیختی ہوئی ایک طرف دوڑ جاتی ہے۔ ۔ ۔  بیگم کی آنکھوں سے خاموش آنسو رواں ہیں۔ )

۔ ۔ ۔ پردہ۔ ۔ ۔

 

 

چوتھا منظر

 

 (وہی کمرہ جو پہلے  اور  دوسرے منظر میں ہے۔ ۔ ۔ رات کا وقت، فضا بالکل خاموش ہے۔ بڑے بے ڈھنگے طریق پر مسہری پر سعیدہ تین چار گدگدے تکیوں میں اپنا نیم سنہرے بالوں والا سر دبائے کوئی کتاب پڑھنے میں مشغول ہے۔ ۔ ۔ نظریں کتاب کے حروف کے بجائے اس کے اپنے دل کی جانب معلوم ہوتی ہیں۔ سینے کے مقام پر کمبل کی سلوٹیں چغلیاں کھا رہی ہیں  اور   ننھے سے تالاب میں جزر کا نقشہ پیدا ہو رہا ہے۔ ۔ ۔  بائیں طرف لوہے کی ہسپتالوں جیسی چارپائی بچھی ہے۔ ۔ ۔ اس کے ساتھ اپاہجوں والی کرسی میں امجد بیٹھا ہے۔ اس کے ہاتھ میں کتاب ہے۔ وہ اسے یوں پکڑے ہے جیسے کوئی شیشے کی چیز ہے۔ اس کی نظریں پریشان ہیں۔ کتاب کے حروف سے اٹھ کر کبھی وہ سعیدہ کے ہاتھوں پر   جا بیٹھتی ہیں۔ کبھی اس کے سنہرے بالوں والے سر پر جو تکیوں میں دھنسا ہے۔ ۔ ۔ آخر اس سے نہیں رہا جاتا۔ ۔ ۔ کتاب بند کر کے اپنی گود  میں رکھتا ہے  اور  بڑی آہستگی کے ساتھ سعیدہ سے مخاطب ہوتا ہے۔ )

 

 

امجد    :سعیدہ!

سعیدہ  : (چونک کر) جی؟

امجد    :میرا خیال ہے، اب سو جاؤ۔

سعیدہ  : (کروٹ بدل کر امجد کو دیکھتے ہوئے)آپ سونا چاہتے ہیں تومیں غلام محمد اور   کریم کو بلاؤں کہ وہ آپ کو لٹا دیں۔

امجد    : (کھوکھلی آواز میں) لٹا دیں۔ ۔ ۔  نہیں سعیدہ۔ ۔ ۔ میں لیٹ لیٹ کے تھک گیا ہوں۔ ۔ ۔ آج یہیں کرسی پرسو جاؤں گا۔ ۔ ۔ تمہیں تکلیف نہ ہو تو اٹھ کے یہ بتی بجھا دو اور  سبز بتی روشن کر دو۔

سعیدہ  : (اٹھتی ہے)آپ بار بار میری تکلیف کا ذکر کیوں کرتے ہیں۔

امجد    :میں خود تکلیف میں ہوں۔

سعیدہ  : (چڑ کر) مجھے اس کا احساس ہے امجد صاحب۔ ۔ ۔ مگر  بتائیے میں آپ کے لئے کیا کر سکتی ہوں۔ ۔ ۔ مجھ سے جوہو سکتا ہے، میں کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ۔ ۔ مگر  مصیبت یہ ہے کہ آپ کو ہر وقت میری تکلیف کی پڑی رہتی ہے۔ ۔ ۔ مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔

امجد    :سعیدہ، تم بہت اچھی ہو۔

(سعیدہ بتی اوف کرتی ہے۔ ۔ ۔ چند لمحات کے لئے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ ۔ ۔ پھر کمرے کی ہر چیز ہلکی ہلکی سبز روشنی میں نہانا شروع کر دیتی ہے۔ )

سعیدہ  :کاش میں اچھی ہوتی۔ ۔ ۔ اچھی ہو سکتی۔

(صوفے پر بیٹھ جاتی ہے۔ ۔ ۔ سینے سے اس کا اضطراب ظاہر ہے۔ )

امجد    :اس سے زیادہ تم  اور  کیا اچھی ہو سکتی ہو، سعیدہ۔

سعیدہ  : (تیزی سے) جی نہیں۔ ۔ ۔ آپ نہیں جانتے۔

امجد    : (بہت ہی ملائم آواز میں) اگر کسی وجہ سے میں نے تمہیں ناراض کر دیا ہے تو مجھے معاف کر دو۔

سعیدہ  : (امجد کی طرف دیکھتی ہے۔ ۔ ۔ اٹھتی ہے  اور  مسکراتی ہوئی اپنی لمبی لمبی انگلیوں سے امجد کے بالوں میں کنگھی کرتی ہے) سچ تو یہ ہے امجد صاحب کہ میں آپ کے لائق نہیں ہوں۔

امجد    : (سعیدہ کا ہاتھ پکڑ کر)۔ ۔ ۔ یہ تمہارے دل کی اچھائی ہے اگر تم ایسا سمجھتی ہو، ورنہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

سعیدہ  : (بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے) سو جائیے۔ ۔ ۔  کئی راتوں سے آپ جاگ رہے ہیں۔ ۔ ۔ بلکہ جب سے یہاں آئے ہیں، ایک لحظے کے لئے بھی آپ کی آنکھ نہیں لگی۔

امجد    :مجھے نیند نہیں آئی سعیدہ۔

سعیدہ  :کیوں ؟

امجد    :معلوم نہیں کیوں۔ ۔ ۔ بس ایسا لگتا ہے کہ نیند کبھی آئی تھی نہ آئے گی۔ ۔ ۔  میں تو وہ راتیں بھی یاد کرنا بھول گیا ہوں جب سویا کرتا تھا۔

سعیدہ  :کاش، میں آپ کو اپنی نیند دے سکتی۔

امجد    :نہیں سعیدہ۔ ۔ ۔ میں اتنی عزیز چیز تم سے نہیں چھیننا چاہتا۔ ۔ ۔ یہ تمہاری آنکھوں ہی کے لئے سلامت رہے جو نیند میں  اور  بھی زیادہ خوبصورت ہو جاتی ہیں۔ ۔ ۔ جاؤ، اب سو جاؤ۔

سعیدہ  :میں کم بخت تو سو ہی جاؤں گی۔

امجد    :ایسا نہ کہو۔ ۔ ۔ خدا تمہارے بخت بلند کرے۔ ۔ ۔ جاؤ سو جاؤ۔

سعیدہ  : (چڑ کر)آپ کیوں میرے ساتھ اتنی نرمی سے پیش آتے ہیں۔ ۔ ۔  امجد صاحب، مجھے اس سے بڑی وحشت ہوتی ہے۔ ۔ ۔  خدا کی قسم آپ کی یہ نرمی، یہ حلیمی، یہ انکسار، ایک دن مجھے پاگل بنا دے گا۔

(جھنجھلا کر تیزی سے مسہری کی طرف بڑھتی ہے  اور  خود کو بستر میں گرا دیتی ہے۔ )

امجد    :مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرے منہ سے جو باتیں نکلتی ہیں، وہ بھی ٹوٹی پھوٹی ہوتی ہیں۔

(سعیدہ خاموش رہتی ہے۔ کروٹ بدل کروہ اپنا منہ دوسری طرف کر لیتی ہے۔ ۔ ۔ امجد اپنی گود میں سے کتاب اٹھاتا ہے  اور   اس کی ورق گردانی شروع کر دیتا ہے۔ ۔ ۔ سکوت کا عالم ہے۔ ہلکی ہلکی سبز روشنی میں یہ سکوت  اور  بھی زیادہ نحیف ہو گیا ہے۔ ۔ ۔ کافی لمبا عرصہ خاموشی میں گزرتا ہے، بڑی بے زار سی خاموشی میں۔ ۔ ۔ امجد کے چہرے پر روشنی قبروں کے سبز غلاف کی طرح چڑھی ہے۔ ۔ ۔  اس کی نگاہیں کتاب سے ہٹ کر بار بار سعیدہ کی جانب اٹھتی ہیں،  اور  شرمسار ہو کر دبے پاؤں لوٹ آتی ہیں۔ ۔ ۔  تھوڑی دیر کے بعد امجد بہت زیادہ مضطرب ہو جاتا ہے۔ )

امجد    :سعیدہ!

سعیدہ  :جی!

امجد    :میں۔ ۔ ۔ میں تم سے ایک درخواست کرنی چاہتا ہوں۔

سعیدہ  : (کروٹ نہ بدلتے ہوئے)کیا؟

امجد    :کیا۔ ۔ ۔ کیا آج ہماری پہلی رات ہو سکتی ہے۔ ۔ ۔

سعیدہ  : (بستر میں لرز سی جاتی ہے)

امجد    :وہ رات۔ ۔ ۔ جو ابھی تک نہیں آئی۔

(سعیدہ خاموش رہتی ہے۔ )

(وقفہ)

امجد    :سعیدہ۔

سعیدہ  :جی!

امجد    :کیا تم میری یہ درخواست قبول کر سکتی ہو؟

سعیدہ  : (کروٹ بدل کر امجد کو دیکھتی ہے۔ ۔ ۔ اس کی آنکھوں میں سپردگی کی زخمی خواہش تیر رہی ہے) کیسے امجد صاحب!

امجد    :جھوٹ موٹ۔ ۔ ۔ محض میرے بہلاوے کے لئے۔ ۔ ۔ تم یہ فرض کر لو کہ میں تمہارے پہلو میں لیٹا ہوں۔ ۔ ۔ میں یہاں فرض کر لوں گا کہ تم میرے پہلو میں لیٹی ہو۔ ۔ ۔ میں تم سے وہی باتیں شروع کروں گا جو پہلی رات کو مجھے تم سے کہنا تھیں۔ ۔ ۔ تم اسی طرح جواب دنیا، جس طرح کہ تمہیں دینا تھا۔ ۔ ۔ میرے لئے۔ ۔ ۔ کیا میرے لئے تم جھوٹ موٹ کا کھیل کھیل سکتی ہو سعیدہ۔

سعیدہ  : (آنکھوں میں سپردگی کی زخمی خواہش کی بجائے رحم کے آنسو تیر رہے ہیں)میں حاضر ہوں امجد صاحب۔

امجد    :شکریہ۔

(طویل وقفہ)

امجد    :آج ہماری پہلی رات ہے سعیدہ۔ ۔ ۔ وہ رات جس میں جوانیاں ارضی جنت کی طرف پہلا قدم اٹھاتی ہیں۔ ۔ ۔ وہ رات جس کی تمام پہنائیوں میں دوجی غوطہ لگاتے ہیں  اور  ایک ہو جاتے ہیں۔ ۔ ۔ شرماؤ نہیں۔ ۔ ۔  یہ رات تو وہ ہے جب تمام پوشیدہ حقیقتوں کے گھونگھٹ اٹھنے کے لئے بیتاب ہوتے ہیں۔ ہلکی سی سرگوشی، نرم سی آہ، ایک چھوٹا سا لمس، پریدہ سانس کا ننھا سا ہلکورا بھی ان گھونگھٹوں کے پٹ کھول دیتا ہے۔ ۔ ۔  اس قدر آہستہ کہ بے معلوم سرسراہٹ تک بھی نہیں ہوتی  اور   آدمی، دیدار۔ ۔ ۔ پورے دیدار کے تمام مراحل طے کر جاتا ہے۔ ۔ ۔  یہ وہ رات ہے جب نگاہیں ٹکرا ٹکرا کر تارے جھڑتی ہیں  اور   افشاں دونوں زندگیوں کے ایک ماتھے پرچنی جاتی ہے۔ ۔ ۔ یہ وہ رات ہے۔ ۔ ۔ پہلی رات، سب سے پہلی، جب آدم کی پسلیاں چیر کر حوا نکالی گئی تھی۔ ۔ ۔  یہ وہ رات ہے جس کی درازیِ عمر کے لئے، شاعر دعائیں مانگ مانگ کر ابھی تک نہیں تھکا۔ ۔ ۔ یہ وہ رات ہے جس کے حصول کے لئے جوانی کی جائے نماز بچھا کر زندگی اکثر سجدہ ریز رہی ہے۔ ۔ ۔  یہ وہ رات ہے جس میں حجاب کی تمام گرہیں فطرت کے ناخن خود کھولتے ہیں۔ ۔ ۔  یہ وہ رات ہے جب قدرت کے تمام کارخانے صرف ایک ہی پرزہ ڈھال رہے ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ وہ پرزہ جس نے کائنات کے ان تمام کارخانوں کو حرکت بخشی تھی۔ ۔ ۔ یہ وہ رات ہے جب تمام آوازیں واپس اپنے مخرجوں میں چلی جاتی ہیں کہ اس آواز کا جلوس انتہائی آرام و سکون سے گزر جائے۔ جس میں دکن کی گونج ہے۔ ۔ ۔ یہ وہ رات ہے جس کا ہر پردہ اجالے سے بنا ہے۔ ۔ ۔ یہ وہ رات ہے، ہر آنے والی رات جس کے حضور جھولی پھیلائے بھیک کی منتظر کھڑی ہے۔ ۔ ۔  یہ وہ رات ہے جب بدن کارواں رواں منہ کھول کے بولتا ہے  اور  کان کھول کے سنتا ہے۔ ۔ ۔ بڑے بڑے ان کہے راز۔ ۔ ۔ بڑے بڑے ان گائے راگ۔ ۔ ۔ (ایک دم چیخ کر) ڈھانپ لو۔ ۔ ۔ ڈھانپ لو۔ ۔ ۔  سعیدہ اپنا بدن ڈھانپ لو۔ ۔ ۔ یہ مجھے ڈس رہا ہے۔ ۔ ۔ اس کا ایک ایک خط تلوار کی دھار کے مانند میری لولی خواہشوں پر پھر رہا ہے۔ ۔ ۔  ڈھانپ لو۔ ۔ ۔  خدا کے لئے اپنا جسم ڈھانپ لو۔

سعیدہ  : (ہلکی ہلکی سبز روشنی میں گھاس کی نرم نرم پتیوں سے بنی ہوئی لاش کے مانند لیٹی ہے۔ اس کا بدن لرز رہا ہے۔ ۔ ۔  ایک ایک انگ کانپ رہا ہے) جی؟

امجد    : (بلک بلک کر رونے لگتا ہے) اپنا بدن ڈھانپ لو۔

(سعیدہ اپنا لرزتا ہوا بدن کمبل سے ڈھانپ لیتی ہے۔ امجد آنکھوں کے سامنے ہاتھ رکھے روتا رہتا ہے۔ )

۔ ۔ ۔ پردہ۔ ۔ ۔

 

 

 

 

پانچواں منظر

 

 (نگارولاسے ملحقہ باغیچہ۔ ۔ ۔ شام کاوقت۔ فوارے کاپانی کھل کھیل رہا ہے۔ سائے گہرے ہو چکے ہیں۔ پس منظر میں خاکستری پہاڑیاں شام کے دھندلکوں میں سنگینی اختیارکرگئی ہیں۔ آسمان نے ایسالگتا ہے اپنے بدن پربھبوت مل لی ہے۔ تختوں کے سینے پرسبزہ خاموش لیٹا ہے۔ کرسیاں خالی ہے۔ ۔ ۔ ساری فضاخالی ہے۔ اس فریم کی طرح جس میں تصویر جڑی جانے والی ہے۔ ۔ ۔ مجید اور  سعیدہ کی ہنسی کی آواز آتی ہے۔ ۔ ۔ چندلمحات کے بعددونوں ہنستے، بڑی مشکل سے اپنی تھکاوٹ کا بوجھ اٹھاتے داخل ہوتے ہیں۔ ۔ ۔  سعیدہ نڈھال ہوکر خودکوکرسی میں گرٍا دیتی ہے مجید اس کے پاس کھڑا رہتا ہے۔ )

 

سعیدہ  : (رانوں پر مکیاں مارتے ہوئے)اف۔ ۔ ۔ ف!

مجید    : (ہنستا ہے) آپ تھک گئیں۔ ۔ ۔  دبا دوں آپ کو؟

سعیدہ  : (گھبرا کر) نہیں نہیں۔ ۔ ۔  اصغری کو بھیج دیجئے۔ ۔ ۔  مجھ سے تو اب دو قدم بھی چلنا دشوار ہے۔

مجید    : (مسکراتا ہے) بہتر۔ ۔ ۔

(آگے بڑھ کر سعیدہ کے چہرے پر نیم سنہرے بالوں کی آوارہ لٹ انگلیوں سے اٹھا کر ایک طرف کر دیتا ہے۔ )

سعیدہ  : (بہت زیادہ گھبراہٹ سے) میں جاتی ہوں اندر۔

(اٹھنے لگتی ہے۔ )

مجید    : (ایک طرف دیکھ کر) لو، وہ اصغری خود ہی آ گئی۔ ۔ ۔  آؤ، اصغری۔ ۔ ۔  بھابھی جان کے پاؤں دبا دو۔

(اصغری داخل ہوتی ہے۔ ۔ ۔ اس کے ہونٹوں کے اختتامی کونے کپکپا رہے ہیں جیسے کچھ کہنے کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ پاس آ جاتی ہے۔ )

اصغری: (سعیدہ سے) دولہن بیگم تھک گئیں آج؟

سعیدہ  : (رانوں پر مکیاں مارتے ہوئے) ہاں!

اصغری: (گھاس پر بیٹھ کر، سعیدہ کی ایک پنڈلی دبانا شروع کرتی ہے۔ خطاب مجید سے ہے) یہ سب مجید میاں کا قصور ہے۔ ۔ ۔ اتنی بڑی سیر اور   اتنی جلدی۔ ۔ ۔ (لہجے میں تیکھا پن ہے) ہر چیز دھیرے دھیرے ہونی چاہئے (ہولے ہولے دباتی ہے) اس طرح۔ ۔ ۔ ہولے ہولے (سعیدہ سے) کیوں دولہن بیگم۔ ۔ ۔  کچھ آرام محسوس ہوا آپ کو؟

سعیدہ  : (دوسری ٹانگ جو اصغری کی گرفت سے آزاد ہے، اضطراب کا شدید مظاہرہ کرتی ہے) ٹھیک ہے، ٹھیک ہے!

اصغری: (مجید سے) مجید میاں، آپ جائیں۔ ۔ ۔  منہ ہاتھ دھو آئیں۔ ۔ ۔  گردو غبار سے آپ کا چہرہ بالکل ان دھویا آلو بنا ہوا ہے۔

مجید    : (تیزی سے) تم بہت گستاخ ہو گئی ہو۔ ۔ ۔  یہ سب۔ ۔ ۔

اصغری: (مجید کی بات کاٹ کر) دولہن بیگم کا قصور ہیں جنھوں نے مجھے منہ لگا لیا ہے (سعیدہ کے چہرے کی طرف دیکھ کر) ایسا خوبصورت منہ!

(مجید نگاہوں ہی نگاہوں میں غصہ برساتا چلا جاتا ہے۔ )

اصغری: (ہنستی ہے) مجید میاں کی شکل و صورت یوں تو ماشاء اللہ بڑی اچھی ہے۔ ۔ ۔ مگر  غصے میں ہمیشہ بگڑ جاتی ہے۔ ۔ ۔  آپ کا کیا خیال ہے۔

سعیدہ  :تم مجھ سے ایسی باتیں نہ کیا کرو (اٹھا چاہتی ہے مگر  اصغری کی مضبوط گرفت کے باعث نہیں اٹھ سکتی) چھوڑ دو مجھے۔

اصغری: (دباتے ہوئے) میں اس خدمت سے خود کو چھڑانا نہیں چاہتی (سعیدہ کے پاؤں سے سینڈل اتارتی ہے) مجید میاں کہہ رہے تھے، میں گستاخ ہو گئی ہوں۔ ۔ ۔ کیا یہ درست ہے دولہن بیگم۔

سعیدہ  :بالکل درست ہے۔

اصغری: (بڑے اطمینان سے سعیدہ کے پاؤں کی انگلیاں چٹخاتے ہوئے) تو یہ بہت بری بات ہے۔ ۔ ۔ نوکرانی کو گستاخ کبھی نہیں ہونا چاہئے۔ ۔ ۔  آپ میرے کان کھینچئے۔

سعیدہ  :خاموش رہو!

اصغری:یہ ظلم ہے۔ ۔ ۔ زبان بندی بہت بڑا ظلم ہے دولہن بیگم۔ ۔ ۔ میں نے ایسی کونسی بات کی جو آپ کونا گوار گزری۔

سعیدہ  : (اضطراب کے ساتھ) تمہاری سب باتیں مجھے ناگوار گزرتی ہیں۔

اصغری:اصغری بے چاری اب کیا کرے۔ ۔ ۔ (توقف کے بعد) میں تو یہ سمجھتی تھی کہ آپ جیسی لکھی پڑھی بیگم کی نوکری میں اس ایک برس کے اندر اندر ہی مجھے سب کچھ آ گیا ہے۔ ۔ ۔ پر اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں غلط سمجھی تھی۔ ۔ ۔ میں نے آپ سے کچھ بھی نہیں سیکھا؟۔ ۔ ۔ لیکن یہ کس کا قصور ہے ؟سیکھنے والے کایا سکھانے والے کا؟

سعیدہ  : (اپنی دونوں ٹانگیں ایک طرف سمیٹتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں) تم کہنا کیا چاہتی ہو؟

اصغری: (مصنوعی حیرت سے) میں ؟

سعیدہ  :ہاں تم۔ ۔ ۔ کیا کہنا چاہتی ہو تم؟

اصغری: (سوچتے ہوئے) کہنے کو تومیں بہت کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ ۔ ۔

سعیدہ  : (اٹھ کر ننگے پاؤں گھاس پر چلتے ہوئے) تو کہہ ڈالو آج۔ ۔ ۔ مجھے تمہاری ہر روز کی مہین مہین چٹکیاں پسند نہیں۔ ۔ ۔  جو  تم کہنا چاہتی ہو، میں سننے کے لئے تیار ہوں۔

اصغری:آپ بڑی ہمت والی ہیں دولہن بیگم۔

سعیدہ  :میں ہمت والی ہوں، یا بزدل ہوں، تم اسے چھوڑو۔ ۔ ۔ جو کہنا چاہتی ہو آج اگل ڈالو۔

اصغری:یہ قے آپ کو اور   مجھے دونوں کو تکلیف دے گی۔

سعیدہ  :میری تکلیف کا تم کچھ خیال نہ کرو۔ ۔ ۔ میں برداشت کر لوں گی۔

اصغری: (سوچتے ہوئے) میں سمجھی تھی۔ میرے دانتوں تلے دبی ہوئی کٹاری دیکھ کر آپ ڈر جائیں گی۔ پر اب ایسا لگتا ہے کہ آپ چلتی چلتی ایسی جگہ پہنچ گئی ہیں جہاں زخموں کی کوئی پروا نہیں رہتی۔ ۔ ۔ اب تو مجھے خوف آنے لگا ہے آپ سے۔

سعیدہ  : (اضطراب میں ادھر ادھر ٹہلتے ہوئے) اصغری!

اصغری: (چونک کر) جی؟

سعیدہ  :تم مجھے یہ بتاؤ۔ ۔ ۔  اگر امجد میاں گاڑی کے حادثے میں مر جاتے تو میں کیا کرتی؟

اصغری:آپ؟۔ ۔ ۔ مجھے معلوم نہیں آپ کیا کرتیں۔

سعیدہ  :میں جوان ہوں، خوبصورت ہوں۔ ۔ ۔ میرے سینے میں ایسے ہزاروں ارمان ہیں جو میں سترہ برس تک اپنے خیالوں کا شہد پلا پلا کر پالتی پوستی رہی ہوں۔ ۔ ۔ میں ان کا گلا نہیں گھونٹ سکتی۔ ۔ ۔ میں نے بہت کوشش کی ہے اصغری۔ ۔ ۔ میرا خدا جانتا ہے، میں نے بہت کوشش کی ہے، لیکن میں اپنے ہاتھوں کو اس قتل پر آمادہ نہیں کر سکی۔ ۔ ۔ تم مجھے کمزور کہہ لو۔ ۔ ۔ بزدل کہہ لو۔ ۔ ۔ اخلاق باختہ کہہ لو۔ ۔ ۔ تم ایک نوکرانی ہو۔ ۔ ۔ میں تمہارے سامنے اعتراف کرتی ہوں کہ میں اپنی جوانی کا باغ، جس کے پتے پتے، بوٹے بوٹے میں میرے کنوارے ارمانوں کا گر م گرم خون دوڑ رہا ہے، اپنے ہاتھوں سے نہیں اجاڑ سکتی۔ ۔ ۔ ویسے میں کسی کو بھی اجازت دے سکتی ہوں کہ وہ میری آنکھیں بند کر کے۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔  میرے تمام حواس میں تالے لگا کر بڑھاپے  اور رنڈاپے کی عمیق ترین گہرائیوں میں اتار دے۔ ۔ ۔ یا ایک ہی بار دھکا دے کر مجھے اپنے ارمانوں کی لرزتی ہوئی چٹانوں کی چوٹیوں پرسے نیچے گرا دے، جن پر میں اس وقت تک دامن سمیٹے تند ہواؤں کا مقابلہ کرتی رہی ہوں۔ ۔ ۔  میں تم کو بھی اس کی اجازت دیتی ہوں۔

اصغری: (شکست خوردہ اٹھتی ہے) بس دولہن بیگم۔

سعیدہ  :میں ایک ایسے دورا ہے پر کھڑی ہوں اصغری، جہاں زمین میرے قدموں کے نیچے گھوم رہی ہے۔ میں جس راستے کی طرف منہ کرتی ہوں وہی مجھ سے منہ موڑ لیتا ہے۔ ۔ ۔ میں جو ارادہ کرتی ہوں، مجھ سے اپنا دامن چھڑا کے بھاگ جاتا ہے۔ میں اس کے پیچھے بھاگتی ہوں۔ ۔ ۔  اندھا دھند دوڑتی ہوں  اور  جب اسے پکڑ لیتی ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ریت کا بنا تھا۔ میرے پکڑتے پکڑتے ہی ڈھیر ہو جاتا ہے۔ ۔ ۔ اصغری تم نہیں جانتی ہو، میں کتنی دیر سے انگاروں کے بستر پر لوٹ رہی ہوں۔ بجھانے کے لئے میں پر پانی ڈالتی ہوں تو بھاپ کے ایسے بگولے اٹھتے ہیں جو مجھے اپنے ساتھ اونچائیوں میں لے جاتے ہیں  اور   جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر ایک دم نیچے دے پٹکتے ہیں۔ ۔ ۔  میری ہڈی ہڈی، پسلی پسلی چور ہو چکی ہے اصغری۔ ۔ ۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر امجد صاحب کے بدلے میں اپاہج ہوئی ہوئی۔

(طویل وقفہ۔ ۔ ۔ اصغری خاموش کھڑی رہتی ہے۔ ۔ ۔  سعیدہ اضطراب میں ادھر ادھر ٹہلتی رہتی ہے۔ )

سعیدہ  :بتاؤ، مجھے کیا کرنا چاہئے۔

اصغری: (محویت کے عالم سے بیدار ہوتی ہے)کیا کرنا چاہئے ؟۔ ۔ ۔  آپ کو۔ ۔ ۔ آپ کو امجد میاں کی موت کا انتظار کرنا چاہئے۔

سعیدہ  : (کچھ دیر سوچ کر)تم مجھے انتہا درجے کی سنگدل کہو گی۔ ۔ ۔ لیکن میں پوچھتی ہوں۔ ۔ ۔ انھیں کب موت آئے گی۔

اصغری:جب اللہ میاں کو منظور ہو گا(بڑبڑاتی ہے) لیکن امجد میاں کی دوستی تو ان سے ختم ہو چکی ہے۔

سعیدہ  :کیا کہا؟

اصغری:جی، کچھ نہیں۔

(اکھڑے اکھڑے قدم اٹھاتی اصغری چلی جاتی ہے۔ ۔ ۔  سعیدہ ننگے پاؤں گھاس کے ٹھنڈے ٹھنڈے فرش پر اضطراب کی حالت میں ٹہلتی رہتی ہے۔ )

۔ ۔ ۔ پردہ۔ ۔ ۔

 

 

 

چھٹا منظر

 

 (نگار ولا۔ ۔ ۔ ڈرائنگ روم۔ ۔ ۔ وسیع و عریض کمرہ جو پرانی وضع کے ساز و سامان سے آراستہ ہے۔ ہر چیز وزنی  اور  پائیدار ہے۔ ۔ ۔ دیواروں پر آئل پینٹنگز آویزاں ہیں۔ جو خاندان کے مختلف افراد کی ہیں۔ ایک پینٹنگ بیگم کی ہے جب کہ وہ جوان تھی۔ اس پینٹنگ کے نیچے بیگم ایک صوفے پر بیٹھی تقابل پیش کر رہی ہے۔ تصویر میں وہ بے فکر ہے مگر  صوفے میں سخت فکرمند۔ اس کا چہرہ غم و اندوہ کا مجموعہ ہے کوئی رونی چیز بن رہی ہے، مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپنے خیالات و افکار کے الجھے ہوئے دھاگے کبھی لپیٹتی ہے کبھی کھولتی ہے۔ ۔ ۔  اصغری داخل ہوتی ہے۔ )

 

 

بیگم    :مجید میاں ملے ؟

اصغری:جی ہاں!

بیگم صاحب    :کہاں تھے ؟

اصغری:باغیچے میں۔

بیگم صاحب    :کیا کر رہے تھے ؟

اصغری:جی؟۔ ۔ ۔ (رک کر) اکیلے بیٹھے تھے۔

بیگم صاحب    : (اصغری کی طرف دیکھ کر نگاہیں نیچی کر کے) آ رہے ہیں۔

اصغری: جی ہاں!

بیگم صاحب    :تم جاؤ۔

(اصغری چلی جاتی ہے۔ ۔ ۔ مجید ا س کی طرف دیکھتا اندر داخل ہوتا ہے۔ )

مجید    :کیا بات ہے !امی جان؟

بیگم صاحب    :کچھ نہیں۔ ۔ ۔  بیٹھ جاؤ۔

مجید    : (پاس ہی صوفے کی دوسری کرسی پر بیٹھ جاتا ہے) یہاں سردی ہے۔

بیگم صاحب    :ہاں۔ ۔ ۔ یہاں سردی ہے۔

(وقفہ)

مجید    : (بے چینی محسوس کرتے ہوئے) میرا خیال ہے۔ ۔ ۔  آپ نے مجھے یہاں کچھ کہنے کے لئے بلایا ہے۔

بیگم صاحب    :ہاں!

مجید    :فرمائیے ؟

بیگم صاحب    :میں تمہیں یہاں سے بھیجنا چاہتی ہوں۔

مجید    :مجھے ؟(اٹھ کر) کہاں ؟

بیگم صاحب    :بیٹھ جاؤ۔

مجید    : (بیٹھ جاتا ہے) یہ لیجئے۔

بیگم صاحب    :میں نے ابھی امجد سے بات نہیں کی۔

مجید    : (پھر اٹھ کر کھڑا ہوتا ہے) کون سی۔

بیگم صاحب    :یہی تمہیں یہاں سے بھیجنے کی۔

مجید    :لیکن آپ مجھے یہاں سے کیوں بھیج رہی ہیں۔ ۔ ۔  میرا مطلب ہے کوئی خاص کام ہے یا۔ ۔ ۔

بیگم صاحب    :بیٹھ جاؤ۔

مجید    : (بیٹھ جاتا ہے) کوئی خاص کام ہے ؟

بیگم صاحب    :نہیں۔

مجید    :تو پھر مجھے یہاں سے کہیں باہر بھیجنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی ہے۔

بیگم صاحب    :کہ میں اسی میں بہتری سمجھتی ہوں۔

مجید    :بہتری؟۔ ۔ ۔ کس کی بہتری؟

بیگم صاحب    :ہم سب کی۔ ۔ ۔ اس گھرکی۔

مجید    : (اٹھ کھڑا ہوتا ہے) آپ پہیلیوں میں بات کر رہی ہیں امی جان۔

بیگم صاحب    :مجید تم میرے لڑکے ہو، میں تمہاری ماں ہوں۔ ۔ ۔ میرے تمہارے درمیان کوئی ایسی گفتگو نہیں ہونی چاہئے جواس مقدس رشتے پر ذرا سی بھی کالک لگائے۔ ۔ ۔ میں چاہتی ہوں کہ تم آج ہی کراچی چلے جاؤ  اور   جب تک میں کہوں وہیں رہو۔

مجید    :لیکن امی جان۔ ۔ ۔

بیگم صاحب    : (بات کاٹ کر) تمہارے وہاں بے شمار دوست موجود ہیں۔ ۔ ۔  مجھے یقین ہے، تم ان کی مدد سے، یا خود اپنی ہمت سے، اس منجدھار میں سے جسے زندگی کہتے ہیں اپنی کشتی صحیح و سلامت کنارے لے جاؤ گے۔

مجید    : (کچھ کہنا چاہتا ہے مگر  کہہ نہیں سکتا  اور   بیٹھ جاتا ہے) بہت بہتر۔ ۔ ۔  میں چلا جاؤں گا۔

بیگم صاحب    :تمہارا فیصلہ۔ ۔ ۔

(ایک دم خاموش ہو جاتی ہے۔ )

(کمرے میں امجد اپاہجوں والی کرسی میں داخل ہوتا ہے جسے کریم چلا رہا ہے۔ )

امجد    : (مجید سے)یار مجید، تم بھی عجیب آدمی ہو۔ ۔ ۔ میں وہاں کمرے میں بیٹھا تمہارا انتظار کر رہا تھا کہ تم آؤ گے توہم دونوں سعیدہ کی سالگرہ کے تحفے کے متعلق سوچیں گے۔ ۔ ۔ لیکن تم یہاں بیٹھے ہو(بیگم صاحب سے)امی جان۔ ۔ ۔ آپ نے کیا سوچا۔ ۔ ۔ کیسا تحفہ ہونا چاہئے۔ ۔ ۔  میں تو سوچ سوچ کر پاگل ہو گیا ہوں۔

بیگم صاحب    :تم سعیدہ سے کیوں نہیں پوچھتے۔

امجد    :لو اور  سنو(ہنستا ہے) حد کر دی آپ نے امی جان۔ ۔ ۔  اس سے مشورہ لیا تو تحفے  کا مزا کیا خاک آئے گا(مجید سے) کیوں مجید؟

(مجید خاموش رہتا ہے۔ )

امجد    :بولو یار۔

مجید    : (اٹھ کر) آپ امی جان سے پوچھئے۔ ۔ ۔  میں تو جا رہا ہوں۔

امجد    : (حیرت سے) جا رہے ہو؟۔ ۔ ۔ کہاں جا رہے ہو؟

مجید    :کراچی!

امجد    :یقیناً تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ ۔ ۔  کیا کرنے جا رہے ہو کراچی؟

مجید    :کیا کرنے جا رہا ہوں، (پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ) منجدھار میں سے اپنی کشتی نکالنے۔

امجد    : (بیگم سے) کیا ہو گیا ہے اسے (مجید سے) بیٹھو یار۔ ۔ ۔  پرسوں اس کی سالگرہ ہے۔ ۔ ۔  ابھی ابھی فیصلہ ہو جانا چاہئے۔

مجید    :فیصلہ تو ہو چکا ہے۔

امجد    :کیا؟

مجید    :کہ میں کراچی جا رہا ہوں  اور  پھر کبھی واپس نہیں آؤں گا۔

امجد    :کیا بکتے ہو(بیگم سے) امی جان، یہ قصہ کیا ہے ؟

بیگم صاحب    :کچھ نہیں۔ ۔ ۔  ماں بیٹے میں لڑائی ہو گئی کسی بات پر۔

امجد    :کس بات پر؟

بیگم صاحب    :تم نہیں پوچھ سکتے۔

امجد    :عدول حکمی تو ہوتی ہے۔ ۔ ۔ لیکن مجید میرا بھائی ہے۔ ۔ ۔  آپ کے  اور   اس کے درمیان اگر کوئی رنجش یا غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے تو اسے دور کرنا میرا فرض ہے۔ ۔ ۔ مجید کو میں آپ سے زیادہ جانتا ہوں۔ ۔ ۔ اس سے ایسی کوئی غلطی سر زد نہیں ہو سکتی۔ جو آزار کا موجب ہو۔ ۔ ۔ (مجید سے) ادھر آؤ مجید۔

مجید    :بھائی جان، مجھے اپنا اسباب بندھوانا ہے۔

امجد    :لاحول ولا۔ ۔ ۔ یہ سب کیا ہے۔ ۔ ۔ (بیگم سے) امی جان۔ ۔ ۔  خدا کے لئے اسے روکئے۔ ۔ ۔ میرے لئے نہیں تو سعیدہ کے لئے روکیے۔ ۔ ۔  اس گھر میں ایک صرف یہی ہے جس نے ابھی تک اسے اداس نہیں ہونے دیا۔ ۔ ۔ میری خاطر اتنی زحمت برداشت کرتا ہے۔ ۔ ۔  اگر آپ نے اسے جانے دیا تو امی جان، میں نہیں جانتا، میرا کیا حال ہو گا۔ ۔ ۔  سعیدہ کو سیر کے لئے لے جاتا ہے تومیں تصور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کے بدلے میں اس کے ہمراہ ہوں۔ اس کے ساتھ کوئی کھیل کھیلتا ہے تو وہ خلا بہت حد تک پورا ہو جاتا ہے جو قدرت کے بے رحم ہاتھوں نے میری زندگی میں پیدا کر رکھا ہے۔ ۔ ۔ میں تو کئی  بار سوچتا ہوں امجد، اگر تیرا بھائی مجید نہ ہوتا تو کیا تیری شکستہ زندگی کا ملبہ تو اس قابل نہیں تھا کہ گھورے پر پڑا ہوتا۔ ۔ ۔  امی جان اسے روکئے۔ ۔ ۔ یہ تو میرا بازو ہے۔ ۔ ۔ کیوں آپ اس کو مجھ سے جدا کر رہی ہیں۔ ۔ ۔  اللہ میاں کی جگہ نہ لیجئے امی جان۔

(رونے لگتا ہے۔ )

مجید    :میں جا رہا ہوں امی جان۔

بیگم صاحب    :ٹھیرو!

مجید    : (رک جاتا ہے۔ )

بیگم صاحب    : (اٹھتی ہے  اور  امجد کے سرپر ہاتھ پھیرتی ہے) امجد بیٹا۔ ۔ ۔ روؤ نہیں جان مادر۔ ۔ ۔ مجید نہیں جائے گا۔ ۔ ۔ جو چیز جہاں ہے وہیں رہے گی۔ ۔ ۔  اس لئے کہ اسے یہی منظور ہے۔ ۔ ۔ (مجید سے) مجید۔ ۔ ۔  بھائی کے پاس بیٹھو اور   سعیدہ کی سالگرہ کے متعلق سوچو۔

(چلی جاتی ہے۔ )

(مجید کچھ دیر سوچتا ہے۔ پھر امجد کی کرسی کی طرف بڑھتا ہے۔ )

مجید    : (آہستہ) بھائی جان، آپ مجھے جانے دیں۔

امجد    : (جھکا ہوا سر اٹھا کر) جانے دوں ؟۔ ۔ ۔ کہاں جانے دوں ؟۔ ۔ ۔  پاگل مت بنو۔

مجید    :آپ نہیں سمجھتے بھائی جان۔

امجد    :میں سب سمجھتا ہوں۔ ۔ ۔ اپنا رومال نکالو اور   ذرا میرے یہ آنسو پونچھ دو۔

مجید    : (تھوڑے توقف کے بعد اپنا رومال نکالتا ہے  اور  امجد کے آنسو پونچھتا ہے۔ ۔ ۔ جلدی جلدی)

امجد    :کیا کرتے ہو یار۔ ۔ ۔ تمہیں تو آنسو پونچھنا بھی نہیں آتا۔ ۔ ۔ (مسکراتا ہے)اتنا معمولی سا کام ہے۔

مجید    :یہ معمولی کام نہیں بھائی جان۔

امجد    : (مسکرا کر) اچھا بھائی بڑا جان جوکھوں کا کام ہے۔ ۔ ۔ آؤ ادھر بیٹھو۔ ۔ ۔  سعیدہ کی سالگرہ کے تحفے کے متعلق سوچیں۔ بیٹھو۔

مجید    : (امجد کے پاس کرسی پر بیٹھ جاتا ہے) سوچئے۔

امجد    : (آہ بھرکر) سوچتے ہیں بھائی سوچتے ہیں۔ ۔ ۔ سوچنے کے علاوہ اب  اور   کام ہی کیا ہے۔ لیکن ذرا تم بھی سوچو۔

(مجید  اور  امجد دونوں سوچ میں مستغرق ہو جاتے ہیں)

۔ ۔ ۔ پردہ۔ ۔ ۔

ساتواں منظر

 

 (نگار ولا سے ملحقہ باغیچہ۔ ۔ ۔ شام کا وقت۔ فوارے کا پانی بند ہے۔ جیسے وہ ابل ابل کر عاجز آ چکا ہے۔ پس منظر میں خاکستری پہاڑیاں دھندلکوں میں اپنی سنگینیاں جیسے چھپا رہی ہیں۔ فرش پر سبزہ روندا ہوا سا معلوم ہوتا ہے۔ دائیں طرف، فوارے سے دور ہٹ کر گھنی جھاڑیاں جن کے عقب میں امجد، اپاہجوں والی کرسی میں بیٹھا ہے۔ پشت پر اصغری کرسی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہے۔ ۔ ۔  وہ اسے چلانے لگتی ہے۔ )

 

امجد    :نہیں اصغری۔ ۔ ۔ کچھ دیر ٹھہرو۔

اصغری: (ٹھیر جاتی ہے) لیکن امجد میاں۔ ۔ ۔

امجد    :میں آج اپنی زندگی کا آخری زخم کھانا چاہتا ہوں۔

اصغری:یہ زخم کھانا اگر آپ ضروری سمجھتے ہیں تو اپنے  تصور ہی میں کھا سکتے ہیں۔ ۔ ۔  لیکن۔ ۔ ۔ یہ زخم تو آپ کے لگ چکا ہے۔ ۔ ۔ اسے دوبارہ کیوں کھانا چاہتے ہیں آپ؟

امجد    : (مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے) میری حالت میں جو آدمی ہو اس کے بدھو پنے کی کوئی حد نہیں رہتی۔ ۔ ۔ اپنے زخموں کے ٹانکے کھول کھول کر دیکھتا ہے۔ انگوروں کی زبانی ٹیسوں کی داستانیں سنتا ہے  اور   خود کو بہت بڑا شہید سمجھتا ہے۔ ۔ ۔ (ہنستا ہے) اصغری تمہاری کبھی کوئی چیز ٹوٹی نہیں، اس لئے تم لوگوں کا درد ناک حال نہیں جانتی ہو جو عجز کی انتہا کو پہنچ کر شکست و ریخت میں بلند بام عمارتیں بناتے ہیں۔

اصغری: (مسکراتی ہے)میں تو ان حدوں سے بھی آگے نکل گئی ہوں امجد میاں۔ ۔ ۔ بڑی اونچی اونچی عمارتیں بنا کر خود اپنے ہاتھوں سے ڈھا چکی ہوں۔ ۔ ۔  ایسا کرتے کرتے تو میرے دل میں بھی گٹے پڑ چکے ہیں۔

امجد    : (کانپ جاتا ہے) اصغری۔ ۔ ۔ تم بڑی خوفناک ہو۔

اصغری: (ہنستی ہے) ہر اجاڑ خوفناک ہوتی ہے۔ ۔ ۔ حالانکہ بیچاری کیا خوفناک ہو سکتی ہے۔ اسے اپنے ماتم سے اتنی فرصت ہی کہاں ملتی ہے جو دوسروں کو ڈرائے۔ ۔ ۔ وہ تو خود دبکی ہوئی، سہمی ہوئی ہوتی ہے۔

امجد    :تمہاری زندگی بھی کسی حادثے سے دوچار ہوئی؟

اصغری:جی نہیں۔ ۔ ۔ اس جی کی زندگی کسی حادثے سے کیا دو چار ہو گی جو کہ خود ایک حادثہ ہے۔

امجد    :تمہاری باتوں سے جلے ہوئے گوشت کی بو آتی ہے۔

اصغری:اس لئے کہ اب آپ کی سونگھنے کی حس جاگی ہوئی ہے۔

امجد    :پہلے سو رہی تھی۔

اصغری:جی ہاں۔ ۔ ۔ بہت گہری نیند۔

امجد    :اسے جگایا کس نے ہے ؟

اصغری:اس گاڑی نے جو پٹری سے اتر گئی۔

امجد    : (بڑبڑاتا ہے) اس گاڑی نے۔ ۔ ۔ جو پٹری سے اتر گئی۔ ۔ ۔ (ذرا بلند آواز میں) کیا یہ پھر پٹری سے اترے گی؟

اصغری:جو اللہ میاں کو منظور ہے وہی ہو گا۔

امجد    :اللہ میاں کا نام مت لو۔ ۔ ۔ میری اس کی دوستی ختم ہو چکی ہے۔

اصغری:نہیں امجد میاں، اس شخص سے ہم ایسوں کی دوستی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ۔ ۔ ٹوٹ ٹوٹ کے آپ جڑتی رہتی ہے۔

امجد    :یہ سب بکو اس ہے۔

(دونوں ایک دم چونکتے ہیں۔ قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے۔ ۔ ۔  مجید  اور   سعیدہ ہانپتے ہوئے نمودار ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ سعیدہ جو بہت تھکی ہوئی ہے، فوارے کی منڈیر پر بیٹھ جاتی ہے۔ مجید کھڑا رہتا ہے۔ )

سعیدہ  :آج تومیں بہت تھک گئی ہوں۔

مجید    :حالانکہ ہم زیادہ دور نہیں گئے۔

سعیدہ  :ہاں!

(وقفہ)

مجید    :کیا ہی اچھا ہوتا، اگر میں کراچی چلا گیا ہوتا۔

سعیدہ  :اچھا ہی ہوتا۔

مجید    :میری جان عجیب مشکل میں پھنس گئی ہے۔ ۔ ۔ میں کراچی چلا جاتا۔ ۔ ۔  لیکن سوال ہے کیا میں اس منجدھار میں سے اپنی کشتی کھے کر کنارے لے جاتا؟۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ میں ضرور ناکام رہتا۔

سعیدہ  :مجھے معلوم ہے۔

مجید    :تمہیں معلوم ہے۔ ۔ ۔ مجھے معلوم ہے۔ ۔ ۔  سوائے بھائی جان کے  اور   سب کو معلوم ہے  اور  یہی اس کہانی کا سب سے المناک حصہ ہے۔

سعیدہ  :میں نے کئی بار سوچا ہے کہ ان سے کہہ دوں، لیکن (اٹھ کھڑی ہوتی ہے)مجھے ڈر ہے، وہ اس صدمے کی تاب نہ لا سکیں گے۔

مجید    :مجھے خود اسی بات کا ڈر ہے۔ ۔ ۔ ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایک برس  اور  زندہ رہیں گے۔ ۔ ۔ غریب سے زندگی کا اتنا مختصر عرصہ چھیننا ظلم ہے۔

(جھاڑیوں کے عقب میں امجد اپنے دانت بھینچ لیتا ہے۔ ۔ ۔  اصغری مضبوطی سے اس کا کندھا  پکڑ لیتی ہے۔ )

سعیدہ  :ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے کہ جب تک وہ زندہ رہیں، خوش رہیں۔ ان کے احساسات کے نازک آبگینوں کو ہلکی سی ٹھیس بھی نہ لگے۔ ۔ ۔

مجید    : اور  اگر ہمارا کوئی چھالا گڑ کھا کے پھوٹ پڑا تو۔ ۔ ۔

سعیدہ  : (قریب قریب چیخ کر)تو قیامت آ جائے گی۔

مجید    :اسی لئے میں سوچتا ہوں کہ میں چلا جاؤں۔ ۔ ۔ جب تک بھائی جان۔ ۔ ۔

سعیدہ  : (ایک دم بات کاٹ کر)ایسا نہ کہو مجید۔ ۔ ۔ اتنے ظالم مت بنو۔

(امجد، اپاہجوں کی کرسی میں لرز جاتا ہے، اصغری اس کا دوسرا کندھا بھی مضبوطی سے پکڑ لیتی ہے۔ )

مجید    :محبت بڑی ظالم  اور  خودغرض ہوتی ہے سعیدہ۔ ۔ ۔ کم بخت دوسروں کی موت پر ناچنے کی خواہش کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتی۔

سعیدہ  :ہمیں ایسے خیال اپنے دماغ میں نہیں لانے چاہئیں۔

مجید    :ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ لیکن آ جائیں تو کیا کریں۔

سعیدہ  :کیا کر سکتے ہیں۔ ۔ ۔ چلو۔

(سعیدہ کوٹھی کی جانب چلتی ہے۔ ۔ ۔ مجید اس کے پیچھے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہے۔ ۔ ۔ جھاڑیوں کے عقب میں اپاہجوں والی کرسی میں امجد کا سر جھکا ہوا ہے۔ اس کے پیچھے اصغری بت بنی کھڑی ہے)

اصغری:چلیں ؟

امجد    : (اسی طرح سر جھکائے)نہیں۔ ۔ ۔ ابھی نہیں۔ ۔ ۔ میں سوچ رہا ہوں۔

اصغری:کیا؟

امجد    :معلوم نہیں۔ ۔ ۔ شاید سوچ رہا ہوں کہ مجھے اب کیا سوچنا چاہئے۔

اصغری:ایسی سوچ بچار بالکل فضول ہوتی ہے۔

امجد    : (سر اٹھا کر) فضول تو ہوتی ہے۔ ۔ ۔ مگر  پھر کیا کروں۔ ۔ ۔ (وقفے کے بعد) وہ اتنے ظالم نہیں ہیں جتنی تم ہو۔ ۔ ۔ تم تو مجھے سوچنے سے بھی منع کرتی ہو۔ ۔ ۔ تم بڑی ظالم ہو اصغری!

اصغری: (مسکرا کر) محبت بڑی ظالم  اور  خودغرض ہوتی ہے امجد میاں۔ ۔ ۔  کم بخت اپنی موت پربھی ناچنے سے باز نہیں آتی۔

امجد    :میرے سامنے آؤ۔

(اصغری، امجد کے سامنے آتی ہے۔ امجد اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہے۔ ۔ ۔ کچھ سوچتا ہے  اور  بڑبڑاتا ہے۔ )

امجد    :یہ کتاب اب تک کہاں پڑی تھی۔

اصغری:کہیں ردی کی ٹوکری میں۔ ۔ ۔ اپنی صحیح جگہ!

امجد    :چلو۔ ۔ ۔ مجھے لے چلو۔

(اصغری کرسی کھیتی ہے  اور  کوٹھی کی جانب چلتی ہے۔ )

۔ ۔ ۔ پردہ۔ ۔

 

 

 

آٹھواں منظر

 

 (وہی کمرہ جو پہلے، دوسرے  اور  چوتھے منظر میں ہے۔ رات کا وقت۔ ۔ ۔ چھت سے سبز روشنی کی پھوار گر رہی ہے۔ ۔ ۔ ہر شے کا اصل رنگ بدلا ہوا ہے، جیسے اعصاب زدہ مریضوں کا۔ ۔ ۔ مسہری خالی ہے۔ کچھ اس طور پر خالی جیسے وہ کبھی آباد ہی نہیں تھی۔ ۔ ۔ اصغری، امجد کو  اپاہجوں والی کرسی میں اندر لاتی ہے۔ )

 

اصغری:دولہن بیگم، بیگم صاحب کے کمرے میں کیوں چلی گئی؟

امجد    :ڈرتی تھی۔

اصغری:آپ سے ؟

امجد    : (مسکرا کر) مجھ سے کوئی کیا ڈرے گا۔ ۔ ۔ وہ اپنے آپ سے ڈرتی تھی۔

اصغری:وہ اتنی کمزور نہیں ہیں امجد میاں۔

امجد    :وقت بڑے بڑے پہاڑ کھوکھلے کر دیتا ہے۔ ۔ ۔  وہ تو ایک جوان لڑکی ہے۔

اصغری: (توقف کے بعد) آپ سونا چاہیں گے اب؟

امجد    :سونا۔ ۔ ۔ (ہنستا ہے) میرا مذاق مت اڑاؤ اصغری۔ ۔ ۔  میرے جلتے ہوئے زخموں کی توہین ہوتی ہے۔

اصغری: (توقف کے بعد) کیا آپ کو سعیدہ سے محبت ہے ؟

امجد    :نہیں۔

اصغری:تو پھر یہ جلتے ہوئے زخم کیسے ؟

امجد    :مجھے سوچنے دو۔ ۔ ۔ بولو اجازت دیتی ہو سوچنے کی؟

اصغری:آپ سوچئے۔

(طویل وقفہ جس میں امجد سوچ میں غرق رہتا ہے۔ )

امجد    :مجھے سعیدہ سے محبت نہیں ہے۔ ۔ ۔ جس طرح مارکٹ سے آدمی اچھی چیز چن کے لاتا ہے۔ ۔ ۔ اسی طرح میں نے سینکڑوں لڑکیوں میں سے اسے انتخاب کر کے اپنی بیوی بنایا تھا۔ ۔ ۔ مجھے اپنے اس انتخاب پر ناز تھا  اور  بجانا تھا۔ ۔ ۔ سعیدہ مبالغے کی حد تک خوبصورت ہے۔ ۔ ۔ اس پر میرا صرف اتنا حق ہے کہ میں نے اسے چنا  اور   اپنی رفیقہ حیات بنایا۔ ۔ ۔  اس حیات کا جواب کچلی ہوئی اسی کرسی میں ڈھیر ہے۔ ۔ ۔ جو کسی دوسرے کی مدد کے بغیر ہل نہیں سکتی۔ ۔ ۔ ڈاکٹروں نے مجھے زیادہ سے زیادہ ایک سال  اور  زندہ رہنے کے لئے دیا ہے۔ ۔ ۔ سمجھ میں نہیں آتا میں کیوں اس عرصے تک اس کو ایسی زنجیروں میں باندھ کے رکھنا چاہتا ہوں جن کا ہر حلقہ میری اپنی زندگی کی طرح غیریقینی ہے۔ ۔ ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ ۔ ۔ (سوچتے ہوئے)اس کی جوان خوبصورتی ہی ایک وجہ ہو سکتی ہے (ایک دم چونک کر)یہی، یہی۔ ۔ ۔ یہی وجہ ہے  اور  کوئی نہیں۔ ۔ ۔ (تکلیف محسوس کرتا ہے) اوہ۔ ۔ ۔ اوہ۔ ۔ ۔ وہ نظارہ۔ ۔ ۔ وہ نظارہ۔ ۔ ۔ مجھے بھول سکتا ہے۔ کبھی وہ نظارہ۔ ۔ ۔ اس مسہری میں جوان خوبصورتی اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ لیٹی دنیا کی حسین ترین ملبوسات کو شرمسار کر رہی تھی۔ ۔ ۔ یہ نظارہ میرے ساتھ چمٹ گیا ہے۔ ۔ ۔  نہیں، میں اس کے ساتھ چمٹ گیا ہوں۔ ۔ ۔ (وقفے کے بعد) اصغری!

اصغری: (چونک کر) جی!

امجد    :کوئی ایسی صورت ہو سکتی ہے جو یہ چھل کر پخ کر میرے وجود سے علیحدہ ہو جائے۔

اصغری:ہر مشکل کی چولی میں اس کو آسان کرنے کی ترکیب چھپی ہوتی ہے۔

امجد    :تو ڈھونڈنی چاہئے۔ ۔ ۔ لیکن۔ ۔ ۔ لیکن مجھے حجاب کیوں محسوس ہوتا ہے۔

اصغری:معلوم نہیں کیوں۔ ۔ ۔ یہ مشکل، آپ ہی کی مشکل ہے۔ اس کے لئے آپ کا ہاتھ کسی نامحرم کا ہاتھ نہیں ہو گا۔

امجد    :جانتا ہوں۔ ۔ ۔ میں اپنے دل کی ان تمام نا خلف نسوں سے واقف ہوں جو اس غلط جذبے کی دھڑکنیں پیدا کرتی ہیں۔ ۔ ۔ لیکن آج اس کا فیصلہ ہو جائے گا۔

اصغری:کس کا؟

امجد    :میرے سامنے آؤ۔

(اصغری، امجد کے سامنے آ جاتی ہے۔ )

امجد    :جاؤ، مسہری میں لیٹ جاؤ۔

اصغری: (ہچکچا کر) امجد میاں۔ ۔ ۔  مجھ میں وہ جوان خوبصورتی نہیں ہے۔ جس کی رعنائیاں دنیا کے حسین ترین ملبوسات کو شرمسار کر سکیں۔ ۔ ۔  میری جوانی تو کھردرے ٹاٹ کی شرمندۂ احسان ہونا چاہتی ہے۔

امجد    :مسہری میں لیٹ جاؤ اصغری۔

اصغری: (آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں) نہیں امجد میاں۔ ۔ ۔  مسہری کو تکلیف ہو گی۔ ۔ ۔  یہ دولہن بیگم کے نرم  اور  نازک بدن کی عادی ہے۔

امجد    :میں تمہیں حکم دیتا ہوں۔

اصغری: (سر جھکا کر) آپ مالک ہیں۔

(مسہری میں لیٹ جاتی ہے۔ ۔ ۔ آنکھیں چھت میں گڑ جاتی ہیں۔ )

امجد    :جانتی ہو آج کون سی رات ہے ؟۔ ۔ ۔ وہ رات ہے۔ جب ایک تڑی مڑی جوانی  اور  زیادہ تڑ مڑ کر سالمیت اختیار کرنے والی ہے۔ ۔ ۔  یہ قیامت کی رات ہے یا فنا کی رات۔ ۔ ۔ اس کے اندھیاروں میں وجود، عدم کی بھٹیوں میں پگھل کر ایک غیر فانی قالب اختیار کرے گا۔ ۔ ۔  یہ وہ رات ہے جس کے بعد  اور  کوئی رات نہیں آئے گی، اس کی اندھی آنکھوں میں ایسے کاجل سے تحریریں ہوں گی جو انھیں ہمیشہ کے لئے روشن کر دینے کی۔ ۔ ۔  یہ وہ رات ہے، جب موت کے نچھڑے ہوئے تھنوں سے زندگی کے آخری نظر سے ڈر کر خودبخود ہی باہر آ جائیں گے۔ ۔ ۔ یہ وہ رات ہے جب شکستگی اپنی کوکھ سے سربلند ایوانوں کو جنم دے گی۔ ۔ ۔ ایسے سربلند ایوان جن کے کنگروں کو عرش کی بلند ترین اونچائیوں سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہو گا۔ یہ وہ رات ہے، جب زم زم کا سارا پانی رینگ رینگ کر زمین کی تہوں میں چھپ جائے گا۔ اس کے بدلے خاک اڑے گی۔ جس سے پاکیزہ روحیں تیمم کریں گی۔ ۔ ۔  یہ وہ رات ہے۔ جب کاتب تقدیر اپنا قلم دان اوندھا کر کے فرش کے کسی کونے میں منہ دے کر روئے گا۔ ۔ ۔  یہ وہ رات ہے جس میں امجد اس  دنیا کی تمام خوبصورتیوں کو تین دفعہ طلاق دیتا ہے  اور   ایک بدصورتی کو  اپنے رشتۂ مناکحت میں لاتا ہے۔ ۔ ۔ (ایک دم چیختا ہے) اصغری۔ ۔ ۔  اصغری!

(اس دوران میں اصغری مسہری پرسے اٹھ کر کھڑکی کے پاس پہنچ کر اسے کھول چکی ہے  اور  اس کی سل پر کھڑی ہو کر نیچے گہرائیوں میں دیکھ رہی ہے۔ )

امجد    : (چیخ کر) یہ کیا کر رہی ہو اصغری؟

اصغری: (کھڑکی کی سل پر مڑ کر امجد کو دیکھتی ہے) ایجاب و قبول ضروری ہے میرے مالک!

(نیچے کود جاتی ہے۔ )

امجد    : (دونوں ہاتھوں سے آنکھیں ڈھانپ کر) اصغری!۔ ۔ ۔ (ہاتھ ہٹاتا ہے  اور  چند لمحات کھلی کھڑکی کے اندھیرے کو دیکھتا رہتا ہے جو سبز دیوار میں تاریک زخم کے مانند منہ کھولے ہے) ایجاب و قبول!۔ ۔ ۔  (بڑبڑاتا ہے) ایجاب و قبول واقعی ضروری ہے (زور لگا کر دونوں ہاتھوں سے اپنی کرسی آگے کو کھیتا ہے۔ ۔ ۔ بڑی مشکل سے کھڑکی کے پاس پہنچ جاتا ہے)۔ ۔ ۔  مجھے مشکل کو  آسان کرنے کا یہ راستہ معلوم تھا۔ ۔ ۔ مگر  شاید کسی انگلی پکڑنے والے کی ضرورت تھی۔ ۔ ۔

(کھڑکی کی سل دونوں ہاتھوں سے مضبوطی کے ساتھ پکڑتا ہے  اور   اپنا اپاہج جسم بڑی دقتوں سے اوپر اٹھاتا ہے  اور  دوسری طرف لٹکنا شروع کر دیتا ہے۔ )

امجد    :میری پہاڑیاں۔ ۔ ۔ میری پیاری پہاڑیاں۔ ۔ ۔  میری پیاری اصغری!

(اگلا دھڑ نیچے پھسلتا ہے  اور  ایک دم اس کا سارا وجود اندھیرا کھا جاتا ہے۔ )

۔ ۔ ۔ پردہ۔ ۔ ۔

***

ماخذ: ’’نقوش‘‘ منٹو نمبر ۴۹،  ۵۰، مرتب۔ محمد طفیل

٭٭٭

 

 

 

 

محبت کی پیدائش

 

(خالد سیٹی بجا رہا ہے۔ سیٹی  بجاتا بجاتا خاموش ہو جاتا ہے۔ پھر ہولے ہولے اپنے آپ سے کہتا ہے۔)

 

خالد:اگر محبت ہاکی یا فٹ بال میچوں میں کپ جیتنے ، تقریر کرنے  اور  امتحانوں میں پاس ہو جانے کی طرح آسان ہوتی تو کیا کہنے تھے۔۔۔  مجھے سب کچھ مل پاتا۔ سب کچھ (پھر سیٹی بجاتا ہے) نیلے آسمان میں ابابیلیں اڑ رہی ہیں اس چھوٹے سے باغیچے کی پتی پتی خوشی سے تھرا رہی ہے پر میں خوش نہیں ہوں۔ میں بالکل خوش نہیں ہوں۔

حمیدہ:(دھیمے لہجے میں) خالد صاحب!

(خالد خاموش رہتا ہے)

حمیدہ:(ذرا زور سے)خالد صاحب!

خالد:(چونک کر) کیا ہے؟کوئی مجھے بلا رہا ہے؟

حمیدہ:میں ہوں !۔۔۔ مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے۔

خالد:اوہ!حمیدہ۔۔۔ کہو، یہ ضروری کام کیا ہے۔۔۔ میں یہاں یونہی لیٹے لیٹے اونگھنے لگ گیا تھا۔ کیا کسی کتاب کے بارے میں کچھ کہنا ہے؟۔۔۔  مگر تم نے مجھے اتنا قابل کیوں سمجھ رکھا ہے۔۔۔ فلسفے میں میں اتنا ہوشیار نہیں جتنی کہ تم ہو۔ عورتیں فطرتاً فلسفی ہوتی ہیں۔

حمیدہ:میں آپ سے فلسفے کے بارے میں گفتگو کرنے نہیں آئی۔ افلاطون  اور  ارسطو اس معاملے میں میری مدد نہیں کر سکتے جتنی آپ کر سکتے ہیں۔

خالد:میں  حاضر ہوں۔

حمیدہ:میں بہت جرأت سے کام لے کر آپ کے پاس آئی ہوں۔ آپ یقین کیجئے کہ میں نے بہت بڑی جرأت کی ہے۔۔۔ بات یہ ہے۔۔۔  مجھے شرم محسوس ہو رہی ہے۔۔۔ مگر نہیں۔۔۔ اس میں شرم کی کونسی بات ہے۔۔۔ مجھے یہ کہنا ہے کہ پرسوں رات میں نے اباجی کو امی جان سے یہ کہتے سنا کہ وہ آپ سے میری شادی کر رہے ہیں۔

خالد:(خوش ہو کر) سچ مچ؟

حمیدہ:جی ہاں۔۔۔ میں نے یہ سنا ہے کہ بات پکی ہو گئی ہے۔۔۔   اور  اس فائنل کے بعد ہم بیاہ دیئے جائیں گے۔

خالد:(خوشی کے جذبات کو دبانے کی کوشش کرتے ہوئے) حد ہو گئی ہے۔۔۔  مجھے تو کسی نے بتایا ہی نہیں۔۔۔ یہ چپکے چپکے انھوں نے بڑا دلچسپ کھیل کھیلا۔۔۔  دراصل بات یوں ہوئی ہے کہ میں نے اپنی امی جان سے ایک دو مرتبہ۔۔۔ تمہاری تعریف کی تھی  اور  کہا تھا کہ جو شخص حمیدہ جیسی۔۔۔  حمیدہ جیسی۔۔۔ حمیدہ جیسی۔۔۔ حمیدہ جیسی پیاری لڑکی کا شوہر بنے گا۔۔۔  وہ کس قدر خوش نصیب ہو گا۔ (ہنستا ہے)حد ہو گئی ہے۔۔۔  میں یہاں اسی فکر میں گھلا جا رہا تھا کہ تم کہیں کسی  اور کی نہ ہو۔ جاؤ (خوب ہنستا ہے)۔۔۔  دیکھو نیلے آسمان میں ابابیلیں اڑ رہی ہیں۔۔۔  اس باغیچے کی پتی پتی خوشی سے تھرا رہی ہے۔۔۔  اور  میں بھی خوش ہوں۔۔۔  کس قدر خوش (ہنستا ہے) حمیدہ اب تمہیں ہم سے پردہ کرنا چاہئے۔۔۔  ہم تمہارے ہونے والے شوہر ہیں۔

حمیدہ:مگر مجھے یہ شادی منظور نہیں۔!

خالد:شادی منظور نہیں۔۔۔  پھر تم نے یہ بات کیوں چھیڑی؟۔۔۔  میں تمہیں نا پسند ہوں کیا؟

حمیدہ:خالد صاحب!میں اس معاملے پر زیادہ گفتگو کرنا نہیں چاہتی۔ میں آپ سے صرف یہ کہنے آئی تھی کہ اگر ہماری شادی ہو گئی۔ تو یہ میری مرضی کے خلاف ہو گی۔ ہماری دونوں کی زندگی اگر ہمیشہ کے لئے تلخ ہو گئی تو اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔ میں نے اپنے دل کی بات آپ سے چھپا کر نہیں رکھی، جو فرض میرے ماں باپ کو ادا کرنا چاہئے تھا۔ میں نے ادا کر دیا ہے آپ عقل مند ہیں۔ روشن خیال ہیں۔ اس لئے میں آپ کے پاس آئی۔ ورنہ یہ راز قبر تک میرے سینے میں محفوظ رہتا۔

خالد:یہ جھوٹ ہے میں تم سے محبت کرتا ہوں۔

حمیدہ:ہو گا۔ مگر میں آپ سے محبت نہیں کرتی۔

خالد:اس میں میرا کیا  قصور ہے؟

حمیدہ: اور اس میں میرا کیا قصور ہے؟

خالد:حمیدہ تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میں جھوٹ نہیں بولا کرتا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ میرا دل تمہاری  اور صرف تمہاری محبت سے بھرا ہے۔

حمیدہ:لیکن میرا دل بھی تو آپ کی محبت سے بھرا ہو۔۔۔  میرے اندر سے بھی تو یہ آواز پیدا ہو کہ حمیدہ آپ کو چاہتی ہے۔۔۔  میں بھی تو آپ سے جھوٹ نہیں کہہ رہی۔۔۔ آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں تو آپ کی محبت اس وقت مجھ پرکیا اثر کر سکتی ہے جب میرا دل آپ کی محبت سے خالی ہو۔

خالد:ایک دیا دوسرے دیئے کو روشن کر سکتا ہے۔

حمیدہ:صرف اس صورت میں جب دوسرے دیئے میں تیل موجود ہو۔۔۔  یہاں میرا دل  تو بالکل خشک ہے آپ کی محبت کیا کر سکے گی۔ میں نے آج تک آپ کو ان نگاہوں سے کبھی نہیں دیکھا جو محبت پیدا کر سکتی ہیں۔۔۔  اس کے علاوہ کوئی خاص بات بھی تو نہیں ہوئی جس سے یہ جذبہ پیا ہو سکے۔۔۔ لیکن میں آپ کے بارے میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ آپ اچھے نوجوان ہیں با اخلاق ہیں۔ کالج میں سب سے زیادہ ہوشیار طالب علم ہیں۔ آپ کی صحت آپ کی علمیت، آپ کی قابلیت قابل رشک ہے۔ آپ ہمیشہ میری مدد کرتے رہے ہیں۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ میرے دل میں آپ کی محبت ذرہ بھر بھی نہیں ہے۔۔۔  میر ا خیال ہو سکتا ہے کہ درست نہ ہو۔ پریہ تمام خوبیاں جو آپ کے اندر موجود ہیں ضروری نہیں کہ وہ کسی عورت کے دل میں آپ کی محبت پیدا کر دیں۔

خالد:تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ مجھے اس کا احساس ہے۔

حمیدہ:تو کیا میں امید رکھوں کہ آپ مجھے اس بے مرضی کی شادی سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔

خالد:مجھ سے جو کچھ ہو سکے گا۔ ضرور کروں گا۔

حمیدہ:تومیں جاتی ہوں۔۔۔ بہت بہت شکریہ!

(چند لمحات تک خاموشی طاری رہتی ہے۔۔۔ خالد درد ناک سروں میں سیٹی بجاتا ہے۔۔۔)

خالد:سسکیوں میں نیلے آسمان میں ابابیلیں اڑ رہی ہیں۔ اس چھوٹے سے بغیچے کی پتی پتی خوشی سے تھرتھرا رہی ہے۔ میں خوش نہیں۔ بالکل خوش نہیں ہوں۔

(اسی روز شام کو خالد کے گھر میں)

ڈپٹی صاحب:(خالد کا باپ۔ دروازے پر آہستہ سے دستک دے کر)بھئی میں ذرا  اندر آ سکتا ہوں۔

خالد:آئیے آئیے۔ اباجی!

ڈپٹی صاحب:میں نے بہت مشکل سے تمہارے ساتھ چند باتیں کرنے کی فرصت نکالی۔ یوں کہو کہ ایسا اتفاق ہو گیا کہ تم بھی گھر میں موجود ہو اور مجھے بھی ایک، آدھ گھنٹے تک کوئی کام نہیں۔۔۔ بات یہ ہے کہ تمہاری ماں نے تمہاری شادی کی بات چیت پکی کر دی ہے لڑکی حمیدہ ہے جس کو تم اچھی طرح جانتے ہو۔ تمہاری کلاس میٹ ہے  اور میں نے سنا ہے کہ تم دل ہی دل میں اس سے ذرا۔۔۔ محبت بھی کرتے ہو چلو اچھا ہوا۔۔۔  اب تمہیں  اور کیا چاہئے۔۔۔  امتحان پاس کرو اور دلہن کولے آؤ۔

خالد:پر اباجی،  میں نے تو یہ سن رکھا تھا کہ حمیدہ کی شادی مسٹر بشیر سے ہو گی جو پچھلے برس ولایت سے ڈاکٹر ی امتحان پاس کر کے آئے ہیں۔

ڈپٹی صاحب:شادی اس سے ہونے والی تھی مگر حمیدہ کے والدین کو جب معلوم ہوا کہ وہ شرابی  اور آوارہ مزاج ہے تو انھوں نے یہ خیال موقوف کر دیا لیکن تمہیں ان باتوں سے کیا تعلق۔۔۔ حمیدہ تمہاری ہو رہی ہے۔ ہو رہی ہے کیا ہو چکی ہے۔

خالد:حمیدہ راضی ہے کیا؟

ڈپٹی صاحب:ارے راضی کیوں نہ ہو گی؟جب ڈپٹی ظہور احمد کے بیٹے خالد کی شادی کا سوال ہو، تو اس میں رضامندی کی ضرورت ہی کیا ہے۔

خالد:مجھے بنا رہے ہیں آپ؟

ڈپٹی صاحب:رہنے دو۔اس قصے کو، مجھے  اور بہت سے کام کرنا ہے۔ اچھا تومیں چلا۔۔۔  پر ایک  اور بات بھی تو مجھے تم سے کرنا تھی۔ تمہاری ماں نے ایک لمبی چوڑی فہرست بنا کر دی تھی۔۔۔ ہاں یاد آیا۔۔۔  دیکھو بھئی نکاح کی رسم پرسوں یعنی اتوار کو ادا ہو گی۔ اس لئے کہ حمیدہ کا باپ حج کو جانے سے پہلے اس فرض سے سبکدوش ہو جانا چاہتا ہے۔۔۔  ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے ، ایسا ہی ہونا چاہئے  اور جب تمہاری ماں کہہ دے تو پھر اس میں کسی کلام کی گنجائش نہیں رہتی۔۔۔ میں نے ان لوگوں سے کہہ دیا ہے کہ ہم سب تیا رہیں۔ تمہیں جن لوگوں کوInvite   کرنا ہو گا کر لینا۔ مجھے اس درد سری میں مبتلا نہ کرنا بھئی، میں بہت مصروف آدمی ہوں۔

خالد:بہت اچھا اباجی!

ڈپٹی صاحب:ہاں ایک  اور  بات۔۔۔ ممکن ہے کہ میں تم سے کہنا بھول جاؤں اس لئے ابھی سے کان کھول کر سن لو۔۔۔ (رازدارانہ لہجہ میں) شادی کے بعد اپنی بیوی کو سر پر نہ چڑھا لینا۔ ورنہ یاد رکھو، بڑی آفتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اپنی ماں کی طرف دیکھ لو، کس طرح مجھے نکیل ڈالے رکھتی ہے۔

خالد:(ہنستا ہے)۔۔۔ نصیحت کا شکریہ!

ڈپٹی صاحب:شکریہ وکریہ کچھ نہیں تم سے جو کچھ میں نے کہا ہے اس کا خیال رکھنا  اور  بس۔۔۔ تومیں چلا۔۔۔  نکاح کے ایک روز پہلے مجھے یاد دلا دینا۔ تا کہ میں کہیں  اور نہ چلا جاؤں۔

خالد:بہت اچھا اباجی!

(دروازہ بند کرنے کی آواز)

خالد:(ہولے ہولے گویا گہری فکر میں غرق ہے) بہت اچھا اباجی۔۔۔  بہت اچھا اباجی۔۔۔  میں نے کتنی جلدی کہہ دیا بہت اچھا اباجی۔۔۔  بہت اچھا۔۔۔ جو کچھ کہا ہوا ہے۔۔۔ اب اس کے سوا  اور چارہ ہی کیا ہے۔۔۔ نیلے آسمان میں ابابیلیں اڑتی رہیں گی بغیچوں میں پتیاں خوشی سے تھرتھراتی رہیں گی  اور یہ دل ہمیشہ کے لئے اجڑ جائے گا۔۔۔  اجڑ جائے گا!

(تیسرے روز کالج میں پرنسپل کا دفتر)

(گھنٹی بجائی جاتی ہے پھر دروازہ کھولا جاتا ہے۔)

چپراسی:جی حضور!

پرنسپل:خالد کو اندر بھیج دو۔

چپراسی:بہت اچھا حضور!

(دروازہ کھولنے  اور بند ہونے کی آواز پھر خالد کے آنے کی آواز)

پرنسپل:(کھانستا ہے) تمہیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے؟

(خالد خاموش رہتا ہے۔)

پرنسپل:(با رعب لہجے میں)تمہیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے؟

خالد:کچھ نہیں۔ میرا دل کوڑے کرکٹ سے صاف ہے۔

پرنسپل:تم گستاخ بھی ہو گئے ہو؟

خالد:کالج میں اگر کوئی گستاخ لڑکا نہ ہو تو پرنسپل اپنی قوتوں سے بے خبر رہتا ہے اگر اس کمرے کو جس میں آپ رہتے ہیں ترازو فرض کر لیا جائے تو میں اس ترازو کی وہ سوئی ہوں جو وزن بتاتی ہے۔

پرنسپل:تم مجھے اپنی اس بے ہودہ منطق سے مرعوب نہیں کر سکتے۔

خالد:یہ میں اچھی طرح جانتا ہوں۔

پرنسپل:(زور سے) تم خاک بھی نہیں جانتے۔

خالد:آپ بجا فرما رہے ہیں۔

پرنسپل:میں بجا نہیں فرما رہا۔ اگر میرا فرمانا بجا  ہوتا تو کل تم ایسی بے ہودہ حرکت کبھی نہ کرتے جس نے تمہیں سب لوگوں کی نگاہ میں ذلیل کر دیا ہے اب تم میں  اور ایک بازاری غنڈے میں کیا فرق رہا ہے۔

خالد:آپ سے عرض کروں؟

پرنسپل:کرو۔ کرو کیا عرض کرنا چاہتے ہو تمہاری یہ نئی منطق بھی سن لوں !

خالد:بازاری غنڈہ چوک میں کھڑا ہو کر جو اس کے دل میں آئے کہہ سکتا ہے مگر میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔ مجھ میں اتنی قوت نہیں ہے کہ اپنے دل کا تالا کھول سکوں جو تہذیب آج سے بہت عرصہ پہلے لگا چکی ہے بازاری غنڈہ مجھ سے ہزار درجے  بہتر ہے۔

پرنسپل:جو تھوڑا بہت تم میں  اور اس میں باقی رہ گیا ہے اب پورا کر لو۔۔۔  میں تمہیں اپنے کالج سے باہر نکال رہا ہوں۔

خالد:مگر۔۔۔

پرنسپل:مگر وگر کچھ بھی نہیں۔ میں فیصلہ کر چکا ہوں میرے کالج میں ایسا لڑکا ہرگز نہیں رہ سکتا۔۔۔ جو بد چلن ہو، آوارہ ہو۔ کالج میں شراب پی کر آنا ایسا جرم نہیں کہ سزا دیئے بغیر تمہیں چھوڑ دیا جائے۔

خالد:اپنے آپ پر دوبارہ  غور فرمائیے۔ اتنی جلدی نہ کیجئے۔۔۔  آپ مجھے اپنے کالج سے ہمیشہ کے لئے باہر نہیں نکال سکتے۔

پرنسپل:(غصے میں) کیا کہا۔

خالد:میں نے یہ کہا تھا کہ مجھے اپنے کالج سے کیسے باہر نکال سکتے ہیں۔۔۔  آپ کو۔۔۔ آپ کو۔۔۔ میرے چلے جانے سے کیا آپ کو نقصان نہ ہو گا؟

پرنسپل:نقصان؟تمہارے چلے جانے سے مجھے کیا نقصان ہو سکتا ہے۔ تم جیسے دو درجن لڑکے میرے کالج سے چلے جائیں۔ خس کم جہاں پاک!

خالد:آپ میرا مطلب نہیں سمجھے پرنسپل صاحب!مجھے افسوس ہے کہ اب مجھے خود ستائی سے کام لینا پڑے گا۔ آپ کے سامنے یہ کالا بورڈ جو لٹک رہا ہے اس پر سب سے اوپر کس کا نام لکھا ہے۔ آپ بتانے کی تکلیف گوارا نہ کیجئے۔ یہ اسی آوارہ  اور بد چلن کا نام لکھا ہے ، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ بی اے میں وہ صوبے بھرمیں اول رہا۔ اس بورڈ کے ساتھ ہی ایک  اور  بورڈ لٹک رہا ہے جو آپ کو بتا سکتا ہے کہ ہندوستان کی کسی یونیورسٹی کا ہوشیار سے ہوشیار طالب علم بھی آپ کے کالج کی کالی بھیڑ خالد کا مقابلہ نہیں کر سکا۔ تقریر میں اس نے تین سال تک کسی کو آگے بڑھنے نہیں دیا۔ آپ کے پیچھے ایک  اور تختہ لٹک رہا ہے۔ اگر آپ کبھی اس پر نظر ڈالیں تو آپ  کو معلوم ہو سکتا ہے کہ خالد جب سے آپ کی ہاکی ٹیم کا کپتان بنا ہے شکست ناممکن ہو گئی ہے۔ فٹ بال کی ٹیم میں مجھ سے بہتر گول کیپر آپ کہاں سے تلاش کریں گے؟اخبار لکھتے ہیں کہ میں لوہے کا مضبوط جال ہوں ، سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔۔۔  اور پچھلے برس میچ میں ہنگامہ برپا ہو گیا تھا۔ تو آپ کو بچانے کے لئے کس نے آگے بڑھ کر ڈھال کا کام دیا تھا اسی خاکسار نے۔۔۔ آپ اپنے فیصلے پر دو بارہ غور کیجئے۔

پرنسپل:کیا اب احسان جتلا کر تم مجھے رشوت دینے کی کوشش کر رہے ہو۔

خالد:پرنسپل صاحب آج کل دنیا کے سارے دھندے اسی طرح چلتے ہیں بچہ جب روئے نہیں ماں دودھ نہیں دیتی یہ تو آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ مگر آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ پڑوس میں اگر بن ماں کا یتیم بچہ رونا شروع کر دے تو میری ماں دودھ کی بوتل لے کر ادھر کبھی نہیں دوڑے گی۔۔۔ آپ نے آج تک مجھ پر اتنی مہربانیاں کی ہیں تو محض! اس لئے کہ مجھ میں خوبیاں تھیں  اور آپ مجھے پسند کرتے تھے  اور میں نے اس روز آپ کو اس لئے بچایا تھا کہ وہ میرا فرض تھا۔ میں آپ کو رشوت نہیں دے رہا۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ سزا دے کر رہیں گے۔ میں خود سزا چاہتا ہوں۔ مگر کڑی نہیں۔۔۔ رشوت تو وہاں دی جاتی ہے جہاں بالکل اجنبیت ہو۔

پرنسپل:تم تقریر کرنا خوب جانتے ہو۔

خالد:(ہنس کر)یہ کالا بورڈ بھی جو آپ کے سامنے لٹک رہا ہے یہی کہتا ہے۔

پرنسپل:خالد۔۔۔ میں حیران ہوں کہ تم نے کالج میں شراب پی کر ادھم کیوں مچایا۔۔۔ تم شریر ضرور تھے ، مگر مجھے معلوم نہ تھا۔ تم شراب بھی پیتے ہو۔ تمہارے کیریکٹر کے بارے میں مجھے کوئی شکایت نہ تھی۔ مگر کل کے واقعہ نے تمہیں بہت پیچھے ہٹا دیا ہے۔

خالد:جب کھائی پھاندنا ہو تو ہمیشہ دس بیس قدم پیچھے ہٹ کر کوشش کی جاتی ہے ہو سکتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں ایک گہری کھائی پھاندنے کی کوشش کی ہو۔

پرنسپل:مجھے افسوس ہے کہ تم اس کوشش میں اوندھے اس گہری کھائی میں گر پڑے ہو۔

خالد:ایسا ہی ہو گا۔ مگر مجھے افسوس نہیں۔

پرنسپل:تواب تم کیا چاہتے ہو؟

خالد:میں کیا چاہتا ہوں؟۔۔۔ کاش کہ میں کچھ چاہ سکتا۔ آپ سے میری صرف یہ  گزارش ہے کہ سزا دیتے وقت پرانے خالد کو یاد رکھئے۔ بس۔!

پرنسپل:تمہیں ایک سال کے لئے کالج سے خارج کر دینے کا حکم میں لکھ چکا ہوں یہ  سزا تمہاری ذلیل حرکت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس لئے تم معلوم کر سکتے ہو کہ پرانے خالد کو میں نے ابھی تک دل سے محو نہیں کیا۔

خالد:میں آپ کا بے حد ممنون ہوں۔ ایک سال کے بعد جب خالد پھر آپ کے پاس آئے گا۔ تو وہ پرانا ہی ہو گا۔

پرنسپل:اب تم چپ چاپ یہاں سے چلے جاؤ اور دیکھو۔ اس غم کو دور کرنے کے لئے کہیں شراب خانے کا رخ نہ کرنا۔

خالد:ایک بار جو میں نے پی ہے۔ وہی عمر بھر کے لئے کافی ہے آپ بے فکر رہیں۔

(دروازہ کھلنے  اور بند کرنے کی آواز)

(دروازے بند کرنے کے ساتھ ہی دس پندرہ لڑکوں کی آوازوں کا شور۔ پیدا کیا جائے یہ لڑکے خالد سے طرح طرح کے سوال پوچھیں۔)

۱۔کیوں خالد کیا ہوا؟

۲۔سال بھرکے لئے Expel    کر دئیے گئے؟

۳۔پر میں پوچھتا ہوں۔ شراب پی کر تمہیں کالج ہی میں آ کر ادھم مچانا تھا؟

۴۔تم نے سخت غلطی کی، شراب تومیں بھی پیتا ہوں ، مگر کسی کو کانوں کان

خبر نہیں ہوتی؟

۵۔کیا جانے اس کے سر پرکیا وحشت سوار ہوئی؟

۶۔پہلی دفعہ پی  اور بری طرح پکڑے گئے میرے یار؟

۷۔اب کیا ہو گا؟

خالد:(تنگ آ کر)بکواس نہ کرو۔ جو کچھ ہو چکا ہے تمہارے سامنے ہے جو کچھ ہو گا وہ بھی تم دیکھ لو گے۔ دنیا کی نگاہوں سے کوئی چیز پوشیدہ بھی رہی ہے؟

(کالج کے گھنٹے کی آواز ٹن ٹن ٹن)

خالد:جاؤ۔ جاؤ اپنی اپنی کلاس Attend   کرو۔۔۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔

(چند لمحات کے بعد خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔)

خالد:بڑے بڑے معرکہ خیز میچوں میں حصہ لیا ہے بڑی بڑی چوٹیں کھائی ہیں مگر یہ تھکن جواس وقت محسوس ہو رہی ہے آج تک کبھی طاری نہیں ہوئی۔ بغیچے کی اس جھاڑی کے پاس حمیدہ نے میرے دل کے ٹکڑے کئے تھے۔ اب یہیں تھوڑی دیر بیٹھ کران کو جوڑتا ہوں۔۔۔  دل ٹوٹا ہوا ہو مگر پہلو میں ضرور ہونا چاہئے۔۔۔  اس کے بغیر زندگی فضول ہے۔۔۔

(وقفہ)

۔۔۔ اس وقت مجھے کسی ہمدرد کی کتنی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔۔۔  مگر۔۔۔

(گیت)

کون کسی کا میت منوا

کون کسی کا میت!

راگ سبھا ہے دنیا ساری

جیون دکھ کا گیت

منوا کون کسی کا میت

رام بھروسے  کھینے والے

نیا کو منجدھار!

اپنے ہاتھوں آپ ڈبو دے

کیوں ڈھونڈے پتوار

ڈبو دی۔۔۔  اپنے ہاتھوں سے آپ ڈبو دی۔۔۔

حمیدہ:خالد صاحب۔

(خالد خاموش رہتا ہے۔)

حمیدہ:(ذرا بلند آواز سے)خالد صاحب!

خالد:(چونک کر)کیا ہے؟۔۔۔ اوہ!حمیدہ تم ہو۔۔۔ میں۔۔۔ میں۔۔۔  شاید گا رہا تھا۔

حمیدہ:میں سن رہی تھی۔

خالد:سن رہی تھیں۔۔۔ کیا سچ مچ؟۔۔۔ تو معلوم ہو گیا نا تمہیں کہ میں کتنا بے سرا ہوں۔۔۔  اور یہ گیت جو میں گا رہا تھا کتنا اوٹ پٹانگ تھا۔ ہاں تو۔۔۔  کیا تمہیں کسی بات کے بارے میں کچھ پوچھنا ہے؟

حمیدہ:میں یہ پوچھنے آئی ہوں کہ کل آپ نے میری غیر حاضری میں کیا کیا؟

خالد:اوہ۔۔۔ تم کل کی بات پوچھ رہی ہو۔ مگر جو کل کی بات ہو چکی۔۔۔  اس کے متعلق پوچھ کر کیا کرو گی؟

حمیدہ:کیا آپ نے سچ مچ کل شراب پی کر یہاں شور و غل مچایا؟

خالد:یہ تم کیوں پوچھ رہی ہو۔

حمیدہ:مجھے یقین نہیں آتا۔

خالد:کہ میں نے تمہارے کہے پر عمل کیا ہو گا؟

حمیدہ:(حیرت سے)میرے کہے پر؟میں نے آپ سے شراب پینے کو کبھی نہیں کہا۔

خالد:تو کیا زہر پینے کو کہا تھا؟

حمیدہ: اور اگر میں نے کہا ہوتا تو؟

خالد:میں کبھی نہ پیتا۔

حمیدہ:کیوں؟

خالد:اس لئے کہ میں مرنا نہیں چاہتا۔ میں تم محبت کرتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں مگر میں اس محبت کی شکست پر خود کو ہلاک کرنے کے لئے تیار نہیں۔ پرانے عاشقوں کا فلسفہ میری نگاہوں میں فرسودہ ہو چکا ہے جب تک میں زندہ رہ سکوں گا تمہاری محبت اپنے دل میں دبائے رہوں گا۔تم میری آنکھوں کے سامنے رہو گی تو میرے زخم ہمیشہ ہرے رہیں گے۔۔۔ جب ایک روگ اپنی زندگی کو لگایا ہے تو کیوں نہ وہ عمر بھر تک ساتھ رہے۔ تم مجھ سے محبت نہیں کرتیں تو اس  کا یہ مطلب نہیں کہ میں اپنی محنت کا گلا گھونٹ دوں۔

حمیدہ:تو آپ نے صرف میری محبت کی خاطر اپنے آپ کو رسوا کیا؟

خالد:ظاہر ہے۔

حمیدہ:لیکن کیا آپ کو اس رسوائی کے علاوہ کوئی  اور  راستہ نظر نہ آیا؟

خالد:کئی راستے تھے لیکن مجھے یہی اچھا نظر آیا۔ تم خود دیکھ لو گی کہ ہینگ پھٹکری لگے بغیر رنگ چوکھا آئے۔۔۔ آج شام ہی کو جب تمہارے گھر میرے کالج سے نکال دینے کی خبر پہنچے گی تو تمہارا وہ کام فوراً ہو جائے گا۔ جس کے لئے تم نے مجھ سے امداد طلب کی تھی۔ نہ میں نے اپنے والدین کی عدول حکمی کی  اور نہ تمہیں اپنے ماں باپ کو ناراض کرنے کا موقع ملا۔ بتاؤ کیا میں نے غلط راستہ منتخب کیا۔

حمیدہ:لیکن یہ بدنامی، یہ رسوائی، جو آپ نے مول لی؟

خالد:مجھے اب شادی نہیں کرنا ہے۔۔۔ جو یہ رسوائی  اور بدنامی میرے حق میں غیر مفید ہو گی۔

حمیدہ: اور اگر آپ کو شادی کرنی پڑی تو؟

خالد:پاگل ہو گئی ہو۔۔۔ جب تم ایسے مرد سے شادی کرنے کو تیار نہیں ہو جس سے تم محبت نہیں کر سکتیں تومیں کیونکر ایسی عورت سے شادی کر سکتا ہوں جس سے میں محبت نہیں کرتا؟

حمیدہ:ممکن ہے آپ کوکسی سے محبت ہو جائے !

خالد:یہ ناممکن ہے جس طرح تمہارے دل میں میری محبت پیدا نہیں ہو سکتی اسی طرح میرے دل میں  اور کسی کی محبت پیدا نہیں ہو سکتی۔۔۔  مگر اس گفتگو سے کیا فائدہ۔۔۔ میری روح کو سخت تکلیف پہنچ رہی ہے۔

حمیدہ:آپ نے کیسے کہہ دیا کہ میرے دل میں محبت پیدا نہیں ہو سکتی؟

خالد:میں نے یہ کہا تھا کہ تمہارے دل میں میری محبت پیدا نہیں ہو سکتی؟

حمیدہ:اگر ہو جائے؟

خالد:(حیرت زدہ ہو کر)یعنی کیا؟

حمیدہ:میرے دل میں آپ کی محبت پیدا ہو جائے۔۔۔ ایکا ایکی مجھے ایسا محسوس ہونے لگے کہ میں آپ سے محبت کرتی ہوں۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا۔

خالد:اپنے دل سے پوچھو۔

حمیدہ:ایسی بات پوچھی نہیں جاتی اپنے آپ معلوم ہو جایا کرتی ہے۔۔۔  پڑوسی کے مکان میں اگر آگ لگ جائے تو کیا آپ دوڑے ہوئے اسی کے پاس جا کر پوچھیں گے۔ کیوں صاحب!کیا واقعی آپ کا مکان جل رہا ہے۔

خالد:میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا۔

حمیدہ:میں ٹھیک سمجھا نہیں سکتی پر اب سمجھنے  اور سمجھانے کی ضرورت ہی کیا ہے جو کچھ آپ چاہتے تھے  اور جس کے متعلق مجھے وہم و گمان بھی نہ تھا۔ آج ایکا ایکی ہو گیا ہے۔

خالد:کیا ہو گیا ہے۔

حمیدہ:میرے دل میں آپ کی محبت پیدا ہو گئی ہے۔۔۔ اتوار کو ہمارا نکاح ہو رہا ہے۔

خالد:محبت؟میں۔۔۔ تم۔۔۔ میں۔۔۔ میں۔۔۔ نکاح۔۔۔ کیسے؟

حمیدہ:مجھے آپ سے شادی کرنا منظور ہے جب گھر میں آپ کے کالج سے نکال دیئے جانے کی بات شروع ہو گی تومیں سارا واقعہ بیان کر دوں گی۔۔۔  اس طرح کوئی بدگمانی پیدا نہ ہو گی۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ آپ کا ایک برس ضائع ہو گیا۔

خالد:ایک برس ضائع ہو گیا۔۔۔ میں تمہیں اپنا بنانے کے لئے اپنی زندگی کے سارے برس۔۔۔ پر میں کیا سن رہا ہوں۔

حمیدہ:میں اب جاتی ہوں۔ مجھے پرنسپل صاحب سے مل کر یہ کہنا ہے کہ میں اس سال امتحان میں شریک نہیں ہو رہی اگلے برس ہم اکٹھے امتحان دیں گے۔

(چند لمحات خاموشی طاری رہتی ہے۔)

خالد:نیلے آسمان میں ابابیلیں اڑ رہی ہیں اس بغیچے کی پتی پتی خوشی سے تھر تھرا رہی ہے  اور میں کس قدر حیرت زدہ ہوں۔۔۔  کس قدر حیرت زدہ ہوں۔

فیڈ آؤٹ

***

 

 

 

 

 

 

چوڑیاں

 

افراد

 

حامد:کالج کا ایک جوان طالب علم طبیعت شاعرانہ

سعید:حامد کا دوست

ڈپٹی صاحب:حامد کے والد

ثریا:حامد کی بہن

حمیدہ:حامد کی بہن

ماں:حامد کی ماں

دوکان دار۔ حمیدہ کی ایک  اور سہیلی۔ تار والا  اور ایک ملازم

 

پہلا منظر

 

(کالج ہوسٹل کا ایک کمرہ۔ ہر چیز قرینے سے رکھی ہے بہت کم فرنیچر ہے لیکن ٹھکانے سے رکھا ہے  اور بہت خوبصورت دکھائی دیتا ہے پلنگ کی چادر اجلی ہے ، بے داغ، میز کا کپڑا بھی صاف ستھرا ہے دیواروں پر صرف دو تصویریں  نظر آتی ہیں۔ چغتائی کی جن کے فریم بہت ہی نازک ہیں۔ میز پر کچھ کتابیں رکھی ہیں جن میں سے اکثر شاعروں کے دیوان ہیں۔ حامد آرام کرسی میں پورے لباس میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے  اور  اس کا دوست سعید لوہے کے پلنگ پر لیٹا دو نرم نرم تکیوں پر کہنی جمائے۔ ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے رکھے حامد کی طرف دیکھ رہا ہے۔ جو اخبار پڑھنے میں مصروف ہے۔)

 

حامد:(اخبار کے پیچھے سے)اپنے عزیزوں  اور دوستوں کو تحفے دیجئے۔ ہیں بھئی۔۔۔ اشتہار کی سرخی دلچسپ ہے۔۔۔ ‘‘اپنے دوستوں  اور  عزیزوں کو تحفے دیجئے۔۔۔ ‘‘شادی بیاہ  اور سالگرہ  اور اسی قسم کی دوسری تقریبوں پر حسین تحفے ہی دینے چاہئیں۔ آپ کا دیا ہوا آئینہ، آپ کا پیش کردہ پھولدان، آپ کا بھیجا ہوا ہار۔ ذرا غور فرمائیے۔ ان حسین تحفوں میں کتنی شاعری ہے۔ ہمارے شوروم میں تشریف لائیے  اور  اپنے دوست اپنے عزیز یا اپنے۔۔۔

(سعید کھانستا ہے۔)

حامد:کوئی تحفہ دینے کے لئے اپنے دل پسند شعر انتخاب فرمائیے۔

سعید:لائیے اخبار میرے حوالے کیجئے۔۔۔ میں جنگ کی تازہ خبریں پڑھنا چاہتا ہوں۔

حامد:(اخبار چہرے پرسے ہٹاتے  اور اسے تہہ کرتے ہوئے)آپ کو جنگ سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟

سعید:اس لئے کہ میں بہت صلح کن آدمی ہوں۔

حامد:یہ جنگ بھی صلح کن آدمی ہی کر رہے ہیں (اخبار تہہ کرتا اٹھتا ہے)خیر ہٹائیے اس قصے کو۔۔۔ میں آپ سے یہ عرض کرنے والا تھا کہ میں ایک حسین تحفہ خریدنا چاہتا ہوں۔

سعید:(کروٹ بدل کر)کس کے لئے؟

حامد:(اخبار میز پر پھینکتے ہوئے) اس کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا؟

سعید:خوب!

حامد:تحفہ لے آؤں تو بعد میں فیصلہ کر لیا جائے گا۔

سعید:(اٹھ کے پلنگ پر بیٹھ جاتا ہے)ٹھیک۔۔۔ لیکن آپ کا کوئی دوست۔۔۔  کوئی عزیز۔۔۔؟۔۔۔ کوئی۔۔۔؟

حامد:یہاں آپ کے سوا کوئی نہیں۔

سعید:(خوش ہو کر)تو۔۔۔

حامد:جی نہیں۔ تحفہ میں آپ کو نہیں دینا چاہتا۔

سعید:کیوں؟

حامد:(کرسی لے کر سعید کے پاس بیٹھ جاتا ہے) اس لئے کہ آپ کو اپنی تاریخ پیدائش ہی معلوم نہیں۔۔۔ فرمائیے آپ کب پیدا ہوئے تھے۔

سعید:ایسی چیزیں کون یاد رکھتا ہے۔

حامد:اب آپ کی سالگرہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

سعید:جی ہاں۔ بالکل پیدا نہیں ہوتا۔

حامد:رہی آپ کی شادی تو اس کے متعلق مجھے یقین ہے کہ کبھی ہوہی نہیں سکتی۔

سعید:یعنی اس معاملے میں آپ مجھ سے کہیں زیادہ نا امید ہو چکے ہیں۔

حامد:جی ہاں۔۔۔ اس لئے کہ آپ کبھی یہ فیصلہ نہیں کر سکیں گے کہ آپ کو پچاس برس کی عورت چاہئے جس میں سولہ برس کی الھڑ لڑکی کی خادم کاریاں ہوں یا آپ کو سولہ برس کی لڑکی چاہئے جس میں پچاس برس کی عورت کی پختہ کاریاں موجود ہوں۔۔۔ لیکن میرا نقطہ نظر بالکل جدا ہے۔

سعید:(پلنگ پرسے اٹھ کر آرام کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ جہاں پہلے حامد بیٹھا تھا)جو مجھے اچھی طرح معلوم ہے لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ تحفہ خریدنے کے بعد ہی شادی کے مسئلے پر غور کریں گے۔

حامد:غالباً ایسا ہی ہو گا۔

سعید:تو ظاہر ہے کہ آپ کوئی زنانہ تحفہ خریدیں گے۔

حامد:بالکل ظاہر ہے (پلنگ پر لیٹ جاتا ہے اسی طرح سعید لیٹا ہوا تھا۔) میں نے اگر کوئی مردانہ تحفہ خریدا تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ میں بہت خودغرض  اور کمینہ ہوں۔

سعید:کیا شک ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔

حامد:آپ کا مطلب ٹھیک ہے اس لئے کہ تحفہ میری طرف سے میری طرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے کہ میں اپنی سالگرہ منالوں۔ کیونکہ مجھے اپنی تاریخ پیدائش اچھی طرح یاد ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے زبانی یاد نہیں لیکن نوٹ بک میں لکھی ہوئی موجود ہے۔

سعید:اس صورت میں بھی آپ کا تحفہ آپ کی طرف سے آپ ہی کی طرف ہو گا۔

حامد:(بستر پر اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے)ارے ہاں۔۔۔ یہ تو ہو گا۔ تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ تحفہ خریدنے کے بعد مجھے کوئی عورت۔۔۔

سعید:(اٹھ کھڑا ہوتا ہے) یا لڑکی کی تلاش کرنا پڑے گی جس کے ساتھ آپ شادی کر سکیں۔

حامد:ہاں ایسی عورت۔۔۔

سعید:یا لڑکی!

حامد:یا لڑکی۔۔۔ مجھے ہر حالت میں تلاش کرنا پڑے گا۔

سعید:ہر حالت میں کیوں؟

حامد:ہر حالت میں نہیں۔ صرف اس حالت میں جب میں نے تحفہ خرید لیا ہو گا۔

سعید:یہ حالت بہت ہی قابل رحم ہو گی۔

حامد:کچھ بھی ہو۔۔۔ میں تحفہ خریدنے کا فیصلہ کر چکا ہوں۔۔۔ اب یہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ آئیے چلیں۔۔۔

(حامد ٹوپی پہنتا ہے۔۔۔ سعید ذرا آئینے میں اپنے بال درست کرتا ہے۔ حامد میز پرسے اخبار اٹھاتا ہے۔)

حامد:چلئے !

سعید:چلئے !

(دونوں باہر نکل جاتے ہیں۔)

 

 

 

 

دوسرا  منظر

 

(تحفوں کی دوکان۔۔۔ وسیع و عریض جگہ ہے ، جہاں بے شمار الماریاں دھری ہیں بڑے بڑے شیشے کے شوکیس رکھے ہیں۔ہر ایک چیز جھلمل جھلمل کر رہی ہے۔۔۔ بہت سے گاہک جمع ہیں۔کچھ آ رہے ہیں کچھ جا رہے ہیں۔۔۔ حامد اور سعید ادھر آتے ہیں۔ حامد کے ہاتھ میں اخبار ہے وہ اس دوکان کا پتہ دیکھ رہا ہے۔۔۔ دوکان دار نئے گاہکوں کو دیکھ کر متوجہ ہوتا ہے  اور پاس آتا ہے۔)

 

دوکاندار:فرمائیے۔

حامد:تحفوں کی یہی دوکان ہے۔ جس کا اشتہار۔۔۔

دوکاندار:آپ اس اخبار میں ملاحظہ فرما رہے ہیں۔۔۔ آئیے۔۔۔ آئیے۔۔۔

(دوکان کے ذرا اندر چلے جاتے ہیں۔۔۔ اتنے میں چند لمحات کے بعد دو لڑکیاں آتی ہیں۔بڑی تیز بڑی طرار)

حمیدہ:(دوکان کے ملازم سے)تحفوں کی یہی دوکان ہے۔

ملازم:جی ہاں۔ یہی دوکان ہے  اور گورنمنٹ سے رجسٹرڈ۔

حمیدہ:رجسٹرڈ؟

ملازم:جی ہاں۔۔۔ اندر تشریف لے جائیے میم صاحب۔

(دونوں لڑکیاں دوکان کے اندر چلی جاتی ہیں۔ حمیدہ اس شوکیس کے پاس پہنچتی ہے۔ جہاں حامد دوکاندار کے پاس کھڑا ہے  اور جھک کر شوکیس میں رکھی ہوئی چیزوں کو دیکھ رہا ہے۔)

حامد:(دوکاندار سے)مجھے آپ کی سب چیزیں پسند آئی ہیں (اچانک حمیدہ کی طرف دیکھتا ہے)خاص طور پروہ چیز تو خوب ہے۔۔۔

(حمیدہ کے گال ایک دم سرخ ہو جاتے ہیں۔)

دوکاندار:کونسی؟

حامد:(دوکان کے ایک کونے کی طرف اشارہ کر کے)وہ پتلی جواس کے کونے کی زینت بڑھا رہی ہے۔

دوکاندار:قدر افزائی  کا شکریہ۔۔۔ فرمائیے کون سا تحفہ باندھ دوں؟میرا ذاتی خیال ہے کہ۔۔۔

حامد:فرمائیے فرمائیے۔ آپ کا ذاتی خیال کیا ہے۔

(حمیدہ کی طرف دیکھتے ہوئے۔)

دوکاندار:کس کے متعلق؟

حامد:(چونک کر)ان ہی۔۔۔ ان ہی تحفوں کے متعلق!

دوکاندار:میرا ذاتی خیال ہے۔ مگر آپ کس تقریب کے لئے تحفہ چاہتے ہیں؟

حامد:ہاں یہ بتانا واقعی ضروری ہے (آواز دیتا ہے) سعید صاحب۔۔۔  سعید صاحب!

سعید:حاضر ہوا۔

حامد:آپ انہیں بتا دیجئے کہ مجھے کس تقریب کے لئے تحفہ چاہتے۔

(حمیدہ کھل کھلا ہنستی ہے۔)

حامد:یہ کون ہنسا؟

دوکاندار:لڑکیاں ہیں۔ ہنس رہی ہیں۔

حامد:ہاں لڑکیاں ہیں ہنس رہی ہیں۔۔۔ قصہ یہ ہے کہ مجھے اپنی بیوی کے لئے۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ اس بیوی کے لئے جومیری بیوی ہونی چاہئے  اور بہت جلدہونی چاہئے۔ مجھے ایک تحفہ خریدنا ہے۔ ہم دونوں نے یہی فیصلہ کیا ہے حالانکہ میں اپنی سالگرہ منا سکتا تھا۔

دوکاندار:اس میں کیا شک ہے۔۔۔ میراذاتی خیال ہے۔

(حمیدہ ہنستی ہے۔)

دوکاندار:یہ کون ہنسا؟

سعید:لڑکیاں ہیں ہنس رہی ہیں !

حامد:ہاں لڑکیاں ہیں۔ انہیں ہنسنا ہی چاہئے۔

دوکاندار:میرا ذاتی خیال ہے کہ اب، آپ کو جلدی کوئی تحفہ خرید لینا چاہئے کیوں کہ۔۔۔

حامد:میں اپنا تحفہ منتخب کر چکا ہوں۔

دوکاندار:فرمائیے۔

حامد:(شوکیس میں سے دو چوڑیاں نکالتا ہے جس پر مینا کاری  کا کام ہے) یہ وہ چوڑیاں جواس خوب صورت بکس میں دو حسین کلائیوں کو دعوت دے رہی ہیں۔

دوکاندار:(بکس لے کر)واہ واہ۔۔۔ کیا تحفہ چنا ہے آپ نے۔۔۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ۔۔۔

(تیز قدمی سے حمیدہ آتی ہے۔)

حمیدہ:(دوکاندار سے)اس تاش کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟

حامد:بہت خوب صورت ہے۔ خصوصاً۔۔۔

حمیدہ:میں نے آپ کی رائے طلب نہیں کی۔

سعیدہ:کچھ میں عرض کروں۔

حمیدہ:جی نہیں (دوکاندار سے)فرمائیے اس کے متعلق آپ کی ذاتی رائے کیا ہے؟

دوکاندار:بڑا خوب صورت ہے۔ دیرپا ہے  اور ایک تحفہ چیز ہے۔ وہ خوش نصیب ہو گا۔ جسے آپ یہ تحفہ دیں گی۔

حامد:یعنی اگر وہ فلش کھیلے گا تو خوب جیتے گا۔

حمیدہ:آپ نے کیسے جانا کہ میں یہ تاش کسی کو تحفہ دینے ہی کے لئے خرید رہی ہوں۔۔۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ تلاش میں نے صرف اپنے لئے خریدا ہے۔۔۔ (دوکاندار سے)پیک کرا دیجئے اسے (بٹوہ کھول کر) یہ لیجئے اس کی قیمت۔

حامد:(چوڑیوں کا بکس دوکاندار کو دیتے ہوئے)پیک کرا دیجئے اسے (جیب سے دام نکال کر دیتے ہوئے) لیجئے قیمت!

(دوکاندار دونوں چیزیں لے کر چلا جاتا ہے۔)

حمیدہ:(اپنی سہیلی کو آواز دیتی ہے)سعیدہ!

سعید:ارشاد۔

حمیدہ:آپ کا نام سعیدہ ہے؟

سعید:جی نہیں۔۔۔ فقط سعید، ہائے ہوز کے بغیر۔۔۔

(سعیدہ آتی ہے۔)

حمیدہ:(حامد کی طرف دیکھ کر سعیدہ سے)کیوں سعیدہ، میں نے یہ تاش اپنے لئے خریدا ہے یا کسی  اور کے لئے؟

سعیدہ:اپنے لئے۔

حامد:یہ  اور بھی اچھا ہے۔

حمیدہ:کیوں؟

حامد:اس لئے کہ چوڑیاں بھی میں نے اپنے لئے خریدی ہیں۔

حمیدہ:(مسکرا کر) آپ خود پہنئے گا۔

حامد:جی ہاں فی الحال خود ہی پہنوں گا جب تک۔۔۔  آپ تاش بھی فی الحال اکیلے ہی کھیلیں گے۔

حمیدہ:فی الحال میں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا  اور میں سمجھتی ہوں کہ فی الحال ہمیں یہ گفتگو بند  کر دینی چاہئے۔

(دوکاندار آتا ہے۔)

دوکاندار:میرا ذاتی خیال ہے کہ۔۔۔

حامد:فی الحال اپنے ذاتی خیال کو موقوف رکھئے۔۔۔ لائیے میری چوڑیاں۔

حمیدہ:لائیے میرا تاش۔

(دوکاندار دونوں کے پیکٹ دونوں کے حوالے کر دیتا ہے۔۔۔)

(سب باہر نکلتے ہیں۔)

 

 

 

 

تیسرا  منظر

 

(ہوسٹل کا وہی کمرہ جو ہم پہلے منظر میں دکھا چکے ہیں۔۔۔ حامد کرسی پر بیٹھا ہے سامنے تپائی رکھی ہے جس پر تاش کے پتے بکھرے ہوئے ہیں حامد انہیں اکٹھا کرتا ہے پھینٹتا ہے۔۔۔ اٹھ کھڑا ہوتا ہے  اور سامنے دیوار پر چغتائی کی پینٹنگ کی طرف دیکھ کر گانا شروع کر دیتا ہے۔)

 

گیت

 

نیندوں سے لبریز ہیں آنکھیں جیسے خواب رسیلے

ترچھی نظریں یوں پڑتی ہی جیسے بان کٹیلے

چال میں ایسا دم خم جیسے رک جانے کے حیلے

زہر سہی پر کون ہے جو یہ زہر نہ بڑھ کر پی لے

ہونٹوں پر ان سنے ترانے جھیل میں جیسے تارے

نانکی چتون میں وہ جھل مل جو کھیلے سو ہارے

چہرے پر لالی جیسے کلیاں ندی کنارے

حسن کے اس امڈے دھارے میں ڈھونڈے کون سہارے

حامد:(پھر کرسی پر بیٹھ جاتا ہے  اور تھوڑی دیر گیت کی دھن گنگنانے کے بعد تاش کے پتے ایک ایک کر کے پھینکتا ہے)بادشاہ۔۔۔ بیگم۔۔۔  اور یہ کہ۔۔۔ راؤنڈ بن گئی (گنگناتا ہے)۔۔۔ حسن کے اس امڈے دھارے میں ڈھونڈے کون سہارے؟(پھر پتے پھینکتا ہے)ستا۔۔۔ اٹھّا۔۔۔   اور۔۔۔  یہ نہلا۔یہ بھی راؤنڈ بن گئی۔

(سعید اندر داخل ہوتا ہے۔)

سعید:آپ راؤنڈیں کیا بنا رہے ہیں۔۔۔ ارے۔۔۔ یہ تو اسی قسم کا تاش ہے۔

حامد:اجی نہیں۔۔۔ اسی قسم کا تاش نہیں بلکہ وہی تاش ہے۔

سعید:(حیرت سے) آپ کا مطلب؟

حامد:(اٹھ کر تاش پھینٹتے ہوئے)بالکل واضح ہے۔

سعید:(کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔) یعنی؟

حامد:دیکھئے میں آپ کو بتاتا ہوں (تاش کے پتے تپائی پر پھینکتا ہے) یہ دہلا۔۔۔ یہ بیگم۔۔۔  اور یہ غلام۔۔۔ دیکھا آپ نے۔۔۔ اب آپ خود ہی سوچ لیجئے۔ یہ کیا معاملہ ہے۔

سعید:آپ خود ہی بیان فرمائیے۔

حامد:(گاتا ہے)ہونٹوں پران سنے ترانے جھیل میں جیسے تارے۔۔۔ یہ ان سنے ترانے آپ نہیں سن سکتے۔

سعید:یہ آپ کیا پہیلیاں بجھوا رہے ہیں مجھ سے۔۔۔ میں پوچھتا ہوں یہ تاش آپ کے پاس کیسے آ گیا؟

حامد:آ گیا۔۔۔ حق بحق وار رسید۔۔۔  میں نے آج نوٹ بک کھول کر دیکھی تو معلوم ہوا کہ آج ہی میری سالگرہ ہے۔۔۔ سو اپنی سالگرہ کا تحفہ مجھے مل گیا  اور  وہ دو چوڑیاں ادھر چلی گئیں۔

سعید:کدھر؟

حامد:ادھر ہی۔ میری ہونے والی بیوی کے پاس۔

سعید:(اٹھ کھڑا ہوتا ہے) میرا ذاتی خیال ہے کہ دکاندار کی غلطی سے پیکٹ بدل گئے۔۔۔ آپ کی چوڑیاں ادھر چلی گئیں اس کا تاش  ادھر آ گیا۔

حامد:آپ کا ذاتی خیال دوکاندار کے ذاتی خیال سے بہت زیادہ درست ہے۔

سعید:اب آپ کیا کیجئے گا؟

حامد:کچھ بھی نہیں۔۔۔ تاش کھیلا کروں گا۔

سعید: اور وہ چوڑیاں پہنا کرے گی۔

حامد:کیا حرج ہے؟

(دروازے پر دستک ہوتی ہے۔)

حامد:کون ہے؟

تار والا:(باہر سے) تار والا حضور۔

(حامد تاش کو تپائی پر رکھ کر باہر نکلتا ہے۔ چند لمحات تک سعید اکیلا تاش کے پتے ایک ایک کر کے تپائی پر پھینکتا ہے۔)

سعید:راؤنڈ۔۔۔ حد ہو گئی ہے۔

(حامد  تار لئے اندر آتا ہے۔)

حامد:کیا ہوا؟

سعید:ایک راؤنڈ بن گئی تھی۔۔۔ آپ سنائیے خیریت توہے !

حامد:قبلہ والد صاحب کاتا رہے۔

سعید:کیا فرماتے ہیں۔

حامد:فرماتے ہیں فوراً چلے آؤ۔۔۔  ایک ضروری کام ہے۔

سعید:یہ ضروری کام کیا ہو سکتا ہے؟

حامد:ڈپٹی صاحب ہی جانیں۔۔۔ سوال توہے کہ اب جانا پڑے گا۔۔۔  (سعید کے ہاتھ سے تاش لیتا ہے۔) دیکھئے اگر سوئے اتفاق سے میری غیر حاضری میں آپ کی ان سے ملاقات ہو جائے  اور وہ اس تاش کے بارے میں استفسار کریں تو۔۔۔

سعید:میں اپنی لاعلمی کا اظہار کروں ، لیکن اگر وہ اسی قسم کا دوسرا سودا کرنا چاہیں۔

حامد:تو میری طرف سے آپ کو اس کی کھلی اجازت ہے۔

سعید:تو چلئے ، اپنا اسباب بند کیجئے۔

 

 

 

 

چوتھا منظر

 

(ڈپٹی صاحب کا گھر۔۔۔ ہال کمرہ۔۔۔ پر تکلف طریقے پر سجا ہوا۔ ڈپٹی صاحب دوہرے بدن کے بزرگ ہیں آرام کرسی پر بیٹھے ایک موٹا سگار پینے میں مصروف ہیں۔ ان کے پاس حامد کھڑا ہے جیسے وہ ابھی اسٹیشن سے آ رہا ہے۔)

 

حامد:میں آپ کا تار ملتے ہی چل پڑا۔

ڈپٹی صاحب:تم نے بہت اچھا کیا۔ کیونکہ وقت تھوڑا رہ گیا ہے۔

حامد:کس میں؟

ڈپٹی صاحب:تمہاری شادی میں۔

حامد:(حیرت سے)میری شادی میں۔۔۔ یعنی میری شادی ہو رہی ہے۔

ڈپٹی صاحب:قطعی طور پر ہو رہی ہے۔

حامد:کس کے ساتھ؟

ڈپٹی صاحب:ایک لڑکی کے ساتھ!

حامد:جس کو میں بالکل نہیں جانتا۔

ڈپٹی صاحب:ہاں !جس کو تم بالکل نہیں جانتے۔

حامد: اور شادی میری ہو رہی ہے؟

ڈپٹی صاحب:تم کہنا کیا چاہتے ہو؟

حامد:میں کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے یہ شادی منظور نہیں۔

ڈپٹی صاحب:(غصے میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں)کیا کہا؟

حامد:اباجی یہ سراسر ظلم ہے۔ میں کیسے اپنی شادی پر رضامند ہو سکتا ہوں۔۔۔  میں لڑکی کو جانتا نہیں۔۔۔ اس کی شکل سے ناواقف ہوں۔ جانے کس مزاج کی ہے۔۔۔ کیسے خیالات رکھتی ہے۔۔۔ میری عدم موجودگی میں مجھ سے مشورہ لیے بغیر آپ نے اتنا بڑا فیصلہ صادر کر دیا۔

ڈپٹی صاحب:میں تمہارا باپ ہوں۔

حامد:درست ہے لیکن۔۔۔ لیکن۔۔۔ اباجی۔۔۔ آپ خدا کے لئے اتنا تو سوچیں۔پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ روشن خیال ہوں۔۔۔ دل میں جانے کیا کیا امنگیں ہیں  اور پھر۔۔۔  اور پھر۔۔۔ اب میں آپ سے کیا کہوں مجھے معلوم ہوتا کہ آپ مجھے یہاں بلا کر یہ فیصلہ سنانے والے ہیں تو میں کبھی نہ آتا کہیں بھاگ جاتا۔۔۔ خود کشی کر لیتا۔

ڈپٹی صاحب:میں تمہاری یہ بکواس سننے کے لئے تیار نہیں۔

حامد:میں شادی کرنے کے لئے بھی تیار نہیں۔

ڈپٹی صاحب:دیکھوں گا تم کیسے نہیں کرتے؟

(غصے میں بھرے کمرے سے باہر چلے جاتے ہیں۔)

حامد:(اپنے آپ سے)عجیب مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔۔۔ کچھ سمجھ میں  نہیں آتا کیا کروں۔۔۔ شادی نہ ہوئی کھیل ہو گیا۔۔۔ کیا کروں کیا نہ کروں ، میری جان عجب مصیبت میں پھنس گئی ہے۔(باپ کے الفاظ دہراتا ہے۔)دیکھوں گا تم کیسے شادی نہیں کرتے۔۔۔ چلئے فیصلہ ہو گیا۔۔۔ اب چاہے میری ساری زندگی تباہ ہو جائے (جیب میں تاش کا پیکٹ نکالتا ہے۔۔۔ صوفے پر بیٹھ جاتا ہے  اور پتے پھینٹتے ہوئے کہتا ہے)یہ تاش ہی اب میری قسمت کا فیصلہ کرے گی۔۔۔ اگر تین پتوں نے راؤنڈ نہ بنائی تومیں کبھی شادی نہیں کروں گا  اور اگر  راؤنڈ بن گئی تو۔۔۔ قہر درویش برجان درویش کر لوں گا۔۔۔ جب شادی کو کھیل ہی سمجھا گیا ہے ، تویوں ہی سہی۔ میں بھی اس کا فیصلہ پتوں ہی سے کروں گا۔ (ایک ایک کر کے تین پتے پھینکتا ہے)دکی۔۔۔ تکی۔۔۔  اور۔۔۔ یہ چوکا۔۔۔ لعنت (تاش کی گڈی زمین پر پٹک دیتا ہے) آخری سہارا بھی دھوکا دے گیا۔

(حامد کی ماں جلدی جلدی کمرے میں داخل ہوتی ہے۔)

ماں :یہاں بیٹھے تاش کھیل رہے ہو۔۔۔ ماں سے نہیں ملنا تھا؟

حامد:(ماں کی طرف بڑھتے ہوئے)۔۔۔ امی جان۔۔۔ امی جان۔۔۔  میں شادی نہیں کروں گا۔

ماں :یہ کیا بے ہودہ بک رہے ہو؟

حامد:نہیں امی جان۔۔۔ مجھے ایسی شادی منظور نہیں۔ یعنی مجھ سے پوچھے بغیر میری شادی کا فیصلہ کر دیا گیا ہے۔

ماں :اس میں پوچھنے کی بات ہی کیا تھی۔ ماں باپ اندھے تو نہیں ہوتے۔

حامد:مجھے تو آپ لوگوں نے اندھا ہی سمجھا۔

ماں :ہم نے جو کچھ کیا ہے ، ٹھیک کیا ہے۔

حامد:میں مر جاؤں گا۔ لیکن اس طرح شادی کبھی نہیں کروں گا۔

ماں :کچھ ہوش کی دوا کرو۔ جو منہ میں آتا ہے بک دیتے ہو۔

حامد:آپ تو چاہتی ہیں بس گلا ہی گھونٹ دیں۔ آدمی اف تک نہ کرے۔

ماں :بڑا ظلم ہوا ہے تم پر۔

حامد:اس سے بڑھ کر اور ظلم کیا ہو گا یعنی میری ساری زندگی پر کاجل  کا لیپ کیا جا رہا ہے۔۔۔ مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک اندھیرے غار میں  دھکیلا جا رہا ہے۔۔۔  اور ابھی کچھ ظلم نہیں ہوا۔۔۔ امی جا سچ کہتا ہوں اسے دھمکی نہ سمجھئے زہر کھالوں گا۔ گاڑی کے نیچے جا مروں گا  اور  ایسی شادی کبھی نہ کروں گا۔

ماں :تم پیدا ہی نہ ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ آج مجھے یہ دن دیکھنا تو نصیب نہ ہوتا(گلے سے آواز رندھ جاتی ہے۔) میں نے کس چاؤ سے تمہاری نسبت ٹھہرائی تھی۔

(رونا شروع کر دیتی ہے۔)

(دور سے  ثریا کی آواز آتی ہے ، امی جان۔۔۔ امی جان۔۔۔  اس کے بعد وہ خود تیز قدمی سے اندر آتی ہے۔)

ثریا:امی جان آپ ادھر ہیں۔۔۔ اخاہ بھائی جان۔۔۔ آپ تشریف لے آئے۔۔۔ امی جان میں آپ کو ادھر دیکھ رہی تھی۔۔۔

ماں :کیا ہے؟

ثریا:ناپ لے آئی ہوں امی جان۔۔۔ لیکن کن مشکلوں سے ملا ہے۔۔۔  پر آپ خاموش کیوں ہیں؟۔۔۔ رو کیوں رہی ہیں۔ بھائی جان کیا بات ہے؟

ماں :سنار باہر بیٹھا ہے؟

ثریا:ہاں بیٹھا ہے۔

ماں :اس سے کہہ دے کہ چلا جائے۔۔۔ ہمیں کنگنیاں نہیں بنوانا ہیں۔

ثریا:یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں امی جان۔۔۔ ناپ لے آئی ہوں۔

ماں :ثریا تو اس وقت جا۔۔۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں۔۔۔ سنار سے کہہ دے کل آئے۔

ثریا:اس کا مطلب ہے ناپ موجود ہے تو پھر وہ کل کیوں آئے آج ہی کیوں نہ کام شروع کر دے تا کہ وقت پرمل جائے۔

ماں :جو دل میں آئے۔ کر۔ مجھ نصیبوں جلی کونہ ستا۔

ثریا:جانے آپ کس بات پر بھری بیٹھی ہیں۔ ستائیں آپ کو حامد بھائی جان  اور  کوسا مجھے جائے۔۔۔ وہ تو خیر اب نخرے کریں ہی گے ، بات بات پر بگڑیں گے۔۔۔ شادی جوہو رہی ہے۔۔۔ اچھا خیر، اس قصے کو چھوڑئیے مجھے اس کے لئے تحفہ خریدنا ہے۔ ابھی وہاں گئی تو معلوم ہوا کل اس کی سالگرہ ہے۔۔۔ کچھ روپے دیجئے مجھے !

ماں :میں کہتی ہوں دفان ہو یہاں سے۔ مغز نہ چاٹ میرا۔

(چلی جاتی ہے۔)

ثریا:(غصے میں حامد کی طرف بڑھتی ہے)حامد بھائی جان۔۔۔ آپ کیوں منہ میں گھنگھنیاں ڈالے کھڑے ہیں۔ جیسے آپ کے منہ میں زبان ہی نہیں ایک تومیں آپ کے کام کرتی پھروں  اور پھر الٹا جھڑکیاں کھاؤں۔

حامد:میں اس وقت کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔

ثریا:تو لیجئے۔ یہ ناپ کی چوڑی آپ سنبھالئے۔ باہر سنار بیٹھا ہے اس سے جو کہنا ہو کہہ دیجئے۔

(حامد کے ہاتھ میں غصے سے چوڑی رکھ دیتی ہے۔)

حامد:(چوڑی دیکھ کر)ثریا۔ بات سنو۔۔۔ یہ چوڑی تم نے کہاں سے لی؟

ثریا:کہیں سے بھی لی ہو۔ آپ کو اس سے کیا؟

حامد:میں سمجھ گیا۔ میں سمجھ گیا۔ لیکن یہ واقعی اسی کی ہے نا۔۔۔ اسی کی؟

ثریا:نہیں بتاتی۔

حامد:میری اچھی بہن جو ہوئیں۔۔۔ بتاؤ کس کی ہے؟

ثریا:سمجھ گئے لیکن بار بار پوچھیں گے۔۔۔ مزہ آتا ہے۔۔۔ آپ کی ہونے والی بیوی کی ہے جس کی کلائی سے زبردستی اتار کے لائی ہوں۔

حامد:زبردستی۔ کیوں وہ اتارنے نہیں دیتی تھی؟

ثریا:ہاں ، کہتی تھی، نہیں میں یہ چوڑی کبھی نہیں دوں گی۔ کسی کا تحفہ ہے۔۔۔  تم کوئی  اور لے جاؤ۔

حامد:اچھا۔

ثریا:پر میں ایک  اور بہانے سے لے آئی کہ مجھے بھی ایسا ہی جوڑا منگوانا ہے۔

حامد:(خوش ہو کر)وہ مارا!

(بہن کو گلے لگا لیتا ہے۔)

ثریا:یہ کیا ہو گیا ہے آپ کو؟

حامد:چپ۔۔۔ اب میں ضرور شادی کروں گا۔۔۔ اب میں ضرور شادی کرونگا۔ امی جان کہاں ہیں؟

ثریا:یہ دیوانہ پن ے؟

حامد:اب میں ضرور شادی کروں گا۔ اب میں ضرور شادی کروں گا۔

ثریا:یا وحشت!

حامد:آج اس کی سالگرہ ہے نا؟

(تاش کے پتے اٹھانا شروع کرتا ہے۔)

ثریا:ہے تو سہی۔ پریہ آپ تاش کے پتے کیا اکٹھے کر رہے ہیں۔

حامد:ٹھہرو ابھی بتاتا ہوں۔(تاش کے پتے اکٹھے کر کے بکس میں ڈالتا ہے) ثریا تم اسے کوئی تحفہ دینا چاہتی ہونا؟

ثریا:جی ہاں !

حامد:تو ایسا کرو یہ تاش لے جاؤ۔

ثریا:تاش؟

حامد:ہاں۔ تم یہ پیکٹ اسے تحفے کے طور پر دے دو اور پھر دیکھو کیا ہوتا ہے میرے منہ کی طرف کیا دیکھتی ہو؟کہہ جو دیا، ا س سے بہتر  اور  تحفہ نہیں ہو سکتا۔۔۔

(گاتا ہے۔)

ہونٹوں پر ان سنے ترانے جھیل میں جیسے تارے

بانکی چتون میں وہ جھل مل جو کھیلے سو ہارے

چہرے پر لالی سی جیسے کلیاں ندی کنارے

حسن کے اس امڈے دھارے میں ڈھونڈے کون سہارے

(پردہ)

٭٭٭

تشکر: ڈاکٹر شرف الدین ساحل جن کے توسط سے وہ ان پیج فائل فراہم ہوئی جس سے یہ کتاب ترتیب دی گئی۔

ان پیج سے تبدیلی ،تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید