فہرست مضامین
منشی پریم چند کی کہانیاں
حصہ اول
انتخاب: عامر صدیقی
یہ حصہ:
جلد اول
باقی حصے:
جلد دوم
جلد سوم
جلد چہارم
زیور کا ڈبہ
بی۔ اے پاس کرنے کے بعد چندر پرکاش کو ایک ٹیوشن کرنے کے سوا کچھ نہ سوجھا۔ ان کی ماں پہلے ہی مر چکی تھی۔ اسی سال والد بھی چل بسے۔ اور پرکاش زندگی کے جو شیریں خواب دیکھا کرتا تھا، وہ مٹی میں مل گئے۔ والد اعلیٰ عہدے پر تھے۔ ان کی وساطت سے چندر پرکاش کوئی اچھی جگہ ملنے کی پوری امید تھی، مگر وہ سب منصوبے دھرے ہی رہ گئے۔ اور اب گزر اوقات کے لئے صرف تیس روپے ماہوار کی ٹیوشن ہی رہ گئی ہے۔ والد نے کوئی جائداد نہ چھوڑی الٹا بھوک کا بوجھ اور سر پر لاد دیا۔ اور بیوی بھی ملی تو تعلیم یافتہ، شوقین، زبان کی طرار جسے موٹا کھانے اور موٹے پہننے کی نسبت مر جانا قبول تھا۔ چندر پرکاش کو تیس کی نوکری کرتے شرم آتی تھی۔ لیکن ٹھاکر صاحب نے رہنے کے لئے مکان دے کر ان کے آنسو پونچھ دئے۔ یہ مکان ٹھاکر صاحب کے مکان سے ملا ہوا تھا۔ پختہ ہوا دار صاف ستھرا اور ضروری سامان سے آراستہ۔ ایسا مکان بیس روپے ماہوار سے کم میں نہ مل سکتا تھا۔ لڑکا تو لگ بھگ انھیں کی عمر کا تھا مگر بڑا کند ذہن، کام چور، ابھی نویں درجہ میں پڑھتا تھا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ٹھاکر اور ٹھکرائن دونوں پرکاش کی بڑی عزت کرتے تھے بلکہ اپنا ہی لڑکا سمجھتے تھے۔ گویا ملازم نہیں، گھر کا آدمی تھا اور گھر کے ہر ایک معاملے میں اس سے مشورہ لیا جاتا تھا۔
شام کا وقت تھا۔ پرکاش نے اپنے شاگرد ویریندر کو پڑھا کر چلنے کے لئے چھڑی اٹھائی تو ٹھکرائن نے کہا۔ ’’ابھی نہ جاؤ بیٹا، ذرا میرے ساتھ آؤ، تم سے کچھ کہنا ہے۔‘‘
پرکاش نے دل میں سوچا، وہ کیا بات ہے جو ویریندر کے سامنے نہیں کہی جا سکتی۔ پرکاش کو علاحدہ لے جا کر اما دیوی نے کہا۔ ’’تمہاری کیا صلاح ہے۔؟ ویرو کا بیاہ کر دوں ایک بہت اچھے گھر کا پیغام آیا ہے۔‘‘
پرکاش نے مسکرا کر کہا۔ ’’یہ تو ویرو بابو ہی سے پوچھیے۔‘‘
’’نہیں میں تم سے پوچھتی ہوں۔‘‘
پرکاش نے ذرا تذبذب سے کہا۔ ’’میں اس معاملے میں کیا صلاح دے سکتا ہوں؟ ان کا بیسواں سال تو ہے۔ لیکن یہ سمجھ لیجیے کہ بیاہ کے بعد پڑھنا ہو چکا۔‘‘
’’تو ابھی نہ کروں۔ تمہاری یہی صلاح ہے‘‘
’’جیسا آپ مناسب خیال فرمائیں۔ میں نے تو دونوں باتیں عرض کر دیں۔‘‘
’’تو کر ڈالوں؟ مجھے یہ ڈر لگتا ہے کہ لڑکا کہیں بہک نہ جائے پھر پچھتانا پڑے گا‘‘
’’میرے رہتے ہوئے تو آپ اس کی فکر نہ کریں۔ ہاں مرضی ہو تو کر ڈالیے کوئی حرج بھی نہیں ہے۔‘‘
’’سب تیاریاں تمہیں کرنی پڑیں گی یہ سمجھ لو۔‘‘
’’تو میں کب انکار کرتا ہوں۔‘‘
روٹی کی خیر منانے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں ایک کمزوری ہوتی ہے جو انہیں تلخ سچائی کے اظہار سے روکتی ہے۔ پرکاش میں بھی یہی کمزوری تھی۔
بات پکی ہو گئی اور شادی کا سامان ہونے لگا۔ ٹھاکر صاحب ان اصحاب میں سے تھے جنہیں اپنے اوپر بھروسہ نہیں ہوتا۔ ان کی نگاہ میں پرکاش کی ڈگری اپنے ساٹھ سالہ تجربے سے زیادہ قیمتی تھی۔ شادی کا سارا انتظام پرکاش کے ہاتھوں میں تھا۔ دس بارہ ہزار روپے خرچ کرنے کا اختیار کچھ تھوڑی عزت کی بات نہیں تھی۔ دیکھتے دیکھتے ایک خستہ حال نوجوان ذمہ دار منیجر بن بیٹھا۔ کہیں بزاز اسے سلام کرنے آیا ہے۔ کہیں محلے کا بنیا گھیرے ہوئے ہے۔ کہیں گیس اور شامیانے والا خوشامد کر رہا ہے۔ وہ چاہتا تو دو چار سو روپے آسانی سے اڑا سکتا تھا، لیکن اتنا کمینہ نہ تھا۔ پھر اس کے ساتھ کیا دغا کرے جس نے سب کچھ اسی پر چھوڑ دیا ہو۔ مگر جس دن اس نے پانچ ہزار کے زیورات خریدے اس کے کلیجہ پر سانپ لوٹنے لگا۔
گھر آ کر چمپا سے بولا، ’’ہم تو یہاں روٹیوں کے محتاج ہیں، اور دنیا میں ایسے ایسے آدمی پڑے ہیں جو ہزاروں لاکھوں روپے کے زیورات بنوا ڈالتے ہیں۔ ٹھاکر صاحب نے آج بہو کے چڑھاوے کے لئے پانچ ہزار کے زیور خریدے۔ ایسی ایسی چیزوں کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں سچ کہتا ہوں۔ بعض چیزوں پر تو آنکھ نہیں ٹھہرتی تھی۔‘‘
چمپا حاسدانہ لہجے میں بولی،’’اونہہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ جنہیں ایشور نے دیا ہے وہ پہنیں یہاں تو رو رو کر مرنے کو پیدا ہوئے ہیں۔‘‘
چندر پرکاش: ’’یہی لوگ مزے اڑاتے ہیں۔ نہ کمانا نہ دھمانا باپ دادا چھوڑ گئے ہیں۔ مزے سے کھاتے اور چین کرتے ہیں۔ اسی لئے کہتا ہوں، ایشور بڑا غیر منصف ہے۔‘‘
چمپا: ’’اپنا اپنا مقدر ہے۔ ایشور کا کیا قصور ہے۔ تمہارے باپ دادا چھوڑ گئے ہوتے تو تم بھی مزے اڑاتے۔ یہاں تو روزمرہ کا خرچ چلانا مشکل ہے۔ گہنے کپڑے کون روئے؟ کوئی ڈھنگ کی ساڑی بھی نہیں کہ کسی بھلے آدمی کے گھر جانا ہو تو پہن لوں۔ میں تو اسی سوچ میں ہوں کہ ٹھکرائن کے یہاں شادی میں کیسے جاؤں گی۔ سوچتی ہوں بیمار پڑ جاتی تو جان بچتی۔‘‘
یہ کہتے کہتے اس کی آنکھیں بھر آئیں پرکاش نے تسلی دی۔ ’’ساڑی تمہارے لئے ضرور لاؤں گا۔ یہ مصیبت کے دن ہمیشہ نہ رہیں گے۔ زندہ رہا تو ایک دن تم سر سے پاؤں تک زیور سے لدی ہو گی۔‘‘
چمپا مسکرا کر بولی، ’’چلو ایسی من کی مٹھائی میں نہیں کھاتی۔ گزر ہوتی جائے یہی بہت ہے۔‘‘
پرکاش نے چمپا کی بات سن کر شرم اور حیا سے سر جھکا لیا۔ چمپا اسے اتنا کاہل الو جود سمجھتی ہے۔
رات کو دونوں کھانا کھا کر سوئے تو پرکاش نے پھر زیوروں کا ذکر چھیڑا۔ زیور اس کی آنکھوں میں بسے ہوئے تھے۔ ’’اس شہر میں ایسے بڑھیا زیور بنتے ہیں۔ مجھے اس کی امید نہ تھی۔‘‘
چمپا نے کہا۔ ’’کوئی اور بات کرو۔ زیوروں کی بات سن کر دل جلتا ہے۔‘‘
’’ایسی چیزیں تم پہنو تو رانی معلوم ہونے لگو۔‘‘
’’زیوروں سے کیا خوبصورتی معلوم ہوتی ہے۔ میں نے تو ایسی بہت سی عورتیں دیکھی ہیں، جو زیور پہن کر بھی بھدی معلوم ہوتی ہے۔‘‘
ٹھاکر صاحب مطلب کے یار معلوم ہوتے ہیں، یہ نہ ہوا کہ کہتے۔
’’تم اس میں سے کوئی چمپا کے لئے لیتے جاؤ۔‘‘
’’تم کیسی بچوں کی سی باتیں کرتے ہو۔‘‘
’’اس میں بچپن کی کیا بات ہے کوئی فراخ دل آدمی کبھی اتنی کنجوسی نہ کرتا۔‘‘
’’میں نے سخی کوئی نہیں دیکھا۔ جو اپنی بہو کے زیور کسی غیر کو بخش دے۔‘‘
’’میں غیر نہیں ہوں۔ ہم دونوں ایک ہی مکان میں رہتے ہیں۔ میں ان کے لڑکے کو پڑھاتا ہوں اور شادی کا سارا انتظام کر رہا ہوں۔ اگر سو دو سو کی چیز دے دیتے تو کون سی بڑی بات تھی۔ مگر اہل ثروت کا دل دولت کے بوجھ سے دب کر سکڑ جاتا ہے۔ اس میں سخاوت اور فراخ حوصلگی کے لئے جگہ ہی نہیں رہتی۔‘‘
یکایک پرکاش چارپائی سے اٹھ کر کھڑا ہوا۔ آہ چمپا کے نازک جسم پر ایک گہنا بھی نہیں پھر بھی وہ کتنی شاکر ہے۔ اسے چمپا پر رحم آ گیا۔ یہی تو کھانے پینے کی عمر ہے اور اس عمر میں اس بیچاری کو ہر ایک چیز کے لئے ترسنا پڑتا ہے۔ وہ دبے پاؤں گھر سے باہر چھت پر آیا۔ ٹھاکر صاحب کی چھت اس چھت سے ملی ہوئی تھی۔ بیچ میں ایک پانچ فٹ اونچی دیوار تھی۔ وہ دیوار پر چڑھ گیا اور ٹھاکر صاحب کی چھت پر آہستہ سے اتر گیا۔ گھر میں بالکل سناٹا تھا۔
اس نے سوچا پہلے زینہ سے اتر کر کمرہ میں چلوں۔ اگر وہ جاگ گئے تو زور سے ہنس دوں گا اور کہوں گا، کیا چرکا دیا۔ کہہ دوں گا۔ میرے گھر کی چھت سے کوئی آدمی ادھر آتا دکھائی دیا اس لئے میں بھی اس کے پیچھے پیچھے آیا کہ دیکھوں یہ کیا کر رہا ہے؟ کسی کو مجھ پر شک ہی نہیں ہو گا۔ اگر صندوق کی کنجی مل گئی تو پو بارہ ہیں۔ سب نوکروں پر شبہ کریں گے۔ میں بھی کہوں گا صاحب نوکروں کی حرکت ہے ان کے سوا اور کون لے جا سکتا ہے۔ میں نلوہ نکل جاؤں گا۔ شادی کے بعد کوئی دوسرا گھر لے لوں گا۔ پھر آہستہ آہستہ ایک ایک زیور چمپا کو دوں گا جس سے کوئی شک نہ گزرے۔
پھر بھی وہ جب زینے سے اترنے لگا تو اس کا دل دھڑک رہا تھا۔
دھوپ نکل آئی تھی پرکاش ابھی سو رہا تھا کہ چمپا نے اسے جگا کر کہا۔ ’’بڑا غضب ہو گیا رات کو ٹھاکر صاحب کے گھر میں چوری ہو گئی۔ چور زیوروں کا ڈبہ اٹھا کر لے گئے۔‘‘
پرکاش نے پڑے پڑے پوچھا، ’’کسی نے پکڑا نہیں چور کو۔‘‘
’’کسی کو خبر بھی نہیں، وہی ڈبے لے گئے جس میں شادی کے زیور رکھے تھے نہ جانے کیسے چابی اڑا لی۔ اور انہیں کیسے معلوم ہوا کہ اس صندوق میں ڈبہ رکھا ہے۔‘‘
’’نوکروں کی کارستانی ہو گی۔ باہر کے آدمی کا یہ کام نہیں ہے۔‘‘
’’نوکر تو ان کے تینوں پرانے ہیں۔‘‘
’’نیت بدلتے کیا دیر لگتی ہے۔ آج موقع دیکھا اڑا لے گئے۔‘‘
’’تم جا کر ان کو تسلی دو۔ ٹھکرائن بے چاری رو رہی تھی۔ تمہارا نام لے کر کہتی تھیں کہ بیچارہ مہینوں ان زیوروں کے لئے دوڑا۔ ایک ایک چیز اپنے سامنے بنوائی اور چور مونڈی کاٹے نے اس کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔‘‘
پرکاش جھٹ پٹ اٹھ بیٹھا اور گھبرایا ہوا سا جا کر ٹھکرائن سے بولا۔ ’’یہ تو بڑا غضب ہو گیا ماتا جی، مجھے تو ابھی ابھی چمپا نے بتلایا۔‘‘
ٹھاکر صاحب سر پر ہاتھ رکھے ہوئے بیٹھے تھے۔ بولے، ’’کہیں سیندھ نہیں کوئی تالا نہیں ٹوٹا۔ کسی دروازے کی چول نہیں اتری سمجھ میں نہیں آیا کہ چور کدھر سے آیا؟‘‘
ٹھکرائن نے رو کر کہا، ’’میں تو لٹ گئی بھیا! بیاہ سر پر ہے، کیا ہو گا بھگوان! تم نے کتنی دوڑ دھوپ کی تھی، تب کہیں جا کر چیزیں تیار ہو کر آئی تھیں نہ جانے کس منحوس ساعت میں بنوائی تھیں۔‘‘
پرکاش نے ٹھاکر صاحب کی کان میں کہا، ’’مجھے تو نوکروں کی شرارت معلوم ہوتی ہے۔‘‘
ٹھکرائن نے مخالفت کی۔ ’’ارے نہیں بھیا۔ نوکروں میں کوئی نہیں۔ دس ہزار روپے یوں ہی اوپر رکھے رہتے ہیں۔ کبھی ایک پائی کا نقصان نہیں ہوا۔‘‘
ٹھاکر صاحب نے ناک سکوڑ کر کہا۔ ’’تم کیا جانو آدمی کا دل کتنی جلدی بدل جاتا ہے۔ جس نے ابھی تک چوری نہیں کی وہ چوری نہیں کرے گا، یہ کوئی نہیں کہہ سکتا۔ میں پولیس میں رپورٹ کروں گا اور ایک ایک نوکر کی تلاشی کراؤں گا۔ کہیں مال اڑا دیا ہو گا۔ جب پولیس کے جوتے پڑیں گے تو آپ اقبال کریں گے۔‘‘
پرکاش نے پولیس کا گھر میں آنا خطرناک سمجھا۔ کہیں ان کے گھر کی تلاشی لیں تو ستم ہی ہو جائے گا۔ بولے، ’’پولیس میں رپورٹ کرنا اور تحقیقات کرنا بالکل بے فائدہ ہے۔‘‘
ٹھاکر صاحب نے منھ بنا کر کہا۔ ’’تم بھی کیا بچوں کی سی بات کر رہے ہو پرکاش بابو۔ بھلا چوری کرنے والا خود بخود اقبال کرے گا۔ تم زد و کوب بھی نہیں کر سکتے۔ ہاں پولیس میں رپورٹ کرنا مجھے بھی فضول معلوم ہوتا ہے۔ ال چلا گیا، اب کیا ملے گا۔‘‘
پرکاش، ’’لیکن کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔‘‘
ٹھاکر: ’’کوئی فائدہ نہیں۔ ہاں اگر کوئی خفیہ پولیس کا آدمی ہو جو چپکے چپکے پتہ لگا دے تو البتہ مال نکل آئے۔ لیکن یہاں ایسے آدمی کہاں۔ نصیبوں کو رو کر بیٹھ رہو اور کیا۔‘‘
پرکاش، ’’آپ بیٹھے رہیے۔ لیکن میں بیٹھنے والا نہیں۔ میں انہیں نوکروں کے سامنے چور کا نام نکلواؤں گا۔‘‘
ٹھکرائن: ’’نوکروں پر مجھے پورا یقین ہے۔ کسی کا نام بھی نکل آئے تو مجھے یہی خیال رہے گا کہ یہ کسی باہر کے آدمی کا کام ہے۔ چاہے جدھر سے آیا ہو پر چور آیا باہر سے۔ تمہارے کوٹھے سے بھی تو آ سکتا ہے۔‘‘
ٹھاکر: ’’ہاں ذرا اپنے کوٹھے پر دیکھو شاید کچھ نشان ملے۔ کل دروازہ تو کھلا ہوا نہیں رہ گیا؟‘‘
پرکاش کا دل دھڑکنے لگا۔ بولا ’’میں تو دس بجے دروازہ بند کر لیتا ہوں، ہاں کوئی پہلے سے موقع پا کر کوٹھے پر چلا گیا ہو۔ وہاں چھپا بیٹھا رہا ہو تو دوسری بات ہے۔‘‘
تینوں آدمی چھت پر گئے۔ تو بیچ کی منڈیر پر کسی کے پاؤں کے نشان دکھائی دئیے جہاں پرکاش کا پاؤں پڑا تھا وہاں کا چونا لگ جانے سے چھت پر پاؤں کا نشان پڑ گیا تھا۔ پرکاش کی چھت پر جا کر منڈیر کی دوسری طرف دیکھا تو ویسے ہی نشان وہاں بھی دکھائی دئیے۔ ٹھاکر صاحب سر جھکائے کھڑے تھے۔ لحاظ کے مارے کچھ نہ کہہ سکے تھے۔ پرکاش نے ان کے دل کی بات کھول دی۔ ’’اب تو کوئی شک ہی نہیں رہا۔‘‘
ٹھاکر صاحب نے کہا۔ ’’ہاں میں بھی یہی سمجھتا ہوں۔ لیکن اتنا پتہ لگ جانے سے کیا، مال تو جانا تھا وہ گیا، اب چلو آرام سے بیٹھو، آج روپے کی کوئی تجویز کرنی ہو گی۔‘‘
پرکاش: ’’میں آج ہی یہ گھر چھوڑ دوں گا۔‘‘
ٹھاکر: ’’کیوں ہمیں تمہارا۔۔۔‘‘
پرکاش: ’’آپ نہ کہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں۔ میرے سر پر بہت بڑی جواب دہی آ گئی۔ میرا دروازہ نو دس بجے تک کھلا ہی رہتا ہے۔ چور نے راستہ دیکھ لیا ہے۔ منکے ہے دو چار دن میں پھر آ گھسے۔ گھر میں اکیلی ایک عورت ہے سارے گھر کی نگرانی نہیں کر سکتی۔ ادھر وہ تو باورچی خانے میں بیٹھی ہے ادھر کوئی آدمی چپکے سے اوپر چڑھ گیا تو ذرا بھی آہٹ نہیں مل سکتی۔ میں گھوم گھوم کر کبھی نو بجے آیا کبھی دس بجے اور شادی کے دنوں میں دیر ہوتی رہے گی۔ ادھر کا راستہ بند ہی ہو جانا چاہئیے۔ میں تو سمجھتا ہوں چوری ساری میرے سر ہے۔‘‘
ٹھکرائن ڈریں، ’’تم چلے جاؤ گے بھیا تب تو گھر اور پھاڑ کھائے گا۔‘‘
پرکاش: ’’کچھ بھی ہو ماتا جی۔ مجھے بہت جلد گھر چھوڑ دینا پڑے گا۔ میری غفلت سے چوری ہو گئی۔ اس کا مجھے خمیازہ اٹھانا پڑے گا۔‘‘
پرکاش چلا گیا تو ٹھاکر کی عورت نے کہا۔ ’’بڑا لائق آدمی ہے چور ادھر سے آیا یہی بات اسے کھا گئی کہیں یہ چور کو پکڑ پائے تو کچا ہی کھائے۔‘‘
’’مار ہی ڈالے۔‘‘
’’دیکھ لینا کبھی نہ کبھی مال برآمد کرے گا۔‘‘
’’اب اس گھر میں ہرگز نہ رہے گا۔ کتنا ہی سمجھاؤ۔‘‘
’’کرایہ کے بیس روپے دینے پڑیں گے۔‘‘
’’ہم کیوں کرایہ دیں۔ وہ آپ ہی گھر چھوڑ رہے ہیں، ہم تو کچھ کہے نہیں۔‘‘
’’کرایہ تو دینا ہی پڑے گا، ایسے آدمی کے لئے کچھ غم بھی کھانا پڑے تو برا نہیں لگتا۔‘‘
’’میں تو سمجھتی ہوں کرایہ لیں گے بھی نہیں۔‘‘
’’تیس روپے میں گزر بھی تو نہ ہو گی۔‘‘
پرکاش نے اسی دن وہ گھر چھوڑ دیا۔ اس گھر میں رہنے میں خدشہ تھا۔ لیکن جب تک شادی کی دھوم دھام رہی، اکثر تمام دن وہیں رہتے تھے۔ پیش بندی کے لئے چمپا سے کہا۔ ’’ایک سیٹھ جی کے ہاں پچاس روپے ماہوار کا کام مل گیا، مگر وہ روپے انہیں کے پاس جمع کرتا جاؤں گا۔ وہ آمدنی صرف زیوروں میں خرچ ہو گی اس میں سے ایک پیسہ گھر کے خرچ میں نہ آنے دوں گا۔‘‘ خاوند کی محبت کا یہ ثبوت پا کر اسے اپنی قسمت پر ناز ہوا دیوتاؤں میں اس کا اعتقاد اور بھی پختہ ہو گیا۔
اب تک پرکاش اور چمپا میں کوئی راز نہ تھا۔ پرکاش کے پاس جو کچھ تھا وہ چمپا کا تھا۔ چمپا ہی کے پاس اس کے ٹرنک، صندوق اور الماری کی چابیاں رہتی تھیں۔ مگر جب پرکاش کا ایک صندوق ہمیشہ بند رہتا تھا اس کی چابی کہاں ہے؟ اس کا چمپا کو پتہ نہیں۔ وہ پوچھتی ہے، اس صندوق میں کیا ہے۔ تو وہ کہہ دیتے ہیں۔ ’’کچھ نہیں پرانی کتابیں ہیں ماری ماری پھرتی تھیں اٹھا کے صندوق میں بند کر دی ہیں۔‘‘ چمپا کو شک کی گنجائش نہ تھی۔
ایک دن چمپا انہیں پان دینے گئی۔ تو دیکھا وہ اس صندوق کو کھولے کچھ دیکھ رہے ہیں۔ اسے دیکھتے ہی ان کا چہرہ فق ہو گیا۔ شبہے کا اکھوا سا نکلا مگر پانی بہہ کر سوکھ گیا۔ چمپا کسی ایسے راز کا خیال ہی نہ کر سکی جس سے شبہے کو غذا ملتی۔
لیکن پانچ ہزار کی پونجی کو اس طرح چھوڑ دینا کہ اس کا دھیان ہی نہ آئے، پرکاش کے لئے نا ممکن تھا۔ وہ کہیں باہر جاتا تو ایک بار صندوق کو ضرور کھولتا۔
ایک دن پڑوس میں چوری ہو گئی۔ اس دن سے پرکاش کمرے ہی میں سونے لگا۔ جون کا مہینہ تھا۔ گرمی کے مارے دم گھٹتا تھا۔ چمپا نے باہر سونے کے لئے کہا مگر پرکاش نہ مانا، اکیلا گھر کیسے چھوڑ دے۔
چمپا نے کہا، ’’چوری ایسوں کے گھر نہیں ہوتی۔ چور کچھ دیکھ کر ہی جان خطرے میں ڈالتے ہیں۔ یہاں کیا رکھا ہے۔‘‘
پرکاش نے غصے سے کہا، ’’کچھ نہیں، برتن تو ہیں، غریب کے لئے تو اپنی ہنڈیا ہی بہت ہے۔‘‘
ایک دن چمپا نے کمرے میں جھاڑو لگائی تو صندوق کھسکا کر ایک طرف رکھ دیا۔ پرکاش نے صندوق کی جگہ بدلی ہوئی دیکھی تو بولا۔ ’’صندوق تم نے ہٹایا تھا؟‘‘
یہ پوچھنے کی بات نہ تھی۔ جھاڑو لگاتے وقت اکثر چیزیں ادھر ادھر کھسکا دی جاتی ہیں بولی، ’’میں کیوں ہٹا نے لگی۔‘‘
’’پھر کس نے ہٹایا۔‘‘
’’گھر میں تم رہتی ہو جانے کون۔‘‘
’’اچھا اگر میں نے ہی ہٹا دیا تو اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے۔‘‘
’’کچھ یونہی پوچھا تھا۔‘‘
مگر جب تک صندوق کھول کر تمام چیزیں دیکھ نہ لے پرکاش کو چین کہاں۔ چمپا جیسے ہی کھانا پکانے لگی۔ وہ صندوق کھول کر دیکھنے لگا۔ آج چمپا نے پکوڑیاں بنائی تھیں۔ پکوڑیاں گرم گرم ہی مزا دیتی ہیں۔ پرکاش کو پکوڑیاں پسند بہت تھیں۔ اس نے تھوڑی سی پکوڑیاں طشتری میں رکھیں اور پرکاش کو دینے گئی۔ پرکاش نے اسے دیکھتے ہی صندوق دھماکے سے بند کر دیا اور تالا لگا کر اسے بہلانے کے لئے بولا۔ ’’طشتری میں کیا لائیں، آج نہ جانے کیوں مطلق بھوک نہیں لگی۔ پیٹ میں گرانی معلوم ہوتی ہیں۔‘‘
’’اچھا پکوڑیاں ہیں۔‘‘
آج چمپا کے دل میں شبہ کا وہ اکھوا جیسے ہرا ہو کر لہلہا اٹھا۔ صندوق میں کیا ہے؟ یہ دیکھنے کے لئے اس کا دل بے قرار ہو گیا۔ پرکاش اس کی چابی چھپا کر رکھتا تھا۔ چمپا کو وہ تالی کسی طرح نہ ملی۔ ایک دن ایک پھیری والا بساطی پرانی چابیاں بیچنے آ نکلا۔ چمپا نے اس تالے کی چابی خرید لی اور صندوق کھول ڈالا، ارے یہ تو زیور ہیں۔ اس نے ایک ایک زیور نکال کر دیکھا۔ یہ کہاں سے آئے۔ مجھ سے تو کبھی ان کے متعلق بات چیت نہیں کی۔ معاً اس کے دل میں خیال گزرا یہ زیورات ٹھاکر صاحب کے تو نہیں۔ چیزیں وہی تھیں جن کا تذکرہ کرتے رہتے تھے۔ اسے اب کوئی شک نہ رہا۔ لیکن اتنی بڑی شرم و ندامت سے اس کا سر جھک گیا۔ اس نے ایک دم صندوق بند کر دیا اور پلنگ پر لیٹ کر سوچنے لگی۔ ان کی اتنی ہمت کیسے پڑی؟ یہ کمینہ خواہش ان کے من میں آئی کیسے؟ میں نے تو کبھی زیوروں کے لئے انہیں تنگ نہیں کیا۔ اگر تنگ بھی کرتی تو کیا اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ چوری کر کے لائیں گے۔ چوری زیوروں کے لئے۔ ان کا ضمیر اتنا کمزور کیوں ہو گیا؟
اس دن سے چال کچھ اداس رہنے لگی۔ پرکاش سے وہ محبت نہ رہی، نہ وہ عزت کا جذبہ، بات بات پر تکرار ہو جاتی۔ پہلے دونوں ایک دوسرے سے دل کی باتیں کہتے تھے۔ مستقبل کے منصوبے باندھتے تھے۔ آپس میں ہمدردی تھی۔ مگر اب دونوں میں کئی کئی دن تک آپس میں ایک بات بھی نہ ہوتی۔
کئی مہینے گزر گئے۔ شہر کے ایک بینک میں اسسٹنٹ منیجر کی جگہ خالی ہوئی۔ پرکاش نے اکاؤنٹنٹ کا امتحان پاس کیا ہوا تھا، لیکن شرط یہ تھی کہ نقد دس ہزار روپے کی ضمانت داخل کی جائے۔ اتنی رقم کہاں سے آئے، پرکاش تڑپ تڑپ کر رہ جاتا۔
ایک دن ٹھاکر صاحب سے اس معاملے پر بات چیت چل پڑی۔ ٹھاکر صاحب نے کہا، ’’تم کیوں نہیں درخواست بھیجتے؟‘‘
پرکاش نے سر جھکا کر کہا۔ ’’دس ہزار کی نقد ضمانت مانگتے ہیں۔ میرے پاس روپے کہاں رکھے ہیں۔‘‘
’’اجی درخواست تو دو، اگر اور سب امور طے ہو جائیں تو ضمانت بھی دے دی جائے گی۔ اس کی فکر نہ کرو۔‘‘
پرکاش نے حیران ہو کر کہا، ’’آپ زر ضمانت داخل کر دیں گے؟‘‘
’’ہاں ہاں یہ کونسی بڑی بات ہے۔‘‘
پرکاش گھر کی طرف چلا تو بڑا اداس تھا۔ اس کو یہ نوکری ضرور ملے گی، مگر پھر بھی خوش نہیں ہے۔ ٹھاکر صاحب کی صاف دلی اور ان کے اس پر اتنے زبردست اعتماد سے اسے دلی صدمہ ہو رہا ہے۔ ان کی شرافت اس کے کمینہ پن کو روندے ڈالتی ہے۔ اس نے گھر آ کر چمپا کو خوشخبری سنائی۔ چمپا نے سن کر منھ پھیر لیا، پھر ایک منٹ بعد بولی۔ ’’ٹھاکر صاحب سے تم نے کیوں ضمانت دلوائی؟ جگہ نہ ملتی نہ صحیح، روٹیاں تو مل ہی جاتی ہیں۔ روپے پیسے کا معاملہ ہے، کہیں بھول چوک ہو جائے تو تمہارے ساتھ ان کے پیسے بھی جائیں۔‘‘
’’یہ تم کیسے سمجھتی ہو کہ بھول چوک ہو گی، کیا میں ایسا اناڑی ہوں؟‘‘
چمپا نے کہا، ’’آدمی کی نیت بھی تو ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی۔‘‘
پرکاش سناٹے میں آ گیا۔ اس نے چمپا کو چبھتی ہوئی نظروں سے دیکھا۔ مگر چمپا نے منھ پھیر لیا تھا۔ وہ اس کے اندرونی خیال کا اندازہ نہ لگا سکا، مگر ایسی خوش خبری سن کر بھی چمپا کا اداس رہنا کھٹکنے لگا۔ اس کے دل میں سوال پیدا ہوا، اس کے الفاظ میں کہیں طنز تو نہیں چھپا ہے۔ چمپا نے صندوق کھول کر کہیں دیکھ تو نہیں لیا۔ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے وہ اس وقت اپنی ایک آنکھ بھی نذر کر سکتا تھا۔
کھانے کے وقت پرکاش نے چمپا سے پوچھا۔ ’’تم نے کیا سوچ کر کہا کہ آدمی کی نیت تو ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی؟‘‘ جیسے اس کی زندگی اور موت کا سوال ہو۔
چمپا نے آزردہ ہو کر کہا، ’’کچھ نہیں میں نے دنیا کی بات کہی تھی۔‘‘
پرکاش کو تسلی نہ ہوئی، اس نے پوچھا۔
’’کیا جتنے آدمی بینک میں ملازم ہیں، ان کی نیت بدلتی رہتی ہے۔‘‘
چمپا نے گلا چھڑانا چاہا۔ ’’تم تو زبان پکڑتے ہو، ٹھاکر صاحب کے ہاں شادی میں ہی تو تم اپنی نیت ٹھیک نہ رکھ سکے، سو دو سو روپے کی چیز گھر میں رکھ ہی لی۔‘‘
پرکاش کے دل میں بوجھ سا اتر گیا۔ مسکرا کر بولا، ’’اچھا تمہارا اشارہ اس طرف تھا۔ لیکن میں نے کمیشن کے سوائے ان کی ایک پائی بھی نہیں چھوئی۔ اور کمیشن لینا تو کوئی پاپ نہیں۔ بڑے بڑے حکام کھلے خزانے کمیشن لیا کرتے ہیں۔‘‘
چمپا نے نفرت کے لہجے میں کہا۔ ’’جو آدمی اپنے اوپر اتنا یقین رکھے۔ اس کی آنکھ بچا کر ایک پائی بھی لینا گناہ سمجھتی ہوں۔ تمہاری شرافت جب جانتی کہ تم کمیشن کے روپے جا کر ان کے حوالے کر دیتے۔ ان چھ مہینوں میں انہوں نے تمہارے ساتھ کیا کیا سلوک کئے۔ کچھ دیا ہی ہے؟ مکان تم نے خود چھوڑا لیکن وہ بیس روپے ماہوار دیے جاتے ہیں۔ علاقے سے کوئی سوغات آتی ہے، تمہارے ہاں ضرور بھیجتے ہیں۔ تمہارے پاس گھڑی نہ تھی۔ اپنی گھڑی تمہیں دے دی۔ تمہاری کہارن جب ناغہ کرتی ہے خبر پاتے ہی اپنا نو کر بھیج دیتے ہیں۔ میری بیماری میں ڈاکٹر کے فیس انہوں نے ادا کی اور دن میں دو دو دفعہ پوچھنے آیا کرتے تھے۔ یہ ضمانت کی کیا چھوٹی بات ہے، اپنے رشتہ داروں تک کی ضمانت تو جلدی سے کوئی دیتا ہی نہیں۔ تمہاری ضمانت کے نقد دس ہزار روپے نکال کر دے دئیے۔ اسے تم چھوٹی بات سمجھتے ہو۔ آج تم سے کوئی غلطی ہو جائے تو ان کے روپے تو ضبط ہو جائیں۔ جو آدمی اپنے اوپر اتنی مہربانی کرے اس کے لئے ہمیں جان قربان کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہنا چاہئیے۔‘‘
پرکاش کھا کر لیٹا تو اس کا ضمیر اسے ملامت کر رہا تھا۔ دکھتے ہوئے پھوڑے میں کتنا مواد بھرا ہے، یہ اس وقت معلوم ہوتا ہے جب نشتر لگایا جاتا ہے۔ دل کی سیاہی اس وقت معلوم ہوتی ہے جب کوئی اسے ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیتا ہے۔ کوئی سوشل یا پولٹیکل کارٹون دیکھ کر کیوں ہمارے دل پر چوٹ لگتی ہے۔ اسلیے کہ وہ تصویر ہماری حیوانیت کو کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیتی ہے۔ وہ جو دل کے اتھاہ سمندر میں بکھرا ہوا پڑا تھا، اکٹھا ہو کر گھر سے نکلنے والے کوڑے کی طرح اپنی جسامت سے ہمیں متوحش کر دیتا ہے۔ تب ہمارے منھ سے نکل پڑتا ہے کہ افسوس۔ چمپا کے ان ملامت آمیز الفاظ نے پرکاش کی انسانیت کو بیدار کر دیا۔ وہ صندوق کئی گنا بھاری ہو کر پتھر کی طرح اسے دبانے لگا۔ دل میں پھیلی ہوئی حرارتیں ایک نقطے پر جمع ہو کر شعلہ گیر ہو گئیں۔
کئی روز گزر گئے۔ پرکاش کو بینک میں ملازمت مل گئی۔ اس تقریب میں اس کے ہاں مہمانوں کی دعوت ہے۔ ٹھاکر صاحب، ان کی اہلیہ، ویریندر اور اس کی نئی دلہن بھی آئے ہوئے ہیں۔ باہر یار دوست گا بجا رہے ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد ٹھاکر صاحب چلنے کو تیار ہوئے۔
پرکاش نے کہا، ’’آج آپ کو یہاں رہنا ہو گا۔ دادا میں اس وقت نہ جانے دوں گا۔‘‘
چمپا کو اس کی یہ ضد بری معلوم ہوئی۔ چارپائیاں نہیں ہیں، بچھونے نہیں ہیں اور نہ کافی جگہ ہی ہے۔ رات بھر ان کو تکلیف دینے اور خود تکلیف اٹھانے کی کوئی ضرورت اس کی سمجھ میں نہ آئی۔ لیکن پرکاش برابر ضد کرتا رہا۔ یہاں تک کہ ٹھاکر صاحب راضی ہو گئے۔
بارہ بجے تھے۔ ٹھاکر صاحب اوپر سو رہے تھے اور پرکاش باہر برآمدے میں، تینوں عورتیں اندر کمرے میں تھیں۔ پرکاش جاگ رہا تھا۔ ویرو کے سرہانے چابیوں کا گچھا پڑا ہوا تھا۔ پرکاش نے گچھا اٹھا لیا، پھر کمرہ کھول کر اس میں سے زیورات کا ڈبہ نکالا اور ٹھاکر صاحب کے گھر کی طرف چلا۔ کئی ماہ پیش تر وہ اسی طرح لرزتے ہوئے دل کے ساتھ ٹھاکر صاحب کے مکان میں گھسا تھا۔ اس کے پاؤں تب بھی اسی طرح تھر تھرا رہے تھے۔ لیکن تب کانٹا چبھنے کا درد تھا آج کانٹا نکلنے کا۔ تب بخار کا چڑھا و تھا حرارت اضطراب اور خلش سے پر، اب بخار کا اتار تھا۔ سوھن، فرحت اور امنگ سے بھرا ہوا۔ تب قدم پیچھے ہٹا تھا۔ آج آگے بڑھ رہا تھا۔
ٹھاکر صاحب کے گھر پہنچ کر اس نے آہستہ سے ویریندر کا کمرہ کھولا اور اندر جا کر ٹھاکر صاحب کے پلنگ کے نیچے ڈبہ رکھ دیا، پھر فوراً باہر آ کر آہستہ سے دروازہ بند کیا اور گھر لوٹ پڑا۔ ہنومان جی سنجیونی بوٹی والا پہاڑ کا ٹکڑا اٹھائے جس روحانی سرور کا لطف اٹھا رہے تھے، ویسی ہی خوشی پرکاش کو بھی ہو رہی تھی۔ زیوروں کو اپنے گھر لے جاتے ہوئے اس کی جان سوکھی ہوئی تھی۔ گویا کہ کسی گہرائی میں جا رہا ہو۔ آج ڈبے کو لوٹا کر اسے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ ایروپلین پر بیٹھا ہوا فضا میں اڑا جا رہا ہے اوپر اوپر اور اوپر۔
وہ گھر پہنچا تو ویرو سو رہا تھا، چابیوں کا گچھا اس کے سرہانے رکھ دیا۔
ٹھاکر صاحب صبح تشریف لے گئے۔
پرکاش شام کو پڑھانے جایا کرتا تھا۔ آج وہ بے صبر ہو کر تیسرے پہر ہی جا پہنچا دیکھنا چاہتا تھا وہاں آج کیا گل کھلتا ہے۔
ویریندر نے اسے دیکھتے ہی خوش ہو کر کہا، ’’بابوجی کل آپ کے ہاں کی دعوت بڑی مبارک تھی۔ جو زیورات چوری ہو گئے تھے سب مل گئے۔‘‘
ٹھاکر صاحب بھی آ گئے، اور بولے، ’’بڑی مبارک دعوت تھی تمہاری، پورا کا پورا ڈبہ مل گیا۔ ایک چیز بھی نہیں گئی، جیسے امانت رکھنے کے لئے ہی لے گیا ہو۔‘‘
پرکاش کو ان کی باتوں پر یقین کیسے آئے جب تک وہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لے کہیں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ چوری گیا ہوا مال چھ ماہ بعد مل جائے اور جوں کا توں۔
ڈبہ کھول کر اس نے بڑی سنجیدگی سے دیکھا، تعجب کی بات ہے۔ میری عقل تو کام نہیں کرتی۔
ٹھاکر: ’’کسی کی عقل کچھ کام نہیں کرتی بھائی تمہاری ہی کیوں؟ ویرو کی ماں تو کہتی ہے کوئی غیبی معجزہ ہے آج سے مجھے بھی معجزات پر یقین ہو گیا۔‘‘
پرکاش: ’’اگر آنکھوں دیکھی بات نہ ہوتی تو مجھے یقین نہ آتا۔‘‘
ٹھاکر: ’’آج اس خوشی میں ہمارے ہاں دعوت ہو گی۔‘‘
پرکاش: ’’آپ نے کوئی منتر ونتر تو نہیں پڑھوایا کسی سے۔‘‘
ٹھاکر: ’’کئی پنڈتوں سے۔‘‘
پرکاش: ’’تو بس یہ اسی کی برکت ہے۔‘‘
گھر لوٹ کر پرکاش نے چمپا کو یہ خوشخبری سنائی تو وہ دوڑ کر ان کے گلے سے چمٹ گئی، اور نہ جانے کیوں رونے لگی، جیسے اس کا بچھڑا ہوا خاوند بہت مدت کے بعد گھر آ گیا ہو۔
پرکاش نے کہا، ’’آج ان کے ہاں میری دعوت ہے۔‘‘
’’میں بھی ایک ہزار بھوکوں کو کھانا کھلاؤں گی۔‘‘
’’تم تو سینکڑوں کا خرچ بتلا رہی ہو۔‘‘
’’مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ لاکھوں روپے خرچ کرنے پر بھی ارمان پورا نہ ہو گا۔‘‘
پرکاش کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
٭٭٭
صرف ایک آواز
صبح کا وقت تھا۔ ٹھاکر درشن سنگھ کے گھر میں ایک ہنگامہ برپا تھا۔ آج رات کو چندر گرہن ہونے والا تھا۔ ٹھاکر صاحب اپنی بوڑھی ٹھکرائن کے ساتھ گنگا جی جاتے تھے۔ اس لیے سارا گھر ان کی پر شور تیاری میں مصروف تھا۔ ایک بہو ان کا پھٹا ہوا کرتا ٹانک رہی تھی۔ دوسری بہو ان کی پگڑی لیے سوچتی تھی کہ کیوں کر اس کی مرمت کروں۔ دونوں لڑکیاں ناشتہ تیار کرنے میں محو تھیں۔ جو زیادہ دلچسپ کام تھا۔ اور بچوں نے اپنی عادت کے موافق ایک کہرام مچ رکھا تھا۔ کیوں کہ ہر ایک آنے جانے کے موقع پر ان کا جوش گریۂ امنگ پر ہوتا تھا جانے کے وقت ساتھ جانے کے لیے روتے۔ آنے کے وقت اس لیے روتے کہ شیرینی کی تقسیم خاطر خواہ نہیں ہوئی۔ بوڑھی ٹھکرائن بچوں کو پھسلاتی تھیں۔ اور بیچ بیچ میں اپنی بہوؤں کو سمجھاتی تھیں، دیکھو خبردار جب تک آگرہ نہ ہو جائے گھر سے باہر نہ نکلنا۔ ہنسیا، چھری، کلہاڑی ہاتھ سے مت چھونا سمجھائے دیتی ہوں۔ ماننا چاہے نہ ماننا۔ تمھیں میری بات کی کون پرواہ ہے۔ منہ میں پانی کی بوند نہ پڑے۔ نارائن کے گھر بپت پڑی ہے جو سادھو بھکاری دروازہ پر آ جائے۔ اسے پھیرنا مت۔ بہوؤں نے سنا۔ اور نہیں سنا۔ وہ منا رہی تھیں کہ کسی طرح یہاں سے ٹلیں۔ پھاگن کا مہینہ ہے۔ گانے کو ترس گئے آج خوب گانا بجانا ہو گا۔
ٹھاکر صاحب تھے تو بوڑھے۔ لیکن ضعف کا اثر دل تک نہیں پہنچا تھا۔ انھیں اس بات کا گھمنڈ تھا کہ کوئی گہن بغیر گنگا اشنان کے نہیں چھوٹا۔ ان کی علمی قابلیت حیرت انگیز تھی۔ صرف پتروں کو دیکھ کر مہینوں پہلے سورج گرہن اور دوسری تقریبوں کے دن بتا دیتے تھے۔ اس لیے گاؤں والوں کی نگاہ میں ان کی عزت اگر پنڈتوں سے زیادہ نہ تھی تو کم بھی نہ تھی۔ جوانی میں کچھ دنوں فوجی ملازمت بھی کی تھی۔ اس کی گرمی اب تک باقی تھی۔ مجال نہ تھی کہ کوئی ان کی طرف تیکھی آنکھ سے دیکھ سکے۔ ایک مذکورہ چپراسی کو ایسی علمی تنبیہ کی تھی جس کی نظیر قرب و جوار کے دس پانچ گاؤں میں بھی نہیں مل سکتی۔ ہمت اور حوصلہ کے کاموں میں اب بھی پیش قدمی کر جاتے تھے کسی کام کو مشکل بنا دینا۔ ان کی ہمت کو تحریک دیتا تھا۔ جہاں سب کی زبانیں بند ہو جائیں وہاں وہ شیروں کی طرح گرجتے تھے۔ جب کھبی گاؤں میں داروغہ جی تشریف لاتے تو ٹھاکر صاحب ہی کا دل گردہ تھا کہ ان سے آنکھیں ملا کر دوبدو بات کر سکیں۔ عالمانہ مباحثہ کے میدان میں بھی ان کے کارنامے کچھ کم نہ تھے۔ جھگڑالو پنڈت ہمیشہ ان سے منہ چھپایا کرتے تھے۔ غرض ٹھاکر صاحب کی جبلی رعونت اور اعتماد و نفس انھیں ہر بات میں دولہا بننے پر مجبور کر دیتی تھی۔ ہاں کمزوری اتنی تھی کہ اپنی آلہا بھی آپ ہی گا لیتے۔ اور مزے لے لے کر۔ کیوں کہ تصنیف کو مصنف ہی خوب بیان کرتا ہے۔
جب دوپہر ہوتے ہوتے ٹھاکر اور ٹھکرائن گاؤں سے چلے تو سینکڑوں آدمی ان کے ساتھ تھے۔ اور پختہ سڑک پر پہنچے۔ تو جاتریوں کا ایسا تانتا لگا ہوا تھا گویا کوئی بازار ہے۔ ایسے ایسے بوڑھے لاٹھیاں ٹیکتے یا ڈولیوں پر سوار چلے جاتے تھے۔ جنھیں تکلیف دینے کی ملک الموت نے بھی کوئی ضرورت نہ سمجھی تھی۔ اندھے دوسروں کی لکڑی کے سہارے قدم بڑھائے آتے تھے۔ بعض آدمیوں نے اپنی بوڑھی ماتاؤں کو پیٹھ پر لاد لیا تھا۔ کسی کے سر پر کپڑوں کا بقچہ، کسی کے کندھے پر لوٹا، ڈور کسی کے کندھے پر، اور کتنے ہی آدمیوں نے پیروں پر چیتھڑے لپیٹ لیے تھے۔ جوتے کہاں سے لائیں۔ مگر مذہبی جوش کی یہ برکت تھی کہ من کسی کا میلا نہ تھا۔ سب کے چہرے شگفتہ۔ ہنستے باتیں کرتے سرگرم رفتار سے کچھ عورتیں گا رہی تھیں۔
چاند سورج دونوں کے مالک
ایک دنا انھوں پر بنتی
ہم جانی ہم ہی پر بنتی
ایسا معلوم ہوتا تھا یہ آدمیوں کی ایک ندی تھی جو سینکڑوں چھوٹے چھوٹے نالوں اور دھاروں کو لیتی ہوئی سمندر سے ملنے کے لیے جا رہی تھی۔
جب یہ لوگ گنگا کے کنارے پر پہنچے تو سہ پہر کا وقت تھا۔ لیکن میلوں تک کہیں تل رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ اس شاندار نظارہ سے دلوں پر عقیدت اور احترام کا ایسا رعب ہوتا تھا کہ بے اختیار ’’گنگا ماتا جی کی جے‘‘ کی صدائیں بلند ہو جاتی تھیں۔ لوگوں کے اعتقاد اس ندی کی طرح امڈے ہوئے تھے۔ اور وہ ندی، وہ لہراتا ہوا نیل زار، وہ تشنہ کاموں کی پیاس بجھانے والی، وہ نامرادوں کی آس، وہ برکتوں کی دیوی، وہ پاکیزگی کا سر چشمہ، وہ مشت خاک کو پناہ دینے والی گنگا ہنستی تھی۔ مسکراتی تھی۔ اور اچھلتی تھی۔ کیا اس لیے کہ آج وہ اپنی عام عزت پر پھولی نہ سماتی تھی۔ یا اس لیے کہ وہ اچھل اچھل کر اپنے پریمیوں سے گلے ملنا چاہتی تھی۔ جواس کے درشنوں کے لیے منزلیں طے کر کے آئے تھے۔ اور اس کے لباس کی تعریف کس زبان سے ہو جس پر آفتاب نے درخشاں تارے ٹانکے تھے۔ اور جس کے کناروں کو اس کی کرنوں نے رنگ برنگ خوشنما اور متحرک پھولوں سے سجایا تھا۔
ابھی گہن لگنے میں گھنٹوں کی دیر تھی۔ لوگ ادھر ادھر ٹہل رہے تھے کہیں مداریوں کے شعبدے تھے۔ کہیں چورن والوں کی شیوہ بیانیوں کے معجزے، کچھ لوگ مینڈھوں کی کشتی دیکھنے کے لیے جمع تھے۔ ٹھاکر صاحب بھی اپنے چند معتقدوں کے ساتھ سیر کو نکلے۔ ان کی علو ہمتی نے گوارہ نہ کیا کہ ان عالمانہ دلچسپیوں میں شریک ہوں۔ یکایک انھیں ایک وسیع شامیانہ تنا ہوا نظر آیا۔ جہاں زیادہ تر تعلیم یافتہ آدمیوں کا مجمع تھا۔ ٹھاکر صاحب نے اپنے ساتھیوں کو ایک کنارے کھڑا کر دیا۔ اور خود ایک معزورانہ انداز سے تاکتے ہوئے فرش پر جا بیٹھے۔ کیونکہ انھیں یقین تھا یہاں ان پر دہقانیوں کی نگاہ رشک پڑے گی۔ اور ممکن ہے ایسے نکتے بھی معلوم ہو جائیں جو معتقدین کو ہمہ دانی کا یقین دلانے میں کام دے سکیں۔
یہ اخلاقی جلسہ تھا دو ڈھائی ہزار آدمی بیٹھے ہوئے ایک شیریں بیاں مقرر کی تقریر سن رہے تھے۔ فیشنیبل لوگ زیادہ تر اگلی صفوں میں جلوہ افروز تھے۔ جنھیں سرگوشیوں کا اس سے بہتر موقع نہیں مل سکتا تھا۔ کتنے ہی خوش پوش حضرات اس لیے مکدر نظر آتے تھے کہ ان کی بغل میں کمتر درجہ کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ تقریر بظاہر دلچسپ تھی۔ وزن زیادہ تھا۔ اور چٹخارے کم۔ اس لیے تالیاں نہیں بجتی تھیں۔
حضرت نے واعظ نے دوران تقریر میں فرمایا۔
میرے پیارے دوستو! یہ ہمارا اور آپ کا فرض ہے اس سے زیادہ اہم ’’زیادہ نتیجہ خیز اور قوم کے لیے زیادہ مبارک کوئی فرض نہیں ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ ان کے عادات و اخلاق کی حالت نہایت افسوس ناک ہے۔ مگر یقین مانیے یہ سب ہماری کرنی ہے۔ ان کی اس شرمناک تمدنی حالت کا ذمہ دار ہمارے سوا اور کون ہو سکتا ہے؟ اب اس کے سوا اس کا اور کوئی علاج نہیں ہے کہ ہم ان نفرت اور حقارت کو جو ان کی طرف سے ہمارے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے۔ دھوئیں اور خوب مل کر دھوئیں۔ یہ آسان کام نہیں ہے۔ جو سیاہی کئی ہزار برسوں سے جمی ہوئی ہے۔ وہ آسانی سے نہیں مٹ سکتی جن لوگوں کے سائے سے ہم پرہیز کرتے آئے ہیں۔ جنھیں ہم نے حیوانوں سے بھی ذلیل سمجھ رکھا ہے۔ ان سے گلے ملنے میں ہم کو ایثار، ہمّت اور بے نفسی سے کام لینا پڑے گا۔ اس ایثار سے جو کرشن میں تھا۔ اس ہمت سے جو رام میں تھی۔ اس بے نفسی سے جو چیتن اور گووند میں تھی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ آج ہی ان سے شادی کے رشتے جوڑیں یا ان کے نوالہ و پیالہ شریک ہوں مگر کیا یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ آپ ان کے ساتھ عام ہمدردی، عام انسانیت، عام اخلاق سے پیش آئیں۔؟ کیا یہ واقعی غیر ممکن امر ہے۔ آپ نے کبھی عیسائی مشنریوں کو دیکھا ہے؟ آہ! جب میں ایک اعلیٰ درجہ کی حسین، نازک اندام سیم تن لیڈی کو اپنی گود میں ایک سیاہ فام بچہ لیے ہوئے دیکھتا ہوں جس کے بدن پر پھوڑے ہیں۔ خون ہے اور غلاظت ہے۔ وہ نازنین اس بچے کو چومتی ہے پیار کرتی ہے۔ چھاتی سے لگاتی ہے تو میرا جی چاہتا ہے کہ اس دیوی کے قدموں پر سر رکھ دوں۔ اپنا نیچا پن اپنی فرومائیگی۔ اپنی جھوٹی بڑائی اپنی تنگ ظرفی مجھے کھبی اتنی صفائی سے نظر نہیں آتی۔ ان دیویوں کے لیے زندگی میں کیا کیا نعمتیں نہیں تھیں۔ خوشیاں آغوش کھولے ہوئے ان کی منتظر کھڑی تھیں۔ ان کے لیے دولت کی تن آسانیاں تھیں۔ محبت کی پر لطف دل آویز یاں تھیں۔ اپنے یگانوں اور عزیزوں کی ہمدردیاں تھیں اور اپنے پیارے وطن کی کشش تھی۔ لیکن ان دیویوں نے ان تمام نعمتوں ان تمام دنیوی برکتوں کو سچّی بے غرض خدمت پر قربان کر دیا ہے۔ وہ ایسی ملکوتی قربانیاں کر سکتی ہیں۔ کیا ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ اپنے اچھوت بھائیوں سے ہمدردی کا سلوک کر سکیں؟ کیا ہم واقعی ایسے پست ہمّت، ایسے بودے، ایسے بے رحم ہیں؟ اسے خوب سمجھ لیجئے کہ آپ ان کے ساتھ کوئی رعایت کوئی مہربانی نہیں کر رہے ہیں یہ ان پر کوئی احسان نہیں ہے۔ یہ آپ ہی کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے اس لیے میرے بھائیو اور دوستو! آئیے اس موقع پر شام کے وقت پوتر گنگا ندی کے کنارے، کاشی کے پوتر استھان میں ہم مضبوط دل سے عہد کریں کہ آج سے ہم اچھوتوں کے ساتھ برادرانہ سلوک کریں گے ان کی تقریبوں میں شریک ہوں گے اور اپنی تقریبوں میں انھیں بلائیں گے۔ ان کے گلے ملیں گے اور انھیں اپنے گلے لگائیں گے ان کی خوشیوں میں خوش اور ان کے دردوں میں دردمند ہوں گے۔ اور چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے۔ چاہے طعنہ و تضحیک اور تحقیر کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے ہم اس عہد پر قائم رہیں گے آپ میں صد ہا پر جوش نوجوان ہیں جو بات کے دھنی اور ارادے کے مضبوط ہیں۔ کون یہ عہد کرتا ہے کون اپنی اخلاقی دلیری کا ثبوت دیتا ہے؟ وہ اپنی جگہ پر کھڑا ہو جائے اور للکار کر کہے کہ ’’میں یہ پرتگیا کرتا ہوں اور مرتے دم تک اس پر قائم اور ثابت قدم رہوں گا۔‘‘
آفتاب گنگا کی گود میں جا بیٹھا تھا۔ اور ماں محبت اور غرور سے متوالی جوش سے امڈی ہوئی رنگ میں کیسر کو شرماتی اور چمک میں سونے کو لجاتی تھی۔ چاروں طرف ایک رعب افزا خاموشی چھائی تھی۔ اس سنّاٹے میں سنیاسی کی گرمی اور حرارت سے بھری باتیں گنگا کی لہروں اور آسمان سے سر ٹکرانے والے مندروں میں سماگئیں۔ گنگا ایک متین اور مادرانہ مایوسی کے ساتھ ہنسی اور دیوتاؤں نے افسوس سے سر جھکا لیا۔ مگر منہ سے کچھ نہ بولے۔
سنیاسی کی صدائے بلند فضا میں جا کر غائب ہو گئی۔ مگر مجمع میں کسی شخص کے دل تک نہ پہنچی۔ وہاں قومی فدائیوں کی کمی نہ تھی اسٹیجوں تماشے کھیلے والے کالجوں کے ہونہار نوجوان قوم کے نام پر مٹنے والے اخبار نویس، قومی جماعتوں کے ممبر، سکریٹری اور پریسیڈنٹ، رام اور کرشن کے سامنے سر جھکانے والے سیٹھ اور ساہوکار، قومی کا لجوں کے عالی حوصلہ پروفیسر اور اخباروں میں قومی ترقیوں کی خبریں پڑھ کر خوش ہونے والے دفتروں کے کارکن ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے۔ آنکھوں پر سنہری عینکیں لگائے فربہ اندام اور خوش وضع وکیلوں کی ایک فوج آراستہ تھی۔ مگر سنیاسی کی اس آتشیں تقریر پر ایک دل بھی نہ پگھلا۔ کیوں کہ وہ پتھر کے دل تھے جن میں درد و گداز نہ تھا جن میں خواہش تھی مگر عمل نہ تھا جن میں بچوں کی سی خواہش تھی مگر مردوں کا ارادہ نہ تھا۔
ساری مجلس پر سکوت کا عالم طاری تھا۔ ہر شخص سر جھکائے فکر میں ڈوبا ہوا نظر آتا تھا۔ ندامت کسی کو سر اٹھا نے نہ دیتی تھی۔ اور آنکھیں خفت سے زمین میں گڑی ہوئی تھیں۔ یہ و ہی سر ہیں جو قومی چرچوں پر اچھل پڑتے تھے۔ یہ وہی آنکھیں ہیں جو کسی وقت قومی غرور کی سرخی سے لبریز ہو جاتی تھیں۔ مگر قول اور فعل میں آغاز اور انجام کا فرق ہے۔ ایک فرد کو بھی کھڑے ہونے کی جرأت نہ ہوئی۔ مقراض کی طرح چلنے والی زبانیں بھی ایسی عظیم الشان ذمہ داری کے خوف سے بند ہو گئیں۔
ٹھاکر درشن سنگھ اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے اس نظارہ کو بہت غور اور دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ وہ اپنے مذہبی عقائد میں چاہے راسخ ہوں یا نہ ہوں لیکن تمدنی معاملات میں وہ کبھی پیش قدمی کے خطاوار نہیں ہوئے تھے۔ اس پیچیدہ اور وحشت ناک راستے میں انھیں اپنی عقل و تمیز اور ادراک پر بھی بھروسہ نہیں ہوتا تھا۔ یہاں منطق اور استدلال کو بھی ان سے ہار ماننی پڑتی تھی۔ اس میدان میں وہ اپنے گھر کی مستورات کے حکم کی تعمیل کرنا ہی اپنا فرض سمجھتے تھے اور چاہے انھیں بذاتہ کسی معاملہ میں کوئی اعتراض بھی ہو۔ لیکن یہ نسوانی معاملہ تھا۔ اور اس میں وہ مداخلت نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ اس سے خاندانی نظام میں شورش اور تلاطم پیدا ہو جانے کا زبردست احتمال رہتا تھا۔ اگر اس وقت ان کے بعض سر گرم نوجوان دوست اس کمزوری پر انھیں آڑے ہاتھوں لیتے تو وہ بہت دانشمندی سے کہا کرتے تھے۔ بھئی یہ عورتوں کے معاملے ہیں۔ ان کا جیسا دل چاہتا ہے کرتی ہیں۔ میں بولنے والا کون ہوں۔ غرض یہاں ان کی فوجی گرم مزاجی ان کا ساتھ چھوڑ دیتی تھی۔ یہ ان کے لیے وادئ طلسم تھی جہاں ہوش وحواس مسخ ہو جاتے تھے اور کورانہ تقلید کا پیر تسمہ پا گردن پر سوار ہو جاتا تھا۔
لیکن یہ للکار سن کر وہ اپنے تئیں قابو میں نہ رکھ سکے۔ یہی وہ موقع تھا جب ان کی ہمتیں آسمان پر جا پہنچتی تھیں۔ جس بیڑے کو کوئی نہ اٹھائے اسے اٹھانا ان کا کام تھا۔ امتناع سے انھیں روحانی مناسبت تھی۔ ایسے موقعہ پر وہ نتیجہ اور مصلحت سے بغاوت کر جاتے تھے۔ اور ان کے اس حوصلہ میں حرص شہرت کو اتنا دخل نہیں تھا جتنا اپنی فطری میلان کو، ورنہ یہ غیر ممکن تھا کہ ایسے جلسے میں جہاں علم و تہذیب کی نمود تھی۔ اور جہاں طلائی عینکوں سے روشنی اور گوناگوں لباسوں سے فکر تاباں کی شعاعیں نکل رہی تھیں جہاں وضع کی نفاست سے رعب اور فربہی و دبازت سے وقار کی جھلک آتی تھی۔ وہاں ایک دہقانی کسان کو زبان کھولنے کا حوصلہ ہوتا۔ ٹھاکر نے اس نظارے کو غور اور دلچسپی سے دیکھا اس کے پہلو میں گدگدی سی ہوئی زندہ دلی کا جوش رگوں میں دوڑا، وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور مردانہ لہجہ میں للکار کر بولا۔ ’’میں یہ پرتگیا کرتا ہوں اور مرتے دم تک اس پر قائم رہوں گا۔‘‘
اتنا سننا تھا کہ دو ہزار آنکھیں اندازِ تحیّر سے اس کی طرف تاکنے لگیں سبحان اللہ کیا وضع تھی۔ گاڑھے کی ڈھیلی مرزائی۔ گھنٹوں تک چڑھی ہوئی دھوتی، سر پر ایک گرانبار الجھا ہوا صافہ، کندھے پر چنوٹی اور تمباکو کا وزنی بٹوا۔ مگر بشرے سے متانت اور استقلال نمایاں تھا۔ غرور آنکھوں کے تنگ ظرف سے باہر نکلا پڑتا تھا۔ اس کے دل میں اب اس شاندار مجمع کی عزت باقی نہ رہی تھی۔ وہ اپنے پرانے وقتوں کا آدمی تھا۔ جو اگر پتھر کو پوجتا تھا تو اسی پتھر سے ڈرتا بھی تھا۔ جس کے لیے اکا و شی برت محض حفظ صحت کی ایک تدبیر اور گنگا محض صحت بخش پانی کا ذخیرہ نہ تھی۔ اس کے عقیدے میں بیدار مغزی نہ ہو لیکن شکوک نہیں تھے۔ غرض اس کا اخلاق پابند عمل تھا۔ اور اس کی بنیاد کچھ تقلید اور معاوضے پر تھی۔ مگر زیادہ تر خوف پر جو نور عرفاں کے بعد تہذیبِ نفس کی سب سے بڑی طاقت ہے، گیروے بانے کی عزت و احترام کرنا اس کے مذہب اور ایمان کا ایک جزو تھا۔ سنیاس میں اس کی روح کو اپنا فرمان گذار بنانے کی ایک زندہ طاقت چھپی ہوئی تھی۔ اور اس طاقت نے اپنا اثر دکھایا۔ لیکن مجمع کی اس حیرت نے بہت جلد تمسخر کی صورت اختیار کی۔ پر معنی نگاہیں آپس میں کہنے لگیں آخر گنوا رہی تو ٹھہرا۔ دہقانی ہے کبھی ایسی تقریریں کا ہے کوسنی ہوں گی۔ بس ابل پڑا اور اتھلے گڈھے میں اتنا پانی بھی نہ سما سکا۔ کون نہیں جانتا کہ ایسی تقریروں کا منشاء تفریح ہوتا ہے۔ دس آدمی آئے، اکٹھے بیٹھے کچھ سنا، کچھ گپ شپ ماری اور اپنے اپنے گھر لوٹے نہ یہ کہ قول و قرار کرنے بیٹھیں۔ عمل کرنے کے لیے قسمیں کھاتیں۔
مگر مایوس اور دل گرفتہ سنیاسی سوچ رہا تھا، افسوس! جس ملک کی روشنی میں اتنا اندھیرا ہے وہاں کبھی روشنی کا ظہور ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ اس روشنی پر، اس اندھیری، مردہ اور بے جان روشنی پر میں جہالت کو ترجیح دیتا ہوں۔ جہالت میں صفائی ہے ہمّت ہے اس کے دل اور زبان میں پر دہ نہیں ہوتا۔ نہ قول اور فعل میں اختلاف، کیا یہ افسوس کی بات نہیں ہے کہ علم جہالت کے سامنے سر جھکائے اس سارے مجمع میں صرف ایک شخص ہے جس کے پہلو میں مردوں کا دل ہے اور گوا سے بیدار مغزی کا دعویٰ نہیں۔ لیکن میں اس کی جہالت پر ایسی ہزاروں بیدار مغز یوں کو قربان کر سکتا ہوں تب وہ پلیٹ فارم سے نیچے اترے اور درشن سنگھ کو گلے سے لگا کر کہا۔ ’’ایشور تمھیں پرتگیا پر قائم رکھے۔‘‘
٭٭٭
شکوہ شکایت
زندگی کا بڑا حصّہ تو اسی گھر میں گزر گیا، مگر کبھی آرام نہ نصیب ہوا۔ میرے شوہر دنیا کی نگاہ میں بڑے نیک، خوش خلق، فیاض اور بیدار مغز ہوں گے۔ لیکن جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔ دنیا کو تو ان لوگوں کی تعریف میں مزہ آتا ہے جو اپنے گھر کو جہنم میں ڈال رہے ہوں اور غیروں کے پیچھے اپنے آپ کو تباہ کئے ڈالتے ہوں۔ جو گھر والوں کے لئے مرتا ہے، اس کی تعریف دنیا والے نہیں کرتے۔ وہ تو ان کی نگاہ میں خود غرض ہے، بخیل ہے، تنگ دل ہے، مغرور ہے، کور باطن ہے۔ اسی طرح جو لوگ باہر والوں کے لئے مرتے ہیں، ان کی تعریف گھر والے کیوں کرنے لگے۔ اب انہیں کو دیکھو، صبح سے شام تک مجھے پریشان کیا کرتے ہیں، باہر سے کوئی چیز منگواؤ تو ایسی دکان سے لائیں گے جہاں کوئی گاہک بھول کر بھی نہ جاتا ہو۔ ایسی دکانوں پر نہ چیز اچھی ملتی ہے، نہ وزن ٹھیک ہوتا ہے، نہ دام ہی مناسب۔ یہ نقائص نہ ہوتے تو وہ دکان بدنام ہی کیوں ہوتی، انہیں ایسی ہی دکانوں سے سودا سُلف خریدنے کا مرض ہے۔ بارہا کہا کہ کسی چلتی ہوئی دکان سے چیزیں لایا کرو، وہاں مال زیادہ کھپتا ہے، اس لئے تازہ مال آتا رہتا ہے، مگر نہیں ٹٹ پونجیوں سے ان کو ہمدردی ہے اور وہ انہیں الٹے استرے سے مونڈتے ہیں۔ گیہوں لائیں گے تو سارے بازار سے خراب، گھُنا ہوا۔ چاول ایسا موٹا کہ بیل بھی نہ پوچھے۔ دال میں کنکر بھرے ہوئے، منوں لکڑی جلا ڈالو کیا مجال کہ گلے۔ گھی لائیں گے تو آدھوں آدھ تیل، اور نرخ اصلی گھی سے ایک چھٹانک کم۔ تیل لائیں گے تو ملاوٹ کا، بالوں میں ڈالو تو چکٹ جائیں، مگر دام دے آئیں گے اعلیٰ درجے کے، چنبیلی کے تیل کے۔ چلتی ہوئی دکان پر جاتے تو جیسے انہیں ڈر لگتا ہے، شاید اونچی دکان اور پھیکے پکوان کے قائل ہیں۔ میرا تجربہ کہتا ہے کہ نیچی دکان پر سڑے پکوان ہی ملتے ہیں۔
ایک دن کی بات ہو تو برداشت کر لی جائے۔ روز روز کی یہ مصیبت نہیں برداشت ہوتی۔ میں کہتی ہوں آخر ٹٹ پونجیوں کی دکان پر جاتے ہی کیوں ہیں۔ کیا ان کی پرورش کا ٹھیکہ تم ہی نے لے لیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں، مجھے دیکھ کر بلانے لگتے ہیں۔ خوب! ذرا انہیں بلا لیا اور خوشامد کے دو چار الفاظ سنا دئیے، بس آپ کا مزاج آسمان پر جا پہنچا، پھر انہیں سُدھ ہی نہیں رہتی کہ وہ کوڑا کرکٹ باندھ رہا ہے یا کیا۔ میں پوچھتی ہوں تم اس راستے سے جاتے ہی کیوں ہو؟ کیوں کسی دوسرے راستے سے نہیں جاتے؟ ایسے اٹھائی گیروں کو منہ ہی کیوں لگاتے ہو؟ اس کا کوئی جواب نہیں۔ ایک خموشی سو بلاؤں کو ٹالتی ہے۔
ایک بار ایک زیور بنوانا تھا۔ میں تو حضرت کو جانتی تھی۔ ان سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ سمجھی، ایک پہچان کے سُنار کو بلا رہی تھی۔ اتفاق سے آپ بھی موجود تھے۔ بولے یہ فرقہ بالکل اعتبار کے قابل نہیں، دھوکا کھاؤ گی۔ میں ایک سُنار کو جانتا ہوں، میرے ساتھ کا پڑھا ہوا ہے، برسوں ساتھ کھیلے ہیں، میرے ساتھ چال بازی نہیں کر سکتا۔ میں نے سمجھا جب ان کا دوست ہے اور وہ بھی بچپن کا تو کہاں تک دوستی کا حق نہ نبھائے گا۔ سونے کا ایک زیور اور پچاس روپے ان کے حوالے لئے اور اس بھلے آدمی نے وہ چیز اور روپے نہ جانے کس بے ایمان کو دے دئیے کہ برسوں کے پیہم تقاضوں کے بعد جب چیز بن کر آئی تو روپے میں آٹھ آنے تانبا اور اتنی بدنما کہ دیکھ کر گھِن آتی تھی۔ برسوں کا ارمان خاک میں مل گیا۔ رو پیٹ کر بیٹھ رہی۔ ایسے ایسے وفادار تو ان کے دوست ہیں، جنہیں دوست کی گردن پر چھری پھیرنے میں بھی عار نہیں۔ ان کی دوستی بھی ان ہی لوگوں سے ہے۔ جو زمانے بھر کے فاقہ مست، قلانچ، بے سروسامان ہیں، جن کا پیشہ ہی ان جیسے آنکھ کے اندھوں سے دوستی کرنا ہے۔ روز ایک نہ ایک صاحب مانگنے کے لئے سر پر سوار رہتے ہیں اور بنا لئے گلا نہیں چھوڑتے۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی نے روپے ادا کئے ہوں۔ آدمی ایک بار کھو کر سیکھتا ہے، دو بار کھو کر سیکھتا ہے، مگر یہ بھلے مانس ہزار بار کھو کر بھی نہیں سیکھتے۔ جب کہتی ہوں، روپے تو دے آئے، اب مانگ کیوں نہیں لاتے، کیا مر گئے تمہارے وہ دوست، تو بس بغلیں جھانک کر رہ جاتے ہیں۔ آپ سے دوستوں کو سوکھا جواب نہیں دیا جاتا۔ خیر سوکھا جواب نہ دو، میں بھی نہیں کہتی کہ دوستوں سے بے مروتی کرو، مگر ٹال تو سکتے ہو، کیا بہانے نہیں بنا سکتے، مگر آپ انکار نہیں کر سکتے۔ کسی دوست نے کچھ طلب کیا اور آپ کے سر پر بوجھ پڑا۔ بے چارے کیسے انکار کریں۔ آخر لوگ جان جائیں گے کہ یہ حضرت بھی فاقہ مست ہیں۔ دنیا انہیں امیر سمجھتی رہے، چاہے میرے زیور ہی کیوں نہ گروی رکھنے پڑیں۔ سچ کہتی ہوں، بعض اوقات ایک ایک پیسے کی تنگی ہو جاتی ہے اور اس بھلے آدمی کو روپے جیسے گھر میں کاٹتے ہیں۔ جب تک روپیوں کے وارے نیارے نہ کر لے، اسے کسی پہلو قرار نہیں۔ ان کے کرتوت کہاں تک کہوں، میرا تو ناک میں دم آ گیا۔ ایک نہ ایک مہمان روز بلائے بے درماں کی طرح سر پر سوار، نہ جانے کہاں کے بے فکرے ان کے دوست ہیں۔ کوئی کہیں سے آ کر مرتا ہے، کوئی کہیں سے، گھر کیا ہے اپاہجوں کا اڈہ ہے۔ ذرا سا تو گھر، مشکل سے دو چار چارپائیاں، اوڑھنا بچھونا بھی با افراط نہیں، مگر آپ ہیں کہ دوستوں کو دعوت دینے کے لئے تیار۔ آپ تو مہمان کے ساتھ لیٹیں گے، اس لئے انہیں چارپائی بھی چاہئیے، اور اوڑھنا بچھونا بھی چاہئیے، ورنہ گھر کا پردہ کھل جائے، جاتی ہے تو میرے اور بچّوں کے سر۔ زمین پر پڑے سکڑ کر رات کاٹتے ہیں۔ گرمیوں میں خیر مضائقہ نہیں، لیکن جاڑوں میں تو بس قیامت ہی آ جاتی ہے۔ گرمیوں میں بھی کھلی چھت پر تو مہمانوں کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ اب بچّوں کو لئے قفس میں تڑپا کروں۔ اتنی سمجھ بھی نہیں کہ جب گھر کی یہ حالت ہے تو کیوں ایسوں کو مہمان بنائیں، جن کے پاس کپڑے لتّے تک نہیں۔ خدا کے فضل سے ان کے سبھی دوست ایسے ہی ہیں۔ ایک بھی خدا کا بندہ ایسا نہیں، جو ضرورت کے وقت انہیں دھیلے سے بھی مدد کر سکے۔ دو ایک بار حضرت کو اس کا تجربہ اور بے حد تلخ ہو چکا ہے۔ مگر اس مردِ خدا نے آنکھیں نہ کھولنے کی قسم کھا لی ہے۔ ایسے ہی ناداروں سے ان کی پٹتی ہے۔ ایسے ایسے لوگوں سے آپ کی دوستی ہے کہ کہتے شرم آتی ہے۔ جسے کوئی اپنے دروازے پر کھڑا بھی نہ ہونے دے، وہ آپ کا دوست ہے۔ شہر میں اتنے امیر کبیر ہیں، آپ کا کسی سے ربط ضبط نہیں، کسی کے پاس نہیں جاتے۔ امراء مغرور ہیں، مدمغ ہیں، خوشامد پسند ہیں، ان کے پاس کیسے جائیں۔ دوستی گانٹھیں گے ایسوں سے جن کے گھر میں کھانے کو بھی نہیں۔
ایک بار ہمارا خدمت گار چلا گیا اور کئی دن دوسرا خدمت گار نہ ملا۔ میں کسی ہوشیار اور سلیقہ مند نوکر کی تلاش میں تھی، مگر بابو صاحب کو جلد سے جلد آدمی رکھ لینے کی فکر سوار ہوئی۔ گھر کے سارے کام بدستور چل رہے تھے، مگر آپ کو معلوم ہو رہا تھا کہ گاڑی رکی ہوئی ہے۔ ایک دن جانے کہاں سے ایک بانگڑو پکڑ لائے۔ اس کی صورت کہے دیتی تھی کہ کوئی جانگلو ہے مگر آپ نے اس کی ایسی ایسی تعریفیں کیں کہ کیا کہوں۔ بڑا فرماں بردار ہے، پرلے سرے کا ایماندار، بلا کا محنتی، غضب کا سلیقہ شعار اور انتہا درجے کا باتمیز۔ خیر میں نے رکھ لیا۔ میں بار بار کیوں کر ان کی باتوں میں آ جاتی ہوں، مجھے خود تعجب ہے۔ یہ آدمی صرف شکل سے آدمی تھا۔ آدمیت کی کوئی علامت اس میں نہ تھی۔ کسی کام کی تمیز نہیں۔ بے ایمان نہ تھا، مگر احمق اوّل نمبر کا۔ بے ایمان ہوتا تو کم سے کم اتنی تسکین تو ہوتی کہ خود کھاتا ہے۔ کم بخت دکانداروں کی فطرتوں کا شکار ہو جاتا تھا۔ اسے دس تک گنتی بھی نہ آتی تھی۔ ایک روپیہ دے کر بازار بھیجوں تو شام تک حساب نہ سمجھا سکے۔ غصّہ پی پی کر رہ جاتی تھی۔ خون جوش کھانے لگتا تھا کے سور کے کان اکھاڑ لوں مگر ان حضرت کو کبھی اسے کچھ کہتے نہیں دیکھا۔ آپ اس کے عیبوں کو ہنر بنا کر دکھایا کرتے تھے اور اس کوشش میں کامیاب نہ ہوتے تو ان عیوب پر پردہ ڈال دیتے تھے۔ کم بخت کو جھاڑو دینے کی بھی تمیز نہ تھی۔ مردانہ کمرہ ہی تو سارے گھر میں ڈھنگ کا ایک کمرہ ہے۔ اس میں جھاڑو دیتا تو اِدھر کی چیز ادھر، اوپر کی نیچے، گویا سارے کمرے میں زلزلہ آ گیا ہو اور گرد کا یہ عالم کہ سانس لینا مشکل۔ مگر آپ کمرے میں اطمینان سے بیٹھے رہتے، گویا کوئی بات ہی نہیں۔ ایک دن میں نے اسے خوب ڈانٹا اور کہہ دیا۔ ’’اگر کل سے تو نے سلیقے سے جھاڑو نہ دی تو کھڑے کھڑے نکال دوں گی‘‘۔
سویرے سو کر اٹھی تو دیکھتی ہوں۔ کمرے میں جھاڑو دی ہوئی ہے۔ ہر ایک چیز قرینے سے رکھی ہوئی ہے۔ گرد و غبار کا کہیں نام نہیں۔ آپ نے فوراً ہنس کر کہا۔ دیکھتی کیا ہو، آج گھورے نے بڑے سویرے جھاڑو دی ہے۔ میں نے سمجھا دیا، تم طریقہ تو بتاتی نہیں ہو، الٹا ڈانٹنے لگتی ہو۔ لیجیے صاحب یہ بھی میری ہی خطا تھی، خیر میں نے سمجھا، اس نالائق نے کم از کم ایک کام تو سلیقے کے ساتھ کیا۔ اب روز کمرہ صاف ستھرا ملتا اور میری نگاہوں میں گھورے کی کچھ وقعت ہونے لگی۔
ایک دن میں ذرا معمول سے سویرے اٹھ بیٹھی اور کمرے میں آئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ گھورے دروازے پر کھڑا ہے اور خود بدولت بڑی تندہی سے جھاڑو دے رہے ہیں۔ مجھ سے ضبط نہ ہو سکا۔ ان کے ہاتھ سے جھاڑو چھین لی اور گھورے کے سر پر پٹک دی۔ حرام خور کو اسی وقت دھتکار بتائی۔ آپ فرمانے لگے، اس کی تنخواہ تو بے باق کر دو۔ خوب ایک تو کام نہ کرے، دوسرے آنکھیں دکھائے، اس پر تنخواہ بھی دے دوں۔ میں نے ایک کوڑی بھی نہ دی۔ ایک کُرتا دیا تھا، وہ بھی چھین لیا۔ اس پر حضرت کئی دن مجھ سے روٹھے رہے۔ گھر چھوڑ کر بھاگے جا رہے تھے، بڑی مشکلوں سے رے۔
ایک روز مہتر نے اتارے کپڑوں کا سوال کیا۔ اس بے کاری کے زمانے میں فالتو کپڑے کس کے گھر میں ہیں۔ شاید رئیس کے گھروں میں ہوں۔ میرے یہاں تو ضروری کپڑے بھی کافی نہیں۔ حضرت ہی کا توشہ خانہ ایک بقچی میں آ جائے گا، جو ڈاک کے پارسل سے کہیں بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ پھر اس سال سردی کے موسم میں نئے کپڑے بنوانے کی نوبت نہ آئی تھی۔ میں نے مہتر کو صاف جواب دے دیا۔ سردی کی شدّت تھی اس کا مجھے خود احساس تھا۔ غریبوں پر کیا گزرتی ہے اس کا بھی علم تھا۔ لیکن میرے یا آپ کے پاس اس کے افسوس کے سوا اور کیا علاج ہے۔ جب رؤسا اور امراء کے پاس ایک ایک مال گاڑی کپڑوں سے بھڑی پڑی ہے تو پھر غرباء کیوں نہ برہنگی کا عذاب جھیلیں۔ خیر میں نے تو اسے جواب دے دیا۔ آپ نے کیا کیا، اپنا کوٹ اتار کر اس کے حوالے کر دیا۔ حضرت کے پاس یہی ایک کوٹ تھا۔ مہتر نے سلام کیا۔ دعائیں دیں اور اپنی راہ لی۔ کئی دن سردی کھاتے رہے۔ صبح گھومنے جایا کرتے تھے وہ سلسلہ بند ہو گیا۔ مگر دل بھی قدرت نے انہیں ایک عجیب قسم کا دیا ہے۔ پھٹے پرانے کپڑے پہنتے آپ کو شرم نہیں آتی۔ میں تو کٹ جاتی ہوں۔ آخر مجھ سے دیکھا نہ گیا تو ایک کوٹ بنوا دیا۔ جی تو جلتا تھا کہ خوب سردی کھانے دوں۔ مگر ڈری کہ کہیں بیمار نہ پڑ جائیں تو اور بھی آفت آ جائے۔ آخر کام تو ان ہی کو کرنا ہے۔
یہ اپنے دل میں سمجھتے ہوں گے میں کتنا نیک نفس اور منکسر مزاج ہوں۔ شاید انہیں ان اوصاف پر ناز ہو۔ میں انہیں نیک نفس نہیں سمجھتی ہوں۔ یہ سادہ لوحی ہے، سیدھی سادی حماقت، جس مہتر کو آپ نے اپنا کوٹ دیا، اسی کو میں نے کئی بار رات کو شراب کے نشے میں بدمست جھومتے دیکھا ہے اور آپ کو دکھا بھی دیا ہے تو پھر دوسروں کی کج روی کا تاوان ہم کیوں دیں۔ اگر آپ نیک نفس اور فیاض ہوتے تو گھر والوں سے بھی تو فیاضانہ برتاؤ کرتے یا ساری فیاضی باہر والوں کے لئے ہی مخصوص ہے۔ گھر والوں کو اس کا عشرِ عشیر بھی نہ ملنا چاہئیے؟ اتنی عمر گزر گئی، مگر اس شخص نے کبھی اپنے دل سے میرے لئے ایک سوغات بھی نہ خریدی۔ بے شک جو چیزیں طلب کروں، اسے بازار سے لانے میں انہیں کلام نہیں۔ مطلق عذر نہیں۔ مگر روپیہ بھی دے دوں یہ شرط ہے۔ انہیں خود کبھی توفیق نہیں ہوتی۔ یہ میں مانتی ہوں کہ بے چارے اپنے لئے بھی کچھ نہیں لاتے۔ میں جو منگوا دوں اسی پر قناعت کر لیتے ہیں۔ مگر آخر انسان کبھی کبھی شوق کی چیزیں چاہتا ہی ہے اور مردوں کو دیکھتی ہوں گھر میں عورت کے لئے طرح طرح کے زیور، کپڑے، شوق سنگار کے لوازمات لاتے رہتے ہیں۔ یہاں یہ رسم ممنوع ہے۔ بچّوں کے لئے بھی مٹھائی، کھلونے، باجے، بگل، شاید اپنی زندگی میں ایک بار بھی نہ لائے ہوں۔ قسم ہی کھا لی ہے۔ اس لئے میں تو انہیں بخیل کہوں گی۔ بد شوق کہوں گی۔ مردہ دل کہوں گی۔ فیاض نہیں کہہ سکتی۔ دوسروں کے ساتھ ان کا جو فیاضانہ سلوک ہے اسے میں حرص نمود اور سادہ لوحی پر محمول کرتی ہوں۔ آپ کی منکسر مزاجی کا یہ حال ہے کہ جس دفتر میں آپ ملازم ہیں۔ اس کے کسی عہدے دار سے آپ کا میل جول نہیں۔ افسروں کو سلام کرنا تو آپ کے لئے آئین کے خلاف ہے۔ نذر یا ڈالی تو دور کی بات ہے۔ اور تو اور کبھی کسی افسر کے گھر جاتے ہی نہیں۔ اس کا خمیازہ آپ نہ اٹھائیں تو کون اٹھائے۔
اوروں کو رعایتی چھٹیاں ملتی ہیں۔ آپ کی تنخواہ کٹتی ہے۔ اوروں کی ترقیاں ہوتی ہیں۔ آپ کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ حاضری میں پانچ منٹ بھی دیر ہو جائے تو جواب طلب ہو جاتا ہے۔ بے چارے! جی توڑ کر کام کرتے ہیں۔ کوئی پیچیدہ مشکل کام آ جائے تو انہیں کے سر منڈھا جاتا ہے، انہیں مطلق عذر نہیں۔ دفتر میں انہیں گھسّو اور پسّو وغیرہ کے خطابات ملے ہوئے ہیں، مگر منزل کتنی ہی دشوار طے کریں، ان کی تقدیر میں وہی سوکھی گھاس لکھی ہے۔ یہ انکسار نہیں ہے، میں تو اسے زمانہ شناسی کا فقدان کہتی ہوں۔ آخر کیوں کوئی شخص آپ سے خوش ہو؟
دنیا میں مروت اور رواداری سے کام چلتا ہے۔ اگر ہم کسی سے کھنچے رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ہم سے نہ کھنچا رہے۔ پھر جب دل میں کبیدگی ہوتی ہے تو وہ دفتری تعلقات میں بھی ظاہر ہو جاتی ہے۔ جو ماتحت افسروں کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے، جس کی ذات سے افسر کو کوئی ذاتی فائدہ پہنچتا ہے، جس پر اعتبار ہوتا ہے، اس کا لحاظ وہ لازمی طور پر کرتا ہے۔ ایسے بے غرضوں سے کیوں کسی کو ہمدردی ہونے لگی۔ افسر بھی انسان ہیں ان کے دل میں جو اعزاز و امتیاز کی ہوس ہے، وہ کہاں پوری ہو۔ جب اس کے ماتحت ہی فرنٹ رہیں۔ آپ نے جہاں ملازمت کی وہیں سے نکالے گئے۔ کبھی کسی دفتر میں سال دو سال سے زیادہ نہ چلے۔ یا تو افسروں سے لڑ گئے یا کام کی کثرت کی شکایت کر بیٹھے۔
آپ کو کنبہ پروری کا دعویٰ ہے۔ آپ کے کئی بھائی بھتیجے ہیں۔ وہ کبھی آپ کی بابت نہیں پوچھتے۔ مگر آپ برابر ان کا منہ تاکتے رہتے ہیں۔ ان کے ایک بھائی صاحب آج کل تحصیل دار ہیں۔ گھر کی جائیداد انہیں کی نگرانی میں ہے وہ شان سے رہتے ہیں۔ موٹر خرید لی ہے، کئی نوکر ہیں، مگر یہاں بھولے سے بھی خط نہیں لکھتے۔ ایک بار ہمیں روپے کی سخت ضرورت ہوئی۔ میں نے کہا، اپنے برادر مکرم سے کیوں نہیں مانگتے۔ کہنے لگے، کیوں انہیں پریشان کروں، آخر انہیں بھی تو اپنا خرچ پورا کرنا ہے۔ میں نے بہت مجبور کیا تو آپ نے خط لکھا، معلوم نہیں خط میں کیا لکھا، لیکن روپے نہ آنے تھے نہ آئے۔ کئی دنوں بعد میں نے پوچھا۔ تو آپ نے خوش ہو کر کہا۔ ابھی ایک ہفتہ تو خط پہنچے ہوئے ہوا۔ ابھی کیا جواب آ سکتا ہے، ایک ہفتہ اور گزرا۔ اب آپ کا یہ حال ہے کہ مجھے کوئی بات کرنے کا موقع ہی نہیں عطا فرماتے۔ اتنے بشاش نظر آتے ہیں کہ کیا کہوں۔
باہر سے آتے ہیں تو خوش خوش، کوئی نہ کوئی شگوفہ لئے ہوئے۔ میری خوشامد بھی خوب ہو رہی ہے۔ میرے میکے والوں کی تعریف بھی ہو رہی ہے۔ میں حضرت کی چال سمجھ رہی تھی، یہ ساری دل جوئیاں محض اس لئے تھیں کہ آپ کے برادر مکرم کے متعلق کچھ نہ پوچھ بیٹھوں۔ سارے ملکی، مالی، اخلاقی، تمدنی مسائل سامنے بیان کئے جاتے تھے۔ اتنی تفصیل اور شرح کے ساتھ کہ پروفیسر بھی دنگ رہ جاتے۔ محض اس لئے کہ مجھے اس امر کی بابت کچھ پوچھنے کا موقع نہ ملے، لیکن میں کب چوکنے والی تھی۔ جب پورے دو ہفتے گزر گئے اور بیمہ کمپنی کے روپے روانہ کرنے کی تاریخ موت کی طرح سر پر آ پہنچی تو میں نے پوچھا۔ کیا ہوا، تمہارے بھائی صاحب نے دہن مبارک سے کچھ فرمایا، ابھی تک خط ہی نہیں پہنچا، آخر ہمارا حصّہ بھی گھر کی جائداد میں کچھ ہے یا نہیں؟ یا ہم کسی لونڈی باندی کی اولاد ہیں؟ پانچ سو روپے سال کا نفع نو دس سال قبل تھا۔ اب ایک ہزار سے کم نہ ہو گا، کبھی ایک کوڑی بھی ہمیں نہیں ملی۔ موٹے حساب سے ہمیں دو ہزار چاہئیں، دو ہزار نہ ہو، ایک ہزار ہو، پانچ سو ہو، ڈھائی سو ہو۔ کچھ نہ ہو تو بیمہ کمپنی کے پریمیم بھر کو تو ہو۔ تحصیل دار کی آمدنی ہماری آمدنی کی چوگنی ہے۔ رشوتیں بھی لیتے ہیں، تو پھر ہمارے روپے کیوں نہیں دیتے۔ آپ ہیں ہیں، ہاں ہاں کرنے لگے۔ بے چارے گھر کی مرمت کراتے ہیں۔ عزیز و اقارب کی مہمانداری کا بار بھی تو اِنہیں پر ہے۔ خوب! گویا جائیداد کا منشا محض یہ ہے کہ اس کی کمائی اسی میں صرف ہو جائے۔
اس بھلے آدمی کو بہانے گھڑنے نہیں آتے۔ مجھ سے پوچھتے میں ایک نہیں ہزار بتا دیتی۔ کہہ دیتے گھر میں آگ لگ گئی۔ سارا اثاثہ جل کر خاک ہو گیا۔ یا چوری ہو گئی۔ چور نے گھر میں تنکا نہ چھوڑا۔ یا دس ہزار کا غلہ خریدا تھا اس میں خسارہ ہو گیا۔ گھاٹے سے بیچنا پڑا۔ یا کسی سے مقدمی بازی ہو گئی اس میں دیوالہ پٹ گیا۔ آپ کو سوجھی بھی تو لچر سی بات۔ اس جولانی طبع پر آپ مصنف اور شاعر بھی بنتے ہیں۔ تقدیر ٹھونک کر بیٹھ رہی۔ پڑوسی کی بیبی سے قرض لیا۔ تب جا کر کہیں کام چلا۔ پھر بھی آپ بھائی بھتیجوں کی تعریف کے پُل باندھتے ہیں تو میرے جسم میں آگ لگ جاتی ہے۔ ایسے برادرانِ یوسف سے خدا بچائے۔ خدا کے فضل سے آپ کے دو بچّے ہیں۔ دو بچّیاں بھی ہیں۔ خدا کا فضل کہوں یا خدا کا قہر کہوں۔ سب کے سب اتنے شریر ہو گئے ہیں کہ معاذ اللہ۔ مگر مجال کیا کہ یہ بھلے مانس کسی بچّے کو تیز نگاہ سے بھی دیکھیں۔ رات کے آٹھ بج گئے ہیں۔ بڑے صاحب زادے ابھی گھوم کر نہیں آئے۔ میں گھبرا رہی ہوں، آپ اطمینان سے بیٹھے اخبار پڑھ رہے ہیں۔ جھلّائی ہوئی آتی ہوں اور اخبار چھین کر کہتی ہوں، جا کر ذرا دیکھتے کیوں نہیں۔ لونڈا کہاں رہ گیا۔ نہ جانے تمہارے دل میں کچھ قلق ہے بھی یا نہیں۔ تمہیں تو خدا نے اولاد ہی ناحق دی۔ آج آئے تو خوب ڈانٹنا۔ تب آپ بھی گرم ہو جاتے ہیں۔ ابھی تک نہیں آیا، بڑا شیطان ہے۔ آج بچّہ آئے، تو کان اکھاڑ لیتا ہوں، مارے تھپڑوں کے کھال ادھیڑ کر رکھ دوں گا، یوں بگڑ کو طیش کے عالم میں آپ اس کی تلاش کرنے نکلتے ہیں۔
اتفاق سے اپ ادھر جاتے ہیں۔ ادھر لڑکا آ جاتا ہے۔ میں کہتی ہوں، تو کدھر سے آ گیا، وہ بے چارے تجھے ڈھونڈنے گئے ہوئے ہیں۔ دیکھنا، آج کیسی مرمت ہوتی ہے۔ یہ عادت ہی چھوٹ جائے گی۔ دانت پیس رہے تھے۔ آتے ہی ہوں گے، چھڑی بھی ہاتھ میں ہے۔ تم اتنے شریر ہو گئے ہو کہ بات نہیں سنتے۔ آج قدر و عافیت معلوم ہو گی۔ لڑکا سہم جاتا ہے اور لیمپ جلا کر پڑھنے لگتا ہے، آپ ڈیڑھ دو گھنٹے میں لوٹتے ہیں، حیران و پریشان اور بدحواس، گھر میں قدم رکھتے ہی پوچھتے ہیں، آیا کہ نہیں؟
میں ان کا غصّہ بھڑکانے کے ارادے سے کہتی ہوں۔ آ کر بیٹھا تو ہے، جا کر پوچھتے کیوں نہیں؟ پوچھ کر ہار گئی، کہاں گیا تھا۔ کچھ بولتا ہی نہیں، آپ گرج پڑتے ہیں، منو یہاں آؤ۔
لڑکا تھر تھر کانپتا ہوا، آ کر آنگن میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ دونوں بچیاں گھر میں چھپ جاتی ہیں کہ خدا جانے کیا آفت نازل ہونے والی ہے۔ چھوٹا بچّہ کھڑکی سے چوہے کی طرح جھانک رہا ہے۔ آپ جامہ سے باہر ہیں۔ ہاتھ میں چھڑی ہے۔ میں بھی وہ غضب ناک چہرہ دیکھ کر پچھتانے لگتی ہوں کہ کیوں ان سے شکایت کی۔ آپ لڑکے کے پاس جاتے ہیں، مگر بجائے اس کے کہ چھڑی سے اس کی مرمت کریں۔ آہستہ سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بناوٹی غصّے سے کہتے ہیں، تم کہاں گئے تھے جی؟ منع کیا جاتا ہے، مانتے نہیں ہو۔ خبردار جو اب اتنی دیر کی۔ آدمی شام کو گھر چلا آتا ہے یا اِدھر ادھر گھومتا ہے؟
میں سمجھ رہی ہوں یہ تمہید ہے۔ قصیدہ اب شروع ہو گا۔ گریز تو بری نہیں، لیکن یہاں تمہید ہی ختم ہو جاتی ہے۔ بس آپ کا غصّہ فرو ہو گیا۔ لڑکا اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے، اور غالباً خوشی سے اچھلنے لگتا ہے۔ میں احتجاج کی صدا بلند کرتی ہوں، تم تو جیسے ڈر گئے، بھلا دو چار تمانچے تو لگائے ہوتے، اس طرح لڑکے شریر ہو جاتے ہیں۔ آج آٹھ بجے آیا ہے۔ کل نو کی خبر لائے گا۔ اس نے بھی دل میں کیا سمجھا ہو گا۔ آپ فرماتے ہیں، تم نے سُنا نہیں؟ میں نے کتنی زور سے ڈانٹا۔ بچّے کی روح ہی فنا ہو گئی ہو گی۔ دیکھ لینا، جو پھر کبھی دیر میں آئے گا۔
آپ کے خیال میں لڑکوں کو آزاد رہنا چاہئیے۔ ان پر کسی قسم کی بندش یا دباؤ نہیں ہونا چاہئیے۔ بندش سے آپ کے خیال میں لڑکے کی دماغی نشو و نما میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ لڑکے شتر بے مہار بنے ہوئے ہیں۔ کوئی ایک منٹ بھی کتاب کھول کر نہیں بیٹھتا۔ کبھی گلّی ڈنڈا ہے۔ کبھی گولیاں ہیں۔ کبھی کنکوّے۔ حضرت بھی اِنہیں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ چالیس سال سے تو متجاوز آپ کی عمر ہے، مگر لڑکپن دل سے نہیں گیا۔ میرے باپ کے سامنے مجال تھی کہ کوئی لڑکا کنکوّا اڑا لے یا گلّی ڈنڈا کھیل سکے۔ خون پی جاتے۔ صبح سے لڑکوں کو پڑھانے بیٹھ جاتے، اسکول سے جوں ہی لڑکے واپس آتے پھر لے بیٹھتے۔ بس شام کو آدھ گھنٹے کی چھٹّی دیتے۔ رات کو پھر کام میں جوت دیتے۔ یہ نہیں کہ آپ تو اخبار پڑھیں اور لڑکے گلی گلی کی خاک چھانتے پھریں۔ کبھی آپ بھی سینگ کٹا کر بچھڑے بن جاتے ہیں۔ لڑکوں کے ساتھ تاش کھیلنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسے باپ کا لڑکوں پر کیا رعب ہو سکتا ہے۔ ابا جان کے سامنے میرے بھائی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ان کی آواز سنتے ہی قیامت آ جاتی تھی۔ انہوں نے گھر میں قدم رکھا اور خموشی طاری ہوئی۔ ان کے رو برو جاتے ہوئے لڑکوں کی جان نکلتی تھی، اور اسی تعلیم کی یہ برکت ہے کہ سبھی اچھے عہدوں پر پہنچ گئے۔ صحت، البتہ کسی کی بھی اچھی نہیں ہے، تو ابا جان کی صحت ہی کون سی بہت اچھی تھی۔ بے چارے ہمیشہ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا رہتے۔ پھر لڑکوں کی صحت کہاں سے اچھی ہو جاتی۔ لیکن کچھ بھی ہو، تعلیم و تادیب میں انہوں نے کسی کے ساتھ رعایت نہیں کی۔
ایک روز میں نے حضرت کو بڑے صاحب زادے کو کنکوّے کی تعلیم دیتے دیکھا۔ یوں گھُماؤ، یوں غوطہ دو، یوں کھینچو، یوں ڈھیل دو۔ ایسا دل و جان سے سِکھا رہے تھے کہ گویا گرو منتر دے رہے ہوں۔ اس دن میں نے بھی ان کی ایسی خبر لی کہ یاد کرتے ہوں گے۔ میں نے صاف کہہ دیا، تم کون ہوتے ہو میرے بچّوں کو بگاڑنے والے۔ تمہیں گھر سے کوئی مطلب نہیں، نہ ہو۔ لیکن آپ میرے بچّوں کو خراب مت کیجئے۔ برے شوق نہ پیدا کیجئے۔ اگر آپ انہیں سدھار نہیں سکتے تو کم سے کم بگاڑئیے مت۔ لگے باتیں بنانے ،۔ ابّا جان کسی لڑکے کو میلے تماشے نہ لے جاتے تھے۔ لڑکا سر پٹک کر مر جائے۔ مگر ذرا بھی نہ پسیجتے تھے۔ اور ان بھلے آدمی کا یہ حال ہے کہ ایک ایک سے پوچھ کر میلے لے جاتے ہیں۔ چلو چلو وہاں بڑی بہار ہے۔ خوب آتش بازیاں چھوٹیں گی۔ غبّارے اڑیں گے۔ ولایتی چرخیاں بھی ہیں۔ ان پر مزے سے بیٹھنا۔ اور تو اور آپ لڑکوں کو ہاکی کھیلنے سے بھی نہیں روکتے۔ یہ انگریزی کھیل بھی کتنے خوفناک ہوتے ہیں۔ کرکٹ، فٹ بال، ہاکی، ایک سے ایک مہلک۔ گیند لگ جائے تو جان لے کر ہی چھوڑے، مگر آپ کو ان کھیلوں سے بڑی رغبت ہے، کوئی لڑکا میچ میں جیت کر آ جاتا ہے تو کتنے خوش ہوتے ہیں۔ گویا کوئی قلعہ فتح کر آیا ہو۔
حضرت کو ذرا بھی اندیشہ نہیں ہے کہ کسی لڑکے کو چوٹ لگ گئی تو کیا ہو گا۔ ہاتھ پاؤں ٹوٹ گیا تو بے چاروں کی زندگی کیسے پار لگے گی۔
پچھلے سال لڑکی کی شادی تھی۔ آپ کو یہ ضد تھی کہ جہیز کے نام کوڑی بھی نہ دیں گے، چاہے لڑکی ساری عمر کنواری بیٹھی رہے۔ آپ اہلِ دنیا کی خبیث النفسی آئے دن دیکھتے رہتے ہیں۔ پھر بھی چشمِ بصیرت نہیں کھُلتی۔ جب تک سماج کا یہ نظام قائم ہے اور لڑکی کا بلوغ کے بعد کنواری رہنا انگشت نمائی کا باعث ہے، رہتی دنیا تک یہ رسم فنا نہیں ہو سکتی۔ دو چار افراد بھلے ہی ایسے بیدار مغز نکل آئیں، جو جہیز لینے سے احتراز کریں، لیکن اس کا اثر عام حالات پر بہت کم ہوتا ہے اور برائی بہ دستور قائم رہتی ہے۔ جب لڑکوں کی طرح لڑکیوں کے لئے بھی بیس پچیس کی عمر تک کنواری رہنا بدنامی کا باعث نہ سمجھا جائے گا۔ اس وقت آپ ہی آپ یہ رسم رخصت ہو جائے گی۔ میں نے جہاں جہاں پیغام دئیے جہیز کا مسئلہ پیدا ہوا، اور آپ نے ہر موقع پر ٹانگ اڑا دی۔ جب اس طرح پورا سال گزر گیا اور لڑکی کا سترھواں سال شروع ہو گیا تو میں نے ایک جگہ بات پکّی کر لی۔ حضرت بھی راضی ہو گئے۔ کیوں کہ ان لوگوں نے قرار داد نہیں کی۔ حالاں کہ دل میں انہیں پورا یقین تھا کہ ایک اچھی رقم ملے گی اور میں نے بھی طے کر لیا تھا کہ اپنے مقدور بھر کوئی بات اٹھا نہ رکھوں گی۔ شادی کے بخیر و عافیت انجام پانے میں کوئی شبہ نہ تھا۔ لیکن ان مہاشے کے آگے میری ایک نہ چلتی تھی۔ یہ رسم بھی بے ہودہ ہے۔ یہ رسم بے معنی ہے۔ یہاں روپے کی کیا ضرورت ہے۔ یہاں گیتوں کی کیا ضرورت؟ ناک میں دم تھا، یہ کیوں، وہ کیوں؟ یہ تو صاف جہیز ہے، تم نے میرے منہ کالکھ لگا دی، میری آبرو مٹا دی۔
ذرا خیال کیجئے، بارات دروازے پر پڑی ہے اور یہاں بات بات پر ردّ و قدح ہو رہی ہے۔ شادی کی ساعت رات کے بارہ بجے تھی۔ اس دن لڑکی کے ماں باپ برت رکھتے ہیں۔ میں نے بھی برت رکھا، لیکن آپ کو ضد تھی کہ برت کی کوئی ضرورت نہیں۔ جب لڑکے کے والدین برت نہیں رکھتے تو لڑکی کے والدین کیوں رکھیں۔ میں اور سارا خاندان ہر چند منع کرتا رہا، لیکن آپ نے حسبِ معمول ناشتہ کیا، کھانا کھایا۔ خیر رات کو شادی کے وقت کنیا دان کی رسم آئی، آپ کو کنیا دان کی رسم پر ہمیشہ سے اعتراض ہے۔ اسے آپ مہمل سمجھتے ہیں، لڑکی دان کی چیز نہیں۔ دان روپے پیسے کا ہوتا ہے، جانور بھی دان دئیے جا سکتے ہیں، لیکن لڑکی کا دان ایک لچر سی بات ہے۔ کتنا سمجھاتی ہوں، صاحب پرانا رواج ہے، شاستروں میں صاف اس کا حکم ہے۔ عزیز و اقارب سمجھا رہے ہیں، مگر آپ ہیں کہ کان پر جوں نہیں رینگتی۔ کہتی ہوں، دنیا کیا کہے گی؟ یہ لوگ کیا بالکل لا مذہب ہو گئے، مگر آپ کان ہی نہیں دھرتے۔ پیروں پڑی، یہاں تک کہا کہ بابا تم کچھ نہ کرنا، جو کچھ کرنا ہو گا، میں کر لوں گی، تم صرف چل کر منڈپ میں لڑکی کے پاس بیٹھ جاؤ اور اسے دعا دو، مگر اس مردِ خدا نے مطلق سماعت نہ کی۔ آخر مجھے رونا آ گیا۔ باپ کے ہوتے میری لڑکی کا کنیا دان چچا یا ماموں کرے، یہ مجھے منظور نہ تھا۔ میں نے تنہا تنہا کنیا دان کی رسم ادا کی۔ آپ گھر جھانکے تک نہیں اور لطف یہ کہ آپ ہی مجھ سے روٹھ گئے۔ بارات کی رخصتی کے بعد مجھ سے مہینوں بولے نہیں۔ جھک مار کر مجھ ہی کو منانا پڑا۔
مگر کچھ عجیب دل لگی ہے کہ ان ساری برائیوں کے باوجود میں ان سے ایک دن کے لئے بھی جدا نہیں رہ سکتی۔ ان سارے عیوب کے باوجود میں انہیں پیار کرتی ہوں۔ ان میں وہ کون سی خوبی ہے جس پر میں فریفتہ ہوں مجھے خود نہیں معلوم۔ مگر کوئی چیز ہے ضرور، جو مجھے ان کا غلام بنائے ہوئے ہے۔
وہ ذرا معمول سے دیر میں گھر آتے ہیں تو میں پریشان ہو جاتی ہوں۔ ان کا سر بھی درد کرے تو میری جان نکل جاتی ہے۔ آج اگر تقدیر ان کے عوض مجھے کوئی علم اور عقل کا پلا، حسن کا دیوتا بھی دے تو میں اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھوں۔ یہ رواجی وفا داری بھی نہیں ہے، بلکہ ہم دونوں کی فطرتوں میں کچھ ایسی روا داریاں، کچھ ایسی صلاحیتیں پیدا ہو گئی ہیں، گویا کسی مشین کے کل پرزے گھس گھسا کر فٹ ہو گئے ہوں اور ایک پرزے کی جگہ دوسرا پرزہ کام نہ دے سکے، چاہے وہ پہلے سے کتنا سڈول، نیا اور خوش نما کیوں نہ ہو۔ جانے ہوئے رستے سے ہم بے خوف، آنکھیں بند کئے چلے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس کسی انجان رستے پر چلنا کتنی زحمت کا باعث ہو سکتا ہے۔ قدم قدم پر گم راہ ہو جانے کے اندیشے، ہر لمحہ چور اور رہزن کا خوف! بلکہ شاید آج میں ان کی برائیوں کو خوبیوں سے تبدیل کرنے پر بھی تیار نہیں۔
٭٭٭
شطرنج کی بازی
نواب واجد علی شاہ کا زمانہ تھا۔ لکھنؤ عیش و عشرت کے رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ چھوٹے بڑے امیر و غریب سب رنگ رلیاں منا رہے تھے۔ کہیں نشاط کی محفلیں آراستہ تھیں۔ کوئی افیون کی پینک کے مزے لیتا تھا۔ زندگی کے ہر ایک شعبہ میں رندی و مستی کا زور تھا۔ امور سیاست میں، شعر و سخن میں، طرز معاشرت میں، صنعت و حرفت میں، تجارت و تبادلہ میں سبھی جگہ نفس پرستی کی دہائی تھی۔ اراکین سلطنت مے خوری کے غلام ہو رہے تھے۔ شعرا بوسہ و کنار میں مست، اہل حرفہ کلابتوں اور چکن بنانے میں، اہل سیف تیتر بازی میں، اہل روزگار سرمہ و مسی، عطر و تیل کی خرید و فروخت کا دلدادہ غرض سارا ملک نفس پروری کی بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ سب کی آنکھوں میں ساغر و جام کا نشہ چھایا ہوا تھا۔ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ علم و حکمت کے کن کن ایجادوں میں مصروف ہے۔ بحر و بر پر مغربی اقوام کس طرح حاوی ہوتی جاتی ہیں۔ اس کی کسی کو خبر نہ تھی۔ بٹیر لڑ رہے ہیں تیتروں میں پالیاں ہو رہی تھیں کہیں چوسرہو رہی ہے۔ پو بارہ کا شور مچا ہوا ہے کہیں شطرنج کے معرکے چھڑے ہوئے ہیں۔ فوجیں زیر و زبر ہو رہی ہیں۔ نواب کا حال اس سے بد تر تھا وہاں گتوں اور تالوں کی ایجاد ہوتی تھی۔ خط نفس کے لیے نئے لٹکے، نئے نئے نسخے سوچے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ فقرا خیرات کے پیسے پاتے تو روٹیاں خریدنے کی بجائے مدک اور چنڈو کے مزے لیتے تھے۔ رئیس زادے حاضر جوابی اور بدلہ سنجی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ارباب نشاط سے قلم بند کرتے تھے۔ فکر کو جولاں، عقل کو رسا اور ذہن کو تیز کرنے کے لیے شطرنج کیمیا سمجھا جاتا تھا۔ اب بھی اس قوم کے لوگ کہیں کہیں موجود ہیں۔ جو اس دلیل کو بڑے شد و مد سے پیش کرتے ہیں۔ اس لیے اگر مرزا سجّاد علی اور میر روشن اپنی زندگی کا بیشتر حصّہ عقل کو تیز کرنے میں صرف کیا کرتے تھے۔ تو کسی ذی فہم کو اعتراض کرنے کا موقع نہ تھا۔ ہاں جہلا انھیں جو چاہیں سمجھیں۔ دونوں صاحبوں کے پاس موروثی جاگیر یں تھیں۔ فکر معاش سے آزاد تھے۔ آخر اور کرتے ہی کیا۔ طلوع سحر ہوتے ہی دونوں صاحب ناشتہ کر کے بساط پر بیٹھ جاتے۔ مہرے بچھا لیتے اور عقل کو تیز کرنا شروع کر دیتے تھے پھر انھیں خبر نہ ہوتی تھی۔ کہ کب دوپہر ہوا۔ کب سہ پہر۔ کب شام۔ گھر سے بار بار آدمی آ کر کہتا تھاکھانا تیار ہے یہاں سے جواب ملتا تھاچلو آتے ہیں۔ دسترخوان بچھاؤ۔ مگر شطرنج کے سامنے قورمے اور پلاؤ کے مزے بھی پھیکے تھے۔ یہاں تک کہ باور چی مجبور ہو کر کھانا کمرے میں ہی رکھ جاتا تھا اور دونوں دوست دونوں کام ساتھ ساتھ کر کے اپنی باریک نظری کا ثبوت دیتے تھے۔ کبھی کبھی کھانا رکھا ہی رہ جاتا۔ اس کی یاد ہی نہ آتی تھی۔ مرزاسجّاد علی کے مکان میں کوئی بڑا بوڑھا نہ تھا اس لیے انہی کے دیوان خانے میں معرکہ آرائیاں ہوتی تھیں۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ مزرا کے گھر کے اورلوگ اس مشغلہ سے خوش تھے۔ ہر گز نہیں۔ محلّہ کے گھر کے نوکر چاکروں میں، مہریوں ماماؤں میں بڑی حاسدانہ حرف گیریاں ہوتی رہتیں تھیں۔ بڑا منحوس کھیل ہے گھر کو تباہ کر کے چھوڑتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ کسی کو اس کی چاٹ پڑے۔ آدمی نہ دین کے کام کار ہتا ہے۔ نہ دنیا کے کام کا۔ بس اسے دھوبی کا کتّا سمجھو، گھر کا نہ گھاٹ کا۔ بُرا مرض ہے۔ ستم یہ تھا کہ بیگم صاحبہ بھی آئے دن اس مشغلہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی رہتی تھیں۔ حالانکہ انھیں اس کے موقع مشکل سے ملتے۔ وہ سوتی ہی رہتی تھیں کہ ادھر بازی جم جاتی تھی۔ رات کو سوجاتی تھیں۔ تب کہیں مرزا جی گھر میں آتے تھے۔ ہاں جولا ہے کا غصّہ داڑھی پر اتارا کرتی تھیں۔ نوکروں کو جھڑکیاں دیا کرتیں۔ کیا میاں نے پان مانگے ہیں۔ کہہ دو آ کر لے جائیں۔ کیا پاؤں میں مہندی لگی ہوئی ہے۔ کیا کہا ابھی کھانے کی فرصت نہیں ہے؟ کھانے لے جا کر سر پر پٹک دو۔ کھائیں یا کتّوں کو کھلائیں یہاں ان کے انتظار میں کون بیٹھا رہے گا۔ مگر لطف یہ تھا کہ انھیں اپنے میاں سے اتنی شکایت نہ تھی جتنی میر صاحب سے وہ میر صاحب کو نکھٹو، بگاڑو، ٹکڑے خور وغیرہ ناموں سے یاد کیا کرتی تھیں۔ شاید مرزا جی بھی اپنی بریت کے اظہار میں سارا الزام میر صاحب ہی کے سر ڈال دیتے تھے۔
ایک دن بیگم صاحبہ کے سر میں درد ہونے لگا۔ تو ماما سے کہا۔ جا کر مرزا جی کا بلا لا۔
کسی حکیم کے یہاں سے دوالا دیں۔ دوڑ جلدی کر سر پھٹا جاتا ہے۔ ماما گئی تو مرزا جی نے کہا چل ابھی آتے ہیں۔ بیگم صاحبہ کو اتنی تاب کہاں کہ ان کے سر میں درد ہوا ور میاں شطرنج کھیلنے میں مصروف ہوں۔ چہرہ سرخ ہو گیا اور ماما سے کہا جا کر کہہ ابھی چلیے ورنہ وہ خود حکیم صاحب کے پاس چلی جائیں گی۔ کچھ ان کے آنکھوں دیکھا راستہ نہیں ہے۔ مرزا جی بڑی دلچسپ بازی کھیل رہے تھے۔ دوہی کشتیوں میں میر صاحب کی مات ہوئی جاتی تھی۔ بولے کیا ایسا دم لبوں پر ہے۔ ذرا صبر نہیں آتا۔ حکیم صاحب چھو منتر کر دیں گے کہ ان کے آتے ہی آتے دردِسر رفع ہو جائے گا۔
میر صاحب نے فرمایا۔ ’’ارے جا کر سن ہی آئیے نہ۔ عورتیں نازک مزاج ہوتی ہی ہیں۔‘‘
مرزا۔جی ہاں کیوں نہ چلا جاؤں۔ دو کشتیوں میں میر صاحب کی مات ہوئی جاتی ہے۔
میر صاحب۔ جی اس بھروسے نہ رہیے گا۔ وہ چال سوچی ہے کہ آپ کے مہرے دھرے کے دھرے رہ جائیں۔ اور مات ہو جائے۔ پر جائیے سن آئیے کیوں خواہ مخواہ ذرا سی بات کے لیے ان کا دل دکھائیے گا۔
مرزا جی۔ جی چاہتا ہے اسی بات پر مات کر دوں۔
میر صاحب۔ میں کھیلوں گا ہی نہیں۔ آپ پہلے جا کر سن آئیں۔
مرزا جی۔ ارے یار جانا پڑے گا حکیم کے یہاں۔ درد ورد خاک نہیں ہے۔ مجھے دق کرنے کا حیلہ ہے۔
میر صاحب۔ کچھ بھی ہو ان کی خاطر کرنی ہی پڑے گی۔
مرزا جی۔ اچھا ایک چال اور چل لوں۔
میر صاحب۔ ہر گز نہیں۔ جب تک آپ سن نہ آئیں گے مہروں کا ہاتھ نہ لگاؤں گا۔
مرزا صاحب مجبور ہو کر اندر گئے تو بیگم صاحبہ نے کراہتے ہوئے کہا۔ تمھیں نگوڑا شطرنج اتنا پیارا ہے کہ چاہے کوئی مر بھی جائے پر اٹھنے کا نام نہیں لیتے۔ شطرنج ہے کہ میری سوتن ہے۔ نوج کوئی تم جیسا نرموہیا ہو۔
مرزا۔ کیا کروں۔ میر صاحب مانتے ہی نہ تھے۔ بڑی مشکلوں سے گلا چھڑا کر آیا ہوں۔
بیگم۔ کیا جیسا خود نکھٹو ہیں ویسے ہی دوسروں کو سمجھتے ہیں۔ ان کے بھی تو بال بچے ہیں کہ سب کا صفایا کر دیا۔
مرزا۔ بڑا لتّی آدمی ہے۔ جب آ کر سر پر سوار ہو جاتا ہے تو مجبور ہو کر مجھے بھی کھیلنا ہی پڑتا ہے۔
بیگم۔ دھتکار کیوں نہیں دیتے کتّے کی طرح۔
مرزا۔ سبحان اللہ برابر کے آدمی ہیں۔ عمر میں، رتبہ میں مجھ سے دو انگل اونچے ملاحظہ کرنا ہی پڑتا ہے۔
بیگم۔ تومیں ہی دھتکارے دیتی ہوں۔ ناراض ہو جائیں گے۔ کون میری روٹیاں چلاتے ہیں۔ رانی روٹھیں گی اپنا سہاگ لیں گی (ماما سے) عباسی شطرنج اٹھا لا۔ میر صاحب سے کہہ دینا۔ میاں اب نہ کھیلیں گے۔ آپ تشریف لے جائیں۔ اب پھر منہ نہ دکھائیے گا۔
مرزا۔ ہائیں ہائیں کہیں ایسا غضب نہ کرنا۔ کیا ذلیل کراؤ گی۔ ٹھہر عبّاسی۔ کمبخت کہاں دوڑی جاتی ہے۔
بیگم۔ جانے کیوں نہیں دیتے۔ میرا جو خون پئے جو روکے۔ اچھا اسے روک لیا۔ مجھے روک لو تو جانوں۔ یہ کہہ کر بیگم صاحبہ خود جھلّائی ہوئی دیوان خانے کی طرف چلیں۔ مرزا جی کا چہرہ فق ہو گیا۔ ہوائیاں اڑنے لگیں۔ بیوی کی منتّیں کرنے لگے۔ خدا کے لیے تمھیں شہیدِ کربلا کی قسم۔ میری میّت دیکھے جو ادھر قدم رکھے لیکن بیگم صاحبہ نے ایک نہ مانی۔ دیوان خانے کے دروازے تک گئیں۔ یکایک نامحرم کے روبرو بے نقاب جاتے ہوئے پیر رک گئے۔ وہیں سے اندر کی طرف جھانکا حسنِ اتفاق سے کمرہ خالی تھا۔ میر صاحب نے حسبِ ضرورت دو چار مہرے تبدیل کر دیے تھے اس وقت اپنی صفائی جتانے کے لیے باہر چبوترہ پر چہل قدمی کر رہے تھے پھر کیا تھا بیگم صاحبہ کو منہ مانگی مراد ملی۔ اندر پہنچ کر بازی الٹ دی۔ مہرے کچھ تخت کے نیچے پھینکے کچھ باہر۔ تب دروازہ اندر سے بند کر کے کنڈی لگا دی۔ میر صاحب دروازے پر تو تھے ہی مہرے باہر پھینکے جاتے دیکھے۔ پھر چوڑیوں کی جھنکار سنی تو سمجھ گئے بیگم صاحبہ بگڑ گئیں۔ چپکے سے گھر کی راہ لی۔
مرزا نے بیگم صاحبہ سے کہا تم نے غضب کر دیا۔
بیگم۔ اب موا ادھر آئے تو کھڑے کھڑے نکال دوں۔ گھر نہیں چکلا سمجھ لیا ہے۔ اتنی لو اگر خدا سے ہو تو ولی ہو جاتے۔ آپ لوگ تو شطرنج کھیلیں میں یہاں چولھے چکی میں سر کھپاؤں، لونڈی سمجھ رکھا ہے۔ جاتے ہو حکیم صاحب کے یہاں کہ اب بھی تامل ہے۔
مرزا جی گھر سے نکلے تو حکیم صاحب کے یہاں کے بدلے میر صاحب کے گھر پہنچے تو معذرت آمیز لہجہ میں با دل پُر درد سارا ماجرا کہہ سنایا۔
میر صاحب ہنس کر بولے۔ اتنا تو میں اسی وقت سمجھ گیا تھا جب دردِ سر کا پیغام ماما لائی تھی کہ آج آثار اچھے نہیں ہیں۔ مگر بڑی غصّہ ور معلوم ہوتی ہیں۔ اف اتنی تمکنت آپ نے انھیں بہت سر چڑھا رکھا ہے۔ یہ مناسب نہیں۔ انھیں اس سے کیا مطلب کہ باہر کیا کرتے ہیں۔ خانہ داری کا انتظام کرنا ان کا کام ہے مردوں کی باتوں میں دخل دینے کا انھیں کیا مجال۔ میرے یہاں دیکھئے۔ کبھی کوئی چوں بھی نہیں کرتا۔
مرزا۔ خیر اب یہ بتائیے اب جماؤ کہاں ہو گا۔
میر۔ اس کا کیا غم ہے اتنا بڑا گھر پڑا ہوا ہے بس یہیں جمے گی۔
مرزا۔ لیکن بیگم صاحبہ کو کیسے مناؤں گا جب گھر پر بیٹھا رہتا تھا۔ تب تو اتنی خفگی تھی۔ گھر سے چلا آؤں تو شاید زندہ نہ چھوڑیں۔
میر۔ اجی بکنے دیجئے۔ دو چار دن میں خود بخود سیدھی ہو جائیں گی۔ ہاں آپ بھی ذرا تن جائیے۔
میر صاحب کی بیگم صاحبہ کسی وجہ سے میر صاحب کے گھر سے غائب رہنا ہی پسند کرتی تھیں۔ اس لیے وہ ان کے مشغلہ تفریح کا مطلق گلہ نہ کرتی تھیں۔ بلکہ کبھی کبھی انھیں جانے میں دیر ہو جاتی یا کچھ السا اتے تو سرودبہ مستان یاد دہانی دن کے مصداق انھیں آگاہ کر دیا کرتی تھیں۔ ان وجوہ سے میر صاحب کو گمان ہو گیا تھا۔ کہ میری بیگم صاحبہ نہایت خلیق متحمل مزاج اور عفت کیش ہیں۔ لیکن جب ان کے دیوان خانہ میں بساط بچھنے لگی اور میر صاحب کی دائمی موجودگی سے بیگم صاحبہ کی آزادی میں ہرج پیدا ہونے لگا۔ تو انھیں بڑی تشویش دامن گیر ہوئی۔ دن کے دن دروازہ جھانکنے کو ترس جاتی تھیں۔ سوچنے لگیں کیوں کر یہ بلا سر سے ٹلے۔
ادھر نوکروں میں بھی یہ کانا پھوسی ہونے لگی۔ اب تک دن بھر پڑے پڑے خراٹے لیتے تھے۔ گھر میں کوئی آئے کوئی جائے ان سے مطلب تھا نہ سروکار بمشکل سے دو چار دفعہ بازار جانا پڑتا۔ اب آٹھوں پہر کی دھونس ہو گئی۔ کبھی پان لگانے کا حکم ہوتا۔ کبھی پانی لانے کبھی برف لانے کا کبھی تمباکو بھرنے کا۔ حقّہ تو کسی دل جلے عاشق کی طرح ہر دم گرم رہتا تھا۔ سب جا کر بیگم صاحبہ سے کہتے حضور میاں کا شطرنج تو ہمارے جی کا جنجال ہو گیا۔ دن بھر دوڑتے دوڑتے پیروں میں چھالے پڑ جاتے ہیں۔ یہ بھی کوئی کھیل ہے کہ صبح کو بیٹھے تو شام کر دی۔ گھڑی دو گھڑی کھیل لیا چلو چھٹی ہوئی۔ اور پھر حضور تو جانتی ہیں کہ کتنا منحوس کھیل ہے جسے اس کی چاٹ پڑ جاتی ہے کبھی نہیں پنپتا۔ گھر پر کوئی نہ کوئی آفت ضرور آتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک کے پیچھے محلے کے محلے تباہ ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ محلے والے ہر دم ہمیں لوگوں کو ٹوکا کرتے ہیں۔ شرم سے گڑ جانا پڑتا ہے۔ بیگم صاحبہ کہتیں مجھے تو یہ کھیل خود ایک آنکھ نہیں بھاتا، پر کیا کروں میرا کیا بس ہے۔
محلہ میں دو چار بڑے بوڑھے تھے وہ طرح طرح کی بدگمانیاں کرنے لگے۔ اب خیریت نہیں ہمارے رئیسوں کا یہ حال ہے تو ملک کا خدا ہی حافظ ہے یہ سلطنت شطرنج کے ہاتھوں تباہ ہو گی۔ لچھن بُرے ہیں۔
ملک میں واویلا مچا ہوا تھا۔، رعایا دن دھاڑے لٹتی تھی۔ پر کوئی اس کی فریاد سننے والا نہ تھا۔ دیہاتوں کی ساری دولت لکھنؤ میں کھچی چلی آتی تھی اور یہاں سامانِ عیش کے بہم پہچانے میں صرف ہو جاتی تھی۔ بھانڈ، نقال، کتھک، ارباب نشاط کی گرم بازاری تھی۔ ساقنوں کی دوکانوں پر اشرفیاں برستی تھیں۔ رئیس زادے ایک ایک دم کی ایک ایک اشرفی پھینک دیتے تھے۔ مصارف کا یہ حال اور انگریزی کمپنی کا قرضہ روز بروز بڑھتا جاتا تھا اس کی ادائیگی کی کسی کو فکر نہ تھی۔ یہاں تک کہ سالانہ خراج بھی ادا نہ ہو سکتا تھا۔ ریزیڈنٹ بار بار تاکیدی خطوط لکھتا۔ دھمکیاں دیتا، مگر یہاں لوگوں پر نفس پروری کا نشہ سوار تھا کسی کے کان پر جوں نہ رینگتی تھی۔
خیر میر صاحب کے دیوان خانے میں شطرنج ہوتے کئی مہینے گذر گئے، نت نئے نقشے حل کیے جاتے، نئے نئے قلعے تعمیر ہوتے اور مسمار کیے جاتے، کبھی کبھی کھیلتے کھیلتے آپس میں جھڑپ ہو جاتی، تو تو میں میں کی نوبت پہنچ جاتی۔ پریہ شکر رنجیاں بہت جلد رفع ہو جاتی تھیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ مرزا جی روٹھ کر اپنے گھر چلے جاتے۔ میر صاحب بساط اٹھا کر اپنے گھر میں آ بیٹھتے اور قسمیں کھاتے کہ اب شطرنج کے نزدیک نہ جائیں گے مگر صبح ہوتے ہی دونوں دوست پھر مل بیٹھتے۔ نیند ساری بدمزگیوں کو دور کر دیتی تھی۔
ایک دن دونوں احباب بیٹھے شطرنج کے دلدل میں غوطے کھا رہے تھے کہ شاہی رسالہ کا ایک سوار وردی پہنے اسلحہ سے لیس میر صاحب کا نام پوچھتا آ پہنچا۔ میر صاحب کے حواس اڑے۔ اوسان خطہ ہو گئے۔ خدا جانے کیا بلا سر پر آئی۔ گھر کے دروازے بند کر لیے۔ اور نوکروں سے کہا۔ گھر میں نہیں ہیں۔
سوار نے کہا گھر میں نہیں ہیں تو کہاں ہیں۔ کہیں چھپے بیٹھے ہوں گے۔
خدمت گار۔ میں یہ نہیں جانتا گھر میں سے یہی جواب ملا ہے۔ کیا کام ہے۔؟
سوار۔ کام تجھے کیا بتاؤں حضور میں طلبی ہے۔ شاید فوج کے لیے کچھ سپاہی مانگے گئے ہیں۔ جاگیر دار ہیں کہ مذاق ہے۔
خدمت گار۔ اچھا تشریف لے جائیے۔ کہہ دیا جائے گا۔
سوار۔ کہنے سننے کی بات نہیں۔ میں کل پھر آؤں گا اور تلاش کر کے لے جاؤں گا اپنے ہمراہ حاضر کرنے کا حکم ہوا ہے۔
سوار تو چلا گیا۔ میر صاحب کی روح فنا ہو گئی۔ کانپتے ہوئے مرزا جی سے بولے اب کیا ہو گا۔
مرزا۔ بڑی مصیبت ہے کہیں میری طلبی بھی نہ ہو۔
میر۔ کمبخت کل پھر آنے کو کہہ گیا ہے۔
مرزا۔ قہر آسمانی ہے اور کیا کہیں سپاہیوں کی مانگ ہو تو بن موت مرے۔ یہاں تو جنگ کا نام سنتے ہی تپ چڑھ آتی ہے۔
میر۔ یہاں تو آج سے دانہ پانی حرام سمجھئے۔
مرزا۔ بس یہی تدبیر ہے کہ اس سے ملیے ہی نہیں۔ دونوں آدمی غائب ہو جائیں۔ سارا شہر چھانتا پھرے۔ کل سے گومتی پار کسی ویرانے میں نقشہ جمے۔ وہاں کیسے خبر ہو گی۔ حضرت اپنا سا منہ لے کر لوٹ جائیں گے۔
میر۔ بس بس آپ کو خوب سوجھی۔ واللہ کل سے گومتی پار کی ٹھہرے۔
ادھر بیگم صاحبہ سوار سے کہہ رہی تھیں۔ تم نے خوب بہروپ بھرا۔
اس نے جواب دیا۔ ایسے گاؤدیوں کو تو چٹکیوں پر نچاتا ہوں۔ اس کی ساری نقل اور ہمت تو شطرنج نے چر لی۔ اب دیکھ لینا جو کبھی بھول کر بھی گھر رہے صبح کا گیا پھر رات کو آئے گا۔
اس دن سے دونوں دوست منہ اندھیرے گھر سے نکل کھڑے ہوتے اور بغل میں ایک چھوٹی سی دری دبائے۔ ڈبّے میں گلوریاں بھرے گومتی پار ایک پرانی ویران مسجد میں جا بیٹھے جو شاید عہد مغلیہ کی یادگار تھی۔ راستہ میں تمباکو، مدریالے لیتے اور مسجد میں پہنچتے۔ دری بچھی۔ حقّہ بھر کر بساط پر جا بیٹھتے۔ پھر انھیں دین دنیا کی فکر نہ رہتی تھی۔ کشت، شہ، پٹو لیا۔ ان الفاظ کے سوا ان کے منہ سے اور کوئی کلمہ نہ نکلتا تھا۔ کوئی چلہ کش بھی اتنے استغراق کی حالت میں نہ بیٹھتا تھا۔ دوپہر کو جب بھوک معلوم ہوتی تو دونوں حضرت گلیوں میں ہوتے ہوئے کسی نانبائی کی دکان پر کھانا کھا لیتے اور چلم حقّہ پی کر پھر شطرنج بازی۔ کبھی کبھی تو انھیں کھانے کی سدھ نہ رہتی تھی۔
ادھر ملک میں سیاسی پیچیدگیاں روز بروز پیچیدہ ہوتی جاتی تھیں۔ کمپنی کی فوجیں لکھنؤ کی طرف بڑھی چلی آتی تھیں۔ شہر میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ لوگ اپنے اپنے بال بچوں کو لے کر دیہاتوں میں بھاگے جا رہے تھے۔ پر ہمارے دونوں شطرنج باز دوستوں کو غم دزد اور غم کالا سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ وہ گھر سے چلتے تو گلیوں میں ہو جاتے کہ کہیں کسی کی نگاہ نہ پڑ جائے۔ محلے والوں کو بھی ان کی صورت نہ دکھائی دیتی تھی۔ یہاں تک کہ انگریزی فوجیں لکھنؤ کے قریب پہنچ گئیں۔
ایک دن دونوں احباب بیٹھے بازی کھیل رہے تھے۔ میر صاحب کی بازی کچھ کمزور تھی۔ مرزا صاحب انھیں کشت پر کشت دے رہے تھے کہ دفعتاً کمپنی کی فوج سڑک پر سے آتی ہوئی دکھائی دی۔ کمپنی نے لکھنؤ پر تصرف کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ قرض کی علّت میں سلطنت ہضم کر لینا چاہتی تھی۔ وہی مہاجنی چال چلی۔ جس سے آج ساری کمزور قومیں پا بہ زنجیر ہو رہی ہیں۔
میر صاحب انگریزی فوجیں آ رہی ہیں۔
مرزا آنے دیجئے۔ کشت بچائیے۔ یہ کشت۔
میر۔ ذرا دیکھنا چاہیے۔ آڑ سے دیکھیں کیسے قوی ہیکل جوان ہیں دیکھ کر سینہ تھر اتا ہے۔
مرزا۔ دیکھ لیجئے گا کیا جلدی ہے پھر کشت۔
میر۔ توپ خانہ بھی ہے کوئی پانچ ہزار آدمی ہوں گے۔ سرخ چہرہ جیسے لال بندر۔
مرزا۔ جناب حیلے نہ کیجئے۔ یہ کشت۔
میر۔ آپ بھی عجیب آدمی ہیں۔ خیال تو کیجئے۔ شہر کا محاصرہ ہو گیا تو گھر کیسے چلیں گے۔
مرزا۔ جب گھر چلنے کا وقت آئے گا۔ تو دیکھی جائے گی۔ یہ کشت اور مات۔
فوج نکل گئی۔ یاروں نے دوسری بازی بچھا دی۔ مرزا جی بولے آج کھانے کی کیسی رہے گی۔
میر۔ آج روزہ ہے کیا آپ کو زیادہ بھوک لگی ہے۔
مرزا۔ جی نہیں۔ شہر میں نامعلوم کیا ہو رہا ہو گا۔
میر۔ شہر میں کچھ نہیں ہو رہا ہو گا۔ لوگ کھانے سے فارغ ہو کر آرام کر رہے ہوں گے۔
حضور جانِ عالم بھی استراحت فرماتے ہوں گے یا شاید ساغر کا دور چل رہا ہو گا۔
اب کے دونوں دوست کھیلنے بیٹھے تو تین بج گئے اب کے مرزا جی کی بازی کمزور تھی۔ اسی اثنا میں فوج کی واپسی کی آہٹ ملی۔ نواب واجد علی شاہ معز ول کر دئیے گئے تھے۔ اور فوج انھیں گرفتار کیے لیے جاتی تھی۔ شہر میں کوئی ہنگامہ نہ ہوا۔ نہ کشت و خون یہاں تک کہ کسی جانباز نے ایک قطرہ خون بھی نہ بہایا۔ نواب گھر سے اس طرح رخصت ہوئے جیسے لڑکی روتی پیٹتی سسرال جاتی ہے۔ بیگمیں روئیں، نواب روئے، مامائیں مغلانیاں روئیں اور بس سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ ازل سے کسی بادشاہ کی معزولی اتنی صلح آمیز، اتنی بے ضرر نہ ہوئی ہو گی۔ کم از کم تاریخ میں اس کی نظیر نہیں۔ یہ وہ اہنسا نہ تھی جس پر ملائک خوش ہوتے ہیں۔ یہ وہ پست ہمتی، وہ نامردی تھی جس پر دیویاں روتی ہیں۔ لکھنؤ کا فرمانروا قیدی بنا چلا جاتا تھا اور لکھنؤ عیش کی نیند میں مست تھا۔ یہ سیاسی زوال کی انتہائی حد تھی۔
مرزا نے کہا۔ حضور عالی کو ظالموں نے قید کر لیا ہے۔
میر۔ ہو گا۔ آپ کوئی قاضی ہیں یہ لیجئے شہ۔
مرزا۔ حضرت ذرا ٹھہرئیے۔ اس وقت بازی کی طرف طبیعت نہیں مائل ہوتی۔
حضور عالی خوں کے آنسو روتے جاتے ہوں گے۔ لکھنؤ کا چراغ آج گل ہو گیا۔
میر۔ رونا ہی چاہئے۔ یہ عیش قید فرنگ میں کہاں میسر۔ یہ شہ۔
مرزا۔ کسی کے دن ہمیشہ برابر نہیں جاتے۔ کتنی سخت مصیبت میں ہے، بلائے آسمانی۔
میر۔ ہاں ہے ہی۔ پھر کشت بس دوسری کشت میں مات ہے۔ بچ نہیں سکتے۔
مرزا۔ آپ بڑے بے درد ہیں۔ واللہ ایسا حادثہ جانکاہ دیکھ کر آپ کو صدمہ نہیں ہوتا۔ ہائے حضور جان عالم کے بعد اب کمال کا کوئی قدر دان نہ رہا۔ لکھنؤ ویران ہو گیا۔
میر۔ پہلے اپنے بادشاہ کی جان بچائیے پھر حضور پُر نور کا ماتم کیجئے۔ یہ کشت اور مات، لانا ہاتھ۔
نواب کو لیے ہوئے فوج سامنے سے نکل گئی۔ ان کے جاتے ہی مرزا جی نے نئی بازی بچھا دی۔ ہار کی چوٹ بُری ہوتی ہے۔ میر صاحب نے کہا آئیے نواب صاحب کی حالتِ زار پر ایک مرثیہ کہہ ڈالیں۔ لیکن مرزا جی کی وفاداری اور اطاعت شعاری اپنی ہار کے ساتھ غائب ہو گئی تھی۔ وہ شکست کا انتقام لینے کے لیے بے صبر ہو رہے تھے۔
شام ہو گئی مسجد کے کھنڈر میں چمگاڈروں نے اذان دینا شروع کر دی، ابابیلیں اپنے اپنے گھونسلوں سے چمٹ کر نماز مغرب ادا کرنے لگیں۔ پر دونوں کھلاڑی بازی پر ڈٹے ہوئے تھے۔ گویا وہ خون کے پیاسے سورما موت کی بازی کھیل رہے ہوں۔ مرزا متواتر تین بازیاں ہار چکے تھے اب چوتھی بازی کا بھی رنگ اچھا نہ تھا وہ بار بار جیتنے کا مستقل ارادہ کر کے خوب سنبھل کر طبیعت پر زور دے دے کر کھیلتے تھے لیکن ایک نہ ایک چال ایسی خراب پڑ جاتی تھی کہ ساری بازی بگڑ جاتی۔ ادھر میر صاحب غزلیں پڑھتے تھے۔ ٹھمریاں گاتے تھے چٹکیاں لیتے تھے۔ آوازیں کستے تھے۔ ضلع اور جگت میں کمال دکھاتے تھے ایسے خوش تھے گویا کوئی دفینہ ہاتھ آ گیا ہے۔ مرزا صاحب ان کی یہ خوش فہمیاں سن سن کر جھنجلاتے تھے اور بار بار تیور چڑھا کر کہتے آپ چال نہ تبدیل کیا کیجئے۔ یہ کیا کہ چال چلے اور فوراً بدل دی۔ جو کچھ کرنا ہو ایک بار خوب غور کر کے کیجئے۔ جناب آپ مہرے پر انگلی کیوں رکھے رہتے ہیں۔ مہرے کو بے لاگ چھوڑ دیا کیجئے۔ جب تک چال کا فیصلہ نہ ہو جائے مہرے کو ہاتھ نہ لگایا کیجئے۔ حضرت آپ ایک چال آدھ آدھ گھنٹے میں کیوں چلتے ہیں۔ اس کی سند نہیں جس کی ایک چال میں پانچ منٹ سے زیادہ لگے۔ اس کی مات سمجھی جائے۔ پھر آپ نے چال بدلی۔ مہرہ وہیں رکھ دیجئے۔
میر صاحب کا فرزین پٹا جاتا تھا۔ بولے میں نے چال چلی کب تھی۔
مرزا۔ آپ کی چال ہو چکی ہے خیریت اس میں ہے کہ مہرہ اسی گھر میں رکھ دیجئے۔
میر۔ اس گھر میں کیوں رکھوں؟ میں نے مہرے کو ہاتھ سے چھوا کب تھا۔
مرزا۔ آپ قیامت تک مہرے کو نہ چھوئیں تو کیا چال ہی نہ ہو گی۔ فرزین پٹتے دیکھا تو دھاندلی کرنے لگے۔
میر۔ دھاندلی آپ کرتے ہیں۔ ہار جیت تقدیر سے ہوتی ہے۔ دھاندلی کرنے سے کوئی نہیں جیتا۔
مرزا۔ یہ بازی آپ کی مات ہو گی۔
میر۔ میری مات کیوں ہونے لگی۔
مرزا۔ تو آپ مہرہ اس گھر میں رکھ دیجئے جہاں پہلے رکھا تھا۔
میر۔ وہاں کیوں رکھوں۔ نہیں رکھتا۔
مرزا۔ آپ کو رکھنا پڑے گا۔
میر۔ ہر گز نہیں۔
مرزا۔ رکھیں گے تو آپ کے فرشتے۔ آپ کی حقیقت ہی کیا ہے۔
بات بڑھ گئی دونوں اپنے ٹیک کے دھنی تھے، نہ یہ دبتا تھا نہ وہ۔ تکرار میں لا محالہ غیر متعلق باتیں ہونے لگتی ہیں جن کا منشا ذلیل اور خفیف کرنا ہوتا ہے۔ مرزا جی نے فرمایا اگر خاندان میں کسی نے شطرنج کھیلا ہوتا تو آپ آئین اور قاعدے سے واقف ہوتے۔ وہ ہمیشہ گھانس چھیلا کیے۔ آپ کیا کھا کر شطرنج کھیلیے گا۔ ریاست شے دیگر ہے۔ جاگیر مل جانے سے کوئی رئیس نہیں ہو جاتا۔
میر۔ گھانس آپ کے ابّا جان چھیلتے ہوں گے۔ یہاں تو شطرنج کھیلتے پیڑھیاں اور پشتیں گذر گئیں۔
مرزا۔ اجی جائیے۔ نواب غازی الدین کے یہاں باورچی گیری کرتے کرتے عمر گذر گئی۔ اس طفیل میں جاگیر پا گئے۔ آج رئیس بننے کا شوق چڑھ آیا ہے۔ رئیس بننادل لگی نہیں ہے۔
میر۔ کیوں اپنے بزرگوں کے منہ کالکھ لگا رہے ہو۔ وہی باورچی رہے ہوں گے۔ ہمارے بزرگ تو نواب کے دسترخوان پر بیٹھتے تھے۔ ہم نوالہ وہم پیالہ تھے۔
مرزا۔ بے حیاؤں کو شرم بھی نہیں آتی۔
میر۔ زبان سنبھالیے۔ ورنہ بُرا ہو گا۔ ایسی باتیں سننے کے عادی نہیں ہیں کسی نے آنکھ دکھائی اور ہم نے دیا تلا ہوا ہاتھ۔ بھنڈار کھل گئے۔
مرزا۔ آپ ہمارے حوصلے دیکھیں گے۔ تو سنبھل جائیے۔ تقدیر آزمائی ہو جائے ادھر یا ادھر۔
میر۔ ہاں آ جاؤ۔ تم سے دبتا کون ہے۔
دونوں دوستوں نے کمر سے تلواریں نکال لیں۔ ان دنوں ادنی و اعلیٰ سبھی کٹار خنجر، قبض، شیر پنجہ باندھتے تھے۔ دونوں عیش کے بندے تھے۔ مگر بے غیرت نہ تھے۔ قوی دلیری ان میں عنقا تھی۔ مگر ذاتی دلیری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کے سیاسی جذبات فنا ہو گئے تھے۔ بادشاہ کے لیے، سلطنت کے لیے، قوم کے لیے کیوں مریں۔ کیوں کر اپنی میٹھی نیند میں خلل ڈالیں۔ مگر انفرادی جذبات میں مطلق خوف نہ تھا۔ بلکہ وہ قوی تر ہو گئے تھے۔ دونوں نے پینترے بدلے۔ لکڑی اور گتکہ کھیلے ہوئے تھے۔ تلواریں چمکیں۔ چھپا چھپ کی آواز آئی۔ دونوں زخم کھا کر گر پڑے۔ دونوں نے وہیں تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ اپنے بادشاہ کے لیے جن کی آنکھوں سے ایک بوند آنسو کی نہ گری۔ انھیں دونوں آدمیوں نے شطرنج کے وزیر کے لیے اپنی گردنیں کٹا دیں۔
اندھیرا ہو گیا تھا۔ بازی بچھی ہوئی تھی۔ دونوں بادشاہ اپنے اپنے تخت پر رونق افروز تھے۔ ان پر حسرت چھائی ہوئی تھی۔ گویا مقتولین کی موت کا ماتم کر رہے تھے۔
چاروں طرف سنّاٹے کا عالم تھا۔ کھنڈر کی پوشیدہ دیواریں اور خستہ حال کنگورے اور سر بسجود مینار ان لاشوں کو دیکھتے تھے اور انسانی زندگی کی بے ثباتی پر افسوس کرتے تھے جس میں سنگ و خشت کا ثبات بھی نہیں۔
٭٭٭
سوا سیر گیہوں
کسی گاؤں میں شنکر نامی ایک کسان رہتا تھا۔ سیدھا سادا غریب آدمی تھا۔ اپنے کام سے کام، نہ کسی کے لینے میں نہ کسی کے دینے میں۔ چھکا پنجا نہ جانتا تھا۔ چھل کپٹ کی اسے چھوت بھی نہ لگی تھی۔ ٹھگے جانے کی فکر نہ تھی۔ ودیا نہ جانتا تھا۔ کھانا ملا تو کھا لیا نہ ملا تو چربن پر قناعت کی۔ چربن بھی نہ ملا تو پانی لیا اور رام کا نام لے کر سو رہا۔ مگر جب کوئی مہمان دروازے پر آ جاتا تو اسے یہ استغنا کا راستہ ترک کر دینا پڑتا تھا۔ خصوصاً جب کوئی سادھو مہاتما آ جاتے تھے تو اسے لازماً دنیاوی باتوں کا سہارا لینا پڑتا۔ خود بھوکا سو سکتا تھا مگر سادھو کو کیسے بھوکا سلاتا۔ بھگو ان کے بھگت جو ٹھہرے۔
ایک روز شام کو ایک مہاتما نے آ کر اس کے دروازے پر ڈیرا جما دیا۔ چہرے پر جلال تھا۔ پیتا میر گلے میں، جٹا سر پر، پیتل کا کمنڈل ہاتھ میں، کھڑاؤں پیر میں، عینک آنکھوں پر۔ غرض کہ پورا بھیس ان مہاتما کا سا تھا جو رؤسا کے محلوں میں ریاضت، ہوا گاڑیوں پر مندروں کا طواف اور یوگ (مراقبہ) میں کمال حال کرنے کے لیے لذیذ غذائیں کھا تے ہیں۔ گھر میں جو کا آٹا تھا وہ انہیں کیسے کھلاتا؟ زمانۂ قدیم میں جو کی خواہ کچھ اہمیت رہی ہو، مگر زمانہ حال میں جو کی خورش مہاتما لوگوں کے لیے ثقیل اور دیر ہضم ہوئی ہے۔ بڑی فکر ہوئی کہ مہاتما جی کو کیا کھلاؤں؟ آخر طے کیا کہ کہیں سے گیہوں کا آٹا ادھار لاؤں۔ گاؤں بھر میں گیہوں کا آٹا نہ ملا۔ گاؤں بھر میں سب آدمی ہی آدمی تھے، دیوتا ایک بھی نہ تھا، دیوتاؤں کو خورش کیسے ملتی؟ خوش قسمی سے گاؤں کے پر وہت جی کے یہاں تھو ڑے سے گیہوں مل گئے۔ ان سے سوا سیر گیہوں ادھار لیے اور بیوی سے کہا کہ پیس دے۔ مہاتما نے کھایا۔ لمبی تان کر سوئے اور صبح آشیر واد دے کر اپنا راستہ لیا۔
پروہت جی سال میں دو بار کھلیانی لیا کرتے تھے۔ شنکر نے دل میں کہا کہ سوا سیر گیہوں کیا لوٹاؤں۔ پنسیری کے بدلے کچھ زیادہ کھلیانی دے دوں گا۔ وہ بھی سمجھ جائیں گے، میں بھی سمجھ جاؤں گا۔ چیت میں جب پروہت جی پہنچے تو انھیں ڈیڑھ پنسیری کے قریب گیہوں دے دیے اور اپنے کو سبکدوش سمجھ کر اس کا کوئی تذکرہ نہ کیا۔ پروہت جی نے بھی پھر کبھی نہ مانگا۔ سیدھے سادے شنکر کو کیا معلوم کہ یہ سوا سیر گیہوں چکانے کے لیے مجھے دوبارہ جنم لینا پڑے گا۔
سات سال گذر گئے۔ پروہت جی برہمن سے مہاجن ہوئے۔ شنکر کسان سے مزور ہو گیا۔ اس کا چھوٹا بھائی منگل اس سے الگ ہو گیا تھا۔ ایک ساتھ رہ کر دونوں کسان تھے، الگ ہو کر دونوں مزدور ہو گئے تھے۔ شنکر نے بہت چاہا کہ نفاق کی آگ بھڑکنے نہ پاوے۔ مگر حالت نے اس کو مجبور کر دیا۔ جس وقت الگ چولھے جلے وہ پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ آج سے بھائی بھائی دشمن ہو جائیں گے۔ ایک روئے تو دوسرا ہنسے گا، ایک کے گھر میں غمی ہو گی تو دوسرے کے گھر گلگلے پکیں گے۔ محبت کا رشتہ، دودھ کا رشتہ آج ٹوٹا جاتا ہے۔ اس نے سخت محنت کر کے خاندانی عزت کا یہ درخت لگایا تھا۔ اسے اپنے خون سے سینچا تھا، اس کا جڑ سے اکھڑنا دیکھ کر اس کے دل کے ٹکڑے ہوئے جاتے تھے۔ سات روز تک اس نے دانے کی صورت بھی نہ دیکھی۔ دن بھر جیٹھ کی دھوپ میں کام کرتا اور رات میں لپیٹ کرسو رہتا۔ اس سخت رنج اور ناقابل برداشت تکلیف نے خون کو جلایا دیا، گوشت اور چربی کو گھُلا دیا۔ بیمار پڑا تو مہینوں چار پائی سے نہ اٹھا۔ اب گزر بسر کیسے ہو؟ پانچ بیگھے کے آدھے کھیت رہ گئے، ایک بیل رہ گیا۔ کھیتی کیا خاک ہوتی۔ آخر یہاں تک نوبت پہنچی کہ کھیتی صرف نام بھر کو رہ گئی۔ معاش کا سارا بھار مزدوری پر آ پڑا۔
سات سال گزر گئے۔ ایک دن شنکر مزدوری کر کے لوٹا تو راستہ میں پروہت جی نے ٹوک کر کہا۔ شنکر کل آ کے اپنے بیج بینک کا حساب کر لے۔ تیرے یہاں ساڑھے پانچ من گیہوں کب سے باقی پڑے ہیں اور تو دینے کا نام نہیں لیتا۔ کیا ہضم کرنے کا ارادہ ہے؟‘‘۔
شنکر نے تعجب سے کہا ’’میں نے تم سے کب گیہوں لیے تھے کہ ساڑھے پانچ من ہو گئے؟ تم بھولتے ہو، میرے یہاں نہ کسی چھٹانک بھر اناج ہے، نہ ایک پیسہ ادھار‘‘۔
پروہت۔ ’’اسی نیت کا تو یہ پھل بھوگ رہے ہو کھانے کو نہیں جڑتا۔
یہ کہہ پروہت جی نے اس کا سوا سیر گیہوں کا ذکر کیا جو آج سے سات سال قبل شنکر کو دیے تھے۔ شنکر سن کر ساکت رہ گیا۔ میں نے کتنی بار انہیں کھلیانی دی۔ انہوں نے میرا کون سا کام کیا۔ جب پوتھی پترا دیکھنے، ساعت شگون بچارنے دوار پر آتے تھے تو کچھ نہ کچھ دچھنا لے ہی جاتے تھے۔ اتنا سوارتھ۔ سوا سیر اناج کو لے انڈے کی طرح یہ بھوت کھڑا کر دیا۔ جو مجھے نگل ہی جائے گا۔ اتنے دنوں میں ایک بار بھی کہہ دیتے تو گیہوں دے ہی دیتا۔ کیا اسی نیت سے چپ بیٹھے رہے۔ بولا۔ ’’مہاراج نام لے کر تو میں نے اتنا اناج نہیں دیا، مگر کئی بار کھلیانی میں سیر سیر، دو دو سیر دے دیا ہے۔ اب آپ آج ساڑھے پانچ من مانگتے ہو، میں کہاں سے دوں گا؟
پروہت۔ ’’لیکھا جَو جَو۔ بکسیس سو سو۔ تم نے جو کچھ دیا ہو گا، کھلیانی میں دیا ہو گا، اس کا کوئی حساب نہیں۔ چاہے ایک کی جگہ چار پنسیری دے، تمہارے نام ہی میں ساڑھے پانچ من لکھا ہوا۔ جس سے چاہے حساب لگوا لو۔ دے دو تو تمہارا نام جھیک (کاٹ) دوں، نہیں تو اور بڑھتا رہے گا‘‘۔
شنکر ’’پانڈے! کیوں ایک غریب کو ستانے ہو میرے کھانے کا ٹھکانا نہیں، اتنا گیہوں کس کے گھر سے دوں گا‘‘۔
پروہت۔ ’’جس کے گھر سے چاہے لاؤ، میں چھٹانک بھر بھی نہ چھوڑوں گا۔ یہاں نہ دو گے، بھگوان کے گھر تو دو گے‘‘۔
شنکر کانپ اٹھا۔ ہم پڑھے لکھے لوگ ہوتے تو کہہ دیتے۔ ’’اچھی بات ہے، ایشور کے گھر ہی دیں گے وہاں کی تول یہاں سے کچھ بڑی تو نہ ہو گی۔ کم سے کم اس کا کوئی ثبوت ہمارے پاس نہیں۔ پھر اس کی کیا فکر؟‘‘ مگر شنکر اتنا عقل مند، اتنا چالاک نہ تھا۔ ایک تو قرض، وہ بھی بڑہمن کا! بہی میں نام رہے گا تو سید ہے نرک میں جاؤں گا۔ اس خیال سے ہی اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ بو لا۔ مہاراج تمہار اجتنا ہو گایہیں دوں گا۔ ایشور کے یہاں کیوں دوں؟ اس جنم میں تو ٹھوکر کھا ہی رہا ہوں اس جنم کے لیے کیوں کا نٹے بوؤں؟ مگر یہ کوئی نیائے نہیں ہے۔ تم نے رائی کا پر بت بنا دیا۔ برہمن ہو کے تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہتے تھا۔ اسی گھڑی تقاضا کر کے لیا ہوتا تو آج میرے اوپر بڑا بوجھ کیوں پڑتا؟ میں تو دے دوں گا، لیکن تمہیں بھگوان کے یہاں جواب دینا پڑے گا؟
پروہت: ’’وہاں کا ڈر تمہیں ہو گا۔ مجھے کیوں ہونے لگا۔ وہاں تو سب اپنے ہی بھائی بند ہیں۔ رشی مُنی سب تو برہمن ہی ہیں۔ کچھ بنے بگڑے گی، سنبھال لیں گے۔ تو کب دیتے ہو؟۔‘‘
شنکر۔ ’’میرے پاس دھرا تو ہے نہیں، کسی سے مانگ جا نچ کر لاؤں گا تبھی دوں گا‘‘۔
پروہت۔ ’’میں یہ مانوں گا۔ سات سال ہو گئے۔ اب ایک کا بھی ملاحظہ نہ کروں گا۔ گیہوں نہیں دے سکتے تو دستاویز لکھ دو۔
شنکر۔ ’’مجھے تو دینا ہے۔ چاہے گیہوں لے لو۔ چاہے دستاویز لکھاؤ کس حساب سے دام رکھو گے؟
پروہت۔ ’’جب دے ہی رہا ہوں تو بازار بھاؤ کاٹوں گا۔ پاؤ بھر چھڑا کر کیوں بُرا بنوں‘‘۔
حساب لگایا گیا تو گیہوں کی قیمت ساٹھ روپیہ بنی۔ ساٹھ کا دستاویز لکھا گیا۔ تین روپیہ سیکڑہ سود۔ سال بھر میں نہ دینے پر سود کی شرح ساڑھے تین روپے سیکڑہ۔ آٹھ آنے کا اسٹامپ، ایک روپیہ دستاویز کی تحریر شنکر کو علیحدہ دینی پڑی۔
سارے گاؤں نے پروہت جی کی مذمت کی مگر سامنے نہیں۔ مہاجن سے سبھی کو کام پڑتا ہے اس کے منہ کون لگے؟
شنکر نے سال بھر تک سخت ریاضت کی میعاد سے قبل اس نے روپیہ ادا کرنے کا برَت سا کر لیا۔ دوپہر کو پہلے بھی چولھا نہ جلتا تھا، صرف چربن پر بسر ہوتی تھی۔ اب وہ بھی بند ہوا۔ صرف لڑکے کے لیے رات کو روٹیاں رکھ دی جاتیں۔ ایک پیسہ کی تمباکو روز پی جاتا تھا۔ یہی ایک لت تھی جسے وہ کبھی نہ چھوڑ سکا تھا۔ اب وہ بھی اس کٹھن برت کے بھینٹ ہو گئی۔ اس نے چلم پٹک دی، حقہ توڑ دیا اور تمباکو کی ہانڈی چور چور کر ڈالی۔ کپڑے پہلے بھی ترک کی انتہائی حد تک پہنچ چکے تھے۔ اب وہ باریک ترین قدرتی کپڑوں میں منسلک ہو گئے۔ ماگھ کی ہڈیوں تک میں سرایت کر جانے والی سردی کو اس نے آگ کے سہارے کاٹ دیا۔
اس اٹل ارادے کا نتیجہ امید سے بڑھ کر نکلا۔ سال کے آخر تک اس کے پاس ساٹھ روپے جمع ہو گئے۔ اس نے سمجھا کہ پنڈت جی کو اتنے روپے دے دوں گا اور کہوں گا مہاراج باقی روپے بھی جلدی آپ کے سامنے حاضر کر دوں گا۔ پندرہ کی تو اور بات ہے۔ کیا پنڈت جی اتنا بھی نہ مانیں گے۔ اس نے روپے لیے اور لے جا کر پنڈت جی کے قدموں پر رکھ دیے۔
پنڈت جی نے متعجب ہو کر پوچھا۔ ’’کسی سے ادھار لیا کیا؟‘‘
’’شنکر‘‘۔ نہیں مہاراج! آپ کی اسیس سے اب کی مجوری اچھی ملی‘‘۔
پنڈت جی، ’’لیکن یہ تو ساٹھ ہی ہیں‘‘۔
شنکر۔ ’’ہاں مہاراج! اتنے ابھی لے لیجیے۔ باقی دو تین مہینے میں دے دوں گا۔ مجھے ارن کر دیجیے‘‘۔
پنڈت جی۔ ’’ارن تو جبھی ہوں گے، جب میری کوڑی کوڑی چکا دو گے؟ جا کر میرے پندرہ اور لاؤ‘‘۔
شنکر۔ ’’مہاراج! اتنی دیا کرو۔ اب سانجھ کی روٹیوں کا بھی ٹھکانا نہیں ہے۔ گاؤں میں ہوں تو کبھی نہ کبھی دے ہی دوں گا‘‘۔
پنڈت۔ ’’میں یہ روگ نہیں پالتا۔ نہ بہت باتیں کرنا جانتا ہوں۔ اگر میرے پورے روپے نہ ملیں گے تو آج سے ساڑھے تین روپے سیکڑہ کا بیاج چلے گا۔ اتنے روپے چاہے اپنے گھر میں رکھو چاہے میرے یہاں چھوڑ جاؤ‘‘۔
شنکر۔ ’’اچھا، جتنا لایا ہوں، اتنا رکھ لیجیے۔ میں جاتا ہوں، کہیں سے پندرہ اور لانے کی فکر کرتا ہوں‘‘۔
شنکر نے سارا گاؤں چھان مارا مگر کسی نے روپے نہ دیے۔ اس لیے نہیں کہ اس کا اعتبار نہ تھا، یا کسی کے پاس روپے نہ تھے، بلکہ پنڈت جی کے شکار کو چھیڑنے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔
عمل کے بعد رد عمل کا قدرتی قاعدہ ہے۔ شنکر سال بھر تک تپسیا کرنے پر بھی جب قرض بیباق کرنے میں کامیاب نہ ہوا تو اس کی احتیاط مایوسی کی شکل میں تبدیل ہو گئی۔ اس نے سمجھ لیا کہ جب اتنی تکلیف اٹھانے پر سال بھر میں ساٹھ روپے سے زیادہ نہ جمع کر سکا تو اب کون سا اپائے ہے جس سے اس کے دونے روپے جمع ہوں۔ جب سر پر قرض کا بو جھ ہی لدنا ہے تو کیا من بھر اور کیا سوا من کا۔ اس کی ہمت پست ہو گئی محنت سے نفرت ہو گئی۔ امید ہی حوصلہ کی پیدا کرنے والی ہے۔ امید میں رونق ہے، طاقت ہے، زندگی ہے، امید ہی دنیا کی متحرک کرنے والی قوت ہے۔ شنکر مایوس ہو کر بے پروا ہو گیا۔ وہ ضرورتیں جن کو اس نے سال بھر تک ٹال رکھا تھا۔ اب دروازے پر کھڑی ہونے والی بھکارنیں نہ تھیں، بلکہ سر پر سوار ہونے والی چڑیلیں تھیں جو اپنا چڑھاوا لیے بغیر جان ہی نہیں چھوڑتیں۔ کپڑوں میں پیوند لگنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اب شنکر کو حساب ملتا تو روپے جمع نہ کرتا۔ کبھی کپڑے لاتا اور کبھی کھانے کی کوئی چیز۔ جہاں پہلے تمباکو پیا کرتا تھا وہاں اب گانجہ اور چرس کا چسکا بھی لگا۔ اسے اب روپے ادا کرنے کی کوئی فکر نہ تھی۔ گویا اس پر کسی کا ایک پیسہ بھی نہ تھا۔ پہلے لرزہ آ جانے پر بھی وہ کام کرنے ضرور جاتا تھا۔ اب کام پر نہ جانے کا بہانہ تلاش کیا کرتا۔
اس طرح تین سال گزر گئے۔ پنڈت جی مہاراج نے ایک بار بھی تقاضا نہ کیا۔ وہ ہوشیاری شکاری کی طرح تیر بہ ہدف نشانہ لگانا چاہتے تھے۔ پہلے سے شکار کو بھڑکا دینا ان کے شیوہ کے خلاف تھا۔
ایک روز پنڈت جی نے شنکر کو بلایا۔ حساب دکھایا۔ ساٹھ روپے جمع تھے وہ منہا کرنے پر بھی اب شنکر کے ذمے ایک سو بیس روپے نکلے۔
’’اتنے روپے تو اسی جنم میں دوں گا۔ اس جنم میں نہیں ہو سکتا؟‘‘
پنڈت۔ ’’میں اسی جنم میں لوں گا۔ اصل نہ سہی سود تو دینا ہی پڑے گا‘‘۔
شنکر۔ ’’ایک بیل ہے وہ لے لیجیے۔ ایک جھونپڑی ہے، وہ لے لیجیے اور میرے پاس رکھا کیا ہے؟‘‘۔
پنڈت۔ ’’مجھے بیل بدہیا لے کر کیا کرنا ہے۔ مجھے دینے کو تمہارے پاس بہت کچھ ہے‘‘۔
شنکر۔ ’’اور کیا ہے مہاراج‘‘۔
پنڈت۔ ’’کچھ نہیں ہے، تم تو ہو؟ آخر تم بھی کہیں مزدوری کرنے ہی جاتے ہو۔ مجھے بھی کھیتی کرنے کے لیے ایک مزدور رکھنا ہی پڑتا ہے۔ سود میں تم ہمارے یہاں کام کیا کرو۔ جب سبھیتا ہو اصل بھی دے دینا۔ سچ تو یہ ہے کہ اب تم دوسری جگہ کام کرنے کے لیے جا نہیں سکتے۔ جب تک میرے روپے نہ چکا دو۔ تمہارے پاس کوئی جائیداد نہیں ہے۔ اتنی بڑی گٹھری میں کس اعتبار پر چھوڑ دوں؟ کون اس کا ذمہ لے گا تم مجھے مہینے مہینے سود دیے جاؤ گے۔ اور کہیں کما کر جب تم مجھے سود بھی نہیں دے سکتے تو اصل کی کون کہے؟‘‘۔
شنکر۔ ’’مہاراج! سود میں تو کام کروں گا اور کھاؤ گا کیا؟‘‘۔
پنڈت ’’تمہاری گھر والی ہے، لڑکے ہیں۔ کیا وہ ہاتھ پیر کٹا بیٹھیں گے۔ تمہیں آدھ سیر جو روز چربن کے لیے دے دیا کروں گا۔ اوڑھنے کے لیے سال میں کمبل پا جاؤ گے۔ ایک سلوکا بھی بنو ا دیا کروں گا، اور کیا چاہیے؟ یہ سچ ہے کہ اور لوگ تمہیں چھ آنے روز دیتے ہیں لیکن مجھے ایسی غرض نہیں ہے۔ میں تو تمہیں اپنے روپے بھرانے کے لیے رکھتا ہوں‘‘۔
شنکر نے کچھ دیر تک گہرے سوچ میں پڑے رہنے کے بعد کہا۔ ’’مہاراج! یہ تو جنم بھر کی گلامی ہوئی؟۔
پنڈت۔ ’’غلامی سمجھو، چاہے مجوری سمجھو۔ میں اپنے روپے بھرائے بنا تمہیں نہ چھوڑوں گا۔ تم بھاگو گے تو تمہارا لڑکا۔ ہاں جب کوئی نہ رہے گا تب کی بات دوسری ہے‘‘۔
اس فیصلہ کی کہیں اپیل نہ تھی۔ مزدور کی ضمانت کون کرتا؟ کہیں پناہ نہ تھی؟ بھاگ کر کہاں جاتا؟ دوسرے روز سے اس نے پنڈت جی کے ہاں کام کرنا شروع کر دیا۔ سوا سیر گیہوں کی بدولت عمر بھر کے لیے غلامی کی بیڑیاں پاؤں میں ڈالنی پڑیں۔ اس بد نصیب کو اب اگر کسی خیال سے تسکین ہوتی تھی۔ تو اسی سے کہ یہ سب میرے پچھلے جنم کا بھوگ ہے۔ عورت کو وہ کام کرنے پڑے تھے جو اس نے کبھی نہ کیے تھے۔ بچے دانے دانے کو ترستے تھے، لیکن شنکر چپ دیکھنے کے سوا اور کچھ نہ کر سکتا تھا۔ وہ گیہوں کے دانے کسی دیوتا بدھا کی طرح تمام عمر اس کے سر سے نہ اترے۔
شنکر نے پنڈت جی کے یہاں بیس برس تک غلامی کرنے کے بعد اس غم کدے سے رحلت کی۔ ایک سو بیس ابھی تک اس کے سر پر سوار تھے۔ پنڈت جی نے اس غریب کو ایشور کے دربار میں تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا۔ پس انہوں نے اس کے جوان بیٹے کی گردن پکڑی۔ آج تک وہ پنڈت جی کے یہاں کام کرتا ہے۔ اس کا ادھار کب ادا ہو گا، ہو گا بھی یا نہیں، ایشور ہی جانے۔
٭٭٭
ریاست کا دیوان
مسٹر مہتہ ان بد نصیبوں میں سے تھے جو اپنے آقا کو خوش نہیں رکھ سکتے۔ وہ دل سے اپنا کام کرتے تھے بڑی یکسوئی اور ذمہ داری کے ساتھ اور یہ بھول جاتے تھے کہ وہ کام کے تو نوکر ہیں ہی اپنے آقا کے نوکر بھی ہیں۔ جب ان کے دوسرے بھائی دربار میں بیٹھے خوش گپیاں کرتے وہ دفتر میں بیٹھے کاغذوں سے سر مارتے اور اس کا نتیجہ تھا کہ جو آقا پرور تھے ان کی ترقیاں ہوتی تھیں۔ انعام و اکرام پاتے تھے اور یہ حضرت جو فرض پرور تھے راندہ درگاہ سمجھے جاتے تھے اور کسی نہ کسی الزام میں نکال لیے جاتے تھے زندگی میں تلخ تجربے انھیں کئی بار ہوئے تھے۔ اس لیے جب اب کی راجہ صاحب ستیا نے اپنے ہاں ایک معزز عہدہ دے دیا تو انھوں نے عہد کر لیا تھا کہ اب میں بھی آقا کا رخ دیکھ کر کام کروں گا اور ان کی مزاج داری کو اپنا شعار بناؤں گا۔ لگن کے ساتھ کام کرنے کا پھل پا چکا۔ اب ایسی غلطی نہ کروں گا۔ دو سال بھی نہ گزرے تھے کہ راجہ صاحب نے انھیں اپنا دیوان بنا لیا۔ ایک مختار ریاست کی دیوانی کا کیا کہنا۔ تنخواہ تو بہت کم تھی مگر اختیارات غیر محدود۔ راجہ صاحب اپنے سیر و شکار اور عیش و نشاط میں مصروف رہتے تھے ساری ذمہ داری مسٹر مہتہ پر تھی۔ ریاست کے حکام ان کے سامنے سر نیاز خم کرتے۔ رؤسا نذرانے دیتے۔ تجار سجدے بجا لاتے۔ یہاں تک کہ رانیاں بھی ان کی خوشامد کرتی تھیں۔ راجہ صاحب بھی بد مزاج آدمی تھے اور بد زبان بھی۔ کبھی کبھی سخت سست کہہ بیٹھتے۔ مگر مہتہ نے اپنا وطیرہ بنا لیا تھا۔ کہ صفائی یا عذر میں ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالتے۔ سب کچھ سر جھکا کر سن لیتے۔ راجہ صاحب کا غصّہ فرد ہو جاتا۔
گرمیوں کے دن تھے پولیٹکل ایجنٹ کا دورہ تھا ریاست میں ان کے خیر مقدم کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ راجہ صاحب نے مسٹر مہتہ کو بلا کر کہا ’’میں چاہتا ہوں کہ صاحب بہادر یہاں سے میرا کلمہ پڑھتے ہوئے جائیں۔‘‘
’’مہتہ نے سر اٹھا کر کہا ’’کوشش تو ایسی ہی کر رہا ہوں ان داتا۔‘‘
’’میں کوشش نہیں چاہتا۔ جس میں ناکامی کا پہلو بھی شامل ہے۔ قطعی وعدہ چاہتا ہوں۔‘‘
’’ایسا ہی ہو گا۔‘‘
’’روپیہ کی پرواہ مت کیجئے۔‘‘
’’جو حکم۔‘‘
کسی کی فریاد یا شکایت پر کان نہ دیجئے۔‘‘
’’جو حکم۔‘‘
’’ریاست میں جو چیز ہے وہ ریاست کی ہے آپ اس کا بے دریغ استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘
’’جو حکم۔‘‘
ادھر تو پولیٹکل ایجنٹ کی آمد تھی ادھر مسٹر مہتہ کا لڑکا جے کرشن گرمیوں کی تعطیل میں گھر آیا۔ الہ آباد یونیورسٹی میں پڑھتا تھا ایک بار 1932ء میں کوئی تقریر کرنے کے جرم میں چھ مہینے جیل ہو آیا تھا۔ اور تب سے کسی قدر خود سر ہو گیا تھا۔ مسٹر مہتہ کے تقرر کے بعد جب ریاست میں وہ پہلی بار آیا تھا تو راجہ صاحب نے بڑی بے تکلفی سے باتیں کی تھیں۔ اسے اپنے ساتھ شکار کھیلنے کے لیے لے گئے تھے۔ اور روزانہ اس کے ساتھ کھیلتے تھے جے کرشن راجہ صاحب کے قوم پرورانہ خیالات سے متاثر ہوا تھا۔ اسے معلوم ہوا تھا کہ راجہ صاحب سچّے محبِ وطن ہی نہیں انقلاب کے حامیوں میں سے ہیں۔ روس اور فرانس کے انقلاب پر دونوں میں خوب مباحثے ہوئے لیکن اب کی یہاں اس نے کچھ اور ہی رنگ دیکھا علاقہ کے ہر ایک کاشتکار اور زمیندار سے اس تقریب کے لیے جبراً چندہ وصول کیا جا رہا ہے۔ رقم کا تعین دیوان صاحب کرتے۔ وصول کرنا پولیس کا کام تھا۔ فریاد اور احتجاج کی مطلق سنوائی نہ ہوتی تھی۔ ہزاروں مزدور سرکاری عمارتوں کی صفائی سجاوٹ اور سڑکوں کی مرمت میں بے گار پھر رہے تھے۔ بنیوں سے رسد جمع کی جا رہی تھی۔ ساری ریاست میں واویلا مچا ہوا تھا۔ جے کرشن کو حیرت ہو رہی تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ راجہ صاحب کے مزاج میں اتنا تغیر کیسے ہو گیا کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ راجہ صاحب کو ان زبردستیوں کی خبر نہ ہو۔ اور انھوں نے جن تیاریوں کا حکم دیا ہو اس کی تعمیل میں کار پردازوں کی جانب سے اس سرگرمی کا اظہار کیا جا رہا ہو۔ رات بھرتو اس نے ضبط کیا اور دوسرے دن صبح ہی اس نے دیوان صاحب سے پوچھا۔ آپ نے راجہ صاحب کو ان زیادتیوں کی اطلاع نہیں دی۔؟
مسٹر مہتہ رعایا پرور آدمی تھے۔ انھیں خود ان بے عنوانیوں سے کوفت ہو رہی تھی۔ مگر حالات سے مجبور تھے بکسانہ انداز سے بولے۔ ’’راجہ صاحب کا یہی حکم ہے تو کیا کیا جائے۔؟‘‘
’’اب تو آپ کو ایسی حالت میں کنارہ کش ہو جانا چاہیے تھا۔ آپ جانتے ہیں یہ جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس کی ذمہ داری آپ کے اوپر عائد ہو رہی ہے۔ رعایا آپ ہی کو مجرم سمجھتی ہے۔‘‘
’’میں مجبور ہوں میں نے اہلکاروں سے بار بار کنایتہً کہا ہے کہ ضرورت سے زیادہ سختی نہ کی جائے۔ لیکن ہر ایک موقعہ پر میں موجود تو نہیں رہ سکتا۔ اگر زیادہ مداخلت کروں تو شاید اہلکار میری شکایت راجہ صاحب سے کر دیں۔ اہلکار ایسے ہی موقعوں کے منتظر رہتے ہیں۔ انھیں تو عوام کے لوٹنے کا کوئی بہانہ چاہیے۔ جتنا سرکاری خزانہ میں داخل کرتے ہیں اس سے زیادہ اپنے گھر میں رکھتے ہیں۔ میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘
جے کرشن کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ ’’تو آپ استعفیٰ کیوں نہیں دے دیتے۔‘‘
مسٹر مہتہ ہمدردانہ لہجہ میں بولے۔ ’’بے شک میرے لیے مناسب تو یہی تھا لیکن زندگی میں اتنے دھکے کھا چکا ہوں کہ اب برداشت کی طاقت نہیں رہی۔ میں نے طے کر لیا ہے کہ ملازمت میں ضمیر کو بے داغ نہیں رکھ سکتا۔ نیک وبد، فرض اور ایمانداری کے جھمیلوں میں پڑ کر میں نے بہت سے تلخ تجربات حاصل کیے۔ میں نے دیکھا کہ دنیا، دنیا داروں کے لیے ہے جو موقعہ و محل دیکھ کر کام کرتے ہیں۔ اصول پرستوں کے لیے دینا مناسب جگہ نہیں ہے۔‘‘
’’جے کرشن نے پوچھا۔ ’’میں راجہ صاحب کے پاس جاؤں۔؟‘‘
مہتہ نے اس سوال کا جواب نہ دے کر پوچھا۔ ’’کیا تمھارا خیال ہے راجہ صاحب کو ان واقعات کا علم نہیں؟‘‘
’’کم سے کم ان پر حقیقت تو روشن ہو جائے گی۔‘‘
’’مجھے خوف ہے تمھارے منہ سے کوئی ایسا کلمہ نہ نکل جائے جو مہاراج کی ناراضگی کا باعث ہو۔‘‘
جے کرشن نے انھیں یقین دلایا کہ اس کی جانب سے کوئی ایسی حرکت سر زد نہ ہو گی مگر اسے کیا خبر تھی کہ آج کے مہاراج صاحب وہ نہیں ہیں جو آج سے ایک سال قبل تھے۔ ممکن ہے پولیٹکل ایجنٹ کے رخصت ہو جانے کے بعد ہو جائیں۔ ان کے لیے آزادی اور انقلاب کی گفتگو بھی اسی طرح تفریح کا باعث تھی جیسے قتل اور ڈاکہ کی وارداتیں یا بازار حسن کی دل آویز خبریں۔ اس لیے جب اس نے مہاراج کی خدمت میں اطلاع کرائی تو معلوم ہوا کہ ان کی طبیعت اس وقت ناساز ہے لیکن وہ لوٹ ہی رہا تھا کہ مہاراج کو خیال آیا شاید اس سے فلمی دنیا کی تازہ خبریں معلوم ہو جائیں۔ اسے بلا لیا اور مسکرا کر بولے۔ ’’تم خوب آئے بھئی کہو تم نے ایم۔ سی۔ سی کا میچ دیکھا یا نہیں۔ میں تو ان پریشانیوں میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ ہل نہ سکا۔ اب تو یہی دعا کر رہا ہوں کہ کسی طرح ایجنٹ صاحب خوش خوش رخصت ہو جائیں۔ میں نے جو تقریر تیار کروائی ہے وہ ذرا تم بھی دیکھ لو۔ میں نے ان قومی تحریکوں کی خوب خبر لی ہے اور ہریجن تحریک کے بھی چھینٹے اڑا دیے ہیں۔‘‘
جے کرشن نے اعتراض کیا ’’لیکن ہریجن تحریک سے سرکار کو بھی اتفاق ہے اسی لیے اس نے مہاتما جی کو رہا کر دیا۔ اور جیل میں بھی انھیں اس تحریک کے متعلق لکھنے پڑھنے کی کامل آزادی دے رکھی تھی۔‘‘
راجہ صاحب نے عازماً تبسم کے ساتھ کہا۔ ’’تم ان رموز سے واقف نہیں ہو۔ یہ بھی سرکار کی ایک مصلحت ہے۔ دل میں گورنمنٹ خوب سمجھتی ہے کہ بالآخر یہ تحریک بھی قوم میں ہیجان پیدا کرے گی اور ایسی تحریکوں سے فطرتاً کوئی ہمدردی نہیں ہو سکتی۔ سرکار اس کیفیت کو بڑے غور سے دیکھ رہی ہے۔ لائلٹی میں جتنی سر گرمی کا اظہار کرو، چاہے وہ حماقت کے درجہ تک ہی کیوں نہ پہنچ جائے سرکار کبھی برا نہ مانے گی اسی طرح جیسے شعرا کی مبالغہ آمیز مدح سرائیاں ہماری خوشی کا باعث ہوتی ہیں۔ چاہے ان میں تضحیک کا پہلو کیوں نہ ہو، ہم ایسے شاعر کو خوشامدی سھیں، احمق بھی سمجھ سکتے ہیں۔ مگر ان سے ناراض نہیں ہو سکتے۔ وہ جتنا بھی مبالغہ کرے اتنا ہی ہمارے قریب آ جاتا ہے۔‘‘
راجہ صاحب نے اپنے خطبہ کی ایک خوبصورت کاپی میز کی دراز سے نکال کر جے کرشن کے ہاتھ میں رکھ دی۔ مگر جے کرشن کے لیے اب اس تقریر میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اگر وہ موقع شناس ہوتا تو ظاہر داری کے لیے ہی اس تقریر کو بڑے غور سے دیکھتا۔ اس کی عبارت آرائیوں کی داد دیتا اس کا موازنہ مہا راجہ صاحب بیکانیر یا پٹیالہ کی تقریروں سے کرتا مگر ابھی وہ ان کو چوں سے نا آشنا تھا جس چیز کو برا سمجھتا تھا اسے برا کہتا تھا، جس چیز کو اچھا، اسے اچھا۔ برے کو اچھا اور اچھے کو برا کہنا ابھی اسے نہ آیا تھا۔ اس نے تقریر پر سرسری نگاہ ڈالی۔ اور میز پر رکھ دیا۔ اور اپنی آزادی کا بگل بجاتے ہوئے بولا۔
’’میں ان عقدوں کو کیا سمجھوں گا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ حکام پکے نبض شناس ہوتے ہیں۔ اور تصنع سے مطلق متاثر نہیں ہوتے۔ بلکہ اس سے انسان ان کی نظروں میں اور بھی گر جاتا ہے۔ اگر پولیٹکل ایجنٹ کو معلوم ہو جائے کہ اس کے خیر مقدم کے لیے رعایا پر کتنے ظلم کیے جا رہے ہیں تو شاید یہاں سے خوش ہو کر نہ جائے گا۔ پھر ایجنٹ کی خوشنودی آپ کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ رعایا کو اس سے نقصان ہی ہو گا۔‘‘
راجہ صاحب دیگر فرمانرواؤں کی طرح اپنے سے زیادہ طاقتوروں کے سامنے تو انکسار کے پتلے تھے لیکن کمزوروں کی جانب سے نکتہ چینی انھیں مطلق برداشت نہ تھی۔ ان کے غصے کی ابتدائی صورت جرح ہوتی تھی۔ پھر استدلال کا درجہ آتا تھا جو فوراً تردید کی صورت اختیار کر لیتا تھا۔ اس کے بعد وہ زلزلہ کی حرکتوں میں نمودار ہوتا۔ سرخ ترچھی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بولے۔
کیا نقصان ہو گا؟ ذرا سنوں۔‘‘
جے کرشن سمجھ گیا کہ غصّہ کی مشین گن گردش میں آ گئی سنبھل کر بولا۔
’’اسے آپ مجھ سے زیادہ سمجھ سکتے ہیں۔‘‘
’’نہیں میں اتنا زود فہم نہیں ہوں۔‘‘
’’آپ بر امان جائیں گے۔‘‘
کیا تم سمجھتے ہو کہ میں بارود کا ڈھیر ہوں۔‘‘
’’بہتر ہو اگر آپ مجھ سے یہ سوال نہ کریں۔‘‘
’’تمھیں بتلانا پڑے گا اور اضطرابی طور پر ان کی مٹھیاں بندھ گئیں، فوراً اسی وقت۔‘‘
جے کرشن پر رعب کیوں طاری ہونے لگا۔ بولا۔ ’’آپ ابھی پولیٹکل ایجنٹ سے ڈرتے ہیں۔ جب وہ آپ کا ممنون ہو جائے گا۔ تب آپ مطلق العنان ہو جائیں گے اور رعایا کی فریاد سننے والا کوئی نہ رہے گا۔‘‘
راجہ صاحب شعلہ بار آنکھوں سے تاکتے ہوئے بولے۔ ’’میں ایجنٹ کا غلام نہیں ہوں کہ اس سے ڈروں۔ بالکل کوئی وجہ نہیں ہے۔ میں ایجنٹ کی محض اس لیے خاطر کرتا ہوں کہ وہ شہنشاہ کا قائم مقام ہے۔ میرے اور شہنشاہ کے درمیان برادرانہ تعلقات ہیں۔ محض آئین سلطنت کی پابندی کر رہا ہوں۔ میں ولایت جاؤں تو اسی طرح ہز میجسٹی بھی میری تواضع و تکریم کریں گے۔ میں ڈروں کیوں، میں اپنی ریاست کا خود مختار راجہ ہوں۔ جسے چاہوں پھانسی دے سکتا ہوں۔ میں کسی سے کیوں ڈرنے لگا۔ ڈرنا بزدلوں کا کام ہے میں خدا سے بھی نہیں ڈرتا۔ ڈر کیا چیز ہے۔ یہ میں آج تک نہ جان سکا۔ میں تمھاری طرح کالج کا غیر ذمّہ دار طالب علم نہیں ہوں کہ انقلاب اور آزادی کی صدا لگاتا پھروں۔ حالانکہ تم نے ان چیزوں کا محض ابھی نام سنا ہے۔ اس کے خونی مناظر آنکھوں سے نہیں دیکھے۔ تم خوش ہو گے اگر میں ایجنٹ سے پنجہ آزمائی کروں۔ میں اتنا احمق نہیں ہوں۔ اندھا نہیں ہوں۔ رعایا کی حالت کا مجھے تم سے کہیں زیادہ علم ہے۔ میں شادی و غم میں ان کا شریک اور ہمدرد رہا ہوں۔ ان سے جو محبّت مجھے ہو سکتی ہے وہ تمھیں کبھی نہیں ہو سکتی۔ تم میری رعایا کو انقلاب کے خواب دکھا کر گمراہ نہیں کر سکتے۔ تم میری ریاست میں فساد اور شورش کے بیچ نہیں بو سکتے۔ تمھیں اپنی زبان پر خاموشی کی مہر لگانی ہو گی۔‘‘
آفتاب مغرب میں ڈوب رہا تھا اور اس کی کرنیں محراب کے رنگین شیشوں سے گزر کر راجہ کے چہرہ کو اور غضبناک بنا رہی تھیں۔ ان کے بال نیلے ہو گئے تھے آنکھیں زرد تھیں۔ چہرہ سرخ اور جسم سبز ہو گیا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ دوسری دنیا کی ہیبت ناک مخلوق ہے۔ جے کرشن کی ساری انقلاب پسندی غائب ہو گئی۔ راجہ صاحب کو اتنے طیش میں اس نے کبھی نہ دیکھا تھا لیکن اس کے ساتھ اس کا مردانہ وقار اس للکار کا جواب دینے کے لیے بیتاب ہو رہا تھا۔ جیسے حلم کا جواب حلم ہے۔ ویسے ہی غصّہ کا جواب غصہ ہے۔ جب وہ رعب، خوف، لحاظ اور ادب کی بندشوں کو توڑ کر بدمست ہو کر باہر نکلتا ہے پھر چاہے وہ اس بد مستی میں سرنگوں ہی کیوں نہ ہو جائے۔ اس نے بھی راجہ صاحب کو مجروح نظروں سے دیکھ کر کہا۔
’’میں اپنی آنکھوں سے یہ ظلم و ستم دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتا۔‘‘
راجہ صاحب نے دانت پیس کر کہا۔ تمھیں بولنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘
’’ہر ذی ہوش انسان کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق ہے آپ مجھے اس سے محروم نہیں کر سکتے۔‘‘
میں سب کچھ کر سکتا ہوں۔ میں تمھیں ابھی جیل میں بند کر سکتا ہوں۔‘‘
’’آپ کو اس کا خمیازہ اٹھانا پڑے گا۔ میں آپ کی رعایا نہیں ہوں۔‘‘
اسی وقت مسٹر مہتہ نے ایک وحشت کے عالم میں کمرے میں قدم رکھا اور جے کرشن کی طرف قہر کی آنکھوں سے دیکھ کر بولے ’’کرشنا نکل جا یہاں سے، نا خلف تجھے خبر ہے تو کس سے زبان درازی کر رہا ہے۔ ابھی میری نظروں سے دور ہو جا۔ احسان فراموش کہیں کے جس تھال میں کھاتا ہے اسی میں سوراخ کرتا ہے۔ دیوانہ! اگر اب زبان کھولی تو میں تیرا خون پی جاؤں گا۔‘‘
جے کرشن ایک لمحہ تک مہتہ کے غضبناک چہرے کو حقارت آمیز نظروں سے دیکھتا رہا اور تب فاتحانہ غرور سے اکڑتا ہوا دیوان خانہ سے نکل گیا۔
راجہ صاحب نے کوچ پر لیٹ کر کہا۔ ’’چغد آدمی ہے۔ انتہا درجہ کا چغد۔ میں نہیں چاہتا کہ ایسا خطرناک آدمی میری ریاست میں ایک لمحہ بھی رہے۔ تم اس سے جا کر کہہ دو کہ اسی وقت یہاں سے نکل جائے۔ ورنہ اس کے حق میں اچھا نہ ہو گا میں خود سر کی گوشمالی کرنا جانتا ہوں۔ میں محض آپ کی مروّت سے اتنا تحمل کر گیا۔ ورنہ اسی وقت اس کی فتنہ انگیزیوں کا خاتمہ کر سکتا تھا۔ آپ کو اسی وقت فیصلہ کرنا ہو گا۔ یہاں رہنا ہے کہ نہیں، اگر رہنا منظور ہے تو طلوع سحر سے قبل اسے میرے قلم رو سے باہر نکل جانا چاہیے۔ ورنہ آپ حراست میں ہوں گے اور آپ کا مال و اسباب ضبط کر لیا جائے گا۔‘‘
مسٹر مہتہ نے خطا وارانہ انداز سے کہا۔ ’’آج ہی ارشاد کی تعمیل کروں گا۔‘‘
راجہ صاحب نے آنکھیں نکال کر کہا۔ ’’آج نہیں اسی وقت۔‘‘
مہتہ نے ذلّت کو نگل کر جواب دیا۔ ’’اسی وقت نکال دوں گا۔‘‘
راجہ صاحب بولے۔ ’’اچھی بات ہے تشریف لے جائیے اور آدھ گھنٹہ کے اندر مجھے اطلاع دیجئے۔ ’’مسٹر مہتہ گھر چلے تو انھیں جے کرشن پر بے انتہا طیش آ رہا تھا۔ احمق چلا ہے آزادی کا راگ الاپنے۔ اب بچہ کو معلوم ہو گا یہ راجے کس آب و گل کے بنے ہوتے ہیں۔ میں اس کے پیچھے دنیا میں رسوا و ذلیل نہیں ہو سکتا۔ وہ خود اپنے فعل کا خمیازہ اٹھائے۔ یہ بے عنوانیاں مجھے بری لگتی ہیں۔ جب کسی بات کا علاج میرے امکان میں نہیں تو اسی ایک معاملہ کے پیچھے کیوں اپنی زندگی خراب کر دوں۔
گھر میں قدم رکھتے ہی انھوں نے کرخت لہجہ میں پکارا۔ ’’جے کرشن۔‘‘
جے کرشن ابھی تک گھر نہ آیا تھا۔ سجاتا نے کہا۔ ’’وہ تو تم سے پہلے ہی راجہ صاحب سے ملنے گیا تھا۔ تب سے کب آیا۔ بیٹھا گپ شپ کر رہا ہو گا۔‘‘
اسی وقت ایک سپاہی نے ایک رقعہ لا کر ان کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ مہتہ نے پڑھا۔
’’اس ذلّت کے بعد میں اس ریاست میں ایک لمحہ بھی گوارا نہیں کر سکتا۔ میں جانتا ہوں آپ کو اپنا عہدہ اور اعزاز اپنے ضمیر سے زیادہ عزیز ہے۔ آپ شوق سے رہیں۔ میں پھر اس ریاست میں قدم نہ رکھوں گا۔ اماں جی سے میرا پر نام کہئے گا۔‘‘
مسٹر مہتہ نے پرزہ بیوی کے ہاتھ پر رکھ دیا اور مایوسانہ انداز سے بولے۔ اس لونڈے کو نہ جانے کب عقل آئے گی۔ جا کر مہاراجہ صاحب سے الجھ پڑا۔ وہ تو یہ کہو میں پہنچ گیا۔ ورنہ راجہ اسی وقت اسے حراست میں لے لیتے۔ یہ خود مختار راجے ہیں۔ انھیں کسی کا خوف نہیں۔ انگریزی سرکار بھی تو انھیں کی سنتی ہے۔ مگر بہت اچھا ہوا بچہ کو سبق مل گیا۔ اب معلوم ہو گیا ہو گا کہ دنیا میں کس طرح رہنا چاہیے اور اپنے جذبات پر قابو نہ رکھنے کا کیا نتیجہ ہوتا ہے۔ میں یہ تماشہ بہت دیکھ چکا اور ان خرافات کے پیچھے اپنی زندگی نہیں برباد کرنا چاہتا۔‘‘
اسی وقت وہ راجہ صاحب کو اس واقعہ کی اطلاع دینے چلے۔
ایک لمحہ میں ساری ریاست میں یہ خبر مشہور ہو گئی۔ جے کرشن اپنی غریب دوستی کے باعث عوام میں بہت مقبول تھا۔ لوگ بازاروں میں اور چورستوں پر کھڑے ہو کر اس واقعہ پر رائے زنی کرنے لگے۔ اجی وہ آدمی نہیں تھا۔ بھائی میرے کسی دیوتا کا اوتار سمجھو اسے۔ مہاراجہ صاحب سے جا کر بولا ابھی بیگار بند کیجئے۔ ورنہ شہر میں آفت آ جائے گی۔ راجہ صاحب کی تو اس کے سامنے زبان بند ہو گئی۔ صاحب بغلیں جھانکنے لگے۔ شیر ہے شیر۔ اور وہ بیگار بند کرا کے رہتا۔ راجہ صاحب کو بھاگنے کی راہ نہ ملی۔ سنا ہے گھگھیانے لگے تھے۔ مگر اسی بیچ میں دیوان صاحب نے جا کر اس کے دیس نکالے کا حکم دے دیا۔ یہ سن کر آنکھوں میں خون اتر آیا لیکن باپ کی بے عزّتی کیسے کرتا۔‘‘
’’ایسے باپ کو تو گولی مار دینی چاہیے۔ یہ باپ ہے یا دشمن۔‘‘
’’وہ کچھ بھی ہے، ہے تو باپ ہی۔‘‘
جے کرشن کی ماں کا نام سجاتا تھا۔ بیٹے کی جلا وطنی اس کے جگر میں برچھیاں چبھونے لگی۔ ابھی تو جی کھول کر اس سے باتیں بھی نہ کرنے پائی تھی سوچا تھا اس سال بیاہ رچائیں گے۔ چنی منی بہو گھر میں آئے گی۔ ادھر یہ بجلی پڑی۔ نہ جانے بے چارہ کہاں رہے گا۔ رات کو کہاں سوئے گا۔ اس کے پاس روپے بھی تو نہیں ہیں۔ غریب پاؤں پاؤں بھاگتا چلا جاتا ہو گا۔ دل میں ایسا طوفان اٹھا کہ گھر اور شہر چھوڑ چھاڑ کر ریاست سے نکل جائے۔ انھیں اپنا عہدہ پیارا ہے لے کر رکھیں۔ وہ اپنے لختِ جگر کے ساتھ فاقے کرے گی۔ اسے آنکھوں سے دیکھتی رہے گی۔ لیکن وہ جا کر فریاد کرے گی۔ انھیں بھی ایشور نے بچے دیے ہیں۔ ماں کا درد بھی ماں ہی سمجھ سکتی ہے اس سے پہلے بھی وہ کئی بار مہارانی کے قدم بوس ہو چکی تھی۔ فوراً سواری منگوائی اور مہارانی کے پاس جا پہنچی۔
مہارانی کے تیور آج بدلے ہوئے تھے منہ لٹکا ہوا تھا۔ راجہ صاحب کے اقلیم دل پر طوفان کا راج نہ تھا۔ مگر وہ ولی عہد کی ماں تھیں۔ اور یہ غرور انھیں مہاراجہ سے بے نیاز رکھنے کے لیے کافی تھا۔ بولیں ’’بہن! تمھارا لڑکا بڑا بد زبان ہے۔ ذرا بھی ادب نہیں۔ کس سے کس طرح بات کرنی چاہیے۔ اس کا اسے ذرا سلیقہ بھی نہیں۔ مہاراج نے پہلی بار ذرا اسے منہ لگایا تو اب کی سر چڑھ گیا۔ کہنے لگا۔ بیگار بند کر دیجئے۔ اور ایجنٹ صاحب کے استقبال اور مہمانداری کی کوئی تیاری نہ کیجئے۔ اتنی سمجھ اسے نہیں ہے کہ اس طرح ہیکڑی جتا کر ہم کے گھنٹے گدّی پر رہ سکتے ہیں۔ پھر یہ خیال بھی تو ہونا چاہیے کہ ایجنٹ کا رتبہ کیا ہے۔ ایجنٹ بادشاہ سلامت کا قائم مقام ہے۔ اس کی خاطر تواضع کرنا ہمارا فرض ہے۔ یہ بیگار آخر کس دن کام آئیں گے۔ اسی موقعہ کے لیے ریاست سے ان کو جاگیریں مقرر ہیں۔ رعایا میں ایسی بغاوت پھیلانا کوئی بھلے آدمی کا کام ہے۔ جس تھال میں کھاؤ اسی میں سوراخ کرو۔ مہاراجہ صاحب نے دیوان صاحب کا لحاظ کیا۔ ورنہ اسی وقت اسے حراست میں ڈال دیتے۔ وہ اب کوئی بچہ نہیں ہے۔ خاصا جوان ہے۔ سب کچھ دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ سوچو! حاکموں سے بیر کریں تو کتنے دن نباہ ہو گا۔ اس کو کیا بگڑتا ہے سو پچاس کی نوکری پا ہی جائے گا۔ یہاں تو ریاست تباہ ہو جائے گی۔‘‘
سجاتا نے آنچل پھیلا کر کہا۔
’’مہارانی بجا فرماتی ہیں مگر اب تو اس کی خطا معاف کیجئے۔ بے چارہ شرم اور خوف سے گھر نہیں گیا۔ نہ جانے کدھر نکل گیا۔ ہماری زندگی کا یہی ایک سہارا ہے۔ مہارانی ہم دونوں رو رو کر مر جائیں گے۔ آنچل پھیلا کر آپ سے بھیک مانگتی ہوں۔ اس کی خطا معاف کیجئے ماں کے درد کو آپ سے زیادہ کون سمجھے گا۔ آپ ہی میرے رنج کا اندازہ کر سکتی ہیں۔ آپ مہاراج سے سفارش کر دیں تو۔۔۔‘‘
مہارانی نے بات کاٹ کر کہا۔ ’’کیا کہتی ہو سجاتا دیوی۔ مہاراج سے اس کی سفارش کروں۔ آستین میں سانپ پالوں، تم کس منہ سے ایسی درخواست کرتی ہو اور مہاراج مجھے کیا کہیں گے۔ میں تو ایسے لڑکے کا منہ نہ دیکھتی اور تم ایسے کپوت بیٹے کی سفارش کے لے کر آئی ہو۔‘‘
’’ایک بد نصیب ماں کیا مہارانی کے دربار سے مایوس ہو کر جائے گی؟‘‘
یہ کہتے کہتے سجاتا کی آنکھیں آب گوں ہو گئیں۔ مہارانی کا غصّہ کچھ ٹھنڈا ہوا۔ مگر وہ مہاراجہ کے مزاج سے واقف تھیں۔ اس وقت وہ کوئی سفارش نہ سنیں گے۔ اس لیے مہارانی کوئی وعدہ کر کے شرمندگی کی ذلت نہ اٹھانا چاہتی تھیں۔
’’میں کچھ نہیں کر سکتی سجاتا دیوی۔‘‘
’’سفارش کا ایک لفظ بھی زبان سے نہیں نکال سکتیں۔‘‘
’’میں مجبور ہوں۔‘‘
سجاتا آنکھوں میں غصّہ کے آنسو لا کر بولی۔ ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں مظلوموں کے لیے فریاد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘
مہارانی کو رحم دیر میں آتا تھا۔ غصّہ ناک پر رہتا تھا گرم ہو کر بولیں۔ ’’اگر تم نے سوچا تھا کہ میں تمھارے آنسو پوچھوں گی تو تم نے غلطی کی تھی۔ جو قاتل ہماری جان لینے پر آمادہ ہو۔ اس کی سفارش لے کے آنا اس کے علاوہ اور کیا کہنا ہے کہ تم اس جرم کو خفیف سمجھتی ہو۔ اگر تم نے اس کی ہمت کا اندازہ کیا ہوتا تو ہر گز میرے پاس نہ آتیں۔ جس نے ریاست کا نمک کھایا ہے وہ ریاست کے ایک بد خواہ سے ہمدردی کرے۔ یہ خود بہت بڑا جرم ہے۔‘‘
سجاتا بھی گرم ہوئی۔ جذبہ مادری مصلحت پر غالب آ گئی۔ بولی، ’’راجہ کا کام محض اپنے حکام کو خوش کرنا نہیں ہے۔ رعایا پروری کی ذمہ داری بھی اس کے سر ہے اور یہ اس کا مقدم فرض ہے۔‘‘
اسی وقت مہاراج نے کمرے میں قدم رکھا۔ رانی نے اٹھ کر ان کی تعظیم کی۔ سجاتا گھونگھٹ نکال کر سر جھکائے دم بخود کھڑی رہ گئی۔ کہیں مہاراجہ صاحب نے تو اس کی بات نہیں سن لی۔
راجہ نے کہا۔ ’’یہ کون عورت تمھیں راجوں کے فرائض کی تعلیم دے رہی تھی؟‘‘
رانی نے کہا۔ ’’یہ دیوان صاحب کی بیوی ہیں۔‘‘
راجہ نے مضحکہ اڑاتے ہوئے کہا۔ ’’جب ماں ایسی زبان دراز ہے تو لڑکا کیوں نہ گستاخ اور باغی ہو۔ دیوی جی میں تم سے یہ تعلیم نہیں لینا چاہتا بہتر ہو کہ تم کسی سے یہ تعلیم حاصل کر لو کہ آقا کی جانب اس کے نمک خواروں کے کیا فرائض ہیں۔ اور جو نمک حرام ہے ان کے سامنے اسے کیسا برتاؤ کرنا چاہیے۔‘‘
راجہ صاحب طیش کے عالم میں باہر چلے گئے مسٹر مہتہ جا ہی رہے تھے کہ راجہ صاحب نے تند لہجہ میں پکارا ’’سنئے مسٹر مہتہ! آپ کے صاحبزادے تو رخصت ہو گئے لیکن مجھے ابھی معلوم ہوا ہے کہ غدّاری کے میدان میں آپ کی دیوی جی ان سے بھی دو قدم آگے ہیں بلکہ میں تو کہوں گا کہ وہ محض ریکارڈ ہے جس میں دیوی جی کی آواز بول رہی ہے میں نہیں چاہتا کہ جو شخص ریاست کی ذمہ داریوں کا مرکز ہے اس کے سایہ میں ریاست کے ایسے بد خواہوں کو پناہ ملے۔ آپ خود اس ذمہ داری سے بری نہیں ہو سکتے۔ یہ ہر گز میری بے انصافی نہ ہو گی اگر میں یہ خیال کر لوں کہ آپ کی چشم پوشی نے ہی یہ حالات پیدا کیے ہیں۔ میں یہ خیال کرنے میں حق بجانب ہوں کہ آپ نے صریحاً نہیں تو کنایتاً ضرور ان خیالات کی تحریک کی ہے۔‘‘
مسٹر مہتہ اپنی ذمہ داری اور آقا پروری پر یہ حملہ برداشت نہ کر سکے۔ فوراً مردانہ تردید کی‘‘ میں کس زبان سے کہوں کہ اس معاملہ میں حضور بے انصافی کر رہے ہیں لیکن میں بے قصور ہوں اور مجھے یہ دیکھ کر ملال ہوتا ہے کہ میری وفا داری پر یوں شبہہ کیا جائے۔‘‘
مہاراج نے تحکمانہ لہجہ میں کہا ’’اس کے لیے ثبوت کی ضرورت ہے دیوان صاحب۔‘‘
’’کیا ابھی ثبوت کی ضرورت ہے؟ میرا خیال ہے میں ثبوت دے چکا۔‘‘
’’نہیں نئے انکشافات کے لیے نئے ثبوت کی ضرورت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنی دیوی جی کو ہمیشہ کے لیے ریاست سے رخصت کر دیں۔ میں اس میں کسی طرح کا عذر نہیں سننا چاہتا۔‘‘
’’لیکن مہاراج۔‘‘
’’میں ایک حرف نہیں سننا چاہتا۔‘‘
’’میں کچھ عرض نہیں کر سکتا؟‘‘
’’ایک لفظ بھی نہیں۔‘‘
مسٹر مہتہ یہاں سے چلے تو انھیں سجاتا پر بے حد غصّہ آ رہا تھا۔ ان سب کے دماغ میں نہ جانے کیوں یہ خبط سما گیا ہے۔ جے کرشن تو خیر لڑکا ہے نا آزمودہ کار، اس بڑھیا کو کیا حماقت سوجھی۔ نہ جانے رانی سے کیا کیا کہہ آئی۔ میرے ہی گھر میں کسی کو مجھ سے ہمدردی نہیں۔ سب اپنی اپنی دھن میں مست ہیں۔ کس مصیبت سے میں اپنی زندگی کے دن کاٹ رہا ہوں۔ یہ کوئی نہیں سوچتا۔ کتنی پریشانیوں اور ناکامیوں کے بعد ذرا اطمینان سے سانس لینے پایا تھا کہ ان سب نے یہ نئی مصیبت کھڑی کر دی۔ حق اور انصاف کا ٹھیکہ کیا ہمیں نے لے لیا ہے۔ یہاں بھی وہی ہو رہا ہے جو ساری دنیا میں ہو رہا ہے۔ غریب اور کمزور ہونا جرم ہے۔ اس کی سزا سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ باز کبوتر پر کبھی رحم نہیں کرتا۔ حق اور انصاف کی حمایت انسان کی شرافت کا جزو ہے۔ بے شک اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن جس طرح اور سب لوگ صرف زبان سے اس کی حمایت کرتے ہیں کیا اسی طرح ہم بھی نہیں کر سکتے۔ اور جن لوگوں کی حمایت کی جائے ان کی نگاہ میں کچھ اس حمایت کی قدر بھی تو ہو۔ آج راجہ انھیں مظلوم مزدوروں سے ذرا ہنس کر باتیں کر لیں تو یہ لوگ ساری شکایتیں بھول جائیں۔ اور ہماری ہی گردن کشی پر آمادہ ہو جائیں گے۔ سجاتا کی بھویں چڑھی ہوئی تھیں۔ ضرور اس نے مہارانی صاحبہ سے بدزبانی کی ہو گی۔ خوب اپنے دل کا غبار نکالا ہو گا۔ یہ نہ سمجھیں کہ دنیا میں کس طرح عزّت اور آبرو کے ساتھ بیٹھا جائے۔ اس کے سوا اور ہمیں کیا چاہیے۔ اگر تقدیر میں نیک نامی لکھی ہوتی تو اس طرح دوسروں کی غلامی کیوں کرتا؟ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کو بھیجوں کہاں؟ میکے میں کوئی نہیں ہے میرے گھر میں کوئی نہیں۔ اونہہ! اب میں اس کی کہاں تک فکر کروں۔ جہاں جی چاہے جائے۔
وہ اس غم و غصّہ کی حالت میں گھر میں داخل ہوئے۔ سجاتا ابھی ابھی آئی تھی کہ مہتہ نے پہنچ کر دل شکن انداز سے کہا ’’آخر تمھیں بھی وہی حماقت سوجھی جو اس لونڈے کو سوجھی تھی۔ میں کہتا ہوں آخر تم لوگوں کو عقل کبھی آئے گی یا نہیں۔ ساری دنیا کی اصلاح کا بیڑا ہم ہی نے اٹھایا ہے؟ کون راجہ ہے جو اپنی رعایا پر ظلم نہ کرتا ہو؟ ان کے حقوق نہ پامال کرتا ہو۔ راجہ ہی کیوں؟ ہم تم دوسروں کے حقوق پر دست اندازی کر رہے ہیں۔ تمھیں کیا حق ہے کہ تم درجنوں خدمت گار رکھو اور انھیں ذرا ذرا سے قصور پر سزائیں دو۔ حق اور انصاف مہمل لفظ ہیں جن کا مصرف اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ چند عقل مندوں کو شہادت کا درجہ ملے۔ اور بہت سے احمقوں کو ذلّت اور سوائی کا۔ تم مجھے اپنے ساتھ دبائے دیتی ہو۔ حالانکہ میں تم سے بار بار کہہ چکا ہوں کہ میں اپنی زندگی میں مہاراجہ سے پرخاش نہ کروں گا۔ حق کی حمایت کر کے دیکھ لیا۔ پشیمانی اور بربادی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ میں صاف کہتا ہوں کہ میں تمھاری حماقتوں کا خمیازہ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوں۔‘‘
سجاتا نے خود داری کی شان سے کہا۔ ’’میں یہاں سے چلی جاؤں یہی تو تمھارا منشا ہے۔ میں بڑی خوشی سے جانے کے لیے تیار ہوں۔ میں ایسے ظالم کی عملداری میں پانی پینا بھی گناہ سمجھتی ہوں۔‘‘
’’اس کے سوا مجھے اور کوئی صورت نظر نہیں آئی۔ میں پوشیدہ طور پر تمھارے اخراجات کے لیے روپیہ بھیجتا رہوں گا۔‘‘
’’نہیں مجھے تمھارے روپوں کی ضرورت نہیں ہے تم اپنے روپے جمع کرنا اور بینک کا اکاؤنٹ دیکھ دیکھ کر خوش ہونا۔ کون جانے کہیں راز فاش ہو جائے تو آقائے نامدار کا قہر تمھارے اوپر نازل ہو جائے۔ میرا لڑکا اور کچھ نہ کر سکے گا تو شام تک نمک روٹی لے ہی آئے گا۔ میں اسی میں خوش ہوں گی۔ میں بھی دیکھوں گی کہ تمھاری آقا پروری کب تک نبھتی ہے اور تم کہاں تک اپنے ضمیر کا خون کرتے ہو۔‘‘
مہتہ نے ہاتھ مل کر کہا۔
’’تم کیا چاہتی ہو کہ پھر اسی طرح چاروں طرف ٹھوکریں کھاتا پھروں؟‘‘
سجاتا نے طنز کے ساتھ کہا۔ ’’ہر گز نہیں اب تک میرا خیال تھا کہ عہدے اور روپے سے عزیز تر بھی تمھارے پاس کوئی چیز ہے۔ جس کے لیے تم ٹھوکریں کھانا اچھا سمجھتے ہو۔ ا ب معلوم ہوا تمھیں عہدہ اور مرّوت اپنے ضمیر سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ پھر کیوں ٹھوکریں کھاؤ۔ کبھی کبھی اپنی خیریت کا خط بھیجتے رہنا یا اس کے لیے بھی راجہ صاحب کی اجازت لینی پڑے گی۔‘‘
مہتہ نے آقا پروری کے جوش میں کہا۔ ’’راجہ صاحب اتنے ظالم نہیں ہیں کہ میرے جائز حق میں دست اندازی کریں۔‘‘
’’اچھا راجہ صاحب میں اتنی انسانیت ہے مجھے تو اعتبار نہیں آتا۔‘‘
’’تم نے کہاں جانے کا ارادہ کیا ہے۔‘‘
’’جہنم میں۔‘‘
جس وقت سجاتا گھر سے رخصت ہونے لگی تو میاں بیوی دونوں خوب روئے اور ایک طرح سے سجاتا نے اپنی غلطی تسلیم کر لی کہ واقعی اس بیکاری کے زمانہ میں مہتہ کا یہی طرز عمل مناسب تھا۔ سچ مچ بے چارے کہاں کہاں مارے مارے پھریں۔
اس طرح شوہر سے علیحدہ ہونے سے اسے روحانی صدمہ ہو رہا تھا۔ اور اگر مہتہ نے جھوٹوں اصرار کر لیا ہوتا تو وہ گھر سے با ہر پاؤں نہ نکالتی۔ مگر ادھر راجہ صاحب پل پل بھر بعد دریافت کر رہے تھے کہ دیو جی گئیں یا نہیں؟ اور اب قدم پیچھے ہٹانے کے لیے کوئی بہانہ نہ تھا۔
پولیٹکل ایجنٹ صاحب تشریف لائے خوب دعوتیں کھائیں۔ خوب شکار کھیلے اور خوب سیریں کیں۔ مہاراجہ صاحب نے ان کی تعریف کی۔ انھوں نے مہاراجہ صاحب کی تعریف کی اور ان کے انصاف اور رعایا پروری اور تنظیم کی خوب دل کھول کر داد دی۔ مسٹر مہتہ کی کارگزاری نے بھی تحسین کا خراج وصول کیا۔ ایسا وفا شعار اور کارگزار افسر اس ریاست میں کبھی نہیں آیا تھا۔ ایجنٹ صاحب نے ایک گھڑی انھیں انعام میں دی۔
اب راجہ صاحب کو کم از کم تین سال کے لیے فراغت تھی۔ ایجنٹ ان سے خوش تھا۔ اب کس بات کا غم اور کس کا خوف۔ عیاشی کا دور دورہ انہماک کے ساتھ شروع ہوا۔ نت نئے حسینوں کی بہم رسانی کے لیے خفیہ خبر رسانی کا ایک محکمہ قائم کیا گیا اور اسے زنانہ تعلیم کا نام دیا گیا۔ نئی نئی چڑیاں آنے لگیں۔ کہیں تخویف کام کرتی تھی، کہیں تحریص اور کہیں تالیف۔ لیکن ایسا موقعہ بھی آیا جب اس تثلیث کی ساری انفرادی اور اجتماعی کوششیں ناکام ہوئیں۔ اور خفیہ محکمہ نے فیصلہ کیا کہ اس نازنین کو اس کے گھر سے بہ جبر اٹھا لایا جائے اور اس خدمت کے لیے مہتہ صاحب کا انتخاب ہوا جس سے زیادہ جاں نثار خادم ریاست میں دوسرا نہ تھا۔ ان کی جانب سے مہاراجہ صاحب کو کامل اطمینان تھا۔ کم تر درجہ کے اہلکار ممکن ہے رشوت لے کر شکار چھوڑ دیں یا افشاء راز کر بیٹھیں۔ یا امانت میں خیانت۔ مسٹر مہتہ کی جانب سے کسی قسم کی بے عنوانی کا اندیشہ نہ تھا۔ رات کو نو بجے چوبدار نے ان کو اطلاع دی۔
’’ان داتا نے یاد کیا ہے۔‘‘
مہتہ صاحب جب ڈیوڑھی پر پہنچے تو راجہ صاحب باغیچے میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ مہتہ کو دیکھتے ہی بولے۔
’’آئیے مسٹر مہتہ آپ سے اہم معاملہ میں مشورہ لینا ہے۔ کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ آپ کا مجسمہ اس باغ کے وسط میں نصب کیا جائے جس سے آپ کی یادگار ہمیشہ قائم رہے۔ آپ کو غالباً اس میں کوئی اعتراض نہ ہو گا۔‘‘
مہتہ نے بڑے انکسار کے ساتھ کہا۔ ’’یہ ان داتا کی غلام نوازی ہے میں تو ایک ذرّہ نا چیز ہوں۔‘‘
’’میں نے لوگوں سے کہہ دیا ہے کہ اس کے لیے فنڈ جمع کریں۔ ایجنٹ صاحب نے اب کی جو خط لکھا ہے اس میں آپ کو خاص طور سے لکھا ہے۔‘‘
’’یہ ان کی غریب پروری ہے۔ میں تو ادنیٰ خادم ہوں۔‘‘
راجہ صاحب ایک لمحہ تک سگار پیتے رہے تب اس انداز سے بولے گویا کوئی بھولی بات یاد آ گئی۔
’’تحصیل خاص میں ایک موضع جگن پور ہے آپ وہاں کبھی گئے ہیں؟‘‘
مہتہ نے مستعدی سے جواب دیا۔ ’’ہاں ان داتا ایک بار گیا ہوں وہاں ایک متمول ساہوکار ہے اسی کے دیوان خانہ میں ٹھہراتا تھا۔ معقول آدمی ہے۔‘‘
’’ہاں ظاہر میں تو بہت اچھا آدمی ہے مگر دل کا نہایت خبیث۔ آپ کو معلوم ہے مہارانی صاحبہ کی صحت بہت خراب ہوتی جاتی ہے اور اب میرے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ میں دوسری شادی کر لوں۔ راجاؤں کا یہ عام وطیرہ ہے کہ کسی نہ کسی حیلہ سے روز نئی نئی شادیاں کرتے رہتے ہیں۔ میں نے اس حوس پروری سے ہمیشہ اعتراض کیا ہے اور اب تک بڑی تندہی سے رانی صاحبہ کا علاج کراتا رہا۔ لیکن ان کی حالت روز بروز گرتی جاتی ہے اور اب میں مجبور ہو گیا ہوں۔ ایک لڑکی بھی تجویز کی ہے جو ہر اعتبار سے رانی صاحبہ بننے کے قابل ہے۔ وہ اسی ساہوکار کی لڑکی ہے میں ایک بار ادھر سے گزر رہا تھا تو میں نے اسے کھڑکی سے جھانکتے ہوئے دیکھا تھا مجھے معاً خیال آیا کہ اگر یہ حسینہ رنواس میں آ جائے تو میری عمر دراز ہو جائے۔ میں نے خاندان کے آدمیوں سے اس بارے میں صلاح کی۔ اور اس ساہوکار کے پاس پیغام بھیج دیا۔ مگر اسے مفسدوں نے کچھ ایسی پٹی پڑھائی ہے کہ وہ کسی طرح راضی نہیں ہوتا۔ کہتا ہے کہ لڑکی کی شادی ہو چکی ہے مجھے یہاں تک معلوم ہوا ہے یہ اس کی بہانہ سازی ہے لیکن بالفرض اس کی شادی بھی ہو چکی ہو تو راجہ ہونے کی حیثیت سے میرا حق فائق ہے۔ اور پھر میں ہر قسم کا تاوان بھی برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن وہ مفسد برابر انکار کیے جاتا ہے۔ مجھے اس لڑکی کا ہر وقت خیال رہتا ہے مجھے ایسا اندیشہ ہو رہا ہے کہ اگر ناکام رہا تو شاید جاں بر نہ ہو سکوں۔ اندیشہ ہی نہیں یہ اس قسم کا یقینی امر ہے آپ کو بھی شاید اس قسم کا کبھی تجربہ ہوا ہو۔ بس یہ سمجھئے کی خواب حرام ہے۔ ہمیشہ اسی کی یاد میں محو رہتا ہوں اور ایسی حالت میں مجھے آپ کے سوا کوئی دوسرا آدمی نظر نہیں آیا جو اس مسئلہ کو حل کر سکے۔ آپ جانتے ہیں محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ میں چاہتا ہوں آپ تھوڑے سے معتبر آدمیوں کو اپنے ساتھ لے کر جائیں اور اس حسینہ کو راضی کر کے لائیں۔ خوشی سے آئے خوشی سے، جبر سے آئے جبر سے۔ اس کی پرواہ نہیں ریاست کا مالک ہوں۔ اس میں جس چیز پر میری نظر ہو اس پر کسی دوسرے شخص کا قانونی یا اخلاقی حق نہیں ہو سکتا۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ میری زندگی آپ کے ہاتھ میں ہے اور آپ کی خوش تدبیری سے میری زندگی بچ گئی تو آپ ہمیشہ ریاست کے محسنوں میں شمار کیے جائیں گے اور۔۔۔‘‘
مسٹر مہتہ کے مدت سے منجمد خون میں یکایک ابال آیا بولے۔ ’’آپ کا منشاء ہے میں اسے کڈنیپ کر لاؤں؟‘‘
راجہ صاحب نے ان کے تیور دیکھ کر تبسم کے ساتھ کہا۔ ’’ہر گز نہیں میں تو آپ کو اپنا معتمد سفیر بنا کر بھیجتا ہوں۔ حصول مقصد کے لیے آپ کو ہر ممکن تدبیر سے کام لینے کا اختیار ہے۔‘‘
مسٹر مہتہ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ ’’مجھ سے یہ کمینہ فعل نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’کسی حسینہ سے شادی کی درخواست کمینہ فعل ہے۔‘‘
’’جبری اغوا بے شک کمینہ فعل ہے۔‘‘
’’آپ اپنے ہوش میں ہیں؟‘‘
’’خوب اچھی طرح۔‘‘
’’میں آپ کو خاک میں ملا سکتا ہوں۔‘‘
’’اگر آپ مجھے خاک میں ملا سکتے ہیں تو میں بھی آپ کو خاک میں ملا سکتا ہوں۔‘‘
’’میری نیکیوں کا یہی صلہ ہے نمک حرام۔۔۔‘‘
’’آپ اب احترام کی حد سے آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ راجہ صاحب! میں نے اب تک ضمیر کا خون کیا ہے اور آپ کے ہر ایک جا اور بے جا حکم کی تعمیل کی ہے لیکن ضمیر فروشی کی بھی حد ہوتی ہے جس کے آگے کوئی بھی ذی ہوش آدمی نہیں جا سکتا۔ آپ کا فعل ایک راجہ کے شایان شان نہیں ہے اور اس میں جو شخص اعانت کرے وہ قابل گردن زنی ہے اور میں ایسے فعل پر لعنت بھیجتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ گھر آئے۔ اور راتوں رات سامان سفر درست کر کے ریاست سے نکل گئے۔ مگر اس سے قبل اس معاملہ کا کچا چٹھا ایجنٹ کے نام بھیج دیا۔
٭٭٭
روشنی
آئی.سی.ایس۔ پاس کر کے ہندوستان آیا تو مجھے ممالک متحدہ کے ایک کو ہستانی علاقے میں ایک سب ڈویژن کا چارج ملا۔ مجھے شکار کا بہت شوق تھا اور کوہستانی علاقے میں شکار کی کیا کمی۔ میری دلی مراد بر آئی۔ ایک پہاڑ کے دامن میں میرا بنگلہ تھا۔ بنگلے ہی پر کچہری کر لیا کرتا تھا۔ اگر کوئی شکایت تھی تو یہ کہ سو سائٹی نہ تھی۔ اسلیے سیر و شکار اور اخبارات و رسائل سے کمی کو پورا کیا کرتا تھا۔ امریکہ اور یوروپ کے کئی اخبار اور رسالے آتے تھے۔ ان کے مضامین کی شگفتگی اور جدت اور خیال آرائی کے مقابلے میں ہندوستانی اخبار اور رسالے بھلا کیا جچتے۔! سوچتا تھا وہ دن کب آئے گا کہ ہمارے یہاں بھی ایسے ہی شان دار رسالے نکلیں گے۔
بہار کا موسم تھا۔ پھاگن کا مہینہ۔ میں دورے پر نکلا اور لندھوار کے تھانے کا معائنہ کر کے گجن پور کے تھانے کو چلا۔ کوئی اٹھارہ میل کی مسافت تھی مگر منظر نہایت سہانا۔ دھوپ میں کسی قدر تیزی تھی مگر ناخوش گوار نہیں۔ ہوا میں بھینی خوشبو تھی۔ آم کے درختوں پر بور آ گئے تھے اور کوئل کوکنے لگی تھی۔ کندھے پر بندوق رکھ لی تھی کہ کوئی شکار مل جائے تو لیتا چلوں کچھ اپنی حفاظت کا بھی خیال تھا۔ کیوں کہ ان دنوں جا بجا ڈاکے پڑ رہے تھے۔ میں نے گھوڑے کی گردن سہلائی اور کہا۔ چلو بیٹا چلو۔ ڈھائی گھنٹے کی دوڑ ہے۔ شام ہوتے ہوتے گجن پور پہنچ جائیں گے اور ساتھ کے ملازم پہلے ہی روانہ کر دیے گئے تھے۔
جا بجا کاشت کار کھیتوں میں کام کرتے نظر آتے تھے۔ ربیع کی فصل تیار ہو چلی تھی۔ اوکھ اور خربوزے کے لیے زمین تیار کی جا رہی تھی۔ ذرا ذرا سے مزارعے تھے۔ وہی باوا آدم کے زمانے کے بوسیدہ ہل، وہی افسوس ناک جہالت، وہی شرمناک نیم برہنگی، اس قوم کا خدا ہی حافظ ہے۔ گورنمنٹ لاکھوں روپے زراعتی اصلاحوں پر صرف کرتی ہے۔ نئی نئی تحقیقات اور ایجادیں ہوتی ہیں۔ ڈائرکٹر، انسپکٹر سب موجود اور حالت میں کوئی اصلاح، کوئی تغیر نہیں۔ تعلیم کا طوفان بے تمیزی برپا ہے۔ یہاں مدرسوں میں کتے لوٹتے ہیں۔ جب مدرسے میں پہنچ جاتا ہوں تو مدرس کو کھاٹ پر نیم غنودگی کی حالت میں لیٹے پاتا ہوں۔ بڑی دوا دوش سے دس بیس لڑکے جوڑے جاتے ہیں۔ جس قوم پر جمود نے اس حد تک غلبہ کر لیا ہو اس کا مستقل انتہا درجہ مایوس کن ہے۔ اچھے اچھے تعلیم یافتہ آدمیوں کو سلف کی یاد میں آنسو بہاتے دیکھتا ہوں۔ مانا کہ ایشیا کے جزائر میں آرین مبلغوں نے مذہب کی روح پھونکی تھی۔ یہ بھی مان لیا کہ کسی زمانے میں آسٹریلیا بھی آرین تہذیب کا ممنون تھا۔ لیکن اس سلف پروری سے کیا حاصل۔ آج تو مغرب دنیا کا مشعل ہدایت ہے۔ ننھا سا انگلینڈ نصف کرۂ زمین پر حاوی ہے۔ اپنی صنعت و حرفت کی بدولت بے شک مغرب نے دنیا کو ایک نیا پیغام عمل عطا کیا ہے اور جس قوم میں اس پیغام پر عمل کرنے کی قوت نہیں ہے، اس کا مستقل تاریک ہے۔ جہاں آج بھی نیم برہنہ گوشہ نشین فقیروں کی عظمت کے راگ الاپے جاتے ہیں۔ آج بھی شجر و حجر کی عبادت ہوتی ہے۔ جہاں آج بھی زندگی کے ہر ایک شعبے میں مذہب گھسا ہوا ہے۔ اس کی اگر یہ حالت ہے تو تعجب کا کوئی مقام نہیں۔ میں انہیں تصورات میں ڈوبا ہوا چلا جا رہا تھا۔ دفعتاً ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا جسم میں لگا تو میں نے سر اوپر اٹھایا۔ مشرق کی جانب منظر گرد آلود ہو رہا تھا۔ افق گرد و غبار کے پردے میں چھپ گیا تھا، آندھی کی علامت تھی۔ میں نے گھوڑے کو تیز کیا لیکن لمحہ بہ لمحہ غبار کا پردہ وسیع اور بسیط ہوتا جاتا تھا اور میرا راستہ بھی مشرق ہی کی جانب تھا۔ گویا میں یکہ و تنہا طوفان کا مقابلہ کرنے دوڑا جا رہا تھا۔ ہوا تیز ہو گئی۔ وہ پردہ غبار سر پر آ پہنچا اور دفعتاً میں گرد کے سمندر میں ڈوب گیا۔ ہوا اتنی تند تھی کہ کئی بار میں گھوڑے سے گرتے گرتے بچا۔ وہ سرسراہٹ، اور گڑگڑاہٹ تھی کہ الامان۔ گویا فطرت نے آندھی میں طوفان کی روح ڈال دی ہے۔ دس بیس ہزار تو پیں ایک ساتھ چھوٹتیں تب بھی اتنی ہولناک صدا نہ پیدا ہوتی۔ مارے گرد کے کچھ نہ سوجتا تھا یہاں تک کہ راستہ بھی نظر نہ آتا تھا۔ اف ایک قیامت تھی جس کی یاد سے آج بھی کلیجہ کانپ جاتا ہے۔ میں گھوڑے کی گردن سے چمٹ گیا اور اس کے ایالوں میں منہ چھپا لیا۔ سنگریزے گرد کے ساتھ اڑ کر منہ پر اس طرح لگتے تھے جیسے کوئی کنکریوں کو پچکاری میں بھر کر مار رہا ہو۔ ایک عجیب دہشت مجھ پر مسلط ہو گئی۔ کسی درخت کے اکھڑنے کی آواز کانوں میں آ جاتی تو پیٹ میں میری آنتیں تک سمٹ جاتیں۔ کہیں کوئی درخت پہاڑ سے میرے اوپر گرے تو یہیں رہ جاؤں۔ طوفان میں ہی بڑے بڑے تودے بھی تو ٹوٹ جاتے ہیں کوئی ایسا تودہ لڑھکتا ہوا آ جائے تو بس خاتمہ ہے۔ ہلنے کی بھی تو گنجائش نہیں۔ پہاڑی راستہ کچھ سو جھائی دیتا نہیں۔ ایک قدم داہنے بائیں ہو جاؤں تو ایک ہزار فٹ گہرے کھڈ میں پہنچ جاؤں۔ عجیب ہیجان میں مبتلا تھا۔ کہیں شام تک طوفان جاری رہا تو موت ہی ہے۔ رات کو کوئی درندہ آ کر صفایا کر دے گا۔ دل پر بے اختیار رقت کا غلبہ ہوا۔ موت بھی آئی تو اس حالت میں کہ لاش کا بھی پتا نہ چلے۔ افوہ! کتنی زور سے بجلی چمکی ہے کہ معلوم ہوا ایک نیزہ سینے کے اندر گھس گیا۔
دفعتاً جھن جھن کی آواز سن کر میں چونک پڑا۔ اس ارراہٹ میں بھی جھن جھن کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی جیسے کوئی سانڈنی دوڑی آ رہی ہو۔ سانڈنی پر کوئی سوار تو ہو گا ہی مگر اسے راستہ کیوں سوجھ رہا ہے۔ کہیں سانڈنی ایک قدم بھی ادھر ادھر ہو جائے تو بچہ تحت الثریٰ میں پہنچ جائیں۔ کوئی زمین دار ہو گا مجھے دیکھ کر شاید پہچانے بھی نہیں، چہرے پر منوں گرد پڑی ہوئی ہے مگر ہے بلا کا ہمت والا۔
ایک لمحے میں جھن جھن کی آواز قریب آ گئی۔ پھر میں نے دیکھا کہ ایک جوان عورت سر پر ایک کھانچی رکھے قدم بڑھاتی ہوئی چلی آ رہی ہے۔ ایک گز کے فاصلے سے بھی اس کا صرف دھندلا سا عکس نظر آیا۔ وہ عورت ہو کر اکیلی مردانہ وار چلی جا رہی ہے۔ نہ آندھی کا خوف ہے نہ ٹوٹنے والے درختوں کا اندیشہ نہ چٹانوں کے گرنے کا غم۔ گویا یہ بھی کوئی روزمرہ کا معمولی واقعہ ہے۔ مجھے دل میں غیرت کا احساس کبھی اتنا شدید نہ ہوا تھا۔
میں نے جیب سے رو مال نکال کر منہ پونچھا اور اس سے بولا، ’’او عورت! گجن پور یہاں سے کتنی دور ہے؟‘‘
میں نے پوچھا تو بلند لہجے میں مگر آواز دس گز نہ پہنچی۔ عورت نے کوئی جواب نہ دیا۔ شاید اس نے مجھے دیکھا ہی نہیں۔
میں نے چیخ کر پکارا، ’’او عورت! ذرا ٹھہر جا۔ گجن پور یہاں سے کتنی دور ہے؟‘‘
عورت رک گئی۔ اس نے میرے قریب آ کر، مجھے دیکھ کر، ذرا سر جھکا کر کہا، ’’کہاں جاؤ گے؟‘‘
’’گجن پور کتنی دور ہے؟‘‘
’’چلے آؤ۔ آگے ہمارا گاؤں ہے اس کے بعد گجن پور ہے۔‘‘
’’تمہارا گاؤں کتنی دور ہے؟‘‘
’’وہ کیا آگے دکھائی دیتا ہے۔‘‘
’’تم اس آندھی میں کہیں رک کیوں نہیں گئیں؟‘‘
’’چھوٹے چھوٹے بچے گھر پر ہیں۔ کیسے رک جاتی۔ مرد تو بھگوان کے گھر چلا گیا۔‘‘ آندھی کا ایسا زبردست ریلا آیا کہ میں شاید دو تین قدم آگے کھسک گیا۔ گرد و غبار کی ایک دھونکنی سی منہ پر لگی۔ اس عورت کا کیا حشر ہوا مجھے خبر نہیں۔ میں پھر وہیں کھڑا رہ گیا۔ فلسفے نے کہا اس عورت کے لیے زندگی میں کیا راحت ہے۔ کوئی ٹوٹا پھوٹا جھونپڑا ہو گا، دو تین فاقہ کش بچے۔ بیکسی میں موت کا کیا غم۔ موت تو اسے باعث نجات ہو گی۔ میری حالت اور ہے۔ زندگی اپنی تمام دلفریبیوں اور رنگینیوں کے ساتھ میری ناز برداری کر رہی ہے۔ حوصلے ہیں، ارادے ہیں۔ میں اسے کیوں کر خطرے میں ڈال سکتا ہوں۔ میں نے پھر گھوڑے کے ایالوں میں منہ چھپا لیا۔ شتر مرغ کی طرح جو خطرے سے بچنے کی کوئی راہ نہ پا کر بالوں میں سر چھپا لیتا ہے۔
وہ آندھی کی آخری سانس تھی۔ اس کے بعد بتدریج زور کم ہونے لگا۔ یہاں تک کہ کوئی پندرہ منٹ میں مطلع صاف ہو گیا۔ نہ گرد و غبار کا نشان تھا نہ ہوا کے جھونکوں کا۔ ہوا میں ایک فرحت بخش خنکی آ گئی تھی۔ ابھی مشکل سے پانچ بجے ہوں گے۔ سامنے ایک پہاڑی تھی اس کے دامن میں ایک چھوٹا سا موضع تھا۔۔ میں جوں ہی اس گاؤں میں پہنچا۔ وہی عورت ایک بچے کو گود میں لیے میری طرف آ رہی تھی مجھے دیکھ کر اس نے پوچھا۔ ’’تم کہاں رہ گئے تھے؟ میں ڈری کہ تم رستہ نہ بھول گئے ہو۔ تمہیں ڈھونڈنے جا رہی تھی۔‘‘
میں نے اس کی انسانیت سے متاثر ہو کر کہا۔ ’’میں اس کے لیے تمہارا بہت ممنون ہوں۔ آندھی کا ایسا ریلا آیا کہ مجھے رستہ نہ سوجھا۔ میں وہیں کھڑا ہو گیا۔ یہی تمہارا گاؤں ہے؟ یہاں سے گجن پور کتنی دور ہو گا؟‘‘
بس کوئی دھاپ بھر سمجھ لو۔ راستہ بالکل سیدھا ہے کہیں داہنے بائیں مڑیو نہیں۔ سورج ڈوبتے ڈوبتے پہنچ جاؤ گے۔‘‘
’’یہی تمہارا بچہ ہے۔‘‘
’’نہیں ایک اور اس سے بڑا ہے جب آندھی آئی تو دونوں نمبردار کی چوپال میں جا کر بیٹھے تھے کہ جھونپڑیا کہیں اڑ نہ جائے۔ جب سے آئی ہوں یہ میری گود سے نہیں اترتا۔ کہتا ہے تو پھر کہیں بھاگ جائے گی۔ بڑا شیطان ہے۔ لڑکوں میں کھیل رہا ہے۔ محنت مزدوری کرتی ہوں بابو جی! ان کو پالنا تو ہے اب میرے کون بیٹھا ہوا ہے جس پر ٹیک کروں۔ گھاس لے کر بیچنے گئی تھی۔ کہیں جاتی ہوں من ان بچوں میں لگا رہتا ہے۔‘‘
میرا دل اتنا اثر پذیر تو نہیں ہے، لیکن اس دہقان عورت کے بے لوث انداز گفتگو، اس کی سادگی اور جذبۂ مادری نے مجھ پر تسخیر کا سا عمل کیا اس کے حالات سے مجھے گو نہ دلچسپی ہو گئی۔ پوچھا، ’’تمہیں بیوہ ہوئے کتنے دن ہو گئے۔‘‘
عورت کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اپنے آنسوؤں کو چھپانے کے لیے بچے کے رخسار کو اپنی آنکھوں سے لگا کر بولی:
’’ابھی تو کل چھے مہینے ہوئے ہیں بابو جی۔ بھگوان کی مرضی میں آدمی کا کیا۔ بس بھلے چنگے ہل لے کر لوٹے، ایک لوٹا پانی پیا، قے ہوئی۔ بس آنکھیں بند ہو گئیں۔ نہ کچھ کہا نہ سنا۔ میں سمجھی تھکے ہیں، سو رہے ہیں۔ جب کھانا کھانے کو اٹھانے لگی تو بدن ٹھنڈا۔ تب سے بابو جی! گھاس چھیل کر پیٹ پالتی ہوں اور بچوں کو کھلاتی ہوں۔ کھیتی میرے مان کی نہ تھی۔ بیل بدھیے بیچ کر انہیں کے کریا کرم میں لگا دیے۔ بھگوان تمہارے ان دونوں گلاموں کو جلا دے میرے لیے یہی بہت ہیں۔‘‘
میں موقع اور محل سمجھتا ہوں اور نفسیات میں بھی دخل رکھتا ہوں لیکن اس وقت مجھ پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ میں آب دیدہ ہو گیا اور جیب سے پانچ روپے نکال کر اس عورت کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’میری طرف سے یہ بچوں کے مٹھائی کھانے کے لیے لے لو، مجھے موقع ملا تو پھر کبھی آؤں گا۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے بچے کے رخساروں کو انگلی سے چھو دیا۔
ماں ایک قدم پیچھے ہٹ کر بولی، ’’نہیں بابو جی، یہ رہنے دیجیے۔ میں غریب ہوں، لیکن بھکارن نہیں ہوں۔‘‘
’’یہ بھیک نہیں ہے بچوں کی مٹھائی کھانے کے لیے ہے۔‘‘
’’نہیں بابو جی۔‘‘
’’مجھے اپنا بھائی سمجھ کر لے لو۔‘‘
’’نہیں بابوجی۔ جس سے بیاہ ہوا اس کی عزت تو میرے ہی ہاتھ ہے۔ بھگوان تمہارا بھلا کریں۔ اب چلے جاؤ۔ نہیں دیر ہو جائے گی۔‘‘
میں دل میں خفیف اتنا کبھی نہ ہوا تھا۔ جنھیں میں جاہل، کور باطن، بے خبر سمجھتا تھا اسی طبقے کی ایک معمولی عورت میں یہ خود داری، یہ فرض شناسی، یہ توکل! اپنے ضعف کے احساس سے میرا دل جیسے پامال ہو گیا۔ اگر تعلیم فی الاصل تہذیب نفس ہے اور محض اعلا ڈگریاں نہیں، تو یہ عورت تعلیم کی معراج پر پہنچی ہوئی ہے۔
میں نے نادم ہو کر نوٹ جیب میں رکھ لیا اور گھوڑے کو ایڑ لگاتے ہوئے پوچھا۔ ’’تمہیں اس آندھی میں ذرا سا ڈر نہ معلوم ہوتا تھا؟‘‘
عورت مسکرائی۔ ’’ڈر کس بات کا؟ بھگوان تو سبھی جگہ ہیں۔ اگر وہ مارنا چاہیں تو کیا یہاں نہیں مار سکتے؟ میرا آدمی تو گھر آ کر بیٹھے بیٹھے چل دیا۔ آج وہ ہوتا تو تم اس طرح گجن پور اکیلے نہ جا تے۔ جا کر تمہیں پہنچا آتا۔ تھوڑی خدمت کرتا۔‘‘
گھوڑا اڑا۔ میرا دل اس سے زیادہ تیزی سے اڑ رہا تھا جیسے کوئی مفلس سونے کا ڈلا پا کر دل میں ایک طرح کی پرواز کا احساس کرتا ہے وہی حالت میری تھی۔ اس دہقان عورت نے مجھے وہ تعلیم دی جو فلسفہ اور مابعد الطبیعیات کے دفتروں سے بھی نہ حاصل ہوئی تھی۔ میں اس مفلس کی طرح اس سونے کے ڈلے کو گرہ میں باندھتا ہوا ایک غیر مترقبہ نعمت کے غرور سے مسرور، اس اندیشے سے خائف کہ کہیں یہ اثر دل سے مٹ نہ جائے، اڑا چلا جاتا تھا۔ بس یہی فکر تھی کہ اس پارۂ زر کو دل کے کسی گوشے میں چھپا لوں جہاں کسی حریص کی اس پر نگاہ نہ پڑے۔
گجن پور ابھی پانچ میل سے کم نہ تھا۔ راستہ نہایت پیچیدہ بیہڑ بے برگ و بار۔ گھوڑے کو روکنا پڑا۔ تیزی میں جان کو خطرہ تھا۔ آہستہ آہستہ سنبھلتا جاتا تھا کہ آسمان پر ابر گھر آیا۔ کچھ کچھ تو پہلے ہی سے چھایا ہوا تھا۔ پر اب اس نے ایک عجیب صورت اختیار کی۔ برق کی چمک اور رعد کی گرج شروع ہوئی۔ پھر افق مشرق کی طرف سے زرد رنگ کے ابر کی اس نئی تہ اس مٹیالے رنگ پر زرد لیپ کرتی ہوئی تیزی سے اوپر کی جانب دوڑتی نظر آئی۔ میں سمجھ گیا اولے ہیں۔ پھاگن کے مہینے میں اس رنگ کے بادل اور گرج کی یہ مہیب گڑگڑاہٹ ژالہ باری کی علامت ہے۔ گھٹا سر پر بڑھتی چلی جاتی تھی۔ یکایک سامنے ایک کف دست میدان آ گیا۔ جس کے پرلے سرے پر گنجن پور کے ٹھاکر دوارے کا کلس صاف نظر آ رہا تھا۔ کہیں کسی درخت کی بھی آڑ نہ تھی لیکن میرے دل میں مطلق کمزوری نہ تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مجھ پر کسی کا سایہ ہے، جو مجھے ہر آفت، ہر گزند سے محفوظ رکھے گا۔
ابر کی زردی ہر لمحہ بڑھتی جاتی تھی۔ شاید گھوڑا اس خطرے کو سمجھ رہا تھا۔ وہ بار بار ہنہناتا تھا، اور اڑ کر خطرے سے باہر نکل جانا چاہتا تھا۔ میں نے بھی دیکھا راستہ صاف ہے۔ لگام ڈھیلی کر دی۔ گھوڑا اڑا۔ میں اس کی تیزی کا لطف اٹھا رہا تھا۔ دل میں خوف کا مطلق احساس نہ تھا۔
ایک میل نکل گیا ہوں گا کہ ایک رپٹ آ پڑی۔ پہاڑی ندی تھی جس کے پیٹے میں کوئی پچاس گز لمبی رپٹ بنی ہوئی تھی۔ پانی کی ہلکی دھار رپٹ پر سے اب بھی بہہ رہی تھی۔ رپٹ کے دونوں طرف پانی جمع تھا۔ میں نے دیکھا ایک اندھا لاٹھی ٹیکتا ہوا رپٹ سے گزر رہا تھا۔ وہ رپٹ کے ایک کنارے سے اتنا قریب تھا میں ڈر رہا تھا کہیں گر نہ پڑے۔ اگر پانی میں گرا تو مشکل ہو گی۔ کیوں کہ وہاں پانی گہرا تھا۔ میں نے چلا کر کہا، ’’بڈھے اور داہنے کو ہو جا۔‘‘
بڈھا چونکا اور گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سن کر شاید ڈر گیا۔ داہنے تو نہیں ہوا اور بائیں طرف ہو لیا اور پھسل کر پانی میں گر پڑا۔ اسی وقت ایک ننھا سا اولا میرے سامنے گرا دونوں مصیبتیں ایک ساتھ نازل ہوئیں۔
ندی کے اس پار ایک مندر تھا۔ اس میں بیٹھنے کی جگہ کافی تھی۔ میں ایک منٹ میں وہاں پہنچ سکتا تھا لیکن یہ نیا عقدہ سامنے آ گیا۔ کیا اس اندھے کو مرنے کے لیے چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لیے بھاگوں؟ حمیت نے اسے گوارا نہ کیا۔ زیادہ پس و پیش کا موقع نہ تھا میں فوراً گھوڑے سے کودا۔ اور کئی اولے میرے چاروں طرف گرے۔ میں پانی میں کود پڑا۔ ہاتھی ڈباؤ پانی تھا۔ رپٹ کے لیے جو بنیاد کھودی گئی تھی وہ ضرورت سے زیادہ چوڑی تھی۔ ٹھیکے دار نے دس فٹ چوڑی رپٹ تو بنا دی مگر کھدی ہوئی مٹی برابر نہ کی۔ بڈھا اسی گڈھے میں گرا تھا۔ میں ایک غوطہ کھا گیا لیکن تیر نا جانتا تھا کوئی اندیشہ نہ تھا۔ میں نے دوسری ڈبکی لگائی اور اندھے کو باہر نکالا۔ اتنی دیر میں وہ سیروں پانی پی چکا تھا۔ جسم بے جان ہو رہا تھا۔ میں اسے لیے بڑی مشکل سے باہر نکلا دیکھا تو گھوڑا بھاگ کر مندر میں جا پہنچا ہے۔ اس نیم جاں لاش کو لیے ہوئے ایک فرلانگ چلنا آسان نہ تھا۔ اوپر اولے تیزی سے گرنے لگے تھے۔ کبھی سر پر کبھی شانے پر کبھی پیٹھ میں گولی سی لگ جاتی تھی۔ میں تلملا اٹھا تھا لیکن اس لاش کو سینے سے لگائے مندر کی طرف لپکا جاتا تھا۔ میں اگر اس وقت اپنے دل کے جذبات بیان کروں تو شاید خیال ہو میں خواہ مخواہ تعلی کر رہا ہوں۔ اچھے کام کرنے میں ایک خاص مسرت ہوتی ہے مگر میری خوشی ایک دوسری ہی قسم کی تھی۔ وہ فاتحانہ مسرت تھی۔ میں نے اپنے اوپر فتح پائی تھی۔ آج سے پہلے غالباً میں اس اندھے کو پانی میں ڈوبتے دیکھ کر یا تو اپنی راہ چلا جاتا یا پولیس کو رپورٹ کرتا۔ خاص کر ایسی حالت میں جب کہ سر پر اولے پڑ رہے ہوں میں کبھی پانی میں نہ گھستا۔ ہر لحظہ خطرہ تھا کہ کوئی بڑا سا اولا سر پر گر کر عزیز جان کا خاتمہ نہ کر دے مگر میں خوش تھا کیوں کہ آج میری زندگی میں ایک نئے دور کا آغاز تھا۔
میں مندر میں پہنچا تو سارا جسم زخمی ہو رہا تھا۔ مجھے اپنی فکر نہ تھی۔ ایک زمانہ ہوا میں نے فوری امداد (فرسٹ ایڈ) کی مشق کی تھی وہ اس وقت کام آئی۔ میں نے آدھ گھنٹے میں اس اندھے کو اٹھا کر بٹھا دیا۔ اتنے میں دو آدمی اندھے کو ڈھونڈتے ہوئے مندر میں آ پہنچے۔ مجھے اس کی تیمار داری سے نجات ملی۔ اولے نکل گئے تھے۔ میں نے گھوڑے کی پیٹھ ٹھونکی۔ رو مال سے ساز کو صاف کیا اور گنجن پور چلا۔ بے خوف، بے خطر دل میں ایک غیبی طاقت محسوس کرتا ہوا۔ اسی وقت اندھے نے پوچھا، ’’تم کون ہو بھائی، مجھے تو کوئی مہاتما معلوم ہوتے ہو۔‘‘
میں نے کہا، ’’تمہارا خادم ہوں۔‘‘
’’تمہارے سر پر کسی دیوتا کا سایہ معلوم ہوتا ہے۔‘‘
’’ہاں ایک دیوی کا سایہ ہے۔‘‘
’’وہ کون دیوی ہے؟‘‘
’’وہ دیوی پیچھے کے گاؤں میں رہتی ہے۔‘‘
’’تو کیا وہ عورت ہے؟‘‘
’’نہیں میرے لیے تو وہ دیوی ہے۔‘‘
٭٭٭
تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
یہ حصہ:
جلد اول
باقی حصے:
جلد دوم
جلد سوم
جلد چہارم