فہرست مضامین
منشی پریم چند کی کہانیاں
حصہ چہارم
انتخاب: عامر صدیقی
ڈاؤن لوڈ کریں
یہ حصہ:
جلد چہارم
باقی حصے:
جلد اول
جلد دوم
جلد سوم
بوڑھی کاکی
بڑھاپا اکثر بچپن کا دورِ ثانی ہوا کرتا ہے۔ بوڑھی کاکی میں ذائقہ کے سوا کوئی حس باقی نہ تھی اور نہ اپنی شکایتوں کی طرف مخاطب کرنے کا، رونے کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ آنکھیں ہاتھ، پیر سب جواب دے چکے تھے۔ زمین پر پڑی رہتیں اور جب گھر والے کوئی بات ان کی مرضی کے خلاف کرتے۔ کھانے کا وقت ٹل جاتا یا مقدار کافی نہ ہوتی یا بازار سے کوئی چیز آتی اور انھیں نہ ملتی تو رونے لگتی تھیں اور ان کا رونا محض بسورنانہ تھا۔ وہ بہ آواز بلند روتی تھیں۔ ان کے شوہر کو مرے ہوئے ایک زمانہ گذر گیا۔ سات بیٹے جوان ہو ہو کر داغ دے گئے اور اب ایک بھتیجے کے سوا دنیا میں ان کا اور کوئی نہ تھا۔ اسی بھتیجے کے نام انھوں نے ساری جائداد لکھ دی تھی۔ ان حضرات نے لکھاتے وقت تو خوب لمبے چوڑے وعدے کیے لیکن وہ وعدے صرف قلبی ڈپو کے دلالوں کے سبز باغ تھے۔ اگر چہ اس جائداد کی سالانہ آمدنی ڈیڑھ دو سو روپے سے کم نہ تھی لیکن بوڑھی کاکی کو اب پیٹ بھر روکھا دانہ بھی مشکل سے ملتا تھا۔ بدھ رام طبیعت کے نیک آدمی تھے لیکن اسی وقت تک کہ ان کی جیب پر کوئی آنچ نہ آئے۔ روپا طبیعت کی تیز تھی لیکن ایشور سے ڈرتی تھی، اس لیے بوڑھی کاکی پر اس کی تیزی اتنی نہ کھلتی تھی جتنی بدھ رام کی نیکی۔
بدھ رام کو کبھی کبھی اپنی بے انصافی کا احساس ہوتا۔ وہ سوچتے کہ اس جائداد کی بدولت میں اس وقت بھلا آدمی بنا بیٹھا ہوں اور اگر زبان تسکین یا تشفّی سے صورت حال میں کچھ اصلاح ہو سکتی تو انھیں مطلق دریغ نہ ہوتا لیکن مزید خرچ کا خوف ان کی نیکی کو دبائے رکھتا تھا۔ اس کے برعکس اگر دروازہ پر کوئی بھلا مانس بیٹھا ہوتا اور بوڑھی کاکی اپنا نغمہ بے ہنگام شروع کر دیتیں تو وہ آگ ہو جاتے تھے اور گھر میں آ کر انھیں زورسے ڈانٹتے تھے۔ لڑکے جنھیں بڈّھوں سے ایک بغض اللہ ہوتا ہے، والدین کا یہ رنگ دیکھ کر بوڑھی کاکی کو اور بھی دق کرتے۔ کوئی چٹکی لے کر بھاگتا، کوئی ان پر پانی کی کلّی کر دیتا۔ کاکی چیخ ما کر روتیں۔ لیکن یہ تو مشہور ہی تھا کہ وہ صرف کھانے کے لیے روتی ہیں۔ اس لیے کوئی ان کے نالہ و فریاد پر دھیان نہ دیتا تھا۔ وہاں اگر کاکی کبھی غصّہ میں آ کر لڑکوں کو گالیاں دینے لگتیں تو روپا موقع واردات پر ضرور جاتی۔ اس خوف سے کاکی اپنی شمشیر زبانی کا شاذ ہی کبھی استعمال کرتی تھیں۔ حالانکہ رفع شر کی یہ تدبیر رونے سے زیادہ کارگر تھی۔
سارے گھر میں اگر کسی کو کاکی سے محّبت تھی تو وہ بدھ رام کی چھوٹی لڑکی لاڈلی تھی۔ لاڈلی اپنے دونوں بھائیوں کے خوف سے اپنے حصّے کی مٹھائی یا چبینا بوڑھی کاکی کے پاس بیٹھ کر کھایا کرتی تھی یہی اس کا ملجا تھا اور اگر چہ کاکی کی پناہ ان کی معاندانہ سرگرمی کے باعث بہت گراں پڑتی تھی لیکن بھائیوں کے دست تطاول سے بدر جہا قابلِ ترجیح تھی۔ اس مناسب اغراض نے ان دونوں میں محبّت اور ہمدردی پیدا کر دی تھی۔
رات کا وقت تھا۔ بدھ رام کے دروازے پر شہنائی بج رہی تھی اور گاؤں کے بچّوں کا جم غفیر نگاہ حیرت سے گانے کی داد دے رہا تھا۔ چارپائیوں پر مہمان لیٹے ہوئے نائیوں سے ٹکیاں لگوا رہے تھے قریب ہی ایک بھاٹ کھڑا کبت سنا رہا تھا اور بعض سخن فہم مہمان کی واہ واہ سے ایسا خوش ہوتا تھا گویا وہی اس داد کا مستحق ہے۔ دو ایک انگریزی پڑھے ہوئے نوجوان ان بیہودگیوں سے بیزار تھے۔ وہ اس دہقانی مجلس میں بولنا یا شریک ہونا اپنی شان کے خلاف سمجھتے۔ آج بدھ رام کے بڑے لڑکے سکھ رام کا تلک آیا ہے۔ یہ اسی کا جشن ہے گھر میں مستورات گا رہی تھیں اور روپا مہمانوں کی دعوت کا سامان کرنے میں مصروف تھی بھٹیوں پر کڑاہ چڑھے ہوئے تھے۔ ایک میں پوریاں کچوریاں نکل رہی تھیں دوسرے میں سموسے اور پیڑا کین بنتی تھیں۔ ایک بڑے ہنڈے میں مصالحے دار ترکاری پک رہی تھی۔ گھی اور مصالحے کی اشتہار انگیز خوشبو چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔
بوڑھی کاکی اپنی اندھیری کوٹھری میں خیال غم کی طرح بیٹھی ہوئی تھیں۔ یہ لذّت آمیز خوشبو انھیں بے تاب کر رہی تھی۔ وہ دل میں سوچتی تھیں۔ شاید مجھے پوریاں نہ ملیں گی۔ اتنی دیر ہو گئی کوئی کھانا لے کر نہیں آیا معلوم ہوتا ہے لوگ سب کھا گئے ہیں۔ میرے لیے کچھ نہ بچا۔ یہ سوچ کر انھیں بے اختیار رونا آیا۔ لیکن شگون کے خوف سے رو نہ سکیں۔
آہا۔ کیسی خوشبو ہے۔ اب مجھے کون پوچھتا ہے۔ جب روٹیوں ہی کے لالے ہیں تو ایسے نصیب کہاں کہ پوریاں پیٹ بھر ملیں۔ یہ سوچ کر انھیں پھر بے اختیار رونا آیا کلیجہ میں ایک ہوک سی اٹھنے لگی لیکن روپا کے خوف سے انھوں نے پھر ضبط کیا۔
بوڑھی کاکی دیر تک انہی افسوس ناک خیالوں میں ڈوبی رہیں۔ گھی اور مصالحے کی خوشبو رہ رہ کر دل کو آپے سے باہر کیے دیتی تھی۔ منہ میں پانی بھر بھر آتا تھا۔ پوریوں کا ذائقہ یاد کر کے دل میں گدگدی ہونے لگتی تھی۔ ’’کسے پکاروں۔ آج لاڈلی بھی نہیں آئی دونوں لونڈے روز دق کیا کرتے ہیں۔ آج ان کا بھی کہیں پتہ نہیں۔ کچھ معلوم ہوتا کہ کیا بن رہا ہے۔‘‘
بوڑھی کاکی کی چشم خیال میں پوریوں کی تصویر ناچنے لگی۔ خوب لال لال پھولی پھولی نرم نرم ہوں گی۔ ایک پوری ملتی تو ذرا ہاتھ میں لے کر دیکھتی کیوں نہ چل کر کڑاہ کے سامنے ہی بیٹھوں۔
پوریاں چھَن چھَن کر کے کڑاہ میں تیرتی ہوں گی۔ کڑاہ سے گرما گرم نکل کر کٹھوتے میں رکھی جاتی ہوں گی۔ پھول ہم گھر میں بھی سونگھ سکتے ہیں لیکن سیر باغ کا کچھ اور ہی لطف ہے۔
اس طرح فیصلہ کر کے بوڑھی کا کی اکڑوں بیٹھ کر ہاتھوں کے بل کھسکتی ہوئی بمشکل تمام چوکھٹ سے اتریں اور دھیرے دھیرے رینگتی ہوئی کڑھاؤ کے پاس جا بیٹھی۔ روپا اس وقت ایک سراسیمگی کی حالت میں کبھی اس کمرے میں جاتی۔ کبھی اس کمرے میں۔ کبھی کڑاہ کے پاس، کبھی کوٹھے پر۔ کسی نے باہر سے آ کر کہا ’’مہراج ٹھنڈائی مانگ رہے ہیں۔‘‘ ٹھنڈائی دینے لگی۔
اتنے میں پھر کسی نے آ کر کہا۔ ’’بھاٹ آیا ہے۔ اسے کچھ دے دو۔‘‘ بھاٹ کے لیے سِدھا نکال رہی تھی کہ ایک تیسرے آدمی نے آ کر پوچھا کہ ابھی کھانا تیار ہونے میں کتنی دیر ہے؟ ذرا ڈھول مجیرا اتار دو۔ بیچاری اکیلی عورت چاروں طرف دوڑتے دوڑتے حیران ہو رہی تھی۔ جھنجھلاتی تھی۔ کڑھتی تھی۔ پر غصّہ باہر نکلنے کا موقع نہ پایا تھا۔ خوف ہوتا تھا۔ کہیں پڑوسنیں یہ نہ کہنے لگیں کہ اتنے ہی میں ابل پڑیں۔ پیاس سے خود اس کا حلق سوکھا جاتا تھا۔ گرمی کے مارے پھنکی جاتی تھی لیکن اتنی فرصت کہاں کہ ذرا پانی پی لے یا پنکھا لے کر جھلے۔ یہ بھی اندیشہ تھا کہ ذرا نگاہ پلٹی اور چیزوں کی لوٹ مچی۔ اس کشمکش کے عالم میں، اس نے بوڑھی کاکی کو کڑاہ کے پاس بیٹھے دیکھا تو جل گئی۔ غصّہ نہ رک سکا یہ خیال نہ رہا کہ پڑوسنیں بیٹھی ہوئی ہیں۔ دل میں کیا کہیں گی۔ مردانے میں لوگ سنیں گے تو کیا کہیں گے جیسے مینڈک کچھوے پر جھپٹتا ہے اسی طرح وہ بوڑھی کاکی پر جھپٹی اور انھیں دونوں ہاتھوں سے جھنجھوڑ کر بولی۔ ’’ایسے پیٹ میں آگ لگے۔ پیٹ ہے کہ آگ کا کنڈ ہے۔ کوٹھری میں بیٹھتے کیا دم گھٹتا تھا۔ ابھی مہمانوں نے نہیں کھایا۔ دیوتاؤں کا بھوگ تک نہیں لگا۔ تب تک صبر نہ ہو سکا۔ آ کر چھاتی پر سوار ہو گئی۔ نوج ایسی جیبھ دن بھر کھاتی نہ رہتیں تو نہ جانے کس کی ہانڈی میں منہ ڈالتیں۔ گاؤں دیکھے گا تو کہے گا کہ بڑھیا بھر پیٹ کھانے کو نہیں پاتی۔ تب ہی تو اس طرح بوکھلائے پھرتی ہے۔ اس خیال سے اس کا غصّہ اور بھی تیز ہو گیا۔ ڈائین مرے نہ مانجھا چھوڑے۔ نام بیچنے پر لگی ہے۔ ناک کٹوا کے دم لے گی۔ اتنا ٹھونستی ہے۔ جانے کہاں بھسم ہو جاتا ہے۔ لے بھلا چاہتی ہو تو جا کر کوٹھری میں بیٹھو۔ جب گھر کے لوگ لگیں تو تمھیں بھی ملے گا۔ تم کوئی دیوی نہیں ہو کہ چاہے کسی کے منہ میں پانی تک نہ جائے لیکن پہلے تمھاری پوجا کر دے۔
بوڑھی کاکی نے سر نہ اٹھایا۔ نہ روئیں نہ بولیں چپ چاپ رینگتی ہوئی وہاں سے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ صدمہ ایسا سخت تھا کہ دل و دماغ کی ساری قوتیں سارے جذبات ساری حسیات اس طرف رجوع ہو گئی تھیں۔ جیسے ندی میں جب کراڑ کا کوئی بڑا ٹکڑا کٹ کر گرتا ہے تو آس پاس کا پانی چاروں طرف سے سمٹ کر اس خلا کو پورا کرنے کے لیے دوڑتا ہے۔
کھانا تیار ہو گیا۔ آنگن میں پتل پڑ گئے۔ مہمان کھانے لگے۔ عورتوں نے جیونار گانا شروع کیا۔ مہمانوں کے نائی اور خدمت گار بھی اس جماعت کے ساتھ پر ذرا ہٹ کر کھانے بیٹھے ہوئے تھے لیکن آداب مجلس کے مطابق جب تک سب کے سب کھا نہ چکیں کوئی اٹھ نہ سکتا تھا۔ دو ایک مہمان جو ذرا تعلیم یافتہ تھے خدمت گاروں کی پر خوری پر جھنجھلا رہے تھے۔ وہ اس قید کو بے معنی و مہمل سمجھتے تھے۔
بوڑھی کاکی اپنی کوٹھری میں جا کر پچھتا رہی تھیں کہ کہاں سے کہاں گئی۔ انھیں روپا پر غصّہ نہیں تھا۔ اپنی عجلت پر افسوس تھا۔ سچ تو ہے جب تک مہمان کھا نہ چکیں گے۔ گھر والے کیسے کھائیں گے مجھ سے اتنی دیر بھی نہ رہا گیا۔ سب کے سامنے پانی اتر گیا۔ اب جب تک کہ کوئی نہ بلانے آئے گا نا جاؤں گی۔
دل میں یہ فیصلہ کر کے وہ خاموشی سے بلاوے کا انتظار کرنے لگیں لیکن گھی کی مرغوب خوشبو بہت صبر آزما ثابت ہو رہی تھی۔ انھیں ایک ایک لمحہ ایک ایک گھنٹہ معلوم ہوتا تھا اب پتل بچھ گئے ہوں گے۔ اب مہمان آ گئے ہوں گے۔ لوگ ہاتھ پیر دھو رہے ہیں نائی پانی دے رہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے لوگ کھانے پر بیٹھ گئے۔ جیونار گایا جا رہا ہے۔ یہ سوچ کر بہانے کے لیے لیٹ گئیں اور دھیرے دھیرے گنگنانے لگیں۔ انھیں معلوم ہوا کہ مجھے گاتے بہت دیر ہو گئی۔ کیا اتنی دیر تک لوگ کھا ہی رہے ہوں گے۔ کسی کی بول چال سنائی نہیں دیتی۔ ضرور لوگ کھا پی کے چلے گئے مجھے کوئی بلانے نہیں آیا۔ روپا چڑ گئی ہے کیا جانے کہ نہ بلائے۔ سوچتی ہو کہ آپ ہی آئیں گی۔ کوئی مہمان نہیں کہ بلا کر لاؤں۔
بوڑھی کاکی چلنے کے لیے تیار ہوئیں۔ یہ یقین کہ اب ایک لمحہ میں پوریاں اور مصالحے دار ترکاریاں سامنے آئیں گی اور ان کے حسن ذائقہ کو گدگدانے لگا۔ انھوں نے دل میں طرح طرح کے منصوبے باندھے۔ ’’پہلے ترکاری سے پوریاں کھاؤں گی پھر دہی اور شکر سے۔ کچوریاں رائتے کے ساتھ مزے دار معلوم ہوں گی۔ چاہے کوئی برا مانے یا بھلا میں تو مانگ مانگ کر کھاؤں گی۔ یہی نہ لوگ کہیں گے انھیں لحاظ نہیں ہے کیا کریں۔ اتنے دنوں کے بعد پوریاں مل رہی ہیں۔ تو منہ جھوٹا کر کے تھوڑے ہی اٹھ آؤں گی۔‘‘
وہ اکڑوں بیٹھ کر ہاتھوں کے بل کھسکتی ہوئی آنگن میں آئیں۔ مگر وائے قسمت اشتیاق نے اپنی پرانی عادت کے مطابق وقت کا غلط اندازہ کیا تھا مہمانوں کی جماعت ابھی بیٹھی ہوئی تھی۔ کوئی کھا کر انگلیاں چاٹتا تھا اور کنکھیوں سے دیکھتا تھا کہ اور لوگ بھی کھا رہے یا نہیں۔ کوئی اس فکر میں تھا کہ تیل پر پوریاں چھوٹی جاتی ہیں۔ کاش کسی طرح انھیں اندر رکھ لیتا۔ کوئی دہی کھا کر زبان چٹخارتا تھا لیکن دوسرا شکورا مانگتے ہوئے شرماتا تھا۔ کہ اتنے میں بوڑھی کاکی رینگتی ہوئی ان کے بیچ میں جا پہنچیں۔ کئی آدمی چونک کر اٹھ کھڑے ہوئے آوازیں آئیں۔ ’’ارے یہ کون بڑھیا ہے؟ دیکھو کسی کو چھو مت لے۔‘‘
پنڈت بدھ رام، کاکی کو دیکھتے ہی غصّہ سے تلملا گئے۔ پوریوں کے تھال لیے کھڑے تھے تھال کو زمین پر پٹک دیا اور جس طرح بے رحم ساہوکار اپنے کسی نا دہند مغرور اسامی کو دیکھتے ہی جھپٹ کر اس کا ٹیٹوا لیتا ہے اسی طرح لپک کر انھوں نے بوڑھی کاکی کے دونوں شانے پکڑے اور گھسیٹتے ہوئے لا کر انھیں اس اندھیری کوٹھری میں دھم سے گرا دیا۔ آرزوؤں کا سبز باغ لو کے ایک جھونکے میں ویران ہو گیا۔
مہمانوں نے کھانا کھایا۔ گھر والوں نے کھایا۔ باجے والے دھوبی چمار بھی کھا چکے لیکن بوڑھی کاکی کو کسی نے نہ پوچھا۔ بدھ رام اور روپا دونوں ہی انھیں ان کی بے حیائی کی سزا دینے کا تصفیہ کر چکے تھے۔ ان کے بڑھاپے پر، بے کسی پر، فتور عقل پر کسی کو ترس نہیں آتا تھا۔ اکیلی لاڈلی ان لے لیے کڑھ رہی تھی۔
لاڈلی کو کاکی سے بہت انس تھا۔ بے چاری بھولی، سیدھی لڑکی تھی۔ طفلانہ شوخی اور شرارت کی اس میں بُو تک نہ تھی۔ دونوں بار جب اس کی ماں اور باپ نے کاکی کو بے رحمی سے گھسیٹا تو لاڈلی کا کلیجہ بیٹھ کر رہ گیا۔ وہ جھنجھلا رہی تھی کہ یہ لوگ کاکی کو کیوں بہت سی پوریاں نہیں دے دیتے۔ کیا مہمان سب کی سب تھوڑے ہی کھا جائیں گے اور اگر کاکی نے مہمانوں سے پہلے ہی کھا لیا تو کیا بگڑ جائے گا؟ وہ کاکی کے پاس جا کر انھیں تسلّی دینا چاہتی تھی۔ لیکن ماں کے خوف سے نہ جاتی تھی۔ اس نے اپنے حصّے کی پوریاں مطلق نہ کھائی تھیں۔ اپنی گڑیوں کی پٹاری میں بند کر رکھی تھیں۔ وہ یہ پوریاں کاکی کے پاس لے جانا چاہتی تھیں۔ اس کا دل بے قرار ہو رہا تھا۔ بوڑھی کاکی میری آواز سنتے ہی اٹھ بیٹھیں گی۔ پوریاں دیکھ کر کیسی خوش ہوں گی۔ مجھے خوب پیار کریں گی۔
رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ روپا آنگن میں پڑی سو رہی تھی۔ لاڈلی کی آنکھوں میں نیند نہ آتی تھی۔ کاکی کو پوریاں کھلانے کی خوشی اسے سونے نہ دیتی تھی۔ اس نے گڑیوں کی پٹاری سامنے ہی رکھی۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ امّاں غافل سو رہی ہیں تو وہ چپکے سے اٹھی اور سوچنے لگی کہ کیسے چلوں۔ چاروں طرف اندھیرا تھا۔ صرف چولھوں میں آگ چمک رہی تھی اور چولھوں کے پاس ایک کتّا لیٹا ہوا تھا۔ لاڈلی کی نگاہ دروازہ والے نیم کے درخت کی طرف گئی۔ اسے معلوم ہوا کہ اس پر ہنومان جی بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کی دم ان کی گدل سب صاف نظر آتی تھی۔ مارے خوف کے اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ اتنے میں کتّا اٹھ بیٹھا لاڈلی کو ڈھارس ہوئی۔ کئی سوتے ہوئے آدمیوں کی بہ نسبت ایک جاگتا ہوا کتّا اس کے لیے زیادہ تقویت کا باعث ہوا۔ اس نے پٹاری اٹھائی اور بوڑھی کاکی کی کوٹھری کی طرف چلی۔
بوڑھی کاکی کو محض اتنا یاد تھا کہ کسی نے میرے شانے پکڑے، پھر انھیں ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی پہاڑ پر اڑائے لیے جاتا ہے۔ ان کے پیر بار بار پتھروں سے ٹکرائے۔ تب کسی نے انھیں پہاڑ پر سے پٹک دیا۔ وہ بے ہوش ہو گئیں۔
جب ان کے ہوش بجا ہوئے تو کسی کی ذرا بھی آہٹ نہ ملتی تھی۔ سمجھ گئیں کہ سب لوگ کھا پی کر سو گئے۔ اور ان کے ساتھ میری تقدیر بھی سو گئی۔ رات کیسے کٹے گی۔ رام کیا کھاؤں۔؟ پیٹ میں آگ جل رہی ہے۔ یا کسی نے میری سدھ نہ لی۔ کیا میرا پیٹ کاٹنے سے دھن ہو جائے گا؟ ان لوگوں کو اتنی دیا بھی نہیں آتی کہ بڑھیا نہ جانے کب مر جائے۔ اس کار ویاں کیوں دکھائیں۔ میں پیٹ کی روٹیاں ہی کھاتی ہوں کہ اور کچھ۔ اس پر یہ حال میں اندھی اپاہج ٹھہری۔ نہ کچھ سوجھے نہ بوجھے۔ اگر آنگن میں چلی گئی تو کیا بدھ رام سے اتنا کہتے نہ بنتا تھا کہ کاکی ابھی لوگ کھا رہے ہیں پھر آنا، مجھے گھسیٹا پٹکا۔ انھیں پوریوں کے لیے روپا نے سب کے سامنے گالیاں دیں۔ انہی پوریوں کے لیے اور اتنی درگت کر کے بھی ان کا پتھر کا کلیجہ نہ پسیجا۔ سب کو کھلایا میری بات نہ پوچھی۔ جب تب ہی نہ دیا تو اب کیا دے گی۔ یہ سوچ کر مایوسانہ صبر کے ساتھ لیٹ گئیں۔ رقت سے گلا بھر بھر آتا تھا۔ لیکن مہمانوں کے سامنے لحاظ سے روتی نہ تھی۔
یکایک ان کے کان میں آواز آئی۔ ’’کاکی اٹھو میں پوری لائی ہوں۔‘‘
کاکی نے لاڈلی کی آواز پہچانی۔ چٹ پٹ اٹھ بیٹھیں۔ دونوں ہاتھوں سے لاڈلی کو ٹٹولا اور اسے گود میں بٹھا لیا۔ لاڈلی نے پوریاں نکال کر دیں۔ کاکی نے پوچھا۔
’’کیا تمھاری اماں نے دی ہیں۔‘‘
لاڈلی نے فخر سے کہا۔ ’’نہیں یہ میرے حصّے کی ہیں۔‘‘
کاکی پوریوں پر ٹوٹ پڑیں۔ پانچ منٹ میں پٹاری خالی ہو گئی۔ لاڈلی نے پوچھا کاکی پیٹ بھر گیا۔؟
جیسے تھوڑی سی بارش ٹھنڈک کی جگہ اور بھی حبس پیدا کر دیتی ہے۔ اسی طرح ان چند پوریوں نے کاکی کی اشتہا اور رغبت کو اور بھی تیز کر دیا تھا۔ بولیں ’’نہیں بیٹی جا کے اماں سے اور مانگ لاؤ۔‘‘
لاڈلی۔ ’’اماں سوتی ہیں جگاؤں گی تو اماں ماریں گی۔‘‘
کاکی نے پٹاری کو پھر ٹٹولا۔ اس میں چند ریزے گرے تھے۔ انھیں نکال کر کھا گئیں۔ بار بار ہونٹ چاٹتی تھیں۔ چٹخارے بھرتی تھیں۔ دل مسوس رہا تھا کہ اور پوریاں کیسے پاؤں۔؟ صبر کا باندھ جب ٹوٹ جاتا ہے تو خواہش کا بہاؤ قابو سے باہر ہو جاتا ہے۔ مستوں کو سرور کی یاد دلانا انھیں دیوانہ بناتا ہے۔ کاکی کا بیتاب دل خواہش کے اس بہاؤ میں بہ گیا۔ حلال حرام کی تمیز نہ رہی۔ وہ کچھ دیر تک اس خواہش کو روکتی ہیں۔ یکایک لاڈلی سے بولیں۔ میرا ہاتھ پکڑ کر وہاں لے چلو جہاں مہمانوں نے بیٹھ کر کھانا کھایا تھا۔‘‘
لاڈلی ان کا منشا نہ سمجھ سکی۔ اس نے کاکی کا ہاتھ پکڑا اور انھیں لا کر جھوٹے پتلن کے پاس بٹھا دیا اور غریب بھوک کی ماری فاتر العقل بڑھیا پتلن سے پوریوں کے ٹکڑے چن چن کر کھانے لگی۔ وہی کتنا لذیذ تھا۔ سالن کتنا مزہ دار، کچوریاں کتنی سلونی سموسے کتنے خستہ اور نرم۔؟
کاکی فتور عقل کے باوجود جانتی تھی کہ میں وہ کر رہی ہوں جو مجھے نہ کرنا چاہیے۔ میں دوسروں کے جھوٹے پتّل چاٹ رہی ہوں، لیکن بڑھاپے کی حرص مرض کا آخری دور ہے۔ جب سارے حواس ایک ہی مرکز پر آ کر جمع ہو جات ہیں۔ بوڑھی کاکی میں یہ مرکز ان کا حسنِ ذائقہ تھا۔
عین اسی وقت روپا کی آنکھ کھلی۔ اسے معلوم ہوا کہ لاڈلی میرے پاس نہیں ہے۔ چونکی چارپائی کے اِدھر ادھر تاکنے لگی کہ کہیں لڑکی نیچے تو نہیں گر پڑی۔ اسے وہاں نہ پا کر وہ اٹھ بیٹھی۔ تو کیا دیکھتی ہے کہ لاڈلی چھوٹے پتلن کے پاس چپ چاپ کھڑی ہے اور بوڑھی کاکی پتلن پرسے پوریوں کے ٹکڑے اٹھا اٹھا کر کھا رہی ہیں۔ روپا کا کلیجہ سن سے ہو گیا۔ کسی گائے کے گردن پر چھری چلتے دیکھ کر اس کے دل کی جو حالت ہوتی وہی اس وقت ہوئی۔ ایک برہمنی دوسروں کا جھوٹا پتل ٹٹولے اس سے عبرتناک نظارہ نا ممکن تھا۔ پوریوں کے چند لقموں کے لیے اس کی چچیری ساس ایسا رکیک اور حقیر فعل کر رہی ہے۔ یہ وہ نظارہ تھا جس سے دیکھنے والوں کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زمین رک گئی ہے۔ آسمان چکر کھا رہا ہے۔ دنیا پر کوئی آفت آنے والی ہے۔ روپا کو غصّہ نہ آیا۔ عبرت کے سامنے غصّہ کا ذکر کیا؟ درد اور خوف سے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس دھرم اور پاپ کا الزام کس پر ہے؟ اس نے صدق دل سے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا۔ ’’پر ماتما بچّوں پر رحم کرنا۔ اس ادھرم کی سزا مجھے مت دینا ہمارا ستیاناس ہو جائے گا۔‘‘
روپا کو اپنی خود غرضی اور بے انصافی آج تک کبھی اتنی صفائی سے نظر نہ آئی تھی۔ ہائے میں کنتی بے رحم ہوں۔ جس کی جائداد سے مجھے دو سو روپے سال کی آمدنی ہو رہی ہے اس کی یہ درگت اور میرے کارن۔ اے ایشور مجھ سے بڑا بھاری گناہ ہوا ہے مجھے معاف کرو۔ آج میرے بیٹے کا تلک تھا۔ سیکڑوں آدمیوں نے کھانا کھایا میں ان کے اشارے کی غلام بنی ہوئی تھی۔ اپنے نام کے لیے۔ اپنی بڑائی کے لیے سیکڑوں روپے خرچ کر دیے۔ لیکن جس کی بدولت ہزاروں روپے کھائے اسے اس تقریب کے دن بھی پیٹ بھر کر کھانا نہ دے سکی۔ محض اس لیے نہ کہ وہ بڑھیا ہے۔ بے کس ہے۔ بے زبان ہے۔
اس نے چراغ جلایا۔ اپنے بھنڈارے کا دروازہ کھولا اور ایک تھالی میں کھانے کی سب چیزیں سجا کر لیے ہوئے بوڑھی کاکی کی طرف چلی۔
آدھی رات ہو چکی تھی۔ آسمان پر تاروں کے تھال سجے ہوئے تھے اور ان پر بیٹھے ہوئے فرشتے بہشتی نعمتیں سجا رہے تھے۔ لیکن ان میں کسی کو وہ مسرت نہ حاصل ہو سکتی تھی جو بوڑھی کاکی کو اپنے سامنے تھال دیکھ کر ہوئی۔ روپا نے رقت آمیز لہجہ میں کہا: ۔
’’کاکی اٹھو کھانا کھالو۔ مجھ سے آج بڑی بھول ہوئی۔ اس کا برا نہ ماننا پرماتما سے دعا کرو کہ وہ میری خطا معاف کر دے۔‘‘
بھولے بھالے بچّے کی طرح جو مٹھائیاں پا کر مار اور گھڑکیاں سب بھول جاتا ہے۔ بوڑھی کاکی بیٹھی ہوئی کھانا کھا رہی تھیں ان کے ایک ایک روئیں سے سچّی دعائیں نکل رہی تھیں اور روپا بیٹھی یہ روحانی نظارہ دیکھ رہی تھی۔
٭٭٭
بے غرض محسن
ساون کا مہینہ تھا، ریوتی رانی نے پاؤں میں مہندی رچائی، مانگ چوٹی سنواری۔ اور تب اپنی بوڑھی ساس سے جا کر بولی۔ ’’امّاں جی آج میں میلہ دیکھنے جاؤں گی۔‘‘
ریوتی پنڈت چنتا من کی بیوی تھی۔ پنڈت جی نے سرسوتی کی پوجا میں زیادہ نفع نہ دیکھ کر لکشمی دیوی کی مجاوری کرنی شروع کی تھی۔ لین دین کا کاروبار کرتے تھے۔ مگر اور مہاجنوں کے خلاف خاص خاص حالتوں کے سوا پچیس فیصدی سے زیادہ سودلینا مناسب نہ سمجھتے تھے۔
ریوتی کی ساس ایک بچّے کو گود میں لیے کھٹولے پر بیٹھی تھیں۔ بہو کی بات سن کر بولیں۔
’’بھیگ جاؤ گی تو بچّے کو زکام ہو جائے گا۔‘‘
ریوتی۔ نہیں امّاں مجھے دیر نہ لگے گی ابھی چلی آؤں گی۔
ریوتی کے دو بچّے تھے ایک لڑکا دوسری لڑکی۔ لڑکی ابھی گود میں تھی اور لڑکا ہیرا من ساتویں سال میں تھا۔ ریوتی نے اسے اچھے اچھے کپڑے پہنائے، نظر بد سے بچانے کے لیے ماتھے اور گالوں پر کاجل کے ٹیکے لگا دئیے۔ گڑیاں پیٹنے کے لیے ایک خوش رنگ چھڑی دے دی اور ہمجولیوں کے ساتھ میلہ دیکھنے چلی۔
کیرت ساگر کے کنارے عورتوں کا بڑا جمگھٹ لگا تھا۔ نیلگوں گھٹائیں چھائی تھیں۔ عورتیں سولہ سنگار کیے ساگر کے پر فضا میدان میں ساون کی رم جھم برکھا کی رت لوٹ رہی تھیں۔ شاخوں میں جھولے پڑے تھے۔ کوئی جھولا جھولتی، کوئی گانا گاتی، کوئی ساگر کے کنارے بیٹھی لہروں سے کھیلتی تھی۔ ٹھنڈی خوش گوار ہوا، پانی کی ہلکی پھوار، پہاڑیوں کی نکھری ہوئی ہریاول، لہروں کے دلفریب جھٹکولے موسم کو توبہ شکن بنائے ہوئے تھے۔
آج گڑیوں کی بدائی ہے، گڑیا اپنی سسرال جائیں گی، کنواری لڑکیاں اپنے ہاتھ میں مہندی رچائے گڑیوں کو گہنے کپڑے سے سجائے انھیں بدا کرنے آئی ہیں۔ انھیں پانی میں بہاتی ہیں اور چہک چہک کر ساون کے گیت گاتی ہیں۔ مگر دامن عافیت سے نکلتے ہی ان نازو نعمت میں پلی ہوئی گڑیوں پر چاروں طرف سے چھڑیوں اور لکڑیوں کی بوچھار ہونے لگتی ہے۔
ریوتی یہ سیر دیکھ رہی تھی اور ہیرا من ساگر کے زینوں پر اور لڑکیوں کے ساتھ گڑیاں پیٹنے میں مصروف تھا۔ زینوں پر کائی لگی ہوئی تھی۔ دفعتاً اس کا پاؤں، پھسلا تو پانی میں جا پڑا، ریوتی چیخ مار کر دوڑی اور سر پیٹنے لگی۔ دم کے دم میں وہاں مردوں اور عورتوں کا ہجوم ہو گیا۔ مگر یہ کسی کی انسانیت تقاضہ نہ کرتی تھی کہ پانی میں جا کر ممکن ہو تو بچّے کی جان بچائے، سنوارے ہوئے گیسو نہ بکھر جائیں گے۔ دھلی ہوئی دھوتی بھیگ جائے گی کتنے ہی مردوں کے دلوں میں یہ مردانہ خیال آ رہے تھے۔ دس منٹ گذر گئے مگر کوئی ہمّت باندھتا نظر نہ آیا۔ غریب ریوتی پچھاڑیں کھا رہی تھی۔ ناگاہ ایک آدمی اپنے گھوڑے پر سوار چلا جاتا تھا۔ یہ اژدہام دیکھ کر اتر پڑا اور ایک تماشائی سے پوچھا۔ ’’یہ کیسی بھیڑ ہے‘‘؟
تماشائی نے جواب دیا۔ ’’ایک لڑکا ڈوب گیا ہے۔‘‘
مسافر۔ کہاں؟
تماشائی۔ جہاں وہ عورت رو رہی ہے۔
مسافر نے فوراً اپنے گاڑھے کی مرزئی اتاری اور دھوتی کس کر پانی میں کود پڑا۔ چاروں طرف سنّاٹا چھا گیا۔ لوگ متحیر تھے کہ کون شخص ہے اس نے پہلا غوطہ لگایا لڑکے کی ٹوپی ملی دوسرا غوطہ لگایا تو اس کی چھڑی ملی اور تیسرے غوطہ کے بعد جب وہ اوپر آیا تو لڑکا اس کے گود میں تھا۔ تماشائیوں نے واہ واہ کا نعرہ پر شور بلند کیا۔ ماں نے دوڑ کر بچّے کو لپٹا لیا۔ اسی اثنا میں پنڈت چنتا من کے اور کئی عزیز آ پہنچے اور لڑکے کو ہوش میں لانے کی فکر کرنے لگے۔ آدھ گھنٹہ میں لڑکے نے آنکھیں کھول دیں۔ لوگوں کی جان میں جان آئی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر لڑکا دو منٹ بھی پانی میں اور رہتا تو بچنا غیر ممکن تھا۔ مگر جب لوگ اپنے گم نام محسن کو ڈھونڈنے لگے تو اس کا کہیں پتہ نہ تھا۔ چاروں طرف آدمی دوڑائے، سارا میلہ چھان مارا، مگر نظر نہ آیا۔
بیس سال گذر گئے پنڈت چنتا من کا کاروبار روز بروز بڑھتا گیا اس دوران میں اس کی ماں نے ساتوں جاترائیں کیں اور مریں تو ان کے نام پر ٹھاکر دوار تیار ہوا۔ ریوتی بہو سے ساس بنی، لین دین اور کھاتہ ہیرامن کے ہاتھ آیا۔ ہیرا من اب ایک وجیہہ لحیم و شحیم نوجوان تھا۔ نہایت خلیق، نیک مزاج کبھی کبھی باپ سے چھپا کر غریب آسامیوں کو قرض حسنہ دیا کرتا تھا۔ چنتامن نے کئی بار اس گناہ کے لیے بیٹے کو آنکھیں دکھائی تھیں اور الگ کر دینے کی دھمکی دی تھی۔ ہیرامن نے ایک بار سنسکرت پاٹ شالہ کے لیے پچاس روپے چندہ دیا، پنڈت جی اس پر ایسے برہم ہوئے، کہ دو دن تک کھانا نہیں کھایا۔ ایسے ایسے ناگوار واقعات آئے دن ہوتے رہتے تھے۔ انھیں وجوہ سے ہیرا من کی طبیعت باپ سے کچھ کھچی رہتی تھی۔ مگر اس کی ساری شرارتیں ہمیشہ ریوتی کی سازش سے ہوا کرتی تھیں۔ جب کسی قصبے کی غریب ودھوائیں یا زمینداروں کے ستائے ہوئے آسامیوں کی عورتیں ریوتی کے پاس آ کر ہیرامن کو آنچل پھیلا پھیلا کر دعائیں دینے لگتیں تو اسے ایسا معلوم ہوتا کہ مجھ سے زیادہ بھاگو ان اور میرے بیٹے سے زیادہ فرشتہ صفت آدمی دنیا میں نہ ہو گا۔ تب اسے بے اختیار وہ دن یاد آ جاتا جب ہیرامن کیرت ساگر میں ڈوب گیا تھا۔ اور اس آدمی کی تصویر اس کی نگاہوں کے سامنے کھڑی ہو جاتی جس نے اس کے لال کو ڈوبنے سے بچایا تھا اس کے عمیق دل سے دعا نکلتی اور ایسا جی چاہتا تھا کہ اسے دیکھ پاتی تو اس کے پاؤں پر گر پڑتی، اب اسے کامل یقین ہو گیا تھا کہ انسان نہ تھا بلکہ کوئی دیوتا تھا، وہ اب اسی کھٹولے پر بیٹھی ہوئی جس پر اس کی ساس بیٹھتی تھی اپنے دونوں پوتوں کو کھلایا کرتی تھی۔
آج ہیرا من کی ستائیسویں سالگرہ تھی۔ ریوتی کے لیے یہ دن سال بھر کے دنوں میں سب سے زیادہ مبارک تھا، آج اس کا دست کرم خوب فیاضی دکھاتا تھا اور یہی ایک بے جا صرف تھا جس میں پنڈت چنتا من بھی اس کے شریک ہو جاتے تھے۔ آج کے دن وہ بہت خوش ہوتی اور بہت روتی اور آج اپنے گم نام محسن کے لیے اس کے دل سے جو دعائیں نکلتیں وہ دل و دماغ کے اعلیٰ ترین جذبات میں رنگی ہوئی ہوتی تھیں۔ اسی کی بدولت تو آج مجھے یہ دن اور سکھ دکھ دیکھنا میسّر ہوا ہے۔
ایک دن ہیرا من نے آ کر ریوتی سے کہا۔ ’’امّاں سری پور نیلام پر چڑھا ہوا ہے، کہو تو میں بھی دام لگاؤں۔‘‘
ریوتی۔ سولھوانہ ہے؟
ہیرا من۔ سولھوانہ اچھا گاؤں ہے نہ بڑا نہ چھوٹا۔ یہاں سے دس کوس ہے۔ بیس ہزار تک بولی بڑھ چکی ہے سو دو سو میں ختم ہو جائے گا۔
ریوتی۔ اپنے دادا سے تو پوچھو۔
ہیرامن۔ ان کے ساتھ دو گھنٹے تک سر مغزن کرنے کی کسے فرصت ہے۔
ہیرامن اب گھر کا مختارِ کل ہو گیا تھا اور چنتامن کی ایک نہ چلنے پاتی تھی۔ وہ غریب اب عینک لگائے ایک گدّے پر بیٹھے اپنا وقت کھانسنے میں صرف کرتے تھے۔
دوسرے دن ہیرا من کے نام پر سری پور ختم ہو گیا۔ مہاجن سے زمیندار ہوئے اپنے منیب اور دو چپراسیوں کو لے کر گاؤں کی سیر کرنے کو چلے۔ سری پور والوں کو خبر ہوئی۔ نئے زمیندار کی پہلی آمد تھی، گھر گھر نذرانے دینے کی تیاریاں ہونے لگیں۔
پانچویں دن شام کے وقت ہیرا من گاؤں میں داخل ہوئے، دہی اور چاول کا تلک لگایا گیا۔ اور تین سواسامی پہر رات تک ہاتھ باندھے ہوئے ان کی خدمت میں کھڑے رہے۔ سویرے مختارِ عام نے اسامیوں کا تعارف کرانا شروع کیا۔ جو اسامی زمیندار کے سامنے آتا۔ وہ اپنی بساط کے مطابق ایک دو روپے ان کے پاؤں پر رکھ دیتا۔ دوپہر ہوتے ہوئے وہاں پانچ سو روپے کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔
ہیرا من کو پہلی بار زمینداری کا مزہ ملا۔ پہلی بار ثروت اور طاقت کا نشہ محسوس ہوا۔ سب نشوں سے زیادہ تیز قاتل ثروت کا نشہ ہے جب اسامیوں کی فہرست ختم ہو گئی تو مختار سے بولے۔ ’’اور کوئی اسامی باقی تو نہیں ہے۔‘‘
مختار۔ ہاں مہاراج ابھی ایک اسامی اور ہے ‘تخت سنگھ۔
ہیرامن۔ وہ کیوں نہیں آیا۔
مختار۔ ذرا مست ہے۔
ہیرا من۔ میں اس کی مستی اتار دوں گا، ذرا اسے کوئی بلا لائے۔
تھوڑی دیر میں ایک بوڑھا آدمی لاٹھی ٹیکتا آیا اور ڈنڈوت کر کے زمین پر بیٹھ گیا نہ نذرانہ نیاز اس کی یہ گستاخی دیکھ کر ہیرامن کو بخار چڑھ آیا۔ کڑک کر بولے۔ ’’ابھی کسی زمیندار سے پالا نہیں پڑا ہے ایک ایک کی ہیکڑی بھلا دوں گا۔‘‘
تخت سنگھ نے ہیرا من کی طرف غور سے دیکھ کر جواب دیا۔ ’’میرے سامنے بیس زمیندار آئے اور چلے گئے۔ مگر ابھی کسی نے اس طرح کی گھڑکی نہیں دی۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے لاٹھی اٹھائی اور اپنے گھر چلا آیا۔ بوڑھی ٹھکرائن نے پوچھا۔ دیکھا زمیندار کو کیسے آدمی ہیں۔‘‘؟
تخت سنگھ۔ اچھے آدمی ہیں۔ میں انھیں پہچان گیا۔
ٹھکرائن۔ کیا تم سے پہلے کی ملاقات ہے،؟
تخت سنگھ۔ ’’میری ان کی بیس برس کی جان پہچان ہے گڑیوں کے میلے والی بات یاد ہے نا۔‘‘؟
اس دن سے تخت سنگھ پھر ہیرامن کے پاس نہ آیا۔
چھ مہینے کے بعد ریوتی کو بھی سری پور دیکھنے کا شوق ہوا، اور وہ اس کے بہو اور بچّے سب سری پور آئے گاؤں کی سب عورتیں ان سے ملنے آئیں ان میں بوڑھی ٹھکرائن بھی تھی۔ اس کی بات چیت، سلیقہ اور تمیز دیکھ کر ریوتی دنگ رہ گئی۔ جب وہ چلنے لگی تو ریوتی نے کہا۔ ٹھکرائن کبھی کبھی آیا کرو نا تم سے مل کر طبیعت بہت خوش ہوئی۔
اس طرح دونوں عورتوں میں رفتہ رفتہ میل ہو گیا۔ یہاں تو یہ کیفیت تھی اور ہیرا من اپنے مختار عام کے مغالطے میں آ کر تخت سنگھ کو بے دخل کرنے کی بندشیں سوچ رہا تھا۔
جیٹھ کی پورن ماشی آئی ہیرامن کی سالگرہ کی تیاریاں ہونے لگیں۔ ریوتی چھلنی میں میدہ چھان رہی تھی کہ بوڑھی ٹھکرائن آئی ریوتی نے مسکرا کر کہا ’’ ٹھکرائن ہمارے یہاں کل تمھارا نیوتا ہے۔
ٹھکرائن۔ تمھارا نیوتا سر آنکھوں پر، کون سی برس گانٹھ ہے؟
ریوتی۔ انتیسویں۔
ٹھکرائن۔ نارائن کرے ابھی ایسے ایسے سو دن اور تمھیں دیکھنے نصیب ہوں۔
ریوتی۔ ٹھکرائن تمھاری زبان مبارک ہو بڑے بڑے جنتر منتر کیے ہیں تب تم لوگوں کی دعا ہے سے یہ دن دیکھنا نصیب ہوا ہے۔ یہ ساتویں ہی سال میں تھے کہ ان کی جان کے لالے پڑ گئے۔ گڑیوں کو میلہ دیکھنے گئی تھی یہ پانی میں گر پڑے۔ بارے میں ایک مہاتما نے ان کی جان بچائی۔ ان کی جان انھیں کی دی ہوئی ہے۔ بہت تلاش کرایا۔ ان کا پتہ نہ چلا۔ ہر برس گانٹھ پر ان کے نام سے سو روپے نکال رکھتی ہوں۔ دو ہزار سے کچھ اوپر ہو گیا ہے۔ بچّے کی نیت ہے کہ ان کے نام سے سری پور میں ایک مندر بنوا دیں سچ مانو ٹھکرائن۔ ایک بار ان کے درشن ہو جاتے تو زندگی سپھل ہو جاتی، جی کی ہوس نکال لیتے۔
ریوتی جب خاموش ہوئی تو ٹھکرائن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
دوسرے دن ایک طرف ہیرا من کی سالگرہ کا جشن تھا اور دوسری طرف تخت سنگھ کے کھیت نیلام ہو رہے تھے۔
ٹھکرائن بولی۔ میں ریوتی رانی کے پاس جا کر دھائی مچاتی ہوں۔
تخت سنگھ نے جواب دیا۔ میرے جیتے جی نہیں۔
اساڑھ کا مہینہ آیا۔ میگھراج نے اپنی جاں بخش فیاضی دکھائی۔ سری پور کے کسان اپنے اپنے کھیت جوتنے چلے۔ تخت سنگھ کی حسرت ناک اور آرزومند نگاہیں ان کے ساتھ ساتھ جاتیں یہاں تک زمین انھیں اپنے دامن میں چھپا لیتی۔
تخت سنگھ کے پاس ایک گائے تھی وہ اب دن کے دن اسے چرایا کرتا تھا۔ اس کی زندگی کا اب بھی ایک سہارا تھا، اس کے اپلے اور دودھ بیچ کر گذران کرتا، کبھی کبھی فاقہ کرنے پڑ جاتے۔ یہ سب مصیبتیں اس نے جھیلیں مگر اپنی بے نوائی کا رونا رونے کے لیے ایک دن بھی ہیرامن کے پاس نہ گیا۔ ہیرا من اسے زیر کرنا چاہا تھا مگر خود زیر ہو گیا، جیتنے پر بھی اسے ہار ہوئی، پر انے لوہے کو اپنی کمینہ ضد کی آنچ سے نہ جھکا سکا۔
ایک دن ریوتی نے کہا ’’بیٹا تم نے غریب کو ستایا ہے اچھا نہ کیا۔‘‘
ہیرا من نے تیز ہو کر جواب دیا۔ ’’وہ غریب نہیں ہے اس کا گھمنڈ توڑوں گا۔‘‘
ثروت کے نشے میں زمیندار وہ چیز توڑنے کی فکر میں تھا جس کا وجود ہی نہیں تھا جیسے بے سمجھ بچّہ اپنی پر چھائیں سے لڑنے لگتا ہے۔
سال بھر تخت سنگھ نے جوں توں کر کے کاٹا۔ پھر برسات آئی اس کا گھر چھایا نہ گیا تھا۔ کئی دن تک موسلا دھار مینھ برسا، تو مکان کا ایک حصّہ گر پڑا۔ گائے وہاں بندھی ہوئی تھی، دب کر مر گئی۔ تخت سنگھ کے بھی سخت چوٹ آئی۔ اسی دن سے اسے بخار آنا شروع ہو گیا۔ دوا دارو کون کرتا، روزی کا سہارا تھا وہ بھی ٹوٹا، ظالم بے درد مصیبت نے کچل ڈالا۔ سارا مکان پانی سے بھرا ہوا گھر میں اناج کا ایک دانہ نہیں۔ اندھیرے میں پڑا ہوا کراہ رہا تھا کہ ریوتی اس کے گھر گئی تخت سنگھ نے آنکھیں کھول دیں اور پوچھا ’’کون ہے؟‘‘
ٹھکرائن۔ ریوتی رانی ہیں۔
تخت سنگھ۔ میرے دھن بھاگ مجھ پر بڑی دیا کی۔
ریوتی نے شرمندہ ہو کر کہا۔ ٹھکرائن ایشور جانتا ہے میں اپنے بیٹے سے حیران ہوں۔ تمھیں جو تکلیف ہو مجھ سے کہو۔ تمھارے اوپر ایسی آفت پڑ گئی اور ہم سے خبر تک نہ کی۔
یہ کہہ کر ریوتی نے روپوں کی ایک چھوٹی سی پوٹلی ٹھکرائن کے سامنے رکھ دی روپوں کی جھنکار سن کر تخت سنگھ اٹھ بیٹھا۔ بولا ’’ رانی ہم اس کے بھوکے نہیں ہیں۔ مرتے دم گنہگار نہ کرو۔‘‘
دوسرے دن ہیرا من بھی اپنے ہوا خواہوں کو لیے ہوئے ادھر سے جا نکلا، گرا ہوا مکان دیکھ کر مسکرایا۔ اس کے دل نے کہا۔ آخر میں نے اس کا گھمنڈ توڑ دیا۔ مکان کے اندر جا کر بولا ’’ ٹھاکر اب کیا حال ہے۔؟‘‘
ٹھاکر نے آہستہ سے کہا ’’ سب ایشور کی دیا ہے، آپ کیسے بھول پڑے۔
ہیرا من کو دوسری بار زک ملی۔ اس کی یہ آرزو کہ تخت سنگھ میرے پاؤں کو آنکھوں سے چومے، اب بھی پوری نہ ہوئی۔ اسی رات کو غریب آزاد منش ایماندار بے غرض ٹھاکر اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔
بوڑھی ٹھکرائن اب دنیا میں اکیلی تھی، کوئی اس کے غم کاشریک اور اس کے مرنے پر آنسو بہانے والا نہ تھا۔ بے نوائی اور بے مائے گی نے غم کی آنچ اور بھی تیز کر دی تھی، سامان فراغت موت کے زخم کو گو بھر نہ سکیں مگر مرہم کا کام ضرور کرتے ہیں۔
فکر معاش بری بلا ہے ٹھکرائن اب کھیت اور چراگاہ سے گوبر چن لاتی اور اپلے بنا کر بیچتی۔ اسے لاٹھی ٹیکتے ہوئے کھیتوں اور چراگاہوں کو جاتے اور گوبر کا ٹوکرا سر پر رکھ کر بوجھ سے ہانپتے ہوئے آتے دیکھنا سخت دردناک تھا۔ یہاں تک ہیرامن کو بھی اس پر ترس آ گیا۔ ایک روز انھوں نے آٹا چاول تھالیوں میں رکھ کر اس کے پاس بھیجا۔ ریوتی خود لے کر گئی مگر بوڑھی ٹھکرائن آنکھوں میں آنسوبھر کر بولی۔ ’’ریوتی جب تک آنکھوں سے سوجھتا ہے اور ہاتھ پاؤں چلتے ہیں مجھے اور مرنے والے کو گنہگار نہ کرو۔
اس دن سے ہیرا من کو پھر اس کے ساتھ عملی ہمدردی کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔
ایک دن ریوتی نے ٹھکرائن سے اپلے مول لیے گاؤں میں پیسے کے تین اپلے ملتے تھے۔ اس نے چاہا کہ اس سے بیس ہی اپلے لوں اس دن سے ٹھکرائن نے اس کے یہاں اپلے لانا بند کر دیا۔
ایسی دیویاں دنیا میں کتنی ہیں کیا وہ اتنا نہیں جانتی تھی کہ ایک رازسربستہ زبان پر لا کر اپنی جاں کاہیوں کا خاتمہ کر سکتی ہوں مگر پھر وہ احسان کا بدلہ نہ ہو جائے گا۔ مثل مشہور ہے نیکی کر اور دریا میں ڈال۔ شاید اس کے دل میں کبھی یہ خیال ہی نہیں آیا کہ میں نے ریوتی پر کوئی احسان کیا ہے۔
یہ وضع دار آن پر مرنے والی عورت شوہر کے مرنے کے بعد تین سال تک زندہ رہی۔ یہ زمانہ اس نے جس تکلیف سے کاٹا اسے یاد کر کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کئی کئی دن فاقے سے گذر جاتے، کبھی گوبر نہ ملتا، کبھی کوئی اپلے چرا لے جاتا۔ ایشور کی مرضی کسی کا گھر بھرا ہوا ہے کھانے والے نہیں کوئی یوں رو رو کر زندگی کاٹتا ہے۔
بڑھیا نے یہ سب دکھ جھیلا مگر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا۔
ہیرا من کی تیسویں سالگرہ آئی ڈھول کی آواز سنائی دینے لگی۔ ایک طرف گھی کی پوریاں پک رہی تھیں۔ دوسری طرف تیل کی، گھی کی موٹے مغز برہمنوں کے لیے۔ تیل کی غریب فاقہ کش نیچوں کے لیے۔
یکایک ایک عورت نے ریوتی سے آ کر کہا۔ ’’ ٹھکرائن جانے کیسی ہوئی جاتی ہیں۔ تمھیں بلا رہی ہیں۔
ریوتی نے دل میں کہا۔ ایشور آج تو خیریت سے کاٹنا کہیں بڑھیا نہ مر رہی ہو۔ یہ سوچ کر بڑھیا کے پاس نہ گئی۔ ہیرامن نے جب دیکھا امّاں نہیں جانا چاہتیں تو خود چلا۔ ٹھکرائن پر اسے کچھ دنوں سے رحم آنے لگا تھا۔ مگر ریوتی مکان کے دروازے تک اسے منع کرنے آئی۔ یہ رحم دل نیک مزاج شریف ریوتی تھی۔
ہیرا من ٹھکرائن کے مکان پر پہنچا تو وہاں بالکل سنّاٹا چھایا ہوا تھا۔ بوڑھی عورت کا چہرہ زرد تھا اور جانکنی کی حالت طاری تھی۔ ہیرامن نے زور سے کہا۔ ’’ٹھکرائن میں ہوں ہیر امن۔‘‘ ٹھکرائن نے آنکھیں کھولیں اور اشارے سے اپنے سر نزدیک لانے کو کہا پھر رک رک کر بولی میرے سرہانے پٹاری میں ٹھاکر کی ہڈّیاں رکھی ہوئی ہیں میرے سہاگ کا سیندور بھی وہیں ہے۔ یہ دونوں پر اگ راج بھیج دینا۔
یہ کہہ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ ہیرا من نے پٹاری کھولی، تو دونوں چیزیں بہ حفاظت رکھی ہوئی ہیں۔ ایک پوٹلی میں دس روپے بھی رکھے ہوئے ملے۔ یہ شاید جانے والے کا زادِ راہ تھا۔
رات کو ٹھکرائن کی تکلیفوں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا۔
اسی رات کو ریوتی نے خواب میں دیکھا کہ ساون کا میلہ ہے گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں، میں کیرت ساگر کے کنارے کھڑی ہوں اتنے میں ہیرا من پانی میں پھسل پڑا۔ میں چھاتی پیٹ پیٹ کر رونے لگی۔
دفعتاً ایک بوڑھا آدمی پانی میں کود پڑا اور ہیرا من کو نکال لایا۔
ریوتی اس کے پاؤں پر گر پڑی اور بولی۔
’’آپ کون ہیں۔‘‘؟
اس نے جواب دیا۔
سری پور میں رہتا ہوں۔ میرا نام تخت سنگھ ہے۔
سری پور اب بھی ہیرا من کے قبضے میں ہے۔ مگر اب اس کی رونق دو چند ہو گئی ہے۔ وہاں جاؤ تو دور سے شوالے کا سنہری کلس دکھائی دینے لگتا ہے۔ جس جگہ تخت کا مکان تھا وہاں یہ شوالہ بنا ہوا ہے اس کے سامنے ایک پختہ کنواں اور پختہ دھرم شالہ ہے۔ مسافر یہاں ٹھہرتے ہیں اور تخت سنگھ کا گن گاتے ہیں۔
یہ شوالہ اور دھرم شالہ دونوں اس کے نام سے مشہور ہیں۔
٭٭٭
بند دروازہ
آفتاب افق کی گود سے نکلا۔ بچّہ پالنے سے وہی ملاحت، وہی سرخی، وہی خمار، وہی ضیا۔،
میں برآمدہ میں بیٹھا تھا۔ بچّے نے دروازے سے جھانکا میں نے مسکرا کر پکارا۔ وہ میری گود میں آ کر بیٹھ گیا۔
اس کی شرارتیں شروع ہو گئیں۔ کبھی قلم پر ہاتھ بڑھایا۔ کبھی کاغذ پر دست درازی کی۔ میں نے گود سے اتار دیا۔ وہ میز کا پایہ پکڑے کھڑا رہا۔ گھر میں نہ گیا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ ایک چڑیا پھدکتی ہوئی آئی اور سامنے کے صحن میں بیٹھ گئی۔ بچّہ کے لیے تفریح کا یہ نیا سامان تھا۔ وہ اس کی طرف لپکا۔ چڑیا ذرا بھی نہ ڈری۔ بچّہ نے سمجھا اب یہ پردار کھلونا ہاتھ آ گیا۔ بیٹھ کر دونوں ہاتھوں سے چڑیا کو بلانے لگا۔ چڑیا اڑ گئی مایوس بچّہ رونے لگا۔ مگر اندر کے دروازہ کی طرف تاکا بھی نہیں۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔
گرم حلوے کی خوش آیند صدا آئی۔ بچّہ کا چہرہ اشتیاق سے کھل اٹھا خوانچے والاسامنے سے گزرا۔ بچّے نے میری طرف التجا کی نظروں سے دیکھا جوں جوں خوانچے والا دور ہوتا گیا۔ نگاہ التجا احتجاج میں تبدیل ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ جب موڑ آ گیا۔ اور خوانچے والا نظروں سے غائب ہو گیا تو احتجاج نے فریادِ پر شور کی صورت اختیار کی مگر میں بازار کی چیزیں بچّوں کو نہیں کھانے دیتا۔ بچّہ کی فریاد نے مجھ پر کوئی اثر نہ کیا۔ میں نے آئندہ احتیاط کے خیال سے اور بھی اکڑ کر لی۔ کہہ نہیں سکتا۔ بچّے نے اپنی ماں کی عدالت میں اپیل کرنے کی ضرورت سمجھی یا نہیں۔ عام بچّے ایسی افتادوں کے موقع پر ماں سے اپیل کرتے ہیں۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔
میں نے اشک شوئی کے خیال سے اپنا فاؤنٹین پن اس کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ بچّہ کو کائنات کی دولت مل گئی۔ اس کے سارے قوائے ذہنی اس نئے عقدے کو حل کرنے میں منہمک ہو گئے۔ دفعتاً دروازہ ہوا سے خود بخود بند ہو گیا۔ پٹ، کی آواز بچّہ کے کانوں میں آئی۔ اس نے دروازہ کی طرف دیکھا۔ اس کا وہ انہماک فی الفور غائب ہو گیا۔ اس نے فاؤنٹین پن پھینک دیا۔ اور روتا ہوا دروازہ کی طرف چلا۔ کیونکہ دروازہ بند ہو گیا تھا۔
٭٭٭
بڑے گھر کی بیٹی
بینی مادھو سنگھ موضع گوری پور کے زمیندار نمبر دار تھے۔ ان کے بزرگ کسی زمانے میں بڑے صاحب ثروت تھے۔ پختہ تالاب اور مندر انھیں کی یاد گار تھی۔ کہتے ہیں اس دروازے پر پہلے ہاتھی جھومتا تھا۔ اس ہاتھی کا موجودہ نعم البدل ایک بوڑھی بھینس تھی جس کے بدن پر گوشت تو نہ تھا مگر شاید دودھ بہت دیتی تھی۔ کیونکہ ہر وقت ایک نہ ایک آدمی ہانڈی لئے اس کے سر پر سوار رہتا تھا۔ بینی مادھو سنگھ نے نصف سے زائد جائیداد وکیلوں کی نذر کی اور اب ان کی سالانہ آمدنی ایک ہزار سے زائد نہ تھی۔ ٹھاکر صاحب کے دو بیٹے تھے۔ بڑے کا نام شری کنٹھ سنگھ تھا۔ اس نے ایک مدت دراز کی جانکاہی کے بعد بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اور اب ایک دفتر میں نوکر تھا۔ چھوٹا لڑکا لال بہاری سنگھ دوہرے بدن کا سجیلا جوان تھا۔ بھرا ہوا چہرہ چوڑا سینہ بھینس کا دوسیر تازہ دودھ کا ناشتہ کر جاتا تھا۔ شری کنٹھ اس سے بالکل متضاد تھے۔ ان ظاہری خوبیوں کو انھوں نے دو انگریزی حروف بی۔ اے پر قربان کر دیا تھا۔ انھیں دو حرفوں نے ان کے سینے کی کشادگی، قد کی بلندی، چہرے کی چمک، سب ہضم کر لی تھی۔ یہ حضرت اب اپنا وقت فرصت طب کے مطالعہ میں صرف کرتے تھے۔ آیورویدک دواؤں پر زیادہ عقیدہ تھا۔ شام سویرے ان کے کمرے سے اکثر کھرل کی خوشگوار پیہم صدائیں سنائی دیا کرتی تھیں۔ لاہور اور کلکتہ کے ویدوں سے بہت خط و کتابت رہتی تھی۔
سری کنٹھ اس انگریزی ڈگری کے باوجود انگریزی معاشرت کے بہت مداح نہ تھے۔ بلکہ اس کے بر عکس وہ اکثر بڑی شد و مد سے اس کی مذمت کیا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے گاؤں میں ان کی بڑی عزت تھی۔ دسہرے کے دنوں میں وہ بڑے جوش سے رام لیلا میں شریک ہوتے اور خود ہر روز کوئی نہ کوئی روپ بھرتے۔ انہیں کی ذات سے گوری پور میں رام لیلا کا وجود ہوا۔ پرانے رسم و رواج کا ان سے زیادہ پر جوش وکیل مشکل سے ہو گا۔ خصوصاً مشترکہ خاندان کے وہ زبردست حامی تھے۔ آجکل بہوؤں کو اپنے کنبے کے ساتھ مل جل کر رہنے میں جو وحشت ہوتی ہے اسے وہ ملک اور قوم کے لئے فال بد خیال کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ گاؤں کی بہوئیں انہیں مقبولیت کی نگاہ سے نہ دیکھتی تھیں، بعض بعض شریف زادیاں تو انہیں اپنا دشمن سمجھتیں۔ خود ان ہی کی بیوی ان سے اس مسئلہ پر اکثر زور شور سے بحث کرتی تھیں۔ مگر اس وجہ سے نہیں کہ اسے اپنے ساس سسرے دیور جیٹھ سے نفرت تھی۔ بلکہ اس کا خیال تھا کہ اگر غم کھانے اور طرح دینے پر بھی کنبے کے ساتھ نباہ نہ ہو سکے تو آئے دن کی تکرار سے زندگی تلخ کرنے کے بجائے یہی بہتر ہے کہ اپنی کھچڑی الگ پکائی جائے۔
آنندی ایک بڑے اونچے خاندان کی لڑکی تھی۔ اس کے باپ ایک چھوٹی سی ریاست کے تعلقہ دار تھے۔ عالیشان محل، ایک ہاتھی، تین گھوڑے۔ پانچ وردی پوش سپاہی۔ فٹن، بہلیاں، شکاری کتے، باز، بحری، شکرے، جرے، فرش فروش شیشہ آلات، آنریری مجسٹریٹی اور قرض جو ایک معزز تعلقہ دار کے لوازم ہیں۔ وہ ان سے بہرہ ور تھے۔ بھوپ سنگھ نام تھا۔ فراخدل، حوصلہ مند آدمی تھے، مگر قسمت کی خوبی لڑکا ایک بھی نہ تھا۔ سات لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوئیں اور ساتوں زندہ رہیں۔ اپنے برابر یا زیادہ اونچے خاندان میں ان کی شادی کرنا اپنی ریاست کو مٹی میں ملانا تھا۔ پہلے جوش میں تو انھوں نے تین شادیاں دل کھول کر کیں۔ مگر جب پندرہ بیس ہزار کے مقروض ہو گئے تو آنکھیں کھلیں۔ ہاتھ پیر پیٹ لئے۔ آنندی چوتھی لڑکی تھی۔ مگر اپنی سب بہنوں سے زیادہ حسین اور نیک اسی وجہ سے ٹھاکر بھوپ سنگھ اسے بہت پیار کرتے تھے۔ حسین بچے کو شاید اس کے ماں باپ بھی زیادہ پیار کرتے ہیں۔ ٹھاکر صاحب بڑے پس و پیش میں تھے کہ اس کی شادی کہاں کریں۔ نہ تو یہی چاہتے تھے کہ قرض کا بوجھ بڑھے اور نہ یہی منظور تھا کہ اسے اپنے آپ کو بد قسمت سمجھنے کا موقع ملے۔ ایک روز سری کنٹھ ان کے پاس کسی چندے کے لئے روپیہ مانگنے آئے۔ شاید ناگری پرچار کا چندہ تھا۔ بھوپ سنگھ ان کے طور و طریق پر ریجھ گئے کھینچ تان کر زائچے ملائے گئے۔ اور شادی دھوم دھام سے ہو گئی۔
آنندی دیوی اپنے نئے گھر میں آئیں تو یہاں کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہی دیکھا۔ جن دلچسپیوں اور تفریحوں کی وہ بچپن سے عادی تھی ان کا یہاں وجود بھی نہ تھا۔ ہاتھی گھوڑوں کا تو ذکر کیا کوئی سجی ہوئی خوبصورت بہلی بھی نہ تھی۔ ریشمی سلیپر ساتھ لائی تھی مگر یہاں باغ کہاں مکان میں کھڑکیاں تک نہ تھیں۔ نہ زمین پر فرش نہ دیواروں پر تصویریں یہ ایک سیدھا سادا دہقانی مکان تھا۔ مگر آنندی نے تھوڑے ہی دنوں میں ان تبدیلیوں سے اپنے تئیں اس قدر مانوس بنا لیا۔ گویا اس نے تکلفات کبھی دیکھے ہی نہیں۔
ایک روز دوپہر کے وقت لال بہاری سنگھ دو مرغابیاں لئے ہوئے آئے۔ اور بھاوج سے کہا۔ جلدی سے گوشت پکا دو۔ مجھے بھوک لگی ہے۔ آنندی کھانا پکا کر ان کی منتظر بیٹھی تھی۔ گوشت پکانے بیٹھی مگر ہانڈی میں دیکھا تو گھی پاؤ بھرسے زیادہ نہ تھا۔ بڑے گھر کی بیٹی۔ کفایت شعاری کا سبق ابھی اچھی طرح نہ پڑھی تھی۔ اس نے سب گھی گوشت میں ڈال دیا۔ لال بہاری سنگھ کھانے بیٹھے تو دال میں گھی نہ تھا۔ ’’دال میں گھی کیوں نہیں چھوڑا؟‘‘
آنندی نے کہا، ’’گھی سب گوشت میں پڑ گیا۔‘‘
لال بہاری، ’’ابھی پرسوں گھی آیا ہے۔ اس قدر جلد اٹھ گیا۔‘‘
آنندی، ’’آج تو کل پاؤ بھر تھا۔ وہ میں نے گوشت میں ڈال دیا۔‘‘
جس طرح سوکھی لکڑی جلدی سے جل اٹھتی ہے۔ اسی طرح بھوک سے باؤلا انسان ذرا ذرا بات پر تنک جاتا ہے۔ لال بہاری سنگھ کو بھاوج کی یہ زباں درازی بہت بری معلوم ہوئی۔ تیکھا ہو کر بولا، ’’میکے میں تو چاہے گھی کی ندی بہتی ہو۔‘‘
عورت گالیاں سہتی ہے۔ مار سہتی ہے مگر میکے کی نندا اس سے سے نہیں سہی جاتی۔ آنندی منہ پھیر کر بولی، ’’ہاتھی مرا بھی تو نو لاکھ کا۔ وہاں اتنا گھی روز نائی کہار کھا جاتے ہیں۔‘‘
لال بہاری جل گیا۔ تھالی اٹھا کر پٹک دی اور بولا، ’’جی چاہتا ہے کہ تالو سے زبان کھینچ لے۔‘‘
آنندی کو بھی غصہ آ گیا۔ چہرہ سرخ ہو گیا۔ بولی، ’’وہ ہوتے تو آج اس کا مزہ چکھا دیتے۔‘‘
اب نوجوان اجڈ ٹھاکر سے ضبط نہ ہو سکا۔ اس کی بیوی ایک معمولی زمیندار کی بیٹی تھی۔ جب جی چاہتا تھا اس پر ہاتھ صاف کر لیا کرتا تھا۔ کھڑاؤں اٹھا کر آنندی کی طرف زور سے پھینکی اور بولا، ’’جس کے گمان پر بولی ہو۔ اسے بھی دیکھوں گا اور تمھیں بھی۔‘‘
آنندی نے ہاتھ سے کھڑاؤں روکی، سر بچ گیا۔ مگر انگلی میں سخت چوٹ آئی۔ غصے کے مارے ہوا کے ہلتے ہوئے پتے کی طرح کانپتی ہوئی اپنے کمرے میں آ کر کھڑی ہو گئی۔ عورت کا زور اور حوصلہ۔ غرور و عزت شوہر کی ذات سے ہے اسے شوہر ہی کی طاقت اور ہمت کا گھمنڈ ہوتا ہے۔ آنندی خون کا گھونٹ پی کر رہ گئی۔
سری کنٹھ سنگھ ہر شنبہ کو اپنے مکان پر آیا کرتے تھے۔ جمعرات کا یہ واقعہ تھا۔ دو دن تک آنندی نے نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ ان کی راہ دیکھتی رہی۔ آخر شنبہ کو حسب معمول شام کے وقت وہ آئے اور باہر بیٹھ کر کچھ ملکی و مالی خبریں، کچھ نئے مقدمات کی تجویزیں اور فیصلے بیان کرنے لگے۔ اور سلسلۂ تقریر دس بجے رات تک جاری رہا۔ دو تین گھنٹے آنندی نے بے انتہا اضطراب کے عالم میں کاٹے۔ بارے کھانے کا وقت آیا۔ پنچایت اٹھی۔ جب تخلیہ ہوا تو لال بہاری نے کہا، ’’بھیا آپ ذرا گھر میں سمجھا دیجئے گا کہ زبان سنبھال کر بات چیت کیا کریں۔ ورنہ ناحق ایک دن خون ہو جائے گا۔‘‘
بینی مادھو سنگھ نے شہادت دی۔ ’’بہو بیٹیوں کی یہ عادت اچھی نہیں کہ مردوں کے منہ لگیں۔‘‘
لال بہاری۔ ’’وہ بڑے گھر کی بیٹی ہیں تو ہم لوگ بھی کوئی کرمی کہار نہیں ہیں۔‘‘
سری کنٹھ۔، ’’آخر بات کیا ہوئی؟‘‘
لال بہاری، ’’کچھ بھی نہیں۔ یوں ہی آپ ہی آپ الجھ پڑیں، میکے کے سامنے ہم لوگوں کو تو کچھ سمجھتی ہی نہیں۔‘‘
سری کنٹھ کھا پی کر آنندی کے پاس گئے۔ وہ بھی بھری بیٹھی تھی۔ اور یہ حضرت بھی کچھ تیکھے تھے۔
آنندی نے پوچھا، ’’مزاج تو اچھا ہے؟‘‘
سر کنٹھ بولے، ’’بہت اچھا ہے۔ یہ آج کل تم نے گھر میں کیا طوفان مچا رکھا ہے؟‘‘
آنندی کے تیوروں پر بل پڑ گئے اور جھنجھلاہٹ کے مارے بدن میں پسینہ آ گیا۔ بولی، ’’جس نے تم سے یہ آگ لگائی ہے اسے پاؤں تو منہ جھلس دوں۔‘‘
سری کنٹھ، ’’اس قدر تیز کیوں ہوتی ہو، کچھ بات تو کہو۔‘‘
آنندی، ’’کیا کہوں۔ قسمت کی خوبی ہے۔ ورنہ ایک گنوار لونڈا جسے چپراسی گری کرنے کی بھی تمیز نہیں مجھے کھڑاؤں سے مار کر یوں نہ اکڑتا پھرتا۔ بوٹیاں نچوا لیتی۔ اس پر تم پوچھتے ہو کہ گھر میں طوفان کیوں مچا رکھا ہے۔‘‘
سری کنٹھ، ’’آخر کچھ کیفیت تو بیان کرو۔ مجھے تو کچھ معلوم ہی نہیں۔‘‘
آنندی، ’’پرسوں تمہارے لاڈلے بھائی نے مجھے گوشت پکانے کو کہا۔ گھی پاؤ بھر سے کچھ زیادہ تھا۔ میں نے سب گوشت میں ڈال دیا۔ جب کھانے بیٹھا تو کہنے لگا دال میں گھی کیوں نہیں۔ بس اسی پر میرے میکے کو برا بھلا کہنے لگا۔ مجھ سے برداشت نہ ہو سکا بولی کہ وہاں اتنا گھی نائی کہار کھا جاتے ہیں اور کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ بس اتنی سی بات پر اس ظالم نے مجھے کھڑاؤں پھینک ماری۔ اگر ہاتھ سے نہ روکتی تو سر پھٹ جاتا۔ اس سے پوچھو کہ میں نے جو کچھ کہا ہے سچ ہے یا جھوٹ؟‘‘
سری کنٹھ کی آنکھیں لال ہو گئیں۔ بولے، ’’یہاں تک نوبت پہنچ گئی۔ یہ لونڈا تو بڑا شریر نکلا۔‘‘
آنندی رونے لگی۔ جیسے عورتوں کا قاعدہ ہے۔ کیونکہ آنسو ان کی پلکوں پر رہتا ہے۔ عورت کے آنسو مرد کے غصے پر روغن کا کام کرتے ہیں۔ سری کنٹھ کے مزاج میں تحمل بہت تھا۔ انہیں شاید کبھی غصہ آیا ہی نہ تھا۔ مگر آنندی کے آنسوؤں نے آج زہریلی شراب کا کام کیا۔ رات بھر کروٹیں بدلتے رہے۔ سویرا ہوتے ہی اپنے باپ کے پاس جا کر بولے، ’’دادا اب میرا نباہ اس گھر میں نہ ہو گا۔‘‘
یہ اور اسی معنی کے دوسرے جملے زبان سے نکالنے کے لئے سری کنٹھ سنگھ نے اپنے کئی ہمجولیوں کو بارہا آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ جب ان کا کوئی دوست ان سے ایسی باتیں کہتا تو وہ مضحکہ اڑاتے اور کہتے، تم بیویوں کے غلام ہو۔ انھیں قابو میں رکھنے کے بجائے خود ان کے قابو میں ہو جاتے ہو۔ مگر ہندو مشترکہ خاندان کا یہ پر جوش وکیل آج اپنے باپ سے کہہ رہا تھا، ’’دادا! اب میرا نباہ اس گھر میں نہ ہو گا۔‘‘ ناصح کی زبان اسی وقت تک چلتی ہے۔ جب تک وہ عشق کے کرشموں سے بے خبر رہتا ہے۔ آزمائش کے بیچ میں آ کر ضبط اور علم رخصت ہو جاتے ہیں۔
بینی مادھو سنگھ گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور بولے، ’’کیوں۔‘‘
سری کنٹھ، ’’اس لئے کہ مجھے بھی اپنی عزت کا کچھ تھوڑا بہت خیال ہے۔ آپ کے گھر میں اب ہٹ دھرمی کا برتاؤ ہوتا ہے۔ جن کو بڑوں کا ادب ہونا چاہئے وہ ان کے سر چڑھتے ہیں۔ میں تو دوسرے کا غلام ٹھہرا گھر پر رہتا نہیں اور یہاں میرے پیچھے عورتوں پر کھڑاؤں اور جوتوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے۔ کڑی بات تک مضائقہ نہیں کوئی ایک کی دو کہہ لے۔ یہاں تک میں ضبط کر سکتا ہوں۔ مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ میرے اوپر لات اور گھونسے پڑیں اور میں دم نہ ماروں۔‘‘
بینی مادھو سنگھ کچھ جواب نہ دے سکے۔ سری کنٹھ ہمیشہ ان کا ادب کرتے تھے۔ ان کے ایسے تیور دیکھ کر بوڑھا ٹھاکر لاجواب ہو گیا۔ صرف اتنا بولا، ’’بیٹا تم عقلمند ہو کر ایسی باتیں کرتے ہو۔ عورتیں اسی طرح گھر تباہ کر دیتی ہیں۔ ان کا مزاج بڑھانا اچھی بات نہیں۔‘‘
سری کنٹھ، ’’اتنا میں جانتا ہوں۔ آپ کی دعا سے ایسا احمق نہیں ہوں۔ آپ خود جانتے ہیں کہ اس گاؤں کے کئی خاندانوں کو میں نے علیٰحدگی کی آفتوں سے بچا دیا ہے۔ مگر جس عورت کی عزت و آبرو کا میں ایشور کے دربار میں ذمہ دار ہوں اس عورت کے ساتھ ایسا ظالمانہ برتاؤ میں نہیں سہہ سکتا۔ آپ یقین مانئے میں اپنے اوپر بہت جبر کر رہا ہوں کہ لال بہاری کی گوشمالی نہیں کرتا۔‘‘
اب بینی مادھو بھی گرمائے۔ یہ کفر زیادہ نہ سن سکے بولے، ’’لال بہاری تمہارا بھائی ہے۔ اس سے جب کبھی بھول چوک ہو۔ تم اس کے کان پکڑو۔ مگر۔۔۔‘‘
سری کنٹھ، ’’لال بہاری کو میں اب اپنا بھائی نہیں سمجھتا۔‘‘
بینی مادھو، ’’عورت کے پیچھے۔‘‘
سری کنٹھ، ’’جی نہیں! اس کی گستاخی اور بے رحمی کے باعث۔‘‘
دونوں آدمی کچھ دیر تک خاموش رہے۔ ٹھاکر صاحب لڑکے کا غصہ دھیما کرنا چاہتے تھے۔ مگر یہ تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے کہ لال بہاری سے کوئی گستاخی یا بے رحمی وقوع میں آئی۔ اسی اثنا میں کئی اور آدمی حقہ تمباکو اڑانے کے لئے آ بیٹھے۔ کئی عورتوں نے جب سنا کہ سری کنٹھ بیوی کے پیچھے باپ سے آمادۂ جنگ ہیں تو ان کا دل بہت خوش ہوا اور طرفین کی شکوہ آمیز باتیں سننے کے لئے ان کی روحیں تڑپنے لگیں۔ کچھ ایسے حاسد بھی گاؤں میں تھے جو اس خاندان کی سلامت روی پر دل ہی دل میں جلتے تھے۔ سری کنٹھ باپ سے دبتا ہے۔ اس لئے وہ خطا وار ہے۔ اس نے اتنا علم حاصل کیا۔ یہ بھی اس کی خطا ہے۔ بینی مادھو سنگھ بڑے بیٹے کو بہت پیار کرتے ہیں۔ یہ بری بات ہے۔ وہ بلا اس کی صلاح کے کوئی کام نہیں کرتے۔ یہ ان کی حماقت ہے۔ ان خیالات کے آدمیوں کی آج امیدیں بر آئیں۔ کوئی حقہ پینے کے بہانے سے، کوئی لگان کی رسید دکھانے کے حیلے سے آ آ کر بیٹھ گئے۔ بینی مادھو سنگھ پرانا آدمی تھا۔ سمجھ گیا۔ کہ آج یہ حضرات پھولے نہیں سماتے۔ اس کے دل نے یہ فیصلہ کیا کہ انہیں خوش نہ ہونے دوں گا۔ خواہ اپنے اوپر کتنا ہی جبر ہو۔ یکا یک لہجۂ تقریر نرم کر کے بولے، ’’بیٹا! میں تم سے باہر نہیں ہوں۔ تمہارا جو جی چاہے کرو۔ اب تو لڑکے سے خطا ہو گئی۔‘‘
الہٰ آباد کا نوجوان، جھلایا ہوا گریجویٹ اس گھات کو نہ سمجھا۔ اپنے ڈیبیٹنگ کلب میں اس نے اپنی بات پر اڑنے کی عادت سکھی تھی۔ مگر عملی مباحثوں کے داؤ پیچ سے واقف نہ تھا۔ اس میدان میں وہ بالکل اناڑی نکلا۔ باپ نے جس مطلب سے پہلو بدلا تھا وہاں تک اس کی نگاہ نہ پہنچی۔ بولا، ’’میں لال بہاری سنگھ کے ساتھ اب اس گھر میں نہیں رہ سکتا۔‘‘
باپ، ’’بیٹا! تم عقلمند ہو۔ اور عقلمند آدمی گنواروں کی بات پر دھیان نہیں دیتا۔ وہ بے سمجھ لڑکا ہے اس سے جو کچھ خطا ہوئی ہے اسے تم بڑے ہو کر معاف کر دو۔‘‘
بیٹا، ’’اس کی یہ حرکت میں ہر گز معاف نہیں کر سکتا۔ یا تو وہی گھر میں رہے گا یا میں ہی رہوں گا۔ آپ کو اگر اس سے زیادہ محبت ہے تو مجھے رخصت کیجئے۔ میں اپنا بوجھ آپ اٹھا لوں گا۔ اگر مجھے رکھنا چاہتے ہو تو اس سے کہئیے جہاں چاہے چلا جائے۔ بس یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔‘‘
لال بہاری سنگھ دروازے کی چوکھٹ پر چپ چاپ کھڑا بڑے بھائی کی باتیں سن رہا تھا۔ وہ ان کا بہت ادب کرتا تھا۔ اسے کبھی اتنی جرأت نہ ہوئی تھی کہ سری کنٹھ کے سامنے چارپائی پر بیٹھ جائے یا حقہ پی لے یا پان کھا لے۔ اپنے باپ کا بھی اتنا پاس و لحاظ نہ کرتا تھا۔ سری کنٹھ کو بھی اس سے دلی محبت تھی۔ اپنے ہوش میں انھوں نے کبھی اسے گھڑکا تک نہ تھا۔ جب الہٰ آباد سے آتے تو ضرور اس کے لئے کوئی نہ کوئی تحفہ لاتے۔ مگدر کی جوڑی انھوں نے ہی بنوا کر دی تھی۔ پچھلے سال جب اس نے اپنے سے ڈیوڑھے جوان کو ناگ پنچمی کے دنگل میں پچھاڑ دیا تو انھوں نے خوش ہو کر اکھاڑے ہی میں جا کر اسے گلے سے لگا لیا تھا۔ اور پانچ روپے کے پیسے لٹائے تھے۔ ایسے بھائی کے منہ سے آج ایسی جگر دوز باتیں سن کر لال بہاری سنگھ کو بڑا ملال ہوا۔ اسے ذرا بھی غصہ نہ آیا۔ وہ پھوٹ کر رونے لگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے فعل پر آپ نادم تھا۔ بھائی کے آنے سے ایک دن پہلے ہی سے اس کا دل ہر دم دھڑکتا تھا، کہ دیکھوں بھیا کیا کہتے ہیں۔ میں ان کے سامنے کیسے جاؤں گا۔ میں ان سے کیسے بولوں گا۔ میری آنکھیں ان کے سامنے کیسے اٹھیں گی۔ اس نے سمجھا تھا کہ بھیا مجھے بلا کر سمجھا دیں گے۔ اس امید کے خلاف آج وہ انھیں اپنی صورت سے بیزار پاتا تھا۔ وہ جاہل تھا مگر اس کا دل کہتا تھا کہ بھیا میرے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ اگر سری کنٹھ اسے اکیلا بلا کر دو چار منٹ سخت باتیں کہتے بلکہ دو چار طمانچے بھی لگا دیتے تو شاید اسے اتنا ملال نہ ہوتا۔ مگر بھائی کا یہ کہنا کہ اب میں اس کی صورت سے نفرت رکھتا ہوں۔ لال بہاری سے نہ سہا گیا۔ وہ روتا ہوا گھر میں آیا اور کوٹھری میں جا کر کپڑے پہنے۔ پھر آنکھیں پونچھیں جس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ روتا تھا۔ تب آنندی دیوی کے دروازے پر آ کر بولا، ’’بھابی! بھیا نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ میرے ساتھ اس گھر میں نہ رہیں گے۔ وہ اب میرا منہ دیکھنا نہیں چاہتے۔ اس لئے اب میں جاتا ہوں۔ انہیں پھر منہ نہ دکھاؤں گا۔ مجھ سے جو خطا ہوئی ہے اسے معاف کرنا۔‘‘
یہ کہتے کہتے لال بہاری کی آواز بھاری ہو گئی۔
جس وقت لال بہاری سنگھ سر جھکائے آنندی کے دروازے پر کھڑا تھا۔ اسی وقت سری کنٹھ بھی آنکھیں لال کئے باہر سے آئے۔ بھائی کو کھڑا دیکھا تو نفرت سے آنکھیں پھیر لیں اور کترا کر نکل گئے۔ گویا اس کے سائے سے بھی پرہیز ہے۔
آنندی نے لال بہاری سنگھ کی شکایت تو شوہر سے کی۔ مگر اب دل میں پچھتا رہی تھی۔ وہ طبعاً نیک عورت تھی اور اس کے خیال میں بھی نہ تھا کہ یہ معاملہ اس قدر طول کھینچے گا۔ وہ دل ہی دل میں اپنے شوہر کے اوپر جھنجھلا رہی تھی کہ اس قدر گرم کیوں ہو رہے ہیں۔ یہ خوف کہ کہیں مجھے الہٰ آباد چلنے کو نہ کہنے لگیں تو پھر میں کیا کروں گی، اس کے چہرے کو زرد کئے ہوئے تھا۔ اسی حالت میں جب اس نے لال بہاری کو دروازے پر کھڑے یہ کہتے سنا کہ اب میں جاتا ہوں۔ مجھ سے جو کچھ خطا ہوئی ہے معاف کرنا۔ تو اس کا رہا سہا غصہ بھی پانی ہو گیا۔ وہ رونے لگی۔ دلوں کا میل دھونے کے لئے آنسو سے زیادہ کار گر کوئی چیز نہیں ہے۔
سری کنٹھ کو دیکھ کر آنندی نے کہا، ’’لالہ باہر کھڑے ہیں۔ بہت رو رہے ہیں۔‘‘
سری کنٹھ، ’’تو میں کیا کروں؟‘‘
آنندی، ’’اندر بلا لو۔ میری زبان کو آگ لگے۔ میں نے کہاں سے وہ جھگڑا اٹھایا۔‘‘
سری کنٹھ، ’’میں نہیں بلانے کا۔‘‘
آنندی، ’’پچھتاؤ گے۔ انہیں بہت گلان آ گئی ہے۔ ایسا نہ ہو۔ کہیں چل دیں۔‘‘
سری کنٹھ نہ اٹھے۔ اتنے میں لال بہاری نے پھر کہا، ’’بھابی! بھیا سے میرا سلام کہہ دو۔ وہ میرا منہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس لئے میں بھی اپنا منہ انھیں نہ دکھاؤں گا۔‘‘
لال بہاری سنگھ اتنا کہہ کر لوٹ پڑا۔ اور تیزی سے باہر کے دروازے کی طرف جانے لگا۔ یکا یک آنندی اپنے کمرے سے نکلی اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ لال بہاری نے پیچھے کی طرف تاکا اور آنکھوں میں آنسو بھر کر بولا، ’’مجھ کو جانے دو۔‘‘
آنندی، ’’کہاں جاتے ہو؟‘‘
لال بہاری، ’’جہاں کوئی میرا منہ نہ دیکھے۔‘‘
آنندی، ’’میں نہ جانے دوں گی۔‘‘
لال بہاری، ’’میں لوگوں کے ساتھ رہنے کے قابل نہیں ہوں۔‘‘
آنندی۔ ’’تمہیں میری قسم اب ایک قدم بھی آگے نہ بڑھانا۔‘‘
لال بہاری، ’’جب تک مجھے یہ نہ معلوم ہو جائے گا کہ بھیا کے دل میں میری طرف سے کوئی تکلیف نہیں تب تک میں اس گھر میں ہر گز نہ رہوں گا۔‘‘
آنندی، ’’میں ایشور کی سوگندھ کھا کر کہتی ہوں کہ تمہاری طرف سے میرے دل میں ذرا بھی میل نہیں ہے۔‘‘
اب سری کنٹھ کا دل پگھلا۔ انہوں نے باہر آ کر لال کو گلے لگا لیا۔ اور دونوں بھائی خوب پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ لال بہاری نے سسکتے ہوئے کہا، ’’بھیا! اب کبھی نہ کہنا کہ تمہارا منہ نہ دیکھوں گا۔ اس کے سوا جو سزا آپ دیں گے وہ میں خوشی سے قبول کروں گا۔‘‘
سری کنٹھ نے کانپتی ہوئی آواز سے کہا، ’’للو ان باتوں کو بالکل بھول جاؤ۔ ایشور چاہے گا تو اب ایسی باتوں کا موقع نہ آئے گا۔‘‘
بینی مادھو سنگھ باہر سے آ رہے تھے۔ دونوں بھائیوں کو گلے ملتے دیکھ کر خوش ہو گئے اور بول اٹھے، ’’بڑے گھر کی بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ بگڑتا ہوا کام بنا لیتی ہیں۔‘‘
گاؤں میں جس نے یہ واقعہ سنا۔ ان الفاظ میں آنندی کی فیاضی کی داد دی۔ ’’بڑے گھر کی بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔
٭٭٭
اندھیر
ناگ پنچمی آئی، ساٹھے کے زندہ دل نوجوانوں نے خوش رنگ جانگھیے بنوائے اکھاڑے میں ڈھول کی مردانہ صدائیں بلند ہوئیں قرب و جوار کے زور آزما اکھٹے ہوئے اور اکھاڑے پر تمبولیوں نے اپنی دکانیں سجائیں کیوں کی آج زور آزمائی اور دوستانہ مقابلے کا دن ہے عورتوں نے گوبر سے اپنے آنگن لیپے اور گاتی بجاتی کٹوروں میں دودھ چاول لیے ناگ پوجنے چلیں۔
ساٹھے اور پاٹھے دو ملحق موضع تھے دونوں گنگا کے کنارے، زراعت میں زیادہ مشقت نہیں کرنی پڑتی تھی اس لیے آپس میں فوج داریوں کی گرم بازاری تھی۔ ازل سے ان کے درمیان رقابت چلی آتی تھی۔ ساٹھے والوں کو یہ زعم تھا کہ انھوں نے پاٹھے والوں کو کبھی سر نہ اٹھانے دیا۔ علی ہذا پاٹھے والے اپنے رقیبوں کو زک دینا ہی زندگی کا مقدم کام سمجھتے تھے۔ ان کی تاریخ فتوحات کی روایتوں سے بھری ہوئی تھی پاٹھے کے چروا ہے گیت گاتے ہوئے چلتے تھے۔
ساٹھے والے کایر سگرے
پاٹھے والے ہیں سردار
اور ساٹھے کے دھوبی گاتے:
ساٹھے والے ساٹھ ہاتھ کے جن کے ہاتھ سداتروار
ان لوگن کے جنم نسائے جن پاٹھے مان لیں اوتار
غرض رقابت کا یہ جوش بچوں میں ماں کے ساتھ داخل ہوتا تھا اور ان کے اظہار کا سب سے موزوں اور تاریخی موقع یہی ناگ پنچمی کا دن تھا۔ اس دن کے لیے سال بھر تیاریاں ہوتی رہتی تھیں۔ آج ان معرکے کی کشتی ہونے والی تھی ساٹھے کو گوپال پر ناز تھا۔ پاٹھے کو بلدیو کا غرّہ۔ دونوں سورما اپنے اپنے فریق کی دعائیں اور آرزوئیں لیے ہوئے اکھاڑے میں اترے۔
تماشائیوں پر مرکزی کشش کا اثر ہوا۔ موضع کے چوکیداروں نے لٹھ اور ڈنڈوں کا یہ جمگھٹ دیکھا اور مردوں کی انگارے کی طرح لال آنکھیں تو تجربۂ سابقہ کی بنا پر بے پتّہ ہو گئے۔ ادھر اکھاڑے میں داؤں پیچ ہوتے رہے بلدیو الجھتا تھا گوپال پینترے بدلتا تھا اسے اپنی طاقت کا زعم تھا اسے اپنے کرتب کا بھروسہ۔ کچھ دیر تک اکھاڑے سے خم ٹھوکنے کی آوازیں آتی رہیں تب یکایک بہت سے آدمی خوشی کے نعرے مار مار کر اچھلنے لگے کپڑے اور برتن اور پیسے اور بتاشے لٹائے جانے لگے کسی نے اپنا پرانا صافہ پھینکا کسی نے اپنی بوسیدہ ٹوپی ہوا میں اڑا دی۔ ساٹھے کے منچلے جوان اکھاڑے میں پل پڑے اور گوپال کو گود میں اٹھا لائے۔ بلدیو اور اس کے رقیبوں نے گوپال کو لہو کی آنکھوں سے دیکھا اور دانت پیس کر رہ گئے۔ دس بجے رات کا وقت اور ساون کا مہینہ آسمان پر کالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں۔ تاریکی کا یہ عالم تھا گویا روشنی کا وجود ہی نہیں رہا۔ کبھی کبھی بجلی چمکتی تھی مگر تاریکی کو اور زیادہ تاریک کرنے کے لیے مینڈکوں کی آواز زندگی کا پتہ دیتی تھی ورنہ چاروں طرف موت تھی خاموش خوفناک اور متین۔ ساٹھے کے جھونپڑے اور مکانات اس اندھیرے میں بہت غور سے دیکھنے پر کالی بھیڑوں کی طرح نظر آتے تھے۔ نہ بچے روتے تھے نہ عورتیں گاتی تھیں پیران پارسارام نام بھی نہ جپتے تھے۔
مگر آبادی سے بہت دور کہیں پر شورنالوں اور ڈھاک کے جنگلوں سے گذر کر جوار اور باجرے کے کھیت تھے اور ان کی مینڈوں پر ساٹھے کے کسان جا بجا منڈیا ڈالے ہوئے کھیتوں کی رکھوالی کر رہے تھے۔ تلے زمین اوپر تاریکی میلوں تک سنّاٹا چھایا ہوا کہیں جنگلی سوروں کے غول، کہیں نیل گایوں کے ریوڑ۔ چلم کے سوا کوئی ساتھی نہیں آگ کے سوا کوئی مددگار نہیں۔ ذرا کھٹکا ہوا اور چونک پڑے۔ تاریکی خوف کا دوسرا نام ہے۔
جب ایک مٹّی کا ڈھیر، ایک ٹھونٹھا درخت اور ایک تودۂ کاہ بھی متحرک اور حساس بن جاتے ہیں تاریکی ان میں جان ڈال دیتی ہے۔ لیکن یہ مضبوط ارادے والے کسان ہیں کہ یہ سب سختیاں جھیلتے ہیں تاکہ اپنے سے زیادہ خوش نصیب بھائیوں کے لیے عیش اور تکلف کے سامان بہم پہنچائیں انھیں رکھوالوں میں آج کا ہیرو ساٹھے کا مایہ ناز گوپال بھی ہے جو اپنی منڈیّا میں بیٹھا ہوا ہے اور نیند کو بھگانے کے لیے دھیرے سروں میں یہ نغمہ گا رہا ہے۔
میں توتو سے نینا لگائے پچھتائی رے
دفعتاً اسے کسی کے پاؤں کی آہٹ معلوم ہوئی جیسے ہرن کتوں کی آوازوں کو کان لگا کر سنتا ہے اسی طرح گوپال نے بھی کان لگا کر سنا۔
نیند کی غنودگی دور ہو گئی لٹھ کندھے پر رکھا اور منڈیّا سے باہر نکل آیا چاروں طرف سیاہی چھائی ہوئی تھی اور ہلکی ہلکی بوندیں پڑ رہی تھیں وہ باہر نکلا ہی تھا کہ اس کے سر پر لاٹھی کا بھر پور ہاتھ پڑا وہ تیورا کرکرا۔ اور رات بھر وہیں بے سدھ پڑا رہا۔ معلوم نہیں اس پر کتنی چوٹیں پڑیں، حملہ آوروں نے تو اپنی دانست میں اس کا کام تمام کر ڈالا لیکن حیات باقی تھی یہ پاٹھے کے غیرت مند لوگ تھے جنھوں نے اندھیرے کی آڑ میں اپنی ہار کا بدلہ لیا تھا۔
گوپال ذات کا اہیر تھا نہ پڑھا نہ لکھا بالکل اکھڑ دماغ۔ روشن ہی نہیں ہوا تو شمع جسم کیوں کھلتی پورے چھ فٹ کا قد گٹھا ہوا بدن للکار کر گاتا تو سننے والے میل بھر پر بیٹھے ہوئے اس کی تانوں کا مزہ لیتے۔
گانے بجانے کا عاشق ہولی کے دنوں میں مہینہ بھر تک گاتا ساون میں ملہار، اور بھجن تو روزمرہ کا شغل تھا۔ نڈر ایسا کہ بھوت اور پشاچ کے وجود پر اسے عالمانہ شکوک تھے۔ لیکن جس طرح شیر اور پلنگ بھی سرخ شعلوں سے ڈرتے ہیں اسی طرح سرخ صافے سے اس کی روح لرزاں ہو جاتی تھی۔
اگر چہ ساٹھے جیسے جوان ہمّت ورسورما کے لیے یہ بے معنی خوف غیر معمولی بات تھی لیکن اس کا کچھ بس نہ تھا سپاہی کی وہ خوفناک تصویر جو بچپن میں اس کے دل پر کھینچی گئی تھی نقش کالحجر بن گئی تھی شرارتیں گئیں، بچپن گیا، مٹھائی کی بھوک گئی لیکن سپاہی کی تصویر ابھی تک قائم تھی آج اس کے دروازے پر سُرخ صافے والوں کی ایک فوج جمع تھی لیکن گوپال زخموں سے چور درد سے چور، درد سے بے تاب ہونے پر بھی اپنے مکان کے ایک تاریک گوشے میں چھپا ہوا بیٹھا تھا۔ نمبردار اور مکھیا، پٹواری اور چوکیدار مرغوب انداز سے کھڑے داروغہ کی خوشامد کر رہے تھے۔ کہیں اہیر کی داد فریاد سنائی دیتی تھی کہیں مودی کی گریہ و زاری، کہیں تیلی کی چیخ پکار، کہیں قصاب کی آنکھوں سے لہو جاری، کلار کھڑا اپنی قسمتوں کو رو رہا تھا۔ فحش اور مغلظات کی گرم بازاری تھی داروغہ جی نہایت کار گذار افسر تھے گالیوں سے بات چیت کرتے تھے۔ صبح کو چار پائی سے اٹھتے ہی گالیوں کا وظیفہ پڑھتے مہتر نے آ کر فریاد کی ہجور انڈے نہیں ہیں۔ داروغہ جی ہنٹر لے کر دوڑے اور اس غریب کا بھرکس نکال دیا۔ سارے گاؤں میں ہل چل پڑی ہوئی تھی۔ کانسٹبل اور چوکیدار راستوں پر یوں اکڑتے چلتے تھے گویا اپنی سسرال میں آئے ہیں۔ جب گاؤں کے سارے آدمی آ گئے تو داروغہ جی نے افسرانہ اور اندازِ تحکم سے فرمایا۔ ’’ موضع میں ایسی سنگین واردات ہوئی اور اس بد قسمت گوپال نے رپٹ تک نہ کی۔‘‘
مکھیا صاحب بید لرزاں کی طرح کانپتے ہوئے بولے ’’ہجور اب ماپھی دی جائے۔‘‘
داروغہ جی نے غضب ناک نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ کر کہا یہ اس کی شرارت ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ اخفاء جرم ارتکابِ جرم کے برابر ہے۔ میں اس بدمعاش کو اس کو مزہ چکھا دوں گا وہ اپنی طاقت کے زعم میں پھولا ہوا ہے اور کوئی بات نہیں۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔
مکھیا صاحب سربہ سجود ہو کر بولے۔ ’’ہجور اب ماپھی دی جائے۔‘‘
داروغہ جی چیں بہ چیں ہو گئے اور جھنجھلا کر بولے۔ ’’ارے ہجور کے بچے کچھ سٹھیا تو نہیں گیا ہے اگر کسی طرح معافی دینی ہوتی تو مجھے کیا کتّے نے کاٹا تھا کہ یہاں تک دوڑ آتا؟ نہ کوئی معاملہ نہ معاملے کی بات بس معافی کی رٹ لگا رکھی ہے۔ مجھے زیادہ فرصت نہیں ہے میں نماز پڑھتا ہوں جب تک تم صلاح مشورہ کر لو اور مجھے ہنسی خوشی رخصت کرو ورنہ غوث خاں کو جانتے ہو اس کا مارا پانی بھی نہیں مانگتا۔
داروغہ تقویٰ و طہارت کے بڑے پابند تھے پانچوں وقت کی نماز پڑھتے اور تیسوں روزے رکھتے عیدوں میں دھوم دھام سے قربانیاں ہوتیں اس سے زیادہ حسنِ ارادت کسی انسان میں اور کیا ہو سکتا ہے۔
مکھیا صاحب دبے پاؤں رازدارانہ انداز سے گور اکے پاس آئے اور بولے ’’یہ دروگا بڑا کاپھر ہے پچاس سے نیچے تو بات ہی نہیں کرتا درجہ اوّل کا تھانیدار ہے میں نے بہت کہا، ہجور غریب آدمی ہے گھر میں کچھ سبھیتا نہیں۔ مگر وہ ایک نہیں سنتا۔
گورا نے گھونگھٹ میں منہ چھپا کر کہا دادا ان کی جان بچ جائے کوئی طرح کی آنچ نہ آنے پائے روپے پیسے کی کون بات ہے اسی دن کے لیے تو کمایا جاتا ہے۔
گوپال کھاٹ پر پڑا یہ سب باتیں سن رہا تھا اب اس سے ضبط نہ ہو سکا لکڑی گانٹھ پر ٹوٹتی ہے۔ نا کردہ گناہ دبتا ہے مگر کچلا نہیں جا سکتا۔ وہ جوش سے اٹھ بیٹھا اور بولا پچاس روپے کی کون کہے میں پچاس کوڑیاں بھی نہ دوں گا کوئی گدر (غدر) ہے میں نے کسور (قصور) کیا کیا ہے۔ مکھیا کا چہرہ فق ہو گیا بزرگانہ لہجے میں بولے رسان رسان (آہستہ آہستہ) بولو۔ کہیں سن لے تو گجب ہو جائے گا۔
لیکن گوپال بپھرا ہوا تھا اکڑ کر بولا ’’میں ایک کوڑی نہ دوں گا دیکھیں کون میرے پھانسی لگا دیتا ہے۔
گورا نے ملامت آمیز لہجے میں کہا اچھا جب میں تم سے روپے مانگوں تو مت دینا۔ یہ کہہ کر گورا نے جو اس وقت لونڈی کی بجائے رانی بنی ہوئی تھی چھپّر کے ایک کونے میں سے روپیوں کی ایک پوٹلی نکالی اور مکھیا کے ہاتھ میں رکھ دی۔ گوپال دانت پیس کر اٹھا لیکن مکھیا صاحب فوراًسے پہلے سرک گئے۔ داروغہ جی نے گوپال کی باتیں سن لی تھیں اور دُعا کر رہے تھے کہ اے خدا اس مردود شقی کی تالیفِ قلب کر۔ اتنے میں مکھیا نے باہر آ کر پچیس روپے کی پوٹلی دکھائی پچیس راستے ہی میں غائب ہو گئے تھے۔
داروغہ جی نے خدا کا شکر ادا کیا دعا مستجاب ہوئی، روپیہ جیب میں رکھا اور رسد پہچانے والوں کے انبوہ کثیر کو روتے اور بلبلاتے چھوڑ کر ہوا ہو گئے۔ موذی کا گلا گھٹ گیا، قصاب کے گلے پر چھری پھر گئی، تیلی پس گیا، مکھیا صاحب نے گوپال کی گردن پر احسان رکھا گویا رسد کے دام گرہ سے دئیے گاؤں میں سرخ رو ہو گئے وقار بڑھ گیا ادھر گوپال نے گورا کی خوب خبر لی۔ گاؤں میں رات بھر یہی چرچا رہا گوپال بہت بچا اور اس کا سہرا مکھیا کے سر تھا۔ بلائے عظیم آئی تھی وہ ٹل گئی۔ پتروں نے، دیوان ہرودل نے، نیم تلے والی دیبی نے، تالاب کے کنارے والی ستی نے، گوپال کی رکھشا کی یہ انھیں کا پرتاپ تھا۔ دیوی کی پوجا ہونی ضروری تھی ستیہ نارائن کی کتھا بھی لازمی ہو گئی۔
پھر صبح ہوئی لیکن گوپال کے دروازے پر آج سرخ پگڑیوں کے بجائے لال ساڑیوں کا جمگھٹ تھا۔ گورا آج دیوی کی پوجا کرنے جاتی تھی اور گاؤں کی عورتیں اس کا ساتھ دینے آئی تھیں اس کا گھرسوندھی مٹی کی خوشبو سے مہک رہا تھا جوخس اور گلاب سے کم دل آویز نہ تھی۔ عورتیں سہانے گیت گا رہی تھیں۔ بچے خوش ہو ہو کر دوڑتے تھے۔ دیوی کے چبوترے پر اس نے مٹی کا ہاتھی چڑھایا ستی کی مانگ میں سیندور ڈالا۔ دیوان صاحب کو بتاشے اور حلوا کھلایا۔ ہنومان جی کو لڈو سے زیادہ رغبت ہے انھیں لڈو چڑھائے۔ تب گاتی بجاتی گھر کو آئی اور ستیہ نارائن کی کتھا کی تیاریاں ہونے لگیں۔ مالن پھول کے ہار، کیلے کی شاخیں اور بندھن واریں لائی۔ کمہار نئے نئے چراغ اور ہانڈیاں دے گیا۔ باری ہرے ڈھاک کے تیل اور دونے رکھ گیا۔ کمہار نے آ کر مٹکوں میں پانی بھرا۔ بڑھئی نے آ کر گوپال اور گورا کے لیے دو نئی نئی پیڑھیاں بنائیں۔ نائن نے آنگن لیپا اور چوک بنائی دروازے پر بندھن واریں بندھ گئیں۔ آنگن میں کیلے کی شاخیں گڑ گئیں۔ پنڈت جی کے لیے سنگھاسن سج گیا۔ فرائض باہمی کا نظام خود بخود اپنے مقررہ دائرے پر چلنے لگا۔ یہی نظام تمدن ہے جس نے دیہات کی زندگی کو تکلفات سے بے نیاز بنا رکھا ہے لیکن افسوس ہے کہ اب ادنی اور اعلیٰ کے بے معنی اور بیہودہ قیود نے ان باہمی فرائض کو امداد حسنہ کے رتبے سے ہٹا کر ان پر ذلّت اور نیچے پن کا داغ لگا دیا ہے۔ شام ہوئی پنڈت موٹے رام جی نے کندھے پر جھولی ڈالی، ہاتھ میں سنکھ لیا اور کھڑاؤں کھٹ پٹ کرتے گوپال کے گھر آ پہنچے۔ آنگن میں ٹاٹ بچھا ہوا تھا گاؤں کے معززین کتھا سننے کے لیے آ بیٹھے۔ گھنٹی بجی سنکھ پھوکا گیا اور کتھا شروع ہوئی۔ گوپال بھی گاڑھے کی چادر اوڑھے ایک کونے میں دیوار کے آسرے بیٹھا ہوا تھا۔ مکھیا، نمبردار اور پٹواری نے از راہ ہمدردی اس سے کہا۔
’’ستیہ نارائن کی مہما تھی کہ تم پر کوئی آنچ نہ آئی۔‘‘
گوپال نے انگڑائی لے کر کہا ستیہ نارائن کی مہما نہیں یہ اندھیر ہے۔
٭٭٭
اکسیر
بیوہ ہو جانے کے بعد بوٹی کے مزاج میں کچھ تلخی آ گئی تھی جب خانہ داری کی پریشانیوں سے بہت جی جلتا تو اپنے جنت نصیب کو صلواتیں سناتی۔ ’’آپ تو سدھار گئے میرے لیے یہ سارا جنجال چھوڑ گئے۔‘‘ جب اتنی جلدی جانا تھا تو شادی نہ جانے کس لیے کی تھی ’’گھر میں بھونی بھنگ نہ تھی چلے تھے شادی کرنے۔‘‘ بوٹی چاہتی تو دوسری سگائی کر لیتی۔ اہیروں میں اس کا رواج ہے۔
اس وقت وہ دیکھنے سننے میں بھی بری نہ تھی دو ایک اس کے خواستگار بھی تھے۔ لیکن بوٹی عفت پروری کے خیال کو نہ روک سکی اور یہ ساراغصّہ اترتا تھا اس کے بڑے لڑکے موہن پر جس کا سولھواں سال تھا۔ سوہن ابھی چھوٹا تھا اور مینا لڑکی تھی۔ یہ دونوں ابھی کس لائق تھے۔ اگر یہ تین بچّے اس کی چھاتی پر سوار نہ ہوتے تو کیوں اتنی تکلیف ہوتی۔ جس کے گھر میں تھوڑا سا کام کر دیتی وہ روٹی کپڑا دے دیتا۔ جب چاہتی کسی کے گھر بیٹھ جاتی اب اگر کہیں بیٹھ جائے تو لوگ یہی کہیں گے کہ تین تین بچّوں کے ہوتے ہوئے یہ اسے کیا سوجھی موہن اپنی بساط کے مطابق اس کا بار ہلکا کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ جانوروں کو سانی پانی ڈھونا، متھنا یہ سب وہ کر لیتا لیکن بوٹی کا منہ سیدھا نہ ہوتا تھا روزانہ ایک نہ ایک بات نکالتی رہتی۔ اور موہن نے بھی عاجز ہو کر اس کی تلخ نوائیوں کی پرواہ کرنا چھوڑ دیا تھا۔ بوٹی کو شوہر سے یہی گلہ تھا کہ وہ اس کے گلے پر گرہستی کا جنجال چھوڑ کر چلا گیا اس غریب کی زندگی ہی تباہ کر دی۔ نہ کھانے کا سکھ میسر ہوا نہ پہننے کا۔ نہ اور کسی بات کا وہ اس گھر میں آئی گویا بھٹّی میں پڑ گئی اس کے ارمانوں کی تشنہ کا می اور بیوگی کے قیود میں ہمیشہ ایک جنگ سی چھڑی رہتی تھی۔ اور جلن میں ساری مٹھاس جل کر خاک ہو گئی تھی۔ اور شوہر کی وفات کے بعد بوٹی کے پاس اور کچھ نہیں تو چار پانچ سو کے زیور تھے۔ لیکن ایک ایک کر کے وہ سب اس کے ہاتھ سے نکل گئے۔ اس کے محلے اس کی برادری میں کتنی عورتیں ہیں جو عمر میں اس سے بڑی ہونے کے باوجود گہنے جھمکا کر، آنکھوں میں کاجل لگا کر، مانگ میں سندور کی موٹی سی لکیر ڈال کر گویا اسے جلاتی رہتی ہیں اس لیے جب اس میں سے کوئی بیوہ ہو جاتی ہے تو بوٹی کو ایک حاسدانہ مسّرت ہوتی۔ وہ شاید ساری دنیا کی عورتوں کو اپنی ہی جیسی دیکھنا چاہتی تھی اور اس کی محروم آرزوؤں کو اپنی پاکدامنی کی تعریف اور دوسروں کی پردہ داری اور حرف گیری کے سوا سکون قلب کا اور کیا ذریعہ تھا کیسے اپنے آنسو پونچھتی۔ وہ چاہتی تھی اس کا خاندان حسن سیرت کا نمونہ ہو۔ اس کے لڑکے ترغیبات سے بے اثر رہیں۔ یہ نیک نامی بھی اس کی پاکدامنی کے غرور کو مشتعل کرتی رہتی تھی۔
اس لیے یہ کیوں کر ممکن تھا کہ وہ موہن کے متعلق کوئی شکایت سنے اور ضبط کر جائے تردید کی گنجائش نہ تھی۔ غیبت کی اس دینا میں رہتے رہتے وہ ایک خاص قسم کی باتوں میں بے انتہا سہل اعتقاد ہو گئی گویا وہ کوئی ایسا سہارا ڈھونڈتی رہتی تھی جس پر چڑھ کر وہ اپنے کو دوسروں سے اونچی دکھا سکے۔ آج اس کے غرور کو ٹھیس لگی۔ موہن جونہی دودھ بیچ کر گھر آیا۔ بوٹی نے اسے قہر کی نگاہوں سے دیکھ کر کہا۔ ’’دیکھتی ہوں اب تجھے ہوا لگ رہی ہے۔‘‘
موہن اشارہ نہ سمجھ نہ سکا۔ پُر سوال نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
’’میں کچھ سمجھانہیں، کیا بات ہے‘‘؟
’’شرمائے گا تو نہیں۔ الٹا مجھی سے پوچھتا ہے۔ تو روپا سے چھپ چھپ کر نہیں ہنستا بولتا۔ تجھے شرم نہیں آتی۔ کہ گھر میں پیسے کی تنگی ہے اور ان کے لیے پان لائے جاتے ہیں۔ کپڑے رنگائے جاتے ہیں۔‘‘
موہن نے عذر گناہ کیا جو گناہ سے بھی بدتر تھا۔
’’تو میں نے کون سا گناہ کر ڈالا۔ اگر اس نے مجھ سے چار پیسے کے پان مانگے تو کیا کرتا۔ کہتا کہ پیسے دے تو پان لاؤں گا۔ اپنی ساڑھی رنگانے کو دے دی۔ تو اس سے رنگائی مانگتا۔‘‘
’’محلے میں ایک تو ہی بڑا دھنّا سیٹھ ہے۔ اس نے اور کسی سے کیوں نہ کہا؟‘‘
’’یہ وہ جانے میں کیا بتاؤں؟‘‘
’’کبھی گھر میں بھی دھیلے کے پان لایا۔ یا ساری خاطر داری دوسروں کے لیے ہی رکھ چھوڑی ہے؟‘‘
’’یہاں کس کے لیے پان لاتا؟‘‘
’’تیرے لیے کیا گھر کے سارے آدمی مر گئے؟‘‘
’’میں نہ جانتا تھا تم بھی پان کھانا چاہتی ہو؟‘‘
’’سنسار میں ایک روپا ہی کھانے کے لائق ہے۔‘‘
’’شوق سنگار کی بھی تو ایک عمر ہوتی ہے۔‘‘
بوٹی جل اٹھی۔ اسے بڑھیا کہہ دینا اس کے تقوے و طہارت کو خاک میں ملا دینا تھا۔ بڑھاپے میں ان پابندیوں کی وقعت ہی کیا۔ جب نفس کشی کے بل پر وہ سب عورتوں کے سامنے سر اٹھا کر چلتی تھی۔ اس کی یہ ناقدری۔ انھیں لڑکوں کے پیچھے اس نے اپنی ساری جوانی خاک میں ملا دی۔ اس کے شوہر کو گذرے آج پانچ سال ہوئے تب اس کی چڑھتی جوانی تھی۔ یہ تین چینٹے یوت اس کے گلے منڈھ دیے ہیں۔ ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے چاہتی تو آج وہ بھی ہونٹ سرخ کیے پاؤں میں مہندی رچائے۔ الوٹ، بچھوے پہنے مٹکتی پھرتی۔ یہ سب کچھ اس نے لڑکوں کے کارن تیاگ دیا اور بوٹی بڑھیا ہے۔’’ بولی ’’ہاں اور کیا۔ میرے لیے تو اب چیتھڑے پہننے کے دن ہیں۔ جب تیرا باپ مرا تو میں روپا سے دو ہی چار سال بڑی تھی۔ اس وقت کوئی گھر کر لیتی تو تم لوگوں کا کہیں پتہ نہ لگتا۔ گلی گلی بھیک مانگتے پھرتے لیکن میں کہے دی دیتی ہوں۔ اگر تو پھر اس سے بولا تو یا تو ہی اس گھر میں رہے گا۔ یا میں ہی رہوں گی۔‘‘
موہن نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ’’میں اسے بات دے چکا ہوں امّاں۔‘‘
’’کیسی بات؟‘‘
’’سگائی۔‘‘
’’اگر روپا میرے گھر میں آئی تو جھاڑو مار کر نکال دوں گی۔ یہ سب اس کی ماں کی مایا ہے۔ وہی کٹنی میرے لڑکے کو مجھ سے چھینے لیتی ہے۔ رانڈ سے اتنا بھی نہیں دیکھا جاتا۔ چاہتی ہے کہ اسے سوت بنا کر میری چھاتی پر مونگ دلے۔‘‘
موہن نے دردناک لہجہ میں کہا۔ ’’امّاں ایشور کے لیے کیوں اپنا مان کھو رہی ہو۔ میں نے تو سمجھا تھا۔ چار دن میں مینا اپنے گھر چلی جائے گی۔ تم اکیلی رہ جاؤ گی اسی لیے اسے لانے کا خیال ہوا اگر تمھیں برا لگتا ہے تو جانے دو۔‘‘
بوٹی نے شبہ آمیز نظروں سے دیکھ کر کہا۔ ’’تم آج سے یہیں آنگن میں سویا کرو۔‘‘
’’اور گائے بھینس باہر ہی پڑی رہیں؟‘‘
’’پڑی رہنے دو کوئی ڈاکہ نہیں پڑا جاتا۔‘‘
’’مجھ پر تجھے اتنا شبہ ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
موہن نے خود داری کی شان سے کہا۔ ’’میں یہاں نہ سوؤں گا۔‘‘
’’تو نکل جا میرے گھر سے۔‘‘
’’ہاں تیری یہی مرضی ہے تو نکل جاؤں گا۔‘‘
مینا نے کھانا پکایا۔ موہن نے کہا۔ ’’مجھے بھوک نہیں ہے۔‘‘
بوٹی اسے منانے نہیں گئی۔ موہن کا سرکش دل ماں کے اس جابرانہ حکم کو کسی طرح قبول نہیں کر سکتا۔ ماں کا گھر ہے لے لے۔ اپنے لیے وہ کوئی دوسرا ڈھونڈ لے گا۔ روپا نے اس کی بے لطف، بے کیف زندگی میں ایک مسرت پیدا کر دی تھی۔ جب وہ اپنے دل میں ایک ناقابل بیان شورش کا احساس کر رہا تھا۔ جب وہ اپنی زندگی کی معمولی پر مشقت، رفتار سے بیزار ہو رہا تھا۔ جب دنیا اسے سونی سونی دلچسپیوں سے خالی نظر آ رہی تھی۔ اس وقت روپا نے اس کی زندگی میں بہار کی طرح رونما ہو کر اسے سرخ کونپلوں اور طیور کے نغموں سے حلاوت پیدا کر دی۔ اب اس کی یہ کیفیت تھی کہ کوئی کام کرنا ہوتا تو دل روپا کی طرف لگا ہوتا۔ یہی ارمان تھا کہ اسے کیا چیز دے کہ وہ خوش ہو جائے۔ بڑی ہمت کر کے اس نے اسے اپنا دردِ دل کہا۔ اب آج وہ کس منہ سے اس کے پاس جائے کیا اس سے کہے کہ امّاں نے تم سے ملنے کی ممانعت کی ہے۔ ابھی تو کل چراگاہ میں برگد کے سایہ دار درخت کے نیچے دونوں میں کیسے اخلاص کی باتیں ہو رہی تھیں۔ موہن نے کہا تھا ’’روپا تم اتنی سندر ہو کہ تمھارے سوگاہک نکل آئیں گے۔ تم جس گھر میں جاؤ گی وہ روشن ہو جائے گا۔ میرے گھر میں تمھارے لیے کیا رکھا ہے۔ ’’اس پر روپا نے جواب دیا تھا۔ ’’وہ ایک نغمۂ لطیف کی طرح اس کے جسم کی ایک ایک رگ میں، اس کی روح کے ایک ایک ذرہ میں بسا ہوا تھا۔ اس نے کہا تھا میں تو تم کو چاہتی ہوں۔ موہن تم پرگنے کے چودھری ہو جاؤ تب بھی موہن ہو۔ مزدوری کرنے لگو تب بھی موہن ہو۔‘‘ وہ اپنے موہن کے افلاس، رسوائی اور فاقہ کشی سب کچھ جھیل لے گی۔ اسی روپا سے اب وہ جا کر کہے ’’مجھے اب تم سے کوئی سروکار نہیں۔‘‘
نہیں یہ غیر ممکن ہے۔ اسے گھر کی پرواہ نہیں ہے۔ وہ روپا کے ساتھ ماں سے الگ رہے گا۔ یہاں نہ سہی۔ کسی دوسرے محلے میں سہی۔ اس وقت بھی روپا اس کا انتظار کر رہی ہو گی۔ کیسے اچھے بیڑے لگاتی ہے کہ جی خوش ہو جاتا۔ جیسے بیڑوں میں پریم گھول دیتی ہے۔ لیکن جاؤ گے کیسے؟ امّاں سے وعدہ نہیں کیا ہے کہیں امّاں سن لیں کہ یہ رات کو روپا کے پاس گیا تھا تو جان ہی دے دے۔ تو میرا کیا نقصان؟ دے دیں جان اپنی۔ تقدیر کو تو نہیں بکھانتیں کہ ایسی دیوی جو انھیں پان کی طرح پھیرے گی۔ الٹے اور اس سے جلتی ہیں۔ نہ جانے کیوں روپا سے اسے اتنی چڑھ ہے۔ وہ ذرا پان کھا لیتی ہے۔ ذرا رنگین ساڑھی پہن لیتی ہے۔ بس یہی تو اس کی عمر کھانے پہننے کی ہے کیا برا کرتی ہے۔‘‘
چوڑیوں کی جھنکار سنائی دی۔ روپا آ رہی ہے۔ شاید۔ ہاں وہی ہے۔ موہن کے ساز جسم کے سارے تار جھنکار اٹھے۔ اس کے وجود کا ایک ایک ذرّہ ناچنے لگا۔ روپا اس کے دروازے پر آئے۔ شیریں ادا روپا کیسے اس کا خیر مقدم کرے۔ کیا کرے؟ جا کر اس کے قدموں پر سر رکھ دے۔
روپا اس کے سرہانے آ کر بولی ’’ کیا سو گئے موہن؟ اتنی جلدی گھڑی بھر سے تمھاری راہ دیکھ رہی ہوں۔ آئے کیوں نہیں؟‘‘
موہن نیند کا بہانہ کیے پڑا رہا۔
روپا نے اس کا سر ہلا کر کہا ’’کیا سوگئے موہن ابھی سے، اپنا پان کھا لو۔‘‘
اس کی انگلیوں میں کیا اعجاز تھا۔ کون جانے، موہن کی روح میں شادیانے بجنے لگے اس کی جان روپا کے قدموں پر سر رکھنے کے لیے گویا اچھل پڑی۔ دیوی برکتوں کا تھال لیے اس کے سامنے کھڑی ہے۔ ساری کائنات مسّرت سے رقص کر رہی ہے۔ اسے معلوم ہوا جیسے اس کا جسم لطیف ہو گیا۔ اور وہ کسی صدائے مضطرب کی طرح فضا کی گود سے چمٹا ہوا اس کے ساتھ رقص کر رہا ہے۔ ’’میں جاتی ہوں نہیں جاگتے نہ جاگو ہاں نہیں تو۔‘‘
موہن اب ضبط نہ کر سکا۔ ’’ہاں ذرا نیند آ گئی تھی۔ تم اس وقت کیا کرنے آئیں۔ امّاں دیکھ لیں تو مجھے مار ہی ڈالیں۔‘‘
روپا نے اس کے منہ میں پان کا بیڑا رکھ کر کہا۔ ’’تم آئے کیوں نہیں؟‘‘
’’آج امّاں سے لڑائی ہو گئی۔‘‘
’’کیا کہتی تھیں؟‘‘
’’کہتی تھیں روپا سے بولو گے تو جان دے دوں گی۔‘‘
’’تم نے پوچھا نہیں روپا سے کیوں اتنی چڑھتی ہو؟‘‘
’’اب ان کی بات کیا کہوں روپا۔ وہ کسی کا کھانا پینا نہیں دیکھ سکتیں۔‘‘
’’یہ بات نہیں ہے موہن۔ انھیں مجھ پر بھروسہ نہیں ہے۔ میں چنچل تھی نہ لیکن اب تو میں کسی سے نہیں ہنستی۔‘‘
’’امّاں کو کیسے سمجھاؤں؟‘‘
’’تم میرے پاس ایک بار روز آ جایا کرو بس اور میں کچھ نہیں چاہتی۔‘‘
دفعتاً موہن کے گھر کا دروازہ کھلا۔ شاید بوٹی آ رہی ہے۔ روپا سرک گئی۔ موہن بھیگی بلّی بن گیا۔
موہن دوسرے دن سو کر اٹھا تو اس کے دل میں مسرّت کا دریا موجزن تھا۔ اس کی خلقی خشونت اور تندی غائب ہو گئی تھی۔ گویا بچّے کو مٹھائی مل گئی ہو۔ وہ سوہن کو ہمیشہ ڈانٹتا تھا۔ سوہن آرام طلب اور کاہل تھا۔ گھر کے کام دھندے سے جی چراتا تھا۔ آج بھی وہ آنگن میں بیٹھا اپی دھوتی میں صابن لگا رہا تھا۔ غازی میاں کے میلے کی تیاری کر رہا تھا۔ موہن کو دیکھتے ہی اس نے صابن چھپا دیا اور بھاگ جانے کے لیے موقع ڈھونڈنے لگا۔
موہن نے مخلصانہ تبسم کے ساتھ کہا۔ ’’کیا دھوتی بہت میلی ہو گئی ہے دھوبن کو کیوں نہیں دے دیتے؟‘‘
’’دھوبن پیسے نہ مانگے گی؟‘‘
’’تم پیسے امّاں سے کیوں نہیں مانگ لیتے؟‘‘
’’امّاں پیسے دے چکیں۔ الٹی گھڑکیاں دیں گی۔‘‘
’’تو مجھ سے لے لو۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے ایک اکنّی اس کی طرف پھینک دی۔ سوہن باغ باغ ہو گیا۔ بھائی اور ماں دونوں اس کی ملامت کرتے رہتے تھے۔ بہت دنوں کے بعد اسے محبت کی شیرینی کا مزہ ملا۔ اکنّی اٹھائی اور دھوتی وہیں چھوڑ گائے کو کھولنے چلا۔
موہن نے کہا ’’تم رہنے دو میں اسے لیے جاتا ہوں۔‘‘
سوہن نے گائے کو کھونٹے سے کھول کر ناند پر باندھ آیا اور اندر آ کر بھائی سے بولا ’’تمھارے لیے چلم رکھ لاؤں؟‘‘
آج پہلی بار سوہن نے بڑے بھائی کی جانب ایسے حسن عقیدت کا اظہار کیا اس میں کیا راز ہے۔ یہ موہن کی سمجھ میں نہ آیا۔ برادرانہ خلوص سے اس کا چہرہ شگفتہ ہو گیا۔
بولا آگ ہو تو رکھ لاؤ۔‘‘
مینا سر کے بال کھولے آنگن میں گھروندا بنا رہی تھی۔ موہن کو دیکھتے ہی اس نے گھروندا بگاڑ دیا۔ اور آنچل سے سر ڈھانپنے کی ناکام کوشش کرتی ہوئی رسوئی گھر کی طرف برتن اٹھانے چلی۔ موہن کے غصّے سے سب ہی ڈرتے تھے۔
موہن نے پیار سے پوچھا ’’کیا کھیل رہی تھی مینا؟‘‘
مینا تھر تھر کانپتی ہوئی بولی ’’کچھ نہیں۔‘‘
’’تو تو بہت اچھے گھروندے بنا لیتی ہے ذرا بنا تو دیکھوں۔‘‘
موہن کے مزاج میں آج یہ پر لطف انقلاب دیکھ کر مینا کو یکایک یقین نہ آیا لیکن پھر بھی اس کا چہرہ شگفتہ ہو گیا۔ پیار کے ایک لفظ میں کتنا جادو ہے۔ منہ سے نکلتے ہی جیسے ایک دلکشی سی پھیل گئی۔ جس نے سنا اس کا دل کھل اٹھا۔ جہاں خوف اور بدگمانی تھی وہاں اعتبار اور خلوص چمک اٹھا۔ جہاں بیگانگی تھی وہاں اپنا پن چھلک پڑا۔ چاروں طرف انہماک چھا گیا۔ کہیں بے دلی نہیں کہیں بے نیازی نہیں لوگوں کی ترقیاں ہوتی ہیں۔ خطاب ملتے ہیں مقدمات میں فتح ہوتی ہے لیکن ان چھوٹے چھوٹے روزمرہ کے واقعات میں جو شیرینی ہے وہ ان اوکھ اور گنے کے کھیتوں میں کہاں۔ موہن کے سینے میں آج محبت کا سوتا سا کھل گیا تھا۔ اس میں مسرت، ہمدردی اور خلوص کی دھاریں نکل رہی تھیں۔
مینا گھروندا بنانے بیٹھ گئی۔
موہن نے اس کے الجھے ہوئے بالوں کو سلجھا کر کہا ’’تیری گڑیا کا بیاہ کب ہو گا؟ جلد نیوتا دے کچھ مٹھائی کھانے کو ملے۔‘‘
مینا آسمان میں اڑ رہی تھی۔ بھیا کتنے اچھے ہیں اب بھیا پانی مانگیں گے تو وہ لوٹے کو راکھ سے خوب چما چم کر کے پانی لے جائے گی۔
’’اماں پیسے نہیں دیتیں۔ گڈا تو ٹھیک ہو گیا ہے۔ لیکن ٹیکا کیسے بھیجوں؟‘‘
’’کتنے پیسے لگیں گے؟‘‘
’’ایک پیسے کے بتاشے لوں گی اور ایک پیسہ کا گلابی رنگ، جوڑے تو رنگے جائیں گے کہ نہیں۔‘‘
’’تو دو پیسے میں تمھاری گڑیا کا بیاہ ہو جائے گا کیوں؟‘‘
’’ہاں تم دو پیسے دے دو تو میری گڑیا کا دھوم دھام سے بیاہ ہو جائے گا۔‘‘
موہن نے دو پیسے ہاتھ میں لے کر مینا کو دکھائے، مینا لپکی۔ موہن نے ہاتھ اوپر اٹھایا مینا نے ہاتھ پکڑ کر نیچے کھینچنا شروع کیا۔ جب یوں نہ پا سکی تو موہن کی گود میں چڑھ گئی اور پیسے لے لیے۔ پھر نیچے آ کر ناچنے لگی۔ تب اپنی سہیلیوں کو شادی کا نوید سنانے دوڑی۔
اس وقت بوٹی گوبر کا جھوا لیے سار کے گھر سے نکلی۔ موہن کو کھڑے دیکھ کر تند لہجے میں بولی ’’ابھی تک مٹر گشت ہی ہو رہی ہے۔ بھینس کب دوہی جائیں گی؟‘‘
آج موہن نے بوٹی کو سخت جواب نہ دیا۔ ماں کو بوجھ سے دبے ہوئے دیکھ کر اس نے اضطراری طور پر اس کے سر سے جھوا لے کر اپنے سر پر رکھ لیا۔
بوٹی نے کہا ’’رہنے دے جا کر بھینس دوہ لے۔ گوبر تو میں لیے جاتی ہوں۔‘‘
’’تم اتنا بھاری بوجھ کیوں اٹھا لیتی ہو ماں مجھے کیوں نہیں بلا لیتی؟‘‘
ماں کا دل مامتا سے رقیق ہو گیا۔
’’تو جا اپنا کام دیکھ میرے پیچھے کیوں پڑتا ہے؟‘‘
’’گوبر نکالنے کا کام میرا ہے۔‘‘
’’دودھ کون دوہے گا؟‘‘
’’وہ بھی میں کر لوں گا۔‘‘
’’تو اتنا کہاں کا جودھا ہے کہ سارے کام کر لے گا۔‘‘
’’جتنا کہتا ہوں اتنا کر لوں گا۔‘‘
’’تو میں کیا کرو گی؟‘‘
’’تم لڑکوں سے کام لو جو بے راہ چلے اسے سمجھاؤ۔ جو غلطی دیکھو اسے ٹھیک کرو بس یہی تمھارا کام ہے۔‘‘
’’میری سنتا کون ہے؟‘‘
آج موہن بازار سے دودھ پہنچا کر لوٹا تو ایک چھوٹا سا پاندان، پان کتھا، چھالیہ اور تھوڑی سی مٹھائی لایا۔ بوٹی بگڑ کر بولی ’’آج روپے کہیں فالتو مل گئے تھے کیا۔ اس طرح تو پیسے اڑائے گا تو کیے دن نباہ ہو گا؟‘‘
’’میں نے تو ایک پیسہ بھی فضول خرچ نہیں کیا۔ اماں میں سمجھتا تھا تم پان کھاتی ہی نہیں۔ اسی لیے نہ لاتا تھا۔‘‘
’’تواب میں پان کھانے بیٹھوں گی؟‘‘
’’کیوں اس میں ہرج کیا ہے؟ جس کے دو دو جوان بیٹے ہوں کیا وہ اتنا شوق بھی نہ کرے۔‘‘
بوٹی کے خزاں رسیدہ دل میں کہیں سے ہریالی نکلی آئی۔ ایک ننھی سی کوئل تھی۔ لیکن اس کے اندر کتنی طراوت، کتنی رطوبت، کتنی جاں بخشی بھری ہوئی تھی جیسے اس کے چہرے کی جھریاں چکنی ہو گئیں۔ آنکھوں میں نور آ گیا۔ دل مایوس میں ایک ترنم ساہونے لگا۔ اس نے ایک مٹھائی سوہن کو دی ایک مینا کو اور ایک موہن کو دینے لگی۔
موہن نے کہا۔
’’مٹھائی تو میں لڑکوں کے لیے لایا تھا، امّاں۔‘‘
’’اور تو۔ بوڑھا ہو گیا۔ کیوں؟‘‘
’’ان لڑکوں کے سامنے تو بوڑھا ہی ہوں۔‘‘
موہن نے مٹھائی لے لی۔ مینا نے مٹھائی کے پاتے ہی گپ منہ میں ڈال لی تھی اور وہ زبان پر مٹھائی کی لذّت کب کی معدہ میں جا چکی تھی۔ موہن کی مٹھائی کو للچائی آنکھوں سے دیکھنے لگی۔ موہن نے وہ مٹھائی مینا کو دے دی۔ ایک مٹھائی اور بچ رہی تھی بوٹی نے اسے موہن کی طرف بڑھا کر کہا۔
’’لایا بھی تو ذرا سی مٹھائی۔‘‘
موہن نے کہا ’’وہ تم کھا جانا امّاں۔‘‘
’’تمھیں کھاتے دیکھ کر مجھے خوشی ہو گی۔ اس میں مٹھاس سے زیادہ مزہ ہے۔‘‘
موہن نے مٹھائی کھا لی اور باہر چلا گیا۔ بوٹی پاندان کھول کر دیکھنے لگی آج زندگی میں پہلی بار اسے یہ خوش نصیبی حاصل ہوئی ہے۔ زہے نصیب کہ شوہر کے راج میں جو نعمت نہ میّسر ہوئی وہ بیٹے کے راج میں ملی۔ پاندان میں کئی کلیاں ہیں۔ اس میں چونا رہے گا۔ اس میں کتھا اس میں چھالیہ اس میں تمباکو واہ یہاں تو دو چھوٹی چھوٹی چمچیاں بھی ہیں مزے سے چونا کتھا لگا لو۔ انگلی میں داغ تک نہ لگے۔ ڈھکنے میں کڑا لگا ہوا ہے۔ جہاں چاہو لٹکا کر لیے چلے جاؤ۔ اوپر کی طشتری میں پان رکھے جائیں گے مگر سروتے کے لیے جگہ نہیں ہے نہ سہی۔ اس نے پاندان کو مانجھ دھوکر اس میں چونا کتّھا رکھا چھالیہ کاٹ کر رکھی پان بھگو کر طشتری میں رکھے۔ تب ایک بیڑا لگا کر کھایا۔ اس کے عرق نے جیسے اس کی بیوگی کی کرخگیس کو ملائم کر دیا۔ دل کی مسرت عنایت و کرم کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اب بوٹی کیسے بیٹھی رہے۔ اس کا دل اتنا گہرا نہیں ہے۔ کہ یہ خوبی قسمت اس میں گم ہو جائے۔ گھر میں ایک پرانا آئینہ پڑا تھا۔ بوٹی نے اس میں اپنا منہ دیکھا ہونٹوں پر سرخی نہیں ہے۔ منہ لال کرنے کے لیے اس نے تھوڑا ہی پان کھایا ہے۔ سرخی ہوتی تووہ کلّی کر لیتی۔ گاؤں کی ایک عورت دھنیا نے آ کر کہا ’’کاکی جوا، رسّی دے دو۔ رسی ٹوٹ گئی ہے۔
کل بوٹی نے صاف کہہ دیا تھا میری رسی گاؤں کے لیے ہی نہیں میری رسی ٹوٹ گئی ہے تو بنوا کیوں نہیں لیتی۔ ’’لیکن آج اس نے اس کی رسی سے کام نہیں لیا۔ اس نے خندہ پیشانی سے رسی نکال کر دھنیا کو دے دی۔ اور ہمدردانہ انداز سے پوچھا۔ لڑکے کے دست بند ہو گئے یا نہیں دھنیا؟‘‘
دھنیا نے کہا ’’نہیں۔ آج تو دن بھر دست آئے، ہر وقت آ رہے ہیں۔‘‘
’’پانی بھر لے تو چل ذرا دیکھوں دانت ہی ہے کہ کوئی اور فساد ہے۔ کسی کی نجر وجر تو نہیں لگی؟‘‘
’’کیا جانوں کاکی کون جانے کسی کی آنکھیں پھوٹی ہوں۔‘‘
’’چونچال لڑکوں کو نجر کا بڑا ڈر رہتا ہے جس نے چمکا کر بلایا اسی کی گود میں چلا جاتا ہے۔‘‘
’’کاکی ایسا سہدوں کی طرح ہنستا تھا کہ تم سے کیا کہوں۔‘‘
’’کبھی کبھی ماں کی نجر لگ جاتی ہے بچّے کو۔‘‘
’’اے نوج، کاکی بھلا کوئی اپنے بچّے کو نجر لگائے گا؟‘‘
’’یہی تو تو سمجھتی نہیں۔ نجر کوئی لگاتا نہیں۔ آپ ہی آپ لگ جاتی ہے۔‘‘
دھنیا پانی لے کر آئی تو بوٹی اس کے ساتھ بچّے کو دیکھنے چلی۔
’’تو اکیلی ہے آج کل تو گھر کے کام دھندے میں بڑا پھجیتا ہو گا؟‘‘
’’نہیں کاکی روپا آ جاتی ہے اس سے بڑی مدد ملتی ہے نہیں تو میں اکیلی کیا کرتی؟‘‘
بوٹی کو تعجب ہوا۔ روپا کو اس نے محض تتلی سمجھ رکھا تھا۔ جس کا کام پھولوں پر بیٹھنا اور پھر اڑ جانا تھا۔ حیرت انگیز لہجہ میں بولی۔ ’’روپا‘‘
’’ہاں کاکی بے چاری بڑی بھلی ہے۔ جھاڑو لگا دیتی ہے چوکا برتن کر دیتی ہے لڑکے کو سنبھالتی ہے۔ گاڑھے سے کون کسی کی بات پوچھتا ہے کاکی؟‘‘
’’اسے تو اپنے مسی کاجل سے ہی چھٹی نہ ملتی ہو گی۔‘‘
’’یہ تو اپنی اپنی رُج ہے کاکی مجھے تو مسی کاجل والی نے جتنا سہارا دیا۔ اتنا کسی پوجا پاٹ کرنے والی نے نہ دیا۔ کل بے چاری رات بھر جاگتی رہی۔ میں نے اسے کچھ دے تو نہیں دیا۔ ہاں جب تک جیوؤں گی اس کا گن گاؤں گی۔‘‘
’’تو اس کے گن ابھی تک نہیں جانتی۔ دھنیا پان کے پیسے کہاں سے آتے ہیں۔ رنگین ساڑھیاں کون لاتا ہے کچھ سمجھتی ہے؟‘‘
’’میں تو ان باتوں میں نہیں پڑتی کاکی۔ پھر شوق سنگار کرنے کو کس کا جی نہیں چاہتا۔ کھاؤ پہننے کی یہی عمر ہے۔‘‘
دھنیا کا گھر آیا آنگن میں روپا بچّے کو گود میں لیے تھپکیاں دے رہی تھی۔ بچّہ سو گیا تھا۔ دھنیا نے بچّہ کو اس سے لے کر کھٹولے پر سلا دیا۔ بوٹی نے بچّے کے سرپر ہاتھ رکھا پیٹ میں آہستہ آہستہ انگلی گڑو کر دیکھا، ناف پر ہینگ کا لیپ کرنے کی تاکید کی۔ روپا پنکھا لا کر اسے جھلنے لگی۔
بوٹی نے کہا ’’لا پنکھا مجھے دے دے۔‘‘
’’میں جھلوں گی تو کیا چھوٹی ہو جاؤں گی؟‘‘
’’تو دن بھر یہاں کام دھندا کرتی رہتی ہے تھک گئی ہو گی؟‘‘
’’تم اتنی بھلی مانس ہو۔ اور یہاں لوگ کہتے ہیں بغیر گالی کے کسی سے بات نہیں کرتی۔‘‘
’’اس لیے تمھارے پاس آنے کی ہمّت نہ پڑتی تھی۔‘‘
بوٹی مسکرائی ’’لوگ جھوٹ تو نہیں کہتے۔‘‘
’’اپنی آنکھوں کی دیکھی مانوں یا کانوں کی سنی۔ آج بھی روپا آنکھوں میں کاجل لگائے پان کھائے رنگین ساڑھی پہنے ہوئے تھی۔ مگر آج بوٹی کو معلوم ہوا کہ پھول میں محض رنگ نہیں بو بھی ہے۔ اسے روپا سے جو ایک طرح کا للّٰہی بغض تھا۔ وہ آئینہ پر جمے ہوئے گرد کی طرح صاف ہو گیا تھا۔ کتنی نیک سیرت، کتنی سگھڑ، اور شرمیلی لڑکی ہے۔ آواز کتنی پیاری ہے آج کل کی لڑکیاں اپنے بچّوں کی تو پرواہ نہیں کرتیں۔ دوسروں کے لیے کون مرتا ہے ساری رات دھنیا کے بچّے کو لیے جاگتی رہی۔ موہن نے کل کی باتیں اس سے کہہ تو دی ہوں گی۔ دوسری لڑکی ہوتی تو مجھے دیکھ کر منہ پھیر لیتی۔ اسے تو جیسے کچھ معلوم ہی نہیں۔ ممکن ہے موہن نے اس سے کچھ کہا ہی نہ ہو۔ ضرور یہی بات ہے۔
آج روپا اسے بہت حسین معلوم ہوئی۔ ٹھیک تو ہے ابھی شوق سنگارنہ کرے گی تو کب کرے گی۔ شوق سنگار اس لیے برا لگتا ہے کہ ایسے آدمی اپنے ہی عیش و آرام میں مست رہتے ہیں۔ کسی کے گھر میں آگ لگ جائے۔ ان سے مطلب نہیں۔ ان کا کام تو صرف دوسروں کو رجھانا ہے۔ جیسے اپنے روپ کو سجائے راہ چلتوں کو بلاتے ہوئے کہ ذرا اس دکان کی سیر بھی کرتے جائیے۔ ایسے نیک دل آدمیوں کا سنگار برا نہیں لگتا۔ بلکہ اور اچھا لگتا ہے۔ کون نہیں چاہتا کہ لوگ اس کے رنگ روپ کی تعریف کریں۔ کون دوسروں کی نظر میں کھپ جانا نہیں چاہتا۔ بوٹی کا شباب کب کا رخصت ہو چکا تھا پھر بھی یہ تمنّا اس کے دل میں موجود تھی زمین پر پاؤں نہیں پڑتے۔ پھر روپا تو ابھی جوان ہے۔
روپا اب قریب قریب روز دو ایک بار بوٹی کے گھر آتی۔ بوٹی نے موہن سے تقاضا کر کے اس کے لیے اچھی ساڑھی منگوا دی۔ اگر روپا بغیر کاجل لگائے یا محض سفید ساڑھی میں آ جاتی تو بوٹی کہتی ’’بہو بیٹیوں کو یہ جو گیا بھیس اچھا نہیں لگتا۔ یہ بھیس تو ہم بوڑھیوں کے لیے ہے۔‘‘
روپا کہتی ’’تم بوڑھی کس طرح ہو گئیں امّاں مردوں کو اشارہ مل جائے تو بھوروں کی طرح منڈلانے لگیں۔ میرے دادا تو تمھارے دروازے پر دھرنا دینے لگیں۔‘‘
بوٹی لطف آمیز ملالت کے ساتھ کہتی۔ ’’چل میں تیری ماں کی سوت بن کر جاؤں گی۔‘‘
’’امّاں تو بوڑھی ہو گئیں۔‘‘
’’تو کیا تیرے دادا جوان بیٹھے ہیں؟‘‘
’’ہاں امّاں بڑی اچھی کاٹھی ہے ان کی۔‘‘
آج موہن بازار سے دودھ بیچ کر لوٹا تو بوٹی نے کہا ’’کچھ روپے پیسے کی فکر کر بھائی۔ میں روپا کی ماں سے روپا کے لیے تیری بات چیت پکّی کر رہی ہوں۔‘‘
٭٭٭
آہ بیکس
منشی رام سیوک بھوئیں چڑھائے ہوئے گھر سے نکلے اور بولے۔ ’’ایسی زندگی سے تو موت بہتر۔‘‘
موت کی دست درازیوں کا سارا زمانہ شاکی ہے۔ اگر انسان کا بس چلتا تو موت کا وجود ہی نہ رہتا، مگر فی الواقع موت کو جتنی دعوتیں دی جاتی ہیں انھیں قبول کرنے کی فرصت ہی نہیں۔ اگر اسے اتنی فرصت ہوتی تو آج زمانہ ویران نظر آتا۔
منشی رام سیوک موضع چاند پور کے ایک ممتاز رئیس تھے۔ اور رؤسا کے اوصاف حمیدہ سے بہرہ ور۔ وسیلہ معاش اتنا ہی وسیع تھا جتنی انسان کی حماقتیں اور کمزوریاں۔ یہی ان کی املاک اور موروثی جائداد تھی۔ وہ روز عدالت منصفی کے احاطے میں نیم کے درخت کے نیچے کاغذات کا بستہ کھولے ایک شکستہ حال چوکی پر بیٹھے نظر آتے تھے اور گو انھیں کسی نے اجلاس میں قانونی بحث یا مقدمے کی پیروی کرتے نہیں دیکھا، مگر عرف عام میں وہ مختار صاحب مشہور تھے۔ طوفان آئے، پانی برسے، اولے گریں۔ مگر مختار صاحب کسی نامراد دل کی طرح وہیں جمے رہتے تھے۔ وہ کچہری چلتے تھے تو دہقانیوں کا ایک جلوس سا نظر آتا۔ چاروں طرف سے ان پر عقیدت و احترام کی نگاہیں پڑتیں، اور اطراف میں مشہور تھا کہ ان کی زبان پر سرسوتی ہیں۔
اسے وکالت کہو یا مختار کاری مگر یہ صرف خاندانی یا اعزازی پیشہ تھا۔ آمدنی کی صورتیں یہاں مفقود تھیں۔ نقرئی سکّوں کا تو ذکر ہی کیا کبھی کبھی مسی سکے بھی آزادی سے آنے میں تامل کرتے تھے۔
منشی جی کی قانون دانی میں بھی کوئی شک نہیں مگر ’’پاس‘‘ کی منحوس قید نے انھیں مجبور کر دیا تھا۔ بہر حال جو کچھ ہو یہ محض اعزاز کے لیے تھا ورنہ ان کی گذر ان کی خاص صورت، قرب و جوار کی بے کس مگر فارغ البال بیواؤں اور سادہ لوح مگر خوش حال بڈھوں کی خوش معاملگی تھی۔ بیوائیں اپنا روپیہ ان کی امانت میں رکھتیں، بوڑھے اپنی پونجی نا خلف لڑکوں کی دست برد سے محفوظ رکھنے کے لیے انھیں سونپتے۔ اور روپیہ ایک دفعہ ان کی مٹھی میں جا کر نکلنا نہیں جانتا تھا۔ وہ حسبِ ضرورت کبھی کبھی قرض بھی لیتے تھے۔ بلا قرض لیے کس کا کام چل سکتا ہے۔ صبح کو شام کے وعدے پر لیتے مگر وہ شام کبھی نہیں آتی تھی۔ خلاصہ یہ کہ منشی جی قرض لے کر دینا نہیں جانتے تھے۔ اور ان کا خاندانی وصف تھا، اس خاندان کی یہ رسم قدیم تھی۔
یہ معاملات اکثر منشی جی کے آرام میں مخل ہوا کرتے تھے۔ قانون اور عدالت کا تو انھیں کوئی خوف نہ تھا۔ اس میدان میں ان کا سامنا کرنا پانی میں رہ کر مگر سے بیر کرنا تھا۔ لیکن جب بعض شریر النفس لوگ خواہ مخواہ ان سے بد ظن ہو جاتے ان کی خوش نیتی پر شک کرتے اور ان کے روبرو اعلانیہ بد زبانیوں پر اتر آتے تو منشی جی کو بڑا صدمہ ہوتا۔ اس قسم کے ناخوش گوار واقعات آئے دن ہوتے رہتے تھے۔ ہر جگہ ایسے تنگ ظرف حضرات موجود رہتے ہیں جنھیں دوسروں کی تحقیر میں مزہ آتا ہے۔ انھیں بد خواہوں کی شہ پا کر بعض اوقات چھوٹے چھوٹے آدمی منشی جی کے منہ آ جاتے۔ ورنہ ایک کنجڑن کا اتنا حوصلہ نہ ہو سکتا تھا کہ ان کے گھر میں جا کر انھیں کی شان میں نازیبا کلمات منہ سے نکالے۔ منشی جی اس کے پرانے گاہک تھے برسوں تک اس سے سبزی لی تھی اگر دام نہ دئیے تو کنجڑن کو صبر کرنا چاہیے تھا جلد یا دیر میں مل ہی جاتے، مگر وہ بد زبان عورت دو سال ہی میں گھبرا گئی اور چند آنے پیسوں کے لیے ایک معزز آدمی کی جان ریزی کی۔ ایسی حالت میں آ کر جھنجھلا کر موت کو دعوت دی تو ان کی کوئی خطا نہیں۔
اس موضع میں مونگا نام کی ایک بیوہ براہمنی تھی۔ اس کا شوہر برما کی کالی پلٹن میں حولدار تھا وہ وہیں مارا گیا۔ اس کے حسن خدمات کے صلے میں مونگا کو پانچ سو روپے ملے تھے۔ بیوہ عورت تھی، زمانہ نازک۔ اس نے یہ روپے منشی رام سیوک کو سونپ دیے اور ہر ماہ اس میں سے تھوڑا تھوڑا لے کر گذر کرتی رہی۔ منشی جی نے یہ فرض کئی سال تک نیک نیتی سے پورا کیا مگر جب پیرانہ سالی کے باوجود مونگا نے مرنے میں تامل کیا اور منشی جی کو اندیشہ ہوا‘ شاید وہ توشہ آخرت کے لیے نصف رقم بھی چھوڑنا نہیں چاہتی تو ایک روز انھوں نے کہا۔ ’’مونگا تمھیں مرنا ہے یا نہیں۔ صاف صاف کہہ دو تاکہ میں اپنے مرنے کی فکر کروں۔‘‘
اس دن مونگا کی آنکھیں کھلیں خواب سے بیدار ہوئی۔ بولی، میرا حساب کر دو۔ فرد حساب تیار تھا۔ امانت میں اب ایک کوڑی بھی نہ تھی۔ اس سخت گیری سے جو بڑھاپے کے ساتھ مخصوص ہے اس نے منشی جی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ’’میرے سو روپے تم نے دبائے ہیں میں ایک ایک کوڑی لے لوں گی‘‘۔
مگر بے کسوں کا غصّہ پٹاخے کی آواز ہے۔ جس سے بچّے ڈر جاتے ہیں اور اثر کچھ نہیں ہوتا۔
عدالت میں اس کا کچھ زور نہ تھا۔ نہ کوئی لکھا پڑھی، نہ حساب نہ کتاب، البتہ پنچایت سے کچھ امید تھی اور پنچایت بیٹھی۔ گاؤں کے آدمی جمع ہوئے۔ منشی جی نیت اور معاملے کے صاف تھے۔ انھیں پنچوں کا کیا خوف۔ سبھا میں کھڑے ہو کر پنچوں سے کہا۔
’’بھائیو۔ آپ سب لوگ ایماندار اور شریف ہیں میں آپ صاحبوں کا خاک پا اور پروردہ ہوں آپ سبھوں کی عنایات و الطاف سے، فیض وکرم سے، محبت و شفقت سے، میرا ہر ایک رونگٹا گراں بار ہے۔ کیا آپ سب نیک اور شریف حضرات خیال کرتے ہیں کہ میں نے ایک بے کس اور بیوہ عورت کے روپے ہضم کر لیے۔
پنچوں نے ایک زبان کہا۔ ’’نہیں آپ سے ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’اگر آپ سب نیک اور شریف صاحبان کا خیال ہے کہ میں نے روپے دبا لیے تو میرے ڈوب جانے کے سوا اور کوئی تدبیر نہیں۔ میں امیر نہیں ہوں۔ نہ مجھے فیاضی کا دعوی ہے۔ مگر اپنے قلم کی بدولت آپ صاحبان کی عنایات کی بدولت کسی کا محتاج نہیں۔ کیا میں ایسا کمینہ ہو جاؤں گا کہ ایک بے کس عورت کے روپے ہضم کر لوں۔‘‘
پنچوں نے یک زبان ہو کر پھر کہا۔
’’نہیں نہیں آپ سے ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘
پگڑی کی نگری ہے۔ پنچوں نے منشی جی کو رہا کر دیا۔ پنچایت ختم ہو گئی اور مونگا کو اب کسی خیال سے تسکین ہو سکتی تھی تو وہ یہ تھا کہ یہاں نہ دیا، نہ سہی، وہاں کہاں جائے گا۔
مونگا کا اب کوئی غم خوار و مددگار نہ تھا۔ ناداری سے جو کچھ تکلیفیں ہو سکتی ہیں وہ سب اسے جھیلنی پڑیں اس کے قویٰ درست تھے وہ چاہتی تو محنت کر سکتی تھی مگر جس دن پنچایت ختم ہوئی اسی دن سے اس نے کام کرنے کی قسم کھائی اب اسے رات دن روپوں کی رٹ لگی ہوئی تھی۔
اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے اسے صرف ایک کام تھا اور وہ منشی رام سیوک کا ذکر خیر تھا۔ ا پنے جھونپڑے کے دروازے پر بیٹھی وہ رات دن انھیں صدق دل سے دعائیں دیا کرتی اور اکثر دعاؤں میں ایسے شاعرانہ تلامزے ایسے رنگین استعارے استعمال کرتی جسے سن کر حیرت ہوتی تھی۔
رفتہ رفتہ مونگا کے حواس پر وحشت کا غلبہ ہوا۔ ننگے سر، ننگے بدن، ہاتھ میں ایک کلہاڑہ لیے وہ سنسان جگہوں میں جا بیٹھتی۔ جھونپڑے کے بجائے اب وہ مرگھٹ پر ندی کے کنارے کھنڈروں میں گھومتی دکھائی دیتی۔ بکھری ہوئی پریشان لٹیں، سرخ آنکھیں، وحشت ناک چہرہ، سوکھے ہوئے ہاتھ پاؤں۔ اس کی یہ ہیئت کذائی دیکھ کر لوگ ڈر جاتے تھے۔ اسے کوئی مزاح کے طور پر نہ چھیڑتا تھا۔ اگر وہ کبھی گاؤں میں نکل آتی تو عورتیں گھروں کے کیواڑ بند کر لیتیں۔ مرد کترا کر نکل جاتے اور بچے چیخ چیخ کر بھاگ جاتے۔ اگر کوئی لڑکا نہ بھاگتا تو یہ منشی رام سیوک کا صاحبزادہ رام غلام تھا۔ باپ میں جو کچھ کور کسر رہ گئی تھی وہ ان کی ذات میں پوری ہو گئی تھی۔ لڑکوں کا اس کے مارے ناک میں دم تھا۔ گاؤں کے کانے اور لنگڑے آدمی اس کی صورت سے بیزار تھے اور گالیاں کھانے میں شاید سسرال میں آنے والے داماد کو بھی اتنا مزہ نہ آتا ہو گا۔ وہ مونگا کے پیچھے تالیاں بجاتا کتوں کو ساتھ لیے اس وقت تک رہتا جب تک وہ غریب تنگ آ کر نکل نہ جاتی۔ روپیہ پیسہ ہوش و ہواس کھو کر اسے پگلی کا لقب ملا اور وہ سچ مچ پگلی تھی،ا کیلے بیٹھے ہوئے آپ ہی آپ گھنٹوں باتیں کیا کرتی جس میں رام سیوک کے گوشت ہڈی‘پوست آنکھیں ‘کلیجہ وغیرہ کو کھانے مسلنے نوچنے کھسوٹنے کی پر جوش خواہش کا اظہار ہوتا تھا اور جب یہ خواہش بے تابی تک پہنچ جاتی تو رام سیوک کے مکان کی طرف منہ کر کے بلند آواز اور ڈراؤنی آواز سے ہانک لگاتی۔
’’تیرا لہو پیوں گی۔‘‘
اکثر راتوں کے سنّاٹے میں یہ گرجتی ہوئی آواز سن کر عورتیں چونک پڑتی تھیں، مگر اس آواز سے زیادہ ہیبت ناک اس کا قہقہہ تھا منشی جی کے خیالی لہو پینے کی خوشی میں وہ زور زور سے ہنسا کرتی تھی، اس قہقہے سے ایسی شیطانی مسرت ایسی سفا کی، ایسی خونخواری ٹپکتی تھی کہ رات کو لوگوں کے خون سرد ہو جاتے تھے معلوم ہوتا تھا کہ گویا سینکڑوں الّو ایک ساتھ ہنس رہے ہیں۔
منشی رام سیوک بڑے حوصلہ جگر کے آدمی تھے۔ نہ انھیں دیوانی کا خوف تھا، نہ فوجداری کا، مگر مونگا کے ان خوفناک نعروں کو سن کر وہ بھی سہم جاتے تھے۔ ہمیں انسانی انصاف کا چاہے خوف نہ ہو اور بسا اوقات نہیں ہوتا۔ مگر خدائی انصاف کا خوف ہر انسان کے دل میں خلقی طور پر موجود رہتا ہے اور کبھی کبھی ایسے مبارک اتفاقات پیش آ جاتے ہیں جب نفس کے نیچے دبا ہوا یہ خیال اوپر آ جاتا ہے۔ مونگا کی وحشت ناک شب گردی رام سیوک کے لیے یہی مبارک اتفاق تھی اور ان سے زیادہ ان کی بیوی کے لیے جو ایک وفادار عورت کی طرح ہر معاملے میں نہ صرف عورت کا ساتھ دیتی تھی بلکہ آئے دن کے مباحثوں اور مناظروں میں زیادہ نمایاں حصہ لیا کرتی تھی۔ فرقہ اناث میں ان کے زور بیان کا عام شہرہ تھا۔ زبانی معاملات ہمیشہ وہی طے کیا کرتی تھیں۔ ان لوگوں کی بھول تھی جو کہتے تھے کہ منشی جی کی زبان پر سرسوتی ہے۔ یہ فیض ان کی بیوی کو حاصل تھا۔ زور بیان میں انھیں وہی ملکہ تھی جو منشی جی کو زور تحریر میں اور یہ دونوں پاک روحیں اکثر عالم مجبوری میں مشورہ کرتیں کہ اب کیا کرنا چاہیے۔
آدھی رات کا وقت تھا۔
منشی جی حسب معمول غم غلط کرنے کے لیے آب آتشیں کے دو چار گھونٹ پی کر سوگئے تھے۔
یکایک مونگا نے ان کے دروازے پر آ کر زور سے ہانک لگائی۔
’’تیرا لہو پیوں گی۔‘‘
اور خوب کھلکھلا کر ہنسی۔
منشی جی یہ خوفناک قہقہہ سن کر چونک پڑے، خوف سے پاؤں تھرتھرا رہے تھے اور کلیجہ دھک دھک کر رہا تھا۔ دل پر بہت جبر کر کے دروازہ کھولا اور جا کر ناگن کو جگایا۔
ناگن نے جھلا کر کہا۔
کیا ہے؟ کیا کہتے ہو؟
منشی جی نے آواز دبا کر کہا۔
’’وہ دروازہ پر آ کر کھڑی ہے۔‘‘
ناگن اٹھ بیٹھی کیا کہتی ہے؟
تمھارا سر۔
’’کیا دروازے پر آ گئی؟‘‘
’’ہاں۔ آواز نہیں سنتی ہو۔
ناگن مونگا سے نہیں ڈرتی تھی مگر اس کی وحشت سے ڈرتی تھی تا ہم اسے یقین تھا کہ میں تقریر میں ضرور اسے نیچا دکھا سکتی ہوں۔
سنبھل کر بولی۔
’’تو میں اس سے دو باتیں کر لوں۔‘‘
مگر منشی جی نے منع کیا۔
دونوں آدمی دہلیز پر آ گئے۔ اور دروازے سے جھانک کر دیکھا مونگا کی دھندلی مورت زمین پر پڑی تھی۔ اور اس کی سانس تیزی سے چلتی سنائی دیتی تھی۔ رام سیوک کے خون اور گوشت کی آرزو میں وہ اپنا گوشت اور خون خشک کر چکی تھی ایک بچہ بھی اسے گرا سکتا تھا مگر اس سے سارا گاؤں ڈرتا تھا۔
ہم زندہ انسانوں سے نہیں ڈرتے ہیں مردوں سے ڈرتے ہیں۔
اگرچہ اندر سے دروازہ بند تھا مگر منشی جی اور ناگن نے بیٹھ کر رات کاٹی۔ مونگا اندر نہیں آ سکتی تھی مگر اس کی آواز کو کون روک سکتا تھا۔
مونگا سے زیادہ ڈراؤنی اس کی آواز تھی۔
صبح کے وقت منشی جی باہر نکلے اور مونگا سے بولے۔
’’یہاں کیوں پڑی ہے؟‘‘
مونگا بولی۔
’’تیرا خون پیوں گی۔‘‘
ناگن نے بل کھا کر کہا۔
’’تیرا منہ جھلس دوں گی۔
مگر ناگن کے زہر نے مونگا پر کچھ اثر نہ کیا اس نے زور سے قہقہہ لگا یا۔ ناگن کھسیانی ہو گئی۔ قہقہے کے مقابلے میں زبان بند ہو جاتی ہے۔
منشی جی پھر بولے۔
’’یہاں سے اٹھ جاؤ۔‘‘
’’نہ اٹھوں گی۔‘‘
’’کب تک پڑی رہے گی؟‘‘
’’تیرا لہو پی کر جاؤں گی۔‘‘
منشی جی کی پر زور تحریر کا یہاں کچھ زور نہ چلا اور ناگن کی آتشیں تقریر یہاں سرد ہو گئی۔
دونوں گھر میں جا کر مشورہ کرنے لگے۔ یہ بلا کیوں کر ٹلے گی، اس آفت سے کیوں کر نجات ہو گی۔
دیوی آتی ہیں تو بکرے کا خون پی کر چلی جاتی ہیں مگر یہ ڈائین انسان کا خون پینے آئی ہے۔ وہ خون جس کے اگر قلم بنانے میں چند قطرے نکل پڑتے تھے۔ تو ہفتوں اور مہینوں سارے کنبے کو افسوس رہتا تھا۔ اور یہ واقعہ گاؤں میں مرکز گفتگو بن جاتا تھا۔ کیا یہ خون پی کر مونگا کا سوکھا ہوا جسم ہرا ہو جائے گا۔
گاؤں میں خبر پھیل گئی۔ مونگا منشی جی کے دروازے پر دھرنا دئیے بیٹھی ہے۔ منشی جی کی رسوائی میں گاؤں والوں کو خواہ مخواہ لطف آتا تھا۔ سینکڑوں آدمی جمع ہو گئے۔ اس دروازے پر وقتاً فوقتاً میلے لگے رہتے تھے۔ مگر وہ زور و شور اور پر جوش میلے ہوتے تھے۔ آج کا مجمع خاموش اور متین تھا۔ یہ رکاؤ اور حبس رام غلام کو مرغوب نہ تھا۔ مونگا پر اسے ایسا غصّہ آ رہا تھا کہ اس کا بس چلتا تو ضرور کنوئیں میں ڈھکیل دیتا۔ کہتا چل کنوئیں پر تجھے پانی پلا لاؤں جب وہ کنوئیں پر پہنچی تو پیچھے سے ایسا دھکا دیتا کہ اڑاڑا دھم کنوئیں میں جا گرتی۔ اور وہاں پیٹے ہوئے کتے کی طرح چیخنے لگتی۔ دھماکے کی آواز آتی۔ اس خیال سے رام غلام کے سینے میں گدگدی سی ہونے لگی۔ اور وہ مشکل سے اپنی ہنسی روک سکا۔ کیسے مزے کی بات ہوتی۔ مگر یہ چڑیل یہاں سے اٹھتی ہی نہیں کیا کروں۔
منشی جی کے گھر میں استخوانی نسل کی ایک گائے تھی۔ جسے کھلی دانہ اور بھوسا تو اسے کثرت سے کھلایا جاتا تھا مگر وہ سب اس کی ہڈیوں میں پیوست ہو جاتا تھا۔ اور اس کا ڈھانچہ روز بروز نمایاں ہو جاتا تھا۔ رام غلام نے ایک ہانڈی میں اس کا گوبر گھولا اور وہ ساری غلاظت مونگا پر لا کر انڈیل دی۔ اور پھر اس کے چھینٹے تماشائیوں پر ڈال دئیے۔ غریب مونگا لت پت ہو گئی اور اٹھ کر رام غلام کی طرف دوڑی۔ صد ہا تماشائیوں کے کپڑے خراب ہو گئے۔ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ منشی رام سیوک کا دروازہ ہے۔ یہاں اسی طرح کی مدارات کی جاتی ہے۔ جلد بھاگ چلو ورنہ اب کے کوئی اس سے اچھی خاطر کی جائے گی۔
ادھر مطلع صاف ہوا۔ ادھر رام غلام گھر میں جا کر خوب ہنسا اور خوب تالیاں بجائیں۔ منشی جی نے اس مجمع ناجائز کو ایسی آسانی اور خوبصورتی سے ہٹا دینے کی تدبیر پر اپنے سعادت مند لڑکے کی پیٹھ ٹھونکی۔ مگر سب بھاگے مونگا جوں کی توں بیٹھی رہی۔
دوپہر ہوئی مونگا نے کھانا نہیں کھایا تھا۔ شام ہوئی ہزاروں اصرار کے باوجود اس نے کھانا نہیں کھایا۔ گاؤں کے چودھری نے خوشامد کیں حتیٰ کہ منشی جی نے ہاتھ تک جوڑے مگر دیوی راضی نہ ہوئیں۔ آخر منشی جی اٹھ کر اندر چلے گئے ان کا قول تھا روٹھنے والے کو بھوک آپ منا لیا کرتی ہے۔ مونگا نے یہ رات بھی بے آب و دانہ کاٹ دی۔ اور لالہ صاحب اور ان کے غم گسار نے آج بھی پھر جاگ جاگ کر صبح کی۔
آج مونگا کے نعرے اور قہقہے بہت کم سنائی دئیے گھر والوں نے سمجھا بلا ٹل گئی۔ سویرا ہوتے ہی جو دروازہ پر دیکھا تو وہ بے حس و حرکت پڑی ہوئی تھی۔ منہ پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ اس کی جان نکل چکی تھی وہ اس دروازے پر جان دینے آئی تھی۔ جس نے اس کی جمع جتھا لی تھی۔ اس کو اپنی جان بھی سونپ دی۔ اپنی مٹی تک اس کی نذر کر دی۔
دولت سے انسان کو کتنی الفت ہے۔ دولت اپنی جان سے بھی پیاری ہوتی ہے۔ خصوصاً بڑھاپے میں۔ قرض ادا ہونے کے دن جوں جوں قریب آتے ہیں، توں توں اس کا سود بڑھتا ہے۔
یہ ذکر کہ گاؤں میں کیسی ہلچل مچی اور منشی رام سیوک کیسے ذلیل ہوئے فضول ہے۔ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک ایسے غیر معمولی واقعہ پر جتنی ہلچل مچ سکتی ہے اس سے کچھ زیادہ ہی مچی۔ منشی جی کی جتنی ذلت ہونی چاہیے تھی اس سے ذرا بھی کم نہ ہوئی۔ اب گاؤں کا چمار بھی ان کے ہاتھ کا پانی پینے یا انھیں چھونے کا روادار نہ تھا۔ اگر کسی کے گھر کوئی گائے بندھی بندھی مر جاتی ہے تو وہ شخص مہینوں در بدر بھیک مانگتا پھرتا ہے۔ نہ حجام اس کی حجامت بنائ۔ نہ کہار اس کا پانی بھرے، نہ کوئی اسے چھوئے۔ یہ گؤ ہتیا کا پرایشچت ہے۔ برہم ہتیا کی سزائیں اس سے بدر جہا سخت۔ اور ذلتّیں بدر جہا زیادہ ہیں۔ مونگا یہ جانتی تھی اور اسی لیے اس دروازے پر آ کر مری تھی۔ کہ میں جو زندہ رہ کر کچھ نہیں کر سکتی مر کر بہت کچھ کر سکتی ہوں۔ گوبر کا ایک اپلا جب جل کر راکھ ہو جاتا ہے تو سادھو سنت لوگ اسے ماتھے پر چڑھاتے ہیں۔ پتھر کا ڈھیلا آگ میں جل کر آگ سے بھی زیادہ قاتل ہو جاتا ہے۔
منشی رام سیوک قانون داں آدمی تھے۔ قانون نے ان پر کوئی جرم نہیں لگایا تھا۔ مونگا کسی قانونی دفعہ کے منشاء کے مطابق نہیں مری تھی تعزیراتِ ہند میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی تھی اس لیے جو لوگ ان سے پرایشچت کرانا چاہتے تھے ان کی سخت غلطی تھی۔ کوئی مضائقہ نہیں۔ کہار پانی نہ بھرے وہ خود اپنا پانی آپ بھر سکتے تھے، اپنا کام کرنے میں کوئی شرم نہیں۔ بلا سے حجام بال نہ بنائے گا۔ حجامت کی ضرورت ہی کیا ہے داڑھی بہت خوبصورت چیز ہے، داڑھی مرد کا زیور اورسنگار ہے۔ اور پھر بالوں سے ایسی ہی نفرت ہو گئی تو ایک ایک آنے میں استرے آتے ہیں۔ دھوبی کپڑے نہ دھوئے گا۔ اس کی بھی کچھ پرواہ نہیں صابن کوڑیوں کے مول آتا ہے۔ ایک بٹی میں درجنوں کپڑے ایسے صاف ہو جائیں جیسے بگلے کے پر، دھوبی کیا کھا کے ایسے صاف کپڑے دھوئے گا۔ کم بخت پتھر پر پٹک ٹپک کپڑوں کا لتا نکال لیتا ہے۔ خود پہنے، دوسروں کو پہنائے، بھٹی میں چڑھائے، ریہہ میں بھگوئے، کپڑوں کی درگت کر ڈالتا ہے۔ جب ہی تو کرتے دو تین سال سے زیادہ نہیں چلتے ورنہ دادا ہر پانچویں سال دو اچکن اور دو کرتے بنوایا کرتے تھے۔ منشی رام سیوک اور ان کی زوجہ غم گسار نے دن بھر یوں ہی دلوں کو سمجھا کر ٹالا۔
مگر شام ہوتے ہی ان کو قوت استدلال نے جواب دے یا۔ ان کے دلوں پر ایک بے معنی ‘ بے بنیاد مہمل خوف کا غلبہ ہوا۔ اور رات کے ساتھ ساتھ خوف کا یہ احساس مشکل ہوتا گیا یہاں تک کہ ناگن کھانا پکانے کے لیے رسوئی کے کمرے میں تنہا نہ جا سکی۔ باہر کا دروازہ غلطی سے کھلا رہ گیا تھا مگر کسی ایک کی ہمّت نہ پڑتی تھی کہ جا کر دروازہ بند کر آئے آخر ناگن نے ہاتھ میں چراغ لیا، منشی جی نے کلہاڑا لیا، اور رام غلام نے گنڈا سا۔ اس قطع سے تینوں آدمی چونکتے ہچکچاتے دروازے تک آئے۔ یہاں منشی جی نے بڑی جرأت سے کام لیا۔ انھوں نے بے دھڑک دروازے سے نکلنے کی کوشش کی اور کانپتی ہوئی مگر بلند آواز میں ناگن سے بولے۔ تم ناحق ڈرتی ہو۔ کیا یہاں وہ بیٹھی ہے مگر وفا دار ناگن نے انھیں اندر کھینچ لیا۔ اور خفا ہو کر بولیں تمھارا یہی لڑکپن تو اچھا نہیں۔
یہ مہم فتح کرنے کے بعد تینوں آدمی رسوئی کے کمرے میں آئے اور کھانا پکانا شروع ہوا۔
مگر مونگا ان کی آنکھوں میں گھسی ہوئی تھی۔ اپنی پرچھائیں کو دیکھ کر مونگا کا گمان ہوتا تھا، اندھیرے کونوں میں مونگا بیٹھی ہوئی تھی۔ وہی ہڈیوں کا ڈھانچہ، و ہی جھنڈولے بال، وہی وحشت، وہی ڈراؤنی آنکھیں مونگا کا مکھ سکھ دکھائی دیتا تھا۔ اسی کمرے میں آٹے دال کے کئی مٹکے رکھے ہوئے تھے وہیں کچھ پرانے چیتھڑے بھی رکھے ہوئے تھے، ایک چوہے کو بھوک نے بے چین کیا مٹکوں نے کبھی اناج کی صورت نہیں دیکھی تھی مگر سارے گاؤں میں مشہور تھا کہ گھر کے چوہے غضب کے ڈاکو ہیں۔ وہ ان دانوں کی تلاش میں جو مٹکوں سے کبھی نہیں گرے تھے رینگتا ہوا اس چیتھڑے کے نیچے آ نکلا۔ کپڑے میں حرکت ہوئی۔ پھیلے ہوئے چیتھڑے مونگا کی پتلی ٹانگیں بن گئے۔ ناگن دیکھتے ہی جھجکی اور چیخ اٹھی، منشی جی بدحواس ہو کر دروازے کی طرف لپکے رام غلام دوڑ کر ٹانگوں سے لپٹ گیا۔ بارے چوہا باہر نکل گیا۔ اسے دیکھ کر ان لوگوں کے ہوش بجا ہوئے۔ اب منشی جی مردانہ قدم اٹھائے مٹکے کی طرف چلے۔
ناگن نے طنز سے کہا۔ ’’رہنے بھی دو دیکھ لی تمھاری مردمی۔‘‘
منشی جی وفادار ناگن کی اس ناقدری پر بہت بگڑے۔ کیا تم سمجھتی ہو۔ ڈر گیا بھلا ڈر کی کیا بات تھی۔ مونگا مر گئی اب کیا وہ بیٹھی ہے۔ کل میں دروازے کے باہر نکل گیا تھا تم روکتی رہیں اور میں نہ مانا۔
منشی جی کی اس زبردست دلیل نے ناگن کو لاجواب کر دیا۔ کل دروازہ کے باہر نکل جانا یا نکلنے کی کوشش کرنا معمولی کام نہ تھا جس کی جرأت کا ایسا ثبوت مل چکا ہو اسے بزدل کون کہہ سکتا ہے۔ یہ ناگن کی ہٹ دھرمی تھی۔
کھانا کھا کر تینوں آدمی سونے کے مکان میں آئے لیکن مونگا نے یہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا۔ باتیں کرتے تھے، دل بہلاتے تھے ناگن نے راجہ ہر دول اور رانی سارندھا کی کہانیاں کہیں۔ منشی جی نے چند مقدمات کی تفصیل بیان کی مگر تدبیروں کے باوجود مونگا کی تصویر آنکھوں کے سامنے سے دور نہ ہوتی تھی۔ ذرا کواڑ کھڑکا اور دونوں چونک پڑے۔ پتوّں میں سنساہٹ ہوئی اور دونوں کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اور رہ رہ کر ایک مدھم آواز نہ جانے کہاں سے، شاید آسمان کے اوپر یا زمین کے نیچے سے ان کے کانوں میں آتی تھی۔
’’میں تیرا خون پیوں گی۔‘‘
آدھی رات کو ناگن عالم غنودگی سے چونکی وہ غریب ان دنوں حاملہ تھی۔ سرخ آتشیں آنکھوں والی، تیز نکیلے دانتوں والی مونگا اس کے سینے پر بیٹھی ہوئی تھی، ناگن چیخ مار کر اٹھی ایک عالم وحشت میں بھاگ کر آنگن میں آئی اور فرط حراس سے زمین پر گر پڑی۔ سارابدن پسینے میں ڈوبا ہوا تھا۔ منشی جی نے بھی اس کی چیخ سنی۔ مگر خوف کے مارے آنکھیں نہ کھولیں۔ اندھوں کی طرح دروازہ ٹٹولتے رہے۔ بہت دیر کے بعد انھیں دروازہ ملا۔ آنگن میں آئے ناگن زمین پر پڑی ہاتھ پاؤں پٹک رہی تھی۔ اسے اٹھا کر اندر لائے۔ مگر رات بھر اس نے آنکھیں نہ کھولیں۔ صبح کو ہڈیاں پکنے لگیں تھوڑی دیر میں بخار ہو آیا جسم سرخ توا ہو گیا۔ شام ہوتے ہوتے سر سام ہوا اور آدھی رات کے وقت جب ہر طرف سنّاٹا ہوا تھا ناگن اس دنیا سے چل بسی۔
رات گذر گئی دن چڑھتا آتا تھا مگر گاؤں کا کوئی آدمی لاش اٹھانے کے لیے دروازے پر نہ آتا تھا۔ منشی جی گھر گھر گھومے مگر کوئی نہ نکلا۔ ہتیارے کے دروازے پر کون آئے۔ ہتیارے کی لاش کون اٹھائے۔ منشی جی کا رعب، ان کے خونخوار قلم کا خوف اور قانونی مصلحت آمیزیاں کچھ بھی کارگر نہ ہوا۔ چاروں طرف سے ہار کے منشی جی پھر اپنے خانہ تاریک میں آئے۔ مگر اندر قدم نہیں رکھا جاتا تھا نہ باہر کھڑے رہ سکتے تھے۔ باہر مونگا اندر ناگن، دل پر بہت جبر کر کے ہنومان چالیسا کا ورد کرتے ہوئے وہ مکان میں گئے۔ اس وقت ان کے دل پر جو گذر رہی تھی اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ گھر میں لاش پڑی ہوئی نہ کوئی آگے نہ پیچھے۔ دوسری شادی تو ہو سکتی ہے۔ ابھی اسی پھاگن میں تو پچاسواں سال ہے۔ مگر ایسی زبان دراز خوش بیان عورت کہاں ملے گی۔ افسوس کہ اب تقاضا کرنے والوں سے بحث کون کرے گا۔ کون انھیں لاجواب کرے گا۔ لین دین، حساب کون اتنی خوبی سے کرے گا۔ کس کی آواز بلند تیر کی طرح اہل تقاضا کے سینوں میں چبھے گی۔ اس نقصان کی تلافی اب ممکن نہیں۔
دوسرے دن منشی جی لاش کو ایک ٹھیلے پر لاد کر گنگا جی کی طرف چلے عزا داروں کی تعداد بہت مختصر تھی ایک منشی جی اور دوسرا رام غلام۔ اس ہیبت کذائی سے مونگا کی لاش بھی نہیں اٹھی تھی۔
مگر مونگا نے ناگن کی جان لے کر بھی منشی جی کا پنڈ نہ چھوڑا۔ لیلیٰ کی تصویر مجنوں کے پردۂ دماغ پر ایسے شوخ رنگوں میں شاید ہی کھینچی ہو۔ آٹھوں پہر ان کا خیال اسی طرف لگا رہتا تھا۔ اگر دل بہلانے کو کوئی ذریعہ ہوتا تو شاید انھیں اتنی پریشانی نہ ہوتی۔ مگر گاؤں کا کوئی ذی روح ان کے دروازے کی طرف جھانکتا بھی نہ تھا۔ غریب اپنے ہاتھوں پانی بھرتے، خود برتن دھوتے۔ غم و غصّہ فکر اور خوفِ دنیا کے مقابلے میں ایک دماغ کب تک ٹھہر سکتا تھا خصوصاً وہ دماغ جو روزانہ قانونی مباحثوں میں صرف تبخیر ہو جاتا ہو۔
کنج تنہائی کے دس بارہ دن جوں توں کر کے کٹے۔ چودھویں دن منشی جی نے کپڑے بدلے اور بستہ لیے ہوئے کچہری چلے، آج ان کا چہرہ کچھ روشن تھا۔ جاتے ہی میرے موکل مجھے گھیر لیں گے۔ ماتم پرسی کریں گے۔ میں آنسوؤں کے دو چار قطرے گرا دوں گا۔ پھر بیع ناموں، رہن ناموں، صلح ناموں وغیرہ کا ایک طوفان بلکہ سیلاب سامنے آ جائے گا۔ یہ خیال انھیں خوش کیے ہوئے تھا۔ مٹھیاں گرم ہوں گی۔ روپے کی صورت نظر آئے گی۔ شام کو ذرا شغل ہو جائے گا۔ اس کے چھوٹنے سے تو جی اور بھی اچاٹ تھا۔ انھیں خیالوں میں سرخوش منشی جی کچہری پہنچے۔
مگر وہاں رہن ناموں کے طوفان، بیع ناموں کے سیلاب اور موکلوں کی چہل پہل کے بدلے مایوسی کا ایک کف دست حوصلہ شکن ریگستان نظر آیا بستہ کھولے گھنٹوں بیٹھے رہے۔ مگر کوئی مخاطب نہ ہوا۔ کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ مزاج کیسا ہے۔ نئے موکل تو خیر بڑے بڑے پرانے موکل جن کا منشی جی کے پشتوں سے تعلق چلا آتا تھا آج ان سے گریز کرنے لگے۔ وہ نالائق اور بد تمیز رمضان خاں کیسا بے شعور آدمی تھا، املا تک غلط لکھتا تھا۔ منشی جی ہر روز اس کا مضحکہ اڑاتے تھے مگر آج سینکڑوں آدمی اسے گھیرے ہوئے تھے۔ بے تمیز گوپیوں میں کنہیا بنا ہوا تھا۔ واہ ری قسمت موکل کمبخت یوں منہ پھیرتے چلے جاتے ہیں، گویا کبھی کی جان پہچان نہیں۔
دن بھر موکلوں کا انتظار کرنے کے بعد شام کو اپنے گھر کی طرف چلے۔ پژمردہ، مایوس، متفکّر اور جوں جوں گھر نزدیک آتا تھا مونگا کی تصویر سامنے آتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ جب شام کو گھر پہنچ کر دروازہ کھولا اور دو کتّے جنھیں رام غلام نے شرارتاً بند کر رکھا تھا۔ جھپٹ کر باہر نکلے تو منشی جی کے اوسان ختم ہو گئے ایک چیخ مار کر زمین پر گر پڑے۔
انسان کا دل اور دماغ خوف سے جس قدر متاثر ہوتا ہے اتنا اور کسی طاقت سے نہیں۔ محبت افسوس، مایوسی، جدائی، نقصان یہ سب دل پر کچھ نہ کچھ اثر کرتے ہیں۔ مگر یہ اثرات ہلکے ہلکے جھونکے ہیں اور خوف کا اثر طوفان ہے۔ منشی رام سیوک پر بعد کو کیا گذری یہ معلوم نہیں۔ کئی دن تک لوگوں نے انھیں روزانہ کچہری جاتے ہوئے، وہاں سے افسردہ و پژ مردہ لوٹتے دیکھا۔ کچہری جانا ان کا فرض تھا اور گو وہاں موکلوں کا قحط تھا مگر تقاضے والوں سے گلا چھڑانے اور انھیں اطمینان کے لیے اب یہی ایک لٹکا رہ گیا تھا۔
اس کے بعد وہ کئی ماہ تک نظر نہ آئے۔ بدری ناتھ چلے گئے۔
ایک دن گاؤں میں ایک سادھو آیا۔ بھبھوت رمائے، لمبی لمبی جٹائیں، ہاتھ میں کمنڈل، اس کی صورت منشی رام سیوک سے ملتی جلتی تھی۔ آواز اور رفتار میں بھی زیادہ فرق نہ تھا۔ وہ ایک پیڑ کے نیچے دھونی رمائے بیٹھا رہا۔ اسی رات کو منشی رام سیوک کے گھر سے دھواں اٹھا۔ پھر شعلے نظر آئے اور آگ بھڑک اٹھی۔ ناگن کی آتش تقریر کبھی اس گھر میں بھڑکتی تھی۔ گاؤں کے سینکڑوں آدمی دوڑے گئے۔ آگ بجھانے کے لیے نہیں، تماشہ دیکھنے کے لیے۔ ایک بیکس کی آہ میں کتنا اثر ہے۔
صاحب زادہ رام غلام، منشی جی کے غائب ہو جانے پر اپنے ماموں کے یہاں چلے گئے۔ اور وہاں کچھ دن رہے۔ مگر وہاں ان کی خوش فعلیاں ناپسند کی گئیں۔ ایک روز آپ نے کسی کے کھیت سے ہولے نوچے اور اس نے دو چار دھول لگائے۔ اس پر آپ اس قدر برہم ہوئے کہ جب اس کے چنے کھلیان میں آئے تو جا کر آگ لگا دی۔ ایک کے پیچھے سارا کھلیان جل کر راکھ ہو گیا۔ ہزاروں روپے کا نقصان ہوا۔ پولیس نے تحقیقات کی۔ حضرت گرفتار ہوئے۔ اپنے قصور کا اقبال کیا اور اب چنار کے رفارمیٹری اسکول میں موجود ہیں۔
٭٭٭
تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
یہ حصہ:
جلد چہارم
باقی حصے:
جلد اول
جلد دوم
جلد سوم