FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

منتخب پنجابی کہانیاں

 

حصہ دوم

 

انتخاب و ترجمہ: عامر صدیقی

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

حصہ اول

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

حصہ دوم

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 

شاہ کی کنجری

 

امرتا پریتم

 

 

اسے اب کوئی نیلم نہیں کہتا تھا، سب شاہ کی کنجری کہتے تھے۔

نیلم کو لاہور ہیرا منڈی کے ایک چوبارے میں جوانی چڑھی تھی۔ اور وہیں ایک ریاستی سردار کے ہاتھوں پورے پانچ ہزار میں اس کی نتھ اتری تھی۔ اور وہیں اس کے حسن نے آگ جلا کر سارا شہر جھلسا دیا تھا۔ لیکن پھر ایک دن وہ ہیرا منڈی کا سستا چوبارہ چھوڑ کر شہر کے سب سے بڑے ہوٹل فلیٹی میں آ گئی تھی۔

وہی شہر تھا، لیکن سارا شہر جیسے راتوں رات اس کا نام بھول گیا ہو، سب کے منہ سے سنائی دیتا تھا، شاہ کی کنجری۔

غضب کا گاتی تھی۔ کوئی بھی گانے والی اس کی طرح مرزے کی ٹیر نہیں لگا سکتی تھی۔ اسی لئے لوگ چاہے اس کا نام بھول گئے تھے، پر اس کی آواز نہیں بھول سکے۔ شہر میں جس کے گھر بھی توے والا باجا تھا، وہ اس کے بھرے ہوئے توے ضرور خریدتا تھا۔ لیکن سب گھروں میں توے کی فرمائش کے وقت ہر کوئی یہی کہتا تھا، ’’آج شاہ کی کنجری والا توا ضرور سننا ہے۔‘‘

لکی چھپی بات نہیں تھی، شاہ کے گھر والوں کو بھی پتہ تھا۔ صرف پتہ ہی نہیں تھا، ان کے لئے بات بھی پرانی ہو گئی تھی۔ شاہ کا بڑا لڑکا، جو اب بیاہنے لائق تھا، جب گود میں تھا تو سیٹھانی نے زہر کھا کر مرنے کی دھمکی دی تھی، پر شاہ نے اس کے گلے میں موتیوں کا ہار ڈال کر اسے کہا تھا، ’’شاہنیے! وہ تیرے گھر کی برکت ہے۔ میری آنکھ کی جوہری ہے۔ تو نے نہیں سنا کہ نیلم ایسی چیز ہوتا ہے، جو لاکھوں کو خاک کر دیتا ہے اور خاک کو لاکھ کر دیتا ہے۔ جسے الٹا پڑ جائے، اس کے لاکھ کے خاک بنا دیتا ہے۔ پر جسے سیدھا پڑ جائے، اسے خاک سے لاکھ بنا دیتا ہے۔ وہ بھی نیلم ہے، ہمارے زائچے سے مل گیا ہے۔ جس دن سے ساتھ بنا ہے، میں مٹی میں ہاتھ ڈالوں تو وہ سونا ہو جاتی ہے۔۔ ۔۔‘‘

’’لیکن وہی ایک دن گھر اجاڑ دے گی، لاکھوں کو خاک کر دے گی، ’’شاہنی نے چھاتی کے پتھر کو سہہ کر اسی طرف سے دلیل دی تھی، جس طرف سے شاہ نے بات چلائی تھی۔

’’میں تو بلکہ ڈرتا ہوں کہ ان کنجریوں کا کیا بھروسہ، کل کسی اور نے سبزباغ دکھائے اور جو یہ ہاتھوں سے نکل گئی، تو لاکھ سے خاک ہو جائے گا۔‘‘ شاہ نے پھر اپنی دلیل دی تھی۔

اور شاہنی کے پاس کوئی اور دلیل نہیں رہ گئی تھی۔ صرف وقت کے پاس رہ گئی تھی اور وقت خاموش تھا۔ کئی برسوں سے خاموش۔ شاہ سچ مچ جتنے روپے نیلم پر بہاتا، اس سے کئی گنا زیادہ معلوم نہیں کہاں کہاں سے بہہ کر اس کے گھر آ جاتے تھے۔ پہلے اس کی چھوٹی سی دوکان شہر کے معمولی سے بازار میں ہوتی تھی، لیکن اب سب سے بڑے بازار میں لوہے کے جنگلے والی سب سے بڑی دوکان اس کی تھی۔ گھر کی جگہ پورا محلہ ہی اس کا تھا، جس میں بڑے کھاتے پیتے کرائے دار تھے۔ اور جس میں تہہ خانے والے گھر کو شاہنی ایک دن کے لئے بھی اکیلا نہیں چھوڑتی تھی۔

بہت برس ہوئے، شاہنی نے ایک دن مہروں والے ٹرنک کو تالا لگاتے ہوئے شاہ سے کہا تھا، ’’اسے چاہے ہوٹل میں رکھو اور چاہے اسے تاج محل بنوا دو، لیکن باہر کی بلا باہر ہی رکھو۔ اسے میرے گھر نہ لانا۔ میں اس کے متھے نہیں لگوں گی۔‘‘

اور واقعی شاہنی نے ابھی تک اس کا منہ نہیں دیکھا تھا۔ جب اس نے یہ بات کہی تھی، اس کا بڑا لڑکا اسکول میں پڑھتا تھا اور اب جب وہ بیاہنے لائق ہو گیا تھا، شاہنی نے نہ اس کے گانے والے توے گھر میں آنے دیئے اور نہ گھر میں کسی کو اس کا نام لینے دیا تھا۔

ویسے اس کے بیٹوں نے دوکان دوکان پر اس کے گانے سن رکھے تھے اور جنے جنے سے سن رکھا تھا، ’’شاہ کی کنجری‘‘

بڑے لڑکے کا بیاہ تھا۔ گھر پر چار مہینے سے درزی بیٹھے ہوئے تھے۔ کوئی سوٹوں پر سلمیٰ کاڑھ رہا تھا، کوئی طلا، کوئی کناری اور کوئی دوپٹے پر ستارے جڑ رہا تھا۔ شاہنی کے ہاتھ بھرے ہوئے تھے، روپوں کی تھیلی نکالتی، کھولتی، پھر دوسری تھیلی بھرنے کے لئے تہہ خانے میں چلی جاتی۔

شاہ کے یار دوستوں نے شاہ کی دوستی کا واسطہ ڈالا کہ لڑکے کی شادی پر کنجری ضرور گوانی ہے۔ ویسے بات انہوں نے بڑے طریقے سے کہی تھی، تاکہ شاہ کبھی بل نہ کھا جائے۔ ’’ویسے تو شاہ جی ناچنے گانے والیاں بہتیری ہیں، جسے چاہے بلاؤ۔۔ لیکن وہاں ملکۂ ترنم ضرور آئے، چاہے مرزے کی ایک ہی تان لگا جائے۔‘‘

فلیٹی ہوٹل عام ہوٹلوں جیسا نہیں تھا۔ وہاں زیادہ تر انگریز لوگ ہی آتے اور ٹھہرتے تھے۔ اس میں اکیلے اکیلے کمرے بھی تھے، پر بڑے بڑے تین کمروں والے سوئٹ بھی۔ ایسے ہی ایک سوئٹ میں نیلم رہتی تھی۔ اور شاہ نے سوچا، دوستوں یاروں کا دل خوش کرنے کے لئے وہ ایک دن نیلم کے یہاں رات کی محفل رکھ لے گا۔

’’وہ تو چوبارے پر جانے والی بات ہوئی۔‘‘ ایک نے اعتراض کیا تو سارے بول پڑے، ’’نہیں، شاہ جی! وہ تو صرف تمہارا ہی حق بنتا ہے۔ پہلے کبھی اتنے برس ہم نے کچھ کہا ہے؟ اس جگہ کا بھی نام نہیں لیا۔ وہ جگہ تمہاری امانت ہے۔ ہمیں تو بھتیجے کے بیاہ کی خوشی منانی ہے۔ اسے خاندانی گھرانوں کی طرح اپنے گھر بلاؤ، ہماری بھابھی کے گھر۔۔ ۔۔‘‘

بات شاہ کے دل کو بھا گئی۔ اس لئے کہ وہ دوستوں یاروں کو نیلم کی راہ دکھانا نہیں چاہتا تھا(اگرچہ اس کے کانوں میں بھنک پڑتی رہتی تھی کہ اس کی غیر حاضری میں کوئی کوئی امیرزادہ نیلم کے پاس آنے لگا تھا)۔ دوسرا اس لئے بھی وہ یہ چاہتا تھا کہ نیلم ایک بار اس کے گھر آ کر اس کے گھر کی شان و شوکت دیکھ جائے۔ لیکن وہ شاہنی سے ڈرتا تھا، دوستوں کو حامی نہ بھر سکا۔

دوستوں یاروں میں سے دو نے راہ نکالی اور شاہنی کے پاس جا کر کہنے لگے، ’’بھابھی، تم لڑکے کی شادی کے گیت نہیں گواِؤ گی؟ ہم تو ساری خوشیاں منائیں گے۔ شاہ نے صلاح کی ہے کہ ایک رات یاروں کی محفل نیلم کی طرف ہو جائے۔ بات تو ٹھیک ہے، پر ہزاروں اجڑ جائیں گے۔ آخر گھر تو تمہارا ہے، پہلے اس کنجری کو کیا کم کھلایا ہے؟ تم سیانی بنو۔ اسے گانے بجانے کے لئے ایک دن یہاں بلا لو۔ لڑکے کے بیاہ کی خوشی بھی ہو جائے گی اور روپیہ اجڑنے سے بچ جائے گا۔‘‘

شاہنی پہلے تو غصے میں بھر کر بولی، ’’میں اس کنجری کے متھے نہیں لگنا چاہتی۔‘‘ مگر جب دوسروں نے سکون سے کہا، ’’یہاں تو بھابھی تمہارا راج ہے۔ وہ باندی بن کر آئے گی، تمہارے حکم میں بندھی ہوئی، تمہارے بیٹے کی خوشی منانے کے لئے۔ نقصان تو اس کا ہے، تمہارا کا ہے کا؟ جیسے کمی کمیں آئے، ڈوم مراثی، ویسے وہ۔۔ ۔۔‘‘

بات شاہنی کے دل کو بھا گئی۔ ویسے تو کبھی سوتے بیٹھتے اسے خیال آتا تھا، ایک بار دیکھوں تو سہی کیسی ہے؟

اس نے اسے کبھی دیکھا نہیں تھا، پر خواہش ضرور کی تھی، چاہے ڈر کر، سہم کر، چاہے نفرت سے۔ اور شہر میں سے گزرتے ہوئے اگر کسی کنجری کو تانگے میں بیٹھی دیکھتی تو نہ چاہتے ہوئے بھی سوچ جاتی، کیا پتہ، وہی ہو؟

’’چلو، ایک بار میں بھی دیکھ لوں۔‘‘ وہ من میں گھل سی گئی، ’’اس کو جو بھی میرا بگاڑنا تھا، بگاڑ لیا۔ اب وہ اور کیا کر لے گی! ایک بار چندری کو دیکھ تو لوں۔‘‘

شاہنی نے حامی بھر دی۔ لیکن ایک شرط رکھی، ’’وہاں نہ شراب اڑے گی، نہ کباب۔ بھلے گھروں میں جس طرح گیت گائے جاتے ہیں، اسی طرح گیت کرواؤں گی۔ تم مرد بھی بیٹھ جانا۔ وہ آئے اور سیدھی طرح گا کر چلی جائے۔ میں وہی چار بتاشے اس کی جھولی میں بھی ڈال دوں گی جو دوسری بنے، سہرے گانے والی لڑکیوں کو دوں گی۔‘‘

’’یہی تو بھابھی، ہم کہتے ہیں۔‘‘ شاہ کے دوستوں نے پھونک دی، ’’تمہاری سمجھداری سے ہی تو گھر بنا ہے۔ نہیں تو کیا خبر کیا ہو گزرنا تھا۔‘‘

وہ آئی۔ شاہنی نے خود اپنی بگھی بھیجی تھی۔ گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ بڑے کمرے میں سفید چادریں بچھا کر، بیچ میں ڈھولک رکھی ہوئی تھی۔ گھر کی عورتوں نے بنے سہرے گانے شروع کر رکھے تھے۔

بگھی دروازے پر آ کر رکی، تو کچھ متجسس عورتیں دوڑ کر کھڑکی کی جانب چلی گئیں اور کچھ سیڑھیوں کی طرف بھاگیں۔

’’اری بد شگونی کیوں کرتی ہو، سہرا بیچ میں ہی چھوڑ دیا۔‘‘ شاہنی نے ایک ڈانٹ سی پلائی۔ لیکن اس کی آواز خود کو ہی دھیمی سی لگی۔ جیسے اس کے دل پر ایک دھمک سی ہوئی ہو۔

وہ سیڑھیاں چڑھ کر دروازے تک آ گئی تھی۔ شاہنی نے اپنی گلابی ساڑی کا پلّو سنوارا، جیسے سامنے دیکھنے کے لئے وہ ساڑی کے شگون والے رنگ کا سہارا لے رہی ہو۔

سامنے اس نے ہرے رنگ کا بانکڑی والا غرارہ پہنا ہوا تھا، گلے میں لال رنگ کی قمیض تھی اور سر سے پیر تک ڈھلکی ہوئی ہرے رنگ کی ریشم کی چنری۔ جھلمل سی کرتی ہوئی۔ شاہنی کو ایک پل یہی لگا گویا ہرا رنگ سارے دروازے میں پھیل گیا ہو!

پھر ہرے کانچ کی چوڑیوں کی چھن چھن ہوئی، تو شاہنی نے دیکھا، ایک گورا گورا ہاتھ جھکے ہوئے ماتھے کو چھوکر آداب بجا رہا ہے اور ساتھ ہی ایک جھنکتی ہوئی سی آواز، ’’بہت بہت مبارک شاہنی! بہت بہت مبارک!‘‘

وہ بڑی نازک سی، پتلی سی تھی۔ ہاتھ لگتے ہی دوہری ہوتی تھی۔ شاہنی نے اسے گا? تکیے کے سہارے ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا، تو شاہنی کو اپنا پر گوشت بازو بڑا ہی بے ڈول سا لگا۔

کمرے کے ایک کونے میں شاہ بھی تھا۔ دوست بھی تھے، کچھ رشتے دار مرد بھی۔ اس نازنین نے اس کونے کی طرف دیکھ کر بھی ایک بار سلام کیا اور پھر گا? تکیے کے سہارے ٹھمک کر بیٹھ گئی۔ بیٹھتے وقت کانچ کی چوڑیاں پھر چھنکی تھیں، شاہنی نے ایک بار پھر اس کی بانہوں کو دیکھا، ہرے کانچ کی چوڑیوں کو اور پھر بے اختیار ہی اپنے ہاتھ میں پڑے ہوئے سونے کے چوڑے کو دیکھنے لگی۔

کمرے میں ایک چکا چوند سی چھا گئی تھی۔ ہر ایک کی آنکھیں جیسے ایک ہی طرف الٹ گئی تھیں، شاہنی کی اپنی آنکھیں بھی، پر اسے اپنی آنکھوں کو چھوڑ کر سب کی آنکھوں پر ایک غصہ سا آ گیا۔

وہ پھر ایک بار کہنا چاہتی تھی، ’’اری، بد شگونی کیوں کرتی ہو؟ سہرے گاؤ نا۔۔ ۔‘‘ پر اس کی آواز گلے میں گھٹتی سی گئی تھی۔ کمرے میں ایک خاموشی چھا گئی تھی۔ وہ بیچوں بیچ رکھی ہوئی ڈھولک کی طرف دیکھنے لگی اور اس کا جی کیا کہ وہ بڑی زور سے ڈھولک بجائے۔

خاموشی اس نے ہی توڑی جس کیلئے خاموشی چھائی تھی۔ کہنے لگی، ’’میں تو سب سے پہلے گھوڑی گاؤں گی۔ لڑکے کا شگن کروں گی، کیوں شاہنی؟‘‘ اور شاہنی کی طرف تاکتی، ہنستی ہوئی گھوڑی گانے لگی، ’’نکی نکی بوندی نکیا مینھ وہ ورے، تیری ماں وہ سہاگن تیرے شگن کرے۔۔ ۔۔‘‘

شاہنی کو اچانک تسلی سی ہوئی، شاید اس لئے کہ گیت کے بیچ کی ماں وہی تھی، اور اس کا مرد بھی صرف اس کا مرد تھا، تبھی تو ماں سہاگن تھی۔۔ ۔

شاہنی ہنستے سے منہ سے اس کے بالکل سامنے بیٹھ گئی، جو اس وقت اس کے بیٹے کے شگن کر رہی تھی۔۔ ۔

گھوڑی ختم ہوئی تو کمرے کی بول چال پھر سے لوٹ آئی۔ پھر کچھ خودبخود سا ہو گیا۔ عورتوں کی طرف سے فرمائش کی گئی، ’’ڈھولکی روڑی والا گیت۔‘‘ مردوں کی طرف سے فرمائش کی گئی، ’’مرزے دیاں سداں!‘‘

گانے والی نے مردوں کی فرمائش سنی اَن سنی کر دی اور ڈھولکی کو اپنی طرف کھینچ کر اس نے ڈھولکی سے اپنا گھٹنا جوڑ لیا۔ شاہنی کچھ رو میں آ گئی، شاید اس لئے کہ گانے والی، مردوں کی فرمائش پوری کرنے کے بجائے عورتوں کی فرمائش پوری کرنے لگی تھی۔

مہمان عورتوں میں سے شاید کچھ ایک کو پتہ نہیں تھا۔ وہ ایک دوسرے سے کچھ پوچھ رہی تھیں اور کوئی ان کے کان کے پاس کہہ رہی تھی، ’’یہی ہے، شاہ کی کنجری۔۔ ۔۔‘‘

کہنے والیوں نے شاید بہت دھیمے لہجے میں کہا تھا، سرگوشی میں، لیکن شاہنی کے کان میں آواز پڑ رہی تھی، کانوں سے ٹکرا رہی تھی شاہ کی کنجری۔۔ ۔ شاہ کی کنجری۔۔ ۔ اور شاہنی کے منہ کا رنگ پھر پھیکا پڑ گیا۔

اتنے میں ڈھولک کی آواز اونچی ہو گئی اور ساتھ ہی، گانے والی کی آواز بھی، ’’سوہ وہ چیرے والیہ میں کہنی ہاں۔۔ ۔۔‘‘ اور شاہنی کا کلیجہ تھم سا گیا، یہ سو ہے چیرے والا میرا ہی بیٹا ہے، سکھ سے آج گھوڑی پر چڑھنے چلا میرا بیٹا۔

فرمائشوں کا اختتام نہیں تھا۔ ایک گیت ختم ہوتا تو دوسرا شروع ہو جاتا۔ گانے والی کبھی عورتوں کی طرف کی فرمائش پوری کرتی، کبھی مردوں کی۔ بیچ بیچ میں کہہ دیتی، ’’کوئی اور بھی گاؤ نا، مجھے تھوڑا دم لینے دو۔۔ ۔‘‘لیکن کس کی ہمت تھی، اس کے سامنے ہونے کی، اس کی کھنکتی آواز۔۔ ۔ وہ بھی شاید کہنے کو ہی کہہ رہی تھی، پر ایک کے پیچھے جھٹ دوسرا گیت چھیڑ دیتی تھی۔

گیتوں کی بات اور تھی، پر جب اس نے مرزے کی ہیک لگائی، ’’اٹھ نی صاحبہ ستیے! اٹھ کے دے دیدار۔۔ ۔‘‘ ہوا کا کلیجہ ہل گیا۔ کمرے میں بیٹھے مرد بت بن گئے تھے۔ شاہنی کو پھر گھبراہٹ سی ہوئی، اس نے بڑے غور سے شاہ کے منہ کی سمت دیکھا۔ شاہ بھی اور بتوں جیسابت بنا ہوا تھا، لیکن شاہنی کو لگا، وہ پتھر کا ہو گیا تھا۔

شاہنی کے کلیجے میں ایک ہول سا اٹھا اور اسے لگا اگر یہ گھڑی چھن گئی تو وہ آپ بھی ہمیشہ کے لئے بت بن جائے گی۔۔ ۔ وہ کرے، کچھ کرے، کچھ بھی کرے، پر مٹی کا بت نہ بنے۔

کافی شام ہو گئی، محفل ختم ہونے والی تھی۔

شاہنی کا کہنا تھا، آج وہ اسی طرح بتاشے بانٹے گی، جس طرح لوگ اس دن بانٹتے ہیں جس دن گیت بٹھائے جاتے ہیں، پر جب گانا ختم ہوا تو کمرے میں چائے اور کئی طرح کی مٹھائی آ گئی۔

اور شاہنی نے مٹھی میں لپیٹا ہوا سو کا نوٹ نکال کر، اپنے بیٹے کے سر پر سے وارا اور پھر اسے پکڑا دیا، جسے لوگ شاہ کی کنجری کرتے تھے۔

’’رہنے دے، شاہنی، آگے بھی تیرا ہی کھاتی ہوں۔‘‘ اس نے جواب دیا اور ہنس پڑی۔ اس کی ہنسی اس کے روپ کی طرح جھلمل کر رہی تھی۔

شاہنی کے منہ کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔ اسے لگا، جیسے شاہ کی کنجری نے آج بھری محفل میں شاہ سے اپنا تعلق جوڑ کر اس کی ہتک کر دی تھی۔ پر شاہنی نے اپنا آپ تھام لیا اور من میں ٹھانا کہ آج اس کو ہار نہیں کھانی ہے۔ اور وہ زور سے ہنس پڑی۔ نوٹ پکڑاتی ہوئی بولی، ’’شاہ سے تو نے لے ہی لینا ہے، پر میرے ہاتھ سے تو نے پھر کب لینا ہے۔ چل، آج لے لے۔۔ ۔۔‘‘

اور شاہ کی کنجری، سو کے نوٹ کو پکڑتی ہوئی، ایک ہی بار میں غریب سی ہو گئی۔

کمرے میں شاہنی کی ساڑی کا شگن والا گلابی رنگ پھیل گیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

کوئی ایک سوار

 

سنتوکھ سنگھ دھیر

 

 

سورج طلوع ہوتے ہی بارو تانگے والے نے تانگہ جوڑ کر اڈے پر لاتے ہوئے صدا لگائی، ’’ہے کوئی ایک سوار، کھنے بھئی۔۔ ۔‘‘

جاڑوں میں اتنے سویرے، قسمت سے ہی کوئی سوار آ جائے تو آ جائے، نہیں تو روٹی ٹکڑ کھا کر دھوپ چڑھے ہی گھر کے باہر نکلتا ہے بندہ۔ لیکن بارو اس نصیب کو بھی کیوں گنوائے؟ جاڑے سے ٹھٹھرتے ہوئے بھی وہ سب سے پہلے اپنا تانگہ اڈے پر لانے کی سوچتا تھا۔

بارو نے بازار کی جانب منہ کر کے ایسے ہانک لگائی، جیسے اسے صرف ایک ہی سواری چاہئے تھی۔ تاہم بازار کی سمت سے ایک بھی سوار نہیں آیا۔ پھر اس نے گاؤوں سے آنے والی الگ الگ پگڈنڈیوں کی جانب آنکھیں اٹھا کر، امید میں بھر کر دیکھتے ہوئے صدا لگائی۔ نہ جانے کبھی کبھی سواریوں کو کیا سانپ سونگھ جاتا ہے۔ بارو، سڑک کے ایک کنارے بیڑی سگریٹ بیچنے والے کے پاس بیٹھ کر بیڑی پینے لگا۔

بارو کا چست گھوڑا فارغ کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ دو تین بار گھوڑے نے نتھنے پھلا کر پھراٹے مارے، دم ہلائی اور پھر اپنے آپ ہی دو تین قدم چلا۔ ’’بس او بس بیٹے، بے چین کیوں ہوتا ہے، چلتے ہیں۔ آ جانے دے کسی آنکھ کے اندھے اور گانٹھ کے پورے کو۔‘‘ اپنی موج میں ہنستے ہوئے بارو نے دوڑ کر گھوڑے کی باگ پکڑی اور اسے کس کرتا نگے کے بم پر باندھ دیا۔

اسٹیشن پر گاڑی نے سیٹی دی۔ ریل کی سیٹی بارو کے دل میں جیسے چبھ گئی۔ اس نے ریل کو بھی ماں کی گالی دی اور ساتھ میں ریل بنانے والے کو بھی۔ پہلے جنتا گئی تھی، اب مال گاڑی۔ ’’سالی گھنٹے گھنٹے پر گاڑیاں چلنے لگیں۔‘‘ اور پھر بارو نے زور سے سواری کیلئے آواز لگائی۔

ایک بیڑی اس نے مزید سلگائی اور اتنا لمبا کش کھینچا کہ آدھی بیڑی پھونک دی۔ بارو نے دھوئیں کے بادل چھوڑتے ہوئے بیڑی کو گالی دے کر پھینک دیا۔ دھواں اس کے منہ میں مرچ جیسا لگا تھا۔

گھوڑا ٹک کر نہیں کھڑا ہو پا رہا تھا۔ اس نے ایک دو بار کھر اٹھا اٹھا کر زمین پر مارے۔ منہ میں لوہے کی لگام چبا چبا کر تھوتھنی گھمائی۔ تانگے کی چولیں کڑکیں، سازہلا، پروں والی رنگ برنگی کلغی ہوا میں پھرپھرائی اور گھوڑے کے گلے سے لٹکے ریشمی رو مال ہلنے لگے۔ بارو کو اپنے گھوڑے کی چستی پر غرور ہوا۔ اس نے ہونٹوں سے پچکار کر کہا، ’’بس، او بدمعاش! کرتے ہیں ابھی ہوا سے باتیں۔۔ ۔‘‘

’’گھوڑا تیرا بڑا چست ہے بارو۔ اچھلتا کودتا رہتا ہے۔‘‘ سگریٹ والے نے کہا۔

’’کیا بات ہے!‘‘ بارو غرور سے بھر کر بولا، ’’کھال تو دیکھ تُو، بدن پر مکھی پھسلتی ہے۔ بیٹوں کی طرح خدمت کی جاتی ہے، نتھو۔‘‘

’’جانور بچتا بھی تبھی ہے۔‘‘ نتھو نے یقین سے کہا۔

دن اچھا چڑھ آیا تھا، پر کھنہ جانے والی ایک سواری بھی ابھی تک نہیں آئی تھی۔ اور بھی تین چار تانگے اڈے پر آ کر کھڑے ہو گئے تھے اور کندن بھی سڑک کی دوسری جانب کھنہ کی سمت میں ہی تانگہ کھڑا کر کے سواریوں کے لئے آوازیں لگا رہا تھا۔

ہاتھ میں تھیلا پکڑے ہوئے ایک شوقین بابو بازار کی طرف سے آتا ہوا دکھائی دیا۔ بارو اس کی چال پہچاننے لگا۔ بابو اڈے کے مزید نزدیک آ گیا، لیکن ابھی تک اس کے پیروں نے کسی ایک طرف کا رخ نہیں کیا تھا۔

’’چلو، ایک سواری سرہند کی۔۔ ۔ کوئی ملوہ جانے والا بھائی۔۔ ۔‘‘ آوازیں اونچی ہونے لگیں۔ پر سوار کی مرضی کا پتہ نہیں لگا۔ بارو نے زور کی آواز لگائی۔ سواری نے سر نہیں اٹھایا۔ ’’کہاں جلدی منہ سے بولتے ہیں یہ جنٹلمین آدمی۔‘‘ بارو نے اپنے دل میں چغلی کھائی۔ تبھی بابو، بارو کے تانگے کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔

’’اور ہے بھئی کوئی سواری؟‘‘ اس نے دھیرے سے کہا۔

بارو نے ادب سے اس کا تھیلا تھامنا چاہتے ہوئے کہا، ’’آپ بیٹھو بابوجی آگے۔۔ ۔ ابھی ہانکے دیتے ہیں، بس ایک سواری لے لیں۔‘‘

لیکن بابو نے تھیلا نہیں تھمایا اور ہوا میں دیکھتے ہوئے چپ چاپ کھڑا رہا۔ یوں ہی گھنٹہ بھر تانگے میں بیٹھے رہنے کا کیا مطلب؟

بارو نے زور سے ایک سواری کے لئے ہانک لگائی، جیسے اسے بس ایک ہی سواری چاہئے تھی۔ بابو ذرا ٹہل کرتا نگے کے اگلے پائیدان کے تھوڑا پاس کو ہو گیا۔ بارو نے حوصلے سے ایک ہانک اور لگائی۔

بابو نے اپنا تھیلا تانگے کی اگلی گدی پر رکھ دیا اور خود پتلون کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر ٹہلنے لگا۔ بارو نے گھوڑے کی پیٹھ پر پیار سے تھپکی دی اور پھر تانگے کی پچھلی گدیوں کو یوں ہی ذرا ٹھیک ٹھاک کرنے لگا۔ اتنے میں ایک سائیکل آ کرتا نگے کے پاس رک گئی۔ تھوڑی سی بات سائیکل والے نے سائیکل پر بیٹھے بیٹھے اس بابو سے کی اور وہ گدی پر سے اپنا تھیلا اٹھانے لگا۔ بارو نے ڈوبتے ہوئے دل سے کہا، ’’ہوا سامنے کی ہے بابوجی۔‘‘ پر سائیکل بابو کو لے کر چلتی بنی۔

دن چڑھ آیا۔

ڈھیٹ سا ہو کر بارو پھر سڑک کے ایک کنارے سگریٹ والے کے پاس بیٹھ گیا۔ اس کا جی قینچی کی سگریٹ پینے کو کیا۔ پر دو پیسے والی سگریٹ ابھی وہ کس ہمت سے پئے؟ پھیرا آج مشکل سے ایک ہی لگتا دکھتا تھا۔ چار آنے سواری ہے کھنے کی، چھ سواریوں سے زیادہ کا حکم نہیں ہے۔ تین روپے تو گھوڑے کے پیٹ میں پڑ جاتے ہیں۔ اس کے من میں ہلچل ہونے لگی۔ ایسے وہاں وہ کیوں بیٹھا رہے؟ وہ اٹھ کرتا نگے میں پچھلی گدی پر بیٹھ گیا، تاکہ پہلی نظر میں سواری کو تانگہ بالکل خالی نہ دکھائی دے۔

تانگے میں بیٹھا وہ ’’لارا لپا۔۔ ۔ لارا لپا‘‘ گنگنانے لگا۔ اور پھر ہیر کا ٹپا۔ پر جلدی ہی اس کے دل میں بے چینی سی ہونے لگی۔ ٹپے اس کے ہونٹوں کو بھول گئے۔ وہ دور کھڑی فصلوں کی طرف دیکھنے لگا۔ کھیتوں میں بل کھاتی پگڈنڈیوں پر کچھ راہی چلے آ رہے تھے۔ بارو نے پاس آتے ہوئے راہیوں کی جانب دھیان سے دیکھا۔ چار خانے سفید چادروں کی بکل مارے چار جاٹ سے تھے۔ بارو نے سوچا، پیشی پر جانے والے چودھری ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اس نے تانگے کو موڑ کر ان کی طرف جاتے ہوئے آواز دی، ’’کھنے جانا ہے، نمبردار؟ آؤ بیٹھو، ہانکیں پھر۔‘‘

سواریاں کچھ ہچکچائی اور پھر ان میں سے ایک نے کہا، ’’جانا تو ہے اگر اسی دم چل۔‘‘

’’ابھی لو، بس بیٹھنے کی دیر ہے۔۔ ۔‘‘ بارو نے گھوڑے کے منہ کے پاس لگام تھام کرتا نگے کا منہ اڈے کی جانب گھما لیا۔

’’تحصیل پہنچنا ہے ہمیں، پیشی پر، سمرالے۔‘‘

’’میں نے کہا، بیٹھو تو سہی، دم کے دم میں چلے۔‘‘

سواریاں تانگے میں بیٹھ گئیں۔ ’’ایک سوار‘‘ کی ہانک لگاتے ہوئے بارو نے تانگے کو اڈے کی جانب چلا لیا۔

’’ابھی ایک اور سواری چاہئے؟‘‘ ان میں سے ایک سواری نے تانگے والے سے ایسے کہا جیسے کہہ رہا ہو، آخر تانگے والا ہی نکلا۔

’’چلو، کر لینے دو اسے بھی اپنا گھر پورا۔۔ ۔‘‘ انہیں میں سے ایک نے جواب دیا، ’’ہم تھوڑا دیر سے پہنچ جائیں گے۔‘‘

اڈے سے بارو نے تانگہ بازار کی سمت دوڑا لیا۔ بازار کے ایک جانب بارو نے تانگے کے بم پر سیدھے کھڑے ہو کر ہانک لگائی، ’’جاتا ہے، کوئی اکیلا سوار کھنے بھائیو۔۔ ۔‘‘

’’اکیلے سوار کو لوٹنا ہے راہ میں؟‘‘ بازار میں کسی نے اونچی آواز میں بارو سے مذاق کیا۔

بازار میں ٹھٹھا ہو اٹھا۔ بارو کے سفید دانت اور لال مسوڑے دکھنے لگے۔ اس کے گال پھول کر چمک اٹھے اور ہنسی میں ہنسی ملا کر سوار کیلئے ہانک لگاتے ہوئے اس نے گھوڑا موڑ لیا۔ اڈے آ کر سڑک کے کنارے کھنہ کی سمت تانگہ لگایا اور خود سگریٹ والے کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔

’’کی نہ وہی بات۔۔ ۔‘‘ تانگے والے کو ایسے آرام سے بیٹھے دیکھ کر ایک سوار بولا۔

’’او بھئی تانگے والے! ہمیں اب ایسے حیران کرو گے؟‘‘ ایک اور نے کہا۔

’’میں نے کہا، ہمیں رکنا نہیں ہے نمبردار۔ بس، ایک سوار کی بات ہے۔ آ گیا تو ٹھیک، نہیں، چل پڑیں گے۔‘‘ بارو نے دلجوئی کی۔

سواریوں کو پریشان دیکھ کر، کندن نے اپنے تانگے کو ایک قدم اور آگے کرتے ہوئے ہانک دی، ’’چلو، چار ہی سواری لے کر جا رہا ہے کھنے کو۔۔ ۔‘‘ اور وہ چڑانے کے لئے بارو کی طرف ٹکر ٹکر دیکھنے لگا۔

’’ہٹ جا اوئے، ہٹ جا او نائی کے۔۔ ۔ باز آ تو لچھنوں سے۔‘‘ بارو نے کندن کی طرف آنکھیں نکالیں اور سواریوں ورغلائیے جانے سے بچانے کے لئے آتی ہوئی عورتوں اور لڑکیوں کی ایک رنگ برنگی ٹولی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا، ’’چلتے ہیں، سرداروں، ہم ابھی بس۔ وہ آ گئی سواریاں۔‘‘

سواریاں ٹولی کی طرف دیکھ کر پھر ٹک کر بیٹھی رہیں۔

ٹولی کی سمت دیکھتے ہوئے بارو سوچنے لگا، شاید بیاہ گونے کے لئے سج دھج کر نکلی ہیں یہ سواریاں۔ دو تانگے بھر لو چاہے، پیسہ بھی اچھا بنا جاتی ہیں ایسی سواریاں۔

ٹولی پاس آ گئی۔

کچھ عورتوں اور لڑکیوں نے ہاتھوں میں کپڑوں سے ڈھکی ہوئی ٹوکریاں اور تھالیاں اٹھائی ہوئی تھیں۔ پیچھے کچھ گھونگھٹ والی بہویں اور چھوٹی چھوٹی لڑکیاں تھیں۔ بارو نے آگے بڑھ کر بیٹوں جیسا بیٹا بنتے ہوئے ایک عورت سے کہا، ’’آؤ مائی جی، تیار ہے تانگہ، بس تمہارا ہی رستہ دیکھ رہا تھا۔ بیٹھو، کھنے کو۔۔ ۔۔‘‘

’’ارے نہیں بھائی۔۔ ۔‘‘ مائی نے سرسری طور پر کہا، ’’ہم تو ما تھا ٹیکنے جا رہی ہے، ماتا کے تھان پر۔۔ ۔‘‘

’’اچھا، مائی اچھا۔‘‘ بارو ہنس کر کچا سا پڑ گیا۔

’’او بھئی چلے گا یا نہیں؟‘‘ سواریوں میں کہیں صبر ہوتا ہے۔ بارو بھی انہیں ہر گھڑی کیسی کیسی ترکیبوں سے ٹالے جاتا۔ ہار کر اس نے صاف بات کی، ’’چلتے ہیں بابا، آ لینے دو ایک سوار، کچھ بھاڑا تو بن جائے۔‘‘

’’توُ اپنا بھاڑا بنا، ہماری تاریخ نکل جائے گی۔‘‘ سواریاں بھی سچی تھیں۔

کندن نے پھر چھیڑ کرتے ہوئے سنا کر کہا، ’’سیدھے ہوتے ہیں کوئی کوئی لوگ۔ کہاں پھنس گئے، پہلی بات تو یہ ابھی چلا ہی نہیں رہا ہے۔ چلا بھی تو کہیں راستے میں اوندھا پڑ جائے گا، قدم قدم پر تو اٹکتا ہے گھوڑا۔‘‘

سواریاں کانوں کی کچی ہوتی ہیں۔ بارو کو غصہ آ رہا تھا۔ پر وہ چھیڑ کو ابھی بھی جھیلتا ہوا کندن کی طرف کڑواہٹ سے دیکھ کر بولا، ’’نائی، او نائی، تیری موت بول رہی ہے۔ گاڑی تو سنوار لا پہلے ماں سے جا کے، ڈھیچکوں ڈھیچکوں کرتی ہے، یہاں کھڑا کیا بھونکے جا رہا ہے کم جات!‘‘

لوگ ہنسنے لگے، پر جو سمت بارو کی تھی، وہی کندن اور دوسرے تانگے والوں کی تھی۔ سواریاں کسے نہیں چاہئیں؟ کسے گھوڑے اور کنبے کا پیٹ نہیں بھرنا ہے؟ نہ بارو خود چلے، نہ کسی اور کو چلنے دے، صبر بھی کوئی چیز ہے۔ اپنا اپنا نصیب ہے۔ نرم گرم تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ چار سواریاں لے کر ہی چلا جائے۔ کسی دوسرے کو بھی روزی کمانے دے۔ کمبخت پیڑ کی طرح راستہ روکے کھڑا ہے۔ کندن نے اپنی جڑ پر آپ ہی کلہاڑی مارتے ہوئے چڑ کر ہانک لگائی، ’’چلو، چار سواریاں لے کر ہی جا رہا ہے کھنے کو بمبوکاٹ۔۔ ۔ چلو، جا رہا ہے منٹوں سیکنڈوں میں کھنے۔۔ ۔ چلو، بھاڑا بھی تین تین آنے۔۔ ۔۔‘‘ اور تانگہ اس نے ایک قدم اور آگے کر دیا۔

بارو کی سواریاں پہلے ہی پریشان تھیں۔ اور سواریاں کسی کی بندھی ہوئی بھی نہیں ہوتیں۔ بارو کی سواریاں بگڑ کرتا نگے میں سے اترنے لگیں۔

بارو نے غصے میں للکار کر کندن کو ماں کی گالی دی اور اپنی دھوتی کی لانگ مار کر کہا، ’’اتر بیٹا نیچے تانگے سے۔۔ ۔‘‘

کندن، بارو کو غصے میں تنا ہوا دیکھ کر کچھ ٹھٹک تو گیا، پر تانگے سے نیچے اتر آیا اور بولا، ’’منہ سنبھال کر گالی نکالیو، ابے کلال کے۔۔ ۔۔‘‘

بارو نے ایک گالی اور دے دی اور ہاتھ میں تھامی ہوئی چابک پر انگلی جوڑ کر کہا، ’’پہئے کے گزوں میں سے نکال دوں گا سالے کو تہرا کر کے۔‘‘

’’تو ہاتھ تو لگا کر دیکھ۔۔ ۔‘‘ کندن اندر سے ڈرتا تھا، پر اوپر سے بھڑکتا تھا۔

’’او، میں نے کہا، مٹ جا توُ، مٹ جا نائی کے۔۔ ۔ لہو کی ایک بوند نہیں گرنے دوں گا دھرتی پر، سارا پی جاؤں گا۔‘‘ بارو کو کوفت تھی کہ کندن اسے کیوں نہیں برابر کی گالی دیتا۔

سواریاں ادھر ادھر کھڑی دونوں کے منہ کی طرف دیکھ رہی تھیں۔

’’تجھے میں نے کیا کہا ہے؟ تو نتھنے پھلا رہا ہے فالتو میں۔‘‘ کندن نے ذرا ڈٹ کر کہا۔

’’سواریاں پٹا رہا ہے تو میری۔‘‘

’’میں سویرے سے دیکھ رہا ہوں تیرے منہ کو، چٹیا اکھاڑ دوں گا۔‘‘

’’بڑا آیا تو اکھاڑنے والا۔‘‘ کندن برابر جواب دینے لگا۔

’’میری سواریاں بٹھائے گا تو؟‘‘

’’ہاں، بٹھاؤں گا۔‘‘

’’بٹھا پھر۔۔ ۔‘‘ بارو نے مکا ہوا میں اٹھا لیا۔

’’آ بابا۔۔ ۔‘‘ کندن نے ایک سوار کو کندھے سے پکڑا۔

بارو نے فوراً کندن کو کرتے کے گلے سے پکڑ لیا۔ کندن نے بھی بارو کی گردن کے گرد ہاتھ لپیٹ لئے۔ دونوں الجھ گئے۔ ’’پکڑو چھڑاؤ‘‘ ہونے لگی۔ آخر میں دوسرے تانگے والے اور سواریوں نے دونوں کو چھڑا دیا اور اڈے کے ٹھیکیدار نے دونوں کو ڈانٹ ڈپٹ دیا۔ سب نے یہی کہا کہ سواریاں بارو کے تانگے میں ہی بیٹھیں۔ تین آنے کی تو یوں ہی فالتو بات ہے، نہ کوئی لے گا، نہ کوئی دے گا۔ کندن کو سب نے تھوڑی پھٹکار لعنت کر دی۔ اور سواریاں پھر سے بارو کے تانگے میں بیٹھ گئیں۔

بارو کو پریشان اور دکھی سا دیکھ کر سب کو اب اس سے ہمدردی سی ہو گئی تھی۔ سب مل جل کر اس کا تانگہ بھروا کر، روانہ کروا دینا چاہتے تھے۔ سواریوں نے بھی کہہ دیا، چلو، وہ اور گھڑی بھر صبر کر لیں گے۔ یہ اپنا گھر پورا کر لے۔ اسے بھی تو جانور کا پیٹ بھر کر روٹی کھانی ہے غریب کو۔

اتنے میں بازار کی اور سے آتے ہوئے پولیس کے حوالدار نے آ کر پوچھا، ’’اے لڑکو! تانگہ تیار ہے کوئی کھنے کو؟‘‘

پل بھر کے لئے بارو نے سوچا، آ گئی مفت کی بیگار، نہ پیسہ نہ دھیلا، پر فوراً ہی اس نے سوچا، پولیس والے سے کہہ بھی نہیں سکتے۔ چلو، اگر یہ تانگے میں بیٹھا ہو گا تو دو سواریاں فالتو بھی بٹھا لوں گا، نہیں دینا بھاڑا تو نہ سہی۔ اور بارو نے کہا، ’’آؤ حوالدار جی، تیار کھڑا ہے تانگہ، بیٹھو آگے۔‘‘

حوالدار تانگے میں بیٹھ گیا۔ بارو نے ایک سواری کے لئے ایک دو بار زور سے ہانک لگائی۔

ایک لالہ بازار کی سمت سے آیا اور بنا پوچھے بارو کے تانگے میں آ چڑھا۔ دو ایک بوڑھی استریاں اڈے کی طرف سڑک پر چلی آ رہی تھی۔ بارو نے جلدی سے آواز دے کر پوچھا، ’’مائی کھنے جانا ہے؟‘‘ بوڑھیاں تیزی سے قدم بڑھانے لگیں اور ایک نے ہاتھ ہلا کر کہا، ’’کھڑا رہ بھائی۔‘‘

’’جلدی کرو، مائی، جلدی۔‘‘ بارو اب جلدی مچا رہا تھا۔

بوڑھیاں جلدی جلدی آ کرتا نگے میں بیٹھنے لگیں، ’’ارے بھائی کیا لے گا؟‘‘

’’بیٹھ جاؤ مائی جھٹ سے۔ آپ سے فالتو نہیں مانگتا۔‘‘

آٹھ سواریوں سے تانگہ بھر گیا۔ دو روپے بن گئے تھے۔ چلتے چلتے کوئی اور بھیج دے گا، مالک! دو پھیرے لگ جائیں ایسے ہی۔ بارو نے ٹھیکیدار کو محصول دے دیا۔

’’لے بھئی، اب مت پوچھ۔۔ ۔‘‘ پہلی سواریوں میں سے ایک نے کہا۔

’’لو جی، بس، لیتے ہیں رب کا نام۔۔ ۔‘‘ بارو گھوڑے کی پیٹھ پر تھپکی دی اور بم سے راس کھولنے لگا۔

پھر اسے دھیان آیا، ایک سگریٹ بھی لے لے۔ ایک پل کے لئے خیال ہی خیال میں اس نے اپنے آپ کو ٹپ ٹپ چلتے تانگے کے بم پر تن کر بیٹھے ہوئے، دھوئیں کے فرّاٹے اڑاتے ہوئے دیکھا اور وہ بھرے تانگے کو چھوڑ قینچی کی سگریٹ خریدنے کے لئے سگریٹ والے کے پاس چلا گیا۔

بھوکی ڈائن کے سمان تبھی انبالے سے لدھیانے جانے والی بس تانگے کے سر پر آ کر کھڑی ہو گئی۔ پل بھر میں ہی تانگے کی سواریاں اتر کر بس کے بڑے سے پیٹ میں کھپ گئیں۔ اڈے پر جھاڑو پھیر کر ڈائن کی طرح چنگھاڑتی ہوئی بس آگے چل دی۔ دھوئیں کی جلاند اور اڑی ہوئی دھول بارو کے منہ پر پڑ رہی تھی۔

بارو نے اڈے کے بیچوں بیچ چابک کو اونچا کر کے، دل اور جسم کے پورے زور سے ایک بار پھر ہانک لگائی، ’’ہے کوئی جانے والا ایک سوار کھنے کا بھائی۔۔ ۔۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

چارہ ساز

 

کلونت سنگھ ورک

 

بس جلدی جلدی بھر رہی تھی، اس بات سے میں خوش تھا۔ اگر جلدی بھر جائے تو کچھ منٹ پہلے ہی چل پڑے گی۔ اور پھر، بھری ہوئی بس کو رستے کی سواریاں اٹھانے کیلئے نہیں رکنا پڑتا۔ میں جلد سے جلد دہلی پہنچنا چاہتا تھا۔ کرنال سے دہلی کے لئے یہ پہلی بس تھی۔ دوکانوں اور دفتروں کے کھلنے سے پہلے یہ پہنچا دیتی تھی۔ دوسری سواریاں بھی میری جتنی ہی بیقرار لگ رہی تھیں۔

میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک ڈھلی عمر کا کسان بیٹھا تھا۔ میرا دھیان بس کے دروازے کے ساتھ ساتھ باہر والی رونق پر بھی تھا۔ میں نے اس کی طرف تبھی دھیان دیا، جب اس نے مجھے پڑھا لکھا سمجھ کر پوچھنا شروع کر دیا۔

’’یہ بس کتنے بجے چلے گی یہاں سے؟‘‘

’’چھ بجے۔‘‘

’’ابھی کتنے بجے ہیں؟‘‘

’’بس، چھ بجنے ہی والے ہیں۔‘‘

’’پانی پت کتنی دیر میں پہنچ جائے گی؟‘‘

’’پونے گھنٹے میں۔‘‘

’’اڈے سے افسروں کے رہنے کی جگہ کتنی دور ہو گی؟ مل جائے گی مجھے؟‘‘

’’نزدیک ہی ہے۔ میں تمہیں وہاں بتا دوں گا۔‘‘

’’انہوں نے مجھے سات بجے بلایا ہے۔ پہنچ ہی جاؤں گا تیری مہربانی سے۔ میں تو رات کو ہی اڈے پر آ گیا تھا۔ کہتے تھے سویرے بس جائے گی، تو اس پر چلے جانا، وقت سے پہنچا دے گی۔‘‘

اس نے بتایا کہ پانی پت میں اس کی تاریخ تھی۔ چک بندی کے بڑے افسر کے آگے اس نے اپیل کر رکھی تھی۔ افسر رہتا تو انبالہ میں تھا، پر دورے پر پانی پت آیا ہوا تھا۔ اس علاقے میں جن جن لوگوں نے اپیل کر رکھی تھی، ان سب کو اس نے وہیں پر بلا رکھا تھا۔

’’خراب زمین میرے حصے میں ڈال دی۔‘‘ اس نے کہا، ’’کہتے ہیں، تیرا حصہ یہیں پر آتا ہے۔ اور کسے یہاں پر پھینکے۔ بیکار زمین سستی ملتی ہے، تجھے زیادہ دے دی ہے۔ اور کیا چاہئے تجھے؟ پر وہاں تو ہوتا ہی کچھ نہیں۔ میں زیادہ کا کیا کروں؟ میں گاؤں میں غریب ہوں۔ لڑکا بھی ابھی چھوٹا ہے۔ پہلے بیٹیاں ہی ہوئیں۔ اب اس ڈھلتی عمر میں لڑکا ہوا ہے۔ ابھی بچہ ہی ہے۔ گاؤں میں میرا کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ اسی لئے مجھے رگڑا لگ گیا ہے۔ اب دیکھو، یہ افسر کیا فیصلہ سناتا ہے۔ اس سے اوپر، کہتے ہیں، کوئی اپیل نہیں۔‘‘

’’پر چک بندی کا تو سنا ہے، یہ قانون ہوتا ہے کہ جہاں جس کا بڑا ٹکڑا ہو، وہیں پر اس کی ساری زمین کو اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔‘‘

’’وہ تو ٹھیک ہے۔ پر میرے چار جگہوں پر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے تھے۔ جہاں سب سے خراب ٹکڑا تھا، اس کے ساتھ والی ساری زمین مجھے دے ڈالی۔ گاؤں والے کہتے ہیں، چین سے بیٹھا رہ۔ اب پھر سے سارا گاؤں تڑوائے گا کیا۔ سب کو نئے سرے سے مصیبت میں ڈالے گا۔ پہلے ہی بڑی مشکل سے کام ختم ہوا ہے۔ لوگوں کو ٹھیک سے جوتنے بونے دے۔ تو بھی کنوئیں میں مٹی ڈال۔ دانتوں تلے زبان دبا۔ سنوارے گا تو خود دھیرے دھیرے سنور جائے گی زمین! بہت مل گئی ہے تجھے۔ اور کیا چاہئے؟لیکن مجھے تو وہ زمین کاٹنے کو دوڑتی ہے۔ وکیل کیا ہوا ہے۔ دیکھو، کیا ہوتا ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہی ہو گا۔‘‘ میں جھوٹی تسلی دیتا ہوں۔

بس میں اب بہت بھیڑ ہو گئی تھی۔ مگر بھیڑ سے زیادہ افرا تفری مچی تھی۔ آج سوموار تھا۔ اتوار کی چھٹی ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ دہلی سے باہر آئے ہوئے تھے، جو اب جلدی لوٹنا چاہتے تھے۔ بس کے دونوں دروازوں میں سے کئی سواریاں اندر آنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ لیکن اندر ساری سیٹیں پہلے ہی بھری ہوئی تھیں۔ پھر بھی، سواریاں دروازے پر سے ہٹتی نہیں تھیں۔ کوئی تگڑا آدمی دھکا دے کر اندر گھس آتا، لیکن بس میں کوئی جگہ نہ پا کر پھر پیچھے ہٹ جاتا۔

جتنے بیقرار دروازے پر کھڑے لوگ اندر آنے کے لئے تھے، اتنے ہی اندر بیٹھے لوگ بس کے چلنے کیلئے تھے۔ وہ کنڈکٹر کو بس چلانے کے لئے آوازیں لگا رہے تھے۔

’’بس اور کوئی سیٹ نہیں۔‘‘ کنڈکٹر نے چلنے کی تیاری کر کے دروازے پر کھڑے لوگوں سے کہا۔

’’سیٹ کیوں نہیں؟۔۔ ۔۔ ہم نے ٹکٹ لے رکھے ہیں۔‘‘

’’ارے، ٹکٹ زیادہ کاٹ دیئے کیا آج؟‘‘ کنڈکٹر نے ٹکٹ کاٹنے والے منشی کو آواز دی، ’’سوموار ہے، اگر چیکنگ ہو گئی تو جرمانہ کون بھرے گا؟‘‘

’’نہیں، پورے ہیں۔ ایک چڑیا کا بچہ بھی فالتو نہیں۔‘‘ باہر بیٹھا منشی کاغذ اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولا۔

’’تو پھر بنا ٹکٹ سواریاں اندر آ گئی ہوں گی۔‘‘ کنڈکٹر نے جیسے معافی مانگی اور پھر اونچی آواز میں جیسے بس کی دیواروں کو سناتے ہوئے بولا، ’’جو بھی بنا ٹکٹ بیٹھے ہیں، نیچے اتر جائیں۔ ٹکٹ والے بیچارے باہر کھڑے ہیں۔‘‘

کوئی سواری نہ ہلی۔ اگر ٹکٹ والی سواریاں باہر نہ بھی کھڑی ہوتیں، تب بھی بس کا چلنا مشکل تھا۔ سیٹوں کے درمیان والا رستہ سامان سے بھرا پڑا تھا۔ ایک بڑھیا اس راستے میں نیچے ہی بیٹھ گئی تھی۔

’’مائی، اٹھ کر سیٹ پر تو ہو جا۔‘‘ کنڈکٹر نے اسے ایسے بیٹھا دیکھ کر چڑتے ہوئے کہا۔

’’بھائی سیٹ ہو تو پیروں میں بیٹھنے کا بھلا مجھے کوئی شوق چڑھا ہے۔‘‘

ایک عورت نے اپنے تین بچوں سمیت دو سواریوں والی سیٹ گھیر رکھی تھی۔ دو بچے تین سال سے چھوٹے تھے، اس لئے ٹکٹ ایک کا ہی تھا۔

’’بچوں کو گود میں لے لو۔ آدھے ٹکٹ کے لئے کوئی سیٹ نہیں۔‘‘ کنڈکٹر نے کہا۔

ایک بچے کو بڑھیا نے گود میں لے لیا اور دو کو ان کی ماں نے اور اس طرح رستے میں سے اٹھ کر بڑھیا سیٹ پر بیٹھ گئی۔

لیکن بس چلنے کے ابھی بھی کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے۔ بغیر ٹکٹ والے لوگ سیٹوں پر سے اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔

’’اپنے اپنے ٹکٹ نکالو۔‘‘ کنڈکٹر نے آواز دی اور آگے بیٹھی ایک سواری کی جانب ہاتھ بڑھایا۔

’’ٹکٹ تو ابھی لینا ہے۔‘‘ سواری نے دھیمے سے کہا۔

’’نیچے اتر کر لو پھر پچھلی گاڑی کا۔ بس کو یوں ہی لیٹ کر رہے ہو۔ کسی کنارے بھی لگانا ہے بس کو کہ جھگڑے میں ہی دن گزار دینا ہے۔‘‘ کنڈکٹر غصے میں بولا۔

’’جلدی پہنچنا تھا، سامان اوپر پڑا ہے۔‘‘

’’نیچے اتر کر جلدی اتار لو، نہیں تو دہلی پہنچ جائے گا۔ ٹکٹ لیا نہیں، کچھ کیا نہیں، سامان اوپر ٹکا دیا۔‘‘

بنا ٹکٹ والی سواریوں کے کان کھڑے ہو گئے۔ ایک ایک کر کے سب کھسکنے لگیں۔ چھت پر سے سامان کے اترنے کا شور سنائی دینے لگا۔ سیٹوں کے بیچ والے راستے سے پڑا سامان، کچھ سیٹوں کے نیچے اور کچھ کچھ چھت پر پہنچا دیا گیا۔ بس، ایک سواری کا فرق رہ گیا۔

ایک نئی بیٹھی سواری سے کنڈکٹر بولا، ’’تم اپنا ٹکٹ دکھاؤ۔‘‘

ٹکٹ پچھلی بس کا تھا۔

’’لو، ہمیں کیا معلوم۔‘‘ سواری بولی۔

’’ٹکٹ کے اوپر بس کا نمبر لکھا ہوا ہے۔ نیچے اتر کر اس میں بیٹھ جا۔ وہ پیچھے کھڑی ہے۔‘‘ پھر اس نے کھڑکی کے پیچھے بیٹھے منشی سے کہا، ’’ابھی سے نئے ٹکٹ کاٹنے شروع کر دیئے؟ سواریاں ادھر گھسی آ رہی ہیں۔‘‘

’’تُو نے تو لگتا ہے، آج بس، اڈے میں سے نکالنی ہی نہیں۔ ہم کیا سارا کام ٹھپ کر دیں۔ پانچ منٹ لیٹ ہو گیا تو۔‘‘

’’بس ہو گیا حساب۔ چل رہے ہیں اب۔‘‘ کنڈکٹر نے منہ بناتے ہوئے کہا اور بس کے چلنے کے لئے سیٹی بجا دی۔

’’روک کے۔۔ ۔۔ کے۔۔ ۔‘‘ ایک سوٹ بوٹ پہنا آدمی زور سے چیخ اٹھا اور اچھل کر اپنی سیٹ پر سے دور ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔

’’کیا بات ہو گئی؟‘‘ کنڈکٹر نے حیران ہو کر پوچھا۔

’’یہاں پر کسی نے الٹی کر رکھی ہے۔ میں نہیں بیٹھ سکتا یہاں۔ پہلے اسے صاف کرواؤ۔‘‘

’’الٹی کس نے کر دی؟‘‘ کنڈکٹر نے تعجب سے کہا۔ شاید کسی مسافر نے رات کو کی تھی یا پھر صبح صبح ڈیزل کی بدبو کے سبب کوئی بیٹھتے ہی کر کرا کر ایک جانب ہو گیا تھا۔ منہ باہر نکال کر کنڈکٹر نے منشی سے پوچھا، ’’سوئپر کھڑا ہے کیا یہاں کہیں؟‘‘

’’نہیں، دکھائی تو نہیں دے رہا۔ آتا ہی ہو گا۔‘‘

سوئپر کے انتظار میں غیر معینہ وقت کیلئے بس کو کیسے روکا جا سکتا تھا؟لیکن ایک پڑھی لکھی سوٹیڈ بوٹیڈ سواری کو سیٹ دیئے بغیر کنڈیکٹر بس کو چلا بھی کیسے سکتا تھا؟ زیادہ دیر ہو جانے کے ڈر سے وہ گھبرا اٹھا تھا۔ ساری سواریاں بے چین ہو رہی تھیں۔ لیکن کسی کو کوئی راستہ نہیں سوجھ رہا تھا۔

میرے پاس بیٹھا کسان یہ تو سمجھ گیا کہ اب اور دیر لگے گی، لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کیوں؟

’’اب چلاتے کیوں نہیں؟ اب کیا دقت ہو گئی؟‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا۔

میرے کچھ بتانے سے پہلے ہی کنڈکٹر نے اس کے پاس آ کر کہا، ’’بھاؤ، ذرا اٹھنا یہاں سے۔‘‘

’’کیوں کیا بات ہے؟‘‘ کسان نے سیٹ پر سے اٹھتے ہوئے پوچھا۔

’’آ، تجھے آگے سیٹ دیتا ہوں۔‘‘ وہ اسے پکڑ کر آگے لے گیا اور اشارے سے اس سوٹ بوٹ والے شخص کو اس کسان کی سیٹ پر بیٹھنے کے لئے کہا۔

الٹی والی سیٹ کے پاس لے جا کر کنڈکٹر نے کہا، ’’لے، بیٹھ جا یہاں۔‘‘

پھر اس نے خوشی میں زوردار سیٹی بجائی اور بس چل پڑی۔

’’یہ سیٹ تو گندی ہے، میں نہیں بیٹھوں گا یہاں۔‘‘ کسان چلا اٹھا۔

’’تھوڑی دیر دانتوں تلے زبان رکھ۔ اگلے اڈے پر دوسری سیٹ دے دیں گے۔‘‘ کنڈیکٹر نے ہلکی سی شرارت کے ساتھ مسکراتے ہوئے کہا۔

کسی نے بھی کنڈیکٹر کو نہیں ٹوکا۔ بلکہ سبھی نے سکون کی سانس لی۔ بس لیٹ نہ ہونے دینے کے سبب ہم سب اس پر خوش تھے۔ مشکل سے تو چارہ ساز ملا تھا ایک!

٭٭٭

 

 

 

 

پیمی کے بچے

 

سنت سنگھ سیکھوں

 

بیس ایک سال پہلے کی بات ہے۔ میں سات برس کا تھا اور میری بڑی بہن گیارہ سال کی۔ ہمارا کھیت گھر سے کوئی میل بھر کی دوری پر تھا۔ عین درمیان سے ایک بڑی سڑک گزرتی تھی، جس پر پٹھانوں، قبائلیوں اور پردیسیوں کا بہت آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ہم سب بچے جنہیں قبائلیوں، پٹھانوں سے گھر بیٹھے بھی ڈر لگتا تھا، اس سڑک پر کسی سیانے شخص کے بغیر آتے جاتے بہت خوف کھاتے تھے۔ لیکن مصیبت یہ تھی کہ دن میں ایک دو بار ہمیں کھیت پر باپو کے ساتھ ساتھ کھیت مزدوروں کی روٹی پہچانے کے لئے بھی لازمی جانا پڑتا تھا اور ہر روز ہماری حالت کسی خطرناک وادی میں سے گزر نے والوں جیسی ہوتی تھی۔

عام طور پر ہم گھر سے تو ہمت کر کے اکیلے ہی چل پڑتے تھے، مگر جب سڑک دو تین فرلانگ کے فاصلے پر رہ جاتی تو دریا کو پار کرتے وقت رک جانے والے میمنوں کی طرح کھڑے ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگتے، تاکہ گاؤں آنے جانے والے کسی ہوشیار شخص کی حفاظت میں ہم اس ڈراؤنے سمندر کو پار کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

ہمیں مذہبی تعلیم بھی کچھ اس قسم کی مل رہی تھی کہ ایسے خوف ہمارے مزاج کا حصہ بن گئے تھے۔ روزانہ ہی سوتے وقت ہم گھر پر بڑوں سے جنت جہنم کی کہانیاں سنا کرتے۔ جنت تو ہمیں کھیل کے علاوہ اور کہیں کم ہی دستیاب ہوتی، لیکن ہر ایک جگہ پر جہنم لا تعداد ملتے۔ سب سے بڑا جہنم مدرسہ تھا اور اگر اس سے کسی دن چھوٹ جاتے تو کھیت پر روٹی دینے جانے کا جہنم سامنے آ جاتا۔ غرض یہ کہ ہمارے انجانے راستے کے ہر موڑ پر جہنم گھات لگائے کھڑا ہوتا۔ شاید، اس سڑک کا ڈراؤنا سمندر پھلانگنے کے سبب ہمیں کھیت کی جانب جانا جہنم لگتا تھا یا کھیت پر روٹی لے جاتے وقت اس جہنم کو پار کرنا پڑتا تھا اس لئے یہ ہمیں ڈراؤنا سمندر دکھائی دیتا تھا، میں اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ مجھے پتہ ہے کہ کھیت جنت تھا اور روٹی لے جانے کی پریشانی جہنم اور وہ بڑی سڑک، بیچ میں پڑنے والا ڈراؤنا سمندر!

جاڑوں کے دن تھے۔ ہم دونوں بہن بھائی دوپہر کو روٹی لے کر کھیت کی سمت چل پڑے۔ سہانی دھوپ تھی اور ہم چلتے ہوئے بھی جیسے جاڑے کی دھوپ میں نیند کا مزہ لے رہے تھے۔ لیکن، دل میں سڑک پار کرنے کا ڈر چوہے کی طرح ہمیں کتر رہا تھا۔

ہم نے اپنے خوف کو دبانے کا ایک عام طریقہ استعمال میں لانا چاہا۔ بہن مجھے ایک کہانی سنانے لگی، ’’ایک راجا تھا۔ اس کی رانی مر گئی۔ مرتے وقت رانی نے راجا سے کہا، تم مجھے ایک قسم دو۔ راجا نے پوچھا، کیا؟‘‘

میں نے کہانی کی طرف سے دھیان ہٹا کر پیچھے گاؤں کی سمت دیکھا کہ کہیں کوئی آدمی ہمارے راستے سے ہی جانے والا تو نہیں آ رہا۔

’’تو سن نہیں رہا، بھائی۔‘‘ بہن نے میرے کندھے کو ہلا کر کہا۔

’’نہیں، میں سن رہا ہوں۔‘‘ میں نے بھائیوں والی گستاخی کے ساتھ جواب دیا۔

’’اچھا، جب وہ رانی مرنے لگی تو اس نے راجا کو بلا کر کہا، تم مجھ سے اقرار کرو۔ راجا نے پوچھا، کیا؟ رانی نے کہا، تم دوسرا بیاہ مت کرنا۔ سچ، میں بتانا بھول گئی، رانی کے دو بیٹے اور ایک لڑکی تھی۔‘‘

ہمیں راجا اور رانی، ماں باپ جیسے ہی لگتے تھے۔ اگر ہماری ماں مرنے لگے اور ہمارے والد کو یہی قسم دینے کے لئے کہے، یہ خیال ہمارے تخیل میں کام کر رہا ہو گا۔ مجھے وہ لڑکی اپنی بہن لگی اور اس کا بیٹا، میں خود۔

میری بہن گاؤں کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ’’سنا بھی آگے۔۔ ۔‘‘ میں نے اسے پہلے کی طرح ہی سخت لہجے میں کہا۔

’’رانی نے کہا، میرے بیٹوں اور بیٹی کو سوتیلی ماں تکلیف دے گی۔‘‘ بہن نے بہت میٹھے ڈھنگ سے ایک عورت کی طرح کہا، ’’اس لئے اس نے راجا سے یہ اقرار کرایا ہو گا۔ راجا نے کہا اچھا، میں اقرار کرتا ہوں۔‘‘

جیسے راجا یہ اقرار نہ کرتا تو رانی مرنے سے انکار کر دیتی۔

بھلے ہی ہم دونوں کو پتہ تھا کہ دن میں کہانیاں سنانے سے راہی رستہ بھول جاتے ہیں، ہم نے ایک دوسرے کو یہ بات یاد نہیں کرائی اور اس آگہی کا اپنے دل اور دماغ پر اثر نہیں ہونے دیا۔

’’لیکن، راجا نے جلدی ہی دوسرا بیاہ کر لیا۔‘‘

’’ہوں۔‘‘

پچھلے موڑ پر ہمیں ایک آدمی آتا ہوا دکھائی دیا۔ ہم نے چین کا سانس لیا اور اسے اپنے ساتھ ملانے کے لئے رک کر کھڑے ہو گئے۔ ہماری کہانی بھی رک گئی۔ لیکن وہ آدمی کسی دوسری سمت جا رہا تھا، ہماری طرف نہیں آیا۔

جس مقصد کو پورا کرنے کے لئے ہم نے اس کہانی کا کھٹراگ پالا تھا، وہ پورا نہیں ہو سکا۔ ہمارا خیال تھا کہ کہانی میں کھو کر ہم خودبخود ہی سڑک کے پار ہو جائیں گے۔ پر اب جب سڑک کوئی ایک فرلانگ دور رہ گئی تو ہماری کہانی بھی ٹھٹک کر کھڑی ہو گئی اور کسی سیانے ساتھی کے آ ملنے کی امید بھی ٹوٹ گئی۔ ہم دونوں سہم کر کھڑے ہو گئے۔

دس بیس قدم اور چلے تو ہمارا ڈر مزید بڑھ گیا۔ سڑک پر ایک طرف کالے صوف کی واسکٹ اور پٹھانوں جیسی ڈھیلی کھلی شلوار پہنے ایک آدمی لیٹا تھا۔

’’وہ دیکھ، پٹھان لیٹا ہوا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

اس آدمی نے کروٹ بدلی۔

’’وہ تو ہل رہا ہے، لگتا ہے، جاگ رہا ہے۔‘‘ میری بہن نے سہم کر کہا، ’’اب کیا کریں؟‘‘

’’یہ ہمیں پکڑ لے گا؟‘‘

’’اور کیا۔‘‘ اس نے جواب دیا۔

ہم رات کو گھر سے باہر تو کم ہی نکلتے تھے، پر ہم نے یہ سنا ہوا تھا کہ اگر ڈر لگے تو وا ہے گورو کا نام لینا چاہئے۔ ایسا کرنے سے ڈر دور ہو جاتا ہے۔ ہماری ماں ہمیں ہمارے ماما کی بات سنایا کرتی تھی۔ ایک بار ہمارے ماما اور ایک برہمن کہیں رات میں کسی گاؤں کے شمشان کے پاس سے گزر رہے تھے کہ ان کے پیروں پر بڑے بڑے دہکتے ہوئے انگارے گرنے لگے۔ برہمن نے ہمارے ماما سے پوچھا، ’’کیا کریں؟‘‘ انہوں نے کہا، ’’پنڈت جی! وا ہے گورو کا نام لو۔‘‘ ہمارا ماما وا ہے گورو، وا ہے گورو کرنے لگا اور پنڈت رام رام۔ انگارے گرتے تو رہے، پر ان سے دور۔ ہمیں اس بات کی وجہ سے اپنے ماما پر بڑا غرور تھا۔

’’ہم بھی وا ہے گورو کریں۔‘‘

’’وا ہے گورو سے تو بھوت پریت ہی ڈرتے ہیں، آدمی نہیں ڈرتے۔‘‘ میری بہن نے کہا۔

میں مان گیا۔ سڑک کے کنارے لیٹا ہوا پٹھان تو آدمی تھا، وہ رب سے کیوں ڈرے گا بھلا؟

’’تو اب پھر کیا کریں؟‘‘

ہم پانچ سات منٹ تک ڈرے سہمے سے کھڑے رہے۔ ابھی بھی ہمارے دلوں کو یہ آس تھی کہ کوئی آدمی اس پٹھان کو ڈرانے کے لئے ہمارے ساتھ آن ملے گا۔ پر، ہمیں یہ خواہش پوری ہوتی دکھائی نہ دی۔

ہم ایک دوسرے کے چہرے دیکھتے رہے۔ لیکن، ایسے وقت میں ہم اس وقت ایک دوسرے کے چہروں میں کیا ڈھونڈ رہے تھے؟ کچھ دیر بعد میں رونے لگا۔

میری بہن نے دوپٹے کے ایک سرے سے میرے آنسو پونچھتے ہوئے کہا، ’’نہ بھائی، روتا کیوں ہے؟ ہم یہیں کھڑے رہتے ہیں۔ ابھی گاؤں سے کوئی نہ کوئی آ جائے گا۔‘‘

ہم نے کچھ قدم آگے بڑھائے، پھر کھڑے ہو گئے اور پھر ویسے ہی پانچ قدم پیچھے لوٹ آئے۔

آخر، میری بہن نے کچھ سوچ کر کہا، ’’ہم کہیں گے، ہم تو پیمی کے بچے ہیں، ہمیں نہ پکڑ۔‘‘

اس کے منہ سے ’’پیمی‘‘ لفظ بہت میٹھا نکلا کرتا تھا اور اب جب وہ میری جانب جھک کر مجھے اور اپنے آپ کو دلاسا دے رہی تھی، وہ خود پیمی بنی ہوئی تھی۔

میرے دل کو ڈھاڑس ملی۔ پٹھان کو جب پتہ چلے گا کہ ہم پیمی کے بچے ہیں تو وہ ہمیں کچھ نہیں کرے گا، پکڑے گا بھی نہیں۔

جیسے دھک دھک کرتا ہوا دل اور کانپتے ہوئے پیر ’’وا ہے گورو، وا ہے گورو‘‘ کرتے ہوئے شمشان گھاٹ میں سے گزر جاتے ہیں، جیسے ہندو گائے کی پونچھ پکڑ کر دنیا پار کر جاتا ہے، ہم دونوں پیمی کا نام لے کر سڑک پار کر گئے۔ پٹھان اسی طرح وہیں پڑا رہا۔

٭٭٭

 

 

 

 

چاندنی رات کا اندوہ

 

کرتار سنگھ دُگل

 

کوئی نہیں کہتا تھا کہ مالن اور منّی، ماں بیٹی ہیں۔ جہاں سے گزرتیں، لوگ یہی سمجھتے کہ دونوں بہنیں ہیں۔ منّی بالشت بھر اونچی تھی اپنے ماں سے۔

’’اری مالن، کیا خوب جوانی اتری ہے تیری بیٹی پر!‘‘

اڑوسنوں پڑوسنوں کی اس کی جانب دیکھ دیکھ کر بھوک نہ مٹتی۔ اور لڑکی تو جیسے سچا موتی ہو! جتنی خوبصورت، اتنی ہی مہذب۔ مالن اپنی بیٹی کے چہرے کی جانب دیکھتی اور اسے لگتا جیسے ہو بہو وہ خود ہو۔ ابھی کل کی ہی بات تھی، جب وہ خود بھی ایسی تھی۔ اور وہ سوچتی، اب بھی اس کا کیا بگڑا تھا! اب بھی۔۔ ۔ اب بھی کوئی پہاڑ کاٹ کر اس کے لئے نہر نکالنے کیلئے بیتاب تھا۔ اب بھی، اب بھی کوئی سات سمندر تیر کر اس تک پہنچنے کیلئے بے قرار تھا۔

یہ کون اسے یاد آ رہا تھا؟ موتیوں کا بیوپاری۔

یہ کیوں اس کی پلکیں آج بھیگ بھیگ جا تی تھیں۔ اس کی بیٹی اب جوان ہو گئی تھی۔ اب یہ اسے کچھ زیب نہیں دیتا تھا۔ ساری عمر سنبھل سنبھل کر چلی، آج یہ کن خیالوں میں وہ کھوئی چلی جا رہی تھی؟ نہیں نہیں، اگلے ہفتے منّی۔۔ ۔ اپنی بیٹی کا اس کو کاج رچانا تھا۔ نہیں، نہیں، نہیں!

’’پاس میری پرم پیاری، ایک پل نہ بساری۔۔ ۔‘‘

کل اس نے خط لکھا تھا۔ ہر بار وہ آتا، یہ اسے جوں کا توں لوٹا دیتی۔ آنکھیں موند کر اپنا دروازہ بند کر لیتی۔ لیکن وہ تھا کہ ایک پل بھی اسے نہیں بھولا تھا۔ مالن اس کی جان تھی۔ ایک پل اسے چین نہیں تھا اس کے بغیر اور ساری عمر اس نے کاٹ لی تھی کسی کے آسرے میں، سسک سسک کر، تڑپ تڑپ کر ساری ہی عمر۔ اور اب پرچھائیاں ڈھل رہی تھیں۔ جب کبھی پنچھی اڑ جائے۔

مالن سوچتی، آج رات وہ ضرور آئے گا۔ چودھویں کی رات، وہ ضرور اس کا دروازہ کھٹکھٹاتا تھا۔ برسوں سے کھٹکھٹاتا آ رہا تھا۔ کبھی بھی تو اس نے اپنا پٹ اس کے لئے نہیں کھولا تھا۔

اور پھر مالن کو کئی سال پہلے کی چودھویں کی وہ رات یاد آنے لگی، جب امرائی(آموں کا باغ)میں اس کی چنری، اس کی بانہوں کے ساتھ لپٹ گئی تھی اور سر سے ننگی وہ، اس کے سامنے دوہری ہو ہو گئی تھی اور پھر اس نے اس کی چنری اس کے کندھوں پر لا رکھی تھی۔

ارے! اس وقت ویسے ہی اپنا دوپٹہ آج اس نے اپنے کندھے پر رکھا ہوا تھا! اور مالن سر سے لے کر پاؤں تک لرز گئی۔

سامنے گلی میں منّی آ رہی تھی، جیسے سرو کا پیڑ ہو۔ اونچی، لمبی اور گوری۔ ہاتھ لگانے سے میلی ہوتی۔ سرمنہ لپیٹے، آنکھیں نیچی کئے۔ مجال ہے کہ کسی نے اس کی اونچی آواز بھی کبھی سنی ہو! مندر سے لوٹ رہی تھی۔ بھگوان کے آگے ہاتھ جوڑ جوڑ کر کہ اس کے من کی مراد پوری ہو۔ بھگوان سب کے دلوں کی مراد پوری کرے! اور مالن آپ ہی آپ مسکرانے لگی، جیسے کسی کے گدگدی ہو رہی ہو۔ اس کے من کی کیا مراد تھی؟

’’ماں، باپو جی آج نہیں آئے؟‘‘ منّی، ماں سے پوچھ رہی تھی۔

’’تیرے باپو جی آج نہیں آئیں گے۔ وہ تو کہیں کل بھی آ جائیں تو لاکھ شکر منانا۔ کتنی ساری بزازی اور کتنا سارا اناج اسے خریدنا ہے۔ بیاہ شادی میں چیز بچ جائے تو اچھی، کم پڑ جائے تو بڑا جھنجھٹ ہوتا ہے۔‘‘ مالن بیٹی کو سمجھا رہی تھی۔ منّی چولہے چوکے میں مصروف ہونے سے پہلے دھیرے سے آئی اور اپنی مکیش والی چنری ماں کے کندھوں پر رکھ اس کا دوپٹہ اتار کر لے گئی۔ کہیں اس کی ریشمی چنری میلی نہ ہو جائے!

کتنی مہین مکیش اس نے ٹانکی تھی اپنی چنری پر!

دھندلکا ہو رہا تھا۔ اکیلی آنگن میں بیٹھی مالن تصورات میں کھو گئی تھی۔ کئی چکیاں بڑا باریک آٹا پیستی ہیں۔ مالن سوچتی، وہ بھی تو ایک چکی کی طرح تھی، جو ساری عمر اپنی دھری پر چلتی رہی۔ کبھی بھی تو اس کی چال نہیں ڈگمگائی تھی۔ اپنے آپ کو اس نے ملیدہ کر لیا تھا۔ روک روک کر، بھینچ بھینچ کر، ختم کر دیا تھا خود کو۔

پورے چاند کی چاندنی، امرائی میں سے چھن چھن کر اس کے اوپر پڑ رہی تھی۔ یہ کن خیالوں میں وہ بہتی جا رہی تھی آج؟ مالن کو لگتا تھا جیسے ایک نشہ سا اس کو چڑھ رہا ہو۔ پورے چاند کی چاندنی ہمیشہ اس پر ایک جادو سا کر دیا کرتی تھی۔

چار دن اور۔ اور پھر اس آنگن میں گیت گائے جائیں گے، مالن سوچ رہی تھی اور پھر مہندی رچائی جائے گی۔ اور پھر منّی دلہن بنے گی۔ سر سے لے کر پاؤں تک گہنوں سے سجی ہوئی۔ لال جوڑے میں کیسی لگے گی منّی؟ اور پھر کوئی گھوڑے پر چڑھ کر آئے گا اور ڈولے میں ڈال کر اسے لے جائے گا اپنے گھر، اپنی اٹاری میں اور اس کی ہتھیلیوں کو چوم چوم کر اس کی مہندی کا سارا رنگ پی جائے گا۔

مالن سوچتی، ابھی تو کل کی بات تھی، اس نے بھی مہندی لگائی تھی، پر منّی کے تاؤ جی نے تو ایک بار بھی اس کی ہتھیلیوں کو اٹھا کر اپنے ہونٹوں سے نہیں لگایا تھا، ایک بار بھی اس نے کبھی اس کے ہاتھوں کو اٹھا کر اپنی آنکھوں سے نہیں چھوا تھا۔ تھکا ہارا وہ کام سے لوٹتا، کھانا کھاتا اور کھا کر سو جاتا۔ ایک بیٹے کی آرزو میں کبھی کبھی آدھی رات کو اس کی آنکھیں کھل جاتیں۔ تب، جب مشکل سے کہیں تارے گن گن کر مالن کو نیند آئی ہوتی۔ اور پھر ہر سال، ہر دوسرے سال ان کے ہاں ایک نہ ایک بیٹی آ جاتی۔ بن بلائیں لڑکیاں۔ خودبخود آتیں، خودبخود جاتی رہیں۔ بس، ایک منّی بچی تھی، اکلوتی۔ موٹی موٹی، کالی کالی آنکھیں۔ گورے گورے گالوں کے نیچے تل، مالن کا تل۔ گز گز لمبے بال، مالن کے بال۔ مالن سوچتی، جیسے اس جیون کی اس کی ساری بھوک نے اس کی بیٹی میں پنر جنم لے لیا ہو، اپنی تکمیل کرنے کے لئے۔ مالن سوچتی، اس کا حسن جیسے پھر کامیاب ہو گیا تھا، اپنی کوکھ جائی میں اپنا قیمت دلوانے کے لئے۔ مالن کو ہمیشہ محسوس ہوتا جیسے اس کے انگ انگ، پور پور میں ایک بھوک بسی ہوئی ہے۔ ایک پیاس میں اس کے ہونٹ بے قرار ہو رہے تھے۔

پورے چاند کی رات مالن سے کچھ کھایا نہیں جاتا تھا۔ اور منّی کب کی، چولہا چوکا سنبھال کر، سامنے ڈیوڑھی کے دروازے کو کنڈی لگا کر، اندر کمرے میں سو گئی تھی۔

رات بھی کتنی ہو رہی تھی۔ چاند جیسے سارے کا سارا اس کے آنگن میں آ اترا ہو۔ رات ٹھنڈی تھی۔ ابھی ٹھنڈ کہاں! یوں ہی ہلکا ہلکا جاڑا تھا۔ پورے چاند کی رات، اکیلا آنگن، مالن سوچتی وہ کیوں یوں بیٹھی تھی؟ کس کے انتظار میں؟ منّی اندر سو چکی تھی۔ منّی کے باپو جی کو آج ہی کیوں شہر جانا تھا؟ چودھویں کی رات تو وہ اپنے آپ کو باندھ باندھ کر رکھتی تھی۔ اور مالن نے مکیش والی منّی کی چنری کے ساتھ اپنا منہ سر لپیٹ لیا۔ چاند کی چاندنی میں دمک دمک پڑتے مکیش کے دانے۔ اسے لگا جیسے آسمان کے تارے اس کے بالوں میں اتر آئے ہوں، اس کے گالوں پر، اس کے کندھوں پر آ کر کھیلنے لگ گئے ہوں۔ سامنے امرائی پر پھر کوئی پنچھی آ کر بول رہا تھا حق، حق، حق! ساری رات پکارتا رہے گا، چودھویں کی رات۔ ساری عمر یوں ہی پکارتا رہا تھا اور جس نے آنا تھا، وہ نہیں آیا تھا۔

یہ کن خیالات میں وہ آج بہتی جا رہی تھی؟ مالن سوچتی، شاید اس لئے کہ وہ اکیلی تھی۔ اکیلی کیوں تھی؟ اندر منّی، اس کی جوان جہان بیٹی سوئی تھی۔ اگلے ہفتے جس کا اس نے کاج رچانا تھا۔ سات دن اور، اور وہ چلی جائے گی۔ اور پھر مالن اکیلی رہ جائے گی۔ اتنا بڑا آنگن اور وہ اکیلی۔ مالن کا انگ انگ لرز گیا۔ یہ آنگن اسے کاٹنے کو دوڑا کرے گا۔ منّی کیوں اس کے یہاں آئے گی؟ وہ تو اپنا گھر بسائے گی۔ گاؤں کے چودھری کی بہو، وہ تو اپنے صحن کا سنگار بنے گی۔ اور مالن سوچتی، وہ اکیلی رہ جائے گی۔ بالکل اکیلی۔ منّی کے باپو جی کی تو ساری عمر سود و زیاں میں کٹ گئی تھی، ایک اٹوٹ دوڑ۔ گھر کا مرد، شام کو ہر روز ہار کر جیسے وہ آتا تھا اور نڈھال اپنی چارپائی پر ڈھیر ہو جاتا تھا۔ کئی بار اسے یہ کہتی، آخر، اتنے جھمیلے کس لئے؟ کا ہے کو اس نے اتنے جھنجھٹ پال لئے تھے؟ لیکن اسے کوئی بات نہیں سمجھ آتی تھی۔

مالن گھڑی دو گھڑی کے لئے اندر کوٹھے میں گئی۔ منّی سچ مچ سو گئی تھی۔ الہڑ جوانی کی نیند میں مد ہوش سوئی پڑی تھی۔ لال چوڑیوں کو اتار کر، سرہانے رکھ کر، سو گئی تھی۔ کہاں چوڑیاں رکھی تھیں اس نے؟ جیسے ہی کروٹ لے گی، کچ کچ ٹوٹ جائیں گی۔ اور مالن نے سوچا، وہ اٹھا کر چوڑیوں کو سامنے طاق میں رکھ دے۔ لیکن اس نے تو چوڑیاں پہن لی تھیں۔ طاق میں رکھنے کے بجائے اس نے تو چوڑیاں اپنی کلائیوں میں سجا لی تھیں۔ چھ ایک طرف اور چھ دوسری طرف۔ چمک چمک پڑتیں چوڑیاں، ابھی کل ہی تو منّی نے گلی میں بیٹھ کر چوڑی والے سے چڑھوائی تھیں۔

پھر، مالن باہر آنگن میں لوٹ آئی۔ سر پر ریشمی مکیش والی چنری، کلائیوں میں لال چوڑیاں۔۔ ۔ پورے چاند کی رات۔ مالن کو لگا، جیسے ایک اینٹھن سی اس کے انگ انگ میں پھیلتی جا رہی ہو۔

اور پھر اس کی ڈیوڑھی کا دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا۔ وہی تھا، وہی! دھیرے سے، سہما ہوا، جھجکتا ہوا، وہی تھا! جیسے اس نے خط میں لکھا تھا، اپنے وقت پر آن پہنچا تھا، ’’چودھویں کی رات میں تمہارا کواڑ کھٹکھٹاؤں گا۔ تمہاری مرضی ہو کھول دینا، تمہاری مرضی ہو نہ کھولنا۔ تمہارا کواڑ کھٹکھٹانے کا میرا حق ویسے کا ویسا بنا ہوا ہے۔‘‘ ٹھک! ٹھک!! ٹھک!!! بے حد کومل، بے حد مدھر، پیاری سی یہ دستک اسی کی تھی۔ وہی تھا۔ چاندنی رات کا چور۔ اور ایکا ایک چاند گھنے کالے بادلوں کے پیچھے ہو گیا۔ اندھیرا سا چھا گیا چاروں جانب۔ جیسے کسی نے ایک دم بتی بجھا دی ہو۔ گھور کالے بادلوں کا ایک پہاڑ سا چاند کے سامنے آ گیا تھا۔ بادلوں پر بادل چڑھے آ رہے تھے۔

اور رات کے اس اندھیرے میں مالن کے قدم ڈیوڑھی کی سمت چل دیئے۔ اندھیرا اندھیرا، چکر چکر، ٹھنڈ ٹھنڈ، پسینہ پسینہ، کانپتے ہوئے ہاتھ سے دھیرے سے اس نے کنڈی کھولی اور اپنا آپ، تڑپتی بانہوں میں ڈھیر کر دیا۔ اور پھر ہونٹوں پر ہونٹ، دانتوں میں دانت، بیس برسوں کا رکا ہوا ایک باندھ جیسے پھوٹ کر ٹوٹ پڑا ہو۔ جیسے کوئی پھول کی پتی کسی طوفان کی لپیٹ میں آ گئی ہو۔

مالن کو نہیں پتہ تھا، کب چلتے چلتے وہ دونوں گاؤں کے باہر برگد کے نیچے جا کھڑے ہوئے، کتنے دیر وہاں کھڑے رہے۔ مالن کو نہیں پتہ تھا، کب وہ برگد کے ساتھ منسلک کھیت میں جا بیٹھے، کتنی دیر وہاں چھپے رہے۔ سویرے منہ اندھیرے کی گاڑی دور سڑک کے پار چیختی چلاتی گزر رہی تھی کہ اس کی آنکھ کھلی اور مالن دھیرے سے اس کی بانہوں میں سے نکل کر چہرہ لپیٹ کر تیز تیز قدم اپنے گھر لوٹ آئی۔

چوڑیاں اتار کر اس نے جوں کی توں منّی کے سرہانے رکھ دیں۔ اس کی ریشمی چنری اس کی چارپائی پر رکھی اور اپنا دوپٹہ لے کر سامنے بستر میں جا لیٹی۔

مالن اپنے پلنگ پر آ کر پڑی اور اس کی آنکھ لگ گئی۔ یوں تو اسے کبھی بھی نیند نہیں آئی تھی۔ جیسے ساری عمر کا رت جگا ہو۔

دھوپ نکل آئی تھی اور تب کہیں اس کی آنکھ کھلی۔

’’کیسے الہڑ لڑکیوں کی طرح تو آج سوئی ہے ماں۔‘‘ منّی نے اسے چھیڑا۔

جوان جہان لڑکی۔ اس نے گھر کی جھاڑ پونچھ دیکھ لی تھی۔ چولہا چوکا ختم کر لیا تھا اور نہا دھوکر اب مندر جا رہی تھی، موتیے کی کلیاں اپنی چنری کے ساتھ باندھے، اپنے دیوتا کی بھینٹ چڑھانے کے لئے۔

منی آنکھ سے اوجھل ہوئی اور مالن السائی ہوئی لاکھوں لاکھ سپنے اپنے پلکوں میں لئے سامنے آنگن میں جا بیٹھی۔ میٹھی میٹھی ہوا چل رہی تھی۔ ہلکی ہلکی دھوپ سامنے منڈیر سے نیچے اتر آئی تھی۔ ایک خمار سا تھا آس پاس۔ مالن کو لگا جیسے وہ دودھ سے لبریز کٹوری ہو۔ دودھ اور اس پر تیرتی چنبیلی کی کلیاں۔ خمارسے اس کی پلکیں جڑ جڑ جاتیں، کھل کھل جاتیں۔۔ ۔

’’اری مالن، کہاں ہے تمہاری کائیاں بیٹی؟‘‘ جیسے اس کو کسی نے آ کر چانٹا دے مارا ہو۔ مالن کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے رہ گئی۔

’’ایسی ناواجب بات کبھی نہیں کسی نے سنی۔ چار دن اس کے ڈولے کو رہ گئے ہیں اور یہ لڑکی یوں اتھل پڑی۔‘‘ لاجو پڑوسن ہتھیلیاں ملتی مالن کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔

’’کیا ہوا ہے میری بیٹی کو؟ وہ تو نری گائے ہے۔‘‘ مالن بھبک کر اسے کاٹنے کو پڑی۔

’’تیری گائے ساری رات کل منہ کالا کرتی رہی ہے۔‘‘

مالن نے سنا اور اس کے جیسے سوتے سوکھ گئے۔ کاٹو تو لہو نہیں۔ نیلی پیلی، اس کا انگ انگ جیسے مڑ رہا ہو۔

’’ادھر رات ہوئی، ادھر یہ کسی غنڈے کے ساتھ باہر نکل گئی۔ ساری رات تیری ڈیوڑھی کھلی رہی ہے۔ میں نے خود ان آنکھوں سے دیکھا، ڈیوڑھی کے باہر کسی کی بانہوں میں یہ ڈھیر ہوئی پڑی تھی۔ میں باہر چوٹی کرنے نکلی تھی اور میں نے ویسے کا ویسا کواڑ بھڑا لیا۔ اور پھر یہ ہولے ہولے قدم، بازو میں بازو ڈالے، باہر کھیتوں کی طرف نکل گئے۔ ساری رات میری تو آنکھ نہیں لگی۔ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ یوں پہلے کبھی کسی نے اپنے ماں باپ کا منہ کالا نہیں کیا۔ یوں کبھی کسی نے اپنے بڑے بوڑھوں کی عزت نہیں اتاری۔ ہم تو کہیں منہ دکھانے کے لئے نہیں رہے۔‘‘ اور لاجو زار و قطار رو رہی تھی، روئے جاتی اور ہتھیلیوں کو ملے جاتی۔

مالن جیسے کوئی پتھر ہو، اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔

اور پھر یوں بلکتی بلکتی لاجو چلی گئی۔

لاجو ابھی گئی ہی تھی کہ گاؤں کا چوکیدار پچھواڑے کی جانب سے اتر آیا۔

’’بھابھی! اری بھابھی مالن!‘‘ کب کا وہ اس کے پاس کھڑا ہو اسے بلا رہا تھا۔

’’کیا ہوا جمعہ؟‘‘ جیسے کنوئیں میں سے نکلی آواز ہو۔ مالن چوکیدار کو آنگن میں کھڑا دیکھ کر خود کو سنبھالنے لگی۔

’’بھابھی! بات کہنے والی تو نہیں، پر کل رات بڑا ظلم ہوا ہے اس گاؤں میں۔ میں نے تو بال سفید کر لئے چوکیداری کرتے ہوئے۔ ایسا اندھیر میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ تیری بیٹی منّی کسی کے ساتھ برگد کے تلے منہ کالا کرتی رہی۔ رات چاندنی تھی لیکن آسمان بادلوں سے اٹا ہوا تھا۔ دو بار میں دس قدم کی دوری پر ان کے پاس سے گزر گیا۔ ہونٹوں پر ہونٹ جمائے، ایک دوسرے سے لپٹے، ان کو کچھ پتہ نہیں لگا۔ برگد کے تلے کھڑے کھڑے تھک گئے تو پھر کھیت میں جا چھپے۔ میں تو ساری رات تیرے گھر کی رکھوالی میں بیٹھا رہا ہوں۔ کھلی ڈیوڑھی، چار دن اس کے بیاہ ہو رہ گئے ہیں۔ بیاہ والا گھر گہنوں کپڑوں سے بھرا ہوتا ہے۔ سویرا ہوا تو میں یہاں سے ہلا۔ پتہ نہیں کب یہ جھک مار مار کر لوٹی، کم ذات۔ میں نے تو اسے گود میں کھلا کھلا کر پالا ہے۔ میری بیٹی ہوتی تو میں اس کا گلا گھونٹ دیتا۔ میں تو پچھلی دیوار پھاند کر آیا ہوں۔ میں نے سوچا، کوئی پوچھے گا کہ تم صبح صبح کدھر چل دیئے، تو میں کیا جواب دوں گا؟‘‘

ملن کے منہ میں زبان نہیں تھی، پھٹی آنکھوں سے جمعہ چوکیدار کو دیکھ رہی تھی۔

اور جمعہ جس راہ آیا تھا، اسی راہ دیوار کو پھلانگ کر لوٹ گیا۔

جمعہ گیا اور سامنے گلی میں رتنا زمیندار دہاڑتا پھنکارتا، سر جتنا اونچا لٹھ اٹھائے اس کے آنگن میں آ دھمکا۔ وہ غصے میں ابل رہا تھا۔

’’کہاں ہے تمہاری لڑکی؟‘‘ ڈیوڑھی میں گھستے ہی وہ گرجا، ’’کہاں ہے وہ بد ذات چھنال؟ میرا ہی کھیت رہ گیا تھا اسے خراب کرنے کو۔۔ ۔؟‘‘

رتنا اچھل اچھل پڑ رہا تھا۔ من من کی گالیاں سناتا، سارا محلہ اس نے اکٹھا کر لیا۔ اڑوسی پڑوسی منڈیروں پر آ کھڑے ہوئے۔

’’میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ تڑکے میں کنوئیں کی طرف جا رہا تھا، میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا، پہلے یہ نکلی میری کھیت میں سے مکیش والی چنری اوڑھے ہوئے، میں نے سوچا، لڑکی شاید باہر بیٹھنے آئی ہے۔ اور پھر ایک پل گذرا تو اس کا یار کسی دوسری طرف سے نیچے اتر گیا۔‘‘

’’کیوں جھوٹ بولتے ہو چاچا؟‘‘ بجلی کی طرح کڑک کر منّی بھیڑ کو ہٹاتی ہوئی آگے بڑھی۔ دیر سے وہ مندر سے لوٹی، ہجوم کے پیچھے کھڑی سب کچھ سن رہی تھی۔

’’میں جھوٹ بولتا ہوں بد ذات؟ میں جھوٹ بولتا ہوں؟ یہ لال چوڑی کس کی ٹوٹی ہوئی تھی میرے کھیت میں؟‘‘ اور اپنی چادر کے پلو میں بندھی لال چوڑی اس نے منّی کی ہتھیلی پر جا رکھی۔ ایک آنکھ جھپکنے کے فرق سے منّی نے اپنی کلائیوں پر چوڑیوں کو گنا، گیارہ تھیں۔ اور وہ ٹھٹک کر رہ گئی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔

اور پھر محلے والیاں آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسری کو کہنے لگیں۔ انہوں نے خود منّی کو کل چوڑیاں پہنتے دیکھا تھا، دس کے اوپر دو چوڑیاں۔ لال رنگ چن کر اس نے نکلوایا تھا۔

لوگوں سے آنگن بھر گیا تھا۔ اور مالن کا سمدھی آیا بھیڑ کو چیرتا ہوا۔ اس کے پیچھے منّی کی ہونے والی ساس تھی۔ اور انہوں نے سارے وہ تھال، سارے وہ کپڑے، سارے وہ نوٹ، سب وہ مندریاں مالن کے سامنے لا پٹکیں۔ حیران پریشان لوگ ایک دوسرے کے چہروں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ عورتیں بار بار کانوں کو ہاتھ لگاتیں۔ جوان جہان لڑکیاں منہ میں انگلیاں لئے کاٹ رہی تھیں۔

اور پھر، دھڑام سے پڑوس کے کنوئیں میں کسی کے گرنے کی آواز آئی۔ سب کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے رہ گئی۔ لوگوں نے آگے پیچھے دیکھا، مالن کی گائے جیسی شریف بیٹی کہیں بھی نہیں تھی۔ وہ بیٹی جس کی اونچی آواز کسی نے نہیں سنی تھی، سچا موتی۔ جو صبح شام بھگوان کے سامنے ہاتھ جوڑ جوڑ نہیں تھکتی تھی، وہ بیٹی کہیں بھی نہیں تھی۔ اور لوگ کنوئیں کی سمت دوڑ پڑے۔

مالن تختہ بنی، ویسی کی ویسی پڑی تھی۔ اس کا آنگن بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ اڑوسی پڑوسی محلے والے سبھی کنوئیں کی جانب دوڑ پڑے تھے، کسی طرح لڑکی بچ سکے۔

٭٭٭

 

 

 

 

آگ

 

جسونت سنگھ وردی

 

جب میں رات میں شہر پہنچا تو شہر ویران تھا۔ کہیں بھی روشنی نہیں تھی۔ میں نے بنا روشنی کی رات کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ روشنی سے محروم رات کو دیکھ کر مجھے رات کی بے کسی پر بہت ترس آیا۔

’’رات پھر بھی رات ہے۔‘‘ میں نے سوچا، ’’اگر رات اجلی تو ہو۔‘‘

لیکن نہیں۔ شہر کا پورا بدن رات کی گہری کالی چادر میں چھپا ہوا تھا۔ میرا سانس گھٹنے لگا۔ لیکن رات سے بچ کر میں کہاں جا سکتا تھا؟۔۔ ۔ کہاں جاتا؟

میرے سامنے پورے شہر کی سنسان کالی سڑکیں کھلی ہوئی تھیں اور دروازے بند تھے۔ شہر بھر کے دروازے بند۔ سڑکوں پر چل کر میں جہاں بھی چاہوں جا سکتا تھا، لیکن میں نے دیکھا کہ ہر سڑک ایک مخصوص فاصلے تک جا کر کسی ایک دروازے کے سامنے دم توڑ دیتی ہے۔ اس شہر میں سڑکوں کی منزلیں بھی طے شدہ ہو گئی تھیں۔ میں حیران ہو گیا۔

میں بہت دور سے اس شہر کی مشہوری سن کر آیا تھا۔ لیکن اب مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں نے فالتو میں یہ سفر طے کیا۔

لیکن، اب میں کہاں جاؤں؟

رات گہری ہو رہی تھی اور تنہائی کا سناٹا، ٹھنڈی ہوا کی مانند میرے جسم کو کاٹے جا رہا تھا۔

’’مجھے کہیں نہ کہیں جانا چاہئے۔‘‘ میں نے سوچا، ’’سڑک تو میری منزل نہیں ہے۔‘‘ اور میں تیزی سے آگے بڑھ کر ایک محلے میں داخل ہو گیا۔ میرا خیال تھا کہ میں کسی گھر کے دروازے پر دستک دوں گا اور مہمان بننے کی سعادت حاصل کروں گا۔ پر میرے سامنے جو محلہ سانس لے رہا تھا، اس میں دروازے والا کوئی مکان نہیں تھا۔

’’ان مکانوں کے دروازے کہاں گئے؟‘‘ میں نے ایک بزرگ سے پوچھا۔

’’دروازوں والے مکان شہر کے دوسری طرف ہیں۔‘‘ بوڑھے شخص نے مسکرا کر کہا اور مجھے اپنی جھگی میں لے گیا۔ یہ جھگی ایک کمرے کی ہی تھی اور بوڑھے نے اپنا بستر زمین پر ہی بچھایا ہوا تھا۔ مجھے یہ جگہ دوسرے مکانوں سے زیادہ محفوظ محسوس ہوئی، کیونکہ میں وہاں پھیل کر بیٹھ سکتا تھا اور جہاں جی چاہتا، سو سکتا تھا، لیٹ سکتا تھا۔ تاہم اگر گھر میں بیوی ہوتی، بیٹیاں ہوتیں تو ہر وقت رسوائی کا خطرہ بنا رہتا۔

جوان لڑکیوں کے درمیان اٹھ بیٹھ کر آدمی اپنی منزل بھی تو بھول جاتا ہے۔۔ ۔ لیکن میری منزل ہی کہاں ہے؟ کیا بیکار آدمی کی بھی کوئی منزل ہوتی ہے؟

بزرگ شخص نے جھگی کے باہر سرکنڈوں کی باڑ لگا رکھی تھی اور اس کا مال اسباب کچھ جھگی کے باہر اور کچھ اندر بکھرا پڑا تھا۔ میں نے اندھیرے میں دور تک غور سے دیکھا۔ یہ جگہ کسی مہاراجہ کا کوئی پرانا باغ تھی، اجڑی ہوا۔ اس اجڑے ہوئے باغ کو ان لوگوں نے اب آباد کرنے کی کوشش کی تھی، ایک سعیِ لاحاصل۔

’’کبھی یہ باغ مہاراجہ کی شان و شوکت کا بڑا مرکز رہا ہو گا، پر اب یہاں روشنی تک نہیں ہے۔‘‘ میں نے سوچا۔

مجھے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے دیکھ کر اس بزرگ نے کہا، ’’اس گھر میں نہ آگ ہے اور نہ عورت۔‘‘

’’کیوں؟‘‘ میں نے اچانک پوچھ لیا، تعجب سے۔

’’جن گھروں میں آگ نہ جلتی ہو، ان میں عورت نہیں رہ سکتی۔‘‘بزرگ نے سرگوشی میں کہا، جیسے کوئی جادوئی اسرار کھول رہا ہو۔۔ ۔

’’اس میں کیا بھید ہے؟‘‘ میں نے کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے بے وقوفوں کی مانند سادہ سے انداز میں پوچھا۔

اس نے کہا، ’’اس میں بھید کی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘

’’کوئی بھید تو ہو گا ہی۔‘‘

’’بھید کا ہے کا؟ جس گھر میں آگ نہیں جلتی، اس گھر میں عورت کیسے رہ سکتی ہے؟‘‘ (یہ کس نے کہا تھا کہ عورت بھی ایک آگ ہی ہے، پر یہ آگ، گھر کی آگ سے ہی قائم رہ سکتی ہے۔ ) آگ کے بغیر گھر کیسے اجڑ جاتے ہیں۔۔ ۔ اس کے بارے میں مجھے زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں تھی۔

اگلے ہی لمحے میں اس سے پوچھ رہا تھا، ’’آپ گزارا کیسے کرتے ہیں؟‘‘

’’مانگ تانگ کر،‘‘ اس نے بے جھجک کہا۔

’’گزارا کر لیتے ہیں؟‘‘

’’بڑے مزے سے۔‘‘ بوڑھے نے کہا، ’’بلکہ کوئی فکر ہی نہیں رہی۔‘‘ اور وہ مسکرا اٹھا۔ مجھے لگا جیسے اس کے لیجے میں طنز کا تیکھا پن ہو۔ میں نے سوچا، اس کے گھر میں نہیں تو اس کے اندر لازمی کوئی آگ جلتی ہو گی، لیکن اس کی شدت کیسے محسوس کی جائے۔

میرے تصورات میں، اس شہر کے حوالے سے بہت عمدہ تصویر بنی ہوئی تھی، لیکن اب میں اس شہر کے حوالے سے کچھ اور ہی لفظوں میں سوچ رہا تھا۔ کسی بھی شہر میں پہنچنے پر سب سے پہلے اس کی رونق اور روشنی کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن کہاں؟

اگلے کچھ پل ہم بالکل خاموش رہے۔ اس کے بعد کے کچھ پلوں میں، میں نے محسوس کیا کہ اس ٹھٹھرتی ہوئی رات کے کندھوں پر سوار ہو کر کچھ عورتوں کے گیتوں کی آواز ہمارے پاس پہنچ رہی تھی۔ گیت کے بول واضح نہیں تھے، لیکن جب دھیان سے سنا تو ایک ایک لفظ واضح ہو گیا۔

’’یہ عورتیں کہاں گا رہی ہیں؟‘‘ میں نے بوڑھے سے پوچھا۔

’’پرلے گھروں میں۔۔ ۔ ایک لڑکی کی شادی ہے۔‘‘

’’اس گھر میں بھی آگ نہیں ہے؟‘‘

بزرگ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میری جانب ایک ٹک دیکھتا رہا۔ نہ جانے کیا سوچ رہا تھا۔ میں بھی تو اس کے حوالے سے بہت کچھ سوچ رہا تھا۔

’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’گانا سنو۔‘‘ وہ بولا اور اس نے باہر کی سمت اشارہ کیا۔ اس کے اشارے کے ساتھ ہی گیت کے بول دوبارہ واضح ہو کر تھرکنے لگے

’’دئیں دئیں وہ بابلا اوس گھرے، جتھے اگ ہووے، شہر روشن ہووے۔ تیرا پن ہووے، تیرا دان ہووے۔۔ ۔‘‘

(بیٹیاں بابل سے کہہ رہی ہیں کہ ہمیں اس گھر میں بیاہنا، جہاں آگ ہو، شہر میں روشنی ہو، تمہاری عطا ہو گی، تمہارا بخشش ہو گی)

’’گیت میں بھی آگ کی بات؟‘‘ میں نے کہا۔ مگر اس نے جواب نہیں دیا، ساکت سا بیٹھا رہا، آگ سے تہی داماں۔

گیت کے بول پھر تھرک اٹھے

’’دنے چانن ہووے، رات روشن ہووے۔۔ ۔

دئیں دئیں وہ بابلا، اوس گھرے

تیرا پن ہووے، تیرا دان ہووے ’’

بوڑھا مسکرایا۔ نہ جانے کیا سوچ کر مسکرایا ہو گا۔ اور مسکرا کر اس نے نہ جانے کیا سوچا ہو گا۔ میں بھی مسکرایا، پر میں نے کچھ سوچا نہیں، فقط اتنا ہی کہا، ’’اس شہر والے آپ کو آگ نہیں دیتے؟‘‘

’’آگ صرف بڑے لوگوں کے گھروں میں ہوتی ہے۔‘‘

’’اور روشنی؟‘‘

’’روشنی پیسے سے ملتی ہے۔‘‘

’’پھر آپ لے کیوں نہیں لیتے؟‘‘

’’ہم چھوٹے لوگ ہیں، ہمیں نہیں مل سکتی۔‘‘ اور اس نے گھبرا کر چاروں جانب ایسے دیکھا، جیسے اپنے آپ کو برہنہ محسوس کر رہا ہو۔ جو شخص اپنے آپ کو برہنہ محسوس کرتا ہے، اسے اور کوئی اذیت نہیں دی جا سکتی۔

’’اب تو دیش میں جمہوریت ہے اور ہم سب برابر ہیں۔‘‘ میں نے کہا، گویا میں اسے کوئی بھید کی بات بتا رہا تھا۔

اس نے جل کر جواب دیا، ’’لوگ کہتے تو ہیں، پر ہمیں دکھائی نہیں دیتا۔۔ ۔ ہمارے گھروں میں زیادہ اندھیرا ہے، شاید اس لئے۔۔ ۔۔‘‘

’’آپ کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟‘‘

’’مانگنا کام نہیں ہے کیا؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’پھر اور کیا کیا جائے؟‘‘ بوڑھے نے مجھے گھور کر دیکھا۔ میں کیا جواب دیتا۔

رات گہرے اندھیرے والی تھی اور ماحول میں اب پھر بوجھل خاموشی پھیل گئی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ اس بزرگ کو اپنی لیاقت کا ثبوت دوں۔ پھر بات چیت میں رات گزار دینے کا سوال بھی تھا۔

میں نے کہا، ’’کہتے ہیں، پچھلے زمانے میں بھی آگ صرف دیوتاؤں کے پاس ہوتی تھی۔ صرف دیوتا ہی آگ کی گرماہٹ لے سکتے تھے اور گھروں میں روشنی کر سکتے تھے۔‘‘

’’اب بھی دیوتاؤں کے پاس ہی ہے۔‘‘ بزرگ نے تلخ لہجے میں کہا۔

’’لیکن آگ ہمیشہ دیوتاؤں کے پاس نہیں رہی۔‘‘ میں نے کہا، ’’لوگوں کی بہبود کیلئے ایک شخص نے آگ کو دیوتاؤں سے چھین کر لوگوں میں بانٹ دیا تھا۔‘‘

’’اس کا کیا نام تھا؟‘‘

’’پرومیتھیس۔‘‘

’’اپنے ملک کا تھا؟‘‘

’’نہیں، کسی اور ملک کا تھا، تاہم اس نے آگ زمین کے لوگوں کو بانٹ دی تھی۔‘‘

’’کیا کہنے، واہ!‘‘ بوڑھے کی آنکھوں میں چمک آ گئی، آگ جیسی چمک۔

’’بعد میں دیوتاؤں نے اسے پتھروں اور زنجیروں سے باندھ کر بہت اذیتیں دیں۔‘‘

’’چنڈال کہیں کے۔‘‘ بوڑھے کو دہکتی آگ کی مانند غصہ آ گیا۔

’’پر پرومیتھیس آگ کو تو لوگوں میں بانٹ ہی چکا تھا۔‘‘

’’پھر اس کا کیا ہوا؟‘‘ پرسکون رہنے والا بوڑھا اب فکرمند تھا۔

’’دن بھر گدھ اس کا گوشت کھاتے، پر رات کو اس کے زخم بھر جاتے۔‘‘

’’رات میں بڑی طاقت ہے۔‘‘

’’آخر ہرکولیس نام کے ایک طاقتور شخص نے اسے دیوتاؤں کی قید سے چھڑا دیا۔‘‘

’’واہ واہ، بھئی، واہ واہ!‘‘ بوڑھا جذبات میں اچھل سا پڑا اور لگا جیسے اس کی آنکھوں کی روشنی سے ماحول چمک اٹھا ہو۔ اس کی آنکھوں کی اس چمک میں میں نے دیکھا، جھگی کے ایک کونے میں ایک کپڑے میں لپیٹی ہوئی کچھ کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ مجھے اس بوڑھے کے بھکاری ہونے پر شک ہونے لگا۔

’’تمہارے پاس کوئی بیڑی سگریٹ ہو تو پلاؤ۔‘‘ اس نے چین کا سانس لیتے ہوئے کہا۔

’’میں نہیں پیتا۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’یوں ہی۔۔ ۔ جی نہیں کرتا۔‘‘

’’پھر بھی۔۔ ۔‘‘

’’میرے گرو نے منع کیا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’بلکہ پیمان کروایا ہے۔‘‘

’’ہوں۔۔ ۔۔‘‘ وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ ’’جب ہم اپنی زمین چھوڑ کر آئے تھے، تب ہم نے بھی عہد کیا تھا کہ جب تک اس زمین کو آزاد نہیں کرا لیں گے، آگ نہیں جلائیں گے۔‘‘

’’تو یہ بات ہے؟‘‘

’’ہاں، پر ہم آگ کو ترک کر کے ٹھنڈے ہو گئے۔۔ ۔ اور زمین دشمنوں کے پاس ہی رہی۔ اب بھی دشمنوں کے پاس ہی ہے۔‘‘ اور وہ بے چینی سے کہیں دور ایک ٹک دیکھنے لگا۔

میں نے بہت ہی سہل انداز سے کہا، ’’آپ کو اپنی زمین چھوڑنی نہیں چاہئے تھی۔۔ ۔ وہیں لڑ کر مر جانا چاہئے تھا۔‘‘

’’ہاں۔۔ ۔۔‘‘ اس نے تیزی سے کہا، ’’پر ہمارے بزرگوں نے یہ بات نہیں سوچی تھی۔‘‘

’’زمین لوگوں کے پاس تبھی رہ سکتی ہے، جب وہ اس کی حفاظت کر سکیں۔‘‘

’’ہاں۔۔ ۔‘‘ بوڑھے نے آواز اونچی کرتے ہوئے کہا، ’’لیکن اب تو ہم بڑے ناتواں ہو گئے ہیں، بھک منگے۔ بھک منگے کو تو کوئی ایک مٹھی اناج دینے کو بھی تیار نہیں ہے، زمین کون دے گا۔‘‘

’’یہ سورماؤں کا کام ہے۔‘‘

’’ہاں۔۔ ۔‘‘ بوڑھے نے اثبات میں کہا۔

’’اور آپ کے پاس تو آگ بھی نہیں ہے۔‘‘ میں نے اس پر طنز کیا۔

اس وقت مجھے ان لڑکیوں کا گیت یاد گیا، جو گیتوں میں بھی آگ کی، روشنی کی خواہش کر رہی تھیں۔ لیکن آگ تھی کہاں؟

’’ہاں۔۔ ۔‘‘ وہ پھر بول اٹھا، ’’پر ہمارا خیال تھا کہ ہم اپنے اندر آگ جلائیں گے اور جاگیرداری کو اس کی آگ کے حوالے کر دیں گے۔‘‘ اس نے ایک لمبا سانس لیا اور خاموش ہو کر بیٹھ گیا۔

اس وقت وہ جو کچھ سوچ گیا ہو گا، اس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔ میں تو فقط اتنا ہی دیکھ رہا تھا کہ وہ کہیں اور پہنچ گیا تھا، اس زمین پر جو اس کی اپنی تھی، جہاں روشنی تھی، جہاں گھروں میں آگ جلا کرتی تھی۔

میں چاہتا تھا کہ اسے جھنجھوڑ دوں، لیکن میں خاموش ہی رہا۔

گیت کے بول ابھی بھی رات کی خاموشی کے کندھے پر سوار ہو کر ہم تک پہنچ رہے تھے۔

’’دئیں وہ دئیں بابلا اوس گھرے

جتھے اگ ہووے، شہر روشن ہووے

تیرا پن ہووے، تیرا دان ہووے۔۔ ۔۔‘‘

’’یہ گیت ہماری لڑکیوں نے گڑھے ہیں۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔ وہ بہت پریشان تھا۔ کتنا؟ میں بیان نہیں کر سکتا۔

اس وقت وہ نہ جانے کیا سوچ رہا تھا۔ پر میں سوچ رہا تھا کہ وہ بوڑھا زمانے سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اس کے پاس نہ کوئی ہنر ہے، نہ علم کا ورثہ، نہ ہی کوئی گھربار۔ یہ ساری عمر مانگ کر کھانے کے سوا اور کوئی کام نہیں کر سکتا۔ رات میں اس وقت ٹھنڈ بہت زیادہ تھی اور میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اگر میں شہر کی دوسری جانب، بڑے مکان والوں کے پاس پہنچ گیا ہوتا تو رات آرام سے گزار سکتا تھا۔ لیکن پھر یہ خیال آیا کہ شاید وہ لوگ میری کھوسٹ شکل و صورت دیکھ کر دروازہ ہی نہ کھولتے۔۔ ۔ آج کل مجھ پر کئی اقسام کے الزامات بھی تو لگ رہے ہیں۔

پھر اگلے ہی لمحے میں یہ سوچ رہا تھا کہ آدھے شہر میں اجالا ہے تو آدھا شہر کیوں ویران ہے؟ آخر کیوں؟

میں اس بزرگ سے کہنا چاہتا تھا کہ مانگ مانگ کر گزر اوقات کرنا تو زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ یا ہے؟

بزرگ کوئی پل بھر کے لئے آنکھیں کھول کر مجھے ایک ٹک دیکھتا تھا اور مسکرا کر پھر آنکھیں بند کر لیتا تھا، جیسے وہ میری بات کا رمز پا گیا ہو۔

رات آدھی سے زیادہ بیت گئی تھی اور اس جاڑے کی رات میں وہ بزرگ میرے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔۔ ۔ اس کے سانسوں کی گرمی میں محسوس ہی نہیں کر رہا تھا، بلکہ وہ مجھے گرماہٹ بھی دے رہی تھی۔ بزرگ کی آنکھیں کبھی کھل جاتی تھیں اور کبھی بند ہو جاتی تھیں۔ جب اس کی آنکھیں بند ہوتیں تو مجھے رات کی ویرانی کا احساس ہوتا۔ لیکن جب کھلی ہوتیں تو ایسا لگتا کہ ان کی چمک سے کمرے کی فضا روشن ہو اٹھی ہے۔

پھر نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔

میں روشنی کی ایک کرن اور آگ کی ایک چنگاری کے لئے ترس گیا تھا اور روشنی سے محروم رات کی بے کسی پر مجھے بہت ترس آ رہا تھا، اس لئے رات کو سپنوں میں، میں نے سب جھگیوں میں تیز لپلپاتی لپٹیں دیکھیں۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ یہ لپٹیں سارے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔

سویرے جب میں جاگا تو مجھے معلوم ہوا کہ میں شہر کے حاکموں کی حراست میں ہوں اور رات کو سپنوں میں سب جھگیوں میں لپٹوں کا اٹھنا دیکھنے کے جرم میں مجھے عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

قلفی

 

سجان سنگھ

 

مہینہ ختم ہونے پر تھا، لیکن ختم ہونے میں نہیں آتا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ مہینے کے آخری پندرہ دن کیسے جھٹ پٹ ختم ہو جاتے ہیں اور تنخواہ بھی انہیں پندرہ دنوں کے ساتھ ہی کیسے غائب ہو جاتی ہے۔ مجھے پٹھے کی چٹائی چبھ رہی تھی۔ کروٹ بدل کر پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو چٹائی کے نشان پیٹھ پر ابھر آئے تھے۔

’’ملائی والی قلفی!‘‘ ٹھنڈی سرد آواز میں قلفی والے نے ہانک لگائی۔ اس کی آواز کتنی ہی دیر میرے کانوں میں گونجتی رہی۔ دودھ جیسی سفید قلفی مجسّم میری آنکھوں کے سامنے ناچنے لگی۔ میرے منہ میں پانی آ گیا۔ لیکن میں بے بس تھا۔ پیسے کی تنگی، حوالات کی تنگی سے بھی بڑی ہوتی ہے۔ اپنے دل کی خواہش سے بچنے کیلئے میں نے ’’کلفی‘‘ لفظ کی اصلیت معلوم کرنے کی آڑ لے لی۔ ’’قفل‘‘ کا مطلب ہوتا ہے تالا، سناروں نے گہنوں میں اس کو لگا کر ’’قفل‘‘ سے ’’قلفی‘‘ بنا دیا۔ قلفی کو بھی ٹین کے سانچوں میں بند کر کے جمایا جاتا ہے، اس لئے قلفی۔ اور اس طرح دھیرے دھیرے پتہ نہیں کب، نیند نے اس قلفی سے مجھے نجات دلا دی۔

میری دوپہر کی نیند ابھی پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ میرے چھوٹے بیٹے نے مجھے جھنجھوڑ کر جگا ہی دیا۔ میں چڑا ہوا تھا، لیکن بیٹے کی توتلی آواز نے مجھے پرسکون کر دیا۔

’’دا جی، کتنی آوازیں لگائیں، تم جاگتے ای نہیں۔‘‘

’’ہاں ہاں، تو کیا کہتا ہے، بتا بھی۔‘‘ میں نے کچھ بے صبر ہو کر پوچھا۔

’’ایک تکا دے دو، دا جی!‘‘

پر ٹکا میرے پاس تھا ہی نہیں۔ میرے پاس آج کچھ بھی نہیں تھا۔ جون کے مہینے کی چھبیس تاریخ تھی۔ گھر کا خرچ، بازار کے اُدھار پر بمشکل چل رہا تھا۔

’’تکا دو بھی نہ دا جی۔‘‘

باہر مرمرے والا اونچی آواز میں ہمارے دروازے کے آگے صدا لگا رہا تھا۔

کوئی جواب سوچنے کی خاطر وقت نکالنے کے لئے میں نے کہا، ’’کاکا، تو ٹکے کا کیا کرے گا؟‘‘

’’خرچ کروں گا اور میں نے کیا کرنا ہے تکے کا؟‘‘

مجھے پتہ ہے، پہلی جنگ کے بعد بہت مہنگائی ہو گئی تھی، ہمیں دھیلا خرچ کرنے کے لئے ملتا تھا اور دھیلے کے مسدّی رام سے لائے ہوئے چھولے ختم ہونے میں ہی نہیں آتے تھے۔ اب تو ایک آنے میں بھی اتنے چھولے نہیں مل سکتے تھے اور میری آمدنی، میرے پتا کی آمدنی کے اریب قریب بھی نہیں تھی، حالانکہ میری پڑھائی میرے پتا سے کئی گنا زیادہ تھی۔ میں دنیا کی معاشی حالات اور ان حالات کو بنائے رکھنے والے نظریات پر سوچنے لگا۔

باہر سے پھر ’’مرمرے چھولے‘‘ کی صدا گونجی اور ساتھ ہی بیٹے نے کہا، ’’تکا دو بھی نہ، دا جی۔‘‘

’’ٹکا خراب ہوتا ہے۔‘‘ میں نے حالات سے پیدا ہوئی بدحواسی میں کہا۔

’’ہوں، تکا بھی کہیں کھلاب ہوتا ہے، دا جی؟ تکے کا ململا آتا ہے۔‘‘

’’مرمرا خراب ہوتا ہے۔‘‘ میں نے کہا اور بقیہ بات ابھی میرے منہ میں ہی تھی کہ بیٹے نے کہا، ’’ململا تو میتا ہوتا ہے۔‘‘

اس دلیل کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ میں بھی میٹھے کا شیدائی ہوں۔ لیکن پھر بھی میں نے اپنی کوری ہوشیاری جتاتے ہوئے کہا، ’’مرمرے سے کھانسی لگ جاتی ہے، بچو۔‘‘

’’تم تکا دے دو۔ مجھے نہیں لگتی کھانسی۔‘‘

لڑکا مچلتا محسوس ہوتا تھا۔ ٹکا میرے پاس تھا ہی نہیں۔ میں نے بیٹے کو ٹالنے کے لئے پتہ نہیں کیوں اس کو کہہ دیا، شاید بڑا لالچ دے کر بھلانے کے لئے، ’’مرمرا گندا ہوتا ہے! ہم شام کو بازار سے قلفی کھائیں گے۔‘‘

مرمرے چھولے والا اب ٹل چکا تھا۔ بیٹا میری امید کے خلاف قلفی کھانے کے لئے مان گیا تھا۔ سمجھا، بلا ٹلی۔ میں نے سوچا، کہیں کوئی اور چھابڑی والا نہ آ جائے۔ سو، میں کپڑے پہن کر کڑکتی دھوپ میں باہر نکل گیا اور سڑکوں پر وقت کا قتل کرتا رہا۔ قیمتی وقت کو، میں ایک ٹکے کے مطالبے سے بچنے کے لئے ضائع کرتا رہا تھا۔

میں اپنے مالک سے کیوں نہیں کہتا کہ میرا اتنے میں گزارا نہیں ہوتا۔ پر سنے گا کون؟ اکیلے شخص کی آواز چاہے کتنی ہی اونچی کیوں نہ ہو، سنی نہیں جاتی۔ ضرورت مند اکٹھے ہو نہیں سکتے۔ اگر ہو جائیں تو انہیں اکٹھا رہنے نہیں دیا جاتا، تاکہ سب مل کر مطالبہ نہ کریں۔ مطالبہ کرنے پر کئی بار نوکری سے جواب مل جاتا ہے۔ میں ڈر گیا۔ بے روزگاری کے بھیانک مستقبل نے مجھے ہلا دیا۔ بزدلوں کی مانند میں ہمیشہ چپ رہا تھا اور اب بھی چپ رہنے کا ہی میں نے فیصلہ کیا۔

شام کو یہ سمجھ کر کہ بیٹا جلدی سو جاتا ہے، میں دبے پاؤں گھر پہنچا۔ آواز نہیں لگائی، فقط کنڈا ہی کھٹکھٹایا۔ اوپر سے آواز آئی، ’’دا جی، آلہا ہوں۔‘‘ اور کچھ ہی دیر میں بیٹے نے آ کر دروازہ کھولا۔

’’دا جی، قلفی کھانے جاؤ گے؟‘‘ اس نے امید بھری آواز میں پوچھا۔

’’اوپر چل، اوپر۔‘‘ میں نے کہا۔

بیٹا مایوس ہو کر آگے آگے چل پڑا۔ چارپائی پر بیٹھ کر بیٹے کو گود میں لے کر میں نے پیار سے کہا، ’’اب تو رات ہو گئی ہے، قلفی کل کھائیں گے۔‘‘

امید کے برخلاف بیٹا خاموش رہا۔ کتنی ہی دیر آسمان کی سمت دیکھتا، کچھ سوچتا رہا۔ پھر بولا، ’’دا جی۔۔ ۔ تالے (تارے ) لوپے (روپے ) ہوتے ہیں نہ، بلا(بڑا) بھائی کہتا تھا، تالے لوپے ہوتے ہیں، تو دا جی سالے (سارے ) لوپے ہمالے کوٹھے پہ کیوں نہیں گل پڑتے؟‘‘

میں نے یہ کہہ کر کہ ’’تارے روپے نہیں ہوتے‘‘ گویا اس کی جنت کو ڈھا دیا۔ وہ چارپائی پر لیٹ گیا اور آسمان کی طرف دیکھتے دیکھتے آخر سو ہی گیا۔

دوسرے دن کام پر میں اپنے ساتھیوں سے کچھ مانگنے کی کوشش کرتا رہا، پر ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ مانگنا بہت ہی کٹھن کام ہے۔ موت جتنا کرب ہوتا ہے مانگنے میں۔

آخر ایک ساتھی سے میں نے تین روپے لے ہی لئے۔ جب گھر آیا تو بیٹا دوپہر کی نیند لے رہا تھا۔ روٹی کھلاتے وقت بیوی نے تین روپے جھٹک لئے۔ آدھا من لکڑیاں، شام کی سبزی، نمک، تیل وغیرہ میں بیٹے کے جاگنے سے پہلے تین روپے ختم ہو گئے۔ میں نے کہا کہ بیٹے کو قلفی کھلانی ہے، لیکن اس نے کہہ دیا، ’’اسے بڑا یاد رہتا ہے۔ میں ٹکا دے دوں گی مرمرے کے لئے۔‘‘

بیٹے نے جاگتے ہی قلفی مانگی۔ چیخ پکار مچ گئی۔ کل والا مرمرا اور ٹکا منظور نہیں تھا۔ آخر شام کو قلفی کھلانے کا وعدہ کر کے چھٹکارا پایا اور بیٹے نے ٹکا مجھ سے جمع کروا دیا۔ شام سے پہلے ہی میں کسی سے ملنے کا بہانہ کر کے باہر نکل گیا اور پھر دیر رات گھر میں گھسا۔ بیٹے کو سویا دیکھ میں نے سکون کی سانس لی۔ روٹی کھلاتے ہوئے بیوی نے بتایا کہ بیٹا بہت دیر تک میرا انتظار کرتا رہا تھا۔ میں بیٹے کے پاس لیٹ کر بہت بے چین رہا۔ نیند آ ہی نہیں رہی تھی، لیکن آخر پتہ نہیں کب آ گئی۔ نیند تو کہتے ہیں کہ کانٹوں پر بھی آ جاتی ہے۔

آدھی رات کے بعد کا وقت تھا۔ بیٹا سویا ہوا کچھ بے چین محسوس ہوتا تھا۔ اس نے دو تین بار پیٹ پر ٹانگیں ماری تھیں۔ اب اس نے ہاتھ الٹا کر میرے منہ پر مارا۔ جاگ تو میں پہلے ہی رہا تھا، اب ہوشیار ہو گیا۔ بیٹا کچھ بڑبڑایا۔ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ پھر وہ زور زور سے بڑبڑایا، ’’قلفی۔۔ ۔ قلفی دا۔۔ ۔ جی، کلفی۔‘‘ میں دہل گیا۔ ’’جاگ رہے ہو۔‘‘ بیوی نے پوچھا اور یہ جان کر کہ میں جاگ رہا ہوں، اس نے بات جاری رکھی، ’’کمبخت، سوئے سوئے بھی قلفی مانگتا ہے۔‘‘ میرے اوپر جیسے بجلی گر پڑی تھی۔ میں چپ رہا اور بیٹا بھی چپ ہو گیا۔

صبح اٹھ کر بیٹے نے قلفی کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ میرے کام سے لوٹ کر آنے پر بھی اس نے مجھ سے کچھ نہیں مانگا۔ روٹی کھا کر میں دوپہر کی نیند لینے کے لئے لیٹ گیا، اسی چبھنے والی چٹائی پر اور ادھار نہ لے سکنے کی ناکامی پر جھنجھلاتا رہا۔

پھر مجھے نیند آ گئی۔ میں ابھی خماری میں ہی تھا کہ گلی میں کسی قلفی والے نے آواز لگائی، ’’ٹھنڈی قلفی! مزیدار کلفی!‘‘ میں جاگ گیا۔ بیٹا میرے قریب ربڑ کی پھٹی ہوئی بطخ سے کھیل رہا تھا۔ دوسری آواز پر اس کے کان کھڑے ہو گئے۔ بطخ کو پھینک کر وہ دوڑ پڑا۔ دروازے کے پاس جا کر وہ کھڑے ہو کر باہر دیکھنے لگا۔ میں نے سوچا، اب وہ مجھے جگانے آئے گا، لیکن وہ وہیں کھڑا رہا۔ پھر وہ باہر کی جانب چل دیا۔ میں چپ چاپ اٹھ کر دروازے کی اوٹ میں جا کھڑا ہوا۔ قلفی والا سامنے شاہ جی کے لڑکے کو قلفی نکال کر دینے کے کام میں مصروف تھا۔ یہ لڑکا گلی کا طاقتور لڑکا تھا اور اپنے سے چھوٹے لڑکوں کو ہمیشہ پیٹا کرتا تھا۔ یہ کوئی آٹھ برس کا تھا اور ہمارے بیٹے سے قریب تین سال بڑا تھا۔ میرا بیٹا سپاہیوں کی طرح ٹانگیں پھیلائے کمر کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ قلفی کی طرف وہ غور سے دیکھ رہا تھا۔ لیکن اس نے قلفی والے سے قلفی نہیں مانگی تھی۔ جیسے ہی قلفی والے نے شاہ کے لڑکے کے ہاتھ میں قلفی کی پلیٹ رکھی، میرا بیٹا جھپٹ کر اس پر جا پڑا۔ وہ گری پلیٹ، وہ گئی قلفی، فالودہ اور چمچ اور نالی میں گرا شاہ کا لڑکا۔ کسی فاتح کی طرح میرا بیٹا اس کی طرف دیکھتا رہا۔ شاہ کا لڑکا غصے میں اٹھا، قلفی کا ہوا نقصان اور اپنی بے عزتی جیسے اس میں نیا جوش بھر رہی تھی۔ جیسے ہی وہ اٹھا، میرے بیٹے نے پھر اس کو ایسی ٹھوکر ماری کہ وہ پھر موری میں جا گرا اور چیخنے چلّانے  لگا۔ قلفی والا بیٹے کی سمت چانٹا مارنے کیلئے بڑھا۔ میں نے دوڑ کر بیٹے کو اٹھا لیا۔ قلفی والے نے شاہ کے لڑکے کو اٹھایا۔ شاہنی جو کسی کی شکایت نہیں سنتی تھی، آج ہمارے گھر شکایت کرنے آئی۔ میرے بیٹے کا بدن تپ رہا تھا۔ بیوی نے کہا، ’’آ گیا کمبخت! تو اب شکایتیں بھی لانے لگا؟‘‘ اور مارنے کے لئے اس نے ہاتھ اٹھایا۔ میں نے کہا، ’’کچھ بانٹ پگلی!بزدل باپ کے گھر بہادر بیٹا پیدا ہوا ہے!‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

بھابھی مینا

 

گربخش سنگھ

 

شہر کی ایک گلی میں آمنے سامنے دو گھروں کے درمیان مشکل سے تین ساڑھے تین گز کا فاصلہ ہو گا۔ دو کھڑکیاں بھی پہلی منزل پر آمنے سامنے ہی کھلتی تھیں۔ ایک کھڑکی میں سے سامنے دیوار پر بڑا سا شیشہ ٹنگا ہوا دیکھتا تھا۔ اس کمرے میں باقی چیزیں بھی کم ہی تھیں۔ ایک چارپائی، ایک پیڑھا، ایک جانب دو چار کتابیں، تیل کی شیشی، دیوار پر ایک دو تصویریں اور ٹوکری میں دوچار کپڑے۔

یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ اس میں سوائے ایک عورت کے کوئی دوسری صورت کم ہی دکھائی دیتی تھی۔ وہ کبھی کشیدہ کاری کرتی، کبھی کتاب پڑھتی، کبھی سر جھکائے بیٹھی رہتی اور کبھی شیشے کے سامنے کھڑی ہو کر کتنی ہی دیر تک بالوں میں کنگھی کرتی۔ وہ دن میں کئی بار کنگھی کیا کرتی تھی۔ گھر والوں کا خیال تھا کہ وہ کنگھی کے پیچھے دیوانی ہے۔

اس کے بال لمبے بھی بہت تھے۔ جب وہ گردن گھما کر بالوں کی لمبائی دیکھتی تو اسے اپنے بال ٹخنوں کو چھوتے دکھائی دیتے تھے۔ اور اگر کسی نے اجالے میں دیکھے ہوتے تو ان کی چمک کو وہ بھول نہ پاتا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسے اپنے بالوں پر بڑا ناز تھا۔

وہ جوان تھی، بے حد خوبصورت اور لمبی۔ اس کی آنکھوں کا رنگ سامنے والی کھڑکی میں سے نہیں دیکھا جا سکتا تھا، لیکن اس کی شبیہ بڑی میٹھی اور اداس تھی۔

وہ کتنی کتنی دیر تک اپنی کھڑکی میں بیٹھی آنسو بہاتی رہتی۔ اسے کبھی کسی نے کھڑکی میں سے باہر سر نکال کر جھانکتے نہیں دیکھا تھا۔ لیکن گلی کی عورتوں کو اس کے بیٹھے ہونے کا احساس ضرور ہوتا تھا اور کبھی کوئی وہاں سے گزرتے ہوئے اسے آواز بھی دے لیتی تھی۔ اور وہ بڑے میٹھے لہجے میں ذرا جھک کر جواب دے دیتی تھی۔

جب وہ کمرے میں نہیں ہوتی تھی تو کھڑکی بند ہو جاتی تھی۔ مگر جاڑوں میں تیسرے پہر اور گرمیوں میں قریب بارہ بجے اس کی کھڑکی لازمی کھلتی تھی۔ اس وقت وہ کھڑکی میں تھوڑا سا گھوم کر بیٹھی ہوتی اور کبھی کبھی گلی میں جھانک بھی لیا کرتی۔

اس وقت، ایک لڑکا جو دیکھنے میں بچہ سا ہی لگتا تھا، بستہ اٹھائے گلی کے موڑ سے آتا دکھائی دیتا۔ وہ سب کام چھوڑ کر کھڑکی کی جھریوں میں سے ادھر تاکتی رہتی۔ وہ لڑکا بھی کبھی کبھی اوپر دیکھتا اور پھر اپنے گھر میں گھس جاتا۔ لڑکے کے سیڑھیاں چڑھنے کی کھٹ کھٹ عورت کے کانوں میں سنائی دیتی۔ وہ کبھی اس گھر میں نہیں گئی تھی، لیکن اسے گھر کے زینے کی سیڑھیوں کی تعداد یاد تھی۔ ہر سیڑھی پر پڑتے قدموں کو ان کی آواز کے ساتھ اس نے کئی بار اپنی چھاتی سے دبایا تھا۔

دوسرے کے گھر میں کوئی دروازہ کھلتا، وہ بغیر دیکھتے جان لیتی کہ سامنے والی بیٹھک میں کوئی آیا ہے۔

بستہ ایک طرف رکھ کر وہ لڑکا کچھ دیر کے لئے اپنی کھڑکی کھول کر سامنے والی کھڑکی کی جانب دیکھتا۔ عورت ادھر نہیں دیکھتی تھی، تاہم اسے معلوم رہتا تھا کہ اس کی طرف وہ آنکھیں لگی ہوئی ہیں جس کی راہ وہ روز دیکھا کرتی تھی۔ اور اگر کسی دن اسے اسکول سے لوٹنے میں دیر ہو جاتی تھی تو وہ آتے ہوئے لڑکوں سے پوچھنا چاہتی تھی، ’’کاکا، کیوں نہیں آیا؟‘‘ لیکن پوچھا اس نے کبھی نہیں تھا۔

کاکا آتا اور بیٹھک کا دروازہ بند کر کے کوٹھے پر چڑھ جاتا۔

اسی طرح بہت سا وقت گزر گیا۔ کاکا اب تیرہ برس کا ہو رہا تھا۔ سامنے والی کھڑکی میں اب اسے کچھ زیادہ ہی لطف آنے لگا تھا۔ ایک دن اس نے ماں سے پوچھا، ’’ہمارے گھر سبھی آتے ہیں، لیکن سامنے والے گھر سے کبھی کوئی کیوں نہیں آتا؟‘‘

’’کاکا، ہماری گلی میں یہی اکیلا جینیوں کا گھر ہے۔ یہ لوگ گوشت سے بہت پرہیز کرتے ہیں، اس لئے یہ سکھّوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔‘‘

’’لیکن ماں، ہم تو گوشت نہیں کھاتے۔‘‘

’’یہ سمجھتے ہیں کہ سارے سکھ گوشت کھاتے ہیں۔‘‘

’’تو کیا یہ لوگ گھر سے بھی باہر نہیں نکلتے؟‘‘

’’نکلتے ہیں، لیکن یہ بڑا غمزدہ گھر ہے۔ موت نے اس گھر کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایک ہی بیٹا بچا تھا، اس کی شادی کی، لیکن دو ہی سالوں میں وہ بھی مر گیا۔ مرنے کے بعد ایک بچہ ہوا، وہ بھی سال بھر زندہ نہ رہ سکا۔ اب تینوں بیوہ عورتیں رونے دھونے کو رہ گئی ہیں۔‘‘

’’وہ بچہ کس کا تھا؟‘‘

’’مینا کا، جسے تم نے کئی بار کھڑکی میں بیٹھے دیکھا ہو گا۔‘‘

’’ماں، وہ ہر وقت کھڑکی میں کیوں بیٹھی رہتی ہے؟‘‘

’’یہ لوگ جوان بیواؤں کی بڑی رکھوالی کرتے ہیں۔ اور اس گھر میں کام بھی زیادہ نہیں ہے۔‘‘

’’رکھوالی کیوں کرتے ہیں؟‘‘

’’یوں ہی، کسی کے ساتھ گھر کی کوئی بات کر بیٹھیں گی۔ خوش جو نہیں رہتیں۔‘‘

’’ماں، ہمارے گھر جتنی عورتیں آتی ہیں، کسی کو آپ کہتی ہیں کہ چاچی کہوں، کسی کو موسی، کسی کو بوا کہوں۔ اگر وہ کبھی مجھے ملے تو میں اسے کیا کہ کر بلاؤں؟‘‘

’’کون؟ مینا؟‘‘

’’ہاں، جو کھڑکی میں بیٹھی رہتی ہے۔‘‘

’’یہ تمہاری بھابھی ہے۔ اس کا گھر والا، گلی کے ناطے تیرا بھائی لگتا تھا۔ بڑا اچھا لڑکا تھا۔‘‘

’’یہ مینا کس طرح کا نام ہوا؟‘‘

’’تجھے اچھا نہیں لگا؟‘‘

’’نہیں، بڑا اچھا لگا ہے۔ لیکن اس سے پہلے میں نے کبھی اس طرح کا نام نہیں سنا۔ مینا وہی ہوتی ہے نہ، جو ماما جی کے گھر پنجرے میں بیٹھی بہت پیاری باتیں کرتی ہے؟ طوطا اتنا اچھا نہیں بولتا۔‘‘

’’ہاں، وہی۔‘‘

’’ماں، مجھے ایک مینا لے دو گی؟‘‘

’’کاکا، تو اپنے ماما سے ہی کہنا۔‘‘

………

کچھ دنوں بعد کا کے کی بیٹھک میں ایک پنجرہ ٹنگا ہوا تھا۔ جب وہ چھت پر جاتا تو اس پنجرے کو بھی ساتھ لے جاتا۔

اپنی مینا کو کا کے نے سکھلایا، ’’بھابھی مینا کھڑکی میں بیٹھی ہے۔‘‘

کھڑکی والی مینا نے کا کے کے ساتھ بات نہیں کی تھی، لیکن اسے بڑا اچھا لگتا تھا جب پنجرے والی مینا کہتی تھی ’’بھابھی مینا کھڑکی میں بیٹھی ہے۔‘‘

جاڑے کی راتوں میں بھابھی مینا اپنے کمرے میں سوتی تھی۔ امتحان نزدیک ہونے کی وجہ سے کاکا بھی کچھ دنوں سے بیٹھک میں سونے لگ گیا تھا۔ بھابھی مینا کو کئی بار سوئے ہوئے کا کے کی سانسوں کی آواز سنائی دیتی تھی۔ وہ بستر سے اٹھ کر بہت دیر تک اس آواز کو سنتی رہتی تھی۔

اس کی عمر اب پچیس برس کی ہونے لگی تھی۔ کاکا ابھی پورے تیرہ برس کا بھی نہیں ہوا تھا۔ وہ من ہی من میں کہتی تھی، ’’کاش! کبھی مجھے اس بچے کے ساتھ بولنے کی آزادی ہو، جب وہ اسکول سے لوٹ رہا ہو، اس وقت میں کھڑکی میں سے جھانک کر اسے دیکھ سکوں، اس کے ساتھ باتیں کر سکوں! اور اگر وہ بیمار پڑے تو میں اس کے گھر جا کر اس کی چارپائی پر بیٹھ سکوں۔ بیماری میں بھلا کسی کو کسی خرابی کا کیا ڈر ہو سکتا ہے!‘‘

پھر خود ہی کہتی، ’’مجھے اتنی آزادی کون دینے والا ہے؟ میں تو اسی کمرے میں بوڑھی ہو جاؤں گی، میرے بال میری ساس کے بالوں کی طرح اڑ جائیں گے۔۔ ۔ کا کے کا بیاہ ہو جائے گا۔۔ ۔ یہ کھڑکی پھر اس طرح کھلی نہیں رہے گی۔۔ ۔ پھر میں کس انتظار میں اس اندھیری زندگی کے لمبے دن اور لمبی راتیں کاٹا کروں گی؟‘‘

یہ سب سوچتے سوچتے اس کا دل بیٹھنے لگا۔ وہ بستر پر سے اٹھ کر کھڑکی میں چلی گئی۔ چاندنی رات تھی۔ کھلی کھڑکی میں سے ہلکی ہلکی چاندنی کا کے کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ کاکا گہری نیند میں سویا ہوا تھا۔ وہ تیز تیز سانسیں لے رہا تھا۔ مینا کے دل میں ایک ابال سا اٹھا۔ اسے دو گھروں کا درمیانی فاصلہ بہت کم لگا۔ کتنا اچھا ہو اگر وہ دونوں کھڑکیوں کے بیچ چارپائی ڈال کر پل بنا لے۔ وہ سوچنے لگی کاش! وہ کا کے کے پاس چلی جائے۔ وہ اسے جگائے گی نہیں، اس کا چہرہ دور سے ہی چوم کر اپنے کمرے میں لوٹ آئے گی۔

لیکن نہ تو وہ فاصلہ اتنا کم تھا اور نہ ہی چاہت جتنی ہمت اس کے اندر تھی۔ وہ چارپائی پر آ کر لیٹ گئی۔ کچھ دیر بعد کا کے کی بیٹھک میں سے آواز آئی، ’’بھابھی مینا!‘‘ وہ چونک کر پھر اٹھی۔ لیکن وہ تو پنجرے کی مینا کی آواز تھی۔ کاکا اسی طرح سویا پڑا تھا۔

اسی وقت مینا کی ساس شاید پیشاب کے لئے اٹھی تھی۔ اسے مینا کے کمرے میں سے کھٹر پٹر سنائی دی۔ ساتھ ہی اسے ’’بھابھی مینا‘‘ کی آواز کا وہم سا ہوا۔ اس نے مینا کو آواز دی۔ مینا اندر سے فوراً بول پڑی۔

ساس کا شک پکا ہو گیا، ’’تو سوئی نہیں تھی، مینا؟ رات تو آدھی گزر چکی ہے۔‘‘

’’یوں ہی نیند کھل گئی تھی۔‘‘

ساس کمرے میں آ گئی۔ اسے سامنے والی کھڑکی میں کوئی سویا ہوا دکھائی دیا آدمی کا چہرہ!

’’تو کس سے باتیں کر رہی تھی؟‘‘

’’مجھے بھلا کس سے باتیں کرنی تھی۔‘‘

ساس نے فوراً سامنے والی کھڑکی کی سمت دیکھا۔

’’وہ تو سرداروں کا کاکا ہے، گہری نیند میں سو رہا ہے۔‘‘ مینا نے کہا۔

ساس چلی گئی۔ لیکن بیشک کاکا ابھی بچہ تھا اور اپنی عمر سے بھی زیادہ بھولا، پر تھا تو آخر مرد بچہ۔ بیواؤں کا بھلا کیا کام کہ وہ بچوں کی طرف بھی اس طرح دیکھیں۔

مینا اسکول سے لوٹتے کا کے کی جانب دیکھتی ہے۔ کاکا بھی آتے ہی پہلے اوپر کی بیٹھک میں جاتا ہے اور کھڑکی کھلی رکھتا ہے۔ پچھلے سال کی نسبت وہ اس سال کچھ بڑا سا بھی معلوم ہوتا ہے۔

یہ باتیں سننے والی نہیں تھی۔ یہی چھوٹی چھوٹی بدلیاں کئی بار کالی گھٹائیں بن جاتی ہیں۔

آج جب کاکا ا سکول سے لوٹا، مینا کی کھڑکی بند تھی۔ یہ کھڑکی رات میں بھی اب بند رہنے لگی۔ یہ کھڑکی کا کے کی زندگی کا بھی ایک حصہ بنتی جا رہی تھی۔ اس کا جی اب کھیلوں میں بھی اتنا نہیں لگتا تھا۔ ماں سے پوچھنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ اس گھر سے ماں کا کوئی واسطہ نہیں پڑتا تھا۔ بس، شادی بیاہ کے موقعہ پر ہی بھاجی دینے دلانے کے لئے دہلیزیں پھلانگی جاتی تھیں۔

آج اندھیری رات تھی۔ مینا کی کھڑکی میں سے کھٹر پٹر سنائی دی، جیسے کوئی چابیاں بدل بدل کرتا لا کھولنے کی کوشش کر رہا ہو۔ پھر، آہستہ سے کھڑکی کھلی۔ مینا نے اٹھ کر دروازے سے کان لگائے، کہیں کوئی جاگ تو نہیں رہا؟۔۔ ۔۔ گلی میں جھانکا، پھر کا کے کے سانس کی آواز سنی۔ کاکا سو رہا تھا، اس اندھیرے میں کسی کو کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ لیکن مینا کی پیار بھری نگاہیں کا کے کا انگ انگ دیکھ رہی تھیں۔

دوسرے ہی پل اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ کا کے کی چارپائی پر بیٹھی ہو، اس کے کومل بالوں میں انگلیاں پھیر رہی ہو اور اسے جگہ رہی ہو! مینا کے کانوں میں اس کی اپنی ہی آواز سنائی دی، ’’کاکا۔۔ ۔ کاکا۔۔ ۔‘‘

کاکا ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔

مینا کو بڑی شرم آئی۔ اسے اب معلوم ہوا کہ وہ دل میں نہیں منہ سے بول رہی تھی۔ اور کاکا جاگ اٹھا تھا۔ اگر کوئی اور بھی جاگ اٹھا ہو تو؟

کاکا اپنی کھڑکی میں آ بیٹھا۔ وہ بھی محسوس کر رہا تھا کہ کھڑکی کے اندھیرے میں بھابھی مینا بیٹھی تھی۔ اس نے کئی بار چاہا تھا کہ وہ بھابھی مینا کے گلے میں بانہیں ڈال دے۔ جب سے کھڑکی بند رہنے لگی تھی، وہ بے حد اداس رہتا تھا۔

’’بھابھی مینا ۔۔ ۔ بھابھی مینا ۔۔ ۔‘‘

’’ہاں، کاکا، میرا سندر کاکا۔۔ ۔ لیکن ذرا دھیمے۔ میں دھیمی سے دھیمی بات بھی سن لوں گی۔‘‘

’’مجھے بھی آپکی آواز صاف سنائی دے رہی ہے۔ آپ بہت دھیما بولتے ہو۔‘‘

’’ہاں، میرے پیارے کا کے!‘‘

’’آپ اتنے دن کہاں چلے گئے تھے؟‘‘

’’میرا کمرہ حوالات بنا دیا گیا ہے۔ اس کھڑکی کو تالا لگا دیا گیا ہے۔‘‘

’’سو کیوں؟‘‘

’’اس دن تیری مینا نے مجھے آواز دی تھی، میں اٹھ گئی تھی۔ مجھے لگا، تم نے آواز دی ہے۔ میری شامت آئی تھی، میری ساس بھی اسی وقت اٹھ بیٹھی۔ اسے لگا، میں تجھ سے باتیں کر رہی تھی۔‘‘

’’تو پھر کیا ہوا؟ ماں نے بتایا تھا، آپ میری بھابھی ہو۔‘‘

’’کاکا، بہت کچھ ہو گیا۔ پھاٹکوں کو تالے لگ گئے، اس لئے اب میں یہاں سے چلی جاؤں گی۔ اس گھر میں یہ میری آخری رات ہے۔ میں تجھ سے مل کر جانا چاہتی تھی، تم کسی کو بتاؤ گے تو نہیں؟‘‘

’’میں نہیں بتاؤں گا، بھابھی مینا پر، آپ کیوں جا رہے ہو؟ نہ جاؤ۔ میں بڑا ہوؤں گا، میرا بیاہ ہو گا، میں اپنی بیوی کو آپکے پاس بھیجا کروں گا۔ وہ آپ کو بلایا کرے گی۔ آپ اس سے ملنے آیا کرنا۔ پھر کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ آپ نہ جاؤ۔‘‘

’’لیکن کاکا، ابھی تم بہت چھوٹے ہو۔ تمہاری شادی دور ہے۔ اتنے برس اس قید خانے میں کیسے کاٹے جائیں گے جبکہ تیری طرف دیکھنا بھی میرا بند ہو گیا ہے۔‘‘

’’آپ کہاں جائیں گی؟ میں وہاں آپ سے ملنے آؤں گا۔‘‘

’’نہیں کاکا، جہاں میں جا رہی ہوں، وہاں مجھ سے کوئی مرد ذات بات نہیں کر سکے گا۔‘‘

’’آپ وہاں نہ جاؤ۔‘‘

’’میرے لئے اور کوئی راستہ نہیں بچا۔ میں نے پوجنی بننے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘

’’پوجنی کیا ہوتی ہے؟‘‘

’’ایسی عورتیں جن کے سر منڈے ہوتے ہیں، منہ پر پٹیاں بندھی ہوتی ہیں اور پیر ننگے ہوتے ہیں۔‘‘

’’نہ بھابھی مینا ، آپ کبھی ویسی مت بننا۔ مجھے ان سے بہت ڈر لگتا ہے۔ ان کی آنکھوں پر بندھی پٹیاں کچھ اور ہی طرح کی لگتی ہیں۔‘‘

’’کاکا، میرے سامنے کوئی اور راستہ نہیں رہا۔‘‘ اس نے ایک گیند سی بنا کر کھڑکی میں سے اس کی بیٹھک میں پھینکی اور کہا، ’’میری یہ نشانی رکھنا صبح ڈھونڈ لینا۔ اس وقت کھٹر پٹر سن کر کوئی جاگ نہ جائے۔‘‘ اور مینا کی کھڑکی بند ہو گئی۔ کا کے نے تالے میں چابی گھسنے کی آواز سنی۔ تمام رات وہ سو نہیں سکا۔

دوسرے دن جب وہ اسکول سے لوٹا تو اس کی ماں نے بتایا کہ مینا بڑی دکھی تھی۔ روز اس کی ساس اس سے لڑتی تھی اور طعنے دیتی تھی۔ مینا تنگ آ کر گھر سے نکل گئی ہے اور لکھ کر چھوڑ گئی ہے کہ وہ پوجنی بننے جا رہی ہے۔

’’لیکن ماں، وہ یہاں رہ کر پوجنی نہیں بن سکتی تھی؟‘‘

’’نہیں، جسے پوجنی بننا ہو وہ اپنا شہر چھوڑ کر کسی دوسرے شہر کے مندر میں جا کر رہنے لگتی ہے۔ وہ لوگ اس کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ اگر اس کی نیت پر یقین ہو جائے تو اس کی پوری حفاظت کرتے ہیں، اچھا کھانے پہننے کو دیتے ہیں اور کچھ دنوں کے لئے اسے جو چاہے سو کرنے دیتے ہیں۔ پھر اس کا سر مونڈ کر اسے پوجنی بنا دیتے ہیں۔ اس کے بعد نہ وہ اچھا کھا سکتی ہے، نہ اچھا پہن سکتی ہے، نہ ہی مردوں سے بات چیت کر سکتی ہے۔‘‘

’’بھابھی مینا گئی کہاں ہو گی؟‘‘

’’پتہ چل جائے گا۔‘‘

’’اگر وہ کسی نزدیک کے شہر میں ہو گی تو مجھے دکھا لاؤ گے؟‘‘

’’پنڈی میں ان کا بہت بڑا مندر ہے۔ وہاں تیری موسی بھی رہتی ہے۔ اگر وہاں ہو گی تو دو دن کے لئے ہو آنا۔ تمہاری موسی تمہیں دکھا دے گی۔ جب کبھی کوئی پوجنی بنتی ہے، سارے شہر میں بڑی رونق ہوتی ہے۔‘‘

کا کے نے اپنی موسی کو لکھ دیا کہ وہ اس کا پتہ لگائیں۔

دو ہفتوں میں ہی سب کو پتہ چل گیا۔ ساری گلی میں مینا کی ہی باتیں ہو رہی تھیں۔ بڑی اچھی عورت تھی۔ کسی نے اس کا ما تھا تک نہیں دیکھا تھا۔ کتنے خوبصورت بال تھے۔ بالوں کی دیکھ بھال بھی کتنا کرتی تھی۔ اسے رنڈ منڈ کر دیا جائے گا۔ نوچ نوچ کر سارے بال اکھاڑ لئے جائیں گے۔ بیچاری!

کاکا، موسی کے پاس پہنچ گیا۔ اس کی موسی آج مینا کو دیکھ کر آئی تھی۔ اس نے بہت خوبصورت کپڑے پہن رکھے تھے، گہنے بھی۔ یہ گہنے لوگوں نے اسے ادھار میں دیئے تھے۔ وہ لوگ گانا بجانا بھی کروا رہے تھے۔ جب موسی کو یہ معلوم ہوا کہ مینا ، کا کے کی گلی میں ہی رہتی تھی تو اس کی دلچسپی اور زیادہ بڑھ گئی تھی۔ وہ ہر رسم پر جاتی رہی۔ اس نے کا کے کو بتایا کہ مینا کو بڑا روپ چڑھا ہوا تھا۔ کل اسے ڈولی میں بٹھا کر شہر میں گھمایا جائے گا۔ لوگ اس پر پھول برسائیں گے، گلاب جل چھڑکیں گے۔

کاکا اپنی بھابھی کو دیکھنے کے لئے بڑا بیتاب تھا۔ اس نے اسے ہمیشہ ایک ہی پوشاک میں دیکھا تھا۔ وہ ان کپڑوں میں بھی بڑی اچھی لگتی تھی۔ گہنے اس پر کیسے پھبتے ہو نگے؟۔۔ ۔۔ کا کے نے اسے کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ موسی اس کا ذکر کرتے ہوئے بتاتی تھی کہ مینا کی مسکراہٹ بڑی ہی دلربا تھی۔

مینا کا دیا ہوا رومال، اس کی نشانی کا کے کی اندرونی جیب میں تھی۔ اس نے یہ بات کسی کو نہیں بتائی تھی۔ لیکن وہ اس رو مال کو روز دیکھتا تھا۔ اس نے ہندی کے حروف سیکھ لئے تھے کیونکہ رو مال پر مینا نے ہندی میں کڑھائی کی تھی۔ ’’بہت پیارے کا کے کو، اس کی بھابھی کی طرف سے۔۔ ۔‘‘

اس کی موسی نے بتایا کہ اگلے دن دوپہر کے بعد مینا کی ڈولی نکلے گی۔ وہ سب بازاروں میں گھومے گی۔ ہر کوئی اسے دیکھ سکتا ہے۔

کا کے نے دوسرے دن موسی کے باغ میں سے بہت سارے پھول توڑ کر رو مال میں باندھ لئے تھے۔ اور جب ڈولی ان کے چوک کے نزدیک سے گزری تو وہ جان بوجھ کر گھر کے لوگوں سے الگ ہو گیا۔ وہ ڈولی دیکھ کر ہی لوٹنا نہیں چاہتا تھا بلکہ پورے راستے ڈولی کے ساتھ رہنا چاہتا تھا۔

وردی پہنے لوگ باجے بجا رہے تھے۔ جینی لوگ روپے پیسوں کی برسات کر رہے تھے۔ ڈولی میں اس کی بھابھی گہنوں سے لدی بیٹھی تھی۔ بیشک اس کا چہرہ کچھ اور ہی طرح کا لگ رہا تھا لیکن اس میں پہلے والی جھلک بھی تھی۔ اس ہنستے ہوئے چہرے سے کہیں زیادہ کا کے کو اس کی اداس آنکھیں پیاری لگتی تھیں۔ لوگ کہتے تھے کہ اس پوجنی کو بے انتہا روپ چڑھا ہے۔ لیکن اس کروفر میں کا کے کو مینا بھابھی کے وہ پیارے نقش پوری طرح سے دکھائی نہیں دے رہے تھے۔

اسے جب بھی لگتا کہ بھابھی اس کی اور دیکھ رہی ہے، وہ اس پر پھول پھینک دیتا تھا۔ وہ ہاتھ جوڑ دیتی تھی۔ لیکن وہ ہاتھ کا کے کے لئے نہیں تھے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اتنی بڑی بھیڑ میں چھوٹا سا کاکا مینا بھابھی دیکھ بھی کیسے سکتی تھی۔

ایک موڑ مڑتے وقت اچانک ڈولی اس کے بہت قریب آ گئی۔ جب پھولوں کی برسات ہوئی تو مینا نے ہاتھ جوڑ دیئے۔ اسی وقت کاکا پھول برسانے والا تھا۔ تبھی مینا نے اسے پہچان لیا۔ اس کی نیم وا آنکھیں کھل کر چوڑی ہو گئیں۔ اس نے دھیان سے دیکھا۔ پھر ہمت کر کے ڈولی روکنے کے لئے کہا، ’’یہ کاکا ہماری گلی کا ہے۔ مجھ پر پھول پھینکنا چاہتا ہے۔۔ ۔ اس کے ہاتھ ڈولی تک نہیں پہنچ سکتے۔۔ ۔ اسے ایک منٹ کے لئے میرے پاس لا دو۔‘‘

ایک عجب بات تھی یہ۔ لیکن، پوجنی بننے والی کی بات ٹالی نہیں جاتی۔

’’لا کاکا، تیرے یہ پھول میں لے لوں، تو بڑی دور سے آیا ہے، میری گلی کے کا کے۔۔ ۔‘‘

کاکا بہت خوش ہوا کہ بھابھی مینا نے اسے پہچان لیا۔ پاس بلا کر ہاتھوں کی کٹوری بنا کر پھول لے لئے۔ رو مال بھی نہیں لوٹایا، شاید، بھابھی نشانی رکھے گی۔

جلوس مندر پر پہنچ گیا۔ لوگ رخصت ہو گئے۔ مینا اور اس کے ساتھ کی کچھ عورتیں مندر میں چڑھ گئیں۔ سیڑھیوں پر پیر رکھنے سے پہلے مینا نے دیکھا، کاکا سامنے والی ایک دوکان کے تختے پر کھڑا تھا۔

مندر میں بڑے پجاری کے سامنے اسے بٹھا دیا گیا۔

’’کیا تم نے پکا ارادہ کر لیا ہے؟‘‘ بڑے پجاری نے پوچھا۔

’’جی مہاراج، کر لیا ہے۔‘‘

’’تمہیں سارے کپڑے گہنے اتار دینے ہو نگے اور پھر زندگی میں تما نہیں پہن نہیں سکو گی۔‘‘

’’جی مہاراج، مجھے ان کی کوئی چاہت نہیں۔‘‘

’’تم وہی کچھ کھا پی سکو گی جو ہماری رسومات کے مطابق ہو گا۔‘‘

’’جی مہاراج، مجھے اچھے بھوجن کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘

’’مردوں کو چھونا تو دور رہا، ان کا خیال بھی اس دھرم میں خرابی ڈالے گا۔ جسے اس وقت تم چن رہی ہو۔‘‘

مینا نے لمبی سانس لی۔ اسے جیب میں رکھا کا کے کا رو مال کھلتا محسوس ہوا۔ اسے لگا جیسے رو مال کے سرے چھوٹی چھوٹی بانہیں بن کر اس کی کمر کے گرد لپٹ گئے ہیں۔ کچھ سنبھل کر اس نے جواب دیا، ’’ہاں مہاراج، یہ بھی قبول۔۔ ۔‘‘

’’اب تو اس کمرے میں جا کر یہ کپڑے اتار دے۔ جو کپڑے تجھے دیئے جائیں، وہ پہن لے۔ اس کے بعد تجھے اپنے کیش کٹوانے ہو نگے۔ اور اس کے بعد تجھے تیری پوجنی ماتا بتائے گی کہ کس طرح انگلیوں کی پوروں سے ایک ایک بال نوچا جاتا ہے۔‘‘

بالوں کے کاٹنے اکھاڑنے کا ذکر سن کر وہ اپنی آہ نہ روک سکی اور بولی، ’’پوجیہ پتاجی، کیا آپ مجھے بال رکھنے کی آ گیا نہیں دے سکتے؟‘‘

’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ بڑا پجاری بے حد حیران ہو کر بولا۔

’’میں جانتی ہوں، میری یہ مانگ انوکھی ہے۔‘‘ مینا کو ایکا ایک اپنے اندر ایک طاقت سی محسوس ہو رہی تھی، ’’لیکن اگر آپ مان لیں، میں کبھی آپ سے شکایت نہیں کروں گی۔۔ ۔ میرے اندر نہ جانے کون سی گانٹھ ہے۔ میں آپکی ایسی سیوا کروں گی کہ ساری قوم دنگ رہ جائے گی۔ میرے بال نہ کاٹے جائیں۔‘‘

’’لیکن یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ تمہیں پتہ نہیں تھا؟‘‘

’’مجھے پتہ تھا۔ میں بال کٹوا لوں گی۔۔ ۔ لیکن۔۔ ۔ کاٹنے کا وقت ابھی نہیں آیا ہے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ میرے بال زندہ ہیں، یہ میرے پرانوں میں سے اگے ہوئے ہیں۔ جب میں ان میں کنگھی کرتی تھی تو یہ ایک جھٹکے میں ہی میری ٹانگوں کو چھو لیتے تھے۔ ان میں کسی زندہ کا لمس تھا۔ کئی برسوں سے میں نے سوائے ان بالوں کے کسی سے بات تک نہیں کی ہے۔‘‘ پھر وہ ما تھا ٹیک کر بولی، ’’ہے پرم پوجیہ! ایک بار ان ہونی بھی کر کے دیکھ لیجیے۔ آپ کو اپنے فیصلے پر کبھی شرمندگی نہیں ہو گی۔‘‘

بڑے پجاری کا دل پسیج تو گیا، لیکن پوجنی عورت کے سر پر بال دیکھ کر لوگ کیا کہیں گے؟

’’نہیں، تمہاری یہ بات نہیں مانی جائے گی۔‘‘

’’تو پھر، پوجیہ پتا، مجھے پانچ منٹ کا وقت دیجیے تاکہ میں اکیلے میں اپنے دل کو سمجھا لوں۔‘‘ مینا نے دل مضبوط کر کے کہا۔

’’ہاں، جاؤ، سامنے چبوترے پر بیٹھ کر سوچ لو۔‘‘

مینا اٹھی اور دھیمے لیکن مضبوط قدموں سے سامنے والے چبوترے پر جا بیٹھی۔

’’یہ کوئی انوکھی عورت ہے۔ میں نے کئی عورتوں کی یہ رسم ادا کی، لیکن اس عورت کی ہر بات سوچ میں ڈال دیتی ہے۔ اگر یہ پوجنی بن گئی تو بڑی شہرت حاصل کرے گی۔‘‘

’’لیکن یہ چبوترے پر کھڑی کیوں ہو گئی ہے؟‘‘ دوسرے آدمی نے گھبرا کر پوچھا۔

بڑے پجاری نے بھی دیکھا۔ مینا چبوترے پر کھڑی ہو گئی تھی۔ اس نے اپنی انگلیاں جوڑے میں پھیریں، جوڑا کھل گیا، بال کمر سے نیچے تک گرنے لگے۔ مدھم ہوا کے جھونکوں میں بالوں کی ریشمی زلفیں سرسرا رہی تھیں۔

’’کتنے لمبے۔۔ ۔‘‘

’’اوہ!‘‘ سب اٹھ کر سیڑھیوں کی اور دوڑ پڑے۔ چھجے پر کوئی عورت نہیں کھڑی تھی۔

سب لوگ نیچے پہنچ گئے۔ بازار میں ہاہا کار مچا ہوا تھا۔ ایک لڑکا لہولہان مینا کے سرہانے بیٹھا تھا۔ اس نے بکھرے ہوئے بالوں کو ماتھے پر سے ہٹا کر مانگ سیدھی کر دی تھی۔ کالے بالوں میں جگہ جگہ سندور کی طرح لہو چمک رہا تھا۔ لڑکے کی آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہہ رہے تھے اور وہ نیچے پڑی عورت کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا، آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔

کا کے نے ان آنکھوں کا رنگ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ اس کالی رات جیسی سیاہ تھیں جس رات آخری بار اس نے کا کے کو جگایا تھا۔ لیکن اس رات کی گہرائیوں میں کوئی سورج چھپا ہوا تھا۔ تبھی تو اس رات وہ اندھیرے میں بھی دیکھ سکتی تھی۔

وہ اب بھی اتنی ہی کالی اور اتنی ہی روشن تھیں۔ وہ کھلی ہوئی تھیں۔ لیکن اس وقت ان میں کوئی سورج نہیں تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

خصماں کھانے

 

گرمکھ سنگھ مسافر

 

نیم بیداری کی کیفیت میں دھروپدی نے کہا، نہیں اس کے منہ سے بے سبب ہی نکل گیا ’’خصماں کھانے!‘‘ ہارن کی کرخت آواز سے اس کے کان پھٹنے کو آئے تھے۔ آج تک ہارن کی جتنی بھی آوازیں اس کے کانوں میں پڑی تھیں، یہ سب سے زیادہ کرخت تھی۔

’’گنیشا ٹیکسی والا نہیں، چانن شاہ آئے ہوں گے۔‘‘

اپنے پتی بھگت رام کے منہ سے چانن شاہ کا نام سن کر دھروپدی کچھ شرما سی گئی، ’’ہائے، کہیں شاہ جی نے سن ہی نہ لیا ہو۔‘‘

تین چار روز پہلے منہ اندھیرے گنیش کی ٹیکسی کا ہارن سن کر دھروپدی کے منہ سے نکلا تھا، ’’خصماں کھانوں کو لگتا ہے، رات میں نیند ہی نہیں پڑتی۔‘‘ اس وقت جب بھگت رام نے سمجھایا تھا کہ اس ٹیکسی والے غریب کا چالان ہو گیا ہے، بیچارہ مہاجر ہے، سفارش کے لئے کہہ رہا ہے، تب دھروپدی نے اور بھی اونچی آواز میں کہا تھا، ’’کھائے خصماںنوں۔‘‘ گنیشے نے یہ بات سن لی تھی، پر غرض مند تھا، کیا کہتا؟ آج چانن شاہ کا لحاظ بھگت رام کو دھروپدی کی جھڑک سے بچا گیا تھا۔ کار دروازے کے آگے کھڑی کر چانن شاہ سیدھا بھگت رام کے سونے کے کمرے میں ہی آ گھسا۔ دھروپدی نے سواگت میں ’’آؤ جی‘‘ کہہ کر کرسی آگے کر دی۔

چٹکی بجاتے ہوئے کھڑے کھڑے ہی چانن شاہ نے پوچھا، ’’لالہ جی، تیار ہو؟‘‘

’’جی ہاں، بس دوا کی شیشی لے لوں، لوٹتے ہوئے شاید دیر ہو جائے اور۔۔ ۔‘‘ بھگت رام کی بات بیچ میں ہی کاٹ کر چانن شاہ نے کہا، ’’نہیں جی، ابھی لوٹتے ہیں، نئی کار ہے۔ ڈھائی گھنٹے میں انبالہ، گھنٹہ بھر وہاں اور ڈھائی گھنٹے میں ہی واپس دہلی۔ کل چھ گھنٹوں کی ہی تو بات ہے۔ ابھی چھ بجے ہیں، اگر ہم دس پندرہ منٹ میں چل پڑے تو دوپہر سوا بارہ بجے تک لوٹ آئیں گے۔‘‘

’’نہیں شاہ جی، مہاجر کیمپ میں میرے دو سوا دو گھنٹے کم سے کم ضرور لگ جائیں گے۔‘‘

’’چلو، زیادہ سے زیادہ تین بجے تک سہی، شام ہونے سے پہلے لوٹ ہی آئیں گے۔ اٹھو، جلدی کرو، جتنا جلدی نکلیں گے، اتنا جلدی لوٹیں گے۔‘‘

دھروپدی بولی، ’’اگر دیر ہو جانے کا ڈر ہو یا رات میں وہیں رکنا پڑ سکتا ہو تو کوئی بھاری کپڑا یا بستر ساتھ۔۔ ۔۔‘‘

چانن شاہ نے دھروپدی کو بھی اپنی بات پوری نہ کرنے دی اور بھگت رام کو اس کا ہاتھ پکڑ کر بستر پر سے اٹھا لیا، ’’چلو، کسی چیز کو ساتھ لے جانے کی ضرورت نہیں، ابھی تو لوٹ آنا ہے۔ اگر سردی محسوس کر رہے ہو تو کار میں کمبل رکھا ہے، لپیٹ لو۔ تین بجے تک تمہیں ہر حالت میں گھر پہنچا دیں گے۔‘‘

بڑی تسلی کے ساتھ نئی کار کے نرم گدوں پر آرام سے پیٹھ ٹکا کر بیٹھتے ہوئے بھگت رام نے بیوی سے کہا، ’’کوئی بھی آئے، تین بجے کا وقت دے دینا۔‘‘

چانن شاہ نے بھگت رام کے گھٹنوں پر کمبل پھینکتے ہوئے کہا، ’’بس، تم نے ڈپٹی کمشنر کو شکل بھر دکھانی ہے اور ہمارا کام ہو جائے گا۔ پھر، تم جہاں چاہو، چلے جانا بڑی خوشی سے۔۔ ۔ پیٹرول بہت ہے۔‘‘

لالہ بھگت رام، مہاجرین کے رہنما تھے۔ سویر سے شام تک ان کے پاس ضرورت مند آتے رہتے تھے۔ یہ سب کی باتیں بہت ہمدردی سے سنتے اور ان کے مسائل حل کروانے کی کوشش کرتے۔ دھروپدی کا انداز ویسے تو بڑا شیریں اور دل بڑا ہمدرد تھا، پر سویرے جاگنے سے پہلے اور رات کو سونے کے بعد اگر کوئی ان کا دروازہ کھٹکھٹاتا تو انہیں ان پر کبھی کبھی بڑا غصہ آتا۔

ابھی کار دروازے پر سے ہٹی ہی تھی کہ ایک مہاجر نے لالہ بھگت رام کے بارے میں پوچھا۔ دھروپدی نے جب بتایا کہ وہ چانن شاہ کے ساتھ انبالہ گئے ہیں، وہ بڑبڑاتا ہوا چلا گیا، ’’سرمائے داروں کے ساتھ تو فوراً چل پڑتے ہیں۔ اگر آج میرے ساتھ کسٹوڈیئن کے پاس نہ گئے تو شام کو میرا سامان سڑک پر ہو گا۔‘‘

وہ ابھی گیا ہی تھا کہ کوئی دوسرا آ دھمکا، ’’مجھے قرض تو منظور کروا دیا، لیکن لینے کے لئے ضمانت کون دے؟‘‘

’’میرے تبادلے کے کاغذوں پر آج دستخط ہو جائیں گے۔ مکان مہاجرین سے بھرا پڑا ہے۔ ماں باپ بوڑھے ہیں، گھر والی پورے دنوں سے ہے۔ جہاں تبادلہ ہو رہا ہے، وہاں رہنے کے لئے شامیانے کا بھی انتظام نہیں۔‘‘

’’میں پیشہ ور میں اے ڈی ایم تھا، یہاں کلرکی ملی ہے۔ اس پر سے بھی ہٹانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔‘‘

’’بہن جی، ایک سو ساٹھ بنگلوں کے مالک کو یہاں کسی کوٹھی کے برآمدے میں بھی ٹھکانہ نہ ملے تو بتاؤ کہاں سر چھپائیں۔‘‘

دھروپدی سبھی آنے والوں کے مسائل سنتی رہی اور تین بجے کا وقت دیتی رہی۔

………

نرم اور نازک آبِ رواں کی بوندیں لگاتار ٹپک ٹپک کر پتھر کی سخت چٹانوں پر بھی اپنا مقام بنا لیتی ہیں۔ دھروپدی کے بدن میں تو ایک ماں کا دل ہے۔ ’’پتی گیا، بیٹا گیا، اب عزت بھی جانے والی ہے۔‘‘ ایک پڑو سی مہاجر خاتون کے منہ سے یہ الفاظ سن کر دھروپدی تین بجے آنے کے لئے کہنے ہی لگی تھی کہ اس نے اپنی کہانی شروع کر دی۔ آنکھیں زبان نہیں، پر بے زبان بھی نہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ عورت اپنی درد بھری کہانی اپنی زبان اور دھروپدی کی آنکھوں سے ایک ساتھ ہی سنائی جا رہی ہو۔ اس خود فراموشی میں دھروپدی دیگر آنے والے لوگوں کو تین بجے کا وقت دینا بھی ایک بار تو بھول ہی بیٹھی۔ ایک دوسری عورت جس نے اپنے بے حد گورے بدن کو تار تار ہو چکے میلے کچیلے دوپٹے سے بڑی مشکل سے جیسے تیسے ڈھانکا ہوا تھا، دھروپدی کی جانب آتی دکھائی دی۔ جسم کے اگلے حصے کو ڈھکنے کے لئے اس کا سر اتنا جھکا ہوا تھا کہ وہ سامنے سے آ نے جانے والے کسی شخص کو بھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔ زمین میں نظریں گڑائے وہ دروازے پر پہنچی ہی تھی کہ وہاں اس کے پیٹ کے دائیں حصے سے اپنے خیالوں میں گم کھڑے ایک مہاجر کا سر اچانک ٹکرایا اور وہ عورت وہیں دھڑام سے گر پڑی۔ گرنے کی آواز سے ہی دھروپدی کو اس عورت کے بارے میں پتہ چلا۔ ایک دوسری عورت کی مدد سے دھروپدی نے اس کو اٹھایا اور باہر کے کمرے میں بچھی گندی سی دری پر لٹا دیا، جو لوگوں کی جوتیوں چپلوں کے سبب دھول سے بھری ہوئی تھی۔ کمرے میں بیٹھے دوسرے سبھی لوگوں کو دھروپدی نے تین بجے آنا کہہ کر اٹھا دیا تھا۔ گرنے والی عورت کی بیہوشی کو دیکھ کر دھروپدی کے حواس گم ہو گئے۔ پسینہ پسینہ ہوئی وہ بے انتہا گھبرا گئی۔ پہلے سے بیٹھی دوسری مہاجر عورت نے اٹھ کر دروازہ اندر سے بند کر دیا تھا۔ گھبرائی ہوئی دھروپدی نے دروازے کے پھانک سے باہر جھانکا ہی تھا کہ ہارن کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ ارے! تین بج گئے؟۔۔ ۔۔ اوہ! یہ تو گنیشا ہے، خصماں کھانا! پچھلے لفظ دھروپدی کے منہ سے بے اختیار ہی نکل گئے تھے۔ وہ دل ہی دل میں سوچ میں پڑ گئی۔ تبھی، اس نے گنیشا کو اشارہ کر کے بلایا۔ اسے کوئی کام بتانے میں دھروپدی کو ہچکچاہٹ ہو رہی تھی، لیکن مجبوری تھی۔

’’کرول باغ گردوارہ روڈ پر لیڈی ڈاکٹر کرتار کور کا نام پوچھ لینا۔‘‘

گنیشا ساری دہلی سے واقف ہو چکا تھا، دھروپدی کے منہ سے نکلے الفاظ سنتے ہی وہ ٹیکسی لے کر چل دیا۔ کچھ ہی دیر بعد واپس لوٹ کر دروازے کے سامنے اس نے زور سے ہارن بجایا، لیکن دھروپدی کے کان اس وقت فقط مہاجر عورت کی درد بھری ’’ہائے ہائے‘‘ اور نئی آئی زندگی کے رونے کی آواز سننے میں ہی مصروف تھے۔ لیڈی ڈاکٹر کو دیکھ کر دھروپدی نے چین کی سانس لی۔ زچہ کی حالت دیکھنے کے بعد ڈاکٹر نے دھروپدی کی تعریف کی۔

’’ٹیکسی والے کے چلے جانے کے بعد مجھے خیال آیا، نہیں تو ٹیلیفون ہی کروا دیتی۔ آپ نے ایک بار نوٹ کروایا تھا۔‘‘

دھروپدی کی بات سن کر لیڈی ڈاکٹر نے کہا، ’’ہاں، وہ گھمنڈا سنگھ کا نمبر ہے۔ پر اب تو وہ سندیسہ نہیں پہنچاتے۔ پیسے والے آدمی ہیں۔ ہاں، اگر اپنے کسی تعلق والے یا ملنے جلنے والوں کا ہو تو فوراً آدمی بھیج دیتے ہیں۔‘‘

’’خصماں کھانے! پیسوں کا اتنا گھمنڈ!‘‘ دھروپدی کی ہمدردی دیکھ کر لیڈی ڈاکٹر نے زچہ کا نام پتہ پوچھا۔

’’اس کا نام پتہ تو ابھی ہم نے پوچھا ہی نہیں، تھوڑا ٹھیک ہو لے پہلے۔‘‘

’’یہ بھی اچھا ہی ہوا۔ کہیں سڑک پر ہی بیچاری۔۔ ۔۔‘‘

’’اچھا بہن دھروپدی، میں نے تو اپنا رونا تمہارے آگے رونے کو آنا تھا۔ لالہ جی کہاں ہیں؟‘‘

’’کیوں؟ کیا بات ہے؟ وہ انبالہ تک گئے ہیں، بس اب لوٹنے ہی والے ہیں۔‘‘

’’بات کیا بتاؤں بہن جی، جس گیراج میں میں کام کرتی ہوں، آپ کو تو معلوم ہی ہے، دو ہزار خرچ کر کے میں نے پارٹیشن کروایا۔ دن میں کام کرتی ہوں، رات میں وہیں کاؤچ پر سو جاتی ہوں۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ میرے والا گیراج بخشی خوشحال چند ایڈووکیٹ نے اپنے نام الاٹ کروا لیا ہے۔‘‘

دھروپدی نے تعجب کا اظہار کیا اور انہیں کوسا، ’’خصماں کھانے!‘‘

’’ہاں بہن دھروپدی، مجھے تو مارے فکر کے رات میں نیند بھی نہیں آتی۔‘‘

…………

تین بج گئے، ساڑھے تین، چار، پھر پانچ۔ لالہ بھگت رام کے مکان کے سامنے مہاجرین کی بھیڑ لگی ہوئی تھی، لیکن وہ ابھی تک انبالے سے نہیں لوٹے تھے۔

’’چانن شاہ کے گھر فون کر کے ہی معلوم کرو۔‘‘ دھروپدی کے کہنے پر اس کے چھوٹے بیٹے نے ٹیلیفون کی کتاب دیکھ کر کہا، ’’ان کے گھر میں تو ٹیلیفون ہے ہی نہیں۔‘‘

’’نہیں، ہے۔ لالہ جی نے ابھی کچھ روز پہلے ہی کوشش کر کے لگوا کر دیا ہے۔‘‘

دھروپدی کی بات سن کر ایک مہاجر بولا، ’’لالہ جی بھی دوڑ کر پیسوں والوں کا ہی کام کرتے ہیں۔‘‘

’’خصماں کھانے، غلطی نکالنے آ جاتے ہیں۔ پیسے کے بغیر کوئی کام چلتا ہے۔ اب، چانن شاہ، لالہ جی کو اپنی کار میں بیٹھا کر انبالہ لے گئے ہیں۔ کام بیشک ان کا اپنا بھی تھا پر لالہ جی نے مہاجرین کی خبر لینے بھی جانا تھا۔ کار میں آرام سے چلے گئے ہیں، آرام سے آ جائیں گے۔‘‘ بات کرتے کرتے ہی دھروپدی نے اپنے بیٹے کو پھر آواز دی، ’’ٹیلیفون پر دفتر سے پوچھ کر لالہ چانن شاہ کا نمبر معلوم کر لو۔‘‘

’’کہاں سے بولتے ہو جی؟‘‘

’’لالہ چانن شاہ کی کوٹھی سے۔‘‘

’’شاہ جی انبالہ گئے تھے۔‘‘

’’آ گئے ہیں۔‘‘

’’انہیں ذرا ٹیلیفون دو۔‘‘

’’آپ تھوڑی دیر بعد ٹیلیفون کرنا، اس وقت وہ باہر باغیچے میں بیٹھے ہیں، کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں، پارٹی چل رہی ہے۔‘‘

’’اچھا، ان سے پتہ کر دو، لالہ بھگت رام جی ان کے ساتھ گئے تھے، وہ کہاں ہیں؟‘‘

’’آپ کون بول رہے ہیں؟‘‘

’’دھروپدی، لالہ جی کے گھر سے۔‘‘

’’اچھا، ایک دو منٹ انتظار کرو یا پھر اپنا نمبر بتا دو۔‘‘

دھروپدی نے اپنا نمبر بتا دیا۔ وہ ابھی لیڈی ڈاکٹر کرتار کور سے بات کرنے ہی جا رہی تھی کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بج اٹھی۔

’’ہیلو۔۔ ۔‘‘

’’ہاں، جی۔۔ ۔‘‘

’’شاہ جی کہہ رہے ہیں کہ لالہ جی ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی سے ہی تانگہ لے کر ریفیوجی کیمپ چلے گئے تھے۔ کار میں پیٹرول کم تھا اور شاہ جی نے اپنے ایک دو کام اور کرنے تھے۔ شاہ جی نے لالہ جی کو ریفیوجی کیمپ سے ساتھ لینا تھا، تاہم دوسرے ضروری کاموں میں انہیں دیر ہو گئی۔ یہاں گھر پر کچھ لوگ چائے پر بلائے ہوئے تھے۔ اگر کیمپ میں لالہ جی کو ڈھونڈنے چلے جاتے تو دیر ہو سکتی تھی، اس لئے وہ واپس آ۔۔ ۔۔‘‘ گئے، ابھی بولنے والے کے لبوں میں ہی تھا کہ دھروپدی نے ’’خصما کھانے!‘‘ کہہ کر زور سے رییور پٹخ دیا۔ بات سب کو معلوم ہو گئی تو سب لوگ اپنے اپنے گھر کو لوٹ گئے۔

………

رات کا سناٹا جیسے جیسے گہرا ہوتا جاتا، دھروپدی کی بے چینی بڑھتی جاتی تھی۔ سڑک سے گزر نے والی کسی بھی موٹر کی آواز اسے اپنے آنگن میں سنائی دیتی، وہ فوراً اٹھ کر دروازہ کھولتی، لیکن موٹر آگے بڑھ کر غائب ہو جاتی۔ زچہ اور بچے کی دیکھ بھال دھروپدی کے جاگنے کا اچھا بہانہ تھی، لیکن ویسے بھی آج اس کی آنکھوں میں نیند نہیں تھی۔

’’پوہ مہینے کی رات، کوئی بستر، بھاری کپڑا بھی نہیں لے کر گئے، دوا کے بغیر تو انہیں نیند بھی نہیں آتی۔‘‘ اٹھتے، بیٹھتے زچہ کا کپڑا لتا ٹھیک کرتے کراتے، موٹر کی آوازوں کے دھوکے میں بار بار باہر جھانکتے تاکتے، انگیٹھی کی آگ کو اوپر نیچے کرتے دھروپدی کو سویرا ہو گیا۔ آخر کل کی طرح، منہ اندھیرے ایک موٹر اس کے دروازے کے آگے آ کھڑی ہوئی۔ اس کا ہارن بھی بے حد کرخت تھا، لیکن دھروپدی کے کانوں کو یہ سویرے کے ’’آشا راگ‘‘ کی مانند میٹھا لگا۔

گنیشا نے ٹیکسی کا دروازہ باہر سے کھولا، پتلے سے چیکٹ کمبل کو اوڑھے لالہ بھگت رام جی باہر نکلے۔ دھروپدی دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے کمبل کی موٹائی ناپ رہی تھی اور لالہ جی کہہ رہے تھے، ’’مہاجر بیچارہ رات میں سردی میں مر گیا ہو گا۔ ایک ہی تو کمبل تھا، اس کے پاس جسے اس نے مجھے ریل میں بٹھاتے وقت زبردستی اوڑھا دیا۔‘‘ دھروپدی نے بایاں ہاتھ قمیض کی جیب میں ڈالا، ’’ست سری اکال‘‘ کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ گنیشا کی دور بھاگتی ٹیکسی کو دیکھتے دیکھتے اس کے منہ سے نکلا، ’’ایک اس غریب کو دیکھو اور ایک وہ خصماں کھانے!‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

تاش کی عادت

 

نانک سنگھ

 

’’رحیمے۔۔ ۔!‘‘

شیخ عبدالحمید سب انسپکٹر نے گھر میں داخل ہوتے ہی صدا لگائی ’’بشیرے کو میرے کمرے میں بھیج ذرا۔‘‘ اور تیز قدموں سے اپنے پرائیویٹ کمرے میں پہنچ کر اس نے کوٹ اور پیٹی اتاری اور میز کے آگے جا بیٹھا۔ میز پر بہت سارا سامان بکھرا پڑا تھا۔ ایک کونے میں قانونی اور غیر قانونی موٹی پتلی کتابوں اور کاغذوں سے ٹھنسی ہوئی فائلوں کا ڈھیر پڑا تھا۔ بیچ میں قلمدان اور اس کے آگے ہی آج کی آئی ہوئی ڈاک پڑی تھی، جس میں چھ لفافے، دو تین پوسٹ کارڈ اور ایک دو اخبارات بھی تھے۔ پن کشن، بلاٹنگ پیپر، پیپر ویٹ، ٹیگ کے ساتھ ساتھ اور بہت سا چھوٹا موٹا سامان ادھر ادھر پڑا تھا۔

بیٹھتے ہی شیخ نے دور کی عینک اتار کر میز کے سامنے، جہاں کچھ جگہ خالی تھی، ٹکا دی اور نزدیک کی عینک لگا کر ڈاک دیکھنے لگا۔

انہوں نے ابھی دو لفافے ہی کھولے تھے کہ قریب پانچ ایک سال کا ایک لڑکا اندر آتا دکھائی دیا۔

لڑکا دیکھنے میں بڑا چست، چالاک اور شرارتی سا تھا، پر پتا کے کمرے میں گھستے ہی اس کا انداز اچانک بدل گیا۔ چنچل اور پھر تیلی آنکھیں جھک گئیں۔ جسم میں جیسے جان ہی نہ رہی ہو۔

’’بیٹھ جا، سامنے کرسی پر۔۔ ۔‘‘ ایک لمبی چٹھی پڑھتے ہوئے شیر کی طرح گرج کر شیخ نے حکم دیا۔

لڑکا ڈرتے ڈرتے سامنے بیٹھ گیا۔

’’میری طرف دیکھ۔۔ ۔‘‘ چٹھی پر سے اپنا دھیان ہٹا کر شیخ کڑکا، ’’سنا ہے، تو نے آج تاش کھیلی تھی؟‘‘

’’نہیں ابا جی۔‘‘ لڑکے نے سہمتے ہوئے کہا۔

’’ڈر مت۔‘‘ شیخ نے اپنی عادت کے الٹ کہا، ’’سچ سچ بتا دے، میں تجھے کچھ نہیں کہوں گا۔ میں نے خود تجھے دیکھا تھا، عبداللہ کے لڑکے کے ساتھ۔ ان کے آنگن میں تو کھیل رہا تھا۔ بتا، کھیل رہا تھا کہ نہیں؟‘‘

لڑکا منہ سے کچھ نہ بولا۔ لیکن اثبات میں اس نے سر ہلا دیا۔

’’شاباش!‘‘ شیخ نرمی سے بولا، ’’میں تجھ سے بڑا خوش ہوں کہ آخر تو نے سچ سچ بتا دیا۔ اصل میں بشیر، میں نے خود نہیں دیکھا تھا، سنا تھا۔ یہ تو تجھ سے اقبال کروانے کا طریقہ تھا۔ بہت سارے ملزموں کو ہم اسی طرح بکوا لیتے ہیں۔ خیر، میں تجھے آج کچھ ضروری باتیں سمجھانا چاہتا ہوں۔ ذرا دھیان سے سن۔‘‘

’’دھیان سے سن‘‘ کہنے کے بعد اس نے بشیر کی جانب دیکھا۔ وہ پتا کی عینک اٹھا کر اس کی کمانیاں اوپر نیچے کر رہا تھا۔

عینک لڑکے کے ہاتھ سے لے کر اور ساتھ ہی فائل میں سے وارنٹ کا متن، من ہی من میں پڑھتے ہوئے شیخ نے کہا، ’’تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ ایک گناہ بہت سارے گناہوں کا جنم دیتا ہے۔ اس کی زندہ مثال یہ ہے کہ تاش کھیلنے کے گناہ کو چھپانے کے لئے تجھے جھوٹ بھی بولنا پڑا۔ یعنی ایک کی جگہ تو نے دو گناہ کئے۔‘‘

وارنٹ کو فائل میں نتھی کرتے ہوئے شیخ نے لڑکے کی اور دیکھا۔ بشیر پن کشن میں سے پنیں نکال کر ٹیبل کلاتھ میں چبھا رہا تھا۔

’’میری طرف دھیان دے۔‘‘ اس کے ہاتھوں میں سے پنوں کو چھین کر شیخ ایک اخبار کھول کر دیکھتے ہوئے بولا، ’’تاش بھی ایک قسم کا جوا ہوتا ہے، جوا! یہیں سے بڑھتے بڑھتے جوئے کی عادت پڑ جاتی ہے آدمی کو، سنا تو نے؟ اور یہ عادت نہ فقط اپنے تک ہی محدود رہتی ہے، بلکہ ایک آدمی سے دوسرے کو، دوسرے سے تیسرے کو پڑ جاتی ہے۔ ایسے جیسے خربوزہ، خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔‘‘

قلمدان میں سے انگلی پر سیاہی لگا کر بشیر ایک کورے کاغذ پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچ رہا تھا۔ خربوزے کا نام سنتے ہی اس نے انگلی کو میز کی نچلی سطح سے پونچھ کر پتا کی جانب کچھ اس طرح دیکھا جیسے وہ سچ مچ میں کوئی خربوزہ ہاتھ میں لئے بیٹھا ہو۔

’’بشیر!‘‘ اس کے آگے سے قلمدان اٹھا کر ایک طرف رکھتے ہوئے شیخ چیخ کر بولا، ’’میری بات دھیان سے سن!‘‘

ابھی وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ اسی اثناء میں ٹیلیفون کی گھنٹی بج اٹھی۔ شیخ نے اٹھ کر رسیور اٹھایا، ’’ہیلو! کہاں سے بول رہے ہو؟ بابو پرشوتم داس؟۔۔ ۔۔ آداب عرض! سناؤ، کیا حکم ہے؟۔۔ ۔۔ لاٹری کی ٹکٹیں؟۔۔ ۔۔ وہ میں آج شام پوری کر کے بھیج دوں گا۔۔ ۔ کتنے روپے ہیں پانچ ٹکٹوں کے؟۔۔ ۔۔ پچاس؟۔۔ ۔۔ خیر، پر کبھی نکالی بھی ہیں آج تک۔۔ ۔ قسمت نہ جانے کب جاگے گی۔۔ ۔ اور تم کس مرض کی دوا ہو۔۔ ۔ اچھا آداب!‘‘

رسیور رکھ کر وہ اپنی کرسی پر آ بیٹھا اور بولا، ’’دیکھ! شرارتیں نہ کر۔ پیپر ویٹ نیچے گر کر ٹوٹ جائے گا۔ اسے رکھ دے اور دھیان سے میری بات سن!‘‘

’’ہاں، میں کیا کہہ رہا تھا؟‘‘ ایک فائل کا فیتہ کھولتے ہوئے شیخ نے کہا، ’’تاش کی برائیاں بتا رہا تھا۔ تاش سے جوا، جوئے سے چوری اور چوری کے بعد پتہ نہیں کیا کیا؟‘‘ بشیر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’پھر جیل یعنی قید کی سزا۔‘‘

فائل میں سے باہر نکلے ہوئے ایک پیلے کاغذ میں بشیر پنچ کی مدد سے چھید کر رہا تھا۔

’’نالائق پاجی!‘‘ شیخ اس کے ہاتھوں سے پنچ کھینچتے ہوئے بولا، ’’چھوڑ ان بیکار کے کاموں کو اور میری بات توجہ سے سن! تجھے پتہ ہے، کتنے چوروں کا ہمیں ہر روز چالان کرنا پڑتا ہے؟۔۔ ۔۔ اور یہ سارے تاش کھیل کھیل کر ہی چوری کرنا سیکھتے ہیں۔ اگر یہ قانون کا ڈنڈا ان کے سر پر نہ ہو تو نہ جانے کیا قیامت لا دیں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی شیخ نے میز کے ایک کونے میں پڑی کتاب ’’تعزیرات ہند‘‘ کی سمت اشارہ کیا۔ لیکن بشیر کا دھیان ایک دوسری ہی کتاب کی طرف تھا۔ اس کے اوپر گتے پر سے جلد کا کپڑا تھوڑا سا اترا ہوا تھا، جسے کھینچتے کھینچتے بشیر نے آدھا گتا ننگا کر دیا تھا۔

’’بیوقوف، گدھا!‘‘ کتاب اس کے پاس سے اٹھا کر دور رکھتے ہوئے شیخ بولا، ’’تمہیں جلدیں ادھیڑنے کے لئے بلایا تھا؟ دھیان سے سن!‘‘ اور کچھ سمنوں پر دستخط کرتے ہوئے اس نے پھر سلسلے کو جوڑا، ’’ہم پولیس افسروں کو سرکار جو اتنی تنخواہیں اور پینشنیں دیتی ہے، تجھے پتہ ہے، کیوں دیتی ہے؟ صرف اس لئے کہ ہم ملک میں سے جرم کا خاتمہ کریں۔ لیکن اگر ہمارے ہی بچے تاش جوا کھیلنے لگ جائیں تو دنیا کیا کہے گی؟ اور ہم اپنا نمک کس طرح حلال۔۔ ۔‘‘

بات ابھی پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ پچھلے دروازے سے ان کا ایک اونچا لمبا نوکر اندر آیا۔ یہ سپاہی تھا۔ شیخ ہمیشہ ایسے ہی دو تین وفا دار سپاہی گھر میں رکھا کرتا تھا۔ ان میں سے ایک مویشیوں کو چارہ پانی دینے اور بھینسوں کو دوہنے کے لئے، دوسرا باورچی خانے کے کام میں مدد کرنے کے لئے اور تیسرا جو اندر تھا، یہ اسامیوں سے رقمیں کھری کرنے کے لئے رکھا ہوا تھا۔ اس نے جھک کر سلام کرتے ہوئے کہا، ’’وہ آئے بیٹھے ہیں جی۔‘‘

’’کون؟‘‘

’’وہی بگھی بدمعاش کے آدمی۔۔ ۔ جنہوں نے دسہرے کے میلے میں جوا کھانا لگانے کے لئے عرضی دی تھی۔‘‘

’’پھر تو خود ہی بات کر لیتا۔‘‘

’’میں نے تو انہیں کہہ دیا تھا کہ شیخ جی ڈھائی سو سے کم میں نہیں مانتے، پر۔۔ ۔۔‘‘

’’پھر وہ کیا کہتے ہیں؟‘‘

’’وہ کہتے ہیں، ہم ایک بار خود شیخ جی کی قدم بوسی کرنا چاہتے ہیں۔ اگر تکلیف نہ ہو تو کچھ دیر کے لئے چلے چلیں۔ بہت دیر سے انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

’’اچھا چلو۔‘‘ کہہ کر شیخ جب اٹھنے لگا تو اس نے بشیر کی طرف دیکھا۔ وہ اونگھ رہا تھا۔ اگر وہ فوراً اسے ڈانٹ کر جگا نہ دیتا تو اس کا ما تھا میز سے جا ٹکراتا۔

’’جا، آرام کر جا کر۔‘‘ شیخ کوٹ اور بیلٹ سنبھالتے ہوئے بولا، ’’باقی نصیحتیں تجھے شام کو دوں گا۔ دوبارہ تاش نہ کھیلنا۔‘‘

اور وہ باہر نکل گیا۔ لڑکے نے کھڑے ہو کر ایک دو لمبی جمائیاں لیتے ہوئے بدن کو اینٹھا، آنکھوں کو ملا اور پھر اچھلتا کودتا کمرے سے باہر نکل گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

منیا

 

 امرتا پریتم

 

شام ڈھلنے کو تھی، جب ودیا کے شوہر جے دیو اپنے کام سے واپس آئے اور ودیا نے گھر کا دروازہ کھولتے ہوئے دیکھا کہ ان کے ساتھ ایک عجیب سا آدمی تھا، بہت میلا سا بدن اور گلے میں ایک لمبا سا کرتہ پہنے ہوئے۔

ودیا نے کوئی سوال نہیں کیا، پر کچھ سوال بھری نظروں سے اپنے شوہر کی طرف ضرور دیکھا۔ جے دیو ہلکا سا مسکرا دیئے، پھر ودیا کے بجائے اس آدمی سے کہنے لگے، ’’یہ بی بی جی ہیں، بہت اچھی ہیں، تم دل لگا کر کام کرو گے تو بہت خوش ہوں گی۔‘‘

گھر کے اندر آتے ہوئے، جے دیو نے برآمدے میں پڑی ہوئی ایک چٹائی کی طرف دیکھا اور اس آدمی سے کہنے لگے، ’’تم یہاں بیٹھو، پھر ہاتھ پیر دھو لینا۔‘‘

اور گھر کے بڑے کمرے کی جانب جاتے ہوئے ودیا سے کہنے لگے، ’’تم چاہتی تھیں کہ کام کے لئے کوئی ایسا آدمی ملے، جو کھانا پکانا بھلے ہی نہ جانتا ہو، مگر ایماندار ہو۔‘‘

ودیا نے کچھ گھبرائی سی آواز میں پوچھا، ’’اسے کہاں سے پکڑ لائے ہو؟‘‘

’’آہستہ بولو۔‘‘ انہوں نے کمرے کے دیوان پر بیٹھتے ہوئے کہا اور پوچھا، ’’منو کہاں ہے؟‘‘

’’کھیلنے گیا ہے، اب آتا ہی ہو گا، لیکن یہ آدمی۔۔ ۔‘‘ ودیا ابھی بول ہی رہی تھی کہ جے دیو کہنے لگے۔ ’’منو سے ایک بات کہنی ہے، یہ بہت سیدھا آدمی ہے، لیکن ڈرا ہوا ہے، خاص کر بچوں سے ڈرا ہوا ہے۔ ایک میرے دفتر کے شرما جی ہیں، ان کے پاس تھا۔‘‘

’’وہ اس کی محنت اور خلوص کی تعریف کرتے ہیں، لیکن ان کے بچے ان کے بس کی بات نہیں ہیں، ان کے پانچ بچے ہیں، ایک دم شرارتی، اس کا قد ذرا لمبا ہے، وہ اسے شترمرغ کہہ کر پریشان کرتے تھے۔ شرما جی کی بیوی بھی تیز مزاج کی ہیں۔ یہ کئی بار ان کے گھر سے بھاگ جاتا تھا، لیکن کہیں ٹھکانہ نہیں تھا، وہ ایک بار پھر پکڑ کر اسے لے جاتے تھے۔‘‘

’’لیکن یہ کچھ سیکھ بھی پائے گا؟‘‘ ودیا ابھی بول ہی رہی تھی کہ جے دیو کہنے لگے، ’’اوپر کام تو کرے گا، گھر کی صفائی کرے گا، برتن دھوئے گا۔ صرف منو کو اچھی طرح سمجھا دینا کہ وہ اس سے بدسلوکی نہ کرے۔ پھر دیکھیں گے۔ اب ایک کپ چائے دے دو، اس کو بھی چائے وغیرہ کا پوچھ لینا۔‘‘

ودیا کمرے سے واپس ہوئی، پھر اندر کے چھوٹے کمرے میں جا کر ایک قمیض پاجامہ نکال لائی اور ہاتھ میں صابن کا ایک ٹکڑا اور ایک پرانا سا تولیہ لے کر، باہر چٹائی پر بیٹھے ہوئے اس آدمی سے پوچھنے لگی، ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

اس نے جواب نہیں دیا اور ودیا کچھ دیر خاموش رہ کر کہنے لگی، ’’دیکھو آنگن میں اس دیوار کے پیچھے ایک نل ہے، وہاں جا کر نہا لو، اچھی طرح صابن سے اور یہ کپڑے پہن لو۔‘‘

وہ آدمی سر جھکائے بیٹھا تھا۔ اس نے ایک بار ڈری ڈری سی آنکھوں سے اوپر دیکھا پر اٹھا نہیں اور نہ ہی ودیا کے ہاتھ سے کپڑے لئے۔

اتنے میں جے دیو آ گئے اور بولے، ’’منیا اٹھو، جیسے بی بی جی کہہ رہی ہیں، یہ کپڑے لے لو اور وہاں جا کر نہا لو۔‘‘

پاس کھڑی ودیا مسکرا دی، ’’تمہارا نام تو بہت اچھا ہے، منیا ۔‘‘

منیا نے آہستہ سے اٹھ کر ودیا کے ہاتھ سے کپڑے بھی لے لئے اور صابن اور تولیہ بھی۔ پھر جہاں ان لوگوں نے اشارہ کیا تھا، وہاں آنگن میں بنی ایک چھوٹی سی دیوار کی طرف چل دیا۔

ودیا نے باورچی خانے میں جا کر چائے بنائی، منیا کے لئے ایک کپ چائے وہیں باورچی خانے میں ہی رکھ دی اور باقی چائے دو کپوں میں ڈال کر بڑے کمرے میں چلی گئی۔

اور پھر جب منیا نہا کر قمیض پاجامہ پہن کر باورچی خانے کی طرف آیا۔ تو ودیا نے اسے چائے کا گلاس دیتے ہوئے ایک نظر حیرانی سے اس کی طرف دیکھا اور ہولے سے مسکراتی ہوئی بڑے کمرے میں جا کر جے دیو سے کہنے لگی، ’’ذرا دیکھو تو اسے، آپ پہچان نہیں سکیں گے۔ وہ اچھی خاصی شکل کا ہے اور بھری جوانی میں ہے۔ میں سمجھی تھی، بڑی عمر کا ہو گا۔‘‘

اور کچھ ہی دنوں بعد ودیا مسرت سے اپنے شوہر سے کہنے لگی، ’’بالکل کہنا مانتا ہے، کچھ بولتا نہیں، لیکن دن بھر گھر کی صفائی میں لگا رہتا ہے۔ منو سے تھوڑی تھوڑی باتیں کرنے لگا ہے، وہ اسے اپنی کتابوں سے تصاویر دکھاتا ہے، تو یہ خوش ہو اٹھتا ہے، لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آتی، اکیلے میں بیٹھتا ہے، تو اپنے آپ سے کچھ بولتا رہتا ہے، لگتا ہے، تھوڑا سا پاگل ہے۔‘‘

گھر کی دیوار سے لگا ہوا، ایک نیم کا درخت تھا، منیا جب بھی فارغ ہوتا اس درخت کے نیچے بیٹھ جاتا۔ اس وقت اگر کوئی پاس سے گزرے تو دیکھ سکتا تھا کہ وہ اکیلا بیٹھا آہستہ آہستہ کچھ اس طرح بولتا تھا، جیسے کسی سے بات کر رہا ہو اور وہ بھی کچھ ناراضگی سے۔

ودیا کو اس کا یہ راز پکڑ میں نہیں آ رہا تھا اور ایک دن درخت کے موٹے سے تنے کی اوٹ میں ہو کر ودیا نے سنا، منیا دکھ اور غصے بھرے لہجے میں جانے کس سے کہہ رہا تھا۔ ’’سب کام خود کرتی ہیں، ساگ سبزی کس طرح پکانا ہے، مجھے کچھ نہیں سکھاتیں، آٹا بھی نہیں گوندھنے دیتیں۔‘‘ودیا سے رہا نہیں گیا، وہ زور سے ہنس دی اور درخت کی اوٹ سے باہر آ کر کہنے لگی، ’’منیا تم کھانا پکانا سیکھو گے؟ آؤ میرے ساتھ۔ تُو نے مجھ کیوں نہیں کہا، یہ میری شکایت کس سے کر رہا تھا؟‘‘

منیا شرمندہ سا، نیم سے جھڑتی ہوئی پتیاں بُہارنے لگا۔

منیا اب ساگ سبزی بھی کاٹنے اور پکانے لگا تھا اور بازار سے خرید کر بھی لانے لگا تھا۔ ایک دن بازار سے بھنڈی لانی تھی، منیا بازار گیا تو قریب ایک گھنٹے تک واپس نہیں۔ آیا تو اس کے تھیلے میں بہت چھوٹی چھوٹی اور تازی بھنڈیاں تھیں، لیکن اس کا سانس ایسے پھول رہا تھا، جیسے کہیں سے بھاگتا ہوا آیا ہو۔ آتے ہی کہنے لگا، ’’دیکھو جی، کتنی اچھی بھنڈی لایا ہوں، پاس والے بازار سے نہیں بلکہ اُس دوسرے بڑے بازار سے لایا ہوں۔‘‘

ودیا نے بھنڈی دھو کر چھلنی میں ڈال دیں، پانی خشک کرنے کے لئے اور کہنے لگی، ’’بھنڈیاں توا چھی ہیں، کیا اس بازار میں نہیں تھیں؟‘‘

منیا کہنے لگا، ’’اس بازار میں جہاں آپ لوگ سبزی لیتے ہیں، وہ آدمی بہت خراب ہے، اس کے پاس پکی ہوئی اور باسی بھنڈیاں تھیں۔ وہ کہتا تھا کہ میں وہیں سے لے جاؤں اور ساتھ مجھے زہر بھی دے دیتا تھا۔‘‘

’’زہر؟‘‘ ودیا چونک گئی اور منیا کی جانب ایسے دیکھنے لگی، جیسے وہ آج بالکل پگلا گیا ہو پوچھا، ’’وہ تم کو زہر کیوں دینے لگا؟‘‘

منیا تیزی سے بول اٹھا، ’’اس لئے کہ میں اس کی سڑی ہوئی بھنڈی خرید لوں۔ کہتا تھا کہ میں جو سبزی دیتا ہوں، تم خاموشی سے لے لیا کرو، میں روز کے تمہیں بیس پیسے دوں گا۔ اس طرح کے پیسے زہر ہوتے ہیں نا۔‘‘

ودیا منیا کی جانب دیکھتی رہ گئی، پھر ہلکے سے مسکرا کر پوچھنے لگی، ’’یہ تم کو کس نے بتایا تھا کہ اس طرح کے پیسے زہر ہوتے ہیں؟‘‘

منیا آج بہت خوش تھا، بتانے لگا، ’’ماں نے کہا تھا۔ جب میں چھوٹا تھا، کسی نے مجھے کسی دوسرے کے باغ سے آم توڑ کر لانے کو کہا تھا اور میں توڑ لایا تھا۔ اس آدمی نے مجھے پچاس پیسے دیے تھے اور جب میں نے ماں کو دیے تو وہ کہنے لگیں، یہ زہر توُ نہیں کھائے گا۔ جاؤ اس آدمی کے پیسے اسی کو دے کے آؤ اور پھر سے کسی کے کہنے پر تو چوری نہیں کرے گا۔‘‘

اور ودیا خاموشی سے اس کی طرف دیکھتی رہ گئی تھی۔ اس دن اس نے منیا سے پوچھا، ’’اب تمہاری ماں کہاں ہے؟ تم اسے گاؤں میں چھوڑ کر شہر میں کیوں آئے ہو؟‘‘

منیا ماں کے نام سے بہت دیر تک خاموش رہا، پھر کہنے لگا، ’’ماں نہیں ہے، مر گئی، میرے گاؤں میں اب کوئی بھی نہیں ہے۔‘‘

دن گزرتے گئے اور ودیا کو لگنے لگا، جیسے منیا کو اب اس گھر سے لگاؤ ہو گیا ہے۔ خاص طور سے منو سے، جو اسے پاس بٹھا کر کئی بار کہانیاں سناتا ہے اور ایک دن جب منو نے کسی بات کی ضد میں آ کر روٹی نہیں کھائی تھی، تو ودیا نے دیکھا کہ منیا نے بھی روٹی نہیں کھائی تھی۔۔ ۔

ایک شام ودیا نے اپنی الماری کھول کر سبز ریشمی سوٹ نکالا، جو اسے کل صبح کہیں جانے کے لئے پہننا تھا۔ دیکھا کہ قمیض پر کتنی ہی سلوٹیں پڑی تھیں۔ اس نے منیا کو کہا، ’’جاؤ ابھی یہ قمیض پریس کروا کے لے آؤ، بندیا سے کہنا ابھی چاہئے۔‘‘

منیا گیا پر الٹے پاؤں لوٹ آیا اور قمیض پلنگ پر رکھ د ی۔

ودیا نے پوچھا، ’’کیا ہوا، بندیا نے قمیض پریس کیوں نہیں کی؟‘‘

’’وہ نہیں کرتی۔‘‘ منیا نے بس اتنا کہا اور باورچی خانے میں جا کر برتن دھونے لگا۔ ودیا نے پھر آواز دی، ’’منیا کیا ہوا، وہ کیوں نہیں کرتی؟ جاؤ اسے بلا کر لاؤ۔‘‘

منیا اسی طرح برتن دھوتا رہا پر گیا نہیں، تو ودیا نے پھر سے کہا۔ جواب میں منیا کہنے لگا، ’’صاحب آتے ہی ہوں گے، ابھی مجھے آٹا گوندھنا ہے، ابھی دال بھی پکی نہیں اور اب چاول چننے ہیں اور منو صاحب نے کچھ میٹھا پکانے کو کہا تھا۔۔ ۔ اب۔۔ ۔۔‘‘

ودیا حیران تھی کہ آج منیا کو کیا ہو گیا۔ اس نے آج تک کسی کام میں ٹال مٹول نہیں تھی۔ ودیا نے کچھ اونچی آواز میں کہا، ’’میں دیکھ لیتی ہوں باورچی خانے میں، تم جاؤ اور بندیا کو ابھی بلا کر لاؤ۔‘‘

منیا برتن وہیں چھوڑ کر گیا، لیکن فوراً الٹے پاؤں لوٹ آیا اور کہنے لگا، ’’وہ نہیں آتی۔‘‘ اور پھر خاموشی سے برتن دھونے لگا۔

ودیا کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ نجانے کیا ہوا ہے، بندیا ایسی تو نہیں تھی۔

اتنے میں دروازے کی جانب سے بندیا کی پازیب کی آواز سنائی دی اور وہ ہنستی ہوئی آ کر کہنے لگی، ’’آپ مجھے قمیض دیجئے، میں ابھی پریس کئے دیتی ہوں۔‘‘

’’پر ہوا کیا ہے؟‘‘ودیا نے پوچھا تو بندیا ہنسنے لگی، ’’منیا سے پوچھو۔‘‘

’’وہ تو کچھ بتاتا نہیں۔‘‘ ودیا نے کہا اور اندر جا کر قمیض لے آئی۔ اس نے پھر منیا کی طرف دیکھا اور پوچھا، ’’بولو منیا ، کیا بات ہوئی تھی؟ توُ تو کہتا تھا، وہ پریس نہیں کرتی اور دیکھو وہ خود لینے آئی ہے۔‘‘

منیا نے نہ ادھر دیکھا اور نہ کوئی جواب دیا۔ بندیا ہنستی رہی اور پھر کہنے لگی، ’’بات کچھ نہیں تھی، یہ جب بھی آپکے کپڑے لے کر آتا تھا، میں اسے مذاق سے کہتی تھی، دیکھو اتنے کپڑے پڑے ہیں، پہلے یہ پریس کروں گی اور پھر تمہارے کپڑے، اگر اب کروانے ہیں تو ناچ کر دکھاؤ۔ اور یہ ہنستا بھی تھا، ناچتا بھی تھا اور میں سارا کام چھوڑ کر، آپ کے کپڑے پریس کرنے لگتی تھی۔ آج پتہ نہیں کیا ہوا، میں نے اسے ناچنے کو کہا، تو یہ وہاں سے بھاگ آیا۔ میں نے مذاق میں کہا تھا، اب میں قمیض پریس نہیں کروں گی۔‘‘

ودیا خاموشی سنتی رہی، پھر کہنے لگی، ’’اور کیا بات ہوئی تھی؟‘‘

بندیا ہنستے ہنستے کہنے لگی، ’’اور تو کوئی بات نہیں ہوئی، آج تو اسے میری ماں نے ایک لڈو بھی دیا تھا کھانے کو، لیکن یہ لڈو بھی وہیں چھوڑ آیا۔‘‘

’’تم کا ہے کا لڈو اسے کھلا رہی تھیں؟‘‘ ودیا نے مسکرا پوچھا تو بندیا کچھ شرماتے ہوئے کہنے لگی، ’’میری سگائی ہوئی ہے، ماں نے اسے وہی لڈو دیا تھا۔‘‘

بندیا یہ کہہ کر چلی گئی، قمیض پریس کر کے لائی اور جا تے ہوئے منیا کو کہتی گئی، ’’ارے توُ آج کس بات پر روٹھ گیا۔‘‘

پر منیا نے اس کی طرف دیکھا ہی نہیں بس خاموش سے دوسری طرف دیکھتا رہا۔ رات ہوئی، سب نے کھانا کھایا، منو نے روز کی طرح منیا کو بلا کر کچھ تصویریں دکھائیں۔ پر منیا سب کی طرف کچھ اس طرح دیکھتا رہا، جیسے وہ کہیں بہت دور کھڑا ہو اور دور سے کسی کو پہچان نہ پا رہا ہو۔

صبح کی چائے منیا ہی سب کو کمروں میں دیتا تھا۔ سورج نکلنے سے پہلے، لیکن جب سورج کی کرنیں کھڑکی سے ہوتی ہوئیں، ودیا کی چارپائی تک آ گئیں، اس وقت بھی منیا کی آواز کہیں سے نہیں آ رہی تھی۔

ودیا جلدی سے اٹھی، باورچی خانے میں گئی، پر منیا وہاں نہیں تھا۔ جے دیو بھی اٹھے، دیکھا، کچھ پریشان ہوئے، پر ودیا نے کہا، ’’آپ گھبرائیے نہیں، میں باہر نیم کے درخت کے نیچے دیکھتی ہوں، وہ ضرور وہیں ہو گا۔‘‘اور جس طرح ایک بار پہلے ودیا نے آہستہ سے جا کر درخت کے تنے کی اوٹ میں ہو کر منیا کو دیکھا اور سنا تھا، اسی طرح وہ وہاں گئی تو منیا سچ مچ وہیں تھا، اپنے آپ میں کھویا ہوا سا، کہیں اپنے آپ سے بہت دور اور کانپتے سے لبوں سے بولے جا رہا تھا۔ ’

’ جاؤ تم بھی جاؤ، تم بھی السی ہو۔۔ ۔ تم وہی ہو، السی۔۔ ۔ جاؤ۔۔ ۔ جاؤ۔۔ ۔۔‘‘

ودیا نے منیا کے قریب جا کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور آہستہ سے کچھ اس طرح بولی، جیسے نیم کے درخت سے نیم کی پتیاں جھڑ رہی ہوں، ’’السی کون تھی؟ وہ کہاں چلی گئی؟‘‘

منیا کی آنکھیں کچھ اتنی دور، اتنی دور دیکھ رہی تھیں کہ پاس کون کھڑا ہے، اسے پتہ بھی نہیں چل رہا تھا۔ پر ایک آواز تھی، جو بار بار اس کے کانوں سے ٹکراتی رہی تھی۔

’’کون تھی السی؟‘‘

منیا اپنے آپ میں کھو یا ہواسا بولنے لگا، ’’وہ میرے ساتھ کھیلتی تھی۔ ہم دونوں جنگل میں کھیلتے تھے، وہ کہتی تھی کہ دریا کے پار جاؤ اور اس پار کی بیری کے بیر توڑ لاؤ۔ میں دریا میں تیرتا ہوا جاتا تھا اور دوسرے کنارے پر سے بیر لاتا تھا۔‘‘

’’وہ کہاں چلی گئی؟‘‘ودیا کی آواز ہوا کے جھونکے کی طرح اس کے کانوں میں پڑی تو وہ کہنے لگا۔

’’السی کا بیاہ ہو گیا اور وہ چلی گئی۔‘‘

ودیا نے منیا کے کندھے کو جھنجھوڑا اور کہا، ’’چلو اٹھو۔‘‘ منیا نے ایک بار ودیا کی طرف دیکھا پر کہا کچھ نہیں۔ اسی طرح پھر خلا میں دیکھنے لگا۔

ودیا نے پھر ایک بار پوچھا، ’’السی نے جاتے وقت تم کو کچھ نہیں کہا تھا؟‘‘

منیا اپنے بدن پر بکھرتی نیم کی پتیوں کو، مٹھی میں بھرتے ہوئے کہنے لگا، ’’آئی تھی، بیاہ کے لڈو دینے کے لئے۔‘‘ منیا مٹھی کھول کر نیم کی پتیوں کو زمین پر بکھیرتا ہوا کہنے لگا، ’’مجھے لڈو کھلاتی ہے۔‘‘

ودیا نے اس کے سر پر سے نیم کی پتیاں جھاڑتے ہوئے، کچھ زور سے کہا، ’’اب اٹھو اور چلو، چائے بناؤ۔‘‘

منیا فرمانبرداری سے اٹھ کھڑا ہوا اور گھر میں آ کر چائے بنانے لگا۔

وہ چھٹی کا دن تھا، ودیا اور جے دیو کو آج کہیں جانا تھا، اس لئے چائے پی کر منو کو گھر میں چھوڑ کر چلے گئے۔

دوپہر ڈھلنے لگی تھی، جب وہ دونوں واپس آئے، تو گھر میں منو تھا، پر منیا نہیں تھا۔ منو نے بتایا کہ اسے کھلایا تھا، پھر کہیں چلا گیا اور ابھی تک آیا نہیں ہے۔

جے دیو اس کی تلاش میں گھر سے نکلنے لگے، تو ودیا نے کہا، ’’وہ آپ کو نہیں ملے گا، وہ آج دوسری بار اپنا گاؤں چھوڑ کر چلا گیا ہے۔‘‘

جے دیو نے ودیا کی طرف دیکھا اور پوچھا، ’’پر کیوں؟‘‘

ودیا کچھ دیر خاموش رہی، پھر کہنے لگی، ’’اب ایک اور السی کا بیاہ ہونے والا ہے۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

کھوئی ہوئی خوشبو

 

افضل احسن رندھاوا

 

میں کون سی کہانی لکھوں؟

جب بھی میں کہانی لکھنے کا سوچتا ہوں۔ کتنی ہی کہانیاں مجھے چاروں طرف سے گھیر لیتی ہیں۔ کسی کہانی کے ہاتھ سخت محنت سے کھردرے ہو گئے ہیں، کسی کہانی کے بال مٹی میں مل کر مٹی ہو گئے ہیں۔ کسی کہانی کے سر پر چادر نہیں۔ کسی کہانی کا مکھن سا بدن بھنبھوڑنے کی وجہ سے چھلنی ہو گیا ہے۔ کسی کہانی کے خوبصورت چہرے پر بارود کی بدبو اور خون کے داغ ہیں۔ کسی کہانی کا بازو کٹ گیا ہے۔ تو کسی کی ٹانگ نہیں۔ کسی کی آنکھیں نکل گئی ہیں۔ کسی کا گوشت نیپام بم کی آگ سے جھلس گیا ہے۔

چاروں طرف دیکھتا ہوں۔ میری کوئی بھی کہانی مکمل نہیں ہے۔ کسی کی بھی خوبصورتی برقرار نہیں رہی ہے۔ کسی کا لباس بھی پورا جسم ڈھانکنے کے قابل نہیں۔ سبھی بدصورتی کے گہرے سائے میں ڈھکی ہوئی ہیں۔ پر بدصورتی بھی تو حسن ہے۔ اور شاعر، ادیب، ازل سے حسن بانٹتے اور حسن کی تعریف کرتے آئے ہیں۔ تو میں کیوں بدصورتی کو حسن کی جھوٹی چادر میں لپیٹ کر لوگوں دکھاتا رہوں۔ چادر اتار کر کیوں نہیں دکھاتا؟ لیکن اس کی بھی کیا ضرورت ہے؟ میری تمام کہانیوں کی پیدائش مٹی سے ہوئی ہے۔ اور ان کے پاؤں بھی مٹی پر ہی ہیں۔ ان کی بدصورتی میں بھی مٹی کا درد ہے اور یہی درد انہیں بدصورت بنا دیتا ہے۔ پر اب میں بدصورت لفظ نہیں لکھوں گا۔ کیونکہ مٹی کا پیدا، مٹی کا غم، مٹی سے ربط کبھی بھی بدصورت نہیں ہوتا، بلکہ خوبصورت ہوتا ہے۔ مٹی تو انسان کی پیدائش سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، بلکہ انسان نے مٹی سے پیدا ہو کر، اسے دکھ، درد اور بدصورتی دی ہے۔ انسان کی صورت دیکھے بغیر، مٹی نے اسے ہمیشہ آسرا دیا ہے اور دیتی رہے گی۔

انسان، مٹی اور آسرا۔

پر انسان سے مٹی کا آسرا چھیننے والا کون ہے؟

مجھ سے میری پگڑی اور میرے جوتے کس نے چھینے، جو میں اپنی فصل بیچ کر لایا تھا؟ فصل، جسے میں نے اپنا پسینہ بہا کر، اسے مٹی میں ملا کر، مٹی سے پیدا کیا تھا۔ کسی مشین نے نچوڑ لیا میرے اندر کا سارا خون، جس کی طاقت پر میں اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرنے کے منصوبے بنائے ہوئے تھا۔

میرا پیٹ خالی کیوں ہے اور اپنا سارا خون مشین کو دے دینے کے بعد بھی میرے بچے بھوکے کیوں ہیں؟

میری مٹی پر لکیریں کس نے کھینچ دیں اور کیوں؟

جمیلہ کے حسن کو الجیریا کے کن کارناموں نے گہنا دیا؟

ویت نام کے ہرے بھرے جنگلات اور چھوٹے چھوٹے مکانوں کو کس نے راکھ کا ڈھیر بنا دیا؟

صحارہ ریگستان میں کیوں اور کس نے خون بہا کر ریت کو بدصورت کر دیا؟

یورپیوں نے نفرت سے کالوں کو گڑ کا بھائی سمجھ کیوں گڑ میں ہی پھینک دیا؟

انسان اگر پیدائشی آزاد ہے تو پھر اسے غلام بنانے کے لئے سائنس نے اتنی ایجاد یں کیوں کی ہیں؟

مٹی اگر مقدس ہے تو پھر اس کے سینے کو روز زخمی کر کے، اس کا خون بہا کر، اس کا جسم کو کیوں چھلنی کیا جاتا ہے؟

رب اگر آسرا ہے، تو پھر انسان سے اس کا آسرا کیوں چھینا جاتا ہے؟

رب، مٹی، انسان اور آسرا ملا کر اگر ایک مربع بنتا ہے، تو وہ کون سا ہاتھ ہے، جو اس کی لکیروں کو پونچھ کر اس کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے؟

ناجی آکسفورڈ کے لہجے میں انگریزی بولتی ہے اور میرے منہ سے پنجابی زبان سن کر میری طرف اپنی موٹی شربتی آنکھوں سے سوالیہ انداز سے دیکھتی ہے۔

رب ورگا آسرا تیرا، وسدا رہوُ مترا

تو اسے کیا جواب دوں؟ کہتا ہوں رب کے پاس تو اور بہت سے کام ہیں، دنیا بہت بڑی ہو گئی ہے۔ مسائل بڑھ گئے ہیں۔ وہ خالی نہیں اور آسرا؟ آسرا کس کا اور کیسا، جب آسروں کی تعداد سے ان لوگوں کی گنتی ہزار گنا زیادہ ہے، جو آسرا چھین لیتے ہیں۔

چچا ٹہل سنگھ ٹھیک کہا کرتا تھا، ’’بیٹا ہم سب ہی کہانیاں ہیں۔ پر ہمیں لکھنے والا کوئی نہیں۔‘‘

ہاں چاچا، ٹہل سنگھ تم ٹھیک کہتے تھے۔ ابھی کل کی بات ہے، جب تم یہاں، اس مٹی کے بیٹے کے روپ میں، اس مٹی سے پیدا ہوئے سونے سے موج کرتے تھے۔ یہ مٹی تمہیں لاڈلے بیٹوں کی طرح محبت کر تی تھی۔ ہوا سے بھی تیز دوڑنے والی تیری گھوڑیوں کی دھوم پورے علاقے میں تھی۔ تمہارے خوبصورت مویشی، لوگ دور دور سے دیکھنے آتے تھے۔ تمہاری بھینسوں کے جوڑ کی بھینسیں سارے پنجاب میں کسی کے پاس نہیں تھیں۔ تمہارے دالان، رنگین چارپائیوں سے اور پیٹیاں، رنگ برنگی پھولدار چادروں، رضائیوں اورکھیسوں سے بھری ہوئی تھیں۔ تمہارے دروازے سے کوئی بھی ضرورتمند خالی ہاتھ نہیں جاتا تھا۔ ایک بڑے سردار ہو کر بھی تم اپنے نوکروں کو بیٹوں کی مانند رکھتے تھے۔ گاؤں کی بہن بیٹیوں کو اپنی بہن بیٹیاں سمجھتے تھے۔ ہر کے دکھ درد میں تم شریک تھے۔

بھینی صاحب والے گردوارے والے درخت کے نیچے اپنی سنگت کے ساتھ بیٹھے تھے۔ تمہاری حویلی میں سینکڑوں مہمانوں کے لئے کھانا بن رہا تھا۔ ناسمجھ لڑکے چھپ چھپ کر بولیاں بول رہے تھے۔

کنکاں کھان دے مارے۔ آ گی نامدھاری۔

سارے گاؤں میں میلہ لگا ہوا تھا۔ ہم چھوٹے چھوٹے بچے گرو کے درشن کے لئے گئے تھے۔ اور بہت سے لوگ دور دور سے گرو کے درشن کے لئے آئے ہوئے تھے۔ تم نے مجھے اور پال سنگھ کو پکڑ کر گرو جی کے آگے کھڑا کر دیا تھا۔

’’یہ میرے بیٹے ہیں۔‘‘ تم نے کہا تھا۔ پال کا سر ننگا تھا اور اس نے چھوٹا سا جوڑا مضبوطی سے باندھا ہوا تھا۔ گرو جی نے پہلے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور تمہاری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا، جیسے پوچھ رہے ہوں کہ یہ دوسرا مسلمان لڑکا کون ہے؟ اور تم نے کہا تھا، ’’میرے بھائی کا بیٹا ہے۔‘‘

اور گرو جی نے ہنس کر دونوں ہاتھوں سے میرے سر پر پیار دیا تھا اور برکت دی تھی۔

پھر چچا، تیری سندر گھوڑی نے، جو تم نے اس زمانے میں مہاراجہ کپور تھلہ سے دس ہزار میں لی تھی، اس نے بڑی توقعات اور امیدوں کے بعد ایک بچھڑی کو پیدا کیا تھا۔ اس بچھڑی میں تمہاری جان تھی۔ مجھے بہت دیر بعد پتہ چلا کہ وہ بچھڑی اتنی قیمتی تھی۔ اس وقت بچھڑی تقریباً چھ مہینے کی تھی، جب میں کھیلتا کھیلتا تمہارے گھر گیا تھا۔ سونے کے دل والی چاچی نے، مجھے دونوں بازوؤں میں بھر کر مضبوطی سے پیار کیا تھا اور میرے سر پر ہاتھ پھیرا تھا۔ ما تھا چوما تھا اور گودی میں بیٹھا لیا تھا۔ ایک روٹی کی چوری بنا کر، شکر ڈال کر مجھے کھلانے لگی تھی۔ اتنے وقت میں پال آ گیا تھا اور ہم دونوں کھیلتے کھیلتے حویلی میں آ گئے تھے۔ بھائی رتن سنگھ اس وقت حویلی میں تھا۔ اس کی بندریا آدمیوں کی طرح بیلنے میں گنے ڈال رہی تھی۔ بھائی سوڈا ڈال کر ابلتے ہوئے رس سے گندگی اتار رہا تھا۔ (مجھے ابھی تک یاد ہے بھائی کا گڑ سارے گاؤں میں سب سے سفید اور صاف ہوتا تھا)۔ نکو عیسائی دھونکنی سے ہوا دے رہا تھا۔ دھونکنی کے دھوئیں اور گڑ سے نکلنے والی بھاپ میں، بھائی چھپا ہوا سا لگتا تھا۔ لیکن اس نے پال کو اور مجھے دیکھ لیا۔

’’رس پی۔‘‘

’’گڑ کھا۔‘‘

’’گنے چوس لے۔‘‘

’’بیٹھ جا۔۔ ۔ او لڑکے۔ وِیر کی چارپائی ذرا دھوپ میں بچھا دے۔‘‘

بھائی رتن سنگھ نے ایک ساتھ کتنے ہی حکم دے دیئے مجھے۔ پر میری توجہ اس بچھڑی کی طرف چلی گئی۔ میں اور پال بچھڑی کے پاس جا کر اسے دیکھنے لگے۔ بچھڑی بہت خوبصورت، بالکل کسی تصویر سی لگ رہی تھی۔ پتہ نہیں کہاں سے ٹہل سنگھ آ گیا اور پتہ نہیں کس ضد میں، میں اس کی گود میں چڑھ گیا۔ میں نے بچھڑی پر بیٹھنے کی ضد کی۔ سات سال کے بچے میں سمجھ ہی کتنی ہوتی ہے، پر چچا آپ نے مجھے ایک بار بھی منع نہیں کیا، نہ ہی سمجھایا اور اس معصوم اور قیمتی بچھڑی کو پکڑ کر، لگام کو گانٹھوں کی مدد سے چھوٹی کر کے، اسے دے دی۔ جو آدمی جہاں تھا، حیرت سے بت بنا رہ گیا۔ بھائی پکتے ہوئے گڑ کو چھوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ ہر آدمی، چچا تمہاری طرف دیکھ رہا تھا۔ ایک بچے کے ضدی پنے کے ساتھ آپ بھی بچے بن گئے تھے۔ پر تمہارے کاموں میں دخل دینے کی ہمت اور جرات کسی میں نہیں تھی۔ پھر تم نے کندھے کی چادر اتار کر، اچھلتی ہوئی، ناچتی ہوئی، گھبرائی ہوئی اور پریشان اور ساتھ ہی نڈھال ہوئی بچھڑی پر ڈال دی اور پھر اس معصوم، نرم اور خوبصورت پیٹھ پر زین ڈال دی اور زین کو کس دیا۔ آج سوچتا ہوں کہ چھ ماہ کی دودھ پیتی نرم و نازک بچھڑی کی جان کے لئے اتنا ہی دکھ اور صدمہ کافی تھا۔ پر چچا، پھر تم نے مجھے اس پر بٹھا کر اسے آگے سے پکڑ کر حویلی کے دو چکر لگوائے اور بچھڑی دکھ اور صدمے سے نڈھال ہو کر گر کر مر گئی۔ مہاراجہ کپورتھلہ کی لاڈلی گھوڑی کی خوبصورت بچھڑی، جسے تم نے کتنی ترکیبوں اور امیدوں سے پایا تھا۔ پر تمہارے ماتھے پر ایک بھی شکن نہیں پڑی تھی، کسی نے بھی اف تک نہیں کی تھی، سوائے میرے ابا کے، جب انہوں نے سنا تو وہ مجھ پر اور تم پر، دونوں کو غصہ ہوئے تھے۔ پر تم کو صرف ہنس دیئے تھے۔

چچا! آج میں بالغ ہوں۔ سیانا ہوں۔ پتھر کی طرح ٹھوکریں کھا کر گول ہو گیا ہوں۔ دنیا کا سرد گرم بھی دیکھا ہے اور آدھی دنیا کے شہر بھی دیکھے ہیں اور ان کے شہریوں کو بھی دیکھا ہے۔ انہیں آزمانے اور سمجھنے کی کوشش بھی کی ہے۔ آج وہ باتیں، خواب کی باتیں لگتی ہیں، کھوئے ہوئے خواب۔ کتنا بد قسمت ہوتا ہے وہ آدمی جس کے خواب کھو جاتے ہیں۔ آج سوچتا ہوں چچا تم تو میرے باپ کے منہ بولے بھائی تھے۔ تم نے اس کے ساتھ پگڑی بدلی تھی۔ تم، اس کے سگے بھائی تو نہیں تھے۔ پر جتنا پیار تم نے مجھے دیا، اتنا پیار تو میرے کسی سگے چچا نے بھی نہیں دیا۔ کہتے ہیں خون کا رشتہ بہت پیارا ہے، لیکن پھر بھی تم مجھے سگوں سے بھی زیادہ پیارے تھے۔ میں تمہیں، تمہارے پال سے بھی زیادہ پیارا، زیادہ لاڈلا اور زیادہ قریب کیوں تھا؟

پھر ایسی آندھی چلی جو انسان کو چھید کر اور زمین کو ویران بنا کر چلی گئی۔ راوی اور بیاس بڑھ کر خوفناک ہو گئیں اور لہریں غصے میں منہ سے جھاگ اگلتی باہر آ گئیں۔ چاروں طرف امنڈتا ہوا پانی تھا۔ تم نے بھری پری حویلی اور بھرے ہوئے گھر سے، بس دو چار چیزیں لیں، پھر میرے چاچے، تائے اور ابا اس گاڑی کو برچھیوں، چھریوں اور بندوقوں کے پہرے میں لے کر چل دیئے تھے۔ گاڑی پر چاچی، پال، بہن، تم اور رتو تھے اور تمہارے آس پاس تمہاری حفاظت کے لئے ہم حیران سے پل تک گئے تھے۔ تم بھی نڈھال ہو گئے تھے اور تم کو چھوڑنے جانے والے بھی۔ راستے میں لوٹ مار، قتل، حملے وغیرہ کا ڈر۔ اور پل پر پہنچ کر جب میرے والد اور تم نے ایک دوسرے کو بانہوں میں بھرا تو دونوں بلک بلک کر رونے لگے تھے۔ تمہیں ڈیرے سے، پل سے گزرتے اور بار بار مڑ کر پیچھے دیکھتے ہوئے، دیکھ کر میرے والد کس طرح بچوں کی طرح تڑپ تڑپ کر روئے تھے۔ تم آگے بڑھ کر بھیڑ میں کھو گئے تھے، پر ہم شام تک کیوں پل پر کھڑے روتے رہے تھے؟ اور ادھر آخر کار تم کو کھو کر، اپنے اور اپنے اجڑے گھروں میں واپس لوٹ آئے تھے۔ اس وقت میں آٹھ سال کا تھا اور اب اڑتیس سال کا ہوں۔ میں نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی اپنے باپ کو روتے نہیں دیکھا تھا، سوائے اس دن کے۔ اب تو بس تمہارے نام پر ہی، ان کی آنکھیں بجھ جاتی ہیں۔

اور آج کسی گاؤں میں پناہ گزین ٹہل سنگھ پتہ نہیں کتنا خوش ہے؟ اور اب پتہ نہیں پال سنگھ میری طرح آدھے دھلے بال والے سر میں، اپنی روشن بادامی آنکھوں میں کوئی خواب رکھتا ہے یا نہیں؟

چچا ٹہل سنگھ کہا کرتا تھا، ’’ہم سب کہانیاں ہیں، پر ہمیں لکھنے والا کوئی نہیں۔‘‘

چچا دیکھ لو، مجھے تمہاری کہانی یاد ہے اور میں کسی دن اسے لکھوں گا بھی۔ آج تو میرے چاروں طرف کہانیاں گھیرا ڈال کر کھڑی ہیں، چاروں طرف قیامت والا شور ہے۔

میری کہانیاں لہولہان ہیں۔ ان کے سر ننگے ہیں، بال بکھرے ہوئے اور بدن زخمی ہیں۔ میرے ہاتھوں میں ٹوٹا ہوا قلم ہے اور ٹوٹے ہوئے کردار ہیں، جس میں، میں اپنی کہانیوں کے لئے خوشیاں لینے گھر سے نکلا تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو ہیں۔ میں اپنا رستہ بھی نہیں دیکھ سکتا۔ میرا حال بھی میری کہانیوں جیسا ہی ہے۔ اور میں سوچتا ہوں میں کیسے کہانی لکھوں؟

٭٭٭

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

حصہ اول

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

حصہ دوم

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل