FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

مقال

حصہ اول

                آفاق عالم صدیقی

 

 

مقال.. 1

اپنی بات… 3

ولی ؔ کی عظمت و اوّلیت…. 5

شہرتِ شعرم بہ گیتی بعد من خواہد شدن۔۔ غالبؔ…. 42

آزادؔ … ناقد و انشا پرداز. 49

پنڈت رتن ناتھ سرشار اور فسانۂ آزاد. 57

انیسؔ کی مرثیہ نگاری.. 66

جگر کی شناخت…. 83

فراق ، جس نے اقبال کو رقیب جانا. 95

ترقی پسند تخلیقی حسیّت اور معین احسن جذبی.. 107

ایسے دیوانے پھر نہ آئیں گے۔۔ علی سردار جعفری.. 117

کیفی اعظمی کی معنویت…. 128

’’گل ریز تیری نالہ کشی سے ہے شاخ شاخ ‘‘۔۔ ناصر کاظمی…. 145

اختر الایمان ایک مطالعہ… 157

عرفان صدیقی ایک مطالعہ… 183

غزلیہ شاعری میں بین السطوری مفاہیم کی جستجو…. 197

نیا تخلیقی منظر نامہ.. 213

اپنی بات

دنیا کا بیشتر انسان سننے سے زیادہ کہنے کا شائق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی انسان کوئی کتاب (حتی کہ ضخیم کتاب) پیش کرتا ہے تب بھی پیش لفظ یا حرفے چند کے تحت ایک طویل گفتگو کرتا ہے۔ غالباً اس کی خواہش ہوتی ہے کہ قاری کتاب کے مواد کو اسی کی فراہم کردہ روشنی میں دیکھے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ انداز یا طریقہ غلط ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ کتاب کو قاری کی صواب دید پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ کشادہ دلی کے ساتھ اپنی رائے قائم کر سکے۔

’’مقال‘‘ میرے مضامین کا پہلا مجموعہ ہے جس میں میری طالب علمی کے زمانے سے لے کر اب تک کے مضامین کا ایک غیر شعوری انتخاب شامل ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ’’مقال‘‘ کے لیے پروفیسر وہاب اشرفی صاحب نے جو دیباچہ تحریر فرمایا تھا وہ کہیں گم ہو گیا، کیونکہ کتاب کی اشاعت میں کم وبیش پانچ سال کی تاخیر ہو گئی، اور میں اپنی اس منتشر زندگی میں بہت سی قیمتی چیزوں کی بھی حفاظت نہیں کرپایا۔ یہ کتاب بھی ممتاز و منفرد دانشور فکشن نگار مشرف عالم ذوقی، نئے طرز کے زرخیز شاعر شمیم قاسمی، علم و اخلاص کے پیکر مولانا محمد اسعد معروفی قاسمی اور بالخصوص قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان وغیرہ کے تعاون کے بغیر منظر عام پر نہیں آ پاتی، میں ان تمام دوستوں اور قومی کونسل کے لیے ممنونیت کا اظہار کرتا ہوں۔

                                                ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی

                                                زبیدہ ڈگری کالج، جئے نگر، شکاری پور

                                        ضلع شیموگہ 577427 کرناٹک

 

 

ولی ؔ کی عظمت و اوّلیت

اردوئے قدیم کے کئی شعرا کی طرح ولی کی زندگی کے تفصیلی حالات اب تک معلوم نہیں ہوسکے ہیں۔ اس کے باوجود مطالعہ ولی کے در کھلے ہوئے ہیں ، کیوں کہ کسی بھی فنکار کی شناخت اس کے فن سے ہوتی ہے۔ نہ کہ ان کے خاندانی حالات اور نجی زندگی کے واقعات سے۔

ہم جانتے ہیں کہ ایک زمانے تک ولی کو اردو شاعری کا باوا آدم کہا جاتا رہا ہے۔ مگر  تحقیق و تنقید نے علم و ادب کی کئی الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھا دیا اور کئی پس پشت پڑے شعرا و ادبا کو سامنے لا کر بٹھا دیا۔ اور واضح کر دیا کہ ولی اردو کے پہلے شاعر نہیں ہیں۔ مگر یہ خیال آج بھی اتنا ہی درست ہے کہ ولی نہ صرف دکن کے بلکہ اردو کے پہلے اہم اور بڑے شاعر ہیں کیوں کہ ان کے یہاں زبان و بیان کی نفاست سے لے کر شعری لطافت تک کی تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ اور یہ بھی درست ہے کہ انہیں کے چراغ فن سے شمالی ہند میں اردو شاعری کا چراغ روشن ہوا۔

ولیؔ کے بارے میں دکنی اور گجراتی ہونے کا جھگڑا آج تک جاری ہے کیوں کہ ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں جس قدر معلومات حاصل ہوسکی ہیں ان پر علماء ادب پوری طرح متفق نہیں ہیں۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ چند دہائی پہلے تک تو لوگ ولی کے بارے میں بعض بنیادی باتیں بھی نہ جانتے تھے حتی کہ ان کی تعلیم و تربیت، گھر خاندان، اور والدین کے بارے میں بھی کوئی ٹھوس معلومات نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پروفیسر سید احتشام حسین نے اپنی کتاب ’’اردو ادب کی تنقیدی تاریخ‘‘ میں اس طرح کی کسی چیز کا ذکر نہیں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:

’’ابھی کچھ دن پہلے تک ولی کے بارے میں بھی بہت تھوڑی سی معلومات ملتی تھیں مگر اب جو تحقیقی کام ہوئے ہیں ان کی وجہ سے ان کے نام جائے پیدائش وفات وغیرہ کی نسبت کچھ باتیں معلوم ہو گئی ہیں۔ حالانکہ ان کے دکنی یا گجراتی ہونے کی بحث اب بھی ختم نہیں ہوئی۔

احتشام صاحب کے اس اقتباس سے واضح ہے کہ وہ جن چیزوں کے معلوم ہو جانے کا ذکر کر رہے ہیں ان پر خود ان کو اعتبار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ولی دکنی کا نام اور اس کے جائے پیدائش کے بارے میں کچھ نہیں لکھتے ہیں۔ اور یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ دکنی اور گجراتی کا معاملہ اب بھی زیر بحث ہے۔

بہرحال بعد میں چند لوگوں نے ولی پر بہت گرانقدر کام کیا اور بہت سی معلومات فراہم کیں۔ اور تسلیم کر لیا گیا کہ ولی کا نام ولی محمد تھا اور ان کے والد کا نام مولانا شریف محمد تھا جو گجرات کے مشہور بزرگ شاہ وجیہ الدین کے بھائی شاہ نصراللہ کی اولاد میں سے تھے۔ ولی ۱۶۴۹ء سے قبل اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ یہ بات حیرت انگیز کہی جائے گی کہ ان کی جائے پیدائش کے بارے میں قیاس آرائی کے باوجود یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کی ابتدائی تعلیم کہاں ہوئی۔ البتہ یہ بات متفقہ طور پر مان لی گئی ہے کہ ولی کو حصول علم کا بہت شوق تھا اسی شوق کی تکمیل کے لیے انہوں نے احمد آباد سے نکل کر سورت دلی اور گجرات وغیرہ کا سفر کیا اور عالموں ، صوفیوں اور دیگر اہل علم حضرات سے مل کر اپنی علمی پیاس بجھائی۔ ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی لکھتے ہیں کہ:

’’ولی نے احمد آباد میں شاہ وجیہ الدین کی خانقاہ کے مدرسے میں تعلیم پائی اور وہیں شاہ نور الدین صدیقی سہروردی کے مرید ہو گئے۔‘‘

(نورالحسن ہاشمی۔ مقدمہ کلیات ولی۔ ص۱۱)

نورالحسن صاحب کی فراہم کردہ معلومات کی تائید کلام ولی سے بھی ہوتی ہے اور دوسرے دانشوروں کے اقوال سے بھی ظہیر الدین مدنی لکھتے ہیں کہ:

’’اس کی شخصیت جامع کمالات تھی وہ اپنے ادبی کارناموں میں کسی جگہ عالم و فاضل مصلح و مشیر صوفی و صافی کی حیثیت سے رونما ہوتا ہے اور کہیں ادیب و انشا پرداز اور مجتہد العصر دکھائی دیتا ہے۔ ‘‘

ولی کی شاعری میں جا بجا قرآن و احادیث سے متعلق واقعات کا عکس بکھرا پڑا ہے۔ وہ اپنے وقت کے بیشتر مروج علوم سے واقف تھے۔ اور تصوف میں بھی دلچسپی لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کے متنوع رنگوں میں تصوف کا رنگ بھی شامل ہے۔ اور غالباً تصوف نے ہی انہیں حسن شناس و حسن پرست بنایا تھا اور سیر و سیاحت جس کا ولی کو بہت شوق تھا نے مسائل حیات سے واقف کرایا اور زندگی کے مختلف رنگوں کا شعور و ادراک بخشا۔ ولی نے حج بیت اللہ کا شرف بھی حاصل کیا تھا بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اسی سلسلے میں سورت گئے تھے۔ کیوں کہ اس زمانے میں حج کو جانے کے لیے سورت ایک اہم راستہ تھا۔ لیکن ان کی سیر وسیاحت اور اسفار میں دلّی کے سفر کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ کیوں کہ اسی سفر نے انہیں اردو شاعری کے باوا آدم کے طور پر لوگوں سے متعارف کرایا اور شمالی ہند میں اردو شاعری اور ادبی تاریخ کا نیا باب کھلا۔ دہلی کا یہ سفر انہوں نے ۱۷۰۰ء میں اپنے دوست سید ابوالمعالی کے ساتھ کیا۔ جب وہ دلّی پہونچے تو وہاں کے مشہور صوفی شاعر سعداللہ گلشن سے بھی ملے جو پہلے ہی سے ان کے لیے مرشد کی سی حیثیت رکھتے تھے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ولی نے سعداللہ گلشن ہی کے کہنے پر فارسی افکار و خیالات کو اردو شاعری کے قالب میں ڈھالنے کا کام کیا اس سلسلے میں میر تقی میر کا نام لیا جاتا ہے جنہوں نے نکات الشعرا میں لکھا ہے کہ:

’’ایں ہمہ مضامین فارسی کہ بیکار افتادہ اند در ریختہ خود بکار۔‘‘

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ولیؔ کی عظمت کا راز محض اس بات میں مضمر ہے کہ انہوں نے فارسی میں بیکار پڑے افکار و خیالات کو اردو الفاظ کا جامہ پہنا دیا۔ جب کہ دوسرا سوال اس سے بھی مشکل ہے۔ یعنی کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص دوسرے کے افکار و خیالات کو اپنے الفاظ میں پیش کر کے بڑا شاعر بن جائے۔ وہ بھی اتنا بڑا کہ صدیوں تک لوگوں کو متاثر کرتا رہے؟ جواب یقیناً نفی میں ہو گا مگر ان سوالوں پر رک کر یہاں تفصیلی گفتگو ممکن نہیں ہے۔ آئیے پہلے ہم یہ دیکھ لیں کہ ولی کے بارے میں تذکرہ نگاروں ، ہم عصر شعرا ، اور بعد کے ناقد کیا رائے رکھتے ہیں ، اور یہ بھی کہ خود ولیؔ اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ ولیؔ کی عظمت کا اعتراف صرف ان کے ہمعصروں نے ہی نہیں کیا ہے۔ بلکہ ہر عہد کے بڑے سے بڑے ناقد نے ان کی عظمت کا اقرار کیا ہے۔

مصحفی اپنے تذکرہ ہندی میں لکھتے ہیں کہ:

’’جب ولیؔ کا دیوان جلوس محمد شاہی کے دوسرے سال میں دلّی پہونچا اور وہاں کے شعرا نے اس میں وہ رنگ و نور دیکھا جس کے دیکھنے کو ان کی آنکھیں ترستی تھیں تو انہوں نے بھی فارسی کو چھوڑ کر اسی رنگ سخن کی پیروی شروع کر دی۔ ‘‘

میر حسن نے ’’تذکرہ شعرائے ہندی‘‘ میں ریختہ کی اولیت کا سہرا ولی کے سرباندھا ہے اور انہیں کو اس فن کا استاد کامل اور استاد اول قرار دیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ:

’’ابتدائے ریختہ از اوست اول استادی ایں فن بنام اوست‘‘

محمد حسین آزاد جن کی کتاب ’’آب حیات‘‘ تذکرہ نگاری اور تنقیدی تاریخ کی درمیانی کڑی کی سی حیثیت رکھتی ہے اور اپنی گوناگوں خوبیوں کی وجہ سے تحقیق و تنقید کے اتنا آگے نکل جانے کے باوجود قابل استفادہ سمجھی جاتی ہے ، اس میں لکھتے ہیں کہ:

’’جب ان کا دیوان دلّی پہونچا تو اشتیاق نے ادب کے ہاتھوں پر لیا قدر دانی نے غور کی آنکھوں سے دیکھا لذت نے زبان سے پڑھا گیت موقوف ہو گئے قوال معرفت کی محفل میں انہیں کی غزلیں گانے اور بجانے لگے ارباب نشاط یاروں کو سنانے لگے جو طبیعت موزوں رکھتے تھے انہیں دیوان بنانے کا شوق ہوا۔‘‘

محمد حسین آزاد کے اس اقتباس سے واضح ہے کہ ولیؔ کی شاعری نے تمام لوگوں کو مسحور کر دیا اور دلّی فتح کر لی۔ یہی وجہ تھی کہ قوال بھی ان کی غزلیں گانے پر مجبور ہو گئے۔ حد یہ کہ ولی کی غزلوں نے گیتوں کی مقبولیت کو بھی مات دے دیا۔ گویا ولی کی شاعری میں عوامی حسیت کو انگیخت کرنے کے علاوہ ثقافت کی روح کو معطر کرنے کی خوبی بھی پائی جاتی ہے۔ اسی لیے دکن سے شمال تک ولی کا ڈنکا بجنے لگا۔ اور بات بھی کچھ یوں ہے کہ اردو شاعری اپنی جن خوبیوں اور فنی لوازم کے لیے جانی جاتی ہے۔ اور جس طرح کے تلازموں اور صنعتوں کے لیے ممتاز سمجھی جاتی ہے وہ تمام چیزیں ولی کی شاعری میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اردو کا عبقری فنکار قرار دیا جاتا ہے۔ نورالحسن ہاشمی جنہیں ماہر ولی کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے اپنی کتاب ’’ہندوستانی ادب کے معمار۔ ولی‘‘ کے پہلے باب کے آغاز میں لکھتے ہیں کہ:

’’ولیؔ کا موازنہ اکثر چاسر سے کیا جاتا ہے کیوں کہ ولیؔ نے اردو شاعری کو فروغ دینے میں اسی طرح کامیابی حاصل کی جس طرح چاسر نے انگریزی کے فروغ دینے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ یعنی انہوں نے ایسا طریقہ بیان ایسے لسانی انداز کے ساتھ وضع کیا جو نہ صرف دکن بلکہ شمالی ہند میں بھی قابل قبول سمجھا گیا۔‘‘

ولیؔ کو چاسر کا ہم پلّہ قرار دینا محض خوش عقیدگی کی بات نہیں ہے بلکہ ایک حقیقی صورتحال کی تقابلی وضاحت کی اچھی کوشش ہے۔ کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ ولی کی شاعری سے پہلے لوگ اردو زبان کو اس قابل نہیں سمجھتے تھے کہ اس میں باضابطہ طور پر شاعری کریں۔ فارسی کا بڑا غلبہ تھا۔ اور اشرافیہ طبقہ کے لوگ فارسی ہی کو علمی زبان سمجھتے تھے۔ فارسی زبان و ادب کا زبردست دبدبہ تھا۔ جو لوگوں کو اردو کو ہیچ سمجھنے پر مجبور کر رہا تھا۔ ایسے ماحول میں ولیؔ کا اردو زبان میں شاعری کرنا وہ بھی نہایت خود اعتمادی اور خلاقی کے بہترین جوہر کے ساتھ اپنے آپ میں ایک نادر مثال تھا۔ انہوں نے ہندوی یا دکنی ہندوی اور فارسی کے آمیزے سے ایک ایسی زبان کی تشکیل کی جو اردو کے نام سے جانی گئی اور اپنی شیرینی اور تازگی و توانائی کی وجہ سے بہت جلد دلوں پر راج کرنے لگی۔ پروفیسر وہاب اشرفی نے ولیؔ کے فکر و فن اور ثقافتی ورثے سے گہری وابستگی کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

’’ولیؔ جب دہلی آئے تو اپنے ساتھ اپنی ثقافت کا سرمایہ بھی ساتھ لائے اس سرمائے میں ایرانی سکّے (IDIOMS)کم سے کم تھے ایسا نہیں ہے کہ ولی سے پہلے دکنی علاقے میں فارسی اور فارسی شاعری سے لوگ واقف نہیں تھے لیکن یہاں کے شعرا کی جڑیں اپنے لسانی نظام میں تھیں جو دوسرے لسانی نظام سے متصادم نہیں ہوئی تھیں۔ ادھر شمال میں بیرونی تسلّط کے سبب اشرافیہ ریختہ سے زیادہ فارسی پر زور دے رہا تھا، ولی کے پاس مقامی وراثت تو تھی ہی جب انہیں ریختہ کہنے کی ہدایت کی گئی تو ان کے مقامی رنگ کو ایک اور سمت مل گئی، فارسی نے ان کی مدد کی اور شمال کے ڈکشن نے ان کے رنگ کو مزید چوکھا کر دیا، گویا اسلوب اور ڈکشن کا یہ منظر نامہ جو ولی کے یہاں ہے اس ثقافتی وسعت کا نتیجہ ہے جس کی جڑیں ہندوستان کے ایک وسیع علاقے سے لے کر ایران تک پھیلی ہوئی ہیں۔ (معنی کی جبلت۔ ص ۱۱۱)

وہاب اشرفی نے ولیؔ کے یہاں جس ہند ایرانی ثقافت کی بات کہی ہے اس کی خوشبو ولی کی شاعری میں پوری طرح رچی بسی ہوئی ہے جس کا اندازہ ان کی شاعری کے مطالعے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ فی الوقت مثال کے لیے ایک شعر دیکھیے۔

ترا مکھ مشرقی ، حسن انوری ، جلوہ جمالی

نین جامی ، جبیں فردوسی ، و ابرو ہلالی

ظاہر ہے کہ جو شاعر اپنے محبوب کی خوبصورتی کی تعریف فارسی کے اہم شعرا فردوسی، جامی، اور انوری وغیرہ کے تخلص کو تشبیہ میں بدل کر کرتا ہو، اسے ہند ایرانی تہذیب اور فارسی زبان و ادب کا کتنا گہرا شعور ہو گا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ غالباً ولی کی انہیں حیرت انگیز خوبیوں کی وجہ سے نیا پرانا غرض ہر عہد کا بڑے سے بڑا اور اہم ناقد اس کی تعریف کرنے پر مجبور ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی تاریخ ادب اردو میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:

’’یہ بات یاد رہے کہ آگے چل کر جتنے رجحانات نمایاں ہوئے وہ خواہ عشقیہ شاعری کا رجحان ہو یا ابہام پسندی کا لکھنوی شاعری کی خارجیت اور مسی چوٹی والی شاعری ہو مسائل تصوف کے بیان والی شاعری ہو یا ایسی شاعری ہو جس میں داخلیت اور رنگارنگ تجربات کا بیان ہو یا اصلاح زبان و بیان کی تحریک ہو سب کا مبدا ولیؔ ہے۔‘‘

شمس الرحمن فاروقی کا ایک اقتباس پروفیسر خالد محمود نے نقل کیا ہے کہ:

ولیؔ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قطعی طور پر اور ہمیشہ کے لیے ثابت کر دیا کہ گجری اور دکنی کی طرح ہندی/ ریختہ میں بھی بڑی شاعری کی صلاحیت ہے۔ ولی نے یہ بھی دکھا دیا کہ ریختہ /ہندی میں یہ بھی قوت ہے کہ وہ سبک ہندی کی فارسی شاعری پر فوقیت لے جاسکتی ہے یا کم سے کم اس کے شانہ بشانہ تو چل ہی سکتی ہے۔ تشبیہ اور پیکر کی نفاست ہو یا استعارے کی وسعت تجرید اور پیچیدگی مضمون آفرینی ہو یا معنی آفرینی ریختہ/ ہندی فارسی سے ہرگز کم نہیں۔ ان کا دوسرا بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اردو کے شعرا کو ایک نئی شعریات کے احساس اور وجود سے آشنا کیا۔ اس شعریات میں سنسکرت، سبک ہندی اور دکنی تینوں کے دھارے آ کر ملتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر شارب ردولوی نے ’’مطالعہ ولی تنقید و انتخاب‘‘ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ:

’’سادگی روانی رنگینی سرخوشی نشاطیہ کیفیت تشبیہات واستعارات کی جدت معنی آفرینی تاثرات حسیت، متنوع رمزیت اور ہندوستانی عنصر و فارسی کا خوبصورت امتزاج ولی کا فن ہے۔ جس سے ان کے کلام کا بیشتر حصہ روشن ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر سید عبداللہ کہتے ہیں کہ:

حق یہ ہے کہ حکیمانہ گہرائی دردمندی اور سوزوگداز کی کمی کے باوجود ان کا کلام بڑا خوش رنگ و خوش گوار ہے۔ بہار آفریں الفاظ خوب صورت تراکیب گل و گلگشت کی تکرار حسن کے ترانے اور نغمے مناسب بحروں کا انتخاب اور اسالیب فارسی سے گہری واقفیت اور ان سے استفادہ ان سب باتوں نے ولی کو ایک بڑا رنگین شاعر بنا دیا ہے۔

عابد علی عابد تو پوری اردو شاعری کے تناظر میں صرف ولی ہی کو کلاسک قرار دیتے ہیں۔ بہرحال ان اقوال و اقتباسات سے اتنا تو واضح ہوہی جاتا ہے کہ اردو کے تقریباً تمام اہل فکر و نظر ولی کی عبقریت کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کی شاعرانہ انفرادیت کے قائل ہیں۔ اس کے باوجود کہنا پڑتا ہے۔ کہ ولیؔ پر جتنا اور جس نوعیت کا کام ہونا چاہیے نہیں ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر ولی پر ایسا بھرپور مقالہ بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے جس کے پڑھنے کے بعد تشنگی کا احساس نہ ہوتا ہو۔ حالانکہ کہ ولی کی عظمت اور استادی کو تذکرہ نگاروں ، محققوں ، اور ناقدوں کے علاوہ شعرا نے بھی سلام کیا ہے اور کئی اہم شعرا نے ان سے فیضیاب ہونے کا بھی اعتراف کیا ہے اس کے باوجود مطالعہ ولی کے باب میں کہیں نہ کہیں ایک آنچ کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن ان باتوں سے پہلے آئیے یہ دیکھتے چلیں کہ شعرا نے کس طرح ولی کی استادی کا اعتراف کیا ہے اور اس کی تقلید کو کیوں کر باعث افتخار سمجھا ہے۔

داؤد اورنگ آبادی ولی سے اتنے متاثر تھے کہ وہ خود کو ولی ثانی کہا کرتے تھے۔ ایک شعر دیکھئے۔

حق نے بعد از ولی مجھے داؤد

صوبہ شاعری بحال کیا

حاتم نے ’’دیوان زادہ‘‘ کے دیباچے میں ولی کے مقابلے اپنی کمتری کا برملا اظہار کیا ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ:

حاتم بھی اپنے دل کی تسلی کوں کم نہیں

لیکن ولی ولی ہے جہاں میں سخن کے بیچ

حاتم کا یہ شعر پہلے مصرعہ کی تبدیلی کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے۔ شعر دیکھئے۔

حاتم یہ فن شعر میں کچھ تو بھی کم نہیں

لیکن ولی ولی ہے جہاں میں سخن کے بیچ

شاہ مبارک آبرو جو اپنے وقت کے اہم شعرا میں شمار ہوتے ہیں انہوں نے بھی ولی کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ:

آبرو شعر ہے ترا اعجاز

جوں ولی کا سخن کرامت ہے

سراج اپنی عشقیہ شاعری کے لیے بہت ہی ممتاز سمجھے جاتے ہیں اور وارفتگی و سرشاری کے معاملے میں ولی سے بھی افضل قرار دیئے جاتے ہیں وہ بھی ولی کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں :

تجھ مثال اے سراج بعد ولی

کوئی صاحب سخن نہیں دیکھا

خدائے سخن میر تقی میر جن کی عظمت کا ہر کوئی قائل ہے اور جو اپنے مقام و مرتبہ سے پوری طرح واقف ہیں اور کہتے ہیں کہ

سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا

مستند ہے میرا فرمایا ہوا

وہ بھی ولی کی استادی کا اقرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ

خوگر نہیں کچھ یونہی ہم ریختہ گوئی کے

معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا

غالباً انہیں وجوہات کے پیش نظر جمیل جالبی نے تاریخ ادب اردو جلد اول صفحہ ۵۸۹ میں لکھا ہے کہ:

’’ولی نے قدیم ادب کی روایت کے زندہ عناصر کو اپنے تصرف میں لا کر فکر و اظہار کی سطح پر ایک نیا معیار قائم کیا جو ریختہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ وہ نئی سطح تھی جہاں شمال، جنوب، اور سارے برّاعظم کے تخلیقی ذہنوں کی آرزوئیں تکمیل پا رہی تھیں ، ولی کا یہ معیار ریختہ اتنا مقبول ہوا کہ سورت کے عبدالولی، عزلت، دکن کے داؤد، سراج گجرات کے یوسف زلیخا والے امین، پنجاب کے ناصر علی سرہندی اور شاہ مراد، سندھ کے میر محمود صابر، سرحد کے عبدالرحمان بابا، بہار کے عبدالقادر بیدل، دہلی کے فائز، جعفر زٹلی، آبرو، شاہ حاتم، کرناٹک کے شاہ تراب، مدراس کے محمد باقر آگاہ، اور برّ عظیم کے طول و عرض میں چھوٹے بڑے سب شاعروں نے اس نئے معیار کو واحد ادبی معیار کے طور پر تسلیم کر لیا۔

مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے، یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ولیؔ اردو کے پہلے شاعر نہیں ہیں ، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ولیؔ اردو کی شعری روایت سے متاثر نہ ہوئے ہوں۔ اور اپنے پیش روؤں اور ہمعصروں کا اثر قبول نہ کیا ہو، مگر ہندوستان کا شروع سے یہ مزاج رہا ہے کہ اس نے ایک بار کسی کو بڑا یا عظیم مان لیتا ہے تو پھر اس کی شخصیت کے ان تمام پہلوؤں کو نظر انداز کر دیتا ہے جو بربنائے انسان دوسروں سے متاثر ہوتا ہے۔ اور دوسروں کا اثر قبول کرتا اور اپنی شخصیت کی تکمیل کی کوشش کرتا ہے۔ کچھ ایسا ہی ولیؔ کے ساتھ بھی ہوا۔

جمیل جالبی صاحب نے یہ تو لکھ دیا کہ دنیائے اردو ادب کے سبھی نابغوں نے ولیؔ سے فیض پایا اور اس کے لسانی تفاعل اور تخلیقی تناؤ اور جدت و ندرت سے تحریک حاصل کی اور اپنے اپنے فن کا چراغ جلایا۔ اور موقع ملا تو ان ہی کی زمین میں طبع آزمائی بھی کی۔ اور اکثر و بیشتر ان کے خیالات کو بھی برتنے کی کوشش کی جس کی مثال کے لیے پوری اردو شاعری کی تاریخ سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مثالیں پیش کی گئیں اور آج بھی کی جا رہی ہیں۔ اس مضمون میں بھی اس طرح کی درجنوں مثالیں پیش کی جائیں گی۔ مگر اس سے پہلے یہ بتا دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ خود ولیؔ نے بھی اپنے پیش روؤں اور ہمعصروں کا اثر قبول کیا اور حتی المقدور ان سے فائدہ بھی اٹھایا۔ چند اشعار دیکھئے۔

خبر لیا یا ہے ہدہد میرے تئیں اس پار جانی کا

خوشی کا وقت ہے ظاہر کروں رازِ نہانی کا

                                                            (محمد قلی قطب شاہ)

الٰہی رکھ مجھے تو خاک پا اہل معانی کا

کہ کھلتا ہے اسی صحبت سوں نسخہ نکتہ دانی کا

                                                            (ولی)

تجھ خال ہے رخسار میں یا ہے بھنور گلزار میں

یا مصر کے بازار میں زنگی کھڑا زنگ بار کا

                                                            (حسن شوقی)

جگ منیں دوجا نئیں ہے خوب رو تجھ سار کا

چاند کوں ہے آسماں پر رشک تجھ رخسار کا

                                                            (ولی)

سنگاتی سات نئیں میرا موا سنگار کیا کرنا

مسی ہور پان خوشبوئی پھلوں کا ہار کیا کرنا

                                                            (نصرتی)

ترے بن مجکوں اے ساجن یو گھر اور بار کرناں کیا

اگر تو نا اچھے مجھ کن تو یو سنسار کرنا کیا

                                                            (ولی)

نین تجھ مدبھرے دیکھت نظر میانے اثر آوے

ادھر کے یاد کرنے میں زباں اوپر شکر آوے

                                                            (مشتاق)

اس وقت مرے جیو کا مقصود بر آوے

جس وقت مرے برمنیں دو سیم بر آوے

                                                            (ولی)

اچپل چتر سکی کوں ہمارا سلام ہے

جس ادھر میں شہر تے میٹھا کلام ہے

                                                            (ملک خوشنود)

اس شاہ نو خطاں کوں ہمارا سلام ہے

جس کے نگینِ لب کا دو عالم میں نام ہے

                                                            (ولی)

اے سروگل بدن تو ذرا ٹک چمن میں آ

جیوں گل شگفتہ ہو کو مری انجمن میں آ

                                                            (تاناشاہ)

اے گلعذار غنچہ دہن ٹک چمن میں آ

گل سر پہ رکھ کے شمع نمن انجمن میں آ

                                                            (ولی)

عاشق ہے جن تج لعل کا اس مال و دھن سوں کیا غرض

ہے کام جس کو روح سوں اس کو بدن سوں کیا غرض

                                                            (غواصی)

تجھ زلف کے بیتاب کوں مشک ختن سوں کیا غرض

تجھ لعل کے مشتاق کوں کان یمن سوں کیا غرض

                                                            (ولی)

ساری رین تیرا بدن مج طبع میں بھرپور ہے

تج صبح مکہہ کے سامنے دیپک سدا مخمور ہے

                                                            (شاہی)

تشنہ لب کو تشنگی مے کی نہیں ناسور ہے

پنبۂ مینا اسے جیوں مرحم کافور ہے

                                                            (ولی)

نظر کی گود میں دیدا اودیدے میں نظر دستا

سو اس دیدے کے ہولے ہے سو جل باہر بھتر دستا

                                                            (شغلی)

یو تل تجھ مکھ کے کعبہ میں مجھے اسود حجر دستا

زنخداں میں ترے مجھ چاہ زمزم کا اثر دستا

                                                            (ولی)

تج ادھر مئے شوق سوں چاکیا سو متوالا ہوا

آزاد مستاں ہوئے کر چھُٹ سب سوں نروالا ہوا

                                                            (شاہ سلطان)

تجھ مکھ پہ یو تل دیکھ کر لالے کا دل کالا ہوا

دور خط سوں طوق جیوں مہتاب کا بالا ہوا

                                                            (ولی)

اس طرح کی اور بھی مثالیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پیش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ ولیؔ اہم یا عبقری شاعر نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ بزرگ آرٹ محرک ہوتا ہے، اور اس چراغ سے کتنے ہی چراغ روشن ہوتے ہیں جو تخلیق فن کی راہوں کو اجالنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بزرگ فن کے اثرات سے آلودہ اور آسودہ کوئی بھی فن پارہ اور فن کار کم سواد نہیں سمجھا جاتا ہے۔ رہی بات ولیؔ کی تو ان کی عظمت کا ایک زمانہ قائل ہے جب کہ خود ولیؔ کو بھی اپنی شعری انفرادیت اور تخلیقی ثروت مندی، اور فنکارانہ ہنر مندی کا خوب خوب احساس تھا، وہ اپنی لسانی ندرت کاری اور سخن طرازی کی تازگی سے بھی آگاہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ خدائے سخن میر تقی میر کی طرح ان کے یہاں بھی بکثرت تعلّی کے اشعار پائے جاتے ہیں۔ چند اشعار دیکھئے۔

اے ولی لگتا ہے ہر دل کو عزیز

شعر تیرا بسکہ شوق انگیز ہے

میرے سخن میں فکر سوں کر اے ولی نگاہ

ہر بیت مجھ غزل میں ہے انتخاب کا

اے ولی مجھ سخن کو وو بوجھے

جس کو حق نے دیا ہے فکر رسا

جیوں گل شگفتہ رو ہیں سخن کے چمن میں ہم

جیوں شمع سربلند ہیں ہر انجمن میں ہم

ایسا شاعر جس کی استادی کے سامنے بڑے سے بڑے شعرا و ادبا کی نظریں جھک جاتی ہوں ، ان کی شعری کائنات میں داخل ہونا اور ان کی تخلیقی جہتوں کی دریافت اور بازیافت میں اپنے فہم و ادراک کا ثبوت پیش کرنا اور اردو شاعری میں ان کی اولیات کی نشاندہی کرنا آسان نہیں ہے۔ کیوں کہ اس بے حد توانا، منفرد اور متنوع شاعر کے کلام کے کتنے ہی رنگ ایسے ہیں جنہیں آسانی سے گرفت میں نہیں لیا جاسکتا ہے۔ اور نہ ان کی شاعری کی تمام جہات کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔ ہاں ان کے کلام کو والہانہ ذوق و شوق سے پڑھنے، سمجھنے اور ان سے حظ اٹھانے کی ایک طالب علمانہ کوشش ضرور کی جاسکتی ہے اور اسی کوشش کا نتیجہ ہے یہ مضمون۔

پروفیسر خالد محمود نے اپنے اہم مضمون ’’ولی کی عظمت‘‘ نئی کتاب۔ اپریل جون ۲۰۱۰ء میں لکھا ہے کہ:

’’ولیؔ پر تا حال جو تحقیقی اور تنقیدی کام ہوا ہے اس میں ولی کا نام، مقام پیدائش، وفات، اسفار، خصوصاً سفر دلی دوران سفر دلّی شاہ سعداللہ گلشن سے ولی کی ملاقات اور شاہ صاحب کا ولیؔ کو فارسی آمیز شعر کہنے کا مشورہ یا دیوان ولیؔ کی دلّی آمد کے تعلق سے بحث زیادہ ملتی ہے اور ان کی شاعرانہ خصوصیات کا ذکر استحقاق سے بہت کم ہے۔‘‘

اور یہ بات کچھ بہت غلط بھی نہیں ہے کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بیشتر لوگ انہیں متنازع موضوعات پر لکھتے ہیں اور کسی خاص نتیجہ پر پہونچے بغیر بات ختم کر دیتے ہیں۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ لوگ ولیؔ کی شاعری کی خوبیوں پر لکھتے ہی نہیں ہیں۔ یا یہ کہ لکھا ہی نہیں ہے۔ لکھا ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ ولی کا جو مرتبہ ہے۔ اس حساب سے کم لکھا ہے۔ اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ولی کے فن کی خوبیوں ، لطافت، اور ان کے لہجے کی رنگینی اور شیفتگی اور داخلی و خارجی خصوصیات کی عملی شناخت پر توجہ کی جائے۔ کیوں کہ یہی وہ چیزیں ہیں جس نے ولیؔ کو ولیؔ بنایا ہے۔

ولیؔ کے شعری سرمائے میں یوں تو تمام ہی اصناف شاعری کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ مگر وہ عام طور پر غزل ہی کے شاعر کی حیثیت سے یاد کیے جاتے ہیں۔ اور اتنی بات تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ غزل ایجاز و اختصار اور ایمائیت کا فن ہے۔ یہ ایسی صنف شاعری ہے جس میں بڑی سے بڑی بات اشارے اور کنائے میں بیان کر دی جاتی ہے۔ جب کہ لطف کلام کے لیے مختلف النوع صنعتوں کا بھی خوب خوب استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو غزل کو اردو اصناف ادب میں سب سے ممتاز اور مکمل صنف قرار دیتی ہے۔

ولیؔ چوں کہ اردو کے ممتاز ترین شعرا میں سے ایک ہیں اس لیے ان کی شاعری میں وہ تمام چیزیں مل جاتی ہیں جن کا ہونا کسی بھی اچھی شاعری کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔

صنعت ایہام کی چند مثالیں دیکھئے۔

پری رویان کے کوچہ میں خبرداری سوں جا اے دل

کہ اطراف حرم میں ڈر ہمیشہ ہے حرامی کا

یہاں پر ’’حرامی‘‘ کے لفظ سے چور کا معنی مراد لیا گیا ہے۔ لیکن ’’حرم‘‘ کے لفظ کی وجہ سے ذہن ’’حرام‘‘ یا ’’حرامی‘‘ کی جانب جاتا ہے۔ یہ شعر ایہام تناسب کی عمدہ مثال ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر غیر مناسب نہیں ہو گا کہ ایہام ہی وہ صنف ہے جس نے ولی کے عہد کی دلّی اور اطراف دلّی کے اساتذہ سخن کو اتنا متاثر کیا کہ پورا دور ہی ابہام پر ستی کے نام سے منسوب ہو گیا، مگر ولیؔ نے یہاں بھی توازن قائم رکھا اور شعریت کو مجروح نہیں ہونے دیا، غالباً اسی وجہ سے محمد حسین آزاد نے لکھا ہے کہ:

’’ولیؔ نے اپنے کلام میں ایہام اور الفاظ ذو معنین سے اتنا کام نہیں لیا، خدا جانے ان کے قریب العہد بزرگوں کو پھر اس قدر شوق اس کا کیوں کر ہو گیا۔‘‘

                        (آب حیات۔ مطبوعہ لاہور۔ ۱۹۵۰ئ؁۔ ص ۸۷)

آزاد کے اس قول سے ایک طرح کی حیرت زائی مترشح ہے۔ یعنی جب تمام شعرا ولیؔ کی استادی کے قائل ہیں تو پھر ان کے برعکس ایہام گوئی میں اس قدر کیوں مصروف ہیں کہ شعر اور شعریت کی حرمت کا پاس نہیں ہے۔

ولیؔ نے عام طور پر ایہام گوئی سے شعر میں حسن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اکثر و بیشتر کامیاب رہے ہیں۔ چند اشعار دیکھئے۔

موسیٰ جو آ کے دیکھے تجھ نور کا تماشا

اس کو پہاڑ ہووے پھر طور کا تماشا

نہ جانوں خط ترا کس بے خطا پر

چلا ہے آج فوج شام لے کر

گرچہ لچھمن ترا ہے رام ولے

اے سجن تو کسی کا رام نہیں

ان اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے صنعت گری پر شعریت کو قربان نہیں کیا ہے۔ چند اور اشعار دیکھئے۔

تعریف ترے قد کی الف دار سری جن

جاسر و گلستان کوں خوش الحان سے کہوں گا

ترے عشق نے خم کیا ہے مجھے

مرے حال پر زلف تیری ہے دال

پہلے شعر میں ’’الف وار‘‘ کے دو معنی ہیں ایک الف کی طرح سیدھا (براہ راست) جا کر کہنا، اور دوسرے شروع سے آخر تک یعنی پوری داستان بیان کرنا، یہاں پر مکمل طور سے کہنا مراد لیا گیا ہے۔ دوسرے شعر میں لفظ ’’دال‘‘ قابل توجہ ہے، دال کے دو معنی ہیں ، ایک حرف ’’د‘‘ کی طرح خمیدہ ہونا، اور دوسرے دال، یعنی دلیل اور یہاں پر دلیل یا ثبوت کے معنی مراد لیے گئے ہیں۔ ولیؔ کے یہاں ایہام والے اشعار میں ابتذال بہت ہی کم پایا جاتا ہے۔ یہ بھی ان کی انفرادیت کا ثبوت ہے، ولیؔ نے رعایت لفظی سے بھی خوب خوب کام لیا ہے۔ چند اشعار دیکھئے۔

یوں تل تجھ مکھ کے کعبہ میں مجھے اسود حجر دستا

زنخداں میں ترے مجھ چاہ زمزم کا اثر دستا

کثرت کے پھول بن میں جاتے نہیں ہیں عارف

بس ہے موحّداں کوں منصور کا تماشا

پروانہ ہو کے کیوں نہ گرے چاند چرخ سوں

فانوس دل میں شوق ترا ہے سراج آج

پہلے شعر پر توجہ کریں تو معلوم ہو گا کہ کعبہ، حجر اسود، اور زمزم میں بڑا قریبی لفظی تناسب ہے جب کہ تل، مکھ، اور زنخداں میں بھی رعایت لفظی موجود ہے۔ اسی طرح دوسرے شعر میں کثرت، عارف، موحد، منصور، سب کے سب الفاظ تصوف سے متعلق ہیں اور آپس میں کوئی نہ کوئی تعلق ضرور رکھتے ہیں۔ جب کہ تیسرے شعر میں پروانہ، گرنا، فانوس، اور سراج ایک طرف اور چاند اور سراج دوسری طرف ایک دوسرے سے متناسب ہیں۔ رعایت لفظی کی مثالوں سے ولی کا کلام بھرا پڑا ہے۔

پروفیسر خالد محمود کہتے ہیں کہ:

’’لفظی اور معنوی رعایتوں اور مناسبتوں کا ولی کے کلام میں ایک جال سا بچھا ہوا ہے جس میں تجنیس کی بعض مثالیں تو ایسی غیر معمولی ہیں کہ کسی اور جگہ ان کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ آگے چل کر انہوں نے ولی کے اس شعر:

سراپا بدن گل کے پانی ہوا

ترے غم سے جیوں شبنم اے گل بدن

کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

ولی کا یہ بظاہر سادہ سا شعر رعایت لفظی کی گلکاریاں اور معنوی کرشمہ سازیوں کا حیرت انگیز نمونہ ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ ولی کے یہاں تمام صنعتوں کا بہت ہی خوبی سے استعمال ہوا ہے۔

حسن تعلیل کی مثال دیکھئے۔

ماہ کے سینے اپراے ماہ رو

داغ ہے تجھ حسن کی جھلکار کا

مشرق سوں مغرب لگ سدا پھرتا ہے ہر ہر گھرولے

اب لگ سُرج دیکھیا نہیں ثانی ترا آفاق میں

 کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کہ حسن تعلیل ایسی صنعت ہے جس میں کسی چیز کی ایک ایسی علت فرض کر لی جاتی ہے جو دراصل اس کی علّت نہیں ہوتی۔

مراعات النظیر کی مثالیں دیکھئے۔

آج کی رین مجھ کو خواب نہ تھا

دونوں انکھیاں میں غیر آب نہ تھا

تجھ حسن آب دار کی تعریف کیا لکھوں

موتی ہوا ہے غرق تجھے دیکھ آب میں

صنعت تضاد کی مثالیں بھی ولی کے یہاں بکثرت ملتی ہیں۔ چند اشعار دیکھئے۔

جاتا ہے دن تمام اسی مکھ کی یاد میں

ہوتا ہے فکر زلف میں احوال شب عجب

نہ ہوئے اسے جگ میں ہرگز قرار

جسے عشق کی بے قراری لگے

پہلے شعر میں تضاد کی ایجابی صورت اور دوسرے شعر میں تضاد کی انحرافی صورت واضح ہے۔ صنف تضاد کی چند اور مثالیں ملاحظہ ہوں۔

ہجر کی زندگی سوں موت بھلی

کہ جہاں سب کہیں وصال ہوا

دو رنگی سوں تری اے سرورعنا

کبھو راضی کبھو بے زار ہیں ہم

مکھ ترا جیو روز روشن زلف تیری رات ہے

کیا عجب یہ بات ہے اک ٹھار دن ہور رات ہے

صنعت ردالعجز علی الصدر کی مثال کے لیے ولی کی ایک مکمل غزل ہے جو بہت ہی مشہور ہے، چند اشعار دیکھئے۔

بے وفا گر تجھ کو بولوں ہے بجا اے نازنیں

نازنیں عالم منیں ہوتے ہیں اکثر بے وفا

کم نما ہے نوجواں میرا برنگ ماہ نو

ماہ نو ہوتا ہے اکثر اے عزیزاں کم نما

کیمیا عاشق کے حق میں ہے نگاہ گل رخاں

گل رخاں سوں جگ میں پایا ہوں ولی یہ کیمیا

سراپا نگاری بھی غزل کی اہم صنعتوں میں شمار کی جاتی ہے۔ ولی کے یہاں سراپا نگاری کی بڑی عمدہ عمدہ مثالیں بکھری پڑی ہیں۔ ایک دو مثالیں ملاحظہ ہوں۔

قد ترا رشکِ سرورعنا ہے

معنی ناز کی سراپا ہے

تجھ بھواں کی میں کیا کروں تعریف

مطلع شوخ و رمز و ایما ہے

چمن حسن میں نگہ کر دیکھ

زلف معشوق عشق پیچاں ہے

کیوں نہ مجھ دل کو زندگی بخشے

بات تیری دمِ مسیحا ہے

اس کے پیچاں کا کچھ شمار نہیں

زلف ہے یا موج دریا ہے

ترا مکھ ہے چراغ دل ربائی

عیاں ہے اس میں نور آشنائی

تو ہے سرپاؤں لگ از بس کہ نازک

نگہہ کرتی ہے تجھ پگ کوں حنائی

تری انکھیاں کی مستی دیکھتے ہیں

گئی ہے پارسا کی پارسائی

ہے جلوہ گر صنم میں بہار عتاب آج

لینا ہے اس کے ناز و ادا کا حساب آج

عالم کا ہوش کیوں کر رہے گا عجب ہوں میں

چکتا ہے اس کے نین سوں رنگ شراب آج

کیا ناز کیا غرور ہے اس نوبہار میں

دیتا نہیں سلام کے میرے جواب آج

تیرے رنگے لباں کے ، کہ ہیں چشمۂحیات

لگتا ہے آبِ خضر مثال سراب آج

اس کی نگاہ مست سوں معلوم یوں ہوا

یکسر کرے گی خانۂ عاشق خراب آج

معلوم نئیں کہ ہاتھ میں شمشیر لے صنم

آتا ہے کس کے قتل کوں ریتا شتاب آج

کیوں آرزوئے وصل کروں اس کے اے ولی

دیتا نہیں ہے ناز سوں سیدھا جواب آج

ولی کی یہ غزل حسرت کی مشہور زمانہ غزل مسلسل ’’چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے‘‘ یا پھر جگرؔ کی غزل مسلسل، یہ چل رہے ہیں وہ پھر رہے ہیں ، یہ آرہے ہیں ، وہ جانرہے ہیں ، وغیرہ سے کہیں زیادہ معنی خیز سراپا انگیز اور جذبات سے لبریز ہے۔ ناز نخرے اور غصے سے تمتمائے محبوب کا جو پیکر ولی نے یہاں پیش کیا ہے اس سے لفظوں میں بھی ایک دبی دبی تپش پیدا ہو گئی ہے۔ غزل پڑھتے ہوئے قاری ولی کے تجربے میں پوری طرح شامل ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ ان کا تجربہ بڑا فطری اور حقیقی معلوم ہوتا ہے۔ ہمیں اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ولی کو تصوف سے بھی گہرا لگاؤ تھا۔ شاہ سعداللہ گلشن سے ان کی عقیدت اور پھر دکن کی ثقافت میں رچی بسی بھکتی تحریک کی خوشبو یہ سب ایسی چیزیں ہیں جس نے ولی کے تصوف رنگ مزاج کو جلا بخشنے میں اہم رول ادا کیا۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک زمانے میں دکن میں الواروں کی بھکتی کا بڑا چرچا تھا۔ جس کا عہد قبل از مسیح سے ہی شروع ہو جاتا ہے، اس بھکتی میں غلامی دوستی شفقت اور حسن کے جذبے کی بڑی آمیزش تھی اس لیے یہ گمان کرنا قطعی غلط نہیں ہو گا کہ ولیؔ کے تصوف اور کلام میں جس طرح دوستی، شفقت، عشق اور حسن کے جذبے کی عکاسی ملتی ہے، اس میں اس بھکتی ثقافت کی تہذیب کی روح کا اثر ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ جزوی طور پر ہی سہی ولی رامانند آچاریہ مادھو آچاریہ۔

وشنو سوامی، اور نمبارک اچاریہ وغیرہ سے ضرور واقف رہے ہوں گے، کہنے کو تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ شمال و جنوب کی ثقافت اور لسانی برتاؤ میں جو فرق ہے۔ اس میں بھی اسی بھکتی تحریک کا رول ہے مگر ظاہر ہے کہ یہاں پر اس موضوع پر زیادہ گفتگو ممکن نہیں ہے۔ لیکن یہ تو کہا ہی جاسکتا ہے۔ کہ دکنی تہذیب کے پس منظر میں اردو شعرا کے یہاں جو محبت اور دلداری پائی جاتی ہے وہ اسی بھکتی تحریک سے حاصل شدہ وراثت کا فیض ہے۔

پروفیسر وہاب اشرفی صاحب کھلے لفظوں میں لکھتے ہیں کہ:

’’ولیؔ کے یہاں جس طرح بیراگی، برہ، ساجن، رتھ پتھ، امرت، بچن، ہیکل، اور ہلاس جیسے الفاظ بار پاتے ہیں۔ وہ الواری تصوف کے مختلف سلسلوں کی دین ہیں یہی تصوف پھیل کر ولیؔ کے یہاں عشق بن گیا ہے۔ جو بھکتی اور تصوف کی مشترک میراث ہے۔ ‘‘

            (معنی کی جبلت۔ ایجوکیشنل بک ہاؤس۔ دہلی۔ ۲۰۰۸ء؁۔ ص ۱۲)

اور یہ بات بہت حد تک درست ہے کیوں کہ ولی کے یہاں عشق حقیقی و مجازی کے حامل اشعار کی کوئی کمی نہیں ہے۔ چند اشعار دیکھئے۔

سجن کے باج عالم میں دگر نئیں

ہمیں میں ہے ولے ہم کو خبر نئیں

عیاں ہے ہر طرف عالم میں حسن بے حجاب اس کا

بغیر از دیدۂ حیراں نہیں جگ میں نقاب اس کا

ہر ذرۂ عالم میں ہے خورشید حقیقی

یوں بوجھ کے بلبل ہوں ہر یک غنچہ وہاں کا

نشانی حسن کی پانے کی جگت کی بے نیازی ہے

کشاکش کام اپنے کی جگت کی کارسازی ہے

دم تسلیم سوں باہر نکلنا سو قباحت ہے

نہ دھر اس دائرے سوں ایک دم باہر چرن ہرگز

ولی کے یہاں عشق کا جو تصور ابھرتا ہے وہ بھی بہت توانا اور صحت مند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں محبوب کی جو حسی تصویر ابھرتی ہے وہ بڑی حقیقی معلوم ہوتی ہے۔ ولی کی شاعری میں چوں کہ حسن و عشق کے تمام جلوے اور رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ اور فنی سطح پر تشبیہات کی بھی ایک حسین کائنات پھیلی ہوئی ہے۔ اس لیے بعض اوقات تو ولی کی غزلیں رنگ و نور کی جگمگاتی ایک نہایت کشادہ شاہراہ معلوم ہوتی ہے۔ یہی وہ صورتحال ہے جس کے پیش نظر بعض لوگ انہیں محض حسن و عشق کا شاعر قرار دینے پر مصر نظر آتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ولی کی شاعری کسی ایک رنگ کی اسیر نہیں ہے۔ ان کے یہاں بلا کا تنوع پایا جاتا ہے۔ اور اہم بات یہ ہے کہ ان کی شاعری کا ہر رنگ اور ہر پہلو اتنا توانا اور بھرپور ہے کہ جس پہلو پر نظر ڈالیں محسوس ہوتا ہے، ولی اسی رنگ کے شاعر ہیں۔ چوں کہ ولی کی شاعری میں ہمارے جذبات کو انگیخت کرنے اور ہمارے محسوسات کو چھونے کی ایک انوکھی خوبی اور صلاحیت ہے۔ اس لیے ہم جب ان کی غزل کائنات میں داخل ہوتے ہیں تو ان کے بصری اور سمعی تلازموں سے آراستہ وادیِ شعر و سخن میں گم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ولیؔ کی اس نوع کی شاعری پر توجہ کریں تو محسوس ہو گا کہ ان کے یہاں رنگوں کا خاص اہتمام پایا جاتا ہے۔ جب کہ سرخ اور سنہرے رنگ کو ایک طرح کا اختصاص حاصل ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔

گل ہوئے غرق آپ شبنم میں

دیکھ اس صاحب ادا کی ادا

رشک سوں تجھ لباں کی سرخی پر

جگر لالہ داغ داغ ہوا

اطراف آسماں کے ہجوم شفق نہیں

تجھ رنگ نے ہوا کوں کیا لالہ زار آج

لگتا ہے مجھ کوں پنجۂ خورشید رعشہ دار

دیکھا ہے جب سوں پنجۂ زریں نگار کا

چوں کہ حسن اور عشق کا رنگ کسی ایک رنگ میں قید ہو کر نہیں رہ پاتا ہے۔ اس لیے ولی کے یہاں بھی محض انہیں دو رنگوں کی بہار نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے یہاں حسن و عشق اور محبوب زندگی کے ہر رنگ میں نظر آتا ہے۔چند اشعار اور دیکھئے۔

ہوا قد سرو کے مانند صنم کا

لباس سبز سوں سر تا قدم سبز

دیکھ اس کی کلاہ بارانی

چاند پر آج ابر آیا ہے

نام اس دو رنگے کا کیوں نہ ہو گل رعنا

چہرہ ارغوانی ہے جامہ زعفرانی ہے

حد تو یہ ہے کہ سیاہ رنگ جو عام طور پر غم و غصے کی علامت سمجھا جاتا ہے، ولیؔ نے اس سے بھی محبوب کی تصویر کشی کا کام لیا ہے۔ شعر دیکھئے۔

اے صنم تجھ جبیں اپر یہ خال

ہندوئے ہردوار باسی ہے

یہ سیہ زلف تجھ زنخداں پر

ناگنی جوں کنویں پر پیاسی ہے

ولی کے کلام میں تشبیہات بلکہ یوں کہیں کہ خوبصورت تشبیہات کے جال کا ہر کسی کو احساس ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جس طرح علم بیان میں تشبیہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، اسی طرح ولی کے کلام میں تشبیہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے تو قطعی مبالغہ نہیں ہو گا۔ کیوں کہ ولی کا کلام تشبیہات کا جیتا جاگتا سمندر معلوم ہوتا ہے۔ جب کہ دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ ولی کے کلام میں عقلی اور تخیلی تشبیہات کی بہ نسبت حسّی تشبیہات کی کثرت ہے جس سے محبوب کی ایسی خوبصورت تصویر بنتی ہے کہ ہر کوئی اس میں کھو کر رہ جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ولی کی مشہور زمانہ غزل تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا۔ کے علاوہ بھی سیکڑوں مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ مثلاً:

صنعت کے مصور نے صباحت کے صفحے پر

تصویر بنائی ہے تری نور کو مل کر

کیا ہوسکے جہاں میں ترا ہمسر آفتاب

تجھ حسن کی اگن کا ہے اک اخگر آفتاب

تجھ مکھ کی جھلک دیکھ گئی جوت چندرسوں

تجھ مکھ پہ عرق دیکھ گئی آب گہر سوں

جگ دو جا نہیں ہے خوب رو تجھ سار کا

چاند کوں ہے آسماں پر رشک تجھ رخسار کا

جب سے تیری زلف کوں دیکھا ہے زاہد اے صنم

ترک کر مسجد کوں ہے مشتاق تجھ زنار کا

نین دیول میں پتلی ہے دیا کعبے میں ہے اسود

ہرن کا ہے یو نافہ یا کنول بھیتر بھنور دستا

دونوں جہاں کو مست کرے ایک جام میں

آنکھوں کا تیرے عکس پڑے گر شراب میں

موج دریا کی دیکھنے مت جا

دیکھ اس زلف عنبریں کی ادا

ولی کے یہاں پوری کی پوری غزلیں خوبصورت تشبیہات سے مزین ہیں۔ ایک ہی غزل کے چند اشعار دیکھئے۔

ترا لب دیکھ حیواں یاد آوے

ترا مکھ دیکھ کنعاں یاد آوے

ترے دو نین جب دیکھوں نظر بھر

مجھے تب نرگستان یاد آوے

ترے زلفاں کی طولانی کو دیکھے

مجھے لیل زمستاں یاد آوے

ولی میرا جنوں جو کئی کہ دیکھے

اسے کوہ و بیاباں یاد آوے

تشبیہوں اور استعاروں کی مدد سے ولی نے محبوب کی جو تصویر کشی کی ہے وہ بھی ان کے فنکارانہ کمال کی دلیل ہے، ویسے ولی نے اپنے حال دل اور عشق بے داد کی جو کہانی اپنے اشعار میں بیان کی ہے اس میں ایک خاص طرح کی شائستگی پائی جاتی ہے۔ یعنی ان کے یہاں محبوب کے جسم کے خطوط کی پیراکی اور بوالہوسی کے بجائے ایک جیتے جاگتے حیا دار اور عزت دار محبت کا عکس نمایاں ہوتا ہے۔ یہی چیز ان کے عشقیہ معاملات کو گوارہ خاطر بناتی ہے۔ چند اشعار دیکھئے۔

ہے منت شراب ہوں سرشار انبساط

تجھ نین کا خیال مجھے جام جم ہوا

ہر درد پر کر صبر ولی عشق کی رہ میں

عاشق کو نہ لازم ہے کرے دکھ کی شکایت

قرار نہیں ہے مرے دل کوں اے سجن تجھ بن

ہوئی ہے دل میں مرے آہ شعلہ زن تجھ بن

اس طرح واضح ہو جاتا ہے کہ ولی کی شاعری میں حسن و عشق کا جو تصور ملتا ہے وہ مجرد اور خیالی نہیں ہے۔ اور نہ اس میں وہ بے اعتدالی اور سطحیت ہے جو آگے چل کر محمد شاہی دور کے اکثر شعرا کے یہاں نظر آتی ہے۔ اور لکھنوی تہذیب کے تناظر میں چوٹی مسی کی شاعری کہلاتی یا خارجیت کے نام سے موسوم کی جاتی ہے۔

ولی کی تخلیقی انفرادیت اور فنکارانہ کمال کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بعد کے تقریباً تمام بڑے شعرا نے ان سے کسی نہ کسی سطح پر کسب فیض ضرور کیا ہے۔ ایک آدھ مثالیں دیکھئے۔ ولیؔ کا ایک شعر ہے۔

 بات کہنے کا کبھی جب وقت پاتا ہے غریب

بھول جاتا ہے وہ سب دیکھ صورت یار کی

میر کہتے ہیں :

کہتے تھے کہ یوں کہتے یوں کہتے وہ جو آتا

سب کہنے کی باتیں ہیں کچھ بھی نہ کہا جاتا

غالب نے کہا:

آج ہم اپنی پریشانی خاطر ان سے

کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھیے کیا کہتے ہیں

امیر مینائی کہتے ہیں :

یہ کہوں گا یہ کہوں گا یہ ابھی کہتے ہو

سامنے ان کے بھی جب حضرت دل یاد رہے

داغ کے یہاں تو پورا مصرع ہی لڑگیا ہے۔

یاد سب کچھ ہیں مجھے ہجر کے صدمے ظالم

بھول جاتا ہوں مگر دیکھ کے صورت تیری

ولی کا ایک اور شعر ہے۔

رات دن جگ میں رفیق بے کساں

بے کسی ہے بے کسی ہے بے کسی

اسی خیال کو درد نے اس طرح باندھا ہے۔

آنکھیں بھی ہائے نزع میں اپنی بدل گئیں

سچ ہے کہ بے کسی میں کوئی آشنا نہیں

امیر مینائی نے کہا کہ

پتلیاں تک بھی تو پھر جاتی ہیں دیکھ دم نزع

وقت پڑتا ہے تو سب آنکھ چرا جاتے ہیں

ایک جگہ ولی نے محبوبہ کی ناراضگی کا ذکر اپنے شعر میں اس طرح کیا ہے۔

کرتی ہے دل کو بے خود اس دل ربا کی گالی

گویا ہے جام شربت اس خوش ادا کی گالی

ولیؔ کا اسی قبیل کا ایک دوسرا شعر بھی ہے۔ دیکھئے:

اگرچہ ہر سخن تیرا ہے آب خضر سوں شیریں

ولے لذت نرالی ہے پیا تجھ لب کی گالی میں

غالب نے اسی بات کو دوسرے انداز میں کہا ہے اور کہنا چاہیے کہ خوب کہا ہے۔

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کے رقیب

گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا

مومن کا شعر ہے۔

دشنام یار طبع حزیں پر گراں نہیں

اے ہمنشیں نزاکت آواز دیکھنا

شاہ حاتم کا بھی ایک شعر اسی نوعیت کا ہے۔ دیکھئے۔

حق میں عاشق کے تجھ لباں کے بچن

قند ہے ، نیشکر ہے ، شکر ہے

ولی کا ایک مشہور مطلع ہے۔

خوب رو خوب کام کرتے ہیں

یک نگہ میں غلام کرتے ہیں

اس مطلع پر کئی شعرا نے مطلعے کہے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔

جب سجیلے خرام کرتے ہیں

ہر طرف قتل عام کرتے ہیں

                                                            (فائز)

خوش قداں جب خرام کرتے ہیں

فتنہ برپا تمام کرتے ہیں

                                                            (یک رو)

نازنیں جب خرام کرتے ہیں

ہر طرف قتل عام کرتے ہیں

                                                            (آبرو)

ولی کی مشہور زمانہ غزل کا مطلع ہے۔

تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا

جادوں ہیں ترے نین غزالاں سوں کہوں گا

آبروؔ نے اسی مطلع پر ایک خوبصورت مطلع کہا ہے۔

بے تابیٔ دل آج میں دلبر سوں کہوں گا

ذرّے کی تپش لہرِ منوّر سوں کہوں گا

چوں کہ یہ بات طے ہے کہ دلّی والوں نے ولیؔ کا دیوان دیکھ کر ہی اردو دیوان کی طرف توجہ کی اس لیے بیشتر شعرا نے ولی کی خوشہ چینی میں بھی کوئی تکلف نہیں محسوس کی۔

ولیؔ کا ایک شعر ہے۔

پھر میری خبر لینے وہ صیاد نہ آیا

شاید کہ مرا حال اسے یاد نہ آیا

مجھ پاس کبھی وہ قد شمشاد نہ آیا

اس گھر منے وہ دلبر استاد نہ آیا

                                                            (فائز )

یوں تو دلّی کے کئی شعرا نے ولیؔ کے رنگ میں شعر کہا ہے۔ مگر فائز نے ولی سے کچھ زیادہ ہی استفادہ کیا ہے۔ ولی کا ایک شعر ہے۔

اک بار مری بات اگر گوش کرے تو

ملنے کو رقیباں کے فراموش کرے تو

فائز نے اسی زمین میں غزل کہتے ہوئے مطلع کہا۔

اے یار نصیحت کو اگر گوش کرے تو

یہ طور طریق اپنے فراموش کرے تو

یہ ٹھیک ہے کہ بہت سارے معاملات میں ولیؔ کو اولیت حاصل ہے۔ اور بیشتر شعرا نے ان سے استفادہ کیا ہے۔ مگر یہ بھی درست ہے کہ کئی شعرا نے بالخصوص میر نے غزل کو اگلے پڑاؤ تک پہونچانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اور ولی سے زیادہ روشن لکیر کھینچی ہے، ولی کا ایک شعر ہے۔

ہوں گرچہ خاکسار ولے از رہِ ادب

دامن کو تیرے ہاتھ لگایا نہیں ہنوز

اب میر کا شعر دیکھئے جو ولی سے بہرحال بلند ہے۔

دور بیٹھا غبار میر اس سے

عشق بن یہ ادب نہیں آتا

ولیؔ نے اپنے ایک شعر میں زندگی کا فلسفہ پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ شعر دیکھئے۔

یو بات عارفاں کی سنو دل سے سالکاں

دنیا کی زندگی ہے یو وہم و گمان محض

اسی خیال کو مرزا غالب نے بھی باندھا ہے اور خوب باندھا ہے۔ شعر دیکھئے۔

ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد

عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے

اگر کسی خیال کو بعد کے کسی شاعر نے ولی سے بہتر انداز میں پیش بھی کیا ہو تو اس سے ولی کی عظمت اور اولیت پر کوئی حرف نہیں آتا ہے۔ کیوں کہ نقش اول ہمیشہ مشکل اور تخلیقی نوعیت کا ہوتا ہے۔ جب کہ نقش ثانی بہت کچھ توسیعی اور کسی حد تک نقالی کی حیثیت رکھتا ہے۔ مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ولی کے یہاں ایسی تخلیقی توانائی پائی جاتی ہے۔ جس سے ہر زمانے کا فنکار اپنی استطاعت کے مطابق فیض پاتا رہے گا۔

٭٭٭

 

 

شہرتِ شعرم بہ گیتی بعد من خواہد شدن۔۔ غالبؔ

مرزا غالب خود نوشت سوانح حیات کے مطابق ۲۷؍دسمبر ۱۷۹۷؁ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ۱۵؍ فروری  ۱۸۶۹؁ء ان کی مسلّمہ تاریخ وفات ہے۔ مرزا غالب نے جو ماحول پایا وہ پوری طرح زوال آمادہ تھا۔ مغلیہ سلطنت کا شمع اقتدار اورنگ زیب کی وفات کے بعد اپنی ضیا باری سے محروم ہو گیا۔ بہادر شاہ اول سے بہادر شاہ ثانی تک کے زمانۂ اقتدار میں وہ دود چراغ سحری کی طرح تحلیل ہوتا چلا گیا۔ خود غرضی اور شکم پروری کا مار سیہ جو عمائدین ورؤسا کے اندر مدّت سے کنڈلی مارے بیٹھا تھا وہ ماحول کو اپنے لئے سازگار دیکھتے ہی حرص وہوس کے متعفن بل سے باہر نکل آیا اور جاں بلب مغلیہ سلطنت کے ناتواں جسم میں یکبارگی اپنا سارا زہر انڈیل دیا۔ خانہ جنگی معمولات زندگی بن گئی۔ ایسے ماحول میں انگریزی سامراجیت کے شاطر مداریوں نے اپنا کرتب دکھانا شروع کر دیا اور  اہل تخت و تاج کو اپنی مرضی کے مطابق بندر بانٹ کا لالچ دے کر نچانے لگے۔ اورنگ زیب کے کمزور جانشین ان تبدیلیوں پر قابو نہیں پاسکے حتیٰ کے  ۱۸۵۷؁ء کی ناکام جنگ آزادی نے انگریزوں کی قوت کا لوہا منوا لیا۔ اور اس طرح شکست و ریخت کے جگر پاش مرحلہ سے گزرتا ہوا مشرقی نظام حیات اور معاشرہ لہولہان ہو گیا۔

مرزا غالب کی حسیات نے ان تبدیلیوں کا بڑا گہرا اثر قبول کیا۔ تاریخی اور تہذیبی تبدیلیوں سے متعلق عوامل نے ان کی غزلوں کو جذبات و کیفیات کا نازک آبگینہ بنا دیا۔

آج سے تقریباً آٹھ دہائی پہلے عبدالرحمن بجنوری نے جب دیوان غالب کو الہامی کتاب کہا تھا تو لوگوں نے اسے عقیدت مندانہ قصیدہ خوانی پر محمول کیا تھا۔ اوراسے معروضیت اور تنقیدی بصیرت سے مملو سمجھنے کے بجائے جذباتیت پر محمول کر کے سردخانے میں ڈال دیا تھا۔ لیکن آج ان کا قول اپنی صداقت کو تسلیم کرا چکا ہے۔ بجنوری مرحوم ’’آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں ‘‘ کے اندھے مقلد نہیں تھے۔ وہ ایک پڑھے لکھے اور رساذہن کے حامل انسان تھے۔ انہیں انتقادیات ادب کے دوسرے فکروفلسفہ سے بھی گہری دلچسپی تھی۔ انہوں نے دیوان غالب کو الہامی کتاب اس لئے کہا تھا کہ غالب وہ واحد شخص تھے جنہوں نے غزل کی سطحی داخلی فضا کو تفکر و تعمق کی ضیا باری سے منور کیا تھا۔ اور دانشوری و ثروت مندی کے اس تہذیبی سرچشمے سے جوڑا تھا جس کی گھاٹ پر لطافت و جمالیات کی دیوی اپنے بال سکھاتی  تھی۔

مرزا غالب سے پہلے اردو غزل خالص جذبات کی شاعری تھی، یہ مرزا غالب ہی کا کمال تھا کہ انہوں نے جذبات کو پس پشت ڈال کر جذبات کی تہذیب کو شاعری کی روح میں حل کیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ غزل داخلیت و انفعالیت کے تنگ دائرے میں قید ہو کر مرجھانے لگی تھی،  اس کی تازگی، اس کی دلکشی، اس کا حسن ماند پڑنے لگا تھا۔ یہ مرزا غالب ہی کا اجتہاد تھا کہ انہوں نے اردو غزل کو مجہول جذباتیت اور مہمل وسطحی داخلیت کے تیرہ و تار دائرہ سے نکال کر انسانی فطرت و خصلت اور علم و دانش کی ہمرکابی کے قابل بنا دیا۔

مرزا غالبؔ کا لب و لہجہ اپنے عہد میں سب سے نیا اور سب سے منفرد ہے۔ یہ انفرادیت ان کی تخلیقی زرخیزی اور فکری ثروت مندی کی دلیل ہے۔ ان کے معاصرین جہاں متقدمین کی بنائی سال خوردہ تخلیقی سڑکوں پر محو خرام روایت کی پرانی دھول کو تبرک سمجھ کر اپنی پیشانی پر مل رہے تھے اور اپنی جولانی طبع کے گھوڑے جانی پہچانی تخلیقی وادیوں مین دوڑا رہے تھے۔ وہیں مرزا غالب اپنے لئے ایک الگ اور منفرد راہ تلاش رہے تھے۔ ایک نئی تخلیقی شاہراہ کی بنیاد ڈال رہے تھے۔ ان کا جدت پسند دماغ پرانی طرز و ادا سے دامن کش ہو کر نئے تخلیقی امکانات کو دریافت کرنے میں لگا ہوا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ عوام الناس ان کے حسیاتی امیجز، تخلیقی امتیازات، تفکیری لوازمات، اور تخلیقی تہذیب کے دانشورانہ وفور کو اچھی طرح نہیں سمجھ پائے اور انہیں اپنے وقت میں مہمل گوئی کے طعنے سننے پڑے۔ لیکن اشرافیہ طبقہ نے جن کی نظر غواص معانی و ہنر مندی کی خوگر ہوتی ہے انہوں نے غالب کی فکری ثروت مندی، تخلیقی جدت و قوت، وجدان کی ندرت و صداقت اور ان کے تخیل کی وسعت کو قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا اور ان کی شاعری کو جزو جان و ایمان بنائے رکھا۔ اگر مرزا غالب کی شاعری بھی محض حسن و عشق اور معاملہ بندی ہی تک محدود ہوتی تو آج وہ بھی کلاسیکیت کے کسی مخدوش خانے کی زینت بن کر رہ جاتی، اور ہمارا تخلیقی پڑاؤ بھی وہیں کہیں ٹھہر جاتا۔

مرزا غالب کی شاعری میں ایسی تازگی، ایسی فرحت اور  اتنی توانائی ہے کہ وہ ہر عہد کے جدید تر ذہن کو متاثر کرتی رہے گی۔ یہ مرزا غالب ہی کا کمال ہے کہ انہوں نے ایسی زندہ و جاوید روایت قائم کر دی جس نے ادبی فضا کو تبدیلی کے نئے امکانات سے روشناس کرایا۔ اور تخلیقی منظر نامے کو نئے امکانات سے آشنا کر کے ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ‘‘ کا حوصلہ عطا کیا۔ بعض لوگ انہیں فلسفیانہ موشگافیوں کا حامل شاعر قرار دے کر ان کی شاعری کو محدود نظر سے دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو نہ صرف تنقید کے اصول کے منافی ہے بلکہ ادب و فن کے مزاج کے خلاف بھی ہے۔ ان کے کلام میں جہاں فکروفلسفہ کی تہہ داری ہے وہیں جمالیات و لطافت کی حسن کا ری وسرشاری بھی ہے۔ انہوں نے انسانی جذبات واحساسات کے ان گوشوں کو بڑی خوبی اور کمال فن کے ساتھ اجاگر کیا ہے جو ہرنسل، ہر قوم، ہر دور اور ہر طبقہ میں مشترک ہے۔

ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام

ایک مرگ ناگہانی اور ہے

مثال یہ مرے کوشش کی ہے کہ مرغ اسیر

کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لئے

نغمہ ہائے دل کو بھی اے دل غنیمت جانیے

بے صدا ہو جائے گا یہ ساز ہستی ایک دن

غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس

برق سے کرتے ہیں روشن شمع ماتم خانہ ہم

تمام محرومیوں اور تشنہ کامیوں کے باوجود انسان اپنی آرزو مندانہ فکروسعی سے دستبردار نہیں ہوتا ہے۔ حوصلہ اور ہمت امید کی موہوم ہوتی ہوئی کرن کا دامن تھا م کر اس کے اندر زندگی کی معنویت کو اجاگر کر دیتی ہے۔

بس ہجوم نا امیدی خاک میں مل جائے گی

جو اک لذت ہماری سعی بے حاصل میں ہے

مرزا غالب کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ہم انہیں کسی اسکول یادبستان سے وابستہ کر کے نہیں دیکھ سکتے۔ وہ اپنی ذات میں خود ہی ایک انجمن اور ایک مہتم بالشان دبستان ہیں۔ وہ علم و ادب، فکر وفلسفہ اور آرٹ و فن کے ایسے سرچشمہ ہیں جس سے ہر دور کے فنکار و تخلیق کار نے ذ ہنی و فکری سیرابی حاصل کی ہے۔ ان کا فیضان عام ہے۔ ہمعصروں کی بہ نسبت بعد کی نسلوں پر ان کے اثرات زیادہ واضح نظر آتے ہیں۔ کائناتی بصیرت اور آفاقی شعور و آگہی جو اقبال کے کلام کی اساس ہے اس کا آغاز بھی مرزا غالب ہی کے کلام سے ہوا ہے۔ بجنوری مرحوم نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ

’’لوح سے تمت تک مشکل سے سوصفحے ہیں لیکن کیا ہے جو یہاں حاضر نہیں ، کونسا نغمہ ہے جو اس زندگی کے تاروں میں خوابیدہ یا بیدار موجود نہیں ‘‘

اگر بجنوری کے اس قول میں صداقت نہیں ہوتی تو ناقدان ادب دیوان غالب کا ہشت پہلوانہ انداز میں ہرگز مطالعہ نہیں کرتے۔ آج بھی لوگ کلام غالب میں نئے پہلوؤں کی دریافت سے انکار نہیں کرسکتے۔ دیوان غالب کو چاہے جس پہلو سے دیکھا جائے اس کی خوبی دامن دل کو ضرور تھام لیتی ہے۔ غالب کا عشقیہ مزاج، غالب کا المیہ، غالب کا رندانہ انداز، غالب کا حزنیہ لہجہ، غالب اور تصوف، غالب کی مصورانہ شاعری، غالب کی فلسفیانہ شاعری، غالب کی ندرت کاری و جدت پسندی، وغیرہ وغیرہ۔

اردو ادب میں کم ہی شاعر ایسے ہوئے ہیں جن کے کلام کا مطالعہ اتنے زاویوں سے کیا گیا ہے۔ دیوان غالب میں ایسے اشعار کی کوئی کمی نہیں ہے جن کے سنتے ہی تصویر آنکھوں میں پِھر جاتی ہے۔

مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس

زلف سیاہ رخ پہ پریشاں کئے ہوئے

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

ایسے شاعر اردو ہی میں نہیں دنیا کی ہر زبان میں بہت کم ہوئے ہیں جن کا تخیل تعمق کی انتہاؤں کو چھوتا ہوا محسوس ہو۔

صد جلوہ رو برو ہے جو مژگاں اٹھایئے

طاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھایئے

ہر چند ہر اک شئے میں تو ہے

پر تجھ سی تو کوئی چیز نہیں ہے

مرزا غالب نے جس طرح اپنے مجتہدانہ فکر و نظر سے شاعری کے عمومی موضوعات کو وسعت و گہرائی سے ہمکنار کیا اسی طرح شاعری کی داخلی ہیئت اور ساخت کو بھی ندرت و جدت کے خوشگوار امکانات سے روشناس کرایا۔ اظہار و ابلاغ کیلئے انہوں نے پرانے وسیلوں کو پرے ڈھکیل کر نئے وسیلوں کو بروئے کار لانے کی کامیاب کوشش کی۔ ایسی کوشش جو آگے چل کر جدیدیت کی شاہراہ تعمیر کرنے میں مددگار ثابت ہوئی۔ انہوں نے فن لطیف کو جو اپنے سال خوردہ پیراہن کی وجہ سے فن کثیف بنتا جارہا تھا۔ روایات کی چہار دیواری سے باہر نکالا اور اسے فرسودہ ہونے سے بچایا۔ فارسی اور قدیم اردو کے ورثہ کو آپس میں شیر و شکر کر کے نئے اور خوش ذائقہ آہنگ کو وجود بخشا۔ ان کو تراکیب کی تازہ کاری اور الفاظ کے دروبست کی ہمواری پر مکمل اختیار حاصل تھا۔ وہ اپنی فطری خوش سلیقگی اور جمالیاتی لطافت سے ان میں اتنا توازن اور  ہم آہنگی پیدا کر دیتے ہیں کہ نغمگی کی موسیقیت خیز لہریں اپنے آپ موجزن ہو جاتی ہیں۔ وہ تغزل اور موسیقیت کیلئے بحروں کی پاگیری نہیں کرتے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ سخت سے سخت بحروں کو بھی سیّال بنا کر موسیقی کے سروں میں ڈھال دیتے ہیں۔

خموشی میں نہاں خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں

چراغ مردہ ہوں میں بے زباں گور غریباں کا

کہتے ہیں نہ دیں گے دل اگر پڑا پایا

دل کہاں کہ گم کیجئے ہم نے مدعا پایا

دیوانِ غالب کا سرسری مطالعہ کرنے والا بھی اس کی خصوصیت و انفرادیت کا دل سے قائل ہوسکتا ہے۔ ان کا طرز فکر، جدت آفرینی، لب و لہجہ کا مہذبانہ برتاؤ، فرسودہ روایتوں سے دامن کشی کا مجتہدانہ میلان، رجائیت کیشی کی انفرادی توانائی، دانشورانہ بصیرت کی نقش گری، تفکر کا رچاؤ، حیات و کائنات کے بستہ رازوں کی نقاب کشائی کیلئے دماغ سوزی کی مخلصانہ کاوش، معنویت کی تہہ داری واسراریت، تحیّر و اشتیاق کی کشمکش، تخیل و وجدان کی وسعت، تغزل کی شیرینی، تنوع کی رنگارنگی، تأمل واستفسار کی طرفگی، اور حسرت و حرماں نصیبی کے درمیان مسکراہٹ کی بجلی چمکانے کی جاں کاہ کاوش، یہ سب کوئی معمولی کیفیتیں نہیں ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک کیفیت بھی کسی شاعر کے کلام میں رچ بس جائے تو اسے قابل توجہ شاعر بنا دیتی ہے۔ واقعی غالب کا دماغ اپنے دور میں بھی جدت خیز تھا اور آج بھی تازہ کار ہے۔ بقول مجنوں گورکھپوری:

’’ہر نئے دور کا جدید سے جدید ذہن اپنے سے غالب کو قریب پاتا رہا ہے، اور غالب کا انداز فکر اور شیوہ گفتار اس کی تخلیقی قوت کو متحرک کرتا رہا ہے۔ غالب ایک ایسا سرچشمہ الہام ہے جو نہ کبھی ختم ہوسکے گا اور نہ اپنی طراوت و تازگی کھوسکے گا۔ اس کی نوائے آشفتہ نوائے سروش ہے جو ہر زمانہ میں سنی جائے گی۔

آج کے دور میں غالب کی مقبولیت غالب کے اس قول ’’شہرت شعرم بہ گیتی بعد من خواہد شدن‘‘ کے صداقت کی دلیل ہے۔ سچ مچ غالب ہر نئے عہد کا سب سے جانفزا اور روح افزا مغنی حیات ہے۔

ہوں گرمی نشاطِ تصوّر سے نغمہ سنج

میں عندلیب گلشن نا آفریدہ ہوں

٭٭٭

 

 

آزادؔ … ناقد و انشا پرداز

اردو زبان وادب میں جو لوگ اپنے اسلوب کی وجہ سے مثالی مانے جاتے ہیں ان میں ایک اہم نام محمد حسین آزاد کا بھی ہے۔ آزادؔ ہر فن مولا قسم کے ایسے ادیب و انشاپرداز تھے جنہوں نے تاریخ نویسی، انشا پردازی، تنقید اور تحقیق کے ساتھ ساتھ تخلیق شعر کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی اور ہر جگہ اپنی انفرادیت کا ثبوت پیش کیا مگر انہیں شہرت دوام بہ حیثیت انشا پرداز کے حاصل ہوئی۔ ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کی شاعری روایتی شاعری کے مزاج کی تبدیلی کے جواز کے طور پر آج بھی یاد کی جاتی ہے مگر ان کی شاعری ان کی انفرادی شناخت کی ضامن نہیں ہے۔ کیونکہ ان کی شاعری شاعرانہ محاسن کی کسوٹی پر کھری نہیں اترتی ہے۔

یوں تو آزاد کی شہرت کا آغاز ان کی کتاب ’’نیرنگ خیال‘‘ ہی سے ہو گیا تھا۔ مگر ’’آب حیات‘‘ نے اس میں چار چاند لگادیا۔ ’’آب حیات‘‘ گرچہ تذکرے کے ضمن میں آتی ہے مگر اپنی ابتدا ہی سے یہ کتاب اردو کی ابتدا ئی تنقیدی صورتحال کے نقوش کو واضح کرنے کے حوالے سے موضوع بحث بنتی رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ کتاب تنقیدی بصیرت اور تحقیقی بصارت سے زیادہ اپنے اسلوب نگارش کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ کیونکہ تنقید کے نام پر اس کتاب میں ذاتی پسند و ناپسند کے علاوہ کوئی خاص چیز نہیں پائی جاتی ہے۔ اس کتاب میں آزادؔ نے جہاں اپنے استاد ذوق کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے ہیں وہیں ان کے بیان نے بہادر شاہ ظفر کو بہت چھوٹا بنا دیا ہے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ آزاد تنقید کے مرد میدان نہیں تھے مگر ان کی تنقیدی کد و کاوش کو یکسر نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب تنقید اپنے ابتدائی مرحلے میں تھی۔ دیکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ دنیا کی کسی بھی زبان میں ادب کی کوئی بھی صنف اپنی ابتدا میں اعلیٰ معیار کی نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں آزاد کی تنقیدی بصیرت سے بھی زیادہ شکایت نہیں ہونی چاہیے، ایک بات یہ بھی توجہ چاہتی ہے کہ آزاد اپنے مزاج کے اعتبار سے خود سر اور انفرادیت پسند انسان و ادیب تھے۔ ایسی صورت حال میں اپنی پسند و ناپسند کا برملا اظہار آزاد کی فطرت کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو ایک ادیب کو اچھا ناقد بننے سے روکتی ہے تو اسے سب سے الگ اپنی پہچان بنانے کا حوصلہ بھی دیتی ہے۔

 آزادؔ کی کتابوں کو جو مقبولیت اور شہرت حاصل ہے وہ بہت کم مصنف کے حصے میں آئی ہے۔ ’’نیرنگ خیال‘‘ ، ’’دربار اکبری‘‘، ’’سخندان فارس‘‘ وغیرہ ان کی تمام کتابیں دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں مگر ’’آب حیات‘‘ ان کی ایسی کتاب ہے جو سب سے زیادہ مقبول اور ہر دل عزیز ہے۔ یہی  وہ کتاب ہے جس میں آزاد کی مختلف صلاحیتیں ، ادبی موشگافیاں اور طرز تحریر اور انداز بیان اوراسلوب کی دل پذیریاں جمع ہو گئی ہیں۔ بقول انیس ناگی:

’’ آبِ حیات‘‘ میں آزاد لسانی محقق ، ادبی مورخ، مرقع نگار اور انشاپرداز کے مختلف لباسوں میں نظر آتے ہیں

 ’’آب حیات‘‘ کی تصنیف کی وجہ محمد حسین آزادؔ اس طرح بیان کرتے ہیں۔

’’قدیم تذکرے، شعرا کی شاعری اور حالات زندگی کے بارے میں سیر حاصل معلومات بہم نہیں پہونچاتے اور امتداد زمانہ سے معلومات کے پرانے ذرائع معدوم ہو گئے ہیں۔ اس لیے پرانے شعرا کے حالات کو محفوظ کرنا ایک قومی اور ادبی ضرورت ہے۔‘‘

 اس طرح واضح ہو جاتا ہے کہ آزادؔ نے ’’آب حیات‘‘ ادبی تنقید کو آگے بڑھانے کے لیے تصنیف نہیں کیا تھا اور نہ ان کا مقصد بزرگ شاعروں کا شعری مرتبہ متعین کرنا تھا۔ بہ الفاظ دیگر وہ آب حیات قومی اور ادبی ضرورت کے تحت تصنیف کر رہے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں عملی تنقید کے نمونے نہیں ملتے ہیں ، ہاں تاثراتی تنقید کے نمونے جا بہ جا بکھرے ہوئے ہیں ، مگر اس پر بھی ان کی ذاتی پسند و ناپسند کا رنگ گہرا ہے۔ چونکہ ان کا مقصد ہی یہ تھا کہ قدیم شعرا کے حالات جو معلوم ہیں اور جو امتداد زمانہ کی وجہ سے مٹ سکتے ہیں انہیں یکجا اور محفوظ کر دیا جائے۔ سو انہوں نے ایساہی کیا اور اتنے خلوص کے ساتھ کیا کہ انہوں نے گویا بزرگوں کی جیتی جاگتی تصویر پیش کر دی۔ وہ بھی ایسے دلکش انداز میں کہ انہیں حیات جاوداں مل گئی اور کتاب کا نام ’’آب حیات‘‘ اسم بامسمّٰی ہو گیا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’آب حیات‘‘ اپنے تاریخی حقائق، مرقع نگاری اور منفرد اسلوب نگارش کی وجہ سے ایک اہم ادبی تاریخی دستاویز کی سی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب قدیم تذکرہ نگاری اور جدید ادبی تاریخ نویسی کے درمیان سنگ میل کی سی حیثیت رکھتی ہے۔

’’آبِ حیات‘‘ میں جس قسم کی تاثراتی تنقید پائی جاتی ہے ویسی ہی تنقید قدیم تذکروں میں بھی پائی جاتی ہے مگر آزاد کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے ’’آبِ حیات‘‘ کے مواد اور دیگر تفاصیل کو اس طرح ترتیب دے دیا ہے کہ آب حیات ادبی تاریخ کے زمرے میں شامل ہو جاتی ہے۔

’’آب حیات‘‘ میں آزاد نے شعرا کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے اور ہر دور کے شعرا کا تعارف کرانے سے پہلے اس دور کے لسانی اور فنی خصوصیات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ شعرا کے مختلف ادوار قائم کرنے سے پہلے انہوں نے اردو زبان کی تاریخ کے مختلف سلسلوں کو دریافت کیا ہے اور اس پر دوسری زبان کے اثرات کا سیر حاصل جائزہ لیا ہے اور اپنی پسند وناپسند کا کھل کر اظہار کیا ہے۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ آزاد نے اس مسلک کی بنیاد ڈالی ہے کہ نقاد چاہے تو اپنے حسن ذوق کو اپنا رہنما بنا کر چیزوں کے حسن و قبح سے متعلق آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کرسکتا ہے مگر اس اظہار میں حسن اخلاق کے آداب سے سرموانحراف نہ کرے۔ گویا آزاد کہنا چاہتے ہیں کہ ذاتی اور تاثراتی رائے کے اظہار میں انصاف کے تقاضے کو مد نظر رکھا جائے۔ یعنی جو کچھ دوسرے کہیں اسے توجہ سے سنا جائے اور اس میں جو کچھ قابل قبول ہو اسے قبول کیا جائے اور جو کچھ قابل انکار ہو اسے رد کیا جائے مگر اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ جائے اس کا خیال رکھا جائے۔

 آزاد کی تنقیدی کاوش کا اعتراف کرتے ہوئے وقار عظیم لکھتے ہیں کہ:

’’آزاد کی دی ہوئی رائیں تنقید کے نئے نئے اصول وضع ہو جانے اور اصولوں کے عملی پہلو کے بہت آگے بڑھ جانے کے بعد بھی اتنی صحیح ہے کہ بات کہنے والا اکثر اوقات انہیں حدود میں رہنے پر مجبور ہوتا ہے اور شاعروں کی انفرادیت اور امتیاز کی بات اس جگہ سے بہت کم آگے بڑھتی ہے جہاں آزاد نے انہیں چھوڑا تھا۔ ‘‘

گویا ہم آزاد کی تنقید پر ہزار طرح کا اعتراض کرنے کے باوجود اس سے صرف نظر نہیں کرسکتے، خیر یہ تو چند باتیں آزاد کی تنقید کے ضمن میں ہوئیں جس کا ذکر اس لیے ضروری تھا کہ آزاد کی تنقید کو رد کرنا ایک طرح کا فیشن بن چکا ہے، اب آیئے ذرا آزاد کے اسلوب پر توجہ مرکوز کریں۔

کہا جاتا ہے کہ اسلوب ہر تخلیق کار کا ذاتی وصف ہوتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر فنکار اپنے اسلوب ہی سے پہچانا جاتا ہے کہ اسلوب اور فنکار ایک ہی سکہ کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ اسلوب کے تصور کو تخلیق کے مختلف عناصر کے باہمی تعلق اور تناسب سے قائم کیاجاسکتا ہے۔ اسلوب دراصل ادراک اور تجربے کا ایک مخصوص آئینہ ہوتا ہے۔ اسلوب تجربے کی پختگی اور فکر و نظر کی وسعت و کم مائیگی دونوں کا چہرہ ہوتا ہے۔

اسلوب ہی وہ چیز ہوتی ہے جو کسی بھی فنکار کی شناخت قائم کرتی ہے اور اسی کی دلکشی کی بدولت مصنف قاری کے ذہن کو اپنی گرفت میں لینے میں کامیاب ہوتا ہے۔

’’آب حیات‘‘ کا طرز انشا پردازی کا سا ہے مگر آزاد کی دوسری کتابیں یعنی ’’نیرنگ خیال‘‘، ’’دربار اکبری‘‘ اور ’’سخندان فارس‘‘ پر بھی یہی رنگ غالب ہے مگر ان تمام کتابوں سے بہتر اور دلکش اسلوب ’’آب حیات‘‘ کا ہے، آب حیات میں آزاد کے اسلوب کے دو رنگ واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ پہلا رنگ سادگی و پرکاری کا حامل ہے تو دوسرا رنگ امیجز اور تمثیلوں کا حامل ہے۔

یہ کہنا تو مشکل ہے کہ آزاد عموماً سادہ رواں اور مسلسل عبارت لکھتے ہیں۔ البتہ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ جب بھی سادہ عبارت لکھتے ہیں قاری کو باندھ لیتے ہیں۔ ان کی انشا پردازی کا اصل جو ہر بھی سادگی ہی سے عیاں ہوتا ہے۔ وہ جب بھی اپنی رنگین عبارت سے باہر نکلتے ہیں اپنی انشا پردازی کا جادو جگانے میں پوری طرح کامیاب ہوتے ہیں۔

ان کے اسلوب کا دوسرا رنگ امیجز اور تمثیلوں کا مسلسل و متواتر استعمال ہے۔ تشبیہ، استعارہ اور امیجز آزاد کے اسلوب کے بنیادی لوازمات ہیں۔ یہ تینوں ایسی چیزیں ہیں جسے عموماً لوگ ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ان کے بیچ بہت نازک فاصلہ ہے۔ آزاد اس فاصلہ کو قائم رکھنے میں بھی عموماً کامیاب ہی نظر آتے ہیں۔

 ’’آب حیات‘‘ میں آزاد نے اپنی دوسری کتابوں کی بہ نسبت عموماً سادہ امیجز کا استعمال کیا ہے۔ مثال دیکھئے:

’’جب صبح کا ظہور رینگتا ہے تو کبھی کہتا ہے دیگ مشرق سے دود ابلنے لگا ہے۔‘‘

آب حیات کی نثر کی ایک خامی تشبیہ و استعارہ کی بھر مار ہے، مگر آزاد جہاں جہاں تشبیہ و استعارے سے دامن بچانے میں کامیاب ہو گئے ہیں ان کی عبارت بے حد پرکشش ہو گئی ہے۔

 انیس ناگی لکھتے ہیں :

’’آزاد چھوٹے چھوٹے جملے بے تکان لکھتے جاتے ہیں اور جب پیرا گراف مکمل ہوتا ہے تو یہ جملے خود بخود ایک تاثراتی وحدت میں ڈھل جاتے ہیں۔ ‘‘

یہ بات سچ بھی ہے، ایک مثال دیکھئے:

’’انشا عادت قدیم کے بموجب دیکھتے ہی دوڑے صدقہ قربان کئے، جم جم آیئے نت نت آیئے، بلائیں لینے لگے، یہ ناز و ادا ذرا طاق میں رکھو، پہلے ایک تربوز تو لا کر کھلاؤ، گرمی نے مجھے جلا دیا ہے۔ انہوں نے آدمی کو پکارا، میں نے کہا آدمی کی سہی، نہیں تم آپ جاؤ، اور ایک اچھا سا شہدی تربوز دیکھ کر لاؤ، انہوں نے کہا کہ نہیں آدمی معقول ہے، اچھا ہے یہی لائے گا، میں نے کہا نہیں ، کھاؤں گا تو تمہارا ہی لایا ہوا کھاؤں گا، انہوں نے کہا تو دیوانہ ہوا ہے۔ ‘‘

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ آزاد نے تشبیہ اور استعارے سے صاف طور پر دامن بچا لیا ہے اور سادہ نثر کا عمدہ نمونہ پیش کیا ہے۔ جملے بھی چھوٹے ہیں اور آپس میں مربوط بھی ہیں۔ ایک جملہ فطری طور پر دوسرے جملے کو جنم دیتا ہے اور مختصر جملوں کا ایک سلسلہ قائم ہو جاتا ہے اور ایک خوشگوار ماحول بن جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی صاف ستھری عبارت ’’آب حیات‘‘ میں بہت کم پائی جاتی ہے۔ کسی نے سہی کہا ہے کہ آزاد کو ایک چیز دکھایئے تو اسے فوراً اس جیسی کوئی اور چیز سوجھنے لگے گی۔

ایک مثال دیکھئے۔

اس عہد کی حالت اور بھاشا زبان کو خیال کرتا ہوں تو سوچتا رہ جاتا ہوں کہ یہ صاحب کمال زبان اردو، انشاء ہندی میں کیونکر ایک نئی صنعت کا ہنر دے گیا اور اپنے پیچھے آنے والوں کے واسطے ایک نئی سڑک کی داغ بیل ڈالتا گیا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ یہ سڑک ہموار ہو گی اس پر دو کانیں تعمیر ہوں گی۔ لالٹینوں کی روشنی ہو گی، اہل سلیقہ دوکاندار جواہر فروشی کرینگے اور اردوئے معلّٰی اس کا خطاب ہو گا۔

یہاں آزاد کو ایک چیز سڑک نظر آئی اور پھر انہوں نے آن کی آن میں سڑک کے تمام لوازمات یعنی دوکان، دوکاندار، خریدار، جواہر فروش اور لالٹینوں کی روشنی وغیرہ کو اپنی نظر کی گرفت میں لے لیا۔ حالانکہ ان باتوں کو سیدھے سادے انداز میں بھی بیان کیاجاسکتا تھا اور اس کا مفہوم بھی قاری آسانی سے سمجھ سکتا تھا مگر آزاد کے تخیل نے اس سادگی کو گوارہ نہیں کیا۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آزاد کا تخیل ان کے ادراک پر حاوی رہتا ہے۔ آیئے ذرا ہم بھی دیکھیں کہ کیا واقعی آزاد تخیل مغلوب انشا پرداز ہیں اور یہ کہ کیا واقعی ان کا تخیل ان کی تحریر کی شگفتگی کو نقصان پہونچاتا ہے۔؟ یہ سارے سوالات طویل بحث کے متقاضی ہیں ، جس کا یہاں پر موقع نہیں ہے، ویسے اس کا ایک آسان اپائے ہے، وہ یہ کہ آپ ’’آب حیات‘‘ کے کسی بھی قاری سے سیدھے سیدھے یہ سوال کر لیجئے، کہ کیا واقعی آپ کو ’’آب حیات‘‘ پڑھتے ہوئے آزاد کا اسلوب بور کرتا ہے؟ اس کا جواب انکار میں ہو گا۔ گویا آزاد کے اسلوب کی کشش عیب کو بھی ہنر بنا دیتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ’’ آب حیات‘‘ کا تمثیلی اسلوب اور انشائی طرز نگارش ہی اس کی مقبولیت کا راز ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ تنقید کی سنجیدہ کتابیں پڑھنے سے عموماً لوگ کتراتے ہیں ، یا پھر پڑھتے ہوئے بہت جلد اوب جاتے ہیں ، مگر ’’آب حیات‘‘ ایسی کتاب ہے کہ لوگ اسے ناول کی سی دلچسپی کے ساتھ پڑھتے ہیں ، ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہی آزاد کے اسلوب کی پہچان اور اس کا اعجاز ہے۔

یہ بات بہت حد تک درست ہے کہ آزاد نے اردو تنقید کو ذہانت و فطانت اور استدلال کے نئے طریقوں سے آگاہ نہیں کیا۔ یہ بھی مانا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اردو تنقید کو اگلے پڑاؤ تک پہنچانے کی کوئی شعوری کد و کاوش نہیں کی۔ یا وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ حدتو یہ ہے کہ وہ اردو نثر کو بھی سادگی اور سلاست سے ہمکنار کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے۔ اس کے باوجود ہم ان کی اہمیت اور انفرادیت سے انکار نہیں کرسکتے۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آزاد کی تحریروں میں بجز تمثیلوں ، تشبیہوں ، استعاروں اور تنقید کے نام پر ان کی اپنی پسندوناپسند کے کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ کسی حد تک درست ہوسکتی ہیں۔ مگر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اگر واقعی معاملہ ایسا ہی ہے تو پھر ’’آب حیات‘‘ اتنی مقبول کیوں ہے۔ آج تک کوئی دوسری کتاب اس کی جگہ کیوں نہیں لے سکی؟

آزاد کی تحریر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ جب بھی کسی واقعہ، اشیا، یا منظر کو اصلیت کا روپ عطا کرنا چاہتی ہے تو اتنی کامیابی اور خوبی سے صورت گر کرتی ہے کہ تصویر آنکھوں میں پھر جاتی ہے۔ مثال دیکھئے:

’’دفعتاً ہوا بلند ہوئی، ابر سا گھر آیا، دنیا دھواں دھار ہو گئی، پھر سفید غبار سا برستا معلوم ہوا، تھوڑی دیر بعد دیکھا تو زمین پر، کوٹھوں پر، دیواروں پر، اور منڈیروں پر کوئی سفید سفید آٹا سا چھڑک گیا، غرض کہ ایک جھکولا برف کا اور پڑا رات گزری، صبح کو دیکھا تو تمام درختوں پر برگ ریڑی کا حکم پہنچ گیا۔ ‘‘

’’دوسرے دن ایک جھکولا اور ، اور ساتھ ہی ایک جھونکا ہوا کا آیا پھر جو دیکھا تو درخت پر پتّے کا نام نہیں ، جو درخت ہفتہ بھر پہلے، پتوں سے بھرے تھے اب خالی جھاڑیاں کھڑی ہیں ، جیسے کسی نے کپڑے اتار لیے، وہ بھی سیاہ رنگ جیسے بجلی کا مارا لوہا ایک دو دن بعد برف برسنی شروع ہوئی مگر کس طرح جیسے کوئی آسمان پر روئی دھنک رہا ہو، ایک دن رات برف کا جو تار لگا تو در و دیوار زمین و آسمان تمام سفید و سیاہ جھاڑیاں برف جم کر بلور کے درخت اور شیشے کی شاخیں ہو گئیں۔ ‘‘

اس طرح کی اور بھی درجنوں مثالیں ان کی کتابوں سے دی جاسکتی ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ وہ محض ایک تخیل مغلوب جذباتی انشاپرداز ہیں ، جن کے یہاں کسی اور طرح کی خوبی تلاش نہیں کی جاسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آزاد کی تحریروں کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے والا ان کی تحریر کی اور بھی کئی خوبیاں دریافت کرسکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بزرگ آرٹ محرک ہوتا ہے اور اس سے وجود میں اضافہ ہوتا ہے۔ آزاد کا اسلوب بھی محرک ہے اور یقیناً اس نے اردو زبان و ادب کے سرمایہ میں اضافہ کیا ہے۔ اگر آزاد تحقیق و تنقید کو اتنی شگفتہ اور رواں نثر کا سلیقہ نہیں سکھاتے تو آج تک تنقید ایک خشک موضوع ہی سمجھا جاتا۔ یہ آزاد ہی کا کمال ہے کہ انہوں نے تنقیدی نثر میں بھی انشا پردازی کی چاشنی بھردی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ محمد حسین آزاد ایک ایسے صاحب اسلوب انشا پرداز ہیں جن کی انشا پردازی کی خوبی ہر عہد کے نوجوانوں کی تربیت کرتی رہے گی۔

٭٭٭

 

 

پنڈت رتن ناتھ سرشار اور فسانۂ آزاد

پنڈت رتن ناتھ سرشار کا نام اردو کلاسک ادب میں ایک خاص انفرادیت رکھتا ہے۔ وہ  ۱۸۴۲؁ کے اواخر میں لکھنؤ کے کشمیری محلہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بیج ناتھ در کشمیر سے بسلسلہ تجارت لکھنؤ آئے۔ اور پھر لکھنؤ کی قدردانی کے ایسے اسیر ہوئے کہ لکھنؤ ہی کے ہو کر رہ گئے۔ بیج ناتھ در جلد ہی اپنی شائستگی، تہذیب اور خوش اخلاقی کی وجہ سے لکھنو کے عمائدین میں شامل ہو گئے۔

پنڈت رتن ناتھ سرشار شومیِ قسمت سے بچپن ہی میں یتیم ہو گئے۔ ان کی پرورش ان کی والدہ اور دوسرے خاندان والوں نے کی۔ پانچ چھ سال کی عمر میں وہ حسب دستور فارسی اور عربی کی تعلیم کے لیے ایک مکتب میں داخل ہوئے اس مکتب میں ہندو اور مسلمان کے بچے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کر تے تھے۔ چکبست نے لکھا ہے کہ:

’’انہیں (رتن ناتھ) عربی اور فارسی میں اچھی لیاقت تو نہیں حاصل ہوسکی البتہ طبیعت داری کا یہ عالم تھا کہ علماء اور فضلاء میں اپنا رنگ جما لیتے تھے۔‘‘

والد کاسایہ سرپر نہ ہونے کی وجہ سے رتن ناتھ بچپن ہی سے لاپرواہی اور یار باشی کی زندگی گزارنے لگے تھے۔ ان کے لیے مکتب کی خشک درسی کتابوں میں کوئی رس نہیں تھا اس لیے وہ لکھنؤ کی گلی کوچوں میلوں اور تماشوں میں ڈوب گئے۔ ان کے برعکس ان کے چھوٹے بھائی بشمبر ناتھ نے پڑھائی میں دلچسپی لی اور یوپی کے ڈپٹی کلکٹر ہوئے۔

چکبست نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ

سرشار جس مکان میں رہتے تھے اس کے پڑوس میں اہل اسلام کی محذرات رہتی تھیں۔ سرشار نے لڑکپن میں اردو زبان انہیں شریف خاتون سے سیکھی اور اسی کے فیضان صحبت سے ان کو بیگمات کے طرز معاشرت سے بہت کچھ آگہی کمسنی ہی کے زمانہ میں ہو گئی تھی۔ معمولی آدمی پر تو یہ صحبت کچھ اثر نہ کرتی حضرت سرشار میں چونکہ ذہانت اور جودت کا خلقی مادہ موجود تھا اس لیے ان کے حق میں ایسی صحبت کیمیا ہو گئی۔

۷۶۔۱۸۷۵؁ء میں سرشار نے اردو اور فارسی میں مضمون لکھنا شروع کیا۔ ان کے اسلوب اور تحریر کی شگفتگی نے ایسی شیفتگی پیدا کی کہ آشفتگی بھی سردھننے لگی۔ اس طرح بہت جلد اہل علم ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ نول کشور جہاں دیدہ۔ اور مردم شناس آدمی تھے۔ انہوں نے پنڈت رتن ناتھ سرشار کی قابلیت کو بھانپ لیا۔ چنانچہ انہوں نے سرشار کو بلا کر اودھ اخبار کی ادارت سونپ دی۔ کہا جاتا ہے کہ اسی زمانہ میں دوستوں کی ایک بے تکلف محفل میں پنڈت تربھون ناتھ ہجر نے کہا کہ

اگر کوئی ناول ایسا ہے کہ جس کا ایک صفحہ پڑھیے اور بیس مرتبہ نہ ہنسئے تو وہ ’’ڈان کوئگزوٹ‘‘ ہے (Don Quixote)اگر اردو میں اس قسم کا فسانہ لکھا جائے تو خوب رہے۔

سرشار بھی اس محفل میں موجود تھے انہوں نے  اس چیلنج کو قبول کر لیا اور اس طرح انہیں اپنا شاہکار ناول ’’فسانہ آزاد‘‘ لکھنے کی تحریک ملی۔ انہوں نے سروینٹس (Cervantes)کے ’’ڈان کوئک زاٹ‘‘ کے انداز پر ہی اپنے فسانہ کو ڈھالا۔ بعد میں انہوں نے ’’ڈان کوئک زاٹ‘‘ کا ترجمہ خدائی فوجدار کے نام سے کیا۔ فسانہ آزاد پہلے پہل اودھ اخبار میں قسط وار شائع ہوا۔ چونکہ یہ ناول سرشار کا شاہکار ہے۔ اس لیے اسے ذرا تفصیل سے دیکھا جانا بھی ضروری ہے۔ سرشار نے اور بھی کئی ناول لکھے ہیں۔ ان کا دوسرا اہم ناول ’’جام سرشار‘‘ ہے۔ جو ۱۸۸۷؁ء میں لکھنؤ سے شائع ہوا۔ اس کا موضوع لکھنؤ کے نوابوں کی زندگی ہے۔ فنی ساخت کے اعتبار سے یہ ’’فسانہ آزاد‘‘ سے اس لیے مختلف ہے کہ اس کا پلاٹ زیادہ مربوط اور متوازن ہے اس میں ایک ایسی وحدت ہے جو سرشار کے دوسرے ناولوں میں نظر نہیں آتی۔

سرشار کا تیسرا اہم ناول ’’سیر کہسار‘‘ ہے جو دو جلدوں میں  ۱۸۹۰؁ میں شائع ہوا۔ اس کی ٹکنیک اور بیانیہ انداز منظر ٔھنو، غالب او یہ ہے۔ اس میں بھی لکھنؤ کی مختلف زندگی کے گوشوں اور مختلف پیشوں سے متعلق لوگوں کی معاشرت کو پیش کیا گیا ہے۔ ’’فسانہ آزاد‘‘ کے خوجی کی طرح اس میں بھی ’’مہاراج بلی‘‘ نام کا ایک مزاحیہ کردار ہے۔ جو اردو کے کامیاب مزاحیہ کرداروں میں منفرد حیثیت رکھتا ہے۔

سرشار کا آخری اہم ناول ’’کامنی‘‘ ہے جو ۱۸۹۶؁ء میں شائع ہوا۔ یہ پہلا ناول ہے جس میں سرشار نے ایک راجپوت خاندان کی زندگی اس کے ماحول اور رسم و رواج کی تصویر کشی کی ہے۔ اس کے علاوہ بھی سرشار نے حالات کی تنگی کے سبب کئی ناول لکھے ہیں جیسے ’’کڑم دھم‘‘، ’’ بچھڑی دلہن‘‘، ’’پی کہاں ‘‘، ’’حشو اور طوفان بے تمیزی‘‘ مگر یہ سارے ناول قابل اعتنا نہیں ہیں۔

’’فسانہ آزاد‘‘ گرچہ سرشار کا شاہکار ہے اس کے باوجود اس کا پلاٹ نہایت معمولی اور ڈھلملا ہے جس میں قدیم داستانوں کا انداز نمایاں ہے۔ ہر فن میں طاق ایک ناقابل تسخیر ہیرو کی مہمات اس کا موضوع ہے۔

ناول کا ہیرو ’’آزاد‘‘ ایک ذہین بانکا اور خو برو نوجوان ہے جو تمام علوم و فنون میں یکتا ہے۔ جہان گشتی اور آوارگی اس کی فطرت ہے، لکھنؤ اور اس کے نواح کی سیر کرتا ہوا اچانک ایک دن وہ لکھنؤ کے مہذب گھرانے کی دوشیزہ ’’حسن آرا‘‘ کو دیکھتا ہے اور دل و جان سے اس پر فدا ہو جاتا ہے۔ ’’آزاد‘‘ نکاح کا پیغام دیتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ وہ پہلے دنیا میں کچھ ناموری اور شہرت حاصل کرے۔ وہ شادی کے لیے شرط یہ رکھتی ہے کہ آزاد روس کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے جنگ بلقان میں شریک ہوں۔ آزاد یہ شرط مان لیتے ہیں اور اپنے شریک کار ’’خوجی‘‘ کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہو جاتے ہیں۔ وہاں وہ شجاعت اور جواں مردی کے ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں کہ یوروپ کی شہزادیاں بھی ان پر جان دینے لگتی ہیں۔ ایک جانباز اور رومان پرست ہیرو کی طرح آزاد یوروپ کی حسیناؤں کے عشق کا جواب عاشقی سے دیتے ہیں۔ لیکن ان کی حسین صحبتوں اور عیش و نشاط کے لمحوں میں بھی وہ ’’حسن آرا‘‘ کو یاد کرتے ہیں۔ بہرحال وہاں سے واپس آ کر وہ حسن آرا سے شادی کر لیتے ہیں۔ حسن آرا کے علاوہ لکھنؤ کی ایک اور حسینہ ’’ثریا‘‘ بھی آزاد سے عشق کرتی ہے۔ آزاد اس کے عشق سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں مگر دل سے ان کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ آخر میں ثریا بھی مایوس ہو کر ایک نواب سے شادی کر لیتی ہے۔

’’فسانہ آزاد‘‘ کے اس اجمالی خاکہ سے احساس ہوتا ہے کہ یہ ناول عشق و محبت کے پامال قصہ کی ہی ایک کڑی ہو گی لیکن ایسا نہیں ہے۔ سرشار کا اصل کمال اس خاکہ سے باہر کی دنیا کے رنگ ڈھنگ کو پیش کرنے میں نمایاں ہوا ہے۔

اپنے شگفتہ اور پر مزاح طرز تحریر میں انہوں نے لکھنؤ کی زوال آمادگی کا جو نقشہ کھینچا ہے اور مٹتی ہوئی تہذیب کی جو عکاسی کی ہے اور اس تہذیب کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کیلئے جو کردار منتخب کیے ہیں وہی اس ناول کو سرشار کا شاہکار بناتا ہے۔ یہ سرشار ہی کا کمال ہے کہ انہوں نے ایک تہذیب کو اپنی جودت طبع سے صفحہ قرطاس پر تخلیقی انداز میں ترتیب دے دیا ہے۔

اس کے مشغلوں ، تہواروں ، رسم و رواج، مجلسی آداب، گھریلو رکھ رکھاؤ، پوشش و وضع قطع اور اخلاقی و سماجی رویوں کو انمٹ نقوش میں تبدیل کر دیا۔ احتشام حسین لکھتے ہیں کہ:

لکھنؤ نے جاگیرداری تمدن کے زوال کے زمانے میں مغل ایرانی اور ہندوستانی تمدن کے امتزاج سے جس معاشرہ کی تخلیق کی تھی اس کی قدروں میں ایک خاص قسم کا کھوکھلا پن اور سطحیت تھا۔ اس کے حسن میں بناوٹ کا اتنا شائبہ تھا کہ خول کو ذرا سا ادھیڑنے پر واضح شکل نمایا ہو جاتی تھی۔ اس کی لچک اور رنگینی میں وہ لطافت پیدا نہیں ہوئی تھی جو اقدار کو گہرائی اور پائیداری بخشتی ہے۔ سرشار اس سے اس طرح واقف تھے کہ ان کے ہر ایک فقرے اور لفظ سے اس کی تمدن کی ساری خوبیاں اور خامیاں ابھر آتی ہیں۔

لکھنؤ کی یہ دیمک زدہ معاشرت صرف اونچے گھرانوں اور نوابوں کی ڈیوڑھی تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ عوام تک اس کے شکار تھے۔ سرشار کے بیشتر کردار عوام الناس کے نمائندہ ہیں۔ ان کا مطالعہ بھی سرشار زیادہ اپنائیت اور حقیقت پسندی سے کرتے ہیں۔ جلسوں ، میلوں اور تہواروں میں عوام کس طرح لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان کی ہنسی، مذاق، دھینگا مشتی ، دکھ سکھ اور مرنا جینا کیسا ہے سرشار اس کی عکاسی بڑے خلوص سے کرتے ہیں۔ ان کے ہمعصروں مثلاً شرر، سجاد، اور نذیر احمد کے یہاں زندگی اتنی وسعت کے ساتھ نظر نہیں آتی ہے۔

سرشار چونکہ بچپن سے لکھنوی زندگی جیتے رہے تھے اس لیے ان کا شعور بہت ہی پختہ اور ہمہ گیر ہے۔ فسانہ آزاد میں انسانی زندگی کی پوری چہل پہل اور ہماہمی ہے۔ مصاحب، مولوی، پنڈت، شاعر، بانکے، مغنّی، جیوتشی، مانجھے، نبوٹیئے، بہروپیئے، افیمچی، چانڈوباز، بھٹیارنیں ، ساقنیں ، لونڈیاں ، فقیر، داروغہ، شاہ جی، الغرض معاشرہ کے سبھی افراد یہاں موجود ہیں۔ جو اس عہد کی تہذیب کو بے کم و کاست اجاگر کرتے ہیں۔

سرشار ایک سچے سیکولر ذہنیت کے امین ہیں۔ وہ سبھی مذہب کا احترام فرض جانتے ہیں۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ وہ مذہب کو نہیں زندگی کو اور انسان اور انسانی رشتوں کو ہی قابل اعتنا سمجھتے ہیں۔

بسنت کے میلے کی ایک جھلک دیکھیے۔

لکھنؤ میں ہر گلی کوچہ زعفران زار ہے۔ کیوں نہ ہو آخر بسنت کی بہار ہے، یوں تو ہر سمت طبلے پر تھاپ، سارنگی کی چھیڑ چھاڑ اور نغمہ سرائی کا انتظام ہے۔ مگر مینا صاحب کی درگاہ سب میں انتخاب زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ اللہ اکبر گرد مزار کہیں نوجوانوں کی وہ دھوم دھام ہے کہ جس طرف دیکھئے اژدہام ہے۔ نمٹ کی نمٹ جوق در جوق چلے آتے ہیں غول کے غول امڈے آتے ہیں۔ وہ بھیڑ بھاڑ وہ دھکّم دھکّا وہ ریل پیل وہ شور و شر کہ الاماں الحذر، ایک دوسرے کو ریلتا ہے۔ دوسرا تیسرے کو ڈھکیلتا ہے۔ ڈولیوں پر ڈولیاں ، اور فینس پر فینس چلی آتی ہیں۔ مہ جبیناں ماہر و نمائش بینوں کی بدولت گُل چھڑے اڑاتی ہیں۔ قدم بھر چلنا دشوار سر پر خاک چہرے پر غبار……

سرشار اپنی تحریر میں سارے مناظر کو اس طرح قید کر کے قارئین کے سامنے رکھ دیتے ہیں جیسے کوئی ماہر آرٹسٹ اپنے کینوس پر کسی منظر کی تصویر پیش کر دے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ ان چھوٹی چھوٹی جزئیات کو بھی بیان کر دیتے ہیں جس سے کسی بھی منظر کے حقیقی ہونے کا گمان پیدا ہو جاتا  ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اتنی بھیڑ بھاڑ کے باوجود ایک بھی فرد ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو پاتا ہے۔ وہ اسی سلسلے میں آگے لکھتے ہیں۔

زہرہ جبیں ، شوخ و بیباک چست و چالاک  خوش الحان غزل خواں گوہر یاقوت لب سخن گاتی ہیں۔ عجیب ناز و انداز سے کھڑی ہاتھ ہلاتی ہیں۔ کاندھے پر دھرے کمر کو لوچ دے، رت آئی عجب بسنت بہار کی، تان اڑا رہی ہے۔ اشاروں میں سارے نکتے سر بستہ بتا رہی ہے۔ ارباب نشاط کے رقص اور ٹھوکر سے کلیجے پر چوٹ ہے۔ رقص کا وہ سماں بندھا کہ عاشقوں کا دل بھی گنگنانے لگا۔ سارنگیاں ہاں میں ہاں ملانے کو تیار، واہ بی بی اس خوش الحانی کے نثار، دوسری طرف قوال حقانی غزلیں گاتے ہیں۔ صوفیوں کو وجد میں لاتے ہیں۔ کسی اہل دل کو حال آیا، کوئی آنکھوں میں آنسو بھر لایا، ہو حق کا نعرہ بلند ہے۔ سرود و غنا کا لطف دو چند ہے۔ ایک طرف ساقنوں کا گرم بازار دکانیں دھواں دھار، چلم پر چلم بھری جاتی ہے۔ دم پر دم پڑتے ہیں ، ناتواں نوجوان نشہ کے زور میں عجیب لوچ سے اکڑتے ہیں۔ بسنت نے بھی اچھا رنگ جمایا ہے۔ چانڈو بازوں تک کو زعفران زارب نایا ہے۔

ایک دوسری جگہ لکھنؤ کے کمہار کے متعلق لکھتے ہیں کہ:

واللہ لکھنؤ کے کمہار بڑے نادرہ کار ہیں ، ایسا بڈھا بنایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ پوپلے منہ سے اب بولا اور اب بولا، وہی سن کے سے بال، وہی سفید بھنویں ، وہی چتون، وہی پیشانی پر شکن، وہی ہاتھوں کی جھرّیاں وہی کمر خم، وہی سینا جھکا ہوا، واہ رے کاریگری تو بھی اپنے فن میں یکتا ہے۔ اور تیرا بڑھوا تو اللہ ہی اللہ۔

ایک بڑے مالدار جو ہری صاحب مٹکتے ہوئے آئے دس روپئے کی کار چوبی ٹوپی زیب سر اطلس کا فوق البھڑک دگلہ زیب بر، سنہری لیس ٹکی ہوئی، یہ وضع قطع مگر بیٹھتے ہی ٹوکے گئے۔ بیٹھے تو ضریح کی طرف پشت کر کے صاحب خانہ نے ایک عجب ادائے دلربا سے جھڑک دیا۔ اے واہ بڑے خوش تمیز ہو۔ ضریح مبارک کی طرف پشت کی۔ سیدھے بیٹھئے آدمیت کے ساتھ۔

ان مناظر میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ لکھنؤ کے نواب نہیں خواص نہیں ، بلکہ عوام ہیں۔ اور سرشار کی نظر ان کے رویوں کو چاروں طرف سے اپنی نظروں کے فوکس میں رکھے ہوئی ہے۔ جہاں انہوں نے لکھنؤ کے کمہار کی صناعی کی داد دی ہے۔ وہیں انہوں نے نودولتیوں کا مذاق بھی اڑایا ہے جو اس معاشرت کی نشست و برخاست سے ناواقف ہیں۔

فسانہ آزاد کی مقبولیت کا ایک بڑا وصف اس کی ظرافت ہے۔ یوں تو سرشار کی طبیعت خود بھی بڑی ظریف تھی جس کا انعکاس تو لازمی تھا ہی۔ اس کے علاوہ فسانہ آزاد کی ظرافت کیلئے لکھنؤ کی تہذیب کا تضاد بھی بڑا کار گر ثابت ہوا۔

لکھنؤ کا یہ معاشرہ جرأت و جواں مردی، شرافت و اخلاق اور کردار کی بلندی سے یکسر محروم ہو چکا تھا۔ اسلاف کے کارناموں کی یاد پارینہ ان کے پست حوصلوں کی بیساکھی بنی ہوئی تھی۔ ان کے سامنے نہ کوئی اجتماعی نصب العین تھا اور نہ انفرادیت کے قیام کی ولولہ خیزی تھی۔ ذاتی آسائش طلبی، اور خود تعیشی ان کا مقصد و منہاج تھا۔ لیکن ستم بالائے ستم یہ کہ وہ اس کے لیے بھی محنت و مشقت کے روا دار نہیں تھے۔ چونکہ وہ پورا معاشرہ ہی عملی تحرک، استقلال، ولولہ، جواں مردی، اور اقداری عظمت کے جذبہ سے محروم تھا۔ اس لیے اسلاف کے کارنامے اور ماضی کی فتوحات کے قصیدے ان کی روحانی تشنگی کو بجھانے اور داخلی کھوکھلے پن کو چھپانے کے لیے خارجی سہارے کا کام کر رہی تھی۔ یا پھر وہ افیون کے نشے میں ڈوب کر اپنی بے قدری ، بے وقاری، کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔

بعض لوگوں نے کہا ہے کہ سرشار کا مزاج سطحی تھا، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ وہ معاشرہ جس کی تصویر کشی سرشار نے کی ہے۔ سطحیت سے بھی آگے ابتذال کی کھڈ میں پڑا ہوا تھا۔ اس لیے ان کے مزاج کا سفلی پن اور سطحیت کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ہے۔

 سرشار نے اکثر مکالموں سے بھی مزاح پیدا کیا ہے۔ یہ منظر دیکھئے:

چوبدار ہاتھ جوڑ کر) جاں بخشی ہو تو عرض کروں ، بَٹیر سب اڑ گئے۔

نواب ہاتھ ملتے ہوئے، سب … ارے سب اڑ گئے، ہائے میرے صف شکن کو جو ڈھونڈ لائے ہزار نقدا نقد گنوائے۔ اس وقت میں جیتے جی مرگیا، اف اف… بھئی، ابھی سانڈنی سواروں کو حکم دو کہ پنج کوس دورہ کریں ، جہاں صف شکن ملے سمجھا بجھا کر لے ہی آئیں۔

مصاحب، خداوند سمجھانا کیسا، وہ بھی کوئی آدمی ہے کہ سمجھ جائے۔ جنور لاکھ پڑھے پھر جنور ہے۔

نواب کوئی ہے۔

رفقا، حاضر پیر و مرشد خداوند جی حضور۔

نواب ، ان پر جوتے پڑیں ، لو صاحب ہم تو گھبرائے ہوئے ہیں ، اور یہ بات کاٹتا ہے، صف شکن کو تم ایسے گدھوں سے زیادہ تمیز تھی۔

رفقا، حق ہے، اے حضور، وہ عربی سمجھ لیتا ہے۔

دوسرے بولے، خداوند اس کو قرآن کے کئی پارے یاد ہیں۔ تیسرے نے کہا، قسم پنج تن پاک کی، میں نے اسے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ چوتھے، ایک دن ہنس رہا تھا۔ پانچویں ، اجی ہم نے تو ڈنڈ پیلتے دیکھا ہے۔

یہ سرشار کی ظرافت کا عمومی رنگ ہے۔ وہ واقعات کو مبالغہ کی حد تک طول دے کر مضحک بنا دیتے ہیں ، اور اس طرح اپنی ظرافت کا نقش دلوں پر قائم کر دیتے ہیں۔

فسانہ آزاد کا ہیرو یوں تو آزاد ہے۔ مگر اس طویل ناول کی جان خوجی ہے۔ یہ صرف سرشار کا ہی نہیں پورے اردو ادب کا سب سے جاندار اور دلکش کردار ہے۔ اس کے مقابلے کا کوئی دوسرا کردار اردو افسانوی ادب کو اب تک نہیں ملا ہے۔ خوجی افیون کا دیوانہ ہے، وہ دن رات اس کے نشہ میں غرق رہتا ہے۔ انتہائی لاغر اور ناتواں ہونے کے باوجود اپنے آپ کو طاقت و شجاعت کی عظمت کا مینار سمجھتا ہے۔ نہایت بدصورت ہے مگر اپنے آپ کو مردانہ حسن و وجاہت کا بھنڈار سمجھتا ہے۔ وہ کسی حادثاتی صورت حال، اور کسی بھی شخص سے سمجھوتا نہیں کرتا ہے۔

ہرشخص کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوتا ہے۔ لیکن اپنی غیرت اور خود داری کو جان سے زیادہ عزیز سمجھتا ہے۔ جاہل ہے لیکن اپنے آپ کو عالم و فاضل اور فارسی دانی میں یکتا سمجھتا ہے۔ وہ اپنے افعال و حرکات پر کبھی شرمسار نہیں ہوتا، آزاد سے غیر مشروط وفاداری اس کی سیرت کو عجیب و غریب بناتی ہے۔ حالانکہ بعض حالات میں آزاد اسے ایذا بھی پہونچاتا ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ بڑی سے بڑی شخصیت اور اہم سے اہم سانحہ بھی اس کی شخصیت میں تغیر نہیں پیدا کر پاتا ہے۔ وہ ہر صورت ہر حادثہ اور ہر مصیبت کا سامنا اپنے انداز سے کرتا ہے۔ وہ فسانہ آزاد کے جس منظر میں نہیں ہوتا ہے وہ منظر بے جان لگتا ہے۔ شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے کہ خوجی کی صورت میں لکھنوی معاشرے کا مزاج پوری طرح منعکس ہو جاتا ہے اور مخصوص حالت میں خوجی مسلمانوں کی نفسیات کا آئینہ بن جاتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ اس عہد کا ہندوستان تبدیلیوں کے امکانات سے پوری طرح آشنا ہو چکا تھا۔ ملک میں نئی نئی تحریکیں شروع ہو چکی تھیں ، لوگوں کے سوچنے سمجھنے کے انداز میں تبدیلی واقع ہونے لگی تھی۔ لیکن لکھنؤ اور اہل لکھنؤ اپنی معاشرت میں کسی قسم کی تبدیلی کا امکان پیدا کرنے سے قاصر تھے۔ جس طرح خوجی ذلیل و خوار ہو کر پٹ پٹا کر گرد جھاڑتے ہوئے اٹھ جاتا ہے اور آئندہ بھی ایسی حرکت کرتا ہے کہ پٹ جائے بالکل اسی طرح لکھنوی معاشرہ بھی ابتذال و رذالت سے گھبرا کر ایک پل کیلئے چونک کر ادھر ادھر دیکھتا ضرور ہے۔ مگر پھر گھوم پھر کر اسی میں پناہ تلاش کر لیتا ہے۔ جس طرح خوجی نہایت بے غیرتی سے ذلیل ہوتا ہے۔ اور خود کو با وقار سمجھتا ہے۔ اسی طرح پورا لکھنوی معاشرہ ذلیل و خوار ہوتا رہا اور خود کو با وقار سمجھتارہا۔

سرشار کا کمال یہ ہے کہ وہ شرفاء کے دربار میں ہوتے ہیں تو ان کے رہن سہن زبان وضع قطع کی پوری عکاسی کرتے ہیں ، مگر جب وہ بھٹیارنوں ، ساقنوں ، اور طوائفوں کا ذکر کرتے ہیں تو وہاں بھی اس خوبی سے طرز اسلوب کو ڈھالتے ہیں کہ پورا منظر آنکھوں میں پھر جاتا ہے۔

سرشار کے اس اسلوب کو بہت سے لوگوں نے اپنانے کی کوشش کی مگر بجز سرشار کے دوسرا کوئی اس میں کامیاب نہیں ہوا۔

واقعتاً سرشار نے اپنے لکھنوی ہونے کا حق ادا کر دیا۔ اگر سرشار لکھنوی تہذیب کی مرقع کشی نہیں کرتے تو ممکن تھا کہ یہ تہذیب مٹ جاتی اور اس کا نشان بھی آئندہ نسلوں کو نہیں ملتا۔

٭٭٭

 

 

انیسؔ کی مرثیہ نگاری

دنیا کی کسی بھی زبان کی مقبولیت اور ترقی میں حکومت اور مذہب کا بڑا اہم رول ہوتا ہے۔ ہندوستان میں ایک زمانہ تک سنسکرت کا رواج اور راج رہا کیونکہ اسے مذہب اور حکومت دونوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ مگر جب مہاتما بدھ نے اپنی تعلیمات کو عوامی زبان میں مدون کرنے کا حکم دیا تو عوامی زبان کی ترقی کی راہیں بھی ہموار ہوئیں ، اور ہندوستان کی کئی زبانوں نے ترقی کر کے تصنیف و تالیف کا اعزاز حاصل کیا۔

اردو زبان کی ابتدا اور ارتقا پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ اس کا جنم بھی مذہبی فضا میں ہوا۔ ہندوستان کے گوشے گوشے میں صوفیائے کرام گھوم گھوم کر اپنا پیغام اسی زبان میں سناتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ایک عرصہ تک اخلاقی اقدار اور ادبی اقدار کو ایک ہی چیز سمجھا جاتا تھا جس میں مذہبی اقدارو افعال اور عقیدہ و عقیدت مندی کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ خود حالیؔ نے ادب کو اخلاقی اقدار کا آئینہ قرار دیا تھا اور اس پر اصرار بھی کیا تھا۔ ان باتوں کا اتنا اثر تھا کہ ایک زمانے تک ادب کی اپنی خصوصیات اور اس کی فطری لہلہاہٹ اور خود مختاری پر یقین رکھنے والے لو گ بھی ان محرکات کو نظر انداز کر دیا کرتے تھے جو انسانی زندگی کا زائیدہ اور اجتماعی لاشعور کا حصہ ہوتا ہے۔ مگر یہ فضا زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکی۔ وقت کی تبدیلی کے ساتھ لوگوں کے افکار بدلنے لگے۔ سائنسی ترجیحات نے مذہب اور اخلاق کو پیچھے کرنا شروع کر دیا اور پھر وہ وقت بھی آگیا جب لوگوں نے مذہب اور قدیم اخلاقی اقدار کو افیون کا نشہ کہنا شروع کر دیا۔ ایسا نشہ جو اچھے خاصے انسان کو رجعت پسند اور منفعل بنا دیتا ہے۔

چنانچہ ادب اور شاعری میں زندگی کے موجودہ تقاضوں پر شدّت سے زور دیا جانے لگا۔ اس طرح روایت پرستی کا رواج کم ہوتا گیا اور حقیقت بیانی کا ماحول پیدا ہوا۔ یعنی ادب کو سچ مچ زندگی کا آئینہ بنا کر پیش کیا جانے لگا۔ اس طرح ادب روایتی پاکیزگی کے احساس سے جان چھُڑانے میں کامیاب ہوا اور اس نے زندگی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا سیکھ لیا۔ شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے کہ جن اصنافِ ادب نے زندگی کا ساتھ دیا وہ ترقی کرتی گئی۔ مگر جو صنف ادب وقت کی تبدیلی کا ساتھ نہ دے سکی اور اپنا اسلوب اور انداز نہیں بدل سکی وہ زندگی کی راہوں میں کہیں پیچھے چھوٹ گئی۔ اگر یہ کہا جائے کہ اردو زبان میں مذہبی اور اخلاقی اقدار کی حامل شاعری کااعلیٰ نمونہ مرثیہ ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ کیونکہ رثائی ادب بالخصوص مرثیہ نے جس خوبی اور جذبے اور شعور کے ساتھ مذہبی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پاسبانی و ترجمانی کی ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ رثائی ادب کو لوگ زندگی کی آگ کی حامل تخلیقی کاوش کا نام نہیں دیتے ہیں اور نہ اسے زندگی سے مثبت اور حوصلہ مندانہ رشتہ قائم رکھنے کی کوشش گردانتے ہیں۔ بعض لوگ تو صاف لفظوں میں رثائی ادب کو زوال آمادہ تہذیب کی دین کہتے ہیں۔ آل احمد سرور نے علامہ اقبال کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ’’اقبال نے انیسؔ و دبیرؔ کی مرثیہ گوئی کو زوال آمادہ شاعری کہا تھا۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر اس وقت لکھنؤ کی حالت اچھی ہوتی تو انیسؔ کے مرثیے اس پائے کے نہیں ہوتے۔ گویا انیسؔ نے کربلا کے پردے میں اپنے ہی شہر اور ملک اور اپنے ہی بھائی بندوں کی دکھ بھری تصویر پیش کی ہے۔ ان باتوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ ایک دکھی معاشرے کا فردا اور ایک دکھے دل کا حامل شاعر ہی کسی دکھ بھری داستان کو خوبی سے بیان کرسکتا ہے۔ کیونکہ فنکار بھی انسان ہوتا ہے اور وہ اپنے آس پاس کے ماحول سے خوب متاثر ہوتا ہے دوسری بات یہ کہ موضوع کے اعتبار سے رثائی ادب کو زوال آمادہ ادب کہنا کوئی غلط بات نہیں ہے۔ حدتو یہ ہے کہ رثائی ادب سے اپنی بیزاری اور اکتاہٹ کا اظہار کرنے والے لوگوں کو بھی ہم برا نہیں کہہ سکتے ہیں۔ کسی دانشور کا قول ہے کہ تم اپنے باپ کی لاش کو ہر جگہ نہیں گھسیٹ سکتے۔ ظاہر ہے کہ زندگی جس جوش اور جذبے کی متقاضی ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ مگر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ انیسؔ کے مرثیوں میں زندگی کے متعلقات کی جتنی تصویر نظر آتی ہے اور حق و باطل اور حیات و موت کے تصادم کی جو جھنکار سنائی دیتی ہے اس میں موت کی دم توڑتی سسکی سے کہیں زیادہ حیات جاوداں کا نغمہ گونجتا ہے۔ زندگی جتنی ہنگامہ آرائی اور جوش و جذبے کی زمزمہ خوانی کی شکل میں انیسؔ کے یہاں نظر آتی ہے اتنی پر شور، ہنگامہ خیز، با وقار اور با رعب تو کسی شاعر شباب و انقلاب اور رجز خواں کے یہاں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ یہاں اس بات کا اعادہ ضروری ہے کہ شاعری کا معاملہ موضوع سے کوئی گہرا تعلق نہیں رکھتا ہے۔ مطلب یہ کہ موضوع کتنا ہی بڑا اور زندگی سے بھرپور اور مہتم بالشان کیوں نہ ہو اس سے فن اور فنکار کو کوئی عظمت نہیں ملتی ہے۔ کیونکہ شاعری میں موضوع کی نہیں موضوع کو برتنے کے سلیقے اور ہنر مندی کی اہمیت ہوتی ہے۔ تلسی داس، ڈانٹے اور اقبال اور انیس محض اس لیے بڑے شاعر نہیں سمجھے جاتے ہیں کہ ان کی شاعری کی بنیاد مذہبی روایت اور اخلاقی اقدار پر قائم ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر محلے کی مسجد کا امام اپنے وقت کا بڑا شاعر ہوتا۔

شاعری ایسی چیز ہوتی ہے جس کے جادوئی اثر اور تحیر خیز مسرت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ تخلیقی متن دنیا کے تمام متون سے زیادہ تہہ دار، پرکشش اور معنیٰ خیز ہوتا ہے۔ اسے پوری طرح گرفت میں نہیں لیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ جتنا ٹھوس ہوتا ہے اتنا ہی لطیف ہوتا ہے۔ گویا تخلیقی متن ایک ایسی باطنی روشنی کا حامل ہوتا ہے جس سے قاری پر بہت کچھ منکشف ہو جاتا ہے مگر وہ یہ تمام چیزیں دوسروں کو دکھا نہیں سکتا ہے۔

کسی بھی فن پارہ کی طویل ترین زندگی کا راز یہی ہے کہ وہ پوری طرح گرفت میں نہیں آتا ہے۔ کوئی بھی فن ہو کہ فن پارہ، یا کوئی کتاب، جس دن وہ پوری طرح سمجھ لی جاتی ہے اس دن اس کی موت ہو جاتی ہے۔ گویا فن بصیرت پیدا کرتا ہے، مسرت کے سرچشمے کا احساس پیدا کرتا ہے، لوگوں کو زندگی کے اسرار و رموز سے آشنا کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر خود پوری طرح کبھی نہیں کھلتا ہے۔ گویا ادب خود آگہی کی جو اذیت پیدا کرتا ہے وہ بھی زندگی کی مادی راحتوں سے مہتم بالشان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادب و فن کی اہمیت سے انکار کرنا ممکن نہیں ہو پاتا ہے۔ ادب انسان کا ارتفاع کرتا ہے اور تخلیقی کرب اس کو دنیاوی آلائشوں سے پاک کرتی ہے جس سے وجود میں اضافہ ہوتا ہے۔ دراصل یہی وہ چیز ہے جو ادب کی اساس ہے۔ کلید ہے۔

میر ببّر علی انیسؔ اردو کے بڑے شاعروں میں سے ایک ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ انہیں بھی اپنے بڑے اور باکمال ہونے کا احساس ہے۔ گویا وہ خود آگاہ قسم کے شاعر ہیں ، جنہیں خوب معلوم ہے کہ وہ کیا کیا کہہ چکے ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں۔ کس کے لئے کہہ رہے ہیں اور کس طرح کہہ رہے ہیں اور یہ بھی کہ ابھی کس کس طرح سے کہہ سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں :

گلدستۂ معنیٰ کو نئے ڈھنگ سے باندھوں

اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں

گویا شاعری انیسؔ کے لئے بے خودی پیدا کرنے والی کیفیت کا نام نہیں ہے اور نہ وہ کسی الہامی کیفیت پر یقین رکھتے ہیں اگر ایسا ہوتا تو شاید انہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ انہوں نے ایک پھول کے مضمون کو کتنے رنگ میں باندھا ہے۔ گویا شاعری ان کے لیے شعوری کاوش کا نام ہے۔ ویسے انہوں نے جس موضوع کو برتا ہے اس میں ہوش و خرد سے ماورا ہونا ممکن بھی نہیں ہے کہ صدائے با ادب با ملاحظہ دم بہ دم گونجتی ہی رہتی ہے جب کہ خبردار اور ہوشیار کا بھی نعرہ بلند ہوتا رہتا ہے مگر ان باتوں سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ انیسؔ کی شاعری تمام و کمال آورد ہی آورد ہے جس سے قاری اُکتا جاتا ہے۔ انیسؔ کے لئے شاعری الہامی کیفیت کی حامل چیز ہو یا نہ ہو مگر حالت جذب والی کیفیت کی حامل چیز ضرور ہے۔ یعنی انیس ایسے موضوع کے شاعر ہیں جس پر وہ پوری طرح حاوی ہیں۔ مگر لطف کی بات یہ ہے کہ یہ موضوع بھی ان پر پوری طرح حاوی ہے۔ دونوں ایک دوسرے میں اس طرح جذب ہو چکے ہیں کہ انیس کو مجذوب شاعر کہنے میں کوئی تکلف محسوس نہیں ہوتا ہے۔ دراصل یہی جذب کی کیفیت انیسؔ کے مرثیے کی جان ہے جو اسے زمانے کے تمام تر سردوگرم میں بھی تر و تازہ رکھے ہوئی ہے۔

اگر رثائی ادب کی تاریخ پر ایک واجبی سی نظر بھی ڈال لی جائے تو معلوم ہو گا کہ اردو میں مرثیہ نگاری کی روایت نئی نہیں ہے۔ اس کے آثار اردو زبان کی ارتقا کے ابتدائی مرحلے سے ہی پائے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو غزل کی طرح اردو مرثیے کا آغاز بھی دکن میں پندرہویں صدی کے نصف آخر میں ہوا۔ نصیرالدین ہاشمی اپنی کتاب ’’دکن میں اردو‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :

شمالی ہند میں ہمایوں کے دوبارہ واپس آنے کے پیشتر مجالس عزہ اور مرثیہ گوئی کادستور نہ تھا مگر اس سے کم و بیش نصف صدی پہلے دکن میں اس کا رواج ہو چلا تھا۔

کہنے کا مطلب یہ کہ مرثیہ ایک قدیم صنف شاعری ہے، عموماً لوگ نظام شاہی شاعر اشرف کی مثنوی ’’نوسرہار‘‘ کو اردو کا پہلا مرثیہ قرار دیتے ہیں جب کہ اس میں مرثیت کے لوازم کا فقدان ہے۔ اسے محض اس لیے مرثیہ کہا جاتا ہے کہ اس مثنوی میں مختلف باب قائم کر کے امام حسینؓ کے حالات کو منظوم کیا گیا ہے۔ قدیم شعرا میں جن لوگوں نے مرثیہ کی روایت کو آگے بڑھایا ان میں غواصی، لطیف اور کاظم وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے۔ اس کے بعد مرثیہ نگاروں کی ایک لمبی فہرست ہے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ مرثیہ کو فن بنانے میں سب سے اہم رول سوداؔ نے ادا کیا جسے دلگیرؔ، فصیحؔ اور خلیق نے نئے امکانات سے آشنا کیا تو میرانیس اور مرزا دبیر نے اوج کمال تک پہنچایا۔ میرانیسؔ نے مرثیہ میں مرثیت کے علاوہ بھی بہت ساری چیزوں کو جذب کرنے کی کامیاب کوشش کی جس کی برکت سے اس کی تاثیر میں اضافہ ہوا اور فن مرثیہ نگاری کو وسعت حاصل ہوئی۔ مگر اس صنف میں انیس سے آگے کوئی نہیں جاسکا۔

انیس کے مرثیوں کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بڑی صلاحیتوں کے مالک ایک عبقری فنکار تھے انہیں فن کی باریکیوں پر دسترس حاصل تھا اس لیے وہ تجربے کرنے سے کبھی نہیں چوکتے تھے۔ انہوں نے اپنی جدت طبع کا ثبوت پیش کرتے ہوئے مرثیہ جیسی خشک صنف شاعری میں غزل اور قصیدے کی روح کے ملاپ سے ایک نئی جان پیدا کر دی۔ اور رثائی ادب کی کائنات میں رعنائی بکھیر دی۔ یہ عجیب بات ہے کہ ان کے مرثیوں میں رونے رلانے سے زیادہ دوسرے منظروں کی بھرمار ہے جو شاعر کے تخیل کی پرواز کی واضح دلیل اور مثال ہے۔

بین مرثیہ کا لازمی جز ہے مگر انیس کے یہاں بین کا عنصر کم ہے۔ جب کہ واقعہ نگاری، منظر نگاری، جذبات نگاری، وغیرہ زیادہ ہے۔ خصوصاً انہوں نے جنگ کے معرکے، حریفوں کے مقابلے گھوڑے اور تلوار کی تعریف، صبح کے مناظر، گرمی کی شدت، بی بی زینب، شہر بانو، صغرا، سکینہ، عون و محمد، علی اکبر، عباس اور امام حسینؓ کے جذبات کی جس طرح عکاسی کی ہے وہ بس انہیں سے مختص ہے۔ انہیں جذبات نگاری پر ایسی قدرت حاصل ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ وہ بیک وقت باپ، بھائی، بہن، بیوی، شوہر، بیٹی، ماں ، دوست، احباب تمام لوگوں کے جذبات یکساں خوبی اور سلیقے سے بیان کر دیتے ہیں وہ بھی اس طرح کہ سب کچھ عین حقیقت اور فطرت کے مطابق معلوم ہوتا ہے۔

ان کا تخیل اتنا بلند ہے کہ وہ پرانی سے پرانی چیزوں میں نیا پہلو تلاش لیتے ہیں اور اپنی جدت پسندی سے کام لے کر جانی پہچانی چیزوں میں ایسی ندرت پیدا کر دیتے ہیں کہ قاری حیرت انگیز مسرت سے دو چار ہو جاتا ہے۔ وہ انسانی جذبات و احساسات اور انسانیت کی اعلیٰ ترین قدروں کو اپنے مرثیوں میں اس طرح جذب کر دیتے ہیں کہ مرثیہ ایک مکمل معاشرتی زندگی کی تصویر بن جاتا ہے جہاں ہر چیز کو اس کی اصل تصویر کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مرثیے مرثیے کم اور رزمیے زیادہ معلوم ہوتے ہیں جہاں ہم حق و باطل اور حیات و موت کے اس تصادم کا نظارہ کرتے ہیں جو ازل سے جاری ہے۔

میرانیسؔ کے مرثیہ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہاں موت پر زندگی کو جھپٹتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ وہ بھی اس طرح کہ کچھ بھی غیر فطری معلوم نہیں ہوتا ہے کیونکہ مرثیہ کا ماحول ہر طرح کے واقعات کے لئے جواز فراہم کرتا ہے، ان کے مرثیے کی تخلیقی فضا میں حق پر مر مٹنے کا جذبہ، رشتوں کی تقدیس کے لئے خود کو قربان کر دینے کا جوش، تلوار کی دھار پر چلتے ہوئے دست اخوت اور اللہ کی رسی کو تھامے رکھنے کا بے پناہ جذبہ، حیا، پاس ناموس، غیرت و حمیت، احترام اور فرماں برداری و بردباری پر حرف نہ آنے دینے کا حوصلہ و جذبہ اس طرح گھل مل گیا ہے کہ یاسیت اور اکتاہٹ قطعی دامن گیر نہیں ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انیس نے جس کثرت سے اردو الفاظ و افعال کا استعمال کیا ہے کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ حالانکہ کثرت الفاظ کے حوالہ سے نظیرؔ  و جوشؔ کا نام لیا جاتا ہے مگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان کے یہاں عموماً الفاظ الفاظ ہی رہ جاتے ہیں جب کہ انیسؔ کے یہاں الفاظ تجربہ بن جاتے ہیں اور کبھی کبھی تو ایک مکمل دنیا میں تبدیل ہو جاتے ہیں اس سے بھی مزے کی بات یہ ہے کہ ان تمام باتوں کے باوجود وہ ایجاز و اختصار کے حوالہ سے بھی یاد کئے جاتے ہیں۔

دراصل ایجاز و اختصار لفظ کے کائنات بن جانے ہی کی دلیل ہے۔ شیفتہ کا یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ انہوں نے جب انیس کا یہ مصرع

آج شبّیر پہ کیا عالم تنہائی ہے

سنا تو کہا کہ انیس نے بے کار مرثیے لکھے ان کا پورا مرثیہ تو اس ایک مصرعے میں سمٹ آیا ہے۔ ایسے اشعار اور مصرعوں کی میرانیسؔ کے یہاں کمی نہیں ہے جو شدت تاثیر، کیفیت اور تصویر کشی و منظر نگاری کی وجہ سے دل پر نقش ہو جاتے ہیں۔چند اشعار دیکھئے:

کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا

تھا موتیوں سے دامن صحرا بھرا ہوا

پیاس ایسی تھی کہ آ گئی جان ہونٹوں پر

صابر ایسے تھے کہ پھیری نہ زبان ہونٹوں پر

فرما سکے نہ یہ کہ شہ مشرقین ہوں

مولا نے سر جھکا کے کہا میں حسینؓ ہوں

ننھی سی قبر کھود کے اصغر کو گاڑ کے

شبیر اٹھ کھڑے ہوئے دامن کو جھاڑ کے

پیاسی جو تھی سپاہِ خدا تین رات کی

ساحل سے سر پٹکتی تھیں موجیں فرات کی

ظاہر ہے کہ یہ تمام اشعار اپنی جگہ ایک مکمل تصویر اور ایک مکمل دنیا ہیں ، چند اور مثالیں ملاحظہ ہوں ، حضرت حسینؓ پیاسے ہیں ، یزیدی لشکر پانی نہیں دیتا ہے، فطرت اس صورتحال سے عجب اضطراب میں ہے وہ حسینؓ کی پیاس بجھانا چاہتی ہے۔ سو انیسؔ کہتے ہیں :

خواہاں تھے نخل گلشن زہرا جو آب کے

شبنم نے بھر دیئے تھے کٹورے گلاب کے

گرمی کی شدّت کے بیان میں انیسؔ کے تخیل کی یہ پرواز ملاحظہ کیجئے:

آب رواں سے منہ نہ اٹھاتے تھے جانور

جنگل میں چھپتے پھرتے تھے طائر ادھر ادھر

مردم تھے سات پردوں میں عرق میں تر

خس خانۂ مژہ سے نکلتی نہ تھی نظر

گر چشم سے نکل کے ٹھہر جائے راہ میں

پڑ جائیں لاکھ آبلے پائے نگاہ میں

گرمی کی شدت کی چند اور تصویریں ملاحظہ کیجئے:

اڑتی تھی خاک خشک تھا چشمہ حیات کا

کھولا ہوا تھا دھوپ سے پانی فرات کا

لو تھی کہ شجر جل گئے تھے دشتِ بلا میں

معلوم یہ ہوتا تھا کہ ہے آگ ہوا میں

بھُن جاتا تھا دانہ بھی جو گرتا تھا زمیں پر

اس دھوپ میں سایہ نہ تھا لاشِ شہ دیں پر

تلواریں منہ چھپائے تھیں سائے میں ڈھال کے

خنجر بھی رہ گئے تھے زبانیں نکال کے

حضرت زینبؓ امام حسینؓ کو بیٹے کے غم میں چور خیمے کی جانب آتا دیکھ کر کہتی ہیں :

ابنِ زہرا تری مظلومی کے ہمشیر نثار

آؤ چادر سے کر دوں پاک میں چہرے کا غبار

میرانیس کی قادرالکلامی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ تیر و تفنگ کے چلنے کی تصویر بھی لفظوں میں پیش کر دیتے ہیں۔ ذرا تلوار کے چلنے کی یہ تصویر تو دیکھئے کہ انیس نے اپنے تخیل کے زور پر کس طرح اس میں جان پیدا کر دی ہے۔

گہہ بڑھی ، گاہ رکی ، گاہ تھمی ، گاہ چلی

ٹھہری کبھی ، غوطہ کبھی کھا کر نکل گئی

حضرت عباسؓ جب میدان کارزار کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو جوش سے ان کی آنکھوں میں سرخ ڈورے پڑ جاتے ہیں ، دیکھئے کہ انیسؔ کتنی خوبصورت تصویر پیش کرتے ہیں :

ڈورے جو سرخ سرخ ہیں چشمِ سیاہ میں

پھرتی ہیں خوں بھری ہوئی تیغیں نگاہ میں

تلوار کے جمال کو اتنی رعنائی کے ساتھ بیان کیا ہے انیس نے کہ غزل کی فضا بھی رشک کرنے لگی ہے۔ ذرا یہ انداز اور یہ شاعرانہ حسن تو ملاحظہ فرمایئے:

کاٹھی سے اس طرح ہوئی وہ شعلہ خو جدا

جیسے کنارے شوق سے ہو خوب رو جدا

مہتاب سے شعاع جدا گل سے بو جدا

سینے سے دم جدا رگِ جاں سے گلو جدا

گر جا جو رعد ، ابر سے بجلی نکل پڑی

محمل میں دم جو گھٹ گیا لیلیٰ نکل پڑی

گھوڑے کی ایک تصویر دیکھئے:

پتلی جدھر سوارنے پھیری وہ مڑ گیا

اترا براق بن کے پری بن کے اڑ گیا

میر انیسؔ کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ مرثیہ جسے لوگ گھٹیا شاعری سمجھتے تھے اور بگڑا شاعر مرثیہ گو کے خطاب سے نوازتے تھے اسے کمال کے درجے کو پہنچا دیا اور اس میں اپنی جدت و ندرت سے ایسی وسعت پیدا کر دی کہ وہ ایک اعلیٰ درجے کا فن بن گیا۔ ان کے مرثیے میں اردو شاعری کے تمام اصناف کی عمدہ صفتیں اس طرح گھل مل گئی ہیں کہ مرثیے کا پوری طرح ارتفاع ہو گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مرثیہ کے میدان میں انیس کے بعد کوئی بھی شاعر اپنے قدم نہیں جما سکا۔

میرانیسؔ نے اپنے مرثیہ میں صبح کا منظر بار بار پیش کیا ہے اور اس طرح پیش کیا ہے کہ ہر بار صبح کی تازگی فرحت بخش گئی ہے۔ یعنی تکرار کی یکسانیت نے کثافت نہیں پیدا ہونے دی ہے۔ گویا ان کے یہاں ہر صبح بالکل نئی اور اچھوتی صبح ہوتی ہے۔ گویا رات کے تاریک پردے سے ایک نئے دن کا آغاز ہوتا ہے۔ ظلمت کی آغوش سے پاکیزگی، لطافت اور نور کا ورود ہوتا ہے۔ بدی کی آغوش سے نیکی کا چشمہ پھوٹ نکلتا ہے اور صبح عاشور کی پاکیزگی و لطافت کا احساس دل میں جاگزیں ہو جاتا ہے۔ ایک منظر ملاحظہ فرمایئے:

وہ نور صبح اور وہ صحرا وہ سبزہ زار

تھے طائروں کے غول درختوں پہ بے شمار

چلنا نسیم صبح کا رہ رہ کے بار بار

کو کو وہ قمریوں کی وہ طاؤس کی پکار

وا تھے دریچے باغ بہشت نعیم کے

ہر سو رواں تھے دشت میں جھونکے نسیم کے

آمد وہ آفتاب کی وہ صبح کا سماں

تھا جس کی ضو سے وجد میں طاؤس آسماں

ذروں کی روشنی میں ستاروں کا تھا گماں

نہر فرات بیچ میں تھی مثل کہکشاں

ہر نخل پر ضیا سرِ کوہ طور تھی

گویا فلک سے بارش باران نور تھی

صبح کے ان مناظر میں حق کی صدا کو بھی گونجتا ہوا محسوس کیا جاسکتا ہے، یہ صبح جو آسمان پر تاروں کے بجھنے اور زمین پر پھولوں کے کھلنے سے شروع ہوتی اور پھر طائروں کی زمزمہ خوانی سے گزرتے ہوئے مجاہد کی اذان تک پہنچتی ہے اور حق کی صدا بن جاتی ہے۔

ہر ایک چشم آنسوؤں سے ڈبڈبا گئی

گویا صدا رسولؐ کی کانوں میں آ گئی

اذان کی صدا مثل رسولؐ کی صدا کے دشت میں گونج جاتی ہے اور پھر فطرت اس اذان سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔

اعجاز تھا کہ دلبر شبیر کی صدا

ہر خشک و تر سے آتی تھی تکبیر کی صدا

یہ حسن صوت اور یہ قرأت یہ شدّ و مد

حقا کہ افصح الفصحا ہے انہیں کا جد

گویا ہے لحن حضرت داؤد با خرد

یارب رکھ اس صدا کو زمانے میں تا ابد

شعبے صدا میں پنکھڑیاں جیسے پھول میں

بلبل چہک رہا ہے ریاض رسولؐ میں

میرانیسؔ کے صبح کے مناظر پر عموماً یہ اعتراضات کیے جاتے ہیں کہ یہ کربلا کی صبح معلوم نہیں ہوتی ہے۔ مگر یہ اعتراض یا اس قسم کے اور بھی دوسرے اعتراضات مثلاً بین کرنے کے طریقے میں ہندوستانیت کا پایا جانا۔ یا بھائی بہن اور میاں بیوی اور ماں بیٹے کے رشتے میں ہندوستانیت خیز ممتا اور جذبات کا چھلک پڑنا اور شہر کوفہ میں لکھنؤ کی تصویر کا نمایاں ہونا کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا ہے اور نہ اس سے میرانیس کی شاعرانہ عظمت پر کوئی حرف آتا ہے۔ کیونکہ انسان جس معاشرے میں پرورش پاتا ہے اس کی روح سے چھٹکارا پانا نہ تو ممکن ہوتا ہے۔ اور نہ یہ کسی طور مبارک سمجھا جاتا ہے۔

میرانیسؔ کے مرثیے میں عموماً سراپا نگاری سے گریز کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے حضرت حسین کے دوسرے ساتھیوں کا سراپا بیان نہیں کیا ہے۔ مگر خاص خاص لوگوں کا سراپا بیان نہیں کیا گیا ہے۔ شاید یہ انیس کے لئے ممکن بھی نہیں تھا۔ کیونکہ آلِ رسولؐ سے انہیں جو محبت اور عقیدت تھی وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ نظر اٹھا کر آلِ رسولؐ کے سراپا کا جائزہ لیں۔ انیس کی عقیدت کا اندازہ لگانے کے لیے یہ اشعار کافی ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ :

قرآں میں جن کا ذکر مکرر خدا کرے

کس زباں سے پھر بشر ان کی ثنا کرے

مقدور کسے شیر الٰہی کی ثنا کا

ہوسکتا ہے بندے سے کہیں شکر خدا کا

ظاہر ہے کہ ایسی عقیدت مندی میں سراپا نگاری کی توقع کرنا فضول ہے۔ مگر انہوں نے سیرت نگاری سے گریز نہیں کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے عموماً سیرت نگاری سے کام لے کر مرثیہ نگاری کو اعلیٰ اخلاق کی تربیت کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ دیکھئے وہ جناب سیدہ فاطمہؓ کی سیرت نگاری کس خوبی سے کرتے ہیں :

مہر سپہر عز و شرافت ہے فاطمہؓ

شرح کتاب عصمت و عفت ہے فاطمہ ؓ

مفتاح باب گلشن جنت ہے فاطمہؓ

نورِ خدا و آیۂ رحمت ہے فاطمہؓ

رتبے میں وہ زنان دو عالم کا فخر ہے

حوّا کا افتخار ہے ، مریم کا فخر ہے

جز اک ردائے کہنہ نہ تھی دوسری ردا

اس میں بھی لیف خرمہ کے پیوند جا بجا

بستر سے تھا کبھی نہ تنِ پاک آشنا

فرش زمیں تھا خواب گہہ بنت مصطفیٰؐ

دنیا میں جیتے جی ، کبھی راحت نہیں ملی

فاقوں میں گر ملی بھی تو نانِ جویں ملی

محتاج تھی مگر تھا سخاوت کا یہ حال

فاقے میں در پہ آن کے جس نے کیا سوال

دے آئی کچھ نہ کچھ اسے جا کر وہ خوش خصال

دنیا کے مال کو نہ سمجھتی تھی کچھ بھی مال

سینے میں دل علائق دنیا سے پاک تھا

گویا طلا بھی سامنے زہرا کے خاک تھا

انیس کو سیرت نگاری پر جس طرح ملکہ حاصل ہے اسی طرح واقعہ نگاری پر بھی قدرت حاصل ہے اور کمال کی بات یہ ہے کہ وہ ہر طرح کی واقعہ نگاری، منظر نگاری، اور جذبات نگاری میں موقع، محل، اور حفظ مراتب کا خوب خیال رکھتے ہیں۔ حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد کا منظر دیکھئے کہ انیسؔ نے کس خوبی سے ساری کائنات کو ماتم حسینؓ میں شامل کر لیا ہے۔

ہر شئے سے عیاں تھا غم سبط لولاک

سر زانوئے غم پر تھے جھکائے ہوئے افلاک

اللّٰہ رے ماتم کہ اڑاتی تھی زمیں خاک

دریا کا بھی موجوں سے سراسر تھا جگر چاک

آوارہ پرندے تھے مکاں خالی پڑے تھے

چوپائے چراگاہ سے منہ پھیرے کھڑے تھے

ایک اور شعر دیکھئے جس میں شہادت حسینؓ کا منظر جذب ہو کر رہ گیا ہے اور ان کا مرتبہ بھی بڑی خوبی کے ساتھ بیان ہو گیا ہے:

قرآن رحل زیں سے سر فرش گر پڑا

دیوار کعبہ بیٹھ گئی عرش گر پڑا

مرزا غالبؔ اردو کے وہ خوش نصیب شاعر ہیں جن کی شاعری کے مطالعہ کا باب آج بھی کھلا ہوا ہے اور لوگ اس میں آج بھی نئے پہلو تلاش رہے ہیں۔ کچھ یہی حالت میرانیسؔ کے مرثیوں کی ہے، یہ بات یوں بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ رثائی ادب یک موضوعی ہوتا ہے۔ اس کے باوجود لوگ انیس کے مرثیوں کے مطالعہ کی نئی نئی جہتیں دریافت کر رہے ہیں اور ان کی شاعرانہ عظمت و انفرادیت کے نئے باب روشن کر رہے ہیں۔

میرانیس اردو کے وہ باکمال عظیم اور منفرد شاعر ہیں جن کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف ہر دور کے بڑے سے بڑے ناقد اور دانشور نے کیا ہے۔

مرزا غالبؔ نے کہا:

’’میرانیس کے مقابلہ میں دوسرے کا مرثیہ کہنا میرانیس نہیں بلکہ خود مرثیہ کا منہ چڑانا ہے۔ ‘‘

خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے لکھا ہے کہ:

’’اگر انیسؔ چوتھی صدی ہجری میں ایران میں پیدا ہوتے اور اسی سوسائٹی میں پروان چڑھتے جس میں فردوسی پلا بڑھا تھا تو وہ ہرگز فردوسی سے پیچھے نہیں رہتے۔ ‘‘

مولانا آزاد نے کہا اور بجا کہا کہ:

’’انیس کے مرثیے اور غالب کی غزلیں عالمی ادب کو اردو کی دین ہیں ‘‘

 مجلس اجڑ چکی ہے، عزا خانے بند ہو چکے ہیں ، امام باڑے ملبہ کا ڈھیر بن چکے ہیں ، مرثیہ کہنے اور سننے کی روایت تقریباً ختم ہو چکی ہے اس کے باوجود انیس کے مرثیوں کا جادو قائم ہے۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ کسی بھی فن کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ سوسال کے بعد بھی لوگوں کی اس میں دلچسپی برقرار رہتی ہے یا نہیں۔ آج جب کے میرانیس کے مرثیوں کو سوسال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے ، ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں کی دلچسپی پہلے ہی کی طرح قائم ہے اور اہل فکر و دانش میرانیس کے مرثیوں کی خوبیاں تلاشنے میں پہلے ہی کی طرح سرگرم ہیں۔ گویا انیس کا فن موسم کے سرد و گرم سے ماورا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ان کے فن کی عظمت کا احساس بھی بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ میں اپنی بات میرانیس کے شعر کے ساتھ ختم کرتا ہوں کہ:

نظم ہے کہ گوہر شہوار کی لڑیاں انیسؔ

جوہری بھی اس طرح موتی پرو سکتا نہیں

٭٭٭

 

 

جگر کی شناخت

جن لوگوں نے غزل اور غزلیہ شاعری کو راندۂ درگاہ کرنے کی سفارش کی اور جن لوگوں نے اس کی گھٹی ہوئی داخلیت کو ہدف ملامت بنایا۔ ان لوگوں نے بھی بعض غزل گو شعراء کو قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا ہے۔ اصغرؔ، یگانہؔ، فراقؔ اور جگرؔ مرادآبادی ایسے ہی شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ شادؔ عظیم آبادی کی روایت کے سچے امین تھے۔

جگرؔ مرادآبادی نے جو ماحول پایا اس میں شعر و شاعری کے چرچے عام تھے۔ ان کا خاندان مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کا بھی دل دادہ تھا۔ اس لیے مذہبی تقدیس اور روحانی پاکیزگی کا احساس جگرؔ کے شعری مزاج کا حصہ بن گئی، یہی وجہ ہے کہ ان کی عشقیہ شاعری میں جابجا روحانیت کی چمک بھی نظر آ جاتی ہے۔ بعض لوگ ان کی اس قسم کی شاعری کو تصوف کے حوالہ سے دیکھتے ہیں جو مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ جگرؔ شروع تا آخر اپنے عاشقانہ مزاج کے پیروکار رہے۔ وہ عشق کی لذت سے ابتدا ہی میں آگاہ ہو چکے تھے۔ اس طرح ان کی شعری کائنات حسن و عشق تک ہی محدود ہو کر رہ گئی اورجیسا کہ ظاہر ہے کہ اس موضوع کیلئے غزل سے اچھا کوئی دوسرا پیرایۂ بیان نہیں ہے۔ چنانچہ جگرؔ غزل کی زلف گرہ گیر کے ایسے اسیر ہوئے کہ زندگی بھر اس سے دامن کش نہیں ہوسکے۔ جگرؔ نے اس بات کا خود ہی اعتراف کیا ہے۔  وہ لکھتے ہیں کہ :

’’میری شاعری صرف غزل تک ہی محدود ہے اور حسن و عشق ہی میری زندگی ہے۔ اس لیے بعض مستثنیات کو چھوڑ کر کسی دوسری صنف میں طبع آزمائی کی کوشش نہیں کی۔ ‘‘

جگرؔ مرادآبادی کی شناخت ان کی غزلوں کی دلکشی ، شیرینی، تازگی اور صداقت کی بدولت قائم ہے۔ غزل میں تغزل اور  آہنگ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ویسے بھی غزل جتنی پڑھنے کی چیز ہوتی ہے۔ کم و بیش اتنی ہی سننے کی بھی چیز ہوتی ہے۔ اس لیے اگر غزل میں فکری تابناکی کے ساتھ ساتھ نغمگی اور وجد آفرینی نہ ہو تو اس کا جادو چلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ جگر مرادآبادی چونکہ فن موسیقی کا بھی اچھا مذاق رکھتے تھے۔ اس لیے انہوں نے اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا اور غزل کے تغزلانہ معیار کو خوشگوار ہم آہنگی و نغمگی سے آشنا کیا۔

کہا جاتا ہے کہ جب جگر اپنے مخصوص ترنم سے غزل پڑھتے تھے تو سارے عالم پر چھا جانے والی کیفیت ہوتی تھی۔ ان کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں جو تغزلانہ شاعری کی ہر کسوٹی پر کھرے اترتے ہیں۔

تو جہاں ناز سے قدم رکھ دے

وہ زمیں آسمان ہے پیارے

ہم سے جو ہو سکا سو کر گزرے

اب ترا امتحان ہے پیارے

جب مسرت قریب آئی ہے

غم نے کیا کیا ہنسی اڑائی ہے

بھول جاتا ہوں ستم اس کے

وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے

جگرؔ پر جب تک رندی کا عالم طاری رہا تب تک ان کے اشعار بھی صہبا سے چھلکتے رہے:

یہی صہبا ، یہی ساغر یہی میخانہ ہے

چشم ساقی ہے کہ میخانے کا میخانہ ہے

تم دکھا دو جدھر آنکھیں وہی مخمور بنے

ہم جہاں شیشہ پٹخ دیں وہیں میخانہ ہے

لیکن جب شراب سے تائب ہو گئے تو انہوں نے شراب کو شرابِ معرفت کی شکل میں پیش کرنا شروع کر دیا:

تو ساقیٔ میخانہ ہے ، میں رند بلا نوش

میرے لئے تو میخانے کو میخانہ بنا دے

پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ وہ تصوف کے مرد میدان نہیں تھے۔ یہ تو ان کے استاذ اصغر صاحب کی صحبت کا فیضان تھا جو انہیں کبھی کبھی تصوف کے رنگ سے ہم رشتہ کر دیتا تھا۔ نہیں تو جگرؔ واقعتاً اول تا آخر حسن و عشق ہی کی دنیا کے مکین تھے۔ حسن و عشق کی دنیا سے ان کا رشتہ بڑا گہرا اور سچا تھا۔ ان کے اشعار میں عشق کا جو بیان ملتا ہے وہ ان کے ذاتی احساسات و مشاہدات کا آئینہ دار ہے۔ وہ عشق کی حشر ساماں کیفیتوں اور اس میں پیش آنے والی پریشانیوں سے خوب واقف تھے۔ جب ہی تو انہوں نے کہا تھا کہ :

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

ان کے یہاں جذبات کی جو فراوانی ہے وہ اوڑھی ہوئی نہیں ہے۔ ان کے جذبات کی شدّت زندگی کی دائمی حدّت سے اس طرح گتھی ہوئی ہے کہ اس کا لمس پاتے ہی انسانی  فطرت کی معصومیت اپنے آپ تبسم ریز ہو جاتی ہے۔ ان کی عملی زندگی تخلیقی زندگی سے اس قدر ہم آہنگ ہے کہ تصنع کا گمان تک نہیں ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ :

’’مجھے شعر و ادب پر سب سے بڑا فخر یہ ہے کہ میری شاعری اور میری زندگی میں بالکل مطابقت ہے۔‘‘

جگرؔ کے یہاں عشق کا جو تصور ہے وہ حقیقت پسندانہ تو ضرور ہے مگر تخلیقی سطح پر بڑا توانا اور منفرد نہیں ہے۔اس میں فکری جدت کی تابکاری اور مسرت و بصیرت کی انفرادی ضو فشانیوں کا فقدان ہے۔ اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو ہم بس یہی کہہ سکیں گے کہ جگرؔ کی شاعری کم و بیش شادؔ اور حسرتؔ کی عشقیہ شاعری کی تہذیبی قدروں کی مرہون منت ہے۔ البتہ جگرؔ نے ان شاعروں کے مہذبانہ لب و لہجہ کو انگیخت کر کے اپنے لیے جو تخلیقی جواز فراہم کیا ہے۔ یہ ان کے فطری تخلیقی بہاؤ کی سند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں حسن و عشق کا جو تخلیقی اور فطری تصور قائم ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی سطح پر میر تقی میرؔ سے جا ملتا ہے۔

دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد

اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد

وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ

جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ

یہ ہے عشق کی کرامت ، یہی کمال شاعرانہ

ابھی منہ سے بات نکلی ابھی ہو گئی فسانہ

کیا کشش حسن بے پناہ میں ہے

جو قدم ہے اسی کی راہ میں ہے

ڈاکٹر زورؔ نے لکھا ہے کہ :

’’میرؔ ، دردؔ ، غالبؔ ، داغؔ اور اقبالؔ سے وہ رفتہ رفتہ متاثر ہوتے رہے۔ اور غالباً یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں اردو کے ان اساتذہ سخن کی نہ صرف جھلکیاں نمایاں ہیں بلکہ بعض مقامات پر تو وہ ان سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ ‘‘

وہ آگے نکل سکے یا نہیں۔ اس کا فیصلہ کرنا تو مشکل ہے۔ لیکن ان شاعروں سے متاثر ہونے کا رویہ بہت نمایاں ہے۔ جسے کوئی بھی قاری آسانی سے محسوس کرسکتا ہے۔ جگرؔ کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں جن پر داغؔ کا رنگ دور ہی سے کھلتا ہوا محسوس ہوتا ہے:

کم نہیں ہوتیں دل ایذا طلب کی خواہشیں

آپ دیکھیں تو سہی ترکش میں کوئی تیر ہے

کس قیامت کی کشش اس جذبۂ کامل میں ہے

تیر ان کے ہاتھ میں پیکاں ہمارے دل میں ہے

اسی طرح ان کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں جن پر مومنؔ کا رنگ غالب ہے:

شب فراق ہے اور نیند آئی جاتی ہے

کچھ اس میں ان کی توجہ بھی پائی جاتی ہے

آنکھوں میں نور جسم میں بن کر وہ جاں رہے

یعنی ہمیں میں رہ کے وہ ہم سے نہاں رہے

جگرؔ کے یہاں بعض اشعار ایسے بھی ہیں جو مومنؔ کے اشعار کا چربہ معلوم ہوتے ہیں :

وہ ہمارے قریب ہوتے ہیں

جب ہمارا پتہ نہیں ہوتا

بعد مرنے کے بھی قرار نہیں

مرگِ ناکام اسی کو کہتے ہیں

لیکن یہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے کیونکہ دنیا کا ہر بڑا فن کار اپنے قبل کے عظیم فن کاروں سے متاثر ہوتا ہے۔ کسی کے یہاں یہ اثرات بالواسطہ مرتب ہوتے ہیں تو کسی کے یہاں بلاواسطہ۔ جو فن کار دوسروں کے اثرات سے باہر نکل کر اپنی تخلیقیت کی سحرکاری کا جواز فراہم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ زبان و ادب کی تاریخ میں امتیازی مقام پا لیتے ہیں۔ جگرؔ مرادآبادی بھی سابقہ عظیم فن کاروں کی سحرکاری کے دائرہ سے نکل کر اپنی تخلیقیت جوئی کا جواز فراہم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ مگر ان کا تخلیقی پیکر اتنا توانا اور منفرد بہرحال نہیں بن پاتا ہے جو انسانی فطرت کی تمام کیفیتوں کو مہمیز کرنے کا متحمل ہوسکے۔ اس کی ایک وجہ جہاں اس وقت کا ماحول و مزاج ہے وہیں ایک اہم وجہ یہ ہے کہ جگرؔ بہت تعلیم یافتہ نہیں تھے۔ اور بقول نورالحسن نقوی (تاریخ ادب اردو)

وہ مطالعہ کے شوقین نہ تھے اس لیے ان کے یہاں کسی فلسفیانہ گہرائی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ وہ عشق مجازی کی گوناگوں کیفیتوں کے شاعر ہیں۔ معشوق کا سراپا حسن کی ادائیں ، عشق کی جاں سپاری ان کی شاعری کے موضوعات ہیں۔

چنانچہ ان کے شعری مراتب کا تعین کرنا اس لیے مشکل نہیں ہے کہ انہوں نے بس ایک ہی قسم کی شاعری کی اور اسی پر قانع رہے۔ اس سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کے اندرون میں تخلیقیت خیزی کی وہ شوریدگی بہرحال نہیں تھی جو فن کاروں کو فکری تہہ داری اور دماغ سوزی اور جگر کاوی کا مسند نشین بناتی ہے۔

جگرؔ مرادآبادی کے یہاں محبوب کا جو تصور ہے وہ بھی بہت منفرد نہیں ہے کیونکہ جب ہم ان کے محبوب کا تجزیہ کرنے بیٹھتے ہیں تو بار بار حسرتؔ کا محبوب ذہن میں رقص کرنے لگتا ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ جگر کے کلام میں وہ انفرادیت اور فکری قوت مندی بہرحال نہیں ہے۔ جو غزلیہ شاعری کے منظرنامہ کو بہت دور تک روشن کرسکے۔ ان کا سارا کلام کسی نہ کسی سطح پر روایت کا ہی امین ہے۔ ان کا کلام کلاسیکی شعری روایت کو نہ تو نئی جہت سے آشنا کرنے میں کامیاب ہے اور نہ نئے تخلیقی رویوں کو مہمیز کرنے میں پر جوش اور پرکار ہے۔ اس کے باوجود ہم بیسویں صدی کے اس اہم غزل گو شاعر کو اس طرح نظر انداز نہیں کرسکتے۔ آخر کوئی تو خوبی رہی ہو گی کہ اپنے تمام ہر عصروں کی موجودگی میں بھی جگرؔ کی طوطی بولتی تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ حسرتؔ کے یہاں محبوب کا تصور حقیقی ہے لیکن حسرتؔ کی پوری شاعری میں محبوب کا تصور اسی سچے پیکر میں قائم نہیں رہتا ہے۔ پھر دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ جرأت ؔ، داغؔ، اور امیرؔ کی طرح حسرتؔ کو بھی اپنے محبوب سے کئی قسم کے شکوے ہیں۔ مگر جگرؔ کے یہاں محبوب سے گلہ شکوہ کا عامیانہ رویہ قطعی نہیں پایا جاتا ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جگرؔ کا محبوب ایک مہذب دنیا کا شائستہ اور با حیا فرد ہے۔ اور یہ بھی کہ دونوں کو ایک دوسرے پر پورا پورا بھروسہ ہے اور دونوں کو ایک دوسرے کی شخصیت کے خلوص اور سچائی کا بھرپور احساس ہے۔

اُف وہ روئے تابناک چشم تر میرے لیے

ہائے رے زلف پریشاں تا کمر میرے لیے

عشق ہی تنہا نہیں شوریدہ سر میرے لیے

حسن بھی بے تاب ہے اور اس قدر میرے لیے

دوسری اہم بات یہ ہے کہ جگرؔ بھی میر تقی میرؔ کی طرح آداب محبوب کے سخت قائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کسی بھی حالت میں جذبات کے سطحی پن کا اظہار نہیں ہونے دیا ہے۔ محبوب کا احترام ان کے کلام کی نہ صرف یہ کہ شان ہے بلکہ جان بھی ہے۔

حسن بے تابِ تجلی خود ہے مگر اے جگرؔ

ایک ہلکا سا حجاب چشم حیراں چاہئے

حسن کی یار گاہ میں رکھیے سنبھال کر قدم

یہ وہ مقام ہے جہاں خواہش دل حرام ہے

رعنائی خیال کو رسوا نہ کیجئے

ممکن بھی ہو تو عرض تمنا نہ کیجئے

ادب و احترام کا یہ پاکیزہ جذبہ انہیں سینوں میں اور انہیں لوگوں کیلئے پیدا ہوتا ہے جن کو اپنی نجابت و شرافت اور اپنی تہذیبی قدروں کا پاس و لحاظ ہوتا ہے۔ عشق میں جذبات سے مغلوب ہو کر بے قرار ہو جانا نئی بات نہیں ہے۔ مگر اس بے قراری کو تہذیبی دائرہ میں سمیٹ کر صالح رویہ کو تخلیق کرنا بہت بڑی بات ہے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ شاعری جذبات کا نہیں جذبات کی تہذیب کا نام ہے۔ اس لیے انہیں لوگوں کی شاعری معاشرتی پاکیزگی کی ہم نشیں بنتی ہے جنہیں جذبات کی تہذیب کا سلیقہ آتا ہے۔ جگرؔ مرادآبادی کو جذبات اور جذباتی تہذیب کا خوب احساس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جگرؔ عالم بے خودی اور عالم بے قراری میں بھی جذبات کے تہذیبی دائرہ کو پامال کرنے سے بچ گئے ہیں۔

شوق نے توڑ ہی ڈالے تھے محبت کے قیود

ہوش آیا ہے پہنچ کر در جاناں کے قریب

نہیں جانتے کچھ کہ جانا کہاں ہے

چلے جا رہے ہیں مگر جانے والے

لے ہی پہنچی بے خودی شوق بزم یار تک

گو مجھے اک اک قدم ، ایک ایک منزل ہو گیا

یہ جو ایک فطری اور مہذبانہ و معصومانہ جھجک ہے، یہ ہماری اردو شاعری میں بہت ہی کم پائی جاتی ہے۔ ’’شرمیلا پن‘‘ پاکیزگی اور رشتوں کے تقدس کے جذبہ کے بغیر شخصیت کا جزو نہیں بنتا ہے۔ ہماری کلاسیکی شاعری کا عمومی مزاج تو محبوب سے شکوہ شکایت کرنے اور اس پر بد چلنی و بد خلقی کا الزام تراشنے سے عبارت رہا ہے یا پھر جرأت کی طرح کوچۂ محبوب میں پھیری والوں کی طرح آواز بگاڑ کر محبوب کو متوجہ کرنا اور آوازے کسنا رہا ہے۔ جرأت کا یہ شعر ملاحظہ فرمایئے جو کردار کے چھچھورے پن کا عکاس بن کر رہ گیا ہے۔

کیا کیا وہ خفا مجھ سے ہوا گھر سے نکل کے

جب میں نے پکارا اسے آواز بدل کے

یا پھر امیرؔ، اور داغؔ کی شاعری کی قائم کردہ روایتوں کی چسکی لیتا رہا ہے۔ داغؔ اور امیرؔ نے محبوب کے جسمانی نشیب و فراز کی جس طرح پیراکی کی ہے۔ اسے صرف زوال آمادہ لکھنؤی تہذیب کے تناظر میں ہی گوارہ کیا جاسکتا ہے۔ جگرؔ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ادب کے سابقہ ابتذالانہ رویہ سے پوری طرح گریز کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں محبوب کی کوئی جنسی تصویر نہیں بنتی ہے۔

کیونکہ جگرؔ کا عشق جنسی جذبات کے ابال کا حامل کوئی سطحی اور وقتی عشق نہیں ہے۔ ان کا عشق دلی لگاوٹ کا حامل ، روحانیت کا خوگر ایک فکری اور تقدیس آمیز شریفانہ عشق ہے جو اپنے پاکیزہ معاشرتی زندگی کے حقیقی تصور کے ساتھ ابھرتا ہے اور جذبات کی تہذیب کے ساتھ دل کے ذریعہ روح میں اتر جاتا ہے۔

وہ کب کے آئے بھی گئے بھی نظر میں اب تک سما رہے ہیں

یہ چل رہے ہیں وہ پھر رہے ہیں یہ آرہے ہیں وہ جا رہے ہیں

وہی قیامت ہے قد بالا وہی ہے صورت وہی سراپا

لبوں کو جنبش نگہ کو لرزش کھڑے ہیں اور مسکرا رہے ہیں

خرام رنگیں نظام رنگیں کلام رنگیں پیام رنگیں

قدم قدم پر روش روش پر نئے نئے گل کھلا رہے ہیں

یہاں محبوب کا جو تصور ذہن کے افق پر ابھرتا ہے وہ ہر طرح سے دل کش اور پُر کشش ہے۔ اس میں شرم و حیا ناز و  ادا اور  تہذیب و تمیز کے ساتھ ساتھ نسائیت بھی پوری صحت مندی کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ اسی طرح ان کے یہ اشعار:

کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا

دل کچھ اس صورت سے تڑپا ان کو پیار آ ہی گیا

جب نگاہیں اٹھ گئیں اللہ ری معراج شوق

دیکھتا کیا ہوں کہ وہ جان بہار آ ہی گیا

اس طرح ایک بات تو واضح ہو ہی جاتی ہے کہ جگرؔ مراد آبادی نے ہماری عشقیہ شاعری کو مہذبانہ لب و لہجہ سے روشناس کرانے اور داخلی کیفیات کے اظہار کو صحت مندی سے ہمکنار کرنے میں معاونت کی ہے۔ جگرؔ کی شاعری کا یہ پہلو کم توانا اور اہم نہیں ہے کہ انہوں نے گزشتہ ابتذالانہ عشقیہ رویوں کو رد کر کے ایک صحت مندانہ عشقیہ روایت کو تقویت پہنچانے میں اپنی تمام تر تخلیقی قوتوں کو استعمال کیا اور اپنی انفرادی شناخت کا جواز فراہم کیا۔

جان کر منجملۂ خاصان مئے خانہ مجھے

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

٭٭٭

 

 

فراق ، جس نے اقبال کو رقیب جانا

فراق گورکھپوری ہمارے ان معدودے چند خوش نصیب شاعروں میں سے ایک ہیں جن پر حالیؔ کے بعد کے تمام بڑے ناقدوں نے کچھ نہ کچھ ضرور لکھا ہے، ان کی شخصیت اور ان کی شاعری جتنی ہمہ گیر اور مستحکم ہے اتنی ہی متنازع بھی ہے۔ فراق کی شخصیت ابتداسے لے کر آج تک موضوع بحث بنتی رہی ہے۔ بلکہ بنی ہوئی ہے۔ وہ ایک خودسر، ضدّی، اور بے حد خود پسند بلکہ خود پرست انسان اور شاعر تھے، وہ اپنے ہمعصروں میں اپنے علاوہ کسی بھی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ انہوں نے اپنے ہمعصروں میں سے کبھی کسی شاعر کی دل سے تعریف نہیں کی۔ ان کے اندر کہیں یہ گرہ لگ گئی تھی کہ یہ صدی فراق صدی ہو گی اور بہت ممکن تھا کہ ایسا ہی ہوتا ہے لیکن اسی صدی میں اقبالؔ جیسا عظیم شاعر بھی پیدا ہو گیا جس نے فراقیت کا رنگ جمنے نہیں دیا۔ اقبالؔ فراقؔ جیسے خود پرست شاعر کے لیے ایسی بلا بن گئے تھے جس کا فراقؔ کے پاس کوئی علاج نہیں تھا۔

شروع شروع میں تو فراقؔ نے اقبالؔ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش بھی کی۔ مگر انہیں بہت جلد احساس ہو گیا کہ اگلا شہسوار اتنا ہنگام خیز ہے کہ وہ ان کی گرد راہ بن جائیں گے چنانچہ انہوں نے فوراً راستہ بدل دیا اور بالآخر ادب میں اس مقام تک پہنچ گئے جس کو دوام حاصل ہے۔ مگر وہ اپنے دائمی انفرادی مقام تک کس طرح پہونچے اس بارے میں تھوڑا جان لینے کی کوشش کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔

اقبالؔ کے تتبع میں کہے گئے ان کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

ازل سے سینۂ جبریل جس سے ہے محروم

قفس میں پال رہا ہوں وہ حسرت پرواز

مآل عشق سے اونچا بہت تھا عشق ان کا

مآل عشق سے خائف نہ غزنوی نہ ایاز

اقبالؔ کے علاوہ بھی انہوں نے کئی شاعروں کے رنگ کو اپنانے کی کوشش کی، جوش کے انداز کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

رخصت اے ملت کہن کہ تیرا

ہو گیا جامِ زندگی لبریز

دور انسانیت کی شان تو دیکھ

گرد ہے آج سطوت چنگیز

فراقؔ گورکھپوری کے کچھ اور اشعار ملاحظہ فرمائیں جن پر ان کے ہمعصروں کا رنگ غالب ہے۔

کچھ مضطرب سی حسن کی دنیا ہے آج تک

جیسے کہ حسن کو نہیں دیکھا ہے آج تک

مدت ہوئی کسی کو مٹے کوئے یار میں

اک ناتواں غبار سا اٹھتا ہے آج تک

اُف تیری پرسشِ کرم اُف تیری مہربانیاں

بڑھتی ہی جا رہی ہیں دیکھ عشق کی بدگمانیاں

فراقؔ راہِ وفا میں سبک روی تیری

بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا

ان اشعار کی جو تخلیقی فضا ہے وہ یقیناً اصغرؔ، حسرتؔ، اور یگانہؔ وغیرہ کا تخلیق کردہ ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔

کوئی محمل نشیں کیوں شاد یا ناشاد ہوتا ہے

غبار قیس خود اٹھتا ہے خود برباد ہوتا ہے

(اصغر گونڈوی)

ہم پر بھی مثل غیر ہیں کیوں مہربانیاں

اے بدگماں یہ خوب نہیں بدگمانیاں

(حسرت موہانی)

بلند ہو تو کھلے تجھ سے زور پستی کا

بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا

(یگانہ)

اس طرح صاف پتہ چلتا ہے کہ فراقؔ نے خود کو پانے کے لیے بہت جدوجہد کی ہے۔ بلکہ خود کو پروجیکٹ کرنے کے لیے جگر کاوی سے زیادہ دماغ سوزی سے کام لیا ہے۔ ویسے اس قسم کے اثرات تمام شاعروں کے کلام پر کسی نہ کسی صورت میں پائے جاتے ہیں ، کیونکہ بزرگ آرٹ محرک ہوتا ہے، اس سے وجود میں اضافہ ہوتا ہے، اس لیے ہم اسے کوئی بھاری عیب نہیں مانتے ہیں ، خود فراقؔ پر بھی ان شعرا کا کوئی گہرا اثر نہیں پڑا اور نہ فراقؔ کسی سے مرعوب ہوئے۔

فراقؔ اگر کسی سے مرعوب ہوئے بھی تو وہ اقبالؔ تھے۔ اقبالؔ کی عظمت اور مقبولیت نے فراقؔ کے اندر حسد کی آگ بھڑکا دی، جب فراقؔ کو یقین ہو گیا کہ اقبالؔ ایک بھاری پتھر ہے جسے وہ ہلا نہیں سکتے تو وہ انہیں چوم کر چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ ان کے مزاج کی یہی سختی اور ضد ایک طرف انہیں اخلاقی عظمت سے محروم کرتی ہے تو دوسری طرف انہیں تخلیقیت خیزی کی نئی راہ دریافت کرنے پر آمادہ بھی کرتی ہے۔ اقبال سے ان کی حسد فنکارانہ اور معاصرانہ تھی، وہ بھی یکطرفہ، کیونکہ اقبال کے پاس ایسی چیزوں کے لیے وقت نہ تھا جب کہ اقبالؔ کی عزت نفس اور عظمت کو یہ زیب بھی نہیں دیتا تھا۔

گیان چند جین جگناتھ آزاد کے نام لکھے اپنے خط میں اور اپنی کتاب ’’پہچان و پرکھ‘‘ میں لکھتے ہیں۔

’’ایک دن میں فراق صاحب کے پاس تھا باتوں کے درمیان میں نے کہا کہ میں اقبال کو غالب سے بڑا شاعر مانتا ہوں ، فراقؔ صاحب نشہ میں تھے بہت خفا ہوئے اور انہوں نے اقبالؔ و اسلام کو بہت گالیاں دیں۔‘‘

فراقؔ چونکہ حد سے زیادہ خود پرست واقع ہوئے تھے اس لیے انہیں اپنے ہمعصروں کی شہرت ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ پہلے تو وہ اپنے ہمعصروں کے شانہ بشانہ چل کر اپنی انفرادیت ثابت کرنے پر کمربستہ رہے۔ لیکن جب انہیں محسوس ہونے لگا کہ وہ اردو کی تہذیبی روایت کا دامن تھام کر اپنے آپ کو ایک خاص قسم کے تشخص کے ساتھ قائم و دائم نہیں کرسکیں گے تو وہ فطری تخلیقی سرشاری سے دامن کش ہو کر شعوری تخلیقی کاوش میں لگ گئے۔ اس سلسلے میں کبھی وہ انگریزی و فرانسیسی زبان سے فائدہ اٹھا کر اس کے تخلیقی شہ پاروں کی روح کو اپنی تخلیقیت خیزی کی روح میں حل کرنے کی کوشش کرنے لگے تو کبھی ہندی اور سنسکرت سے استفادہ کر کے اپنی تخلیقی جودت کی لو کو تیز کرنے کی سعی کرنے لگے مگر بقول رمیش چندر دویدی۔

’’انہیں (فراق کو) سنسکرت شعریاتی تہذیب کا مکمل ادراک نہیں تھا۔ اس لیے وہ اس میں بھی بری طرح ناکام رہے۔‘‘

ناکام تو ہونا ہی تھا، کیونکہ فراق ہندی اور سنسکرت کی طرف دل کی آواز پر نہیں اقبالؔ کی ضد میں لپکے تھے۔ ’’شبنمستان‘‘ کے دیباچہ کا یہ حصہ ملاحظہ فرمایئے۔

میں اسے محسوس کرتا رہا ہوں کہ ہندوستانیت کی روح اگر اردو شاعری میں سرایت کرسکے تو اس شاعری میں ایک معصومیت، کائنات و حیات کی ہم آہنگی، ایک طہارت، ایک روحانی مجازیت و مادیت آ جائے گی۔ جس سے ایسے سنسار سنگیت پھوٹ نکلیں گے جوسورگ سنگیت کو بھی مات دے دیں گے۔ میں ہمیشہ سے یہ سنتا آیا تھا کہ اردو شاعری کا سرچشمہ ادراک اور اس کی روح رواں باطنی یا داخلی تحریک فارسی و عربی ادب و شاعری کی روایتیں ہیں ، اور ہمیشہ یہ بیانات میرے اندر بغاوت کے جذبات پیدا کر دیتے ہیں۔ فارسی و عربی شاعری و ادب سے تھوڑا بہت متاثر ہو لینا اور بات ہے لیکن شاعری ہندوستان کی اور اس کی جڑیں اور بنیادیں مکہ، مدینہ، یا شیراز میں ، یہ بات میرے گلے کے نیچے نہیں اترتی تھی۔ ‘‘

اس اقتباس کا تجزیہ کر کے قارئین سمجھ سکتے ہیں کہ اس میں کتنی سچائی اور کتنا خلوص ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ شروع شروع میں فراق صاحب بھی اقبال کی آواز میں آواز ملا کر جبرئیل اور ایاز و غزنوی کی باتیں کر رہے تھے۔ لیکن اب وہ اچھی طرح جان چکے ہیں کہ ان کی آواز اقبال کی آواز کی بازگشت سے زیادہ اہمیت نہیں حاصل کرسکے گی۔ اس لیے وہ اقبالؔ کے ساتھ ساتھ پوری اردو تہذیب پر خط تنسیخ کھینچ دینا چاہتے ہیں تاکہ ان کی زبردستی  ہندی الفاظ ٹھونسی شاعری کا جواز پیدا ہوسکے۔ علامہ، مفکر اور دانشور اقبالؔ کا فراق پر ایسا رعب پڑا کہ وہ احساس کمتری کا شکار ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں جہاں بھی موقع ملا وہ اقبال پر چوٹ کرنے سے باز نہیں آئے۔  ظ، انصاری کے مضمون کا یہ حصہ ملاحظہ فرمائیے:

ظ، انصاری:  کیوں فراق صاحب اب تو آپ کو زندگی سے شکوہ نہیں رہا کہ اس نے آپ کی قدر نہیں کی؟

فراق:  جناب ! کیا میں شکوؤں کا شاعر ہوں ؟  کیا سمجھتے ہیں آپ! زندگی کی ہر کروٹ سے اتنا مانوس رہا ہوں کہ شکوہ کی گنجائش نہیں رہ جاتی، موسم کا احساس، وقت کا احساس، مناظر فطرت کا احساس، ان سے آپ کا کوئی شاعر اتنا مانوس نہیں جتنا کہ فراق ہے۔

شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے کہ شکووں کا شاعر کون ہے۔ اور فراق کس پر طنز کر رہے ہیں ، البتہ فراق کا یہ دعویٰ کہ بجز فراق کے وقت کے احساس، موسم کے احساس، اور مناظر فطرت کے احساس سے دوسرا کوئی واقف نہیں ہے۔ خود پرستانہ ذہنیت کی دلیل ہے۔ بہرحال جب فراق اردو تہذیب کے انسلاکاتی لوازم مکہ، مدینہ، ایران، اور عربی و فارسی پر جی بھر کے گرج چکے تو انہوں نے شعوری طور پر اپنی شاعری میں ہندی الفاظ کو برتنا شروع کر دیا۔ چونکہ فراق کی شخصیت کا اچھا خاصہ رعب تھا اس لیے جب ان کی رباعیوں کا مجموعہ ’’روپ‘‘ شائع ہوا تو ہمارے نام نہاد نقاد اپنی تبحر علمی کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے یہ ثابت کرنے پر کمر بستہ ہو گئے کہ واقعی فراق نے ہندوستانیت کی روح کو چھو لیا ہے۔ اور اردو شاعری کو ہندوستانیت کی روح سے معطر کر دیا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان رباعیوں میں اس کے علاوہ کوئی خوبی نہیں ہے کہ ان میں ہندی کے الفاظ جبراً استعمال کیے گئے ہیں۔ اپندر ناتھ اشکؔ ان رباعیوں سے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

’’میں بمشکل تمام بادل نخواستہ فراق کی سات رباعیاں چن سکا آج جب میں انہیں پڑھتا ہوں تو مجھے تصنع اور تکلف سے بھر ی دماغ پر زور دے کر لکھی گئی اور بے اثر لگتی ہے، شاعر پر گزری اور بیتی نہیں لگتی ہے، کبھی کبھی مجھے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ارد ووالے ہندی شاعری کی خوبیوں اور باریکیوں سے بے بہرہ نہیں ہوتے تو فراق کو اتنا سر پر نہ بٹھایا ہوتا۔ ‘‘

یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فراق کی ہندی آمیز شاعری جسے ہمارے بعض نام نہاد نقاد نظیرؔ کی شاعری کی طرح اردو ادب کا انمول خزانہ ثابت کرنے پر تلے ہیں سراسر بے بنیاد ہے۔

ہندی تہذیب و تمدن اور زبان و ادب کے پروردہ تمام ارباب فن اور ناقدین نے فراق کی ہندی آمیز شاعری کو غیر موثر اور بے روح قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ فراق کو ہندی اور سنسکرت شعریات کی باریکیوں کا پورا ادراک قطعی نہیں تھا۔ اس طرح فراق اپنی ہندی آمیز شاعری کے حوالہ سے بھی منفرد و ممتاز ثابت نہیں ہوتے ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود ہم فراق کی شاعرانہ عظمت و انفرادیت سے انحراف کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ آخر کوئی تو خوبی ہو گی ان کی شاعری میں جو انہیں غزل کا ایک اہم ستون بنائے ہوئی ہے۔

محمدحسن عسکری نے جس طرح اپنی علمیت کے زور پر فراق کو آسمان پر بٹھایا تھا اسی قسم کی علمیت کے زور سے شمس الرحمن فاروقی نے انہیں حقیقت کی زمین پر کھڑا کر دیا ہے۔ اگر محمد حسن عسکری کے مسلمات جوں کے توں رہ جاتے تو فراق بھی اقبال کی طرح ایک مخصوص طبقہ کے لیے پڑھنے سے زیادہ پوجنے کی چیز بن جاتے۔

 فراقؔ پر ہر بڑے ناقد نے قلم اٹھایا ہے اور کسی نہ کسی شکل میں ان کی شاعری کی انفرادیت کو سراہا ہے۔ جس سے احساس ہوتا ہے کہ واقعی اس بجھے ہوئے آتش فشاں میں  تخلیقیت خیزی کے لاوے سلگ رہے ہیں۔ ایسے لاوے جو اپنی گرمی سے تخلیقی فضا کو تا دیر حرارت پہنچاتے رہیں گے۔ ہم مانتے ہیں کہ ان کی شاعری کا بیشتر حصہ اقبال کی ضد میں دوسرے عالمی ادب کے شہ پاروں کو پیش نظر رکھ کر پروجیکٹ کیا گیا ہے جو آورد کا شکار ہو کر انتقاضِ تاثیر کا سبب بن گیا ہے۔ لیکن ان کی شاعری کا جو معتد بہ حصہ آمد اور خلاقیت کا ضامن ہے وہ بہرحال قیمتی اور قابل افتخار ہے۔ اس میں قطعی دو رائے نہیں ہے کہ فراقؔ کا مطالعہ بے حد وسیع تھا، انہیں بیک وقت تین تہذیبوں کی قدروں کا ادراک حاصل تھا۔ ایک تو ان تین تہذیبوں کے ادراک کا فیضان، اس پر سے فراق کا رسا ذہن، پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ تین تہذیبوں کا سنگم فراقؔ اپنی انفرادی شناخت کی معراج کو نہیں پہنچتا۔

فراقؔ کی شاعری کا ڈکشن ، لہجہ اور کیفیت کے احساس کا ادراک اردو کے تمام شاعروں سے منفرد اور ممتاز ہے ان کے یہاں الفاظ کے درو بست کا اپنا نظام ہے۔ لفظی توازن کی خوبیاں جو کلاسیکی شاعری کا نشانِ امتیاز ہے۔ فراقؔ کے یہاں کمزور ہونے کے باوجود دوسرے کئی نئے شعرا سے زیادہ مؤثر و معتبر ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں :

خیالِ گیسوئے جاناں کی وسعتیں مت پوچھ

کہ جیسے پھیلتا جاتا ہو شام کا سایا

دل دکھے روئے ہیں شاید اس جگہ اے کوئے دوست

خاک کا اتنا چمک جانا ذرا دشوار تھا

ان اشعار میں ایک خاص طرح کا لفظیاتی توازن پایا جاتا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ شعر پڑھتے ہی حسی امیجز روشن ہو جاتے ہیں۔ حسی پیکر کی تخلیق کرنے والے چند اور اشعار ملاحظہ فرمائیں :

آ گئی باد بہاری کی لچک رفتار میں

موج دریا کا تبسم بس گیا رخسار میں

یہ زندگی کے کڑے کوس ، یاد آتا ہے

تری نگاہِ کرم کا گھنا گھنا سایا

فراق گورکھپوری کی ایک انفرادی پہچان یہ ہے کہ انہوں نے کیفیتوں کو اپنے اشعار میں روشن کر دیا ہے۔ کیفیت کے اشعار جس کثرت سے فراقؔ کے یہاں پائے جاتے ہیں وہ اردو کے کسی دوسرے شاعر کے یہاں نہیں ملتے ہیں۔ فراق کی دوسری اہم ترین خصوصیت جو محمد حسن عسکری نے بتائی ہے وہ یہ ہے کہ وہ عاشق و معشوق کے انفرادی وجود اور ان کی شخصیت کو اجاگر کر دیتے ہیں۔ فراقؔ سے پہلے اردو شاعری میں عاشق و معشوق ایک دوسرے میں ضم ہو جاتے تھے۔ یعنی ان کی انفرادی شخصیت کا کوئی تصور ہی نہیں تھا فراقؔ پہلا شاعر ہے جس نے عاشق و معشوق کے انفرادی وجود کا اعتراف کیا۔ اور اسے نمایاں کرنے کی بھی کامیاب کوشش کی۔ اس بحث سے غرض نہیں ہے کہ انہوں نے عشق کی پرانی روایت کو مجروح کیا یا اس میں جدت پیدا کر کے کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا۔ اشعار ملاحظہ فرمائیے:

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں

ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

غرض کے کاٹ دیئے زندگی کے دن اے دوست

وہ تیری یاد میں ہوں کہ تجھے بھلانے میں

ہم سے کیا ہوسکا محبت میں

خیر تم نے تو بے وفائی کی

ان اشعار میں جس قسم کی کیفیت رچ بس گئی ہے وہ ہمیں زندگی کا سچ لگتا ہے،  فراقؔ کو اسی قسم کے اشعار نے فراق بنایا ہے، اب چند اور اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

اس پرسشِ کرم پہ تو آنسو نکل پڑے

کیا تو وہی خلوص سراپا ہے آج بھی

ترے پہلو میں کیوں ہوتا ہے محسوس

کہ تجھ سے دور ہوتا جا رہا ہوں

ہماری کلاسیکی شاعری میں عاشق کا جو کردار ملتا ہے وہ سراسر ٹائپ کردار ہے۔ فراقؔ نے عاشق و معشوق کے ٹائپ کردار کو بدل کر اردو شعر و ادب کو ایک نیا کردار دیا ہے۔ ایسا کردار جو عاشق و معشوق ہونے کے باوجود اپنی الگ شخصیت کا حامل ہے۔ اپنی الگ نفسیاتی پہچان کا داعی ہے۔

یہ سرتا بہ قدم محویت کا عالم ہے

کہ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا ہے جیسے بدن

عشق میں سچ ہی کا رونا ہے

جھوٹے نہیں تم جھوٹے نہیں ہم

اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فراق اپنی شخصی کمزوریوں کے باوجود ایک اچھے اور معتبر شاعر ہیں۔  یہ درست ہے کہ ہم فراق کو عظیم شاعر نہیں مان سکتے، لیکن ہم فراقؔ کی شاعرانہ انفرادیت اور قدر و منزلت سے انحراف بھی نہیں کرسکتے۔ کیونکہ خود فراق کے نقشِ پانے بعد میں آنے والے فنکاروں کو منزل کا پتہ دیا ہے۔ اگر ایک طرف فراقؔ کی شاعری پر متقدمین شعرا کے اثرات پائے جاتے ہیں تو دوسری طرف فراق کے اثرات بھی بعد کے بہترین شعرا پر پائے جاتے ہیں ، ابوالکلام قاسمی نے ان اثرات کو مثالوں کے ساتھ بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :

ترا فراق تو اس دن ترا فراق ہوا

جب ان سے پیار کیا جن سے کوئی پیار نہ تھا

ہزار شکر کے مایوس کر دیا تو نے

یہ اور بات کے تجھ سے بڑی امیدیں تھیں

اے دل بے قرار دیکھ وقت کی کارسازیاں

عشق کو صبر آگیا صبر کیے بغیر بھی

قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن

آج وہ درد کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا

کہاں وہ خلوتیں دن رات کی اور اب یہ عالم ہے

کہ جب ملتے ہیں دل کہتا ہے کوئی تیسرا بھی ہو

اوروں کی بھی یاد آ رہی ہے

میں کچھ تجھے بھول سا گیا ہوں

اب فراقؔ کے بعد کے شاعروں کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں جن پر فراقؔ کے اثرات صاف نمایاں ہیں۔

ایسی راتیں بھی ہم پہ گزری ہیں

تیرے پہلو میں تیری یاد آئی

یوں جی بہل گیا ہے تری یاد سے مگر

تیرا خیال تیرے برابر نہ ہوسکا

(خلیل الرحمن اعظمی)

تو کون ہے تیرا نام ہے کیا

کیا سچ ہے کہ تیرے ہو گئے ہم

یہ کیا کے ایک طور سے گزرے تمام عمر

جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو

(ناصر کاظمی)

سایے کو سایے میں گم ہوتے تو دیکھا ہو گا

یہ بھی دیکھو کہ تمہیں ہم نے بھلایا کیا

(سلیم احمد)

اتنی بات تو پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ فراقؔ کی تخلیقی ضیاء ہر نئے تخلیق کار کے راستے کو منور کرتی رہے گی۔ اور اس کے تخلیقی امکانات کو وسعت سے ہمکنار کر کے اپنے استحکام کا جواز فراہم کرتی رہے گی، کیونکہ فراق کی شامِ غم کی درازی میں اَبد کی آنکھ لگ چکی ہے۔

یہ نہ پوچھ کتنا جیا ہوں میں یہ نہ پوچھ کیسے جیا ہوں میں

کہ ابد کی آنکھ بھی لگ گئی مرے غم کی شامِ دراز میں

٭٭٭

 

 

ترقی پسند تخلیقی حسیّت اور معین احسن جذبی

معین احسن جذبی نے جس ماحول میں اپنی شاعری کا آغاز کیا وہ جنگ عظیم کے بعد کی نئی شاعری کا دور تھا یہ وہی زمانہ تھا جب غزل میں اصغر، یگانہ، حسرت، جگر اور فانی کا بول بالا تھا تو نظم میں اقبال، جوش اور اختر شیرانی کا طوطی بولتا تھا۔ اختر شیرانی اپنی مغلوب رومانی شاعری کی وجہ سے نوجوان دلوں کی دھڑکن بنے ہوئے تھے تو اصلاحی تحریک ، قومی و ملی بیداری اور حب الوطنی کے حوالہ سے اقبال و چکبست اور ظفر علی خان کے نغمے گونج رہے تھے۔ اقبال کی شاعری تو سیپارۂ دل کی سی اہمیت حاصل کرتی جا رہی تھی۔ جب کہ فراق بھی اپنے لب و لہجہ اور نئے اسلوب کی غزل کے حوالہ سے توجہ کا مرکز بنتے جا رہے تھے ایسے میں جذبی کا اپنی پہچان بنانا آسان نہیں تھا۔

’’فروزاں ‘‘ کے پیش لفظ میں سرور صاحب نے جذبی کو جنگ عظیم کے بعد کے نوجوان شاعروں میں شمار کیا ہے۔غالباً وہ اس تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہے تھے جو جنگ عظیم کے بعد ساری دنیا میں رونما ہونے لگی تھی اور جس کے اثرات زندگی کے تمام شعبے پر مرتب ہو رہے تھے۔ ادب جو زندگی کا عکاس ہوتا ہے بھلا اس تبدیلی سے کیوں کر متاثر نہ ہوتا۔ چنانچہ دوسری زبانوں کے ادب کے ساتھ ساتھ اردو زبان کا ادب بھی ان تغیرات سے متاثر ہونے لگا۔

مگر جذبی کے یہاں اس تبدیلی اور نئے فکر و نظر کا اس وقت تک کوئی نمایاں اثر نظر نہیں آتا ہے۔ اس کے باوجود ہم ان کی تخلیقی قوت اور فکر و نظر کی گہرائی سے انکار نہیں کرسکتے۔ آخر کچھ نہ کچھ تو ایسا ضرور تھا جس نے اصغر و یگانہ سے لے کر جوش و فراق تک کی موجودگی میں ان کے کلام کو اعتبار بخشا اور ان کا کلام ایک الگ زاویہ نظر سے دیکھا اور پرکھا گیا اور سب سے بڑی بات یہ کہ آج بھی ان کا کلام ایک خاص طرح کے ذہنی و جذباتی ہم آہنگی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔

معین احسن جذبی نظم و غزل دونوں کے شاعر ہیں مگر جذبی کی شناخت غزل ہے لیکن ان کی نظمیں اتنی گئی گذری بھی نہیں ہیں کہ اسے یکسر نظر انداز کر دیا جائے۔ دراصل جذبی نے شاعری کی دنیا میں غزل کے راستے سے قدم رکھا تھا یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں ہنگامی نوعیت کی یا توجہ مرکوز فوری مسائل کی حامل نظمیں بہت کم پائی جاتی ہیں۔ شاید یہ غزل تہذیب کے تربیت کردہ شعور کی دین ہے کہ معین احسن جذبی مارکسی تحریک کے سرگرم رکن ہوتے ہوئے بھی مینی فیسٹو شاعری کا حصہ نہیں بن سکے حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا جب جذبی ابھی جوان تھے اور مارکسی تحریک زوروں پر تھی۔ اس تحریک نے گرچہ ادب اور زندگی کے با معنیٰ رشتہ پر زور دیا تھا مگر غالی قسم کے ترقی پسندوں نے ایسا ماحول بنا دیا تھا کہ سبھی شاعر و ادیب دانستہ ماضی سے انحراف کرنے لگے تھے۔ حسن و عشق، شگفتگی و شیفتگی اور وارفتگی و گداختگی ایک طرح کا جرم بن چکی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ کیفی اور مجروح جیسے غنائیہ شاعروں کے یہاں بھی غنائیت پوری طرح پروان نہیں چڑھ سکی۔

معین احسن جذبی چونکہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے اراکین میں شامل تھے اس لیے انہوں نے اپنے عہد اور اپنے ہمعصروں کا ساتھ دیتے ہوئے ترقی پسند تحریک کے زیر اثر شاعری کی۔ مگر اس طرح کے تحریکی مقاصد کی ہنگامہ آرائی میں ان کی اپنی آواز گم نہ ہوسکی۔ ان کے یہاں ترقی پسندی کی ساری خوبی پائی جاتی ہے مگر وا شگافانہ انداز میں نہیں بلکہ فن کے لطیف پیرائے میں۔

انہوں نے اپنے کلام میں دارورسن کا بھی ذکر کیا ہے اور اجڑے ہوئے چمن کا بھی۔ انہوں نے قدرت کے نظاروں کو مفلس کی نظر سے دیکھنے کی بھی کوشش کی ہے۔ جو تمام ترقی پسندفنکاروں کا امتیازی وصف ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے یہاں کا کل گیتی کو سنوارنے کا جو جذبہ پایا جاتا ہے وہ باغیانہ سے زیادہ فنکارانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری احتجاج کی بے ہنگم آواز بننے سے بچ گئی ہے۔ ان کے کلام میں شعریت اور غنائیت اسی طرح رچی بسی ہوئی ہے جس طرح فیض (دست صبا) اور مجروح کے کلام میں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ جتنے مخلص کا مریڈ تھے اتنے ہی سچے شاعر بھی تھے یہی وجہ ہے کہ وہ تمام تر ترقی پسندی کے باوجود اپنے شاعرانہ مذاق سے زیادہ سمجھو تہ نہ کرسکے۔ یوں بھی وہ آگرہ کے ادبی ماحول کے پروردہ اور میکش و فانی کے تربیت یافتہ تھے۔ یہ اسی ماحول اور تربیت کا اثر تھا کہ وہ اپنی ابتدائی زندگی میں ایسی غزل کہنے میں کامیاب ہوئے جو آج بھی ان کے کلام کی خصوصیات کے سرنامہ کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔

مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے

یہ دنیا ہو یا وہ دنیا ، اب خواہش دنیا کون کرے

شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے کہ ترقی پسندتحریک کے زمانے میں لوگوں کی ساری توجہ نظموں پر تھی۔ غزل کہنا اس زمانے میں غزل کہنے کی عیاشی کرنا سمجھا جاتا تھا۔ اچھے خاصے شعراء مانو غزل سے دامن بچا کر نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایسے میں بہت کم شاعر ایسے تھے جو تحریکی مقاصد کے پیش نظر غزل کہنے کی عیاشی کرنے کا حوصلہ جٹا پاتے تھے۔ اس معاملہ میں فیض، مجروح اور جذبی کے علاوہ بہت کم شاعر ملیں گے جنہوں نے مارکسی افکار و خیالات اور تحریکی مقاصد کو اپنی غزل میں اس خوبی سے سمویا ہو کہ غزل کا چہرہ بھی مسخ نہ ہوا ہو  اور تحریکی مقاصد سے دامن کش ہونے کا الزام بھی نہ لگا ہو۔

یہ یقیناً جذبی کی شاعری کا ایک خاص وصف ہے کہ انہوں نے ہمعصر سیاسی و سماجی مسائل کو اس طرح اپنی غزلیہ شاعری میں پیش کیا کہ دونوں کا حق ادا ہو گیا اور فن کے شیشے پر بال بھی نہیں آیا۔ کہنا چاہیے کہ انہوں نے حتی المقدور غزلیہ شاعری کو نئی معنویت سے روشناس کرایا۔

ان بجلیوں کی چشمک باہم تو دیکھ لیں

جن بجلیوں سے اپنا نشیمن قریب ہے

وہ حرف جس سے ہے منصور و دار کو نسبت

لب جنوں پہ مکرر نہیں تو کچھ بھی نہیں

کوئی تو قاتل نا دید کا پتہ دے گا

ہم اپنا زخم زمانے کو لاؤ دکھلائیں

جذبی اپنے مجموعہ کلام ’’فروزاں ‘‘ میں چند باتیں ‘‘ کے تحت اپنا شعری موقف واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

’’ہمارے لیے مارکسی نکتہ نظر پیدا کرنا نہایت ضروری ہے اگر ہم واقعی اپنے آپ کو ترقی پسندی کا علمبردار کہتے ہیں ، لیکن اس کے یہ معنیٰ نہیں کہ مارکس کے نظریات کو رنگین اور پر شوکت الفاظ میں منظوم کر دیا جائے۔ ایک شاعر کی حیثیت سے ہمارے لیے جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ زندگی یا زندگی کے تجربات ہیں لیکن کوئی تجربہ اس وقت تک موضوع سخن نہیں بنتا جب تک اس میں شاعر کو جذبہ کی شدت اور احساس کی تازگی کا یقین نہ ہو جائے یہی دونوں چیزیں شاعر کو قلم اٹھانے پر مجبور کرتی ہیں۔

جذبی مارکسی نکتہ نظر کے حامی تو تھے مگر اس پر شاعری کو قربان کرنے کے روادار قطعی نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پسند تحریک سے گہری وابستگی کے باوجود انہوں نے عملی سیاست میں کبھی حصہ نہیں لیا۔ اسی طرح انہوں نے ادبی ہنگاموں (جس میں فن کو مقصدیت پر قربان کرنے کا جذبہ بھی شامل ہے) سے خود کو دور رکھا۔ دراصل وہ تخلیقی وفور اور فکری صحت و توانائی پر یقین رکھنے والے ایک سادہ دل، کم گو، اور گوشہ گیر قسم کے فنکار تھے۔ ان تمام باتوں کی تصدیق ان کی زندگی اور کلام کے مطالعہ سے ہو جاتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنے پیش روؤں ، ہمعصروں اور اپنے بعد آنے والے شاعروں کی بہ نسبت کم لکھا ہے۔ اس کے باوجود جذبی کا شمار ہر دور کے صف اول کے غزل گو شعرا میں ہوتا رہا ہے۔ گزشتہ تقریباً ایک صدی کی گوناگوں ہنگامہ خیزی، نظریاتی اتھل پتھل اور سماجی و سیاسی شعور میں بنیادی تفاوت کے باوجود نہ تو ان کے قاری کا حلقہ ختم ہوا ہے اور نہ ان کے کلام کی تازگی و دلکشی ماند پڑی ہے۔ ان کے کئی اشعار مثلاً

عیش سے کیوں خوش ہوئے کیوں غم سے گھبرایا کیے

زندگی کیا جانے کیا تھی اور کیا سمجھا کیے

اے موج بلا ان کو بھی ذرا دوچار تھپیڑے ہلکے سے

کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں

نہ آئے موت خدا یا تباہ حالی میں

یہ نام ہو گا غم روزگار سہ نہ سکا

میری ہی نظر کی مستی سے سب شیشہ و ساغر رقصاں تھے

میری ہی نظر کی گرمی سے سب شیشہ و ساغر ٹوٹ گئے

اس حرص و ہوس کی دنیا میں ہم کیا چاہیں ہم کیا مانگیں

جو چاہا ہم کو مل نہ سکا جو مانگا وہ بھی پا نہ سکے

پھر عشرت ساحل یاد آئی پھر شورش طوفاں بھول گئے

نیرنگی دوراں کے مارے نیرنگی دوراں بھول گئے

کیا تجھ کو پتہ کیا تجھ کو خبر دن رات خیالوں میں اپنے

اے کاکل گیتی ہم تجھ کو دن رات سنوارا کرتے ہیں

آج سے برسوں پہلے جس طرح زبان زد تھے آج بھی ہیں۔

ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں جو برہنہ گفتاری کا رواج تھا اس نے اچھے اچھے فنکاروں کو گمراہ کر دیا تھا مگر جذبی تا عمر اپنے موقف پر جمے رہے۔ وقت کے گرم تھپیڑے اور ہوش ربا مطالبات انہیں کبھی منفعل نہیں کرسکے۔ بدقسمتی سے اس عہد میں ادب بھی سیاسی اور گروہی مفادات کی آماجگاہ بن گیا تھا۔ اسی صورتحال سے گھبرا کر سجادظہیر نے کہا تھا کہ

انقلاب کے اس خونی تصور میں رومانیت جھلکتی ہے، یہ ایک طرح کی ادبی دہشت انگیزی ہے، یہ ایک ذہنی اور جذباتی بلوہ ہے۔

لیکن جذبی ترقی پسند تحریک کے رکن ہوتے ہوئے بھی اس ادبی دہشت انگیزی اور جذباتی بلوے سے ہمیشہ دور رہے۔ وہ خوب جانتے تھے کہ سیاست میں مصلحت کو بہت کچھ دخل ہوتا ہے اور مصلحت اوڑھ کر آرٹ و فن کی آبیاری نہیں کی جاسکتی ہے کیونکہ مصلحت میں جزوی صداقت ہوتی ہے اور شاعری کامل صداقت چاہتی ہے کہ اسی صداقت سے وہ جذبہ اور کشش پیدا ہوتی ہے جو شعر کی جان کہلاتی ہے۔

آرنلڈ کا کہنا ہے کہ :

شاعری کا مستقبل بے پایاں ہے۔ آنے والے زمانوں میں ہماری نسل شاعری سے زیادہ سے زیادہ سہارا پائے گی۔ شرط یہ ہے کہ شاعری اپنی بلند تقدیر کی مستحق ہو۔ کوئی مسلک ایسا نہیں ہے کہ جو متزلزل نہ ہوا ہو۔ کوئی مقبول عقیدہ ایسا نہیں جو مشتبہ ثابت نہ ہوا ہو، کوئی معتبر روایت ایسی نہیں جس کے شیرازے بکھرنے نہ لگے ہوں۔

ترقی پسند نظریہ بھی وقت کے ساتھ اپنی معنویت اور اہمیت سے محروم ہو گیا۔ سویت روس کے انہدام کے بعد تو گویا مارکسی نظریات کی قلعی ہی کھل گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جن فنکاروں نے محض ترقی پسندی کا نعرہ لگایا تھا اور مارکسی نظریات کو منظوم کر دینا ہی شاعری سمجھ لیا تھا وہ سب کے سب محض تاریخی تسلسل کا حصہ بن کر رہ گئے، مگر جن فنکاروں نے شاعری کی حرمت و عظمت کو قائم رکھا وہ آج بھی تابندہ ہیں۔ فیض، جوش، مجاز، مخدوم، مجروح اور جذبی وغیرہ اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے کہ جن لوگوں کو ترقی پسند تحریک سے خدا واسطے کا بیر ہے وہ لوگ بھی ان متذکرہ ترقی پسند شاعروں کو اونچا مقام دیتے ہیں۔ جذبیؔ ایک ایسے ترقی پسند شاعر ہیں جنہیں ہر طرح کے نظریات و رجحانات کے حامل افراد و اشخاص قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں کیونکہ جذبی کی تخلیقی فکر سپاٹ اور سطحی نہیں ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو ان کی شاعری کو ترقی پسند تحریک کے زوال کے بعد بھی زندہ رکھے ہوئی ہے۔

مزاج پوچھتے پھرتے ہیں ذرے ذرے کا

دلوں کی راہ سے کچھ خاکسار گذرے ہیں

تھا جن کے پاس زخم کا مرہم کہاں گئے

جو دل کو جوڑتے تھے وہ معمار کیا ہوئے

غم عاشقی سے گریز کیوں غم زندگی سے فرار کیا

جو چمن میں رہنا ہے ہمدمو تو خزاں کے نشتر و خار کیا

جذبی کی شاعری کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جس پر غم کے سائے گہرے معلوم ہوتے ہیں۔ بعض لوگ اسے فانی کی اثر پذیری کے حوالے سے دیکھتے ہیں ، مگر فانی اور جذبی کا غم یکساں نہیں ہے۔ فانی کا غم اندوہناکی سے عبارت ہے جس کا تعلق خود ترحمی سے ہے۔ جبکہ جذبی کا غم غمِ دوراں سے تعلق رکھتا ہے اور غم کی تاریکی کو اجالنے کی کوشش کرتا ہے۔

ساقیا شیشوں میں تیرے ہے نہ پیمانوں میں ہے

وہ خمار تشنگی جو دل کے ارمانوں میں ہے

کیا کیا تم نے کہ دردِ دل کا درماں کر دیا

میری خود داری کا شیرازہ پریشاں کر دیا

یہاں غم خود ترحمی کی بجائے ایک قدر کی شکل اختیار کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے جس سے شاعر کا مخلصانہ رشتہ ہے۔یہ ایک کیفیت ہے جو شاعر کو اپنی ہستی کی محرومیوں کے دائرے سے نکال کر ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ‘‘ کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ اس دور میں ان کے یہاں ایسے اشعار بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں عشق کی سرمستیوں کے پہلو بہ پہلو ذہنی پرواز کا امکان زیادہ فطری محسوس ہوتا ہے۔

اس طرح ہو گئی تکمیل جستجو کی

ہر سمت دیکھتا ہوں تصویر آرزو کی

جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی

اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے

ہے آج بھی نگاہ محبت کی آرزو

پر ایسی اک نگاہ کی قیمت کہاں سے لائیں

ہر لحظہ تازہ تازہ بلاؤں کا سامنا

نا آزمودہ کار کی جرأت کہاں سے لائیں

جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ جذبی کا دور نظریاتی وابستگی کا دور تھا اور ترقی پسند فنکار اظہار مقصد کے لیے سب سے زیادہ توجہ  نظم پر دے رہے تھے۔ اسی صورتحال کی وجہ سے  جذبیؔ اپنی غزل گوئی کے لیے مرکز توجہ بن گئے اور لوگوں نے ان کی نظم پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ حالانکہ ان کی نظمیں بھی ان کی غزلوں ہی کی طرح تہہ دار اور معنیٰ خیز ہیں۔ ابتدائی زمانہ میں ان کی شہرت ’’موت‘‘، ’’طوائف‘‘ اور ’’فطرت ایک مفلس کی نظر میں ‘‘ جیسی نظموں سے ہوئی۔ ’’فطرت ایک مفلس کی نظر میں ‘‘گرچہ ایک مقصدی نظم ہے مگر یہ اپنے وقت میں بہت مقبول ہوئی اور اس کا آخری شعر تو گویا ضرب المثل بن گیا۔

جب جیب میں پیسے بجتے ہیں جب پیٹ میں روٹی ہوتی ہے

اس وقت یہ ذرّہ ہیرا ہے اس وقت یہ شبنم موتی ہے

ان کی نظم ’طوائف‘ ہندوستانی معاشرہ کے تعصب پر ایک کاری ضرب ہے۔ اس نظم میں طوائفوں کے لیے جس ہمدردی کا اظہار کیا گیا ہے اس کی مثال اس سے پہلے کہیں نہیں ملتی ہے۔

تو گرادے گی مجھے اپنی نظر سے ورنہ

تیرے قدموں پہ تو سجدہ بھی روا ہے مجھ کو

’’طوائف‘‘ کی طرح موت ، بھی ان کی مقبول نظم ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی یہ نظم مجازؔ کی نظم ’’آوارہ‘‘ کی طرح اردو نظم کے سرمائے میں اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس رائے سے اتفاق کرنا تو مشکل ہے، مگر نظم فی الواقع ایسی ضرور ہے کہ اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ نظم موت اور زندگی کے درمیان تصادم کی صورت میں نمو پذیر ہوتی ہے اور زندگی کے اثبات کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔

وہ مرا سحر وہ اعجاز کہاں ہے لانا

مری کھوئی ہوئی آواز کہاں ہے لانا

وہ مرا ٹوٹا ہوا ساز کہاں ہے لانا

اک ذرا گیت بھی اس ساز پہ گالوں تو چلوں

اتنی بات تو صاف ہے کہ نظریاتی وابستگی ، آئیڈیلوجیکل فکری نظام اور ازم و تحریک کی کوئی بھی طاقت تخلیقی موّاجی کو پا بہ سلاسل نہیں کر پاتی ہے۔ یہی وہ چیز ہوتی ہے جو کسی بھی فنکار کو زمان و مکان کی قید سے آزاد کر دیتی ہے۔ کچھ ایسی ہی بات معین احسن جذبی میں بھی تھی اس لیے وہ مشروط شاعری اور فکری نظام کے متحمل نہیں ہوسکے۔

٭٭٭

٭٭٭

تشکر: مشرف عالم ذوقی جن کے توسط سے فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید