فہرست مضامین
- معاملہ ہنسنے ہنسانے کا
- آم اب عام نہیں رہے
- قوم کے درد سے گھٹنے کے درد تک
- ایک عجیب و غریب ٹیلی فونی بات چیت
- اپنے اسکوٹر کی یاد میں
- کویل کی کُوک کو سن کر
- عام آدمی کا خط وزیر اعظم کے نام
- بینگن کا بول بالا
- پتے جو لاپتہ ہو گئے
- کفایت شعاری کی فضول خرچی
- مشاعروں کو کیا ہو گیا ہے؟
- اشیائے ضروریہ اور تشویشِ غیر ضروریہ
- ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا
- باتیں کتابوں کی
- انجمن تلفّظِ اردو کا فوری قیام نہایت ضروری
- آپ کو کیا تکلیف ہے؟
- پیٹ بڑا بدکار ہے
- دِلّی، سنگ دِلی اور زندہ دِلی
- بندر نے ٹرین میں سفر کیا
معاملہ ہنسنے ہنسانے کا
مجتبیٰ حسین
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
آم اب عام نہیں رہے
قدرت کے کھیل بھی بڑے نرالے ہیں۔ اس نے آم کو ہندوستان میں پیدا کیا بہت اچھا کیا لیکن اس کو کھانے کا طریقہ امریکہ اور یوروپ کے باسیوں کو سکھادیا۔ آم کو ہم بچپن سے کھا رہے ہیں لیکن جب تک ہم نے ہالی ووڈ کی فلمیں نہیں دیکھی تھیں جن میں ہیروئنیں اور ہیرو بات بات پر ایک دوسرے کو آم سمجھ لیتے ہیں اور سلوک بھی ایسا ہی کرتے ہیں تب تک ہمیں بھی معلوم نہیں تھا کہ آم کو کھانے کا اصل طریقہ کیا ہے۔ بعد میں جب ہم یوروپ اور امریکہ گئے تو ہم نے وہاں آم کھانے کی باضابطہ ٹریننگ بھی حاصل کی۔ کیا کریں ہم ہندوستانیوں کی مجبوری یہ ہے کہ آم کھانے سے لے کر انجینئرنگ اور میڈیسن کی اعلی تعلیم حاصل کرنے تک ہر کام کو سیکھنے کے لئے ہمیں امریکہ اور یوروپ جانے کی عادت سے پڑ گئی ہے۔ بہرحال ہم نے وہاں آم کھانے میں وہ مہارت حاصل کی کہ آج ہم کبھی آم کھاتے ہیں تو ہمارے ایک دوست جو ہماری ہی عمر کے ہیں اکثر کہتے ہیں کہ ’’میاں جب تم دسہری اور چوسہ کھاتے ہو تو نہ جانے کیوں مجھے جینالولو برجیدہ اور صوفیہ لارین کی بے ساختہ یاد آ جاتی ہے‘‘۔ اپنی عمر کے حساب سے وہ ہمیشہ پچھلے موسموں کے پھلوں کو ہی یاد کرتے ہیں۔ ہم نے ایک امریکی دوست سے کہا بھی تھا کہ ’’بھیا! یہ جو تمہاری فلموں میں بات بات پر ندیدہ پن نظر آ جاتا ہے تو اس کی جگہ تم لوگ سیدھے سیدھے آم کیوں نہیں کھا لیتے؟‘‘بولے ’’میاں! پہلی بات تو یہ ہے کہ آم ہمارے ملک میں نہیں ملتا اور اگر ملتا بھی ہے تو بہت مہنگا ملتا ہے۔ ہم ٹھہرے کاروباری لوگ۔ ہم تو سستی چیز کے پیچھے ہی بھاگتے ہیں‘‘۔ ہم نے کہا ’’مگر ذائقہ بھی تو ایک چیز ہے‘‘۔ بولے ’’جن ملکوں میں آم نہیں ہوتا وہاں کے لوگ اپنا ذائقہ آپ پیدا کر لیتے ہیں۔ آپ بھی کس چکر میں پڑ گئے۔ آپ آم کھانے سے مطلب رکھئے۔ پیڑوں کو کیوں گنتے ہیں‘‘۔
حضرات! معاف کیجئے۔ ہم خواہ مخواہ ہی پیڑوں کو گننے میں لگ گئے۔ ہمیں تو آموں کے بارے میں کچھ کہنا تھا اور ہم بلاوجہ ہی اس کے کھانے کے طریقوں میں الجھ گئے۔ جب ہالی ووڈ میں فلمیں نہیں بنتی تھیں تو تب بھی اس ملک میں لوگ جیسے تیسے آم کھا لیا کرتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ نا تجربہ کاری کی وجہ سے آموں کا رس پوری طرح چوسا نہیں جا سکتا تھا۔ لیکن اس کی کس کو پرواہ تھی کیونکہ اس زمانہ میں آم بھی تو بہت ہوتے تھے اور میٹھے بھی ہوتے تھے۔
آم ہمارا قوم پھل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیا بچہ اور کیا بوڑھا ہر کوئی اسے پیڑ سے گرانے کے لئے پتھر مارتا رہتا ہے۔ ہم ہندوستانیوں کی عادت ہے کہ جس چیز کو بھی قومی بنا دیتے ہیں اسے مارنے کو دوڑتے ہیں۔ آم تو خیر ’’راشٹریہ پھل‘‘ ہے۔ ہم نے تو اپنے ’’راشٹر پتا‘‘ کو بھی نہیں چھوڑا۔ آپ نے ہمیں آموں کے سلسلہ میں ہونے والی اس محفل میں بلا کر سچ مچ ہمارے سینہ پر ایک تیر مارا ہے۔ کیوں کہ ہم اس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کے آموں کے باغ کسی زمانہ میں بڑی شہرت رکھتے تھے۔ پھر زندگی نے ہمیں کچھ ایسے سبز باغ دکھائے کہ ان باغوں کو چھوڑ کر شہروں میں رہنے لگے۔ آموں کا موسم آتا تھا تو آم کے پیڑوں پر آم کم لٹکتے ہوئے دکھائی دیتے تھے اور ہم ہی ان کی ٹہنیوں پر زیادہ لٹکتے ہوئے پائے جاتے تھے۔ غرض جب سے ہمارے آموں کے باغ چھن گئے ہیں تب سے ہمارا شمار بھی عوام میں ہونے لگا ہے۔ یوں بھی آم میں اور عوام میں بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا کیونکہ دونوں ہی چوسنے کے کام آتے ہیں۔ سرکار، افسر، بیوپاری، پونجی پتی کون ہے جو عوام کو نہیں چوستا، آم کو چوسنے کے بعد کم از کم اس کی گٹھلی تو چھوڑ دی جاتی ہے مگر عوام کو ایسی بیدردی کے ساتھ چوسا جاتا ہے کہ بعض اوقات تو ان کی استھیاں بھی نہیں مل پاتیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عوام کا ذائقہ بھی آم کی طرح لذیذ ہوتا ہے۔ جو لوگ عوام کو چوستے ہیں وہ جانتے ہیں کہ عوام کا ذائقہ پانچ سال میں ایک مرتبہ اُس وقت بہت تلخ ہو جاتا ہے جب عوام ووٹ دینے کے لئے آتے ہیں۔ لیکن جب سے ووٹوں اور نوٹوں میں ایک تال میل پیدا ہو گیا ہے تب سے عوام کے ذائقہ کی تلخی بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ اسی لئے تو کہاوت مشہور ہے کہ ’’عوام کے عوام ووٹوں کے دام‘‘۔
چاہے کچھ بھی ہو ہر کوئی آم کا رسیا ہے۔ آدمی تو پھر آدمی ہے۔ مرزا غالب بھی آموں کے دیوانے تھے۔ ایک ریسرچ اسکالر نے تو یہاں تک کہا ہے کہ غالب آم کے موسم میں شعر نہیں کہتے تھے۔ صرف آم ہی کھاتے رہتے تھے۔ ایسے میں کوئی انھیں ڈسٹرب کرتا تو اس پر اپنے شعروں سے حملہ نہیں کرتے تھے، گٹھلی پھینک کر مارتے تھے۔ آم ہی ایک ایسا پھل ہے جس میں ایک ہتھیار چھپا ہوتا ہے۔ کہتے ہیں غالب کے ایک دوست کو آموں سے چڑ تھی۔ ایک دن دونوں بازار سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ گلی میں پڑے ہوئے ایک آم کو ایک گدھے نے پہلے تو سونگھا، کچھ سوچا پھر اسے کھائے بغیر آگے کو نکل گیا، اس منظر کو دیکھ کر مرزا غالب کے دوست نے کہا ’’دیکھئے، غالب صاحب! گدھا بھی آم نہیں کھاتا‘‘۔ اس پر غالب نے کہا ’’حضور! میں جانتا ہوں کہ گدھا ہی آم نہیں کھاتا‘‘۔ مگر یہ پرانی بات تھی جب گدھے کسی وجہ سے آم نہیں کھاتے تھے۔ مگر آج حالات اتنے بدل گئے ہیں کہ ہم جس آدمی کو بھی آم کھاتا ہوا دیکھ لیتے ہیں تو اسے گدھا سمجھنے لگتے ہیں۔ پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست نے ہماری آنکھوں کے سامنے پورے سو روپیوں میں ایک بڑا الفانسو آم خرید لیا تو ہمیں اس کا ثبوت بھی مل گیا۔ گدھا بڑا ہوشیار جانور ہے۔ اس نے ایک صدی پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ ایک دن آم پینتالیس پچاس روپے فی کیلو کے حساب سے بکے گا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی ہی سب سے بڑا گدھا ہے اور گدھا ہی سب سے بڑا انسان ہے۔ آموں کی مہنگائی کی وجہ سے ہی ہم آم تو نہیں خریدتے لیکن ان کے دام ضرور پوچھ لیتے ہیں۔ ایک فروٹ مرچنٹ سے ہم لگاتار چھ دنوں تک آم کے دام پوچھتے رہے۔ ساتویں دن ہم اس کی دکان پر گئے تو اس سے دام تو نہیں پوچھا البتہ بڑی دیر تک للچائی نظروں سے صرف آموں کو دیکھتے رہ گئے۔ اس پر دکاندار نے پہلے تو اپنے آموں کو کپڑے سے اچھی طرح ڈھک لیا۔ پھر بولا ’’آپ دام پوچھیں گے یا میں ہی آپ کو بتا دوں؟‘‘۔
ہم نے کہا ’’میاں! ہمیں تو ایک ایسے پھل کی تلاش ہے جس کے بارے میں سنا ہے کہ بہت میٹھا ہوتا ہے۔ لوگ اسے صبر کا پھل کہتے ہیں، مل جائے گا تمہارے پاس؟‘‘۔ دکاندار بولا ’’اب تمہیں زیادہ دن صبر نہیں کرنا پڑے گا۔ ساٹھ پینسٹھ کے تو لگتے ہی ہو۔ دوچار برس اور صبر کر لو تو صبر کا یہ پھل تمہیں دوسری دنیا میں جلد ہی ملے گا۔ اس دنیا میں تو یہ نہیں ملتا۔ اس وقت تو لنگڑے سے کام چلا لو ورنہ اپنا راستہ ناپو‘‘۔
اسی لئے تو ہم کہتے ہیں کہ ایک زمانہ میں آم صرف دو قسم کے ہوتے تھے۔ کاٹنے کے اور چوسنے کے۔ اب دیکھنے کے آم بھی ہونے لگے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ذائقہ اور صورت شکل کے اعتبار سے آموں کی بھی اتنی ہی قسمیں ہوتی ہیں جتنی کہ عورتوں کی ہیں۔ پھر لطف کی بات یہ کہ دونوں میں بہت سی باتیں ایک جیسی بھی پائی جاتی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض بہت خوبصورت اور حسین عورتیں اندر سے بہت تلخ، ترش اور کڑوی کسیلی ہوتی ہیں۔ صورت اور سیرت میں جو فرق ہوتا ہے اس کا اندازہ ہمیں آم کھانے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ جو لوگ آم اور عورت کی خوبی کا اندازہ اس کی صورت سے لگاتے ہیں وہ ہمیشہ گھاٹے میں رہتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوا کہ کسی آم کی صورت تو ہمیں بہت خراب لگی لیکن جب کھایا تو طبیعت باغ باغ ہو گئی۔ یہ بات ہم اپنے ذاتی تجربہ کی بنا پر کہہ رہے ہیں کیونکہ پچھلے پچاس برسوں سے ہم ایک ایسے ہی آم کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ بھی بتاتے چلیں کہ ہم چوسنے کے آم ہی کھانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ کاٹنے والے آم اس لئے نہیں کھاتے کہ تین آم کھانے ہوں تو ڈیٹول کی پوری ایک شیشی خرچ کرنی پڑتی ہے۔ آموں کے سینکڑوں نام بھی ہوتے ہیں۔ بڑے کیوٹ (cute) اور مزیدار۔ بعض نام تو ان آموں کے قلمی نام (Pen Name) ہوتے ہیں۔ لیکن ہمیں تو لنگڑا بہت پسند ہے۔ کسی نے اس کی شکل و صورت کو دیکھ کر مذاق میں اس کا نام لنگڑا رکھ دیا تھا۔ لیکن اس آم نے الٹا نام رکھنے والے کا مذاق اڑانے کی ٹھان لی۔ چنانچہ اب یہ آم جتنا چلتا ہے کوئی اور آم نہیں چلتا بلکہ اسے تو آموں کا ملکھا سنگھ بھی کہا جا سکتا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض قصبے صرف آموں کی وجہ سے بڑی شہرت رکھتے ہیں۔ ملیح آباد کو ہی لیجئے۔ اگر یہاں آم نہ ہوتے تو بھلا بتایئے ملیح آباد کو کون جانتا۔ یہ ضرور ہے کہ ایک زمانہ میں جوش ملیح آبادی نے یہ چاہا تھا کہ ملیح آباد کی شہرت ان کے نام کی وجہ سے بھی ہو۔ لیکن زمانہ کی دوڑ میں ملیح آباد کے آم پھر آگے کو نکل گئے اور حضرت جوش ملیح آبادی پیچھے رہ گئے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جوش ملیح آبادی جب پاکستان گئے اور وہاں ان کا تعارف پاکستان کے اُس وقت کے صدر اسکندر مرزا سے کرایا گیا کہ ان سے ملئے یہ جوش ملیح آبادی ہیں تو اسکندر مرزا نے چھوٹتے ہی کہا ’’اچھا تو آپ ملیح آباد کے رہنے والے ہیں جہاں کے آم بڑے مشہور ہیں‘‘۔ اس کے بعد اسکند مرزا نے جوش ملیح آبادی سے ملیح آباد کے آموں کے بارے میں تو بہت کچھ پوچھا لیکن ان کی شاعری کے بارے میں کچھ بھی نہیں پوچھا۔
آخر میں ہم الہ آباد کے حوالے سے ہی اپنی بات کو ختم کرنا چاہیں گے۔ کئی برس پرانی بات ہو گی جب جواہر لال نہرو الہ آباد کے آنند بھون میں رہا کرتے تھے۔ یہی گرمیوں کے دن تھے بلکہ مہینہ بھی شاید یہی تھا۔ ہو سکتا ہے تاریخ بھی یہی رہی ہو۔ اندرا گاندھی فیروز گاندھی سے شادی کرنے کے بعد ہنی مون منانے کے لئے کشمیر گئیں تو وہاں کی ٹھنڈی ہواؤں نے انھیں مسحور کر دیا۔ ایسے میں انھیں اچانک نہرو جی کا خیال آیا کہ وہ تو الہ آباد کی سخت گرمی میں پریشان ہوں گے۔ لہذا انھوں نے ہمدردی کے طور پر نہرو جی کو لکھا کہ کاش میں آپ کے لئے کشمیر کی کچھ ٹھنڈی ہوائیں الہ آباد بھیج سکتی۔ اس پر جواہر لال نہرو نے اندراجی کو لکھا ’’بیٹی! مجھے تو تم پر ترس آ رہا ہے۔ کشمیر میں بھلے ہی ٹھنڈی ہوائیں تمہارے ساتھ ہوں گی لیکن تمہارے پاس دسہری اور ثمر بہشت تو نہیں ہیں‘‘۔
اور یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اتنے برس گزر جانے کے بعد آج نہ تو کشمیر میں ٹھنڈی ہوائیں ہیں اور نہ ہی الہ آباد میں دسہری اور ثمر بہشت نظر آتے ہیں۔
٭٭٭
قوم کے درد سے گھٹنے کے درد تک
اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ ہم بھی اسی مرض میں مبتلا ہیں جس میں وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی مبتلا ہیں۔ یہاں ہماری مراد قوم کے درد سے نہیں بلکہ گھٹنوں کے درد سے ہے۔ وزیر اعظم کے بارے میں تو ہم کچھ کہہ نہیں سکتے البتہ اپنے بارے میں یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ایک عرصہ تک قوم کے درد نے ہمیں بہت پریشان کئے رکھا۔ لیکن جب گھٹنوں کا درد ہماری ذات میں آہستہ آہستہ بڑھنے لگا تو قوم کا درد پس پشت چلا گیا۔ یوں بھی قوم کا درد اس وقت تک بھلا معلوم ہوتا ہے جب تک آدمی کے جسم میں کوئی اور درد نہ ہو۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وزیر اعظم کے گھنٹوں کا درد کتنا پرانا ہے۔ تاہم اتنا جانتے ہیں کہ گھٹنوں کے درد کے معاملہ میں ہم وزیر اعظم سے سینئر ہیں۔ کم از کم پندرہ برسوں سے تو ہم اس درد کو چپ چاپ برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ کسی نے پلٹ کر نہیں پوچھا کہ میاں یہ کونسا درد ہے، کس طرح کا درد ہے اور کتنا پرانا درد ہے۔ چنانچہ ہم اکیلے ہی اکیلے اس درد کو خاموشی سے برداشت کرتے رہے۔ کسی کو اس درد کی تفصیلات نہیں بتائیں۔ مگر جب سے وزیر اعظم کے اس درد میں مبتلا ہونے کی اطلاع آئی ہے تب سے یوں لگ رہا ہے جیسے گھٹنا ہی انسانی جسم کا سب سے اہم ترین عضو ہے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ گھٹنے کا شمار انسان کے اعضائے رئیسہ میں ہوتا ہے یا نہیں۔ لیکن اب تو اچھے اچھے اعضائے رئیسہ بھی گھٹنے کے آگے اعضائے غریباں معلوم ہونے لگے ہیں۔ جگہ جگہ گھٹنوں کی تصویریں چھپ رہی ہیں۔ اخباروں میں مضامین چھپ رہے ہیں۔ ٹیلی ویژن والے پروگرام پیش کر رہے ہیں۔ اس مرض کے ماہرین کی قسمت بھی چمک اٹھی ہے۔ کل تک امراض قلب کے ماہرین ہی ٹیلی ویژن پر دکھائی دیتے تھے۔ اب گھٹنے کے درد کے ماہرین کو اتنی بار ٹیلی ویژن پر دکھایا جا رہا ہے کہ بیٹھے بیٹھے ٹیلی ویژن دیکھتے ہوئے اچھے بھلے آدمی کے گھٹنوں میں بھی درد ہونے لگا ہے۔ بعض اخبارات نے وزیر اعظم کی پسندیدہ غذاؤں کی فہرست بھی چھاپ دی ہے۔ اس فہرست کی اشاعت کا مقصد چاہے کچھ بھی رہا ہو لیکن اب عام آدمی ان غذاؤں کے استعمال سے گریز کرنے لگا ہے جنہیں وزیر اعظم استعمال کرتے ہیں۔ محض اس ڈر سے کہ کہیں اسے بھی گھٹنے کا درد لاحق نہ ہو جائے۔ ذرائع ابلاغ کے ساتھ مشکل یہ ہوتی ہے کہ کسی چیز کے پیچھے پڑ جاتے ہیں تو بال کی کھال نکال کر رکھ دیتے ہیں۔ اس مرض کے بارے میں ایسی ایسی غیر متعلق باتیں کہی جا رہی ہیں کہ گھٹنوں کے درد کا ہم جیسا پرانا مریض بھی پریشان ہے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ اسی کو تو کہتے ہیں۔ آپ نے اس بزرگ کا قصہ تو سنا ہو گا جو کسی گاؤں میں اکیلے پڑھے لکھے آدمی سمجھے جاتے تھے۔ ایک بار کسی ضرورتمند نے آ کر ان سے گذارش کی کہ وہ کسی صاحب کے نام خط لکھ دیں۔
بزرگ نے معذرت کی کہ بھیا آج میں آپ کی طرف سے خط نہیں لکھ سکوں گا کیونکہ آج میری ٹانگ میں درد ہے۔ ضرورت مند نے کہا ’’حضور! مجھے تو آپ کا عذر ’عذر لنگ‘ لگتا ہے کیونکہ آپ ٹانگ کی مدد سے تو خط نہیں لکھتے۔ ہاتھ سے لکھتے ہیں‘‘۔ اس پر ان بزرگ نے کہا ’’میاں بات در اصل یہ ہے کہ میں اس گاؤں کا اکیلا پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ اگر میں ان صاحب کے نام خط لکھوں گا تو اسے پڑھوانے کے لئے وہ مجھے ہی بلائیں گے اور ٹانگ میں درد کی وجہ سے میں وہاں نہیں جا سکتا۔ ایسے میں مجھ سے خط لکھوانے کا کیا فائدہ‘‘۔ وزیر اعظم کے گھٹنے کے درد کے حوالہ سے اب ایسی ہی کئی غیر ضروری اور غیر متعلق باتیں کی جانے لگی ہیں۔ جب تک ہم گھٹنوں کے درد میں مبتلا رہے کسی نے پلٹ کر نہیں پوچھا کہ یہ کیسا درد ہے۔ اب وزیر اعظم کے گھٹنوں میں درد ہونے لگا ہے تو ساری قوم اس بارے میں پریشان ہے۔ وزیر اعظم کے گھٹنے اور ایک عام آدمی کے گھٹنے میں یہی تو فرق ہے۔ حالانکہ ہم برسوں سے انسانی جسم میں گھٹنوں کی مرکزی اور بنیادی اہمیت سے واقف ہیں۔ دیکھا جائے تو حکومت کو بھی گھٹنوں کی اہمیت کا اندازہ ہونا چاہئے کیونکہ وہ تو آئے دن امریکہ اور بڑی طاقتوں کے آگے گھٹنے ٹیکتی آئی ہے بلکہ گھٹنے ٹیکنے کے معاملہ میں ہماری حکومت جتنا وسیع تجربہ رکھتی ہے وہ دنیا کی کوئی اور حکومت نہیں رکھتی۔
ٹریڈ یونینیں، تاجر، صنعت کار اور منافع خور تو آئے دن حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتے رہتے ہیں لیکن آج تک کسی نے گھٹنوں کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا۔ یہ تو اس مرض کی خوش بختی ہے کہ بالآخر وزیر اعظم اس میں مبتلا ہو گئے ورنہ اس مرض کی خیریت کون پوچھتا۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ وزیر اعظم واشنگٹن میں جہاں اپنے گھٹنوں کا چیک اپ کرا رہے ہیں وہاں ہم بھی اپنے گھٹنوں کا معائنہ کروا چکے ہیں۔ امریکی ڈاکٹروں نے ہمارے گھٹنوں کی بُری حالت کو بھانپنے کے بعد کہا تھا ’’میاں! ہمیں تو تمہارے چلنے اور بعض ایشیائی ملکوں کی سرکاروں کے اب تک چلتے رہنے پر سخت حیرت ہے‘‘۔ سچ تو یہ ہے کہ خود ہمارے ملک کی سرکار کے گھٹنے بھی خراب ہیں اور ایک عرصہ سے ہماری جمہوریت اور سرکاریں لنگڑاتی ہوئی چل رہی ہیں۔ آدمی کے گھٹنے کا درد جب بڑھ جاتا ہے تو آدمی لاٹھی کی مدد سے چلنے کی کوشش کرتا ہے جب کہ ہماری موجودہ مرکزی حکومت کے گھٹنوں کی خرابی کا یہ عالم ہے کہ وہ ایک نہیں دو نہیں بلکہ پورے دو درجن لاٹھیوں کی مدد سے چل رہی ہے۔ ایمان کی بات تو یہ ہے کہ وزیر اعظم کے گھٹنے اتنے خراب نہیں ہیں جتنے کہ ہماری مرکزی حکومت کے گھٹنے خراب ہیں۔
گھٹنوں کے درد کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ آدمی ایک بار کرسی پر بیٹھ جائے تو اسے کرسی سے اٹھنے میں بڑی دشواری پیش آتی ہے۔ عام آدمی کے لئے بھلے ہی یہ مرض نقصان دہ ہوتا ہو لیکن سیاسی قائدین کے لئے یہ مرض ایک نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ سیاسی قائدین ایک بار اقتدار کی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں تو انھیں اس کرسی سے اٹھنے میں ہمیشہ دشواری پیش آتی ہے چاہے ان کے گھٹنے کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں۔
ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ ہم اپنے پرانے گھٹنوں کو نکال کر ان کی جگہ مصنوعی گھٹنے لگوا لیں۔ ہم نے اس بات پر بہت غور کیا ہے۔ سوچتے ہیں کہ اب جب کہ ہم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں وہاں مصنوعی گھٹنے لٹکا کر کیوں بیٹھیں۔ پرانے گھٹنوں کو ہی اپنے ساتھ لے کر اس دنیاسے کیوں نہ چلے جائیں۔ اگرچہ امریکی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انسانی جسم میں ایک بار مصنوعی گھٹنے لگا دئے جائیں تو یہ کم از کم تیس برس تک چلتے رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ آدمی کے مرنے کے بعد بھی اس کے پاؤں چلتے رہتے ہیں۔
بہرحال گھٹنوں کا درد ایک تکلیف دہ مرض ہے جو اس تکلیف سے گذرتا ہے وہی اس کی اذیت کو بخوبی جان سکتا ہے۔ بخدا ہم نے بھی دنیا بھر کے علاج کرا رکھے ہیں اور اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ ایک ایسا ناقابل علاج مرض ہے جو ایک بار کسی کو لاحق ہو جائے تو وہ چار کندھوں پر سوار ہو کر ہی اس دنیا سے جاتا ہے ورنہ تو ہمیں اس کے جانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ہمیں خوشی ہے کہ وزیر اعظم کے گھٹنوں کے درد کی خبر عام ہو جانے کے بعد لوگ اب ہمارے گھٹنوں کے درد کی اہمیت کو بھی تسلیم کرنے لگے ہیں۔ اندھا کیا چاہے ایک لاٹھی۔
٭٭٭
ایک عجیب و غریب ٹیلی فونی بات چیت
کل رات کے پچھلے پہر فون کی گھنٹی بجی اور میں نے ریسیور اٹھایا تو ایک عجیب و غریب ٹیلی فونی کال سے میرا واسطہ پڑا۔ مخاطب نے میرا نام لے کر کہا ’’بتاؤ کیسے ہو۔ کس حال میں ہو؟‘‘۔ اپنا حال اسے بتانے سے پہلے عادت کے مطابق میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ دیکھیں دوسری طرف کون بول رہا ہے تاکہ میں اسی کے مطابق اپنا حال بتاسکوں۔ جس طرح کا شناسا ہو، اسے میں اسی طرح کا حال بتایا کرتا ہوں کیونکہ ہر رشتہ کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی یونہی رسماً میرا حال پوچھ لے اور میں اسے اپنا اصلی اور کھرا کھرا حال سنانے بیٹھ جاؤں۔ بعض لوگ بس یونہی مروتاً کسی کا حال پوچھ لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو آپ اپنا سچا حال بتا بھی دیں تو آپ کا حال بہتر نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے مزید خراب ہونے کا اندیشہ لگا رہتا ہے۔
میں نے جب اس کا نام پوچھا تو آواز آئی ’’میں عبد اللطیف بول رہا ہوں، پرانی دہلی کے چتلی قبر والے علاقہ کا تمہارا پرانا دوست‘‘۔ عبد اللطیف کا نام سنتے ہی میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے کیونکہ اس دنیا میں میرا ایک ہی دوست عبد اللطیف تھا اور جس عبد اللطیف سے میری بات ہو رہی تھی اسے اس دنیا سے گزرے ہوئے چھ مہینے بیت چکے ہیں۔ عبد اللطیف سے میری پچیس برس پرانی دوستی تھی، وہ خود تو ادیب، شاعر یا فنکار نہیں تھا لیکن اسے ادیبوں اور شاعروں کی محبت میں رہنے کا شوق تھا۔ پرانی دہلی میں اس کی کپڑے کی دکان تھی اور جس طرح وہ اپنے دوستوں کی خاطر تواضع کرتا تھا اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس کا کاروبار اچھا چلتا ہے۔ جب بھی میرے گھر آتا تو خالی ہاتھ نہیں آتا تھا، کچھ نہ کچھ ضرور لے آتا تھا۔ کوئی بقر عید ایسی نہیں گزری جب میں دہلی میں موجود ہوں اور وہ قربانی کے بکرے کی سالم ران لے کر میرے پاس نہ آیا ہو۔ اس کی یہ محبت یک طرفہ تھی۔ میرے ہر دوست نے کسی نہ کسی مرحلہ پر اپنا کوئی نہ کوئی چھوٹا موٹا کام مجھ سے ضرور کروایا لیکن عبد اللطیف نے کبھی کسی کام کے لئے نہیں کہا۔ جن دنوں میں پابندی سے کافی ہاؤس جایا کرتا تھا عبد اللطیف بڑی پابندی سے کافی ہاؤس کے سامنے رسالوں اور اخبارات کے ایک اسٹال پر میرا انتظار کرتا تھا اور جب تک میں وہاں نہ پہنچوں وہ رسالوں کے مطالعہ میں مصروف رہتا تھا۔ اس بہانے نیوز پیپر اسٹال والے سے بھی اس کی دوستی ہو گئی تھی اور وہ اس کے بیٹھنے کے لئے ایک اسٹول فراہم کر دیتا تھا تاکہ وہ اطمینان سے اخباروں اور رسالوں کا مطالعہ کر سکے۔ میرے وہاں پہنچنے کے بعد ہی وہ میرے ساتھ کافی ہاؤس میں داخل ہوتا تھا اور میرے ساتھ ہی باہر بھی نکلتا تھا۔ محفل میں وہ ہمیشہ خاموش رہتا تھا البتہ میرے اور میرے دوستوں کے درمیان جو نوک جھونک چلا کرتی تھی اس سے بے حد لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔ یوں میں اس کی محبت کا عادی ہوتا چلا گیا۔ جب میں نے کافی ہاؤس آنا جانا کم کر دیا تو وہ فون کر کے میرے پاس آنے لگا۔ روز تو خیر نہیں آتا تھا لیکن ہفتہ میں ایک مرتبہ کسی نہ کسی طرح میرے پاس آ جاتا تھا۔ چھ مہینے پہلے جب اس کا انتقال ہوا تو صبح صبح اُس کے بیٹے نے مجھے فون کر کے یہ اندوہناک اطلاع دی کہ ’’ابوّ کا کل رات اچانک انتقال ہو گیا، آج وہ غالباً آپ سے ملنے والے تھے، مرنے سے پہلے شدید کرب کے عالم میں بھی انہوں نے مجھے یہ ہدایت دی تھی کہ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو آپ کو فوراً اس کی اطلاع دے دی جائے چنانچہ آج دوپہر میں بعد نماز ظہر آئی ٹی او کے قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئے گی‘‘۔ اس خبر کو سن کر مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا۔
عبد اللطیف جیسے خاموش، مخلص اور بے لوث محبت کرنے والے دوست کا اس دنیا سے گزر جانا میرے لئے نہایت تکلیف دہ سانحہ تھا۔ میری دنیا یوں بھی ان دنوں سکڑتی چلی جا رہی ہے۔ جب بھی کوئی پرانا دوست اس دنیا سے اٹھ جاتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے میری سماجی زندگی کا ایک ستون گر گیا ہے۔ میرے سماجی رشتوں کے ایوان کی موجودہ حالت کم و بیش ویسی ہی ہو گئی ہے جیسے امریکی بم باری کے بعد بغداد شہر کی ہو گئی ہے۔ ہر عمارت نہ صرف تباہ و تاراج ہو چکی ہے بلکہ اس کے اندر جو سامان تھا وہ بھی لُٹ چکا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دوستوں کی رحلت کو برداشت کرنے کی عادت مجھ میں پیدا ہوتی جا رہی ہے کیونکہ مشکلیں جب زیادہ پڑتی ہیں تو خود بخود آسان ہو جاتی ہیں۔ تاہم عبد اللطیف کی موت کی خبر سن کر میں بڑی دیر تک چپ چاپ بیٹھا رہا تاکہ میں اپنے اندر اس سانحہ کو برداشت کرنے کی ہمت پیدا کر سکوں۔ ہمت تو خیر پیدا نہیں ہوئی، البتہ بے بسی اور بے حسی کی ایک ایسی کیفیت ضرور پیدا ہوئی جسے لوگ غلط فہمی یا نا سمجھی میں ہمت کا نام دے ڈالتے ہیں۔ کچھ دیر بعد میں نے گھڑی دیکھی تو دس بج رہے تھے۔ اتفاق سے اس دن مجھے صبح میں دوچار ضروری کام کرنے تھے۔ میں نے سوچا کہ کچھ کاموں کو ملتوی کر دوں اور جو بھی ضروری کام کروں انہیں کچھ اس طرح انجام دوں کہ ظہر کی نماز کے بعد عبد اللطیف کی آخری رسومات میں ضرور شرکت کر سکوں۔ میں نہانے کے لئے باتھ روم میں گیا تو معلوم ہوا کہ پانی نہیں آ رہا ہے۔ ایک رات پہلے شمالی ہندوستان میں بجلی کے گریڈ کے نظام میں خرابی پیدا ہو جانے کے بعد کئی گھنٹوں تک بجلی بند رہی تھی جس کی وجہ سے پانی کی سپلائی میں بھی خلل واقع ہو گیا تھا۔ میں نہانے اور داڑھی وغیرہ بنانے کے معاملہ میں زیادہ دیر نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ عبد اللطیف کی آخری رسومات میں ٹھیک وقت پر شرکت کرنا ضروری تھا۔ میں نے بحالت مجبوری منرل واٹر کے بیس بیس لیٹر والے دو کنستر ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور سے منگوائے۔ یہ اور بات ہے کنستروں کے آنے میں بھی آدھے گھنٹے کا وقت ضائع ہو گیا کیونکہ معلوم ہوا کہ ڈپارٹمنٹل اسٹور پر ان کنستروں کو حاصل کرنے والوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن مجھے عبد اللطیف کا ایک جملہ اچانک یاد آیا جو وہ دہلی شہر کی خصوصیت اور مزاج کو ظاہر کرنے کے لئے اکثر استعمال کرتا تھا۔ عبد اللطیف اگرچہ خالص کرخنداری زبان بولتا تھا لیکن اسے پنجابی زبان کا ایک محاورہ ’’کُتّی چیز‘‘ بہت پسند تھا، چنانچہ دہلی کے بارے میں اکثر کہا کرتا تھا ’’دہلی بڑی کُتّی چیز ہے‘‘۔ یہاں کے موسم، یہاں کے ٹریفک، یہاں کے حالات، یہاں کی سیاسی سماجی اور تہذیبی زندگی سے متعلق شخصیتوں کو بھی اسی ’’کُتّی چیز‘‘ کے لقب سے نوازتا تھا۔
میں جب پچاس روپے کی مالیت کے پانی سے نہانے لگا تو دہلی کے ’’کُتّی چیز‘‘ ہونے کا مجھے یقین آ گیا۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ عرصہ بعد اخباروں میں ایسی خبریں بھی آئیں کہ صاف کیا ہوا یہ پانی بھی پینے کے قابل نہیں ہے بلکہ یہ نہانے کے کام بھی نہیں آ سکتا۔ غرض نہا کر غسل خانے سے نکلنے اور تیار ہو کر گھر سے باہر آنے تک بارہ بج چکے تھے۔ دھوبی نے بھی کپڑوں پر استری کرنے میں کچھ دیر لگا دی تھی۔ مجھے سب سے پہلے بجلی کا بل جمع کرنا تھا اور اندیشہ تھا کہ اگر اس دن بل جمع نہ ہوا تو وہ بجلی جو پہلے ہی سے بند ہے، وہ بھی کٹ جائے گی۔ باہر نکلا تو پتہ چلا کہ آٹو رکشا والوں نے ہڑتال کر رکھی ہے۔ چار و ناچار ایک سائیکل رکشا پر سوار ہو کر بجلی کے دفتر تک گیا۔ وہاں گیا تو معلوم ہوا کہ بجلی کی خرابی کی وجہ سے کمپیوٹر سسٹم خراب ہو گیا ہے۔ جب تک کمپیوٹر ٹھیک نہیں ہو گا تب تک بل جمع نہیں ہو سکتا۔ مجبوراً ایک گھنٹہ تک لائن میں کھڑا رہا۔ مجھے رہ رہ کر عبد اللطیف کا خیال آتا رہا کہ اس کے گھر میں کہرام مچا ہو گا اور یہ کہ اب اس کی میّت کو غسل دیا جا رہا ہو گا اور کیا عجب کہ اس مقصد کے لئے بھی منرل واٹر کے کنستر منگوائے گئے ہوں۔ لعنت ہے اس شہر پر جہاں میّت کو غسل دینے کے لئے بھی منرل واٹر کا سہارا لینا پڑ جائے۔ خیر بجلی کا بل جمع کر کے باہر نکلنے تک ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا تھا۔ میں نہایت عجلت میں ایک ہڑتالی آٹو رکشا ڈرائیور کے آگے ہاتھ جوڑے، اسے اپنے ایک عزیز ترین دوست کے مرنے کا حوالہ دیا۔ بالآخر اس کی سوئی ہوئی انسانیت جاگ اٹھی اور وہ دوگنے کرایہ پر مجھے لے چلنے کے لئے تیار ہو گیا۔ ہڑتالی آٹو رکشا ڈرائیوروں کی نظریں بچا کر پہلے تو وہ گلیوں میں چلتا رہا۔ پھر سڑک پر آیا تو ہڑتالیوں نے اس کے پہیوں کی ہوا نکال دی، مرتا کیا نہ کرتا، میں نے منت سماجت کر کے قبرستان کے طرف جانے والے ایک موٹر نشین کو روکا اور اس سے لفٹ لے لی۔ آخرکار جب میں قبرستان میں پہنچا تو اس وقت تک عبد اللطیف کی میّت نہ صرف قبر میں اتاری جا چکی تھی بلکہ اس پر مٹی کی آخری تہہ جمائی جا رہی تھی۔ مجھے بے حد دکھ ہوا کہ میں اپنے ایک بے لوث دوست کا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔ لوگوں نے بتایا کہ دفن کے وقت اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجی ہوئی تھی۔ میں نے اس کے بچوں کو با دیدۂ نم پرسہ دیا اور چلا آیا۔ کئی دنوں تک عبد اللطیف کی شکل میری آنکھوں میں گھومتی رہی۔ ایمان کی بات تو یہ ہے کہ مجھے آج بھی اس کی آخری رسومات میں بروقت شرکت نہ کر سکنے کا افسوس ہے۔
مگر کل رات جب عبد اللطیف مرحوم کا فون میرے پاس آیا تو میری ندامت اور شرمندگی کا پارہ ساتویں آسمان پر چڑھ گیا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا ’’عبد اللطیف! میں تم سے بے حد شرمندہ ہوں کہ میں تمہاری آخری رسومات میں شرکت کے لئے اس وقت پہنچا جب تمہاری قبر مٹی سے پاٹ دی گئی تھی اور میں تمہارا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔ اس بات کا بڑا قلق ہے کہ میں اپنے ایک عزیز ترین دوست کا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔ تمہارے جانے سے میری زندگی میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہ ہو گا تم جیسا مخلص دوست اب کہاں ملے گا۔ بہرحال جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔ مشیت ایزدی کو یہی منظور تھا۔ تم بھی صبر کرو اور میں بھی صبر کرتا ہوں۔ ان اللہ مع الصابرین‘‘۔
میری بات کو سن کر عبد اللطیف نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہا ’’یار! تم جو بھی بات کرتے ہو نرالی کرتے ہوئے، مرنے والے کا پُرسہ عموماً اس کے لواحقین کو دیا جاتا ہے اور ان سے صبر کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ غالباً تم پہلے آدمی ہو جو مرنے والے کو بالمشافہ پُرسہ دے رہے ہو۔ میں نے بھی زندگی میں بہت سے پُرسے دئے ہیں۔ کیا میں نہیں جانتا کہ پُرسہ دینے والے کے دل میں کیا بات ہوتی ہے اور اس کی زبان پر کیا ہوتا ہے۔ مجھے اس بات کا بالکل دکھ نہیں ہے کہ تم میری آخری رسومات میں بروقت نہیں پہنچے۔ میں تو ہمیشہ سے ہی کہتا رہا ہوں کہ دہلی بڑی کُتّی چیز ہے۔ یہاں آدمی نہ تو چین سے زندہ رہ سکتا ہے اور نہ اپنے مرنے کے لئے کسی موزوں وقت کا انتخاب کر سکتا ہے۔ وہ تو میرا ہی قصور تھا کہ میں نے مرنے کے لئے ایسے دن کا انتخاب کیا، جب دہلی میں بارہ گھنٹوں سے بجلی غائب تھی اور اوپر سے آٹو رکشا والوں نے بھی ہڑتال کر رکھی تھی۔ اس کے باوجود تمہارا میری آخری رسومات میں آنا ایسا ہی ہے جیسے پہاڑ کو کاٹ کر دودھ کی نہر لانا۔ بھئی ’لانگ ڈسٹنس کال‘ میں بہت سی باتیں نہیں کہی جا سکتیں۔ میں پھر کبھی فون کروں گا‘‘۔ میں نے کہا ’’یہ تو بتاؤ کہ دوسری دنیا میں تمہارا کیا حال ہے؟ ۔ جنت میں داخل ہو گئے ہو یا جنت کے دروازے پر بیٹھے میرے آنے کا انتظار کر رہے ہو جس طرح کافی ہاؤس کے باہر تم میرے آنے کا انتظار کیا کرتے تھے تاکہ میں آ جاؤں تو میرے ساتھ کافی ہاؤس میں داخل ہو سکو۔ اور ہاں یہ تو بتاؤ کہ کیا دوسری دنیا میں بھی موبائل فون رکھنے کی سہولت ہے‘‘۔ عبد اللطیف نے پھر قہقہہ لگا کر کہا ’ بھیا! یہاں تو روحانی فون کی سہولت موجود ہے۔ میں تم سے بات بھی صرف اس لئے کر رہا ہوں کہ تمہارا فون کل سے ڈیڈ ہے، اگر تمہارا فون اچھا رہتا تو شاید میں تم سے بات نہ کر پاتا‘‘۔
عبد اللطیف کے اس انکشاف کو سنتے ہی میری نیند اچانک اُچٹ گئی۔ گھڑی دیکھی تو رات کے تین بج رہے تھے۔ میں نے فون کا ریسیور اٹھایا تو وہ سچ مچ ڈیڈ تھا۔ یاد آیا کہ ایک دن پہلے ہی میں نے ٹیلی فون ایکسچینج میں اپنے فون کے ڈیڈ ہونے کی شکایت درج کرائی تھی۔ اس کے بعد بڑی دیر تک مجھے نیند نہ آئی۔ اس لئے کہ ایک عرصہ بعد عبد اللطیف مرحوم کی محبت سے لبریز باتیں سن کر میں نہال ہو گیا تھا۔ دوسرے دن صبح صبح میں بطور خاص ٹیلی فون ایکسچینج گیا اور ایک دن پہلے لکھوائی ہوئی اپنی شکایت واپس لے لی۔ ایکسچینج والوں کو تاکید کی کہ وہ میرا فون ٹھیک نہ کریں بلکہ ڈیڈ ہی رہنے دیں۔ جب انہوں نے حیرت سے اپنی آنکھیں پھاڑ کر میری اس نامعقول تاکید کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا ’’میرے فون کے ڈیڈ رہنے کی وجہ سے میرے پاس ڈیڈ لوگوں کے یعنی مرحومین کے فون آنے لگے ہیں، میرے سارے اچھے دوست اب دوسری دنیا میں آباد ہیں۔ ان سے اتنا ’’لانگ ڈسٹنس رابطہ‘‘ رکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ میں اپنے فون کو ڈیڈ رکھوں۔ یوں بھی میں زندہ لوگوں کے ٹیلی فون کال سے تنگ آ چکا ہوں کیونکہ ان کی باتوں میں اب زندگی کم اور مردنی زیادہ پائی جاتی ہے۔ کیوں نہ میں مردہ لوگوں کی زندہ باتیں سنوں‘‘۔ وہ لوگ مجھے حیرت سے دیکھنے لگے تو میں وہاں سے واپس چلا آیا۔
٭٭٭
اپنے اسکوٹر کی یاد میں
جیسا کہ آپ جانتے ہیں دہلی میں فضائی آلودگی بہت ہوتی ہے لیکن ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ دہلی کی اس فضائی آلودگی کا اصل سبب ہمارا وہ اسکوٹر ہے جو پچھلے ستائش (27) برسوں سے ہمارا رفیق رہا ہے۔ ایک دن دہلی سرکار نے بیٹھے بٹھائے یہ حکمنامہ جاری کر دیا کہ دہلی میں پندرہ سال پرانی جتنی بھی موٹریں اور اسکوٹریں ہیں انھیں یکم جنوری 2001 ء کے بعد دہلی کی سڑکوں پر چلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ دہلی میں جہاں ہر طرح کی گندگی سیاسی رہنماؤں کے ذریعہ پھیلائی جاتی ہے اس کے مقابلہ میں ہمارے دو پہیوں والے اسکوٹر کی فضائی آلودگی کیا حقیقت رکھتی ہے۔ لیکن کیا کریں دہلی سرکار کا حکمنامہ تو جاری ہو گیا تھا۔ کباڑی والے ہمارے پیچھے پڑ گئے کہ دوچار سو روپئے لیجئے اور اس سے اپنے جان چھڑایئے۔
اگرچہ دنیا کی نظر میں ہمارے اسکوٹر کی حیثیت دو کوڑی کی بھی نہیں رہ گئی تھی لیکن ہم تو اس کی قدر و قیمت کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ کیونکہ ہم نے اپنی زندگی کے پورے ستائیس برس اس اسکوٹر کی رفاقت میں گذارے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ دہلی میں اتنے برس رہ کر ہم نے جو کچھ بھی حاصل کیا ہے وہ اسی اسکوٹر کے بل بوتے پر کیا ہے۔ آج ہم اسے کیونکر کباڑی والے کے حوالے کر دیں۔ اگرچہ ہم خود بھی پچھلے چار مہینوں سے اس اسکوٹر کو استعمال نہیں کر رہے تھے لیکن ہر روز اس کی صفائی یوں کرواتے تھے جیسے ابھی اس پر بیٹھ کر چل نکلیں گے۔ اصل میں اس اسکوٹر سے ہمارا جذباتی رشتہ کچھ ایسا نازک ہے کہ ہم اسے لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے۔ یہ ہمیں 1974 میں اُس وقت ملا تھا جب بجاج کے اسکوٹر حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ لوگ اس کی بکنگ کروانے کے بعد برسوں اسکوٹر کے انتظار میں جوتیاں چٹخاتے پھرتے تھے۔
اگر یہ کسی کو مل جاتا تو یوں محسوس ہوتا جیسے اس کی لاٹری نکل آئی ہے کیونکہ بلیک میں اس کے دام اس کے اصل دام سے دو ڈھائی گنا زیادہ ہوا کرتے تھے۔ شروع ہی سے ہمارا اصول رہا ہے کہ اپنی چادر کو دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ بلکہ چادر چھوٹی ہو تو اس کے پھیلاؤ میں اضافہ کرنے کے بجائے اپنے پاؤں کو ہی کٹوا لو۔ اسی لئے دہلی میں اپنے قیام کے ابتدائی ڈیڑھ برس میں ہمارے پاس ایک آٹو سائیکل ہوا کرتی تھی جس پر بیٹھ کر ہم دہلی کے جان لیوا فاصلوں کو قابو میں کر لیا کرتے تھے۔ یہ 1974 ء کی بات ہے جب ہمارے کرم فرما مسٹر محمد علی کرناٹک کے وزیر ٹرانسپورٹ ہوا کرتے تھے۔ وہ جب بھی بنگلور سے دہلی آتے تو ہمیں بطور خاص یاد فرمایا کرتے تھے۔ جب تک وہ دہلی میں رہتے ہمارا زیادہ تر وقت ان ہی کے ساتھ گذرتا تھا۔ ایک رات ہم دیر گئے کرناٹک بھون سے واپس ہونے لگے تو محمد علی صاحب نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ وہ ہمیں گھر چھوڑ آئے۔ اس پر ہم نے کہا ’’اس زحمت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم اپنی سواری پر ہیں‘‘۔ یہ سن کر محمد علی صاحب ہمارے ساتھ کرناٹک بھون سے باہر نکل آئے تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ ہمارے پاس کونسی سواری ہے۔
جب ہم نے اپنی آٹو سائیکل نکالی تو محمد علی صاحب نے کہا ’’تم جیسے بڑے ادیب کو آٹوسائیکل پر گھومتے ہوئے شرم نہیں آتی؟‘‘۔ ہم نے مذاق میں کہا ’’حضور! وزیر ٹرانسپورٹ آپ ہیں۔ بھلا مجھے شرمانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ ہمارا یہ جملہ انھیں تیر کی طرح لگا۔ فوراً ہمارا ہاتھ پکڑ کر کرناٹک بھون میں واپس لے گئے۔ اپنے پرائیوٹ سکریٹری سے ایک کاغذ نکلوایا اور اس سادہ کاغذ پر ہمارے دستخط لے لئے۔ ہم نے سوچا کہ شاید ہمارے آٹو گراف لئے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے ہمیں گھر واپس جانے کی اجازت دیدی۔ دوسرے دن محمد علی صاحب کو بنگلور واپس جانا تھا۔ چوتھے دن ہم دفتر میں بیٹھے تھے کہ آصف علی روڈ سے بجاج اسکوٹر کے ایجنٹ کا فون آیا کہ حضور کرناٹک کے وزیر ٹرانسپورٹ نے اپنے خصوصی کوٹہ میں سے آپ کے لئے ایک اسکوٹر الاٹ کیا ہے۔
آ کر لے جایئے۔ ہمیں یقین نہ آیا۔ دوسرے دن ہم وہاں پہنچے تو سچ مچ ایک نیا نویلا اسکوٹر ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہم نے اس وقت اس کے دام 4444 روپئے ادا کئے تھے۔ ہم اسکوٹر لے کر گھر پہنچے تو اسی شام پٹنہ سے سہیل عظیم آبادی آ گئے۔ وہ پہلے اردو ادیب تھے جنھیں اس اسکوٹر پر ہمارے ساتھ بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ یوں نومبر 1974 ء کے آخری ہفتہ میں ہم نے اس اسکوٹر کو دہلی کی سڑکوں پر چلانے کا آغاز کیا تھا۔ ہمیں یہ اسکوٹر اس لئے بھی عزیز رہا ہے کہ اسے ہمارے ایک بزرگ کرم فرما کی دین کی حیثیت حاصل تھی۔ اسے ہم نے ہمیشہ ان کی ایک انمول نشانی کے طور پر جی جان سے سنبھال کر رکھا۔ کبھی اس کی سرویسنگ میں دیر نہ ہونے دی۔ چنانچہ اتنے برس گذر جانے کے بعد بھی آج بھی وہ نئے اسکوٹر کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ ان دنوں دہلی میں موٹریں بھی کم تھیں اور اسکوٹر بھی۔ لہذا ہمارا یہ اسکوٹر ہماری پہچان اور ہم اس اسکوٹر کی پہچان بنتے چلے گئے۔
اس اسکوٹر کو حاصل کرنے کے بعد ہمیں یوں لگا جیسے دہلی کے سارے فاصلے سمٹ کر ہمارے ہاتھ کی لکیروں میں سمٹ گئے ہیں۔ بہت عرصہ پہلے ہمارے ایک اور کرم فرما ڈاکٹر ابو الحسن صدیقی نے ایک بار اسکوٹر چلانے والوں کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا ’’کبھی اسکوٹر نہ خریدو کیونکہ ہم نے آج تک کسی کتّے اور اسکوٹر چلانے والے کو آہستہ چلتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ہمیشہ سرپٹ دوڑتا ہوا اور بلاوجہ بھاگتا ہو‘‘۔ ان کا یہ بیان بعد میں سچ بھی ثابت ہوا کیونکہ اس اسکوٹر کے آنے کے بعد ہم خواہ مخواہ ہی نقل و حرکت میں رہنے لگے۔ دہلی کی کوئی سڑک اور کوئی گلی ایسی نہ تھی جہاں ہمارا اسکوٹر نہ گیا ہو۔ لوگ آج بھی دہلی کی گلیوں اور سڑکوں کے بارے میں ہماری گہری واقفیت کو جان کر دانتوں میں انگلی دبا لیتے ہیں۔ یہ سب اسی اسکوٹر کا فیض ہے۔ دس برس پہلے تک اس کا رفتار والا میٹر کام کرتا تھا۔ ایک دن ہم نے یونہی حساب لگایا تو اندازہ ہوا کہ ہم پوری دنیا کا دو مرتبہ اس اسکوٹر پر بیٹھ کر چکر لگا چکے ہیں۔ اس اسکوٹر پر بیٹھ کر ہم نے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ادبی، سماجی اور تہذیبی محفلوں میں شرکت کی۔ یہاں تک کہ یہ اسکوٹر نہ صرف ہماری پہچان بن گیا بلکہ اسے ہم سے بھی زیادہ شہرت حاصل ہو گئی۔ ایک زمانہ میں ہم دیر سے گھر واپس جانے کے لئے بڑی شہرت رکھتے تھے۔
گھر واپس جانے کے لئے بسا اوقات ہم راتوں میں اُس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے گھر کے سامنے سے گذرا کرتے تھے۔ 1977 ء میں ایمرجنسی لاگو ہوئی تو وزیر اعظم کی کوٹھی کے آس پاس حفاظتی انتظامات سخت کر دئے گئے۔ کبھی کبھار یہاں سے گذرنے والی گاڑیوں کی چیکنگ بھی ہو جایا کرتی تھی۔ کم از کم دو مرتبہ ایسا ہوا کہ رات ہم دیر گئے یہاں سے گذرنے لگے تو اچانک گاڑیوں کی چیکنگ شروع ہو گئی۔ چنانچہ ایک کانسٹیبل نے ہمارے اسکوٹر کو بھی روک لیا۔ لیکن ادھر ہم نے بریک لگایا اور ادھر دور کھڑے ہوئے ہیڈ کانسٹیبل نے پکار کر کانسٹیبل سے کہا ’’اسے جانے دو یہ 3578 ہے۔ یہ روز کی گاڑی ہے۔ اسے جانے دو‘‘۔ اس وقت ہمیں احساس ہوا کہ ہمارا اسکوٹر اب ہم سے زیادہ مشہور ہو گیا ہے۔ اب آپ سے کیا بتائیں کہ کتنی ہی نامور ہستیوں نے اس کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر ہمارے اسکوٹر کی عزت میں اضافہ فرمایا ہے۔ اردو کا شاید ہی کوئی ایسا ادیب اور شاعر بچ رہا ہو جو اس اسکوٹر پر ہمارے ساتھ نہ بیٹھا ہو۔ یہاں تک کہ کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی بھی دو ایک بار مختصر فاصلے تک اس پر بیٹھ چکے ہیں۔ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا کہ سیکڑوں آرٹسٹوں، عہدیداران بالا، ارکان پارلیمنٹ اور سیاسی لیڈروں نے ہمارے اسکوٹر کو رونق بخشی ہے۔ نتیجہ میں بعض تو بعد میں مرکزی کابینہ میں وزیر بنے اور بعض تو ریاستوں کے وزرائے اعلی بھی بنے۔ لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے لیکن ہم نے اپنے اسکوٹر کے ساتھ خوش اور مطمئن رہنے کو ضروری جانا۔
وفاداری بشرط استواری اسی کو تو کہتے ہیں۔ اگرچہ ملک کے مایہ ناز آرٹسٹ ایم ایف حسین بھی ہمارے اسکوٹر کو رونق بخش چکے ہیں لیکن پاکستانی آرٹسٹ صادقین مرحوم کو ہمارا اسکوٹر کچھ اتنا پسند تھا کہ ٹیکسی لے کر ہمارے گھر آتے تھے اور ہماری اسکوٹر پر بیٹھ کر دہلی کی سیر کو نکلتے تھے۔ واپسی میں ہمیں اور ہمارے اسکوٹر کو گھر چھوڑ کر پھر ٹیکسی میں بیٹھ کر اپنے ٹھکانے پر روانہ ہو جاتے تھے۔ جتنی دیر پیچھے بیٹھے تھے اتنی دیر تک اپنی انگشت شہادت کی مدد سے ہماری پیٹھ کر یا تو کوئی خیالی تصویر بنایا کرتے تھے یا آیات قرآنی کی خطاطی فرماتے تھے۔ گرمی کے دنوں میں ایک رات پاکستانی گلوکار غلام علی ہمارے اسکوٹر کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ شدید حبس کا عالم تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اس حبس سے بچنے کے لئے ہم یونہی اسکوٹر چلاتے رہیں لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ پیچھے بیٹھے بیٹھے کوئی نہ کوئی راگ الاپنا شروع کر دیتے تھے۔ نتیجہ میں ہمیں آگے بیٹھے بیٹھے پیٹھ پیچھے الٹی داد بھی دینی پڑتی تھی۔ بیشتر اردو شاعروں کو اپنے اسکوٹر پر بٹھانے کی وجہ سے ہمیں اس طرح کے پوز میں داد دینے کی خاصی مہارت حاصل ہو گئی تھی۔ اب کیسے بتائیں کہ اس اسکوٹر سے ہماری کتنی ہی قیمتی اور خوبصورت یادیں وابستہ ہیں۔ ہم ان نامور خواتین کے نام یہاں نہیں لکھنا چاہتے جنھوں نے ہمارے اسکوٹر کی پچھلی سیٹ کو رونق بخشی ہے کیونکہ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیں (ایک تو ہماری اہلیہ محترمہ ہی ہیں)۔
ستائیس برس کے لمبے عرصے میں دو مرتبہ ہم اس اسکوٹر سے گرے بھی لیکن بعد میں اس کی کچھ ایسی مرمت کروائی کہ یہ بالکل نیا نظر آنے لگا۔ اگرچہ پانچ چھ برس پہلے ہمارے پاس موٹر بھی آ گئی تھی۔ ہم اس میں بیٹھے ضرور لیکن اسے ہمارے بچے ہی چلاتے رہے۔ جب بھی ہم اکیلے نکلے اپنے اسکوٹر پر ہی نکلے۔ چار پانچ مہینے پہلے جب گھٹنوں کی سرجری کے بعد ہم اس کو چلانے کے قابل نہیں رہ گئے اور بعد میں دہلی کی سرکار نے بھی اس اسکوٹر کو دہلی کی سڑکوں پر چلنے کی قابل نہیں رکھا اور ایک کباڑی والا چار سو روپیوں میں اسے خریدنے کے ارادہ سے ہمارے گھر کے چکر لگانے لگا تو ہم نے پچھلے دنوں اپنے اس اسکوٹر کو با دیدہ نم پورے ایک ہزار روپئے خرچ کر کے حیدرآباد روانہ کر دیا تاکہ یہ یاقوت پورہ میں ہمارے بڑے بھائی کے داماد عبد الجبار کے گھر میں محفوظ رہ سکے۔ جس اسکوٹر کی رفاقت میں ہم نے اپنی زندگی کے کئی مرحلے طے کئے تھے آج وہ حیدرآباد میں چپ چاپ کھڑا ہے۔ دہلی میں بیٹھ کر ہم جب بھی اس اسکوٹر کو یاد کرتے ہیں تو داغؔ کا شعر یاد آ جاتا ہے۔
ہوش و حواس، تاب و تواں داغؔ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
٭٭٭
کویل کی کُوک کو سن کر
نہ جانے کتنے ہی برسوں بعد کل سویرے آنکھ کھلی تو کانوں میں اچانک کویل کی کُوک سنائی دی۔ ہمیں تو یقین ہی نہ آیا کہ یہ ہمارے اپنے کان ہیں۔ کویل تو بہت دور کی بات ہے، کچھ دیر کے لئے شبہ ہوا کہ شاید کسی ٹیلی ویژن یا ریڈیو پروگرام میں کوئی کویل کُوک رہی ہو لیکن ٹیلی ویژن اور ریڈیو دونوں ہی بند تھے۔ صبح کی سپیدی بھی اچھی طرح افق پر نمودار نہیں ہوئی تھی۔ بستر میں پڑے پڑے سوچتے رہے کہ اتنے برسوں تک یہ کویل کہاں غائب رہی یا ہم ہی کویل سے دور رہے۔ انسان اپنی غلطی کہاں تسلیم کرتا ہے۔ اسے تو الزام عائد کرنے کی عادت سی پڑ گئی ہے۔ ان دنوں جبکہ انسانوں نے ایک دوسرے کی باتوں کو سننا اور سمجھنا چھوڑ دیا ہے، اس ایک کویل کی آواز نے اچانک ہم سے بہت کچھ کہہ دیا۔ ایک زمانہ تھا جب کویل کی کُوک ہمارے روزمرہ میں شامل تھی۔ روز ہی کویل کی کُوک سنائی دیتی تھی اور دل میں کتنے ہی جذبوں کو بیدار کر دیتی تھی۔ ہماری نوجوانی کے وہ دن جو کبھی دیہاتوں اور کھیتوں کے درمیان گذرا کرتے تھے وہاں کویل کی کُوک کوئی نئی بات نہیں تھی۔
کویل ہم سے کیا کہنا چاہتی تھی ہمیں کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر اس کُوک کو سن کر ہمارے سارے وجود پر ایک سرشاری سی طاری ہو جاتی تھی۔ کویل سے تو ہم کچھ کہنا نہیں چاہتے تھے لیکن کویل کی کُوک کے حوالے سے ہمیں وہ سب کچھ یاد آ جاتا تھا جو ہم کسی سے کچھ کہنا چاہتے تھے۔ کبھی کبھی یہ خیال بھی آتا تھا کہ کویل کی یہی کُوک جب اس ہستی کے کان میں پڑے گی جس سے ہم کچھ کہنا چاہتے تھے تو ہو سکتا ہے ہمارے دل کی ساری باتیں اس ہستی پر پہنچ جائیں۔ ترسیل کا یہ عجیب و غریب انداز بھلے ہی کسی کو مضحکہ خیز لگے لیکن یہ تھا بڑا توانا اور مستحکم۔ آپ یقین کریں کہ ایک عرصہ تک کویل کی یہ کُوک ہمارے سارے وجود میں پیار، محبت، خلوص اور انسانیت کی شمعیں جلا دیتی تھی۔ کہنے کو کویل ایک پرندہ ہے لیکن اس کی معرفت ہم پیار اور محبت کا درس لیا کرتے تھے۔ لیکن بعد میں جب ہم بڑے شہروں میں رہنے لگے تو کویل اور اس کی آواز ہم سے دور ہوتی چلی گئی۔
کل جب سویرے سویرے اچانک اس کویل کی آواز کانوں میں پڑی تو احساس ہوا کہ اس کویل نے ہم سے ڈھیروں ایسی باتیں کہہ دی ہیں جنھیں ہم لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے۔ کتنے ہی جذبے اچانک بیدار ہو گئے، کتنی ہی یادیں روشن ہو گئیں۔ اس عرصہ کی بازیافت ہو گئی جس میں پچاس ساٹھ برس پہلے ہم سانس لیا کرتے تھے۔ ہم سوچنے لگے کہ انسانوں کی بھیڑ میں رہتے رہتے جب ہمیں خود انسانوں کی باتیں سمجھ میں نہیں آنے لگی ہیں بلکہ کچھ بھی سمجھ میں نہیں آنے لگا ہے تو افراتفری اور نفسا نفسی کے اس ماحول میں اس کویل نے اپنی ایک کُوک کے ذریعہ ایسی کیا بات کہہ دی کہ ہمارے جذبوں کے تار جھنجھنا اٹھے ہیں۔ کائنات اور انسانیت پر پھر سے اعتماد بحال ہونے لگا ہے۔
جہاں انسانیت پر اعتماد کی بحالی کے لئے اب کسی انسان کی بات پر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا ہو وہاں ایک معمولی کویل نے ہم میں انجان اور معصوم جذبوں کا ایک طوفان برپا کر دیا۔ کہیں اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم انسانوں کی باتوں سے دور اور پرندوں کی بولیوں سے قریب ہوتے جا رہے ہیں۔ بخدا اب تو کبھی اپنے انسان ہونے پر شرم سی آتی ہے اور ندامت کا احساس ہوتا ہے۔ قدرت نے انسان کو اظہار کے لئے لاکھوں لفظ عطا کئے ہیں لیکن بیچاری کویل کو صرف ایک کُوک عطا کی ہے لیکن یہ اکیلی کُوک نہ جانے ہم سے اتنی ساری باتیں کس طرح کہہ گئی کہ اس کے آگے سارے لفظ ہیچ اور بے معنی نظر آنے لگے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ جس کویل کی آواز ہم نے کل سنی اس کے پُرکھوں کی آواز ہم نے کئی برس پہلے کب سنی تھی۔ اس کی کئی پشتیں اب تک گذر چکی ہوں گی۔ پرندوں کی عمر ہی کتنی ہوتی ہے۔ پانچ دس برس میں اپنی زندگی کے سارے کاروبار سے فراغت پا کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ اسی میں ان کا بچپن آتا ہے، جوانی کے دن آتے ہیں، مرادوں کی راتیں آتی ہیں۔ قدرت نے ان کے ذمہ جو کام سونپا ہے اسے انجام دے کر چپ چاپ اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
انسان اب برسوں زندہ رہنے لگا ہے۔ قدرت نے اس کے ذمہ جو کام سونپا ہے اُسے انجام دینے کی بجائے اب وہ کائنات ہی سے بدلہ لینے لگا ہے۔ ہم یہ سوچ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ قدرت نے لاکھوں برس پہلے کویل کو کُوک عطا کی تھی وہ اسی پر قانع اور مطمئن ہے اور اسی ایک کوک کے ذریعہ وہ اپنی زندگی کا سفر طے کر لیتی ہے۔ انسان نے صدیوں کے لمبے سفر میں اپنے اظہار کے لئے بے شمار لفظ ایجاد کر لئے ہیں۔ کئی زبانیں اپنائی ہیں لیکن لفظوں کی اس بہتات میں لگتا ہے انسان اپنی آواز کو کھوتا جا رہا ہے۔ لفظ اپنے معنی بدلتے جا رہے ہیں۔ انسان نے ہزاروں ڈکشنریاں تیار کر رکھی ہیں لیکن ان میں شامل کتنے ہی لفظوں کے وہ معنی نہیں جانتا۔ لفظوں کی اس بہتات میں وہ گوں گا اور بہرہ ہوتا جا رہا ہے۔ لفظ اب اس کے قبضۂ قدرت میں نہیں رہے۔ جو لفظ وہ بولتا ہے خود ان پر عمل کرنے کا وہ اہل نہیں رہا۔ ڈکشنریوں کی حیثیت اب لفظوں کے تابوتوں کی سی ہو گئی ہے۔ کیا انسان کو زندہ رہنے کے لئے اب واقعی اتنے سارے لفظوں کی ضرورت ہے۔ کیا ان سارے لفظوں کو ملا کر انسان کے لئے بھی ایک ایسی کُوک ایجاد نہیں کی جا سکتی جو سب کی سمجھ میں آ سکے۔ اکیسویں صدی میں داخل ہونے کے بعد انسانوں نے اب ایک ایسا ماحول تیار کر لیا ہے جہاں وہ ایک دوسرے کی بات کو سمجھنے کے اب قابل نہیں رہے ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اب ایسے دانشور اور سیاستدان ہمیں جا بجا نظر آنے لگے ہیں کہ جب وہ محبت اور بھائی چارے کی بات کرتے ہیں تو لگتا ہے قتل و غارتگری اور بربادی کی باتیں کر رہے ہیں۔
جب وہ آپس میں گلے ملتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ گلے نہ مل رہے ہوں بلکہ ایک دوسرے کے گلے دبوچ رہے ہوں۔ ان کے قول اور فعل میں ہمیں کہیں بھی کوئی مماثلت نظر نہیں آتی۔ اس لئے تو ہم لفظوں اور ان کے مفہوم سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ کس کی بات سنیں اور اگر سنیں تو اس پر یقین کس طرح کریں۔ لگتا ہے انسانوں نے لفظ اس لئے ایجاد نہیں کئے کہ ان کی مدد سے اپنی بات دوسرے تک پہنچاسکیں بلکہ لفظ اس لئے ایجاد کئے ہیں کہ ان کی مدد سے ایک دوسرے کو دھوکہ دے سکیں اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچاسکیں۔ ان لفظوں کی مدد سے وہ انسانیت کا دامن تار تار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ انسانوں کا قتل تو ہوتا ہی جا رہا ہے۔ اب الفاظ کا بھی قتل عام ہونے لگا ہے اور لفظوں کے قتل عام کو ہم انسانیت کا قتل عام سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کل اچانک کئی برس بعد کویل کی آواز سنی تو اس کی کُوک نے ہم سے کئی باتیں کہہ دیں۔ لاکھوں برسوں سے کویل کے پاس صرف ایک کُوک ہے۔ نہ وہ کوئی زبان جانتی ہے اور نہ ہی اس کی بولی کی کوئی ڈکشنری ہے۔ کوا ہزاروں برسوں سے صرف کائیں کائیں کرتا چلا آ رہا ہے اور اپنی زندگی کے سارے کام انجام دے کر دنیا سے چپ چاپ چلا جاتا ہے۔
انسان پہلے بات کرنا نہیں جانتا تھا۔ پھر اس نے بات کرنا سیکھا، سیکڑوں زبانیں ایجاد کیں، کئی بولیاں اختیار کیں۔ کئی لفظ بنائے اور انھیں مفہوم عطا کیا، مگر اب انسان کے یہ لفظ کھوکھلے ہوتے جا رہے ہیں اور ان کا مفہوم بدلتا جا رہا ہے۔ انسان ان لفظوں کے ذریعہ اب اپنے دل کا مدعا ایک دوسرے سے بیان کرنا نہیں چاہتے بلکہ ان لفظوں کی مدد سے ایک دوسرے کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے اب ہمیں کویل کی کُوک کے آگے ساری زبانوں کے لفظ بے توقیر اور بے معنی نظر آنے لگے ہیں۔ صدیوں کے سفر کے بعد کویل کی کُوک نے اپنا مفہوم نہیں کھویا البتہ انسانوں کے لفظ اب اپنے مفاہیم کھو چکے ہیں، کھوکھلے اور ننگے ہو چکے ہیں۔ کویل کی آواز سن کر ہمیں لندن کے علاقہ ہیمپسٹیڈ میں واقع مشہور شاعر کیٹسؔ کا وہ گھر یاد آیا جہاں کسی بلبل کی آواز کو سن کر کیٹس نے اپنی شہرہ آفاق نظم ’’Ode to Nightingale‘‘ لکھی تھی۔ اس نظم میں کیٹسؔ نے کتنی ہی خوبصورت باتیں کہی تھیں۔ کیا اکیسویں صدی کا انسان کیٹسؔ کی اس نظم کے پیغام کو سمجھ سکتا ہے۔ اسی لئے تو ہمیں اب کویل کی کُوک اور بلبل کا نغمہ انسانوں کی باتوں سے کہیں زیادہ معتبر، سچے اور مستحکم نظر آنے لگے ہیں۔ ٭٭٭
عام آدمی کا خط وزیر اعظم کے نام
محترم وزیر اعظم صاحب!
ویسے تو میں ایک عام آدمی ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے ملک کے خاص الخاص آدمی سے مخاطب ہونے کی جسارت کر رہا ہوں اور یہ جسارت بھی محض اس خوش فہمی میں کر رہا ہوں کہ آج ہی مجھے کسی نے بتایا کہ آپ نے از راہ کرم اس ملک کے سیاست دانوں، صنعت کاروں اور اعلیٰ عہدیداروں سے خواہش کی ہے کہ وہ اس ملک کے عام آدمی کے حالات کا جائزہ لیں اور انہیں (یعنی حالات کو) بہتر بنانے کی کوشش کریں تاکہ عام آدمی کی حالت بہتر ہو سکے کیونکہ جب تک حالات بہتر نہیں ہوتے تب تک عام آدمی کی حالت بھی بہتر نہیں ہو سکتی۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ آپ کو بالآخر اس ملک کے عام آدمی کی حالت اور اس کے حالات کا خیال آ گیا کیونکہ عام آدمی تو صرف عام آدمی ہوتا ہے۔ اس کا کوئی نام نہیں ہوتا، اس کا کوئی عہدہ بھی نہیں ہوتا کیونکہ جس کا عہدہ ہوتا ہے، وہ بعد میں خاص آدمی بن جاتا ہے۔ اس اعتبار سے اس کا کوئی خاص پیشہ بھی نہیں ہوتا۔ وہ تو زندگی میں پیشے بدل بدل کر غربت کی سطح سے نیچے جا کر زندہ رہنے کا لمبا تجربہ رکھتا ہے اور
اس تجربہ سے کوئی فائدہ اٹھائے بغیر ہی اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے بلکہ اپنے تجربہ کو بھی یہیں چھوڑ جاتا ہے تاکہ اس کی غیرت اور خود داری پر کوئی حرف نہ آنے پائے۔ عام آدمی ایک ایسا بے نام و نشان فرد ہوتا ہے جس کا کوئی اتہ پتہ بھی نہیں ہوتا کیونکہ بیشتر صورتوں میں اس کے پاس اپنا ذاتی مکان بھی نہیں ہوتا۔ یا تو برائے نام کرایہ کے مکانوں میں رہتا ہے، غیر مجاز جھگی جھونپڑیوں میں رہتا ہے یا پھر فٹ پاتھوں اور ریلوے پلیٹ فارموں پر پایا جاتا ہے۔ جس طرح کسی زمانہ میں ہمارے ملک میں خانہ بدوش قبائل رہا کرتے تھے، آج کا عام آدمی بھی بڑے بڑے شہروں کے جنگل میں نہایت منظم انداز میں اپنے گھر کو ہر دم اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتا ہے۔ چونکہ عام آدمی محنت بہت زیادہ کرتا ہے، اس لئے وہ محنت کو ہی اپنا اصل گھر بھی تصور کرتا ہے۔ جیسے رکشا چلانے والا جب بہت تھک جاتا ہے تو رکشا میں ہی پڑ کر سوتا رہتا ہے۔ دیوار بنانے والا مزدور بھی جب تھک جاتا ہے تو اسی دیوار کے سائے میں سوجاتا ہے۔
گویا زمین کو اپنا بچھونا بنا لیتا ہے اور آسمان کو چادر سمجھ کر اوڑھ لیتا ہے، وہ ہر دم جسم و جان کے رشتہ کو برقرار رکھنے اور سانس کے تسلسل کو جاری رکھنے میں کچھ اتنا مصروف اور منہمک رہتا ہے کہ اسے اپنی حالت اور حالات کو بہتر بنانے کی طرف دھیان دینے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ ایک وقت کا کھانا اسے ملتا ہے تو وہ دوسرے وقت کے کھانے کی آس میں پھر سے محنت کرنے لگ جاتا ہے۔ یہی اس کا سلسلۂ روز و شب ہے اور یہی اس کا مقصد حیات بھی ہے۔ یہی وجہ کہ آزادی کے پیسنٹھ برسوں میں اس ملک کے سماج میں بہت کچھ بدلا لیکن عام آدمی بالکل نہیں بدلا۔ یوں لگتا ہے جیسے ہمارا عام آدمی اصل میں پتھر کا ایک مجسمہ ہے جو برسوں سے وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارا عام آدمی جب فرداً فرداً محنت کرتا ہے تو جانفشانی کے سارے ریکارڈ توڑ دیتا ہے لیکن جب سارے عام آدمی مل کر ایک طبقے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں تو اجتماعی طور پر یہی عام آدمی پتھر کے مجسمہ میں تبدیل ہو جاتا ہے جو نہ تو آگے جا سکتا ہے اور نہ ہی پیچھے کی طرف کو جا سکتا ہے۔ اسی لئے وہ نہ تو غربت کی سطح سے مزید نیچے جا کر ہمیشہ کے لئے معدوم ہو جانے پر آمادہ ہوتا ہے اور نہ ہی غربت کی سطح سے اوپر اٹھ جانے کی سکت رکھتا ہے۔ ایک طبقہ کے طور پر وہ سچ مچ پتھر کا مجسمہ ہی ہے جو حالات کے شکنجے میں بری طرح جکڑا ہوا ہے، اور اس کی اس حالت کے لئے وہ حالات ہی ذمہ دار ہیں جو اس کے اطراف یا تو پیدا ہو گئے ہیں یا پیدا کر دیئے گئے ہیں۔ لکھ پتی، ارب پتی بن گئے۔ پارٹیاں بدلیں، عقیدے بدلے، اخلاقی اقدار بدلیں، مجرم سیاست دان بن گئے اور وقت ضرورت سیاست دان پھر مجرم بھی بن گئے۔ یہاں تک کہ دوسروں کی بیویوں کو اپنی بیویاں ظاہر کر کے دوسرے ملکوں میں اسمگل کرنے لگے۔ ڈاکوؤں، قاتلوں، ظالموں، اسمگلروں اور جابروں نے اپنے پیشے بدل لئے اور اقتدار کے گلیاروں تک پہنچ گئے لیکن عام آدمی نے اپنا پیشہ (جس کا دوسرا نام صرف محنت اور عزت کی کمائی ہے ) نہیں بدلا۔ اس نے اپنی اقدار نہیں بیچیں، اپنا ایمان نہیں بیچا، اپنی عزت اور خود داری نہیں بیچی، عقیدہ نہیں بیچا، یہاں تک کہ اپنا ضمیر تو کجا اپنا مافی الضمیر بھی نہیں بیچا۔ ایسے عام آدمی کی حالت بدلے تو کیسے بدلے۔ محترم وزیر اعظم! میں ایک عام آدمی ہوں، اسی لئے بہت چھوٹا آدمی بھی ہوں اور اپنے چھوٹے منہ سے بڑی بات کہنے کا اپنے آپ کو اہل نہیں سمجھتا۔ تاہم میں آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کو بالآخر عام آدمی کا خیال تو آیا ورنہ عام آدمی تو اس طرح زندہ رہتا ہے جیسے وہ آدمی ہی نہ ہو، کوئی اور مخلوق ہو۔ مجید امجد ایک شعر یاد آ گیا:
جو ہم اِدھر سے گزرتے ہیں کون دیکھتا ہے
جو ہم اِدھر سے نہ گزریں گے کون دیکھے گا
آپ نے عام آدمی کا ذکر کر کے عام آدمی کی جو عزت افزائی کی ہے، اس پر ہمیں ایک پرانی بات یاد آ گئی۔ چالیس برس پہلے ہمارے ایک ضرورت مند دوست نے ہم سے 100/- روپئے اچانک اُدھار مانگے تو ہم خوشی کے مارے اُچھل پڑے۔ بولے: ’’اگر میرے پاس 100/- روپئے ہوتے تو میں تمہیں 1,000/- بھی دے سکتا تھا لیکن میں مجبور ہوں تاہم میں تہہ دل سے تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ تم نے مجھے اس قابل سمجھا کہ میرے پاس 100/- روپئے بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی اعزاز نہیں ہے‘‘۔ اتنے بڑے ملک کے وزیر اعظم کو عام آدمی کا اچانک خیال آ جائے یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ ہمیں تو یوں لگتا ہے جیسے ملک کی ترقی کی اس دوڑ میں کسی موڑ پر ہمارے حکمرانوں نے ’’عام آدمی‘‘ کو اس طرح کھو دیا ہے جیسے کسی میلے میں ماں باپ اپنے کمسن بچے کو کھو دیتے ہیں۔ اور یوں ’’عام آدمی‘‘ کو اس ملک کے ناگفتہ بہہ حالات کے حوالے کچھ اس طرح کر دیا گیا جیسے پرانے زمانے کے ایک بادشاہ نے اپنے کسی مصاحب کی بات سے خوش ہو کر اپنا سب سے پسندیدہ ہاتھی اسے تحفہ میں دے دیا تھا۔ بادشاہوں، حکمرانوں اور بڑے لوگوں کے مصاحبوں کو ہم ’’مصاحب‘‘ نہیں بلکہ ’’مصائب‘‘ کہتے ہیں کیونکہ ایسے ہی خوشامدی مصاحب بڑے آدمی کے ’’مصائب‘‘ میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔ بھرے دربار میں بادشاہ کی جانب سے ہاتھی کا تحفہ پا کر مصاحب خوش تو بہت ہوا لیکن جب اپنی جیب سے ہاتھی کے چارے کا انتظام کرنے کا معاملہ درپیش آیا تو ایک ہفتہ کے اندر اندر خود مصاحب اور اس کے ارکان خاندان کے بھوکوں مرنے کی نوبت آ گئی۔ مرتا کیا نہ کرتا، اس نے بڑی خاموشی کے ساتھ ہاتھی کو بیچ کر اپنی جان بچائی مگر مصاحب کو یہ خدشہ بھی تھا کہ ایک دن بادشاہ کو اپنے محبوب ہاتھی کی یاد ضرور آئے گی (جیسے اب آپ کو اچانک عام آدمی کی یاد آ گئی ہے )۔ چنانچہ ایک دن بادشاہ کو واقعی اپنے ہاتھی کی یاد آ گئی اور اس نے اپنے ’’مصائب‘‘ سے ہاتھی کا حال چال پوچھ لیا۔ مصاحب بڑا زیرک تھا اور موقع کی تاک میں تھا۔ اس نے بھرے دربار میں بادشاہ سے دست بستہ عرض کیا: ’’ظل الٰہی! آپ کا ہاتھی بفضل تعالیٰ خیریت سے ہے اور اس وقت اتفاق سے میری جیب میں موجود ہے‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی جیب سے ایک چوہے کو نکالا اور اسے دربار میں چھوڑ دیا۔ چوہا جب بھاگنے لگا تو مصاحب نے کہا: ’’عالی جاہ! یہ ہے تو آپ کا ہاتھی ہی لیکن مجھے غریب کے ہاں چونکہ اسے مناسب غذا نہ مل سکی تو سوکھ کر چوہے میں تبدیل ہو گیا ہے‘‘۔ درباری اس کی بات کو سن کر تالیاں بجانے لگے تو بادشاہ نے غصہ میں آ کر دربار کو برخاست کر دیا۔
محترم وزیر اعظم صاحب! اس ملک میں عام آدمی کا حال بھی بادشاہ کے اس ہاتھی کا سا ہو گیا ہے جو اب چوہا بن چکا ہے۔ ناچیز کو اس بات کا علم ہے کہ ایک مایہ ناز ماہر معاشیات کی حیثیت سے آپ کو عام آدمی کی حالت اور حالات سے گہری دلچسپی ہے اور آپ عام آدمی کے سچے ہمدرد بھی ہیں۔ یہ بھی تسلیم کہ حکومت عام آدمی کی فلاح و بہبود کے لئے کروڑوں بلکہ اربوں روپیوں کی اسکیمات تیار کرتی ہے لیکن جب ان اسکیمات کو رو بہ عمل لانے کا مرحلہ آتا ہے تو سارے رہنما، تاجر، عہدیدار، دلال، بچولئے، پیروکار، ٹھیکیدار اور کمیشن ایجنٹ وغیرہ مل کر ان اسکیمات کو قدم قدم پر لیموں کی طرح نچوڑ لیتے ہیں اور جب اس اسکیم کا عملی فائدہ عام آدمی تک پہنچتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک کروڑ روپئے کی اسکیم مندرجہ بالا مرحلہ وار تقسیم کے بعد عام آدمی تک پہنچتے پہنچتے ایک لاکھ روپیہ کی رہ گئی ہے۔ یعنی ہاتھی کے چوہے میں تبدیل ہو جانے والی بات صادق آتی ہے۔ چونکہ آپ بہت مصروف رہتے ہیں، اس لئے خط کی طوالت کو یہیں ختم کرتا ہوں۔ آپ کا پھر ایک بار دِلی شکریہ کہ آپ نے بالآخر عام آدمی کو یاد کیا۔
٭٭٭
بینگن کا بول بالا
دہلی میں ہمارے ایک جگری دوست ہیں سردار اوتار سنگھ جج۔ انگریزی کے صحافی ہیں، لیکن پنجابی اور اُردو پر بھی گہری قدرت رکھتے ہیں۔ ایسے زندہ دِل اور فقرہ باز انسان ہیں کہ جس محفل میں بھی موجود ہوتے ہیں، اسے اپنی دلچسپ باتوں کے ذریعہ قہقہہ زار بنا دیتے ہیں۔ بیس پچیس برس پہلے کافی ہاؤس میں ایک دن انھوں نے ہم سے پوچھا ’’یار! یہ اُردو والے اچھی خاصی اُردو بولتے بولتے اچانک بیچ میں فارسی کے کچھ الفاظ بھی بول دیتے ہیں، جیسے خورد و نوش… یہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ ہم نے کہا ’’کھانا پینا‘‘۔ پوچھا ’’اور یہ گفت و شنید؟‘‘ ہم نے کہا ’’کہنا سننا‘‘۔ بڑی معصومیت سے بولے ’’اوّل الذکر بہت اچھی چیز ہے۔ جب بھی ایسی کوئی صورت پیدا ہو تو مجھے ضرور یاد کرنا، البتہ موخر الذکر چیز یعنی گفت و شنید سے مجھے ہمیشہ دُور رکھنا‘‘۔
اوتار سنگھ جج کی یاد آج ہمیں اس لئے آ گئی کہ پچھلے کچھ عرصہ سے ہم اپنے کالم میں ’’خورد و نوش‘‘ کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پہلے آٹے دال کا بھاؤ معلوم کرتے رہے اور آج ہمیں اپنی مرغوب سبزی بینگن کے بارے میں اظہار خیال کرنا پڑ رہ ہے۔ کچھ دن پہلے انگریزی اخبار ’’ہندو‘‘ میں مرکزی وزیر ماحولیات اور جنگلات جے رام رمیش کی تصویر شائع ہوئی تھی جس میں دیکھا کہ موصوف اپنی گردن میں دس بارہ خوبصورت بینگنوں کی مدد سے تیار کیا گیا ہار پہنے کھڑے ہیں اور زبردستی مسکرانے کی کوشش فرما رہے ہیں (زبردستی مسکرانے کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ موصوف کے گلے میں یہ ہار احتجاجی مظاہرین نے پہنایا تھا)۔ جے رام رمیش کو ہم نے بیسیوں بار دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں دیکھا ہے جہاں یہ اپنے احباب سے ملنے کے لئے پابندی سے آتے ہیں۔ بے حد خوش شکل، وجیہہ و شکیل شخصیت کے مالک ہیں۔ ہمیں ان کی وجاہت اس لئے بھی پسند آتی ہے کہ ان کے سر پر جو گھنے بال ہیں، وہ ہماری نوجوانی کے دنوں کے بالوں سے بہت مشابہ ہیں۔ غالباً یہ ان کی شخصیت کا ہی کمال ہے کہ تصویر میں بینگنوں کا جو ہار ان کے گلے میں نظر آ رہا ہے، اس میں شامل بینگن بھی ہمیں خوبصورت اور وجیہہ و شکیل نظر آ رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ بینگن خالص ہندوستانی ہیں جب کہ جے رام رمیش ملک میں امریکہ کے بی ٹی بینگنوں (BT Brinjal) کی فصل اُگانے اور اسے مقبول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ہم سبزیوں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔ بھنڈی، آلو، بینگن، ٹماٹے، اروی، شلغم، چقندر، گوبھی، پیاز، لوکی (جسے ہم دکن میں کدو کہتے ہیں )، مولی، ککڑی، وغیرہ جیسی سبزیوں کے ذائقہ سے ہماری زبان ضرور آشنا ہے۔ تاہم ان کے طریقۂ کاشت اور فصل وغیرہ کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے، تاہم باورچی خانہ میں جس طرح کے ہاتھ ان سبزیوں کو پکاتے ہیں، ان کی مہارت یا اناڑی پن کے حساب سے یہ سبزیاں ہمیں حسب توفیق اچھی یا بُری معلوم ہوتی ہیں۔ ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ پکوان کا اصل ذائقہ اُسے پکانے والی کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، سبزیوں میں نہیں۔ جے رام رمیش کا کہنا ہے کہ امریکہ کے بی ٹی بینگن، کاشت کی جدید ٹکنالوجی کی مدد سے اُگائے جاتے ہیں۔ ان بینگنوں میں کچھ ایسے جینس (Genes) کو داخل کیا جاتا ہے جن کی وجہ سے ان میں کیڑے بالکل نہیں پیدا ہوتے اور یہ زیادہ مدت تک تر و تازہ بھی رہتے ہیں اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے ایک بینگن کی جسامت ہمارے دس بارہ بینگنوں کے برابر ہوتی ہے۔ گویا اس جسامت کے دس بارہ امریکی بینگنوں کا ہار اگر خدا نخواستہ وزیر زراعت کی گردن میں ڈال دیا جائے تو وہ حکومت کا بوجھ اُٹھانے کے قابل بھی نہیں رہ پائیں گے۔ ان بینگنوں کی دوسری خوبی یہ بھی ہے کہ اس کی فصل سال میں کئی بار اُگائی جا سکتی ہے۔ تاہم ملک کے کسان اور بعض ماہرین زراعت بینگن کی اس جدید نسل کی فصل کو اپنے ملک میں اُگانے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
ہمیں ان بینگنوں کے محاسن اور عیوب کے بارے میں کچھ نہیں کہنا ہے، کیونکہ ہم کوئی ماہر زراعت تو ہیں نہیں کہ اس موضوع پر کچھ اظہارِ خیال کر سکیں۔ یوں بھی دیسی بینگن ہماری پسندیدہ سبزی ہے، کیونکہ یہ نہ صرف سستی ہوتی ہے بلکہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیتی ہے۔ جن لوگوں کو حیدرآباد کے بگھارے بینگن کھانے کا اور عملی سیاست میں تھالی کے بینگنوں کو دیکھنے اور انھیں برتنے کا موقع ملا ہے، وہ جانتے ہیں کہ بینگن کتنے کام کی سبزی ہے۔ یوں تو بینگن ساری دنیا میں پیدا ہوتے ہیں، لیکن انھیں شہرت صرف حیدر آباد میں ملی، کیونکہ حیدرآبادی خواتین باتیں بگھارنے کے علاوہ ان بینگنوں کو مخصوص ڈھنگ سے بگھارنے کا ایسا انوکھا سلیقہ جانتی ہیں کہ انھیں کھانے والا بس اُنگلیاں چاٹتا رہ جاتا ہے۔
بے شک، حیدرآباد اپنی بریانی کے لئے بھی شہرت رکھتا ہے، لیکن جب تک اس بریانی کو بگھارے بینگن کے ساتھ نہ کھایا جائے، یہ حلق سے نیچے نہیں اُترتی۔ شمالی ہند میں بینگن کا بھرتہ بھی بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے، لیکن اس میں وہ بات نہیں ہوتی جو حیدرآباد کے بینگنوں میں پائی جاتی ہے۔ بینگنوں کی جدید امریکی نسل کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس میں کیڑوں کے داخل ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی جب کہ ہمارے اکثر دیسی بینگنوں کو کاٹنے پر پتہ چلتا ہے کہ ان میں کیڑے بکثرت پائے جاتے ہیں۔ ہم تو خیر پکوان کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے، لیکن ہمارے ایک ماہر پکوان دوست کا کہنا ہے کہ پکے ہوئے بینگن میں ذائقہ بینگن کے بیجوں کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ ان کیڑوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، جو بینگن کے بیجوں میں کچھ اس طرح شیر و شکر ہو جاتے ہیں کہ بیجوں اور کیڑوں میں فرق کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اس اعتبار سے بینگن کا سالن جہاں ویجیٹیرین ہوتا ہے، وہیں نان ویجیٹیرین بھی ہوتا ہے۔ بہرحال، یہ مسئلہ ایسا ہے جس پر ماہرین پکوان کو غور کرنا چاہئے۔ بینگن کو بعض لوگ ’سبزیوں کا سرتاج‘ بھی کہتے ہیں، کیونکہ اس کے سر پر ایک تاج ہوتا ہے جو دیکھنے میں بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کھانے والے احتراماً اس تاج کو نہیں کھاتے۔
ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ امریکہ کی دریافت کے بعد دُنیا کئی سبزیوں اور پھلوں سے روشناس ہوئی۔ مثال کے طور پر آلو آج دُنیا کے ہر براعظم اور ہر خطہ میں پیدا ہوتا ہے، لیکن امریکہ کی دریافت سے پہلے یہ امریکہ کے سوائے کسی اور براعظم میں پایا نہیں جاتا تھا۔ امریکہ سے نکل کر یہ دُنیا میں ہر جگہ ایسا پھلا پھولا کہ آج ساری دُنیا امریکہ کے آلو کلچر (Potato Culture) کی گرفت میں آ چکی ہے۔ بہرحال، اس وقت بات بینگن کی ہو رہی ہے اور قیاس اغلب ہے کہ یہ سبزی ہندوستان میں ہزاروں سال سے موجود ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے سماج میں تھالی کے بینگنوں کا چلن بھی ہزاروں برس سے جاری و ساری ہے۔ جدھر جائیے، تھالی کے بینگنوں کا بول بالا ہے، کیونکہ ان میں لڑھکنے کی زبردست صلاحیت پائی جاتی ہے۔
ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ امریکہ کے ماہرین زراعت ہمارے بینگنوں پر اپنا وقت اور توانائیاں ضائع کرنے کی بجائے ہمارے ملک میں پھیلے ہوئے تھالی کے بینگنوں کی مناسب افزائش کی جانب توجہ کریں۔ ان میں کچھ ایسے Genes داخل کریں کہ ان کے لڑھکنے میں استقامت پیدا ہو اور ان کے نظریات میں استحکام کے امکانات فروغ پائیں، لیکن ہمیں اندیشہ ہے کہ امریکہ کے ماہرین زراعت اور ماہرین سماجیات اس طرف کوئی توجہ نہیں کریں گے۔ کیونکہ امریکہ کو دُنیا میں اپنی برتری اور افضلیت کو برقرار رکھنے کے لئے قدم قدم پر تھالی کے بینگنوں کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ چنانچہ آج دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جن کی حیثیت تھالی کے بینگن کے سوائے کچھ بھی نہیں۔ امریکہ کے ماہرین زراعت جب بینگنوں کی جسامت میں کئی گنا اضافہ کرنے کے خواہش مند ہیں تو امریکہ کے ماہرین سماجیات سے یہ ڈر ہو رہا ہے کہ کہیں وہ خود امریکہ کی جسامت میں اتنا اضافہ نہ کر دیں کہ اس میں ساری دنیا ہی سما جائے۔ آخر میں ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ امریکہ ہمارے بینگن کو اس کے حال پر چھوڑ دے، کیونکہ یہی وہ سبزی ہے جو آسانی سے اس ملک کے غریبوں کو میسر آ جاتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ملک میں ٹماٹروں کی قلت ہو جاتی ہے۔ آلو بھی عنقا ہو جاتے ہیں، کبھی پیاز بھی غائب ہو جاتی ہے، لیکن بینگن کی قلت کے بارے میں کبھی نہیں سنا۔ پھر ہمارے حیدرآبادی بگھارے بینگن کے سالن کو دیکھا کہ یہ کبھی باسی ہونے کا نام نہیں لیتا بلکہ جوں جوں اس کی تاریخ پکوان یا تاریخ پیدائش میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اس کے ذائقہ کا عہد شباب بھی تر و تازہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر بینگن ایک پُر امن اور بے ضرر سی سبزی ہے۔
ٹماٹو کو دیکھئے کہ جب یہ خراب ہونے لگتا ہے تو یہ بطور احتجاج سیاسی جلسوں اور مشاعروں میں پھینکنے کے کام آتا ہے جس کی وجہ سے سیاسی لیڈروں اور شاعروں کا حلیہ بگڑ جاتا ہے۔ بینگن میں سوائے بیجوں کے اور کوئی چیز ہوتی ہی نہیں جو دوسروں کا کچھ بگاڑنے کے کام آ سکے۔ بینگن کی اسی بے توقیری اور بے سر و سامانی کا نتیجہ ہے کہ دکنی محاوروں میں اسے سالن بنانے سے کہیں زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، جیسے آپ کیا بینگن کام کرتے ہیں؟ آپ کسی چیز کے بارے میں بینگن بھی نہیں جانتے؟ آپ نے ہماری عزت بینگن میں ملا دی! آپ میرا کام نہیں کرتے تو بینگن ستی… وغیرہ وغیرہ۔ اس سبزی کو آپ جدید ٹکنالوجی اور وہ بھی امریکی ٹکنالوجی سے دُور ہی رکھیں تو اچھا ہے۔
٭٭٭
پتے جو لاپتہ ہو گئے
ہمارے پاس ایک ڈائری ہے جو 1980 سے 2000 ء تک ہمارے زیر استعمال رہی۔ 1980ء میں جب ہم اپنے پہلے بیرونی سفر پر جاپان جانے لگے تو ہم نے اس میں اپنے بعض اہم ہندوستانی احباب کے پتے اس خیال سے لکھ لئے تھے کہ جاپان کے لمبے قیام کے دوران میں کہیں ہمیں اپنے ان احباب سے رابطہ قائم کرنے کی ضرورت نہ پیش آ جائے۔ اسّی اور نوّے کی دہائیوں کا عرصہ ہماری ادبی، سماجی، تخلیقی سرگرمیوں کا نہایت فعّال زمانہ رہا ہے۔ اس عرصہ میں ہم نے کئی بیرونی ممالک کے سفر کئے۔ نئی نئی زمینوں پر قدم رکھنے کے علاوہ نئے نئے آسمانوں میں جھانک آئے۔
جوں جوں ہمارے تعلقات نے وسعت اختیار کی، ہماری اس ڈائری میں نئے پتے جلوہ فگن ہوتے چلے گئے۔ تعلقات کے نئے پھول کھلنے لگے اور رشتوں کی کلیاں چٹکنے لگیں۔ جاپان جاتے وقت ہماری اس ڈائری میں اپنے ہندوستانی احباب اور رشتہ داروں کے صرف بیس پتے لکھے گئے تھے مگر جب 2000 ء میں ہم پھر امریکہ جانے لگے تو دیکھا کہ اس ڈائری میں پتوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے اور اس میں مزید پتوں کے اندراج کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی ہے۔ پھر بھی ہم اس ڈائری کو اپنے ساتھ لے گئے اور ایک نئی ڈائری میں نئے اور ضروری پتوں کو لکھنے لگے۔ پچھلے دس بارہ برسوں سے یہ ڈائری ہمارے پاس ایک عظیم مخطوطے یا ہمارے رشتوں اور تعلقات کے عالیشان مقبرے یا آخری آرام گاہ کے طور پر محفوظ ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہم پھیل کر خود زمانہ بن گئے تھے، مگر اب سمٹ کر ایک ایسا دلِ عاشق بن گئے ہیں۔
جس کی ہر دھڑکن یادوں کا خاموش طوفان بپا کر دیتی ہے، جس کی ہر کسک اسے صبر و تحمل کا پتھر بنا دیتی ہے اور جس کی ہر آواز لق و دق صحرا کی وسعتوں اور تنہائیوں میں تحلیل ہو کر اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ اول فنا آخر فنا۔ کل ہمیں ذرا سا سکون میسر آیا اور فرصت ملی تو ہم نے پتوں کی اس ڈائری کو کھول کر پڑھنا شروع کیا۔ ایک دو صفحوں کے بعد ہی ہمیں اندازہ ہوا کہ اس ڈائری میں شامل کئی پتے اب ہمارے لئے لاپتہ ہو چکے ہیں۔ کئی رشتوں کی سانس اُکھڑ چکی ہے، تعلقات کی نبض رُک گئی ہے، قدرت نے مراسم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے اور کئی بزرگوں اور احباب نے اس عالم فانی سے اپنا رشتہ توڑ کر عالم بالا میں مستقل سکونت اختیار کر لی ہے جہاں کا پتہ خود ہمیں بھی نہیں معلوم ہے (انشاء اللہ جلد ہی معلوم ہو جائے گا)۔ ہم نے سوچا کہ جو لوگ اب اس دنیا کی گلیاں، سڑکیں، محلے اور شہروں کو چھوڑ کر چلے گئے ہوں اور جن کا اب اس دنیا سے کوئی تعلق ہی نہ رہ گیا ہو انہیں یہاں کے پتوں میں کیوں مقید رکھا جائے۔ ہمارا کرب یہیں سے شروع ہوا، اور دل پر یکے بعد دیگرے بجلیاں سی گرنے لگیں۔ اب آپ سے کیا چھپائیں کہ ساٹھ برس پہلے ہم حیدرآباد کے محلہ فرحت نگر کے ایک ایسے مکان میں رہتے تھے جہاں جانے کے لئے کئی تنگ گلیوں سے گزرنا پڑتا تھا، جس کے باعث اجنبیوں کو ہمیں اپنے گھر کا پتہ سمجھانے میں ہمیشہ دشواری پیش آتی تھی۔ اتفاق سے ہمارے گھر کے بالکل عین سامنے واقع ایک مکان کی دیوار پر منجن بنانے والی ایک کمپنی نے اپنے منجن کا اشتہار جلی حروف میں لکھوا رکھا تھا۔ ہم یہ منجن تو نہیں استعمال کرتے تھے لیکن اجنبیوں کو اپنے گھر کا پتہ سمجھانے کے لئے اس اشتہار کو ضرور استعمال کرتے تھے۔ جب تک ہم فرحت نگر میں رہے، ہم نے اس اشتہار کی جی جان سے حفاظت کی۔ اشتہار والا مالک مکان جب بھی اپنے گھر کی سفیدی کراتا تھا تو ہم منت سماجت کر کے اس اشتہار کی حیات مستعار میں اضافہ کروا لیتے تھے۔ منجن بنانے والی کمپنی کب کی مر چکی تھی لیکن ہمارا پتہ برسوں زندہ رہا۔ سُنا ہے کہ جس دن ہم یہ گھر چھوڑ کر دہلی چلے گئے اس کے دوسرے ہی دن ہمارے پتے والے مکان کے مالک نے اپنی دیوار پر سفیدی پھیر کر ہمارے پتے کو نیست و نابود کر دیا۔ ہمیں اس گلی میں رہتے ہوئے ہمیشہ غالب کے اس شعر کی یاد آ جاتی تھی:
اپنی گلی میں دفن نہ کر مجھ کو بعد مرگ
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے
آدمی کا پتہ اگرچہ ایک حقیر سی چیز ہوتا ہے کیونکہ اتنی بڑی کائنات میں ایک آدمی مختصر سے قیام کے لئے ایک مختصر سی جگہ میں جہاں جہاں رہتا ہے اس کی بھلا کیا اہمیت اور وقعت ہے، لیکن آدمی جب تک زندہ رہتا ہے اسے ہر دَم اپنا اتا پتہ عزیز ہوتا ہے اور وہ دوسروں کو اس سے آگاہ کراتا رہتا ہے۔ دنیا بالآخر فانی ہے لیکن اس بے نام و نشان اور گمنام کائنات میں کھو جانے اور معدوم ہو جانے سے قبل انسان اپنی ٹوٹی پھوٹی شناخت کو براعظموں، ملکوں، شہروں، محلوں اور گلیوں میں برقرار رہنے کے سوسو جتن کرتا ہے۔ یہاں تک کہ بالآخر سمٹ سمٹا کر نہ صرف دو گز زمین پر قانع ہو جاتا ہے بلکہ یہاں پہنچ کر بھی مزید قناعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے تو مشت خاک میں اور پھر بعد میں ایک ذرہ بے توقیر و نا تحقیق میں تبدیل ہو کر بے نام و نشان ہو جاتا ہے۔ اسی عمل کا نام زندگی ہے، اور فناء ہو جانا ہی اصل میں بقاء کی علامت ہے۔
بہر حال ہم نے جب اپنی ڈائری میں سے لاپتہ پتوں کو کاٹنا شروع کیا تو لمحہ لمحہ دل پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوتی چلی گئی۔ دل پر جبر کر کے کیسے کیسے نام اور کیسے کیسے پتے کاٹ دیئے اور ذرا سوچئے کہ کس دل سے کاٹے ہوں گے۔ ٹوکیو میں یونیسکو کے ایشیائی ثقافتی مرکز کے ڈائرکٹر جنرل ریوجی ایتو کا پتہ کاٹتے ہوئے ہماری آنکھیں لبریز ہو گئیں۔ یونیسکو کے سمینار میں پندرہ ممالک کے نمائندے شریک تھے لیکن ہمارے لئے ان کے دل میں ایک الگ ہی گوشتہ تھا۔ ہم یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ ہم ہندوستان جیسے عظیم ملک کے نمائندے ہیں، اس لئے ان کے دل میں ہماری قدر و منزلت ہے۔ بے حد مصروف آدمی تھے لیکن ذرا سی فرصت ملتے ہی اپنے دفتر میں بلا لیتے تھے۔ کسی دن ملاقات نہ ہوتی تو کوئی نہ کوئی تحفہ ہمارے ہوٹل پر روانہ کر دیتے تھے۔
یہ عنایت خاص صرف ہمارے لئے مختص تھی۔ ٹوکیو کی آخری شام کو ریوجی ایتو اور بیگم ایتوا ساکسا کے علاقہ میں ہمیں لے کر ایک گیشا گھر میں گئے، جہاں جاپان کی کلاسیکی موسیقی کی دھنوں پر ہمیں حسب توفیق گیشاؤں کے ساتھ رقص بھی کرنا پڑا۔ ہمیں بار بار یہ خیال آتا تھا کہ جس ملک میں ریوجی ایتو جیسے لوگ رہتے ہوں وہاں کے لوگوں نے دوسری جنگ عظیم میں اتنے مظالم کیسے ڈھائے ہوں گے۔ کاش کہ دنیا آسانی سے سمجھ میں آ سکتی۔ کیسے بتائیں کہ کیسے کیسے محترم، عزیز اور دلنواز ہستیوں کے پتے ہم نے اپنی ڈائری میں سے کاٹ دیئے۔ ایک ایک پتہ کٹتا تھا تو لگتا تھا کہ جذبوں اور احساسات کے ایک عالیشان محل کو ڈھایا جا رہا ہے۔ پروفیسر سوزوکی تاکیشی، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، راجندر سنگھ بیدی، سردار جعفری، اخترالایمان، مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی، عزیز قیسی، باقر مہدی، شکیلہ بانو بھوپالی، امرتا پریتم، وقار لطیف، شیام لال ادیب، فکر تونسوی، صادقین، مشفق خواجہ، احمد ندیم قاسمی، پروفیسر سخاچوف، شان الحق حقی، محمد طفیل، سراج منیر، منیر نیازی، قتیل شفائی، آل احمد سرور، پروفیسر خورشید الاسلام، خواجہ عبد الغفور، ساغر نظامی، ملک راج آنند، سعید شہیدی، دھرم ویر بھارتی، حکیم عبد الحمید۔ سینکڑوں ناموں میں سے کن کن کے نام گنائیں۔
ایک ہزار پتوں میں سے جب ہم نے گزرے ہووؤں کے پتے کاٹ دیئے تو ہم نے غم جہاں کا حساب کیا۔ پتہ چلا کہ جملہ 790 ( سات سو نوے ) پتے کٹ چکے ہیں۔ حساب کتاب اور حساب فہمی کے ہم قائل نہیں ہیں۔ اس لئے ریاضی میں کبھی پچیس فیصد سے زیادہ نشانات حاصل نہیں کر سکے۔ مگر جب احساس ہوا کہ 1980ء سے یہاں تک آتے آتے ہمارے اسّی فیصد تعلقات رحلت فرما چکے ہیں اور ہماری سماجی زندگی سمٹ سمٹا کر صرف بیس فیصد ہی باقی رہ گئی ہے تو ہمیں اپنی شخصی زندگی اچانک بہت چھوٹی نظر آئی بلکہ اتنی چھوٹی نظر آئی کہ ہم نے اپنے آپ کو مشت خاک سے گزر کر ایک ذرہ بے توقیر میں تبدیل ہوتے ہوئے محسوس کیا۔ اپنے کرم فرماؤں اور یارانِ رفتہ کے بچھڑ جانے اور ان سے اس دنیا میں پھر نہ مل پانے کے احساس نے شدت اختیار کی تو ہمیں سندھ کے مشہور صوفی بزرگ شاہ عبد اللطیف بھٹائی کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ شاہ عبد اللطیف بھٹائی جس شہر میں رہتے تھے وہاں ڈاکوؤں نے ایک بار زبردست ڈاکہ ڈالا۔ ڈاکہ کی ایسی سنگین واردات پہلے کبھی پیش نہ آئی تھی۔ کوتوال شہر نے اعلان کیا کہ جو کوئی بھی ڈاکوؤں کا اتا پتہ بتائے گا یا ان کا سراغ دے گا اسے بھاری رقم دی جائے گی۔ انعام کی رقم اتنی بھاری تھی کہ سارے تندرست، صحت مند اور توانا لوگ ڈاکوؤں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ دو دن بعد شاہ عبد اللطیف بھٹائی بھی اپنے تکیہ سے غائب ہو گئے۔
دیگر نوجوان تو ڈاکوؤں کی تلاش کے لئے پہلے ہی سے نکلے ہوئے تھے۔ اب تو شاہ صاحب کے معتقدین اور مرید بھی ان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ چپہ چپہ چھان مارا لیکن کہیں بھی شاہ عبد اللطیف بھٹائی نہ ملے۔ ایک دن شہر میں کسی معزز ہستی کی موت واقع ہو گئی اور لوگ اسے دفنانے کے لئے جیسے ہی قبرستان پہنچے تو دیکھا کہ شاہ عبد اللطیف بھٹائی قبرستان کے ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے گیان دھیان میں مصروف ہیں۔ ان کے معتقدین نے حیرت سے پوچھا ’’ شاہ صاحب! آپ یہاں قبرستان میں کیا کر رہے ہیں؟ ہم تو آپ کی تلاش میں ہر روز شہر کے گلی کوچوں اور جنگلوں کی خاک چھان رہے ہیں۔‘‘ اس پر شاہ صاحب نے کہا ’’ وہ جو کوتوال صاحب نے ڈاکوؤں کو تلاش کرنے کے لئے بھاری انعام کا اعلان کیا ہے اسی کو حاصل کرنے کی آس میں یہاں آیا ہوں‘‘۔ ارادت مندوں نے دست بستہ عرض کی ’’ حضرت قبلہ! ڈاکوؤں کو پکڑنے کے لئے آپ بستیوں اور جنگلوں میں جائیں۔ وہ آپ کو یہاں قبرستان میں کیونکر ملیں گے؟‘‘ شاہ صاحب نے بڑے اعتماد کے ساتھ فرمایا ’’ وہ چاہے کہیں بھی چلے جائیں، انہیں بالآخر آنا تو یہیں ہے‘‘۔ ہمیں اچانک احساس ہونے لگا ہے کہ اب ہمیں بھی اپنے بچھڑے ہوئے احباب کو پھر سے پانے کے لئے شاید تصوف کی اس منزل سے گزرنا پڑ جائے گا۔ رہے نام اللہ کا۔
٭٭٭
کفایت شعاری کی فضول خرچی
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ کفایت شعاری کو ہم نے اپنی زندگی کا سب سے اہم شعار بنا رکھا ہے۔ تبھی تو اتنی لمبی عمر گزار کر یہاں تک پہنچے ہیں، ورنہ کب کے خرچ ہو چکے ہوتے۔ عمر کی نقدی جتنی بھی ملی اور جب جب ملی، اس کے پل پل کو نہایت کفایت شعاری کے ساتھ خرچ کرتے ہوئے اس منزل تک پہنچے ہیں۔ حد ہو گئی کہ ہم نے اپنی بھرپور جوانی بھی بڑی کفایت شعاری کے ساتھ گزاری ہے۔ جوانی کے دنوں میں جن حسیناؤں کی اداؤں پر ہم مر مٹتے تھے، انھیں کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے تھے کہ ہم اُن پر جی جان سے فدا ہیں۔ یہ نہ سمجھئے کہ ہم بزدل واقع ہوئے تھے یا آتش نمرود میں کود پڑنے کا ہم میں حوصلہ نہیں تھا۔
بے شک، ہم اپنے زمانے کے نڈر اور جری نوجوان تھے بلکہ ہمارا شمار سورما بھوپالی قسم کے نوجوانوں میں ہوتا تھا۔ اگر ہم نے اپنے والہانہ دِلی جذبات سے اُن حسیناؤں کو واقف نہیں کرایا تو اسے ہماری بزدلی پر محمول نہ کیجئے بلکہ اسے ہماری روایتی کفایت شعارانہ خصلت کا کمال گردانیے۔ ہمیں اندازہ تھا کہ قدرت نے یہ جو ہمیں عشق کی دولت سے مالا مال کیا ہے، اسے سنبھال کر رکھنا ہماری کفایت شعاری کا اوّلین فریضہ ہے۔ کیونکہ یہ وہ دولت ہے جسے ہر کس و ناکس پر ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ اس زمانہ میں علامہ اقبالؔ نے اپنی شاعری کے ذریعہ ہمیں بار بار ورغلانے کی حتی المقدور کوشش بھی کی۔
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
ہم جب جوان تھے تو اُن دنوں مردم شماری کی اتنی اہمیت نہیں ہوا کرتی تھی، جتنی کہ اختر شماری کی تھی۔ بیشتر نوجوان اپنے عشق کی آڑ میں چوری چھپے اختر شماری کی سنچریاں بناتے چلے جاتے تھے۔ بے شک، ہم نے بھی عشق کے زیر عنوان بشرطِ فرصت تارے ضرور گنے ہیں، لیکن ان کی تعداد کبھی چالیس پچاس سے آگے نہیں بڑھی۔ اس کی بھی دو وجہیں ہیں۔ اوّل تو یہ کہ ہم نیند کے بہت کچے ہیں اور دوم یہ کہ ہماری ریاضی اُس وقت بھی اتنی ہی کمزور تھی، جتنی کہ آج ہے۔ تاروں کو گنیں بھی تو کہاں تک گنیں۔ عشق کے ہاتھوں مجبور ہو کر ٹھنڈی آہیں بھی بھریں تو ان سرد آہوں کی تعداد کو چار پانچ آہوں سے زیادہ بڑھنے نہیں دیا۔ روایتی اور مسلمہ عشّاق کے بارے میں سنا ہے کہ بسا اوقات وارفتگی عشق میں اپنے گریبان بھی چاک کر لیتے ہیں۔ ماشاء اللہ، اس میدان میں ہم نے اس حوالے سے کبھی اپنا گریباں چاک نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارا جذبہ عشق نا پختہ تھا بلکہ اصل قصہ یہ ہے کہ ہمارا جذبہ کفایت شعاری ہمارے جذبہ عشق سے کہیں زیادہ پختہ ہوا کرتا تھا جو ہمیشہ ہمارا دامن تھام لیتا تھا کہ میاں! گریباں چاک کر لو گے تو نئی قمیض کے لئے پیسے کہاں سے لاؤ گے؟ بہرحال، ہم نے اپنی جوانی کچھ اس احتیاط سے گزاری کہ ہماری روایتی کفایت شعاری پر کبھی آنچ نہ آنے پائی۔ ہم نے عشق صادق پر صدق دِل سے عمل تو کیا، لیکن اس معاملہ میں کبھی کفایت شعاری کو کنجوسی یا بخالت کی حدوں میں داخل ہونے کا موقع عطا نہیں کیا۔ کفایت شعاری اور بخالت کے درمیان جو نازک سا فرق ہوتا ہے، اسے ہمیشہ ملحوظ رکھا۔ علامہ اقبالؔ نے ہی کہا تھا۔
لازم ہے دِل کے پاس رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
ہمیں اس وقت اپنے ایک بزرگ دوست یاد آ گئے جو عشق کی پاکیزگی کے ایسے زبردست قائل تھے کہ زندگی بھر مجرد ہی رہے اور عشق کی دولت کو ہمیشہ سنبھال کر کچھ اس طرح رکھا کہ کبھی ان کے جذبۂ پاکیزگی عشق کے وضو کے ٹوٹنے کی نوبت ہی نہ آئی۔ دوسری طرف ہمارے ایک شاعر دوست ہیں۔ نوجوانی میں بڑے وجیہہ و شکیل ہوا کرتے تھے۔ اپنی رومانی نظموں اور غزلوں کے باعث خواتین میں بہت مقبول تھے۔ چنانچہ ہمیشہ نازنینوں اور خوش جمالوں میں گھرے رہتے تھے۔ ادبی حلقوں میں ان کے معاشقوں کی بھی بڑی دھوم تھی۔ ایک طویل عرصہ بعد ان سے ملاقات ہوئی تو احساس ہوا کہ عشق کے بے جا اسراف اور شاہ خرچی کے باعث ان کا حلیہ کافی تبدیل ہو چکا ہے۔
دِل فسردہ تو ہوا دیکھ کر اس کو لیکن
عمر بھر کون حسیں کون جواں رہتا ہے
چونکہ ہمارے پرانے دوست رہے ہیں، اس لئے ہم نے ضروری حال چال کے بعد ان کے معاشقوں اور رومانس وغیرہ کے بارے میں پوچھا تو روہانسی صورت بنا کر بولے ’’میاں! کیسا رومانس اور کہاں کا رومانس، اب تو یہ حال ہے کہ کبھی غلطی سے کسی غزل میں مجھ سے کوئی اچھا سا رومانی شعر سرزد ہو جاتا ہے تو چار دن بستر سے نہیں اُٹھ پاتا‘‘۔
معاف کیجئے، ہم نے یہ کالم خالص معاشی پس منظر میں کفایت شعاری کے فائدوں اور بے جا اسراف کے نقصانات کو اُجاگر کرنے کی غرض سے لکھنا شروع کیا تھا، لیکن غلطی سے ہم حُسن اور عشق کی کفایت شعاریوں اور فضول خرچیوں وغیرہ کی طرف نکل گئے۔ چاہے کچھ بھی ہو، زندگی کے ہر شعبہ میں کفایت شعاری کی اہمیت اور افادیت مسلمہ ہے بلکہ آج ہم جو کچھ بھی ہیں، وہ اپنی غربت اور کفایت شعاری کی وجہ سے ہیں۔ غربت اور کفایت شعاری کا تعلق بھی چولی اور دامن کا سا ہے۔ چونکہ غریب آدمی اپنی غربت کی وجہ سے مرغن غذائیں نہیں کھا سکتا، اس لئے کفایت شعاری کے اُصولوں پر عمل کرتے ہوئے گھاس پوس اور سبزیاں کھاتا ہے اور مرغن غذاؤں سے بحالت مجبوری اور از راہِ کفایت شعاری دُور رہتا ہے جس کی وجہ سے اس کی صحت بہتر ہو جاتی ہے اور وہ دیر تک سماج کے سینہ پر مونگ دلنے اور لمبی عمر پانے کا اہل بن جاتا ہے۔
دوسری طرف متمول اصحاب دولت کی فراوانی کے باعث بے جا اسراف اور ظاہری نمود و نمائش کے مرتکب ہو جاتے ہیں اور فائیو اسٹار ہوٹلوں کی مرغن غذائیں کھا کر خود اپنے عرصۂ حیات کو اپنے اُوپر تنگ کر لیتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا دیوالیہ تک نکل جاتا ہے۔ اصلی کفایت شعاری کا ایک بنیادی اُصول یہ ہے کہ آدمی اپنی چادر کو دیکھ کر اپنے پاوؤں کو پھیلانے کی کوشش کرے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ چادر چھوٹی ہو یا پاؤں چادر سے لمبے ہونے لگیں تو آدمی از راہِ کفایت شعاری اپنے پاوؤں کو چادر کے مطابق بنانے کی غرض سے اپنے پاوؤں کو کاٹنا شروع کر دے۔ خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کا محاورہ اسی لئے تو وجود میں آیا ہے۔ آدمی یا تو اپنے وسائل کی چادر کو بڑا بنائے یا پھر اپنے پاوؤں کو سمیٹ کر گزارا کر لے۔
کفایت شعاری اگر فیشن بن جائے تو وہ کفایت شعاری نہیں رہتی بلکہ بلائے جان بن جاتی ہے۔ پچھلے چند دنوں سے حکومت نے کفایت شعاری پر عمل کرنے کے ایسے ہی فیشن ایبل طریقے اپنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ بڑے بڑے رہنماؤں، حکمرانوں اور عہدیداروں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ہوائی جہازوں کی بجائے ٹرینوں میں سفر کریں اور اگر بحالت مجبوری ہوائی جہاز میں بیٹھنے کی نوبت آ جائے تو وہ ایگزیکٹیو کلاس میں نہ بیٹھیں بلکہ اِکانومی کلاس میں عام مسافر کی طرح بیٹھیں۔ وہ تو اچھا ہے کہ ہوائی جہازوں میں بسوں کی طرح ڈنڈوں سے لٹک کر سفر کرنے کی سہولت موجود نہیں ہوتی، ورنہ حکمران جوش کفایت شعاری میں ڈنڈوں سے بھی لٹک کر چلے جاتے۔ ان کے اس طرح سفر کرنے کا جواز یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ جہاں ایک طرف کرایوں کے اخراجات میں کمی واقع ہو گی، وہیں حکمرانوں کو عام آدمی سے تبادلۂ خیال کرنے اور ان کے مسائل کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
آپ تو جانتے ہیں کہ ہمارے پرانے حکمران کسی سکیوریٹی کے محتاج نہیں ہوا کرتے تھے، کیونکہ ان کی عوامی مقبولیت ہی ان کی حفاظت کی ضامن ہوا کرتی تھی۔ آج کے حکمرانوں کا یہ عالم ہے کہ ایک حکمران کی حفاظت پر بیسیوں سکیوریٹی گارڈس متعین کئے جاتے ہیں۔ پرانے حکمران جب چلتے تھے تو ان کے ساتھ نہ صرف عوام چلتے تھے بلکہ ساری قوم بھی چلتی تھی۔ اب ہمارے رہنما کہیں جاتے ہیں تو ان کے ساتھ ان کے بیسیوں محافظ چلتے ہیں اور جگہ جگہ ان کی حفاظت کی خاطر سینکڑوں حفاظتی کارکن اپنی جانیں اپنی ہتھیلیوں میں سجائے دم بخود کھڑے رہتے ہیں۔ کیسی کفایت شعاری اور کہاں کی کفایت شعاری؟ ایسی کفایت شعاری جو فیشن کے طور پر اپنائی جائے، اس میں فضول خرچی اور بے جا اسراف کی زیادہ گنجائش نکل آتی ہے بلکہ اس عمل میں ہمیشہ مونچھیں داڑھی سے بڑی ہو جاتی ہیں۔ اسی لئے تو ہم کفایت شعاری کی فضول خرچی کے قائل نہیں ہیں۔
رہی بات حکمرانوں کے ٹرین میں سفر کرنے اور اس بہانے عام آدمی کے مسائل کو سمجھنے کی تو اس سلسلہ میں ہماری عرض یہ ہے کہ جب تک ایک حکمران خود عام آدمی نہیں بن جاتا، تب تک وہ ٹرین کے سفر کی مدد سے عام آدمی کے مسائل کو سمجھ نہیں سکتا۔ جو حکمران ٹرین میں سفر کرتے ہوئے بھی حکمران ہی برقرار رہے تو اسے عام آدمی اور اس کے خاص مسائل سے کیا تعلق؟ چالیس برس پہلے ہم نے ایک مضمون ’’ریل منتری مسافر بن گئے‘‘ لکھا تھا جس کی بنیاد یہ فینٹیسی (Fantasy) تھی کہ ایک دن ریل منتری کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ کیوں نہ وہ بھیس بدل کر ایک عام مسافر کی طرح کسی ٹرین کے تھرڈ کلاس کمپارٹمنٹ میں سفر کریں تاکہ مسافروں کو پیش آنے والی مشکلات کا خود سے جائزہ لے سکیں۔ ہم نے یہ مضمون ممبئی کے ایک جلسہ میں اُس وقت کے ریل منتری کی موجودگی میں سنایا تھا اور ابھی دس بارہ برس پہلے وزیر ریلوے لالو پرساد یادو کی موجودگی میں دہلی کے ریل بھون میں منعقدہ محفل میں بھی سنایا تھا۔
حد ہو گئی کہ ہم تو اپنے حکمرانوں کو بھی بڑی کفایت شعاری کے ساتھ برتنے اور انھیں بچا بچا کر رکھنے کے سو سو جتن کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمران ایک بار اقتدار کی کرسی پر یا پارٹی کے کسی عہدے پر فائز ہو جاتے ہیں تو وہاں سے یا تو خود حکمران نہیں ہٹتے یا ہم لوگ ہی انھیں از راہِ کفایت شعاری وہاں سے ہٹانے کی کوشش نہیں کرتے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہمارے بعض حکمران ماں کے بطن سے ہی اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر پیدا ہوئے تھے۔ کفایت شعاری بہت اچھی چیز ہے، بشرطیکہ اس پر سوجھ بوجھ کے ساتھ عمل کیا جائے۔
٭٭٭
مشاعروں کو کیا ہو گیا ہے؟
اُردو ادب اور اُردو تہذیب کے ایک بہی خواہ قاری ایم ایس خان کا ایک درد بھرا مراسلہ پچھلے دِنوں ’سیاست‘ میں ہماری نظر سے گزرا ہے جس میں مراسلہ نگار نے کہا ہے کہ وہ خاصے طویل عرصے سے حیدرآباد کی ادبی محفلوں اور مشاعروں وغیرہ میں بحیثیت سامع شرکت کرتے آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سامعین ان محفلوں میں اپنی ضروری مصروفیات اور مشاغل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض اپنے ادبی ذوق کی تسکین اور اپنی پیاری زبان اُردو کی ترقی اور بقاء کی خاطر ٹکٹ خرید کر دور دراز سے ان مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں۔ لیکن بعض شعراء سستی شہرت کی خاطر مختلف النوع سامعین کی موجودگی کا لحاظ کیے بغیر انتہائی واہیات، ناقابلِ سماعت، گھٹیا بلکہ ’ بُلو‘ اشعار سناتے ہیں۔ یہ بات اُردو تہذیب کے سراسر خلاف ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ طنز و مزاح کے شعرا تو اس معاملے میں اور بھی بے باک اور ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں اور طنز و مزاح کی آڑ میں ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو بیہودہ اور فحش ہوتی ہیں۔
مراسلہ نگار کے اس درد میں ہم بھی برابر کے شریک ہیں اور ہمارے پُرانے قارئین جانتے ہیں کہ اس درد کا اظہار ہم نے جا و بے جا اتنی مرتبہ کیا ہے اور اتنی شدت سے کیا ہے کہ اب تو ہمیں یہ ’دَردِ لادَوا ‘ نظر آنے لگا ہے۔ جب ہمیں یہ احساس ہونے لگا کہ اُردو معاشرہ اس درد کو ہنسی خوشی برداشت کرنے لگا ہے اور کسی کو اس دَرد کی پروا نہیں ہے تو ہم نے بھی خاموشی اختیار کر لی۔ مشاعرہ ہماری تہذیب کی ایک روشن علامت رہا ہے اور ہمارا شمار ان چند خوش نصیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے ایسے مشاعروں میں شرکت کی ہے جو صحیح معنوں میں مشاعرے کہلائے جاتے تھے۔ ہم نے جوشؔ ملیح آبادی، امجدؔ حیدرآبادی، جگرؔ مراد آبادی، فراقؔ گورکھپوری، حفیظؔ جالندھری، فیض احمد فیضؔ، مخدوم محی الدین، ساحرؔ لدھیانوی، مجروحؔ سلطانپوری، جاں نثار اخترؔ، سردارؔ جعفری اور بیسیوں نامی گرامی شعرا کو نہ صرف دیکھا ہے بلکہ انھیں مشاعروں میں بار بار سنا بھی ہے۔ بعض مشاہیر شعراء سے تو ہماری راہ ورسم بھی رہی ہے۔ اُردو مشاعروں کو سننے کا ہمارے پاس کم و بیش پچپن سالہ تجربہ موجود ہے۔ ہمیں سخن فہمی کا دعویٰ تو کبھی نہیں رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ نوجوانی میں ہم مشاعروں میں ہوٹنگ، فقرے بازی اور جملے بازی وغیرہ کی غرض سے جایا کرتے تھے۔ یہ ضرور ہے کہ اس فقرے بازی میں بھی ہم نے آدابِ محفل اور تہذیب وغیرہ کا دامن کبھی اپنے ہاتھوں سے چھوٹنے نہ دیا۔ ان مشاعروں میں بسا اوقات ایسے شعر بھی سُننے کو ملتے تھے جنھیں ہم نہ صرف محفلوں میں لوگوں کو سُنایا کرتے تھے بلکہ نہاتے وقت غسل خانے میں بھی پابندی سے گنگنایا کرتے تھے۔ پچھلے مشاعروں کی خوبی یہ ہوتی تھی کہ ان میں شاعر اپنی داد آپ وصول کر لیتا تھا۔ شاعر کو اپنے کلام کی داد وصول کرنے کے لیے نت نئے ڈرامے نہیں کرنے پڑتے تھے۔ ہم یہ کہیں تو بے جا نہ ہو گا کہ ان دنوں بیشتر شعرا اپنے اپنے شعروں پر اس طرح داد وصول کرتے ہیں جیسے بھیک مانگ رہے ہوں۔ شعر سُنانے سے پہلے کہا جاتا ہے کہ اگر آپ نے اس شعر پر داد نہ دی تو میرا دل ٹوٹ جائے گا۔ اللہ کے نام پر اس شعر کو داد سے ضرور نوازیے۔ اللہ آپ کا بھلا کرے گا۔ آپ کے بال بچوں کو اچھا رکھے گا اور دنیا کی ساری نعمتوں سے نوازے گا۔ پچھلے مشاعروں میں داد سامعین کے دلوں سے نکلتی تھی اب چونّی اور اَٹھنّی کی صورت میں جیب سے نکلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس زمانے کے شاعروں کی ایک اَنا ہوتی تھی بلکہ داد دینے والے بھی نہایت خوددار ہوا کرتے تھے۔ ہم نے پچھلے سامعین کو کسی گھٹیا اور خلاف تہذیب شعر پر داد دیتے ہوئے نہیں دیکھا۔
اصل قصہ یہ ہے کہ اُردو کی زوال آمادگی کے باعث مشاعروں کی روایت بھی ملیا میٹ ہو گئی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے فروغ کی وجہ سے مشاعرہ اب صرف تفریح کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ مراسلہ نگار نے لکھا ہے کہ بیشتر شعرا سستی شہرت کی خاطر فحش اور بیہودہ شعر کہنے لگے ہیں۔ آپ تو جانتے ہیں کہ زمانہ مہنگائی کا ہے جس میں انسان کے سوائے ہمیں تو کوئی چیز سستی نظر نہیں آتی۔ جو چیز سستی مل جائے اسے ہر کوئی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ شہرت کا بھی یہی معاملہ ہے۔ پچھلے زمانے کے شعرا برسوں مشقِ سخن کرتے تھے تب کہیں جا کر ان پر شہرت کے دروازے وا ہوا کرتے تھے۔ اب ذو معنی الفاظ کے استعمال، اُچھل کود اور بے جا تک بندی کے ذریعے اس چیز کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جسے شہرت کہتے ہیں۔ آپ یقین کریں کہ ہمارے ہاں مشاعروں کے بعض مقبول شعرا ایسے بھی ہیں جن کے پاس پانچ دس غزلوں اور چھ سات نظموں کے سوائے کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک بار ہم نے ایک مقبول شاعر سے خواہش کی تھی کہ وہ اپنا مجموعہ کلام شائع کرائیں۔ پتہ چلا کہ ان کے کلام کا مجموعہ اتنا قلیل ہے کہ کوئی مجموعہ کلام شائع نہیں کیا جا سکتا۔ اگر یہ شائع بھی کیا جائے تو اس کی ضخامت بیس پچیس صفحات سے آگے نہیں بڑھ پائے گی۔ انھیں یہ ڈر بھی رہتا ہے کہ اگر ان کا مجموعہ کلام شائع ہو جائے تو مشاعروں میں اپنا غیر مطبوعہ کلام سنانہیں سکیں گے۔ حالانکہ پچھلے پچیس برسوں سے وہ مشاعروں میں اسی کلام کو بار بار سنا کر اپنے حالات اور اپنی حالت کو بہتر بنا چکے ہیں۔ ہمیں خود ان کا کلام زبانی یاد ہے، یہ اور بات ہے
کہ اب تک وہ اسے غیر مطبوعہ ہی سمجھتے آئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کلام صرف مشاعروں میں سنانے کی غرض سے لکھا گیا ہے۔ اسی لیے ہم نے بہت پہلے شاعروں کی دو قِسمیں مقرر کی تھیں۔ ایک قسم مشاعروں کے شاعروں کی اور دوسری قسم شاعری کے شاعروں کی۔ شاعری کے شاعر، جو صحیح معنوں میں شاعر کہلائے جانے کے مستحق ہیں، وہ مشاعروں میں جانے سے گُریز کرتے ہیں اس لیے انھیں کوئی نہیں پوچھتا۔ ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ مشاعروں میں کلام سنانے کے کرتبوں سے واقف نہیں ہیں۔ مشاعرہ اب ایک کمرشیل چیز بن گیا ہے۔ پھر جب سے خاتون شعرا سج دھج کر مشاعروں میں شرکت کرنے لگی ہیں تب سے مشاعرے اور مُجرے کا فرق بھی ختم ہو گیا ہے۔ اسی لیے ہم نے آج کے مشاعروں کے لیے ’ مُشجرے‘ کا نام تجویز کر رکھا ہے، جس میں مشاعرے اور مُجرے دونوں کی صفات پائی جاتی ہیں۔ ہمارے امریکی دوست پروفیسر ستیہ پال آنند نے امریکہ میں منعقدہ ایک ’ مُشجرے‘ کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وہاں ایک مشاعرے میں ایک حسین و جمیل شاعرہ نے ناز و ادا کے ساتھ جب اپنا کلام سنانا شروع کیا تو سامعین میں بیٹھے ہوئے ایک ادب دوست نے از راہِ ادب نوازی اس کے پہلے ہی شعر پر شاعرہ کو دس امریکی ڈالر کا کرنسی نوٹ دکھایا۔ اس پر شاعرہ ڈائس سے نیچے تشریف لے آئیں اور بصد احترام اس کرنسی نوٹ کو حاصل کرنے کے بعد اس شعر کو دوبارہ سنانا شروع کر دیا۔ کیا اس کے بعد بھی آپ کو شک ہے کہ مشاعرہ، مُجرے میں تبدیل نہیں ہو گیا ہے، بلکہ ہمارا تو خیال ہے کہ مُجرے والیاں اتنی بے باک اور شوخ نہیں ہوتیں جتنی کہ آج کی بعض رائج الوقت شاعرات ہوتی ہیں۔ مشاعروں کے مقبول ناظم ملک زادہ منظور احمد نے ہمیں فراقؔ گورکھپوری کے حوالے سے ایک واقعہ سنایا تھا کہ ایک صاحب ایک خوش جمال دوشیزہ کو لے کر فراقؔ گورکھپوری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ملتجی ہوئے کہ وہ اس دوشیزہ کا کلام سُن لیں تاکہ اس دو شیزہ کو شاعرہ بنانے کے امکان پر غور کیا جا سکے۔ فراقؔ گورکھپوری نے بڑی توجہ کے ساتھ شاعرہ کا کلام سنا۔ پھر بڑی سنجیدگی سے کہا: ’’ماشا للہ اس دوشیزہ نے بہت اچھی شکل پائی ہے، ترنم بھی بہت اچھا ہے، جس کسی نے اسے غزل لکھ کر دی ہے وہ بھی بہت اچھی ہے۔ اگر یہ اپنے اخلاق کو تھوڑا سا خراب کر لے تو ہندوستان بھر کے مشاعروں میں اس کی مقبولیت کے ڈنکے بجنے لگیں گے۔‘‘ فراقؔ گورکھپوری نے جب یہ بات کہی تھی تو اُس وقت مشاعرے برِصغیر ہند و پاک میں ہی ہوا کرتے تھے۔ اب تو خلیجی ممالک کے علاوہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک میں بھی آئے دن مشاعرے ہونے لگے ہیں اور اس طرح کی شاعرات کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہونے لگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے آٹھ دس برسوں سے ہم نے مشاعروں میں جانا کم کر دیا ہے۔ کبھی کبھار غلطی سے کسی مشاعرے میں چلے جاتے ہیں تو ایک عرصے تک کوفت میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم بھی کہاں چلے گئے تھے۔ ان دنوں بعض سیاسی اور سماجی موضوعات کو لے کر جس طرح کی عامیانہ اور سوقیانہ شاعری کی جانے لگی ہے اسے سُن کر اُبکائیاں سی آنے لگتی ہیں۔ ہندی کے کوی سَمیلنوں میں تو اس طرح کی شاعری اب معمول بن گئی ہے۔ اُردو مشاعروں میں بھی اب اس طرح کی سوقیانہ شاعری کا چلن عام ہونے لگا ہے۔ مشاعروں کے گرتے ہوئے معیار کے بارے میں ہم نے اتنا کچھ لکھا ہے کہ اب مزید کچھ لکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ ہماری بس اتنی سی گزارش ہے کہ اُردو زبان و ادب کی روایتی شائستگی اور اُردو کلچر کے اقدار کا پاس و لحاظ رکھا جائے۔ شاعری، محبت اور رواداری کا درس دیتی ہے۔ اُردو شاعری نے کبھی نفرت، کدورت، تنگ نظری وار فرقہ پرستی کو عام کرنے کی روش نہیں اپنائی۔ جگرؔ مراد آبادی بہت پہلے کہہ چکے ہیں:
ان کا جو فرض ہے وہ اہلِ سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
٭٭٭
اشیائے ضروریہ اور تشویشِ غیر ضروریہ
پچھلے ہفتہ ہمیں اپنے کالم کے لئے کوئی مناسب موضوع نہ ملا تو ہم نے یوں ہی منہ کا مزہ بدلنے کی خاطر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف حسب استطاعت کچھ لکھ دیا۔ بعد میں یاد آیا کہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کا مسئلہ ہمارے لئے کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا کہ یہ مسئلہ تو ہمارا جنم جنم کا ساتھی ہے۔ بہت عرصہ پہلے ہم نے کسی مضمون میں لکھا تھا کہ ہم Daily wage basis پر زندہ رہتے ہیں۔ یعنی ہم یومیہ بنیاد پر کمائی کرتے ہیں اور اس کمائی کی مدد سے ہر روز زندہ رہنے کے لئے چیزیں وغیرہ خرید کر اسے خرچ کر دیتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا تھا کہ ادھر دوپہر کا کھانا کھا کر اچھی طرح ڈکار بھی نہیں لے پاتے تھے کہ رات کے کھانے کی فکر دامن گیر ہو جاتی تھی اور ہم پھر سے زندگی کی دوڑ میں شامل ہو جاتے تھے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں محنت کرنے کی عادت پڑ گئی اور محنت کے تجربہ کی وجہ سے ہماری اجرت میں کم کم ہی سہی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ قیمتوں میں بھاری اضافہ کے باوجود آج بفضل تعالیٰ ہم اس حد تک مطمئن زندگی گزارنے کے قابل ہو گئے ہیں کہ روز کی روٹی کی فکر روز نہیں کرتے بلکہ ایک ہفتہ خوش اسلوبی کے ساتھ گزر جائے تو اس کے بعد کے ہفتہ کی فکر لاحق ہونے لگتی ہے۔ گویا اب ہم Daily wage basis پر نہیں بلکہ Weekly wage basis پر زندہ رہنے لگے ہیں اور یہ ہفتہ واری سکون اور اطمینان بھی کسے میسر آتا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ آج کی پاگل دنیا میں آدمی سامان سو برس کے جمع کرنا چاہتا ہے اور اسے پل کی خبر نہیں ہوتی۔ اشیاء اور ان کی قیمتوں کا حال جتنا ہم جانتے ہیں اتنا شاید ہی کوئی اور جان سکے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اس صدی میں گزارا ہے جس میں اس دھرتی نے دو عظیم جنگوں کی اذیت اور کرب کو جھیلا بلکہ جب ہمارے شعور نے آنکھیں کھولیں تو دوسری جنگ عظیم اپنے عروج پر تھی۔ پھر ملک کی تقسیم کے نتیجہ میں برپا ہونے والے فسادات کے گھناؤنے پن کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اسے برداشت بھی کیا۔ آج کی مصروف زندگی میں کشاکش روزگار نے ہمیں مہلت ہی نہ دی کہ کبھی پیچھے مڑ کر کر دیکھ لیتے کہ ہم نے اپنا سفر کہاں سے شروع کیا تھا۔ ہم نے اپنی ابتدائی زندگی چھوٹے قصبوں اور شہروں میں گذاری۔ چھ سال کی عمر میں زندگی میں پہلی بار بجلی کے بلب کو دیکھا۔ کم و بیش اسی عرصہ میں عجیب الخلقت گراموفون اور قد آدم ریڈیو سیٹ کو دیکھا۔ گراموفون پر پہلا جو گیت سنا وہ تھا ’’تری گٹھری میں لاگا چور مسافر جاگ ذرا‘‘۔ گراموفون ریکارڈ میں ایک جگہ کچھ خرابی پیدا ہو گئی تھی جس کی وجہ سے سوئی ہمیشہ ’’لاگا چور‘‘ پر اٹک جاتی تھی اور جب تک سوئی کو اس جگہ سے ہٹایا نہیں جاتا تھا تب تک گانے والا ’’لاگا چور، لاگا چور‘‘ کی گردان کرتا رہ جاتا تھا۔ آج ہم سوچتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ گراموفون ریکارڈ میں یہ خرابی علامتی اعتبار سے نہایت واجبی اور جائز تھی کیونکہ ساری بیسویں صدی میں ہم جیسے مسافر کی گٹھری ہمیشہ چوروں کی دسترس میں رہی۔
چاہے یہ چور تاجر بن کر آئے ہوں، افسر یا سیاستداں بن کر آئے ہوں۔ پھر یہ گراموفون اور قد آدم ریڈیو بھی کہیں غائب ہو گئے اور ان کی جگہ چھوٹے چھوٹے ٹرانزسٹروں اور ریکارڈ پلیئرس نے لے لی۔ دوسری جنگ عظیم کی خبریں ہم اسی قد آدم ریڈیو پر سنا کرتے تھے بلکہ ہیروشیما پر پھینکے گئے دنیا کے پہلے ایٹم بم کی خبر بھی ہم نے اسی کی مدد سے سنی۔ ساٹھ کی دہائی میں ہم پہلی بار لفٹ میں سوار ہوئے اور اپنی خودی کو خود بخود بلند ہوتے دیکھا۔ اسی دہائی میں نہ صرف ٹیلی ویژن کو پہلی بار محدود پیمانہ پر دیکھا بلکہ انسان کو چاند پر کمندیں پھینکتے ہوئے بھی دیکھا۔ غرض چھٹی دہائی کے بعد کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل فون اور خلائی سیاروں وغیرہ کی مدد سے ایک طرف تو دنیا کی رفتار تیز ہو گئی اور دوسری طرف ہماری رفتار ماند پڑ گئی بلکہ ہم تو اکیسویں صدی میں لنگڑاتے ہوئے ہی داخل ہوئے۔ چاہے کچھ بھی ہو جس انسان نے بیسویں صدی کے نصف آخر میں زندگی گزاری ہو اس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے اس دھرتی پر کئی صدیوں کی زندگی جی لی ہے۔ ہمیں تو اس کرہ ارض کی تیز رفتاری سے ڈر ہونے لگا ہے۔ جس طرح ایک ہوائی جہاز رن وے پر تیزی سے دوڑ کر ایک مرحلہ کے بعد فضا میں ٹیک آف کرجاتا ہے اسی طرح ہمیں یہ ڈر ہونے لگا ہے کہ کہیں اکیسویں صدی کے آتے آتے انسان اس دھرتی کو چھوڑ کر خلا میں کسی اور سیارے کی طرف نکل نہ جائے۔
اس وقت تک تو خیر ہم نہیں رہیں گے لیکن ہماری اس مشت خاک کا کیا ہو گا جو اس ویران دھرتی پر رہ جائے گی۔ ہم نے اتنی ساری لمبی تمہید یہ ظاہر کرنے کے لئے باندھی ہے کہ اب اس دھرتی پر خود انسان کی اہمیت کم اور سائنسی آلات اور چیزوں کی اہمیت زیادہ ہو گئی ہے۔ لہذا اسی تناسب سے انسان اور اشیاء کی قدر و قیمت میں بھی کمی و بیشی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ اب انسان خود کام کم کرتا ہے اور مشینیں زیادہ کام کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیسویں صدی میں انسان کی خصلتوں اور عادتوں میں بھی رفتہ رفتہ تبدیلی واقع ہوتی چلی گئی۔ اسی صدی میں انسان کے ہاتھوں سے صدیوں کے صبر و تحمل اور توکل و قناعت کا دامن چھوٹ گیا۔ اسی عرصہ میں وہ وسیع المشربی، انسانی دوستی، رواداری اور روشن خیالی جیسے انمول جذبوں کی دولت سے محروم ہو گیا اور اس نے تنگ نظری، حرص وہوس، ظلم و تشدد اور دہشت گردی کے رویوں کو اپنانا شروع کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے انسان اتنا بے توقیر ہو گیا کہ خود اس کی قدر و قیمت دو کوڑی کی نہ رہی۔ ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان نے بہ رضا و رغبت خود اپنی قیمت اس قدر گرا لی ہے تو اب اسے بازار میں اشیاء کے بڑھتے داموں کی شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔
معاف کیجئے اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ پر اظہار خیال کرنے کی کوشش میں ہم بھٹک کر انسان اور اس کی انسانیت کی ارزانی تک پہنچ گئے۔ ہمیں وہ دن بھی یاد ہیں جب دوسری جنگ عظیم عروج پر تھی اور بازار میں اجناس کی شدید قلت تھی۔ ہمیں امریکی امداد کے تحت ایسا چاول کھانے کو ملتا تھا جس میں سے ایک عجیب طرح کی ناخوشگوار بو آتی تھی لیکن اس کے باوجود ہم اسے کھانے پر مجبور تھے کیونکہ پیٹ بڑا بدکار ہے۔ پولیس ایکشن سے ذرا پہلے جب سابق ریاست حیدرآباد کی ناکہ بندی کر دی گئی تھی تو ہم کیروسین آئیل کی ایک ایک بوند کے محتاج ہو گئے تھے۔ موم بتیاں بھی عنقا ہو گئی تھیں۔ لہذا ہم اپنی پڑھائی دن میں ہی کر لیا کرتے تھے اور رات کو اپنی روشنی طبع سے کام چلا لیتے تھے۔ آزادی کے فوری بعد ملک میں راشننگ (جسے اردو میں راتب بندی کہا جاتا تھا) نافذ تھی۔ راشن کی دوکانوں کے سامنے چیزوں کی خریدی کے لئے اتنی بھیڑ لگی رہتی تھی کہ لوگ اپنے بچوں کو باری باری سے راشن کی قطار میں کھڑا کر دیتے تھے چنانچہ راشن کی دکانوں کے آگے رات کے پچھلے پہر ہی سے گاہکوں کی قطاریں لگنی شروع ہو جاتی تھیں۔
یہاں تک کہ راشن کی دکان کا مالک خود جب مقر رہ وقت پر دکان کھولنے کی غرض سے قطار میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتا تو لوگ اسے بھی زبردستی پکڑ کر قطار میں سب سے پیچھے کھڑے ہو جانے کی تلقین کرتے تھے۔ ان دنوں سڑکوں پر آدمی بھی کم ہی چلتے پھرتے دکھائی دیتے تھے کیونکہ آدمی زیادہ تر قطاروں میں کھڑے ہوئے پائے جاتے تھے۔ عجیب نفسا نفسی کا عالم ہوتا تھا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ اس ملک کو رفیع احمد قدوائی جیسا دور اندیش وزیر اغذیہ مل گیا جنہوں نے بڑی سوجھ بوجھ کے ساتھ اچانک راشننگ کو برخاست کر دیا اور ذخیرہ اندوزوں کے ٹھکانوں پر چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اشیاء کی مصنوعی قلت اچانک ختم ہو گئی اور اشیائے ضروریہ کی تقسیم کا نظام بحال ہو گیا۔ اگر رفیع احمد قدوائی نے یہ انقلابی قدم نہ اٹھایا ہوتا تو ہمارا ملک ایک لمبے عرصہ تک قطار میں ہی کھڑا رہ جاتا۔ دوسری طرف ہمارے آج کے وزیر اغذیہ شرد پوار، شکر کی قیمت میں حیرت انگیز اضافہ کو روکنے کے معاملہ میں جہاں اپنے آپ کو بے بس ظاہر کر رہے ہیں وہیں یہ خطرناک اشارہ بھی دے رہے ہیں کہ اب بہت جلد دودھ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہونے والا ہے۔ چنانچہ اب لوگ دودھ کی ذخیرہ اندوزی کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ وزیر اغذیہ کو کم از کم ایسی باتیں کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ اشیائے ضروریہ کی قلت یوں بھی حکومتوں کے لئے بہت خطرناک ہوتی ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ جب سشما سوراج دہلی کی چیف منسٹر تھیں تو دہلی میں اچانک پیاز بازار سے غائب ہو گئی تھی اور اس کی قیمت میں حیرت انگیز اضافہ ہو گیا تھا۔ چنانچہ دہلی میں بی جے پی کی سرکار صرف پیاز کی قلت کی وجہ سے الیکشن ہار گئی تھی۔ ایک زمانہ میں ہمارے ملک میں ذخیرہ اندوزی کا چلن بہت عام تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ کویت پر عراق کے حملہ کے وقت یہ افواہ اڑ گئی تھی کہ اب ملک میں پٹرول کی سخت قلت ہو جائے گی۔ اس وقت تک ہم موٹر نشین بن گئے تھے۔
اس افواہ نے ہمارے ارکان خاندان کو اتنا ہراساں اور پریشان کیا کہ وہ پٹرول کی ذخیرہ اندوزی کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ایک دن ہم چلچلاتی دھوپ میں گھر واپس ہوئے تو پیاس سے ہمارا برا حال تھا۔ جیسے ہی ہم نے اپنی پیاس بجھانے کے لئے ریفریجریٹر کو کھولا تو ہماری اہلیہ نے ہمیں آگاہ کیا کہ ریفریجریٹر میں پانی کی ساری بوتلوں میں پٹرول بھر کر رکھ دیا گیا ہے۔ لہذا ہم کوکاکولا یا کسی اور مشروب کی مدد سے اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کریں۔ خیر اب ہمارے سماج میں ذخیرہ اندوزی کا ایسا خطرناک رجحان ختم ہو گیا ہے۔ چیزیں ضرور مل جاتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی قیمتیں اب آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ بہت عرصہ پہلے ہمارے ایک دوست نے ہمارے معاشی نظام کے بارے میں کہا تھا کہ ہمارا معاشی نظام اصل میں ’’بدمعاشی نظام‘‘ ہے جس میں ہمارے تاجر سے لے کر ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں تک کی ’’بد معاشیاں‘‘ شامل رہتی ہیں اور عام آدمی انہیں چپ چاپ برداشت کرتا رہتا ہے۔ دوسری طرف ’’افراط زر‘‘ کی کیفیت نے بھی ہمیں پریشان کر رکھا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ 1972ء میں جب ہم حکومت آندھرا پردیش کے محکمہ اطلاعات سے نکل کر دہلی گئے تھے تو اس وقت ہماری تنخواہ آٹھ سو روپئے تھی۔ دہلی گئے تو ہمیں 2000 روپئے ملنے لگے۔ یہ ضرور ہے کہ NCERT میں ہمیں تین ترقیاں ضرور ملیں اور ان سارے مراحل سے گزرنے کے بعد آج جو ہم وظیفہ پاتے ہیں اس کی مالیت خود ہماری دہلی کی ابتدائی یافت سے پندرہ گنا زیادہ ہے یعنی تیس ہزار روپے گویا پہلے کام کر کے کم کماتے تھے اور اب کوئی کام نہ کر کے زیادہ کمانے لگے ہیں۔ وہ تو اچھا ہے کہ اب ہم عمر کی اس منزل میں داخل ہو گئے ہیں جہاں آدمی مایا کے جال سے یا تو خود نکل جاتا ہے یا قدرت اسے نکال دیتی ہے۔ لہذا ہم جب اشیائے ضروریہ کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں تو لوگ اسے ہماری ’’تشویشِ غیر ضروریہ‘‘ سمجھتے ہیں۔
٭٭٭
ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا
’’سیاست‘‘ نے اپنی عمر کے پینسٹھ (65) برس پورے کر لئے۔ اس بات پر ہمیں چھ دہائی پہلے کا وہ زمانہ کچھ اس طرح یاد آ گیا جیسے یہ ابھی کل ہی کی بات ہو۔ حالانکہ اس کے ابتدائی دور سے وابستہ کئی شخصیتیں (بشمول اس کے بانیوں عابد علی خاں اور محبوب حسین جگر کے ) اپنی عمریں گزار کر اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہں۔ مجھے یاد ہے کہ ’’سیاست‘‘ کا پہلا شمارہ میں نے حیدر گوڑہ کے اس مکان میں دیکھا تھا جہاں میں جگر صاحب کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ میں ان دنوں آٹھویں یا نویں جماعت کا طالب علم تھا مگر علی گڑھ میٹرک کا امتحان دینے کی کوشش میں حیدرآباد میں مقیم تھا۔ ’’سیاست‘‘ کے آغاز کے بعد جگر صاحب کے گھر آنے کا کوئی معمول باقی نہیں رہ گیا تھا کیونکہ ’’سیاست‘‘ کے دفتر میں ہی مشینوں کے برابر ایک پلنگ لگا کر رہنے لگے تھے۔ تاہم کبھی کبھار وہ اچانک گھر چلے آتے تھے اور نہا دھو کر دفتر چلے جاتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد میں گلبرگہ چلا گیا
۔ 1953 ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان کامیاب کر کے گریجویشن کرنے کے ارادہ سے حیدرآباد واپس آیا تو اس وقت تک جگر صاحب نے حیدر گوڑہ کا مکان چھوڑ دیا تھا اور عابد علی خاں صاحب کے گھر رہنے لگے تھے۔ میں یونیورسٹی سے اکثر شاموں میں ’’سیاست‘‘ کے دفتر چلا آتا تھا۔ بسا اوقات عابد علی خاں صاحب اور جگر صاحب فلموں پر تبصرہ لکھنے کا کام میرے حوالے کر دیتے تھے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ مجھے مفت میں فلمیں دیکھنے کا موقع مل جاتا تھا۔ کبھی کبھار چھوٹی موٹی خبروں کا ترجمہ کرنے کے علاوہ کتابوں پر تبصرہ بھی کر دیا کرتا تھا۔ گریجویشن کے بعد میں باضابطہ طور پر ’’سیاست‘‘ سے وابستہ ہو گیا۔ 1958 ء میں میرا تقرر بحیثیت سب ایڈیٹر ہوا تھا اورمیری تنخواہ 150 روپئے مقرر ہوئی۔ 1962 ء تک میں نے ’’سیاست‘‘ میں بحیثیت صحافی باضابطہ طور پر کام کیا، یہ اور بات ہے کہ 1957 ء میں جب عابد علی خاں صاحب نے ’’انتخاب پریس‘‘ قائم کیا تو مجھے اس کا بھی انچارج بنا دیا گیا۔ دو چھوٹی چھوٹی ٹریڈل مشینوں اور ٹائپ کے تھوڑے سے ذخیرے کے ساتھ اس پریس کا آغاز ہوا تھا۔ عابد علی خاں صاحب نے پہلے ہی دن کہہ دیا تھا کہ اس پریس سے جو بھی آمدنی ہو گی وہ پریس کی ترقی میں ہی لگائی جائے گی۔ اس پریس کے پہلے جنرل منیجر کی حیثیت سے میں نے چار برس کام کیا اور جب اس ذمہ داری سے سبکدوش ہوا تو اس وقت تک اس پریس میں دو بڑی اور عصری مشینیں (ایک جرمن اور ایک روسی) آ چکی تھیں اور
اس کا شمار حیدرآباد کے ’’اے کلاس‘‘ پریسوں میں ہونے لگا تھا۔ پریس میں کام کرنے کے علاوہ میں اخبار کا کام بھی کیا کرتا تھا، چنانچہ جولائی 1962 ء میں جب ’’شیشہ و تیشہ‘‘ کے کالم نگار شاہد صدیقی کا اچانک انتقال ہوا تو میں اس رات اخبار کے آخری صفحہ کا انچارج تھا اور غلام حیدر بیرونی صفحہ کے انچارج تھے۔ جب کہ ہاشم سعید نائٹ ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ شاہد صدیقی کے انتقال کی خبر چھاپ کر میں اپنے اندر ایک مزاح نگار کے پیدا ہونے کی خبر بھی ساتھ میں چھاپ رہا ہوں۔ یہ سچ ہے کہ 1962ء کے بعد میری شناخت ایک مزاح نگار کی حیثیت سے ہونے لگی اور بحیثیت صحافی میری شناخت معدوم ہوتی چلی گئی۔ اگرچہ مزاح نگاری اب میری واحد شناخت بن چکی ہے
لیکن اپنی زندگی کے ابتدائی دور میں بحیثیت صحافی میں نے چھ سات سال کا جو عرصہ گزارا تھا اس کا ذکر کرنا میں نے ضروری جانا۔ ایک عمر کے بعد آدمی اپنی زندگی کے معاملات کو ڈھنگ سے ترتیب دینا ضروری تصور کرتا ہے۔ آپ نے وہ قصہ تو سنا ہو گا کہ ایک صاحب کے گھر اچانک کچھ مہمان آ گئے تو انہوں نے اپنے پڑوسی کے ہاں سے چار پائی منگوائی کہ میاں تمہارے پاس کوئی فالتو چار پائی ہو تو بھیج دینا۔ اس پر پڑوسی نے معذرت کے انداز میں کہا ’’بھیا! میرے پاس تو دو ہی چارپائیاں ہیں، ایک پر میں اور میرا بیٹا سوجاتے ہیں اور دوسری پر میری اہلیہ اور بہو سوجاتے ہیں‘‘۔ اتنا سنتے ہی ان صاحب نے پڑوسی سے کہا ’’میاں! چارپائی نہ دینا چاہتے ہو تو نہ دو، لیکن تم لوگ اپنے گھر میں کم از کم ڈھنگ سے تو سوجایا کرو‘‘۔ بہرحال میں بھی اب عمر کی اس منزل میں ہوں جہاں چارپائی پر ڈھنگ سے سو جانا چاہتا ہوں‘‘۔
اب پچھلا زمانہ یاد آنے لگا ہے تو ’’سیاست‘‘ سے وابستہ کئی شخصیتیں یاد آنے لگی ہیں۔ ایک صاحب تھے شیخ احمد، ’’سیاست‘‘ کے پہلے شمارے کی اشاعت سے لے کر اپنی آخری سانس تک ’’سیاست‘‘ سے وابستہ رہے۔ یہ دفتر کے بل کلکٹر، ہاکر، دفعہ دار، چوکیدار، پیغام رساں، اہلکار، سب کچھ تھے گویا ’’seven in one‘‘ قسم کی چیز تھے۔ ہر دم شیروانی میں ملبوس رہتے تھے (یہ شیروانیاں عابد علی خاں صاحب اور جگر صاحب کی دی ہوئی ہوتی تھیں) اس لئے شیروانی کو کبھی اپنے بدن سے نہیں اتارتے تھے۔ میں نے انہیں کبھی شیروانی کے بغیر نہیں دیکھا بلکہ میرا تو یہاں تک خیال تھا کہ وہ نہاتے وقت بھی غالباً شیروانی کو اپنے بدن سے جدا نہیں ہونے دیتے۔ بے حد مستعد، چاق و چوبند، پھرتیلے اور لپک جھپک والے آدمی تھے۔ رومی ٹوپی بھی پابندی سے پہنا کرتے تھے۔ دفتر کے ہر کام میں وہ دخیل رہتے تھے۔ اشتہار کے بل وصول کر رہے ہیں،
اخبار تقسیم کر رہے ہیں، مہمانوں کو چائے پلا رہے ہیں، اخبار کا کاغذ اٹھا رہے ہیں اور کبھی چوکیداری فرما رہے ہیں۔ کوئی کام ایسا نہ تھا جو وہ انجام نہ دیتے ہوں۔ ان دنوں جگر صاحب کا غصہ اپنے عروج پر تھا جو زیادہ تر شیخ احمد پر ہی اترتا تھا۔ میں اور اسد جعفری شیخ احمد کو ’’سیاست‘‘ کا ’’شاک ابزاربر‘‘ (Shock Absorber) کہا کرتے تھے کیونکہ جگر صاحب کے غصے کا سارا بوجھ اکیلے شیخ احمد ہنسی خوشی اور بحسن و خوبی برداشت کر لیا کرتے تھے۔ جگر صاحب برستے رہتے اور شیخ احمد مسکین سی صورت بنائے دونوں ہاتھ باندھے چپ چاپ کھڑے رہتے تھے۔ چھوٹا بھائی ہونے کے ناتے بسا اوقات جگر صاحب کا غصہ مجھ پر بھی نازل ہو جاتا تھا لیکن جس صبر و تحمل کے ساتھ شیخ احمد ان کے غصہ کو برداشت کرتے تھے وہ میرے لئے قابل رشک تھا۔ ایک دن میں نے یونہی شیخ احمد سے پوچھ لیا، شیخ احمد تم آخر اتنے اہتمام اور جتن کے ساتھ کس طرح جگر صاحب کا غصہ برداشت کر لیتے ہو؟ شیخ احمد نے کہا ’’میں ان کی ڈانٹ ڈپٹ کو سنتا ہی کہاں ہوں، جو ان کے غصہ کو برداشت کرنے کا سوال پیدا ہو۔ جیسے ہی وہ ڈانٹنا شروع کرتے ہیں، میں اپنا دھیان کسی اور طرف لگا دیتا ہوں۔ میرا تو کچھ بھی نہیں بگڑتا، البتہ ان کا غصہ یونہی ضائع ہو جاتا ہے۔ پھر جو غصہ وہ مجھ پر اتارتے ہیں اس کا راست تعلق مجھ سے کہاں ہوتا ہے۔ غلطی کوئی کرتا ہے اور ان کا غصہ مجھ پر اترتا ہے۔ انہیں تو اپنا غصہ اتارنے کے لئے ایک آدمی چاہئے اور میں انہیں مل گیا ہوں۔ جس طرح ایک زمانہ میں نوابوں کے پاس چلم بردار اور حقہ بردار ہوا کرتے تھے، اسی طرح میں بھی جگر صاحب کا ’’غصہ بردار‘‘ ہوں۔ یہ تو میری ڈیوٹی ہے۔ اس میں پریشانی کی کیا بات ہے‘‘۔ چنانچہ ہر دوسرے تیسرے دن جگر صاحب دفتر میں سب کے سامنے شیخ احمد کی کلاس لیا کرتے تھے۔ جوں جوں ان کا غصہ بڑھنے لگتا اور جواباً شیخ احمد کی مسکینی اور حلیمی میں اضافہ ہونے لگتا تھا تو عابد علی خاں اچانک اپنی کرسی کے سامنے اخبار کھول کر بیٹھ جاتے تھے اور اخبار کے صفحات کے پیچھے مسکرانے لگ جاتے تھے۔ شیخ احمد کویہ بھی اچھی طرح پتہ رہتا تھا کہ جگر صاحب کا غصہ جتنا بڑھے گا بعد میں اس کا صلہ بھی اتنا ہی ملے گا۔
جگر صاحب شام کو گھر جاتے وقت بسا اوقات دن بھر کے غصہ کا معاوضہ شیخ احمد کی شیروانی کی جیب میں ڈال دیا کرتے تھے۔ یہ جگر صاحب کی ادا تھی۔ لیکن شیخ احمد کی ادا بھی کچھ کم نہ تھی۔ ایک مرتبہ جگر صاحب نے پانچ چھ دنوں تک شیخ احمد کو کسی بات پر نہیں ڈانٹا تو شیخ احمد پریشان ہو گئے۔ مجھ سے کہنے لگے ’’میں جگر صاحب کی وجہ سے فکر مند ہوں۔ خدا نخواستہ ان کی صحت تو خراب نہیں ہے۔ کئی دنوں سے مجھے ڈانٹ نہیں پڑی‘‘۔ میں نے کہا ’’یہ تو اچھی بات ہے کہ تمہیں ڈانٹ نہیں پڑرہی ہے‘‘۔ بولے ’’مگر یہ بھی تو سوچئے کہ دوچار دن جگر صاحب مجھے نہ ڈانٹیں تو میری صحت بھی خراب ہو جاتی ہے۔ مجھے تو جگر صاحب سے کہیں زیادہ اپنی صحت کی فکر ہے‘‘۔ یقین مانئے شیخ احمد جتنی زیادہ ڈانٹ کھاتے تھے اتنے ہی زیادہ صحت مند دکھائی دیتے تھے۔ وہ جگر صاحب اور عابد علی خاں صاحب دونوں کے گہرے مزاج داں تھے۔ دونوں کے ذہنوں میں ابھی کوئی بات آتی بھی نہیں تھی کہ شیخ احمد اسے پہلے سے محسوس کر لیتے تھے۔ جیسے چرند اور پرند زلزلہ کے آنے سے پہلے ہی اس کی آمد کو قبل از وقت تاڑ لیتے ہیں۔
’’سیاست‘‘ سے وابستہ ایسے کتنے ہی کردار ہیں جو اب یاد آنے لگے ہیں۔ جیسے احسن علی مرزا، اسد جعفری، وہاب حیدر، احمد معظم، مصطفی علی اکبر، شاہد صدیقی، مرزا حیدر حسن، احمد رضا قادری، ٹی این دہار، خورشید علی، منیر الدین (سنگساز) عبد الغفار، عابد حسین، ضمیر الدین (کاتب) وغیرہ۔ ان میں کا ہر کردار ایک الگ مضمون کا طلب گار ہے۔
٭٭٭
باتیں کتابوں کی
معروف انگریزی ہفتہ وار ’آؤٹ لُک‘‘ کے ادبی سیکشن کی ایڈیٹر شیلا ریڈی کا ایک مضمون رسالے کی تازہ اشاعت میں انگریزی کتابوں کی پبلشنگ کے کاروبار کے بارے میں شائع ہوا ہے جس میں انگریزی ادب سے متعلق کتابوں کی نکاسی اور دیگر اُمور کے علاوہ اس نکتے کو بھی اُجاگر کیا گیا ہے کہ جب ایک نیا ادیب اپنی پہلی کتاب چھپوانا چاہتا ہے تو اسے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اسی جستجو کے نتیجے میں بعض سینئر اور پختہ کار ادیبوں کو نمایاں حیثیت اور اہمیت حاصل ہو گئی ہے جن کی رائے یا سفارشی کلمات کو نئے ادیب اپنی کتاب کی کامیابی، اس کی فروخت اور ادب میں اس کے مرتبے کے تعین کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ چنانچہ بیشتر نئے ادیب، سینئر ادیبوں جیسے خوشونت سنگھ، وی ایس نائپال، سنیل کھلنانی، امرتیا سین اور رسکن بانڈ کے تعاقب میں لگے رہتے ہیں کہ اگر ان کی کتاب کے بارے میں ان مقتدر ہستیوں کے چند کلمات خیر حاصل ہو جائیں تو شاید ان کی کتاب کی نکاسی کی راہیں خودبخود ہموار ہو جائیں۔ ایسی تحریروں کو انگریزی میں Blurb اور اردو میں عموماً توصیفی کلمات یا فلیپ نگاری کہا جاتا ہے۔
یہ تحریریں بظاہر ناقدانہ ہوتی ہیں لیکن بباطن ان کا مقصد کتاب اور صاحب کتاب دونوں کی تشہیر کرنا ہوتا ہے تاکہ بھولے بھالے قارئین ان توصیفی کلمات کے فریب میں آ کر کتاب کو خرید لیں اور بالآخر پبلیشر کی تجارتی ساکھ مستحکم ہو جائے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ ہم شیلا ریڈی کی تحریریں ہمیشہ بڑے اشتیاق سے پڑھتے ہیں۔ اس کی بھی کئی وجوہات ہیں۔ اول تو یہ کہ انگریزی ادب پر ان کی نظر بہت گہری اور ان کی رائے بڑی معتبر ہوتی ہے۔ دوم یہ کہ حیدرآبادی ہیں۔ سوم یہ کہ دہلی میں ہماری پڑوسن ہیں۔ چہارم یہ کہ اُردو سے انہیں بڑی محبت ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ تین چار سال پہلے ہمارے کرم فرما خوشونت سنگھ کے کہنے پر انہوں نے ہماری معرفت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مراسلاتی اُردو کورس میں داخلہ لیا تھا اور بسا اوقات وہ ہم سے اُردو کے بعض ایسے الفاظ کے معنی بھی پوچھ لیا کرتی تھیں جن سے ہم خود واقف نہیں ہوتے تھے۔ اس بات سے اُردو میں ان کی بڑھتی ہوئی استعداد اور اہلیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
بہرحال شیلا ریڈی کے اس دلچسپ مضمون کو پڑھ کر ہمیں پتہ چلا کہ انگریزی میں بزرگوں کے توصیفی کلمات کے باعث نوجوان مصنفین کی کتابیں دھڑ ادھڑ فروخت ہو جاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس مضمون کو پڑھتے ہوئے ہمیں اپنی پیاری زبان اُردو کا بھی خیال آ گیا اور بے خیالی میں ہمارا دھیان اس زبان میں ہونے والے اشاعتی کاروبار کی طرف بھی گیا۔ پھر اس کے حوالے سے ہمیں بے ساختہ ابن انشاء کا مشہور مصرعہ ’’ہم ہنس دِیئے، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ ترا‘‘ نہ صرف یاد آ گیا بلکہ ان کا ایک مضمون بھی یاد آیا، جس میں انہوں نے اسی موضوع کو لے کر بزرگ اور مستند شاعر حضرت حفیظ جالندھری سے جو شکایت کی تھی اسے ملاحظہ فرمائیں: ’’ہمارے مخدوم حضرت حفیظؔ جالندھری کا ایک سرٹیفکیٹ آج کل ایک چورن کے اشتہار کے ساتھ باقاعدگی سے چھپ رہا ہے۔ یہ ایک خط ہے جو انہوں نے اس چورن کے موجد حکیم صاحب کو لکھا ہو گا کہ ’مکرمی! آپ نے جو ہاضمے کی گولیاں تیار کی ہیں، سبحان اللہ! ان سے مجھے بہت آرام ہے، براہِ کرم ایک ڈبہ ان گولیوں کا اور بھیج دیجئے ‘، حفیظؔ صاحب سے اگر ہمیں شکایت ہے تو یہ کہ ہم ان کے بہت قریب رہے ہیں۔ نہایت نیاز مند بلکہ فیضان کے لحاظ سے شاگردِ رشید۔ کئی بار ان سے درخواست کی کہ قبلہ ہماری شاعری کے تعلق سے کوئی سرٹیفکیٹ عنایت ہو، اسی قسم کا کہ میں نے حضرت ابن انشاء کا کلام استعمال کیا۔ اس سے مجھے بہت افاقہ ہے۔ چربی سے پاک ہے اور وٹامن سے بھرپور۔ براہِ کرم اپنے مجموعہ کلام کی دس جلدیں وی پی سے بھیج دیجئے تاکہ بیٹھا پڑھتا رہوں۔ اور استفادہ کرتا رہوں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ہماری اپنی سرکیولیشن تو خاصی ہے، جگہ جگہ مارے پھرتے ہیں لیکن اس قسم کا سرٹیفکیٹ نہ ہونے کے باعث ہماری شاعری رہی جا رہی ہے۔ محض اس وجہ سے کہ ہم شعر بناتے ہیں، چورن نہیں بناتے۔ نتیجے میں ہم حفیظؔ صاحب کی نظروں میں بار نہ پا سکے‘‘۔
ابن انشاء کے اظہارِ خیال کے بعد اب ہم اُردو میں اشاعتی کاروبار کے بارے میں اپنی ناچیز رائے کا کیا اظہار کریں۔ دیکھا جائے تو خود ہماری حیثیت بھی ایک سینئر ادیب کی ہو گئی ہے اور یہ کوئی تعلّی نہیں کہ کئی جونیر اردو ادیب ہماری اِک نگاہ التفات کے منتظر رہتے ہیں۔ نہ جانے کتنوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہم ان کے رشحاتِ قلم کے بارے میں کوئی تبصرہ کریں تو نہ صرف ان کی شہرت چار دانگ عالم میں پھیل جائے بلکہ ان کی کتابوں کے نسخوں کی مفت تقسیم کے کاروبار میں بھی دن دونی رات چوگنی ترقی ہو۔ مانا کہ دنیا کی دیگر زبانوں کے ادیبوں کے کتابیں فروخت ہوتی ہیں اور یہ ادیب مال و دولت میں کھیلتے رہتے ہیں لیکن اردو زبان کا ادیب غالباً اکیلا ایسا ادیب ہے جس کی قسمت میں فقر و فاقہ اور توکل و قناعت کی دولت لکھی ہوتی ہے۔ پتہ نہیں اُردو ادب میں یہ جو اتنا سارا اشاعتی کاروبار انجام پاتا ہے تو اس سے ہونے والے فائدے سے کون استفادہ کرتا ہے۔ ہم نے تو اُردو ادیب اور شاعر کو جب بھی دیکھا اس حالت میں دیکھا کہ نہایت عجز و انکسار کے ساتھ اپنی کتابوں کے نسخوں کو اپنے احباب اور صاحبانِ اقتدار و ثروت کے درمیان مفت تقسیم کرتا چلا جا رہا ہے۔ بھلے ہی دیگر زبانوں میں کتابیں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہوں لیکن یہاں تو صرف ہاتھوں ہاتھ دی جاتی ہیں بلکہ ہم تو بعض کثیر التصانیف اُردو شاعروں اور ادیبوں سے صرف اس لئے نہیں ملتے کہ کہیں وہ اپنی کتابوں کا بوجھ ہماری جھولی میں نہ ڈال دیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض اردو ادیب اور شاعر اپنی عزت و آبرو تک بیچ دیتے ہیں۔ ضرورت پیش آئے تو اپنا ضمیر بھی بیچ دیتے ہیں لیکن اپنی کوئی کتاب نہیں بیچ سکتے۔ حالانکہ موجودہ دور صارفین کا دور ہے۔ یہاں ہر چیز بکتی ہے اور شہرت کے بل بوتے پر مشہور آدمی غیر ضروری اشیاء بھی فروخت کرنے کا اہل بن جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہمارے مشہور اور نامی گرامی کھلاڑی بھلے ہی ایک منزل کے بعد اپنے کھیل میں نام پیدا کرنے کے قابل نہ رہ جائیں لیکن وہ اشیائے تعیش کی فروخت کے معاملے میں بڑے کارآمد اور کارگر ثابت ہوتے ہیں چنانچہ آپ نے ٹیلی ویژن اور اخباروں میں اکثر کھلاڑیوں کو دیکھا ہو گا کہ کوئی ریزر بلیڈ بیچ رہا ہے تو کوئی بالوں کا تیل بیچ رہا ہے، کوئی پنکھوں کی فروخت کے سلسلے میں توصیفی کلمات ادا کر رہا ہے، کپڑے، پریشر کوکر، الیکٹریکل اشیاء، مصالحے، چائے، غرض کون سی ایسی چیز ہے جسے بیچنے میں مشہور و معروف ہستیاں مصروف نہ ہوں۔ اس وقت ہمیں ایک شخصی بات یاد آ گئی۔ ہماری چھ سالہ پوتی ہما حسین بعض اوقات بڑی دلچسپ باتیں کرتی ہے۔ ٹیلی ویژن کے اشتہارات کو وہ بہت غور سے دیکھتی ہے اور ان پر عمل بھی کرتی ہے۔ فلمی اداکارہ جوہی چاؤلہ کو وہ بار بار ٹیلی ویژن پر ’’کُرکُرے‘‘ بیچتے ہوئے نہ صرف دیکھتی ہے بلکہ جب بھی دیکھتی ہے ’’کُرکُرے‘‘ ضرور کھاتی ہے۔ ایک زمانے میں جوہی چاؤلہ کی فلمیں بہت مقبول تھیں مگر ہماری پوتی نے اپنی کم عمری کے باعث اس کی کوئی فلم پہلے نہیں دیکھی تھی۔ اس نے جوہی چاؤلہ کو جب بھی دیکھا ’’کُرکُرے‘‘ بیچتے ہوئے ہی دیکھا۔ ایک بار ٹیلی ویژن پر جوہی چاؤلہ کی کسی پرانی فلم کی نمائش ہو رہی تھی کہ ہماری پوتی نے حیرت سے جوہی چاؤلہ کو بغور دیکھا پھر بولی: ’’یہ کُر کُرے بیچنے والی تو اب فلموں میں بھی کام کرنے لگی ہے، کُرکُرے بھی اچھا بیچتی ہے اور ڈانس بھی اچھا کر لیتی ہے!‘‘ اصل میں صارفین کے معاشرے میں اب انسانوں کی پہچان بھی گڈمڈ ہو گئی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ شئے زیادہ قیمتی ہے یا انسان۔ چاہے کچھ بھی ہو، ادب بھی اب کاروبار کا حصہ بن گیا ہے۔
شیلا ریڈی نے اپنے اس مضمون میں انگریزی ادب کی کئی مقتدر ہستیوں کے بیانات بھی قلم بند کئے ہیں۔ خوشونت سنگھ کا بیان ہے کہ وہ نئے ادیبوں کی ہمت افزائی کی خاطر بسا اوقات مبالغہ آرائی سے بھی کام لیتے ہیں۔ یوں بھی اشتہار اور توصیفی کلمات میں سچ اور جھوٹ کو الگ الگ کرنا بڑا دُشوار ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو اچھا ادب بھی کبھی پورا سچ نہیں ہوتا۔ جب تک پورے سچ میں تھوڑے سے جھوٹ کو اور پورے جھوٹ میں تھوڑے سے سچ کو شامل نہ کیا جائے ادب، ادب نہیں بن پاتا۔
ماشاء اللہ! اُردو ادب میں اب ہم ایسے منصب پر فائز ہیں جہاں بیٹھ کر ہم نے سینکڑوں نوجوان ادیبوں کی ہمت افزائی یا گمراہی کی خاطر ان کی کتابوں کے پیش لفظ، فلیپ اور تبصرے وغیرہ لکھے ہیں لیکن آج تک کسی ادیب نے یہ نہیں بتایا کہ ہمارے توصیفی اور سفارشی کلمات کے باعث اس کی کتاب کا کوئی نسخہ فروخت بھی ہوا ہو۔ اُردو ادب کی دُنیا ہی الگ ہے اور اس میں جینے کے انداز بھی مختلف ہوتے ہیں۔ یوں بھی کوئی سینئر ادیب اپنے توصیفی کلمات میں لاکھ زور مار لے لیکن اگر کتاب میں زور نہ ہو تو وہ کیا کر لے گا۔ ہمیں اس وقت ایک ادیب اور اس کے قاری کی بات یاد آ گئی۔ ایک قاری نے کسی ادیب کی کسی کتاب پر اعتراض کیا تو ادیب نے کہا: ’’میں اس کتاب کا مصنف ہوں، مجھے معلوم ہے کہ اس کتاب میں کیا کیا نزاکتیں ہیں اور تخلیق کے کون کون سے جوہر اس میں پوشیدہ ہیں، تم صرف قاری ہو تم کسی ادبی شہ پارے کی خوبیوں کا اندازہ کیسے لگا سکتے ہو‘‘۔ اس پر قاری نے کہا تھا: ’’مرغی انڈا ضرور دیتی ہے لیکن اگر اس کے سامنے کئی انڈے ایک ساتھ رکھ دیئے جائیں تو وہ یہ پتہ نہیں چلا سکتی کہ ان میں کون سا انڈا گندہ ہے مگر میں انڈے اور کتاب دونوں کو کھول کر ضرور پتہ چلا لیتا ہوں کہ کون سا انڈہ اور کون سی کتاب گندہ ہے‘‘۔
٭٭٭
انجمن تلفّظِ اردو کا فوری قیام نہایت ضروری
پچھلی صدی کی چھٹی دہائی کے اواخر میں حیدرآباد میں ایک انجمن قائم ہوئی تھی جس کا نام ’’انجمن تحفظ اردو‘‘ تھا۔ اس وقت ارد وکی صورتحال اچھی تھی اور گاہے بہ گاہے اس کا تحفظ بھی ہو رہا تھا۔ رہی اردو الفاظ کے تلفظ کی بات تو اس معاملہ میں بھی صورتحال اتنی سنگین نہیں تھی جتنی کہ آج کل دکھائی دیتی ہے۔ اس کے باوجود نہ جانے کیوں جب بھی اس انجمن کا نام ہماری زبان پر آتا تھا تو پھسل کر ’’تحفظ اردو‘‘ کی بجائے ’’تلفّظِ اردو‘‘ ادا ہو جاتا تھا۔ ہو سکتا ہے ہمارے لاشعور میں یہ بات رہی ہو کہ مستقبل میں جب اردو کے تحفظ کے امکانات معدوم ہوتے جائیں گے تو فطری طور پر اردو الفاظ کا تلفّظ بھی بگڑ جائے گا اور اردو والے اس نوبت کو پہنچ جائیں گے کہ ایک ’’انجمن تحفظِ تلفّظِ اردو‘‘ بھی قائم کر بیٹھیں۔ بخدا آج ہمیں ایسی ایک انجمن کی شدید ضرورت لاحق ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ماہنامہ ’’اردو دنیا‘‘ کے ایک شمارہ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک ریسرچ اسکالر منظر علی کا ایک اہم مضمون ’’ٹی وی چینلوں میں اردو کا اہم کردار‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے
جس میں ریسرچ اسکالر موصوف نے مختلف ہندی چینلوں سے نشر ہونے والی زبان کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد یہ مژدہ سنایا ہے کہ ہندی پروگراموں میں اردو الفاظ کا نہ صرف بکثرت بلکہ بے دریغ استعمال ہونے لگا ہے۔ یہی نہیں ہندی چینلوں کے پروگراموں کے نام تک اردو لفظیات پر مبنی ہوتے ہیں جیسے ’’خاص خبریں‘‘ ’’خبروں کی خبر‘‘ ’’جرم‘‘ ’’واردات‘‘ ’’آپ کی عدالت‘‘ ’’روبرو‘‘ ’’رات باقی‘‘ اور ’’گستاخی معاف‘‘ وغیرہ۔ اردو ہی نہیں بلکہ ان چینلوں پر عربی کے خالص الفاظ بھی دھڑ لے سے استعمال کئے جانے لگے ہیں جیسے ’’راحت‘‘ ’’دعوی‘‘ ’’وراثت‘‘ ’’بدلہ یا بدل‘‘ اور ’’الوداع‘‘ وغیرہ۔ الوداع ایک ایسا لفظ ہے جس کا ہندی میں کوئی متبادل نظر نہیں آتا۔ اس لئے اسے غلط املا کے ساتھ ساتھ ہندی لفظ بنا لیا گیا ہے جیسے ’’ودائی کرنا‘‘ (رخصت کرنا) ’’ودائی سماروہ‘‘ (الوداعی تقریب) وغیرہ۔ ریسرچ اسکالر منظر علی کا کہنا ہے کہ اردو الفاظ تو یقیناً بکثرت استعمال ہو رہے ہیں لیکن ان کے تلفظ کے معاملہ میں سخن گسترانہ بات کچھ اتنی بڑھتی چلی جا رہی ہے کہ بالآخر بات کا بتنگڑ بننے لگا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں تک ای ٹی وی (اردو) اور دور درشن (اردو) کے پروگراموں کا تعلق ہے یہاں تلفظ کا معاملہ بڑی حد تک گوارا اور تشفی بخش دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ہندی چینلوں پر اردو الفاظ کا تلفظ مضحکہ خیز حد تک ناگوار بن جاتا ہے جیسے خبر کو کھبر، نسخہ کو نسکھا، حفاظت کو ہپھاجت، فیصد کو پھیسد کے علاوہ وسیم جعفر کا نام وسیم زاپھر اور ہمارے مشہور و معروف دوست اصغر وجاہت کا نام ’’اسگر وضاحت‘‘ بن جاتا ہے۔ پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ہی لفظ کا تلفظ کبھی صحیح ادا کرتے ہیں اور کبھی غلط۔ اس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ شعوری طور پر یہ لوگ کوشش تو ضرور کرتے ہیں کہ تلفظ کی ادائیگی صحیح ہو لیکن اردو زبان سے نابلد رہنے کی وجہ سے ان سے اس طرح کی غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں۔
غرض منظر علی نے تلفظ کی ایسی ہی کئی دلچسپ مثالیں پیش کی ہیں۔ جی تو چاہتا ہے کہ ہم ایسی ہی مزید مثالیں پیش کریں لیکن ہمارے کالم کی کوتاہ دامنی ان مثالوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ پھر ہم بھی تو اس معاملہ میں اپنی ناچیز رائے کو پیش کرنے کے لئے بے چین ہیں۔ نصف صدی پہلے اگر ہماری زبان پر ’’انجمن تحفظ اردو‘‘ کا نام پھسل کر ’’انجمن تلفّظِ اردو‘‘ کی صورت میں ادا ہوتا تھا تو اس کا ایک مطلب غالباً یہ بھی نکلتا ہے کہ ہماری زبان بہت پہلے سے ایسی پیشین گوئی کرنے کے قابل ہو گئی تھی کہ ایک دن اردو پر وہ کڑا وقت بھی آئے گا جب اس زبان کا تحفظ تو دور کی بات ہے اس کے لفظوں کا تلفّظ تک خطرہ میں پڑ جائے گا۔ چنانچہ یہ بات آج صد فیصد صحیح ثابت ہو رہی ہے۔ پچیس تیس برس پہلے کی بات ہے، آل انڈیا ریڈیو کے شہرہ آفاق نیوز ریڈر دیوکی نندن پانڈے سے ہمارے بے تکلفانہ مراسم تھے۔ وہ اگرچہ اردو رسم خط سے بالکل واقف نہیں تھے لیکن اردو تہذیب کے پروردہ تھے۔ بات چیت میں جب وہ اردو کے الفاظ (بشمول ثقیل الفاظ) بولتے تھے تو ایسی عمدگی اور روانی کے ساتھ تلفّظ ادا کرتے تھے کہ یوں لگتا تھا جیسے کو کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی زبان کے اکیلے وارث ہیں۔ فارسی کے شعروں اور عربی کے محاوروں پر بھی اپنا ہاتھ اور زبان صاف کرتے رہتے تھے اور ہم ان کی عربی دانی پر عش عش اور فارسی دانی پر فش فش کرتے رہ جاتے تھے۔ مجاز، فراق گورکھپوری اور کئی اور شاعروں اور ادیبوں کی صحبتوں کے فیض یاب تھے۔ وہ آل انڈیا ریڈیو سے ہندی خبریں پڑھتے تھے اور شخصی طور پر ہندی خبروں میں نہایت سنسکرت آمیز ثقیل الفاظ کے استعمال کے خلاف تھے لیکن سرکار کی لسانی پالیسی کے آگے وہ کیا کر سکتے تھے۔ ریڈیو کے معمول کے مطابق وہ اپنی خبریں اس جملے سے شروع کرتے تھے ’’یہ آکاش وانی ہے۔ اب آپ دیوکی نندن پانڈے سے ہندی میں سماچار سنئے‘‘۔ مشہور ہے کہ ایک بار انہوں نے یہ جملہ اس طرح ادا کیا تھا ’’یہ آکاش وانی ہے۔ اب آپ سماچاروں میں ہندی سنئے‘‘۔ لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ جملہ شرارتاً ادا کیا تھا مگر یہ غلط جملہ کتنا صحیح تھا اس کا اندازہ اس جملہ کی ذہانت اور بندش سے لگایا جا سکتا ہے۔ آج ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر سینکڑوں اردو الفاظ غلط تلفظ کے ساتھ ادا کئے جا رہے ہیں لیکن کوئی ٹوکنے والا نہیں ہے۔ ابھی پچیس تیس برس پہلے کی بات ہے اردو معاشرہ اتنا سرگرم اور حساس تھا کہ کسی لفظ کا غلط تلفظ سننا تو بہت دور کی بات ہے، اگر ایک شاعر کا شعر کسی دوسرے شاعرسے منسوب ہو جاتا تھا تو یہ معاشرہ بپھر جاتا تھا۔
اس وقت ہمیں دو چشم دید اور گوش شنید واقعات یاد آ رہے ہیں۔ 70 ء کی دہائی کی بات ہے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اردو افسانہ پر ایک بین الاقوامی سمینار کی افتتاحی تقریب جاری تھی۔ ایک نہایت بارسوخ مرکزی وزیر نے اپنی تقریر میں ایک شاعر کا شعر کسی دوسرے شاعر سے منسوب کر دیا۔ باقر مہدی جو اپنی بیباکی کے لئے بدنامی کی حد تک شہرت رکھتے تھے، اس تقریب میں موجود تھے۔ فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا ’’جناب! آپ یہ شعر غلط شاعر سے منسوب کر رہے ہیں۔ تصحیح فرمالیجئے‘‘۔ اس پر وزیر موصوف نے کہا ’’میں آپ سے بعد میں بات کروں گا‘‘ اس پر باقر مہدی نے اپنے مخصوص لہجہ میں کہا ’’آپ مجھ سے کیوں کر بات کر سکتے ہیں کیونکہ آپ نے مجھ سے نہ تو کوئی وقت مانگا ہے اور نہ ہی میں نے آپ کو کوئی وقت دیا ہے‘‘۔ دوسرا واقعہ بھی کم و بیش اسی عرصہ اور نوعیت کا ہے۔ بمبئی میں ایک ادبی تقریب آراستہ تھی۔ مہاراشٹرا کے ایک مقتدر وزیر نے جن کا طوطی سارے ملک میں بولتا تھا، اپنی تقریر میں کوئی اردو شعر غلط پڑھ دیا تو حسب اندیشہ عزیز قیسی اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے ’’آپ شعر غلط پڑھ رہے ہیں اسے یوں پڑھئے‘‘۔ وزیر موصوف نے کہا ’’آپ کو تصحیح کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا‘‘۔ اس پر عزیز قیسی نے کہا ’’مگر میں نے تو تصحیح کر دی ہے‘‘۔ وزیر موصوف نے برہم ہو کر کہا ’’اس وقت آپ غالباً نشہ میں ہیں۔ آپ سے بعد میں بات ہو گی‘‘۔ عزیز قیسی نے جواب دیا ’’میرا نشہ اگر ہے بھی تو کچھ دیر بعد اتر جائے گا مگر آپ اقتدار کے نشہ میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور یہ نشہ ایسا ہے جو خود سے نہیں اترتا بلکہ اسے اتارنا پڑتا ہے‘‘۔ یہ وہ دور تھا جب اردو معاشرہ اتنا حساس ہوا کرتا تھا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی خم ٹھونک کر سینہ سپر ہو جایا کرتا تھا۔
سنا ہے کہ پچھلے دنوں حیدرآباد میں ایک تنظیم کی طرف سے شعر و ادب اور رقص و موسیقی کی ایک محفل آراستہ ہوئی تھی جس میں نامی گرامی فلمی اداکاروں نے ہمارے دو اہم اردو شاعروں کا کلام تلفظ کی بے حد فاش غلطیوں کے ساتھ پڑھا لیکن کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا کیونکہ یہ محفل ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں منعقد ہوئی تھی۔ اس محفل کا خاکہ کچھ اس طرح کا تھا کہ پہلے تو کوئی فلمی اداکار شاعر کا کلام پڑھتا تھا (چاہے وہ اردو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو) بعد میں کوئی گلو کارہ اسے گاتی تھی یا موسیقار اسے ساز پر بجاتا تھا۔ آخر میں یہی کلام کسی رقاصہ کی مدد سے اسٹیج پر ناچا جاتا تھا۔ اتفاق سے اس محفل میں دونوں شاعروں کے فرزندگان بھی موجود تھے۔ ایک شاعر کے فرزند دلبند نے تو احتجاجی بیان دیا البتہ دوسرے شاعر کے فرزند مند بند نے وضاحتی بیان دیتے ہوئے یہ تسلیم تو کیا کہ شعر خوانی میں تلفظ کی فاش غلطیاں رہ گئی تھیں لیکن یہ بھی کہا کہ بعد میں گلوکارہ نے اپنی سحر آگیں آواز اور رقاصہ نے اپنے چٹپٹے اور لذیذ رقص کی مدد سے تلفظ کی ان غلطیوں کو ڈھانپ لیا یا یوں سمجھئے کہ ان غلطیوں کی تصحیح کر لی۔ اس معصومانہ وضاحت پر ہمیں ہنسی آ گئی کہ اب رقص اور موسیقی کو آج کے اردو معاشرہ میں رسم خط کا درجہ حاصل ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم تلفظ کی غلطیوں کو رقص و موسیقی کی مدد سے ڈھانپنے کے نادر خیال سے ہی ہمیں وحشت ہونے لگی ہے۔ کیوں نہ ہو ذرا دیکھئے کہ غالب نے اپنے ایک شعر میں ’’ڈھانپنے‘‘ کے عمل کو کیسی فیصلہ کن بلاغت کے ساتھ باندھا ہے۔
ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگ وجود تھا
اردو معاشرہ پر اب ایسا ہی نزع کا عالم طاری ہوتا جا رہا ہے۔ یاد رکھئے کہ جب کسی زبان کے الفاظ کا تلفظ بگڑنے لگتا ہے یا اس کا رسم خط اس سے چھین لیا جاتا ہے تو وہ زبان یتیم و یسیر ہو کر بالآخر تاریخ کے صفحات میں گم ہو جاتی ہے۔ خوب یاد آیا 1972ء میں ہم نے ایک انشائیہ ’’اردو کا آخری قاری‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا جس میں ہم نے پیشین گوئی کی تھی کہ اکیسویں صدی کے آتے آتے اردو ختم ہو جائے گی (اگرچہ بعد میں پبلک کے بے حد اصرار پر ہم اس پیشین گوئی سے دستبردار بھی ہو گئے تھے)۔ ’’شب خون‘‘ کے خبر نامہ کے تازہ شمارہ میں ہمارے دانشور دوست اور اردو فکشن کے اہم نقاد سکندر احمد کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے از راہ عنایت ہمارے مذکورہ بالا انشائیہ کا حوالہ دیتے ہوئے اور ہمارے انشائیہ کے خلاف تردیدی بیان جاری کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’اردو زبان سمٹ نہیں رہی ہے اور نہ سمٹے گی کیونکہ اردو کا سب سے بُرا دور گزر چکا ہے‘‘۔ سکندر احمد ہمارے عزیز دوست ہیں۔ بے شک ہم نے اردو زبان کے انجام کے بارے میں اپنی پیشین گوئی واپس لے لی ہے لیکن ذرا دیکھئے کہ اکیسویں صدی میں جو اردو لُٹ لٹا کر اور اپنی جان بچا کر آئی ہے اس کا تلفظ کیسا ہے اور اس کے رسم خط کا کیا حال ہے؟ اس کی تعلیم کا کیا بندوبست ہے؟ اس کی جس کسمپرسی اور زبوں حالی کا ہم نے اپنے کالم میں ذکر کیا ہے اس کے پس منظر میں ہمیں یوں لگ رہا ہے جیسے سکندر احمد کا یہ پر امید انٹرویو ہمارے کالم کی تلخی اور یاسیت کو ’’ڈھانپنے‘‘ کی کامیاب کوشش ہے۔
سب سے آخر میں ہم ٹیلی ویژن اور دیگر پروگراموں میں اردو کے ساتھ ہونے والی لسانی چھیڑ چھاڑ کے بارے میں بی بی سی کے معروف براڈکاسٹر رضا علی عابدی کے تاثرات پیش کرنا چاہیں گے۔ وہ فرماتے ہیں ’’یہ لوگ زبان کے قاتل ہیں۔ ان کی گرفت ہونی چاہئے۔ اگر کوئی زبان کے ساتھ بدسلوکی کرے تو اس کو سزا ملنی چاہئے۔ یہ زبان کا زوال اور انحطاط ہے۔ زبان تقدس مانگتی ہے۔ احترام چاہتی ہے۔ زبان کوئی کھیل نہیں ہے‘‘۔ ایک زمانہ تھا جب اردو میں چیزوں کے افشا اور آشکار ہونے کا چلن عام تھا مگر اب ’’ڈھانپنے‘‘ اور چھپانے کا رواج بڑھتا جا رہا ہے۔ معاف کیجئے ہمیں یہاں پھر غالب کا وہی شعر یاد آ رہا ہے جو ڈھانپنے کے معاملہ میں ’’حرف آخر‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب رہنے بھی دیجئے۔
٭٭٭
آپ کو کیا تکلیف ہے؟
پنڈت ہری چند اختر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جب بھی اپنے کسی شناسا سے ملتے تھے تو معمول کے مطابق یہ نہیں پوچھتے تھے کہ میاں کس حال میں ہو اور کیسے ہو؟ بلکہ سیدھے سیدھے یہ پوچھ لیتے تھے کہ بھیا تمہیں کیا تکلیف ہے؟ ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان کا مخاطب انہیں اس سوال کا کیا جواب دیتا تھا۔ تاہم قیاس اغلب ہے کہ پنڈت ہری چند اختر چونکہ زندہ دل اور بذلہ سنج انسان تھے اس لئے ان کا مخاطب اُن کے اس سوال کو پنڈت جی کی زندہ دلی کے کھاتے میں ڈال دیتا ہو گا اور ہنس کر خاموش ہو جاتا ہو گا۔ لیکن غور سے دیکھا جائے تو پنڈت جی کے اس سوال میں نہ صرف گہری معنویت موجود ہے بلکہ اس میں انسانی ہمدردی کا سچا جذبہ بھی پوشیدہ ہے۔ یوں بھی یہ سوال کہ ’’ کیا حال ہے جناب کا؟‘‘ اب ایک بوسیدہ اور رسمی سا سوال بن کر رہ گیا ہے۔ صدیوں سے سماج میں یہ سوال اتنی مرتبہ پوچھا گیا ہے اور اب بھی پوچھا جاتا ہے کہ اب اس سوال کی حیثیت بالآخر ایک دُم چھلہ یا تکیہ کلام کی سی ہو گئی ہے۔ جس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔
ہم نے آج تک یہ نہیں دیکھا کہ کسی نے کسی کا حال پوچھا ہو اور مخاطب نے اچانک اپنے حال کے خراب ہونے کا دُکھڑا رونا شروع کر دیا ہو۔ ایک مہذب انسان سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ اس سوال کے جواب میں یہ کہہ دے کہ بالکل ٹھیک ہوں، خیریت سے ہوں، آپ کی دعاؤں کے طفیل اچھا ہوں اور اوپر والے کا کرم ہے وغیرہ۔ اگر خدا نخواستہ وہ بے انتہاء تکلیف میں بھی ہو تو اپنے حال کے خراب ہونے کا اعلان نہیں کرے گا بلکہ اسے پوشیدہ رکھے گا کیونکہ ہماری قدیم روایات کے مطابق تہذیب اور شائستگی کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان اپنی تکلیف کو برداشت کرتا رہے اور اس کا اظہار کسی کے سامنے نہ کرے اور کرے بھی تو اس انداز سے کرے کہ مخاطب کے جذبات برانگیختہ اور برگشتہ نہ ہوں۔ نمونے کے طور پر دو مہذب افراد کے بیچ بات چیت کا ایک ریکارڈ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔
’’کہو میاں کس حال میں ہو؟
’’بالکل اچھا ہوں، آپ کی دُعا ہے‘‘
’’ بہت دنوں بعد ادھر آنا ہوا۔ پچھلے ہفتے بالکل غائب رہے‘‘۔
’’کیا کروں پچھلے ہفتے آپ کی عنایت سے میرے گھر کو آگ لگ گئی تھی‘‘۔
’’ کیا کہا! گھر کو آگ لگ گئی تھی؟‘‘
’’ جی ہاں! گھر کو آگ لگ گئی تھی، اور وہ بھی گھر کے چراغ سے‘‘
’’ گھر کے چراغ سے! کیا مطلب؟‘‘
’’ مطلب یہ کہ اپنے ہی محلے کے بلوائیوں نے میرے گھر پر حملہ کر کے آگ لگا دی تھی‘‘۔
’’ کوئی مرا تو نہیں؟‘‘
’’ بلوائیوں کے سوائے ہر کوئی مر گیا‘‘
’’ پھر تم کیسے بچ گئے؟‘‘
’’ پولیس نے نقض امن کے اندیشے کے تحت پہلے ہی مجھے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا تھا‘‘
’’ پولیس کبھی کبھی اچھے کام بھی کر دیتی ہے‘‘
’’ شکر ہے ہماری پولیس کا ورنہ میں بھی کب کا مر گیا ہونا‘‘
’’ اور کیا حال ہے؟‘‘
’’ بالکل اچھا ہوں۔ پانچ دن سے بھوکا ہوں۔ تین دن سے بخار میں مبتلا ہوں، جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں ہے مگر آپ کی دعاء سے پھر بھی زندہ ہوں‘‘۔
’’ یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ تم میں صبر جمیل کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ خدا تمہیں اور بھی صبر جمیل عطا کرے۔ جس حال میں بھی رہو خوش رہو۔ اسی کا نام زندگی ہے۔ مستقبل میں زندہ رہو تو پھر کبھی ملنے کیلئے ضرور آنا، خدا حافظ‘‘
اس بات چیت سے آپ نے اندازہ لگایا ہو گا کہ لوگ زیادہ تر رسمی باتیں کرتے ہیں اور ان کے پیچھے کوئی جذبہ، کوئی ارادہ کار فرما نہیں ہوتا۔ پنڈت ہری چند اختر ایک ذہین اور زندہ دل انسان تھے۔ وہ جانتے تھے کہ رسماً کسی کا حال پوچھنے اور اس شخص کو اپنا حال اچھا بتانے پر مجبور کرنے سے بہتر تو یہ ہے کہ اس سے سیدھے سیدھے اس کی تکلیف کے بارے میں پوچھ لیا جائے تاکہ وہ دل برداشتہ ہو کر ہی اپنی تکلیف بیان کر دے کیونکہ اس طرح بھی اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو سکتا ہے۔ گھٹن کو اپنے سینے میں دبائے رکھنے کی بجائے اسے باہر نکال دیں تو آدمی کو تھوڑا بہت سکون مل جاتا ہے۔ یوں بھی کسی سے اچانک یہ پوچھ لینا کہ وہ کس حال میں ہے کوئی مناسب بات نہیں ہے۔ کیونکہ آج کے زمانے میں کوئی کسی کے حال کو بہتر بنانے کا اہل نہیں رہا اور کسی کو کسی کے حال سے دلچسپی نہیں رہی۔ نفسا نفسی کا عالم ہے اور اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ مانا کہ کسی سے اچانک یہ پوچھ لینا کہ اسے کیا تکلیف ہے ایک غلط حرکت ہو گی لیکن سوال بالکل غلط بھی نہیں ہو گا کیونکہ آج کی دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جسے کوئی تکلیف نہ ہو۔ ایسے میں ایک رسمی سا سوال پوچھ لینا کہ مخاطب کس حال میں ہے اور پھر اُسے اپنا حال اچھا بتانے کی خاطر جھوٹ بولنے پر اُکسانا بھی گناہ کبیرہ سے کم نہیں۔ ہمیں علم ہے کہ آپ کسی کی تکلیف کم نہیں کر سکتے لیکن اس طرح آپ تکالیف کے بارے میں اپنی معلومات میں بیش بہا اضافہ تو کر سکتے ہیں۔ مشکلیں اتنی بڑھیں کہ آساں ہو گئیں والے فارمولے پر عمل کر کے آپ اپنی اور دوسروں کی تکلیف کے احساس کو کم بھی کر لیتے ہیں۔ پرانا مقولہ ہے کہ دُکھ بانٹنے سے کم ہو جاتا ہے اور خوشیاں بانٹنے سے بڑھ جاتی ہیں۔ ہم نے بھی ایک دن پنڈت ہری چند اختر کے طرز عمل کو اپنا کر دیکھ لیا کیونکہ اس دن ہم جس سے بھی ملے یہی سوال پوچھتے رہے کہ میاں تمہیں کیا تکلیف ہے؟
ایک نوجوان سے ہم نے جب یہ سوال پوچھا تو اس نے کہا ’’ کوئی ایک تکلیف ہو تو بتاؤں یہاں تو سینکڑوں تکلیفیں ہیں‘‘۔
’’ پھر بھی کوئی بڑی تکلیف ہو تو بتاؤ؟‘‘
’’ بڑی تکلیف کا ذکر میں آپ سے کیوں کروں۔ کسی بڑے آدمی سے کیوں نہ کروں۔ ہو سکتا ہے وہ اس کا کوئی حل نکال ہی لے۔ آپ تو میری تکلیف کو جان کر صرف مزہ لینے کی کوشش کریں گے۔ بلکہ اندر ہی اندر خوش ہوں گے کہ آپ کو یہ تکلیف نہیں ہے۔ آج کا انسان ایسی ہی گھٹیا باتوں سے خوش ہوتا ہے۔‘‘
’’ لیکن میں گھٹیا باتوں سے خوش نہیں ہوتا‘‘۔
’’ جناب! آپ کو یہ خوش فہمی ہے۔ بھلا بتائے آپ میری تکلیفوں کے بارے میں جان کر کیا کریں گے۔ یہ کام اصولا حکومت وقت کا ہے کہ وہ ہم جیسوں کی تکلیفوں کا حال جانے۔ پرانے حکمران لوگوں کی تکلیفوں کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کی غرض سے بھیس تک بدل لیتے تھے۔ آج کے حکمران لوگوں کو دھوکہ دینے کی غرض سے خود نہ صرف بھیس بدل لیتے ہیں بلکہ عوام کا لباس چھین کر انہیں ننگا کر دیتے ہیں تاکہ وہ بھیس بدلنے کے قابل ہی نہ رہیں۔‘‘
ہم نے ایک اور نوجوان سے پوچھا‘‘ میاں تمہیں کیا تکلیف ہے؟‘‘
بولا ’’ میری تکلیف سے آپ کو کیا تکلیف ہو رہی ہے؟‘‘
’’ میں اپنی معلومات میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
’’ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اپنے فائدے کیلئے میری تکلیفیں جاننا چاہتے ہیں۔ ایسی بات ہے تو میں فی تکلیف دس روپئے معاوضہ لوں گا۔ میں مفت میں کوئی چیز دینے کا قائل نہیں ہوں‘‘۔ ’’پہلے دس تکلیفوں کے سو روپئے پیشگی ادا کرو تو تکلیفوں کا بیان شروع کروں‘‘۔
’’اُدھار کھاتہ نہیں چلے گا؟‘‘
‘‘آپ کو شرم آنی چاہئے کہ جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہیں ہے اور آپ لوگوں کی تکلیفیں جاننے کیلئے نکلے ہیں۔ جاؤ آگے کا راستہ ناپو‘‘۔
پھر ہم نے ایک معصوم اور سادہ لوح نوجوان سے پوچھا ’’ میاں! تمہیں کیا تکلیف ہے؟‘‘
اس پر وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر بولا۔ ’’ میری تکلیف یہ ہے کہ گرمی کے موسم میں دن اتنا بڑا کیوں ہو جاتا ہے؟‘‘
’’ دن کے بڑے ہونے سے تمہیں کیا تکلیف ہے؟‘‘
’’ بے روزگاری میں وقت بڑی مشکل سے کٹتا ہے۔ اتنے بڑے دن کو کاٹنے کیلئے بڑے حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ رات کو آدمی پھر بھی سوجاتا ہے اور گرمی کے دن ہوں تو آدمی کھلے میں سو جاتا ہے اور آسمان پر چاروں طرف تارے ہی تارے ہوتے ہیں۔ ایسے میں آدمی کو نیند نہ آئے تو وہ تارے گننے میں اپنے آپ کو مصروف رکھ سکتا ہے‘‘۔
’’ تمہاری بے روزگاری کی خاطر قدرت اپنے موسموں سے تو دستبردار نہیں ہو سکتی۔ قدرت کا کارخانہ اسی طرح تو چلتا ہے۔‘‘
’’ قدرت کے کارخانے کو چلتے رہنے دیں۔ آپ بیچ میں مداخلت نہ کریں۔ اگر میں گرمی کے موسم میں دن کے بڑے ہونے کی تکلیف کا ذکر کر رہا ہوں تو اس سے آپ کو کیا تکلیف ہوتی ہے۔ دنیا تکلیفوں سے ہی مل کر بنتی ہے۔ تکلیف ہی زندگی ہے۔ آج کے دور میں کوئی کسی کی تکلیف کو دور نہیں کر سکتا اور سب سے بڑی تکلیف یہی ہے۔
٭٭٭
پیٹ بڑا بدکار ہے
آپ نے ایسی خبریں تو ضرور پڑھی ہوں گی کہ ڈاکٹر نے کسی مریض کے پیٹ میں سے رسولی کو نکالنے کی غرض سے پیٹ کی سرجری کی۔ رسولی کو تو باہر نکال لیا لیکن غفلت میں سرجری کی قینچی پیٹ میں رکھ کر بھول گئے۔ جب بھولی ہوئی قینچی کی یاد آئی تو تب تک ڈاکٹر صاحب کو یہ یاد نہیں رہا کہ وہ اس قینچی کو کون سے مریض کے پیٹ میں کب اور کہاں رکھ کر بھول گئے ہیں۔ لہذا پیٹ کے سارے سابق مریضوں کی خدمت میں اپنے کارندے اس پیغام کے ساتھ بھجوائے کہ جناب آپ کے پیٹ میں ہماری قینچی رہ گئی ہو تو براہ کرم واپس کر دیں۔ اس کے جواب میں بعض سمجھ دار مریضوں نے لوٹے لے کر مذکورہ قینچی کی تلاش شروع کر دی۔ جو ناسمجھ تھے وہ کارندوں سے بحث کرنے لگے کہ تمہارے ڈاکٹر صاحب کبھی مریض سے فیس وصول کرنا تو نہیں بھولتے مگر قینچی کو مریض کے پیٹ میں رکھ کر کیسے بھول جاتے ہیں۔
ایسے میں کارندہ بھی اگر اتفاق سے ناسمجھ ہو تو مریض کو سمجھانے لگتا ہے ’’ میاں ایسا کنگال زمانہ آ گیا ہے کہ آدمی آج اپنی کوئی بھی چیز کہیں نہیں بھولتا، مگر پھر بھی گڑبڑ ہو جاتی ہے۔ یوں بھی دوسرے کے پیٹ میں اپنی کوئی چیز چلی جائے تو چیز کا مالک کبھی اس صورتحال کو برداشت نہیں کرتا کیونکہ ہر آدمی کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس دنیا میں جتنا بھی مال ہے وہ سب اسی کے پیٹ میں جائے۔ تبھی تو ایک دوسرے کا پیٹ کاٹنے کی نوبت آتی جاری ہے۔ اب اگر ڈاکٹر صاحب کہہ رہے ہیں کہ تمہارے پیٹ میں ان کی قینچی رہ گئی ہے تو ہو سکتا ہے غلطی سے رہ گئی ہو۔ پھر وہ اپنی ہی قینچی مانگ رہے ہیں تمہاری قینچی تو نہیں مانگ رہے ہیں کہ تم خفا ہونے لگو۔ ان دنوں ایک پیسے کی چیز بھی کوئی دوسرے کے پیٹ میں یوں ہی نہیں چھوڑتا، پھر یہ تو قینچی ہے۔ دیا سلائی کی ڈبیہ نہیں ہے کہ اسے تمہارے پیٹ میں رہنے دیا جائے۔ قینچی کو بھولنے کی یہ مثال ہم نے یوں ہی دی ہے۔ بھولنے کو تو آدمی کچھ بھی بھول سکتا ہے۔ بشرطیکہ منطقی اعتبار سے اس بھول کا کوئی جواز موجود ہو۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک ڈاکٹر اپنے دستانے کسی مریض کے پیٹ میں رکھ کر بھول جائے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے موزے بھی مریض کے پیٹ میں رکھ کر بھول جائے۔
پھر بھی آئے دن ایسی عجیب و غریب خبریں پڑھنے کو مل جاتی ہیں کہ آپ دنگ رہ جاتے ہیں کیونکہ آپ کو ان کا کوئی منطقی جواز نہیں ملتا۔ پچھلے دنوں ریاض سے یہ خبر آئی ہے کہ سعودی ڈاکٹروں نے ایک ستر سالہ مریض کے پیٹ میں سے ایک ٹوتھ برش کو برآمد کیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ اس مریض نے 22 برس پہلے اس ٹوتھ برش کو نگل لیا تھا (کیوں نگلا تھا یہ کسی کو نہیں معلوم) تب سے یہ ٹوتھ برش وہاں خیریت سے تھا۔ مریض کو بھی پیٹ میں اس کی موجودگی سے کوئی تکلیف نہیں تھی۔ تاہم ڈاکٹروں نے غالباً سوچا کہ ایک ٹوتھ برش بیکار میں کیوں کسی کے پیٹ میں پڑا رہے۔ باہر نکلے تو کسی ضرورت مند کے کام آئے گا اور ضرورتمند کے دانت چمکنے لگ جائیں گے۔ اب ہم اس خبر کو پڑھ کر حیران اور پریشان ہیں۔ پہلے تو یہ وجہ سمجھ میں نہ آ سکی کہ مریض نے 22 برس پہلے اس ٹوتھ برش کو کیوں نگلا تھا۔ کیونکہ ٹوتھ برش کھانے کی چیز تو ہے نہیں۔ کسی حد تک ٹوتھ پیسٹ میں ذائقہ ہوتا ہے۔ اگر یہ اچھی کمپنی کا ہو تو لذیذ بھی لگتا ہے۔ لیکن ٹوتھ برش میں بذات خود کوئی ذائقہ نہیں ہوتا۔ پھر اس کی ساخت کچھ ایسی ہوتی ہے کہ اسے آسانی سے حلق کے نیچے اُتارا نہیں جا سکتا۔ ٹوتھ برش، مونگ پھلی یا کاجو کی طرح تو ہوتا نہیں کہ جب جی چاہا منہ میں ڈال لیا اور پیٹ میں پہونچا دیا۔ ہم تو اس بات پر حیران ہیں کہ یہ پیٹ میں کس طرح پہونچا۔ آدمی ہمیشہ سے پیٹ میں اچھی اور قیمتی چیزیں ہی داخل کرتا آیا ہے۔ چٹپٹی اور مرغن غذائیں تو عموماً پیٹ میں جاتی ہی ہیں بسا اوقات کسٹم والوں کے ڈر سے سونے کے بسکٹ، اشرفیاں اور ہیرے جواہرات بھی پیٹ میں داخل کئے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی بچے بھی غلطی سے سکے نگل لیتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت ہمیں اپنے ایک دوست کی یاد آ رہی ہے جن کے بیٹے نے ایک اشرفی نگل لی تھی۔ ہمارے ان دوست نے سارا ماجرا سنانے کے بعد پریشان ہو کر ہم سے پوچھا تھا کہ کیا تم کسی اچھے اور قابل اعتماد ڈاکٹر کا پتہ بتاسکتے ہو جو میرے بیٹے کے پیٹ میں سے اشرفی کو نکال سکے۔ اپنی پیچیدہ فطرت کے باعث ہم نے اس سیدھے سے استفسار کا مطلب یہ سمجھا کہ ہمارے دوست کو اصل میں ایک ایسا ایماندار اور نیک نیت ڈاکٹر درکار ہے جو اشرفی کو بچے کے پیٹ میں سے نکالنے کے بعد امانت میں خیانت کئے بغیر اشرفی کو بچہ کے والدین کے حوالے کر دے اور فیس کا حوالہ دے کر اسے خود سے ہڑپ کرنے کی کوشش نہ کرے۔
اس پر ہم نے کہا ’’ایسی حالت میں مناسب یہ ہو گا کہ جب ڈاکٹر بچے کے پیٹ میں سے اشرفی کو برآمد کرنے لگے تو اس وقت احتیاطی تدبیر کے طور پر پولیس کو بھی طلب کر لیا جائے تاکہ ڈاکٹر کی نیت خراب نہ ہو جائے۔ ہمارے اس جواب پر ہمارے یہ دوست ہم سے برسوں ناراض رہے۔ انہیں یہ شکایت تھی کہ ہم انہیں بھی اپنی ہی طرح کا انسان سمجھتے ہیں۔ جو خود تو بڑا بے ایمان ہوتا ہی ہے دوسروں کو بھی بے ایمان سمجھتا ہے۔ اصل میں پیٹ کا معاملہ ہی نازک ہوتا ہے اور یہ ضروری بھی نہیں کہ پیٹ میں صرف کھانے پینے کی چیزیں ہی داخل ہوں۔ ایک بار ہم نے خبر پڑھی تھی کہ کسٹم والوں نے ایک مسافر کے پیٹ میں سے کئی سو ڈالر کے کرنسی نوٹ برآمد کئے جو کپسول میں رکھ کر پیٹ میں داخل کئے گئے تھے۔ یوں بھی آئے دن مسافروں کے پیٹ میں سے سونے کے بسکٹ، چرس کے پیاکٹ اور ہیرے جواہرات وغیرہ برآمد ہوتے رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ چیزیں مزیدار اور لذیذ ہوتی ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیٹ بڑا بدکار ہے اور یہ آدمی کے جسم کے دوسرے اعضا سے غلط سے غلط کام کرواتا رہتا ہے۔ پیٹ اتنا بدکار ہے کہ آدمی کو مجبور کر دیتا ہے کہ وہ اپنا ضمیر بیچ دے۔ اپنی نیت خراب کر لے اور دوسروں کو دھوکہ دینے لگ جائے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی اس کے بعد صرف مرغن غذائیں اور لذیذ چیزیں کھانے پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ حرام کی کمائی تک کھانے لگ جاتا ہے۔ پھر تو اُس کا پیٹ ایسی ایسی چیزیں کھانے کا عادی ہو جاتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مثلاً آدمی جھوٹی قسمیں کھاتا ہے، رشوت کھاتا ہے، گالیاں کھاتا ہے بلکہ جوتیاں تک کھا جاتا ہے۔
اب ہم ان اشیاء کی فہرست کو کہاں تک طول دیں جنہیں آدمی اکثر کھاتا رہتا ہے۔ آپ خود اس فہرست میں ان چیزوں کو شامل کر لیں جو آپ آج کے زمانے میں کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سعودی باشندے کے پیٹ میں ٹوتھ برش کے ملنے پر ہمیں کوئی حیرت نہیں ہے کیونکہ ٹوتھ برش کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ اس کے رہنے پر کسٹم والوں کو اعتراض ہو۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم اپنا قلم خود کھالیں یا کنگھی کھالیں یا شیونگ برش کھالیں۔ بھئی ہماری چیز ہے ہم نے جہاں چاہا وہاں رکھ دی والا معاملہ ہے۔ ہمیں تو وہ ڈاکٹر بھی اچھے معصوم اور سادہ لوح نظر آتے ہیں جو اپنے نشتر، قینچیاں اور سرجری کے دیگر اوزار مریضوں کے پیٹوں میں بھولے سے رکھ دیتے ہیں۔ یہ ان کی بڑائی اور اعلی ظرفی نہیں تو اور کیا ہے کیونکہ ان دنوں آدمی اپنی کوئی چیز، چاہے وہ کیسی ہی کیوں نہ ہو، کسی دوسرے کے پیٹ میں جاتے ہوئے دیکھ نہیں سکتا۔ پیٹ ہے ہی ایسی بدکار چیز، یہ الگ بات ہے کہ آدمی کبھی کبھی بے خیالی میں اپنی چیزیں ادھر اُدھر رکھ کر بھول جاتا ہے۔ لیجئے ہمیں اس وقت اپنے ایک آرٹسٹ دوست یاد آ گئے جن سے ہم نے اپنے دفتر کی ایک کتاب کا ٹائٹل بنوایا تھا۔ اپنی محنت کا معاوضہ وصول کرنے کی غرض سے وہ ہمارے پاس آئے تو ہم نے معاوضہ دینے سے پہلے خواہش کی کہ وہ ایک کاغذ پر رسیدی ٹکٹ لگا کر دستخط کر دیں۔ اتفاق سے ان کے پاس اس وقت رسیدی ٹکٹ نہیں تھا۔ لہذا ہم نے ہی از راہ عنایت انہیں اپنے پاس سے رسیدی ٹکٹ دے دیا۔ اس کے بعد پھر بڑی دیر تک ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں، جب رسیدی ٹکٹ پر دستخط کرنے کی نوبت آئی تو معلوم ہوا کہ رسیدی ٹکٹ کہیں غائب ہو گیا ہے۔ کمرے میں ہر جگہ رسیدی ٹکٹ کو تلاش کیا لیکن یہ نہ ملا۔
ہم خود حیران رہ گئے کہ ابھی پانچ منٹ پہلے جو چیز انہیں دی تھی وہ کیسے غائب ہو گئی۔ یقین مانیے پورا ایک گھنٹہ اس رسیدی ٹکٹ کو تلاش کرنے میں ضائع ہو گیا۔ پھر اچانک ایک کوندے کی طرح ایک خیال ہمارے ذہن میں آیا اور ہم نے اپنے آرٹسٹ دوست سے کہا کہ وہ ذرا اپنی زبان باہر کو نکالیں۔ جیسے ہی ان کی زبان باہر نکلی ہم نے دیکھا کہ رسیدی ٹکٹ ان کی زبان پر ٹکا ہوا ہے۔ گویا ہمارے آرٹسٹ دوست نے ٹکٹ کی گوند والی سطح کو گیلا کرنے کیلئے اسے زبان پر تو رکھا لیکن اسے کاغذ پر چسپاں کرنا بھول گئے۔ اگر اس اثناء میں ہمارے دوست نے خدا نخواستہ پانی پی لیا ہوتا تو یہ رسیدی ٹکٹ بھی ان کے پیٹ میں چلا جاتا اور کیا عجب کہ اس ٹکٹ کو باہر نکالنے کیلئے کسی ڈاکٹر کی خدمات سے استفادہ کرنا پڑتا۔ حالانکہ ایسی چیزوں کو پیٹ میں سے برآمد کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔ اب جو سعودی عرب کے ڈاکٹروں نے ستر سالہ مریض کے پیٹ میں سے ٹوتھ برش نکالا ہے تو یہ بھی فضول خرچی ہے اور اس کا کوئی خاص مقصد نہیں ہے۔ اگر ڈاکٹر حضرات انسان کے پیٹ میں سے کوئی چیز نکالنا ہی چاہتے ہیں تو کسی ایسے آدمی کو ڈھونڈیں جس نے کسی کی جائیداد ہڑپ کر لی ہو یا کسی کا حق مار کر کھا گیا ہو۔ اگر آپ کسی غاصب کا پیٹ چیر کر کسی مظلوم کو اُس کا حصہ دلوا دیں تو یہ بھی طب کی ترقی کا کمال ہو گا۔ مالداروں نے غریبوں کے پیٹ کاٹ کر اپنے پیٹ بڑے کر لئے ہیں۔ بعض تو چلنے پھرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔ اگر ڈاکٹر حضرات مالداروں کے پیٹ چیر کر ان میں چھپی ہوئی غریبوں کی خوشحالی کو برآمد کرنے کا سلسلہ شروع کریں تو یہ ایک کارنامہ ہو گا۔ پیٹوں میں سے صرف روکھی سوکھی قینچیاں، ٹوتھ برش اور اشرفیاں وغیرہ برآمد کرنے سے کچھ بھی نہیں ہو گا۔ اس سے بھلے ہی طب کی ترقی ہوتی ہو سماج اور معاشرے کی ترقی نہیں ہو گی۔
٭٭٭
دِلّی، سنگ دِلی اور زندہ دِلی
جب کسی قلمکار یا فنکار کی زندگی میں شام کے سائے گہرانے لگتے ہیں تو اس کے معصوم بہی خواہ اپنی اکثر شامیں محض اس خوش فہمی میں اسے سونپ دیتے ہیں کہ پتہ نہیں کب اور کس گلی میں ان کے ممدوح کی آخری شام آ جائے۔ یہ عموماً اس وقت ہوتا ہے جب ان کا ممدوح اپنی تاریخِ پیدائش سے بہت دور نکل آتا ہے اور تاریخِ وفات اس کے قریب پہنچ رہی ہوتی ہے۔ حالانکہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اسے نہ تو صبحوں اور شاموں سے کوئی سروکار ہوتا ہے اور نہ ہی اسے ان کا انتظار ہوتا ہے۔ اردو کے طرح دار شاعر، میرے دوست مصحف اقبالؔ توصیفی نے غالباً ایسے ہی کسی موقع اور کیفیت کے اظہار کے لئے کیا خوب کہا تھا:
جس سے لی تھیں اُسی کو لوٹا دیں
یہ رہی صبحیں، یہ تری شامیں
اردو کے عہد ساز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے میرے ایک اور مزاح نگار دوست عطا الحق قاسمی کے حوالے سے ایک واقعہ کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے کہ کسی جلسہ گاہ کے اطراف اردو کے کچھ ادیب اور شاعر آ جا رہے تھے۔ ایسے میں مشتاق احمد یوسفی کا اتفاقاً اُدھر سے گذر ہوا تو انہیں اس بھیڑ میں عطا الحق قاسمی بھی نظر آئے۔ یوسفی نے عطاؔ سے پوچھا: ’’کہو بھئی! اندر آڈیٹوریم میں کیا ہو رہا ہے؟‘‘
عطاؔ نے کہا: ’’حضور! یہاں ایک چوہے کو شراب پلائی جا رہی ہے‘‘۔
یوسفیؔ نے حیرت سے پوچھا: ’’چوہے کو شراب پلائی جا رہی ہے! کیا مطلب ہے؟‘‘
عطا نے جواب دیا: ’’اندر ایک استاذ الاساتذہ قسم کے ایک شاعر کی شام منائی جا رہی ہے۔ اس کے شاگرد اس کی شان میں اتنے قصیدے پڑھ چکے ہیں کہ وہ تعریف کے نشے میں دھت ہو چکا ہے‘‘۔
سچ پوچھئے تو کسی کی شام منانا در اصل چوہے کو شراب پلانے جیسا ہی کام ہے۔ یوں بھی شام مناتے وقت مقر رین اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ دروغ گوئی اور تعریف دونوں میں کوئی حدِ فاصل برقرار نہ رہے، بھلے ہی جھوٹ پر تعریف کا گمان ضرور ہو لیکن تعریف پر کسی کو جھوٹ کا گمان نہ ہونے پائے۔ شام کی کاریگری اسی کو کہتے ہیں۔
یادش بخیر! ہمیں اس وقت ایک اور ادبی شرابی چوہے کی یاد آ گئی جو ایک میکدے میں خونخوار بِلّی سے بچنے کی خاطر دیوانہ وار دوڑ لگا رہا تھا۔ چوہا آگے آگے اور پیچھے پیچھے بِلّی کہ یکبارگی چوہا ایک ایسے گلاس میں جا گرا جو شراب سے بھرا ہوا تھا۔ چوہے نے چار پانچ ڈبکیاں لگانے کے علاوہ شراب کے چار پانچ گھونٹ بھی پی لئے۔ پھر کچھ دیر بعد گلاس کے کنارے پر چڑھ کر چوہے نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ ایک ہچکی لی اور بہ آوازِ بلند چیخا ’’اری او ڈرپوک بِلّی! کہاں چھپ گئی۔ ہمت ہے تو سامنے آ۔
آج تو میں تجھے کچا چبا جاؤں گا‘‘۔ (دیکھا آپ نے شراب اور تعریف دونوں کا نشہ کتنا زود اثر ہوتا ہے ) تاہم میں بڑے ادب کے ساتھ اپنا معروضہ آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں کہ بھلے ہی شاعر اور چوہے کو ضرورتِ شعری کے تحت شراب پلائی جا سکتی ہو لیکن ایک مزاح نگار کو بشرطیکہ وہ سچا مزاح نگار ہو، شراب پلا کر مد ہوش کرنا نا ممکن سا امر ہے۔ اس لئے کہ مزاح نگار ہمیشہ زمین سے جڑا رہتا ہے اور اپنی اصلیت کو خوب پہچانتا ہے۔ وہ مد ہوشی اور سرشاری کے عالم میں ہوا میں نہیں اڑتا بلکہ ایک ذرۂ نا تحقیق بن کر خاک میں مل جاتا ہے اور اپنے آپ ہی گل و گلزار ہو جاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ دنیا کی نظر سے بھی خود کو دیکھنے اور پرکھنے کا اہل ہوتا ہے۔ آپ اسے چھوٹا منہ بڑی بات نہ سمجھیں تو عرض کروں کہ ایک اچھے مزاح نگار کا بنیادی منصب ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ وقفہ وقفہ سے سماج کے ان نشے بازوں اور میخواروں کا نشہ اتارتا رہے جو صرف شراب کے نشے کے عادی نہیں ہوتے بلکہ جنہیں اقتدار، دولت، حرص، ہوس، رعونت اور شہرت کے نشے کی عادت پڑ جاتی ہے
اور یہ وہ نشہ ہے جو خود سے نہیں اترتا بلکہ اسے اتارنا پڑتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اچھا مزاح نگار ایک معصوم آدمی ہوتا ہے لیکن سماج کے بدمعاش اور بدکردار عناصر کو بے نقاب کرنے کے معاملے میں وہ خود بدمعاشوں سے بھی کہیں زیادہ بدمعاش بن جاتا ہے۔ وہ ایسے کرداروں کی اوچھی حرکتوں اور کرتوتوں کو بہت اچھی طرح جانتا ہے لیکن خود سے ان حرکتوں پر عمل پیرا ہونے کو ضروری نہیں سمجھتا۔ اس کی حالت کنول کے اس پھول کی سی ہوتی ہے جو گندگی میں پنپنے کے باوجود خود کو گندگی سے محفوظ رکھتا ہے۔ وہ ظالم کے خلاف مظلوم کے حق میں، طاقتور کے خلاف کمزور کے حق میں، نا انصافی کے خلاف انصاف کے حق میں، اندھیرے کے خلاف اجالے کے حق میں اپنی آواز بلند کرتا رہتا ہے۔ میں نے ایک بار کہیں لکھا تھا کہ ظرافت نگاری کیلئے آدمی کا ظریف ہونا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کا با ظرف ہونا بھی نہایت ضروری ہوتا ہے۔ ایک مزاح نگار کا ظرف ہی اس کی ظرافت کو جانچنے کا اصل پیمانہ ہے۔
حضرات! یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ملک بھر میں جگہ جگہ اردو اکادمیاں بکھری ہوئی ہیں جن کی اوٹ پٹانگ سرگرمیوں کو میں نے ہمیشہ اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے لیکن اردو اکادمی دہلی وہ واحد اکادمی ہے جسے میں اپنے مذاق کا موضوع نہ بناسکا بلکہ میرا تو جی چاہتا ہے کہ میں اپنی طرف سے خود اردو اکادمی دہلی کی ایک یادگار شایانِ شان شام مناؤں۔ اس لئے کہ اردو اکادمی دہلی سارے ملک کی ایسی اکیلی ہنس مکھ، زندہ دل اور بذلہ سنج اردو اکادمی ہے جس نے طنز و مزاح کی اہمیت کو ہمیشہ تسلیم کیا اور اس کے ساتھ اچھوتوں کا سا سلوک روا نہیں رکھا۔ مجھے یاد ہے کہ اردو اکادمی دہلی کے بانی میرے کرم فرما جناب شریف الحسن نقوی نے بیس برس پہلے دہلی میں اردو طنز و مزاح نگاروں کا ایک یادگار سہ روزہ اجتماع منعقد کیا تھا جس میں ملک بھر سے طنز و مزاح سے متعلق بیسیوں نثر نگاروں اور شاعروں نے شرکت کی تھی۔ ابھی پچھلے سال (2004) میں اکادمی کے موجودہ سکریٹری مرغوب حیدر عابدی کی نگرانی اور ڈاکٹر خالد محمود کی رہنمائی میں مارچ میں ایک سہ روزہ سمینار ’اردو ادب میں طنز و مزاح کی روایت‘ کے موضوع پر منعقد ہوا تھا۔ وہ غالباً سارے ملک میں اپنی نوعیت کا پہلا سمینار تھا جس میں اردو طنز و مزاح کے سارے گوشوں کا بھرپور جائزہ لیا گیا تھا۔ ڈاکٹر خالد محمود نے ابھی حال میں اس سمینار میں پڑھے گئے سارے مضامین کو اکٹھا کر کے کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس ضخیم کتاب کو اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ حوالے کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
صاحبو! سب سے آخر میں خود دہلی کے حوالے سے ارباب اردو اکادمی دہلی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے مجھ جیسے کم سواد کی شام منا کر مجھے ایک گہرے تذبذب اور کشمکش کے دائرے سے باہر نکالا ہے۔ اس لئے کہ دو شہروں کی شہریت کے معاملے میں نہ صرف غیروں نے بلکہ خود میں نے بھی اپنے آپ کو مشکوک نظروں سے دیکھا۔ میں ہمیشہ اس مخمصے میں رہا کہ حیدرآبادی مجھے دہلی والا سمجھتے ہیں اور دہلی والے مجھے حیدرآباد کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس الجھن سے تنگ آ کر میں نے پچھلے سال یہ اعلان کر دیا تھا کہ میں ایک ’’دو شہرا شہری‘‘ ہوں۔ نتیجہ میں اب میں دہلی اور حیدرآباد کے بیچ حالتِ سفر میں زیادہ پایا جاتا ہوں۔
یادش بخیر! ایک زمانے میں قتیل شفائی مرحوم اکثر پاکستان سے ہندوستان آیا جایا کرتے تھے۔ میرے دوست کے ایل نارنگ ساقی نے ایک دن دوستوں کی محفل میں کہا: ’’قتیل بھائی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان آپ ایک پل کی حیثیت رکھتے ہیں‘‘۔ اس پر میں نے قتیل شفائی سے کہا کہ ’’قتیل بھائی! آپ کو ہندوستان اور پاکستان کے بیچ پل کا درجہ پانا مبارک ہو لیکن خدا کے لئے اس پل پر سے کبھی کبھار دوسروں کو بھی آنے کا موقع دیجئے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ہمیشہ آپ ہی اس پل پر سے آتے جاتے رہتے ہیں‘‘۔
اسے اردو اکادمی دہلی کے ارباب مجاز کا کرم نہ کہوں تو اور کیا کہوں کہ انہوں نے جب دہلی کے سربرآوردہ اور ممتاز اہل قلم حضرات کے ساتھ شامیں منانے کا آغاز کیا تو اس سلسلے کی پہلی شام کے لئے استاذالاساتذہ پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی جیسے دل دہلانے والے دہلوی کا انتخاب فرما کر ثابت کیا کہ حق بہ حقدار رسید اسی کو کہتے ہیں لیکن اس کے فوراً بعد منعقد ہونے والی دوسری ہی شام کو اس کمترین سے منسوب کر کے فیض احمد فیضؔ کے اس مصرعے کی عملی تفسیر بھی پیش کر دی کہ کوے یار سے نکل کر سوے دار جانا کس کو کہتے ہیں۔
حضرات! میں نے اپنی زندگی کا سب سے لمبا عرصہ دہلی شہر میں ہی گذارا ہے کسی اور شہر میں نہیں۔ پورے 35 برس۔ اور ان بھرپور برسوں کو گذارنے کے دوران میں مجھ سے عملاً حساب کی وہ غلطی بھی سرزد ہوئی ہے جو غالبؔ سے بہت پہلے سرزد ہوئی تھی یعنی ہر برس کو 50 ہزار دنوں کا مانا۔ بلکہ دہلی کی کسی کسی شام کو تو میں 50 ہزار صدیوں کا مانتا ہوں۔ گویا لمحوں میں یہاں صدیوں کی زندگی بھی جی۔ اگر میں یہ گنانے پر اتر آؤں کہ اس شہر نے مجھے کیا کیا دیا ہے تو مجھ سے پھر حساب کی غلطی سرزد ہو جائے گی۔ میں کوئی فینانس منسٹر تھوڑا ہی ہوں کہ اتنا لمبا چوڑا حساب رکھتا پھروں۔ سنا ہے کہ دہلی سات بار اجڑی اور اسے ساتوں مرتبہ پھر سے بسایا گیا۔ کسی دل جلے نے کہا تھا کہ اس ظالم شہر کو جن لوگوں نے بار بار بسایا انہیں قرار واقعی سزاء دی جانی چاہئے کیونکہ جب یہ اجڑی تھی تو اسے اجڑی ہی رہنے دیتے، اسے پھر سے بسانے کی کیا ضرورت تھی۔ تاہم اس سلسلے میں میرا نظریہ یہ ہے کہ وہ ظالم، جابر اور سفّاک لوگ تھے جنہوں نے دہلی کو اجاڑا تھا لیکن جن لوگوں نے مل کر اسے پھر سے بار بار بسایا وہ ہماری ہی طرح کے معمولی، غیراہم، کم سواد مگر خوش دل، خوش باش، خوش ذوق اور خوش اطوار لوگ تھے جو سنگ دلی کا مقابلہ زندہ دلی سے کرنا جانتے ہیں اور میرے نزدیک دلّی در اصل زندہ دِلی کا دوسرا نام ہے۔
(’مجتبیٰ حسین کے نام ایک شام‘ کے عنوان سے دہلی اردو اکادمی کی جانب سے منعقدہ محفل میں 11 ستمبر 2005ء کو پڑھی گئی تحریر)
٭٭٭
بندر نے ٹرین میں سفر کیا
صاحبو، بعض اوقات موضوعات کی اتنی بھرمار اور تکرار ہو جاتی ہے کہ بار بار ایک ہی موضوع پر اظہار خیال کرنے کی نوبت آ جاتی ہے۔ کچھ دنوں پہلے ہم نے ایک ایسے جانور کو موضوع بنایا تھا جسے جانور کہتے ہوئے ہم جیسے با ضمیر اور خوددار انسان کو بڑی شرم آتی ہے۔ اس لیے کہ وقت کی دھار پر چلتے ہوئے انسان نے حیوانیت کی سمت اور حیوان نے انسانیت کی سمت کچھ ایسی تیز رفتاری سے سفر کیا ہے کہ اس ترقیِ معکوس کا خیال آتا ہے تو حیرت ہوتی ہے۔ کتا جیسا بے لوث، بے غرض اور بے ریا جانور ان دِنوں انسانوں میں بھی بڑی مشکل سے پایا جاتا ہے۔ آپ نے ’ہریالی کا کتا ضرور دیکھا ہو گا، جو سبزہ زار پر اُگی ہوئی ہریالی کی حفاظت کے کام پر مامور ہوتا ہے۔ جیسے ہی کوئی بھیڑ، بکری، گائے یا بھینس سبزہ زار پر پھیلی ہوئی مزیدار ہریالی پر منہ مارنے کے ارادے سے آگے بڑھتی ہے تو ’ہریالی کا کتا‘ بے ساختہ بھونکنے اور مذکورہ جانور کو کاٹنے کے لئے لپک پڑتا ہے۔ ایسے میں کوئی لالچی اور خود غرض انسان یہ منظر دیکھ لیتا ہے تو کتّے کی بیوقوفی کا مذاق اُڑاتا ہے کہ عجیب احمق جانور ہے، خود تو ہریالی نہیں کھا سکتا اور کوئی دوسرا جانور ہریالی کھانا چاہے تو اسے بھی کھانے نہیں دیتا حالانکہ آج کل ترقی یافتہ دَور ’امدادِ باہمی‘ کے اصول پر نہیں بلکہ ’بے ایمانیِ باہمی‘ کے اصول پر قائم ہے۔ خود کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھانے دو۔ اگر خود کوئی چیز نہیں کھاسکتے تو دوسرے کو اس چیز کے کھانے کا موقع فراہم کرنے کا معاوضہ وصول کر لو اور معاوضے کی مدد سے خود کی پسند کی کوئی چیز خرید کر کھالو۔
ایسے معاشرے میں جب کتّے جیسا یا ہم جیسا کوئی وفادار کردار غلطی سے نظر آ جاتا ہے تو آج کا انسان اس کی حماقت کا مذاق اُڑاتا ہے کہ نہ خود کھاتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کو کھانے دیتا ہے۔ کتّے کی بات پر ہمیں حضرتِ شیخ سعدی کی بات یاد آ گئی کہ ایک بار وہ کسی قصبے میں پہنچے تو ایک کتّے نے ان پر اچانک بھونکنا شروع کر دیا۔ حضرت نے کتّے کو دھمکانے اور بھگانے کی خاطر زمین پر پڑے ہوئے پتھر کو اُٹھانا چاہا تو پتہ چلا کہ پتھر زمین میں دُور تک دھنسا ہوا ہے۔ اس پر حضرتِ شیخ سعدی نے اپنے مخصوص انداز میں اس شہر کے باسیوں پر نظر کرنے کی خاطر کہا: ’’یہاں کے لوگ بھی عجیب ہیں۔ کتّے کو تو کھُلا چھوڑ دیتے ہیں البتہ پتھر کو باندھ کر رکھتے ہیں‘‘۔ بہرحال وہ حضرتِ شیخ سعدی کا زمانہ تھا۔ اب زمانہ یکسر بدل گیا ہے۔ یہاں بے ایمانوں اور دھوکے بازوں کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے البتہ کتّوں اور ہم جیسے احمقوں کو وفاداری اور دیانت داری کے بھاری پتھر سے باندھ دیا گیا ہے۔ گھبرایئے نہیں، آج ہم کتّوں کے بارے میں اظہارِ خیال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے بلکہ آج ایک اور جانور ہمارے نشانے پر ہے۔
یہ اور بات ہے کہ ہم خود بیسیوں بار اس کے نشانے پر رہ چکے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس جانور سے ہمارا رشتہ بہت پرانا ہے بلکہ ڈارون صاحب تو اس کا شمار ہمارے اجداد میں کرتے آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے کارناموں کے علاوہ خود ڈارون صاحب اور بندر کی کارستانیوں سے بخوبی واقف ہیں۔ بندر ایک ایسا جانور ہے جسے ہم جب بھی دیکھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم کسی دھندلے آئینے میں خود اپنے آپ کو دیکھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ در اصل انسان اور بندر کے بیچ پائی جانے والی گہری مماثلت ہے۔ ہمیں انسان اور بندر کے درمیان صرف ایک ہی فرق نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ بندر کے دُم ہوتی ہے اور انسان دُم سے بے بہرہ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ارتقا کے دَور سے گزرتے ہوئے بعض بندروں نے بیجا خوشنودی حاصل کرنے اور مصلحت آمیزی کے باعث اپنی دُم کو ضرورت سے زیادہ ہلانا شروع کر دیا۔ نتیجے میں کثرتِ استعمال کے باعث ان بندروں کی دُم معدوم ہو گئی اور وہ بندر سے انسان بن گئے۔ بعد میں انسان نے خوشنودی حاصل کرنے کے آلے کے طور پراپنی زبان کو دُم کے نعم البدل کا درجہ عطا کر دیا اور اظہارِ خوشنودی کو بالآخر چاپلوسی اور خوشامد کی حدوں تک پہنچا دیا۔ یوں اچھے بھلے انسان کو ’مصاحب‘ بنا دیا۔ افسوس کہ انسان نے زبان جیسی خطرناک چیز کو پانے کی خاطر دُم جیسی کارآمد اور مفید چیز سے دستبرداری اختیار کر لی۔ خیر یہ ایک لمبی بحث ہے جس میں اس وقت ہم اُلجھنا نہیں چاہتے۔ آج ہمیں بندر کی یاد اس لئے آئی کہ پچھلے دنوں ایک اطلاع کے مطابق دہلی کے نئے میٹرو ریلوے نظام کی ایک ٹرین میں سوِل لائنز کے علاقے سے پارلیمنٹ کے روبرو واقع میٹرو ریلوے اسٹیشن تک ایک شریر اور چالاک بندر نے سفر کیا اور ظاہر ہے کہ بندر مذکور نے یہ سفر ٹکٹ خریدے بغیر ہی کیا ہو گا کیوں کہ بندر ٹکٹ خریدنا نہیں جانتا۔ یہ اور بات ہے کہ انسان ٹکٹ خریدنا بہت اچھی طرح جانتا تو ہے لیکن پھر بھی حتی الامکان یہ کوشش کرتا ہے کہ ٹکٹ خریدنے کی نوبت نہ آئے۔ بندر اور انسان میں یہی تو بنیادی فرق ہے حالانکہ سائنسی نقطۂ نظر سے بندر کو ہمارا جدِّ اعلیٰ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ خیر یہ بھی ایک الگ معاملہ ہے
جس پر کبھی پھر بات ہو گی۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ میٹرو ٹرین میں اچانک بندر کے چلے آنے سے ٹرین کے مسافروں میں ایک کھلبلی مچ گئی اور وہ خوفزدہ ہو گئے کہ کہیں یہ بندر ان پر حملہ نہ کر دے۔ انسان ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا رہتا ہے کہ ہر جانور اس پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جبکہ ہمیں انسان کی اس خوش فہمی پر ہنسی آتی ہے جس کے مطابق ہر انسان اس سادہ لوحی میں مبتلا رہتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان پر حملہ نہیں کر سکتا۔ حالانکہ اس دھرتی پر انسان ہی صدیوں سے ایک دوسرے کو ہلاک کرتا آیا ہے۔ بہرحال اس معصوم اور سادہ لوح بندر کی موجودگی کی وجہ سے ٹرین کے مسافر ایک ڈبے سے دوسرے ڈبے میں بھاگتے رہے۔ بالآخر پون گھنٹے کی تگ و دو کے بعد یہ بندر پارلیمنٹ کے قریب واقع میٹرو ریلوے اسٹیشن پر اُتر گیا۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ ہمیں یہ مصرع اس لئے بھی یاد آیا کہ تیس پینتیس برس پہلے ہم اس علاقے کی عمارتوں میں اپنے فرائض منصبی ادا کرتے تھے۔ یہاں مرکزی حکومت کے سارے اہم دفاتر کے علاوہ پارلیمنٹ اور راشٹر پتی بھون بھی واقع ہے۔ اس علاقے کی خوبی یہ ہے کہ یہاں انواع و اقسام کے بندر بھی پائے جاتے ہیں۔ ان بندروں سے ہماری بڑی پرانی شناسائی ہے۔ پتہ نہیں ان بندروں نے اپنے قیام و طعام کے لئے دہلی کے اس علاقے کا انتخاب کیا ہے حالانکہ اس علاقے میں مرکزی حکومت کے اہم عہدیداروں کے علاوہ ہمارے سیاسی حکمران بھی رہتے ہیں اور پارلیمنٹ کی عمارت بھی یہیں ہے۔ اب اگر بندروں سے یہ سوال پوچھا جائے اور وہ اُلٹا ہم سے یہ سوال پوچھ لیں کہ بتاؤ سیاسی حکمرانوں اور صاحبانِ اقتدار نے اپنے قیام و طعام کے لئے ہمارے علاقے کا انتخاب کیوں کیا تو ہم کیا جواب دیں گے۔ چاہے کچھ بھی ہو انسان اور بندر یہاں باہم شیر و شکر ہو کر رہتے ہیں۔ ایک ہی رکاب میں نہ صرف ساتھ کھانا کھاتے ہیں بلکہ جس رکابی میں کھاتے ہیں اس میں چھید بھی کر ڈالتے ہیں، بھلے ہی انسان نے بندروں سے کچھ نہ سیکھا ہو لیکن بندروں نے انسان سے رکابی میں چھید ڈالنے کا گُر سیکھ لیا ہے۔ بعض رحم دل سرکاری ملازمین اپنے دوپہر کے کھانے کے ساتھ بندروں کے لئے بھی کچھ نہ کچھ ضرور لے آتے ہیں جس کی وجہ سے بندر آس لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ ساری دہلی میں یہی ایک علاقہ ایسا ہے جہاں بندر کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی عمارتوں کے اندر اور عمارتوں کے باہر جو بھی ہنگامہ اور شور شرابا نظر آتا ہے
وہ ترقی یافتہ بندروں کا مرہونِ منت ہوتا ہے حالانکہ اس میں خالص بندروں کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا۔ بعد میں ہم جنوبی دہلی کے ایک دفتر میں کام کرنے لگے تو ایک عرصے تک محض اس لیے کام نہ کر سکے کہ بندر ہمارے شریک کار نہ تھے۔ ہو سکتا ہے میٹرو ریلوے میں جس بندر نے سوِل لائنز کے علاقے سے سفر کا آغاز کیا تھا وہ غلطی سے اس میں سوار ہو گیا ہو لیکن جس منزل پر پہنچ کر اس نے اپنے سفر کو انجام تک پہنچایا وہ اس کے لئے بالکل صحیح جگہ تھی۔ سنا ہے کہ اس بندر کو ٹرین سے نکالنے کی بڑی کوشش کی گئی لیکن یہ کسی کے ہاتھ نہ آیا۔ اس بات سے اس کے ذوقِ سفر کا اندازہ آپ لگاسکتے ہیں۔ سنا ہے کہ اس بندر کی موجودگی کی وجہ سے ٹرین کے سارے مسافر پریشان ہو گئے تھے حالانکہ اس میں پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ کسی اسٹیشن پر کسی کھچا کھچ بھری ہوئی ٹرین کو دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے کئی بندر ایک ساتھ مل کر سفر کر رہے ہیں۔ جس طرح انسان ٹرینوں میں سوار ہوتے ہیں، کھڑکیوں سے لٹک کر اور نشستوں کو جکڑ کر جس طرح سفر کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر سوار ہو جاتے ہیں اس سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ٹرینوں میں سفر کرنے کا اصل حق تو صرف بندروں کو ہی حاصل ہے۔ مانا کہ بندر نے ترقی کی تو وہ انسان بن گیا اور انسان بن کر جب اس نے ترقی کی مزید منزلیں طے کیں تو ریل گاڑی بھی ایجاد کر لی لیکن جب ریل گاڑی میں سفر کرنے کی نوبت آئی تو اسے احساس ہوا کہ اس سواری میں سفر کے لئے انسان میں بندروں کی سی صفات اور خصوصیات کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ تب اسے افسوس ہوا کہ اس نے بندروں کی سی صفات اور خصلتوں سے بلاوجہ دستبرداری اختیار کر لی۔ بندر وہ جانور ہے جو بوقتِ ضرورت اپنی دُم کی مدد سے کسی بھی درخت کی ٹہنی سے لٹکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر انسان کے پاس دُم ہوتی تو ذرا سوچئے کہ ٹرین کا سفر کرنے میں آج انسان کو کتنی سہولت ہوتی۔ ہمیں یہ تسلیم ہے کہ ترقی یافتہ انسان دُم کا کام اپنی زبان سے لیتا ہے اور جانور کے مقابلے میں چاپلوسی اور خوشامد کا بہتر مظاہرہ کر سکتا ہے لیکن وہ ٹرین کے سفر کے دوران میں کسی چیز کو اپنی زبان سے پکڑ کر لٹک نہیں سکتا اور ٹرین کے سفر میں مسافر کے بیٹھنے اور کھڑے رہنے کے مقابلے میں لٹکنے کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اب اگر دہلی میں ایک بندر نے ٹرین میں سفر کیا ہے تو اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔ ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ بندروں کو ٹرینوں میں سفر کرنے کی سہولت فراہم کی جائے تاکہ انسانی مسافر ان کی حرکتوں اور کارستانیوں کو دیکھ کر ٹرینوں میں سفر کرنے کے آداب سیکھ لیں۔ یوں بھی انسان نے یہ سواری بندروں کی سہولت کے لئے ہی بنائی ہے۔
آخر میں ہمیں بے ساختہ ایک بندر کی یاد آ گئی جس سے ہمارا سابقہ آج سے ٹھیک 68 برس پہلے پڑا تھا۔ حیدرآباد پر پولیس ایکشن ہوا تو ہماری عمر گیارہ بارہ سال کی ہو گی۔ گلبرگہ کے ایک ہوسٹل میں ہم تنہا رہتے تھے۔ ہر طرف افراتفری، قتل و غارت گری اور بربادی کا دور دورہ تھا۔ ہم نے راہِ فرار اختیار کر کے حیدرآباد جانے کی کوشش کی تو تانڈور تک جا کر رُک گئے کیوں کہ حمل و نقل کے سارے ذرائع اچانک مسدود ہو گئے تھے۔ ہم نے سوچا کہ پیدل ہی چنچولی تک چلے جائیں جہاں ہمارے ماموں رہتے تھے۔ زور کی بارش ہو رہی تھی اور ہم جنگلوں میں چھپتے چھپاتے جا رہے تھے کہ ہمیں زور کی بھوک لگی۔ ہمارے پاس ایک تھیلی میں آدھی ڈبل روٹی رکھی تھی۔ ہم نے ایک پیڑ کے نیچے کھڑے ہو کر جیسے ہی ڈبل روٹی نکالی اوپر سے ایک بندر نے جست لگا کر روٹی ہمارے ہاتھ سے چھین لی۔ بندر کے اس اچانک حملے سے ہم خوف کے مارے کانپنے لگے۔ بڑی دیر کے بعد ہم خوف کے دائرے سے باہر نکل آئے تو دیکھا کہ بندر روٹی کھانے کے بعد ہمیں حیرت سے دیکھ رہا ہے۔ بندر کی اس حرکت کو دیکھ کر ہمیں ہنسی آ گئی اور پھر ایک بار انسانیت پر ہمارا ایقان پختہ ہو گیا۔ کیوں کہ ہمیں پتہ تھا کہ بندر صرف ہماری روٹی چھین سکتا ہے، ہماری پیٹھ میں چھُرا نہیں گھونپ سکتا اور ہمارے گھر کو آگ نہیں لگا سکتا۔ ایک لمحے کے لیے ہم نے سوچا کہ انسان اگر بندر ہی برقرار رہتا تو آج ہر طرف انسانیت کا بول بالا ہوتا۔
٭٭٭
ماخذ: سیاست ڈاٹ کام
ڈاؤن لوڈ کریں