FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

معاصر شعری کہکشاں

حقانی القاسمی

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

غزل کو رشید احمد صدیقی نے اردو شاعری کی آبرو کہا ہے تو کلیم الدین احمد نے اسے نیم وحشی صنف سخن قرار دیا ہے۔  غزل کی حمایت اور مخالفت میں تنقیدی مباحث کا سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے۔  بحثیں جاری رہیں گی اور غزل گوئی کا سلسلہ بھی چلتا رہے گا کہ غزل میں توانائی اور تحرک کی کیفیت ہے۔  صرف ہندوستان ہی نہیں عالمی سطح پر دیکھا جائے تو شاعروں کی تعداد روز افزوں ہے۔  یہ اور بات کہ شہرت اور شناخت بہت کم شاعروں کو نصیب ہے۔  بہت سے عمدہ شعر کہنے والے بھی ناقدوں کی ناگاہ التفات سے دور رہتے ہیں اور کچھ عمومی نوعیت کے شعر کہنے والے آسمان سخن پر آفتاب کی مانند چمکتے رہتے ہیں۔  اس کے لیے معاصر شعری تنقید کی نارسائیاں بھی ذمہ دار ہیں تو کچھ فن کاروں کی بے نیازی بھی۔

مجھے شاعری زیادہ سمجھ میں نہیں آتی پھر بھی میں نے کچھ شاعروں کے حوالے سے اپنے نجی تاثرات پیش کیے ہیں۔  اسے تنقیدی میزان پر نہ پرکھا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ شاعری کی تنقید بہت مشکل ہے اور یہ میرے مقدور سے باہر ہے۔

یاور وارثی

حرف حرف حیرتوں کے در کھولنے والی شاعری روبرو ہو تو ذہنی وجود ایک عجب ارتعاشی کیفیت سے ہمکنار ہوتا ہے۔  باطن کی قندیلیں خارج میں روشن تو تخیل کی نئی لہریں ما ورائے امکاں سمتوں کا سفر کرنے لگتی ہیں۔:

چومنے آتی ہے اک شوخ کرن سورج کی

عارض گل پہ چمکتا ہے گہر پانی کا

ہر برگ رہگزر نے مری رہنمائی کی

ہر پھول میرے واسطے قندیل ہو گیا

ندرت و تحیر سے معمور یہ شعر جہاں ایک نئی تخلیقی رہ گزر کا پتہ دیتے ہیں وہیں شاعر کے آئینہ ادراک کا اشارہ بھی بن گئے ہیں۔

تازہ پانی کے لمس سے ہی سخن چہرہ کو شادابی ملتی ہے اس لئے اچھی شاعری ہمیشہ احساس و اظہار کے نئے در کی تلاش میں رہتی ہے۔  یاور وارثی نے اپنے تخلیقی بہاو کے عمل میں تازہ کاری سے رشتہ جوڑے رکھا ہے مگر تازگی کی رو میں کلاسیکیت کی روح سے تعلق نہیں توڑا ہے کہ جدت اور روایت کے حسن امتزاج سے ہی تخلیقی اظہارات کو تمکنت اور تمازت نصیب ہوتی ہے۔۔

کلاسیکی شعری لوازمات سے آراستگی کے باوجود احساس و اظہار کے نئے امکانات کی جستجو وہ وصف ہے جس نے یاور وارثی کے تخیل کو تکرار اور اظہار کو یکسانیت سے بچائے رکھا ہے۔ نئی رت اور نئے موسموں کی تلاش نے بھیڑ میں بھی ان کی شناخت کو گم نہیں ہونے دیا ہے۔:

میں نے اک در جو کیا بند کسی طور تو پھر

تیشہ موج نے کھولا نیا در پانی کا

کس کو دیتا ہے صدا رات کے سناٹے میں

کس کے آنے کی دعا روز کھنڈر مانگتا ہے

یاور وارثی کلاسیکی شعریات کے رموز و اسرار سے آگاہ ہیں۔ قدیم اساتذہ سخن کے رنگ و آہنگ سے آگہی بھی ہے۔  ان تلمیحات کا بھی علم ہے جن کے اندر حکمت و دانش کی ایک دنیا آباد ہے۔  ان کے ادراک اور اطلاق نے بھی ان کی فکر کو نئے زاویے اور شعروں ٓ کو معانی کی نئی قبائیں دی ہیں:

رعب بلقیس نوا کے ہیں لبوں پر تالے

میں سلیماں ہوں مگر شہر سبا میں چپ ہوں

اب کہاں کوئی یوسف ہے بازار میں

اس قدر رونقیں کیوں دکانوں میں ہیں

عمر سفر میں تمام کی چھوڑ کے فکر قیام کی

ہفت بلائیں کہیں ملیں اور کہیں کوہ ندا ملا

دشت تلمیحات کی سیاحت آسان سہی مگر لمحہ موجود سے اس کی مطابقت مشکل ہوتی ہے۔  یاور کے یہ اشعار قدیم و جدید دونوں ذہنی زمانوں کا سفر کرتے ہوئے قارئین تک پہنچے ہیں۔ بلقیس، سلیماں، شہر سبا، یوسف اور کوہ ندا اپنے جلو میں جہان معانی سمیٹے ہوئے ہیں۔  اور یہ تلمیحات مرور ایام کے ساتھ اپنے تلازمات تبدیل کرتی رہتی ہیں۔  یاور کے اشعار میں تلمیحات کی معنوی تبدیلی کی اس رو کو محسوس کیا جا سکتا ہے اور اسے عصری حسیت سے جوڑ کر دیکھا جا سکتا ہے۔  عتیقیت اور جدیدیت کا یہی وہ سنگم ہے جس نے یاور وارثی کے تخلیقی وجود کو تحریکی تعینات سے ما ورا کر دیا ہے۔ انہوں نے ماضی کو مستقبل کے کینوس پر اس طرح نقش کر دیا ہے کہ زمانوں سے مربوط احساسات اور اظہارات بھی ایک تسلسل کی صورت نظر آتے ہیں۔

یاور کے موضوعی منطقہ میں افکار کی وہ لہریں مرکزی اہمیت رکھتی ہیں جن کا رشتہ ان ازلی تہذیبی قدروں سے ہے جن سے انسانیت کو معراج ملتی ہے۔  جذباتی وحدت کی فضا میں پرواز کرنے والی یہی تہذیبی اخلاقی اقدار انسان کو اپنے وجود، منشا و مقصد حیات سے متعارف کراتی ہیں۔  تقدیس انسانیت، احترام آدمیت یاور کی شاعری کا روشن نقطہ ہیں۔۔

یاور کے احساس میں اثبات ہے، منفیت نہیں۔  ایقان ہے تذبذب نہیں۔  امید ہے، مایوسی نہیں۔ ان کا فلسفہ حیات اس طرح شعر کا روپ لیتا ہے:

ہر صبح ہے رات کی نشانی

ہر رات ہے صبح کا حوالا

بے ثباتی اور تغیر کا یہی فلسفہ ہے جس نے یاور کے ذہن کو اس منفیت سے محفوظ رکھا ہے جو نہایت مہلک ہوتی ہے اور یہی تغیر تحرک کی علامت بھی ہے۔:

ہر بھنور میں رقص کرتی ہیں قضا کی ساعتیں

ہاں مگر تازہ تحرک کی نشانی بھی تو ہے

اسی خیال کی روشنی اس شعر میں بھی ہے:

کچھ دیر میں عروج کی ساعت بھی آئے گی

پہونچیں اب اختتام پہ صدیاں زوال کی

یاور نے وقت کے فلسفہ کو صحیح تناظر میں سمجھا ہے اسی لئے وقت ان کی شاعری میں انسانی تقدیر کی تبدیلی کا مرکز قرار پاتا ہے اور یہی وقت انسانی وجود کو مختلف کیفیات اور مراحل سے گزارتا ہے۔  اور جو فرد وقت کی روح اور رمز سے آشنا ہوتا ہے وہ تبدیلی حالات سے مضطرب نہیں ہوتا۔ اس کا یقین متزلزل نہیں ہوتا۔  یاور کہتے ہیں:

مرکز حرف کائنات ہوں میں

وقت نے مجھ میں انعکاس کیا

اسی سلسلہ خیال کی لو ان شعروں میں جگمگا رہی ہے:

جہت در جہت سر پٹکنا ہے مجھ کو

کہ جہد مسلسل مقدر ہے میرا

اے شب ہجر نہ حیراں ہو بہت

تو ہے سرمایہ تقدیر مرا

اک وصل کی ساعت نے کیا روز کنارا

اک ہجر کا لمحہ مرا مہمان بنا روز

یہ احساس کا ایک اثباتی جزیرہ ہے۔  اس میں حرکت و عمل اور تقدیر کے تعلق سے جو کچھ کہا گیا ہے وہی انسانی زندگی کی حقیقت ہے۔

یاور کی تخلیقی آنکھ پس غبار منظر کی تلاش میں ہے جس کی معرفت سے بہت سی منزلیں روشن ہوئی جاتی ہیں۔  وہ منزلیں جن کا ادراک عام انسانی آنکھیں نہیں کر سکتیں۔:

ادھر غبار کے میں ہوں پس غبار بھی میں

یہ شش جہات مرے عکس کے سوا کیا ہیں

میرا ہی وجود ہے کائنات انجذاب

میری سمت شعلگی منعطف ہوا کرے

انسانی وجود کی معرفت کا اس سے بہتر شعری حوالہ نہیں مل سکتا۔  یاور نے انسانی وجود اور اس کے مقدرات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔

افلاک سے زمیں کا سفر کر رہا تھا میں

سرشاریوں کی ریت مگر بال و پر میں تھی

جو فلک پہ میں نے دیکھا رخ آفتاب روشن

تو زمین پر جواب تب و تاب میں نے دیکھا

زمین اور مٹی کے حوالے سے جو شعر ہیں وہ انسانی عظمت اور قوت و حرکت کے اشارہ کناں ہیں۔ ان کے شعروں میں وہ معاشرتی زمینیں ہیں جن میں تعلقات اور رشتوں کی حدت و حرارت، دراڑ اور دوریاں تلاش کی جا سکتی ہیں۔

یہ شاعری ان کی جذباتی، ذہنی اور داخلی زندگی کا منظرنامہ نہیں بلکہ اجتماعی شعور و ادراک کا بھی مظہر ہے۔

یاور کو ’خاک‘ سے خصوصی نسبت ہے۔  اور اسی ’خاک‘ نے ان کی شاعری کو آسماں کیا ہے۔  یہ لفظ خاک معنوی تلازمے کی تبدیلی کے ساتھ ان کی شخصیت اور فکر کا شناس نامہ بن گیا ہے۔:

پیرہن موسم باراں نے دیا پانی کا

سلسلہ ختم ہوا خاک کی عریانی کا

اس نے اڑائی تھی جو کبھی کھیل کھیل میں

وہ خاک رہ گزار ہی یہ آسماں ہے اب

ہوا کے دست ہنر کا کمال ہے ورنہ

مزاج شعلگی برگ شجر میں خاک نہیں

برائے نام جہاں رہ گزر میں خاک نہیں

کشش مرے لئے ایسے سفر میں خاک نہیں

یاور کے یہاں خاک اور آدم خاکی کی عظمت کا نغمہ علامہ اقبال کی اس فکر سے ان کا ذہنی رشتہ جوڑتا ہے جس کا مرکز انسان کامل ہے۔  یاور کا انسان بھی اقبال کے انسان کی طری فاتح فطرت اور فاعل مختار ہے۔  اور یاور کی خاک بھی ایسی ہے جس کی سرشت میں کوکبی و مہتابی ہے۔:

آسماں خاک بسر پھرتے ہیں قریہ قریہ

رو نما مرکز لولاک ہوا چاہتا ہے

فصیل ارض و سما سے دعاؤں کے ہمراہ

لباس نیست پہن کر گزر گیا میں بھی

یاور کا فکری کینوس وسیع ہے۔  ان کے چراغ جستجو سے نادیدہ اور بے نشاں جزیرے تک روشن ہو گئے ہیں۔  ان کے مشاہدات، تجربات اور مطالعات کی وسعت نے ان کے تخلیقی اظہاری تجربوں کو تازگی اور وسعتوں سے ہم آغوش کیا ہے۔  خواجہ الطاف حسین حالی نے شاعری کے لئے تخیل، تفحص الفاظ اور مطالعہ کائنات کی جو شرطیں رکھی ہیں۔  یاور کی شاعری ان شرطوں سے بھی آگے کا سفر کرتی ہے۔  اور خذف نچوڑ کے آب گہر نکال لاتی ہے۔

یاور کی لفظیات بھی ان کے ذہنی سرشتوں کا سراغ دیتی ہے۔  ان کا سلسلہ ان جہانوں سے جوڑتی ہے جہاں لفظ معانی کے ہجوم میں بھی اپنی مخصوص شناخت اور کردار کے سا تھ زندہ ہے۔ ان لفظوں میں تہذیب اور تشخص کا نگار خانہ ہے۔  یاور کو لفظوں کی قوت کا احساس ہے اسی لئے ان کے شعروں میں وہی لفظ جگہ پاتے ہیں جو ان کے داخلی جذبات کی مکمل ترسیل کر سکیں اور ما ورائے جذبات کا بھی اشارہ دے سکیں۔  چراغ طاق بدن، کف شاخ تمنا، سکوتِ دشتِ سماعت جیسی تراکیب بھی ان کی ذہنی قوت اور اظہاری کیفیت کا سراغ دیتی ہیں۔

یاور کا سخن چراغ روشن ہے۔ اور سدا روشن رہے گا کہ اس کا رشتہ اس مرکز نور سے ہے جس سے پوری کائنات اکتساب نور کرتی ہے۔

انسانی احساس کے سمندر کو انہوں نے اپنی شاعری میں جس طرح سمو یا ہے یہ ہم عصروں میں ان کے امتیاز کے لئے کافی ہے۔  جس شاعر کی زنبیل میں ایسے خوبصورت شعر ہوں:

جمال یار تہوں میں اتر گیا شاید

سیاہ جھیل کے اندر ہے روشنی کیسی

اس کی یادوں نے تعلق کا بھرم رکھا ہے

دستکیں دینے چلی آتی ہیں در تک اب بھی

یہ رشتہ سنگ و ثمر کا بہت پرانا ہے

چلے ہیں سنگ بھی جب شاخ پر ثمر آئے

ایسی شاعری پر زندگی کے دستخط ہمیشہ ثبت ہوتے رہیں گے۔۔

برقی اعظمی

’’احمد علی برقی اسم با مسمیٰ ہیں۔  وہ برق رفتاری سے شعر بھی کہتے ہیں اور نئی برق تجلی سے قاری کو روشناس بھی کرتے ہیں۔  اردو میں برقی کی طرح ارتجالاً شعر کہنے والے بہت کم لوگ ہوں گے۔ ان کی بدیہہ گوئی یقیناً قابل رشک ہے۔  حیرت کی بات یہ ہے کہ زود گوئی کے باوجود ان کا موضوعاتی دائرہ محدود اور مختصر نہیں بلکہ متنوع اور مختلف ہے۔ ان کے موضوعاتی مطاف میں آج کے مسائل، معاملات اورمتعلقات بھی شامل ہیں۔  خاص طور پر ان کی شاعری میں معاصر عہد کے وہ مسائل بھی ہیں جن کا تعلق انسانی حیات ماحولیات سائنس اورجدید ٹیکنالوجی سے ہے۔  ان کے یہاں شاعری اور سائنس کی مارفولوجی کا اشتراک قابل داد ہے۔  انھوں نے بہت سے خوبصورت استعارے اور تشبیہات آج کی سائنس ٹیکنالوجی خاص طور پر نباتات سے لیے ہیں اور انھیں شعری پیکر میں ڈھالا ہے۔  موضوعاتی اعتبار سے احمد علی کا جہانِ شعر بہت ہی وسیع اور بسیط ہے۔  کوئی بھی موضوع ہو احمد علی برقی اس میں اپنی قدرت کلامی اور حسن بیان کا جوہر ضرور دکھاتے ہیں۔ انھیں محال کو کمال میں بدلنے کا ہنر آتا ہے۔  اور یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری پڑھ کر مرزا محمد رفیع سودا کا یہ شعر بے ساختہ یاد آتا ہے:

میں حضرت سودا کو سنا بولتے یارو

کیا قدرت الفاظ ہے کیا زورِ بیاں ہے

گو کہ یہ شاعرانہ تعلی ہے مگر برقی کے باب میں یہ حقیقت ہے۔  کیونکہ ان کی شاعری میں قدرتِ الفاظ بھی ہے اور زورِ بیاں بھی انھوں نے تخلیق اور تشکیلِ شعر میں فارسی لفظیات، تلمیحات اور ترکیبات سے بھی خاطر خواہ استفادہ کیا ہے۔  جس کی وجہ سے ان کی شاعری کی کیفیت دو آتشہ ہو گئی ہے۔  اپنی بے پناہ تخلیقی قوت اور لسانی ندرت کے باجود معاصر شعری منظر نامے میں برقی کو وہ مقام اور مرتبہ حاصل نہیں ہے یقیناً یہ ایک طرح سے ادبی بددیانتی ہے کسی بھی جینوئن فنکار کو اس طرح نظر انداز کرنا صحت مند تنقیدی روایت نہیں ہے۔ اس لیے ہمارے ناقدین کا فرض بنتا ہے کہ برقی کو تنقیدی حوالوں میں ضرور شامل کریں کیونکہ برقی کا جہانِ شعر نہ صرف ہمیں بہت سارے شیڈ سے روشناس کراتا ہے بلکہ اردو اور فارسی زبان کی خوبصورت آمیزش سے ہمارے مشامِ جاں کو معطر بھی کرتا ہے۔  اور زبان کے نئے ذائقے سے ہمیں لطف اندوز بھی کرتا ہے۔

مبارک جونپوری

آوازیں بھیڑ میں کھو جاتی ہیں مگر کچھ آوازیں سماعتوں سے رشتہ جوڑنے میں کامیاب رہتی ہیں۔ ان آوازوں کی اپنی الگ پہچان اور منفرد شناخت ہوتی ہے۔ اور یہ شناخت فکر کامل اور تخیل کی ہم آہنگی اور ہم نشینی سے نصیب ہوتی ہے۔

مبارک جونپوری کی تخلیقی آواز بھی ایسی ہے جو تنقیدی فضا میں زیادہ مانوس نہیں ہے لیکن اس آواز کی اپنی انفرادیت ہے۔ کہ ان کی روش گفتگو اوروں سے الگ ہے۔ ان کے شعری پیکر بھی مختلف ہیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سیال اور متحرک اشیا سے ان کے ذہن کی مناسبت زیادہ ہے۔ سورج، دریا، چاند، کشتی۔۔  یہ روشنی اور تحرک کے شعری پیکر ہیں اور انہی پیکروں سے ان کی تخلیقی کائنات آباد ہے۔

مبارک جون پوری کے زیادہ تر شعری پیکروں کا تعلق مظاہر فطرت سے ہے۔ سمندر، دریا اور ان کے انسلاکات سے ان کے علائم اور رموز کے دائرے تشکیل پاتے ہیں جن سے مبارک کے ذہنی تحرک اور تجسس کا پتہ چلتا ہے:

انقلاب لایا ہوں چیر کر اندھیروں کو

جاگو اے خرد مندو میں سحر کا سورج ہوں

پیاس تپتے صحرا کی جب بجھاتا ہے دریا

دشت کے بھی دامن میں گل کھلاتا ہے دریا

بیکراں وسعت رنگیں کے ہیں منظر کتنے

میری آنکھوں میں سمائے ہیں سمندر کتنے

دے کے اپنی خوشی زمانے کو

آنسووں سے گزر رہا ہے چاند

جلتے ہوئے سورج کی تمازت کا سہتا ہے وار شجر

تب جا کر دنیا کہتی ہے اس کو سایہ دار شجر

چراغوں کو بجھا دیتی ہے اکثر

یہی فطرت پرانی ہے ہوا میں

ان اشعار میں جو پیکر ہیں وہ منجمد نہیں ہیں۔ دریا سمندر سورج شجر ہوا چاند یہ وہ علامتیں ہیں جن میں مفاہیم کی ایک وسیع تر دنیا فروزاں ہے۔

مبارک جون پوری کا اظہاری نظام منفرد ہے اور اس میں تحیر کی فضا بھی ہے اس لئے اگر ایک حصہ انبوہ میں گم ہو جائے تو ایک چھوٹا سا حصہ ایسا ضرور ہے جو اپنے وجود اور اثبات کا اعلان کرتا رہے گا۔ ِجن شعروں سے ان کی اظہاری انفرادیت ترتیب پاتی ہے۔ وہ اشعار یوں ہیں:

چند اشکوں پہ ہے موقوف غموں کی دنیا

ایک دریا سا کہاں دیدہ تر میں ہو گا

رات کے پردے سے نکلی صبح تاباں

روشنی ہم کو اندھیروں سے ملی ہے

مژہ کے دوش پہ جو آنسوؤں کی میت ہے

دل غریب کی اک لاش بے کفن سمجھو

لہو ٹپکتا ہی رہتا ہے اس کی آنکھوں سے

خیال کس کا اسے سنگسار کرتا ہے

مبارک اگ نہیں پائیں گے خواب کے سبزے

علاقہ نیند دریا اس گھڑی چراغوں میں

ان شعروں میں سوچ کے نئے زاوئے اور جزیرے ہیں لفظیات اور تراکیب کی سطح پر بھی انفرادیت روشن ہے کہ شاعر نے بالکل نئے زاوئے سے موضوع کو برتا ہے۔ ایسے ہی شعر شاعر کی تخلیقیت کے گہرے نقوش قاری کے ذہن پر مرتسم کرتے ہیں۔  مبارک جون پوری کے ہاں ایسے اشعار خاصی تعداد میں ہیں جن میں احساس و اظہار کی ندرت و جدت نمایاں ہے۔ مبارک کا طرز سخن مستعار یا ماخوذ نہیں ہے ہاں روایت سے مستنیر ضرور ہے شاعر ماضی سے مربوط ہے مگر حال سے بے خبر نہیں کہ روایت سے روشنی ملتی ہے اور حال سے رفتار۔ روشنی اور رفتار کے تلاطم میں ہی تخلیق کچھ اور لہروں سے آشنا ہوتی ہے اور تخلیق کو تابندگی اور دوام بھی نصیب ہوتا ہے خود شاعر کا خیال ہے:

ہر ایک دور میں زندہ رہے گا اس کا سخن

جو شاعری میں ادب میں روایتیں دے گا

روایت کے سبز علاقے اور عصری احساس کے پانیوں میں رہ کر مبارک نے اپنا رنگ جدا رکھا ہے اور ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کی شاعری میں احساس اور اظہار کی سطح پر فطری پن ہے اصلیت ہے۔ ان کی فکر کسی ازم کے ایڈز سے متاثر نہیں ہے۔ ایک مربوط سوچ اور ایک منظم انداز فکر ہے اور پوری شاعری اس تہذیبی جوہر کی تلاش میں نکل پڑی ہے جسے عصری تمدنی بحران نے سلب کر لیا ہے۔  بازاری معیشت ‘میکانکی مشینی معاشرے نے جس طرح کی اجنبیت ‘بیگانگی ‘انتشار ‘افسردگی، اضمحلال اور شکست خوردگی کو جنم دیا ہے۔ مبارک کی شاعری اس نوع کے منفی احساسات سے نبرد آزما ہے۔ صارفی ثقافت اور صنعتی تمدن سے اجتناب اور پرانی تہذیبی قدروں سے انسلاک اس شاعری کے مافیہ کا عنصر حقیقی ہے۔ اپنے وجود کی تلاش ‘اپنی جڑوں کی جستجو مبارک کی شاعری کے رگ وپے میں موجزن ہے:

تلاش غیر نہیں ہے تلاش اپنی ہے

خود اپنی زیست کے سائے میں گامزن ہوں میں

اس قدر نا آشنا ہوں خود ہی اپنے آپ سے

اپنا ہی چہرہ مجھے لگتا ہے اکثر اجنبی

مبارک آج یہ کیا وقت آ گیا ہم پر

کہ اپنا سایہ بھی لگتا ہے اجنبی کی طرح

غزل کے وہ عصری موضوعات (فسادات، خوف و دہشت، ظلم و جبر، نا انصافی، اجنبیت، تنہائی، کرب ذات، مایوسی، حسن و عشق، شکست خواب) جو اکثر شاعروں کی تخلیقی فکر کا محور بنتے رہے ہیں، مبارک جونپوری کے شعری عمل کا بھی حصہ ہیں۔ عمومی انسانی صورت حال، انتشار، انارکی ‘تہذیبی شکست و ریخت ‘اور دیگر سماجی و سیاسی حوالے ان کے شعری بیانئے میں موجود ہیں:

جو ساری رات مجرے میں جگی تھی

کھنڈر میں سو رہی ہے وہ حویلی

ہمارے عہد میں پامال ہو گئیں قدریں

چمن میں پھول بہت ہیں مگر گلاب نہیں

گھرے ہوئے ہیں رقابت میں خون کے رشتے

یہی کہانی ہے اے دوست آج گھر گھر کی

خنجر دلوں میں اور رقیبانہ چشمکیں

یہ لعنتیں تو آج سگے بھائیوں میں ہیں

کہتی ہیں گھر گھر میں عریاں تصویریں

آج پرانی قدروں کی پامالی ہے

روز لاشیں بچھ رہی ہیں ہو رہے ہیں قتل و خوں

روز پیدا ہو رہے ہیں فتنہ و شر کھیت میں

دل میں نفرت کی سلگتی ہوئی چنگاری ہے

آج انسان کو انسان سے بیزاری ہے

گلشن جھلس رہا ہے تشدد کی گی آگ میں

شعلے تعصبات کے پروائیوں میں ہیں

اب اس کو بغاوت کے تیشوں سے گرانا ہے

پربت سے کہیں اونچی ہے آج کی مہنگائی

زیاں خانے کی زندگی کی یہ وہ تصویریں ہیں جو شاعر کی ذہنی حساسیت کا آئینہ بن گئی ہیں۔  اس آئینہ میں اجتماعی زوال اور بحران کے سارے منظر دیکھے جا سکتے ہیں:

موسم کے دست ناز میں ہے خنجر خزاں

پھولوں کی سر زمین پہ اب قتل عام ہے

بوئے کفن میں ڈوب گئی ساری کائنات

ہے شاخ زندگی پہ کھلا موت کا گلاب

چنبل بنا ہوا ہے گلستان زندگی

ہر پھول جل رہا ہے بغاوت کی آگ میں

اب عیادت سے بھی کتراتے ہیں لوگ

تنگ دستی دیکھ کر بیمار کی

وفائیں دفن ہوئیں بے حسی کی قبروں میں

خلوص کہتے ہیں جس کو وہ اب قیاسی ہے

نہ وہ قربتیں ہیں نہ وہ دوستی ہے

جو تھا آشنا اب وہی اجنبی ہے

کیوں رفاقت کی بلندی کم ہوئی

کیوں گراوٹ دوستی میں آ گئی

صحیح سمتوں کی تلاش، صحت مند قدروں کی تشکیل اور انسانی رشتوں کی تجدید۔۔ اس شاعر کے بنیادی مقاصد یہی ہیں۔ یہ محض شعری اظہار نہیں ‘قدروں اور تہذیبی رشتوں کی بازیافت کا وسیلہ بھی ہے۔

مبارک جون پوری کے کچھ شعروں میں ’فسانگی‘ بھی ہے۔ وہی عرض تجمل جو افسانے کا جوہر ہے۔ فنی اظہار میں اس کے لوازم کا بھی خیال رکھا ہے۔ مبارک کی اس غزل میں کہانیت ہے۔ شعر سے کوئی نہ کوئی داستان یا حکایت ضرور وابستہ ہے:

جاڑے کی سرد رات تھی منظر تھا گاؤں کا

جلتا ہوا الاؤ مقدر تھا گاؤں کا

مجبور جس کی عزت و تکریم پر تھے لوگ

قاتل تھا راہزن تھا ستمگر تھا گاؤں کا

حرص و ہوس نواز حویلی کے صحن میں

مسلا گیا جو پھول گل تر تھا گاؤں کا

مبارک جون پوری کی شاعری میں گاؤں ایک کلیدی لفظ ہے۔ ایک علامت ہے جس کے ارد گرد ساری شاعری گھومتی ہے۔ گاؤں جن تہذیبی تلازمات سے عبارت ہے وہ سب وضعیات ان کی شاعری میں موجود ہیں۔ گاؤں جو مثبت قدروں کا مرکز ہے۔ جہاں وسعت کشادگی اور شفافیت ہے خلوص مہر و وفا ہے محبت ہے وضعداری ہے ‘شہروں کی طرح شور اور شر نہیں آتما کا ناش کرنے والے کام ‘کرودھ اور لوبھ جیسے تین پرکار کے دوار نہیں۔ مبارک جون پوری کے احساس و اظہار میں گاؤں کی سی سادگی اور معصومیت ہے۔ ان کی شاعری گاؤں جیسے فطری احساس کے ساتھ نمو پاتی ہے اور فکر و تخیل کی نئی منزلوں سے ہمکنار ہوتی ہے۔ گلاب اور خواب کی خوشبو سے مرکب یہ شاعری ایک نہ ایک دن ضرور ہمارے اجتماعی حافظے کا حصہ بنے گی۔ کیوں کہ اسی شاعری کو زندگی ملتی ہے جس میں زندگی کی حقیقتوں کا سچا عرفان ہو اور اجتماعی مستقبل کا بیان ہو۔

مبارک جونپوری کے شعری مجموعہ ’آنکھوں کے گاؤں تک‘ نے فکر و فن کی وادیوں میں جو چراغ جلائے ہیں وہ سدا روشن رہیں گے کہ یہ اشکوں کے چراغ ہیں جس کی لو کبھی مدھم نہیں ہوتی:

دل کے غریب شہر سے آنکھوں کے گاؤں تک

کتنا طویل راستہ اشکوں نے طے کیا

اشکوں نے میر تقی میر کو اعتبار عطا کیا تھا۔ کیا عجب کہ یہی اشک مبارک کو معتبر کر دے۔

معصوم شرقی

معصوم شرقی کا جس شہر سے تعلق ہے اس کا شعری مزاج اور شہروں سے الگ ہے۔  اس کی سرشت میں بغاوت، برہمی، بانکپن، سرکشی اور احتجاج شامل ہے۔

شاعری شہر کی سانسوں سے جڑی ہوتی ہے اسی لیے، شاعری میں شہر کی صبح و شام، حالات و حوادث، واردات و واقعات، جذبات و احساسات بھی شامل ہو جاتے ہیں۔  تخلیقیت کا شہر کی حسیت سے بھی گہرا رشتہ ہوتا ہے۔  اور شاید اسی حسیت کا اثر ہے کہ معصوم شرقی کی شاعری میں مزاحمت اور مقاومت کے ساتھ کلکتہ کا Cadence بھی ہے۔  شاید اسی شہر نے ان سے یہ شعر کہلوائے ہیں:

سر مقتل بھی قتل و خوں کا منظر بول اٹھتا ہے

جو قاتل کی زباں چپ ہو تو خنجر بول اٹھتا ہے

ہم ایسے ساکنان شہر ہیں جو شعلہ پیکر ہیں

ہوا کا گرم جھونکا، جسم چھوکر بول اٹھتا ہے

فرقہ وارانہ فسادات کے پس منظر میں کہی گئی یہ مزاحمتی غزل بھی اسی حسیت کا ثبوت ہے:

تشدد بن کے شمشیر جفا لہرائی کس کی تھی

محافظ تم اگر تھے تو ستم آرائی کس کی تھی

ستم گاروں کو اُکسایا تھا کس نے ظلم ڈھانے پر

بتاؤ رہبرو یہ حوصلہ افزائی کس کی تھا

وہ کیسا خوف تھا جس نے کیا تھا شہر کو گونگا

گھروں میں قید، فرطِ کرب سے تنہائی کس کی تھی

جبر و استحصال، تشدد، فرقہ واریت، تنگ نظری، طبقاتی تفریق، غریبوں اور مظلوموں سے محبت یہ سارے موضوعات اسی ثقافتی، سماجی اور سیاسی ماحول کی عکاسی کرتے ہیں جو اس شہر کا ایک شناس نامہ ہے۔

معصوم شرقی کو حیات و کائنات کی حقیقتوں کا صحیح عرفان اور حالات و حوادث کا ادراک ہے۔  اسی لیے ان کی پوری شاعری اس انسانی سماج سے جڑی ہوئی ہے جس کے بہت سے چہرے اور چرتر ہیں۔  انھوں نے تمام انسانی چہروں اور اطراف و اکناف کے کرداروں کا بغور مطالعہ کیا ہے اور انہیں شعری صورت عطا کی ہے۔

ضمیر بیچ کے حاصل جسے کیا تو نے

ترے گلے میں وہی تمغۂ ادب تو نہیں

نقاب اوڑھ کے خنجر بکف جو آیا تھا

وہ کوئی غیر نہیں تھا میرا ہی اپنا تھا

زمیں پہ رینگ رہا ہے وہ آج اے معصوم

جو آسمان پہ اونچی اڑان والا تھا

نہیں تھا اجنبی کوئی ہمارا ہی پڑوسی تھا

پڑی تھی جو گلی میں لاش میرے بھائی کس کی تھی

کروڑوں کے پتھر کسی کے مکاں میں

کسی گھر میں دو چار آنے کے پتھر

آدھی رات کو میرے پڑوسی

لے کر نکلے خنجر پتھر

معصوم شرقی کے ذہن میں تخلیق کی مقصدیت واضح ہے اس لئے انھوں نے شاعری کو تفریح طبع نہیں بلکہ تطہیر جذبات کا ایک ذریعہ بنایا ہے اور مثبت انسانی صفات اور سماجی اقدار کی ترسیل کی ہے۔ انہی کے شعر ہیں:

ہماری شاعری کیوں کر ہو وجہ کیف و نشاط

ہمارا شعر کوئی نغمۂ طرب تو نہیں

لوگوں نے جدت کی دھن میں رنگ غزل مجروح کیا

زلف و لب و رخسار کی باتیں غزلوں میں ہیں نامعقول

پاکیزہ خیالات، صحت مند جذبات اور معروفات سے ان کی شاعری معمور اور منکرات و منہیات سے منزہ ہے۔  معصوم شرقی کے یہاں شاعری کے اخلاقی تصور پر زیادہ زور ہے کیوں کہ ان کے نزدیک شاعری کا ایک اہم سماجی کردار بھی ہے۔  تخیلاتی آگہی کے ساتھ سماج کے ادراکی تصورات کی توسیع بھی اس کے منصب میں شامل ہے اور اس فرض منصبی کی ادائیگی معصوم شرقی نے بخوبی کی ہے:

ذہن میں ان کے بھرے نہ جائیں زہریلے نصاب

زیر تعلیم جو بچے ہیں ابھی مکتب کے

لوگ اگر پتھر برسائیں طنز و ملامت کے معصوم

تم اپنا کردار نہ بدلو، پیش کرو اخلاص کے پھول

مقصد ہستی رہے ہر حال میں پیش نظر

ایسی پاکیزہ مثالِ زندگی بن جائیے

لوگ پائیں آپ کو آئینۂ انسانیت

آپ ایسا اک مثالی آدمی بن جائیے

زندگی کے طویل تجربات اور مشاہدات کے ساتھ معصوم شرقی نے اپنی داخلی کیفیات کو بھی شعری پیرہن عطا کیا ہے۔  ان کے یہاں مشاہداتی اور تجرباتی اشعار کی کثرت ہے۔  بہت سے اقوال زریں بھی شعری صورت میں موجود ہیں۔

معصوم شرقی کے تجربات و حوادث میں تلخی ایام بھی ہے، شکوۂ دوراں بھی، تداول ایام بھی ہے، بیان ترقی اور تنزلی بھی، مسرتیں اور محرومیاں بھی، پھول اور پتھر بھی، بے حسی اور بے مروتی بھی، زوال بھی کمال بھی، جلال بھی جمال بھی، انا بھی عجز بھی، خاکساری اور خود داری بھی، بھیڑ بھی تنہائی بھی، خاموشی بھی، تکلم بھی، گھر بھی بے گھری بھی، شہر بھی گاؤں بھی۔  سماج کے تضادات اور تطابقات کی بیشتر شکلیں ان کی شاعری میں ملتی ہیں اور یہی تنوع ان کی شاعری کو ایک الگ پہچان عطا کرتا ہے۔  چند اشعار جن میں مذکورہ بالا حسیات اور کیفیات ہیں:

غموں کی دھوپ میں گزری ہے ساری زندگی اپنی

میرے سر پر مسرت کا کوئی سایہ نہیں آیا

خوشی کے دن تھے تو میلہ لگا رہتا تھا اپنوں کا

مصیبت جب پڑی کوئی نظر اپنا نہیں آیا

جو مکیں ہیں محلوں کے وہ سمجھ نہ پائیں گے

مفلسی کے آنگن میں کوئی کیسے جیتا ہے

پٹخ دیا ہے بلندی نے اس کو پستی پر

جو مرے شہر میں اونچے مکان والا تھا

جن کے چہروں نے نہیں دیکھی تبسم کی بہار

آپ ان محروم ہونٹوں کی ہنسی بن جائیے

نئے زمانے کا دستور ہی نرالا ہے

کوئی جئے کہ مرے کوئی پوچھتا ہی نہیں

کرب تنہائی مرا کون سمجھتا ہے یہاں

شہر کی بھیڑ میں بھی رہ کر اکیلا ہوں میں

دھوپ کے پاؤں کسی روز کچل دیں گے مجھے

ایک گرتی ہوئی دیوار کا سایہ ہوں میں

بے گھری میں سر چھپانے کے لئے کچھ تو ملا

سائبانِ بے در و دیوار کو گھر کہہ دیا

ہمارے گاؤں کی ہریالیاں آنکھوں ٹھنڈک ہے

کبھی ایسا تمہارے شہر کا منظر نہیں ہوتا

تمہارے شہر پر قبضہ ہے بے حیائی کا

ہمارے گاؤں میں باقی حیا ابھی تک ہے

حیات و کائنات کے وہ سارے رنگ جو ایک تخلیق کی بیدار آنکھیں دیکھتی اور محسوس کرتی ہیں۔  وہ سب ان کی شاعری کا حصہ ہیں۔  معصوم شرقی کو شاعری کے ہنر آتے ہیں اس لئے انھوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو معصومانہ انداز میں نہایت خوش سلیقگی سے پیش کیا ہے اور تجربات و مشاہدات کی حقیقت پسندانہ عکاسی کی ہے۔  معاشرے میں جو مکروہات، معائب، مفاسد یا محاسن نظر آئے انھیں بعینہ اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔  یہاں انھوں نے خواجہ الطاف حسین حالی کی طرح صداقت، سادگی، اصلیت اور جوش سے کام لیا ہے۔

معصوم شرقی کے یہاں تخلیق کا ایک افادی تصور ہے اس لیے وہی موضوعات اور مسائل ان کی شاعری کا جز بنے ہیں جو معاشرے کے لئے مفید ثابت ہوں۔  ان کی شاعری کا بیشتر حصہ اخلاقی اقدار پر مشتمل ہے جس کا مقصد معاشرے کو ایک صحیح سمت اور ایک نشان راہ عطا کرنا ہے۔  گو کہ یہ مکمل طور پر اخلاقی اور ناصحانہ متن نہیں ہے کہ اس میں پند و موعظت کے سوا زندگی کے اور بھی بہت سے حقائق ہیں۔ ان کی شاعری در اصل ہمارے حرکات و سکنات کا روزنامچہ اور رویوں کا شب نامچہ ہے۔  معصوم شرقی نے اخلاقی حسیات اور رویوں کی بہت ہی فنکارانہ طور پر عکاسی کی ہے۔

آج جب کہ شاعری کی موضوعاتی زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے۔  متعینہ موضوعات پر ہی شعر کہے جا رہے ہیں۔  ایک ہی جیسے لہجہ اور آہنگ سے اکتاہٹ کا احساس بھی ہونے لگا ہے۔  ایسے میں کلاسیکیت سے رشتہ جوڑتے ہوئے عصری آگہی اور جدید حسیت کے ساتھ معصوم شرقی نے شعر کہے ہیں۔  وہ کسی ازم کے اسیر نہیں۔  ہر اس تصور، نظریہ اور فلسفے کے ساتھ ان کے تخیل اور اظہار کا سفر جاری ہے جو معاشرے کے لئے مفید اور صحت بخش ہو۔

معصوم شرقی زبان و بیان کے رموز و اسرار سے بھی بخوبی آگاہ ہیں اور عروض پر بھی عبور ہے اس لئے لفظوں کے بے جا استعمال سے بچتے ہیں اور رمز و کنائے میں اپنا تخلیقی ہنر دکھاتے ہیں۔  ان کے یہاں فن اور فکر کی ایک متناسب سطح ہے۔  وہ فنی لوازمات کی مکمل پاسداری کرتے ہیں اسی لیے ان کی شاعری فنی اسقام سے پاک و صاف ہے۔

مغربی بنگال کے فنکاروں میں معصوم شرقی کی شناخت کے کئی حوالے ہیں۔  شاعری بھی ان کا ایک شناس نامہ ہے۔  مجھے امید ہے کہ ان کے اس نئے شعری مجموعہ سے ان کی پہچان کو اور بھی استحکام نصیب ہو گا۔

نفیس بانو شمع

خواتین کی شاعری میں صرف تانیثی موضوعات اور مسائل نہیں ہوتے بلکہ عام انسانی زندگی کے احساس و ادراک کی کیفیتیں بھی ہوتی ہیں۔  داخلی درد و کرب، اذیت و آلام کے ساتھ حیات و کائنات کے فلسفے بھی ان کے تخلیقی اظہار کا حصہ بنتے ہیں۔  یہ ان کی حساسیت اور فاعلیت پر منحصر ہے کہ وہ احساس و اظہار کے کن مدارج اور منازل سے گزرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔

نفیس بانو شمع کی شاعری میں نہ کوئی تانیثی منشور ہے، نہ فمنسٹ ایجنڈا وہ تو بس وہی رقم کرتی ہیں جو ان کے دل پر گزرتی ہے۔  اپنے دل کی آہٹوں کو شعری آواز عطا کرتی ہیں اور دل کے مد و زجر کو احساس اور اظہار کے اتنے خوبصورت پیرہن میں ڈھالتی ہیں کہ قاری ان میں کھو سا جاتا ہے اور ان کے باغ سخن کے تازہ اور خوشبو دار پھولوں سے مشام جاں کو معطر کرتا رہتا ہے۔  ان کی شاعری میں جادوئی لمس ہے۔  یہی وجہ ہے کہ قاری ان کے شعری نگار خانے کی سیر کرتے ہوئے اکتاہٹ یا بوریت محسوس نہیں کرتا بلکہ ہل من مزید کا مطالبہ کرتا ہے۔

نفیس بانو شمع نے صرف زمین ہی نہیں زندگی میں بھی بہت سے زلزلے دیکھے ہیں پھر بھی انہوں نے اپنے تشخص، انا اور خودداری کو منہدم نہیں ہونے دیا ہے۔  بلکہ اس آگ سے کام لیا جو ان کے وجود میں روشن ہے۔  اسی آگ نے ان کے تخلیقی احساس واظہار کو روشن رکھا ہوا ہے۔  ایک عورت ہونے کے ناطے ان کے یہاں نازک، نرم نسائی جذبات تلاش کئے جا سکتے ہیں۔  مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے یہاں احساس اور اظہار کی سطح پر وہ صنفی تقسیم Dichotomy نہیں ہے جو ریختہ اور ریختی کی شکل میں اردو شاعری میں رائج ہو گئی ہے۔  ان کی شاعری میں عورت عاشق بھی ہے، معشوق بھی کہ در اصل ان کا عشق ذات اور طبقے سے ماورا ہے۔  ان کے عشق میں وہ ساری اشیاء شامل ہیں جو قدرت نے تخلیق کی ہے۔  انہیں عشق صحرا سے بھی ہے، پہاڑ سے بھی، دریا سے بھی ہے، سمندر سے بھی۔  ان کے یہاں عشق ایک مضبوط فاعلی عنصر کے طور پر موجود ہے۔  ان کے سخن کا سارا سلسلہ عشق ڈور سے ہی بندھا ہوا ہے۔  یہی عشق ہے جس نے ان کے اندر کی آگ کو گلزار بنا دیا ہے۔  انہیں کے شعر ہیں:

عشق میں ہوتی ہے تاثیر کچھ ایسی جاناں

آگ بن جاتی ہے گلزار تمہیں کیا معلوم

وہ لفظ کن نہ ہوتا یہ زمیں رقصاں نہیں ہوتی

نہ ہوتا عشق تو پھر صورت انساں نہیں ہوتی

نفیس بانو شمع کی شاعری میں عشق کے مختلف شیڈس ہیں اور اس کا سلسلہ تصوف سے بھی جڑا ہوا ہے۔  ان کے عشق رنگ اشعار میں تصوف کی رمزیت پنہاں ہے۔

وہ جس کو شعلوں پہ چل کر سکون ملتا ہو

کسی بھی آگ سے اس کو جلا نہیں سکتے

نہ پوچھ اے عشق اب میری حقیقت

کوئی مجھ میں ہی مرتا جا رہا ہے

میں دست عشق میں ہوں کورا کاغذ

مصور رنگ بھرتا جا رہا ہے

میری دنیا اجڑ گئی ساری

کون سا یہ جہان باقی ہے

وہ تیری راہ میں دل کا بچھانا کون دیکھے گا

کتاب عشق کا دلکش فسانہ کون دیکھے گا

اس طرح کے اشعار عشق کی تجلی، تزکیہ اور تلازمات کو اور تابندہ کرتے ہیں۔

شمع کی شاعری استعاراتی محبت کا خوبصورت اظہاریہ ہے۔  اس میں فنائیت کا جذبہ بھی ہے اور جینے کی آرزو بھی۔  ان کی شاعری میں صحرا، سمندر، شیشہ اور پتھر جیسے متضاد الفاظ ان کی متغیر ذہنی کیفیات کا اظہار کرتے ہیں کہ در اصل دل کا موسم کئی طرح کی کیفیات سے گزرتا ہے۔  کبھی خوشی کبھی غم، کبھی غصہ، کبھی پیار، انسانی وجود سے جڑے ہوئے جتنے بھی جذبے ہو سکتے ہیں وہ ان کی شاعری کا حصہ بنے ہیں۔  ان کی شاعری انسانی جذبہ و احساس کی شاعری ہے۔  دل جن جن کیفیتوں سے گزرتا ہے وہی کیفیتیں ان کی شاعری کا حصہ بھی بن جاتی ہیں۔  ایک ہی جذبے یا کیفیت پر ان کی شاعری ٹھہری ہوئی نظر نہیں آتی بلکہ انسانی زندگی کی تمام موجوں سے ان کی شاعری کا رشتہ ہے۔  ان کے چند اشعار سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی شاعری جذبوں کے کن کن دیار وں سے گزری ہے۔  یہ دیار کچھ جانے پہچانے بھی ہیں اور کچھ انجانے بھی کچھ طبعیاتی اور کچھ مابعد طبعیاتی بھی:

بادل پہ لکھا اس نے میرے درد کا نوحہ

پھر ٹوٹ کے برسا تھا مری آنکھ سے پانی

سنتی ہوں کہ آئے گا وہ ساون کی رتوں میں

مہکے گی میرے گھر میں بھی پھر رات کی رانی

شاید کہ چاند جھانک لے بادل کی اوٹ سے

اب تک اسی امید پہ کھڑکی کھلی تو ہے

کشتیاں سب ڈبو گئے دریا

ہاں مگر بادبان باقی ہے

تم مری پیاس کی معراج کا عالم دیکھو

خشک ہونٹوں پہ مرے کتنے سمندر ڈوبے

نفیس بانو کے شعری ڈکشن میں سادگی اور سلاست ہے۔  ان کے نزدیک شاعری ایک کیمیا ہے اسی لئے وہ اپنی شاعری کے ذریعہ اپنے جذبات کی کیتھارسس کرتی ہیں۔  ان کے یہاں دو چیزیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔  ایک Vibrancy اور دوسری Vitality۔  ان کی پوری شاعری انہیں دونوں چیزوں سے عبارت ہے۔  اس میں زندگی کی حرکیت بھی ہے اور تخیل کی قوت بھی۔ ادب اور آرٹ کی زندگی کے لئے یہ دونوں ضروری ہیں۔

نفیس بانو شمع کی تخلیقی زنبیل میں بہت سے عمدہ اشعار ہیں جنہیں پڑھتے ہوئے یقیناً انسانی وجود کی بہت سی حقیقتیں سامنے آئیں گی اور احساس ہو گا کہ یہ کائنات تضادات کا ایک مجموعہ ہے۔  جہاں ہر لمحے منظر تبدیل ہوتا رہتا ہے۔  اور منظروں کی یہی تبدیلی تخلیقی احساس و اظہار میں تغیر کا باعث ہوتی ہے۔  نفیس بانو شمع کی شاعری بھی تبدیل ہوتے منظر نامے کا ایک مونتاژ ہے۔

فہیم جوگاپوری

تخیل میں تحیر، اظہار میں استعجاب ہو تو ایسی شاعری سے قاری کا طلسمی رشتہ قائم ہوتے دیر نہیں لگتی۔  فہیم جوگاپوری کے یہاں ’تحیر‘ کی وہ تمام تجلیات اور کیفیات ہیں جن کی وجہ سے ان کی شعری رہ گزر ’اوروں‘ سے الگ ہو گئی ہے۔

یہی تو پیاس میری چاہتی ہے

لبِ ساحل سمندر ٹوٹ جائے

یہ تو اچھا ہوا بادل نے ہمیں روک لیا

ورنہ نکلے تھے سمندر کو جلانے ہم بھی

دیکھ کر سوکھ گیا کیسے بدن کا پانی

میں نہ کہتا تھا مری پیاس سے دریا کم ہے

ہم اہل غم کو حقارت سے دیکھنے والو

تمہاری ناؤ انہی آنسوؤں سے چلتی ہے

آپ کے سر پہ جو یہ تاجِ حشم رکھا ہے

ہم فقیروں نے اسے زیر قدم رکھا ہے

ایسے اشعار پڑھتے ہوئے قاری معانی کی لہروں میں ڈوبتا ابھرتا خود کو ایک ایسی تخلیقی کائنات میں محسوس کرتا ہے جہاں ’معروض‘ کی صورتیں بدلی ہوئی نظر آتی ہیں اور فنتاسی، ایک نئی حقیقت میں منقلب ہوتی ہوئی کہ شاعری تخیل کی زبان ہوتی ہے اور تخیل میں کوئی بھی معروض، حقیقی نہیں ہوتا بلکہ خیالات اور احساسات اس ’معروض‘ کی صورت اور معنویت متعین کرتے ہیں۔

تخیل کی سطح پر تحیر کی اسی آمیزش نے فہیم جوگاپوری کے اظہار کو جدت اور ندرت عطا کی ہے اور ’سوچ تحیر‘ کے یہی سلسلے نئی زمینیں تلاش کرتے رہتے ہیں اور یہی جستجو تخلیق کار کے باطن میں ایک نیا لینڈ اسکیپ خلق کرتی ہے۔

فہیم جوگاپوری کا اپنا تخلیقی لینڈ اسکیپ ہے جس میں ان کے تجربات اور تعاملات (Interactions) کے رنگ واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں اور ’سکوت‘ میں بھی ’صدا‘ کو محسوس کیا جا سکتا ہے:

شام خاموش ہے پیڑوں پہ اجالا کم ہے

لوٹ آئے ہیں سبھی ایک پرندہ کم ہے

اپنے مہمان کو پلکوں پہ بٹھا لیتی ہے

مفلسی جانتی ہے گھر میں بچھونا کم ہے

کشتیاں درد کے ساگر میں بھٹک جائیں گی

ہو گئی شام چراغوں کو جلا لو پہلے

کردار دیکھنا ہو تو صورت نہ دیکھئے

ملتا نہیں زمیں کا پتہ آسماں سے

جس نے چھپا کے بھوک کو پتھر میں رکھ لیا

دنیا کو اس فقیر نے ٹھوکر میں رکھ لیا

یہ کائنات کے ادراکی مشاہدات پر مبنی تخیلی، تخلیقی عمل ہے، جس سے قاری کے ذہن کی زمین کو بھی نئی روئیدگی ملتی ہے اور خیال کے افق کو نئی تابانی بھی کہ اس شاعری میں صرف ذات کا انعکاس نہیں ہے بلکہ ارتعاش بھی ہے۔  یہ شاعری فہیم جوگاپوری کے وجود کی داخلی و خارجی کائنات کا عکس نامہ ہے اور ان کے مزاجی تاثر Dispositional Affect کا اشاریہ بھی۔  ان کے درون کے نفی و اثبات کی پیمائش بھی اسی سے ہو سکتی ہے۔  اس سے یہ اندازہ لگانا بہت آسان ہے کہ ان کے ہاں کتنی مثبت تاثریت Positive Affectivity ہے اور کتنی Negative یا نفی و اثبات کی سطحوں کا تناسب کیا ہے ؟ کون سے برین کیمیکل زیادہ متحرک ہیں۔  ایک تخلیق کار کے Neurochemical Systems سے آگہی بھی ضروری ہے کہ ہم Brain Biochemistryکے عہد میں جی رہے ہیں اوریوں بھی جذبے کی شدت، حدت اور قوت کا اندازہ ’نظام دماغ‘ کو جانے بغیر ممکن نہیں ہے کہ تخلیق بھی دماغ کے کیمیائی عناصر کے امتزاج سے ہی وجود میں آتی ہے اور کیمیاوی اثرات کے تحت ہی اپنا رنگ بدلتی ہے۔  اس لیے ’تخلیق‘ میں موجود کیمیائی عناصر کے اثرات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ تخلیق کار کے برین میکانزم کا مکمل طور پر پتہ چل سکے۔

فہیم جوگاپوری کی شاعری/ تخلیق کے کیمیائی تجزیے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ’تخلیقی نظام‘ پر کوئی ایک کیمیائی عنصر حاوی نہیں ہے۔  ان کا تخلیقی ذہن، موسم، ماحول، وقت اور حالات کے اعتبار سے نئی نئی تجرباتی زمینوں اور ادراکی سطحوں کا لمس حاصل کرتا رہتا ہے۔  ان کا ذہن ایک ہی نقطہ یا احساس پر مرکوز نہیں ہے۔  یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ایک ہی لہجہ یا آہنگ نہیں ہے، بلکہ مختلف آہنگ کا امتزاج ہے اور وہ بھی انفرادی نزہت و نکہت لیے ہوئے:

واقف کہاں زمانہ ہماری اڑان سے

وہ اور تھے جو ہار گئے آسمان سے

کھنکتی چوڑیاں، خوشبوئیں، پیار کی باتیں

تمام وصل کے ہیں استعارے شام کے بعد

ہم فقیروں نے کبھی بیچا نہیں اپنا ضمیر

درہم و دینار سے دستار کا سودا نہ کر

کھلا تھا سامنے اک روز باب شہر بدن

کسے بتائیں جو دیکھے نظارے شام کے بعد

ان اشعار میں احساس کی سطح پر جو تضاد اور تخالف ہے، وہ فہیم جوگاپوری کے فکری تنوع کے ساتھ اس بات کا بھی پتہ دیتے ہیں کہ ان کے مشاہدات کی سمتیں کیا ہیں۔  کائنات کے اشیاء اور حقائق کی تفہیم یا تعبیر کے باب میں ان کا زاویہ نظر کیا ہے۔  ان کے تخلیقی ذہن کے فکری جغرافیہ کے ساتھ ساتھ یہ شاعری اس بات کا بھی پتہ دیتی ہے کہ فہیم جوگاپوری کے یہاں اپنے عہد کی حسیت کے انعکاس، ہم عصر حقیقتوں کے اکتشاف و اظہار، عصری واردات اور مسائل سے اموشنل انٹی میسی (Intimacy) کے ماسوا ماضی کی قدروں کی گمشدگی اور معصومیت کی جستجو ملتی ہے:

ماتھے پہ شکن آنکھوں میں جنگل کی اداسی

دیکھو تو ذرا عہد یہ میرا تو نہیں ہے

پرانی قبر سے لپٹا ہے پاگلوں کی طرح

یہ کون شخص ہے مٹتی ہوئی لکیر کے ساتھ

ستارو آؤ بدل آفتاب کا ڈھونڈیں

دیار غم سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈیں

فہیم جوگاپوری کی شاعری میں صرف جذبے کی داخلیت نہیں ہے، بلکہ زبان کی داخلیت بھی ہے۔  جذباتی اظہاریت اور زبان کی داخلیت نے اس شاعری کو قوت و تاثیر عطا کی ہے۔  یہ ایسی شاعری ہے جس کے وجود کی دیواریں نہ خستہ ہیں اور نہ ہی کسی ستون یا نقد ستارہ کی دست نگر۔  اس شاعری میں خیال کی پر آہنگ لہریں نثریت کے انتشار کو مربوط کرتی ہوئی شعری پیکر میں ڈھل کر نئی کیفیات خلق کرتی ہیں اور یہی کیفیات قاری کی باطنی دنیا کو شاداب کرتی ہوئی اپنے مکمل معنوی تلازمات کے ساتھ قاری کے شعور و احساس کا حصہ بن جاتی ہیں اور تب ایک نئی زمین و زماں قاری کے روبرو ہوتے ہیں اور ان میں تحیرات کے فانوس جھلملا رہے ہوتے ہیں، یہی ’فانوس تحیر‘ فہیم جوگاپوری کا تخلیقی شناس نامہ ہے۔

یہ کنڈوم نما (Condomonius) مکانات میں محصور شاعری نہیں ہے بلکہ کھلی فضا اور تازہ شگفتہ ہوا کی شاعری ہے جس کی وجہ سے گھٹن اور حبس کا احساس نہیں ہوتا۔  اس شاعری میں روایت کی مہک بھی ہے اور جدیدیت کا جمال بھی۔  اس شاعری کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں خارجی معروضات کے ساتھ داخلی احساسات کا نہایت خوبصورت اشتراک ہے۔  لفظیاتی نظام کے تعلق سے بھی فہیم جوگاپوری اپنی الگ سخن کائنات آباد کیے ہوئے ہیں۔  ’فارمل‘ کے بجائے انہوں نے ’نیچرل‘ زبان استعمال کی ہے۔  ان کے لفظ آسان اور ترسیل و تاثیر کی قوت سے معمور ہوتے ہیں۔  کہیں کہیں علاقائی الفاظ نے بھی ان کے لفظیاتی نظام کو لذت کے ساتھ جدت عطا کی ہے۔

’ادھوری بات‘ تشنگی کا استعارہ ہے۔  میر تقی میر کی تشنہ لبی کی طرح۔  اور یہی احساس تشنگی تخلیق کو ’تکمیل‘ سے ہمکنار کرتا ہے اور تخلیق کار کے اس اضطراب اور تہیج کو زندہ رکھتا ہے جو نئے تخلیقی کینوس کی جستجو کے لیے ضروری ہے۔

یونس غازی

اظہار کی شاخیں داخلی احساس کی جڑوں سے ہی نمو پاتی ہیں۔ احساس کی کائنات وسیع ہوتے ہوئے بھی تکرار اور اعادہ سے عاری نہیں ہوتی۔  ازل سے ابد تک احساس کا یکساں تسلسل ہے۔ اس تعلق سے پروفیسر نقی حسین جعفری مرحوم کا یہ خیال بہت اہم ہے کہ:

 ’’انسانی جذبات اور احساسات میں کسی اضافے یا کمی کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔  ہزاروں سال کی انسانی تاریخ بعض بنیادی جبلتوں اور ان سے وابستہ جذبات اور احساسات کی کہانی ہے۔  شاعر بس اس پر قادر ہو سکتا ہے کہ وہ ان کی ترتیب اور تہذیب نو کے تخلیقی اظہار کو برتے اور اپنے شعری تجربے کا حصہ بنائے ‘‘(غالب کا رویائے زیست مشمولہ عہد وسطی کا ہندوستان مسلم ثقافت، تصوف اور ادب )

احساس کی مراجعت یا رجعت قہقری کے عمل کو روکا نہیں جا سکتا کہ احساس کا رشتہ ازل سے ہے۔  مرزا اسد اللہ خاں غالب نے کہا تھا:

مبر گماں توارد یقیں شناس کہ دزد

متاع من زنہاں خانہ ازل برد است

ماضی کے تصورات حال اور مستقبل کا حصہ بنتے رہیں گے۔ اس اعادہ یا تکرار کو ماضی سے ممیز صرف اظہار، انداز بیاں کر سکتے ہیں۔  کیونکہ اظہار ہی پرانے احساس کو نئے پیکر میں ڈھالتا ہے۔  یہی اسے نیا رنگ روپ دیتا ہے۔  طرز اظہار سے ہی افتراق کی راہ نکلتی ہے۔

ہر عہد کا اپنا طرز اظہار ہوتا ہے اور یہی اس عہد کا شناخت نامہ بن جاتا ہے۔ اردو کے تکوینی دور میں اظہار پر دکنیت حاوی تھی پھر رفتہ رفتہ اظہارات کے رنگ بدلے اور جب ولی کا دیوان دلی پہنچا تو اردو شاعری کا رنگ ہی بدل گیا۔  اردو اپنے ابتدائی اور ارتقائی ادوار میں طرز فکر اور احساس کے اعتبار سے ایک continuity لئے ہوئے ہے جبکہ طرز اظہار کے لحاظ سے بہت ساری تبدیلیوں سے گزری ہے۔  دبستانوں نے بھی اظہارات کو الگ الگ شکلیں دیں۔ خارجیت اور داخلیت کے ساتھ فطری سادگی اور تصنع آمیزی کی بحثیں بھی سامنے آئیں۔  دلی اور لکھنو دونوں دبستانوں کے رنگ الگ ہیں۔  ان کے مابین بھی نقطہ افتراق بنیادی طور پر اظہار ہی ہے مگر جدید شعری تنقید پرانے طریق کار پر عمل پیرا ہے اس لئے شاعری کی وہ جہتیں روپوش رہتی ہیں جن کا تعلق منطقہ اظہار سے ہے جبکہ نقد شعر کو اب recalibrate کئے جانے کی ضرورت ہے۔  شاعری کی تنقید تشریح ‘توضیح یا تصریح بن جائے تو اسے تحصیل لا حاصل کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔

نقد شعر کا یہ المیہ بڑی تنقید سے بھی جڑتا جا رہا ہے۔  زیادہ تر تنقیدیں اشعار کے متبادر معانی پر ہی مرکوز رہتی ہیں اس لئے شاعری کی طرح شعری تنقید بھی تکرار اور یکسانیت کی شکار ہوتی جا رہی ہے۔

یونس غازی کے ’خواب سمندر‘ کی سیاحت کرتے ہوئے ذہن میں خیال کے یہ جزیرے اس لئے ابھر آئے کہ یونس غازی کی شاعری میں قدیم احساسات، اور تخیلات کی ہی باز گشت سنائی دیتی ہے مگر یہ معیوب نہیں ہے کہ روایت سے ربط رکھا جائے اور زاویہ اظہار کو نقطہ انفصال کے طور پر عمل میں لا یا جائے۔  یونس غازی کے لئے روایت رحمت ہے، زحمت نہیں اسی لئے اوروں کی طرح روایت کے جبر سے آزادی کے لئے راہیں تلاش نہیں کیں بلکہ روایت سے رشتہ جوڑ کر تخلیقی عمل کو عصری اظہار سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ اب ان کا یہ رنگ سخن دیکھئے۔  کسی نہ کسی ناحیہ سے یہ خیالات ہمارے کلاسیکی شعری احساس اور آہنگ کا جز و بنتے رہے ہیں۔:

حسن معصوم کا یہ اثر دیکھنا

شوخ ہونے لگی ہے نظر دیکھنا

ان کے آنے کا دل کو یقیں بھی نہیں

پھر بھی مڑ مڑ کے وہ رہگزر دیکھنا

سرشار محبت تو زلیخائیں بہت ہیں

یوسف کی طرح تو کوئی بازار میں آئے

کلاسیکی شاعری میں اس رنگ و آہنگ کے شعر بہ آسانی تلاش کئے جا سکتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ایسے اشعار بھی ہیں:

خزاں سمیٹ لوں دامن میں صحن گلشن کی

تمہارے واسطے بس موسم بہار رہے۔

ہندی اردو کو محبت کی نظر سے دیکھو

ملتی ہے دونوں سے پاکیزہ بہن کی خوشبو

موت برحق ہے کہاں اس سے مفر ہے لوگو

پھر بھی اچھی نہیں لگتی ہے کفن کی خوشبو

چاند کل دہلیز تک آیا تھا اپنے بھی مگر

خواب گاہ زندگی میں ہم پڑے سوتے رہے

کہکشاں رینگتی ہے سبزے پر

بام سے وہ اتر گیا ہے کیا

ہماری راہ میں آئے گی کیا دریا کی طغیانی

سمندر نے دیے رستے ہمیں یہ آب جو کیا ہے۔

ان شعروں میں قدیم حسیت کے عناصر تلاش کئے جا سکتے ہیں مگر ان میں اظہار کی جدت اور نئے اسلوب کی حدت ہے جس کی وجہ سے یہ اشعار کلاسیکی شعریات سے مماثل شعروں کے زمرے میں نہیں رکھے جا سکتے۔ یہاں یونس کا انداز سخن بالکل الگ ہے۔ انہوں نے اظہار کو ایک نئی روانی اور نیا طور و طرز دیا ہے۔ شاعری کے یہی اظہاری افتراقات انبوہ شعر میں اپنے وجود اور اشاعت کا جواز پیدا کرتے ہیں۔  خواب سمندر اس جواز میں شامل ہے کہ اس میں اظہار کی ایک نئی راہ نظر آتی ہے۔۔

اس کے علاوہ یونس غازی کا جہان سخن ان موضوعات اور مسائل سے روشن ہے جو آج کی کائنات اور انسان کو بھی درپیش ہیں۔

کائنات کے مسائل کیا ہیں۔  آشوب دہر کیا ہے۔  جدید دور کے انسان کا بحران کیا ہے۔ اس کی شعری شکلیں یونس غازی کے یہاں تلاش کی جا سکتی ہیں:

جب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں دونوں

آنگن میں یہ دیوار ہے معلوم نہیں کیوں

وفا خلوص محبت دلوں میں ہمدردی

یہ فلسفے تو کبھی کے تہ مزار ہوئے

آج کے دور میں دولت کے پجاری ہیں سبھی

سب کو دنیا میں بھلی لگتی ہے دھن کی خوشبو

کہیں روندے ہوئے گل ہیں کہیں مسلی ہوئی کلیاں

ادھر بھی دیکھ اے مالی یہ کیسی باغبانی ہے

کوئی رفیق سفر ہے نہ ہمدم و دم ساز

وفا خلوص کے سب رشتے تار تار ہوئے

صارفی معاشرت، مادیت اور قدروں کے زوال اور شکست وریخت کے یہ آئینے ہیں جن میں بدلتے معاشرہ کا مکروہ چہرہ صاف صاف نظر آتا ہے۔۔  ایک انسانی سماج کا وحشی سماج میں بدل جانا کسی بڑے بحران سے کم نہیں ہے۔  اقداری نظام کا انہدام بہت بڑا المیہ ہے۔  سوشل اسٹرکچر اور کلچر کے مابین ایک جدلیاتی رشتہ ہوتا ہے۔  یہ رشتہ معدوم ہو جائے تو سماج انارکی اور انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔  یونس غازی نے سماج کے degenerative attitudes کو اپنے شعری مرکزہ کا عنصر بنا کر جدید انسانی بحران کے اسباب و علل کی طرف اشارہ کر دیا ہے اور بحران کے تدارک کی صورتیں بھی بتا دی ہیں۔:

تم کب تلک تخریب کے جنگل میں رہو گے

بہتر تو یہی ہے کرو تعمیر کی باتیں

تعلیم سے محروم ہو تاریخ سے غافل

تم کرتے ہو کیا قوموں کی تفسیر کی باتیں

یہ انتشار زدہ تخریب پسند معاشرہ اور افراد کے لئے مثبت اشارے ہیں جن سے خواب نہ سہی خوابوں کی تعبیر بدلی جا سکتی ہے۔ چراغ آرزو روشن کئے جا سکتے ہیں۔

غازی کی غزلیہ شاعری کے موضوعات محدود سہی مگر مقصدیت واضح ہے۔

اب نظم گلستاں کو آئینہ دکھانا ہے

مانند گل رعنا کانٹوں کو ہنسانا ہے

بیدار ہو اٹھ جاؤ ہو جاؤ عمل پیرا

ظلمات کے سینے سے سورج کو اگانا ہے

ہزار ظلم و ستم سہہ کے گالیاں سن کر

عدوئے جاں کو دعائیں ہزار دیں ہم نے

تعمیر، تشکیل، تطہیر، تزکیہ اور تقدیس ان کی شاعری کے مرکزی سروکار ہیں۔  ان کے شعری متن کی اساس صداقت پر ہے اسی لئے انہوں نے خاشاک کے تودے کو کوہ دماوند کہنے سے گریز کیا۔

یونس غازی کی پوری شاعری پاکیزہ احساس سے منور ہے۔  انہوں نے شاعری کو اسی وسیلہ کے طور پر استعمال کیا ہے جو مقدمہ شعر و شاعری میں حالیؔ کا مطمح نظر تھا۔ ان کی شاعری کا تہذیبی اور سماجی عوامل سے گہرا سروکار ہے

سرزمیں اپنی ہے گنگا جمنی

تخم نفرت یہاں بونا کیسا

دولت دل کی تمنا ہے مجھے

مال و زر چاندی و سونا کیسا

انہیں شاعری کی سماجی معنویت کا شدت سے احساس ہے۔ اسی لئے ان کی شاعری میں satiric intent بھی ملتا ہے:

یہ بنگالی وہ پنجابی مراٹھا یہ تمل ہے وہ

وطن والو بتاؤ پھر یہ ہندوستان کس کا ہے

وطن کو لوٹنے میں ہیں سبھی مشغول اے غازی

وطن کا نام ہو دنیا میں یہ ارمان کس کا ہے

کوئی عدو نہ تھا وہاں وہ دوستوں کی بزم تھی

تھا زخم میری پشت پر پتا نہیں حضور کیوں

گل بداماں جن کو ہم نے کر دیا ہے بارہا

وہ ہمارے راستے میں خار و خس بوتے رہے

بربادی گلشن کے آثار نمایاں ہیں

پھر بھی وہ سمجھتے ہیں گلشن میں بہار آئی

یونس غازی نے غزل کے علاوہ نظمیہ شاعری میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ خاص طور پر ملک اور مٹی کی محبت کو موضوع بنایا ہے۔  وطنیت پر مبنی یہ شاعری سرور جہاں آبادی، تلوک چند محروم اور ساغر نظامی کی یاد دلاتی ہے۔  مگر یہ موضوع محدود وسعت کا ہے اور بنیادی طور پر آفاقیت، انسانی وحدت اور عالمی اخوت سے متغائر تصور ہے۔ وطنی تصور کا اثبات عالمگیریت اور انسانی کلیت کی نفی ہے۔  شیخ سعدی شیرازی کا یہ مصرعہ:  بنی آدم اعضائے یک دیگرند جو اقوام متحدہ) U N O ) کے باب الداخل پر ایک سیاسی منشور کے طور پر کندہ ہے وہ اسی کلیت کا شعری اظہار ہے اور یہ وہ تصور ہے جسے مختلف اقوام و ملل کی دانشورانہ روایتوں میں بہت اہمیت حاصل ہے۔  اس لئے وطنیت فی نفسہ بہتر ہوتے ہوئے بھی جب نرگسیت یا ادعائیت کا شکار ہو جاتی ہے تو اس کی حدیں فسطائیت سے مل جاتی ہیں کیونکہ دیش بھکتی کی آڑ میں کسی اور وجود‘ قوم یا زبان کو برداشت نہ کر پانے کا عمل ہی فاشزم کہلاتا ہے۔  وطنیت کا جوش و جنوں جب زہر بن جاتا ہے تو تہذیب و تمدن کے چراغوں کو بجھا دیتا ہے۔  ترقی اور تنظیم کی کلیدوں کو کالعدم کر دیتا ہے۔  مرحوم دلی کالج کے انگریز پرنسپل مسٹر ٹیلر کا خون ناحق بھی اسی جارحانہ وطن پرستی کا نتیجہ تھا جبکہ ان کی زندگی سے مشرقی دانش و ثقافت کی بہت سی شمعیں فروزاں ہوتیں۔  جہالت اور تعلیمی پسماندگی کی دھند کم ہوتی اور ہندوستان کا تعلیمی مستقبل درخشاں ہوتا۔

وطنیت میں جارحیت اور تشدد کا عنصر شامل نہ ہوتا تو، محب وطن اقبال، اپنے نظریہ وطن پر نظر ثانی کے لئے مجبور نہ ہوتے۔

آخر کوئی تو وجہ رہی ہو گی کہ ترانہ ہندی لکھنے والا شاعر اقبال وطن کی محبت میں سرشار یہ کہتا ہے:

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

ہم بلبلیں ہیں اس کی وہ گلستاں ہمارا

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا

مگر سفر یورپ میں جب وطنیت کی جارحیت، خوں ریزی اور تشدد دیکھتا ہے تو اپنا زاویہ فکر بدلتے ہوئے کہتا ہے:

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

درویش خدامست نہ شرقی ہے نہ غربی

گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمرقند

اور اس سے بھی بڑھ کر وطنیت کو مذہب کا کفن کہتا ہے:

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

موجودہ آفاقی عہد میں وطنیت کا تصور اپنی معنویت کھو چکا ہے۔  یونس غازی نے اپنے شعری اظہار کو وطن کے محدود اور مہلک تصور سے محفوظ رکھا ہے اور اپنی شاعری کو وطنیت کے جمالیاتی تصور پر مرکوز کر کے وطن کے اس سیاسی تصور کو اپنے شعری منطقہ سے خارج کر دیا ہے جس سے دوسرے جغرافیائی وجود، احساس یا افکار کی نفی ہوتی ہو۔  خاک وطن کے ہر ذرہ کو دیوتا سمجھنا گناہ نہیں مگر دوسری قوموں اور ملکوں کے ماہتابوں کو ذرہ سے بھی کمتر سمجھنا جرم کے ذیل میں آتا ہے۔  یونس غازی نے وطن پر مرکوز نظمیں لکھتے ہوئے اس امر کا خاص طور پر خیال رکھا ہے کہ شاعری میں وطن سے محبت کی خوشبو تو ہو مگر کسی سے نفرت کی بو نہیں۔  ان کی اس نوع کی نظموں میں یہاں کے فطری مناظر، پہاڑوں اور پھولوں کا ذکر ملتا ہے:

ہے ہند حسیں مرکز قدرت کے مناظر کا

یہ پیارا وطن اپنا جنت کا نظارہ ہے

کشمیر ہو شملہ ہو میسور ہو یا گوا

جس سمت نظر ڈالو رنگین نظارہ ہے

(ترانہ وطن)

رشک جنت ہیں اس کے مناظر حسیں

یہ ہے سر سبز و شاداب سارا وطن

ہیں پہاڑ اور ندی نالے جھرنے یہاں

باغ و بن سے مزین ہمارا وطن

( ہمارا وطن )

تیرے پربت کی چوٹی کو چومے گگن

اے وطن، اے وطن، اے وطن، اے وطن

تیرے گلشن کی خوشبو بہاروں میں ہے

ان فضاؤں میں ہے چاند تاروں میں ہے

حسن ایسا کہاں ماہ پاروں میں ہے

ذرے ذرے میں بکھری ہوئی ہے کرن

اے وطن، اے وطن، اے وطن، اے وطن

تیری عظمت ہمالہ سے پوچھے کوئی

تیرا مذہب شوالہ سے پوچھے کوئی

کرشن کیا تھے یہ گوالہ سے پوچھے کوئی

اب بھی شاہد ہیں متھرا کے وہ باغ و بن

اے وطن، اے وطن، اے وطن، اے وطن

( اے وطن )

یونس نے قومی یکجہتی، اتحاد و اخوت کے حوالے سے بھی نظمیں کہی ہیں جبکہ یہ سارے الفاظ بدعنوان سیاسی نظام میں کرپٹ اور کھوکھلے ہو چکے ہیں۔  یہ روح اور جذبہ سے عاری وہ الفاظ، اصطلاحات یا تراکیب ہیں جن کا اجتماعی شعور سے صرف سیاسی رشتہ رہ گیا ہے۔  سیاسی سیاق میں جلب منفعت کے لئے استعمال کئے جانے والے یہ پر فریب الفاظ ہو سکتے ہیں مگر ان کا حقیقی معنی و مفہوم سے رشتہ بہت پہلے منقطع ہو چکا ہے۔  کیونکہ ایک غیر فطری اتحاد یا situational unity کو یک جہتی اور اتحاد کا نام نہیں دیا جا سکتا اور تاریخ اس کی تصدیق کرتی ہے کہ آزادی وطن کے نام پر اتحاد بھی زیادہ دنوں قائم نہ رہ سکا جس پر اس وقت کے تخلیق کاروں نے اظہار تاسف بھی کیا۔  ممتاز ناقد فضیل جعفری نے اپنے مضمون ’کلام اکبر کا قومی کردار‘ میں ہندو مسلم اتحاد اور قائدین کے رویے کے تعلق سے جو اشارے کئے ہیں وہ متذکرہ معروضے کو مضبوط بنیاد عطا کرتے کرتے ہیں:

 ’’دوسری جنگ آزادی کے دوران فرقہ وارانہ یکجہتی قوم پرستی کے تصور میں ریڑھ کی ہڈی والی حیثیت رکھتی تھی۔  کانگریس نے اپنے الہ آباد اجلاس کے وقت طے کیا تھا کہ پارٹی نہ تو کوئی ایسا کام کرے گی اور نہ ہی کوئی ایسا بیان دے گی جس کا تعلق صرف ہندوؤں یا صرف مسلمانوں سے ہو اور جس سے ہندو مسلم اتحاد میں خلل پڑنے کا اندیشہ ہو۔  بہت سے محب وطن کانگریسی لیڈر اس پالیسی پر عمل نہیں کر سکے اور مذہبی احیاء پسندی کا شکار ہو گئے۔  لوک مانیہ بال گنگا دھر تلک اور لالہ لاجپت رائے وغیرہ کا کہنا تھا کہ ہندو مذہب، تہواروں اور اساطیر کے ذریعے ہی ہندو اکثریت کو انگریزوں کے خلاف متحد کیا جا سکتا ہے۔  چنانچہ تلک نے ہندوؤں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے مہاراشٹر میں گنپتی کا تہوار شروع کیا۔  لالہ لاجپت رائے نے پنجاب میں ہندو سبھا نامی تنظیم قائم کی۔  ان کا خیال تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مذہبی تصورات ایک دوسرے سے اس حد تک مختلف ہیں کہ مستقبل قریب میں ان کے درمیان اتحاد پیدا کر سکنا نا ممکنات میں سے ہے۔  مدن موہن مالویہ آل انڈیا ہندو مہا سبھا کے لیڈر ہونے کے علاوہ پریاگ ہندو سماج کے بھی بانی تھے۔  الہ آباد کے رام چرن داس نے جو کانگریس کی کئی کمیٹیوں کے رکن تھے، ہندو سبھا اور گؤ رکشک سمیتی کی بھی کمان سنبھال لی تھی۔  پنجاب کے سارے گؤ رکشک کانگریسی تھے۔ دل میں سرفروشی کی تمنا رکھنے اور برطانوی سامراج کے زور بازو کو چیلینج کرنے والے رام پرشاد بسمل شدھی سبھا کے روح رواں تھے ‘‘(سہ ماہی نئی کتاب نئی دہلی جولائی۔  ستمبر 2007 )

ان حقائق کے باوجود اتحاد کا خواب دیکھنا برا نہیں ہے کہ شام فراق بھی صبح وصال میں بدل جاتی ہے اور ایک شاعر کے پاس خوابوں کے سوا ہوتا کیا ہے۔  اسے خواب دیکھنے سے تو روکا نہیں جا سکتا چاہے خواب کی تعبیر جو بھی ہو۔

یونس غازی نے صرف تفنن طبع یا حظ و انبساط کے لئے شاعری کا شغل اختیار نہیں کیا ہے بلکہ ان کا مقصد اخلاقی اقدار کی تمجید و ترسیل ہے۔  معاشرہ کو منفیت سے نکال کر مثبت پیغام دینا ہے۔  گو کہ شاعری کا محض یہ منصب نہیں ہے پھر بھی اگر اس سے سینہ خاموش میں برق اور چشم تر میں گریہ پیہم پیدا ہو جائے تو حرج کیا ہے۔  الفاظ اور افکار اگر اپنی قوت اور کشش سے کائنات کو تابندہ کر رہے ہیں تو اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے۔

یونس غازی کا شعری ڈکشن سادگی اور سلاست لئے ہوئے ہے۔  کوئی پیچیدگی ‘ابہام اور غموض نہیں ہے۔  وہ علامتیں اور استعارے نہیں ہیں جو شاعری کو مغلق اور عسیر الفہم بنا دیتے ہیں۔  ان کی پر سوز، نکو بیں شخصیت میں جو سادگی ہے وہی اسلوب میں در آئی ہے۔:

درد دل کی دوا نہیں مانگی

تیرگی سے ضیا نہیں مانگی

ہو رشک محبت کو جنوں اور خرد کو

خوبی وہی پھر سے مرے کردار میں آئے

ان کے کردار کی خوبی اور خیال کا حسن ان کی نعتیہ شاعری میں بھی اپنے تقدس اور طہارت کے ساتھ نمایاں ہے۔  ان کی شیفتگی اور سرشاری کا یہ عالم دیکھئے:

کاش لکھ دے خدا میری تقدیر میں

سبز گنبد کو شام و سحر دیکھنا

تخلیقی احساس کے ساتھ ان کی وارفتگی کی ایسی ہی کیفیت ہے۔  اسی لئے تخلیق کے اس سبز گنبد سے ان کی نگاہیں نہیں ہٹتیں جہاں سے پاکیزہ احساسات اور جذبات کی نورانی شعاعیں ان کے باطنی وجود کو روحانی ارتعاش سے معمور کر دیتی ہیں۔  اسی ارتعاش نے ان کے احساس اور اظہار کو نئی توانائیاں عطا کی ہیں جن کی وجہ سے وہ مسلسل تخلیقی سفر میں ہیں کہ سفر تحرک کی نشانی ہے اور بقول غازی:

مسلسل چلتے رہنا ہی نوید کامرانی ہے۔

فاروق سیوانی

دل کے نہاں خانے میں کچھ ہی شعر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ باطن تک ہر شعر کی رسائی ممکن نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ باطن میں زندہ رہنے والے شعر ہی اجتماعی احساس میں اپنے وجود کا اندراج کرا پاتے ہیں

بڑی تخلیقی توانائیاں صرف کئے بغیر شاعری کو جاودانی نصیب نہیں ہوتی۔  شعر کی زندگی یا موت ہی کسی بھی فنکار کی تخلیقی توانائی کی سطحوں کا تعین کرتی ہے۔

فاروق کے لئے خوش آئند بات یہ ہے کہ ان کے ہاں زندہ شعروں کی کمی نہیں اور ان کی تخلیق میں توانائی کی مختلف سطحیں متحرک ہیں اور ان کے بعض شعر پڑھتے ہوئے حیرت ہوتی ہے کہ تخیل نے کیسے کیسے جزیرے خلق کر دئے ہیں اور اظہار نے کیسے کیسے افق کو متشکل دیا ہے۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی کے اس قول کی روشنی میں فاروق کے شعروں کی قرأت کریں تو شاید اس کی معنویت زیادہ روشن ہو گی۔  انہوں نے لکھا ہے کہ ’’آج کثرت سے ایسے شعراء ملیں گے جن کو الفاظ اور اوزان پر غیر معمولی قدرت ہوتی ہے۔ ان کے ذہن میں کوئی خیال نہیں ہوتا۔ چونکہ الفاظ تراکیب پر قدرت ہوتی ہے وہ بلا تامل ان کو مختلف طور پر ترتیب دے دیتے ہیں دوسرا گروہ ایسا ہے جو لکھنے سے پہلے سوچتا بھی ہے لیکن ان کے تصور و تخیل کی دنیا وہی فرسودہ اور پامال زمین ہے جس پر ہزاروں قافلے گزر چکے ہیں‘‘۔  فاروق کا تخلیقی انحصار نہ الفاظ و اوزان پر ہے اور نہ ہی ان کے تصور و تخیل کی زمین فرسودہ اور پامال ہے۔  فاروق کے یہ شعر اس کی توثیق کرتے ہیں کہ یہاں تصور کی زمین بھی نئی ہے اور اظہار کا افق بھی نیا ہے۔

کئی گھروں کی اداسی ہے اس اندھیرے میں

یہ بے بسی نہیں اوروں کی بے بسی کی طرح

کوئی چہرہ سامنے آتا نہیں

آدمی جسموں کے تہ خانے میں ہے

اسی زمین نے بخشی ہے زندگی سب کو

اسی زمین سے نکلے گا مارنے والا

سلگتے جسم کی اب راکھ بھی نہ پائے گا

مرے وجود میں سورج اتارنے والا

سردیاں اوڑھ لیں درختوں نے

اور کہرے میں جل رہا ہوں میں

تخیل کا یہی تحیر ہے جو شاعری کو تاثیر ودیعت کرتا ہے۔  فاروق کے یہاں حیرت سرائے آباد ہے۔  وہ حیرت جو ہزار امکاں کے در کھولتی ہے۔

فاروق کے فکری انعکاسات کے مس کر تے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ دلی سے دور دیار میں بھی چونکانے والے لہجے ہیں مگر مرکز مرکوز نگاہوں کو اس کی خبر نہیں ہو پاتی۔ کیسے کیسے توانا لہجے دشت کم نظراں میں کھو گئے۔ اب یہی لہجہ دیکھیے، اس میں کتنی توانائی اور کس قدر تحرک ہے۔ مگر اس لہجے سے کتنے بزرگوار باخبر ہیں۔۔

ہرا بھرا ہے مرا جسم تیرے چھونے سے

مرے وجود سے خوشبو تری نکلتی ہے

کسی کے گھر کوئی یوں ہی قدم نہیں رکھتا

ہوا ضرور چراغوں کو ڈھونڈتی ہو گی

یہاں تو سب ہیں خریدار چاند تاروں کے

پرانے شہر کا بازار کون دیکھے گا

فاروق کے شعروں میں خیال کی جو خوشبو ہے، وہ مشام احساس کو معطر کرتی جاتی ہے اس میں خیال کی نئی تر تیب و تہذیب ہے اور یہی تر تیب کی تبدیلی ہی کسی پرانی حقیقت یا شئے کو نیا لباس اور نیا پیکر دے کر پر کشش بنا دیتی ہے۔  ان شعروں میں جو مقناطیست ہے وہ ترتیب نو، کی رہینِ منت ہے۔:

مہک ملی تو سلگنے لگا بدن اپنا

عجیب چیز ہے بانہوں کے ہار کی خوشبو

سرسبز ہو رہی ہیں مرے دل کی کھیتیاں

چاہت کی اس زمیں پہ کوئی مہربان ہے

پڑھ رہا ہے وہ بھیگی پلکوں سے

آنسووں سے لکھا ہوا ہوں میں

ترا وجود مہکتا ہے مے کدے کی طرح

تری نگاہ سے آتی ہے جام کی خوشبو

اترتی دھوپ کی چادر بدن سے لپٹی ہے

سنہری زلف سے آتی ہے شام کی خوشبو

ڈرتا ہوں تیز دھوپ کی ناگن نہ پھونک دے

نازک بدن کی شاخ پہ ننھا سا پھول ہے

اس نیلے آسمان کے نیچے کوئی بھی چیز نئی نہیں ہے، بس اشیاء کو محسوس کرنے کا انداز ہی اسے نیا پن عطا کرتا  ہے۔  فاروق کے یہاں زاویہ نظر کی جدت نمایاں ہے جس سے انبوہ میں انفرادیت نصیب ہوتی ہے:

عکس ابھرا نہ کوئی پانی پر

انگلیوں نے بڑی ریاضت کی

روٹیاں جب بھی دیکھتا ہوں میں

چیخ سنتا ہوں ایک بچے کی

بھیگا تو احساس ہوا

کتنی آگ ہے ساون میں

ڈوبتی رہتی ہیں اکثر کشتیاں

اس کی آنکھوں میں ہے گہرائی بہت

بہیں گی چاند ستاروں کی ندیاں گھر میں

میں روشنی کا سمندر اٹھا کے لایا ہوں

احساس اور اظہار دونوں ہی سطحوں پر ان میں نیا پن ہے اور احساس و اظہار کی ہم مرکزیت بھی ہے جبکہ عموماً احساس میں پختگی ہوتی ہے تو اظہار میں کچا پن ہوتا ہے۔  چاند ستاروں کی ندیاں، روشنی کا سمندر جیسی ترکیبیں نہ صرف یہ کہ نئی ہیں بلکہ یہ شاعر کی خلوت خیال اور باکرہ احساس کے بھی عکاس ہیں۔  ممکن ہے کہ بعض قدیم یا جدید شعراء کے ہاں اس نوع کے افکار ملتے ہوں مگر اس سے فاروق کی انفرادیت مجروح نہیں ہوتی کیونکہ فکر کی بازگشت تو فطری ہے مگر اسلوب کی انفرادیت شعر کو امتیاز عطا کر دیتی ہے:

کل جہاں زندگی کی ہل چل تھی

آج ویرانیوں کا ڈیرا ہے

یہ اور اس طرح کے شعروں کے وسیلے سے فاروق کے یہاں کلاسیکی شاعروں سے ربط و رشتے کی جستجو ناقدوں کے لئے آسان ہو سکتی ہے مگر یہی آسانی شاعر کو ’صدائے بازگشت‘ بنا کر رکھ دیتی ہے جو جینوئن فنکار کو تخلیقی عظمت کے منطقے میں داخل ہونے سے روکتی بھی ہے۔ جبکہ فاروق کا اپنا لہجہ ہے اور تخلیقی آہنگ ہی منفرد اور متحرک ہے۔ ان کی شاعری میں ’جو شوخی معنی‘ ہے وہی انہیں منفرد قرار دینے کے لئے کافی ہے۔  ان کی فکری حسیت روایت سے روشن ضرور ہو سکتی ہے مگر فاروق کی اظہاری ساخت الگ ہے۔ فاروق صاحب معنی شاعر ہیں اس لئے تتبع و تقلید کے بجائے لفظی و فکری اجتہاد و اختراع کی روش ان کے یہاں نمایاں ہے۔ عبد القادر بیدل نے بہت پتے کی بات کہی ہے کہ:

از رہ تقلید نتواں صاحب معنی شدن

ژالہ بیش از یکدودم بر خود نچیند گوہری

(کسی کی تقلید کرنے سے کوئی شاعر صاحب معنی نہیں ہو سکتا۔ اولہ موتی کی تقلید ایک دو لمحے سے زیادہ نہیں کر سکتا )

فاروق کا روایت سے رشتہ ہے مگر اسیری نہیں اور اس رشتے میں بھی ایک نئی راہ کی جستجو نظر آتی ہے۔

فاروق دیہی یا قصباتی اساس شاعر ہیں اس لئے ان کی فکر میں فطری پن ہے، وہ تصنع نہیں جو شہر کی سوچ کا حاوی عنصر ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مقامی ماحول و موسم کے باوجود فاروق کی فکر کا دائرہ آفاقی ہے یہی وجہ ہے مادی تمدن، صارفی سماج، بازار واد، اور عالمگیریت نے سماج کی جو سوچ اور سمت بدل دی ہے یہ شاعری، اس سوچ کے خلاف یہ نبرد آزما ہے۔  داخلی سطح پر ویرانی اور اجاڑ پن کا بھی احساس ہے۔ فاروق کا موضوعاتی مطاف بہت وسیع ہے بے چہرگی، زوال ذات، اجنبیت، تنہائی، مشینی اور میکانکی تہذیب سے پیدا ہونے والے مسائل اور رشتوں کی شکست و ریخت ان کے شعری متن کے موضوعات ہیں۔  مگر ان ان موضوعات کو برتنے یا پیش کرنے کا انداز مختلف ہے۔  اس باب میں فکر فاروق کی میتھوڈولوجی اور لفظوں کی فزیالوجی دونوں ہی متاثر کن ہیں۔

طارق قمر

طارق قمر کی سب سے بڑی تخلیقی قوت معنیاتی انسلاکات اور لفظی تلازمات کی سطح پر وہ کیفیت نمو ہے جو مختلف زمانی و مکانی دائروں کا سفر کرتے ہوئے ایک غیر مرئی ’مقام مد و جزر‘ سے اپنا رشتہ جوڑ لیتی ہے اور اپنی وسعتوں کے نئے امکانات تلاش کرتی رہتی ہے۔

آفاق جہاں کی تلاش کے اسی عمل نے طارق کی تخلیق کو تازگی اور تحیر سے ہمکنار کیا ہے۔  غیر مرئیت اور لازمانیت کے اظہار سے ہی تخلیق کو ابدیت اور آفاقیت کی منزل نصیب ہوتی ہے۔  اس کے لیے آگ کا وہ دریا بھی عبور کرنا پڑتا ہے جس کی لہروں کا لمس کسی اور کو نصیب نہ ہوا ہو۔

طارق قمر کی شاعری میں غیر مرئیت اور لا زمانیت بھی ہے اور آگ کا وہ دریا بھی رواں دواں ہے جس کی ہر تازہ لہر کا رشتہ طارق کی تخلیق سے جڑا ہوا ہے۔

طارق کا ارتکاز منجمد منظروں پہ نہیں بلکہ ان متحرک مناظر پہ ہے جو ہر ساعت اپنے تغیر سے ارتقا کی نئی سمتوں کا اشارہ دیتے ہیں۔  یہی ارتقائی رو طارق کی شاعری کی روح ہے۔  ان کی کائنات شعر میں وہی صبحیں اور شامیں آباد ہیں جو انسان کے بدلتے ذہنی موسموں اور جذبوں کی گواہ رہی ہیں اور اسی میں وہ رات بھی شامل ہے جس کا رشتہ میر تقی میر کے عہد کی رات سے جڑ جاتا ہے۔  یہ رات کربلا اور آج کے آشوب کی صورت میں ان کی شاعری کا ایک لاینفک حصہ ہے۔

طارق کی غزلیہ شاعری میں شبنمی صبح، سرمئی شام اور بھیانک کالی رات کا جو منظرنامہ ہے وہ معاشرہ کے شب و روز سے گہرے رشتے کے علاوہ ان کے تجربات اور مشاہدات کی وسعتوں کا بھی ثبوت ہے۔  ان ہی ساعتوں سے طارق کی شاعری ترتیب پاتی ہے اور انسانی وجود کے تمام جذبوں کا اظہار بن جاتی ہے۔  ان سے ہی انسانی مقدرات کا بھی بہت گہرا رشتہ ہے۔  ملک و قوم، معاشرہ اور افراد کی تقدیر میں کبھی صبح، کبھی شام، کبھی رات آتی ہی رہتی ہے۔  وقت کے اس جبر اور قوت کا احساس طارق کو بھی ہے:

وقت ہمارے نقش مٹاتا رہتا ہے

لیکن ہم تصویر بناتے رہتے ہیں

طارق یہ دل بھی ہے خط تقدیر کی طرح

ہم خود بدل گئے اسے بدلا نہ جا سکا

تغیر پذیر روز و شب کا یہی سلسلہ انسانی جذبے کی تعمیر و تشکیل بھی کرتا ہے۔  طارق کے یہاں ان تمام بدلتے جذبوں کا شور نہیں بلکہ گہرا شعور ہے اسی لیے وہ بڑی شائستگی اور خوش سلیقگی کے ساتھ اپنے داخلی ارتعاشات کی ترسیل کرتے ہیں اور ترسیل خیال کا یہ عمل کہیں بھی ابہام کا شکار نہیں ہوتا ہے۔ ان کے ہاں احساس کی شدت میں بھی شائستگی ہے اور طنز و احتجاج میں بھی سلیقہ ہے:

فقیہ شہر اپنی داستانِ جرم پر چپ ہے

مگر تردید سارے حاشیہ بردار کرتے ہیں

رعونتیں چلی آئیں گھروں سے قبروں تک

یہاں بھی نام کے پتھر لگائے جاتے ہیں

ہماری پیاس کو مجبوریوں کا نام نہ دو

ہم اپنے پاؤں سے چشمے نکال لیتے ہیں

امیر شہر کے طاقوں میں جلنے والے چراغ

اجالے کتنے گھروں کے سمیٹ لاتے ہیں

ذہن پر بوجھ رہا دل بھی پریشان رہا

ان بڑے لوگوں سے مل کر بڑا نقصان ہوا

گھنا سایہ بھرم رکھے ہے ورنہ

شجر اندر سے بالکل کھوکھلا ہے

طارق کے ان شعروں میں کچھ لوگوں کو عرفان صدیقی یا اسعد بدایونی کی بازگشت سنائی دے سکتی ہے مگر ایسا ہے نہیں، طارق کا غزلیہ لہجہ بہت سے حصاروں کو توڑ کر باہر آیا ہے اور درد نوشی ان کی روش بھی نہیں کہ طارق تو ہر ساعت ایک دشت امکاں کی سیاحت کرتے ہیں اور تازہ سلسلہ خیال سے اپنا رشتہ جوڑتے ہیں۔  ان کی شاعری سے نئے سوچ دروازے اور خواب دریچے وا ہوتے ہیں۔  طارق کا لہجہ بالکل مختلف اور منفرد ہے۔  یہ ایک ایسا لہجہ ہے جسے ’امکانات کا آہنگ‘ کہہ سکتے ہیں۔  بہت ممکن ہے کہ مستقبل کی تکنالوجی بھی اسی آہنگ کو اعتبار عطا کرے کہ یہ عکس فردا سے ہم آہنگ ہے۔

ندرتِ بیان سے معمور یہ تازہ کار اشعار امکانات کے اسی آہنگ کی گواہی دیتے ہیں:

حیرت ہے نادانی پر

ریت کا گھر اور پانی پر

کاغذ کی ایک ناؤ اگر پار ہو گئی

اس میں سمندروں کی کہاں ہار ہو گئی

چاہتا ہے وہ پیاس کی تقسیم

پانیوں پر لکیر کھینچتا ہے

بھٹک رہے ہیں اب آنکھوں پہ ہاتھ رکھے ہوئے

یہ لوگ وہ ہیں جو سورج بجھانے نکلے تھے

انھیں خبر ہی نہیں سر نہیں ہیں شانوں پر

جو اپنے ہاتھوں میں دستار ہیں سنبھالے ہوئے

کشتیاں شور مچاتی ہیں کناروں کے قریب

اور یہی شور سمندر کو برا لگتا ہے

تیز ہوا بے روز گزرتی رہتی ہے

سوکھے پتے شور مچاتے رہتے ہیں

سچ بولیں تو گھر میں پتھر آتے ہیں

جھوٹ کہیں تو خود پتھر بن جاتے ہیں

زندگی روز کسی خواب کا خوں کرتی ہے

خواہشیں روز کوئی خواب دکھا دیتی ہیں

یہ لہجہ یا آہنگ بڑی تپسیا کے بعد نصیب ہوتا ہے۔  طارق کا حقیقی جوہر آہنگ اور لہجے میں ہی سامنے آتا ہے۔  کتنا سادہ مگر پرکار لہجہ ہے اس میں ایک تیر نیم کش کی سی کیفیت ہے۔  طارق قمر کا پھول سا لہجہ ہے مگر یہی لہجہ کبھی تلوار بھی بن جاتا ہے:

ہمیں بھی پھول سے لہجے کی چاہت کم نہیں لیکن

جہاں لازم ہو لہجہ ہم وہیں تلوار کرتے ہیں

اسی پیرایہ اظہار نے طارق کو انبوہ میں بھی اعتبار عطا کیا ہے۔  موضوعات کے تنوع اور کائناتی مسائل کے ادراک و عرفان اور اس کے تخلیقی اظہار سے شاعری عظیم نہیں بنتی بلکہ فنی اظہار اور شیوۂ بیاں سے ہی شاعری کو عظمت ملتی ہے اور طارق کے ہاں فنی اظہار کی جو صورتیں اور استعارے ہیں وہ ان کی تخلیقیت کی ہمالیائی بلندی کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔

طارق قمر احساس کی ان راہوں سے گزرے ہیں جن پہ پہلے بھی کئی قافلے گزر چکے ہیں مگر طارق نے ان راہوں کی دھند میں جو روشنی تلاش کی ہے وہ ان کے تخلیقی جنون، کا ثمر ہے اور اسی جنون سے انھوں نے شعور کا کام لیا ہے جو ان کی شاعری کی رنگوں میں متحرک ہے۔  انھوں نے روایت کی دہلیز پہبھی جدت کے چراغ جلائے ہیں اور خیمہ خوف میں بھی خوابوں کے پرچم بلند کیے ہیں۔  غزل کے کلاسیکی جمالیاتی اقدار سے رشتہ رکھتے ہوئے اپنی غزلیہ شاعری کو عصریت سے جوڑا ہے اور عصری شاعری کے انبوہ میں اپنے لہجہ اور آہنگ کے تشخص کو گم نہیں ہونے دیا ہے۔  یہ طارق قمر کی بڑی کامیابی ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔

فیاض ندیم

فیاض ندیم سے میری کوئی شناسائی نہیں ہے اور نہ ہی معاصر غزلیہ شاعری پر لکھے گئے تنقیدی مقالوں میں ان کا کوئی حوالہ نظر سے گزرا۔  اب جو ان کی شاعری سے روبرو ہونے کا موقع ملا تو حیرت ہوئی کہ اتنے تازہ کار تنوع پسند شاعر کو ناقدین نے کیسے نظرانداز کر دیا جب کہ ان کے بہت سے شعروں میں زندہ رہنے کی قوت بھی ہے اور بہت سے اشعار ان کی انفرادیت اور امتیاز کے ثبوت کے طور پر پیش بھی کئے جا سکتے ہیں۔

فیاض ندیم کا تعلق شہر سہارنپور سے ہے۔  یہ وہ سرزمین ہے جس نے بڑے ذہنوں کو جنم دیا ہے۔  اور جہاں شعر و ادب کی ایک صحت مند فضا رہی ہے۔  اسی شہرکے ادبی ماحول نے فیاض ندیم کو شعر کہنے کے لئے مہمیز کیا اور انہوں نے شاعری کے میدان میں اتنی ریاضت کی کہ شعر و سخن کے افق پر ان کا نام روشن سے روشن تر ہوتا گیا۔  مگر انہیں وہ شہرت اور مقبولیت نہیں ملی جو ملی چاہئے تھی۔  جب کہ ان کا اپنا منفرد فکریاتی اور لفظیاتی نظام بھی ہے۔  حیرت کی بات یہ ہے کہ عروض کی زنجیروں میں جکڑے ہونے کے باوجود ان کی شاعری نہ صرف خوبصورت ہے بلکہ ذہن کو متاثر کرنے کی پوری طاقت رکھتی ہے۔  جب کہ عروض کے ماہرین کے بارے میں عام تصور یہ ہے کہ ان کی شاعری بحور و اوزان میں الجھ کر رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے فکر و خیال کی خوبصورتی ختم ہو جاتی ہے۔  لیکن فیاض ندیم کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہے۔  ان کے شعرقاری کے ذہن کو اسی کیفیت سے گزارتے ہیں جو بڑے شاعروں کے یہاں پائی جاتی ہے۔  ان کی شاعری میں ان کاتجربہ اور مشاہدہ بولتا ہے اور ہر شعر بولتا ہوا سا نظر آتا ہے۔  انہوں نے مختلف موضوعات پر عمدہ شعر کہے ہیں اور اپنا رنگ اوروں سے جدا رکھا ہے۔  وہ موضوعات جو آج کے معاشرے کے ہیں انہیں شعری قالب میں ڈھالا ہے اور اپنے بیان کی قوت سے اسے پرتاثیر بنایا ہے۔  ان کے بہت سے شعر ایسے ہیں جو ہمارے حافظہ کا حصہ بھی بن سکتے ہیں۔  یقینی طور پر ان کی شاعری میں بڑی توانائی، تازگی اور تحرک ہے۔  چند اشعار ملاحظہ فرمائیں جس سے میرے خیال کی تائید ہوتی ہے۔

ستم کی بارشیں کچے مکانوں کا مقدر ہیں

کبھی دیوار گرتی ہے کبھی چھت بیٹھ جاتی ہے

کہیں پر رزق کی حد سے زیادہ ہے فراوانی

کہیں فاقے سے مر جاتے ہیں کچھ انسان کمرے میں

کوئی محلوں میں رہ کر بھی پریشانی میں رہتا ہے

کسی کی عمر کٹ جاتی ہے اک ویران کمرے میں

فیاض ندیم کی شاعری میں آج کی مادیت اور صارفیت کے خلاف ایک زبردست احتجاج بھی ملتا ہے۔  اخلاقی اقدار کی پامالی اور رشتوں کے انہدام پر بھی انہوں نے بہت سے اچھے شعر کہے ہیں۔ ایک شعر ملاحظہ ہو:

نہ ہمسائے سے ہمدردی نہ اپنی نسل سے مطلب

یہ کیسے لوگ ہیں جو صرف کاروبار میں گم ہیں

کاروباری ذہنیت اور بازار واد نے جس طرح رشتوں کو توڑا ہے اس کے حوالے سے ان کے اور بھی شعر ملتے ہیں۔ انہیں کا ایک شعر ہے:

مرے دماغ پہ غالب ہے کاروبار کا بوجھ

میں گھر میں رہتے ہوئے بھی ابھی دوکان میں ہوں

کچھ شعر تو ایسے ہیں کہ آنکھوں کے سامنے بہت سے منظروں کو روشن کر دیتے ہیں اور دل میں اداسی اور نمی کی ایک کیفیت پیدا ہو جاتی ہے:

انہیں بھی خرچ کر ڈالے مری تیمار داری میں

مری بیٹی نے غلک میں جو سکے ڈال رکھے تھے

ہمارے رکھ رکھاؤ نے بھرم رکھا غریبی کا

جو مہماں گھر میں آتا ہے در و دیوار پڑھتا ہے

گھر بھی ورثے میں ملا ہے تو ملا ہے ایسا

روز دیوار کی اینٹ اکھڑ جاتی ہے

کسی کو ورثے میں دولت ملی بزرگوں سے

کسی کے حصے میں رنج و ملال آئے ہیں

ان کچھ اور بھی شعر ہیں جو فکر و خیال کو مہمیز کرتے ہیں اور آج کے حالات کے اعتبار سے ان میں بڑی معنویت ہے۔

اونچا سنتے ہیں یہ ارباب سیاست شاید

نرم لہجہ میں نہیں زور سے ایوان میں چیخ

مسئلے قوم کے گھر بیٹھ کے حل ہوتے نہیں

رہنما بن کے دکھا وقت کے میدان میں چیخ

کچھ یہ بھی سبب قوم کی پستی کا رہا ہے

رہبر جو ہمارے ہیں قیادت نہیں کرتے

اس طرح کے اور بہت سے اشعار ہیں جس سے فیاض ندیم کی تخلیقی قوت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور ان تجربوں کا بھی جو صنائع بدائع کے حوالے سے انہوں نے کئے ہیں۔

فیاض ندیم کی شاعری ہر سطح کے ذہن کو متاثر کرنے کی پوری قوت رکھتی ہے اور میرے خیال میں ان کا شعری مجموعہ ’’بنیاد‘‘ نہ صرف عصری غزلیہ منظرنامہ میں ایک نیا اضافہ ہے بلکہ شاعری کے باب میں ایک نیا ذائقہ بھی ہے۔

ظفر حبیبی

ظفر حبیبی کا تعلق جس صدی سے ہے اس میں نہ صرف مکانوں کے نقشے بدلے ہیں بلکہ مکینوں کے ذہنی زاویے بھی تبدیل ہوئے ہیں۔  معاشرے کی ترغیبات اور ترجیحات بھی بدلی ہیں۔  گلوبلائزیشن کی وجہ سے بھی مختلف سطحوں پر بہت سے تغیرات رونما ہوئے ہیں۔  شعر و ادب میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں کہ:

ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں

کچھ دریچے بند ہوئے ہیں تو کچھ نئی کھڑکیاں بھی کھلی ہیں۔  کہا جا سکتا ہے کہ اکیسویں صدی میں بہت کچھ بدلا ہے۔  اختیار و اعتبار بھی، منہج و معیار بھی، دریا و دیار بھی، معاشرتی اطوار اور تہذیبی اقدار بھی اور ان تبدیلیوں کا اثر فنکاروں کے تخلیقی عمل پر بھی پڑا ہے۔

ظفر حبیبی نے بھی ان تبدیلیوں کا اثر قبول کیا ہے اور ان سوالات کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے جو آج کے معاشرے کے ذہن میں سلگ رہے ہیں۔  بدلتی ہوئی صدی میں ایک بڑا اہم سوال شعر و ادب کے سامنے یہ رہا ہے کہ کن موضوعات اور مسائل نے تخلیقی ذہنوں کو زیادہ متوجہ یا متاثر کیا ہے ؟ معاصر سماج اور سیاست نے ان کی ذہنی سمت کو کس حد تک بدلا ہے ؟ طرز اظہار میں کتنی تبدیلی آئی ہے ؟ شعر کی لفظیات کتنی بدلی ہے۔  ان سارے سوالات سے گزرتے ہوئے اپنی تخلیقی راہ کا انتخاب کرنا بہت دشوار ہوتا ہے۔  خاص طور پر جب تخلیق کار کو یہ احساس ہو کہ شاعری میں موضوعی تکرار، یکسانیت، عمومیت زدگی اور کلیشے کی کثرت کی وجہ سے کسی نئی آہٹ یا کسی نئے امکان کا درنظر نہیں آتا۔  سکڑی اور سمٹی ہوئی غزل نے امکانات کے در بند کر دیئے ہوں تو ایسے میں تخیل اور تخلیق کی سطح پرنئی رہ گزر کی تلاش دشوار ہو جاتی ہے۔  لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تاریک اور شکستہ کھڑکیوں سے بھی صحت مند اور تازہ خیالات کی آمد متوقع ہوتی ہے اور وہی فنکار اس انبوہ میں اپنی شناخت قائم کر پاتا ہے جس کے خیال میں خالص پن ہو اور جو کسی ازم، نظریے یا آئیڈیا لوجی کا ا سیر نہ ہو۔  اس کے ذہن اور آنکھوں کا رشتہ صرف اور صرف فطری مظاہر اور مشاہدات سے ہو۔

مقام شکر ہے کہ ظفر حبیبی کی تخلیق کا رشتہ فطرت سے ہے اور یہی فطرت ان کی تخلیق کو تحرک اور روشنی عطا کرتی ہے اور اسی نے ان کے خیال کو خالص پن بھی عطا کیا ہے۔  انہوں نے اپنے تخیل کی طاقت اور لفظ کی قوت سے تخلیقی احساس و اظہار کی ایک ایسی راہ اختیار کی ہے جہاں سے بہت سے الفاظ و معانی کردار کی صورت ان کے سامنے سے گزرتے رہتے ہیں اور ظفر حبیبی ان گزرتے لفظوں اور خیالات کو ایک نیا پیرہن عطا کرتے ہیں۔

ظفر حبیبی ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے فطرت و کائنات کے مظاہر و مناظر میں اپنا موضوع تلاش کیا ہے۔  یہی فطرت ان کے لئے تشبیہ اور اشتعارے بھی وضع کرتی ہے اور احساس کے ایک نئے جہان سے روبرو بھی کراتی ہے۔  مصنوعی اور مفروضہ فلسفے ان کی شاعری کا عنوان یا حصہ نہیں بنتے۔  شب و روز کے حوادث، روز مرہ کے واقعات ہی ان کے احساس و اظہار کی تشکیل کرتے ہیں۔  مشاہدات شب و روز ہی ان کے تخلیقی اظہار کا جلی عنوان ہیں۔  ظفر حبیبی کی شاعری میں جو حدیث دل یا حکایت کائنات ہے وہ کسی داستان پارینہ سے ماخوذ نہیں بلکہ اپنے معاشرے کے شب روز کی کہانیاں ہیں۔  یہ وہ شاعری ہے جس میں آج کے معاشرے کا چہرہ نظر آتا ہے۔  مادیت پرست، صارفیت زدہ، بازار کے شور سے تراشا ہوا چہرہ۔  ان کی شاعری میں معاشرہ کے حرکات و سکنات سے اخذ شدہ تجربات و مشاہدات ہیں۔  یہ وہ حوادث ہیں جو ان کی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوئے ہیں۔  انہیں یہ پتہ ہے کہ کس احساس کو زندہ رکھنا ہے اور کسے موت کی نیند سلا دینا ہے۔  کس احساس سے روشنی ہوتی ہے اور کس سے اندھیرا پھیلتا ہے۔  ظفر حبیبی کو اپنے محور اور منزل کا بھی علم ہے اور اس راستے کا بھی جو منزل تک پہنچاتا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ ظفر حبیبی کی شاعری میں صالح قدروں کی ترجمانی ملتی ہے۔  انہوں نے ہر اس خیال اور فکر کو اپنی فرہنگ سے خارج کر دیا ہے جس میں بگاڑ یا فساد کا خطرہ ہو۔  ان کی فکر اور فرہنگ کا حصہ صرف وہی خیالات بنے ہیں جن میں تحرک اور تحریک ہے۔  ظفر حبیبی کا مقصد لفظوں کے قمار خانے آباد کرنا نہیں بلکہ وہ روشن مینار تعمیر کرنا ہے جس سے ہر کسی کو راہ یا روشنی ملے۔

ظفر حبیبی کی شاعری میں آج کی زندگی کے مسائل بھی ہیں اور وہ حالات بھی جن سے آج کے عہد کا ہر فرد گزر رہا ہے۔  معاصر زندگی کے مسائل کو انہوں نے بہت خوبصورتی سے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔

اچھے دن کی جستجو میں لٹ گئے گھر بار بھی

ہو گیا ہے اب مرا جینا بہت دشوار بھی

انوکھے سپنے جو ہیں ’’کیش لیس‘‘ معیشت کے

وہ سال نو کے لیے تحفۂ خوشگوار آیا

یہ اشعار وہی شخص کہہ سکتا ہے جسے آج کے عہد کی سیاست سے آگہی ہو۔  جو آج کے بدلتے سیاسی منظر نامہ اور اصطلاحات سے بھی واقف ہو۔  اسی شاعر کے ہاں اس نوع کے اشعار بھی ملتے ہیں۔  دونوں کے تلازماتی رشتوں پر غور کیا جائے تو بہت سی حقیقتیں بھی سامنے آئیں گی اور شاعر کا حقیقی مدعا اور منشا بھی واضح ہو جائے گا:

خون ہم نے بھی بہائے ہیں وطن کی خاطر

فصل گل میں برابر کے ہی حقدار ہیں ہم

آج مقتول ہے قاتل کی طرف داری میں

ایسے بدلے ہوئے حالات سے جی ڈرتا ہے

تمہارے شہر کا دستور ہی نرالا ہے

نہیں ہے جرم بھی جس کا قصور نکلے گا

اب تو ہر لمحے بدلتی ہے سیاست کی بساط

ملک میں ہوئے فسادات سے جی ڈرتا ہے

ظفر حبیبی کی شاعری میں رجائیت بھی ہے، عزم محکم بھی ہے اور نور یقیں بھی۔  وہ نامساعد حالات میں بھی نا امیدی کے شکار نہیں ہیں۔  اسی لئے ان کے یہاں اس طرح کے اشعار بھی نظر آتے ہیں:

اندھیرو! تم کو یہ معلوم ہی نہیں شاید

شب سیاہ کے پردے سے نور نکلے گا

تلاطم خیز موجیں بھی ڈبو پائیں نہ کشتی کو

مری ماں کی دعاؤں کی رہی تاثیر مدت تک

ظفر حبیبی کے یہاں جوش بھی ہے جذبہ بھی، جنون بھی ہے، بغاوت بھی، احتجاج بھی، خودداری اور انا بھی ہے۔  اسی لیے انہوں نے اس طرح کے شعر بھی کہے ہیں:

اے امیر شہر میں بھی ہوں انا کا پاسباں

سر تری دہلیز پر کیسے جھکا کر جاؤں گا

امیرِ شہر سے اے کاش ہم بیاں کرتے

کٹی ہے عمر لہو اپنا رائے گاں کر کے

اے وطن کی سرزمیں گر وقت آئے گا کبھی

قطرہ قطرہ خون کا تجھ کو عطا کر جاؤں گا

اس طرح کے اور بھی بہت سے شعر ان کے یہاں ملتے ہیں جس سے احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے شعری ذہن کا بہت ہی ہنر مندی سے استعمال کیا ہے اور یہ ذہن کہیں بھی جادۂ اعتدال سے بھٹکا نہیں ہے بلکہ یہ ذہن اسی راہ پر چلا ہے جہاں روشنی ہی روشنی ہے۔ اس شعری ذہن کی جنگ ان تاریکیوں سے ہے جو معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار میں ان تاریکیوں کے خلاف للکار بھی ہے:

جب ترے کردار ہی غیروں سے بد تر ہو گئے

چھن گئی دستار سر بھی اور سبب کچھ بھی نہیں

جو ہوتے تابع شرع نبی تو ممکن تھا

خود اپنے دیں کی حفاظت یہ نوجواں کرتے

عیش و عشرت کی طلب میں بھول بیٹھا خود کو تو

کچھ خیال آتا نہیں ہے تجھ کو روز حشر کا

ظفر حبیبی تعمیری ادب کے حامی ہیں اسی لیے ان کے یہاں اصلاحی اور افادی نوع کے اشعار ملتے ہیں۔  ان کا بنیادی مقصد معاشرے کی فلاح و بہبود اور صحت مند سماج کی تشکیل ہے۔  اس لیے انہوں نے اپنی شاعری میں لفاظی یا لفظوں کی مینا کاری نہیں کی ہے بلکہ اپنے خوبصورت احساس کو ایک ایسی زبان دی ہے جس کے ذریعہ سماج کی صورت تبدیل کی جا سکتی ہے کیوں کہ تخلیقی ذہن میں تشکیلی اور تقلیبی دونوں قوتیں ہوتی ہیں اور انہی قوتوں کے استعمال سے جہاں وہ نئی راہوں کی تعمیر و تشکیل کرتا ہے وہیں حال اور مستقبل کو بدلنے کی قوت بھی رکھتا ہے۔  تبدیلی کے بغیر تخلیق مر جاتی ہے اس لیے شاعری کا بنیادی مقصد تبدیلی اور انقلاب ہے اور اس مقصد میں ظفر حبیبی مکمل طور پر کامیاب نظر آتے ہیں۔  انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ اوبلوموف کا کردار ادا نہیں کیا ہے جسے معاشرہ میں نکما، ناکارہ اور آوارہ سمجھا جاتا ہے بلکہ ایک بیدار مغز اور حساس فرد کا فریضہ ادا کیا ہے۔

ظفر حبیبی کا لہجہ نیا نہیں ہے۔  اس میں بہت سے لہجوں کی بازگشت نظر آتی ہے مگر اس میں بھی شاعری کے افق پر اپنی چمک اور شفق چھوڑنے کی کوشش ہے۔  وہ ادب کے مرکزی دھارے سے دور ہیں اس لئے شاید انہیں وہ شناخت اور شہرت نصیب نہیں مگر ان کے تخیل اور آہنگ کی قوت ایک دن انہیں ضرور شناخت عطا کرے گی کہ غزل قافلہ میں یہ وہ نام ہے جسے اس لئے منہا نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ ظفر حبیبی کا تعلق شجر غزل کی اس نئی شاخ سے ہے جس سے صنف غزل میں رعنائی، تابانی اور تازگی ہے۔

احسان عالم

احسان عالم کا تخلیقی سفر نہ زیادہ طویل ہے، نہ مختصر مگر انھوں نے اتنی مسافت ضرور طے کر لی ہے کہ تجربات و مشاہدات کی ایک ایسی زنبیل ان کے ہاتھ آ گئی ہے جس میں کئی موسموں کے رنگ ہیں، کئی رتوں کی خوشبو ہے، کئی سمتوں کی آہٹیں ہیں، کئی ساعتوں کی دھڑکنیں ہیں، مگر ابھی ان کی زنبیل کو کچھ اور لعل و گوہر، یاقوت و مرجاں کی ضرورت ہے۔ جوں جوں ان کا تخلیقی شعور مزید پختہ ہوتا جائے گا، ان کی تخلیقی زنبیل فکری زر و جواہر سے معمور ہوتی جائے گی اور پھر جو در گنجینۂ گوہر کھلے گا، تو دیکھنے والے عش عش کرتے رہ جائیں گے۔

+احسان عالم نے بہت خوبصورت لمحہ میں اپنے شعری سفر کا آغاز کیا، اس لیے ان لمحوں کی خوشبوئیں ان کی ہمسفر ہیں، زندگی کے پر خطر راستوں میں وہ لمحے ان کے لیے جگنو بن جاتے ہیں اور یہی جگنو ان کی شاعری میں عزم و حوصلہ، ہمت و عزیمت کا چراغ بن کر چمکتے ہیں۔ شاید اسی لیے ان کے تخلیقی احساس و اظہار میں وہ منفیت نہیں ہے جو ذات، ذہن اور ضمیر کو منہدم کر دیتی ہے۔ منفی جذبات و احساسات اور تصورات کی نفی کا عمل ان کے تخلیقی متن میں روشن ہے کہ منفی خیالات سے قنوطیت، کلبیت اوریا سیت جنم لیتی ہے اور یہی دماغ کے کیمیائی نظام کو بھی متاثر کرتی ہے۔ یہی منفی خیالات نا امیدی، آزردگی، بیگانگی اور ان جیسے متعلقہ الفاظ کو شاعری کا حصہ بناتے ہیں جب کہ مثبت خیالات سے رجائیت، مسرت اور جوش و محبت جیسی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ احسان کی شاعری کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاں Serotonin کی سطحیں متناسب اور متوازن ہیں۔ اسی لیے ان کی شاعری میں سکون، اطمینان اور جذباتی استقامت جیسی صورت ملتی ہے۔ Metacognition نے بھی ان کے مثبت خیالات کو مہمیز کیا ہے۔ مثبت خیالات ہی کا اثر ہے کہ انھیں شگفتہ گلستاں اور محبت کا جہاں بھی مل گیا ہے۔ ان کی شاعری میں خزاں میں بھی بہار کی جستجو نظر آتی ہے اور محرومیوں میں مسرتوں کی تلاش بھی:

گزرا کتنے بیاباں و صحرا سے میں

تب شگفتہ سا اک گلستاں مل گیا

ہو گئی میرے خوابوں کی تکمیل بھی

صحن گلشن میں ہے آشیاں مل گیا

تیرگیِ زیست کا مجھ پر بڑا احسان ہے

ظلمتوں میں جستجوئے روشنی اچھی لگی

خار دار راہوں میں خوابوں کو منزل اسی صورت میں ملتی ہے جب عزم جواں ہو اور حوصلہ محکم:

پانا منزل کبھی دشوار نہیں کچھ احساں

حوصلہ اپنا اگر عزم جواں تک پہنچے

راہ لمبی تھی بہت دور تھی منزل اپنی

پھر بھی امید کو سینہ سے لگائے رکھا

عزم جواں سے کام لیا میں نے عمر بھر

کچھ اس لیے سنورتی رہی میری زندگی

مثبت خیالات ہی ایسے اشعار کی تخلیق کا سبب بنے ہیں:

مٹانا دل سے کدورت بہت ضروری ہے

جلانا شمع محبت بہت ضروری ہے

رہے نہ کوئی پریشان غمزدہ کوئی

ہر ایک گھر میں مسرت بہت ضروری ہے

نہ دیکھے کوئی کسی کو کبھی حقارت سے

سبھوں کی سب کریں عزت بہت ضروری ہے

احسان کا کلام زندگی کا آئینہ ہے۔ اس میں حیات و کائنات کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔ ان کی شاعری میں فن اور زندگی کا ایک گہرا معنوی رشتہ ہے۔  زندگی کی صداقتیں یکساں ہوتی ہیں مگر ادراک ذرا الگ ہوتا ہے۔ ان کے یہاں بہت سے معاشرتی حوالے بھی ہیں اور ان سماجی رویوں کا بیان بھی ہے جو معاشرے کے انحطاط، زوال اور اقدار شکنی کی نشاندہی کرتے ہیں:

بہت تھے اچھے دنوں میں فدائی، شیدائی

جو وقت آیا برا کوئی غمگسار کہاں

اسے مطلب ہے اپنے فائدے سے

وہ مجھ سے اس لیے ملتا رہا ہے

احسان کی شاعری کا بیشتر حصہ خواجہ الطاف حسین حالی کے تصور افادیت کی تعبیر و تشریح ہے، ان کے یہاں پاکیزہ جذبات و احساسات ملتے ہیں۔ طہارت قلب و نظر نے ہی ایسے اشعار کو جنم دیا ہے:

ناتوانی کے سبب نہ کوئی پیچھے رہ جائے

بوجھ کمزوروں کا سر اپنے اٹھاتے رہیے

ہم میں استکبار جو پیدا کرے

علم یا وہ آگہی اچھی نہیں

کچھ نہیں آئے نظر اپنے سوا

خود نمائی وہ کبھی اچھی نہیں

جس دل میں محبت نہ مروت نہ وفا ہو

کچھ اور تو ہو سکتا ہے وہ دل نہیں ہوتا

اپنی مٹی اور معاشرے سے ان کی شاعری کا گہرا رشتہ ہے۔  اپنی مٹی، ملک اور معاشرت ہی کی محبت میں انھوں نے یہ شعر کہے ہیں:

کچھ اس پر آنچ آئے ہم گوارہ کر نہیں سکتے

کہ جاں دے کر وطن کی آبرو کو ہم بچاتے ہیں

محبت بھی وطن سے ہم کو ہے احسان کچھ ایسی

ترانہ اس کی عظمت کا ہی سنتے اور سناتے ہیں

جان سے بڑھ کر جو پیارا ہے ہمیں

ایسا اپنا دیش ہندوستان ہے

یہ اردو شاعروں کا عمومی احساس ہے کہ انھوں نے خاک وطن کے ہر ذرے کو دیوتا سمجھا ہے اور حب الوطنی کے نغمے گائے ہیں۔ ان اشعار میں بھی وطن سے محبت اور وفا کی وہی خوشبو ہے جو لال چند فلک کے اس شعر میں ملتی ہے:

دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت

میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی

اتنی وفا کے باوجود جور و جفا کا باب بند نہ ہو تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ:

ہمیں غدار کوئی کم نظر کہتا کہے لیکن

وطن پیارے ترانہ ہم تری عظمت کا گاتے ہیں

احسان نے احسن طریقے سے اپنے جذبات و احساسات کی ترسیل کی ہے۔  نزاکت و نفاست کے ساتھ اپنے جذبات، تجربات اور مشاہدات کو شعری پیکر میں ڈھالا ہے:

اس کی آنکھیں مے کدہ اور اپنی آنکھیں جام ہیں

مے کشی کے ساتھ اپنی تشنگی اچھی لگی

کرشمہ زلف جاناں کا ہے ایسا

پشیماں جس سے ساون کی گھٹا ہے

حال احساں پوچھتے ہیں غیر سے

میری جاں خود آپ آ کر دیکھیے

کہیں کہیں حسن تضاد نے تو ان کے احساس کو اور بھی رعنائی اور زیبائی عطا کر دی ہے اور خیال کی زمین شاداب و شگفتہ ہو گئی ہے:

میں شب غم کا تھا مدت سے اسیر

جس کی اب صبح سعادت ہو گئی

گرچہ خود سراپا درد ہوں میں

کسی کے درد کی لیکن دوا ہوں

شب غم، صبح سعادت، درد اور دوا کی تضادی تعبیر نے ایک خوبصورت کیفیت پیدا کر دی ہے۔ اس سے اظہار کا حسن بھی دوبالا ہو گیا ہے۔

احسان کی شاعری میں معاشرتی انتشار، اخلاقی بحران، رشتوں میں کم ہوتی قربتوں اور بڑھتے فاصلوں کے بیان کے ساتھ ساتھ سیاسی تناؤ، کشمکش، تصادم اور تضاد کی تخلیقی تعبیر و تفہیم بھی نظر آتی ہے۔ صارفیت، ماحولیاتی کثافت، خوف و دہشت، ذہنی جسمانی اور معاشی جبر و تشدد نے تخلیق کاروں کے ذہن پر جو اثرات مرتب کیے ہیں ان کی عمدہ عکاسی بھی احسان کے شعروں میں ملتی ہے:

نیا طرز ستم اک چل پڑا ہے

کہ اب مظلوم ہی پاتا سزا ہے

یہ قمر ساحری کے اس شعر کی یاد دلاتا ہے:

کیسے لہو نہ روئے زمانے کے بخت پر

مظلوم ہے صلیب پہ ظالم ہے تخت پر

سفاک سیاست کے حوالے سے ایک شعر اور دیکھیں:

قتل و خوں غارت گری جو آپ کرتے آئے ہیں

کارنامہ ملک میں یہ خوب ہے پھیلا جناب

احسان نوجوان ہیں، نئے امکانات کے بہت سے در وا ہیں، خیال و اظہار کے کئی موسموں سے انھیں اور گزرنا ہے۔ ان کے یہاں حیات و کائنات، سماج اور سیاست کی صداقتیں تو ہیں مگر جذبے کی شدت کم ہے۔ احسان کے اظہار کو کچھ اور قوت اور احساس کو تھوڑی سی اور شدت چاہیے۔ انھیں کچھ اور خون جگر کی ضرورت ہے۔ یہ احسان کا پہلا تخلیقی پڑاؤ ہے۔ ان کے تخلیقی سفر میں کئی اور موڑ آئیں گے، بہت سے مرحلوں سے انھیں اور گزرنا ہے۔ تب وہ نیا لہجہ، نیا آہنگ، نئی آواز جنم لے گی جو ان کی انفرادی شناخت بنے گی، تب وہ تخیل کے کچھ بنجر علاقوں کو بھی شاداب و آباد کر پائیں گے۔ انھیں پتہ ہے کہ ہر عہد کا اپنا ایک ایڈیم ہوتا ہے۔ بدلتے عہد میں طرز احساس اور اسلوب اظہار میں تبدیلی ضروری ہے۔  الفاظ اور تلازمات تیزی سے بدل رہے ہیں، اس لیے احسان کو احساس ہے:

عہد حاضر کا تقاضہ بھی یہی ہے فن سے

وہ علائم ہوں کہ ایجاز بدل کر دیکھوں

تاکہ تخلیق کو دے پاؤں فضا تابہ فلک

اپنے افکار کے شہباز بدل کر دیکھوں

احسان کو تبدیلیوں کی آہٹوں کا اندازہ ہے۔ اس لیے یقین ہے کہ یہ آہٹیں ان کے احساس و اظہار کا حصہ ضرور بنیں گی اور شعری تخلیق کو ایک نئی شکل و صورت عطا کریں گی۔

کرشنا شرما دامنی

کرشنا شرما دامنی کا شعری مجموعہ ’شدتِ عشق‘ شاعری کی کتاب کا سر نامہ ہی نہیں بلکہ ایک خوبصورت ذہنی اور جذباتی عنوان بھی ہے۔  اس میں اس عشق کی وجدانی کیفیات اور جذبات کا بیان ہے جو آشفتگی، دیوانگی، بے قراری، وحشت، سپردگی، سوز و ساز اور فنائیت سے عبارت ہے۔  عشق جو ’عَشِقہ‘ سے ماخوذ ہے، ایک سرسبز و شاداب پودا، یہ جس درخت سے لپٹتا ہے مرجھا جاتا ہے اور زرد پڑ جاتا ہے۔  عشق پیچاں یا امربیل جب انسانی وجود سے لپٹتے ہیں تو اسے فنا یا زرد رنگ میں بدل دیتے ہیں۔  عشق اسی فنائیت کا نام ہے جس میں ایک فرد اپنے وجود کو کسی دوسرے وجود میں مکمل طور پر اس طرح تحلیل کر دیتا ہے کہ ’تو من شدم من تو شدی‘ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔  دوئی ختم ہو جاتی ہے۔  عشق کی کئی منزلیں ہیں:  جان، جانِ جاں پھر جانِ جاناں۔  جذبۂ عشق عورت اور مرد دونوں میں ہوتا ہے۔  بس فرق یہ ہے کہ زیادہ تر مرد جان اور جانِ جاناں پر آ کر ٹھہر جاتے ہیں مگر وفا شعار عورت جانِ جاناں کی منزل تک پہنچ کر ہی دم لیتی ہے کیونکہ مردوں کے مقابلے میں عورت کے اندر فنائیت اور خود سپردگی کا جذبہ زیادہ شدید ہوتا ہے۔  فراق گورکھپوری جنھوں نے ’اردو کی عشقیہ شاعری‘ کے نام سے کتاب لکھی ہے ان کے مطابق ’’عشق در اصل وجدانی محویت اور احساسِ طہارت سے عبارت ہے۔  اس کے اندر جذباتی سوز و ساز ہوتا ہے اور تخیل میں عنصری طہارت ہوتی ہے۔‘‘ ان کے بقول ’’عشقیہ شاعری کے لیے ضروری ہے کہ شاعر کی درکی، جمالیاتی، وجدانی اور اخلاقی دلچسپیاں وسیع ہوں۔  اس کی شخصیت ایک وسیع زندگی اور وسیع کلچر کی حامل ہو۔‘‘ اس کے بغیر عشقیہ شاعری شہوانیت اور ہوس کا ایک مجموعہ بن کر رہ جاتی ہے۔  کرشنا دامنی کے شعری مجموعے میں نہ تو شہوانیت ہے، نہ ہوس بلکہ دل اور دماغ اور جذبہ و احساس کی پاکیزگی اور طہارت ہے۔

کرشنا شرما دامنی کی شاعری میں عشق کے کئی رنگ ہیں۔  ہجر و وصال بھی ہے، جلوت و خلوت بھی، خواب بھی ہیں اور شکستِ خواب بھی، جور و جفا بھی ہے، وفا اور ایثار بھی۔  ’شدت عشق‘ عورت کی داخلی سائیکی اور باطنی شعور کا نہایت ہی خوبصورت بیانیہ ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ عشقیہ بیانیہ ہوتے ہوئے اس میں کنگنا، چوڑی اور جھانجھر کا ذکر نہیں بلکہ وہ داخلی جذبات اور احساسات ہیں جو آج کی معاشرتی اور تمدنی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن ان کا موضوعی مرکز عشق ہے جو ایک ایسا خوبصورت تجربہ ہے جو آدمی کو انسان بنا دیتا ہے۔  جوش ملیح آبادی کا ایک شعر ہے:

عشق میں کہتے ہو حیران ہوئے جاتے ہیں

یہ نہیں کہتے کہ انسان ہوئے جاتے ہیں

اور خواجہ الطاف حسین حالی کہتے ہیں:

عشق کہتے ہیں جسے سب، وہ یہی ہے شاید

خود بخود دل میں ہے اک شخص سمایا جاتا

اور جب دل میں کوئی شخص سما جاتا ہے تو دل کی دنیا ہی بدل جاتی ہے۔  عشق انسان کے انداز، اسالیب، اطوار سب کچھ بدل دیتا ہے۔  وہ وحشتوں میں بھی ایک طرح کی مسرت محسوس کرتا ہے۔  اسی لیے عشق کو ادب کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ میر تقی میر نے بہت پہلے کہا تھا کہ:

عشق بن یہ ادب نہیں آتا

عشق شاعری کا ایک خوبصورت عنصر ہے اور مرکز کشش بھی۔  دنیا کی تمام زبانوں میں عشقیہ شاعری کا عظیم سرمایہ ہے۔  کالی داس، بھبھوتی، ودیا پتی نے ہندی میں پریم اور سنگھار رس کی جو شاعری کی ہے وہ آج بھی مقبول ہے، اسی روایت کی توسیع کرشنا دامنی جی نے ’شدت عشق‘ میں کی ہے۔  ویسے ہر دور میں عشق کے مفہوم بدلتے رہتے ہیں۔  غالب نے کہا تھا:

عشق نے غالب نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

عشق انسان کے احساس و جذبے کو بہت متاثر کرتا ہے۔  اسی لیے غالب نے یہ شعر کہا ہو گا مگر دوسری طرف انھوں نے یہ بھی کہا:

دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن

بیٹھے رہے تصورِ جاناں کیے ہوئے

عشق تو ایک لمحے کی کہانی ہوتی ہے جو رفتہ رفتہ داستان بن جاتی ہے۔  کرشن شرما دامنی کے اس عشق داستان میں کئی رنگ اور جذبے ہیں۔  یہاں میں ان کے جذبات کو نسائیت میں قید نہیں کروں گا کیونکہ اب عورت اور مرد کے جذبات و احساسات میں یکسانیت پیدا ہو گئی ہے۔  جو دنیا مردوں کے سامنے ہے وہی دنیا اب عورتوں کے روبرو ہے۔  عورت اب چہار دیواری میں قید نہیں رہی۔  وہ بھی چاند تک کا سفر کر رہی ہے۔  تھینکس ٹو سوشل میڈیا کہ اس نے منفی تفریق سے جڑے ہوئے بہت سے مفروضوں کو مسترد کر دیا ہے۔  یہاں اس بات کا بھی ذکر ضروری ہے کہ عورت کے جذبات کے اظہار کے لیے اس کا عورت ہونا بھی ضروری نہیں۔  مردوں نے بھی ریختی کی صورت میں عورتوں کے داخلی جذبات و احساسات کی ایسی خوبصورت عکاسی کی ہے کہ شاید خواتین بھی نہ کرپائیں۔  مرد حضرات عورتوں کی جذباتی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں اسی لیے اب مردوں اور عورتوں کے ذہنی اور جذباتی رویے میں تفریق کا کوئی جواز نہیں ہے۔  یہ اور بات کہ عورتوں میں جذباتی شدت زیادہ ہوتی ہے۔  اس لیے ان کا عشقیہ بیانیہ مردوں کو بہت متاثر کرتا ہے۔  ان کے یہاں داخلی درد و کرب کا بیان بہت اثرانگیز ہوتا ہے۔  عشقیہ شاعری غم آمیزبھی ہوتی ہے اور نشاط انگیز بھی اور جب یہ عورت کی شاعری ہو تو اس میں عورتوں کے خوبصورت جذبات، خیالات کا عکس اور حسین ہوتا ہے۔  کہتے ہیں کہ قدرت نے عورت سے زیادہ خوبصورت کوئی چیز پیدا نہیں کی اور اس کے ساتھ خوبصورت احساس کی نعمت بھی عطا کی۔  اس لیے عورت اپنے احساس و اظہار کے باب میں بھی اس خوبصورتی کا خاص خیال رکھتی ہے اور مرکز کشش بن جاتی ہے۔  فطری اور قدرتی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ احساس کی یہ خوبصورتی مستزاد ہے۔  شاعروں نے عورتوں کی نیم بازاور نرگسی آنکھوں کی تعریف میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا مگر جب یہی عورت نرگسیت کی شکار ہو جاتی ہے تو عورت کی ذات سے مردوں کی بے زاری بڑھنے لگتی ہے۔  یہ عورت کے لیے ایک منفی وصف ہے۔  خوبصورتی جب عورتوں کے جذبات و احساسات میں جذب ہو جاتی ہے تو پھر دل کو متاثر کرنے والے اس طرح کے شعر جنم لیتے ہیں جو کرشنا دامنی شرما نے کہے ہیں:

شدت عشق بنی ہیر سی جدت میری

تیری چاہت میں بھٹکتی ہے محبت میری

اَشک پلکوں سے سر شام بہا کرتے ہیں

کیوں نظر آتی نہیں تجھ کو یہ شدت میری

پورا آنکھوں کا خواب ہو جائے

تو جو دل کا گلاب ہو جائے

تو نے بچھڑ کے کہاں مجھ سے کاٹ دی حیات

مجھ کو سکون و چین تو پل بھر نہیں ملا

دل میرا بے قرار رہتا ہے

بس تیرا انتظار رہتا ہے

جب بھی ہوتی ہوں تیری بانہوں میں

اک عجب سا خمار رہتا ہے

وعدہ کیا تھا تو نے مگر بھول کیوں گیا

آیا نہ یاد، یاد دلانے کے بعد بھی

نہیں بھائیں گے ہم کو چاند تارے

بہت رویا کریں گے بِن تمھارے

کرشنا دامنی نے اپنی شاعری میں محبت کا ایک باب کھولا ہے جس میں شکوے بھی ہیں، شکایتیں بھی، رنجشیں بھی ہیں پر لطف حکایتیں بھی۔  شاعری پڑھ کر پروین شاکر کی بھی یاد آتی ہے:

ایک لمحے کی توجہ نہیں حاصل اس کی

اور یہ دل کہ اسے حد سے سوا چاہتا ہے

کرشنا دامنی کی شاعری میں بھی حد سے سوا کی چاہت نظر آتی ہے۔  اسی لیے ان کی شاعری کا دل پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے کہ ان کی شاعری دماغ سے نہیں دل سے کی گئی لگتی ہے۔  اس میں ایک پاکیزہ عشق کا تصور ہے جہاں عشق کرنے والا اپنے آپ کو محبت میں فنا کر دیتا ہے۔  یہ جذباتی خودسپردگی کی بہت خوبصورت شاعری ہے۔  کرشنا دامنی نے اپنے اس شعری مجموعے کے ذریعے عشق کے اس باب کو زندہ کیا ہے جو اب ہماری زندگی سے غائب ہوتا جا رہا ہے۔  یہ اسی طرح کا عشق ہے جو مولانا حسرت موہانی کے لوحِ مزار پر اس شعر کی صورت میں زندہ ہے:

جہانِ شوق میں ماتم بپا ہے مرگِ حسرت کا

وہ وضعِ پارسا اس کی وہ عشقِ پاک باز اس کا

کرشنا دامنی کے ’شدت عشق‘ میں بھی وہی پاکیزگی اور طہارت ہے۔  اس میں محبت کی مہک ہے اور عشق کی سوندھی سوندھی خوشبو۔  ’شدت عشق‘ کے لیے کرشنا دامنی شرما کو مبارکباد کہ اس میں اردو کا ہندی سے عشق اور ہندی کا اردو سے پریم بھی پنہاں ہے۔ انہی کا خوبصورت شعر ہے:

میری راہبر ہے ہندی میری رہنما ہے اردو

میں انہی کے نقشِ پا پر یہاں چل سکی ہوں اب تک

جمیل اختر شفیق

جمیل اختر شفیق اس عصری شعری منظر نامے کا حصہ ہیں جس کے موضوعاتی اور اسلوبیاتی عکس و نقش میں توسیع، تازگی، توانائی اور تحرک ہے۔ انھوں نے زمینی اور زمانی مشاہدات اور عصری محسوسات کو خوبصورت شعری پیکر عطا کیا ہے۔ ان کے یہاں نہ سکڑے ہوئے خیالات ہیں اور نہ ٹھٹھرتے ہوئے سرد الفاظ ہیں، بلکہ الفاظ و افکار، جوش و جذبہ، حدت و حرارت سے معمور ہیں۔ ان کی شاعری Monochromatic نہیں ہے۔ اس میں رنگارنگی اور تنوع ہے۔

جمیل اختر کی شاعری میں دکھ ہے، درد ہے، خوشی ہے غم ہے، خواب ہیں عذاب ہیں، زندگی کے بہت سے زاویے اور جہتیں ہیں، اور وہ ساری کیفیتیں بھی جن سے معاشرے کا ہر فرد گزرتا ہے۔ انھیں حیات و کائنات کی داخلی اور خارجی کیفیات کا ادراک بھی ہے اور یہی ادراکات ان کے شعری بیانیے کا حصہ بن گئے ہیں۔ شفیق کے یہاں بہت سے چونکانے والے شعر اور چمکتے ہوئے مصرعے بھی ملتے ہیں۔ دھوپ کا مسافر ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے جسے بہت مختصر عرصے میں شناخت اور شہرت حاصل ہوئی۔ کڑی دھوپ کے سفر نے ان کی تخلیق کو محبوبیت اور مقبولیت کی گھنی چھاؤں عطا کی ہے۔  انھوں نے اپنی شاعری میں خود اپنے لہجے کی تلاش اور آہنگ کی جستجو کی ہے۔  کلاسیکی افکار و اقدار سے استفادہ کرتے ہوئے تازہ تشبیہات، استعارات اور لفظیات کا استعمال کیا ہے۔ ان کی شاعری حیات و کائنات کے تصورات کی تصویر اور ہمارے عہد کی سیاسیات، سماجیات کی تخلیقی تعبیر و شعری تجسیم ہے۔ جمیل اختر شفیق نئے شعری منظرنامہ پر ایک روشن دستخط کی حیثیت رکھتے ہیں، انھوں نے جس طور و طرز کے شعر کہے ہیں وہ قارئین کو پہلی نظر میں اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔

حسن امام قاسمی

جدید لوح شاعری پر تازہ دم نسل کے جن فنکاروں نے صحت مند جذبات و احساسات اور خوبصورت تخیلات کے نشانات ثبت کیے ہیں ان میں ایک نام حسن امام قاسمی کا بھی ہے۔  حسن امام کی شاعری ان کے مشاہدات محسوسات اور متنوع تجربات کا نگار خانہ ہے۔  انہوں نے اپنے داخلی ارتعاش اور خارجی اضطراب کو پر اثر آہنگ میں ڈھالا ہے۔  وہ جس تہذیب اور روایت کے پروردہ ہیں، وہاں انسانیت اور محبت کو اعلیٰ قدر کی حیثیت حاصل ہے۔ اس لیے ان کی شاعری میں تعمیری، مثبت انداز فکر اور مقصدیت نمایاں ہیں۔ زندگی کی گمشدہ قدروں اور کھوئی ہوئی سمتوں کی تلاش سے ان کی شاعری عبارت ہے۔ ان کے یہاں ہماری معاشرت اور ثقافت کے حوالے ہیں اور وہ اجالے بھی جن سے ہمارے سماج کا ربط ٹوٹتا جا رہا ہے ان کے یہاں نغمہ محبت بھی ہے اور نوحہ انسانیت بھی۔ جہان الفت بھی ہے اور عالم وحشت بھی۔  انہوں نے حیات و کائنات کے تنوعات اور تضادات کو خوبصورت شعری پیکر عطا کیا ہے۔  اس میں موت و حیات کا بیانیہ بھی ہے پھول اورخار کا بیان بھی ہے۔  روشنی بھی ہے اور تیرہ شبی بھی۔  انفرادی المیہ بھی ہے اور اجتماعی کرب بھی۔  فرد اور معاشرہ کے خواب بھی ہیں اور عذاب بھی۔

مثبت اور تعمیری فکر سے تشکیل دی گئی اس شاعری میں سادگی ہے، صداقت ہے، تحرک ہے، تلاطم ہے۔  اور تغزل ہے۔  حسن امام قاسمی نے روایت سے بغاوت نہیں کی ہے بلکہ رہنمائی اور روشنی حاصل کی ہے۔  ان کی جدید شعری فکر میں بھی کلاسیکیت کی خوبصورت آمیزش ہے۔  حسن امام نے حمد، نعت، قطعات اور سہرے بھی کہے ہیں اور غزلیہ شاعری میں تازگی فکر اور روشنی طبع کا ثبوت بھی پیش کیا ہے۔ ان کے یہاں بہت سے چمکدار مصرعے بھی ہیں:

قیام کرتے نہیں اب ہماری آنکھوں میں

زمانہ ہو گیا خوابوں کو دربدر رہتے

ضرورتوں نے ہمیں گھر سے کر دیا بے گھر

یہ چاہ تھی ابھی کچھ روز اپنے گھر رہتے

ان کی شعری کائنات سادہ اور سلیس الفاظ سے روشن ہے۔ حسن امام قاسمی نے اپنے مختصر تخلیقی سفر میں معاصر شعری منظر نامہ پر اپنی موجودگی کا اندراج کرایا ہے۔  ان کی تخلیقی ریاضت مسلسل جاری رہی تو ان کی شاعری قاری کے ذہن سے جادوئی رشتہ قائم کرنے میں ضرور کامیاب ہو گی۔

٭٭٭

ماخذ: قندیل ویب سائٹ تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل