فہرست مضامین
معاصر تہذیبی فکر اور اقبال
طاہر حمید تنولی
دورِ حاضر میں تہذیب کے تصور پر اظہار خیال کرنے والے نمایاں مفکرین ایڈورڈ گبن، ایمائیل ڈرفائیم، میکس ویبر، ایلفرڈ ویبر، ایلفرڈ کروئبر، اوسولڈ سپنگلر، کرسٹو فر ڈاوسن، آرنلڈ ٹائن بی، فرنینڈ براڈل، کیرول کوئگلی، برنرڈ لیوس، ولیم ہارڈی میک نیل، شیموئیل آئزن سٹاٹ، سموئیل ہن ٹنگٹن، نوام چومسکی، پیٹریم سوروکن، ایڈورڈ سعید اور فرانسس فوکویاما ہیں۔ تاہم سموئیل ہن ٹنگٹن کو تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کرنے کے باعث غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ معاصر علمی دنیا تہذیبوں کے تصادم کے تصور سے اس وقت آشنا ہوئی جب ۱۹۹۳ء میں امریکی جریدے Foreign Affairs نے سیموئل ہن ٹنگٹن (۱۹۲۷ء ۲۰۰۸ ء) کا مضمون ‘‘تہذیبوں کا تصادم’’ شائع کیا اور پھر آنے والے تین برسوں میں اس مضمون پر اس قدر بحث ہوئی کہ سرد جنگ کے بعد یہ سب سے زیادہ زیر بحث رہنے والا مضمون قرار پایا۔ [1] یہ امر جدید علمی دنیا کی آگہی اور جہالت دونوں کا مظہر تھا۔ آگہی کا بایں معنی کہ اس مضمون کو بحث و تمحیص کا مرکز بنایا جانا مستقبل میں اس نظریے کی اہمیت سے آگہی کا غماز تھا اور جہالت کا بایں معنی کہ تہذیبی تصادم کا تصور محض سیموئیل ہن ٹنگٹن نے ہی پہلی مرتبہ پیش نہیں کیا تھا بلکہ تاریخ کے ہر دور میں یہ تصور عملاً کار فرما رہا ہے۔ تہذیبوں کی باہمی کشمکش ہر دور میں جا ری رہی۔ ہر قابل ذکر تہذیب کی کوشش رہی کہ وہ فروغ پذیر ہو اور دوسری تہذیبوں پر غلبہ حاصل کرے۔
سموئیل ہن ٹنگٹن امریکی سیاسی مفکر ہے جسے ما بعد سرد جنگ نئے عالمی نظام کے بارے میں تہذیبوں کے تصادم کے نظریے سے شہرت ملی۔ اس سے قبل اس کی علمی شہرت کا باعث فوج اور سول حکومت کے درمیان عملی تعلقات کا تجزیہ اور فوجی مداخلتوں (Coups D’état) کے بارے میں تحقیق تھا۔ مزید برآں امریکہ میں ترکِ وطن کر کے آنے والوں کے باعث امریکہ کو درپیش خطرات کا تجزیہ بھی اس کے علمی کارناموں کا حصہ ہے۔ ۱۹۶۸ء میں جبکہ ویتنام میں امریکہ کی جنگ اپنے عروج پر تھی ہن ٹنگٹن نے اپنا مقالہ Political Order in Changing Societies شائع کیا جو کہ جدیدیت کے نظریے پر تنقید تھا جس نے اس سے پچھلی دہائی میں ترقی پذیر ممالک میں امریکی حکمتِ عملی کے خدوخال کو تشکیل دیا تھا۔ ہن ٹنگٹن کے مطابق جیسے ہی معاشرے جدیدیت اختیار کرتے ہیں تو وہ زیادہ پیچیدہ اور بدنظمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر ان معاشروں میں سماجی جدیدیت کے عمل اور اس سے پیدا ہونے والی بدنظمی کو سیاسی اور اداراتی جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگ نہ کیا جائے، یعنی ایک ایسا عمل کہ جس سے سیاسی اداروں کو جدیدیت سے پیدا ہونے والے دباؤ کو کنٹرول کرنے کی اہلیت دی جاتی ہے، تو اس کا نتیجہ تشدد کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ [2]
۱۹۷۰ء کی دہائی میں ہن ٹنگٹن نے اپنی نظریاتی دانش کو حکومتی مشیر کے طور پر جمہوری اور آمرانہ دونوں حکومتوں پر منطبق کیا۔ ۱۹۷۲ء میں وہ برازیل میں حکومت کے نمائندوں سے ملا جس کے ایک سال بعد اس نے اپنی رپورٹ Approaches to Political Decompression شائع کی۔ اس میں اس نے سیاسی آزادیوں کے تیزترین عمل کے خطرات سے متنبہ کیا اور اس کے بجائے بتدریج آزادی دینے کے عمل اور ایک ایسی مضبوط ریاستی جماعت کی تجویز دی جو میکسیکو کی Institutional Revolutionary Party PRI کے مطابق ہو۔ ایک طویل تبدیلی کے عمل کے بعد برازیل ۱۹۸۵ء میں جمہوری ملک بن گیا۔ [3]
ہن ٹنگٹن نے اکثر برازیل کو اپنی کامیابی کے طور پر بیان کیا اور اس میں اس نے اپنے کردار کا ذکر American Political Science Association سے اپنے ۱۹۶۸ء کے خطبے میں کیا اور کہا کہ علمِ سیاسات نے اس عمل میں انتہائی قابلِ تحسین کردار ادا کیا ہے۔ اس کے نقاد مثلاً برطانوی سیاسی مفکر Alan Hooper خیال کرتے ہیں کہ اس وقت برازیل میں غیر مستحکم جماعتی نظام ہے۔ جبکہ وہاں بہترین منظم جماعت ڈیسلوا (Lula da Dilva) کی ورکرز پارٹی ہے جو محدود تبدیلی کی مخالفت کے ساتھ سامنے آئی۔ مزید برآں ہوپر کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ برازیل کی موجودہ صورت حال میں عوام کی عدم شمولیت کا سبب وہاں سیاست میں عوامی شمولیت کی تبدیلی کا نزولی عمل ہے۔ [4]
۱۹۹۳ء میں پروفیسر ہن ٹنگٹن نے اپنا نظریہ ‘تہذیبوں کا تصادم’ پیش کر کے جو سوالیہ نشان کے ساتھ تھا، بین الاقوامی تعلقات کے حلقوں میں نئے مباحثے کا آغاز کر دیا۔ یہ Foreign Affairs میگزین میں چھپنے والا اس کا ایک مضمون تھا۔ اس میں مابعد جنگ اور جیوپالیٹکس کے بارے میں بیان کردہ تصورات فرانسس فوکویاما کے نظریہ اختتامِ تاریخ سے بالکل متضاد تھے۔ ہن ٹنگٹن نے اپنے اس تصور کو ۱۹۹۶ء میں کتابی شکل میں The Clash of the Civilizations and the Remaking of World Order کے نام سے پیش کیا۔ مضمون اور کتاب دونوں یہ بیان کرتے ہیں کہ ما بعد سرد جنگ تنازعات اکثر و بیشتر نظریاتی بنیادوں پر نہیں بلکہ ثقافتی بنیادوں پر سامنے آئیں گے۔ سرد جنگ کے دوران تنازعات اکثر و بیشتر سرمایہ دارانہ مغرب اور کیمونسٹ مشرق کے درمیان تھے مگر اب یہ دنیا کی بڑی تہذیبوں کے درمیان ہوں گے جن کی نشاندہی کرتے ہوئے اس نے سات مکمل اور آٹھویں ممکن تہذیب کا ذکر کیا جو یہ ہیں : مغربی، لاطینی، اسلامی، سینی، ہندی، آرتھوڈکس، جاپانی اور افریقی۔ [5] یہ ثقافتی تنظیم اور جماعت بندی معاصر دنیا سے بالکل مختلف ہے جہاں دنیا خود مختار ریاستوں کی صورت میں منقسم ہے۔ معاصر اور مستقبل کے تنازعات کو سمجھنے کے لیے ثقافتی اختلافات کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ مستقبل میں جنگوں کا مرکز و محور ریاستیں نہیں بلکہ ثقافت ہو گی۔ لہٰذا مغربی قومیں اگر ثقافتی تنازعات اور تناؤ کی ناقابلِ مفاہمت نوعیت کو سمجھ نہ سکیں تو وہ اپنا غلبہ کھو دیں گی۔ [6]
دوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ہن ٹنگٹن کے نقاد مثلاً Le Monde Diplomatique میں چھنے والے مضامین کے مصنفین کے مطابق اس نظریے کا مقصد چینی اور مسلم دنیا کی ثقافتوں پر امریکی رہنمائی میں ہونے والے مغربی حملوں کو نظریاتی اساس و جواز فراہم کرنا ہے۔ اس کے مطابق مابعد سرد جنگ کے زمانے میں عالمی سیاست کے ڈھانچے میں تبدیلی اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ مغرب اپنے آپ کو ثقافتی طور پر مضبوط کرے اور اپنی مثالی جمہوری آفاقیت کو دنیا پر نافذ کرنے اور دنیا بھر کے ممالک میں مسلسل عسکری مداخلت کرنے سے باز رہے۔ بہت سے نقادوں کا موقف یہ ہے کہ ہن ٹنگٹن کے نظریے کی بُنت بہت سادہ مگر تحکمانہ ہے اور یہ تہذیبوں کے مابین ہونے والے مختلف حالات و واقعات، محرکات اور موجود تنازعات کو در خود اعتنا نہیں سمجھتا۔ مزید برآں ہن ٹنگٹن اہل علم کی طرف سے نظریاتی تحریک پیدا کرنے کے عمل اور کسی بھی تنازعے کے پیدا ہونے کے حوالے سے عوام الناس کی سماجی اور معاشی ضروریات کے کردار کو بھی نظر انداز کرتا ہے۔ وہ عملی مثالیں دیتے ہوئے دنیا میں موجود اِن تنازعات کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے جو اس کی متعین کردہ تہذیبی رخنوں کی سرحدوں کے مطابق موزوں نہیں ٹھہرتے۔ ہن ٹنگٹن پر یہ الزام بھی ہے کہ اس کا نیا پیراڈائم صرف ایک ایسی فکر ہے جس میں صرف ریاستوں کی جگہ تہذیبوں کو رکھ دیا گیا ہے۔ [7] ہن ٹنگٹن کا امریکی پالیسی پر اثر برطانوی مؤرخ ٹائن بی کے متنازع مذہبی نظریات سے مماثل قرار دیا گیا ہے۔
ہن ٹنگٹن کے انتقال پر The New York Times نے اپنے تعزیتی شذرے میں لکھا کہ عالمی تنازعات کے اسباب کے طور پر ریاست یا نسلی شہروں کی بجائے اس کا قدیم مغربی سلطنتوں پر زور گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد زیادہ مرکزِ توجہ بنا۔ [8] Los Angeles Times کے کالم نگار جونا گولڈ برگ (Jonah Goldberg) نے ہن ٹنگٹن کے بارے میں لکھا کہ وہ بیسویں صدی کے سماجی علوم کا سرخیل تھا جو نئے رجحانات وضع کرنے اور مستقبل کے بارے میں پیشین گوئیاں کرنے سے نہیں ہچکچاتا تھا۔ بلکہ اس نے یہ سارا کام ٹھوس حقائق کی بنیاد پر کیا۔ [9] گولڈ برگ نے ہن ٹنگٹن کی کتاب The Clash of Civilizations کے بارے میں لکھا:
……was deeply, and often willfully, misunderstood and mischaracterized by those who didn’t want it to be true. But after 9/11, it largely set the terms for how we look at the world. In it, he argued that culture, religion and tradition are not background noise, as materialists of the left and the right often argue. Rather, they constitute the drumbeat to which whole civilizations march. This view ran counter to important constituencies. The idea that man can be reduced to homo economicus has adherents among some freemarket economists, most Marxists and others. But it’s nonsense on stilts. Most of the globe’s intractable conflicts are more clearly viewed through the prisms of culture and history than that of the green eyeshade. Tensions between India and Pakistan or Israel and the Arab world have little to do with GDP.[10…
ہن ٹنگٹن کی آخری کتاب Who Are We? The Challenges to America’s National Identity مئی ۲۰۰۴ء میں شائع ہوئی۔ اس میں امریکہ کی قومی شناخت کے مفہوم کی وضاحت کی گئی ہے اور بڑے پیمانے پر ترکِ وطن کر کے امریکہ آنے والے لوگوں کی طرف سے اسے درپیش ثقافتی خطرات کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ ان خطرات کے باعث ہن ٹنگٹن کے مطابق امریکہ کے لوگ مستقبل میں دو حصوں، دو ثقافتوں اور دو زبانوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ [11]
ہن ٹنگٹن نے ایک نئی اصطلاح Davos Man بھی وضع کی جو ان عالمی شخصیات کے بارے میں ہے، جنھیں قومی وفاداری کی کم ہی ضرورت پڑتی ہے بلکہ وہ مختلف ممالک اور اقوام کی سرحدوں کو ایک رکاوٹ سمجھتے ہیں اور انھیں ختم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق قومی حکومتیں ماضی کی باقیات میں سے ہیں جن کا واحد مقصد چند شخصیات کو عالمی سطح پر اپنے اہداف کے حصول میں سہولت دینا ہے۔ ‘ڈیوس مین’ کی اصطلاح ہن ٹنگٹن نے ورلڈ اکنامک فورم کے لوگوں کے لیے استعمال کی جس کے لیڈر ڈیوس میں آئے ہوتے ہیں۔ [12]
سرد جنگ کے بعد کے حالات میں دنیا کی عالمی سیاست کی توضیح و تشریح کے لیے مفکرین نے کئی نظریات پیش کیے۔ بعض کے مطابق دنیا کی عالمی سیاست غیر مستحکم کثیر قطبی رقابتوں اور تنازعات سے عبارت ہو گی جبکہ کچھ کے نزدیک اب ریاستی طاقت مسلسل کمزور ہوتی جائے گی جس کے نتیجے میں لاقانونیت اور عمومی سماجی انحطاط کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ سموئیل ہن ٹنگٹن کی کتاب The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order ان دونوں نظریات کا تجزیہ پیش کرتی ہے۔ سرد جنگ کی دہائیوں کے دوران بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں روش انتہائی تنگ نظر اور مقابلتاً جامد نوعیت کی تھی۔ ہن ٹنگٹن نے بین الاقوامی سیاست میں روایتی طریق تفکر سے مختلف انداز اختیار کرتے ہوئے نئی جہات متعارف کروائیں۔ ہن ٹنگٹن کی ما بعد جنگ پیراڈائم کی تفصیلات کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
۱ ما بعد سرد جنگ کی دنیا میں بڑی اصولی سیاسی تقسیم کا مرکز وہ رخنہ سرحدیں ہوں گی جو تہذیبوں کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہیں۔ اب دوست اور دشمن کی تمیز کا معیار نظریہ یا قومی شناخت کے بجائے کلچر اور ثقافت ہو گا۔ [13]
۲ اگرچہ عالمی سیاست کے مرکزی کردار ریاستیں ہی ہوں گی لیکن ریاستوں کے درمیان اتحاد کی بنیاد تہذیبی سیاست کے رویے طے کریں گے۔ ایسے ممالک جن میں ایک جیسی ثقافتی اقدار اور وابستگیاں موجود ہیں ان میں اتحاد کے نتیجے میں تہذیبی سرحدوں کے آر پار تنازعات پیدا ہوں گے۔ وہ سرحدیں جہاں تہذیبیں ایک دوسرے کے ساتھ ملتی ہیں ان پر موجود رخنوں پر ایک نئے بین الاقوامی عمل جسے ہن ٹنگٹن نے Kin Country Ralling کہا ہے، کے نتیجے میں دنیا کو نئے خطرات کا سامنا کرنا ہو گا۔ جبکہ ریاستیں بدستور بین الاقوامی سیاست کا اہم کردار رہیں گی۔ تہذیبیں بین الاقوامی سیاست کے تجزیے کی بنیادی اور اصولی اکائی ہوں گی۔ [14]
۳ اگرچہ تہذیبوں کا تصادم کثیر جہتی ہو گا تاہم اہم ترین تقسیمی خط مغربی معاشروں کو دنیا کی بقیہ سات تہذیبوں سے جن کا ذکر ہن ٹنگٹن نے کیا ہے، الگ کر دیں گے۔ مغرب کے ثقافتی نفوذ اور سیاسی غلبے نے دنیا کے دوسرے حصوں اور غیر مغربی ثقافتوں میں بہت زیادہ غیظ و غضب اور غیر ملکی ثقافتوں میں خود وابستگی پیدا کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مغرب کی مقابلتاً کمزور ہوتی ہوئی معاشی اور آبادیاتی طاقت کو مغرب کی حلیف تہذیبوں کی نمائندہ ریاستوں کی طرف سے مغربی قبضے اور غلبے کے لیے سیاسی چیلنج کے طور پر سامنے آئے گا۔ [15]
۴ ان حالات کے رد عمل میں مغربی معاشروں کو اپنے آپ کو مضبوط کرنے اور ممکنہ داخلی اور خارجی چیلنجوں سے، جو اس کی اساسی اقدار اور مفادات کو درپیش ہیں، عہدہ برآ ہونے کے لیے اپنی تہذیب کو متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مغرب کو اپنے آفاقی ہونے کے تصورات اور اپنی تہذیب و کلچر دوسرے معاشروں کو منتقل کرنے کے عمل، کہ وہ بھی مغربی نمونے پر ڈھل جائیں، سے احتراز کرنا چاہیے۔ نیز مغرب کو ان ممالک اور معاشروں میں جو مغربی مفادات کے لیے واضح خطرہ نہیں ہیں، مداخلت اور ان کے ساتھ تنازعات سے بھی محترز رہنا چاہیے۔ مستقبل میں امن کا قیام باہم حریف تہذیبوں کی نمائندہ اہم ریاستوں کے درمیان طاقت کے توازن کے استحکام پر ہے۔ [16]
۵ اہم مسئلہ ہن ٹنگٹن کا تصورِ تہذیب ہے۔ تہذیب کی تعریف ایک سماجی مظہر کے طور پر کی گئی ہے جو انسانی زندگی کے سیاسی اور سماجی معاملات کا احاطہ کرتی ہے۔ تہذیب کی ایک اہم خصوصیت وہ یکساں کلچر ہے جس کی وہ نمائندہ ہوتی ہے تاہم کلچر ایک کثیر الجہتی مفہوم کا حامل تصور ہے۔ یہاں ہن ٹنگٹن اکثر و بیشتر مذہب پر انحصار کرتا ہے۔ اس کا یہ انحصار مربوط انداز کا حامل نہیں۔ زبان، نسل اور مشترکہ تاریخ کلچر کے دوسرے بڑے اجزائے ترکیبی ہیں۔ بالعموم ہن ٹنگٹن تہذیبوں کو ایک دوسرے سے ممتاز کرنے کے حوالے سے واضح معیار پیش نہیں کرتا۔ بین الاقوامی سیاست میں موجود تقسیم کو سمجھنے کے لیے کلچر کے ایک بنیادی تنظیمی اصول ہونے کے بارے میں ابہام ہن ٹنگٹن کی پوری پیراڈائم میں بہت نمایاں ہے۔ مغرب میں ہن ٹنگٹن نے یورپ اور اس کی سابقہ نوآبادیوں مثلاً امریکہ، کینیڈا، آسڑیلیا، نیوزی لینڈ اور لاطینی امریکہ وغیرہ کو شامل کیا جن کو اہل یورپ نے فتح اور پھر آباد کیا۔ انھیں ایک الگ تہذیب قرار دیا گیا ہے جبکہ بہت سے لاطینی امریکی سپینی، پرتگیزی اور انگریزی بولتے ہیں اور بطور عیسائی عیسائیت کے خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ اسی طرح سے سلیو آرتھوڈکس، روس، یوکرائن اور بلقان کے کچھ حصوں کو ایک الگ تہذیب قرار دیا گیا ہے اگرچہ وہ بقیہ یورپ کے ساتھ بہت مماثلت رکھتے ہیں۔ ان کے یورپ کے ساتھ تعلقاتِ کار اور قربت کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے اور مزید یہ کہ ان علاقوں میں رہنے والے لوگ عیسائیت کے پیروکار بھی ہیں۔ [17]
۶ ہن ٹنگٹن نے Foreign Affairs (1993) میں چھپنے والے اپنے مضمون میں چین اور اس کے زیرِ اثر کچھ دیگر چھوٹے ممالک کو ایک الگ کنفیوشس تہذیب کا عنوان دیا مگر چین میں اب شاید ہی کوئی اپنے آپ کو کنفیوشس کا پیروکار کہتا ہو۔ کیونکہ چین نے سابقہ صدی کا بڑا حصہ کنفیوشس ازم اور اپنے روایتی کلچر کے خلاف بغاوت میں گزار دیا۔ جبکہ ہن ٹنگٹن نے اپنی کتاب میں دنیا کے اس حصے کو چینی تہذیب کا انتہائی مبہم عنوان دیا۔ ہن ٹنگٹن جاپان کو بھی ایک الگ تہذیب تصور کرتا ہے حالانکہ جاپان کی تاریخ اور کلچر پر چین کا بہت گہرا اثر ہے اور جاپان نے پچھلی نصف صدی کے دوران اپنے سیاسی اداروں کو مغربی انداز پر ڈھال لیا ہے۔ گویا ہن ٹنگٹن ثقافتی خصوصیات کے ادراک حوالے سے ابہام کا شکار ہے اور مبینہ طور پر جاپان کو بقیہ تہذیبوں سے ایک الگ تہذیب تصور کرتا ہے۔ [18]
۷ مسلم دنیا جو شمالی افریقہ سے مشرق وسطیٰ تک اور ایشیا کے جنوب سے جنوب مشرق تک پھیلی ہوئی ہے، کا تعارف ایک مشترک مذہب کا حامل ہونے کی حیثیت سے کروایا گیا ہے۔ اس میں رہنے والے لوگوں کی زبان، جغرافیہ، نسل، تاریخ اور روایات کے فرق کو ہن ٹنگٹن نے قطعاً کوئی اہمیت نہیں دی۔ ہندوستان کو الگ ہندو تہذیب کا عنوان دے دیا گیا ہے تاہم وہ ممالک جن کے لوگ بدھ مت کے پیروکار ہیں انھیں کوئی تہذیبی حیثیت نہیں دی گئی اور پھر ہن ٹنگٹن اس بارے میں کچھ نہیں جانتا کہ نیم صحرائی افریقہ میں موجود ثقافتی تنوع کو کیا عنوان دیا جائے۔ نتیجتاً وہ انتہائی غیر مطمئن انداز سے ان ممالک کو نصف تہذیب کا حامل قرار دے دیتا ہے۔ [19]
۸ ہن ٹنگٹن نے انتہائی تحکمانہ انداز سے جن تہذیبی اور ثقافتی اکائیوں کا تعین کیا ہے وہ کسی طرح سے بھی دنیا کی سیاست میں لائق تحسین حیثیت نہیں رکھتیں۔ تاہم وہ اس کے ہم صورت کردار (Isomorphic Players) ضرور ہیں۔ اگر ہم ثقافت کی اصطلاح کو کھولیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کوئی بھی تہذیب ثقافتی طور پر خالص، بے مثل یا باہم ہم جنس و ہم آہنگ نہیں ہوتی۔ مذہب، زبان، تاریخ، روایات سب ایک دوسرے کے ساتھ مربوط اور جڑے ہوئے ہیں اور یہ سب ہن ٹنگٹن کی بتائی ہوئی تہذیبوں کی اقسام میں بھی مایوس کن حد تک پیچیدہ انداز سے ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں۔ عالمگیریت کے اس زمانے میں بین الثقافتی مستعاریت اور ثقافتی نفوذ جس انداز سے سرعت اختیار کر چکا ہے اس میں واضح اور ٹھوس ثقافتی امتیازات تلاش کرنا بے معنی ہو چکا ہے۔ گو ثقافت اب بھی مقامی اور عالمی سطح پر سیاست کی تفہیم کے لیے اہم ہے تاہم ضروری یہ ہے کہ ثقافت یا تہذیب کی بنیاد پر عالمی سیاست کو سمجھنے اور تہذیبوں اور ثقافتوں کے باہمی ارتباط کی پیچیدہ نوعیت کا تجزیہ کرنے کا آغاز چھوٹی سطح سے ہو نہ کہ ان کی بنیاد پر گمراہ کن اور ہمہ گیر نمونے وضع کرنے شروع کر دیے جائیں۔
۹ ما بعد سرد جنگ کی دنیا کی صورت گری کرنے والی مخفی قوتوں کی تفہیم کی کوشش کرتے ہوئے بہت سے مبصرین نے تین رجحانات کو مرکز توجہ بنایا ہے:
۱ ترقی پذیر دنیا کے کچھ حصوں میں تیز رفتار معاشی جدیدیت،
۲ بین الاقوامی انحصارِ باہمی یا عالمگیریت میں اضافہ، ۳ جمہوری سیاسی اداروں کا فروغ۔
بہت سے مفکرین کے نزدیک یہ تینوں رجحانات ایک اچھے مستقبل کے غماز ہیں جس میں امن، خوشحالی اور باہمی تعاون فروغ پذیر ہوں گے۔ جدیدیت اور عالمگیریت دونوں معاشی بہبود میں اضافہ کرتے ہیں اور ایک محفوظ اور پرامن دنیا کی تشکیل کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی تجارت اور سرمایہ کاری کے باہمی فوائد، ریاستوں کے رویوں پر امن افزا اثرات مرتب کرتے ہیں۔ تصورات، افکار اور اطلاعات کے فروغ سے لوگوں میں باہمی افہام و تفہیم بڑھتی ہے اور اس سے اقدار، اداروں اور مفادات میں ارتکازیت پیدا ہوتی ہے۔ جمہوریت کے فروغ سے توسیع پسندانہ اور بے ہنگم خارجہ پالیسوں کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور ایسے مختلف معاشروں میں باہمی اعتماد بڑھتا ہے جو ایک جیسے سیاسی اصولوں پر آگے بڑھ رہے ہوں۔
تاہم ہن ٹنگٹن ان دلائل کو بالکل الٹ دیتا ہے۔ اس کے نزدیک جدیدیت، عالمگیریت اور جمہوریت کا عمل امن و تعاون کو فروع دینے کے بجائے تہذیبی آویزش کی بنیاد بنتا ہے۔ [20] ہن ٹنگٹن کے مطابق جدیدیت اور مغربیت دو بالکل مختلف حقائق ہیں۔ [21] کوئی معاشرہ اپنی اساسی اقدار کو بدلے بغیر بھی جدید ہو سکتا ہے۔ بلاشبہ تیسری دنیا کی جدیدیت مغرب مخالف یا مغرب دشمنی کے احساس کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ جدیدیت کے عمل سے وسائل میں اضافہ ہوتا ہے وہ پھر ایک ایسے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے خرچ ہوتے ہیں جو مغرب مخالف ہوتے ہیں۔ [22]
۱۰ ہن ٹنگٹن کے مطابق ریاستوں کا ایک دوسرے پر انحصار بڑھنے سے ارتکازیت پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس کے بجائے ان کے درمیان موجود اختلافات کے بارے میں آگاہی بڑھ جاتی ہے۔ جب اس طرح کے باقاعدہ روابط پیدا ہوں گے تو مختلف اقوام ایک دوسرے کے متضاد نظامِ اقدار سے آگاہ ہوں گی جس سے ان میں تصادم اور تنازع پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ لہٰذا ریاستوں کا ایک دوسرے پر باہمی انحصار کرنا مزاحمت اور نفرت کو فروغ دے گا۔ خصوصاً اس وقت جب کسی ایک معاشرے کی اقدار کسی ایسے معاشرے میں نفوذ کر رہی ہوں جن کے لیے وہ اقدار ناموافق اور ناقابلِ قبول ہوں۔ اسی وجہ سے ایک دوسرے پر انحصار کرنے کے نتیجے میں ریاستیں اپنے سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو ایک نیا رخ دیں گی اور جہاں ممکن ہو گا یہ تعلقات ان ریاستوں کے ساتھ قائم ہوں گے جن میں بنیادی ثقافتی اقدار مشترک ہیں اور آنے والے برسوں میں معاشی انحصارِ باہمی ایسی تہذیبوں میں ہی قائم ہو سکے گا۔ جبکہ بین التہذیبی تبادلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سطحی اور کم ہوتا چلا جائے گا۔ [23]
۱۱ ہن ٹنگٹن اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ جمہوریت کے ساتھ مشترکہ وابستگی کے نتیجے میں مغربی ممالک کے درمیان تو دوستانہ تعلقات مزید پختہ ہوں گے لیکن غیر مغربی ممالک میں جمہوریت کے فروغ سے مذہبی بنیاد پرستوں یا مقامی ثقافتی تحریکوں کے لیے اقتدار تک پہنچنے کے لیے راستے کھل جائیں گے۔ یہ گروہ ایسی اقدار کے پیروکار ہوتے ہیں جو مغربی جمہوری معاشروں کی اقدار سے بالکل مختلف ہیں۔ لہٰذا بعد میں ایسے لوگ اقتدار میں واپس آ کر ایسی خارجہ پالیسیاں اختیار کرتے ہیں جن کے نتیجے میں مغرب کے ساتھ تنازعے پیدا ہونے لگتے ہیں۔ [24]
المختصر ہن ٹنگٹن کے نزدیک جدیدیت، انحصارِ باہمی اور جمہوریت کا عمل کسی تہذیبی ارتکازیت کا باعث نہیں بنتا نہ اس سے مختلف قوموں کے درمیان تعاون فروغ پذیر ہو سکتا ہے، بلکہ اس سے تہذیبی تنازعات اور انحراف ہی جنم لیتا ہے۔
۱۲ ہن ٹنگٹن کا دعویٰ ہے کہ مغرب نے اپنے کمال کا نقطۂ عروج دیکھ لیا ہے اور اب وہ دوسری ترقی پذیر تہذیبوں کے مقابلے میں زوال کی طرف گامزن ہے۔ [25] ہن ٹنگٹن کے ہاں صرف چینی تہذیب جو چین کے ارد گرد موجود ہے واضح طور پر امریکہ اور مغربی یورپ کے مقابل ترقی کی طرف گامزن ہے۔ افریقہ نا امیدی کی حد تک غربت، سیاسی انتشار اور نسلی فسادات کی زد میں ہے اور یہی کچھ ہندوستان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے۔ لاطینی امریکہ نے حال ہی میں قرضوں سے متاثرہ دہائی اور اقتصادی بدحالی سے نجات حاصل کرنے کے بعد بحالی کی طرف سفر شروع کیا ہے۔ [26] جاپان نے ۱۹۸۰ء کی دہائی ہی میں اپنا عروج حاصل کر لیا تھا۔ اس کے بعد سے اس کی معیشت کم و بیش جمود کا شکار اور سیاست بھی تقریباً مفلوج ہے۔ مزید برآں جاپان کی سیاسی اور عسکری قوت بھی محدود ہے۔ سویت یونین باقی نہیں رہا۔ روس اور اس کے ساتھ آزاد ہونے والی دوسری ریاستیں، جو ہن ٹنگٹن کے ہاں آرتھوڈکس سلیو تہذیب سے تعلق رکھتی ہیں، سیاسی اور معاشی انحطاط سے نکلنے کے لیے کئی صدیاں لیں گی۔ [27]
۱۳ اگرچہ ہن ٹنگٹن اسلامی دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کو قوت کا سرچشمہ بھی قرار دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اسے مسلم دنیا کی کمزوری کی بنیاد بھی بناتا ہے۔ [28] مزید برآں اسلامی دنیا کی امیر ترین ریاستیں جو تیل کی بڑی برآمد کنندگان ہیں انھیں بھی جب سے تیل کی قیمتیں گرنا شروع ہوئیں، برآمدی ریونیو میں کمی کا سامنا ہے۔ [29] خلیجی جنگ کے دوران اسلامی دنیا حتیٰ کہ عراق پر بھی مغرب کی وسیع فوجی برتری سامنے آئی جہاں عراق امریکہ اور اس کی اتحادی قوتوں کے سامنے معمولی سی مزاحمت بھی نہ کر سکا۔ اگرچہ ہن ٹنگٹن یہ بات کہنے میں تو صائب ہے کہ مغرب حالیہ برسوں کے دوران اکثر و بیشتر اسلامی دنیا کے کئی حصوں کے ساتھ تنازعات میں الجھا رہا ہے لیکن وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ ان تنازعوں میں مغرب کے اسلامی حریف نہیں بلکہ خود مغرب ہی غالب رہا ہے۔
۱۴ بغیر کسی مؤثر استدلال کے ہن ٹنگٹن اپنی کتاب کا خاتمہ ایک اور عالمی جنگ کی پیغمبرانہ انداز سے پیشین گوئی پر کرتا ہے۔ اب یہ جنگ ایسی ریاستوں کے درمیان ہو گی جو تہذیبی سطح پر ایک دوسرے کے مقابلے میں ہیں۔ حیران کن حد تک یہ خوفناک جنگ ان رخنہ سرحدوں پر شروع نہیں ہو گی جن کی نشاندہی ہن ٹنگٹن نے مختلف تہذیبوں کے درمیان کی ہے بلکہ اس کا آغاز چین اور ویتنام کے درمیان، جو ایک ہی تہذیب کے حامل ہیں، تنازع سے ہو گا جو جنوبی چین کے سمندر پر تسلط کے لیے شروع ہو گا۔ [30]
یہ تصور ہن ٹنگٹن کے نظریے میں موجود عملی کمزوری کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس نظریے کو برقرار رکھنے کے لیے ہن ٹنگٹن کو یہ واضح کرنا چاہیے تھا کہ تنازعے نہ صرف تہذیبوں کے درمیان رخنہ سرحدوں پر بلکہ بہت سی ایسی تہذیبوں کے مابین بھی ہو سکتے ہیں جو ایک جیسی تہذیبی یا ثقافتی روایات رکھنے والے معاشروں اور ریاستوں پر مشتمل ہو۔ اس کے لیے مشرقی ایشیا کی مثال دی جا سکتی ہے جہاں ہن ٹنگٹن کی عالمی جنگ ابتدائی طور پر شروع ہو گی۔ چینی تہذیب میں چین، تائیوان، ویتنام اور کوریا شامل ہیں۔ لیکن ان کی اس ثقافتی ترکیب میں بھی وحدت کم ہی موجود ہے۔ کم و بیش پچاس سال سے کوریا کے لوگ منقسم اور ایک دوسرے کے ساتھ شدید تناؤ کی حالت میں رہے ہیں بلکہ ایک مرتبہ تو واضح جنگ کے امکانات بھی پیدا ہو گئے تھے۔ یہ حقیقت کہ چینی اور تائیوانی ثقافتی حلیف (Cultural Cousin) ہیں، اس کی بنیاد پر ان کے درمیان افہام و تفہیم یا اتحاد باہمی کے امکانات کم ہی پیدا ہوئے ہیں۔ گو ویتنام نے بہت سی چینی ثقافتی روایات کو درآمد کیا ہے لیکن وہ اپنی پوری تاریخ میں چین کے سیاسی غلبے کے خلاف لڑتا رہا ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے سخت دشمن اور حریف رہے ہیں باوجودیکہ ان میں نظریاتی اشتراکات موجود ہیں۔ وسیع تر تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بہت سے شدید ترین اور طویل ترین تنازعات ایسے ممالک کے درمیان ہوئے ہیں جن میں بہت سی ثقافتی اقدار مشترک ہیں اور اکثر و بیشتر انھوں نے ایسی ریاستوں سے امداد لی ہے جو ان کی ثقافتی روایات اور اقدار سے بہت دور ہیں۔
مذکورہ حقائق کی روشنی میں ہن ٹنگٹن کی سطحیت واضح ہو جاتی ہے۔ سرد جنگ کے بعد کا دور اب ختم ہو رہا ہے اس کی جگہ دنیا میں مایوسی اور فرسٹریشن جنم لے رہی ہے کیونکہ تنازعات کی فضا اب بھی قائم ہے۔ ہن ٹنگٹن کا دنیا کے تصادم کا نظریہ جو باہم مخالف اور غیر موافق تہذیبوں اور ثقافتوں کے درمیان ہو گا اس احساس عدم تحفظ کے لیے بالکل موزوں ٹھہرتا ہے جو اس وقت مغربی دنیا پر چھایا ہوا ہے۔
تبدیلی کا وہ دور جس سے اب دنیا گزر رہی ہے اکثر و بیشتر غیر یقینیت اور مایوسی کو جنم دیتا ہے۔ لہٰذا ایسے زمانے میں مایوسی اور قنوطیت کی باتیں کرنے والوں کو قبولِ عام ملنا یقینی ہے۔ تاہم موجودہ عالمی نظام میں کار فرما مخفی عوامل مثلاً جدیدیت، ایک دوسرے پر انحصارِ باہمی اور جمہوریت کے رجحانات اس قنوطی منظر نامے کی تائید نہیں کرتے۔ تاہم معاملات کی تفہیم اور ابلاغ کے حوالے سے انداز فہم اور انداز نظر بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر پالیسی ساز اور عوام اپنی توقعات اور لائحہ عمل کا انحصار ہن ٹنگٹن کی ان قنوطی اور مایوس کن پیشین گوئیوں پر رکھیں تو ان کے سچ ہو جانے کے امکانات موجود ہیں۔ تاہم سماجی علوم کے دانشوروں کے لیے لازم ہے کہ وہ ذمہ داری کے ساتھ حقائق کا اس انداز سے تجزیہ اور تفہیم کریں جس سے ایک اچھی دنیا کی تشکیل ممکن ہو سکے۔
اگر سیموئیل ہن ٹنگٹن کی فکر کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں کئی تسامحات اور تضادات سامنے آتے ہیں جو یا تو ہن ٹنگٹن کے حقائق پر نظر نہ ہونے کے باعث پیدا ہوئے یا اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے حقائق کو مسخ کر کے بیان کرنے کا نتیجہ ہے۔ ہن ٹنگٹن کی فکر کے نمایاں اور بنیادی نقائص یہ ہیں :
۱ سیموئیل ہن ٹنگٹن کے نزدیک ثقافتی ارتکازیت کی ممکنہ صورت مغربی ثقافت کی فتح اور مکمل غلبہ ہے۔ حالانکہ ثقافتی اور تہذیبی ارتکاز باہمی کی تاریخ مکمل غلبے کی تائید نہیں کرتی بلکہ یہ تو بنیادی طور پر باہمی استعاریت کا عمل ہے جس کے نتیجے میں مختلف تہذیبیں اور ثقافتیں ایک دوسرے سے اخذ و قبول کرتی اور نئی تہذیب کو جنم دیتی ہیں۔ [31]
۲ سیموئیل ہن ٹنگٹن کے مطابق ایسے ممالک جن کی ثقافتیں اور تہذیبی اقدار ایک دوسرے سے مختلف ہیں ان میں کثیر الجہات معاشی ارتباط نہیں ہو سکتا مگر آسیان (Asian) اور اوپیک (OPEC) کا قیام اور ان کا عالمی معاشی سرگرمیوں میں کردار ہن ٹنگٹن کے اس تصور کی مکمل طور پر نفی کرتا ہے جسے نہ صرف ہن ٹنگٹن نے نظر انداز کیا بلکہ اس کی مثال بھی پیش نہیں کی۔ [32]
۳ ہن ٹنگٹن کے نزدیک میکسیکو، لاطینی امریکہ سے ایک امریکہ اصغر بننا چاہتا ہے[33] اور ہر حوالے سے متحدہ امریکہ کی پیروی کی طرف گامزن ہے لیکن اگر ہم NAFTA کے کردار کو دیکھیں تو وہ ہن ٹنگٹن کے اس بیان کی مکمل طور پر نفی کرتا ہے اگر مکیسیکو میں ایسا کوئی احساس موجود بھی ہے تو وہ صرف سیاسی رہنماؤں کے خطیبانہ اظہار کی حد تک محدود ہے۔
۴ دنیا بھر میں مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے حامل ممالک کے درمیان اقتصادی ارتباط اور انحصارِ باہمی کی ایک مثال WTO کا کردار بھی ہے جسے ہن ٹنگٹن نے نظر انداز کیا ہے۔
۵ ہن ٹنگٹن نے مسلم ممالک کی بڑھتی ہوئی آبادی کو ان کی قوت قرار دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ مسلم ممالک کی بڑھتی ہوئی آبادی کو ان کی کمزوری سمجھتا ہے۔ [34] مغرب کو وہ مسلم ممالک کے خطرے سے متنبہ کرتا ہے اور اس بات کو مغربی دنیا کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے کہ مغرب اکثر مسلم ممالک کے ساتھ تنازعات میں الجھا ہوا ہے۔ ہن ٹنگٹن یہاں اس حقیقت کو نظر انداز کر جاتا ہے کہ ان تنازعات میں تمام مقامات پر غلبہ مغرب ہی کو حاصل ہوا ہے۔
۶ تہذیبی اور ثقافتی ارتباط کے باب میں ہن ٹنگٹن کی دی ہوئی مثالیں بھی اس کے نظریے کی تائید نہیں کرتیں۔ [35] بوسنیا میں جب مقامی آبادی نے مسلمانوں کی نسل کشی شروع کی تو باوجودیکہ ان میں نسل در نسل ثقافتی اشتراکات موجود تھے لیکن یہ اشتراکات مسلمانوں کی نسل کشی کو نہ روک سکے۔ دوسری طرف اگر مسلمانوں کی مسلم دنیا کے ساتھ مماثلت کی بنیاد پر پوری مسلم دنیا کی طرف سے تائیدی رد عمل دیکھیں تو وہ سوائے رسمی رد عمل کے کچھ نظر نہیں آتا۔ بلکہ اکثر و بیشتر بوسنیا کے لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے مغرب ہی کی طرف دیکھتے رہے۔ یہی صورتحال عراق میں صدام حسین کی ہے کہ جب امریکہ کی طرف سے عراق پر یلغار کی گئی تو باوجود ثقافتی اور تہذیبی اقدار کے اشتراک کے عالمِ عرب نے صدام حسین کا ساتھ نہیں دیا بلکہ باہر سے آنے والی حملہ آور قوت یعنی مغربی دنیا کا ساتھ دیا۔
۷ سیموئیل ہن ٹنگٹن کے تصورات میں تضاد بھی نمایاں ہے کہ ہن ٹنگٹن نے مختلف ممالک کے درمیان وحدت کی اساس ثقافتی اور تہذیبی اشتراک کو قرار دیا جبکہ دوسری جگہ کئی مسلم ممالک اور غیر مغربی اقوام کے درمیان مقصد و ہدف کی وحدت کو اتحاد کی بنیاد بنایا۔ [36]
۸ گو مغربی دنیا کو ہن ٹنگٹن جنگ سے بچنے کی حکمت عملی کی تعلیم دیتا ہے لیکن خود انتہائی تحکمانہ انداز سے اپنے بیان کا اختتام ایک عالمی جنگ پر کرتا ہے اور مزید برآں یہ جنگ بھی اس کی اپنی متعین کردہ رخنہ سرحدوں پر نہیں بلکہ ایک ہی تہذیب میں یعنی چین اور ویتنام کے درمیان ہو گی۔ [37]
۹ ہن ٹنگٹن کے نزدیک مستقبل میں کسی بھی تصادم کی بنیاد تہذیبی اور ثقافتی فرق ہو گا لیکن چینی تہذیب جس میں تائیوان، چین، ویتنام اور کوریا شامل ہیں، ان میں موجود باہمی تنازعات ہن ٹنگٹن کے اس تصور کی نفی کرتے ہیں۔ [38]
۱۰ ہن ٹنگٹن نے تہذیبوں کی اقسام بیان کرتے ہوئے بھی کوئی واضح پیمانہ اختیار نہیں کیا اور نہ ہی تہذیبوں کا صحیح اور جامع انداز سے تعارف کروایا ہے۔ [39] مثلاً اسلام کا ذکر کرتے ہوئے اسلام کی تاریخ اور تہذیبوں کی تاریخ میں اسلام کے کردار کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ یہی صورت کنفیوشس تہذیب کی بھی ہے۔ چین جو کنفیوشس ازم کو ترک کر چکا ہے اسے کنفیوشس تہذیب قرار دینا اور افریقہ کی تہذیبی حیثیت کو کماحقہ بیان نہ کرنا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔
۱۱ جمہوریت کے بارے میں بھی ہن ٹنگٹن کے بیانات متضاد حقیقتوں کے علمبردار ہیں۔ [40]
۱۲ مذہب کو بھی ہن ٹنگٹن نے کہیں مثبت اور کہیں منفی انداز سے پیش کیا ہے۔ [41]
۱۳ ہن ٹنگٹن کے پورے نظریے میں یہ خوف غالب نظر آتا ہے کہ مغرب کہیں غیر مغربی اقوام سے مغلوب نہ ہو جائے![42]
۱۴ سیموئیل ہن ٹنگٹن کا تصور کلیتاً قنوطی افکار پر مبنی ہے اور کسی طور پر بھی یہ ہمارے سامنے انسانی ترقی کا کوئی ایجنڈا یا پروگرام پیش نہیں کرتا۔
اقبال کا تصور تہذیب اپنی جامعیت، مقصدیت اور تہذیبی محتویات کے احاطے کے لحاظ سے ہن ٹنگٹن اور دیگر مفکرین کے مقابل امتیازی شان کا حامل ہے۔ تہذیب کی مختلف جہات پر اقبال کے افکار ملی حیات افروزی کے مظہر ہیں۔ اقبال کے ہاں تہذیب کا مطالعہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اقبال نے نہ صرف اس تصور کو اپنے غور و فکر کا موضوع بنایا بلکہ اس پر اظہار خیال بھی کیا۔ خواجہ حسن نظامی کے نام ایک مکتوب میں لکھتے ہیں : انگلستان میں مَیں نے اسلامی مذہب و تمدن پر لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ ایک لیکچر ہو چکا ہے۔ [43]
اقبال قوم کو افراد کے علاوہ ایک نامی وجود قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں فرماتے ہیں :
قوم ایک جداگانہ زندگی رکھتی ہے یہ خیال کہ اس کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں کہ یہ اپنے موجودہ افراد کا محض ایک مجموعہ ہے۔ اصولاً غلط ہے۔ اور اس لیے تمدنی اور سیاسی اصلاح کی تمام تجاویز جو اس مفروضے پر مبنی ہوں بہت ہی احتیاط کے ساتھ نظر ثانی کی محتاج ہیں۔ قوم اپنے موجودہ افراد کا مجموعہ ہی نہیں ہے بلکہ اس سے بہت کچھ بڑھ کر ہے۔ [44]
یہی سبب ہے کہ اقبال کسی قوم یا تہذیب کو ایک ایسا نامیاتی کل تصور کرتے ہیں جس کے ایک حصے کی بقا کا انحصار دوسرے حصوں کی کارکردگی پر ہے۔
علم الحیات کے انکشافات جدیدہ نے اس حقیقت کے چہرہ سے پردہ اٹھایا ہے کہ کامیاب حیوانی جماعتوں کا حال ہمیشہ استقبال کے تابع ہوتا ہے۔ … علم الحیات کی اس حیرت انگیز حقیقت کو وہ شخص بہ نگاہ استغناء نہیں دیکھ سکتا جس کے پیش نظر سیاسی یا تمدنی اصلاح ہے۔ میں اپنی قوم کی موجودہ عمرانی حرکت پر اسی پہلو سے نظر ڈالنا چاہتا ہوں یعنی اس کی تنقید استقبالی طور پر کرنا چاہتا ہوں۔ [45]
اقبال کے ہاں قوم یا تہذیب کا وجود حکمرانوں سے ماورا حقیقت ہے۔
بادشاہ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اور اس حیثیت سے صرف اہل ملک ہی غیر فانی ہیں۔ [46]
اقبال کے نزدیک کسی قوم یا تہذیب کے عروج و زوال کا عمل قانون قدرت کے تابع ہوتا ہے:
قانون انتخاب فطری کے انکشاف عظیم کی بدولت انسان اپنے خانوادہ کی تاریخ کا عقلی تصور قائم کرنے کے قابل ہو گیا۔ حالانکہ پہلے اس تاریخ کے واقعات کی حیثیت اس کے نزدیک حوادث کے ایک فوق الادراک سلسلے سے زیادہ نہ تھی جو بلا کسی اندرونی ترتیب یا غایت کے فرداً فرداً مادر ایام کے سراپا بطن سے پیدا ہو کر گہوارۂ شہود میں نظر آیا کرتے تھے۔ [47]
اقبال تہذیبی زندگی کی اساس قومی طرز عمل کی حیات بخشی کو قرار دیتے ہیں :
پردۂ استعداد جو مبدء فیاض نے فطرت انسانی میں ودیعت کی ہے اور پردۂ توانائی جو انسان کے دل و دماغ کو بخشی گئی ہے ایک مقصد وحید اور ایک غایت الغایات کے لیے وقف ہے یعنی قومی زندگی جو آفتاب بن کر چمکے قوت سے لبریز ہو، جوش سے سرشار ہو اور ہر انسانی صنعت اس غایت آخریں کے تابع اور مطیع ہونی چاہیے اور ہر شے کی قدر و قیمت کا معیار یہی ہونا چاہیے کہ اس میں حیات بخشی کی قابلیت کس قدر ہے۔ [48]
اقبال کے ہاں قومی زندگی کی اساس مادی نہیں بلکہ مابعد الطبیعی ہے۔ اس فرق کو بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا:
میرے اور نیٹشے کے نقطۂ نظر میں بنیادی فرق ہے۔ نیٹشے کی طبیعت پر مادیت پسندی کا غلبہ تھا۔ اس نے ہستیِ باری تعالیٰ کا انکار کیا اور اس انکار سے خودی کا انکار لازم ٹھہرا۔ وہ خودی کا منکر ہے۔ خودی اس کے نزدیک کوئی مابعد الطبیعی حقیقت نہیں۔ اس کا فوق البشر بھی قدیم یونانی سورماؤں کا نمونہ ہے۔ وہ ہمیشہ کسی آنے والے کا خواب دیکھتا ہے۔ یہ مجوسی خیالات کا اثر ہے گو تعجب ہے کہ مجوسیت سے اثر پذیری کے باوجود اسے زمانے کی حقیقت سے کیوں انکار ہے۔ ہندوؤں اور یونانیوں کی طرح زمانے کی حرکت بھی اس کے نزدیک دوری ہے اور نتیجہ یہ کہ ہر چیز بار بار آتی رہتی ہے۔ [49]
مختلف تہذیبوں میں ارتباط باہمی ایک ایسی حقیقت ہے جو تہذیبوں کی بقا اور تسلسل کا تعین کرتی ہے:
زمانہ حال میں کسی جماعت کا محض مقامی قوتوں کے ذریعے نشو نما پانا محال ہے۔ ریل اور تار نے زمان اور مکان کے پردے کو درمیان سے اٹھا دیا ہے۔ دنیا کی مختلف قومیں جن میں پہلے بعد المشرقین حائل تھا اب پہلو بہ پہلو بیٹھی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس ہم نشینی کا نتیجہ یہ ہونے والا ہے کہ بعض قوموں کی حالت بدل کر ہو جائے گی اور بعض قومیں بالکل ہی ملیامیٹ ہو جائیں گی۔ [50]
تہذیبیں ہمیشہ مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزرتی رہتی ہیں :
قوموں میں تبدیلیاں دفعتاً نہیں، بلکہ چپ چاپ اور بتدریج رونما ہوا کرتی ہیں۔ یہ ایک عمل ہے جو آپ ہی آپ شروع ہوتا اور آپ ہی آپ جاری رہتا ہے۔ [51]
تاہم تبدیلی کے اس عمل کا با مقصد انداز سے جاری رہنا ہی تہذیبی زندگی کی ضمانت فراہم کرتا ہے:
قوموں کی زندگی تحریکوں سے ہے۔ تحریکیں ہیں تو قومیں بھی زندہ ہیں۔ وہ زندگی کے تقاضوں کو سمجھتی اور ان کے پیشِ نظر مختلف سمتوں میں قدم اٹھاتی ہیں۔ یوں ان کے مستقبل کا رخ متعین ہو جاتا ہے۔ تحریکیں گویا وہ اقدامات ہیں جو زندگی کی پیش رَو حرکت کے باعث ناگزیر ہو جاتے ہیں۔ لیکن تحریک جب ہی تحریک ہے کہ اس سے قوم کی وحدت میں فرق نہ آئے، بلکہ جس انداز سے بھی آگے بڑھے، اس سے حیاتِ ملّی کو تقویت پہنچے۔ افراد سمجھیں کوئی منزل ہے جو ان کے سامنے ہے اور جس کو انھیں طے کرنا ہے۔ کوئی کام ہے جسے سرانجام دینا ہے۔ زندگی یہ نہیں کہ ہم کسی عقیدے یا نظریے پر قناعت کر کے بیٹھ جائیں اور بے عملی کو عمل قرار دیں۔ [52]
اقبال کے تصور تہذیب کا امتیاز یہ ہے کہ علامہ نے اپنے تصور تہذیب کی اساس محکمات پر مبنی اصولوں کو قرار دیا ہے۔ نہ صرف مسلم تہذیب بلکہ عالمی تہذیبی مسائل پر غور و فکر کرتے ہوئے اقبال قرآن حکیم سے براہ راست رہنمائی لیتے ہیں۔ یہ مغربی فکر کی بہت بڑی کوتاہی ہے کہ اسلامی تہذیب کے بارے میں کوئی رائے قائم کرتے ہوئے نہ کسی مفکر نے قرآن حکیم سے استفسار کیا اور نہ قرآن حکیم کے بیان کردہ قانون عروج و زوال کو پرکھا، بلکہ اس اساسی ماخذ کو نظر انداز کر کے علمی غفلت اور تجاہل کا مظاہرہ کیا۔ مثلاً سپنگلر اور ٹائن بی جیسے مفکرین نے قرآن حکیم کا ذکر تک نہیں کیا جبکہ ہن ٹنگٹن نے صرف منفی انداز سے کیا۔ ہن ٹنگٹن کے مطابق قرآن حکیم تشدد کی تعلیم دینے والی کتاب ہے جس میں امن سے متعلق کوئی تعلیم موجود نہیں [53] اور دنیا میں مسلمان پر تشدد جدوجہد قرآن سے متاثر ہو کر اور اس پر حلف اٹھا کر شروع کرتے ہیں [54] جبکہ اقبال کے ہاں دیگر تہذیبوں کے بارے اس طرح کا کوئی اندھا تعصب نہیں پایا جاتا۔ اقبال کے تصور تہذیب کا دیگر افکار سے تقابل اقبال کے ان امتیازات کو نمایاں کرتا ہے:
۱ اقبال کے ہاں تہذیب کی اساس روحانی اقدار پر استوار ہے۔ یہ مرتبہ صرف اسلامی تہذیب کو حاصل ہے کہ یہ اعلی اور ابدی روحانی اقدار پر مبنی ہے:
کلمہ لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ پر مسلمانوں کی قومیت قائم ہے جب مسلمانوں کے اس قومی اصول کا دوسروں کی قومیت کے اصول سے تقابل کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی قومیت غیر مرئی ہے جو نہ ہاتھ سے چھوئی جا سکتی ہے اور نہ آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہے بلکہ وہ دل کی چیز ہے۔ دوسروں کا اصول قومیت مادی چیز ہے جس کو ہم دیکھ سکتے ہیں ایک مسلمان تاتاری ہے، ایک مسلمان کشمیری ہے، ایک مسلمان افغانی ہے مگر جب وہ لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کہتے ہیں تو ان کا تمام اختلاف و امتیاز اس کلمہ کی آتش سے جل کر خاک سیاہ ہو جاتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کو یہ نکتہ یاد رکھنا چاہیے کہ لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کہنے سے ہی کوئی شخص مسلمان نہیں ہو جاتا جب تک وہ اسلام کے معاشرت اور تمدن کو اپنے اندر جذب نہ کرے۔ کیونکہ محض عقیدے کے مسلمان معزز ثابت نہیں ہو سکتے جب تک کہ ان کی عملی زندگی بھی اسلامی تمدن کے مطابق نہ ہو۔ [55]
۲ یہی سبب ہے کہ مسلم امہ کی وحدت کی بنیاد بھی دینی ہو گی۔ کبھی بھی مسلم امہ مادی اقدار یا مادی اساس پر متحد نہ ہو سکے گی:
کسی قوم کا اتحاد ختم ہو جائے تو اس کی قدرتاً آرزو ہوتی ہے کہ اپنی کھوئی ہوئی وحدت پھر سے حاصل کر لے۔ یوں ہی اس کی ہمت بندھتی ہے اور یوں ہی اس کا زوال و انتشار، طاقت اور جمعیت سے بدل سکتا ہے۔ بغیر اس کے نہ اس کی حفاظت کا کوئی ذریعہ ہے، نہ سلامتی کا۔ لیکن یہ وحدت پھر سے پیدا ہو گی تو اسی اصول کی بدولت جس پر اول اول اس کی اساس رکھی گئی اور جس کا اظہار حیاتِ ملی کی مخصوص شکل میں ہوا۔ یہ بڑی غلطی ہو گی اگر ہم اس کے لیے کوئی دوسری اساس تلاش کریں، جیسا کہ ہمارے اربابِ سیاست کر رہے ہیں۔ ناممکن ہے مسلمان اس طرح متحد ہوسکیں۔ [56]
۳ مسلم تہذیب کی سیاسیات کی اساس بھی روحانی نوعیت کی ہو گی۔ اسی پہلو کے باعث علامہ نے مسلم معاشرے کے لیے روحانی جمہوریت کا تصور بھی دیا تھا۔ سیاسیات کی روحانی اساس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
سیاسیات کی جڑ انسان کی روحانی زندگی میں ہوتی ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ اسلام ذاتی رائے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک سوسائٹی ہے یا پھرسوک چرچ (Civic Church) سیاسیات میں میری دلچسپی بھی دراصل اسی وجہ سے ہے۔ [57]
۴ مسلم تہذیب کی روحانی اساس اس کے رجعت پسند ہونے کی نہیں بلکہ اس کے اقدامی مزاج کی مظہر ہے۔ علامہ فرماتے ہیں :
مسلمانوں کے مذہبی تفکر کی تاریخ میں احمدیت کا وظیفہ ہندوستان کی موجودہ سیاسی غلامی کی تائید میں الہامی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ خالص مذہبی امور سے قطع نظر سیاسی امور کی بنا پر بھی پنڈت جواہر لال نہرو کے شایانِ شان نہیں کہ وہ مسلمانان ہند پر رجعت پسند اور قدامت پسند ہونے کا الزام لگائیں۔ [58]
٭٭٭
ماخذ:
علامہ اقبال ڈاٹ کام
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید