فہرست مضامین
- معارف القرآن
- ۱۔ سورۃ فاتحہ
- ترجمہ:
- تفسیر:
- معارف و مسائل
- ترجمہ:
- تفسیر:
- رب العالمین کی تفسیر:
- ترجمہ:
- ترجمہ:
- تفسیر:
- ترجمہ:
- تفسیر:
- ترجمہ:
- تفسیر:
- وان من شیء الایسبح بحمدہٖ ولٰکن لا تفقہون تسبیحہم (سورة بنی اسرائیل: ۴۴)
- الم تر ان اللٰہ یسبح لہٗ من فی السمٰوٰت والارض والطیر صٰفٰت ۭ کل قد علم صلاتہٗ وتسبیحہٗ ۭ واللٰہ علیمۢ بما یفعلون (آیت نمبر ۴۱)
- اعطیٰ کل شیء خلقہ ثم ھدی (۵۰: ۲۰)
- سبح اسم ربک الاعلى الذی خلق فسوٰى والذی قدر فہدٰى۔
- ان کل من فی السمٰوٰت والارض الآ اٰتی الرحمٰن عبدا (۹۳: ۱۹)
- والذین اہتدوا زادہم ہدى (۱۷: ۴۷) ومن یؤ منۢ باللٰہ یہد قلبہٗ
- والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا (۶۹: ۲۹)
- صراط مستقیم کونسا راستہ ہے؟
- ترجمہ:
- تفسیر:
- سورة فاتحہ کے متعلق احکام و مسائل:
- دعا کرنے کا طریقہ
- اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء انسان کا فطری فرض ہے۔
- خود اپنی مدح و ثناء کسی انسان کے لئے جائز نہیں:
- لفظ رب اللہ تعالیٰ کا خاص نام ہے غیر اللہ کو رب کہنا جائز نہیں:
- استعانت کے معنی کی تشریح اور مسئلہ توسل کی تحقیق:
- اللہ کے سوا کسی کی عبادت روا نہیں اس کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا حرام اور ناقابل معافی جرم ہے:
- مسئلہ استعانت و توسل کی تحقیق اور احکام کی تفصیل:
- صراط مستقیم کی ہدایت دنیا و دین میں کلید کامیابی ہے:
- Related
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع عثمانی
جمع و ترتیب اعجاز عبید اور محمد عظیم الدین
قرآنی منزلوں کے مطابق سات جلدوں میں
ڈاؤن لوڈ کریں
جلد اول
جلد دوم
جلد سوم
جلد چہارم
جلد پنجم
جلد ششم
جلد ہفتم
کتاب کا اقتباس
۱۔ سورۃ فاتحہ
001::: 001
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ترجمہ:
شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
تفسیر:
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑے مہربان نہایت رحم والے ہیں (آیت) (الحمد للٰہ رب العٰلمین) سب تعریفیں اللہ کو لائق ہیں جو مربی ہیں ہر ہر عالم کے (مخلوقات الگ الگ جنس ایک ایک عالم کہلاتا ہے مثلاً ملائکہ، عالم انسان، عالم جن) الرحمٰن الرحیم جو بڑے مہربان نہایت رحم والے ہیں، مٰلک یوم الدین جو مالک ہیں روز جزا کے (مراد قیامت کا دن ہے جس میں ہر شخص اپنے عمل کا بدلہ پاوے گا) ایاک نعبد وایاک نستعین ہم آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور آپ ہی سے درخواست اعانت کی کرتے ہیں، اھدنا الصراط المستقیم بتلا دیجئے ہم کو راستہ سیدھا (مراد دین کا راستہ ہے (، صراط الذین انعمت علیہم راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ نے انعام فرمایا (مراد دین کا انعام ہے) غیر المغضوب علیہم ولا الضّالین، نہ راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ کا غضب ہوا اور نہ ان لوگوں جو راستہ سے گم ہو گئے (راہ ہدایت چھوڑنے کی دو وجہ ہوا کرتی ہیں ایک تو یہ کہ اس کی پوری تحقیق ہی نہ کرے ضالین سے ایسے لوگ مراد ہیں دوسری وجہ یہ ہے کہ تحقیق پوری ہونے کے باوجود اس پر عمل نہ کرے، مغضوب علیہم سے ایسے لوگ مراد ہیں کیونکہ جان بوجھ کر خلاف کرنا زیادہ ناراضگی کا سبب ہوتا ہے)
معارف و مسائل
سورة فاتحہ کے مضامین:
سورة فاتحہ سات آیتوں پر مشتمل ہے جن میں سے پہلی تین آیات میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء ہے اور آخری تین میں انسان کی طرف سے دعاء و درخواست کا مضمون ہے جو رب العزت نے اپنی رحمت سے خود ہی انسان کو سکھایا ہے اور درمیانی ایک آیت میں دونوں چیزیں مشترک ہیں کچھ حمد و ثناء کا پہلو ہے کچھ دعاء و درخواست کا۔
صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابو ہریرہؓ منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نماز (یعنی سورة فاتحہ) میرے اور بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے نصف میرے لئے ہے اور نصف میرے بندے کے لئے اور جو کچھ میرا بندہ مانگتا ہے وہ اس کو دیا جائے گا پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بندہ جب کہتا ہے الحمد للٰہ رب العٰلمین تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری حمد کی ہے اور جب وہ کہتا ہے الرحمٰن الرحیم تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف و ثناء بیان کی ہے اور جب بندہ کہتا ہے مٰلک یوم الدین تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے اور جب بندہ کہتا ہے ایاک نعبد وایاک نستعین تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے کیونکہ اس میں ایک پہلو حق تعالیٰ کی حمد و ثناء کا ہے اور دوسرا پہلو بندے کی دعاء و درخواست کا اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہوا کہ میرے بندے کو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی پھر جب بندہ کہتا ہے اھدنا الصراط المستقیم (آخر تک) تو حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ سب میرے بندے کے لئے ہے اور اس کو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی۔ (مظہری)
001::: 002
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ۱
ترجمہ:
سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو پالنے والا سارے جہان کا
تفسیر:
الحمد للٰہ کے معنی یہ ہیں کہ سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں یعنی دنیا میں جہاں کہیں کسی چیز کی تعریف کی جاتی ہے وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی تعریف ہے کیونکہ اس جہان رنگ و بو میں جہان ہزاروں حسین مناظر اور لاکھوں دل کش نظارے اور کروڑوں نفع بخش چیزیں انسان کے دامن دل کو ہر وقت اپنی طرف کھینچتی رہتی ہیں اور اپنی تعریف پر مجبور کرتی ہیں اگر ذرا نظر کو گہرا کیا جائے تو ان سب چیزوں کے پردے میں ایک ہی دست قدرت کار فرما نظر آتا ہے اور دنیا میں جہان کہیں کسی چیز کی تعریف کی جاتی ہے اس کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں جیسے کسی نقش و نگار یا تصویر کی یا کسی صنعت کی تعریف کی جائے کہ یہ سب تعریفیں در حقیقت نقاش اور مصور کی یا صناع کی ہوتی ہیں اس جملے نے کثرتوں کے تلاطم میں پھنسے ہوئے انسان کے سامنے ایک حقیقت کا دروازہ کھول کر یہ دکھلا دیا کہ یہ ساری کثرتیں ایک ہی وحدت سے مربوط ہیں اور ساری تعریفیں در حقیقت اسی ایک قادر مطلق کی ہیں ان کو کسی دوسرے کی تعریف سمجھنا نظر و بصیرت کی کوتاہی ہے۔
حمد را با تو نسبتے است درست
بر در ہر کہ رفت بر درتست
اور یہ ظاہر ہے کہ جب ساری کائنات میں لائق حمد در حقیقت ایک ہی ذات ہے تو عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہو سکتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ الحمد للٰہ اگرچہ حمد و ثناء کے لئے لایا گیا ہے لیکن اس ضمن میں ایک معجزانہ انداز سے مخلوق پرستی کی بنیاد ختم کر دی گئی اور دل نشین طریق پر توحید کی تعلیم دی گئی ہے۔
غور کیجئے کہ قرآن کے اس مختصر سے ابتدائی جملے میں ایک طرف تو حق تعالیٰ کی حمد و ثناء کا بیان ہوا اسی کے ساتھ مخلوقات کی رنگینیوں میں الجھے ہوئے دل و دماغ کو ایک حقیقت کی طرف متوجہ کر کے مخلوق پرستی کی جڑ کاٹ دی گئی اور معجزانہ انداز سے ایمان کے سب سے پہلے رکن توحید باری کا نقش اس طرح جما دیا گیا کہ جو دعویٰ ہے اسی میں غور کرو تو وہی اپنی دلیل بھی ہے۔
فتبٰرک اللٰہ احسن الخٰلقین۔
رب العالمین کی تفسیر:
اس مختصر ابتدائی جملے کے بعد اللہ تعالیٰ کی پہلی صفت رب العلمین ذکر کی گئی ہے مختصر الفاظ میں اس کی تشریح دیکھئے۔
لفظ رب کے معنی عربی لغت کے اعتبار سے تربیت و پرورش کرنے والے کے ہیں اور تربیت اس کو کہتے ہیں کہ کسی چیز کو اس کے تمام مصالح کی رعایت کرتے ہوئے درجہ بدرجہ آگے بڑھایا جائے یہاں تک کہ وہ حد کمال کو پہنچ جائے۔
یہ لفظ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے لئے مخصوص ہے کسی مخلوق کو بدون اضافت کے رب کہنا جائز نہیں کیونکہ ہر مخلوق خود محتاج تربیت ہے وہ کسی دوسرے کی کیا تربیت کر سکتا ہے۔
العلمین عالم کی جمع ہے جس میں دنیا کی تمام اجناس آسمان، چاند، سورج اور تمام ستارے اور ہوا و فضا، برق و باران، فرشتے جنات، زمین اور اس کی تمام مخلوقات، حیوانات، انسان نباتات، جمادات سب ہی داخل ہیں اس لئے رب العلمین کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ تمام اجناس کائنات کی تربیت کرنے والے ہیں اور یہ بھی کوئی بعید نہیں کہ جیسا یہ ایک عالم ہے جس میں ہم بستے ہیں اور اس کے نظام شمسی و قمری اور برق و باراں اور زمین کی لاکھوں مخلوقات کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں یہ سارا ایک ہی عالم ہو اور اسی جیسے اور ہزاروں لاکھوں دوسرے عالم ہوں جو اس عالم سے باہر کی خلا میں موجود ہوں امام رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں فرمایا ہے کہ اس عالم سے باہر ایک لامتناہی خلاء کا وجود دلائل عقلیہ سے ثابت ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر قدرت ہے اس کے لئے کیا مشکل ہے کہ اس نے اس لامتناہی خلاء میں ہمارے پیش نظر عالم کی طرح کے اور بھی ہزاروں لاکھوں عالم بنا رکھے ہوں۔
حضرت ابو سعید خدریؓ سے منقول ہے کہ عالم چالیس ہزار ہیں یہ دنیا مشرق سے مغرب تک ایک عالم ہے باقی اس کے سوا ہیں اسی طرح حضرت مقاتل امام تفسیر سے منقول ہے کہ عالم اسی ہزار ہیں (قرطبی) اس پر جو یہ شبہ کیا جاتا تھا کہ خلاء میں انسانی مزاج کے مناسب ہوا نہیں ہوتی اس لئے انسان یا کوئی حیوان وہاں زندہ نہیں رہ سکتا امام رازی نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ کیا ضروری ہے کہ اس عالم سے خارج خلاء میں جو دوسرے عالم کے باشندے ہوں ان کا مزاج بھی ہمارے عالم کے باشندوں کی طرح ہو جو خلاء میں زندہ نہ رہ سکیں یہ کیوں نہیں ہو سکتا کہ ان عالموں کے باشندوں کے مزاج و طبائع ان کی غذا و ہوا یہاں کے باشندوں سے بالکل مختلف ہوں۔
یہ مضمون تو اب سے سات سو ستر سال پہلے کے اسلامی فلاسفر امام رازی کا لکھا ہوا ہے جبکہ فضاء و خلاء کی سیر اور اس کی پیمائش کے آلات و ذرائع ایجاد نہ ہوئے تھے آج راکٹوں اور اسپٹنکوں کے زمانے میں خلاء کے مسافروں نے جو کچھ آ کر بتلایا وہ بھی اس سے زیادہ نہیں کہ اس عالم سے باہر کی خلاء کی کوئی حد و نہایت نہیں ہے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس غیر متناہی خلاء میں کیا کچھ موجود ہے، اس دنیا سے قریب ترین سیاروں، چاند، اور مریخ کی آبادی کے بارے میں جو قیاسیات آج کے جدید ترین ماہرین سائنس پیش کر رہے ہیں بلکہ قرین قیاس یہ ہے کہ ان کے مزاج و طبیعت ان کی غذا و ضروریات یہاں کے لوگوں سے بالکل مختلف ہوں اس لئے ایک کو دوسرے پر قیاس کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔
امام رازی کی تائید اور اس سلسلے کی جدید معلومات کے لئے وہ مقالہ کافی ہے جو امریکی خلائی مسافر جان گلین نے حال میں خلاء کے سفر سے واپس آ کر شائع کرایا ہے جس میں شعاعی سال کا نام دے کر ایک طویل مدت و مسافت کا پیمانہ قائم کیا اور اس کے ذریعے اپنی وسعت فکر کی حد تک خلاء کا کچھ اندازہ لگایا اور پھر یہ اقرار کیا کہ کچھ نہیں بتلایا جا سکتا کہ خلاء کی وسعت کتنی اور کہاں تک ہے۔
قرآن کے اس مختصر جملے کے ساتھ اب تمام عالم اور اس کی کائنات پر نظر ڈالئے اور بچشم بصیرت دیکھئے کہ حق تعالیٰ نے تربیت عالم کا کیسا مضبوط اور محکم محیر العقول نظام بنایا ہے افلاک سے لے کر عناصر تک، سیارات و نجوم سے لے کر ذرات تک ہر چیز اس سلسلہ نظام میں بندھی ہوئی اور حکیم مطلق کی خاص حکمت بالغہ کے ماتحت ہر چیز اپنے اپنے کام میں مصروف ایک لقمہ جو انسان کے منہ تک پہنچتا ہے اگر اس کی پوری حقیقت پر انسان غور کرے تو معلوم ہو گا کہ اس کی تیاری میں آسمان اور زمین کی تمام قوتیں اور کروڑوں انسانوں اور جانوروں کی محنتیں شامل ہیں سارے عالم کی قوتیں مہینوں مصروف خدمت رہیں جب یہ لقمہ تیار ہوا اور یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ انسان اس میں غور و تدبر سے کام لے اور سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے لے کر زمین تک اپنی تمام مخلوقات کو اس کی خدمت میں لگا رکھا ہے تو جس ہستی کو اس نے مخدوم کائنات بنا رکھا ہے وہ بیکار و بے ہودہ نہیں ہو سکتی اس کا بھی کوئی کام ہو گا اس کے ذمے بھی کوئی خدمت ہو گی۔
ابر و باد و مہ و خورشید و فلک درکار اند
تا تو نانے بکف آری و بغفلت نخوری۔
ہمہ از بہر تو سرگشتہ و فرمانبردار
شرط انصاف نباشد کہ تو فرماں نبری۔
قرآن حکیم نے انسانی آفرینش اور اس کے مقصد حیات کو اس آیت میں واضح فرمایا ہے۔
وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون (۵۶: ۸۲)
میں نے جن اور انسان کو اور کسی کام کے لئے نہیں بنایا بجز اس کے کہ وہ میری عبادت کریں۔
تقریر مذکورہ سے معلوم ہوا کہ رب العلمین ایک حیثیت سے پہلے جملے الحمد للہ کی دلیل ہے کہ جب تمام کائنات کی تربیت و پرورش کی ذمہ دار صرف ایک ذات اللہ تعالیٰ کی ہے تو حمد و ثناء کی حقیقی مستحق بھی وہی ذات ہو سکتی ہے اس لئے آیت الحمد للہ رب العلمین میں حمد و ثناء کے ساتھ ایمان کے سب سے پہلے رکن توحید باری تعالیٰ کا بیان بھی موثر انداز میں آ گیا۔
دوسری آیت میں صفت رحمت کا ذکر بلفظ صفت رحمٰن و رحیم کیا گیا یہ دونوں صیغے مبالغہ کے ہیں جن میں رحمت خداوندی کی وسعت و کثرت اور کمال کا بیان ہے اس صفت کے ذکر کرنے میں شاید اس طرف اشارہ ہے کہ تمام کائنات و مخلوقات کی تربیت و پرورش کی ذمہ داری جو حق تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے وہ کسی اپنی ضرورت یا دباؤ اور مجبوری سے نہیں بلکہ یہ سب کچھ اس کی صفت رحمت کا تقاضا ہے اگر پوری کائنات نہ ہو تو اس کا کچھ نقصان نہیں اور ہو جائے تو اس پر کچھ بار نہیں۔
نہ تنہا بدی چونکہ خلقت نبود
نہ چوں کردہ شد بر تو زحمت فزود
001::: 003
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ۲
ترجمہ:
بے حد مہربان نہایت رحم والا
001::: 004
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ۳
ترجمہ:
مالک روز جزا کا
تفسیر:
(آیت) مٰلک یوم الدین لفظ مالک ملک سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز پر ایسا قبضہ کہ وہ اس میں تصرف کرنے کی جائز قدرت رکھتا ہو (قاموس) لفظ دین کے معنی جزاء دینا۔ ملک یوم الدین کا لفظی ترجمہ ہوا مالک روز جزاء کا یعنی روز جزاء میں ملکیت رکھنے والا وہ ملکیت کس چیز پر ہو گی؟ اس کا ذکر نہیں کیا گیا تفسیر کشاف میں ہے کہ اس میں اشارہ عموم کی طرف ہے یعنی روز جزاء میں تمام کائنات اور تمام امور کی ملکیت صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہو گی (کشاف)
روز جزاء کی حقیقت اور عقلاً اس کی ضرورت:
اب یہاں چند باتیں قابل غور ہیں:
اول یہ کہ روز جزا کس دن کا نام ہے، اور اس کی کیا حقیقت ہے؟ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت تمام کائنات پر جس طرح روز جزا میں ہو گی ایسے ہی آج بھی ہے، پھر روز جزا کی کیا خصوصیت ہے؟ پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ روز جزاء اس دن کا نام ہے جس کو اللہ نے نیک و بد اعمال کا بدلہ دینے کے لیے مقرر فرمایا ہے، لفظ روز جزا سے ایک عظیم الشان فائدہ یہ حاصل ہوا کہ دنیا نیک و بد اعمال کی جزاء و سزا کی جگہ نہیں بلکہ دار العمل فرض ادا کرنے کا دفتر ہے تنخواہ یا صلہ وصول کرنے کی جگہ نہیں اس سے معلوم ہو گیا کہ دنیا میں کسی کو عیش و عشرت دولت و راحت سے مالا مال دیکھ کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اللہ کے نزدیک مقبول و محبوب ہے یا کسی کو رنج و مصیبت میں مبتلا پا کر یہ نہیں قرار دیا جا سکتا کہ وہ اللہ کے نزدیک معتوب و مبغوض ہے جس طرح دنیا کے دفتروں اور کارخانوں میں کسی کو اپنا فرض ادا کرنے میں مصروف محنت دیکھا جائے تو کوئی عقلمند اس کو مصیبت زدہ نہیں کہتا اور نہ وہ خود اپنی مشقت کے باوجود اپنے آپ کو گرفتار مصیبت سمجھتا ہے بلکہ وہ اس محنت و مشقت کو اپنی سب سے بڑی کامیابی تصور کرتا ہے اور کوئی مہربان اس کو اس مشقت سے سبکدوش کرنا چاہے تو وہ اس کو اپنا بدترین دشمن خیال کرتا ہے کیونکہ وہ اس تیس روزہ محنت کے پس پردہ اس راحت کو دیکھ رہا ہے جو اس کو تنخواہ کی شکل میں ملنے والی ہے۔
001::: 005
اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ۴
ترجمہ:
تیری ہی ہم بندگی کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں
تفسیر:
(آیت) ایاک نعبد وایاک نستعین اس آیت میں ایک پہلو حمد و ثناء کا اور دوسرا دعاء و درخواست کا ہے، نعبد عبادت سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کسی کی انتہائی تعظیم و محبت کی وجہ سے اس کے سامنے اپنی انتہائی عاجزی اور فرمانبرداری کا اظہار نستعین استعانت سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں کسی سے مدد مانگنا آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں انسان پر تین حالات گذرتے ہیں ماضی، حال مستقبل، پچھلی تین آیتوں میں سے الحمد للٰہ رب العٰلمین اور الرحمٰن الرحیم میں انسان کو اس پر متنبہ کر دیا گیا وہ اپنے ماضی اور حال میں صرف اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے کہ اس کو ماضی میں نابود سے بود کیا اور اس کو تمام کائنات سے زیادہ بہترین شکل و صورت اور عقل و بصیرت عطا فرمائی اور حال میں اس کی پرورش اور تربیت کا سلسلہ جاری ہے اور مٰلک یوم الدین میں یہ بتا دیا کہ مستقبل میں بھی وہ خدا ہی کا محتاج ہے، کہ روز جزاء میں اس کے سوا کسی کا مددگار نہیں ہو سکتا، اور جب ان تینوں آیتوں نے یہ واضح کر دیا کہ انسان اپنی زندگی کے تینوں دور میں خدا ہی کا محتاج ہے تو اس کا طبعی اور عقلی تقاضا یہ ہوا کہ عبادت بھی صرف اسی کی کی جائے کیونکہ عبادت جو انتہائی تعظیم و محبت کے ساتھ اپنی انتہائی عاجزی اور تذلل کا نام ہے وہ کسی دوسری ہستی کے لائق نہیں اس کا نتیجہ لازمی یہ ہے کہ ایک عاقل انسان پکار اٹھے کہ ہم تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اسی مقتضائے طبع کو ایاک نعبد میں ظاہر فرمایا گیا ہے اور جب یہ معلوم ہو گیا کہ حاجت روا صرف ایک ہی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے تو اقتضائے عقلی و طبعی یہ ہے کہ اپنے کاموں میں مدد بھی صرف اسی سے مانگنا چاہئے، اسی اقتضائے عقل و طبع کو وایاک نستعین میں ذکر فرمایا گیا ہے (روح البیان)
غرض اس چوتھی آیت میں ایک حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء ہے کہ عبادت و اعانت کے لائق صرف وہی ہے اور دوسری حیثیت سے انسان کی دعا و درخواست ہے کہ ہماری مدد فرمائے اور تیسری حیثیت اور بھی ہے کہ اس میں انسان کو تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرے اور حقیقی طور پر اللہ کے سوا کسی کو حاجت روا نہ سمجھے اور کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے کسی نبی یا ولی وغیرہ کو وسیلہ قرار دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا اس کے منافی نہیں، اس آیت میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ارشاد یہ ہے کہ ہم تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں کسی کام میں مدد مانگتے ہیں اس کا ذکر نہیں۔ جمہور مفسرین نے لکھا ہے کہ اس کا ذکر نہ کرنے میں عموم کی طرف اشارہ ہے کہ ہم اپنی عبادت اور ہر دینی و دنیوی کام اور ہر مقصد میں صرف آپ کی مدد چاہتے ہیں پھر عبادت صرف نماز روزے کا نام نہیں امام غزالی نے اپنی کتاب اربعین میں عبادت کی دس قسمیں لکھی ہیں۔ ۱ نماز،
۲ زکوٰۃ،
۳ روزہ،
۴ حج،
۵ تلاوت قرآن،
۶ ہر حالت میں اللہ کا ذکر کرنا،
۷ حلال روزی کے لئے کوشش کرنا،
۸ پڑوسی اور ساتھی کے حقوق ادا کرنا،
۹ لوگوں کو نیک کاموں کا حکم کرنا اور برے کاموں سے منع کرنا،
۱۰ رسول اللہﷺ کی سنت کا اتباع کرنا۔
اس لئے عبادت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کے معنے یہ ہو گئے کہ نہ کسی کی محبت اللہ تعالیٰ کے برابر ہو نہ کسی کا خوف اس کے برابر ہو نہ کسی سے امید اس کی طرح ہو نہ کسی پر بھروسہ اللہ کی مثل ہو نہ کسی کی اطاعت و خدمت اور کام کو اتنا ضروری سمجھے جتنا اللہ تعالیٰ کی عبادت کو نہ اللہ تعالیٰ کی طرح کسی کی نذر اور منت مانے نہ اللہ تعالیٰ کی طرح کسی دوسرے کے سامنے اپنی مکمل عاجزی اور تذلل کا اظہار کرے نہ وہ افعال کسی دوسرے کے لئے کرے جو انتہائی تذلل کی علامات ہیں جیسے رکوع و سجدہ۔
001::: 006
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ۵
ترجمہ:
بتلا ہم کو راہ سیدھی
تفسیر:
آخری تین آیتیں جن میں انسان کی دعا و درخواست کا مضمون ہے اور ایک خاص دعا کی تلقین ہے یہ ہیں (آیت)۔ اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم ۹ غیر المغضوب علیہم ولا الضآلین جس کا ترجمہ یہ ہے کہ بتلا دیجئے ہم کو راستہ سیدھا، راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ نے انعام فرمایا نہ راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ کا غضب کیا گیا اور نہ ان لوگوں کا جو راستہ سے گم ہو گئے۔
ان تینوں آیات میں چند باتیں قابل غور ہیں:
تکمیل الدرایہ فی تفصیل درجات الہدایہ: یہاں پہلی بات قابل غور یہ ہے کہ صراط مستقیم کی ہدایت کے لئے دعا جو اس آیت میں تعلیم فرمائی گئی ہے اس کے مخاطب جس طرح تمام انسان اور عامہ مؤمنین ہیں، اسی طرح اولیاء اللہ اور حضرات انبیاء (علیہم السلام) بھی اس کے مامور ہیں جو بلا شبہ ہدایت یافتہ بلکہ دوسروں کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہیں، پھر اس حاصل شدہ چیز کی بار بار دعا مانگنے کا کیا مطلب ہے؟
اس کا جواب ہدایت کی پوری حقیقت معلوم کرنے پر موقوف ہے اس کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے جس سے سوال مذکور کے علاوہ ان تمام اشکالات کا بھی جواب معلوم ہو جائے گا جو مفہوم ہدایت کے متعلق قرآن کریم کے بہت سے مقامات میں عموماً پیش آتے ہیں اور ہدایت کی حقیقت سے نا آشنا قرآن کی بہت سی آیات میں باہمی تضاد و اختلاف محسوس کرنے لگتا ہے۔
لفظ ہدایت کی بہترین تشریح امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں تحریر فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہدایت کے اصلی معنی ہیں کسی شخص کو منزل مقصود کی طرف مہربانی کے ساتھ رہنمائی کرنا اور ہدایت کرنا حقیقی معنی میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہے جس کے مختلف درجات ہیں:
ایک درجہ ہدایت کا عام ہے جو کائنات و مخلوقات کی تمام اقسام جمادات، نباتات، حیوانات وغیرہ کو شامل ہے یہاں آپ یہ خیال نہ کریں کہ ان بے جان بے شعور چیزوں کو ہدایت سے کیا کام؟
کیونکہ قرآنی تعلیمات سے یہ واضح ہے کہ کائنات کی تمام اقسام اور ان کا ذرہ ذرہ اپنے اپنے درجے کے موافق حیات و احساس بھی رکھتا ہے اور عقل و شعور بھی، یہ دوسری بات ہے کہ یہ جوہر کسی نوع میں کم کسی میں زیادہ ہے اسی وجہ سے جن اشیاء میں یہ جوہر بہت کم ہے ان کو بے جان، بے شعور سمجھا اور کیا جاتا ہے احکام الٰہیہ میں بھی ان کے ضعف شعور کے آثار کا اتنا اثر آیا کہ ان کو احکام کا مکلف نہیں بنایا گیا، جن مخلوقات میں حیات کے آثار تو نمایاں ہیں مگر عقل و شعور نمایاں نہیں ان کو ذی حیات جاندار مگر بے عقل و شعور کہا جاتا ہے اور جن میں حیات کے ساتھ عقل و شعور کے آثار بھی نمایاں نظر آتے ہیں ان کو ذوی العقول کہا جاتا ہے اور اسی اختلاف درجات اور عقل و شعور کی کمی بیشی کی وجہ سے تمام کائنات میں احکام شرعیہ کا مکلف صرف انسان اور جنات کو قرار دیا گیا ہے کہ ان میں عقل و شعور بھی مکمل ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ دوسری انواع و اقسام میں حیات و احساس یا عقل و شعور بالکل نہیں کیونکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
وان من شیء الایسبح بحمدہٖ ولٰکن لا تفقہون تسبیحہم (سورة بنی اسرائیل: ۴۴)
یعنی کوئی چیز ایسی نہیں جو تعریف کے ساتھ اس کی پاکی (قالاً یا حالاً) بیان نہ کرتی ہو لیکن تم لوگ ان کی پاکی بیان کرنے کو سمجھتے نہیں ہو۔
اور سورة نور میں ارشاد ہے:
الم تر ان اللٰہ یسبح لہٗ من فی السمٰوٰت والارض والطیر صٰفٰت ۭ کل قد علم صلاتہٗ وتسبیحہٗ ۭ واللٰہ علیمۢ بما یفعلون (آیت نمبر ۴۱)
یعنی کیا تجھ کو معلوم نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں سب جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں (مخلوقات) ہیں اور (بالخصوص) پرندے جو پر پھیلائے ہوئے اڑتے ہیں سب کو اپنی اپنی دعا اور تسبیح معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ کو ان لوگوں کے سب افعال کا پورا علم ہے۔
ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور اس کی پاکی بیان کرنا اللہ تعالیٰ کی معرفت پر موقوف ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ہی سب سے بڑا علم ہے اور یہ علم بدون عقل شعور کے نہیں ہو سکتا اس لئے ان آیات سے ثابت ہوا کہ تمام کائنات کے اندر روح و حیات بھی ہے ادراک و احساس بھی عقل و شعور بھی مگر بعض کائنات میں یہ جو جوہر اتنا کم اور مخفی ہے کہ عام دیکھنے والوں کو اس کا احساس نہیں ہوتا اسی لئے عرف میں ان کو بے جان یا بے عقل کہا جاتا ہے اور اس بناء پر ان کو احکام شرعیہ کا مکلف بھی نہیں بنایا گیا قرآن کریم کا یہ فیصلہ اس وقت کا ہے جب دنیا میں نہ کہیں کوئی فلسفی تھا نہ کوئی فلسفہ مدون تھا بعد میں آنے والے فلاسفروں نے بھی اپنے اپنے وقت میں اس کی تصدیق کی قدیم فلاسفہ میں بھی اس خیال کے کچھ لوگ گذرے ہیں اور جدید فلاسفہ اور اہل سائنس نے تو پوری وضاحت کے ساتھ اس کو ثابت کیا ہے۔
الغرض ہدایت خداوندی کا یہ درجہ اولیٰ تمام مخلوقات، جمادات، نباتات، حیوانات، انسان اور جنات کو شامل ہے اسی ہدایت عامہ کا ذکر قرآن کریم کی آیت
اعطیٰ کل شیء خلقہ ثم ھدی (۵۰: ۲۰)
میں فرمایا گیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اس کی خلقت عطا فرمائی پھر اس خلقت کے مناسب اس کو ہدایت دی اور یہی مضمون سورة اعلیٰ میں ان الفاظ سے ارشاد ہوا:
سبح اسم ربک الاعلى الذی خلق فسوٰى والذی قدر فہدٰى۔
یعنی آپ اپنے پروردگار عالی شان کی تسبیح کیجئیے جس نے ساری مخلوقات کو بنایا پھر ٹھیک بنایا اور جس نے تجویز کیا پھر راہ بتائی۔
یعنی جس نے تمام مخلوقات کے لئے خاص خاص مزاج اور خاص خاص خدمتیں تجویز فرما کر ہر ایک کو اس کے مناسب ہدایت کر دی۔
اسی ہدایت عامہ کا نتیجہ ہے کہ کائنات عالم کے تمام انواع و اصناف اپنا اپنا مقررہ فرض نہایت سلیقہ سے ادا کر رہے ہیں جو چیز جس کام کے لئے بنا دی ہے وہ اس کو ایسی خوبی کے ساتھ ادا کر رہی ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے حضرت مولانا رومی نے اسی مضمون کو بیان فرمایا ہے۔
خاک و باد و آب و آتش بندہ اند
بامن و تو مردہ با حق زندہ اند
زبان سے نکلی ہوئی آواز کے معنی کا ادراک نہ ناک کر سکتی ہے نہ آنکھ، حالانکہ یہ زبان سے زیادہ قریب ہیں اس ادراک کا فریضہ اللہ تعالیٰ نے کانوں کے سپرد کیا ہے وہی زبان کی بات کو لیتے ہیں اور ادراک کرتے ہیں، دانائے روم نے خوب فرمایا۔
مر زبان را مشتری جز گوش نیست
واقف این راز جز بے ہوش نیست
اسی طرح کانوں سے دیکھنے یا سونگھنے کا کام نہیں لیا جا سکتا ناک سے دیکھنے یا سننے کا کام نہیں لیا جا سکتا سورة مریم میں اسی مضمون کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
ان کل من فی السمٰوٰت والارض الآ اٰتی الرحمٰن عبدا (۹۳: ۱۹)
یعنی کوئی نہیں آسمان اور زمین میں جو نہ آوے رحمٰن کو بندہ ہو کر۔
دوسرا درجہ ہدایت کا اس کے مقابلے میں خاص ہے یعنی صرف ان چیزوں کے ساتھ مخصوص ہے جو عرف میں ذوی العقول کہلاتی ہیں یعنی انسان اور جن، یہ ہدایت انبیاء اور آسمانی کتابوں کے ذریعہ ہر انسان کو پہنچتی ہے پھر کوئی اس کو قبول کر کے مومن مسلم ہو جاتا ہے کوئی رد کر کے کافر ٹھہرتا ہے۔
تیسرا درجہ ہدایت کا اس سے بھی زیادہ خاص ہے کہ صرف مؤمنین و متقین کے ساتھ مخصوص ہے یہ ہدایت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلا واسطہ انسان پر فائض ہوتی ہے اس ہدایت کا دوسرا نام توفیق ہے یعنی ایسے اسباب اور حالات پیدا کر دینا کہ قرآنی ہدایات کا قبول کرنا اور ان پر عمل کرنا آسان ہو جائے اور ان کی خلاف ورزی دشوار ہو جائے اس تیسرے درجے کی وسعت غیر محدود اور اس کے درجات غیرمتناہی ہیں یہی درجہ انسان کی ترقی کا میدان ہے اعمال صالحہ کے ساتھ ساتھ اس درجہ ہدایت میں زیادتی ہوتی رہتی ہے، قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس زیادتی کا ذکر ہے، مثلاً
والذین اہتدوا زادہم ہدى (۱۷: ۴۷) ومن یؤ منۢ باللٰہ یہد قلبہٗ
جو شخص اللہ پر ایمان لائے اس کے دل کو ہدایت کر دیتے ہیں۔
والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا (۶۹: ۲۹)
جو لوگ ہمارے راستے میں مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان کو اپنے راستوں کی مزید ہدایت کر دیتے ہیں۔
یہی وہ میدان ہے جہاں ہر بڑے سے بڑا نبی و رسول اور ولی اللہ آخر عمر تک زیادتی ہدایت و توفیق کا طالب نظر آتا ہے اسی مقام ہدایت کے متعلق مولانا رومی نے فرمایا۔
اے برادر بے نہایت در گہے ست
ہرچہ بروے میرسی بروے مأیست
اور سعدی شیرازی نے فرمایا۔
نگویم کہ برآب قادر نیند
کہ برساحل نیل مستسقی اند
درجات ہدایت کی اس تشریح سے آپ نے سمجھ لیا ہو گا کہ ہدایت ایک ایسی چیز ہے جو سب کو حاصل بھی ہے اور اس کے مزید درجات عالیہ حاصل کرنے سے کسی بڑے سے بڑے انسان کو استغناء بھی نہیں اسی لئے سورة فاتحہ کی اہم ترین دعا ہدایت کو قرار دیا گیا جو ایک ادنیٰ مومن کے لئے بھی مناسب حال ہے اور بڑے سے بڑے رسول اور ولی کے لئے بھی اتنی ہی اہم ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی آخر عمر میں سورة فتح کے اندر فتح مکہ کے فوائد و ثمرات بتلاتے ہوئے یہ بھی ارشاد ہوا کہ ویہدیک صراطا مستقیما یعنی مکہ مکرمہ اس لئے آپ کے ہاتھوں فتح کرایا گیا تاکہ آپ کو صراط مستقیم کی ہدایت ہو، ظاہر ہے کہ سید الانبیاءﷺ پہلے سے نہ صرف ہدایت یافتہ بلکہ دوسروں کے لئے بھی ہدایت مجسم تھے پھر اس موقع پر آپ کو ہدایت ہونے کے اس کے سوا کوئی معنی نہیں ہو سکتے کہ ہدایت کا کوئی بہت اعلیٰ مقام آپ کو اس وقت حاصل ہوا۔
ہدایت کی اس تشریح سے آپ کے لئے فہم قرآن میں بہت سے فوائد حاصل ہو گئے۔
اول یہ کہ قرآن میں کہیں تو ہدایت کو ہر مومن و کافر کے لئے بلکہ کل مخلوقات کے لئے عام فرمایا گیا ہے اور کہیں اس کو محض متقین کے ساتھ مخصوص لکھا گیا جس میں ناواقف کو تعارض کا شبہ ہو سکتا ہے ہدایت کے عام و خاص درجات معلوم ہونے کے بعد یہ شبہ خود بخود رفع ہو جاتا ہے کہ ایک درجہ سب کو عام اور شامل ہے اور دوسرا درجہ مخصوص ہے۔
دوسرا فائدہ: یہ ہے کہ قرآن میں ایک طرف تو جگہ جگہ یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالمین یا فاسقین کو ہدایت نہیں فرماتے اور دوسری طرف مکرر سکرر یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت فرماتے ہیں اس کا جواب بھی درجات کی تفصیل سے واضح ہو گیا کہ ہدایت عامہ سب کو کی جاتی ہے اور ہدایت کا تیسرا مخصوص درجہ ظالمین و فاسقین کو نصیب نہیں ہوتا۔
تیسرا فائدہ: یہ ہے کہ ہدایت کے تین درجات میں سے پہلا اور تیسرا درجہ بلا واسطہ حق تعالیٰ کا فعل ہے، اس میں کسی نبی یا رسول کا دخل نہیں انبیاء (علیہم السلام) اور رسولوں کا کام صرف دوسری درجہ ہدایت سے متعلق ہے۔
قرآن کریم میں جہاں کہیں انبیاء (علیہم السلام) کو ہادی قرار دیا ہے وہ اسی دوسرے درجے کے اعتبار سے ہے اور جہاں یہ ارشاد ہے انک لا تہدی من احببت (۵۶: ۲۸) یعنی آپ ہدایت نہیں کر سکتے جس کو چاہیں تو اس میں ہدایت کا تیسرا درجہ مراد ہے یعنی توفیق دینا آپ کا کام نہیں۔
الغرض اھدنا الصراط المستقیم ایک جامع اور اہم ترین دعا ہے جو انسان کو سکھلائی گئی ہے، انسان کا کوئی فرد اس سے بے نیاز نہیں، دین اور دینا دونوں میں صراط مستقیم کے بغیر فلاح و کامیابی نہیں دنیا کی الجھنوں میں بھی صراط مستقیم کی دعا نسخہ اکسیر ہے مگر لوگ توجہ نہیں کرتے ترجمہ اس آیت کا یہ ہے کہ بتلا دیجئے ہم کو راستہ سیدھا۔
صراط مستقیم کونسا راستہ ہے؟
سیدھا راستہ وہ ہے جس میں موڑ نہ ہوں، اور مراد اس سے دین کا وہ راستہ ہے جس میں افراط اور تفریط نہ ہو افراط کے معنی حد سے آگے بڑھنا اور تفریط کے معنی کوتاہی کرنا پھر اس کے بعد کی دو آیتوں میں اس صراط مستقیم کا پتہ دیا گیا ہے جس کی دعا اس آیت میں تلقین کی گئی ہے۔
ارشاد ہوتا ہے، صراط الذین انعمت علیہم یعنی ’راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ نے انعام فرمایا‘ اور وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا ان کی تفصیل ایک دوسری آیت میں اس طرح آئی ہے
انعم اللٰہ علیہم من النبیٖن والصدیقین والشہدآء والصٰلحین ۚ وحسن اولٰىٕک رفیقا
یعنی وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا یعنی انبیاء، اور صدیقین اور شہداء اور صالحین، مقبولان بارگاہ الٰہی کے یہ چار درجات ہیں جن میں سب سے اعلیٰ انبیاء (علیہم السلام) ہیں اور صدیقین وہ لوگ ہیں جو انبیاء کی امت میں سب سے زیادہ رتبے کے ہوتے ہیں جن میں کمالات باطنی بھی ہوتے ہیں عرف میں ان کو اولیاء کہا جاتا ہے، شہداء وہ ہیں جنہوں نے دین کی محبت میں اپنی جان تک دے دی اور صلحاء وہ ہیں جو شریعت کے پورے متبع ہوتے ہیں واجبات میں بھی مستحبات میں بھی جن کو عرف میں نیک دیندار کہا جاتا ہے .
001::: 007
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ۙ۬ۦ
غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠۷
ترجمہ:
راہ ان لوگوں کی جن پر تو نے فضل فرمایا جن پر نہ تیرا غصہ ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے
تفسیر:
اس آیت میں پہلے مثبت اور ایجابی طریق سے صراط مستقیم کو متعین کیا گیا ہے کہ ان چار طبقوں کے حضرات جس راستے پر چلیں وہ صراط مستقیم ہے اس کے بعد آخر کی آیت میں سلبی اور منفی صورت سے اس کی تعیین کی گئی ہے ارشاد ہے:
غیر المغضوب علیہم ولا الضآلین یعنی نہ راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ کا غضب کیا گیا اور نہ ان لوگوں کا جو راستے سے گم ہو گئے المغضوب علیہم سے وہ لوگ مراد ہیں جو دین کے احکام کو جاننے پہچاننے کے باوجود شرارت یا نفسانی اغراض کی وجہ سے ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں احکام الٰہیہ کی تعمیل میں کوتاہی (یعنی تفریط) کرتے ہیں جیسے عام طور پر یہود کا حال تھا کہ دنیا کے ذلیل مفاد کی خاطر دین کو قربان کرتے اور انبیاء کی توہین کرتے تھے اور ضآلین سے مراد وہ لوگ ہیں جو ناواقفیت اور جہالت کے سبب دین کے معاملے میں غلط راستے پر پڑ گئے اور دین کی مقررہ حدود سے نکل کر افراط اور غلو میں مبتلا ہو گئے جیسے عام طور پر نصاریٰ تھے کہ نبی کی تعظیم میں اتنے بڑھے کہ انھیں کو خدا بنا لیا ایک طرف یہ ظلم کہ اللہ کے انبیاء کی بات نہ مانیں انھیں قتل تک کرنے سے گریز نہ کریں اور دوسری طرف یہ زیادتی کہ ان کو خدا بنا لیں۔
آیت کا حاصل مطلب یہ ہوا کہ ہم وہ راستہ نہیں چاہتے جو اغراض نفسانی کے تابع بد عمل اور دین میں تفریط کرنے والوں کا ہے اور نہ وہ راستہ چاہتے ہیں جو جاہل گمراہ اور دین میں غلو (افراط) کرنے والوں کا ہے بلکہ ان کے درمیان کا سیدھا راستہ چاہتے ہیں جس میں نہ افراط ہے نہ تفریط، اور جو شہوات اور اغراض نفسانی کے اتباع سے نیز شبہات اور عقائد فاسدہ سے پاک ہے۔
سورة فاتحہ کی ساتوں آیات کی تفسیر ختم ہو گئی اس پوری سورت کا خلاصہ اور حاصل مطلب یہ دعا ہے کہ یا اللہ ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرما اور چونکہ دنیا میں صراط مستقیم کا پہچاننا ہی سب سے بڑا علم اور بڑی کامیابی ہے اور اسی کی پہچان میں غلطی ہونے سے اقوام عالم تباہ ہوتی ہیں ورنہ خدا طلبی اور اس کے لئے مجاہدات کی تو بہت سے کفار میں بھی کوئی کمی نہیں اسی لئے قرآن نے صراط مستقیم کو پوری وضاحت کے ساتھ ایجابی اور سلبی دونوں پہلوؤں سے واضح فرمایا ہے۔
صراط مستقیم کتاب اللہ اور رجال اللہ دونوں کے مجموعہ سے ملتا ہے:
یہاں ایک بات قابل غور ہے اور اس میں غور کرنے سے ایک بڑے علم کا دروازہ کھلتا ہے وہ یہ کہ صراط مستقیم کی تعیین کے لئے بظاہر صاف بات یہ تھی کہ صراط الرسول یا صراط القرآن فرما دیا جاتا جو مختصر بھی تھا اور واضح بھی کیونکہ پورا قرآن در حقیقت صراط مستقیم کی تشریح ہے اور پوری تعلیمات رسول اسی کی تفصیل لیکن قرآن کی اس مختصر سورت میں اختصار اور وضاحت کے اس پہلو کو چھوڑ کر صراط مستقیم کی تعیین کے لئے اللہ تعالیٰ نے مستقل دو آیتوں میں ایجابی اور سلبی پہلوؤں سے صراط مستقیم اس طرح متعین فرمایا کہ اگر سیدھا راستہ چاہتے ہو تو ان لوگوں کو تلاش کرو اور ان کے طریق کو اختیار کرو، قرآن کریم نے اس جگہ نہ یہ فرمایا کہ قرآن کا راستہ اختیار کرو کیونکہ محض کتاب انسانی تربیت کے لئے کافی نہیں اور نہ یہ فرمایا کہ رسول کا راستہ اختیار کرو کیونکہ رسول کریمﷺ کی بقاء اس دنیا میں دائمی نہیں اور آپ کے بعد کوئی دوسرا رسول اور نبی نہیں اس لئے صراط مستقیم جن لوگوں کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے ان میں نبین کے علاوہ ایسے حضرات بھی شامل کر دئیے گئے جو تا قیامت ہمیشہ موجود رہیں گے مثلاً صدیقین، شہداء، اور صالحین۔
خلاصہ یہ ہے کہ سیدھا راستہ معلوم کرنے کے لئے حق تعالیٰ نے کچھ رجال اور انسانوں کا پتہ دیا، کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا، ایک حدیث میں ہے کہ جب رسول کریمﷺ نے صحابہ کرام کو خبر دی کہ پچھلی امتوں کی طرح میری امت بھی ستر فرقوں میں بٹ جائے گی اور صرف ایک جماعت ان میں حق پر ہو گی تو صحابہ کرام نے دریافت کیا کہ وہ کونسی جماعت ہے؟ اس پر آنحضرتﷺ نے جو جواب دیا ہے اس میں بھی کچھ رجال اللہ ہی کا پتہ دیا گیا ہے فرمایا: ما انا علیہ و اصحابی، یعنی حق پر وہ جماعت ہو گی جو میرے اور میرے صحابہ کے طرز پر ہو۔
اس خاص طرز میں شاید اس کی طرف اشارہ ہو انسان کی تعلیم و تربیت محض کتابوں اور روایتوں سے نہیں ہو سکتی بلکہ رجال ماہرین کی صحبت اور ان سے سیکھ کر حاصل ہوتی ہے یعنی در حقیقت انسان کا معلم اور مربی انسان ہی ہو سکتا ہے بقول اکبر مرحوم۔
کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں
آدمی، آدمی بناتے ہیں
اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ دنیا کے تمام کاروبار میں مشاہد ہے کہ محض کتابی تعلیم سے نہ کوئی کپڑا سینا سیکھ سکتا ہے نہ کھانا پکانا، نہ ڈاکٹری کی کتاب پڑھ کر کوئی ڈاکٹر بن سکتا ہے نہ انجینیری کی کتابوں کے محض مطالعے سے کوئی انجینیر بنتا ہے اسی طرح قرآن و حدیث کا محض مطالعہ انسان کی تعلیم اور اخلاقی تربیت کے لئے ہرگز کافی نہیں ہو سکتا، جب تک اس کو کسی محقق ماہر سے باقاعدہ حاصل نہ کیا جائے قرآن و حدیث کے معاملے میں بہت سے لکھے پڑھے آدمی اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ محض ترجمے یا تفسیر دیکھ کر وہ قرآن کے ماہر ہو سکتے ہیں یہ بالکل فطرت کے خلاف تصور ہے اگر محض کتاب کافی ہوتی تو رسولوں کے بھیجنے کی ضرورت نہ تھی کتاب کے ساتھ رسول کو معلم بنا کر بھیجنا اور صراط مستقیم کو متعین کرنے کے لئے اپنے مقبول بندوں کی فہرست دینا اس کی دلیل ہے کہ محض کتاب کا مطالعہ تعلیم و تربیت کے لئے کافی نہیں بلکہ کسی ماہر سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
معلوم ہوا کہ انسان کی صلاح و فلاح کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں ایک کتاب اللہ جس میں انسانی زندگی کے ہر شعبے سے متعلقہ احکام موجود ہیں، دوسرے رجال اللہ یعنی اللہ والے، ان سے استفادے کی صورت یہ ہے کہ کتاب اللہ کے معروف اصول پر رجال اللہ کو پرکھا جائے جو اس معیار پر نہ اتریں ان کو رجال اللہ ہی نہ سمجھا جائے اور جب رجال اللہ صحیح معنی میں حاصل ہو جائیں تو ان سے کتاب اللہ کا مفہوم سیکھنے اور عمل کرنے کا کام لیا جائے۔
فرقہ وارانہ اختلافات کا بڑا سبب:
یہی ہے کہ کچھ لوگوں نے صرف کتاب اللہ کو لے لیا، رجال اللہ سے قطع نظر کر لی، ان کی تفسیر و تعلیم کو کوئی حیثیت نہ دی اور کچھ لوگوں نے صرف رجال اللہ کو معیار حق سمجھ لیا اور کتاب اللہ سے آنکھ بند کر لی، اور ان دونوں طریقوں کا نتیجہ گمراہی ہے۔
سورة فاتحہ کے متعلق احکام و مسائل:
سورة فاتحہ میں پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ہے پھر صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا اقرار اور اس کا اظہار ہے کہ ہم اس کے سوا کسی کو اپنا حاجت روا نہیں سمجھتے یہ گویا حلف وفا داری ہے جو انسان اپنے رب کے ساتھ کرتا ہے اس کے بعد پھر ایک اہم دعا ہے جو تمام انسانی مقاصد و ضروریات پر حاوی ہے اور اس میں بہت سے فوائد اور مسائل ضمنی آئے ہیں ان میں سے چند اہم مسائل کو لکھا جاتا ہے:
دعا کرنے کا طریقہ
(۱) اس خاص اسلوب کلام کے ذریعہ انسان کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب اللہ جل شانہ سے کوئی دعا و درخواست کرنا ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس کی حمد و ثنا کا فرض بجا لا کر پھر حلف وفا داری اس بات کا کرو کہ ہم اس کے سوا نہ کسی کو لائق عبادت سمجھتے ہیں اور نہ کسی کو حقیقی معنی میں مشکل کشا اور حاجت روا مانتے ہیں اس کے بعد اپنے مطلب کی دعا کرو اس طریقہ سے جو دعا کی جائے گی اس کے قبول ہونے کی قوی امید ہے (احکام جصاص)
اور دعا میں بھی ایسی جامع دعا اختیار کرو جس میں اختصار کے ساتھ انسان کے تمام مقاصد داخل ہو جائیں جیسے ہدایت صراط مستقیم کہ دنیا و دین کے ہر کام میں اگر انسان کا راستہ سیدھا ہو جائے تو کہیں ٹھوکر لگنے اور نقصان پہنچنے کا خطرہ رہتا ہے غرض اس جگہ خود حق تعالیٰ کی طرف سے اپنی حمد و ثناء بیان کرنے کا اصل مقصد انسان کو تعلیم دینا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء انسان کا فطری فرض ہے۔
(۲) اس سورت کے پہلے جملے میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنے کی تعلیم و ترغیب ہے مگر حمد کسی نعمت یا صفت کی بناء پر ہوا کرتی ہے یہاں کسی نعمت یا صفت کا ذکر نہیں اس میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بیشمار ہیں ان کا کوئی انسان احاطہ نہیں کر سکتا، جیسا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے وان تعدوا نعمت اللٰہ لا تحصوہا (۱۴: ۳۴) یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے، انسان اگر سارے عالم کو چھوڑ کر اپنے ہی وجود پر نظر ڈال لے تو معلوم ہو گا کہ اس کا وجود خود ایک عالم اصغر ہے جس میں عالم اکبر کے سارے نمونے موجود ہیں اس کا بدن زمین کی مثال ہے اس پر اگنے والے بال نباتات کی مثال ہیں، اس کی ہڈیاں پہاڑوں کی شبیہ ہیں اس کے بدن کی رگیں جس میں رواں ہے زمین کے نیچے بہنے والے چشموں اور نہروں کی مثال ہیں۔
انسان دو جز سے مرکب ہے، ایک بدن دوسرے روح اور یہ بھی ظاہر ہے کہ قدر و قیمت کے اعتبار سے روح اصل، اعلیٰ اور افضل ہے، بدن محض اس کے تابع اور ادنی درجہ رکھتا ہے اس ادنی جز کے متعلق بدن انسان کی تحقیق کرنے والے اطباء اور اہل تشریح نے بتلایا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے تقریباً پانچ ہزار مصالح اور منافع رکھے ہیں اس کے بدن میں تین سو سے زیادہ جوڑ ہیں ہر ایک جوڑ کو اللہ تعالیٰ ہی قدرت کاملہ نے ایسا مستحکم بنایا ہے کہ ہر وقت کی حرکت کے باوجود نہ وہ گھستا ہے نہ اس کی مرمت کی ضرورت ہوتی ہے عادۃً انسان کی عمر ساٹھ ستر سال ہوتی ہے پوری عمر اس کے یہ نرم و نازک اعضاء اور ان کے سب جوڑ اکثر اوقات اس طرح حرکت میں رہتے ہیں کہ فولاد بھی ہوتا تو گھس جاتا مگر حق تعالیٰ نے فرمایا، نحن خلقنٰہم وشددنآ اسرہ (۲۸: ۷۶) یعنی اگر ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا اور ہم نے ہی اس کے جوڑ بند مضبوط کئے اسی قدرتی مضبوطی کا نتیجہ ہے کہ عام عادت کے مطابق یہ نرم و نازک جوڑ ستر برس اور اس سے بھی زیادہ عرصہ تک کام دیتے ہیں انسانی اعضاء میں سے صرف آنکھ ہی کو لے لیجئے اس میں جو اللہ تعالیٰ شانہ کی حکمت بالغہ کے مظاہر موجود ہیں انسان کو عمر بھر خرچ کر کے بھی ان کا پورا ادراک آسان نہیں۔
پھر اس آنکھ کے ایک مرتبہ کے عمل کو دیکھ کر یہ حساب لگائیے کہ اس ایک منٹ کے عمل میں حق تعالیٰ کی کتنی نعمتیں کام کر رہی ہیں تو حیرت ہوتی ہے کیونکہ آنکھ اٹھی اور اس نے کسی چیز کو دیکھا اس میں جس طرح آنکھ کی اندرونی طاقتوں نے عمل کیا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی بیرونی مخلوقات کا اس میں بڑا حصہ ہے اگر آفتاب کی روشنی نہ ہو تو آنکھ کے اندر کی روشنی کام نہیں دے سکتی پھر آفتاب کے لئے بھی ایک فضاء کی ضرورت ہوتی ہے انسان کے دیکھنے اور آنکھ کو کام میں لانے کے لئے غذا ہوا وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے جس سے معلوم ہوا کہ ایک مرتبہ نظر اٹھ کر جو کچھ دیکھتی ہے اس میں پورے عالم کی طاقتیں کام کرتی ہیں یہ ایک مرتبہ کا عمل ہوا پھر آنکھ دن میں کتنی مرتبہ دیکھتی اور سال میں کتنی مرتبہ عمر میں کتنی مرتبہ، یہ ایسا سلسلہ ہے جس کے اعداد و شمار انسانی طاقت سے خارج ہیں۔
اسی طرح کان، زبان، ہاتھ، پاؤں کے جتنے کام ہیں ان سب میں پورے عالم کی قوتیں شامل ہو کر کام پورا ہوتا ہے، یہ تو وہ نعمت ہے جو ہر زندہ انسان کو میسر ہے اس میں شاہ و گدا، امیر و غریب کا کوئی امتیاز نہیں اور اللہ شانہ کی بڑی بڑی نعمتیں سب ایسی ہی وقف عام ہیں کہ ہر فرد انسانی ان سے نفع اٹھاتا ہے، آسمان، زمین ان دونوں میں اور ان کے درمیان پیدا ہونے والی تمام کائنات چاند، سورج، ثوابت اور سیارے ہوا، فضا کا نفع ہر جاندار کو پہنچ رہا ہے۔
اس کے بعد اللہ جل شانہ کی نعمائے خاصہ جو انسان کے افراد میں بتقاضائے حکمت کم و بیش کر کے عطاء ہوتی ہیں، مال اور دولت، عزت اور جاہ، راحت اور آرام سب اسی قسم میں داخل ہیں اور اگرچہ بات بالکل بدیہی ہے کہ نعمائے عامہ مال دولت وغیرہ کے زیادہ اہم اور اشرف ہیں مگر بھولا بھالا انسان تمام افراد انسان میں عام ہونے کی بناء پر کبھی ان عظیم الشان نعمتوں کی طرف التفات بھی نہیں کرتا ہے کہ یہ کوئی نعمت ہے صرف گرد و پیش کی معمولی چیزیں کھانے، پینے، رہنے سہنے کی خصوصی چیزوں ہی پر اس کی نظر رک جاتی ہے، بہرحال یہ ایک سرسری نمونہ ہے ان کا جو ہر انسان پر ہر وقت مبذول ہیں اس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا ہی چاہئے کہ انسان اپنی مقدور بھر ان احسانات و انعامات کرنے والے کی حمد و ثناء کرے اور کرتا رہے اسی کے تقاضائے فطرت کی تلقین کے لئے قرآن کی سب سے پہلی سورت کا سب سے پہلا کلمہ الحمد لایا گیا ہے، اور اللہ کی حمد و ثناء کو عبادت میں بڑا درجہ دیا گیا ہے رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو کوئی نعمت عطا فرمائیں اور وہ اس پر الحمد للہ کہے تو ایسا ہو گیا کہ گویا جو کچھ اس نے لیا ہے اس سے افضل چیز دے دی (قرطبی از ابن ماجہ بروایت انس)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اگر ساری دنیا کی نعمتیں کسی ایک شخص کو حاصل ہو جائیں اور وہ اس پر الحمد للہ کہہ لے تو یہ الحمد للہ ان ساری دنیا کی نعمتوں سے افضل ہے، قرطبی نے بعض علماء سے نقل کیا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ الحمد للہ زبان سے کہنا بھی اللہ کی ایک نعمت ہے اور یہ نعمت ساری دنیا کی نعمتوں سے افضل ہے اور حدیث صحیح میں ہے کہ الحمد للہ سے میزان عمل کا آدھا پلہ بھر جاتا ہے اور حمد کی حقیقت حضرت شقیق بن ابراہیم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں کوئی چیز عطا فرمائے تو اول اس کے دینے والے کو پہچانو پھر جو کچھ اس نے دیا ہے اس پر راضی ہو جاؤ پھر جب تک تمہارے جسم میں اس کی عطاء کی ہوئی قوت و طاقت موجود ہے اس کی نافرمانی کے قریب نہ جاؤ (قرطبی)
دوسرا کلمہ للہ ہے، اس میں لفظ اللہ کے ساتھ شروع میں حرف لام لگا ہوا ہے جس کو عربی کے قاعدے سے لام اختصاص کہا جاتا ہے جو کسی حکم یا وصف کی خصوصیت پر دلالت کرتا ہے اس جگہ معنی یہ ہیں کہ صرف یہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء انسان کا فرض ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حمد و ثناء صرف اسی کی ذات قدوس کے ساتھ مخصوص ہے حقیقی طور پر اس کے سوا عالم میں کوئی مستحق حمد و ثناء کا نہیں ہو سکتا جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے، ہاں اس کے ساتھ یہ بھی اس کا انعام ہے کہ انسان کو تہذیب اخلاق سکھانے کے لئے اس کو یہ بھی حکم دے دیا کہ میری نعمت و احسان جن واسطوں سے تمہارے ہاتھ آئے ان کا بھی شکر ادا کرو کیونکہ جو شخص اپنے محسن انسان کا شکر ادا کرنے کا خوگر نہ ہو وہ خدا کا بھی شکر ادا نہیں کرے گا۔
خود اپنی مدح و ثناء کسی انسان کے لئے جائز نہیں:
(۳) خود اپنی حمد و ثناء کا بیان کرنا کسی مخلوق کے لئے جائز نہیں قرآن کریم میں ارشاد ہے۔
فلا تزکوٓا انفسکم ۭ ہو اعلم بمن اتقٰى (۵۳: ۳۲)
یعنی تم میں اپنی پاکی اور صفائی کا دعویٰ نہ کرو اللہ ہی جانتا ہے کہ کون تقویٰ شعار ہے۔
مطلب یہ ہے کہ انسان کی تعریف اور مدح کا مدار تقویٰ پر ہے، اور اس کا حال اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ کس کا تقویٰ کس درجے کا ہے اور حق تعالیٰ نے جو اپنی حمد و ثناء خود بیان فرمائی اس کی وجہ یہ ہے کہ بیچارہ انسان اس کی استعداد نہیں رکھتا کہ بارگاہ عزت و جلال کی حمد و ثناء کیسے بیان کرے اور کسی کی تو کیا مجال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے شایان شان حمد و ثناء کر سکے رسول کریمﷺ نے فرمایا لا احصی ثناء علیک یعنی میں آپ کی ثناء کماحقہ نہیں کر سکتا اس لئے اللہ جل شانہ نے خود ہی حمد و ثناء کا طریقہ انسان کو تعلیم فرما دیا۔
لفظ رب اللہ تعالیٰ کا خاص نام ہے غیر اللہ کو رب کہنا جائز نہیں:
(۴) لفظ رب کو ایسے شخص کے لئے بولا جاتا ہے جو کسی چیز کا مالک ہو اور اس کی تربیت و اصلاح کی تدبیر اور پوری نگرانی بھی کرتا ہو اور یہ ظاہر ہے کہ ساری کائنات و مخلوقات کا ایسا رب سوائے خدا تعالیٰ کے اور کوئی نہیں ہو سکتا اس لئے یہ لفظ اپنے اطلاق کے وقت حق تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے غیر اللہ کو رب کو کہنا جائز نہیں، صحیح مسلم کی حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے کہ کوئی غلام یا نوکر اپنے آقا کو رب کہے البتہ کسی خاص چیز کی طرف اضافت کر کے انسان وغیرہ کے لئے بھی یہ لفظ بولا جا سکتا ہے مثلاً رب المال رب الدار وغیرہ (قرطبی)
استعانت کے معنی کی تشریح اور مسئلہ توسل کی تحقیق:
(۵) ایاک نعبد وایاک نستعین کے معنی مفسر القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس نے یہ بیان فرمائی ہیں کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں تیرے سوا کسی سے نہیں مانگتے (ابن جریر ابن ابی حاتم)
بعض سلف صالحین نے فرمایا کہ سورة فاتحہ پورے قرآن کا راز (خلاصہ) ہے اور آیت ایاک نعبد وایاک نستعین پوری سورة فاتحہ کا راز (خلاصہ) ہے کیونکہ اس کے پہلے جملے میں شرک سے بری ہونے کا اعلان ہے، اور دوسرے جملے میں اپنی قوت و قدرت سے بری ہونے کا اظہار ہے کہ بندہ عاجز بغیر اللہ تعالیٰ کی مدد کے کچھ نہیں کر سکتا جس کا نتیجہ اپنے سب کاموں کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا ہے جس کی ہدایت قرآن کریم میں جا بجا آئی ہے۔
فاعبدہ وتوکل علیہ (ھود: ۱۲۳) قل ہو الرحمٰن اٰمنا بہٖ وعلیہ توکلنا (سورة ملک: ۲۹) رب المشرق و المغرب لآ الٰہ الا ہو فاتخذہ وکیلا (مزمل: ۹)
ان تمام آیات کا حاصل یہی ہے کہ مومن اپنے ہر عمل میں اعتماد اور بھروسہ نہ اپنی قابلیت پر کرے نہ کسی دوسرے کی مدد پر بلکہ کلی اعتماد صرف اللہ تعالیٰ ہی پر ہونا چاہئے، وہی کارساز مطلق ہے۔
اس سے دو مسئلے اصول عقائد کے ثابت ہوئے اول یہ کہ:
اللہ کے سوا کسی کی عبادت روا نہیں اس کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا حرام اور ناقابل معافی جرم ہے:
عبادت کے معنی اوپر معلوم ہو چکے ہیں کہ کسی ذات کی انتہائی عظمت و محبت کی بناء پر اس کے سامنے اپنی انتہائی عاجزی اور تذلل کا اظہار ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی مخلوق کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جائے تو یہ شرک کہلاتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ شرک صرف اسی کو نہیں کہتے کہ بت پرستوں کی طرح کسی پتھر کی مورتی وغیرہ کو خدائی اختیارات کا مالک سمجھے بلکہ کسی کی عظمت، محبت، اطاعت کو وہ درجہ دینا جو اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے یہ بھی شرک جلی میں داخل ہے قرآن مجید میں یہود و نصاریٰ کے شرک کا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
اتخذوٓا احبارہم ورہبانہم اربابا من دون اللہ (۳۱: ۹)
یعنی ان لوگوں نے اپنے دینی عالموں کو اپنا رب بنا لیا ہے۔
حضرت عدی بن حاتم جو مسلمان ہونے سے پہلے نصرانی تھے انہوں نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ ہم نے فرمایا کیا ایسا نہیں ہے کہ تمہارے علماء بہت سی ایسی چیزوں کو حرام قرار دے دیتے ہیں جن کو اللہ نے حلال کیا ہے، اور تم اپنے علماء کے کہنے پر ان کو حرام ہے سمجھتے ہو، اور بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے تمہارے علماء ان کو حلال کر دیتے ہیں تو تم ان کے کہنے کا اتباع کر کے حلال کر لیتے ہو عدی بن حاتم نے عرض کیا کہ بیشک ایسا تو ہے اس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ یہی تو ان کی عبادت ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کے حلال یا حرام قرار دینے کا حق صرف حق تعالیٰ کا ہے جو شخص اس میں کسی دوسرے کو شریک قرار دے اور اللہ تعالیٰ کے احکام حرام و حلال معلوم ہونے کے باوجود ان کے خلاف کسی دوسرے کے قول کو واجب الاتباع سمجھے وہ گویا اس کی عبادت کرتا ہے اور شرک میں مبتلا ہے۔
عام مسلمان جو قرآن و سنت کو براہ راست سمجھنے کی اور ان سے احکام شرعیہ نکالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اس لئے کسی امام مجتہد، یا عالم و مفتی کے قول پر اعتماد کر کے عمل کرتے ہیں اس کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ در حقیقت قرآن و سنت ہی پر عمل ہے اور احکام خداوندی ہی کی اطاعت ہے اور خود قرآن کریم نے اس کی ہدایت فرمائی ہے ،۔
فسٔلوٓا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون (۳۴: ۱۶)
یعنی اگر تم خود احکام الہیہ کو نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھ لو۔
اور جس طرح احکام حلال و حرام میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو شریک کرنا شرک ہے اسی طرح کسی کے نام کی نذر (منت) ماننا بھی شرک میں داخل ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کو حاجت روا مشکل کشا سمجھ کر اس سے دعاء مانگنا بھی شرک ہے کیونکہ حدیث میں دعاء کو عبادت فرمایا گیا ہے، اسی طرح ایسے اعمال و افعال جو علامات شرک سمجھے جاتے ہیں ان کا ارتکاب بھی بحکم شرک ہے جیسے حضرت عدی بن حاتم نے فرمایا کہ (مسلمان ہونے کے بعد) میں آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے گلے میں صلیب پڑی ہوئی تھی آپ نے مجھ سے فرمایا کہ اس بت کو اپنے گلے سے نکال دو۔
اگرچہ اس وقت عدی بن حاتم کا عقیدہ صلیب کے متعلق وہ نہ تھا جو نصرانیوں کا ہوتا ہے مگر ظاہری طور پر بھی علامت شرک سے اجتناب کو ضروری سمجھ کر یہ ہدایت کی گئی، افسوس کے آجکل ہزاروں مسلمان ریڈ کر اس کا صلیبی نشان لگائے ہوئے پھرتے ہیں اور کوئی پروا نہیں کرتے کہ بلا وجہ ایک مشرکانہ جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں اسی طرح کسی کو رکوع، سجدہ کرنا، یا بیت اللہ کے سوا کسی دوسری چیز کے گرد طواف کرنا یہ سب علامات شرک ہیں جن سے اجتناب ایاک نعبد کے اقرار یا حلف وفا داری کا جز ہے دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ استعانت اور استغاثہ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے کرنا ہے کسی دوسرے سے جائز نہیں۔
مسئلہ استعانت و توسل کی تحقیق اور احکام کی تفصیل:
یہ دوسرا مسئلہ کسی سے مدد مانگنے کا ذرا تشریح طلب ہے کیونکہ ایک مدد تو مادی اسباب کے ماتحت ہر انسان دوسرے انسان سے لیتا ہے اس کے بغیر اس دنیا کا نظام چل ہی نہیں سکتا صنعت کار اپنی صنعت کے ذریعہ ساری مخلوق کی خدمت کرتا ہے، مزدور، معمار، بڑھئی، لوہار سب مخلوق کی مدد میں لگے ہوئے ہیں اور ہر شخص ان سے مدد مانگنے پر مجبور ہے ظاہر ہے کہ یہ کسی دین اور شریعت میں ممنوع نہیں وہ اس استعانت میں داخل نہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اسی طرح غیر مادی اسباب کے ذریعہ کسی نبی یا ولی سے دعاء کرنے کی مدد مانگنا یا ان کا وسیلہ دے کر براہ راست اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا روایات حدیث اور اشارات قرآن سے اس کا بھی جواز ثابت ہے وہ بھی اس استعانت میں داخل نہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص اور غیر اللہ کے لئے حرام و شرک ہے۔
اب وہ مخصوص استعانت و امداد جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور غیر اللہ کے لئے شرک ہے کونسی ہے اس کی دو قسمیں ہیں ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی فرشتے یا پیغمبر یا ولی یا کسی اور انسان کو خدا تعالیٰ کی طرح قادر مطلق اور مختار مطلق سمجھ کر اس سے اپنی حاجت مانگے یہ تو ایسا کھلا ہوا کفر ہے کہ عام مشرکین بت پرست بھی اس کو کفر سمجھتے ہیں اپنے بتوں، دیوتاؤں کو بالکل خدا تعالیٰ کی مثل قادر مطلق اور مختار مطلق یہ کفار بھی نہیں مانتے۔
دوسری قسم وہ ہے جس کو کفار اختیار کرتے ہیں اور قرآن کریم اور اسلام اس کو باطل و شرک قرار دیتا ہے، وایاک نستعین میں یہی مراد ہے کہ ایسی استعانت و امداد ہم اللہ کے سوا کسی سے نہیں چاہتے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کسی مخلوق فرشتے یا پیغمبر یا ولی یا کسی دیوتا کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ اگرچہ قادر مطلق اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کامل اختیارات اسی کے ہیں لیکن اس نے اپنی قدرت و اختیار کا کچھ حصہ فلاں شخص کو سونپ دیا ہے اور اس دائرے میں وہ خود مختار ہے یہی وہ استعانت واستمداد ہے جو مومن و کافر میں فرق اور اسلام و کفر میں امتیاز کرتی ہے قرآن اس کو شرک و حرام قرار دیتا ہے، بت پرست مشرکین اس کے قائل اور اس پر عامل ہیں۔
اس معاملے میں دھوکہ یہاں سے لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بہت سے فرشتوں کے ہاتھوں دنیوی نظام کے بہت سے کام جاری کرتے ہیں دیکھنے والا اس مغالطے میں پڑ سکتا ہے کہ اس فرشتے کو اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار سپرد کر دیا ہے یا انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعے بہت سے ایسے کام وجود میں آتے ہیں جو عام انسانوں کی قدرت سے خارج ہیں جن کو معجزات کہا جاتا ہے اسی طرح اولیاء اللہ کے ذریعے بھی ایسے ہی بہت سے کام وجود میں آتے ہیں جن کو کرامات کہا جاتا ہے یہاں سرسری نظر والوں کو یہ مغالطہ لگ جاتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کاموں کی قدرت و اختیار ان کو سپرد نہ کرتا تو ان کے ہاتھ سے یہ کیسے وجود میں آتے؟ اس سے وہ ان انبیاء و اولیاء کے ایک درجے میں مختار کار ہونے کا عقیدہ بنا لیتے ہیں حالانکہ حقیقت یوں نہیں بلکہ معجزات اور کرامات براہ راست حق تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے صرف اس کا ظہور پیغمبر یا ولی کے ہاتھوں پر ان کی عظمت ثابت کرنے کے لئے کیا جاتا ہے، پیغمبر اور ولی کو اس کے وجود میں لانے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا قرآن مجید کی بیشمار آیات اس پر شاہد ہیں مثلاً آیت
وما رمیت اذ رمیت ولٰکن اللٰہ رمٰى (۱۷: ۸)
میں رسول اللہﷺ کے اس معجزے کا ذکر ہے جس میں آپ نے دشمن کی طرف ایک مٹھی کنکریوں کی پھینکی اور اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ سارے لشکر کی آنکھوں میں جا لگیں، اس کے متعلق ارشاد ہے کہ یہ آپ نے نہیں پھینکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی تھی جس سے معلوم ہوا کہ معجزہ جو نبی کریمﷺ کے واسطہ سے صادر ہوتا ہے وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے۔
اسی طرح حضرت نوحؑ کو جب ان کی قوم نے کہا کہ اگر آپ سچے ہیں تو جس عذاب سے ڈرا رہے ہیں وہ بلا لیجئے تو انہوں نے فرمایا:
انما یاتیکم بہ اللٰہ ان شآء (ہود: ۳۳)
یعنی معجزہ کے طور پر آسمانی عذاب نازل کرنا میرے قبضے میں نہیں اللہ تعالیٰ اگر چاہے گا تو یہ عذاب آ جائے گا پھر تم اس سے بھاگ نہ سکو گے۔
سورة ابراہیم میں انبیاء و رسل کی ایک جماعت کا یہ قول ذکر فرمایا ہے
وما کان لنآ ان ناتیکم بسلطٰن الا باذن اللٰھ (۱۴: ۱۱)
یعنی کسی معجزہ کا صادر کرنا ہمارے ہاتھ میں نہیں اللہ تعالیٰ کے اذن و مشیت کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا، اسی وجہ سے کوئی پیغمبر یا کوئی ولی جب چاہے جو چاہے معجزہ یا کرامت دکھا دے یہ قطعاً کسی کے بس میں نہیں، رسول اللہﷺ اور دوسرے انبیاء سے بہت سے معین معجزات کا مطالبہ مشرکین نے کیا مگر جس کو اللہ تعالیٰ نے چاہا ظاہر کر دیا جس کو نہ چاہا نہیں ہوا پورا قرآن اس کی شہادتوں سے بھرا ہوا ہے۔
ایک محسوس مثال سے اس کو یوں سمجھ لیجئے کہ آپ جس کمرے میں بیٹھے ہیں اس میں بجلی کی روشنی بلب سے اور ہوا برقی پنکھے سے آپ پہنچ رہی ہے، مگر یہ بلب اور پنکھا اس روشنی اور ہوا پہچانے میں قطعاً خود مختار نہیں بلکہ ہر آن اس جوڑ (کنکشن) کے محتاج ہیں جو تار کے ذریعے پاور ہاؤس کے ساتھ ان کو حاصل ہے ایک سیکنڈ کے لئے یہ جوڑ ٹوٹ جائے تو نہ بلب آپ کو روشنی دے سکتا ہے نہ پنکھا ہوا دے سکتا ہے کیونکہ در حقیقت وہ عمل بلب اور پنکھے کا ہے ہی نہیں بلکہ بجلی کی رو کا ہے جو پاور ہاوس سے یہاں پہنچ رہی ہے انبیاء و اولیاء اور سب فرشتے ہر عمل میں ہر کام میں ہر آن حق تعالیٰ کے محتاج ہیں اسی کی قدرت و مشیت سے سب کام وجود میں آتے ہیں اگرچہ ظہور اس کا بلب اور پنکھے کی طرح انبیاء و اولیاء کے ہاتھوں پر ہوتا ہے۔
اس مثال سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ ان چیزوں کے صدور اور وجود میں اگرچہ اختیار انبیاء و اولیاء کا نہیں مگر ان کا وجود باجود ان سے بالکل بے دخل بھی نہیں جیسے بلب اور پنکھے کے بغیر آپ کو روشنی اور ہوا نہیں پہنچ سکتی یہ معجزات و کرامات بھی انبیاء و اولیاء کے بغیر نہیں ملتے اگرچہ یہ فرق ضرور ہے کہ پوری فٹنگ اور کنکشن درست ہونے کے باوجود آپ کو بغیر بلب کے روشنی اور بغیر واسطہ کسی پیغمبر و ولی کے بھی اس کا ظہور فرما دیں مگر عادۃً اللہ یہی ہے کہ ان کا صدور بغیر واسطہ اولیاء و انبیاء کے نہیں ہوتا کیونکہ ایسے خوارق عادات کے اظہار سے جو مقصد ہے وہ اس کے بغیر پورا نہیں ہوتا۔
اس لئے معلوم ہوا کہ عقیدہ تو یہ رکھنا ہے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے ہو رہا ہے اس کے ساتھ انبیاء و اولیاء کی عظمت و ضرورت کا بھی اعتراف ضروری ہے اس کے بغیر رضائے الٰہی اور طاعت احکام خداوندی سے محروم رہے گا، جس طرح کوئی شخص بلب اور پنکھے کی قدر نہ پہچانے اور ان کو ضائع کر دے تو روشنی اور ہوا سے محروم رہتا ہے۔
وسیلہ استعانت اور استمداد کے مسئلے میں بکثرت لوگوں کو اشکال رہتا ہے امید ہے کہ اس تشریح سے اصل حقیقت واضح ہو جائے گی اور یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ انبیاء و اولیاء کو وسیلہ بنانا نہ مطلقاً جائز ہے اور نہ مطلقاً ناجائز، بلکہ اس میں وہ تفصیل ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے کہ کسی کو مختار مطلق سمجھ کر وسیلہ بنایا جائے تو شرک و حرام ہے اور محض واسطہ اور ذریعہ سمجھ کر کیا جائے تو جائز ہے اس میں عام طور پر لوگوں میں افراط و تفریط کا عمل نظر آتا ہے۔
واللہ اسأل الصواب والسداد وبیدہ المبدأ ولامعاد
صراط مستقیم کی ہدایت دنیا و دین میں کلید کامیابی ہے:
(۶) اصل تفسیر میں یہ بات وضاحت سے آ گئی ہے کہ قرآن کریم نے جس دعاء کو ہر شخص کے لئے ہر کام کے لئے ہر حال میں انتخاب فرمایا ہے وہ صراط مستقیم کی ہدایت کی دعاء ہے جس طرح آخرت کی کامیابی اس صراط مستقیم پر موقوف ہے جو انسان کو جنت کی طرف لے جائے اسی دنیا کے سارے کاموں میں بھی غور کرو تو کامیابی کا مدار صراط مستقیم ہی ہے جس کام میں وہ آلات و ذرائع اختیار کئے گئے جس کے نتیجے میں مقصد کا حصول عادۃً لازمی ہے جو کامیابی عادۃً لازمی ہوتی ہے جہاں کہیں انسان اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا تو اگر وہ غور کرے تو معلوم ہو جائے گا کہ کام کے کسی مرحلے میں اس میں اس نے یہ غلطی کی ہے صحیح راستہ ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا اس لئے ناکامی ہوئی۔
اس کا حاصل یہ ہے کہ صراط مستقیم کی ہدایت صرف آخرت اور دین کے کاموں کے ساتھ مخصوص نہیں دنیا کے سب کی درستی اور کامیابی بھی اسی پر موقوف ہے اس لئے یہ دعاء ایسی ہے کہ مومن کو ہر وقت حرز جان بنانے کے قابل ہے شرط یہ ہے کہ استحضار اور نیت کے ساتھ کی جائے محض الفاظ کا پڑھ لینا نہ ہو واللہ الموفق و المعین۔
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں
جلد اول
جلد دوم
جلد سوم
جلد چہارم
جلد پنجم
جلد ششم
جلد ہفتم