FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

مظفر حنفی۔ شعر و فن

 

 

 

 

 

                ترتیب: پرویز مظفر، اعجاز عبید

 

 

 

محمد حسن

                صریر خامہ

 

ادھر پے درپے چار چھ اچھے شعری مجموعے چھپے ، اچھے مجموعے تھے اور چھپے بھی اچھے ۔ شاعری کو چند سال سے اتنی مقبولیت اور اہمیت حاصل ہو گئی ہے کہ ہر طرف شعری مجموعوں کا بازار گرم ہے ۔ ان پر اچھی بری رائیں بھی بکثرت سننے اور پڑھنے میں آتی ہیں اور آوازوں کے اس جنگل میں نئی جہتیں بخشنے والے مجموعے بھی کھو جاتے ہیں ۔ ان مجموعوں کے ساتھ بھی زمانہ یہی سلوک نہ کرے اس لیے ان کی بخشی ہوئی نئی جہتوں کی نشاندہی کرنا مفید ہو گا۔

مظفر حنفی کا مجموعہ ’’صریر خامہ‘‘ تیکھی طنز یہ شاعری کا گلدستہ ہے مگر زور طنز پر نہیں شاعری پر ہے ۔ ہماری غزلوں میں جو ایک رونی سی کیفیت طاری رہتی ہے اس کے برعکس مظفر نے اپنے دور پر سخت طنز کے ذریعے شاعری کا مزا بدل دیا ہے ۔ وہ شاد عارفی کے شاگرد اور پیرو ہیں لیکن ان کا رنگ محض تقلیدی نہیں ۔ شاد کو جس سماج سے سابقہ تھا وہ جاگیرداری دور کا تھا۔ مظفر نے شہروں کی بے امان زندگی کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے ۔ وہ ہنسنے اور قہقہے لگانے کے قابل نہیں بلکہ سماجی ناہمواری اور ہپا کریسی کو جوں کا توں پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں :

چند کھیتوں کے مقدر میں نہیں ہے پانی

ورنہ بادل تو بہر حال برستے ہوں گے

 

کیا کریں دھبے انہیں کی آستیں پر مل گئے

جن کی پیشانی پہ لکھا تھا کہ ہم قاتل نہیں

 

میرے پیچھے کیوں آتا ہے بستی پیاسی ہے

میں بنجارا ہوں میرا کیا ، بادل او بادل

 

وفا سا جرم کر بیٹھے ہیں یارو

تبھی تو آگ پر بیٹھے ہیں یارو

 

کہہ رہی ہے مورتی بھگوان کی

کم نہیں ہیں نقش فریادی سے ہم

 

ترچھی را ہوں پر چلتا ہوں رہبر سے کتراتا ہوں

یعنی رہزن کی آنکھوں پر آئینہ چمکاتا ہوں

مظفر حنفی نے اپنی غزل کو کھردری غزل کہا ہے جس کے آئینے میں ہماری صدی کے زخم نظر آنے لگیں ۔ مظفر حنفی کی شاعری تیکھے امکانات کی شاعری ہے ۔ کاش کہ وہ شاد صاحب کی طرح محض زبان کے چٹخارے اور لہجے کے نکیلے پن کے شہید نہ ہو جائیں اور راستے کے اس حسین موڑ  سے بعافیت گزر کے زیادہ پُر معنویت اور حسین تر شاعری کی طرف راغب ہوں ۔

(۱۹۷۴ء عصری ادب۔ دہلی)

 

 

 

 

محمود ہاشمی

 

                صریر خامہ : تلاش و تجزیہ

 

’’صریر خامہ‘‘ کی شاعری، ہئیت کی نسبت مواد کے غلبے اور تسلط کو پیش کرتی ہے یعنی اس مجموعہ کی شاعری جو بظاہر غزل کی صنف پر مشتمل ہے ، معنوی لحاظ سے خالص مواد، جس میں ہئیت کا داخلی کردار یا تو مفقود ہے ، یا مواد کے لیے انتہائی بے ضر ر ہے ہئیت اور مواد کے اتحاد و انتخاب میں ، مظفر حنفی نے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ بڑ  ی حد تک مارکسی نظریہ فن کا حامل ہے ۔

۱۔ مظفر حنفی نے خالص اسلوب اور ہئیت والی ’’چکنی غزل ‘‘ سے انحراف کیا ہے اور نئی ہئیت کی نسبت شعری میں مواد کی بنیاد کو لازمی قرار دیا ہے ۔

۲۔مواد و ہئیت کے ضمن میں اس نظریاتی مارکسیت کے علاوہ شاعر نے اپنے عہد اور اپنی شخصیت کو اجتماعی زندگی اور عوام الناس کے انبوہ سے الگ نہیں کیا ہے ۔ بلکہ اپنی آواز کو غیر انفرادی انداز میں تخاطب کا بلند آہنگ وسیلہ بنایا ہے ، اس تخاطب کا مواد اپنے عہد کی زندگی، مظاہرات اور عوامل سے حاصل کیا گیا ہے ۔ اشیاء اور عوامل کی جانب شاعر کا رویہ ایسے مبصر کا ہے جو پیدل چلنے والے مسافر کی طرح مظاہرات کا قریب سے مطالعہ کرتا ہے اور اس مطالعہ کا رد عمل کو بلند آواز میں بیان کرتا ہے ۔ چوں کہ شاعر کا رد عمل خارج کی سمت اختیار کرتا ہے ، اس لیے لب و لہجہ کھردرا اور بعض اوقات عامیانہ ہے لہجہ کی اس بے ساختگی اور حقیقت آمیز روش کے باعث اشعار میں نثری منطق بہت نمایاں ہے اور وہ پیچیدگی نہیں ہے جس کے لیے جدید شاعری کو معتوب قرار دیا جاتا ہے ۔ علاوہ ازیں ، مظفر حنفی کے مشاہدات کا اظہار، سماجی تنقید اور بورژوا تصورات و عناصر سے ٹکرانے کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے ۔ یہ تمام خصوصیات حقیقی، ترقی پسندی کو واضح کرتی ہیں ۔ لیکن حیرت اور تعجب ہے کہ محمد حسن، جو سچی جدیدیت کو نئی ترقی پسندی کا مترادف قرار دیتے ہیں ۔ اور اس اصطلاح کو رواج دینے کے لیے تدریسی نوعیت کی جدوجہد میں مصروف ہیں ، مظفر ر حنفی کی ان خصوصیات کی جانب متوجہ نہیں ہو سکے ، جب کہ مظفر حنفی موجودہ شعرا میں مذکورہ خصوصیات کے لیے منفرد اور ممتاز حیثیت رکھتے ہیں ۔ سماجی کش مکش اور عمرانی اقدار سے نبرد آزمائی میں ، مظفر حنفی نے شعوری طور پر ایسا رویہ اختیار کیا ہے ، جس میں تیکھا پن موجود ہے ۔ مظفر حنفی اس تیکھے پن کو طنز کا مترادف سمجھتے ہیں اور اپنے شعور و آگہی کی بے باکی کو تمام تر مردانگی کے ساتھ واضح کرتے ہیں:۔

تیرا گماں غلط ہے ، شعوری عمل ہے یہ

ابھری نہیں ہے طنز، مرے لاشعور سے

شاعر کی اس توثیق سے نہ صرف یہ کہ جرات مندی کا احساس ہوتا ہے بلکہ شاعر کے ترقی پسندانہ تخلیقی عمل کی تصدیق بھی ہو جاتی ہے ۔

مظفر حنفی کے اشعار کی ایک اور خصوصیت ان کے مقطعے ہیں ، جو ہر انفرادی غزل کے مواد کو، ایک تحکمانہ فیصلہ کے ساتھ تکمیل کی منزل تک پہونچا دیتے ہیں ۔ اس ضمن میں کچھ مقطعوں کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا:

 

مظفر آپ کی ترچھی اڑانیں کام آئیں گی

سنا ہے فن کے دروازے پہ پہرے دار بیٹھے ہیں

 

اپنے اشعار کے لہجے سے مظفر صاحب

بھیڑ  میں دور سے پہچان لیے جاتے ہیں

 

مظفر ہمیں تجربہ ہو چکا ہے

کہ آساں ہے شاعر سے نقاد ہونا

 

مظفر آج کے نقاد بھی جانبدار ہوتے ہیں

ہمارا نام ان کے ذہن میں آئے گا مشکل سے

 

اگر عوام سے نزدیک ہوں مظفر میں

تو اک خفیف سا کج بھی مری کلاہ میں ہے

غزل کا مقطع، صرف شاعر کے تخلص کا اعلان نہیں ، بلکہ شاعر کی شخصیت کا اظہار ہوتا ہے ۔ مظفر حنفی کی غزل کا مقطع ایک ایسے شاعر کی داخلی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے ، جو جبر و اختیار کی کش مکش میں شامل ہے ۔ عوامی اور اجتماعی احساس سے پوری طرح وابستہ رہ کر اپنی انفرادیت اور کج کلاہی کو قائم رکھنا چاہتا ہے ، جو ابتلا سے گزر کر ابتہاج اور ابتسام کی منزل تک پہونچتا ہے ۔

زندگی اور لا زندگی کے درمیان، اظہار کے معرکہ جاری رکھنے والا یہ شاعر اپنی حقیقت پسندانہ شعوری تخلیقی روش سے ، اس امکان کی منزل پر ہے جو نئی ترقی پسندی، یا زندگی آمیز تخلیق کی منزل ہے ۔

(۱۹۷۱ء شاعر بمبئی)

 

 

 

احتشام حسین

 

                نثر و غزلدستہ / ایک تھا شاعر

 

عام انسانی تاریخ کی طرح تاریخ ادب میں بھی کچھ شخصیتیں اپنے حق سے زیادہ بلند جگہ پا جاتی ہیں اور کچھ ایسے اندھیرے میں پڑ  جاتی ہیں جہاں ان کے صحیح خدوخال نظر نہیں آتے ۔ لیکن غور کیا جائے تو اکثر و بیشتر اس کے ڈھکے چھپے اسباب ہوتے ہیں ۔ بعد کے مورخ اور ناقد انہیں نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ یہی صورتحال شاد عارفی کے ساتھ پیش آئی۔ انہوں نے نظمیں اور غزلیں لکھیں ، طنزیہ شاعری کی، مضامین اور خطوط لکھے لیکن انہیں وہ شہرت اور مقبولیت حاصل نہ ہو سکی جو ان سے کم صلاحیت رکھنے والے ہم عصر شاعروں اور ادیبوں کو حاصل ہوئی۔ اس میں کچھ تو رام پور کی فضا کا ہاتھ تھا، کچھ خود ان کے افتاد مزاج کا، کچھ اس رنگ سخن کی کساد بازاری کا جس کے وہ تاجر تھے ۔ خوش قسمتی سے انہیں مظفر حنفی جیسے شاگرد نصیب ہوئے ہیں جو استاد پرستی کی حد تک وہ سارا رطب و یابس جمع کر رہے ہیں جو شاد عارفی سے منسوب کیا جا سکتا ہے ۔ نثر و غزلدستہ میں ان کے ادبی مضامین، تعارف، پیش لفظ، چند مطالعے ، منظومات اور غزلیں یکجا کر دی گئی ہیں اور ایک تھا شاعر میں شاد عارفی کی شخصیت اور شاعری پر مضامین اور کود ان کے خطوط شامل ہیں ۔ ان دونوں کتابوں کو جس سلیقہ اور لگن سے ترتیب دیا گیا ہے اس کے بعد کسی کو یہ کہنے کا حق باقی نہیں رہ جاتا کہ شاد عارفی کی طرف سے بے توجہی برتی گئی ہے ۔ شاد عارفی ایک طنز نگار غزل گو شاعر تھے اور گو ان کی غزلوں میں بھی فلسفیانہ اور تہہ دار اشعار کی کمی نہیں لیکن اصل جوہر طنزیہ کلام میں کھلتا ہے ۔ طنز نگاری کے امکانات کچھ محدود ہوتے ہیں تا ہم ان کے اندرونی سماجی مقصد کی وجہ سے ان کا دائرہ کبھی کبھی پھیل بھی سکتا ہے ۔ شاد عارفی نے اس حیثیت سے اپنی شاعری کا معیار بلند رکھا تا ہم اس کی اپیل آفاقی اور ہمہ گیر نہ ہو سکی۔ ان کے اس رنگ نے ان کی شاعری کی دوسری خصوصیات کو پس پردہ کر دیا ورنہ انہیں اس سے زیادہ ہر دل عزیزی حاصل ہوتی۔

مظفر حنفی کی یہ کوشش قابل تحسین ہے کہ انہوں نے ان کی تحریروں کی فراہمی میں کد و کاوش کی ہے اور بہت سے ادیبوں اور نقادوں کے افکار اکٹھا کر دیے ہیں لیکن انہیں بھی اندازہ ہو گا کہ زمانے کے مذاق میں خاصی تبدیلی آ چکی ہے اور یہ امید نہیں کی جا سکتی ہے کہ شاد عارفی کے رنگ اور طرز اظہار کو فروغ حاصل ہو سکے گا۔ تاہم ان کی یہ کاوش رائگاں نہیں جائے گی اور اردو ادب کا مورخ ان کی دستاویزی تالیفات سے فائدہ اٹھائے گا۔ مجھے ذاتی طور پر شاد عارفی کی شاعری نے متاثر کیا ہے ، وہ جو تھے وہی ان کی شاعری ہے ۔ زندگی نے انہیں جو کچھ دیا ہے وہ ان کے کلام میں کبھی غم و غصہ بن کر، کبھی طنز اور زہر خند بن کر، کبھی دکھے دل کی پکار بن کر محفوظ ہو گیا۔

(۱۹۶۹ء شاہکار الہ آباد)

 

 

ڈاکٹر انورسدید

 

                طلسم حروف/مظفر حنفی

 

اقتباس/اوراق (لاہور) مرتبہ ڈاکٹر وزیر آغا جلد ۱۶ شمارہ ۹/۸/ستمبر اکتوبر ۱۹۸۱ء

 

ایک عرصے تک ڈاکٹر مظفر حنفی کو شاد عارفی کے قبیلے کا شاعر شمار کیا جاتا رہا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ شاد عارفی کے ہونہار تلامذہ میں سے ہیں اور بات کو کھردری سچائی سے کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں تاہم اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ ایک طویل عرصے تک شاد عارفی کے سائے تلے سفر کرنے کے باوجود مظفرؔ حنفی نے اپنی الگ انفرادیت نکھاری ہے ان کے شاعری کا ذائقہ الگ ہے اور وہ اپنی الگ پہچان بھی رکھتے ہیں ، وہ اپنی تازہ ترین کتاب ’’طلسم حف‘‘ میں انبوہ میں گُم نہیں ہو جاتے بلکہ اپنا تشخص اپنی شاعری کے حوالے سے قائم کرتے ہیں ۔ مظفر حنفی نے قدیم سچائی کو جدید اسلوب میں قائم کیا ہے ، وہ نہ تو خود انکشافی سے خوف کھاتے ہیں اور نہ جذبے پر بند باندھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اہم بات یہ کہ زمانے کے گرم اور سرد کو چکھنے اور اس سے نبرد آزما ہونے کے باوجود مظفر حنفی کے ہاں تلخی یا زہر ناکی پیدا نہیں ہوتی۔ ان کی یہ خوبی انہیں شاد عارفی سے مختلف مزاج کا شاعر ثابت کرتی ہے ۔ مظفر حنفی نے اپنا تخلیقی سفر ۱۹۶۰ء کے لگ بھگ شروع کیا تھا۔ اس وقت ترقی پسند تحریک اگرچہ اپنی گھن گرج ختم کر چکی تھی لیکن اس کے باقیات میں اونچا لہر اٹھانے والے دسیوں شاعر موجود تھے ۔ مظفر حنفی نے مزید اونچی آواز اٹھانے کے بجائے شعر کی داخلی کیفیت کو اُبھارنے کی قابلِ قدر سعی کی اور اس کے لئے ایسا خوبصورت غیر رسمی انداز قبول کیا جو پہلے نایاب نہیں تو کمیاب ضرور تھا۔ اس غیر رسمی انداز میں قاری کو داخلی سچائی سے مغلوب کرنے کی صلاحیت موجود ہے یہی وجہ ہے کہ اہل دنیا جب مظفر حنفی کو پڑ  ھتے ہیں تو اکثر اوقات اس کا سامنا نہیں کر پاتے ۔ ’’طلسم حرف‘‘ اسی قسم کی سچائیوں کا مرقع ہے اور مطفر حنفی صفتِ سیل رواں زمانے کے ہنگام کے ان سچائیوں کو روکتا ہے اور غزل یا نظم کی لڑ  ی میں پرو ڈالتا ہے ۔ یہ فعّال شاعر کی بہت اچھی مثال ہے ، اس لیے متاثر کرتی ہے ۔ کتاب کا معنی خیز لفظ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے لکھا ہے ۔ شمس الرحمان فاروقی نے انھیں سوداؔ کے نزدیک قرار دیا ہے ۔ یہ کتاب شب خون کتاب گھر الہ آباد سے پندرہ روپے میں دستیاب ہے ۔

 

 

 

 

شمس الرحمٰن فاروقی

 

                ایک تھا شاعر

 

شاد عارفی کو خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے مرتب کی گئی ۸۵۰ صفحے کی اس کتاب کو دیکھ کر کہنا پڑ  تا ہے کہ خدا شاد عارفی جیسا استاد اور مظفر حنفی جیسا شاگرد سب کو نصیب کرے ۔ استادی اور شاگردی کا دور ختم ہو جانے سے جہاں ہزاروں فائدے ہوئے وہاں کچھ نقصانات بھی ہوئے ۔ شاد عارفی چالیس برس تک اردو ادب کو مالا مال کرتے رہے ، لیکن ان پر ڈھنگ کی کوئی کتاب یا مضمون لکھا جانا تو کیا، ان کا کوئی باقاعدہ مجموعہ بھی مرتب نہ ہو سکا۔ اگر مظفر حنفی کو حق استادی ادا کرنے کا اتنا خیال نہ ہوتا تو اردو دنیا شاد عارفی کے نام سے تو واقف رہتی لیکن اس سے زیادہ وہ کیا تھے ، کم لوگوں کو معلوم ہوتا۔

مظفر حنفی، شاد عارفی کے آخری عمر کے شاگردوں میں سے تھے ۔ جس طرح بڑھاپے کی اولاد سب کو عزیز ہوتی ہے ، اسی طرح مظفر حنفی بھی شاد صاحب کو بہت زیادہ عزیز تھے ۔ (بقول اکبر علی خاں ) مظفر حنفی وہ واحد شخص ہیں جن سے شاد صاحب کا جھگڑ  ا نہیں ہوا۔ غالباً اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان دونوں کی کبھی ذاتی ملاقات نہیں رہی، سارے تعلقات خط و کتابت کی بنیاد پر قائم تھے ۔ شاگرد بنانے کی داستان بھی دلچسپ ہے ۔ شاعری ہی شاد صاحب کا ذریعہ معاش تھی۔ اس لیے وہ شاگردی کے درخواست دہندہ کو ’’انجمن ارباب ادب‘‘ کا رکن بننے کی شرط پیش کرتے تھے ، جس کی شرائط رکنیت کی رو سے ، تھوڑ  ی سی رقم سالانہ اور کچھ فیس داخلہ پیش کرنی ہوتی تھی۔ شاد عارفی کی مالی حالت ان دنوں کچھ زیادہ ہی خراب تھی، لیکن مظفر حنفی نے اپنی مالی مشکلات کا ذکر کیا اور یہ بھی لکھا کہ اگر شاد صاحب (بوجہ عدم ادائیگی فیس داخلہ وغیرہ) انہیں شاگردی میں قبول نہ کریں گے تو وہ نوح ناروی یا ابر احسنی گنوری کے شاگرد ہو جائیں گے اور اس حقیقت کو تشہیر بھی کریں گے ۔ شاد صاحب بڑ  ے بڑوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے ، لیکن انہوں نے اپنے جواب میں اس تہدید کا کوئی ذکر نہ کیا بلکہ انتہائی محبت سے مظفر حنفی کو شاگرد بنا نا قبول کیا اور ساری رقمیں معاف کر دیں ۔ (ص ۸۴۵۔۸۴۴)

شاد صاحب میں تنگ نظری، کم علمی، احساس کمتری، چڑ  چڑ  ا پن، انتہائی سخاوت، ذہنی اور قلبی فراخ دلی اور فیاضی، جرات مندی، اخلاص، اعلیٰ ذہانت و جودت طبع جیسی خصوصیات ایک ساتھ پائی جاتی تھیں ۔ وہ واقعی ایک زندہ اور حرارت سے بھرپور شخصیت کے مالک تھے ۔ وہ دوسروں کے کلام نثر و نظم (بہ شمول نیاز فتح پوری و جوش ملیح آبادی) پر سخت بلکہ کبھی کبھی نا زیبا لہجہ میں اعتراض کرتے تھے ۔ اعتراضات اکثر صحیح ہوتے تھے ، لیکن خود ان کا کلام کبھی فاحش غلطیوں سے پاک نہیں تھا۔ اس سلسلے میں زیر تبصرہ کتاب میں بھی کوثر چاند پوری، ماہرالقادری، اور اکبر علی خاں کے مضامین کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ جگر کے بارے میں انہوں نے لکھا ’’جگر کے ہاں فنی خامیوں کی بھرمار ہے ، اسی لئے وہ بے چارہ کسی بھی مشاعرے میں مجھ سے آنکھ چار نہ کر سکا، بلکہ ہمیشہ میری تواضع میں لگا رہا۔‘‘ اس سے ذرا پہلے لکھا ہے :’’روش صدیقی اور عدم تو ٹھیک ہیں ، مگر نشور واحدی اور جذبی دونوں کافی غلط گو ہیں ، یہ بات تو ظاہر ہے کہ جگر صاحب بڑ  ے ، بلکہ بہت بڑ  ے شاعر تھے ، اور شکیل، مجروح کی خاک پا کو نہیں پہونچتے ۔ لیکن شاد عارفی صاحب نے شکیل کو مجروح سے بڑھا دیا۔ اس طرح کی خام تنقیدی رائیں ان کی ادبی فہم و فراست کو مشکوک بناتی ہیں ۔ ص ۵۶۷۔۵۶۵ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ الف وصل اور الف ساقط میں فرق نہیں کرتے تھے ۔ زبان پر ان کو جو مہارت حاصل تھی وہ وہبی تھی، اکتسابی نہیں ، لیکن احساس کمتری کی وجہ سے انہوں نے ہمیشہ خود کو بڑ  ا عربی فارسی اور اردو داں کہا۔ اسی احساس کمتری نے ان سے رومان کراچی کو بھیجی ہوئی غزل پر ’’پورا صفحہ‘‘ کی ہدایت لکھوائی (عکس تحریر ص ۱۸ اور صفحہ ۲۰ کے بیچ میں ) غزل اچھی ہے تو جہاں بھی اور جس طرح چھپے گی اپنا لوہا منوا لے گی، لیکن شاد صاحب کو اس میں اپنی ہیٹی نظر آتی ہے کہ ان جیسے استاد کا کلام ایک کالم میں چھپے ۔ (اس مرض میں ہمارے بہت سے شعراء مبتلا ہیں ، ایک شاد عارفی پر موقوف نہیں ، لیکن اس مکر ر ہدایت کے پیچھے سے ان کا یہ خوف جھلک رہا ہے کہ شاید مدیر رومان شاد عارفی کی غزل کو پورے صفحے کے لائق نہ سمجھتے ہوں )

شاد عارفی صاحب بہرحال ایک عہد ساز شاعر تھے ، ان کے بعد آنے والے ہر شاعر اور علی الخصوص نئی غزل کے ہر شاعر نے ان سے اکتساب فیض کیا ہے ۔ زمانے نے ان کی خاطر خواہ قدر نہیں کی۔ اس کتاب میں بھی کم زور ترین تنقیدی آراء کا ہے ۔ زیادہ تر لوگوں نے سرسری لکھا ہے ، ادھر ادھر کے مضامین مختصر اقتباسات ہیں ۔ اردو شاعر کی یہ بڑ  ی بد نصیبی ہے کہ جب تک وہ کسی سیاسی یا تہذیبی ادارہ سے منسلک نہ ہو، اس کی قدر شناسی خاطر خواہ نہیں ہوتی۔ شاد صاحب کو دونوں طرح کی محرومیاں ملیں ، نہ گھر کے فارغ البال اور کوش و خرم اور نہ ادبی دنیا میں باقاعدہ حسب مرتبہ قدر و منزلت۔ لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید ان کی شاعری میں بھی یہ دم خم، یہ تیور اور یہ اکھڑ  پن نہ ہوتا۔

’’ایک تھا شاعر‘‘ شاد عارفی کے ظاہر و باطن کی عبرت ناک، ادبی حیثیت سے قابل قدر اور تاریخی حیثیت سے اہم دستاویز ہے ۔ ان کی شخصیت پر لکھے ہوئے مضامین میں خلیل الرحمٰن اعظمی کا مضمون سب سے بہتر ہے ، کیوں کہ ان کی شاعری پر بھی تنقیدی اشارے مل جاتے ہیں ۔ مسعود اشعر کا مضمون بھی قابل ذکر ہے ۔ منظومات میں مظفر حنفی کی نظم ’’وصیت‘‘ اردو کے اہم مرثیوں میں شمار ہونے کے لائق ہے ۔ طنز اور افسردگی کا ایسا امتزاج کم دیکھنے میں آتا ہے ۔ شاد عارفی خود اپنا مرثیہ اس سے نہ بہتر کہہ سکتے ۔

شاد عارفی کو کم از کم خراج عقیدت جو پیش کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اس کتاب کو خریدے اور پڑھے ۔

(۱۹۶۸ء شب خون۔الہ آباد)

 

 

 

پروفیسر سلیمان اطہر جاوید

 

                ہات اوپر کیے

 

مظفر حنفی سے خواہ دہلی میں ملاقات ہو، خواہ کلکتہ میں ، کیا عرض کروں وہ اسی طرح ٹوٹ کر ملتے ہیں جیسا کہ صرف دہی مل سکتے ہیں /18،  19 اور/20دسمبر1997ء کی بات ہے غالب کی دو سو سالہ تقاریب کے سلسلے میں کلکتہ میں سہ روزہ سمینار تھا۔ مسلم انسٹی ٹیوٹ کلکتہ نے اس سمینار کا اہتمام کیا تھا لیکن انہوں نے کہیں اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی سعی نہیں کی۔ سمینار کے اجلاسوں میں اور نہ مشاعرہ وغیرہ میں اور نہ مہمانوں کے ساتھ رویہ میں جب کہ جاننے والے جانتے ہیں کہ مظفر حنفی باد سحر گاہی کی طرح شاخ گل میں جاری و ساری ہیں۔ سمینار میں ہندوستان بھر سے آئے اصحاب نے اپنے مقالے پیش کئے اور شاعروں نے کلام سنایا۔ مظفر حنفی اس طرح اسٹیج پر بھی کم آئے۔ یہ بے نیازی خاص طور پر شاعروں کے حصہ میں بہت کم آئی ہے اور یہ بے نیازی مظفر حنفی کی شخصیت ہی کا نہیں ان کی شاعری کا بھی خاصہ ہے۔ مشاعروں میں کلام سنانے کا ان کا انداز، ستائش کی تمنا نہ صلہ کی پروا کے مصداق ہوتا ہے۔ مظفر حنفی کو شاعری اور نثر دونوں پر غیر معمولی قدرت حاصل ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی شاعری کی حیثیت سے شناخت زیادہ ہے ورنہ انہوں نے نہ صرف افسانے لکھے بلکہ ان کے افسانوں کے تین مجموعے ’’اینٹ کا جواب‘‘ ’’دو غنڈے ‘‘ اور ’’دیدۂ حیراں ‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ تحقیق و تنقید میں شاد عارفی شخصیت اور فن نقد ریزے ،  جہات و جستجو، تنقیدی البعاد، اور لاگ لپیٹ کے بغیر، کے علاوہ کئی کتابیں ہیں۔ ترتیب میں ایک تھا شاعر،  کلیاتِ شاد عارفی، جدیدیت:تجزیہ و تفہیم، آزادی کے بعد دہلی میں اردو طنز و مزاح، شاد عارفی۔ ایک مطالعہ، روح غزل اور کلیاتِ ساغر نظامی(تین جلدوں میں ) کے ساتھ اور بھی۔ تراجم میں گجراتی کے یک بابی ڈرامے ، اڑ  یا افسانے ، بھارتیندو ہریش چندر اور بنکم چندر چٹرجی کے علاوہ چند اور۔ چل چنبیلی باغ میں ، سفر نامہ ہے اور بندروں کا مشاعرہ اور نیلا ہیرا بچوں کے لئے۔ میں نے ظاہر ہے کل کتابوں کی فہرست نہیں دی جو اس سے دوگنی تو ہو گی ہی۔ ان کی شاعری کے بھی کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں ’’پانی کی زبان‘‘ ’’تیکھی غزلیں ‘‘’’صریر خامہ‘‘ ’’یم بہ یم‘‘ ’’طلسم حرف‘‘ اور ’’یا اخی‘‘ اور بھی چند…….اور ابھی ابھی ان کی غزلوں کا مجموعہ ’’ہات اوپر کیے‘‘ شائع ہوا۔ نثر کے علاوہ اپنے دس گیارہ شعری مجموعوں کی وجہ سے جو تقریباً ڈیڑھ ہزار غزلوں ، سوا سو نظموں ،  پچھتر رباعیوں اور دیگر اصنافِ سخن پر مشتمل ہیں۔ مظفر حنفی کو پُر گو کہہ کر بعض لوگوں نے تنقید بھی کی ہے۔ پُر گوئی ہو یا کم گوئی۔نہ یہ خرابی ہے اور نہ وہ اچھائی۔ آپ کتنے شعری مجموعوں کے مالک ہیں ، کتنی غزلیں اور نظمیں کہہ چکے ہیں کوئی ان کو تول کر آپ کا مقام متعین نہیں کرے گا اور نہ آج تک کہیں ایسا کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ رامپور اور بعض مقامات پر کتب خانوں میں ایسے دیوان موجود ہیں جن میں شاعروں نے دیوانِ غالب کے ایک ایک مصرعہ پر ایک ایک غزل کہی ہے اور کئی جلدوں میں ان کا شعری سرمایہ وہاں موجود اور محفوظ ہے لیکن کتنے لوگ ان سے واقف ہیں کتنوں نے ان کا مطالعہ کیا ہے۔ ان کی عظمت کا اندازہ لگانا تو کجا ان کا نام بھی لوگوں کو معلوم نہیں۔ غالبؔ اپنے مختصر سے کلام کے باوجود سب پر غالب ہے۔ اسی طرح میر تقی میر۔ جن کا شعری سرمایہ وافر ہے اور وہ اردو شاعری کے میر ہی نہیں خدائے سخن بھی کہے جاتے ہیں۔ مظفر حنفی کو بھی اس کا احساس ہے انہوں نے اپنے اسی مجموعہ ’’ہات اوپر کیے ‘‘ میں یہ کہتے ہوئے کہ ’’پُر گوئی یا کم گوئی اپنے آپ میں کوئی شاعرانہ خامی یا خوبی نہیں ہے بلکہ اس کا انحصار متعلقہ تخلیق کار کے رویے پر ہے ‘‘ میرؔ، غالبؔ اور دیگر کی مثالیں بھی دی ہیں اور کہا ہے کہ ’’محض زیادہ یا کم کہنے کو معیار قرار دینا سچی تنقید کے منافی ہے ‘‘۔ مظفر حنفی نے اپنے اسی ’’مجھے کہنا ہے کچھ……..‘‘ میں اپنی شاعری کے اور پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ کچھ وضاحتوں اور صراحتوں سے بھی کام لیا ہے اور کچھ دو ٹوک بھی سنا دی ہے۔شکوہ ہے کہ مظفر حنفی سے ادبی تنقید نے انصاف نہیں کیا بلکہ کچھ اور شاعر بھی ایسے ہیں جن کی بوجوہ حق تلفی ہوئی ہے لیکن ہماری ادبی تنقید نے مظفر حنفی کے کلام کی ندرت، ان کے لہجے کے تیکھے پن، ان کے طنز کی کاٹ اور زبان و بیان کے تعلق سے ان کے بانکے رویے کو نظر انداز بھی نہیں کیا جو انہیں اپنے ہمعصروں سے ممیز کرتے ہیں۔ یہاں پُر گوئی اور کم گوئی سے بحث نہیں۔ یہاں صرف شاعری سے بحث ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مظفر حنفی کی شاعری میں جان ہے اور وہ متاثر کرتی ہے۔ الفاظ کی نشست و برخاست، مصرعوں کے در و بست، لہجہ کی کھنک اور اپنی مٹھاس اور تلخیوں اور ترشیوں کی وجہ سے ، پروفیسر آل احمد سرور نے لکھا ہے کہ ’’مظفر حنفی کے اشعار میں دھیمی دھیمی بہنے والی جوئے آب کی سی سوئی ہوئی روانی نہیں ہے۔ پہاڑ  ی چشمے کی سی تند و تیز لہر ہے۔ ان کے اشعار میں تلوار کی کاٹ ہے۔ ایک برہم نوجوان کے لہجے کی تلخی ہے۔ اس میں کچھ توڑ  نے اور پھر جوڑ  نے کی بات بھی ہے۔ اس میں بگاڑ  اور نئے سرے سے بناؤ کی داستاں بھی ہے اور اس میں غزل کی کمائی سے کچھ نا آسودگی کی آہٹ بھی۔ یہ ایک سرکش روح کی کہانی ہے اور ایک باغی کا خواب۔ زندگی کا کتنا زہر پی کر یہ امرت حاصل ہوا ہے ‘‘۔ اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ مظفر حنفی نے ویسے کسی نظریہ یا تحریک کو اختیار نہیں کیا۔ اردو شاعری کی روایات اور کلاسیکی قدروں کو عزیز رکھا، ان سے استفادہ کیا اور اسی کے ساتھ ارد گرد، شعر و ادب اور زندگی جن پیچ و خم سے گزرے ان کو بھی محسوس کیا ان کی غزل نئی ہے ، جدید بھی کہہ لیجئے۔ لیکن جدیدیت کا لیبل ان کی غزل پر چسپاں نہیں کیا جا سکتا اور اب تو مابعد جدیدیت کی باتیں بھی عام ہو گئی ہیں۔ ویسے مظفر حنفی کی شاعری وہی ہے ، جو تھی اور جو ہونی چاہئے تھی۔ ڈاکٹر خلیق انجم نے مظفر حنفی کی شاعری کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ یقیناً ان کے شعری رویہ کی تفہیم میں معاون ہو گا۔ وہ لکھتے ہیں ’’مظفرؔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ان کی شاعری روایت اور بغاوت کے درمیان کی چیز ہے۔ وہ ماضی کا احترام کرتے ہیں اور ہر اس روایت کو اپناتے ہیں جو قابلِ قدر ہے لیکن ان تمام روایتوں سے بغاوت کرتے ہیں جو ادب کو جمود، فرسودگی اور کھوکھلے پن سے آلودہ کرتی ہیں ‘‘۔ یہی عناصر ان کی شاعری کے رنگ کو چوکھا کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی ان کی شاعری کے بارے میں کچھ ایسا ہی کہا ہے : ’’مظفر حنفی کی غزل جدید اور غزل کے بربط سے چھوٹا ہوا، ایک منفرد، تازہ، پیچ و خم کھاتا، دل موہ لینے والا وہ سُر ہے جس نے غزل کے ’’کل‘‘ سے لحظہ بھر کے لئے الگ ہو کر اپنے وجود کا اثبات کیا۔ مگر پھر لپک کر غزل کی سمفنی میں دوبارہ شامل ہو گیا۔ تجربے اور روایت کا بنتا بگڑ  تا سنجوگ مظفر حنفی کی غزل کا امتیازی وصف ہے۔ ’’ہات اوپر کیے ‘‘کی غزلیں بلاشبہ روایت اور بغاوت کے عناصر سے مملو ہیں بلکہ یوں کہئے کہ ان کی غزلیں روایت اور بغاوت کا اپنے انداز اور اپنی طرح کا امتزاج ہیں۔ مظفر حنفی نے بھاری بھرکم الفاظ، پر شکوہ تشبیہات، شاندار استعارات اور جگ مگ کرتی علامتوں اور ایسی ہی ترکیبوں اور تلمیحات سے کام نہیں لیا۔ ان کی لفظیات کا سرمایہ سیدھا سادا، آسان، عام فہم، سہل اور سبک ہے کہ پڑھئے کہیں کوئی پیچ و خم اور اونچ نیچ کا احساس نہیں ہو گا۔ سہل الممتنع کہہ لیجئے لیکن معنوی طور پر ان کا رنگ آہنگ کچھ اور ہو گا۔ ہمارے ہاں اس نوع کی شاعری اوروں نے بھی کی ہے اور کی جا رہی ہے۔ اس کو ساتھ رکھتے ہوئے مظفر حنفی کی شاعری کا مطالعہ کریں تو مظفر حنفی کی انفرادیت مترشح ہو جائے گی۔ ہاں انہوں نے دوہری، تہری ردیفوں اور کہیں کہیں بنا مانوس قافیوں سے بھی کام لیا ہے لیکن زبان و بیان پر دسترس اور آداب فن سے غیر معمولی آگہی کے باعث یہ ردیفیں اور قافیے رواں دواں ہو جاتے ہیں۔ بے تکلف اور اپنائیت لیے ہوئے اندازِ بیان نے ان کی شاعری میں دلکشی اور جاذبیت پیدا کر دی ہے۔ میں کہوں گا کہ یہی بے تکلفی اور بے محابہ پیرایہ ان کی شاعری کا تشخص کرتا ہے۔ یہ بھی ہے کہ مظفر حنفی کی شاعری صرف شاعری نہیں ان کے معاشرے ، ماحول اور اطراف و اکناف کے حالات کی تصویر بھی ہے اور تفسیر بھی۔ جیتی جاگتی عصری حِسیّت سے آج جن چند شاعروں کی شاعری عبارت ہے ان میں مظفر حنفی بھی ہیں۔ مہنگائی، مفلسی ناداری سے لے کر قوم کے اخلاقی بحران، سیاست اور سیاستدانوں کے کھوکھلے پن، خالی خولی دعوے ، اقلیتوں میں عدم تحفظ کے احساس، اقلیت کش فسادات، معاشرت کی بکھرتی قدروں اور فرقہ واریت کے فزوں ہوتے رجحان، اور ایسے ہی کئی موضوعات اور مسائل پر انہوں نے نہایت عمدہ اور فکر انگیز اشعار کہے ہیں اور وہ  جو، اب غزل کا مفہوم بدل چکا ہے اور عصری زندگی کے کوب و خراب کی غزل تعبیر و تشریح ہوتی جا رہی ہے اس غزل کا ایک رخ مظفر حنفی کی غزل بھی ہے۔ مظفر حنفی کیسے ہی پُر گو ہوں۔ ان کی غزلوں کی تعداد خواہ کتنی ہی ہو یہ بات اہمیت نہیں رکھتی اور نہ اس سے (کسی اور شاعر کی طرح) مظفر حنفی کی شعری مرتب کا تعین کیا جانا چاہئے لیکن یہ بات ضرور اہمیت رکھتی ہے کہ اس دور میں اردو غزل کو جو شناخت مل رہی ہے اور آئندہ چل کر کو شناخت ملے گی اس میں مظفر حنفی کی غزل کا حصہ بھی رہے گا اور اگر ایسا ہی ہے کہ مظفر حنفی پُر گو ہیں اور انہوں نے بہت زیادہ کہا ہے تو ان کی شاعری کا کڑے سے کڑا انتخاب بھی اور کئی شاعروں کی اچھی بری ساری شاعری سے زیادہ ہو گا۔ آخر میں ’’ہات اوپر کیے ‘‘ میں سے بس چند اشعار۔

ذرے سے لے کر تارے تک سب کے راز اتارے مجھ پر

خود اپنا ہی بھید نہ پاؤں اتنا پُر اسرار بنایا

زمانے میں شرافت کا یہی معیار ٹھہرا ہے

تو میں بھی آج ہی بازار سے دستار لاتا ہوں

ہاں یہی سچ ہے کہ تو قتل نہیں کر سکتا

ہم ہی گردن تری تلوار پر رکھ دیتے ہیں

ستم رسیدہ ہے ہندوستان میں اردو

اسی زبان میں ہندوستان زیادہ ہے

ایک دو بوندیں ندامت کے پسینے کی بہت

ڈوبنے کے واسطے دریا نہیں لگتا مجھے

 

روزنامہ ’’سیاست‘‘ حیدرآباد۔ مورخہ ۲۳ دسمبر ۲۰۰۲ء

 

 

 

 

پروفیسر علیم اللہ حالیؔ

 

                مظفر حنفی: الگ ہے نشہ نئے راستے نکالنے کا

 

مظفر حنفی کی شاعری ایک زمانے میں قارئین کو چونکا رہی ہے ، لیکن بہت کم لوگوں نے ان کی فکر و فن پر قلم اٹھایا ہے۔ بظاہر یہ حیرت کی بات ہے کہ جس فن کار کی شاعری سے بہت سے لوگ برابر متاثر ہوتے رہے ہوں اس پر لکھنے سے گریز کیا جاتا ہو اور اس کے مقابلے میں نسبتاً کم اہم فن کاروں کا جائزہ و مطالعہ پیش ہوتا رہا ہو۔ مظفر حنفی کے سلسلے میں اس المیہ کے کئی اسباب سامنے آتے ہیں۔ ادبی تحریکات سے ان کا الگ تھلک رہنا، عصری تغیرات کے تحت بنے ہوئے مختلف کیمپوں سے اپنے کو دور رکھ کر تخلیقی اور صرف تخلیق کے مکمل انہماک، سلسلۂ تلمذ سے ایماندارانہ انسلاک، اظہار و بیان اور لہجہ و تیور کے اعتبار سے عام سخنوروں سے مختلف ہونا، مصلحت پسندی سے انکار اور ادبی دنیا میں تعارف، اعترافِ کمال، گروہ بندی، رابطے ، انجمن سازی اور انعام و ا کرام کے حصول کے لیے جدوجہد جیسے غیر تخلیقی اقدامات سے اجتناب۔ یہ اور ان کے علاوہ کچھ اور چھوٹی بڑ  ی وجہیں ہیں جو مظفر حنفی کے راستے میں حائل رہیں۔ ممکن ہے کچھ لوگ ان کی بسیار گوئی کا بھی ذکر کریں ، لیکن تجزیہ کیجئے تو یہ کوئی وجہ نہیں بنتی۔ اس مسئلے پر خود مظفر حنفی نے اپنے مجموعہ غزلیات ’ہات اوپر کیے ‘ کے ابتدائیہ میں روشنی ڈالی ہے اور بجا طور پر کم گوئی یا پُر گوئی کی بنیاد پر عظمت و شہرت کے عام تصور کی تردید کی ہے۔ مظفر حنفی کی شاعری پر پُر گوئی کے منفی اثر سے یوں بھی سیدھے طور پر انکار کیا جا سکتا ہے کہ تمام تر زُود گوئی کے باوجود شاعری کے شائقین نجی طور پر مظفر حنفی کے کلام کو ہر زمانے میں سراہتے رہے ہیں اور دل سے ان کی قدر کرتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود ایسا کیوں ہے ؟ یہ سوال اپنی جگہ رہ جاتا ہے۔ میں اس کے جواب میں فی الوقت یہی کہہ سکتا ہوں کہ مظفر حنفی کو ہاتھ لگاتے ہوئے اکثر و بیشتر ہمارے ناقدین ڈر جاتے ہیں۔ وہ ہمارے عام شاعروں سے یکسر مختلف ہیں۔ ان کی لفظیات، ان کے تیور اور غزل کے عام متعارف لہجے سے ان کی عدم مطابقت یہ فیصلہ نہیں کرنے دیتی ہے کہ انہیں کس خانے میں رکھا جائے اور ان کی فن کارانہ شخصیت کی شناخت کیوں کر ہو۔ مظفر حنفی کی انفرادیت خود ان کے لئے دیوار بن گئی ہے۔

ایک خاص سلسلہ تلمذ سے وابستہ ہونے کے باوجود مظفر حنفی بنیادی طور پر روایت شکن فن کار ہیں۔ ہمارے بیشتر غزل گو شعرا نے مختلف ادوار میں جس نوعیت کی تخلیقی کاوشیں پیش کی ہیں ، ان سے اردو غزل کا بحیثیت مجموعی ایک مخصوص مزاج متشکل ہوا ہے۔ یہ کاوشیں زمانہ و حالات کے زیر اثر جزوی تبدیلیوں کے باوجود ایک مضبوط اور مستحکم شعری روایت بناتی ہیں۔ مظفر حنفی ہمارے ان چند شعرا میں ہیں جنھوں نے بہتی ہوئی تیز لہروں کی مخالف سمت میں چلنے کی جرأت کی ہے۔ ناقدین کی عمومی بے اعتنائی مظفر حنفی کی اسی جرأت کا خمیازہ ہے۔ مظفر حنفی کو اس کا احساس ہے اور شدید احساس، چنانچہ تنقید نگار اکثر و بیشتر ان کا نشانہ بنتا ہے ، اس لیے کہ انہیں یقین ہے کہ وہ ان کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا۔ مندرجہ ذیل اشعار سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ تنقید نگار کو خاطر میں نہیں لاتے اور خود اعتمادی کے ایک ایسے جذبے سے سرشار ہیں جہاں ان کی داخلی شخصیت سے فن کار کے ساتھ ساتھ ایک ذہین قاری اور ایک Appreciator  ابھر کر سامنے آ جاتا ہے :

نقاد کے حضور مظفر کی سرکشی

تنقید کی نگاہ میں پہچان سے گیا

اندر سے اچھے ہوتے ہیں اکثر ٹیڑھے ترچھے لوگ

جیسے افسانہ منٹو کا، جیسے شعر مظفر کا

تنقید انھیں مانے مظفر کو نہ مانے

اشعار میں بہتوں کے جھلکتا ہے مرا رنگ

خود کرتے ہیں تخلیق سے معیار مقرر

تنقید کے جھانسے میں مظفر نہیں آتے

مظفر حنفی اپنے لہجے سے پہچان لیے جاتے ہیں۔ لہجے کی یہ انفرادیت بہت کم شاعروں کو نصیب ہے۔ انفرادیت کی تشکیل ما قبل اور معاصر آوازوں کے تال میل سے ہوتی ہے۔ فن کار کے یہاں یہ عمل شعوری نہیں ہوتا۔ نئی آواز پرانی آوازوں کے بطن سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ جو فن کار تخلیقی سطح پر مختلف لہجوں کی ترکیب، امتزاج اور ترتیب کے ذریعہ ایک الگ آواز کی یافت میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ وہ بہت دنوں تک یاد رہتا ہے۔ مظفر حنفی میرؔ یگانہ چنگیزی اور شاد عارفی کے علاوہ ناصر کاظمی، محمد علوی اور ظفر اقبال کے قبیلوں میں بھی نظر آ جاتے ہیں۔ جزوی مماثلت کی بنیاد پر ان کے یہاں باری باری سے مختلف صاحب طرز شعرا سے قربت کا شائبہ نظر آتا ہے۔ ایک طرف میرؔ اور ناصر کاظمی کی طرح درد کی داخلی دھیمی آنچ سے ہے جو اندر اندر فن کار کو شکست و ریخت سے ہمکنار کرتی ہے ، لیکن بے محابا اظہار سے گریز کرتی ہے۔ گفتنی اور ناگفتنی کے بیچ ضبط کے بندھن ٹوٹتے نظر آتے ہیں ، مگر ایسا ہوتا بھی نہیں ہے۔ اپنی ذات کے تحفظ کے ساتھ اظہار غم کا یہ انوکھا اور مؤثر اسلوب جو ناصرؔ کاظمی کو میرؔ سے ملاتا ہے ، وہی تھوڑ  ی سی تبدیلی کے ساتھ مظفر حنفی کے یہاں بھی دکھائی دیتا ہے۔ دیکھئے مندرجہ ذیل اشعار میں میر تقی میرؔ کا عہد جدید میں کیسا Re-Incarnationہوا ہے۔

وہ درد کا سینے میں سمائی نہیں دیتا

اور میرا تہیہ کہ دہائی نہیں دیتا

پوچھا تھا میں نے مرکز کو نین کون ہے

آئینہ شش جہات نے آگے بڑھا دیا

ہم ان کی ایک ایک ادا پر جان نچھاور کرتے ہیں

ہر آئینے میں بیٹھے ہیں دعویٰ ہے یکتائی کا

کھلی آنکھوں پہ کچھ احوال دنیا کا نہیں کھلتا

جو دیکھا ہے وہی سچ ہے کہ سب دھوکہ نظر کا ہے

(احوال دنیا کے نہیں کھلتے )

میرؔ سے حاصل کرنے کی جو سب سے اہم اشیا ہیں ان کا میں میر کا وہ درد ہے جو زیریں لہر کی طرح ان کی شخصیت میں رواں رہتا ہے ، اس کے علاوہ وہ فکر ہے جس پر دانش و تصوف دونوں ہم آمیز ہیں۔ مظفر حنفی نے حسب توفیق یہ قیمتی اجزا حاصل کیے ہیں۔ یہ چیزیں ناصر کاظمی کو بھی نصیب تھیں ، پھر اس جزوِ اعظم میں کچھ اور ریزۂ الماس ملا کر ناصر نے اپنے منفرد لہجے کی یافت کی اور یوں وہ مظفر حنفی کی طرح میرؔ سے اخذ کرتے ہوئے اپنی تخلیقی شخصیت میں انفرادیت پیدا کرتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اشعار سے مظفر حنفی کی ناصر کاظمی سے یکسانیت کا احساس ہونے لگتا ہے ، مگر مظفر کی اپنی انفرادیت کے ساتھ

یہ جو مٹی ہے مٹی میں مل جائے گی

خوبصورت بنا دی گئی ہے تو کیا

ناؤ میں وہ مسافر نہیں رہ گئے

اب کنارے لگا دی گئی ہے تو کیا

امید بچھی رہے گی چھت پر

اے چاند کبھی قیام کرنا

کیوں آنکھوں سے گرنے لگے بیساختہ آنسو

اندر کہیں زنجیر ہلا دی ہے کسی نے

خدایا کدھر جاؤں دیوار گریہ

مرے راستے سے نہیں ہٹ رہی ہے

سب کے سب اک دوسرے سے بد گماں

شہر کی حالت قرینے پر نہیں

جاتے ہوئے پھر پلٹ کے دیکھا

اب فاصلہ کیوں گھٹا رہے ہو

اس قدر خاکساری بھی اچھی نہیں

سر اٹھا ورنہ دستار گر جائے گی

ترک دنیا میں اک مزہ تو ہے

ترک دنیا پہ ناز بھی نہ کرو

ڈھیل دیتی جو ذرا سی دنیا

مجھ کو تنہائی ستانے لگتی

مظفر حنفی کے بیشتر اور سب سے بہتر اشعار جن کے چند نمونے اوپر درج کئے گئے ہیں ، انہیں ناصر کاظمی سے قریب کرتے ہیں۔اس فرق، کے ساتھ کہ اول الذکر کے یہاں اشعار میں ظریفانہ پہلو (جو آگے بڑھ کر طنز بن جاتا ہے ) اور لفظوں کی شوخی و بے باکی بسا اوقات اضافی عناصر کے طور پر ملتے ہیں۔ لفظوں کی یہی بے باکی اور مظفر حنفی کو کبھی محمد علوی سے قریب کر دیتی ہے اور کبھی ظفر اقبال سے۔ یہ مماثلت بہت واضح نہ سہی مگر ایک ادنیٰ مشابہت سے اس قضیے کو تقویت ملتی ہے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اشعار پیش کیے جا سکتے ہیں :

میں اسے دیکھنے نہیں پاتا

اس نظر سیکڑوں نظارے بیچ

سکتے میں تھی شاعری مظفر

واں ساختیات ہو رہی تھی

دربار میں بیٹھنے لگا ہے

فن کار پر کیا زوال آیا

چلو دھوپ سے آشنائی کریں

یہ دیوار کا آسرا ٹھیک نہیں

صرف خوشنودیاں اس کی درکار ہیں

یہ سزا و جزا ہم نہیں جانتے

لہجے سے چمک اٹھے مظفرؔ

الفاظ جو تھے گھسے پٹے سے

بھائیوں کا خون پانی ہو گیا

صحن میں دیوار ہونی چاہیے

کتاب کا نام ’ہات اوپر کیے ‘ کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ شعریت سے عاری، کھردرا، نامانوس اور بے کیف۔ لیکن اس نام سے معنویت کی کئی تہیں بنتی ہیں۔ مظفر حنفی نے کتاب کے ابتدائی صفحات میں ان دو شعروں سے اس نام کی معنویت کی طرف اشارے کیے ہیں :

پھول برسائیں مرے دوست کہ پتھر برسائیں

میں نے ہاتھ اپنے اٹھا رکھے ہیں اوپر کی طرف

اس طرف بھی تو دیکھئے صاحب

دیکھئے پھر بھنور سے نکلے ہاتھ

ان کے علاوہ مجموعے میں ایک اور شعر ہے جو عنوان کی معنویت کا خوبصورت اشارہ نما ہے۔ شعر یوں ہے :

سب اہل درد نے ہاتھ اپنے کر دیے اوپر

سہارا کچھ تو رہے چرخ بے ستوں کے لیے

مظفر حنفی اپنے منفرد لہجے میں سیاسی اور سماجیevilsکو نشانہ بناتے ہیں۔ یہاں حالات پر ان کے تبصرے اور تنقیدی اشارے اس لیے زیادہ مؤثر ہو جاتے ہیں کہ ایک مفرد شعر میں وہ صورت حال کے سیاق و سباق کو کامیابی کے ساتھ سمیٹ لیتے ہیں۔ ان کی مضمون آفرینی، معاشرتی برائیوں سے ان کی شدید بیزاری اور طنز کی شدت و تیزابیت ان کے فکر کو دل نشیں بھی بنا دیتی ہے اور اثر آفریں بھی:

نہ کوئی جاننے والا نہ گھر سلامت ہے

تو گاؤں جا کے بھی ہم ننگ شہر کیا کرتے

واقعی جو غریبوں کی ہمدرد ہو

چار دن میں وہ سرکار گر جائے گی

برچھی سے اندازہ کر لو رشتے کی گہرائی کا

بٹوارے کے بعد بھی نکلا خون میں حصہ بھائی کا

کس کے لئے صحن میں دیوار ہے پوچھو ان سے

کون بٹوارے پہ تیار ہے پوچھو ان سے

ٍ        یہ بات صحیح ہے کہ بسیار گوئی نے متعدد شعرا کو شہرت تو بخش دی ہے ، مگر ان سے وقار و وقعت کی دولت چھین لی ہے۔ مظفر حنفی اگر زود گو ہیں تو رہا کریں۔ یہ بات بڑ  ے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ان کی زود گوئی نے ان کی شاعری کے معیار کو کہیں سے متزلزل نہیں کیا ہے۔ ایک غیر معمولی تخلیقی ابال نیز منفرد و ممتاز لہجے نیز متعدد اچھوتے موضوعات کی وجہ سے مظفر حنفی کی فن کارانہ شخصیت کا گراف اوپر ہی جا رہا ہے۔ یہ بات اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ ان کا میدان کار بالعموم صنف غزل ہے جہاں آج نت نئے تجربات کی بنیاد پر کچھ لوگ شہرت اور عام مقبولیت تو حاصل کر سکے ہیں ، مگر ان میں سے بیشتر ہمارے کلا سک کا حصہ بن جانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ سعادت مظفر حنفی کے حصے میں آئی ہے۔ زندہ رہنے والی شاعری اپنے تخلیق کار کو بھی مرنے نہیں دیتی۔ اس معنی میں میں مظفر حنفی کے اس شعر سے اختلاف کرتا ہوں کہ:

واقعہ یہ ہے مظفر کہ ترے لہجے نے

تجھ کو مارا ترے دیوان کو زندہ رکھا

مظفر حنفی کا لہجہ ان کے دیوان کو بھی زندہ رکھے گا اور خود انہیں بھی۔

 

 

 

عشرت ظفر

 

                سنگ زار غزل کا کوئین، مظفر حنفی

 

میں غزل کو صرف سنگ زار کہتا ہی نہیں ہوں بلکہ اسے سنگ زار سمجھتا بھی ہوں اس کے کئی اسباب ہیں ، لیکن سنگ زاروں کی طرح سخت، کھردری، اور ناہموار ہونے کے باوجود غزل میرے نزدیک کوئی نیم وحشی صنف سخن جیسی چیز نہیں ہے ، اس میں پرت پرت نرمی ہے ، تازگی ہے اور غزل کا اگر اس انداز سے مطالعہ مقصود ہو تو مظفر حنفی کی غزل کو پڑھنا چاہئے۔ شعر کے بحر بے کراں کی سطح کو بھی دیکھنا چاہئے۔ اعماق میں غواصی بھی کرنا چاہئے اور موج در موج رقصاں اور خروش مسلسل کو بھی سننا چاہئے جس میں تازہ کاریوں کا ایک جہان بسیط ہے۔

میں گزشتہ چالیس برسوں سے مظفر حنفی کا کلام پڑھ رہا ہوں لیکن ان کی غزل میرا خاص مطالعہ رہا ہے ، میں معاصر شعرا کو بھی پڑھتا ہوں لیکن مظفر حنفی کی غزل کا انداز منفرد ہے کیونکہ میرے خیال میں مظاہر فطرت رحم دل اور مہربان کم ہیں سفاک اور بے رحم زیادہ ہیں۔

مجھے فی الوقت اس موضوع پر اپنی بات کو مرتکز رکھنا ہے کہ غزل ایک سنگ زار ہے ، مظفر حنفی کوہ کن ہیں ، ان کے ہاتھوں میں تیشۂ قلم ہے لیکن یہاں جوئے شیر برآمد کرنے کی خواہش کم ہے خد و خال شیریں ابھارنے کی آرزو اور جستجو زیادہ

میں ان خدشات میں کبھی مقید نہیں ہوتا کہ میرے نظریات سے کس حد تک اتفاق و اختلاف ہو گا، میں کچھ بھی کسی کو خوش کرنے یا ناراض کرنے کے لئے نہیں لکھتا، چنانچہ میں اس مضمون میں مختلف حوالوں سے یہ ثابت کرنا چا ہوں گا کہ تا حد نظر پھیلے ہوئے ان لا متناہی اور غیر مختتم کو سہاروں میں مظفر حنفی تیشہ بدست پتھروں کے قلب میں کس کی تلاش میں مصروف ہیں۔

غالب نے فرہاد کو’’ نقاش یک تمثال شیریں ‘‘ کہا ہے یعنی اس نظرئے کو باطل قرار دینے کی کوشش کی ہے کہ فرہاد عشق شیریں میں کوہ بتوں سے نہر نکالنے کی سعی کر رہا تھا۔ مرزا کا خیال ہے کہ وہ سینۂ کوہ پر اپنے تیسے سے شیریں عرفانی تصویر بنانا چاہتا تھا لیکن کلیہ یہی قرار پایا کہ جو جوئے بشر کی برآمدگی کے لئے تیشہ زنی کر رہا تھا اور آج بھی یہی سمجھا جاتا ہے ، لیکن مظفر حنفی کے یہاں صرف کوہکنی کا طنطنہ نہیں ہے ، فنِ ّذری کا گداز بھی ہے۔ فریاد صرف کوہکن تھا فن آذری سے واقف نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ وہ چٹانوں پر شیریں کی تصویر نہیں بنا سکا اور مظفر حنفی نے اپنے تیشۂ قلم سے بے شمار خدوخال اُبھارے ہیں۔ انہیں نہریں نکالنے سے دلچسپی نہیں ہے وہ جانتے ہیں کہ پتھروں میں نا تراشیدہ صنم کروٹیں لے رہے ہیں رہائی کے لئے التماس کر رہے ہیں اور یہ عمل مظفر کے یہاں انتہائی شدومد سے نظر آتا ہے اور در اصل معراج فن یہی ہے۔

مظفر حنفی کی غزل میں جو تیکھا پن ہے وہ ان کی نثریں بھی ہے ان کے معاصرین کے یہاں یہ چبھتا ہوا کاٹ دار انداز نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ ان کی غزل سے متعلق مشاہیر کی آرا پیش کروں یوں عرض کروں گا کہ ان کے یہاں شاد عارفی  و یگانہ کے اثرات صعبی ہیں نیز کبیر و خسرو کی اقلیم پر شکوہ کو بھی ان کے طائر فکر چھوتا ہوا نظر آتا ہے۔

شاد عارفی سے انہیں گہری محبت ہے طنز و تیکھا پن اسی خزانے سے نکلتا ہے شاد عارفی نے کہا ہے

کیا تعجب ہے کہ تینوں کی طرف بڑھ جائیں

لوگ ہاتھوں کو سوالوں سے جو مہلت دے دیں

یہاں میں پروفیسر آلی احمد سرور کے یہ جملے ضرور دہرانا چا ہوں گا:۔

’’مظفر حنفی کے شعر پڑھتے تو شاد عارفی کا خیال ضرور آتا ہے فرق اتنا ہے کہ شادؔ کے یہاں طنز کی کاٹ زیادہ ہے پھر بھی شاد کا لہجہ مظفر کے یہاں جھلک جاتا ہے ‘‘

میرے خیال میں مظفر حنفی کے یہاں جو تلخی تو نہیں آئی جو شاد عارفی اور یگانہ میں تھی لیکن کہیں کہیں چھری بھونکنے کا انداز آیا ہے مگر اس غرور و تمکنت کا دور دور تک پتہ نہیں ہے جو مرزا یگانہ میں تھا اور جس کا نقارہ وہ اپنی نظم و نثر دونوں میں بجایا کرتے تھے۔

مظفر حنفی نے تمام فنی قواعد و ضوابط کا خیال رکھا ہے ان کا ذخیرۂ الفاظ محدود نہیں ہے جیسا کہ آج تمام طور پر نئے شاعروں کہ یہاں ہے کہ ان کی شاعری چند الفاظ کے حدود میں گھومتی رہتی ہے ، محدود ذخیرۂ الفاظ میں معنی وسعت پذیر نہیں ہوتا اور فن پارہ اپنے آپ میں گھٹ کر رہ جاتا ہے ، مظفر حنفی کے یہاں کثیر الفاظ ہیں اور ان کا بے حد تخلیقی استعمال ہے۔ لفظ برائے بیت جیسی کوئی شئے ان کے یہاں نہیں ہے بلکہ لفظ ایک ایسا سحاب ہے جس میں خود سمندر پناہ گیر ہوتا ہے ، ڈاکٹر وزیر آغا کی یہ رائے ان کی شاعری پر بے حد وقیع و بسیط ہے :۔

’’مظفر نے اردو غزل میں نیا ذائقہ پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے یہ نیا ذائقہ شاد عارفی سے ان کے گہرے تعلق خاطر کی دین ہے ، شاد عارفی معاشرے کی کروٹوں کے ایک نہایت زیرک بنا صفا تھے اور ایک خداداد نظر عمیق کی حدود سے ایشیا، اقرا اور رویوں کی ناہمواریوں کو زیر لب بستم کے ساتھ غنانی زد کرنے میں کامیاب تھے ، مظٖفر حنفی نے جب غزل غزل کے میدان میں قدم رکھا تو ان کے یہاں شاد عارفی کا طنزیہ اور رمزیہ انداز زیر لب تبسم کے بجائے تغزل کی لطیف ترین کیفیات سے محلو ہو کر ایک ایسے نئے انداز اور لہجے میں ابھر آیا جو ان کے معاصرین کے ہاں نمایاں نہیں تھا‘‘

مظفر حنفی کا کام بے حد وسیع افق پر پھیلا ہوا ہے انھوں نے مختلف موضوعات پر تقریباً ترپن۵۳ کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں شاعری، افسانہ، تنقید، تحقیق، ترتیب و تدوین، تراجم، سفرنامہ ادب اطفال سب ہی کچھ ہے۔ ان کے گیارہ شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں ، ان میں ڈیڑھ ہزار غزلیں سوا سو نظمیں پچھتر رباعیاں اور دیگر اصناف سخن پر مشتمل تخلیقات ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ہر شعری مجموعے میں دو سو غزلیں پیش کی ہیں اور ایسا ہی ہے یہ دعویٰ مضبوط ہے دلیل و شواہد سب موجود ہیں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے میر تقی میر کے بعد سب سے زیادہ شعر کہے ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے میں چالیس برسوں سے ان سے واقف ہوں۔ ان کی بیشتر کتابیں پڑھی ہیں اردو کا ایک بھی ایسا جریدہ با اخبار نہیں جس میں مظفر حنفی کا کلام شائع نہ ہوتا ہو۔ جہاں تک میں محسوس کرتا ہوں وہ اردو دنیا کی کسی تحریک سے نہ الگ رہے ہیں اور نہ اس سے اس قدر وابستہ ہوئے کہ ان کی شناخت ہی ختم ہو جائے۔ ترقی پسندیت کا پرچم لہرایا، جدیدیت نے جھنڈے گاڑ  ے ، مابعد جدیدیت نے سر اٹھایا، مگر مظفر حنفی کی شاعری جو قدیم اردو فارسی ادب کی جڑ وں سے نکل کر آئی تھی اسی سطح پر اپنا اظہار کرتی رہی لیکن بدلتی ہوئی ادبی قدروں سے انحراف بھی نہیں کیا۔ اسے قادر الکلامی کا نام دیا جا سکتا ہے ، مجھے یاد ہے کہ برسوں پہلے ماہنامہ ’’شب خون‘‘ جب الٰہ باد کی سرزمین سے طلوع ہوا تو ان کا کلام بھی اس میں شائع ہوا:

سپاٹ لہجے کو لفظوں کی سان پر رکھ دے

سیاہ مرچ غزل کی زبان پر رکھ دے

جیب میں کیا ہے نئے چالیس پیسوں کے سوا

پرس میں منہ دیکھ لیتا ہوں تری تصویر کا

جدید غزل اپنے ابتدائی دور میں کچھ ایسے ہی خدوخال رکھتی تھی، لیکن مظفر حنفی نے اپنی شاعری میں کبھی اہمال کو جگہ نہیں دی ان کے یہاں ابہام ہے لیکن مناظر واضع ہیں اور پھولوں جیسی تازگی ہے ،  اہمال کا ایک بڑ  ا دور اردو شاعری پر گزر چکا ہے لیکن اس وادیِ پر خار میں سفر کرنے کے بعد بھی جن کا پیرہن سلامت رہا ان میں ایک مظفر حنفی بھی ہیں۔ اس طرح ان کی غزل ایک ہفت رنگی کہکشاں بن گئی جو ایسے رنگوں سے محلو ہے کہ ہر رنگ جاودانی ہے اسالیب کے اعتبار سے بھی لہجے کے اعتبار سے بھی، برسوں پہلے ان کے مجموعہ کلام ’’طلسم حروف‘‘ پر رائے دیتے ہوئے صاحب طرز انشاپرداز القاری نے یہ جملے لکھے تھے :۔

’’طلسم حروف کے شاعر نے شاد عارفی کے رنگ سے شروعات کی تھی، بے رحم چٹکیاں ، کھرونچ بے باکی، بے تعلقی، بے لطفی کی حد تک داغے طنز، گلی کے کھڑ  نج پر کھڑاؤں پہن کر کھٹا پٹ جلنے کی آوازیں ، شاد کی بازگشت سے نکل کر وہ یگانہ چنگیزی کے تیکھے لہجے دلنواز ترنم اور شدید تر سنگھرش نے اسے خاص اپنے زمانے کی کھردری حقیقتوں ، روزمرہ کی ناہمواریوں اور بیان کی آڑ  ی ترچھی لکیروں کا برتنا سکھایا، غزل تیار کرتے وقت وہ لفظوں کو کھرل اور ترکیبوں کو کپڑ  چھن نہیں کرتا، کھردرا پن رہنے دیتا ہے تاکہ آپ ایک گھونٹ میں حلق سے نہ اتار لیں، تھمیں ، اٹکیں ، چبائیں اور تب لطف لیں۔‘‘

مظفر کی شاعری پر اظہار خیال کرنے والے تمام ناقدین ادب نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ان کے یہاں شاد عارفی کے لہجے کا تیکھا پن شدت سے در آیا ہے لیکن یہ بھی کہ مظفر اپنا منفرد لہجہ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ شاد عارفی سے اپنی وابستگی و تعلق خود انھوں نے کیا کہا ہے دیکھئے۔

’’اپنے استاد شاد عارفی کی  انتقال (۱۹۶۴ء) کے بعد میں نے ان کے کلام کی ترتیب و تدوین کی اور ان کے ادبی مقام کے حصول کے لئے اپنی کوششوں کا آغاز کیا۔ سلسلۂ شاد عارفی کی چار پانچ کتابیں بھی شائع ہوئیں لیکن میرا جی چاہتا تھا کہ ان پر جم کر کام ہو ان کی شخصیت ان کے ادبی کارناموں پر تحقیقی مقالہ لکھا جائے اپنے مختلف احباب کو اس کام کی طرف مائل کرنے میں ناکام ہونے کے بعد میں نے ۱۹۶۹ء میں خود ہی طے کیا کہ اردو میں ایم اے کروں تاکہ شاد عارفی مرحوم پر پی ایچ ڈی کے لئے تحقیقی مقالہ لکھنے کا استحقاق حاصل ہو سکتا۔‘‘

ظاہر ہے کہ اس صورت میں مظفر حنفی کو اپنے استاد کے کلام کا تفصیلی مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور پھر لکھنے کا، اس طرح جو اپنا لہجہ تراشنے میں کامیاب ہو گئے نظم میں بھی اردو نثر میں بھی۔ مظفر حنفی کی غزل میں ماضی کی بازیافت بھی ہے ، اساطیری واقعات کو انھوں نے عصر حاضر کے تناظر میں پیش کیا ہے اور کامیاب رہے ہیں۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں ،

’’اردو والوں کو اکثر اس محرومی کا احساس ستاتا ہے کہ صنمیات (اساطیر)سے استفادہ کے مواقع انھیں دستیاب نہیں ، کیوں کہ اسلامی عقائد نے مائیتھولوجی پر قدغن لگا دی ہے ، مظفر حنفی اس محرومی کا شکار نظر نہیں آتے انھوں نے طلسم ہوشریا قصص الانبیا اور اسی قسم کی دوسری داستانوں میں اپنی شاعری کے لئے مائی تھولوجی کا کام لیا ہے جس کی وجہ سے ان کے یہاں بہے سے اشعار صدیوں کی وسعت ایک پر اسرار تحیر اور طلسمی کیفیت کی دھوپ چھاؤں نظر آتی ہے مثلاً

ملا جو سایہ تو دیوار آ پڑی سر پر

جہاں کھلا تھا کوئی در بلا نکلتی تھی

اس وقت جب طلسم فلک ٹوٹنے کو تھا

ایسا ہوا کہ مجھ کو بلانے لگی زمیں

بدر منیر کی مہک چاند کی ہر کرن کے ساتھ

خوف زدہ سا بے نظیر چودھویں سال کے سبب

ادھر ساحل پہ ان کا پھونک دینا کشتیاں اپنی

ہمارا پرچم و نقارۂ لشکر جلا دینا

روز اس کے پاس جا کر بیٹھنا

روز کچھ دیوار جیسا درمیاں

شیو جی تانڈو ناچ گئے

وہ منظر سے ہلا نہیں

مجھے پروفیسر گوپی چند نارنگ کے اس خیال سے اتفاق نہیں ہے کہ اسلام نے اساطیری بیان پر واقعات پر یا ان کے مطالعہ پر کوئی قد غن لگا رکھی ہے ایسا کچھ نہیں ہے ہاں اسلام کا چوں کہ اساطیر سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے صنمیاتی واقعات کو یا مائتھولوجی کو جزو ایمان نہیں بنایا جا سکتا کیوں کہ اس سے شرک کے پہلو برآمد ہوتے ہیں۔ خدائے تعالیٰ کی وحدانیت پر حرف آتا ہے ، رہا اردو والوں کا سوال خاص طور پر شاعروں کا تو باستثنائے چند آج کی نئی نسل میں کوئی اس قابل ہے ہی نہیں کہ مائی تھولوجی پڑھے اسے سمجھے اور اسے شعر میں اس طرح استعمال کرے کہ آج کی بات معلوم ہو یعنی وہ کیفیت وہ نظر نامہ جس کے لئے ’’ماضی کی بازیافت‘‘ کی اصطلاحی وضع کی گئی تھی پھر طلسم ہوش وبا جیسی غیر اسلامی کتابوں کے ساتھ قصس الانبیا کا ذکر لا لینی ہے۔ انبیا علیھم السلام کے واقعات اسطور نہیں ، فرضی نہیں ، من گھڑ  ت نہیں وہ سب حقائق پر مبنی ہیں ، کچھ دنوں پہلے اردو کے ایک بڑ  ے نقاد نے ایک کتاب پر رائے دیتے ہوئے ’’اسلامی اساطیر‘‘ کی اصطلاح وضع کی تھی، جو قطعی مہمل تھی۔

اگر کسی واقعے میں کردار مسلمان ہوں تو اس سے اسلام کا کیا تعلق ہے (ہاں اسلامی تاریخی واقعات اس زمرے میں نہیں آتے ) مثنوی سحرالبیان، گلزار نسیم، طلسم ہوشربا داستان امیر حمزہ، باغ و بہار، آرائش محفل، الف لیلہ یہ سب اساطیری داستانیں ہیں ان کا اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں ہے بہتر ہے کہ قصص الانبیا کو اس زمرے میں نہ رکھا جائے۔ ظاہر ہے کہ مظفر حنفی کا مطالعہ وسیع ہے ان کے یہاں عالمی اساطیر کے منظر نامے ہیں اور اعلیٰ ادب کی پہچان بھی یہی ہے وہ ماضی کی بازیافت کرے ، صنمیات ایک ہے کراں موضوع ہے اس سے استفادہ کرنا چاہئے :

اور پھر آخری درویش کی باری آئی

باغ افسانہ میں ندرت کی سواری آئی

باب طلسم ہوش وبا مل گیا مجھے

میں خود کو ڈھونڈتا تھا خدا مل گیا مجھے

حرملہ، حرملہ پکارتا ہوں

ہے کوئی تیر مارنے والا

مظفر حنفی نے قدیم کو پوری طرح اپنے وجود میں جذب کیا ہے تب جا کر جدید تک ان کی رسائی ہوئی ہے یہ ہے کوہ کنی ، خمارا شگافی اور اس طرح انھوں نے سنگ زاروں میں تازہ خدوخال کی فصل اگائی ہے اور عصر حاضر کے لمحات کی شاخوں میں پھول کھلانے میں کامیاب ہوئے ہیں انھوں نے بہ قول شمس الرحمٰن فاروقی اس پر عمل کیا ہے :۔

’’قدیم کو جانے بغیر جدیدیت نہیں سکتا قدیم سے انحراف بھی کرنے اور جدید کا قائم کرنے کے لئے بھی قدیم کو جاننا ضروری ہے ورنہ ہمیں کیسے معلوم ہو گا کہ ہمیں کس بات سے انحراف کرنا ہے اور کس حد تک انحراف کرنا ہے ‘‘

قدیم و جدید کے حوالے سے یہ رائے الگ سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کے جلوے مظفر حنفی کے یہاں قدم قدم پر نظر آتے ہیں ،

تقسیم ہو رہے تھے چمن میں گل سرار

میں نے بھی ایک نگینۂ شبنم اٹھا لیا

وہ ظالم دیکھ لیتا ہے تو دل پر تیر چلتے ہیں

پلک جھپکاتے تو تلوار پر تلوار گرتی ہے

نہ جانے کب سے زمین گھومتی محور پر

میں بن چکا ہوں مجھے چاک سے اتارا جائے

چلے چلو کہ خبر گرم ہے ہواؤں نے

حلف اٹھا یا ہے بازو ہمارے توڑ  نے کا

یہ وہ فکری افق ہے جہا نخل ہائے ثمر وار کا ایک انبوہ بے کراں ہے ، ایسے ثمر شیریں جو تا حد نظر پھیلے ہوئے ہیں اور خوشوں کی شکل میں اپنی شاخوں میں زندگی کی بہار دکھا رہے ہیں مظفر حنفی نئی نئی زمینوں کے بادشاہ ہیں وہ اس راز سے واقف ہیں کہ نئی زمینیں فکری شگفتگی کو ایک جہان روشن دیتی ہیں ، بحروں کی شکست و ریخت بھی ان کے یہاں خوب ہے انھوں نے اوزان  و بحور کو نئے نئے تخلیقی پیرائے دیئے ہیں یہ منظر میں بتاتا ہے کہ علم عروض و معانی پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ ذخیرۂ الفاظ مظفر حنفی کی شاعری کا بے حد عمیق و بسیط پہلو ہے ، اس دور میں جب کہ ہماری نئی نسل کے پاس غزل کہنے کے لئے چند الفاظ ہیں مظفر کی غزل میں الفاظ کا تنوع ہے گویا یہ بتانے کی کوشش ہے کہ غزل ہر لفظ کی متحمل ہو سکتی ہے بشرطیکہ اس کا استعمال تخلیقی ہو اور یہ فن انھیں میرؔ نظیرؔ، کبیرؔ، یگانہؔ، انیسؔ اور شاد عارفی سے ملا ہے ، عام طور پر زود گوئی کو شاعری کے لئے مذموم قرار دیا جاتا ہے لیکن اگر اشعار معانی سے پُر ہوں خواہ وہ جلدی میں کہے گئے ہوں یا کثیر تعداد میں کہے گئے ہوں تو پھر ان سے تحقیقی ہنر نمایاں ہوتا ہے ، یہ احساس ہوتا ہے کہ شاعر کے پاس ذخیرۂ الفاظ بھی ہے اسلوب بھی ہے اور الفاظ کو برتنے گویا مرصع کاری کا سلیقہ بھی ہے یہ تمام باتیں مظفر حنفی کی شاعر میں ملتی ہیں جو ہمیں اس عہد مین ان بزرگوں کی یاد دلاتی ہے جن کا فن ہمارے لئے مشعل راہ ہے جس سے ہم اکتساب نور کرتے ہیں اور شعری تہذیب کی پر اسرار جہتوں سے آشنا ہوئے ہیں

بعض حضرات کا اعتراض ہے کہ مظفر حنفی نے زبان میں تبدیلیاں کی ہیں تذکیر و تانیث کا لحاظ نہیں رکھا ہے بعض مقامات پر قوافی مدتی اعتبار سے استعمال کیے ہیں۔ اس کا مثبت جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ لسانیات و شعریات کی تخلیقی سطح بیشتر تکلفات سے پرے ہوتی ہے اور پھر یہ کہ شاعر اب اس بلند مقام تک پہنچ چکا ہے کہ لاکھوں الفاظ اس کے گلخن فکر میں تپ کر کندن ہو کر شعر کا روپ اختیار کر چکے ہوں تو پھر اس کا یہ حق ہے کہ تبدیلیاں کرے اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے زبان کی توسیع میں یہ بھی ایک نکتہ ہے مگر یہ کیفیت بہت زیادہ ان کے یہاں نہیں ہے

چاندنی میں جگ مگ ہو گی جہاں وہ ہو نہیں گے

ہم جہاں ہوں گے وہاں بادل برستا ہوئے گا

دم گھٹ رہا ہے سمٹی ہوئی شش جہات میں

ان سے بڑ  ا وبال باد بان باد

ایسی کوئی نگاہ کہ سر میں نہیں رہیں

اندیشہ ہائے سود و زیاں بار بادشاہ

اک جُھر جُھری سی دور تلک لی زمین نے

بچے نے شاخ گل سے بندھا بم اٹھا لیا

شوریدگی کا حکم چلے گا زمانے میں

ذروں نے گرد باد کا پرچم اٹھا لیا

ساحل نے دیوار کھڑ  ی کی کشتی نے منجدھار بنایا

آخر میں نے بھی جھلّا کر چپو کو تلوار بنایا

 

 

 

 

 

اعزاز افضل

روحِ غزل

 

پچھلے دو تین ماہ کے دوران منظر عام پر آنے والی اُردو مطبوعات میں سب سے زیادہ قابلِ بحث اور لائقِ توجّہ کتاب کا نام ’’روحِ غزل‘‘ ہے جسے ’انجمن روحِ ادب‘ (الٰہ آباد) کے لیے ڈاکٹر مظفر حنفی (پروفیسر اقبال چیئر، کلکتہ یونیورسٹی) نے مرتب کیا ہے اور موڈرن پبلشنگ ہاؤس ۹۱۔گولہ مارکیٹ دریا گنج، نئی دہلی۔۲) نے اپنی روایتی نفاست اور طباعتی خوش سلیقگی کے ساتھ شائع کیا ہے۔

’’انجمن روحِ ادب‘‘ (الٰہ آباد) کا قیام ۱۹۴۰ء میں ہوا اس کے بانی مشہور ادب نواز اور اُردو دوست سرتیج بہادر سپرو تھے جو علی الاعلان اُردو زبان کو ہندوستان کا سب سے بڑ  ا سرمایہ اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان یکجہتی اور یگانگی کی علامت قرار دیتے تھے۔ چنانچہ اس تہذیبی روایت کو زندہ رکھنے اور فروغ دینے کے لیے انہوں نے ’’انجمن روحِ ادب‘‘ کی داغ بیل ڈالی۔ پچھلی نصف صدی میں یہ انجمن مختلف نشیب و فراز سے گزرتی رہی اور اپنی استعداد کے مطابق اور وقتاً فوقتاً علمی تقریبات، مشاعرے ، سیمینار وغیرہ منعقد کرتی رہی لیکن میری ناقص رائے کے مطابق ان سب کی نوعیت مقامی اور افادیت محدود تھی، میں اسے اردو ادب کے حق میں فالِ نیک تصور کرتا ہوں کہ جب اس انجمن کی عمر پچاس برس کی ہوئی اور دسمبر ۱۹۹۲ء میں اس کے جشنِ زرّین منانے کا موقع آیا تو انجمن کے بے حد با عمل، دور اندیش اور عمدہ انتظامی صلاحیتوں کے حامل سکریٹری سید عبد الکریم صاحب تھے جو حسنِ اتفاق سے ڈاکٹر مظفر حنفی کے ہم زلف بھی ہیں۔ موصوف نے اپنی انجمن کے رفقائے کار کو، جو اس موقع پر ایک بڑ  ے مشاعرے کے انعقاد کی خواہش رکھتے تھے ، اس امر کی جانب توجہ دلائی کہ مشاعرہ بے حد مقبول ہونے کے باوجود ’’انجمنِ روحِ ادب‘‘ کی شہرت اور دوام کا سبب نہیں بن سکتا، اس کی جگہ پچھلی نصف صدی کے دوران (جو ’’انجمنِ روحِ ادب‘‘ کی مدت عمر ہے ) اردو غزل کے سرمائے میں جو اضافہ ہوا ہے اس کا ایک پچاس سالہ بھر پور عالمی انتخاب شائع کیا جائے جو اپنی دستاویزی اہمیت کی بنا پر ’’انجمنِ روحِ ادب‘‘ کی خدمات کا صدیوں احساس دلاتا رہے۔ فطری بات ہے کہ اس انتخاب کو تیار کرنے کے لیے سید عبد الکریم صاحب کے ذہن میں پروفیسر حنفی کا نام آیا۔

بلا شبہ سکریٹری انجمن نے اس اہم کام کے لیے ایک بے حد مناسب شخص کا انتخاب کیا۔ مظفر صاحب نہ صرف ایک معتبر اور صاحب طرز شاعر ہیں بلکہ آلِ احمد سرور جیسے جیّد عالم نے ان کی بالغ نظری اور تنقیدی بصیرت کا اعتراف بھی کیا ہے۔ ان کی پچاس سے زیادہ تصنیفات و تالیف شائع ہو چکی ہیں جس میں سے ہر ایک نے اپنی اہمیت کا احساس دلایا، اردو ادب کی قدیم و جدید، نثری اور شعری اصناف پر ان کے وقیع مضامین، طنز و مزاح کی سمت و رفتار پر مبسوط مقالے ، ادبِ اطفال کے آغاز و ارتقا پر پُر مغزی تحریریں ، میر حسن، حسرت موہانی اور شاد عارفی جیسی شخصیتوں پر مستند تحقیقی کتابیں انہیں ایک ممتاز نقاد اور محقّق کا درجہ عطا کرتی ہیں اور نو، دس شعری مجموعے عصرِ حاضر پر اہم شاعر تسلیم کراتے ہیں  تو سلسلۂ شادیات ماہنامہ ’’نئے چراغ‘‘ کی تدوین اور ترقیِ اردو بورڈ کی جانب سے سال بہ سال شائع ہونے والی ’’وضاحتی کتابیات‘‘ کی تالیف انہیں اپنے دور کے بہترین مرتبین میں شامل کرتی ہیں ایسی متنوع خصوصیات کے حامل شخص سے انجمن کے ساتھ اردو دنیا بھی بجا طور پر ایک بڑ  ے کارنامے کی توقع رکھتی تھی جو عملاً ہمارے سامنے ’’روحِ غزل‘‘ کی شکل میں آیا ہے۔

یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ مرتب نے بے حد قلیل مدت میں جب کہ ان کی ذاتی لائبریری دہلی میں ہے اور یہ کام کلکتہ میں رہ کر کیا گیا ہے۔ کیسے تقریباً ۷۰۰ شاعروں کی تین تین اور چھ چھ غزلوں کے انتخاب اتنی جلد مکمل کر لیا۔ کتاب کا مقدّمہ اور سکریٹری انجمن کی رپورٹ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کام کا آغاز جولائی ۱۹۹۲ء میں ہوا اور ۸۰۰ صفحات سے زائد ضخیم کتاب جس کے ہر صفحے پر تین تین غزلیں موجود ہیں ، جنوری ۱۹۹۳ء میں منظر عام پر آ گئی۔ مرتب نے بقیدِ حیات شعراء کے انتخاب میں یہ مناسب اصول پیشِ نظر رکھا کہ متعلقہ شاعروں سے براہ راست ان کی پسندیدہ غزلیں منگوائی جائیں اور ان میں سے تین یا چھ اس انتخاب کے لئے منتخب کر لی جائیں اس طرح مظفر حنفی کے بلا مبالغہ ہزاروں مراسلے شاعروں کو بھیجنے پڑ  ے اور ان شعراء میں ہندوستان کے ہر گوشے کے فن کاروں کے علاوہ پاکستان، بنگلہ دیش، انگلینڈ، یورپی ممالک، ریاستہائے متحدہ امریکہ اور خلیجی ملکوں میں مقیم غزل گو شامل ہیں جن شاعروں کا کلام ان کے تساہل یا ڈاک کی بد نظمی کے باعث براہِ راست دستیاب نہیں ہو سکا ان کی تخلیقات مرتب نے شعری مجموعوں اور رسالوں سے حاصل کیں اسی طرح ان غزل گویوں کی نگارشات، جو اب ہمارے درمیان نہیں ہیں قدیم رسالوں اور دواوین سے حاصل کی گئی ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ اس انتخاب میں ۱۹۴۰ء سے لے کر آج تک کے تمام اہم اور لائقِ ذکر صفِ اوّل، صفِ دوم اور صفِ سوم کے شاعر جلوہ گر ہیں یعنی کتاب میں شامل کم از کم نصف (تقریباً ۳۵۰) شاعروں کی غزلیں پرانے رسالوں اور کم یاب شعری مجموعوں سے حاصل کی گئی ہیں ایسی جانکاہی، دیدہ ریزی اور لگن کے ساتھ تکمیل پانے والا یہ انتخاب بہ ہر اعتبار تا حال منظرِ عام پر آنے والے تمام غزلیہ انتخابات سے زیادہ وقیع، جامع اور وسیع ہے۔

اب تک غزل پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لئے ’’نقوش‘‘ (لاہور، مدیر، محمد طفیل) ’’فنون‘‘ (لاہور، مدیر احمد ندیم قاسمی)، ’’گفتگو‘‘ (بمبئی،  مدیر، سردار جعفری) اور ’’نئے نام‘‘ (الٰہ آباد،مرتب شمس الرحمٰن فاروقی) وغیرہ بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ترقی پسندوں کو فوقیت دیتا تھا تو کسی کو نظم میں جدیدیت زیادہ پسند تھی یعنی ہر انتخاب میں نظریاتی پسند و ناپسند کا ہاتھ تھا پھر یہ بھی ہے کہ غزل کے ان تمام انتخابات میں سب سے زیادہ ضخیم دو جلدوں پر مشتمل ’’فنون‘‘ کے غزل نمبروں میں زیادہ سے زیادہ ۲۲۵ شاعروں کا کلام شامل تھا اور یہ بھی زیادہ تر پاکستان سے تعلق رکھتے تھے نیز اس سلسلے کا آخری بڑ  ا انتخاب لگ بھگ بیس سال پہلے شائع ہوا۔ اب قدیم و جدید ترقی پسند اور کلاسیکل وغیرہ کی حصار بندیوں کو توڑ  تے ہوئے اور جغرافیائی حدود سے بالاتر ہو کر مظفر حنفی نے جو انتخاب غزل تیار کیا ہے اس میں ہر نظریئے ہر فرقے اور ہر علاقے کے شاعروں کو غیر جانبداری کے ساتھ جگہ مل گئی ہے اور اس انتخاب میں قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ پہلے شائع شدہ انتخابات کی غزلیں شامل نہیں ہیں۔

یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ مرتب ایسے نامور اہل قلم کی غزلیں حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں جن کے بارے میں عام طور پر خیال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ان لوگوں نے غزلیں بھی کہی ہوں گی مثلاً اس انتخاب میں ذوالفقار علی بخاری، فضل احمد کریم فضلی، سید صدیق حسن، نیاز فتح پوری، ضمیر جعفری، مشفق خواجہ، ن۔م راشد وغیرہ کی غزلیں پڑھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔

کتاب کے لیے مرتب نے ایک بے حد مبسوط مقدمہ بھی قلم بند کیا ہے جس میں غزل کے فن، غزل کی زبان، غزل کی رمزیت و اشاریت اور اس کی پہلو داری کے تعلق سے بہت سے گوشوں سے علمی و تحقیقی انداز میں اس طرح روشنی ڈالی ہے کہ یہ باتیں بیک وقت عوام و خواص کی سمجھ میں آ جاتی ہیں آگے چل کر اس مقدمے اور غزل کے آغاز سے لے کر عہد رواں کے ارتقائی سفر اور منزل بہ منزل واقع ہونے والی تبدیلیوں کا بھی بالتفصیل جائزہ لیا گیا ہے۔ جو عموماً اردو کے ہر طالب علم اور بطورِ خاص غزل پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مقدمے کے اختتامیہ میں پروفیسر حنفی نے ان اصول و ضوابط کی وضاحت بھی کر دی ہے جو اس انتخاب کی تیاری کے دوران اپنے لیے متعین کئے تھے ساتھ ہی ان حدود کی طرف بھی مقدمے میں اشارے کر دیئے گئے ہیں جن کی وجہ سے اس کام کو اور زیادہ نہیں پھیلایا جا سکتا تھا۔

ان تمام مراحل سے گزر کر’’ روحِ غزل‘‘ کی شکل میں جو کتاب ہمارے سامنے ہے اس کے چار ادوار مقرر کئے گئے ہیں۔ پہلے دور میں ۸۳ ایسے شاعروں کا کلام شاملِ اشاعت ہے جو نہ صرف ۱۹۴۰ء تک بقید حیات تھے بلکہ ان کی ادبی حیثیت بھی مستحکم ہو چکی تھی۔ میں سمجھتا ہوں اس دور کے شاعروں کا کلام حاصل کرنے میں سب سے زیادہ دشواری پیش آئی ہو گی کیوں کہ ان میں سے بیشتر کے مجموعے ہائے کلام اب لائبریریوں میں مشکل سے دستیاب ہوتے ہیں۔ دوسرے دور میں ۱۹۴۱ء سے ۱۹۵۵ء تک کے غزل گویوں کا انتخاب شاملِ اشاعت ہے جنہوں نے اپنی ادبی شناخت اس مدت میں بنائی ہے۔ یہ دور کم و بیش اردو ادب میں ترقی پسندوں کی بالا دستی کا ہے اور اس لیے اس دور میں جگہ پانے والے ۱۶۰ شاعروں میں اکثریت سینئر ترقی پسند غزل گو کی ہے ، اس انتخاب کے ذریعہ ایک بڑ  ی غزل فہمی کا ازالہ بھی ہو گیا کہ ترقی پسند ادبی تحریک نے دوسری اصناف ادب کو خواہ کتنا ہی فائدہ پہنچایا ہو، اردو غزل کو اس تحریک سے کچھ زیادہ حاصل نہیں ہوا۔ تیسرے دور میں شمولیت ایسے شاعروں کی ہے جن میں اکثر جدیدیت کے علمبردار ہیں ۱۹۵۶ء سے ۱۹۷۵ء کے دوران معروف ہونے والے ایسے غزل گویوں کی تعداد ۱۸۷ ہے۔ یہ ہم عصر شاعر ہیں اس لیے یہاں تعلقات اور عداوتیں اپنا رنگ زیادہ دکھا سکتی تھیں لیکن مجھے یہ کہتے ہوئے مسرت ہوتا ہے کہ فاضل مرتب نے اپنی نگاہ انتخاب میں ایسی رکاوٹ کو حائل نہیں ہونے دیا اور دیانتداری کے ساتھ اپنے معاصرین کی تخلیقات کا جامع انتخاب تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

عام تجربہ یہ ہے کہ شہرت اور عمر کی ایک خاص منزل پر پہنچ کر ہمارے نقاد اور تخلیق کار اپنے زمانے کے بالکل نئے لکھنے والوں کی تخلیق کاوشوں سے بے نیاز نہ گزر جاتے ہیں اور اکثر نئی نسل کو ESTABLISHED اہل قلم سے گلہ کرتے ہوئے پایا جاتا ہے۔ نظر انصاف سے دیکھا جائے تو ’’روحِ غزل‘‘ میں ایسی کوئی خامی نہیں پائی جاتی۔ مظفر صاحب نے اس دور میں جو ۱۹۷۶ء تا ۱۹۹۱ء کا احاطہ کرتا ہے ۲۶۲ جدید  غزل گویوں کا منتخب کلام شامل کیا ہے یعنی اس دور کے شاعروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جسے ناقدین عام طور پر کم سے کم خاطر میں لاتے ہیں اور یہ مرتب کی اصابت نظر اور وسیع القلبی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

مرتب نے اس انتخاب کی فہرست سازی کے دوران ایک بے حد مشکل مرحلے کو نہایت خوش اسلوبی اور دانش مندی کے ساتھ طے کیا۔ عام طور پر شاعروں کو اپنی اہمیت اور فوقیت کا شدید احساس ہوا کرتا ہے اور وہ تقدیم و تاخیر کو خاصی اہمیت دیتے ہیں۔ پروفیسر حنفی نے ہر دور کے شعراء کی فہرست میں الفیائی ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔ شاملِ انتخاب شاعروں کو ردیف وار فہرست دیکھ کر کسی طرح کا احساسِ کمتری یا برتری نہیں ہو گا۔

خو گرِ حمد سے تھوڑ  ا سے گلہ بھی سُنیے

(۱)    انتخاب میں کچھ شاعروں کی چھ چھ غزلیں بھی منتخب کی گئی ہیں جب کہ چھ سو سے زیادہ غزل گویوں کی تین تین غزلیں شامل ہیں بظاہر ان شاعروں کو فوقیت اس لیے دی گئی کہ مختلف تعلیمی نصابات میں ان کی غزلیں شامل ہیں یا شامل ہونے کا امکان ہے لیکن یہ رمز ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ محبوب راہی اور اسعد بدایونی جیسے شاعروں کی تو اس کتاب میں چھ چھ غزلیں نظر آتی ہیں لیکن مجروح سلطان پوری جیسے بڑ  ے غزل گو کی صرف تین ہی غزلوں کو لائقِ اعتنا سمجھا گیا۔ مغربی بنگال کے تعلق سے بھی کچھ عرض کرنا ہے کہ ہر چند اس علاقے کے متعدد شاعروں کی چھ چھ غزلوں نے مجموعے میں جگہ پائی لیکن یہ سب مرحومین ہیں ، جی چاہتا ہے کہ کچھ بقیدِ حیات غزل گویوں کو بھی یہ شرف حاصل ہوتا۔

(۲)    ادوار کے تعین میں بھی کچھ باتیں محلِ نظر ہیں ، کہیں کہیں جونئر شعراء کو پہلے اور سینئر شاعر کو بعد میں رکھا گیا ہے مثلاً رند ساغری، شوق سالکی، کنول سیالکوٹی، حباب ہاشمی وغیرہ کو ان کی حیثیت سے برتر مقامات پر متمکّن کیا گیا ہے جب کہ خلیل الرحمٰن اعظمی، افتخار عارف، پروین شا کر، ملک زادہ منظور احمد وغیرہ چوتھے دور میں شامل کیے گئے ہیں پھر بھی ہمیں مرتب کی نیت اور خلوص پر شُبہ نہیں ہے کیوں کہ انہوں نے مقدمے کے صفحہ نمبر ۳۶ پر خود ہی ایسے تسامحات کے لئے معذرت کر لی ہے۔

(۳)   پروفیسر مظفر حنفی کلکتہ کے لکھنے والوں کا تذکرہ اکثر اپنے مضامین میں کرتے رہتے ہیں اور اب انہوں نے اس مجموعے میں مغربی بنگال کے پچیس، تیس شاعروں کی منتخب غزلیں شامل کی ہیں جن میں دو ایک تو ابھی مبتدی ہی سمجھے جاتے ہیں۔ ہمیں بغرضِ حوصلہ افزائی انتخاب میں ان کی شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اچھا ہوتا اگر اس انتخاب میں حامی گورکھپوری، قاصر مجیبی، ظہیر ناشاد، احمد رئیس وغیرہ بھی شریک ہوتے۔ بے شک کچھ شاعروں کو شاملِ انتخاب کرنے کا یہ جواز مرتب کے پاس ہے کہ ان کے مجموعے شائع نہیں ہوئے یا یہ رسائل میں نظر نہیں آتے ، لیکن حامی گورکھپوری کا مجموعۂ کلام ’’شاخِ زیتون‘‘ تو منظر عام پر آ چکا ہے۔ یہاں انصاف کے تقاضے کے تحت یہ کہہ دینا بھی ضروری ہے کہ پچاس برس کے اور کم و بیش ۷۰۰ شاعروں کے درمیان مغربی بنگال کے شاعروں کا تناسب بھی خاصا ہے اور اس سے پہلے ہند و پاک کے کسی بھی غزلیہ انتخاب میں دو چار کے علاوہ اتنی بڑ  ی تعداد میں اس علاقے کے شاعروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ شاعروں کے منتخب کلام کے ساتھ ساتھ ان کے سوانحی اشارے بھی شائع کر دیئے جاتے تو یہ کتاب زیادہ مفید اور وقیع ہو جاتی۔ یہ ایک اچھی خواہش ہے لیکن مرتب نے مقدمے میں خود ہی وضاحت کر دی ہے کہ اس کے پاس صرف چند ماہ کا وقت تھا اور ناشر انجمن کے مالی وسائل بھی محدود تھے پھر اگر فن کاروں کے سوانحی اشارے انتخاب میں شریک کیے جاتے تو شاعروں کی غزلیں کم کرنی پڑتیں یا ان کی تعداد میں خاصی کمی واقع ہو جاتی یعنی زیادہ سے زیادہ پانچ سو شاعر انتخاب میں جگہ پا سکتے تھے۔ چنانچہ اس صورت میں بھی اعتراض وارد ہوتے اور دوسری طرف مرتب نے واضح کر دیا ہے کہ حال ہی میں معروف شاعروں اور مصنفوں کی سوانحی اشاریات پر مشتمل کئی تصنیفات منظر عام پر آ چکی ہیں اس لیے اعادے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔

یہ باتیں تو اچھے کارنامے کو نظرِ بد سے بچانے کے لیے عرض کر دی گئیں۔ بحیثیت مجموعی میں اعتراف کرتا ہوں کہ اردو غزل کا اتنا بڑ  ا، ایسا جامع اور وقیع غیر جانبدارانہ انتخاب پہلی بار سامنے آیا ہے۔ اور پروفیسر آل احمد سرور کے اس خیال سے مجھے صد فیصد اتفاق ہے کہ یہ انتخاب ہمارے دور کی غزل کا منظر نامہ ہے اور اس کے ذریعے سے پچھلے پچاس سال میں غزل کی رفتار، مزاج اور میلان کی بھر پور نمائندگی ہوتی ہے۔ اس کارنامے کے لیے مرتب ، ناشر اور مہتممِ طباعت کو جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔(بشکریہ: اوراق ، لا ہور ۱۹۹۳؁ء)

 

 

 

 

کلیم حاذق

 

                یا اخی: ایک تجزیاتی مطالعہ

 

اردو شاعری بالخصوص غزل کے تعلق سے جدیدیت، جدت پسندی، جدت جوئی اور پھر جدت طرازی کم و بیش آدھی صدی پر محیط ہے۔ فکری اور اسلوبیاتی مطمحِ نظر کی اس تبدیلی نے بلا شک و شبہ ہماری ادبی روایت میں ایک تابناک مقام محفوظ کر لیا ہے کہ نئے پن کی تلاش صرف ہمارے ہی عہد کا طرۂ امتیاز نہیں بلکہ یہ عمل انسانی ارتقاء کی تاریخ میں بذات خود ایک الگ تھلگ روایت کا درجہ رکھتا ہے۔ لیکن یہ بھی امر واقعہ ہے کہ اس دم توڑ  تی صدی میں فنون لطیفہ پر اثر انداز ہونے والی سماجی و ثقافتی تبدیلیاں اتنی سرعت کے ساتھ صورت گیر ہوتی چلی گئیں جن کے زیر اثر ہر نئی نسل اپنی قریب ترین پیش رو نسل کا بھی آموختہ بننے کے لئے خود کو تیار نہیں پاتی کہ انسانی ذہن پر پے بہ پے تغیرات کی اس یلغار نے اسے ارتکاز سے محروم کر دیا ہے اور اس کی کیفیت اس آبی پودے کی سی ہو گئی ہے جو سطح دریا پر بہاؤ کے رخ پر تیرتا رہتا ہے۔ اس صورت حال میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ہر نئی نسل کے یہاں اپنے پیش روؤں سے کچھ مختلف، کچھ منفرد ہونے کا رجحان اسے بے تکان صرف اور صرف رد عمل کے طور پر فکر و اسلوب کا معکوس بننے کے لئے مہمیز کرتا رہا۔ شوالے گرائے جانے لگے کج اساسی کی بنیاد پر نئے شوالوں کی تعمیر ہونے لگی معبود ایک رہا عبادت گاہیں بدلتی رہیں۔ ہر عابد بشارت دیتا رہا کہ صرف اسے ہی حقیقی عبادت کا شرف حاصل ہے کہ نئے معبد میں سجدہ ریزی کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فطری طور پر شوالوں کا منہدم ہو جانا اور غیر فطری طور پر خیالی دانش مندی کے جبر سے انسانی افعال کے کاغذی ڈھانچے تعمیر کرنا بجائے خود ایک غیر فطری عمل ہے کہ روایت کے گہرے شعور کے بغیر کچھ نیا کچھ منفرد پیش کرنے کی سعی فن کار کی تخلیقی توانائی کو اس آنچ سے محروم کر دیتی ہے جو روایت کے گہرے عرفان اور صدیوں پر پھیلے تخلیقی تجربات سے منقلب ہونے سے حاصل ہوتی ہے۔ اردو غزل نے افراط و تفریط کے اس عہد کو جھیلنے کی صعوبت برداشت کی اور نکھر کر کندن ہو گئی اس نازک صنف نے شمشیر و سناں ، زنجیر و زنداں ، دار و رسن، کی سخت گیریوں کو قاموس فکر کی گہرائی اور تعمق عطا کی، رسمیات کے شکنجوں سے خود کو آزاد کیا، پہاڑ  ی ندی کی طرح پر شور نغمات سے فضا میں ارتعاش پیدا کیا، اور جب تحیر کم ہونے لگا تو موجود کو ماورا کا ملبوس پہنا کر ان گنت خال و خد کو تخیل کے پردے پر اتارنا شروع کیا۔ میرے ہاتھ میں جو کتاب آئی ہے ، مرقع ہے ایک کینوس پر لا محدود مناظر کی عکاسی کا!

کتاب ڈاکٹر مظفر حنفی کی ہے ان کا تازہ ترین مجموعۂ غزل۔۔۔۔۔ یا اخی!۱۸۵ غزلیں ، فی غزل اوسطاً سات اشعار، پروفیسر آل احمد سرور کا پیش لفظ ڈاکٹر وزیر آغا کا مضمون بعنوان مظفر حنفی کی غزل، فلیپ پر پروفیسر گوپی چند نارنگ اور ساقی فاروقی کے تاثرات، سرورق پر زوال کا منظر نامہ پیش کرتا ہوا، پانی میں ایک ذرا اترا ہوا سورج، لوٹتے پرندے ، سورج کے دائیں طرف دونوں ہاتھ اٹھائے ایک انسانی شبیہ، جس طرح ملگجے اندھیرے میں دور سے نظر آتی ہے گویا صدا لگا رہی ہو۔۔۔۔۔۔ یا اخی! بیک کور کا منظر قدرے بدلا ہوا، سورج کچھ اور اتر آیا ہے انسانی ہیولا ڈوبتے سورج کے مقابل اسی طرح ہاتھ اٹھائے ، کچھ پرندے لوٹ چکے ، بائیں جانب شاعر کی تصویر، دائیں طرف یا اخی تحریر! سر ورق اکولہ کے شکیل اعجاز کی تخلیقی کاوش، چند لمحوں کے تفاوت کی منہ بولتی تصویر پیش کرتی ہے۔ غالباً یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ شاعر نے تخلیقی عمل کے کسی بھی لمحہ کو بے سود جانے نہیں دیا۔ صفحات پر اگر نمبر نہ دیئے جاتے اور نثری مضامین شاملِ کتاب نہ ہوتے تو یہ مجموعہ دونوں جانب سے پڑھا جا سکتا تھا۔

’’یا اخی‘‘ ڈاکٹر مظفر حنفی کا دسواں شعری مجموعہ ہے۔ پہلا مجموعہ پانی کی زبان ۱۹۶۷ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد تیکھی غزلیں (۱۹۶۸ء) عکس ریز، طویل طنزیہ نظم(۱۹۶۹ء) صریر خامہ(۱۹۷۳) دیپک راگ(۱۹۷۴) یم بہ یم(۱۹۷۹ء) طلسم حروف(۱۹۸۰ء) کھل جا سم سم(۱۹۸۱ء) پردہ سخن کا(۱۹۸۶ء) منظر عام پر آئے۔ آخری دو مجموعوں میں ایک دہائی کا فاصلہ ہے۔ ظاہر ہے کہ مظفر صاحب کتنے پر گو ہیں اس کا اندازہ تو مجموعہ ہائے کلام کی فہرست دیکھ کر ہو جاتا ہے ساتھ ہی احتمال بھی ہوتا ہے کہ تخلیقی رو میں خارو خس بھی آ گئے ہوں گے لیکن یا اخی کے مطالعے سے حیرت سی ہوتی ہے کہ ان غزلوں کے متعدد اشعار کہیں خیال و فکر اور کہیں اسلوب و لہجے کی اثر انگیزی کے باعث دیر تک اپنی گرفت میں رکھتے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ مظفر حنفی ہمارے عہد کے بے حد منتخب جدید شعرا میں شمار کیے جاتے ہیں۔ یہ کم بڑ  ی بات نہیں کہ اپنے منفرد اور کاٹ دار لہجے کی وجہ سے ان کی غزلیں دور سے پہچانی جاتی ہیں۔ ہر چند غزل جیسی لطیف ترین صنف سخن میں طنز یہ پیرائے میں اظہار کا عمل بذات خود ایک جوکھم کا کام ہے ہمارے بیشتر ہم عصر شعراء کے یہاں اس نوع کی شاعری میں بعض اوقات فکر و جذبے کی سرکشی ایک براہ راست عمل بن کر رہ جاتی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شعر نے مکالمے کی ہیئت اختیار کر لی ہے لیکن مظفر حنفی صاحب کی اردو کی غزلیہ روایت پر گہری نظر اور رموز فن پر قابل رشک دسترس نے غزل کی داخلی فضا کو مجروح و مطعون ہونے نہیں دیا ہے۔ بیشتر اہل نظر نے ان کے لہجے کی نشتریت کو شاد عارفی کا ترکہ ضرور کہا ہے لیکن اس اعتراف کے ساتھ کہ اس کی ’’بو قلمونی‘‘ طرحداری اور ابعاد مختلف ہیں۔

مندرجہ ذیل اشعار دیکھیں :

ذرا سی روشنی مانگی تھی رات کاٹنے کو

چراغ اتنے جلے گھر ہی پھونک ڈالا مرا

ہم تو خوشبو کی طرح خود ہی بکھر جاتے ہیں

تم وہ دیوار کہ مزدور اٹھاتا ہے جسے

سچ بولنے لگے ہیں کئی لوگ شہر میں

دیواریں اٹھ رہی ہیں نئے قید خانے کی

بلا سے بجھے یا بڑھے تشنگی

سمندر کو آداب کرتے رہو

میرے گھر میں جو کچھ بھی ہے موج بلا ہے تیرا

لے جا جو چاہے بیجا تفسیریں کیا کرتی ہے

ہم ستارے بنا کے نادم ہیں

آپ نازاں ہیں آبگینوں پر

طوفاں سے کیا باتیں کی ہیں پیارے مانجھی سچ بتلانا

دریا کو گروی رکھا ہے یا ساحل کو بیچ دیا ہے

جنوں تباہ نہ کر دے کہیں زمانے کو

یہ تیشہ دست ہنر میں رہے تو اچھا ہے

کیا دیر ہے مجھ کو بھی اجازت ہو رجز کی

حرف آنے لگا نام و نسب تک مرے مولا

محولہ بالا اشعار جہاں مظفر حنفی صاحب کی تیکھی زبان اور کاٹ دار لہجے کی تمثیل پیش کرتے ہیں وہیں اس امر کا اثبات کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کی غزلیں فن کار کی بے پناہ تخلیقی بصیرت کے باعث اس چیخم دھاڑ  سے پاک ہیں جو عموماً اس نوع کی شاعری کا طرۂ امتیاز بن جاتی ہیں۔ اک ذرا بدلے اور منفرد انداز کے ان اشعار کی فضا بندی غزل کی رسمیات سے قطعی مختلف ہے۔ لفظیات کے استعمال میں بھی آزادانہ روش اختیار کی گئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تصورات کے سارے کلیشے ایک ہی آن میں زمین بوس ہو گئے۔ کہاں روشنی روشنی کے تکرار کرتے اشعار اور کہاں یہ آگہی کے چراغ اتنے جلے کہ گھر ہی جل گیا، ہمارے عہد کی ایک عجیب تصویر پیش کرتی ہے ، نئی حقیقتوں کا ادراک ہوتا ہے۔ ان حقائق کا جو ہمارے آس پاس خوابیدہ نظر آتے ہیں۔

ذرا ان اشعار کے تیور دیکھیں :

بس کہہ دیا کہ ہم نہ چلیں گے کسی کے ساتھ

پیچھے پلٹ کے دیکھ رہا ہے زمانہ کیوں

سفر کیسا کہ باہم بر سر پیکار ہیں سارے

ہمارے کارواں میں کارواں سالار ہیں سارے

بادی النظر میں ان اشعار پر محض تضادات کو جنم دینے کا گمان ہو گا لیکن عصری تقاضوں کا دروں بینی سے جائزہ لیا جائے تو ادراک ہو گا اس جبر کا، جس نے اپنے آپ کو مختلف پردوں میں چھپا رکھا ہے کہ اس اختتام پذیر صدی میں دنیا سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ایک نئی جنگ سے نبرد آزما ہے۔ جہاں ثقافت کے خوش رنگ کھلونے بطور ہتھیار استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ایک زمین ایک ثقافت کے نام پر کس طرح دنیا کی رنگا رنگ تہذیب پر ایک مخصوص پاپولر کلچر غلبہ حاصل کرنے کی سعی کر رہا ہے ، اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں اور اس کے مقابل اپنی تہذیبی بقا کی جدو جہد میں کمزور طاقتوں کا موجودات سے انحراف اور اس سے پیدا ہونے والی کشمکش اور بے اطمینانی منظر نامے کو اور اجال دیتی ہے۔ ایسے کئی حوالے ان اشعار کے تعلق سے پیدا کئے جا سکتے ہیں۔

حنفی صاحب کی شاعری کو محض طنزیت اور نشتریت کے خانے میں محبوس کر دینا میری نگاہ میں ایک بڑ  ی نا انصافی ہو گی (ظاہر ہے میں انصاف کرنے نہیں بیٹھا ہوں اور نہ ہی اس کا اہل ہوں ) یہ ضرور ہے کہ ان کے اکثر اشعار میں پہاڑ  ی چشمے کے تیز رو بہنے کا عمل جاری و ساری نظر آتا ہے لیکن ان اشعار پر کیا کہیں گے :

آ گیا میں کسی جگنو کی نظر میں کیسے

بوند بھر نرم اجالا مرے گھر میں کیسے

وسعتیں مجھ کو خلاؤں میں صدا دیتی ہیں

یہ نشیمن کی گرہ پڑ  گئی پر میں کسے

قریب آؤ کہ منہدی رچی ہتھیلی پر

ستارہ دیدۂ نمناک سے اتارا جائے

ساری بستی پہ نہ لے آئے وہ آفت کوئی

کون ہے ، کوہ ندا روز بلاتا ہے جسے

اے گل تر شگفتہ باد، میں تو چراغ صبح ہوں

میری نجات کے لئے دامن باد کم نہیں

سانس لیتی ہے زمیں سن تو سہی

بیج پھوٹا ہے کہیں سن تو سہی

عصا نہیں ہے تو جادوگروں سے جنگ نہ کر

کہاں ہے تیرا قبیلہ کی راہ دے پانی

ان اشعار میں وہی تخلیقی رچاؤ ہے جو ہماری جدید ترین غزل کا خاص وصف ہے وہی پر اسرار دھند تہہ بہ تہہ نظروں کے سامنے حائل ہوتی ہوئی جس سے سب کچھ ہویدا نہ ہوتے ہوئے بھی ایک عجیب طرح کی سرشاری حاصل ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسے جہان معنی کو سیر کراتے ہیں جہاں ایک لمحے کے لئے سب کچھ اجنبی سا محسوس ہوتا ہے۔ بوند بھر نرم اجالا، نشیمن کی گرہ، ستارے کا دیدۂ نمناک سے اترنا، بیج پھوٹنے کو زمین کے سانس لینے سے عبارت کرنا۔ گل تر کو چراغِ صبح سے تعبیر کرنا نیز ہر دو کی رعایت سے دامن باد کا ذکر، ایسی تمثیلیں ہیں جو نشاط انگیز بھی ہیں اور کربناک بھی۔ شاید بڑ  ی غزل کے لئے راستہ کھل گیا ہے۔

مظفر حنفی صاحب نے کئی ہزار اشعار کہے ہوں گے شاید خود انہیں ان کے تمام اشعار ازبر نہ ہوں شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے بعض اشعار ان کے ہم عصروں اور پیش روؤں کی بازگشت معلوم ہوتے ہیں :

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے

مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے

(افتخار عارف)

مختلف زمین اور کچھ الگ فضا کے ساتھ مظفر صاحب کا شعر

کبھی حسین کبھی سرمد اور اب ہم بھی

گلے سے تیغ کا رشتہ بہت پرانا ہے

(مظفر حنفی)

مزید ایک شعر!

جل گیا دامن تو اب اظہارِ بیزاری نہ کر

ہم نہ کہتے تھے چراغوں کی طرف داری نہ کر

(اعزاز افضل)

رقیبوں سے بھی وہ اظہارِ بیزاری نہیں کرتے

ادھر ہم ہیں کہ خود اپنی طرف داری نہیں کرتے

(مظفر حنفی)

مزید ایک مثال

کسی شہکار کی تخلیق کے بعد

کاٹ لیتے تھے جو معمار کے ہاتھ

اب وہ سفاک نہیں ہیں پھر بھی

غیر محفوظ ہیں فن کار کے ہاتھ

(شاد عارفی)

مظفر حنفی صاحب کے شعر میں یہ فکر کروٹ بدلتی ہے :

شہکار کی تکمیل پہ کاٹے گئے بازو

کیا میرے ہی ہاتھوں پہ ہنر ختم ہوا ہے

مظفر حنفی صاحب نے غزلوں میں روایت شکنی بھی کی ہے لیکن اردو فارسی شاعری میں چراغ سے چراغ جلانے کی روایت شکنی اپنے اولین عہد میں خود غالبؔ نے بھی نہیں کی۔ اس مجموعے کے کچھ اشعار (سوائے آخری شعر کے ) حذف بھی کیے جا سکتے تھے۔ کہیں کہیں اشعار کا تب کی نذر ہو گئے۔

مجموعی طور پر یا اخی حالیہ دنوں میں شائع شدہ شعری مجموعوں میں نکلتا ہوا ہے کہ اس مجموعے میں اتنا تنوع ہے جِسے چند جملوں میں سمیٹنا مشکل ہے۔

(بشکریہ دستک، کولکاتا)

 

 

 

 

ڈاکٹر محبوب راہی

 

                چل چنبیلی باغ میں ، مظفر حنفی کی ایک اور تخلیقی جہت

 

میرے اس دعوے کو میری عقیدت مندانہ جانبداری پر محمول کرنے سے پہلے اربابِ نقد و نظر کی پیش کردہ تمام تفصیلات کو سرسری نیز گہری نگاہ سے دیکھیں ، غور کریں ، غیر مشروط انداز میں تقابلی جائزہ لیں نیز قطعی غیر جانبدار رہتے ہوئے اور تمام پیشگی ذہنی تحفظات یا تعصبات سے بالا تر ہو کر فیصلہ کریں کہ کیفیت اور کمیت ، گہرائی، گیرائی، وسعت اور عمق، رنگا رنگی اور ہمہ جہتی ہر اعتبار سے انفرادیت کے حامل اس قدر پھیلے ہوئے کثیر الجہات ادبی کارناموں کی روشنی میں مظفر حنفی کو بیشتر قد آوروں اور برتروں پر تفوق اور برتری کیوں نہ دی جائے۔ اس کے لئے ضروری ہو گا کہ سب سے پہلے موصوف کے مختلف جہتوں سے دور دور تک بکھرے ہوئے تمام تر تخلیقی، تنقیدی، تحقیقی تالیفی اور تدوینی نیز ترجمہ شدہ سرمائے کو سمیٹ کر حیطۂ نگاہ میں مرتکز رکھیں تاکہ کسی ایک صنف، کسی ایک جہت پر پہلو بہ پہلو گفتگو کرتے ہوئے مابقیہ سرمایۂ کثیر و خطیر حصار ذہن سے نکل کر نگاہوں سے لے کر اوجھل نہ ہونے پائے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ مظفر صاحب نے صنف ادب میں جس کشت ویراں میں قدم رکھا ہے اسے زرخیزی اور شادابی عطا کر کے اپنے رنگا رنگ، سدا بہار فکری گل بوٹوں سے لام زر ر بنا دیا ہے۔ ان کی مختلف الجہات تحقیقات میں تخیل کی بندی، فکر کی عمق، زبان و بیان کی جدت، رنگ و آہنگ کی ندرت، لب و لہجہ کی انفرادیت، ترسیل و ابلاغ کے وسیع تر امکانات، جذبات و احساسات کا تنوع وغیرہ اوصاف کا ایک جہان ذکر کر بے دہے اس کی مثالیں اردو شعر و ادب میں عنقا ہیں۔ لہٰذا ہمعصر اردو شاعری میں وہ اپنی آواز اپنے لہجے کے بل بوتے پر اپنی ایک مخصوص اور منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ جب کہ مقید نقادوں کی طرح کسی مخصوص نظریے ، رجحان یا تحریک سے وابستگی کے بغیر ادب پاروں کو دیکھنے پرکھنے کا ان کا اپنا انداز ہے آزاد، غیر مشروط، غیر جانبدار، غیر مصلحت پسند اور غیر متعصب بالکل واضح، بے باک اور دو ٹوک، ترتیب و تدوین کے میدانوں میں ان کے مختلف النوع کارناموں کے پھیلاؤ سے قطع نظر ان کے صرف ذوکارع کے نمایاں انھیں ادب میں تا دیر زندہ اور تابندہ رکھنے کے لئے کافی ہیں۔ ایک جوان العمری میں ادبی مراکز سے دور دراز مدھیہ پردیش کے چھوٹے سے شہر کھنڈوا سے جدید فکر و نظر کے حامل ماہنامے ’’نئے چراغ‘‘ کا اجراء اور اس کے اٹھارہ شماروں کے وسیلے سے اردو دنیا میں ایک ہلچل ایک ہنگامہ سا مچا دینا۔ شبخون سے پہلے جدید رجحانات کو فروغ دینے میں ’’نئے چراغ‘‘ کا بڑ  ا ہاتھ رہا ہے۔ مظفر حنفی کا دوسرا عظیم کارنامہ شاد عارفی کی منفرد تخلیقی حیثیت کو منوانا اور ان کے شایان شان انھیں مقام دلانا ہے۔ شاد عارفی جیسے بے مثال تخلیقی شان کے حامل فن کار کو مجرمانہ بے اعتنائی کے تحت بلا وجہ فراموش کر بیٹھنے کی سازش کو ناکام بنانے کے لئے حنفی صاحب نے ان کے تمام بکھرے ہوئے تخلیقی سرمایے کو سمیٹ کر یکجا کیا اور انھیں کئی ضخیم کتابوں میں محفوظ کر کے کئی یونیورسٹیوں میں اسے داخل نصاب کروایا۔

مظفر حنفی نے کسی قابل ذکر صنف ادب کو اپنی تخلیقی دسترس سے دور رہنے نہیں دیا۔ ہر ایک پر تصانیف خوب خو کے انبار لگا دیئے جن کی منجمد تعداد سو سے متجاوز ہے۔ اس وسیلے اور وقیع تر سرمایے میں ایک کمی بے طرح کھٹکتی تھی۔ وہ تھی سفر نامے کی۔ جو حال ہی میں موصوف نے حال ہی میں اپنا سفر نامہ انگلینڈ ’’چل چنبیلی باغ میں ‘‘ شائع کر کے پوری کر دی ہے۔

کم و بیش ہر قابل ذکر شاعر و ادیب جس نے اندرون ملک یا بیرون ملک، نزدیک یا دور کوئی غیر معمولی اور یادگار سفر کیا ہے اس کی روداد ضرور لکھی اور کتابی صورت میں شائع کی ہے جسے سفرنامے سے موسوم کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر خالد محمود نے اپنی تحقیقی مقالے ’’اردو سفر ناموں کا تنقیدی مطالعہ‘‘ میں ایک سو پینتالیس سفر ناموں کی فہرست شرح و بسیط کے ساتھ پیش کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کم اردو کے ارباب قلم چاروں کھونٹ گھوم کر ساری دنیا کو اپنے قدموں تلے روند چکے ہیں۔ ایک سرسری نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں بیشتر تعداد دو ملکوں کے سفر ناموں کی ہے۔ ایک سعودی عرب اور دوسرا انگلینڈ۔ سعودی عرب کے کم و بیش سبھی سفر نامے عمرہ و حج بیت اللہ اور زیارت بارگاہ رسول اللہ صلعم کی تفصیلات و النبی ہیں لہٰذا انداز تحریر، اظہارو ابلاغ، زبان و بیان اور ترجمانیِ جذبات و احساسات سے قطع نظر احوال و کوائف سبھی کے یکساں ہیں۔ انگلینڈ کے سفر ناموں کے ساتھ یہ بات نہیں ہے ان سفر ناموں کو کثرت تعداد کے علاوہ اولیت کی بھی سعادت حاصل ہونے کی ایک بڑ  ی وجہ تو اس کا ہمارے سابق انگریز آقاؤں کا ملک ہونا اور اس اعتبار سے الباب و ذرائع سفر کی سہولیات کی مقابلتاً فراوانیوں کا ہونا رہا ہے۔ لہٰذا اردو کا پہلا سفر نامہ ہونے کا شرف انگلینڈ ہی کے سفر نامے کو حاصل ہے۔ یہ ۱۹۳۷ء میں کئے گئے یوسف کمبل پوش کے سفر انگلینڈ کی اردو روداد ہے جو ’’عجائبات فرہنگ‘‘ کے عنوان سے ۱۹۴۷ء میں شائع ہوئی۔ انگلستان کے چند مشہور گرم سفرناموں مین محمد حسین آزاد، سر سید احمد خاں ، قاضی عبد الغفار، خواجہ احمد عباس، آغا محمد اشرف، جمیل الدین عالی، پطرس بخاری، محمد طفیل، راس لعل، گوپی چند نارنگ اور وزیر آغا وغیرہ کے سفر ناموں کا شمار ہوتا ہے۔ ان مین اپنے دلکش دور دلچسپ انداز تحریر کی بناء پر ابن انشاء اور مجتبیٰ حسین کے چین اور جاپان کے سفرنامے اردو میں غیر معمولی مقبولیت کے حامل ہیں۔

مظفر حنفی کا زیر تذکرہ سفرنامہ جو ان سطور کے عالم تحریر میں آنے کا محرک ہے اپنے عنوان ’’چل چنبیلی باغ میں ‘‘ ہی سے اپنی انفرادیت پسندی کا اظہار و اعلان کر دیتا ہے۔ عنوان کی وجہ تسمیہ کا رمز سفرنامے کی اختتامی دو سطروں میں پردے سے عیاں ہوتا ہے جب وہ اختتام سفر پر اپنی چہیتی شریک حیات عاصمہ بیگم سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں۔

’’چل چنبیلی باغ میں ‘‘

’’چنبیلی مہکنے لگی‘‘

اس جملے پر سفرنامے کا اختتام ہوتا ہے۔

انگلینڈ کا یہ سفر مظفر حنفی کی زندگی کا پہلا غیر ملکی سفر ہے۔ موصوف اس کے بعد بھی ایک بار اس دیار سے ہو آئے ہیں اور آئندہ بھی باد وہاں جانے کے امکانات ہیں کہ انگلینڈ کے شہر برمنگھم میں ان کا بیٹا پرویز مظفر اپنی بیوی فرحین اور      بچوں کے ساتھ مستقل سکونت پذیر ہے۔ دونوں میاں بیوی برمنگھم سٹی کاؤنسل میں بہ حیثیت سوشل ورکر بر سرکار ہیں۔

’’چل چنبیلی باغ میں ‘‘ کے دیگر سفرناموں میں مقابلتاً منفرد ہونے کے کئی ایک وجوہات ہیں۔ بنیادی وجہ اس کے سابقہ سفر ناموں سے مختلف اور منفرد ہونے کی۔ اسباب و محرکات، مقاصد اور عوامل کا سابقہ روایتی استفادہ سے قطعاً علیحدہ ہونا ہے۔ مظفر حنفی کے اس سفر کا مقصد نہ تو سیاحت ہے نہ تجارت، نہ سفارت، نہ حصول تعلیم، نہ ملازمت اور نہ ہی کسی سمینار یا مشاعرہ میں شرکت۔ خالصتاً گھریلو سفر ہے جو موصوف اپنی شریک حیات اور اپنی اکلوتی بیٹی صبا تسنیم کے ساتھ کرتے ہیں۔ اپنے بیٹے پرویز مظفر سے ملنے اور اسے ازدواجی رشتے میں منسلک کرنے کے لئے۔ لیکن وہ چوں کہ بین الاقوامی حیثیت اور شہرت کے حامل اردو کے شاعر و ادیب ہیں لہٰذا لاکھ چھپانے پر بھی برطانیہ میں ان کے وجود کی خوشبو تمام اردو بستیوں تک پہنچ جاتی ہے اور اپنے گھریلو ہنگاموں سے وقت نکال کر انھیں ادبی شخصیتوں کو شرف ملاقات عطا کرنا پڑ  تا ہے۔ ان ادبی محفلوں ، سبھوں نہ مشاعروں میں شرکت کرنی پڑ  تی ہیں جو ان کے اعزاز میں وہاں منعقد کی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں پرویز مظفر شادی کے بعد ان کی بیوی نسرین اور ان کے احباب مظفر صاحب عاصمہ تبسم اور صبا تسنیم کو بساط اور انگلینڈ کے تفریحی و تاریخی مقامات کی سیر کرواتے ہیں۔ اب مظفر حنفی جیسا چشم بصیرت، مفکر رساں اور غیر معمولی تخلیقی ذہانت کا حامل فن کار قرطاس و قلم سے ان غیر معمولی واقعات اور مشاہدات کو بتائے دام عطا نہ کر دے کس طرح ممکن ہے۔ لہٰذا اپنی نوعیت کا سب سے منفرد یہ سفر نامہ وجود میں آیا ہے۔’’چل چنبیلی باغ میں ‘‘۔

دوسری ایک اہم خصوصیت اس سفر نامے کی اس کا حقیقت پسندانہ انداز بیان ہے۔ اردو میں تا حال جتنے سفر نامے لکھے گئے ان مین بیشتر سفرنامہ نقاد کا کردار اور جصود متاحتہ جزو کل پر کچھ اس طرح چھایا رہتا ہے کہ کسی چھوٹے سے چھوٹے منظر کو اسے الگ کر دیکھنا محال ہوتا ہے۔ جہاں دیکھئے اس کی خود نمائی کے بعد دل کی خراش ہیں۔ آغاز سفر سے لگتا ہے گویا اسے خدا حافظ کہنے کے لئے پورا شہر ایرپورٹ، بندرگاہ یا اسٹیشن پر امڈ آیا ہے۔ دوران سفر پر ہم سفر بالخصوص تمام خوبصورت ، حسین و جبین دوشیزائیں محبت آمیز نظروں سے ٹکٹکی باندھے للچائی نظروں سے صرف اسی کی طرف متوجہ ہیں یا بقیہ مسافر رشک بھری نظروں سے اسے دیکھ رہے ہیں۔ جہاں جہاں وہ پہنچتا ہے ایک جم غفیر مہکتے خوش رنگ ہار گلدستے لئے اس کے استقبال کو موجود رہتا ہے جس سڑ  ک سے گزرتا ہے پر راہ گیر اس کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کئے دکھائی دیتا ہے۔ ملک کے تمام اخبارات و رسائل اس کی آمد پر خصوصی ضمیمے شائع کرتے ہیں۔ تمام ٹی۔وی چینل اور ریڈیو اسٹیشن اس کے انٹرویوز نثر کرتے ہیں۔ قصہ مختصر سفر میں درپیش دلکش مناظر حیرت انگیز واقعات، دیس بدیس کے طرز بود و باش، تہذیبی، ثقافتی، معاشی و معاشرتی حالات کے دلچسپ تذکروں کے بجائے خود نمائی اور خودستائی کی مسلسل تکرار سے طبیعت مکدر ہو جاتی ہے۔ جی متلانے لگتا ہے۔

اس کے برعکس جیسا کہ عرض کر چکا ہوں مظفر حنفی کا یہ سفر قطعی گھریلو سفر ہے۔ وہ اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ہمراہ اپنے بیٹے پرویز مظفر کے گھر برمنگھم پہنچتے ہیں۔ ستر دن وہاں قیام کرتے ہیں۔ اس دوران پرویز کا رشتہ طے کرتے ہیں شادی بیاہ کی خرابیاں ، کپڑے ، لتّے ، زیورات، دعوت ولیمہ، شادی بیاہ کی از اول تا آخر تمام تر رسومات کی ادائیگی سب کچھ ہندوستانی مسلمانوں کی طرز پر انجام دیتے ہیں۔ بہو بیٹے کے ساتھ چند روز مسرتیں لوٹتے لٹاتے ہیں اور گھر لوٹ آتے ہیں۔ لیکن بظاہر اس قطعی گھریلو، سیدھے سادے اور عمومی سفر بہتر دنوں کا لمحہ لمحہ مظفر حنفی نے اپنی دلکش اور شگفتہ تحریر سے سجا سنوار کر اسے لازوال اور ناقابل فراموش بنا دیا ہے۔ ان کے اس سفر نامے کا ایک اور انفرادی پہلو یہ بھی ہے کہ اس حکایتِ لذیذ کے ذریعہ موصوف نے اپنے گھریلو اور خاندانی حالات بیان کرتے ہوئے انگلینڈ کے جغرافیائی، سماجی، تہذیبی، ثقافتی اور معاشرتی حالات کے تناظر میں ہند و پاک کے تارکین وطن اور اردو زبان و ادب کی صورت حال۔ قابل دید مقامات اور تفریح گا ہوں کی تفصیلات کی جزئیات سمیت نہایت ہنر مندی اور تخلیقی شان کے ساتھ عکس بندی کی ہے۔

مظفر حنفی جب ۲ جون کو انگلینڈ کے لئے دلّی کا جامعہ نگر میں واقع اپنے دولت کدے  بٹلہ ہاؤس سے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایرپورٹ کے لئے عازم سفر ہوتے ہیں تو ان کی اہلیہ اور بیٹی کے علاوہ اس سفر نامے کا قاری بھی سایے کی طرح ان کے ساتھ ساتھ ہو لیتا ہے۔ وہ میرین ایر لائنز کے پلین میں ان کے ساتھ سوار ہوتا ہے۔ شارجہ اور دمشق ہوتے ہوئے لندن کے ہیتھرو ایر پورٹ تک ۵یا ۶ گھنٹے ان کے ساتھ رہتا ہے۔ دوران سفر حنفی صاحب کی انکی اہلیہ ، بیٹی اور دیگر ہم سفروں کے ساتھ خوش گپیوں اور لطیفہ بازیوں میں شریک رہتا ہے۔ ہیتھرو ایر پورٹ کے باہر پرویز مظفر سے والدین اور اکلوتی بہن کے جذبات انگیز ملاقات کا منظر دیکھ کر اس کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ پرویز اور ان کے احباب کے ساتھ لندن سے برمنگھم تک ۱۰۰ میل(تقریباً ڈیڑھ سو کیلو میٹر) فی گھنٹہ کے برق رفتاری سے سڑکوں پر تیرنے والی کاروں میں بیٹھ کر اسپارک کے علاقے میں ایمے روڈ پر واقع پرویز مظفر کی رہائش گاہ مکان نمبر ۱۰۷ میں پہنچ جاتا ہے۔ یہاں وہ پرویز کے احباب کے گھروں پر ہونے والی پر تکلف دعوتوں میں شریک ہوتا ہے۔ باپ بیٹے کی مختصر گفتگو، ماں کی ممتا، بیٹے کا لاڈ، بہن بھائی کی دلچسپ نوک جھونک سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ پرویز کے احباب کے توسط سے پہلے ہی تیار منصوبے کے تحت میرپور (آزاد کشمیر) نژاد نسرین سے شادی کرنے کی خواہش کا راز دار ہوتا ہے۔ رشتہ طے کرنے کے اولین مرحلے سے ۲۱!جون شادی کی گھڑ  ی تک، کپڑے ، زیورات، شادی کی دیگر لوازمات خریدتے ہوئے مارک اینڈ اسپنسر، آسدا، آرگوز، مہش ہپّی، بھیم جی جیولرس وغیرہ اسٹورس پر، اسلامی طریقے اور خالص ہندوستانی طرز میں انعقاد پذیر تقریبات شادی میں ہر لمحہ شریک رہتا ہے۔ دلہن کی رخصتی کا منظر ملے جلے جذبات و کیفیات کے ساتھ دیکھتا ہے۔ ان تمام سے قبل رشتہ طے ہونے کے بعد والی رات بستر پر لیٹتے ہوئے حنفی صاحب کو پرویز کے بچپن سے آج تک لمحہ لمحہ ہنگامہ خیز اور جذبات انگیز یادوں میں محو پاتا ہے اور ان کی زبان پر بے ساختہ مچلنے والے ان کے شعر  ؂

میری سنتے اپنی کہتے ، میرے دیدہ و دل میں رہتے

لیکن تم نے اپنا مسکن سات سمندر پار بنایا

کی تاثر انگیز اور رقت آمیز کیفیت محسوس کر کے آبدیدہ ہو جاتا ہے۔ اس مختصر خاندان کے ساتھ چوڑ  ے چکلے فٹ پاتھوں کے درمیان چمچماتی کشادہ سڑکوں پر ہندوستان سے دگنی رفتار میں دوڑ  نے والی کاروں میں سفر کرتا ہوا دور دور تک ایک ہی طرز تعمیر کے مکانوں ، سبزہ زاروں ، پارکوں سے لطف اندوز ہوتا ہوا لوٹن، کبھی لندن، کبھی یہاں کبھی وہاں گھومتا ہے۔ لق و دق مسجدوں میں تبدیل ہوئے چرچ دیکھ کر جب اس پر منکشف ہوتا ہے تو انھیں عیسائیوں نے خود مسلمانوں کے ہاتھوں مسجدوں کے لئے فروخت کر دیاتو اس کشادہ قلبی اور وسیع الذہنی کا موازنہ اپنے ساتھ روز مرہ تنگ نظری اور متعصبانہ رویّوں سے کر کے دل مسوس جاتا ہے۔ چند ثانیوں بعد انڈر گراؤنڈ برج میں برمنگھم کے اس سرے سے داخل ہوتا ہے تو دوسرے سرے پر نکلتا ہے۔ ہوٹلوں میں عاصحہ بیگم کو حلال و حرام کی کشمکش میں مبتلا پا کر غرق حیرت ہوتا ہے ان لوگوں کے ساتھ ساتھ ٹیوب (میٹرو کی طرح انڈر گراؤنڈ ٹرین) میں بسوں یا کاروں میں سوار سفاری پارک مادام توساد کا عجائب گھر، ویسٹ منسٹر ایبے ، بگ بین، نیلسن کالم، ٹریفلگر ا سکوائر، جیول ٹاور، قدیم پارسیمنٹ، وہائٹ ہال، سی لائن سنیئر، ٹریزری سے ہوتا ہوا چارلس رول کا مینار، پکاڈلی سرکس، ہائیڈ پارک، آرٹ گیلری، اور برٹش میوزیم ہوتا ہوا انڈیا آفس لائبریری، ا سکاٹ لینڈیارڈ، بکنگھم پیلس، لندن ٹاور اور ماربل آرک کی طرف جا نکلتا ہے تو کبھی سینٹ اسٹیفن ٹاور، آکسفورڈ، کیسینو، ناٹ گارڈن، اور گو ور میموریل سے ہوتا ہوا سوان تھیئٹر، میری آرڈن ہاؤس، بلیک پول، ونڈ میٹر، چڈر، واروک کیسل، آلٹن ٹاور، الفورڈ، بش ہاؤس، واٹرلو، ونڈ سر کیسل، ڈ ڈلی زو، ڈریٹن مینار، گریٹ بار، کنٹری آرٹسٹوں کا فوارہ اور دریائے ٹیمس کے کنارے سایے کی طرح ان لوگوں کے ساتھ پہنچتا ہے۔

ایک تو دنیا بھر میں اپنی قسم کی منفرد ان تفریح گا ہوں کی دلکشی اور پھر بیان اپنا، معاف کیجئے مظفر حنفی کا کچھ اس قدر دلفریب منظر نامہ پیش کرتا ہے کہ قاری کس طرح ان خواب آگیں دل کشیوں سے اپنے آپ کو الگ کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔ تعجب ہوتا ہے محض ڈھائی مہینوں کی قلیل ترین مدت میں مظفر حنفی اتنا سارا، اتنا پھیلا ہوا، قوس قزح کی طرح مختلف رنگوں میں سجا ہوا انگلینڈ، انگلینڈ کے اتنے سارے مناظر، باہر سے اندر سے ، مختلف زاویوں ، مختلف پہلوؤں ، مختلف انداز نظر سے کیوں کہ دیکھ پائے اور یہ کہ محض سرسری دیکھ کر گزر نہیں گئے۔ اپنے تمام تر مشاہدات کی جزئیات میں اپنے محسوسات کو سمو کر دل پذیر طرز اظہار کے ساتھ کچھ اس فنکارانہ انداز میں بیان کیا ہے کہ قاری سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے متحرک حالتوں میں دیکھتا محسوس کرتا ہے۔

محض سفرنامہ تحریر کرنا مقصود سفر ہوتا تو بات تھی۔ طرہ یہ کہ اس دوران از اول تا آخر بیٹے کی شادی کے تمام مراحل میں بحسن و کمال گزر گئے اور سفرنامے کا بیشتر وقت بیٹے اور نئی نویلی بہو کے ساتھ مسرتیں بانٹتے گزاری مزید یہ کہ انگلینڈ کے مختلف شہروں میں دور دور بکھرے ہوئے ارباب اردو کے ساتھ ملاقاتوں ، اعزازی مشاعروں ، قصبوں ، نشستوں کے وسیلے سے ادبی ہنگامہ آرائیوں میں بھی برابر شریک رہے۔ لہٰذا لوٹن لندن یونیورسٹی، لیگ آف برٹش سلمز کمیونیٹی سینئر لندن، برمنگھم اور با فہم لائبریری میں مظفر صاحب کے اعزاز میں عظیم الشان مشاعرے ، استقبالیہ جلسے اور نشستیں منعقد کی گئیں جن میں ساقی فاروقی، قیصر تمکین، بخش لائلپوری، ساحرشیوی، عاشور کاظمی، عطاجالندھری، اطہر راز، اقبال مرزا، اکبر حیدرآبادی، سرور بخاری، سعید اختر، عبدالغفار عزم، معین الدین شاہ، گلشن کھنّہ، محمود ہاشمی، بلبل کشمیری، موہن راہی، محمود دیوانی، ارتقا شیخ، عمران الرشید، سلطان فاروقی، اختر ضیائی، سحر مہدی، راجہ الیاس خاں ، رفعت عباس، سیما جبّار، جمشید مرزا، زیڈ۔یو۔خان، مشکور حسین یاد، بانو ارشد، عقیل دانش، فاروق حیدر، مختار الدین مختار، ابرار احمد، سعود الحسن، ابراہیم ذوق، شوکت واسطی، مسرور رضا، علمدار کاظمی، فوزیہ کاظمی، اختر گلفاس، سردار ساہیوال، خالق بھٹی، آفتاب احمد، عزیز اسلین، ڈاکٹر یوسف جمیل اختر، نصیر احمد ناصر، ا کرم چغتائی، نور جہاں نوری وغیرہ نے اپنے کلام ہائے بلاغت نظام کے ساتھ شرکت کی اور مظفر حنفی کو فرمائشیں کر کے خوب تھکایا اس دوران کئی کتابوں کی اجرائی تقریب حنفی صاحب کے ہاتھوں عمل میں آئی۔ موصوف کے انگلینڈ پہنچنے کی ضد اعزازی تقریبات کی با تصویر رودادیں ، انٹرویوز وہاں کے اخبارات جنگ، نیشن، صدا وغیرہ میں شائع ہوئے علاوہ ازیں رضا علی عابدی نے بی۔بی۔ سی کے لئے موصوف کا ایک طویل انٹرویو ریکارڈ کیا جو دو قسطوں میں نثر کیا گیا۔ ۱۰!اگست کو مظفر حنفی صاحب اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ انگلینڈ کی محبتوں ، چاہتوں اور عقیدتوں میں لپٹی رنگا رنگ یادیں سمیٹ کر وطن لوٹ آئے اور ان تمام کو اپنے منفرد اسلوب اور دلکش انداز بیان کے وسیلے سے ’’چل چنبیلی باغ میں ‘‘ کی شکل میں بکھیر دیا۔

مظفر حنفی نے اپنے تخلیقی سفر کے ابتدائی چند برسوں میں مکمل فنی لوازمات اور تخلیقی بصیرتوں کے ساتھ افسانہ نگاری کی۔ برصغیر کے تمام صفِ اوّل ادبی رسائل نے ان کے افسانے نمایاں طور پر شائع کئے۔ اندنوں بحیثیت افسانہ نگار وہ اپنی مستحکم شناخت بنا چکے تھے۔ ان کے دو افسانوی مجموعے ’’دو غنڈے ‘‘ اور ’’اینٹ کا جواب‘‘ کو ارباب نقد و نظر نے افسانوی ادب میں گرانقدر افسانے قرار دیا۔ موصوف کی افسانے نگاری کی صلاحیت اور تخلیقی مہارت اس سفر نامے کے لئے سونے پر سہاگا ثابت ہوئی۔ لہٰذا اس سفرنامے کے دورانِ مطالعہ جا بجا تحیّر، تجسّس، ڈرامائی موڑ  ، نفسیاتی کشمکش، جذباتی ہیجان، احساس کی شدت اور شدید جذباتیت کا سامنا ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد برجستگیِ اظہار مثلاً سیکوریٹی چیکنگ کے دوران انسپکٹر کے ’’یادگاری‘‘ قلب کرنے پر مظفر صاحب کا جواب کہ

’’آفیسر! میں اسمگلر نہیں ، ٹیچر ہوں۔ پاسپورٹ دیکھیے۔‘‘

جہاز میں بچاؤ دکھانا ضائع کر دینے پر۔

’’جہازوں میں روزانہ نہ جانے کتنے ٹن خوراک ضائع کر دی جاتی ہے جب کہ ایتھوپیا جیسے بہت سے ممالک میں لاکھوں انسان بھوکوں مر جاتے ہیں۔‘‘…….. اور ایک دعوت کے دوران…………..

’’میں نے مر کھپ کر انھیں بھی پیٹ میں پہنچایا کہ بچپن سے غریب والدین نے تربیت ایسی کی ہے کہ کھانا ضائع کرنا گناہ کبیرہ سا لگتا ہے ‘‘……… اور چند جملے دیکھیے ………….

’’فطرت موقع پاتے ہی اپنا سارا حسن جیسے فوارے کی طرح اچھال دیتی ہے ‘‘

’’یہ سن کر عاصمہ کے چہرے پر نور سا اتر آیا‘‘

’’بیٹے کو گلے لگایا، اس کے گال اور پیشانی پر بوسہ دیا۔ اندر جذبات کا ایسا ہنگامہ بپا تھا کہ مجھے اپنی ہچکیاں روکنی مشکل ہو گئیں۔‘‘

ایسے کئی جذبات انگیز جملے جا بجا اس کتاب میں جو بے اختیار رقّت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ قصّہ مختصر۔ واقعات کے تانوں بانوں کی مدد سے کہانی بننے کا فن، مہارت، جدت و ندرت، اظہار کا شاعرانہ انداز نیز تخیل کی معجز بیانی کی ان تمام اجزائے ترکیبی کو یکجا کر کے جب مظفر حنفی صاحب نے ایک بے مثال تخلیق پارہ سفرنامۂ انگلینڈ وجود میں لا کر ’’چل چنبیلی باغ میں ‘‘ اس دلچسپ اور دلکش نام کے ساتھ منظر عام پر لایا تو صاحب ذوقِ نظر نے اسے سر آنکھوں پر رکھا اور ہم عصر سفر ناموں میں یہ سفر نامہ بہر اعتبار فوقیت اور برتری کا موجب قرار پایا۔

 

 

 

 

اقبال مسعود

 

                مظفر حنفی کی شاعری

 

جس دن بھی کہہ لئے ہیں مظفرؔ نے چند شعر

تلخا بۂ حیات گوارہ سا بن گیا

مرے اشعار میں جو موتیوں سی جگمگاہٹ ہے

مظفرؔ میں پرو کر آنسوؤں کے ہار لاتا ہوں

ہمیشہ سے وہی کہتے ہیں جو محسوس کرتے ہیں

مظفرؔ شاعری میں ہم سے عیاری نہیں ہو گی

اے مظفرؔ زندہ رہنے کے لئے

شاعری میں دھار ہونا چاہئے

مذکورہ مقطعے مظفرؔ حنفی کے شعری مجموعہ ’’ہات اوپر کیے ‘‘ سے ورق گردانی کرتے ہوئے بغیر کسی انتخاب کے تحریر کر دیئے اور یہ شاعری کی سچائی، خلوص، صاف گوئی اور بصیرت ہے کہ ان اشعار میں بھی اس کی فکر نمایاں ہے ، کردار واضح ہے۔ تلخا بۂ حیات کو گوارہ کرنے کے لئے شعر گوئی، درد و غم جمع کیے تو اشعار سچے موتیوں کی طرح جگمگا اٹھے۔ جو محسوس کیا صوفیوں کی طرح بلا کم و کاست بغیر کسی عیاری کے رقم کر دیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس دنیا میں زندہ رہنے کے لئے صدائے احتجاج اور وہ بھی دھار ہونا ناگزیر ہے۔ جرأت مندی، بے باکی اور سادگی ان کے فن کا طرۂ امتیاز ہے اور ان کو اپنے عہد کے دوسرے شعراء سے ممتاز اور منفرد بناتا ہے۔

ڈاکٹر مظفرؔ حنفی کا یہ گیارہواں شعری مجموعہ ہے اور اب تک سخن کا شعلہ اسی آب و تاب سے فروزاں ہے جتنا نصف صدی قبل تھا۔ مظفر حنفی میں تخلیقی اُپج اور صلاحیتیں قابل رشک حد تک موجود ہیں ، یوں تو انھوں نے افسانے بھی لکھے ہیں ، تنقید کی دشوار گزار منزلیں بھی طے کی ہیں اور تحقیق کے نئے جہاں تلاش کئے ہیں۔ نظمیں بھی لکھی ہیں ، منظوم کہانیاں ، تراجم بھی کئے ہیں اور کتابیں مرتب بھی کی ہیں رسائل بھی نکالے ہیں لیکن ان کی ہشت رنگ شخصیت میں سب سے زیادہ لائق احترام ان کی غزل گوئی ہے کہ وہ بنیادی اور پیدائشی طور پر شاعری ہی ہیں اور باقی دوسرے اصنافِ ادب میں خامہ فرسائی غزل گوئی کی ہی توسیع ہے کہ تخلیق تو خود نقدِ زندگی اور انکشافِ ذات ہے۔

’’ہات اوپر کیے ‘‘ کے خالق کو سخن گوئی سے فطری مناسبت ہے اور یہ عمل ان کے لیے پانی اور ہوا کی طرح ناگزیر ہے۔ بقول خود ان کے ’’شعر تو چنچل بچوں کی طرح از خود دامن گیر ہو جاتے ہیں اور پکے پھلوں کی طرح اپنے آپ ٹپکتے ہیں۔‘‘ تاہم ان کو صیقل کرنے چمکانے اور دھار دار بنانے کے لئے مطالعہ ناگزیر ہے۔ لفظ کی نبض پر بھی ہاتھ ہونا ضروری ہے کہ اس کو کس جگہ اور کس طرح استعمال کیا جائے کہ وہ دو آتشہ بن جائے ، ساتھ ہی شعری زمین کے انتخاب میں سخت محنت کہ زمین جوتی ہوئی نہ ہو، اپنی ہو، قافیے منفرد ہوں اور محل استعمال مناسب ہو۔ ردیف بانکی ترچھی ہو اور اس پر مستزاد، ندرت خیال، محاورے کا در و بست، سہل ممتنع اور زبان پر بھرپور گرفت۔ مظفر حنفی کی سخن گوئی میں یہ ساری خوبیاں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ ہربار نیا کہنے ، نئے ڈھنگ سے مضمون باندھنے ، نئے خیال کو شعری جامہ پہنانے کی کوشش نے ان کے اشعار کو تازہ کار رکھا ہے اور ایک اشارے میں وہ کہیں پھول، کہیں تارا اور کہیں شرارا بن جاتے ہیں۔

مظفر حنفی کی شاعری میں طنز اور تیکھے پن کا عنصر نمایاں ہے مگر یہ طنز ان کو ناصح یا واعظ نہیں بناتا بلکہ یہ شعر میں بین السطور رہ کر شعر کی تہہ داری اور معنی آفرینی میں اضافہ کرتا ہے اور سہل ممتنع کے بعد(کہ ان کے کلام کا بیشتر حصہ اس دشوار گزار راہ پر پھول کھلاتا ہے اور فضا کو مہکاتا ہے ) یہ مظفر حنفی کی نمایاں وصف اور انفرادیت ہے۔

مظفر حنفی کی شاعری مرصّع سازی ہے۔ اس میں ثقیل و نا مانوس لفظ آئیں یا زمین بنجر ہو یا سخت، قافیے سب ان کے لئے موم کی طرح نرم ہو جاتے ہیں۔ زمین شور ثمر آور ہو جاتی ہے اور لفظ نگینہ بن کر دمکنے لگتے ہیں۔ ایک بار پھر بغیر کسی انتخاب کے چند مطلعے پیش ہیں۔

کیا رونے بیٹھے ہو دل کو، چھوڑ  و بھی

ان پینسٹھ کے پیٹے میں ہو، چھوڑ  و بھی

ہمک ہمک کے بلاتی تھی نہر کیا کرتے

اُلچ لائے ہیں کاسے میں زہر کیا کرتے

تم پڑھتے رہو قصیدہ شب کا

سورج تو نکل چکا ہے کب کا

چاند اگاہے پُروا سکنی چلنا ہے تو چل

مہکانے پھلواری من کی چلنا ہے تو چل

اور ایک رنگ سخن یہ بھی:۔

کھل گئے پھول سبزہ مہکنے لگا

اس کی آمد سے موسم مہکنے لگا

نظر آتا نہ تھا کچھ اس کی یاد آئی تو یا حیرت

غبار آلود آئینے کو صیقل کر دیا اس نے

’’ہات اوپر کیے ‘‘ کے خالق ڈاکٹر مظفر حنفی کا شمار ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جانے والے اردو کے اُن منفرد شعراء میں ہوتا ہے جو نصف صدی سے شعر کہہ رہے ہیں مگر ہنوز تازہ کار ہیں پرانا پن اور اپنے آپ کو دوہرانے کا عمل ان کے یہاں مفقود ہے۔ باری تعالیٰ نے ان کو قلم روشن کی دولت سے مالا مال کیا ہے کہ وہ ’’نور‘‘ غزلوں کے ذریعہ چارسو پھیلا رہے ہیں اور ظلمت، استحصال، بدی اور برائی کے خلاف اپنے منفرد آہنگ اور الگ آواز سے الکھ جگا رہے ہیں۔

’’ہات اوپر کیے ‘‘ کا سرورق خوبصورت اور دیدہ زیب ہے۔ رنگوں کا انتخاب ناگوار نہیں گزرتا۔ اس کے لئے فضیل مبارکباد کے مستحق ہیں۔ مظفر حنفی کی اس تازہ کتاب کو اچھے اور سچے شعر پسند کرنے والے قاری کی لائبریری میں ضرور ہونا چاہیے۔

(بشکریہ: تمثیل، اپریل ۲۰۰۴؁ء)

 

 

 

احسن مفتاحی

 

                لیکن تو چیز دیگری

 

اردو دنیا کی چوتھی بڑ  ی زبان ہے مگر پوری دنیا میں اردو جاننے والے انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ انہیں جاننے والوں میں مظفر حنفی صاحب کا شمار کیا جا سکتا ہے۔ حنفی صاحب اقبال پروفیسر بن کر کلکتہ تشریف لائے تو اس وقت میں نے عزیزم نعیم انیس سے کہا تھا کہ کلکتے والوں کو فخر کرنا چاہئے کہ ان میں ایک اردو جاننے والا آ گیا ہے اور وہی اس ریاست میں واحد اردو جاننے والا ہے مگر افسوس کہ مظفر حنفی صاحب سبکدوش ہو کر کلکتے سے چلے گئے اور یہاں کی اردو دنیا یتیم و یسیر اور سونی ہو گئی۔

مظفر حنفی اور میں ایک دوسرے کو مدت سے جانتے ہیں۔ وہ میری تحریروں کے شاکی ہیں تو میں ان کی تحریروں کا معترف ہوں۔ میری ان سے پہلی ملاقات خضر پور کلکتہ کے ایک مشاعرے میں ہوئی تھی اور وہی شاید آخری ملاقات ہو کیوں کہ میں کبرسنی اور مختلف بیماریوں کی وجہ سے قبر میں پاؤں ٹکائے بیٹھا ہوں۔ اس پہلی ملاقات میں مظفر حنفی صاحب نے میرے متعلق اچھی رائے قائم نہیں کی ہو گی اور مجھے بدھو یا مغرور سمجھا ہو گا کیوں کہ مسلسل ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے میری قوتِ گویائی سلب ہو گئی ہے اور میں بمشکل چند الفاظ ادا کر پاتا ہوں جب کہ خلیق انجم صاحب کا کہنا ہے کہ میں اچھی تقریر کر لیتا تھا۔ اس کے گواہ عزیزم فیروز احمد بھی ہیں مگر میں مظفر حنفی صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ میں بدھو تو ہوں مگر مغرور نہیں ہوں۔ مظفر حنفی صاحب جیسے اردو کے اکابر کا بہت احترام کرتا ہوں۔

مظفر حنفی صاحب کو میں نے عمداً پروفیسر اور ڈاکٹر نہیں لکھا ہے کیوں کہ مظفر حنفی کو پروفیسر اور ڈاکٹر لکھنا ان کی توہین ہے۔ مظفر حنفی تو ایسے صاحبِ علم فنکار ہیں جن کو شعر و ادب کی تمام اصناف پر مکمل دسترس حاصل ہے۔ اردو شعر و ادب کے رموز و اسرار سے واقف ایسا شخص دنیا کی چوتھی بڑ  ی زبان میں کم ملے گا۔ مظفر حنفی صاحب ہندوستان میں جس طرح مقبول و معروف ہیں اسی طرح پاکستان میں بھی مقبول و معروف ہیں۔ وہ پاکستان کے ادبی سفر پر تشریف لے گئے تھے تو دنیا کے سب سے بڑ  ے اردو روزنامہ ’’جنگ‘‘ نے ان کا ایک طویل انٹرویو بڑ  ے اہتمام کے ساتھ شائع کیا تھا۔ اس انٹرویو سے میری طرح بہت سے لوگوں نے استفادہ کیا ہو گا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اردو کے پروفیسر اور پی ایچ ڈی حضرات کی طرح اردو کے صحافی بھی اردو سے نابلد ہوتے ہیں۔ میں نے استفادہ کیا ہے ، لکھا ہے اور یہی درست ہے مگر کلکتے کے ایک صحافی نے اپنے اداریے میں لکھا تھا ’’استفادہ حاصل کیا‘‘ حد ہو گئی کہ پی ایچ ڈی کے ایک ممتحن پروفیسر نے ’’ساحلِ دریا کے کنارے ‘‘ لکھا تھا اور اس کی صحت پر مُصر بھی تھے۔ وہ خود کو برصغیر کا بہت بڑ  ا صحافی، ناقد اور افسانہ نگار گردانتے تھے اور اپنے شاگردوں کی مٹی پلید کرتے تھے۔

مظفر حنفی صاحب نے ’’شاد عارفی‘‘ ’’فن اور فن کار‘‘ لکھ کر جو ۲۸۰ صفحات پر مشتمل ہے ، اردو شعر و ادب کی بڑ  ی گراں قدر خدمت انجام دی ہے۔ مظفر حنفی صاحب نے پی ایچ ڈی کے لئے یہ مقالہ پروفیسر عبدالقوی دسنوی کی نگرانی میں لکھا ہے اور اسی کو مختصر کر کے کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔

اردو والوں کی ایک کم مائیگی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے اسلاف کو بھولتے جا رہے ہیں۔ تحقیقی مقالے عموماً بہت خشک ہوتے ہیں اور ۲۸۰ صفحات پر مشتمل کتاب پڑھنا کارِ دارد والا معاملہ ہوتا ہے مگر مظفر حنفی صاحب نے یہ تحقیقی کتاب بہت دلچسپ اور شگفتہ انداز میں لکھی ہے اور عدیم الفرصت لوگ بھی اگر وہ با ذوق ہوں تو اس کا پورا مطالعہ کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔

اردو میں شاعر، ادیب اور ناقد تو بہت ہیں پھر ان میں اور مظفر حنفی میں کیا فرق ہے ، تو میں صرف ایک جملہ مظفر حنفی کے لئے استعمال کروں گا کہ:

لیکن تو چیزِ دیگری

مظفر حنفی عقابی نظر رکھتے ہیں اس لئے انہوں نے شاد عارفی کے دور کے سیاسی حالات اور ادبی رجحانات پر بہت عالمانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ مظفر حنفی ہوں یا کوئی اور حنفی ان حنفیوں کی اردو بڑ  ی اچھی اور پیاری ہوتی ہے۔ میں نے مظفر حنفی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ بعض الفاظ کو میں مذکر استعمال کرتا تھا مگر مظفر حنفی نے انہیں مونث استعمال کیا ہے۔ یہ دیکھ کر میں بہت جھنجھلایا کہ مظفر حنفی سے یہ غلطی کیسے سرزد ہوئی مگر جب مختلف لغت دیکھے تو پتہ چلا کہ میں غلطی پر تھا اور مظفر حنفی درست ہیں مگر مظفر حنفی کو صفحہ ۲۶۹کے اواخر میں یہ نہیں لکھنا چاہئے تھا کہ ’’ممکن نہ ہو گا‘‘۔ محکمۂ موسمیات کی طرف سے اعلان کیا جاتا ہے کہ ’’آج بارش کا امکان ہے ‘‘ یہ تو نہیں اعلان کیا جاتا کہ ’’آج بارش کا امکان ہو سکتا ہے ‘‘۔

اردو زبان و تہذیب کے علاوہ ایک اسلوبِ حیات بھی ہے۔ میں ایک ’’رجعت پسند‘‘ مسلمان ہوں اس لئے میں کہا کرتا ہوں کہ اردو میرا مذہب بھی ہے کیوں کہ عربی کے بعد اسلامی علوم و فنون کا سب سے بڑ  ا ذخیرہ اردو ہی میں ہے۔ کوئی یہ پوچھے کہ اردو اسلوبِ حیات کیوں کر ہوئی اور اس کا کیا مطلب ہے تو میں کہوں گا کہ اردو کا اسلوبِ حیات ’’پہلے آپ ، پہلے آپ‘‘ ہے۔ اردو کا یہ اسلوبِ حیات اختیار کر لیا جائے تو ہمارے معاشرے سے دھینگا مشتی، آپادھاپی اور لنگڑی مارنا ختم ہو جائے۔ میں نے مظفر حنفی کی کتاب پر تبصرہ نہیں کیا ہے بلکہ ان کی ہمہ جہت شخصیت پر اپنا تاثر بیان کیا ہے اور پھر وہی جملہ دہرانا چاہتا ہوں کہ:

لیکن تو چیزِ دیگری

 

 

 

 

عنبر شمیم

 

                شاد عارفی: ایک مطالعہ

 

’’شاد عارفی۔ایک مطالعہ‘‘ ۴۲۴!صفحات پر مشتمل ایک ادبی دستاویز ہے جس کے مرتب پروفیسر مظفر حنفی ہیں۔ پروفیسر مظفر حنفی اردو کے ایک صاحبِ طرز و منفرد شاعر اور بلند پایہ نقاد ہیں اور ان کی اب تک کم و بیش ۵۰!کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ انھوں نے تقریباً ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے اور اردو دنیا میں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایک مقام بنایا ہے۔

اس کتاب کی شکل میں شاد عارفی سے متعلق اردو کے ممتاز شعراء ، ادباء اور ناقدینِ ادب کی تحریروں کا ایک حسین اور معنی خیز گلدستہ پیش کیا گیا ہے۔ اس مجموعے کے حصۂ اول میں شاد صاحب کے فن اور شخصیت پر مضامین، نقد پارے اور مشاہیرِ ادب کی تحریروں سے اقتباسات شائع کیے گئے ہیں۔ کتاب کا دوسرا حصہ باقیاتِ شاد عارفی پر مشتمل ہے۔ قبل ازیں ڈاکٹر مظفر حنفی نے ’’کلیاتِ شاد عارفی‘‘ ’’ایک تھا شاعر‘‘ اور شاد عارفی۔فن اور شخصیت‘‘ میں اپنے استاد کی شعری و نثری نگارشات یکجا کر کے شائع کی تھیں۔ تقریباً ۷۰!صفحات پر مشتمل مکتوباتِ شاد کے علاوہ ان کے ۳!مضامین، ۱۴!نظمیں ، ۷!گیت، ۶۲!رباعیات اور ۳۱!غزلیں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں کچھ متفرق اشعار بھی شائع کیے گئے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ حصہ ایک دستاویزی حیثیت کا حامل ہو گیا ہے۔

شاد عارفی کی شخصیت اور فن پر مظفر حنفی کا مرتب کردہ مضامین کا پہلا مجموعہ ’’ایک تھا شاعر‘‘ ۱۹۶۷؁ء میں شائع ہوا تھا جس میں مرتب نے اس بات کا خیال رکھا تھا کہ شاد عارفی مرحوم اپنی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ جیسے کہ وہ اصلّا تھے ویسے کے ویسے کتابی شکل میں محفوظ ہو جائیں۔ پیش نظر کتاب ’’شاد عارفی……..ایک مطالعہ‘‘ بھی اسی غیر جانبدارانہ اصول کے تحت ترتیب دی گئی ہے جس میں شاد صاحب کی بشری کمزوریوں کو قبول کرنے کے بعد ان کی اصل تصویر کو ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پروفیسر مظفر حنفی نے بجا طور پر اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ

’’اس مجموعے میں شامل پروفیسر رشید احمد صدیقی، ڈاکٹر سلیم اختر، بلراج کومل اور چند دوسرے اہل قلم کی نگارشات یا شاد عارفی کی بعض تحریروں کو معروضیت کے اسی اصول کی روشنی میں دیکھا جائے کہ یہ بہر طور اس اہم فن کار کی اصل اور سچی تصویر پیش کرنے کی کوشش ہے۔‘‘

شاد عارفی اردو کے ایک صاحبِ طرز اور بے مثل طنز نگار تھے اور ان کا شعری و ادبی سرمایہ اردو زبان و ادب کے لیے ایک متاعِ بے بہا ہے۔ وہ ایک نڈر اور جرات مند شاعر تھے اور اپنے منفرد اندازِ سخن کے باعث اردو کے دیگر شاعروں میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے عمیق حنفی کی زبان میں :

’’شاد عارفی رام پور کی روایت پسند مٹی سے برقِ غضبناک بن کر اٹھے اور آسمانِ سخن کے دامن بجلیوں سے بھر گئے۔ میں نے جب اردو شاعری کا مطالعہ سنجیدگی اور سوجھ بوجھ کے ساتھ شروع کیا تو یگانہ اور شاد عارفی نے مجھے اردو شاعری بالخصوص غزل کی شاعری میں جدت، بغاوت، تجربے اور ندرتِ ادا کے امکانات کا قائل کیا اور وہ غزل جو کوٹھوں، خانقاہوں ، درباروں اور بازاروں کی رونق تھی پہلی بار گھریلو مگر سوشل، حاضر دماغ، ذی فہم، ذی علم، ذہین اور با شعور خاتون نظر آئی۔‘‘

اس کتاب میں شامل بیشتر مضامین ان مشاہیر شعراء و ادباء کی نوکِ قلم سے صفحۂ قرطاس پر مرقوم ہوئے ہیں جن کی ادبی و تنقیدی حیثیتوں کی پوری اردو دنیا معترف ہے۔ حفیظ جالندھری، ضیا احمد بدایونی، میراجی، فرمان فتح پوری، اختر انصاری، بلراج کومل، آل احمد سرور، پروفیسر احتشام حسین، پروفیسر محمد احسن فاروقی، ڈاکٹر خلیل الرحمان اعظمی وغیرہ کے مضامین شاد صاحب کی شخصیت اور شاعری کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ بعض تحریریں جن کا نکتۂ نظر معروضی ہے  ان میں بھی جہاں شاد صاحب کے خیالات سے اختلافات کے گوشے نکالے گئے ہیں وہیں ان کی علمیت اور شاعرانہ عظمت کا اعتراف بھی کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر شمس الرحمان فاروقی نے لکھا ہے۔

’’شاد عارفی بہرحال ایک عہد ساز شاعر تھے۔ ان کے بعد آنے والے ہر شاعر اور علی الخصوص نئی غزل کے ہر شاعر نے ان سے اکتسابِ فیض کیا ہے۔ زمانے نے ان کی خاطر خواہ قدر نہ کی۔‘‘

فاروقی آگے لکھتے ہیں :۔

’’اردو شاعر کی یہ بدنصیبی ہے کہ جب تک وہ کسی سیاسی یا تہذیبی ادارہ سے منسلک نہ ہو، اس کی قدر شناسی خاطر خواہ نہیں ہوتی۔ شاد صاحب کو دونوں طرح کی محرومیاں ملیں۔ نہ گھر کے فارغ البال اور خوش و خرم اور نہ ادبی دنیا میں باقاعدہ اور حسبِ مرتبہ قدر و منزلت لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کی شاعری میں یہ دم خم، یہ تیور اور یہ اکھڑ  پن نہ ہوتا۔‘‘

زیرِ نظر کتاب میں شامل شاد صاحب کے مضامین بھی دعوت فکر دیتے ہیں۔ خصوصاً ’’روایت اور انفرادی صلاحیت‘‘ ایک غور طلب مضمون ہے اور اس سے شاد صاحب کے منفرد نکتۂ نظر کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔ مکاتیب کا حصہ کافی وقیع ہے۔ بعض ایسے خطوط بے حد معلومات افروز ہیں جن میں ادبی و نظریاتی مسائل سے متعلق بحث کی گئی ہے۔

شاد عارفی نے نہایت کس مپرسی کے عالم میں زندگی گزاری اور انھیں حسبِ مرتبہ قدر و منزلت بھی نہیں ملی، اس کے باوجود یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ ایک خوش قسمت شاعر تھے جنھیں مظفر حنفی جیسا شاگرد مل گیا۔ غالب کے عہد میں غالب کو بھی حسبِ مرتبہ قدر و منزلت نہیں ملی تھی جس کے وہ حقدار تھے مگر حالیؔ نے ’’یادگارِ غالب‘‘ لکھ کر غالب کو امر کر دیا۔ اس طرح پروفیسر مظفر حنفی لائقِ ستائش ہیں کہ انھوں نے حالی کی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔

(۱۹۹۵ء دستک۔کلکتہ)

 

 

 

 

بلقیس شاہین

 

                ’’بچپن کا کھلواڑ  جیون بھر کا روگ‘‘

(مظفر حنفی کی غزل کے بارے میں چند اشارے )

 

بچپن میں کھلواڑ  کیا تھا اک دن ہم نے شعروں سے

بھوگ رہے ہیں بچپن برسوں سے اپنی نادانی کو

 

مظفر حنفی کا یہ شعر خود ان کی شاعرانہ زندگی کی سچّی روداد ہے۔ ان کی شاعری اپنا بھوگ بھی ہے دوسروں سے رشتہ بھی۔ اور یہ رشتہ رزم و بزم دونوں رخ رکھتا ہے اور ان دونوں رخوں کے درمیان دھات کی پرت خود ان کا کشاکش سہتا وجود ہے۔

مظفر حنفی صاحب نے افسانے بھی لکھے ہیں ، تنقید بھی کی ہے ، تحقیق کا بھاری بوجھ بھی اٹھایا، ترجموں کا درد بھی سہا، سفرنامے کے ذریعہ سیاح مظفر سے ملاقات کرائی اور بچوں کے لیے قلم چلا کر اپنے میں معصوم وجود کے زندہ ہونے کا احساس بھی دلایا۔

میں شاعر تو نہیں اور نہ ہی شاعروں کو الوہی مانتی ہوں۔ البتہ فکر اور جذبے کی بات اور ہے ورنہ شاعر اس کرۂ ارض کے باسی اور اسی کی سی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں ( میرے نزدیک) بلندی، لطافت، پھیلاؤ، سنگلاخی، صحرائیت، روانی، ٹھہراؤ، گمبھیرتا، کثافت، گہرائی، گیرائی اور دھواں ، روشنی، آتش فشانی اور گردبادی۔ غرض یہ سب کچھ بندۂ ارضی کے اظہار میں بھی ہوتا ہے اور بسا اوقات پرتوں کی صورت۔

مظفر صاحب شاد عارفی کے شاگرد ہیں اور شاد صاحب ہماری شاعری کے ’’سہل‘‘ شاعر نہیں اس لیے ان کو صحیح تناظر میں سمجھا نہیں گیا اور اسی لیے انک کو ان کا صحیح مقام نہیں دیا گیا۔ رہی بات مظفر صاحب کی تو ان کا معاملہ بھی استاد سے الگ نہیں۔ ایک تو خود ’’کج کلاہ‘‘ اوپر سے ’’استاد کا اثر‘‘، سو معاملہ ٹھہرا کہ:

اتنا سچ رامل نہیں آتا مظفر صاحب

سر ہتھیلی پہ لیے پھرتے ہو جِس تِس کے لئے

مظفر حنفی کی شاعری کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انھیں زندگی میں چند بڑ  ی حقیقتیں ملیں جو عام طور پر انسانوں کو ملتی ہیں اور بالخصوص شاعروں کو لیکن ہمارے شاعر، شاعری کے غلط تصور کی وجہ سے ان کا اظہار نہیں کر پاتے۔ مظفر صاحب نے اپنی شاعری میں ان بڑ  ے حقائق کا سچا اظہار کیا ہے اور ایک ایسے رنگ میں جو دو رنگوں کا سنگم ہے یعنی خود مظفر صاحب اور شاد عارفی صاحب کا:

دریا کو ہم سراب سمجھ کر نہ چھوڑ  دیں

اک چیز ہے عقیدۂ بہم کیجئے اسے

یہ عقیدگی تو کچھ نہ کچھ کام دے ہی جاتی ہے لیکن بے عقیدگی بڑ  ا عذاب ہے اور ہم آج کل اسی عذاب سے گزر رہے ہیں۔ ایک اور بار ملحوظ رہے۔ عقیدہ ایسا نہ ہو جو ساتھ چھوڑ  جائے جیسے اشتراکیت کا بت پاش پاش ہوا اور آج جدید اشتراکی ’’اس بندریا کی طرح ہیں جو مردہ بچے کو سینے سے چمٹائے پھرتی ہے۔‘‘ مظفر حنفی نے صاف بیان کیا ہے کہ عقیدے کا دریا سامنے ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور باقی بات ہماری سمجھ اور عمل کی ہے۔

ایسے شعر مظفر حنفی کے کلام میں بہت ہیں مگر نقاد تو قاری کا دوست اور ساتھی ہوتا ہے اور دوست ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ اب آپ کا کام ہے کہ آپ مظفر کا براہ راست مطالعہ کریں۔

شاعر کو اس کے کلام میں تلاش کرنا ایک دلچسپ مگر اہم کام ہے۔ آئیے ہم بھی’’ ہاتھ اوپر کیے ‘‘ شاعر کو اس کے کلام میں ڈھونڈھیں :

اندر سے اچھے ہوتے ہیں اکثر ٹیڑھے ترچھے لوگ

جیسے افسانہ منٹو کا جیسے شعر مظفرؔ کا

اچھے انسانوں کو مظفر حنفی صاحب نے ادب کے استعاروں میں بیان کیا ہے۔ تشبیہہ کا یہ انداز بہت عام نہیں ہے۔ لوگ ہم جنس چیزوں کو اور ہم جنس چیزوں سے تشبیہہ دیتے ہیں مگر مظفر حنفی نے انسان، شعر اور افسانے کی تثلیث قائم کی ہے۔ آپ یہ نہ کہیے گا کہ نہیں یہ بات صحیح نہیں۔ آخر محبوب کو پھول، خوشبو اور چاند سے بھی تو تشبیہہ دی جاتی ہے۔ یہاں وجہ تشبیہہ سامنے کی بات ہے مگر انسان کو ادب کے ذریعہ سمجھنے کی کوشش تشبیہہ کے ایک نئے رنگ کو ایجاد کرتی ہے۔ ٹیڑھے ترچھے آدمی مکو ادب میں تلاش کرنے کی کوشش دونوں کو اعتبار بخشتی ہے۔

ادب صرف انسانی رویوں کا اظہار ہی نہیں ، انسانی شخصیتوں کی بھی روداد ہے۔ مظفر حنفی کا آڑ  ا ترچھا پن ان کے شعروں میں ملاحظہ فرمائیے :

شعر کہتے رہو مظفرؔ جی

جب تلک دردِ زہ نہ جائے سب

اخلاق کی گولیاں کھا کر

نسلوں کو ضعیف کر دیا جائے

غور سے آئینہ دیکھو تو کرو گے محسوس

جیسے اک سینگ ابھر آیا ہو سر کے آگے

جدید غزل قحط دمشق کے دور کی مانند معاملاتِ عشق اور معاملاتِ دل کو فراموش کر چکی ہے ، لیکن حنفی کی شاعری کا بخارا ’’ہندو‘‘ سے خالی نہیں کیوں کہ خال ہندو کی قیمت مظفر حنفی کے شعر ہیں ، معاملات دل تو جیسے تھے ویسے ہی ہیں اور ویسے ہی رہیں گے ، بات اپنے دور کے محاورے اور زبان میں ان کے اظہار کی ہے :

کیا بتاؤں پیار کی نگاہ کا اکثر

ایک ذات بڑھ کے کائنات ہو گئی

کہاں آ کر کہانی ختم کی ہے داستاں گو نے

ہمارا نام آنے ہی کو تھا افسانۂ دل میں

دل میں کسی کی یاد کے بہتے ہوئے چراغ

دریا کے بیچ نور کا دھارا سا بن گیا

وہ دل میں مقام چاہتا ہے

خنجر ہے نیام چاہتا ہے

مجھ کو ہی ایسا لگتا ہے یا سچ مچ ہی ہو جاتا ہے

میں باتیں تم سے کرتا ہوں چاند گلابی ہو جاتا ہے

یہ وہ شاعری اور یہ وہ عاشقی ہے جو ’’خواہشوں ‘‘ کی طرح قفس نہیں جس میں آدمی تمام عمر اسیر رہتا ہے۔ اس عاشقانہ رنگ میں رنگِ دوام ہے۔ ہوس کے ’’انبار خار و خس‘‘ سے حنفی کی غزل اور عاشقی کا کوئی تعلق نہیں۔ انھوں نے اپنے آپ کو جو نصیحت کی ہے اس کو اپنا عمل اور اظہار بنا دیا ہے :

دل دوانہ سنبھل وادیِ ہوس میں نہ جا

چراغ لے کر اس انبارِ خار و کس میں نہ جا

کہا تھا ہم نے کہ اب خواہشوں کی عمر نہیں

نکل چکا ہے تو پھر لوٹ کے قفس میں نہ جا

مظفر حنفی ایک اہم شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں وہ موضوعات بھی ہیں جو ہر دور کی شاعری میں نمایاں رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ان کا عہد بھی ان کی غزل میں بولتا ہے مگر ان کی ہی زبان سے۔ ایسے شاعر کے ہاں ایسے تبصرے مجھے اچھے نہیں لگے :

’’میں جانتا ہوں کہ ایطا مذکر ہے مگر میں اسے مونث باندھ رہا ہوں ‘‘،  ’’قوافی بہ اعتبار صوت‘‘، ’’شکستِ ناروا کے لیے معذرت‘‘ وغیرہ۔ چند غزلوں کے کم ہو جانے سے ان کے شاعرانہ سرمائے میں کچھ کمی نہ ہوتی۔

 

 

 

 

ڈاکٹر سید عبد الباری

 

                مظفر حنفی۔ روشنی نوک قلم شاخ پلک پر دیکھی

 

مظفر حنفی کے کلام پر کچھ اظہار خیال میرے لئے ایک فریضہ کی ادائیگی کی مانند ہے۔ جانتا ہوں کہ ان چند سطور سے اس معروف اور بے محابا تخلیقی جولانی رکھنے والے شاعر کے قد و قامت میں کوئی اضافہ نہ ہو گا اس لئے کہ نہ تو میں ٹی ایس ایلیٹ کے قد و قامت کا نقاد ہوں اور نہ مظفر حنفی انگریزی ادب کے سترہویں صدی کے گوشۂ گمنامی میں پڑ  ے ہوئے اور دھندلے پیچیدہ و مبہم سرمایہ سخنوری کے حامل شاعر ڈن(Donne)کی مانند ہیں جنہیں میں اپنے قلم کے زور سے جدید شعر و ادب کے منظر نامہ کا عنوان بنانا چاہتا ہوں۔ مظفر حنفی پر کچھ اظہار خیال کی اس وقت سے خواہش تھی جب انہوں نے رامپور کے انوکھے بے باک اور کھرے شاعر حضرت شادؔ عارفی کی شخصیت اور فن پر نہایت بسیط و معلومات افزا تحقیقی کاوش دنیائے علم و ادب کے سامنے پیش کی۔ معلوم ہوا کہ وہ بھی حضرت شادؔ کے فدا کاروں میں ہیں۔ اس طرح و میرے پیر بھائی نہ سہی استاد بھائی بن گئے۔ حضرت شادؔ سے مجھے رامپور کے دوران قیام اور وہاں سے ایک ادبی ماہنامہ ’’دانش‘‘ کے اجرا کے وقت سے نیاز حاصل تھا۔ وہ ایک با شعور فن کار تھے اور زمانے سے ہٹ کر اپنے مخصوص اسلوب میں بات کرتے تھے۔ عمر کے آخری حصہ میں اپنے روشن روایات و اقدار سے ان کے لگاؤ کی جھلک صاف ان کے کلام میں نظر آتی تھی۔ ۱۹۵۹ء میں دانش کے دوسرے شمارہ میں ان کی غزل کے ان اشعار سے ان کے ذہنی رخ کا آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں :

اختلاف رائے کے اندر زیاں کوئی نہیں

آپ کا دشمن نصیب دشمناں کوئی نہیں

خَلو توں کے بھید کوئی جاننے والا بھی ہے

مت سمجھ لینا ہمارے درمیاں کوئی نہیں

دوسروں کے واقعات عشق اپناتے ہیں وہ

جن سخن سازوں کی اپنی داستاں کوئی نہیں

اس زمانے میں راقم الحروف پر بھی شعر گوئی کا شوق غالب تھا اور چند غزلوں پر اصلاح کے لئے میں نے حضرت شادؔ کی طرف رجوع کیا۔حضرت شادؔ چونکہ اپنے بے باک لب و لہجہ میں ماحول کی ناہمواریوں اور انسان کی بے اعتدالیوں پر نشتر چلانے کے عادی تھے چنانچہ انہوں نے تعمیر پسند اہل قلم کے حلقہ کی کافی حوصلہ افزائی کی جو اس وقت کے ادبی ماحول کی کثافتوں سے کٹ کر پاکیزگی فکر و خیال کو اپنا شعار بنا رہے تھے۔ حضرت شادؔ کے دولت کدہ پر مجھے کئی بار حاضری دینے کی سعادت حاصل ہوئی۔

حضرت شادؔ کو زبان و بیان پر غیر معمولی عبور تھا اور اس کے رموز سے شاگردوں کو آگاہ کرتے رہتے تھے۔ ان کے کئی خطوط سے جو میرے نام انہوں نے لکھے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ آخری دور میں انہیں اسلام اور عصر جدید میں اس کی اہمیت کا جس قدر احساس تھا اس کا اندازہ لگانے کے لئے ان کے ایک خط کے جو یکم جون ۱۹۶۰ء کو انہوں نے مجھے رامپور سے تحریر فرمایا تھا، چند جملے نقل کرتا ہوں۔

’’سب سے بچ کر کہنا میرا خاص انداز فکر ہے جس میں مجھے خدا کامیابی عطا کرتا ہے ورنہ یہاں کون پوچھتا ہے کسی کو……. یہ مجنوں گورکھپوری بہت شیخی خور آدمی ہے۔ میں نے اسے بہت قریب سے دیکھا ہے ، بنتا بہت ہے۔ خالی برتن کی طرح کھنکتا ہے اور کچھ نہیں۔ نیازؔ فتحپوری کی طرح یہ بھی مسلمانوں میں دہریت کا زہر پھیلانے میں شیطان دوم کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘

انہیں حضرت شادؔ عارفی سے  فطری و فنی اعتبار سے غائبانہ ہی سہی جس قدر فیض مظفر حنفی صاحب نے اٹھایا ہو گا اس کا انہوں نے کھل کر اعتراف بھی کیا ہے اور اس کی جھلک ان کے کلام میں صاف نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دیگر روایت پرست شعرا کی طرح پرانے ڈھرّے پر نہیں چلتے اور پرانی باتیں نہیں دہراتے نہ بے وقت کی راگنی الاپتے ہیں بلکہ وقت کی دکھتی رگوں پر نشتر زنی کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ کاوش و تخلیق کی بلند چوٹیوں تک رسائی آسان نہیں کتنے ہیں جو اس وادی میں تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں اور مضامین و اسالیب کے معاملہ میں تکرار کے ذریعہ بلندی کی طرف جانے کے بجائے پستی کی طرف لڑھکتے نظر آتے ہیں۔ مظفر حنفی نے جس زمانے میں قلم ہاتھ میں لیا جدیدیت کے چراغ روشن کئے جا رہے تھے مگر اس سے تاریکیاں اور بڑھنے لگتی تھیں۔ پروفیسر انور صدیقی نے مظفر صاحب کے ایک مجموعہ کے مقدمہ میں سچ لکھا ہے کہ اس وقت جدید اردو غزل میں سنجیدہ غیر سنجیدگی (Anti Solemnity)کا رنگ نمایاں ہو رہا تھا مگر ان شعرا نے یہ ضرور کیا کہ غزل کے پٹے پٹائے موضوعات اور گھسے پٹے انداز بیان کی دیواریں ڈھا کر اُسے حقائق کی ایک وسیع و عریض فضا میں لا کھڑ  ا کیا۔ شاد عارفی اس نئے تیور اور تنوع کے پیشوا تھے۔ مظفر حنفی نے ایک سعادت مند شاگرد کی طرح اسی روش کو اختیار کیا اور تازہ و حیات بخش ہواؤں کے لئے ایوان غزل میں بے شمار دریچے کھول دئے۔ مظفر حنفی کے مشاہدات کی دنیا اس قدر وسیع ہے کہ ہم محو حیرت ہو جاتے ہیں۔ شاید ان کی تخلیقی جولانی و بے پناہی کا راز اسی میں پوشیدہ ہے وہ خود اپنے تازہ مجموعہ کلام ’’ہات اوپر کئے ‘‘ میں اعتراف کرتے ہیں۔

’’بہتوں کے لئے شاعری شوق کی چیز ہے اور وقت گزارنے کا وسیلہ ہے چنانچہ وہ شعر نہ بھی کہیں تو فرق نہیں پڑ  تا۔ لیکن کچھ لوگوں کے لئے شعر کہنا سانس لینے کی طرح ایک ناگزیر عمل ہے۔ میرا لڑکپن بچپن اور عنفوانِ شباب کا زمانہ کچھ ایسے حالات میں بسر ہوا کہ دل میں آگ اور سینے میں کھولتا ہوا لاوا سما گیا۔ شعر نہ کہوں تو دم گھٹ جاتے شدت احساس کو قابو میں رکھنے اور اس تیز آنچ سے اپنے وجود کو محفوظ رکھنے کے لئے شاعری میری پناہ گاہ ہے ‘‘۔ ورڈس ورتھ کے الفاظ میں ان کی شاعری جذبات کا بے محابا و بے ساختہ سیلان ہے لیکن شعر گوئی کے باوجود ان کی نگاہوں سے اعلیٰ نصب العین اوجھل ہونے نہیں پاتا اور ان کی شاعری الفاظ کا کھیل کبھی نہیں بنتی۔ انیسویں صدی کے ممتاز برطانوی نقاد میتھو آرنلڈ کے الفاظ میں شاعری زندگی کی تنقید کا فریضہ ادا کرتی ہے اور حضرت مظفرؔ اس سے صرف زندگی پر تنقید ہی نہیں کرتے بلکہ اس سے فاسد جذبات کے تزکیہ کا بھی کام لیتے ہیں۔ زندگی کو بہتر اور کوش منظر بنانے کی ذمہ داری سے وہ کبھی غافل نہیں ہوتے ان کی شعری مسلک کی روداد خود ان کی زبان سے سنئے :

یہ سوز یہ گداز ظفر کے شعر ہیں

صحرا میں گونجتی ہے اذاں یار بادشاہ

میں نے ڈبو کے نوک قلم اپنے خون میں

جس لفظ کو چھوا وہ شرارہ سا بن گیا

مظفرؔ شاعری میں عمر ضائع ہو گئی لیکن

میری آواز الگ ہے منفرد آہنگ میرا ہے

اے مظفرؔ ہماری طبع رواں

تیز جھرنا ہے جو رکے ہی نہیں

قلم کو تیز مظفر غزل کو تیغ کرو

نہ باز آئے گی دنیا تمہیں ستانے سے

نہ پوچھئے کہ یہ لہجہ کہاں کا حصہ ہے

کھری زبان مرے جسم و جاں کا حصہ ہے

ایک ہی نام لکھا ہے میں نے کئی زاویوں سے

میری غزل، مری نظمیں ، مرے افسانے کیا

سپاٹ لفظوں کو لہجے کی سان پر رکھ دے

سیاہ مرچ غزل کی زبان پر رکھ دے

کچل نہ جائیں روایت پرسے ہٹ جائیں

انہیں بتاؤ کہ میں شہسوار ندرت ہوں

کئی بقراط شاعر پر تکلف شعر کہتے ہیں

مظفرؔ کو غزل میں دعوت شیراز کرنے دے

ڈبو کر خون میں لفظوں کو انگارے بناتا ہوں

پھر انگاروں کو دہکا کر غزل پارے بناتا ہوں

ٍ        مظفرؔ حنفی شاعری اور حق گوئی کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں۔ وہ عصر رواں کے سخنوروں سے الگ اپنی دنیا کے فکر و فن تعمیر کرتے ہیں جن میں ان اشخاص و افکار کے درخشاں چہرے نظر آتے ہیں جو اصولوں کے لئے اپنی جانیں قربان کرتے رہے ہیں۔ انہیں افسوس ہے کہ وہ بہروں گونگوں کی بستی میں حرفِ حق کہنے پر مامور ہوئے ہیں :

اونچی سماعت کے لئے تیکھا سخنور چاہئے

مرہم بہت ہے شعر میں تھوڑ  ا سا نشتر چاہئے

لہو کا طلب گار تھا صرف حق

کسی کو نہ اتنی جسارت ہوئی

یہ جانتے ہوئے کہ فرشتہ نہیں کوئی

ہم نے کبھی ضمیر کا سودا نہیں کیا

گذشتہ صدی کے نصف آخر میں جدیدیت کے فیشن میں بہت سے فن کاروں نے نظریہ و مذہب سے بے نیازی و بے زاری کا فیشن اختیار کیا۔ مظفر حنفی گرچہ لب و لہجہ اور اسلوب و مزاج کے اعتبار سے خاصے جدید تھے لیکن وہ کائنات کی عظیم سچائیوں ، بلند ترین حقیقتوں سے باخبر تھے اس لئے مذہب اور اس کی نوازشوں سے بے گانہ نہ ہوئے بلکہ اپنی اقدار اور اپنی جڑوں سے گہرا تعلق کی ایک زیریں لہر ان کے اشعار میں ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ وہ زندگی اور اس کے مظاہر، ماحول اور اس کے مسائل اور الجھنوں سے بے زاری، مایوسی، کلبیت اور دل شکستگی کی زد میں کبھی نہیں آتے۔ وہ خود رحمی اور حزیمت خوردگی کے مریضانہ اطوار اختیار نہیں کرتے۔ امید و آرزو کا چراغ ہر قدم پر ان کی کائنات فکر و تخلیق میں روشن ہے :

آسمانوں نے زمیں چومی ہے

سیکڑوں بار ہمارے آگے

دولت درد عطا کی ہے کرو سجدۂ شکر

کہ فرشتے بھی ترستے ہیں میاں اس کے لئے

ہم نے پلٹ دیا ہے مظفر ہوا کا رخ

کچھ مرغ ہائے قبلہ نما تھے کہ مُڑ  گئے

اڑ  و کہ اک زلزلہ سا ہے بال و پر میں رقصاں

رکو کہ موسم خراب ہے دن بھی ڈھل رہا ہے

چھوڑ  گئے ایسے سفر سے ہم کو دلچسپی نہیں

چل پڑ  ے جب راستہ آسان دیکھا آپ نے

اگر منہ زور موجوں کو لگا میں دے نہیں سکتے

تو یہ دریا تمہارے کھیت ریگستان کر دے گا

میرا تمہارا ساتھ ہے اس مصلحت کے موڑ  تک

تم کو کنارہ چاہئے مجھ کو سمندر چاہئے

آگ لگی ہے بستی بھر میں

تم اب تک اپنے گھر میں ہو!

پروفیسر حسن عسکری کے الفاظ میں ہر ادب پارے کے پیچھے حقیقت کا کوئی نہ کوئی تصور موجود ہوتا ہے۔ مشرق کی تہذیبوں میں بنیادی طور پر حقیقت کا ایک واحد تصور موجود رہا ہے۔ یہ حقیقت عظمی ظہور کے دائرہ سے بالاتر ہے لیکن ظہور بھی اختیار کرتی ہے۔ حقیقت کے اس طوفان کا درجہ بہت بلند ہے جو توحید خالص تک انسان کی راہنمائی کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ترقی پسند تحریک کے دور میں اسے زندگی کی سب سے زیادہ غیر ضروری اور رجعت پسند از بات تصور کیا گیا۔ مظفر حنفی کا کام اپنی افادیت و معنویت کے اعتبار سے ہمیشہ مقبول رہے گا اس لئے کہ ان کے کلام میں جگہ جگہ یہ حقیقت عظمی پرتو فگن ہے اور اس سے ان مشاہدات و تاثرات کو دوام حاصل ہوا ہے :

تمہارا نام ہر سو گونجتا ہے قریہ جاں میں

مظفرؔ ایک صحرا اور صحرا کی اذاں تم ہو

خدائے عزوجل تو جاوداں کرتا ہے لفظوں کو

مظفرؔ اپنی ہر تخلیق تیرے نام کرتا ہے

بھروسہ ناخدا پر ہے تمہیں مجھ کو خدا پر ہے

ڈبو دے گا تمہیں جس کو سہارا تم سمجھتے ہو

پھول کس کام کا جس میں تری خوشبو ہی نہ ہو

اور ویرانہ ہے وہ شہر جہاں تو ہی نہ ہو

تتلی، شگوفے ، جگنو، ستارے

سب تیری پہچان، لبیک لبیک

مظفر ہماری تابناک اقدار اور ان سے وابستہ انسانی تجربات کو کس طرح شعر کا پیراہن عطا کرتے ہیں ملاحظہ ہو:

عجب کمزور لمحے میں صداقت نے صدا دی ہے

مظفر آج ہر قطرہ لہو کا دان کر دے گا

سرابوں کا پیچھا کیا زندگی بھر

سمندر کو کس طرح پہچانتے ہو

ان سادہ مزاجوں کی ہر بات نرالی ہے

نیکی جو کوئی کرنا دریا میں بہا دینا

غم بہت ہوں خدا کم نہیں ہے

سانس لیں تو ہوا کم نہیں ہے

مظفر حنفی کے بہت سے اشعار میں ہمیں صدیوں کے انسانی تجربات کا نچوڑ  ملتا ہے جو ان کے فن کو آفاقیت عطا کرتا ہے۔ وہ اپنی ذات کی تنگنائے سے نکل کر پورے عالم انسانیت میں محیط ہو جاتے ہیں اور تمام انسانوں کے درد کو اپنے دامن میں سمیٹ لینا چاہتے ہیں۔ حکمت و بصیرت کے گہر پارے آبداران کے اشعار میں جگہ جگہ آویزاں ہیں :

جن کو دنیا سے ہے امید وفا

ریت پر تعمیر کرتے ہیں محل

اب جا کے راز دار چمن ہو سکا ہوں میں

جب تار تار میرا گریبان ہو گیا

درد کی روشنی دور تک جائے گی

لَو ہماری گھٹا دی گئی ہے تو کیا

دوستو ایسی سیاست کے تو ہم قائل نہیں

کام چل جائے بلا سے آبرو جاتی رہے

مظفر حنفی کو نئی شاعری کے پیش روؤں میں شمار کیا جاتا ہے لیکن انہوں نے جدید شاعری کی بے اعتدالیوں سے خود کو محفوظ رکھا ہے۔ بقول پروفیسر انور صدیقی ان کے یہاں نئی شاعری کا مجہول شعری کردار نہیں ملتا۔ ذہانت (Wit)سے شاعری تو کی جا سکتی ہے لیکن یہ دل کی گہرائیوں میں اترنے کے لئے ناکافی ہے۔

سودا و ناسخؔ انگریزی شعراء ڈرائیڈن اور پوپ کی طرح مرعوب تو کر سکتے ہیں لیکن ہمارے دل کو چھو لینے میں ناکام رہتے ہیں۔ ایف اومیتھیسن (F.O. Mathieseon)کے الفاظ میں حقیقی شاعری انسان کی روح میں جنم لیتی ہے۔ اس عہد کے بے شمار شعرا ہیں جن کے پاس الفاظ تو ہیں لیکن خیالات کے جواہر پاروں سے ان کی جھولی خالی ہے۔ حضرت مظفر حنفی کی خوبی یہ ہے کہ وہ صنعت کاری اور کاریگری کے طلسم کے شکار نہیں ہوتے اور شعر گوئی کو بے تکلف ہم کلامی کا رتبہ عطا کرتے ہیں۔ ان کے بہت سے اشعار سہل ممتنع کا درجہ رکھتے ہیں۔ عوام کی بول چال میں وہ اپنی بات کہہ گزرتے ہیں لیکن وہ دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔ ان کا لہجہ اور تیور ہمیں فی الفور متوجہ کر لیتا ہے۔ انور صدیقی کے الفاظ میں ان کی فنی دسترس بے ساختگی اور شعری وسائل پر ماہرانہ گرفت اور روایت کے توانا احساس نے ان کے کلام کو ابدیت و استحکام عطا کیا ہے۔

حضرت مظفر نے اپنے استاذ حضرت شاد کا لب و لہجہ اختیار کیا۔ دھیرے دھیرے اپنی الگ پہچان بنائی۔ ابتدائی عہد کے مجموعہ کلام ’’تیکھی غزلیں ‘‘ میں جو انداز بیان تھا وہ جامعیت و پختگی کی طرف مائل پرواز رہا۔ اس عہد کا تیور بھی خوب ہے اور انہیں شعرا کے ہجوم میں سب سے الگ لا کھڑ  ا کرتا ہے :

چَرب زبانی بھی کیا شئے ہے

جس کو چا ہو پانی کر لو

میری تعریفوں میں وہ رسماً تو جھلاتے بہت

خوش نما جملے انہیں دل میں پسند آئے بہت

پہلے ہم اس کی محفل میں جانے سے کتراتے تو

لیکن کیا کیجئے جب دل کی شامت ہی آ جائے تو

ساتھ تو دینا پڑ  ے گا وقت کی رفتار کا

آنکھ مل کر آیئے یا ہاتھ مل کر آیئے

روشنی کرو لوگو سازشوں کی محفل میں

کون کس کو پہچانے ہر طرف اندھیرا ہے

رفتہ رفتہ ان کا تخلیقی سفر اس مقام تک انہیں لایا جہاں انہوں نے زمانے کو ایک سمت دینے اور وقت کو اُس رخ پر موڑ  نے کی کوشش کیں جو انسانیت کی عظیم و رفیع منزلوں کی طرف لے جا سکے۔ اپنے دل کی دھڑکنوں کو غم روزگار سے ہم آہنگ کرنے کا سلیقہ انہیں حاصل ہو گیا:

مجھے تخت و تاز کی آرزو نہ دعا کہ عمر دراز دے

مرے سر کو اور بلند کر مرے دل کو اور گداز دے

احباب محبت کو نجی چیز نہ جانیں

اس جذبۂ نازک سے کوئی کام لیا جائے

دنیا ہی عجب ہے کہ ہمیں راس نہیں آئی

یا ہم ہی زمانہ سے نرالے ہیں عزیزو

روشنی کے تو میاں چند ہی چشمے ہیں

وہ کہیں نوک قلم شاخ پلک پر ہو گی

تم نے تو حال دل کو فسانہ سمجھ لیا

تم سے تو حال کہہ کہ پشیمان ہم ہوئے

ہوا کے رخ پہ تو پھولے تھے بادبان سبھی

مگر دیئے کو بھی تیور ہوا کے دیکھنے تھے

مظفرؔ حنفی کے فکر و خیال کی جڑیں اپنی تہذیب و تاریخ کی گہرائیوں میں اتری ہوئی ہیں۔ وہ اپنے گرد و پیش کے احوال سے باخبر اور مغرب کی یلغار کے بالمقابل مشرق کے انحطاط کا شدید احساس رکھتے ہیں۔ چنانچہ ایک توانا تہذیب و اقدار کے ورثہ کے حامل افراد کی شکست خوردگی کی نفسیات پر وہ اس طرح مضطرب ہیں :

اپنی صورت سے ناآشنا ہو گئے

وقت نے ہم پہ جادو عجب کر دیا

اپنی را ہوں میں کانٹے بہت بو لئے

جو نہ کرنا تھا میں نے وہ سب کر لیا

لطیفہ ہے کہ میرے قبضۂ قدرت میں دنیا تھی

تو میرا ہاتھ اکثر قبضۂ خنجر میں رہتا تھا

اُدھر ساحل پہ ان کا پھونک دینا کشتیاں اپنی

ہمارا پرچم و نقارۂ لشکر جلا دینا

ہم لوگ سر بسجدہ ہیں محراب کی طرح

نیزے پہ سر چڑھا تو منارہ سا بن گیا

سرفرازی میں مزا بے شک ہے

لیکن اس کھیل میں سر جاتے ہیں

وفور خوف سے فریاد تک نہیں کرتے

ہمارے گھر سے چرا لے گیا یقیں کوئی

وسعتیں آواز دیتی ہیں کہ موقع ہے یہی

حسرت پرواز ہے ٹوٹے ہوئے پر اور ہم

حالانکہ دھول آنکھوں میں وہم و گمان کی ہے

محسوس ہو رہا ہے لڑ  ی کہکشاں کی ہے

مظفر حنفی نے ہندوستان کی تاریخ کے گذشتہ پچاس سال کے بعض سنگین لمحات کو بھی موضوع سخن بنایا ہے۔ تخیل کی گلپوش وادیوں اور ستھری فضاؤں میں ان کا اشہب خیال گلگشت نہیں کرتا ہے بلکہ ان کے کان، ماحول کی چیخ اور کراہ پر لگے رہتے ہیں اور کبھی کبھی وہ سراپا احتجاج بن جاتے ہیں :

جتنی شاخیں تھیں مہندی کے اس پیڑ  پر

اب کے سب ہولیوں میں جلا دی گئیں

نوجوانوں کے سر در پہ کاٹے گئے

لڑ  کیاں کھولیوں میں جلا دی گئیں

ہمسائے کے اچھے نہیں آثار خبردار

دیوار سے کہنے لگی دیوار خبردار

غضب ہے خون کا بستی میں اس طرح بہنا

کسی کے دیدۂ تر میں رہے تو اچھا ہے

گولی برسی خوب مظفر دہشت گردوں پر کل رات

مرنے والوں میں شامل ہے تین برس کا بچہ بھی

خدا محفوظ رکھے اس محلّہ کو تعصب سے

یہاں ہمسائے مجھ کو مسکرا کر دیکھ لیتے ہیں

چہروں پہ جمی ہوئی ہے بارود

اور امن کی بات ہو رہی ہے

بے نام بنا رہے ہیں مسکن

تم شہر جلا کے نام کرنا

مظفر صاحب کبھی کبھی مقدس صحائف اور حکیمانہ ملفوظات جیسا خطیبانہ اسلوب اختیار کرتے ہیں شاید ان کا جذبہ خیر خواہی اور زمانہ کو بدلنے کی آرزو انہیں اس منزل تک لاتی ہے لیکن یہاں بھی ان کا تیکھا انداز اور بے ساختگی ان کے فنی وقار کو قائم رکھتی ہے :

یہ خاک روندتے رہتے ہو جس کو تم دن رات

یہ رستموں کے بھی لنگر اکھاڑ  دیتی ہے

مٹی نیچے آئے گی

کتنی دیر بگولوں پر

کچھ دن کی من مانی کر لو

حق سے رو گردانی کر لو

حضرت مظفر کو یہاں کے جنگ اور پیکار کے پیکروں کا تواتر ملتا ہے اور عسکری نوعیت کی تمثال کلیدی نوعیت کی حامل نظر آتی ہیں اور ان کی مدد سے انسانی وجود کی بساط پر ہونے والی جنگ کا منظر نامہ مرتب کیا جا سکتا ہے۔ شاعر مدافعتی جنگ کرتا ہے اور اپنے وجود کے اسلحہ خانہ سے پورا کام لیتا ہے۔ رزم گامی کا منظر اور کشمکش و یلغار کی تمثال اردو میں نئی نہیں لیکن مظفر حنفی اس کو نیا معنوی پیراہن عطا کرتے ہیں۔ ایسے مواقع پر مظفر صاحب تلمیحات سے بھی خوب کام لیتے ہیں :

گردن کو جھکاتے ہی چلی پشت سے تلوار

سر ہم نے اُٹھایا تھا کہ ماتھے پہ پڑ  ا تیر

ہر سمت نیا مرحلہ ہر سمت نیا تیر

پانی کی تمنا ہے تو حلقوم پہ کھا تیر

تیز ہے نوک ہر اک نیزے کی

سرفرازوں کو یہ دکھ سہنا ہے

جتنے عرصہ میں نیا تیر کماں تک جائے

چیختا ہے مری آواز جہاں تک جائے

ہمارے صحن میں برچھی لئے کرنیں اتر آئیں

پڑوسی آنگنوں میں سایۂ دیوار پھیلا ہے

لوگ شمشیر بکف ہیں تو کوئی بات نہیں

تھوڑ  ی رونق نظر آتی ہے گھر کے آگے

ٍ        اسی طرح موذّن کا استعارہ بھی مظفر صاحب کے اشعار کو بلند آہنگی عطا کرتا ہے اور ان کی شاعری کو پیاسی شاعری کا مقام عطا کرتا ہے :

بت بولنے لگے ہیں مظفر کے شعر پر

یہ کون دے رہا ہے اذاں دیکھنا ذرا

اٹھو لوگو زمانہ چال چلتا ہے قیامت کی

موذن خواب غفلت سے تمہیں بیدار کرتے ہیں

مظفر حنفی کی شناخت شاید ان کے مخصوص تیور، ان کے انوکھے انداز بیان اور منفرد لب و لہجہ سے ہوتی ہے ان کی تخلیقی طلسم بندی کا راز ان کی ا تھاہ انسان دوستی و باخبری کے ساتھ ان کے انوکھے لب و لہجہ میں پوشیدہ ہے۔ بڑ  ے دلکش پیرایہ میں وہ ماحول کی فریب کاریوں سے آگاہ کرتے ہیں اور اس پر فتح پانے کی تلقین کرتے ہیں۔ انسان کی فطرت کے ایک گوشے کو وہ ٹٹولتے ہیں اور ایک اچھی و شائستہ زندگی کی تعمیر کی راہیں ہموار کرتے ہیں۔ ان کی راست اندازی کا تیور کبھی ناگوار نہیں ہوتا:

خوشبوئیں سر پیٹ رہی ہیں

کھڑ  کی کھولو کھڑ  کی کھولو

شریعت نہ فرما تصوف نہ کر

محبت میں گردن کٹا اُف نہ کر

سچ بولنے لگے ہیں کئی لوگ شہر میں

دیوار اٹھ رہی ہے نئے قید خانے کی

چلے تھے کارواں کے ساتھ پھر مڑ  کر نہیں دیکھا

پشیماں کس قدر ہیں آ کے منزل پر اکیلے ہم

خوشا مری بے نیاز فطرت کہ دھو لیا خاکساریوں سے

لپٹ گیا تھا مرے قدم سے غبار فرمانروائی سا کچھ

بگولے کی مسند پہ بیٹھے ہیں ہم

سفر میں نہیں ہیں سفر میں بھی ہیں

جلا کر جنت ارضی ہماری

یہ دوزخ کیوں ؟ کہا مرضی ہماری

کج کلاہی کا بوجھ اٹھائے ہوئے

ہاتھ سب کے سوال آمادہ

چار سو ہمدرد موجیں پیٹتی پھرتی ہیں سر

ناؤ سے پتوار غائب بادباں اترا ہوا

راہ مسدود ہے اڑ  کے جاؤں کہاں

ہر طرف آسماں آسماں آسماں

جو اس طرف سے گزر ہو تو پوچھتے آنا

کوئی کرن مرے حصہ کی آفتاب میں ہے

عندلیب خوش گلو کا فرض ہے گاتی رہے

خواہ فصل گل چمن میں آگ برساتی رہے

حضرت مظفر کا معنی خیز باتیں بلیغ اشاروں و استعاروں و تمثالوں کی مدد سے کہنے کا آرٹ ہمیں فی الفور متوجہ کرتا ہے۔ غزل کا آرٹ یعنی ایک مصرعہ میں مفاہیم کا ایک سمندر قید کرنے کا آرٹ بڑ  ا مشکل آرٹ ہے اور مظفر کو اس میں مہارت حاصل ہے۔ دوسرے ان کے موضوعات کی عصری معنویت ان کی قدر و قیمت کو بڑھا دیتی ہے :

آنگن میں کبوتر جو ہمارے اتر آئے

ہمسائے کی آنکھوں میں شرارے اتر آئے

زینہ تو بلندی پہ پہنچنے کے لئے تھا

پاتال میں کیوں اس کے سہارے اتر آئے

تو نے کس دل سے مٹایا نقش اس کا آئینے

اس کو تیری چشم حیرت نے بھی دیکھا ہو گا

ہمارا دل نہیں لگتا تری بوسیدہ دنیا میں

کوئی تازہ جہاں ایجاد کرتے بھی نہیں بنتا

ویسے ہم دونوں مخلص تھے اپنے اپنے کاموں میں

اس نے دیواریں اونچی کیں میں نے روشن دان بنائے

برائی کو کرو غرقاب اگر نیکی نہیں بنتی

اگر یہ بھی نہیں بنتا تو شرمندہ رہو پیارے

بہت محتاط رہئے اس کی باتوں اور گھاتوں سے

اگر وہ آپ کی تعریف صبح و شام کرتا ہے

ہمیں اپنی کمزوریوں کا پتہ ہے

تمہیں بھی فرشتہ نہیں مانتے ہم

مظفر حنفی اپنی تمام تر سلامتی ذہن، ندرت و انفرادیت، فنی امتیاز و فکری رفعت کے باوجود کبھی کبھی شاید اپنی پر گوئی کی رو میں ایسے اشعار بھی کہہ جاتے ہیں جو ہماری غزلیہ شاعری میں روایتاً کہے جاتے رہے ہیں اور جن میں مدقوق ذہن کی جھلک نظر آتی ہے :

ہمیں اک نیا حوصلہ چاہئے

پرانے عقیدوں پہ زندہ نہیں

جینا ایک سزا ہو جیسے

میرا جرم ولادت میری

اب ہم مندر مسجد والے جو چاہیں کر سکتے ہیں

اچھا ہے یہ شوق مظفر پیہم غزلیں کہتے ہو

مگر ایسے بے خیالی کے لمحات مظفر صاحب کے یہاں بہت کم آتے ہیں۔ وہ غزل کے اور غزل کی صحت مند روایات کے مزاج شناس ہیں۔ ان کا تہذیبی شعور بھی بالیدہ ہے۔ جب وہ کلاسیکی لب و لہجہ اور مزاج کے ساتھ غزل سرا ہوتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ابھی ہماری پختہ روایت پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے :

دل کے زخموں سے منور تھا یہ ماتم خانہ

میرے گھر آ کے ہوئی شام الم شرمندہ

محبت کے حق میں دعا کیجئے

سنا ہے دوا بند کر دی گئی

زندگی ہو گئی مشکل تو خدا یاد آیا

نہ لگا کہیں دل تو خدا یاد آیا

اے مظفر زمانہ میں خوش کون ہے

دل کو یہ سوچ کر شاد کر لیں گے ہم

کس پہ کھینچے ہے تیر قوس قزح

یہ تڑ  پتا ہے کون پارے بیچ

مرتبے رنگ نے ، خوشبو نے ، ہوا نے پائے

خار تھے ہم ترے نزدیک نہ آنے پائے

اتنی بڑ  ی دنیا پئے تسخیر پڑ  ی ہے

یاں پاؤں میں احساس کی زنجیر پڑ  ی ہے

عجب عجب خوش گمانیاں تھیں کہ عرش تا فرش میں ہی میں ہوں

لگام ہاتھوں میں زندگی کی نہ موت پر اختیار میرا

ٍ        مظفر حنفی کے کلام کے اس مختصر سے جائزہ کے بعد یہ بات واضح ہو سکے گی کہ ان کی کھلی ڈلی شخصیت مکمل طور پر ان کی شاعری کے سانچے میں ڈھل گئی ہے۔ یہ شخصیت کئی اعتبار سے دلکش و پہلو دار ہے۔ ان کے حیات و کائنات کا مطالعہ وسیع ہے اور اس کائنات میں انسانی مقدار کی تعمیر و تخریب کے ذمہ دار عناصر سے بھی خوب واقف ہیں۔ وہ دور جدید کے انسان ہیں لیکن اپنی تہذیبی جڑ  وں سے کبھی الگ نہیں ہوتے۔ انہوں نے زندگی کو نہایت سلیقہ کے ساتھ برتا ہے اور اس عہد کے فکر و  عمل کے بیچ دھارے میں اپنی کشتی کو ڈالنے کی اور اسے عبور کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے ذوق و مزاج کا پرتو بن کر شاعری نے عزت وقار حاصل کیا ہے۔ وہ اگرچہ غیر آراستہ و بے تکلف انداز تکلم کے قائل ہیں لیکن زبان کی نفاستوں سے بے خبر نہیں۔ انکسار اور بے نیازی دونوں کی دھوپ چھاؤں ان کے یہاں موجود ہے۔ انہیں کے الفاظ میں انہیں اپنی تخلیقی آزادی بے حد عزیز ہے اور اس آزادی کو محفوظ رکھنے کے لئے وہ کسی مخصوص مکتبہ فکر سے وابستگی کا اعلان نہیں کرتے لیکن وہ یہ جانتے ہیں آزادی مطلق کبھی کبھی ایسے منھ زور گھوڑ  ے کا روپ اختیار کر لیتی ہے جو اپنے راقب کو خود روند ڈالتا ہے اس لئے اقدار و عقائد کی توانائی اور سلامتی فکر کی لگام کی ضرورت ہوتی ہے چنانچہ مظفر حنفی اپنے عہد کے بہت سے مخلع بار طبع فن کاروں کی طرح زندگی کے مثبت تصورات سے وحشت زدہ نہیں ہوتے اور اپنی عدم وابستگی کے باوجود انہوں نے اپنے تہذیبی تصورات سے اعلیٰ درجہ کی باخبری اور جذباتی وابستگی کا مظاہرہ کیا ہے اور ہمارے حیات بخش عقائد و نفسیات کی روشنی ان کے کلام سے چھن چھن کر باہر آتی ہے۔ انہیں روایت پرستی کے بجائے روایت شناسی اور اقدار نوازی عزیز ہے۔ فطرت کے لازوال حسن، انسان کے اندر پوشیدہ خیر و صلاحیت کی چنگاریوں اور انسانی فطرت کے صحت مند گوشوں کو وہ موضوع سخن بناتے ہیں۔ ان کے کلام میں ایک درد مند انسان دوست وجود کی خوشبو رچی بسی ہوئی ہے :

دھند ہلکے سے بلاتے ہیں ہزاروں چاہنے والے

تھمے آندھی تو ٹوٹی ناؤ کو اس پار لاتا ہوں

وضع داروں کی بہت قدر کرو ایسے لوگ

آج کل صرف کہانی میں نظر آتے ہیں

ہر غلط بات پر مرحبا مت کہو

بربریت ہے یہ دبدبہ مت کہو

یہ کستوری بھرا نافہ ہے میرا بانٹتے آنا

سنا ہے تم جدھر جاتے ہو چنگاری لگاتے ہو

الغرض مظفرؔ صاحب نے عصر رواں میں غزل کی آبرو کو قائم رکھنے کی صحت مندانہ کوششیں کی ہیں اور مثبت روایت سے رشتہ استوار رکھتے ہوئے جدید دور کے آتشیں مزاج کو بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے اپنے انوکھے لب و لہجہ اور اپنی باخبری سے غزل کو اس طرح شاداب بنایا ہے کہ وہ آتش و آہن اور بے رحم تعقل کے اس عہد میں نسلِ انسانی کے لئے ذہن و دماغ کی تراوت کا وسیلہ بن گئی ہے اور ہم فخر کے ساتھ اسے اردو شاعری کی آبرو قرار دے سکتے ہیں۔

 

 

 

 

ڈاکٹر افضال عاقلؔ

 

                ’’یا اخی‘‘ جدید غزل کا منظر نامہ

 

نئی شاعری ایک نئے  احساس کو جنم دیتی ہے  اور عصری شعور کو آئینہ دکھاتی ہے۔ نئی شاعری نے  قدروں  کے  زوال کی نوحہ گری کرتے  ہوئے، کائنات کی صداقت کو آئینے  میں  اتارنے  کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس کے  وسیلے  سے  انسان کے  ذہنی انتشار، تہذیب کی ٹوٹ پھوٹ اور کیفیات سامنے  آتی ہیں۔ نئی غزل سماج کی ناقدری، زندگی کی پیچیدگیوں، ششدر و حیران کن حالات ’’خواہ وہ واضح ہو یا مبہم‘‘ کائنات کی حدود کی توسیع کرتی ہے  اور خالق کے  ذوق و جمال، کرب آگہی اور انسانی روابط کے  احساس کو نمایاں  کرتی ہے۔ عہد حاضر میں  نئی غزل نہ صرف تیزی سے  آگے  بڑھی ہے  بلکہ اس نے  تخلیقی محرکات، تاریخی حالات اور ان کے  ذہنی اور جذباتی رویوں  کی تفہیم میں  توازن و استدلال سے  کام لیا ہے۔

مظفر حنفی کی غزلیں  اس بات کی دلیل پیش کر رہی ہیں  کہ انہوں  نے  نئی شعری تہذیب اور جمالیاتی حسن کی پاسداری کی ہے  نیز جہاں  وہ روایت کے  امین ہیں  وہیں  شعور و ابلاغ کے  بل بوتے  پر عصری حسیّت، نئی شاعری کو اعتماد اور توانائی عطا کی ہے۔ انہوں  نے  نئے  طرزِ احساسات کے  ذریعے  حیات و کائنات کے  مسائل، تغیرات، زندگی کے  تضادات کو استعارے  کے  طور پر پیش کیا ہے۔ جدید غزل کو مستحکم کرنے  میں  ان کے  منفرد مطمع نظر اور کاٹ دار لہجے  کا مکمل دخل ہے۔ ان کی غزلوں  میں  چھن کر آنے  والی روشنی میں  ’’نشتریت‘‘ ہے  اور یہی نشتریت جدید غزل کی داخلی و خارجی فضا کو مجروح ہونے  سے  بچائی ہے۔ گوپی چند نارنگ کے  الفاظ کی صداقت سے  انکار نہیں  کیا جا سکتا:

’’مظفر حنفی ان تخلیق کاروں  میں  سے  ہیں  جنہوں  نے  وادیِ شعر میں  اپنا سفر سینے  کے  بل طئے  کیا ہے۔ ان کا فن رسمی تزئین اور GUNMICRYسے  بے  نیاز ہے۔ ‘‘

(یا اخی: فلیپ)

مظفر حنفی کی غزلوں  میں  فلسفیانہ حقائق اور انسانی زندگی کے  تجربات عمومیت اور تاثیر کے  مصرعے  میں  فکر اور اظہار کی گہرائی، تہہ داری پائی جاتی ہے۔ غزل میں  خارجی، سیاسی اور سماجی موضوعات، جذبے  اور تخیل سے  ہم آہنگ ہیں۔ ان کی غزل کے  ’’حسن لفظی اور اندازِ بیاں ‘‘ کو نئی غزل کی ’’حقیقت نگاری‘‘ سے  تشبیہہ دے  سکتے  ہیں۔ کہا جا سکتا ہے  کہ ان کی غزلیں  تنوع لہجے  کی نشتریت، احساس کی شدت، مشاہدے  کی باریک بینی، نئی لسانی جہتوں  کو روشن کرتی ہیں۔ ان کی غزل کے  نازک اور لطیف پیمانے  میں  بھی نیا انداز ہمک رہا ہے۔ ان کی غزلیں  یہ ثابت کرتی ہیں  کہ انہوں  نے  اس کی تخلیق میں  کار گہہ شیشہ گری سے  کالیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں  کہ انہوں  نے  فطری بہاؤ کو نرم و نازک انداز میں  کس طرح سے  ہم آہنگ کر دیا ہے :

آ گیا ہے  کسی جگنو کی نظر میں  کیسے ؟

بوند بھر نرم اجالا مرے  گھر میں  کیسے ؟

سرخ آندھی نے  بڑا شور مچایا کل رات

گھر بنائے  ہیں  پرندوں  نے  شجر میں  کیسے

بلا سے  مجھے  بڑھے  تشنگی

سمندر کو آداب کرتے  رہو

محولہ بالا اشعار جو سوالیہ نشان (؟) کے  ساتھ سامنے  آئے، جو شاعر کو کشمکش میں  مبتلا کر دیئے  ہیں  کہ جگنو بوند بھر نرم اجالے  لے  کر گھر میں  کیسے  آ گیا جب کہ اس کا مسکن چمن ہے۔ اس حیرت انگیز حالات کے  بعد جب پرندے  شجر پر گھر بناتے  ہیں  تو سرخ آندھی ہنگامہ کھڑا کرتی ہے  کہ تشنگی بڑھے  یا بجھے  سمندر کو آداب و احترام کا خیال رکھنا چاہئے۔ اس طرح کے  کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں  جو نیا لہجہ لئے  ہوئے  ہیں، جو قاری کو مسحور کرتے  ہیں  اور جو جدید غزل میں  توسیعی کردار ادا کرتے  ہیں :

کچھ دیر تو نیزے  پہ اچھالو نہ سروں  کو

بستی میں  ابھی رقصِ شرر ختم ہوا ہے

شہکار کی تکمیل پہ کاٹے  گئے  بازو

کیا میرے  ہی ہاتھوں  پہ ہنر ختم ہوا ہے

بس کہہ دیا کہ نہ چلیں  گے  کسی کے  ساتھ

پیچھے  پلٹ کے  دیکھ رہا ہے  زمانہ کیوں

یہی وہ اشعار ہیں  جن کی روشنی میں  وزیر آغاؔ کہتے  ہیں :

’’مظفر حنفی جدید غزل کے  اس خاص انداز سے  بھی آگے  گئے  ہیں  اور انہوں  نے  بڑی دلیری سے  غزل کو اس کے  عمق میں  چھپی کہانی سے  اس طور متعارف کرایا کہ فاصلے  کم ہو گئے  ہیں۔ ہر چند کہ غزل کی مخصوص خوشبو ا ور دھند بدستور موجود ہے۔ مگر کہانی کے  نقوش مدھم نہیں  پڑے  جیسا کہ غزل میں  عام طور سے  ہوتا ہے۔ ‘‘

(یا اخی: ۱۷؂)

وزیر آغا کے  یہ الفاظ اس بات کی دلیل ہیں  کہ مظفر حنفی کی غزل انسانی معاشرے  کا محاسبہ محاکمہ کرتی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں  جو عہد حاضر کی شکست و ریخت کی منظر کشی کر رہے  ہیں    ؂

سائے  مچل رہے  ہیں  چراغوں  کی گود میں

سمجھے  تھے  ہم کہ گھر سے  اندھیرا نکل گیا

ہونے  لگا ہے  ماں  کی دعا میں  غلط اثر

بیٹی تو گھر میں  بیٹھی ہے  بیٹا نکل گیا

مظفر حنفی ایک طرف شاعری کی فلسفہ آمیز فکر کو نیا آہنگ دے  رہے  ہیں  تو دوسری طرف جدیدیت کے  رجحان کو تیز دھار سے  آشنا کر رہے  ہیں۔ انہوں  نے  ’’جدید غزل‘‘ میں  لفظ ’’جگنو‘‘ کو انتہائی شگفتہ انداز میں  متعارف کرایا ہے  اور جدید غزل کے  نئے  افہام و تفہیم کو نمایاں  کیا ہے    ؂

اُجالا بڑھا دو کہ جگنو کے  نام

ستارے  کا پیغام آنے  نہ پائے

ہم ستارے  بنا کے  خادم ہیں

آپ نازاں  ہیں  آبگینوں  پر

جگنو بھی نار سا ہے  اگر خوف دل میں  ہو

ہمت بلند ہو تو ستارا قریب ہے

مظفر حنفی ایک ہمہ جہت ادبی شخصیت کے  مالک ہیں۔ ان کی شاعری جدید رجحانات سے  پُر ہے۔ انہوں  نے  پاسداری کی سطح سے  بالاتر ہو کر ناقدانہ جمالیاتی ذوق کی اساس پر جدید غزل کی بنیاد رکھی ہے۔ وہ ایک زیرک نباض ہیں۔ جن کی غزل کی جدت عمیق ہے۔ غزل کی رویہ اور مزاج ذات و کائنات کے  ناہموار دائرے  کو لطیف ترین کیفیات سے  مملو کر کے  غزل کو ذائقے  سے  آشنا کر رہا ہے۔ مظفر حنفی نئی ردیفوں  اور نئے  قوافی کے  استعمال پر قدرت رکھتے  ہیں۔ ان کے  کلام میں  مضامین کی جدّت، تخیل، تازگی، شعریت کے  ساتھ آبدار کھردرے  الفاظ پائے  جاتے  ہیں  لیکن ان الفاظ کی گہرائی میں  تند، شیریں  اور تلخ لہجے  بھی موجود ہیں  جو غزل کو نئی عبارت و اشارات سے  آراستہ و پیراستہ کرتے  ہیں    ؂

غزل کو سینچنے  کا استعارے  توڑنے  کا

اٹھو کہ وقت یہی ہے  ستارے  توڑنے  کا

خود اپنے  آپ کو پایاب کرتی رہتی ہے

عجب جنوں  ہے  ندی کو کنارے  توڑنے  کا

سب نے  چنگاریاں  بو رکھی تھیں

تتلیاں  کیسے  اگیں  سن تو سہی

تم گھر جلانے  آئے  تھے  تہہ دل سے  شکریہ

لیکن مرا اثاثہ تو سیلاب لے  گیا

طوفاں  گستاخ، کشتی میں  سوراخ

بوسیدہ پتوار، افسوس افسوس

محولہ اشعار میں  ستارے  اور کنارے  توڑنے، چنگاریاں  بو کر تتلیاں  اگانے، اثاثہ سیلاب کی نذر ہونے، بوسیدہ پتوار پر افسوس کا اظہار کے  برمحل استعمال نے  جدید غزل کے  وقار کو بڑھایا ہے۔ اس قبیل کے  چند اور اشعار ملاحظہ فرمائیں  جن میں  احساسِ زیاں  کا کرب، عصری حالات اور تہذیب قلب و ذہن پر دستک دے  رہے  ہیں    ؂

لہو کی بوند ہر اک لفظ کو عطا دل کی

بقیہ سب مری طبع رواں  کا حصہ ہے

مری زمین رہی آسماں  پہ چھائی ہوئی

مگر غزل کی کمائی کوئی کمائی ہوئی

ڈوب جاتا ہے  یہاں  تیرنا آتا ہے  جسے

وہ کبھی ناؤ تھی دریا لیے  جاتا ہے  جسے

سب دشمنی بستی کے  نکلے

سارے  تیر اخی کے  نکلے

میرے  پیروں  کے  چھالوں  سے

کانٹے  ہمدردی کے  نکلے

پُر بریدہ، آبدیدہ، پھول کے  غم سے  نڈھال

یہ وہی خوشبو ہے، شہرت جس کی بستی بھر میں  تھی

مظفر حنفی کے  یہاں  کچھ ایسے  اشعار بھی ملتے  ہیں  جو بقولِ ڈاکٹر محبوب راہیؔ ’’غالب کے  اشعار کی توسیع‘‘ ہیں    ؂

یہ الگ بات مظفرؔ ہی نہ جانے  خود کو

ورنہ غالبؔ کے  طرفدار مرے  گھر میں  نہیں

ترا سخن تو مظفر ہے  دل لگی کے  لیے

یہاں  غزل اسداللہ خاں  کا حصہ ہے

غالبؔ نے  پتھر کی رگ میں  خون رواں  دیکھا تھا

میری رگ رگ میں  ہے  جاری بوند بوند چنگاری

سنا ہے  فیض سے  اقبالؔ کے  تقلیدِ غالبؔ میں

مظفرؔ جلد ہی دلی سے  کلکتہ پہنچا ہے

مظفر حنفی کی غزلوں  کے  مقطعے  پڑھنے  کے  بعد ایک سچا اور ایماندار قاری بلا تا گل کہہ اٹھتا ہے  کہ انہوں  نے  اپنے  مقطعے  میں  حالات اور معاشرے  کو قید کر دیا ہے۔ ان کے  مقطعوں  میں  زندگی کے  معاملات، منقلب ہو کر ایک مخصوص دائرے  پر سمٹ آئے  ہیں۔ جس میں  کائنات کے  اسرار مقفل ہیں۔ جس سے  غزل پر جمی تجریدیت و ماورائیت کی دھند فجا صاف ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ ان کے  مقطعے  گھٹن کے  بجائے  شادابی کا احساس دلاتے  ہیں  اور یہ مقطعے  انسانی زندگی، جو آمرانہ عصبیت کا شکار ہے، کے  خلاف احتجاج ہیں۔ حتیٰ کہ انہوں  نے  انسانی زندگی کے  واقعات و سانحات کی قاشیں  چن کر مقطعے  میں  رکھ دیا ہے  جو غزل کو روانی عطا کرتی ہیں۔ آیئے  اب ان کے  مقطعے  ملاحظہ فرمائیں جو غزلوں  میں  چڑھی کمانوں، سخت زمین پر رواں  دواں  آبشار کا سا لہجے، ہاتھوں کے  چھالے  کو نمایاں  کر رہے  ہیں  نیز دنیا کے  ستانے  پر قلم کو تیر اور غزل کو تیغ کرنے  کی دعوت دے  رہے  ہیں  اور فکر پر کون کے  بوچھار ہونے  پر ملک بھر میں  کہرام کا سا منظر اس سے  چشم پوشی کر کے  بنگال میں  خاموش رہنے  کا پیغام دے  رہے  ہیں    ؂

شعروں  کے  یہ تیز مظفرؔ چڑھی کمانیں  غزلوں  کی

تم جس لہجے  میں  کہتے  ہو شمشیر اور سناں  کیا ہے

زمین تو سخت ہے  مظفر مگر تمہاری غزلوں  کا لہجہ

رواں  دواں  آبشار جیسا طیور کی کوش نوائی سا کچھ

کافی ہیں  مظفر کے  لئے  ہاتھ کے  چھالے

گلدستہ کبھی دستِ ہنر تک نہیں  پہنچا

ہاں  مظفر کی غزل ہے  تو جدید

اے  روایت کے  امیں  سن تو سہی

قلم کو تیز مظفرؔ غزل کو تیغ کرو

نہ باز آئے  گی دنیا تمہیں  ستانے  سے

اے  مظفرؔ ترے  اشعار لہو میں  تر ہیں

سوچ پر کون کی بوچھار، عدو ہے  کہ اخی

ملک بھر میں  ہے  مظفرؔ کہرام

تجھ کو بنگال میں  چپ رہنا ہے

ان مقطعوں  میں  جہاں  تند و تیز موجیں  پائی جاتی ہیں  وہیں  سکون اور شانت مزاج بھی ہے  یہی وہ چیز ہے  جو ان کے  لہجے  میں  ’’تلوار کی سی کاٹ‘‘ پیدا کرتی ہے  اور پھر کائنات کی نا آسودگی، باغی ذہن، خواب و حقیقت کی کشاکش مقطعے  کے  گرد چکر لگانے  لگتی ہیں۔ جس میں  زندگی کی ہمک کے  ساتھ سیاست کا کرب، حالات کے  تغیرات اور روح فرسا مناظر کی منظر کشی ہونے  لگتی ہے۔ آپ خود ہی ملاحظہ فرمائیں  کہ مظفرؔ حنفی غزل کے  مصرعے  کے  لئے  کبھی راتیں  سیاہ کرتے  ہیں  تو کبھی سحر انگیز مقطعے  کے  لئے  دہلیز پر چراغ رکھواتے  ہیں۔ اور جب ان کی غزلوں  میں  میرؔ کی نشتریت اترتی ہے  تو غزل کی دوربینی کا پتہ دیتی ہے۔ ایسا کیوں  ہو رہا ہے ؟اس لئے  کہ وہ مندر مسجد معاملات سے  دور رہ کر مسلسل غزلیں  کہنا اور تمام اصناف سخن پر غزل کو فوقیت دینا اور نئی غزل کے  وسیلے  سے ’’ آپ بیتی‘‘ پیش کرنے  کا ہنر جانتے  ہیں۔ انہیں  اس کا یقین ہے  کہ وہ دلوں  پر مکمل راج کریں  گے  اس لئے  کہ انہیں  سلطنت کی جگہ شاعری حاصل ہے۔ مظفرؔ حنفی کو یہ بھی احساس ہے  کہ ان کے  مقلد زیادہ ہیں  اور ان میں  کچھ ایسے  بھی ہیں  جو ان کی باتوں  پر اپنا رنگ جمانے  کی ناکام کوششیں  کر رہے  ہیں    ؂

راتیں  تباہ کی ہیں  مظفرؔ نے  بے  شمار

اک مصرعۂ غزل کے  لئے  کیا نہیں  کیا

مقطع بھی ہو غزل کا مظفرؔ قرینے  سے

دہلیز پر چراغ رکھو شام آ لگی

اب ہم مندر مسجد والے  جو چاہیں  کر سکتے  ہیں

اچھا ہے  یہ شوق مظفرؔ، پیہم غزلیں  کہتے  ہو

چلے  ہیں  قلبِ مظفرؔ پہ میرؔ کے  نشتر

پتہ چلا کہ غزل دور بیں  کتنی ہے

بُری نہیں  ہے  مظفر کوئی صنفِ ادب

قلم غزل کے  اثر میں  رہے  تو اچھا ہے

مختلف انداز رکھتی ہے  مظفرؔ کی غزل

یہ ہماری آپ بیتی ہے  خبر نامہ نہیں

صدیوں  کریں  گے  راج مظفرؔ دلوں  پہ ہم

حاصل ہے  سلطنت کی جگہ شاعری ہمیں

کسی بھی نام سے  غزلیں  پڑھو مظفرؔ کی

پتے  بدلنے  سے  چہرے  نہیں  بدل جاتے

مظفر حنفی نے  غزلوں  کے  مقطعے  میں  ’’تنقید‘‘ اور ’’ناقدین‘‘ پر بھی خوب طنز کیا ہے  لیکن یہ طنز بہت ہی خوشگوار ہے  پھر بھی اس طنز کی گہرائی میں  ان کی انانیت اور ناقدین کی کج ادائی سانس لے  رہی ہے    ؂

تنقید مظفرؔ کو ذرا غور سے  دیکھے

لکھتا ہے  زیادہ کہ سلگتا ہے  زیادہ

تنقید کہہ رہی تھی، مظفرؔ بہت ہوا

ایک آبشار تھا کہ روانی نہیں  تھمی

مظفرؔ وہ مرے  فن کی بلندی دیکھتی کیسی

ادھر تو دیکھ کر تنقید کی دستار گرتی ہے

عہد سازوں  میں  مظفرؔ کا کوئی  ہمسر ہے

ایک ناقد سے  مری فکر رسا نے  پوچھا

کل تک ان کی تکراروں  سے  تیری غزلیں  زخمی تھیں

آج مظفرؔ نقادوں  کے  جھگڑے  میں  دیوان گیا

مظفر حنفی نئی غزل کے  منفرد شاعر ہیں۔ اردو کی نئی غزل پر مظفرؔ حنفی کے  اثرات نمایاں  ہیں، ان کے  نئے  نئے  استعارے، کنائے  اور علامتیں  جدید غزل کی راہ ہموار کر رہی ہیں  اور ان کی غزلوں  کا مجموعہ ’’یا اخی‘‘ جدید غزل کا منظر نامہ ہے۔

 

 

 

ڈاکٹر حنیف فوق

 

                مظفر حنفی کی شاعری: فکر کے نئے زاویے ، شاعری کی نئی جہت

 

مظفر حنفی کی کتاب ’’پرچمِ گرد باد‘‘ سے غزل گوئی کی ایک نئی جہت سامنے آتی ہے۔ ہر چند کہ ان کی غزل کا منفرد لہجہ اپنی پہچان آپ بن چکا ہے۔ شاد عارفی کے اثر سے انھوں نے طنزیہ اسلوب، اور لہجے کی انفرادیت سیکھی۔ حقیقت یہ ہے کہ شاد عارفی کے اثرات ان کی شاعری میں جگہ جگہ اپنا پرتو ڈالتے رہے ہیں اور کئی مقامات پر مظفر حنفی نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔ اگرچہ ان کے استفادے کی مدت کم ہے لیکن مزاجی مناسبت سے شاد عارفی کو ان کے لیے ایک روشن ستون بنا دیا ہے۔

’’پرچمِ گردباد‘‘ میں ’’پانی کی زبان‘‘،  ’’کھل جا سم سم‘‘ اور ’’پردہ سخن کا‘‘ کی غزلیں شامل ہیں اور اس طرح اردو شاعری کے قاری کو ان کی شاعری کی نئی جہت اور سوچ کے نئے زاویوں کے مطالعے کا موقع ملتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ان غزلوں سے ان کے رنگ شاعری کا تعین ہوتا ہے۔

ان کا ایک شعر انتساب قابلِ توجہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:

پردیس نہ جانا کبھی بنگال کو ہم نے    کلکتے میں دہلی کبھی بھوپال بچھایا

اس شعر سے واضح ہوتا ہے کہ مظفر حنفی نے متنوع تہذیبی روایات سے بہت کچھ اخذ کیا ہے۔ لیکن اپنا لہجہ الگ رکھا ہے۔ مظفر حنفی نے متعدد مجموعات شائع کیے ہیں۔ کچھ کا ذکر ’’پرچمِ  گرد باد‘‘ میں موجود ہے اور کچھ کا نہیں۔

اپنے الگ لہجے کے باوجود، ایسا نہیں کہ روایاتِ غزل کی جمالیات اور آن بان مظفر حنفی کی شاعری میں نہیں پائی جاتی۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں :

اس جفا پیشہ کی یاد آئی نہ زخمِ دل ہنسے

خود بخود سیلاب سا کیوں چشمِ تر میں آ گیا

یوں ہی شعلے کو ہوا دیتا جا

اپنے ہونے کا پتہ دیتا جا

اس انجمن میں بات نہیں بن سکی لیکن

اللہ کو سنا ہے بڑ  ا کارساز ہے

اس کی زلفوں میں بس رہی ہے گھٹا

میرے دل پر برس رہی ہے گھٹا

ہاں اپنے بہکنے پہ ہمیں ناز بہت ہے

اس باب میں ہم باد گساروں کی طرح ہیں

نہ جانے کون سی منزل یہ آگہی کی ہے

کہ میرے سر سے اترتا نہیں خمار مرا

سمندروں پر برسنا بھی کیا برسنا ہے

برس ہماری طرف ریگ زار ہم بھی ہیں

آئینہ بن کے نہ مستی میں نکلیے صاحب

ورنہ ہر شخص تماشائی نظر آئے گا

طویل رات زمیں سخت آسماں چپ چاپ

مگر ہے قافلۂ زندگی رواں چپ چاپ

ویرانیوں سے اس نے میرا حال سن لیا

تنہائیوں سے اس کا پتہ مل گیا مجھے

تری محفل سے اچھا ہے مرا وحشت کدہ جس میں

جدھر آواز دیتا ہوں وہیں سے تو نکلتا ہے

جن کو دنیا سے ہے امید وفا

ریت پر تعمیر کرتے ہیں محل

جستجو کا مشورہ یہ ہے کہ بڑھتے جائیے

راہ میں آرام کرنے کے لیے سائے بہت

کہاں چلے مجھے دامن تھما کے حیرت کا

ادھر تو آؤ ذرا آئینہ دکھاؤں تمھیں

مندرجہ بالا اشعار میں اردو کے مشاہیر شعراء کی جو بازگشت ملتی ہے اس سے خود اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ مظفر حنفی کا اردو شاعری کے سرمائے سے کتنا گہرا رابطہ رہا ہے۔ ان کے کلاسیکی شاعری کے مطالعے ہی سے وہ روشنی آ رہی ہے کہ مظفر حنفی کے انداز غزل میں نئی جہت کا احساس ہوتا ہے۔ ان کی تازہ کاری کی بنیاد اردو شاعری کا کلاسیکی سرمایہ ہے۔ مظفر حنفی نے ردیفوں اور قافیوں سے بھی کام لے کر اپنی شاعری میں جدت پیدا کی ہے۔

مظفر حنفی کے کلام میں اردو کی شاعرانہ روایت کی بازگشت ضرور مل جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:

دلِ ناداں یہی تو وقت ہے پینے پلانے کا

گھٹا اکثر نہیں کھل کر برستی دیکھتا کیا ہے

مظفر حنفی نے بعض اوقات سپاٹ بیان سے کام لیا ہے۔ لیکن اس سپاٹ بیان میں بھی صورتِ حال کا تیکھا پن نمایاں ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:

سوچ نئی ہے لہجہ تیکھا لفظ کھرے آواز جدا

دانستہ رکھا ہے اپنے شعروں کا انداز جدا

مظفر حنفی کی غزل میں جدت اور جدت کے ساتھ ان کی شاعری میں ایک نوع کا کھردرا پن بھی ہے۔ کہتے ہیں کہ:

اس کھردری غزل کو نہ یوں منھ بنا کے دیکھ

کس حال میں لکھی ہے مرے پاس آ کے دیکھ

لیکن یہی لہجہ صورت حال کی ایسی وضاحت کرتا ہے جو شاید دوسری طرح ممکن نہ تھی۔ یہ ضرور ہے کہ انھوں نے ہر شعر پر اپنی انفرادیت کا رنگ بھی چڑھایا ہے یا اپنا ٹھپّہ لگا دیا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس کے لیے انھوں نے بطور خاص اہتمام بھی کیا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان کی غزل وقت کے مزاج سے عاری ہو۔ بعض اوقات اس میں تاریخی شعور کا احساس بھی جاگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:

پھر ہاتھ نہ آئیں گے وہ الفاظ بگڑ  کر

پتھر کے زمانے سے جو محکوم رہے ہیں

البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا راستہ سیدھا راستہ نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ:

میں نے اپنا فن ٹھہرایا ترچھی را ہوں پر چلنا

جب سے سیدھی سچّی راہیں یاروں نے اپنا لی ہیں

اسی غزل کا ایک شعر دھار دار طنز کا آئینہ دار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:

بے شک فلسفیوں جیسی بات کرے گا شعروں میں

جس نے بھی دوچار کتابیں مغرب سے منگوا لی ہیں

مظفر حنفی نے اپنے آپ کو پانچواں درویش کہا ہے۔ افسانے اور اساطیر سے ان کا گہرا رشتہ رہا ہے۔ وہ ’’کوہِ ندا‘‘ کا ذخر بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ:

اور پھر پانچویں درویش کی باری آئی

باغِ افسانہ میں ندرت کی سواری آئی

وہ اپنے آپ کو میرؔ، غالبؔ اور فراقؔ سے الگ بتاتے ہیں۔ لیکن ان کی شاعرانہ روایت سے مظفر حنفی نے استفادہ ضرور کیا ہے۔ وہ مطالعۂ حیات کے قائل ہیں اور وہ آنکھوں سے کتاب کی عینک ہٹا کر بھی دیکھنا جانتے ہیں۔ ایک مقام پر وہ کہتے ہیں کہ:

بوتل کا دوسرا ہے ، کتابوں کا طاق اور

مئے کش کا ذوق اور ہمارا مذاق اور

اختر الایمان نے غزل سے پناہ مانگی تھی۔ مظفر حنفی شاعری میں نرے تغزل کے قائل نہیں۔ لیکن آتش کے لہجۂ مراد کے قائل ہیں۔ ان کے کلام میں طلسمِ ہوس ربا کا ذکر بھی ہوا ہے اور قدیم حکایتوں کی گونج بھی پائی جاتی ہے۔ پانچویں درویش کا استعارہ ان کے کلام میں بار بار آیا ہے : وہ کہتے ہیں کہ:

پانچواں درویش ہوں مجھ سے سنو

اک نیا افسانۂ باغ و بہار

’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ کا ذکر بھی ان کے کلام میں موجود ہے۔ اگرچہ اب افسانے سے انھوں نے اپنی توجہ ہٹا لی ہے اور شاعری کا دامن مضبوطی سے تھام لیا ہے۔ ان کی شاعری میں ندرت اور جدت کے اسالیب حاوی رہے ہیں اور کہیں کہیں یہ گمان ہوتا ہے کہ اپنے طرز کو جدا رکھنے کے لیے وہ بعض اوقات غیر معمولی تکلیف سے بھی کام لیتے ہیں۔

عام روایتی بیان میں بھی وہ کوئی نہ کوئی نیا پہلو نکال لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ:

اے مظفرؔ صاف اور تہہ دار ہے میری غزل

آپ بیتی ہے ، حدیثِ دیگراں ہوتے ہوئے

اس آپ بیتی میں وہ سماجی احتجاج بھی شامل ہے۔ ان کے کلام میں سماجی احتجاج کے متعدد اشعار ملتے ہیں جس کے حوالے سے شاد عارفی کی شاعری اور آتش کا کلام ہے (مردانہ لہجہ مستزاد)۔ ایک شعر ملاحظہ کیجیے :

باغبانوں کو اجازت ہے کہ من مانی کریں

آئیے نظمِ چمن پر فاتحہ خوانی کریں

لیکن مشکل یہ ہے کہ انھوں نے رہنمایانِ  وطن کو بھی مجبور مان لیا ہے ، جو دوسروں کی پریشانی دور کرنے سے قاصر ہیں۔ ترقی پسندانہ خیالات تو ان کی شاعری میں ملتے ہیں لیکن شاید ترقی پسند تحریک سے ان کا رابطہ استوار نہیں رہا ہے۔

وہ شعر کے ابلاغ اور قرینِ فہم ہونے کو ضروری سمجھتے ہیں اور شاید اسی لیے جدیدیت اور تجریدیت سے وہ اب اجتناب برتنے لگے ہیں۔ شاید اسی لیے وہ جدیدیت سے الگ ہوئے۔

جہاں تک تغزل کا تعلق ہے وہ لاکھ انکار کریں لیکن ان کے غزل میں جگہ جگہ تغزل کے نقوش بھی ملتے ہیں۔ اپنے ہم عصروں میں وہ جگر سے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ اگرچہ اپنا لہجہ الگ رکھا ہے۔ جگر کے تغزل سے تو خود فیض نے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔ مظفر حنفی کا شعر ہے ، جس پر جگر کی چھاپ واضح ہے :

میں تھا کہ احتیاط کو ٹھکرا کے پی گیا

وہ دیکھتے رہے کہ کوئی دیکھتا نہ ہو

شمس الرحمٰن فاروقی نے مظفر حنفی کو ہند و پاک کے سب سے زیادہ کہنے والے اور سب سے زیادہ شائع ہونے والے شاعروں میں شمار کرتے ہوئے ، دونوں کو مساوی حیثیت دی ہے۔ جو شاید صحیح نہیں۔ امریکہ اور کناڈا میں رہنے والے اکثر شاعروں اور شاعرات کی کتابیں مسلسل چھپ رہی ہیں۔ التبہ  زود گوئی کے وصف کو ان کے منفرد لہجے نے سنبھالا دیا ہے۔ سماجی احتجاج نے ان سے یہ خوبصورت شعر بھی کہلوائے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ:

احتجاجاً سر اٹھایا جب کسی لاچار نے

غور فرمانے کا وعدہ کر لیا سرکار نے

یہ آج کی نظمِ حکومت پر گہرا طنز ہے اور حقیقت یہ ہے کہ طنزیہ اسالیب نے ان کی شاعری میں نئی جان ڈال دی ہے ، جس کے اولین شاعر شاد عارفی تھے۔

مظفر حنفی نے میر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ البتہ اپنی پہچان پر زور دیا ہے۔ ان کی شاعری میں کلاسیکی سرمائے ہی سے روشنی آئی ہے۔ ان کی شاعری کی نئی جہت بھی اس کی مرہونِ منت ہے۔ وہ میرؔ، غالبؔ اور فراقؔ کے ہم عناں نہ سہی لیکن ان کی شاعری میں سوچ کے ایسے زاویے ملتے ہیں جس نے ان کی غزل کو نئی معرفت عطا کی ہے۔ اب تو عظمت کا لفظ پامال ہو چکا ہے۔ اردو کے کم شعراء ہیں جن کو عزیز کہا جا سکتا ہے۔ عظمت کا درجہ بہت بڑ  ا ہے اور اس کے مدارج ہیں۔ لیکن مظفر حنفی کی شاعری میں سوچ کے وہ زاویے بھی ملتے ہیں جن میں بڑائی کے آثار موجود ہیں۔ ان کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں :

بھنور بھی ایک نیا انکشاف کرتا ہے

کہ بلبلے کا سمندر طواف کرتا ہے

ڈھلتے ہوئے سورج سے بہر حال بڑ  ے ہیں

ہم رات کی را ہوں میں بھی تن کے کھڑ  ے ہیں

حصارِ جسم سے خواہش کے زلزلے نہ رکے

غبار بیٹھ گیا اب ہوا رکے نہ رکے

تجھے خیال میں مل جاؤں گا کہیں بھی میں

کہ آسماں بھی میں ہوں ، زمیں بھی میں

بعض الفاظ کا تلفظ کھٹکتا ہے۔ مثلاً اس شعر میں :

کچھ ادھوری فائلوں کا اس طرح پیچھا کیا

خواب کی چٹان سے بابو پھسل کر مرگیا

شاید یہ لفظ بغیر تشدید کے مروج ہے۔

آخری بات یہ ہے کہ مظفر حنفی کے کلام میں سوچ کے جو نئے زاویے پائے جاتے ہیں اور اردو شاعری میں جس نئی جہت کا احساس ہوتا ہے ، وہ گوشے ہمارے سامنے نہ آتے تو ہمارے شعری سلسلے میں ایک بڑ  ی کمی ہو جاتی۔

 

 

 

 

ڈاکٹر محمد عبد الوحید

 

                اردو ادب کا روشن رتن:مظفر حنفی

 

ماہ و سال ایسے گزر گئے جیسے آندھی آئی اور زندگی کے برگ و بار آنکھ جھپکنے تک میں لے اڑ  ی۔ پچھلے تیس پینتیس سالہ دورانیے کے لیے مجھے اپنے دماغی کمپیوٹر میں محفوظ معلومات کی باز آوری اور باز دیدنی کے لیے وہ کرشماتی مقناطیسی قرص داخل کرنی پڑ  رہی ہے جس کے بغیر یادداشت کی بازگشت اور بازدید سنی اور دیکھی نہ جا سکے گی جب کہ اس کا بھی خدشہ ہے کہ دماغی کمپیوٹر کے وائرس دیمک نے اس طویل عرصہ کے بعض سوانحی اور واقعاتی اوراق بھی چاٹ لیے ہوں گے۔

یہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میری ان سے ملاقات حسنِ اتفاق کا واقعہ تھی۔ ایک دن ہم دونوں آج سے تقریباً تیس بتیس سال پہلے دہلی میں نیشنل کونسل آف ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹریننگ کے دفتر میں سیکشن آفیسر کی میز سے قدرے دور رکھی ہوئی کرسیوں پر اجنبی بنے بیٹھے تھے۔ وہ ایک گراں بار بیگ تھامے ہوئے تھے جب کہ میرے ہاتھ میں ایک معمولی سی طالب علمانہ فائل تھی۔ دفتر میں دفتری اور غیر دفتری کاروباری لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ ہم دونوں بھی ایک دوسرے کو ’’یکے از مہماں باشد‘‘ کا گماں کیے بیٹھے رہے۔

سیکشن آفیسر بترا صاحب جب ضروری کاغذات اور فائلوں کی پا بجائی سے فارغ ہوئے تو ہم سے مخاطب ہوئے۔ وہ پاکستان سے نقلِ مکانی کرنے والے ایک شریف النفس انسان تھے۔ میں خاموش رہا۔ مظفر حنفی نے ڈاکٹر مظفر حنفی کہہ کر اپنا تعارف کرایا تو میرے کان کھڑ  ے ہوئے۔ پھر انھوں نے اپنا تعیناتی نامہ بھی پیش کر دیا۔ اس کے بعد میری باری آئی تو میں نے بھی اپنا پروانہ پیش کر دیا۔ بترا صاحب قدرے توقف کے بعد بولے : ابھی تو اردو کے اسٹاف کے لیے کوئی کمرہ بھی نہیں اور کام شروع ہونے میں بھی کچھ وقت لگے گا۔ یہ سن کر مجھے خوشی ہوئی کہ چلو میرا مسئلہ تو حل ہو گیا۔ میں اسی غرض سے پہنچا تھا کہ مجھے جوائن کرنے کے لیے دو چار ماہ کی مہلت دی جائے۔ میں اس وقت ایم اے فائنل کا طالب علم تھا۔ ماہ دو ماہ بعد سالانہ امتحان ہونے والے تھے مگر ڈاکٹر مظفر جھٹ بول اٹھے کہ میں تو بھوپال سے کشتیاں جلا کر چلا آیا ہوں۔ وہ اپنی سابقہ سرکاری ملازمت کو تج کر چلے آئے تھے۔دہلی جیسے بڑ  ے شہروں میں اہل و عیال کے ساتھ اجنبی کے لیے قیام شہرِ آشوب بن جاتا ہے۔ خیر، ان کے لیے یہ طے ہوا کہ وہ انگریزی ہندی بولنے والوں کے ساتھ مل کر ریختہ کی ڈول ڈالیں۔ اس طرح جب تک ریختہ بن سنور کر اردوئے معلّیٰ کے سیج پر بن سنور کر نہیں آتی، وہ ہندی گوپی اور انگریزی لیڈی کے ساتھ آنکھ مچولی کا کھیل کھیلتے رہیں۔ پچھلی ملازمت کے دوران دفتر میں ہندی اور انگریزی ان کے زیرِ نوکِ قلم رہتی تھی ا س لیے ان لونڈیوں سے میل ملاپ پیدا کرنے میں انھیں کوئی دقّت نہیں پیش آئی۔ ہندی گوپیاں تو ان پر جان چھڑ  کتی تھیں۔ ہندی میتھالوجی، رامائن اور پُرانوں کے اردو ترجموں اور مضامین نے ان کو کرشن جی کے درخت پر چڑھا دیا تھا مگر انگریزی لیڈی ان کی بالا دستی کو قبول کرتے ہوئے بھی بالا نشینی کو پسند نہیں کرتی تھی۔

یہ بھی ایک تاریخی باعثِ شرف حسنِ اتفاق ہے کہ ڈاکٹر مظفر حنفی کو نیشنل کونسل آف ریسرچ اینڈ ٹریننگ میں اردو شعبہ کی داغ بیل ڈالنے والے کی حیثیت سے خشتِ اول رکھنے کی سعادت حاصل ہے جب کہ بدّھو میاں بھی گاندھی کے ساتھ ہیں ، کی حیثیت سے ہی سہی ، مجھے خشتِ ثانی رکھنے والے کا اعزاز حاصل ہے۔

اس دو خشتہ اردو کی عمارت کی خشتِ ثالث مشہور مزاح نگار مجتبیٰ حسین بنے۔۔ انھوں نے ہمارے بعد جوائن کیا اس لیے وہ نیشنل کونسل کے شعبۂ اردو کی عمارت کی مسلم خشتِ ثالث ہیں۔ مجتبیٰ حسین کو جن لوگوں نے قریب سے دیکھا ہے ، وہ گواہی دیں گے کہ وہ زندگی بھر انگیٹھی پر بیٹھے رہے مگر لوگوں کے لیے پھل جھڑ  ی بن کر ہنسی خوشی بکھیرتے رہے۔ سنا ہے اب ان کو اخروٹ کھانے کو ملنے لگے ہیں جب کہ منہ میں دانت نہیں رہے۔ زمانہ بھی بڑ  ا ستمگر ہے !

مجتبی حسین کے قہقہہ زار گلزار کو چھوڑ  نے کا مظفر حنفی اور مجھے دونوں کو افسوس ہے مگر خوب تر اور آسودگی کے جوئندوں کو یکجائی کہاں نصیب! پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنی شخصیت کو ایسا ہمہ گیر بنا لیا ہے کہ اردو زبان و ادب کی ہر بڑ  ی چھوٹی جنبش ان کے مژگاں کے اشارے کے بغیر دم نہیں پکڑ  تی۔ کونسل میں ان کا آنا جانا تھا۔ ان کی عقابی نظر نے ہم دونوں کو تاڑ  لیا۔ پہلے ہلّہ میں مظفر حنفی کو جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی کے شعبۂ اردو کے تاج میں ٹانکنے لے جانے لگے تو پروفیسر آل احمد سرور نے شمیم حنفی کو آگے کر دیا۔ ورنہ حقیقت میں پروفیسر نارنگ کے ہاتھوں جڑ  ے جانے والے پہلے روشن رتن مظفر حنفی ہیں۔

میرے پرواز کے دن تھے۔ میں این سی ای آر ٹی سے پرواز کر کے آکاش وانی، نئی دہلی جا پہنچا۔ چند مہینے عمیق حنفی ، زبیر رضوی ، محمود ہاشمی اور ثریا وغیرہ کے ساتھ بحیثیت اسسٹنٹ ایڈیٹر کام کیا اور پھر آل انڈیا ریڈیو کی فارن سروس میں منتخب ہو کر چلا گیا۔ جہاں مشکل سے ایک سال کا عرصہ گزار پایا تھا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے لکچر ر کے لیے انتخاب کا آزمائشی نامہ آ پہنچا۔ میں نے ابھی اپنا تعلیمی سفر ختم نہیں کیا تھا۔ اردو اور عربی ادب میں ایم اے کرنے کے بعد فارسی ادب میں ایم اے کا فائنل امتحان دے رہا تھا۔ اسی دوران اس آزمائشی امتحان کی تاریخ بھی آ پڑی۔ اس سے پہلے بھی ایک بار انٹرویو میں بیٹھ چکا تھا اور ہمہ تن خود اعتمادی اور کامیاب کن خوش جوابی کے باوجود میرا انتخاب نہ ہو سکا تھا۔ اس کا قلق تھا۔

اس زمانہ میں آل انڈیا ریڈیو کی فارن سروس میں ٹرانسلیٹر اناؤنسر کا ا سکیل سات سو روپے سے شروع ہوتا تھا۔ یہی بیسک ا سکیل یونیورسٹی کے لکچر ر کا تھا۔ مادی طور پر مطمئن تھا مگر کام کی نوعیت اور نشست میرے مزاج سے میل نہیں کھاتی تھی۔ میں خوشبو کا رسیا نہ تھا اور ناک بند کر کے بیٹھنا مجھے پسند نہ تھا۔ دوسری بار جب انٹرویو نامہ آیا تو میں پروفیسر نارنگ کا چیدہ اور مجتبیٰ حسین، مظفر حنفی اور حنیف کیفی کا چہیتا تھا۔ اپنی دانست میں میرے پہلے انٹرویو کے مقابلہ میں یہ انٹرویو کمزور تھا لیکن جب نتیجہ میرے حق میں نکلا تو اس عقیدہ پر ایمان اور محکم ہو گیا کہ انسان کے بس میں بس اسباب کی تلاش اور استواری ہے۔

میری فطرت رہی ہے کہ میں برگد کے سائے سے نکل بھاگتا رہا۔ خواہ وہ میرا باپ ہی کیوں نہ ہو۔ میں ابھی اپنے پاؤں پر کھڑ  ا بھی نہ ہوا تھا کہ میرے باپ اور اہلِ خانہ نے میری شادی کی سازش رچی۔ میرے کانوں میں بھنک پڑ  ی تو میں حیدرآباد سے بھاگ نکلا اور دہلی کی ایک مسجد کے تنگ حجرہ میں دوست کے پاس پناہ لی۔ دہلی کالج اجمیری گیٹ دہلی میں داخلہ لیا اور جب تک برسر روزگار نہ ہوا، بی بی کی بانسری کے سر سے مسرور نہ ہوا اور جب سر سے سرود برآمد ہوئے تو ان کی آسودگی کے لیے مروت کے مارے دوستوں اور ممتا بھری دھرتی کو چھوڑ  کر سمندر پار کرنے کا پاپ کر لیا اور آج تک روغنی دلدل میں دھنسا ہوا ہوں۔ تمنا ہے کہ اپنی ہی دھرتی میں دھڑ  چھپانے کو جگہ ملے۔

پروفیسر مظفر حنفی کو میں ان کے گھر میں رہ کر پرکھا۔ عجیب و غریب فطرت اور شخصیت کے مالک ہیں۔ انھوں نے گھر کے تمام اختیارات خاتونِ میکدہ کو سونپ رکھے تھے۔ خاتون بھی خدا نے ایسی مقدر کر دی تھی کہ خدا کی خداوندی کے بعد اس نے اپنی ہر پسند و ناپسند خاور صفت خاوند کی مرضی پر چھوڑ  دی تھی۔ وہ اس قدر قیافہ شناس تھیں کہ خاور کے تیور کی چمک اور تڑ  ک کو بروقت تاڑ  لیتی تھیں۔ ان کے فیصلوں کو اپنی فہم اور تجربہ کے مطابق سمجھ میں نہ آنے پر بھی یہ کہہ کر تسلیم کر لیتی تھیں کہ آپ کی مرضی اور رائے یہی ہے تو یہی کر لیجیے۔ خدا دونوں کو سلامت رکھے۔ مظفر جیسے آفتاب کو مہتاب نصیب میں ملی۔ ان کو دیکھ کر عورت کی اصل صفت ٹھنڈک پر ایمان لانا پڑ  تا ہے جو زندگی کے فرعونی آسیب کو گلزارِ ابراہیمی میں تبدیل کرنے کا ہنر جانتی ہے۔ میں نے اس گھرانہ کو بند مٹھی کی شکل میں بھی دیکھا ہے۔ اس وقت جب کہ میرے گھر کے دروازے پر بھی ٹاٹ کا پردہ پڑ  ا رہتا تھا جس کو ہٹا کر پروفیسر گوپی چند نارنگ جیسی شائستہ اور نفیس شخصیت اس میں داخل ہو ا کرتی تھی۔ عید بقر عید یا خوشی و غم کے کسی بھی موقع پر ان کی خوب رو ، خوش پوشاک اہلیہ پروفیسر میمون باجی بھی ساتھ ہوتی تھیں۔ پروفیسر نارنگ کی بہت سی خوبیوں کے علاوہ اس محبت و مروت کے برتاؤ پر بھی رشک آتا ہے۔ اسلامی مساوات کے دعوے داروں کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔

مظفر حنفی ، حنیف کیفی اور صغریٰ مہدی تو بڑ  ے بھائیوں کی طرح ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے۔ اپنی روایات اور اقدار کے مطابق چھوٹوں کو ہی بڑوں کے پاس جانا پڑ  تا ہے۔ یہی میرا معمول تھا۔ میں ہی زیادہ تر حاضری دیا کرتا تھا۔ ان یادوں کی کتنی ہی خوابیدہ واقعاتی تصویریں حافظہ پر نقش ہیں جو ڈرامہ کی سیریل کی طرح بار بار آنکھوں کے سامنے آ کر دکھی دل کو دکھی کر رہی ہیں۔ یہاں قلم رک گیا ہے تاکہ کچھ سسکیاں لے کر آگے بڑھوں۔ وہ دن یاد آتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے مگر انسانی ضرورتیں اور مجبوریاں کہاں غم خواروں اور ہمدردوں کو یکجا رہنے دیتی ہیں۔ یہ سب خدا کے فیصلے ہیں اور انسان بے بس۔ اس میں ہماری مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔ وہ کسی کا برا نہیں چاہتا۔ ملنا بچھڑ  نا اور پھر ملنا نہ ہو تو جذبات کے باغ میں گل بوٹے بھی پیدا نہ ہوں۔

پروفیسر مظفر حنفی بظاہر اتنے سچے پکے مسلمان نہیں ہیں مگر عالمی ادبیات اور ہندی ثقافت کی طرح اسلامی تعلیمات پربھی ان کی گہری نظر ہے۔ ان تعلیمات پر پوری طرح عمل پیرا نہ ہوتے ہوئے بھی انھوں نے بعض ایسی تعلیمات کو اپنا لیا ہے جو فی زمانہ مادی دنیا میں مضرت رساں ثابت ہوئیں۔ حق بات کہو اگرچہ لوگوں کو کڑوی لگے حالانکہ اس کے ساتھ موقع محل کی نزاکت کو پیشِ نظر رکھ کر میٹھے بول میں بات کرنے کی شرط لگی ہوئی ہے۔ کبھی کبھی وہ اس شرط کو نظرانداز کر جاتے ہیں پھر  یہی چنگاری بات کا بتنگڑ  بن کر باہمی مصلحتوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ایسا نہیں کہ وہ یہ سب کچھ نہیں جانتے مگر مزاج کے ہاتھوں مات کھا جاتے ہیں !

انسانی مزاج کو یکسانیت اور یک رنگی پسند نہیں۔ ہر معاشرتی اور ادبی روایت میں وہ چترنگی دیکھنا چاہتا ہے۔ اس نفسیات کا استحصال کر کے سیاسی ادبی بازی گروں نے حالات کا فائدہ اٹھا کر معاشرت اور ادب میں اچھے برے نئے فیشن کو رواج دیا۔ بازی گروں کے ہاتھ میں اپنی انا کی تسکین کا مداوا یا دانا پانی دیکھ کر بہت سے دار و نادار، دانا و بینا اپنی خودغرض خواہش یا ناداری کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی ڈفلی لے کر ان کے شبو بازار میں شریک ہو گئے اور فن کی سچائی مظفر حنفی بن کر تماشائی بنی کھڑ  ی رہی۔’’یہ سوچ کر جلے تھے کہ اندھیرا کم ہو‘‘۔

بعض ادبی و علمی شخصیات کی زندگیاں قابلِ رشک ہوتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ خدا نے انھیں کسی علم و فن کے کرب میں گھلنے اور گلنے کے لیے ہی تخلیق کیا ہے۔ وہ اسی کرب ، گھٹن اور گلاوٹ کو گلے لگا کر گل قند کی طرح مزے لے لے کر چبانے لگتے ہیں۔ پھر یہی گلاوٹ اور گھٹن گلاب کی خوشبو بن کر ان کے علم و فن میں مہکنے لگتی ہے۔

پروفیسر حنفی کی زندگی کے اوراق الٹ کر دیکھیں تو انھوں نے عنفوانِ شباب میں ’’نئے چراغ‘‘ کا نام انتخاب کر کے ایسا رسالہ نکالنے کا جوکھم لیا تھا جب کہ پرانے چراغوں کی مدھم روشنی کے متوالے اپنے سامنے کسی نئے چراغ کی چکا چوند روشنی کو دیکھنے سے آنکھیں چُراتے تھے۔ انھوں نے تقریباً نصف صدی پہلے کھنڈوہ، مدھیہ پردیش سے اپنی ادارت میں یہ رسالہ جاری کیا تھا اور نامساعد حالات میں دھن من تن کی بازی لگا کر اردو کا پرچم اٹھائے رکھنے کی بے لوث کاوش میں دل و جاں خوں چکاں کرتے رہے تھے۔ وہ ایک دوام صفت جفا کش اور کرب کیش تناور کیکر کے درخت کی مانند ہیں جو صحرائے ادب میں آندھیوں اور بگولوں کی پروا کئے بغیر اپنی آہنی جڑیں جمائے رکھتا ہے۔ ان کی زندگی میں بہت سے جھکولے آئے مگر ان کی تناوری کو پسپا نہ کر سکے۔

پروفیسر مظفر حنفی زندگی کی آگ پر اپنی انگلیوں سے کرید کرید کر مٹی ڈالتے رہے۔ اس لئے انھیں جھلستی انگلیوں کے کرب اور مٹی کے مرہم سے آسودگی اور راحت ملنے کا پورا پورا احساس تھا۔ وہ کڑ  کڑ  اہٹ میں کڑوے بول بول کر مٹی کے مرہم پر تکیہ کرتے رہے۔ رات دن اٹھنا بیٹھنا ساتھ تھا۔ کبھی کبھی باتوں باتوں میں کچھ خانگی اور نجی باتیں بھی سننے کو مل جاتی تھیں۔ بچپن کے حوالے سے ایک بار کہنے لگے۔ بچپن میں والدین نے مجھے ایک مولوی کے حوالے کر دیا تھا، جس نے مجھے مار پیٹ کر نہ صرف قرآن شریف پڑھایا بلکہ چار پانچ سپارے بھی حفظ کروا ڈالے تھے پھر میں کسی طرح اس مولوی کے چُنگل سے بھاگ نکلا۔ یہ چند جملے خاندانی پسِ منظر سمجھنے کے لئے کافی ہیں کہ موصوف کے بزرگ باپ دادا روایتی تربیت کے دل دادہ تھے جس میں ہندو اپنے بچے کو پاٹھ شالہ اور دھرم شالہ میں دھرم بھرم پڑھوا کر کل جگ کی یُدھ میں جھونک دیا کرتے تھے تاکہ زندگی بھر پاپ اور پُن کا پاٹھ جیون کے بھاگ سے باہر نہ نکلے ، اسی طرح مسلمان بچے بسم اللہ کی گنبد میں ثواب اور گناہ کے دو جدا ادراک اور احساس، جزا و سزا، نیکی کا بدلہ نیکی، اور کوئی دیکھے یا نہ دیکھے اللہ دیکھ رہا ہے ‘‘ کا درس دل میں جاگزیں رکھ کر زندگی گزاریں۔ اس طرز کی تربیت مظفر حنفی کو ملی تھی مگر انھوں نے مسجد کی گنبد، کلیسا کے کلس اور مندر مٹھ سے واسطہ دور کا ہی رکھا۔ حسّاس طبع ہیں اور مشاہدہ تیز، ہر مذہب و ملت کے پیشواؤں اور افراد میں کھوٹ اور ان کے قول و عمل کے متضاد کردار اور رویّوں سے بیزار ہو کر ان سب سے دوری اختیار کر لی تھی۔ میرے اور ان کے درمیان اس ایک نکتہ پر ہمیشہ اختلاف رہا۔ وہ مذہب اور مسلک کو افراد کی زندگی پر منطبق کر کے اچھائی برائی کا فیصلہ کرتے جب کہ مذاہب اور مسالک کی اچھائیاں اور برائیاں پرکھنے کے لئے افراد کا عمل اور کردار پیمانہ نہیں ہوا کرتا بلکہ ان کی بنیادی تعلیمات اصل پیمانہ ہوا کرتی ہیں۔ وہ تو میری اور آپ کی مصلحتوں اور خود غرضیوں نے تحریف کے دروازے کھولے تو بنیادی تعلیمات پسِ پردہ چلی گئیں پھر بہروپی کے انداز اور ریاکاری کے کردار نے مذاہب کو بدنام کیا اور کیا یہ بھی سچ نہیں کہ مذہبی سچائیوں پر عمل پیرا ہونا ہر زمانہ میں چنگاریوں کو چومنے کی آزمائش بنا رہا!

پروفیسر صاحب کی نجی زندگی اور میری بے تکلف باتوں نے قدرے طوالت دے دی۔ میں نے بھی قلم کو چھوٹ دے دی تاکہ قلم کی نوک کھروچ سے آئینہ کا کچھ تو رنگ اکھڑ  ے۔ ویسے پروفیسر موصوف کی کج کلاہی کی شان مجھے پسند ہے۔ وہ ہر کسی کو تو منہ لگاتے نہیں اور اگر کوئی لگ چپٹ کر بولنے پر ہی مُصر ہوتا ہے تو قدرے سننے کے بعد اس کے بول خالی ڈھول محسوس ہوں تو پھر اُس کو اُس کی اوقات یاد دلا دیتے ہیں۔ ’’اُوچھا چنا باجے گھنا‘‘ صفت انسان کو وہ ہرگز پسند نہیں کرتے۔ ایسی شخصیت جس نے آنکھیں کھولنے کے بعد سے آج تک ہندوستانی اور عالمی ادب، تہذیب و ثقافت، ادبی اصناف، تحریکات اور شخصیات کو دل و دماغ کے خانوں میں محفوظ اور نوکِ زباں پر ازبر رکھا ہو، اس کے سامنے منہ کھولنا از راہِ استفسار بغرض استفادہ تو مناسب ہے مگر بڑ  ے بول بولنا تو از خود رسوائی کو دعوت دینا ہے۔ میں نے بہت سے نو آموزوں کو ان کے سامنے اپنی بے ساکھ بلند بانگی پر ننگ اور نا ناموس ہوتے دیکھا ہے۔

اب آخر میں یہ ذکرِ حق بھی ضرور پڑھیے۔ پروفیسر مظفر حنفی کی ادبی قدر و قیمت کو ناپا تولا جائے تو وہ ان کے قد و قامت کے طول و عرض سے کچھ فراز ہی نکلے گی۔ اس پر قلم اٹھانا، میرے لئے ایسا ہی ہو گا جیسے کوئی قطب مینار کو دیکھنے کی خواہش میں اپنی ٹوپی سنبھالے بغیر سر اٹھانے کی احمقانہ کاوش کر لے یا سمندر کی گہرائی ناپنے کے لئے اپنا انگلی بھر قلم ڈبو کر لوگوں کو جگ ہنسائی کا موقع دے۔ میں اس گراں بار چٹان کو چومنے کی جسارت بھی نہیں کر سکتا۔ بھلا اس گراں بار چٹان کو کون اُٹھائے جس پر کئی درجن ادبی نقد و ادب کی تصانیف، شعری مجموعوں اور انگنت متنوع مضامین کا انبار لدا ہو۔ بہت ہمت کی تو بس دور سے ہاتھ دکھا کر حجرِ اسود کی طرح دست بوسی کر لی۔ یہاں بہت سے ادبی میدان کے شہہ مات پختہ قلم کار ہیں ، وہ اپنی مردانگی کا جوہر دکھائیں گے۔ پرنسپل ڈاکٹر محبوب راہی نے ان کی شخصیت اور ادبی خدمات پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر کچھ حق تو ادا کر دیا۔ حکومتی اور نجی اداروں کے درجنوں انعامات، ا کرامات، شال پوشیاں اور اسناد نوازیاں ان کی خدمات کا صلہ نہیں۔  یہاں اس کی تفصیل طوالت محض کا باعث بنے گی۔ ان کی نظر میں بھی یہ سب کچھ ہیچ ہیں۔ چند کلیوں پر قناعت کرنے کے وہ قائل بھی نہیں ! مجھے اپنی کم تر ادبی قامت اور بے مایگی کا اعتراف ہے۔ میں نہ تو خوش فہمی کا نفسیاتی مریض ہوں اور نہ واہ واہ کے وقتی سرور کا قائل۔ میرا قلم قلمی آم بھی نہیں جو پیوستہ کاری کے بل پر جنم لیتا ہے۔

حال ہی میں وہ حکومت ہند اور سفارت خانہ ہند، سعودی عرب کی خصوصی دعوت پر ستمبر ۲۰۰۵؁ء میں مکہ، مدینہ، جدہ اور ریاض کی ادبی اور شعری مجلسوں کو گرما کر گئے ہیں۔ قونصل جنرل جناب اوصاف سعید صاحب اور پریس انفارمیشن سکریٹری جناب حفظ الرحمٰن صاحب کی مساعی سے ’’شمعِ سخن‘‘ کے نام سے تاریخی دستاویز کی شکل میں جو کتاب شائع ہوئی ہے ، اس میں ’’اردو کی پہچان:غزل‘‘ کے عنوان سے پروفیسر مظفر حنفی کا ایک سیر حاصل سمندر سمویا مضمون شامل ہے ، جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ عرصہ بعد ریاض، سعودی عرب میں ان کی زیارت نصیب ہوئی تو مزاج و فکر میں بہت ساری تبدیلیاں محسوس ہوئیں۔ اہلیہ ساتھ تھیں۔ رامپوری ٹوپی، کرتے پاجامے میں ملبوس اپنے استاد عالمی مرتبت شادؔعارفی کی ہو بہو شبیہ لگ رہے تھے۔ کلام کا رنگ اور آہنگ تو پہلے ہی سے ہم رنگ اور ہم آہنگ تھا، اب ظاہر و باطن بھی دو قالب نہیں رہے تھے بلکہ ’’تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری‘‘ کا مصداق بنے نظر آ رہے تھے۔

مکہ مکرمہ میں عمرہ کی سعادت حاصل کی۔ دیارِ نبی مدینہ منورہ میں روضۂ اقدس کی زیارت اور حاضری سے شرف یاب ہوئے۔ مکہ مدینہ میں کئی بار اشکبار ہوئے۔ میں نے اس قدر قلبی رقت کے عالم میں انھیں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس وقت بھی نہیں جب کہ ان کے لختِ جگر رومی نے ان کی اپنی گود میں دم توڑ  ا تھا۔ خدا با صحت سلامت رکھے اور اپنے علمی ادبی خزانے اور سرمایے کو فیضِ عام کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ راحت، فرصت اور اسباب مہیا فرمائے (آمین)۔

 

 

 

منور احمد کنڈے

 

                مظفرؔ حنفی : منفرد شاعرِ برِ صغیر

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ مظفرؔ حنفی صاحب ایک قد آور شخصیت ہیں اور ان پر جتنا بھی لکھا جائے وہ کم ہے اور ذہین و با شعور قاری تشنگی محسوس کرتے ہوئے یہی کہے گا ’’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا!‘‘ میں بھی مظفرؔ حنفی صاحب کے کلام کے مداحین میں ایک ادنیٰ سا درجہ رکھتا ہوں یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ میں صرف مبتدی شاعر اور علم و فن کا بہت ہی چھوٹا سا قلمکار ہوں۔ نثر نگاری کے فن سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتا۔ بڑ  ی مشکل سے جسارت کر رہا ہوں کہ اپنے جذبۂ عقیدت کا اظہار چند ٹوٹی پھوٹی سطروں میں بشکلِ مضمون کروں۔

اردو غزل کے منظر نامہ پر اگر طائرانہ نظر ڈالیں تو بہت کم نام ایسے ملتے ہیں جو نہ صرف مستقل لکھ رہے ہیں بلکہ اپنی انفرادیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے شعرائے کرام کی اگر فہرست بنائی جائے تو ایک اہم اور معتبر نام پروفیسر مظفرؔ حنفی صاحب کا سامنے آئے گا جو بیک وقت اپنی فنی بصیرت، بالغ نظری اور ہنر مندی کی بدولت کہیں بحیثیت نقاد کہیں مترجم کہیں شاعر، کہیں افسانہ نویس اور کہیں بچوں کے ادیب کی حیثیت سے قارئین کے دلوں کو اپنے سچے جذبے اور لطیف احساسات کے پھولوں کی خوشبو سے معطر کرتے نظر آتے ہیں۔ بحیثیت شاعر اُن کا مطالعہ کیا جائے تو ان کے یہاں بھرپور تخلیقیت ہے ، تجربات ہیں ، مشاہدات کی فنکارانہ گرمی ہے۔ اُن کی غزلیں اُن کے مزاج، ماحول اور اس عہد کی عکاسی کر رہی ہیں ، جس عہد میں وہ جی رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے سماج میں رونما ہونے والے حالات کی بڑ  ی فن کاری کے ساتھ تصویریں اُتاری ہیں جو اہلِ شعور کو سوچ اور فکر کی دعوت دیتی ہیں۔ اُن کی غزلوں میں فکر اور جذبے کی امتزاج نے جو شاعرانہ نزاکتیں پیدا کی ہیں وہ مظفر صاحب کو ان کے ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہیں۔ سیدھی سادی اور عام فہم زبان کے ذریعہ اظہاریت کی بے باکی اور فکری بلندیوں کی عریاں حقیقتوں کو اُجاگر کرنے میں مظفرؔ حنفی نے اپنے شعری نگار خانے کو جس خوبصورتی کے ساتھ سجایا ہے وہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ فن کار کو زبان، قواعد فن اور شاعری کا پختہ شعور حاصل ہے۔ اس شعور کی پختگی کے سبب ان کے یہاں آفاقیت ہے۔ ابدیت ہے۔

انہوں نے ایک نئے لہجے کی بنیاد ڈالی ہے جس کا اسلوب بھی ان کا اپنا ہے۔ جو انہیں اپنے استاد شادؔ عارفی سے ورثہ میں ملا ہے۔ مگر مظفر حنفی صاحب نے اس طنزیہ لہجے کو اور آبدار بنا کر وہ آئینہ سماج کے سامنے پیش کیا جس میں از خود اس کی بھیانک تصویر سامنے آئی ہے۔ شادؔ عارفی کے وہ شاگرد ضرور ہیں مگر انفرادیت کے ساتھ مظفرؔحنفی صاحب غزل کے ایسے شاعر ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کی بنیاد روایت پر ضرور رکھی مگر جدّت کے ساتھ فن کی پابندی کو ضروری سمجھا۔ چنانچہ اس خوبصورت امتزاج کے نمونے ہمیں بڑ  ی آسانی سے اُن کی شاعری میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کو اپنے استادی سلسلہ پر ناز ہے فرماتے ہیں۔

ہے شادؔ عارفی سے مظفرؔ کا سلسلہ

اشعار سان چڑھ کے بہت تیز ہو گئے

یہ طنزیہ زبان مظفرؔ انہیں کی ہے

مطعون رام پور جو ہیں شادؔ  عارفی

مظفرؔ حنفی صاحب کا یہ طنزیہ کاٹ دار لہجہ ہی اُن کی شناخت بھی ہے اور اسی پر انہیں فخر بھی ہے۔ ایک جگہ اس بات کا اظہار انہوں نے اس طرح کیا ہے۔

؂       کل اے مظفرِ حزیں طنز ہی رنگ لائے گا

میری غزل غزل نہیں لے دے کے طنز ہی سہی

واقعہ یہ ہے کہ مظفر حنفی صاحب نے سماج میں رونما ہونے والے حالات کو من و عن پیش کر کے اُن حالات کے تناظر میں معاشرے کی اُن اقدار کی نشاندہی کی ہے جن سے معاشرہ متاثر ہو رہا ہے۔ اور اخلاقی قدریں پامال ہو رہی ہیں۔ ان طنزیہ اشعار کے ذریعہ مظفرؔ حنفی کی انسانی ہمدردی اور کائنات کے حسن سے اُن کی محبت اور قومی درد کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔ قومی رہنماؤں سے مخاطب ہو کر ان کا یہ انداز آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔

؂       آپ میں رہبری کے سبھی وصف ہیں

حوصلہ پست ہے پاؤں میں لنگ ہے

شعر کا حسین طنز قاری کو بتا رہا ہے کہ قومی رہنماؤں کی لغزش کا ہی نتیجہ ہے کہ آج پوری قوم اس کا شکار ہے۔ یہی تیکھا اور کھردرا لہجہ مظفرؔ حنفی کا طرۂ امتیاز ہے۔ اپنے اس لہجہ کے سبب وہ دور سے پہچان لئے جاتے ہیں۔ وہ ایک کوش کلام، خوش فکر اور زود گو شاعر ہیں۔اُن کی شاعری فنی و فکری لطافتوں سے معمور ہے۔ ان کے لہجہ کی یہی تلخی اور طنز کی یہی نشتریت الفاظ کا لباس پہن کر گرد و نواح کے مناظر کی مسلسل نمائندگی کرتی ہے۔ یہی تلخ اور تیکھا لہجہ ان کے سچے حقیقی تجربوں کا آئینہ ہے جس میں زندگی کی کڑ  وی سچائیوں کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔ ان موضوعات میں جس فن کارانہ انداز میں وہ رنگ بھرتے ہیں اس سے ان کی شخصیت کی تہہ داریوں کا قائل ہونا ہی پڑ  تا ہے۔ وہ بات سے بات نکالنے کے فن میں ماہر ہیں انہوں نے مختلف سماجی پہلوؤں کو نشانہ بنایا ہے۔ مثلاً

؂       آپ آئے ہیں گواہی کے لئے

آستیں تک آپ کی رنگین ہے

؂       قوم سے چندے وصولے ہیں بہت

اب ذرا خیرات بھی جاری کریں

مندرجہ بالا اشعار سے مظفرؔ حنفی صاحب نے زندگی اور سماج کے زخموں کو جس سلیقے کے ساتھ کریدا ہے وہ ان کے تیور اور اسلوب کی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں۔ اور یہی ان کا سچا اور کھرا اسلوب ہے جو انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔

ہر سچے فن کار کے یہاں خود داری اور انا ضرور پائی جاتی ہے۔ فردوسیؔ اور میرؔ جیسے عظیم المرتبت شعرائے کرام کی اسی انا اور خود داری نے محمود غزنوی اور نواب آصف الدولہ کو یہ احساس کرا دیا تھا کہ آپ بادشاہِ وقت ہو سکتے ہیں مگر فن کار آپ کی ہاں میں ہاں نہیں ملا سکتا۔ آج کے اس دور میں بھی اچھے اور سچے فن کاروں کی کمی نہیں ہے جنہوں نے اپنے اشعار میں خود داری اور انا کا تذکرہ بڑ  ی خوبصورتی کے ساتھ نظم کیا ہے۔ جس کے ذریعہ شاعر اپنی شخصیت کا اظہار دو مصرعوں میں اس خوبصورتی کے ساتھ پیش کرتا ہے جس سے شاعر کی مکمل شخصیت اور اس کے مزاج اور شعری رویہ پر روشنی پڑ  تی ہے۔ انیسؔ ہوں کہ دبیرؔ ہوں حالیؔ ہوں کہ غالبؔ، اقبالؔ ہوں کہ جوشؔ و فراقؔ، ان تمام حضرات نے اپنی انا کا اظہار اپنے اشعار کے ذریعہ قاری پر روشن کیا اور ان کو یہ حق حاصل بھی ہے کیوں کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی عروسِ سخن کے گیسو سنوارنے کے لئے وقف کر دی ہے۔ انا کا اظہار مظفرؔ حنفی نے مختلف معنوں میں کیا ہے اور وہ معنی ان کے طنزیہ لہجہ کی کمک پا کر خاصے کی چیز بن جاتا ہے۔ انا کے اس اظہار میں بھی اپنی انفرادیت کو قائم رکھتے ہیں۔

؂       انا تھی مظفرؔ کی خنجر بکف

وہاں اور کوئی نہ تھا یا اخی

؂       مری خود آگہی اس طرح آئینہ دکھاتی ہے

انا کا جذبۂ خود سے مجھے پاگل نہیں کرتا

؂       سسکتے رہو تلملاتے رہو

مظفرؔ سنان انا تیز تھی

؂       ٹھپہ لگا ہوا ہے مظفرؔ کے نام کا

اس کا کوئی بھی شعر کہیں سے اُٹھا کے دیکھ

؂       انفرادی رنگ رکھتا ہے مظفرؔ شعر میں

اس کے مصرعے پر کوئی مصرعہ تو پہنچائے ذرا

؂       راہِ عام سے بچ کر شعر کہنے والوں سے

آپ کے مظفرؔ کا نام بھی ضروری ہے

بے شک ان کی متاعِ سخن نے اردو غزل کو بڑ  ے سلیقے کے ساتھ نہ صرف آبرو مند کیا ہے بلکہ اپنے رنگ و آہنگ سے ایک نیا اور چُٹیلا وقار بخشا ہے جو ان کو تا دیر شعر و ادب کی دُنیا میں زندہ رکھے گا اور آنے والی نسل اس سے کسبِ فیض کرے گی۔

جناب مظفرؔ حنفی نے اپنی غزلوں کے مقطعوں سے بھی کام لیا ہے جو ہمیں ایک طرف ان کو سمجھنے مکیں مدد کرتے ہیں دوسری طرف ان کے شعری مزاج پر روشنی ڈالتے ہیں۔

؂       سنیئے تو مظفرؔ کا ہر اک شعر کہے گا

میں ٹوٹے ہوئے ساز کی بے چین صدا ہوں

؂       مظفرؔ وہ مرے فن کی بلندی دیکھتے کیسے

ادھر تو دیکھ کر تنقید کی دستار گرتی ہے

؂       کتنا ہی عطر ملئے اُس پر مبالغے کا

جھوٹی غزل مظفرؔ پھر بھی نہیں مہکتی

سبھی ان کے طرزِ احساس کی توثیق کرتے ہیں۔ ترش اور تیکھی غزلیں کہنے والے مظفرؔ حنفی ایسے اشعار کہنے پر بھی پوری قدرت رکھتے ہیں۔

؂       وہ کنوار پن میں دبی دبی وہ حیا بار سے مضمحل

مری اک نگاہ کے لمس سے وہ متاعِ حسن نکھر پڑ  ی

؂       میں اکثر سوچا کرتا ہوں چاند نہیں لیکن پھر بھی

سورج ڈھلنے پر وہ کیوں بالائے بام آتا ہے

؂       ہاں اے نگاہِ ناز ذرا دیکھ بھال کے

دل کو فریب کھانے کی عادت نہیں رہی

؂       تمام عمر کٹی احتیاطِ پیہم میں

قریب آ نہ سکے آپ کو بلا نہ سکے

مندرجہ بالا اشعار میں جن جذبات کی عکاسی اور رومانی معصومیت کا اظہار دیکھنے کو ملا ہے وہ شاعر کے جمالیاتی مزاج کو مزید خوشنما بنا دیتا ہے۔ جناب مظفرؔ حنفی کا یہی خوش آہنگ لطیف اسلوب اپنے تیکھے لب و لہجے کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے ان اشعار میں بھی اپنی شناخت کر رہا ہے اور اپنی انفرادیت کو قائم کئے ہوئے ہے۔ اور یہی انفرادیت ان سے بہ بانگ دہل کہلواتی ہے۔

؂       نہ پوچھئے کہ یہ لہجہ کہاں کا حصہ ہے

کھری زبان میرے جسم و جاں کا حصہ ہے

جس کا مظفر حنفی کو پورا حق ہے۔

جناب مظفرؔ حنفی صاحب کو ’مژگاں ‘ کے اس خوبصورت اور خوب سیرت نمبر کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے نہایت ادب و احترام کے ساتھ ایک نظم مظفرؔ حنفی صاحب کے حضور میں پیش کرنے کے جسارت بھی کرتا ہوں۔

؂                      ’’گر قبول افتذ زہے عز و شرف‘‘

 

 

 

 

نسیم فائق

                ضربِ مِنقار سے بجتے ہیں کٹورے گل کے

 

فرائیڈؔ نے شعر و ادب کو نفسیاتی عارضے کی علامت قرار دیا ہے۔ شاعر و ادیب اپنے لاشعور میں دبی ہوئی خواہشات کا اظہار کرتے ہیں ، اس لیے نفسیاتی طور پر شاعری کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم PSYCHOLOGICAL MODE دوسری قسم[L:8] visionary ہے۔ پہلی قسم سے متعلق شاعری کا مواد انسانی شعور سے کشید ہوتا ہے اور دوسری قسم سے متعلق شاعری کا مواد انسانی شعور سے بالاتر ہوتا ہے۔ پہلی قسم کی شاعری کے موضوعات بحرانی کیفیت، تقدیر کا آشوب اور حادثات ہوتے ہیں جب کہ دوسری قسم کی شاعری کے موضوعات انسان کی حیوانی زندگی کے لاکھوں برسوں پر محیط ہوتے ہیں اور جسے سمجھنا ناممکن ہوتا ہے۔ مظفر حنفی PSYCHOLOGICAL MODE کے شاعر ہیں اور ان کی شاعری کے مضامین آج کے عام حالات ہی ہیں۔ ان کی شاعری پرانے انسانی تجربات سے ہم رشتہ ضرور ہے مگر انہوں نے ان تجربات کو منتقل کرنے کی بجائے انہیں منقلب کیا ہے اور ایسا کرتے ہوئے انہوں نے ایک بالکل نئی شئے کو خلق کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر:

آنکھوں سے انگلیوں سے اشعار رس رہے ہیں

سر تا قدم مظفرؔ دیوان ہو رہا ہے

بازاروں کی کچھ آوازیں ، تھوڑ  ی رونق جیبوں میں

دروازے سے پوچھ رہا ہوں ، کیا ویرانی گھر میں ہے

خطا معاف، سیاسی اُصول کی مانند

مناظرے سے عقیدے نہیں بدل جاتے

جہاں اپنائیت کم ہو، ہمارا جی نہیں لگتا

کہ لوگوں کے گھنے جنگل کو آبادی نہیں کہتے

تین سپاہی، چھ لا وارث مردے ، دس مزدور

گھور اندھیر، پھٹتا بادل، قبرستان، ہوا

گدھ اُڑ  رہے تھے ، خون پڑ  ا تھا اِدھر اُدھر

کچھ کہہ رہی تھی ریت، ندی نے نہیں سنا

جدید اُردو غزل کی فکری شاعری کے موضوعات آج کے عام حالات ہی ہیں۔ آج کے عام حالات اتنے سیدھے سادے نہیں کہ اسے کسی خاص نظریے سے وابستہ کیا جا سکے بلکہ یہ حقیقت مینارِ بابل کی سیڑھیوں کی طرح دشوار گزار، پیچیدہ اور الجھی ہوئی ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ فکر کو شاعری کا محور بنایا جائے جس سے حقیقت کی تہوں تک پہنچ کر اس کی شناخت کی جا سکے۔ یہ ایک ایسی پیش قدمی ہے کہ عصری زندگی کے حالات اور تضادات و اختلافات شاعری کے ریشے ریشے میں پیوست ہو جاتے ہیں۔ یہیں سے فکری شاعری معرضِ وجود میں آتی ہے اور اس نقطۂ نگاہ سے مظفر حنفی کی شاعری بلا شبہ فکری کہلانے کی مستحق ہے :

طوفاں سے کیا باتیں کی ہیں پیارے مانجھی سچ بتلانا

دریا کو گروی رکھا ہے یا ساحل کو بیچ دیا ہے

شام سے نازل ہے بستی پر صفائی کی وبا

ہم اٹھائے جائیں گے فٹ پاتھ سے بستر سمیت

ٹپکتا رہتا تھا پھوڑ  ا سا میرؔ کے دل میں

ہمارا سینہ تو ناسور سے چمکتا ہے

زمانے بھر کی شورش ان کے دامن میں مقید ہے

ابھی طوفاں نے نازک آبگینوں کو نہیں دیکھا

اتنی پتلی دیواریں ہیں ، اتنے سارے رو زن ہیں

گھر میں کوئی راز نہیں ہے اور پڑوسی جان گیا

دھاڑ  تا ہے وہ سرخ سیلاب، ہونکتی ہے زرد آندھی

ذہین ہو گے تو کوئی دیوار ایستادہ نہیں کرو گے

تاثرات کے اظہار کے لئے کسی قید و بند کی ضرورت نہیں پڑ  تی بلکہ بیان کا سلیقہ، شعری اسلوب، لسانی تصرفات اور شعور شاعر میں موجود ہو۔ مظفر حنفی کے یہاں یہ شعور بدرجۂ اتم موجود ہے اور انہوں نے اپنے تجربات و مشاہدات کو تاثرات کی صورت بخش دی ہے اور یہ قوتِ بیان کا وہ اعجاز ہے جو دوسروں میں کم نظر آتا ہے۔ انہوں نے اپنے اظہارِ خیال کے لیے طنز آلودہ پیرایہ اختیار کیا ہے اور اب تک اس میدان کے شہسوار بنے ہوئے ہیں :

یہ تمھاری حق پرستی کا عجب انداز ہے

اس قدر سجدے کیے ، بت گھِس گئے پتھر سمیت

ہزاروں مشکلیں ہیں دوستوں سے دور رہنے میں

مگر اک فائدہ ہے پیٹھ پر خنجر نہیں لگتا

مشورہ پاگل ہواؤں سے بھی لینا چاہیے

عقل مندو ریت کی دیوار یوں اٹھتی نہیں

اگل دیتے ہیں جو کچھ پیٹ میں ہو گھر میں آتے ہی

پرندے اپنے بچوں سے اداکاری نہیں کرتے

دشمن میں اور دوست میں کیا رہ گئی تمیز

بس یہ کہ کوئی نیند، کوئی خواب لے گیا

ہونے لگی ہے ماں کی دعا میں غلط اثر

بیٹی تو گھر میں بیٹھی ہے بیٹا نکل گیا

علم و عرفان کی روشنی جتنی بڑھتی ہے ، بصیرت اتنی ہی تیز ہو جاتی ہے اور قلب میں اتنی ہی وسعت پیدا ہو جاتی ہے اور سارے مادّی حجابات اٹھتے جاتے ہیں۔ مظفر حنفی نے عہدِ موجودہ کی دھڑکنوں کو دل کے کانوں سے سنا ہے۔ ان کے یہاں زندگی کا عرفان اور ادراک دونوں موجود ہیں جن سے ان کی کشش میں اضافہ ہو جاتا ہے اور کلام میں ایک پُر اثر گونج سنائی دیتی ہے :

نہ جانے کب سے زمیں گھومتی ہے محور پر

میں بن چکا ہوں مجھے چاک سے اتارا جائے

اک آگ کا حصار مظفرؔ کے گرد تھا

تخلیقِ شعر کرتے نہ پھر والہانہ کیوں

تم اپنے آپ کو پہچانتے نہیں ہو ابھی

ہم آئینوں سے پرے دیکھنا سکھائیں گے

نگہ مرکوز رکھی ندرتِ مضمونِ تازہ پر

مظفرؔ نے غزل کے نکتہ چینوں کو نہیں دیکھا

ہزاروں آبلے تلوؤں میں تھے مگر ہم بھی

لہو لہان قدم آسماں پہ رکھتے تھے

غزل ایک OBLIQUE صنف ہے اور اس میں کردار اپنی صورت کھو بیٹھتے ہیں مگر اس کے باوجود پیکر تراشی کے ماہر شاعر مظفر حنفی نے اس حسّیت اور خلّاق ذہنی صلاحیت سے اس میں سماعت، بصارت اور حرکت پیدا کر دی ہے :

سچ ہے کہ یادوں کے بدلے ہم نے دل کو بیچ دیا ہے

تم نے تو ماضی کے ہاتھوں مستقبل کو بیچ دیا ہے

وہ ہر اک ٹھوکر پہ اس کا کانچ سا چھن بولنا

سر کے ٹکرانے سے کتنی روشنی پتھر میں تھی

بلا سے بجھے یا بڑھے تشنگی

سمندر کو آداب کرتے رہو

اب نمک تک نہیں ہے زخموں پر

دوستوں سے بڑ  ا سہارا تھا

شاعری میں درد و داغ اور سوز و ساز زندگی کے تجربے سے آتے ہیں۔ مظفر حنفی جن تجربات سے ہمکنار اور جن مشاہدات سے ثمر بار ہوئے ، انہیں اپنی شاعری میں نچوڑ  کر رکھ دیا ہے۔ وہ ایک باغی ذہن، آہنی حوصلے اور بے قرار روح کے پروردہ ہیں۔ اسی واسطے سرفروشانہ انداز میں اپنے شعروں میں قارئین کے دلوں کو اس طرح تسخیر کرتے ہیں۔

یہ ہاتھ رہے میرے ، کام آئیں گے قاتل کے

لے جاؤ مرا چہرہ، اخبار پہ رکھ لینا

دشمن بن کر لکھتا ہوں میں خود اپنے اعمال

لاکھ فرشتہ آزو بازو بیٹھا رہتا ہے

آگ سی ہے دامن میں ، زخم سے ہتھیلی پر

بیج میرے آنسو کا برگ و بار لائے گا

زندگی سے لطف لینا خوب آتا ہے مجھے

درد میں لذت بہت، زخموں سے زیبائش بہت

عورت تخلیقِ محض، تسکینِ حیات اور تنویر کائنات ہے ، مجسمۂ قدرت اور نمونۂ شفقت ہے۔ نغماتِ محبت اور جذباتِ الفت کا زندہ پیکر ہے۔ بغیر اس کے معاشرتِ انسانی کی شیرازہ بندی غیر ممکن ہے۔ شعر و ادب میں ذکرِ عورت سے مراد پرستشِ عورت نہیں ، نسوانی حسن و جمال کی ستائش ہے۔ اس کی طبعی نزاکت سے ادب میں وسعت اور شاعری میں ہمہ گیریت پیدا ہوتی ہے۔ عہدِ رفتہ میں عورت عیش پرستی کا وسیلہ تھی مگر عصرِ موجودہ میں اسے معزز شہری ہونے کا شرف حاصل ہے :

آ گیا میں کسی جگنو کی نظر میں کیسے

بوند بھر نرم اجالا مرے گھر میں کیسے

ترا وجود مری زندگی کا ضامن ہے

ترا خیال مظفرؔ کا استعارہ ہے

ترا خیال مجھے پاک صاف کرتا رہا

ہزار ہاتھ مجھے داغ دار کرنے میں

کہاں کہاں سے کیا کسبِ نور، مت پوچھو

کسی کی مانگ میں چھوٹی سے کہکشاں کے لیے

کبھی خیال تمھارا، کبھی تمھاری بات

ہمارا گھر بھی کسی کہکشاں کا حصہ ہے

سرزمینِ مدھیہ پردیش میں جنم لینے کے باوجود مظفر حنفی کا شعری لہجہ خالص دہلوی ہے اور ان کی شاعری کے پیمانے میں انتہائی تلخ شراب چھلکتی ہوئی نظر آتی ہے جسے پیتے ہی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم نے آتشِ سیّال نوش کر لیا ہے :

ہے دور بہت دور مدینے سے کراچی

کاٹے گی مہاجر کو قرینے سے کراچی

ایک ہی خون میں دو رنگ مظفرؔ حنفی

آ گیا تو مرے دشمن کے اثر میں کیسے

ہم ستارے بنا کے نادم ہیں

آپ نازاں ہیں آبگینوں پر

جنہیں قریب کا جگنو نظر نہیں آتا

وہ منہمک ہیں ستارے شمار کرنے میں

اب کہہ دیا تو بات نبھائیں گے عمر بھر

حالاں کہ دوستی کا زمانہ تو ہے نہیں

کسیلے ، کھردرے ، تیکھے اور کٹیلے لفظوں میں طرزِ ادا کی ندرت کے ساتھ اپنی اندرونی ساخت کے ذریعہ استعاروں کا حسن اور لسانی حلاوت پیدا کر کے طلسمیت کی فضا بندی، مظفر حنفی کی ذات کا حصہ ہے۔ شادابیِ فکر، گرمیِ احساس اور لفظیات کے وسیع تر دائرے کے بغیر غزل میں نیا ذائقہ پیدا کرنا ممکن نہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مظفر حنفی جدید اُردو غزل کے آسمان کا منور ستارہ اور تازہ ترین فکر کے فکری اور نمائندہ شاعر ہیں جنہیں تنقید کی بیساکھی کی ضرورت نہیں۔ انہیں نہایت کم لفظوں میں زیادہ اور کارآمد باتیں کہنے کا ملکہ حاصل ہے۔ پاکیزہ خیالات اور اصلاحی جذبات نے انہیں صداقت کا حسن عطا کیا ہے اور یہی مسحور کن صداقت ان کی شناخت بن گئی ہے :

نہ پوچھیے کہ یہ لہجہ کہاں کا حصہ ہے

کھری زبان مری جسم و جاں کا حصہ ہے

 

 

 

پروفیسر نصر غزالی

 

                مظفر حنفی کی شعری نعت

 

ڈاکٹر مظفر حنفی کے تحقیقی مقالے ’’شاد عارفی۔ فن اور فن کار‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے کبھی لکھا تھا کہ ان کی ادبی شخصیت کئی ابعاد کی حامل ہے۔ شاعری، تنقید، تحقیق یہ ساری مملکتیں ان کے زیر نگیں رہی ہیں۔ ان کے شعری اکتسابات پر اظہار خیال کا موقع ہاتھ آیا ہے تو اس موقعے پر بھی مجھے یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ ان کے یہاں فکر کی ایسی ہمہ گیری ملتی ہے جو تجربات و تجزیات کے مختلف اور متعدد دروازے ہم پروا کرتی ہے۔ موجِ رواں کی طرح سفر کرتی ان کی سوچ نے زندگی کے مختلف رویوں سے نسبتیں قائم کی ہیں اور یہ سفر آج بھی جاری ہے۔ ان کے نظر قدیم شعری روایات پر بھی ہے اور نئے اقدار شعری سے بھی وہ خاصا لگاؤ رکھتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ان کی شاعری روایات سے استفادے اور اس کی حد بندیوں کو توڑ  کر نئے تجربے کرنے کا ایک خوبصورت شعری عمل ہے۔ فکر اور اظہار کے انضمام و ادغام کا وہ ڈھنگ نکالا ہے جس پر ان کی انفرادیت کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ آج ان کا نام جدید شعری روش کا معتبر حوالہ بن چکا ہے اور اپنے بعض امتیازات کی بنا پر وہ دوسروں سے مختلف بھی ہیں۔ معتبر ان معنوں میں کہ اپنے فن درک سے شاعری کو ایک شغل معقول بنایا ہے۔ مختلف یوں کہ ان کی شعری وضع کسی سے نہیں ملتی اور لہجے کی کاٹ اور تیکھے پن سے وہ بھری بھیڑ  میں پہچان لیے جاتے ہیں۔

پچھلے پانچ چھ دہوں سے ادب کے منظر نامے پر جمے رہنا اپنے آپ میں ایک اہم بات ہے مگر اس سے زیادہ اہم ہے اپنے ہونے کا احساس دلاتے رہنا اور اپنا اسیر بنائے رکھنا۔ مظفر اس نکتے سے اچھی طرح واقف ہیں۔ انہوں نے اپنے تخلیقی وزن کی بتدریج توسیع سے اپنے شعری وجود کا برابر احساس دلایا ہے۔ لفظ و معنی سے معاملہ کرنے کی وہ طرز ایجاد کی ہے کہ اہل نظر بھی ان کے گرویدہ ہیں اور مجھ سے بے نظر بھی۔ ہر چند کہ میری گرویدگی کوئی سند افتخار نہیں پھر بھی یہ کہوں گا کہ ان کی نشتریت اور اپنی سوچ میں بڑ  ی ہم آہنگی محسوس کرتا ہوں۔ یہ بھی کہتا چلوں کہ مظفر حنفی نے نصف صدی قبل ہی مجھے اپنا اسیر بنا لیا تھا۔ بات اس زمانے کی ہے جب میرا شین قاف بھی درست نہیں تھا۔ بزرگوں کی تاکید کہ نصابی کتابوں سے لگاؤ رکھوں اور مجھ پر جادو کھلونا، پھلواری اور پیام تعلیم وغیرہ کا۔ اچھی طرح یاد ہے کہ ان رسالوں میں تواتر کے ساتھ چھپنے والوں میں مظفر حنفی (ہسوی) بھی ہوا کرتے تھے۔ مظفر آشنا میں ہوں مگر ان کے شعروں کی سحر کاری نے اس وقت اپنی گرفت مضبوط کی جب میں فن شعور مظفر حنفی کے فن اور کمالِ فن سے کلی طور پر آگاہی کا دعویٰ مجھے نہیں۔ میں ہوں بھی نہیں۔ مگر اپنے ذوق شعری کی بنیاد پر یہ تو کہہ ہی سکتا ہوں کہ فکر و فن کی جن زمینوں کی انہوں نے سیر کی ہے وہ معاصرین میں سے اکثر کی دست رس سے باہر ہیں۔ ان کی شاعری کا بڑ  ا حصہ نئی معنوی سطحوں کی دریافت سے عبارت ہے اور دریافت کا یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ عام طور پر ایک عمر کے پہنچنے کے بعد تخلیق کاروں کے یہاں واضح قسم کا زوال نظر آنے لگتا ہے اور ان کی تخلیق ایک میکانکی عمل بن جاتی ہے۔ مظفر کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ستر کی لپیٹ میں ہوں گے مگر خوش بیانی اور تازہ کاری میں کوئی کمی نہیں آئی۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ تازہ خیالی کی فصل زیادہ ہری بھری ہو گئی ہے اور ان کے دائرہ کار کی وسعتیں بھی پھیلتی جاتی ہیں۔ وہ بسیار گو بھی غضب کے ہیں۔ جس رفتار سے کہتے ہیں اسی رفتار سے چھپتے بھی ہیں۔ برصغیر کے کسی بھی ادبی یا نیم ادبی رسالے کی ورق گردانی کیجئے کوئی ہو یا نہ ہو مظفر حنفی ضرور ہوں گے۔ عام مفروضہ یہ ہے کہ بسیار گوئی شاعری کو غارت کر دیتی ہے۔ انہوں نے اس مفروضے کو بھی غلط ثابت کیا ہے۔

مظفر کی شاعری تفنن طبع کا سامان فراہم نہیں کرتی۔ اسے ہم خواب تماشا بھی نہیں کہہ سکتے اور محض خبر نامہ بھی نہیں۔ ان کی شاعری یا تو انگاروں بھرے دریا سے گزرنے والے قلم کار کی صدائے آتشیں ہے یا تجربات و تأثرات کے واردات بننے کی روداد   ؂

مختلف انداز رکھتی ہے مظفر کی غزل

یہ ہماری آپ بیتی ہے خبرنامہ نہیں

ان کے یہاں تضادات و تصادمات اور واقعات و سانحات کے مختلف شیڈس دکھائی دیتے ہیں۔ خواب بھی حقیقت بھی، آب بھی سراب بھی، زہر بھی امرت بھی، زمین بھی بے زمینی بھی، آسودگی بھی نا آسودگی بھی۔ زندگی کے ان مختلف شیڈس کو انہوں نے الگ الگ لمحوں میں اوپر اترتے اور لفظوں میں ڈھلتے دیکھا ہے۔ یہ چند اشعار جو معنی و مفہوم کا الگ الگ ذائقہ رکھتے ہیں شاعری کی مختلف نفسی کیفیات کے ترجمان کہے جا سکتے ہیں   ؂

دن گرد اڑانے کے لیے تھا سو اڑ  ا لی

پھر آ گیا ویرانۂ شب لگ مرے مولا

بستی بستی گھور اندھیرا یا انگارے برسیں

صحرا صحرا نرم اجالے جیسی تیری مرضی

وہ ہر اک ٹھوکر پہ اس کا کانچ سا چھن بولنا

سر کے ٹکرانے سے کتنی روشنی پتھر میں تھی

کچے پکے ارمانوں سے جگ مگ کرتی دنیا

اتنی ساری بندوقیں شمشیریں کیا کرتی ہے

ذرا سی روشنی مانگی تھی رات کاٹنے کو

چراغ اتنے جلے گھر ہی پھونک ڈالا مرا

دیواروں سے در اُگتے ہیں روشن دانوں سے آنکھیں

تنہا ہوں تو کیسی کیسی کارستانی گھر میں ہے

ہم کو جکڑ  تی ہوئی قدم بہ قدم

ہم آسمانوں کو زیر کمند کرتے ہوئے

جانے کب سے زمین گھومتی ہے محور پر

میں بن چکا ہوں مجھے چاک سے اتارا جائے

مظفر کے اشعار کا انتخاب کرتے وقت یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کون سے منتخب کیے جائیں اور کون سے چھوڑ  ے جائیں۔ میں نے جتنے نقل کیے ان سے کہیں زیادہ ایسے ہیں جو اسی قدرو قیمت کے ہیں مگر شامل مضمون نہیں ہو سکے۔ وجہ تنگیِ داماں بھی ہے اور میری یہ مجبوری بھی کہ ان کے اس مخصوص شعری رویے کا ذکر کرنا ہے جو ان کے نقطۂ شناخت ہے۔ مخصوص شعری رویے سے مراد ان کی طنزیہ اور تیکھی شاعری ہے جو ان کی شخصیت کا جزو لاینفک ہے اور جس طرز شاعری کی وجہ سے وہ اپنے معاصرین سے مختلف ہیں۔ ماحول اور معاشرے کی ناہمواریوں پر اپنے کاٹ دار اور کھنکتے ہوئے لہجے سے انہوں نے جو کاری ضرب لگائی ہے وہی میرے خیال میں ان کی پہلی پہچان ہے۔ ان کی شعری منطق بھی یہی ہے کہ جس سماجی سچ سے معاملہ کریں اس پر اپنے لہجے کی مہر ثبت کر دیں اور اس میں وہ قابل رشک حد تک کامیاب ہیں۔ شعروں کے تیر تو نہیں مگر غزلوں کی چڑھی کمانیں ایسی تراشیدہ ترکیب ضرور ہے جس پر نظر ٹھہر جاتی ہے   ؂

شعروں کے یہ تیر مظفرؔ چڑھی کمانیں غزلوں کی

تم جس لہجے میں کہتے ہو شمشیر اور سناں کیا ہے

اس موقعے پر مجھے شادعارفی کا یہ شعر یاد آ رہا ہے   ؂

اس نے جب سو تیر چلائے میں نے ایک غزل چپکا دی

اگر میں یہ کہوں کہ مظفر حنفی کا یہ شعر شادؔ سے تعلق خاطر کی دین ہے تو ممکن ہے وہ میری بات سے اتفاق نہ کریں مگر اس بات پر تو اتفاق ہونا ہی ہے کہ ان کے شعروں کی دھار بڑ  ی تیز ہے۔ خنجریں الفاظ، نشتری لہجے اور قوافی کی جھنکار سے انہوں نے تیکھی اور چبھتی ہوئی غزل کی ایک الگ روایت قائم کی ہے جس کے کچھ نقوش ان اشعار میں دیکھے جا سکتے ہیں   ؂

سچ بولنے لگے ہیں کئی لوگ شہر میں

دیواریں اٹھ رہی ہیں نئے قید خانے کی

ہزاروں مشکلیں ہیں دوستوں سے دور رہنے میں

مگر اک فائدہ ہے پیٹھ پر خنجر نہیں لگتا

یہ بات دشمنوں سے نہیں دوستوں سے پوچھ

یک لخت ہم پہ بند ہوا آب و دانہ کیوں

مٹی میں ملانے کا کیا خوب طریقہ ہے

پھر چوم کے وہ مٹی دستار پہ رکھ لینا

قلم کو تیز مظفر غزل کو تیغ کرو

نہ باز آئے گی دنیا تمہیں ستانے سے

مرا کمال ہنر میری صاف گوئی ہے

صعوبتیں بھی اس بات پر اٹھاتا ہوں

نہ پوچھیے کہ یہ لہجہ کہاں کا حصہ ہے

کھری زبان مرے جسم و جاں کا حصہ ہے

یہ اشعار وقت کی جبر آزمائیوں کا شخصی رد عمل ہے مگر انہیں محض شخصی بھی نہیں کہا جا سکتا۔ شاعر نے اپنے فنی ورک اور تخلیقی حسیت سے ان کی حدیں اتنی بڑھا دی ہیں کہ یہ ہمہ شخصی اور ہمہ وقتی ہو گئے ہیں۔ شاعر مظفر سا ہو تو احساسات دوامی بن ہی جاتے ہیں۔ یہ بھی کہتا چلوں کہ اگرچہ طنزیہ اور تیکھی شاعری ان کی پہچان ہے مگر سماعت کبھی کبھی ایسی خوش نوائیوں سے بھی مخلوط ہوتی ہے   ؂

زمین تو سخت ہے مگر تمہاری غزل کا لہجہ

رواں دواں آبشار جیسا طیور کی خوش نوائیوں سا کچھ

آ گیا میں کسی جگنو کی نظر میں کیسے

بوند بھر نرم اجالا مرے گھر میں کیسے

قریب آؤ کہ مہندی لگی ہتھیلی پر

ستارہ دیدۂ نم ناک سے اتارا جائے

کہاں کہاں سے کیا کسب نور مت پوچھو

کسی کی مانگ میں چھوٹی سی کہکشاں کے لیے

مظفر حنفی کی شعری اکتسابات کا ایک اہم پہلو ان کا استعاراتی شعور ہے۔ ارسطو نے استعارے کو شعر کا امتیازی وصف کہا ہے اور یہ سچ ہے کہ استعاروں سے شعر کی جلوہ سامانی ایک نئی سطح پاتی ہے اور معنوی تاثر میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ مظفر کے یہاں یہ استعاراتی التزامات بکثرت ملتے ہیں۔ اس سے قبل کہ میں آگے بڑھوں ان کا یہ شعر نقل کروں گا کہ جو ان کی طور فکر کا خوبصورت استعارہ ہے۔

غزل کو سینچنے کا استعارے توڑ  نے کا

اٹھو کہ وقت یہی ہے ستارے توڑ  نے کا

یہ شعر کسی نوسٹیلجیا کا ردِ عمل ہے یا نہیں یہ تو مظفر صاحب ہی بتائیں گے میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ استعارہ سازی سے انہیں خاص لگاؤ ہے اور ان کے یہاں استعاراتی التزام ملتا ہے تو اسی وجہ سے کہ ان کی تخلیقی حسیت نئے شعری تجربوں میں اس کے بغیر ڈھلنا کم ہی پسند کرتی ہے۔ شعری مجموعے ان کے تقریباً درجن ہوں گے مگر فی الحال میرے پیش نظر ان کا مجموعہ ’’یا اخی‘‘ ہے۔ اس کی وقر گردانی کی تو استعاروں کا خاص دخل پایا۔ شاخ ہنر، درد کا شجر، شاخ مراد، آنسو کا بیج، زیست کا ورق، قریۂ جاں ، پردے کی چیرہ دستی، مبالغے کا عطر، جس کی برف، جسموں کا جنگل، بانجھ مہینہ، تجربے کی دھوپ، پیوندِ مصلحت، لفظوں کے قمقمے ، چراغوں کے پر، غزل کا دریچہ، درد کی سوغات، ایک تمنا، بدن کا نیزہ وغیرہ جیسے استعاروں سے انہوں نے بڑ  ی ہی خوبصورت شعری چکر تراشے ہیں۔ رمزیت ان کی زیادہ واضح ہو گی اگر اشعار پیش کیے جائیں مگر میں صرف چند ایک پر اکتفا کروں گا   ؂

سب رگیں سوکھ گئیں دل کی جڑوں سے کٹ کر

برگ و بار آئیں بھلا شاخ ہنر میں کیسے

واقعہ ہے کہ رات بھر اوس پڑ  ی امید پر

سبز ہیں درد کے شجر شاخ مراد کم نہیں

آگ سی ہے دامن میں زخم سے ہتھیلی پر

بیج میرے آنسو کا برگ و بار لائے گا

راہ فراق طے ہوئی رختِ وصال بچ گیا

بھر گئے زیست کے ورق رنگ لال بچ گیا

کتنا ہی عطر ملیے اس پر مبالغے کا

جھوٹی غزل مظفر پھر بھی نہیں مہکتی

جھلملانے لگے ہم آپ ستارہ بن کر

خون کی آنچ سے لفظوں کو گہر کرنے میں

حنفی کے یہاں قافیوں کو برتنے کا جو چوکھا عمل ملتا ہے اس کا ذکر بھی ضروری ہے۔ ارباب نظر جانتے ہیں کہ ادائیگی خیال میں قوافی کا اہم رول ہوتا ہے۔ قافیوں کی مناسب ترکیبی ساخت سے معنی و مفہوم نئی آب و تاب پاتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ شاعر کم سودا نہ ہو۔ کم سوداؤں کے ہاتھ میں پڑ  کر شاعری یا تو لفظوں کا گورکھ دھندا بن جاتی ہے یا محض قافیہ پیمائی۔ شاعر ہونا چاہیے مظفر حنفی جیسا کہ جس کی فنی چابک دستی سے شعری امکانات کی حدیں بڑھ جاتی ہیں۔ مظفر لفظوں کو برتتے نہیں انہیں زندہ کر دیتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے الفاظ حرکت میں ہیں اور بول رہے ہیں۔ خیال کو قافیوں کے الفاظ میں ڈھالنے کی ہنر مندی کمال کی ہے۔ یہ گمان کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی شعر قافیے کی مجبوری کی دین ہے۔ بلکہ اکثر قافیے کی حیثیت خیال کے توسیعی نقطے کی ہو گئی ہے۔ میری مجبوری یہ ہے کہ ان کا شعری مجموعہ ’’یا اخی‘‘ ہی مجھے دست یاب ہو سکا ہے۔ اس مجموعے کا مطالعہ کیا تو ایسی غزلیں خاص تعداد میں ملیں جن کے قوافی شعر میں مرکزے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کی روشن مثال وہ غزل ہے جس کا مصرعۂ اول ’’غزل کو سینچنے کا استعارے توڑ  نے کا‘‘ ہے۔ سات اشعار پر مشتمل اس غزل کے کم از کم پانچ قوافی استعارے ، ستارے ، کنارے ، سہارے ، شرارے ، ایسے ہیں جو خیال کی توسیع میں جو معاون بنتے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ خیال کا فوارہ یہیں سے چھوٹتا ہے۔ دوسری غزل ’’ہم سب گنہگار افسوس افسوس‘‘ کے بھی بیشتر قوافی مثلاً گنہگار، تلوار، یلغار، پتوار وغیرہ کلیدی حیثیت کے حامل ہیں۔

اپنی کوتاہیِ قلم کے اعتراف پر میں یہ مضمون ختم کروں گا مگر اس سے قبل یہ ضرور کہوں گا کہ مظفر حنفی کے فکری و فنی پھیلاؤ کو میری نہیں نقد و نظر کے وزیر آغاؤں کی ضرورت ہے۔

آخر میں انہی کا ایک شعر ان کی نذر۔

ملک بھر میں ہے مظفرؔ کہرام

تجھ کو بنگال میں چپ رہنا ہے

 

 

 

سید محمد ابوالخیر کشفی

 

                کون ہے ، کیا ہے ، مظفر حنفی

 

یہ بات ساٹھ برسوں میں مظفر حنفی کی سمجھ میں نہیں آ سکی کہ:

کون ہے ، کیا ہے ، مظفر حنفی

تو پھر ہم کون ہیں کہ مظفر شناسی کا دعویٰ کریں۔ اور ویسے بھی یہ سوال انسان کی پیدائش کے ساتھ وجود میں آ گیا تھا کہ:

من کیستم؟

مظفر حنفی کی غزل اس بات کا ادھورا جواب ہے کہ ’’کون ہے ، کیا ہے ، مظفر حنفی۔‘‘

اپنی تلاش اور اپنے آپ کو پانے کی جستجو ہر مہذب، سوچنے والے انسان کا مقدر ہے اور اپنے آپ کو پانے کی یہ کوشش کبھی شاعری بن جاتی ہے ، کبھی مصوری، کبھی خلوت نشینی کی عباست اور کبھی محفل میں خاموشی۔

شاعری مظفر حنفی کا مسئلہ ہے۔ شاعری ان کے لیے جوازِ زندگی بھی ہے ، ان کی تنہائی بھی اور جلوت میں زوم آرائی بھی۔ کبھی مخالفوں کے مقابل ان کا ٹھٹھا اور قہقہہ کا سامانِ حرب ہے اور کبھی لفظِ عفو و درگزر بھی۔

مظفر حنفی ایک پُر گو شاعر ہیں۔ یہ ایک معلوم اور ظاہری حقیقت ہے اور بس۔ لیکن یار لوگوں نے اسے بھی مسئلہ بنا لیا ہے اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ جو آدمی اپنی شاعری کو اپنی زندگی بنا لے اس کے ہاں پُر گوئی خود بخود ظہور پذیر ہو جائے گی۔ میرؔ صاحب کے ضخیم کلیات اسی حقیقت کو پیش کرتے ہیں۔ ان کے لیے شاعری زندگی کی پیش کش نہیں بلکہ زندگی ہے اور اپنی بلند تر سطح پر یہ شاعری زندگی کی تربیتِ نو بن جاتی ہے۔ میر صاحب کے لیے ’’بلندش بسیار بلند و پستش بسیار پست کہا گیا ہے۔‘‘ یہ نا سمجھوں کا تبصرہ ہے۔ میر صاحب نے اپنی پوری زندگی شاعری میں پیش کر دی اور زندگی میں فراز بھی آتے ہیں اور نشیب بھی، بلندی بھی اور پستی بھی۔ زندگی کو پوری طرح دیکھنے ، سمجھنے اور پیش کرنے کو لوگوں نے پست و بلند کے پیمانوں سے ناپا۔ بے چارے اور کر بھی کیا سکتے تھے اور ان بے چاروں کی نسل بھی یہی کر سکتی ہے۔ ہاں یہ سہی ہے کہ ہم ایسے شاعروں کی بلندی ہی سے ملنا چاہتے ہیں اور یہ تمنا پیدا ہوتی ہے کہ یہ اپنے کم نظر نقادوں کا ذکر نہ کرتے تو خوب کرتے۔ مگر ہم ان سے آدمی ہونے کے تقاضوں کو چھیننے والے کون ہیں ؟ مظفر حنفی کے ہاں بھی کم نظروں کا ذکر ہے اور خوب خوب ہے مگر میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ ان سے الجھ کر اپنی راہ کھوٹی کروں۔

اس وقت میرے پاس مظفر حنفی کا گیارہواں شعری مجموعہ ’’ہاتھ اوپر کیے ‘‘ ہے۔ نقل مکانی کی وجہ سے ’’پرچم گردباد‘‘ ادھر اُدھر ہو گیا ورنہ اس کی روشنی میں حنفی صاحب کی غزل گوئی کے رجحانات پر گفتگو ہو سکتی تھی۔ مگر یہ بھی اچھا ہوا۔ ’’ہاتھ اوپر کیے ‘‘ اکیسویں صدی کے آغاز میں مظفر کی زندگی کی شعری روئداد ہے۔ حقیقت جب شعر کے قالب میں ڈھلتی ہے تو اور بھی قابلِ اعتماد ہو جاتی ہے ، بالخصوص غزل کے اشعار میں ڈھل کر، کیوں کہ غزل کا شاعر کسی نظریہ کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کے چکر میں نہیں پڑ  تا۔ اسے نہ تو قنوطی کہلانے کا شوق ہوتا ہے اور نہ وہ رجائیت کا پرچم بلند کرتا ہے۔ اس کا کام تو یہ ہے کہ:

لمحات کو طول دے کے ابد ہم نے کر دیا

لمحوں کو گرفت میں لینے والا ہی وقت کے بطون کی خبر لا سکتا ہے۔ وقت کی چھوٹی سی چھوٹی اکائی کا شناسا وہی ہو سکتا ہے جو حد درجہ تہذیب یافتہ شخصیت کا مالک ہو۔ مگر یہ بات نیم وحشی ذہن اور بٹے ہوئے علم و دانش رکھنے والے نہیں سمجھ سکتے۔

سب سے پہلے تو میں مجموعے کے نام سے الجھتا رہا۔ یہ نام تو کچھ کچھ مظفر حنفی کے اس شعر سے سمجھ میں آیا:

پھول برسائیں مرے دوست کہ پتھر برسائیں

میں نے ہاتھ اپنے اٹھا رکھے ہیں اوپر کی طرف

ہاتھ کو اوپر اٹھا رکھنا غزل گوئی کے ایک رویہ کا اظہار اور اعلان ہے۔ یہ ہاتھ غزل کو کاغذ کے سینے میں اُتار کر اب فارغ ہو گئے ہیں اور یہ قولِ غالب کس بلند سطح سے ہماری تفہیم کی طرف آ رہا ہے کہ:

نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا

اور اوپر اٹھنے والے غزل گو ہاتھ، اوپر اٹھنے سے پہلے زندگی کے بھنور کو موجِ ہموار بنا دیتے ہیں۔ زندگی کے ساتھ ایسا معاملہ کون کر سکتا ہے :

اس طرف بھی تو دیکھیے صاحب

دیکھیے پھر بھنور سے نکلے ہاتھ

انسانی ہاتھ بھی کمال کی چیز ہے۔ یہ پڑوسی کے ہاتھ میں خنجر بھی گھونپ سکتا ہے ، مہینے کی پہلی تاریخ کو غریب کلرک کی جیب بھی کاٹ سکتا ہے ، مگر یہ ہاتھ موضوعِ غزل نہیں بن سکتا (ہاں ، ایک مکتبۂ فکر کے سخن وروں کا موضوعِ سخن بن سکتا ہے )، ہمارے غزل گو کا دستِ ہنر زندگی میں دوسروں ، بالخصوص کسی دوسرے کے لیے دستِ رفاقت کی کہانی رقم کر سکتا ہے یا بازار سے لوٹنے والے کسی مردِ خیر کے ہاتھ کے کھو جانے کا نوحہ لکھ سکتا ہے :

دل ہی نہیں روشن تو تجھے کیا نظر آئے

یہ وادیَ ظلمت ہے مرے ہاتھ میں دے ہاتھ

سنتے ہیں کہ نیکی ہی کماتا تھا ہمیشہ

اک روز وہ بازار سے لوٹا تو نہ تھے ہاتھ

اس جہاں دیدہ، مردم گزیدہ، مایوس اور پُر اُمید، سخی اور بے نیاز ہاتھوں والے کے ہاتھوں کا شجرۂ نسب میر تقی میرؔ کے ہاتھوں سے جا ملتا ہے :

آگے کسو کے کیا کریں دستِ طمع دراز

یہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے

صاحبو! میں مظفر حنفی کے مجموعۂ غزل کے نام ہی میں الجھ کر رہ گیا۔ اس مجموعے کے بارے میں ایک دو باتیں اور عرض کرنی ہیں۔

مظفر حنفی نے اپنے مجموعے کے حرفِ آغاز (مجھے کہنا ہے کچھ……….) میں لکھا ہے کہ ’’میں نئی زمین کی تلاش میں بہت کاوش کرتا ہوں جو عموماً مشکل ہوتی ہیں۔ کہیں قافیے سخت ہوتے ہیں تو کسی میں ردیف آڑ  ی ترچھی۔ پھر بھی قافیے کو شگفتہ بنانے اور ردیف کو ان سے جسم و جاں کی طرح چسپاں کرنے میں خون پسینہ ایک ہو جاتا ہے۔‘‘

غزل کو حقارت سے ’قافیہ پیمائی‘ کہنے والے خال خال اب بھی پائے جاتے ہیں۔ چلیے مان لیا:

کہتے ہیں غزل قافیہ پیمائی ہے ناصرؔ

یہ قافیہ پیمائی ذرا کر کے تو دیکھو

اور ناصر کاظمی کے مشورے پر عمل کون کرے ؟ آزاد غزل تو موجود ہی ہے۔ ہمارا یہ عہد میدانِ طب ہی میں عجب دور نہیں۔ مصنوعی اعضا سے انسان کی زندگی سہل بنائی جاتی ہے اور آزاد غزل کے نام پر اردو ادب کی حرمت کو بٹّا لگایا جا رہا ہے۔ بہرحال ہمارے دور میں بھی ایسے غزل گو زندہ ہیں جو قافیہ کی پابندی کے باوجود یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں :

مظفر کے لہجے نے ثابت کیا

غزل قافیوں کا پلندا نہیں

میں بات کرنا چاہتا تھا ردیف کی، مگر قافیے سے بچ کر کیسے گزرا جا سکتا ہے کیوں کہ غیر مردّف غزل تو ہو سکتی ہے مگر قافیہ سے ذوقِ نغمہ رکھنے والا کوئی شخص کیسے گزر سکتا ہے۔

عہد حاضر کی غزل کو ردیف نے نیا رنگ و آہنگ عطا کیا ہے۔ طویل ردیفوں کے اس عہد میں غزل کی موج سامانی غزل کا روپ بن گئی ہے۔ بعض یک لفظی ردیفوں میں بھی غزل گو شعرا نے جہانِ معانی آباد کر دیے ہیں۔ ’’میاں ‘‘ کی ردیف میں جو غزلیں لکھی گئی ہیں ان کو میر صاحب کے عہد سے رسا چغتائی اور رفعت القاسمی تک لے آئیے۔ اس لفظ کی تہیں کھلتی جائیں گی اور اپنی زبان پر آپ کا مان بڑھتا چلا جائے گا۔ ’’میاں ‘‘ کو اپنی غزل کے مطالعے کا قافیۂ اول بناتے ہوئے مظفر میاں نے یار بادشاہ کی ردیف میں شعر کا جادو جگایا ہے۔ میں نے ایک طویل مضمون میں غزل میں نعت کی جلوہ گری دیکھی اور دکھلائی تھی۔ وہ مطالعہ میرے تنقیدی مجموعے ’’نعت اور تنقیدِ نعت‘‘ میں موجود ہے۔ میری دانست میں مظفر حنفی کی یہ غزل نعت کی دنیا میں ایک نئے لہجے کا درجہ رکھتی ہے۔ کسی غزل گو اور کسی شاعر کے بارے میں ایسا دعویٰ اس کے کلام کی مجموعی فجا میں محمدِ عربی علیہ الصلوٰۃ و تسلیم کی یاد کے کنایوں اور اشاروں کی موجودگی کی بنا پر لگایا جا سکتا ہے۔ میں آپ کو مظفر حنفی کا ایک شعر سناتا ہوں جس میں اس طرز، زیست کو حسرت سے یاد کیا گیا جس سے ہم محروم ہو گئے ہیں :

کیا ہوئے طور طریقے وہ مدینے والے

وہ مہاجر ہے ، وہ انصار ہے ، پوچھو ان سے

محبت کا ایک حوالہ بہت ہے۔ تو اب نعتیہ غزل سنیے۔ یہ نعت کا اعزاز ہے کہ مظفر حنفی نے اس فلک رتبہ ذات کی محبت میں لفظ ’’یار‘‘ کو آسماں نصیب بنا دیا۔ مگر نعت سے پہلے حنفی کا ایک اور نعتیہ شعر سن لیجیے۔ یہ شعر اسی مجموعے کی ایک غزل کا ہے۔ غزل میں نعتیہ شعر اچانک سامنے آتا ہے تو قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اچانک کسی نخلستان میں پہنچ گیا۔ وہ اور ان کا ذکر ہمارے لیے آبِ حیات ہے جو ہمارے وجود میں خونِ رواں کی طرح بہتا رہتا ہے اور ہمیں شاداب کرتا رہتا ہے۔ اس شعر میں معراج کے عظیم معجزے کو غزل کے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے :

قوسیں بس اک زقند بھر کے

ہفت آسماں اک اُڑ  ان کے ہیں

اب غزل کے چند شعر ملاحظہ ہوں

تھوڑ  ا سا التفات، میاں یار بادشاہ

دینے لگے ہیں زخم دھواں یار بادشاہ

ہے کون دست گیر میرا آپؐ کے سوا

سیلاب میں ہے قریۂ جاں یار بادشاہ

معلوم یہ ہوا کہ وہاں آپؐ ہیں مقیم

ہم نے کیا جہاں قیام، یار بادشاہ

ایسی کوئی نگاہ کہ سر میں نہیں رہیں

اندیشہ ہائے سود و زیاں یار بادشاہ

یہ شعر مقامِ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ و سلّم سے باخبری کی شہادت بھی ہیں اور یہ ایک امتی سے اس کے رسول کے تعلق کی دستاویز بھی ہیں۔ رسول، عالی مرتبت سے یہ قربت، اور اس کا یہ احترام کہ نام لیتے ہوئے سینے میں سانس رکنے لگے تو شاعر یار بادشاہ کہہ کر چپ ہو جائے۔ ایسے دو لفظوں سے یہ خطاب وجود میں آیا ہے کہ رسول اور اس کے اُمتی کے بیچ کوئی حجاب نہ رہے اور ایسا احترام کہ بادشاہ کے سوا کسی لفظ میں سمٹ نہ سکے اور جب زخمِ حیات دھواں دینے لگیں تو انؐ کے تھوڑ  ے سے التفات کے علاوہ جینے کی اور کون سی سبیل ہے۔ اس دھوئیں میں اپنی ذات سے آگے بڑھ کر پورے ماحول کی تصویر کشی ہے۔ وہ ماحول جس میں دھواں بھی ہے اور قریۂ جاں کو بہا لے جانے والا سیلاب بھی، مگر ہماری سلامتی کے لیے یہ کافی ہے کہ ہم نے جہاں بھی پناہ لی، وہاں ہمارا دست گیر موجود ہے۔ وہ جس کی معیت کا احساس ہر اندیشۂ سود و زیاں کو مٹا دیتا ہے۔

اب آخری بات جو عرض کرنا چاہتا تھا یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلّم سے ہمارا رشتہ پورے آفاق کو ہمارا نگر بنا دیتا ہے ، فاصلے اور زمانے سمٹنے لگتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کی سرحدوں کا احترام برحق لیکن ایک اُمتی کے لیے کراچی، دہلی اور مدینہ (اور دوسرے امصار و  ولایات) قریۂ محمدؐ بن جاتے ہیں۔

شاید کسی پاکستانی بلکہ کراچی کے کسی شاعر نے بھی کراچی کو اپنی غزل کی ردیف نہیں بنایا ہے۔ اور یہ ردیف تعلق نامہ بھی ہے ، شہرِ آشوب بھی، حزنیہ غزل کی نیو بھی (آخر پورب کا آدمی ہوں ، بنیاد کے لفظ سے میرا کام نہیں چلتا)۔ لیجیے اس غزل کے بھی کچھ شعر سن لیجیے :

کاٹے گی مہاجر کو قرینے سے کراچی

ہے دور، بہت دور، مدینے سے کراچی

اُنچاس برس گزرے مگر سیر نہ ہو پائی

خون اپنی ہی اولاد کا پینے سے کراچی

تجھ پر ترس آتا ہے مہاجر ہو کہ انصار

خوش ہے ترے جینے سے نہ مرنے سے کراچی

ہاں دوست کے سینے پہ چلا دیتی ہے خنجر

دشمن کو لگا لیتی ہے سینے سے کراچی

ہماری اور آپ کی طرح کراچی بھی عجب ہے۔ نصف صدی سے ہمارے ساتھ کراچی کا یہی سلوک ہے مگر کراچی کے بنا ہم جی بھی نہیں سکتے۔ ارضِ حرمین کے سوا دنیا کی کون سی جگہ ایسی ہے جہاں کراچی بے طرح یاد نہ آتی ہو۔

میرا ارادہ تھا کہ مظفر صاحب کے منتخب اشعار آپ کو سنا کے بات ختم کی جائے ، مگر اتنے ہی سفر میں تھک گیا ہوں تو مضمون کو اس جگہ ختم کرتا ہوں جہاں سے ہماری نانیاں دادیاں قصہ کا آغاز کرتی تھیں :

ہے ایک مظفر بادشاہ

ہمارا تمھارا خدا بادشاہ

 

 

 

 

شمشیر عالم

 

                مظفر حنفی: جدید غزل کا ایک اہم نام

 

عرصہ ہوا، کلکتہ یونیورسٹی کے اقبال پروفیسر کی حیثیت سے جب ڈاکٹر مظفر حنفی کی تقرری عمل میں آئی تو میرے ذہن کے نہاں خانوں سے یہ سوال ابھرا کہ جس مہتم با الشان عہدے کے لئے کبھی فیض سے التجا کی گئی تھی، وہ عہدہ ڈاکٹر صاحب کو عطا کر دیا گیا۔ حالاں کہ اور بھی لوگ تھے۔ آل احمد سرور، شمس الرحمٰن فاروقی اور گوپی چند نارنگ تھے ، رشید حسین خاں ، جگن ناتھ آزاد اور مالک رام تھے۔ ابوالکلام قاسمی ، قمر رئیس اور محمد حسن تھے۔ ادھر پاکستان میں وزیر آغا اور احمد ندیم قاسمی تھے۔ دراصل میری اس سوچ کی وجہ یہ تھی کہ میں نے ڈاکٹر صاحب کو نہ ٹھیک سے پڑھا تھا اور نہ انھیں ادبی محفلوں میں اپنے مخصوص وقار اور عالمانہ لہجے میں بولتے ہوئے سنا تھا۔ پھر درج بالا شخصیتیں دور دور سے طلسماتی داستانوں کے شہزادوں جیسی لگتی تھیں۔ ان سب کی الگ الگ بہت ہی پر کشش اور دل آویز تصویریں ذہن میں بسی ہوئی تھیں۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب کے تقرر کے بعد میری اس طرح کی سوچ فطری تھی۔

ڈاکٹر صاحب کی پہلی کتاب جو میں نے مغربی بنگال اردو اکاڈمی میں پڑھی ’تنقید ابعاد‘ تھی۔ اس کتاب نے مجھے بیحد متاثر کیا۔ ان کا تنقیدی رویہ بہت پسند آیا۔ کھرے کو کھرا اور کھوٹے کو کھوٹا کہنے کا انداز نہایت بھایا۔ یہیں سے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میری ذہنی وابستگی کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک نہیں ٹوٹا ہے بلکہ ہر گام پر مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا ہے اور اب تو یہ کیفیت ہے کہ ان کے سلسلے میں کوئی نا موزوں بات سنتے ہی طبیعت ابل پڑ  تی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کی عظمتوں کے نقوش سامنے والے کے ذہن و دل پر مرتسم کر دوں۔ میں منور راناؔ کی طرح ڈاکٹر صاحب سے ملنے بار بار نہیں جاتا کہ اس طرح ان کے تخلیقی کاموں میں حارج ہونے کا اندیشہ رہتا ہے لیکن میرے دل میں ان کی بے پایاں شفقتوں نے جو چراغ جلائے ہیں ، ان کی روشنی کسی زمانے میں کم نہ ہو گی۔

کلکتہ یونیورسٹی میں جب میں نے ایم اے (اردو) کیلئے داخلہ لیا تو ڈاکٹر صاحب سے مسلسل دو برسوں تک کسبِ فیض کا موقع ملا۔ ڈاکٹر صاحب ادبی محفلوں میں جس قدر بے باک اور جری ہیں اور جس وقار و تمکنت کے ساتھ اپنے فیصلے سنایا کرتے ہیں ، وہ بہتوں کو پسند نہیں آتا لیکن وہ اپنی جگہ اٹل ہیں۔ نقاد کو کچھ بے رحم بھی ہونا چاہئے۔ اس کی یہ بے رحمی کسی ماہر سرجن کی اس بے رحمی جیسی ہے ، مریضوں کو جس سے نئی زندگی ملا کرتی ہے۔ انھوں نے مجھ سے ایک بار کہا تھا ’’مجازؔ اعلیٰ پایے کے شاعر نہ تھے۔ رومان، بے وقت موت اور ترقی پسند تحریک نے انھیں شہرت بخشی۔ ادھر روزنامہ ’’جنگ‘‘ (لندن) کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے یہی بات کہی ہے۔ ان کی باتوں میں تضاد نہیں ہوتا۔ وہ موقع محل دیکھ کر شاطر سیاست دانوں کی طرح باتیں نہیں بناتے۔ اگر انھوں نے کہا ہے کہ ’’وحشت کلکتوی‘‘ عظیم شاعر نہ تھے۔ اردو میں عظیم شاعر صرف تین گزرے ہیں ، میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ‘‘ تو ہمیں ان کی اس بات پر غور کرنا چاہیے۔

’’یم بہ یم‘‘ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو میری نظروں سے گزرا۔ آج کل تازہ ترین مجموعہ ’’یا اخی‘‘ پڑھ رہا ہوں اور پڑھ کیا رہا ہوں یوں کہیے اپنی دیکھی بھالی اور جانی پہچانی دنیا کے ان مختلف اور متضاد رنگوں کا حیرت و استعجاب سے مشاہدہ کر رہا ہوں جن تک میری رسائی ممکن نہ ہو سکی تھی۔ میں شاعر کے ہمراہ اپنی وسیع و عریض کائنات کے حقائق تلاش کرنے میں سرگرداں ہوں۔ میں ان لمحوں کو محسوس کر سکتا ہوں جب شاعر سود و زیاں کے تصور سے بے نیاز ہو کر زمانے کی بے اعتنائیوں کا فتح مندانہ مسکراہٹوں کے ساتھ خیر مقدم کرتا ہے۔ جب وہ کہہ اٹھتا ہے :

کافی ہیں مظفرؔ کے لیے ہاتھ کے چھالے

گلدستہ کبھی دستِ ہنر تک نہیں پہنچا

بیمار انا کے ہاتھوں جب فرعون خدا بن جاتے ہیں

ان کے ہی محلوں میں پل کر بچے موسیٰ بن جاتے ہیں

ایک ذرے نے لی تھی انگڑائی

آسماں آ پڑ  ے زمینوں پر

ڈاکٹر صاحب کے یہاں جس تیکھے پن اور جس کاٹ دار لہجے کی طرف بیشتر نقادوں نے اشارے کیے ہیں اور جس طرح داری کی نشاندہی کی گئی ہے ، وہ یقیناً شاد عارفی کے زیر اثر ان کے یہاں پیدا ہوئی لیکن جس میں بعد ازاں ان کے تجربے ، خلوص، صداقت اور ناقابلِ شکست حوصلے نے ایک جہانِ معنی آباد کر دیا ہے اور یہی ان کی پہچان بھی ہے۔ ان کا لہجہ کھردرا سہی لیکن کھردرے پن میں ایک طرح کا حسن اور ایک طرح کی شگفتگی پوشیدہ ہے۔ چند اشعار دیکھیں :

ذرا سی روشنی مانگی تھی، رات کاٹنے کو

چراغ اتنے جلے ، گھر ہی پھونک ڈالا مرا

مستولوں پر تیز ہوائیں سازش کرتی ہیں

لمبے ہاتھ سمیٹے چپّو بیٹھا رہتا ہے

لیکن یہ لہجہ ڈاکٹر صاحب کی ذات کا براہ راست اظہار بھی ہے۔ انھوں نے خود کو کبھی چھپایا نہیں ، نہ ذاتی زندگی میں نہ شعری مملکت میں۔ یہی وجہ ہے کہ کلاہِ افتخار ہمیشہ ان کے سر پر سجی رہتی ہے :

نہ پوچھیے کہ یہ لہجہ کہاں کا حصہ ہے

کھری زبان مرے جسم و جاں کا حصہ ہے

مختلف انداز رکھتی ہے مظفرؔ کی غزل

یہ ہماری آپ بیتی ہے ، خبر نامہ نہیں

آل احمد سرور نے ’’یا اخی‘‘ کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ ’’ان کے اشعار میں دھیمی دھیمی بہنے والی جوئے آب کی سی سوئی ہوئی روانی نہیں۔ پہاڑ  ی چشمے کی سی تند و تیز لہر ہے۔ ان کے اشعار میں تلوار کی کاٹ ہے۔ ایک برہم نوجوان کے لہجے کی تلخی ہے۔ اس میں کچھ توڑ  نے اور پھر کچھ جوڑ  نے کی بات بھی ہے۔ اس میں بگاڑ  اور پھر نئے سرے سے بناؤ کی داستان بھی ہے اور اس میں غزل کی کمائی سے کچھ نا آسودگی کی آہٹ بھی۔ یہ ایک سرکش روح کی کہانی ہے اور ایک باغی کا خواب۔ زندگی کا کتنا زہر پی کر یہ امرت حاصل ہوا ہے۔‘‘

آل احمد سرور نے ڈاکٹر صاحب کے یہاں جس زہر کوا مرت میں بدلتے دیکھا ہے ، وہ بہت زود اثر ہے۔ وہ ہمارے پورے معاشرے میں سرایت کرگیا ہے۔ یوں کہیے کہ اس نے جغرافیائی سرحدیں توڑ  کر بین الاقوامی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ چنانچہ آیئے دیکھیں ڈاکٹر صاحب کے یہاں اس کے نمونے :

بتا رہی ہے تمھارے گھر کی شادابی

کہ تم نے کھیت اجاڑ  ے ہیں ، گھر جلائے ہیں

کوفہ و کربلا سے دور بغض و عناد کم نہیں

قحطِ حسین ہے بہت، ابن زیاد کم نہیں

ڈاکٹر صاحب کا کلام خوبصورت پھولوں کے گلدستے جیسا ہے۔ ان میں کوئی شوخ و شنگ ہے ، کوئی سادہ و لطیف لیکن بہر صورت سب اپنے مقام سے ہیں۔ کہیں طنز کی کاٹ گہری ہے ، کہیں لہجہ معصومانہ ہے اور کہیں مفکرانہ شان اور علمی وقار کی جلوہ گری ہے لیکن سب کا اپنا اپنا حسن ہے ، سب کی اپنی اپنی بات ہے۔

گوپی چند نارنگ کے خیال میں ’’کاٹ دار اور تیکھی غزل کی راہ انھوں نے شاد عارفی سے پائی لیکن اس میں بو قلمونی، تہہ داری اور طرح داری کی فضا اپنی بنائی نیز زندگی کے گرم و سرد پر بے نیازانہ نگاہ کرنے اور حوصلہ مندانہ گزر جانے کی جہات ان کی اپنی ہیں ……….کسی شاعر کا اپنے لہجے اور تیور سے پہچانا جانا ایسی سعادت ہے جس کو تخلیق کا سب سے بڑ  ا افتخار و اعزاز ہی کہنا چاہیے ‘‘۔

گوپی چند نارنگ کے اس خیال کے عقب میں مجھے وہ اشعار صاف سنائی دے رہے ہیں جن کی بنیادوں پر ڈاکٹر صاحب کی قابلِ رشک شاعری کی بلند و بالا اور پُر شکوہ عمارت تعمیر ہوئی ہے اور ان کے بوتے پر ہم انھیں جدید اردو غزل کا اہم شاعر قرار دیتے ہیں۔ دیکھیے :

خون کے داغ آستینوں پر

اور تمغے انھیں کے سینوں پر

شہکار کی تکمیل پہ کاٹے گئے بازو

کیسا مرے ہاتھوں پہ ہنر ختم ہوا ہے

فریب کیجئے لیکن ذرا سلیقے سے

حضور سوئی ہے نیزے نہیں بدل جاتے

جس تہہ داری اور گہری معنویت کو اچھی شاعری کا جزو لاینفک تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی بڑ  ی خوبصورت مثالیں داکٹر صاحب کے کلام میں بہ آسانی دستیاب ہیں۔ سایہ دار پیڑوں کے دھوپ میں جلتے رہنے کا تصور عام ہے۔ شاعری میں اس کو مختلف زاویوں سے برتا جاتا ہے۔ نوجوان شاعر اکبر حبیبی کا یہ شعر یہاں مشاعروں میں بہت پسند کیا جاتا ہے :

اوروں کو خوشی دے کے جسے ہو گی مسرت

وہ شاخِ شجر دھوپ میں جلتی ہی رہے گی

لیکن جب ڈاکٹر صاحب نے اس موضوع کو برتا ہے تو اسے ایک نئی معراج سے آشنا کر دیا ہے۔ ’’یا اخی‘‘ کی پہلی غزل کا مطلع ہے :

یوں چھاؤں میں جلتا رہوں کب تک مرے مولا

سایہ ابھی پہنچا نہیں سب تک مرے مولا

اس مطلعے کی مختلف توضیحیں کی جا سکتی ہیں۔ اس کے بہت سارے پہلو نکلتے ہیں۔ شاعر کا درد ذاتی کم، آفاقی زیادہ ہے اور یہ ہر اچھی شاعری کا کمال ہے۔ میر کی آپ بیتی کے جگ بیتی بن جانے سے ہم سب واقف ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے یہاں بغیر کسی تلاش و جستجو کے ایسے اشعار بکثرت مل جاتے ہیں جن میں ذات اور کائنات کے دکھ ایک دوسرے میں مدغم ہو کر اثر آفرینی کی ایک طلسماتی فجا تشکیل دیتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر ہم شاعر کے ساتھ ایک گہرے مربوط رشتے میں بندھ جاتے ہیں اور پھر کبھی اُس سے الگ ہونا نہیں چاہتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ شاعری کی ارفع ترین منزل ہے :

آنکھوں سے بہہ جانے دینا، پینا ٹھیک نہیں

موتی جیسا تہہ میں آنسو بیٹھا رہتا ہے

ہر ایک سانس میں پیوست جبر کا احساس

ہمارے جسم میں چلتا ہوا اک آرا سا

باغباں بھی ہے یہی وقت، یہی گلچیں بھی

توڑ  لیتا ہے وہی پھول اگاتا ہے جسے

شاعر سوچتا ہے کہ جس ٹہنی پر پتے آئے ہیں وہ اس موسم میں ضرور کاٹ دی جائے گی۔ وہ پانی سے ڈرنے والوں کو ناخدا بنتے دیکھتا ہے ، قاتل کو بعد از قتل پچتاتے ہوئے پاتا ہے۔ ناؤ بالو پر چلانے والوں کا مشاہدہ کرتا ہے اور ’’دیوانِ میر‘‘ میں اپنی داستان رقم ہونے کا اعلان کرتا ہے :

اگر حجور نے دیوان میرؔ دیکھا ہو

ہر ایک شعر مری داستاں کا حصہ ہے

برہم ہو چپو پر کیوں

ناؤ چلے بالو پر کیوں

خنجر چلا کر کہتا ہے ظالم

دھوکا ہوا یار، افسوس افسوس

خوف آتا تھا پانی سے جن کو وہی

بن گئے ناخدا دیکھتے دیکھتے

اس موسم میں کٹ جائے گی

پتے جس ٹہنی کے نکلے

وزیر آغا نے ’’یا اخی‘‘ میں شامل اپنے مضمون ’’مظفر حنفی کی غزل‘‘ کے اخیر میں لکھا ہے کہ ’’مظفر حنفی کی غزل جدید اردو غزل کے بربط سے چھوٹا ہوا ایک منفرد، تازہ، پیچ و خم کھاتا ہوا، دل موہ لینے والا وہ سُر ہے جس نے غزل کے کُل سے لہجہ بھر کے لیے الگ ہو کر اپنے وجود کا اثبات کیا۔ مگر پھر لپک کر غزل کی سمفنی میں دوبارہ شامل ہو گیا ہے۔ تجربے اور روایت کا بنتا بگڑ  تا سنجوگ مظفر حنفی کی غزل کا امتیازی وصف ہے ‘‘۔

شمس الرحمٰن فاروقی نے ٹاڈارف کے حوالے سے کہیں یہ بات لکھی ہے کہ ہر بڑ  ا شاعر روایت سے انحراف کرتے ہوئے مروجہ اصولوں کو توڑ  تا ہے اور اس طرح تخلیق کی ایک نئی کائنات وجود میں آتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے یہاں ہمیں قدم قدم پر اس کا احساس ہوتا ہے۔ وہ خود فرماتے ہیں

کسی بھی نام سے غزلیں پڑھو مظفر کی

پتے بدلنے سے چہرے نہیں بدل جاتے

نہ خوفِ سیل مظفرؔ،  نہ زلزلوں سے خطر

زمین شعر پہ قائم ہے قصر بالا مرا

غزل تو میں بھی مظفرؔ نفیس کہتا ہوں

مگر دماغ کبھی عرش پر نہیں رکھتا

اقبالؔ نے کہا تھا کہ ان کی شاعری کی حقیقت کیا ہے۔ زمانے کو ان کی قلندرانہ شان بھا گئی ہے اور بس:

خوش آ گئی زمانے کو میری قلندری

وگر نہ شعر مرا کیا ہے ، شاعری کیا ہے

لیکن جیسے اقبالؔ نے یہاں انکسار سے کام لیا ہے ویسے ہی ڈاکٹر صاحب نے اس شعر میں غالب کو غزل کی آبرو کہہ کر اپنے اشعار کو دلبستگی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ غالبؔ کی عزت اپنی جگہ لیکن ڈاکٹر صاحب کی انکساری سے ہم محفوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہی ان کی شخصیت کا سب سے اہم عنصر ہے :

ترا سخن تو مظفرؔ ہے دل لگی کے لیے

میاں غزل تو اسداللہ خاں کا حصہ ہے

 

 

 

 

ضمیر یوسف

 

                آفتابِ سخن___ مُظفرؔ حنفی

 

مظفرؔ حنفی کی شخصیت برگد کے اُس پرانے اور گھنے پیڑ  کی طرح ہے جس کی جڑ  یں اتنی سمتوں کی طرف پھیلی ہوئی ہیں کہ جس کا پتہ لگانا مشکل ہی نہیں قریب قریب ناممکن ہے۔ موصوف کی ادبی خدمات تقریباً پانچ دہائیوں پر محیط ہیں۔جہاں تک مظفرؔ حنفی کی شاعرانہ حیثیت کا تعلق ہے تو اُس سلسلے میں دنیائے ادب کی بیشتر محترم و ممتاز شخصیتوں نے اُن کی فن کارانہ خوبیوں کا نہ صرف یہ کہ اعتراف کیا ہے بلکہ انھیں غزل کے ایک منفرد لہجے کا با کمال شاعر تسلیم بھی کیا ہے۔

ایک وہبی شاعر کی ذات کے اندر جن خصوصیات کا ہونا لازمی ہے وہ تمام خصوصیات مظفرؔ حنفی کے اندر موجود ہیں۔ انھوں نے کبھی اپنے شاعرانہ منصب کو   برسرِ بازار رُسوا نہیں ہونے دیا اپنی انا اور اپنے وقار کا کبھی سودا نہیں کیا صاحبانِ اقتدار کی چوکھٹ پہ کبھی کاسہ لیسی نہیں کی کبھی قاتل کو مسیحا نہیں کہا اندھیرے کو اُجالا کہنا ان کا شیوہ نہیں وہ سچ کہنے میں کسی تکلف و تامل سے کام نہیں لیتے بلکہ سچ کی کڑواہٹ کے ساتھ تیکھے انداز میں گفتگو کرنے کے فن سے بخوبی واقف ہیں۔ اپنی صاف گوئی اور اپنے کھرے لہجے کی بدولت پوری ادبی دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں اور اپنے مخصوص اندازِ فکر اور خوبیوں کی بدولت قابلِ احترام سمجھے جاتے ہیں۔ اُنھوں نے میرؔ کی طرح کبھی اپنی شان کج کُلاہی پہ حرف نہیں آنے دیا غالبؔ و ذوقؔ کی پیروی میں کبھی شاہِ سلطنت کی شان میں قصیدہ گوئی نہیں کی اور نہ ہی سوداؔ کی طرح کسی کی ہجو لکھ کر اپنے دل کا بھڑ  اس نکالا بلکہ اُنھوں نے وہی لکھا جو اُن کے ضمیر نے محسوس کیا اور جس کا اُن کے دلِ خوددار نے اعتراف کیا اُن کی شاعری میں اُن کی زندگی اور اُن کے مشاہدات کی اتنی سچائیاں نظر آتی ہیں جن کی مثال اُن کے ہم عصروں کے یہاں ملنا مشکل ہے۔

مندرجہ بالا باتوں کے پیشِ نظر خود مظفرؔ حنفی کی زبان میں ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ اُن کی خود داری اور شانِ بے نیازی کیا کہتی ہے۔ ’’انکسار اور بے نیازی میرے مزاج میں داخل ہیں اپنی بے بضاعتی سے واقف ہوں لیکن شہر یاروں سے خاکساری کا قائل نہیں ہوں مزید براں شاعری میں بھی غیر آراستہ کھلے ڈھلے لہجے اور اپنی تنقید میں غیر مصلحت اندیشانہ بے باک رویّے کی وجہ سے نقادوں اور زُعمائے ادب کو خوش نہیں رکھ سکا نہ اپنی کوئی لابی بنائی جس کا خمیازہ مختلف ادبی محاذوں پر بے انصافی کی صورت میں مُسلسل بھگتنا پرا ہے اور پڑ  ے گا لیکن سر اونچا رکھنے کی یہ قیمت کچھ ایسی زیادہ بھی نہیں ہے۔ پھر سچے ادبی فیصلے تو ہمیشہ سے آنے والا کل ہی کرتا رہا ہے سو میں انتظار کروں گا۔‘‘

آپ نے منفرد و با کمال شاعر مظفرؔ حنفی کے ضمیر کی آواز سنی اُن کے لہجے کی سچّائی اُن کی زبانِ نثر میں ملاحظہ کی اُن کے بے باکانہ تیور دیکھے اُن کی غیرت و خود داری میں ڈوبی ہوئی فکر کی جلوہ سا مانی بچشمِ کود ملاحظہ کی جسے اُنھوں نے اپنے تازہ ترین مجموعۂ غزلیات ’’ہات اوپر کئے ہوئے ‘‘ میں اپنے مضمون بہ عنوان ’’مجھے کہنا ہے کچھ‘‘ میں نہایت صاف گوئی سے نذرِ قارئین کیا ہے۔

اب ذرا ان کی غزلوں کے اشعار کے تیکھے پن کو بھی قریب سے دیکھیں جو میرے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ ؂

اول تو شخصیت ہی اکہری لگی مجھے

پھر اُس کی کوئی بات نہ گہری لگی مجھے

منبر پہ جیسے شیخ نہیں کوتوال ہے

یوں ہے کہ خانقاہ کچہری لگی مجھے

میرا سر تو کٹنا ہی تھا جعفر و صادق زندہ باد

کوئی گھر محفوظ نہیں ہے شہرِ منافق زندہ باد

سچ کہنے میں اور مزہ ہے گردن کٹ جانے کے بعد

میرے ہونٹوں پر تالے ہیں خامۂ ناطق زندہ باد

سَن سَن کرتی اِس بستی میں مجھ کو زندہ رہنا ہے

بادِ مخالف سر آنکھوں پر بادِ موافق زندہ باد

خود کو اپنی ہی نظر میں نہیں آنے دیتا

میں کوئی آئینہ گھر میں نہیں آنے دیتا

میرا قاتل بھی عجب ہے کہ پرستاروں کو

قتل کرتا ہے خبر میں نہیں آنے دیتا

آج کل کاٹ دیے جاتے ہیں پھل دار درخت

کوئی پھل اپنے شجر میں نہیں آنے دیتا

بِلک رہے ہیں چمن میں اصول چاروں طرف

دُعا کو ہاتھ اٹھائے ہیں پھُول چاروں طرف

جلائے جاتے ہیں گھر رام نام ست کہہ کر

بِزن بنامِ خدا و رسول چاروں طرف

مظفرؔ اس سے تو اپنی خزاں ہی بہتر تھی

بہار میں ہیں پرندے ملول چاروں طرف

نہ پوچھیئے کہ وہ روشن ضمیر کیسے ہوا

غزل کا شعر کلیجے میں تیر کیسے ہوا

اگرچہ کہتا نہیں کوئی جانتے سب ہیں

مہینے بھر میں وہ اتنا امیر کیسے ہوا

وفا کی راہ میں مرنا تو ہم بھی جانتے ہیں

ہمارے مسئلے کیا محترم بھی جانتے ہیں

عدالتیں اگر اُن کو معاف بھی کر دیں

تو اُن کے نام ہم اہلِ قلم بھی جانتے ہیں

ہمیں خوشی سے کوئی دشمنی نہیں لیکن

غریب لوگ ہیں توقیرِ غم بھی جانتے ہیں

مصلحت اندیش رہبرانِ قوم و وطن اپنی بے عملی کے سبب ہر زمانے میں فن کاروں کی نظر میں نہ صرف مشکوک و معتوب رہے ہیں بلکہ ان کی تنقید کا ہدف بھی بنتے رہے ہیں زیادہ تر مسائل اُنھیں کے پیدا کردہ ہوا کرتے ہیں اُن کی بے بصیرتی سے انسانی تہذیب ہر دور میں پامال ہوتی رہی ہے اُن عیارانِ قوم و وطن پر مظفر حنفی کی جب عقابی نظر پڑ  تی ہے تو اُن کا قلم چیخ پڑ  تا ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے   ؂

اپنی پیشانی جو دینار پہ رکھ دیتے ہیں

تہمتیں قوم کے معیار پہ رکھ دیتے ہیں

نُور و ظلمت میں کوئی فرق نہیں کر سکتے

آپ ہر فیصلہ اخبار پہ رکھ دیتے ہیں

ہاں یہی سچ ہے کہ تو قتل نہیں کر سکتا

ہم ہی گردن تِری تلوار پہ رکھ دیتے ہیں

مظفرؔ حنفی کی عمیق نظر گردشِ لیل و نہار پر اس انداز سے جمی رہتی ہے کہ ہر لمحہ اور ہر پل کی خبر اُن کی فکرِ رسا اور دلی جذبات کا حصہ بنتی رہتی ہے کوئی حادثہ یا واقعہ اُن کی طائرانہ نگاہ سے چوک نہیں سکتا اُن کے محسوسات کی دنیا اتنی وسیع ہے کہ سارے زمانے کے مسائل اُن کے دل کے گوشے میں گردش کرتے رہتے ہیں جنہیں وہ حسبِ موقع تخلیقی پیکر میں ڈھال کر پیش کرتے رہتے ہیں اور جنہیں پڑھ کر یا سُن کر لوگ عش عش کر اٹھتے ہیں۔

کسی فن کار کے فن میں اگر تخلیقیت ہو، جذبے کی سچائی ہو انفرادیت ہو اسلوب میں دل کشی ہو، تو اُس کی ہر بات لائقِ توجہ ہوتی ہے بلا شبہہ مظفرؔ حنفی بھی ایسے ہی فن کار ہیں۔ اُنھوں نے خود کو شاعرِ اعظم کہلانے کے زُعم میں شعر نہیں کہے بلکہ فطرتی تقاضوں اور وجدانی کیفیت کے تحت شاعری کو وسیلۂ اظہار بنایا جو ایک سچے شاعر کی پہچان ہے۔ اس سلسلے میں وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ’’بہتوں کے لیے شاعری شوق کی چیز اور وقت گزارنے کا وسیلہ ہے چنانچہ وہ شعر نہ بھی کہیں تو کوئی فرق نہیں پڑ  تا لیکن کچھ لوگوں کے لیے شعر کہنا سانس لینے کی طرح ایک نا گُزیر اور لازمی عمل ہے۔ میرا لڑکپن، بچپن اور عنفوانِ شباب کا زمانہ کچھ ایسے حالات میں بسر ہوا کہ دل میں آگ اور سینے میں کھولتا ہوا لاوا سما گیا۔ شعر نہ کہوں تو دم گھٹ جائے شدّتِ احساس کو قابو میں رکھنے اور اس کی تیز آنچ سے اپنے وجود کو محفوظ رکھنے کے لیے شاعری میری پناہ گاہ ہے۔‘‘

مظفر حنفی کی شدّتِ احساس اور فکر کی تیز آنچ میں تپ کر نکھرے ہوئے کچھ اشعار آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں تا کہ آپ اندازہ لگا سکیں کہ موصوف کے قول و عمل میں کتنی صداقت اور مطابقت ہے لہٰذا فرماتے ہیں   ؂

دلِ دوانہ سنبھل وادی ہوس میں نہ جا

چراغ لے کے اُس انبارِ خار و خس میں نہ جا

کہا تھا ہم نے کہ اب خواہشوں کی عمر نہیں

نکل چکا ہے تو پھر لوٹ کے قفس میں نہ جا

اگرچہ سب کے لیے آگ میں نہیں گلزار

مگر خدا کے لیے وہم پیش و پس میں نہ جا

مشکل سے مشکل مفہوم کو شعری زبان عطا کرنا ہر کس و ناکس کے بوتے کی بات نہیں اس کے لیے فنّی چابکدستی، مشاقی و فن کاری، عروض دانی کے ساتھ ہی ساتھ زبان و بیان پر حاکمانہ قدرت کی ضرورت پڑ  تی ہے مظفرؔ حنفی اس میدانِ کارزار کے ماہر شہسوار ہیں مشکل سے مشکل قوافی اور نئی نئی ردیفوں کی ایجاد میں انھیں یدِ طولیٰ حاصل ہے۔ چند غزلیں بھی جنھوں نے سلیقے سے نہیں کہی ہیں انھیں بھی یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ بسیار گو شاعر اچھا شاعر بھی ہو یہ ضروری نہیں مگر مظفر حنفی کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے وہ زود گو بھی ہیں اور بسیار گو بھی شاعری کے بیشتر اصناف میں انھوں نے طبع آزمائی کی ہے لیکن کہیں بھی انھوں نے اپنے معیارِ فن کو گرنے نہیں دیا اور اپنی تخلیقات میں ہمیشہ اعلیٰ معیار کا نمونہ پیش کیا مظفرؔ حنفی کی یہ وہ خوبی ہے جو اُنھیں اردو کے دیگر تخلیق کاروں میں صرف وقار و اعتبار ہی نہیں انفرادیت بھی بخشتی ہے۔ سخت سے سخت زمین کو بھی پانی کر دینے کا ہنر مظفرؔ حنفی کو خوب آتا ہے ان کی ایک مشکل زمین والی غزل کے کچھ شعر دیکھیں اور ان کے فن اور ان کی مشاقی کو خراجِ تحسین پیش کریں   ؂

خفا کیوں ہو اگر تلوار تک ہم سے نہیں اٹھتی

عزیزو! سر پہ اب دستار تک ہم سے نہیں اٹھتی

کسی کو نذر کر دینی تھی جاں کی اشرفی اب تک

مگر یہ اشرفی دربار تک ہم سے نہیں اٹھتی

ہماری جان پھر بخشی گئی اے وائے محرومی

کہ گردن نیزۂ دلدار تک ہم سے نہیں اٹھتی

مشکل زمینوں میں کچھ اور اشعار سے حظ اٹھائیے اور دیکھئے کہ مظفر صاحب کو لفظوں پر کتنی گرفت اور قدرتِ کاملہ حاصل ہے   ؂

تجھے کیسے بتاؤں کیا طریقِ جنگ ہے میرا

ترے ہاتھوں میں لرزش ہے پریدہ رنگ ہے میرا

ہمیشہ آئینے کے سامنے محسوس کرتا ہوں

کہ یہ چہرہ نہیں ہے آئینے پر زنگ ہے میرا

غزل فریاد ہے میری ترے نقّاد خانے میں

مگر فریاد میں اسلوب شوخ و شنگ ہے میرا

مسلسل زلزلہ سا کیوں مرے سینے میں رہتا ہے

خدایا جسم کا یہ نیم جامہ تنگ ہے میرا

مظفرؔ شاعری میں عمر ضائع ہو گئی لیکن

مری آواز الگ ہے منفرد آہنگ ہے میرا

مظفرؔ حنفی کے فکر کی دنیا اتنی وسیع اور کشادہ ہے کہ اس کی سیر کرنا امرِ محال ہے اُن کی شعری شخصیت کے ان گنت روشن و تابناک پہلو ہیں اور ہر پہلو ایک مکمل تحقیق و جستجو کا متقاضی ہے مظفرؔ حنفی علم و ہنر کے ایک بحرِ ذخار کا نام ہے جس کی غواصی مجھ جیسے کم علم کی دسترس سے باہر ہے۔ ایک عہد ساز ادیب، صاحبِ طرز افسانہ نگار ایک منفرد شاعر اور ایک معتبر نقاد جن کی ادبی کارنامے بکھرے پڑ  ے ہیں انھیں چند صفحات میں سمیٹنا کوئی آسان کام نہیں اس لیے میں نے شاعر مظفرؔ حنفی کو اپنے مضمون میں پیش کرنے کی ایک ادھوری کوشش کی ہے اور مجھے اس کا بھرپور احساس ہے کہ موجودہ عہد کے ایک اہم اور منفرد با کمال شاعر ڈاکٹر مظفرؔ حنفی کی شاعری کی چند جھلکیاں ہی پیش کی جا سکی ہیں جب کہ ان کی شاعری مکمل و مسلسل تحقیق و جستجو اور عرق ریزی کا تقاضہ کرتی ہے میں نے موصوف کے حالیہ مجموعۂ غزلیات ’’ہاتھ اوپر کئے ہوئے ‘‘ کے مطالعے کی روشنی میں یہ مضمون سرسری طور پر سپرد قلم کیا ہے ڈاکٹر مظفرؔ حنفی نے ایک مقطعے میں اپنی شاعری کے تعلق سے بالکل بجا کہا ہے   ؂

اے مظفرؔ ترے اشعار سنے گی دنیا

اس کو آواز کی رفتار پہ رکھ دیتے ہیں

دس برسوں تک ڈاکٹر مظفرؔ حنفی کا قیام کلکتے میں رہا اس دوران انھیں قریب سے دیکھنے اور ان کی علمی و ادبی گفتگو سننے کا موقع بھی ملتا رہا جسے میں اپنے لیے خوش نصیبی سے تعبیر کرتا ہوں۔ زبان و فن کے تئیں اُن کی سی سنجیدگی شعر و ادب کے تئیں ان کے جیسا مطالعہ جو عشق کی حد تک ہو میں نے اپنی مختصر سی زندگی میں اپنے ارد گرد کے علاقوں میں کہیں نہیں دیکھا مغربی بنگال کے ممتاز شاعر پروفیسر اعزاز افضل(مرحوم) نے ایک ادبی تقریب میں کہا تھا کہ ’’ مظفرؔ حنفی اس عظیم الشان شخصیت کا نام ہے جس سے نہ صرف یہ کہ کسبِ نور کیا جا سکتا ہے بلکہ زبان و فن کے معاملے میں اُن کی باتوں پر آنکھ بند کر کے بھروسہ بھی کیا جا سکتا ہے ‘‘ مظفرؔ حنفی صاحب کی علمی و ادبی شخصیت پوری دنیائے ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے اک جہاں اُن کے تبحر علمی سے واقف ہے آج بھی ان کا قلم رواں دواں ہے بہت سے خود ساختہ قد آورانِ سخن موصوف کی عظمت کے مناروں کو نظر ٹیڑھی کر کے دیکھتے ہیں مگر انھیں خبر نہیں کہ آفتاب پر نظر ٹک نہیں سکتی لہٰذا مظفرؔ حنفی علم و ادب کے آسمان پر جگمگا رہے ہیں اس لیے کہ آفتاب کی کرنوں کو مٹھی میں چھپایا نہیں جا سکتا مظفرؔ حنفی آفتابِ شعرو سخن بن کر اپنے شعروں میں جگمگاتے رہیں گے اور دنیا ان کی فکر سے کسبِ نور کرتی رہے گی   ؂

مظفرؔ ظلمتوں سے جب محاذ آرائی ہونی تھی

تو اک لشکر اُجالے کا مِرے اشعار سے نکلا

٭٭٭

مصنف اور پرویز مظفر کی اجازت اور تشکر کے ساتھ، جنہوں نے مواد کی فائلیں فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید