FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

مولانا ابو الحسن ندوی کی تین تقریریں

               مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

 

زمانہ کی نبض شناسی علماء کی ذمہ داری

بمقام: المعہد الاسلامی ، سہارن پور۔

ناشر: صفہ اکیڈمی، سہارنپور

سال اشاعت: غیر مذکور

بشکریہ

www.abulhasanalinadwi.org

 

             حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

               حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اور حضرت سید احمد شہید کے اثرات

            دوستو! دراصل یہ علاقہ جہاں پر یہ ’’معہد ‘‘قائم ہوا ہے، یہ ہندوستان میں دین کی تجدید اور تقویت ، احیائے اسلام ، نشر و اشاعت علوم، اصلاح عقائد اور اصلاح اعمال کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو منتخب فرمایا ہے، اور اسے یہ خصوصیت عطا فرمائی ہے، امام المتأخرین حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ جن کے وطنی اور خاندانی تعلقات بھی اس علاقہ سے تھے ، ہم ابھی پھلت (مظفر نگر) سے آرہے ہیں ، جہاں ان کا نانہال تھا، اور ان کے خاندان بلکہ ان کے گھر کی ایک شاخ وہاں موجود تھی ، وہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کا مسکن ہے، پھر اس کے بعد یہ پورا علاقہ خاص طور پر گنگوہ ، نانوتہ، سہارن پور، رائے پور اور اس کے قرب و جوار کے جو تاریخی مقامات ہیں ، ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے انتخاب فرمایا ہے ، کہ یہاں سے دین صحیح ، عقائد صحیح اور شریعت مطہرہ کی اشاعت ہو، امیر المومنین حضرت سید احمد شہید ؒ کو بھی سب سے زیادہ اعوان و انصار، رفیق طریق، رفیق کار اسی علاقہ سے ملے ہیں ، ان کے معتمد ترین، محبوب ترین احباب و رفقاء اور مخلص ترین اسی علاقہ کے تھے، حضرت مولانا عبدالحی صاحب بڈھانوی ؒ، شاہ اسمعیل شہید ؒ اور اس کے علاوہ بہت سے مخلص رفیق حضرت سید صاحبؒ کو اسی علاقہ سے دستیا ب ہوئے ہیں ، اور انہوں نے آخر تک ساتھ دیا ، انہوں نے جان جان آفریں کے سپرد کر دی، کبھی ساتھ نہیں چھوڑا، خود حضرت سید صاحبؒ نے ان کی وفاداری ، خلوص ، دین و شریعت سے محبت اور ان کے کام کو تسلیم کیا ہے، ان کا احترام کیا ہے، اور ان سب کا معنوی، اعتقادی اور فکری نسب اسی تحریک اور اسی تحریک کے داعیوں سے ملتا ہے، اس لیے اس سرزمین پر ایسے معہد کا قائم ہو جانا یہ محل تعجب بھی نہیں ، اور اس سے امید پیدا ہوتی ہے کہ یہاں صرف پڑھنا پڑھانا، کتابوں کا سمجھنا ، عربی زبان سے واقف ہو جانا، مسائل شرعیہ سے واقف ہو جانا، وعظ کہہ لینا، امامت کر لینا، خطابت کے فرائض انجام دینا یا افتاء وغیرہ کے فرائض انجام دینا ، اسی پر اکتفاء نہیں ہو گا، اور ابھی میں نے جو تقریر سنی اور میرے عزیز دوست نے جو تحریر ابھی پڑھ کر سنائی، اس میں میرے لیے بڑے فخروسرور کی بات ہے کہ میری ناچیز تحریروں کے اقتباسات بھی تھے، ان سے بھی اندازہ ہوا کہ ذہن درسیات کے حدود سے ، نصاب کے تعینات سے، کتابوں کے انتخاب سے اور مخصوص کتابوں پر انحصار کرنے سے آزاد اور وسیع ہے اور اسی کی اس وقت سب سے زیادہ ضرورت بھی ہے۔

               ایک نیا فتنہ

            ہمارے عزیز دوست نے زمانہ کی نزاکت کا اور خطرناکی کا جو اظہار کیا وہ بالکل حقیقت پر مبنی تھا، اور یہ ایک نئے قسم کا فتنہ سامنے آیا ہے کہ یہ مقابلہ صرف فوجی مقابلہ یعنی اجسام کا اجسام سے ٹکراؤ اور ایک بڑی طاقت کا چھوٹی طاقت سے تصادم یا چھوٹی طاقت کا بڑی طاقت سے تصادم، اسلحہ کا مظاہرہ اور اسلحہ کی طاقت آزمائی نہیں ، بلکہ اس وقت جو سب سے بڑا خطرہ ہے ، جو سب سے بڑا حملہ ہے، حقیقت میں وہ فکری اور زندگی کا ایک حیاتی تخیل اور زندگی کا ایک نمونہ پیش کرتے ہیں کہ مدد کے لیے کوئی گنجائش باقی نہ ہو، اور مادہ پرستی اور خالص بے اصولی، خالص نفس پرستی اور خالص مادیت غالب آ جائے، فنڈامنٹلزم (Fundamentalism)کے خلاف جو اس وقت مہم چل رہی ہے، لیکن یہ ادارے اور منصوبے، یہ سب محض کاغذی، فکری اور خیالی ہیں ، اور یہ ایسے منصوبے ہیں جن میں باقی رہنے کی بالکل صلاحیت نہیں ہے، کچھ عرصہ کے بعد خود وہ لوگ اس سے خائف ہو جائیں گے، بیزار ہو جائیں گے، اس کی علامتیں ظاہر ہونی شروع ہو گئی ہیں ، امریکہ میں اس کا احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ سارے مذاہب والے ’’فنڈا منٹلسٹ(Fundamentalist)‘‘ اور ہر مسلمان اصول پسند ہوتا ہے، تو گویا یہ جنگ ایک تخیلاتی جنگ ہے، اس میں کامیابی نہیں ہوسکتی، ابھی ناچیز کا روس کی سرزمین میں تاشقند ، سمرقند اور بخارا جانا ہوا، وہاں دیکھا کہ اشتراکیت جس کے ڈنکے بج رہے تھے، اور جس کا خطرہ تمام ملکوں میں محسوس کیا جا رہا تھا، سمجھا جا رہا تھا کہ یہ تقدیر ازلی ہے، اور یہ انسانیت کا مستقبل ہے ، آئندہ یہی ہو گا، ساری دنیا میں استعماریت ، دہریت اور جس کو کمیونزم کہتے ہیں ، وہ پھیل کر رہے گا ، وہاں اس کا خاتمہ ہو گیا، تقریباً وہ ملک اس سے آزاد ہی نہیں بلکہ بیزار ہو گئے، اور وہ اپنے دلی جذبات نکال رہے ہیں ، ان سورماؤں کے خلاف ، ان اشتراکیت کے داعیوں کے خلاف جنہوں نے سب کو بالکل ایک نئے سانچہ میں ڈھال لیا تھا، پوری سرزمین پر اب ان کے خلاف ایک رد عمل پیدا ہو رہا ہے، وہ چیز جو اللہ کے منشا کے خلاف ہو، حقیقت انسانی کے بھی خلاف ہو، اور جو انسانی مستقبل کے لیے خطرہ ہو، وہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اس دنیا میں بھیجا، اور ان کی نسل پیدا کی، اور نسل کو دنیا آباد کرنے لیے بھیجا ہے تاکہ وہ اللہ کی تابعداری میں زندگی گزارے، علامہ اقبالؔ نے فرمایا   ؎

ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد

            اور اس کو گلزار بنایا، پیداوار سے نہیں ، اور صنعت و حرفت سے نہیں ، بلکہ عقائد صحیحہ سے، روحانیت سے، اللہ تبارک و تعالیٰ کے تعلق سے، توحید کی روشنی سے، مکارم اخلاق سے اسے منور کیا، وہ اس کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دے گا ، یہ ایسی سازش ہے، دوستو! اس کا رشتہ بالکل آلہ کے طور پر ہے کہ وہ اپنے مقصد آخر کو بھلا دے، اور اس کو بالکل جانور بنا دے، اور بہائم کی طرح زندگی گزارنے لگے، ایسی کوئی سازش نہ پہلے کامیاب ہوئی ہے اور نہ کبھی آئندہ کامیاب ہو گی۔

               فتنہ کا مقابلہ

             لیکن اس کے لیے ضرورت ہے کہ وہ لوگ تیار ہوں جو اس کے پس منظر سے، اور اس کے پیچھے جو سازشیں ہیں ، جو محرکات ہیں ، جو اس کا ماضی رہا ہے، اور جس ماضی نے اس پر آمادہ کیا، اور پھر آئندہ کے جو منصوبے ہیں ، اس تحریک کے علمبرداروں کو جانتے ہوں ، ان سے واقف ہوں ، اسی لیے اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے، تعلیم کی اہمیت بیان کرتا ہے، ترغیب دیتا ہے، دو چیزیں بیان کرتا ہے، یہ اعجاز قرآنی ہے، جو اس وقت اور بھی خاص طور سے سمجھ میں آسکتا ہے: أعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم{وَ مَاکانَ الْمُؤْ مِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْ قَۃٍ مِنْھُمْ طَآئِفَۃٌ لِیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْن۔۔۔۔۔۔۔۔۔}[سورۃ التوبۃ:۱۲۲]،  لِیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنبھی بظاہر کہہ دینا کافی تھا کہ کیوں نہ ایسا ہوا ، سب گھر چھوڑ کر باہر نہیں نکل سکتے اور مدرسوں میں نام نہیں لکھا سکتے، اور تعلیم کے لیے اپنی زندگی اور زندگی کا بڑا حصہ وقف نہیں کرسکتے، تو ایسا کہہ دیا جاتا{  فَلَوْلَا نَفَرَ}ان میں سے ایک جماعت کھڑی ہوئی {  لِیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْن}کہہ دینا کافی تھا ، بظاہر دین کی سمجھ حاصل کریں ، لیکن آگے فرمایا : { وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجعُوْآ اِلَیْھِمْ } اور اپنی قوم کو ڈرائیں جب ان کی طرف واپس جائیں ، یعنی ان کو خطرات کا احساس بھی ہو، مجھے معاف کیا جائے، ہماری بہت سی درسگاہوں میں ، تعلیم گاہوں میں ، مکاتب ہی میں نہیں ، بلکہ مدارس میں بھی تفقہ کی حد تک کوشش کی جاتی ہے، اور کامیابی بھی ہو رہی ہے، بحمد ﷲ ان کے اثرات ، ثمرات اور برکات بھی دیکھتے ہیں ، لیکن { وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجعُوْآ اِلَیْھِمْ }خطرات سے آگاہی، سازشوں سے واقفیت، ادیانِ عالم کے خلاف، شریعتِ خداوندی کے خلاف بلکہ منشائے خداوندی کے خلاف، اور انسانیت کے شرف اور اپنی افادیت کے ثابت کرنے کے خلاف اس وقت جو سازشیں امریکہ میں تیار کی جا رہی ہیں ، اور وہ بہت ہی منظر عام پر آ چکی ہیں ، ان سے جیسی واقفیت ہونی چاہیے تھی، ان کا جتنا صحیح توازن، ان کا صحیح رقبہ، اور ان کا صحیح خطرہ محسوس کرنا چاہیے ، اس میں کمی ہے، اس لیے کہ ہماری نظر پچھلی تاریخ پر تو ہے، وہ بھی اگرچہ صحیح طور پر اور اطمینان بخش طریقہ پر نہیں ہے، اس وقت تو گہرائی کی ضرورت ہے، ہم تاریخ دعوت و عزیمت سے واقف ہوں ، مصلحین کے اصلاحی کارناموں سے واقف ہوں ، مجددین کے تذکروں اور ان کے نتائج سے واقف ہوں ، ان کے طریقۂ کار سے واقف ہوں ۔

            ہم حضرت امام حسن بصریؒ ، امام ابوالحسن اشعریؒ، امام غزالیؒ سے لے کر، امام بخاریؒ اور حضرت جیلانیؒ سے لے کر ابن جوزیؒ، حضرت مجدد الف ثانیؒ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ، ان کے خاندان، تلامذہ، سید احمد شہیدؒ پھر اس کے بعد حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ، حضرت مولانارشید احمد صاحب گنگوہیؒ، حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ اور اس طریقہ کے جو مؤسس مدارس ہیں ، اور جنہوں نے زمانہ کی نبض پہچانی، نبض پر ہاتھ رکھا، دل کی دھڑ کن بھی سنی، ملت اسلامیہ کے اس خطرہ کو بھی دیکھا جو اٹھنے لگا تھا، جس کا خمیر تیار نہیں ہو رہا تھا بلکہ سر پر آ گیا تھا ، تو اس سے واقف ہوں !

            تاریخ فتوحات کی نہ پڑھی جائے، بلکہ تجدیدی کارناموں کی پڑھی جائے، اس کے لیے خدا کے فضل و کرم سے مواد تیار ہو گیا ہے، عربی میں بھی، اردو میں بھی اور انگریزی میں بھی، پھر اس وقت جو بادل منڈلا رہے ہیں ، اور جو طوفان کھڑے ہو گئے ہیں ، اور ان کے جو نشانے ہیں ، ان کو بھی سمجھیں ، یہ کام ابھی ہمارے مدارس میں پورے طور سے نہیں ہو رہا ہے، ہمارے نزدیک بڑے مدارس سب قابل احترام ہیں ، اور وہاں کی مساعی قابل تشکر اور واجب اعتراف ہیں ، میں ان میں سے کسی کی بھی ناقدری نہیں کرتا ، جب کہ اس فہرست میں ہم بھی ہیں ، دارالعلوم دیوبند ہے ، مظاہر العلوم سہارن پور ہے، دارالعلوم ندوہ ہے، اور مؤقر درس گاہیں ہیں ، لیکن میں پھر بھی اسی خاندان کے ایک فرد کی حیثیت سے یہی کہوں گا، کہ اس میں کچھ اور زیادہ نظر کو وسیع کرنے کی ، ہمت کو بلند کرنے ، اور ذہن کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

               معنوی نسل کشی

            اس وقت ہمارے ملک میں کیا خطرے در پیش ہیں ، یہاں معنوی طور پر ایک نسل کشی کی پوری تیاری ہے، معلوم نہیں مجھے اس کے بعد کہنے کا موقع ملے گا یا نہیں ، دینی تعلیمی کونسل کے اسٹیج سے، مسلم پرسنل لا کے اسٹیج سے یہ بات بار بار کہی جاچکی ہے، اور انشاء اللہ کہی جائے گی، لیکن یہاں تھوڑا وقت ہے، صرف اتنا عرض کر دو ں کہ اس وقت ہندوستان میں معنوی، تہذیبی نسل کشی یعنی کلچرل کے مسائل، اس میں تہذیب اسلامی کے اعداء بڑی اچھی ذہانت اور بڑی قابلیت کے ساتھ (اگرچہ وہ قابلیت محمود تو نہیں لیکن بہر حال ان کے لحاظ سے بڑی قابلیت کی بات ہے) نسل کشی کا پورا سامان کیا جا رہا ہے، اور یہ چیز پیش نظر ہے کہ ہندوستان کو اسپین بنا دیا جائے، یہ بات بہت دل تھام کر کہنی پڑ رہی ہے، اور یہ مسلمان نام کے بھی مسلمان نہ رہیں ، نسلی طور پر مسلمان رہیں ، یہ تاریخ سے معلوم ہو کہ یہ مسلمان نسل کی اولاد ہے، ان کے آباء و اجداد میں سے ہندوستان میں بعض قومیں حاکم رہیں ، اور ان کے آباء و اجداد حکومت کرتے تھے، اس طریقہ سے کبھی ان کے آباء و اجداد بھی مسلمان تھے، لیکن اب ذہنی طور پر، علمی و تعلیمی طور پر ، فکری طور پر ، یہاں تک کہ تحریری طور پر اس کا مکمل سامان فراہم کیا جا رہا ہے۔

            نسلی وحدت کا اور پڑھنے لکھنے کی صلاحیت کا جہاں تک تعلق ہے، کہ کیا چیز ہم پڑھ سکتے ہیں ، کیا چیز نہیں پڑھ سکتے، اور پھر اس سے آگے بڑھ کر تہذیب و معاشرت کے پیمانے سے بھی مسلمانوں میں کوئی امتیاز باقی نہ رہے، مسلمانوں کو اکثریت کے مقابلہ میں اکثریت سے کسی طرز کا امتیاز و التفات نہ رہ جائے، سب ایک نئے سانچے میں ڈھل کر نکلیں ، یہ بہت خطر ناک منصوبہ ہے، اور اس کے لیے بڑی تیاریاں کی جا رہی ہیں ، تیاریاں ہو چکی ہیں ، بہت جگہ اس کے نتائج ظاہر ہو رہے ہیں ، ایک تو یہ کہ خود ہندوستان میں اسلام کی بقاء اپنی خصوصیت کے ساتھ، بلکہ وہ مسلمان اس سطح پر ہوں کہ وہ دعوت دے سکیں ، اور دعوت دینا تو آگے کی بات ہے، وہ کشش کا باعث بن سکیں ، اس کو دیکھ کر اسلام کی قدر ہو، اور اسلام کی ضرورت کا احساس پیدا ہو، اور ان کے اندر ایک امتیاز و بلندی محسوس ہو جبکہ مسلمان فاتحین جن ملکوں میں گئے، عرب فاتحین، انہوں نے اس ملک کو ایک نئے سانچے میں ڈھال دیا، وہاں تہذیب بدل گئی، معاشرت بدل گئی، دین بدل گیا۔

               مدارس کا کام

            یہ حصہ ہمیشہ سے عربی تھوڑا ہی بولتا تھا، یہ توحید کا قائل تھوڑا ہی تھا، آپ اگر فراعنہ کی تاریخ پڑھیں ، انگریزی میں اس کا بڑا مواد ہے، تو وہ تو بالکل اس زمانہ میں ہندوستان سے اس کا بڑا ہی پیوند تھا، اور وہاں وہ چیزیں نکلی ہیں جو یہ بتاتی ہیں ہندوستان و مصر گویا ملا ہو ا تھا، برہمنی تہذیب بڑی پیاری ہے، اور اب بھی اس کے بہت سے نام اس طرح کے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے برہمنوں کی نسل تھے، اور جو آثار قدیمہ ہیں ان کے اندر بھی ایسی چیزیں ملی ہیں ، اس کے مقابلہ میں ہندوستان میں بھی، مصر، شام، عراق، ایران اور ساسانی سلطنت کا پورا خطہ ا ور اس طریقہ سے آدھی دنیا، یہ سب کے سب بالکل الگ تھے، اور اس کا مذہب، اس کی تہذیب بالکل جداگانہ تھی، مگر عربوں نے بغیر جبر و اکراہ کے ان سب کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ کیا، اسلامی تہذیب کو ان سب نے قبول کیا، تو اس کی ضرورت ہے کہ ہمارے مدارس میں نظام تعلیم کے ساتھ استعداد آفرینی، علمی استعداد پیدا کرنے کے ساتھ صرف، نحو، فقہ ، اصول فقہ، احادیث و اصول حدیث، تفسیر اور علم کلام اور فلسفہ، ان سب کے ساتھ خطرات کا احساس ہو، اور خطرات کا مقابلہ کرنے کی ان کے اندر صلاحیت پیدا ہو، اظہار بیان کی قوت ہو، پاکیزہ ذوق ہو، دعوت کے اصول واسلوب سے واقف ہوں ، اور اس کے ساتھ ان میں وہ اخلاق اور وہ اوصاف ہوں کہ وہ عربی زبان سے وہ کام لیں جو آج ایک حد تک بہت سے افراد لے رہے ہیں ، میں بہت صفائی کے ساتھ کہتا ہوں کہ ایک بہت بڑی آزمائش پیدا ہو گئی ہے، ہمارے ہی لوگوں نے عربی زبان کو معاش کا ذریعہ سمجھ لیا ہے، ان کو یہ معلوم ہے کہ اگر ہم خلیجی ملکوں یا ریاستوں میں جائیں یا سعودی عرب جائیں تو ہماری یہ عربی زبان نوکری دلائے گی، اور جیسا کہ پہلے انگریزی پڑھ کر ولایت جایا کرتے تھے، انگلینڈ جایا کرتے تھے، وہاں سے انگریزی پڑھ کر آتے تھے تو ملازمت مل جاتی تھی، اب ہمارے مدارس کے بہت سے طلبہ اس شوق میں عربی پڑھ رہے ہیں کہ وہ عربی سے وہ کام لیں جو کبھی انگریزی سے لیا جاتا تھا، یہ بڑی ناقدری ہے ان مدارس کی، اور ایسے طلبہ پر جو صلاحیتیں صرف کی جا رہی ہیں ، ان کے بارے میں جو محنتیں ہو رہی ہیں ، اور جو ایثار کیا جا رہا ہے، اور ہمارے اساتذہ کرام اور بانیان عظام ان سب کو ناکام بنانا ہے، معاذ اللہ! ان کی روحوں کو اگر وہ دنیا سے چلے گئے ہیں ان کو تکلیف پہنچا نا ہے، اور جو زندہ ہیں ان کو شرمسار کرنا ہے، یہ عربی زبان ہرگز اس لیے نہیں کہ آپ اس سے معاش حاصل کریں ، معاش حاصل کرنا حرام نہیں ، ہرگز نہیں ، اگر اللہ دے ضرور لیجیے اور اس کا شکر کیجیے ، لیکن اس کو خالص ذریعۂ معاش بنانا کہ جو انگریزی سے بلکہ اب انگریزی سے بھی وہ کام نہیں چل سکتا جو عربی سے چلتا ہے، ہمارا باہر جانا ہوتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ انگریزی پڑھ کر یہاں آدمی اتنا نہیں کما سکتا جتنا عربی پڑھ کر، وہاں اسے جو عہدے و منصب ملیں گے، اور وہاں سکہ کی قیمت میں جو تفاوت و فرق ہے، تو ایسا معلوم ہو گا کہ سونے کی چڑیا ہاتھ میں آ گئی، اور وہ کہیں سے کہیں پہنچ گیا، یہ بہت بڑی ناقدری ہے اس علم کی، اور بڑی زیادتی، ناشکری ہے مدارس کے قائم کرنے والوں کی، اور انرجی(Energy) و محنتیں صرف کرنے والوں کی۔

            اس سے زیادہ میں اس وقت کچھ نہیں کہہ سکتا، اور پھر کوئی گنجائش بھی نہیں ، بہت سی وہ باتیں جو اس وقت کہنے کی ہیں ، جو اس امت اور نئی نسل کے لیے بڑی خطرہ کی ہیں ، ان کی طرف ہمارے عزیز نے اپنی تحریر میں اشارات کر دیے ہیں ، میں آخر میں پھر اپنے اس تأثر کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور میں اپنی خوشی کو چھپا نہیں سکتا کہ میرے قیاس اور میرے تصور سے بہت مختلف اور بہت بلند تر یہ نمونہ سامنے آیا ، میں تو سمجھا تھا کہ ایک مدرسہ ہو گا، چہار دیواری ہو گی، وہاں جا کر اساتذہ سے ملاقات ہو جائے گی، مصافحہ ہو جائے گا، ہم دیکھ لیں گے کہ یہ ہے’’ المعہد الاسلامی‘‘، جس کا ندوۃ العلماء او ر وہاں کے لوگوں سے بھی رشتہ و تعلق ہے، اتنے بڑے مجمع اور ایسے جلسہ کا تو ذہن میں تصور تھا ہی نہیں ، اور اچھا ہے کہ تھا نہیں ، ورنہ وہیں سے ڈر شروع ہو جاتا، اس لیے کہ میں اتنا تھکا ہوا تھا، اور اس وقت کچھ اپنی صحت کی وجہ سے ، کچھ مشغولیت کی وجہ سے اتنا خستہ ہوں کہ شاید کوشش کرتا کہ معذرت کر دوں ، مگر یہ اچھا کیا کہ مجھ سے یہ بات چھپائی گئی، اور اچانک مجھے آپ کو خطاب کرنا پڑا۔

               اس ادارہ کی قدر کیجیے

            بہرکیف، آپ حضرات اس ادارہ کی قدر کیجیے، اس وقت ہمارے تمام مدارس میں نصاب تعلیم کے ساتھ ، نصاب تعلیم پر میں اس وقت کچھ نہیں کہوں گا، جس کے جیسے تجربے ہوں ، حالات ہوں ، زمانہ شناسی، اور اس کے خطرات کو سمجھنا اور اس لٹریچر کا مطالعہ کرنا ، خواہ اس وقت کے ذرائع ابلاغ سے ملتا ہو، اور چاہے وہ کتب خانوں کے اندر محفوظ ہوں ، ان سے واقف ہوں ، ان کے ذریعہ سے مخالف اسلام طاقتوں کے ارادوں اور منصوبوں کا سمجھنا، ان کو اپنے اندر پیدا کرنا یہ ہمارے تمام مدارس میں ہو، اور یہ بھی حقیقت میں نصاب کا ایک جزو ہے، اور جزوی ہی نہیں بلکہ پورے نصاب پر اس فکر کو، اس عزم کو حاوی ہونا چاہیے۔

            خدا کا شکر ہے کہ مجھے اندازہ ہوا کہ یہ چیز یہاں اس ادارہ کے لیے کوئی نئی نہیں ، اور میں اس کی دعوت نہیں دے رہا ہوں ، بلکہ اس طرز پر سوچا جا رہا ہے اور سوچاجاچکا ہے، اور یہ چیز ذہن میں ہے، اللہ تعالیٰ اس کو کامیاب کرے، آخر میں یہ ضرور کہوں گا کہ اس معہد کو ایک اضافہ اور ایک مددورسد سمجھا جائے، اس کے اندر رقابت کا جذبہ، نیز نبرد آزمائی یا مقابلہ آرائی، اس کا بالکل ذہن نہیں ہونا چاہیے، ہمیں تمام قدیم مدارس کا احترام کرنا چاہیے، ان کے بانیوں کا ممنون ہونا چاہیے، ان کے لیے دعائے خیر کرنی چاہیے، ایصال ثواب کرنا چاہیے، ان کے لیے دل میں بڑے احترام کا مقام رکھنا چاہیے، بہت صفائی سے کہتا ہوں کہ خیال بھی نہ آئے کہ ہم مظاہر علوم یا دارالعلوم کے مقابلہ میں ایک درس گاہ قائم کر رہے ہیں ، اور وہ وقت آئے گا کہ جب یہ درس گاہ اس خطہ پر حاوی ہو جائے گی، یہ نیت کی خرابی ہے، اخلاص کی کمی ہے، اور اس کے ساتھ اللہ کی مدد نہیں ہے، آپ ان کا اعتراف کریں ، اعتراف ہی نہیں احترام کریں ، اور ان کو جتنا تعاون آپ دے سکتے ہوں دیں ، اور ان کو یہ محسوس کرائیں کہ یہ امتداد ہے درحقیقت، استحصال نہیں ، ان مدارس کے بانیوں کے ارادوں اور عزائم کا یہ ایک امتداد ہے کہ وہ اب یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ پہلے مظاہر علوم اور دارالعلوم کی عمارت وہاں تک تھی، اب وہ یہاں تک پہنچ گئی ہے، یہ بھی انہیں کا ایک رواق ہے، ایک دار الاقامہ ہے، ان کا ایک کتب خانہ ہے یا ان کا ایک فکری گوشہ ہے، یہی دارالعلوم و مظاہر علوم کو محسوس ہونا چاہیے، بالکل اس کی گنجائش نہیں ہے کہ مدارس کا ٹکراؤ ہو، بلکہ مجھے تو زبان میرا ساتھ نہیں دیتی ، کسی مدرسہ کا تقسیم ہو جا نا یا اس کے دو حصے ہو جانا کسی طرح گوارا نہیں ، اور اس کی دل پر ایسی چوٹ ہے جسے میرا اللہ ہی جانتا ہے، میں اس کی گنجائش نہیں سمجھتا کہ کسی قسم کا استحصال ہو یا کسی قسم کی صف آرائی اور تجزیہ ہو، بلکہ سب کا ایک مقصد ہو، ایک میدان عمل ہو، کام کے اعتبار سے یقیناً تھوڑا بہت فرق ہو گا، لیکن کسی قسم کی محاذ آرائی یا مسابقت کہ ہم ان سے زیادہ وسائل حاصل کر لیں ، اور لوگوں کو متوجہ کر لیں ، یہ سب نیت کی خرابی کی بات ہے، ہاں دین کی خدمت میں پورا تعاون ہو، باہمی اعتماد ، احترام اور ایک دوسرے کی رفاقت ہو، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق مرحمت فرمائے، اور اس ادارہ سے کام لے جو اس وقت کا اہم تقاضا ہے، اور جو اسلام کی اس وقت ضرورت ہے ، مسلمانوں کی ضرورت ہے، اور دعا ہے کہ یہ ادارہ خالص ایجابی، تعمیری، دعوتی کام کرے۔

            وما ذلک علی اﷲ بعزیز۔

انتہی۔

٭٭٭

 

نیا خون

ناشر:شعبۂ دعوت و ارشاد، ندوۃ العلماء، لکھنؤ

سن اشاعت: 2008ء

بشکریہ

www.abulhasanalinadwi.org

 

نحمده ونصلي على رسولہ الكريم، أما بعد!

کوئی جسم اس وقت تک تندرست و توانا نہیں رہ سکتا جب تک اس میں نئے اور صاف خون کی تولید نہ ہوتی رہتی ہو، کوئی درخت اس وقت تک شاداب نہیں رہ سکتا جب تک اس میں نئی نئی پتیاں اور کونپلیں نہ نکلتی رہتی ہوں ، امت مسلمہ بھی ایک جسم ہے جس کو ہر دور میں نئے خون کی ضرورت ہے ، اس درخت کو بھی ہر موسم میں ہری بھری شاخوں اور نئی نئی پتیوں کی ضرورت ہے۔

امت مسلمہ کا سدا بہار درخت ہمیشہ نئی نئی پتیاں اور ہری بھری ڈالیں پیدا کرتا رہا، اور لباس بدلتا رہا، دماغی صلاحیتوں ، سماجی قوت و نشاط، خاندانی ونسلی جوہر و صفات، آبائی شرافت، فطری مردانگی و شجاعت کے بڑے بڑے ذخیرے جو اپنی اپنی جگہ صدیوں سے جمع ہو رہے تھے، اور حقیر حقیر چیزوں اور پست مقاصد میں ضائع ہو رہے تھے، اسلام کے ذریعہ اس امت کی طرف منتقل ہوتے رہے، اور اسلام کے کام آتے رہے، باغ باغ کے پھول اور چمن چمن کے شگوفے اس امت کے گلدستہ میں نظر آتے ہیں ، اور اپنی بہار دکھاتے ہیں ، کوئی ایران کا ہے کوئی خراسان کا، کوئی یمن کا ہے کوئی بدخشاں کا، کوئی مصر کا ہے کوئی اصفہان کا، ہر ایک اپنا خاص رنگ اور اپنے ملک اور قوم کا اور اپنی نسل و خاندان کا اصلی جوہر جو دوسرے ملک و قوم میں نایاب یا کمیاب تھے، اپنے ساتھ لایا اور اسلام کی نذر کیا، اس طرح انسانیت کے چمن کے بہترین پھول اور پھل اسلام کے لیے ڈالی میں لگ کر آئے، اب اسلام صرف نسل عرب اور ان میں سے بھی تنہا خاندان بنی عدنان کے موروثی صفات و کمالات کا مالک نہ تھا، بلکہ پوری دنیا کی دماغی صلاحیتوں ، فطری شرافتوں اور قومی خصوصیتوں کا سرمایہ رکھتا تھا، اس لیے کوئی ایک قوم یا نسل خواہ وہ کتنی ہی فائق ہو دماغی یا جسمانی حیثیت سے اس کے ساتھ ایک ترازو میں تل نہیں سکتی تھی، اس کے اندر ساری قوموں کا وزن اور اس کے جسم میں دنیا کی تمام نسلوں کا ست آ گیا تھا، وہ انسانیت کا جوہر تھا اور نوع انسانی کی طاقتوں کا سب سے بڑا خزانہ۔

رسول اﷲ ﷺ نے نسل و قومیت کے پرستاروں اور اپنی قوم کو خدا کی منتخب قوم سمجھنے والوں کے بالکل برخلاف اس حقیقت کا اعلان فرمایا ہے کہ خدا کی بخشش اور جسم و دماغ، عقل و ادراک، فہم وفراست، شرافت و نجابت اور جواں مردی و شجاعت کے فطری عطیے کسی قوم ونسل کے ساتھ مخصوص نہیں ، فطرت کا یہ سرمایہ نوع انسانی میں بہت پھیلا ہوا ہے، ذہانت و ذکاوت، مروت و شرافت، قوت و شجاعت، خدا کی مخلوق میں پوری فیاضی سے تقسیم ہوئی ہے، اس پر کسی ایک قوم یا خاندان کا اجارہ نہیں ۔

جس طرح سونے چاندی کی کانیں دنیا کے بہت سے ملکوں میں پائی جاتی ہیں ، اور یہ انسانوں کے بس کی بات نہیں کہ ان کو اپنے محبوب وطن اور اپنے مقدس ملک کے ساتھ مخصوص کر دیں ، اسی طرح جوہر انسانیت کی کانیں اور انسانی صفات و کمالات کے دفینے بہت سے ملکوں میں پائے جاتے ہیں ، "الناس معادن كمعادن الذهب والفضة”، "انسان بھی اعلیٰ صفات اور قابلیتوں کی کانیں ہیں جیسے سونے چاندی کی کانیں ہوتی ہیں "، ویسی ہی قدیم جو ہزاروں برس سے چلی آ رہی ہیں ، ویسی ہی فطری جس میں انسان کی صفت کو دخل نہیں ، ویسی ہی بھرپور اور بیش قیمت جو پورے پورے ملک اور انسانی حد بندیوں سے بے نیاز ہیں ، ویسی ہی مخفی جو بغیر خدمت و محنت اور تہذیب و تنظیم کے مٹی میں ملی ہوئی ہیں ، ویسی ہی کھری اور اصلی، اپنی قیمت اپنے ساتھ رکھنے والی، جو ہر بازار اور ہر صرافہ میں موتیوں کے تول تلیں اور سونے کے مول بکیں ۔

اس میں نہ عقیدہ کا اختلاف حارج ہے نہ مذہب و ملت کا فرق، سونا سونا ہے اگرچہ کافر کے ہاتھ میں ہو یا مومن کے ہاتھ میں ، ہیرے کے دام ایک ہیں اگرچہ جوہری میلا کچیلا اور بد اخلاق ہو یا صاف ستھرا اور مہذب، گوہر شب چراغ بڑھیا کے جھونپڑے اور بادشاہ کے محل دونوں کو روشن کرسکتا ہے، "فخيارهم في الجاهلية خيارهم في الإسلام”، جو جاہلیت میں اپنے ذہن و ذکاوت اور فہم و فراست میں ممتاز تھا وہ اسلام میں بھی ان چیزوں میں ممتاز رہے گا، جو جاہلیت میں حمیت و غیرت اور قوت و شجاعت میں امتیاز رکھتا تھا وہ اسلام میں بھی ان کمالات میں ممتاز رہے گا، اور میدان جہاد میں دوسروں سے سبقت لے جائے گا، البتہ اس کی ضرورت ہے کہ جاہلیت کی ان صفات میں اسلام توازن و اعتدال اور نظم و تہذیب پیدا کر دے، سونا بہرحال سونا ہے لیکن بازار میں جانے سے پہلے ضرورت ہے کہ اس کو مٹی سے صاف کر کے اور گڑھ کر اور چمکا کر اس کو زیور بنانے کے کام کا بنا دیا جائے "فخيارهم في الجاهلية خيارهم في الإسلام إذا فقهوا في الدين””جو ان میں سے جاہلیت میں سب سے بہترین تھے اسلام میں بھی سب سےبہتر رہیں گے، بشرطیکہ انھیں دین میں درجۂ فقاہت (جس کا لازمی نتیجہ اعتدال و تہذیب و اشیاء کا صحیح تناسب معلوم ہونا ہے) حاصل ہو جائے۔”

اسلام کی ابتدائی تاریخ اس حکمت نبویؐ کی پوری تصدیق کرتی ہے، سیدنا ابوبکرؓ اسلام سے پہلے بھی سچائی، نرم دلی، معاملہ فہمی اور اپنی سلامت روی میں ممتاز تھے، اسلام نے ان اوصاف کو اور چمکایا اور ان کو "صدّیق” بنا دیا، آنکھوں میں نمی اور دل میں محبت کی گرمی پہلے سے موجود تھی، رسول اﷲ ﷺ کی محبوبیت نے اسی محبت کو ٹھکانے لگا دیا، پروانہ حیران تھا اور اس کو اپنی حیرانی کی خود خبر نہ تھی، شمع نے اس کو نثار ہونا اور جلنا سکھا دیا، حضرت عمرؓ دلیر تھے، بیباک تھے، طبیعت کے جری اور ارادہ کے قوی تھے، پورے مکہ کو اس کا علم تھا، لیکن اس شجاعت و دلیری کو کوئی بڑا میدان نہیں ملتا تھا، اسلام کو ایک دلیر کی ضرورت تھی جو کفار کے بیچ میں اﷲ کی یکتائی اور رسول اﷲﷺ کی رسالت کا اعلان کرے، حضرت عمرؓ کی فطری دلیری کو ایک شایان شان میدان کی ضرورت تھی، رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کی دعائے مقبول اور اﷲ کی توفیق نے ان دونوں میں رشتہ قائم کر دیا۔

عمرؓ اسلام میں آئے تھے تو اپنی شجاعت و دلیری اپنے ساتھ لائے تھے، اسلام نے اس کا اعتراف کیا، رسول اﷲﷺ نے ا س کی قدر کی اور اس کو اپنی اصلی جگہ بتائی، حضرت عمرؓ نے اس کو ٹھیک جگہ پر صرف کر کے روم  و ایران کی شہنشاہیوں کو اسلام کے قدموں پر جھکا دیا، وہ جاہلیت میں شجاع و دلیر تھے، اسلام میں بھی شجاع و دلیر تھے، اور ایساہی ہونا چاہیے، "فخيارهم في الجاهلية خيارهم في الإسلام”․

اسی بناء پر جب فتنۂ ارتداد کے موقع پر انھوں نے مانعین زکوٰۃ سے جہاد کرنے میں احتیاط کا مشورہ دیا تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: "أجبار في الجاهلية وخوار في الإسلام” (جاہلیت میں اتنے زوردار تھے، اسلام میں اتنے کمزور ہو؟)، لیکن یہ ایک عارضی صورت تھی، وہ فطرت کی نمود نہ تھی، تربیت و احتیاط کی نمود تھی، بہت جلد عمرؓ اپنی فطرت اصلی پر آ گئے اور پھر کسی نے ان میں کمزوری نہ دیکھی۔ حضرت خالدؓ فطری سپہ سالار تھے اور جنگ کے فن میں مجتہدانہ درجہ رکھتے تھے، ان کی قائدانہ قابلیت، حاضر دماغی اور سوجھ بوجھ ہر جگہ اپنا کام کرتی تھی، میدان اُحُدؔ میں ان کی موقع شناسی اور ذہانت نے میدان جنگ کا نقشہ بدل دیا، وہ اسلام میں آئے تو اپنی جنگی قابلیتوں ، فطری مناسبتوں اور میدانی تجربوں کو لے کر آئے، اسلام نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا، رسول اﷲ ﷺ نے "سیف اﷲ” کا خطاب دے کر ان کے اس کمال کا رتبہ بلند کیا، اور اسلام نے قریش کے مقامی قائد کو دنیا کی سب سے بڑی فاتح سپاہ کا قائد اور یرموک کا فاتح بنا دیا۔ عکرمہؓ ابن ابی جہل کو عربی نخوت خون میں اور ضد و انکار نامور باپ کی میراث میں ملا تھا، پہلے یہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور اسلام کے مقابلہ میں صرف ہوتا تھا، جب زندگی کا رخ بدلا تو اس کا میدان بھی بدل گیا، یرموک کے میدان میں جب بڑے بڑے شیروں کے پاؤں اکھڑنے لگے اور دشمن کا ریلا آیا تو انھوں نے للکار کر کہا کہ عقل کے دشمنو! میں تو وہ ہوں جو اس وقت تک رسول کے مقابلہ سے پیچھے نہیں ہٹا جب تک حق سمجھ میں نہیں آیا، کیا اب اسلام کے بعد تمہارے مقابلہ سے منہ موڑوں گا؟ یہ کہہ کر آگے بڑھے اور جان دے دی، جاہلیت کا اَڑ جانے والا اور پہاڑ کی طرح جم جانے والا انسان نئے حریف کے مقابلہ میں بھی پہاڑ کی طرح جما رہا، حضرت سلمان فارسیؓ اور حضرت عبد اﷲؓ بن سلام تعلیم یافتہ قوموں کے افراد تھے، جو علمی و کتابی باتوں اور اصطلاحات سے آشنا تھے، جب اسلام میں آئے تو اسی علمی مناسبت کے ساتھ آئے، اور دین کے بہت سے علمی حصوں کو سمجھنے میں ان کو دوسروں سے زیادہ آسانی ہوئی، یہ ہزاروں مثالوں میں سے فطری صلاحیتوں کے تسلسل و تاثیر کی چند مثالیں ہیں ۔

بعثت کے وقت ایران و روم ، مصر و ہندوستان اپنے خاص ذہنی ونسلی امتیازات رکھتے تھے، کفر و شرک کے یہ معنی نہیں کہ یہ شاداب و مردم خیز ملک ہر صلاحیت سے محروم اور ہر کمال سے تہی دامن تھے، ایران نظم ونسق کی قابلیت اور تجربوں میں امتیاز رکھتا تھا، فنون لطیفہ کی ترقی نے اس میں ایک نزاکت اور لطافت پیدا کر دی تھی، ایرانی عالموں اور مصنفوں اور نوشیروان عادل کی علمی سرپرستی اور تراجم نے اس میں علمی مذاق پیدا کر دیا تھا، ساسانیوں کی طویل سلطنت نے اس کو ملکی تنظیم، زمینوں کے بندوبست اور مالیات کا تجربہ بخشا تھا، بازنطینی جو یونان و روم دونوں کے علمی و تہذیبی وسیاسی ترکہ کے وارث تھے، علمی انداز فکر، ترتیب ذہن اور عسکری زندگی میں ممتاز تھے، مصری کاشتکاری اور تجارت کا وسیع تجربہ رکھتے تھے اور ان میں مذہبی شغف اور اس کے لیے قربانی کا ایسا جذبہ تھا کہ انھوں نے رومی سلطنت کے بنوفیشی مذہب اور اس کے جبر واستبداد کا برسوں مقابلہ کیا تھا۔

ہندوستانی اپنی حسابی قابلیت، مالی انتظام اور وفاداری میں ممتاز تھے، مسلمانوں نے ان سب ملکوں کے انسانی خزانوں سے پوری فراخدلی سے فائدہ اٹھایا، اور ان کے امتیازات و کمالات کو اسلام کے راستہ سے اپنے کام میں لگایا، ایرانی و رومی نو مسلموں نے یا نومسلم خاندانوں کے فرزندوں نے اپنی ذہانت سے علم کی ترقی اور فقہ کی تدوین میں حصہ لیا، سلطنت میں دفتری نظم ونسق قائم کرنے اور مالیات کے شعبوں کے بندوبست میں مدد دی، اور تجربہ کار منتظم فراہم کیے، مصریوں نے زمینوں کی کاشت کی اور تجارت و صنعت کو فروغ دیا۔

ہندوستان نے بصرہ و بغداد کو امانتدار اور تجربہ کار محاسب، خازن اور منیب دیے، تیسری صدی کے نصف میں جاحظ نے لکھا ہے کہ عراق کے بڑے بڑے شہروں میں بڑے تاجروں اور دولتمندوں کے منشی اور منیب عموماً سندھی ہیں ، اس طرح ان قوموں کی قابلیتیں اور تجربے اسلام کی طرف منتقل ہو کر اسلام کی قوت اور مسلمانوں کی اعانت کا سبب بنے، اگر عرب اپنی قوم میں ان فنون کو پیدا کرنے کے درپے ہوتے اور اس کا انتظار کرتے، اور اسلام ان کے لیے ایسے تیار شدہ آدمی فراہم نہ کر دیتا تو اس میں بڑا وقت لگتا، اور پھر بھی اس میں شبہ ہے کہ ان کو ایسے کامل الفن اتنی جلدی ہاتھ لگتے۔

اسلام کا پیغام ایک ابدی پیغام ہے، جو کسی نسل و قوم کے ساتھ مخصوص نہیں ، اور قومیں اور نسلیں اس کے لیے لباس کی حیثیت رکھتی ہیں ، جب ایک لباس بوسیدہ اور ناکارہ ہو جاتا ہے تو وہ ایک نیا ملبوس زیب بدن کر لیتا ہے، دنیا کی کوئی قوم، کوئی نسل، اور کوئی خاندان ایسا نہیں جس میں نمو اور شادابی ہمیشہ رہے، اور جس کی زندگی و توانائی یکساں طور پر قائم رہے، قوموں اور نسلوں کی بھی ایک عمر طبعی ہوتی ہے، ان کی جوانی اور بڑھاپا ہے، اشخاص کی طرح قوموں اور سلطنتوں کا بڑھاپا دور نہیں ہوتا، لیکن کبھی بعض نامعلوم اسباب کی بناء پر کسی قوم اور نسل میں اضمحلال اور تکان کے آثار وقت سے پہلے نمودار ہو جاتے ہیں ، اس کی زندگی کے سوتے خشک ہو جاتے ہیں ، نئے خون کی تولید بند ہو جاتی ہے، اور اس کی ہر چیز سے بوسیدگی اور کمزوری ٹپکتی ہے، حالات کے مقابلہ کی قوت، حق کے راستہ میں جہاد و قربانی کی ہمت، باہمی اتحاد و الفت اور دشمن کے خلاف جوش و حمیت اور اس کی طبعی عداوت و نفرت جو زندگی کی علامتیں ہیں ، مفقود ہو جاتی ہیں ، اس وقت وہ کسی ایسے کام اور پیغام کے لائق نہیں رہتی جو ہمت اور عزیمت، اور قلبی، روحانی اور ذہنی قوت کا طالب ہے، اسلام کو ابتدائی زمانہ سے جب کبھی ایسی صورت حال سے سابقہ پڑا، اور اسلام کے علمبرداروں میں جب ناکارگی اور میدان سے فرار کی علامتیں ظاہر ہونے لگیں ، فوراً اﷲ تعالیٰ نے اس کی خدمت کے لیے ایک تازہ دم جوان ہمت قوم کو آمادہ کر دیا، جس نے اس کا گرتا ہوا علم سنبھال لیا، اس قوم یا جماعت میں ایمانی زندگی کی سب علامتیں پائی جاتی تھیں ۔

﴿يُّحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّوْنَهٗۤ١ۙ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِيْنَ١ٞيُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ لَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىِٕمٍ١ؕ ﴾ [المائدۃ:54]

اﷲ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اﷲ سے، اہل ایمان کے حق میں نرم، کافروں پر سخت ہیں ، اﷲ کے راستہ میں جہاد کرتے ہیں ، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے۔

یہ درحقیقت لباس کی تبدیلی تھی، عالمگیر اور زندہ جاوید اسلام اس کے لیے مجبور نہیں ہے کہ وہ ایک بوسید اور ناکارہ لباس ہی میں ملبوس رہے اور چیتھڑے ہی بدن پر لگائے رہے، "إن الله يرفع بهذا الكتاب أقواما ويضع به آخرين”[مسلم](اﷲ تعالیٰ اس کتاب (قرآن) کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو رفعت دیتا ہے اور (جو اس کو چھوڑ دیں ) گراتا ہے)۔

جب اسلام کے ابتدائی حاملین عربوں میں ضعف و اضمحلال پیدا ہوا، اسلام سے بے تعلقی اور جہاد و سرفروشی میں انحطاط اور دنیا میں انہماک ظاہر ہوا تو اﷲ تعالیٰ نے اسلام کی خدمت اور اسلام کا علم جہاد بلند کرنے کے لیے عجمی نسلوں کے افراد اور جدید الاسلام خاندانوں کے فرزندوں کو تیار کر دیا، جو اسلامی حمیت، جذبہ جہاد، شوق شہادت اور رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ اپنے عشق میں صحیح النسب سادات و شیوخ سے بڑھے ہوئے تھے، جب یورپ سے صلیبی حملہ آوروں کی یلغار ہوئی اور فلسطین و شام اور عربی ممالک بالعموم خطرہ میں پڑ گئے، گستاخ اور شوخ نگاہیں حرم نبویؐ کی طرف بھی اٹھیں ، اور بیباک اور ناپاک زبانوں نے گستاخانہ کلمات نکالے، تو اسلام کی عزت بچانے اور ناموس رسولؐ کی حفاظت کے لیے جو جواں مرد میدان میں آئے، ان میں سے ایک زنگی تھا اور ایک کرد (روحی فداہما) سلطان نورالدین شہیدؒ اور سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے نہ صرف اسلام کی عزت بچا لی، بلکہ یورپ پر اسلام کی دھاک بٹھا دی، گستاخ پرسن کو اپنے ہاتھ سے قتل کرتے ہوئے سلطان نے ایمان و عشق میں ڈوبے ہوئے جو کلمات کہے : "اَلْیَوْمَ أَنْتَصِرُ لِمُحَمَّدٍ صَلّٰی اﷲُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ․”(آج میں اپنے ہاتھوں سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا انتقام لیتا ہوں )۔

وہ ایک بڑے سے بڑے ہاشمی، صدیقی، فاروقی کے لیے بھی طرۂ افتخار اور وسیلۂ نجات ہیں ، آج کون ہاشمی ہے جو ا س پر سو جان سے قربان نہ ہو، جس نے بارگاہ رسالتؐ کی شان میں بے ادبی کرنے والے کو عشق و محبت میں مخمور ہو کر بھرپور ہاتھ سے قتل کیا، کون ہے جو اپنے ایمان کو اس کرد کے ایمان کے ساتھ تلوانے کے لیے تیار ہو، جس کے بزرگ چند ہی پشت اوپر کردستان کی جہالت و ظلمت میں گم ہو جاتے ہیں ، اور پھر ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔

پھر جب عباسیوں کو اپنے عیش و عشرت سے فرصت نہ ہوئی تو اسلام کی شوکت و عظمت کی حفاظت کے لیے سلجوقیوں کو تیار کر دیا گیا جنھوں نے ایک صدی کے قریب یورپ میں علم جہاد بلند رکھا، اور نظامیۂ بغداد اور مدرسۂ نیشاپور کے ذریعہ نبی عربی ﷺ کے علم کے دریا بہائے، پھر جب عباسیوں کے درخت اقبال کو گھن کھا گیا اور تاتاری حملہ نے اس کو جڑ سے اکھیڑ دیا تو جنھوں نے رسول اﷲ ﷺ کے چچا کے فرزندوں کا خون بہایا تھا وہ اس کے غلاموں کی صف میں داخل ہو گئے، یہ سب اسلام کے سدا بہار درخت کی نئی پتیاں اور شگوفے تھے، جنھوں نے اس کی سرسبزی قائم رکھی، پھر جب مشرق کی تمام پرانی مسلمان قوموں پر عالمگیر اضمحلال طاری ہو گیا اور زندگی کی کوئی چنگاری کہیں باقی نہیں رہی، تو اﷲ تعالیٰ نے مغرب میں اسلام کا ایک شعلہ جوالہ پیدا کیا، جس نے صدیوں یورپ کی مرضی کے بالکل خلاف اسلام کا علم بلند رکھا، یہ عثمانی حضرت عثمانؓ کی اولاد میں نہ تھے، مگر قرآن کی خدمت و اشاعت اور فتوحات کی وسعت میں ان کو حضرت عثمانؓ سے روحانی نسبت ہے۔

نومسلم قوموں اور نومسلم خاندانوں اور لاکھوں کی تعداد میں ان نومسلم افراد کو کہاں تک گنایا جا سکتا ہے، جنھوں نے امت مسلمہ کے جسم میں صالح اور طاقتور خون پہنچایا، جنھوں نے اپنی فکری صلاحیت اور نسلی ذکاوت اور قومی شجاعت سے مسلمانوں میں کبھی اجتہاد اور کبھی جہاد کی روح پھونکی، اسلامی کتب خانہ میں گرانقدر اضافے کیے، فکر و نظر کی نئی نئی راہیں نکالیں ، قرآن مجید کی تفسیریں لکھیں ، حدیث کی شرحیں کیں ، فقہ کے مجموعے مرتب کیے، یہ نیشاپوری اور ابوالسعود ترکی کون ہیں جن کی تفسیریں حلقۂ درس کی زینت ہیں ؟، یہ بیضاوی کے محشی شیخ زادہ اور سیالکوٹی کون ہیں ؟ یہ حدیث کے خادموں میں زیلعی، بن الترکمانی کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں ؟ فقہ کا طالب علم مرغینانی صاحب ہدایہ اور تاتارخانی صاحب فتاویٰ کو کیسے بھول سکتا ہے؟ یہ سب کیا تھا؟ اسلام کی علمی و ذہنی فتوحات، اور امت مسلمہ کے جسم میں نئے اور تازہ خون کی تولید!!۔

آخر آخر دور تک اسلام کی فتح وتسخیر کا کام جاری رہا، اور اس خزانہ میں نئے نئے سکوں کی آمد ہوتی رہی، ہمارے ملک ہندوستان میں جہاں اسلام کی تبلیغ اور تاثیر عرصۂ دراز سے بہت کمزور ہے، اسلام خود ہی بہت سے جیتے جاگتے اشخاص، روشن دماغ اور گرم دل، بلند نظر افراد کو کھینچتا رہا، اور اپنی محبت سے گھائل کرتا رہا، جن کی نظیر افسردہ، پژمردہ، کم نگاہ و بے یقین مسلمانوں میں نہیں ملتی، انھوں نے مسلمانوں میں زندگی کی نئی روح پھونک دی، ان میں اسلام کی صداقت پر تازہ یقین پیدا کر دیا، دماغوں کو اپنے علم سے روشن اور دلوں کو اپنے عشق کی حرارت سے گرما دیا، دور کیوں جائیے، کتنے خاندانی مسلمان اس عشق کا دعویٰ کرسکتے ہیں جو عشق اقبالؔ کو رسول اللہﷺ سے ہے؟ یہی عشق و تعلق ہے جو اس کی زبان سے یہ شعر نکلواتا ہے ؂

تو اگر بینی حسابم ناگزیر

از نگاہِ مصطفی پنہاں بگیر

اور یہ اشعار اس کی زبان پر آتے ہیں ؂

درد دل مسلم مقام مصطفی است

آبروئے ما زنام مصطفی است

خاک یثرب از دوعالم خوشتر است

اے خنک شہرے کہ آنجا دلبر است

وہ کبھی وجد میں آ کر کہنے لگتا ہے ؂

عجب کیا گر مہ و پرویں مرے نخچیر بن جائیں

کہ بر فتراک صاحب دولتے بستم سر خود را

وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے

غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر

وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طاہا

اسی تعلق نے اس کو دانش فرنگ سے مسحور ہونے سے بچایا ؂

خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہ دانش فرنگ

سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ آخر زمانہ میں یہ حال ہو گیا تھا کہ مدینہ کا کسی نے نام لیا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، کتنے قریشی و ہاشمی اس برہمن زادہ کے ذاتِ نبویؐ سے عشق و تعلق میں ہمسری کا دعویٰ کرسکتے ہیں ؟

پھر اسلام کی صداقت اور رسول اﷲ ﷺ کی امامت پر ایسا غیر متزلزل یقین ہے کہ بجا طور پر ایک فلسفہ زدہ سید زادہ کو خطاب کر کے کہتا ہے ؂

میں اصل کا خاص سومناتی

آباء میرے لاتی و مناتی

تو سید ہاشمی کی اولاد

میری کف خاک برہمن زاد

ہے فلسفہ میرے آب و گل میں

پوشیدہ ہے ریشہ ہائے دل میں

اقبالؔ اگرچہ بے ہنر ہے

اس کی رگ رگ سے باخبر ہے

دین مسلک زندگی کی تقویم

دین سرِّ محمدؐ و ابراہیمؑ

دل در سخن محمدیؐ بند

اے پور علیؓ زبوعلی چند

چوں دیدۂ راہ بیں نہ داری

قائد قرشی بہ از بخاری

کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ سپرخاندان کے ایک کشمیری برہمن زادہ کا کلام ہے؟ اور کیا آج سادات و شیوخ کے نجیب الطرفین خاندانوں میں جن کے پاس اپنے خاندانی شجرے ہیں ، یہ یقین اور ایمان پایا جاتا ہے؟ ﴿ؕ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ﴾․

پھر اسلام کی حمیت و غیرت میں ، روح اسلام کی ترجمانی میں ، وقت کے فتنوں اور جاہلیت فرنگ کی تشخیص اور قومیت و وطنیت سے نفرت اور تردید میں کتنے اصحاب علم و صلاح اس کا مقابلہ کرسکتے ہیں ؟

ادھر پچھلے برسوں میں چند کتابیں صحیح اسلامی فکر اور مرغوب طرز تحریر واستدلال کا نمونہ پیش کرتی ہیں ، اور اسلام کی کامیاب ترجمانی کا فرض انجام دیتی ہیں ، ان میں آسٹریا کے ایک یہودی النسل جرمن نومسلم محمد اسد کی انگریزی کتاب (Islam at the cross road) بھی ہے، یہ سب اسلام کی تازہ علمی و ذہنی و اخلاقی فتوحات ہیں جو ہم کو مستقبل کی طرف سے ناامید ہونے سے باز رکھتی ہیں ۔

لیکن عام طور پر مسلمانوں نے فتح وتسخیر کے ان میدانوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لی ہیں جہاں سے ان کو ہمیشہ زندگی کا ابلتا اور جوش مارتا ہوا خون، تازہ دم دماغ، دردمند و پرسوز دل اور متحرک اور برق وش جسم ملتے رہے، مسلمان روز بروز ان میدانوں سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں ، اور قدیم میدانوں کے سوا کسی طرف توجہ نہیں کرتے ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کا رأس المال اور اصل پونجی یہی ہے کہ اس کو کسی حال میں تلف نہیں ہونے دینا چاہیے، لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ جس سرمایہ میں اضافہ اور جس پونجی میں نئی آمد نہ ہو وہ ایک دن ختم ہو جائے گی، ہمیں اس سرمایہ میں اضافہ اور نئی آمدنی کے اسباب و وسائل پر غور ضرور کرتے رہنا چاہیے، پرانے خاندانوں اور نسلوں میں افسردگی اور بوسیدگی اور اسلام کی دوبارہ ترقی اور عروج سے ناامیدی بڑھتی جا رہی ہے، اعصاب ٹھٹھرے جا رہے ہیں ، اعضاء مضمحل ہو رہے ہیں ، قلب روز بروز ضعیف اور دماغ مفلوج ہو رہا ہے، کوئی دینی پیغام، کوئی دینی تحریک، کوئی درد و اخلاص، کوئی علم و حکمت، کوئی شاعری و خطابت اس گروہ میں زندگی نہیں پیدا کر رہی ہے، جو چیزیں قوموں میں جنون کی لہر اور موت کا عشق پیدا کر دیتی ہیں ، وہ ان مسلمانوں کو چونکانے سے بھی قاصر ہیں ، بہت بڑی تعداد ایسی ہے جن کو دین سے اور دین کی راہوں سے، دین کی اصطلاحوں سے، دین کے انعامات سے، دین کی ترغیبات سے کوئی مناسبت، اور اس میں ان کے لیے کوئی کشش نہیں رہی، آخرت خارج از بحث چیز ہے، جنت دوزخ بے معنی الفاظ ہیں ، اس پر دنیا طلبی، زر طلبی اور زمانہ سازی کا طلسم قائم ہے۔﴿اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ﴾[النمل:80]، [سو آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور بہروں کو آواز نہیں سنا سکتے۔]ان کا حال ہے ، بہت سے لوگوں کی علمی صلاحیت محدود ہے، فطری طور پر اور نسلی اثرات صدیوں کے جمود و بے علمی کی وجہ سے، ان کے قویٰ میں اضمحلال اور طبیعت میں حد درجہ افسردگی اور برودت ہے، وہ زندگی کی کشمکش میں حصہ نہیں لے سکتے، اور اسلام کے لیے قربانی اور جدوجہد سے قاصر ہیں ، ایسی حالت میں اگر اسلام کی قسمت ان سست عناصر اقوام و افراد کے ساتھ وابستہ کر دی جائے اور ساری کوشش ان ہی پر منحصر کر دی جائے تو یہ مستقبل کے لیے بڑا خطرہ ہے، ضرورت ہے کہ ان قدیم الاسلام اقوام اور خاندانوں کے دین کی پوری حفاظت اور اس کے لیے انتہائی جدوجہد کے ساتھ نئے نئے میدانوں کی طرف بھی رخ کیا جائے، اور اسلام کی دعوت کو وہاں تک پہنچایا جائے، جس دین نے ناامیدی اور مایوسی کی حالت میں تاتاریوں اور عثمانی ترکوں کو اسلام کا علمبردار اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا وفادار بنایا، اور جو ہمیشہ دنیا کے صنم خانوں سے کعبہ کے لیے پاسبان مہیا کرتا رہا ہو، کیا اب اپنے حریفوں میں سے حلیف اور دین فطرت کا حلقہ بگوش نہیں بنا سکتا؟ ہم جب تک اس کی منظم اور پر جوش کوشش نہ کر لیں ، ہم کو مایوس ہونے اور اس کے خلاف رائے قائم کرنے کا کوئی حق نہیں۔

اسلام کو اس وقت نئے خون، نئی امنگوں ، نئے ولولے اور نئے جوش عمل اور جذبۂ قربانی کی ضرورت ہے، یہ نیا خون، نیا جوش اور قربانی بہت سی جگہ موجود ہے، لیکن پست مقاصد اور غلط میدانوں میں صرف ہو رہا ہے، جو چیز اسلام کے کام نہیں آ رہی ہے وہ صرف ضائع نہیں ہو رہی ہے بلکہ دنیا کی تباہی کا باعث ہو رہی ہے، اسلام کی دعوت ابھی ان گوشوں میں نہیں پہنچی۔

ہمارا فرض ہے کہ ہم اسلام کو ان قوموں اور طبقوں تک پہنچا کر اسلام کی طاقت اور ایمان کی ان کیفیات کا تماشہ دیکھیں جو ہمیں دنیا کی تاریخ میں نومسلموں کی زندگی میں وقتاً فوقتاً نظر آتی ہیں ، ہمیں ان نومسلموں کی زندگی میں اسلام کی صداقت اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت و امامت عالم پر اس درجہ کا یقین، ذاتِ نبویؐ کے ساتھ وہ عشق و شیفتگی، اور اسلام کی برتری کے لیے ایسی جدوجہد اور سرفروشی دیکھنے میں آئے گی جس کے سامنے ہم پشتینی مسلمانوں کو شرم آئے گی، اور جس کی نظیر صدیوں سے دیکھنے میں نہیں آئی ہو گی۔

٭٭٭

 

مذہب یا تہذیب –  کس کی دعوت صحیح ہے؟

ناشر: مکتبہ اسلام، لکھنؤ

سن اشاعت: اپریل 1978ء

بشکریہ

www.abulhasanalinadwi.org

 

آج کل پرانی تہذیبوں کے زندہ کرنے کا شوق ہر ملک اور ہر قوم میں عام ہے، کوئی دو ہزار برس پہلے کی تہذیب کو زندہ کرنا چاہتا ہے، کوئی چار ہزار برس قبل مسیح کے دور کو واپس لانا چاہتا ہے، جن ملکوں کو نئی نئی آزادی ملی ہے وہاں ہر طرف یہی نعرہ ہے کہ اپنے ملک کی ہزاروں سال کی پرانی تہذیب کو زندہ کرنے میں اب کیا رکاوٹ ہے، کہیں اس پر فخر کیا جاتا ہے کہ ہماری تہذیب دنیا کی سب سے پرانی تہذیب ہے، کہیں کہا جا رہا ہے کہ ہماری زبان اور تہذیب کی یہ خصوصیت ہے کہ انھوں نے ہزاروں سال تک بیرونی اثرات قبول نہیں کیے، اور وہ ہزاروں سال پہلے کی شکل و صورت پر قائم ہیں ۔

ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اس جذبہ اور مطالبہ کا محرک اور اس کی بنیاد کیا ہے؟ کیا کسی بہتر نئی زندگی کی تلاش، مٹی ہوئی اور کھوئی ہوئی اخلاقی خوبیوں کی بازیافت، ایک صالح تر نظام زندگی اور ایک بہتر معاشرہ کا احیاء جس میں زیادہ روحانیت و معنویت، امن و اطمینان، سکون قلب، خلوص و محبت، حقوق باہمی کی ادائیگی، خدا ترسی اور احساس ذمہ داری تھا، اور کم سے کم نفسانیت و  خود غرضی، مادیت و  بد اخلاقی، خدا فراموشی و نفس پرستی تھی، ہم جب پرانی تہذیب کو زندہ کرنے کی دعوت و مطالبہ کی علمی تنقید و تحلیل کرتے ہیں ، اور اس دعوت کے علمبرداروں اور پر جوش وکیلوں کی زندگی اور اخلاق کا ان کی دعوت سے مقابلہ کرتے ہیں تو ہم کوبڑی مایوسی ہوتی ہے، ان کی تقریروں اور تحریروں میں اخلاق اور اس کی بنیادوں ، روحانیت اور ایمان و اعتقاد کا سرے سے تذکرہ اور اہمیت نہیں ، محض تمدن کے سطحی مظاہر اور فنون لطیفہ زبان و کلچر کا تذکرہ ہے، جن کو اخلاق و معاشرت سے زیادہ سروکار نہیں ، ان کے ادب میں ہمیں موجودہ مادہ پرست نظام زندگی پر کوئی گہری تنقید اور اس سے بیزاری نظر نہیں آتی، اور نہ زندگی کی ان گہری بنیادوں سے دلچسپی جن پر زندگی کی عمارت تعمیر ہوتی ہے، بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ پرانی تہذیب کے احیاء کی دعوت کے ساتھ ساتھ اس غلط نظام زندگی کے ساتھ جگہ جگہ سازباز کیے ہوئے ہیں ، جا بجا اس کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں ، اور کہیں اس سے انحراف یا بغاوت کرتے نظر نہیں آتے، انھوں نے اسی ڈھنگ پر آئین سازی کا کام جاری رکھا، نظام تعلیم کو اس کی لادینی اور غیر اخلاقی روح کے ساتھ قبول کیا، غیر مذہبی ریاست کا اعلان کیا، مملکت کی ساری تنظیم غیر دینی اور غیر اخلاقی بنیادوں پر کی، مسائل زندگی اور ان کے حل کی کوشش میں بے نظمیوں ، بدعنوانیوں ، رشوت، چور بازاری اور نفع خوری اور دوسری خرابیوں کے دور کرنے میں ان کا ذہن بیسویں صدی کے مادہ پرست مغربی ذہن سے کسی طرح مختلف اور بہتر طریقہ پر سوچنے والا نہیں ، اور کہیں بھی اس گہرے تفکرات کا ثبوت نہیں دیتا جو مشرق کی قدیم مذہبی قوموں کی خصوصیت ہے، مشکلات اور نئی نئی الجھنوں کی وہی تعبیر اور ان کو دور کرنے اور سلجھانے کی وہی اوچھی تدابیر جو یورپ و امریکہ میں سوچی اور آزمائی جاتی ہیں ، نئی کمیٹیوں کی ترتیب، تحقیقاتی کمیشنوں ، انسداد رشوت ستانی کے لیے نئے افسروں کا تقرر، غلہ کی نایابی کے لیے راشننگ قیمتوں کی افزونی کا علاج قیمتوں کا کنڑول وغیرہ وغیرہ، ہم نے یہ کبھی نہیں سنا کہ پرانی تہذیبوں کے قدردانوں اور ویدک تہذیب اور پراچین ہندوستان کے داعیوں کی طرف سے اس کا مطالبہ کیا گیا ہو کہ عوام میں اخلاقی احساس اور مذہبی روح کو بیدار کرنے کی کوشش کی جائے، اور ان میں پرانے زمانے کا ایمان و اعتقاد پیدا کیا جائے، جزا و سزا کے مذہبی عقیدہ اور یقین کو دوبارہ زندہ کیا جائے، جس کے بغیر آدمی جرائم اور بد اخلاقیوں سے اجتناب نہیں کرسکتا، یورپ کے مادی فلسفہ کی تردید کی جائے، دولت پرستی کی بحرانی کیفیت کو جو ساری قوم پر طاری ہو گئی ہے، کم کرنے کی کوشش کی جائے، اخلاق و روحانیت کی منظم و مؤثر طریقہ پر تلقین کی جائے، ہم کہیں اس کا کوئی ذکر و فکر نہیں پاتے، ہر طرف پرانی تہذیب کے ایک مبہم لفظ اور زبان و کلچر کی صدا بلند ہے، جس کے پیچھے نہ کوئی روحانی خواہش ہے نہ کوئی اخلاقی جذبہ۔

اس بنا پر ہم جب تہذیب قدیم کے احیاء کی دعوت کو جانچتے ہیں ، اور اس کے ذہنی و قلبی محرکات کو تلاش کرتے ہیں تو ہم کو ایسا نظر آتا ہے کہ اس کی تہہ میں صرف قوم پرستی اور نسلی غرور کا جذبہ کام کر رہا ہے، یا اس تہذیب کے خلاف رد عمل کا جذبہ جو اس پچھلے ہزار برس میں ہندوستان میں برسر عروج رہی ہے، اور اس کا جرم یہ ہے کہ اس کا بہت سا حصہ ہمالیہ کی دیواروں کے مغربی یا شمالی جانب سے آیا ہے، درحقیقت ان میں سے کوئی چیز بھی کوئی سنجیدگی اور گہرائی نہیں رکھتی، اور محض طفلانہ احساسات اور عامیانہ جذبات پر مبنی ہے، قوم پرستی اور نسلی غرور و تکبر دنیا کے سب سے برے تخریبی عناصر رہے ہیں ، جنھوں نے بار بار سکندر و چنگیز کے لباس میں دنیا کو تہہ و بالا کیا ہے، کسی قدیم تہذیب کے مٹے ہوئے نشانات سے کسی ملک و قوم کی تعمیر نہیں ہوسکتی، تعمیر کے لیے صرف صحیح مذہب کی بنیادیں ہیں جو زندگی کے حدود متعین کر کے زندگی کی پوری وسعت میں اس کی لچک اور اس کی ترقی کو تسلیم  کرنا ہے، اور ان حدود کے اندر زندگی کو پورے طور پر پھلنے پھولنے اور دوڑنے بھاگنے کا حق دینا ہے، خواہ دس ہزار برس کی مقدس تہذیب ہو یا دو ہزار برس کا تمدن، وہ ایک خاص قطع کا لباس ہے جو عصر جدید اور ایک نوخیز قوم کے جسم پر سلامت نہیں رہ سکتا، پرانی تہذیب ہمیں ایک سلا ہوا لباس دیتی ہے، دو ہزار برس قبل مسیح یا چار سو برس بعد مسیح کا لباس بیسویں صدی عیسوی کے جسم پر کس طرح راست آسکتا ہے، مذہب ہمیں لباس کے اصول و حدود عطا کرتا ہے، اور زندگی کی اشیائے خام سے ہمیں سامان تیار کرنے کے اخلاقی ضوابط بخشتا ہے، وہ ایک خاص طرح کی آستین، خاص شکل کا دامن، خاص نمونہ کی کلی، خاص طرز کے تکمے نہیں دیتا، وہ یہ کہتا ہے کہ لباس ساتر (پردہ پوش) ہو، غرور پیدا کرنے والا نہ ہو، اسراف سے محفوظ ہو، تنعم و راحت پسندی کا پیدا کرنے والا نہ ہو، حتی الامکان اس میں سادگی و اعتدال کا لحاظ رکھا گیا ہو، ان حدود کے اندر آپ کو ہر زمانہ، ہر ملک، ہر موسم، اور ہر طرح کے حالات و ضروریات کے لیے لباس تیار کرنے کی پوری آزادی ہے، تہذیب قدیم اصرار کرتی ہے کہ کرتا فلاں نمونہ کا ہو جو دو ہزار برس پہلے فلاں دور میں استعمال ہوا تھا، پائجامہ کی جگہ دھوتی یا لنگوٹ ہو کہ وہ پرکھوں کا شعار ہے، جاڑوں میں کمبل یا رضائی کے علاوہ کچھ استعمال نہ کیا جائے کہ یہ سب چیزیں باہر سے آئی ہیں ، مذیب کو ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں ، اندرون ملک و بیرون ملک، دیس پردیس، قدیم و جدید کی تقسیم اس کے یہاں بے معنی اور فضول ہے، اس کے نزدیک زندگی کے کچھ ہمہ گیر اصول ہیں جو ہر ملک و قوم اور ہر زمانہ کے لیے عام ہیں ، وہ انسانوں سے یہ نہیں کہتا کہ یہ لباس تمہارے دیس کا ہے یہ پردیس کا، تمہارے باپ دادا یہ پہنتے تھے یہ نہیں پہنتے تھے، وہ تمام انسانوں سے کہتا ہے:

﴿يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِيْشًا١ؕ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى ١ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ١ؕ ﴾ [الأعراف:26]

اے آدم کی اولاد! ہم نے تمہارے لیے وہ لباس پیدا کیا ہے جو تم کو برہنگی سے بچائے، اور آرائش کے کپڑے، اور پرہیز گاری کا لباس وہ سب سے بہتر ہے۔

اس کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ فلاں کھانا فلاں ملک کا ہے، اور فلاں پھل کو فلاں قوم نے ترقی دی، فلاں کھانے کی اس لیے سرپرستی کی جائے کہ وہ ہمارے ملک کا قدیم ترین کھانا ہے، اور فلاں قسم کے آداب طعام کا اس لیے مقاطعہ کیا جائے کہ ایک حملہ آور قوم ان کو اپنے ساتھ لائی تھی، وہ صرف یہ کہتا ہے:

﴿ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا١ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَؒ۰۰۳۱ ﴾ [الأعراف:31]

کھاؤ پیو اور بے جا خرچ نہ کرو، اس کو بے جا خرچ کرنے والے پسند نہیں آتے۔

ساری زندگی میں مذہب و تہذیب کا یہی اصولی فرق نظر آئے گا۔

مذہب اصول عطا کرتا ہے، تہذیب بنے بنائے سانچے دیتی ہے، وہ بھی سیکڑوں ہزاروں برس پہلے کے جو اپنی زندگی کھو چکے ہیں ، اور جگہ جگہ سے ٹوٹ چکے ہیں ، مذہب زندگی کو وسیع اور لچکدار بناتا ہے، تہذیب اس کو تنگ اور بے لچک بناتی ہے، مذہب کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کی ہر طرح کی نعمتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، قدیم تہذیب صدہا چیزوں سے محروم کرتی ہے، مذہب کہتا ہے:

﴿قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَةَ اللّٰهِ الَّتِيْۤ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّيِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ١ؕ﴾ [الأعراف:32]

پوچھیے کس نے اﷲ کی پیدا کی ہوئی وہ زینت حرام کی جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی، اور کھانے کی صاف ستھری چیزیں ۔

اور قدیم تہذیب ہر چیز میں اپنا نشان ڈھونڈتی ہے، جہاں اس کو اپنا نشان نہیں ملتا اس کو وہ رد کرتی ہے، یا اس پر ناک بھوں چڑھاتی ہے۔

قدیم تہذیبیں انسانوں کو چھوٹے چھوٹے دائروں میں تقسیم کرتی ہیں ، اور انسانوں کے درمیان ملکوں ، اور ملکوں کے درمیان قوموں ، اور قوموں کے درمیان بلکہ صوبوں اور صوبوں کے درمیان رسوم و عادات کی دیواریں کھڑی کرتی ہیں ، مذہب تمام انسانوں کو ایک طرح کے اصول زندگی، ایک مقصد زندگی، ایک روح زندگی اور پیغام زندگی عطا کرتا ہے، قدیم تہذیبوں کے مطالعہ اور قدیم تاریخ کے اثر سے جو ذہنیت تیار ہوتی ہے وہ قومی عروج اور دور قدیم کے بازگشت کے لیے ناانصافی، تنگ نظری اور ظلم سکھاتی ہے، اس لیے کہ بعض وقت اس کے بغیر اس تہذیبی دور کی واپسی مشکل ہوتی ہے، اس لیے یورپ کی جن قوموں کا ذہنی و سیاسی نشو و نما قدیم تہذیب اور قدیم تاریخ کی بنیاد ہوا وہ بڑی ظالم و مغرور اور بے رحم ثابت ہوئیں ، مذہب کی تعلیم ہے:

﴿ يآَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ١ٞ وَ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْا١ؕ اِعْدِلُوْا١۫ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ١ٞ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۰۰۸ ﴾ [المائدۃ:8]

اے ایمان والو! اﷲ کے واسطے کھڑے ہونے والے، انصاف کی گواہی دینے والے بنو، اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو، انصاف کرو، یہی بات خدا کے خوف و لحاظ سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے، اﷲ سے ڈرتے رہو، اﷲ تمہارے اعمال سے خوب خبردار ہے۔

قدیم تہذیبیں کہتی ہیں آؤ اس دور کی طرف جب ایسے رسم و رواج تھے ، کھانے پینے کا یہ طریقہ تھا، لباس کا یہ طرز تھا، کھانے کے یہ برتن تھے یا فلاں درخت کے پتے تھے، سواری کے لیے رتھ تھے یا بیل گاڑیاں تھیں یا اونٹ تھے، آؤ شدھ سنسکرت کی طرف یا خالص عربی کی طرف یا زبان پہلوی کی طرف۔

مذہب کو ان چیزوں سے کوئی دلچسپی نہیں ، اس کی نظر میں مسائل اہم نہیں ، مقاصد اہم ہیں ، اور وہ روح اور ذہنیت اہم ہے جس کے ساتھ یہ وسائل استعمال کیے جاتے ہیں ، رتھ، بیل گاڑی، اونٹ کی سواری یا ریل، موٹر یا ہوائی جہاز، ان وسائل سفر میں جب جس کی ضرورت ہو اور مقصد سفر کے لیے زیادہ مفید ہو، اس کو اختیار کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کی نگاہ میں ضروری یہ ہے کہ:

﴿لِتَسْتَوٗا عَلٰى ظُهُوْرِهٖ ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ اِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَ تَقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِيْنَۙ۰۰۱۳ وَ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ۠۰۰۱۴ ﴾ [الزخرف:13-14]

تم ان سواریوں پر سوار ہو پھر اﷲ کے احسان کو یاد کرو جب تم ان پر بیٹھ جاؤ، اور کہو کہ پاک ہے اس کی ذات جس نے ہمارے قابو میں ان سواریوں کو دیا، اور یہ ہمارے بس کی تو نہ تھیں ، اور ہم اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں ۔

مذہب کی دعوت یہ نہیں کہ آؤ عبرانی زبان کی طرف، یا عربی یا سنسکرت یا فارسی کی طرف، مذہب کی صاف دعوت سب کے لیے وہی ہے جو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تمام اہل مذہب کو دی۔

﴿ قُلْ يٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۭ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَ لَا نُشْرِكَ بِهٖ شَيْـًٔا وَّ لَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ﴾ [آل عمران:64]

اے اہل کتاب ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ بندگی نہ کریں ہم مگر اﷲ کی، اور شریک نہ ٹھہرائیں اس کا کسی کو، اور ہم میں سے ایک دوسرے کو اﷲ کے علاوہ رب نہ بنائے۔

اس لیے قدیم تہذیبوں کا احیاء انسانیت کے لیے ایک مصیبت اور ایک فتنہ ہے، جو نئی نئی جنگیں اور نئے نئے اختلافات اور نئے مشکلات پیدا کرے گا، صحیح مذہب کی دعوت، پیام رحمت اور انسانیت عامہ کی سب سے بڑی خدمت ہے۔

پھر فرض کیجیے کہ خدا نخواستہ سب قدیم تہذیبیں ، اپنے حامیوں کی خواہش کے مطابق زندہ ہو جائیں ، ہندوستان، یونان، روم، ایران، عرب کی قدیم تہذیبیں دوبارہ واپس آ جائیں تو دنیا میں کیسا فتنہ برپا ہو اور کیا تماشہ دیکھنے میں آئے، ظاہر ہے کہ یہ تہذیبیں زندہ ہوں گی تو اپنے تمام خصوصیات اور محاسن و معائب کے ساتھ زندہ ہوں گی، آپ کو یہ کہنے کا کیا حق ہے کہ فلاں قدیم تہذیب ضرور زندہ ہو، مگر فلاں معائب اور نقائص جو اس کی پوری زندگی میں قائم رہے ہیں زندہ نہ ہوں ، اور آپ کا اس کو اختیار ہی کب ہے؟ ہر تہذیب اپنے تمام مزاجی خصوصیات اور امتیازی صفات کے ساتھ زندہ ہو گی، اب دنیا کا نقشہ کیا ہو گا؟ ہندوستان میں شہوانیت کا دور دورہ ہے، سخت طبقاتی ناانصافی اور چھوت چھات پایا جاتا ہے، عورتیں ستی ہو رہی ہیں ، یونان میں دیویوں کی قربان گاہ پر حیا سوز افعال کیے جا رہے ہیں ، عصمت فروشی ایک معزز و پسندیدہ پیشہ ہے، روم میں غلاموں پر تیل چھڑک کر آگ لگا کر دعوتوں میں روشنی کا انتظام کیا جا رہا ہے، اور اس انسانیت سوز روشنی میں پر تکلف دعوتوں اور شاہانہ ضیافتوں کا انتظام کیا جا رہا ہے، سیانی کے دنگل گرم ہیں ، جہاں ایک انسان دوسرے انسان پر محض لوگوں کی شوق تماش بینی کی تسکین کے لیے تلوار سے حملہ آور ہوتا ہے، اور دیکھتے دیکھتے ایک انسان خاک و خون میں لوٹتا نظر آتا ہے، مجمع اس کی آخری کراہ سننے کے لیے اور نزع کی کیفیت دیکھنے کے لیے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتا ہے، اور پولیس کو انتظام مشکل ہو جاتا ہے، ایران میں آتش پرستی ہو رہی ہے، امراء ایک ایک لاکھ کی صرف ٹوپی پہنے ہوئے ہیں ، اور غرباء سردی میں ٹھٹھر کر مر رہے ہیں ، حقیقی بہن سے نکاح کا دستور ہے، اور ایک طبقہ عورت کو سوسائٹی کی ملکیت عامہ بنانے کا طلبگار ہے، عرب میں معصوم بچیاں دفن کی جا رہی ہیں ، قافلے لٹ رہے ہیں ، بے بات کی بات پر چالیس چالیس برس تک جنگیں جاری رہتی ہیں ، شراب، جوئے اور بد اخلاقی کے عریاں قصوں کو فخریہ اشعار میں بیان کیا جا رہا ہے، اور ان اشعار کو کعبہ میں آویزاں کر کے شاعری کی قدردانی کا ثبوت دیا جا رہا ہے، کیا یہ دنیا کا کچھ اچھا نقشہ ہو گا؟ اور کیا اس بات کے لیے کوئی قانونی و اخلاقی جواز ہے کہ ہندوستان کی چار ہزار برس پہلے کی تہذیب تو ضرور زندہ ہو لیکن ایران و عرب کی ڈیڑھ ہزار برس پہلے کی تہذیبیں زندہ نہ ہوں ؟ اگر ہر ملک میں اس کی قدیم تہذیب کو زندہ ہونے کا حق ہے تو دنیا کا ہر ملک اس حق کا طلبگار ہے، اور ہمیں استثناء کا کوئی حق نہیں ۔

دراصل ان تہذیبوں کے مٹ جانے میں اﷲ کا بڑا فضل شامل تھا، ان کے ساتھ ان کی بہت سی بے اعتدالیاں اور نا انصافیاں بھی مٹ گئیں ، اور انسانوں کی ایک بڑی جماعت کو ان سے نجات ملی، قومی تعصبات سے اگر آزاد ہو کر ہم تاریخ و فلسفۂ تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم کو نظر آئے گا کہ دنیا میں جو چیز مٹی اس کو مٹ ہی جانا چاہیے تھا، اس کا مٹ جانا اس کی علامت ہے کہ اس میں زندہ رہنے کی صلاحیت ختم ہو گئی تھی، اور وہ اپنی عمر پوری کر چکی تھی، کسی دوسرے نظام زندگی کا اس پر غالب آ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ غالب آنے والا نظام زندگی اس سے فائق و برتر تھا، اور زندگی کا زیادہ استحقاق اور استعداد رکھتا تھا، اب ان مٹی ہوئی تہذیبوں کا دوبارہ زندہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے فراعنۂ مصر کی مسالہ لگی ہوئی لاشوں (ممی) کو ان کے مقبروں سے نکال کر دوبارہ مصر کے تخت پر بٹھانا اور حکومت کے اختیارات کو ان کے حوالہ کرنا ہے، دنیا میں کوئی فلسفہ اور نظام زندگی بغیر روح اور اپنے مخصوص پیغام کے زندہ نہیں رہ سکتا، جن تہذیبوں کی روح نکل چکی، وہ اپنا پیغام اپنے زمانہ کی محدود دنیا کو سناچکیں ، اب نہ ان میں عصر حاضر کی روح ہے نہ دنیا کے لیے کوئی پیغام، نہ ان کے پاس انسانیت کے مسائل و مشکلات کا کوئی حل ہے، نہ سرگشتہ و حیران قوموں کے لیے راہ عمل، اس لیے اب ان مردہ تہذیبوں کا زندہ کرنا طاقت اور وقت دونوں کا ضیاع اور ایک لاحاصل کام ہے۔

دعوت و جدوجہد کی چیز دراصل صحیح اور غیر فانی مذہب ہے، جس کو اﷲ کے پیغمبر ہر ملک اور دور میں اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آخری اور دائمی طور پر لے کر آئے، انھوں نے اس کے ذریعہ سے انسانوں کو دنیا اور آخرت کی فلاح کا پیغام دیا، خالق سے ٹوٹا ہوا رشتہ جوڑا، توحید خالص کا سبق پڑھایا، حساب کتاب کی اخروی زندگی کا منتظر بنایا، نیکی اور بدی کے معین حدود بتلائے، اور اخلاق و معاشرت و حقوق باہمی کے وہ بے خطا اصول و ضوابط عطا کیے، جن پر ہر دور میں حیات انسانی کی تنظیم ہوسکتی ہے، اور مدنیت صالحہ وجود میں آتی ہے، ان کے احکام پر عمل کرنے سے خود بخود ایک زندگی پیدا ہوتی ہے جو افراط و تفریط اور ہر طرح کی بے اعتدالیوں سے پاک ہوتی ہے، ایک معاشرہ قائم ہوتا ہے، جو امن و سکون، اطمینان قلب، اشتراک و تعاون ا ور اعتدال و توازن کا بہترین نمونہ ہوتا ہے، اس کی بنیادیں ٹھوس لیکن اس کی فضا وسیع ہے، اس میں فولاد کی طرح بیک وقت صلابت اور لچک دونوں موجود ہیں ، یہ وہ زندگی اور معاشرہ ہے جس پر کسی قوم و نسل کی چھاپ اور کسی قومیت اور وطنیت کا ٹھپہ نہیں ، یہ انسانیت کی دولت مشترکہ ہے جس میں کسی قوم اور ملک کی اجارہ داری نہیں ، اس سے نہ چین کو انکار ہوسکتا ہے، نہ ہندوستان کو عار، نہ ایران کے لیے وحشت کی کوئی وجہ ہے، نہ یورپ کے لیے گریز کی کوئی راہ، پرامن اور کامل زندگی کے لیے اس کے سوا کوئی نمونہ ہی نہیں ۔

آپ کا جی چاہے تو آپ اس زندگی کو بھی تہذیب کہہ سکتے ہیں جو ان عقائد و احکام سے وجود میں آئی ہیں ، لیکن آپ اس کو عربی تہذیب یا ایرانی تمدن نہیں کہہ سکتے، اس کو کسی ملک اور قوم اور اس کے طرز تعمیر اور فنون لطیفہ سے دلچسپی نہیں ، اور وہ کسی قومی تمدن یا ملکی تہذیب کی نمائندہ اور وکیل نہیں ، ہر ملک میں اس کا تجربہ کیا جا سکتا ہے، اور ہر قوم اس کو اپنا سکتی ہے، مٹ جانے والے تمدنوں پر اس کی بنیاد نہیں ، ایمانیات و عقائد اور غیر متبدل حقائق پر اس کی بنیاد ہے جو نبی دنیا میں لے کر آئے، اس لیے اس کے مٹنے اور دوبارہ زندہ کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں ؂

حقائق ابدی پر اساس ہے اس کی

یہ زندگی ہے، نہیں ہے طلسم افلاطوں

اس کے لیے علاحدہ دعوت و احیاء کی ضرورت نہیں ، اسلام کی دعوت اس کی دعوت ہے، اور یہ دعوت ہر وقت زندہ اور تابندہ ہے ؏

طلوع ہے صفت آفتاب اس کا غروب

یگانہ اور مثال زمانہ گوناگوں !

٭٭٭

تشکر:ابو الہادی الاعظمی جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید