FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

مشرف عالم ذوقی کی منتخب کہانیاں

               حصہ دوم

اصل کتاب کی پچیس کہانیوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پیش ہے یہ دوسرا حصہ

اعجاز عبید

 

امی مرحومہ

سکینہ خاتون

کے نام

خوابوں کے اُس پار

مجھے

ڈر لگتا ہے

 

               دو بھیگے ہوئے لفظ

’بہت تیز آندھی تھی۔ چھتیں اُڑ رہی تھیں۔ درخت ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہ تھے۔ بھیانک منظر تھا۔ کچّی دیواروں پر مشتمل ایک چھوٹی سی کٹیا تھی۔ دو بوڑھے، بوڑھی تھے۔ باہر میدان میں اونچے اونچے پیڑوں کی دیکھ بھال کے لئے ۔ ۔ ۔ جیسے درخت نہیں ہوں، بچے ہوں اُن کے۔ ۔ ۔

’دیکھو۔ ۔ ۔  وہ درخت بھی۔ ۔ ۔  آہ۔ ۔ ۔ ‘ بوڑھی عورت چیخی۔ تم کچھ کرتے کیوں نہیں۔

’بھیانک طوفان ۔ ۔ ۔کیا تم دیکھ نہیں رہی ہو۔ ۔ ۔ ‘

’ہاں، دیکھ رہی ہوں مگر۔ ۔ ۔ ‘

بوڑھی عورت، اپنے بوڑھے شوہر کا ہاتھ پکڑے اس خوفناک طوفان میں، اُسے لے کر باہر آ گئی ۔ ۔ ۔اور ایک جوان درخت کے پاس ٹھٹھک کر کھڑی ہو گئی۔ ۔ ۔

’میں نہیں جانتی۔ لیکن تمہیں اسے بچانا ہو گا۔ ۔ ۔ ‘

’دیکھو۔ کیسے ہل رہا ہے۔ ۔ ۔  یہ درخت بھی گر جائے گا۔ ۔ ۔‘

’تمہیں بچانا ہو گا۔ ۔ ۔‘ بوڑھی عورت زور سے گرجی۔ ۔ ۔

دونوں نے موٹی رسیاّں تیار کیں۔ درخت کو دونوں طرف سے لپیٹا۔ ۔ ۔ اور اس زوروں کے طوفان میں، دونوں نے اپنے ہلتے لڑکھڑاتے وجود کے باوجود اُس درخت کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے ساری قوت لگا دی۔ ۔ ۔‘

عرصہ پہلے یہ کہانی پڑھی تھی۔ خدا معلوم، کہانیوں کے دونوں بوڑھے کردار اُس درخت کو ٹوٹنے سے بچا پانے میں کامیاب ہوئے یا نہیں ۔ ۔ ۔یا، اتنے سارے درختوں میں اُن کی ساری محنت صرف اسی درخت کے حصّے میں کیوں آئی تھی۔ ۔ ۔؟ شاید، انسانی کمزوری اور محبت کے بہت سارے گوشے ایسے ہیں جسے علم نفسیات ابھی تک سمجھنے میں ناکام رہا ہے ۔ ۔ ۔

پتہ نہیں کیوں، کہانیوں کے انتخاب کی بات آئی تو اچانک کھلے چور دروازے سے اس کہانی نے دستک دی۔ ۔ ۔ ’انتخاب کا مطلب جانتے ہو؟‘

’ہاں ؟‘

’کن کہانیوں کو بچاؤ گے ؟‘

’مطلب؟‘

’دیکھا نہیں وہ بوڑھے بوڑھی اتنے سارے درختوں میں، اُس ایک پیڑ کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ۔ ۔ ‘

’ہاں، لگاؤ ہو گا‘

’ادب میں لگاؤ سے بات نہیں بنتی۔ ‘

کیسی سچی بات ہے ۔ ۔ ۔ آپ کا خوبصورت، سب سے پیارا بچہ زندگی کے امتحان میں، ہار جاتا ہے ۔ ۔ ۔ اُس کا بدصورت بھائی بازی مار جاتا ہے ۔ ۔ ۔ پریم چند کو کہانی ’کفن‘ کچھ زیادہ پسند نہیں تھی۔ اب ’کفن‘ کے بغیر اردو کہانی کی گفتگو آگے نہیں بڑھتی۔ ممکن ہے میرے بعد اگر کوئی دوسرا میری 300-350 کہانیوں میں سے 25 کہانیوں کے انتخاب کی ذمہ داری قبول کرے تو صورت بالکل دوسری ہو۔ ۔ ۔

اس لئے کس کو ‘بچانا‘ ہے کس کو نہیں ۔ ۔ ۔

کس کو رکھنا ہے اور کس کو نہیں ۔ ۔ ۔؟

میں نہیں جانتا، اس انتخاب میں مجھے کتنی کامیابی ملی۔ مگر اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ اس انتخاب کے لئے مسلسل سوچتے اور غور کرتے ہوئے مجھے دو سال لگ گئے ۔ ۔ ۔

شاید ان کہانیوں کے انتخاب کا خیال ہی میرے ذہن میں نہیں آتا اگر میرے بھائی اور میرے مخلص دوست آصف فرخی نے یہ ذمہ داری مجھے نہیں سونپی ہوتی۔ یہ اُن کا بڑ پن ہے اور محبت بھی۔ ۔ ۔

اور اس محبت کے لئے میں انہیں سلام کرتا ہوں۔

ذوقی

 

کاتیائن بہنیں

               ایک ضروری نوٹ

قارئین! کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جن کا مستقبل مصنف طے کرتا ہے لیکن کچھ کہانیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا مستقبل کہانی کے کردار طے کرتے ہیں۔ یعنی جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی جاتی ہے، اپنے مستقبل کے تانے بانے بنتی جاتی ہے اور حقیقت میں مصنف اپنے کرداروں کو راستہ دکھا کر خود پیچھے ہٹ جاتا ہے۔

ایسا اس کہانی کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ ۔ ۔  اور ایسا اس لئے ہوا ہے کہ اس کہانی کا موضوع ہے۔ ۔ ۔  ’عورت‘۔ ۔ ۔  کائنات میں بکھرے تمام اسرار سے زیادہ پُر  اسرار، خدا کی سب سے حسین تخلیق۔ یعنی اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ عورت کو جان گیا ہے تو شاید اس سے زیادہ ’گھامڑ‘ اور شیخی بگھارنے والا، یا اس صدی میں اتنا بڑا جھوٹا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ عورتیں جو کبھی گھریلو یا ’پالتو‘ ہوا کرتی تھیں۔ چھوٹی اور کمزور تھیں۔ اپنی پُر  اسرار فطرت یا مکڑی کے جالے میں سمٹی، کوکھ میں مرد کے نطفے کی پرورش کرتیں۔ ۔ ۔  صدیاں گزر جانے کے بعد بھی وہ محض ’بچہ دینے والی ایک گائے ‘ بن کر رہ گئی تھیں مگر شاید صدیوں میں مرد کے اندر دہکنے والا یہ نطفہ شانت ہوا تھا۔ یا عورت کے لئے یہ مرد دھیرے دھیرے بانجھ یا سرد یا محض بچہ پیدا کرنے والی مشین کا ایک پرزہ بن کر رہ گیا تھا۔ ۔ ۔  تو یہ اس کہانی کی تمہید نہیں ہے کہ عورت اپنے اس احساس سے آزاد ہونا چاہتی ہے۔ ۔ ۔  شاید اسی لئے اس کہانی کا جنم ہوا۔ ۔ ۔  یا اس لئے کہ عورت جیسی پُراسرار مخلوق کو ابھی اور ’کریدنے ‘ یا اس پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ ۔ ۔  ہم نے ابھی بھی اس مہذب دنیا میں، اسے صرف مقدس ناموں یا رشتوں میں جکڑ رکھا ہے۔

تو قارئین! یہ کوئی پریوں کی کہانی نہیں ہے۔ یہاں دو بہنیں ہیں۔ ۔ ۔  کاتیائن بہنیں۔ ممکن ہے ان بہنوں کے نام پر آپ کو ’’لولیتا‘‘، انناکارنینا‘‘ اور ’’مادام بواری‘‘ کی یاد آ جائے مگر نہیں ! یہ دوسری طرح کی بہنیں ہیں۔ مردوں کی ’حاکمی‘ کو للکارنے والی۔ ۔ ۔  تو اس کہانی کا جنم کچھ ’’خاص‘‘ حالات میں ہوا ہے۔

               ایک واقعہ

گرچہ  یہ کوئی فلمی منظر نہیں تھا۔ ۔ ۔ لیکن یہ فلمی منظر جیسا ہی تھا۔ مس کاتیائن کے ہاتھوں سے سبزی کا تھیلا پھسلا اور دو بڑے بڑے آلو لڑھکتے ہوئے بھوپیندر پریہار کے پاؤں سے ٹکرائے۔ بھوپیندر پریہار، عمر ایک کم باسٹھ سال، تھوڑا لہرائے ۔ ۔ ۔ تھوڑا رکے ۔ ۔ ۔ آلوؤں کو اٹھایا اور سبزی منڈی کی ایک دکان پر کھڑی مس کاتیائن پر جی جان سے نچھاور ہو گئے۔

’’آپ مس کاتیائن ہیں نا۔ ۔ ۔ ؟ وہ ’’اینا کی ڈالی‘‘ والی دکان کے سامنے والے گھر میں۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’ہاں۔’‘ مس کاتیائن اتنا بول کر خاموش ہو گئیں۔ شاید انہیں گفتگو کا یہ انداز پسند نہیں آیا۔ وہ بھی ایسی جگہ؟ سبزی منڈی میں۔ ۔ ۔  کوئی ’مرد‘ اس طرح کسی عورت سے اس طرح بات کرے، اُنہیں اچھا نہیں لگا۔ ۔ ۔

’’میں وہیں رہتا ہوں۔ ۔ ۔  آپ کے گھر کے پاس۔ ۔ ۔  تھیلا بھاری ہے ؟‘‘

پتہ نہیں کہاں سے بھوپیندر پریہار کے لہجے میں اتنا اپنا پن سمٹ آیا تھا۔

’’نہیں کوئی بات نہیں۔ ۔ ۔’‘

’’دیجئے نا۔ میں اٹھا لیتا ہوں۔ ۔ ۔’‘

بھوپیندر پریہار نے آرام سے تھیلا اٹھایا اور سبزی منڈی کی دھول بھری سڑکوں پر دونوں چپ چاپ چلنے لگے۔ ہاں بھوپیندر پریہار کچھ لمحے کے لئے یہ بالکل ہی بھول بیٹھے تھے کہ وہ کوئی نوجوان نہیں، بلکہ ایک کم باسٹھ سال کے گھوڑے پر سوار ہیں۔ ۔ ۔

لیکن گھوڑے میں اچانک جوش آگیا تھا۔

***

ایک عالی شان مگر پرانے زمانے کا چندن کی لکڑی کا بنا ہوا محراب نما دروازہ تھا۔ یہ دروازہ چرچرانے کی بھیانک آواز کے ساتھ کسی ہارر فلم کی طرح کھلتا تھا۔ ۔ ۔  اس کے بعد کافی کھلا ہوا صحن تھا۔ غرض یہ ایک ٹوٹا پھوٹا سا بے رونق گھر تھا۔ یہاں آپ ہمیشہ ہر موسم میں بڑی مس کاتیائن کو دیکھ سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ جھکی ہوئی نظریں، ہاتھوں میں پکڑی ہوئی تیلیاں ۔ ۔ ۔ ایک طرف پڑا ہوا اون کا ’گچّھا‘۔ تیلیوں میں الجھے ہوئے ہاتھ۔ ۔ ۔  یعنی دنیا سے بے خبر مس کاتیائن سوئٹر بن رہی ہیں۔ جاڑا ہو گرمی یا برسات، مس کاتیائن کی بس اتنی سی دنیا ہے۔ ۔ ۔  گہری فکر، اون کا گولا اور تیلیاں۔ لیکن یہ باتیں زیادہ توجہ طلب نہیں ہیں کہ بڑی مس کاتیائن یہ سوئٹر کس کے لئے بنتی ہیں۔ انہیں پہننے والا کون ہے ؟ یا بس سوئٹر بننا مس کاتیائن کا ایک شغل ہے ۔ ۔ ۔ ایک ہی سوئٹر کو بار بار ادھیڑتے رہنا اور بنتے رہنا۔ ۔ ۔

’’اندر آ جایئے۔ ۔ ۔’‘

چھوٹی مس کاتیائن نے اشارہ کیا۔ بھوپیندر پریہار تھیلا لئے صحن میں آ گئے۔ ۔ ۔  ہمیشہ کی طرح بڑی مس کاتیائن نے گردن گھما کر چھوٹی مس کاتیائن کے ساتھ اندر آتے ہوئے اجنبی، کو دیکھا۔ ۔ ۔  لیکن آنکھوں میں حیرانی کا شائبہ تک نہ تھا۔ چہرہ پتھر جیسا بے حس۔

’’یہ پڑوسی ہیں۔ ۔ ۔’‘ چھوٹی مس کاتیائن نے بڑی کے سامنے تھیلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ۔ ۔  ’’بھاری تھا۔ ۔ ۔  اس لئے مدد کرنے چلے آئے۔’‘

بھوپیندر پریہار کو یقین ہے کہ چھوٹی کاتیائن کی وضاحت پر بڑی کی آنکھوں میں ایک ہلکی سی چمک ضرور لہرائی ہو گی حالانکہ اس چمک کو وہ صرف محسوس کرسکتے تھے۔ اس لئے کہ دوسرے ہی لمحے سوئٹر بنتے پتھر کے مجسمے سے آواز آئی تھی۔ ۔ ۔  ’’بیٹھئے نا۔ ۔ ۔’‘

یہ کاتیائن بہنوں کے ہاں بھوپیندر پریہار کی پہلی انٹری (Entry) تھی۔

               کچھ بھوپیندر پریہار کے بارے میں

بھوپیندر پریہار مرد آدمی تھے۔ مردوں کے بارے میں ان کی اپنی رائے تھی۔ ۔ ۔  ایک خاص طرح کا فیسی نیشن (Fascination) تھا اس لفظ کے بارے میں۔ ۔ ۔ مثلاً وہ سوچتے تھے کہ مرد ایک شاندار جسم رکھتا ہے۔ خوشبو میں ڈوبا ہوا جسم۔ ۔ ۔  ایک سدا بہار، مست مست، کسی تناور درخت کی طرح شان سے ایستادہ۔ ۔ ۔  بے پروا، بے نیاز کسی کو خاطر میں نہ لانے والا، عورت یا بیوی جیسی چیز اسی جسم کو قید میں رکھنا چاہتی ہے۔ یہ جسم بے لگام گھوڑے کی طرح ہے ۔ ۔ ۔ شاہراہوں کو روندتا۔ ۔ ۔ منزلوں کو پیچھے چھوڑتا۔ ۔ ۔ سمندر کی طرح بے خوف۔ ۔ ۔ لہروں کی طرح چیختا دہاڑتا۔ ۔ ۔ طوفان کی طرح گرجتا۔ یا شیر ببر کی طرح بے قابو۔ ۔ ۔ سرکش اور دھرتی کو اپنے طاقتور پنجوں سے روندنے والا۔ یہ جسم کسی ایک درّے میں نہیں چھپ سکتا۔ ۔ ۔ کسی ایک بیرک میں قید نہیں رہ سکتا۔ ۔ ۔کسی ایک قید خانے میں، کسی ایک گھر میں یا کسی ایک عورت میں۔ ۔ ۔

لیکن ہوتا کیا ہے، وقت آنے پر یہ جسم ایک عورت کے حوالے کر دیا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے بس۔ ۔ ۔  اسے تمہارے حوالے کیا۔ بس یہی ہے۔ ۔ ۔  اپنے جسم کی پتوار جیسے چاہو اس پر استعمال کرو۔

مسز پریہار عام عورتوں جیسی ہی ایک عورت تھی۔ ۔ ۔  جس کے لئے زندگی کا مطلب ایک کنبے یا شوہر اور بچوں سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ یا شاید بچے کے آنے کے بعد شوہر کی بھی کچھ زیادہ حیثیت نہیں رہتی۔ سمن کے آنے کے بعد مسز پریہار کی زندگی کا یہی ایک مقصد رہ گیا تھا۔ سمن۔ صرف سمن۔ اس لئے شاید کبھی کبھی شوہر کے پتوار جیسے تنے جسم کی مانگ کو بھی وہ نظر انداز کر جاتی۔ ۔ ۔

’’نہیں۔ ۔ ۔  اسے اتنا پیار مت دو۔ بھگوان کے واسطے’‘ بھوپیندر پریہار کے ہونٹوں پر تلخی تھی۔

’’کیوں ؟‘‘

’’کیونکہ بچے ہوتے ہی ایسے ہیں۔ لاپرواہ اور بے وفا۔ ۔ ۔’‘

’’پاگل ہو گئے ہو!‘‘

’’بچے تمہاری محبت کی قدر نہیں کریں گے۔ وہ ایک دن تاڑ جتنے ہو جائیں گے اور ہمیں بھول جائیں گے۔’‘

اور شاید یہی ہوا تھا۔ سمن بڑا ہوا۔ ۔ ۔  لو میرج کی اور بیوی کو لے کر کناڈا چلا گیا۔ مسز پریہار اس فرض سے سبکدوش ہو کر ابدی نیند سو گئی۔ اکیلے رہ گئے بھوپیندر پریہار۔ لیکن وہ اس زندگی کو یادوں کا قبرستان نہیں بنانا چاہتے تھے۔ وہ بقول رسول حمزہ توف۔ ۔ ۔  پیار کو زندہ رکھنا چاہتے تھے جس کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ زندگی سے پیار چلا گیا تو ہم بھی نہیں بچ سکتے۔ وہ کھونا نہیں چاہتے تھے اور سچ کہا جائے تو اپنے مرد ہونے کے بھرم کو قائم رکھنا چاہتے تھے ۔ ۔ ۔ اور شاید خالی پن کے یہی وہ لمحے تھے جب کاتیائن بہنوں سے ان کی دوستی کے در وا ہوئے تھے یا بقول رسول حمزہ توف۔ ۔ ۔  اس بہانے وہ اپنے آپ کو زندہ رکھ سکتے تھے۔

               بڑی بہن یعنی رما کاتیائن کا نظریہ

کاتیائن بہنوں کی زندگی میں ویرانی کی شاید ایک لمبی تاریخ رہی تھی۔ ۔ ۔  آس پاس کے لوگوں کے لئے اس گھر یا بہنوں کے بارے میں سب کچھ پُراسرار تھا۔ ۔ ۔  یعنی جب یہ بہنیں گھر میں ہوتیں یا وہ وقت جب بے ہنگم آواز کے ساتھ کھلنے والے دروازوں سے یہ باہر نکلتیں تو گویا سرگوشیوں کا بازار گرم ہو جاتا۔ ان کی زندگی پر، اسرار کا دبیز پردہ پڑا تھا۔ ۔ ۔  شاید اس مکمل کائنات سے بھی زیادہ پُراسرار تھیں وہ۔ بڑی بہن کے ہاتھ میں ایک گل بوٹوں والی چھتری ہوتی جس کا ساتھ ان کے لئے ہر موسم میں لازمی تھا۔ جاڑا ہو، گرمی ہو یا برسات۔ ۔ ۔ گویا اندر کوئی خوف ہو اور پھول دار چھتری کسی باڈی گارڈ کی طرح ان کی نگرانی کرتی ہو۔ چہرہ اس چٹان کی طرح سخت، سمندر کی لہریں جس کا کچھ نہیں بگاڑ پاتیں۔ آج تک کسی نے بھی رما کاتیائن کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ آپ اپنے گھر کی بالائی منزل سے شام ڈھلنے تک جب بھی جی چاہے انہیں دیکھ لیجئے۔ ۔ ۔  ایک کرسی پر سوئٹر بنتی ہوئی رما کاتیائن آپ کو ضرور مل جائیں گی۔ ۔ ۔ عمر ساٹھ کے آس پاس۔ چھوٹی ریتا کاتیائن بڑی سے دو تین سال چھوٹی رہی ہوں گی۔ اس سے زیادہ نہیں۔ مگر ریتا، رما کی طرح سخت نہیں تھیں۔ کسی زمانے میں خوش مزاج بھی رہی ہوں گی مگر وقت کے ساتھ ساتھ مزاج میں ایک قسم کی سنجیدگی آ گئی تھی۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ اس سے پہلے کاتیائن بہنوں کی پُراسرار دنیا میں کوئی آیا تھا یا نہیں۔ مگر بھوپیندر پریہار کی اچانک آمد گھر میں شکوک و شبہات کی فصل لے کر آئی تھی اور یہ شک بھوپیندر پریہار کے جاتے ہی شترمرغ کی طرح ریت سے اپنا سر نکالنے لگا تھا۔

بڑی کاتیائن کی آنکھوں میں حیرانی کے دوڑے تھے اور چھوٹی کاتیائن کے ہونٹوں پر ایک شرارت بھری خاموشی۔

’’کب سے جانتی ہواسے ؟‘‘

’’کسے ۔ ۔ ۔؟‘‘

’’وہی، جسے لے کر تم گھر آئی تھی‘‘

’’اچھا وہ۔ بھوپیندر پریہار۔ ۔ ۔’‘

’’نام بھی جانتی ہو۔ اس کا مطلب پرانی ملاقات ہے۔ ۔ ۔ کب سے جانتی ہو اسے ؟‘‘

’’آج سے پہلے۔ ۔ ۔  نہیں۔’‘

’’ایک ہی دن میں اس نے سبزی کا تھیلا بھی تھام لیا اور گھر میں آ ٹپکا۔ ۔ ۔’‘

’’نہیں۔ آپ نے سمجھا نہیں۔’‘

’’کیا ایک اجنبی شخص کو تم اس گھر میں لے آئیں اتنا کافی نہیں۔ ۔ ۔’‘

چھوٹی مس کاتیائن کی آنکھوں میں مایوسی تھی۔ ’’نہیں، دراصل آپ ابھی بھی نہیں سمجھیں۔ ۔ ۔  تھیلا بھاری تھا۔ ۔ ۔’‘

’’صفائی مت پیش کرو۔ اس سے پہلے ایسا حادثہ اس گھر میں کبھی نہیں ہوا۔’‘

بڑی مس کاتیائن کا لہجہ فیصلہ کن تھا۔ ’’ابھی تم سبزی کاٹو۔ رات کا کھانا بنانے کی تیاریاں کرتے ہیں، مگر یاد رکھو۔ ۔ ۔  رات میں۔ رات میں اس واقعہ کے بارے میں دوبارہ غور کریں گے۔’‘

               دہشت بھری رہگزار سے

ہم کہہ سکتے ہیں وہ رات کاتیائن بہنوں کی نظر میں بہت عام سی رات نہیں تھی۔ بڑی کاتیائن کمرے میں ٹہل رہی تھیں۔ ۔ ۔  جیسے اندر ہی اندر کسی خاص نتیجے پر پہنچنے کی تیاری کر رہی ہوں یا جیسے رات کے وقت شوہر اپنے کمرے میں کچن سے لوٹنے والی اپنی نو بیاہتا دلہن کا انتظار کرتا ہے۔ ۔ ۔  کہ وہ اب آئے گی یا بتی بجھائے گی یا اس کے قدموں کی آہٹ سنائی دے گی۔

لیکن آپ اس طرح بڑی کاتیائن کو ٹہلتے دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بڑھاپے کے گلیاروں میں اتنی دور تک نکل آئی ہیں۔ نہیں، حیرت انگیز طور پر اس وقت وہ کسی نوجوان سے کم نہیں لگ رہی تھیں ۔ ۔ ۔ یقیناً ایک ایسے نوجوان سے جو اپنی بیوی کی کسی بات سے ناراض ہوا ٹھا ہو اور اس سے گفتگو شروع کرنے کی ذہنی کشمکش سے گزر رہا ہو۔ چھوٹی کاتیائن کے اندر داخل ہوتے ہی بری نے کسی لومڑی کی طرح اپنی نگاہیں اس پر مرکوز کر دیں۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔  آؤٹرسٹ ایکسرسائز (Trust Exercise) کرتے ہیں۔

۔ ۔ ۔  ٹرسٹ ایکسر سائز؟ لیکن کیوں ؟

۔ ۔ ۔  جرح مت کرو۔ مردوں کی طرح مت بنو۔ ۔ ۔  کیونکہ تم نے اپنا Trustکھویا ہے۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔  یا تم نے ؟

۔ ۔ ۔  ممکن ہے۔ اس لئے آؤ آنکھیں بند کریں اور شروع ہو جائیں۔ ۔ ۔

اور اسی کے ساتھ دونوں آمنے سامنے کھڑی ہو گئیں۔ بڑی کاتیائن کی پتلیاں دھیرے دھیرے بند ہونے لگیں۔ ۔ ۔  چھوٹی کاتیائن کچھ سوچ کر مسکرائیں اور پتھریلی زمین پروہ بھی بڑی کاتیائن کے آمنے سامنے کھڑی ہو گئیں۔ ٹرسٹ ایکسرسائز میں ایک دوسرے پر آنکھیں موند کر گرنا ہوتا ہے۔ سامنے والے کو اپنے ساتھی کو تھامنا ہوتا ہے۔ ایسا کئی بار کرنا ہوتا ہے۔ سامنے والے نے اگر تھام لیا تو مطلب صاف ہے۔ ابھی یقین میں کمی نہیں آئی یا ابھی یقین بحال ہے۔  یہ عمل پتھریلی زمین پر اس لئے کرتے ہیں تاکہ گرنے یا چوٹ لگنے سے پیدا ہونے والااحساس اس یقین کو پھر سے بحال کرسکے ۔ ۔ ۔ دراصل مغربی ممالک سے ہم لگاتار کچھ نہ کچھ بطور تحفہ لیتے رہے ہیں اور ’’ٹرسٹ‘‘ کرنے کا یہ نایاب طریقہ ابھی کچھ دنوں پہلے ہی وہاں سے امپورٹ ہو کر آیا ہے۔ ۔ ۔

تو کاتیائن بہنوں نے آنکھیں بند کر لیں۔ ممکن ہے آپ کے لئے یہ سارا منظر بے لطف، اکتا دینے والا اور واہیات ہو۔ ۔ ۔  مگر شاید کاتیائن بہنوں کو یقین کی دوڑ سے باندھنے کے لئے یہ کھیل کافی معنی رکھتا تھا اور جیسا کہ ہمیں بھی یقین تھا آنکھیں بند کرنے، ایک دوسرے پر گرنے کے عمل میں چھوٹی سر کے بل گری تھی۔ شاید یہ ایک عمر پار کرنے کی حد کے سبب تھا۔ یا جو بھی ہو، مگر طے تھا کہ بڑی اسے تھام نہیں پائی اور چھوٹی کاتیائن کے ہونٹوں سے، لڑکھڑاتے، گرتے ہوئے ایک زور کی چیخ نکل گئی تھی۔ ۔ ۔

’’آہ جیسا کہ مجھے یقین تھا۔’‘ بڑی کاتیائن کا لہجہ برف سا سرد تھا۔ ’’وہ آدمی۔ ۔ ۔  تم نے سچ مچ اپنا ٹرسٹ کھو دیا ہے۔ چلو۔ ۔ ۔  بہت دنوں کے بعد ہی سہی ذرا ماضی کی راکھ کریدتے ہیں۔’‘ بڑی کاتیائن نے چھوٹی کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ۔ ۔

’’تمہیں کچھ یاد آ رہا ہے ؟‘‘

’’ہاں۔’‘

۔ ۔ ۔’’تمہیں یاد رکھنا بھی چاہئے۔’‘ بڑی کی آواز میں لرزش تھی۔ ۔ ۔ ’’اس آدمی کے باوجود، جو مرد تھا یا باپ تھا۔ ۔ ۔  یا جنگلی سانڈ۔ یہی کمرہ تھا نا۔ ۔ ۔  اور وہاں دروازے پر۔ ۔ ۔’‘

چھوٹی کاتیائن کو یاد تھا۔ باپ دروازے پر شراب پی کر شام کے وقت آ کر، ماں کا نام لے کر زور زور سے چلاتا تھا۔ ۔ ۔

‘’۔ ۔ ۔ سب یاد ہے۔’‘

‘’۔ ۔ ۔ باپ کیوں یاد ہے اس لئے کہ اس میں بے رحمی تھی۔ وہ ایک خوفناک انسان تھا۔ بلکہ حیوان۔ ۔ ۔  تمہیں یاد ہے، ماں رویا کرتی تھی۔ کبھی کبھی خوب زوروں سے۔ ۔ ۔  اور ساری رات چلایا کرتی تھی۔ ۔ ۔  اور باپ نشے میں دھت سویا رہتا تھا۔ ۔ ۔’‘

‘’۔ ۔ ۔ ہاں، مگر وہ سب بھیانک یا دیں ہیں اور رونگٹے کھڑی کرنے والی۔ ۔ ۔  میری ماں ایک سہمی ہوئی گائے تھی۔ نہیں، وہ ایک معصوم میمنا تھی۔ ۔ ۔  اور بچپن سے باپ تھوڑا تھوڑا کر کے اس میمنے کو ذبح کرتا رہا تھا۔’‘

‘’۔ ۔ ۔ تمہیں یاد ہے ؟ اس وقت یا ان دنوں تم گرتی تھی تو۔ ۔ ۔ ، روتی تھی تو۔ ۔ ۔  یا کسی پریشان کر دینے والے ڈر سے سہم جاتی تھی تو۔ ۔ ۔ ، یہ میں ہوتی تھی، میں۔ ۔ ۔  میں بڑی تھی اور میں انہیں دنوں تمہیں چاہنے بھی لگی تھی۔ ۔ ۔  نہیں، تمہیں یاد ہونا چاہئے، جب یکایک ڈر کر سہم کر تم مجھ سے چپک جایا کرتی تھی تو۔ ۔ ۔  یا میری گود میں اپنا سررکھ دیتی تھی تو۔ ۔ ۔  یہاں ٹانگوں کے درمیان سے۔ ۔ ۔  کسی ایک مرکز سے دریا پھوٹ پڑے تو۔ ۔ ۔  کیسا لگتا ہو گا؟ اندر سنسناہٹ کا ایک طوفان سا آ جاتا تھا۔ شایدایسا اس لئے بھی تھا کہ دنیا میں اور بھی لوگ ہو سکتے ہیں، ہمیں پتہ نہیں تھا۔ ۔ ۔ ہم صرف ایک دوسرے کو جانتے تھے یا پھر ماں کو۔ ۔ ۔جسے اس زمانے میں معصوم میمنا کہہ کر ہم اداس ہو جایا کرتے تھے یا پھر اپنے باپ کو، جس کی پرچھائیں تک سے ہمیں ڈر لگتا تھا۔ ۔ ۔ ہم کسی مرد کو صحیح طور سے پہچان نہیں پاتے تھے، جیسے عورت ہونے کے نام پر ہمارے سامنے صرف مظلوم ماں کا تصور رہ گیا تھا۔

’’ہاں یہ سچ ہے۔’‘ چھوٹی کاتیائن کی آواز بوجھل تھی۔’‘

۔ ۔ ۔’’تو تمہیں یاد ہونا چاہئے۔’‘ بڑی کاتیائن نے اپنی بات جاری رکھی۔ ۔ ۔  ’’وہ دن۔ ۔ ۔  شاید وہ دن ہماری زندگی کے چند خوبصورت دنوں میں ایک تھا۔ ۔ ۔  گلی میں ایک سانڈ  پاگل ہو گیا تھا۔ ۔ ۔  یاد ہے، وہ اپنی بڑی بڑی سینگیں اٹھائے، کبھی ادھر کبھی اُدھر دوڑ رہا تھا۔ کچھ دیر تک ہم بھی اس تماشے کا حصہ بنے رہے۔ مگر اب باپ کے آنے کا وقت ہو چلا تھا۔ باہر دکاندار، راہگیر سب تالیاں بجار ہے تھے۔ ہم کمرے میں آ گئے۔ ۔ ۔  ہم ایک دوسرے کو برابر  دیکھے جا رہے تھے۔ ۔ ۔  جیسے، اب میمنے کے لرزنے کی آواز آئے گی۔ اچانک آنکھوں کے سامنے باپ کی شبیہ ابھری۔ اس کا چہرہ سانڈ جیسا تھا۔ ۔ ۔  اس کی سینگیں نکلی ہوئی تھیں۔ ۔ ۔  اور وہ ا ن سینگوں سے دیوانہ وار میمنے کو زخمی کر رہا تھا۔ ۔ ۔  تم میری طرف دیکھ رہی تھیں اور میں ان لہروں کی ہلچل گن رہی تھی جو تمہارے اس طرح دیکھنے سے میرے بدن میں اٹھنے لگی تھیں۔ ۔ ۔  یاد ہے۔ ۔ ۔  میں نے کہا تھا۔ ۔ ۔  مجھے چھوؤ۔ ۔ ۔  مجھے بخار لگ رہا ہے۔ ۔ ۔  تم دھیرے سے میری طرف بڑھی تھیں اور تبھی باہر زور دار گرج کے ساتھ دروازے پر کچھ گرنے کی آواز آئی تھی۔ ۔ ۔ زبردست شور ہوا تھا۔ تم کانپتی ہوئی میرے بدن میں سما گئی تھی اور میں ۔ ۔ ۔ ’’جیسے کسی ایک مرکز سے دریا پھوٹ پڑے تو‘‘۔ ۔ ۔  میں تمہیں لے کر کانپ رہی تھیں۔ ۔ ۔  اندر سنسناہٹ ہو رہی تھی۔ ۔ ۔  تبھی میمنے کی بے خوف، پُرسکون اور ٹھہری ہوئی آواز سنائی دی۔ ۔ ۔’‘

’’دروازہ کھولو سانڈ نے تمہارے باپ کو پٹخ دیا ہے۔ ۔ ۔  شاید وہ مر گیا ہے۔ ۔ ۔’‘

دروازہ کھول کر میں نے پہلی بار ماں کو دیکھا۔ وہ حسین لگ رہی تھی۔ ۔ ۔  ماں کے چہرے پر خوف کا شائبہ تک نہیں تھا۔ باہر دروازے پر ایک ہجوم اکٹھا تھا۔ ۔ ۔  اور وہیں۔ ۔ ۔  گلی میں کھلنے والے دروازے کے پاس باپ کا بے جان جسم اوندھا پڑا تھا۔ ۔ ۔  شرٹ خون سے تر تھی۔ اس نے شراب پی رکھی تھی ہمیشہ کی طرح۔ ۔ ۔  راہگیروں کے شہہ دینے پر وہ سانڈ سے بھڑ  گیا۔ لوگ ماں کو صبر کی تلقین کر رہے تھے۔ ۔ ۔  ’’کسے معلوم تھا کہ ایسا ہو جائے گا‘‘۔ ۔ ۔  یاد ہے۔ ماں خاموشی سے سب کچھ سنتی رہی۔ ۔ ۔  پر یکایک سب کے سامنے زور زور سے ہنس دی تھی۔ ۔ ۔  لوگوں کی آنکھیں حیرانی سے پھٹی پڑی تھیں۔ ممکن ہے یہ سمجھا گیا ہو کہ شوہر کے صدمے کو نہ سہہ پانے کی وجہ سے۔ ۔ ۔  لیکن ماں کی کیفیت تو صرف ہمیں معلوم تھی۔ ۔ ۔’‘

’’ہاں۔ ۔ ۔  اس کے بعد ماں جب تک زندہ رہی۔ ۔ ۔  وہ بیٹھی بیٹھی ہنس پڑتی تھی۔ ۔ ۔’‘

اور مرتے وقت بھی اس کے ہونٹوں پر یہ ہنسی موجود تھی۔ گویا ماں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہو گا، کہ باپ جیسا آدمی ایک دن مر سکتا ہے۔ بڑی کاتیائن کے لہجے میں سنجیدگی تھی۔ ۔ ۔  مگر آخر یہ سب میں تمہیں کیوں یاد دلا رہی ہوں ؟ کیوں ؟ توسنوریتا کاتیائن! ’’بڑی کاتیائن کے الفاظ برف ہو رہے تھے۔ ۔ ۔’‘ سنو اور غور سے سنو۔ اس لئے کہ عورت اپنے آپ میں مکمل ہوتی ہے۔ ایک مکمل سماج۔ مرد کبھی مکمل نہیں ہوتا۔ جو مرد ایسا سمجھتے ہیں وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ ۔ ۔  مرد کو عورت کی ضرورت پڑسکتی ہے لیکن عورت کو مرد کی نہیں۔ ۔ ۔ اس لئے، ابھی سے کچھ روز پہلے جو آدمی تمہاری زندگی میں آیا ہے۔ ۔ ۔

چھوٹی کاتیائن نے بات بیچ میں ہی کاٹ دی۔ ۔ ۔  ’’آپ کی غلط فہمی ہے’‘ اس نے دوسرے ہی پل نظر جھکا لی۔ ’’میری زندگی میں کوئی مرد نہیں آیا ہے۔ میں نے کہا نا۔ ۔ ۔  وہ محض ایک حادثہ۔ ۔ ۔’‘

’’ٹھیک ہے۔ ۔ ۔  لیکن تم نے حادثوں کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ یاد رکھنا۔ وہ آدمی۔ ۔ ۔  کیا نام بتایا تم نے۔ ۔ ۔  ہاں بھوپیندر پریہار۔ وہ دوبارہ بھی آ سکتا ہے۔ ۔ ۔  اور اس کے لئے تمہارا جواب کیا ہو گا۔ کیا بتانا پڑے گا مجھے۔’‘

’’نہیں’‘ چھوٹی کاتیائن مسکرائی۔ ’’عورت اپنے آپ میں مکمل ہے۔ ایک مکمل سماج۔’‘

’’اور اب میں یہ دکھانا چاہتی ہوں کہ اس مکمل سماج کے پاس کیسی کیسی فینتاسی موجود ہے۔ ۔ ۔  ٹھہرو، ہاں۔ ہو سکے تو وارڈ روپ سے اپنی کھلی کھلی نائٹی نکال لو۔ سلیولیس (Sleeveless)۔ تم اس عمر میں بھی آہ۔ اس عمر میں بھی‘‘۔ ۔ ۔  بڑی کاتیائن کی آنکھیں جل رہی تھیں۔ ’’سنا تم نے۔ میں بس ابھی آئی۔’‘

               کاتیائن بہنوں کی فینتاسی

رات  دھیرے دھیرے خاموشی کے ساتھ اپنا سفر طے کر رہی تھی۔ مگر یہاں۔ ۔ ۔  اینا کی ڈالی والی دکان کے سامنے والے گھر میں رات ایک نئے ’ایڈونچر‘سے آنکھیں چار کر رہی تھی۔ ۔ ۔  شاید! بہت ممکن ہے ہمارے ہندستانی معاشرے میں سوچا جائے، اس عمر میں تو آگ بہت پہلے کی کسی منزل میں بجھ چکی ہوتی ہے۔ ۔ ۔  اور کیسی آگ؟ کیسی راکھ۔ ۔ ۔؟ مستی کے ساتویں آسمان پر پہنچانے والے نئے نشے براؤن شوگر اور ہیروئن بھی وہ ہیجان نہ پیدا کر پائیں جو اس خستہ اور سیلن زدہ کمرے میں پیدا ہو رہا تھا۔ ۔ ۔

’’ا س وقت میں تمام کائنا ت کی سوامی ہوں۔ ۔ ۔ سمجھا تم نے۔’‘ بڑی کاتیائن کے ہاتھوں سے گرم گرم بھاپ اٹھ رہی تھی، جیسے جاڑے کے دنوں میں صبح صبح منہ کھولنے سے اٹھتی ہے۔ ۔ ۔  اس کے ہاتھ میں ایک اسٹیل کی کٹوری تھی۔ ۔ ۔  کٹوری میں پگھلا ہوا اصلی گھی پڑا تھا۔ چھوٹی کا چہرہ قد آدم آئینے کی جانب تھا۔ ۔ ۔  اس نے سلیولیس سیاہ نائٹی پہن رکھی تھی۔ ۔ ۔  شاید نہیں۔ نائٹی نے اچانک اس کی عمر پہن لی تھی۔ ۔ ۔  اس چھوٹے سے کپڑے میں وہ ایک دم سے چھوئی موئی لگ رہی تھی۔ بڑھاپے اور جھریوں سے میلوں پیچھے۔ جہاں صرف ہنستا گاتا ڈھول بجاتا حسن ہوتا ہے۔ حسن کا ساز چھیڑنے والے جذبات ہوتے ہیں۔ ۔ ۔  اور جذبات کے پیچھے چھپی مجروح ’ہوسناکی‘ ہوتی ہے۔ ۔ ۔  ’’ہاں اب ٹھیک ہے۔ لیٹ جاؤ اور کپڑے اتار دو۔ ۔ ۔’‘ بڑی کاتیائن کی آواز سے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے ڈھیر ساری ’’ماریجوانا‘‘ پی لی ہو۔ ۔ ۔  اور وہ پوری طرح نشے میں آ گئی ہو۔ ۔ ۔

چھوٹی کاتیائن لیٹ گئی۔ ۔ ۔  اندھیرے میں جلتی ٹیوب لائٹ میں اس کا جسم چمکا۔ ۔ ۔  بڑی نے اسٹیل کی کٹوری تھام لی۔ اس کا سخت جھریوں بھرا ہاتھ ’گھی‘ کے اندر گیا۔ ۔ ۔  جیسے کبھی میدے کی چھوٹی چھوٹی ’لوئیاں ‘ بنتی ہیں اور انہیں ڈھیر سارے گھی میں ڈبویا جاتا ہے۔ ۔ ۔  گورے چٹے بدن پر بڑی کاتیائن گھی اس طرح ملنے لگیں گویا چھوٹی  کا بدن اچانک میدے کی ’لوئیوں ‘میں تبدیل ہو گیا ہو۔ ۔ ۔  جھپ۔ ۔ ۔  جھپ۔ ۔ ۔

’’آہ، تم اب بھی ویسی ہو۔ ۔ ۔’‘ بڑی کے ہاتھ میں حرکت ہوئی۔ ’’بالکل ویسی۔ ۔ ۔  سنو ریتا کاتیائن۔ ۔ ۔  دیکھو۔ ۔ ۔  خود کو دیکھو۔ ۔ ۔ غور سے۔ آہ۔ ۔ ۔  اپنی عمر کو دیکھو۔ ۔ ۔ نہیں، عمر کو مت دیکھو۔ ۔ ۔ مگر سنو۔ ۔ ۔ غور سے سنو۔ ۔ ۔ مرداس تندور کو کب کا ٹھنڈا کر چکا ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ایک لاش گھر کی طرح۔ ۔ ۔ مگر یہاں تم اپنے آپ کو دیکھو۔ ۔ ۔ تم لاش گھر نہیں ہو۔ ۔ ۔ برف گھر بھی نہیں ہو۔ ۔ ۔ تم تندور ہو۔’‘

بڑی کاتیائن اپنے غیر مفتوح ہونے کے خیال سے زور سے ہنسی۔ ۔ ۔

’’اسے بتا دینا۔ ۔ ۔  کیا نام بتایا تم نے۔ بھوپیندر پریہار۔ ۔ ۔  اسے بتا دینا، عورت اپنے آپ میں مکمل ہوتی ہے۔ ۔ ۔  اسے مرد کی ضرورت نہیں۔ ۔ ۔’‘

پھر وہ اس پر جھک گئی۔ رات خاموشی سے اپنا سفر طے کر رہی تھی۔

               بھوپیندرپریہار اور عشق کی ڈگر

اتنی عمر گزر جانے کے بعد بھی بھوپیندر پریہار زندگی کے اسی فلسفے پر قائم تھے کہ ایک عمر گزر جانے کے بعد بھی ایک عمر بچی رہ جاتی ہے۔ ۔ ۔  اور جو عمر باقی بچ جاتی ہے اسے اسی طرح گزارنے یا جینے کا حق حاصل ہونا چاہئے۔ مسز پریہار کے گزر جانے اور سمن کے کناڈا بھاگ جانے کے بعد اچانک ان پر بڑھاپا طاری ہونے لگا تھا۔ ۔ ۔  حالانکہ انہوں نے کبھی سوچابھی نہیں تھا کہ جسم بوڑھا بھی ہو سکتا ہے۔ ۔ ۔  وہ تو بقول رسول حمزہ توف۔ ’’جسم تو بس عشق کے لئے ہے اور عشق کو زندہ رکھنا ہی انسان کا اولین فرض ہے۔ ۔ ۔’‘ شاید بڑھاپے کی یہ شروعات انہیں کافی آگے لے گئی ہوتی، وہ تو اچھا ہوا جو اچانک چھوٹی کاتیائن ان سے آ ٹکرائیں۔ ۔ ۔  مدتوں بعد اندر کہیں کوئی چنگاری سی لپکی تھی۔ ۔ ۔  بڑھاپے کی تنہائی میں چہرے اور بالوں کو سنوارتے  ہوئے وہ جیسے برسوں پرانے چہرے والے بھوپیندر پریہار کو واپس لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ۔ ۔  کتنی ہی بار قدم ’’اینا کی ڈالی‘‘ والی دکان کے سامنے والے گھر کی طرف اٹھے۔ ہر بار دروازہ کھلتا تھا اور بند ہو جاتا تھا۔

’’کاتیائن بہنوں کی دنیا‘‘۔ ۔ ۔  بھوپیندرپریہار کو لگتا، باہر کی دنیا میں ان کے بارے میں جتنی کہانیاں ہیں۔ ۔ ۔  شاید وہ سب کی سب سچ ہیں۔ ۔ ۔  یہاں تو کسی پریوں کی کہانی سے بھی زیادہ الجھا ہوا معاملہ تھا، لیکن انہوں نے ہار نہ ماننے کا فیصلہ کیا تھا اور شاید اسی لئے اس دن انہیں کامیابی مل گئی تھی۔

وہ ایک دستک کے بعد دروازہ کھلا تو سامنے چھوٹی کاتیائن کھڑی تھیں۔

’’کیا بات ہے ؟ بڑی کاتیائن سورہی ہیں۔ جو بولنا ہے جلدی بولو۔’‘

’’اندر آ جاؤں ؟‘‘

چھوٹی کاتیائن نے کچھ سوچنے کے بعد کہا۔ ۔ ۔ ’’آ سکتے ہو۔ ویسے بھی بڑی کو اٹھنے میں دو ایک گھنٹے تو لگیں گے ہی۔’‘

وہ اندر آ گئے۔ چندن کی لکڑی کے بنے محراب نما دروازے سے گزرتے ہوئے ۔ ۔ ۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں آپ ہر موسم میں بڑی کاتیائن کو دیکھ سکتے ہیں۔ ۔ ۔  ہاتھ میں تیلیاں تھامے، سرجھکائے سوئٹر بنتی ہوئی۔ ۔ ۔  وہ ایک آرام کرسی پر بیٹھ گیا۔ یہ سب کچھ ایسا تھا جیسا کالج کے دنوں میں لڑکے لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ یا پیار کی پہلی بارش کی پہلی بوند پڑتے ہی یہ سب ان کی اداؤں میں شامل ہو جاتے ہیں۔

چھوٹی کاتیائن کچھ دیر تک اسے گھورتی رہی۔

بھوپیندر پریہار نے نظریں جھکا لیں۔

ذرا دیر بعد چھوٹی کاتیائن کے لب ہلے۔ ۔ ۔  ’’تمہاری۔ ۔ ۔  تمہاری بیوی۔ ۔ ۔؟‘‘

’’نہیں ہے۔ گزر گئی۔’‘

’’اوہ۔ ۔ ۔’‘

’’نہیں، اس میں افسوس کرنے جیسی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ اپنی عمر سے زیادہ جی چکی تھی۔ ۔ ۔’‘

’’عمر سے زیادہ۔ ۔ ۔ ؟‘‘ چھوٹی کاتیائن نے حیرانی ظاہر کی۔

’’ہاں، مرنے سے دس برس پہلے تک مجھے احساس ہی نہیں تھا کہ وہ ہے۔ ۔ ۔  یعنی گھر میں ہے۔’‘

’’ایسا کیوں تھا؟‘‘ چھوٹی کاتیائن کی ہرنی جیسی آنکھوں میں چمک جاگی۔

’’پتہ نہیں ۔ ۔ ۔ پر مجھ میں جیسے ایک نئے اور جوان بھوپیندر پریہار کی واپسی ہو رہی تھی۔ ۔ ۔  تم۔ ۔ ۔  یعنی آپ سمجھ سکتی ہیں۔ ۔ ۔  اس عمر میں۔ ۔ ۔  یعنی مجھے دیکھ کر۔ ۔ ۔’‘۔ ۔ ۔ وہ کہتے کہتے لڑکھڑائے تھے۔

چھوٹی کاتیائن کھلکھلا کر ہنس پڑیں ۔ ۔ ۔‘‘ وہی۔ ۔ ۔  غلط فہمی کی روایت۔ ۔ ۔  مرد سمجھتا ہے وہ ساٹھ کے بعد پھر سے بچہ بن گیا ہے۔ ۔ ۔  اور عورت تو اپنی عمر سے زیادہ بوڑھی ہو گئی ہے۔ ۔ ۔  ہے نا، ایسا ہی کچھ۔ ۔ ۔‘‘ وہ پھر زور سے ہنسی۔

’’پتہ نہیں۔’‘ بھوپیندر پریہار کے کھوکھلے لفظوں میں ہلچل ہوئی۔ ’’مگر میرا خیال ہے کہ مرد۔ ۔ ۔  یعنی۔ ۔ ۔’‘

’’مرد۔ مرد کے نام پر اتنی رعونت کیوں بھر جاتی ہے مرد میں ۔ ۔ ۔بار بار اس لفظ کو دہراتے ہوئے، اپنی کسی کمزوری پر پردہ تو نہیں ڈالتے۔ ۔ ۔’‘ چھوٹی کاتیائن نے الفاظ جیسے زہر میں ڈبو رکھے تھے۔ ’’خیر! جو بھی کہنا ہے جلدی کہو۔ بڑی کاتیائن تمہارے اس طرح آنے کو پسند نہیں کرتیں۔’‘

’’کیوں ؟‘‘ بھوپیندر پریہار اچانک ٹھہر سے گئے۔ ان کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ ۔ ۔  ’’تمہاری اپنی زندگی ہے، ان کی اپنی۔ ۔ ۔’‘

’’نہیں، ہماری زندگیاں ایک ہیں۔’‘

بھوپیندرپریہار زور سے لڑکھڑائے۔ ۔ ۔  ’’کیا۔ ۔ ۔؟‘‘

’’ہاں، ہم لسبین (Lesbian) ہیں۔ ۔ ۔  لسبین۔’‘ وہ بڑے اطمینان سے ناخن چباتے ہوئے بولی۔

’’لسبین۔’‘۔ ۔ ۔  بھوپیندر پریہار اچھل پڑے۔ ۔ ۔  جیسے بچھونے ڈنک مار دیا ہو۔

’’ہاں، میں لسبین ہوں۔ ۔ ۔  لیکن تم تو ایسے ڈر رہے ہو جیسے میں کوئی کوڑھی ہوں، یا مجھے ایڈس ہو گیا ہے۔’‘

’’لیکن تم۔ ۔ ۔’‘ ان کی آنکھیں اب بھی  پھٹی پھٹی تھیں۔

’’کیوں آتے ہو میرے پاس، اچھی طرح جانتی ہوں۔’‘ چھوٹی کاتیائن کے لہجے میں شدید نفرت تھی۔ ۔ ۔  ’’اپنے باپ کو بھی جانتی تھی۔ تمہیں بھی۔ ۔ ۔  تمہارے اس پورے مردانہ سماج کو۔ ۔ ۔ حیران مت ہو۔ بس وہی غلط فہمی پر مبنی روایتیں ۔ ۔ ۔ مرد ہونے کی خوش خیالی۔ ۔ ۔ یہ احساس ہی اچانک تمہیں ایک بے وقوف راکشس میں تبدیل کر دیتا ہے۔ تم سمجھتے ہو سب تمہاری طاقت کے ماتحت ہیں۔ تو یہ تمہاری ناسمجھی ہے۔ ۔ ۔  سنو بھوپیندر پریہار۔ ۔ ۔  تمہاری بیوی نہیں ہے، یہ بات ذہن کی گانٹھ کھول کر نکال کیوں نہیں دیتے کہ تمہاری بیوی، دس برس پہلے ہی کھوئی نہیں تھی۔ ۔ ۔ بلکہ مر چکی تھی ۔ ۔ ۔ اور تم نے مارا تھا اسے۔ ۔ ۔’‘

’’میں نے ؟‘‘بھوپیندر پریہار ایک دم سے چونکے۔

’’ہاں تم نے۔ ہاں، اس لئے کہ دس برس پہلے ہی اس کے اندر کے لاوے کو بجھا چکے تھے تم۔ ۔ ۔  اور اسی لئے وہ تمہارے لئے نہیں تھی۔ ۔ ۔  یا مر گئی تھی۔ ۔ ۔  اور اس بڑھاپے میں بھی تمہارے اندر ایک گرم، دہکتا ہوا جسم ہے۔ ۔ ۔  سنو پریہار۔ ۔ ۔  تم نے اپنی تہذیب اور روایت کے وہ موتی چنے ہیں جہاں صرف ’’ایک بیوی بس، یا لوگ کیا کہیں گے’‘ کی بندشیں ہوتی ہیں ۔ ۔ ۔ تم لاکھ ماڈرن بننے کی کوشش کرو مگر تم ہو وہی۔ ۔ ۔  ایک بزدل مرد۔ ۔ ۔  اگر اتنی ہی آگ تمہارے اندر ہے تو تم اپنا جسم کسی مرد سے کیوں نہیں بانٹتے ۔ ۔ ۔؟ جہاں تمہیں بند کمرے میں داخل ہونے کے لئے تم کو بہت سے سوالوں کا جواب نہیں دینا ہو گا۔ ۔ ۔’‘

’’لیکن خود کو۔ ۔ ۔’‘ بھوپیندر پریہار کا جسم تھر تھرایا۔

’’بھول کر رہے تو تم۔ خود کو ابھی دیکھا کہاں ہے۔ اسے تو تم نے Gay یا Homosexuality اور کئی دوسرے غلط ناموں میں باندھ رکھا ہے۔ ۔ ۔  میں کہتی ہوں میں لسبین ہوں، تب بھی تمہارا سماج اچانک ہم پر بے رحم ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ لسبین یعنی کسی ناجائز نظریے کی اولاد۔ ۔ ۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہم نے آپس میں سکھ، امن، شان و شوکت اور سرشاری کی انتہا ڈھونڈ لی ہے۔ اب تم چاہو تو جاسکتے ہو۔ ۔ ۔’‘

آخری جملہ اس قدر ٹھہر ٹھہر کر بولا گیا تھا کہ بھوپیندر پریہار کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ اندھیرا دھیرے دھیرے چھٹ رہا تھا۔ ۔ ۔  چھوٹی کاتیائن کے لفظ چیخ رہے تھے اور اس چھٹتے ہوئے اندھیرے میں وہ کئی پرچھائیوں کو سمٹتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ ۔ ۔  ماں، بابوجی، بیوی، سمن۔ ۔ ۔  پرچھائیاں ایک دم سے ہٹ گئی تھیں۔ ۔ ۔  گے (Gay)، لسبین اور کتنے ہی غیر فطری رشتے۔ ۔ ۔  اب ایک سہما سا اُجالا تھا۔ ۔ ۔  اور اس اُجالے میں وہ صاف دیکھ رہے تھے کہ وہ اپنی عمر سے زیادہ جی چکے ہیں۔ زندگی، موت، سکھ۔ ۔ ۔  کہنا چاہئے ایک پل کو چھوٹی کاتیائن کے الفاظ کے تیرسے گھبرا کر وہ کافی دور نکل آئے تھے۔ ۔ ۔ اور اب۔ ۔ ۔  بھوپیندر پریہار کے ہونٹوں پر ایک تیکھی سی مسکراہٹ تھی۔ ۔ ۔

’’سنورماکاتیائن۔ ۔ ۔  وہ اس کی طرف دیکھے بغیر بولے۔ ۔ ۔  ٹٹول ٹٹول کر اپنے لفظوں کو یکجا کرتے ہوئے بولے۔ ’’سنو۔ ہم میں سے کوئی بھی کبھی بھی مر سکتا ہے۔ ۔ ۔  سمجھ رہی ہونا۔ ۔ ۔ کبھی بھی مرسکتا ہے ۔ ۔ ۔ کیوں کہ ہم اپنی عمر سے زیادہ جی چکے ہیں۔ ۔ ۔  اس لئے۔ ۔ ۔’‘ پتہ نہیں وہ اور کیا کیا کہہ رہے تھے لیکن چھوٹی کاتیائن۔ ۔ ۔  انہیں کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ صرف ایک ٹک بھوپیندر پریہار کا چہرہ تکے جا رہی تھیں۔ ہاں، اس عمل کے دوران، ان کے اندر تیز سنسناہٹ ہو رہی تھی۔ جو اس سنسناہٹ سے مختلف تھی جیسی سانڈ والے حادثے کے دن بڑی کاتیائن کی بانہوں میں سمٹ کر اس نے محسوس کی تھی۔ ۔ ۔  پتہ نہیں یہ کیا تھا، اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ ۔ ۔  یا۔ وہ سمجھنا نہیں چاہ رہی تھیں۔

               آخری مکالمہ چھوٹی کاتیائن کا

وہ اسی نائٹی میں تھیں۔ سلیولیس سیاہ نائٹی میں۔ آئینے کے سامنے۔ ۔ ۔  لیکن آئینہ شانت تھا۔ آئینے میں کہیں کوئی آگ، کوئی بھڑکیلا پن، کوئی لگاؤ، کوئی کشش نہیں رہ گئی تھی۔ دھیرے دھیرے ریتا کاتیائن نے نائٹی کے تمام ہک کھول ڈالے۔ ذرا فاصلے پر بڑی کاتیائن کھڑی تھیں، اور انہیں گھورے جا رہی تھیں۔ لیکن ان کے اس طرح دیکھنے میں کوئی بزرگی، کوئی حکم یا کوئی خفگی شامل نہیں تھی۔

اچانک چھوٹی کاتیائن کے منہ سے ایک تیز چیخ نکلی۔ نائٹی کے تمام ہک انہوں نے کھول ڈالے تھے۔ آئینے میں ایک سہما، بے ڈھنگا جسم مردہ پڑا تھا۔ وہ بوکھلاہٹ میں چیختی ہوئی بڑی کاتیائن کی طرف جھپٹیں۔ ۔ ۔

’’آگ کہاں ہے ؟ میرے جسم کی آگ کیا ہوئی؟‘‘

بڑی کاتیائن ایسے چپ تھی، جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہیں ہو۔

’’سنو، میرے اندر۔ ۔ ۔  تم نے تو کہا تھا۔ ۔ ۔’‘ چھوٹی کاتیائن کی نظریں جیسے مدتوں بعد بڑی کاتیائن کی آنکھوں میں سمائی جا رہی تھیں۔ ۔ ۔  یاد ہے۔ ۔ ۔ ؟ سنو، تم نے ہی کہا تھا، آہ تم اب بھی ویسی ہو۔ ۔ ۔  بالکل ویسی ریتا کاتیائن۔ ۔ ۔  سنو، مرد اس تندور کو کب کا ٹھنڈا کر چکا ہوتا ہے’‘۔ ۔ ۔  وہ پھر چیخی۔ ۔ ۔  ’’آگ کہاں ہے، میرے اندر کی آگ کہاں ہے۔ ۔ ۔ ؟‘‘

بڑی کاتیائن کا چہرہ ہر پل تیزی سے بدل رہا تھا۔

’’تم۔ ۔ ۔  تم سن رہی ہو۔ میں۔ ۔ ۔  میں کیا پوچھ رہی ہوں۔ ۔ ۔ ؟‘‘

کافی دیر بعد بڑی کاتیائن کے بدن میں حرکت ہوئی۔ ۔ ۔  اس نے چھوٹی کی جلتی آنکھوں کی تاب نہ لا کر نظریں جھکا لیں۔

’’آگ تو میرے پاس بھی نہیں ہے۔’‘

بڑی کاتیائن کے الفاظ سرد ہو چکے تھے۔ پھر وہ ٹھہری نہیں، تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئیں۔

آئینے میں ابھی بھی چھوٹی کاتیائن کا سہما، بے ڈھنگا جسم پڑا تھا۔ ۔ ۔ اور شاید مردہ بھی۔

٭٭٭

 

مرد

               (الف)

مسز گروور اور تانیہ ایک منظر دیکھتی ہیں

’’وہ ہنس رہے ہیں، باتیں کر رہے ہیں۔ ۔ ۔’‘

ناگواری سے کہا گیا۔ ۔ ۔ ’’ہوتا ہے !‘‘

’’اب انہوں نے چھریاں سنبھال لی ہیں۔’‘

اِدھر ایک کپکپی طاری کر دینے والی کیفیت۔ ۔ ۔ جواب میں کہا گیا۔ ۔ ۔ ’’اور دیکھو‘‘۔

اُدھر سے پھر ایک حیرت بھری آواز۔ ۔ ۔ ’انہوں نے ڈونگرے سنبھال لئے ہیں۔’‘

’’اُف! وہ کتنے اوجڈ، باتونی اور جلد باز ہیں۔’‘

’’انہوں نے چھریاں سنبھال لی ہیں اور اب وہ اپنے بے ڈول ہاتھوں سے سبزیاں کاٹ رہے ہیں۔’‘

’’کاٹنے دو۔’‘جواب میں کہا گیا۔ ’’اور ہاں اب نیچے اتر آؤ۔’‘

***

سامنے ایک کھڑکی کھلتی تھی۔

بلند و بالا عمارتوں کے بیچ شہر پھرسے اندھیرے میں گم ہو گیا تھا۔ ۔ ۔ ایک بڑی عمارت، اس سے بالکل قریب ایک دوسری بڑی عمارت اور اس سے بالکل قریب۔ ۔ ۔

ہوا کئی کئی روز تک ان گلی کوچوں کے چکر لگانا بھول جاتی۔ لوگوں کو اس بات کا احساس تک نہیں تھا۔ کوئی بھی نہیں پوچھتا، نہ ہی پوچھنے کا ان کے پاس وقت تھا۔

’’سنو بھئی، تم نے ہوا کو دیکھا ہے ؟ کیا آج ہوا نے ادھر کا رخ کیا تھا؟‘‘

***

ہنسئے مت، سچ تو یہ ہے کہ ادھر صرف بلند و بالا عمارتوں کا جنگل رہ گیا تھا۔ رہنے والے نظر نہیں آتے تھے۔ رنگ برنگی، گھومتی لہراتی، ڈولتی گاڑیاں نظر آتی تھیں جو کبھی ان عمارتوں میں داخل ہوتیں، کبھی باہر نکلتیں بس۔ ۔ ۔ اور اسے محض اتفاق ہی کہا جائے گا کہ ’’مارٹن کرا‘‘ میں بنی ان دو عظیم عمارتوں پانچویں منزل کی کھڑکیاں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھلتی تھیں۔ ایک میں اکثر مسزگروور، اِس بوڑھی کھوسٹ نک چڑھی لیڈی اور اس کی سولہ سالہ پوتی تانیہ کو دیکھا جاسکتا تھا۔ چاروں طرف سے بنداس پانچویں منزل کے فلیٹ کو بس یہ سامنے کی جانب کھلنے والی کھڑکی ہی زندگی سے جوڑتی تھی۔ یعنی ایک ذرا سی ہوا۔ ایک ذرا سی سانس۔

سامنے والے فلیٹ کی کھڑکی ہمیشہ بند رہتی تھی۔

مسزگروور تانیہ سے اکثر پوچھتیں۔ ’’دیکھ کر بتاؤ کوئی آیا؟‘‘

سوال میں ہر بار ایک گہرا اضطراب آمیز تجسس ہوتا، گویا بجھے بجھے مکالموں کو جینے کے لئے کچھ اور جگہ مل جائے۔

تانیہ کے جواب میں ہر بار ایک مایوسی ہوتی۔

’’کوئی امکان نہیں۔’‘

’’کیوں ؟‘‘

’’یہ فلیٹ کرائے پر نہیں لگے گا‘‘۔

’’کیوں نہیں لگے گا اُلو کی پٹھّی۔’‘

عین ممکن تھا مسز گروور تانیہ کے ہلکے پھلکے مذاق سے مشتعل ہو کر گالی گلوچ پر اتر آتیں مگر تانیہ کی شفاف ہنسی ان کے تیکھے مکالموں کی ہوا انکل دیتی۔ بس وہ دھیرے دھیرے  بڑبڑاتیں۔ ۔ ۔ ’’کتیا، حرام زادی، دیکھ توکیسے پورے وجود کے ساتھ ہنستی ہے۔ ۔ ۔  بن ماں باپ کی بچی۔’‘ دوسرے ہی لمحے ایک سرد سی لہر مسز گروور کو بھگوتی، گدگداتی چلی جاتی۔

***

لیکن اس دن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ بڑھیا مسز گروور نے کوئی گالی نہیں بکی۔ ماحول کے بوجھل پن کے درمیان تانیہ کی ہنسی کہیں کھو گئی تھی۔

’’اماں ! کھڑکی کھلی ہے۔ ۔ ۔’‘

’’اچھا۔ ۔ ۔ !‘‘

مسز گروور بستر سے اٹھ کر بیٹھ گئی تھیں۔ ’’کوئی ہے کیا، بتانا؟‘‘

’’ابھی تک تو کوئی نہیں۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ ٹھہر۔ ۔ ۔  کوئی آ رہا ہے۔ ۔ ۔  وہ آ گئے ہیں۔ اماں۔ ۔ ۔  وہ تین ہیں۔ ۔ ۔’‘

’’تین۔ ۔ ۔  لیکن کون ہیں ؟‘‘

’’وہ مرد ہیں اماں۔’‘

’’ان کے ساتھ کوئی عورت نہیں ہے۔ ۔ ۔’‘

’’شاید نہیں۔ ۔ ۔  کیونکہ ایک نے۔ ۔ ۔’‘

’’کیا ایک نے۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’ویکیوم کلینر آن کر لیا ہے۔ ۔ ۔  شاید وہ کچن کی صفائی کرنے والے ہیں۔ ۔ ۔’‘

’’تم نے اچھی طرح دیکھا کہ وہ مرد ہیں ؟‘‘

’’ہاں۔’‘

’’اور یہ بھی کہ وہ اب کچن کی صفائی کرنے والے ہیں۔ ۔ ۔’‘

’’ہاں اماں۔’‘

’’ٹھیک ہے۔ اب اتر آؤ۔’‘

’’اماں ذرا ہاتھ تو تھامو۔ ۔ ۔’‘

’’ٹھیک ہے کمبخت۔ ۔ ۔  لے پکڑ۔ ۔ ۔  لیکن مجھے گرا مت دینا۔’‘

لکڑی کا ایک چھوٹا سا اسٹول تھا، جس پر پاؤں رکھ کر تانیہ بہ آسانی کھڑکی سے اس پار دیکھ سکتی تھی۔

’’تو مرد آئے ہیں۔’‘۔ ۔ ۔  مسزگروور ابھی بھی بڑبڑا رہی تھیں۔

’’ہاں اماں، اس میں نیا کیا ہے ؟آج کل بہت سے مرد۔ ۔ ۔’‘

تانیہ ’’اکیلے رہتے ہیں’‘ کہتے کہتے رک سی گئی تھی۔ ۔ ۔

’’تو نے دیکھا ہے نا۔ ان کے ساتھ کوئی عورت۔ ۔ ۔’‘

’’عورت ہوتی تو ویکیوم کلینر سے۔ ۔ ۔  لو تم خود ہی آواز سن لو۔ صفائی ہو رہی ہے۔’‘

’’ہاں ۔ ۔ ۔‘‘ مسز گروور کے ہونٹوں پر ایک پُراسرار مسکراہٹ تھی۔ ’’مردوں کو صفائی کا کہاں دھیان رہتا ہے ؟‘‘ اب ان کی آواز میں ’’چوری پکڑی جانے والی‘‘ جھلاہٹ سوار تھی۔ ۔ ۔  ’’مرد تیری طرح نہیں ہوتے۔ کام چور کہیں کی۔ ۔ ۔’‘

’’پھر کیسے ہوتے ہیں ؟‘‘

’’مرد تومرد ہوتے ہیں۔ ۔ ۔  بس کہہ دیا نا۔ زیادہ بک بک مت کیا کر۔ ان لڑکیوں کو ذرا سا موقع دے کر دیکھو بس شروع ہو جاتی ہیں، سرچڑھنے لگتی ہیں۔ بیل کی طرح۔ اب جا، کھڑی کھڑی میرا منہ کیا دیکھ رہی ہے ؟‘‘

’’جاتی ہوں، تم بھی عجیب ہو اماں۔’‘ تانیہ مسکراتی، اٹھلاتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔

مسز گروور دھیرے سے بڑبڑائیں۔ ۔ ۔  ’’تو صفائی ہو رہی ہے۔ ۔ ۔  ہونہہ۔ ۔ ۔  مرد صفائی کیا جانیں۔ ۔ ۔  صفائی تو۔ ۔ ۔’‘

وہ آدمی آ چکا تھا جسے اپنا خاوند کہتے ہوئے اسے ہر بار شرمندگی کا احساس ہوا تھا۔ کہنا چاہئے دل نے گوارہ  تو کبھی نہیں کیا تھا مگر وہ شوہر تھا۔ رسم وراج کے مطابق۔ ۔ ۔  شوہر۔ ۔ ۔ اس لئے ان دکھ بھرے دنوں کا گواہ تواسے بننا ہی تھا۔

تو وہ آدمی آ چکا تھا اور وہ دیر سے اسے دیکھے جا رہی تھی۔ یہ اداس پت جھڑوں کے دن تھے۔ باہر پتے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہے تھے۔ اس نے، اس شخص کو غور سے دیکھا۔ وہ اپنی بنیان اتار رہا تھا۔ پسینے کی گھناؤنی بدبو میں ڈوبی ہوئی بنیان۔ اس نے بنیان ویسے ہی اتار کر بستر پر پھینک دی تھی جہاں وہ سوتی تھی۔ اس کا جی متلا رہا تھا۔ ۔ ۔  وہ آدمی اچانک مڑ کر سامنے آگیا تھا۔ کالا بھیانک چہرہ، بڑی بڑی گول گھومتی آنکھیں، سینے اور کندھوں کے آس پاس اُگے بال۔

اس کی آنکھوں میں ناگواری تھی۔ ۔ ۔  ’’ایسے کیا دیکھ رہی ہو جیسے پہلی بار دیکھ رہی ہو۔ چلو کھانا نکالو بڑی زور سے بھوک لگی ہے۔’‘

’’نہاؤ گے نہیں۔ ۔ ۔’‘

’’نہیں۔ ۔ ۔  کیوں۔ ۔ ۔’‘ وہ زور سے بے ہنگم طریقے سے ہنسا۔

’’نہایا تو پسینے مر جائیں گے۔ پسینے مر گئے تو بھوک بھی مر جائے گی۔’‘ اس نے آہستہ سے اسے دھکاّ دیا۔ ’’جاؤ دماغ مت چاٹو، کھانا نکالو۔’‘

ایک لمحے کو وہ لڑکھڑائی لیکن دوسرے ہی لمحے وہ سنبھل چکی تھی۔ یہ آدمی۔ ۔ ۔  وہ صوفے پر دونوں ٹانگیں پھیلائے لیٹ گیا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ نیچے کے حصے میں اس نے صرف ٹاول باندھ رکھی تھی۔ جبکہ اوپر کا حصہ ننگا تھا۔ ۔ ۔  یہ آدمی، اسی آدمی کے ساتھ اسے ساری عمر گزاری ہے۔ جب وہ کھانا لے کر آئی تو وہ خراّٹے لے رہا تھا۔ منہ بھدے انداز سے کھلتا اور پھر بند ہو جاتا۔ خراٹوں کی عجیب سی آواز فضا میں گونج رہی تھی۔ اس نے روکھے لہجے میں تقریباً چیختے ہوئے کہا۔

’’اٹھو۔ ۔ ۔  کھانا آگیا ہے۔ ۔ ۔’‘

’’رکھ دو۔ ۔ ۔’‘ اس نے آنکھیں کھول دیں۔ اب وہ بُرا سامنہ بنا کر پلیٹ میں رکھے کھانے کو دیکھ رہا تھا۔ ۔ ۔  وہی روٹی، سا، بھاجی، دال۔ ۔ ۔  گفتگو کا دوسرا حصہ نرمی سے بھرا اور چونکانے والا تھا۔

’’سنو۔ ۔ ۔ ، تم نہیں کھاؤ گی؟‘‘

اس نے اپنائیت سے بھری نظروں سے بچنے کی کوشش کی۔ ۔ ۔

’’نہیں، مجھے بھوک نہیں ہے۔’‘

               (شیڈ1-ختم)

وہ بھی پت جھڑ کے دنوں کی ایک اداس صبح تھی۔ تانیہ واپس آئی تو بوڑھی مسز گروور کی آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں۔ ہونٹ ہل ہل کر خراٹوں جیسی آوازیں نکال رہے تھے۔ بدن پسینے سے بھیگ چکا تھا۔

تانیہ ہلکے سے چیخی۔ ۔ ۔  ’’اٹھو اماں۔ نہا لو۔ ۔ ۔’‘

جواب میں مسز گروور کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ ’’کوئی ضرورت نہیں۔’‘

’’پھر تم کھانا کیسے کھاؤ گی؟ جسم تو دیکھو، پیسنے سے شرابور ہو رہا ہے۔’‘

’’باتونی لڑکی۔ ۔ ۔ صرف بک بک کئے جاتی ہے۔ جا، کھانا لے کر آ۔ اور ہاں۔ ۔ ۔  تو نہیں کھائے گی کیا؟ اچھا سن۔ اپنی بھی تھالی لے آنا۔ یہیں بیٹھیں گے۔ کھائیں گے اور باتیں کریں گے۔’‘

تانیہ نے عجیب معنی خیز نظروں سے مسز گروور کو دیکھا۔ پھر وہ تھالیاں لانے چلی گئی، مسز گروورجیسے ابھی بھی سوچ میں ڈوبی تھیں۔ تھالی اٹھا کر بھی ان کی پھیلی ہوئی آنکھیں کسی سوچ میں گم تھیں۔ ۔ ۔

’’مرد میں ایک عجیب سی خوشبو ہوتی ہے۔ ۔ ۔  نہیں۔ ۔ ۔ تُو کھا۔ ۔ ۔  تو کیا سمجھے گی۔ ۔ ۔  ہاں تو۔ ۔ ۔  توبہ۔ بڑے بڑے بال، کالا چہرہ، بالوں سے بھری چھاتی۔ ۔ ۔  کندھوں تک اُگے بال۔ ۔ ۔ اور پسینے کی بدبو۔ ۔ ۔  پاگل۔ ۔ ۔  کتیا۔ ۔ ۔  تو کھاتی کیوں نہیں۔ ۔ ۔ لیکن مرد کے پورے وجود میں ایک عجیب سی خوشبو ہوتی ہے۔ ۔ ۔’‘

تانیہ نے چونک کر اماں کو دیکھا۔ ۔ ۔  اماں تھالی میں رکھے کھانے کو بھول چکی تھیں۔ ان کے چہرے پر بڑی عجیب سی مسکان سجی تھی اور اماں کی آنکھیں گہرے رنگوں میں ڈوب گئی تھیں۔

               (ب)

پوجا۔ ۔ ۔  اور مرد

’’اماں، کھڑکی کھل گئی ہے۔’‘

مسزگروورپھر چیخیں۔ ۔ ۔  ’’کمبخت، اسٹول پر ٹھیک سے کھڑی رہ، گر جائے گی۔ ۔ ۔  ہاں، تو با وہاں کیا ہو رہا ہے ؟‘‘

تانیہ مڑی، ہونٹوں پر انگلی رکھی۔ ۔ ۔  ’’شی! کوئی آ رہا ہے۔ ۔ ۔  ارے وہی ہے اماں۔ کل والا آدمی۔’‘

’’اکیلا ہے ؟‘‘

’’ہاں۔’‘

’’آج بھی کوئی عورت نہیں ؟‘‘

’’نہیں۔’‘

’’نوج!  یہ مرد ہمیشہ سے اکیلے ہوتے ہیں۔ بیوی بچے، پورا پریوار ہو تب بھی اکیلے ہوتے ہیں۔ ۔ ۔  اب ٹکر ٹکر میرا منہ کیا دیکھ رہی ہے۔ ۔ ۔  کیا کر رہا ہے وہ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

تانیہ مسکرائی ’’ہاتھ میں اگر بتی ہے۔ ۔ ۔  شیو جی والی اگر بتی۔ ۔ ۔  پوجا کر رہا ہے۔ ۔ ۔’‘

’’پو۔ ۔ ۔ جا۔ ۔ ۔’‘مسز گروور زور سے ہنسیں۔ ’’اچھا چل۔ ناس پیٹی۔ اسٹول سے اتر آ۔ ۔ ۔’‘ وہ اب بھی ہنس رہی تھی۔

’’یہ مرد پوجا ووجا کیا جانیں۔ ۔ ۔  ضرور اپنے پاپ دھو رہا ہو گا۔’‘

               (شیڈ2-)

اس کے لئے پوجا کیا ہے یہ تو وہ اسی رات جان گئی تھی۔ ۔ ۔  شا دی والی رات شاید اس کے لئے زندگی کی سب سے بھیانک رات تھی۔ ۔ ۔ وہ آدمی۔ ۔ ۔  اس آدمی کو شوہر کے طور پر قبول کرنا بس اس کی مجبوری ہے ورنہ اسے تو پل دو پل ڈھنگ سے دیکھنا بھی خود پر ظلم کرنا تھا۔ مجبوری یہ تھی کہ وہ اس گھر سے آئی تھی جہاں ہاتھ تنگ ہوتے ہیں اور لڑکیاں بھاری۔ کسی بدنصیب لمحے میں اگر قسمت نے اسے اس آدمی کو سونپ دیا تھا تو اس میں کسی کی بھی غلطی نہیں تھی۔ ہاں ! بدقسمتی سے یا شاید یہ عمر کا تقاضہ تھا کہ کچھ حسین سے سپنے پلّو میں بندھے رہ گئے تھے۔ ان سپنوں کی موت پر اسے ضرور رونا آیا تھا۔

شا دی والی رات، وہ پو پھٹنے سے پہلے ہی بستر چھوڑ کر اٹھ بیٹھا۔ ۔ ۔  وہ جائزہ لیتی رہی۔ ۔ ۔ اس نے کوئی نوٹ بک نکالی تھی۔ لیمپ کی روشنی میں وہ کسی قسم کے حساب کتاب میں لگا ہوا تھا۔ ایک انتہائی حسین رات۔ ۔ ۔ وہ اس رات بھی اس قدر اکتا دینے والا کام۔ ۔ ۔

’’کیا کر رہے ہو؟‘‘

’’کچھ نہیں۔’‘ اس کے جواب میں روکھا پن تھا۔ بزنس کا کچھ حساب کتاب رہ گیا تھا۔ تم سوجاؤ۔’‘

یہ آدمی۔ اسے اس آدمی کی جمالیاتی حس پر غصہ آ رہا تھا۔ کم سے کم اس رات تو اسے اس عورت کو جی بھر کر دیکھا چاہئے تھا، جس کو اس نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ مگر جیسے، وہ ان سب باتوں سے بے نیاز تھا۔ ۔ ۔  سپنے کرچیوں کی صورت اندر ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہے تھے۔ ۔ ۔  ایسے آدمی کے ساتھ، ایسے آدمی کے ساتھ، جہاں خواہشیں نہیں ہوں، خواب نہیں ہوں۔ بس ایک روٹین لائف والا جانور ہو ہو۔ ۔ ۔  ایک چھوٹی سی زندگی کیسے کیسے سمجھوتوں کی نذر ہو جاتی ہے۔

شاید عورت بہت چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بھی خوشیوں کا جواز ڈھونڈ لیتی ہے۔ جیسے اسے بتایا جائے کہ اس نے جو پہن رکھا ہے وہ کیسا ہے۔ یا وہ کیسی لگ رہی ہے۔ یا اس میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لی جائے۔ اسے کریدا جائے۔ مگر یہاں تو۔ ۔ ۔  اس کا واسطہ ایک پتھر سے تھا۔ ۔ ۔  اور وہ بس کام سوتر کا کوئی مبہم سوتر بن کر رہ گئی تھی جسے کسی کسی رات، نئے طرح سے بوجھنے کی واتسیاین کی خواہش بڑھ جاتی تھی۔ بس۔ ۔ ۔  کام، بزنس اور پیسہ۔ ۔ ۔   اسے پوجا وغیرہ کے کاموں میں ذرا دلچسپی نہیں تھی۔ ہاں، تب اس دن۔ ۔ ۔  جب سبودھ پیدا ہوا تھا۔ وہ ہون کا سامان اور پنڈت کو لے کر آیا تھا اور حد سے زیادہ خوش تھا۔

اسے تعجب ہوا۔ ۔ ۔ ’’تم۔ ۔ ۔ تم یہ بھی کرسکتے ہو!‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’نہیں، مجھے لگتا تھا۔ ۔ ۔’‘

’’ہر کام وقت پر اچھا لگتا ہے۔ ۔ ۔’‘

’’اگر  ہوتی تو۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’تو دیکھا جاتا۔ ۔ ۔’‘ وہ ٹھہرا، پھر بولا۔ ۔ ۔  ’’تو کیا۔ ۔ ۔  تب بھی پوجا کرواتا۔ اب میں اتنا بھی گیا گزرا نہیں ہوں’‘۔ ۔ ۔  دوسرے ہی لمحے وہ اپنے رنگ میں واپس آ چکا تھا۔ ۔ ۔  ’’اب زیادہ بک بک مت کرو۔ پنڈت جی آئے ہیں، ان کی سیوا میں لگ جاؤ۔’‘

اس رات وہ کافی دیر سے آیا۔ آدھی رات گئے دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھلا تو سامنے وہ نشے میں دھت کھڑا تھا۔

’’پی کر آئے ہو؟‘‘

’’ہاں۔’‘

’’کہاں گئے تھے ؟‘‘

وہ غصّے میں بے ہودہ انداز میں چیخا۔ ۔ ۔  ’’بتانا ضروری ہے کیا؟‘‘

’’ہاں، اس لئے کہ اب تم اکیلے نہیں ہو گھر میں۔ ۔ ۔’‘ کہتے کہتے وہ رک گئی تھی۔

اس نے لڑکھڑاتے ہوئے ہاتھ اٹھایا تھا مارنے کے لئے ۔ ۔ ۔ ’’کمینی کہیں کی۔ جرح کرتی ہے۔ جیسے وہ صرف تیرا ہی بیٹا ہے۔ ارے میرا بھی ہے، تبھی تو جشن منا کر آیا ہوں۔ ۔ ۔’‘

’’جشن؟‘‘ وہ سہم کر پیچھے ہٹی تھی۔

’’ہاں جشن۔’‘ وہ لڑکھڑا نے کے باوجود نارمل لگنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’’دوست اس خوشی میں کھینچ کر لے گئے تھے۔ ۔ ۔  ناچنے والی کے پاس۔ ۔ ۔  لیکن دیکھو میں چلا آیا۔ ۔ ۔’‘

وہ بستر پر اوندھا گر گیا۔ جوتے تک نہیں اتارے۔ ۔ ۔  اس کے کپڑوں سے تیز بدبو اٹھ رہی تھی اور اس کا سربری طرح جھنجھنا رہا تھا۔ ناچنے والی کے پاس؟ نہیں کم سے کم آج کی رات۔ ۔ ۔  وہ اس آدمی کے ساتھ بیڈ شیئر نہیں کرسکتی۔ ۔ ۔   وہ اس بستر پر اس کے پاس پاس نہیں لیٹ سکتی۔

تبھی بچے کے چیخ کر رونے کی آواز آئی۔ اس نے بچے کو گود میں اٹھایا اور تیزی سے دوسرے کمرے میں آ گئی۔

               (شیڈ2-ختم)

مسز گروور اچانک زور زور سے ہنسنے لگیں۔ تانیہ نے گھبرا کر ان کی طرف دیکھا۔ ’’کیا بات ہے اماں۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’نہیں، کچھ نہیں۔ یہ مرد۔ ۔ ۔’‘ وہ اب بھی زور زور سے ہنسنے جا رہی تھی۔ ۔ ۔ ’’تجھے کیا معلوم، مرد کو کسی بات کا ہوش نہیں رہتا۔ مرد۔ ۔ ۔  مرد ہوتا ہے۔ اس کی ہر ادا میں سنگیت ہے۔ ہر سُر میں سادھنا۔’‘

تانیہ کو جھٹکا لگا تھا۔ ’’اب یہ نئی بات کہہ رہی ہو تم اماں۔’‘

’’پگلی۔’‘ اماں کو غصہ آیا۔ ’’مرد کوسمجھنے کے لئے تجربہ چاہئے اور تجربے کو عمر۔ تو کیا جانے کمبخت۔’‘

مسز گروور چپ تھیں، جیسے پرانی کہانیوں کی بارش نے انہیں پوری طرح بھگو دیا ہو۔ ’’سچی بات ہے۔ ۔ ۔  مرد کے ہر انداز میں نشہ ہے لیکن یہ بات کتنی دیر بعد سمجھ میں آتی ہے۔ ۔ ۔’‘

’’وہ مارتا بھی تھا؟‘‘

تانیہ کی بات پر مسز گروور غصے میں جھپٹیں۔ ۔ ۔  ’’حکومت کرنے والا بادشاہ ہوتا ہے۔ باقی لوگ رعایا۔ جو حکومت کرتے ہیں انہیں مارنے کا بھی حق ہوتا ہے۔ مرد فطرتاً حاکم ہوتے ہیں۔’‘

’’اور چیخنا چلانا؟‘‘

’’یہ سب بادشاہوں کی طبیعت میں شامل ہے۔ ۔ ۔’‘

’’اور روکھا پن؟‘‘

’’یہ مرد کی فطری ادا ہے۔ ارے یہی خوشبوئیں تو۔ ۔ ۔’‘

مسز گروور کہتے کہتے ٹھہریں، پھر چیخیں۔ ۔ ۔  ’’تو یہ سب کیوں پوچھ رہی ہے۔ ۔ ۔  باؤلی ہوئی ہے ؟ کمبخت کام کی نہ کاج کی۔ ۔ ۔  چل بھاگ یہاں سے۔ ۔ ۔’‘

وہ ابھی تک اس بے رحم جلاد کی خوشبوؤں میں ڈوبی ہوئی تھیں۔

               (ج)

               مرد کی خوشبوؤں کے کچھ اور رنگ

’’اب کیا ہے ؟ بتاتی کیوں نہیں ؟‘‘

’’ٹھہرو۔ ۔ ۔  دیکھنے تو دو۔ ۔ ۔  وہ تین ہیں۔’‘

’’تین ہیں۔ ۔ ۔  یہ کیا؟ کبھی گھٹ جاتے ہیں، کبھی بڑھ جاتے ہیں ؟‘‘

’’شی۔ ۔ ۔’‘ تانیہ نے ہونٹوں پر انگلی رکھی۔ ۔ ۔  وہ غصّے میں ہیں، اور آپس میں جھگڑ رہے ہیں۔ وہ تیز تیز باتیں کر رہے ہیں۔ ۔ ۔’‘

’’جھگڑ رہے ہیں۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’ہاں، اور شاید ان میں سے ایک، جو کل پوجا کر رہا تھا اس کی۔ ۔ ۔  آنکھوں میں آنسو ہیں۔ ۔ ۔’‘

’’اے لڑکی۔’‘۔ ۔ ۔ مسز گروور گمبھیر لہجے میں مخاطب تھیں۔ ’’دوسروں کے پھٹے میں پاؤں نہیں ڈالتے۔ چلو اتر آؤ۔ اور لڑکی۔ ۔ ۔  کیا دیکھا تم نے۔ ۔ ۔  وہ مرد۔ ۔ ۔  کیا کہا۔ ۔ ۔ رو رہا تھا؟ کمبخت ان مردوں کو تو، کبھی ڈھنگ سے رونا بھی نہیں آیا۔ ۔ ۔   چلو اسٹول ٹھیک سے تھامو۔ اور نیچے اتر آؤ۔’‘

               (شیڈ3-)

وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی، آخر اس آدمی میں کہیں تو محبت کی کوئی کونپل چھپی ہو گی، کہیں کسی گوشے میں۔ کبھی تو وہ محبت کی اس کونپل کو باہر لانے کی کوشش کرے گا۔ عورت کیلئے ماں بننا ایک عجیب سا تجربہ ہے ۔ ۔ ۔ اپنے جسم سے اپنے ہی جیسے گوشت کے لوتھڑے کا باہر نکل آنا۔ پھر اس کی اٹکھیلیوں کو دیکھنا۔ ۔ ۔  ایک خوشگوار حیرانی۔ ۔ ۔  کبھی کبھی وہ چھٹپٹا کر رہ جاتی۔ بہت ہوتا تو اس کے جنگلی پن سے واقف ہونے کے باوجود سوال کر بیٹھتی۔

’’کیسے آدمی ہو تم؟‘‘

’’کیوں ؟‘‘ اس کے لبوں پر غصے کی پیڑیاں جمی ہوتیں۔

’’بچہ بڑا ہو رہا ہے۔’‘

’’سارے بچے بڑے ہوتے ہیں۔’‘

’’لیکن یہ سارے بچوں میں سے نہیں ہے۔ یہ تمہارا۔ ۔ ۔  تمہارا  اپنا خون ہے۔’‘ وہ غصے میں چیختا۔ ۔ ۔  ’’تو کیا یہ کسی اور کا بھی خون ہو سکتا تھا۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’نہیں۔ ۔ ۔  میرا مطلب ہے۔ ۔ ۔  شاید اپنے بچے کو اس طرح بڑے ہوتے دیکھنا۔ ۔ ۔  اپنے آپ میں۔ ۔ ۔  تم سمجھ رہے ہونا، میں کیا کہنا چاہتی ہوں ؟‘‘

’’ہاں ! اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ تمہارے پاس کام نہیں ہے۔ خالی دماغ پڑا ہے، دن بھر اوٹ پٹانگ باتیں سوچنے کے لئے۔ ۔ ۔’‘

’’زندگی کس لئے ہوتی ہے ؟‘‘ وہ اپنے آپ سے کہتے ہوئے ٹھہر جاتی۔ مگر زندگی اور زندگی سے جڑی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی اسے پرواہی کہاں تھی۔ ۔ ۔  ایک بے حد اوجڈ اور وحشی انسان۔

سپنوں کے پت جھڑ کے دن جیسے اب دور ہو چکے تھے۔ اب ایک بچہ تھا اس کے پاس۔ اور بچہ بڑا ہو رہا تھا۔ بچے کے پاس اڑانیں تھیں۔ بچے کے پاس سپنے تھے۔ ۔ ۔  اور اس بچے میں ایسا بہت کچھ تھا، جو صرف اسی کا تھا، جو اس کے شوہر کا نہیں تھا۔

پھر بچہ اسکول جانے لگا۔ بچے کے اسکول جانے کا مطلب اس کے نزدیک بس اتنا تھا۔ ۔ ۔ کاپیاں، کتابیں لے آنا۔ ۔ ۔  فیس جمع کر دینا۔ کبھی کبھی کتاب یا کاپی کھو جانے پر اسے ڈانٹ دینا یا تھپڑ مار دینا۔

ایک بار سمجھانے کے خیال سے وہ اس کے بہت پاس کھسک آئی۔

’’سنو۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’کیا ہے ؟‘‘

’’بچہ کچھ اور بھی چاہتا ہے۔’‘

’’کیا؟‘‘

’’ہاں، کچھ اور۔ ۔ ۔  مثلاً یہ کہ ہر اچھی بری بات اس سے شیئر کی جائے۔ اس کے بھولے بھالے معصوم سوالوں کا جواب دیا جائے۔ ۔ ۔  اسے نظر انداز نہیں کیا جائے۔ اسے وقت دیا جائے۔ کبھی کبھی اسے پکنک پر بھی لے جایا جائے۔ ۔ ۔ اور کبھی کبھی۔ ۔ ۔’‘ ’’میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں۔’‘

وہ دیر تک غور سے اس جنگلی آدمی کا چہرہ پڑھتی رہی۔ ۔ ۔  تو باپ کے پاس وقت نہیں تھا اور بیٹا اس سے ڈرتا تھا۔ بیٹے کو بہت زیادہ اس کی موجودگی پسند نہیں آتی  تھی۔ بیٹا اپنے ایسے ہی باغی خیالات کو لے کر بڑا ہو رہا تھا اور ایک دن بڑے ہونے پر بیٹے کی حرکتوں سے لگا۔ اس میں چاہت کی کونپلیں پھوٹنے لگی ہیں۔ ۔ ۔  بیٹے کی حرکتیں ہی کچھ ایسی تھیں، اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔ کبھی کبھی بیٹھے بیٹھے وہ خیالوں میں گم ہو جاتا تھا۔ اسے بھوک نہیں لگتی تھی۔ وہ صبح سویرے ہی گھر سے نکل جاتا تھا اور ایک دن اس کی کتابوں سے ایک لڑکی کی تصویر بھی نکل آئی تھی۔

’’کون ہے یہ؟‘‘ اس کے لہجے میں اپنے پن کی مٹھاس تھی۔

’’تمہیں کہاں سے ملی؟‘‘ بیٹے کو چوری پکڑے جانے کا احساس تھا۔

’’کہیں سے بھی۔ لیکن یہ ہے کون؟‘‘

’’کوئی ہے۔’‘

’’لیکن کون ہے ؟‘‘

بیٹے کی آنکھوں کی چمک بجھ گئی تھی۔ ۔ ۔  ’’کوئی ہے، جو اس گھر میں نہیں آ سکتی۔ سناماں ! اس گھر میں نہیں آ سکتی!‘‘

’’لیکن کیوں ؟‘‘وہ ایک دم سے چونک گئی تھی۔

’’کیونکہ۔ ۔ ۔  تم اچھی طرح جانتی ہو ماں !‘‘

’’میں کچھ نہیں جانتی۔’‘اس کے رگ و پے میں ابھی بھی ہلکی ہلکی سرسراہٹ ہو رہی تھی۔

’’یہ گھر۔ ۔ ۔  یہ گھر نہیں ہے۔ یہ گھر کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ اس گھر کا ماحول بوجھل ہے۔ یہاں۔ ۔ ۔ محبت نہیں ہے۔ ۔ ۔’‘

بیٹا اس جملے کے بعد ٹھہرا نہیں۔

***

شوہر کے آنے کے بعد وہ خود کو روک نہیں پائی۔

’’سنا وہ کیا کہہ رہا تھا؟‘‘

’’کیا؟‘‘

’’وہ۔ ۔ ۔  اسے احساس ہے کہ اس گھر میں۔ ۔ ۔’‘

شوہر کی آنکھیں غصے سے پھیلی ہوئی تھیں۔ دوسرے ہی لمحے وہ چیخا تھا۔ ۔ ۔  کیا، یہ عشق کی عمر ہے اس کی۔ ۔ ۔  اسے وہی سب کچھ کرنا ہے جو میں۔ ۔ ۔’‘

’’وہ ایسا کچھ نہیں کرے گاجو تم کر رہے ہو۔’‘

’’کیوں ؟‘‘

’’کیونکہ اسے تمہاری طرح نہیں بننا ہے۔’‘ وہ پہلی بار اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چیخی تھی۔ ۔ ۔ ’’وہ آدمی بننا چاہتا ہے اور آدمی آدمی ہوتا ہے، آدمی کیپاس وقت ہوتا ہے۔ آدمی کے پاس احساس اور جذبات ہوتے ہیں۔ آدمی عشق بھی کرتا ہے۔ آدمی عشق کو سمجھتا بھی ہے۔ ۔ ۔ اور مجھے کہہ لینے دو، تم یہ سب نہیں جانتے، بالکل نہیں جانتے۔’‘

وہ جانے کو مڑی تو دروازے کے پاس بیٹے سے ٹکڑا گئی۔ بیٹے کا چہرہ پُرسکون تھا پتھر کی طرح۔

’’آؤ ماں۔’‘ بیٹے نے اس کے کانپتے ہوئے وجودکوسنبھالا تھا۔ شوہر نے پلٹ کر دیکھا لیکن اس بار۔ ۔ ۔ وہ کچھ نہیں بولا۔ بس سوچتا رہا اور سوچتے سوچتے وہیں صوفے پر بیٹھ گیا۔

دوسرے ہی روز رات میں اس نے اپنے شوہر کو دیکھا۔ ۔ ۔ وہ فکر مند لگ رہا تھا۔ وہ بار بار ٹہلنے لگتا تھا۔ اسے احساس تھا وہ اس سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔ مگر وہ اپنی عادت سے مجبور تھا۔ ٹہلتے ٹہلتے وہ ٹھہرا۔ وہ اس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھی۔ وہ اس کی جانب سے مڑا۔ اس کے لہجے میں نرمی تھی۔

’’سنو۔ اس سے کہہ دو۔ وہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے کرے۔ مگر ابھی نہیں۔’‘

’’کیا؟‘‘

’’وہ لڑکی۔ ۔ ۔  تم نے بتایا تھا نا۔ ۔ ۔  کہہ دینا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے مگر ہر کام وقت پر ہونا چاہئے۔‘‘

وہ واپس بسترپر آگیا تھا۔ اس نے آنکھیں بھی نہیں ملائیں۔ اوندھے لیٹ گیا اور کچھ ہی دیر بعد اس کے خراٹے گونجنے لگے۔

’’کیسا آدمی ہے یہ؟‘‘وہ غور سے اس کے بد نما بالوں کے گچھوں کو دیکھتی رہی، شاید صرف اتنا کہنے کے لئے ہی اس نے اتنی محنت کی تھی۔ مگر یہ آدمی۔ آخر بیٹے کے لئے اتنا نرم کیسے ہو گیا؟

وہ آج تک نہیں سمجھی۔ ۔ ۔

پھر جیسے دھوپ سرکتی ہے۔ ۔ ۔ جیسے موسم بدلتے ہیں، جیسے برس پر برس گزرتے ہیں۔ ۔ ۔  بیٹا بہو لے آیا۔ پھر تانیہ ہوئی۔ اس میں ابھی بھی کوئی فرق نہیں تھا۔ ۔ ۔  وہ ویسا ہی جنگلی تھا۔ وحشی۔ ۔ ۔  سرپھر ا، روٹین لائف والا جانور۔ ۔ ۔  پھر ایک دن۔ ۔ ۔  تانیہ کو چھوڑ کر بہو بیٹا گاڑی سے جا رہے تھے۔ ۔ ۔  کہ وہ حادثہ پیش آگیا۔

***

وہ بیتے دنوں کو یاد نہیں کرنا چاہتی تھی۔ جیسے دنیا ہی ایک دم سے پلٹ گئی ہو۔ کسی بھیانک سپنے کی طرح وہ اس منظر کو بھول جانا چاہتی تھی۔ ۔ ۔  اسے بس اتنا یاد ہے۔ ۔ ۔  اس کے چہرے کی سیاہی اور بڑھ گئی تھی۔ وہ معصوم سی، ننھی سی تانیہ کو قصوروار مان کر چل رہا تھا۔ ۔ ۔  لیکن لفظ لفظ باہر نہیں آ رہے تھے۔ گھر میں مزاج پرسی کے لئے آنے والوں کی بھیڑ بڑھنے لگی تھی۔

پھر رات ہوئی، باہر ضرور کتّے رو رہے ہوں گے۔ ہلکی بارش بھی ہوئی ہو گی۔ اسے احساس تھا۔ سڑک سنسان اور دُھلی ہو گی۔ وہ بچوں سے اپنا دھیان ہٹانا چاہتی تھی۔ اس نے دیکھا، اس کا شوہر اٹھا۔ ۔ ۔  دھیرے سے۔ ۔ ۔  اس رات۔ ۔ ۔ وہ اس رات کو کبھی نہیں بھول سکی۔ وہ رات اسے اپنے بچوں کی موت کے لئے نہیں، بلکہ اس منظر کے لئے یاد رہ گئی تھی۔

کمرے میں تاریکی تھی۔ یقیناً اسے احساس تھا کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے۔ دھیرے دھیرے وہ ننھی تانیہ کی طرف بڑھا۔ اس نے دیکھا۔ ۔ ۔  سوئی ہوئی تانیہ کو اس نے بڑے پیار سے اٹھا کر سینے سے لگا لیا ہے۔ وہ سسکیاں لے رہا ہے مگر چوروں کی طرح سسکیوں کی آواز دھیرے دھیرے تیز ہو رہی ہے۔ حالانکہ وہ ان آوازوں کو اندر ہی روکے رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن کیوں ؟

کچھ دیر تک تانیہ کو سینے سے لپٹائے رہنے کے بعد اس نے اپنے آنسو پونچھے۔ ۔ ۔  تانیہ کو پھر وہیں سلایا اور دوبارہ اپنے بستر پر آگیا۔

اس کے بعد وہ زیادہ تر اداس رہا۔ لیکن اس کی فطرت نہیں بدلی تھی۔ اس کے بعد وہ زیادہ دن زندہ بھی نہیں رہا۔

               (شیڈ3-ختم)

تانیہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

’’تم نے یہ بات پہلے کیوں نہیں بتائی اماں ؟‘‘

مسز گروور اپنی نم آنکھوں کو پونچھتی ہوئی ہنس رہی تھی۔ ’’کمبخت! اتنا ساتھ رہنے پر بھی ایک مرد۔ ۔ ۔  مرد کو نہیں سمجھ سکی۔ ۔ ۔’‘

ان کے چہرے پر اب بھی مسکان پھیلی ہوئی تھی۔

’’لوگ عورت کو پہلیاں کہتے ہیں۔ لیکن۔ ۔ ۔  پہیلیاں تو مرد ہوتا ہے۔ ۔ ۔  اس کے وجود کا کھردرا پن اپنے آپ میں ایک پہیلی ہے اور اس کھردرے پن میں جو نرمی ہے، وہ۔ ۔ ۔  وہ عورت کہاں سے لائے۔ ۔ ۔ ؟‘‘

تانیہ حیرت زدہ ان کے چہرے کو تکے جا رہی تھی۔

مسز گروور چلائیں ۔ ۔ ۔ ’’پاگل لڑکی، میرا منہ کیا دیکھ رہی ہے۔ جا جا کر کچھ کام کر؟‘‘

تانیہ غصّے سے بولی۔ ’’اماں، تم نے ہی تو بلایا تھا۔ ۔ ۔’‘

’’ہاں ۔ ۔ ۔‘‘ مسزگروور کے لفظوں میں ٹھہراؤ تھا۔ ۔ ۔ ’’بلایا تھا تو جانے کو بھی تو میں ہی کہہ رہی ہوں۔  زبان دراز لڑکی۔ ۔ ۔’‘

پھر وہ دیر تک گالیوں سے اسے نوازتی رہیں۔

               (د)

               آخری منظر

’’ہاں، کیا ہے، بولتی کیوں نہیں ؟‘‘

’’اماں۔ ۔ ۔  وہ سامنے۔ ۔ ۔’‘

’’ہاں، بتانا کیا ہے۔ ۔ ۔  یہ گردن اُچکا اُچکا کر کیا دیکھ رہی ہے، ٹھیک سے کھڑی رہ۔ اسٹول گر جائے گا۔’‘

’’شی۔ ۔ ۔’‘ تانیہ نے ہونٹوں پر انگلی رکھی۔

’’وہی ہے کل والا آدمی۔ ۔ ۔  جو رو رہا تھا۔ ۔ ۔’‘

’’اکیلا ہے ؟‘‘

’’نہیں۔ ۔ ۔’‘

’’تو بول نا۔ وہی پہلے والے دو لوگ نہیں ؟‘‘

’’نہیں اماں۔ تم ٹھیک سے دیکھنے بھی نہیں دیتیں۔ ۔ ۔’‘

’’تو دیکھ۔’‘ مسز گروور کو غصّہ آگیا تھا۔

’’اس کے ساتھ ایک۔ ۔ ۔ ؟ ایک عورت ہے۔’‘

’’عورت؟‘‘

’’ہاں اماں، آج اس کے ساتھ ایک عورت بھی ہے۔’‘

مسز گروور کی آواز کہیں پھنسنے لگی تھی۔ ۔ ۔  ’’اور کیا ہو رہا ہے ؟‘‘

’وہ دونوں شاید جھگڑ رہے ہیں۔ مرد عورت کو ڈانٹ رہا ہے۔ غصّے میں تیز تیز بول رہا ہے۔ ‘

’’نگوڑی۔ خیر، تو اسٹول سے اتر آ۔ تیرا اور کوئی کام نہیں ہے کیا؟ جب تب تاک جھانک کرتی رہتی ہے۔ جا میرے لئے کھانا لے کر آ جا۔ بڑی زور سے بھوک لگ رہی ہے۔ ۔ ۔’‘

تانیہ نے گھور کر مسز گروور دیکھا اور ایک جھٹکے سے اسٹول سے کود گئی۔

’’ٹھیک سے، سنبھل کر۔ ۔ ۔  کمبخت ماری۔ ۔ ۔’‘

تانیہ نے جیسے آگے کچھ سنا ہی نہیں۔ وہ اماں کے لئے کھانے کی تھالی لانے چل دی۔

ہاں، تھالی لے کر واپس آتے ہوئے ایک عجیب سا منظر سامنے تھا۔ اماں کسی طرح اسٹول پر چڑھنے میں کامیاب ہو گئی تھیں اور گردن اُچکا اُچکا کر سامنے والے فلیٹ میں کچھ دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔

٭٭٭

 

صدی کو الوداع کہتے ہوئے۔ ۔ ۔

               (1)

’’لیکن اس کا حل کیا ہے ؟‘‘

پاپا کی آنکھوں میں الجھن کے آثار تھے، لہجے سے جذبات غائب۔ ۔ ۔ چہرہ ذرا سا سکڑ گیا تھا۔

ماں کے رویے میں کھوکھلے قسم کی سختی تھی۔ ۔ ۔ ’’آنے والے مہمان کو آنے ہی نہیں دیا جائے۔ ۔ ۔  یعنی۔ ۔ ۔’‘

یہ ایک دو ٹوک فیصلہ تھا۔ ۔ ۔

’’لیکن کیا رِیا تیار ہو جائے گی۔ ۔ ۔؟‘‘

پاپا کے ماڈرن ہونے کی آزمائش ابھی بھی برقرار تھی۔ ۔ ۔

اچانک پیدا ہونے والی اس کشیدہ صورت حال میں الگ الگ سطح پر تینوں ہی جکڑ گئے تھے۔ ماں، پاپا اور رِیا!

               (2)

رِیا ان بچیوں میں سے نہیں ہے جو کچھ دنوں پہلے تک عصمت چغتائی تک کی کہانیوں میں موجود ہوا کرتی تھیں ۔ ۔ ۔ الہڑ، شرارتی، گڈے گڑیوں کا کھیل کھیلتی۔ ۔ ۔ دھاگے سوئی سے انگلیاں چھید لینے والی۔ ۔ ۔ ہوا کے دوش پر لہراتی اڑتی ہوئی۔ ۔ ۔ شا دی بیاہ میں میراثنوں کے بیچ ڈھولک پر تال دیتی ہوئی۔ ۔ ۔ کسی ننھے منے بچے کو گود میں لپکتی ہوئی، جس پر بڑی بوڑھیاں آواز بھی کستیں ۔ ۔ ۔  ’’ارے، ابھی تو تم خود ہی بچی ہو، بچہ ہاتھ سے چھوٹ گیا تو۔ ۔ ۔ ‘

مگر، اسی بات کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ رِیا ان بچیوں میں سے ایک ہے جو کچھ دنوں پہلے تک ہماری کہانیوں میں موجود ہوا کرتی تھیں۔ عصمت چغتائی تک کی کہانیوں میں ۔ ۔ ۔ شرم سے آنچل کا کونا دانتوں میں دابے ہوئے ۔ ۔ ۔ یا ہرنی کی طرح قلانچیں بھرنے والی۔ ۔ ۔ خرگوش جیسی نرم اور پھدکنے والی۔ ۔ ۔ ٹپ سے کسی بات پر آنکھوں میں آنسو لے آنے والی۔ ۔ ۔ چھت پر پتنگوں کے موسم میں پیچ لڑانے والی اور کسی پسند آ جانے والے لڑکے پر سو سو جان سے فدا ہونے والی۔ ۔ ۔ اسے چپکے چپکے تنہائی میں خط لکھنے والی۔ ۔ ۔  کسی کے آنے کی آہٹ سے ڈر جانے والی۔ ۔ ۔

کیا رِیا کے بارے میں ایسا کہا جانا صحیح ہے ۔ ۔ ۔؟ شاید نہیں (یہاں ایک قلم کار کی حیثیت سے میں اپنا اعتراض درج کرانا چاہوں گا)۔ ۔ ۔ رِیا، دادی نانی سے چپکی، طلسماتی کہانیاں سننے والی رِیا، نہیں ہے۔ یہ رِیا آج میں جنمی ہے۔ اس بدلے ہوئے وقت میں (اور بطور قلم کار پھر میں مداخلت کے لئے معافی چاہوں گا) کوئی وقت آج کی طرح نہیں ہے ۔ ۔ ۔ اچھا برا کہنے والا میں کون ہوتا ہوں ۔ ۔ ۔ لیکن ان تین کروڑ برسوں میں یا شاید جیسا اب ہے، کوئی رِیا خرگوش جیسی نرم اور ہرنی کی طرح قلانچیں بھرنے والی نہیں ہو سکتی۔ ۔ ۔

               (3)

تب رِیا چھوٹی تھی۔ ایک سپنا دیکھا تھا اس نے۔ بہت سے گھوڑے ہیں اور ایک اندھیری سرنگ، گھوڑوں کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہیں۔ گھوڑے بے تحاشہ بھاگ رہے ہیں۔

’’میں نے ایسا کیوں دیکھا کہ گھوڑوں کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہیں ؟‘‘ رِیا کی آنکھوں میں سوال تھے۔

’’کیا وہ گھوڑے اڑ رہے تھے ؟‘‘

’’ہاں ہوا میں اڑ رہے تھے۔’‘

’’خوب مضبوط تھے اور جوان تھے ؟‘‘

پاپا مسکراتے ہوئے اس کی طرف مڑے ۔ ۔ ۔ کیوں کہ یہ تم تھیں رِیا۔ اتنا تیز مت بھاگو۔ گھوڑوں کی آنکھوں پر پٹیاں اس لئے بندھی تھیں کہ وہ سرنگ کی دیواروں سے ٹکرا نہ جائیں۔’‘

               (4)

وہ کالونیوں میں جنمے تھے اور اپنی تہذیب اپنے ساتھ لائے تھے۔ وہ ’برانڈوں ‘ کی دنیا سے تھے یا پیدا ہوتے ہی وہ برانڈ بن جاتے تھے۔ وہ اپنی اپنی چہار دیواری میں قید تھے یا کہنا چاہئے اپنے اپنے بیڈروم میں، اپنے اپنے ڈرائنگ روم میں، وہ M.T.V. کلچر کے ساتھ اپنا سفر شروع کر رہے تھے۔

مان لو کوئی کہتا ہے کہ..(جرمن ا دیب ہر من ہیسے کے لفظوں میں ) ایک چڑیا انڈے سے جنم لینے والی ہے۔ انڈا کائنات ہے جو جنم لینا چاہتا ہے، اسے ایک دنیا کو تباہ و برباد کرنا پڑے گا۔

قارئین! معافی چاہوں گا۔ اس کہانی کا انداز دوسری کہانیوں جیسا نہیں ہے۔ ہو بھی نہیں سکتا۔ جیسے ہم صرف اس بات سے مطمئن نہیں ہو سکتے کہ یہ دنیا بدل رہی ہے۔ صرف بدل رہی ہے، کہنے سے چڑیا اور انڈے کا وہ تصور سامنے نہیں آتا۔ اس لئے کہ چڑیا انڈے سے باہر نکلنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے اور انڈا دنیا ہے۔ جنم لینے والے کو، اس دنیا کو توڑنا ہو گا۔

اور جیسا کہ ہیسے نے ’ڈیمیان‘ میں ’سنکلیر‘ کو بتایا۔ ۔ ۔  پرانی دنیا کا زوال نزدیک آ رہا ہے۔ یہ دنیا نئی شکل لے گی۔ ا س میں سے موت کی مہک آ رہی ہے۔ موت کے بغیر کچھ بھی نیا نہیں ہو گا۔ جنگ ہو گی۔ تم دیکھو گے کہ چاروں طرف کیسا ہیجان بپا ہے۔ لوگوں کو مزہ آئے گا۔ یکسانیت سے اوب کر لوگ مار کاٹ شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ دراصل نئی دنیا کی شروعات ہو چکی ہے اور یہ بات ان کے لئے بھیانک ہو گی جو پرانی دنیا سے چپکے ہوئے ہیں۔

تو قارئین! یہ کوئی بہت مسرت انگیز خبر نہیں ہے۔ 31!دسمبر کی رات، جب ایک گھنا کہرا آسمان پر چھایا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ اپنے اپنے کمروں، ہوٹلوں، بار اور ڈسکو تھیک میں بند لوگ نئے سال کے استقبال کے لئے جشن کی تیاری کر رہے تھے ۔ ۔ ۔ بیسوی صدی کے اختتام کے اس گھنے کہرے نے مسٹر ارجن دتیہ کار اور ان کی ماڈرن بیوی رما دیتیہ کار کو یہ خبر سنائی تھی۔ ۔ ۔ کہ ان کی چودہ سالہ لڑکی رِیا ایک بچے کی ماں بننے جا رہی ہے۔

               (5)

پہلے یہ ’دنیا‘ ویسی نہیں تھی۔ ظاہر ہے، ہماری کہانی کی ہیروئن رِیا کے پاپا ارجن دیتیہ کار کو اس دنیا کے لئے جدوجہد کرنی پڑی تھی۔ پہلے سب کچھ تھوڑا تھوڑا سا تھا ان کے پاس۔ تھوڑی سی آرزو، تھوڑی سی خواہش، تھوڑی سی زمین، تھوڑا سا آسمان، تھوڑا سا مذہب اور تھوڑا سا سوشلزم۔ پہلے تھوڑے سے سپنے تھے۔ پھر یہ یکایک بڑے ہونے لگے۔ ٹھیک ان کے نام کی طرح دیتیہ کار۔ کمپیوٹر کے چھوٹے چھوٹے پارٹ پرزوں سے اپنا کام شروع کیا تھا۔ ہاں، شاید اس سے پہلے تک ماضی کی ’فلاپی‘ میں جو کچھ بھی تھا وہ ’ڈیلیٹ‘ کیا جا چکا تھا۔ ہاں اس کے بعد نئے حالات اور نئے موسم نے جو ’فلاپیاں ‘ بنائی تھیں، مسٹر دیتیہ کار نے انہیں ذہن میں محفوظ کر لیا تھا۔ ایسی ہی ایک ’فلاپی‘ میں مٹر نیلامبر بھی قید ہیں ۔ ۔ ۔ مسٹر نیلامبر جو پی سی ایل کمپنی کے 486ماڈل کمپیوٹر ماہانہ قسطوں پر بیچنے والی کمپنی میں کسی اہم عہدے پر فائز تھے اور رِیا کو ایک جگہ پارٹی میں دیکھ کر (ایسا دیتیہ کار کا خیال تھا) دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا یا کہنا چاہئے گھر میں بھی آنا جانا شروع کر دیا تھا۔ ۔ ۔ جو ابتدائی دنوں میں مسٹر دیتیہ کار کو پسند نہیں آیا تھا اور ان باتوں کو دیتیہ کار نے صرف اس لئے گوارا کیا تھا کہ نیلامبر کی دوستی سے انہیں اپنے بزنس میں فائدہ ملنے کی امید بندھ گئی تھی۔

نیلامبر کی دوستی نے چاہے کچھ اور نہ کیا ہو، لیکن ان کے اندر دبے ہوئے خوابوں کی پھلجھڑی میں ماچس کی ایک چھوٹی سی جلتی تیلی سلگا دی تھی۔

نیلامبر کی نو دولتیہ لوگوں سے دوستی تھی۔ وہ ان سے مل کر آتا تو کافی نئی نئی معلومات فراہم کرتا۔ جیسے۔ ۔ ۔  مصر کی سیر کرنا چاہئے، دریائے نیل میں کشتی بانی، جبل سینا پر چڑھائی۔ اسی سے معلوم ہوا کہ ’ہوانا‘سگار پینے کا ایک الگ ہی مزا ہے۔ ’کوہبا‘ رومیو جولیٹ، بولیوا اینڈ پنچ جیسے برانڈ پیتے ہوئے کوئی بھی رئیس آپ کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے ۔ ۔ ۔ جیسے نیویارک میں ’بالتھ زار‘ میں لنچ یا ڈنر کرنا۔ ۔ ۔ یا پھر مین ہٹن کے مراقشی ریستوراں ’چہ زادہ‘ میں اپنی من پسندچیزیں کھانا۔ ۔ ۔ مثلاً آپ کے پاس پرانی شراب ’اسپرنگ بیک‘ ہو جو کسی بھی شوقین رئیس کو پسند ہو سکتی ہے اور پہناوے کے لئے ڈیزائز ٹوم فورڈ کے ڈیزائن کئے گئے بیگ، جوتے، پوشاک یا بیلٹ آپ کے پاس ہوں۔ یعنی نیلامبر کے پاس آئیڈیل کے روپ میں ایک ایسی زندگی تھی جسے دولت کی گھن گرج سے ہی خوبصورت بنایا جاسکتا تھا۔ مثلاً برادری میں رعب جمانا ہو تو بچوں کو لیزلس کے ذریعے سوئزرلینڈ کے ’برویے ‘ میں چلائے جانے والے شیوروں میں چھٹیاں منانے بھیج دیجئے ۔ ۔ ۔ ہو سکے تو اپنی بیوی کو بھی۔ ۔ ۔ اور یہاں اپنی من پسند چاہنے والی کے ساتھ کسی بی ایم ڈبلیو یا Luxes بہت تیز رفتار ٹارگا کیرئیر پورش یا ایکس ایس فور ایکس اسٹن میں زندگی کے مزے لیجئے۔

دیتیہ کار کو ان دنوں شک ہوا تھا۔ ’کہیں تم نے بھی اپنی بیوی کو اپنے بچوں کے ساتھ۔ ۔ ۔ ‘

نیلامبر ’ہاہاہا‘ کر کے ہنسا ضرور لیکن دیتیہ کار کو نیلامبر کی آواز اتنی دبی دبی اور مرجھائی لگی جیسے اسی کے الفاظ میں، کسی نو دولتیہ کے ’بنکاک یا سویس‘ میں رکھے کھاتوں کے بارے میں سی بی آئی کو جانکاری مل گئی ہو۔ ۔ ۔ دوسرے الفاظ میں کرسٹل کا رابکارا (جواریوں کے ذریعے کھیلے جانے والے تاش کے پتوں کا کھیل)میں بازی ہاتھ سے نکل گئی ہو۔

شروع شروع میں دیتیہ کار کو احساس جرم سا ہوا تھا۔ ۔ ۔ یہ سب کچھ اچھا نہیں لگتا ہے۔ وہ بار بار یہاں کیوں آتا ہے ؟

’’تمہیں کیا الجھن ہے۔ ۔ ۔ ؟ رَما کسی ماہر نفسیات کی طرح مسکرائی تھی۔ اس کا ہر لفظ نپا تلا تھا۔’‘

’’تمہیں بس مجھ پر شک نہیں کرنا چاہیئے۔ وہ اگر بے وقوف ہے، تو اسے روکنے کی بے وقوفی تمہیں نہیں کرنی چاہئے۔ اب جو زندگی تمہارے حصے میں آ رہی ہے، وہ پہلے تمہارے پاس نہیں تھی۔ ۔ ۔ میری بات سمجھ رہے ہونا۔ ۔ ۔ اور اس تبدیلی میں تھوڑا سا ہاتھ اس سن آف بچ نیلامبر کا بھی رہا ہے۔ وہ ہر بار کچھ نہ کچھ دے ہی جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ہیرے، زیورات۔ ۔ ۔  اور بدلے میں اگر تمہاری بیوی کی تعریف کرتا ہے تو سنودیتیہ کار! مکمل طور سے بزنس مین بنو۔ اِف یو وانٹ تواچیوسم تھنگ ان لائف۔ ۔ ۔  کچھ باتوں کو رد کرنا سیکھو۔ ۔ ۔ ‘’

اچھی یا بری، صحیح یا غلط، جو بھی ہو۔ اس حادثے کے بارے میں جو اندازے لگائے جا رہے تھے اس کی شروعات اسی ’منطق‘ سے ہوئی تھی یا نیلامبر کے لفظوں میں نیویارک کی کسی بھیڑ بھاڑ  والی سڑک پر رش ڈرائیونگ کرتی اس کی گاڑی اچانک ایک ساتھ بہت سی گاڑیوں سے ٹکرا گئی تھی۔

               (6)

بچپن میں وہ رِیا سے کسی بات پر ناراض ہو جاتا تو رما اسے خاموش کر دیتی۔ ۔ ۔

’’بچوں کو ایک آزاد دنیا چاہئے۔ اس چھت کے نیچے۔’‘

دیتیہ کار خاموش ہو گیا۔ لیکن رِیا کو دی جانے والی آزاد دنیا کے پیچھے اسے بار بار یہ احساس ہوتا رہا کہ اس کی اپنی دنیا چھن رہی ہے ۔ ۔ ۔ یا یہ کہ سب کی الگ الگ دنیا بن رہی ہے ۔ ۔ ۔ اس کی رِیا کی اور رَما کی۔ ۔ ۔ کبھی دیکھتا، ننھی منی رِیا تیز میوزک سسٹم پر ایروبکس کرنے میں مصروف ہے۔ یا کسی کمرے میں نیلامبر، رما کو گپ چپ کچھ سمجھانے میں لگا ہے اور ایک بہت سمجھ دار بیوی کی طرح رما، اسے روک کر کھڑی ہو جاتی ہے۔

ہم آگے بڑھتے ہیں تو اس سے بھی آگے نکل جاتی ہیں ہماری خواہشات۔

یہاں یک لا محدود کائنات تھی جو رما کی آنکھوں میں سمائی ہوئی تھی۔ گلیمر سے بھر پور، وہ رِیا کے سامنے ہوتی تو دیتیہ کار کو ڈرسا لگتا کہ وہ رِیا کو کچھ سپنے دکھا رہی ہو گی یا خود سپنے دیکھ رہی ہو گی۔ ۔ ۔ آنکھوں میں اتری ہوئی ایک اندھیری سرنگ اور ہنہناتے، آنکھوں پر پٹی باندھے، دوڑتے گھوڑے۔ ۔ ۔

دیتیہ کار کو رِیا کا وہ سپنا ہمیشہ یاد رہا۔ ۔ ۔  ہاں، گھوڑوں کے صرف تصور سے ہی وہ بار بار، جوناتھن سوفٹ، کے گھوڑوں سے موازنہ کرنے لگتا۔ ۔ ۔  تم ہو کیا انسان! یہ تمہارے دبلے پتلے ہاتھ پاؤں۔ ۔ ۔  مجھے دیکھو۔ ۔ ۔  دیو تاؤں کی سواری۔ ۔ ۔  گھوڑا کسی حکمراں کی طرح۔ غلام و محکوم انسان کے سامنے فخر سے تن گیا تھا۔ ۔ ۔  دیتیہ کار کو احساس ہے کہ گھوڑوں کے مقابلے میں انسان کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک لاچار بدقسمت، سپنوں پر منحصر رہنے والا۔

نیلامبر ہنستا ہوا کہتا ہے ۔ ۔ ۔ ’’ہم ریموٹ کلچر کے لوگ ہیں۔ گھر میں بہت سے لوگ ہیں تو سب اپنے اپنے پروگرام الگ الگ چینلوں پر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ۔ ۔ سونی پر پروگرام پسند نہیں آیا تو ریموٹ کا بٹن دبا کر ZEE لگا دیا۔ زی پسند نہیں آیا تو M.T.V. ’اسپورٹ‘ V.T.V.  اور۔ ۔ ۔ ریموٹ تو ہے نا۔ ۔ ۔  شوہر پسند نہیں آیا تو شوہر بدل دو۔ ۔ ۔  بیوی پسند نہیں آئی تو۔ ۔ ۔’‘

’’بچوں کا کیا کریں۔ ۔ ۔  ریموٹ سے بچے نہیں بدلے جاسکتے ؟‘‘

دیتیہ کار پوچھتا ہے۔ نیلامبر اچانک چپ ہو جاتا ہے۔ ۔ ۔

               (7)

مگر نہیں، ارجن دیتیہ کار کی یہی مجبوری ہے ۔ ۔ ۔ وہ سسٹم کے ساتھ بھی رہتا ہے اور قدم قدم پر اسے ریجیکٹ بھی کرتا رہتا ہے۔ سسٹم کا ساتھ نہ دے تو اندھیرا ہے اور سپنوں میں ہنہنانے والے گھوڑے کسی اندھی سرنگ میں کھو جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ساتھ دینے پر مجبور ہے تو۔ ۔ ۔  کچھ کچھ اندر سے ٹوٹتا ہے ۔ ۔ ۔ یعنی ایک سطح پر یا جس سطح پر وہ سسٹم کو منظوری دیتا ہے وہیں اس کی مخالفت میں اپنے ضمیر کا قتل بھی کرتا ہے یا قتل کی کوشش۔ دراصل وہ ایک زندگی (ہم اسے اذیت سے بھر پور نہیں کہیں گے ) گزارنے کے لئے مجبور ہے۔ ۔ ۔  جدوجہد کی قوت اس میں نہیں ہے۔

جیسا کہ دیتیہ کار نے سوچا تھا، اپنی جدوجہد کے دنوں میں ایک رومانی دنیا۔ ۔ ۔ ایک خوبصورت زندگی۔ ۔ ۔  اور اس لئے سوچا تھا، کہ تب تک بند بند سے قصباتی ماحول میں بھی، تنگی اور بندشوں کے باوجود، پوری طرح محبت کے لئے وقف ایک حسین کائنات ہوا کرتی تھی۔ ۔ ۔ دکھ سکھ کا سنگم اس کے والدین، پھر ان کے والدین پھر ان کے اڑوس پڑوس، چاچا چاچی، تاؤ۔ زندگی کے دامن میں رومانی نظمیں یوں پسری ہوتیں جیسے آسمان میں تارے۔ ۔ ۔

تب سورج، سورج تھا۔ زمین، زمین تھی۔ آسمان، آسمان تھا۔ تب چاند کی چاندنی چھٹکی ہوتی تھی۔ ۔ ۔ تاروں ستاروں کی فسوں خیز کہانیاں ہوا کرتی تھیں ۔ ۔ ۔ پیڑوں کے نیچے فطرت یا فضا کی نرم آغوش ہوا کرتی تھی۔ ۔ ۔  چھت پر پلنگیں بچھی ہوتی تھیں۔ ۔ ۔  ان پلنگوں یا کھاٹوں سے قصوں داستانوں کا میل ہوتا تھا۔ ۔ ۔

تب پھول تھے، خوشبو تھی۔ ۔ ۔  تب جذبات بھی تھے۔ ۔ ۔  تب دکھ اور سکھ کا فطری احساس تھا۔ ۔ ۔  اور اب۔ اس کالونی کلچر میں، ایک دروازے سے ٹکراتے دوسرے دروازے ۔ ۔ ۔ دوسرے سے تیسرے۔ ۔ ۔  ان ہزاروں دروازوں میں سے کوئی چاند نہیں جھانکتا۔ کوئی چاندنی رات، تاروں بھرا قافلہ۔ ۔ ۔  کھاٹوں پلنگوں سے جنم لینے والی بے باک داستانیں۔

دیتیہ کار کو لگتا ہے۔ ۔ ۔  بچوں سے فطرت یا فضا نہیں، زندگی چھن گئی ہے۔ وہ بچے تھے تو بچوں جیسا سوچتے تھے۔ بچے جیسے نظر آتے تھے مگر کیا۔ ۔ ۔  رِیا کو آپ بچہ کہیں گے ؟

’’رِیا ابھی بھی بچی جیسی نظر آتی ہے ؟‘‘ رَما کی آنکھوں کے کنول مرجھا گئے تھے۔

’’بچی ہے تو بچی جیسی ہی۔ ۔ ۔’‘ لیکن دیتیہ کار 12سالہ رِیا کو دیکھتے ہوئے ڈر گئے تھے۔ ۔ ۔  نہیں، رِیا تو جوان ہو گئی ہے۔

’’نہیں۔ ۔ ۔’‘ رما کے لہجے میں کرختگی تھی۔ ۔ ۔  ’’میں یہی کہہ رہی ہوں کہ۔ ۔ ۔  اسے بچی جیسی نہیں دیکھنی چاہئے۔’‘

’’لیکن کیوں ؟‘‘ دیتیہ کار کے لہجے میں ڈر کوند گیا تھا۔

’’کیوں کہ بچی لگنے میں اس کا نقصان ہے۔ اس کا کیریر، اس کا مستقبل؟‘‘

دیتیہ کار کے اندر بیٹھے باپ نے مورچہ سنبھالا۔ ۔ ۔

’’بارہ سال کی عمر کے بچے پڑھتے ہیں۔ بارہ سال میں مستقبل کہاں سے آگیا؟‘‘

’’اس لئے کہ۔ ۔ ۔’‘ رَما کے ہونٹ جکڑ گئے تھے ۔ ۔ ۔ ’’جو غلطی ہم سے ہوئی ہمارے بچوں سے نہیں ہونی چاہئے۔ ۔ ۔ اس لئے کہ یہی عمر ہے جب۔ ۔ ۔’‘

دیتیہ کار ڈر گیا تھا۔

’’ڈرو مت۔ میں جوکروں گی، رِیا کی بھلائی کے لئے کروں گی۔’‘

’’لیکن تم کرو گی کیا؟ کیا رِیا کو جوان کر دو گی۔ ۔ ۔  اس کے مستقبل کے نام پر۔ ۔ ۔ ؟‘‘

دیتیہ کار کو لگا تھا کہ رما کو اس طنز پر ہنسنا چاہئے، مگر رَما سنجیدہ تھی۔

’’ہاں، میں اسے جوان کر دوں گی۔ ۔ ۔’‘

’’پاگل ہو گئی ہو۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’نہیں۔ ۔ ۔  میں نے فیصلہ کر لیا ہے ۔ ۔ ۔ میں رِیا کو ہارمونس کے انجکشن دلاؤں گی۔’‘

دیتیہ کار تبھی چونکا تھا۔ جب پہلی بار رما نے گلیمر ورلڈ کا نام لیا تھا۔ ماڈلنگ، کم عمر اداکاراؤں کی بے باک زندگیاں۔ ۔ ۔  ایک بار نیلامبر نے ہنستے ہنستے پوچھا تھا۔ فلمی دنیا کی اکثر ہیروئنیں اپنے باپ اور باپ کا گھر کیوں چھوڑ دیتی ہیں ؟ ہنستے ہنستے نیلامبر نے تازہ تازہ ممتا کلکرنی کی مثال پیش کی تھی۔ دیتیہ کار کو لگتا ہے باپ اپنی اپنی قوت برداشت کا امتحان دیتے دیتے ہار جاتے ہوں گے۔ پھر یہاں تو باڈی فٹ نیس، ذہانت اور کھلے پن کا ہر راستہ گلیمر ورلڈ تک جاتا تھا۔ بیوٹی کوئنز، مس انڈیا، مس ورلڈ، مس یونیورس۔ ۔ ۔  دنیا کے سامنے بیٹی کا کھلا ہوا جسم اور ننگی ننگی پنڈلیوں پر نظر ڈالتے ہوئے ماں باپ کو یقیناً فخر ہوتا ہو گا۔

               (8)

یہ انہی دنوں کا حادثہ ہے، جب نیلامبر کو اونچا اڑتے اڑتے اچانک ٹھوکر لگی تھی۔ ۔ ۔  نیلامبر کی کمپنی اپنے پروڈکٹس کی مانگ گھٹنے سے پریشان ہو رہی تھی۔ فیصلہ یہ لیا گیا کہ خسارے میں چلنے والی کمپنی ہی کیوں نہ بند کر دی جائے۔ اس سے موٹی تنخواہ پانے والے نیلامبر جیسے ایگزیکیوٹیو اچانک ہی ریٹائر کر دئے گئے۔

جیسے اچانک بلندی سے گر کر زمین پر آنے کا احساس ہوتا ہے۔ اس دن نیلامبر کے ہونٹوں پر ایک طرح کی کپکپی تھی۔ ۔

’’اسے روکو۔ ۔ ۔  وہ بہت تیز اڑ رہی ہے۔ ۔ ۔’‘

’’لیکن اب۔ ۔ ۔  شاید دیر ہو چکی ہے۔ ۔ ۔’‘ یہ دیتیہ کار نہیں ایک لاچار باپ کا لہجہ تھا۔ ۔ ۔’‘

’’کچھ کرو۔ ۔ ۔  نیلامبر کا لہجہ خوف زدہ تھا۔ ۔ ۔  انجانے میں اس لڑکی نے اپنے لئے ایک گیس چیمبر چن لیا ہے ۔ ۔ ۔ تم سمجھ رہے ہو نا۔ ۔ ۔ اس کا دم گھٹ جائے گا۔ پہلے ڈسکو تھیک، پھر بار، ہارمونز کے انجکشن۔ ۔ ۔  رِیا کا اگلا پڑاؤ، کنڈوم بھی ہو سکتا ہے۔ ۔ ۔  اسے روکو۔ ۔ ۔’‘

دیتیہ کار کے اندر ایک ایسی بے کیف اداسی چھائی ہوئی تھی جسے توڑنے کے لئے یہ سخت لفظ ’کنڈوم‘ بھی کارگر نہیں تھا۔ ۔ ۔  وہ دیکھ رہا تھا کہ اس لبرل ازم یا صارفیت نے تو رِیا کو ہارمونز کا انجکشن لینے سے پہلے ہی جوان بنا دیا تھا۔

وہ سب کچھ آنکھ موند کر دیکھنے کو مجبور تھا۔ یہ بھی کہ پرانی دنیا کا زوال ہو رہا ہے۔ چڑیا انڈے سے باہر نکلنے کے لئے جد و جہد کر رہی ہے۔ ۔ ۔  اسے موت کی بو آ رہی تھی۔ ۔ ۔  موت کے بغیر کچھ بھی نیا نہیں ہو گا۔ ۔ ۔  لوگوں کو جنگ سے تحفے میں ملا ہیجان چاہئے۔ ہیجان۔ ۔ ۔  سنسنی۔ ۔ ۔  شاید نئی دنیا کی شروعات ہو چکی ہے۔ ۔ ۔  اور یہ شروعات ان جیسوں کے لئے بھیانک ہے۔ جواب تک پرانی دنیا سے چپکے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔

               (9)

اس اثنا میں کئی معمولی قسم کے چھوٹے چھوٹے حادثات ہوتے رہے۔ ۔ ۔  جیسے ’ماڈلنگ‘ کے لئے رما نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ ۔ ۔  جیسے نیلامبر نے دھیرے دھیرے گھر آنا بند کر دیا۔ ۔ ۔  جیسے ریا چپ چاپ رہنے لگی۔ لمبی گہری اداسی، جو کسی صدمے سے جنمی ہو یا جو ڈپریشن کے مریضوں کے لئے عام بات ہے۔ ۔ ۔  اس لمبی گہری اداسی کے پیچھے وہ مسلسل رما کی شکست دیکھ رہا تھا۔ اسے یقین تھا کہ دنیا گول ہے لیکن یہ یقین نہیں تھا کہ رما عورت کی جون میں کبھی واپس بھی آ سکتی ہے ۔ ۔ ۔ یا تو یہ مکمل شکست تھی یا پھر اس حادثے کا وہ آخری ورق۔ ۔ ۔ جہاں نیند کی کئی گولیاں نگل کر رِیا نے خود کشی کی کوشش کی تھی۔ ۔ ۔

تو کیا چڑیا انڈا توڑ کر باہر نکل آئی تھی۔ ۔ ۔ ؟

یہ ارجن دیتیہ کار کے لئے عرفان ذات کا وقت تھا۔ لیکن ابھی ایک لرزہ دینے والا منظر باقی تھا۔ رِیا کو ہوش آ چکا تھا تاہم اس کی میڈیکل رپورٹ ابھی آنا باقی تھی۔ ۔ ۔  لیکن اس میں کیا نکل سکتا ہے، یہ رما کی آنکھوں میں پڑھا جاسکتا تھا۔ ۔ ۔ سارے گھر میں جیسے یکایک ٹھنڈی لہر دوڑ گئی تھی۔ ایک دھند تھی جس نے چہروں کے درمیان انجانے پن کی دیوار اٹھا دی تھی۔ ۔ ۔  ایک چیخ گونجی۔ ۔ ۔  کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی۔ دیتیہ کار اور رما بھاگتے ہوئے آئے تو۔ ۔ ۔  سامنے۔ ۔ ۔  اپنے دروازے پر رِیا کھڑی تھی۔ ۔ ۔کپڑے تار تار۔ ۔ ۔ آنکھیں انگاروں کی بارش کرتی ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں آدھی ٹوٹی ہوئی سوڈا واٹر کی بوتل تھی۔ ۔ ۔  چہرے پر ایک عجیب طرح کا تناؤ جو غصہ سے جنما تھا۔ رِیا بہت زور سے چلائی۔

’’کیا جاننا چاہتے ہیں آپ لوگ۔ ۔ ۔  زیادہ تنگ کریں گے تو۔ ۔ ۔’‘

دیتیہ کار جانتے تھے۔ فلمیں اور فلموں کا تشدد قدرتی انداز میں بچوں کے ذہن پر اپنا اثر ڈالتے رہے ہیں۔ سرد کہرے میں جیسے ان کے جذبات بھی سرد ہو رہے تھے۔ تب  ایک دن بعد نئے دن کی شروعات ہونے والی تھی۔ ۔ ۔ یا پرانے سال کے آخری دن انہیں ایک چونکانے والی خبر ملنے والی تھی۔

یا۔ ۔ ۔ ایک نئی شروعات کی چڑیا کو انڈا توڑ کر باہر نکلنا تھا۔

               (10)

کیسے ہوا یہ سب؟

دیتیہ کار سوالوں کے اندر جاتے جاتے ٹھہر جاتے۔ کیا یہ سب اس وقت کے اندھیرے کا سچ ہے، آزادی کے وقت کی آئیڈیلزم، لوہیا کا سوشلزم۔ ۔ ۔  پھر یہ ’ازم‘ کتنے طبقاتی گروہوں میں بٹا تھا۔ مادہ پرستی، کنزیومر ازم، گھوٹالہ واد۔ کہیں ایک لبرازم کی اینٹ بھی رکھ دی گئی۔ ۔ ۔  کیا کہیں گے ہم اس نسل کو۔ ۔ ۔  M.T.V. کنڈوم نسل۔ ۔ ۔  عدم تحفظ کے جذبات میں اسیر، باہر باہر آزادی کے لطف کا ناٹک کرتے ہوئے۔ اندر اندر گہری اداسی میں ڈوبے، تناؤ میں ۔ ۔ ۔ ستم رسیدہ۔ ۔ ۔ جیسے کسی بھیانک دھوکہ دھڑی کے شکار ہوئے ہوں۔ ۔ ۔ یا جیسے خود کو غیر محفوظ کر رہے ہوں۔ مگر کس سے۔ ۔ ۔  ایک مفرور یا مہاجر کلچر میں رچے بسے بچے ۔ ۔ ۔ اس تناؤ سے نجات پاتے ہیں تو اگلے قدم پر جرم راستہ روکے ہوئے ملتا ہے ۔ ۔ ۔ رِیا کی وہ خونی آنکھیں۔ ۔ ۔  وہ مضبوط نہیں، وہ تو بہت کمزور ہیں ۔ ۔ ۔ لمحے میں خود کشی جیسے فیصلوں میں زندگی کا مفہوم ڈھونڈنے والے۔ شخصی تشدد کے شکار۔ ۔ ۔  آنکھوں میں جنون لئے، کسی بھی طرح کے ہیجان کے نام قربان ہو جانے والی نسل۔ ۔ ۔  لیکن اس نسل کو، اس سمت میں لانے والا کون ہے ؟ ہر نسل اپنے پہلے والی نسل سے کچھ نہ کچھ اثر لینے پر مجبور ہے، تو کیا دیتیہ کار کے باطن کا وہ سیکولر اور لبرل کردار والا شخص صرف ایک علامت اور متھ تھا، جس کا اثر لے کر ریا مجبوراً ان اوراق کو لکھنے پر مجبور ہوئی ہے۔ ۔ ۔  گھوڑے ہنہنا رہے ہیں ۔ ۔ ۔ گھوڑوں کی آنکھوں پر بندھی پٹیاں کھل رہی ہیں۔ ۔ ۔ گھوڑے دور تک پھیلی اندھیری سرنگر کی دیواروں سے ٹکراسکتے ہیں۔ ۔ ۔

***

               (11)

۳۱/دسمبر۔ ۔ ۔ گھرسے باہر دور تک کہرے کی چادر پھیلی ہوئی تھی۔ ۔ ۔  بہت کم وقت بچا تھا، نئے سال کے آنے میں۔ ۔ ۔  لیکن کبھی کبھی باہر سے پٹاخوں کی آواز آ جاتی۔ یہ ختم ہوتی ہوئی بیسویں صدی کو الوداع کرنے کی آواز تھیں۔ ۔ ۔  یا نئے سال کے استقبال کی تیاری۔ ایک صدی گھنے کہرے میں چھپ رہی تھی۔ ایک نئی صدی گھنے کہرے سے جنم لے رہی تھی۔ ۔ ۔  میڈیکل رپورٹ ایک نئے جنم کی کہانی لے کر آ گئی تھی۔

۔ ۔ ۔ ’’وہ۔ ۔ ۔ ابھی بچی ہے۔’‘

۔ ۔ ۔ ’’تم نے اسے ہارمونز کے انجکشن لگائے تھے۔ ۔ ۔’‘

۔ ۔ ۔ ’’لیکن۔ ۔ ۔  وہ۔ ۔ ۔  ابھی بچی ہے۔ ۔ ۔’‘

سردی سے دانت کٹکٹائے۔ ۔ ۔  باہر کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی۔ نئے سال کے آنے کے باوجود ایک لرزہ دینے والا سناٹا۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ’’اب کیا ہو سکتا ہے ؟‘‘ رما کے ہونٹ تھرتھرائے تھے۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ’’اس سے پہلے بھی اس کے بارے میں ہر فیصلہ تم نے کیا ہے۔ ۔ ۔  اس لئے۔ ۔ ۔’‘

۔ ۔ ۔ ’’تمہارے اندر فیصلہ لینے کی قوت نہیں تھی۔ ۔ ۔’‘

۔ ۔ ۔ ’’یا۔ ۔ ۔  میں اپنی بچی کو ہارمونز کے انجکشن نہیں لگواسکتا تھا۔’‘

۔ ۔ ۔ ’’میری آنکھوں میں سپنے پل رہے تھے۔ میرا بھی شوق تھا کہ دوسروں کی طرح اپنی بچی کو ٹیلی ویژن یا پردے پر دیکھوں۔’‘

۔ ۔ ۔ ’’پھر یہ خیال کیوں چھوڑ دیا؟‘‘

۔ ۔ ۔ ’’کیونکہ۔ ۔ ۔’‘ رما کا لہجہ برف ہو رہا تھا۔ ’’وہ مجھے آدمی نہیں لگا۔ ۔ ۔’‘

۔ ۔ ۔ ’’نہیں۔ وہ بھی آدمی تھا ہماری تمہاری طرح۔ ۔ ۔’‘ دیتیہ کار کچھ سوچ کر اداس ہو گیا ہے۔ ۔ ۔  اس کمپیوٹر کی طرح بے کار اور بے قیمت جس سے اچھا پروڈکٹ مارکیٹ میں آ چکا تھا۔

               (12)

باہر پٹاخے چھوٹنے شروع ہو گئے ہیں۔ ۔ ۔  شاید سال نو کی آمد قریب ہے۔ ۔ ۔  وہ جانتا ہے باہر کڑاکے کی سردی کے باوجود ہمیشہ کی طرح بچے، جوان مسرت اور گرم جوشی کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ یا اپنے اپنے گھروں میں گھڑی کی سوئیوں کے جڑنے کا انتظار کر رہے ہوں گے ۔ ۔ ۔ رما چپ ہے۔ ۔ ۔  وہ ایک عجیب سی سرگوشی سن رہے ہیں۔ ابھی اور بھی انقلاب باقی ہیں۔ آنے والے کچھ برسوں میں بایو ٹکنالوجی اور جینٹک انجینئرنگ کی سمت میں ہونے والے انقلاب۔ ۔ ۔  شاید اگلے پڑاؤ کے طور پر، ہم نینو تکنالوجی کے عہد میں داخل ہو جائیں۔ جراسک پارک کے ڈائناسور سے بھی زیادہ بھیانک ایک نئے عہد کی شروعات۔ ۔ ۔  ہر قدرتی اور فطری چیز کی آپ ایک نقل بنا کر رکھ سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ جیسے پیڑوں کی بایوٹک نقل۔ ۔ ۔  ایک مائیکرو درخت یا ماحولیاتی اثرات آپ اپنے کمرے میں لاسکتے ہیں۔

وہ ایک ٹھنڈی سانس بھرتا ہے۔ ۔ ۔  لگاتار ہونے والے انقلاب نے ہمیں ’بونسائی‘ بنا دیا ہے۔ ۔ ۔

’’لیکن اس کا حل کیا ہے ؟‘‘

رما اس کے چہرے پر نگاہیں جمائے ہوئے ہے ۔ ۔ ۔ ’’رِیا کے بارے میں تم نے کیا فیصلہ کیا۔ ۔ ۔ ؟‘‘

مگر شاید اب وہ کچھ بھی سوچ پانے کی حالت میں نہیں ہے۔ گھڑی کی سوئی ایک دوسرے سے جڑ گئی ہے۔ باہر پٹاخے چھوٹنے کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ وہ کسی روبوٹ کی طرح اپنی جگہ سے اٹھ کر گیٹ کی طرف بڑھتا ہے۔ دروازہ کھولتا ہے۔ شاید نئے سال کے خیر مقدم میں یا بیسویں صدی کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہنے کے لئے ۔ ۔ ۔ باہر کی کڑکڑاتی ہوئی ٹھنڈک۔ ۔ ۔  آنکھوں کے آگے دور تک بچھی ہوئی کہا سے کی چادر۔ ۔ ۔  دور تک دھواں۔ ۔ ۔  دھواں، کچھ بچوں کے ہنسنے، قہقہہ لگانے کی آوازیں بھی آ رہی ہیں ۔ ۔ ۔ شاید وہ آپس میں ناچ گا رہے ہوں۔ آتش بازیاں چھوڑ رہے ہوں۔

مگر دیتیہ کار۔ ۔ ۔  سردی نے جیسے اپنی جگہ پر انہیں جکڑ دیا ہے۔ ۔ ۔  چڑیا انڈا توڑ کر باہر نکل آئی ہے۔ یا پھر۔ ۔ ۔

بغیر پٹی کے، سرنگ میں دوڑنے والا گھوڑا دیواروں سے ٹکرا کر لہو لہان پڑا ہے۔

٭٭٭

 

مادام ایلیا کو جاننا ضروری نہیں

               فیروز اور مادام ایلیا کے درمیان ایک بے ربط مکالمہ

’’دو نالی بندوق اور ڈریسنگ گاؤن‘‘۔ ۔ ۔ اس نے حامی بھری۔ سرکو ایک ذرا سی جنبش دی۔ گوایسا کرتے ہوئے اس کے چہرے کی جھریاں کچھ زیادہ ہی تن گئی تھیں اور گول گول چھوٹی چھوٹی آنکھوں کی سرخیاں کچھ ایسے پھیل گئی تھیں، جیسے گرمی کے دنوں میں انڈے کی زردیاں پھیل جاتی ہیں۔

’ہاں، اتنا کافی ہے۔ زندہ رہنے کو اس سے زیادہ اور کیا چاہئے ۔ ۔ ۔ ‘اس نے ہونٹ ہلائے اور سوکھے ہونٹوں پر جمی پپڑیوں کے درمیان شگاف بنتے چلے گئے۔

’’مگر میرے پیارے بوڑھے فوجی تمہیں کچھ اور بھی چاہئے ۔ ۔ ۔ بوڑھی مادام ایلیا کے لہجے میں درد مندی تھی۔ ۔ ۔ بہت زیادہ کچھ۔ میرے پیارے بوڑھے فوجی، اس عمر میں تو چاہنے کی طلب بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ سمجھ رہے ہو نا تم۔ ۔ ۔ ؟‘‘

فیروز راہب، وہ معمر مرد جو اس کے سامنے بیٹھا تھا۔ دھیرے دھیرے بندوق گھماتا رہا۔ جیسے، ایسا کرتے ہوئے مادام ایلیا کے چبھتے الفاظ کی ناپ تول کر رہا ہو۔

’’آہ تم نے محبت بھی نہیں کی۔ جب کہ موقع تھا تمہارے پاس۔ ۔ ۔ مادام ایلیا کے لہجے میں ناراضگی تھی۔ ۔ ۔ اچھے بچوں کی طرح چپ چاپ بیٹھے رہو میرے پیارے بوڑھے فوجی۔ چپ چاپ۔ سمجھ رہے ہو نا تم۔ جبکہ محبت کے مواقع تھے تمہارے پاس۔ ۔ ۔ مگر تم نے وقت گنوا دیا۔ تمہیں محبت کرنی چاہئے تھی۔ ۔ ۔ اس عمر میں پرانی محبت کا خیال۔ ۔ ۔؟ تم نہیں جانتے۔ اس سے عمدہ تو وہ مشروب بھی نہیں ہوتی، جسے تم اب اپنی زندگی سے زیادہ پیار کرتے ہو۔ نہیں پیارے فوجی، ایسے مت دیکھو۔ ۔ ۔  ایک سینڈوچ اور مل سکتا ہے ؟‘‘

’’نہیں اب سینڈوچ نہیں ہے۔’‘

معمر عورت ٹھہاکا لگا کر ہنسی۔ ’’میرے پیارے بوڑھے فوجی۔ مجھے پتہ ہے۔ سینڈوچ اور نہیں مل سکتا۔ ذرا ٹھہرو۔ ایک بار چیک تو کر لوں۔ ۔ ۔’‘

وہ بمشکل اپنی جگہ سے اٹھی۔ اٹھ کر، کیکرون، کی بنی المیرا تک گئی۔ المیرا کی خالی ریک میں کچھ دیر تک اپنی آنکھیں گھما گھما کر کچھ دیکھتی رہی۔ پھر بلا وجہ ہنسی۔

’’افسوس۔ نہیں ہے۔ مگر کیا ہوا۔ سینڈوچ تو دو بارہ آ سکتے ہیں۔ مگر میرے پیارے فیروز۔ ۔ ۔’‘ اس بار اس نے بوڑھے کو اس کے نام سے پکارا تھا۔ ۔ ۔  ’مگر۔ ۔ ۔  تم تو نہیں آ سکتے اور سنو۔ مات کھانا تو مرنے سے بدتر ہے۔ کیا تم مر گئے ہو۔ ۔ ۔؟ سینڈوچ کی طرح زندگی دو بارہ تو نہیں مل سکتی۔ ۔ ۔!‘‘

بوڑھے فیروز نے دو نالی کا رخ اپنی طرف کیا۔ پھر نال اپنی پیشانی سے سٹالی۔ ’’بزدلی۔ آہ! حال سے بیزاری اور مستقبل کا نشہ ختم ہو جائے تو۔ ۔ ۔  آہ تم سمجھ رہے ہو نا، زندہ رہنے کے لئے۔ ۔ ۔’‘

وہ اپنا مکالمہ ادھورا چھوڑ کر اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔

               بچپن کے واقعات اور تذکرہ پہلی گولی کا

ان دنوں فیروز بہت چھوٹا تھا اور سچ پوچھئے تو بچپن میں ایسے خیالات پیدا نہیں ہوتے ہیں، جیسا کہ اس کے دل میں پیدا ہوتے تھے ۔ ۔ ۔ ان دنوں زیادہ تر وہ ایک چرمی واسکٹ پہنتا تھا، جو اس کے باپ نے اسے امتحان پاس ہونے کی خوشی میں تحفے میں دیا تھا۔ ۔ ۔ اور وہ اسے پہن کر خوش ہوتا تھا کہ اس سے زیادہ خوبصورت شئے دنیا میں اور کوئی نہیں۔ جاڑا ہو، گرمی یا برسات، وہ اسے اتارنے کا نام نہیں لیتا۔ ہاں پہلی بار چرمی واسکٹ اس نے اپنے بدن سے تب الگ کیا جب اس نے سنا کہ۔ ۔ ۔

وہ جاڑے کے دنوں کی ایک رات تھی۔ روشنی کئی دنوں سے نہیں تھی۔ کمرے میں بھبھکتا ہوا ایک لالٹین جل رہا تھا۔ باہر کتے بھونک رہے تھے اور اس نے دیکھا، لالٹین کی دھیمی روشنی میں اس کے باپ کا چہرہ سیاہ پڑا ہوا تھا۔ باپ سہما سا ماں کے چہرے پر جھکا ہوا تھا۔

’’تم سن رہی ہونا۔ ۔ ۔ جنگ ہونے والی ہے۔ آہ! جنگ، جو ہمارے لئے تباہی لائے گی۔’‘

’’شی۔ ۔ ۔’‘اس نے ماں کی آواز سنی۔ دھیرے بولو۔ ماں کی آواز لڑکھڑا رہی تھی۔ ۔ ۔  ’’یہ جنگیں ختم نہیں ہو سکتیں ؟‘‘

’’اس نے باپ کے خوفزدہ چہرے کا عکس دیکھا، جو گہرے سناٹے کی طرح شانت تھا۔ ۔ ۔ نہیں۔ جنگیں ایک بار شروع ہو گئیں تو۔ ۔ ۔  پھر نہیں رکتیں۔ ہاں بیچ بیچ میں سیز فائر۔ ۔ ۔  مگر۔ ۔ ۔’‘

’’سیز فائر‘‘۔ ۔ ۔  ماں چونک گئی تھی۔

’’جنگیں ایک خاص مدت کے لئے بند کر دی جاتی ہیں۔’‘ باپ ٹھہر ٹھہر کر کہہ رہا تھا۔ ۔ ۔  تم سمجھ رہی ہونا۔ ۔ ۔  یہ ایک طرح کا معاہدہ ہوتا ہے۔ ۔ ۔  مگر جنگیں جاری رہتی ہیں۔ ۔ ۔  سیز فائر اس لئے ہوتے ہیں کہ۔ ۔ ۔  جنگ میں لذت پیدا کی جاسکے۔’‘

ایلیا اس سے دو برس بڑی تھی۔ صبح کھانے کی میز پر اس نے دیکھا، اس کا باپ کچھ زیادہ ہی رنجیدہ تھا۔ اس نے ایلیا کو قریب بیٹھنے کے لئے کہا۔ پھر باری باری سے سب کی طرف دیکھتا رہا۔ اس کا انداز ایسا تھا، جیسے وہ ’’لام‘‘ پر جا رہا ہو۔ سب کو چھوڑ کر۔ ۔ ۔

پھر باپ نے نظر نیچی کر لی۔ ۔ ۔   مگر۔ ۔ ۔  وہ دھیرے دھیرے کہہ رہا تھا۔ ۔ ۔  ’’آہ! ایلیا۔ ۔ ۔  تم جانتی ہو نا، بلیاں کتے اپنی دیکھ بھال کرنا اچھی طرح جانتے ہیں مگر۔ ۔ ۔  ہم انسان۔ ۔ ۔  وہ اٹک رہا تھا۔ ۔ ۔  مان لو۔ ۔ ۔  کل سے اس میز پر ایک آدمی کم ہو جائے تو۔ ۔ ۔ ؟ وہ ٹھہرا اور اتنی دیر میں باپ نے اپنے حواس بحال کر لئے۔ ۔ ۔  یعنی میں۔ ۔ ۔’‘ وہ مسکرا رہا تھا۔ ۔ ۔  ’’گھر کی چھت سے سیاہ بادل لٹک رہے ہیں میرے جان۔ یہ بادل کسی بھی وقت کمرے میں آ سکتے ہیں۔’‘

فیروز نے ماں کو دیکھا۔ ۔ ۔ماں کی آنکھوں میں نہ تعجب کا اظہار تھا نہ ہمدردی کا۔ اس کے برخلاف ماں نے چندھی آنکھوں سے باپ کو دیکھا اور ہونٹوں پر انگلی رکھ کر۔ ۔ ۔ بولی۔ ’’شی۔ ۔ ۔  دیواروں نے سن لیا تو۔ ۔ ۔’‘

’’بلیاں اپنی حفاظت کرنا جانتی ہیں۔ کتے اور دوسرے جانور بھی۔ ۔ ۔’‘

فیروز نے اپنے چمڑے کی واسکٹ پر اپنا ہاتھ پھیرا۔ ۔ ۔ اس نے ایلیا کو دیکھا جو اچانک باپ سے لپٹ گئی۔ ۔ ۔

’’تو کیا یہ سیز فائر ہے ؟‘‘

’’ہو سکتا ہے۔ جنگ ابھی رکی ہوئی ہے میری جان۔ اس کے بعد۔ ۔ ۔  کبھی بھی شروع ہو سکتی ہے۔ ۔ ۔‘‘

پھر سب خاموش ہو گئے۔

دوسرے دن جب باپ جانے کو ہوا تو سب نے مخالفت کی۔ مگر باپ اپنی ضد پر اڑا ہوا تھا۔ ۔ ۔ ’’جب بلیاں اپنی دیکھ بھال کرنا جانتی ہیں تو۔ ۔ ۔’‘

اس پورے دن باپ نہیں آیا۔ ماں خاموشی کے ساتھ حجرے میں رہی۔ ایلیا بار بار دروازہ کمرہ ایک کرتی رہی۔ رات کے پچھلے پہر دروازے پر دستک گونجی۔ اس نے دیکھا۔ دو چار لوگ اس کے باپ کے مردہ جسم کو لئے کھڑے ہیں۔

’’یہ باہر ملا ہمیں۔ باہرراستے میں۔ کسی نے اسے گولیوں سے۔ ۔ ۔’‘

اس نے دیکھا، ماں سوگوار لباس پہن کر باپ کی لاش کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ ایلیا نے روتے چیختے سارا گھر سر پر اٹھا لیا۔ ۔ ۔ اس کے کانوں میں باپ کی آواز آتی رہی۔ ۔ ۔  یہ سیز فائر ہے۔ ۔ ۔  آہ، بلیاں، کتے اپنی دیکھ بھال کرنا۔ ۔ ۔’‘

وہ باپ پر جھک گیا۔ باپ کے سینے کو گولیوں سے چھید ڈالا گیا تھا۔ جہاں جہاں گولیاں لگی تھیں، وہاں خون کے فوارے جم گئے تھے۔ ۔ ۔  سارا جسم خون سے سنا تھا اور جسم سے عجیب سی بدبو اٹھ رہی تھی۔ اس نے اچانک اپنی انگلیوں میں حرکت محسوس کی اور اس کی متحرک انگلیاں باپ کے جسم میں ان جگہوں پر پیوست ہونے لگیں جہاں گولیاں داغی گئی تھیں۔

ایلیا روتے ہوئے چیخی۔ ۔ ۔ ’’فیروز! یہ کیا کر رہے ہو؟‘’

وہ سرد لہجے میں بولا۔ ۔ ۔ دیکھتی نہیں۔ گولیاں نکال رہا ہوں۔

’’خدارا بس کرو۔ بس کرو فیروز۔’‘

ماں دھیرے سے بولی۔ ۔ ۔ ’’باپ پر بیٹے کا حق ہوتا ہے۔’‘

ایلیا پھر چیخی۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔  ’’تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟‘‘

’’میں اس واقعہ کو زندہ رکھنا چاہتا ہوں۔ سمجھی تم ایلیا۔ زندہ رکھنا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ وہ حلق پھاڑ کر چیخا۔ ۔ ۔ صرف باپ کی موت مجھے یاد نہیں رہ سکتی۔ ۔ ۔ صرف یہ، کہ ایک رات یہ گولیوں سے چھلنی ہوا تھا۔ میں اس کے جسم سے ساری گولیاں نکالتے ہوئے اس واقعہ سے جڑنا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ ڈراؤنے خواب کی طرح۔’‘

’’نہیں ایسا مت کرو۔ ایسا مت کرو فیروز۔ ۔ ۔’‘

ایلیا زور زور سے چلانے لگی۔ ماں اسی طرح باپ کی لاش کے پاس بیٹھی تھی۔ جیسے کچھ بھی اس کے لئے عجوبہ نہ ہو۔

               سیزفائر

(کسی کہانی کے لئے یہ تعین کرنا ضروری نہیں ہے کہ وہ واقعہ کب ظہور میں آیا۔ ۔ ۔  یا وہ حادثہ کب سرزد ہوا۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ دن تاریخ، مہینے حقیقت سے پوری طرح واقف کرانے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ معزز قارئین! یہ سب کچھ ان دنوں ہوا۔ یا یہ مان لیا جائے کہ ان ہی دنوں ہوا ہو گا یا انہی دنوں ہو سکتا ہے۔ ۔ ۔  ماننے اور فرض کر لینے سے سچ زیادہ شفاف ہو کر ہمارے سامنے آتا ہے ۔ ۔ ۔

(ہاں تو مان لیتے ہیں، یہ سب کچھ ان ہی دنوں ہوا ہو گا جب ایک انسانی نسل پرانی ہو رہی تھی اور دوسری نسل جوان ہو رہی تھی۔ ایک صدی وقت کے سردوگرم کی کہانیاں سمیٹے رخصت ہو رہی تھی اور۔ ۔ ۔  ایک صدی آ رہی تھی)

اور سچ یہ ہے کہ ہمارے ہیرو، یعنی فیروز راہب نے اس واقعہ کے بعد چرمی واسکٹ اتار پھینکا۔ اسے بہت ساری باتوں کا جواب نہیں ملا۔ ۔ ۔ مثلاً اس کے باپ کو کیوں مارا گیا۔ مثلاً اس قتل سے کسی کا کیا فائدہ ہو سکتا تھا۔ مثلاً۔ ۔ ۔  اس کی ماں روئی کیوں نہیں۔ جس دن اس نے چرمی واسکٹ اتارا، اس دن ایک واقعہ اور ہوا۔ اس دن ایلیا اسے بدلی بدلی سی نظر آئی۔ ۔ ۔  اس نے ایلیا کو غور سے دیکھا۔ ۔ ۔  ایلیا کی آنکھوں میں ایک نئی دنیا آباد ہو رہی تھی۔ ۔ ۔

پھر کافی عرصہ گزر گیا۔

باپ، حادثہ اور گولی۔ ۔ ۔  گو، بہت زیادہ وقت گزر جانے کے بعد بھی یہ حادثہ اسے کل کا لگتا تھا۔ جبکہ اس درمیان یعنی باپ کی موت کے ٹھیک دو سال بعد ماں بھی باپ کے پاس چلی گئی۔ مگر سچ تو یہ تھا کہ وہ ماں کو بھول بھی گیا۔ مگر باپ کا حادثہ اس کے ذہن میں ابھی بھی جیوں کا تیوں محفوظ تھا۔ یعنی وہ خوفناک رات۔ ۔ ۔  نصف شب ہونے والی دستک اور باپ کے مردہ جسم سے گولیاں نکالنے کا عمل۔ ۔ ۔  اسے یقین تھا، باپ اس کے اندر زندہ ہے اور باپ اس کے اندر زندہ رہا تھا۔ ۔ ۔

اس بیچ، جیسا کہ باپ نے کہا تھا۔ ۔ ۔  جنگیں لگاتار ہوتی رہیں۔ یا جیسا کہ آگے باپ نے سیز فائر کے بارے میں بتایا تھا۔ ۔ ۔  جنگیں رک رک کر پھر شروع ہو جاتیں۔

اس بیچ صرف ایک بات ہوئی۔ ۔ ۔ نہ چاہنے کے باوجود وہ فوج میں چلا گیا۔

ایک دن۔ کافی دنوں بعد اس نے ایلیا کو چہچہاتے ہوئے دیکھا تو چونک پڑا۔ ایلیا کی آنکھوں میں چمکتے رنگوں والی چڑیا کی شوخی اتر آئی تھی۔

’’کیا بات ہے ایلیا۔ ۔ ۔’‘

’’سیز فائر۔ ۔ ۔  ایلیا ہنسی۔ ۔ ۔  میرے پیارے فوجی۔ ۔ ۔  میں محبت کر رہی ہوں ۔ ۔ ۔ وہ ذرا سا ہنسی۔ ۔ ۔  ’کیوں محبت میں ہنسنا جرم تو نہیں ہے اور میرے پیارے فوجی۔ یہ بات تمہارے لئے بھی ہے۔ تم بھی محبت کرنا شروع کر دو۔’‘

وہ اس کے قریب آ گئی۔ ’’جنگ میں ہم ایک دوسرے سے دور چلے جاتے ہیں۔ ۔ ۔  نہیں ؟‘‘

’’تمہیں باپ کے جسم سے نکلنے والی گولیاں یاد ہیں ؟‘‘

’’آہ۔ ۔ ۔ تم بالکل نہیں بدلے۔ سنو، باپ نہیں ہے۔ میرے پیارے فوجی۔ باپ بہت دور چلا گیا ہے۔ وہ کھلکھلائی ۔ ۔ ۔  محبت جنگ کو بھلا دیتی ہے۔ ۔ ۔  تم سمجھ رہے ہو نا میرے پیارے۔ ۔ ۔’‘

ان دنوں آسمان پر گدّھوں کی طرح جنگی طیاروں نے منڈرانا شروع کر دیا تھا۔ اس کے پاس بھی جنگ میں شامل ہونے کا پروانہ آگیا۔ ۔ ۔  اس رات دونوں نے جشن منایا۔ ۔ ۔  ایلیا نے اپنا وائلن نکالا جو اس کے باپ نے اس کی بارہویں سالگرہ پر دیا تھا۔ فیروز نے اپنا ڈریسنگ گاوَن نکالا، جو چرمی واسکٹ کی طرح اسے پسند تھا۔

کمرے میں مدھم اندھیرا تھا۔ ایلیا دیر تک وائلن بجاتی رہی۔ وہ تا دیر اپنی خوشی کا اظہار کرتا رہا۔ شاید لام پر جانے سے قبل وہ ہر طرح کے احساس سے بے خبر ہو جانا چاہتا تھا۔

’’محبت‘‘۔ ۔ ۔  ایلیا نے وائلن سے ہاتھ روک کر کہا۔ ۔ ۔  ’’جنگ میں کوئی عورت مل جائے تو اس سے محبت ضرور کر لینا۔’‘

               ایلیا اور محبت

جنگ بند ہو چکی تھی۔ وہ جنگ سے واپس لوٹ آیا۔ پھر وہ جنگ میں شامل نہیں ہوا۔ ۔ ۔ پھر بہت کچھ نہیں ہوا۔ پھر جیسے وقت کا پرندہ ایک لمبی چھلانگ لگا گیا۔ صدی۔ ۔ ۔  ایک صدی، دوسری صدی میں گم ہونے والی تھی اور نئی صدی گم ہونے والی صدی کے بطن سے جنم لینے والی تھی۔ ۔ ۔  اچانک اس نے پلٹ کر دیکھا۔ ۔ ۔ ایلیا ایک معمر عورت میں تبدیل ہو کر اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اس کے ہاتھوں میں وہی وائلن تھا۔

’’آہ‘‘ سب ختم ہو گیا۔ وہ دھیرے سے بڑبڑایا۔ ۔ ۔ ڈریسنگ گاوَن کافی پرانا پڑ چکا تھا۔ بٹن ٹوٹ گئے تھے۔ کپڑا بوسیدہ ہو چکا تھا اور وہ دو نالی بندوق۔ ۔ ۔ زندہ رہنے کے لئے۔ ۔ ۔’‘

’’آہ‘‘ اس نے لمبا سانس کھینچا۔

’’بالآخر وہ آدمی بھی۔ ۔ ۔ کیوں ایلیا۔ وہ آدمی بھی فریبی نکلا نا۔ ۔ ۔  کیا ملا، اس پر ایک عمر لٹا کر۔ ۔ ۔ ؟‘‘

ایلیا کے لہجے میں ہنسی تھی۔ ۔ ۔ ’’تم نہیں سمجھو گے میرے پیارے بوڑھے فوجی۔ اس کی آواز میں کہیں بھی تھکن نہیں تھی۔ ۔ ۔  وہ وائلن تب بھی بجتا تھا۔ ۔ ۔  وہ اس لمحے کا سچ تھا۔ وہ سچ آج بھی ہے۔ یہ میرا سچ ہے۔ ۔ ۔  محبت، محبت ہوتی ہے میرے پیارے فوجی۔’‘

آنکھیں موند کر وہ وائلن بجانے میں مصروف تھی۔ ۔ ۔

’’کیا تمہیں اس کی یاد آتی ہے ایلیا؟‘‘

ایلیا بے ساختہ مسکرائی۔ ۔ ۔ ’’تمہیں باپ یاد ہے ۔ ۔ ۔؟بلیوں کو اپنے راستوں کا پتہ ہوتا ہے۔ ۔ ۔’‘

وہ دیر تک کمرے میں چپ چاپ ٹہلتا رہا اور اس درمیان ایلیا برابر وائلن بجاتی رہی۔

               محبت اور مادام ایلیا کا نظریہ

جنگ کے درمیان بہت سی باتیں ہوئیں۔ ۔ ۔  جیسے۔ ۔ ۔  ایک رات، اس کے شراب کے گلاس میں ایک کاکروچ گر گیا تھا۔ ۔ ۔ جیسے کاکروچ کی موت کا جشن منایا گیا تھا۔ ۔ ۔ مگر وہ آدمی۔ ۔ ۔  نہیں، اسے کاکروچ کو یاد رکھنا ہے اور اس آدمی کو بھول جانا ہے۔’‘

’’وہ آدمی۔ ۔ ۔  اس کی انگلیوں کے پور پور میں جیسے ایک مدت تک باپ کے جسم میں لگی گولیوں کا درد موجود تھا۔ ۔ ۔ ویسے ہی وہ آدمی۔ ۔ ۔’‘

فیروز دھیرے سے کھانسا۔ ۔ ۔ وہ آدمی اس کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ بس ایک گولی چلی تھی۔ دشمن کے دفاع میں چلنے والی محض ایک گولی۔ ۔ ۔ اپنی حفاظت کے لئے۔ ۔ ۔  باپ کے الفاظ جیسے مدھم پڑ گئے تھے۔ ۔ ۔

اس نے گولی چلا دی۔ سرحد کے اس پار، اس نے کسی کو گرتے، چھٹپٹاتے اور دم توڑتے ہوئے دیکھا۔ ۔ ۔ بہت ساری چیخوں کے بیچ وہ چیخ واحد تھی، جو اس کی جنم دی ہوئی تھی۔ ۔ ۔ اس نے دیکھا، اس کی بندوق کی نال سے ابھی بھی دھواں اٹھ رہا تھا اور وہاں۔ ۔ ۔  سرحد کے اس طرف۔

وہ دھیرے دھیرے پیچھے ہٹ رہا تھا۔ ۔ ۔ خوفزدہ ہو کر۔ یہ۔ ۔ ۔  یہ آدمی۔ ۔ ۔  فوج میں شامل ہونے سے قبل بھی اسے معلوم تھا کہ۔ ۔ ۔  وہ کسی پیس مشن میں نہیں جا رہا ہے۔ ۔ ۔  وہاں گولے برسیں گے۔ ۔ ۔  بارود پھٹیں گے۔ ۔ ۔  آگ کے آسمان چھوتے شعلے ہوں گے۔ ۔ ۔  اور۔ ۔ ۔  آدمیوں کی چیخ ہو گی۔ ۔ ۔  اسے سب کچھ پہلے سے پتہ تھا۔ پھر بھی اسے یقین نہیں تھا کہ اس کی بندوق سے ۔ ۔ ۔ وہ آدمی۔ ۔ ۔  ایک آدمی۔ بس ایک آدمی۔ بس ایک آدمی۔ ۔ ۔  اس براعظم سے کم ہونے والا وہ ایک آدمی اس کی گولی کا نشانہ بنے گا۔ ۔ ۔ اس کی گولی کا۔ ایک اذیت ناک حقیقت۔

’’آہ۔ ۔ ۔  تم نے وقت گنوا دیا۔ ۔ ۔ ، ایلیا اس کے پاس آ کر ٹھہر گئی۔ زندہ رہنے کے لئے۔ ۔ ۔’‘

اس نے بندوق کو جنبش دی جیسے گہرے سناٹے سے باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈ رہا ہو۔

اس کے بعد جو ہوا وہ بہت عجیب تھا۔ ۔ ۔ اپنے لہجے میں سختی پیدا کرتے ہوئے ایلیا نے اس کے ہاتھوں سے بندوق چھین لی۔

’’یہ وہی بندوق ہے نا جس کی گولی سے۔ ۔ ۔’‘

’’ہاں۔ ۔ ۔  اس نے گہرا سانس کھینچا۔ تاہم یہ اعتراف کرنے میں اسے ذرا بھی دشواری نہیں ہوئی۔

ایلیا نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ ۔ ۔  ’مجھے پتہ ہے۔ تم کیا چاہتے ہو۔ ٹھیک اپنے باپ کی طرح۔ ۔ ۔  اس بندوق کو بھی اپنی زندگی سے لگا کر رکھنا چاہتے ہو۔ ۔ ۔’‘

اس کا لہجہ تیکھا تھا۔ ۔ ۔ ’’یادوں کو اپنے دل سے نکال کیوں نہیں دیتے۔’‘

وہ ایک دم ایسے چونک پڑا، جیسے شراب کے گلاس میں کاکروچ کو دیکھ لیا ہو۔ ۔ ۔  ’’تم۔ ایلیا تم۔ ۔ ۔  بھی تو۔ ۔ ۔  یہ وائلن۔ ۔ ۔’‘

ایلیا نے اس کے ڈریسنگ گاوَن پر ایک نظر ڈالی اور کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

’’میرے پیارے’‘۔ ۔ ۔ برسوں بعد وہی چمکتے رنگوں والی چڑیا کی شوخی اس کی آنکھوں سے جھانک رہی تھی۔ ۔ ۔

’’زندہ رہنے کے لئے۔ ۔ ۔  ایک۔ ۔ ۔  ایک محبت بھی کافی ہوتی ہے میرے پیارے فوجی۔’‘

٭٭٭

 

وارن ہسٹٹنگز کی ٹوپی

ٹوپی کی قسمت ایسے بھی کھل سکتی ہے، محمد علی بھائی نے کبھی سوچا نہیں تھا۔ چھوٹی بڑی، ترچھی، دو پلی، فیروز آبا دی، حیدر آبادی، لکھنوی، ملتانی، مولانا ابوالکلام آزاد، محمد علی جوہر اسٹائل ٹوپیوں کی اتنی بڑی کوئی ’ڈیل ‘بھی ہو سکتی ہے، محمد علی بھائی کے لئے ایسا سوچنا عرش پر اڑنے کے برابر تھا۔ وہ تو صبح سے شام تک رنگین، ریشمی، مخملی، ملائم، چکور، گول اور ولایت علی خاں والی ٹوپیوں کا مول تول کرتے گزار دیتے تھے ۔ ۔ ۔دور کہاں، یہیں اپنے دلّی کے نظام الدین میں ۔ ۔ ۔ بستی حضرت نظام الدین۔ سنا ہے پڑوس میں کوئی بہت بڑے شاعر بھی تھے۔ غالب نام تھا۔ ارے وہی غالب اکیڈمی والے غالب۔ جہاں ٹھیلا لگاتے ہیں، وہی تو ان کا گھر ہے ۔ ۔ ۔ گھر نہیں دکان ۔ ۔ ۔ یا جو بھی ہو، محمد علی بھائی صبح سے شام اس لئے بھی پریشان رہتے ہیں کہ ہر آنے والا نیا مسافر بس اُسی کے ٹھیلے کے پاس آ کر پوچھتا ہے ۔ ۔ ۔

’غالب اکیڈمی جانتے ہو؟‘

اب کیا ۔ ۔ ۔ وہ چیخیں یا چلاّئیں کہ بھیاّ، جہاں کھڑے ہو وہی تو ہے اُن کی دکان۔ پتہ نہیں اس دکان مکان میں یا جو بھی کہہ لیں، صبح سے کیا کیا ہوتا ہے کہ لوگ بس جوق در جوق چلے ہی آتے ہیں۔ جیسے اور کوئی کام ہی نہیں۔ کتنے ہی لوگ اس کی دکان پر آ کر دریافت کرنے کے بعد، جیسے اُسے پریشان کرنے پر آمادہ ہو جاتے ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔نہیں جانتے ؟

نہیں۔

۔ ۔ ۔غالب کو نہیں جانتے ؟

نہیں۔

۔ ۔ ۔ہو گا کوئی ایسا جو کہ غالب کو نہ جانے ؟

میں نہیں جانتا، بس۔

۔ ۔ ۔پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہیں ؟

تم ہی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

۔ ۔ ۔یعنی کوئی مسلمان غالب کو نہیں جانے

’اے بھائی اِس کو مسلمان مت کہئے ‘۔ ۔ ۔ بتانے والوں نے محمد علی بھائی کو بتایا تھا۔ ۔ ۔ نہیں جانتے کیا۔ شاعر تھا۔ ۔ ۔ کوٹھے پر جاتا تھا۔ ۔ ۔ شراب پیتا تھا۔

’توبہ توبہ توبہ‘۔ ۔ ۔

محمد علی بھائی کی آنکھوں میں غالب، ان کے خاندان، بلکہ خاندان در خاندان کے لئے ڈھیر ساری نفرت جمع ہو جاتی۔

۔ ۔ ۔روزے نہیں رکھتا تھا

اچھا

۔ ۔ ۔نماز بھی نہیں پڑھتا تھا

اچھا

۔ ۔ ۔پھر تو ٹوپی بھی نہیں پہنتا ہو گا؟

نہیں ۔ ۔ ۔ یہی تو۔ ۔ ۔ غزلوں کی طرح اُس کی ٹوپی بھی مشہور ہے۔ غالب کی بڑی سی ٹوپی۔ ۔ ۔  بابل کے ٹیڑھے مینار کی طرح دور تک جانے کے بعد ذرا سی جھک گئی۔ ۔ ۔ ٹوپی کے اوپر کے حصہ میں پیوند لگی ہوئی۔ ۔ ۔ کپڑے کا بالشت بھر حصہ۔ مخملی ٹوپی۔ ۔ ۔ کچھ لوگ اس کے ٹھیلے کے پاس آ کر پوچھتے بھی تھے ۔ ۔ ۔

غالب ٹوپی ہے ؟

نہیں

’کمال ہے، غالب اکیڈمی کے پاس ٹوپی بیچتے ہو اور غالب ٹوپی نہیں رکھتے۔ بھائی کمال ہے۔ ‘

کمال تو بس پوچھنے والے کی نظر میں ہوتا۔ ۔ ۔  یعنی، ہو گا کوئی ایسا جو کہ غالب کو نہ جانے۔ محمد علی بھائی بدلی ہوئی سیاست کی فارسی نہیں جانتے تھے۔ مگر غالب کو مسلمان کہنے کے نام پر ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی۔ ۔ ۔  شرابی اور مسلمان۔ ہو نہ۔ سنا ہے ڈومنی کے کوٹھے پر جاتا تھا۔ فرنگیوں کے لئے شاعری کرتا تھا۔ ان ہی گلیوں میں گھومتا ہو گا کل۔ نہیں۔ کسی نے بتایا۔ ۔ ۔  وہ تو گلی قاسم جان میں رہتے تھے ۔ ۔ ۔ یہاں سے کیا واسطہ ۔ ۔ ۔ پھر یہاں کا ہے کو آ گئے ۔ ۔ ۔؟ دکان کھلوا دی اور وہ مزار تو دیکھئے ۔ ۔ ۔  یہاں مزار بھی بنوا لیا۔ ۔ ۔ لیکن کیا ہوا بھائی اتنا بڑا مزار اتنی جگہ گھیر لی۔ مگر باہر سے تالہ بند۔ دروازے پر کتے لوٹتے ہیں یا صاحب جان فقیر دو چار کتوں کو کسی محبوب کی طرح اپنے سینے سے چمٹائے 24گھنٹہ سوتا رہتا ہے۔

’’یہی ہوتا ہے مذہب سے پھرنے کا انجام۔ ارے انہی مسلمانوں نے تو۔ ۔ ۔ اور شراب پئیں’‘۔

محمد علی بھائی کو غالب کا ذکر گوارا نہ تھا۔ کچھ پیارا تھا، تو اپنے محبوب کا تذکرہ۔ ۔ ۔  محبوبِ اولیا یعنی درگاہ حضرت نظام الدین۔ ایک قطار سے پھول والے ۔ ۔ ۔ چھوٹی چھوٹی اِن تنگ گلیوں میں محبوب اولیاء کی برکت ہے۔ چھوٹے چھوٹے ہوٹل تو دیکھ لیجئے۔ ہزاروں کی تعداد میں بھوکے، لاچار، غریب، فقیر۔ پانچ پانچ روپے میں کھانا کھلائیے۔ باہر سے آنے والا آدمی محمد علی بھائی کی دکان پر بھی رکتا ہے۔ ٹوپی کی قیمت پوچھتا ہے۔

’کتنے کی ہے ؟‘

’توبہ توبہ۔ ۔ ۔ ‘ سرُمے، والی آنکھیں اور زیادہ ندی جتنی گہری ہو جاتیں ۔ ۔ ۔ ’کیا بولتے آپ۔ ٹوپی کی قیمت نہیں ہوتی۔ ۔ ۔  ہدیہ ہوتا ہے۔ ہدیہ۔ ۔ ۔

’جو مرضی ہدیہ دے دیں۔ ‘

محمد علی بھائی جانتے تھے، ہدیہ کے نام پر دینے والا دو چار پیسے زیادہ ہی دے جائے گا۔ کبھی کم نہیں دے گا۔ ۔ ۔ اب بھلا قرآن پاک، تسبیح اور ٹوپی جیسی پاک چیزوں کی خرید پر مول تول کرنے کی ہمت کون کرے گا۔ ۔ ۔ اﷲ کا کلام۔ اﷲ کے گھر میں با ادب جانے کے لئے ایک ٹوپی ہی تو احترام کا واحد ذریعہ ہے۔ بچپن میں ابا بھی کہتے تھے ۔ ۔ ۔ مسجد میں سرڈھک کر جانا چاہئے۔

’کیوں ؟‘

’فرشتے ہوتے ہیں۔ مقدس گھر ہے اس لئے۔ ‘

’نہیں پہنی تو؟‘

’شیطان سر پر تھپڑ مارتے ہیں۔ ‘

ہوss ہو ss محمد علی بھائی کو ہنسی آتی ہے۔ ایک وہ دن اور ایک یہ۔ ۔ ۔ ٹوپی کی عزت اور دبدبہ جو دل میں قائم ہوا، سو آج تک ہے ۔ ۔ ۔

ٹوپی کو آنکھوں سے چومتے ہیں۔ ریشمی، دو پلّی، ترچھی، بچوں کی، روئی جیسی ملائم ٹوپیاں ہاں ۔ ۔ ۔ تو۔ ذکر چلا تھا، ڈومنی کے کوٹھے پر جانے والے غالب کا۔ شراب پینے والے غالب کا اور تقدیر تو دیکھئے۔ جگہ ملی تو کہاں۔ یہاں محبوب اولیاء کے آستانہ کے قریب۔ ۔ ۔ عرس کے دنوں میں یہاں ٹھیلا لگانا بھی مشکل ہو جاتا۔ جو ق در جوق آدمی ہی آدمی۔ ۔ ۔ محبوب اولیاء کے آستانہ پر قوال اپنے اپنے راگ الاپ رہے ہیں۔

’بھر دے جھولی مری یا محمد

لوٹ کر پھر میں جاؤ ں نہ خالی۔ ۔ ۔ ‘

وہ ٹھیلے کو غالب کے مزار والی گلی کے کنارے لگا کر، کپڑے سے برابر کر، محبوب اولیاء کے در پر دستک دینے پہنچ جاتا۔ کسی نے بتایا تھا۔ یہیں علامہ اقبال کی دعاء بھی قبول ہوئی تھی۔ کہتے ہیں اقبال نے سات برسوں تک کچھ بھی نہیں لکھا۔ آستانے میں حاضری دی اور یہ شعر پڑھا۔ ۔ ۔

فرشتے پڑھتے ہیں جس کو، وہ نام ہے تیرا

مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا

’اب دیکھئے اقبال کہاں ہیں ۔ ۔ ۔ شاعر مشرق کہا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ کسی نے بتایا تھا، علامہ کا مزار تو لاہور میں ہے ۔ ۔ ۔ یہی تو غلط ہے۔ علامہ کو یہاں ہونا چاہئے تھا۔ یہاں تو بیکار غالب کو بھیج دیا۔ شرابی کہیں کا۔ ‘

محمد علی بھائی کو اقبال پسند تھے۔ ۔ ۔  پسند ہی نہیں تھے، بہت پسند تھے۔ وہ کہتے بھی تھے ۔ ۔ ۔ ارے غالب کی کا بات کرتے ہو۔ شاعر تھے تو اقبال۔ ایک کیا۔ دس سنادوں اشعار۔ ابھی اِسی وقت۔ مسلمانوں کے تھے۔ اپنے تھے اور یہ غالب۔ لیکن دقّت یہی تھی۔ کبھی کبھی لوگ غالب ٹوپی تو پوچھنے چلے آیا کرتے، اقبال ٹوپی پوچھنے کوئی نہیں آتا تھا۔

یہ پوری بستی ہی محمد علی بھائی کو اﷲ کی سوغات لگتی تھی۔ نور سے جھلمل۔ ۔ ۔ چاروں طرف جیسے نور ہی نور پھیلا ہو۔ ایک قطار سے پھول والوں کی سیر۔ ۔ ۔ اور ٹھیک اُن سے چار قدم، آنکھوں کے فاصلے پر تبلیغی جماعت والوں کا دفتر ۔ ۔ ۔ دفتر کیا تھا، مسجد کہئے۔ مسجد کیا، سب کے لئے ایک آشیانہ۔ ۔ ۔ دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں۔ سوڈانی، چینی، افریقی، امریکی اور پتا نہیں کہاں کہاں سے ۔ ۔ ۔ چہرے الگ، رنگ الگ، زبان الگ۔ لیکن کام ایک۔ مشن ایک۔ اسلام کی تبلیغ۔

تب اُس نے شروع شروع یہاں ٹھیلا لگانا شروع کیا تھا۔ ٹوپی خریدنے آئے بہت سے لوگوں کو تو وہ پہچان بھی نہیں پاتا تھا ۔ ۔ ۔کہ کیا، یہ بھی مسلمان۔ ۔ ۔ کمال ہے۔ یہ بھی۔ ۔ ۔ یہ کالا بھچنگ۔ ۔ ۔ یہ بھی۔ یہ افریقی بھی۔ یہ چینی بھیّا بھی۔ ۔ ۔ سب کو ٹوپیاں دیتے دیتے ایک دن وہ مسجد میں چلا گیا۔ اُف۔ چاروں طرف نور کی بارش۔ اُس سے کہا گیا۔ ۔

’وہ چلّا میں چلے۔ چالیس دنوں تک۔ نہیں تو چوبیس دن۔ نہیں تو اپنے شہر میں ہی تین دن کا وقت نکالے۔ آزاد اپارٹمنٹ سے تاج اپارٹمنٹ۔ گھر گھر گھومنا ہے۔ نماز پڑھنے کی تبلیغ کرنی ہے۔’‘

’سبحان اﷲ۔ ۔ ۔ سبحان اﷲ‘

محمد علی بھائی ہر بات پر سبحان اﷲ کہتے ہیں۔ تبھی سے یہ عادت پڑی ہے۔ چلّا میں جانے لگے تو جیسے گھر والوں کو بھولنے لگے۔ ابّا تو جاہی چکے تھے۔ مرشد آباد میں انتقال ہوا۔ ۔ ۔ اور وہ اپنے بھائی مشتاق کے ساتھ یہاں خوریجی، دہلی میں آ کر بس گئے ۔ ۔ ۔ زیادہ دنوں تک غائب رہنے لگے تو بیوی نے طوفان اُٹھا دیا۔ ۔ ۔

’گھر کی سوچو۔ دو دو بچے ہیں۔ ‘

’تو۔ ۔ ۔ ‘

’بچہ مدرسہ جانے لگا ہے۔ ‘

’اچھی بات ہے۔ ‘ سرمہ لگی آنکھوں میں ’خاندانی جنون‘ پیدا ہوا۔ ۔ ۔ ’عیاشی میں جاتا ہوں کیا۔ مذہب کے کام سے جاتا ہوں۔ ‘

’اور گھر؟‘

’بتایا تھا نا۔ پہلے خلیفہ نے کیا کیا تھا۔ پیارے نبیؐ کے لئے گھر میں کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ ‘محمد علی بھائی کو، جاہل بیوی کو پیٹنے کی خواہش ہوئی۔ مذہب کے کام پر بندش لگاتی ہے۔ مگر کیا کرتے۔ جب آس پاس والوں کے ’مشورے ‘ بڑھے کہ بھائی اولاد والے ہو، اور پھر بزنس بھی ٹھپ۔ ۔ ۔  پڑ رہا ہے۔ ۔ ۔  تو ذرا سی آنکھ کھلی اور ’چلّے ‘ میں جانا کم کر دیا۔ بند نہیں کیا۔ بڑا بھائی مشتاق اُن دنوں ’ڈرائیوری‘ کرنے لگا تھا۔ دو ایک بار شیخ اور ایک ’عرب‘ کی صحبت میں دوسرے ملک جا چکا تھا۔ اس لئے محمد علی بھائی بھی ڈرائیونگ کرنا سیکھ چکے تھے۔ ‘ اس درمیان سعودی عرب سے تبلیغ میں آئے شیخ یاسر سے اُن کا سامنا ہوا تھا۔ تبلیغ کے لئے حیدرآباد گئے۔ وہاں سترہ سال کی ایک دلہن پسند آ گئی۔ غریب باپ کو بیٹی کی قیمت چکائی۔ ۔ ۔ واپسی میں بستی نظام الدین آئے۔ محمد علی بھائی سے ملے تو دل کی بات ہونٹوں پر آ گئی۔

’ہمارے ساتھ چلو گے ؟‘

’کیوں نہیں ؟‘

’ویزا بنا ہوا ہے ‘

’بالکل ہے۔ ‘

ڈرتے ڈرتے محمد علی بھائی نے پوچھا۔ ’عمرہ (آدھا حج) تو کرسکوں گا نا؟

’عمرہ کیوں۔ حج کیوں نہیں ۔ ۔ ۔؟‘

محمد علی بھائی لا جواب ہو گئے۔ مکہ مدینہ کے پُر نور نظارے آنکھوں میں گشت کرنے لگے ۔ ۔ ۔ بیوی بچوں کو، پیسے کے لئے تسلی دی۔ ۔ ۔ اور خود نکل گئے، اﷲ میاں کی نگریا۔ ۔ ۔ خانہ کعبہ۔ اﷲ میاں کا گھر ہی تو ہے ۔ ۔ ۔ عمرہ کیا۔ حج بھی کر آئے اور دوسال میں ہی شیخ کی نوکری بھی چھوڑ کر آ گئے۔

محمد علی بھائی لوٹ تو آئے لیکن تجارت اور بزنس کے ’’دو اور دو‘ دو سو‘‘ کے پہاڑے سیکھ چکے تھے ۔ ۔ ۔ آنکھیں کھل گئی تھیں ۔ ۔ ۔ لے دے کر وہی ایک ٹھیلا۔ ۔ ۔ وہ اپنی اِس ’تجارت‘ کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے فراق میں تھے ۔ ۔ ۔ شاید اس لئے بھی کہ مشتاق نے سلیم پور میں گھر لے لیا تھا اور وہ اب تک خوریجی کے دو کمروں والے کرائے کے فلیٹ میں دہلی کی گرمی برداشت کر رہے تھے۔ لیکن امید تھی۔ اﷲ کی لاٹھی میں دیر ہے اندھیر نہیں ۔ ۔ ۔ ایک دن معجزہ ہو گا۔ جھولی پھیلائیں گے، اور محبوب اولیاء اتنا دے دیں گے کہ قارون کا خزانہ بھی کم پڑ جائے گا۔

***

قارئین،

برسوں پہلے ایک جادوگرنی نے پوچھا تھا۔ آپ جادو پر یقین رکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور یقیناً، اس سوال کو پوچھتے ہوئے جادوگرنی طنز سے مسکرائی تھی۔ ۔ ۔ یعنی اس عہد میں، اس ترقی یافتہ عہد میں بھی۔ ۔ ۔ ؟ممکن ہے، آپ کسی جادو یا معجزے پر یقین نہ رکھتے ہوں مگر ہمارے محمد علی بھائی کے ساتھ، آگے جو واقعہ پیش آیا، وہاں یقین کرنا ہی پڑے گا۔ کیونکہ یکایک، جیسے طلسم ہوشربا کی داستانوں سے اٹھ کر کوئی کردار، زندہ ہو کر اُن کے سامنے متعلق کھڑا ہو گیا ہو۔ یہ آنکھوں کا دھوکہ نہیں تھا۔ پھر بھی ہمارے محمد علی بھائی نے آنکھیں ملیں۔ بستی حضرت نظام الدین کے فٹ پاتھ کنارے رکھے، اپنے ٹھیلے کا جائزہ لیا۔ ۔ ۔ نظر اٹھا کر دیکھا۔ ۔ ۔ سامنے ایک فرنگی تھا اور ایک تھے اپنے صادق بھائی۔ ۔ ۔ جو کتنی ہی بار تبلیغی جماعت کی مسجد میں دکھائی دیئے تھے۔

دونوں یکایک اُس کے ٹھیلے کے پاس آ کر کھرے ہو گئے۔ اس طرح، جیسے لیوتالستائے کی ایک کہانی میں، کسی بھوکے پیاسے کے گھر خود بھگوان چل کر آ گئے ہوں۔

’جی۔ صادق بھائی۔ السلام علیکم۔ ۔ ۔ ‘

محمد علی بھائی غور سے صادق بھائی کا چہرہ پڑھ رہے تھے ۔ ۔ ۔

’سلام مجھے نہیں، انہیں کیجئے ۔ ۔ ۔‘

’اخواہ۔ مسلمان ہیں ؟ سبحان اﷲ۔ ‘ محمد علی بھائی نے تپاک سے ہاتھ آگے بڑھایا۔ ۔ ۔

’نہیں۔ مسلمان نہیں۔ ‘

محمد علی بھائی نے فوراً ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ ۔ ۔ ’کیا کہتے ہیں صادق بھائی۔ کافر کو سلام کرنا منع ہے۔ ‘

’ہو گا۔ ۔ ۔‘

’آپ تو نماز روزہ سب کرتے ہیں۔ پھر ایسی بات۔ ۔ ۔ ‘ محمد علی بھائی کہتے کہتے رک گئے ۔ ۔ ۔ فرنگی، انگریزی میں دھیرے دھیرے صادق بھائی سے کچھ کہہ رہا تھا اور صادق بھائی انگریزی میں اُس کا جواب دے رہے تھے۔ ۔ ۔ ٹیل ہم۔ ٹیل ہم پلیز۔ ۔ ۔ ٹیل ہم دیٹ آئی ایم ویری مچ پلیز ٹو لُک وہاٹ ہی سیڈ۔ تم سے مل کر بہت خوش ہیں۔ ‘

’کیا کہتے ہیں صادق بھائی۔ ۔ ۔ ‘

صادق بھائی نے اُس کا ہاتھ پکڑا۔ دھیرے سے کان میں کہا۔ ۔ ۔ ’محمد علی بھائی، تیری تو چل پڑی۔ ۔ ۔ ‘

’مطلب‘

’اِن سے ملو۔ ۔ ۔ یہ ہیں ۔ ۔ ۔ ایرک ہیسٹٹنگز۔ ۔ ۔ ‘

’ای۔ ۔ ۔ رے۔ ۔ ۔ ک۔ ۔ ۔ ‘ محمد علی بھائی نام لیتے لیتے ٹھہر گئے ۔ ۔ ۔ کیا۔ ۔ ۔ ایریک۔ ۔ ۔ ؟

’ہیسٹٹنگز۔ وارن ہیسٹٹنگز کے خاندان کا۔ ۔ ۔ ‘

’تو میں کیا کروں۔ ‘

’کرنا تمہیں ہی ہے محمد علی بھائی۔ ۔ ۔‘ صادق بھائی ہنس رہے تھے۔ ’کیونکہ بزنس کا معاملہ ہے۔ ‘

’بزنس اور مجھ سے ؟‘

محمد علی بھائی کی پیشانی پر شکن پڑ گئی تھی۔ ۔ ۔ اب سامنے والا آدمی اُنہیں اچھا لگنے لگا تھا۔ ۔ ۔

ایریک ہیسٹٹنگز نے، صادق بھائی سے کہا۔ ۔ ۔   Come to the point convey to him, what I mean. ‘

صادق بھائی نے ترجمہ کیا۔ ۔ ۔ محمد علی بھائی، اِن کی باتیں غور سے سنو۔ ‘

’اوہ۔ یس۔ ۔ ۔ یس۔ ‘ محمد علی بھائی جوش سے بولے۔ اتنی انگریزی تو وہ جانتے ہی تھے۔

اٹیس اے لانگ لانگ اسٹوری، اِمباورنگ مومنٹس آف آلموسٹ تھری سنچوریز’ لمبی کہانی ہے۔ ڈھائی سو سال کے عرصے میں پھیلی ہوئی۔ ۔ ۔ ‘

صادق نے ترجمہ کیا کیا، جیسے تھوک نگلا ہو۔ ۔ ۔

پوچھتے پوچھتے وہ ٹھہرے ۔ ۔ ۔آر یو اے ڈسنڈنٹ آف سراج الدولاز فیملی؟

’آپ نواب سراج الدولہ کے خاندان کے ہیں نا؟ یعنی یہ بات بالکل سولہ آنے سچ ہے، نا‘؟

محمد علی بھائی ایک لمحہ کو جیسے ننگے ہو گئے۔ گہرا سناٹا چھا گیا۔

***

’غربت‘ کے اِس باب کو بھولے ہوئے ایک زمانہ ہو گیا۔ کہاں سراج الدولہ، کہاں وہ۔ ۔ ۔ لیکن سنتے تھے۔ ۔ ۔ ، اُن کے بھائیوں میں سے ایک لیاقت الدولہ کے خاندان سے اُن کا ’شجرۂ نسب جا کر مل جاتا ہے۔

تب اٹھارہویں صدی کا مرشد آباد اور تھا۔ کہتے ہیں لندن، پیرس اور روم کی چمک بھی اُس کے سامنے ماند تھی اور اس بات کا اعتراف تو رابرٹ کلائیو تک نے کیا تھا۔ ۔ ۔ ریشمی کپڑے اور ہاتھی کے دانت سے بنی خوبصورت چیزوں کی وجہ سے بھی مرشد آباد کی شہرت دور دور تک تھی۔

’اُن دنوں۔ ۔ ۔ ‘ ایریک ہیسٹٹنگز ایک لمحہ کو ٹھہرا۔ ۔ ۔ صادق بھائی کا ترجمہ جاری تھا۔ ۔ ۔ مرشد آباد بھاگیرتھی اور اب کے ہگلی ندی کے دونوں طرف بسا ہوا تھا۔ کہتے ہیں یہیں، یہیں بھاگیرتھی کے کنارے، پہلی بار تمہارے آباء و اجداد میں سے ایک، اور ہمارے وارن ہیسٹٹنگز کی ملاقات ہوئی تھی۔ ۔ ۔ایک بڑی ڈیل کے لئے۔ ۔ ۔

’ڈیل؟‘

محمد علی بھائی بچوں کی طرح کانپ گئے ۔ ۔ ۔ جیسے تیز ہوا چلی ہو اور تیز طوفانی ہوا میں اُن کا جسم مثل بید تھرّانے لگا ہو۔ ۔

’ڈیل۔ ۔ ۔  بزنس ڈیل۔ ۔ ۔ ‘

محمد علی بھائی کے لئے وہ فرنگی ایک ’گورا‘ آدمی تھا اور یہ گورا آدمی اِس وقت مسکرا رہا تھا۔ ۔ ۔

یکایک سر میں جیسے تیز تیز بجلی کڑکنے لگی۔ ۔ ۔

’لیکن اتنے برسوں بعد۔ ۔ ۔ یعنی دو سال نہیں دس سال نہیں، سو سال نہیں ۔ ۔ ۔ بلکہ ڈھائی سو سال۔ ۔ ۔ ؟‘

محمد علی بھائی کو حیرانی تھی۔ ۔ ۔ اتنے برس میں تو قبرستان کی تاریخ بھی بدل جاتی ہے ۔ ۔ ۔ دنیا کی کون کہے ؟ ڈھائی سوسال پرانے مردے تو پتہ نہیں کہاں سے کہاں نکل جاتے ہوں گے ssہو ہو ss۔

’ہنسو مت۔ ۔ ۔‘صادق بھائی کی آواز میں ناراضگی تھی۔ ۔ ۔ یہی تو کمی ہے۔ ہم ہندوستانیوں میں۔ تاریخ بھول جاتے ہیں۔ نہیں بھولتے تو یہاں رہتے کیا؟ اِن کی طرح چاند پر چلے گئے ہوتے ۔ ۔ ۔ یہی تو فرق ہے۔ ان کے لئے سب کچھ تاریخ ہے ۔ ۔ ۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ ایریک بھائی بھی تاریخ ہیں ۔ ۔ ۔ اِن کا حال اور ماضی بھی تاریخ ہے۔ ۔ ۔ ‘

’یس۔ ۔ ۔ ‘ ایریک ہسٹینگز نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا۔

صادق بھائی اُس کی طرف گھومے ۔ ۔ ۔ ’پتہ ہے۔ یہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ تمہیں تلاش کرنے میں ساری زندگی لگ گئی۔ ۔ ۔ وارن ہسٹنگز کے مرنے کے بعد ڈیل کی یہ تاریخ کچھ پشتوں تک تو چلتی رہی مگر کسی کو بھی ہندوستان آنے میں کامیابی نہیں ملی۔ ۔ ۔ دراصل وارن ہیسٹنگز کے گھر والے، اُن پر زندگی کے آخری لمحوں میں لگنے والے الزام اور الزامات اور مقدموں سے بالکل خوش نہیں تھے ۔ ۔ ۔ پھر لگاتار کورٹ کچہری، گواہیاں، اس سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی طاقت کم ہو رہی تھی۔ کمپنی کے افسراعلیٰ بھی کمزور پڑنے لگے تھے۔ لیکن تاریخ ان ڈھائی سو برسوں میں آنے والی نسل کو اس ڈیل کی کہانی سناتی رہی اور ہیسٹنگز خاندان کا ہر آدمی سوچتا تھا۔ ۔ ۔ وہ ہندوستان جائے گا۔ ۔ ۔ لیاقت الدولہ کے خاندان والو ں کو پکڑے گا۔ ۔ ۔ اور اس تاریخی ڈیل کے بارے میں بتائے گا۔ ۔ ۔‘

معاذ اﷲ!  محمد علی بھائی صدیوں پرانی تاریخ کی اس محبت سے بے حد متاثر تھے ۔ ۔ ۔ مگر میرا گھر۔ میرے بارے میں۔ ۔ ۔ ‘

صادق بھائی نے اُس کا ہاتھ تھاما۔ ۔ ۔ جو تاریخ کی حفاظت کرتے ہیں، وہ تاریخ میں شامل لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں۔

’مگر۔ ۔ ۔‘

صادق بھائی، محمد علی بھائی کے ہاتھوں کو تھامے رہے ۔ ۔ ۔ ’DNA جانتے ہو یا نہیں ؟‘

’ہاں۔ ‘محمد علی بھائی کو اپنے نالج پر فخر کا احساس ہوا۔ ۔ ۔

’اسپیل برگ نے کھدائی میں ملے ڈائنا سور کے انڈے سے پورا جوراسک پارک تیار کر لیا۔ ’کب، کیسے، کیا‘ جیسی چیزیں تاریخ میں نہیں آتیں ۔ ۔ ۔ صرف جانو، دیکھو اور سنتے رہو۔ ۔ ۔‘

’یس۔ ۔ ۔ یوآر رائٹ۔ ۔ ۔ ‘

محمد علی بھائی کی آنکھوں میں چمک لہرائی۔ سب سمجھ گیا۔ ۔ ۔ سمجھ گیا صادق بھائی۔

لیکن کیا اور کتنا سمجھا تھا، محمد علی بھائی نے ۔ ۔ ۔ لیاقت الدولہ اور سراج الدولہ کے خاندان کی ’رام کہانی‘ تو کب کے نوابوں کے قبرستان میں دفن ہو چکی تھی۔

مرشد آباد چھوڑے بھی ایک زمانہ ہو گیا۔ ۔ ۔ پھر کبھی وہ لوٹ کر تاریخ کی سنہری ’گُپھا‘ میں نہیں گئے۔ وہاں تھا ہی کیا۔ سوائے ناامیدی اور ایک دُکھ بھری کہانی کے۔ وہ تو، اﷲ اﷲ خیر صلی جمنا پار، خوریجی میں دو چھوٹے کمروں والا ایک اصطبل مل گیا اور مل گئی بستی حضرت نظام ۔ ۔ ۔مل گیا ٹوپیوں والا ایک ٹھیلہ ۔ ۔ ۔اور مل گئے، انہی بستیوں میں اپنے صادق بھائی۔ ۔ ۔ جن سے کسی اُجاڑ دُکھ بھرے لمحے محمد علی بھائی نے ذکر کیا تھا، کہ وہ کس کے خاندان سے ہیں اور اب کیا ہو گئے۔

’نہیں اِس بات کو آپ ایسے نہیں سمجھیں گے ۔ ۔ ۔‘ اریک ہیسٹنگز کا چہرہ چمک رہا تھا۔ ۔ ۔ ’دراصل اُس وقت ہمارے سائنسداں زمین اور کرۂ باد کو لے کر ایک تجزیاتی رپورٹ لائے تھے۔ زمین کا کرۂ باد پانچ پرتوں کا بنا ہوا ہے۔

’ٹراپوس فیئر، اسٹریٹوس فیئر، میسوس فیئر، تھرموس فیئر اور ایکسوس فیئر۔ ۔ ۔ ‘

’تو۔ ۔ ۔ ‘ محمد علی بھائی کے چہرے پر گھبراہٹ تھی۔ ۔ ۔  اتنے سارے فیئر۔ ۔ ۔  اس گھبراہٹ میں وہ ایریک ہسیٹنگز کا چہرہ دیکھنا بھول گئے ۔ ۔ ۔ جس کی دائیں آنکھ کے پاس کے کالے تل سے، روشنی کی چنگاریاں نکل رہی تھیں ۔ ۔ ۔ ٹھیک ایسے، جیسے پرندے اُڑتے اُڑتے ’بجوکا‘ کو دیکھتے ہوں ۔ ۔ ۔ ٹھہرتے ہوں ۔ ۔ ۔ لوٹ جاتے ہوں۔ نہیں، یہ تمثیل ٹھیک نہیں ۔ ۔ ۔ ہاں، یاد آیا، مولوی صاحب، مدرسے میں اپنی جگہ باہر جاتے ہوئے ’گؤ تکیہ‘ کو رکھ دیتے تھے، پھر اشارے سے کہتے تھے ۔ ۔ ۔ ’یہ میں ہوں، جانا مت۔ ‘ اُن کے جانے کے بعد بھی گؤ تکیہ عجب عجب طرح سے مولوی صاحب کی شکلیں لیتا رہتا تھا۔ اس وقت کچھ ایسا ہی تھا۔ وہ ڈر بھی رہا تھا۔ سمجھنا بھی مشکل تھا۔ اُس پر اِس گورے بھائی کا چہرہ۔ ۔ ۔ بڑا ڈیل۔ ۔ ۔ لیکن یہ ڈیل کے درمیان میں کرّۂ باد کہاں سے آگیا۔

’ڈیل کے درمیان میں کرۂ باد؟‘ محمد علی بھائی خود کو روک نہیں سکے۔

ترجمہ کرنے والے صادق بھائی دل کھول کر ہنسے ۔ ۔ ۔ گورے آدمی کی چھوٹی آنکھیں سکڑ گئیں ۔ ۔ ۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اُن میں چمک پیدا ہو گئی۔ ۔ ۔ صادق بھائی نے اُس کے لفظوں کا ترجمہ کیا۔ ۔ ۔  دس فول از سے اِنگ۔ ۔ ۔

اوہ نوssنوss اریک ہیسٹنگز ہنس رہا تھا۔ ۔ ۔ پھر اُس نے کچھ کہا۔ اب اُس کی انگریزی اور ترجمہ ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ ۔

’جیسے جیسے ہم اوپر بڑھتے جاتے ہیں، ہوا پتلی ہوتی جاتی ہے۔ ۔ ۔ ‘

’تو۔ ۔ ۔ ‘

’یہ سب سمجھنا اتنا آسان نہیں۔ ہندستان میں ولایتی مال کی کھپت کے سلسلے میں ڈیل ہوئی تھی۔ ہری دوار، ایودھیا، بنارس اور ایسے ہی کچھ مذہبی مقاموں پر گیروا ریشمی کپڑے تھوک میں بھجوانے کی بات ہوئی تھی۔ ۔ ۔ لارڈ ویلزلی نے خود ہی بہترین مال کے لئے ہندوستان کے ان بڑے ہندو بازاروں کی اسٹیڈی کی تھی۔ مگر صادق دھیرے سے پھسپھسایا۔ ۔ ۔ محمد علی بھائی جتنا کہا جائے، اتنا ہی سمجھو۔ زیادہ آگے پیچھے مت دیکھو۔ ۔ ۔ آگے پیچھے دیکھو گے تو یہ ڈیل ہاتھ سے نکل جائے گی۔ فائدہ تمہیں ہو گا تو کمیشن مجھے بھی تو ملے گا۔ سمجھے کہ نہیں۔ اب کیا ہے کہ یہ لاٹری تمہارے نام کھل گئی بس۔ ۔ ۔  اب ایسے سمجھو۔ ۔ ۔  کہاں یہ۔ ۔ ۔  کہاں ہم۔ ۔ ۔  ای کتنا پڑھے لکھے ہیں اور ہم۔ ۔ ۔ کیا مقابلہ ہے ۔ ۔ ۔ کوئی مقابلہ ہوتا تو دوسو سال سے زیادہ کیا یہ ہم پر حکومت کرتے۔ ۔ ۔  ؟ایک دن سب کی قسمت بدلتی ہے۔ سمجھو تمہارے دن بھی۔ ۔ ۔

درمیان میں اریک ہیسٹنگز نے ناگواری سے اُس کی پھسپھساہٹ کے بارے پوچھا۔

صادق بھائی نے ترجمہ کیا۔ ۔ ۔  دس فول از سے اِنگ۔ ۔ ۔

’اوہ۔ ۔ ۔  یس۔ ۔ ۔ ‘ اریک ہیسٹنگز کے چہرے کی سلوٹیں ختم ہوئی تھیں۔ ۔ ۔  لیکن اب یہی سلوٹیں محمد علی بھائی کے چہرے پر’ اُچھل‘ کر چھا گئی تھیں ۔ ۔ ۔

’معاملہ الجھا ہوا ہے ۔ ۔ ۔‘

’نہیں اُلجھا ہوا نہیں ۔ ۔ ۔‘ صادق بھائی سمجھا رہے تھے ۔ ۔ ۔ بس تمہارے سمجھنے کا پھیر ہے۔ آخر نواب سراج الدولہ کے خاندان سے ہو۔ ۔ ۔ ایک بڑے آدمی کی دوسرے بڑے آدمی سے ڈیل ہوئی تھی۔ ڈیل ناکام ہوئی۔ ۔ ۔ ڈھائی سو برس سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا۔ ۔ ۔اور اِس کے بعد۔ ۔ ۔ ‘

’ڈھائی سو۔ ۔ ۔  کیا یہ کچھ زیادہ ۔ ۔ ۔زیادہ آپ کو نہیں لگتا؟‘

’لگتا ہے تو کیا کریں ؟ ‘ صادق بھائی کے چہرے پر ناراضگی تھی۔ ۔ ۔ یقین بھی ایک چیز ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ اور محمد علی بھائی۔ یہ تو ایک موقع ہے۔ سنہرا موقع۔ ۔ ۔ تمہارے لئے۔ اِدھر اُدھر مت دیکھو۔ ذرا سوچو۔ ڈھائی سو سال پہلے جو ڈیل ہوئی تھی۔ ۔ ۔ وہ اجودھیا، ہری دوار اور ہندوؤں کو لے کر۔ ۔ ۔ اور اب کی ڈیل مسلمانوں کے ساتھ۔ ۔ ۔ تمہارے ساتھ۔ امریکہ، انگلینڈ سب تمہارے ساتھ ہیں ۔ ۔ ۔‘

’کہاں ساتھ ہیں ؟‘

’کیوں ؟‘

اُسامہ کیا پہلے ہمارے آدمی تھے۔ اُن کے تھے۔ ایک ڈیل تو اُن کی بھی ہوئی تھی۔ کیا ہوا اور بغداد میں عراق میں، ہم کیا اردو اخبار بھی نہیں پڑھتے ہیں۔

محمد علی بھائی کی سرمہ لگی آنکھوں میں، ’ذہانت‘ کے چودہ طبق روشن ہو گئے تھے۔

سب کرۂ باد کی وجہ سے۔ اُس وقت زمین کا کرۂ باد بدل گیا تھا۔ ریشمی کپڑے پہننے والوں کو پھپھولے نکل جاتے تھے۔ بڑے بڑے دانے چیچک جیسے۔ انگلینڈ میں اس کو لے کر میٹنگ ہوئی۔ وارن ہیسٹنگز بھی شامل ہوئے اور کہا گیا اس وقت ہندوستان سے درآمد کئے ہوئے ریشم سے انگلینڈ میں تیار کیا گیروا یا بھگوا کپڑا ہندوستان بھیجنا مشکل ہے۔ یہ ہندو ذات کو نا صرف پریشانی میں ڈالنے جیسا۔ ۔ ۔ بلکہ اس سے انگلینڈ کے راجاؤں کے لئے اُن میں یقین میں بھی کمی آئے گی اور یہ ڈیل ہوئی تھی۔ ۔ ۔ تمہارے پُروجوں میں سے ایک لیاقت الدولہ سے، جن کی لکھنؤ سے مٹیامحل اور کلکتہ کے مٹیا برج تک طوطی بولتی تھی۔

***

 قارئین

یہ قصّہ بھی ڈھائی سو سال پہلے کا ہے اور اس کہانی میں تاریخ اتنا ہی ہے، جنتا دال میں نمک اور سچی بات یہ ہے کہ ہماری اس کہانی میں ’سانڈ‘ کا کوئی تذکرہ نہیں ہے اور جو تذکرہ ہے، وہ ٹوپی کا ہے۔ اس میں ڈھائی سو سال پہلے کی تاریخ آ تو گئی ہے۔ مگر اتفاق سے۔

اور اتفاق ہی کہنا چاہئے کہ حال فی الحال شروع ہوئے اس قصّے کی بنیاد تب پڑی، جب ہندوستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے سہارے ہندوستان کو اٹھاتے۔ سرکار کا چراغ بجھ گیا اور بام پنتھیوں کے سہارے بنی نئی  سرکار نے غیرملکی سرمایہ کاری پر اپنی ہری جھنڈی تو سنا دی۔ لیکن بحث میں بھی گھر گئے۔ معاشی پالیسیوں اور بجٹ پیش کرنے کے شور شرابے کے دوران ہی وارن ہیسٹنگز کے خاندان کے لوگ نے، سراج الدولہ کے خاندان سے مل کر اپنی نئی ڈیل کی منشا ظاہر کر دی تھی اور جیسا میں نے بتایا، اس میں نمک برابر اتہاس کا دخل تو رہے گا۔ پلاسی کی جنگ، ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت اور ہندوستان کا غیرملکی حکومت کا غلام بن جانا۔ ۔ ۔ یہ واقعہ، (اتفاق ہی ہے ) اس کہانی سے جڑی ہے۔ اورنگ زیب کی موت کے بعد اُس کی اولادوں کی خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ سارے صوبوں میں بدامنی پھیلنے لگی۔ مغلیہ حکومت کے دو اہم صوبے دکن اور بنگال، خود مختار بن گئے۔ بنگال میں علی وردی خاں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے دائرے کو بڑھنے سے روک رکھا تھا۔

1756 میں علی وردی خاں کی وفات ہوئی اور اُن کی وصیت کے مطابق سراج الدولہ کو بنگال کا نواب تسلیم کر لیا گیا۔ دہلی حکومت اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ اُس سے فرمان حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ سراج الدولہ کو بنگال کا نواب تسلیم کر لیا گیا۔ دہلی حکومت اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ اُس سے فرمان حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ دہلی حکومت اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ اُس سے فرمان حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ سراج الدولہ کے مقابلہ ایسٹ انڈیا کمپنی، سرمایہ داری کی تیزی سے اُبھرنے والی سب سے بڑی طاقت تھی۔ اس کا مرکزی دفتر لندن میں تھا۔ لیکن شاخیں بمبئی، مدراس اور کلکتہ میں تھے اور جو ایک دوسرے میں سے آزاد تجارت کرتی تھی۔ لیکن وہ آپس میں تعلقات بنائے رکھتی تھیں۔ اٹھارہویں صدی میں مرکزی حکومت کی کمزوری کی وجہ سے ایسٹ انڈیا کی شاخوں نے مقامی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔  مدراس کلکتہ میں کمپنی کے چالاک افیسربھیجے گئے تاکہ ہندوستان کی بڑی منڈی پر دھاوا بولا جاسکے۔ ایسے افسران میں وارن ہیسٹنگزبھی تھا جو 1772 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا گورنر بنا۔

اُس وقت ہندوستان کی آبا دی کا ایک بڑا حصّہ انیسویں صدی کے پہلے دہائی تک متفرق صنعتوں میں لگے تھے۔ بُنکاری، عوام کا قومی روزگار تھا۔ لاکھوں عورتیں کتائی سے اپنے پریوار کے لئے کمائی کرتی تھیں۔ انگریزی چمڑے کا کام سے لاکھوں کو روزگار ملتا تھا۔ وارن ہیسٹنگز نے طے کیا، کچے ریشم کی پیداوار کو بڑھاوا دیا جائے۔ ہدایت نامہ جاری ہوا۔ ریشم کے کاریگر، کمپنی کے کارخانوں میں کام کریں اور جو نہیں کریں گے، سزا کے حقدار ہوں گے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان میں ریشم اور سوتی کپڑوں کا بننا کم ہو گیا۔ جن لوگوں نے پچھلی صدیوں میں یوروپ اور ایشیا کے بازاروں میں یہ مال غیر ممالک سے بھیجے تھے، وہ ہی ان مالوں کو بڑھتے ہوئے مقدار میں باہر سے منگانے لگے۔

کمپنی کا اختیار نامہ 1813 میں رینول ہوا۔ تلاش کی گئی۔ گواہیاں ہوئیں۔ وارن ہیسٹنگز، ٹامس منٹو، سرجان میلکم وغیرہ گواہوں کی گواہیاں لی گئیں۔

وارن ہیسٹنگز کا بیان نپا تُلا تھا۔ ہندوستانی پیداوار کے بارے میں وہ اتنا بھر جاننے کے بارے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ برٹش مال کس طرح یہاں اپنی جگہ بنا سکتا ہے اور ہندوستانی صنعت کی قیمت پر کس طرح برٹش صنعت پنپ سکتے ہیں۔

وارن ہیسٹنگز سے پوچھا گیا۔ کیا ہندوستانی عوام، اپنے استعمال کے لئے یوروپ کے مال کی مانگ کرسکتی ہے۔

وارن ہیسٹنگز نے جواب دیا تھا۔ ۔ ۔ ہندوستان کے غریبوں کو کسی کمی کا احساس نہیں ہے۔ اُنہیں چاہئے تھوڑا تھوڑا، روٹی کپڑا اور مکان۔ یہ ساری چیزیں وہ اپنی دھرتی سے پاسکتے ہیں۔

سرجان میلکم کا ماننا تھا، ہندو با ہمت، اُداس اور بھلے مانس ہیں وہ سچے اور کھرے ہیں۔ وہ ولایتی مال نہیں کھپاسکتے۔ کیونکہ اُن میں خریدنے کی شکتی نہیں ہے۔ وہ آسان اور سادہ زندگی ہی گزارا کرتے ہیں۔

’لیکن اُنہیں یہی آسان اور سادہ زندگی غیر ممالک سے مہیا کرائی جائیں تو؟‘

وارن ہیسٹنگز کا جواب تھا: شاید اسی دن کے لئے وہ یہاں بھیجے گئے ہیں۔

***

یہی وقت تھا، جب کمپنی کے کارخانوں کی وکالت کرنے والے سراج الدولہ کے بھائی لوگوں میں سے ایک لیاقت الدولہ وارن ہیسٹنگز کے رجوع میں آئے تھے اور اُن سے ہیسٹنگز کے مکالمے کچھ اس قسم کے رہے۔

’ساتھ دو گے ؟‘

’ہاں۔ ‘

’بڑی ڈیل بڑا پیسہ۔ ‘

’آپ حاکم۔ ‘

’ریشم کے کپڑے بنگال تک محدود ہیں۔ تم مرشد آباد کے۔ ‘

’جو حکم حاکم۔ ‘

ہمارے پاس بارہ ریزیڈینسیاں اور کئی کارخانے ہیں۔ کچھ جگہ پٹنی ریشم، مہین ریشم کے مال بنتے ہیں۔ ہمیں اچھے مہین ریشم چاہئے۔ ہندوؤں کو وہی کپڑے دو، جو وہ پہنیں، وہی کھانے کو دیں، جو وہ کھائیں اور وہی رہنے کو دو جو۔ ۔ ۔ ان سے سستے میں ریشم لو۔ مال ولایت بھی بھیجا جائے گا۔ انہیں بھگوا ریشم کی دھوتی، ریشم کے کُرتے اور ریشم کی جنیؤ دو۔ لیاقت الدولہ لاکھوں میں کھیلو گے تم۔

لیکن لیاقت الدولہ کے لاکھوں میں کھیلنے کا سپنا پورا نہیں ہوا۔ ہندوستانی آزاد پیدا کار کے لئے، کمپنی کا قدم سیدھے سیدھے اُنہیں اور غلام کرنا تھا۔ اختیار نامہ کے رینول کی بات ہوئی۔ شور شرابا ہوا اور لیاقت الدولہ سے ہونے والی بڑی ڈیل انگریزوں کی دھوکہ بازی کی بھینٹ چڑھ گئی۔

اِس المیہ کو وارن ہیسٹنگز نے اپنی ڈائری میں یوں لکھا:

’جو کچھ ہوا، اُس سے ہمارے برٹش کے کام کرنے والوں کو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے ہندوستان کے کام کرنے والے، انگلینڈ کے کام کرنے والوں سے، پہلے اِس صنعت میں ہیں۔ ان کے اپنے حدود ہیں۔ پانی اور کھانا کم ملتا ہے پھر بھی اُن میں محنت کی لگن غضب کی ہے ہم یعنی برٹش کام کرنے والوں سے، پہلے سے اِس صنعت میں ہیں۔ ان کے اپنے حدود ہیں۔ پانی اور کھانا کم ملتا ہے پھر بھی اُن میں محنت کی لگن غضب کی ہے ہم یعنی برٹش کام کرنے والوں سے زیادہ ہم ہندوؤں کو نہیں لبھا پائے، لیکن ایک دن۔ ۔ ۔ آنے والے دنوں میں سے کسی ایک دن ہندوستانیوں کے ساتھ مل کر ہمیں اس آنے والے دنوں میں سے کسی ایک دن ہندستانیوں کے ساتھ مل کر ہمیں اِس طرح غیرملکی سرمایہ کاری کو بڑھاوا دینا پڑے گا۔ ہندوستان انوکھی صلاحیت والا، انوکھا ملک ہے اور یہ یاد رکھنے کی بات ہے وہاں مذہب ہی ’اعلیٰ‘ ہے۔ مستقبل میں ہندوستان ہی سب سے بڑا بازار سے بننے کی گنجائش بھی رکھتا ہے۔

قارئین

قصّہ کوتاہ، یہ وہی پُرزہ تھا، جسے چاندی کے ورق میں جیسی صندوقچی میں رکھ کر، انتہائی حفاظت سے اریک ہیسٹنگزنے نکال کر اُس کے سامنے رکھا تھا۔ ۔ ۔ لو، دیکھو۔ ۔ ۔

محمد علی بھائی کے ہاتھ بڑھانے بھر سے وہ تھرتھرانے لگا تھا۔

صادق بھائی نے ترجمہ کیا۔ ۔ ۔ ’چھونا مت، صرف دیکھنے کی چیز۔ ۔ ۔ ‘

’لیکن۔ ۔ ۔ ‘

’لیکن کیا؟‘

’دیکھوں تو سہی کیا لکھا ہے۔ ‘

’تاریخ، اتہاس، اتہاس کو چھوسکتے ہو تم۔ ۔ ۔ ‘

’نہیں۔ ۔ ۔ ‘

’دیکھ تو سکتے ہو۔ ‘

’کیا؟‘

’وہی جو حال کا اتہاس ہے۔ ‘

’حال کا اتہاس۔ ۔ ۔ ؟‘

’یس۔ جو تم نے بنایا۔ ۔ ۔  تم نے۔ ‘

اُجلے آدمی کا چہرہ خوشی سے جگمگا رہا تھا۔ وہ ایک بار پھر کچھ کہہ رہا تھا اور اُس کا ترجمہ ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔

پہلی ڈیل اجودھیا، ہری دوار، لیکن اب تمہاری پہلی ہندوؤں کی اور جب تمہاری یعنی مسلمانوں کی۔ اجودھیا کی ڈیل وہیں ہو سکی۔ وہ کمزور تھے۔ سچے اور بھولے بھالے۔ اور تم سے تو ڈر لگتا ہے۔ تم تو ورلڈ ٹریڈ ٹاور بھی گرا دیتے ہو۔ ایک دم ورلڈ ٹریڈ سے زیرو آور تمہارے اُسامہ تمہارے صدام۔ ۔ ۔ سمجھ رہے ہو نا تم نے، تم نے ایک ہو کر سرکار گرا دی۔ ’ہندتو‘ کی سرکار کس نے گرائی۔ تم نے کیونکہ پہلی دفعہ ایک تھے تم اور بابری مسجد، ورلڈ ٹریڈ ٹاور منہدم کئے جانے سے گجرات تک تم زیادہ سے زیادہ مسجدوں میں پہنچ رہے ہو۔ لُک۔ ۔ ۔ زیادہ سے زیادہ، تمہیں زیادہ سے زیادہ ٹوپیاں چاہئیں۔ ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں۔ پہلے والی جو ڈیل نہیں ہوئی تھی، ہم اُس کی قیمت چکا دینے گے۔

’کیا چکائیں گے ؟‘

محمد علی بھائی کا جسم، اچانک چلنے والی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے لرز رہا تھا۔ ۔ ۔

’جو مانگو کے ملے گا۔ ‘

’مانگ۔ مانگ نا۔ ۔ ۔ ‘ صادق بھائی کی بری بڑی آنکھیں ایسی ہو گئی تھیں، جیسے اُنہوں نے تندور میں ’سینکے ‘ جانے والے تندوری چکن کو تاڑ لیا ہو۔

’چلو ہم ہی دیتے ہیں۔ ‘ اریک ہیسٹنگز لٹانے پر آ گئے تھے۔

’دہلی تم کو دیا۔ ‘

’دہلی۔ ۔ ۔ ‘

’ہاں ۔ ۔ ۔ معنی دہلی مارکیٹ۔ ‘ صادق بھی ہنسے۔

محمد علی بھائی کی آنکھیں جیسے پتھر تھیں۔ ایسے دہلی کیسے دے دیا۔ دہلی تو کبھی مغلوں کی، کبھی انگریز کبھی باجپائیوں کی اور کبھی سونیا کی ہے۔

’چلو لکھنؤ لے جاؤ، اودھ دے دیا۔ ‘

’اودھ؟‘

’معنی پورے اودھ کا مارکیٹ۔ ‘ صادق بھائی کھلکھلا کر ہنس رہے تھے ۔ ۔ ۔ ’دیکھتے کیا ہو۔ مصافحہ کرو۔ مصافحہ اتنی بڑی ڈیل۔ ‘

’ارے ہاتھ بڑھاؤ۔ ‘

اُس نے ہاتھ بڑھایا۔ یعنی محمد علی بھائی نے ہاتھ بڑھایا مصافحہ یعنی ہاتھ ملانے کے لئے اور ٹھیک اسی لمحہ وہ اپنی دنیا، بستی حضرت نظام الدین اور ٹھیلے کی دنیا میں واپس آ گئے۔ اریک ہیسٹنگز تھوڑا سا محمد علی بھائی کے کالے مٹ میلے، کھُردرے ہاتھوں کو بڑھا دیکھ کر تھوڑا ٹھٹھکا تھا۔ ٹھیک ایسے ہی اُسے کرنٹ لگا تھا، ایک بار جب دو سال کی ڈیوٹی پر ’شیخ‘ کی جنت، کار چلانے وہ سعودی گیا تھا۔ فائدہ اتنا ہوا کہ دو سال میں ’عمرہ‘ بھی کر آیا اور حج بھی ہو گئے۔ وہاں رہتے، سہتے، کار چلاتے ہوئے محمد علی بھائی کی آنکھوں میں اتنی روشنی بڑھی تھی، جتنا اِس ڈیل کا سن کر بھی نہیں بڑھی۔ بس، وہ تو ایک دن، شیخ کے حساب کتاب کو لے کر دُکھی محمد علی بھائی نے سلام ٹھونک دیا۔ ۔ ۔

’سلام شیخ۔ اپنا ٹھیلا پیارا۔ اپنی بستی حضرت نظام الدین پیاری۔ تبلیغی جماعت کا دفتر پیارا اور اپنی پلّی دو پلّی ٹوپیاں پیاری۔ میں تو چلا۔ ۔ ۔‘

’کیا سوچنے لگے ؟‘ صادق بھائی نے جھٹکا دیا تو اُسے خیال آیا۔ اریک ہسیٹنگز نے مصافحے کے لئے اپنا ہاتھ پینٹ کی جیب سے باہر نہیں نکالا ہے۔

’مجھے سوچنے کا ٹائم چاہئے۔ ‘

’ٹائم؟‘

’آخر ڈیل ہے۔ مذاق ہے۔ ‘

اریک ہیسٹنگز کے پوچھنے پر صادق نے ترجمہ کیا۔ ۔ ۔ ہی ٹولڈ۔ ۔ ۔

’اوہ یس۔ یس۔ ۔ ۔ ‘

صادق بھائی نے بتایا۔ ۔ ۔ ’ہم پھر آئیں گے۔ سوچنے کے لئے دو دن کی مہلت ہے۔ اُس کے پاس اور ہاں۔ کل یہ تمہارے ساتھ لنچ بھی کریں گے۔ یہیں کریم میں اور۔ ۔ ۔ تمہارے کارخانے سے ملیں گے، جہاں تمہاری ٹوپیاں بنتی ہیں۔ ہے ss ای۔ مسٹر محمد علی ٹھیک؟‘

صادق بھائی، محمد علی بھائی کی سرمہ لگی آنکھوں میں جھانک رہے تھے۔ جاتے جاتے تپاک سے ہاتھ ملایا۔ اریک بھائی کی مرسڈیز باہر تھانے کے پاس لگی تھی۔ بستی حضرت نظام الدین سے باہر نکلتے ہی تھانہ ہے۔ وہاں عام طور پر بستی یا فاتحہ پڑھنے آنے والے لوگ گاڑیاں لگا دیا کرتے ہیں اور ان گاڑیوں کے لئے یہیں کے رہنے والے پانچ دس روپے لے کر گاڑی کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے، تھانے بھی کچھ پیسے پہنچ جاتے ہوں۔ مگر یہ بات یقین سے اس لئے بھی نہیں کی جاسکتی، یہاں سارا علاقہ‘۔ ۔ ۔  مطلب نیکی کا۔ جو بھی کام کرو گے، محبوب الٰہی خوش ہوں گے۔

***

’کریم میں کھانا کھائیں گے ؟‘

اتنی بہت ساری باتوں میں جو بات محمد علی بھائی کو یاد رہی، وہ یہ تھی کہ کریم میں کھانا کھائیں گے۔ کریم مطلب اسٹیٹس سمبل۔ یہاں، ٹھیلا لگانے سے پہلے سے ہی وہ کریم کے بارے میں کتنی کہانیاں سنتا رہا۔ جب کہ کریم ہے ہی کتنی دور۔ ٹھیلے سے دس قدم ناپ لو۔ دروازہ پر با وردی چوکیدار آتے ہی سلام داغتا ہے۔

کریم میں کھانے کی ’ہمت‘ اپنی جگہ تھی۔ مگر ۔ ۔ ۔یہ بات بھی بار بار پریشان کرتی تھی کہ وہ اریک بھائی کو جواب کیا دیں۔ اچھا ہے، کریم کی دھیمی دھیمی روشنی میں برسوں کا خواب پورا کریں اور اربک بھائی کو جواب دیں۔ ایسا ممکن ہی نہیں۔

ایک بات اور تھی۔ ۔ ۔ اربک بھائی نے کہا تھا۔ ۔ ۔ جہاں ٹوپیاں بنتی ہیں، وہ اُس کارخانے کو بھی دیکھنا چاہئیں گے۔ آخر کو لمبی ڈیل کا سوال ہے۔ جتنا مال یا آرڈر چاہئے، اُس حساب سے اربک بھائی اس ٹوپی مارکیٹ کی ’ٹوہ‘ لینا چاہتے تھے۔ ۔

بے حد اشتعال میں ڈوبی رات کیسی ہوتی ہے، یہ پہلی بار محمد علی بھائی نے جانا۔ رات بھر رہ رہ کر کروٹیں بدلتے رہے۔ کبھی بچوں کو چھوتے۔ کبھی اُٹھ کر بیوی کے ہونے کا احساس کرتے۔ کیا سچ مچ اُن کی ڈیل ہو گی۔ کیا اِس ڈیل سے اُن کی دنیا بدل جائے گی۔

***

صبح چھ بجے ہی صادق بھائی گاڑی لے کر گھر آگیا۔ اریک بھائی بستی حضرت نظام الدین، درگاہ پر پہنچ چکے تھے اور اندر آستانے میں گورے چٹّے مجاوروں کو دنادن سو دو سو کی رسید اور صندوقچہ لئے بیٹھے ’تاجروں ‘ نے اریک بھائی کو محاصرہ میں لے لیا تھا۔ یہ کوئی بہت اچھا منظر نہیں تھا، محمد علی بھائی کے لئے۔ ایک لمحہ کو رات والا سپنا ’فر۔ ۔ ۔ ر‘ ہو گیا۔ اریک بھائی نے اُسے دیکھ کر خوشی ظاہر کی مگر محمد علی بھائی کے چہرے پر ’سرد مہری‘ پسری رہی۔

’تو چلیں۔ ‘ صادق بھائی نے پوچھا۔ ۔ ۔

’صفیہ کی ڈیری‘۔ ۔ ۔ یہی وہ جگہ تھی، جہاں محمد علی بھائی کی ٹوپیاں بنا کرتی تھیں۔ تین بڑے بڑے ہال تھے، زیادہ تر عورتیں تھیں، جو یہ کام کیا کرتی تھیں۔ بستی حضرت نظام الدین کے اندر گلیوں میں یہ ’ڈیری‘ تھی۔ ایک ’ہال‘ صرف مشینوں کے نام تھا۔ جہاں پاؤں سے چلنے والی مشینوں پر عورتیں ٹوپی کو آخری شکل دیا کرتی تھیں۔ سوت، ریشم، جھالے سے لے کر مشین ایک ایک چیز کو اریک بھائی دیکھتے رہے۔ تب ایک سورج کافی سرچڑھ آیا تھا۔ اب منزل تھی کریم کی۔ صادق بھائی کا خوف یہ تھا کہ بات بن جائے اور اُن کا کمیشن نہ جائے۔

جبکہ محمد علی بھائی کی پیشانی پر اُگنے والی تیسری آنکھ اب تھوڑی تھوڑی کُھلی تھی۔ وہ نہ زیادہ جوش میں تھے، نا حوصلہ افزا، وہ ٹھیک ایسے ہی ہندوستانی تھے، جیسے ’ہندوستانی ہندو‘ کے لئے وارن ہیسٹنگز نے اُس ڈیل کے بارے میں غور کیا تھا۔ ۔ ۔ ’یعنی سب کچھ تھوڑے تھوڑے میں مطمئن رہنے کا نظریہ اور یہ نظریہ کسی بھی مارکیٹ اسٹریٹجی کو منہدم کرسکتا تھا۔

***

’لسٹین۔ ۔ ۔‘صادق بھائی اُس کی طرف مڑے ۔ ۔ ۔ تب ہندوستان میں تین قسم کے شہتوت تھے۔ یوروپ میں اُگایا ہوا سفید شہتوت، چین میں اُگایا ہوا کالا بیگنی اور ہندوستانی شہتوت۔ تین قسم کے کیڑے تھے۔ دیسی، اٹلی اور چین کے کیڑے۔

اریک بھائی نے ایک جھوٹی سی ڈائری کھولی۔ ۔ ۔ کمپنی کے پاس 12-13 ریشم گھر تھے۔ کمپنی پیشگی دیتی تھی۔ لیکن کمپنی پر پہلا الزام تو یہی لگا کہ ہندوستانی سیاست آزادی کے ساتھ ساتھ معاشی اور صنعتی آزادی بھی کھوتی جا رہی ہیں۔

’وہ گواہوں ‘ مقدمہ، مزاحمت سے تھوڑے اُداس سے تھے۔ وہ تو سطح تجارت بڑھانا چاہتے تھے۔ شاید اِسی لئے ’بھاگی رتھی‘ کے پاس وہ ایک بار پھر لیاقت الدولہ سے ملے۔ ملنا طے ہوا۔ رات 7اور 8کے درمیان۔ وارن ہیسٹنگز اپنی گھوڑا گاڑی میں تھے۔ لیاقت الدولہ کو گھر نہ بلانے کے پیچھے بھی کئی وجہیں تھیں، جیسے مقدمہ سے پہلے کچھ تیار کردہ ریشمی گیروا کپڑوں کے کچھ تھان ہری دوار، بنارس اور برندا بن جیسے بازاروں میں پہنچائے گئے تھے۔ ۔ ۔  ’پہلی بار۔ لو شروع کرو۔ ۔ ۔‘

اریک ہیسٹنگز اُس کی طرف مڑے۔ کریم کی میز پر خوشبو دیتا کھانا رکھ دیا گیا تھا۔ لذیذ پکوان باوردی ویٹر۔ سرجوڑے کھڑا تھا۔ اُس نے دیکھا، صادق بھائی قورمے کا گوشت اپنی پلیٹ میں ڈال رہے ہیں۔

اور یہ کہانی کا ڈراپ سین ہے۔ مقدمہ یا ناش اِسی بات پر تھا۔ پتہ نہیں کس نے منڈی میں افواہ اُڑا دی کہ ریشم کے مال میں گائے اور سور کی چربی ملی ہوئی ہے۔ اِٹس ٹوٹل نانسینس اینڈ انڈائجسٹیبل الگ الگ علاقوں سے دنگے پھیلنے کی خبر آ چکی تھی۔ اور۔ ۔ ۔

اریک ہیسٹنگز نے گوشت کا نوالہ توڑا۔ ۔ ۔ ٹھیک اُسی وقت وارن ہیسٹنگز کی گھوڑا گاڑی ’بھاگی رتھی‘ کی طرف بڑھ رہی تھی کہ راستے میں ہی اُنہیں دیوانی کا ایک آدمی گھوڑا بھگاتا اُن کے پاس آیا اور بولا۔ ۔ ۔ آگے نہ جائیں۔ لیاقت الدولہ مار ڈالا جا چکا ہے۔ کمپنی کی فوج الرٹ ہے۔ کچھ پاگل ہندوستانی ہیں، جنہیں سمجھنا ضروری ہے۔ بہتر ہے کہ۔ ۔ ۔ ؟‘

وارن ہیسٹنگز پر لگنے والے اِس ایمپیمنٹ کے مقدمے میں خلاصہ کیا گیا۔ ۔ ۔

’’ہندوستانیوں کو ہندوستانیوں کے انداز میں ہی سمجھاجائے۔ اُن کے مذہب کو چھیڑے بغیر۔ وہ مذہب کے معاملے میں شہد کی مکھی کے چھتوں کی طرح ہیں۔ جس سے اُن پر حکومت کرنا آسان نہیں رہ جائے گا۔’‘

***

قارئین!

قصّہ کو تاہ۔ شام ڈھل گئی تھی۔ بستی حضرت نظام الدین اندھیرے میں ڈوب گئی تھی۔ کریم میں کھانے کے بعد تھوڑا سیر سپاٹا ہوا۔ پھر وہ ہمایوں کے مقبرے کی طرف نکل گئے۔ واپس لوٹنے تک چراغ روشن ہو چکے تھے۔ گاڑیوں کا شور تھم گیا تھا۔ آسمان پر تارے ٹمٹما آئے تھے۔ اریک آہستہ سے بولا۔ ۔ ۔ ڈھائی سو برس اتہاس، اتہاس بدلنے کے لئے کافی ہوتے ہیں، نہیں ؟

’یس۔ ۔ ۔ ‘ صادق بھائی بتا رہا تھا۔ ۔ ۔ ’سر! جنون تو وہی ہے۔ اجودھیا سے گودھرا اور گجرات تک۔ ‘

’اب ہندو دھوتی کم پہنتے ہیں۔ ‘ اریک بھائی آہستہ سے ہنسا۔ ۔ ۔ لیکن مسلمان ٹوپی ضرور پہنتے ہیں۔ اور پوری دنیا میں بستی حضرت نظام الدین سے نِکارگوا، اور چین سے جاپان تک۔ پچھلی ڈیل ناکام ہو گئی تھی لیکن۔ ۔ ۔

مرسیڈیز دور کھڑی تھی۔ چاند کی روشنی میں، اندھیری سڑک پر تین بھوتوں کے سائے زمین پر نشان بناتے چل رہے تھے۔ ۔ ۔

اریک بھائی انگریزی میں بولے ۔ ۔ ۔

صادق بھائی نے ترجمہ کیا۔ ۔ ۔ ’’تم ساتھ دو۔ اِس بار ٹوپی ہم پہنائیں گے۔ مسلمانوں کو۔’‘

آخری دو لفاظ وہ اتنے آہستے سے بولے کہ سامنے سے آتی گاڑی کے ہارن کے درمیان یہ الفاظ دب کر رہ گئے تھے۔

٭٭٭

ڈراکیولا

               مصنف کا بیان

’’میں ہر بار تمہارے گھر کی الگنی پر گیلے کپڑے کی طرح ’ٹنگی‘ رہی۔ تم میرے لئے مٹھی مٹھی بھر دھوپ لاتے تھے۔ اور میں تھی، برف جیسی یخ۔ ۔ ۔ دھوپ تمہاری میٹھوں سے جھر جھر جاتی تھی۔ ۔ ۔  سوکھتی کیسے میں۔ ۔ ۔ ؟ تمہارے ہی گھر کی الگنی پر ٹنگی رہی۔ دُکھ دینے کے لئے تمہیں۔’‘

وہ کچھ ایسا ہی سوچتی تھی۔ اپنے بارے میں ۔ ۔ ۔ وہ یعنی، صوفیہ مشتاق احمد۔ اُسے اپنے بارے میں کچھ بھی سوچنے کا حق حاصل تھا۔ جیسے یہ کہ راتیں کیوں ہوتی ہیں ؟ جیسے یہ، کہ آسمان پر ٹمٹماتے تاروں میں، اُس کی بھولی بسری عمر کیسے سماجاتی ہے۔ جیسے یہ کہ صبح کیوں ہوتی ہے۔ سورج کیوں نکلتا ہے۔ دھوپ سے زندگی کا کیسا رشتہ ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ؟

قارئین، مجھے احساس ہے کہ میں نے کہانی غلط جگہ سے شروع کر دی۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایسا میرے ساتھ اکثر ہوا ہے۔ مگر پیارے قارئین، مجھے اس بات کا اعتراف کر لینے دیجئے کہ مجھے اس کہانی کو لکھنے کا کوئی حق نہیں تھا اور یقین جانیے، اس کہانی کے کرداروں سے، ملنے سے قبل تک مجھے اس بات کا احساس تک نہیں تھا کہ زندگی سے جڑی بے حد معمولی سچائیاں اتنی تلخ، اتنی سنگین بھی ہو سکتی ہیں ۔ ۔ ۔ مجھے یہ بھی احساس ہے کہ آج کے عہد میں، جس کے بارے میں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اس سے زیادہ مہذب ترین دنیا کا کوئی تصور جارج بش کے پاس بھی نہیں ہے ۔ ۔ ۔ اور نیوکلیائی ہتھیاروں کی، انسانوں کے قتل عام کی اس سے بدصورت مثال شاید تاریخ کے بے رحم صفوں پر بھی مشکل سے ہی ملے گی۔ ۔ ۔ مجھے احساس ہے کہ انسانی بم، جینوم، کلوننگ اور نیو ٹکنالوجی کے اس عہد میں میں آپ کو ایک ایسی کہانی سنانے جا رہا ہوں، جس پر چوتھی دنیا کے مہذب ترین لوگ شاید ہی بھروسہ کرسکیں ۔ ۔ ۔ انسانوں کو غلام بنانے والی کہانیاں اور غلاموں سے کیڑے مکوڑوں سے بھی زیادہ بدترین سلوک کی فنتاسیاں، معاف کیجئے گا، لوگ بھولے نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ تاریخ کے صفحات اذیت اور جبر کی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں ۔ ۔ ۔ لیکن یقین جانئے، میں ایسی کوئی رس بھری، لذیذ داستان آپ کے سامنے رکھنے نہیں آیا۔ ۔ ۔ اور آپ ہنسیں گے، یقیناً آپ کو ہنسنا چاہئے ۔ ۔ ۔ کہ خود کو مہذب ثابت کرنے کی ریس میں اگر آپ کو کوئی ایسا قصہ سنایا جائے کہ عظیم طاقتوں میں سے ایک بننے جا رہے ملک ہندستان میں، سن 2005 میں، ایک مسلمان لڑکی اپنی شا دی کے لئے، ’شاہزادوں ‘ کا انتظار کرتے کرتے تھک گئی اور اچانک ایک دن اُس نے ایک تنہا، اُداس کمرے میں ۔ ۔ ۔ آسیبی داستانوں کے مشہور زمانہ کردار ڈراکیولا کو دیکھ لیا۔ ۔ ۔تو چونکئے گا مت۔ ۔ ۔

اور یقین جانیے، ہماری اس کہانی کی کردار صوفیہ مشتاق احمد کے ساتھ یہی ہوا۔ ۔ ۔

***

آدھی رات کا گجر بج چکا تھا۔ کمرے میں زیرو پاور کا بلب جل رہا تھا۔ باہر خوفناک آندھیاں چل رہی تھیں۔ پتّے سرسرا رہے تھے۔ باہر کوئی جنگل نہیں تھا۔ پھر بھی چمگادڑوں، بھیڑیوں، الّو اور طرح طرح کی خوفناک آوازیں رات کے پُراسرار سناٹے کو اور بھی زیادہ خوفناک بنا رہی تھیں اور یقیناً یہ دستک کی آواز تھی۔ ۔ ۔ نہیں۔ کوئی تھا، جو دیواروں پر رینگ رہا تھا ۔ ۔ ۔کیا ویمپائر۔ ۔ ۔ ؟اُف، خوفناک آوازوں کا ریلا جسم میں دہشت کا طوفان برپا کرنے کے لئے کافی تھا۔ سہمی ہوئی سی وہ اٹھی۔ بدن میں کاٹو تو خون نہیں ۔ ۔ ۔ وہ اٹھی، اور تھرتھراتی، کانپتی کھڑکی کی طرف بڑھی۔ لڑکھڑاتے کانپتے ہاتھوں سے کھلی کھڑکی کے پٹ بند کرنے چاہے تو ایک دم سے چونک پڑی۔ ۔ ۔ کوئی تھا جو دیواروں پر چھپکلی کی طرح رینگ رہا تھا۔ اُف۔ اُس نے خوفزدہ ہو کر دیکھا۔ یقیناً یہ ڈراکیولا تھا، ہونٹ انسانی خون سے تر۔ ۔ ۔ دانت، لمبے، بڑے اور سرخ۔ ۔ ۔ وہ اپنے ’کو فن‘ سے باہر آیا تھا۔ صبح کی سپیدی تک اپنے ہونے کا جشن منانے یا پھر انسانی خون کا ذائقہ تلاش کرنے۔ ۔ ۔  وہ یکبارگی پھر خوف سے نہا گئی۔ کسی اسپائیڈر مین کی طرح ڈراکیولا اُس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ دیوار پر آرام سے چھپکلی کی طرح۔ ۔ ۔ پنجوں پر اُس کی گرفت مضبوط تھی۔ وہ اُسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اُس کی گھگھی بندھ گئی۔ وہ چیخنا چاہتی تھی مگر۔ ۔ ۔  رینگتا ہوا، ڈراکیولا، ایکدم، دوسرے ہی لمحے اُس کے کمرے میں تھا۔ ۔ ۔ اُس کی آنکھوں میں وحشیانہ چمک تھی۔ ۔ ۔  اور اُس کے نوکیلے دانت اُس کی نازک ملائم گردن کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ۔ ۔  اُس کی آنکھوں میں نیم بے ہوشی کی دھند چھا رہی تھی۔ ۔ ۔

               مصنف سے صوفیہ مشتاق احمد کی بات چیت

’اُف، ڈراؤنا خواب، لیکن اس صدی میں ڈراکیولا۔ ۔ ۔ آپ کتابیں بہت پڑھتی ہیں، ڈراؤنی کتابیں ؟‘

’نہیں پڑھتی۔ ‘

’پھر یہ خواب‘

’نہیں، یہ خواب نہیں ہے۔ دیکھئے۔ ۔ ۔ ‘

مصنف کے لئے یہ صبر آزما لمحہ تھا۔ یقیناً اُس کی گردن کی ملائم جلد کے پاس کئی داغ تھے ۔ ۔ ۔ لیکن کیا یہ ڈراکیولا کے نوکیلے دانتوں کے نشان تھے، یا۔ ۔ ۔  مصنف اِن ’اذیت گزار‘ لمحوں کے سفر سے، پھیکی ہنسی ہنستا ہوا اپنے آپ کو باہر نکالنے کا خواہشمند تھا۔ ۔ ۔

’یقیناً یہ داغ۔ ۔ ۔  آپ سمجھ رہے ہیں نا، ایک صبح ہم اٹھتے ہیں۔ اور کیڑے نے۔ ۔ ۔  کیڑا۔ ۔ ۔  آپ سمجھ رہے ہیں نا۔ ۔ ۔ ؟‘

صوفیہ مشتاق احمد کا چہرہ اس وقت، لیوناڈوی ونچی کی پینٹنگ مونالزا کی طرح ہو رہا تھا، جس کے تاثر کو آپ لفظوں کا لباس پہنا ہی نہیں سکتے۔ یقیناً۔ ۔ ۔  وہ کیڑا ہی تھا۔ نوکیلے دانتوں والا ایک خوفناک کیڑا۔ ۔ ۔  اور آپ سے زیادہ بہتر کون جانے گا کہ اس صدی میں انسان سے زیادہ خوفناک کیڑا۔ ۔ ۔  دوسرا کون ہو سکتا ہے۔ ۔ ۔ ‘

ہے۔ ۔ ۔ ہے۔ ۔ ۔ ہے۔ ۔ ۔ ، مصنف پھیکی ہنسی ہنسنے پر مجبور تھا۔ ۔ ۔  ’یہ سب تو دانشوری، دانشمندی کی باتیں ہیں۔ ہے۔ ۔ ۔ ہے۔ ۔ ۔ ‘

مصنف کے الفاظ کھو گئے تھے۔ ۔ ۔  لیکن وہم و گمان کی ایک بے نام سی کہانی یہ بھی تھی کہ مصنف نے وہ داغ دیکھے۔ ۔ ۔  اور یقیناً وہ داغ اُس کی گردن پر موجود تھے۔ ۔ ۔

لیکن اس کہانی کے ساتھ اس بے معنی گفتگو، ڈراکیولا، صوفیہ مشتاق احمد کی گردن میں پڑے ڈراکیولا کے نوکیلے دانتوں کے نشان کا کوئی رشتہ نہیں ہے ۔ ۔ ۔ لیکن یقیناً اس گفتگو کے بعد ہی اس کہانی کی بنیاد پڑی تھی، اور یقیناً۔ ۔ ۔  اب جو کچھ میں سنانے جا رہا ہوں، وہ بیان کی شکل میں ہے اور اس بیان میں، میں شامل ضرور ہوں، لیکن یہ یقین کرنا ضروری ہے کہ اس کہانی میں، اپنی طرف سے میں نے کوئی اضافہ یا الٹ پھیر نہیں کیا ہے۔ ۔ ۔  اس سے پہلے کہ الگ الگ بیانات کا سلسلہ شروع ہو، مختصراً اس کہانی کے کرداروں سے آپ کا تعارف کرا دوں۔ دلّی جمنا پار رہائشی علاقے میں ایک چھوٹی سی مڈل کلاس فیملی۔ ۔ ۔ بڑی بہن ثریا مشتاق احمد۔ عمر پینتیس سال۔ ثریا کے شوہر اشرف علی۔ ۔ ۔ عمر چالیس سال۔ نادر مشتاق احمد، ثریا کا بھائی۔ عمر 30سال۔ اور ہماری اس کہانی کی ہیروئن (نہیں معاف کیجئے گا، بڑھتی عمر کے احساس کے ساتھ ایک ڈری سہمی سی لڑکی ہماری کہانی کی ہیروئن کیسے ہو سکتی ہے )صوفیہ مشتاق احمد، عمر 25سال۔

تو اس کہانی کا آغاز جنوری مہینہ کی 8تاریخ سے ہوتا ہے۔ سردی اپنے شباب پر تھی۔ سرد ہوائیں چل رہی تھیں۔ دانت سرد لہری سے کٹکٹا رہے تھے۔ لیکن جمنا پار، پریہ درشنی وہار، فلیٹ نمبر بی 302 میں ایک ناخوشگوار حادثہ وقوع پذیر ہو چکا تھا۔

کوئی تھا، جو تیزی سے نکلا۔ ۔ ۔ پہلے لڑکھڑایا، پھر باہر والے دروازہ کی چٹخنی کھولی اور تیز تیز، سرد رات اور کہاسوں کے درمیان، سیڑھیوں سے اُترتا ہوا، بھوت کی طرح غائب ہو گیا۔ ۔ ۔

’وہ چلا گیا۔ ۔ ۔ ‘ یہ جیجو تھا۔ صوفیہ مشتاق احمد کا جیجو، آنکھوں میں خوف اور الجھن کے آثار ۔ ۔ ۔ وہ چلا گیا اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے۔ ‘

نادر مشتاق احمد نے نظریں اٹھائیں۔ منظر کچھ ایسا تھا جیسے ویتنام اور ناگا ساکی، ایٹم بم دھماکے کے بعد ندیوں سے اٹھتے ہوئے آگ کے شعلے آسمان چھو گئے ہوں ۔ ۔ ۔ ’کیا ہوا، اُسی سے پوچھتے ہیں۔ ‘

’لیکن، کیا پوچھیں گے آپ۔ ۔ ۔ ثریا ججو کی طرف مڑی۔ پھر ایک لمحے کو نظر اٹھا کر اُس نے نادر کی طرف دیکھا۔ ۔ ۔ جذبات پر قابو رکھو، اُف، دیکھو۔ ۔ ۔  وہ کیا کر رہی ہے۔ ۔ ۔ ‘

’شاید وہ آ رہی ہے۔ ۔ ۔ ‘  جیجو نے ہونٹوں پر انگلی رکھی۔ ۔ ۔

’کوئی اُس سے کچھ بھی نہیں پوچھے گا۔ ‘ یہ ثریا تھی۔ ۔ ۔

’تم بھی کیسی باتیں کرتی ہو باجی۔ کوئی اُس سے بھلا کیا پوچھ سکتا ہے۔ وہ بھی اس ماحول۔ ۔ ۔  اور ایسے عالم میں۔ لیکن۔ ۔ ۔  کچھ۔ ۔ ۔ ‘

’کچھ نہیں ہو گا۔ ‘

’ہم نے فیصلہ کرنے میں۔ ۔ ۔ ‘

ثریا مشتاق احمد، ایک لمبا سانس لیا۔ آواز ڈوبتی چلی گئی۔ ۔ ۔ ’کہہ نہیں سکتی۔ ۔ ۔  مگر۔ ۔ ۔ اُس نے اپنے شوہر اور نادر مشتاق احمد کی طرف ایک گہری نظر ڈالی۔ ۔ ۔’’ہم نے آپس میں بات کی تھی۔ اس کے سوا ہمارے پاس دوسرا راستہ ہی کیا تھا۔’‘

’وہ آ رہی ہے اور اب ہمیں خاموش ہو جانا چاہئے ۔ ۔ ۔ اور یقیناً ہمارے تاثرات ایسے نہیں ہونے چاہئیں کہ اُسے کسی بات کا شک ہو کہ ہم اُس کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ اور یقیناً ہمیں اُس کی نفسیات کو بھی سمجھنا ہو گا۔ ‘

یہ جیجو تھا۔ ۔ ۔

باہر کہاسا زمین پر گر رہا تھا۔ رات برف سے زیادہ ٹھنڈ ہو گئی تھی۔ ۔ ۔ دروازہ چرچڑانے کی آواز ہوئی۔ برف پگھلی۔ دھند چھٹی۔ سامنے صوفیہ کھڑی تھی۔ صوفیہ مشتاق احمد۔ ایک لمحے کو وہ ان کے پاس آ کر ٹھہری۔ لیکن رُکی نہیں ۔ ۔ ۔ دوسرے ہی لمحے، وہ اپنے کمرے میں واپس لوٹ گئی۔ ۔ ۔

               پہلا بیان: ثریا مشتاق احمد

میں ثریا مشتاق احمد۔ پیدا ہوئی اتر پردیش کے بلند شہر میں۔ محلہ شیخاواں۔ مسلمانوں کا محلہ۔ زیادہ تر شیخ برادری کے مسلمان۔ ۔ ۔ پاس میں مسجد تھی۔ پاپا مشتاق احمد کی چھوٹی سی دکان تھی۔ اسٹیشن روڈ پر۔ پنج گانہ نمازی۔ ۔ ۔ پیشانی پر سجدے کے داغ۔ چہرہ ایسا نورانی اور معصوم کہ میں نے زندگی میں آج تک نہیں دیکھا اور ممی تو جیسے گائے تھیں۔ نادر چھوٹا بھائی تھا۔ اُس سے پانچ سال چھوٹا اور صوفیہ سمجھ سے دس سال چھوٹی تھی۔ ۔ ۔ بچپن میں چھوٹی چھوٹی آنکھیں مٹکاتی تو شرارت سے سارا گھر خوشی سے جھوم جایا کرتا۔

کالج میں داخلے سے قبل ہی اشرف زندگی میں آ گئے تھے ۔ ۔ ۔ کیسے ۔ ۔ ۔؟ یہ لمبی کہانی ہے۔ چھوٹے سے شہر میں ایسی کہانیوں کے پر لگ جاتے ہیں۔ پھر کبوتر کی طرح پرواز کرتی یہ کہانیاں شیخاواں کے ایک گھر سے دوسرے گھر میں گونجنے لگی تھیں ۔ ۔ ۔

مما کو ہائپرٹینشن تھا۔ ۔ ۔

پپا جلد گھر آ جاتے تھے، طبیعت کی خراب کا بہانہ بنا کر۔ ۔ ۔ پڑوس والی مسجد سے نماز کی صدا بلند ہوتے ہی، وہ تیز تیز لپکتے مسجد پہنچ جایا کرتے۔ وہاں سے آتے، تو لفظوں کے تیر سے اُداس اور گھائل ہوتے ۔ ۔ ۔ ممی اور وہ گھنٹوں اشرف کے بارے میں باتیں کرتے رہتے ۔ ۔ ۔ مثلاً کیوں آتا ہے۔ کیا کام ہے ۔ ۔ ۔ خاندان تو اچھا ہے نا۔ ۔ ۔ یہ لڑکی ناک تو نہیں کٹائے گی۔ صوفیہ تو کافی چھوٹی ہے ۔ ۔ ۔

نادر نے صرف ایک بار جلتی آنکھوں سے میری کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔ ۔ ۔ بجیا، یہ کیا تماشہ ہے۔ چاروں طرف تم دونوں کے ہی ریڈیو بج رہے ہیں۔

’تو بجنے دو نا۔ ۔ ۔ ‘

تب گول گول آنکھیں نکال کر صوفیہ نے میری طرف دیکھا تھا۔

’ایک ریڈیو میرے لئے بھی لادو نا۔ ۔ ۔ ‘

’پاگل، ایک ریڈیو نے ہی طوفان مچا دیا ہے۔ ۔ ۔ ‘ نادر ناگواری سے بولا

لیکن میں یہ کہانی کیوں سنا رہی ہوں۔ میری اور اشرف کی کہانی میں اگر کچھ دلچسپ ہے تو صرف یہ، کہ ہم نے لو میرج کی تھی۔ پھر اشرف دلّی آ گئے۔ اور میں بھی دلّی آ گئی۔ ۔ ۔ اور جیساکہ مہانگروں میں ہوتا ہے ایک دن خبر آئی۔ پپا نہیں رہے۔ دوسرے سال خبر آئی۔ ممی نہیں رہیں۔ شیخاواں اُجڑ گیا۔ گھر ویران ہو گیا۔ بلند شہر سے رشتہ ٹوٹ گیا۔ ۔ ۔ نادر اور صوفیہ دونوں دلّی آ گئے۔ کبھی کبھی احساس ہوتا، اشرف ان دونوں کی موجودگی سے پریشان تو نہیں ہیں۔ لومیرج کا یہ بھی ایک فائدہ تھا کہ اشرف کسی بھی بات پر بولتے یا ٹوکتے نہیں تھے۔ مگر من میں کچھ گانٹھیں تو پڑہی جاتی ہیں ۔ ۔ ۔ کبھی جب اشرف کو، اُن کی اپنی دنیا میں قید اور اُداس دیکھتی تو دل کی بات ہونٹوں پر آ جاتی۔ ۔ ۔

’وہ۔ ۔ ۔  ایک دن پرواز کر جائیں گے۔ ۔ ۔ ‘

’ہاں۔ ۔ ۔ ‘

’کون جانتا تھا، ممی پاپا اس طرح ہمیں ذمہ داریوں سے باندھ کر۔ ۔ ۔ ‘

اشرف کہیں اور دیکھ رہے ہوتے ۔ ۔ ۔

’تم ان دونوں کی موجودگی کو لے کر۔ ۔ ۔  نہیں میرا مطلب ہے۔ ۔ ۔ ‘

اشرف گہرا سانس کھینچ کر کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ’بچے ہیں۔ ۔ ۔  لیکن۔ ۔ ۔  پرائیویسی کے یہی دن ہیں۔ یہ دن واپس نہیں آتے۔ ۔ ۔  یہ دن چلے گئے تو۔ ۔ ۔ ‘

نہیں، مجھے احساس تھا، اشرف کی رومانی دنیا میں نئی نئی فتاسی اور خوبصورت کہانیوں کی ایک بڑی دنیا آباد ہے۔ ۔ ۔  وہ اکثر اس کا ذکر بھی کیا کرتے۔ ۔ ۔  مثلاً ہنسی ہنسی میں۔ ۔ ۔  ’ثریا، یہ لباس کیوں بنایا گیا۔ ۔ ۔  شا دی کے بعد گھر میں میاں بیوی کو لباس نہیں پہننا چاہئے۔ ۔ ۔  نیچرل ڈریس۔ ۔ ۔  آخر ہم قدرتی لباس میں کیوں نہیں رہ سکتے۔ ۔ ۔ ؟ بس یہی تو چار دن ہوتے ہیں۔ ایک ساتھ سوئمنگ۔ ۔ ۔  ایک ساتھ۔ ۔ ۔ ‘

اشرف جب دن میں مجھے لے کر کمرہ بند کرنے کی کوشش کرتے تو وحشت سی ہوتی۔ ۔ ۔ صوفیہ کیا سوچے گی۔ بڑی ہو رہی ہے۔ پھر جیسے کمرے کے بند سناٹے میں کوئی کیڑا چپکے سے منہ نکالتا۔ ۔ ۔ اشرف ایکدم سے بوکھلا کر اُس سے الگ ہو جاتے۔ خود ہی آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیتے۔ ۔ ۔

’جاؤ۔ تمہیں آزاد کرتا ہوں۔ ‘

               مصنف سے ثریا مشتاق احمد کی مختصر سی گفتگو کے کچھ حصے

’’تو گویا تم سمجھ رہی تھی۔ ۔ ۔  کہ کیڑے۔ ۔ ۔ ‘

’ہاں۔ ۔ ۔ ‘

’یقیناً یہ کیڑے صوفیہ نے بھی دیکھے تھے۔ ۔ ۔ ؟‘

’اور نادر نے بھی۔ ۔ ۔ ‘

’پھر ؟‘

’نادر کو اپنی خودداری کا احساس تھا۔ ۔ ۔ وہ ایک بوجھ کی طرح اس گھر میں رہنے کے خلاف تھا اور اسی لئے اپنے لئے ایک چھوٹی سی نوکری کا بندوبست کرتے ہی۔ ۔ ۔ ‘

’اُس  نے یہیں تمہارے قریب ایک فلیٹ لے لیا۔ ‘

’ہاں۔ اور پھر صوفیہ کو بھی لے گیا۔ ۔ ۔ ‘

’نہیں۔ شروع میں نہیں لیا گیا۔ اُسے اپنی مجبوریوں کا احساس تھا۔ مگر۔ ۔ ۔  صوفیہ چپ چاپ رہنے لگی ۔ ۔ ۔ سارا سارا دن گم صم۔ ۔ ۔ اپنے آپ میں کھوئی۔ کسی سے بولنا چالنا تک نہیں۔ بس جی چاہا تو کبھی کبھی ٹی وی کے آگے بیٹھ گئی۔ اُس کا بس چلتا تو سارا سارا دن بستر پر سوئی رہتی۔ ۔ ۔ مگر جیجو اور پرائے کے گھر میں رہنے کا احساس۔ ۔ ۔  اور اچانک اُس دن۔ ۔ ۔  وہی کیڑا۔ ۔ ۔

’کیڑا۔ ۔ ۔ ؟‘

ثریا مشتاق احمد اپنے بیان میں گم ہو گئی تھیں۔

               ثریا مشتاق احمد کے بیان کا دوسرا حصہ

مٹیا مارفوسس۔ آپ نے یقیناً یہ کہانی پڑھی ہو گی۔ نہیں، میں کیڑے میں، یا کیڑا مجھ میں تبدیل ہو گیا، ایسی کوئی بات نہیں۔ مگر وہ تھا، یہیں ۔ ۔ ۔ کمرے میں ۔ ۔ ۔ صبح، سورج نکلنے سے پہلے ہی، بسترچھوڑتے ہوئے، میں نے اُسے اشرف کی آنکھوں کے پاس رینگتے ہوئے صاف دیکھا تھا۔ نہیں، مجھے کہیں سے کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ یقیناً وہ تھا۔ اور میرے بھگانے سے پہلے ہی۔ ۔ ۔

اُس دن ارم کا برتھ ڈے تھا۔ اِرم کون۔ میری بیٹی۔ اشرف کی آنکھوں کا تارا۔ پانچ برس کی ارم کولے کر اشرف کی آنکھوں میں خوابوں کے اتنے جھومر اور فانوس دیکھے کہ ڈر ڈر جاتی۔ ۔ ۔  وہ ایک خوبصورت شیشے کا ایکوریم تھا، جو اشرف اُس کے لئے خصوصی طور پر لے کر آئے تھے ۔ ۔ ۔ شیشے کی رنگین دنیا میں تیرتی سپنیلی مچھلیاں۔ ۔ ۔  ’یہ سون مچھریاں ہیں۔ ۔ ۔ ‘ اشرف نے کہا تھا۔ ۔ ۔ ایک دن میری بٹیا اس سے بھی خوبصورت ایک سون مچھلی بن جائے گی۔ ۔ ۔ انسانی سون مچھلی۔ پھر اپنی ہی بات پر وہ زور سے ٹھہاکہ لگا کر ہنسے تھے۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے شام کی پارٹی کے بارے میں وہ کچھ تفصیلات بتا کر گئے تھے۔ بچوں کی فہرست بن گئی تھی۔ ڈرائنگ روم خوبصورت ڈھنگ سے سجانے کے لئے کہہ گئے تھے۔ ۔ ۔ ’ کیڑا‘۔ ۔ ۔  ایک بار پھر اشرف کے دروازہ کے باہر نکلتے ہی میں نے کیڑے کی جھلک دیکھی تھی۔ کیڑا۔ ۔ ۔  میں چیختے چیختے رہ گئی۔ ۔ ۔ تب تک اشرف باہر نکل چکے تھے۔ ۔ ۔  چار بجے شام میں وہ واپس آئے تو ڈرائنگ روم کو ویسے کا ویسا پا کر وہ چیخ اٹھے۔

’صوفیہ کہاں ہے۔ ۔ ۔ ‘

’وہ۔ ۔ ۔  سورہی ہے۔ ۔ ۔ ‘

’کیا۔ سات بجے تک محلے ٹولے کے بچے آ جائیں گے اور ابھی تک وہ سورہی ہے۔ اتنے سارے لوگوں کو پالنے کا ٹھیکا لے لیا ہے تم نے۔ یہ سونے کا وقت ہے۔ ۔ ۔  اور تم۔ ۔ ۔  تم کیا کرتی رہی۔ ۔ ۔ ‘

اشرف غصے سے بول رہے تھے۔ ۔ ۔  کیڑا اُن کی آنکھوں کی پتلیوں پر چپ چاپ بیٹھا تھا۔ کمرے سے باہر نکل کر دیوار سے سٹی ہوئی، تھر تھر کانپ رہی صوفیہ کو میں نے پہلی بار دیکھا۔ شاید اشرف نے بھی صوفیہ کا یہ رنگ دیکھ لیا تھا۔ ایک لمحے کو وہ ٹھہرے۔ پھر اپنے کمرے میں داخل ہو گئے۔ دروازہ زور سے بند کر لیا۔ ۔ ۔

               نادر مشتاق احمد کا بیان

نہیں۔ میں اشرف بھائی کو قصوروار نہیں ماننا۔ یقیناً ہم نے اُن کی زندگی میں سیندھ لگائی تھی۔ تقدیر کی مجبوری اپنی جگہ، لیکن اپنے اپنے فیوچر کے لئے کسی کی زندگی میں جبر کے طور پر داخل ہونے کا ہمیں کیا حق تھا۔ ۔ ۔ صوفیہ اُس دن کا فی روئی تھی۔ مجھے احساس تھا۔ شاید جان لیوا تنہائی کے اُداس مکالمے اُسے بار بار پریشان کر رہے تھے۔ مجھے اُسے ایک بھائی کی سطح پر، اس سناٹے سے باہر نکالنا تھا۔ اور میں نے اُسے نکالا۔ دوسرے دن، یعنی اس ناخوشگوار حادثے کے دوسرے دن میں اُسے اپنے گھر لے گیا اور ایک دو ماہ بعد اُس کا داخلہ کمپیوٹر میں کرا دیا۔ شاید اُسے اپنی تنہائیوں کو بانٹنے کا موقع مل جائے۔ میں جانتا تھا۔ وہ کوئی دوست نہیں بناسکتی۔ بوائے فرینڈ تو بالکل نہیں۔ لیکن بڑی ہوتی صوفیہ کی ذمہ داری سے آزاد ہونے کا خیال مجھے زیادہ ستائے جا رہا تھا۔ کیونکہ مجھے امریکہ جانا تھا۔ میرے خواب امریکہ میں بستے تھے اور پھر شروع ہوا آنکھ مچونی کا کھیل۔ ۔ ۔ نہیں صاحب۔ پہلی بار احساس ہوا، کہ بجیا نے خود لڑکا پسند کر کے کتنی قابلیت دکھائی تھی۔ ۔ ۔ رشتہ دار، عزیز، جان پہچان والے، رشتہ گھر، شا دی ڈاٹ کام، مہندی ڈاٹ کام.. لڑکا دیکھنے کا سفر شروع ہوا تو جیسے ایک نئے بازار کو دیکھنے کا موقع ملا۔ نہیں صاحب۔ مجھے معاف کیجئے۔ یقیناً اس لفظ سے بہتر کوئی لفظ میرے پاس نہیں ہے۔ بازار۔ ۔ ۔ ہر کسی نے اپنے اپنے جانور کو پال یوس کر تیار کیا تھا۔ بقرعید کے موقع پر فروخت کرنے کے لئے ۔ ۔ ۔ قیمتیں آسمان چھو رہی تھیں۔ اُس پر گھر گھرانہ، شجرہ نسب کی تفصیل۔ ۔ ۔ یہ بازار میرے لئے اور بجیا کے لئے نیا تھا۔ صوفیہ ہمیں گاڑی میں آتے جاتے ہوئے دیکھتی۔ بجیا کو فون پر باتیں کرتے ہوئے سنتی۔ پھر واپس آ کر ہمارے خاموش چہرے پر اپنی ادھ کھلی آنکھیں رکھ کر، واپس اپنے کمرے میں لوٹ جاتی۔ ۔ ۔ بجیا کو کبھی کبھی غصّہ آ جاتا۔ ۔ ۔

’سب کے رشتے ہو جاتے ہیں۔ مگر یہاں۔ ۔ ۔ ‘

جیجو ایک لمبا سانس بھر کر کہے۔ ۔ ۔ ’ فکر کیوں کرتی ہو، آسمان سے ایک دن۔ ۔ ۔ ‘

وہ صوفیہ کے کمرے میں جاتے۔ اُسے بانہوں کے سہارے واپس لے کر آتے ۔ ۔ ۔ ’’کیا کمی ہے اس میں۔ ۔ ۔  اور ابھی عمر کون سی عمر نکلی جا رہی ہے۔ ۔ ۔ ‘ہوئی ہے۔ ۔ ۔ ‘ وہ ایک بار پھر ٹھنڈا سانس بھرتے۔ ہر چیز کا وقت مقرر ہے۔ کیوں صوفیہ۔ ایک دن چپکے سے ایک شاہزادہ آئے گا اور ہوا کے رتھ پر بیٹھا کر۔ ۔ ۔ ‘‘

’نہیں۔ کوئی نہیں آئے گا۔ ‘ صوفیہ مسکرانے کی کوشش کرتی۔

’آئے گا۔ ۔ ۔ ‘ جیجو میری طرف مڑتے۔ ’نادر، اس قدر پریشان ہونے ضرورت نہیں ہے۔ صوفیہ سے زیادہ خوبصورت لڑکی میں نے کم کم دیکھی ہے، اس کا اعتراف کرتا ہوں۔ مگر کمی کیا ہے صوفیہ میں ۔ ۔ ۔‘ جیجو ہنستے۔ بس ایک کمی ہے۔ خوبصورت کے ساتھ خوب سیرت بھی ہے۔ اور خوب سیرت ’لڑکیوں کے بازار ذرا ٹھنڈے ہیں۔ ۔ ۔ ‘

’میں کیا خوب سیرت نہیں تھی۔ ۔ ۔ ‘ ثریا آنکھیں تریرنے کی کوشش کرتی تو جیجو فلک شگاف قہقہہ بلند کرتے ۔ ۔ ۔’ خود پر کیوں لیتی ہو۔ صوفیہ مختلف ہے۔ اور ایک دن۔ ۔ ۔

میں سوچتا تھا۔ ایک دن۔ ۔ ۔  ایک دن کیا ہو گا۔ ۔ ۔ کوئی معجزہ ہو جائے گا۔ ۔ ۔ چمتکار۔ امریکہ بار بار خوابوں میں منڈراتا ہے۔ نہیں ہنسیے مت۔ ۔ ۔ پریتی زنٹا، منموہن سنگھ اور ہمارے نیتاؤں سے زیادہ کلنٹن، بش اور کیری مجھے اپنے لگتے تھے۔ جینفر لوپیز کے خیالوں میں، میں زیادہ ڈوبا رہتا تھا۔ ۔ ۔ ہاں، یاد آیا۔ ایک لڑکا اور آیا تھا۔ فریاد عارف۔ لدھیانہ کا۔ قد پانچ فٹ دس انچ۔ عمر چالیس سال۔ باہر رہنے کا، دس برس کا تجربہ تھا۔ عمر زیادہ تھی تو کیا ہوا۔ یہ رشتہ ہمیں نیٹ سے ملا تھا۔ صوفیہ کی تصویر اور بایوڈاٹا لڑکے کو پسند آیا تھا۔ اُس کی تصویر بھی نیٹ سے ہم نے نکال لی تھی۔ شکل اچھی نہیں تھی۔ لیکن کیا شکل ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ ۔ ۔  ہاں، اُس کے ہونٹوں کے پاس ایک داغ تھا۔ ۔ ۔  پتہ نہیں، کس چیز کا داغ تھا۔ جلے کا یا۔ ۔ ۔  مگر داغ تھا۔ ۔ ۔ ڈرتے ڈرتے ہم نے تصویر صوفیہ کے حوالے کی۔ مگر تصویر دیتے ہوئے یقیناً ہمارے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ نظر جھکی ہوئی تھی۔

               صوفیہ مشتاق احمد کا بیان

تصویر میں ہاتھ میں لیتے ہی ہنس پڑی تھی۔ یہ پاپا کے کوئی دوست ہیں کیا۔ ۔ ۔  نہیں، کم از کم جیجو مجھ سے اتنا برُا مذاق نہیں کرسکتے۔ جیجو کے گھر سے باہر آنے کے بعد بھی میں جیجو کے لئے ذرا بھی خفا نہیں تھی۔ یقیناً وہ سب سے زیادہ مجھے پہچانتے تھے۔ اور یقیناً میرے لئے سب سے زیادہ جنگ بھی، وہی لڑتے تھے اور خاص کر ایسے موقع پر، جب کمرے میں یکایک کالی کالی بدلیاں چھا جاتیں۔ ۔ ۔  پھر جیسے تیز تیز آندھیوں کا چلنا شروع ہو جاتا۔ نہیں، میں نے تصویر دوبارہ دیکھی۔ ۔ ۔  اور اچانک چہرے کا طواف کرتی آنکھیں داغ کے نشان کے پاس آ کر ٹھہر گئیں۔ ہونٹ کے نیچے کا حصہ۔ ۔ ۔  تصور اور خیالوں کی وا دیوں میں، بوسے کے لئے سب سے خوبصورت جگہ۔ میں تو اس جگہ کا بوسہ بھی نہیں لے سکتی۔ میں ہنس رہی تھی۔ پاگلوں کی طرح ہنس رہی تھی۔ کمرے میں دھند بڑھ رہی تھی۔ شاید باہر جیجو، بجیا اور نادر بھائی نے میرے ہنسنے کی آوازیں سن لی تھیں۔ ۔ ۔

’صوفیہ۔ ‘

دروازے پر تھاپ پڑ رہی تھی۔

نادر غصے میں تھے۔ ۔ ۔  ’دروازہ کیوں بند کر لیتی ہو۔ ‘

بجیا کی آنکھوں میں ایک لمحے کو ناگواری کے بادل لہرائے۔ ۔ ۔ ’ہم نے ابھی رشتہ منظور کہاں کیا ہے۔ صرف تم سے رائے پوچھی ہے۔ ۔ ۔

’نہیں۔ وہ۔ ۔ ۔  کیڑا۔ ‘

دروازہ کھولتے ہوئے میری آنکھیں وحشت میں ڈوبی تھیں ۔ ۔ ۔ جیجو نے سہارا دیا۔ ۔ ۔ صوفے تک لائے ۔ ۔ ۔ کچھ ہی دیر میں مکالمے بدل گئے۔

’مگر کیڑا۔ ۔ ۔ ‘

نادر نے بجیا کی طرف دیکھا۔ ۔ ۔ ’کیڑے بڑھ گئے ہیں۔ کیوں۔ رات بھر کاٹتے رہتے ہیں۔ دوا کا چھڑکاؤ کرو۔ یا گڈ نائٹ لگاؤ۔ مگر کیڑے نہیں بھاگتے۔ ۔ ۔ ‘

بجیا یعنی ثریا مشتاق احمد نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ ہونٹوں پر ایک طنز بھری مسکان تھی۔

’آپ یقین جانیے، کوئی تھا۔ جو دیواروں پر رینگ رہا تھا۔ ایک دم سے کمرے کی دھوپ اُتر گئی۔ تاریکی چھا گئی ہے۔ ۔ ۔  کمرے میں کہاسے بھر گئے اور۔ ۔ ۔  میں بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر۔ ۔ ۔  میں نے دیکھا۔ ۔ ۔  جیجو آہستہ آہستہ میری طرف دیکھ رہے تھے ۔ ۔ ۔ پھر اُن کے ہونٹوں پر ایک مصنوعی مسکراہٹ داخل ہوئی۔ ۔ ۔

’ایک ستارا آئے گا۔ ۔ ۔ ‘

’’ستارے آسمان سے آتے آتے لوٹ گئے۔ ۔ ۔’‘ یہ بجیا تھی۔

’’ہاں، لیکن گھبراؤ مت، ایک ستارہ آئے گا اور یوں اچھل کر تمہاری جھولی میں جا گرے گا۔ ۔ ۔ ‘ یہ جیجو تھا۔ ۔ ۔ ہونٹوں پر ہنسی۔ پھر وہ تمہاری آنکھوں میں، کبھی ہونٹوں پر آ کر چیخے گا۔ ۔ ۔  یہ میں ہوں۔ پاگل۔ پہچانا نہیں مجھے۔ تمہاری قسمت کا ستارہ۔ ۔ ۔

’اُس کے چہرے پر دھوپ بہت تھی۔ تم نے دیکھا نا‘ بھائی نظر نیچی کئے بہن کو ٹٹول رہا تھا۔

’’میں جگنو تلاش کرنے گئی تھی۔ راستہ بھٹک گئی۔ ۔ ۔‘یہ وہ تھی۔ اُس کی آواز اندر کے روشن دان سے بلند ہوئی اور اندر ہی اندر گھٹ گئی۔

               جیجو کا بیان

دراصل اُس 40سال کے ادھیڑ مرد کی تصویر دیکھ کر مجھے خود بہت غصہ آیا تھا۔ ۔ ۔ نادر اور ثریا، رشتہ کے لئے مجھے کم ہی لے جاتے تھے۔ دراصل وہ اس ’مہرے ‘ کو آخری وقت کے لئے بچا کر رکھنا چاہتے تھے اور کسی خاص موقع پر ہی خرچ کرنا چاہتے تھے۔ یہ سب میرے لئے بھی نیا تھا۔ کیونکہ ہر برس بدلتے کلینڈر کے ساتھ ہی، میں صوفیہ کو دیکھ کر اُداس اور پریشان ہوا ہا جا رہا تھا اور آپ سمجھ سکتے ہیں، خود صوفیہ کی کیا حالت ہو گی۔ ۔ ۔ میرے لئے یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ مسلمانوں کے یہاں، ایک خوبصورت جوان لڑکی کی شا دی کو لے کر اتنی ساری الجھنیں سامنے آ سکتی ہیں ۔ ۔ ۔ گھر گھرانہ اچھا۔ خاندان سیّد۔ مگر کسی کو لڑکی کا قد کچھ کم لگتا۔ کسی کو عمر کچھ زیادہ۔ کبھی کبھی جی چاہتا کہ پوچھنے والوں کا گریبان پکڑ کر کہوں، کہ اٹھارہ سال سے رشتہ تلاش کرتے ہوئے تم لوگوں نے اسے 23سال کا کر دیا ہے اور اب۔ ۔ ۔ شاید میرے اسی غصّے کی وجہ سے نادر اور ثریا مجھے کبھی اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔ مگر۔ ۔ ۔  کبھی کبھی اپنی بڑی ہوتی ارم کو دیکھ کر گہری سوچ میں گرفتار ہو جاتا۔ کیا میرے ساتھ بھی۔ ۔ ۔ اور ہوا یوں، کہ اچانک اُس دن ارم کو دیکھا تو ایکدم سے چونک گیا۔ ۔ ۔ ارم غائب تھی۔ ارم میں صوفیہ آ گئی تھی۔ ۔ ۔

               مصنف کا بیان

قارئین، ایک بار پھر مداخلت کے لئے معافی چاہوں گا۔ کہانی شروع ہوئی تو سوچ کے دائرے پھیلتے چلے گئے۔ یہ میں کہا ں جا رہا ہوں۔ کیا یہ بھی کوئی کہانی ہو سکتی ہے۔ ایک مسلمان لڑکی کو لڑکے کی تلاش ہے۔ عمر 23سال، خوبصورت، تعلیم یافتہ۔ ۔ ۔ تہذیب کی اتنی صدیاں پار کرنے کے بعد بھی، چوتھی دنیا کے، ہتھیاروں کی ریس میں آگے نکلنے والے ایک بڑے ملک میں، یہ مسئلہ ایک کہانی کا جزو بن سکتا ہے، میں نے کبھی سوچا نہیں تھا۔ ۔ ۔

اُس دن، میں دوبارہ نادر مشتاق احمد کے گھر گیا۔ دروازہ کے پاس پہنچ کر بیل پر اُنگلی رکھی۔ دروازہ کھولنے والی وہی تھی۔

’آئیے۔ ‘

’نادر؟‘

’وہ باہر گئے ہیں۔ ‘

صوفیہ، صوفے پر دھنس گئی۔ کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد بولی۔ ۔ ۔

’چائے بناؤں !‘

’نہیں۔ ابھی رہنے دو۔ ‘

میں آہستہ آہستہ آنکھیں گھماتا کمرے کی ویرانی کا جائزہ لے رہا تھا۔ دیوار پر قطار میں اُڑتی چار چڑیائیں کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہی تھیں۔ تیسری والی چڑیا کی قطار ٹوٹ گئی تھی۔ تیسری چڑیا کیل سے جھول رہی تھی۔ پتہ نہیں کب سے۔ دیوار پر کنارے مشتاق احمد کی تصویر لگی تھی۔ تصویر پر ذرا بھی گرد نہیں تھی۔ جیسے ابھی ابھی گرد صاف کی گئی ہو۔ لیکن کمرے کی باقی چیزیں۔ ۔ ۔

’اندھیرا ہے ‘ میں آہستہ سے بولا۔ جبکہ دوپہر کے تین بج رہے تھے۔ کھڑکی کے پاس پردہ پڑا تھا۔

’اِس گھر میں ہمیشہ اندھیرا رہتا ہے۔ ۔ ۔ ‘ صوفیہ آہستہ سے بولی۔

’اور وہ ڈراکیولا۔ ۔ ۔ ‘

میں آہستہ آہستہ کھڑکی کے پاس بڑھا۔ ۔ ۔

’نہیں، یہاں نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘ یہاں میرے ساتھ آئیے۔ میرے کمرے میں۔ ۔ ۔ ‘

وہ تیزی سے اٹھی۔ ۔ ۔ مجھے لے کر اپنے کمرے میں آ گئی۔ ۔ ۔ سنگل بیڈ کا دیوان پڑا تھا۔ ۔ ۔ چادر کئی دنوں سے بدلی نہیں گئی تھی۔ ۔ ۔ کمرہ بے رونق تھا اور یقیناً اس کمرے میں کھڑکی کے راستے گھنے کہرے، داخل ہو جاتے ہوں گے ۔ ۔ ۔

’یہاں۔ ۔ ۔  یہاں سے۔ یہ دیوار جو ہے۔ ۔ ۔  آپ دیکھ رہے ہیں نا۔ ۔ ۔ ‘

’مگر یہاں تو کوئی قبرستان نہیں ہے۔ ‘

’آہ۔ نہیں ہے۔ ۔ ۔ ‘ صوفیہ اپنے بستر پر بیٹھ گئی۔ ۔ ۔ ’میں نے کب کہا، کہ یہاں قبرستان ہے۔ مگر بن جاتا ہے۔ رات کے وقت۔ اپنے آپ بن جاتا ہے ۔ ۔ ۔ دھند میں ڈوبا ہوا ایک قبرستان۔ ڈھیر ساری قبریں ہوتی ہیں۔ ایک کھلا ہوا ’کوفن‘ ہوتا ہے۔ وہ یہاں۔ ۔ ۔  یہاں دیواروں پر رینگتا ہوا، کھڑکی سے اچانک میرے کمرے میں کود جاتا ہے۔ ۔ ‘

’یقیناً، وہم۔ ۔ ۔  اور وہم کا تعلق تو۔ ۔ ۔ ‘

’مجھے پتہ ہے۔ وہم ہے میرا۔ مگر کیا کروں۔ وہ رات میں، آپ یقین کریں میرے کمرے میں ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ‘

’کیوں ؟‘

’اب یہ بھی بتانا پڑے کا گا بھلا۔ خون پیتا ہے۔ ۔ ۔  یقین نہیں ہو، تو یہ داغ دیکھئے۔ ‘ اُس نے اپنی گردن دکھائی۔ گردن پر یقیناً نیلے داغ موجود تھے۔

’کوئی یقین نہیں کرتا۔ میں بھی مانتی ہوں، وہم ہے مگر۔ وہ ہے۔ وہ آتا ہے۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ ‘

میں نے کہانی بدل دی۔ ’اوہ۔ ۔ ۔  تم نے بتایا تھا۔ تم بار بار مرتی تھی۔ ۔ ۔

’کون نہیں مرے گا ایسے ۔ ۔ ۔ جب آپ بار بار اُسے سجا کر باہر لے جاتے ہوں۔ یا کبھی کبھی سج دھج کر گھر میں ہی نمائش یا میلہ لگا دیتے ہوں۔ ایک حد ہوتی ہے۔ کوئی بھی کتنی بار مرتا ہے۔ کتنی بار مرسکتا ہے کوئی۔ میں تو ہر بار، ہر پل۔ ۔ ‘

صوفیہ کہتے کہتے رُک گئی تھی۔ ۔ ۔

’مگر اُس دن نہیں مری۔ اُس دن۔ میں نے سوچ لیا تھا اور مطمئن تھی۔ ‘

’اُس دن۔ ۔ ۔ ‘

’ارے وہی۔ اِن ڈسنٹ پروپوزل۔ ‘ وہ کہتے کہتے رُکی۔ ۔ ۔ ایک ہنسی چہرے پر شعلے کی طرح کوندی۔ پروپوزل، کبھی بھی ان ڈسنٹ نہیں ہوتا۔ مگر بجیا اور بھیا کسی ساتویں عجوبے کی طرح اُس پروپوزل کو لے رہے تھے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ میں پہلی بار کمرے میں کھکھلا کر ہنسی تھی۔ ’اب مزہ آئے گا۔ ‘ وہ ٹھہری۔ ۔ ۔ پھر بولی۔ اب کسی کو کیا پتہ۔ میرے جسم میں کتنے انگارے اکٹھے ہو گئے ہیں۔ اب تو شاید سرد بھی ہونے لگے ہوں یہ انگارے ۔ ۔ ۔ نہیں، سرد نہیں۔ بڑھتے بڑھتے پورے جسم میں پھیل گئے ہیں۔ پھیلتے پھیلتے۔ ۔ ۔  آپ نہیں سمجھیں گے۔ ‘ اُس نے گہرا سانس لیا۔

’لیکن پروپوزل۔ ؟‘

’’وہ بھی نیٹ سے برآمد ہوا تھا۔ صوفیہ کے ہونٹوں پر ہنسی تھی۔ ۔ ۔’ عمر بھی زیادہ نہیں تھی۔ تھکے ہارے لوگوں کے لئے یہ بھی ہاتھ آیا ایک موقع تھا مگر۔ ۔ ۔ جس وقت بجیا اور بھائی اُس سے ملنے ہوٹل گئے، وہ ہوٹل کی لابی میں بیٹھا سگریٹ کے گہرے گہرے کش لے رہا تھا۔ یہ بجیا نے ہی بتایا۔

               اِن ڈسنٹ پروپوزل

ہوٹل کی لابی میں اس وقت زیادہ لوگ نہیں تھے۔ نادر اور صوفیہ اُس کے سامنے بیٹھے تھے۔ وہ سگریٹ کے گہرے گہرے کش لے رہا تھا۔ ظاہر ہے، وہ لڑکی کی تصویر دیکھ چکا تھا۔ لیکن اُس نے ملنے کا تجسس نہیں دکھایا تھا۔ سگریٹ کے گول گول مرغولے کے درمیان اُس کے چہرے کے تاثر کو پرکھا نہیں جاسکتا تھا۔ ۔ ۔

نادر نے گلہ کھکھارتے ہوئے اُسے متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اُس کی اُنگلیوں میں، مہنگی سونے کی انگوٹھیاں تھیں۔ عام طور پر مسلمانوں مردوں میں سونا پہننے کا رواج نہیں ہے۔ گلے میں بھی سونے کا ایک چین پڑا تھا۔ یقیناً اُس کی منشا یہ تھی کہ سامنے والا اُسے کسی رئیس سے کم نہ سمجھے۔

ثریا نے پہلو بدلا اور ناگوار آنکھوں سے نادر کو دیکھا۔ ۔ ۔ اُس نے سگریٹ آرام سے ختم کیا۔ ایش ٹرے میں سگریٹ کے باقی ٹکرے کو مسلا۔ پھر مسکرایا۔ ۔ ۔

’معاف کیجئے گا۔ سگریٹ میری مجبوری ہے۔ ‘

’کیوں نہ ہم معاملے کی بات کریں۔ ‘ نادر نے دو ٹوک انداز میں کہا۔

وہ ایک بار پھر مسکرایا۔ ۔ ۔ ’مجھے بھی جانے کی جلدی ہے۔ دراصل میں سوچ رہا تھا۔ ۔ ۔ نہیں، جانے دیجئے۔ کسی بھی چیز کو تاڑ کی طرح کھینچنے میں میری دلچسپی نہیں ہے۔ بھاگتی دوڑتی دنیا میں الجبرے کے فارمولے کی طرح میں نے زندگی گزاری ہے۔ دو پلس دو برابر چار۔ ۔ ۔ سمجھ گئے نا۔ میرا پروپوزل ہو سکتا ہے، آپ کو پسند نہیں آئے۔ مگر سوچئے گا۔ مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔ نہیں پسند آئے تو آپ جاسکتے ہیں۔ کوئی جہیز لیتا ہے۔ کسی کی کوئی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ کسی کی کوئی۔ ۔ ۔ میرے پاس سب کچھ ہے۔ خود سے حاصل کیا ہوا۔ ۔ ۔اس لئے مجھے کچھ نہیں چاہئے۔ ‘ وہ ایک لمحے کو ٹھہرا اور دوسرے ہی لمحے جیسے نشانہ سادھ کر اُس نے گولی داغ دی۔ ۔ ۔

’’ایک دوسرے کو اچھی طرح پر سمجھنے کے لئے بہتر ہے کہ ہم ایک رات ساتھ ساتھ گزاریں۔’‘

اُس نے ہمارے تاثرات کی پرواہ نہیں کی۔ جملہ ختم کرنے ہی اٹھا اور دوسری طرف منہ کر کے دوسرا سگریٹ سلگا لیا۔ لائٹر کی خوبصورت ٹیون کے ساتھ ایک شعلہ لپکا تھا، جس کی طرف پلٹ کر دیکھنے کی ہم نے ضرورت محسوس نہیں کی۔

               صوفیہ کا جواب

واپس گھر لوٹنے تک جیسے یہ دنیا ایک چھوٹے سے سیپ میں بند ہو چکی تھی۔ صوفے پر برسوں کی بیمار کی طرح ثریا دھنس گئی۔ دوسرے صوفے پر نادر نے اپنے آپ کو ڈال دیا۔ آنکھیں بند کر لیں۔ دل و دماغ پر پتھراؤ چل رہے تھے ۔ ۔ ۔ کب کس وقت صوفیہ آ کر قریب میں بیٹھ گئی، پتہ بھی نہیں چلا۔ مگر جیسے ساری دنیا الٹ پلٹ ہو چکی تھی۔ ۔ ۔ سیپ کے منہ کھل گئی تھے۔ یا سیپ، لہروں کی مسلسل اُچھال کے بعد ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گئی تھی۔

’کیوں، کیا ہوا۔ ۔ ۔ ؟‘

یہ صوفیہ تھی۔ معمول کے خلاف اُس کے ہونٹوں پر ایک ہنسی بکھری ہوئی تھی۔ ۔ ۔ جیسے وہ یقیناً اس موسم کی عادی ہو چکی ہو۔ ۔ ۔ !

جیجو پاس میں آ کر بیٹھ گئے۔ صوفیہ نے جیجو کی طرف دیکھا اور ایک بار پھر کھکھلا کر ہنس دی۔

’یہ آتش بازی بھی پھس ہو گئی۔ کیوں جیجو۔ ۔ ۔ ؟‘

لیکن یہ سچ نہیں تھا۔ نادر مشتاق احمد اور ثریا مشتاق احمد کی آنکھوں میں حساب کتاب کا سلسلہ جاری تھا۔ ۔ ۔

’بتا دوں ؟‘ یہ نادر مشتاق احمد تھا۔

’نہیں، جیجو نے درد کی تاب نہ لا کر آنکھیں بند کر لیں ۔ ۔ ۔

’بتانے میں حرج ہی کیا ہے۔ ۔ ۔ ‘ ثریا کی آواز دبی دبی تھی۔ ۔ ۔

’نہیں۔ مجھے بتائیے۔ ‘ صوفیہ اور قریب آ گئی۔ میں جانتی ہوں مجھے کوئی پسند نہیں کرسکتا۔ میں کتنی بار آپ لوگوں سے کہہ بھی چکی ہوں۔ مگر۔ ۔ ۔ اﷲ کے واسطے بتایے ہوا کیا ہے۔ ۔ ۔ ‘

اور پھر، جیسے ایک کے بعد ایک آتش بازی چھوٹتی چلی گئی۔ آتش بازیوں کا کھیل رُکا تو دوسرا بم کا گولہ صوفیہ نے داغ دیا۔

’میں تیار ہوں۔ اُسے آنے دیجئے۔ کب بلایا ہے ۔ ۔ ۔‘ ثریا کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے، اُس نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ ۔ ۔ میں تھک گئی ہوں۔ اب حوصلہ نہیں ہے، اب یہ کھیل ختم ہو جانے دیجئے۔ اب ایک آخری کھیل۔ ۔ ۔ ہم سب کے فائدے کے لئے۔ وہ پھر رُکی نہیں۔ دوسرے ہی لمحے وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔ ۔ ۔

               ایک خوفناک کہانی کا انت

قارئین۔ کوئی دنیا اس سے زیادہ خوبصورت اور کوئی دنیا اس سے زیادہ بدصورت نہیں ہو سکتی۔ یہ میرا مانتا ہے۔ اور شاید یہ اسی لئے بطور مصنف میں اس کہانی کا گواہ رہا۔ ۔ ۔ بطور مصنف میں نے اپنے آپ کو بھی اس کہانی میں شامل کیا۔ ۔ ۔ مجھے نہیں معلوم، ثریا اور نادر نے صوفیہ کی رضامندی کو اپنی منظوری کی ہری جھنڈی کیسے دے دی۔ یا پھر صوفیہ اس پروپوزل کے لئے مان کیسے گئی۔ اس ترقی یافتہ ملک میں شا دی کے اس بھیانک بازار کا تصور میرے لئے ممکن نہیں ہے۔ شاید اسی لئے اس خوفناک کہانی کا انت سنانے کا حوصلہ مجھ میں نہیں ہے اور اسی لئے اب میں آپ کے درمیان سے رخصت ہوتا ہوں ۔ ۔ ۔ جنوری ماہ کی بھیانک ٹھنڈک اپنے عروج پر تھی۔ اُس دن کی صبح عام صبح جیسی نہیں تھی۔ مگر صوفیہ مطمئن تھی۔ وہ شان سے گانا گنگناتی ہوئی اٹھی۔ ۔ ۔ دوپہر تک سرد لہری میں اضافہ ہو چکا تھا۔ ۔ ۔

گھڑی کی تیزی سے بڑھتی سوئیاں ایک نئی تاریخ لکھنے کی تیاریاں کر رہی تھیں۔

***

ڈرائنگ روم میں ایک دوسرے کو گھیر کر سب بیٹھ گئے تھے۔ جسے کسی میّت میں بیٹھے ہوں۔ جنازہ اٹھنے میں دیر ہو۔ ۔ ۔ ایک ایک لمحہ برسوں کے برابر  ہو۔ پھر جیسے ہونٹوں پر جمی برف، بھاپ بن کر پگھلی۔ ۔ ۔

’آہ، یہ نہیں ہونا چاہئے تھے۔ ۔ ۔ ، یہ جیجو تھا۔

’کیا ہو گا؟ ‘ ثریا کی آنکھوں میں اُڑ کر وہی کیڑا آگیا تھا۔ ۔ ۔

نادر نے بات جھٹکی۔ ۔ ۔ رات میں یہ کیڑے پریشان کر دیتے ہیں۔ ‘

’شی۔ ۔ ۔ وہ آ رہی ہے۔ ۔ ۔ ‘ جیجو نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی۔ ۔ ۔  ’اور جان لو، وہ کوئی کیڑا نہیں ہے۔ ‘

اور جیسے وقت تھم گیا۔ ۔ ۔ صوفیہ ایک لمحے کو اُن کے سامنے آ کر رُکی۔ ۔ ۔

’آپ لوگ۔ ۔ ۔  آپ لوگ اتنے پریشان کیوں ہیں۔ ‘

نہیں۔ یہ وہ لڑکی تھی ہی نہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر ڈر جانے والی۔ ۔ ۔ پتوں کی طرح بکھر جانے والی۔ ۔ ۔ اُس کی ساری تیاریاں مکمل تھیں ۔ ۔ ۔

وقت آہستہ آہستہ قریب آ رہا تھا۔

اُس نے پلٹ کر جیجو کی طرف دیکھا۔ ۔ ۔ نہیں یہ جیجو نہیں تھے۔ جیجو کی جگہ کوئی لاش تھی۔ چہرے پر، کاٹو تو خون کا نشان نہیں۔ آنکھیں بے حرکت۔ ۔ ۔

اُس نے پلٹ کر بھائی کی طرف دیکھا۔ بھائی ہمیشہ کی طرح نظریں نیچی کئے، اپنے آپ سے لڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ۔ ۔

بہن نے چہرہ گھما لیا تھا۔ اس لئے وہ بہن کے جذبات کو نہیں دیکھ سکی۔ ۔ ۔

پھر جیسے کمرے میں ایٹم بم کا دھماکہ ہوا۔ ۔ ۔

’پانچ منٹ باقی رہ گئے ہیں بس، وہ آتا ہو گا۔ ۔ ۔ میں کمرے میں ہوں۔ آپ اُسے کمرے میں ہی بھیج دیجئے گا۔ ‘

اُس کی آواز نپی تلی تھی۔

پھر وہ وہاں ٹھہری نہیں۔ سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اپنے کمرے میں آ گئی۔ ۔ ۔

               اور انت میں کہانی

کوئی امتحان ایسا بھی ہو سکتا ہے، اُس نے کبھی سوچا نہیں تھا۔ بچپن سے لے کر آج تک اپنی خاموشی کے ریگستان میں چپ چپ سلگتی رہی۔ کسی نے بھی اُس کے اندر کی آواز کو کب سنا تھا۔ کسی نے بھی اُس کے اندر کی لڑکی کو کب دیکھا تھا۔ خود اُس نے بھی نہیں۔ نہیں۔ یہ سچ ہے۔ ایک عرصہ سے وہ اپنے آپ سے نہیں ملی۔ کمپیوٹر کوچنگ سے گھر اور گھرسے اپنے اُداس کمرے کا حصہ بنتے ہوئے بس وہ خلاء میں ڈوبتے ابھرتے بھنور کو دیکھنے میں ہی صبح سے شام کر دیتی۔ ۔ ۔ کمرے کے آسیب چپ چپ اُسے گھیر کر بیٹھ جاتے ۔ ۔ ۔ اُسے سمجھنے والا کون تھا۔ اُسے پڑھنے والا کون تھا۔ ۔ ۔ وہ عشق نہیں کرسکتی تھی۔ وہ اپنے لئے کوئی لڑکا پسند نہیں کرسکتی تھی۔ انٹرنیٹ پر چیٹنگ کرتے ہوئے اُس کے ہاتھ کانپتے تھے۔ کسی لڑکے سے دو منٹ چیٹنگ کے بعد ہی اُس کی سانس دھونکنی کی طرح چلنی شروع ہو جاتی۔ بدن کانپنے لگتا۔ سائبر کیفے کی ایک ایک شئے گھومتی ہوئی نظر آتی۔ وہ بدحواس پریشان سی گھر آتی تو۔ ۔ ۔ ‘

لیکن گھر کہاں تھا۔ ماں باپ ہوتے تو گھر ہوتا۔ بہن اور جیجو کا گھر، گھر کہاں ہوتا ہے۔ بھائی کا گھر، گھر کہاں ہوتا ہے۔ گھر میں تو سپنے رہتے ہیں۔ سپنوں کے ڈھیر سارے ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار۔ ۔ ۔ یہ چھوٹے چھوٹے تارے تو ہتھیلیوں سے چھوٹ چھوٹ کر گرتے رہے۔ اندھیرے کمرے میں آسیبی مکالمے رہ گئے تھے ۔ ۔ ۔

’کھانا بنایا۔ ۔ ۔؟‘

نہیں۔

’کیوں ؟‘

خواہش نہیں ہوئی۔ ۔ ۔

’خواہش یا۔ ۔ ۔ ؟‘

ہونٹوں پر ایک ناگوار ساتاثر اُبھرا۔ کیا بس اِسی کام کے لئے رہ گئی ہوں ۔ ۔ ۔

’’ہو سکتا ہے۔ بھائی نے یہی سوچا ہو۔’‘

’نہیں۔ بھائی اُس محبت کرتا ہے۔

’سارے بھائی محبت کرتے ہیں مگر۔ ۔ ۔ ‘

’میرا بھائی‘۔ ۔ ۔  وہ کہتے کہتے رُک جاتی۔ ۔ ۔

تمہارا بھائی ہر لمحہ، تمہارے اندر ہوتا ہے۔ جانتی ہو کیوں ؟۔

’نہیں۔ ‘

’اُس کے پاس سپنے ہیں۔ ۔ ۔ ‘

’تو۔ ۔ ۔ ؟‘

’وہ اُڑنا چاہتا ہے۔ اُڑ کر اپنے لئے بھی سپنے دیکھنا چاہتا ہے۔ مگر تم۔ افسوس۔ تم نے اُس کے سپنوں کو راکچھس کے ان دیکھے قلعے میں نظر بند کر رکھا ہے۔ وہ تم سے چھٹکارا چاہتا ہے ۔ ۔ ۔‘

’نہیں۔ ‘ ایک جھٹکے سے اُٹھ کر وہ آئینہ کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ ۔ ۔‘ جھوٹ بولتے ہو تم۔ کوئی چھٹکارا نہیں چاہتا۔ سب پیار کرتے ہیں مجھ سے۔ ہاں، بس، عمر کے پنکھ پرانے پڑ رہے ہیں۔ پنکھ پرانے ہو جائیں تو کمزور ہو جاتے ہیں۔ میں ایک بے ارادہ سڑک بن گئی ہوں۔ کوئی گزرنا ہی نہیں چاہتا۔ ‘

’نہیں ڈرو مت۔ ‘

کمرے کے آسیب اُسے گھیر رہے ہیں۔ خود سے باتیں کرتے ہوئے سارا دن گزار لیتی ہو۔ پتہ ہے بہن کیا کہتی ہے ؟

’نہیں۔ ‘

’بھائی پر ناراض ہوتی ہے۔ اسی لئے تو تمہیں وہاں سے نکالا گیا۔ تم کوئی کام ہی نہیں کرتی تھی۔ بس سوتی رہتی تھی۔ ‘

’سوتی کہاں تھی۔ میں تو خود میں رہتی تھی۔ خود سے لڑتی تھی۔ ‘

’کیا ملا۔ بہن نے بھائی کے یہاں بھیج دیا۔ ‘

’بھیجا نہیں۔ میں خود آئی۔ ۔ ۔ ‘ کہتے کہتے ایک لمحے کو وہ پھر رُک گئی۔ ۔ ۔

’دراصل تم ٹیبل ٹینس کی بال ہو۔ ۔ ۔  سمجھ رہی ہونا، چھوٹی سی ٹن ٹن۔ ۔ ۔  بجنے والی بال۔ ۔ ۔  لیکن اس بال کو راستہ نہیں مل رہا ہے۔ ۔ ۔

’کیا کروں میں۔ ۔ ۔ ‘

’افسوس، تم ابھی کچھ نہیں کرسکتی۔ ۔ ۔ تم صرف آگ جمع کرتی رہو۔ سن رہی ہو نا۔ آگ۔ ۔ ۔  اپنے آپ کو برف کی طرح سردمت پڑنے دو۔ سرد پڑ گئی تو۔ ۔ ۔  لاش کو اپنے گھر کون رکھتا ہے۔ وہ بھی بدبو دیتی لاش۔ ۔ ۔ ‘

***

ٹیبل ٹینس بال کی طرح ادھر اُدھر لڑھکنے کا سلسلہ جاری رہا۔ ۔ ۔ پتہ نہیں، وہ کتنی بار مری۔ پتہ نہیں وہ کتنی بار زندہ ہوئی۔ بہن اور بھائی کے ہزاروں سوالوں سے لاتعلق، اپنے ہی آسیب سے لڑتی لڑتی تھک گئی تو اُس ’اِن ڈسنٹ پروپوزل‘ کے لئے اُس نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

اور یہ حیرت کرنے والی بات تھی۔ ۔ ۔ پہلی بار اُسے لگا۔ کمرے میں آسیب اکٹھا نہیں ہوئے ہوں۔ پہلی بار لگا، اُس کے اَن کہے مکالموں کی بھاپ سے کمرے میں ’کہاسے ‘ نہیں جمع ہوئے ہوں ۔ ۔ ۔ کمرے میں خوف کی چادر ہی نہیں تنی ہو۔ ۔ ۔ کمرے میں ڈھیر سارے چمگادڑ نہیں اکٹھا ہوئے ہوں۔ جیسے بہن، دھیرے سے ہنستی ہوئی ایک دن بھائی سے بولی تھی۔ ۔ ۔ آسیب، وہاں آسیب رہتے ہیں سمجھاؤ اُسے۔ کمرے کو اپنی خاموشی سے اُس نے آسیب زدہ بنا دیا ہے اور یقیناً اُسے بھائی کا چہرہ یاد نہیں۔ بھائی نے ہمیشہ کی طرح نظریں جھکا کر کچھ دھیرے دھیرے کہنے کی کوشش کی ہو گی۔

مگر آج۔ ۔ ۔

آوازوں کے تیر غائب تھے۔ شب خونی ہوا کا پتھراؤ گم تھا۔ ۔ ۔ آئینہ میں وہ پاگل لڑکی موجود نہیں تھی۔ جسے بار بار بہن کی پھٹکار سننی پڑتی تھی۔ نہیں لڑکی۔ ایسے نہیں۔ مانگ ایسے نکالو۔ لباس، کپڑے کیا ایسے پہنے جاتے ہیں۔ زلفیں کیا ایسے سنواری جاتی ہیں۔

وہ دھیرے سے ہنسی۔ ۔ ۔

آئینہ والی لڑکی جو بھی ہنسی۔

پھر وہ تیز تیز ہنستی چلی گئی۔ ۔ ۔

***

کمرے کی دیوار گھڑی پر ایک اُچٹتی نظر ڈال کر وہ کمرے سے ملحق باتھ روم میں چلی گئی۔ کمرے کا دروازہ اُس نے ’اڈگا‘ کر رکھا تھا،  تاکہ ’اُس کی‘ آہٹ کی اطلاع اُسے باتھ روم میں مل سکے۔ باتھ روم کا ٹائلس ذرا سا گندہ ہو رہا تھا۔ اُس نے شاور کے نیچے کے دونوں نل کھول لیے۔ گیزر چلا دیا۔ گرم گرم پانی جب تلووں سے ہو کر بہنے لگا تو وہ ٹائلس کو اپنے بے حد ملائم گورے ہاتھوں سے تیز تیز رگڑ نے لگی۔ ٹائلس کے چاروں طرف صابن کے جھاگ پھیل گئے تھے۔ اُس نے اپنے لئے ایک بے حد خوبصورت اور سینسیشنل نائیٹی کا انتخاب کی تھا۔ یہ نائیٹی سیاہ رنگ کی تھی۔ جو اُس کے گورے ’جھنجھناتے ‘ بدن سے بے پناہ میچ کھاتی تھی۔ نائیٹی اُس نے باتھ روم کے ہینگر میں ٹانگ دیا۔ صابن کے گرم گرم جھاگ اور فواروں سے، وہ کچھ دیر تک اپنے ننگے پاؤں سے کھیلتی رہی۔ ۔ ۔ پھر مدہوشی کے عالم میں ٹوٹتے بنتے جھاگوں کے درمیان بیٹھ گئی۔ ۔ ۔ ایک لمحے کو آنکھیں بند کیں۔ دوسرے ہی لمحے کپڑے اُس کے بدن سے آزاد ہو کر اُڑتے چلے گئے۔ اُس نے نل بند کیا۔ جسم میں مچلتے طوفان کا جائزہ لیا۔ ۔ ۔ صابن کے جھاگوں کو ہاتھوں سے اُڑایا۔ ۔ ۔یا پھر اپنے ننگے بدن کے ساتھ وہیں لیٹ گئی۔ ۔ ۔

کمرے کا دروازہ چڑمڑایا تو اچانک وہ، جیسے خواب کی وادیوں سے لوٹی۔ ۔ ۔ منہ سے بے ساختہ آواز بلند ہوئی۔ ۔ ۔

’’آپ انتظار کیجئے ۔ ۔ ۔ آ رہی ہوں۔’‘

ایک لمحے کو وہ حیران رہ گئی۔ ۔ ۔ کیا یہ اُس کی آواز تھی۔ ۔ ۔ ؟صوفیہ کی آواز۔ ۔ ۔ جس کے بارے میں مشہور تھا کہ صوفیہ کے تو منہ میں زبان ہی نہیں۔ کیا یہ وہ تھی۔ ۔ ۔ آج سارے موسم جیسے بدل گئے تھے ۔ ۔ ۔وہ بدل گئی تھی۔ ۔ ۔

ایک لمحے کو باتھ روم کی کنڈی پر ہاتھ رکھ کر وہ ٹھٹھکی۔ ۔ ۔، دروازہ بند کروں یا۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ بند نہیں کروں گی۔ ۔ ۔ بند کرنے سے کیا ہو گا۔ ۔ ۔ آئینہ کے سامنے برقع پہننے سے کیا حاصل۔ شرط رکھنے والے کو تو سب کچھ دیکھنا ہے۔ اُسے پورا پورا۔ ایک وقت آتا ہے، جب مانگیں جسم سے آگے نکل جاتی ہیں۔ جسم کی ساری حدود توڑ کر۔ آگے۔ بہت آگے۔ ۔ ۔  اُس نے ہلکی سی انگڑائی لی۔ بیسن کے آئینہ میں اپنے عکس کو ٹٹولا۔ ۔ ۔  نہیں وہ ہے۔ ایک مدہوش کر دینے والی ’صفت‘ کے ساتھ۔ ۔ ۔  نہیں، یقیناً، وہ کسی بیوٹی کنسٹٹ میں شامل نہیں ہے۔ مگر وہ۔ ۔ ۔  ایک لمحے کو اُس نے پلکیں جھپکائیں ۔ ۔ ۔ آئینہ میں گیزر چل رہا تھا۔ نہیں یہ گیزر نہیں تھا۔ یہ تو وہ تھی۔ مجسم، سرتا پا آگ۔ ۔ ۔

اُس نے گیزر بند کر دیا۔ ٹھنڈے پانی کا شاور کھول دیا۔ ۔ ۔  شاور کی بوندیں آگ میں گرتی ہوئی دھواں دھواں منظر پیش کر رہی تھیں۔ چاروں طرف سے آگ کی جھاس اُٹھ رہی تھی۔ ٹائلس سے ۔ ۔ ۔ برہنہ دیواروں سے ۔ ۔ ۔ آئینہ سے ۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ وہ ایک دم سے چونکی۔ کمرے میں کوئی انتظار کر رہا ہے ۔ ۔ ۔ آگے  بڑھ کر اُس نے ٹوول کھینچا۔ ۔ ۔ ہینگر سے نائیٹی کھینچی۔ آئینہ کے سامنے کھری ہوئی۔ آئینہ میں بھاپ جم گئی تھی۔ تولیہ سے بھاپ صاف کرنے لگی۔ پھر ایک بار اپنے آپ کو ٹٹولا۔ ۔ ۔  اور دوسرے ہی لمحے دھڑاک سے اُس نے باتھ روم کا دروازہ کھول دیا۔ ۔ ۔

کمرے میں، یعنی وہ جو بھی تھا، دیوار کے اُس طرف منہ کئے کسی سوچ میں گم تھا۔ دروازہ بھڑاک سے کھلتے ہی وہ یکایک چونکا۔ اُس کی طرف مڑا اور یکایک ٹھہر گیا۔ ۔ ۔

سلیولیس نائیٹی میں صوفیہ کا جسم کسی کمان کی طرح تن گیا۔ ۔ ۔ ’آئی ایم صوفیہ مشتاق احمد۔ ڈاٹر آف حاجی مشتاق احمد۔ عمر پچیس سال۔ پچیس سے زیادہ لوگ تم سے پہلے مجھے دیکھ کر جا چکے ہیں ۔ ۔ ۔ تمہارا کا نمبر۔

’مجھے اس سے زیادہ مطلب نہیں۔ ۔ ۔ ‘ یہ لڑکا تھا۔ مگر آواز میں کنپکپی برقرار۔ ۔ ۔ جیسے پہلی بار جرم کرنے والوں کے ہاتھ کانپ رہے ہوتے ہیں۔ ۔ ۔

’بیٹھئے۔ ‘ وہ آہستہ سے بولی۔

لڑکا بیٹھ گیا۔ اُس نے لڑکے کے چہرے پر اپنی نظریں گڑا دیں۔ چہرہ کوئی خاص نہیں۔ گیہواں رنگ۔ ناک تھوڑی موٹی تھی۔ بدن دبلا تھا۔ قد بھی پانچ فٹ سات انچ سے زیادہ نہیں ہو گا۔ وہ آسمانی جینس اور میرون کلر کی ٹی شرٹ پہنے تھا۔ مینئل سفاری شوز اُس کے پاؤں میں بالکل نہیں جچ رہے تھے ۔ ۔ ۔ لڑکا اُس سے آنکھیں ملانے کی کوشش میں پہلی ہی پائیدان پرچاروں خانے چت گرا تھا۔

’دیکھو مجھے۔ ۔ ۔ ‘ وہ آہستہ سے بولی۔

’دیکھ رہا ہوں۔ ۔ ۔ ‘ لڑکے نے اپنی آواز کو مضبوط بنانے کی ناکام سی کوشش کی۔

’نہیں تم دیکھ نہیں رہے ہو، دیکھو مجھے ۔ ۔ ۔ نائیٹی کیسی لگ رہی ہے۔ ۔ ۔ ‘

اس بار لڑکے نے ایک بار پھر اپنی مضبوطی کا جوا کھیلا تھا۔ ۔ ۔ ’اچھی ہے۔ ۔ ۔ ‘

’اچھی نہیں۔ بہت اچھی ہے۔ ۔ ۔ ‘ وہ مسکرائی۔ ۔ ۔ کیسی لگ رہی ہوں میں۔ ۔ ۔ ‘

لڑکا ایک لمحے کو سکپکایا۔ ۔ ۔ وہ دھیرے سے ہنسی۔ ۔ ۔ نظر جھکانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ۔ ۔ دیکھنے پر ٹیکس نہیں ہے۔ اور تم تو۔ ۔ ۔  کسی بازار میں نہیں، اچھے گھر میں آئے ہو۔ ۔ ۔  یقین مانو۔ ایک دن تو یہ ہونا ہی تھا۔ اسی لئے تمہاری شرط کے بارے میں سن کر مجھے تعجب نہیں ہوا۔ ۔ ۔ تمہارے لئے یہی بہت ہے کہ تم مرد ہو۔ مرد ہو، اس لئے تمہارے اندر کا غرور بڑھا جا رہا تھا۔ پہلے تم نے جہیز کا سہارا لیا۔ رقم بڑھائی، رقم دگنی تگنی کی اور پھر۔ ۔ ۔  یقین مانو، میرے گھر والوں نے سوچا تھا کہ یہ موم کی مورت تو بُرا مان جائے گی۔ مگر میں نے ہی آگے بڑھ کر کہا۔ ۔ ۔  بہت ہو گیا۔ ۔ ۔  آخری تماشہ بھی کر ڈالو۔ ۔ ۔ ‘

باہر رات گر رہی تھی۔ نہیں، رات جم گئی تھی۔ جنوری ماہ کی ٹھنڈ لہریں جسم میں تیزاب برپا کر رہی تھیں۔ لیکن وہ جیسے ہر طرح کے سرد و گرم سے بے نیاز ہو کر ٹک ٹکی باندھے اُسے دیکھ رہی تھی۔

’بستر پر چلو یا۔ ۔ ۔ ‘

اتنی جلد۔ ۔ ۔  اتنی جلدی کیا ہے۔ ۔ ۔ ‘ لڑکے کی آواز گڑبڑائی تو وہ پوری قوت لگا کر چیخ پڑی۔ ۔ ۔

’جلدی ہے۔ تمہیں نہیں۔ لیکن مجھے ہے۔ تم سے زیادہ بھوکی ہوں میں۔ کتنے بھوکے ہو تم۔ ۔ ۔ پتہ ہے یہاں آ کر، اس کمرے میں آ کر مجھ سے نظریں ملاتے ہوئے بھی شرم آ رہی ہے تمہیں ۔ ۔ ۔ بس اتنے بھوکے ہو۔ نہیں۔ باہر۔ ۔ ۔  باہر والوں کی پرواہ مت کرو۔ وہاں ایک بھائی ہے، جب تک میں باہر نہیں نکلوں گی۔ تیر کی طرح زمین میں گڑا، اپنے ناکارہ ہونے کے احساس سے مرتا رہے گا، سہمی سہمی سی ایک بہن ہو گی اور سہمے سہمے سے سوال ہوں گے ۔ ۔ ۔ نہیں اُن سوالوں کی پرواہ مت کرو۔ ۔ ۔ میں کرتی تو اس وقت نائیٹی پہن کر تمہارے سامنے نہیں ہوتی۔ ۔ ۔ اُنہیں بس یہی پڑی تھی کہ میری شا دی ہو جائے ۔ ۔ ۔ پھر تم ملے۔ تم مجھے بستر پر آزما کر، میرے بدن کو منظوری دینے والے تھے۔ سچ، ایک بات بولنا۔ تم مجھ سے شا دی کرنا چاہتے تھے یا میرے بدن سے۔ ۔ ۔ ‘

’وقت۔ ۔ ۔‘ لڑکے نے پھر مضبوط لفظوں کا سہارا لیا۔ ۔ ۔ ’وقت بدل رہا ہے۔ ‘

’وقت‘  وہ زور سے ہنسی۔ ۔ ’بدل رہا ہے نہیں۔ بدل گیا ہے۔ لیکن تم کیوں کانپ رہے ہو۔ دیدار کرو میرا، دیکھو مجھے ‘

کمرے میں نور کا جھماکا ہوا۔ ۔ ۔

ایک لمحے کو اُس کے ہاتھ پیچھے کی طرف گئے ۔ ۔ ۔ نائیٹی کے ہک کھلے اور نائیٹی ہوا میں اُڑتی ہوئی بستر پر پڑی تھی۔ ۔ ۔

لڑکا بستر سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ وہ کانپ رہا تھا۔ اُس کی پلکوں پر جیسے انگارے رکھ دیئے گئے تھے ۔ ۔ ۔ نہیں، انگارے نہیں ۔ ۔ ۔ برف کی پوری سلی۔ ۔ ۔ وہ جیسے پلک جھپکانا بھول گیا تھا۔ ۔ ۔ ہوش اُڑ چکے تھے۔ آنکھیں ساکت و جامد تھیں۔ ۔ ۔  ایک دھند تھی جو روشندان چیرتی ہوئی کمرے میں پھیل گئی تھی۔

’دیکھو مجھے۔ ۔ ۔ ‘

وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی آئینہ کے قریب آ گئی۔ ۔ ۔ ’’دیکھو مجھے۔ میں نے کہا تھا، نا۔ تم سے زیادہ بھوکی ہوں ۔ ۔ ۔ پچیس لوگ تم سے پہلے بھی مجھے دیکھے بغیر واپس لوٹ چکے ہیں ۔ ۔ ۔ سمجھ سکتے ہو۔ پچیس بار تو یونہی مری ہوں گی۔ ۔ ۔ شا دی کے ہر احساس کے ساتھ بدن میں انگارے پلتے تھے ۔ ۔ ۔ جانتے ہونا، فرائیڈ نے کہا تھا، عورت مرد سے زیادہ اپنے بدن میں انگارے رکھتی ہے ۔ ۔ ۔ اور میں تو بڑی ہوئی تب سے انگارے جمع کرتی رہی تھی۔ ۔ ۔  فلم سے سیریل، ٹی وی، دوست سہیلیوں کی شا دی۔ ۔ ۔ مجھ سے بے حد کم عمر لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہونے کے قصّے۔ ۔ ۔  ہر بار انگاروں کی تعداد بڑھ جاتی۔ میں ہر بار انگارے چھپا لیتی۔ ۔ ۔  وہ زور سے چیخی۔ ۔ ۔ رنڈی نہیں ہوں میں۔ بازار میں نہیں بیٹھی ہوں۔ تم نے سودا نہیں کیا ہے میرا۔ میری میں نے بھی تسلی کی تھی کہ اگر تم میرے شوہر ہوئے تو تمہیں تو پورا پورا مجھے دیکھنا ہی ہے ۔ ۔ ۔ اور پھر۔ ۔ ۔  میرے گھر والے یوں بھی تھک گئے ہیں۔’‘

اُس نے بے حد مغرور انداز میں آئینہ میں اپنی ایک جھلک دیکھی۔ جیسے قلوپطرہ نے اپنی ایک جھلک دیکھی ہو اور فاتحانہ انداز میں سراٹھا کر اپنے ملازموں سے کہا ہو۔ ۔ ۔ یہ آئینہ لے جاؤ، اس کا عکس بھی مجھ سے کم تر ہے۔ کوئی ایسا آئینہ خانہ لاؤ جو میری طرح دکھ سکے۔

وہ مغرور اداؤں کے ساتھ مڑی۔ بستر سے نائیٹی کو اٹھایا اور دوسرے ہی لمحے نائیٹی کے ’بدن’ میں داخل ہو گئی۔ ۔ ۔

لڑکا ابھی بھی تھر تھر کانپ رہا تھا۔ ۔ ۔

’یہ کوٹھا نہیں تھا اور اتنا طے ہے کہ تم آج تک کسی کوٹھے پر نہیں گئے ۔ ۔ ۔ دیکھو۔ ۔ ۔  تم کانپ رہے ہو۔ نہیں، ادھر آؤ۔ اُس نے بے جھجک اُس کا ہاتھ پکڑا۔ مرر کے سامنے لے آئی۔ یو نو، تم کیسے لگ رہے ہو۔ جوناتھن سوئفٹ کے گھوڑے ۔ ۔ ۔ لیکن نہیں۔ تم گھوڑے بھی نہیں ہو۔ ۔ ۔  تم ایک ڈرپوک مرد ہو جو ایک خوبصورت بدن کو آنکھ اُٹھا کر غور سے دیکھ بھی نہیں سکتا۔ ۔ ۔‘

لڑکا بے حس و حرکت تھا۔ ساکت و جامد۔ لاش کی طرح سرد۔ ۔ ۔

صوفیہ مشتاق احمد کی آنکھوں میں برسوں کی ذلت چنگاری بن کر دوڑ گئی۔ ۔ ۔ بھوک، نفرت پر غالب آ گئی۔ ۔ ۔ ’دیکھتے کیا ہو۔ ۔ ۔ میں پوچھتی ہوں۔ اب بھی تم اس کمرے میں کھڑے کیسے ہو۔ تم تو شرط کا بوجھ اٹھانے کے قابل بھی نہیں ہو۔ نامرد کیڑے۔ نہیں۔ وہیں کھڑے رہو اور جانے سے پہلے میری ایک بات اور سن لو۔ میں نے کہا تھا نا تم سے زیادہ بھوکی ہوں میں مگر رنڈی نہیں تھی۔ ارے، تمہاری جگہ میں ہوتی، میں نے شرط رکھی ہوتی تو کم از کم یہاں آنے کی جرأت کے بعد، میں نے نہیں کم از کم تمہیں چھوا ضرور ہوتا۔ دھیرے سے، تمہارے ہاتھوں کو۔ ۔ ۔  کہ بدن کیسے بولتا ہے ۔ ۔ ۔ کیسے آگ اُگلتا ہے۔ لیکن تم۔ ۔ ۔  تم تو بند کمرے میں، اپنی ہی شرط کے باوجود، چھونا تو دور اسے دیکھنے کی بھی ہمت نہیں کرسکے۔ ۔ ۔ ‘ ایک لمحے کو جیسے اُس کے اندر برقی لہر دوڑ گئی۔ بے حد نفرت کی آگ میں سلگتے ہوئے صوفیہ احمد نے اُسے زور کا دھکا دیا۔ ۔ ۔ ’گیٹ لاسٹ۔ ‘

لڑکا پہلے ہڑبڑایا۔ پھر سرعت کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گیا۔ ایک لمحہ کو صوفیہ مشتاق احمد مسکرائی۔ اپنا عکس آئینہ میں دیکھا۔ ۔ ۔ نہیں۔ اب اُسے مضبوط ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اُس نے ٹھنڈا سانس بھرا۔ باہر کہاسے گر رہے تھے۔ سرد ہوا تیز ہو گئی تھیں۔ کھڑکی کھلی رہ گئی تھی۔ اُف، اس درمیان وہ جیسے وہ دنیا و مافیہا سے بالکل بے خبر ہو گئی تھی۔ تیز، جسم میں طوفان برپا کرنے والی سردی کو بھی۔ ۔ ۔ اُس نے اپنے ہی دانتوں کے کٹکٹانے کی آواز سنی اور اچانک ایک لمحے کو وہ ٹھہر گئی۔ وہی جانی پہچانی دستک۔ ۔ ۔ خوفناک آوازوں کا شور۔ جیسے دیواروں پر کوئی رینگ رہا ہو۔ کیا ویمپائر۔ ۔ ۔ ؟ ڈراکیولا۔ ۔ ۔ ؟ باہر یقیناً اس ’پُراسرار‘ تماشے کا حال جاننے کے لئے اُس کے گھر والے موجود ہوں گے ۔ ۔ ۔ اور اُس کا بے چینی سے انتظار بھی کر رہے ہوں گے ۔ ۔ ۔

مگر۔ ۔ ۔  یہ دستک۔ ۔ ۔ خوفناک آوازیں۔ ۔ ۔  دیواروں پر رینگنے کی آواز۔ ۔ ۔ جیسے ہزاروں کی تعداد میں چمگادڑیں اُڑ رہی ہوں۔ پیڑوں پر اُلو بول رہے ہوں۔ شہر خموشاں سے بھیڑیوں کی چیخ سنائی دے رہی ہو۔ ۔ ۔ وہی رینگنے کی آواز۔ ۔ ۔ برفیلی، تیز ہوا سے کھڑکی کے پٹ ڈول رہے تھے۔ ۔ ۔  وہ تیزی سے آگے، کھڑکی کی طرف بڑھی۔ ۔ گہری دھند کے باوجود شہر خموشاں کا منظر سامنے تھا اور وہاں دیوار پر چھپکلی کی طرحی رینگتا ڈراکیولا، اس بار اُسے بے حد کمزور سا لگا۔ ۔ ۔ شاید وہ شہر خموشاں میں واپس اپنے ’کوفن‘ میں لیٹنے جا رہا تھا۔ جب کہ صبح کی سپیدی چھانے میں ابھی کافی دیر تھی۔ ۔

٭٭٭

لیبارٹری

               گندہ تالا ب، کیکڑے اور وہ

یہ قیاس لگانا بہت آسان ہے کہ وہ کہاں پیدا ہوئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ وہ سابرمتی آشرم سے دلی کے آشرم چوک تک کہیں بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ کہیں، کسی بھی طرح، کسی بھی حال میں ۔ ۔ ۔لیکن معاف کیجئے گا۔ اُنکی پیدائش کے عمل کو کسی بھی طرح میں ’کلوننگ پروسیس ‘سے جوڑنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ اس لئے کہ کلوننگ کے ذریعہ چاہے وہ بھیڑ، ہو یا انسان۔ ۔ ۔ اور یقیناً آپ تسلیم کریں گے کہ سائنس کی تجربہ گاہیں، انسانی تجربہ گاہوں کے مقابلے، کم خطرناک ہیں ۔ ۔ ۔نہیں، اس بحث کے لئے ڈولی بھیڑ‘ یا پہلے انسان ’مکاؤف‘ کے تصور سے الجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اتنا کہنا کافی ہے کہ سائنس کا پیدا کردہ انسان بھی گوشت پوست کا ہی انسان ہو گا مگر اُس انسان سے کم خطرناک ہو گا ۔ ۔ ۔جو انسان کے ذریعہ، انسانی فضا میں، انسانی گھر، انسانی کمرے میں اور انسانی عمل کے دوران ان عالم وجود میں آگیا ہے ۔ ۔ ۔ ( اس لئے تسلیم کر لیتے ہیں کہ کلوننگ کا انسان دوم درجے کا انسان ہو گا، کہ اُس کے اندر جنگ اور تہذیب کے جراثیم وہ شدّت اختیار نہیں کر پائیں گے جو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ )

اس لیے فرض کرتے ہیں کہ وہ وہی تھے جو انسانی فضا میں، انسانی گھر میں، انسانی عمل کے دوران۔ ۔ ۔

اور فرض کرتے ہیں کہ وہ سابرمتی آشرم سے دلّی کے آشرم چوک تک کہیں بھی پیدا، ہو سکتے ہیں ۔ ۔ ۔

***

وہ کئی تھے۔ چار، پانچ چھ، سات، آٹھ۔ ۔ ۔  یعنی کل ملا کر اتنے کہ اُنکی گنتی آسانی سے ہو سکتی ہے۔ وہ بیحد نرم ملائم، سادہ لوح یا ایسے تھے، جن کو لے کر پانیوں کی مثال دی جاسکتی ہے۔ یعنی کسی بھی برتن میں ڈال دو۔ ۔ ۔ وہ ایسے تھے کہ آپ اُن کا کچھ بھی استعمال کرسکتے تھے ۔ ۔ ۔ اور جس دن کا واقعہ ہے، اُس دن دوپہر کا سورج آگ برساتا ہوا اپریل مہینے کو جلانے اور جھلسانے کی تیاری کر رہا تھا۔ دو بجے کا وقت ہو گا۔ ’وہ ‘ بہر کیف، ساری رات کے تھکے ہوئے ۔ ۔ ۔ ایک چھوٹے سے تالاب کے کنارے بیٹھے، گندے پانی سے بار بار نکلتے اور اندر جاتے کیکڑے کا لطف لے رہے تھے ۔ ۔ ۔

’ کیکڑے کے کتنے پاؤں ہوتے ہیں۔ ‘

دوسرا زور سے قہقہہ لگا کر ہنسا۔ ۔ ۔کیکڑے کی آنکھیں کہاں ہوتی ہیں، سمجھ میں نہیں آتا۔ ۔ ۔‘

’ سالے میں نے پاؤں کے بارے میں پوچھا تھا۔

۔ ۔ ۔’ اور میں نے آنکھوں کے بارے میں۔ ‘

اُن میں ایک سن رسیدہ تھا۔ اُس کی بڑی بڑی دانشورانہ، آنکھوں میں چمک لہرائی۔ ’ دیکھو، کتّے کو۔ ۔ ۔ ‘

’ کتّا نہیں کیکڑا‘

’ ایک ہی بات ہے۔ ‘

’ ایک ہی بات کیسے، تم اور میں کیا۔ ۔ ۔ ‘

وہ ہمیشہ کی طرح سنجیدہ تھا۔ ۔ ۔ایک ہی بات ہے۔ ۔ ۔  دیکھو۔ ۔ ۔ دیکھو کیکڑا مٹی سے پھر باہر نکل آیا۔

’ بارش ہو گی۔ ‘

’ اِن سالوں کو پتہ کیسے چل جاتا ہے۔ ‘

’ بارش کی اطلاع ملتے ہی کیکڑے اپنے بلوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ ‘

’ اسی سنجیدہ قسم کے دانشور نے اطلاع بہم پہنچائی۔ کیکڑے کے بارہ پاؤں ہوتے ہیں۔ کینکڑے اپنے پاؤں کا حساب نہیں رکھ پاتے۔ انکے لئے زندگی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہ اپنی حفاظت بھی نہیں کرسکتے۔ دیکھو۔ دیکھو۔ ۔ ۔  سالا گرا۔ ۔ ۔

بارہ پاؤں نہیں۔ کینکڑے کے دس پاؤں ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔

’ آٹھ۔ ۔ ۔ ‘

’ چھ۔ ۔ ۔ ‘

پہلے نے گفتگو کے رُخ کو ہی بدل دیا تھا۔ کیکڑے کے ہاتھ کہاں ہیں ؟ آں ؟ ہاتھ۔ ۔ ۔

’ہاں، ہاتھ کہاں ہیں ؟ ‘

پہلا پُر اُمید تھا۔ ۔ ۔ ’ در اصل آپ لوگ جسے پیر سمجھ رہے ہیں وہ۔ ۔ ۔ ‘

’ ممکن ہے۔ ‘

’نہیں ۔ ۔ ۔یا تو کیکڑے کے ہاتھ نہیں ہوتے یا پاؤں۔ ‘

***

دھوپ سخت تھی، لیکن اچانک بادلوں کا ایک کارواں دھوپ کے آگے سے گزر گیا۔

’ بارش ہو سکتی ہے۔ ‘

’ نہیں بھی۔ ‘

’ کیکڑے زمینوں سے باہر آ رہے ہیں، اس لئے ممکن ہے۔ ۔ ۔ ‘

کیکڑے زمینوں سے باہر نہیں آ رہے ہیں، جان بچا کر بھاگ رہے ہیں۔ ‘

’ جان بچا کر۔ ۔ ۔‘

’ بارش کے موٹے موٹے قطرے، پتھر بن کر۔ ۔ ۔  ‘

’ معصوم کیکڑے۔ ‘

’ قطعی نہیں ۔ ۔ ۔‘ بیحد سنجیدہ نظر آنے والے دانشور نے منطق کا حوالہ دیا ۔ ۔ ۔ ایسے بدنما، بدصورت، بد ہیئت اور اس گندے آکٹوپس کی چھوٹی قسم کو کیا نام دیں گے۔ یہ کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن معصوم نہیں ہو سکتا۔

وہ دیر تک سر جوڑے بے بنیاد، غیردلچسپ گفتگو میں الجھے رہے کہ کیکڑہ عالم وجود میں کیسے آتا ہے۔ کیکڑہ دیکھتا کیسے ہے ؟۔ کیکڑا زندہ کیسے رہتا ہے۔ کیکڑے کی زندگی کتنے دنوں کی ہوتی ہے۔ یا، کیکڑوں کے پاس زندگی کا تصور کیوں نہیں ہے۔ کیکڑے اپنی حفاظت کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے۔ وہ دیر تک سر جوڑے بیٹھے تھے کہ بادلوں کی اوٹ میں گم ہوتے سورج نے اِن کی تفریح طبع کے لئے بارش کی کچھ موٹی بوندیں آسمان سے بھیج دیں۔ کیکڑا کچھ لمحے تک تڑپا۔ پانی کے چھوٹے سے گڈھے میں ’ اچھلا‘ کودا۔ ۔ ۔ اوپر نیچے کیا۔ بارش ذرا تیز ہوئی تو چھوٹے سے گڈھے میں کیکڑے کی لاش تیر رہی تھی۔

وہ قہقہہ لگاتے ہوئے اُٹھے ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔’ جو اپنی حفاظت نہیں کر پاتے ہیں ‘

دوسرے نے جوڑا۔ ۔ ۔جو زندہ رہنا نہیں جانتے ہیں۔

تیسرا مسکرایا۔ ۔ ۔اور جو اقلیت میں ہوتے ہیں۔ ۔ ۔  اقلیت، وہ اس لفظ پر دل کھول کر ہنسا۔

’ ہم نے جو کچھ دیکھا، وہی اس کی زندگی تھی۔ یعنی بس اُتنی ہی زندگی، جتنی ہم دیکھ سکے۔ اُس نے ذرا سا ہاتھ پاؤں مارا اور ۔ ۔ ۔‘

’ اس کی لاش کا کیا کیا جائے۔ ‘ دانشور، سنجیدہ تھا۔ بارش سے گیلی ہوئی مٹی اُس نے دونوں ہاتھوں میں بھری۔ کیکڑے کے ’جسم ‘ پر ڈالی۔ عقیدت سے آنکھیں بند کرتے ہوئے بولا۔

’ رام نام ستیہ ہے۔ ‘

دوسرے نے تڑکہ  لگایا۔ ‘ جھوم کے بولو ستیہ ہے۔

’ ناچ کے بولو ستیہ ہے ‘

’ گا کے بولو ستیہ ہے۔ ‘

’ رام نام ستیہ ہے۔ ۔ ۔ ‘

بارش کی رم جھم جاری تھی۔ کپڑے بھیگ چکے تھے۔ چلتے چلتے ’ یہ کئی‘ ٹھہر گئے۔ پہلے نے دوسرے کو۔ ۔ ۔ دوسرے نے تیسرے۔ ۔ ۔  تیسرے نے چوتھے۔ ۔ ۔  یعنی سب نے ایک دوسرے کو باری باری سے دیکھا۔ ۔ ۔

پہلے کی آواز مدھم تھی۔ ۔ ۔  ’ رام نام۔ ۔ ۔ ‘

اس کے بعد کوئی کچھ نہیں۔ سب خاموش ہو گئے۔ اور اٹھ کر یونہی آوارہ گردی کے لیے نکل گئے ۔ ۔ ۔

               کالی رات، مہذب لوگ اور تجربہ گاہ

وہ مہذب لوگ تھے۔ وہ اتنے مہذّب تھے کہ اپنے مہذب ہونے کی دلیلیں دے سکتے تھے۔ اور اُن کی دلیلیں اتنی باوزن ہوا کرتی تھیں کہ اُن دلیلوں پر چپ چاپ لوگ سرجھکا لیا کرتے تھے۔

محترم قارئین، یہاں اُن بہت ساری سیاہ راتوں کا ذکر ضروری نہیں ہے، جو ’تجربے ‘کے لئے اُن کی لیبارٹری میں رکھی ہوئی تھیں۔ لیبارٹری۔ وہ تہذیب سے جڑی ہوئی ہر شئے کو اپنی تجربہ گاہ میں لے جاتے تھے۔ اُنہیں سائنس میں مکمل یقین تھا۔ ردرفورڈ  سے آئن اسٹائین اور گر اہم بیل سے نیوٹنس لاء کے بارے میں اُن کی معلومات خاصہ وسیع تھیں۔ جیسے وہ جانتے تھے کہ ہر ایک عمل کا اُس کے مساوی اور مخالف ایک ردّ عمل ہوتا ہے۔ مادّہ کے فزیکل اور کیمیکل ریئکشن پر اُن کی خاص نظر ہوا کرتی تھی۔ اور وہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم آج تک کی، اس سب سے زیادہ مہذب دنیا کے، سب سے زیادہ مہذب باشندے ہیں۔ اور یہ بات اُنہوں نے اپنی گرہ میں باندھ لی تھی کہ اِس مہذب دنیا کا اصول ہے، جو طاقتور ہیں، وہی زندہ رہیں گے۔ یعنی جو اقلیت میں ہیں، کیڑے مکوڑے یا کیکڑے وہ ویسے بھی مُردہ ہیں اور اُنہیں جینے کا کوئی حق نہیں۔

تو یہ مہذب لوگوں کی لیبارٹری تھی، جہاں یہ جاننے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی کہ تہذیب اور جنگوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یعنی جنگیں ہی وہ بیش قیمت زیور ہیں، جن سے ہمیشہ سے تہذیبوں کو آراستہ کرنے کا کام لیا جاتا رہا ہے۔

تو فرض کر لیتے ہیں، یہ وہی تھے جو انسانی فضا میں، انسانی گھر میں اور انسانی عمل کے دوران۔ ۔ ۔

اور فرض کر لیتے ہیں کہ وہ سابرمتی آشرم سے دلّی کے آشرم چوک تک کہیں بھی پیدا ہو سکتے تھے ۔ ۔ ۔

وہ ’کئی‘ تھے اور پچھلی کئی راتوں سے لیبارٹری کے لئے کام کر رہے تھے ۔ ۔ ۔

اور یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ وہ کوئی بہت دل سے اپنے کا م کو انجام نہیں دے رہے تھے۔ نہ اُنہیں مجبور کیا گیا تھا۔ بلکہ وہ ایک ’چھوٹے ‘ سے خوف کی بنیاد پر، کہ اس طرح مہذب لوگوں کی دُنیا سے اُنہیں ’دیش نکالا ‘مل سکتا ہے ۔ ۔ ۔ وہ اپنے ضمیر کی آواز پر اس کام کے لئے تیار ہو گئے تھے ۔ ۔ ۔

اور اس لئے بھی ۔ ۔ ۔ کہ ان میں سے سب کے پاس ایک خاندان تھا۔ ۔ ۔ خاندان میں ماں باپ تھے ۔ ۔ ۔بھائی بہن تھے۔ بیوی تھی اور بچے تھے۔ ۔ ۔

اور اس لئے بھی۔ ۔ ۔  کہ بچے معصوم ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔

اور اُن سے کہا گیا تھا۔ جو مضبوط ہوتے ہیں، بس اُنہیں ہی جینے کا حق ہوتا ہے۔ تہذیب کا فرمان بھی یہی ہے۔ اکثریت کی آواز بھی یہی۔ ۔ ۔ اور اقلیتوں کو۔ ۔ ۔

اُنہیں چانکیہ کے اشلوک پڑھائے گئے تھے۔ ۔ ۔

दूरर्जनस्थ च सर्पस्य वरं सर्पो न दुर्जनः।

सर्पो दृशति काले तु दुर्जनस्तु पदे पदे॥

 (بُرے انسان اور سانپوں میں اگر موازنہ کیا جائے تو سانپ بہتر ہے کیونکہ سانپ اُسی وقت ڈستا ہے جب موت آتی ہے اور انسان تو قدم قدم پر ڈستا رہتا ہے ۔ ۔ ۔)

اور اُنہیں بتایا گیا، اس سے پہلے کہ وہ آپ کو ڈسیں، آپ کی تہذیب کو۔ آپ۔ ۔ ۔

***

وہ کئی تھے ۔ ۔ ۔

اور کئی ‘ گیس کے سلنڈروں سے بھرے ٹرک پر ’لد‘ کر ساری رات تہذیب کے نام نئی نئی فنتاسی کو جنم دیتے رہے۔ یعنی ایسی فنتاسیوں کو جن کے تذکرے نہیں ہو سکتے۔ جن پر گفتگو نہیں ہو سکتی۔ زندہ معصوم بچوں کو نئے نئے دلچسپ طریقوں سے آگ میں زندہ جلانے سے لے کر، آبروریزی اور حاملہ عورتوں کی کوکھ میں ہاتھ ڈال کر۔ ۔ ۔

نہیں جانے دیجئے۔ فنتاسی لفظوں کا لباس اوڑھ لے تو ذائقہ جاتا رہتا ہے۔

آپ ایسا کیجئے۔ آپ خود ہی اچھی سی فنتاسی گڑھ لیجئے۔ کیونکہ آپ نے ایک طرف جہاں ’ اتہاس‘ کے قصے پڑھے ہیں، وہیں ہٹلر، مسولینی، چنگیز خاں اور نریندر مودی کے نام بھی سُنے ہیں۔ آپ بابر سے بابری مسجد تک سب کچھ جانتے ہیں ۔ ۔ ۔

اس لئے ذائقہ دار فنتاسیاں گڑھ لیجئے۔ جس قدر چاہیے ’ رس‘ یا ’گھول‘ ملا لیں۔ آپ کی مرضی۔ ۔ ۔

***

محترم قارئین،

وہ کئی تھے ۔ ۔ ۔

اور وہ وہی تھے جو سابرمتی آشرم سے دلّی آشرم چوک تک۔ ۔ ۔

اور وہ وہی تھے جو انسانی فضا، انسانی گھر اور انسانی۔ ۔ ۔

***

سب کچھ آناً فاناً ہو گیا تھا۔ ۔ ۔

پچھلے کئی دنوں سے وہ ’ تہذیب‘ کو بچانے میں لگے تھے۔ اور آپ جانتے ہیں، تہذیبوں کی حفاظت میں ایسی ہزاروں جانوں کا نقصان تو ہوتا ہی ہے ۔ ۔ ۔ ہزاروں جانیں لی گئی تھیں۔ وہ بھی ہزاروں طریقوں سے ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ اُس گھر میں جو کچھ ہوا، وہ نیا تھا۔ ایک اکثریتی فرقہ کے شخص نے اقلیتی فرقہ کے کچھ لوگوں کو ’ پناہ‘ دی تھی، کہانی بس یہیں سے پیدا ہوئی تھی۔

         وہ بس اُس آدمی کو دیکھ رہے تھے جو گھگھیائی ہوئی آواز میں اِن لوگوں کو دیکھ کر چیخ پڑا تھا۔

’ مجھے نہیں۔ میں تو اکثریت۔ ۔ ۔ ‘

’ اکثریت! ‘

’ ہاں۔ میری متی ماری گئی تھی۔ ۔ ۔ ‘ وہ پاگلوں کی طرح چیخا۔ ۔ ۔یہ میری بیوی ہے یہ بہن۔ یہ بیٹی ہے۔ اور یہ بیٹا۔ یہ سب میرے ہیں۔ ہاں اُنہیں۔ انہیں لے جاؤ۔ جو بھی کرنا ہے کرو۔ کرو۔ میری متی ماری گئی تھی۔ میں بیوی کے بہکاوے میں آگیا تھا۔ دوست ہے۔ بچا لو۔ میں گھر لے آیا۔ مجھے کیا معلوم تھا۔ وہ چاروں۔ ۔ ۔  لے جاؤ۔ ۔ ۔  لے جاؤ۔ ۔ ۔  ‘ وہ اپنے گھر کے لوگوں کو ایسے گھیر کر کھڑا تھا، جیسے چڑیا انڈے سیتی ہے۔ اُس کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ بدن ڈول رہا تھا۔ آواز میں گھبراہٹ تھی۔ بیوی، بہن، اور بچوں کی حالت بھی وہی تھی۔

’ تم نے بچایا کیوں ؟‘

’ میں نے کہا نا۔ بیوی نے۔ ۔ ۔ ‘

’ میں نے نہیں۔ ‘ بیوی چیخی۔ جھوٹے ہو تم۔ ‘

’ م۔ ۔ ۔  م۔ ۔ ۔  میری بیٹی نے۔ ۔ ۔ ‘

’ خیر جو بھی ہو۔ ‘ یہ کئی ‘ اُن کی طرف گھومے۔ وجہ جو بھی ہو لیکن تم نے بچانے کی کوشش کی۔ اس لئے کہ۔ ۔ ۔  دوست!

’ میں نے کہا نا متی ماری گئی تھی۔ ‘

’ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ اقلیت ہے۔ ‘

بیوی نے بیٹی کو ایک گندی سے گالی بکی ’ وہ اُس کے ساتھ پڑھتی ہے۔ اس لئے دوست لگتی ہے۔ ‘

دوست کوئی نہیں ہوتا۔ ‘ دانشور سنجیدہ تھا۔ دوستی برابر والوں میں ہوتی ہے۔ اکثریت کی اکثریت سے اور۔ ۔ ۔ ‘

’ ہمیں چھوڑ دو۔ ۔ ۔  چھوڑ دو۔ ۔ ۔  انہیں لے جاؤ۔ ۔ ۔ ‘

دانشور نے اقلیت کے چاروں گنہگاروں کی طرف دیکھا۔ وہ سچ مچ ایک لاش بن گئے تھے۔ چہرے سپید پڑ گئے تھے جسم میں خون نہیں۔ چاروں مذبح کے جانوروں کی طرح اُداس کھڑے تھے۔ یعنی کس کی باری پہلے آتی ہے۔ پھر کس کی باری۔ ۔ ۔

دانشور نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا۔

’ باہر آؤ۔ ‘ اُس نے گھر کے لوگوں کو غصے میں اشارہ کیا۔ باہر کوئی نہیں بھاگے گا۔ جو جیسے ہے۔ جس حال میں ہے، ویسے ہی۔ میرا مطلب۔ ۔ ۔

اکثریت والا اب بھی چلاّ رہا تھا۔ انہیں لے جاؤ۔ ۔ ۔  میری تو متی ماری گئی تھی۔

***

یہ کئی ‘ اب باہر تھے۔ باہر ‘ ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے۔

’ دیکھو۔ ۔ ۔‘ دانشور سنجیدہ تھا۔ ذرا سوچو۔ یہ ایک بے حد حسین تجربہ ہو گا، یعنی اس سے پہلے جتنے تجربے ہم کر چکے ہیں، یا ہم کریں گے۔ یا ہم کرنے والے ہیں۔ ‘

سب نے ایک دوسرے سے کانا پھوسیاں کیں۔ پھر پُر امید ہو گئے۔

’ اب کیا ارادہ ہے ! ‘ ۔ ۔ ۔دانشور جلد از جلد اپنی ’پیاس‘ کو انجام دینا چاہتا تھا۔

’ باس۔ مکان مالک کا کیا کیا جائے۔ ‘

’ وہ تو اکثریت کا۔ ۔ ۔ ‘ پہلا بولتے بولتے ٹھہر گیا۔

دانشور غصے میں بولا۔ پریشانی اب ایسے ہی لوگوں سے پیدا ہوئی ہے۔ ایسے ہی لوگ۔ ۔ ۔  یہی لوگ ہمارے اب تک کے تجربے کو ناکام کرتے رہے ہیں۔ ‘

’ تو سب سے پہلے۔ ۔ ۔ ‘

دانشور نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ ’’ساری باتیں یہیں کر لو گے کیا۔ کچھ اُن لوگوں کے لئے چھوڑو۔ اُنہیں معلوم ہونا چاہئے۔ اُن کے ساتھ کچھ لمحوں میں، آنے والے کچھ لمحوں میں کیا ہونے والا ہے۔’‘

اگلے ہی لمحے، یہ لوگ اندر تھے ۔ ۔ ۔ سامنے اکثریت اور اقلیت کے سہمے ہوئے 9افراد ان کے فیصلے کے منتظر تھے۔

’ آہ، فنتاسی۔ ‘ دانشور چلاّیا۔ دوسرے ہی لمحے اُس کی آواز بدل گئی۔ ۔ ۔ تہذیب ہر بار انصاف کرتی ہے۔ جیسے کوتیا۔ یہ تہذیب کا اصول ہے۔ یہ، یہ بہت زیادہ چلاّ رہا تھا۔ اس کے منہ میں تیزاب کے قطرے ٹپکاؤ۔ تیزاب کے قطرے۔ ۔ ۔  آہ، اور اُس کی بیوی۔ وہ بہت تیز بولتی ہے۔ مرچی کی طرح۔ پہلے اُس کے جسم پر، آنکھوں میں مرچی کے پاؤڈر ڈالو۔ ۔ ۔ بیٹی نے بچانے کی کوشش کی تھی۔ ہے نا۔ ایک بیحد پیاری عمر۔ اور اس عمر میں ایک بیحد پیارا چہرہ۔ جیسا ہونا چاہئے ۔ ۔ ۔ اسے بانٹ لو۔ ایسا کرو۔ دونوں بچیوں کو بانٹ لو۔ اِن کے سامنے۔ تفریح کرو۔ ۔ ۔ اِن میں سے کوئی کچھ نہیں بولے گا۔ جسم تفریح کے لئے ہوتا ہے۔ کمسن کے گوشت زیادہ ذائقہ دار ہوتے ہیں۔

’ اور ۔ ۔ ۔ اقلیت والوں کے لئے باس۔ ‘

ایک بار میں ایک فنتاسی۔ ان کے لئے کچھ الگ سوچتے ہیں۔ سب سے پہلے اُس سنپولئے کو۔ اس کا بھیجا اُڑا دو۔ اقلیتی طبقے کا سنپو لیا خطرناک ہوتا ہے۔ حرامی۔

بچے نے تھوک دیا تھا۔

پہلے نے ریوالور تان لیا۔ ۔ ۔اور اس درمیان ایک گندی گالی بکتا ہوا اکثریت کا بچہ سامنے آگیا تھا۔

’’ تو بھاگ جا۔ ۔ ۔‘‘

’ دھائیں۔ ‘

دوسرا بچہ ایک لمحے کے لئے دوسرے کمرے میں پھر۔ ۔ ۔  رہو گیا۔ گولی دوسرے بچے کے سینے پر لگی تھی۔ سینے سے خون کے فوّارے چھوٹ پڑے تھے۔ کوئی بھی نہیں چیخا۔ ۔ ۔

سب جیسے اس کھیل کے خاتمے سے پہلے ہی انجام‘ کو جان چکے تھے۔

دانشور نے کھیل کا طریقہ سمجھایا۔ ۔ ۔ اِسے پنکھے سے لٹکا دو۔ اُس کی ساڑی ہٹاؤ۔ پہلے بلیڈ سے وہاں تک۔ ۔ ۔  پھر۔ ۔ ۔‘ اُس نے بچیوں کو جلتی آنکھوں سے دیکھا۔ ۔ ۔یہ نئے کپڑے کی طرح ہیں۔ قینچی سے کبھی نئے کپڑے کو کاٹا ہے۔ ان کی چھاتیاں۔ ۔ ۔ ‘ وہ مسکرا رہا تھا۔ بلیڈ گھماتے ہوئے ‘ تم ایک عجیب سے نشے میں ڈوب جاؤ گے۔ ‘

تو یہ کمرہ اب ایک لیبارٹری تھا۔ تجربے چل رہے تھے۔ نئے نئے تجربے ۔ ۔ ۔ موت۔ عورتیں اور مرد۔ ۔ ۔ جوان بچیاں اور فنتاسی۔ ۔ ۔ زندگی اور ایڈونچر۔ ۔ ۔ زمین پر ایک گھنٹے کی تفریح کے بعد آٹھ لاشیں سجی تھیں۔

’ حکم باس۔ ‘ پہلا آہستہ سے بولا۔

یہ طے تھا کہ سب تھکن سے چور ہو گئے تھے۔

’ ابھی آخری فنتاسی باقی ہے۔ یعنی آخری تجربہ۔ دونوں مرد کی لاش چھوڑ دو۔ باقی گھسیٹ کر اندر لے جاؤ۔ ہم ایک نیا تجربہ کریں گے۔ ‘

’ ان کے عضو تناسل کاٹ دو۔ ‘ دانشور سنجیدہ تھا۔ اور تم۔ ۔ ۔ تم سلائی جانتے ہو نا۔ ماڈرن ٹیلرس کے بچے۔ کپڑے سیتے سیتے انگلیاں ٹیڑھی ہو گئیں تیری۔ ‘

’ حکم۔ ۔ ۔  حکم باس ‘

’ ان کے عضو تناسل بدل دو۔ ‘

’ مطلب۔ مطلب باس۔ ‘

’’اِن سالے سوکالڈ۔ ۔ ۔ ‘ اُس نے پھر گندی سی گالی بکی ۔ ۔ ۔ ان سالوں کو بتانا ہے اب۔ سمجھانا ہے ۔ ۔ ۔ دھرم کو کھیل سمجھنے والوں کو مزہ چکھانا ہے ۔ ۔ ۔یہ، جو ہر بار ہمارے تجربوں کو۔ ۔ ۔ اُس نے پھر گالی کا سہارا لیا۔ ۔ ۔ اچانک چونکا۔ ۔ ۔ یہ آوازیں سن رہے ہو۔ ہمارے دوسرے ساتھی یہاں پہنچنے ہی والے ہیں ۔ ۔ ۔ اُنہیں دیکھنے دو کہ ایسے لوگوں کے پاس نہ اپنا دماغ ہوتا ہے، نہ عضوِ تناسل۔ اب آپریشن شروع کرو۔ ۔ ۔‘

آپریشن شروع ہو گیا۔

پھر ٹیلر ماسٹر نے جیب سے قینچیاں، فیتے اور بلیڈ کا پیکٹ نکال دیا۔ وہ ایک منجھے ہوئے درزی کی طرح بدن کے ’چادر‘  کولے کر بیٹھ گیا۔ ۔ ۔ چمڑے کی جھلّی، جو نئے انسانی وجود کے لئے زندگی کا امرت بن جاتی ہے۔ فنکاری اور صفائی سے بدل دی گئی تھیں۔ ٹیلر ماسٹر نے انتہائی مہارت سے اپنا کام انجام دیا تھا۔ ساتھیوں نے شاباشی دی۔ کندھے تھپتھپائے۔ دونوں لاشیں۔ باہر مین گیٹ پر ٹانگ دی گئیں ۔ ۔ ۔‘

تجربہ کامیاب تھا۔

مگر کھیل اب شروع ہوا تھا۔ ۔ ۔

تہذیب کے پیامبر ڈھول، تاشہ بجاتے آتے۔ عضو تناسل کو دیکھتے۔ گندی گالیاں بکتے پھر گزر جاتے ۔ ۔ ۔ وہ دیر تک بلکہ  کہنا چاہیے کئی گھنٹے تک اس کھیل سے مستفیض ہوتے رہے۔ چلتے وقت دانشور نے قہقہہ لگا کر کہا۔

’ صرف بدن کی ایک چمڑی بدل دینے سے۔ تم سب سمجھ رہے ہونا۔ ۔ ۔ آہ، کیا کیا دلکش کھیل تھا۔ ’ آہ، اس کھیل کو ہم بہت دن تک بھول نہیں پائیں گے۔ اور ہمیں اُس۔ اُس مکاّر مکان مالک کو اُس کے کئے کی سزا بھی دینی تھی۔ اب اُس کی لاش دیکھو۔ اُس کی لاش کی تکا بوٹی ہو چکی ہے۔ جبکہ اقلیت کی لاش۔ ‘

’ باس ‘ اُس پر تو پھول مالائیں چڑھی ہیں۔ ‘

’ اب چلو، اس کھیل کا سرور تا زندگی قائم رکھنا ہے۔ ‘

وہ جھومتے ہوئے نشہ کی حالت میں آگے بڑھ گئے۔

***

               بچہ اور زندگی

’ تمہیں وہ بچہ یاد ہے ‘

’ بچہ ؟ ‘

’ باس، وہ اقلیت کا بچہ، ہم تو اُس بچے کو بھول ہی گئے۔ ،

’ اُسے بچانے مکان مالک کا بچہ آگیا تھا۔ ‘

’ پھر ہم کھیل میں الجھ گئے۔ ‘

’ اور بچہ بھاگ گیا۔ ‘

’ وہ بچہ کہاں جاسکتا ہے ۔ ۔ ۔؟‘ دانشور کی آنکھوں میں چمک لہرائی۔

’ اُس کی نیلی نیلی آنکھیں ‘ پہلا مسکرایا۔ تمہیں اُس بچے کی یاد ہے۔ اُس کے چہرے پر ذرا بھی ڈر یا گھبراہٹ نہیں تھی۔ ‘

’ اُس کے ہونٹ‘ دوسرا کہتے کہتے ٹھہرا۔ ۔ ۔

’ بولو۔ ۔ ۔  بولو۔ ۔ ۔ ‘ دانشور کی آنکھیں مند گئی تھیں۔

’ کھٹّے کھٹے بیر جیسے تھے۔ اور پیار ے۔ ‘

’ اُس کا چہرہ۔ ‘ تیسرے نے اپنے خیال کا اظہار کیا۔ ۔ ۔ یقیناً وہ ایک بہت خوبصورت بچے کا چہرہ کہا جاسکتا ہے۔ ‘

’ وہ کہاں چھپا ہو گا؟‘ دانشور کو اپنی غلطی پر غصہ آ رہا تھا۔

’ اُسے چھوڑ نا مناسب نہیں ہے۔ ‘

’ اُسے مارنا۔ ۔ ۔ ‘ پہلا کہتے کہتے ٹھہر گیا۔ ۔ ۔

دانشور نے حیرانی سے پوچھا۔ ۔ ۔ ’ کہیں تم سب اُس بچے پر رحم تو نہیں کر رہے۔ ‘

’ نہیں باس۔ قطعی نہیں۔ ‘

’ مگر کیا اُسے مارنا۔ ۔ ۔ ‘

دانشور غصے میں گھوم گیا۔ مطلب۔ ’ تم لوگ کہنا کیا چاہتے ہو؟

’ بچہ ہے۔ ‘

’بچے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ ‘

’ کیوں نہ ہم اُسے اکثریت کا بنا دیں ؟‘

’ اکثریت۔ ۔ ۔؟ ‘ دانشور چونک گیا تھا۔

’ ہاں۔ دھرم پریورتن۔ بچہ تو پانی ہوتا ہے۔

دانشور کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔ ابھی زیادہ گھنٹے نہیں ہوئے۔ بچہ بھوک پیاس سے بے حال ہو رہا ہو گا۔ وہ یقیناً چھپا اور زندہ ہو گا۔ ہمیں بچے کو تلاش کرنا چاہنے۔

’ اور بچانا بھی۔ ‘

پہلا ابھی بھی مطمئن نہیں تھا۔ کیا وہ وہاں موجود ہو گا۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے۔ ۔ ۔ ‘

دانشور نے پُر امید لہجے میں کہا۔ فضول کی باتیں نہیں۔ ہم اس مدعے پر بہت باتیں کر چکے ہیں۔

’ بچے کی زندگی ضروری ہے ‘ ۔ ۔ ۔ ٹیلر ماسٹر نے لمبی سانس لی۔

’ ہاں، اُس کی زندگی بیش قیمت ہے ‘ ۔ ۔ ۔یہ پہلا تھا۔

اُس کی زندگی سے، یعنی اب کی زندگی سے۔ نئی زندگی سے بہت کام لینے ہیں ‘۔ یہ دانشور تھا۔

***

محترم قارئین!

تو یہ سارا کچھ اُس چھوٹے سے بچے کے لئے ہوا۔ ۔ ۔ اُس چھوٹے سے آٹھ سالہ بچے کے لئے، جس کی آنکھیں نیلی تھیں، چہرہ خوبصورت تھا اور جس کا تعلق اقلیت سے تھا۔ تو یہ سب کچھ اُس چھوٹے سے بچے کے لئے ہوا، جس کے لئے اکثریت کے بچے نے، بچاتے ہوئے اپنی جان دے دی اور جو تہذیب کی اس جنگ کے دوران جان، بچانے کے لئے اپنے گھر میں ہی  لا پتہ ہو گیا تھا۔ اور یقیناً ایسے بچے کو بچانا ایک اہم فریضہ تھا۔ اور جیسا کہ دانشور نے سوچا، تہذیب کے عروج کے لئے، مذہب کوہی واحد ہتھیار کے طور پر سوچا جاسکتا ہے۔ بچے کا دھرم پریورتن ہو جائے تو۔ ۔ ۔

اور یقیناً یہ ساری جنگ تہذیب کے لئے، تہذیب کے نام پر لڑی گئی تھی۔ اور اُن کے سوچنے کا پڑاؤ وہی گندہ نالہ یا تالاب تھا، جہاں اُنہیں وہ کینکڑا ملا تھا۔ ۔ ۔ یا بلوں سے نکلتی برساتی کالی چیونٹیوں کو انہوں نے پاؤں تلے روند دیا تھا۔

وہ دوبارہ جلے ہوئے مکانوں اور جلی ہوئی شاہراہوں سے گزرتے ہوئے اُس مکان تک پہنچ چکے تھے۔ آسمان پر کووّں اور گدّھوں کی اُڑان دور تک دیکھی جاسکتی تھی۔ ۔ ۔  ابھی بھی آس پاس کئی مکانوں سے دھوئیں نکل رہے تھے۔

’ بچے طاقتور ہوتے ہیں۔ ‘

دانشور مسکرایا ۔ ۔ ۔ ہاں ‘۔

’ اوراسی لئے بچے سب کچھ سہہ لیتے ہیں۔ عذاب، بارش اور جنگ!‘

’ ہاں۔ ‘

’ بچے مرتے نہیں ہیں ‘

’ ہاں ‘

’ بچے مر کر بھی نہیں مرتے ہیں، دانشور پھر مسکرایا۔ ’اُسے آواز لگاؤ۔ کھوجو‘

’ لیکن ہم پکاریں گے گیا؟

’ ہاں یہ مسئلہ تو ہے۔ ‘

’ بچہ۔ ہم اُسے بچہ کیوں نہیں کہہ سکتے ‘

’ بچے تو سب ہوتے ہیں۔ ۔ ۔  اکثریت۔ ۔ ۔  ‘ پہلا کہتے کہتے ٹھہر گیا۔

دانشور کا چہرہ بجھ گیا تھا۔ ’ نہیں ‘ اُسے بچہ کہہ کر آواز لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔

’ پھر ۔ ۔ ۔؟‘

’ پھر۔ سوچتے ہیں۔ ‘

’ اُس کی آنکھیں نیلی تھیں ‘

’ ہاں۔

’ بال بھورے تھے۔ ‘

’ ہاں۔

’ نیلی آنکھوں والا بچہ؟ ‘

’ یہ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ ‘

’ بھوری آنکھوں والا ۔ ۔ ۔؟ ‘

یہ بھی نہیں ‘

وہ شاہزادے جیسا دکھتا تھا؟ کیا شاہزادہ کہہ کر۔ ۔ ۔ ‘

’ نہیں۔ ‘ دانشور سنجیدہ تھا۔ ۔ ۔ اقلیت پر شہنشاہیت برسوں پہلے ختم کر دی گئی۔ نہ تاج نہ تخت۔ ۔ ۔ نہ بادشاہ۔ ۔ ۔ نہ شہزادے۔ ۔ ۔ ‘

’ لیکن اب تو وہ ہمارے ہو رہے ہیں۔ یعنی دھرم پریورتن۔ ۔ ۔ ‘

’ اس کے باوجود نہیں۔ ‘

پھر ۔ ۔ ۔ ؟‘

       ’دانشور فیصلہ کر چکا تھا۔ اقلیت۔ یہ نام بہت ہے۔ چلو، ہم اُسے اسی نام سے پکارتے ہیں۔ ‘

’ اُس نے کسی فوجی کی طرح کمانڈر‘ کا رول نبھاتے ہوئے کہا۔ ’ ایسا کرو۔ تم اس طرف۔ تم اُس طرف۔ ایک میرے پیچھے پیچھے آئے۔ ۔ ۔  اور۔ ۔ ۔  ‘

باس، الگ الگ ہٹ کر ہم کمزور نہیں ہو جائیں گے ۔ ۔ ۔ ٹیلر ماسٹر کی آنکھوں میں چمک تھی۔

’ پوائنٹ‘

’ اس طرح تو بچہ ہم پر حملہ بول سکتا ہے۔ وہ آٹھ سال کا ہے۔ آٹھ سال کے بچے کا دماغ انتہائی شیطان کا اور سازش سے بھرا ہوتا ہے۔ ‘

’ پوائنٹ‘

’ سب ایک ساتھ رہتے ہیں۔ بچہ سب کو ایک ساتھ دیکھ کر ڈر جائے گا۔ ‘ یہ بھی ٹیلر ماسٹر تھا۔ ۔ ۔

’ بچے کو ڈرانا نہیں ہے ۔ ۔ ۔بچانا ہے ۔ ۔ ۔‘ دانشور کا چہرہ غصے سے پیلا پڑ گیا۔ چلو دیر مت کرو۔ تلاش کرتے ہیں۔ اقلیت۔ ۔ ۔  اقلیت۔ بیٹے۔ ۔ ۔ ؟

’ اقلیت۔ ۔ ۔  ‘

’ میرے اقلیت۔ ۔ ۔ ‘

’ اقلیت ڈارلنگ۔ ۔ ۔ ‘

وہ بچے کو تلاش کر رہے تھے۔ گھر کی کوئی شئے سلامت کہاں تھی۔ زمین سے قالین، دیوار سے لے کر کمرے اور کمرے کے مہنگے سامان۔ ۔ ۔لاش کی ہڈیاں کتّے، گدھ اور کوّے کھا چکے تھے۔ سامانوں کے جنازے بکھرے تھے۔ ۔ ۔  ٹوٹے ہوئے کھنڈر میں ان کی ملی جلی آوازیں باز گشت کر رہی تھیں۔

’ اق۔ ۔ ۔  لیت۔ ۔ ۔ ‘

’ میرے بچے اقلیت۔ ۔ ۔

’ یہاں تو کوئی نہیں ہے۔ ‘

’ اوپر۔ اوپر دیکھتے ہیں۔ ‘

’ بالائی منزل کی سیڑھیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ ‘

دانشور کی چیخ نکل گئی۔ ۔ ۔ ’ سنبھل کر آنا‘۔

پہلا چیخا۔ ’ سربچاؤ۔

چھت کا ایک چھوٹا سا حصہ بھڑ بھڑا کر تیز آواز کے ساتھ گرا۔ ۔ ۔

دانشور مطمئن تھا۔ بچہ اوپر نہیں ہو سکتا۔ ‘

دوسرے کا خیال تھا۔ چھت بُری طرح بیٹھ چکی ہے۔ یعنی ایک کوّا بیٹھنے کے تصور سے بھی۔ ۔ ۔ بچہ کا چھپنا تو دور کی چیز ہے۔ ‘

’ کیا بچہ اسی گھر میں ہو گا۔ ؟ ‘ ٹیلر ماسٹر نا امید تھا۔ ۔ ۔’ یعنی وہ بھاگ کر کہیں اور بھی تو پناہ لے سکتا ہے۔ کہیں اور۔ ۔ ‘

دانشور مطمئن تھا۔ ’ بچہ کہیں اور پناہ لے ہی نہیں سکتے۔ ‘

’ کیوں ؟۔ ‘

’ کیونکہ آندھی تیز تھی۔ درخت سارے گر گئے تھے۔ ‘

دانشور اپنے جواب سے مکمل طور پر مطمئن تھا۔ ایسی صورت میں بچے کے سامنے اس کھنڈر میں چھپنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا ہے۔ ‘

’ آگے اندھیرا ہے۔ ‘

’ ٹارچ۔ ٹارچ نکالو۔ ‘

اُن میں ایک نے جیب میں ہاتھ ڈال کر ٹارچ نکالا۔ ٹارچ نکالتے ہوئے پھپھسایا ۔ ۔ ۔’’ سنتے ہیں، کچھ ملک ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں رات ہی رات ہوتی ہے، دن نہیں ہوتے۔ ‘

’ ہاں۔ ‘

’ باس یہاں بھی کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔ ‘

دانشور کا  لہجہ غصے سے بھرا تھا۔ ۔ ۔ ’ ہم ایک نیک مقصد کے لئے ۔ ۔ ۔سمجھ رہے ہونا، بچے کو بچانے کے لئے۔ ،

’ وہ زندہ ہوتا تو ہماری آواز ضرور سنتا۔ ‘

’ وہ زندہ ہے اور یقیناً ہماری موجودگی سے گھبرایا ہوا ہے۔ ‘

’ اقلیت۔ ۔ ۔  ‘

’ اقلیت بیٹے۔ ۔ ۔ ‘

مائی ڈارلنگ اقلیت،

آواز لگاتے ہوئے، وہ ایک بار پھر آگے بڑھ رہے تھے۔ آگے، ٹوٹے ہوئے کھنڈر کے ملبے میں ۔ ۔ ۔ دروازے، کھڑکیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے۔ کہ اچانک۔ ۔ ۔

’ کوئی ہے۔ ‘ آواز گونجی

’ ٹارچ۔ ‘

’ کوئی ہے ۔ ۔ ۔‘ دانشور اندر ہی اندر خطرے کے سائرن ‘ کے طور پر کانپ گیا تھا۔ پہلے نے ٹارچ جلایا۔ ۔ ۔‘

دوسری آواز اٹھی۔ ۔ ۔ بچہ ہے۔ ‘

’ کہتا تھا، نا۔ ۔ ۔ ‘

ٹارچ کی روشنی ٹوٹے ہوئے لاہوری اینٹے، بھربھرائی مٹی سے ہوتی ہوئی بچے کے چہرے پر ٹھہر گئی ہے۔ ۔ ۔

’ باس۔ ۔ ۔  ‘

ٹیلر ماسٹر نے چیخ کر کیا۔ ۔ ۔’ باس بچہ ہی ہے۔ ‘

’ اوہ گاڈ۔ ‘

دوسری آواز آئی۔ ’ بچے کی نبض دیکھو۔ ‘

’ کوئی ضرورت نہیں باس‘۔

ٹیلر ماسٹر کی آواز گونجی۔ ۔ ۔ ’ بچے کی پیٹھ  میں گولیاں لگی ہیں ‘۔

پہلے نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔ ۔ ۔ بچہ مر چکا ہے۔

دوسرا ٹارچ کی روشنی میں بھیانک بدبو دیتے ہوئے بچہ کی لاش پر جھک گیا۔ ’بچہ کو مرے ہوئے کافی عرصہ گزر چکا ہے۔‘

***

محترم قارئین!

کہانی ختم ہو چکی ہے۔ لیکن یقیناً کچھ باتوں کا قیاس لگایا جاسکتا ہے۔ جیسے لوٹتے وقت یہ بہت مایوس رہے ہوں گے۔ ممکن ہے بچے کو نہیں بچا پانے کی صورت میں۔ یا اس سے زیادہ، ممکن ہے، دھرم پریورتن کے خیال کو عملی جامہ نہ پہنا پانے کی صورت میں ۔ ۔ ۔ یا ممکن ہے۔

کوئی اچھا سا قیاس آپ بھی کیوں نہیں لگا لیتے۔

لوٹتے ہوئے ان کے چہرے جذبات سے عاری تھے اور ایسے چہروں کا فائدہ ہے کہ آپ کچھ بھی قیاس لگا سکتے ہیں۔

لیکن قارئین، سب سے ضروری جو بات ہے، وہ یہی ہے۔ کہ یہ وہی تھے جو سابر متی آشرم سے دلّی کے آشرم چوک تک۔ ۔ ۔

اور جو انسانی فضا میں، انسانی گھر میں۔ انسانی کمرے میں۔ ۔ ۔  اور انسانی عمل کے دوران۔ ۔ ۔ کیا اب بھی آپ کو یقین نہیں ہے کہ یہ ’ کئی‘ کبھی پیدا بھی ہوئے ہوں گے ۔ ۔ ۔!

٭٭٭

 

بیٹی

(اپنی بٹیا صحیفہ کے لئے، کہ یہ کہانی بھی اُسی کے تصور سے پیدا ہوئی تھی)

               خوف

بیٹی باپ سے ڈرتی تھی، اس کے برخلاف ماں کو اپنا دوست سمجھتی تھی۔ ۔ ۔

ماں بیٹی سے ڈرتی تھی، اس لئے کہ بیٹی دنوں دن تاڑ جتنی لمبی ہوتی جا رہی تھی۔ ۔ ۔

باپ کو بیٹی سے بالکل ڈر نہیں لگتا تھا۔ اس لئے کہ باپ مصروف رہتا تھا۔ ۔ ۔ اس لئے کہ باپ کا زیادہ سے زیادہ وقت اپنے کاروباری قسم کے لوگوں کے پاس گزرتا تھا۔ ۔ ۔  اور اس لئے کہ بہت تھوڑے سے وقت میں، جو باپ اکثر اپنی بیٹی کے لئے چرا لیا کرتا تھا، اور باپ یہ لمحے اپنی بیٹی کے ساتھ ہی گزارنا پسند کرتا تھا۔ ۔ ۔ یہ اور بات تھی کہ یہ لمحے سال میں کبھی کبھی ہی باپ کو میسر آتے تھے۔ ۔ ۔

***

بیٹی کی مٹھیوں میں راتیں دبی ہوتی تھیں۔ ۔ ۔

بیٹی کی مٹھیاں اکثر تنہائی میں کھل جایا کرتی تھیں۔ ۔ ۔  اور نیلے آسمان سے اتری راتیں خاموشی سے اس میں سما جایا کرتیں۔ ۔ ۔

پھر یہ راتیں چپکے چپکے اسے چھیڑنے پر آمادہ ہو جاتیں۔ ۔ ۔

سنو۔ ۔ ۔

وہ جیسے نشے میں ڈوبی آنکھیں لئے کسی اور دنیا میں گم ہو جاتی۔ ۔ ۔

نیلے آسمان سے اتری راتوں میں شوخیاں سما جاتیں۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ اب تم ویسے نہیں ہنستی ہو جیسے۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ جیسے ؟

ہاں، اب تم ویسے، پہلے کی طرح نہیں رہتی، جیسے۔ ۔ ۔

تم بدل رہی ہو۔ ۔ ۔

سُبک مسکراہٹ، فلک سے عربی نغموں کی سواریاں لے کر آ جاتیں۔ ۔ ۔

تم بہت بدل گئی ہو۔ ۔ ۔  کیا نہیں۔ ذرا اپنے آس کی ہواؤں کو دیکھو۔ ۔ ۔  باغوں کو۔ ۔ ۔ دریا کو۔ ۔ ۔ دریا میں ہولے ہولے تیرتی کشتیوں کو۔ ۔ ۔  کشتیوں کے کھلے، ہوا میں لہراتے بادبان کو۔ ۔ ۔ پھولوں کو، خوشبو کو۔ ۔ ۔  اپنے اطراف اٹھی ہوئی عمارتوں کو۔ ۔ ۔ اور اپنے اردگرد منڈلاتے بھونروں کو۔ ۔ ۔

’بھونروں کو۔ ۔ ۔ ‘ وہ چونک گئی۔

نیلے آسمان میں اترتی راتیں اچانک سہم گئی تھیں ۔ ۔ ۔ سب کچھ نیا، ہے نا۔ بالکل تمہاری عمر کے گھوڑے جیسا۔ ۔ ۔ ایرانی گھوڑے جیسا۔ ۔ ۔ شکر کرو کہ ابھی اس بارے میں تمہارے گھر والوں کو پتہ نہیں ہے۔

پھر کیا ہو گا۔ ۔ ۔ ؟

وہاں ایک سویا، سویا سا ڈر جاگ جائے گا اور۔ ۔ ۔

اور کیا؟

گھر کی آنکھوں نے ابھی تمہارے جسم کی سرگوشیاں نہیں سنی ہیں ۔ ۔ ۔ پھر۔ ۔ ۔  پھر وہ اچانک بے چین ہو جائیں گی۔ ۔ ۔  اور تم۔ ۔ ۔  قید کر دی جاؤ گی۔

رات کا سناٹا۔ ۔ ۔  گہرا سناٹا۔ ۔ ۔

بیٹی نے ہولے سے جھولتے ہوئے، جھولے پر سے ایک پھول توڑ لیا۔ پھول بالوں کے گچھے میں لگا لیا، اور لہراتی ہوئی کسی خیال میں گم ہو گئی۔

تیزی سے آتے ہوئے باپ نے یہ منظر دیکھ لیا تھا۔

باپ الٹے پاؤں واپس لوٹ گیا تھا۔ ۔ ۔

***

باپ حیرانی سے آئینے کے سامنے کھڑا تھا۔

باپ کو اپنا ’زمانہ‘ یاد تھا۔ ۔ ۔  باپ کو سب کچھ یاد تھا۔ ۔ ۔  لیکن دنیا، اسٹیٹس سمبل، پیسوں کے لئے بھاگ دوڑ میں الجھے باپ کے پاس سے جذباتی آنکھیں، آہستہ آہستہ غائب ہونے لگی تھیں۔ ۔ ۔  پرانے منظر باپ کی یادوں سے پھسل کر غائب ہونے لگے تھے ۔ ۔ ۔  لیکن باپ اس لمحہ، اچانک، بیٹی، جوڑے اور پھول کو دیکھ کر چونک گیا تھا۔

برسوں پہلے اس منظر کی زد میں کوئی اور تھا۔

سرسراتی ہوا، ہلتے ہوئے پیڑ۔ ۔ ۔ جھولا۔ ۔ ۔ جھولے پر بیٹھی ہوئی ایک لڑکی۔ ۔ ۔ جھولتے جھولتے لڑکی کے ہاتھوں میں ایک پھول آ جاتا ہے اور پھول۔ ۔ ۔

باپ نے اس منظر کو وہیں فریز کر لیا۔

باپ پھر اس لڑکی کو گھر لے آیا۔ ۔ ۔  بیوی بنا کر۔

پھر باپ، زمانہ، اسٹیٹس سمبل اور پیسہ کمانے والی مشین کا غلام بن گیا۔ باپ حیران تھا۔ ۔ ۔

تو کیا بیٹی۔ ۔ ۔ ؟

باپ کو تعجب تھا۔ لیکن ابھی تو۔ ۔ ۔  گیلی گیلی پھلیاؤں، کے منظر تو۔ ۔ ۔ آنکھوں کو ابھی بھی سہانے ہیں ۔ ۔ ۔ ننھے ننھے ہاتھ پاؤں۔ توتلی باتوں کی پچکاریاں ۔ ۔ ۔ وہ گود میں اٹھا لیتا۔ ۔ ۔  بھالو بن جاتا۔ ۔ ۔  اور کبھی گھوڑا۔ ۔ ۔  بیٹی کو جنگل پسند تھا اور جنگل میں رہنے والے۔

لیکن۔ ۔ ۔ باپ کے پاس جنگل میں گھومنے کا وقت ہی کہا تھا۔

***

بھالو، گھوڑا۔ ۔ ۔  بیٹی رات رات، سارا سارا دن باپ کا انتظار کرتی۔ ۔ ۔ باپ جب کبھی گھر لوٹتا، مصروفیت کے بوجھ سے کندھے جھکے ہوتے ۔ ۔ ۔ پھر بھی وہ تازہ دم بنے رہنے کی کوشش میں مصروف رہتا۔

بھالو، گھوڑا، جنگل۔ ۔ ۔  باپ اچانک اس جنگل میں لوٹا تھا۔ ۔ ۔  اور حیرانیوں کی بارش لے کر وہ بیوی کے پاس آ کھڑا ہوا۔

’تمہیں پتہ ہے ‘ ہماری بیٹی اب۔ ۔ ۔

ہاں پتہ ہے۔

پتہ ہے ؟ باپ چونک گیا تھا۔

’’ڈرو مت۔ ۔ ۔ پچھلے چار برسوں سے۔ ۔ ۔  چار برسوں سے اس کا جسم میری آنکھوں کی دوربین میں ہے۔ ۔ ۔  غلط مت سمجھو۔ ۔ ۔  میں نے ایک لمحے کے لئے بھی اسے کھلی ہوا میں سانس لینے کا موقع نہیں دیا ہے۔’‘

’’مطلب؟‘‘

بیوی ہنسی۔ ۔ ۔  ’’مطلب وہ آدھا ہنستی ہے ۔ ۔ ۔ آدھا میں نے قبضہ کررکھا ہے ۔ ۔ ۔  وہ آدھا اڑتی ہے ۔ ۔ ۔ آدھی اڑان میرے قبضے میں ہے ۔ ۔ ۔ اڑان، ہنسی، مسکراہٹ، خواب۔ ۔ ۔  بڑے ہونے اور نافرمانی کرنے کے شک میں ۔ ۔ ۔ میں نے ایک آدھا جسم اس کے پاس رہنے دیا ہے ۔ ۔ ۔ اور آدھا۔ ۔ ۔’‘

بیوی ہنس رہی تھی۔

بیوی اپنا زمانہ بھول گئی تھی۔

بیوی نے پھر پلٹ کر اس کی طرف نہیں دیکھا۔ جیسے بیوی کو، اس کا جواب، اس کی دلیل، کسی کی بھی ضرورت نہ ہو۔ ۔

***

بیٹی حیران تھی۔ ۔ ۔  جیسے بہت سے پلاش کے پھول اس کی ننھی منی ہتھیلیوں میں سما کر رنگ بن گئے ہوں۔ ۔ ۔  رنگ۔ ۔ ۔  پھر اس نے آدھے رنگوں کو اپنی ہتھیلیوں سے کھرچ دیا۔ ۔ ۔

تو اس کا مطلب؟

باپ برسوں بعد اپنی بیٹی سے شیئر کر رہا تھا۔

ہاں۔

تو تم آدھا ہنستی ہو اور آدھا تمہاری ماں کی تحویل میں ہے۔

ہاں۔

اور تم آدھا اڑان بھرتی ہو۔

ہاں۔

پھر تم مکمل کہاں رہ گئیں۔ ۔ ۔  آدھا آدھا۔ ۔ ۔ بڑے ہونے سے اڑنے تک۔ ۔ ۔ بچپن سے جوانی اور جسم سے روح تک۔ ۔ ۔  گھر سے کالج اور کالج سے گھر تک۔ ۔ ۔ آنکھوں سے مسکراہٹ اور مسکراہت سے خواب تک۔ ۔ ۔

ہاں۔

’’راتیں۔ ۔ ۔  پُراسرار راتیں۔ ۔ ۔ تمہیں پتہ ہے ۔ ۔ ۔ تم ایک حسین زندگی کا صرف آدھا لطف لے رہی ہو۔ ۔ ۔  ایک بے حد حسین کائنات کے صرف آدھے حصے کو تمہاری آنکھیں چھو رہی ہیں ۔ ۔ ۔ جب کہ۔ ۔ ۔’‘

باپ افسردہ تھا۔ ۔ ۔

’’تم نے پریم کیا ہے۔ ۔ ۔ ؟‘‘

واپس لوٹنے سے قبل باپ کا جملہ نپا تلا تھا۔ ۔ ۔  پریم آدھا نہیں ہوتا۔ پریم مکمل ہوتا ہے۔ ۔ ۔  اور بیشک تم عمر کے اس حصے میں ہو، جہاں تمہیں پریم کے احساس سے۔ ۔ ۔  یعنی میرا مطلب تو تم سمجھ رہی ہونا۔ ۔ ۔

بیٹی ایک لمبی چپ لگا گئی تھی۔ ۔ ۔

لیکن بیٹی کو باپ میں پہلی بار ایک دوست نظر آیا تھا۔

***

باپ کی باتیں اس رات بہت دیر تک بیٹی کے کانوں میں گونجتی رہیں۔ وہ حیرت زدہ کرنے والی باتیں تھیں۔ ۔ ۔  کسی بھی باپ کے منہ سے پہلی بار اس طرح کی باتیں اس کے کانوں میں گونجی تھیں۔ وہ ان جملوں کا ذائقہ ابھی بھی محسوس کرسکتی تھی۔ ۔ ۔

’تم سن رہی ہو، نا اور تمہیں احساس ہونا چاہئے ۔ ۔ ۔‘ باپ کا لہجہ کچھ کچھ برف جیسا سرد تھا۔ یعنی دنیا کہاں جا رہی ہے ۔ ۔ ۔اور دنیا کہاں تک جاسکتی ہے۔ خوف اور اینتھریکس سے الگ بھی ایک راستہ جاتا ہے۔ ۔ ۔  پریم کا راستہ۔ ۔ ۔  ہم ہر برس کے خاتمے کے بعد اپنے لئے ایک اینتھریکس کا خوف تلاش کر لیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ہے نا کتنی عجیب بات۔ ۔ ۔ اس مہذب دنیا میں اونچی اونچی عمارتوں کے درمیان ہمیں ڈرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ اور تم اپنے آپ کو دیکھو لڑکی۔ ۔ ۔  تمہارا چہرہ کیسے ہو رہا ہے ۔ ۔ ۔ یعنی سچ پوچھو تو کتنی ڈری سہمی دکھائی دے رہی ہو تم۔ ۔ ۔؟

’ہاں ‘ میں ڈر گئی ہوں۔

باپ چپ تھے۔ ۔ ۔  باپ نے صرف اتنا پوچھا۔

اپنے آپ سے۔ ۔ ۔ ؟

ہاں۔ ۔ ۔

اپنی بڑھتی عمر سے ؟

ہاں۔ ۔ ۔

باپ کے ہاتھ کھلونوں کی طرح اپنی انگلیوں سے کھیلتے رہے۔ ۔ ۔

’’کیوں ڈر جاتے ہیں ہم۔ اینتھریکس وہ نہیں ہے جو ہر بار ورلڈ وار کے خطرے سے پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ کچھ اور بھی ہے۔ ۔ ۔  باپ کے ہاتھ کھیلتے کھیلتے ٹھہر گئے تھے۔ لیکن نہیں۔ ۔ ۔  بیٹی! سن رہی ہو نا تم۔ تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ۔ ۔  لیکن کیا کرو گی۔ ۔ ۔  سب ڈر رہے ہیں۔ ۔ ۔  جیسے تمہارا چہرہ دیکھ کر لگتا ہے، تم اپنی ماں سے بھی ڈر رہی ہو گی۔ ماں، جو بیوی بننے تک ایک خوبصورت دنیا میں جیتی ہے اور ماں بنتے ہی ایک Cruel اور ایک کروسیڈر۔ ۔ ۔ اس کے وجود میں پناہ لینے لگتا ہے۔ ۔ ۔’‘

باپ نے نظر نہیں ملائی۔ ۔ ۔  صرف اتنا کہا۔ ۔ ۔

’تمہیں اپنی ماں سے ڈرنا نہیں چاہئے۔ اپنی ماں کو سمجھانا چاہئے۔ ‘

               ماں

بیٹی اچانک بڑی ہونے لگی تھی۔ ۔ ۔ اور اس بڑی ہونے کے خطرے کو ماں نے بھانپ لیا تھا۔ ۔ ۔ ماں کمانڈوز کی طرح بیٹی کے پیچھے پڑ گئی تھی۔ کہاں جا رہی ہو تم۔ ۔ ۔ نہیں۔ فون ہمیشہ نہیں سننا ہے۔ ۔ ۔  اتنی دیر تک کس سے باتیں کر رہی تھی۔ ۔ ۔ ماں کبھی کبھی اسے شکاری کی طرح گھیر کر بیٹھ جاتی۔ ۔ ۔ ماں ایک فلاسفر کی طرح نان اسٹاپ شروع ہو جاتی۔ ۔ ۔  اور اپنی ہر گفتگو میں ماں اتنی اوباؤ، اتنی بوجھل باتیں کرتی نظر آتی کہ وہ اندر ہی اندر ایک عجیب سے دکھ کا شکار ہو جاتی۔ اسے، بس یہ الجھن گھیر لیتی کہ ماں اپنا زمانہ بھول گئی ہے یا۔ ۔ ۔ ماں۔ ۔ ۔  کبھی بیٹی تھی ہی نہیں۔

’دیکھو تو ۔ ۔ ۔بدن پر کتنا گوشت آگیا ہے۔ ‘

’زیادہ سونا، لڑکیوں کے لئے خطرناک ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ چربی چڑھ جاتی ہے۔ ‘

’ڈائٹنگ۔ ۔ ۔  ڈائٹ کنٹرول۔ ۔ ۔  بوائل۔ ۔ ۔  سب کچھ بوائل کھانا ہے تمہیں۔ ‘

ماں کی ہر بات پر وہ اندر ہی اندر بوائلڈ ہوتی چلی گئی۔ ۔ ۔  کبھی ماں ایک چھتنار درخت کی طرح لگتی۔ ۔ ۔ جس کے سایہ میں اس کی زندگی محفوظ ہے۔

لیکن کتنی محفوظ ہے ؟

 ماں کیا چاہتی ہے، یہ آہستہ آہستہ اس پر منکشف ہو رہا تھا۔ ۔ ۔  یعنی ماں اسے دنیا کی نظروں سے بچائے رکھنا چاہتی تھی۔ ایک بے حد خاص موقع کے لئے۔ ۔ ۔  بے حد خاص۔ ۔ ۔  جیسا کہ اس کی ماں نے سوچ رکھا تھا۔ ۔ ۔  ایک بڑی تپسیا اور۔ ۔ ۔  ایک دن اچانک اسی، ان چھوئے پودے کو نمائش گاہ میں رکھ دینا۔

یعنی ماں کے لئے، اس کے بڑے ہونے کا عمل، سب کچھ سوچی سمجھی اسکیم کے مطابق ہو رہا تھا۔ ۔ ۔  ماں، اس میں اپنے ’مستقبل‘ کو تلاش کرسکتی تھی۔ یعنی ایک ایسے برائٹ فیوچر کو، جہاں اس کے ساتھ ماں کی تقدیر بھی کھل سکتی تھی۔

’آہ، تم نہیں جانتی!‘

یا پھر۔ ۔ ۔ آہ، تمہارے لئے میں نے کیا کیا سوچ رکھا ہے، نادان لڑکی۔ ۔ ۔  ماں کے ان جملوں کا مطلب تھا۔ ۔ ۔  دیکھتی رہو۔ تمہیں صرف اشارے سمجھنا ہے اور چلنا ہے۔ بس اس سے زیادہ نہیں۔

ماں نے بہت زیادہ اس کے بارے میں سوچ رکھا تھا۔ ماں اس سے کہیں زیادہ اس کے بارے میں سوچ سکتی تھی۔ ۔ ۔ لیکن بیٹی۔ ۔ ۔ جیسے ہر بار معصوم چڑیا کی طرح اڑتے اڑتے وہ کسی خوفناک گدھ کو دیکھ لیتی۔ ۔ ۔

ڈائٹ کنٹرول۔ ۔ ۔  لیکن نتیجہ کے طور پر کیا برآمد ہوا تھا۔ ۔ ۔  آنکھوں میں پڑے گہرے حلقوں میں خواب کہیں گم ہو گئے تھے۔ ۔ ۔  کسی مخملی فرش پر کیٹ واک کرنے والے اس کے پاؤں تھرتھرانے لگے تھے۔ ۔ ۔  ماں اسے لے کر انسٹی ٹیوٹ آف منٹل ہیلتھ اینڈ سروسز گئی تھی۔

ڈاکٹر مونا برا سامنہ بنا کر بولی تھی۔ ’تم لڑکیاں۔ ۔ ۔  کھانے کو دشمن کیوں بنا لیتی ہو۔ ۔ ۔ ‘

اس نے ماں کو دیکھا۔ ماں نے بیٹی کا ہاتھ دبا دیا۔

’اینوریکسیا۔ وزن میں کمی۔ ۔ ۔  ڈاکٹر مونا نے برا سا منہ بنایا۔ ۔ ۔ کیلشیم اور فاسفورس کی کمی سے کیا ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ جانتی ہو۔ ۔ ۔  ہارمون، ڈس بیلنس ہو جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور امینوریا۔ ۔ ۔ سمجھتی ہونا۔ ۔ ۔ پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ ۔ ۔ عورتیں بانجھ ہو سکتی ہیں۔

***

’بانجھ ہارمون کا ڈس بیلنس ہونا۔ ۔ ۔  بیٹی دکھ گئی ہے۔ زندگی سے کیلشیم اور فاسفورس تو ماں نے لے لئے ہیں۔ ۔ ۔  وہ سچ مچ ڈس بیلنس ہو گئی ہے ۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔  اس نے توازن کھو دیا ہے۔ ۔ ۔ وہ لڑکھڑا رہی ہے۔ وہ کبھی بھی گرسکتی ہے۔ ۔ ۔  وہ جیسے ایک ٹھونٹھ درخت ہے۔ بانجھ۔ ۔ ۔  امینوریا کی شکار۔ ۔ ۔

’’ایک دن جب تم خود کو دیکھو گی تو۔ ۔ ۔  ڈاکٹر تو بولتے ہی رہتے ہیں۔’‘

اس نے دیکھا۔ ماں کی آنکھوں کی سوکھی پڑی جھیل کو۔ لیکن یہ کیا۔ ۔ ۔  اس جھیل میں کوئی ہے۔ ۔ ۔  کوئی ہے، جو کیٹ واک کر رہا ہے۔ ۔ ۔

کون ہے ؟

وہ اس چہرے کو پہچان سکتی ہے۔

ارے، یہ چہرہ تو اس کے خود کا چہرہ ہے ۔ ۔ ۔ لیکن یہ چہرہ اتنا مرجھایا ہوا کیوں ہے ؟

پہلی بار بیٹی نے اپنا جائزہ لیا تھا۔ اپنے جسم میں وہ کتنی ہے۔ ۔ ۔  اپنی روح میں ۔ ۔ ۔؟ اپنے وجود میں ۔ ۔ ۔؟اور اپنے آپ میں ۔ ۔ ۔؟

اس نے ماں اور باپ دونوں کو اپنے آپ میں رکھ کر دیکھا۔ ۔ ۔ پھر مطمئن ہو گئی۔ ۔ ۔ باپ کو وقت کہاں تھا اور ماں۔ ۔ ۔   روح سے جسم اور جسم سے وجود تک ماں نے کسی بھی حصے کو۔ ۔ ۔اس کی اپنی آزادی کے نام نہیں کیا تھا۔ ۔ ۔  آدھا بھی نہیں۔ وہ مکمل ماں کے قبضہ میں تھی۔

اس لئے پہلی بار۔ ۔ ۔ باپ کی باتوں میں اسے ایک دوست نظر آیا تھا۔ دوست، جس کے سہارے وہ اپنی جنگ لڑسکتی تھی۔

               باپ

لیکن شاید بیٹی ابھی بھی مطمئن نہیں تھی۔ یا پھر بانجھ ہونے کا ڈر اس کے اندر کچھ زیادہ ہی بیٹھ گیا تھا۔ ۔ ۔  بانجھ۔ عورت کے لئے سب سے بڑی گالی۔ ۔ ۔  ایک ایسی گالی، کم و بیش بیٹی جس کا سامنا کرنے کو تیار نہیں تھی۔ ۔ ۔  وزن کم کرنے کے لئے وہ امینوریا کی پیشنٹ بننے سے خود کو روکنا چاہتی تھی۔ دراصل بیٹی، باپ کو آزمانا چاہتی تھی۔ شاید اسی لئے کسی ایک مضبوط لمحہ، وہ چپ چپ باپ کی آغوش میں سر چھپا کر بیٹھ گئی۔ باپ آہستہ آہستہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے رہے۔

’’میں کچھ بھی کرسکتی ہوں ؟‘‘ ذرا دیر بعد بیٹی کے لب ہلے۔

۔ ۔ ۔ ’ہاں۔ ‘

۔ ۔ ۔ ’کچھ بھی؟‘

۔ ۔ ۔ ’تمہیں شک کیوں ہے ؟‘

’شک نہیں۔ ۔ ۔  ماں کہتی ہے، لڑکی پیدا ہوتے ہی اپنا ایک پنجرہ لے آتی ہے۔ ‘

باپ ہنسا۔ ۔ ۔  ’لیکن تم سے پہلے تمہاری ماں اس پنجرے کو توڑ چکی تھی۔ اس نے لومیرج کی تھی۔ ۔ ۔‘

ماں کہتی ہے ’اس کے باوجود ہم پنجرے میں رہتے ہیں۔ ‘

باپ نے مزاحیہ انداز اپنایا۔ ۔ ۔ ’پنجرے میں پنچھی بھی نہیں رہتے !‘

بیٹی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ’تو میں کچھ بھی کرسکتی ہوں۔ اڑ سکتی ہوں۔ باہر جاسکتی ہوں۔ ڈسکو۔ تھیٹر، اور۔ ۔ ۔

باپ نے اسے غور سے دیکھا۔ ۔ ۔  بیٹی کے کندھے تھپتھپائے ۔ ۔ ۔ پھر بولا۔ ۔ ۔ ’سنو بیٹی۔ غور سے سنو۔ ۔ ۔  تم پیدا ہوئیں، ہم نے سکھ تلاش کر لیا۔ ۔ ۔  ڈھیر سارا سکھ۔ ۔ ۔ جو تمہارے رونے سے ہنسنے تک۔ ۔ ۔ کلکاری سے سوچنے سمجھنے تک۔ ۔ ۔ بولنے سے شرارت تک۔ ۔ ۔ کھڑے ہونے، گرنے سے انگلیاں تھامنے اور چلنے تک۔ ۔ ۔  یعنی تم نے جو دیا، یا جو تم ہر لمحہ دیتی رہی ہو، کسی خزانہ سے بھی زیادہ تھا۔ ۔ ۔  ہم تول مول نہیں کرسکتے تھے ۔ ۔ ۔ باپ کو تول مول کرنا بھی نہیں چاہئے ۔ ۔ ۔ کہ اس زندگی میں بچہ اپنے وجود کے احساس تک جو سکھ دیتا ہے ۔ ۔ ۔ وہ امید کے خزانے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے، ہے نا؟

باپ کو شاید اپنے باپ کی کہانی یاد آ گئی تھی۔ یکلخت وہ ٹھہر گیا تھا۔ بیٹی کے ہونٹوں پر معصوم مسکراہٹ تھی۔

’اس لئے بیٹی‘۔ ۔ ۔  باپ نے اپنی گفتگو جاری رکھی۔ ’اس لئے جب تم اپنی جوانی کی زندگی شروع کرنے جا رہی ہو۔ سمجھ رہی ہونا۔ اپنی اب کی زندگی۔ ۔ ۔  تو اس زندگی پر صرف اور صرف تمہارا حق ہے۔ اپنے حصے کا سکھ ہم لے چکے ہیں اور اس کے بعد کے سکھ پر۔ ۔ ۔ ‘

’تو پنجرہ۔ ۔ ۔ ؟‘

باپ لڑکی کے بڑا ہونے کے احساس سے دکھ گیا تھا۔

’پنجرہ کوئی بھی اپنے ساتھ نہیں لایا تھا۔ ۔ ۔ اور سنو بیٹی۔ اب تم بڑی ہو گئی ہو۔ اپنے حصے کے خواب، خوشیاں ۔ ۔ ۔ عمر۔ ۔ ۔ رونا، ہنسنا۔ ۔ ۔ سب کچھ اپنی ممی سے واپس مانگ سکتی ہو۔ ۔ ۔ اور بے شک تمہاری ممی کو تمہیں یہ سب واپس کر دینا چاہئے۔ ‘

اس کے بعد باپ ٹھہرے نہیں۔ باپ کو آنکھوں میں امڈ آئے قطرے دکھانا گوارہ نہیں تھا۔ باپ واپس لوٹ گئے تھے۔

               حسین شامیں

پھر بیٹی نے اڑنا شروع کیا۔

بیٹی کو اب ماں کے پنجرے پر یقین نہیں تھا۔

بیٹی کو اب کسی بھی ایسے پنجرے پر یقین نہیں تھا۔ ۔ ۔

بیٹی کو صرف اور صرف اڑنے پر یقین تھا۔ ۔ ۔

پہلی بار جب وہ رات کو دیر تک ڈسکو تھے کلب سے گھر لوٹی تو ماں اس کے کمرے کے دروازے پر آ کر کھڑی ہو گئی۔ ۔ ۔ ماں کے ہاتھوں میں ایک ٹوٹا ہوا پنجرہ تھا۔

’آہ! تمہارے باپ جیت گئے۔ ‘

’اور اسی لئے تم نے پنجرہ توڑ دیا۔ ‘

’ہاں۔ ۔ ۔  اس پنجرے میں ایک Sea-gullتھا۔ اس، سی گل کی کہانی سنو گی۔ ‘

’مجھے کہانیاں اچھی نہیں لگتیں۔ ‘

ماں مطمئن تھی۔ ۔ ۔  ’کوئی بات نہیں۔ تم نے اپنے لئے راتیں چُنیں ۔ ۔ ۔ اور رات سے انٹرنیٹ اور ڈسکو تھیے بنا لیا۔ ۔ ۔ ہے نا۔ پھر بھی تمہیں یہ کہانی سننی ہو گی۔

اس نے نائیٹی پہن لی۔

***

ماں کی کہانی جاری تھی۔ بے چارہ ننھا سا سی گل۔ ۔ ۔ شام میں جب دوسرے پرندوں کے پر، اڑان سے خالی ہو جاتے تو وہ اپنی اڑان شروع کرتا۔ ۔ ۔ پاگل کہیں کا۔ ۔ ۔ تھوڑی تھوڑی اڑان اور ایک دن۔ ۔ ۔

’تم یہ کہانی پہلے بھی سنا چکی ہو ماں۔ ‘

ماں نے پہلے دھیان نہیں دیا۔ ۔ ۔  ایک دن جونا تھن، یہی اس سی گل کا نام تھا۔ ۔ ۔ وہ اُڑا اور اپنے ننھے پروں سے آسمان ناپ لیا۔ ۔ ۔  اس کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ ۔ ۔ اتنی اڑان تو اس کے پروجوں میں سے بھی کسی نے آج تک نہیں بھری تھی۔ ۔ ۔  اسے یقین تھا۔ وہ واپس لوٹے گا اور اس کی تاجپوشی ہو گی۔ سرآنکھوں پر بیٹھایا جائے گا۔ انعام سے نوازا جائے گا۔

’پور فیلو‘ بیٹی آہستہ سے بولی۔

ماں کی آنکھیں بند تھیں۔ ۔ ۔  ’’لیکن اس غریب کو کیا معلوم تھا، دھرتی پر واپس لوٹتے ہی، ضرورت سے زیادہ اڑنے کے جرم میں اسے۔ ۔ ۔’‘

ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

بیٹی نے سر پر چادر کھینچنے سے پہلے کہا۔ ۔ ۔ ’جو اڑتے ہیں، وہ کسی بھی چیز کی پرواہ نہیں کرتے۔ ‘

***

انٹرنیٹ پر Chattingسے برآمد لڑکے نے ڈسکو تھے میں، اچانک اس کے سامنے آ کر حیرت زدہ کر دیا تھا۔

پھر بیٹی کی شاموں میں ٹوئٹرس کی لاطینی حسین شامیں لکھ دی گئیں۔ ۔ ۔  پہلی بار وہ اداس تھی۔

لڑکا زور سے چیخا تھا۔ ۔ ۔  ’Cry‘

وہ پھر ذرا سا ہنسا۔ ۔ ۔’ چیخو، چلاؤ، ناچو۔ بھول جاؤ کہ عمر کے گھوڑے کی رفتار کیا ہے۔ آگے کیا ہے اور پیچھے کیا ہے۔ ‘

’بھول گئی۔ ‘

وہ دیر تک نائٹ اسپاٹ پر تھرکتے رہے۔ لانج میں کچھ دیر ’ڈام موریس‘ کی پوئٹری کا لطف لیا۔ ۔ ۔ پھر کچھ دیر تک ٹوئٹرس کی آرٹ گیلری میں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ٹہلتے رہے۔ بیٹی خاموشی سے کمرے کی پیلی چھتوں، نیلی دیواروں اور پینٹنگس کی آڑی ترچھی لکیروں کو گھورتی رہی۔ واپس آ کر نائٹ اسپاٹ پر دونوں نے ایک ایک پیگ اور لیا۔ ریستوراں کی ڈم لائٹ میں ’چلڈ‘ یعنی ہر طرح کے پروگرام چل رہے تھے۔ ۔ ۔  بیٹی نے اپنے جسم کو پورا پورا لڑکے کے بدن پر ڈال رکھا تھا۔ اطالوی کھانے سے فارغ ہو کر دونوں نے ایک دوسرے کو ریستوراں کی ڈم روشنی میں، چلنے والے چلڈ پروگرام کے حوالے کر دیا۔

***

رات گہری ہو گئی تھی۔ بیٹی ابھی تک گھر نہیں لوٹی تھی۔ ماں نے کمرے میں ٹہلتے ہوئے کہا۔

۔ ۔ ۔ ’دنیا بدل رہی ہے۔ ‘

’دنیا ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہے۔ ‘

۔ ۔ ۔ ’ہمارے زمانے کی دنیا اور تھی؟‘

اس زمانے کی دنیا بھی وہی ہے۔ ‘

۔ ۔ ۔ ’کیا ہم اس طرح رات گئے۔ ۔ ۔ ؟‘

پہلے ہمارے شہر نے اس طرح رات پر قبضہ نہیں کیا تھا۔ ‘

ماں گھبراہٹ میں ٹہل رہی تھی۔ ‘

باپ مطمئن تھا۔ وہ اپنی فکر میں ڈوبا تھا۔ یعنی اس عمر میں۔ ۔ ۔  اس عمر میں جب کہ اس کی بیوی کو، کوئی بھی ٹینشن نہیں لینا چاہئے۔ ۔ ۔ ‘ وہ آہستہ سے مسکرایا۔

’بیٹی کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ ‘

’کیوں ؟‘

کیوں کہ اب اس کی آزادی کا دور شروع ہو گیا۔ ‘

’آزادی؟‘

 ’ہاں، ایک عمر آتی ہے، جب ہمیں ایک دوسرے کو ازسرنو سمجھنا ہوتا ہے۔ ازسرنو۔ ۔ ۔ سمجھ رہی ہونا۔ ۔ ۔  یہ وہ وقت ہوتا ہے، جب بچے اپنی عمر کے رتھ پر سوار ہو جاتے ہیں۔ ۔ ۔  بیٹھو۔ ۔ ۔ ‘

باپ نے اسے اپنے بانہوں کے حصار میں لیا۔ ۔ ۔  اب ہماری اپنی ایک نئی زندگی شروع ہو رہی ہے۔ بیٹی کی اپنی۔ ۔ ۔  اس عمر کو سمجھنا بڑا کام ہے۔ نہیں سمجھوگی تو بوڑھی ہو جاؤ گی۔ ‘

ماں ڈر گئی تھی۔ ۔ ۔

باپ ہنسے۔ ۔ ۔  ’’بچوں کی آزادی میں اپنا حصہ نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ ان کی عمر کا حصہ ہوتا ہے۔ ۔ ۔  بیٹی اپنی آزادی سے بندھی ہے۔ وہ سنبھلتی ہے یا گرتی ہے، یہ اس کا کام ہے۔ ہم نہیں سنبھلے تو؟ یا بچے اور اپنے بیچ ایک دیوار نہیں اٹھائی تو۔ ۔ ۔  ہم اچانک بوڑھے ہو جائیں گے۔’‘

لیکن۔ ۔ ۔ وہ بیٹی ہے۔ ۔ ۔

’ہمارا کام ختم۔ ۔ ۔ باپ کا لہجہ سخت تھا۔ ۔ ۔  ’جتنی خوشیاں، جتنے سکھ اس سے حاصل کرنے تھے، کر چکے۔ ‘

’اور اب اسے گرنے کے لئے۔ ۔ ۔ ‘

باپ مطمئن تھا۔ ۔ ۔ ’یہ اس کی سمجھ داری پر منحصر ہے ‘ باپ نے پھر موضوع بدل دیا تھا۔ ۔ ۔  ’کل سے میں نے دفتر کا کام کم کر دیا ہے۔ جلدی گھر آ جایا کروں گا۔ صبح کی چائے ختم۔ ناشتے میں۔ ۔ ۔ ‘

ماں اب کچھ بھی نہیں سن رہی تھی۔

کھلے دروازے سے بیٹی اندر آ گئی تھی۔

بیٹی کی زلفیں بکھری ہوئی تھیں۔

بیٹی کی آنکھیں۔ ۔ ۔

بیٹی کے پاؤں۔ ۔ ۔

بیٹی کا جسم۔ ۔ ۔

باپ نے ماں کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ ۔ ۔  ’’سوجاؤ۔ اس نے اپنی آزادی خرید لی ہے۔’‘

ماں نے سہمے ہوئے میمنے کی طرح خود کو باپ کے حوالہ کر دیا۔

               خاتمہ

قارئین!

کہانی ختم ہو چکی ہے۔ یا آپ کہہ سکتے ہیں۔ کہانی کو یہیں پر ختم ہو جانا چاہئے تھا۔ ایسی کہانیوں کا کوئی خوشگوار انجام نہیں ہوتا ہے۔ ایسی کہانیاں ہر تبدیلی اور تاریخ کے جبر کے ساتھ پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ ۔ ۔  زندگی نے اپنا دامن وسیع کیا تو لڑکیوں کے لئے سوچ اور فکر کے نئے دروازے بھی کھل گئے۔ ۔ ۔  یعنی تاریخ کے اس مقام پر جہاں لڑکیاں آزادانہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہیں، ایسی کہانیوں کا انجام یہی ہونا چاہئے کہ۔ ۔ ۔

***لڑکی نے اپنی ایک آزاد زندگی کا انتخاب کر لیا۔

***لڑکی پھسلتی چلی گئی اور بالآخر اس کی زندگی کا انت ہو گیا۔ ۔ ۔  یا

***لڑکااسے چھوڑ گیا اور لڑکی نے آتم ہتیا کر لی۔

قارئین!

ایسا کچھ بھی اس کہانی کے ساتھ نہیں ہے۔ اس لئے ۔ ۔ ۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا۔ ۔ ۔ تاریخ کے اس موڑ پر۔ ۔ ۔ اس بے حد اہم موڑ پر۔ ۔ ۔  بیٹی اچانک چونکتی ہے۔ جیسے کسی ڈراؤنے خواب سے جاگتی ہے اور کئی دن گھر سے غائب رہنے، بدن کے جبر کو سمجھنے کے بعد۔ ۔ ۔ ایک اندھیری صبح۔ ۔ ۔  جس وقت سڑک پر اِکا دُکا سواریاں بھی نہیں چل رہی تھیں ۔ ۔ ۔ وہ اپنے گھر کے دروازے پر آ پہنچتی ہے۔ اور۔ ۔ ۔  بیل پر انگلی رکھتی ہے۔

تو قارئین یہ اس کہانی کا انت ہے۔ ۔ ۔  اور اس انت کے لئے میں اپنے آپ کو کتنا مجبور محسوس کر رہا ہوں، یہ میں جانتا ہوں۔

***

بیٹی کی آنکھیں نیم غنودگی میں ڈوبی تھیں۔ قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ باہر کہرا چھایا ہوا تھا۔ اس کا بدن ابھی بھی اطالوی جن کے دھوئیں سے بھرا تھا۔ سردی بڑھ گئی تھی۔ بیل بجانے والے ہاتھ سردی سے ٹھٹھر گئے تھے۔ اسے غصہ آ رہا تھا۔ سب کہاں مر گئے۔ بیل کی آواز سن کر کھولنے کے لئے کوئی آتا کیوں نہیں۔ ۔ ۔

اس نے قدموں کی آہٹ سنی۔ ۔ ۔

’آزادی۔ ۔ ۔ ‘ اسے باپ کے لفظ اب بھی یاد تھے۔ اپنے حصے کا سکھ ہم لے چکے ہیں اور اس کے بعد کے سکھ پر۔ ۔ ۔ ‘

وہ باپ سے لڑائی کرنے آئی تھی۔ ۔ ۔  نائٹ اسٹاپ کی رنگینیاں اچانک تھم گئی تھیں۔ ڈسکوتھیے کے Cry,Cry نغموں نے اسے لہولہان کر دیا تھا۔ Chattingسے برآمد لڑکے نے اس کے بدن پر ہزاروں خونی لکیریں کھینچ دیں ۔ ۔ ۔ اور ایک نیپالی لڑکی کے ساتھ کسی دوسرے ٹوئٹرس کے چلڈ پروگرام میں کھو گیا تھا۔ ۔ ۔

بیٹی نیند سے جاگی تو ماں کا پنجرہ ٹوٹا ہوا اس کے بازو میں پڑا تھا۔ ۔ ۔  وہ چیخنا چاہتی تھی۔ ۔ ۔  وہ لڑنا چاہتی تھی۔ پیسے ختم ہو گئے تھے۔ ۔ ۔

وہ کئی دنوں سے گھر سے غائب تھی۔

اسے امید تھی۔ گھر پہنچتے ہی، جذباتی پاگل پن کے مظاہرے شروع ہو جائیں گے۔ شاید باپ نے پولیس میں ایف آئی آر بھی درج کی ہو۔ ۔ ۔ ماں کی آنکھیں روتے روتے سوج گئی ہوں اور۔ ۔ ۔

ایک بے حد سرد صبح، کہرے میں ڈوبی ہوئی صبح۔ ۔ ۔  وہ گھر پہنچے گی اور۔ ۔ ۔

’کیلشیم فاسفورس۔ ۔ ۔  ماں بولے گی۔ ۔ ۔  وہ اسے ایک بے حد خاص موقع کے لئے تیار کر رہی تھی۔ ۔ ۔

باپ کہیں گے۔ ۔ ۔  تم کہاں چلی گئی تھیں بیٹی۔

اور ماں۔ ۔ ۔  وہ اس جذباتی لمحے کی منتظر ہو گی، جب وہ اس کے بازوؤں میں گم ہو جائے گی۔ ۔ ۔

***

کوئی آ رہا ہے۔ ۔ ۔  قدموں کی آہٹ۔ ۔ ۔  بیٹی کا جسم سردی سے تھرتھرا رہا ہے۔ دروازہ کھولنے کی آواز۔ ۔ ۔  باپ نے لائٹ آن کر دیا ہے۔ دروازہ کھولنے والی ماں ہے۔ لیکن۔ ۔ ۔

وہ اچانک ٹھٹھک گئی ہے ۔ ۔ ۔

کیا یہ ماں ہے۔ سچ مچ ماں ہے۔ ماں ہے تو ماں جیسی کیوں نہیں لگ رہی۔ ماں اپنی عمر سے کتنی چھوٹی ہو گئی ہے۔ چھوئی موئی سی۔ اس کے چہرے پر، بیٹی کو لے کر مستقبل کے اندیشے یا فکر کی جھریاں نہیں ہیں ۔ ۔ ۔یہ کوئی اور ہی ماں ہے ۔ ۔ ۔ تر و تازہ۔ ۔ ۔ ابھی ابھی جوان ہوئی اور لباس تو دیکھو۔ ۔ ۔  ریشمی ساڑی۔ چہرے پر اتنا نکھار۔ ۔ ۔

پیچھے باپ کھڑے تھے۔ ۔ ۔  ہمیشہ کی طرح اسمارٹ۔ ۔ ۔  اس وقت کچھ زیادہ ہی جوان۔ ۔ ۔

ماں کی آنکھوں میں حیرانی امڈتی ہے۔ ۔ ۔

’کون؟‘

باپ کی آواز میں نشہ سا ہے۔ ۔ ۔

’کون؟‘

’’  4/اسکیم پارلے ۔ ۔ ۔ ماؤنٹ روڈ سے ذرا آگے ۔ ۔ ۔ تھرڈ لین۔ مسٹر آئی جے کے۔ ۔ ۔  ریسیڈینس نمبر۔ ۔ ۔ ‘ کہتے کہتے وہ ٹھہر گئی ہے۔ ’’ایک زمانہ میں یہاں ان کی بیٹی رہتی تھی۔’‘

 ماں نے پیار سے دروازہ بند کرتے ہوئے جواب دیا۔ ۔ ۔

’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ۔ ۔  اب وہ یہاں نہیں رہتیں۔ ۔ ۔ ‘

بیٹی نے انجانے راستوں پر ٹھٹھرتی ہوئی کہرے کی اس صبح، اپنے قدموں کو ڈالتے ہوئے ماں کا جملہ پورا کیا۔ ۔ ۔

’کیوں کہ اس نے اپنی آزادی خرید لی ہے۔ اب وہ کہیں اور رہتی ہے۔ ‘

٭٭٭

مصنف کی اجازت سے :

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید