فہرست مضامین
- مشرف عالم ذوقی اور بھوکا ایتھوپیا
- تعارف
- انتساب
- تعارف سے آگے کا سفر
- مشرف عالم ذوقی کا سوانحی خاکہ
- ہم عصر افسانہ اور افسانہ نگار
- مشرف عالم ذوقی کے فن کا مجموعی جائزہ
- مشرف عالم ذوقی کے افسانوی مجموعہ ’’بھوکا ایتھوپیا‘‘ کا تنقیدی مطالعہ
- حاصل مطالعہ
- کتابیات
مشرف عالم ذوقی اور بھوکا ایتھوپیا
(تنقیدی مطالعہ)
شیفتہ پروین
تعارف
نام: شیفتہ پروین
والد کا نام: صغیر احمد، بمرولی اپرہار، الہ آباد (یوپی)
تاریخ پیدائش: ۱۰ ؍جون ۱۹۸۲ء
جائے پیدائش: الہ آباد (یوپی)
تعلیم: ایم اے، الہ آباد یونیورسٹی
ایم فل، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
پی ایچ ڈی، جواہر لعل نہرو، یونیورسٹی، نئی دہلی
زیر طبع: قرۃ العین حیدر کے افسانوں کا فکری و فنی مطالعہ
1980 کے بعد 10اہم ناول۔ ایک مطالعہ (مرتب)
پوکے مان کی دنیا۔ ایک مطالعہ۔ (مرتب)
پتہ: 225۔ سابر متی ہاسٹل،
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی110067-
انتساب
والد جناب صغیر احمد
اور
والدہ محترمہ درخشاں پروین
کے نام
جنہوں نے علم کی فضیلت سے آشنا کیا
تعارف سے آگے کا سفر
مشرف عالم ذوقی ۱۹۸۰ کے بعد ابھر نے والے افسانہ نگاروں میں بلند مقام رکھتے ہیں۔ ذوقی نے ناول بھی لکھے اور افسانے بھی۔ ذوقی کے ناول ہوں یا افسانے۔ اپنی انفرادی خصوصیات کے باعث قاری کو اپنی طرف منعطف کرتے ہیں۔ ذوقی کے افسانے بالکل جدید بلکہ آج کے معلوم ہوتے ہیں۔ موضوع بھی ان کے معاصر ہوتے ہیں۔ ذوقی نے آج کے سماج اور سیاست کا بڑی گہرائی کے ساتھ مطالعہ و مشاہدہ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں بھر پور عصری حسیت موجود ہے۔ ذوقی کے یہاں تکنیک کے متنوع و بوقلمونی رنگ ملتے ہیں لیکن بیانیہ کا اسلوب ان کے تمام اسلوب پر غالب نظر آتا ہے۔ ان کی زبان شستہ ہے۔ جملے صاف اور سیدھے سادے ہیں جو معنی سے لبریز ہوتے ہیں۔ مشرف عالم ذوقی نے اس عہد میں لکھنا شروع کیا جب ادب کے حوالے سے نئے نئے مباحث سامنے آ رہے تھے۔ کبھی جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے مباحث تھے تو کبھی ترقی پسندی کے بدلتے رجحانات تھے۔ اس عہد کے زیادہ تر لکھنے والے کسی نہ کسی ازم یا نظریے سے جڑے رہے۔ مشرف عالم ذوقی نے کبھی بھی اپنے کو کسی خاص ازم یا نظریے سے باندھ کر نہیں رکھا۔ انھوں نے اپنے معاشرے اور سماج کو گہرائی سے دیکھا، وہ ایک حساس ادیب واقع ہوئے ہیں انھوں نے جو بھی دیکھا اسے فوراً اپنے فکشن میں ڈھال دیا۔ انھوں نے جب سے لکھنا شروع کیا ہے تب سے آج تک مسلسل لکھ رہے ہیں اور خوب لکھ رہے ہیں۔ ان کا قلم نہیں رکتا، بعض اوقات تعجب ہوتا ہے کہ وہ اتنا کیسے لکھتے ہیں کیونکہ وہ بیک وقت الیکٹرونک میڈیا سے بھی جڑے ہوئے ہیں اور عملی طور پر اس میں مصروف بھی رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ہندی میں بھی لکھتے رہے ہیں اور ادبی موضوعات پر بھی قلم اٹھاتے ہیں، وہ کہاں سے وقت لاتے ہیں اور کیسے ممکن ہو پاتا ہے کہ ناول پہ ناول اور افسانے پہ افسانے لکھے چلے جا رہے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں بڑی بات ہے— لیکن دوسری جانب یہ بھی ہوتا ہے کہ اس زود نویسی سے ان کے فن پر بھی اثر پڑتا ہے۔ لیکن خود مشرف عالم ذوقی اس بات کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے مطابق ہم جس عہد میں جی رہے ہیں وہ عہد مسائل کا عہد ہے— ساری دنیا میں کہیں بھی انسان کو سکون نصیب نہیں — ہر جگہ انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے—انسانیت ایک ایسے دو راہے پر کھڑی ہے جہاں ایک طرف مادیت ہے تو دوسری جانب عالم کاری کی تباہ کاریاں — ایسے میں ایک ادیب اگر کچھ نہیں کر سکتا تو کم از کم اس پر اپنا رد عمل تو ظاہر کر سکتا ہے—ذوقی کی اس بات کو تسلیم کر لیں تب بھی تعجب ہوتا ہے کہ اس زود نویسی کے باوجود ان کے یہاں موضوعات کا تنوع ہے۔ وہ طرح طرح کے موضوعات پر افسانے لکھتے ہیں عام طور پر جنھیں ہم اپنی خاطر میں نہیں لاتے، مشرف عالم ذوقی ان موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں اور قاری کو چونکانے کا کام کرتے ہیں۔ ذوقی کی انھیں خصوصیات نے مجھے ان کے فن کے مطالعے پر مجبور کیا۔
بھوکا ایتھوپیا، مشرف عالم کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے۔ یہ مجموعہ 1993میں شائع ہوا۔ اس کے بعد منڈی، غلام بخش، صدی کو الوداع کہتے ہوئے، لینڈ اسکیپ کے گھوڑے، ایک انجانے خوف کی ریہرسل کے نام سے ان کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ بھوکا ایتھوپیا— مجھے سب سے پہلے اس نام نے حیران کیا تھا۔ ایتھوپیا کے تعلق سے قحط اور بھوکے مرتے لوگوں کی کہانیاں میں پہلے ہی سن اور پڑھ چکی تھی۔ لیکن کوئی اردو کا ادیب اس قدر درد مندی کے ساتھ ہندستانی معاشرے اور سماج کا تجزیہ کرتے ہوئے ایتھوپیا کا رشتہ ہندستان سے جوڑ سکتا ہے، یہ پہلی بار میں یقین نہ کرنے والی بات تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک میں مشرف عالم ذوقی کے ادب سے کم نام کی حیثیت سے زیادہ واقف تھی۔ پھر جب میں نے ذوقی صاحب کی کہانیوں اور ناولوں کا مطالعہ شروع کیا تو ایک نئی حقیقت سامنے تھی۔ سیاسی وسماجی بصیرت اور آگہی کی جو مثال ذوقی کے فن پاروں میں نظر آتی ہے وہ دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ ان کی تحریروں میں موجودہ سیاست کو سمجھنے کے بلیغ اشارے ملتے ہیں۔ تقسیم کا معاملہ ہو، آزادی کے بعد ہونے والے فسادات ہوں۔ اڈوانی جی کی رتھ یاترائیں ہوں یا 1992 کا سانحہ— بابری مسجد پر ان کا ناول بیان سامنے آیا۔ مسلمانوں کی پسماندگی اور آزادی کے بعد کے بدلتے حالات کو لے کر ذبح اور بیان جیسا ناول لکھ ڈالنا آسان نہیں تھا۔ اس لیے سماجی اور سیاسی شعور کے آئینہ میں بھوکا ایتھوپیا کی بات وہی کرسکتا تھا جس کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ تیز ہو۔ اور بلاشبہ یہ باتیں مشرف عالم ذوقی کے لیے کہی جا سکتی ہیں۔ بھوکا ایتھوپیا کی کہانیوں میں ترقی پسند ذوقی نظر آتا ہے جس کا دل مغموم ہے اور جو ہندستان میں ہونے والی سیاست پر رنجیدہ ہے— جس کا دل فسادات سے زخمی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مجموعہ کی الگ الگ کہانیاں فسادات کے آئینہ میں آگ اگلتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مثال کے لیے۔
’’دیکھو جین میں خود ایسا نہیں سوچتا۔ مگر… اپنے لہجے کو کمزور محسوس کرتے ہوئے میں بولا… مگر یہ تو سوچو کہ دہشت کی شروعات کہاں سے ہوتی ہے۔ اندر اندر یہ اپنی جڑیں کیسے مضبوط کر جاتا ہے۔ ہمیں کھوکھلا کرتے ہوئے یہیں پر ایک سوال اٹھتا ہے۔ ارمیلا نے سچ مچ کارتوس دیکھا ہے یا اس کا شک ہے—؟ دراصل یہ بھی ہمارے تھکے ہونے کا احساس ہے، نتیجہ ہے۔ ارمیلا نے یہ کیسے سوچ لیا، میں نہیں کہہ سکتا۔ مگر کچھ تو احساس رہا ہو گا۔ جو برسوں سے تھوڑا تھوڑا کر کے اس کے اندر جمع ہوتا رہا ہو گا… بات اگر غلط بھی ہے تو لگتا ہے انجانے میں ہی بے بنیاد شک و شبہات کے دائرے میں کچھ خوفناک ہتھیار جمع کر لئے ہیں ہم نے دوسروں کے لیے۔ اور اپنی دفاع کے لیے الفاظ تو ہیں ہی ہمارے پاس۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں ڈیفنس کے نام پر کیا کچھ کارروائی چلتی رہتی ہے دنیا میں۔ امن کے نام پر، اسپیس میں ہونے والے نیوکلیائی اور ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کیا پوری انسانی برادری کو ایک خوفناک تباہی کی طرف نہیں ڈھکیل رہا ہے۔ ‘‘ میں نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ ‘‘
—دہشت کیوں ہے
’’یہ چھڑا پکڑ۔ اور یہ پیر کی بوٹی کاٹ… چھوٹے… چھوٹے… چھوٹے… چھوٹے…‘‘
اس نے چھڑا اٹھایا ہے۔ گوشت کو لکڑی کے ٹھیہا پر رکھ کر وہ ران اور پیر کی بوٹیوں کو غور سے دیکھ رہا ہے۔ اور اب وہ جھٹکے سے کاٹ رہا ہے۔ کٹی… کٹی… کٹی…کٹی… اس کی آنکھوں میں پاگل پن سوار ہے… کٹ کٹ… اس کے اندر کوئی جلاد سوار ہے۔
’’نہیں اتنا چھوٹا نہیں …‘‘ سلا مواس کا ہاتھ روک رہا ہے۔
قصاب باڑے میں خون کی بو دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ مگر اب یہ بو اسے محسوس نہیں ہو رہی ہے۔ وہ ایک طرف جھولا بچھائے گوشت کے ٹکڑوں کو لیے بیٹھا ہے اور دیر سے کٹی کٹی کئے جا رہا ہے۔ ‘‘
—کتنا وش
’’اس دن ونود نے خبر سنائی کہ ساؤتھ افریقہ کے انقلابی شاعر بنجامن کو پھانسی دے دی گئی۔ کامن ویلتھ ہیڈس کی بات بھی نہیں مانی افریقین گورنمنٹ نے وہی کیا جس کی اس نے ضرورت محسوس کی— سپاہی کو مارنے کا جھوٹا الزام لگا کر پھانسی دے دی۔ لبریشن کے نام پر ہر شخص فائٹ کرتا ہے اور کیا ملتا ہے فائٹ کرنے والوں کو۔ کہیں غدار، کہیں وفا دار، ایک ہی ملک میں مقبول بھٹ کی طرح کہیں غدار اور کہیں شہید۔ دراصل مریخ پر جانے کی تیاری کے باوجود آزادی کا مفہوم سمجھنے میں کہیں نہ کہیں غلطی ضرور ہوئی ہے۔ کچھ دیر کے لیے لگا تھا کہ ہم کہیں نہ کہیں سے جھوٹ کے احساس سے ضرور جڑے ہیں۔ شاید سارے کے سارے ہی، سارے کے سارے ملک بھی۔ یہ احساس پتہ نہیں کب کیسے زور پکڑتا گیا۔ بنجامن کی غلطی کیا تھی؟ بھیکو کی غلطی کیا تھی؟ وہی بیمار سا احساس، بنجامن کا شاعر باہر آ گیا تھا۔ بھیکو جاہل تھا اس کی گونگی انقلابی شاعری اس حادثے کے بعد اندر ہی اندر چنگاری بن رہی تھی۔ کسی نہ کسی سطح پر ہم برتری کے جھوٹے احساس سے چمٹے ہوئے ضرور ہیں اور یہ احساس خوفناک جانوروں کی طرح دوسرے تمام چھوٹوں کے کمزور وجود کو نگل جاتا ہے۔ اس سطح پر ایسی ایک جنگ ضرور ہونی چاہئے۔ اس سطح پر ایسی ایک جنگ کی ضرورت بھی ہے۔ بنجامن بھی ہار گیا تھا، مگر شاید نہیں۔ اس نے اندھیرے میں اپنے ہی جیسے ہزاروں لاکھوں سیاہ فام حبشیوں کی جلتی آنکھوں میں ڈال دیا ہے۔ مستقبل میں پیدا ہونے والے بھیانک خوابوں کے جراثیم اور جراثیم کے خاتمے کے لیے، انجانے میں ہی، انقلاب کے نام پر ایک مشعل—‘‘
—سور باڑی
’’اچانک ایک کھٹکا ہوا اس کے اندر— کیا وہ سچ مچ ہندستانی ہیں اور یہ سارے کے سارے؟ یہ ہندستانی ہونے کا کیسا عجیب و غریب ثبوت پیش کر رہے ہیں یہ لوگ کہ عدم تحفظ کا جذبہ رات کے سناٹے میں انہیں چوکیداری کے لیے مجبور کر رہا ہے —یہ کیسی اجنبی آوازیں ہیں جہاں اپنے ہی بھائیوں کے لیے خطرہ، خوف اور شک جاگتا ہے، نہیں وہ ہندستانی ہیں۔ ہندستانیت فرنگیوں نے بہت پہلے سلادی۔ صرف کفن بچا تھا اور کفن کے بھی چیتھڑے چیتھڑے ہو گئے ہیں۔ اندر سے کوئی بے سری آواز میں گا رہا ہے… سارے جہاں سے اچھا ہندستاں ہمارا… ہم بلبلیں ہیں اس کی… یہ گلستاں ہمارا…‘‘
—ہندستانی
مجھے ان کہانیوں میں ایک پوری صدی سانس لیتی ہوئی نظر آتی ہے— فسادات کے موضوع پر ذوقی کی مختلف کہانیوں میں الگ الگ رنگوں کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ فسادات پر مبنی کہانیوں کا ذکر ہو اور ذوقی کا حوالہ سامنے نہ آئے۔ سعادت حسن منٹو نے جس طرح اپنے عہد کی سیاست کو اپنی کہانیوں کے ذریعہ بے نقاب کرنے کی کوشش کی تھی، کم و بیش یہی رنگ ذوقی کے یہاں بھی نظر آتا ہے لیکن دونوں کے کہانی کہنے اور بننے کا اپنا طریقہ ہے— زبان و بیان اور مکالموں پر ذوقی کی گرفت مضبوط ہے۔ وہ مستقبل کے خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے نئے عہد کی کہانیاں تراشتے ہیں۔ دراصل ان کا مخصوص لب و لہجہ ہی ان کی شناخت ہے— میں نہیں جانتی، میں ان کی کہانیوں کو کس حد تک سمجھ پائی ہوں، لیکن میں یہ ضرور کہہ سکتی ہوں کہ ایک حد تک میں نے ان کی تحریروں کو سمجھنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ اب یہ تحریر آپ کے سامنے ہے اور مجھے آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔
—شیفتہ پروین
225۔ سابر متی ہاسٹل،
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی110067-
E-maill:shefta.jnu@gmail.com
Ph:7838327821
باب اوّل
مشرف عالم ذوقی کا سوانحی خاکہ
مشرف عالم ذوقی ۲۴ مارچ ۱۹۶۲ ء کو بہار کے ایک چھوٹے سے شہر آ رہ میں پیدا ہوئے۔ اس شہر کو کئی اعتبار سے خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ مثال کے طور پر پہلی جنگ آزادی میں اس شہر کا نام تب سامنے آیا جب ۸۰ سالہ کنورسنگھ نے انگریزوں کے خلاف بغاوت بلند کی تھی— لیکن ادبی دنیا میں بھی اس چھوٹے سے شہر کو ایک نمایاں امتیاز حاصل تھا۔ بدر آروی، وصی بلگرامی جیسے ادیب ادب کی دنیا میں اپنی مخصوص شناخت قائم کر چکے تھے۔
ایک خاص علمی اور ادبی ماحول میں مشرف عالم ذوقی نے ہوش و خرد کی دہلیز پر قدم رکھا۔ اس علمی ماحول سے تعلق رکھنے کے بے شمار فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ تعلیم و تربیت کی ابتدا اپنے مقررہ وقت سے ہوئی۔ ابتدائی تعلیم آ رہ میں ہوئی۔ میٹرک جین ہائی اسکول آ رہ اور کالج کی تعلیم مہاراجہ کالج آ رہ سے حاصل کی۔
مشرف عالم ذوقی نے اپنے ایک مضمون ’’سنّاٹے میں تارا‘‘ میں اپنی زندگی کے اس دور پر روشنی ڈالی ہے جو کسی بھی انسان کے کردار کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔
’’ چھوٹی سی زندگی— اس زندگی کے اپنے رنگ ہیں، اپنے تقاضے ہیں۔ کچھ یادیں ہیں جنھیں بار بار لکھنے کو جی چاہتا ہے۔ کچھ لوگ ہیں جن کے بغیر میری کتاب حیات مکمل نہیں۔ کچھ چہرے ہیں جنہوں نے میرے چہرے کو سجاتے سنوارتے ہوئے اپنا چہرہ ہی سونپ دیا… کچھ خواب ہیں جو مجھ سے پہلے ان چہروں نے دیکھے….. بچپن، خوش رنگ تتلیوں کے تعاقب میں میرا سفر شروع ہو گیا۔ میں نازو نعم میں پلا، بچپن سے ہی میری ذہانت لوگوں کو حیران کر جاتی تھی۔ اور میری خوبصورتی محلّے ٹولے میں میری الگ پہچان کا حصہ بن رہی تھی۔ تب میں ذوقی نہیں تھا، عالم بھی نہیں تھا— مشرف بھی نہیں تھا۔ منّا تھا۔ گھر بھر کا منّا۔ سارے خاندان کا منّا۔ بس یہی نام تھا جو گھر والوں نے مجھے دیا تھا…..منّا….. ارے منّا کہاں ہے؟ منّا کہاں گیا؟ سنو منّا….. منّا کے لئے مولی صاحب آنے والے ہیں ….. چار سال کا تھا منّا۔ پڑھنے کے لئے بیٹھا دیا گیا۔ کتابیں تھما دی گئیں۔ انگلیوں نے پہلی بار اردو کی کتابوں کو چھو کر دیکھا۔ حروف سے محبت پیدا ہوئی۔ آنکھوں میں حیرانی اور وسوسے کی شمع ایک ساتھ روشن تھی۔ ابّا نے کہا تھا مولی صاحب ٹھیک آٹھ بجے پہونچ جائیں گے۔
کتنا عرصہ گذر گیا مجھے یاد نہیں۔ لیکن گھر والے بتاتے ہیں اس دن بھی پیٹ پیٹ کر بارش ہو رہی تھی۔ ابّا مایوس تھے۔ امّی کا چہرہ لٹکا ہوا تھا۔ لو اب ایسی بارش، سڑکیں سنسان، پانی اور رم جھم کا سنگیت….. اندھیرے کمرے میں جلتا ہوا بلب۔ بہار میں تب بھی روشنی کہاں رہتی تھی۔ آٹھ بجا اور ایک غیر مانوس سی آواز آئی۔ مشرف….. مشرف….. منّا چونک گیا۔۔ منّا کو تو منّا نام سننے کی عادت پڑ گئی تھی۔ یہ اجنبیوں والا نام….. مشرف….. ابّا کی آنکھوں میں چمک لہرائی۔ امّی کی آنکھوں میں امّید اور اطمینان کے قمقمے ایک ساتھ روشن ہوئے۔ باہر پانی کی ٹپ ٹپ جاری تھی۔ ابّا مسکرائے….. دیکھا۔ یہ ہے اخلاق۔ میں کہتا نہ تھا۔ مولی صاحب ضرور آئیں گے۔ اور دیکھو منّا نہیں کہا۔ مشرف کہہ کر بلایا ہے۔ انہوں نے نام پوچھا تھا۔ میں نے کہا منّا کو پڑھانا ہے۔ لیکن انہوں نے اصلی نام پوچھا اور میں نے بتا دیا۔
چار سال کی عمر میں، میں ننھّے شرارتی منّا سے ایک دم مشرف بن گیا۔ یہ نام اس وقت میرے لئے بالکل اجنبی تھا۔ لیکن مجھے منّا سے مشرف بنانے کے پیچھے اکیلا ہاتھ مولی صاحب کا تھا۔ ‘‘ (۱)
یہ اقتباس طویل ضرور ہے لیکن غور سے دیکھیں تو یہاں وہ تمام اسباب موجود ہیں جو کسی کے بچپن کو ایک مثبت زاویہ فراہم کرتے ہیں۔ والدین کی شفقت تو سبھی بچوں کو ملتی ہے لیکن ہوش سنبھالتے ہی بچے کی تربیت کی فکر اس زمانے میں کم ہی لوگ کیا کرتے تھے۔ ویسے یہ واقعہ کچھ خاص اہمیت کا حامل نہیں لگتا لیکن غور کریں تو یہ واقعہ ایک ایسا واقعہ ہے جس نے منّا کو مشرف بنا دیا اور اسی لیے یہ واقعہ ایک غیر معمولی اہمیت کا حامل ہو جا تا ہے۔
دوسرے بچوں کی طرح منّا کو بھی طرح طرح کے کھیل کھیلنے کا شوق تھا۔ لیکن جب اس نے گلی ڈنڈا کھیلنا چاہا تو گلی نے اپنی حد مقرر کر لی کہ چار قدم سے آگے جانا اس کی شان کے خلاف ہے۔ گولی کھیلنی چاہی تو شیشے کی بے جان گولیوں نے آپس میں سمجھوتہ کر لیا کہ ایک دسرے سے ٹکرانے سے آپس میں نفاق پیدا ہو سکتا ہے— اس لئے ایک دوسرے سے ایک مقررہ دوری رکھنا ضروری ہے۔ کرکٹ کھیلنا شروع کیا تو گیند سے بلّے کی ان بن ہو گئی اور نتیجے میں گیند نے وکٹ سے دوستی کر لی اور فٹ بال کو منّا کے کک سے گہرا صدمہ پہونچتا تھا— اس لئے انتقاماً وہ ہر بار اپنا زاویہ بدلتا رہا۔ لیکن جب مشرف نے قلم اٹھایا تو اس نے نہ صرف منا کے دل کی آواز سنی بلکہ اسے یقین دلا یا کہ اس کی دوستی حا لات کے نشیب و فراز اور زمانے کی ستم ظریفیوں کے اثر سے خود کو محفوظ رکھنا جانتی ہے۔ اور وہ دوستی آج تک برقرار ہے۔ اس دوستی کے پیچھے ایک اور وجہ بھی پنہاں ہے اور وہ یہ کہ قلم نے صرف منّا کے دل کی آواز ہی نہیں سنی تھی بلکہ وہ اس گھر کے ماحول میں گونج رہی شیکسپئر، ملٹن، غالب اور اقبال کی ان صداؤں کا بھی ضامن تھا جو اسے خود کو کسی کی مخروطی انگلیوں کے حوالے کر دینے کو مجبور کرتی تھیں۔ اور آخر اس نے وہ انگلیاں منّا کے ننّھے ہاتھوں میں تلاش کر لیں۔ ایک اقتباس:
’’آنکھیں کھولیں تو ابا حضور جناب مشکور عالم بصیری کی شفقتوں بھرا آسمان تھا اور اٹھتے بیٹھتے شیکسپیئر، ملٹن، غالب و اقبال کی صدائیں تھیں۔ پھر جب لڑکپن کی حد شروع ہوئی تو دوسرے لڑکوں کی طرح میں نے بھی کھیل کود میں دلچسپی لینی چاہی۔ لٹو، گلی ڈنڈا، گولی سے لیکر کرکٹ، ہاکی، فٹ بال اور والی بال تک، مگر یہ کیا، آس پاس کے معمولی بچوں سے بھی میں شکست کھا جاتا۔ دل میں یہ خیال آتا کہ میں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ ہر بار کھیل میں، میں ہار جاتا ہوں۔ یہ بار بار کی شکست کا صدمہ کچھ ایسا تھا کہ ہاتھوں میں قلم اٹھا لیا۔ اب نہیں ہاروں گا۔ صرف جیتوں گا۔ تب سے اب تک پریم چند کی اس بات پر عمل کرتا رہا ہوں کہ ادب تو مزدور کی طرح ہر دن مزدوری کرنا ہے۔ یہی کمٹمنٹ تب سے اب تک بنا ہوا ہے۔ ‘‘ (۲)
منّا کو بچپن میں بچوں کو کہانیاں سنانے کا بیحد شوق تھا اور شاید یہی اس کے اندر کے کہانی کار کی پہلی منزل بھی تھی۔ رفتہ رفتہ الفاظ اپنی شکل متعین کرتے ہوئے صفحہ قرطاس پر اترنے لگے۔ اپنے اس ننھے سے کہانی کار کا تعارف مشرف عالم ذوقی نے بھوکا ایتھوپیا کے پیش لفظ میں کرایا ہے۔ زیادہ تر بچوں کی طرح ان کے بچپن پر بھی ان کی ماں کا بہت گہرا اثر رہا ہے جو انہیں پیار سے کہانی کار بیٹا تو ضرور کہہ کر بلاتیں لیکن ان کے مستقبل کے لئے پریشان بھی رہا کرتیں۔ ۱۱ سال کی عمر میں ان کی پہلی کہانی ’’پیام تعلیم‘‘ میں شائع ہوئی اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اس وقت کلام حیدری کے ’’مورچہ‘‘ اور’’ آہنگ‘‘ کا کافی شور تھا۔ ۱۳ سال کی عمر میں ان کا پہلا افسانہ ’’ رشتوں کی صلیب‘‘ کہکشاں میں شائع ہوا۔ اسی سال ایک اور افسانہ ’’موڑ‘‘ کلام حیدری کے رسالہ آہنگ کی زینت بنا۔ ذوقی پریم چند کی اس بات سے بیحد متاثر تھے کہ ادیب تو مزدور ہوتا ہے۔ اور ادب ایک ادیب کے لئے مزدوری کرنے جیسا ہے۔ اور اسی بات نے انھیں رات اور دن کہانیوں کی تلاش میں کوشاں رکھا۔ کسی چیز کا شوق ہونا الگ بات ہوتی ہے اور اس چیز کی لگن ہونا اور بات۔ ذوقی کے اندر کہانیاں تلاش کرنے کی لگن تھی اور یہی وجہ تھی میٹرک تک ان کی کہانیاں بیسویں صدی، شمع، اور اس وقت کے تمام ادبی رسائل و جرائد کی زینت بن چکی تھیں۔
روسی ادب سے مشرف عالم ذوقی کو ایک خاص انسیت تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ زیادہ ترروسی ادیبوں کے یہاں زندگی کے گوناگوں مسائل سے نبرد آزما ہونے کی جسارت ملتی تھی۔ بورس پولوو کی The Story of A real man نے انھیں بے حد متاثر کیا تھا جسے انھوں نے آ رہ چھوڑنے سے قبل پڑھی تھی۔
اس کتاب میں ایک فوجی کا کردار جس کا پاؤں کاٹ ڈالا جاتا ہے اور جو اپنے Will Powerسے اپنی خود اعتمادی دوبارہ بحال کر نے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اسی طرح انھیں ہیمنگوے کے Old man and the seaسے محبت تھی۔ ہیمنگوے کی کہانیوں کے مرد آہن ان میں نیا جوش، نیا دم خم بھرتے تھے۔ اور انھیں ہنری ملر کے موبی ڈک سے پیار تھا۔ وکٹر ہیوگو، کافکا، ورجینا وولف میں بھی انھیں اتنی ہی دلچسپی تھی۔
ذوقی کو مصنف سے زیادہ اس کی کہانی اور اس کے کرداروں سے پیار تھا جیسےLes Miserable کا پادری اور (The Plague) Dr. Riox بھی ان کا آئیڈیل تھا— ٹھیک اسی طرح کرائم اینڈ پنشمنٹ کا رسکلانیکوو گورکی کی مدر کا پاویل ولا سوف، اور ترگنیف کی The Father and the son کے باپ بیٹے انہیں بیحد پیارے تھے۔ گوگول کی کتاب Dead Soul ذوقی کو ذہنی عذاب میں مبتلا کرتی تھی— وہیں گبریل گارشیا مارکینز کے کردار انہیں ایک نئی دشا میں لے جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ عجیب بات تھی کہ انہیں الیکزینڈر سولنسٹین سے بھی اسی قدر محبت تھی۔ NathanielHawthorne کی The Scarlet Letter بھی ذوقی کو پسند تھی۔ جارج آرویل کی Animal Farm اور 1984 انہیں نئی فکر سے روشناس کرا رہے تھے۔ وہ ولیم گولڈنگ کو بھی پڑھنا چاہتے تھے اور گراہم گرین کو بھی— اردو میں قرۃ العین حیدر کے یہاں انہیں تصنع محسوس ہوتا تھا۔ منٹو انھیں چونکاتا تھا لیکن فکری اعتبار سے وہ منٹو کو زیادہ بلند نہیں مانتے تھے۔ عصمت بقول ان کے، انہیں راس نہیں آئیں۔ ہاں راجندر سنگھ بیدی کی کہانیاں ہر بار انہیں نئے طریقے سے اپنے پاس بلاتی تھیں۔ اور کرشن چندر ااور افسانہ ’’ ہتر لگ رہا ہے۔ تم بہتر سمجھو/‘کیا‘ بر وزن ’کا‘ آتا ہے جو یوں تو درست ہے لیکن کا کا بھی الف کا اسقاط کے ساتھ درست کے افسانے کسی جادو کی طرح ان پر سوارتھے۔ انہیں اردو کی داستانوں نے برسوں اپنے پاس بٹھا کر لکھنا سکھایا تھا۔ ذوقی کو پنچ تنتر بھی پسند تھا اور The Magic Mountain بھی۔ طلسم ہوشربا نے انہیں اپنا دیوانہ بنا لیا۔
اسی طرح ذوقی کہانیوں کی ہر طاقتور موج کے ساتھ بہتے رہے اور اس کی طغیانی کو محسوس کرتے رہے۔ کسی نے انہیں دشت تحیّرات میں بھٹکنے پر مجبور کیا اور کسی نے انہیں ذہنی اذیت سے دوچار کیا۔ دلی کی بھیڑ بھری سڑکوں پر ہیمنگوے کا The old man and the Sea پیر تسمہ پا کی طرح ان پر سوار تھا۔ دلی کی پریشان حال زندگی نے انہیں حالات سے نبرد آزما ہونے کا جذبہ دیا اور اس جذبے نے ایک ترقی پسندانہ رنگ دیا جو 85ء سے 98 ء تک کے بیچ کی کہانیوں پر غالب رہا:
’’ جہاں تک اردو ادب کا سوال ہے تومجھے منٹو نے متاثر ضرور کیا لیکن بہت زیادہ نہیں کیونکہ فن کی سطح پر منٹو چونکانے میں زیادہ یقین رکھتا تھا۔ منٹو کے یہاں حقیقت نگاری مختلف کہانیوں میں ایک ہی شکل میں نظر آتی ہے۔ وہ پریم چند سے بھی متاثر تھے، عصمت اور کرشن چندر بھی الگ الگ سطح پر مجھے متاثر کرتے تھے۔ ادب میں ایک چیز طلسمی حقیقت نگاری ہے۔ ‘‘ (۳)
لیکن ذوقی ہمیشہ یہ محسوس کرتے رہے کہ یہ وہ منزل نہیں ہے جس کی انہیں تلاش تھی۔ پھر انہوں نے اپنا تجزیہ کیا، ایک نئی روش اپنائی اور ایک نئی ڈ گر پر چلے۔
مشرف عالم ذوقی کی کہانیاں بھی اسی کرب، اسی درد کا نتیجہ تھیں جنھیں لوگ تقسیم کے نام سے جانتے ہیں۔ گو آزادی کے پندرہ برس بعد ان کی پیدائش ہوئی لیکن کہیں نہ کہیں ان کے اندر بھی تقسیم کا درد زندہ تھا اور کراہتا تھا۔ غلامی ذوقی کے لئے ایک اذیت ناک تصور تھا اور آزادی کے بعد کے فسادات ان کے نزدیک انتہائی بے رحم آزادی کی خون بھری سوغات کی مانند تھے۔ اسی آزادی اور اس کے بعد کے واقعات نے ان کے دامن میں کہانیوں کا تحفہ ڈال دیا جسے ذوقی آج تک سنبھالتے آئے ہیں۔ ایک اقتباس:
’’ترقی پسندیت، جدیدیت، ما بعد جدیدیت سے نئے افسانے کے سفر تک ایک ایسا نام پیش نگاہ ہے جہاں آ کر ٹھہر جاتا ہوں — یہ کہانیاں مجھے روک لیتی ہیں — کسی کسی کہانی کو پڑھنا شروع کرتا ہوں تو حیرت و تجسس کی ایک روشن کائنات کی چکاچوند مجھے منجمد کر دیتی ہے۔ یہ کالج کا دور تھا— آہنگ میں ایک نئے نام مشرف عالم ذوقی سے تعارف کا سلسلہ تب اتنا پرانا نہیں تھا۔ فاصلے کے درمیان جلتی ہوئی ایک لالٹین، کھوئے ہوؤں کی جستجو، پاشان یگ، فاختاؤں کا شہر، پیر تسمہ یا اب قید ہے— ان کہانیوں سے آگے نکلا تو حیران مت ہو سنگی مترا، مت رو سالگ رام— تم ہارے نہیں ہو کامریڈ، جیسی کہانیوں نے میرا راستہ روک لیا— یہ نیا اسلوب تھا— نئی کہانی تھی۔ جیسے منٹو کا اپنا اسلوب، اپنا آہنگ تھا— یا پھر قرۃ العین حیدر، انتظار حسین، منٹو یا بیدی کے پاس اپنا ٹریٹمنٹ اور اپنا مخصوص رنگ و آہنگ ہے، یہ آہنگ اس عہد کے بعد نئے تخلیق کاروں کی شناخت میں معاون ثابت نہیں ہوسکا۔ لیکن ذوقی کے نام کو چھپا کر بھی اُن کی کہانیاں پڑھ جائیے تو آپ چیخ کر کہہ دیں گے کہ ارے یہ تو ذوقی کی کہانی ہے— ذوقی کے یہاں سب سے خاص بات یہ ہے کہ بیک وقت ان کی کہانیوں میں تاریخ و فلسفے کا خوبصورت امتزاج نظر آتا ہے— ایک طرف ان کی کہانیاں جہاں تہذیبوں کی کشمکش، ثقافت و تمدن کے عروج و زوال کو اپنا موضوع بناتی ہیں، وہیں ان کا سیدھا رشتہ مستقبل کے اندیشوں سے بھی رہتا ہے— سائنس، ارتقا، تکنالوجی اور تیزی سے کروٹ لیتی ہوئی سیاست ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ اس لیے ذوقی کی ہر کہانی، دوسری کہانی سے الگ نظر آتی ہے— ذوقی اپنی ہر کہانی میں پہلے سے زیادہ نئے تجربے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں — مجھے نئے افسانے کی تلاش تھی اور مجھے کہنے دیجئے کہ یہ تلاش مجھے ذوقی تک لے گئی۔ شاید یہ تلاش صرف میری نہیں تھی‘ یہ باقی کی اردو دنیا کی بھی تلاش تھی— اس سے پہلے کہ میں اپنی بات کی وضاحت کروں میں کچھ دوسرے نقادوں کے اہم اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں — مجھے حیرت نہیں ہوئی کہ یہ لوگ بھی میری سطح پر سوچ رہے تھے—کیونکہ مجھے یقین ہے آنے والا وقت اسی سُر میں سُر ملائے گا کہ نئی کہانی کی جو زمین ذوقی نے فراہم کی ہے، وہ زمین کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ ‘‘(۴)
—معاصر افسانہ اور ذوقی(پروفیسر شہزاد انجم)
’’مشرف عالم ذوقی کا افسانہ بہت دنوں کے بعد پڑھا— اچھا لگا— وہ جو کچھ لکھتے ہیں اور جس طرح لکھتے ہیں صرف وہی لکھ سکتے ہیں — میرا اپنا ماننا ہے کہ افسانوی ادب میں۔ قاضی عبد الستار، قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کو جس قسم کی انفرادیت حاصل ہے ویسی ہی انفرادیت آج کے افسانوی تناظر میں مشرف عالم ذوقی کو حاصل ہے۔ وہ سنگین سے سنگین ترین موضوع پر افسانے لکھنے میں کمال رکھتے ہیں۔ ان کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ نئے صارف سماج اور ایڈوانس کلچرل سوسائٹی میں جس قسم کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ وہ مسائل عموماً اولیت کے ساتھ ذوقی صاحب کے افسانوں ہی میں ابلاغ پاتے ہیں۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ ہمارے درمیان ایک افسانہ نگار موجود ہے جو ترقی یافتہ سماج میں پیدا ہونے والے مسائل کو اس وقت گرفت میں لے لیتا ہے جس وقت امروز کا عام افسانہ نگار اسے محسوس بھی نہیں کرپاتا ہے۔ ذوقی اتنا پھیلا ہوا اور اتنا زیادہ حساس افسانہ نگار ہے کہ جب وہ تنہائی کے کسی لمحے میں اپنے آپ کو سمیٹتا ہے تو اس کے دامن میں سینکڑوں کہانیوں کے جگنو چمک اٹھتے ہیں۔ وہ بھی ایک سے ایک نئی، جاندار اور انسانی نفسیات کو روشنی کی تاریکی سے آشنا کرنے والی۔ ‘‘ (۵)
— آفاق عالم صدیقی (بین الاقوامی صدا، اگست 2010)
شاعری کے میدان میں مشرف عالم ذوقی غالب، مومن اور اقبال کو اپنے دل کے بے حد قریب پاتے ہیں۔ جگر اور فراق کی محبت بھری شاعری ان کے دل کے حساس تاروں کو چھیڑ تی ہے۔ ن۔ م۔ راشد اور فیض کے لہجے کی کھنک بھی انہیں متاثر کرتی ہے۔ جھمپا لہری، ارون دھتی رائے، کرن دیسائی وغیرہ کے ادب نے بھی الگ الگ سطح پر متاثر کیا۔ وکرم سیٹھ کے A Suitable Boy نے بھی متاثر کیا۔
ویسے تو ذوقی بہت سے لوگوں سے متاثر رہے لیکن ان تمام فنکاروں سے ذوقی نے صرف ایک تاثر قبول کیا۔ ان کے ادب کو اپنے ادب میں کبھی Impose کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس بات کو قبول کرنے میں وہ کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے کہ اس عالمی ادب کے مطالعے سے انہوں نے اپنا ایک الگ مقام بنانے کی کوشش کی ہے۔
مشرف عالم ذوقی کو قارئین سے حد درجہ پیار ہے۔ انہوں نے لکھتے ہوئے کبھی اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ ایک مدیر کیا چاہتا ہے یا قارئین کیسی کہانیاں پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ اور یہی بات ان کے ایک جینوئن ادیب ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کوئی بھی سچا ادیب اس طرح سے نہیں سوچتا کہ مارکیٹ میں یا بازار میں کیا فروخت ہوتا ہے۔ کیوں کہ لکھنا ان کے لئے Product نہیں، زندگی ہے اور زندگی فروخت کرنے کے لئے نہیں ہوتی۔ افسانہ لکھتے ہوئے وہ مبلّغ یا مقرّر نہیں ہوتے۔ ایک عام آدمی ہی ہوتے ہیں۔ جو اپنے طور پر انسانوں کے دکھ کو محسوس کرتا ہے۔ اور اس کی کہانیاں موضوع، اسلوب اور ٹریٹمنٹ کی سطح پر اس کی اپنی فکر کے ساتھ چلتی رہتی ہیں۔ شاید اس لئے وہ رد عمل چاہے نقادوں کا ہو یا قارئین کا، ذوقی نہ کبھی کسی سے بد گمان ہوئے۔ نہ کسی کی مثبت اور خوبصورت رائے نے ان کو خوش فہم بنایا۔
مشرف عالم ذوقی کے لئے سب سے اہم سوال یہی تھا کہ وہ لکھتے ہیں اور یہ بات ہمیشہ ان کے ذہن میں رہی۔ انہوں نے کبھی قلم پر اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کی۔ اور وہی لکھتے رہے جو وہ لکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے افسانہ ہو، ناول یا شاعری۔ وہ کسی بھی رد عمل سے پریشان نہیں ہوئے۔ کیونکہ ادبی سفر میں ہر بار سوچ کی دہلیز پر ان کے لئے مسائل، گلوبل مسائل یا عالمی مسائل کی کرچیاں رکھ دیتا تھا اور روز، فنکارانہ سطح پر انہیں چنتے ہوئے وہ اپنے ہاتھ زخمی کر لیتے تھے— جس کی لالی ان کی کہانیوں میں کہیں کہیں بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ اور حقیقتاً یہی واقعات کبھی جدید، کبھی طلسمی حقیقت نگاری کی سطح پران کی کہانیوں کے حوالے سے بیان ہوتے رہتے تھے۔
بچپن ان کے ذہن میں ہمیشہ محفوظ رہا ہے— یہ الگ بات ہے کہ وہ نئے نئے پیرہن بدلتا رہا ہے۔ ذوقی ہمیشہ اپنے اس آ رہ کو یاد کرتے ہیں جہاں ایک گھر تھا جو کوٹھی کے نام سے مشہور اور باہر کے راستے بچپن کے شرارتی قدموں کے لئے بند۔ باہر کی دنیا، اور دنیا کی رنگینیاں تصور کی آنکھوں سے دیکھتے تھے۔ انتہائی کم عمری میں قلم کو ہی اپنا ہمدم و ہمساز بنا لیا—
’’ اس لئے آج جب The Tin Drum جیسی کہانیاں لکھی جاتی ہیں جن میں اپنے وطن کی محبت کے قصے بیان کئے جاتے ہیں۔ جوائز ڈبلن شہر کے گیت گاتا ہے۔ روسی مصنفوں کی تصنیف میں ان کا شہر گاتا ہے۔ گبریل گارسیا مارکیز (One Hundred Years of Solitude) اور اپنی دیگر کتابوں میں اپنے شہر، اپنے لوگوں کو زندہ کرتا ہے تو مجھے تعجب نہیں ہوتا۔ ‘‘
ذوقی دہلی میں ۱۹۸۵ ء میں آئے ۸۵ کے بعد آج تک ان کی کہانیوں میں ان کا شہر آ رہ زندہ رہا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ذوقی خود اب تک تخیلاتی طور پر آ رہ میں زندہ رہے ہیں۔ وہ آ رہ سے باہر آئے ہی کب؟ ریل کا وہ سفر طبیعات آ رہ سے تخیلاتی آ رہ کی طرف تھا۔ شہر آ رہ کے مختلف کردار الگ الگ بھیس بدل کر ان کی کہانیوں میں زندہ ہوتے رہے۔ خاص کر ان کہانیوں میں جو میں ۸۵ کے آس پاس لکھی گئیں۔ ان میں زیادہ تر کہانیاں ایسی ہیں جس کے پس منظر میں ان کا اپنا شہر ہے اور ان کے اپنے لوگ الگ الگ کرداروں کے بھیس میں نظر آتے ہیں۔ کہانی میں ہر جگہ ان کے احساسات کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں۔ یہ ان کی کہانیوں کا پہلا چہرہ تھا۔ عام قاری کو ان کی کہانیوں کے اس چہرے کو دکھانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان کا ہر پل محاسبہ اور تجزیہ سے گزرتا رہا ہے۔ اس طرح ان کی کہانیوں کے کئی چہرے رہے۔ ایک چہرہ جس میں ان کا شہر زندہ رہا۔ ان کے مطابق ان کی کہانیوں کا ایک چہرہ وہ تھا جہاں جدید تر ہونے کی بھول بھلیّاں میں انہوں نے آڑی ترچھی تجریدی کہانیاں بھی لکھیں۔ پھر انہوں نے با وضو ہو کر اساطیر کے بطن سے بھی کہانیاں چرائیں۔ پھر ایک نیا چہرہ ان کی کہانیوں میں پیدا ہوا۔ یعنی وہ ترقی پسندی کی کھر دری، دھوپ کی تمازت سے جلتی شاہراہ پر چلتے گئے۔ مگر ذوقی کی حساس طبیعت کو سیاست کی باد سموم راس نہ آئی۔ وہ Ideology کے نازک سے شیشے کو سینے سے چمٹائے رکھنا چاہتے تھے:
مشرف عالم افسانوں میں کس طرح قاری کو چونکاتے ہیں۔ جب وہ لکھتے ہیں تو ان کے سامنے ان کے فکر میں پورا معاشرہ ہوتا ہے اور انہیں کے مطابق وہ کہانی میں کردار لاتے ہیں۔ ادب میں ایسے موضوع پر کام کرتے ہیں جو نہ صرف قاری کو متاثر کرتا ہے بلکہ ادب میں ایک سوالیہ نشان چھوڑ دیتے ہیں ! چاہے وہ اپنے افسانوں میں نسوانی کردار کے حوالے سے بات کر رہے ہوں، چاہے کسی عام انسان کے زندگی کی بات کر رہے ہوں ان کے سامنے پورا سماج، پورا ادبی خاکہ ہوتا ہے جو ان کی تخلیق کو انفرادیت بخشتی ہے۔ لکھتے وقت ان کی قلم رکتی نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے ہمعصر ادیب یا افسانہ نگار ان کو نویس کے نام سے بھی نوازتے ہیں مگر ان کا کہنا ہوتا ہے کہ کوئی بھی بات ادھوری قاری اور ادب کو آدھا سچ لگتا ہے، ان کا ذہن الجھ کر رہ جاتا ہے اس لیے وہ اپنی پوری وضاحت کے ساتھ کہنے میں زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ ایک اقتباس:
’’لکھنے والا کیوں لکھتا ہے؟ یہ جواب مجھے آج تک نہیں ملا۔ لکھتے وقت وہ کوئی سیاست داں نہیں ہوتا۔ ہتھیار چلانا اس کا پیشہ نہیں ہوتا۔ پھر وہ کسی احساس کے تحت لکھتا ہے؟ یہ اپنے آپ سے تھکنے والا جذبہ بھی نہیں ہوسکتا؟ ہاں کسی سطح پر ظلم اور ناانصافی کی کسی ایسی زندہ مثال سے اس کا واسطہ ضرور پڑتا ہو گا، جو اچانک قلم میں آگ پھونکنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ‘‘ (۶)
بچپن کسے عزیز نہیں ہوتا لیکن ذوقی کے دل و دماغ سے اگر بچپن کو ہٹا لیا جائے تو شاید انہیں ہم کسی اور نام سے جا نیں گے مشرف عالم ذوقی کے نام سے نہیں۔ کیونکہ ذوقی ان لوگوں میں سے ہیں جن کے کردار نے عہد طفلی میں ہی اپنی ایک مثبت راہ اپنا لی تھی اسی لئے ان کی عمر کے ہر دور میں ان کا بچپن سرایت کرتا رہا۔ اور یہ بچپن آج بھی ان کی کہانیوں میں اتر آتا ہے۔ ذوقی کی قسمت اس معاملے میں بھی ان پر یاور تھی یا یوں کہہ لیں کے حالات اس ننھے کہانی کار کے موافق تھے کہ ذوقی کے والد صاحب جنہیں وہ ابا کہا کرتے تھے نہ صرف اس فن کو سراہتے تھے بلکہ اکثر ان کی رہنمائی بھی کیا کرتے تھے۔ وہ اکثر ان سے کہا کرتے تھے کہ بیٹا ۲۴ سال کی عمر تک اگر کو ئی شاہکار نہیں لکھا تو کبھی نہیں لکھ پاؤ گے۔ یہ بات ذوقی کبھی نہیں بھولے اور والد کی یہی بات ان کے پہلے ناول عقاب کی آنکھیں کے وجود میں آنے کی محرک بنی۔ بچپن کی محسوسات کو سمیٹ کر صرف سترہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنا پہلا ناول مکمل کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہ رائیڈر ہیگرڈ، الیگزنڈر ڈیوما وغیرہ مصنفوں سے زیادہ متاثر تھے۔ ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ کی بنیاد بچپن میں سیکس کے اثرات پر رکھی گئی تھی۔ اس ناول کے پیش لفظ میں انہوں نے لکھا:
’’یہ ناول میری زندگی کا پہلا ناول ہے۔ اس ناول کو میں نے انتہائی کم سنی میں تحریر کیا، اس وقت عمر ہو گی یہی کوئی ۱۶، ۱۷ سال۔ خواہش تو تھی کہ سب سے پہلے یہ ناول ہی منظر عام پر آتا، مگر ایسا نہیں ہوسکا۔
لکھنے کا شوق بہت چھوٹی عمر میں شروع ہو گیا۔ چھٹے ساتویں درجے سے ہی بچوں کے رسائل میں کہانیاں شائع ہونے لگیں — ابا حضور فرمایا کرتے کہ بیٹا، ۲۴ سال کی عمر تک اگر کوئی شاہکار نہیں لکھا تو پھر کبھی نہیں لکھ پاؤ گے۔ بس ان کی یہ بات گانٹھ سے بندھ گئی اور اس طرح اس ناول کا سفر شروع ہوا—
ناول لکھنے کے دوران کئی حیرت انگیز واقعات پیش آئے— اس زمانے میں ابی (مشکور عالم بصیری) دربھنگہ (بہار)میں تھے۔ ہم پٹنہ سے دربھنگہ کے لیے اسٹیمر پر سفر کر رہے تھے۔ سفر کے دوران جہاں ایک طرف گنگا کی موجیں تھیں، ایاک بے خود کر دینے والا احساس تھا، وہیں مجھے پتہ نہیں تھا کہ میرے پاس کھڑا ایک نوجوان ڈاکٹر میری حرکات و سکنات کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ نوجوانی کا یہ وہ زمانہ تھا جب میں خود کو جمالیاتی اعتبار سے دنیا کا حسین ترین آدمی تصور کرتا تھا اور اس نسبت سے مرد خصوصاً عورتوں کے لیے میرا حسن بے پناہ کشش رکھتا تھا— نوجوان ڈاکٹر چھوٹی سی ملاقات میں مجھ سے کھل گیا— پھر اس نے جو بتایا وہ مجھے حیران کر گیا— جیسے اس نے بتایا کہ عقاب کی آنکھیں، اس کہانی کا ایک کردار تو خود اس کی زندگی ہے اور یہ کہ آج کل وہ تنہا زندگی گزار رہا ہے۔ مجھے نوجوان ڈاکٹر کی باتوں میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ اس طرح نوجوان ڈاکٹر کی کہانی کے کچھ قصے بھی بعد میں اس ناول میں شامل کر لیے گئے—‘‘ (۷)
۷۸-۱۹۷۹ء کے آس پاس ذوقی ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ لکھ چکے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ان کے مشاہدے کی لو تیز تھی اور من کی کھڑکی سے، سمندر کے رومانی لہروں کی گرجن انہیں صاف سنائی دینے لگی تھی۔ ان لہروں نے انہیں بھی بھگویا اور ان کی کہانیوں کو بھی۔
۱۹۸۲ء میں ذوقی نے گریجویشن مکمل کیا۔ اسی دور نے ذوقی کو ان نرم احساسات سے متعارف کرایا جو نوجوانی کا ایک لازمی حصہ ہوتا ہے ان احساسات نے ذوقی کے مشاہدے کو ایک نئی سمت دی۔ ان کے ابا حضور کہا کرتے تھے۔ ’’ جس کی زندگی میں رومان نہ ہو وہ اچھا ادب تخلیق کر ہی نہیں سکتا۔ اور جس نے ۲۴ سال کی عمر تک کچھ نہیں لکھا وہ بڑا ادب تحریر کر ہی نہیں سکتا‘‘۔ اس وقت وہ دل ہی دل میں خوش تھے کہ ۱۸۔ ۲۰ سال کی عمر تک چار ناول تخلیق کر چکے ہیں۔ ’’نیلام گھر‘‘، ’’لمحہ آئندہ‘‘، ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ اور ’’شہر چپ‘‘ ہے۔ اس وقت میں ادب میں ناول کی ہوا نہیں چلی تھی۔
ذوقی کا ماننا ہے کہ رجحانات بدلتے رہتے ہیں، آج کی دنیا ایک چھوٹے سے گلوبل گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ Information تکنیک کا زمانہ ہے۔ بات Global Village میں داخل ہونے یا Information Technology میں ہونے والے انقلاب کی نہیں ہے۔ ایک طرف ایسے انقلاب کا چونکانے والا عمل ہے تو دوسری طرف ہماری کہانی۔ دنیا بدل رہی ہے، اس کے وسائل بدل رہے ہیں تو آخر کہانی وہیں کیوں ہے ؟ آج بھی کہانی انہی مسائل سے دوچار ہے جن سے وہ پریم چند کے زمانے میں تھی۔ لوگ جب اپنے رہنے سہنے کا انداز بدلتے ہیں تو آخر کیوں اپنی سوچ نہیں بدلتے؟ آج ہر طرف عالم کاری اور Globalisation کی باتیں ہو رہیں ہیں تو آخر کہانیوں کی عالم کاری کیوں ممکن نہیں ہے۔ اور اگر بین الاقوامی طرز کی کہانیاں اس سماج کو چاہئیں تو سوچ کو اس دائرے سے نکالنا پڑیگا۔ انہیں تب اور بھی حیرت ہوتی ہے جب ایک بے حد سپاٹ کہانی آپ کی علاقائی زبان کی بوجھل لباس میں آپ کے سامنے آ جاتی ہے جسے پڑھنے کے لئے کنواں کھودنے سے زیادہ مشقت کرنی پڑتی ہے۔ کہانی اتنا لمبا سفر طے کرنے کے باوجود آج بھی ہندی میں کنویں کے مینڈک کی طرح کسی تنگ قید خانے یا اندھیرے کنویں میں گھٹن کا شکار لگتی ہے۔ فنتاسی کی کمی، تصور یا جدید تر خیالات سے الگ یا بغیر کسی نئے تجربے کے کہانی آج بھی جب اسی پریم چند کے زمانے میں جیتی ہوئی نظر آتی ہے تو انہیں دکھ ہوتا ہے۔ شاید اس لئے وہ ایسی کہانی کا تصور نہیں کرسکتے جس میں علامت یا فنتاسی نہ ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم آخر اپنی ہی کہانیوں کی ایک نئی اور جدید زمین کیوں نہیں تیار کرتے۔ وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ ہندی کے نقادوں کے ہاتھ بھی بندھے ہوئے ہیں۔ اور کبھی کبھی اس پر بھی تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ کیا کسی کا دلت ہونا، یا بدقسمتی سے زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہونا نقادوں کو اتنا پسند آتا ہے کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے عظیم بن جاتا ہے۔ وہ اس لحاظ سے اپنے فلک کو محدود مانتے ہیں۔ یعنی جب انہوں نے لکھنا شروع کیا تو ترقی پسندی کی ایک تنگ زمین سامنے تھی۔ اور انہوں نے اپنا ادب اسی پروپیگنڈے کو بنیاد بنا کر لکھنا شروع کیا۔ اس کے بعد آزادی کے دوران ہونے والے دنگے اور اقلیتوں کے مسائل پر ان کا دھیان گیا۔ انہیں لگا کہ ان پر بھی لکھنے کی ضرورت ہے۔ تب بہار میں فساد برپا ہونا ایک عام سی بات تھی۔ ذوقی کا حساس ذہن ان واردات سے بھی بے حد متاثر ہوا۔ وہ جب ان واردات کے پس منظر پر غور کرتے تو انہیں لگتا کہ نفرت کی خلیج تو بہت پہلے ہی پڑ چکی تھی۔ مسلمان لگاتار گھائل کر دینے والے سوالوں کی زد میں تھے۔ اس طرح ان کی ابتدائی کہانیوں پر غور کیا جائے تو یہ کہانیاں آزادی سے پہلے کی غلامی، تقسیم کا درد اور اس کے بعد سامنے آنے والے فرقہ وارانہ فساد کی سیاہ تاریخ تک پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ ایک بات جو آج بھی ذوقی کو پریشان رکھتی ہے، وہ ہے کہ آخر پندرہ کروڑ سے زیادہ مسلم آبادی کو آپ اقلیت کیسے کہہ سکتے ہیں۔ شاید اسی لئے غلام بخش، بیان، ذبح، سب سازندے سے لے کر تازہ افسانوی مجموعہ لیباریٹری کیمپ تک تقریباً تمام تصنیفات میں یہ سوال بار بار سامنے آتا ہے۔ وہ آج بھی سوچتے ہیں کہ آخر اتنی بڑی مسلم آبادی کو اقلیت کی جگہ دوسری بڑی اکثریت کیوں نہیں کہا جاتا۔ ۹۰ کے بعد کہانی کی سطح پران کے انداز فکر میں بڑا فرق آیا۔ اب وہ سپاٹ طرز کی کہانیوں کو پسند نہیں کرتے۔ ممکن ہے اس درمیان جو کچھ پڑھا تھا اس کا بھی اثر ہو لیکن ایک وقت آتا ہے جب کہانی کار تخلیقی سطح پر ناسترے دیمس کی تیسری آنکھ کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ زندگی کے نئے فلسفے اس کی کہانیوں پر حاوی ہونے لگتے ہیں۔ لیکن یہ وہ وقت تھا جب ذوقی سپاٹ کہانی کے جنگل سے آزاد ہو کر اپنی الگ پہچان یا راستہ تلاش کرنا چاہتے تھے۔ ان کے نزدیک زندگی کے معنی بہت حد تک بدلے تھے اور وہ اپنی کہانی کو اپنے ماحول یا گھر کی چہار دیواری میں گھسٹتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ اس سطح پر ہند ی میں انہیں الکا سراوگی نے بے حد چونکایا۔
۸۵ سے پہلے لکھی جانے والی ان کی کہانیوں کا چہرہ اگر غور سے دیکھیں تو ان میں ایسا لگتا ہے کہ ان میں حقیقتاً ذوقی کا گھر ہے۔ ان کی بیوی ہے جس کا نام تبسم ہے، ان کے بچے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تب ان کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ اور وہ تمام چیزیں تصور کی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ نہ جانے کیسے ان کے من نے چپکے چپکے ایک خیالی دنیا آباد کر لی تھی اور اس میں حقیقی دنیا کی تمام باتیں ہوتی تھیں سوائے حقیقی پیکر کے۔ پھریوں ہوا کہ کہانیوں کے سارے واقعات چپکے چپکے آنے والے کل میں اترتے چلے گئے۔ اور آج سب کچھ وہی ہے جو انہوں نے ان دنوں دیکھا، سوچا اورمحسوس کیا تھا۔ اور ذوقی کے مطابق ان کی آج کی حقیقی دنیا بیتے ہوئے کل کی اس خیالی دنیا سے اتنی مماثلت رکھتی ہے کے انہیں اپنے پچھلے خیال پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔ کل کا خواب وہی تھا جو آج کی حقیقت ہے۔ ان کا گھر، ان کا کمرہ، ان کا وجود، ان کا سچ، ان کے اندر کا جذباتی چہرہ۔ وہ سب کچھ من و عن وہی ہیں۔ اس وقت کی ان کی ۵۰ سے زائد کہانیوں پر یہی جذبات حاوی تھے۔
وحشت کا بائیسواں سال، ’’پینتالیس سال کا سفر نامہ‘‘، ’’مجھے موسم بننے سے روکو‘‘، ’’اللہ ایک ہے‘‘ پاک اور بے عیب ہے، لاش گھر، سر من از نالہ من دور نیست… کمان آباد بستی میں۔ سات کمروں والا مکان وغیرہ۔ ذوقی کے حساس دل کو نہ جانے کتنے چاک گریباں جذبے اپنی وحشت کی آماجگاہ سمجھتے ہیں۔ اور یہ جذبات انہیں اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے پریشان کئے جاتے۔ زندگی اور موت کے فلسفے پر ان کی آنکھیں رہ رہ کر بھیگ جاتیں ہیں۔ لوگ کیسے اور کیوں گم ہو جاتے ہیں ؟ زندگیاں کیسے کتنے کتنے خانوں میں بٹتی چلی جاتی ہیں ؟ واقعات و حادثات کے اس سلسلے نے انہیں ہر بار ایک نیا زخم دیا ہے جو پہلے کے تمام زخموں سے کاری ہوتا ہے۔ لیکن یہ وہ سانحے ہی تھے جنہوں نے انہیں بھی متاثر کیا اور ان کی کہانیوں کو بھی۔ ۱۹۸۵ء میں انہوں نے آ رہ چھوڑ دیا۔ چھوڑنے سے پہلے وہ ایک کتاب پڑھ رہے تھے، امرتا پریتم کی ’’پنجڑ‘‘ ایک انتہائی جذباتی کہانی۔ اور تب انہوں نے خود سے کہا۔ ذوقی اب میں کہانیوں میں جذبات کی عکاسی نہیں کرونگا۔ امرتا نے انہیں ڈرایا تھا۔ وہاں جذبات کہانی پن پر حاوی تھا۔ وہ دہلی میں نئے خیالات کے ساتھ آئے تھے۔ لیکن اب ان پر ایک نیا چہرہ حاوی تھا۔ یہ ان کی کہانیوں کا تیسرا چہرہ تھا۔
کہانیوں کے پہلے اور تیسرے چہرے کے بیچ دوسرا چہرہ کہیں گم ہو گیا۔ اور اب شاید اس چہرے کو تلاش کرنا بھی نہیں چاہتے۔ انہوں نے جان بوجھ کر اس چہرے کو Ignore کیا ہے۔ یہ چہرہ جدیدیت کی کوکھ سے جنما تھا۔ ۸۰ کے آس پاس کا یہ عہد ذوقی کو الجھنوں میں مبتلا کرنے کے لئے کافی تھا۔ کیونکہ وہ جو لکھنا چا ہتے تھے، وہ اس عہد کے لئے موزوں نہیں تھا۔ جو نہیں لکھنا چاہتے تھے، رسائل میں چھپنے کے لئے وہ لکھنے پر مجبور تھے۔ جدیدیت کی آندھی میں شا ید انہیں یہ ہوش ہی نہیں رہا کہ وہ ان بے ہنگم ہوائی تھپیڑوں کے ساتھ کہاں آ گئے ہیں۔ دابۃ الارض، فاختائیں، افسانوی مجموعہ منڈی میں انہوں نے کچھ کہانیاں شامل تو کیں لیکن اس بات کا بھی اظہار کیا:
’’میں اپنی زمین نہیں چھوڑ سکتا تھا—
میں اپنے مسائل کو نظرانداز کر کے، قلم نہیں اٹھا سکتا تھا۔
فساد، ہندو، مسلمان، اردو اور پاکستان میں کئی چیزیں مشترک تھیں — مجھے ڈر لگتا تھا جب خوف کی چنگاریاں بند کمرے میں سہما سہما چہرہ دکھایا کرتی تھیں۔ میں سوچتا تھا کیوں ہوتا ہے ایسا—
گاندھی جی کا قتل ہوتا ہے۔ مسلمان اپنے اپنے گھروں میں چھپ جاتے ہیں — کسی مسلمان نے مارا ہو، تو—؟
خدا نخواستہ قاتل کوئی مسلمان ہوا تو؟
اندرا گاندھی کی ہتیا ہوتی ہے— مسلمان اپنے اپنے گھروں میں چھپ جاتے ہیں۔
راجیو گاندھی کی ہتیا ہوتی ہے، مسلمان اپنے اپنے گھروں میں چھپ جاتے ہیں۔ کیوں ؟ کیوں ؟
۱۰۰ کروڑ کی آبادی والی جمہوریت میں ۲۵ کروڑ کی یہ آبادی اقلیت کہلاتی ہے؟ کیوں ؟
میں ترقی پسندی کے راستہ پر اسی لیے چلا کہ میں ان سوالوں سے بچ بچا کر نہیں گزر سکتا۔ میرے اندر کا تخلیق کار ان سوالوں کو نظرانداز نہیں کرسکتا تھا۔
اور میں صرف شوقیہ ادیب نہیں بننا چاہتا تھا— میں، کسی ایک قاتل لمحے سے بھی کہانی چرا سکتا تھا—
اسی لیے بھوکا ایتھوپیا کے پیش لفظ میں، میں نے پہلی بار اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا۔ ‘‘ (۸)
مشرف عالم ذوقی کی زود نویسی بھی کافی مشہور ہے۔ عام لوگ صرف ان کی زودنویسی پر تنقید کرتے ہیں لیکن جب ان کی تحریروں کو غور سے دیکھا جائے تو ان کی زود نویسی عیب نہیں بہتر لگتی ہے۔ اس ضمن میں یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’دوست پوچھتے ہیں …. اتنا زیادہ کیوں لکھتے ہو؟ سوچتا ہوں انہیں کیا جواب دوں ؟ کبھی کبھی لگتا ہے کسی نظریاتی تبدیلی کا خواہاں ہے۔ میرے اندر کا تخلیق کار کچھ نیا چاہتا ہے اور اس نئے کے لئے بھٹکتا رہتا ہے۔ اس نظریاتی تبدیلی سے زندگی کے کتنے ہی موڑ پر لکھنے کے زاویے بدلے۔ اس طرف چلو، نہیں اس طرف۔ ’’نیلام گھر‘‘ بھی ایک پڑاؤ تھا۔ ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ بھی۔ ’’شہر چپ ہے‘‘ بھی۔ ’’لمحہ آ:ندہ‘‘ بھی۔ یہ ناول بھی ۸۰ء سے پہلے کے ہیں اور کسی نئے نظریاتی تصور کو الگ الگ ان میں بہ آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے— میں ابھی ٹھہرا نہیں ہوں، بھٹکنے کی حالت میں ہوں۔ سوچتا ہوں، چھوٹی چھوٹی حقیقتیں زندگی کا روپ کیوں نہیں لے سکتیں۔ پھر کوئی سا، بہت عام سا واقعہ کہانی کیوں نہیں ہوسکتا۔ کوئی کوئی کہانی مجھے پسند آتی ہے تو دوست پوچھتے ہیں یہ کیا لکھ دیا؟ کیسے کہوں کہ یہ کیوں لکھا۔ چیخوف کا کردار اگر اپنے چھینکنے پر شرمندہ ہوسکتا ہے اور چھینک اس وقت کے پورے روسی نظام کو لے کر زبردست کہانی بن سکتی ہے تو پھر عام زندگی میں ہونے والا بہت ہی عام سا واقعہ کہانی کیوں نہیں بن سکتا؟‘‘ (۹)
آج انسان کی جو حالت ہے اس کے تجزیے کے لئے ذوقی کسی تاریخ کے مطالعے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ انہیں لگتا ہے کہ آج اس تواریخ کی ضرورت نہیں کہ آریہ ورت کتنے کتنے ٹکڑوں میں تقسیم ہوا۔ آزادی کے ۵۳ برسوں کا کہر انہیں اس قدر گھنا اور لہو آلودہ معلوم ہوتا ہے ماضی میں جھانکتے ہوئے بھی انہیں ہول آتا ہے۔ آج بھی وہ مناظر ان کی آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں جب بڑی بڑی حکومتیں سیا ست کی بساط پر رقص کرنے پر مجبور تھیں۔ اور ختم ہوتی ہزار صدی ڈھلتے سورج کے ساتھ نہ جانے کتنے ہی چہروں کو بے نقاب کرتی چلی گئی۔
وہ اس المیے کو بھول نہیں پائے کہ بابری مسجد کی شہادت پر ایوانوں میں جن کی آوازیں گونجا کرتی تھیں وہ اچانک بھگوا رنگ میں نہا گئے۔
انہیں آج بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس ختم ہوتی باہمی محبت و بھائی چارگی نے یہ بھی ثابت کر دکھایا کہ تہذیب کے عروج اور ارتقا میں آدرشوں کی بھومیکائیں نہیں ہوتی ہیں۔ جذبات سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے۔ اس ختم ہوتی صدی نے یہ بھی اعلان کیا کہ اب احساسات و جذبات کے لبادہ کو اتارنے کا وقت آ گیا ہے۔ یعنی ہر پارٹی سیکولر بھی ہے اور بیک وقت بھگوا رنگ میں ڈوبی بھی۔ ہر آدمی اپنی جگہ لبرل ہے اور بھگوا تہذیب میں آلودہ بھی۔ یعنی نئی صدی یا نئی الفی میں داخل ہوتے ہوئے آپ ایسی چھوٹی چھوٹی اور معمولی باتیں نہیں کہیں گے۔ اس ختم ہوئی صدی کے اور بھی بھیانک نتائج ہیں جنہیں دیکھنا اور جن پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ (مشرف عالم ذوقی سے گفتگو پر مبنی)
اور ان سب باتوں کے تناظر میں ذوقی نے اس بات کو شدّت سے محسوس کیا کہ آدمی اچانک برانڈ بن گیا ہے۔ بچے اچانک ایم ٹی وی کے وی جے بن گئے ہیں۔ انٹرنیٹ کی عورتوں نے دنیا کو چونکا دیا ہے۔ انہوں نے کہیں Marxism کا جنازہ اٹھتا ہوا دیکھا اور کہیں اسلام کی آبرو انہیں خطرے میں نظر آئی۔ وہ حساس ذہن تجزیہ کرتا رہا کہ کس طرح ایک دوست پڑوسی ملک سے دوستی کا ہاتھ مانگنے گیا اور خوبصورتی سے اس کے پیٹھ میں چھرا اتار دیا گیا۔
وہ خاموشی سے وہائٹ ہاؤس سے تہذیب کے جاری ہوتے ہوئے فتوے ہوئے اور ہزار برس کے لاکھوں واقعات کے ہجوم میں نئی صدی کے جاتے جاتے کملا داس کو دئے گئے برقعے کے اس تحفے کو دیکھتے رہے۔ وہ دیکھتے رہے کہ ۷۶ برس کی خاتون کو اسلام میں پردہ ایک ایسی شئے نظر آئی جہاں عورتوں کا تحفظ بر قرار رہ سکتا ہے۔ وہ اس تضاد کو محسوس دیکھتے رہے جو وہائٹ ہاؤس کے پروپیگنڈہ اور حقیقت کے درمیان تھا۔ انہیں لگا کہ ہم اشرف المخلوقات ہیں اس لئے ہمیں یہ سب دیکھنے، سوچنے اور محسوس کرنے کا حق حاصل ہے۔ نئی الفی میں ہم ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کی فرسودہ بحث و مباحثہ کے ساتھ نہیں داخل ہونگے۔ یقیناً زمانہ بدلتا ہے، نئی تھیوری اور قرائن ہمارے سماج میں راہ پاتی ہیں اور فرسودہ روایتوں کا چلن ختم ہو جاتا ہے۔ پرانے بت ٹوٹتے ہیں اور نئے بت جنم لیتے ہیں۔
اور یہ سب تب ہوتا ہے جب حالات، تغیرّات مل کر زیست کے نئے فلسفوں کی رہنمائی انجام دیتے ہیں۔ یعنی ایک بالکل ہی نیا فلسفہ، ایک بالکل ہی نیا آدمی، بالکل ہی نئی سیاست پرانے ڈھانچے نیست و نابود ہو چکے ہوتے ہیں۔
بالکل اس چڑیے کی طرح جو انڈے سے جنم لینے والی ہے۔ انڈہ کائنات ہے۔ جو جنم لینا چاہتا ہے اسے ایک دنیا کو تباہ و برباد کر نا پڑے گا۔
مشرف عالم ذوقی جانتے ہیں کہ اس بدلتی ہوئی تہذیب، بدلتے ہوئے اقدار کا گواہ ادیب کو بننا پڑتا ہے اس لئے ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی جیسی بحث سے آگے نکل کر ہمیں اپنے سامنے والی دنیا کے تعاقب میں بہت دور تک جانا ہے۔ وہ تمام نام نہاد نقاد جو اب تک ان سوالوں کو خارج کرتے آئے ہیں کہ ہم کیوں لکھتے ہیں ؟ اب کہیں زیادہ ان سوالوں کے تعاقب میں جانے کی ضرورت محسوس کریں گے:
’’ میں یہ سوچنے کی جسارت کرتا ہوں کہ ہیبت ناک حقیقتوں کے اظہار میں مشکل کیوں پیش آتی ہے۔ ایک ایسی حقیقت جو کاغذی نہیں بلکہ ہمارے اندر رہتی ہے جو درد اور حسن سے معمور ہے۔ شاعر، گدا گر، موسیقار، پیغامبر، جنگ باز اور بدمعاش۔ اس بے لگام حقیقت کی تمام مخلوق ہم سب کو تخیل کے در پر کم ہی صدا لگانی پڑتی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ایسے پابند اظہار یا جذبات کی تلاش کا رہا ہے جو ہماری زندگیوں کی حقیقت کو قابل یقین بنانے میں ہماری مدد کر سکے۔ یہی میرے دوستو، ہماری تنہائی کا عقدہ ہے۔ ‘‘ (۱۰)
درج بالا اقتباس مشرف عالم ذوقی کی اس فکر کو منعکس کرتا ہے جس نے انہیں معاصر افسانہ نگاروں میں ایک منفرد مقام عطا کیا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ انسان کے دلوں میں جو طوفان بپا ہے وہ اس سنامی سے کہیں زیادہ خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے جس نے لاکھوں جانیں لے لیں اور لاکھوں کو بے گھر کر دیا۔ اسی لئے ذوقی نے رفتہ رفتہ اس ذہنی کشمکش کو اپنی کہانیوں میں برتنا شروع کیا جو ہر انسان اپنے اندر چھپائے ہوئے ہے۔ آج بھی چاہے ’پوکے مان کی دنیا‘ ہو یا کوئی اور کہانی سبھوں میں اس معاصر کرب کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ہر دل میں ایک آندھی چل رہی ہے اور ہر چہرہ اپنے گردو پیش سے بے پروا نظر آتا ہے اور ان حالات میں ذوقی کو اپنے چاروں طرف کہانیاں ہی کہانیاں بکھری ہوئی نظر آتی ہیں۔ کچھ کہی، کچھ ان کہی۔ پھر ذوقی ان کہانیوں میں سے وہ کہانیاں چن لیتے ہیں جو اس عہد کی سسکتی ہوئی روح کا حصہ ہوتی ہیں۔
ان تمام باتوں کے باوجود یہ کہہ پانا کہ موجودہ رنگ ذوقی کی کہانیوں کا آخری رنگ ہے صحیح نہیں ہو گا وہ زندگی کے ہر موڑ پر اپنی کہانیوں کو ایک نیا زاویہ دیتے رہے ہیں اور اگر ان کے مزاج کا مطالعہ کیا جائے تو یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک ذوقی لکھتے رہیں گے۔
حواشی
(۱) صدی کو الوداع کہتے ہوئے، مشرف عالم ذوقی، سناٹے میں تارا
(۲) (نومبر، ۱۹۹۲ء (آج کل)
(۳)
(۴) معاصر افسانہ اور ذوقی (شہزاد انجم)
(۵) بین الاقوامی صدا، اگست ۲۰۱۰(آفتاب عالم صدیقی)
(۶) نیا سفر، پروفیسر قمر رئیس، ص: ۱۱۸
(۷) عصری اردو افسانہ، ایک نیا مطالعہ، مشرف عالم ذوقی، ص: ۵۵-۲۵۶)
(۸) عصری اردو افسانہ، ایک نیا مطالعہ، مشرف عالم ذوقی، ص: ۵۵-۲۵۶)
(۹) بھوکا ایتھوپیا، ص ۷-۸
(۱۰) عصری اردو افسانہ، ایک نیا مطالعہ، مشرف عالم ذوقی، ص: ۸۴-۲۸۵)
باب دوم
ہم عصر افسانہ اور افسانہ نگار
مشرف عالم ذوقی کا تعلق ایسے دور سے ہے جب اردو فکشن نئے رجحانات اور نئے اسالیب سے دو چار ہو رہا تھا۔ مشرف عالم ذوقی خود کو اس راہ کے مسافر نہیں سمجھتے مگر وہ ان اثرات سے پوری طرح محفوظ بھی نہیں رہ پائے ہیں۔ جدید افسانہ اور ما بعد جدید افسانہ کے جو بھی رجحانات ہیں انھیں ان کے فن میں کہیں نہ کہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ ذوقی یوں تو کسی بھی اصول اور نظریات سے بندھے نہیں رہنا چاہتے مگر اچھی بات یہ ہے کہ وہ خود بھی نئے رجحانات اور اثرات کے تحت ادب میں تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ بھی کہ ادب کے موضوعات کو بھی زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہنا چاہیے۔ اسی لیے وہ جدید تر موضوعات کو بھی اپنے فکشن میں جگہ دیتے ہیں۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جو ان کو اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہیں۔ لیکن ذوقی کے فن کو پوری طرح سمجھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے عہد کے رجحانات و رویے کے ساتھ ساتھ معاصر افسانہ نگاروں کے فن کا بھی تجزیہ پیش کیا جائے۔ اس لیے اس باب میں نمائندہ افسانہ نگاروں کے ساتھ ساتھ ان کے نمائندہ افسانوں کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔
۱۹۸۰ کے بعد اردو افسانے کا جو منظرنامہ خلق ہوتا ہے، اس میں نئی نسل کے ایسے افسانہ نگار ابھر کر سامنے آتے ہیں جو اپنے فکری و فنی رویوں میں اپنے سے پیشتر افسانہ نگاروں سے مختلف و ممتاز ہیں۔ یہ افسانہ نگار اپنے تخلیقی انہماک اور فکری و فنی ارتکاز کے ذریعہ اردو افسانہ کے مزاج میں تبدیلی لانے کی حتی الوسع کوشش کرتے ہیں۔ ان کے فکر و فن کے امتزاج سے افسانے کے لیے جو فضا تیار ہوتی ہے اس میں اردو افسانے کے نئے رجحان کی پرورش و پرداخت کے لیے مناسب و موزوں زمین ہموار ہوتی ہے۔ میں نے اس باب میں چند ایسے ہی افسانہ نگاروں کے فکری امتیازات و فنی خصوصیات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ ۱۹۸۰ کے بعدافسانہ نگاروں کی ایک لمبی قطار موجود ہے جنہوں نے اردو افسانے کو جدیدیت سے الگ اپنی پہچان بنانے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ان میں کچھ افسانہ نگار ایسے بھی ہیں جن کا شمار جدیدیت کے بہترین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے اور جن کے یہاں وہ سارے عوامل و عناصر موجود ہیں، جن سے جدیدیت کے رجحان کو تقویت ملی اور جن سے نئے افسانہ نگاروں نے قدم قدم پر رہنمائی حاصل کی۔ ان میں شفق، سلام بن رزاق، سریندر پرکاش اور بلراج کومل کے نام بڑے اہم ہیں۔ اگر چہ انہوں نے ’نیا افسانہ ‘یا ’جدید افسانہ‘ کو بھی اپنے خون جگر سے سینچا لیکن ۱۹۸۰ کے بعد ہندوستان کے سماجی، سیاسی اور ثقافتی تبدیلی کی وجہ سے ادب کے منظر نامے میں جو انقلاب رونما ہوا اس میں ان افسانہ نگاروں نے بھی اہم رول ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۸۰ کے بعد اردو افسانہ نگاروں کی جو فہرست تیار ہوتی ہے اس میں ان کا نام بھی عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ افسانے کے نئے مزاج کی تعمیرو تشکیل میں حصہ لے کر جدیدیت کے دور میں لکھنے والے کچھ افسانہ نگاروں نے اپنی فراخدلی اور وسعت نظری کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔ اسی کے ساتھ کچھ نئے نام بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں جن کے یہاں جدیدیت کے برعکس رجحان ملتا ہے۔ اس طرح نئے اور پرانے چرا غ کی اشتراکی کوششوں سے اردو افسانے کا ایک نیا باب وا ہوتا ہے جو پہلے سے مختلف بھی ہوتا ہے اور ممتاز بھی۔ میں نے اس باب میں ایسے ہی افسانہ نگاروں کے نمائندہ افسانوں کا تجزیہ بھی پیش کیا ہے تاکہ پس منظر واضح ہو سکے۔
انجم عثمانی
انجم عثمانی کا نام ۱۹۸۰ کے بعد لکھنے والے معتبر ناموں میں ہو تا ہے۔ ان کے موضوعات متنوع اور مختلف ہوتے ہیں اور کسی خاص موضوع پر وہ زور صر ف نہیں کرتے لیکن جس موضوع کو وہ اپنے افسانے میں اٹھاتے ہیں اس کا تعلق آ ج کے دور کے انسان اور اس کے گرد و نواح کی فضا سے ہو تا ہے۔ انجم عثمانی کے یہاں ثقافتی جزئیات نگاری اور داستانی اسلوب کی کارفرمائی قدم قدم پر ملتی ہے جس کی وجہ سے ان کے افسانے بیانیہ کے بہت قریب دکھائی دیتے ہیں۔ انجم عثمانی کے یہاں نہ سمجھ میں آنے والی علامت نگاری، فیشن زدگی اور تجریدیت برائے نام بھی نہیں ہے۔
انجم عثمانی کے افسانے میں ثقافتی تشخص کا مسئلہ بھی ایک اہم مسئلے کے طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے۔ انہیں اس بات کا شدید احساس ہے کہ مغربی تہذیب کے ہندوستانی تہذیب و تمدن پر تسلط نے ہندوستان کی اصل تہذیب و تمدن کو غارت کر کے رکھ دیا ہے جس کی بنیاد آپسی محبت، ترحم اور بھائی چارگی پرتھی۔ مغربی تہذیب نے آج کے انسان کو مایوسی، تنہائی، اجنبی پن جیسے غیر صحت مند احساسات کا شکار بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی قدیم تہذیبی اقدار کی طرف مراجعت کا رویہ ان کے افسانے میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ شہر کاری اور عالم کاری کے نتیجے میں جو بلا ہمارے ملک وسماج کے اندر پھیلی ہے اس پر بھی انہوں نے اپنے افسانوں میں تنقید کی ہے۔ ان کا افسانہ ’’شہر گریہ کا مکیں ‘‘ باہر سے آنے والے ایک شخص کی کہانی پر مشتمل ہے۔ طویل مدت کے بعد ایک شخص اپنے آبائی وطن لوٹتا ہے۔ شہر کا مہیب سنا ٹا، گھرکی تنہائی اور خاموشیوں کی مسلسل آماجگاہ کو دیکھ کر وہ شخص پریشان اور ششدر رہ جاتا ہے۔ قصبے کے بڑے بڑے دالانوں والا گھر آج سنسان اور سناٹا پڑا ہوا ہے۔ جو گھر پہلے اس کے لیے مانوس تھا، آج وہی اس کے لیے وحشت کا باعث بنا ہوا ہے۔ اپنے گھر کو دیکھ کر وہ فکر کی گہرائیوں میں ہچکو لے کھانے لگتا ہے۔ اور وہ غور کرنے لگتا ہے کہ زمانہ کس طر ح تیزی سے تبدیل ہو گیا ہے۔ پورا قصبہ شہر خموشاں بنا ہوا ہے۔ پورا گھر سناٹے کی زد میں آ چکا ہے۔ چہار جانب سکوت طاری ہے۔ تمام چیزیں آپس میں گریہ و زاری کر رہی ہیں۔ انہیں دیکھ کر وہ شخص بھی اضطراب و بے چینی، حیرانی و خاموشی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ وہ بھی اپنے آپ کو اسی گریہ و زاری میں شریک کر لیتا ہے۔ انجم عثمانی نے اس افسانے میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ جب کوئی اپنے وطن سے دور چلا جاتا ہے اور اپنے ماحول سے کٹ جاتا ہے تو اس کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔ اسے اپنی زمین اور اپنا گھر تک اجنبی معلوم ہونے لگتا ہے۔ وہ اپنے معاشرہ و سوسائٹی اور رشتہ داروں سے اس قدر دور ہو جاتا ہے کہ اسے اپنے وجود تک کا احساس نہیں ہوتا۔ اسے اپنی شخصیت کھوٹا سکہ نظر آنے لگتی ہے۔ اپنا عکس دوسرے کا عکس معلوم ہونے لگتا ہے۔ اسے احسا س ہو تا ہے کہ شاید اس پر بھی غیر کا قبضہ ہو گیا ہے۔ ماضی کے گزرے ہوئے حسین لمحات، اسے یاد آتے ہیں لیکن دھندلے اور پراگندہ حالت میں جب کہ ماضی اس کی روح اور زندگی کا بہترین سرمایہ ہے لیکن زندگی میں ایک بے کیفی و بے اطمینانی طاری ہو جاتی ہے اور ماضی کا ہر پل ٹوٹتا اور بکھرتا نظر آتا ہے۔
’’وہ آج دوپہر ہی رات بھرکا سفر کر کے شہر سے اپنے آبائی قصبے کے گھر میں آیا تھا۔ جب وہ گھر پہنچا تو سب موجود تھے۔ وہ گھر میں داخل ہو ا تو اسے سب کے چہروں پر عجیب سی اداسی، گھبراہٹ، افراتفری اور خوف کی سی پرچھائیاں منڈلاتی محسوس ہوئیں۔ قصبے کے حدود میں داخل ہوتے ہوئے بھی اسے ایساہی لگا تھا مگر گھر پہنچنے کی جلدی میں اس نے اس پر کوئی خاص توجہ نہ دی تھی۔ ‘‘(۱)
دراصل یہ اجنبیت و تنہائی، رنج و ملال، افسوس اور افسردگی اس لیے طاری ہے کہ زندگی گزارنے کا طریقہ پورے طور پر تبدیل ہو گیا ہے۔ احساسات و جذبات کے انداز بدل گئے ہیں۔ انہیں تبدیلیوں کا اثر ہے کہ آج انسان کو تمام چیزوں میں اجنبیت کا احساس اور اپنائیت کا فقدان محسوس ہو رہا ہے۔ ان تمام تبدیلیوں کے بعد بھی اس کا ذہن اس قدر بے حس و بے غیر ت ہو گیا ہے کہ آج وہ اس کسمپرسی اور تنزلی کے بارے میں نہ سوچ سکتا ہے اور نہ ہی اس پر غور و خوض کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس افسانے میں ایک جگہ موت کا بھی ذکر ہے۔ دنیا کی وقعت لوگوں کے دلوں میں اس طرح آج گھر کر گئی ہے کہ موت کی یاد انسان کی زندگی پر بجلی بن کر گر پڑتی ہے اوراس کا وجود پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ اس کیفیت سے وہ اپنے آپ کو نکالنا چاہتا ہے لیکن اسے کامیابی نہیں ملتی ہے۔ وہ ماضی کی آغوش میں پناہ لینا چاہتا ہے اور ماضی کی یادوں کو اپنے اندر دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ناکامی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں لگتا۔
اس افسانے کا اسلوب بیانیہ قصہ گوئی کا ہے۔ پورا افسانہ ایک راوی کی کہانی معلوم ہوتا ہے۔ مابعد جدید افسانے کی تمام خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں قصہ گوئی کے عناصر ملتے ہیں۔ اس لحاظ سے اس افسانے کو مابعد جدید افسانے کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں جس چیز کو ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے وہ ثقافتی تشخص کا معاملہ ہے۔ جب انسان اپنی سوسائٹی اور معاشرے سے کٹ جاتا ہے تو اسی کے ساتھ ساتھ اس کا ثقافتی تشخص بھی جاتا رہتا ہے۔ وہ پھر اپنی سوسائٹی میں لوٹتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس نے کچھ کھو دیا ہے۔ کھونے کا یہ احساس اسے رنج و الم میں مبتلا کر دیتا ہے۔ تہذیب و ثقافت بھی زندگی کا گراں بہا سرمایہ ہے جس سے ہر انسان رشتہ استوار رکھنا چاہتا ہے۔ کیونکہ اس کا تعلق اس کی شخصیت کی تعمیرو تشکیل سے ہوتا ہے۔ اپنی تہذیب و ثقافت ہر انسان کو پیاری ہوتی ہے۔ انجم عثمانی نے ثقافتی تشخص کا مسئلہ اس افسانے میں اٹھا کر اس افسانے کو مابعد جدید نظریہ ادب کا رجحان ساز افسانہ بنا د یا ہے۔
اس افسانے میں شہر اور گاؤں کی زندگی کے فرق کو واضح کیا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی بتا یا گیا ہے کہ شہر کس طرح انسان کو بے حس بناتا جا رہا ہے۔ جب شہر کا آدمی گاؤں لوٹتا ہے تو اسے یہاں کی پرانی یادیں ستاتی ہیں اور وہ اپنے آپ میں ٹوٹتا بکھرتا محسوس کرتا ہے۔ اس کا تعلق بھی مابعد جدید نظریہ ادب سے ہے۔ یہاں جو اجنبی پن ہے، وہ جدیدیت کا اجنبی پن نہیں ہے جس کا تعلق قنوطیت سے ہوتا ہے۔ اس اجنبی پن میں آشنائی کی کرن ہے جو دلوں میں امید جگاتی ہے اور تعلقات کو استوار کرنے کی دعوت دیتی ہے۔
انور خاں
۱۹۸۰ کے بعد اپنے منفرد انداز کے لیے جو افسانہ نگار مشہور ہوئے، ان میں ایک نام انور خاں کا بھی ہے۔ انور خاں نے نوآبادیاتی نظام کی تمام تر سفاکیوں کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ شہر کاری اور عالم کاری کے وجود میں آنے کے نتیجے میں جو تہذیب و ثقافت پیدا ہوئی ہے، اس کے تمام تر پہلوؤں کو بھی انور خاں نے اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے۔ انور خاں بھی اپنے دیگر معاصرین کی طرح افسانوں میں جزئیات نگاری کی تکنیک سے بھر پور استفادہ کرتے ہیں۔ انور خاں ایک مشاق افسانہ نگار ہیں۔ اس لیے ان کے یہاں فنی کوتاہیاں و کمزوریاں نہیں پائی جاتیں۔ نئے لکھنے والوں میں اکثر زبان کی صحت کی کمی کھٹکتی ہے لیکن انور خاں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ان کے ہاں زبان کا برمحل وبرجستہ تخلیقی استعمال ملتا ہے۔ تنہائی انسانی زندگی میں بہت عام ہے لیکن تنہائی کا احساس زندگی کو بوجھل بنا دیتا ہے اور یہ احساس عمر کے کسی بھی حصے میں پیدا ہوسکتا ہے۔ بچپن میں یہ احساس آدمی کو ذہنی طور پر abnormal بنا دیتا ہے۔ نوجوانی میں فن کار بنا دیتا ہے یا پھر بہت سارے تجربوں کا احساس پیدا کر دیتا ہے اور بڑھاپے میں گھٹ گھٹ کر مرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ لیکن انور خاں کی کہانی ’’ راستے اور کھڑکیاں ‘‘ کا تجربہ ذرا مختلف ہے۔ وہ یوں کہ نوجوانی کے عالم میں ہی مسعود تنہائی کے بوجھ تلے دبتا چلا جاتا ہے اور وہیں شرماجی اور مسٹر رتناکر ضعیفی کے باوجود اس احساس سے بری ہو جاتے ہیں۔ ہو تا یہ ہے کہ مسعود کو ملازمت کے سلسلے میں اپنے گھر والوں سے دور کسی شہر میں جا کر رہنا پڑتا ہے۔ آفس کے کسی ساتھی کی مدد سے اسے ایک ایسا کمرہ مل جاتا ہے جس کے لیے اسے اڈوانس نہیں دینا پڑتا لیکن کمرے کے مالک شرماجی جو ضعیف العمر ہیں، انہیں برداشت کرنا پڑتا ہے۔ شرماجی کا دنیا میں کوئی نہیں سوائے ایک بھائی کے جو کہیں اور رہتا ہے اور مہینے دو مہینے میں کبھی ملنے چلا آتا ہے۔ گویا شرماجی بالکل تنہا ہیں ایسے میں شرماجی کے پاس گھٹ گھٹ کر مرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہا۔ مسعود کو ساتھی پا کر تھوڑی امید جگی تھی لیکن مسعود نے بھی خاطر خواہ سلوک نہیں کیا۔ اب مسٹر رتناکر سہارا ڈھونڈتے ہوئے شرما جی کے لیے سہار ا بن کر آ گئے۔ مسٹر رتناکر بھی تنہا آدمی پنشن پر گزارہ کرنے والے۔ اب جب دونوں بوڑھے مل گئے تو تنہا کوئی نہیں بچا۔ دونوں خوش گپیوں میں مشغول رہنے لگے۔ لیکن مسعود جو کبھی بوڑھے شرماجی کی باتوں سے بور ہو کر اوب چکا تھا اور شرماجی کی اپنی تنہائی کا احساس دلانے کے باوجود اپنی بے رخی پہ خوش تھا کہ اب بلا ٹلی۔ اب بوڑھوں کو مشغول پا کر خود تنہائی کا شکار ہو گیا اور نوجوانی میں گھٹ گھٹ کر جینے پر مجبور ہو گیا جب کہ شرماجی کی باتوں میں اپنی چند ہی پریشانیاں ہو تی تھیں۔ ان کی زیادہ باتیں شفقت بھری ہوتی تھیں اور یہ مسعود کو زیادہ کھلتی تھی۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ان کا بار بار مداخلت کرنا مجھے کھلنے لگا یہ قمیص اس پتلون کے ساتھ نہیں پہننی چاہیے۔ تمہارے جوتوں پر پالش کیوں نہیں ہے۔ تمہیں رات میں گھر جلدی لوٹنا چاہیے، اس طرح کے جملے سن سن کر میں بیزار ہو گیا۔ پہلی بار گھر والوں سے دور رہنے کا موقع ملا تھا۔ اس بات کی خوشی تھی کہ یہاں بات بات پر ٹوکنے والا کوئی نہیں کہ شرماجی میرے سرپرست بن بیٹھے۔ ‘‘ (۲)
درمیانہ طبقہ کے مہذب گھرانوں کے نوجوانوں کو اگر بچپن سے ہی نصیحتوں اور بات بات پر ٹوکے جانے کو جھیلنا پڑے تو جوانی میں ان سے آزاد رہنے کو جی چاہنا عام نفسیات ہے لیکن ایک انسان ہونے کے ناطے چند ذمہ داریاں بھی نبھانی ضروری ہوتی ہیں۔ اگر مسعود میاں نے کم از کم شرماجی کے بڑھاپے اور تنہائی کا ہی خیال کیا ہوتا تو یہ نوبت کبھی نہیں آتی کہ شدید تنہائی کے احساس میں مبتلا ہونا پڑا۔ کیوں کہ تب نہ تو شرما کو تنہائی دور کرنے کے لیے کسی کی ضرور ت محسوس ہوتی اور نہ ہی مسٹر رتناکر آتے۔
انسانی نفسیا ت کا ایک حصہ انا بھی ہے جو خود پسندی پر مبنی ہوتا ہے جس میں انسان اپنے ضمیر اور اپنی شخصیت کی عزت خود کرتا ہے۔ شرماجی نے جب یہ محسوس کر لیا کہ مسعود میاں ان سے بور ہونے لگے ہیں، ان کی باتوں کا کو ئی جواب دینے کے بجائے ان کے متعلق ایک نفرت کا جذبہ رکھتے ہیں تو ان کی انا کو ٹھیس لگتی ہے۔ اس کے بعد وہ خاموش رہنے لگتے ہیں۔ اگر مسٹر رتناکر کا اس عمر میں الگ رہنا بھی کسی انا کو ہی دکھلاتا ہے۔ ورنہ نوکری سے سبکدوش ہونے کے بعد لوگ اپنوں کے قریب رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
یہ افسانہ عام زندگی سے تعلق رکھنے والا ہے۔ اس میں افسانہ نگار نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان اپنے ما فی الضمیر کو جب تک ادا نہیں کر لیتا اسے ایک عجیب و غریب قسم کی پریشانی ستاتی رہتی ہے۔ یہ انسانی جبلت میں داخل ہے کہ وہ اپنی بات دوسرے سے کہے اور دوسرے کی بات اس سے سنے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو بہت ممکن ہے کہ وہ نفسیاتی و ذہنی عارضہ کا شکار ہو جائے۔ انور خاں نے اس افسانے میں جو سوالات اٹھائے ہیں، ان کا تعلق آج کے مابعد جدید دور سے ہے جس میں ہر انسان اپنے آپ کو تنہا پا رہا ہے۔ شہر کاری نے اس تنہائی کو اور زیادہ گہرا اور سفاک بنا دیا ہے۔ اب ہرانسان اس قدر مصروف ہو گیا ہے کہ اس کے پاس ایک دوسرے سے بات کر کے اپنے من کو ہلکا کرنے کی فرصت ہی نہیں رہی۔ اس افسانے میں علامات واستعارات کا استعمال برائے نام بھی نہیں ہوا ہے۔ یہ افسانہ عام فہم بیانیہ انداز میں ہے۔ ایک راوی ہے جو اپنا قصہ بیان کر رہا ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں مابعد جدید افسانے کا ایک خاص وصف یعنی قصہ گوئی کے تمام تر عناصر موجود ہیں۔ اس کی زبان صاف، دلکش اور سلیس و رواں ہے۔
پیغام آفاقی
۱۹۸۰ کے بعد افسانوی ادب کے افق سے نمودار ہونے والے افسانہ نگاروں میں ایک نام پیغام آفاقی کا بھی ہے۔ پیغام آفاقی حیات و کائنات کے ان پہلوؤں کو اپنے افسانے کا موضوع بنا تے ہیں جو پورے سماج کو تنزلی کی کھائی میں ڈھکیل رہے ہیں۔ ان کو سماج کے ارتقا کی پر اسراریت میں دلچسپی ہے اور جو چیز بھی انسان کو احساس کمتری کا شکار بناتی ہے اس کی تہہ میں پہنچنا ان کے فن کا ایک خاص وصف ہے۔ انہیں اس بات کا شدید احسا س ہے کہ آج کے دور میں ایسے نا مساعد اور نا معقول حالات پیدا ہو گئے ہیں جو نئی نسل کے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کو مار رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں کے تیور باغیانہ ہو گئے ہیں۔ یہ سوال ان کے ذہن میں ہمیشہ گونجتے رہتے ہیں کہ وہ کونسی چیز ہے جو ہماری نئی نسل کو بے حس و حرکت بنائے جا رہی ہے، وہ اسے خواب نہ دیکھنے پر مجبور کر رہی ہے جس کے نتیجے میں آج کے دور میں عظیم الشان شخصیت پیدا نہیں ہو رہی ہے۔ موجودہ سماج کی ناہمواریوں اور پیچیدگیوں کو پیغام آفاقی اپنے افسانوں میں من و عن پیش کر دیتے ہیں۔ ان کی پیش کش کا انداز اتنا دلکش ہے کہ ان کے افسانے قاری کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتے۔ وہ اپنے افسانے میں علامات و استعارات کا استعمال نہ کرتے ہوئے جو بھی بات کہتے ہیں وہ راست انداز میں کہتے ہیں، جس سے قارئین سیدھے سیدھے متاثر ہوتے ہیں۔ انہیں زبان پر قدرت حاصل ہے جس کی وجہ ان کے بیان میں تتلاہٹ، ہکلاہٹ، لکنت یا ادھورا پن نہیں پایا جاتا۔ ان کا افسانہ’’ کوپریٹوسوسائٹی‘‘ اس کی مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ چند اعلیٰ ذہنیت اور اثر و رسوخ رکھنے والوں نے اجتماعی طور پر ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی، جس کا نام کوپریٹو سوسائٹی رکھا جو بلند اور اعلیٰ مقصد کا حامل تھا۔ ابتدا میں اس سوسائٹی نے اپنا فرض منصبی بڑی ذمہ داری کے ساتھ نبھایا اور حتی الوسع ایمانداری کے ساتھ اپنے مقصد کو کامیاب بنانے کی کوشش کی۔ چند عرصے میں اس سوسائٹی نے ترقی کا ایک نیا باب وا کیا اور فلا ح و بہبود کے مراحل طے کر لیے۔ سوسائٹی کی شہرت علاقے اور شہر کے چہار جانب پھیل گئی۔ اس کی ترقی عروج پر تھی لیکن سوسائٹی کی بدقسمتی کہیے کہ اس کا بھی انجام وہی ہوا جو بالعموم کسی اداروں یا تنظیموں کا ہوا کرتا ہے۔ سوسائٹی افراتفری اور خلفشار کا شکار ہو گئی۔ ذمہ داروں کی نگاہیں مفاد پرستی کی طرف اٹھنے لگی۔ خود غرضی و ذاتی مفاد ان کے اندر داخل ہو گئی۔ بالآخر یہی ذمہ دار سوسائٹی کا فاتحہ پڑھنے کی کوشش کرنے لگے۔ ذاتی دشمنی اور بغض و عناد ان میں عام ہو گئی۔ ہر کوئی ایک دوسرے کی عیب جوئی کرنے لگا۔ لہٰذا سوسائٹی کا وجود معدوم ہونے لگا۔ اس کی اہمیت و وقعت کم ہونے لگی اور اپنے مشن سے پیچھے ہٹتے دکھائی دینے لگی۔ اس طرح اس سوسائٹی کا زوال آ گیا اور مرثیہ پڑھا جانے لگا۔
پیغام آفاقی نے اس افسانے میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آج ہندوستانی سوسائٹی اور اس کے ٹھیکیدار اپنے مفاد کی خاطر آپسی خلفشار اور شاطرانہ چالوں کے شکار ہو گئے ہیں۔ آج کا معاشرہ گھناؤنا اور ڈراؤنا ہو گیا ہے، جس سے ایک طرح کا خوف و دہشت پیدا ہو چکا ہے۔ بہ ظاہر اس کے ٹھاٹ باٹ دلکش ہوتے ہیں لیکن جب ہم اس کی گہرائی میں اتر کر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو معاشرہ ذاتی خامیوں کے بنا پر کھوکھلا نظر آنے لگتا ہے۔ افسانہ نگار کے مشاہدے میں یہ معاشرے کی برائی نہیں اور نہ ہی اس کی کمی ہے بلکہ یہ ہماری مفاد پرستی اور خود غرضی کا بین ثبوت ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو اخلاقی سطح پر اتنا گرا لیا ہے کہ ہمیں معاشرہ کے بارے میں سوچنے کی فرصت نہیں ہوتی۔ معاشرہ کی خرابی دراصل ہماری اپنی خرابی ہے۔ معاشرے کی بربادی کے ذمہ دار خود ہم لوگ ہیں۔ ان سب خرابیوں سے ہمیں اپنے زوال کا احساس ہو تا ہے۔ لو گ آج سوسائٹی کو احساس و عبرت کی نگاہوں سے دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اگر ہم مثبت کوشش کریں تو یقیناً ہمارا معاشرہ بدل سکتا ہے اور ہم اپنی سچائی کے ساتھ زندگی کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن اس میں اتنی برائیاں ہیں کہ ہم ان کا سامنا نہیں کرسکتے۔ معاشرے میں برائی اور فساد پھیلنے کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ لوگوں کو خود احساس نہیں کہ سوسائٹی کس طرف جا رہی ہے۔ کن کن برائیوں سے ہمارا معاشرہ دوچار ہو رہا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تمام برائیوں کو دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی انجان بنے ہوئے ہیں اور تماشائی بن کر اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ آج معاشرہ کی قبیح ترین حالت لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔ لوگوں کو اس کی برائیاں کم دکھائی دے رہی ہیں۔ اس کی غلاظت آنکھوں سے پوشیدہ ہے۔ اس کی عارضی چمک دمک اور بیل بوٹے نظروں کو لبھا تے ہیں۔ معاشرے کی یہ صورت حال کسی ایک فرد یا ایک انسان کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ہر کوئی اس برائی میں مبتلا ہے۔ ہر فرد اس کی برائیوں کا مشاہدہ کر رہا ہے اور خود کو ان میں مبتلا کر رہا ہے۔ افسانہ نگار کا کہنا ہے کہ آج دنیا میں تمام لوگوں کی آنکھوں پر پٹیاں پڑی ہوئی ہیں۔ ان برائیوں کی وجہ سے معاشرے کا پورا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ برائیاں خوبیوں کی صورت میں اجاگر ہو رہی ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھ کر معاشرے کا ایک فر د کھڑا ہوتا ہے اور اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے۔ اس سے دیکھا نہیں جاتا ہے کہ لوگ طرح طرح کے فتنہ و فساد میں مبتلا ہوں۔ معاشرہ میں غلاظت و نحوست عام ہو۔ اس شخص کی خواہش ہو تی ہے کہ وہ برائیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے۔ لوگوں پر ہو رہے مظالم و بربریت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے۔ ایسی حالت میں جب کہ ہر طرف برائیاں عام ہوں۔ حق و انصاف پامال ہو رہا ہو، ایک شخص سے یہ ممکن نہیں ہے کہ ان حالات کا سامنا کرے اور معاشرہ کو نئی صورت عطا کرے۔ آخر کا ر اسے ناکامی ہاتھ آتی ہے اور لوگوں کے سامنے رسوا ہونا پڑتا ہے۔ لیکن پیغام آفاقی کا کہنا ہے کہ وہ شخص کامیاب ہے اور اس کی ہر کوشش معاشرے کو تبدیل کرسکتی ہے۔
افسانہ نگار نے معاشرے میں ہو رہے نشیب و فراز برائی و بدکاری، اخلاقی دیوالیہ پن، جھوٹ، رشوت اور ذلت و رسوائی کو اپنے افسانے کا محور و مرکز بنایا ہے۔ آج کا پورا معاشرہ جس دور سے گزر رہا ہے، اس میں جب کوئی ایک آواز اٹھا تا ہے تو اس کی آواز دب کر رہ جاتی ہے اور اسے اپنے مشن میں ناکام ہونا پڑتا ہے۔ درحقیقت سوسائٹی کے تمام افراد ایک طرف ہیں اور دوسری طرف ایک فرد ہے جو حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کو تیار ہے۔ ایسے حالات میں اگرچہ معاشرہ اور سوسائٹی اس کو تسلیم نہیں کر رہی ہو تو سوسائٹی میں اس کا موجود ہونا اور حالات کا ڈٹ کر سامنا کرنا ہی اس کی خوش نصیبی ہے۔
اس افسانے میں پہلی خوبی یہ ہے کہ اس کا تعلق سماجی ڈسکورس سے ہے۔ افسانے میں سماج کے اندر پائے جانے والی ان برائیوں کو ہدف تنقید بنا یا گیا ہے جو ہمارے سماج کو کھوکھلا بنائے جا رہی ہے۔ چوری چکاری اور دھوکے بازی کے ذریعہ منافع حاصل کرنا موجودہ دور کا عام رویہ ہو گیا ہے۔ کسی میں بھی اخلاقیات نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ اگر کوئی اپنی اخلاقی ذمہ داری کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے سماجی برائیوں کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو اس کی آواز صدائے صحرا ثابت ہو تی ہے یا اس کی پاداش میں اس نیک انسان کو طرح طرح کی ذہنی، جسمانی اور مالی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود کچھ جیالے اور با ہمت افراد ایسے ہوتے ہیں جو اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی پرواہ کیے بغیر حق و باطل پر کامل یقین رکھتے ہوئے ان سماجی برائیوں کے خلاف نبرد آزما ہوتے ہیں۔ دراصل افسانے میں یہ تصور جو مابعد جدید نظریہ ادب کا متحمل ہے۔ جدیدیت کی فراریت کے تصور کی تردید کرتا ہے۔ اس کے برعکس سماجی سروکار سے مکمل کمٹ منٹ کا مزاج دیتا ہے۔ اس لیے ہم اسے مابعد جدید افسانہ کی فہرست میں رکھتے ہیں۔ فنی اعتبارسے بھی یہ افسانہ مابعد جدید افسانوں کی فہرست میں جگہ پانے کے قابل ہے۔ اس میں راست انداز ہے۔ پے چید گی کہیں بھی نہیں۔ افسانے کا اسلوب اتنا دلکش ہے کہ قاری اس سے پوری طرح بند ھ جاتا ہے۔ اس میں کہانی پن کے ساتھ ساتھ بیانیہ کا پیرا یہ بھی ہے۔ اس میں بکثرت مکالموں کا استعمال کیا گیا ہے۔
حسین الحق
نئے لکھنے والوں میں حسین الحق کی شخصیت بھی کا فی اہمیت کی حامل ہے۔ ان کی افسانہ نگاری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ماضی سے اپنے آپ کو کلی طور پر منقطع نہیں کرتے بلکہ ماضی کے آئینے میں حال کی تصویر دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں کا ایک بڑا حصہ تاریخی حقائق پر مبنی ہے۔ وہ تاریخی سچائیوں کو دور حاضر کے تناظر میں فٹ کر کے ایک نیا ڈسکورس قائم کرتے ہیں جس کا تعلق دور حاضر کے مسائل سے سیدھے سیدھے ہو تا ہے۔ اگر ہم حسین الحق کے افسانوں کا موضوعی سطح پر تجزیہ کریں تو یہ بات روشن ہو جائے گی کہ ان کے موضوعات روز مرہ کی زندگی سے لیے گئے ہیں لیکن ان موضوعات کے برتاؤ میں اس طرح کی ہنر مندی سے کام لیتے ہیں کہ ادبی شان پیدا ہو جاتی ہے۔ حسین الحق بھی اپنے اکثر افسانوں میں فلیش بیک کی تکنیک کا استعمال کرتے ہیں۔ جزئیات نگاری ان کے افسانوں میں ایک نئی جان ڈال دیتی ہے۔ انہیں زبان پر قدرت حاصل ہے جس کا اظہار ان کے افسانوں میں بخوبی ہوا ہے۔ حسین الحق کا افسانہ خانم شیر شاہ (فرید خان) کی والدہ خانم کی پریشانیوں، ذہنی الجھنوں اور ازدواجی زندگی میں رنجش و کر ب پر مشتمل ہے۔ شیر شاہ کا باپ اپنے علاقے کا صوبے دار تھا۔ اپنے علاقے یعنی سہسرام کے ارد گرد اور قرب و جوار میں اس کی گرفت بے حد مضبوط اور لوگوں میں اس کا کافی اثرو رسوخ تھا۔ حسن خاں (شیر شاہ ) کے باپ نے اپنی بیوی ’خانم‘ کی موجودگی کے باوجود تین شادیاں کی تھیں جب کہ خانم اپنے شوہر کی محبت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں اٹھا رکھی تھی۔ شوہر کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کو بھی تیار۔ خانم کا حسن و جمال عالم شباب پر تھا لیکن پھر بھی اس کے حسن و خوبصورتی اور دلکشی اس کے شوہر کو اپنی دائمی محبت میں محصور کرنے سے قاصر تھی۔ وہ اپنے شوہر کے حرکات وسکنا ت سے بے زار رہتی تھی۔ چونکہ یہ اصلاً راجپوت تھی، اس لیے خون گرم ہونا لازمی تھا۔ اس سے یہ بھی برداشت کیوں کر ہو کہ اس کا شوہر اس کے لیے تین تین سوتن لے کر آئے۔ وہ ہمیشہ اسی فکرو خیال میں محو رہتی تھی کہ وہ ان حالات سے کس طرح دست بردار ہو، اس مسئلے کا حل کسی طرح ہو جائے۔ اس کی نگاہ اپنے بیٹے پر مرکوز ہوتی ہے اور اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کے لیے خانم اپنے بیٹے فرید(شیر شاہ ) کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت پر اپنا پورا دھیان صرف کرتی ہے۔ اس کا مقصد تھا کہ اس کا بیٹا صحیح طور سے تربیت یافتہ ہو کر اپنے باپ کا وارث بنے اور موقع پا کر باپ کو شکست دے کر ملک و جاگیر کی عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لینے میں کامیاب ہو۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’فرید اب پڑھ کر آ رہا ہو گا، مدرسے میں چھٹی ہو گئی ہو گی، خانم باورچی خانہ سے تیز تیز چلتی ہوئی کمرے میں آئی۔ فرید اپنی کتابیں ٹیبل پر رکھ کر بستر پر لیٹ گیا تھا، خانم نے جھک کر فرید کا ما تھا چوما، شہزادے کیا بات ہے۔ ‘‘(۳)
اس افسانے کا اختتام ادھورا ہے۔ اس میں قاری کے لیے تشنگی باقی رہ جاتی ہے۔ چونکہ آخر میں خانم شوہر کو اپنی حالت پر چھوڑ دیتی ہے۔ یہ کیفیت خانم پر بار ہونے لگتی ہے۔ ہر وقت شوہر کی یاد خانم کو ستاتی رہتی ہے۔ اسی حالت میں افسانہ ختم ہو جاتا ہے اور قاری پر اس کی تشنگی باقی رہ جاتی ہے۔
حسین الحق کا یہ افسانہ ایک تاریخی حیثیت کا حامل ہے جس میں کہانی کی شکل میں تاریخی حقیقت کو مختصر کینوس پر اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ تاریخی افسانے کو فکشن کی شکل دینا کوئی آسان نہیں بلکہ مشکل ہے۔ یہ اس ادیب کا کام ہے جو تاریخ کا گہرا مطالعہ رکھتا ہو اور اس پر پوری گرفت ہو، ورنہ افسانہ تاریخ کا ہی ورق بن کر رہ جائے گا۔ حسین الحق اس پیمانہ پر کھرے اترتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تحریر دراصل ان کے تاریخی ناول ’’شیر شاہ ‘‘ کا ایک مختصر اور نامکمل باب ہے۔
خانم کا تعلق تاریخی حقیقت سے ہے۔ مابعد جدید ادب نے تاریخی حقیقت کو کبھی نظر انداز نہیں کیا بلکہ تاریخی حقیقت کی بازیافت کی طرف بھی اس نے بالخصوص توجہ دی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس کا تعلق واقعی تاریخ سے ہو۔ اس اساطیر پر بھروسہ نہیں کیا ہے کیونکہ اساطیر کا تعلق حقیقت سے برائے نام ہوتا ہے اور مابعد جدید ادب چونکہ ان جدید اذہان کی پیداوار ہے جوہر واقعے میں معروضیت تلاش کرتے ہیں اور جس کے پاس علوم جدیدہ کا پورا سرمایہ موجود ہے۔ جونسل سائنس اور ٹکنالوجی سے واقف ہے اور ہر افسانے کو حقیقت میں بدلنے کی خواہاں ہے وہ اسطو رپر آنکھ موند کر بھروسہ کیوں کرسکتی ہے۔ یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جس نے مابعد جدید افسانہ نگاروں کو اسطور سے بے نیاز کر کے تاریخ کی طرف مائل کیا ہے۔
یہ افسانہ اس لحاظ سے بھی مابعد جدید افسانہ ہے کہ اس میں سماج کے اس طبقے کے دکھ درد کو دل چھو لینے والے انداز میں پیش کیا گیا ہے جسے خاتون کہا جاتا ہے اور کاروبار جہاں چلانے میں جس کی نصف حصہ داری ہے۔ مسئلہ نسواں مابعد جدید ادب کا بنیادی موضوع ہے اور اس افسانے میں تاریخ کے پردے میں اس مظلوم طبقے کے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایک عورت کس طرح اپنے شوہر کے تمام ظلم ستم کو نہ چاہتے ہوئے بھی خوشی خوشی برداشت کر لیتی ہے۔
ساجدرشید
ساجد رشید کے افسانوں کا موضوع انسان کا وہ دکھ ہے جس سے وہ صدیوں سے نبرد آزما ہو رہا ہے، لیکن اس پر ابھی تک فتح نہیں پا سکا ہے، بلکہ روز بروز اس کی نوعیت اور شدت میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ افسانہ نگار ہمہ وقت اس فکر میں مبتلا رہتا ہے کہ انسان دکھوں سے نجات کیوں نہیں پا تا اور وہ خود بھی دکھوں کا اسیر ہو جاتا ہے۔ یہی دکھ اس کے افسانے میں ڈھل کر ایک کربناک فضا کی تخلیق کرتا ہے۔ اس دکھ کا تعلق اس کی ذات سے بھی ہے اور کائنات سے بھی۔ یہ دکھ انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی لیکن وہ اس دکھ کو اپنے معاشرے میں، اپنے ملک میں جہاں وہ اپنے روز و شب گزارتا ہے، زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے، جو دنیا کا ایک پس ماندہ ملک ہے، جو ہمہ وقت سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل سے دوچار ہے۔ اس کے نتیجے میں ساجد رشید کے یہاں سیاسی، سماجی، شعور جنم لیتا ہے۔ ساجد رشید کے نزدیک کامیاب کہانی وہی ہے جو کہانی پن کے ساتھ اپنے قاری کو متاثر کرے یعنی کے ان کے افسانوں میں کہانی پن کی واپسی کا رویہ واضح طور سے ملتا ہے۔ مثلاً ان کا افسانہ ’’ راکھ ‘‘ کی بنیاد محبت پر رکھی گئی ہے اور یہ بتلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر محبت کی بنیاد سچائی پر ہو تو ایسی محبت ہر طرح کے خس و خاشاک سے پاک و صاف ہوتی ہے۔ افسانے کے بنیادی کردار جمال اور شمع ہیں۔ جمال، شمع کی محبت میں اس طرح گرفتار ہے کہ ہمیشہ اسی کی یاد دامن گیر رہتی ہے۔ ہر لمحہ اس کی یہ کوشش ہو تی ہے کہ وہ شمع کو کس طرح حاصل کرے۔ اسے اپنا بنانے کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ جمال اس بات پر بھی راضی ہے کہ شمع کے حصول میں اگر اسے اپنا مذہب بھی تبدیل کرنا پڑے تو بھی اسے کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ اس طر ح محبت کی یہ آگ دونوں طرف لگی ہوتی ہے۔ اس کا دل بھی جمال کی یادوں میں بے چین رہتا ہے۔ وہ کسی طرح بھی جمال کو حاصل کرنا چاہتی ہے، خواہ اسے اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہونا کیوں نہ پڑے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ شمع نے جمال سے قبل ہی اپنی محبت کی خاطر مذہب کو پس پشت ڈال کر جمال کی آغوش محبت میں پناہ لے لی۔
’’ میرے بابا تمہارے ہندو ہو جانے کے بعد بھی تمہیں سویکار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو میں نے بھی فیصلہ کر لیا ہے میں ہی مسلمان ہو جاتی ہوں۔ وہ (جمال) سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ شمع اتنا بڑا فیصلہ اتنی جلدی کر لے گی۔ شمع نے ایک روز خاموشی سے بدن کے کپڑوں کے ساتھ گھر اور مذہب دونوں کو چھوڑ دیا، جامع مسجد میں کلمہ پڑھ کر وہ شمع کلکرنی سے شمع جمال ہو گئی۔ مسجد ہی میں جمال اور شمع کا نکاح ہوا تھا۔ ‘‘ (۴)
اس افسانے میں ایک حیرت انگیز موڑ اس وقت آتا ہے جب شمع کی موت واقع ہو تی ہے۔ شمع نے جمال کے یہاں آنے کے بعد شعائر اسلامی کو پوری طرح اپنا لیا تھا اگرچہ وہ ہندو تھی۔ رمضان کے روزے رکھنے اور نماز بھی پڑھنی شروع کر دی تھی لیکن مرنے کے بعد اس کی آخری رسم پوری کرنے کی بات سامنے آتی ہے تو جمال اپنے والد سے کہتا ہے کہ وہ ا س کی آخری رسم ہندو دھرم کے مطابق کرے گا تاکہ شمع کی آتما کو شانتی پہنچے۔ اس پر اس کے والدین اور بہن سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ نہیں سمجھ پا تا ہے۔
’ راکھ‘ اپنی نوعیت کا ایک انوکھا افسانہ ہے جس میں مابعد جدید سماج کی عکاسی بڑے موثر انداز میں کی گئی ہے۔ نئی تعلیم نے سماج کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب وہ پرانی قدریں باقی نہ رہیں جن کی بنیاد پر ہمارا سماجی ڈھانچہ کھڑا تھا، بالخصوص شہری زندگی، اس سے ایک حد تک مبریٰ ہو چکی ہے۔ پہلے کی طرح لڑکی اور لڑکے میں وہ دوری نہ رہی۔ اب دونوں ایک ساتھ کام کرنے لگے ہیں جس کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے لگے ہیں۔ سماجی نظام کی نئی اقدار نے بین المذاہب شادی کی روایت قائم کر دی ہے۔ اب مذہب کی دیوار دونوں کے درمیان حائل نہیں ہو پاتے۔ نئی نسل اپنے خانگی معاملات میں اتنی consciousہو گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھنے لگی ہے۔ جس کی طرف یہ افسانہ اشارہ کرتا ہے۔ موضوع کے اعتبار سے اس میں ما بعد جدید ادب کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس کا لب و لہجہ سادہ اور یک رنگ ہے۔ استعارات و علامات کا استعمال نہیں ملتا۔ اس میں کہانی پن اور مکالمہ دونوں موجود ہیں۔
سریند پرکاش
سریندر پرکاش کا رشتہ اگر چہ جدیدیت سے بھی رہا ہے لیکن انہوں نے اپنے ماقبل افسانوں میں دوسرے لوگوں کی طرح بے مطلب کے استعارات و علامات کا استعمال نہیں کیا اور نہ ہی زمان و مکاں کے حدود سے پرے تجریدی فضا قائم کی۔ اس لیے ان کے علامتی اور تجریدی افسانوں میں بھی ایک خاص طرح کا فنی و فکری رکھ رکھاؤ پایا جاتا ہے۔ ان کے افسانوں کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ ان میں ایجاز و اختصار پایا جاتا ہے اور بقول گوپی چند نارنگ ان کے افسانوں میں لفظوں کے لغوی و منطقی معنوں کے پیچھے ایک جہان معنی نظر آتا ہے۔ سریندر پرکاش کے افسانوں میں الفاظ کا بر محل وبرجستہ استعمال ملتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو زبان و بیان پر قدرت کاملہ حاصل ہے۔ انہوں نے آج کے انسان کے مسائل کو مرکز میں رکھ کر اس افسانے کی تخلیق کی ہے۔ آج کا دور مادیت کا دور ہے جس میں انسان کی روحانی قدریں پامال ہو رہی ہیں۔ یہ قدریں کبھی انسانیت کی معراج سمجھی جاتی تھیں لیکن تبدیلی حالات نے قدروں میں بھی تقلیب پیدا کر دی ہے۔ سریندر پرکاش سماج میں موجود ناہمواریوں سے اچھی طرح واقف ہیں اور اس کا اظہار وہ اپنے افسانوں میں خصوصیت کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ زیر نظر افسانے میں بھی انہوں نے سماج کی ان ناہمواریوں کی طرف بلیغ اشارہ کیا ہے جو صحت مند قدروں کو اندر ہی اندر کھوکھلا کیے جا رہی ہیں۔ رونے کی آواز میں سریندر پرکاش نے ایسے شخص کا المیہ پیش کیا ہے جسے اپنے عکس دیگر کی تلاش ہے۔ اس افسانے کی ابتدا ایک موسیقار سے ہوتی ہے۔ اس افسانے کے مرکزی کردار کو وہ واقعہ شدت کے ساتھ یاد آتا ہے جب اس کی ملاقات ایک موسیقار سے ہوئی تھی اور اس نے اس کے ساتھ شراب بھی پی تھی جب اس موسیقار نے اس سے پوچھا تھا کہ اس نے شادی کیوں نہیں کی تو اس کا جواب اس نے یہ دیا تھا کہ اس نے پہلے سرسوتی سے شادی کی، پھر لکشمی سے۔ سروستی سے مراد یہاں علم ہے اور لکشمی سے دولت۔ رات میں جب وہ بستر استراحت پر جاتا ہے اور سفید چادر اوڑھتا ہے تو اسے اپنا جسم سفید کفن میں لپٹی ہوئی لا ش کی مانند محسوس ہوتا ہے۔ اچانک اسے ایک بچے کے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے جو اس کے پہلو میں رو رہا ہے لیکن اس کے باوجود چادر میں لپٹے اس کے لاش نما جسم میں ذرا بھی جنبش نہیں ہوتی۔ وہ اپنے شب و روز کی مصروفیات کا ذکر بھی کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس طرح وہ ایک سارس کی طرح پرواز کرتا ہوا کسی کیبن میں جاتا ہے جہاں اس کی ملاقات ایک حسین و جمیل عورت سے ہوتی ہے۔ وہ سیڑھیاں چڑھتا ہوا الماری کے خانوں کے نزدیک پہنچتا ہے اور وہاں اپنی ذات کو نکال کر رکھ دیتا ہے۔ شام کو الماری سے اپنی ذات کو نکالتا ہے اور پھر باہر آتا ہے۔ باہر آ کر تھئیٹر والوں کی گاڑی میں سوارہو کر تھیئیٹر پہنچتا ہے اور گولیور کا رول ادا کرتا ہے جہاں چھوٹے چھوٹے تیر کمانوں سے نکلتے ہیں اور اس کے جسم میں پیوست ہو جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنے دکھ کا اظہار نہیں کرتا۔ شو ختم ہونے پر اس کے جسم کو الکوہل میں ڈبویا جاتا ہے اور پھر تازہ دم ہو کر وہ اپنے گھر لوٹتا ہے۔ یہ اس کا روزانہ کا معمول ہے۔ ایک روز کی بات ہے کہ اس کے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آتا ہے۔ وہ اپنی ذات کو الماری میں بند کرتا ہے اور بھول جاتا ہے۔ اس روز وہ تھیٹر میں پہلے سے اچھا رول کرتا ہے۔ اس دن کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے اپنی ذات کو بھول جاتا ہے۔ ایک دفع وہ اپنے کمرے کا ذکر پھر کرتا ہے۔ جب کھڑکی کھلتی ہے اور اسے سرسوتی کے سسکنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ رونے والے بچی کی آواز میں ایک اور آواز کی شمولیت ہو جاتی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ پڑوسی کے دکھ کو بانٹ لے۔ اس ارادے سے وہ اٹھتا ہے اور باہر جانا ہی چاہتا ہے کہ دروازے پر اچانک دستک ہوتی ہے۔ وہ دروازہ کھولتا ہے تو دیکھتا ہے کہ سیڑھیوں پر بیٹھ کر رونے والی سرسوتی، بلک بلک کر رونے والا بچہ، مردہ عورت اور اس کا خاوند سب کے سب باہر کھڑے ہیں اور اس سے بیک زبان پوچھ رہے ہیں کہ رونے میں جو دیر لگی ہے اس کی کیا وجوہات ہیں۔
اس افسانے میں سریندر پرکاش نے اظہار کا جو طریقہ کار استعمال کیا ہے اس کا تعلق علامت سے بہت گہرا ہے۔ لیکن اس میں جن علامات کا استعمال ہوا ہے، ان میں بڑا ہی محتاط رویہ ملتا ہے جس کے سبب افسانے میں ترسیل کا مسئلہ نہیں پیدا ہو پاتا۔ یہ افسانہ علامت کے استعمال سے اور بھی با اثر ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے قاری کا رشتہ اس سے جڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ آج کے افسانے کی یہ خاص خصوصیت ہے کہ افسانے میں جو سچوئیشن پیش کی گئی ہے، اس کا تعلق سماجی ڈسکورس ہے۔ سماجی ڈسکورس آج کے ادب کا کلیدی عنصر ہے۔ اس لحاظ سے بھی اسے رجحان ساز افسانہ کہا جا سکتا ہے۔
سلام بن رزاق
سلام بن رزاق کا شمار برصغیر کے ان اہم ترین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے ۸۰ کے بعد بھی اپنی انفرادی شناخت کو قائم رکھا اور نئے رجحان ساز افسانے کے لیے بھی انہیں یاد کیا جاتا ہے۔ سلام بن رزاق کے افسانے موضوعی سطح پر کثیر الجہات ہیں لیکن ان کا خاص موضوع جنسیات و نفسیات سے متعلق ہے۔ عام افسانہ نگاروں کی طرح سلام بن رزاق کے یہاں جنس کا استعمال لطف اندوزی کے لیے نہیں ہوا ہے بلکہ اس سے وہ اپنے افسانے میں تحیر و استعجاب کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے افسانوں میں سریت کی کارفرمائی بھی جگہ جگہ ملتی ہے۔ سریت کے ذریعہ وہ استعارہ سازی کرتے ہیں۔ ان کے یہاں جو سریت ہے وہ سریت برائے سریت نہیں بلکہ سریت برائے استعارہ ہے۔ سلام بن رزاق اکثر و بیشتر اپنے افسانوں میں واحد متکلم کا کردار استعمال کرتے ہیں۔ واحد متکلم واقعے کو من و عن بیان کرنے کے ساتھ ساتھ واقعے کی تعبیر بھی کرتا ہے جس کی وجہ سے افسانہ نگار وہ سب کچھ ایک جواز کے ساتھ بیان کرپا تا ہے جو بیان کرنا اسے مقصود ہو۔ سلام بن رزاق کی زبان بھی صاف ستھری ہے اور اسلوب بھی دلکش ہے۔ ان کے بیانیہ میں حقیقت کی کارفرمائی نظر آتی ہے لیکن یہ حقیقت نگاری اپنے اندر جدت رکھتی ہے۔ ’چادر ‘سلام بن رزاق کا افسانہ ہے جو فسادات کے موضوع پر لکھا گیا۔ اس افسانے میں جس فساد کا ذکر کیا گیا ہے وہ بمبئی کے دادر کا فساد ہے۔ اس کا کلیدی کردار انور ہے جو پونے کا رہنے والا ہے۔ وہ کارو بار کے سلسلے میں بمبئی آتا ہے۔ بمبئی آتے وقت اس کی بیوی سلمیٰ نے اس سے کہا تھا کہ وہ بمبئی جا رہا ہے لیکن اس کا دل گھبرا رہا ہے کیونکہ بمبئی کے حالات اچھے نہیں ہیں لیکن انور نے سلمیٰ کو یہ کہہ کر بمبئی آنے کا ارادہ کیا تھا کہ وہ گھبرائے نہیں۔ بمبئی جیسے بڑے بڑے شہروں میں اس طرح کے چھوٹے موٹے دنگے روزانہ ہوا کرتے ہیں۔ ان سے وہاں کے کاروباری زندگی پر کچھ فرق نہیں پڑتا ہے لیکن جب وہ بمبئی پہنچا تو وہاں کے سڑکوں کی ویرانی دیکھ کر بہت گھبرایا۔ اسے سلمیٰ کی کہی ہوئی بات ہمیشہ یاد آتی تھی۔ اس کے دوست ودیا چرن کا مکان بمبئی میں تھا۔ اس سے اس کے گھریلو تعلقات تھے اوراسی نے انور کو ایک پارٹی سے ملوانے کے لیے بلایا تھا۔ اس لیے وہ اس کے گھر چلا گیا۔ اس کی ماں اور اس کے باپ انور کے ساتھ والدین کی طرح شفقت سے پیش آئے۔ اس کے بمبئی آ جانے کے بعد اس شہر کے حالات اور بھی خراب ہو گئے تھے۔ شہر میں ہر طرف کرفیو لگ گیا تھا۔ اس لیے اس نے اس کے گھر ہی میں پناہ لی۔ انور اندر سے بہت گھبرایا تھا لیکن ودیا چرن کے گھر کے تمام افراد نے اس کو تسلی دی اور اسے ایک کمرے میں سلادیا لیکن خوف و دہشت کی وجہ سے اسے رات بھر نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ رات بھر پریشان رہا اور بار بار کھڑکی کھول کر باہر دیکھتا رہا۔ اسی دوران اس نے ایک خوفناک منظر دیکھا۔ اس منظر کو افسانہ نگار کی زبانی ملاحظہ فرمائیں :
’’ کھڑکی میں کھڑے کھڑے وہ دیر تک سنسان سڑک کو گھور تا رہا۔ جس طرح سے رات میں دھواں اٹھتا دکھائی دیا تھا۔ اب وہاں مطلع صاف تھا۔ سامنے بلڈنگ کے کمپاؤنڈ میں کچھ لڑکے کھڑے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ ایک پولیس وین دھیرے دھیرے رینگتی ہوئی دور نکل گئی۔ اتنے میں بائیں جانب سے کچھ شور سنائی دیا۔ اس نے کھڑکی میں سے گردن نکا ل کر دیکھا۔ بائیں جانب کی ایک پتلی گلی سے ایک دبلا پتلا نوجوان تیزی سے بھاگتا ہوا دکھائی دیا۔ اس کے کپڑے میں آگ لگ گئی تھی اور اس کی کلائیاں رسی سے بندھی تھی، وہ چلا رہا تھا۔ ’’بچاؤ بچاؤ، پانی پانی‘‘۔ شاید اس کے کپڑوں پر مٹی کا تیل چھڑکا گیا تھا کیونکہ آگ پھیلتی جا رہی تھی، اس کی چیخیں سن کر آس پاس کی کھڑکیاں ایک ایک دو دو کر کے کھلنے لگیں۔ کچھ لوگ گردنیں نکالے اسے دیکھنے لگے۔ وہ دبلا نوجوان منھ اٹھا اٹھا کر چیخ رہا تھا۔ ’’ میرے ہا تھ کھول دو، مجھے مار کر تمہیں کیا ملے گا۔ پانی۔ پانی۔ ‘‘(۵)
اس طرح ایک جیتا جاگتا انسان راکھ کا ڈھیر ہو جاتا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد پولیس کی سائرن کی آواز سن کر سارے لوگ اپنے اپنے گھر کی کھڑکیاں بند کر لیتے ہیں۔ پولیس کی vanآتی ہے۔ اس سے چار پانچ کانسٹیبل اتر تے ہیں۔ انسپکٹر بھی اترتا ہے اور لاش کے چاروں طرف کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک سپاہی اپنی ناک پکڑے ہوئے جھکتا ہے اور لمبی چھڑی سے لاش کو ٹھوک کر دیکھتا ہے کہ وہ زندہ ہے یا مردہ۔ وہ نوجوان تو مر چکا تھا تبھی پولیس انسپکٹر نے چلانا شروع کر دیا کہ کس نے اس نوجوان کو جلا یا ہے۔ لیکن آس پاس کی بلڈنگوں سے کوئی آواز نہیں آتی ہے۔ تب وہ چلا تا ہے کہ ارے کم سے کم لاش کو ڈھانکنے کے لیے کپڑا تو پھینکو۔ تھوڑی دیر تک سناٹا چھایا رہتا ہے۔ پھر ایک کھڑکی سے ایک چادر اچھال دی جاتی ہے۔ پھر ایک اور کھڑکی کھلتی ہے اور وہاں سے ایک تہہ کی ہوئی چادر گرتی ہے۔ پھر دیکھتے دیکھتے صرف تین منٹ میں سات چادر اچھالی جاتی ہیں۔ دو کانسٹیبل آگے بڑھتے ہیں اور ایک چادر اٹھا کر لاش کو ڈھانک دیتے ہیں۔
اس افسانے میں فساد کا ایک مکمل منظر پیش کر دیا گیا ہے۔ اس کی پیش کش کا طریقہ بھی بہت ہی موثر ہے۔ اس کا کلیدی کردار اس فساد سے ذاتی طور پر متاثر نہیں ہوتا ہے۔ اس سے پہلے فساد پر جو افسانے لکھے گئے ان کے کردار فساد میں شریک ہوا کرتے تھے لیکن اس افسانے کی خوبی ہے کہ اس کا کردار فساد میں مبتلا نہیں ہوتا وہ ایک ناظر کی طرح جو کچھ دیکھتا ہے اسے من و عن کاغذ پر مرتسم کر دیتا ہے۔ یعنی کہ کردار آنکھوں دیکھا حال بیان کرتا ہے۔ اس افسانے کی یہ تکنیک اپنی نوعیت میں جدا گانہ ہے۔ اس سے پہلے اس طرح کی تکنیک اور وہ بھی فساد پر لکھے گئے افسانوں میں نہیں ملتی۔ اس میں جو فرقہ وارانہ فساد کی نوعیت ہے وہ جداگانہ ہے۔ انور ودیا چرن کے گھر میں ہے۔ ایک ہندو ہے دوسرا مسلمان ہے لیکن انور کو ودیا چرن کے گھر والوں سے کوئی ڈر نہیں ہے بلکہ اس کے گھر والے اس مصیبت کی گھڑی میں اسے تسلی اور دلاسے دیتے ہیں۔
سید محمد اشرف
۱۹۸۰ کے بعد کے لکھنے والوں میں سید محمد اشرف کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے افسانوں کے مجموعے ’’ڈار سے بچھڑے ‘‘ اور ’’باد صبا کا انتظار ‘‘ ہیں۔ باد صبا کا انتظار پر انہیں ساہتیہ اکادمی اوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔ سید محمد اشرف اپنے افسانوں میں جس چیز پر اپنے فکر کو مرتکز کرتے ہیں وہ ہماری صحت مند تہذیبی قدریں ہیں، جس سے ہم کٹ گئے ہیں اور جس کے نتیجے میں ہم اپنے اندر ایک خلاسی محسو س کر رہے ہیں۔ سید محمد اشرف نے اپنے افسانوں کے ذریعے ماضی اور حال کے درمیان ایک پل تعمیر کرنے کی کوشش کی ہے جو دونوں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ سید محمد اشرف نے اپنے افسانوں میں دیہات اور قصبات کی زندگی سے متعلق مسائل کو غالب طور سے پیش کیا ہے۔ ان کے افسانوں میں دیہات اور قصبات کی جیتی جاگتی تصویریں ملتی ہیں۔ لہلہاتے کھیت، باغ باغیچے، کچی سڑک، پگڈنڈیاں وغیرہ ان کے افسانوں میں جان ڈال دیتے ہیں۔ سید محمد اشرف نے گاؤں اور قصبوں کے اس مزدور کسان طبقے کے دکھ درد کو اپنے افسانے میں جگہ دی ہے جو برسوں سے استحصال کا شکار ہے اور جس کی طرف ہماری نگاہ جانے سے رہ گئی ہے۔ سید محمد اشرف نے اپنے افسانوں میں اسی روایت کو آگے بڑھانے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے جس روایت کی داغ بیل پریم چند کے ہاتھوں پڑتی ہے۔ مابعد جدید افسانہ نگاروں کے یہاں روایتی افسانے کی طرف مراجعت کا رویہ بھی ملتا ہے۔ سید محمد اشرف نے اپنے افسانوں میں اس رویے کا عملی نمونہ پیش کیا ہے۔ اپنے دیگر معاصرین کی طرح سید محمد اشرف بھی افسانے کے نئے تکنیکوں کا استعمال کرتے ہیں۔ فلیش بیک کی تکنیک اور فوٹوگرافی کی تکنیک کا استعمال ان کے افسانوں میں بکثرت ہوا ہے۔ ان کے افسانوں کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ہم کوئی فلم دیکھ رہے ہیں۔ زبان و بیان کی سطح پر بھی اشرف کے یہاں پختگی پائی جاتی ہے۔ ان کا افسانہ ’قدیم معبدوں کا محافظ‘ ملاحظہ فرمائیں جس میں سید محمد اشرف نے معبدوں کا بہترین نقشہ کھینچا ہے۔ معبد تطاول ایام اور سیکڑوں بہاریں دیکھنے کی وجہ سے اپنی عظمت و وقار، عزت و ناموس اور عوام کی نظروں میں اپنی حیثیت ختم کر چکے ہیں۔ معبدوں کے در و دیوار بوسیدہ، ظاہری شکل و صورت خراب، حسن اور رعنائیاں ان سے مفقود ہو چکی ہیں۔ یہ افسانہ نہایت ہی تحیراتی انداز سے انسانی زندگی کی ناگفتہ بہ حقیقت اور کڑواہٹ سے پردہ اٹھا تا ہے۔ پرانی یادوں کو یاد دلانے والا یہ افسانہ انسانوں کی اصلاح کی ایک کڑی ہے۔ آج کا انسان اپنے بزرگوں کے اعمال و افعال سے غافل ہو گیا ہے، جس کا انہیں احساس تک نہیں ہے۔ افسانہ نگار کے بموجب انسان نے آج اپنے آپ کو فراموش کر دیا ہے۔ ماضی سے اس کا رشتہ و تعلق منقطع ہو گیا ہے۔ انسان کا دل و دماغ تاریکی و ظلمت کا گھر بنا ہوا ہے۔ افسانہ نگار کا ماننا ہے کہ انسان اتنا بے حس ہو چکا ہے کہ آج اسے اپنی نااہلی تک کا احساس نہیں ہے۔ سکون و آرام کی تلاش میں وہ ہر جگہ کی سیر کرتا ہے لیکن سکون و اطمینان کے بدلے اسے تنہائی اور تاریکی ملتی ہے۔ کبھی کبھی ان دونوں کیفیتوں کے درمیان وقت کا ایک مختصر سا ٹکڑا حائل ہو جاتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ یوں اس مکان میں میرا جو بھی وقت گزرا ہے وہ تاریکی اور تنہائی میں ہی گزرا ہے، تاریکی اور تنہائی میرے لیے ایسے لازم و ملزوم ہیں جیسے کرتے کی ایک آستین میں ہاتھ ڈال کر دوسری آستین میں ہاتھ ڈالنا یہی جہاں بھی تاریکی دیکھتا ہوں مجھے تنہائی کا خیال آ جاتا ہے، اور جہاں بھی تنہائی دیکھتا ہوں تاریکی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ ‘‘ (۶)
افسانہ نگار کے مطابق انسان پر تاریکی اس طرح غالب آتی ہے کہ وہ زندہ نعش میں تبدیل ہونے لگتا ہے اور وہ بے حس اور بے سروسامان بن جاتا ہے۔ یہ افسانہ انسان کو اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ انسان اپنی سابقہ زندگی اور اعمال پر غور کرے اور زندگی میں تبدیلی لانے کی کوشش کرے۔ انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اپنی یادوں سے کلی طور پر دامن چھڑا لے۔ جس سے خود اس کی پہچان اور شناخت ہوتی ہے۔ حالانکہ یہ یادیں اور ماضی کے اعمال بزرگوں کی میراث و آباء و اجداد کا سرمایہ ہم سے جواب کا طالب ہو گا۔ اس وقت انسان کے پاس سوائے خاموشی اور شرمندگی کے کچھ نہیں ہو گی۔ یہ افسانہ عام لوگوں کے سامنے دو طرح کے کردار کو پیش کرتا ہے۔ ایک کردار اس بات کی وکالت کرتا ہے کہ تمام تر نا واقفیت اور نا اندیشی کے باوجود اپنی حالت کو سدھارنا ممکن ہے بلکہ روز پرانی یادوں پر گریہ و زاری درست نہیں ہے۔ دوسرا کردار بتاتا ہے کہ سدھارکی کوشش ناممکن ہے بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ یہ کردار اپنی جہالت و نادانی اور برے اعمال سے باخبر بھی نہیں ہونا چاہتا ہے۔ یہ افسانہ معبدوں کی ایسی تصویر پیش کرتا ہے جو پرانے ہونے کی وجہ سے اپنی شرافت و عظمت کو ضائع کر چکے ہیں اور ان کا احترام لوگوں کی نظروں سے ختم ہو چکا ہے۔ یہی نہیں بلکہ خود ان معبدوں کے بنانے والے بھی ان کی اہمیت و فضیلت، عزت وناموس کی تسبیح پڑھنے کے بجائے ان کی خوبیوں سے غافل ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’تم نے یہ بڑی حقیقت فراموش کر دی ہے کہ ان پرانے معبدوں کے مسمارتم ہی تو تھے اس رات جب میں بستی میں پہنچا تو اپنا تاریک اور تنہا مکان بہت دیر میں پہچان سکا، بہرحال انسان آج خود مردہ ہو چکا ہے، اپنی سدھار کرنا چاہے، تو کرسکتا ہے، لیکن اس کی کوشش ہی نہیں کرتا، اس لیے تاریکی آج اس کا مقدر بن چکی ہے۔ ‘‘ (۷)
سید محمد اشرف کا یہ افسانہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک اہم افسانہ ہے۔ اگر چہ یہ افسانہ نہایت ہی مختصر افسانہ ہے لیکن اس میں افسانے کی وہ خصوصیات جو ایک افسانے کو اقدارو معیار کے اعتبار سے وقیع بناتی ہیں، بدرجہ اتم موجود ہیں۔ افسانہ بیانیہ کے انداز میں ہے۔ اس میں واحد متکلم اپنا قصہ بیان کرتا ہے، لیکن اس کا قصہ محض اس کا قصہ نہیں ہے بلکہ اس کا اطلاق معاصر سماج پر ہوتا ہے جہاں انسان بے سمتیت کا شکار ہے۔ اس کا کردار تنہائی اور تاریکی میں مبتلا ہے لیکن اس میں اس تاریکی اور تنہائی کی بے نام مگر کٹھور دیوار کو توڑ دینے کا ایک زیریں جذبہ بھی موجود ہے۔
اس کہانی میں جو فضا خلق کی گئی ہے وہ خود بخود افسانے کی تفہیم کی راہ ہموار کر دیتی ہے۔ اس میں جو قدیم معبد ہے وہ اس دور کے انسان کا خود ساختہ معبد ہے جس کی روایت بہت ہی گہری اور مستحکم ہے۔ شاید اس معبد کا استعارہ جدیدیت سے ہو جس کو مسمار کرنا آج کے انسان کے لیے ضروری ہے۔ جدیدیت کا وہ دور جہاں تنہائی اور تاریکی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اور جس نے انسان کے جوش و جذبہ کو پوری طرح مضمحل کر کے رکھ دیا ہے۔ اس سے آزاد ہونے کی طرف اس کا یہ فقرہ اشارہ کرتا ہے کہ:’’ تم نے یہ بڑی حقیقت فراموش کر دی ہے کہ ان پرانے معبدوں کے معمار تم ہی تو تھے۔ ‘‘یعنی کہ جدیدیت کی زندگی کش روایت کا معمار خود وہ لوگ ہی تھے جو اس کے ستم کو جھیل جھیل کر پریشان تھے۔ لہٰذا ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس زندگی کش سے نکلیں۔ دراصل سید محمد اشرف اس افسانے کے ذریعہ ان اذہان کو مابعد جدید نظریہ ادب کی طرف منعطف ہونے کی دعوت دے رہے ہیں جو ابھی تک اس سے چھوٹے ہوئے ہیں۔ اس طرح اس افسانے کو بھی مابعد جدید افسانوں کے رجحان ساز افسانوں کی فہرست میں شامل کیا جانا چاہیے۔
شفق
شفق نے افسانہ نگاری کی شروعات جدیدیت کے زیر اثر کی اور جدید افسانہ نگاروں میں ان کی اپنی ایک الگ پہچان ہے لیکن انہوں نے ۱۹۸۰ کے بعد بھی لکھا اور اپنی تخلیقات سے نئی نسل کو متاثر کیا۔ ان کے افسانے کا موضوع عام طور سے آج کا معاشرہ ہے جس میں روزانہ دھماکے ہوتے ہیں جہاں حیوانیت اور بربریت عام ہے، جہاں ہرانسان دہشت کے سائے میں اپنی زندگی گزار رہا ہے۔ موجودہ دور میں دنیا کے جو حالات ہو گئے ہیں اس نے ہر ذی شعور انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کس طرح زندگی کی بقا ممکن ہوسکے گی، کیسے دنیا کا کاروبار چل سکے گا کیونکہ یہ دنیا ایک بارود کے ڈھیر پر کھڑی ہے اور کب اس کا وجود کالعدم ہو جائے، یہ کسی کو معلوم نہیں۔ اس فکر نے انسان کے ذہن کو انتشارو اضطراب کا شکار بنا دیا ہے۔ شفق کے افسانوں میں جو الم ناک فضا ملتی ہے وہ تخیلاتی نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق روز مرے کی زندگی کے حقائق سے ہے۔ شفق کے یہاں بھی تمثیلی واستعاراتی پیرایۂ اظہار ملتا ہے لیکن تمثیلات و استعارات کا استعمال وہ بڑی فن کاری کے ساتھ کرتے ہیں جس کے وجہ سے افسانے میں ان کی معنویت بڑھ جاتی ہے۔ شفق نے جو بعد میں افسانے لکھے ان میں کہانی پن کی طرف مراجعت کا رویہ بھی ملتا ہے، اسی کے ساتھ ساتھ مابعد جدید نظریہ ادب سے لغایت تمام لوازمات ان کے افسانوں میں بدرجہ اتم ملتے ہیں۔ نئی نسل نے شفق سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ دوسرا کفن شفق کے بہترین افسانوں میں سے ایک ہے۔ اس کے کردار وہی ہیں جو پریم چند کا افسانہ کفن کے ہیں۔ اس کا پلاٹ بھی کفن سے ہی مستعار لیا گیا ہے۔ اس افسانے کی شروعات شراب خانے سے ہوتی ہے۔ اس کے دونوں کردار گھیسواور مادھو شراب خانے میں سوئے ہوئے ہیں۔ صبح کو گھیسو کی نیند کھلتی ہے اور مادھو کو جگا تا ہے۔ یہ لوگ بدھیا کے کفن کے لیے شہر آئے ہوئے تھے لیکن ان لوگوں نے اس پیسے کی شراب پی لی اور خالی ہا تھ ہی گھر لوٹنے کے لیے تیار ہو گئے لیکن ان کو یہ فکر ستا تی تھی کہ وہ گھر خالی ہا تھ لوٹیں گے تو گاؤں والے ان کے ساتھ برا سلوک کریں گے۔ چونکہ ادھر بدھیا کو مرے ہوئے دو رات ایک دن گزر گیا تھا۔ بدھیا بہت ہی محنتی تھی، وہی کام کر کے گھر اور پریوار کو چلایا کرتی تھی۔ اتنی محنت کے باوجود اسے پیٹ بھر کھانا نہیں ملتا تھا۔ مادھو کو یہ بات ستارہی تھی کہ بدھیا کے مرنے کے بعد کوئی آدمی اسے بیٹی نہ دے گا۔ یہ سوچ کر وہ رونے لگا۔ اس کے ساتھ اس کا باپ بھی رونے لگا۔ اس کے پاس ایک کتا بھی تھا جب اس کتے نے دونوں کو روتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی رونے لگا۔ یہ دیکھ کر گھیسو نے ڈھیلا اٹھا کر کتے پر پھیکا لیکن کتا ڈھیلا کھا کر چپ رہا۔ مادھو بڑا ڈھیلا کھوجنے لگا۔ اس پر گھیسو نے مادھو سے کہا کہ جانور کو رات کو کھلا دیا تو وہ ان لوگوں کا غلام بن گیا ہے لیکن وہ لوگ کیسے ہیں کہ بدھیا زندگی بھر ان لوگوں کو کما کر کھلاتی رہی لیکن ان لوگوں نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔
گھیسو اور مادھو کو یہ بات برابر ستا رہی تھی کہ وہ گاؤں والوں کو کیا جواب دیں گے۔ یہ لوگ اتنے مفلس و نادار تھے کہ ان کے بدن پر صر ف ایک دھوتی تھی وہ بھی پرانی ہو چکی تھی۔ مادھو نے یہ عذر کر لیا کہ وہ گاؤں والوں کو کہہ دے گا کہ اس دھوتی کے پھٹنے سے پیسے گر گئے۔ لیکن وہ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ گاؤں والے اس کی بات پر یقین نہیں کریں گے۔ گھیسو نے سوکھے ہوئے پیڑ کو دیکھا اور مادھوسے کہا چتا کے لیے لکڑی کی ضرورت ہے۔ ہم لوگ گاؤں جائیں گے تو لکڑی لے جائیں گے۔ ان کے پاس کلہاڑی نہیں تھی۔ دونوں لکڑی توڑنے میں لگ گئے۔ دونوں نے دو گٹھریاں لکڑی توڑی اور گاؤں کی طرف چل دیے لیکن انہیں یہ فکر ابھی بھی ستا رہی تھی کہ اگر بدھیا کی لاش ابھی تک پڑی ہو گی تو گاؤں والے انہیں بہت برا بھلا کہیں گے جب دونوں گاؤں میں داخل ہوے اور اپنے دروازے پر بھیڑ لگی دیکھی تو دونوں اس خوف سے گھبرا گئے کہ گاؤں والے انہیں ماریں گے۔ گھیسونے وہاں جانے سے انکار کر دیا۔ مادھو بھی اکیلے جانے کے لیے تیار نہیں تھا، گھیسو لیکن بضد تھا کہ مادھو جائے چونکہ اس کے گھر والی کا معاملہ ہے۔ اسی دوران کسی کی انگلی اس کی طرف اٹھی اور سارے لوگ اس کی طرف گھوم گئے۔ یہ منظر دیکھ کر دونوں نے ایک دوسرے کو بھاگنے کو کہا لیکن دونوں میں سے کسی سے بھا گا نہیں گیا اور دونوں بے ہو ش ہو گئے۔ جب انہیں ہو ش آیا تو اس نے کسی کو یہ کہتے سنا کہ یہ لوگ اتنے غریب ہیں کہ بیمار بدھیا کا علاج نہ کرا سکے اور وہ مر گئی۔ ان لوگوں کے پاس کفن کے بھی پیسے نہیں ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ بدھیا کی داہ سنسکار کے لیے لکڑیاں توڑ کر لائے ہیں۔ اس پر ایک طرف سے بھاری بھر کم آواز سنائی دی کہ ہاں مکھیا جی صرف قانون بنانے سے سماجی انصاف اور سماجی انقلاب نہیں آئے گا بلکہ اس کے لیے عملی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
’’ہاں مکھیا جی صرف قانون بنانے سے نہ سماجک نیا ئے ملے گا نہ سماجک پریورتن ہو گا۔ ایک بھاری بھرکم آواز سنائی دی۔ آزادی ملے پچاس برس گزر گئے مگر پچھڑے لوگوں کی حالت میں کوئی سدھار نہیں ہوا۔ آج کی گھٹنا نے مجھے لرزا دیا ہے۔ آج ہماری ایک بہن اس لیے مر گئی کہ اسے دوا نہ مل سکی۔ اس کے گھر والوں کے پیٹ میں نہ دانہ ہے نہ تن پر وستر۔ میں پرتگیا کرتا ہوں کہ اگر آپ لوگوں نے ہمیں جن آدیش دیا تو ہم سماجک پریورتن کو کتابوں سے نکال کر سب کے درمیان لائیں گے۔ میں اپنی پارٹی کی طرف سے ان بدنصیب لوگوں کو دس ہزار روپیے دینے کا اعلان کرتا ہوں۔ زور کی تالیاں بجیں، فوٹوگرافر ان کی اور ان کی جھوپڑی کی تصویر لے رہے تھے۔ ‘‘(۸)
دوسرا کفن مابعد جدید نظریہ ادب کا حامل افسانہ ہے۔ ما بعد جدید ادب میں دلت وپس ماندہ طبقہ کے مسائل کو اٹھا یا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی دکھا یا گیا کہ ہمارے سیاسی رہنما کس طرح صر ف ان کی فلاح و بہبود کے وعدے کرتے ہیں۔ ان کی حالت زار کی کسی کو بھی فکر نہیں جب ان کے یہاں بدھیا جیسی عورت دوا دارو کے بغیر مر جاتی ہے تو یہ رہنما صرف اپنا ووٹ بینک بنانے کے لیے آتے ہیں اور ان کی ہمدردی حاصل کرتے ہیں تاکہ انہیں الکشن میں ووٹ حاصل ہو جائے۔ ان کا اصل ہمدرد کوئی بھی نہیں۔ افسانے میں پلاٹ ہے۔ اس کا انداز راست بیانیہ ہے۔ اس میں ابہام اور پے چیدگی نہیں ملتی۔ اس لیے فنی اور فکری دونوں اعتبار سے یہ افسانہ مابعد جدید افسانوں میں رجحان ساز افسانے کی حیثیت رکھتا ہے۔
شموئل احمد
۱۹۸۰ کے بعد جن افسانوں نگاروں نے اردو افسانے کے میدان میں ما بہ الامتیاز حیثیت حاصل کی ان میں شموئل احمد کا نام بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے دوافسانوی مجموعے بالترتیب بگولے اور سنگاردان شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے یہاں تین طرح کے افسانے پائے جاتے ہیں۔ اول وہ افسانے ہیں جن کا تعلق سماجی مسائل سے ہے۔ دوم وہ افسانے ہیں جو سیاست کے گرد طواف کرتے ہیں۔ ایسے افسانوں میں satire and humourکا استعمال کیا گیا ہے۔ سوم وہ افسانے ہیں جو جنسی ونفسیاتی موضوعات پر لکھے گئے ہیں۔ شموئل احمد کے جنسی افسانے منٹو کی طرح بصیرت افروز انکشافات کے حامل نہیں ہوتے۔ ان میں لطف اندوزی اور حصول حظ کا پہلو غالب رہتا ہے جس کی وجہ سے بعض دفع سطحیت کا گمان گزرنے لگتا ہے۔ ایک چیز جو ان کے افسانے کی خاص خوبی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے پیرایۂ اظہار میں ندرت ہے۔ وہ علامتوں کا استعمال بھی کرتے ہیں، لیکن ان کی علامتوں میں تخلیقیت پائی جاتی ہے۔ شموئل احمد کا افسانہ ’منرل واٹر‘ ٹرین کے سفر پر مبنی ہے۔ اے سی میں ایک کلرک سفر کر رہا ہے جو اس کے لیے ایک عظیم نعمت سے کم نہیں۔ اس کے حاشیۂ خیالی میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ وہ کبھی اے سی میں سفر کرسکتا ہے۔ لیکن اسے یہ موقع میسر آیا۔ اس کے خواب و خیال کی دنیا حقیقت میں تبدیل ہو گئی۔ یہ افسانہ خواب ہے اور حقیقت بھی۔ دونوں کے امتزاج سے کامیاب فن کاری کے نمونے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ افسانہ اس بات کی بھی غماز ہے کہ آج لوگ صنعت، سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی یافتہ دور کے باوجود طبقائی و علاقائی فرقہ واریت و گروہ بندی کا شکار ہیں۔ نیچے طبقہ یا کم حیثیت کے لوگ اونچے طبقہ یا بڑی حیثیت کے لوگوں سے خائف ہیں اور ان کی موجودگی احساس کمتری کا سبب بنتی ہے۔ لیکن افسانہ نگار کا کہنا ہے کہ یہ محض معاشرتی بندشیں یا پھر فرسودہ خیالات ہیں حالانکہ انسان فطرتاً آزاد ہے۔ لوگوں کے فطری جذبات آپس میں یکساں ہیں۔ افسانہ نگار نے دونوں طرح کے خیالات سے قارئین کو روشناس کراتے ہوئے اس افسانے میں مرد اور عورت کے جنسی تخیلات کو بھی پیش کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ ڈبے میں گھستے ہی اس کو فرحت بخش ٹھنڈک کا احسا س ہوا، لیکن گھبراہٹ ایک ذرا بڑھ گئی، اس کو چھتیس نمبر کی برتھ ملی، پردے کے پیچھے سے اس نے کیبن میں جھانکنے کی کوشش کی، یہ چار برتھ والا کیبن تھا، اوپر کی دونوں برتھیں خالی تھیں، اور سامنے ایک خاتون تشریف فرما تھیں، وہ جھجھکتے ہوئے اندر داخل ہوا، اور چاروں طرف طائرانہ نظر ڈالی، کھڑکی کا پردہ سمٹا ہوا تھا اور خاتون کے بال کھلے ہوئے تھے، وہ انڈیا ٹوڈے پڑھنے میں محو تھی۔ ‘‘ (۹)
شموئل احمد نے جو واقعہ بیان کیا ہے وہ شاذونادر ہی رونما ہوتا ہے لیکن اس کی حقیقت اور وقوع پذیری سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ انسان ہزاروں کوششیں کر لے وہ اونچے طبقے سے تعلق رکھتا ہے یا کوئی شخص نیچے طبقہ یا کوئی شخص فلاں علاقے کا ہے، ان سب بندشوں کو توڑنے والی چیز انسان کا فطری تقاضا ہے۔ جنس تفریق کی تمام دیواروں کو ڈھا دیتا ہے۔
مابعد جدید افسانے کی تمام تر خوبیاں اس میں موجود ہیں۔ اس میں ایک ترتیب وار کہانی پائی جاتی ہے جو اسے جدید افسانے سے الگ کرتی ہے۔ آپ اس افسانے کو پڑھ کر اپنے طریقے سے دہرا سکتے ہیں۔ اس میں آپ کو کسی طرح کے تردد کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
اس کہانی میں مابعد جدید افسانے کی دوسری خوبی یعنی طبقاتی کشمکش کی جھلک بھی ملتی ہے۔ افسانہ نگار نے ایک کلرک کی زندگی کو اس افسانے کا موضوع بنایا ہے۔ اس سے پہلے ترقی پسند تحریک کے زیر اثر جو افسانے لکھے گئے ان میں بھی مزدور، کسان اور معمولی نوکری پیشہ لوگوں کو افسانے کا موضوع بنایا گیا تھا، لیکن یہ افسانے اس اعتبارسے جدا ہیں کہ یہاں کسی طرح کی کوئی نعرہ بازی موجود نہیں بلکہ کہانی کی فضا کچھ ایسی تیار کر دی گئی ہے کہ اس میں طبقاتی کشمکش پوری طرح اجاگر ہو گئی ہے۔ کہانی کا اختتام بھی کچھ اس انداز میں ہوا ہے کہ احساس کی شدت میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کہانی کو بعض لوگ نیومارکسزم کے زمرے میں بھی رکھ سکتے ہیں، لیکن مابعد جدید نظریہ ادب کا مطالعہ کرنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسے ما بعد جدید افسانے کی فہرست میں شامل کیا جانا چاہیے۔ یہ افسانہ رجحان ساز کی حیثیت رکھتا ہے۔
شوکت حیات
۱۹۸۰ کے بعد افسانہ نگاری کے مطلع سے ابھر نے والے افسانہ نگاروں میں شوکت حیات بھی ایک ہیں۔ شوکت حیات کے افسانوں کے خاص موضوع صنعتی عہد اور نو آباد کاری نظام کے عذاب، ناامیدی، گھٹن وغیرہ سے عبارت ہو تے ہیں۔ ان کے افسانوں کی فنی خصوصیات میں سب سے اہم یہ ہے کہ ان میں واقعے سے گریز کیا جاتا ہے۔ صورت حال ہی ایسی خلق کر دی جاتی ہے کہ واقعہ خود بخود پس منظر کی چیز بن کر رہ جاتا ہے۔ ان کے افسانوں میں بیانیہ کا رنگ بہت گہرا ہوتا ہے بلکہ بقول مہدی جعفر ان کی افسانہ نگاری عموماً ہمہ دان بیانیہ کے زمرے میں آتی ہے۔ یعنی کہ ان کے افسانوں میں ہمہ دان راوی کی تکنیک کا استعمال ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں کردار عام طور سے مفقود ہوتے ہیں۔ شوکت حیات کا یہ افسانہ’’فرشتے‘‘ درحقیقت تین کرداروں پر مشتمل ہے۔ افسانہ نگار، شاعر اور تنقید نگار، تینوں معاشرہ اور سماج میں تو رہتے ہیں لیکن دوسرے لو گوں سے نمایاں فرق و امتیاز رکھتے ہیں، جو ان کی اعلیٰ ظرفی اور روشن خیالی کی دلیل ہے۔ ان کا یہ افسانہ حیات و کائنات پر شدید طنز ہے۔ انہوں نے اپنے افسانے میں ایک شہر کی کہانی کو فنی اعتبار سے بھر پور انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عام طور سے انسان سب کچھ حاصل کر لے، زندگی کے تمام آرزوؤں کو پوری کر لے۔ پھر بھی اس کی کمزوری ہے کہ وہ اپنے اندر ہمیشہ کچھ کمی ضرور محسوس کرتا ہے۔ لیکن بعض لوگوں کے ساتھ معاملہ بالکل برعکس ہوتا ہے۔ جب انہیں کچھ بھی نہیں ملتا، ہر طرف سے مایوسی ہا تھ آتی ہے، پھر بھی وہ مکمل زندگی کا بھر پور لطف اٹھا کر زندگی بسرکرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ افسانہ نگار نے اس افسانہ میں کہانی کی ابتدا چھوٹے شہر سے کی ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ بڑے بڑے شہروں میں رہنے والے لوگ غرور و تکبر اور فخر و مباہات میں اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ انہیں یہ گمان ہو تا ہے کہ چھوٹے شہروں میں رہنے والے لوگ حسین و لطیف زندگی سے بہت دور ہیں۔ اپنی تعلیم و تربیت سے بہت کم مطلب ہے۔ یعنی کہ ادب اور زندگی کے محافظ صرف اور صرف بڑے شہروں میں رہنے والے لوگ ہی ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہر وہ شخص جو شہروں سے دور دیہاتوں اور چھوٹے چھوٹے شہروں میں زندگی گزارتا ہے۔ اس کی زندگی بڑے شہر کی حسین و لطیف زندگی سے زیادہ علم و آگہی سے مزین ہوتی ہے۔ مصائب برداشت کر کے ادبی خدمت میں مشغول رہنا، ان کی سرشت میں داخل ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کی تحریروں سے سچائی منعکس ہوتی ہے اور زندگی کی صحیح تصویر سامنے آتی ہے۔ شوکت حیات نے اس کی عکاسی کچھ اس طرح سے کی ہے۔
’’اتنے ہی (پیسے )میں تو دیسی ہی آسکتی ہے اور راجدھانی کا جو ادیب آیا ہوا ہے، اسے بھی اسی مہمان نوازی پر اکتفا کرنا ہو گا۔ ہم علاقائی ادیب راجدھانی والوں سے زیادہ مقدم ہے کہ راجدھانی کی میکانکی اور مشینی زندگی میں تخلیقیت کی گنجائش کہاں، چھوٹے شہروں اور قصبوں کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر اور کونے کھدروں کے ملگجے اندھیروں میں جا بجا کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ ‘‘ (۱۰)
افسانہ نگار سوسائٹی میں اس طرح کی نا برابریاں عدم مساوات اور اونچ نیچ کو دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے۔ اسے ان حالات کو دیکھ کر معاشرہ سے خوف اور وحشت ہونے لگتی ہے۔ ان حالات کے خلاف اس افسانہ کے ذریعہ گویا اپنی آواز بلند کی ہے۔ اس میں ایک کردار شاعر ہے جو احساسات اور تخیلات کی حسین وادی میں کھویا رہتا ہے۔ اسے لوگوں کو اپنی طرف منعطف کرنے میں دسترس حاصل ہے۔ گاؤں میں بڑے شاعر کہے جانے والے یا چھوٹے چھوٹے شہروں سے آنے والے شہر کے بڑے بڑے شعرا کو زیر کرنے اور ان پر غالب آنے میں زبردست مہارت رکھتا ہے۔ اس افسانے میں وہ شعرا ہیں جو مجلس میں پہنچ کر اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنی صلاحیتوں کے آگے کسی کو گردانتے نہیں لیکن انہیں اپنے اس شعری صلاحیت اور سرخ روئی پر گھمنڈو تکبر نہیں ہے۔ فنی و فکری لحاظ سے یہ افسانہ دلچسپ اور کامیاب ہے۔
ما بعد جدید ادب کی ایک خوبی یہ بھی بتائی گئی ہے کہ اس میں مقامیت پر اسر ار ہو گا۔ اس افسانے میں مقامیت کی طرف خاص طورسے دھیان منعطف کرایا گیا ہے۔ اس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ صلاحیت کسی خاص خطے یا کسی خاص مقام کی جاگیر نہیں ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ شہر کے لوگوں بالخصوص ان شہر کے لوگوں کو جن کی حیثیت ادبی دبستان کی تھی، کامل ادبا و شعرا مانا جاتا تھا، لیکن اس کے برعکس مابعد جدید نظریہ ادب نے ہر گاؤں اور ہر چھوٹے شہر کے ادیبوں کے نگارشات و تخلیقات کو قابل اعتنا سمجھنے کی طرف زور دیا۔ جس کی وجہ سے وہ ادبا و شعرا بھی ادب کے main streamمیں داخل ہو گئے، جن کا تعلق چھوٹے شہروں اور دیہات سے تھا۔
اس افسانے میں شوکت حیات نے جس افسانہ نگار کے کردار کو پیش کیا ہے، اس کے افسانے میں جو عناصر موجود ہیں، ان کا تعلق بھی مابعد جدید نظر یہ ادب سے ہے۔ اس سلسلے میں اس افسانے سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو :
’’کہتے ہیں اس کے افسانوں میں کہانی پن بیانیہ، سماجی وسیاسی۱ وابستگی تکثیر ی رویہ اور ثقافتی تشخص کی موجودگی نے اس کے قاریوں کا ایک اچھا خاصا حلقہ تیار کر دیا تھا۔ بظاہر مرنجان مرنج، نحیف و لاغر اور بے ضر ر نظر آنے والا یہ انسان اپنی تخلیقیت میں دہکتی ہوئی آگ چھپائے ہوئے تھا جو بطور خاص مفلوک الحال، مداحوں کو اس کا گرویدہ بنا چکا تھا۔ اجتہادی بند کے روپ میں اسے اعلا مقام پر متمکن کرتا تھا اور متمول اور تنو مند لوگوں کو اس سے بیزاری اور بغض و عناد کا رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرتا تھا۔ اسے یہ بھی احساس تھا کہ اس کے تخلیق کردہ متن سے باہر جا کر اور ان کے اردگرد طواف کرتے ہوئے اس کے ما فی الضمیر کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گے۔ ‘‘ (۱۱)
مذکورہ اقتباس میں جس افسانہ نگار کا ذکر کیا گیا ہے اس کے افسانے میں جو عناصر موجود ہیں وہ کہانی پن، بیانیہ، سماجی وسیاسی وابستگی، تکثیری رویہ اور ثقافتی تشخص ہیں۔ یہ وہ عناصر ہیں جن سے مابعد جدید افسانے کی ساخت و بافت کی تشکیل ہوتی ہے۔ پھر اس کے بعد اس میں جو beyond the text کی بات کی گئی ہے، اس کا تعلق بھی مابعد جدید نظریہ ادب سے ہے یعنی کہ شوکت حیات کا یہ افسانہ مابعد جدید نقطۂ نظر کی تبلیغ و اشاعت کے لیے لکھا ہوا افسانہ معلوم ہوتا ہے۔ اس افسانے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں کردار، مکالمے اور سماجی ڈسکورس موجود ہے۔ ساتھ ہی تکثیری رویہ بھی۔
طارق چھتاری
۱۹۸۰ کے بعد اردو افسانے کی دنیا میں کم مگر اچھا لکھ کر نام پیدا کرنے والوں میں ایک نام طارق چھتاری کا بھی ہے۔ اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں کے مقابلے میں انہوں نے بہت کم لکھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنا ایک خاص مقام بنا لیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فکری و فنی دونوں سطحوں پر ان کے یہاں اختصاص و امتیاز پایا جاتا ہے۔ ان کے بیشتر افسانوں کی یہ خوبی ہے کہ وہ قاری کے ذہنوں دل پر فوری مگر دیرپا اثر ڈالتے ہیں اور اس کے پیچھے یہ رمز ہے کہ ان کے افسانوں میں واقعات کا تسلسل پایا جاتا ہے جس کے باعث از اول تا آخر دلچسپی بنی رہتی ہے۔ ان کا اسلوب دلکش ہے۔ ان کے لہجے میں سنجید گی اور گمبھیرتا ہے۔ ان کی باتوں میں شائستگی ہے۔ ان کے یہاں موضوعی تنوع ہے۔ وہ کسی ایک موضوع میں الجھ کر نہیں رہ جاتے، ہمیشہ نئے نئے موضوعات کی تلاش و جستجو میں لگے رہتے ہیں۔ ان کے افسانوں کا دائرہ کار دیہات سے لے کر شہر تک پھیلا ہوا ہے۔ یعنی کہ ان کے افسانوں میں زندگی کے تمام رنگ موجود ہیں۔ جزئیات نگاری کی تکنیک ان کے افسانوں کا طرۂ امتیاز ہے۔ طارق چھتاری نے اپنے افسانے ’برف اور پانی‘ میں زندگی کے نشیب و فراز اور جذبات واحساسات کی بازگشت کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ افسانہ نگار نے حقیقی زندگی اور خواب کو پہاڑ و برف، آبشار و جھرنا اور صاف و شفاف پانی سے تشبیہ دے کر زندگی کا انوکھا نقشہ کھینچا ہے۔ زندگی ایک آبشار اور فوارے کی مانند ہے جو فضائے کائنات کو متاثر کرتی ہے۔ آنکھوں کو لبھاتی، من کو بھاتی اور دنیا کو سیرا ب کرتی ہے۔ پہاڑوں کے جھرنے، کھیتوں کو سرسبز، بنجر اور بے آب و گیاہ، زمینوں کو ہریالی اور تر و تازگی بخشتی ہے۔ انسان و حیوان اور چرند و پرند، ان جھرنوں اور چشموں سے سیراب ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ روز ازل سے جاری ہے۔ لیکن کبھی کبھی حالات کچھ ایسے بھی آتے ہیں جب پانی کا بہاؤ کم ہو جاتا ہے۔ فوارے خشک پڑ جاتے ہیں۔ برف منجمد ہو جاتی ہے۔ دریا کی روانی اور سمند ر کی طغیانی ختم ہو جاتی ہے اور زمین با رونق نہیں رہتی۔ چہار جانب دھول اڑتی دکھا ئی دیتی ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو :
’’برف پگھلی، پانی کے جھرنے گرے، جیسے شہنائیاں بج رہی ہوں، برف پھر جمی، اس بار برف کا رنگ زرد تھا، ابٹن کے رنگ کی طرح اور اس کے بعد برف پانی بن کر جاوید اورسیما کے دنوں، مہینوں اور برسوں کو نم کرتی رہی۔ آج (سیما ) جاوید کی بات سن کر کچھ اس طرح شرما گئی تھی جیسے چوٹی پر جمی برف کی اوپری تہہ سورج کی پہلی کرن کو دیکھتے ہی پانی پانی ہو جاتی۔ ‘‘ (۱۲)
افسانہ نگار نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے جب برف پگھلتی ہے، جب پانی جھرنوں میں گرتا ہے اور ہریالی ہر طرف بکھر جاتی ہے، ٹھیک اسی طرح انسانی زندگی بھی کچھ لمحوں کے لیے خواب کی مانند روشن اور منور ہو جاتی ہے اور ہر طرح کی خوبیاں سامنے آ جاتی ہیں۔ لیکن کچھ دیر کے بعد تمام خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ ارمان بکھر جاتے ہیں اور زندگی گویا دوبھر ہو جاتی ہے۔ یہی صورت حال اس وقت ہو تا ہے جب برف منجمد ہو جاتی ہے اور جھرنے خشک ہو جاتے ہیں۔ برف کا پگھلنا زندگی کا ایک مثبت پہلو ہے اور برف کا منجمد ہو نا ایک منفی پہلو ہے۔ اس طرح افسانہ نگار نے یونیورسٹی کے ماحول اور اس کے طلباء کے خواب و حقیقت کو بنتے اور بگڑتے دکھانے کی کوشش کی ہے۔
افسانے کا موضوع سماجی ڈسکورس سے متعلق ہے۔ مابعد جدید نسل جس طرح کے حالات سے دوچار ہے، اس کی ایک واضح تصویر یہ افسانہ پیش کرتا ہے۔ اگرچہ آج کی نسل کے پیش نظر زندگی کی دھوپ اور چھاؤں دونوں موجود ہیں لیکن اس کے باوجود مسافت زندگی سے فرار اختیار نہیں کرتی بلکہ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے۔ وہ دوب کی طرح دب دب کے نکلنے پر ایمان رکھتی ہے۔ اس کے اندر زندگی کے منفی پہلو سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خوابوں کے سلسلے کو منقطع نہیں کرتا۔ ایک خواب ٹوٹنے کے بعد وہ مضمحل، اداس اور عدم متحرک ہونے کے بجائے وہ دوسرا خواب اسی حوصلے کے ساتھ دیکھنا شروع کر دیتی ہے جس حوصلے کے ساتھ اس نے پہلا خواب دیکھا تھا۔ اس طرح وہ خوابوں کے سلسلے کو جاری رکھتی ہے۔ اس طرح اپنے موضوع کے اعتبار سے یہ افسانہ مابعد جدید افسانہ ہے۔ بعد ازیں اس کی تکنیک بھی کہنہ وفرسودہ نہیں ہے۔ اس میں کردار ہیں، مکالمے اور کہانی پن بھی موجود ہیں۔
عبدالصمد
عبدالصمد نے ۱۹۸۰ سے پہلے لکھنا شروع کیا لیکن صحیح معنوں میں ان کی شناخت ۸۰ کے بعد قائم ہوئی۔ عبدالصمد کے افسانوں کے موضوعات سماج میں پھیلی ہوئی تلخ سچائیاں ہیں۔ ان کے افسانے جہاں ماضی کی شاندار یادوں کا مرقع ہیں وہیں زمانہ حال میں جو کچھ گزر رہا ہے اس کا اشاریہ بھی۔ ان میں خوش آیند مستقبل کے روشن نقوش موجود ہیں۔ عبدالصمد کو اپنی تہذیبی اقدار سے بہت زیادہ محبت ہے جس کا اظہار ان کے افسانوں میں کئی سطحوں پر ہوا ہے۔ ثقافتی، تہذیبی، سیاسی اور معاشرتی تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والے حالات عبدالصمد کو جھنجھوڑتے ہیں اور وہ ان سے متاثر ہو لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے فن میں جمالیاتی پہلو موجود ہیں لیکن ان میں اپنی مٹی کی خوشبو اور ارضیت پائی جاتی ہے۔ ان کے افسانوں میں لفظوں معنی کے درمیان ایک مقدس رشتہ موجود ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں میں راست انداز ملتا ہے۔ وہ ادبی فیشن کے طور پر افسانہ نہیں لکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں فکر و فن کا ایک حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ ’شہر بند ‘ عبدالصمد کا مختصر افسانہ ہے جو ہڑتال کے موضوع پر لکھا گیا ہے۔ اس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ شہر کے بند ہونے کے اسباب کیا ہوتے ہیں۔ وہ کون سے لوگ ہوتے ہیں جو شہر کو بند کراتے ہیں۔ اس کے جواب میں وہ صرف اتنا کہہ پاتے ہیں کہ شہر بند ہونے کی محض سیاسی وجہ ہوتی ہے اور اس کے بند کرانے والے شہر کے نہیں بلکہ باہر کے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ یہاں کثیر تعداد میں آ کر ہنگامے کرتے ہیں اور شہر کو بند کراتے ہیں۔ جہاں تک ہندوستان کے سماجی اور سیاسی نظام کا تعلق ہے تو فساد، بے کاری اور دولت کی غلط تقسیم، پھر اس کے غلط استعمال، یہ وہ چیزیں ہیں جو اس کی گھٹی میں پڑی ہے۔ یہاں روز لوگ اس موضوع پر بات کرتے ہیں، ہنگامے کرتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں لیکن نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا ہے۔ ہر چیز پہلے ہی کی طرح بدستور قائم رہتی ہے۔
اس افسانے میں کوئی ٹھوس پلاٹ نہیں ہے۔ ایک راوی ہے جو شہر کے بند ہونے کے موضوع پر اپنی باتیں سنا رہا ہے۔ سنانے والے کا انداز ہمہ دان قصہ گو والا ہے یعنی کہ اس افسانے کا تعلق بیانیہ کی تکنیک سے ہے۔ راوی اس افسانے میں ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے کہ تمام واقعات و حقائق آنکھوں میں پھرنے لگتے ہیں۔ اردو افسانے میں یہ انداز مابعد جدیدیت کے زیر اثر لکھے جانے والے افسانوں کا خاصہ ہے۔ اس افسانے کی معنویت اس اعتبار سے بھی ہے کہ اس میں ہندوستان کے سیاسی، سماجی حالات کو طشت از بام کر کے رکھ دیا۔ اس طر ح اس افسانے کا تعلق سماجی ڈسکورس سے بھی ہو جا تا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ افسانے کی ساخت و بافت کچھ اس انداز سے کی گئی ہے کہ اس میں معنوی تکثیریت بھی قائم ہو گئی ہے۔
محسن خاں
محسن خاں نے جو افسانے لکھے وہ ۱۹۸۰ کے بعد لکھے جانے والے افسانوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ محسن خاں کے یہاں زندگی کا ہر رنگ ملتا ہے لیکن طبقاتی کشمکش اور سماجی نا برابری اور عالم کاری کے نتیجے میں ہمارے اطراف و مضافات میں جو ماحول پید اہوا ہے اس کی عکاسی اپنے افسانوں کے ذریعے وہ خصوصیت کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کے یہاں بیانیہ، فلیش بیک، فوٹوگرافی وغیرہ کے جدید تکنیک ملتی ہے۔ محسن خاں زبان کی تخلیقی استعمال پر پوری قدر ت رکھتے ہیں اور اس کا اظہار ان کے افسانوں میں بخوبی ہوا ہے۔ ان کے یہاں بھی کہانی پن کی واپسی کا رویہ شد ت کے ساتھ ملتا ہے۔ محسن خاں کا افسانہ ’نیند ‘ در حقیقت ایک عورت کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک عورت اپنے والدین کے گھر میں جس طرح کے احساسات و جذبات اور خیالات و افکار اپنے اندر رکھتی ہے وہی عورت جب سسرال جاتی ہے اور ازدواجی زندگی گزار رہی ہوتی ہے تواس وقت اس کے خیالات و جذبات میں تبدیلی آ جاتی ہے کیونکہ ان کی خواہشات قربان ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی لطیف تمناؤں کا خون ہو تا ہے۔ شوہر کے لیے اسے سب کچھ کرنا پڑتا ہے، جس کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ محسن خان نے ایک عورت کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اپنے افسانے میں پیش کیا ہے۔ ایک عورت اپنی نیند کو صرف اس لیے دور بھگانا چاہتی ہے کہ ہر رات دیر سے آنے والا اس کا شوہر اسے سوتا دیکھ کر ناراض نہ ہو جائے۔ تیز نمک کی چائے پی کر نیند کو اپنی آنکھوں سے دور کرنا چاہتی ہے۔ اسے اپنے شوہر کی رضامندی اور خوشی کی خاطر اپنی خواہشات کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ نیند جیسی عظیم نعمت سے اسے محروم ہونا پڑتا ہے۔ اب اسے انتظار کرنے کی ایک عادت سی بن جاتی ہے۔ نہ اسے اب نیند بھگانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی تیز نمک والی چائے پینے کی ضرورت ہے۔ محسن خان لکھتے ہیں :
’’میری آنکھیں بھی نیند سے خالی ہو گئی ہیں۔ بے خودی کا سادہ خمار جانے کہاں چلا گیا، پہروں نیند کا انتظار کرتی ہوں مگر نہیں آتی۔ ہاں !کبھی کبھی ایک عجیب طرح کی غنودگی سی طاری ہو جاتی ہے۔ جیسی اس وقت بے پپوٹے بوجھل ہو جاتے ہیں، آنکھوں کے ڈھیلے ٹپکے پڑ رہے ہیں اور دماغ اس طرح سن سنا رہا ہے، جیسے ہانڈی میں ابال آ رہا ہو، ایسی حالت میں نمک کی چائے پینے سے طبیعت سنبھل جاتی ہے اور ذرا دیر کے لیے نیند بھی بھا گ جاتی ہے۔ چائے پی لوں ورنہ آدھی رات تلک جاگنا مشکل ہو جائے گا۔ ‘‘ (۱۳)
اس افسانے میں محسن خان نے عورت کی زندگی میں پیش آنے والے نشیب و فراز کو بیان کرتے ہوئے عورت کی عام زندگی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس افسانے میں جگہ جگہ انہوں نے عورتوں سے متعلق سوالات اٹھائے ہیں لیکن ان کا حل انہوں نے پیش نہیں کیا ہے بلکہ ان کا حل وہ قاری کے ذمے چھوڑ جاتے ہیں۔ بچپن سے لے کر جوانی اور جوانی سے بڑھا پے تک عورت کی زندگی اور ان پر ہونے والے ظلم وستم، ناانصافی اور نا برابری سے عبارت ہوتی ہے۔ سسرال کی زندگی نہایت ہی عبرت ناک ہو تی ہے۔ انسانی آزادی اس کی چھین لی جاتی ہے اور شوہر کا ظلم و جبر جھیلنے کے لیے اسے ہر لمحہ تیار رہنا پڑتا ہے۔ عورت کی زندگی کا یہ تصور ایک عام تصور ہے اور عموماً عورت کی زندگی میں اس طرح کی مصیبتیں آتی ہیں۔ لیکن محسن خان کے افسانے میں جذبات کی اس طرح عکاسی کی گئی ہے کہ عام واقعہ مخصوص ہو تا دکھائی دیتا ہے۔ ہر دور اور ہر معاشرے میں خواہ وہ مغرب کا معاشرہ ہو یا مشرق کا، یہ تصور پایا جاتا ہے کہ عورت خدمت کرنے اور ہر بات کو آمنا و صدقنا تسلیم کر لینے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اس کا کام صرف شوہر اور اس کے سسرال والوں کی خدمت ہے لیکن کبھی کسی کے دل میں اس بات کا احسا س تک نہیں ہوتا کہ ہمیں بھی عورت کے احساس و جذبات کی قدر کرنی چاہیے۔ اس کی خواہشات، آرزوؤں کا خیال رکھنا چاہیے۔
محسن خان معاشرہ کو اپنے افسانے کے ذریعہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ عورتوں کے احساسات و جذبات کو ہم سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر مرد انسان ہے تو عورت بھی ہماری ہی طرح ایک انسان ہے۔ انسان کا خیال رکھنا، ان کی ضرورتوں کو سمجھنا یہ ہمارا فریضہ ہے۔
عورتوں کے مسائل کو ترقی پسند افسانے کے ذریعہ بھی اٹھایا گیا تھا لیکن وہاں اس کے اس پہلو پر زور دیا گیا تھا جس کا تعلق جنس سے ہے۔ یعنی کہ عورت بازار کی چیز کیسے بنی۔ اسے ایک طوائف بنانے میں کون کو ن سے عناصر کارفرما ہیں۔ کس طرح روساء اور امراء، عورتوں کے جسم سے کھیلتے ہیں اور پھر اسے استعمال کی گئی چیز سمجھ کر کوڑے دان میں ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ عورت کے بھی اپنے جذبات ہوتے ہیں لیکن اس کے جذبات کا خیال تک نہیں کیا جاتا ہے۔ ترقی پسند تحریک سے تعلق رکھنے والے وہ افسانے جو عورت کے گرد گھومتے ہیں ان کا ایک موضوع یہ بھی رہا ہے کہ عورت لطیف و نازک چیز ہے۔ اس کے باوجود اسے کڑی محنت کرنا پڑتی ہے۔ لہذا کڑی محنت اور مزدور ی اس کے لیے عذاب جاں ہے یعنی کہ اس دور کے افسانوں میں عورت کی خانگی زندگی جس کا تعلق عام حالات سے ہے، سے نہیں تھا۔ مابعد جدید ادب نے عورت کی خانگی زندگی کو اپنا مرکزو محور بنایا ہے۔ اپنے شوہر اور بال بچوں کے ساتھ رہ کر کے بھی ایک عورت روزانہ کس طرح کی تکالیف برداشت کرتی ہے۔ اس کی زندگی اور مرد کی زندگی میں کیا فرق ہے، یہ وہ سوالات ہیں جو مابعد جدید ادب کا خاصہ ہے۔ یہ افسانہ مابعد جدید افسانوں میں داخل کیا جانا چاہیے۔
حواشی
(۱) استعارہ، جولائی تا دسمبر، دہلی، ص، ۲۷۱، شمارہ: ۵-۶
(۲) قمررئیس، نمائندہ اردو افسانے، دہلی، اردو اکادمی، ۱۹۹۴، ص، ۳۱۵
(۳) ایضاً، ص، ۲۰۸
(۴) ایضاً، ص، ۲۱۲
(۵) سلام بن رزاق، شکستہ بتوں کے درمیان، بمبئی، ایڈ شاٹ پبلی کیشنز، ۲۰۰۱، ص، ۷۲
(۶) سید محمد اشرف، ڈارسے بچھڑے، دہلی، تخلیق کار پبلشرز، ۱۹۹۴، ص، ۲۰۶
(۷) ایضاً
(۸) شفق، وراثت، دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۲۰۰۳، ص، ۳۲
(۹) استعارہ، جولائی تا دسمبر، دہلی، ص، ۲۳۰
(۱۰) ایضاً، ص، ۲۲۷
(۱۱) ایضاً، ص، ۲۲۴
(۱۲) طارق چھتاری، باغ کا دروازہ، علی گڑھ، ایجوکیشنل بک ہاؤس، ۲۰۰۱، ص، ۲ اور ۱۷۷
(۱۳) ایضاً، ۲۶۰
باب سوم
مشرف عالم ذوقی کے فن کا مجموعی جائزہ
الف: موضوعات
ب: کردار
ج: زبان و بیان
مشرف عالم ذوقی ۱۹۸۰ء کے بعد کے افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام ہے۔ ذوقی اپنے فن اور فکر کے اعتبار سے اپنے ہم عصروں میں اس لیے ممتاز ہیں کہ انہوں نے ہر سطح پر جدت کی کوشش کی ہے۔ عصری مسائل کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مسائل اور ان کے اثرات کو اپنے فکشن میں سمیٹنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں زندگی کے تمام چھوٹے بڑے مسائل کو موضوع بنایا ہے، جو عام زندگی کو اُجاگر کرتا ہے۔ انہوں نے شہر کی زندگی انسانی جذبات اور دنیا کی بھاگ دوڑ اور سماج کی عکاسی، سیاسی مکّاری، سچائی، چالاکی اور وطن پرستی کو اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے۔ انہوں نے ہر دفعہ قاری کے سامنے نئے موضوع پیش کیے اور ہر مرتبہ ان کو الگ ڈھنگ سے پیش کیا جو ان کے افسانوں میں قاری کو باندھ کر رکھتا ہے۔ دوسری طرف انہیں اپنے افسانوں میں کردار کے حوالے سے بھی بڑی مہارت حاصل ہے۔ انہوں نے کرداروں کو اپنے افسانوں میں اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ چلتے پھرتے اور ہنستے روتے عام زندگی سے تصادم کرتے نظر آ جاتے ہیں اور قاری کے ذہن پر دیر تک اپنے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ ان کے کردار غلام بخش کی بات کریں گے تو پڑھنے کے وقت تک اور پڑھنے کے بعد تک وہ ذہن پر حاوی رہتا ہے۔ قاری سالگ رام اور مرگ نینی کو نہیں بھول پاتا۔ مشرف عالم ذوقی کے کردار نہ چاہتے ہوئے اپنے اثرات لوگوں پر اس طرح چھوڑتے ہیں کہ ان کا نام بھولنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ان کو افسانوں میں کرداروں کو پیش کرنے کا ڈھنگ بڑی خوبی سے آتا ہے۔
مشرف عالم ذوقی کا کہنا ہے کہ ’’میں افسانہ نہیں لکھتا افسانہ مجھے لکھتا ہے اور کردار میں نہیں ڈھونڈھتا کردار مجھ سے اتر کر خود ہی ٹکرا جاتے ہیں اور میں مجبور ہو جاتا ہوں ان کو لکھنے کے لیے۔ ‘‘
اسی طرح انہوں نے اپنے افسانوں میں زبان و بیان کے استعمال میں بھی نیا پن لانے کی کوشش کی ہے۔ کردار کے مرتبے اور وقار کے اعتبار سے وہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ انہیں جب بھی کوئی بات کہنی ہوتی ہے تو ہر کردار کے لیے اس کی مناسبت سے لفظوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ذوقی اپنے ہم عصروں میں اس لیے بھی منفرد شناخت رکھتے ہیں کہ انہوں نے ہندی، انگریزی اور عام بول چال کی زبان کو بڑی بے تکلفی سے استعمال کیا ہے۔ کہانیاں ہندی میں شائع ہوئی ہیں۔ ہندی میگزین میں بھی ان کے ادبی نوعیت کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے بھی اپنے ادب کو پیش کیا ہے۔ ان کی زود گوئی پر اکثر ناقدوں نے اعتراض کیا ہے۔ مگر بات یہ ہے کہ ذوقی نہایت ہی حساس ادیب ہیں۔ جب بھی کوئی موضوع ان کے سامنے آتا ہے تو فوراً ہی قلم اٹھا لیتے ہیں اور برجستہ تخلیق شروع کر دیتے ہیں۔
موضوع کے حوالے سے
مشرف عالم ذوقی نے اپنے افسانوں کا موضوع عام زندگی سے لیا ہے۔ انہوں نے ایسے موضوعات لیے ہیں جو اپنے عہد میں ایک طرح کا انقلاب لانے والی سوچ پیدا کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں کا موضوع سماج کے واقعات اور لوگوں کے جدوجہد بھری زندگی سے لیا۔ انہوں نے سماج کی سیاست کو اپنا موضوع بنایا اور سیاست پر تنقیدی نگاہ ڈالی جس کی مثالیں ہر افسانے میں مل جائیں گی۔
مشرف عالم ذوقی یوروپی Writers سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ وہ Hemingway کے The Old Man and The Sea سے بہت متاثر ہیں۔ مشرف عالم ذوقی The Crime and Punishment جو کہ گورکی نے لکھی ہے، سے بہت متاثر ہوئے اور اپنے افسانوں کا موضوع انہیں Bold کہانیوں کو پڑھ کر اپنے اندر نیا جوش اور زندگی کے تھپیڑوں سے لڑنے والے کرداروں کو اپنے افسانوں میں جگہ دی۔ ان کا اولین افسانوی مجموعہ ’’بھوکا ایتھوپیا‘‘ جو ۱۹۹۳ء میں منظر way۔ز تحر کے احساسات و جذ باڑتا عام پر آیا ان کے اس مجموعہ میں ۲۳ کہانیاں ہیں اور ہر ایک کہانی اپنے موضوع کے اعتبار سے الگ اور نیا رخ پیش کرتی ہے جو عام انسان کے دل و دماغ کو تو متاثر کرتی ہی ہے ساتھ ہی پورے عہد کو اپنی کہانیوں کے موضوع اور کردار کا لوہا منواتی ہے۔
مشرف عالم ذوقی ۱۹۸۰ء کے بعد کے افسانہ نگاروں میں اہم فنکار تسلیم کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے عہد میں فرقہ وارانہ فساد، مذہب کے نام پر لوگوں کو آپس میں لڑانا اور ہندوستانی ہونا اور پاکستانی ہونا ایک الگ مسئلہ بن گیا تھا اور ہندوستان کی سیاست جو صرف اپنی سیاسی کرسی کو بچانے میں لگی ہوئی ہے۔ عوام کن حالات سے دوچار ہیں اس کی ذرہ برابر بھی فکر نہیں ہے۔ انہوں نے اس مجموعے میں سماج کے تمام اہم مسائل کو افسانوں کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ تقسیم کے درد و کرب کو بھی موضوع بنایا ہے۔
مشرف عالم ذوقی نے اپنی کہانی ضمنی، سماجی فکر سے لی ہے اور ان کو عنوان بنا کر پیش کیا ہے۔ کیونکہ وہ عام انسان اور ان کے مسائل کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور زندگی کے تصادم سے بھی واقف ہیں۔ جب وہ آرا سے دہلی آئے تو انہوں نے زندگی سے بہت جدوجہد کی اور اس جدوجہد میں جس طرح کے مسائل سے دوچار ہوئے ان کو اپنے افسانوں میں سمو کر قاری کے سامنے پیش کیا۔
مشرف عالم ذوقی نے اردو دنیا میں شاعری کے ذریعے قدم رکھا تھا۔ شاعری کرنا یا کہیں کہ شاعری کا کینوس ان کو راس نہ آیا اور انہوں نے اپنا رُخ فکشن کی جانب کیا۔ انہوں نے ایک طویل نثری نظم لکھی (Leprosy Camp) لیپروسی کیمپ پہ ان لوگوں پر لکھی گئی ہے جو اس بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور لوگ ان کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے اور ان کو اِدھر اُدھر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ جو صرف دوسروں سے موت مانگتے رہتے ہیں اور اپنی موت کا انتظار کرتے ہیں۔ ان میں ان کی کیا غلطی ہے؟ جو لوگ ان کو گالیاں دیتے ہیں، ان کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ وہ تو صرف اس بیماری میں مبتلا ہیں اور وہ اس لیے یہ سب جھیل رہے ہیں کہ شاید کبھی وہ اچھے ہو جائیں۔ پھر سے اپنی زندگی عام لوگوں کی طرح گزار سکیں مگر یہ دنیا نہیں سمجھتی۔ ان کے پاس جب اپنے گھر کے بوڑھوں کے لیے وقت نہیں اپنے گھر کے بزرگوں کے لیے وقت نہیں تو وہ راستے میں چلتے ان روگیوں کے لیے کیا وقت نکالیں گے۔ وہ یونہی تل تل روز مرتے رہتے ہیں اور ایک دن دنیا کو الوداع کہہ کر چھوڑ جاتے ہیں۔ ایک اقتباس لیپروسی کیمپ سے:
’’باہر، پھر تل سڑکوں پر اب وہ بیمار لوگوں کا قافلہ نہیں ہے۔
مکان کے اندر میں ہوں۔ مٹی والی زمین ہے۔ اور….. لٹو ناچ رہا ہے۔
لٹو پر جوبن آئے
جو بن آئے لٹو پر
لٹو کیسے کیسے کھیل دکھائے
من کو بھائے…..
مگر وہی ٹھٹھے، چوکیدہ ہاتھ
Help me کی ٹوپیاں
’’مدد کرو‘‘ کے سائن بورڈ
امّاں۔ امّاں ! میری آنکھوں کے سارے ساون سوکھ گئے۔ ان
آنکھوں میں بہتا دریا بستا ہے۔ اور اس بہتے دریا میں، نفرت کی تصویریں
کچھ….
آنکھیں بند کروں تو اماں۔ تصویریں چھا جاتی ہیں …..
تصویریں ہی تصویریں ہیں جو خیالوں میں آتی ہیں … (۱)
۱۹۸۰ء کے بعد لکھنے والوں کے سامنے ایک نیا جوش اور نیا موضوع تھا مگر فرق صرف اتنا تھا کہ ان میں اس عہد کے لوگوں کے جذبات اور ان کے جدوجہد کو آسان لفظوں میں پیش کرنے کا طریقہ صرف مشرف عالم ذوقی نے ہی اپنایا جو ان کی کہانیوں اور افسانوں میں ملتا ہے۔
ذوقی نے نہ صرف سادہ بیانیہ کا طرز اپنایا بلکہ انہوں نے اپنی کہانیوں کا موضوع سیاست اور سماج کے اہم مسائل سے منتخب کیا ہے۔ چاہے وہ ۱۹۹۲ء کا بابری مسجد کا سانحہ ہو یا پھر گجرات میں گودھرا کانڈ۔ عراق سے لے کر امریکہ کے واقعات کو افسانے کا موضوع بنایا۔ ہر واقعہ جو ان کو لگتا کہ وہ عام انسان کے قریب ہے اور زندگی کے تصادم پر حاوی ہو رہا ہے اس کو وہ اپنے افسانے میں پیش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ فرات کی تباہی اور بربادی پر بھی انہوں نے اپنے الفاظ سے ’’سونامی‘‘ کے واقعہ کو بھی پیش کیا اور ان کرداروں کو لیا جو عام انسانوں کی زبان میں اپنے احساس پیش کرتے ہیں۔
مثلاً یہ اقتباس:
’’مشرف عالم ذوقی کا کہنا ہے کہ گودھرا سے گجرات تک اور امریکہ سے عراق تک….. تاریخ صرف اپنی بربادی کے قصے ہی رقم کرتی ہے۔ ذوقی نے ان قصوں کو اپنی تخلیقی اپج سے افسانے کے بھید میں بدل دیا ہے۔ وہ کہتا ہے، یہ بے رحم اور سفاک تاریخ اپنے آپ کو ڈھنگ سے دہرا بھی نہیں سکتی۔ ہاں، وہ سچ کہتا ہے، تبھی تو تاریخ اپنے ہی ملبے تلے دبی آخری سانسیں گن رہی ہے۔ ‘‘ (۲)
مشرف عالم ذوقی ظلم و ستم اور گزرتے وقت کے ہر نئے پہلوؤں کو نئے زخم کی طرح اپنی کہانی میں جگہ دینے کا حوصلہ اور سلیقہ رکھتے ہیں۔ یا یہ کہیں کہ ان کے یہاں سچ ہی فکشن ہو گیا ہے۔ انہوں نے کوئی بھی گوشہ خالی نہیں چھوڑا ہے۔ جو ان کے افسانوی مجموعہ میں صاف نظر آتا ہے۔ ان کو پڑھنے پر ان کے تخلیقی امکان اور بنیادی سروکار کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ ان کی تخلیق کا انداز ان کے افسانوں میں ان کی تکنیک اور موضوع کو دیکھ کر ان کے فکر و فن کی گہرائی کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ’’بھوکا ایتھوپیا‘‘، ’’منڈی‘‘، ’’غلام بخش‘‘، ’’صدی کو الوداع کہتے ہوئے‘‘، ’’فرشتے بھی مرتے ہیں ‘‘ اور ’’لینڈ اسکیپ کے گھوڑے‘‘ ان کی ان تمام کہانیوں کے موضوع الگ الگ ہیں اور اپنی الگ انفرادیت رکھتے ہیں۔ انسانی جدوجہد کی کہانی سناتے ہیں۔ ان کے احساس اور جذبات کو کرداروں کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ ذوقی کے یہاں موضوعات کا تنوع اور پیشکش کا نرالا انداز دیکھنا ہو تو تو ان کا مشہور افسانہ ’’فزکس، کیمسٹری، الجبرا‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
’’سناٹا ہنستا ہے۔ ’دیکھو‘ اپنے آپ کو غور سے دیکھو۔ تم ڈر گئے تھے۔ کیونکہ—‘ اندر کا سناٹا ایک انتہائی فحش سا جملہ اچھالتا ہے— تم اسے عموماً ایسے لباسوں میں نہیں دیکھ پاتے۔ ہے نا sss یار، وہ کانونٹ میں پڑھتی ہے۔ ‘ سناٹا قہقہہ لگاتا ہے۔ کانونٹ یا نئے زمانہ کی لڑکیاں اب آنچل یا اوڑھنی کا استعمال نہیں کرتیں۔ وہ اپنے بدن پر کپڑوں کا بہت زیادہ بوجھ ڈالنا نہیں چاہتیں۔ تو کیا ہوا۔ وہ تمہاری بیٹی ہے۔ ‘
’بس ڈر جاتا ہوں۔ ‘
’لیکن کیوں ؟‘
لمبی لمبی سانس لیتا ہوں۔ کہہ نہیں سکتا۔
’بیٹی میں لڑکی تو نہیں دیکھنے لگتے؟‘
اندر کا سناٹا دیر تک ہنستا رہتا ہے۔ ‘‘ (۳)
اس کہانی کا موضوع ہر اس باپ کی کہانی ہے جو کہ اپنی بڑھتی ہوئی بیٹی کو اپنے سامنے دیکھتا ہے۔ اس کے جذبات اور اس کے احساس کو انہوں نے اپنے افسانوں میں بڑی خوبی اور جذباتی ڈھنگ سے پیش کیا ہے جو پوری انسانیت کے لیے باعث عبرت ہے۔ وہ عصری سماج و سیاست کی صورتِ حال اور تیزی سے معدوم ہوتا تہذیبی منظرنامہ بدلتی ہوئی ثقافتی دھارے جنس اور میڈیا کی زد میں آ کر بنتا بگڑتا آدمی، سب کچھ عہد کے ساتھ ساتھ بدلتا ہے مگر جو اس بدلتے ہوئے عہد کا تعاقب کرتا ہے وہی عمیق نظر رکھ پاتا ہے اور نئے موضوع اور نئے اثرات کا انتخاب کرتا ہے۔
ذوقی ۱۹۸۰ء کے ان افسانہ نگاروں میں ہیں جنہوں نے جدیدیت کے اثرات بھی لیے ہیں اور اس سے متاثر بھی ہوئے ہیں۔ ان کے افسانے حقیقت کی طرف مائل نظر آتے ہیں اور انہوں نے انہی جذبات اور فکر کو پیش کیا جن کے اثرات دیر تک قاری پر طاری رہتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اردو میں ہی اپنے افسانوں سے پہچان بنائی ہے بلکہ ہندی میں بھی انہوں نے کئی ناول اور افسانے لکھے ہیں جو اپنی پہچان قاری پر چھوڑتے ہیں۔ ان کے فن پر تبصرہ کرتے ہوئے عاصم شاہنواز شبلی لکھتے ہیں:
’’مشرف عالم ذوقی نے تخلیقی وجدان کے سہارے ایک نئی ادبی روایت خلق کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی افسانہ نگاری کی قدریں اور فن کاری ان کے افسانوی تخلیقات کو جادو نگاری میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ ذوقی کے ادب کا مطالعہ ہمیں ایک نئی دنیا کی فکر سے آگاہ کراتا ہے۔ ‘‘ (۴)
ذوقی کے افسانوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان کے افسانوں میں زندگی کی حقیقت اور زندگی کی تلخ سچائیاں اس طرح سے شامل ہوتی ہیں کہ قاری کو اس منظرنامہ میں اپنی موجودگی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ جہاں تک ادب میں مغربی احساسات اور تہذیب کے بدلاؤ کے اور ان پر ادب اور معاشرے میں اثرات کی بات ہے تو یہ نہ صرف اردو ادب پر ہی پڑا ہے بلکہ تمام ادب پر پڑا ہے اور تمام ادب اپنے عہد میں ادب اور معاشرے میں تبدیلی لانے کی کوششیں کی ہیں۔ اس عہد میں جو ادیب آگے رہتا ہے اس کو شناخت ملتی ہے۔ مشرف عالم ذوقی کو بھی جو شناخت ملی ہے وہ بھی اسی کوشش کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے نہ صرف سماج کے مسائل پر غور و فکر کیا بلکہ انسان کے ذاتی تجربات پر اور انسانی جدوجہد، سیاست اور سماج پر بھی گہری نظر ڈالی ہے۔ انہوں نے اپنی کہانی کا مجموعہ ’’منڈی‘‘ میں ’’ٹیلی پھون‘‘ جیسے موضوع پر ایک عام انسان کی سوچ اور فکر پر بڑی ہی عمیق نظروں سے اپنے جذبات اور اپنے احساس کے رنگ بھرے ہیں جو نہ صرف پورے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اپنے عہد کی سوچ فکر سے بھی آگاہ کراتا ہے:
’’ذوقی کے تمام افسانوں میں زندگی کی تلخ سچائیاں اس طرح نمودار ہوئی ہیں کہ قاری کو اس منظرنامہ میں اپنی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ مغربی تہذیب کی کچھ برائیاں ہمارے معاشرے میں بھی پھیل رہی ہیں۔ جنسی جذبہ ایک فطری تقاضہ ہے لیکن جب اس میں بے راہ روی پیدا ہو جاتی ہے تو یہی زہر آلود اور مضر ثابت ہوتا ہے۔ فطری عمل کے خلاف اگر کوئی کام کیا جاتا ہے تو جلد ہی زوال پذیر ہو جاتا ہے۔ ذوقی نے وقت رہتے ہوئے معاشرے کو اس لعنت سے خبردار کر دیا ہے۔ اصل واقعہ کی زیراکس کاپی فرائڈ کی تھیوری پر مبنی ہے۔ Electra complex وہیں ’’کاتیائن بہنیں ‘‘ اس تھیوری پر ہے حالانکہ افسانہ نگار نے یہاں ریفارمر کی حیثیت سے کام نہیں کیا، بلکہ معاشرے میں پھیلتی ہوئی اس ناسور نما کی طرف اشارہ ضرور کیا ہے۔ ’’اصل واقعہ کی زیراکس کاپی‘‘، ’’بھنور میں ایلس‘‘، ’’کاتیائن بہنیں ‘‘، ’’بوڑھے جاگ سکتے ہیں ‘‘، ’’نہیں آپ اس شہر کا مذاق نہیں اڑا سکتے‘‘، ’’مجھے جانوروں سے بھوتوں سے پیار کرنے دو‘‘، حیران مت ہو سنگی مترا‘‘ وغیرہ ایسے بہت سے افسانے ہیں جن میں اسطوری فضا کو برقرار رکھتے ہوئے ذوقی نے کرداروں کی انفرادیت کو بالیدگی بخشی ہے۔ چاہے سموئل ہو یا سنگی مترا۔ ایلس ہو یا مسز گرور، وپن لال ہو یا غلام بخش۔ یہ سبھی کردار ایسے ہیں جو ہمارے معاشرے کے کسی گوشہ میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ذوقی نے ان کرداروں کو اٹھا کر اپنی کہانیوں میں نہیں رکھا بلکہ کرداروں کو ڈھال کر انہیں کہانیوں میں زندہ و جاوید بنا دیا۔ ‘‘
کرداروں کے حوالے سے
کردار کے حوالے سے مشرف عالم ذوقی نے اپنے افسانے ’’کاتیائن بہنیں ‘‘ جو ’’صدی کو الوداع کہتے ہوئے‘‘ میں رقمطراز ہیں :
’’میں نے ادب میں کرداروں کو جیا ہے لیکن غصہ تب آتا ہے جب بار بار اردو میں باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ اردو میں کردار نگاری نہیں ہو رہی ہے۔ نئے ادب میں کوئی بھی زندہ جیتا جاگتا کردار نہیں ہے۔ پڑھنے والے اپنے دائرے کو محدود کر لیں تو ایسے لوگوں سے مجھے کوئی شکایت نہیں ہے مگر مجھے علم ہے کہ ذوقی کو پڑھنے والا یہ شکایت کبھی نہیں کرے گا کہ اس کا جیتے جاگتے زندہ کرداروں سے واسطہ نہیں پڑا ہے۔ کردار میرے نزدیک ہوا میں معلق نہیں ہیں۔ میں انہیں محض ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر لکھنے کی حد تک گوارہ نہیں کرسکتا۔ میں ان کی موت پر سو سو آنسو بھی بہاتا ہوں۔ ‘‘ (۶)
مشرف عالم ذوقی نے اپنے کرداروں کو افسانوں میں زندہ کیا ہے۔ ان کے کردار حقیقی زندگی سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کو اپنے کرداروں کو ڈھونڈنا نہیں پڑتا۔ کردار ان کے دل و دماغ میں گھومتے رہتے ہیں۔ ان پر لکھنا مشرف عالم ذوقی کی مجبوری ہو جاتی ہے۔ کردار ہی سماج اور پورے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور ادب میں زمینی زندگی کے مسائل کو اجاگر کرتا ہے۔ اس فن و فکر اور تکنیک کو یا تو ایک اچھا ادیب سمجھ سکتا ہے یا پھر مشاہداتی ذہن رکھنے والا قاری۔ ذوقی نے کرداروں کو اس طرح تراشا ہے کہ وہ حقیقی زندگی سے بالکل قریب ہو جاتے ہیں۔
مشرف عالم ذوقی کے کردار انوکھے اور زندگی سے جدوجہد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کے کرداروں میں عام انسان ہمیشہ زندگی کے اُتار چڑھاؤ اور زندگی کے تصادم کو جھیلتا ہوا آگے بڑھتا نظر آتا ہے۔ جہاں تک ان کے کرداروں کی بات کریں تو ان کے کچھ اہم کردار بھی ہیں جو انہوں نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں بڑی خوبی کے ساتھ ان کے جذبات اور افسانوں میں ان کے مکالمہ کے ذریعے ان کو بلندی پر پہنچایا ہے جن کے نام کچھ اس طرح سے ہیں — بالمکند شرما جوش، غلام بخش، مرگ نینی، ساگ رام ان کے مشہور کردار ہیں۔ ان میں الگ جذبہ اور الگ طرح کا احساس ہے جو ایک نئی تخلیق کی طرف لے جاتی ہے اور جدیدیت کے بعد مابعد جدیدیت اور مابعد جدیدیت سے بیانیہ تکنیک کی طرف لے جانے والے افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام مشرف عالم ذوقی کا آتا ہے جنہوں نے اپنے کرداروں کے ذریعے یہ کام کر دکھایا ہے۔
کرداروں کے بارے میں کچھ مشرف عالم کی زبانی:
’’آپ مانیں نہ مانیں میں گوشت کی منڈی میں تھا، یہیں چھپے تھے میرے کردار! غلام بخش سے بال مکند شرما، جوش تک اوہ ’’لوتھڑے‘‘ میری آنکھوں میں سمایا رہا۔ اور رنگ بدل بدل کر الگ الگ پاتروں میں ڈھل کر میری کہانیوں کے سفر میں شامل ہوتا رہا۔
(’’وہ گوشت کا لوتھڑا‘‘ بار بار آنکھ مچولی کھیلتا رہا)
مشرف عالم ذوقی نے فٹ پاتھ سے لے کر (Elite) کلاس کی کہانیوں کو اپنے افسانوں میں جگہ دی اور منفرد کردار تراشے ہیں۔
بقول جوگندر پال:
’’جہاں انفارمیشن تکنالوجی نے دنیا کو گلوبل ولیج بنا دیا ہے وہیں رابطے کے ذرائع کے ہونے کے باوجود بھی رابطے کہیں کھو گئے ہیں۔ ذوقی نے ’’ٹیلیفون‘‘ جیسی کہانی لکھ کر انسانی رشتہ اور رابطے پر روشنی ڈالی ہے۔ اس فن کار میں آگ ہے جو اپنی تپش میں ہر واقعہ کو پگھلا کر الفاظ کی شکل میں ڈھال دینا چاہتی ہے۔ ‘‘ (۸)
مشرف عالم کے کردار آج کے عہد میں جیتے جاگتے نظر آتے ہیں جو عام انسان سے لے کر دنیا اور سماج کی سیاست کے اچھے برے لوگوں کی عکاسی کرتے ہیں۔
ان کا کردار غلام بخش جو کہ ہندوستان اور پاکستان کے بٹوارے سے پیدا ہوا وہ کردار ہے جو سعادت حسن منٹو نے اپنے افسانے میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کا کردار تلاش کیا تھا وہی کردار مشرف عالم ذوقی نے اپنے افسانوی مجموعہ غلام بخش میں ایک شاہکار کردار غلام بخش کو ڈھونڈھ نکالا جو پورے معاشرے کو چونکانے کا کام کرتا ہے اور ادب میں وہی جذبات و احساس طاری کر دیتا ہے جو اس عہد کے پورے ہندوستان اور پاکستان کے عام انسانوں پر طاری تھے اور وہی احساس جو انسانی جذبات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں وہ ’’غلام بخش‘‘ کے کردار نے کیا اور وہ اپنے عہد کے اور مشرف عالم ذوقی کے کرداروں میں سے اہم کردار ہے۔ ’’غلام بخش‘‘ انسانی جذبات و احساس کا پختہ ثبوت دیتا ہے۔
مشرف عالم ذوقی کے کردار غلام بخش کے بارے میں غضنفر اقبال کچھ یوں کہتے ہیں :
’’جھٹ پٹ ٹوبہ ٹیک سنگھ نظر آتا ہے اور اس کا ایک دھڑ ہندوستان کی طرف اور دوسرا پاکستان کی طرف ہوتا ہے۔ اس سے دو قدم آگے بڑھ کر ذوقی اس ٹوبہ ٹیک سنگھ کو آزادی کی فضا میں تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ انہیں غلام بخش کے روپ میں نظر آتا ہے جو پاکستان میں بھی لٹا اور ہندوستان میں بھی۔ پاکستان میں بھائیوں کے ہاتھوں رسوا ہوا اور ہندوستان آیا تو اس کے مکان پر قبضہ کیا جا چکا تھا۔ یعنی آزادی کے بعداس ٹوبہ ٹیک سنگھ کو نہ پاکستان راس آیا اور مرتے مرتے آزادی کے بعد اس ٹوبہ ٹیک سنگھ یعنی غلام بخش نے اپنے مرنے کی آخری کیل ٹھونک دی۔ ‘‘ (۹)
ذوقی نے اپنے کرداروں میں باپ بیٹے کے رشتے اور دادا پوتے کے رشتے یا پھر آج کے دور کا انسان ہو یا پھر عام انسان کی کہانی ہو سب کو بڑی ہی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ اس لیے ان کے کردار اپنے معاشرے کی عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کے کردار افسانوں میں بولتے چالتے اور آنکھوں کے سامنے حرکت کرتے نظر آتے ہیں جو اپنی چھاپ نہ صرف عام قاری پر چھوڑ جاتے ہیں بلکہ ادب پر بھی ان کی چھاپ صاف نظر آتی ہے جو ایک افسانہ نگار کی انفرادیت کا ثبوت ہے۔ ان کے کردار کبھی زندگی کی جدوجہد سے بھاگتے نہیں ہیں۔ وہ ہمیشہ زندگی کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور اس تصادم میں ہر ممکن حالات سے نبرد آزما رہتے ہیں جو ان کے کرداروں کی انفرادیت میں شمار ہوتا ہے۔
بقول علقمہ شبلی:
’’مشرف عالم ذوقی بے باک قلم کار ہیں۔ سچ کو بے کم و کاست بیان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور اشخاص کے نام لینے میں بھی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ ‘‘ (۱۰)
ذوقی کے افسانوں میں تقسیم وطن کا پس منظر بھی نظر آتا ہے اور تقسیم وطن کے بعد لوگوں میں پھیلی نفرت اور ہجرت بھی نظر آتی ہے۔ ایک ہی وطن میں دو جذبات کے لوگ ہو گئے۔ ایک جسم کو دو ٹکڑے میں بانٹ دیا گیا۔ ان کے افسانوں میں درد بھی ہے اور عہد تقسیم وطن سے لوگوں کے دلوں میں بھرا کرب اور نفرت بھی ہے جو ان کے کردار اپنے زبان و مکالمہ سے اس منظر کی بھرپور ادائیگی کرتے ہیں اور اس کو حقیقت کی صحیح تصویر دکھاتے ہیں جو ان کے مضبوط اور نڈر کرداروں کے ذریعے ہی ہو پایا ہے۔ انہوں نے اپنے عہد کے آس پاس کے لوگوں کو ہی اپنے افسانوں میں مرکزی کردار کا درجہ دیا ہے۔ ان کے افسانوں میں کرداروں کی ادائیگی قاری کو اپنے عہد میں لے جاتی ہے۔ اس پر وہی حقیقت طاری کر دیتی ہے جو اس عہد کے عام انسان پر طاری ہو رہے تھے۔ غضنفر نے ذوقی کے اس فن پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’ذوقی کی ہر کہانی میں بیدی کی طرح تہہ داریاں نظر آتی ہیں۔ ہر جملے میں اپنی سائیکی ہر جملے میں بھرپور معنویت۔ ہر جملے میں اتنی گرہیں کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ منٹو کی طرح قدم قدم پر چونکانے کا عمل کرشن چند کی بیباکی اور برجستگی، کہانی کی خوبصورت تکنیک اور کہانی کہنے کا ہنر اور عصمت کی طرح ان کی کہانیوں میں (Boldness) ہے۔ عورت کی سائیکی ہے ایک چیخ ہے جو سیدھے دلوں میں اتر جانے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ ‘‘ (۱۱)
مشرف عالم ذوقی کے افسانوں کی تکنیک جو افسانوں میں انہوں نے استعمال کی ہیں وہ ان کے افسانوں کو اور بھی آگے لے جاتی ہے۔ ہر مصنف اپنے خیال و جذبات کو قاری تک پہنچانے کا کوئی نہ کوئی ذریعہ ڈھونڈھ ہی لیتا ہے۔ پہلے زمانے میں جب لوگوں کا رجحان پڑھنے لکھنے کی طرف اتنا نہیں تھا تو لوگوں تک زبانی اپنی ذہنی اپج کو پہنچاتے تھے اور جب قلم اور قلم کار بڑھے تو لوگوں میں داستانیں اور ناول اور افسانوں کو پڑھنے کا رواج بھی بڑھا۔ مشرف عالم ذوقی کو اپنے جذبات و احساسات اور خیالات کا اظہار کرنے کے لیے ایک بڑا کینوس چاہیے تھا جو ان کو ادب کی دنیا میں ہی ملا اور انہوں نے اپنے تمام طریقوں اور اپنے بیانیہ اظہار خیال کی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے اپنے جذبات کو قاری کے سامنے رکھ دیا اور قاری نے ان کے جذبات کو بڑی گہرائی اور عمیق نظروں سے پڑھا اور اس پر اپنے اظہارِ خیال کیا۔ اس ضمن میں پروفیسر محمد حسن صاحب کہتے ہیں :
’’مشرف عالم ذوقی بڑے اہم موضوعات پر بڑے پن کی کہانیاں لکھ رہے ہیں۔ اردو میں ایسا کوئی بھی نہیں ہے۔ ‘‘ (۱۲)
ایک جگہ اور ان کے فن پر تبصرہ کرتے ہوئے انیس امروہوی لکھتے ہیں :
’’مشرف عالم ذوقی کی کہانیوں کو ٹکڑے ٹکڑے نہیں مکمل طور پر پڑھنے کی ضرورت ہے۔ ان میں ہمارے عہد کا وہ زندہ استعارہ موجود ہے جو آنے والی صدیوں کے لے ایک مثال ثابت ہو گا۔ ‘‘ (۱۳)
مشرف عالم ذوقی نے افسانوں میں نیا رنگ بھرا ہے۔ انہوں نے نہ صرف افسانے لکھے ہیں بلکہ ناول اور شاعری بھی کی ہے۔ انہوں نے نہ صرف اردو ادب میں اپنا مقام بنایا بلکہ انہوں نے ہندی میں بھی افسانے اور ناول لکھے ہیں۔ یہ بھی ان کی انفرادیت ہے جو انہیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہے۔
زبان و بیان کے حوالے سے
ذوقی کی زبان کے حوالے سے بہت سے اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ کچھ ناقدوں نے ان کی زبان کو غیر معیاری بھی کہا ہے۔ لیکن کچھ ایسے بھی ناقد ہیں جنہوں نے ان کی زبان کو سراہا بھی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ فکشن میں زبان کا انحصار کردار پر ہوتا ہے جس طرح کا کردار ہو گا ویسی ہی زبان استعمال کرنی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ موضوع بھی بہت حد تک زبان پر اثرانداز ہوتا ہے۔ موضوع کی مناسبت سے بھی زبان اور لب و لہجہ بدلتا رہتا ہے۔ اس اعتبار سے اگر مشرف عالم ذوقی کے فکشن میں ان کی زبان کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہاں بھی کسی کی پرواہ کیے بغیر ایسی زبان استعمال کی ہے جو عام زندگی سے قریب ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان کے یہاں زبان کی ثقافت اور نزاکت موجود نہیں۔ ان کے بعض افسانے ایسے ہیں جن میں زبان کی صفائی اور لب و لہجے کی نزاکت نکھر کر سامنے آتی ہے۔ مثلاً یہ اقتباس:
’’بڑا بھیانک طوفان تھا۔ صبح سے ہی آسمان کالے کالے بادلوں سے گھرا ہوا تھا۔ ہلکی پھلکی بوندا باندی کی توقع تو تھی مگر یہ امید نہ تھی کہ دیکھتے دیکھتے ہی آسمان اس قدر سیاہ پڑ جائے گا اور ٹھنڈی ٹھنڈی بہتی ہوئی ہوا آندھی کی صورت اختیار کرے گی۔ بادبان زوروں سے ہل رہے تھے اور معمولی سی کشتی (شیشم کی لکڑی کے تختوں کی مدد سے تیار کی ہوئی) سمندر کی لہروں پر ہچکولے کھا رہی تھی۔ کشتی میں صرف دو ہی مسافر تھے۔ ایک بوڑھی عورت، ایک اس کا جوان لڑکا۔ ‘‘ (۱۴)
مشرف عالم ذوقی کے افسانوں اور ناولوں میں زبان و بیان کے اعتبار سے ایک بات اور خاص ہے وہ اپنے کرداروں کی زبان کو اس معاشرے میں ڈھال دیتے ہیں جس سماج و معاشرے کی بات کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں انگریزی، ہندی اور پنجابی الفاظ بڑی کثرت سے ملتے ہیں۔ جا بجا انہوں نے اپنے کرداروں کی زبان سے انگریزی کے الفاظ کی ادائیگی کرائی ہے اور اپنے افسانوں کے موضوع بھی انہوں نے انگریزی الفاظ سے ہی سجائے ہیں جو اس طرح ہے۔ جسے فنی لینڈ، فزکس کیمسٹری الجبرا، لینڈ اسکیپ کے گھوڑے وغیرہ ان کے افسانوی مجموعہ کا انگریزی نام ہے۔ ایک اقتباس جو ان کے افسانے سے اخذ ہے اور ان کے کرداروں کی زبان سے انگریزی الفاظ کی مثالیں ملاحظہ فرمائیں :
’’انجلی کپڑے بدل کر کمرے میں آ جاتی ہے— سجی ہوئی میز کو پسندیدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے مسکراتی ہے—
I am proud of you my Papa تم نے میری میز صاف کر دی۔
’کیوں ؟‘ اس میں proud کی بات کیا ہے؟
ہے کیسے نہیں ؟
کیسے—؟
میری سہیلوں کے پاپا ایسا نہیں کرسکتے۔
’ کیوں نہیں کرسکتے۔ ‘
’بس نہیں کرسکتے۔ اس لیے کہ وہ میرے پاپا نہیں ہیں۔
وہ اُچھل کر اپنی بانہیں میرے گلے پہ حمائل کرتی ہے
I love you Papa
’فزکس، کیمسٹری— الجبرا—‘
میں مسکراتا ہوا اس کو اپنی بانہوں میں لیتا ہوں۔ (۱۵)
۱۹۸۰ء کے بعد کے افسانہ نگاروں میں مشرف عالم ذوقی نے اپنی الگ پہچان بنائی ہے۔ چاہے وہ عورت ہو یا پھر گھر سے باہر کام کرنے والی لڑکی یا ایک مزدور اور پھر ایک زندگی سے لڑتا ہوا جدوجہد کرتا ہوا انسان یا ایک بوڑھا، ایک وطن پرست، ایک سیاست داں، ایک عام انسان سب کو انہوں نے الگ الگ ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔ ان کے پاس الفاظ کی کمی نہیں ہے، نہ موضوعات کی اور نہ کرداروں کی۔ وہ زمین سے جڑے ہوئے لوگوں کی کہانی لکھتے ہیں اور انہی کے احساس کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے انداز بیان اور الفاظ بھی ان کو وہیں سے مل جاتے ہیں اور ان کو اپنے افسانوں کو لکھنے یا قاری کے سامنے پیش کرنے کے لیے الفاظ کی دقت نہیں ہوتی۔ ان کے ہر افسانے میں نئے نئے الفاظ قاری کو ملتے ہیں جو ان کے انداز بیان و زبان اور اسلوب میں نیا پن لاتی ہے۔
مشرف عالم ذوقی کی زبان میں ایک صحافی بھی بولتا ہے اور ایک تخلیق کار بھی۔ ان کا انداز بیان ایسا ہوتا ہے کہ قاری کے دل و دماغ پر دیر تک اثر کرتا ہے۔ قاری ان کے افسانوں اور ناولوں کو پڑھنے میں ڈوب جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ افسانہ پڑھ نہیں دیکھ رہے ہیں۔ سارے منظر اپنی کھلی آنکھوں سے اور بیان ایسا کہ قاری خود کو بھی اس جگہ محسوس کرنے لگتا ہے۔ ان کے اسی انداز کو لوگ ان کی ذودنویسی قرار دیتے ہیں۔ وہ افسانوں میں اپنے قاری سے بات کرتے ہیں اور ان کے دل کو ٹٹولتے ہیں۔ سماج کیا چاہتا ہے، ادب کیا مانگتا ہے، قاری کیا چاہتا ہے ان سب باتوں کا خیال رکھ کر وہ اپنے افسانوں میں اپنی زبان اور الفاظ کا جادو اپنے احساس کے کینوس پر بکھیرتے ہیں اور وہ اس کام کو پورا کرنے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ ان کو افسانہ لکھنے کا فن آتا ہے۔ اس لیے ان کے افسانوں میں کہیں بھی کھردرا پن نہیں آ پاتا۔ وہ صرف ان کے زبان و بیان سے ممکن ہو پایا ہے۔ ایک اقتباس جو ان کے اسلوب کو اور زبان و بیان کو پیش کرتا ہے:
’’لمحہ جیسے ٹھہر گیا تھا— میری آنکھیں دور تک اسے تلاش کرتی رہیں — لیکن وہ نہیں تھی۔ ایسا ممکن نہیں تھا۔ ایسا ممکن اس لیے بھی نہیں تھا کہ وہ ان عام لڑکیوں جیسی نہیں تھی۔ جو وعدہ کر کے بھول جاتی ہیں۔ اسے اب تک آ جانا چاہیے تھا۔ میں نے گھڑی پر ایک نظر ڈالی۔ پارک کی بنچیں سنسان پڑی تھیں ….. ہوا کا ایک تیز جھونکا مجھے چھوتا ہوا چپ چاپ گزر گیا۔ میں خاموشی سے اس بینچ پر آ کر بیٹھ گیا، جہاں اس سے قبل بھی کئی بار وہ مجھ سے ملی تھی اور ہر بار میری حیرتوں میں خوشگوار اضافہ ہوا تھا…. لڑکیاں کیا ایسی ہوتی ہیں —!
نہیں، وہ عام سی لڑکی نہیں تھی۔ بھورے بالوں والی….. بھورے بالوں والی لڑکی….. شاید، اسی لیے چھوٹی چھوٹی چند ملاقاتوں کے باوجود مجھے اس کا نام پوچھنے کی ضرورت پیش نہیں آئی….. بس چہرے پر بے نیازی سے دور دور تک پھیلے ہوئے بھورے بھورے بال….. آنکھوں میں خرگوش جیسی معصومیت….. وہ ہنستی بہت کم تھی۔ ہونٹوں پر سوالات بہت ہوتے تھے۔ کچھ سوالات تو ایسے ہوتے تھے کہ میں جیسے سوالوں کے ان بھنور میں الجھ کر رہ جاتا تھا…..‘‘ (۱۶)
مشرف عالم ذوقی کے اسلوب میں جہاں الگ الگ طرح کے موضوع پر بات ہوتی ہے وہیں ان کے مکالمے بھی الگ الگ ڈھنگ سے کرداروں پر Fit کئے جاتے ہیں جو ان کے اسلوب اور زبان و بیان کی عکاسی کرتی ہے۔ جس سماج یا معاشرے سے کردار لیا گیا ہے اس کی زبان بھی عام فہم ہوتی ہے اور ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی، اس پر وہ بہت غور کرتے ہیں جو ان کے اسلوب کو اور نکھار دیتا ہے۔
ذوقی نے مکالمہ نگاری میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ کرداروں میں ڈوب کر مکالمے لکھتے ہیں۔ اس لیے ان میں جذبات اور صداقت کی عکاسی ہوتی ہے۔
زبان پر بات کرتے ہوئے ’’غضنفر علی‘‘ یوں اظہار خیال کرتے ہیں :
’’ادب میں نہ صرف Content اہم ہے اور نہ ہی صرف زبان دونوں کی اہم آہنگی ضروری ہے۔ اچھا موضوع بھی خراب زبان میں خراب ہو جاتا ہے اور خراب موضوع کو اچھی زبان بھی اچھا نہیں بنا پاتی۔
زبان اجتہاد کا ذریعہ ہے۔ یہ ذریعہ جتنا ہی معاشی ہو گا اتنا ہی مقبول ہو گا۔ میں سپاٹ بیانی کا قائل نہیں ہوں۔ فن میں تہہ داری ضرور ہونی چاہیے اور تہہ داری پیدا کرنے کے لیے جو زبان کے تجربے اور ان کو استعمال کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں۔ جذبات ڈھکی چھپی انداز سے کہی جاتی ہے وہ زیادہ دیر تک اثر کرتا ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ ایسی زبان استعمال کروں جو آسانی سے کھلے نہیں لیکن پیچیدہ بھی نہ ہو کہ بات سمجھ میں نہ آئے…..‘‘
اس طرح مشرف عالم ذوقی بھی اپنے افسانوں میں بات کو بڑی ہی سادگی سے اور آسان انداز میں قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں مگر پوری سچائی کو وہ دھیرے دھیرے لاتے ہیں اور ایک معمہ یا پوشیدہ بیانی پر بھی چلتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جن کو میرے افسانے سمجھ میں نہ آئیں وہ ادب کو گہرائی سے نہیں سمجھ پاتا یا اس کو ادب کی سمجھ کم ہے۔ مشرف عالم ذوقی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ جو بھی لکھتے ہیں اپنے اندر کے طوفان کو کم کرنے اور جو بات ان کے دل و دماغ میں چل رہی ہے۔ ان جذبات کو باہر نکالتے ہیں اور عوام کے سامنے لانے کا آسان طریقہ انہوں نے اپنایا ہے۔
۱۹۸۰ء کے بعد کے افسانہ نگاروں میں ان کا نام بہت اہم ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں بیانیہ تکنیک کا استعمال کر کے اردو ادب کو ایک نیا رخ دیا ہے جو ۱۹۸۰ء کے بعد کارگر ثابت ہوا ہے۔ ایک اچھے افسانہ نگاری کی شناخت اس کے اسلوب اور زبان سے ہوتی ہے اور اس کی انفرادیت بھی تمام ضروری تکنیک میں سے زبان و اسلوب کی تکنیک ادیب کی تخلیق کو عروج تک پہنچاتی ہے۔ ہر ادیب یہ چاہتا ہے کہ اس کی کی گئی تخلیق کو داد ملے اور ادب میں اس کو اپنا الگ مقام ملے۔ وہ صرف اور صرف اس کے اسلوب بیان، انداز اور اظہار خیال اور فن کی پختگی سے ہی ممکن ہو پاتا ہے جو کہ مشرف عالم ذوقی کے افسانے میں موجود ہے۔ اسلوب اور اظہار خیال پر ڈاکٹر نگہت ریحانہ خان لکھتی ہیں :
’’فنکار کے لیے اچھا انشا پرداز ہونا بھی ضروری ہے۔ موضوع کتنا ہی دلچسپ ہو اس کی ترتیب کتنی ہی فنی ہو لیکن اگر اظہار کے لیے مناسب زبان کا استعمال نہ کیا جائے تو اپنے تمام تر تکنیکی و فنی محاسن کے باوجود افسانہ شاہکار یا کامیاب تخلیقی کا درجہ نہیں پا سکتا۔ فنکار کو انہیں الفاظ و اصطلاحات کا استعمال کرنا چاہیے جو صحیح معانی پر دلالت کرتے ہوں اور جو خیالات کی صحیح ترجمانی کریں۔ دراصل زبان ایک شفاف (Transparent) شیشہ ہے جس میں سے قاری انسانی زندگی کا نظارہ کرتا ہے۔ اس لیے مصنف کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اس شیشے کو صاف رکھے تاکہ زندگی دھندلی نہ نظر آئے۔ اسلوبیات کا زبان شناسی سے گہرا تعلق ہے۔ ‘‘ (۱۷)
اس طرح ہر افسانہ نگار کے یہاں زبان و بیان کی تکنیک کی اہمیت بہت ضروری قرار دی گئی ہے۔ ایک اچھے ادیب کی پہچان کا آسان طریقہ اس کی زبان و اسلوب ہوتی ہے جو اسی کے تخلیق میں موجود ہوتی ہے۔
مشرف عالم ذوقی کے حوالے سے اب یہ بات تسلیم کی جانے لگی ہے کہ ان کی زبان اور ان کا اسلوب اب ان کی شناخت بن چکی ہے۔ انہوں نے جس طرح کی زبان کو اختیار کیا وہ ضرور تنقید کا نشانہ بنی مگر اب وہ ان کی شناخت کا حصہ ہے۔ فنکار اپنے موضوع اور پیشکش کے اعتبار سے زبان کو استعمال کرتا ہے۔ یہاں یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس زبان کے ذریعے وہ فن کو پیش کرنے میں کامیاب ہوا ہے یا نہیں۔ سچائی یہ ہے کہ جس قدر اور جتنے متنوع موضوعات ان کے یہاں ملتے ہیں وہ ان کے ہم عصروں میں کمیاب ہیں۔ مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کا فن ہم عصر فکشن میں اپنا مقام بنا چکا ہے۔
حواشی
(۱) لیپروسی کیمپ، (نثرنظم)، مشرف عالم ذوقی، ص:۱۱
(۲) سمبل، جولائی تا ستمبر ۲۰۰۶ئ، پاکستان، ص:۳۳۶
(۳) لینڈ اسکیپ کے گھوڑے، مشرف عالم ذوقی، ص:۱۳
(۴) تبصرہ: منڈی۔ مشرف عالم ذوقی، مبصر: عاصم شاہنواز شبلی، اثبات و نفی، ۱۹۹۹، ص:۲۳۶
(۵) سہ ماہی ’فکر رحمانی‘ دمکا، جنوری تا مارچ ۲۰۰۲، ص: ۱۳-۱۴
(۶) مشرف عالم ذوقی، سناٹے میں تارا، صدی کو الوداع کہتے ہوئے، ص:۲۷۶، ۲۰۰۰)
(۷)
(۸) غضنفر اقبال سہروردی، القلم روزنامہ سالارِ دکن کا علمی و ادبی صفحہ، مورخہ: ۳؍اگست ۲۰۰۳
(۹) غضنفر اقبال سہروردی، روزنامہ سالارِ دکن، گلبرگہ، مابعد جدیدیت کا شناخت نامہ، مورخہ: ۳؍اگست ۲۰۰۳
(۱۰) روزنامہ سالارِ دکن، گلبرگہ
(۱۱) غضنفر اقبال سہروردی، القلم، روزنامہ سالارِ دکن کا علمی و ادبی صفحہ، ۳؍اگست ۲۰۰۳
(۱۲) نیا سفر، پروفیسر قمر رئیس، ص: ۱۱۶، ۱۹۹۸
(۱۳) انیس امروہوی (القلم)، روزنامہ سالارِ دکن کا علمی و ادبی صفحہ ۳؍اگست ۲۰۰۳
(۱۴) بھوکا ایتھوپیا، خیمے، ص: ۱۷۵
(۱۵) لینڈ اسکیپ کے گھوڑے، فزکس، کیمسٹری، الجبرا… ص: ۳۱-۳۲
(۱۶) ’لینڈ اسکیپ کے گھوڑے‘ بھورے بالوں والی لڑکی، ص:۱۱۰
(۱۷) اردو مختصر افسانہ: فنی و تکنیکی مطالعہ، نگہت ریحانہ خان، ص:۳۲-۳۳
باب چہارم
مشرف عالم ذوقی کے افسانوی مجموعہ ’’بھوکا ایتھوپیا‘‘ کا تنقیدی مطالعہ
’’بھوکا ایتھوپیا‘‘ مشرف عالم ذوقی کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جو ۱۹۹۳ء میں منظر عام پر آیا۔ مشرف عالم ذوقی اس مجموعے کے منظر عام پر آنے سے قبل ہی اردو دنیا میں افسانہ نگار کے طور پر متعارف ہو چکے تھے۔ ان کے بہت سے افسانے ہندوستان کے اہم ادبی رسالوں میں شائع ہو چکے تھے اور قارئین سے دادِ تحسین لے چکے تھے۔ اس لیے اس مجموعے کے سامنے آنے سے ایسا نہیں ہوا کہ لوگوں نے انہیں پہلی دفعہ اس مجموعے کے حوالے سے پہچانا۔ اس مجموعے میں ۲۳ کہانیاں ہیں۔
’’بھوکا ایتھوپیا‘‘ میں شامل تمام کہانیاں اپنے آپ میں ہمعصر معاشرے کی نہ صرف ترجمان ہیں بلکہ المیہ بھی ہیں۔ اس مجموعے کی کہانیوں کے موضوعات کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ تخلیق کار کا ذہن کافی وسیع اور نظر معاشرے کی باریکیوں کو دیکھ لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ذوقی کی خوبی یہی ہے کہ وہ جدید تر سماجی و معاشرتی مسائل کو بڑی ہی باریک بینی سے اپنے افسانوں میں پیش کرتے ہیں اور موضوع کی مناسبت سے ہی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ ذوقی نے اپنے افسانوں میں کبھی بھی زبان کی تراش خراش پر زور نہیں دیا بلکہ انہوں نے موضوع کے برتاؤ پر خصوصی توجہ صرف کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیوں میں سماجی کرب کے ان پہلوؤں تک قاری کی رسائی ہو جاتی ہے جو عام طور پر ممکن نہیں۔ ذوقی نے صرف اپنے ملک کے مسائل پر توجہ نہیں دی بلکہ انہوں نے بین الاقوامی معاشرے کے حالات کو بھی جگہ دی ہے۔ یہ بڑی بات ہے کہ ایک افسانہ نگار بدلتی دنیا کے حالات پر نظر رکھے اور ان حوالوں کو اپنی کہانیوں میں پیش کرے۔ بھوکا ایتھوپیا افریقی ممالک میں قحط سالی اور اس کے سبب معاشرے کی تنزلی اور انسانی حقوق کی پامالی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ کہانی دراصل دنیا کی بڑی طاقتوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے کہ ایک طرف آج کے ترقی یافتہ خلاؤں کی سیر کر رہے ہیں مگر خود وہ جس زمین پر رہتے ہیں وہ زمین بدحالی کا شکار ہے۔
اس طرح مجموعے کی کہانیوں کے مطالعے سے ذوقی کے وسعت فکر و نظر کا احساس ہوتا ہے۔ اس مجموعے کی کہانیوں کا اگر موضوعات کے نقطۂ نظر سے درجہ بندی کی جائے تو اس طرح ہوسکتی ہے:
تقسیم اور فسادات
۱۔ ہجرت
۲۔ مرگ نینی نے کہا
۳۔ ہم خوشبو خریدیں گے
۴۔ مت رو سالگ رام
۵۔ مہاندی
۶۔ تحفظ
۷۔ دہشت کیوں ہے
سماج اور سیاست
۸۔ میں ہارا نہیں ہوں کامریڈ
۹۔ خیمے
۱۰۔ کان بند ہے
۱۱۔ کتنا وِش
۱۲۔ ہندوستانی
۱۳۔ سُوَر باڑی
شہری زندگی کے مسائل
۱۴۔ بھوکا ایتھوپیا
۱۵۔ فنی لینڈ
۱۶۔ پربت
۱۷۔ بچھو گھاٹی
۱۸۔ تحریکیں
۱۹۔ جلاوطن
۲۰۔ تناؤ
سفرنامے اور یادداشت
۲۱۔ کمرہ بولتا ہے
۲۲۔ پینتالیس سال کا سفر
۲۳۔ مجھے موسم بننے سے روکو
تقسیم ہند و پاک ایسا المیہ ہے جس پر بے شمار افسانے لکھے گئے۔ تقریباً تمام بڑے افسانہ نگاروں نے اس موضوع کے تحت معرکۃ الآراء افسانے تخلیق کیے۔ سب کے زاویے الگ الگ ہیں اور موضوع کے برتاؤ کے اعتبار سے بھی انفرادیت ہے۔ اس لیے اس موضوع پر اب بھی کہانیاں لکھنے کی گنجائش موجود ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس موضوع پر افسانے فرسودہ مضامین کے دائرے میں آئیں گے۔ مشرف عالم ذوقی نے بھی اس کرب کو اپنے انوکھے انداز میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس حوالے سے ان کے بعض افسانے بیانیہ کے انداز میں ہیں اور بعض افسانوں میں مکالموں سے زور پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں ان کا افسانہ ’’ہجرت‘‘ قابلِ ذکر ہے—
تقسیم اور فسادات
ہِجرت
’ہجرت‘ مشرف عالم ذوقی کا ایک کامیاب افسانہ ہے جو تقسیم وطن کے کرب پر مبنی ہے۔ اس کہانی کا پلاٹ سادہ اور حقیقت نگاری سے بھرپور ہے۔ اس کہانی میں مشرف عالم ذوقی نے اپنے کردار گرجیت کے احساس اور جذبات سے کہانی میں رنگ بھرا ہے۔
انہوں نے اس کہانی میں پنجاب کے ایک متوسط خاندان کے افراد کے جذبات کی عکاسی کی ہے۔ تقسیم وطن کے وقت لوگوں کو اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر دوسری جگہ دوسرا گھر ڈھونڈنے کے لیے جانا پڑتا ہے جو نہ تو ان کا وطن ہے اور نہ وہاں کے لوگ ان کو مانتے ہیں۔ انہوں نے انسانی زندگی کی بھاگ دوڑ اور وقت کے تھپیڑے کو اپنی کہانی کا موضوع بنا کر پیش کیا ہے۔ وہ مستقل ہجرت کر رہے ہیں۔ آ رہ سے بہار— بہار سے پنجاب— پنجاب سے لاہور اور اب لاہور سے…..
زندگی ہر وقت ان کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ پر ہر قریبی چیز کو پیچھے چھوڑتا جا رہا ہے کچھ حاصل کرنے کی غرض سے مگر وہ اس خوبصورت زندگی کو پیچھے چھوڑتا چلا گیا۔ جہاں چین و امن تھا، زندگی میں خوشیاں تھیں اور آپس میں بھائی چارہ تھا مگر اب….. اس کہانی کا پلاٹ ایک بھرے پورے پریوار کے مکالموں سے ہوتا ہے۔ سب ایک ٹرین میں بیٹھے ہیں اور آپس میں کچھ نہ کچھ باتیں کر رہے ہیں۔ اُدھر گرجیت جو اپنی یادوں میں کھویا ہوا پرانی باتوں کو سوچ رہا ہے۔ کیا وہ زندگی کے اس پڑاؤ کو اب برداشت کر پائے گا؟ اُس کے دماغ میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے۔ پیچھے اس کو زندگی میں بہت سفر کرنا پڑا ہے اور ہر سفر میں اس کو اپنے دل و جان سے پیاری چیزوں کو چھوڑنا پڑا ہے۔ اور اس کی قیمت بھی چکانی پڑی ہے۔ دنگے فساد نے اس سے نہ صرف اس کا گھر بار چھینا تھا بلکہ اس سے اس کا بڑا بیٹا بھی چھینا تھا۔ وہ اس کے دکھ کو کبھی نہیں بھلا سکا اور تا عمر اس زخم کو وہ اپنے سینے میں لیے زندگی سے جدوجہد کرتا ہوا جیے جا رہا ہے لیکن ہجرت کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا:
’’بیٹے ہماری قسمت میں بس ہجرت لکھی ہے۔ ہجرت جس کا مفہوم تمہارا معصوم ذہن ابھی نہیں سمجھ سکتا۔ لاہور سے آ رہ اور آ رہ سے پنجاب۔ پتہ نہیں اس بوڑھی تقدیر میں اور کتنی ہجرت لکھی ہے۔ ‘‘ (۱)
ایک انسان جب گھر بناتا ہے تو اس کو کتنا وقت لگتا ہے۔ اس کو بنانے اور سنوارنے میں وہ اپنی پوری عمر گزار دیتا ہے اور اس میں اپنی تمام عمر کی خوشیاں اور کامیابی دیکھتا ہے۔ اپنے جذبات اور احساسات اس سے جوڑ کر دیکھتا ہے۔ مگر جس نے عمر بھر اپنی زندگی میں صرف ہجرت کی ہو تو وہ کیسے اپنے جذبات اور احساس کو بھلا سکتا ہے۔ یہ احساسات اس کی زندگی کا ایک ایسا کرب ہوتا ہے جو تا عمر اس کے ساتھ رہتا ہے۔ انہیں احساسات و جذبات کو مشرف عالم ذوقی نے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ اس کہانی میں جا بہ جا معاشرہ پر طنز بھی ملتا ہے۔ مثلاً یہ اقتباس:
’’فرق تو بس گاؤں میں ہے۔ پگلے، شہر تو ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ ‘‘ شہر کے نام پر لاہور کی یاد آ گئی۔ ’’ہین‘‘ اور ’’سیاپے‘‘ کی دردناک فضا، جب وہ لاہور چھوڑ رہے تھے، موراں بہن، نوراں آنٹی، اور کتنی ہی آنکھیں ….. چھوٹے بھائی امریندر کی خون میں سنی ہوئی لاش….. سینے پر دو ہتھڑے مارتی ہوئی امریندر کی دیونگت ودھوا کتنے ہی چکتے اپنے پھولوں جیسے سینے میں اُگائے جا رہی تھی— اُچی پگڈی والیا کتھے چھت گیارے لال چوڑی والی نوں۔ ہائے ہائے شیرا ہائے ہائے میرا…..‘‘
امریندر نہیں رہا لاہور کے خونی نظارے آنکھوں میں گھوم گئے۔ گزری ہوئی تاریخ کا رتھ کچھ اور آگے بڑھا۔ جب ایک نئے شہر کو ہجرت کے لیے ایک بانکا جوان اپنے قدم تیز کر رہا تھا۔ ‘‘ (۲)
اس افسانے میں ہجرت کے سبب انسان کو جن پریشانیوں اور جن جن مصیبتوں سے گزرنا پڑتا ہے ان کی تفصیلات یہاں موجود ہیں۔ مگر یہ افسانہ صرف بیانیہ نہیں ہے بلکہ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایک آدمی جو زندگی کے ہر موڑ پر صرف یہ سوچ کر سمجھوتا کر لیتا ہے کہ اب شاید سب ٹھیک ہو جائے گا مگر جب تک ملک میں سیاست اور فرقہ وارانہ نظام چلتا رہے گا، انسان کو ہر طرح سے قربانی دینی پڑے گی یا اس نظام کا شکار ہونا پڑے گا، خواہ وہ اپنا ملک ہو یا پھر غیر ملک۔ ہر بار ایک عام انسان ہی بچھی ہوئی بساط پر مہرہ بن جاتا ہے اور اس کو ہی آگے آ کر اپنی قربانی دینی پڑتی ہے۔ چاہے اس سے اس کی زندگی موت سے بھی بدتر ہو جائے۔ یہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے اور جب تک یہ نظام مفادات اور تعصبات پر قائم رہے گا تب تک عام انسان کبھی اُبھر نہیں پائے گا اور تل تل ہر وقت مرتا رہے گا۔ یہ کہانی ٹرین کے سفر سے شروع ہوتی ہے۔ اس لیے ٹرین بھی کہیں نہ کہیں ایک علامت کے طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے۔ یہاں اس اقتباس سے کہانی کو آگے بڑھانے اور معنی خیز بنانے کا انداز ملاحظہ فرمائیے:
’’ٹرین پتہ نہیں کون سے سُرنگ میں داخل ہو گئی ہے۔ ہلکا ہلکا اندھیرا چھا گیا ہے۔ ’کھانا کھاؤ گے لکھی؟‘‘ ہر میت پُوچھ رہا ہے۔
لکھی اُٹھ کر بیٹھ گئے ہیں۔ پتہ نہیں کیا پوچھ ڈالا ہے بیٹے سے….. کونسا سوال، خود بھی یاد نہیں۔ مگر گرجیت کے چہرے پر ایک نیا رنگ اُگ آیا ہے۔ چہرے پر سلوٹیں بکھر گئی ہیں۔ گرجیت بتا رہا ہے۔ ’’لکھی، بس وہی ایک منظر جس میں تم سینے سے کشن کو دبائے سِسک رہے تھے پتہ نہیں کیوں اس وقت ایسا لگا، اس ہجرت سے موت بہتر تھی۔ ‘‘ گاڑی رُک گئی تھی، شاید کوئی جنکشن آ گیا تھا۔ ‘‘ (۳)
مشرف عالم ذوقی کا یہ افسانہ ان کے تقسیم ہند پر لکھے گئے افسانوں میں سے ایک ہے۔ یوں تو تقسیم ہند کے المیے پر بہت افسانے لکھے گئے ہیں مگر یہ اپنے بیانیہ اسلوب اور اظہار کی نوعیت سے بالکل جداگانہ ہے۔ ہیئت اور زبان و بیان کے اعتبار سے بھی ہم اسے کامیاب افسانہ کہہ سکتے ہیں۔
مرگ نینی نے کہا
اس کہانی کا موضوع ’’مرگ نینی نے کہا‘‘ اس لیے رکھا گیا ہے کیونکہ مرگ نینی اس افسانے کا مرکزی کردار ہے جس کے ذریعے پوری کہانی کا تانا بانا تیار کیا گیا ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے اس کہانی میں اس معاشرے کی عکاسی کی ہے جو ۱۹۴۷ء کے بعد کا معاشرہ تھا۔ انہوں نے اس کہانی میں مذہبی فسادات کی لعنتوں کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور انسانی ذہنیت پر بھرپور طنز کیا ہے۔ انہوں نے مرگ نینی کے کردار میں کالج کی ایک سیدھی سادی لڑکی کو دکھایا ہے کہ جو اپنے کالج کے دوست سے صرف اس لیے نہیں بول سکتی کہ وہ ایک مسلمان ہے اور وہ ایک ہندو ہے۔ اس کے والد ’’نرسنگھ‘‘ کا کردار کچھ اس طرح کا ہے کہ وہ مذہبی فسادات کی جڑیں نہ صرف سماج میں پھیلانے میں لگا ہوا ہے بلکہ اپنے گھر کے ہر ایک شخص پر اپنے مذہبی اصول کو تھوپنا بھی اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اور اسے اپنی اس ذہنی بیماری کا کوئی احساس نہیں ہے۔ وہ صرف ہندو اور مسلمان دو ہی مذہب کو جانتا ہے۔ جب اس کی بیٹی یا مرگ نینی اپنے دوست اسد سے بات کرتی ہے تو اس کو بہت برا لگتا ہے اور وہ اس کو اس طرح سے سمجھاتا ہے:
’’کالج کے چہکتے ماحول سے ہوتی ہوئی ایک بار پھر وہ کورٹ آف ہاؤس کے کٹہرے میں کھڑی تھی۔ جہاں اس کے پاپا اور ممی کی لال لال آنکھوں والی عدالت لگی تھی۔ اور ایک بے کار سی جرح مرگ نینی کے ذہن میں ہلچل مچا رہی تھی۔ نرسنگھ پوچھ رہے تھے۔
’’تم کالج میں کسی مسلم لڑکے سے ملتی ہو‘‘
’’جی—‘‘
’’تم کسی مسلمان لڑکے سے ملتی ہو۔ اتنا ہی جاننا ہمارے لئے کافی دکھ بھرا ہے؟
اس لئے بہتر ہے کہ تم آگے اس سے نہیں ملو—‘‘
’’لیکن—؟‘‘
اور اس ’’لیکن‘‘ کو پاپا نے ایک چنوتی کے طور پر لیا۔
’’تم، جسے کالج کی چھوٹی موٹی دوستی کہہ کر بات ٹالنے کے موڈ میں ہو، یہی دوستی دو چار ملاقاتوں کے بعد محبّت کہلانے لگتی ہے اور محبت بھی ایک واہیات مسلمان سے۔ تم کسی ہریجن کو بھی چاہتی تو مجھے کوئی دُکھ نہیں ہوتا، جتنا یہ سن کر ہو رہا ہے کہ تم ایک مسلمان سے میل جول بڑھا رہی ہو۔ ‘‘ (۴)
اس کہانی میں مشرف عالم ذوقی نے مذہب کے نام پر لوگوں کے دلوں میں جو دوریاں ہیں ان پر وار کیا ہے۔ یہ دوریاں دراصل کسی اور سبب سے نہیں ہیں۔ یہ صرف چند فتنہ پرور افراد کے ذہن کی پیداوار ہے جو اپنے مفاد کے لیے لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے سے نفرت و بغاوت پیدا کرتے ہیں۔
جب مرگ نینی کے والد اس کو ہندو اور مسلمان کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ صرف مانس کھا کر معاشرے میں فسادات اور لوگوں کے دلوں میں مذہبی فسادات کو بڑھاوا دیتے ہیں اور انہوں نے اپنے فیصلے کو صرف لوگوں پر تھوپا ہے۔ وہ تاریخ کی غلط بیانی سے بھی اپنے بیٹی کو قائل کرانا چاہتے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں :
’’مائی ڈیر اسد! تم جا سکتے ہو، میری تم سے کوئی دوستی نہیں ہے۔ اس لئے کہ تم گائے کا مانس کھاتے ہو۔ اس لیے کہ تم مسلمان ہو۔ تم سے تو یہ شودر اچھّے ہیں۔ تم مسلمان سمجھتے کیا ہو، ہندوؤں کے مندروں کو ڈھا کر… زور زبردستی تلوار کے زور پر مسلمان بنا کر، جزیہ کے نام پر بھی تمہارے مسلمان بادشاہوں کی نظر ہندوؤں کو توڑنے اور کمزور کرنے پر لگی رہی ہے۔ جبراً اسلام تھوپنے کی کارروائی کے سوا انہوں نے کیا ہی کیا ہے۔ پاپا ٹھیک کہتے ہیں ….. تم لوگ کینسر ہو….. تم لوگوں کو یہاں سے جانا ہی ہو گا۔ ‘‘ (۵)
مشرف عالم ذوقی نے اپنے افسانے میں اس سماج کو نشانہ بنایا ہے جو صرف غلط فہمیوں کی بنیاد پر دوسروں پر الزام لگاتے پھرتے ہیں اور ایک دوسرے پر طنز کرتے ہیں۔ یہ کہانی شروع ہوتی ہے ایک سیدھے سادھے ماحول سے مگر اختتام تک اس کہانی میں وہ موڑ (Twist) آتا ہے کہ ایک لڑکی جو اپنے ماں باپ کے سامنے نہیں بولتی اور اپنے اچھے دوست کو چھوڑ دیتی ہے اور پھر اس کی شادی کسی دوسرے انسان سے کر دی جاتی ہے اور وہ انسان جو کھلے ذہن کا ہے اس کو گوشت کھانے اور مچھلی کھانے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس کے دوست بھی ویسے ہی ہیں۔ اس کو گھر میں لا کر دے جاتے ہیں۔ اس کے شوہر کا نام اویناش ہے اور ان کے پڑوسی جن کا نام ’’عبدل‘‘ ہے وہ ایک بزرگ انسان ہے مگر وہ مرگ نینی کو بہت مانتے ہیں اور اویناش کے ہر دکھ سکھ میں شامل ہوتے ہیں اور ان کو اپنے بچے کی طرح مانتے ہیں مگر جب مرگ نینی کا بیٹا جو ایک سال کا ہوتا ہے۔ اچانک اس کی موت پر مرگ نینی کے دکھ میں اس کے پاپا بھی آتے ہیں تو اس کو یہ سمجھاتے ہیں کہ مسلمان صرف اپنے لیے ہوتے ہیں اور ان کے لیے کوئی نہیں ہوتا۔ تب اویناش کے دماغ میں یہ بات گھومنے لگتی ہے اور اس کے لہجے میں وہ بات آنے لگتی ہے۔ مگر جب ’’عبدل‘‘ اپنے زخموں کو بتاتے ہیں کہ یہ معاشرہ ایک دم بدل گیا ہے اور اب لوگوں میں صرف ذات پات پھیل گئی ہے اور صرف اپنے مفاد کے لیے ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ مگر اس کے سامنے انسانی جذبات اور احساسات کا کوئی مول نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے بڑے جذباتی ڈھنگ سے بحث کی ہے اور ہندو اور مسلمان کے بیچ کی دیوار کو گرانے کی کوششیں کی ہیں جو ایک عمیق اور گہرے تخلیق کار کی پہچان ہے جو ذوقی نے کیا ہے۔ اور مرگ نینی کا کردار جو کبھی اپنے والد کے سامنے آنکھ اٹھا کر نہیں بولتی تھی آج وہ ان کو اپنی بات سے ہی مارتی ہے اور ان کو مذہب کے نام پر صرف ایک بیماری کا نام دیتے ہوئے اس کو اس طرح کہتی ہے:
’’جب دو خیالوں میں زمین و آسمان کا فرق ہو اور یہ احساس بھی ہو کہ انہیں ملانے کی کارروائی بیکار ہے تو…؟ ایسے رشتے ٹھہریں گے تو نہیں نا… پھر ان رشتوں کو ڈھویا جانا کیا ضروری ہے۔ اس لیے میں ابھی سے یہ رشتہ توڑ رہی ہوں۔
مرگ نینی نے ایک ٹھنڈی سانس اُچھالی۔ ’’گڈ بائے اینڈ گڈ بائے ایوری باڈی۔ ‘‘
پھر اس نے ٹھنڈی سانس بھر کر اویناش کی طرف دیکھا اور کہا
کل آفس نہیں جاؤ گے کیا؟
اور جواب کا انتظار کئے بغیر آگے بڑھ گئی…‘‘ (۶)
موضوع کے پیشکش کے اعتبار سے یہ افسانہ نئی نسل اور پرانی نسل کے مابین ذہنی کشمکش کو بھی ظاہر کرتا ہے اور غلط فہمیوں کی بنیاد پر سماج میں جو زہر پھیل رہا ہے، ان دہشت پسند عناصر پر بھی ضرب لگائی گئی ہے۔ ساتھ ہی عام انسانوں کی معصومیت پر بھی گہرا طنز کیا گیا ہے جو بغیر سوچے سمجھے لوگوں کی باتوں میں آ جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ افسانہ جدید افسانوں میں نمائندہ مقام کا حامل ہے۔
ہم خوشبو خریدیں گے
موضوع کے اعتبار سے یہ افسانہ بھی فرقہ وارانہ فسادات کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ مگر پیشکش کے لحاظ سے یہ افسانہ بہت ہی انوکھا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات پر بیشتر فکشن نگاروں نے افسانے تخلیق کیے ہیں مگر ان کے اثرات بچوں پر کس طرح مرتب ہوتے ہیں۔ اس کی طرف کم ہی لوگوں کی نظر گئی ہے۔ مشرف عالم ذوقی کا کمال یہ ہے کہ وہ ان فسادات کو بچوں کی نظر سے دیکھتے ہیں، وہ بچے ذرا بھی ہندو مسلم کے نام سے واقف نہیں، وہ بچے جو ابھی فرقہ وارانہ نفرت و تصادم کو نہیں سمجھتے وہ بچے جو ابھی عرفی اور اُروشی میں فرق محسوس نہیں کرتے۔ جب اپنے اپنے گھروں میں جاتے ہیں تو انہیں نفرت کی زبان سمجھ میں نہیں آتی مگر جب شہر میں فسادات ہو جاتے ہیں اور بہت دنوں کے بعد یہ بچے اسکول میں ملتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کے حالات جاننے کے لیے بے قرار ہوتے ہیں۔ ایک طرف والدین نفرت کے سبب بچوں کو مذہب کے نام پر الگ الگ خانوں میں رکھ رہے ہوتے ہیں وہیں یہ بچے اپنے معصوم ذہنوں سے ایک نئی فکر تخلیق کرتے ہیں۔ یہ فضا و سماج کے منہ پر ایک زبرست طمانچہ ہے۔ افسانے کا اقتباس بچوں کے ذہن کو کھولتا ہے۔ ان کی فکر کو تب نیا زاویہ دیتا ہے:
’’کاش کہ بہت سارے پھول ہوتے
اتنے
کہ ان کی خوشبو میں پوری دنیا میں پھیلا دیتا
مگر فضا میں تو راکٹ لانچر اور توپوں گولوں کی بو بسی ہے
کاش کہ بہت سارے پھول ہوتے
جو ان توپوں اور ٹینکوں سے گزر کر
دہشت اور وحشت کی سرزمین کو خوشبو سے شرابور کر دیتے
’’واہ وا!‘‘ نہال نے تالی بجائی ’’کتنی اچھی بات ہے!‘‘
’’چاروں طرف جنگ کی باتیں ہیں۔ توپوں کی باتیں ہیں۔ مگر یہ راکٹ لانچر۔ ‘‘
’’یہ بھی ہتھیار ہے۔ ‘‘ ایک لڑکا اپنی جنرل نالج پر مسکرایا۔ ’’پاپا اس دن بوفورس کے بارے میں …‘‘ (۷)
بچوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ کسی کا گھر جل رہا ہے اور گھر میں ہر جگہ غم ہی غم ہے، ہر کوئی اس فرقہ وارانہ فسادات اور پورے معاشرے کو خراب کر دینے والی سیاست سے پریشان ہے۔ یہاں تک کہ بچے ایک دوسرے سے جب اپنا خیال بانٹتے ہیں اور ان سب کو لگتا ہے کہ اس سماج کو کسی خوشبو کی ضرورت ہے اور وہ خوشبو ڈھونڈنے نکل جاتے ہیں ان کو کسی بھی گھر میں خوشبو نہیں ملتی جب کہ ہر گھر پھولوں سے بھرے پڑے ہیں مگر کوئی ان کو لینے نہیں دیتا۔ وہ معصوم خالی ہاتھ لوٹ جاتے ہیں۔
مشرف عالم ذوقی نے اس کہانی میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اسکول میں پڑھنے والے چھوٹے چھوٹے بچوں کو احساس ہے کہ جو بھی سماج یا معاشرے میں ہو رہا ہے وہ غلط ہے۔ اس سے ہمارے رشتے میں درار پڑ رہی ہے سیاست صرف اپنا کام پورا کرنے کے لیے ہم سب کا استعمال کر رہی ہے اور ہم صرف کٹھ پتلی بنے ان کے اشاروں پر ناچتے رہتے ہیں تو کیوں نہ ہم کچھ ایسا کام کریں جس سے پورے سماج کے ذہن کو بدلا جا سکے۔ اسی لیے اس افسانے کا موضوع ’’ہم خوشبو خریدیں گے‘‘ ہے کہ ہر گھر میں، ہر ملک میں، پورے سماج میں، ان پھولوں کی خوشبو پھیلا دیں تاکہ صرف امن اور بھائی چارہ رہے۔ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے محبت اور پیار کریں۔ مذہب کے نام پر آپس میں لڑائی نہ کریں فساد نہ پھیلائیں کیونکہ ’’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا‘‘ اقتباس دیکھئے:
’’پھول؟‘‘ عرفی کا چہرہ لٹکا ہوا تھا۔
’’پھول نہیں ملے۔ ‘‘ دوسرے لڑکے نے اسں طرح کہا جیسے اب رو دے گا۔ ‘‘
’’پھول کوئی نہیں دیتا۔ ‘‘ ایک لڑکا سچ مچ رونے لگا۔
’’اب جنگ ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ ‘‘ ایک لڑکی کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔
اور پھر—— ورما سر چونک گئے۔ مونا نے ایک کاغذ ان کی طرف بڑھایا تھا۔ سب بچے گردن جھکائے شکست کے انداز میں کھڑے تھے اور ورما سر حیرت سے اس چھوٹی بچی کی تحریر پڑھ رہے تھے: ہم پھول نہیں توڑ سکے، ہم خوشبو نہیں لا سکے۔ اس کا حق بس ان کو ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی مہک دور دور تک پھیلے۔ ‘‘
ورما سر کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ انہوں نے سر جھکا لیا۔ امن کے پیغامبر ان بچوں سے کچھ کہنے کے لئے اب ان کے پاس بچا ہی کیا تھا؟ ‘‘ (۸)
اس جگہ پر ان بچوں کے احساسات اور خیالات بڑے بڑے تجربہ کار لوگوں کی سوچ پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ یہ بات اس افسانے میں بڑے ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے اور اس عہد کی سیاست پر طنز کیا ہے جو صرف اپنے فائدے کے لیے لوگوں کی جان کی پرواہ کیے بغیر ان کا سودا کر دیتی ہیں۔ ان مسائل کو مشرف عالم ذوقی نے اپنے انوکھے انداز میں بیان کیا ہے۔
یہ افسانہ قاری پر دیر تک اپنا تاثر قائم رکھتا ہے کہ وہ لوگ جو اس کے ذمہ دار ہیں وہ کبھی تو ان مسائل کی جانب سوچنے پر مجبور ہوں گے؟ یہ افسانہ ادبی تاریخ پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ جاتا ہے جو قاری کے ذہن کو بے چین کر دیتا ہے۔
مت رو سالگ رام
مشرف عالم ذوقی کے اس افسانے کا عنوان ’’مت رو سالگ رام‘‘ ایک ایسے شخص کے نام پر رکھا ہے جو نہ صرف اپنے زندگی کے تمام نشیب و فراز سے مقابلہ کرتا ہے بلکہ قبیلے والوں کی حالات کو سدھارنے کی کوشش میں جرأت مندانہ اقدام بھی کرتا ہے۔
سالگ رام جو کہ اس کہانی کا ایک مرکزی کردار ہے اور اس کے اردگرد ہی کہانی گھومتی ہے۔
اس افسانے میں سالگ رام ایک ایسا کردار ہے جو نہ صرف اپنی زندگی میں انقلاب لانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ وہ دنیا میں پھیل رہی بے کاری اور ذات پات اور دنگے فساد اور سماج کی برائیوں کو اپنی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے زندگی کے سفر پر رواں دواں رہتا ہے۔ جب وہ چھوٹا تھا تو اس کے والد جو پنڈت تھے لیکن بدحالی کے شکار تھے اس لیے ہاتھ پھیلانے پر مجبور تھے۔ وہ رو کر صبح سویرے بھیک مانگنے کے لیے نکل جاتے۔ روز روز اس کو یہ سب کرتے ہوئے بڑا کرب محسوس ہوتا تھا۔ ایک دن اس کی ملاقات ایک لڑکے سے ہوتی ہے۔ وہ اس سے کہتا ہے کہ تمہارے سر پر پونچھ۔ اس کو یہ بات بہت بری لگتی ہے اور وہ اپنے آپ کو بدلنے کا فیصلہ کر لیتا ہے اور اپنے گھر سے بغاوت کرتا ہے اور اپنے بال بڑھاتا ہے۔ اپنے حلیے کو بدلتا ہے اور وہ پڑھائی کرتا ہے۔ گھر والوں کے خلاف جا کر وہ اپنی زندگی کو سدھارتا ہے۔ ایک چھوٹے سے انقلاب سے اس کی زندگی میں بڑی تبدیلی آ جاتی ہے اور وہ اب ہندو مسلمان کے مسائل پر ہو رہے دنگوں پر بڑی گہرائی سے سوچتا ہے اور کیا یہ صحیح ہو رہا ہے یا غلط۔
اسی موضوع کے تحت ان کا افسانہ ’’مت رو سالگ رام‘‘ بہت ہی انوکھے انداز میں لکھی گئی کہانی ہے۔ اس کہانی میں بیک وقت دو موضوعات کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک تو فرقہ وارانہ فسادات اور اس کی لعنتیں اور دوسرا سماج کا ایک انتہائی پسماندہ اور دبا کچلا معاشرہ اور اس معاشرے کے ایک بچے کے اندر نکلتی ہوئی انقلاب کی چنگاری جو نہ صرف اپنے خاندان اور معاشرے کی ابتری کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ وہ سماج میں پھیلی دیگر برائیوں کو بھی دانشورانہ انداز سے دیکھتا ہے اور انقلابی قدم اٹھاتا ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے سالگ رام کے کردار کو کہانی میں اس طرح متعارف کرایا ہے:
’’نام میں کیا رکھا ہے۔ یوں سالگ رام نے اس ماحول میں آنکھیں کھولیں جب گھر کی ایک ایک شئے میں دھرم سانپ کی طرح کنڈلی مارے بیٹھا تھا۔ بابو جی صبح ہی صبح بھیکچھا مانگنے نکل جاتے پھر دوپہر ڈھلے یا شام ڈھلے واپس آتے۔ جب سالگ رام تھوڑا بڑا ہوا تو وہ بھی شامل ہونے لگا۔
تلک پانڈے کے گھر سے چند فرلانگ کی دوری پر ایک مسلمان کا گھر ہے۔ وہاں سے گزرتے ہوئے ایک بار سالگ رام کو دیکھ کر اس کا ہم عمر ایک لڑکا زور سے ٹھہاکا مار کر ہنس دیا تھا… لڑکے نے سالگ رام کے ننگے سر اور پیچھے لٹکتی ہوئی چٹکی کو دیکھ کر کہا۔
’’تیرے سر پر پونچھ۔ ‘‘
سالگ رام غصّے میں بولا۔ ’’ملیچھ کہیں کا۔ ‘‘
لڑکے کی ہنسی اچانک غائب ہو گئی۔ اس نے سالگ رام کو بڑے غور سے دیکھا۔ غصّے میں بھرا ہوا سالگ رام دندناتا ہوا گھر پہنچ گیا۔ گھر پہنچ کر چھوٹے سے آئینے میں اس نے اپنی شکل دیکھی۔ اور اس کے سامنے اس کی عمر کے وہ سارے لڑکے گھوم گئے جو چہرے مہرے اور پہناوے سے کیسے سُندر دِکھتے تھے…..
…..اس رات کافی دیر تک اسے نیند نہیں آئی۔ صبح ہونے تک وہ اپنی سوچ پر ایک نئے فیصلے کی مہر لگا چکا تھا….. ‘‘ (۹)
یہ ایک طویل افسانہ ہے جس میں عوامی سطح پر مذہب کے تئیں اشتعال دکھایا گیا ہے اور یہ کہ ہندو مسلم کے نام پر کس طرح سماج میں زہر سرایت کر گیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس پہلو کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ خود کمیونسٹ پارٹی جو کسی مذہب کو نہیں مانتی اور اصولوں پر جان نچھاور کرنے کی بات کرتی ہے۔ اسی پارٹی کا ایک ورکر جو اپنی ساری زندگی اس کے لیے وقف کر دیتا ہے، نہ تو اس نے شادی کی اور نہ ہی نوکری۔ وہ پارٹی کی خدمت میں لگا رہا۔ مگر جب نور محمد نے دنگے کے بعد ایک مجبور لڑکی یکتا کو پارٹی کا سہارا دیا اور اسے کسی مذہب پر یقین نہ کرنے اور محض انسانیت کی بات پر یقین کرنے اور انسانیت کی فلاح کے لیے کام کرنے کی بات کہی تو خود پارٹی دفتر پر خطرات منڈلانے لگے چونکہ یکتا کو سہارا دینے والا مسلمان تھا اور یکتا کے چچا کبھی نہ چاہتے تھے کہ میری بیٹی کسی مسلمان کے سہارے رہے۔ اس لیے اس نے یکتا کو لے جانے کی بہت کوشش بھی کی مگر یکتا نے جب انکار کر دیا تو جاتے جاتے اس کے چچا نے پارٹی والوں کو دھمکی دی۔ دھمکی سے پارٹی دفتر کے لوگ گھبرا گئے اور اسی نور محمد کو جس نے پارٹی کے لیے سب کچھ کیا۔ یکتا کی وجہ سے دفتر چھوڑ کر جانے کو کہتے ہیں تو نور محمد پر کیا بیتتی ہے دیکھیں :
’’پارٹی دفتر میں اس دھمکی کا اثر پڑا تھا۔
اگر دفتر غصے میں آ کر جلاد یا گیا تو پارٹی کا بہت نقصان ہو جائے گا۔ قیمتی کاغذات تک برباد ہو جائیں گے۔
کسی نے سمجھایا۔ نور محمد تمہارا یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں۔ اگر بچی کو اپنے پاس رکھنے کی ضد ہے تو پھر یہ جگہ خالی کر دو۔
نور محمد اچانک چونک اٹھا۔ غور سے اس بوڑھے پارٹی ورکر کا چہرہ دیکھا۔ اتنے غور سے کہ بوڑھا کامریڈ ایک دم سے گھبرا گیا۔
نور محمد کے اندر جیسے کسی نے زبردست سناٹا بو دیا تھا۔ ‘‘
نور محمد نے یکتا کا ہاتھ تھام لیا۔ بوڑھے پارٹی ورکر نے چونک کر نور محمد کی طرف دیکھا۔
’’تم میری بات کا برا تو نہیں مان گئے کامریڈ۔ ‘‘
’’نہیں تو۔ ‘‘ نور محمد مسکرایا ’’بالکل نہیں۔ یوں بھی کرایہ لگا کر اس کمرے کے دو سو روپے آسانی سے مل سکتے ہیں۔ کیوں کامریڈ؟
پھر وہ رُکا نہیں۔ یکتا کا ہاتھ تھام کر تیزی سے باہر نکل گیا۔ ‘‘ (۱۰)
اور اس کا انجام یہ ہوا کہ اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ چونکہ وہ مسلمان تھا اور لڑکی ہندو۔ آخر دو مذہب کے لوگ آپس میں کیسے رہ سکتے ہیں۔ اس کی موت کے بعد سالگ رام نے اسے سہارا دیا۔
اس افسانے میں ایک طرف تو برہمن ذات کے مرتبے اور اطوار کی بات کی جاتی ہے مگر دوسری جانب خود اس گھرانے میں کیا ہوتا ہے، ملاحظہ کریں :
’’سالگ رام جس وقت باہر آیا، دل و دماغ میں تیز تیز آندھیاں اُٹھ رہی تھیں۔ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ سارے منظر صاف صاف تھے… ایک چھوٹا سا گھر، چارپائی بچھی ہے۔ کھاٹ پر ننگے بدن اس کا باپ بیٹھا ہے۔ سر منڈا ہوا ہے۔ پیچھے بالوں کی ایک چھوٹی سی چٹکی لٹک رہی ہے۔
سالگ رام— برف جیسے سرد الفاظ اس کے کانوں میں اُترے… اشنان کر لیا سالگ رام…مندر ہو آئے… پھر شلوکوں کا جاپ شروع ہوتا۔ بیچ بیچ میں رسوئی میں کھانا پکاتی امّاں کو گالیوں کا تھال پروسا جاتا۔ کیوں رے… ابھی تک کھانا نہیں بنا… کبھی کبھی شک لگتا ہے کہ تیری برہمن کی جات بھی ہے کہ نہیں۔
اندر ہی اندر سُلگ اٹھتا سالگ رام… کچّی مٹّی کی دھُلائی سے زمین کی سوندھی سوندھی خوشبو اُٹھ رہی ہوتی۔ اُٹھ کر وہ اماں کے پاس رسوئی میں جاتا۔ امّاں کی روتی آنکھوں کو دیکھ کر سوچتا۔ بھگوان کی پوجا ارچنا تو سب بیکار ہے، جب من ہی صاف نہ ہو۔ ‘‘ (۱۱)
اس طرح سے یہ کہانی موضوع اور طرز بیان دونوں اعتبار سے کافی اہم ہے۔ جو جدید افسانے کے تحت لکھے گئے چند اہم کہانیوں میں سے ایک ہے۔
مہاندی
اس کہانی کا عنوان علامتی ہے۔ مہاندی جو کئی ندیوں کا سنگم ہے۔ اسی طرح اس افسانے کا کردار سردارے تہذیبوں کا امین ہے، اس کردار کو ذوقی نے انقلابی کردار کی طرح پیش کیا ہے۔ وہ ہر دم فساد اور دنگوں سے لڑتا رہتا ہے اور اپنے گھر اپنے وطن سے بہت پیار کرتا ہے۔ اس کو ہجرت بالکل پسند نہیں۔ وہ اپنی دھرتی سے جڑا رہنا چاہتا ہے اس لیے نہ وہ خود ہجرت کرنا چاہتا ہے، اور نہ وہ چاہتا ہے کہ کوئی ہجرت کرے۔
وہ بہار کے ایک چھوٹے سے شہر میں رہ رہا ہے۔ وہ جس عہد میں ہے اس کا معاشرہ فرقہ وارانہ فسادات سے جوجھ رہا ہے۔ ہر جگہ ہندو مسلمان اور سکھ فرقوں کے درمیان لڑائی چل رہی ہے۔ ہر جگہ انتشار، بدامنی اور خون خرابہ ہے۔ ایسے میں سردارے اپنی بساط پر اسے روکنے کی کوشش کرتا ہے اور حتی الوسع بلا امتیاز مذہب و ملت لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اس کی ایک شناخت بن چکی تھی۔ لوگ سردارے کی مثالیں دیا کرتے تھے اگر کسی کو کوئی پریشانی ہے تو وہ سردارے کے گھر پر چلا جائے۔ اس کو اس وقت کا حاتم طائی کہا جاتا تھا مگر وقت نے کچھ ایسا موڑ لیا کہ اس کی ساری محنت پر پانی پھر گیا اور اس کو خود ہی ہجرت کرنا پڑا اور اس کے گھر میں آگ بھی لگا دی گئی حالانکہ وہ فسادات کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ اس کے محلے میں تین گھر مسلمانوں کا تھا، وہ لوگ سردارے کے گھر پر آ کر اس کو فسادات اور قتل کے بارے میں ڈر ڈر کر بتایا کرتے تھے۔ تو وہ کہتا کہ آپ لوگ فکر نہ کریں جب تک میں ہوں آپ لوگ یہاں پر محفوظ ہیں اور آپ لوگوں کا کوئی ایک بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ یہاں تک کہ سردارے کے کھیت میں وہ لوگ اناج اگایا کرتے تھے اور اپنا کام چلایا کرتے تھے مگر جب فسادات اور تقسیم وطن کی آگ اتنی بڑھ گئی کہ اس کو اب روک پانا ایسے ہزاروں سردارے کے بس میں نہ رہا اور ہر روز قتل عام ہونے لگا۔ لوٹ مار اور بھائی بھائی کے دلوں میں انتقام اور صرف خون کی ہولی کھیلنا ہی رہ گیا۔ آنکھوں میں ایک عجیب سی سفیدی آ گئی تھی جو کچھ بھی نہ دیکھ پانے اور انسانیت کا جذبہ اور اس کے احساسات کو نہ سمجھنے کی شہادت دے رہی تھیں :
’’یہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب غلامی کی بیڑیاں تنگ ہو گئی تھیں تو جیالوں نے سر سے کفن باندھ لیا تھا۔ وہ موت مٹھیوں میں لے کر گھر سے نکلے تھے۔ سب کے ہونٹوں پر صرف آزادی کی پکار تھی۔ سڑکوں پر بے رحمی سے معصوم ہندوستانیوں کا لہو بہہ رہا تھا۔ پورے بھارت میں آگ لگی تھی۔ ’’انگریزو بھارت چھوڑو!‘‘ کے نعرے بچے بچے کی زبان پر تھے۔ بغاوت کی صدا جو تیز ہوئی تو انگریزوں نے جلے پر تیل چھڑکا۔ ’’پھوٹ ڈالو اور راج کرو۔ ‘‘ آزادی کا تحفہ ہاتھوں میں دیتے دیتے وہ ہر چہرے پر مذہب کی بھاشا لکھتے گئے۔ اِدھر آزادی ملی اور اُدھر ملک کے مختلف علاقوں سے دنگوں کی خبریں آنے لگیں۔ ہندو مسلم فساد۔ بٹوارے کی آگ اپنا کام کر گئی تھی۔ پورا برِّصغیر تباہی کی بھٹّی میں سلگ رہا تھا اور دھیرے دھیرے آگ کی یہ لپٹ چونڑا بستی میں بھی آ پہنچی تھی۔ ‘‘ (۱۲)
مشرف عالم ذوقی افسانے کی ابتدا بڑی سادگی اور خوبصورتی سے کرتے ہوئے افسانے کا رخ ۱۹۴۷ء کے آزادی کے بعد اور تقسیم وطن پر لوگوں کے اثرات اور اس سے پھیلے ہوئے فسادات کی تباہی اور خون خرابے کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ افسانے میں جذبات نگاری کی اثر انگیزی قابل دید ہے۔ انہوں نے اس افسانے میں فلیش بیک سے ہجرت اور دنگوں کی تصویر کشی کی ہے اور ایک عام انسان کے اس پر اثرات بیان کیے ہیں جو نہ تو تب خوش تھا جب آزادی کی لڑائی میں خون خرابہ ہو رہا تھا اور نہ تب خوش ہوا جب اس کو آزادی مل گئی اور آزادی کے بعد جب اس کے اپنے ہی گھر کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا اور ایک دوسرے سے الگ کر دیا گیا جو نہ صرف مذہب اور ملک کی بات تھی، بات تھی تقسیم کی اور یہ غیر فطری تقسیم کسی بھی انسان کو پسند نہیں آیا۔ وہ چاہے گھر ہو انسان ہو یا کوئی چیز، چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی، یہاں تو ملک کے بٹوارے کی بات تھی جو کیسے پسند آتی لیکن یہ بٹوارہ ہوا اور ہر طرف ملک میں آگ لگ گئی، لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے، لوگوں نے معصوم بچوں کا خون بہایا، عورتوں کو مارا، سب گھر برباد ہو گئے، صدیوں کی میراث ختم ہو گئی۔ ان تمام درد ناکیوں کی داستان کو مشرف عالم ذوقی نے افسانے کے کینوس پر اتارا ہے:
’’سردارے! تم میری کہانیوں میں کیوں نہیں اترتے؟‘‘
’’اس لئے کہ تم اتارنا نہیں چاہتے!‘‘
’’سردارے، تمہیں اتاروں بھی تو کیسے اتاروں ؟ تم تو مہاندی ہو— ہاں، مہاندی، جہاں دنیا کی ساری ندیوں کا سنگم ہوتا ہے۔ کتنی نسلیں ایک ساتھ بستی ہیں تمہارے اندر! کتنے رنگوں، ذاتوں، مذہبوں، زبانوں کے لوگ پلتے ہیں تمہارے اندر! تم تو جیسے سب کی بھاشائیں جانتے ہو۔ اسی لیے تم سب کو سموکر مہاندی بن گئے ہو تم! ہاں سردارے تم کبھی نہیں مرو گے۔ مہاندی بھی مرتی ہے کیا؟ ساگر کبھی خاموش ہوا ہے کیا؟‘‘ (۱۳)
ایک انسان جو سب کے لیے سوچتا ہے اور سب کے لیے اپنے آپ پر کوئی مصیبت آ جائے مگر وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو اپنے جیتے جی پریشانی میں نہیں دیکھ سکتا۔ اس لیے اس کردار کا نام مہاندی سے جوڑ کر اس کی ذات کے اندرونی صفات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
آزادی کی لڑائی لڑی۔ اس میں وطن پرستی اور ملک کے لیے خون بہایا گیا۔ آزادی کے بعد آپس میں ملک کے بٹوارے کر لیے۔ مذہب کا نام استعمال کر کے خون کی ندیاں بہائی گئیں اور اس طرح ایک ہنستا کھیلتا ملک تباہ ہو گیا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ملک میں بٹوارہ ہو گیا۔ ایک دوسرے کے دلوں میں نفرت پھیل گئی۔ جو آج بھی کہیں نہ کہیں ہر انسان کے دل کے کونے میں اپنی جگہ بنائے ہوئے ہے اور سرحد کی دیواروں نے دلوں کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ جس کو تاریخ کے پنّے بھی فراموش نہیں کر پائیں گے؟ ایک جگہ کہتے ہیں :
’’نومبر کے اس خونی رقص کو بھی اب چار سال گزر گئے ہیں۔ دل کے کسی گوشے میں اب بھی وہی آواز گونجتی رہی: ’’ہم کو ہجرت نہیں کرنی۔ یہ تو ٹھان لی ہے۔ مہاجر ہونے کا زخم نہیں کھانا۔ کل تک جو اپنے بھائیوں کو ہجرت کرنے سے روکتا رہا تھا، آج خود ہی ہجرت کا بار اٹھائے گا۔ یہ سب آزادی کی سوغاتیں ہیں پتر۔ ‘‘ آزادی کو پورے اکتالیس سال گزر گئے ہیں۔ اتنے برسوں بعد تاریخ کے اس بھیانک زخم کو یاد کرتے ہو کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ لیکن سردارے کی ارتھی کو کندھا دے کر لوٹتے ہوئے اس کے سونے دروازے کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک برقی جھٹکا سا لگا تھا۔ بار بار اس سونے دروازے تک جا کر نگاہیں ٹھہر جاتی ہیں۔ برف کی طرح سرد آواز میرے راستے میں بچھ جاتی ہے۔ ’’ہم نے ٹھان لی ہے، ہم کو ہجرت نہیں کرنی۔ سارے دروازے کھول دو پتّر—‘‘
سردارے نہیں رہے۔ آزادی کی دی ہوئی سوغاتیں اتنی وزنی ہو گئیں کہ ان کا بار نہیں اٹھا سکے سردارے۔ سوگئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ ‘‘ (۱۴)
اس طرح تقسیم نے جو لعنتیں بخشی ہیں وہ آج بھی کہیں نہ کہیں کسی صورت میں دیکھنے کو مل جاتی ہے۔
تحفظ
’’ہوش میں آنے پر دونوں نے ایک دوسرے کو بغور دیکھا پھر آنکھوں آنکھوں میں کچھ سوالات ہوئے۔ نظر اُٹھا کے آس پاس کا جائزہ لیا گیا۔
ذرا ٹھہر کر بولا ’’کچھ بھی سلامت نہیں ہے یار۔ سب برباد ہو گیا۔ ‘‘ (۱۵)
یہ کہانی مشرف عالم ذوقی نے اس عہد پر لکھی ہے کہ جب ہندو مسلم آپس میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے اور دونوں ایک دوسرے کی جان اور مال کو ختم کر دینا چاہتے تھے۔ اس فرقہ وارانہ فساد کی ذہنیت پر مشرف عالم ذوقی نے اپنے احساسات کو سماج کے تناظر میں بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
فرقہ وارانہ فسادات ہمارے ملک کی ایسی لعنت ہے کہ صدیوں کی بنی بنائی بھائی چارگی، اقدار و روایات سب کے سب آناً فاناً میں ختم ہو جاتے ہیں۔ فساد شروع کرانے میں چند لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن اس سے برباد ہونے والوں میں پوری عوام ہوتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس آگ میں گھر کا گھر تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ وہ گھر جس کو لوگوں نے اپنی محنت اور زندگی بھر کی کمائی سے بنایا تھا وہ لمحوں میں خاکستر ہو جاتا ہے، وہ پڑوسی جو ہمسائیگی کا حق ادا کرتے تھے وہ بس اس زہریلی ہوا کے شکار ہو جاتے ہیں اور صرف ان کے سامنے مذہب کا نام رہتا ہے کہ ہندو کون ہے اور مسلمان کون ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے اس ذہنیت سے ہونے والی تباہی کو دو کرداروں کے ذریعے پیش کیا ہے۔ فساد کے بعد کا یہ منظر:
’’شی… آواز نہیں ہو۔ ‘‘
پہلے نے بھی منہ پر انگلی رکھی۔
’’آواز نہیں ہو گی۔ ‘‘
دونوں چپ چاپ بغیر آواز نکالے دبے دبا سرکتے رہے۔
’’ڈر لگ رہا ہے نا…؟‘‘
’’ہاں !‘‘ پہلے نے خوف ظاہر کیا۔ ’’سب مارے گئے۔ ‘‘
’’اپنے بچنے کی خوشی نہیں ہے۔ ‘‘
’’ہے تو۔ زندگی ایک قیمتی شئے ہے۔ سب سے قیمتی شئے ہے۔ ‘‘
پہلا بڑبڑایا۔ ’’مگر دور پر زندگی چھیننے والے بھی ہیں۔ اب سوال ہے زندگی بچائی جائے تو کیسے؟‘‘
’’جیسے ہم تحفظ کے لیے جگہ کھوج رہے ہیں۔ ‘‘ اس نے پھر ہونٹوں پر انگلی رکھی۔ ’’شی… آہستہ آہستہ… پتہ بھی نہیں کھڑکے۔ کچھ معلوم نہیں ہو…‘‘
سرکتے ہوئے دونوں ملبے نما مکان میں داخل ہو چکے تھے۔ ’’اب اطمینان ہے۔ ‘‘ پہلا اینٹوں کی آڑ لے کر بولا۔
’’نہیں۔ اب بھی نہیں۔ اب بھی ہم محفوظ نہیں ہیں۔ مگر زندگی سب سے قیمتی شئے ہے۔ ‘‘
’’لگتا ہے یہاں کا بھی سب کچھ لٹ گیا۔ ایک ایک سامان۔ کچھ بھی نہیں چھوڑا کمبختوں نے۔ ‘‘
’’اینٹے، پتھر… یہ سب تو باقی ہیں۔ ‘‘ دوسرے نے طنز کیا مگر اچانک اسے کچھ یاد آ گیا۔ ’’مگر… یہاں ہم محفوظ نہیں۔ ہمیں بات چیت سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ‘‘
’’سوال ہے، ہم یہاں حفاظت سے ہیں یا نہیں۔ ‘‘
’’شاید نہیں۔ ‘‘ دوسرے نے تشویش ظاہر کی۔ وہ لوگ زیادہ دور نہیں۔ ہم کبھی بھی انہیں نظر نہیں آسکتے۔ ‘‘ (۱۶)
عوام خواہ کسی بھی مذہب کے ہوں وہ کبھی بھی بربادی اور تباہی نہیں چاہتے۔ مگر مفاد اور شرپرست لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو صرف اور صرف آپس میں پھوٹ ڈالنا چاہتے ہیں اور ملک میں بربادی ہی ان کا کھیل بن کر رہ جاتا ہے۔ جو عام انسان کو اب کہیں بھی چین سے جینے نہیں دیتا اور کوئی بھی اپنے آپ کو اب محفوظ نہیں سمجھتا۔ اپنے گھر کی چہار دیواری میں بھی وہ چین سے نہیں سوتا۔ کیونکہ یہ ملک اب صرف اور صرف ایک شطرنج کی بساط بن کر رہ گیا ہے جس میں عام آدمی کو اس کا مہرہ بننا پڑتا ہے اور مرنے مارنے کے لیے اس کو ہی سامنے آنا پڑتا ہے۔
اس کہانی میں ایک جگہ مشرف عالم ذوقی نے اس احساس کو بھی بڑی خوبی سے اپنے کردار کی زبانی پیش کیا ہے۔ تمام جگہ تباہی اور بربادی پھیلی ہوئی ہے اور لوگ ایک دوسرے سے اپنی جان بچانے کی کوشش میں اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہیں۔ صرف مذہب کے نام پر ان کو مارا جا رہا ہے، ان کی آپسی کوئی بھی رنجش نہیں ہے۔ اس میں دو آدمی ایک جگہ ملتے ہیں اور وہ دونوں بنا کچھ جانے ایک دوسرے کے ساتھ ہو لیتے ہیں اور اپنی اپنی جان بچاتے ہیں۔ پھر ایک دوسرے سے جب بات چیت ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ جن سے ہم بھاگ رہے ہیں مذہب کے نام پر ہم بھی دونوں وہی ہیں ….. ایک ہندو اور ایک مسلمان دونوں کو بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ہی ڈر کر چھپتے چھپتے ایک دوسرے کے ساتھ ہولیے اور ان کو ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ پہلے وہ صرف ایک انسان ہیں۔ بعد میں کوئی مذہب اور سیاست آتی ہے۔ یہ سیاست داں اپنا اُلو سیدھا کرنے کے لیے عام انسان کو کس طرح بہکاتے ہیں اور بیٹھ کر ان کا تماشہ دیکھتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس اقتباس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:
’’تیسری اور چوتھی آواز بھی کانپتی ہوئی اُبھری— ’’تمہاری طرح ہی تحفظ کے مارے…‘‘ ’’نام؟‘‘ ایک ساتھ دونوں نے پوچھا۔
اور نام سن کر دونوں چونک گئے۔
’’تم تو… ہاں تم تو… وہ نہیں ہو… مگر دوسرے نے پھر لمبی سانس کھینچی۔ ’’خیر کوئی بات نہیں۔ مگر ہے نا عجیب بات… کہ ہم تمہارے ڈر سے اور تم ہمارے ڈر سے…‘‘ مگر یہاں سب کے لیے تحفظ ہے۔ ‘‘ (۱۷)
مشرف عالم ذوقی کے افسانے کی تکنیک یہ ہے کہ انہوں نے تضاد کے ذریعے جو Message دیا ہے وہ اپنے آپ میں بے مثل ہے۔ انہوں نے اس افسانے میں کرداروں کے نام تو نہیں رکھے لیکن اس تکنیک سے افسانے میں اثر پیدا کیا ہے اور یہی کسی بھی افسانے کی کامیابی کی دلیل ہے۔
دہشت کیوں ہے؟
افسانے کو عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں قصے کہانی کے پس منظر میں زندگی کی سچائیوں کی جھلکیاں دکھائی جاتی ہیں مگر اب مشرف عالم ذوقی جیسے افسانہ نگاروں نے حقیقت کے پردے پر حقیقی کہانی کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اس عہد میں پیشکش کے اعتبار سے کئی تجربے کیے جا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ بات یہ ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس معاشرے کو ترقی یافتہ معاشرہ کہا جاتا ہے اور تمام باتیں سائنس کے اصولوں پر پرکھی جاتی ہیں۔ چاند سورج کی تسخیر کرنے کی بات کرنے والے معاشرے کا ایک چہرہ یہ بھی ہے کہ ہر معاملے میں منطقی نتائج کی بات کریں گے مگر مذہب کے نام پر آ کر کوئی افواہ پھیلا دی جائے تو پھر تمام سائنس پھر سے خلا میں چلی جاتی ہیں اور لوگ افواہوں کی بنیاد پر اپنے طور طریقے بدلنے لگتے ہیں۔ اس افسانے میں بھی یہی بات کہی گئی ہے کہ ہندو مسلم دو خاندان جو برسوں سے دانت کاٹتی روٹیاں کھاتے تھے اب افواہوں کے سبب حال یہ ہے:
’’چاروں جانب پھیلی ہوئی دہشت، بے اطمینانی اور ہر پل ڈستا ہوا انجانا سا خوف— جانے کب سے ہاتھوں میں اخبار لئے یہی کچھ سوچ رہا ہوں۔ جینؔ تین چار بار مجھے دیکھ چکی ہے اور ہر بار اس نے مجھے اس بات کا احساس دلایا ہے… پاپا، کیا سوچ رہے ہو تم؟ آج رات ٹی۔ وی پر کون کون سے اچھے پروگرام ہیں ؟ اور دنوں کی طرح جین سے ٹی۔ وی پر پروگراموں پر بحث نہیں ہوئی اس بار۔ کچھ بولنے کی خواہش نہیں ہوئی۔ کچھ دیر پہلے ارمیلا کی سنائی گئی خبر مجھے الجھن میں ڈال گئی ہے۔ کبھی سوچتا ہوں، نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔ پھر سوچتا ہوں، مگر ایسا ہو بھی تو سکتا ہے۔ آج کے دور میں کس پر بھروسہ کیا جائے۔ مگر افتخار صاحب کے بارے میں سوچتے ہوئے ایکدم سے کسی خاص نتیجے پر پہنچ پا رہا تھا۔ ‘‘ (۱۸)
سوال یہ ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس معاشرے کا حال یہ ہے کہ ہم سچ جاننے کی ہمت بھی جٹا نہیں سکتے اور خود بھی کہانیاں گڑھنے لگتے ہیں :
’’ہاں میں بھی یہی سوچتا ہوں۔ کل ہی تو ان کی لڑکی نادرہ آئی تھی ملنے کے لئے۔ جین کی دوست بھی ہے…‘‘
میری بات کاٹتے ہوئے اُرمیلا بولی ’’اور خود افتخار صاحب بھی تو برسوں سے ایک بھائی کی طرح اس گھر سے جڑے رہے ہیں۔ ‘‘
میں نے پھر شک ظاہر کیا۔ ’’مگر تم اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتی ہو کہ وہ کارتوس ہی…‘‘
’’میں خطرہ بھانپ رہی ہوں۔ ‘‘ اُرمیلا نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا ’’یہ مسلمان لوگ ایک دوسرے سے کائیاں ہوتے ہیں۔ تمہیں پہچان ہو یا نہ ہو لیکن میں پہچان گئی ہوں۔ جمشید پور میں میری بہن کے سسرال کے کافی لوگ مارے گئے تھے اور کن لوگوں نے مارا تھا… میں تو سب کچھ اوپری دکھاوا سمجھتی ہوں نہیں تو افتخار صاحب یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ‘‘
’’تم ہوش میں نہیں ہو…‘‘ اُرمیلا بگڑ کر بولی ’’یہ تمہاری دوستی بول رہی ہے۔ شہر کی فضا خراب ہے اور افتخار صاحب نے اپنی حفاظت کے لئے اور… تمام انتظامات کر لئے ہیں۔ ‘‘ (۱۹)
میڈیا کی افواہ اور غلط خبروں سے جہاں لوگ ایک دوسرے پر جان دینے پر تیار رہتے ہیں۔ اب وہیں ان کے دل میں اس طرح سے نااتفاقی ہو گئی ہے کہ اب وہ ایک دوسرے سے تمام رشتے توڑ لینا چاہتے ہیں۔ ایک گھر ہندو کا ہے تو دوسرا گھر مسلمان کا ہے جن کا نام افتخار ہے۔ لوگ ان کی دوستی اور میل جول کی مثالیں دیا کرتے تھے مگر اب جین کی ماں جو افتخار کو بھائی صاحب کہہ کر مخاطب کرتی تھی۔ آج ان کو گھر میں گھسنے سے بھی نفرت ہو گئی ہے۔ ایک اقتباس اس طرح سے ہے:
’’سلوپوائزن؟‘‘ میں نے جین کی طرف دیکھا۔
’’ہاں پاپا۔ ’’سلو پوائزن۔ ‘‘ یہ سائیکلوجیکل ایفکٹ ڈالنے کا کامیاب تجربہ ہے۔ پوری آبادی کو بھڑکا دو۔ ہر طرف ڈر اور خوف کا جال بن دو۔ خطرے کا احساس دلاتے ہوئے اسے اندر سے توڑ دو۔ عام آدمی اس طرح کے ماحول میں زیادہ اڑنے کی کوشش نہیں کرسکتا۔ ٹی۔ وی، ریڈیو پیپرس عام آدمیوں کے دماغ خراب کرنے کے لیے کافی ہیں کسی دن کا بھی پیپر اٹھا لیجئے کوئی بھی خبر ان دہشت بھری خبروں سے الگ نہیں ہے۔ میں نہیں سمجھ سکی پاپا، آخر ایسا کیوں ہے؟ گورنمنٹ چاہتی کیا ہے۔ ہے نا کڑوی بات پاپا… مگر یہ سچ ہے..‘‘ جین ذرا ٹھہر کے بولی ’’کل اسی لیے نادرہ سے میری تھوڑی سی لڑائی بھی ہو گئی۔ بعد میں خیال آیا۔ میں بھی کتنی کنزرویٹیو ہو گئی تھی۔ ‘‘
’’نادرہ سے تمہاری لڑائی ہو گئی؟‘‘ (۲۰)
اس افسانے میں مشرف عالم ذوقی نے پورے معاشرے، عام زندگی اور ان کے جذبات کو ابھارنے کی کوشش کی ہے اور ہر جگہ پھیل رہے فسادات کو لوگوں کے دلوں میں صرف دہشت پھیلا کران پر راج کرنے کا کام بتایا ہے جو عام انسان کے ذہن کو اور دل کو متاثر کرتا ہے۔ جھوٹی خبریں اور افواہیں صرف لوگوں کے خلاف بھڑکانا میڈیا کا کام بن گیا ہے۔ اس کہانی میں مشرف عالم ذوقی نے اس بات کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب بھی ہند و پاک کے مابین کرکٹ میچ ہوتا ہے تو چاروں طرف ہولناک ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ ایک طرف تشہیر کی جاتی ہے تاکہ سرمایہ داروں کو منافع ہوسکے۔ دوسری طرف عوامی جذبات کو دہرے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے یہ کھیل رزم کا میدان بن جاتا ہے۔ ان سب کی ذمہ دار صرف میڈیا ہے۔ ایک اقتباس اس طرح سے ہے:
’’رام پکار زمین پر بیٹھے ہوئے بولا ’’اور کیا رکھا ہے صاحب دنیا میں۔ ہمارے وقت میں تو ایسا کچھ بھی نہ تھا۔ ٹھاٹھ سے کھاتے تھے اور عیش کرتے تھے۔ مگر اب تو سب کچھ بدل گیا صاحب۔ اب یہی تو گھر گھر ٹی۔ وی آ گئی ہے۔ پہلے بھونپو کو بولتے ہوئے دیکھ کر حیرت ہوتی تھی مگر سچ پوچھو تو صاحب اس طرح کی ترقی سے خوشی نہیں ہوئی۔ جین بیٹا جو خبریں سناتی ہیں اور ٹی۔ وی پر جو کچھ دیکھتا ہوں اس سے جینے کی آگے خواہش نہیں ہوتی۔ صرف دھماکوں کی بات۔ بم کی بات۔ یہ ملک بم بنا رہا ہے۔ وہ ملک بم بنا رہا ہے۔ اپنے ملک کا ایک ٹکرا چھین کر مسلمانوں نے اپنا الگ ملک تو بنا لیا پھر بھی چین نہیں پڑا۔ جائیداد سے حصہ بٹایا سو الگ۔ اب گھر توڑ رہے ہیں۔ اچھی سمجھداری ہے ان کی بھی صاحب…‘‘
اس کہانی میں مشرف عالم ذوقی نے سماج میں پھیل رہی ایک بڑی بیماری کی تشخیص کی ہے۔ انہوں نے اس موضوع کے تحت تقسیم وطن سے ہی لوگوں میں جو دہشت اور ڈر بنا ہوا ہے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لوگ کسی بھی دھماکے کو سن کر اس طرح ڈر جاتے ہیں کہ جیسے اب سب ختم ہو گیا۔ اس کے بعد اب کوئی ان کو نہیں بچا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب افتخار کے بیگ میں صرف ایک خالی بندوق کو دیکھ کر ارملا ان کو آتنک وادی ثابت کر دیتی ہے اور اپنے بچوں کو ان کے گھر میں جانے اور ان سے بات کرنے کو منع کر دیتی ہے اس پر انہوں نے بڑی حقارت کے انداز سے لوگوں کو طنز کا نشانہ بنایا ہے اور اس درد کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ قاری کے دل و دماغ پر دیر تک اثر قائم رہتا ہے۔
سماج اور سیاست
میں ہارا نہیں ہوں کامرڈ
اس افسانے کی ابتدا بڑے ہی دلچسپ انداز میں ہوتی ہے۔ اس افسانے میں انسانی زندگی کی حقیقت کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جب وہ اپنے ابتدائی دور میں اپنا پہلا قدم رکھتا ہے اور اس وقت عمر کی کچی سمجھ اور نا تجربہ کاری سے انسان کسی طرح زندگی کے لمحوں کو جیتا ہوا اس کو سمجھتا ہوا ایک ایسے مرحلے پر جا پہنچتا ہے جہاں سے اس کو سب راستے بند نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی تمام کوششوں کے باوجود زندگی کا خاتمہ اسی جگہ جا کر کرتا ہے جہاں سے زندگی شروع کی تھی۔
اس کہانی میں مشرف عالم ذوقی نے اپنے کردار کے ذریعے سماج کی حقیقت کو بیان کیا ہے اور انسان جو سیاست داں اور مفادپرست لوگوں کے ہاتھوں صرف ایک اشارے پر ناچنے والی کٹھ پتلی بن کر رہ جاتا ہے۔ کئی گھناؤنے کام انجام دیتا ہے حالانکہ اس کے اندر بھی جذبات اور احساسات ہوتے ہیں جو اس کو یہ سب کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ مگر پھر بھی انسان وہ سب کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو وہ نہیں چاہتا۔ یہ کہانی ایک گاؤں میں رہنے والے ایسے انسان کی ہے جو چھوٹی سی عمر میں بڑے بڑے خواب بنتا ہے اور اپنے ماں باپ اور بھائی بہن گھر سب کو ان خوابوں کو پورا کرنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے جو شاید اس عمر میں ممکن نہ تھا۔ باہر جاتا ہے پڑھائی کرنے کے لیے اور پھر بڑے شہروں میں جا کر اس کو احساس ہوتا ہے کہ یہاں پر انسان صرف ایک مشین ہے اور کچھ نہیں اس کو صرف کام کرنے والی مشین ہی سمجھا جاتا ہے اور کسی طرح کام لیا جاتا ہے۔
’’میں اتنا ہی کہہ سکا ’’زیادہ خواب مت پالو۔ نہیں جانتے ’پاش‘ نے کیا کہا تھا….. سب سے خطرناک ہوتا ہے ہمارے سپنوں کا مر جانا۔ ‘‘ (۲۲)
انسان جب اپنے جذبات اور اپنے خوابوں کا خون کرنے لگتا ہے تو وہ بوکھلا جاتا ہے۔ اس کو اپنے وجود پر ہی شک ہونے لگتا ہے اور وہ دنیا کے ہر اس انسان سے نفرت کرنے لگتا ہے جو انسانی جذبات کو صرف مشین کی طرح استعمال کرنے کی چیز سمجھا جاتا ہے۔
پوری کہانی ایک ہی کمرے میں دو لوگوں کے بیچ چلتی ہے جن میں ایک گاؤں سے آیا ہوا ونئے ہے اور دوسرا وہی جو پہلے سے رہ رہا جس کو ونئے پیار سے ساتھی کہتا ہے۔
دونوں اپنے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے اپنے سطح پر سماج میں پھیلی برائیوں پر الگ الگ خیالات رکھتے ہیں۔ ونئے کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو جاتا ہے اور اس نے یہاں آ کر اپنے دل میں اس گندی Politic کو منہ توڑ جواب دینے کا فیصلہ کر لیتا ہے اور پڑھائی کرتے کرتے اس کو تمام باتیں اب پتہ چل چکی ہیں کہ انسان کو کس طرح یہ بڑے لوگ استعمال کرتے ہیں۔
ونئے ایک نیوز پیر(News Paper) میں اب Editing کرتا ہے اور اس میں خبر بھی لکھتا ہے۔ جب وہ خبر لکھتا ہے تو اس کے جذبات قابو میں نہیں رہ پاتے اور وہ وقت کی نزاکت کو بھول جاتا ہے کہ وہ صرف لوگوں کو خوش کرنے کے لیے لکھ رہا ہے۔ بھول جاتا ہے کہ وہ ایک کام کرنے والی مشین ہے۔ اس کے نہ چاہتے ہوئے بھی ان تمام لوگوں کی تعریف کرنی ہوتی ہے۔ لوگوں سے جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ یہی بات اس کو اندر ہی اندر کچھ کرنے اور سماج کو ان کی حقیقت کی تصویر دکھانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو نوکری سے نکال دیا جاتا ہے:
’’آہ‘‘ سن کر آج بھی جگا ہے اور کل بھی جگے گا۔ برابری کتابوں میں بھلے نہ اُگتی ہو، نہ پڑھی ہو پر بغیر کتاب پڑھے بھی آگ میں جھلس رہے شخص کو بچانے کی کارروائی ہوسکتی ہے۔ اسے بچانے کے لئے کتاب میں لکھے ہوئے ہمدردی شبد کو پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ‘‘
لیکن پھر بھی وہ ہمت نہیں ہارتا۔ اب وہ ایک ایکتا ناٹک میں کام کرتا ہے اور اس کو یہ پلیٹ فارم اس لیے اچھا لگتا ہے کہ اس منچ سے وہ تمام لوگوں تک اپنی بات آسانی سے پہنچا سکتا ہے۔ مگر ان بڑے لوگوں کو اس پر بھی اعتراض ہے اور وہ بولتے ہیں کہ جا کر کچھ اچھا کام کروں ورنہ ایک دن تمہاری زندگی ہی ایک ناٹک بن جائے گی مگر ونئے کا کہنا تھا کہ ناٹک نہیں ہے میرے ساتھی۔ یہ ناٹک نہیں ہے۔ یہ زندگی کا سماج کا کڑوا سچ ہے:
’’پہلی بار دیکھا تھا جذبات کی رَو میں ونئے کو چیختے ہوئے۔ ’’یہ ناٹک نہیں ہے ساتھی۔ یہ تو سڑے گلے رینگتے کیڑوں تک کو دکھانے کی کارروائی ہے، جسے وہ جیون کہتے ہیں۔ سچ کہنا ساتھی۔ اپنی بیوی بچوں کی چنتا کیا۔ ہمیں دوسروں کے دُکھ سکھ کے احساس سے کاٹ نہیں ڈالتی؟ تو پھر اپنی بیوی بچوں کی تلاش سے دوسرے گھروں میں اُسی سُکھد آنند کا احساس نہ ڈھونڈ پانے کی غلطی کیا ایک غیر مہذب جنگلی پن نہیں ہے؟‘‘
یہ ان فرقہ وارانہ دہشت گردی کو پھیلانے والے لوگوں کے خلاف جنگ ہے۔ انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے لوگوں کے خلاف جنگ ہے جو انسان کو حیوان بنا دیتے ہیں۔ اور سماج کو سدھارنے کا یہی عزم کہانی کا سب سے اہم پہلو ہے۔
خیمے
خیمے جیسا کہ نام سے ہی اس افسانے کا موضوع پتہ چل رہا ہے اس افسانے میں مشرف عالم ذوقی نے خیمے سے مراد وہ سوسائٹی لی ہے جو انسان کی طرح تو دکھتے ہیں مگر ان کو انسانی جذبات کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ انہوں نے سماج میں ہو رہے فرقہ وارانہ فسادات کو اپنے افسانے میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ ہمارے سماج میں جس طرح ہندو مسلمان، سکھ، عیسائی، تمام مذہبوں کو مختلف ٹکڑوں اور فرقوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ خیمے بنا کر انسان کو جذباتی ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا ہے:
’’تم کشتی پیچھے نہیں کرسکتے؟‘‘
’’افسوس میں نہیں کرسکتا!‘‘ نوجوان نے بہت تھوڑے لفظوں کا سہارا لیا— ’’اور ماں تم چاہتی ہو ہم پھر وہیں جائیں جہاں خیموں میں بٹے لوگ اسلحوں سے لیس ہمارے انتظار میں ہوں کہ ہم آئیں تو ہماری بوٹی بوٹی کر کے چیل کوؤں کو کھِلا دیں۔ ‘‘
’’افسوس! دُنیا پر بُرا وقت آیا ہے۔ ہمارے زمانے میں ایسا نہیں تھا۔ ‘‘
’’تم نے غلط سمجھا ماں۔ ایسا ہر زمانے میں تھا۔ ‘‘ ذرا ٹھہر کر… ’’افسوس ہم پیچھے نہیں جا سکتے۔ مگر تم گواہ رہنا کہ دُنیا کے بُرے سلوک نے ہی ہمیں اس سفر پر آمادہ کیا ہے۔ ‘‘
خیمے سے مراد وہ لوگ بھی ہیں جو جو آج اپنی اپنی الگ پارٹی بنا کر لوگوں کو اپنے لمبے چوڑے بھاشن سنایا کرتے ہیں اور ان کو صرف جھوٹی باتوں سے اپنی طرف کھینچتے ہیں مگر جب کسی موقعے سے ان کی مدد کرنی ہوتی ہے تو اس کی شناخت کرتے ہیں کہ وہ کس خیمے سے ہے۔ اگر وہ ہمارے خیمے سے ہے تب ہی اس کی مدد کی جائے گی۔ یہ افسانہ ایک نوجوان اور ایک بوڑھی عورت جو اس نوجوان کی ماں ہے، اس پر ہی بنایا گیا ہے اور پوری بیانیہ تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے مشرف عالم ذوقی نے اپنے کردار کے ذریعے معاشرے کی تصویر کشی کی ہے۔ ایک طوفان میں دونوں پھنس جاتے ہیں اور پھر نوجوان تو صحیح سلامت نکل آتا ہے مگر ماں بے ہوش ہو جاتی ہے اور اس نوجوان کو اپنی ماں کی جان بچانے کے لیے کسی کی ’’مدد‘‘ کی ضرورت پڑتی ہے۔ پناہ کے لیے ایک خیمے میں جاتا ہے۔ خیمے میں اس نوجوان کو کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کی عکاسی اس اقتباس میں بھرپور ڈھنگ سے کی گئی ہے:
’’نوجوان تم کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟ لباس سے تو ہمارے خیمے کے نہیں لگتے۔ پھر یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’خیمے؟‘‘ نوجوان پھر چونک گیا تھا۔ ’’یہ میری بوڑھی ماں ہے۔ ‘‘ اس نے اشارہ سے بتایا۔ ’’بیہوش ہے، ہمیں پناہ چاہیے۔ ‘‘
’’پناہ۔ وہ و ٹھیک ہے۔ مگر کیا تمہارا تعلق ہمارے خیمے سے ہے؟‘‘
آخرکار اس کو پناہ نہیں دی جاتی۔ وہ دوسری پناہ کی تلاش میں نکل جاتا ہے۔ جب ایک خیمہ نظر آتا ہے تو وہ اس میں دوڑ کر جاتا ہے مگر وہاں کیا دیکھتا ہے کہ بہت سارے لوگ ہیں۔ ایک ہی طرح کا کپڑا پہنے ہوئے ہیں اور سر پر سفید ٹوپی لگائے ہوئے ہیں اور جب اس نے ان لوگوں سے تمام حال بتایا تو وہ بولے تم تو ہمارے خیمے کے نہیں ہو۔ ہم تمہاری مدد نہیں کرسکتے۔ ہاں اگر تم کہیں سے ہمارا لباس لے کر آؤ اور ہماری پارٹی میں شامل ہو جاؤ تو ہم تمہیں پناہ دے سکتے ہیں۔ نوجوان حیرت سے ان لوگوں کو دیکھتا ہے اور سوچتا ہے کہ کیا یہ لوگ انسانیت کے ناطے بھی مدد نہیں کرسکتے۔ صرف لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور ان کو ایک دوسرے کا دشمن بتاتے ہیں۔ اس کو پناہ نہیں ملی اور اس کی ماں پناہ کی تلاش کرتے کرتے مر گئی۔
’’تب نوجوان کو غصہ آیا اور اس نے سوچا کہ ان تمام خیمے کو ہی جلا دے مگر پھر خیال آیا کہ جب اس میں سے کچھ لوگ بچ جائیں گے تو پھر خیمہ بنائیں گے۔ اس سے اچھا ہے کہ وہ ایک الگ خیمہ بنائے اور ان کو مات دے۔ ‘‘ پھر نوجوان نے سوچا کہ میں بھی اگر خیمہ بناؤں گا تو پھر مجھ میں اور ان میں فرق ہی کیا رہ جائے گا۔ اس نے خیمے کو بنانے کا خیال دل سے نکال دیا اور انسانی جذبات اور احساس کی مورت بن کر پھر کسی نئے خیمے کی تلاش میں نکل گیا۔
یہ ان سیاسی اور سماجی رکھوالوں پر کہانی ہے جس نے انسان کو اور ان کے جذبات کو ایک خیمے میں بدل کر رکھ دیا۔ ایک طرف ملک بٹا، دوسری طرف گھر بٹا اور پھر یہ اپنے اپنے خیمے بنانے میں لگ گئے اور انسان کا وجود ان خیمے، ان پارٹیوں میں کھو کر رہ گیا۔ اب یہاں انسانیت کی نہیں مخصوص شناخت کی قدر ہے۔
کان بند ہے
مشرف عالم ذوقی نے اس افسانے کا موضوع ایک چھوٹے سے گھر کی روزمرہ کی زندگی سے لیا ہے۔ انہوں نے افسانے میں جاگیردارانہ عہد کا پس منظر کھینچتے ہوئے ایک ماسٹر جن کا نام رام چندر ہے، اس کردار کو مرکزی کردار بنا کر کہانی کو بڑی خوبصورتی سے بیانیہ انداز میں پیش کیا ہے جو نہ صرف اس وقت کے پورے نظام کی عکاسی بڑے طنزیہ انداز میں کیا ہے بلکہ اس وقت لوگوں پر جو سرمایہ دار طبقہ ظلم و ستم کر رہا تھا اور وہ بڑی آسانی سے انہیں کے گھر میں کام کرتے اور اپنی زندگی کا مقصد صرف اس کے حکم کی تعمیل کرنا ہی سمجھتے تھے اس کو مشرف عالم ذوقی نے اس دور میں ایک نئے طریقے سے اور نئے انداز سے کہانی میں پیش کیا ہے اور ایک انقلابی کردار کے ذریعے پورے نظام پر سوالیہ نشان قائم کیا ہے۔ اس کہانی میں علامتی انداز بھی موجود ہے لیکن کہانی کی خاص بات انقلابی انداز ہے:
’’ہاں تمہارے بارے میں۔ اب دیکھو نا شری لنکا کا مسئلہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ تاملیوں کے خلاف جس طرح وہاں ہنگامے ہو رہے ہیں، اسے تم کیا نام دو گے۔ بنگلہ دیش میں ہزاروں بہاری آج تک مہاجر بنے ہوئے ہیں۔ اس لئے کہ پاکستان نے اپنا وعدہ آج تک نہیں نبھایا اور پھر آسام کا مسئلہ لو۔ میں سوچتا ہوں باہر سے آئے ہوئے لوگ پشت در پشت بس تو گئے مگر کتنے لوگوں کو شہریت کے حقوق ملے۔ ہنگاموں، فساد، دنگوں سے بھاگا ہوا ایک شخص کسی غیر ملک میں آتا ہے۔ پناہ لیتا ہے۔ بستا ہے۔ ایک خاندان بناتا ہے اور اپنی پوری زندگی ختم کر دیتا ہے۔ کیا اتنا کافی نہیں ہے اسے اور اس کے بچوں کو شہریت کے حقوق دلانے کے لئے۔ کتنے لوگ ہیں جنہیں ووٹ ڈالنے کی آزادی ملی۔ سچ پوچھو تو یہ مسئلہ بھی تمہارے چھوٹے سے گھر کے پیدا ہوئے مسئلے سے کہیں نہ کہیں سے ضرور جڑا ہوا ہے۔ ‘‘
مشرف عالم ذوقی نے اس افسانے میں ان لوگوں کو نشانہ بنایا ہے جو ہر ظلم کو سہتے ہوئے ہر بات کو جانتے ہوئے بھی اپنی آنکھ اور کان بند رکھتے ہیں اور سارے ظلم و ستم سہتے رہتے ہیں۔
یہ کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ ماسٹر رام چندر کی تین پشتیں جاگیردار کے گھر یعنی ومل بابو کے گھر میں کام کرتے گزری مگر ان کو کوئی فرق نہیں پڑا وہ صرف ان کو اپنا نوکر سمجھتے تھے اور ساری عمر ان سے کام کراتے تھے۔ جب رام چندر کو ان کے بابو جی نے پڑھایا اور اس کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے تو رام چندر اپنے پشتوں کے کام کو چھوڑ کر ان کے خلاف اپنی آواز اٹھاتا ہے اور اپنی بیوی، بچوں کو اب کام کرنے سے روکتا ہے اور ان کو بتاتا ہے کہ اب یہ سب کرنا ان کی اور میری دونوں کی بے عزتی ہے۔ ہمارے اجداد ان کے کام اس لیے کرتے تھے اور ان کے تلوے اس لیے صاف کرتے تھے کیونکہ وہ اور کچھ نہ تو سمجھنا چاہتے تھے اور نہ کچھ سوچنا چاہتے تھے مگر اب ہم سب کچھ سوچ سمجھ سکتے ہیں اور کیا صحیح اور کیا غلط۔ اس لیے اب تم کوٹھی پر کام کرنے نہیں جاؤ گی اور وہ اس ناانصافی پر ہر طرح کی لڑائی لڑنے کو تیار رہتا ہے۔ جب اس کے گھر اس کی بیوی کو بلانے خود مالکن آتی ہے اور خود آنند بابو آتے ہیں تو وہ صاف لفظوں میں انکار کر دیتا ہے کہ اب کوئی بھی تمہارے گھر پر کام کرنے نہیں جائے گا۔ جب ان کو غصہ آتا ہے اور وہ ماسٹر رام چندر سے گھر خالی کروانے کی دھمکی دیتے ہیں تو وہ کہتا ہے یہ گھر ہمارا ہے اور اب ہم اس کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے:
’’تو اب تم مجھے قانون بھی پڑھانے لگے ہو ماسٹر۔ ‘‘ ومل بابو گرجے۔ ’’یہ بتاؤ مکان کب خالی کر رہے ہو یا ہمیں قانون کا سہارا لینے کے لئے مجبور ہونا ہو گا۔ ‘‘
’’مکان خالی نہیں ہو گا ومل بابو۔ ‘‘ اس بار ماسٹر بڑے اطمینان سے بولے۔ ’’اس لئے کہ اب میں اسے اپنا مکان سمجھتا ہوں۔ اپنے مکان میں جیسے چاہوں میں رہ سکتا ہوں۔ ‘‘
ومل بابو گالیاں دیتے ہوئے واپس لوٹ گئے تھے۔ یہ مکان ومل بابو کے حصے میں تھا۔ آس پاس کی زمین بھی ومل بابو کی ہی تھی اور بغل والی کوٹھی میں وہ آج تک خاندان در خاندان رہتے آئے تھے۔ ماسٹر رام چندر نے بچوں کی طرف دیکھا جو ڈرے ڈرے اور سہمے سہمے انداز میں جاتے ہوئے ومل بابو کو دیکھ رہے تھے۔ ایک دو بچے تو مارے خوف کے رونے بھی لگے تھے۔
’’تم لوگ پڑھو بچو یا چھوڑو۔ آج رہنے دو۔ کل سے آنا۔ ‘‘
ماسٹر نے بچوں کو چھٹّی تو دے دی مگر دل میں چبھے ہوئے کانٹے کو الگ نہ کرسکے۔ جو برابر انہیں پریشان کئے جا رہا تھا۔ ٹھیک اسی وقت ماسٹر کی پتنی سیتا دیوی بہت سے گندے میلے کپڑوں کی تھال لئے کوٹھی کے گیٹ سے نکلتی ہوئی دکھائی دی۔ دیکھتے ہی ماسٹر کا پارہ چڑھ گیا۔
’’کہاں سے آ رہی ہو؟‘‘
سیتا نے سر جھکا لیا۔ ’’کپڑے دھونے گئی تھی۔ کوٹھی سے بلاوا آیا تھا۔ ‘‘ (۲۸)
لیکن اس کے برعکس ماسٹر کے والد کا خیال نہیں :
’’نوکری ملنے کے بعد پتہ نہیں کیوں یہ سب اسے اچھا نہیں لگتا تھا۔ اس نے کئی بار بابو کو سمجھانا بھی چاہا تھا اور ہر بار بابو ہنس کر ٹال گئے تھے۔ یہی کہتے رہے۔ انہیں کے دروازے پر ساری عمر کٹی ہے۔ انہیں کے چھت کے نیچے سہارا ملا ہے۔ ان کا نہیں تو کس کا کام کروں گا۔ بابو کے اس جواب کے آگے وہ کیا کہتا… کہ بابو ریٹائر تو ایک نہ ایک دن ہر آدمی ہوتا ہے۔ گورنمنٹ بھی بڑھاپے کا لحاظ کر کے پنشن دے دیتی ہے۔ تم پنشن نہیں لو گے بابو…؟ مگر بابو جی نے پنشن نہیں لی۔ مرنے کو مر گئے، مگر ومل بابو کے خاندان کے دیکھ ریکھ کی ذمہ داری اسے سونپ گئے…‘‘ (۲۹)
مالک و نوکر کا یہ تصادم چلتا رہا اور مقدمے کی نوبت آ گئی۔ اگرچہ ماسٹر کمزور تھا مگر ایک مقام پر اس کی برابری پر کھڑا ہو جاتا ہے اور تب ومل بابو کو شکست دینے کا خیال آتا ہے۔ ایک اقتباس اس طرح سے ہے:
’’تو آ گئے اپنی اوقات پر۔ ‘‘ ومل بابو نے گہری سانس بھری۔ ’’تو سنو ماسٹر۔ وکیل سے میری بات چیت ہو چکی ہے۔ سمجھ لو میں نے تم پر مقدمہ کر دیا ہے۔ اس مکان کے خلاف۔ ‘‘
اور پھر وہ ہوا کہ ومل بابو بھی چونک گئے۔
ماسٹر جیسے اسی جواب کی توقع کیے بیٹھے تھے۔ زور زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے بولے۔ تو ومل بابو آپ جانتے ہیں۔ مقدمہ بھی ایک طرح کی جنگ ہے جو برابری والوں سے ہی لڑی جاتی ہے۔ اب میں بھی آپ کی برابری میں …‘‘
ماسٹر ہنسے جا رہے تھے۔ برسوں سے ان کے باپ دادا ومل بابو کے گھر کی ملازمت کرتے آئے تھے۔ اب اس معاملے نے اچانک انہیں ومل بابو کی برابری میں لا کھڑا کیا تھا۔ ‘‘ (۳۰)
اس طرح ایک کمزور اور سرمایہ دار کی ٹکر میں ایک مزدور انسان کی جیت ہوتی ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے اس افسانے میں عہد حاضر کی سچی کڑواہٹ کو پیش کیا ہے۔ جب لوگ ڈر کر سرمایہ داروں کے پیروں کی جوتی بن کر اپنی پوری زندگی گزار دیتے تھے اور اُف تک نہ کرتے تھے مگر آج جب وہی مزدور طبقہ (well educated) ہو گیا ہے، پڑھا لکھا ہو گیا ہے۔ اس کو اپنے اوپر ہو رہے ظلم و ستم صحیح غلط سب پتہ چل جاتا ہے۔ اب وہ یہ بھی جان گیا ہے کہ ظلم کرنے والے سے بڑا گنہگار ظلم سہنے والا ہے۔ انہوں نے آج اپنے حق کے لیے لڑائی کرنا شروع کر دیا ہے اور ان سرمایہ داروں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر بات کرنے سے ان کو اِس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ اب کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ہے۔ ہم سب برابر کے ہیں۔ اس لیے وہ اب ہم پر اپنے ظلم و ستم بند کر دیں۔ اسی بات کو مشرف عالم ذوقی نے اپنے افسانے کے ذریعے قاری کو نذر کیا ہے۔ ایک بڑے المیہ پر انہوں نے تنقیدی نظر ڈالی ہے۔
کتنا وِش
اس افسانے میں مشرف عالم ذوقی نے انسانیت کی وہ شکل دکھائی ہے جو فرقہ وارانہ تعصب کے سبب درندگی میں بدل جاتی ہے اور صرف مذہب کے نام پر اشتعال کے تحت فتنہ و فساد کرتے ہیں۔
اس کہانی میں انہوں ایک ایسے لڑکے کو مرکزی کردار بنایا ہے جو صرف ۱۰ سال کا ہے۔ اس کا نام کالو ہے۔ وہ ایک غریب گھر کا لڑکا ہے۔ اس کے گھر پر اس کے ماں باپ دن بھر محنت مزدوری کر کے شام کو آتے ہیں اور ان کے بہت سے سپنے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے بچے کو بہت پڑھائیں گے اور ایک اچھا انسان بنائیں گے مگر ایک دن دنگے میں ان دونوں کی موت ہو جاتی ہے۔ اس دنگے نے کالو سے اس کا سب کچھ چھین لیا۔ اس کی جینے کی تمنا اس کا بچپن، اس کے ماں باپ اور اب وہ کیا کرے۔ اس کو خود بھی نہیں سمجھ میں آ رہا اور لوگ ایک دوسرے کو صرف مارنا اور کاٹنا چاہتے ہیں۔ کوئی کسی کو نہیں پہچانتا کون ہندو ہے، کون مسلمان۔ اس مہاماری میں کالو کو ایک تین سال کی لڑکی روتی بلکتی دکھائی دیتی ہے اور بھوک سے پریشان اس کو دیکھ کر نہ جانے کیوں کالو اس کے ڈرے ہوئے چہرے میں اپنے آپ کو دیکھتا ہے اور اس کو کچھ کھانے کو کسی طرح دیتا ہے۔ وہ بچی بھی اکیلی ہے اور اس کا بھی کوئی نہیں سوائے نام کے۔ اس کا نام فاطمہ ہے۔
’’کالو کے چہرے پر پہلی بار ایندھن کا بھاپ اپنی نشانی چھوڑ گیا۔ اس نے غور سے فاطمہ کا چہرہ دیکھا۔ پریشان چہرہ…
’’کالو…‘‘
یہ نام بھی تو فاطمہ کا ہی دیا ہوا تھا۔ کچھ نہیں ہو گا۔ اُس نے خود کو سمجھایا۔ اب محلّے والے ایسے ظالم نہیں کہ فاطمہ کا کچھ بگاڑ سکیں۔ وہ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ جس چھوٹی سی بچی کو سڑک پر مارے مارے پھرتے دیکھ کر وہ اپنے گھر اٹھا لایا تھا وہ نہ ہندو تھی نہ مسلمان۔ اسے گھر کی تلاش تھی۔ پناہ کی تلاش تھی۔ وہ خود بھی اکیلا تھا اور صرف دس سال کا۔ اسے یہ لڑکی غموں کی ماری نظر آئی اور وہ اسے گھر لے آیا تھا۔
اتنی چھوٹی سی عمر میں وہ اس تین سال کی چھوٹی بچی کا باپ بن گیا تھا۔ اس نے فاطمہ کو غور سے دیکھا۔ پھر کسی بزرگ کی طرح سمجھایا۔ تو گھبرانا بالکل مت۔ سبھی بالکل مت گھبرانا۔ ‘‘ (۳۱)
کالو اپنے غموں کو بھول کر اس مسلمان لڑکی کو پالتا ہے اور اپنے بچپن کو بھول جاتا ہے۔ تب ایک دن ایسا آتا ہے جب وہ بچی بڑی ہو جاتی ہے اور پھر دھیرے دھیرے لوگوں کی پہچان میں آنے لگتی ہے اور پھر ایک دن اس کے گھر ایک مسلمان شخص آتا ہے۔ کالو اس کی بہت عزت کرتا ہے۔ وہ دبے لفظوں میں کالو کو اشارہ کرتا ہے کہ وہ اس مسلمان لڑکی کو مسلمان کے گھر میں چھوڑ دے ورنہ اچھا نہ ہو گا… کالو کو غصہ آ جاتا ہے کیونکہ وہ فاطمہ کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتا تھا:
’’ہمدردی جتانے اور اُپدیش دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے سالے۔ مسلمان کی لڑکی۔ پھتما جب بھیک مانگ رہی تھی۔ سالے کہاں تھا تیرا دھرم اس وقت… کیوں نہیں لایا اپنے پاس اُسے۔ آج بڑا دھرم کی بات کر رہا ہے۔ ‘‘ (۳۲)
اور پھر ایک دن کالو کے گھر پر بہت سے لوگ آتے ہیں اور اس کی لاکھ کوشش کے باوجود فاطمہ کو لے جاتے ہیں اور اس کی لاش کا بھی پتہ نہیں چل پاتا۔ اس کے اتنے ٹکڑے کرتے ہیں۔
کالو بدحواسی کے عالم میں اِدھر اُدھر چکر کاٹتا رہتا ہے۔ پورے شہر میں پھر کرفیو لگ جاتا ہے۔ ہر طرف فتنہ و فساد ہے۔ اور کچھ پولیس والے گشت کر رہے ہوتے ہیں۔ کالو کسی طرح گھومتا گھومتا قصاب کی دکان پر پہنچتا ہے۔ اسے پیٹ پالنے کی لیے چند سکوں کی ضرورت تھی۔ اسے مجبوری میں قصاب کی دکان پر کام کرنا پڑتا ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے کہانی کو یہیں پر ختم کیا ہے مگر جس موڑ پر کہانی ختم ہوتی ہے وہ دراصل بیک وقت کئی منظر دکھاتے ہیں اور کالو کے جذبات کو بھی بیان کرتے ہیں :
’’یہ چھرا پکڑ۔ اور یہ پیر کی بوٹی کاٹ… چھوٹے… چھوٹے… چھوٹے… چھوٹے…‘‘
اس نے چھرا اٹھایا ہے۔ گوشت کو لکڑی کے ٹھیہا پر رکھ کر وہ ران اور پیر کی بوٹیوں کو غور سے دیکھ رہا ہے۔ اور اب وہ جھٹکے سے کاٹ رہا ہے۔ کٹّی… کٹّی… کٹّی… کٹّی… اس کی آنکھوں میں پاگل پن سوار ہے… کٹ کٹ… اس کے اندر کوئی جلّاد سوار ہے۔
’’نہیں اتنا چھوٹا نہیں …‘‘ سلامو اس کا ہاتھ روک رہا ہے۔
قصاب باڑے میں خون کی بو دُور تک پھیلی ہوئی ہے۔ مگر اب یہ بو اسے محسوس نہیں ہو رہی ہے۔ وہ ایک طرف جھولا بچھائے گوشت کے ٹکڑوں کو لے بیٹھا ہے اور دیر سے کٹّی کٹّی کئے جا رہا ہے۔ ‘‘ (۳۳)
ہندوستانی
اس افسانے کا مرکزی کردار عبداللہ بیگ اور رماشنکر ہے۔ یہ افسانہ بھی سیاسی مفادپرستی پر لکھا گیا ہے۔ اس افسانے میں فسادات کے حالات بیان کیے گئے ہیں کہ کس طرح ہندو مسلم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں۔ لوگوں کو ایک لمحہ بھی سکون نہیں ملتا۔ لوگوں کے راتوں کی نیندیں اور دن کا سکون ختم ہو گیا تھا اور لوگ رات رات بھر جاگ جاگ کر اپنے اپنے گھروں کی حفاظت کرتے تھے مگر کیا وہ سب اس ملک میں محفوظ تھے؟ جب وہ اپنے ملک میں ہی محفوظ نہیں ہے تو پھر اپنے گھر کی حفاظت کر کے کیا وہ محفوظ رہ سکتے ہیں۔ شاید یہ سوال اس وقت ہر ایک کے دماغ میں چل رہا تھا۔
کل جو ان کے ساتھ کھیلا کرتے تھے اور جن کے ساتھ رات دن گزارتے تھے آج انہیں لوگوں سے ان کو خطرہ ہو گیا ہے۔ ہر شام کہیں نہ کہیں لوگوں کی زندگی کی آخری شام کر دی جاتی ہے اور لاشوں کو قطاروں میں سجا دی جاتی ہے اور دل و دماغ میں اس سلگتی ہوئی لاشوں اور گھروں کی تباہی اور بربادی آنکھوں میں سما جاتی ہے۔
مشرف عالم ذوقی نے اس کہانی میں سیاست کی کجروی پر گہرا طنز کیا ہے:
’’جس ملک میں گاندھی جیسی عظیم ہستی کے مارنے والے کو بھی کچھ لوگ مہمان بنا کر پوجتے وہاں سب کچھ ہوسکتا ہے۔ میرے بھائی سوچتا ہوں کسی نے سچ کہا ہے۔ انسان اگر تہذیب نہیں سیکھتا تو وہ پورا پورا جانور ہوتا۔ ‘‘ (۳۴)
یہ کہانی دراصل فرقہ وارانہ فسادات سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔ مگر سارا زور سیاست پر ہے کیونکہ یہ سب سیاسست کے ہی کرتب ہیں۔ لوگ مذہبی جنون میں ایک دوسروں کو مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں اور دوسری طرف لوگ اپنی حفاظت کے لیے تدبیریں سوچ رہے ہیں :
’’ابھی وہ کھانے سے فارغ ہوئے تھے کہ دروازے پر دستک کی آواز سن کر سہم گئے۔ دستک کے ساتھ ہی ملی جلی آوازیں بھی گونجی تھیں۔
’’بھائی کہاں چھپے ہو!‘‘
کانپتی آنکھوں سے عبداللہ بیگ نے زہرہ بیگم کی طرف دیکھا۔
’’تم ہی کہو۔ کیا کہتی ہو۔ ‘‘
’’آپ کو جانا ہی ہو گا۔ محلے کے ہر گھر سے کم از کم ایک آدمی کو تو پہرہ دینے کے لیے جانا ہی ہے۔ اور یہاں صرف آپ ہیں۔ ‘‘
’’تو مجھے بھی جانا ہو گا۔ ‘‘
عبداللہ بیگ اب پُرسکون تھے۔ محلے کے کتنے ہی لوگ ہوں گے جن کے ساتھ انہیں گشت پر نکلنا تھا اور ہونا کیا تھا۔ رات بھر تفریح بازی، گپ شپ، دوسرے محلے کے ہندو آ کر حملہ نہ کر دیں، اس کا خیال رکھنا تھا۔ اتنے سارے لوگ ہیں۔ عبداللہ بیگ نے اطمینان کی سانس لی اور دروازہ کھول دیا۔
’’جلدی کیا ہے بھائی لوگو! کھانا کھا رہا تھا۔ ‘‘
’’ہمیں بھی بلا لیا ہوتا۔ ‘‘
ایک بزرگ انتہائی سنجیدگی سے بولے اور کچھ نوجوانوں کے ہونٹوں پر تبسم پھیل کیا۔ دفعتاً پھر کسی بات سے زہر خند ہنسی ان کے ہونٹوں پر پھیل گئی۔
’’شاستری نگر میں پھر دنگا ہوا ہے۔ مرنے والوں میں پچیس مسلمان گھر شامل ہیں۔ چار گھر پھونک دئیے ہیں۔ ‘‘
عبداللہ بیگ کی مٹھیاں بھنچ گئیں۔ سرکار بوکھلائی ہے یا پاگل ہوئی جا رہی ہے۔ ووٹ مانگنے کے لیے خوشامدی ٹٹو وعدوں کی کوٹھری لے کر تو چلے آتے ہیں۔ پھر سب کچھ بھول کر اپنی ستّا بچائے رکھنے کے لیے ہم میں پھوٹ ڈلوا کر جنگ کرواتے رہتے ہیں۔ ‘‘ (۳۵)
فرقہ وارانہ فسادات کے سبب لوگ ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے۔ کوئی کسی کو نہیں پہچان رہا تھا سوائے اس کے کہ کون مسلم ہے اور کون ہندو۔ اس فساد نے لوگوں کے برسوں کی دوستی پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔ رما شنکر اور عبداللہ کے عقیدے بھی ہچکولے کھاتے ہیں :
’’عبداللہ بیگ کی آنکھوں میں صرف ایک مہینہ پہلے کا وہ دل ڈوبنے والا نظارہ گھوم رہا تھا۔ یوں تو فضا کب کی خراب ہو چکی تھی۔ جب ہر آنکھوں میں شک کا جانور مچلتا ہوا نظر آتا۔ ہندو کی آنکھوں میں مسلمان چور تھا اور مسلمان کانٹے کی طرح ہندو کو کھٹک رہا تھا۔ عبداللہ بیگ کو اس وقت رماشنکر کی یاد آ رہی تھی۔ بچپن کے دوست رہے تھے رماشنکر۔ ساتھ پڑھتے لکھتے بڑے ہوئے۔ ایک جگہ سروس کی۔ اس دن آفس گئے تو دیکھا رماشنکر کچھ کہنا چاہتا ہے۔ لنچ آور میں وہ تھکے ہارے قدموں سے رماشنکر کے ساتھ کینٹین میں آ کر بیٹھ گئے۔
مولوی—— رماشنکر اسے مولوی ہی کہتا تھا۔ آج اس کی آواز میں لرزش تھی۔ ’’مولوی ایک بات پوچھنی ہے۔ تجھ سے تسلی کرنی ہے خود کی۔ ‘‘ وہ آہستہ آہستہ لفظ چبا کر بول رہا تھا۔ ’’کیا میں سمجھ لوں کہ مجھ پر وقت آیا تو تم میرا گھر جلا دو گے؟‘‘
اوپر سے لے کر نیچے تک سنّاٹے میں ڈوب گئے عبداللہ بیگ۔ تھرائی پلکوں سے رماشنکر کو گھورا… پنڈت اور کیا میں امید کروں کہ تم…‘‘
’’بس دوست مجھے جواب مل گیا۔ ‘‘ (۳۶)
لیکن ایسے کتنے لوگ ہیں جو جنون کے بجائے عقل کو ترجیح دیتے ہیں۔ سیاست والے تو ان کو آپس میں لڑاتے ہیں اور یہ لڑتے ہیں۔ جس طرح انگریزوں نے ہندوستانیوں کو آپس میں لڑایا اور حکومت کی۔ اب ہمارا ملک آزاد ہے تو اہل سیاست اسی اصول کو ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کے اصول پر چل رہے ہیں۔ لیکن انہیں یہ احساس نہیں کہ اپنے مفاد کو پورا کرنے کے لیے نااہلی میں اپنے ہی گھر میں آگ لگا رہے ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس اس کی پوری عکاسی کرتا ہے:
’’گشت کے لئے نکلے قدم بج رہے تھے۔ کیا یہی اپنے ہندوستانی ہونے کا ثبوت ہے۔ چاروں جانب پھیلی ہوئی آگ۔ یہ آگ فائر بریگیڈ نہیں بجھا سکتی۔ یہ آگ بڑھتی جائے گی، پھیلتی جائے گی۔ پھر ایک دن پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ (۳۷)
ایک رات کا واقعہ انہوں نے اس دل دہلا دینے والے انداز سے بیان کیا ہے جو نہ صرف قاری کو اپنی طرف متاثر کرنے پر مجبور کر دیتی ہے بلکہ دیر تک اس پر اپنے اثرات چھوڑتی ہے۔
ایک رات جب پہرے پر لوگوں نے آ کر خبر دی کہ آصف میاں کے گھر پر دوسرے گاؤں کے لوگوں نے حملہ کر دیا ہے تو کوئی بھی ان کی مدد کو آگے نہ بڑھا۔ سب اپنے اپنے گھروں میں چھپ کر بیٹھے تھے اور صبح ہونے کا انتظار کر رہے تھے اور جن لوگوں نے کسی بھی طرح کی ان کی مدد کرنی چاہی تو ان کے بھی گھر جلا دئیے گئے۔ صبح ہوئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ پورے محلہ میں سناٹا چھایا ہوا ہے اور پولس سب ختم ہو جانے پر صرف ان لاشوں کو قطار سے لگانے اور لوگوں کے دلوں میں دہشت بھرنے کا کام کر رہی ہے۔ شہر میں دھارا ۱۴۴ لگایا گیا ہے اور لوگوں کا گھر سے آنا جانا بند ہے۔ کیا یہ آج ان کے ساتھ ہوا کل ہمارے ساتھ ہو گا۔ اس لیے ہم کو اب چوڑیاں اتار کر ان سب کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ اسی گندی سیاست کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ ایک نوجوان جوش میں بول رہا تھا:
’’سیاست، سیاست…. سب سیاست ہے عبداللہ بیگ۔
’’تو یہ سیاسیت لوگ سمجھتے کیوں نہیں۔ کیوں جانور بن جاتے ہیں۔ ‘‘ (۳۸)
سور باڑی
یہ افسانہ سماج کے انتہائی دبے کچلے معاشرے سے متعلق ہے۔ یہ ڈوموں اور چماروں کا معاشرہ ہے جو دن بھر محنت مزدوری کرتے ہیں تو کہیں جا کر انہیں رات کی روٹی نصیب ہوتی ہے۔ ان کے رہنے کی نہ تو جگہ ہے اور نہ بچوں کو پڑھانے لکھانے کا انتظام ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ان کے حفاظتِ صحت کے لیے بھی حکومت کی طرف سے کوئی انتظام نہیں۔ یہ سور باڑی کیا ہے؟ انسانوں اور جانوروں کے ایک ساتھ رہنے کی جگہ ہے۔ لیکن لوگ ان کی حالتِ زار دیکھنے کے بجائے اس جگہ پھیلی گندگی سے پریشان ہیں۔ ان بورژوا طبقہ کے لوگوں کی نگاہ اس گندگی میں زندگی گزارنے والے لوگوں کی فلاح کی طرف نہیں جاتی لیکن یہاں ان لوگوں کو کیسے ہٹائیں پر ضرور جاتی ہے۔ لیکن ان عقلمند طبقہ کو یہ سوچنا چاہیے کہ کیا یہ مستقل حل ہے۔ کل پھر ان گندی باڑی کے قریب ایک نیا اَپارٹمنٹ بنے گا اور پھر ان گندی باڑی کے لوگوں کو وہاں سے ہٹایا جائے گا اور یہ سلسلہ بدستور جاری رہے گا اور یہ سور باڑی کے لوگ نقل مکانی کے کرب سے دوچار ہوتے رہیں گے۔ نقل مکانی کا کرب ان سے پوچھئے جو اس دردناک واقعے سے گزرتے ہیں۔ کتنا ہولناک ہوتا ہے یہ منظر۔ مندرجہ اقتباس اس کی غمازی کرتا ہے:
’’باڑی سے نکل کر سور کبھی کبھی اِدھر بھی آ جاتے ہیں، جہاں بڑے بڑے مکانات ہیں، دفاتر ہیں، گورنمنٹس کوارٹر ہیں … آوارہ گھومتے رہتے ہیں سور… بے سُری آواز نکالتے ہوئے… کیچڑ میں منہ دئیے پتہ نہیں کیا ٹٹولتے رہتے ہیں … سورباڑی کہیں دور نہیں ہے… جس جگہ میری آفس ہے اور بھی کئی دفاتر ہیں جیسے کچہری، ٹریزری آفس، ڈی۔ ایس۔ ای سپرنٹنڈنٹ ایجوکیشن، مجسٹریٹ… ان سے ذرا ہٹ کر میدانوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے اور میدانوں کے دونوں جانب خالی جگہوں کی اسی باڑی کو ڈوموں کی سور باڑی کا نام دے دیا گیا ہے۔ آفس کھلنے کا وقت دس بجے ہے۔ دس بجے تک یہ پوری باڑی گلزار رہتی ہے۔ گندے کپڑوں میں سینہ کھول کر دودھ پلاتی ہوئی ڈومنیں، لکڑی کی کانتی سے سوپ ٹوکریاں بنتی ہوئی… بیڑی سلگاتا ہوا ڈوم، اپنی گھر والی اور بچوں کے ساتھ بیٹھا ہوا… کھیسیں پنوڑے… ننگ دھڑنگ… میونسپلٹی کل کے پاس بیلچا، کنیڑ لئے شور مچاتے بچے…‘‘ (۳۹)
یہ نظارہ ہے اس باڑی میں رہنے والے انسانوں کی جن کی حالت جانوروں سے بھی بدتر ہو گئی ہے، اور لوگ ان کی حالت پر غور نہیں کرتے بلکہ ان کو گندگی سمجھ کر دوسری جگہ پھینک دینا چاہتے ہیں۔
اس لیے ایک دن حکومت کا آرڈر آ جاتا ہے کہ اسے یہاں سے ہٹا دیا جائے گا تو اسی معاشرے کا پروردہ بھیکو بغاوت کرتا ہے۔ یہ کمزور لڑکا جانتا ہے کہ لوگ اس کی نہیں سنیں گے مگر کہانی کار نے اس کے اندر بغاوت کا جو عنصر دکھایا ہے وہ دراصل اصلاح کی جانب ایک قدم ہے۔ بھیکو تنہا تمام لوگوں کو جمع کرتا ہے اور مخالفت کے لیے آمادہ کرتا ہے مگر اچانک ایک دن اسی تنگ گلی میں اس کا ایکسی ڈینٹ ہو جاتا ہے۔ تب سرکاری عملے کو موقع مل جاتا ہے کہ اب مخالفت کرنے والا کوئی نہیں۔ پھر اس طرح اس باڑی کو خالی کرا لیا جاتا ہے مگر سوال یہ رہ جاتا ہے کہ اس کا ایکسی ڈینٹ کیسے ہوا اور کیا یہ بھی ایک سازش تھی۔ اس طرح یہ کہانی بہت ہی متاثر کرنے والی کہانی ہے اور سماج میں پھیلی ذات پات اور چھوا چھوت پر ایک بڑا المیہ ہے۔ یہ افسانہ جو انسانی زندگی کا مول صرف اس کی ضرورت بن کر رہ گئی ہے، ضرورت ختم، انسان ختم…
شہری زندگی کے مسائل
بھوکا ایتھوپیا
بھوکا ایتھوپیا یہ افسانہ مشرف عالم ذوقی نے اس کہانی میں آزادی کے بعد کے اس دور کو موضوع بنایا ہے جو انتشار کا دور تھا۔ یہ کہانی انسان کو اندر سے ایک دم جھنجھوڑ دیتی ہے۔ ان کے جذبات اور احساس کو جگا دیتی ہے جو انسانی دماغ اور ذہن پر دیر تک اثر کرتی ہے۔ انہوں نے اس کہانی میں بنگال کے بٹوارے اور ہندوستان کو ایتھوپیا بنتے دکھایا ہے اور آزادی کے بعد لوگ کس طرح حکومت کے خلاف جا کر اپنی بات کو منوانے اور حکومت کے جال کو وہ کچھ بچے جو اپنی پڑھائی لکھائی کی طرف توجہ نہیں دیتے صرف اس لیے کہ پڑھ لکھ کر ان کو حکومت کے جال میں نہیں پھنسنا ہے۔ حکومت کے تلوے نہیں چاٹنا ہے اور یہ کام مشرف عالم ذوقی نے ان تین کرداروں کے ذریعے بڑی خوبی سے پیش کیا ہے۔ ایک ان کا مرکزی کردار ہے جس کا نام گھوش بابو ہے اور وہ سرکاری نوکری کرتا ہے۔ دوسرا کردار ان کی بیوی ہے۔ سوتیا جو حکومت کے خلاف اپنے بیٹے اتپلیندو کی باتوں سے متفق ہے اور وہ گھوش بابو کو سرکاری نوکری چھوڑ دینے کے لیے مجبور کرتی ہے۔ ان کو حکومت کی گندی سیاست کے بارے میں گاہے بگاہے آگاہ کرتی ہے:
’’یہ کسی کے پیروں کی چاپ نہیں ہے۔ تنہائی میں اکثر ایسا ہوتا ہے جب اپنی الجھنیں کوئی صوتی آہنگ پیدا کر دیتی ہیں اور مستقل کانوں کے پاس نگاڑہ سا بجتا رہتا ہے۔ یہ کسی کے پیروں کی چاپ نہیں بلکہ خطرے کا سائرن لگتا ہے جو برابر میرے کانوں میں چیخ رہا ہے۔ یہ تیسری بار ہے جب میں نے اٹھ کر سوئچ پر ہاتھ رکھا ہے۔ بلب روشن ہو گیا ہے۔ سوئچ سے ابھی تک ہاتھ ہٹایا نہیں ہے۔ کچھ سوچ رہا ہوں جب کہ اصلیت یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں سوچ رہا ہوں۔ (۴۰)
یہ افسانہ ایتھوپیا کی قحط سالی اور انسانی زندگی کی ارزانی کا تقابل کرتا ہے اور یہ احساس ہوتا ہے کہ کہیں ان فتنہ و فساد میں ہندوستان بھی ایتھوپیا نہ بن جائے۔
جہاں تک موضوع کی بات ہے تو انہوں نے اس موضوع کا انتخاب دراصل اس لیے کیا ہے کہ جب ایتھوپیا میں (مہاماری) قحط سالی پھیلی تھی تو لوگ بھوکے مر رہے تھے۔ ان کو کھانے کے لے کچھ نہیں مل رہا تھا۔ لوگوں کی اس پریشانی کو اور اس کی تماشائی حکومت کے سیاسی پہلوؤں کو انہوں نے ہندوستان کو ایتھوپیا کی شکل میں دیکھتے ہوئے اس کہانی کا انتخاب کیا ہے جو پورے موضوع کی پہچان ہے:
’’ہم بھوکے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی ایک ایتھوپیا ہے۔ ہم گھاس کھا رہے ہیں۔ ہمارے تمام شہر کالاہانڈی بن چکے ہیں۔ ہم مردہ بلّی چوہے کتے کھا چکے ہیں۔ ہمیں اب انسانوں کو کھانے کی اجازت دو۔ نہیں تو یہ کھانا دو۔ یہ کھانا باہر نہیں جائے گا۔ یہ ہماری محنت کا انعام ہے۔ اسے ہم کھائیں گے۔ ‘‘ (۴۱)
اس افسانے میں مشرف عالم ذوقی نے سیاست اور حکومت کی چال کو جو ایک عام انسان نہیں سمجھ پا رہا ہے، پر طنز کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہی ہر کوئی دور آزادی کے بعد اور دور آزادی کے وقت جو صرف مذہب کے نام پر بھائی بھائی کو، دوست سے دوست کو الگ کر دیا گیا اور زمین کے ٹکڑوں میں دلوں کے جذبات کو بانٹ دیا گیا۔ ایک ہندوستان کو الگ الگ ملک میں بانٹ دیا گیا اور لوگوں نے تباہی اور بربادی کے سوا اور کچھ نہیں پایا۔ ہر کوئی اپنی اپنی لے کر رو رہا ہے مگر وہیں ایک پڑھنے والا اسٹونڈنٹ (Student) اتپلیندو اور اس کے ساتھیوں کو اپنے گھر والوں کو، گھوش بابو جو کہ ایک سرکاری نوکری میں ہیں ان کو ہر بار روز کوئی ایسا واقعہ دیکھنا پڑتا ہے جس میں انسانی زندگی کا کوئی نہ کوئی پیچیدہ رخ پنہاں ہوتا ہے۔ ایک بوڑھا جو اپنی پنشن کے لیے رات دن بڑے بڑے دفتروں کے چکر لگا لگا کر ہار گیا ہے آج بھک مری اور لاچاری میں اس کو اور بھی دھتکارا جا رہا ہے۔ ایک بوڑھا اس کی آنکھ بیٹھ گئی اور رو رو کر وہ اب اپنی غریبی اور لاچاری کی دُہائی دیتا ہے مگر ظالموں کو پھر بھی اس بوڑھے پر ترس نہیں آتا…..:
’’بڑھاپا پاگلوں کی طرح سنہا سے لپٹ گیا ’’خونی… میری آنکھیں چلی گئیں۔ تمہارے پاس ہے مری فائل… میری فائل نکالو۔ ہم بھوکوں مر رہے ہیں، کھانے کو دانہ نہیں ہے۔ ‘‘ (۴۲)
اتپلیندو بار بار اپنے پتا سے کہتا ہے کہ وہ سرکاری نوکری چھوڑ دے مگر بار بار گھوش بابو تمام مجبوریوں کو گنا کر حکومت کے خلاف نہیں جانا چاہتے اتپلیندو ہر بار ان کو غلط ہی کہتا ہے۔
ہندوستان کی بری حالت کو دیکھ کر اس کے ہر حصے کو الگ الگ ٹکڑوں میں بانٹ کر آج ہندوستان اسی مقام پر آ گیا ہے کہ ان کو اپنی اس آزادی سے نفرت ہو گئی ہے، جہاں صرف سیاست کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ سماج کو نہیں ملک بھُک مری اور بے روزگاری سے مر رہا ہے۔ ملک دوسرا ایتھوپیا بن گیا ہے مگر سیاست داں کو صرف اپنے اپنے عہدے (پوسٹ) کی فکر ہے۔ انہی سب باتوں کو مشرف عالم ذوقی نے کرداروں کے ذریعے اپنے الفاظ کے جامے پہنائے ہیں اور ایک کامیاب افسانہ لکھا ہے۔ ان کا کردار اتپلیندو جو کرانتی لانے کی کوشش کرتا ہے اور نکڑ ناٹک کرتا ہے اور رات میں لوگوں تک اپنے انقلابی پیغام اور اپنی بات پہنچانے کے لیے پوسٹر بھی لگاتا ہے اور ہندو مسلم سکھ عیسائی ہم سب آپس میں بھائی بھائی ہیں کا نعرہ لگاتا ہے۔ اس کردار کے ذریعے مشرف عالم ذوقی نے نوجوان طبقہ کو ایک پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ انہیں اب مذہب اور فرقے کے خیمے سے باہر نکلنا ہو گا اور ایک نئی سوچ کے تحت اپنے ملک کی رہنمائی کرنی ہو گی۔ اس راستے میں انہیں کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ذوقی نے اپنے کردار کے مکالمے سے اس کی پوری عکاسی کی ہے۔ سب کچھ کرنے کے بعد جب ایک بار پولس اس کا پیچھا کرتے کرتے اس کو آخر میں گولی مار دیتی ہے۔ اس وقت کے منظر اور جذبات کو بڑے ہی اچھے ڈھنگ سے قلم بند کیا ہے۔ ایک اقتباس انہی کی زبانی:
’’سناٹا۔ بھیانک سنّاٹا۔ دور تک سنّاٹا۔ اور اس سناٹے میں سنائی دے رہی ہے۔ صرف پولس کے قدموں کی چاپ۔ رتھ یاترا نکلے گی۔ نفرت یاترا نکلے گی۔ موت یاترا نکلے گی اور غصے میں آیا ہوا کوئی اتپلندو پولیس کو بندوق کے کندے سے مار دے گا۔ بدلے میں پولیس کے جوان اسے گولیوں سے بھون دیں گے۔ اور فساد میں مرنے والوں میں ایک نام اور شامل… سناٹا بھیانک سناٹا۔ اس سناٹے کا کوئی انت نہیں ہے۔ ‘‘ (۴۳)
آخر میں گھوش بابو اپنا استعفیٰ دے دیتے ہیں اور وہ اس نوکری سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ مگر ان کے ذہن میں قیامت کا سا ہنگامہ ہے۔ ان کے پورے دماغ میں مستقبل گونج رہا ہے۔ ان کے ذہن اور آنکھوں میں وہ خواب ہیں جو پورے نہ ہو پائے۔
ان تمام باتوں کو مشرف عالم ذوقی نے اپنی کہانی میں شامل کیا ہے اور جسے موضوع اور تکنیک کے حوالے سے اور تکنیکی بیانیہ انداز سے افسانے کی تمام شرطوں کو پوری طرح سے خوبی کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو نہ صرف انسانی جذبات کو ایک نیا رجحان دیتی ہے بلکہ ان کو ایک نئی سوجھ بوجھ دیتی ہے۔ پلاٹ اور کردار اور تکنیک کے حوالے سے ان کے افسانوں میں کہیں بھی جھول نہیں آتا۔ وہ ہر ایک کڑی کو بہت باریکی سے جوڑتے ہیں اور کردار کے ذریعے اپنے افسانوں کو کامیاب بناتے ہیں۔ جو ایک اچھے اور کامیاب افسانہ نگار کی خوبی ہے۔
فنی لینڈ
فنی لینڈ دراصل اس کہانی کا نام فنی لینڈ اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہ زندگی ہی ایک تماشہ ہے اور ہم ہر وقت اپنی زندگی کو سجانے سنوارنے کا کام کرتے رہتے ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ صرف اور صرف زندگی میں سب کچھ حاصل کر لینا ہی ایک مقصد بن جاتا ہے اور انسان اس زندگی کے تماشے (Fun) کو آخری وقت تک نہیں سمجھ پاتا اس لیے مشرف عالم ذوقی نے اس کہانی کو ایک عام انسان کی بھاگ دوڑ اور انسانی جذبات کو اس افسانہ کے ذریعے قاری کے سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے۔ زندگی کے تمام نشیب و فرازبس تماشے ہیں اور زندگی حاصل کرنے کے لیے جتنی لڑائیاں ہوئیں وہ بھی تو تماشہ ہی ہیں :
’’میں جانتا ہوں تم کہنا کیا چاہتے ہو… کہتے ہیں تیسری جنگِ عظیم سب کو برابر کر دے گی… شاید آئین اسٹائین نے کہا تھا، میں یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ تیسری جنگِ عظیم ایسے ایسے نایاب اسلحوں سے لڑی جائے گی، ابھی جن کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے مگر یہ دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ چوتھی جنگ کے لیے پھر سے تیر اور بھالے کا استعمال شروع ہو جائے گا… تم سمجھ سکتے ہو سلیل… ترقی کے نام پر ہم کہاں جا رہے ہیں … ایک بار پھر پاشان یُگ کی طرف۔ ‘‘ (۴۴)
یہی کہانی کا آغاز بھی ہے اور انجام بھی کہ انسان ترقی کر کے پھر اسی مدار پر پہنچ جاتا ہے جہاں تھا۔ آج کی یہ دنیا بھی اسی ترقی معکوس کی جانب رواں دواں ہے۔
اس کہانی میں مشرف عالم ذوقی نے ادب کو اور نئے زمانے کے لٹریچر کو بھی نشانہ بنایا ہے:
’’لٹریچر کو سچ مچ تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ایک اہم تبدیلی کی—
مجھے حیرت ہوتی ہے سلیل۔ ادب میں جن لوگوں نے اپنی خاص پہچان بنا لی ہے وہ کیوں ادب سے کھلواڑ کرنے پر تلے ہیں۔ خود کو، تخلیق کو زمین سے جوڑنے کی کوشش کیوں نہیں ہوتی۔ مسائل سے آنکھیں چراتے ہوئے گل و بلبل کی باتیں کرنے سے پہلے سوچنا تو چاہیے کہ ہم اسپیس ایج اور کمپیوٹر ایج کی پیداوار پولیوشن کو بھی اپنی سانس میں اتار رہے ہیں۔ ایک جنگ ہے ہمارے چاروں طرف… اصولوں میں، زندگی میں نبھائے جانے والے قاعدوں میں … بیوروکریٹ اب تک جاگیردارانہ نظام کا چشمہ لگائے حقارت اور نفرت کا زہر اُگل رہے ہیں اور سلیل اس سے بھی بڑی ایک جنگ ہے… تم جانتے ہو نا، بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو نگلتی رہتی ہیں … ایک بڑی جنگ، بہت بڑی جنگ ہے جو ان چھوٹی جنگوں پر حاوی ہے۔ ‘‘ (۴۵)
یہ کہانی ذہنی ترنگ کے سہارے بڑھتی ہوئی زندگی کے تمام رنگوں کو دکھاتی ہے۔ انسانی زندگی کے ان برائیوں کو بھی جو کسی اور نام سے اچھائی میں شمار کرانے کی کوشش بھی اور ترقی یافتہ ممالک کی آزادہ روی اور بدلتے مشرقی اقدار بھی جس میں نہ کسی رشتے کی قدر ہوتی ہے اور نہ معنویت کی۔ ہر مہینہ ڈرامے کے اسٹیج پر بدلتے ہوئے کردار کی طرح ہے۔ مناظر تو بار بار بدلتے رہتے ہیں مگر وہی کردار وہی پلاٹ ہیں۔ اس فنی لینڈ میں انسان بھی اس دنیا میں گویا ایک اسٹیج پر کھڑا ہو کر اپنا اپنا کردار نبھا رہا ہے۔ یہ کردار کبھی کسی کو مذہب کے نام پر، کبھی سیاست کے نام پر اور کبھی ادب کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں۔ لیکن اس اسٹیج پر کوئی ایسا نہیں جو اس ڈرامے کا کردار نہیں کیونکہ انسان مفاد کے آگے اس قدر اندھا ہو گیا ہے کہ سوائے اپنی ذات اور فائدے کے کچھ سوچتا ہی نہیں۔
مشرف عالم ذوقی نے اس کہانی میں دو کرداروں کے ذریعے ان کی آپسی گفتگو سے انسان کے جذبات کی عکاسی بڑی ہی خوبصورتی سے کی ہے اور ان کے مکالمے اور گفتگو سے کہانی میں حقیقت نگاری اور سیاست کی اور سماج اور ادب کے پورے عہد کو اور حال میں جو حالات انسانی ہے اس کو کہانی میں بڑی گہرائی سے اور جذباتی طور سے پیش کیا ہے:
’’اس اکیسویں صدی میں جس کا دروازہ چھٹی صدی میں کھلتا ہے۔ ‘‘ (۴۶)
یہ جملہ ایک بڑا طنز ہے، ترقیِ معکوس کی جانب۔
انسان صرف اب سیاست کرنا چاہتا ہے اور اپنے مفاد کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے اور انسان، انسان کو اب اپنا شکار بناتا ہے، بھائی، بھائی لڑ رہے ہیں، حکومت صرف اپنا مفاد سوچتی ہے اور سیاست کرتی ہے۔ عام انسان صرف ان کا شکار ہو رہے ہیں۔ مذہب اور سیاست ایک ساتھ چل رہی ہے، انسان کو بڑے بڑے خواب دکھا کر ان کا استعمال کیا جا رہا ہے:
’’جلیس۔ ‘‘ سوروپ جی نے آواز لگائی۔
جلیس… میں اُس شخص کے پہناوے پر چونک گیا تھا۔
’’ہاں۔ ہاں گھبرا کیوں گئے…‘‘ وہ مسکرا رہے تھے۔ ’’اس کے لباس سے یا اُس کے مُکّا مار کر بولنے کے انداز سے… بھئی یہاں سب فنکار ہیں۔ اپنے اپنے فن میں ماہر جلیس نے نگاہیں گھمائیں … پھر جیسے وہ دونوں ہاتھ ہوا میں اُچھال کر لپک پڑا۔ اوہ میرے سرکار… نمستے، سلام، نوازش شکریہ۔ وہ تیزی سے اتنے سارے لفظوں کی جگالی کرتا ہوا قریب کرسی کھینچ کر دھنس گیا۔
’’یہ نیا حلیہ کسی ڈرامے کے لیے تو نہیں …‘‘ سوروپ جی مذاقاً بولے…
’’نہیں نہیں ہم پتر کاروں کو پلے کرنے کی فرصت کہاں۔ ‘‘
’’پھر یہ سب؟‘‘
’’راز کی بات بتاؤں آپ کو…‘‘ جلیس دائیں آنکھ مارتا ہوا پھسپھسانے کے انداز سے بولا…
’’مذہب سے سیاست کو الگ کر رہا ہوں۔ ‘‘ (۴۷)
مسجد، مندر کی لڑائی ہندو مسلمان کی لڑائی اور انسان سے انسان کی لڑائی صرف اور صرف ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں وہ اپنے کل کو اچھا بنانے کے لیے اپنے آج کو خراب کر دیتے ہیں، اور اپنے آج کو اچھا بنانے کی کوشش میں اپنے مستقبل کو تباہ کر لیتے ہیں۔
ذوقی نے اس کہانی میں ذہنی ترنگ کے سہارے زندگی کے ہزار رنگ اور ہزار تماشے کو بڑی خوبصورتی سے چھوٹے سے کینوس میں پیش کرنے کی اچھی مثال قائم کی ہے۔
پربت
مشرف عالم ذوقی نے اس کہانی میں انسانی زندگی کی اس حقیقت کو کینوس پر ابھارنے کی کوشش کی ہے جب انسان اپنی عمر کے ۶۲ سال گزارنے کے بعد اپنے آپ کو دنیا سے، سماج سے کٹا کٹا سا محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کی اہمیت انسانی زندگی میں یہاں تک کہ اپنے بچوں کی نظروں میں بھی صرف اور صرف گھر کے کونے میں پڑی ہوئی ایک پرانی چیز جیسی ہو جاتی ہے جس سے صرف اس کی پرانی یادیں جڑی ہیں۔ اس لیے اُن کو کبھی کبھی جھاڑ پونچھ دیا جاتا ہے مگر ان کو اب استعمال کی چیز نہیں سمجھا جاتا۔ مشرف عالم ذوقی کا اسلوب اتنا دلچسپ ہے کہ حقیقت کا ایک ایک پہلو واضح ہو جاتا ہے:
’’…سب کچھ مِتھیا لگتا ہے مجھے۔ جھوٹ، فریب۔ یہ رشتے ناطے… سب کچھ…‘‘ (۴۸)
پربت اس کہانی کا موضوع اس لیے ہے کہ انسان جب اکیلے پن کو جھیلتا ہوا اپنی زندگی گزارتا ہے تو زندگی اس کے لیے ایک اذیت ناک بن جاتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو کام کرنے میں اور اپنے کو مصروف رکھنے میں خوش رہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے بچے، بہو سب اس کے پاس ہی بیٹھ کر وقت بتائیں۔ اس کے ساتھ اس کے پوتے پوتیاں کھیلیں، T.V دیکھیں، وہ ویسے ہی نارمل رہے جس طرح وہ اپنی پہلے کی زندگی گزار چکا ہے۔ وہ ہر وقت سوچتا رہتا ہے اور اپنی زندگی کو کسی طرح اس پڑاؤ سے آگے بڑھانا چاہتا ہے اور اپنے آپ کو بیکار، بے وجہ، سمجھنے لگتا ہے زندگی پتھرا جاتی ہے، حرکات بند ہو جاتے ہیں اس لیے کہانی کا موضوع پربت ہے۔ ۶۰ سال کے بعد کی عمر کے پڑاؤ محسوس کیا اور جب ہر انسان اس عمر کے پڑاؤ پر آتا ہے اس کو بڑی خوبصورتی سے مشرف عالم ذوقی نے پیش بھی کیا ہے جو ایک انسان کے جذبات اور احساس کو ایک ادیب کے ذریعے قاری تک پہنچانے کا کام ہے:
’’انہیں لگتا ہے قدرت کے چلائے گئے قانون کی بس انہوں نے بھی چپ چاپ پیروی کر ڈالی ہے— پتنی کو، بچوں کے سکھ اور بچوں کو اپنے اپنے خاندان کے سکھ میں بانٹ کر وہ اپنے اب تک کے فرائض سے آزاد ہو گئے ہیں۔ اس لیے اب اگر ان کے پاس کچھ تازہ سانسیں باقی ہیں تو ایک نئی زندگی کا تصور پھر ان کے پاس بچ جاتا ہے اور وہ جیسے چاہیں اس تصور کا استعمال کرسکتے ہیں۔ ‘‘ (۴۹)
انہوں نے ۶۰ سال کی عمر کی زندگی کو قدرت کا کھیل بتایا ہے جو وقت آنے پر ہر انسان کو اپنا شکار بناتی ہے اور زندگی کے اس ڈراؤنے پڑاؤ کی اسی سوچ سے زندگی کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے اپنے اس کردار کو ’وہ‘ سے مخاطب کیا ہے یا پھر پتا جی یا دادا جی سے جس سے پورے معاشرے کے کردار سامنے آ جاتے ہیں، ان بزرگوں نے اپنے آپ کو اب Busy کرنے کے لیے کدال ہاتھوں میں اٹھا کر مٹی کھودنی شروع کر دی ہے اور باغ تیار کرنے کی سوچ رکھی ہے۔ اس طرح کے خیالات ایسے لوگوں کے ذہنوں میں آتے رہتے ہیں کیونکہ یہ عمر خیالات میں بسر کرنے کی عمر ہوتی ہے:
’’اس رات وہ ذہنی طور پر خود کو بہت ہلکا محسوس کر رہے تھے۔ دیر تک سیاہ آسمان کو تاکتے رہے۔ پھر کرسی پر بیٹھ گئے۔ میز سے وہی پرانی ڈائری اٹھا لی اور لکھنے لگے۔
ایک طرف وہ ہیں …
سوکھے بنجر سے…
اپنی پریشانیوں پر بکھر بکھر جانے والے…
اور ایک طرف قدرت ہے…
وہ آگے نہیں لکھ سکے… دراصل اب انہیں نیند آ رہی تھی۔ (۵۰)
یہ موضوع آج کے سماج کا ایک بڑا المیہ ہے کیونکہ آج بزرگوں کی ضرورتوں کا احساس نئی نسل کو نہیں ہے۔ وہ انہیں شیلٹر ہوم میں رکھ کر ہی اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں جو کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ ذوقی نے اس افسانے میں اسی المیے کی جانب اشارہ کیا ہے۔
بچھو گھاٹی
اس افسانے میں مشرف عالم ذوقی نے ایک ایسے آدمی کی کہانی بیان کی ہے جو اپنے ملک اور اپنے وطن کی بربادی اور بگڑتے ہوئے حالات پر کچھ نہیں کرسکتا اور اپنی وطن پرستی کو وہ اپنے خواب میں دیکھتا ہے اور اپنے سنہری خواب کی تعبیر کے لیے زندگی بھر جدوجہد کرتا ہے۔
مشرف عالم ذوقی نے ایک ایسا کردار تراشا ہے جس کا نام پرکاش ہے جو ایک میگزین کا رائٹر ہے اور دوسرا کردار مسٹر پرکاش کی بیوی کا ہے جو ان کا ہر قدم پر ساتھ دیتی ہے۔ دیپکا ایک نئے دور کی عورت کا کردار بھی ادا کرتی ہے جو ہر موڑ پر زندگی کے ہر تھپیڑے کا سامنا کرنے کے لیے مضبوطی سے تیار ہوتی ہے۔ تیسرا کردار ان کا بیٹا ہے جو نئے زمانے کے ساتھ آگے بڑھنے اور اپنے آپ کو مضبوط کرنے میں لگا ہے اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ اب وہ Part Time کام بھی کرنے لگا ہے۔
اس کہانی کا موضوع بھی آزادی کے بعد کے عہد کا ہے۔ آزادی کے بعد ملک کے حالات اور لوگوں میں کس طرح کی جذباتی اور فکری بدلاؤ آئے اس کو مشرف عالم ذوقی نے اس افسانے میں بیان کیا ہے۔ اس افسانے میں مرکزی کردار مسٹر پرکاش کا ہے جن کے ارد گرد کہانی گھومتی ہے۔
مسٹر پرکاش ایک میگزین کے رائٹر ہیں اور وہ میگزین میں نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ساری باتیں ڈال دیتے ہیں جو ملک کے لیے اور اپنے وطن کے لیے سوچا کرتے تھے کہ جب ہمارے ملک کو آزادی ملے گی تو ہمارا ملک بہشت سے کم نہ ہو گا سب خوش رہیں گے اور آپس میں مل جل کر رہیں گے مگر اب جب آزادی کے بعد وہ اپنے ملک کو دیکھتے ہیں تو اس کی حالت کچھ اس طرح ہے:
’’…تازہ شمارے کا آخری پنّا میری آنکھوں میں گھوم رہا ہے۔ کیسے آئے گی مضبوطی… آنکھیں بند کرتا ہوں تو چاروں طرف مردے ہی مردے نظر آتے ہیں … خون خرابہ… فساد دنگے… آدھے کٹے سر… لہولہان جسم… سڑکوں پر پھیلا ہوا ڈھیر سا لہو… حدِّ نگاہ تک استھی پنجروں کا ایک جزیرہ۔ ہم کسی شمشان میں آ گئے ہیں شاید۔ جہاں مردار کے جلتے گوشت کی بو ہر جگہ پھیلی ہے۔ آس پاس سے گھورتی ڈراؤنی آنکھیں … اور ہزاروں مردہ آنکھیں … چہار طرف سے پیٹھ میں کسی نوکیلے خنجر کی طرح گھسی جاتی ہیں۔ جلاتی جاتی ہیں … تم کسی شمشان میں آ گئے ہو اور اس شمسان سے باہر نہیں نکلنا چاہتے تم… ان میں رچ بس گئے ہو… تمہاری سانس سانس میں اُتر گئی ہیں، مردار کے گوشت کی بو… تم اس کے عادی ہو گئے ہو… ہزاروں لاکھوں جانیں نذر کر کے تم نے آزادی پائی بھی تو آزادی کے جسم کو شمشان میں لا کر جلا دیا۔ کتنی ہی پیڑھیوں کو تم ذات پات، دھرم، مذہب کے نام پر کھا گئے… اپنی سنسکرتی کو، سبھیتا کو اور خود کو… تم دوسری بے کار چیزوں میں اتنا بٹتے گئے کہ انسان نہیں رہ گئے… کچھ اور ہو گئے ہو تم… دیکھتے ہوئے بھی یہ آگ تمہیں نظر نہیں آئے گی… سچ کہوں، تم بھوت ہو گئے ہو…‘‘ (۵۱)
مشرف عالم ذوقی نے آزادی کے بعد کے نقشے کو نہ صرف باغیانہ انداز میں کھینچا ہے بلکہ انہوں نے سیاست داں اور انتظامیہ کو اپنی طنز کا نشانہ بھی بنایا ہے اور ان کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ان کا کردار جو ہر وقت اپنے ملک کی بربادی کے نظارے دیکھ کر پریشان رہتا ہے اور اپنے اور اپنے بچوں کا اور تمام لوگوں کا مستقبل جو کبھی آنکھوں میں ایک چمک لا دیتا تھا آج وہ زندگی کی ڈراؤنی کہانی بن کر رہ گیا ہے:
’’مجھے تم سے شکایت ہے،
کہ تم نے انتظامیہ کو سمجھ رکھا ہے
اُگال دان
آتے ہو اور تھوک دیتے ہو
کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا ہے اس سے
کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا اس سے
بلکہ پیدا ہو گا ایک اور مسئلہ
جب ایک دن بھر جائے گا اُگالدان تمہاری تھوکوں سے
تب پیدا ہو گا
تھوک سے بھرے ہوئے اُگال دان کو پھینکنے کا مسئلہ۔ ‘‘ (۵۲)
اس کہانی کو انہوں نے بچھو گھاٹی نام اس لیے دیا کہ ہر وقت انسان جو سوچتا ہے جب اس کو نہیں مل پاتا تو اس کے دل و دماغ کے کونے میں وہ بات بیٹھ جاتی ہے اور وہ ہر وقت اس کوشش میں رہتی ہے۔ جب بھی اس کو موقع ملتا ہے تب وہ باہر نکل کر انسان کے جذبات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے اس احساس کو جو کبھی ایک خواب سجایا تھا۔ اس میں اپنے اور اپنے ملک کی تمام خوشیاں دیکھی تھیں اور زندگی کو ایک خوشگوار زندگی کی طرح دیکھا تھا، انہیں سب کو مسٹر پرکاش جب اپنی میگزین میں لکھتے ہیں تو لوگ اسے اپنے جذبات سے قریب پاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے لکھنے کا احساس مجھے اس سے ہی ملا ہے۔ ہر طرف چھائی ہوئی بے چینی اور لوگوں میں نفرت، فساد دنگے جو مجھے اندر ہی اندر ہارنے کا احساس دلاتے تھے مگر دیپکا نے مجھے ہر بار ہار کے احساس سے ابھارا اور مجھے نئی راہ سجھائی تب میں نے سوچا کہ انسانوں کی بے چینی اور درد کو بانٹنے اور اس میں شامل ہونے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ میری تحریر ہے۔ مگر سوچتا ہوں اس سے کیا ہونے والا ہے۔ صرف مجھ کو ہی سکون ملے گا قلم سے کینوس پر اپنے جذبات کو اُبھار کر مگر لوگوں پر اس کا اثر پڑے گا کہ نہیں اس بات کی کیا گارنٹی ہے۔
جہاں تک موضوع کی بات ہے تو انہوں نے اپنے عہد میں جو آزادی کی جدوجہد دیکھی اور پھر آزادی کے بعد کا منظر جو ان کی آنکھوں کے سامنے تھا اور بٹوارے کا منظر جو لوگوں کو اپنے ہی گھروں سے بے گھر کر دینے والا ڈراؤنا منظر ان کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا اور سارے کردار جو اس وقت کے حالات زندگی سے جوجھ رہے تھے انہیں سب سے انہوں نے اپنے افسانے میں ایسے جذبات اور احساس بھر دئیے ہیں جو پڑھنے پر حقیقت نگاری کا بھرپور احساس دلاتے ہیں۔ انہوں نے اس عہد کو ہی بچھو گھاٹی کہا ہے جس میں انسان پھنس کر رہ گیا ہے:
’’مجھے لگتا ہے انجانے طور پر دیکھے گئے۔ ان نیلے پیلے سپنوں سے میں دور نہیں جا سکا شاید… وہ اب تک مجھ میں بستے ہیں … اور صرف بستے ہی نہیں بلکہ موقع کی تلاش میں بھی رہتے ہیں۔ ذرا بھی موقع ملے تو مجھے توڑنے لگتے ہیں۔ تب تب اپنے پورے احساس کو میں کوئی نام نہیں دے پاتا۔ جانے کیوں لگتا ہے کہ میں بچھوؤں سے بھری ہوئی گھاٹی میں ہوں … قدم قدم پر گھات لگائے بچھو میرے جسم پر بچھ بچھ گئے ہیں … ان کے زہریلے ڈنکوں نے لہولہان کر دیا ہے…‘‘ (۵۳)
مشرف عالم ذوقی کا یہ افسانہ تقسیم ہند سے پیدا ہوئے حالات کی عکاسی کرتا ہے جس میں انہوں نے تقسیم ہند کے تمام مرحلوں اور اس وقت کی جدت اور کرب کو اپنی کہانی میں اتارنے کی کوشش کی ہے جو قاری کو اپنی طرف مائل کر لیتے ہیں۔ تقسیم وطن کے ہراس جذبات اور احساس کو مشرف عالم ذوقی نے اپنے افسانے میں ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ان کا ایک شاہکار افسانہ ہے۔
تحریکیں
یہ کہانی بے روزگار نوجوانوں کی کہانی ہے جو ملازمت نہ ملنے کے سبب پریشان ہو کر کجروی کے شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ نوجوان دراصل بے سمتی کے شکار ہیں۔ اور ملک کے نوجوان کو راستہ دکھانے والے ہی انہیں گمراہ کر کے اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ اس معاشرتی المیے اور تضاد کو اس افسانے میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک اشارہ اس طرح ہے:
’’ہم سب بیکار ہیں اور شہر میں تحریکیں بڑھی جا رہی ہیں۔ ‘‘ کبھی چلتے چلتے میں پوچھ بیٹھتا تو سنجیو ایکدم سے میری بات کاٹ دیتا۔ بڑی بڑی باتیں کہتے ہوئے جب اچانک اپنے کھوکھلے ہونے کا احساس جاگتا ہے تو لگتا ہے کسی بھی اس طرح کے پوچھے گئے سوال سے کوئی پریچے (تعارف) نہیں ہے ہمارا۔ جنم سے ہی اپاہج رہے ہیں ہم۔ پارالائزڈ کر دیا گیا ہے ہمارے اندر کے آدمی کو۔ کھوکھلا اور نپنسک (نامرد)۔ اب تمام باتیں اصلیت کی آڑ میں چوٹ کرتی ہیں اور سامنے دکھتا ہے سڑے ہوئے گوشت والا بدبو دار آدمی… بیکار آدمی…‘‘ (۵۴)
اس افسانے میں بیکار اور بے روزگار لوگوں کی زندگی کی حقیقت نگاری کی گئی ہے کہ جب ان کو کوئی کام نہیں ملتا تو وہ اپنا خرچ کیسے چلاتے ہیں اور سرکار کی ہر روز کی تحریکیں جو عام انسان کو صرف استعمال کرنا اور بیوقوف بنانا ہے۔ اس کے لیے ایسے ہی انسان استعمال ہو رہے ہیں۔ سب کچھ جان کر بھی وہ استعمال ہو رہے ہیں کیونکہ وہ اب صرف ان کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن کر رہ گئے ہیں۔ مشرف عالم ذوقی نے اس میں عام انسان کے جذبات خاص کر ان لوگوں کے جذبات کی عکاسی کی ہے جو ایک پیالی چائے کے لیے دوسرے کے محتاج ہیں اور جب انہیں یہ بھی نہیں ملتا تو اس گندی سیاست میں گھس جاتے ہیں جس کا کام جعل سازی اور لوگوں کو صرف دھوکہ دھڑی اور ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر اپنا ووٹ بنک تیار کرنا ہے۔ اور صرف باتیں اور وعدوں پر ان کو ہر روز نئے نئے خواب دکھانا ہے۔ یہ تمام سیاست داں صرف لوگوں کو استعمال کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتے۔ ہر بات میں ان کی اصلیت جھلکتی ہے اور انسان اپنے آپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس دور کی جھلسا دینے والی دھوپ اور اس کی تپش سے انسان کے چہرے جھلسا دیتی ہے اور اپنا بدنما نشان لوگوں کے چہرے پر چھوڑ جاتی ہے۔ ان تمام باتوں کو مشرف عالم ذوقی نے اپنے افسانے میں بڑی باریکی سے پیش کیا ہے۔
فرقہ وارانہ فسادات اور وطن پرستی سے الگ موضوع جو آج کے انسان کی خاص سوچ اور زندگی کے بھاگ دوڑ میں سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے اور انسان کے فرسٹیشن (Frustration) کو جو عمر کی نوجوانی کی دہلیز پر ہوتی ہے جب اس کو روزگار کی تلاش ہوتی ہے اور اس کی لاکھ کوششوں کے باوجود نہیں ملتی تو اس کے پاس اس گندی سیاست میں آنے کا راستہ ہی بچتا ہے اور جان بوجھ کر وہ اس کوئلے کی کان میں چلا جاتا ہے اور اپنے آپ کو ان انسانوں سے الگ پاتا ہے جو روز محنت کرتے ہیں اور روز کھاتے ہیں اور اپنے ضمیر کو نہیں بیچتے۔ صرف اپنے خوابوں اور اپنے ارمانوں کو بھول جاتے ہیں۔ زندگی میں چھوٹی چھوٹی خوشیاں ڈھونڈتے ہیں۔ اس کی عکاسی مشرف عالم ذوقی نے کی ہے:
’’تحریکیں جاری ہیں۔ بیکاروں کو اور کوئی کام نہیں رہ گیا ہے۔ ‘‘ روز روز ایک سے نعرے، ہڑتال، بندی، کیا ملتا ہے ان کھوکھلی پکاروں سے۔ سلگتے نعروں سے، ملک کی جڑیں کمزور کرتی جا رہی ہیں یہ تحریکیں۔ تم کیا سوچتے ہو جاوید؟‘‘ (۵۵)
ایک ہی پریشانی میں مبتلا لوگ جب آپس میں باتیں کرتے ہیں تو اس کا راستہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہی راستہ ان کو سوجھتا ہے جو جلدی سے جلدی ان کو کوئی منزل دکھائے اور کوئی ایسا راستہ جو ان کو اس بے روزگاری سے نجات دلائے اور اس احساس کا فائدہ اٹھا کر سیاست کو چلانے والے ان کا استعمال کرنے لگتے ہیں۔ ایک جگہ یوں لکھتے ہیں :
’’ایک بات مجھے یاد آ رہی تھی۔ ان تحریکوں سے کسی کا بھلا نہیں ہوسکتا۔ بندی، ہڑتال، نعرے، ملک کی جڑیں کمزور کرتی جا رہی ہیں … یہ تحریکیں —— بھیم سین مجھے دلاسہ دے رہا تھا۔ گھبراؤ نہیں خبر اچھی ہے۔ معاملہ آج ہی نمٹ جائے گا۔ آج آخری دن ہے۔ تمہارا وزن بہت ہی کم ہو گیا ہے۔ آج ہی ہماری مانگیں منظور کر لی جائیں گی۔
اور شام تک خبر بھی آ گئی۔ مانگیں منظور ہو گئی تھیں۔ کیمپ میں جشن من رہا ہے۔ باہر نعروں سے فضا بوجھل ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں دور تک سر ہی نظر آ رہے ہیں۔ کافی لمبی بھیڑ ہے۔ لوگ جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کچھ مزدور طبقے ہنستے گاتے ہوئے جیت کے جشن میں شامل ہو گئے ہیں … صرف میں کٹ گیا ہوں۔ ہاں میں کٹ گیا ہوں۔ کمزور اور تھکا ہارا، چپ چاپ سر جھکائے ہوئے بے جان قدموں سے گھسیٹتے ہوئے گھر لے جا رہا ہوں … کھوکھلے اور پار الائزڈ آدمی کو۔ ‘‘ (۵۶)
جلا وطن
اس افسانے کا مرکزی کردار رماکانت ہے۔ یہ افسانہ اس کی زندگی کے ابتدائی ایام سے شروع ہو کر عمر کے ۶۰ ویں سال تک پہنچتا ہے۔ جب اس کے ۶۰ سال پورے ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد کا وقت انسان کی زندگی کے لیے کاٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جب اس کے پاس بالکل وقت نہیں تھا تو اس کو اس بات کا احساس بھی نہیں تھا کہ لوگوں کو وقت دینے سے ان کو اچھا لگتا ہے۔ جب انسان اپنے عمر کے اس پڑاؤ پر آ جاتا ہے تو اس کو بیکار کی چیز سمجھا جاتا ہے۔ اس کی اہمیت بیکار کی چیز جیسی ہو جاتی ہے جس کی اس وقت کوئی ضرورت نہیں۔ وہ اتنا اکیلا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ سے بات کرنے لگتا ہے۔ اس کو اپنے بیتے ہوئے وقت یاد آتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو اس دنیا سے، اس سماج سے کٹا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس لیے اس افسانے کا نام ’جلاوطن‘ رکھا گیا ہے:
’’آزادی کے بعد تو اتنے سارے گمبھیر مسئلوں نے ایک ساتھ جنم لیا ہے کہ انہیں چیرتے پھاڑتے ہوئے کبھی کبھی دکھ ضرور ہوا ہے اور کسی نہ کسی انجانے گوشے سے یہ آواز ضرور اٹھی ہے کہ ان مسئلوں سے خود کو الگ کر کے رماکانت تم غداری کا ثبوت دے رہے ہو۔ کندھے ایک بار پھر جھک جاتے۔ کمزور آدمی کی حکومت سے لڑائی ہی کتنی ہوتی۔ مگر یہ لڑائی حکومت سے نہ تھی، وطن سے نہ تھی، بلکہ اپنے آپ سے تھی اور ہر بار رماکانت آئینے میں اپنی بزدلی کا چہرہ دیکھ کر ڈر جاتے۔
ایسا پہلے تو نہیں تھا رماکانت۔ مگر اب؟‘‘ (۵۷)
رماکانت ایک ایسا کردار ہے جس نے زندگی میں وہ سب کچھ دیکھا ہے جو ایک عام ذہن والا انسان نہیں دیکھ سکتا۔ وہ جب اپنے آفس میں کام کرتا تھا تو صرف اس کو اپنے کام کے سوا اور کچھ نہیں سمجھ میں آتا تھا۔ آفس سے گھر، گھر سے آفس۔ بلا وجہ وہ بات بھی نہیں کرتا تھا۔ اس کے پاس اپنے لیے وقت نہ تھا۔ اپنے گھر والوں کے مسائل اور پریشانیوں کے حل کے لیے وقت نہ تھا، تو ملک کے لیے وقت کہاں سے نکلتا؟
دوست اس پر بہت ناراض ہوتے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ اس کو کچھ بھی پتہ نہیں ہے اور آج ملک میں چل کیا رہا ہے۔ بس اپنی فائلوں کے بیچ اپنی زندگی کو محدود کر لیا ہے۔ نہ اخبار پڑھتا ہے اور نہ T.V دیکھتا ہے اور نہ ریڈیو سنتا ہے۔ اس کے لیے ان سب باتوں پر توجہ دینے کے لیے کبھی بھی وقت نہ ملا۔ اسی لیے جب اس کے رٹائرمنٹ کا وقت آیا تو اس کے دوست اور آفس میں کام کرنے والے لوگوں نے کہا کہ رماکانت اب تم آزاد ہو، اپنے ان سب کام کرنے کے لیے جو تم نے اپنے پچھلے وقت میں نوجوانی کے دن چھوڑ دیے تھے۔ ہندوستان میں کب بم گرا، کب ہندوستان دو ٹکڑوں میں بٹ گیا، ان سب باتوں کو سن کر رماکانت ایک دم سکتے میں آ جاتا ہے اور اس کو اپنے وقت میں کیا ہو رہا تھا کچھ پتہ نہیں اور آج وہ اس جگہ پر آ کر کھڑا ہوا ہے جہاں سے اپنے آپ کو وہ بہت اکیلا اور کمزور سمجھتا ہے اور وہ سب باتوں کو اپنے ہی اندر سوچتا ہے اور ان کو کسی طرح اپنے اندر نگلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کہانی میں ہندوستانی لوگوں کی ذہنیت اور زندگی کی بھاگ دوڑ میں دنیا کیا ہے کہاں چلی گئی۔ لوگ کتنے بدل گئے۔ اپنے آپ کو بناتے بناتے رماکانت آج اکیلا ہو گیا ہے۔ نہ اُس کے پاس لوگ ہیں اور نہ تاریخ یادداشت یہ زندگی کے بھاگ دوڑ کی کہانی ہے جس کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے:
’’صمد بھائی نے گمبھیر لہجے میں کہا ’’دراصل ہم ہندوستانیوں کی ہندوستانیت سوگئی ہے۔ جاتے جاتے فرنگیوں نے اسے سلا دیا۔ بس یہی چیز ہے اور ہم ہیں کہ بیدار ہونا نہیں چاہتے۔ ‘‘
’’جو ہوتا ہے وہی تو اخبار لکھتا ہے۔ ‘‘ کاشی جی مضبوطی سے اپنی بات پر جمے رہے۔ ’’گورکھا لینڈ، پنجاب، میزورم، تاملیوں کے ہنگامے۔ اخبار لکھیں نہیں تو ہم ان کی تہہ تک کیسے پہنچیں۔ ‘‘
’’کیا سچ مچ آپ باتوں کی تہہ تک جانا چاہتے ہیں ؟‘‘ (۵۸)
جلاوطن سے ایک اقتباس جو تقسیم وطن کے جذبات (اور اس عہد کے لوگوں کے) و احساسات اور ذہن پر میڈیا نے کیا اثرات دیے ہیں۔ کس طرح ان کو الگ الگ حصوں میں بانٹ دیا ہے، صرف ان کے دلوں کو ہی نہیں بلکہ ان کے احساسات اور جذبات کو بھی ایک دوسرے سے الگ کر دیا ہے۔ ذہن میں ایک دوسر کے لیے غصہ کرب آنسو پھر رہے ہیں جو تاریخ بھی فراموش نہیں کر پائے گی…
’’یہ خبریں ہیں جنہوں نے تنگ نظر کر دیا ہے ہمیں۔ آگے پیچھے کچھ نہیں سوچتے ہم صمد بھائی! سمجھ لو تم نے پھر ایک الگ پاکستان لے لیا اور ہم نے ایک الگ پنجاب اور باقی بھائیوں نے، ہندوستان کے جغرافیے میں جیسی پھوٹ اب پڑی ہے پہلے کبھی نہیں پڑی۔ اور ہم کیا ہیں ؟ سور کے بچے۔ پشت ہا پشت سے چلی آ رہی محبتوں کو بھلا کر انہی خبروں کو سننے اور پڑھنے کے لیے زندہ رہ گئے ہیں۔ ‘‘ (۵۹)
کبھی کبھی ان اخباروں کو پڑھ کر لگتا ہے کہ یہ صرف خبر کو قے کرنا اور تھوکنا جانتے ہیں۔ ان میں مرچ مسالہ لگا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ کہاں تک اس خبر کے ذریعے ہم سچی خبر تک پہنچ پائیں گے۔ یہ نہ صرف رماکانت کی پریشانی تھی بلکہ ان تمام ہندوستانیوں کی پریشانی تھی جو انسان ہندوستان میں رہتے ہیں۔ انہی سب باتوں سے ہندوستان میں رہنے والے ہمارے بھائی ہمارے اپنے ہی ہمارے دشمن بن گئے ہیں۔ آج ہمارا ملک کئی حصوں میں بٹ گیا ہے اور اس ٹکڑے کی لڑائی عمر بھر چلتی رہے گی اور انسان اپنے آپ سے صرف سوال کرتا رہے گا کہ کیا جو ہو رہا ہے وہ ٹھیک ہو رہا ہے یا پھر ہم کو صرف یہ سب پڑھ کر جان کر انجان ہی بیٹھے رہنا چاہیے مگر انسان اپنے آپ سے کس طرح انجان ہوسکتا ہے۔ اسی طرح رماکانت نہ چاہتے ہوئے بھی زندگی کے پڑاؤ پر الجھ کر رہ جاتا ہے۔ اس بے خبری کو اس افسانے کا موضوع بنایا گیا ہے۔ موضوع کے اعتبار سے یقیناً اس میں جدت ہے۔ اور انسانی فطرت اور ذہنی الجھن کو ایک المیہ بنا کر افسانے میں بتاریخ پیدا کر دیتے ہیں۔ جس کی بھر پائی کبھی نہیں ہو پائے گی۔
تناؤ
یہ نئی نسل کے طالب علموں کے مسائل پر لکھی گئی کہانی ہے۔ اس افسانے میں طالب علموں کی ذہنی پریشانی کو بیان کرتے ہوئے معاشرے اور کسی بھی ادارے کے نظام کی برائیوں اور ان کے استحصال (Exploitation) کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کہانی تین طالب علموں کے گرد گھومتی ہے، ان کے مکالمے اور خود کلامی سے تمام مناظر سامنے آتے ہیں۔ وہ طالب علم جو اعلیٰ تعلیم کے مرحلے میں ہوتا ہے۔ اس پر بیک وقت کئی تناؤ ہوتے ہیں۔ پہلے تعلیم مکمل کرنے کا اور دوسرے گھر والوں کی امیدوں کو پورا کرنے کا۔ لیکن اکثر طالب علم سسٹم کی خرابی کے شکار ہو جاتے ہیں یا گائیڈ کے ناروا سلوک ان کی زندگی اور مستقبل کو ختم کر دیتے ہیں۔ اس ذہنی تناؤ کا اندازہ اس اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے:
’’شاید رمیش نے سچ کہا تھا۔ میری خاموشی کے پیچھے اس تلخ حقیقت کے سوا اور کیا تھا۔ اس دن کمرے میں آ کر میں نے بے سدھ سوئے سوئے اپنے روم میٹ کو دیکھا۔ پھر بوڑھی ماں کو خط لکھنے بیٹھ گیا۔
… عرصہ پہلے تمہارا خط ملا تھا… جو اب اس لیے نہیں دے سکا کہ جواب کیا دوں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ تم نے پوچھا ہے۔ امتحان کب ہو گا، تو جواب ہے امتحان کی منزل سے ہم دور آ چکے ہیں۔ تم نے پوچھا ہے۔ آگے کیا کرنے کا ارادہ ہے۔ تو آگے کا ارادہ ہی گھر سے اتنی دور… یونیورسٹی میں پروفیسروں کے تلوے چاٹنے پر مجبور کر رہا ہے… شاید آپ لوگ تھیسس جیسی کسی چڑیا کے بارے میں نہیں جانتے۔ یہ بڑی خوفناک چڑیا ہوتی ہے۔ جلد پکڑ میں نہیں آتی۔ پروفیسر کے پاس کتا نہیں ہے اور میں جانور کا کام انجام نہیں دے سکتا۔ اس لیے نہیں کہہ سکتا کہ میری تھیسس کا کیا ہو گا۔ تھوڑا تھوڑا بھوکنا تو آیا ہے مگر اب شاید کاٹ کھانے کا فن بھی مجھے اسٹریٹ ڈاگ یعنی گلی کوچوں کے کتوں سے سیکھنا ہو گا۔ ‘‘ (۶۰)
طالب علم جو عموماً جوانی کے ایام میں ہوتے ہیں جہاں خود ان کی امنگیں اور آرزوئیں ہوتی ہیں، ان تمام خواہشات کو بھی طالب علم نظرانداز کر دیتا ہے مگر اس کے باوجود اگر اسے اس ذہنی تناؤ سے چھٹکارا نہ ملے تو اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ:
’’اس تناؤ سے کب مکتی ملے گی۔ شاید کبھی نہیں … کبھی نہیں … درد کا احساس لمحہ لمحہ مختلف صورتوں میں اندر جاگتا ہے۔ پھر زخم بن جاتا ہے… اور پھٹ جاتا ہے۔ آج کالج بند ہے۔ اس لئے کہ رمیش نے خودکشی کر لی۔ اس لئے کہ مانگڈ سر کا قتل ہو گیا۔ مگر مانگڈ سر کا قتل نہیں ہوا۔ ہاں رمیش نے خودکشی نہیں کی بلکہ اس کا قتل ہوا ہے۔ مگر اس بات کو کتنے لوگ جانتے ہیں۔ ‘‘ (۶۱)
دراصل یہ خودکشی خود کسی طالب علم کی نہیں۔ وہ خود اس کا ذمہ دار نہیں بلکہ حالات کی ستم ظریفی ہے جس کا اس افسانے میں ذکر کیا گیا ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انسان ذہنی تناؤ سے پیچھا چھڑانے کے لیے سب کچھ بھول کر اپنی جان دے دیتا ہے جو انسانی زندگی پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ جاتی ہے۔
سفرنامے اور یادداشت
کمرہ بولتا ہے
ذوقی کا یہ افسانہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل منفرد ہے کیونکہ اس میں خودنوشت کی جھلکیاں بھی ہیں کہ نوستلجیائی کیفیات بھی دراصل انسان کی اُس نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے اس افسانے کی تخلیق کی گئی ہے کہ فرد کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل جس جگہ اور معاشرے اور تہذیبی اقدار میں ہوتی ہے، انسان اسے کبھی فراموش نہیں کر پاتا۔ وہ چاہے جس مقام پہ پہنچ جائے یا زندگی کی معیاری رہائش حاصل ہو لیکن وہ اپنی پرانی جگہ کو ضرور یاد کرتا ہے۔ اس کہانی میں بھی وہی نوستلجیائی کیفیت ہے کہ تخلیق کار اپنے کمرے کی یاد کے سہارے کہانی تخلیق کرتا ہے اور زندگی کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے۔ ایک اقتباس اس طرح ہے:
’’میرے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہوئی یاد میں …
یادیں جن سے زندگی کا اتنا گہرا اجڑاؤ ہے کہ میں کبھی سنبھلتا ہی نہیں۔ لوگ مرے مونس و غم خوار کمرے نے مجھے سہارا نہیں دیا ہوتا، ان دنوں اچانک جب پورے مکان میں ایک خلا سا پیدا ہو گیا تھا… اور مکان چار بزرگوں کی رونق سے محروم ہو گیا تھا تو یہی کمرہ تھا جس میں گھنٹوں بیٹھ کر ان کی بھولی بسری پرچھائیوں سے دل بہلایا کرتا تھا۔ آنکھوں میں آنسو آ جاتے…. ‘‘ (۶۲)
مشرف عالم ذوقی نے اس کہانی میں موضوع کے انبار سے افسانے میں زندگی کی ایک ایک چھوٹی سے چھوٹی بات اس کے گھر سے جڑی ہوئی ہے۔ اس کی خوشیاں، آنسو، ہنسی اور بے وجہ کے قہقہے وغیرہ کو اس کے بچپن سے جڑی تمام باتوں کو ایک حسین خواب بنا کر پیش کیا ہے اور اس احساس میں کھو جاتے ہیں۔ ان کا کمرہ ان کی یادوں سے اس طرح جڑا ہے کہ اس میں ہر ایک بات سمائی ہوئی ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ کمرہ بولتا ہے، کمرہ سنتا ہے:
’’سب اوجھل ہو گئے یا کوئی باقی ہے؟‘‘
کمرے میں لوٹتے ہوئے وہی پاگل کیفیت پھر میرے وجود پر مسلط ہو جاتی ہے۔ سچ مچ ٹوٹ رہا ہوں … ٹوٹتا جا رہا ہوں (خدا کبھی کسی کو محسوس کا ایاز نہ بنائے) محسوسات کے صحرا میں جب جب پاگل کر دینے والے بم کے دھماکوں کو محسوس کیا ہے کمرے نے اس کی شہادت پیش کی ہے۔ کمرے میں آئے طوفانوں کی صورت میں … پھٹے ہوئے ڈھیروں کاغذات کی ضرورت ہے… ہم سوتے رہتے ہیں مگر کمرہ جاگتا رہتا ہے… (۶۳)
اس کہانی میں انہوں نے بچپن سے لے کر عہد حاضر تک کی کہانی کو بڑے موثر انداز میں پیش کیا ہے جسے ہم صرف ایک مکان اور ایک سر چھپانے کی جگہ سمجھتے ہیں۔ دراصل وہ ہمارا سب کچھ ہو جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب کوئی چیز آپ کے پاس ہوتی ہے تو اس کے ہونے کا احساس نہیں ہوتا اور نہ اس کی اہمیت کااحساس ہوتا ہے۔ ہاں مگر جب وہ چیز آپ سے دور ہونے لگتی ہے اور اس کو چھوڑ کر دور جانا ہوتا ہے تو اس کی اہمیت کااحساس بھی ہوتا ہے اور اس سے بچھڑنے کا احساس بھی ہوتا ہے۔ بڑے سے بڑے شہروں اور اچھے سے اچھے مکان میں رہنے کے باوجود اپنے گاؤں کی خوشبو اور وہاں کی آب و ہوا دوسری جگہ نہیں مل پاتی جو دل کو ٹھنڈک پہنچائے۔ اس کو ہر وقت اپنے گھر اور ماضی کی یادیں کرب بن کر ستاتی رہتی ہیں۔
ذوقی کا یہ افسانہ خود کلامی کی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔ تحقیق کار خود کلامی کے ذریعے ماضی کی یادیں اور گزرے لمحات کی حسین یادگاریں سب کچھ کو اپنے دامن میں سمیٹے رکھنا چاہتا ہے مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان ماضی اور حال کے درمیان زندہ رہے۔ لیکن ہوتا یہی ہے کہ انسان انہیں دوسروں کے درمیان زندگی گزارتا ہے۔ اس المیے کو اس افسانے میں پیش کیا گیا ہے۔
پینتالیس سال کا سفرنامہ
یہ افسانہ مشرف عالم ذوقی نے خودنوشت کے طور پر لکھا ہے۔ اس میں تخلیق کار کی ذات کا بیانیہ بھی ہے اور معاشرے کے افراد کا بھی۔ انسان جب زندگی کے اس موڑ پر پہنچتا ہے جو زندگی کا ایک پڑاؤ ہے تو وہ یہ سوچتا ہے کہ وہ کیا تھا اور اب کیا ہو گیا۔ وہ اپنے لیے جی رہا ہے یا پھر دوسروں کے لیے یا اپنے پریوار کے لیے۔ یہ اس کو جب پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی عمر کی اس دہلیز پر قدم رکھ چکا ہوتا ہے جب اس کو اپنی تمام باتوں کو یاد کرنے اور اس سے سکھ دکھ درد کے وہ لمحے یاد کرنے کے لیے آگے نہیں پیچھے دوڑنا پڑتا ہے۔ اسی احساس کو مشرف عالم ذوقی نے اپنے افسانے میں محسوس کرانے کی کوشش کی ہے جو ہر انسان کی زندگی میں ایک بار تو آتا ہی ہے اور انسان اپنی زندگی کے اس موڑ پر پہنچ کر اپنے عہد کو یاد کرتا ہے اور اپنی عمر کی یادوں میں وہ اپنے آپ کو کھو کر یہ جذبات طاری کرتا ہے کہ وہ شاید اس سے آج تک بھاگ دوڑ رہا تھا کہ وہ اپنے پریوار اور اپنے بچوں کو خوش رکھ سکے نہ کہ اپنی خوشی کے لیے۔ اب جب وہ اپنے بچوں کو دیکھتا ہے تو اس میں اس کو اپنا عکس نظر آتا ہے اور زندگی کی جدوجہد کو بھول کر اپنے آپ میں خوش رہنے کے بہانے ڈھونڈھ لیتا ہے اور زندگی کا مقصد بھی۔ انہیں جذبات کو انہوں نے کردار اور منظر نگاری سے انسان کے جذبات کو اور عمر کے پڑاؤ کی انسانی جدوجہد کی حقیقت نگاری اپنی ہی کہانی میں کی ہے اور کردار بھی وہ خود ہیں۔ ان کے بیانیہ انداز نے کہانی کو تھوڑا گھما پھرا کر اور بڑا کر دیا ہے۔ بات کو اگر ٹیڑھے میڑھے طریقے سے کہتے تو صرف یہ احساس انسان کی جذبات نگاری اور عمر کے ۴۵ سال میں جب وہ اپنے بارے میں سوچتا ہے تو وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اب تک وہ کیا کر رہا تھا اور وہ کس کے لیے اتنی بھاگ دوڑ تھی۔ ان سب کو انہوں نے ایک انسان نہیں ہر انسان کی کہانی سے جوڑ دیا ہے جو بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ایک اقتباس اس کہانی سے:
’’محسوس تو میں بھی نہ کرسکا۔ مگر ہر بار… ہر چھلا وہ لمحے کے ساتھ یہ احساس ہوتا رہا کہ میں یعنی مشرف عالم ذوقی کی پوری شخصیت مسخ ہوتی جا رہی ہے۔ میں ایک شوہر بنتا جا رہا ہوں، ایک باپ بنتا جا رہا ہوں، ایک آفیسر بنتا جا رہا ہوں اور میری محسوسات کے سارے کے سارے لمحے میری تربیت کے انہیں تینوں جانوروں نے خرید لئے ہوں … میرے مشاہدے اب انہی خیموں میں رہ گئے ہوں اور میرے جذبوں پر میری اپنی مہر نہیں رہی… بلکہ گھر باہر اور آفس… میں ہر جگہ تھوڑا تھوڑا کر کے بٹتا رہا ہوں …‘‘ (۶۴)
وہ اپنی زندگی کی پوری یادوں کو اپنے کینوس پر اُتارنا چاہتے ہیں اور ان یادوں میں وہ انسان کی زندگی جو آج وہ اس بھاگ دوڑ کی دنیا میں جی رہا ہے اور اپنی تمام پریشانیوں کے ساتھ وہ جس خوشی میں رہ رہا ہے اس کا بھی احساس دلاتے ہیں، ایک اقتباس اس طرح سے ہے:
’’…عمر بڑھتی جاتی ہے۔ کوئی عمر کے بارے میں نہیں سوچتا۔ اس لئے کہ بڑھتی عمر کے ساتھ موت کا احساس سلگتا ہے اور موت کے ساتھ وہ خوفناک سا احساس پورے جسم کو زلزلے کی طرح ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ آنکھیں بند ہونے کے بعد کچھ نظر نہیں آتا… کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ وجود ختم… زندگی ختم… رشتے ختم، ناطے ختم، درد ختم، احساس ختم، اب ساٹھ کے سفر میں صرف پندرہ سال بچ رہے ہیں …‘‘ (۶۵)
اس افسانے میں انہوں نے نہ صرف اپنی زندگی کو سفرنامہ کی طرح پیش کیا ہے بلکہ انہوں نے انسان کے وہ جذبات جو ۴۵ سال کی سوچوں کا ہے اور اب وہ ساٹھ سال کی عمر کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے اور پھر بس اب کیا اس کے کوئی خواب نہیں کوئی ارمان نہیں۔ انسان اپنے لیے نہیں جیتا دوسروں کے لیے اپنی زندگی وقف کر دیتا ہے اور جب اس کو ان کی ضرورت ہوتی ہے تو ان لوگوں کے پاس ہی اس انسان کے لیے وقت نہیں ہوتا جس کے لیے اپنی تمام عمر ان کی خوشیوں کو حاصل کرنے میں ختم کر دیں۔ یہ وقت ہوتا ہے عمر کے ۶۰سال پر جو کہ عمر کے اس پڑاؤ پر صرف موت کا ہی انتظار ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔ اس کو انہوں نے بڑی سادگی سے پیش کیا ہے جو ہر انسان کی زندگی میں ہونے والا ہے۔ اس کو محسوس کرایا ہے۔
مجھے موسم بننے سے روکو
اس افسانے میں بیک وقت کئی پہلو ہیں۔ ایک تو موسم کو علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور دوسرا مصنف نے اپنے فن پر اعتماد کا اظہار کر کے نئے رجحانات و رویے میں اپنی شناخت بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس افسانے میں مکالماتی انداز ہے اور کہیں کہیں خود کلامی بھی ہے۔ موضوع کے اعتبار سے یہ تعلّی کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن جس طرح سے معاصر ادب کے پس منظر میں مصنف خود کو رکھتا ہے اور اسے افسانے کی شکل دیتا ہے۔ یہ اپنے آپ میں انوکھا انداز ہے۔ ایک اقتباس انہی کی کتاب سے:
’’اور آگے نہ بڑھوں تو ڈر ہے کہ اپنے ہی تعاقب میں نکلی ہوئی میری آنکھیں، ایک ہی جگہ ٹھہرے ٹھہرے میرے وجود کے ریزے ریزے بکھیر دیں گی… مجھے آگے بھی جانا ہے اور مجھے پیچھے بھی دیکھنا ہے۔ آگے بڑھنے کا خوف نہیں ہے مجھے، مگر پیچھے لوٹنے کا جان لیوا احساس مجھے کھولتے ہوئے چشمے میں اپنا ہی جھلسا ہوا چہرہ دیکھنے پر مجبور کر رہا ہے۔ ہر شخص کو پیچھے دیکھنا پڑتا ہے۔ ‘‘ (۶۶)
اس افسانے میں انہوں نے ادب میں آنے والے نئے نئے موضوعات اور ادیبوں کی سوچ کو تو ظاہر کیا ہے مگر انہوں نے اپنے جذبات اور ادب سے ان کی لڑائی اور کس طرح وہ ادب کو پہلے اپنے دل و دماغ پر طاری ہونے دیتے ہیں پھر ایک صورت ایسی آتی ہے جب وہ وجدان کی منزل میں آ جاتے ہیں اور اسی حقیقت کو انہوں نے اپنے افسانے میں بڑی ہی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ مشرف عالم ذوقی حالات حاضرہ اور خود وہ اپنے عہد میں جو جدو جہد کرتے ہیں اس کی پوری تصویر کشی کرتے ہیں۔
مشرف عالم ذوقی نے اس افسانے میں دو کردار تخلیق کیے ہیں۔ ایک تو نغمی ہے اور زیبا دوسرے کردار کا نام ہے۔ یہ دونوں ہی پوری کہانی میں ایک دوسرے سے مختلف طرح کے سوالات کرتے ہیں اور تخلیق کو اس کے لفظوں کے بھنور میں پھنسا ہوا انسان کہتے ہوئے ان کو ہدایت دیتے ہیں کہ یہ لفظ ہی تم کو ایک دن لہولہان کر دیں گے اور پھر تم کو کوئی نہیں آئے گا بچانے کے لیے، تم اکیلے ہی اس بھنور میں پھنس کر رہ جاؤ گے:
’’…اِدھر اُدھر بکھرے ہیں۔ کوئی ہاتھ لگانے والا نہیں۔ گرد جھاڑنے والا نہیں۔ مجھ پر الزام لگانے والوں نے کبھی یہ دریافت کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ تم لکھتے کیوں ہو؟ وہ کون سی کمی ہے جسے پُر کرنے کے لیے تم کتابوں کا سہارا لیتے ہو… وہ کونسا غم ہے جسے تم لفظوں میں تلاش کرتے ہو… اور ہماری موجودگی میں بھی یہی لفظ تمہاری سہارا بنتے ہیں۔ بولے سب مگر کسی نے پلٹ کر میری ان بکھری ہوئی گرد آلود کتابوں میں نہیں جھانکا… کہ تم ان میں کیوں ہو عالم؟‘‘ (۶۷)
اس پورے اقتباس کو پڑھنے سے مشرف عالم ذوقی کے اپنے جذبات پوری طرح نمایاں ہوتے ہیں کہ انہوں نے ادب میں جو مقام حاصل کیا وہ بڑی ہی محنت و مشقت سے مگر ان کے ہمعصر ان سے خوش نہیں، اس کا انہیں بہت احساس ہے۔
یہ کہانی نئے ادیب کی شناخت کا مسئلہ بھی ہے اور اس فن پر تعصبات کی آنچ بھی جس سے وہ مایوس نہیں بلکہ پورے اعتماد کے ساتھ معاصر ادیبوں اور ناقدوں کے سامنے کھڑا ہے، یہی وہ اعتماد ہے جو ایک ادیب کو ادیب بناتا ہے۔ اس کہانی میں ۱۹۶۰ء کے بعد آنے والی علامت نگاری کی چھاپ بھی دکھائی دیتی ہے، لیکن یہ تخلیق کار کے علمی و ادبی سفر کی کہانی بھی ہے اور اپنے فن سے خود اپنی شناخت بنانے کا عزم بھی ہے:
’’…آدمی بنے رہنے کا بھرم قائم رکھنا چاہتا ہوں میں … اس سفر کو بھی اور ہر اس تلاش کو جس کا تعلق کسی نہ کسی طرح سے زندگی سے ہے… میں لفظ نہیں بننا چاہتا… بلکہ اپنے اندر اس احساس اور جذبات کو قائم رکھنا چاہتا ہوں، جو لفظوں اور مکالموں سے ہوتے ہوئے دھیرے دھیرے مجھ سے دُور ہوتے گئے تھے… اب خود کو اس بات کا احساس دلانا چاہتا ہوں کہ میں مشرف عالم ذوقی ہوں …‘‘ (۶۸)
اس طرح ایک کمزور اور سرمایہ دار کی ٹکر میں ایک مزدور انسان کی جیت ہوتی ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے اس افسانے میں عہد حاضر کی سچی کڑواہٹ کو پیش کیا ہے جب لوگ ڈر کر سرمایہ داروں کے پیروں کی جوتی بن کر اپنی پوری زندگی گزار رہے تھے اور اُف تک نہ کرتے تھے مگر آج جب وہی مزدور طبقہ (well educated) ہو گیا ہے، پڑھا لکھا ہو گیا ہے اس کو اپنے اوپر ہو رہے ظلم و ستم، صحیح غلط سب کا پتہ چل جاتا ہے۔ اب وہ یہ بھی جان گیا ہے کہ ظلم کرنے والے سے بڑا گنہگار ظلم سہنے والا ہے۔ انہوں نے آج اپنے حق کے لیے لڑائی کرنا شروع کر دیا ہے اور ان سرمایہ داروں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر بات کرتے ہیں۔ ان کو اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ اب کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ہے۔ ہم سب برابر ہیں۔ اس لیے وہ اب ہم پر اپنے ظلم و ستم بند کر دیں۔ اسی بات کو مشرف عالم ذوقی نے اپنے افسانے کے ذریعے قاری کی نذر کیا ہے۔ ایک بڑے المیہ پر انہوں نے تنقیدی نظر ڈالی ہے۔
حواشی
(۱) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’ہجرت‘ ص: ۱۰۰
(۲) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’ہجرت‘ ص: ۱۰۲
(۳) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’ہجرت‘ ص: ۱۰۸
(۴) بھوکا ایتھوپیا ’مرگ نینی نے کہا‘ ص: ۵۳-۵۴
(۵) بھوکا ایتھوپیا ’مرگ نینی نے کہا‘ ص: ۴۹
(۶) بھوکا ایتھوپیا ’مرگ نینی نے کہا‘ ص: ۶۶-۶۷
(۷) بھوکا ایتھوپیا، ’ہم خوشبو خریدیں گے‘ ص: ۱۲۹
(۸) بھوکا ایتھوپیا، ’ہم خوشبو خریدیں گے‘ ص: ۱۳۲
(۹) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’مت رو سالگ رام‘ ص: ۱۱۱-۱۱۲
(۱۰) بھوکا ایتھوپیا، ’مت رو سالگ رام‘ ص: ۱۱۹
(۱۱) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ مت رو سالگ رام‘ ص: ۱۱۰
(۱۲) بھوکا ایتھوپیا، ’مہاندی‘ ص: ۱۶۳
(۱۳) بھوکا ایتھوپیا، ’مہاندی‘ ص: ۱۶۰
(۱۴) بھوکا ایتھوپیا، ’مہاندی‘ ص: ۱۷۳
(۱۵) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’تحفظ‘ ص: ۱۸۱
(۱۶) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’تحفظ‘ ص: ۱۸۳
(۱۷) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’تحفظ‘ ص: ۱۸۵
(۱۸) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’دہشت کیوں ہے‘ ص: ۲۲۸-۲۲۹
(۱۹) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’دہشت کیوں ہے‘ ص: ۲۳۰-۲۳۱
(۲۰) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’دہشت کیوں ہے‘ ص: ۲۳۲
(۲۱) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’دہشت کیوں ہے‘ ص: ۲۳۰
(۲۲) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’میں ہارا نہیں ہوں کامرڈ‘ ص: ۸۶
(۲۳) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’میں ہارا نہیں ہوں کامرڈ‘ ص: ۸۳
(۲۴) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’میں ہارا نہیں ہوں کامرڈ‘ ص: ۹۰
(۲۵) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’خیمے‘ ص:۱۷۶
(۲۶) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’خیمے‘ ص: ۱۷۹
(۲۷) بھوکا ایتھوپیا، ’کان بند ہے‘ ص: ۲۰۳
(۲۸) بھوکا ایتھوپیا، کان بند ہے‘ ص: ۱۹۷
(۲۹) بھوکا ایتھوپیا، کان بند ہے‘ ص: ۱۹۹
(۳۰) بھوکا ایتھوپیا، کان بند ہے‘ ص: ۲۰۵
(۳۱) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’کتنا وِش‘، ص: ۲۴۲-۲۴۳
(۳۲) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’کتنا وِش‘، ص: ۲۴۹
(۳۳) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’کتنا وِش‘، ص: ۲۵۲
(۳۴) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’ہندوستانی‘، ص: ۲۲۰
(۳۵) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’ہندوستانی‘، ص: ۲۱۶-۲۱۷
(۳۶) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ہندوستانی‘، ص: ۲۱۹-۲۲۰
(۳۷) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’ہندوستانی‘، ص: ۲۲۶
(۳۸) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’ہندوستانی‘، ص:۲۲۴
(۳۹) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’سورباڑی‘، ص: ۲۵۴
(۴۰) بھوکا ایتھوپیا، ص:۹
(۴۱) بھوکا ایتھوپیا، ص:۱۵
(۴۲) بھوکا ایتھوپیا، ص:۱۸
(۴۳) بھوکا ایتھوپیا، ص:۲۳
(۴۴) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’فنی لینڈ‘ ص: ۱۳۴-۱۳۵
(۴۵) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’فنی لینڈ‘ ص: ۱۳۵
(۴۶) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’فنی لینڈ‘ ص: ۱۴۵
(۴۷) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’فنی لینڈ‘ ص: ۱۴۴-۱۴۵
(۴۸) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’پربت‘ ص: ۱۵۴
(۴۹) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’پربت‘ ص: ۱۵۶
(۵۰) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’پربت‘ ص: ۱۵۹
(۵۱) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’بچھو گھاٹی‘ ص: ۴۲-۴۳
(۵۲) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’بچھو گھاٹی‘ ص: ۴۳
(۵۳) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’بچھو گھاٹی‘ ص: ۴۵
(۵۴) بھوکا ایتھوپیا، ’تحریکیں ‘ ص: ۱۸۷-۱۸۸
(۵۵) بھوکا ایتھوپیا، ’تحریکیں ‘ ص: ۱۸۹
(۵۶) بھوکا ایتھوپیا، ’تحریکیں ‘ ص: ۱۹۵
(۵۷) بھوکا ایتھوپیا، ’افسانہ جلاوطن‘ ص: ۲۰۷
(۵۸) ھوکا ایتھوپیا، ’افسانہ جلاوطن‘ ص: ۲۱۳
(۵۹) بھوکا ایتھوپیا، ’افسانہ جلاوطن‘ ص: ۲۱۳
(۶۰) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’تناؤ‘ ص: ۲۶۵
(۶۱) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’تناؤ‘ ص: ۲۶۴
(۶۲) بھوکا ایتھوپیا، کمرہ بولتا ہے ص: ۲۷۵
(۶۳) بھوکا ایتھوپیا، کمرہ بولتا ہے، ص: ۲۷۷
(۶۴) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’فنی پینتالیس سال کا سفر‘ ص: ۲۸۸
(۶۵) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’فنی پینتالیس سال کا سفر‘ ص: ۲۹۱
(۶۶) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’مجھے موسم بننے سے روکو‘ ص: ۲۹۶
(۶۷) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’مجھے موسم بننے سے روکو‘ ص: ۳۰۲
(۶۸) بھوکا ایتھوپیا، افسانہ ’مجھے موسم بننے سے روکو‘ ص: ۳۰۳-۳۰۴
حاصل مطالعہ
۱۹۸۰ کے بعد اردو افسانے کا جو منظرنامہ خلق ہوتا ہے، اس میں نئی نسل کے ایسے افسانہ نگار ابھر کر سامنے آتے ہیں جو اپنے فکری و فنی رویوں میں اپنے سے پیشتر افسانہ نگاروں سے مختلف و ممتاز ہیں۔ یہ افسانہ نگار اپنے تخلیقی انہماک اور فکری و فنی ارتکاز کے ذریعہ اردو افسانہ کے مزاج میں تبدیلی لانے کی حتی الوسع کوشش کرتے ہیں۔ ان کے فکر و فن کے امتزاج سے افسانے کے لیے جو فضا تیار ہوتی ہے اس میں اردو افسانے کے نئے رجحان کی پرورش و پرداخت کے لیے مناسب و موزوں زمین ہموار ہوتی ہے۔ میں نے اس باب میں چند ایسے ہی افسانہ نگاروں کے فکری امتیازات و فنی خصوصیات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ ۱۹۸۰ کے بعدافسانہ نگاروں کی ایک لمبی قطار موجود ہے جنہوں نے اردو افسانے کو جدیدیت سے الگ اپنی پہچان بنانے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ان میں کچھ افسانہ نگار ایسے بھی ہیں جن کا شمار جدیدیت کے بہترین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے اور جن کے یہاں وہ سارے عوامل و عناصر موجود ہیں، جن سے جدیدیت کے رجحان کو تقویت ملی اور جن سے نئے افسانہ نگاروں نے قدم قدم پر رہنمائی حاصل کی۔ ان میں شفق، سلام بن رزاق، سریندر پرکاش اور سید محمد اشرف کے نام بڑے اہم ہیں۔ اگر چہ انہوں نے ’نیا افسانہ ‘یا ’جدید افسانہ‘ کو بھی اپنے خون جگر سے سینچا لیکن ۱۹۸۰ کے بعد ہندوستان کے سماجی، سیاسی اور ثقافتی تبدیلی کی وجہ سے ادب کے منظر نامے میں جو انقلاب رونما ہوا اس میں ان افسانہ نگاروں نے بھی اہم رول ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۸۰ کے بعد اردو افسانہ نگاروں کی جو فہرست تیار ہوتی ہے اس میں ان کا نام بھی عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ افسانے کے نئے مزاج کی تعمیرو تشکیل میں حصہ لے کر جدیدیت کے دور میں لکھنے والے کچھ افسانہ نگاروں نے اپنی فراخدلی اور وسعت نظری کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔ اسی کے ساتھ کچھ نئے نام بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں جن کے یہاں جدیدیت کے برعکس رجحان ملتا ہے۔ اس طرح نئے اور پرانے چرا غ کی مشترکہ کوششوں سے اردو افسانے کا ایک نیا باب وا ہوتا ہے جو پہلے سے مختلف بھی ہوتا ہے اور اپنی نئی شناخت بنانے میں کامیاب ہوتا ہے، جسے ہم ۱۹۸۰ کے بعد کا افسانہ کہتے ہیں۔
مشرف عالم ذوقی ۱۹۸۰ء کے بعد کے افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام ہے۔ ذوقی اپنے فن اور فکر کے اعتبار سے اپنے ہم عصروں میں اس لیے ممتاز ہیں کہ انہوں نے ہر سطح پر جدت کی کوشش کی ہے۔ عصری مسائل کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مسائل اور ان کے اثرات کو اپنے فکشن میں سمیٹنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں زندگی کے تمام چھوٹے بڑے مسائل کو موضوع بنایا ہے جو عام زندگی کو اُجاگر کرتا ہے۔ انہوں نے شہر کی زندگی انسانی جذبات اور دنیا کی بھاگ دوڑ اور سماج کی عکاسی، سیاسی مکّاری، سچائی، چالاکی اور وطن پرستی کو اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے۔ انہوں نے ہر دفعہ قاری کے سامنے نئے موضوع پیش کیے اور ہر مرتبہ ان کو الگ ڈھنگ سے پیش کیا جو ان کے افسانوں میں قاری کو باندھ کر رکھتا ہے۔ اُدھر دوسری طرف انہیں اپنے افسانوں میں کردار کے حوالے سے بھی بڑی مہارت حاصل ہے۔ انہوں نے کرداروں کو اپنے افسانوں میں اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ چلتے پھرتے اور ہنستے روتے عام زندگی سے تصادم کرتے نظر آ جاتے ہیں اور قاری کے ذہن پر دیر تک اپنے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ ان کے کردار غلام بخش کی بات کریں گے تو پڑھنے کے وقت تک اور پڑھنے کے بعد تک وہ ذہن پر حاوی رہتا ہے۔ قاری سالگ رام اور مرگ نینی کو نہیں بھول پاتا۔ مشرف عالم ذوقی کے کردار نہ چاہتے ہوئے اپنے اثرات لوگوں پر اس طرح چھوڑتے ہیں کہ ان کا نام بھولنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ان کو افسانوں میں کرداروں کو پیش کرنے کا ڈھنگ بڑی خوبی سے آتا ہے۔ مشرف عالم ذوقی کا کہنا ہے کہ
’’میں افسانہ نہیں لکھتا افسانہ مجھے لکھتا ہے اور کردار میں نہیں ڈھونڈھتا کردار مجھ سے اتر کر خود ہی ٹکرا جاتے ہیں اور میں مجبور ہو جاتا ہوں ان کو لکھنے کے لیے۔ ‘‘
انہوں نے اپنے افسانوں میں زبان و بیان کے استعمال میں بھی نیا پن لانے کی کوشش کی ہے۔ وہ کردار کے مرتبے اور وقار کے اعتبار سے زبان استعمال کرتے ہیں۔ انہیں جب بھی کوئی بات کہنی ہوتی ہے تو ہر کردار کے لیے اس کی مناسبت سے لفظوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ذوقی اپنے ہم عصروں میں اس لیے بھی منفرد شناخت رکھتے ہیں کہ انہوں نے ہندی، انگریزی اور عام بول چال کی زبان کو بڑی بے تکلفی سے استعمال کیا ہے۔ ان کی کہانیاں ہندی میں بھی شائع ہوتی ہیں۔ ہندی میگزین میں بھی ان کے ادبی نوعیت کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے بھی اپنے ادب کو پیش کیا ہے۔ ان کی زود گوئی پر اکثر ناقدوں نے اعتراض کیا ہے۔ مگر بات یہ ہے کہ ذوقی نہایت ہی حساس ادیب ہیں۔ جب بھی کوئی موضوع ان کے سامنے آتا ہے تو فوراً ہی قلم اٹھا لیتے ہیں اور برجستہ تخلیق شروع کر دیتے ہیں۔
مشرف عالم ذوقی کا تعلق ایسے دور سے ہے جب اردو فکشن نئے رجحانات اور نئے اسالیب سے دو چار ہو رہا تھا۔ مشرف عالم ذوقی خود کو اس راہ کے مسافر نہیں سمجھتے مگر وہ ان اثرات سے پوری طرح محفوظ بھی نہیں رہ پائے ہیں۔ جدید افسانہ اور ما بعد جدید افسانہ کے جو بھی رجحانات ہیں انھیں ان کے فن میں کہیں نہ کہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ ذوقی یوں تو کسی بھی اصول اور نظریات سے بندھے نہیں رہنا چاہتے مگر اچھی بات یہ ہے کہ وہ خود بھی نئے رجحانات اور اثرات کے تحت ادب میں تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ بھی کہ ادب کے موضوعات کو بھی زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہنا چاہیے۔ اسی لیے وہ جدید تر موضوعات کو بھی اپنے فکشن میں جگہ دیتے ہیں۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جو ان کو اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہیں۔
۱۹۸۰ء کے بعد لکھنے والوں کے سامنے ایک نیا جوش اور نیا موضوع تھا مگر فرق صرف اتنا تھا کہ ان میں اس عہد کے لوگوں کے جذبات اور ان کے جدوجہد کو آسان لفظوں میں پیش کرنے کا طریقہ صرف مشرف عالم ذوقی نے ہی اپنایا جو ان کی کہانیوں اور افسانوں میں ملتا ہے۔ ذوقی نے نہ صرف سادہ بیانیہ کا طرز اپنایا بلکہ انہوں نے اپنی کہانیوں کا موضوع سیاست اور سماج کے اہم مسائل سے منتخب کیا ہے۔ چاہے وہ ۱۹۹۲ء کا بابری مسجد کا سانحہ ہو یا پھر گجرات میں گودھرا کانڈ۔ عراق سے لے کر امریکہ کے واقعات کو افسانے کا موضوع بنایا۔ ہر واقعہ جو ان کو لگتا کہ وہ عام انسان کے قریب ہے اور زندگی کے تصادم پر حاوی ہو رہا ہے اس کو وہ اپنے افسانے میں پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے الفاظ سے ’’سونامی‘‘ کے واقعہ کو بھی پیش کیا اور ان کرداروں کو لیا جو عام انسانوں کی زبان میں اپنے احساس پیش کرتے ہیں۔
مشرف عالم ذوقی نے اپنے کرداروں کو افسانوں میں زندہ کیا ہے۔ ان کے کردار حقیقی زندگی سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کو اپنے کرداروں کو ڈھونڈنا نہیں پڑتا۔ کردار ان کے دل و دماغ میں گھومتے رہتے ہیں۔ ان پر لکھنا مشرف عالم ذوقی کی مجبوری ہو جاتی ہے۔ کردار ہی سماج اور پورے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور ادب میں زمینی زندگی کے مسائل کو اجاگر کرتا ہے۔ اس فن و فکر اور تکنیک کو یا تو ایک اچھا ادیب سمجھ سکتا ہے یا پھر مشاہداتی ذہن رکھنے والا قاری۔ ذوقی نے کرداروں کو اس طرح تراشا ہے کہ وہ حقیقی زندگی سے بالکل قریب ہو جاتے ہیں۔ مشرف عالم ذوقی کے کردار انوکھے اور زندگی سے جدوجہد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کے کرداروں میں عام انسان ہمیشہ زندگی کے اُتار چڑھاؤ اور زندگی کے تصادم کو جھیلتا ہوا آگے بڑھتا نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنے فکشن میں کچھ یادگار کردار بھی تخلیق کیے ہیں جیسے بالمکند، غلام بخش، مرگ نینی، سالگ رام وغیرہ۔ ذوقی نے فٹ پاتھ سے لے کر (Elite) کلاس کے کرداروں کو اپنے افسانوں میں جگہ دی اور منفرد کردار تراشے ہیں۔ کسی بھی افسانہ نگار کے لیے یہ بڑی بات ہوتی ہے کہ ان کے کردار افسانہ سے الگ بھی پہچانے جاتے ہوں۔ اپنے کرداروں کے بارے مشرف عالم ذوقی خود کہتے ہیں کہ :
’’آپ مانیں نہ مانیں میں گوشت کی منڈی میں تھا، یہیں چھپے تھے میرے کردار! غلام بخش سے بال مکند شرما، جوش تک اوہ ’’لوتھڑے‘‘ میری آنکھوں میں سمایا رہا۔ اور رنگ بدل بدل کر الگ الگ پاتروں میں ڈھل کر میری کہانیوں کے سفر میں شامل ہوتا رہا۔ (’’وہ گوشت کا لوتھڑا‘‘ بار بار آنکھ مچولی کھیلتا رہا) (۷)
مجموعی طور مشرف عالم ذوقی کی افسانہ نگاری کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے نئی نسل میں اپنے تخلیقی رویے اور متنوع موضوعات کے سبب ایک منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ان کے افسانے روز مرہ زندگی کے واقعات سے لے کر بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کا بھی احاطہ کرتے ہیں۔ اس طرح ان کے فن کا کینوس کافی وسیع ہو جاتا ہے اور یہی وہ صفت ہے جو فنکار کو فنکار بناتی ہے۔
٭٭٭
کتابیات
۱۔ اردو فکشن کی تنقید، ڈاکٹر ارتضیٰ کریم، دریا گنج، دہلی ۱۹۹۶
۲۔ جدید اردو افسانوں میں احتجاج کی بازگشت، ڈاکٹراحمد صغیر، استعارہ پبلی کیشنز، نئی دہلی ۲۰۰۳
۳۔ مختصر افسانہ نگاری کی تنقید، ڈاکٹر پروین اطہر، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ ۲۰۰۰
۴۔ جدید افسانہ، چند صورتیں، صبا اکرام، اوکھائی پرنٹنگ پریس، کراچی ۲۰۰۱
۵۔ تنقید کے مثبت رویے، نگہت ریحانہ خان، ثمر آفسٹ پریس، نئی دہلی۱۹۹۷
۶۔ نیا افسانہ مسائل اور میلانات، پروفیسر قمر رئیس، اردو اکادمی، دہلی ۹۲-۲۰۰۱
۷۔ اردو مختصر افسانہ: فنی و تکنیکی مطالعہ، ڈاکٹر نگہت ریحانہ خان، کلاسیکل پرنٹرس، دہلی ۱۹۸۶
۸۔ نمائندہ اردو افسانے، پروفیسر قمر رئیس، اردو اکادمی، دہلی ۹۴، ۹۹، ۲۰۰۳
۹۔ ایوانِ اردو کے منتخب افسانے، زبیر رضوی، مخمور سعیدی، اردو اکادمی، دہلی ۱۹۹۵
۱۰۔ اردو افسانہ ۱۹۸۰ء کے بعد (تجزیہ و تنقید)، ڈاکٹر غضنفر اقبال، اورین پرنٹرس، حیدر آباد ۲۰۰۶
۱۱۔ اردو افسانے کا تنقیدی مطالعہ (۴۷-۱۹۹۰)، ڈاکٹر مہناز انور، نامی پریس، لکھنؤ ۱۹۸۵
۱۲۔ علی گڑھ میگزین، اردو فکشن میں علی گڑھ کا حصہ، مرتب: امتیاز احمد، پروفیسر شہریار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ ۹۱-۱۹۹۵
۱۳۔ تعارف و و تنقید، ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین، کتابی دنیا، دہلی ۲۰۰۴
۱۴۔ جدید اردو کی تنقید کا مطالعہ، نشاط فاطمہ، ونتی پبلی کیشنز، کلکتہ ۱۹۹۸
۱۵۔ جدید اور ادب، آل احمد سرور، شعبہ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
۱۶۔ اردو تنقید پر ایک نظر، کلیم الدین احمد، تقسیم کار بک امپوریم، پٹنہ ۱۹۸۳
۱۷۔ جدیدیت کی فلسفیانہ اساس، شمیم حنفی، مکتبہ جامعہ، نئی دہلی ۱۹۷۷
۱۸۔ اردو فکشن اور تیسری آنکھ، وہاب اشرفی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی ۱۹۹۸
۱۹۔ جوگندر پال کے افسانوں کا انتخاب، انیس امروہوی، این کے پرنٹ اینڈ پیک ریشی پارک، لکشمی نگر، دہلی ۱۹۹۹
۲۰۔ بستیاں جوگندر پال، اردو اکادمی، دہلی، ۲۰۰۰
۲۱۔ سیاہ کاغذ کی دھجیاں، عبدالصمد، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی ۱۹۹۶
۲۲۔ میوزیکل چئیر، عبدالصمد، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی ۲۰۰۲
۲۳۔ غلام بخش اور دیگر کہانیاں، مشرف عالم ذوقی، تخلیق کار پبلشرز، دہلی ۱۹۹۸
۲۴۔ شکستہ بتوں کے درمیان، سلام بن رزاق، مہاراشٹر اسٹیٹ اردو، ساہتیہ اکیڈمی ۲۰۰۱
۲۵۔ کہانی انکل، غضنفرعلی، بھارت آفسیٹ پریس، دہلی ۱۹۹۴
۲۶۔ لینڈ اسکیپ کے گھوڑے، مشرف عالم ذوقی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی ۲۰۰۳
۲۷۔ بھوکا ایتھوپیا، مشرف عالم ذوقی، تخلیق کار پبلشرز، دہلی ۱۹۹۳
۲۸۔ اردو میں ترقی پسند تحریک، خلیل الرحمن فاروقی، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ ۱۹۹۶
۲۹۔ سنگار دان، شموئل احمد، عزیز پرنٹنگ پریس، دہلی ۱۹۹۶
۳۰۔ وراثت، شفق، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی ۲۰۰۳
۳۱۔ افسانہ اور افسانے، ڈاکٹر وہاب اشرفی، کتاب گھر، مظفرپور
۳۲۔ لپروسی کیمپ، مشرف عالم ذوقی، خواجہ پریس، جامع مسجد، دہلی ۲۰۰۰
۳۳۔ داستان سے افسانے تک، وقار عظیم، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ ۲۰۰۳
۳۴۔ فن اور تنقید اردو تنقید نگاری، نورالحسن نقوی، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ ۲۰۰۱
۳۵۔ اردو میں نشریاتی ادب (تحقیق)، ڈاکٹر محمد شکیل اختر، فرید بک ڈپو لمیٹڈ، نئی دہلی۲۰۰۷
۳۶۔ اردو ادب کی تحریکیں (ابتدا تا ۱۹۷۵)، ڈاکٹر انور سدید، کتابی دنیا، دہلی ۲۰۰۴
۳۷۔ جدید اردو تنقید اصول و نظریات، ڈاکٹر شارب ردولوی، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ ۲۰۰۲
۳۸۔ فن افسانہ نگاری، وقار عظیم، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ ۱۹۹۰
۳۹۔ آج کا اردو ادب، ابواللیث صدیقی، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ ۱۹۷۵
۴۰۔ ادبی تنقید، محمد حسن، اردو فروغ اردو لکھنؤ ۱۹۵۴
۴۱۔ اردو افسانہ اور افسانہ نگاری، فرمان فتح پوری، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، دہلی ۱۹۸۲
۴۲۔ اردو نثر کا فنی ارتقاء (مرتبہ)، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی ۱۹۹۴
۴۳۔ اردو افسانے کی نئی تخلیقی فضا، رام لعل، سیمانت پرکاش، دہلی۱۹۸۵
۴۴۔ مختصر افسانے کا فنی تجزیہ، فردوس فاطمہ، اسرار کریمی پریس، الہ آباد ۱۹۷۵
۴۵۔ مختصر افسانے کا فنی تجزیہ، فردوس فاطمہ، الہ آباد ۱۹۷۵
۴۶۔ جدید افسانہ اردو ہندی، طارق چھتاری، ایجوکیشنل بک ہاؤس۱۹۹۲
۴۷۔ تنقیدی تناظر، قمر رئیس، دہلی ۱۹۸۱
۴۸۔ افسانہ حقیقت سے علامت تک، ڈاکٹر سلیم اختر، اردو رائٹرس گلڈ الہ آباد ۱۹۸۰
۴۹۔ جدید افسانہ اور اس کے مسائل، وارث علوی، نئی آواز، جامعہ نگر، نئی دہلی ۱۹۹۰
۵۰۔ عصری اردو افسانہ: ایک نیا مکالمہ، مشرف عالم ذوقی، (زیر طبع)
۵۱۔ صدی کو الوداع کہتے ہوئے، مشرف عالم ذوقی
۵۲۔ امام بخاری کا نیپکین، مشرف عالم ذوقی، پینگوئن بک انڈیا، ۲۰۰۷
۵۳۔ باغ کا دروازہ، طارق چھتاری، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، ۲۰۰۱
۵۴۔ ڈار سے بچھڑے، سید محمد اشرف، تخلیق کار پبلشرز، ۱۹۹۴
۵۵۔ شکستہ بتوں کے درمیان، سلام بن رزاق، ایڈشاٹ پبلی کیشنز، ممبئی ۲۰۰۱
٭٭٭
فائل فراہمی کے لئے مصنف مشرف عالم ذوقی کے تشکر کے ساتھ
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید