فہرست مضامین
- مشاہیر خطوط کے حوالے سے
- انتساب
- حرف خیر
- شادؔ عارفی اپنے ہی خطوط کی زد میں
- کم سخن و کم آمیز جذبی
- قرۃ العین حیدر اور پروین شاکر کے بیچ رنجش
- مدیر ’’نقوش‘‘سے عزیز احمد کی سودے بازی
- رضیہ سجاد ظہیر کے نام
- ڈپٹی نذیر احمد خاں اور حیدرآباد
- یوسف خوش سخن
- دوستی زندہ ہے
- خوش کردار حالیؔ
- مواعظ۔۔ ۔ ادب کے آئینے میں
- خط خیر۔ و۔ جوابِ ناوک
- عصمت چغتائی نایاب خطوط کے حوالے سے
- کوائف
مشاہیر خطوط کے حوالے سے
(تنقیدی مضامین )
رؤف خیر
ڈاؤن لوڈ کریں
انتساب
فرزندانِ ارجمند رافف خیری و ہاتف خیری
میرے محسن راسخ العقیدہ ماہر لسانیات پروفیسر غازی علم الدین (پاکستان)
اور
کرم فرما مصطفیٰ کمال پاشاہ
(ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی)
کے نام
ہمارا کوئی بھی نعم البدل نہیں ہو گا
ہماری خالی جگہ کوئی بھی نہیں بھرتا
معاف کرنا یہ خاکہ کہاں اُبھر پاتا
اگر یہ دست ہنر رنگ ہی نہیں بھرتا
رؤف خیر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حرف خیر
یہ ادب کا بہت بڑا المیہ ہے کہ اب خطوط لکھے ہی نہیں جا رہے ہیں۔ ادب ہی کیا کسی بھی فن کے نابغۂ روزگار کے خطوط بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ تحریر کا حسن اور واقعیت خطوط ہی سے تو جھلکتی ہے جو لکھنے والے کا ذہن اور ذہنیت پڑھنے میں مدد کرتی ہے۔ ادب کے حوالے سے ہم جائزہ لیں تو غالبؔ کے خطوط جہاں اردو نثر کے ارتقا کا اہم حصہ سمجھے جاتے ہیں وہیں غالب کے دور کے حالات کے غماز بھی ہیں غالب کے شاگردوں اور چاہنے والوں کے حوالے سے ان کے اپنے علاقوں کی صورت حال اور غالب سے ان کے تعلقات کی نوعیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ مراسلے کو مکالمہ بنانے کی روایت بھی تو غالب نے ڈالی تھی۔
مولانا ابو الکلام آزاد نے بھی اسی بہانے غبار خاطر کو قول فیصل کی صورت دی۔ کلام کے ساتھ ساتھ خطوط نے اقبالؔ کو زندہ رود بنا ڈالا۔ حتیٰ کہ بعض قلم کاروں نے اپنی اقبال مندی کی خاطر اپنی ٹکسال میں مراسلت کے سکے ڈھالے جن پر تحقیق جاری ہے کہ یہ کہاں تک قلب سازی کے مظہر ہیں لمعہؔ اور ملمع کی نشان دہی بھی کرتے ہیں۔
پنڈت جی نے اپنی بیٹی کے نام خطوط لکھے تو قاضی جی نے لیلیٰ کے خطوط ڈھونڈ نکالے جس کے جواب میں مجنوں کی ڈائری منظر عام پر آئی۔
غرض ادب کا انمول سرمایہ یہی خطوط سمجھے جاتے ہیں۔ آج بھی اگر شکسپئیر، غالبؔ یا اقبالؔ کا کوئی خط کہیں سے دستیاب ہو جائے تو ہزاروں ڈالروں اور روپیوں میں اسے تولا جا سکتا ہے۔
کئی رسالوں نے ادیبوں شاعروں کے خطوط پر مبنی نمبر نکالے اور ان کی شخصیت اور ذہنیت سے روشناس کروایا۔ کئی ادیب شاعر اپنے خطوط کی وجہ سے سرخ رو ہوئے تو کئی مشاہیر نے اپنے ہی قلم سے اپنی قبریں بھی کھودی ہیں۔ (اسی کتاب کے ایک مضمون سے )
رؤف خیر
شادؔ عارفی اپنے ہی خطوط کی زد میں
مہاراجہ کشن پرشاد شادؔ علامہ اقبال کے دوست ہونے کے علاوہ بجائے خود اچھے شاعر گزرے ہیں، شاد عظیم آبادی نے شعری روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ نریش کمار شاد نے نثر و نظم میں اپنی پہچان قائم کی خاص طور پر ان کی ’’قاشیں‘‘ اردو ادب کا سرمایہ ہیں شاد عارفی کا مکالماتی طنز یہ اسلوب ان کی شناخت ہے۔
شاد عارفی زندگی بھر مسائل سے دوچار رہے۔ ماں کا مکان بیچ کر ماں کی تجہیز و تکفین کی۔ بیوی چند ہی ماہ ساتھ دے کر اسقاطِ حمل کے ساتھ خود بھی زندگی سے منہ موڑ گئیں۔ اولاد کا سکھ شاد نے نہیں دیکھا۔ رام پور میں چھوٹی موٹی ملازمتیں کر کے گزارا کرتے تھے۔ کچھ ٹیوشن کر لیا کرتے تھے۔ مختلف فیکٹریوں میں معمولی سے کام پر لگے ہوئے تھے۔ رام پور کی مشہور صولت پبلک لائبر یری میں لائبریرین کی طرح کچھ دن گزارے۔ کبھی کہیں بجٹ اکاؤنٹنٹ بنے رہے۔ نواب رام پور کی شخصی حکومت کے شاد خلاف تھے۔ گویا وہ رام پور کے مخدوم محی الدین تھے۔ شاد لکھتے ہیں:
’’آخر میں جب ریاست (رام پور) مرج ہونے لگی تو اس سے پہلے رام پور کی پبلک نے کانگریس سے مل کر آئینی حکومت کا مطالبہ شروع کر دیا۔ میں اس میں برابر کا شریک رہا۔ بیسیوں نظمیں حکومت پر جائزہ کے تحت لکھ کر اپنا فرض ادا کیا کہ یہ شخصی حکومت اور اس کا ظلم و ستم ختم ہو۔ کانگریس بر سر اقتدار آ کر ان تاجداروں اور ظل الٰہیوں کو ان کی تنخواہوں مقرر کر کے نظم و نسق خود سنبھال لے۔ جمہوریت کا دور دورہ ہو۔ عوام کو پنپنے کا موقع ملے۔‘‘
اور مزے کی بات یہ کہ عوامی جمہوریت کے خواہش مند شاعر کو ترقی پسندوں نے کبھی گلے نہیں لگایا اور برسر اقتدار آ کر خود کانگریس نے شاد کو ’’ خطرناک‘‘سمجھ کر دودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینکا۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
جہاں تک ’’سیاست‘‘ کا معاملہ ہے مخدوم محی الدین، راج بہادر گوڑ وغیرہ نے حیدرآباد کے فرماں روا نظام دکن میر عثمان علی خاں بہادر کی شخصی حکومت کے خلاف آواز اٹھائی۔ کسانوں اور مزدوروں کو ساتھ لے کر تحریک چلائی۔ نظام ہی کی قائم کردہ عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم۔ اے کرنے کے بعد نظام ہی کی حکومت کے زیر اثر چلنے والے سٹی کالج میں مخدوم لکچرر تھے۔ نظام کے خلاف تحریک میں حصہ لینے کے لیے سرکاری لکچرر شپ سے ہاتھ دھونا پڑا۔ بلکہ روپوش (Underground)ہو کر زندگی گزارنی پڑی۔ بہ الفاظ دگر نظام کی حکومت کے خاتمے کے لیے انڈین کانگریس کا ساتھ دیا۔ مگر وہ کمیونسٹ پارٹی کے روح رواں تھے۔ نظام کے خلاف بعض کام کرنے والے، ’’مجاہدین آزادی‘‘ بن کر حکومت ہند کے وفاداروں میں وظیفے سے سرفراز ہوئے جن کی عمر سقوط حیدرآباد کے وقت بہ مشکل چار چھے سال رہی ہو گی۔ مگر مخدوم محی الدین، راج بہادر گوڑ، عالم خوندمیری، مہندر، جواد رضوی، وغیرہ نے ایسے کسی بھی قسم کا وظیفہ حاصل کرنے سے انکار کر دیا۔ کمیونسٹ پارٹی کے پرچم تلے آزاد ہندوستان میں مخدوم نے الیکشن لڑے۔ ہار جیت کے ذائقے سے بھی گزرے۔ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے۔ مخدوم حیدرآباد ہی کیا ہندو پاک کے مقبول شاعر تھے۔ ان کی غزلیں عوام و خواص کو ازبر تھیں۔ وہ اپنی آزاد نظمیں بھی ترنم سے سنایا کرتے تھے اور مشاعروں میں بہت پسند کیے جاتے تھے۔ ان کے معاصرین خورشید احمد جامیؔ ، سلیمان اریب، شاہد صدیقی، شاذ تمکنت، مغنی تبسم وغیرہ انھیں چاہتے تھے اور مخدوم ان سب کو عزیز رکھتے تھے۔ وہ اپنے جونیرس کی حوصلہ افزائی میں بھی پیش پیش رہا کر تے تھے۔ ان کا یہ شعر تو ضرب المثل کی طرح مشہور ہے۔
حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
شاد عارفی اپنی دردناک زندگی کے بارے میں خود ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’اس وقت میری عمر ۶۲باسٹھ سال ہے ۱۹۰۰ ء میری پیدائش ہے اس لیے سن کے ساتھ ساتھ چل رہا ہوں۔ بھارت کی حکومت کے دس مہینے کے بعد ملازمت سے مستعفی ہونا پڑا۔ جب سے بے نوکری، بے سہارا ہوں۔ مگر اس مدت میں میرا پرونڈنٹ فنڈ حکومت نے اب تک نہیں دیا بلکہ حال ہی میں اکاؤنٹنٹ جنرل الہ آباد نے بہت غل غپاڑے کے بعد بڑا معقول جواب دیا ہے کہ چونکہ تمہارے حسابات کے رجسٹر کھو گئے ہیں اس لیے تمہارا فنڈ بحق سرکار ضبط کیا جاتا ہے اس لیے صبر کرو اور بھارت کی حکومت کو اس کی درازی عمر کی دعائیں دو۔ والدہ صاحبہ کی پنشن بھی بھارت سرکارنے بلاسبب بند کر دی۔ یہ پنشن ریاست لوہارو سے تھی متواتر درخواستیں دیں مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی اور وہ انتظار کرتے کرتے راہی بقا ہو گئیں۔
میں نے گھر بیچ کر مرحومہ کی تجہیز و تکفین کی جس کا نتیجہ آج تک بھگت رہا ہوں اور شہر کے اندر کرائے کے مکانوں میں خانہ بدوش زندگی گزار رہا ہوں۔‘‘
(ایک تھا شاعر)
اور ان کرائے کے مکانوں کا حال بھی شاد عارفی نے ایک شعر میں بیان کر دیا ہے۔
باہر برکھا بیت چکی ہے اندر ٹپکا لگا ہوا ہے
آدھے بستر پر لیٹا ہوں آدھا بستر بھیگ چکا ہے
یہ ساری مصیبتیں یہ سارے مسائل اس لیے تھے کہ شاد عارفی اپنے کھرے پن کی وجہ سے کسی قسم کی مصلحت یا مصالحت پر آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ اپنے ہم عصر شاعروں کے بارے میں بھی کچھ اچھی رائے نہیں رکھتے تھے، نیاز فتح پوری، ماہر القادری کو بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ لکھتے ہیں:
’’ماہر القادری، نیاز فتح پوری کی طرح دوسروں کی آنکھ میں پھانس دیکھنا پسند
نہیں کرتے مگر اپنے بانس بھی نظر انداز کر جاتے ہیں‘‘۔
’’روش صدیقی اور عدم تو ٹھیک ہیں مگر نشور واحدی اور جذبی دونوں کا فی غلط ہیں۔
ان کے انداز کلام سے بچو۔
’’شکیلؔ اچھا کہتا ہے مجروح بھی اس کو نہیں پہنچتا۔‘‘
اور تو اور خود اپنے ہی ایک چاہنے والے شاگرد خلیل الرحمن اعظمی پر بھی چوٹ کرتے ہوئے نہیں جھجکتے۔ ان کی ایک نظم ’’سہاگ رات‘‘ پر طنز کرتے ہوئے اسے شاعر کی ’’ذہنی عیاشی‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
ناز کر ناز کر اے جان کہ تیرے آگے
آج اک شاعر خود کام کا سر جھکتا ہے
پیرو مسلک خیام کا سرجھکتا ہے
مدیر ’’نقوش‘‘ (لاہور)محمد طفیل کے نام ایک خط مورخہ ۲۴؍نومبر ۱۹۶۲ء میں اپنے لیے ایک تفصیلی تعارفی مضمون کی گزارش کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’امید ہے کہ آپ مجھے مایوس نہ کریں گے۔ ہو سکے تو اپنے تعارف میں ان مخالفین ادب کی ضرور خبر لیں جو درپردہ ادب کے کاز کو ذاتی رنگ کے پرچار میں نقصان پہنچا رہے ہیں۔ رقیب، عدو، پنجرہ، آشیانہ اور شیخ پر غزلیں تھوپ تھوپ کر ادبی فضا کو مکدر بنائے ہوئے ہیں اور سب سے بڑی خرابی یہ کہ نوجوانوں کو گمراہ ادب بنا رہے ہیں۔ بے ڈھنگی عشقیہ شاعری ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ان گرو حضرات کے نام بھی لکھ دوں ابر گنوری، رشید، مہر، وفا یہ تینوں (چاروں ) بوڑھے استاد ہیں اور ان کا مبلغ علم صفر سے زائد نہیں۔ ان کے پیرو کار یعنے ان کے بگاڑے ہوئے نوجوان جو اپنے ساتھ جاہل شاگردوں کی ٹولی لیے پھرتے ہیں۔ (اجرت پرداد دینے والے مستزاد۔ )ان کے نام ہیں۔ بد رتسلیمی، شوق اثری اور کچھ اور نکمے۔‘‘
(خط ۲۴؍نومبر ۱۹۶۲ء)
وہ تو اچھا ہوا شاد عارفی نے وہ دن زیادہ نہیں دیکھے جب ادب پر ’’شب خون‘‘ مارا جا رہا تھا۔ شاد عارفی سے کوئی خوش نہیں تھا اور شاد عارفی کسی سے خوش نہیں تھے۔ ان کا کوئی قابلِ ذکر مجموعہ کلام ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکا۔ چند منتخب تخلیقات پر مبنی کچھ کتابچے ضرور شائع ہوئے جیسے انتخاب شاد عارفی (انجمن ترقی اردو۔ ۱۹۵۶ء) اور عابد رضا بیدار کا مرتبہ شاد (کتابچہ ۱۹۶۲ء) البتہ ان کی وفات کے بعد سلطان اشرف نے ۱۹۶۵ء میں ’’سفینہ چاہیئے‘‘ کے نام سے اور ان کے شاگرد ڈاکٹر مظفر حنفی نے ’’نثر و غزل دستہ‘‘ ۱۹۶۷ء میں ’’ شوخی تحریر‘‘ ۱۹۷۱ء میں ’’کلیات شاد عارفی‘‘ ۱۹۷۵ءمیں شائع کروائیں۔ نیا ادارہ لاہور نے ۱۹۶۷ء میں ’’اندھیر نگری‘‘ اور سلطان اشرف نے ۱۹۸۲ء میں ’’دکھتی رگیں‘‘ شائع کیں۔
شاد عارفی زندگی بھر اپنی بد قسمتی کا رونا روتے رہے مگر ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ انھیں مظفر حنفی جیسا شاگرد نصیب ہوا جس نے انھیں ادب میں زندہ رکھنے کے تمام جتن کیے۔ ورنہ شاد عارفی تو اس قدر سادہ لوح شاعر تھے کہ جب اپنے منفرد رسالہ ’’نقوش‘‘ کے لیے محمد طفیل نے ان سے تخلیقات کی فرمائش کی تو اپنی زندگی کی درد ناکی کا قصہ چھیڑتے ہوئے انھیں خط میں لکھتے ہیں:
’’ڈاک پر سنسر کے غلط قبضے نے مجھے اس قدر مجبور کر دیا ہے کہ پاکستانی فرمائشات کا جواب نہ دوں۔ کیا یہ سراسر نا انصافی نہیں کہ ہمارے ٹکٹ ضائع ہوں اور ہمارے ہی خون پانی ایک کر کے لکھے ہوئے اشعار ضبط کر لیے جائیں۔‘‘۔۔ ۔ آپ کا نام میری سمجھ میں نہیں آیا اگر یہ لفافہ پہنچ جائے اور آپ رسید دیں تو اپنا نام صاف صاف لکھیں کہ آپ مدن لعل ہیں یا محمد جلیل ؟ باقی خیریت ویریت تو کیا بہ ہر حال ہے کچھ نہ کچھ ضرور۔ شاد عارفی‘‘
(خط بہ نام محمد طفیل۔ مورخہ ۱۳؍اکتوبر ۱۹۵۱ء )
بیشتر خطوط میں شاد عارفی نے مدیر نقوش محمد طفیل کا نام طفیل احمد ہی لکھا ہے۔
شاد عارفی کرائے کے گھر بدلتے رہتے تھے اور کبھی کبھی رام پور سے علی گڑھ پہنچ کر کئی دن وہاں گزارتے تھے۔
تحقیق نامہ ’’خصوصی شمارہ ۲۰۰۶۔ ۲۰۰۵ (معاصرین کے مکاتیب بنام محمد طفیل ) شعبۂ اردو جی سی یونیورسٹی لاہور نے شائع کیا۔ محمد سعید نے ان مکاتیب کے بارے میں لکھا کہ ادارۂ نقوش کے روح رواں محمد طفیل کا ۵؍جولائی ۱۹۸۶ء کو انتقال ہوا۔ اس مجموعے کی زینت بننے والے مکتوب نگاران بیسویں صدی کے اہم اور نمایاں تخلیق کار، فن کار، شاعر اور افسانہ نگار ہیں۔۔ ۔ ایک ادیب یا شاعر کا ایک منجھے ہوئے مدیر کے ساتھ رویہ اور ایک مدیر کا ہرسطح اور مزاج کے ادیب و شاعر کے ساتھ حسن سلوک، ان مکاتیب کے ذریعے سامنے آئے گا‘‘۔ شاد عارفی کے خطوط کا ذکر کرتے ہوئے محمد سعید لکھتے ہیں:
’’شاد عارفی پہنچا اور اس کے تمام مشتقات کو (واو) کے ساتھ پہونچا، پہونچے وغیرہ لکھتے ہیں۔ منفصل نون غنہ کو اکثر نقطہ لگا کر پورا نون بنا دیتے ہیں آداب میں سلام علیکم یا پھر (واو) کے ساتھ السلام وعلیکم لکھتے ہیں۔۔ ۔۔
۔ شاد عارفی بڑے شوق سے لفظوں کو ملا کر لکھنے کے عادی ہیں مگر لفظوں پر نقطے لگانا تو گویا وہ یاد سے بھول جاتے ہیں‘‘
محمد طفیل کے نام شاد عارفی کا ایک خط ملاحظہ فرمایئے جو محترمی علیکم السلام سے شروع ہوتا ہے۔
علی گڑھ وی یم ہال ۴؍مارچ ۱۹۵۴ء
محترمی علیکم السلام
’’آپ کا کارڈ رام پور ہوتا ہوا آج علی گڑھ پہنچا۔ زیادہ تر رام پور کا ڈاک خانہ یہ سب گڑبڑ کر لیتا ہے۔ نامعقول سنسرشپ سے اور امید بھی کیا کی جا سکتی ہے۔ بہ ہر (حال) علی گڑھ سے آپ کی فرمائش کی تعمیل کر رہا ہوں۔ وہ خط کیوں روک لیا گیا تھا اس کی تفصیل یہ ہے کہ انتخاب(انتخابات) میں ہندومسلم سوال پیدا ہو جانے کی وجہ سے رام پور کے وہ مسلمان جو مولانا آزاد کو گالیوں سے یاد کرتے تھے ان کے ورک (الیکشن ورک)پر مجبور ہو گئے چنانچہ میں بھی اپنے نظریے کہ اختلاف کے باوجود ان کے ورک میں سر کھپا رہا تھا اور ان کی کامیابی کا صلہ یہ کہ اسی روز جب وہ کامیاب ہوئے، میرے ہاں اس طرح چوری ہوئی کہ صرف جسم پر کپڑے باقی رہ گئے اور گھرکا گھر صاف کر دیا گیا کیونکہ کانگریس حکومت یہ کب برداشت کر سکتی تھی (کہ) کانگریس سے وفاداری برتی جائے۔ اس خط میں اس چوری کی بابت کچھ حالات تھے اور کچھ قطعات بھی جو آج پھر برائے تفریح آپ کو بھی لکھتا ہوں۔
جنتا کی زباں سلی ہوئی ہے
رشوت پہ یہ نردوش ہلی ہوئی ہے
واردات و سراغ، ان شاء اللہ
چوروں سے پولس ملی ہوئی ہے
رشوت کہ متاع زائدہ ہے
یک مرغ دام مائدہ ہے
دیکھ چلتی نہیں حکومت ورنہ
چوروں سے پولس کو فائدہ ہے
یعنے جہاں تک تحقیق ہوا ہے پولس کے ایماء پر چور چوری کر رہے ہیں اور کھلے بندوں شہر میں پھر رہے ہیں۔۔ ۔۔ ادبی خدمات کے تحت میں آپ کے ہم رکاب ہوں۔ ایک نئی غزل حاضر خدمت ہے۔ شاید پسند آئے‘‘۔
احمد علی شاد عارفی، علی گڑھ وی۔ یم۔ ہال
محمد طفیل اپنے رسالے ’’نقوش‘‘ میں چھپنے والی تخلیقات کا معاوضہ بھی ادا کیا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں کئی ادیبوں شاعروں نے ان سے معاوضے کے معاملے میں سودے بازی بھی کی ہے۔ جیسے کرشن چندر، عزیز احمد، خواجہ احمد عباس، عصمت چغتائی وغیرہ۔ میرا ایک مضمون ’’مدیر نقوش محمد طفیل سے عزیز احمد کی سودے بازی‘‘ ایوان اردو دہلی الحمرا لاہور وغیرہ میں شائع ہو چکا ہے اور میرے تنقیدی مضامین کے مجموعے ’’حق گوئی و بے باکی‘‘ میں بھی شامل ہے۔
اپنی تخلیقات کے معاوضے کے سلسلے میں شاد عارفی نے بھی محمد طفیل کے نام کچھ دلچسپ خطوط لکھے ہیں ایک طویل خط کا صرف ضروری حصہ یہاں درج کیا جاتا ہے۔ یہ خط بھی السلام علیکم کی بجائے علیکم السلام سے شروع ہوتا ہے۔
محلہ بیریاں۔ رام پور ۳۰؍دسمبر ۱۹۵۷ء
محترمی طفیل صاحب علیکم السلام
۔۔ ۔ میں نے ’’نقوش‘‘ کے سلسلے میں کبھی جمود و سکون کا ثبوت نہیں دیا ہے آپ کی ہر فرمائش کی فوری تعمیل کی ہے تو پھر مجھے آپ اپنی ڈائری میں کیوں نظر بند کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سلوک تو آپ ان ادیبان گریز پا سے کر سکتے ہیں جن پر اعتماد نہ ہو، جن پر یہ گمان ہو کہ وہ آنکھ پھیر جائیں گے۔ جہاں تک میری خدمات کا سوال ہے، میں نقوش کے لیے ’’بارہ ماسہ‘‘بھی لکھ کر بھیج سکتا ہوں اور الگ الگ ہر مہینے بھی غزل، قطعات روانہ کر سکتا ہوں، نظمیں نہیں۔ وہ اس لیے کہ میں ’’نظموں کا محنتانہ لیتا ہوں‘‘ اور یہ بھی کہ آپ وہ نظمیں اپنے ہاں شائع بھی نہیں کر سکیں گے جو میں لکھ رہا ہوں۔ مثلاً اسی نظم کو لیجئے جو ابھی زیر ترتیب ہے، جس کا عنوان ہے: ’’مرے محلے کے دو گھر انوں سے ہے گناہوں کا فیض جاری‘‘ آپ تو عنوان ہی سے کانوں پر ہاتھ دھر لیں گے۔ تو پھر بات کس طرح بن سکتی ہے۔۔ ۔
مزاج اچھا ہو گا۔ شاد عارفی
بیوی کے انتقال کے بعد ایک اور خط میں شاد عارفی اپنی نظموں کا ریٹ بتاتے ہیں کہ اسی پر ان کی گزر بسر ہے۔
محلہ بیریاں۔ رام پور ۲۵؍ جولائی ۱۹۵۸ء
محترمی علیکم السلام
خدا مرحومہ کو جنت نصیب کرے۔ انسان یہی کر سکتا ہے اس کی مشیت کے آگے۔ نظموں کی قیمت لیتا ہوں۔ اسی پر آج کل ڈاک خرچ اور ایک حد تک گزر بسر ہے۔ ایک تازہ نظم ’’مرے محلے کے دو گھرانوں سے ہے گناہوں کا فیض جاری‘‘ کے عنوان (سے ) موجود ہے مگر نہ تو وہ آپ چھاپ سکیں گے اور نہ میں ’’مفت‘‘ کے حق میں۔ گھوڑا گھاس سے یارانہ کر کے کس طرح جی سکتا ہے۔ میں تو پھر انسان ہوں۔ فاقے کہاں تک کر سکتا ہوں۔ بیمار بھی ہوں۔ چاہتا ہوں کہ اسی حالت میں یہیں ہندوستان میں مروں تاکہ ’’مرے بت خانے میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو‘‘ کے تحت میں نہ رہوں مگر اردو ادب میں میری ان پریشانیوں کا ذکر موجود رہے کہ عجب فاقہ مست تھا۔ مذکورہ نظم کے ۴۰۔ روپے اس سے گھٹیا مگر سنجیدہ کے ۳۰۔ روپے اور اس زیادہ ادبی کے ۲۰۔ روپے پیشگی آنے پر بھیج سکتا ہوں۔ شاد عارفی
مذکورہ نظم ’’مرے محلے کے دو گھرانوں سے ہے گناہوں کا فیض جاری‘‘ تین تین ہم قافیہ و ردیف چودہ بندوں پرمشتمل ہے جسے پڑھتے ہوئے ساحر لدھیانوی کی مشہور و ممتاز نظم ’’چکلے‘‘ فوری یاد آتی ہے جو فلم ’’پیاسا‘‘ میں فلمائی بھی گئی تھی۔
یہاں پیر بھی آ چکے ہیں جواں بھی
تنومند بیٹے بھی ابا میاں بھی
یہ بیوی بھی ہے اور بہن بھی ہے ماں بھی
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں ؟
شاد عارفی کی نظم اسی قسم کی صورت حال کی عکاس ہے۔ اس کے چند بند پیش کیے جاتے ہیں:
یہ طنز ہے ہجو تو نہیں ہے کہ خاندانوں کے نام لے دوں
جناب سوداؔ کی طرح ضاحک سے بد زبانوں کے نام لے دوں
طرب شعاروں کو گالیاں دوں، نگار خانوں کے نام لے دوں
بہت سمجھ بوجھ کر ’’گناہوں کا فیض جاری‘‘ کہا ہے میں نے
جنھیں شکاری کہا ہے منٹوؔ نے، کاروباری کہا ہے میں نے
ڈھکے چھپے کسب زر کو اونچی دکانداری کہا ہے میں نے
وہ سہ دری میں حکیم ’’بطخا‘‘ ہے جس کی حکمت برائے حکمت
یہ بورڈ وہ پوسٹر یہ اعلان سب گھریلو مطب کی نسبت
مریض کی تندرست جیبوں کو شرط ہیں نسخہ ہائے خلوت
تبسوں کی کھنک سے جنبش میں آئے گا ہر مکاں کا پردہ
کبھی ہٹے گا یہاں سے پردہ کبھی ہٹے گا وہاں کا پردہ
بڑے سلیقے کے بعد نانی کے بعد ٹوٹے گا ماں کا پردہ
کسی بھی شوہر سے بات کیجئے کرے گا بیوی کا آپ سودا
جو بیٹیوں کو پسند فرمائیں آپ، کر لے گا باپ سودا
کسی بھی دلال کے لیے ہے نہ کوئی لغزش نہ پاپ ’’سودا‘‘
پسند فرمائیں گے جسے آپ وہ دبائے گی پاؤں آ کر
حنا بنائے گی پان، شمسہ شراب دے جائے گی منگا کر
کہے گی نانی کہ رات جاتی ہے سو رہو روشنی بجھا کر
رہی ہے جو داشتہ، کرائے گی ناشتہ بھی سحر سے پہلے
کرے گی رخصت عقب کے زینے سے آپ کو ہر نظر سے پہلے
گلے میں بانہیں پڑی رہیں گی عطیۂ مال و زر سے پہلے
ادھر گئے آپ اور چھوٹی بہن کے کمرے نے آنکھ کھولی
ہے شرط سرمایہ دار ہونا وہ کوئی تیلی ہویا تنبولی
اسی کو ملتا ہے اذنِ خلوت جو بول سکتا ہو بڑھ کے بولی
شاد عارفی زیادہ تر پوسٹ کارڈ ہی لکھا کرتے تھے تاکہ ڈاک خرچ کم سے کم آئے ایک اور دلچسپ خط مدیر نقوش کے نام ملاحظہ فرمائیے:
بیریاں۔ رام پور ۲۷؍فروری۱۹۵۹ء
مکرم و محترم طفیل صاحب السلام علیکم
۱۶؍فروری کو میں نے ایک تقاضاتی کارڈ اس بارے میں روانہ کیا تھا کہ مجھے نقوش کا طنز و مزاح نمبر نہیں ملا ہے۔ جب کہ حیرت صاحب شملوی کے پاس آ چکا ہے۔ یہ کارڈ آپ کو ضرور ملا ہو گا مگر آپ نے یہ سوچتے ہوئے کہ Rs.10/-کی چیز دوبارہ کیوں بھیجی جائے مگر محترم آپ نے میری دو چیزیں جو مجھ سے پوچھے بغیر شامل کر لیں ان کی قیمت چالیس روپے ہوتی ہے وہ بھی کم سے کم۔ اس لحاظ سے بھی آپ ٹوٹے (گھاٹے، خسارے ) میں نہیں رہیں گے مجھے دوسرانمبر بھیج دیں۔ اس دوبارہ بھیجنے کی ’’ممنونیت‘‘ سود میں رہے گی۔
اب بھی اگر آپ نے ادھر دھیان نہ دیا تو میں مزید شکایت کو اپنی توہین تصور کروں گا
نیازمند شاد عارفی
اس کے باوجود شاد عارفی تین کارڈ مزید لکھ کر یاد دہانی کراتے رہے کہ طنز و مزاح نمبر بھیجا جائے۔
کبھی کبھی شاد عارفی بارٹر سسٹم (چیز کے بدلے چیز) پر بھی آمادہ ہو جاتے ہیں۔ روپے پیسے بھیجنے کے بجائے وہ اپنی غزل کے معاوضے میں محمد طفیل صاحب سے ان کی اپنی تصنیف ’’صاحب‘‘ یا ’’جناب‘‘ (خاکوں پر مشتمل مجموعہ) طلب کر لیتے ہیں۔ تاکہ حساب برابر ہو جائے۔
مشاعروں میں بلایا جاتا تو وہاں بھی شاد عارفی مول بھاؤ کر کے زیادہ رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یوں بات آگے بڑھ نہیں پاتی اور وہ کہیں جا نہیں پاتے۔ اس سلسلے میں ان کے ایک خط سے دلچسپ روداد سامنے آتی ہے:
گھیر میر باز خان۔ جیل روڈ رام پور۔ یوپی۔ بھارت ۱۸؍دسمبر ۱۹۶۰ء
مکرم و محترم طفیل صاحب علیکم اسلام
یہ مجھ سے آپ نے کب کا بدلہ لیا کہ ۳۰ نئے پیسوں کا بیرنگ لفافہ محض پیاری پیاری اور نیاری نیاری غزل کی رسید کے سلسلے میں ارسال فرما کر محلے دار سے پانچ پیسے قرض لینے پر مجبور کر دیا۔ جی میں تو آ رہی تھی کہ ’’عطائے تو بہ لقائے تو‘‘ کے تحت واپس کر دوں مگر غیرت نے گوارا نہ کیا۔۔ ۔ ہاں۔۔ ۔ باتوں میں لگا کر آپ نے مجھے اپنے مقصد سے ہٹا دیا۔ وہ یہ کہ پیاری پیاری نئی غزل کے بدلے میں اپنی نئی تصنیف یا تالیف ’’ صاحب‘‘ یا ’’جناب‘‘(مجھے یہاں حافظہ کام نہیں دے رہا ہے ) فوراً بھجوایئے ورنہ پھر آپ جانتے ہیں مجھے ’’احمد علی خان ہوں میں‘‘ کلب علی خان نہیں ہوں یہی شکر ہے۔ تو پھر کب تک آپ کی وہ تالیف یا تصنیف مجھے مل رہی ہے۔
اب رہا پاکستان آنے کا مسئلہ وہ بھی عرصہ تک زیر غور رہا مگر اب بالکل ملتوی
اب رہا پاکستان آنے کا مسئلہ وہ بھی عرصہ تک زیر غور رہا مگر اب بالکل ملتوی
صحت نہیں، جوانی نہیں، بچے وچے نہیں حتیٰ کی بیوی ڈیڑھ سال زندہ رہ کر مقطع کہہ نکلیں۔ اب کس لیے پاکستان آؤں۔ دوستوں عزیزوں کے سیکڑوں خطوط آئے اور سب نے کافی ’’سبز باغ‘‘ دکھائے مگر بے سود۔ کیونکہ ’’سوداؔ پے دنیا تو بہر سوکب تک‘‘، میرے ذہن سے نہ نکل سکا۔
حیدرآباد اور کراچی سے دو مشاعروں کے دعوت نامے ملے مگر حیدرآباد والے 300/-(روپے )دے رہے تھے اور کراچی والے تین سکنڈ (کذا) جب کہ زہرہ نگاہ قسم کی غزلوں کو 500/-(روپے ) نقد اور نہ معلوم کتنے ’’نذر رخ و گیسو‘‘۔ اس لیے میں نے 550/-(روپے )اور 650/-(روپے ) طلب کیے جو ظاہر ہے کہ نہیں دیئے گئے اس لیے میں بھی گھر سے پڑتی نہیں تھا (کذا)۔۔ ۔
شاد عارفی
سوال وصل پہ اس نے چپت رسید کیا
جواب اور مکمل جواب ارے تو بہ
تو میں اس مکمل جواب کے سلام میں سوچ رہا تھا میں بھی بالکل بیرنگ لفافہ داغ دوں۔ مگر سوچا کہ اس طرح ڈاک والوں کا نفع ہو گا مجھے کیا فائدہ !۔۔ ۔ مگر پھر بھی اور فطرتاً جاہل پٹھان بھی (ہوں ) اس لیے یہی غنیمت سمجھ لیا کہ بھاگتے بھوت کی لنگوٹی کے طور پر ایک ٹکٹ کم کر دیا جائے چنانچہ کم کر دیا۔ آپ غور کریں گے تو تیسرا ٹکٹ (سٹامپ ) چسپاں کر کے چھٹا یا ہے کیونکہ ضد ہی جو ٹھیری۔۔ ۔۔ ش ع
سٹامپ کے بجائے شاد عارفی نے ٹکٹ کا لفظ استعمال کیا اور سٹامپ نکال لینے کے لیے ’’چھٹایا‘‘ ہے برتا ہے۔ شاید رام پور میں یوں ہی بولا جاتا ہے۔
شاد عارفی نے اپنے خطوط میں اپنے مزاج کی سختی اور اس کے اسباب پر خود ہی روشنی ڈالی اور محمد طفیل سے شکوہ و شکایات کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
گھیرحسن خان۔ پکا باغ روڈ
رام پور۔ یوپی۔ بھارت ۱۳؍فروری ۱۹۶۲ء
مکرم و محترم السلام علیکم
نقوش کا لاہور نمبر دیکھتے ہی آپ سے دل صاف ہو گیا اس لیے۔ مزاج۔ (کذا) یہ تو آپ جانتے ہیں کہ مجھے ’’منہ دیکھی نہیں آتی‘‘ جس کی آج بری طرح سزا بھگت رہا ہوں مگر وہ جو کیا ہے (کذا) پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل سکتا ہے مگر فطرت نہیں بدلتی۔ میں اس ضرب المثل کی زندہ مثال نہیں شکار ہوں ورنہ اس وقت ان اقتصادی الجھنوں میں مبتلا نہ ہوتا جن سے تنگ آ چکا ہوں۔ مگر میں یہ کیا دکھڑا لے بیٹھا۔‘‘۔۔ ۔ میں نے آپ سے نقوش کیلنڈر اور نقوش ڈائری کے لیے کئی خط لکھے جنھیں آپ ’’پی گئے‘‘(یہ پینے کی رائے میں نے لاہور نمبر دیکھنے سے پہلے قائم کی تھی اب نہیں ) جس پر مجھے حرارہ آ گیا تھا کہ یہ طفیل صاحب بھی دوسرے مدیروں (کم سے کم ادب لطف کے ایڈیٹر) سے کم نہیں کہ دس سالہ ادب نمبر کے لیے خوشامدیں کر کے غزل منگائی اور چھاپ کر (وہ خاص نمبر صاف اڑا گئے )۔ لکھتے لکھتے تھک گیا مگر اس جواب کے بعد (کہ) منیجر صاحب بیمار ہیں، پھر مینجر صاحب کی چالیسویں اور برسی کی اطلاع نہیں دی۔ جس کے جواب میں میں نے ان کا (نام ) اپنے پتے کی ڈائری سے خارج کر کے دم لیا۔
نیاز مند شاد عارفی
p.s: اور ہاں آئندہ معاوضے کے لیے بھی تھوڑا غور کریں گے۔ یہ تم سے انتہائی اقتصادی الجھنوں کی وجہ سے کہا ورنہ کبھی نہ کہتا۔
ایک اور خط میں شاد عارفی نے محمد طفیل کو جو لتھاڑا ہے وہ بھی عبرت انگیز ہے۔
گھیر حسن خان۔ پکا باغ روڈ
رام پور۔ یوپی ۱۲؍اپریل ۱۹۶۲ء
مکرم و محترم بلکہ محتشم
آپ نے تقاضوں کے باوجود کیلنڈر اور ڈائری نہیں بھیجی تو کیا ہوا۔ میرا ایک ایسے موقع کے لیے مطلع سنو اور داد دو۔ کہتا ہوں۔ پہلا مصرع تو تمہارے مطلب کا نہیں ہے کیونکہ وہ بھارت کے ان رسائل اور حضرات کی خدمت میں ہے جو ہمیں بایاں بازو نہیں بلکہ ہم ادیبوں کو جو حکومت اور وطن کے دوست ہیں، دشمن سمجھتا ہے۔ ہاں، دوسرا مصرع تم یعنے آپ حضرات کے لیے مناسب ہے:
گو ہمیں حاصل جو تھی وہ (بھی ) تن آسانی گئی
دوستو لیکن تمہاری ذات پہچانی گئی
اس کے علاوہ بھی آپ ایسے حضرات کے لیے کچھ نہ کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے کیونکہ ’’آپ لوگ‘‘ ہم شعراء سے بھی زیادہ ’’شاعری‘‘ کے قائل ہیں۔ یعنے جھوٹ بول سکتے ہیں۔
نیاز مند شاد عارفی
صولت پبلک لائبریری رام پور میں ۳۱ ؍اکتوبر ۱۹۶۲ء کو ’’جشن شاد عارفی‘‘ منایا گیا۔ اس کی روداد بھی خود انھوں نے محمد طفیل کے نام ایک خط میں بیان کی ہے جس کا ضروری حصہ یہاں پیش ہے:
گھیر میر باز خان، جیل روڈ۔ رام پور
یو پی۔ بھارت ۲۴؍نومبر ۱۹۶۲ء
مکرم و محتشم السلام علیکم۔ مزاجِ گرامی !
۳۱؍اکتوبر ۱۹۶۲ء کو کچھ مقامی پڑھے لکھے لوگوں نے یہاں کی پبلک صولت لائبریری میں عابد رضا بیدار ایم۔ اے علیگ اسسٹنٹ سٹیٹ لائبریری اور سلطان اشرف نائب صدر ترقی اردو لائبریری کی کوششوں سے میرا جشن مناناچاہا تو رام پور کے گھسے پٹے استاد انِ پینترہ باز کے سینوں میں آگ بھڑک (اٹھی) یہ وہ حسد کی آگ تھی جوان کے سینوں میں میرے اور میرے شاگردوں کے کلام سے ان کی منافقت کی راکھ میں اس طرح دبی ہوئی تھی جس کو غالبؔ نے کرید نے سے تعبیر کیا ہے۔ تو میرے جشن کے اعلان سے نعل درآتش ہو کر انھوں نے میرے خلاف وہ وہ بہتان تراشیاں کیں، گم نام خطوط ڈالے گئے۔ سرمایہ دار لوگ تو (جس میں ہزہائی نس کا پورا خاندان شامل رہا ہے ) پہلے ہی بد ظن تھے۔ غرض کہ ان لوگوں نے مل جل کر قیامت صغریٰ بپا کر دی اور چاہا کہ یہ جشن یا تو ملتوی ہو جائے یا پھر اتنا ناکام ہو کہ اسے ادب پر طنز شمار کیا جائے۔ مگر باور کیجئے کہ بقول حالی ’’ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں‘‘ وہ جشن مقر رہ تاریخ پر نہایت سکون اور ادبی فضا میں (ہوا)۔ میری غزلوں اور نظموں کی خواند گی کے وقت صولت پبلک لائبریری کا ہال گونج اٹھتا تھا۔ حامد خاں صاحب ریوڑی نے صدارت کے فرائض انجام دیے۔ عابد رضا خاں بیدار علیگ کے مقالے پر (جو آپ ‘‘نئے خواب‘‘ پندرہ روزہ میں ملاحظہ فرمائیں گے ) پبلک آبدیدہ ہو گئی۔‘‘
شاد عارفی
(شاد کے اس خط کا کچھ حصہ مضمون کی ابتداء میں درج کیا جا چکا ہے جس میں غیر مسلم بہائی شاعر ابر احسنی گنوری وغیرہ پر تنقید کی گئی ہے )۔ ابرؔ احسنی گنوری استاد شاعر تھے زبان و بیان کا بڑا خیال رکھنے والے تھے جب کہ شاد عارفی کبھی کبھی آزادہ روی سے کام لے لیا کرتے تھے جیسے:
جن ذلیل شرطوں پر جن ضعیف ہاتھوں میں دی ہوئی یہ آزادی مغربی گرو کی ہے
پوچھ سب ہے چیلوں پر ہاتھ ہیں نکیلوں پر رہنما کا مقصد ہی طائف الملوکی ہے
شعرا چھا ہے مگر ’’طوائف الملوکی‘‘ کو شاد عارفی نے طائف الملوکی باندھ دیا ہے۔ اس سے ہٹ کر شاد عارفی نے بہت اچھے شعر بھی کہے ہیں۔ مثالیں طوالت کا باعث ہوں گی۔ مختصر یہ کہ:
شادؔ ضعیف العمر ہے لیکن اس کے شعر جواں ہوتے ہیں
ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں، ایسے لوگ کہاں ہوتے ہیں
٭٭٭
کم سخن و کم آمیز جذبی
(مدیر نقوش کے نام خطوط کے حوالے سے )
( تاریخ وار ترتیب کے بجائے موضوع کی رعایت سے مناسب مقام پر ان خطوط کو استعمال کیا گیا ہے۔ )
معین احسن جذبی (۲۰۰۵۔ ۱۹۱۲)نے بہت کم کہا ہے مگر اپنا احساس ضرور دلایا ہے۔ منزل ادب کے کئی راہی ایسے ہیں جو بے تکان لکھے جا رہے ہیں اور مختلف اصناف میں ڈھیر لگائے جا رہے ہیں پھر بھی کوئی پہچان بنا نہیں پاتے۔ بسیار گوئی علمیت اور سلیقۂ اظہار مانگتی ہے۔ جذبی کا ذکر کم کم ہی ہوتا رہا ہے۔ وہ یوں بھی ’’شہرت کے بھوکے‘‘ نہیں تھے۔ ان کے دو مختصر شعری مجموعے ’’فروزاں‘‘ اور ’’سخن مختصر‘‘ انھیں زندہ رکھنے کے لئے کافی ہیں۔ ان کا تحقیقی مقالہ ’’حالی کا سیاسی شعور‘‘ ان کا نثری کارنامہ ہے۔ وہ زندگی بھر انہی تینوں کتابوں کی اشاعت اور نکاسی میں دلچسپی دکھاتے رہے۔ انھوں نے بھلے ہی کم کم کہا ہو مگر زندہ رہ جانے والے شعر کہے جو ضرب المثل بن گئے۔
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمناکس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
اے موجِ بلا ان کو بھی ذرا دوچار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارا کرتے ہیں
یا پھر ’’موت‘‘ کے فرشتے کے ساتھ چلنے میں بھی انھیں کوئی باک نہیں کچھ ادھورے کام نمٹانے کی اجازت چاہتے ہیں۔ یہ تمنا ہر شخص کی ہوتی ہے کہ کاش اسے کچھ اور مہلت مل جائے۔
ترقی پسندوں نے مجاز، فیض، مخدوم، جاں نثار اختر، سردار جعفری حتیٰ کہ پرویز شاہدی سلام مچھلی شہری کے بارے میں جتنا کچھ لکھا اس کا سواں حصہ بھی جذبی کے بارے میں نہیں لکھا۔
جذبی اور مجاز دونوں پہلے فانی بدایونی سے رجوع ہوئے تھے۔ فانی نے اپنے مزاج کی مناسبت سے جذبی کو قبول کر لیا اور مجاز کو خوش اسلوبی سے ٹال دیا تھا۔
جذبی کی کم سخنی ان کے خطوط سے بھی بولتی دکھائی دیتی ہے۔ مدیر نقوش محمد طفیل کے نام ہند و پاک کے ادیبوں شاعروں کے خطوط ان کے فرزند جاوید طفیل نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے حوالے کئے۔ پانچ ہزار مکاتیب کا نادر ذخیرہ جی۔ سی۔ یونیورسٹی لاہور کی لائبریری میں محفوظ ہے۔ جناب جاوید طفیل نے ان خطوط کی اہمیت پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ نایاب ذخیرۂ خطوط ۱۸۹۰ء سے ۱۹۸۶ء یعنے سوسال کو محیط ہے۔ اردو ادب کے مایہ ناز ادیبوں شاعروں کے یہ دلچسپ خطوط ان فن کاروں کو سمجھنے میں کام آتے ہیں۔ انہی خطوط میں جذبی کے اکیس خطوط بھی شامل ہیں۔
جذبی نے مدیر نقوش محمد طفیل کے نام زیادہ ترپوسٹ کارڈ ہی لکھے۔ ’’نقوش‘‘جس دن سے نکلا اس دن سے انھیں پابندی سے بھیجا جاتا رہا۔ ان کے آخری خط ۲۲، مارچ، ۱۹۶۶ء تک جذبی نے ’’نقوش‘‘ کے لیے نہ کوئی غزل ہی دی نہ کوئی نظم ہی دی۔ پہلا خط مورخہ ۱۲، اپریل، ۱۹۵۰ء سے لے کر آخری خط تک یعنے سولہ سال کے عرصے میں ان کی صرف ایک تخلیق نقوش میں شائع ہوئی۔ ان کا پہلا خط ملاحظہ فرمائیے۔
۶۔ امیر نشان، سول لائنس۔ علی گڑھ
برادرم!
آپ کے دونوں خط ملے۔ بہت دنوں سے کچھ نہیں کہا ہے۔ اگر ادھر کچھ ہو گیا تو ضرور بھیجوں گا۔
ہاں یہ تو بتائیے کہ احمد ندیم قاسمی نقوش سے کیوں الگ ہو گئے۔ خدا کرے آپ بخیر ہوں۔
آپ کا جذبی
12/4/50
ایک اور خط میں وہ محمد طفیل کو لکھتے ہیں:
۷۔ ذکاء اللہ روڈ
مسلم یونیورسٹی۔ علی گڑھ
برادرم!
آپ کے نہ جانے کتنے نمبر اور کتنے خطوط مل چکے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کی ان تمام عنایتوں کا شکریہ کس طرح ادا کروں۔ آپ نے غزل طلب کی ہے اور اس وقت طلب کی جب میں سبط حسن کو ’’نگارش‘‘ کے لیے بھیج چکا تھا۔ آپ کے خط نے عجیب کشمکش میں ڈال دیا۔ بہرحال کوشش کر رہا ہوں۔
اگر ایک آدھ شعر بھی تُک کا نکل آیا تو غزل آپ کی۔ ’’نگارش‘‘ کا کیا ہوا۔
سبطِ سے ملاقات ہو تو میرا پیار کہہ دیجئے گا۔ مجھے اس کے خط کا انتظار ہے۔
میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور تحریر کیجئے۔
آپ کا
جذبی
19/11/56
: P.S میں نے مکان تبدیل کر لیا ہے۔ اس لیے مندرجہ بالا پتہ پر جواب عنایت کیجئے گا۔
جذبی، ظاہر ہے ترقی پسند شاعر رہے ہیں انھیں فیض، سجاد ظہیر جیسے سرگرم کارکنانِ تحریک سے دلی لگاؤ تھا۔ ہر چند وہ کم سخن و گم گوتھے، اپنے دوستوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ ایک خط میں مدیر ’’نقوش‘‘ محمد طفیل سے اپنی بیماری کا ذکر کرتے ہوئے، نظم کے لیے ان کی فرمائش کے جواب میں لکھتے ہیں:
۶۔ امیر نشان
سول لائنس علی گڑھ
برادرم!
آپ کے دونوں خط ملے۔ میں ادھر کا فی بیمار رہا۔ اس کے بعد ایک مشاعرے میں کشمیر جانا پڑا۔ اس لیے آپ کے خط کا جواب نہ دے سکا۔ امید ہے آپ معاف فرمائیں گے۔ ادھر ایک نظم کہی تھی۔ اب تک وہ (۲) رسالوں میں بھیجی جا چکی ہے۔ دونوں اپنے سالناموں میں چھاپ رہے ہیں۔
فیض اور سجاد ظہیر وغیرہ کی گرفتاری پر چند شعر کہے تھے۔ اگر آپ چھاپ سکیں اور آپ کی حکومت کو ناگوار نہ ہو تو بھیجنے کے لیے تیار ہوں۔
آپ کا
جذبی
18/11/51
اس زمانے میں محمد طفیل اپنے رسالے ’’نقوش‘‘ کے لکھنے والوں کو ان کی تخلیقات کا معقول معاوضہ دیا کرتے تھے۔ بلکہ بعض قلم کاروں نے تو اپنی تخلیقات کے معاوضے کے سلسلے میں ان سے کافی مراسلت بھی کی تھی۔ شاد عارفی، کرشن چندر، غلام عباس، عصمت چغتائی، عزیز احمد وغیرہ کے خطوط کا جائزہ لیں تو تخلیقات کے معاوضے کے بارے میں ان کی تگ و دو حیران کن ثابت ہوتی ہے۔ میرا مضمون ’’مدیر نقوش‘‘ سے عزیز احمد کی سودے بازی ’’کئی رسائل میں شائع ہو چکا ہے اور میرے تنقیدی مضامین کے مجموعے ’’ حق گوئی و بے باکی‘‘ میں شامل ہے۔ اس سلسلے میں جذبی کے ابتدائی خطوط بھی دلچسپ ہیں:
۶۔ امیر نشان
سول لائنس۔ علی گڑھ
محترمی
’’فروزاں‘‘ کادوسرا ایڈیشن چھپوا رہا ہوں۔ اس سلسلے میں یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ آپ پاکستان کے لیے سول ایجنسی لینے کے لیے تیار ہوں تو کس کمیشن پر لیں گے یا اگر آپ سول ایجنسی نہ لیں تو کتنی جلدیں کس کمیشن پر لے سکتے ہیں۔
کتاب کی قیمت دو روپے آٹھ آنے ہو گی۔ سودا نقد رہے تو زیادہ اچھا ہے۔
بات یہ ہے کہ میں کسی قسم کی پریشانی اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔
خدا کرے آپ بخیر ہوں۔ نقوش کی زیارت کو عرصہ ہو گیا۔
وقار عظیم صاحب سے میرا سلام کہیئے گا۔
نیاز مند
جذبی
15/3/51
جذبی کے خطوط میں ایک بات خاص طور پر دیکھی گئی ہے کہ وہ اپنا خط برادرم۔ مکرمی۔ محترمی سے شروع کر کے راست گفتگو کرتے ہیں السلام علیکم۔ آداب۔ وغیرہ کے وہ قائل نہیں لگتے۔ مدیر ’’نقوش‘‘ محمد طفیل کے نام جتنے خط ہیں ان میں کہیں بھی سلام مسنون وغیرہ کا اہتمام ہی نہیں ہے۔ ترقی پسند شاعروں ادیبوں کے خطوط ان تکلفات سے عاری ہیں۔ سجاد ظہیر(بنے بھائی) کے خطوط کا مجموعہ ’’نقوش زنداں‘‘ دیکھ لیجئے جو ان کی بیوی رضیہ کے نام ہے۔ یا پھر صفیہ اختر کے خطوط پر مشتمل مجموعہ ’’زیر لب‘‘ ملاحظہ فرمائیے جو جاں نثار اختر کے نام ہے۔ مظفر حنفی بھی اس معاملے میں ترقی پسند ہی ہیں۔
غالباً محمد طفیل نے جذبی سے صرف ایک سو کتابیں ہی خرید نے کی بات کی تھی۔ اگلے خط میں جذبی انھیں لکھتے ہیں
۶۔ امیر نشان
سول لائنس۔ علی گڑھ
مکرمی
آپ کی صاف گوئی سے مسرت ہوئی لیکن غالباً آپ نے میرا خط غور سے نہیں پڑھا۔ میں نے آپ کو سول ایجنسی کے لیے لکھا تھا۔ اگر مجھے سوسو کتابیں ہی بھیجنی ہیں تو پھر میں مختلف کتب فروشوں کو بھی دے سکتا ہوں۔
اس صورت میں سول ایجنسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دوسری چیز یہ ہے کہ میں جتنی جلدیں بھی بھیجوں گا بذریعہ وی۔ پی۔ بھیجوں گا۔
سودا نقد ہی بہتر ہوتا ہے۔
’’فروزاں‘‘ دو ہزار کی تعداد میں شائع ہو گی۔ ایک ہزار ہندوستان کے لیے اور ایک ہزار پاکستان کے لیے۔ اگر آپ پا کستان کی سول ایجنسی لینا چاہتے ہیں تو آپ ایک ہزار جلدیں معقول کمیشن پر مجھ سے خرید سکتے ہیں۔
کتاب کی قیمت ہندوستان اور پاکستان میں ایک ہی رہے گی۔
ہاں پاکستان سے میری مراد مغربی پاکستان ہے۔ مشرقی پاکستان میں بھی بعض پبلشرز سے خط کتابت کر رہا ہوں۔ از راہِ کرم تفصیلی جواب سے مطلع فرمائیے۔
نیاز مند
جذبی
29/3/51
خیر۔ یہ تو تھے کاروباری نوعیت کے خطوط۔ محمد طفیل چونکہ ہر تخلیق کا معاوضہ دیا کرتے تھے اس لیے وہ چاہتے تھے کہ نقوش میں جو بھی تخلیق شائع ہو وہ غیر مطبوعہ ہو۔ ایک غزل کے معاملے میں محمد طفیل نے خلیل الرحمن اعظمی سے کچھ دریافت کر لیا تھا جس پر جذبی نے اپنی صفائی میں ایک تفصیلی خط لکھا جو بڑا دلچسپ ہے:
۷۔ ذکاء اللہ روڈ
مسلم یونیورسٹی۔ علی گڑھ
برادرم!
مجھے شکایت ہے۔ آپ کو اگر کچھ میرے تعلق پوچھنا تھا تو مجھے براہِ راست لکھ سکتے تھے۔ خلیل الرحمن اعظمی کو لکھنا کیا ضرور تھا۔ آپ کو اتنے عرصے میں اندازہ تو ہو ہی گیا ہو گا کہ میں شہرت کا بھوکا نہیں ہوں۔ شہرت کے بھوکے تو خدا جانے کیا کیا کرتے ہیں کوئی پرچہ اور پرچہ کا کوئی خاص نمبر ایسا نہیں ہوتا
جس میں ان کی تصویر نہ چھپتی ہو۔ ذرا بتائیے تو سہی کہ گذشتہ پچیس سال میں میری تصویر آپ نے کن کن پرچوں میں دیکھی ہے۔ گذشتہ مارچ میں حیدرآباد ریڈیو کا مشاعرہ تھا۔ اس میں میں نے وہ غزل پڑھی تھی جو نقوش کے پچھلے نمبر میں شائع ہوئی۔ ’’صبا‘‘ والے مانگنے ہی رہے لیکن چونکہ میں آپ سے وعدہ کر چکا تھا اس لیے ان سے معذرت کرنا پڑی۔ بہت ممکن ہے کہ انہوں نے ’’نقوش‘‘ سے نقل کی ہویا پھر حیدرآباد ریڈیو یا کسی اور ذریعے سے حاصل کی ہو۔ بہرحال آپ کی بدگمانی کا مجھے رنج ہے۔
آپ کا خط مل گیا تھا۔ اتفاق سے ایک نظم بھی موجود ہے لیکن اب آپ کو بھیجتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔
خدا کرے آپ بخیر ہوں۔
نیاز مند جذبی
30/8/58
سوائے اس ایک غزل کے، سولہ سال کے عرصے میں جذبی کی کوئی اور تخلیق نقوش میں بار نہ پا سکی۔ ہر بار وہ یہی کہتے رہے کہ نظم یا غزل ہوئی تو تھی کسی اور رسالہ کے حوالے ہو گئی۔ ایک نظم کے تعلق سے جذبی کی جذباتی قسم کی شرط ملاحظہ فرمایئے۔
۷۔ ذکاء اللہ روڈ
مسلم یونیورسٹی۔ علی گڑھ
برادرم!
کل آپ کا تار ملا۔ لیکن میرے خط کا آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ نظم تیار ہے لیکن اس کے ساتھ ایک جذباتی قسم کی شرط ہے۔ یہ نظم مجاز سے متعلق ہے۔
اس میں کوئی بارہ شعر ہوں گے۔ آپ کو شاید سن کر حیرت ہو کہ یہ دوسال سے زائد عرصہ میں تیار ہوئی ہے۔ آپ کو شاید معلوم ہو کہ مجاز سے میرا کتنا قریبی تعلق رہا ہے۔ ۵۔ دسمبر کو اس کی تیسری برسی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ نقوش کے پہلے صفحہ پر اس کی تصویر ہو اور تصویر کے مقابل میری نظم۔ از راہِ کرم تار کے ذریعے مجھے مطلع کیجئے کہ آپ میری خاطر یہ تھوڑی سی زحمت برداشت کر سکیں گے
یا نہیں۔ اگر آپ کے پاس مجاز کی کوئی تصویر نہ ہو تو میں بھیج دوں۔
امید ہے آپ بخیر ہوں گے
نیاز مند جذبی
19/9/58
مزے کی بات یہ کہ یہ نظم بھی ’’نقوش‘‘ سے پہلے علی گڑھ میگزین میں چھپ چکی تھی۔ اس کا پتہ بھی جذبی ہی کے خط سے چلتا ہے جو لیٹر ہیڈ پر لکھا گیا تھا۔
Moin Ahsan Jazbi 7- zakaullah road
M.A Ph-D Muslim university Aligarh
برادرم !
آپ کے دونوں خط ملے۔ آج کل در اصل امتحانات کی مصروفیتیں ہیں ورنہ بہت پہلے آپ کی خدمت میں جواب پہنچ چکا ہوتا۔ آخری نظم مجاز پر کہی تھی جو علی گڑھ میگزین میں شائع ہوئی ہے۔ اس کے بعد سے اب تک کچھ نہیں ہوا۔
’’مکان نامہ‘‘ پر در اصل نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس کی اشاعت میں صرف یہی بات اب تک مانع رہی ہے۔ رہی ڈر کی بات، سو آپ کو شاید علم نہیں کہ سب سے پہلے یہ ذاکر صاحب ہی کو بھیجی گئی تھی اور اس نظم کا انہوں نے کئی جگہ ذکر بھی کیا۔ اس امر سے آپ میری گستاخی اور ذاکر صاحب کی خوش مذاقی کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ ذاکر صاحب کا شمار ہندوستان کی نمایاں شخصیتوں میں ہے۔ اس لیے نظم بھی فنی اعتبار سے ذاکر صاحب کے شایان شان ہونا چاہئے۔ اسی خیال نے اب تک اس کی اشاعت سے مجھے روکے رکھا ورنہ اب تک یہ ’’نقوش‘‘ کے طنز و ظرافت نمبر میں جگہ پاچکی ہوتی۔ خدا کرے آپ بخیر ہوں۔
احباب سے سلام کہئے گا خصوصاً ً سبطِ حسن سے۔
آپ کا جذبی
جذبی ہر خط کے بعد تاریخ انگریزی ہی میں ڈالا کرتے تھے۔ 16/4/59
جذبی سے مہینوں کوئی نظم یا غزل نہیں ہوتی تھی۔ در اصل وہ الا بلا لکھنا نہیں چاہتے تھے۔ ورنہ قافیہ و ردیف کے سہارے چل نکلنے میں دیر ہی کیا تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ جو بھی تخلیق ہو وہ معیاری ہو۔ تخلیقات کے نہ ہونے کی طرف بھی ان کے ایک خط میں اشارہ ملتا ہے۔
۷۔ ذکا ء اللہ روڈ
مسلم یونیورسٹی۔ علی گڑھ
برادرم !
میں واقعی آپ کا مجرم ہوں۔ ایک طرف آپ کی یہ نوازش کہ ’’نقوش‘‘ جس دن سے نکلا ہے اس دن سے آج تک مجھے آپ نے فراموش نہیں کیا۔
دوسری طرف میں ہوں کہ نقوش کی کوئی خدمت نہ کر سکا۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ شرمندگی کا اظہار بھی نہیں کیا جاتا۔ یہاں کے حالات عجیب و غریب ہیں۔ ہر طرف سیاست ہے اور وہ بھی گندے قسم کی۔
شعر کہاں سے نازل ہوں۔ شعر کہنے کے لیے بھی ایک ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اتفاق سے مجھے نصیب نہیں۔
دو تین مہینے ہوئے ایک غزل ہو گئی تھی لیکن اسے ’’جامعہ‘‘ والے لے اڑے۔ ابھی تک وہ چھپی نہیں ہے شاید ستمبر کے پرچے میں شائع ہو۔
بہر حال یہ غزل بھیج رہا ہوں۔ ’’جامعہ‘‘ کی اشاعت اتنی محدود ہے کہ آپ کے عام پڑھنے والوں کے لیے یہ غزل بالکل نئی ہو گی لیکن آپ اسے نہ چھاپنا چاہیں تو آپ یہ نہ سمجھیئے گا کہ میں برا مانوں گا۔ خطا میری ہے۔
آپ کا جذبی
30/8/62
جذبی کھلے دل کے آدمی تھے۔ انہوں نے نئے اور اچھے لکھنے والوں کا نقوش سے تعارف کرایا اور محمد طفیل سے گزارش کی کہ ان سے مضامین لکھوائے جائیں۔ دو مختلف اوقات میں دو الگ الگ خطوط میں انھوں نے دو نام دیئے: اور اپنی کم سخنی کا اس طرح ازالہ کرنا چاہا۔ ایسے معیاری لکھنے والوں کی نشاندہی کی جو محض ’’شہرت کی خاطر قلم نہیں اٹھاتے‘‘ بلکہ ہمیشہ معیار ملحوظ رکھتے ہیں۔
۶۔ امیر نشان
سول لائنس۔ علی گڑھ
برادرم!
ابھی ابھی ’’شعلۂ طور‘‘ کا نسخہ ملا۔ کتابت اور طباعت کے سلسلے یں آپ کے سلیقے اور خوش مذاقی کا قائل ہونا ہی پڑتا ہے۔ میرا شکریہ بھی قبول کیجئے اور مبارکباد بھی۔
دیکھئے آج میں ’’نقوش‘‘ کو ایک نقاد سے متعارف کراتا ہوں۔
اسلوب احمد انصاری نام ہے مسلم یونیورسٹی میں انگریزی کے لکچرر ہیں اور فی الحال انجمن ترقی پسند مصنفین علی گڑھ کے صدر بھی ہیں۔
ان کے بعض مضامین ’’نگار‘‘ اور ’’تہذیب نو‘‘ میں شائع ہو کر سنجیدہ حلقوں سے داد لے چکے ہیں۔ سجاد ظہیر بھی ان کے ایک مضمون کی داد دے چکے ہیں۔
آپ ان کے نام ’’نقوش‘‘ بھیجنا شروع کر دیجئے۔ میں بہت جلد ان کا مضمون ’’فراق کی شاعری‘‘ بھجواتا ہوں۔ اسلوب صاحب کا پتہ یہ ہے: ۔
آپ خود بھی انھیں ایک خط لکھ دیجئے۔
پروفیسر اسلوب احمد انصاری ایم۔ اے۔ انجینیرنگ کوارٹرس، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
آپ کا جذبی
15/2/54
Moin Ahsan Jazbi 7- zakaullah road
M.A Ph-D Muslim university Aligarh
برادرم !
لائل پور سے واپسی پر لاہور ٹھہرنے کی ہمت نہیں پڑی۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ پاسپورٹ کے اندراج کے سلسلے میں چار گھنٹے ایس۔ پی۔ کے دفتر میں کھڑا رہنا پڑا تھا۔ یہ واقعہ اتنا ہمت شکن ثابت ہوا کہ لائل پور سے سیدھا کراچی روانہ ہو گیا۔ بس یہی وجہ تھی کہ آپ سے دوبارہ نیاز حاصل نہ ہو سکا۔
لاہور کے دوران قیام میں (کذا) آپ جس خلوص سے پیش آئے اس سے زیادہ کا میں مستحق بھی نہیں۔ ایک معمولی شاعر کی اتنی آؤ بھگت تو میرے وہم و خیال میں بھی نہ تھی۔
حسبِ دستور ایک عرصہ سے کچھ نہیں کہا اور حالات کچھ ایسے ہیں کہ شاید بہت دنوں تک کچھ نہ کہہ سکوں۔ لیکن اس کی تلافی ایک دوسری صورت میں کئے دیتا ہوں۔ ایک صاحب ہیں انور صدیقی، انگریزی میں ایم۔ اے ہیں۔ اعظم گڑھ میں انگریزی کے لکچرر رہ چکے ہیں اور فی الحال مسلم یونیورسٹی میں فیلو کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اپنی طالب علمی کے زمانہ میں علی گڑھ میگزین کے اڈیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ آج کل انہوں نے اردو میں لکھنا شروع کر دیا ہے اور ’’ادب لطیف‘‘
میں ان کا ایک خط حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ ایک اور مضمون بھی انہوں نے ادب لطیف ہی کو بھیجا ہے۔ آپ کو اس خط اور مضمون سے خود بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ ان کا ذوقِ ادب کتنا پاکیزہ ہے اور وہ ادبی معاملات میں کتنی گہری نظر رکھتے ہیں۔
میں نے ان سے ’’نقوش‘‘ کے لئے فرمائش کر دی ہے۔
آپ بھی انہیں مندرجہ ذیل پتہ پر ایک خط لکھ دیں تو انہیں اور بھی خیال پیدا ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ وہ اچھے اور خوش گو شاعر بھی ہیں۔
ان کی بعض غزلیں تو مجھے بہت ہی پسند آئیں۔ ہاں ان کا پتہ یہ ہے۔
انور صدیقی۔ ایم۔ اے (علیگ) فیلو۔ انگلش ڈیپارنمنٹ، مسلم یونیورسٹی
میرا ارادہ ہے کہ ’’نقوش‘‘ کے لئے کچھ ایسے ہونہار نوجوانوں کو لکھنے پر مجبور کروں جن میں جدت بھی ہو اور محنت بھی۔ اس پروپیگنڈے کے دور میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو شہرت کی خاطر قلم نہیں اٹھا تے، اور بے مغز باتوں سے رسالے کے صفحات نہیں بھرتے۔ سال میں خواہ وہ ایک مضمون یا ایک غزل ہی کیوں نہ لکھیں، لیکن وہ مضمون مضمون اور نظم نظم ہو گی۔ اگر آپ فرمائیں تو
میں بعض نوجوانوں کے نام آپ کو لکھ کر بھیج دوں۔ خدا کرے آپ بخیر ہوں
آپ کا
جذبی
19/8/61
جذبی نے ہمیشہ خود احتسابی سے کام لیا اور ’’نقوش‘‘ کے معیار کا لحاظ رکھا۔ ایک خط میں وہ محمد طفیل صاحب کو لکھتے ہیں:
۷۔ ذکاء اللہ روڈ
مسلم یونیورسٹی۔ علی گڑ ھ
برادرم!
آپ کے خلوص اور وضعداری کا ہمیشہ سے معترف ہوں۔ میں ادھر باہر گیا ہوا تھا۔واپس آیا تو انفلوئنزا کا شکار ہو گیا۔ اب بہتر ہوں۔ یہ بتائیے کہ آپ سالنامہ کب تک نکال رہے ہیں۔ ادھر دو غزلیں اور ایک نظم کہی تھی۔ نظم سرور صاحب کے ’’تخلیق نمبر‘‘ کی نذر ہو گئی اور غزلیں اس قابل نہیں کہ نقوش جیسے رسالہ میں چھپ سکیں۔ نقوش کے لیے کچھ کہنے کی کوشش کروں گا۔
خدا کرے آپ بخیر ہوں
آپ کا جذبی
22/3/66
ایک خط میں جذبی نے اپنے پتے کے نیچے ہی تاریخ درج کر دی اور ایک اہم خط لکھا جس میں ان کی حالت، نقادوں کا رویہ اور تخلیق کار کی خوش گمانی پر روشنی پڑتی ہے:
۷۔ ذکا ء اللہ روڈ
مسلم یونیورسٹی۔ علی گڑھ
20/10/61
برادرم!
زندہ ہوں اور انتشار ذہنی میں مبتلا۔ پرسشِ حال کا بہت بہت شکریہ۔
اپنے عام شمارے کے لیے آپ اسلوب احمد انصاری کو کیوں نہیں لکھتے۔
ان کی تنقید متوازن اور ان کی رائے بڑی بے لاگ ہوتی ہے۔ وہ غالباً میرے مجموعہ کلام ’’سخن مختصر‘‘ پر لکھنے والے تھے۔ خدا کرے وہ کچھ لکھیں تاکہ مجھے اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کا علم ہو سکے۔ تعریف و توصیف سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ مصنف یہ سمجھنے لگتا ہے کہ ہم چومن دیگرے نیست۔
ہم سبھوں کی ٹریجڈی یہی رہی ہے کہ نقادوں نے کبھی انصاف سے کام نہیں لیا۔ یا تو آسماں پر پہنچا دیا، یا تحت الثریٰ میں گرا دیا۔ ایسی صورت میں مصنف اپنی تخلیق کے متعلق کوئی صحیح رائے قائم نہیں کر پاتا۔ اب تو حال یہ ہے کہ جسے قلم پکڑنے کی تمیز نہیں وہ بھی عظیم شاعر یا افسانہ نگار بنا بیٹھا ہے۔
یہی حال رہا تو ہمارے ادب کا خدا ہی حافظ ہے۔ خدا کرے آپ اچھے ہوں
آپ کا
جذبی
جذبی کی کم سخنی بے جواز نہیں تھی۔ وہ معیار کے معاملے میں کسی سمجھوتے کے قائل ہی نہیں تھے۔ وہ کوئی کمتر درجے کی (Sub-Standard) تخلیق پیش کر کے اپنی وقعت کھونے پر آمادہ نہیں تھے۔ اگر انھوں نے کچھ کہا بھی اور یہ محسوس کیا کہ اس میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے تو انھوں نے وہ تخلیقات شائع کروانے سے گریز ہی کیا۔ مگر ہمارے بعض لکھنے والے نہ صرف ہر صنف سخن میں کچھ نہ کچھ لکھے جا رہے ہیں بلکہ انھیں ہندوستان بھرکے ہفتہ واروں، ماہ ناموں، سہ ماہی پرچوں حتیٰ کے ہر علاقے کے تمام روزناموں میں مسلسل چھپوا رہے ہیں۔ خود تو وہ لکھتے ہی ہیں، اپنے فکر و فن پر دیگر لکھنے والوں سے گزارش کر کر کے مضامین لکھوا کر چھپواتے رہتے ہیں۔ کسی اخبار یا رسالے کے مدیر کی فرمائش سے پہلے ہی ڈھیرساری تخلیقات بھیج کر ان کی اشاعت کے لیے مسلسل توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ مختلف رسالوں میں بہ صرف زرِ کثیر اپنے گوشے نکلواتے ہیں۔
جذبی کے بعض اشعار تو کئی صاحبانِ ذوق کو یاد ہیں جب کہ اکثر شعرا کو خود ان کا اپنا کلام بھی یاد نہیں رہتا۔ مشاعروں میں لکھ کر یا لکھوا کر لاتے ہیں تب سنا پاتے ہیں۔
’’نقوش‘‘ جیسے اعلی معیاری رسالے کے مدیر محمد طفیل کی فرمائش کے جواب میں جذبی لکھتے ہیں:
۷۔ ذکاء اللہ روڈ، مسلم یونیورسٹی۔ علی گڑھ
برادرم!
گرامی نامہ ملا۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ ادھر میں نے کچھ نہیں کہا ہے لیکن یقین کیجئے
جو کہا ہے وہ اس قابل نہیں کہ ’’نقوش‘‘ میں چھپ سکے۔
فضول چیزیں چھاپنے سے کیا حاصل! آپ بھی بد حظ ہوں اور پڑھنے والے بھی۔
امید ہے آپ بخیر ہوں گے۔
نیاز مند جذبی
12-3-65
گویا جذبی اپنے ساتھ ساتھ رسالے کے معیار پر بھی حرف آنے دینا نہیں چاہتے تھے۔
جذبی چونکہ ’’نقوش‘‘ کے لیے تخلیقات بھیجنے کا وعدہ تو ہمیشہ کرتے تھے لیکن وعدہ وفا نہیں کر پاتے تھے شاید محمد طفیل نے از راہِ تفنن طبع انھیں کہیں دل لگانے کا مشورہ دے دیا تھا۔ جواباً جذبی نے لکھا:
۷۔ ذکاء اللہ روڈ
مسلم یونیورسٹی۔ علی گڑھ
برادرم!
آپ کا خط بیوی کے ہاتھ پڑ گ یا۔ سخت برہم تھیں۔ اس طرح لوگوں کو دل لگانے کا مشورہ نہ دیا کیجئے گا ورنہ نہ جانے کتنے گھروں میں جوتے چل جائیں گے۔۔ ۔
آپ کا جذبی
27/4/63
جذبی کے یہ چند خطوط ان کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
اشاریہ:
تحقیق نامہ (2005-2006) جی سی یونیورسٹی لاہور۔ پاکستان
٭٭٭
قرۃ العین حیدر اور پروین شاکر کے بیچ رنجش
اردو ادب میں خاتون قلم کاروں کی پذیرائی جی کھول کر اور بانہیں پھیلا کرکی گئی ہے مگر اس کے لیے ان خواتین کا بے باک ہونا شرط اول ہے۔ عصمت لحاف سے باہر نکل کر ٹیٹرھی لکیر پر چل پڑتی ہیں۔ رشید جہاں انگارے ہاتھوں میں لینے کا حوصلہ رکھتی ہیں وہیں انھی انگاروں سے فہمیدہ اور رضیہ سجاد ظہیر کے ساتھ ساتھ یکے از زیدیان اپنے سگریٹ سلگاتی ہیں اور ان کا ساتھ دینے میں تسلیمہ ’’لجا‘‘محسوس نہیں کرتیں۔ کشور کشائی میں اک غیرت ناہید نے اپنی بری کتھا لکھنے میں کوئی عار نہیں سمجھا یا پھر کوئی بانو اپنے دستر خوان کے ذریعے مشہور و ممتاز سمجھے جانے والے ادیبوں شاعروں ناقدوں کو نان و نمک پیش کر کے ایوان ادب میں داخل ہوتی ہیں، مشاعرہ باز متشاعرات کا ذکر ہی یہاں مقصود نہیں کہ یہ زیر یں لہر صرف متنظمین مشاعرہ اور عوام کو متاثر کرتی ہے اور ان کی زلف سخن خاصان ’’ نظم‘‘ کے شانوں پر اور عامیانِ غزل کی آنکھوں پر لہراتی ہے۔
مگر بعض ایسی ٹھوس قلم کار خواتین بھی ہیں جنہوں نے اپنے قلم کا لوہا منوایا ہے انھی میں قرۃ العین حیدر اور پروین شاکر بھی ہیں۔ قرۃالعین حیدر ۲۰، جنوری ۱۹۲۷ء کو علی گڑھ میں اپنے زمانے کے منفرد اد یب سید سجاد حیدر یلدرم کے گھر پیدا ہوئیں (ان کی پیدائش کے سال میں اکثر رسائل نے اختلاف کا اظہار کیا ہے کہیں ۱۹۲۶ء تو کہیں ۱۹۲۸ء بھی چھپا ہے )روشن خیال آزادہ رو خاندان کی فرد ہونے کے باوجود انھوں نے اپنے قلم کو شتر بے مہار ہونے نہیں دیا۔ مغربی تہذیب کی دلدادہ ہونے کے باوجود نہ وہ ’’اوہ امریکہ‘‘۔۔ ۔۔ ۔۔ کہتی ہیں نہ اپنی عنبریں کی نتھ اترواتی ہیں نہ کسی کردار کو اترن پہنا کر لطیفے کو کہانی بناتی ہیں ان کی چاندنی بیگم چائے کے باغ کے کنارے ہاؤسنگ سوسائٹی میں گردش رنگ چمن پر گہری نظر ڈالتی ہیں تو کبھی ستمبر کے چاند کا لطف لینے کے لیے سفینۂ غم دل میں بیٹھ کر آخر شب کے ہمسفر کے ساتھ آگ کا دریا پار کرنے کی کوشش کرتی ہوئی جہانِ دیگر پہنچتی ہیں۔
اردو ادب میں علامہ اقبال سے زیادہ پڑھا لکھا شاعر نہ پیدا ہوا ہے نہ ہو گا اسی طرح قرۃ العین حیدر سے بڑی ادیبہ نہ ہوئی ہے نہ ہو گی۔
قرۃ العین حیدر کی علمیت کا اعتراف نہ کرنا اپنی لاعلمیت کا ثبوت دینا ہے۔ ان کی تعلیم لکھنؤ سے لے کر کیمرج یونیورسٹی اور لندن کے مایہ ناز اسکولوں میں ہوئی۔ ظاہر ہے یہ سارا پس منظر ان کا مزاج بنانے میں اپنا حصہ ادا کرتا رہا ہے اور پھر انھیں اپنے معیار پر پورا اترنے والا کوئی فرد ملا ہی نہیں اس لیے انھوں نے زندگی کا سفر تنہا ہی طے کرنے کی ٹھانی۔ اسی لیے مزاج میں خود سری (DOGMATISM)تھی۔
بعض وقت وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے خفا ہو جاتی تھیں۔ انٹر ویو دینے سے تو بہت گریز کرتی رہیں۔ فوٹو کھنچوانے کے سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ ڈاکٹر ابرار رحمانی نے بیان کیا ہے کہ ماہنامہ ’’آج کل‘‘(دہلی )کے دفتر میں وہ محو گفتگو تھیں کہ سرکاری فوٹو گرافر نے فوٹو کھینچ لیا۔ ’’پھر کیا تھا تھوڑی دیر کے لیے ان کی خوش کلامی کو بریک سالگ گیا اور سخت ناراضگی کے آثار ان کے چہرے پر نظر آنے لگے۔۔ ۔۔ ۔۔ کچھ دیر تک وہ بھڑاس نکالتی رہیں جب بھڑاس نکال چکیں تو اپنے پرس سے آئینہ اور کنگھی نکالی اور رخ زیبا سنوارنے لگیں۔ تھوڑی سی لپ سٹک بھی لگائی تب چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا ’’اب تصویر کھینچئے۔
(ماہنامہ ایوان اردو جنوری ۲۰۰۸ء)
اپنے آپ سے پیار کس کو نہیں ہوتا ہے۔ منظر میں رہنا ہر شخص چاہتا ہے۔ فن کا رتو ہوتا ہی منظر کے لیے ہے۔ بلکہ بعض نام نہاد فن کاروں اور متشاعروں کے پس منظر میں بھی فن کار ہی ہوتے ہیں۔ قرۃالعین حیدر اپنی شرطوں پر جینے کی عادی تھیں۔ وہ اپنی بات منوا کر رہتی تھیں۔ ماہنامہ ’’شاعر‘‘(ممبئی )جنوری ۲۰۰۸ء میں افتخار امام صدیقی نے اک دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ قرۃالعین حیدر کی زندگی میں وہ ان پر فضیل جعفری اور سلمیٰ صدیقی سے مضامین لکھوا رہے تھے۔
’’میں نے اپنی پریشانیوں کا آغاز کیا کہ عینی آپا کو بتا دیا کہ فضیل جعفری (کذا) اور سلمیٰ صدیقی صاحبہ نے اپنے اپنے مقالے لکھ کر اشاعت کے لیے دیئے۔ اب عینی آپا بضد کہ پہلے وہ دونوں مضامین پڑھیں گی اس کے بعد ہی وہ شائع ہوں گے۔
مذکورہ دونوں قلم کاروں کا اصرار کہ ہمارے مضامین عینی آپا کو دکھائے بغیر ہی شائع کئے جائیں۔ عینی آپا کی دھمکیاں شروع ہو گئیں کہ پریس اور ’’ شاعر‘‘ دونوں بند کر وا دوں گی، میرے پڑھے بغیر مضامین کی اشاعت ہر گز نہ ہو۔‘‘
’’شاہد احمد دہلوی۔۔ ۔ پکچر گیلری کی ایک تصویر‘‘ کے عنوان سے لکھے ہوئے اپنے خاکے میں قرۃالعین حیدر نے خود ہی بیان کیا کہ:
’’میرے بھانجے عاصم زیدی نے ایک روز مجھے بتایا کہ آپ کے متعلق ایک نہایت بے ہودہ مضمون ’’ساقی‘‘میں شائع ہوا ہے۔ کسی نے لوسی فر کے فرضی نام سے لکھا ہے‘‘۔۔ ۔ وہ مضمون میں آج پڑھتی تو بے حد ہنسی آتی لیکن اس وقت شدید غصہ آیا۔ اس وقت تک شاہد صاحب سے میری ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ میں نے انھیں ریڈ یو سٹیشن پر فون کیا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ جیسے مہذب انسان سے یہ توقع نہ تھی۔۔ وغیرہ وغیرہ انھوں نے بھی کافی سختی سے جواب دیا۔ میں نے کہا بالکل بلاوجہ آپ میرے خلاف اس قسم کا بے بنیاد مضمون کیوں چھاپ رہے ہیں۔ پھر میں نے کہا ’’ساقی‘‘یہاں مالی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے اور شاید آپ کا خیال ہے کہ اس طرح کے سنسنی خیز مضامین سے پر چہ بک جائے گا مگر مجھ غریب کو بے قصور نشانہ کیوں بنائیے ؟ (شاہد احمد)کہنے لگے اچھا کل آپ ریڈیو سٹیشن آئیے۔ وہاں وہ مجھ سے پھر الجھ گئے اور کہنے لگے اچھا اب ہماری آپ کی ملاقات عدالت میں ہو گی۔ میں حیران پریشان۔ دوسرے روز وہ مضمون کا پروف
لے کر آئے۔ مگر پروف شاہد صاحب نے اسی وقت پھاڑ دیئے۔‘‘
(سہ ماہی ’’سفیر اردو‘‘اکتالسواں شمارہ جولائی، ستمبر ۲۰۰۷، لندن)
یہ وہی شاہد احمد ہیں جن کے بارے میں قرۃ العین نے اپنے اسی مضمون میں یہ بھی لکھا: ’’ بہت ممکن تھا کہ TEENAGE HOBBYکی حیثیت سے تھوڑے بہت افسانے لکھ کر چھوڑ دیتی مگر شاہد احمد صاحب کی مسلسل فرمائش اور اصرار سے بڑی سخت ہمت افزائی ہوئی۔ میرے پہلے افسانے کا تذکرہ انھوں نے اپنے ایڈیٹوریل میں کیا‘‘۔ ایسے کئی واقعات ہیں جہاں قرۃ العین حیدر دو ٹوک انداز میں اپنی خفگی کا اظہار کرتی ہیں۔ اس تمہید کا مقصد یہ بتانا ہے کہ پروین شاکر بھی ان کی زد میں آئیں۔ پروین شاکر ۱۹۵۲ء میں کراچی میں پیدا ہوئیں یعنے قرۃ العین حیدر سے عمر میں تقریباً پچیس ۲۵ برس چھوٹی تھیں۔ پروین کے والدین بہاری تھے۔ (جناب مظہر امام کے لیے ناز فرمانے کا ایک اور موقع ہے ڈاکٹر وہاب اشرفی کے لیے بھی یہ خبر باعثِ افتخار ہی ہو گی کہ ان کا ’’مباحثہ‘‘ بڑا پر بِہار ہوتا ہے )۔ بہار کے (ب)کو کسرہ ہے )۔
ایک کرم فرما جناب مضطر اپنی تفنن مجازی سے (تفنن مزاجی بھی کہا جا سکتا ہے )پروین شاکر کو عورتوں کی اختر شیرانی تک کہتے ہیں مگر وہ اپنے خیال سے رجوع بھی کسی بھی وقت کر سکتے ہیں۔ مگر سچ پوچھئے تو پروین شاکر کی طرح شعر کہنے کاسلیقہ بہت ہی کم شاعرات اور بہت کم شاعروں کو ملا ہے۔ کچھ تو اللہ نے انھیں صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا تھا اور کچھ تو انھیں GODFATHERS بھی اچھے مل گئے، وہ چل نکلیں۔ کم عمری میں انھیں کئی تجربات سے گزرنا پڑا۔ کئی اعزازات بھی ملے۔ اس ماہ تمام کی رویتِ ہلال۱۹۷۷ء میں ’’ خوشبو‘‘سے ہوئی۔ پھر تو یہ گلِ صد برگ اپنی بہار دکھانے لگا۔ ایم اے (انگریزی لسانیات )کرنے کے بعد وہ انگریزی لکچرر ہو گئیں۔ ۱۹۸۲ء میں پاکستان سِول سرویس کا امتحان کامیاب کر کے حکومت کے اس اہم شعبے میں آ گئیں۔ پاکستان ٹی وی کے لیے انھوں نے کئی مشاہیر سے انٹرویو لیے جو بہت مقبول ہوئے۔ ۱۹۷۶ء میں ان کی شادی ان کے خالہ زاد ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی۔ پروین شاکر ۱۹۷۹ء میں ایک بیٹے کی ماں بنیں اب وہ بیٹا تیس سال کا ہو چکا ہے۔ وہ با مراد پتہ نہیں اپنی ماں پر شاکر ہے یا اپنے باپ کی نصرت کر رہا ہے۔ جانے کیا بات ہوئی کہ صرف دس گیارہ سال تک ہی پروین شاکر اور نصیر ساتھ ساتھ نباہ کر سکے۔ ۱۹۸۷ء میں دونوں میں طلاق ہو گئی۔ اس ’’کفِ آئینہ‘‘ کے پیچھے ’’انکار‘‘ و اثبات کے زنگار سے فی الحال ہمیں کوئی علاقہ نہیں کہ ہم تو اس ’’ماہ تمام‘‘ کے مہتاب سخن کی ’’خوش کلامی‘‘ کے گرویدہ ہیں۔ پروین شاکر نے عورت کی نفسیات اور ماقبل و مابعد بلوغت کے احساسات کو جس بلاغت سے پیش کیا ہے وہ کسی اور شاعر کے پاس ایسے تہذیبی پیرایۂ اظہار میں کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ پروین شاکر کے لب و لہجہ میں حسن کی تہذیب بھی ہے اور تہذیب کا حسن بھی ہے۔
فکشن میں قرۃ العین حیدر جتنی مقبول و ممتاز ہیں شعر و ادب میں پروین شاکر بھی اتنی ہی مقبول ہیں زندگی نے وفا نہ کی ورنہ بہت ممکن تھا کہ وہ کئی اور شاہ کار اردو ادب کو دے جاتیں۔ ۲۶؍ڈسمبر۱۹۹۴ء کو کار کے ایک حادثے میں وہ جاں بحق ہو گئیں۔ گویا صرف ۴۲ بیالیس بہاریں ہی وہ دیکھ پائیں۔ مگر شہرت ان کے قدم چومتی تھی۔
اصل موضوع کی طرف میں آتا ہوں کہ ۷۸ ۱۹ء کے اواخر میں وہ ہندوستان آئی تھیں۔ واپس جا کر انھوں نے اپنے سفر کی یاد گار کے طور کئی نظمیں لکھیں جن میں تین نظمیں بطور خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ تاج محل۔ فراق گورکھپوری۔ اور قرۃ العین حیدر پر لکھی ہوئی وہ نظمیں ’’سیپ‘‘ کراچی۔ شمارہ ۳۸(اکٹوبر نومبر ۱۹۷۸ء میں شائع ہوئی تھیں )۔
’’سیپ کا یہ شمارہ جب قرۃ العین حیدر صاحبہ تک پہنچا تو انھوں نے اپنے اوپر لکھی گئی نظم کے رد عمل کے طور پر مدیر ’’سیپ‘‘ نسیم درانی اور پروین شاکر کے نام الگ الگ دو خطوط ارسال کئے۔ پروین شاکر کے نام خط یوں تھا:
ممبئی۔۔ ۔ ۳؍جنوری ۱۹۷۹ء
محترمہ پروین شاکر صاحبہ
سیپ میں آپ کی نظم دیکھی جس میں آپ نے اپنی شاعری اور تخیل کے جوہر دکھائے ہیں۔ میں آپ سے بہت خلوص اور اپنائیت سے ملی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا آپ نے میرے متعلق اس قدر لچر الفاظ کس طرح اور کیوں استعمال کیے اور آپ کو میں کس طور پر ایسی FIGURE OF THE TRAGEDY & FRUSTATION نظر آئی یا اس قسم کی SICK نظمیں لکھ کر آپ اپنی شہرت میں اضافہ کرنا چاہتی ہیں۔ آپ شاید بھولتی ہیں اگرمیں بد نفسی اور شرارت پر اتروں تو میرے ہاتھ میں بھی قلم ہے اور میں آپ سمیت جس کے لیے جو چاہوں لکھ سکتی ہوں۔ میں چھ ۶ تاریخ کو تین ماہ کے لیے دلی جا رہی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ آپ مندرجہ ذیل پتے پر مجھے لکھیں گی کہ آپ نے یہ نظم کیا سوچ کر
لکھی یا آپ کی واقعی اتنیSICK ذہنیت ہے کہ آپ میری شخصیت کواس طرح مسخ کر کے پیش کریں۔ نہ میری آپ سے پرانی دوستی ہے نہ آپ میری ہم عمر ہیں۔
آپ نے دو تین بار کی سرسری ملاقات کے بعد میرے طرز زندگی پر جو قطعی میرا اپنا انتخاب اور میرا معاملہ ہے فیصلے صادر کر کے یہ ظاہر کیا ہے کہ یا آپ بمبئی آ کر بوکھلا گئی تھیں -OR YOU MUST BE LIGHT OUT OF YOUR MIND
قرۃ العین حیدر
دوسرا خط مدیر ’’سیپ‘‘نسیم درانی کے نام یوں تھا:
جناب مدیرسیپ نسیم درانی صاحب تسلیم!
آپ کے رسالے میں پروین شاکر صاحبہ کی نظم دیکھ کر افسوس ہوا اور تعجب بھی۔ ادیبوں کی شخصیت کو بلاوجہ اور بلا جواز Unprovokedمسخ کر کے پیش کرنا یا ان پر کیچڑ اچھالنا ہمارے اردو رسالوں کا وطیرہ (کذا)بن گیا ہے اور یہ وبا عام
ہو چکی ہے۔ اس قسم کی Viciousnessکی وجہ کیا ہے۔ یہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔
امید ہے آپ مجھے بتائیں گے۔ والسلام
پتہ دیا تھا: معرفت مسٹر ایم آئی قدوائی، وائس چانسلرس ہاؤس،
جامعہ ملیہ اسلامیہ پی۔ او جامعہ نگر۔ اوکھلا۔ نئی دہلی۔ ۲۵
قرۃالعین حیدر کا خط پا کر پروین شاکر حیران ہوئیں کہ خراج تحسین پیش کرنے کے لیے لکھی ہوئی نظم کا یہ الٹا اثر ہوا۔ انھوں نے تمام تر احترام ملحوظ رکھتے ہوئے قرۃ العین حیدر کو جواب دیا اور اس کی ایک نقل مدیر سیپ نسیم درانی کو بھی بھیج دی۔ نسیم درانی نے مدیرانہ ذمہ داری اور مدیرانہ تہذیب کے پیش نظر وہ خطوط اس وقت شائع نہیں کیے مگر سیپ کی ایک خاص اشاعت شمارہ ۷۵۔ ۲۰۰۶ء میں دونوں قلم کار خواتین کے خطوط شائع کرتے ہوئے یہ نوٹ لگایا:
’’ادارے نے اپنی مدیرانہ ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے ان خطوط کو اس وقت اس لیے شائع نہیں کیا کہ اردو کی سب سے عظیم نثرنگار اور ایک حساس شاعرہ کے درمیان پیدا ہونے والی رنجش ایک مستقل نزاع کی صورت نہ اختیار کر لے۔‘‘
اب جب کہ نہ پروین شاکر ہی سلامت ہیں نہ قرۃالعین حیدر، یہ خطوط ان کے مزاج کو سمجھنے کی دستاویز ہو کر رہ گئے ہیں۔ پروین شاکر کا خط پڑھنے سے پہلے آیئے اک نظر اس نظم پر ڈال لیں جس کا قرۃالعین حیدر نے منفی تاثر قبول کیا: نظم کا عنوان ہے:
قرۃالعین حیدر
جیون زہر کو متھ پر امرت نکالنے والی موہنی
بھرا پیالہ ہاتھوں میں لیے پیاسی بیٹھی ہے
وقت کا راہو گھونٹ پہ گھونٹ بھرے جاتا ہے
دیوی بے بس دیکھ رہی ہے
پیاس سے بے کل۔۔ ۔۔ ۔۔ اور چپ ہے
ایسی پیاس کہ جیسے
اس کے ساتوں جنم کی جیبھ پہ کانٹے گڑے رہے ہوں
ساگر اس کا جنم بھون
اور جل کو اس سے بیر
ریت پہ چلتے چلتے اب تو جلنے لگے ہیں پیر
ریت بھی ایسی جس کی چمک سے آنکھیں جھلس گئی ہیں
آب زر سے نام لکھے جانے کی تمنا پوری ہوئی پر
پیاسی آتما سونا کیسے پی لے
اک سنسار کو روشنی بانٹنے والا سورج
اپنے برج کی تاریکی کو کس ناخن سے چھیلے
شام آتے آتے کالی دیوار پھر اونچی ہو جاتی ہے:
(سیپ شمارہ ۸ ۳۔ اکتوبر، نومبر ۱۹۷۸ء )
اس نظم کے رد عمل کے طور پر ۳، جنوری ۱۹۷۹ء کو جو خط قرۃالعین حیدر نے پروین شاکر کو لکھا تھا اس کا جواب ۱۸، فبروری۱۹۷۹ء کو پروین شاکر نے دے دیا تھا۔ چونکہ انھیں خط مدیر سیپ نسیم درانی کی معرفت ملا تھا، انھوں نے اس خط کی ایک نقل مدیر سیپ کو بھی بھیجی تھی۔ پروین شاکر کا یہ خط بجائے خود ان کی خوش سخنی و خوش کرداری کا غماز بھی ہے:
عینی آپا۔ آداب
معذرت خواہ ہوں کہ میری کوئی تحریر آپ کی دل آزاری کا سبب بنی۔
یقین کیجئے میرا ہر گز یہ منشا نہیں تھا۔ نہ نظم میں نے آپ کو خوش کرنے کے لیے لکھی نہ ناراض کرنے کے لیے۔ یوں جان لیں کہ یہ ایک تاثراتی قسم کی چیز تھی۔
آپ بہت بڑی ادیب ہیں، ہم نے تو آپ کی تحریروں سے لکھنا سیکھا۔
آپ مجھ سے خلوص اور اپنائیت سے ملیں، بڑا کرم کیا۔ یقیناً یہ میرے لیے ایک بڑا اعزاز تھا۔ مگر میری سمجھ میں نہیں آتا میں نے اس نظم میں کسی قسم کا لچر لفظ کہاں استعمال کیا ہے (کیوں اور کس طرح کا سوال تو بعد میں اٹھتا ہے ) آپ تو مجھے بہت پیاری، بہت گہری خاتون لگی تھیں Frustrated
اور Sick-Figuresلوگ ایسے تو نہیں ہوتے۔ ہاں جہاں تک Tragedy کا تعلق ہے تو اپنا یہ تاثر میں Ownکرتی ہوں۔ دکھ کس کی زندگی میں نہیں ہوتے، فرق یہ ہے کہ آپ جیسے اعلیٰ ظرف لوگ اسے جھیلنا جانتے ہیں، آنسو کو موتی بنا دیتے ہیں، ہماری طرح اسے رزقِ خاک نہیں ہونے دیتے، لیکن آپ اگر اس بات سے انکاری ہیں تو چلئے یہی سہی۔ آپ خوش رہیں، آپ کے عقیدت مندوں کی اس کے سوا دعا ہے بھی کیا ؟
نہیں عینی آپا، جسارت کر رہی ہوں مگر غلط فہمی ہی ہو گی آگر آپ یہ سمجھیں کہ اس قسم کی نظمیں لکھ کر میں اپنی شہرت میں اضافہ کرنا چاہتی ہوں۔ شہرت تو محبت کی طرح روح کی اپنی کمائی ہوتی ہے، کسی نام کی زکوٰۃ نہیں (مولانا الطاف حسین حالی اور جیمس باسویل کبھی میرے آئیڈیل نہیں رہے !) آپ کا کہنا درست ہے کہ ’’اگر میں بد نفسی اور شرارت پر اتروں تو میرے ہاتھ میں بھی قلم ہے اور میں آپ سمیت جس کے لیے جو چاہوں لکھ سکتی ہوں‘‘۔ مجھ سمیت کوئی ذی نفس جس کی پہچان حرف ہے، آپ کے قلم کی طاقت سے بے خبر نہیں، بسم اللہ۔
چونکہ آپ نے سوال اٹھا یا ہے اور جواب نہ دینا گستاخی ہو گی لہذا یہ وضاحت مجھ پر لازم ہو گئی ہے کہ میں نے نظم کسی خاص محرک کے تحت نہیں لکھی۔
ہندوستان سے واپسی کے بعد جب ذہن سے سفر کی گرد اتری تو سونے کے کچھ ذرات میری سوچ کی انگلیوں پر لگے رہ گئے۔ تاج محل، گنگاسے، اے جگ کے رنگ ریز (امیر خسرو)بوے یا سمین باقیست۔ قرۃالعین حیدر اور سلمیٰ کرشن یہ میری وہ نظمیں ہیں جو اس سفر کا عطیہ ہیں۔
رہی میری ذہنیت کے Sickہونے کی بات تو اس کا فیصلہ تو کوئی سائیکاٹرسٹ ہی کر سکتا ہے لیکن اگر آپ حرف کی حرمت پر یقین رکھتی ہیں تو میری بات مان لیجئے کہ ان تمام نظموں میں آپ سمیت کسی شخصیت یا عمارت کو مسخ کرنے کی قطعاً کوشش نہیں کی گئی ہے۔ اب بات آتی ہے میرے اور آپ کے تعلقات کی۔۔ ۔۔ ۔ تو عینی آپا آپ سے ایک بار پھر درخواست ہے کہ نظم دوبارہ پڑھیں، کہیں بھی نئی یا پرانی کسی دوستی کا دعویٰ نہیں کیا گیا ہے۔ ہم عمر ہونے میں تو تاریخی اور طبعی عوامل بھی حائل ہیں ! وہ ملاقاتیں یقیناً سرسری ہی تھیں اور آپ کے طرز زندگی پر جو قطعی طور پر آپ کا اپنا انتخاب اور اپنا معاملہ ہے طویل اور گہری ملاقاتوں کا اعزاز حاصل کرنے والے بھی فیصلہ صادر کرنے کا حق نہیں رکھتے ! Out of Mindہونے کے متعلق فیصلہ میں پہلے ہی ایک تیسرے شخص کے
ہاتھ میں دے چکی ہوں البتہ ایک بات واضح کرتی چلوں کہ بمبئی اتنا بڑا شہر بہر حال نہیں ہے کہ کراچی کا کوئی رہنے والا وہاں جا کر بوکھلا جائے۔
خدا میرے پاکستان کو سلامت رکھے، کبھی فرصت ملے تو ذرا علی سردار جعفری صاحب سے پوچھئیے گا کہ آپ کے شہر کے بارے میں میرے تاثرات کیا ہیں ؟ نظم کی ناپسند ید گی پر شرمندہ ہوں اور درگزر کی خواستگار ! میں ذاتی خطوط کی نقلیں مدیران جرائد کو دینے کی قائل نہیں ہوں مگر چونکہ آپ نے لکھا ہے کہ اس خط کی نقل مدیر ’’سیپ‘‘کو بھیجی جا رہی ہے لہذا میں نے بھی مجبوراً یہی قدم اٹھایا ہے لیکن اتنا اطمینان رکھیں کہ آپ کی رضامندی کے بغیر یہ خط کہیں شائع نہیں ہو گا۔ کہئیے کیا حکم ہے ؟
ہاں یاد آیا۔ یہ تو آپ نے لکھا ہی نہیں کہ ’’کار جہاں دراز ہے‘‘ کی رائلٹی یہاں پاکستان میں آپ کے کس رشتہ دار کو دی جائے ؟
امید ہے مزاج بخیر ہوں گے
نیازمند
’’برائے سیپ‘‘ پروین شاکر
پتہ نہیں پروین شاکر کا یہ خط پڑھ کر قرۃالعین حیدر پر کیا گزری تھی۔
اشاریہ
۱۔ سہ ماہی ’’ سیپ‘‘(کراچی )شمارہ ۳۸۔ اکتوبر، نومبر ۱۹۷۸ء
۲۔ ماہنامہ ’’ ایوان ارد و‘‘(دہلی) جنوری ۲۰۰۸ء
۳۔ ماہنامہ ’’شاعر‘‘(بمبئی )جنوری ۲۰۰۸ء
۴۔ سہ ماہی ’’سفیر اردو‘‘(لندن )جولائی، ستمبر ۲۰۰۷ء
۵۔ سہ ماہی ’’سیپ‘‘خاص نمبر ۲۰۰۶ء شمارہ ۵<
٭٭٭
مدیر ’’نقوش‘‘سے عزیز احمد کی سودے بازی
یہ ادب کا بہت بڑا المیہ ہے کہ اب خطوط لکھے ہی نہیں جا رہے ہیں۔ ادب ہی کیا کسی بھی فن کے نابغۂ روزگار کے خطوط بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ تحریر کا حسن اور واقعیت خطوط ہی سے تو جھلکتی ہے جو لکھنے والے کا ذہن پڑھنے میں مدد کرتی ہے۔ ادب کے حوالے سے ہم جائزہ لیں تو غالبؔ کے خطوط جہاں اردو نثر کے ارتقا کا اہم حصہ سمجھے جاتے ہیں وہیں غالب کے دور کے حالات کے غماز بھی ہیں غالب کے شاگردوں اور چاہنے والوں کے حوالے سے ان کے اپنے علاقوں کی صورت حال اور غالب سے ان کے تعلقات کی نوعیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ مراسلے کو مکالمہ بنانے کی روایت بھی تو غالب نے ڈالی تھی۔
مولانا ابو الکلام آزاد نے بھی اسی بہانے غبار خاطر کو قول فصیل کی صورت دی۔ کلام کے ساتھ ساتھ خطوط نے اقبالؔ کو زندہ رود بنا ڈالا۔ حتیٰ کہ بعض قلم کاروں نے اپنی اقبال مندی کی خاطر اپنی ٹکسال میں مراسلت کے سکے ڈھالے جن پر تحقیق جاری ہے کہ یہ کہاں تک قلب سازی کے مظہر ہیں۔
پنڈت جی نے اپنی بیٹی کے نام خطوط لکھے تو قاضی جی نے لیلیٰ کے خطوط ڈھونڈ نکالے جس کے جواب میں مجنوں کی ڈائری منظر عام پر آئی۔
غرض ادب کا انمول سرمایہ یہی خطوط سمجھے جاتے ہیں۔ آج بھی اگر شکسپئیر، غالبؔ یا اقبالؔ کا کوئی خط کہیں سے دستیاب ہو جائے تو ہزاروں ڈالروں اور روپیوں میں اسے تولا جا سکتا ہے۔
کئی رسالوں نے ادیبوں شاعروں کے خطوط پر مبنی نمبر نکالے اور ان کی شخصیت اور ذہنیت سے روشناس کروایا۔ کئی ادیب شاعر اپنے خطوط کی وجہ سے سرخ رو ہوئے تو کئی مشاہیر نے اپنے ہی قلم سے اپنی قبریں بھی کھودی ہیں۔
آیئے اپنے دور کے ایک مشہور و ممتاز ادیب، شاعر، مفکر کے خطوط کا جائزہ لیں۔
عزیز احمد اردو ادب کی ایک مشہور و ممتاز شخصیت کا نام ہے۔ یہ جب جامعہ عثمانیہ حیدرآباد میں زیر تعلیم تھے تب ہی سے شعر و ادب سے وابستگی کا ثبوت دینے لگے تھے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے ’’عزیز احمد ایک جائزہ‘‘ میں لکھا ہے کہ عزیز احمد ۱۱، نومبر ۱۹۱۳ء کو بارہ بنکی میں پیدا ہوئے جب کہ خود عزیز احمد نے اپنے فکر وفن پر ریسرچ کرنے والی شمیم افزا ء قمر کو اپنے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے لکھا کہ وہ ۱۹۱۴ء میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ عزیز احمد کی پہچان ایک حیدرآبادی ہی کی طرح قائم رہی۔ ان کی ابتدائی تعلیم عثمانیہ ہائی اسکول عثمان آباد میں ہوئی جو نظام ہفتم میر عثمان علی خاں کے نام پر آباد تھا اور ممالک محروسۂ عالی کا حصہ تھا۔ پولیس ایکشن کے بعد لسانی بنیادوں پر علاقوں کی تقسیم عمل میں آئی تو یہ مقام مہاراشٹرا میں شامل کر دیا گیا۔ ابتدا میں وہ عزیز احمد عثمان آباد دی کے نام سے لکھا کرتے تھے۔ پندرہ سال کی عمر میں عزیز احمد کا ایک افسانہ ’’کشاکش جذبات‘‘ کے عنوان سے مجلہ مکتبہ حیدرآباد کے نومبر ۱۹۲۹ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ انھوں نے انیس سال کی عمر میں رابندر ناتھ ٹیگور کی ایک کہانی کا ’’پجارن‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا جو ’’نیرنگ خیال‘‘۱۹۳۲ء میں شائع ہوا۔ ان کی نظمیں مجلہ عثمانیہ میں شائع ہوئیں۔ انھوں نے کئی افسانے اور مضامین بھی لکھے جو مختلف اخبار و جرائد میں چھپتے رہے۔ چونکہ عثمان آباد بعد میں مہاراشٹرا میں شامل کر دیا گیا تھا، اسی لیے ‘’مرہٹواڑہ اور اردو افسانہ ایک جائزہ‘‘ پیش کرتے ہوئے عنایت علی نے عزیز احمد کا تفصیلی تعارف کرایا ہے۔ (ملاحظہ ہو مرہٹواڑہ کے اردو افسانے کی ایک انتھالوجی ’’مٹی میرے دیا رکی ‘‘مرتبہ عنایت علی، اورنگ آباد )عزیز احمد پچاسوں کتابوں کے مصنف تھے جن میں افسانوں کے پانچ مجموعے (رقص ناتمام، بیکار دن بیکار راتیں، آب حیات، میٹھی چھری اور کایا پلٹ )اور ’’دس ناول ہوس، مرمر اور خون، گریز، آگ، ایسی بلندی ایسی پستی، شبنم، مثلت، تری دلبری کا بھرم، خدنگ جستہ اور جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں (تاریخی ناول )مشہور ہیں۔ ابتدائی دو ناول ہوس اور ’’مرمر اور خون‘‘ کو خود عزیز احمد اپنے کمزور ناول سمجھتے تھے تاہم ’’ہوس‘‘کا دیباچہ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے لکھا۔ ڈاکٹر یوسف حسین خان کی زیر نگرانی نکلنے والے رسالے ’’سیاسیات‘‘میں عزیز احمد سیاسی اور تاریخی نوعیت کے مضامین لکھا کرتے تھے۔ اقبال فہمی کے سلسلے میں ’’اقبال نئی تشکیل‘‘ عزیز احمد کو ماہرین اقبال میں شمار کراتی ہے۔ عزیز احمد کی تحریر یں ہند و پاک کے معیاری رسائل میں شائع ہوتی تھیں جیسے سویرا، ہمایوں، ادبی دنیا، نقوش وغیرہ ان کے ناول ’’ایسی بلندی ایسی پستی کا انگریزی ترجمہThe Shore and Wavesکے نام سے ’’رالف رسل‘‘نے کیا جو لندن سے چھپا۔
عزیز احمد صرف فکشن ہی میں ممتاز نہ تھے بلکہ وہ ایک کامیاب منفرد شاعر بھی تھے۔ ان کی طویل ڈرامائی نظمیں ’’ماہ لقا‘‘۔ عمر خیام، فردوس بر روئے زمین، (سنوریتا) اور آخری دور کی درد ناک غزلیں جب وہ کینسر( سرطان )کے شکار موت وزیست کی کشمکش میں مبتلا تھے ’’صیدِ تن و شکنجۂ خرچنگ دوستو‘‘ہیں اور آخرکار ۱۶ء دسمبر ۱۹۷۸ء کو چونسٹھ برس کی عمر میں وہ اس کشاکش زندگی سے آزاد ہو گئے۔
عزیز احمد نے بڑی خوش حال زندگی گزاری۔ جامعہ عثمانیہ سے جب بی اے میں امتیازی حیثیت سے ساری یوینورسٹی کا نام روشن کیا تو سرکاری وظیفے پر اعلی تعلیم کے لیے انھیں لندن بھیجا گیا جہاں سے انگریزی ادب میں بی۔ اے آنرز ۱۹۳۸ء میں کامیاب کر کے لوٹے تو عثمانیہ یونیورسٹی میں لکچرر کی حیثیت سے ان کا تقرر عمل میں آیا۔ ۱۹۴۱ء تک انگریزی کے لکچرر رہنے کے بعد وہ شہزادی در شہوار کے پرائیویٹ سکریٹری بنائے گئے۔ یہ خدمت انھوں نے ۱۹۴۶ء تک انجام دی۔ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے مسائل اور پھر پولیس ایکشن کے اثرات نے انھیں پاکستان پہنچا دیا جس میں ان کے ناول ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘کا دخل بھی سمجھا جاتا ہے۔ ۱۹۴۸ء میں وہ حکومت پاکستان کے محکمۂ مطبوعات و فلم سازیs Department of Advertising, Films and Publicationمیں پہلے اسسٹنٹ ڈائرکٹر، ڈپٹی ڈائرکٹر اور پھر ۱۹۵۳ء میں ڈائرکٹر ہو گئے۔ ۱۹۵۷ء میں لندن یونیورسٹی میں اردو کے لکچرر کے طور پر بلائے گئے اور ۱۹۶۲ء تک وہ خدمت انجام دیتے رہے۔ ۱۹۶۲ء میں ٹورنٹو کینڈا میں اسلامیات کے اسوسئیٹ پروفیسر مقرر ہوئے ۱۹۶۸ء میں پروفیسر ہو گئے۔ انھوں نے انگریزی میں بھی کئی کتابیں لکھیں۔ خاص طور پر سسلی کی تاریخ لکھنے پر انھیں انعام و اکرام سے بھی نوازا گیا۔ ان کی ہمہ جہت علمی حیثیت کے اعتراف میں لندن یونیورسٹی نے انھیں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی تھی۔ ادھر اختر اور نیوی کی زیر نگرانی شمیم افزاء قمر نے عزیز احمد کی ناول نگاری پر مقالہ لکھ کر ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی۔
عزیز احمد کے کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے۔ انھوں نے زندگی کے ایک ایک لمحے کی اہمیت محسوس کی۔ جم کر لکھا اور خوب لکھا۔ اس مضمون میں ان کی ذہانت اور ذہنیت کی ایک ہلکی سی جھلک دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘کے خالق کے نشیب و فراز کی داستان ان کے خطوط سے جھانکتی دکھائی دیتی ہے جو انھوں نے مدیر ’’نقوش‘‘ محمد طفیل کے نام لکھے ہیں۔ ’’نقوش‘‘ کوئی سرکاری رسالہ نہیں تھا اس کے باوجود وہ اپنے لکھنے والوں کو ان کی تحریروں کا معاوضہ بھی پیش کرتا تھا۔ ویسے ’’نقوش‘‘ایسا معیاری رسالہ تھا کہ لکھنے والے اس میں اپنی تخلیقات کے چھپ جانے ہی کو بہت بڑا انعام سمجھتے تھے۔ نقوش کے معیاری ضخیم نمبر تاریخی و دستاویزی حیثیت کے حامل شمار ہوتے ہیں جیسے ادبی معرکے نمبر، رسول نمبر، خطوط نمبر، افسانہ نمبر، ناولٹ نمبر وغیرہ وغیرہ۔ خود محمد طفیل نے ’’جناب‘‘ اور ’’صاحب‘‘ وغیرہ کے عنوان سے اہم اہم شخصیات پر دلچسپ خاکے بھی لکھے ہیں۔
عزیز احمد نے مدیر ’’نقوش‘‘سے اپنی تحریروں کے معاوضے کے سلسلے میں جو سودے بازی کی ہے وہ چونکاتی ہے۔
محمد طفیل نے ادارہ ’’نقوش‘‘سے مشہور ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ چھاپا تھا۔ در اصل انھوں نے ’’سلسلہ روح ادب‘‘ کے تحت کلاسیکی ادبی سرمائے کی نشاۃ ثانیہ کا بیڑہ اٹھایا تھا جو کافی مقبول ہوا۔ عزیز احمد لکھتے ہیں:
’’بہر حال آپ نے یہ سلسلہ شروع کر دیا ہے تو اردو ادب پر بڑا احسان کیا ہے۔ اسے World’s Classicکی طرح جاری رکھیئے۔ ایک اور بڑا بے مثل ناول ’’نشتر‘‘ ہے جو امراؤ جان ادا سے بھی پہلے لکھا گیا اور جس کا شمار اردو کے بہترین ناولوں میں کیا جا سکتا ہے۔ آپ کہیں تو اسے Editکر کے مقدمے کے ساتھ آپ کے پاس بھیج دوں مقدمہ، Editingوغیرہ کا جملہ معاوضہ مجھے دوسوروپے Rs.200/- دینا ہو گا جو ایسا زیادہ نہیں ہے۔ اور بھی اس سلسلے میں کیا پروگرام ہے ؟
اگر میں کوئی مدد کر سکتا ہوں تو حاضر ہوں۔ فقط عزیز احمد (خط مورخہ ۲۶، فبروری ۱۹۵۰ء )تحقیق نامہ جی سی یونیورسٹی‘‘لاہور)
اس عرصے میں عزیز احمد کا ایک مضمون اور ایک افسانہ ’’نقوش‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ مگر محمد طفیل صاحب کی طرف سے ان کا معاوضہ بھیجنے میں تاخیر ہو گئی تھی۔ چنانچہ کراچی سے عزیز احمد انھیں لکھتے ہیں:
مکرمی جناب طفیل صاحب
آپ نے اب تک مضمون وغیرہ کے معاوضے کے 65/-روپیے نہیں بھیجے۔ ’’نشتر‘‘۔ پر میں نے کافی کام شروع کر دیا ہے۔ دو ہفتے میں آپ کے پاس بھیج دوں گا۔ فقط عزیز احمد (خط مورخہ ۲۴، اپریل ۱۹۵۰ء )
اس دوران عزیز احمد کا تبادلہ کراچی سے راولپنڈی ہو گیا۔
وہاں سے انھوں نے مدیر ’’نقوش‘‘ کے نام خط لکھا:
مکرمی طفیل صاحب تسلیمات
نقوش کا نیا پرچہ دیکھنے کو ملا۔ خود مجھے نہیں ملا۔ شاید اس لیے کہ میں تبادلہ ہوکے راولپنڈی آ گیا ہوں۔ ایک پرچہ روانہ فرمائیں اور نیز معاوضہ چالیس 40/-روپے بھی۔۔ ۔۔ ۔
’’نشتر‘‘ مع اصلاح و دیبا چہ کب تک مطلوب ہے تحریر فرمائیے فقط عزیز احمد (خط مورخہ ۱۷، جولائی ۱۹۵۰ء )
اپنی تحریر کے معاوضے کے لیے وہ اس قدر اتاؤلے ہو رہے تھے کہ پانچ دن بعد اک اور خط لکھا:
مکرمی جناب طفیل صاحب تسلیمات عرض ہے۔
گرامی نامہ ملا۔ براہ کرم آپ چالیس 40/-روپیہ مجھے خود براہ راست فوراً بھیج دیجئے۔ آپ کے کراچی کے آفس کو میرا پتہ نہیں معلوم ہے اس کے علاوہ میں معاوضے میں تاخیر نہیں چاہتا۔ میرا دوسرا افسانہ ’’آخر کار‘‘ آپ بلا معاوضہ قطعاً نہیں شائع کر سکتے۔ میں اتنی رعایت کر سکتا ہوں کہ بجائے چالیس 40/-کے اس کا معاوضہ آپ سے تیس 30/-روپیہ لوں۔ اس سے زیادہ رعایت نہیں ہو سکتی۔ یہ منظور نہ ہو تو افسانہ مجھے فوراً واپس بھیج دیں۔ تقاضہ اور تکرار خوشگوار چیز نہیں۔
’’نشتر‘‘ عنقریب تیار ہو جائے گی۔ مگر یہی خیال رہے کہ اس کا معاوضہ فوراً مل جائے‘‘ فقط عزیز احمد (خط مورخہ۲۱، جولائی ۱۹۵۰ء )
ادبی دنیا میں ’’نقوش‘‘ کا معیار و مرتبہ مسلمہ تھا۔ محمد طفیل کی اپنی ادبی شناخت بھی مسلمہ تھی۔ انھوں نے عزیز احمد کے افسانے کا معاوضہ ادا کرتے ہوئے ان کا دوسرا افسانہ واپس کر دیا اور ’’نشتر‘‘ شائع کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ تب شاید عزیز احمد کو کچھ احساس زیاں ہوا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
مکرمی جناب طفیل صاحب تسلیمات عرض ہے۔
چالیں 40/-روپیہ اور ’’آخر کار‘‘کامسودہ واپس مل گئے۔ بہت بہت شکریہ ’’نشتر‘‘ کی حد تک مجھے حیرت ضرور ہوئی لیکن جو آپ کی مرضی۔ اس کا شائع ہو جانا ہی میرے لیے ایک طرح کا انعام اور معاوضہ ہے۔ اس کا دیباچہ میں لکھ چکا تھا۔ لیکن خیر۔ اور کوئی کام اگر میرے لائق ہو تو پس و پیش نہ کیجئے گا۔ معاوضہ کا معاملہ البتہ بالکل کاروباری قسم کا ہونا چاہئیے‘‘ فقط عزیز احمد ) خط مورخہ۱۰،ا گیٹ ۱۹۵۰ء )
اسی زمانے میں جلال الدین احمد تین نئے ناول کے عنوان سے قسط وار ایک ایک ناول کا تفصیلی جائزہ لے رہے تھے۔ جس کی دوسری قسط قرۃالعین حیدر کے ناول ’’میرے بھی ضم خانے‘‘(مطبوعہ مکتبۂ جدید لاہور ۱۹۴۹ء )پر مشتمل تھی جو ’’نقوش‘‘ کے سالنا مہ (دسمبر ۱۹۵۰ء )میں شائع ہوئی۔ تیسری قسط، اعلان کے مطابق عزیز احمد کے ناول ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘پر شائع ہونے والی تھی۔ چنانچہ عزیز احمد نے محمد طفیل کو لکھا:
جناب طفیل صاحب، اسلام علیکم
نقوش کا سالنامہ ملا۔ بہت پسند آیا۔ آپ کو اور وقار صاحب کو مبارک ہو۔ احمد ندیم قاسمی کی کہانی بہت خوب ہے۔ میرے خیال میں تو یہ ان کی بہترین کہانی ہے۔ نقوش کا اس طرح ناغہ نہ کیا کیجئے۔ پابندی سے شائع ہو تو رسالہ کا مارکیٹ بندھا ہوا رہتا ہے۔ اور کوئی خدمت میرے لائق ہو تو تحریر فرمائیں۔ ’’نقوش‘‘ کے آئندہ نمبر میں جلال الدین احمد کے مضمون کی تیسری قسط کا انتظار رہے گا جو غالباً میرے ناول پر ہے۔۔ ۔۔ فقط عزیز احمد (خط جنوری ۱۹۵۱ء)
اس سالنا مے کے بعد محمد طفیل ’’نقوش‘‘ کا ایک ’’ناولٹ نمبر‘‘ شائع کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے عزیز احمد سے بھی لکھنے کی فرمائش کی۔ جواباً عزیز احمد نے جو شرائط پیش کیں وہ ان کے مزاج کی عکاسی کرتے ہیں:
مکرمی و محبی جناب طفیل صاحب۔ تسلیمات عرض۔
میں ضرور آپ کے ناولٹ نمبر کے لیے ایک طویل مختصر افسانہ لکھنے کو تیار ہوں بشرطے کہ: (۱) اس کی ضخامت ’’نقوش‘‘ کے تیس ۳۰ صفحے کے لگ بھگ ہو گی نہ کہ ساٹھ صفحے۔ نقوش کے ساٹھ صفحے چھوٹی تقطیع (کذا)کے ۱۲۰ صفحوں سے بھی زیادہ ہو جائیں گے جن کا معاوضہ مجھے عام طور پر ہزار روپیہ ملا کرتا ہے۔
(۲) اس کو آپ نقوش میں تو شائع کر سکیں گے۔ نقوش ہی کے دوسرے ایڈیشن میں بھی اسے شامل کر سکیں گے لیکن اسے کتابی صورت میں نہ شائع کر سکیں گے۔
(۳) اس کا معاوضہ دو سوروپے 200/-مسودہ ملتے ہی مجھے ارسال فرما دیں گے۔
اگر یہ منظور ہو تو فبروری کے ختم تک انشاء اللہ طویل مختصر افسانہ یا ناولٹ بھیج دوں گا۔۔ ۔۔ ۔۔ فقط عزیز احمد (خط مورخہ۲۵، جنوری۱۹۵۱ء )
مدیر ’’نقوش‘‘ نے ناولٹ کے لیے دوسو روپے 200/- ادا کرنے کی ہامی بھر لی تھی مگر نقوش کے تیس صفحات کے بجائے ساٹھ صفحات پر مشتمل ناولٹ پر اصرار کیا تھا۔ چنانچہ عزیز احمد انھیں خط لکھتے ہوئے تیقن دلاتے ہیں:
’’ناولچہ میں ضرور لکھ دوں گا اور کوشش کروں گا کہ پچاس ساٹھ صفحے کا ہو مگر اس کا معاوضہ وہی ہو گا جو آپ خود متعین کر چکے ہیں یعنی محض نقوش کے ایک یا ایک سے زیادہ ایڈیشن کے لیے دوسو روپے 200/-اس میں کمی کا امکان نہیں۔ اور کوئی خدمت ! فقط عزیز احمد (خط مورخہ۳۰، جنوری۱۹۵۱ء )
شاید اس دوران مدیر نقوش کی طرف سے یاد دہانی کرائی گئی تھی۔ عزیز احمد نے بڑے دو ٹوک انداز میں محمد طفیل صاحب کو خط لکھا:
مکرمی و محبی جناب طفیل صاحب۔ سلام علیکم۔
گرامی نامہ کا شکریہ۔ آپ کو ناولٹ ’’نقوش‘‘ کے لیے مل جائے گی اور مجھے دوسو روپیہ معاوضہ جو خود آپ کا تجویز کیا ہوا ہے۔ اس لیے بحث ختم۔۔ ۔۔ ناولٹ نمبر ہی میں جلال الدین احمد کے بقیہ مضمون کو بھی شامل فرما دیجئے جو ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘پر ہے۔ اور سب خیریت ہے۔
فقط عزیز احمد (خط مورخہ۶، فبروری ۱۹۵۱ء )
مگر اپریل ۱۹۵۱ء تک بھی عزیز احمد ناولٹ لکھ نہ سکے۔ حالانکہ ۲۵، جنوری ۱۹۵۱ء کے اپنے خط میں اپنی شرائط پیش کرتے ہوئے انھوں نے فبروری کے ختم تک ناولٹ بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔ اب وہ محمد طفیل کو لکھتے ہیں:
مکرمی و محبی جناب طفیل صاحب۔
گرامی نامہ کا شکریہ۔ ناولچہ نہ بھیج سکنے کا افسوس ہے لیکن میں نے آپ سے حتمی وعدہ تو نہیں کیا تھا۔ کو شش کرنے کے لیے لکھا تھا۔ باوجود کوشش کے میں اس کی تکمیل نہ کر سکا اور نہ مستقبل قریب میں اس کے مکمل ہو سکنے کی کوئی توقع ہے۔ بتائیے میں کیا کر سکتا ہوں۔ میں نے کوشش تو بہت کی کہ آپ کی فرمائش کی تکمیل کروں۔ لیکن کام کی چیز لکھنے کے لیے وقت درکار ہے اور وقت آپ نے ہمیشہ بہت کم دیا۔ اگر آپ نے بجائے فروری کے مجھے آخر اپریل تک شروع ہی میں مہلت دی ہوتی تو بہت اچھا ناولٹ اب تک تیار ہو گیا ہوتا۔ اب آپ کا جی چاہے تو میرا انتظار کیے، بغیر ناولٹ نمبر شائع کر دیں۔ یا مجھے کم از کم ایک ماہ کی مہلت دیں۔
مخلص۔ عزیز احمد
(اس خط پر تاریخ درج نہیں ہے مگر قرائن سے یہ اوائل اپریل۱۹۵۱ء کا لگتا ہے )
مئی ۱۹۵۱ء میں ’’نقوش‘‘ کا ناولٹ نمبر شائع ہو گیا۔ رقمی معاوضے کے علاوہ اب عزیز احمد اس پر اصرار کرنے لگے کہ ان کے ناول کے بارے میں جلال الدین احمد کا لکھا ہوا مضمون ’’نقوش‘‘میں شائع کیا جائے۔ ان کا ایک خط بڑا حیران کن ہے:
مکرمی و محبی جناب طفیل صاحب۔ تسلیمات عرض
آپ سے ایک چھوٹی سی شکایت بھی ہے۔ جلال الدین احمد کے مضمون تین نئے ناول ’’کے دو حصے تو آپ نے شائع کیے لیکن تیسرا حصہ جو ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘کے متعلق تھا آپ نے اب تک شائع نہیں کیا۔ اس ناراضی کا باعث کیا ہے ؟یہ حصہ شائع ہولے تو پھر میں بھی ’’نقوش‘‘ کے لیے کچھ لکھوں گا اور پہلی چیز جو میں آپ کے لیے لکھوں گا بلا معاوضہ ہو گی لیکن اس کے لیے مجھے جلال الدین کے مضمون کا انتظار رہے گا۔ جنھیں خود شکایت ہے۔ کم ترین۔ عزیز احمد (خط مورخہ۶، جنوری ۱۹۵۲ء )
ایک عرصے تک عزیز احمد نے ’’نقوش‘‘ کے لیے کچھ نہیں لکھا۔ ایسا لگتا ہے اندر اندر وہ مدیر ’’نقوش‘‘سے خفا خفا سے تھے۔ ان کی فرمائش کے جواب میں وہ لکھتے ہیں:
مکرمی و محبی جناب طفیل صاحب۔ سلام علیکم۔
آپ کے دو خط ملے ایک شکایت کا دوسرا میرے خط کے جواب میں۔ میں آپ کو مضمون یا افسانہ ضرور بھیجوں گا۔ اس کا حتمی وعدہ کرتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ پہلے آپ ’’ایسی بلندی ایسی پستی ’’پر جلال الدین احمد والا مضمون شائع کریں۔ آخر آپ نے مجھ سے یہ امتیاز کیوں برتا؟اگر مجھ سے ’’نقوش‘‘ کے لیے لکھنے میں تاخیر ہوئی تو احسن فاروقی اور قرۃالعین نے اتنا بھی نہیں لکھا جتنا میں نے لکھا۔ اگر آپ اب تک ’’نقوش‘‘ کے لیے کچھ نہ بھیجنے کی وجہ پوچھتے ہیں تو عرض ہے کہ وجہ محض یہی تھی کہ آپ نے ایک مضمون کا محض وہ حصہ شائع کرنے سے اجتناب کیا جو مجھ سے متعلق تھا اور یہ تضاد میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ایک طرف تو مجھ سے مضمون کا تقاضہ اور اخلاص کا دعویٰ اور دوسرے میرے ہی خلاف ایسا امتیازی سلوک ! اس لیے میں آپ کو ایک نہیں کئی مضامین یا افسانے بھیجنے کو تیار ہوں جن میں سے صرف پہلا بلا معاوضہ ہو گا لیکن اگر آپ کو اپنے اخلاص کا دعویٰ سچا نظر آتا ہے تو آپ کو بھی میرے خلاف یہ قدم نہیں اٹھانا چاہیئے تھا اور اب یہی صورت ہو سکتی ہے کہ پہلے آپ ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘والا مضمون شائع فرمائیں۔ میں اس کو پڑھ لوں۔ اس کے بعد کے شمارے کے لیے افسانہ یا مضمون بھیجنے کا میرا حتمی اور پکا وعدہ ہے۔ مجھے نقوش سے کوئی بیر نہیں۔ ہمدردی ہے کیونکہ آپ اس ناموافق زمانے میں اتنی گراں قدر ادبی خدمت انجام دے رہے ہیں۔۔ ۔ مخلص۔ عزیز احمد (خط مورخہ فروری ۱۹۵۲ء )
عزیز احمد حکومت پاکستان کے Department of Advertising, Films and Publicationsمیں ڈپٹی ڈائرکٹر اور پھر ڈائرکٹر ہو گئے تھے۔ ۱۹۵۰ء میں یعنے آج سے ساٹھ برس پہلے کے تیس چالیس روپے آج کے تیس چالیں ہزار روپیوں کے برابر تھے۔ ایک ناولٹ کے لیے عزیز احمد کا دوسو روپے طلب کرنا گویا دو لاکھ روپے کا مطالبہ کرنا ہے۔ مدیر ’’نقوش‘‘ کی ہمت کی داد دینی پڑتی ہے کہ وہ اپنے لکھنے والوں کو ایسی کثیر رقم بطور معاوضہ دینے پر قادر تھے۔
عزیز احمد کو روپئے پیسے کی کبھی کمی نہیں رہی۔ حیدرآباد میں وہ بادشاہ کی بہو۔ در شہوار کے پرائیوٹ سکریٹری رہے جو بہت با عزت منصب تھا۔ پاکستان میں بھی وہ اہم عہدوں پر اچھے خاصے مشاہرے کے حامل رہے۔ اس کے باوجود وہ اگر مدیر نقوش سے سودے بازی کرتے دکھائی دیتے ہیں تو در اصل وہ اپنے قلم کی اہمیت جتانا چاہتے تھے۔
۱۔ تحقیق نامہ معاصرین کے مکاتیب (مدیر نقوش محمد طفیل کے نام )خصوصی شمارہ ۰۶۔ ۲۰۰۵ء شعبہ اردو جی۔ سی یونیورسٹی لاہور۔
۲۔ ’’نشتر‘‘حسین شاہ کا ناول جس کا بعد میں قرۃ العین حیدر نے انگریزی میں ترجمہ کیا۔
٭٭٭
رضیہ سجاد ظہیر کے نام
یہ مضمون بجائے خود اک طویل خط ہے جو فرضی طور پر بنے بھائی (سجاد ظہیر) کی طرف سے ’’نقوشِ زندان‘‘ کو سامنے رکھ کر لکھا گیا ہے اس میں صرف وہی الفاظ بنے بھائی کے ہیں جو ان کے خطوط کے حوالوں میں آئے ہیں۔ باقی تمام خط خاکسار کے دماغ کی پیدا وار ہے۔
مقام : لمبو
تاریخ : ۱۷؍ دسمبر ۱۹۷۹ء
جان من !
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
ویسے اس کا پہلا مصرع میرے احساسات کی نفی ہی کرتا ہوا سا ہے۔ کونسا پل گزرتا ہے جو تمہاری یاد نہ دلاتا ہو۔ جب کسی گنہگار حسین چہرے پر نظر پڑتی ہے تم یاد آ جاتی ہو۔ یہ تشبیہ گنہگاری پر مبنی نہیں بلکہ حسن پر دال ہے۔ نیکو کارو پار ساچہرے تو دنیا میں بھی سات پردوں میں ہوا کرتے تھے۔ یہاں کیا خاک نظر آئیں گے۔ اسی لیے اہل نظر کو صرف اسی حسن پر اکتفا کرنا پڑا جو بے نقاب و بے حجاب رہا۔
تاج بھوپالی کا ایک شعر سنو۔ (تاج سے تو تم واقف ہی ہو گی۔ یہ اپنے ہی گروپ کا شاعر تھا۔ پڑھا لکھا نہیں مگر شعر کس غضب کے کہتا تھا۔ اس کا مجموعہ ’’ خیمۂ گل‘‘ تمہاری نظر سے گزرا ہی ہو گا۔ اگر نہیں پڑھا تو ضرور پڑھنا۔ بڑا پیارا شاعر تھا۔ ) ہاں تو میں اس کا اک شعر سنا رہا تھا۔
دہر میں ایک جگہ تیری شباہت نہ ملی
کہیں آنکھیں کہیں ابرو کہیں گیسو دیکھے
لفظ دہر بھی میرے حسب حال نہیں کیونکہ آج میں دہر کے کسی مقام سے نہیں بلکہ مقام لمبو ( Limbo) سے مخاطب ہوں۔ جیسا کہ تم جانتی ہو یہ وہی مقام ہے جس کے بارے میں عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ لمبو (Limbo)۔ در اصل دوزخ کے کنارے ایک ایسا مقام ہوتا ہے جہاں غیر عیسائی معصوم روحیں رکھی جاتی ہیں تاوقتیکہ قیامت نہ آ جائے مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ یہاں کوئی معصوم روح نہیں پائی جاتی البتہ ہر رنگ ونسل کہ گنہگار پیر و جواں یہاں موجود ہیں اور ہر خطے کی عورتیں بھی یہاں کثیر تعداد میں نظر آتی ہیں۔ چشم آہو سے لے کر بٹن جیسی آنکھوں والیاں۔ کچھ زندگی کی بے ثباتی کی طرح پست اور کچھ قامت میں قیامت سے بھی دو ہاتھ بڑی ہیں۔ بہرحال ہر ٹائپ کی عورت۔ خیر بات تمہاری شباہت کی تھی اور اس مقام لمبو کی۔ ممکن تھا کہ میں بھی تمہاری یاد میں اک آدھ ’’ میگھ دوت‘‘ لکھ ہی ڈالتا۔ مگر دیکھا تو وہ میگھ دوت والا شاعر بھی یہیں ملا اور یہ بات ہماری ایکتا کے خلاف ہوتی۔ سو میں نے ارادہ بدل دیا اور بس خط لکھنے کی ٹھان لی ہے۔ ایک انتہائی تفصیلی خط، کیونکہ آج تم بری طرح یاد آ رہی ہو اور یہاں سنسر شپ (Censorship)سے تو جیسے کوئی واقف ہی نہیں۔ البتہ لوگ خود اپنے احوال چھپا یا کرتے ہیں تاکہ ان کا جو بھرم تھا وہ باقی رہے۔ اب تم سے کیا بتاؤں میں نے اس مقام لمبو سے آگے بڑھ کر دوزخ کے کنارے سے وہاں کا حال دیکھا تو مجھے ایسے لوگ بھی آب حمیم نوش فرماتے ہوئے نظر آئے جنہوں نے ہمیں کفر کے فتوے دیئے تھے۔ بقول ساحر لدھیانوی:
مرا الحاد تو خیر ایک لعنت تھا سو ہے اب بھی
مگر اس عالم وحشت میں ایمانوں پہ کیا گزری
میراجی چاہتا ہے ایک ایک So calledایماندار سے یہی سوال کروں تم یہاں کیسے ؟؟؟ ’’مگر چپ ہوں کہ ابھی موقف نازک ہے کیونکہ ابھی میرا اور میرے ساتھیوں کا فیصلہ نہیں ہوا۔ اسی لیے ہم لوگ ابھی لمبو میں رکھے گئے ہیں۔
حسب عادت ہم نے یہاں بھی اک انجمن بنا لی ہے۔ شعر و ادب کے خوب چرچے ہیں۔ حلقہ ارباب ذوق والوں سے بھی مصالحت کر رکھی ہے۔ دور دراز اور اجنبی مقام پر دشمن بھی ملے تو دوست کی طرح پیارا لگتا ہے اور تضاد تو مکروہات دنیوی کی علامتوں میں سے ہے۔ یہاں ہم اس آلود گی سے پاک ہیں تو پھر دوستوں کی طرح کیوں نہ رہیں۔ بلکہ ہم لوگ تو متحد ہو کر بعض مسئلوں پر اپنے خیالات داورِ حشر تک پہچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے کیفی اعظمی کے خلاف ایک ناقابل ضمانت (Non-Bailable)وارنٹ جاری ہونے کی اطلاع ہم تک پہنچی۔ ہم سب نے اس کے خلاف آواز بلند کی۔ ایک ہنگامہ مچا دیا (مخفی مباد کہ احتجاج کا یہ طریقہ تمہارے ارضی طریقوں کی طرح ہڑتال، دھرنا، بند، ستیہ گرہ، وغیرہ ٹائپ کی کوئی چیز نہیں بلکہ۔۔ ۔۔ ۔ خیر جانے دو اب اس راز سے پردہ اٹھانا مناسب نہیں۔ وہی بھرم کا مسئلہ ہے )
بہر حال مختصر یہ کہ ہماری دعائیں رنگ لائیں اور وہ وارنٹ جاری ہونے سے رہ گیا۔ البتہ جاں نثار اختر، کرشن چندر، ساھر لدھیانوی کے خلاف وارنٹ جاری ہو چکے ہیں اپنے اپنے وقت پر تعمیل بھی ہو گی۔ یہاں جو بیلف حضرت عزرائیل ہیں انھیں وارنٹ سونپےجا چکے ہیں۔ اپنے گروپ کے مذکورہ بالا حضرات اگر اب تک آ چکے ہیں تو کہیں رکھے گئے ہوں گے۔ ان سے ملاقات اب تک نہیں ہوئی۔ اب یہ بمبئی سے دہلی اور دہلی سے لندن تک کا سفر تو ہے نہیں کہ لمحوں پر سوار کسی سے مل آئیں اس مقام لمبو میں برسوں سفر کرو تو کوئی منزل نظر آتی ہے۔ لہذا تلاش بے کار ہے۔ اس لیے جو لوگ قریب ہیں وہ۔ ’’ غنیمت ہے جو ہم صورت یہاں دوچار بیٹھے ہیں‘ ‘کی تفسیر ہیں۔
بعض خبریں ہم لوگ یہاں بھی فراہم کر لیتے ہیں اور تم تو اپنی ٹکنک سے واقف ہی ہو۔ ہم نے اپنا اک پوشیدہ نظام عمل قائم کر رکھا ہے۔ خاص طور پر ہندوستان و پاکستان سے ہمارا رابط ٹوٹ نہیں پایا۔ ہر قسم کی ادبی، سیاسی، ثقافتی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ جنتا کا عروج و زوال، بھٹو، کی پھانسی، ضیا الحق کا نظام مصطفیٰ انقلاب ایران۔۔ ۔۔ ۔ انقلاب ایران پر ایک بات یاد آئی۔ یہ اپنا سردار جعفری بعض وقت بڑی جلد بازی سے کام لیتا ہے۔ ابھی پچھلے بلٹز Blitzمیں اس کی ایک نظم انقلاب ایران پر علامہ اقبال کی مشہور نظم کے متوازی پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ سرادر جعفری کے اندازے کی غلطی کی وجہ سے یہاں مجھے اپنے ملنے والوں میں قدرے سبکی سی محسوس ہوئی۔ شاہ ایران کے زوال کو سردار نے انقلاب کا نام دیا اور اس کی خوش فہمی یہ تھی کہ ملوکیت کا خاتمہ ایک سکولر Secularحکومت کی راہ ہموار کر دے گا مگر اسے کیا خبر تھی کہ وہاں ’’ قل اعوذیت‘‘ شروع ہو جائے گی اور آسمان کا گرا کھجور میں اٹک جائے گا۔ ایک مخفی خبرسن لو۔ ایران کے بارے میں یہاں بڑی عجیب و غریب افواہیں (نہیں افواہیں کا لفظ اس مقام کے لیے مناسب نہیں، افواہیں تو ہند و پاک کی جاگیر ہیں )۔۔ ۔ تو عجیب و غریب خبریں سننے میں آ رہی ہیں یعنے ’’تری بربادیوں کے تذکرے ہیں آسمانوں میں‘‘۔ ایک سردار ہی کیا کئی خوش عقیدہ سیاست داں دھوکا کھا گئے ہوں گے۔ بہر حال میں نے سردار کی وکالت کا حق ادا تو کر دیا۔۔ ۔ یہ حق ادا کرنے پر یاد آیا۔ ’’خوشی کے موسم‘‘ کی رسم اجراء پر تم نے حق ’’خوش دامنی‘‘ خوب ادا کیا۔ مگر یہ بات بعض لوگوں کو کھلی بھی ہو گی۔ خیر اس سے فرق ہی کیا پرتا ہے۔ حق گوئی و بے باکی کی شروع ہی سے ہمارا نصب العین رہی ہے۔ علی باقر پہلے ایک ادیب ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے داماد بھی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیا ان کے افسانے اس قابل نہ ٹھہرتے کہ تم انہیں سراہو۔ انہوں نے پردیسیوں کے Home Sicknessکو حوب پیش کیا ہے۔ اس خاص موضوع پر لکھنے والے اول تو ہیں نہیں اگر ہیں بھی تو وہاں کی رنگینیوں کو ’’اوہ امریکہ‘‘ کہہ کر چٹخارے لیتے نظر آتے ہیں۔ علی باقر اس نسل سے تو خیر واقف ہیں ہی جو تعلیم کی خاطر پردیس کو سدھاری اور پھر جلب منفعت اور وہاں کے اعلیٰ معیار زندگی نے اسے وہاں روک لیا۔ اس نسل کے لوگوں کو اپنی مٹی کا قرض چکانے کا کبھی خیال بھی آتا ہے تو اپنے اپنے ملک کا معیار زندگی ان کے مزاج سے لگا کھاتا نظر نہیں آتا چارو ناچار وہ پھر لوٹ جاتے ہیں۔ لوٹ کر نہ آنے کے لیے مگر موجودہ نسل وہاں بے جڑ کے پودوں کے سے کرب میں مبتلا پائی گئی ہے جس کا اظہار علی باقر نے اپنے انداز میں اپنے افسانوں میں کیا ہے۔ بقول علی باقر اس نسل کا اپنے آباء و اجداد کے تمدن سے اس قدر ہی ربط رہ گیا ہے کہ کوئی ہندی فلم دیکھ لی جائے، ہندوستانی گیت سن لیے جائیں ورنہ وہ سارا ماحول ان کی مشرقیت کے احساس کو پنپنے نہیں دیتا اور اگر اس نسل سے مشرق و مغرب میں سے کسی ایک کے انتخاب کے لیے کہا جائے تو یقیناً وہ مشرق کے انتخاب میں پس و پیش کرے گی۔ یہی المیہ ان کی کہانیوں کی روح رواں ہے۔ میں نے ادھر کئی دنوں سے ان کے افسانے نہیں پڑھے کیونکہ علی باقر زیادہ تر شمع جیسے پرچوں میں چھپتے ہیں اور ایسے پرچے خالص زمینی کردار کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کا داخلہ یہاں ممکن نہیں۔ اسی لیے کسی طرح ان کے مجموعے ’’خوشی کے موسم‘‘ کی ایک جلد ضرور فراہم کر دینا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے اپنا وہ خط یہاں دہرانا پڑے جو میں نے تمہیں ۲۴؍فروری ۱۹۴۱ء کو سنٹرل جیل لکھنؤ سے لکھا تھا۔
’’واہ بیگم صاحب ! آپ نے وعدہ تو اتنی بہت سی چیزوں کا کیا تھا اور پورا صرف ایک ہی ہوا نجمہ بی کی تصویر والا۔ Timeبھیجا نہ مربہ۔ اور اب تو میں بھول بھی گیا کہ اس کے علاوہ اور کیا وعدے تھے۔ شاید معلوم ہوتا ہے۔
تم بھی سب بھول گئیں۔ خیر بھئی تمہارا امتحان قریب ہے۔ بچی کی دیکھ بھال بھی کرتی ہو اس لیے زیادہ شکایت نہیں کرتا۔۔ ۔ تمہاری اور بچی کی یاد ہر وقت ستاتی ہے اوراس قسمت کو کوستا ہوں جس نے یہاں پہنچا دیا۔ دیکھیں یہ بلائیں ہم تینوں کے سر سے کب ٹلتی ہیں۔ اب تو مجھے یہاں آئے قریب ایک سال ہو گیا۔ تم یہاں کب آؤ گی پیاری۔ امتحان کے بعد جلد آ جانا اور کچھ دن رہنا۔
اب تم سے ملنے کو بہت دل چاہتا ہے۔‘‘ (نقوش زنداں صفحہ ۱۴۲)
میرے وہ خطوط یاد کرو جن میں تمہارے لیے صرف پیار ہی پیار تھا۔ اس لیے کہ تم ہو ہی کچھ اتنی پیاری چیز۔ بقول ڈاکٹر انجم جمالی:
ہر ایک ذرے سے اذن سفر لیا جائے
مگر شریک سفر معتبر لیا جائے
ہمارے غم نے تمہیں کس قدر نکھار دیا
ادھر تو آؤ تمہیں پیار کر لیا جائے
تم نے خود ہی تو ان خطوط کو ’’نقوش زنداں‘‘ کے نام سے ۱۹۵۱ء میں ترتیب دیا تھا۔ اس میں میرا جو امیج بنتا ہے وہ ایک عاشق مہجور کا ہے جو تمہارے ’’وصال گریز‘‘ رویے سے دل برداشتہ بھی نہیں ہوتا۔ جس کا ہر خط ’’میری پیاری۔ میری جان۔ میری سب کچھ سے شروع ہو کر بہت بہت پیار۔ ہزار بار پیار پر ختم ہوتا ہے۔ ایک سچا عاشق جو تمہاری ایک جھلک دیکھنے کے لیے جیل کی سلاخوں سے سرٹکائے ٹکٹکی باندھے بیٹھا ہے شاید کہ تم آ ہی جاؤ۔ ایک Surprise Pleasureکی طرح۔ اور جب حسب معمول تم نہیں آتی تھیں تو اپنی تنہائی کا احساس مجھے اس وقت بہت زیادہ ہوتا تھا۔ مگر میرے عشق کی داد دو تمہارے نہ آنے کے باوجود میں تمہیں کھینچ لاتا تھا اور تمہاری زلفوں میں منہ چھپائے تم سے دنیا بھر کی باتیں کرتا تھا اور مزے کی بات تو یہ کہ ان دنیا بھر کی باتوں کا موضوع صرف تمہاری ذات ہی ہوتی تھی۔ تمہاری صحت، تمہارے ایما ے کے امتحان کی تیاریاں، تمہارے Viva Testکا حال، تمہاری ملازمت، تمہاری رخصت وغیرہ وغیرہ اور پھر نجمہ کی پیدائش، تمہارے دودھ کا اس کے لیے کافی یا ناکافی ہونے کا ماجرا۔ سچ بتانا کیا ایک عام شوہر اپنی بیوی کا اسی قدر خیال رکھتا ہے۔ میرے تو سارے خطوط اسی پیار کا اظہار ہیں۔ میں کوئی ابو الکلام آزاد تو نہ تھا کہ چڑیا چڑے پر بھی قلم اٹھاؤں تو مولانا رومی اور امام غزالی کو شرماؤں اور خط لکھوں تو علمیت کا رعب جھاڑنے کے لیے۔ خط در اصل دو دلوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کا نام ہے۔ دماغ سے ابل پڑنے والے لاوے کا نام نہیں۔ میری سوچوں کا محور بس تمہی تو ہو۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ میرے لکھنے پڑھنے میں بھی تمہارا عمل دخل کچھ زیادہ ہی رہا۔ چنانچہ میں نے جو تمہیں ایک خط میں لکھا تھا کہ ایک کتاب لکھنے کے سلسلے میں، میں نوٹ تیار کر رہا ہوں تو اس کتاب کو تمہارے اس طریقے پر معنون کروں گا یعنے
’’اپنی محبوبہ کے نام جس کے طعن و تشنیع کے بغیر یہ کبھی نہ لکھی جاتی‘‘۔
ٹھیک ہے نا ابھی یہ تو پرانی مثل ہے کہ ہر فرعونے راموسیٰ تو گویا تم ہماری کلیم اللہ ہو۔‘‘ (نقوش زنداں صفحہ ۶۲ خط مورخہ ۲۶؍جولائی ۱۹۴۰ء)
میں تمہاری کو کھ میں اپنے خواب کو پل پل پلتا دیکھنا چاہتا تھا۔ یہ الگ بات کہ تم نے مجھے اس کا موقع نہیں دیا۔ بہر حال مجھے ہمیشہ تمہاری خاطر منظور رہی ہے۔ تمہیں میں نے بیوی نہیں بلکہ ہمیشہ محبوبہ ہی سمجھا ہے حتیٰ کہ بیٹی کی پیدائش پر میں نے تمہیں مبارکباد دی تو یہاں تک لکھا تھا۔
’’مجھے تو لڑکی ہی کی خواہش زیادہ تھی۔ تمہیں البتہ لڑکا نہ ہونے سے شاید کچھ افسوس ہوا ہو۔‘‘
(خط مورخہ ۱۲؍اگست ۱۹۴۰ء۔ نقوش زنداں صفحہ ۷۱)
ویسے لڑکا ہو کہ لڑکی فرق ہی کیا پڑتا ہے۔ لڑکا اگر میری طرح نا خلف نکلے تو ارباب سیاست کی آنکھ کا کانٹا اور لڑکی اگر تمہاری طرح لائق نکلے تو ارباب سیاست بھی دبنے لگیں۔ مثال کے لیے اپنی وزیر اعظم کا حال دیکھ لو۔ تم سے میری محبت ایک جنون کا روپ اختیار کرنا، ہندی سیکھنا وغیرہ وغیرہ ذیلی نوعیت کے تھے اور تمہیں خط لکھنا بنیادی فریضہ تھا گویا۔ سچ بتانا میرے وہ خطوط کس قدر پیارے تھے اور کیوں نہ ہوں موضوع جو پیارا تھا اور یہی موضوع میری شخصیت پرچھا چکا تھا۔
یاد ہے وہ خط جو میں نے تمہیں ۱۸؍اگست ۱۹۴۱ء کو لکھا تھا۔
’’میری جان، میری بچی کی ماں، میری پیاری اچھی بیوی
ولادت کے بعد میں تم کو دو خط بھیج چکاہوں جو ملے ہوں گے اب یہ دستی جائے گا۔ منن میاں لے کر جائیں گے وہ تم کو اور بچی کو خود دیکھیں گے اور پھر وہاں سے آ کر یہاں تم دونوں کا حال مجھے بتائیں گے۔ تم تو ابھی کمزور ہو گی میری پیاری۔ اب تو تم ماں ہو گئیں۔ کیسا پیارا لفظ ہے۔ تم اپنی خیریت کے متعلق کسی سے بالتفصیل لکھو ادو کوئی بات نہ چھوٹے۔۔ ۔ کیا تم بچی کو دودھ پلانے لگی ہو۔ دودھ کافی ہوتا ہے یا نہیں ؟۔۔ ۔ میری جان میں بہت خوش ہوں اور بہت مغموم۔ خوش، چونکہ اب یہ چھوٹی سی معصوم جان ہمارے اور تمہارے درمیان عشق و محبت کی نشانی اور سند بہترین اور عزیز ترین سند موجود ہو گئی۔ رنج اس لیے کہ ہم ایسی خوشی کے وقت میں ایک دوسرے کے پاس اس کمبخت ظالمانہ، بے رحم نظام کی وجہ سے نہیں ہو سکتے۔ لیکن تم نے جس ہمت اور بہادری کے ساتھ اس سخت تکلیف دہ مرحلہ کو کاٹ دیا ہے اس سے میرے دل کو سکون اور تقویت پہنچتی ہے۔ ایسی بہادر بیوی، جاں باز ماں اور سچے ساتھی پر کون مرد فخر نہ کرے گا۔ تمہاری بچی بھی جب بڑی ہو گی تو اس زمانے کو کبھی نہیں بھول سکتی۔‘‘ (نقوش زنداں صفحہ ۷۵)
میں اکثر سوچتا ہوں کہ میں نے تمہیں جسم و جاں کی راحتیں کم کم ہی دی ہیں یا تو پارٹی کی مصروفیتوں نے مجھے تم سے ملنے نہ دیا یا جیلوں نے ہم دونوں کے بیچ دراڑ یں سی ڈال دیں اور جس سحر کے لیے ہم لڑ رہے تھے وہ شب گزیدہ اور داغ داغ نکلی یا پھر بقول احمد ندیم قاسمی:
پھر بھیانک تیرگی میں آ گئے
ہم گجر بحنے سے دھوکا کھا گئے
اور (اب بقول فانی )
مر کے ٹوٹا ہے کہیں سلسلہ قید حیات
صرف اتنا ہے کہ زنجیر بدل جاتی ہے
ہر ہر قدم پر تم نے جس پامردی سے میرا ساتھ دیا اس نے مجھے سنبھال سنبھال لیا ورنہ میں کب کا ٹوٹ چکا ہوتا۔
غلط قدم کوئی ڈالا نہ جا سکا مجھ سے
ترے بدن کا اجالا نہ جا سکا مجھ سے
پرسوں ایک صاحب سے یہاں ملاقات ہوئی۔ انہوں نے میرے وہ تمام خطوط( نقوش زنداں ) پڑھ رکھے ہیں۔ ان خطوط سے جھلکتی وہ میری ’’زن مریدی‘‘سے بہت شاکی ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا بھائی کبھی آپ نے عشق بھی کیا ؟ انہوں نے جواب دیا یقیناً کیا مگر یار ہمارے عشق میں بھی مردانہ بانکپن ہوا کرتا تھا۔ ہم جس پر مرتے تھے اسے مار بھی رکھتے تھے۔ محبوب کے آگے بھی ہم نے اپنے آپ کو اس قدر گرا کے پیش نہیں کیا جتنا کہ آپ نے بیوی کے آگے گھگھیانے کا مظاہرہ فرمایا ہے۔ مثال میں انہوں نے میرے ہی خطوط کا آئینہ دکھایا اور کہنے لگے ’’بنے بھائی ! ۱۶؍مارچ ۱۹۴۰ء سے ۱۴؍ مارچ ۱۹۴۲ء تک آپ قید رہے۔ اس دوران اگست ۱۹۴۰ء میں ایک لڑکی بھی پیدا ہوتی ہے۔ مگر تمہاری بیوی رضیہ اس تمام عرصے میں تم سے ملنے ایک بار بھی نہیں آتی اور نہ ایک جھلک بچی ہی کی تمہیں دکھلاتی ہے اور تو اور ۲۳؍دسمبر ۱۹۴۱ء سے ۸؍مارچ ۱۹۴۲ء تک تم گلے کے درد کی وجہ سے کنگ جارج ہسپتال میں بغرض علاج رکھے جاتے ہو۔ مگر کیا اس بیچ تمہاری رضیہ، جس پر تم جان دیتے ہو، ایک بار بھی تم سے ملنے آتی ہے ؟ اور کیا اس تمام عرصے تم اپنی بچی کو دیکھ پاتے ہو ؟؟ تمہاری رضیہ اپنے ایم اے کے امتحان کی تیاریوں میں مصروف رہتی ہے۔ اپنے میکے اجمیر جاتی ہے۔ اپنے منے بھائی کی عیادت کے لیے نینی جیل جاتی ہے (اور یہ اطلاع تمہارے ہی خط مورخہ ۱۸؍فروری ۱۹۴۱ء سے ملتی ہے ) مگر کبھی بھولے بھٹکے تم سے کسی ایک دن بھی ملنے نہیں آتی۔ اس کے نہ ملنے کا جواز پورے ’’نقوش زنداں‘‘ میں نہیں۔ اور تم ہو کہ ہر خط میں گھگھیا کرکہہ رہے ہو۔
’’آیا کرو ادھر بھی میری جان۔۔ ۔۔ ۔ کبھی ادھر آنے کا قصد بھی کرتی ہویا نہیں‘‘
(۴؍اگست ۱۹۴۱ء نقوش زنداں صفحہ ۱۶۰)
بنے بھائی۔ عورت کی خاطر اس قدر گھگھیا نا ایک مرد کو زیب نہیں دیتا۔ اپنی عزت، اپنے وقار کا خیال رکھنا چاہئیے۔
میں نے انہیں جواب دیا کہ بھائی وہ عاشق ہی کیا جو عزت سادات کا خیال بھی رکھے اور پھر میری پیاری رضیہ کی طرح تمہیں کوئی محبوب میسر آتا تو تم یہ بات نہ کرتے۔ رضیہ نے میرے غیاب میں سخت تگ و دو کر کے معاشیات کا کوئی مسئلہ ابھرنے نہیں دیا بلکہ میرے بچوں کی نگہداشت بھی کی اور تو اور میرے جیل سے چھوٹنے کے بعد کا صرف پروگرام ہی نہیں بنایا تھا بلکہ اس کے لیے روپیوں کا انتظام بھی کیا تھا۔ (نقوش زنداں صفحہ ۱۸۵)
ان ہی صاحب کا اک اور دلچسپ ریمارک بھی سنو۔ وہ کہتے ہیں ان خطوط میں میں تمہاری بیوی نظر آتا ہوں اور تم میری شوہر لگتی ہو۔ اور یہ کہ وہ صاحب میرے اور صفیہ اختر کے خطوط کا تقابلی مطالعہ کر کے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جس طرح صفیہ اختر نے اپنے شوہر جاں نثار اختر کی محبت کا دم بھرنے کا ایک انمٹ اور انمول شاہکار چھوڑا ہے جو جہاں عورتوں کے لیے سرمایہ افتخار ہے تو وہیں میرے خطوط مردوں کی انا پر چوٹ لگتے ہیں۔ مگر ڈئیر میں یہ ساری باتیں نہیں جانتا۔
ازما بجز حکایت مہرو وفا مپرس
تم خود ان صاحب سے نمٹ لینا۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ میں آج بھی تم سے بے انتہا پیار کرتا ہوں۔ میں آج بھی تمہاری یاد میں اسی طرح تڑپ رہا ہوں۔ جان من ! اس بار ملنے میں کو تا ہی نہ کرنا۔ میں ایک ایک پل تمہارے انتظار میں گن رہا ہوں۔ یہ خط جیسے ہی ملے چلی آنا۔ اس بار دیر نہ کرنا۔ آتے ہوئے نئی نئی مطبوعات جس قدر مل سکیں لے آنا۔ اور ہاں یہاں سگریٹ پینا منع تو نہیں مگر ملتے کہیں نہیں اور پھر تمہارے برانڈ کے سگریٹ۔ اس لیے اپنا برانڈ لیتی آنا۔
تو پھر آ رہی ہونا۔
تمہارا پنا بنے
(۱۸؍دسمبر ۱۹۷۹ء کو رضیہ سجاد ظہیر کا انتقال ہوا)
٭٭٭
ڈپٹی نذیر احمد خاں اور حیدرآباد
حیدرآباد دکن وہ سرزمین ہے جس نے بڑے بڑے لوگوں کی پذیرائی کی ہے بعض قلم کاروں نے بے فکری کے ساتھ اپنے علمی مشاغل جاری رکھنے کے لیے صرف وظیفہ کی درخواستیں دیں اور خسرو دکن نے انھیں مایوس نہیں کیا۔ بعض اولوالعزم فن کاروں نے خدمت کا موقع مانگا اور اس سرزمین نے انھیں خدمت کا موقع اور اس کا بھر پور صلہ بھی دیا کچھ مشاہیر ادب نے تو یہاں بار پانے کے لیے مختلف جتن کیے، قصیدے لکھے، سفارشی چھٹیاں لائیں، حتیٰ کہ رسول اللہ کو دکن جانے کی تلقین فرماتے ہوئے خواب تک دیکھ ڈالے۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح اس سرزمین پرسارے ملک سے بہترین دماغ جمع ہونے لگے یوں بھی دہلی اور لکھنؤ کی بچی کچی ساکھ بھی دم تو ڑ رہی تھی۔
شہاں کہ کحل جواہر تھی خاک پا جن کی
انہی کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں
والا معاملہ تھا۔ شمالی ہند میں سیاسی و معاشی اعتبار سے حالات اس قدر خراب تھے کہ نابغۂ روزگار کو روزگار کی تلاش کے لیے حیدرآباد سے بہتر کوئی اور مقام اور والی دکن سے اچھا قدر داں کہیں دکھائی نہیں دیتا تھا۔ کچھ یہاں کی ضرورت اور مرعوب ذہنیت بھی ان کے لیے راہ ہموار کر رہی تھی۔ دکن انگریزی سامراج کی Good Booksمیں تھا اور شمالی ہند کے فنکاروں، دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں پر دہلی کی زمین تنگ ہو رہی تھیں۔ یوں بھی ڈپٹی نذیر احمد پیسے کی بڑی قدر کرنے والے تھے اور دکن میں پیسہ بہت تھا۔ صلاحیتوں کا منہ مانگا صلہ دیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ جب سالار جنگ نے سرسید احمد خاں سے معقول مشاہرے پر بعض اہم اور کار آمد لوگ طلب کیے تو سر سید نے پانچ چھے آدمی بھیج دیئے جن میں سرسید کے خاص معتمد محسن الملک مولوی مہدی علی بھی تھے انہی کے ذریعے ڈپٹی نذیر احمد کو دعوت ملی کہ اگر وہ حیدرآباد آ جائیں تو ایک معزز عہدہ ان کا منتظر ہے۔ مشاہرہ آٹھ سو روپئے جو بعد میں ایک ہزار روپئے ماہانہ ہو جائے گا، دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ڈپٹی نذیر احمد ایک خط میں اپنے بیٹے میاں بشیر الدین احمد کو لکھتے ہیں:
’’دربار حیدرآبادان دنوں بہت ممدوح ہے۔ اختیار ات وسیع، عہدہ معزز۔ مجھ کو وہاں کے زیادہ حالات معلوم نہیں۔ اتنا جانتا ہوں کہ ادھر کے اور انگریزی عمل داری کے ہزار ہا بندگان خدا وہاں ہیں۔ سینکڑوں آدمی تو دلی کے وہاں ہیں۔‘‘
یہ نہیں کھلتا کہ ڈپٹی نذیر احمد نے حیدرآباد آنے کے لیے اپنی سرکاری ملازمت سے پنشن لے لی کہ رخصت لے لی تھی کیونکہ ۱۴؍ فروری ۱۸۷۷ء کے ایک خط میں وہ اپنے بیٹے کو لکھتے ہیں:
’’تین مہینے کی رخصت لے کر ریڈ صاحب نے بھی سفارش کر دی ہے لیکن حیدرآباد جانا ہو برس دو برس کی فرلو لینی ہو گی (کذا) رہی پنشن تو اس کے لیے میں نے دریافت کیا ہے۔ حیدرآباد سے خط آنے شروع ہوئے ہیں کہ تنخواہ کے علاوہ دو سو روپے ماہوار دوامی بھتہ بھی ہے اب میں صرف دو باتوں کا منتظر ہوں ایک تو رخصت کی منظوری، دوسرے میں نے جو خط مولوی مہدی علی صاحب کو لکھا ہے اس کا جواب۔ اگر حیدرآباد میں پاؤں جم گئے اور نصیب میں ہے تو سر منزل حج و زیارت حرمین شریفین قریب ہے۔‘‘
ایک اور خط میں ڈپٹی نذیر احمد اپنے بیٹے کو جو دہلی میں زیر تعلیم ہے اور جو حیدرآباد جانے کا متمنی ہے، لکھتے ہیں
’’تم حیدرآباد جانے کے متقاضی ہو۔ جب میں تمہاری عمروں میں تھا تو مجھ کو عرش کی سوجھتی تھی۔
نالہ جاتا تھا پرے عرش سے میرا اور اب
لب تک آتا ہے جو ایسا ہی رسا ہوتا ہے
اب صرف اتنی گد گدی دل میں ہے کہ میں نے انکار نہیں کیا۔ اگر ابتدا ء بارہ سو دیں گے اور ارذل عمر کے لیے سامان کر دینے کا وعدہ فرمائیں گے تو ان شاء اللہ جاؤں گا۔‘‘
خط کے اگلے جملوں میں انھوں نے اپنی دنیا داری پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔
’’۔۔ ۔۔ لیکن مجھ کو ایسا احمق مت سمجھو کہ بہت دنیا جمع کرنے کو زندگی کا ما حصل سمجھوں بشیر !
دنیا کو تو خوب دیکھا غریب محتاج تھا، خدا نے مال دار غنی کیا۔ اولاد ہوئی۔ حکومت کے مزے اڑائے۔ نام وری اور شہرت سے بھی بے نصیب نہیں رہا۔ لیکن انجام ان بکھیڑوں کا کیا ہے ؟ آخر فنا آخر فنا۔ اب خداوند تعالیٰ ایسی توفیق عطا کرے کہ کچھ وہاں کے لیے بھی کروں۔
کیا وہ دنیا جس میں کوشش ہو نہ دیں کے واسطے
واسطے واں کے بھی کچھ یا سب یہیں کے واسطے‘‘
(خط مورخہ ۲۳؍فروری ۱۸۷۷ء )
حیدرآباد کو وہ کوئی مقام مقدس سمجھ کر زیارت کے لیے توبہ ہر حال نہیں آ رہے تھے صرف جلب منفعت ہی کے لیے تشریف لا رہے تھے چنانچہ وہ اپنے ایک خط مورخہ ۶؍ مارچ ۱۸۷۷ء میں اپنے بیٹے کو یہ خوش خبری سناتے ہیں:
’’نواب سرسالارجنگ بہادر نے منظور فرمایا کہ میری انگریزی نوکری وہاں کی خدمت میں مجرا و محسوب ہو کر پنشن دی جائے گی۔‘‘
’’ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ میں مرزا فرحت اللہ بیگ نے اپنے استادشمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد کی بڑی دلچسپ تصویر کھینچی ہے۔ عربی کے ایک شعر کا مطلب سمجھاتے ہوئے ڈپٹی نذیر احمد نے اپنی ابتدائی عسرت کے زندگی کی کہانی سنائی اور کہا تھا کہ بچپن میں وہ دہلی کی ایک مسجد میں ہمہ و قتی خدمتی کی طرح رہا کرتے تھے ہر شام محلے بھر کے گھروں سے روٹیاں بٹور کر لاتے، خود کھاتے اور امام مسجد کو کھلاتے بعد میں ان کی شادی اسی لڑکی سے ہوئی جو ان سے سیر و دو سیر کے مصالحے پسوائے بغیر روٹی نہیں دیا کرتی تھی۔ وہ اپنے برے دنوں کو بھولے نہیں تھے۔ پیسے کی قدر کرتے تھے۔ قوم کے ہمدرد بھی تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ مسلمان تجارت میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں اس کے لیے وہ مالی مدد کرنے کے لیے بھی آمادہ رہا کرتے تھے اور پیسہ وصول کرنے میں سخت بھی تھے ایک ایک پائی کا حساب لیا کرتے تھے حتیٰ کہ سود لینے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ حیدرآباد آ جانے اور حیدرآباد میں ان کی قدر و منزلت کے بارے میں تفصیل سے یوں لکھتے ہیں:
’’جہاں اب ہوں حقیقت میں ایک نئی دنیا ہے۔ میں حیدرآباد میں ۲۷؍اپریل کو پہنچ گیا۔ دو مرتبہ ہز اکسلینسی نواب سرسالار جنگ بہادر سے ملا۔ مدار المہام، مختار الملک، نواب صاحب اور سرکار عبارت ہے سرسالار جنگ بہادر سے اور حضور اور بندگان عالی (سے مراد) خصور نظام۔ میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ یہاں کے سازو سامان اور تزک و احتشام دیکھ کر خدا یاد آتا ہے‘‘۔
(ڈپٹی نذیر احمد نے یہاں محاورہ بے محل استعمال کیا ہے حالانکہ وہ لکھتے ہی محاورے لکھنے کے لیے تھے اور زبان دانی کا دعویٰ بھی بہت رکھتے تھے۔ خیر)۔
’’دہلی و لکھنؤ میں اس کا عشر عشیر بھی نہ ہو گا۔ شہرم یں جا کر دیکھو تو تل رکھنے کی بھی جگہ نہیں۔ اور پھر ہجوم بھی قلی، مزدوروں بھیک مانگنے والوں کا نہیں بلکہ نوابوں اور سرکاروں کا جن کی اردلی میں پلٹنیں، رسالے اور ہاتھی دوڑتے ہیں سرکار (سالار جنگ ) کے محلوں میں جا کر ہکا بکا سا ہو جاتا ہوں اور یہ تمول اس حالت میں ہے کہ عمل داری میں اچھا انتظام نہیں۔ شاید قریب نصف عین المال سرکا ر (اصل خزانہ ) نمک حرام نوکر خرد برد کرتے ہیں اور اگر خدا نوکروں کو توفیق خیر خواہی دے تو یہ ملک بجائے خود اودھ کا چوگنا ہے اور زمین بعض اطراف میں بلا مبالغہ تین سوروپئے بیگہہ تک کی موجود ہے شوخ چشمی کی وجہ یہ ہے کہ موقوفی کا دستور نہیں۔ جرمانہ کرنے کا قاعدہ نہیں۔ سرکار نے مجھ کو یکم اپریل یعنی روز روانگی اعظم گڑھ سے بارہ سو روپئے کے حساب سے تنخواہ دی جس میں ہزار روپیہ تنخواہ ہے اور دو سو روپئے بھتہ دوامی۔ دہلی سے حیدرآباد تک میرا اول درجے کا اور میرے دو ساتھیوں کا سوم درجے کا کرایہ ریل دیا۔ بہ ایمائے سرکار عالی دورے پر ہوں اور جب تک موسم اجازت دے، دورے میں رہوں گا۔ گرمی تو یہاں ہے مگر نہ وہاں کی سی۔ خیمہ اگر چہ دھوپ میں ہے مگر وہ تپش نہیں کہ آدمی بے چین ہو جائے۔ موسم یہاں معتدل سے رہتے ہیں۔ جاڑے میں لحاف کی ضرورت نہیں۔ گرانی ہے اور بوجہ خشک سالی ان دنوں اور زیادہ ہے لیکن لوگ ایسے خوش حال ہیں کہ کبھی کوئی گرانی کا نام نہیں لیتا۔
جس خدمت پر میں ہوں، بڑی معزز ہے۔ الحمد اللہ علی نعمانہ والانہ۔
دیار اجنبی میں ہوں۔ دن بھر کوئی نہ کوئی نئی بات سیکھتا ہوں۔ یہاں کی زبانیں جو مفصلات میں بولی جاتی ہیں مرہٹی تلنگی، کنٹری اروی (اڑیا)ہیں‘‘
(خط مورخہ ۲۵؍ربیع الثانی ۱۲۹۴ھ)
حیدرآباد آ کر ڈپٹی نذیر احمد کی مصروفیت بہت بڑھ گئی۔ اس کا سبب کچھ تو نئے مقام پر زیادہ سے زیادہ کام کی نوعیت سے واقفیت اور کچھ اپنی کار کردگی کا سکہ بٹھانا مقصود ہو گا۔
ڈپٹی نذیر احمد کے فرزند میاں بشیر الدین احمد دہلی میں سا تویں کے طالب علم تھے اور باپ کی خواہش تھی کہ بیٹا پڑھ لکھ کر قابل نکلے۔ وہ اپنے بیٹے کو انگریزی سیکھنے کی ہر خط میں تلقین کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کا بیٹا انھیں خطوط انگریزی میں لکھے تاکہ وہ اس کی انگریزی دانی کی صلاحیتوں سے واقف ہو سکیں۔ وہ اپنے بیٹے کی آسائشوں کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں اسے سونے کی وہ گھڑی بھی دے دیتے ہیں جو انھیں انڈین پینل کوڈ Indian Penal Codeکا اردو ترجمہ کرنے پر انگریز سرکار سے ۱۸۶۰ء کے قریب بطور انعام ملی تھی۔ اس وقت اس کی قیمت پانچ سوروپئے تھی گھڑی کے ساتھ اس کے استعمال و احتیاط کے سلسلے میں جو ’’ہدایت نامہ‘‘ وہ اپنے لڑکے کو لکھتے ہیں وہ بے حد دلچسپ ہے اور بچے کے لیے عذاب جان لگتا ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد ہر مقام سے بیٹے کو پابندی سے خط لکھا کرتے تھے اور اپنے معمولات کی ایک ایک بات انھیں بتایا کرتے تھے۔ یہ تمام خطوط ’’مواعظ حسنہ‘‘ پر مشتمل ہیں۔
(مواعظہ حسنہ‘‘مرتبہ عبدالغفور شہباز، دلی پر نٹٹنگ پریس ۱۹۲۱ء)
نذیر احمد نے نلگنڈہ سے اپنے دورے کی رپورٹ سر سالار جنگ کو بھیجی تھی۔ محسن الملک مولوی مہدی علی صاحب نے نواب سرسالار جنگ کے اشارے سے ان کو لکھا کہ قسمت شرقی East Wingکی صدر تعلقہ دار یعنی کمشنری ان کے لیے تجویز ہوئی ہے اور فوراً تنخواہ بار سو روپئے کر دی جائے گی (بھتہ کے علاوہ ) اوراس قسمت کا بندوبست بھی ان سے متعلق رہے گا۔ نظام کی سلطنت میں بہ اعتبار اختیار ات و صدر تعلقہ داری کا عہدہ بہت بڑا عہدہ تھا۔ جو نسبت مدار المہام کو تمام ریاست سے تھی وہی نسبت صدر تعلقہ دار کی اپنی قسمت (Area) سے ہوتی تھی۔ پس جتنے صیغے مال، عدالت، تعلیمات، تعمیرات وغیرہ کے ہیں صدر تعلقہ دار کل صیغوں میں حاکم اکبر ہوتا تھا لیکن وہ مدار المہام اور صدر المہام اور سب کے معتمدین Secretariesکا ماتحت ہوتا تھا گویا صدر تعلقہ دار Divisional Commissionerڈویژنل کمشنر ہوتا تھا جو بورڈ اور گورنمنٹ کا تابع ہوتا تھا وہ ایک خط میں بیٹے کو لکھتے ہیں:
’’میں حیدرآباد پہنچ کر شاید صرف ایک ہفتہ مقیم رہا۔ اس اثناء میں دو مرتبہ نواب صاحب (سالار جنگ) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ارشاد ہوا کہ سیروفی الارض (زمین میں سیر کرو)ور خود بھی ناواقفیت کی وجہ سے گھبراتا تھا غرض حیدرآباد میں جلسہ خطیبی کر کے (یعنی دو خطبوں کے درمیان بیٹھنے کے
وقفہ کے برابر رک کر۔ خیر) دورے کو نکل کھڑا ہوا حکم تو یہ تھا کہ ناگر کرنول اور نلگنڈہ اور دو ضلعے ملک تلنگانہ کے دیکھ آؤ۔ لیکن جب میں ضلع ناگر کرنول کے صدر مقام محبوب نگر میں پہنچا تو ایک انگریزی ضلع کرنول قریب تھا۔ بے اختیار جی چاہا کہ وہاں کا طرز انتظام بھی دیکھوں۔ چنانچہ اکیلا کرنول چلا گیا۔ ایک ہفتہ وہاں تھا پھر ناگر کرنول آ گیا اور پھر دورے کی کل چلنی شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ نلگنڈہ پہنچا اس دورے میں مجھ کو یہ حکم تھا کہ دفاتر کی تنقیح کرو۔
(۲۰؍جمادی الثانی ۱۲۹۴ھ کے اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ ناگر کرنول اس وقت ضلع تھا )
ڈپٹی نذیر احمد نے بڑی محنت سے تمام دفاتر کی جانچ پڑتال کی اور سالار جنگ کو تفصیلی رپورٹ بھیج دی۔ اس تفصیلی تنقیح اور اس کی کیفیتوں Remarksنے نواب سالار جنگ پر بڑا عمدہ اثر کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کے ڈپٹی نذیر احمد تو بڑے کام کے آدمی ہیں حالانکہ ڈپٹی نذیر احمد کے لیے یہ ساری کار روائیاں یک لخت نئی تھیں۔ یہاں تلگو، مرہٹی، کنٹری اور پھر اردو بھی دکنی لہجے میں بولی جاتی تھی جس کی وجہ سے نذیر احمد کو پہلے پہل بات سمجھنے میں کافی دشواری بھی ہوا کرتی تھی اس کے علاوہ دفتری زبان پر فارسی کا تسلط تھا جب کہ ڈپٹی نذیر احمد نے زندگی میں کبھی فارسی نہیں لکھی تھی (اس کا اعتراف خود انہوں نے اپنے ایک خط میں کیا ہے ) وہ عربی کے استاد تھے مگر یہاں فارسی دفتری امور انجام دینے پر مجبور تھے۔ بہر حال اپنا کام انھوں نے اس سلیقے سے انجام دیا کہ سرکار عالی نے ان کا لوہا مان لیا۔ نواب سرسالار جنگ نے انھیں ملاقات کا حکم بھیجا۔ تمام دفاتر میں جو خامیاں اور کوتاہیاں دکھائی دیں اس کی تفصیل بھی چونکہ نذیر احمد نے بلا کم و کاست لکھ بھیجی تھی اس لیے انھیں خوف ہو رہا تھا کہ شاید ان رپورٹس نے کچھ اچھا اثر نہیں ڈالا۔
ڈپٹی نذیر احمد نے لکھا تھا کہ تلنگانہ کا ایک بڑا حصہ ویران پڑا ہے۔ آدمی اتنے نہیں کہ انھیں جوت سکیں۔ اس کے بندو بست کے لیے وقت اور روپیہ بہت درکار ہے ایک ضلع کے لیے کم سے کم سات برس اوراس پر خرچ کرنے کے لیے پندرہ لاکھ روپئے چاہیے اور سرکاری نظام میں اتنی سکت نہیں کہ اتنے زیادہ مصارف کی متحمل ہو سکے۔ ان کا خیال تھا کہ سرکاری بندوبست کر کے اور نظری رواروی پیمائش کر کے دس سالہ قول پر زمین کاشت کاروں کے حوالے کر دی جائے اور چونکہ ناظم بندو بست ہو کر انھوں نے اس قسم کی منفی رائے دی تھی اس لیے انھیں ڈر تھا کہ کہیں نواب صاحب کو یہ رپورٹ کھل نہ گئی ہو مگر انھوں نے جو کچھ محسوس کیا وہ ایمان داری کے ساتھ لکھ دیا تھا۔ انھوں نے اضلاع کے عہدہ داروں کی بے ضابطگیاں بھی بہت پکڑی تھیں۔ جب وہ تعمیل حکم میں سرسالار جنگ سے ملے تو انھیں اپنا گرویدہ پایا سالارجنگ نے ان کی رپورٹ بہت پسند فرمائی تھی۔ سالار جنگ مدار المہام تھے ان کے اختیارات گورنر کے اختیار ات کے مساوی تھے ان کے تحت چار صدور المہام تھے۔
۱۔ صدر المہام مال گزاری ( Minister For Revenue)
۲۔ صدر المہام کوتوالی (Inspector General of Police)
۳۔ صدر المہام عدالت ( غالباًChief Justice of High Court)
۴۔ صدر المہام متفرقات یعنی تعلیمات، ڈاک، صحت، تعمیرات وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح سالارجنگ بہت اہم اور کلیدی حیثیت کے مالک تھے۔ سلطنت پر نظام کے بعد کوئی اگر صاحب اختیار شخصیت تھی تو وہ یہی سالار جنگ تھے چونکہ ڈپٹی نذیر احمد صیغہ مال (Revenue Department) کے اہم عہدے پر فائز تھے اس لیے وہ راست صدر المہام مال گزاری نواب مکرم الدولہ بہادر کے ماتحت تھے جو سالار جنگ کے بھانجے اور داماد تھے۔
نواب سرسالار جنگ نے ڈپٹی نذیر احمد سے فرمایا کہ وہ صدر تعلقہ دار کے عہدے کے لیے بے حد مناسب شخصیت ہیں۔ صدر تعلقہ دار کا مطلب تھا تمام محکموں کا حاکم۔ یہ بڑی ذمہ داری کا معاملہ تھا۔ ڈپٹی نذیر احمد نے عذر کیا کہ وہ اتنی بڑی خدمت کے اہل نہیں در اصل وہ اس بات سے ڈرتے تھے کہ چار چار صد المہاموں کو جواب وہ ٹھہریں گے جو ایک عذاب سے کم نہ ہو گا۔ چونکہ ان کی کار کردگی سے سالارجنگ بہت خوش تھے اس لیے اصرار کیا کہ وہ صدر تعلقہ دار کا منصب قبول کر لیں اور یہ کہ ان کی تنخواہ میں مزید دو سو روپیوں کا اضافہ کر دیا جائے گا گویا اب انھیں بارہ سو روپئے ماہوار ملا کر کریں گے۔ اس وقت سب سے زیادہ تنخواہ یہی ہوا کرتی تھی۔ اس پر بھی ڈپٹی نذیر احمد نے یہ عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیا تو نواب سالار جنگ نے فرمایا کہ اس سے زیادہ تنخواہ کا دستور نہیں۔ اور اگر اس سے زیادہ رقم خاص طور پر نذیر احمد کے لیے مقرر کر دی جائے تو دیگر صدر تعلقہ داروں کو شکایت ہو گی۔ البتہ سالار جنگ نے ان کے لیے ایک خاص رعایت یہ فرمائی کہ ایک صدر مدد گار مال کا نیا عہدہ قائم کیا جس پر ڈپٹی نذیر احمد کو اجازت تھی کہ اپنے کسی عزیز کا تقرر کر لیں تاکہ وہ ان کا ہاتھ بٹا سکے۔ اب ڈپٹی نذیر احمد کے لیے سوائے تسلیم کرنے کے اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ یہ سو ء ادب ٹھہرتا اور انھوں نے صدر تعلقہ دار کا منصب جلیلہ قبول کر لیا مگر اس ہوشیاری کے ساتھ کہ ان کا اصل عہدہ یعنی ناظم بندوبست بھی باقی رہے اور ساتھ ہی منصرم صدر تعلقہ دار بھی وہ رہیں۔ اس میں یہ مصلحت تھی کہ ناظم بندوبست کا بھتہ Allowanceبھی دو سو روپیہ ماہوار ملتا رہے۔ ڈپٹی نذیر احمد روپئے پیسے کے بارے میں ذرا زیادہ ہی سوچنے والے تھے اس طرح دو تین سال سے بھی کم عرصے میں تنخواہ کے Highest Scaleپر پہنچ گئے اور نئے عہدے پر اپنے ایک عزیز کا پنے مددگار کے طور پر ماہانہ چار سو روپئے پر تقرر بھی کر لیا۔
نواب سالارجنگ کے بارے میں اپنے بیٹے بشیر الدین احمد کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’ہمارے نواب صاحب اس طرح کے سخی اور سیر چشم آدمی ہیں کہ جو مانگو سو لو۔ مثل اکثر دوسرے ہندوستانی رئیسوں کے احمق اور لایعقل نہیں ہیں۔ اپنے وقت کا یہ شخص ارسطو و افلاطون ہے۔ کریم النفسی اور مروت اس درجہ ہے کہ لا نہیں اور نو NOمنہ سے نہیں نکلتا۔ بشیر ! یہ بڑا عمدہ اصول ہے من یشکر الناس فلم یشکر اللہ تم نواب صاحب کے احسانوں پر نظر کرو۔
روز روانگی اعظم گڑھ سے مجھے تنخواہ دی کرایہ، ریل مع ہمراہیان دیا۔ دورے میں فیل خانۂ خاص سے ایک ہاتھی سرکاری طور پر ساتھ کر دیا۔ میری ترقی کر دی۔‘‘ (خط مورخہ ۲۰؍جمادی الثانی ۱۳۹۴ھ)
وہ اپنے بیٹے کو ایک خط لکھتے ہوئے حیدرآباد کی صورت حال کے بارے میں بتاتے ہیں کہ:
’’ہمارے یہاں تاریخوں کا بڑا خلط مبحث ہے۔ تنخواہ تو فارسی مہینوں کے حساب سے ملتی ہے۔ اس میں فائدہ یہ سوچا گیا ہے کہ انگریزی مہینوں کی طرح ہر مہینے کے دن مقرر ہیں۔ انگریزی میں اکتیس دن کا مہینہ بڑا نا مبارک سمجھتے تھے (کذا) یہاں خدا کے فضل سے بتیس دن کا مہینہ بھی ہے دوسرے صدر سے لے کر مفصل تک کل دفتروں میں عربی مہینے مستعمل ہیں۔ تیسرے، انگریزی مہینے کہ بے ان کے تم نہیں سمجھتے اور نہ ریزیڈ نسی کے معاملات چلتے ہیں۔ یہاں کاسکہ بھی تمہاری گورنمنٹ کے روپئے سے کم ہے۔ عموماً تین بٹہ چار (۴؍۳) لگتا ہے مگر بازار کا بھاؤ کم و بیش بھی ہوتا رہتا ہے جیسے روپیہ اور پاؤنڈ شلنگ کا Exchangeبدلتا رہتا ہے یہاں حالی اور کمپنی کا نرخ یکساں نہیں رہتا (خط مورخہ ۷؍جولائی ۱۸۷۷ء)
ایک اور خط میں اپنی مزید مصروفیات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مجھ کو سرکار سے سمت شمالی کی صدر تعلقہ داری کا چارج لینے کا حکم مل چکا۔ کل پرسوں تک ان شاء اللہ پٹن چرو جاتا ہوں جو کہ مستقر سمت ہے۔ حیدرآباد سے پٹن چرو نوکوس ہے اور لنگم پلی اسٹیشن سے پانچ میل ہمارے یہاں ڈاک کو ٹپہ کہتے ہیں اور یہاں کے ٹکٹ علیحدہ ہیں۔‘‘ (خط مورخہ ۱۱؍جولائی ۱۸۷۷ء)
ڈپٹی نذیر احمد ایک بڑے سرکاری عہدے پر فائز تھے اور ان کو غالباً پورا پورا اندازہ تھا کہ ان کے خطوط سنسر Censorبھی ہوتے ہوں گے اس لیے اپنے نجی خطوط میں وہ دل کھول کر سرسالارجنگ اور نظام کی حکومت کی تعریف بھی کیا کرتے تھے تاکہ ان کی قدرو منزلت میں اضافہ ہو پتہ نہیں ان کے فرزند بشیر احمد نے واقعی کچھ اعتراض بھی کیا تھا کہ انھوں نے خود اپنی طرف سے ہی لکھ دیا۔
’’تم نے ہماری سلطنت کو اتنا ذلیل کیوں سمجھ لیا ہے۔ وہ جو یہاں ہے وہاں ہے نہیں (عزت، آبرو، بیش قرار تنخواہ )اور وہ جو وہاں ہے یہاں نہیں۔ (قاعدہ قانون اور کامل اطمینان ) باقی جو وہاں سویہاں۔ جو یہاں سووہاں۔ دلی میں برائے نام ایک بادشاہ تھے جن کو برائے نام لاکھ روپیہ مہینہ پنشن کے طور پر ملتا تھا۔ تم نے ان کو بھی نہیں دیکھا۔ میں نے یہاں کی ایک سلطنت دیکھی کہ پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ لاکھ سالانہ کے جاگیردار ہیں۔ غرض مسلمانوں کی سلطنت کی ایک یادگار ہے خدا اس کو باقی رکھے۔ آمین‘‘ (خط مورخہ ۱۳؍اگست ۱۸۷۷ء)
ڈپٹی نذیر احمد کو ریذیڈنٹ کی تقریبی چٹھیوں Recommendatory Lettersکے ساتھ سالار جنگ نے مدراس ومیسور بھیجا تاکہ وہ وہاں کے طریقہ بندوبست سے آگہی حاصل کر کے آئیں ۲۵؍ مئی ۱۸۷۷ء کو وہ مدراس پہنچے اور سیٹھ اسماعیل کی کوٹھی پر قیام کیا۔ ان کا پر تپاک استقبال مدراس میں ہوا۔ مدراس کی بڑی اہم شخصیت یعنی سیٹھ اسماعیل نے ان کے رہنے سہنے کابندوبست کیا۔
وہ اس تمام عرصے میں حیدرآباد اور سرکاری ذمہ داریوں میں اس قدر مصروف رہے کہ گھر کی خبر ہی نہ لی اپنی بیوی کے نام ایک نجی خط میں وہ یہاں کی اندرونی ریشہ دوانیوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’میں نے رخصت کی درخواست کی تھی۔ بڑی حجت کے بعد منظور ہوئی لیکن پھر جو غور کیا تو جانا کچھ مناسب سانہیں معلوم ہوتا۔ ہرچند رخصت پر جانے میں میرا ذاتی چنداں نقصان نہیں مگر ساتھ والوں کی بڑی خرابی ہے۔ تم ایسے مطمئن ملک میں رہتی ہو کہ تم یہاں کے حالات مشکل سے سمجھو گی۔ ہندوستانی ریاست ہے اور ہم چند جلیل القدر ہندوستانیوں کا یہ حال ہے کہ دردو دیوار دشمن ہو رہا ہے اور وجہ عداوت یہ ہے کہ ہم لوگ بڑے عہدوں پر ہیں اور بڑے اختیار رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں تو روٹی کا ٹھکانہ نہیں ساری خلقت یہیں ٹوٹ پڑی ہے۔ خاص کر ہمارے ہم وطن ہی ہمارے سخت دشمن ہیں۔ دیکھ کر جلتے اور بیخ کنی میں لگے رہتے ہیں ایسی حالت میں ایک دم کے لیے بھی نوکری سے جدا ہونا مصلحت نہیں معلوم ہوتا یہاں ایک دن میں کچھ سے کچھ ہوتا ہے۔‘‘ ۱۸۷۷ء
( اس خط پر تاریخ اور مہینہ درج نہیں ہے صرف سن درج ہے )
فانی بدایونی نے اہلِ دکن پر کبھی یہ کہہ کر چوٹ کی تھی کہ:
فانی دکن میں آ کے یہ عقدہ کھلا کہ ہم
ہندوستاں میں رہتے ہیں ہندوستاں سے دور
مگر اس خط سے معلوم ہوا کہ ڈپٹی نذیر احمد خود بھی شمالی ہند کو ’’ہندوستان‘‘ کے نام سے اور شمالی ہند کے رہنے والوں کو ہندوستانی کے نام سے یاد کیا کرتے تھے۔ دکن کی سلطنت کو بھی انہوں نے ’’ہندوستانی ریاست‘‘ کا نام دیا۔
آخر آخر ڈپٹی نذیر احمد اپنے عہدے اور اس کی ذمہ داری سے اوب گئے بہر حال دیگر مشاہیر کی طرح ڈپٹی نذیر احمد نے بھی دکن کو بنانے سنوارنے میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بڑا اہم رول ادا کیا۔ اور اہل دکن نے بھی انھیں سرآنکھوں پر بٹھا یا سب سے بڑا اعزاز تو ان کے لیے یہی تھا کہ وہ نظام دکن کے بعض افراد کے اتالیق مقرر تھے اور ظاہر ہے یہ خدمت وہ فی سبیل اللہ نہیں کرتے تھے۔
٭٭٭
یوسف خوش سخن
ماہنامہ ’’شاعر‘‘ ہر ماہ دو دو فنکاروں کے گوشے نکالتا ہے جن میں سے ایک نوے فی صد اور دوسرا دس فی صد اور یہ گوشے صد فی صد کامیاب ہیں بلکہ دیگر کئی رسالے اس کی اتباع کر کے اپنا مقصد بھی پورا کر رہے ہیں ایسا ہی ایک گوشہ مئی ۲۰۰۸ء میں شاعر نے مشہور و ممتاز شاعر افسانہ نگار، خاکہ نویس و ستارہ شناس جناب خالد یوسف کا نکالا تھا۔ اسی گوشے سے پتہ چلا کہ ہر چند وہ آکسفورڈ میں برسوں سے مقیم ہیں مگر در اصل وہ مردم خیز سرزمین تلہر شاہ جہاں پور یوپی میں ۲۵؍ دسمبر ۱۹۴۰ء کو پیدا ہوئے اور تقسیم کے وقت جو فسادات ہو رہے تھے اس وقت صرف نوبرس کی عمر میں پاکستان چلے گئے۔ وہیں سندھ یونیورسٹی سے ۱۹۶۱ء میں ایم۔ اے (انگریزی )کیا اور اسی سندھ یونیورسٹی میں دو سال یعنے ۱۹۶۳ء تک انگریزی کے لکچرر رہے پھر پاکستان میں انکم ٹیکس آفسیر کی حیثیت سے کراچی، میرپور خاص اور اسلام آباد میں خدمات بھی انجام دیں۔ ۱۹۷۶ء میں بطور سفارت کار لندن میں بھی رہے۔ ۱۹۸۴ء میں انھیں اسسٹنٹ انکم ٹیکس کمشنر کراچی مقرر کیا گیا۔ مگر بوجوہ وہ لندن واپس چلے گئے۔
شعر و ادب تو ان کی گھٹی میں پڑا تھا۔ ان کے والد محمد احمد خاں مائل خاصے اچھے شاعر تھے اور داغؔ دہلوی کے شاگرد تھے۔ ان کا شعری مجموعہ ’’ مائل بہ کیف‘‘ ابھی حال ہی میں خود خالد یوسف نے چھپوایا ان کے دادا حافظ یوسف علی خاں تلہر میونسپلٹی کے ۱۳۔ سال تک چیئر میں تھے اور شعر بھی کہتے تھے مگر جب دیوانِ غالب ان کے مطالعے میں آیا تو اپنی بیاض شعر جلا ڈالی۔ دادا ہی کے نام کی رعایت سے خالد یوسف اور ان کے دیگر بھائیوں کے نام کے ساتھ ’’یوسف‘‘ کے لاحقے کا اضافہ ہوا۔
ہند و پاک میں جو سیاسی ابتری پائی جاتی ہے اس سے خالد یوسف کبیدہ خاطر تھے۔ دو رکعت کے اماموں سے بھی وہ نالاں تھے۔ ترقی پسند ضرور تھے مگر ترقی پسندوں کی عصبیت کو بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے کہ ترقی پسند صرف اپنے مسلک کے قلم کاروں ہی کے گن کا یا کرتے تھے اور آپس میں ایک دوسرے کی مدح سرائی میں مشغول تھے۔ خالد یوسف مذہبی اجارہ داری کے بھی خلاف تھے۔ ستارہ شناسی میں ایسا کمال حاصل کیا کہ آکسفورڈ میں باضابطہ آفس قائم کر کے لوگوں کو ان کی قسمتوں کا حال بتاتے تھے اور نجوم کے موضوع پر سمیناروں میں مقالے پڑھتے تھے۔
خالد یوسف اعلیٰ گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ خوب صورت ورزشی بدن کے مالک تھے اعلی عہدوں پر فائز تھے مشرق و مغرب کا حسن ان کے قدموں میں تھا۔ ان کے فکرو فن میں رومان ضرور تھا لیکن غالب حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ ظاہر ہے رومانی شاعری در اصل ہجر کی شاعری ہوا کرتی ہے اور جس شاعر کے لیے زلیخاؤں کی کوئی کمی نہ ہو وہ اپنے لیے انجمؔ ، سلمیٰ جیسے کردار نہیں گھڑا کرتا۔
اب کے ہم بچھڑیں تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سو کھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
کہنے کی اسے ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
اور پھر خالد یوسف کے پاس بھی جو رومانی لہجہ ہے وہ لازمۂ شعر ہے۔ مگر انھوں نے صرف نچلے دھڑ کی شاعری نہیں کی۔ ان کا اوپری دھڑ نچلے دھڑ پر حاوی ہے۔
ہندوستان سے پاکستان جانے والوں پر جو کچھ گزری اس پر بھی ان کی نظر تھی اور آج بھی ملک و ملت کے نام پر اور مذہب کے نام پر انسانیت کا جو کچھ خرابہ ہو رہا ہے وہ بھی ان کے پیش نظر رہا اور ان کے فکرو فن میں در آیا۔ ظاہر ہے چوما چاٹی کی شاعری کا دور لد گیا۔ اب اس قسم کی سستی شاعری سستے عوام سے بھلے ہی مشاعروں میں داد پالے مگر علمی سطح پر اسے چشم کم سے دیکھا جاتا ہے۔ مقصود الٰہی شیخ کے رسالہ مخزن ۸ (لندن) میں اختر شاہ جہاں پوری نے خالد یوسف کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا کہ ’’خالد یوسف کی غزلوں میں عاشقانہ اشعار تلاش بسیار کے بعد بھی شاید نہ مل سکیں‘‘۔
اس تبصرے پر رائے دیتے ہوئے میں نے خالد یوسف صاحب کو اپنے خط ۳۰ ؍جولائی ۲۰۰۹ء میں لکھا تھا کہ ’’زلیخائی غزلیں تو داغ، جگر، حسرت، شکیل، قتیل جیسے شاعر بہت کہہ چکے۔ اب وہ زمانے لد گئے‘‘۔
انھوں نے خط کا جواب دیتے ہوئے ۲۴ ؍ سمبر ۲۰۰۹ء کو لکھا تھا:
’’چوما چاٹی والی شاعری کی بھی ایک عمر ہوتی ہے جسے ہم برسوں پیچھے چھوڑ آئے اور پھر ہر شاعر کا مزاج بھی مختلف و منفرد ہوتا ہے‘‘
دونوں کے خط بڑے دلچسپ ہیں اس لیے پیش کیے جا رہے ہیں:
رؤف خیر کا خط خالد یوسف کے نام۔ (مورخہ ۳۰؍ جولائی ۲۰۰۹ء)
محترم خالد یوسف صاحب السلام علیکم
’’پرواز‘‘ (لندن ) جولائی ۲۰۰۹ء کے شمارے میں حضرت مائل تلہری کی کتاب ’’مائل بہ کیف‘‘ پر جناب اکبر حیدرآبادی کا پر مغز تبصرہ نظر سے گزرا۔ ماشاء اللہ مائل صاحب نے سخن میں اپنی پہچان قائم کی ہوئی تھی۔ یہی کیا کم ہے کہ یہ ’’ابو یوسف‘‘ ہیں۔ یوسف جسے ستارے سجدہ کرتے ہیں۔ بارہ کی قید نہیں ہے اور ان کا ’’مائل بہ قبلۂ‘‘ ہونا بھی ضروری نہیں۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ اگر اپنے دور کے یوسف ہیں تو وہ (حضرت مائل ) اپنے دور کے خالد گزرے ہیں۔ یہی ’’سیف اللہی‘‘ آپ کے قلم میں در آئی ہے اور یہ ضروری بھی ہے ورنہ ہر بونا سراٹھانے لگ جائے۔ اختر شاہ جہاں پوری نے مخزن ۸ میں ’’چار شعرائے مخزن‘‘ کے عنوان سے اپنے تعصبات (تاثرات بھی کہا جا سکتا ہے ) کا اظہار کیا ہے۔ انھیں آپ کے ہاں رومان کی کمی دکھائی دیتی ہے۔ بھائی۔ کیا ابھی تک چوما چاٹی کی شاعری ہی تغزل کہلائے گی ؟ دنیا کہاں سے کہاں نکل گئی۔ کتنے مسائل ہیں جو شعر بننے کے لیے بے تاب ہیں۔
ہم ہو گئے شہید یہ اعزاز تو ملا
اہل جنوں کو نقطۂ آغاز تو ملا
ہم کو جو سن رہا ہے وہ مخبر سہی مگر
محفل میں کوئی گوش بر آواز تو ملا
کسی نے ہم کو جو پتھر سمجھ کے پھینک دیا
تو سنگ میل بنے ہم، مسافروں میں رہے
قدم قدم پہ ہوئے بے وقار اہل سخن
جو مبتدی بھی نہ تھے ڈٹ کے ماہروں میں رہے
یہ وہم کی اک رات بھی چھٹ جائے گی آخر
اب جھوٹے خداؤں کو خدا کون کہے گا
اصل میں شعر چیزے دیگراست مگر یہ بات کیسے سمجھائی جائے قافیہ شناسوں کو بقول مومن
ع ان نصیبوں پر ہوا اختر شناس
آپ تو اختر شناسی کی سندرکھتے ہیں:
غزل کو چاہِ زنخداں سمجھ رہے ہیں رقیب
رموزِ شعر یہ مہمل نگار کیا جائیں
زلیخائی غزلیں تو داغؔ، جگر، حسرت، شکیل، قتیل، جیسے شاعر بہت کہہ چکے۔ اب وہ زمانے لد گئے۔ یہ لوگ بازار سے گزرے ہیں خریدار نہیں ہیں۔ حالانکہ
پردے تو ہماری ہی نگاہوں پہ ہیں ورنہ
جو کچھ بھی ہوا ہے سرِ بازار ہوا ہے
اب محفل جاناں میں چلو لے کے خرد بھی
جو صرف جنوں لے کے گیا خوار ہوا ہے
ان اشعار کا 9/11 واقعے سے کس قدر گہرا ربط لگتا ہے۔
بے سمت زندگی ہو تو بدتر ہے موت سے
مرتا نہیں ہے موت سے انسان کم سے کم
یہ ایسی کڑوی حقیقتیں ہیں جو شعر میں ڈھل کر مزہ دیتی ہیں۔ بقول خیرؔ
تلخی میں بھی مزہ ہے جو تو خوش مذاق ہے
پک جائے تو بھلی ہے نمبولی ہی کیوں نہ ہو
آپ نے حرف و صوت اور نقش و رنگ کے امتزاج کی خوب، صورت گری کی ہے
ہجوم رنگ کو ارژنگ ہم نہیں کہتے
غزل بھی صورت فرہنگ ہم نہیں کہتے
اس طرح آپ نے گویا اپنے شعری محاورے کا اشارہ دے دیا کہ وہ نہ تو ’’عبدالعزیز خالدیت‘‘ کا بوجھ سہار سکتا ہے نہ ’’داغ جگر‘‘ دکھا سکتا ہے۔
وفا کے تاج محل دوش پر اٹھائے ہوئے
ہم ایک شاہ جہاں ہیں مگر بھلائے ہوئے
عطا ہوئی ہے وہ توقیر روسیا ہوں کو
ہم اپنے شہر میں پھرتے ہیں منہ چھپائے ہوئے
اس طرح کے شعر کہنے کے لیے کلیجہ چاہئے۔ ’’لب سحر‘‘ سے کرنیں ’’چنگاریاں‘‘ بن کر یوں ہی نہیں پھوٹتیں۔ چلئے کسی بہانے آپ سے کچھ بات کرنے کی سبیل نکل آئی۔ ظاہر ہے اتنی گفتگو فون پر نہیں ہو سکتی تھی۔ سو۔ کاغذ و قلم کا سہارا لینا پڑا۔ اللہ کرے آپ بخیر ہوں۔ اور ہاں یہ آپ نے مجھے ’’ارژنگ‘‘ سے کیوں محروم رکھا ؟
آپ کا اپنا رؤف خیر
نوٹ: ۔ (اس خط میں جو اشعار درج ہوئے وہ سب کے سب خالد یوسف کے ہیں۔ لب سحر، چنگاریاں اور ارژنگ خالد یوسف کے شعری مجموعوں کے نام ہیں۔ )
مذکورہ بالا خط کا جواب ۲۴؍ستمبر ۲۰۰۹ء کو خالد یوسف صاحب نے یوں دیا:
برادرم رؤف خیر صاحب عید مبارک
امید کہ بخیریت ہوں گے۔ کچھ عرصے قبل آپ کا بے حد پر خلوص اور پر مغز مکتوب موصول ہوا تھا جس میں میرے کلام پر بے حد مثبت تبصرہ بھی کیا گیا تھا۔ ذرہ نوازی کا بے حد شکریہ۔ میں نے اسی وقت ’’ارژنگ‘‘ کی ایک کاپی مع مکتوب آپ کو بحری ڈاک سے بھجوا دی تھی۔ چونکہ یہ ڈاک خاصی تاخیر سے ملتی ہے اس لیے ممکن ہے آپ کو ابھی تک موصول نہ ہوئی ہو۔ بہر حال آپ کے مکتوب کی رسید تو مجھ پر یوں بھی قرض اور فرض ہے سو میں نے سوچا آپ کو مطلع کر دوں تاکہ اطمینان ہو جائے۔ اختر شاہ جہاں پوری اگر چہ میرے ہم وطن ہیں اور مہربان بھی۔ مگر میں ان سے کبھی نہیں ملا اور یہی رسالوں وغیرہ سے ان سے شناسائی ہے۔ نہ وہ میرے بارے میں کچھ جانتے ہیں اور نہ ہی غالباً جاننا چاہتے ہیں۔ چوما چاٹی والی شاعری کی بھی ایک عمر ہوتی ہے جسے ہم برسوں پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ پھر ہر شاعر کا مزاج بھی مختلف و منفرد ہوتا ہے۔ میں تو سات سال کی عمر سے شاعری کر رہا ہوں اور لڑکپن کے دور میں بہت سی ایسی نظمیں رومانی اور ہیجان خیز بھی لکھیں جیسےع سنبھل کر چلو اب جواں ہو گئی ہو،
مگر جب سے اپنے ملک سے باہر رسالوں میں چھپ رہا ہوں اس انداز کی شاعری کو طبیعت نہیں چاہتی ہے۔
غزل مزاج توہم بھی سدا کے ہیں لیکن
ابھی فضاؤں میں کچھ برہمی زیادہ ہے
پھر ہر انسان کا پس منظر مختلف ہوتا ہے۔ ہمارا گھرانہ تحریک پاکستان میں سرگرم تھا اور ہم اسی ملی اور قومی راستے سے ادب میں وارد ہوئے۔ اس لیے رومان کو ہمارے ہاں اُس دور میں بھی ثانوی حیثیت حاصل رہی جب آتش جوان تھا مگر اب بے سمت و بے مقصد لفاظی کرتے رہنے والوں کو کون سمجھائے ؟ آپ آج کل کیا کچھ لکھ رہے ہیں ؟ آپ کی نگارشات مختلف رسالوں میں نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔ آپ کا طرزِ نگارش مثبت اور تعمیری ہے اور حق پرستی کی رو حرف حرف میں موج زن نظر آتی ہے اور یہی ایک سچے مجاہد کی پہچان ہے۔ ہم اپنے قلم سے لاکھ کوئی نمایاں تبدیلی لا سکیں یا نہ لا سکیں مگر کم از کم ہمارا اپنا ضمیر تو مطمئن ہے۔
ہم نے ظلمت کا قصیدہ نہیں لکھا خالد
ؔ کی ہیں تخلیق فقط چاند ستارہ باتیں
’’ارژنگ‘‘ موصول ہو جائے تو تاثرات سے نوازئیے گا۔
ہماری جانب سے اہل خانہ کو سلام۔
خیر اندیش خالد یوسف
افسوس کہ خالد یوسف اب ہم میں نہیں رہے۔ ماہنامہ ’’پرواز‘‘(لندن ) کے اکتوبر ۲۰۰۹ء کے شمارے میں ان کے انتقال کی درد ناک خبر شائع ہوئی ہے۔ خالد یوسف کو ’’صاحب نظر‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ زبان و بیان پر انھیں کمال کی دسترس تھی۔ وہ مجھ پر مہربان تھے۔ میرے بارے میں انہوں نے ایک طویل مضمون بعنوان ’’سرچشمۂ دانش و سخن۔ رؤف خیر‘‘ لکھا تھا جو ’’پرواز‘‘ کے اسی شمارے میں شائع ہوا جس میں ان کے انتقال کی خبر چھپی تھی۔ کچھ لوگ جیتے جی مر جاتے ہیں اور کچھ لوگ مر کر بھی نہیں مرتے۔
اٹھ گئے دنیا سے فانیؔ اہل ذوق
ایک ہم مرنے کو زندہ رہ گئے
٭٭٭
دوستی زندہ ہے
(پرکاش فکری کے مکتوبات شکیل گوالیاری کے نام )
فنون لطیفہ کے لیے شہرت رکھنے والے پتھروں کے شہر گوالیار کی ہر دل عزیز شخصیت شکیل گوالیاری کے نام رانچی کے ایک فراموش کردہ شاعر پرکاش فکری کے خطوط شعر و ادب کی صورتِ حال کے جائزے پر مشتمل ہیں جو ہر دور میں تقریباً یکساں رہتی ہے۔
ان دنوں فون بلکہ موبائیل فون کی ایسی سہولت حاصل ہو گئی ہے کہ بچہ بوڑھا، عورت مرد، پست اقوام سے لے کر اعلیٰ طبقے کے لوگ رات اور دن کے کسی بھی لمحے ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرنے لگے ہیں۔ خط کاسارا رومانی حسن غارت ہو کر رہ گیا ہے۔
دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ تو پیغام زبانی اور ہے
ترے خطوں کے نہ ملنے کا دکھ الگ ہے، سوہے
حجاب سا مجھے آتا ہے ڈاکیئے سے مرے
خط کا انتظار پھر جواب اور جواب الجواب کا سلسلہ اردو ادب کا قیمتی اثاثہ رہا ہے۔ غالب نے اردو میں خط لکھنا سکھایا۔ علامہ اقبال کے خطوط ان کی شخصیت کے عکاس ہیں۔ شبلیؔ کے خطوط بھی عطیۂ فیض عشق سے سرشار ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد کے خطوط اگر مواغطہ حسنہ لیے ہوئے ہیں تو مکاتیب سرسید قوم و ملت کے درد کے غماز ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنے غبارِ خاطر کے ذریعے مکتوباتی ادب کو سرخ روئی عطا فرمائی۔ میں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ بعض مشاہیر نے اپنے ہی قلم سے اپنی قبریں بھی کھود ڈالی ہیں۔ افسوس کہ خطوط کی ادبی شان اور سماجی و ثقافتی حیثیت ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ خطوط جو کبھی ’’نقوش زنداں‘‘ کی صورت میں بنے بھائی کی زن مریدی کی کہانی سناتے ہیں تو کبھی صفیہ اختر کی جاں نثاری کی ’’زیر لب‘‘ روداد بیان کرتے ہیں۔ کبھی ’’لیلیٰ کے خطوط ’’مجنون کی ڈائری‘‘ کی بنیاد بن جانتے ہیں۔ غرض شاعر، ادیب، عالم و قائد کے خطوط آج بھی اس کے فکرو فن کی گواہی دیتے ہیں۔ پرکاش فکری کے ایسے ہی مکتوبات شکیل گوالیاری نے پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ دونوں کے مابین ’دوستی زندہ ہے‘‘۔
شکیل گوالیاری 24؍اکتوبر 1936ء کو گوالیار میں پیدا ہوئے۔ اردو اور انگریزی سے ایم اے کیا۔ ان کے شعری مجموعے ترکش۔ اور۔ آسماں پر آسماں کے علاوہ نثری کارنامہ ’’پتھروں کے شہر میں‘‘ رہنے والے ادیبوں شاعروں کے تذکرے پر مشتمل ہے شکیل گوالیاری کے منتخب اشعار ’’سفرنامہ ہوا کا‘‘ ڈاکٹر وویک اگروال چمن نے The Travelogue of Windکے عنوان سے انگریزی میں منظوم ترجمہ کیا ہے۔
پرکاش فکری رانچی کے شاعر جو ’’شب خون‘‘ میں دکھائی دیتے تھے اور گاہے گاہے دیگر رسالوں میں بھی جلوہ افروز ہوا کرتے تھے۔ وہ مشاعروں اور نشستوں میں شریک نہیں ہوتے تھے اور اپنے اشعار کسی کو سناتے بھی نہیں تھے۔ ویسے بھی وہ جس قسم کے شعر کہا کرتے تھے وہ مشاعروں یا نشستوں میں کم کم ہی داد پاتے ہیں پرکاش فکری نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ مشاعرہ باز شاعروں کی طرح شعر پڑھ بھی نہیں سکتے۔ ان کا اصل نام تو ظہیر الحق تھا مگر پتہ نہیں کس مصلحت کے تحت انھوں نے خود کو ہندیا لیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ وہ پانچ چھے اشعار کہتے کہتے ہی ہانپنے لگتے تھے۔ مزے کی بات یہ کہ وہ کسی اچھے شاعر کی اچھی غزل پڑھنا بھی نہیں چاہتے تھے مبادا وہ تخلیق ان کے فکر و فن پر اثر انداز ہو جائے۔ وہ کہتے ہیں:
’’غزلوں سے میں سرسری گزرتا ہوں۔ خصوصاً ً ان کی غزلوں سے جن کے انداز کی گرفت بڑی مضبوط ہوتی ہے۔ میں اس گرفت سے خود کو بچانا چاہتا ہوں۔ اس Categoryمیں آپ (شکیل گوالیاری ) کے اشعار بھی آتے ہیں۔ خدا کرے آپ بخیر ہوں۔‘‘(پرکاش فکری )
انھوں نے اپنے بارے میں بڑی بے تکلفی سے یہ بھی تسلیم کیا ہے:
’’ویسے طبیعت تو میری بھی ادھر (مشاعروں کی طرف ) کبھی نہیں آتی۔ پڑھنا وڑھنا آتا نہیں ہے۔ لٹکے جھٹکے میں جانتا نہیں۔ پرسنالٹی نام کی کوئی چیز سرے سے ہے ہی نہیں۔ نام بھی ایسا نہیں بلکہ قطعی نہیں کہ نام پکارا جائے تو لوگوں کے کان کھڑے ہو جائیں اور پھر میں اس بات پر یقین ہی نہیں رکھتا کہ شاعری مجمعے میں سنانے کی چیز ہے۔ شاعری صرف اور صرف پڑھنے کی چیز ہے۔ یہاں مشاعروں کا یہ عالم ہے کہ شعر زبان سے نکلا نہیں کہ واہ واہ کی دھوم مچ گئی۔ جس میں داد کم اور ہوٹنگ زیادہ۔ مشاعرے والے شاعر بڑی موٹی کھال کے ہوتے ہیں۔۔ ۔‘‘
پرکاش فکری کا اپنا زاویۂ نظر ہے۔ وہ چونکہ خود معترف ہیں کہ انھیں پڑھنا وڑھنا تو آتا نہیں اسی لیے مشاعرہ باز شعرا پر چوٹ چلتے ہیں۔ اس کے بر خلاف مشاعرہ بازوں کا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ اچھا شعر کہنا تو بس وہی جانتے ہیں جو عوام سے اتنی داد بٹور تے ہیں ورنہ چھپنے والے شعراء ایسے مقبول عام شعر کہہ کر تو دکھائیں۔ یہ بات عموماً ایک ایسے Draggingترنم والے شاعر کہتے ہیں جن کے ترنم میں بڑے Speed Breakersآتے ہیں۔
البتہ پرکاش فکری اپنے نام سے بڑا فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ عوام الناس اس غلط فہمی میں داد سے نوازتے کہ ہندو ہو کر بھی اردو میں شاعری کر رہا ہے مسلم اور غیر مسلم مدیران کرام بھی تالیف قلب کے طور پر پذیرائی کرتے۔ مگر افسوس انھوں نے اپنے نام کو Cashنہیں کروایا۔ لے دے کے ’’نظام شمسی‘‘ کا حصہ بنے رہے اور ’’شب خون‘‘ میں مصروف رہے۔ نام کا اثر ضرور ہوتا ہے۔ چنانچہ اپنے ایک خط میں وہ شکیل گوالیاری کو لکھتے ہیں:
’’آپ روزے رکھ رہے ہوں گے۔ یہ سعادت مندیاں اپنے نصیب میں کہاں ! ضرورت سے زیادہ باقاعدگی تخلیق کاری کے لیے مفید نہیں ہوتی‘‘۔
سری پرکاش فکری نہ صرف خود روزوں کی سعادت سے محروم ہیں بلکہ شکیل گوالیاری صاحب کو بھی اس قسم کی با قاعدگی سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔
جناب شکیل گوالیاری بڑی مروتوں کے آدمی ہیں۔ تہذیبی رکھ رکھاؤ نے انھیں اجازت نہیں دی کہ وہ پرکاش فکری کے خطوط میں ایسے نام شامل رکھیں جن پر فکری نے سخت ریمارک کیا ہے۔ جیسے
’’(۔۔ ۔) بلاشبہ اچھا شاعر ہے لیکن بے حد ذلیل اور چھچھورا ہے اور بے حیا بھی ہے۔ اتنا خوار ہوتا ہے مگر اسے اپنی خواری اور اپنی بد بودار شخصیت کا ذرا احساس نہیں۔ اب پدم شری بن کر اپنے وطن پرست ہونے کا ڈھنڈ و را پیٹ رہا ہے۔ اسے پدم شری بنانے میں اس کی بیوی نے کتنی محنت کی ہے، اس کا دل ہی جانتا ہے‘‘۔
اس سخت ریمارک کی زد میں ہلال سے بدر بننے والی ہستی تک ارباب نظر پہنچ ہی جاتے ہیں۔ مگر بعض نام شکیل صاحب نے پرکاش فکری کے خطوط میں رہنے بھی دئیے۔ جیسے ’’ کیا قاصر مجیبی! اور کیا ’’رنگ‘‘ کے مدیر اعظم ! ان کی ادبی حیثیت ہی کیا ہے‘‘ بعض شخصیات کے لمحاتی کردار سے نقاب ہٹتا ہے تو حیرت تو ہوتی ہے جیسے حبیب احمد (بھوپال ) نے اپنی کتاب ’’بین السطور‘‘ میں سردار جعفری اور حبیب تنویر کے ہلکے ہونے کا ایک واقعہ لکھا ہے:
(ملاحظہ ہو صفحہ 84)
’’ایک مشاعرہ پڑھ کر بمبئی لوٹے تو سردار (جعفری ) نے حبیب تنویر سے کہا ’’حبیب بہت دن ہو گئے ہیں اب ہلکا ہونا چاہئیے‘‘ کچھ میری طبیعت بھی اس طرح (طرف ) راغب ہو رہی تھی چنانچہ ہم دونوں ایک مقر رہ جگہ پہنچے اور متعلقہ خاتون سے معاملہ طے ہوا۔ اس نے ہم دونوں کے نام پوچھے سردار نے اپنا اور میں نے نام حبیب احمد خاں بتایا۔ اس نے سردار کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا ’’پہلے تم آؤ۔‘‘ سردار نے پوچھا پہلے میں کیوں ؟ اس نے کہا کہ ’’تمہارا جھنڈا جلدی جھک جائے گا اور میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ پٹھان ہے اس کا جھنڈا دیر تک سیدھا رہے گا۔۔ ۔‘‘
پرکاش فکری کے خطوط سے بعض نام حذف کر کے شکیل گوالیاری صاحب در اصل اپنی نیک نفسی کا ثبوت دینا چاہتے ہیں تاکہ ان کا جھنڈا سرنگوں نہ ہو۔
’’دوستی زندہ ہے‘‘ صرف 43صفحات پر پھیلے ہوئے بائیس 22خطوط پر مشتمل ہے جس میں شکیل گوالیاری صاحب کے شعر اور شخصیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ دونوں حضرات میں کبھی شخصی ملاقات نہیں ہوئی۔ شکیل صاحب کے ادبی پس منظر کی روشنی میں یہ یقین کیا جا سکتا ہے کہ ان کی مراسلت ہند و پاک کی اہم شخصیات سے رہی ہوں گی۔ وہ ایسے تمام خطوط یکجا کر دیتے تو اس کتاب کی اہمیت بڑھ جاتی۔ اس کتابچے میں تو بعض نام تک حذف کر دیئے گئے ہیں۔ بقول قتیل شفائی
صرف اک جنبش لب وہ بھی صدا سے خالی
یہ بھلا کونسا انداز ہے سرگوشی کا
اس کتابچے پر قیمت ہی درج نہیں ہے۔ اسے شکیل گوالیاری، لوہا گڑھ، لشکر گوالیار 474001سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
٭٭٭
خوش کردار حالیؔ
(اپنے مکتوبات کے حوالے سے )
مجھے نہیں معلوم اردو ادب میں خواجہ الطاف حسین حالیؔ جیسا پکّا موحد، غیر نزاعی شریف النفس اور خوش کردار شاعر بھی کوئی گزرا ہے جس کی تخلیقی نثر نے بھی اپنا لوہا منوا کر چھوڑا ہو۔ ہر بڑے سے بڑے آدمی کی شخصیت میں کوئی نہ کوئی جھول ضرور ہوتا ہے مگر حالی میں عیب تلاش کرنے والے کا خود بے عیب ہونا ضروری ہے اور بے عیب اللہ کی ذات۔ شخصی خرابی نہ ڈھونڈ پانے والوں نے حالی کی مسدس ’’مدو جزر و اسلام‘‘ میں زبان و بیان کی کوتاہیاں تلاش کرنے میں پناہ ڈھونڈی۔ دنیا کا کوئی ادیب شاعر یہ دعوی کر ہی نہیں سکتا کہ وہ ہر اعتبار سے مستند ہے۔ مثال مشہور ہے ہر فرعونے راموسی۔
خدائے سخن کے کلام کے بارے میں کہا گیا پستش غایت پست، غالب محض اپنا وظیفہ واگذاشت کروانے کے لیے قصیدے پر قصیدہ قصیدے پر قصیدہ لکھ کر دہلی سے کلکتے کا رخت سفر باندھتا ہے اور میاں داد خاں سیاح کے کندھے پر بندوق رکھ کر ’’ کھتری بچے قتیل‘‘ کے حواریوں کو نشانہ بناتا ہے۔ (ملاحظہ ہو ’’لطائف غیبی‘‘)
’’مومن نہیں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم‘‘ کہنے والا اختر شناس کوچۂ عشق میں سرگرداں جفرو رمل میں داد تحقیق بھی دیتا ہے۔
شبلی اور اقبال عمروں میں تفاوت کے باوجود عشق کو عطیۂ خداوندی سمجھتے تھے اور فیضیاب ہونا چاہتے تھے اور معشوق بھی دونوں کے عشق کے مزے لے رہا تھا۔ مگر حالی کا کردار منفرد مرد مومن کا کردار نظر آتا ہے اور نظم و نثر کی ہر سطح پر ان کی لگن بس اتنی دکھائی دیتی ہے۔
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں
ان کی خدمات انمول ہیں۔ ان کے ہر ہر پہلو پر الگ الگ گفتگو کی جار ہی ہے اور کی جا سکتی ہے۔ مگر یہاں میں ان کے چند مکتوبات کے حوالے سے ان کی خوش کرداری پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔
آج سے ایک سو سال پہلے شمس العلماء مولانا خواجہ الطاف حسین حالی کے لکھے ہوئے خطوط ان کے کردار کے مثبت پہلو ہی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جہاں تک مکتوبات کا معاملہ ہے آدمی اپنے قلم سے اپنی قبر بھی کھود تا ہے۔ بشرطے کہ یہ خطوط غبارِ خاطر ’’نکالنے کے لیے نہ لکھے گئے ہوں۔ جاں نثار اختر کی بیوی بلکہ جیتے جی بیوہ کے خطوط جہاں اس برہن کی مظلومیت اور وفاپرستی کی ’’زیر لب‘‘ روداد سناتے ہیں وہیں اپنی بیوی رضیہ کے نام بنے بھائی کے خط ان کی زن مریدی پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں مارچ 1940ء سے مارچ 1942ء تک پورے دو سال غریب سجاد ظہیر جیل میں زندگی گزارتے ہوئے رضیہ کو خط پہ خط خط پہ خط لکھتا ہے مگر وہ اس سے ملنے کے لیے ایک دفعہ بھی نہیں جاتی۔ (ملاحظہ ہو نقوش زنداں )
عزیز احمد جیسا متمول بڑا عہدہ دار محض تیس چالیس روپے کے معاوضے کے لیے مدیر نقوش، محمد طفیل سے سودے بازی کرتا ہے۔ حالی کے خطوط پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا میں ایسے شریف آدمی بھی ہوتے ہیں۔ سرسید کے تعلق سے ’’حیات جاوید‘‘ کی اشاعت کے بارے میں پانی پت سے مولوی عبدالحق کے نام ایک خط مورخہ ۷؍مئی ۱۹۰۱ء میں لکھتے ہیں خط کا ضروری اقتباس پیش ہے:
’’شاید آپ کو معلوم نہ ہو اس کتاب کی تیاری یں اس قدر روپیہ صرف ہو گیا ہے کہ اگر کل کتابیں فروخت ہو جائیں تو بھی امید نہیں کہ اصل لاگت وصول ہو مگر میں خوش ہوں کہ ایک بہت بڑے فرض سے جو تمام قوم کے ذمے تھا کسی قدر سبک دوشی ہو گئی ہے۔۔ ۔ میں ہر گز یہ خیال نہیں کرتا کہ میں نے اس عجیب و غریب شخص کی بائیوگرافی لکھنے کا پورا پورا حق ادا کر دیا ہے بلکہ مجھے اپنی کم زور یاں اور لغزشیں بخوبی معلوم ہیں اور میں علی الاعلان اقرار کرتا ہوں کہ مجھ سے اس بائیوگرافی کا حق ادا نہیں ہو سکا لیکن میں نے اپنی طرف سے کوشش کرنے میں کمی نہیں کی اور چھے برس تک اس کام کے سوا دوسری طرف متوجہ نہیں ہوا۔ کسی متنفس نے قلم سے یا درم سے براہ راست ا س کام میں مجھے مدد نہیں دی (الا ماشاء اللہ )پس اگر چہ یہ کام فی نفسہ کچھ قدر کے لائق نہ ہو مگر اس لحاظ سے کہ میں نے اس کے سرانجام کرنے میں اپنی پوری طاقت صرف کی ہے، ضرور توجہ کے لائق ہے۔۔ ۔‘‘
دیکھیئے کیسے انکسار کے ساتھ حالی اپنے ایک اہم کارنامے کو بھی معمولی بنا کر پیش کرتے ہیں جب کہ شبلی اسے ’’ کتاب المناقب اور مدلل مداحی‘‘ کہہ کر مذاق اڑاتے ہیں اور مزے کی بات یہ کہ ’’مدلل‘‘ کا لفظ ہی حالی کی عرق ریزی پر دال ہے۔
اسی مذکورہ خط میں حالیؔ نے مسدس کی نکاسی کی دشوار یوں پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے لکھا:
’’میں اس موقع پر آپ کو اک واقعہ سناتا ہوں۔ جب میں نے مسدس مد و جزر اسلام کا پہلا ایڈیشن نکالا اور اس کی ایک جلد سرسید مرحوم کے پاس بھیجی تو بغیر اس کے کہ میں نے اس مرحوم سے کوئی درخواست کی ہو فوراً مجھ سے پوچھا کہ آپ نے اس کی کتنی جلدیں چھپوائی ہیں۔ میں نے جواب لکھ بھیجا۔ انھوں نے اسی وقت ایک فہرست اپنے احباب کی مجھے لکھ کر بھیجی کہ اتنی جلد یں فلاں دوست کو اتنی فلاں کو اور اتنی وہاں اور اتنی وہاں بھیج دو اور اپنے دوستوں کو لکھ بھیجا کہ کتابیں پہنچتے ہی قیمت مصنف کے پاس بھیج دیجئے۔ چنانچہ مہینہ ڈیڑھ مہینے میں جس قدر جلدیں چھپوائی تھیں سب فروخت ہو گئیں اور دوسرا ایڈیشن چھپوانے کی ضرورت ہوئی۔ افسوس ہے کہ یہ خیالات وہ شخص اپنے ساتھ لے گیا۔ اب ان کے بڑے بڑے ذی مقدور دوست اس بات کے متوقع ہیں کہ ان کی جناب میں کتابیں مفت نذر کی جائیں۔ بعضے۔ قیمت بہت گراں بتاتے ہیں اور یہ تو کسی سے بھی امید نہیں کہ مصنف کی محنت کی کچھ داد دی جائے یا کچھ قدر کی جائے۔
سوختیم و سوزش مابر کسے ظاہر نشد
چوں چراغانِ شب مہتاب بے جا سو ختیم
ترجمہ:
ہم یوں جلے کہ ہمارا جلنا کسی پر کھل نہ سکا گویا ہم چاندنی رات میں چراغوں کی طرح بے مصرف جلتے رہے
خاکسار۔
الطاف حسین حالیؔ ‘‘
ایک سو سال پہلے جو صورتِ حال مولانا حالی نے بتائی ہے وہی آج بھی ہے۔ ہر صاحب استطاعت خوش ذوق آج بھی ادیب و شاعر سے یہ توقع کرتا ہے کہ اس کی کتاب اسے مفت پیش کی جائے۔ تقریباً ہزاروں روپیہ ماہانہ آمدنی والا بھی سو دوسو روپے کی کتاب خریدنا نہیں چاہتا۔ شاعر ادیب کی کتاب مفت تقسیم ہوتی ہے۔ کچھ اداروں کی برکت سے جزوی مالی اعانت نصیب ہوتی ہے اور کچھ ادارے ٹھوک خریداری Bulk-Purchaseسے اسے نوازتے ہیں تو اس کا خرچ اقساط میں نکل آتا ہے یوں پابجائی ہو جاتی ہے۔ اس میں شک نہیں Hot-Cakeکی طرح صرف وہی کتابیں بکتی ہیں جو عوام الناس کے عامیانہ ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ ’’شہر ممنوع‘‘ میں لحاف کے اندر بھی ہو تو ٹھنڈے گوشت کی بو سونگھتے ہوئے کچھ خوش نظر ایسی بلندی ایسی پستی سے گزر جانے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ حالی نے بڑے انکسار سے جسے ’’ابالی کھچڑی‘‘ کہا تھا وہ تو حیدرآبادی بریانی سے بھی زیادہ ذائقہ دار نکلی اس کے باوجود خواص کی خوش ذوقی سے شکوہ ہمیشہ رہا ہے۔ حالیؔ نے بڑے دکھ کے ساتھ اپنے ایک خط مورخہ ۱۰؍فروری ۱۹۰۲ء کو پانی پت سے مولوی عبدالحق کو لکھا تھا۔ (اقتباس ملاحظہ کیجئے )
’’کتابوں کے معاملے میں مجھ سے ایک سخت غلطی ہو گئی۔ منظور یہ تھا کہ دوسرا ایڈیشن ایسا چھپوایا جائے جس کی قیمت تین سوا تین روپیہ سے زیادہ نہ ہو کیوں کہ سرسید کی لائف دیکھنے کے زیادہ تر وہ لوگ مشتاق ہیں جو زیادہ قیمت کی کتاب نہیں خرید سکتے اور چونکہ ہر سال حیدرآباد میں ڈھائی سو کلدار
(روپیہ ) کی کتابیں خریدی جاتی تھیں اس لیے امید تھی کہ ۱۹۰۲ء کے ختم ہونے تک پہلا ایڈیشن نکل جائے گا مگر کچھ تو اس وجہ سے کہ دوسال سے وہاں کتابیں نہیں خریدی گئیں اور کچھ اس سبب سے کہ دربار سے پانچ چھے مہینے پہلے سے کتابوں کی فروخت عموماً ہندوستان میں بند ہو گئی۔۔ ۔ خدا آپ کا بھلا کرے کہ آپ نے ان کے فروخت ہونے کی امید دلائی ہے۔ مگر میں حیران ہوں کہ ایسا کون قدر دان پیدا ہوا ہے کہ پوری قیمت پر ایک معقول تعداد ’’حیات جاوید‘‘ کی خرید نے پر آمادہ ہے۔ بہرحال اگر ایک معقول تعداد ’’حیات جاوید‘‘ کی کوئی شخص خریدے گا تو میں بہت خوشی سے بجائے بیس روپیہ سیکڑے کے جو ڈیوٹی شاپ کو دی جاتی ہے، پچیس فی صدی کمیشن دینے کو تیار ہوں لیکن ریل کا کرایہ خریدار کے ذمے ہو گا‘‘۔۔ ۔
خاکسار۔ الطاف حسین
یاد کیجئے اسٹار پبلی کیشنز دہلی والے نایاب کتابیں ایک روپیہ فی کتاب بیچا کرتے تھے۔
ایک بڑا دل چسپ ریمارک بھی حالی نے ۲۴؍مارچ ۱۹۰۲ء کے خط بنام مولوی عبدالحق میں کیا ہے:
ہندوستان میں کوئی عمدہ رسالہ نہیں چل سکتا۔ معارف(مدیر وحید الدین سلیم)۔ ادیب۔ حسن اور دیگر عمدہ میگزین چند روز دنیا کی ہوا کھا کر نوبت بہ نوبت راہی ملک عدم ہو گئے۔ پھر (رسالہ) افسر کے چلنے کی کیا امید ہو سکتی تھی۔ جس کی خریداری کا مدار زیادہ تر مسلمانوں پر ہو گا اس کا رونق اور فروغ پانا معلوم !‘‘
والسلام۔ خاکسار حالی
آپ ہم جانتے ہیں کہ اردو کے کتنے ہی رسالے آج قصۂ پارینہ ہو گئے۔ بیسویں صدی جیسا مقبول ترین رسالہ بند ہو گیا۔ معموں کی برکت سے سہی لاکھوں کی تعداد میں روشنی دینے والی ’’شمع‘‘ گل ہو گئی۔ شب خون مارنے کی ’’تحریک‘‘ جاتی رہی۔ مسلمانوں کی خوش ذوقی کا ماتم حالی نے بھی کیا تھا ہم بھی کرتے ہیں۔
حالیؔ کے خلاقانہ ذہن کی داد دیجئے کہ ایک سو سال پہلے انھوں نے چند لفظوں میں اک آگ چھپا دی تھی۔ آج یک سطری نظمیں یا یک مصرعی نظمیں کہی جا رہی ہیں مگر برسوں پہلے حالی نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے ہر چند کہ یہ کارنامہ حالی نے بزبان فارسی انجام دیا ہے مگر یہ فارسی اردو سے بے حد قریب ہے۔ حالی نے چند عنوانات کی جو طنز یہ تاویل کی ہے وہ بڑے مزے کی ہے۔ خط مورخہ ۵؍اگست ۱۹۰۲ء کو مولوی عبدالحق کے نام لکھتے ہیں:
’’میں نے ایک النامہ فارسی زبان میں لکھنا شروع کیا تھا۔ پچاس ساٹھ جملے لکھے تھے۔ اب بہت دن سے کچھ نہیں لکھا۔ اگر وہ پورا ہو گیا یعنے پورے سو جملے بھی لکھے گئے تو دکن ریویو کے لیے بھیجوں گا۔ مگر میں اس کے ساتھ اپنا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتا۔ اس میں ہر فرقے اور ہر گروہ پر چوٹ ہے اور ہزل و تمسخر کے پیرائے میں فیکٹس(Facts) بیان کیے گیے ہیں۔ چند جملے آپ کی ضیافت طبع کے لیے نمونے کے طور پر یہاں لکھتا ہوں:
المذہب : اعلان جنگ۔
ا لدین : تقلید آباء و اجداد (مخفی مباد کہ حالیؔ غیر مقلد تھے )
العلم : قسمے از جہل مرکب۔
الامتحان : آزمائش لیاقتِ ممتحنان
الیونیورسٹی : کارخانۂ کلرک سازی۔
المسلمانان ہند: چوں مار گزیدہ ازریسمان ترسندگان
(جس طرح سانپ کا ڈسا رسّی کو بھی سانپ سمجھ کر ڈرتا ہے )
العلی گڑھ کالج : پرورش گاہ طفلان بدست مائندران
(دروغ گو کے ہاتھوں بچوں کی پرورش کا میدان )
الانجمن ہائے اسلامیہ : سبزۂ برشگال (ساون کی ہریالی )
الاتفاق درمسلمانان : چوں اجتماع در نقیضین:
(اسے اجتماع ضدین بھی کہہ سکتے ہیں مگر لغاتِ کشوری میں بتایا گیا کہ ضد اور نقیض میں فرق ہے۔ نقیض وہ ہے کہ جو نہ ایک ساتھ میں جمع ہو سکے اور نہ معدوم ہو سکے۔ جیسے ہست اور نیست موت اور زندگی یعنے ان دونوں میں سے ایک حالت رہے گی )
الرئیس : آں کہ از ریاست بے خبر باشد۔
الا امیر : آں کہ تہی دست و قرضدار باشد
المولوی : آں کہ مسلماناں را از دائرۂ اسلام خارج می کردہ باشد
(وہ جس نے کہ مسلمانوں کو اسلام سے خارج کیا ہوا ہے )
الواعظ : آں کہ در تفریق بین المسلمین خطا نہ کند۔
(وہ جس مسلمانوں میں تفریق ڈالنے میں نہ چوکے )
الشکار : بہانۂ آدم کشی
یہ جملے مسودہ دیکھ کر نہیں لکھے اس لیے ان میں ترتیب باقی نہیں رہی۔ اگر آپ کو یہ جملے پسند ہوں تو مجھے لکھیے تاکہ ان کی تعداد سو تک پہنچا کر آپ کو لکھ بھیجوں مگر میرا نام کسی پر ظاہر نہ کیجئے گا ورنہ اخفا کرنا نا ممکن ہو گا‘‘۔۔ ۔
راقم آپ کا صادق دوست۔ الطاف حسین حالیؔ
مرزا غالبؔ کے ایک شاگرد نے لکھا کہ پہلی بیوی چل بسی تو دوسری شادی کی تھی وہ بھی چل بسی استاد اب کیا کروں۔ غالب نے کہا تھا تم عورت ذات پر رحم کرو۔ پھر یہ بھی لکھا تھا کہ میاں بڑے خوش قسمت ہو کہ دو دو بار رہائی پائی۔ یہاں یہ حال ہے کہ روز اول جو طوق گلے کی زینت بنا ہے تو نہ وہ طوق ہی ٹوٹتا ہے نہ گلا۔
مگر حالیؔ اس معاملے میں کچھ اور نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ حالیؔ کے ایک عزیز حافظ یعقوب صاحب مجددی کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ لاہور سے حالیؔ نے انھیں پرسہ دیتے ہوئے اپنے ایک خط مورخہ ۲۴؍فروری ۱۸۸۷ء کو لکھا:
’’مکرمی وشفیقی حافظ صاحب دام مجدہم۔ السلام فاتحتہ الکلام
آپ کا خط پڑھ کر سخت افسوس اور رنج ہوا۔ اگرچہ آپ کی طرف سے اطمینان ہے کیوں کہ آپ ایسے حوادث پر صبر کرنے کی قدرت رکھتے ہیں لیکن صغرسن بچوں کا اللہ ہی مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ اس مرحومہ کو غریق رحمت کرے اور آپ کو صبر جمیل عطا کرے اور بچوں کو اپنے سایۂ رحمت میں تربیت فرما دے۔ اگرچہ یہ موقع نصیحت و پند کرنے کا نہیں ہے مگر میں اس مقام پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ خدا کے کام حکمت اور مصلحت سے بھرے ہوتے ہیں۔ بہت سی باتوں کو ہم مکروہ جانتے ہیں مگر وہ ہمارے حق میں اکسیر کا حکم رکھتی ہیں۔ اتفاقات تقدیری سے جو آپ کو یہ آزادی حاصل ہو گئی ہے اس کی قدر کرنی چاہئیے اور اس سے کچھ کام لینا چاہئیے۔ آپ کو معلوم ہے کہ سید احمد خاں صاحب نے جو اس قدر شہرت اور عزت ملک اور قوم کی نظر میں حاصل کی ہے اس کا کیا سبب ہے؟ میں یقیناً کہہ سکتا ہوں کہ صرف اس وجہ سے ان کو یہ رتبہ حاصل ہوا کہ ان کی اہلیہ ان کی جوانی میں مر گئی تھیں۔ بہت سے لوگوں نے ان کو دوسری شادی کی صلاح دی مگر انھوں نے ایک نہ مانی، اور اپنے بچوں کو اپنے کنار شفقت میں لیا اور ان کی تعلیم و تربیت میں کوشش کی اور اپنی دماغی طاقتوں سے جو بہ سبب تجرد کے اور زیادہ سرسبز اور شگفتہ ہو گئی تھی، وہ کام لیے جنھوں نے آج ان کو تمام ہندوستان بلکہ تمام دنیا میں مشہور اور نامور کر دیا۔ اگر وہ دوسری شادی کر لیتے تو ہرگز یہ رتبہ ان کو حاصل نہ ہوتا آپ کے لیے یہ نہایت عمدہ موقع ہے کہ آپ ہمہ تن اولاد کی تربیت میں مصروف ہو جائیے۔ اور نوکری بھی چاہو کرو چاہو نہ کرو اور اگر زیادہ ہمت ہو تو خود بھی تحصیل علم کرو اور ہرگزدودوسرا خیال دل میں نہ لاؤ۔ میں سچ کہتا ہوں کہ پھر نہ اولاد کی تم کچھ خبر لے سکو گے اور نہ اپنی زندگی کا کچھ مزہ اٹھاؤ گے بلکہ زندگی تلخ ہو جائے گی اور اولاد بے علم رہ جائے گی اور ان کو آپ سے کچھ محبت اور الفت نہ رہے گی۔ اگر ان کو اپنا قوت بازو بنانا چاہتے ہو اور اپنی زندگی کو تلخ کرنا نہیں چاہتے اور اولاد کو علم و ہنر سکھانا چاہتے ہو تو کمال صبر و سکون اور عفت و پاک دامنی کے ساتھ تجرد اور آزادی میں بسر کرو۔ آئندہ آپ کو اختیار ہے۔
بر رسولاں بلاغ باشدو بس۔ زیادہ دعا و سلام
خاکسار الطاف حسین از لاہور ایچپسن کالج (۲۴؍فروری ۱۸۸۷ء)
حالیؔ کی اپنی ازدواجی زندگی بڑی تلخ تھی اس لیے بھی شاید انہوں نے اپنے دوست کو دوسری شادی سے رکے رہنے کا مشورہ دیا۔ سوتیلی ماں کا بُرا امکانی سلوک بھی اولاد کی تربیت میں حائل ہونے کا اندیشہ رکھتا ہے۔ مگر سرسید کے ایثار کے باوجود سرسید کی اولاد کا یہ حال تھا کہ ان کے دونوں بیٹے رات دن شراب میں غرق رہا کرتے تھے۔ بڑا بیٹا مہاجنوں سے قرض لے لے کر پیتا رہا اور مر گیا اور وہ سارا قرض سر سید کو چکانا پڑا۔ دوسرے بیٹے جسٹس محمود نے خود سرسید کو اپنی حویلی سے نکال دیا تھا اور آخر کار سر سید کی میت چندے سے اٹھائی گئی تھی۔
اس کے علاوہ مقدمۂ شعرو شاعری لکھنے سے پہلے حالیؔ نے ۹؍جنوری ۱۸۸۲ء کے اپنے خط میں حافظ سعد اکبر عثمانی کو لکھا تھا کہ وہ ایک کتاب ’’مزھر‘‘ فراہم کریں جو مصر کی چھپی ہوئی ہے اور اصول لغت میں جلال الدین سیوطی نے لکھی ہے جس کی ضخامت ’’شرح وقایہ‘‘ سے کچھ زیادہ ہو گی۔
مولوی عبدالحق نے اپنے نقد و تبصرہ ’’جدید اردو لٹریچر کے مشہور مصنفین پر رسالہ ’’افسر‘‘ میں فرہنگ آصفیہ کے مؤلف سیدا حمد صاحب احمدؔ کا تو ذکر کیا تھا مگر شبلی نعمانی کو نظر انداز کر دیا تھا۔ حالانکہ فرہنگ آصفیہ کے مولف مولوی سید احمد مولانا الطاف حالیؔ کے شاگرد رشید تھے اس کے باوجود حالیؔ کی حق گوئی و بے باکی دیکھیے کہ ان پر ’’ مدلل مداحی‘‘ کی چوٹ چلنے والے شبلی کے تعلق سے کس قدر نرم گوشہ رکھتے تھے۔ ایک خط جس پر تاریخ درج نہیں ہے مولوی عبدالحق کے سہو پر توجہ دلاتے ہوئے انھیں لکھتے ہیں:
’’جن لوگوں کو آپ نے اس غرض سے انتخاب کیا ہے کہ ان کے کلام پر کرِٹکل ایسے (Critical Essay)لکھے جائیں ان میں سے ایک شخص کا نام ہونے سے اور ایک کا نہ ہونے سے نہایت تعجب ہوا۔ مولوی سید احمد میرے نہایت دوست ہیں اور اردو ڈکشنری لکھنے میں جو محنت اور استقلال انہوں نے دکھایا ہے اس کی دل سے قدر کرتا ہوں۔ ان کی ڈکشنری پر ۸۸ء میں ایک لمبا ریویو میں خود لکھ چکا ہوں مگر ماڈرن اردو لٹریچر کا ہیرو میں ان کو نہیں کہہ سکتا اور اس سے بھی زیادہ تعجب شمس العلماء مولوی شبلی نعمانی کا نام چھوڑ دینے پر ہے۔ اس فرو گذاشت کو سوا اس کے کہ آپ کو انتخاب کرتے وقت ان کا خیال نہ آیا ہو، میں اور کسی بات پر محمول نہیں کر سکتا۔۔ ۔‘‘
خاکسار حالیؔ
قصائد کو عفونت میں سنڈاس سے بھی بدتر قرار دینے والے حالیؔ سے نظام دکن میر محبوب علی خاں آصف جاہ سادس کے جشن جوبلی کے موقع پر قصیدے کی فرمائش کی گئی تھی۔ حالیؔ نے مولوی عبدالحق کے نام ۱۷؍ نومبر ۱۹۰۵ء کے خط میں چند اطلاعات فراہم کرنے کی گزارش کی۔ ملاحظہ فرمائیے:
۱۔ حضور کی جو بلی کا جشن جو ماہ آئندہ میں ہونے والا ہے یہ کتنے سال کی جوبلی کا جشن ہے ؟ (یعنے سلور جوبلی ہے یا گولڈن جوبلی ؟۔ خیر)
۲۔ برٹش گورنمنٹ کے عطا کردہ خطابات اور ان کے پورے القاب۔
۳۔ حضور کون سے نمبر کے نظام الملک یا آصف جاہ ہیں ؟
۴۔ حضور نے اپنے عہد حکومت میں کون کون سے عمدہ کام کیے اور ریاست حیدرآباد سے ہندوستان میں کہاں کہاں نیک اور رفاہ عام کے کاموں میں مدد دی جاتی ہے
۵۔ حضور کی ذات میں کون کون سی ایسی نیک اور پسندیدہ خصلتیں پائی جاتی ہیں، جو ان کے تمام افعال و اعمال میں نمایاں طور پر ہر شخص کو نظر آتی ہیں۔۔ ۔
ان سوالات کا جواب طلب کرنے سے مطلب یہ ہے کہ مجھے بتو سط ایک معزز عہدہ دار کے (کذا) مدار المہام بہادر کی طرف سے ایسا ایما ہوا ہے کہ مبارک باد جشن جوبلی کے موقع پر میں بھی ایک قصیدۂ مدحیہ حضور کی شان میں لکھوں ابھی یہ معلوم نہیں ہوا کہ قصیدہ یہاں سے لکھ کر بھیجا جائے گا یا مجھے وہاں قصیدہ لے کر خود حاضر ہونا پڑے گا۔۔ ۔ مجھے نہایت مخفی طور پر قصیدہ لکھنے کا میٹیریل بہت جلد بہم پہنچا دیں۔ مجھے بے سرو پا مدح سرائی اور بھٹئی کرنی بالکل نہیں آتی۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ قصیدے میں سرتا پا فیکٹس اور واقعات کا بیان ہو۔۔ ۔‘‘
خاکسار
الطاف حسین حالیؔ عفی عنہٗ
مختصر یہ کہ خواجہ الطاف حسین حالیؔ کے مکتوبات بھی ان کی صاف گوئی و بے باکی کے مظہر ہیں۔ حالیؔ کے قریب ترین دوست بابائے اردو مولوی عبدالحق کے مقدمے کے ساتھ مولانا حالیؔ کے فرزند ارجمند خواجہ سجاد حسین نے ’’مکتوباتِ حالی‘‘ حصہ اول حالی پریس پانی پت سے ۱۹۲۵ء میں شائع کیا تھا۔ یہ حصہ اول دوسو بیس طویل مختصر خطوط اور دوسو سات صفحات پر مشتمل ہے۔ ان میں سے دوچار اہم مکتوبات کے حوالے سے حالیؔ کے کردار پر یہاں روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
٭٭٭
مواعظ۔۔ ۔ ادب کے آئینے میں
(ڈپٹی نذیر احمد کے خطوط کے حوالے سے )
فن کار جب کوئی خط کھینچتا ہے تو اس میں بھی معنویت کی ایک دنیا آباد ہوتی ہے دنیا کی کوئی شئے بے کار نہیں بنائی گئی ربنا ما خلقت ھذا باطلا تو قلم کو کیسے الا بلا لکھنا زیب دے سکتا ہے۔ میرے خیال میں قلم سے کسی نے بھرپور استفادہ کیا ہے تو وہ ہیں ڈپٹی نذیر احمد خاں کبھی ’’چند پند‘‘ کے نام سے نوخیز ذہنوں کو اخلاق کریمانہ سکھائے تو کبھی مرأۃ العروس کے ذریعہ حسن سیرت کی تعلیم دی، ابن الوقت کو زمانے کے ساتھ چلنے کا انجام دکھایا تو کبھی تو بتہ النصوح کی ترغیب دی۔ کبھی الحقوق و الفرائض گنائے تو کبھی تعزیرات ہند کے نکات سمجھائے کبھی بارہ تیرہ برس کے بیٹے کو بھی خطوط لکھے تو دنیا بھر کی اونچ نیچ بتا دی۔ حتی کہ قرآن مجید کا با محاورہ ترجمہ تک کر ڈالا۔
ڈپٹی نذیر احمد بھر پور زندگی جینے کے عادی تھے وہ چاہتے تھے کہ ان کے فرزند میاں بشیر بھی انہی کی طرح ایک کامیاب انسان ثابت ہوں۔ وہ سرکاری غلامی کی وجہ سے مختلف Interiorپسماندہ مقامات پر زندگی گزارنے پر مجبور تھے اسی واسطے وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا کسی اچھے مقام پر مستقلًارہ کر تعلیم و تربیت حاصل کرے۔ ابتدائی تعلیم تو خود ڈپٹی نذیر احمد نے اپنے بیٹے کو دی وہ خود اردو اور عربی کے مسلم الثبوت ادیب تھے انہوں نے اپنی تمام زبان دانی اپنے بیٹے میں منتقل کرنے کی کوشش بھی کی۔ اچھی خاصی عربی جب وہ اپنے بچے کو سکھا چکے تو چاہتے تھے کہ اب وہ انگریزی تعلیم سے بھی کما حقہ آشنا ہو جائے۔ اسی غرض سے انہوں نے میاں بشیر کو دہلی کے ایک مدرسے میں سا تویں کلاس میں شریک کروایا۔ ایک طرف پدری شفقت تھی تو دوسری طرف سرکاری ملازمت۔ ڈپٹی نذیر احمد خاں نے مسلسل خطوط کے ذریعے اپنے بیٹے کو جو ہدایات دیں وہ دلچسپ، کار آمد اور سبق آموز ہیں بیٹے کو یہ احساس تھا کہ یہ خطوط کسی معمولی آدمی کے نہیں ہیں۔ انہوں نے وہ خطوط سنبھال کر رکھے اور اپنے قریبی دوست عبدالغفور کو بھی دکھائے۔ یہی وہ مولوی عبدالغفور شہباز بہاری ہیں جو بعد میں میاں بشیر کے ہم زلف بھی ہوئے، جنھوں نے ان خطوط کو سب سے پہلے ۱۸۸۷ ء میں ’’ مواعظہ حسنہ‘‘کے نام سے قومی پریس لکھنؤ سے شائع کیا۔ اس کا تیسرا ایڈیشن ۱۳۳۱ھ (م۔ ۱۹۱۲ء)چوتھا ایڈیشن، ۱۳۳۷ھ اور پانچواں ایڈیشن ۱۳۳۹ھم ۱۹۲۱ء میں شائع ہوا۔ نصیحت قرجام نامہ و پیام المقلب بہ ’’مواعظہ حسنہ‘‘ مجموعہ مکتوبات جناب شمس العلما۔ مولوی حافظ محمد نذیر احمد خاں صاحب مرحوم ایل ایل ڈی۔ او۔ یل، سابق ڈپٹی کلکٹر اور ممبر بورڈ آف ریو ینیو حیدرآباد دکن سرکار نظام جس کو مولوی سید محمد عبد الغفور صاحب شہباز مرحوم پروفیسر اورنگ آباد کالج اور ڈائر کٹر تعلیمات ریاست بھوپال نے حسب اجازت مولوی بشیر الدین احمد صاحب مرتب فرمایا اور جو پانچویں بار ۱۳۳۹ھ مطابق ۱۹۲۱۔ دلی پرنٹنگ پریس دہلی سے شائع ہوا۔
مواعظہ حسنہ کے پہلے ایڈیشن پر مولوی سید محمد خاں صاحب، بہادر ڈپٹی مجسٹریٹ عظیم آباد اور شمس العلما ء مولوی محمد حسین آزاد نے جو رویو ماہ اگست ۱۸۸۷ء میں لکھے تھے وہ بھی بطور تقریظات اس پانچویں ایڈیشن میں شامل ہیں ان کے علاوہ ایک دیباچہ اور باون اشعار پر مشتمل ایک منظوم تقریظ بھی جو خود عبدالغفور شہباز کا نتیجۂ فکر ہے شامل کتاب ہے۔ بطور تمت میاں بشیر نے صفحات آخر میں لکھا کہ یہ پانچواں ایڈیشن فبردری ۱۹۲۱ء میں ان کی اپنی نگرانی میں دو ہزار کی تعداد میں چھپوایا گیا ہے خاتمتہ الطبع کے عنوان سے چند سطور میاں بشیر نے اپنے اور اپنے شفیق والد نذیر احمد خاں کے تعلق سے جو لکھے تھے ان پر شعبان المعظم ۱۳۳۷ھ مطابق مئی ۱۹۱۹ء کی تاریخ درج ہے گویا یہ کلمات خیر چو تھے ایڈیشن میں بھی شامل تھے۔ میاں بشیر فرماتے ہیں:
’’میرے والد ماجد خدا ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ صاحب تصانیف کثیرہ و مفید ہیں جن کی کتابوں نے ہندوستان کے اس سرے سے اس سرے تک اسقدر شہرت اور مقبولیت حاصل کی ہے کہ جس کی نظیر ملنا محال ہے۔۔ ۔ ’’مواعظہ حسنہ‘‘ ایک مجموعہ ہے ان خطوں کا جو زمان تعلیم میں میرے شفیق باپ نے نہایت دل سوزی سے مجھے لکھے تھے جن کے فقرے بلکہ لفظ لفظ سے محبت اور شفقت ٹپکتی ہے۔۔ ۔ یہ وہی خط ہیں جنھوں نے مجھے راہ راست بتائی۔ میرے قدموں کو ڈگمگانے نہ دیا اور میرے کیرکٹر کی ایک مستحکم بنیاد قائم کی۔۔ ۔۔ یہ خط کبھی اس غرض سے نہیں لکھے گئے تھے کہ پبلک میں لائے جائیں گے۔ بالکل پرائیوٹ نیچر کے تھے اور اسی وجہ سے قلم برداشتہ لکھے گئے تھے۔۔ ۔ یہ کتاب (مکتوبات ) نوعمر لڑکوں کے لیے حصول علم، تہذیب و اخلاق حسنہ کا بہترین ذریعہ ہے‘‘
ڈپٹی نذیر احمد کے ان خطوط میں زندگی کی مختلف کیفیات و نفسیات پران کے اپنے خیالات و احساسات کا اظہار ہی بڑے دل نشین انداز میں پایا جاتا ہے۔ ان کی ناولوں میں کہانی یا ماجرائیت محض ذیلی حیثیت رکھتی ہے اصل مقصد تو ان کا اصلاح معاشرہ ہی تھا جس میں وہ کامیاب رہے اسی طرح ان کے خطوط میں خیر و عافیت کی نیک مطلوبی ثانوی حیثیت رکھتی ہے اور اخبار بینی کے فوائد، دولت دنیا کی اہمیت، نفس کشی (Self Denial) شخصی حکومت میں مظالم کی روداد، یونانی و انگریزی طریقہ علاج کے اثرات، انگریزی زبان کی خوبیاں اور خرابیاں، بے پردگی کی برائی، لے پالک کی فضول خرچی کی حقیقت، اس دور کے بی اے اور ایم اے پاس حضرات کی قابلیت پر چوٹ سود اور پرامسیری نوٹ کے جواز سے لے کرا ہم معاملے میں مشرق و مغرب کے سوچنے کے انداز پر بھرپور اور مدلل بحث بھی موجود ہے۔ کہیں کہیں تو لگتا ہے کہ مولوی نذیر احمد نے بھی مولانا ابو الکلام آزاد سے بہت پہلے، خطوط کے نام پر اپنی ہمہ دانی کا ’’غبار خاطر‘ ‘ نکالا ہے۔ بعض خطوط پدرانہ و مربیانہ القاب سے شروع ہوتے ہیں اور تاریخ ارقام و مقام کے ساتھ ختم ہوتے ہیں مگر بیشتر خطوط بے القاب اور بغیر تاریخ کے بھی پائے جاتے ہیں بہت ممکن ہے مرتبین خطوط نے تاریخ و مقام کو غیر اہم جان کر اندراج کرنا مناسب نہیں سمجھا اور صرف مواد خط کو اہمیت دی۔ اس تالیف کے آخری حصے میں خطوط کے بجائے بعض عنوانات پر مختصر ترین انشائیے Essaysشامل ہیں جیسے عادت، خود داری، فرائض انسانی وغیرہ۔
اتنی بات طے ہے کہ مولوی نذیر احمد خان نے ان خطوط میں اپنے بیٹے میاں بشیر کے حوالے سے نئی نسل کو مخاطب کیا جس طرح انہوں نے ’’چند پند‘‘ اور ’’مراۃ العروس‘‘ لکھی۔
میاں بشیر کو تحصیل علم کے لیے دہلی چھوڑ کر وہ اپنی تحصیل نگر پہنچے اور پہلا خط ۵؍جنوری ۱۸۷۶ء کو وہیں سے لکھتے ہوئے بار بار اصرار کرتے ہیں کہ وہ انگریزی زبان میں مہارت تامہ حاصل کریں۔ لکھتے ہیں:
’’بشیر! خدا کے لیے اب پورا پورا شوق کرو۔ دو تین برس کی محنت ہے۔۔ ۔ علم توسب طرح کے ہیں اور طالب علم کو لازم ہے کہ سب کی طرف برابر توجہ کرے لیکن سب پر مقدم ادب ہے جس کو انگریزی میں Literatureلٹریچر کہتے ہیں یعنے زبان دانی۔ کمال زبان دانی یہ ہے کہ تم کو اہل زبان کی سی قدرت حاصل ہو۔ اس کی تدبیر یہ ہے کہ زبان دانوں کی عبارتیں یاد ہوں جس طرح کے خیال اور مضمون کو جس پیرائے میں اہل زبان نے ادا کیا ہے اس کی تقلید اور اس کی نقل کرنی چاہیئے۔ غرض زبان دانی کے لیے یادداشت شرط ہے محاورات، امثال و حکایات اور لغت اور صلوں کا استعمال جن کو تم پری پوزیشن Prepositionکہتے ہو سب پیش نظر رہیں جس تحقیق سے تم مجھ سے عربی پڑھتے تھے کہ ہر ہر لفظ کا مادہ اور ماخذ، صیغہ و ترکیب ، کوئی بات چھوٹنے نہیں پاتی تھی یہی تحقیق فارسی اور انگریزی کل زبانوں میں ہے۔ زبان دانی کی استعداد بے شک کتابوں کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے مگرا ہل زبان سے گفتگو کرنا بھی ایک عمدہ ذریعہ ہے اسی واسطے میں نے تم کو مدرسے میں چھوڑا ہے۔ جہاں تک ہو سکے بری بھلی غلط صحیح ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولنی چاہیئے۔۔ ۔ تمہارے ماسٹر ہندوستانی یا انگریز جو ہوں ان سے اردو میں ایک لفظ مت کہو۔۔ ۔ ادب اور انکسار کافی ذریعہ لوگوں سے تعارف پیدا کرنے کا ہے۔ اگرچہ تم ابھی اجنبی ہو لیکن جب لوگ دیکھیں گے کہ تم پڑھنے کا شوق رکھتے ہو، امتحان تمہارے اچھے ہوتے ہیں اور استادوں کا ادب تم کو ملحوظ رہتا ہے کسی سے لڑتے جھگڑتے نہیں اور نالائق لڑکوں سے الگ تھلگ رہتے ہو تو ماسٹر لوگ خود بخود تم پر مہربانی کرنے لگیں گے۔ روز کا کام روز کرنا ضرور ہے۔ جو سبق پڑھا اچھی طرح اس کو سمجھ کر قابو میں کر لیا۔ غافل لڑکے سبق جمع کرتے جاتے ہیں اور امتحان کے زمانے میں انبار مصیبت ہو جاتا ہے۔ مدرسے کے خالی گھنٹے اور فرصت کے اوقات انگریزی گفتگو میں صرف کرو۔ تفریح کی تفریح اور فائدے کا فائدہ۔ اسی طرح اپنے باہر کے اوقات منضبط کر لو کہ فلاں وقت یہ کام کریں گے اور جب اپنے کل اوقات منضبط کر چکو مجھ کو بھی اطلاع دو اس انتظام میں اس کا بڑا خیال رکھو طبیعت پر اتنا بوجھ نہ پڑنے پائے کہ گھبرا جائے جب خوش دلی ہے سب کام اچھا ہوتا ہے۔ بے دلی پیدا ہوئی اور کام بگڑا۔۔ ۔ بشیر! اگر تم علی گڑھ جاتے تو تم کو شاید بڑی وحشت ہوتی لیکن اگر معلوم ہو کہ تم دہلی میں فائدۂ علمی حاصل نہیں کر سکتے تو پھر دیکھا جائے گا۔ اب تم کو اپنا انتظام خود کرنا پڑے گا اس کو سمجھ لو کہ لوگوں پر ہمارے حقوق کچھ نہیں اور ایسے نفوس قدسی جو دوسروں کو بے وجہ منفعت پہنچائیں کم ہیں پس اگر کوئی بے اعتنائی کرے تو افسر دہ خاطر نہ ہونا چاہیئے۔ خوشامد اور ملنساری سے اپنا کام نکالنا ہو گا۔‘‘
(خط (۱) ۵؍جنوری ۱۸۷۶ء)
وہ دور چونکہ انگریز عملداری کا تھا اور خود ڈپٹی نذیر احمد انگریزی حکومت میں محکمۂ تعلیمات سے وابستہ تھے اور انگریزی کی اہمیت کے بڑے قائل تھے اس لیے چاہتے تھے کہ میاں بشیر اہل زبان جیسی انگریزی سیکھ جائیں تاکہ وہ خود کو انگریزوں کی نگاہوں میں سبک محسوس نہ کریں۔ ابتدائی خطوط میں ڈپٹی نذیر احمد نے انگریزی زبان کے سیکھنے پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ کتابوں سے بھرا ایک صندوق اپنے فرزند کو بھیجتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’اس ایک صندوق میں اتنی کتابیں ہیں کہ آدمی نظر تحقیق سے ان پر عبور حاصل کر لے تو عالم ہو جائے مگر رکھ چھوڑ نے کو تو کتاب اور پتھر برابر ہے۔ کمثل الحمار یحمل اسفارا۔۔ ۔ ہم سبقوں میں پیچھے رہنا بڑی بے غیرتی کی بات ہے۔۔ ۔ کسی طرح انگریزی بول چال اور عبارت انگریزی کے لکھنے میں یعنے انگریزی کمپوزیشن میں ترقی ہو۔۔ ۔ یہ ایک مشہور بات ہے کہ آدمی جس شہر میں رہے وہاں کے طبیب اور کوتوال سے دوستی پیدا کرے تم بھی اس بات کا خیال رکھو‘‘۔
(۸؍جنوری ۱۸۷۶ء مطابق عید الضحیٰ مقام تحصیل سکندرپور )
اک اور خط میں انگریزی پر اصرار کی وجہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’علم اور لطف زبان کی جستجو میں ہم دوسری زبانوں کے حاجت مند ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نری اردو سے کام نہیں چلتا اور چارو نا چار دوسری زبان سیکھنی پڑتی ہے اب دوسری زبان کونسی اختیار کی جائے جس کے ذریعہ سے علم حاصل ہو اور بولی کا مزہ ملے۔ سو برخوردار وہ زبان انگریزی ہے کلام الملک ملک الکلام۔ انگریزوں کی تلاش و محنت اس درجے کی ہے کہ کسی قوم نے اس صفت میں ان کی ہم سری نہیں کی۔ اب انگریزی کا یہ حال ہے کہ گنجینۂ علوم ہے۔ یونانی، عربی، عبرانی، سنسکرت اور لیٹن وغیرہ میں جو ذخیرے تھے انگریزوں نے سب اپنی زبان میں جمع کر لیے ہیں۔۔ ۔ اب یہ عجیب بات دیکھی جاتی ہے کہ اصلی زبان میں ان علوم کا پتہ نہیں مثلاً جبرو مقابلہ فی الاصل عربی میں تھا اس کا نام الجبرا اس کا گواہ ہے انگریزوں میں کوڑیوں جبرو مقابلے ہیں۔ عربی میں مجھ کو آج تک کوئی رسالہ دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ مصر و روم میں بھی ہوں گے تو اب اصلی کتابیں معدوم و مفقود۔ اس سے قطع نظر انگریزی زبان حکام وقت کی ہے اگر اس میں علوم بھی نہ ہوتے تو اس کا زبان حکام وقت ہونا کافی تھا کیونکہ اس صورت میں وہ ذریعۂ رسائی ہے غرض جس جس پہلو سے دیکھا جاتا ہے سب سے مقدم انگریزی اس کے بعد عربی۔ اس لیے کہ وہ کلاسیکل ہے فصاحت و بلاغت اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ عربی شعار اسلام ہے۔ میرے نزدیک جو مسلمان عربی نہیں جانتا وہ نام کا مسلمان ہے۔ سب کے بعد فارسی وہ بھی اس وجہ سے کہ ہماری اردو میں فارسی کی ترکیبیں بہت ہیں اور فارسی کے بدون تکمیل اردو ممکن نہیں۔ بشیر! اگر تم چار پانچ برس لگ لپٹ کر محنت کر ڈالو تو کچھ بات نہیں۔ پھر ان شاء اللہ ساری عمر اس محنت کا فائدہ اٹھایا کرو گے۔ میں نے جس بے سرو سامانی سے پڑھا تمہاری ماں اس کی گواہ ہیں۔ انھیں سے پوچھو کہ مجھ کو اطمینان سے سونا حرام تھا یہ محنت ایک حیلہ ہو گئی اور خدا نے مجھ کو افلاس کے عذاب سے نجات دی تم بھی کبھی اپنی حالت کو میری اس حالت سے مقابلہ کیا کرو۔‘‘
(خط مورخہ ۲۱؍ مارچ ۱۸۷۶ء)
انگریزی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اک اور خط میں یوں رقم طراز ہیں:
’’میں سرکاری تعلیم کا ایسا طرف دار نہیں ہوں کہ متعصبانہ اس کی حمایت کروں لیکن انگریزی کی بدترین تعلیم عربی کی بہترین تعلیم سے بہ استثنائے مذہب یقیناً عمدہ اور نافع ہے عربی میں زبان اور منطق کے خیالی ڈھکو سلوں کے سوائے کچھ بھی نہیں۔۔ ۔ انگریزی شاعری کو دیکھو بالکل نیچر کے مطابق مبالغے اور جھوٹ کا نام نہیں اور ہم لوگ خیالی مضمونوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔‘‘
(خط مورخہ ۲۴؍فروری ۱۸۷۷ء)
انگریزی زبان کی اتنی زبردست وکالت کرنے والے ڈپٹی نذیر احمد اپنے بیٹے میاں بشیر کے اچھی خاصی انگریزی سیکھ لینے کے بعد اس کی برائیاں بیان کرتے ہوئے ایک خط میں مغربی ماحول اور مغربی طرز فکر و انداز رہائش پر کڑی تنقید بھی کرتے ہیں اس خط پر تاریخ درج نہیں ہے۔
’’تم مجھ سے انگریزی تعلیم کی بہت مدح سنتے رہے ہو اس لیے کہ تمہیں انگریزی پڑھوانی منظور تھی اب کہ تم نے اتنی انگریزی پڑھ لی جتنی کوئین امپرس وکٹوریہ کی رعایا میں سے ہر بھلے آدمی کو ضرور ہے تو لو اب اس کی برائیاں بھی سنو کیوں کہ ہر چیز میں حسن و قبح دونوں کے محامل(پہلو) ہوتے ہیں۔۔ ۔ یہ میری اکیلے کی رائے نہیں ہے بلکہ عام لوگوں کی اور خود انگریز بھی اس کے شا کی ہیں کہ ہندوستانی انگریزی پڑھ کر مغرور، گستاخ اور خود پسند ہو جاتے ہیں۔۔ ۔ اپنا تو مقولہ یہ ہے کہ فارسی لٹریچر نے ہماری تہذیب کو بالکل برباد کر دیا تھا اب اردو پر انگریزی رنگ آتا چلا ہے۔ زبان مبالغے اور ابتذال کے عیوب سے بہت پاک ہو گئی ہے اور ہوتی جاتی ہے۔ سیدھی اور صاف بات میں لوگوں کو مزہ ملنے لگا ہے۔۔ ۔ انگریزی خوان، کل نہیں تو اکثر اپنی ہی سوسائیٹی کو نظر حقارت سے دیکھنے لگتے ہیں۔۔ ۔ ہم ہی میں کے بگڑے ہوئے مسلمان جن پر انگریزی کی سنوار ہے اور جو انگریزوں سے بڑھ کر پردے کی برائیوں کا ڈھنڈو را پیٹ رہے ہیں۔ ایک تو ہمارے منہ پر کہہ دے کہ اس نے کبھی کسی پردہ دار عورت کو پردے کی سختی کا شاکی پایا ہے۔۔ ۔ مجھ کو حقیقت میں ہنسی آتی ہے کہ پردے کی وجہ سے مسلمانوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ عورتوں کی کچھ قدر نہیں کرتے اور میں کہتا ہوں کہ پردہ ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ جیسا اپنی عورتوں کو ہم عزیز رکھتے ہیں دنیا میں کوئی قوم نہ رکھتی ہو گی۔۔ ۔ دنیا کے سارے کام جو مرد کر سکتے ہیں عورتیں بھی کر سکتی ہیں مگر خوب سمجھے رہو کہ مجھ کو اس میں ذرا بھی کلام نہیں کہ ہندوستان کی عورتوں کو ان کی حالت کے مناسب تعلیم کرنا نہایت ضرور ہے۔ مگر ساتھ ہی رواج پردہ کی موقوفی کا میں سخت مخالف ہوں۔۔ ۔‘‘ (خط ۱۰۲ )
ڈپٹی نذیر احمد کے برعکس عبدالحلیم شرر نے پردہ کی سخت گیری کے خلاف ایک مضمون لکھا تھا وہ مضمون جب اکبر الہ آبادی کی نظر سے گزرا تو وہ سیدھے عبد الحلیم شرر کے گھر پہنچے اور بغیر آواز دیے گھر میں گھسنے لگے جب شرر نے احتجاج کیا تو اکبر نے پوچھا کہ کیا دوسروں کو بے پردگی کا مشورہ دینے والے کی گھر والیاں اب بھی پردہ کرتی ہیں‘‘ بگڑے ہوئے مسلمانوں پر انگریزی کی سنوار والی پھبتی ایسے ہی لوگوں پر ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد انگریزی سوسائیٹی کے بہت قریب رہے لیکن انہوں نے اپنی مشرقی بلکہ اسلامی روایات کا مرتے دم تک لحاظ رکھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے ناول ’’ابن الوقت‘‘ میں بھی حجۃ الاسلام کے کردار کے ذریعہ اسلامی تعلیمات کا دلائل و براہین کے ساتھ دفاع کروایا۔ وہ مغربی طرز معاشرت کے خلاف ضرور تھے مگر مغربی تعلیم اور انگریزوں کے خلاف نہیں تھے۔ سیاسی اعتبار سے وہ انگریزوں کی سوجھ بوجھ اور طرز حکومت کے قائل تھے مگر مذہب کے معاملے میں وہ ان سے مصالحت کرنے پر آمادہ نہ تھے تو بۃ النصوح میں بھی ڈپٹی نذیر احمد نے کلیم اور ظاہر دار بیگ کے کرداروں کے حوالے سے سخن سازی اور ریاکاری کی پول کھول کر رکھ دی ناول ’’ایامیٰ‘‘ میں ڈپٹی نذیر احمد نے ہندوستانی بیوگان کی کس مپرسی اور بدحالی کا نقشہ کھینچ کران کا گھر بسانے کے جتن کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
اسی طرح اپنے ناول ’’رویائے صادقہ‘‘ میں مادہ پرستانہ ذہنیت کی نفی اور تعلیم جدید سے متاثر ذہن کو صحیح رخ پر ڈالنے کی کوشش ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد کا یہی اصلاحی نقطہ نظر ان کے بیٹے کے نام خطوط میں بھی جگہ جگہ بولتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ نمود و نمائش کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ لامذہیبت کو بھی برا سمجھتے تھے چنانچہ اک خط میں (جس پر تاریخ درج نہیں )وہ لکھتے ہیں:
’’ہم تو ہندوستانیوں ہی کو ملامت کرتے تھے کہ ان کو دولت کی نگہ داشت کا کچھ سلیقہ نہیں اور ان کا بہت روپیہ نمود و نمائش میں ضائع ہوتا ہے۔ انگریزوں کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ ہندوستانیوں پر بھی سبقت لے گئے ہیں ہندوستانی تو پھر بھی زیوروں اور باسنوں کے پیرائے میں اپنی دولت کا ایک معقول حصہ پس انداز کرتے ہیں۔ ان (انگریزوں ) کے یہاں کاٹھ، کانچ اور گلٹ کے سوائے اور کچھ نظر نہیں آتا اور قلعی تو اس وقت کھلتی ہے کہ جب کسی کی بدلی ہوتی ہے اور اسباب نیلام کیا جاتا ہے۔۔ ۔ انگریزی سوسائیٹی کا آخری نقصان ’’ دی لاسٹ ناٹ دی لیسٹ‘‘ لا مذہبی ہے۔۔ ۔ انگریزی تعلیم سے (وہ بھی ادھوری ) ہمارے ملک کے انگریزی خواں از اے باڈی(As a body) لامذہب ہوتے چلے جاتے ہیں۔۔ ۔ میں خیال کرتا ہوں کہ یہ زمانہ لا مذہبی کے شیوع کا ہے۔ بہت تھوڑے سر انگریزی تقلید کے مالیخولیا سے خالی ہیں۔ میں نے تم کو اپنی سمجھ کے مطابق آگاہ کر دیا ہے۔ وما علینا الا البلاغ۔ فقط‘‘
(خط (۱۰۶)صفحہ ۱۷۵)
کاٹھ، کانچ اور گلٹ کے سازو سامان رکھنے والوں کی قلعی کھل جانے کی بات بہت مزہ دیتی ہے اور ’’بہت تھوڑے سرانگریزی تقلید کے مالیخولیا سے خالی ہیں‘‘ کا معنی خیز اشارہ ’’خطابی سروں‘‘ کی طرف بھی ہے۔
ادب کی یہ بڑی بد قسمتی رہی ہے کہ کالجوں اور یونیورسٹی میں ایسے اساتذہ ادب پڑھانے پر مامور ہوتے ہیں جن کا ادب سے واجبی واجبی ساتعلق ہوتا ہے اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جو ادب میں دستگاہ رکھتے ہیں وہ غیر ادبی مصروفیات کو روزی روٹی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں یہ صورت حال آج ہی کی نہیں بلکہ سو دو سو سال پہلے بھی تھی۔ ایک خط میں ڈپٹی نذیر احمد ایسے ہی تعلیم یافتہ افراد کا خاکہ اڑاتے ہیں:
’’آج کل کے بی۔ اے، ایم۔ اے، بات صاف تو یہ ہے کہ ہم لوگوں کی نظروں میں مطلق نہیں جچتے۔ محامل الفاظ اور تعلقات سابق و لاحق اور عبارت کے اطراف و جوانب اور مضمون کے مالہ و ماعلیہ پر کبھی ان کی نظر کو احاطہ کرتے نہ دیکھا پس ان کی مثال اس غوط زن کی سی ہے جس میں قعر دریا تک پہنچنے کا دم نہیں۔ ڈبکیاں لگاتا ہے اور دُر مطلب کو نہیں پاتا‘‘
(خط نمبر ۹۳بے تاریخ و بے مقام صفحہ ۱۳۶)
ڈپٹی نذیر احمد اپنے چہیتے اکلوتے بیٹے کی شادی بھی ان کی کم عمری ہی میں کرنے پر آمادہ ہیں وہ اپنی بیوی جسے وہ بیوی صاحب کے القاب سے یاد کرتے ہیں میاں بشیر کے لیے لڑکی دیکھنے کی تاکید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ ہم کو روپیہ اور جہیز کچھ درکار نہیں اور نسب میرے نزدیک کوئی چیز نہیں اور اگر انگریزی عمل داری رہی اور ضرور رہے گی تو نسب رفتہ رفتہ عیب ہو جائے گا پس جو چیز ہم کو درکار ہے کہ لڑکی کی صورت اچھی ہو۔‘‘
(خط (۷۳)صفحہ ۱۱۸، ۱۸۷۷ء)
ڈپٹی نذیر احمد اس وقت تک کافی ترقی کر چکے تھے اس لیے روپیہ پیسہ ان کے لیے ذیلی اور ثانوی حیثیت اختیار کر چکا تھا اور وہ خود چونکہ کسی اعلی خاندان کے چشم و چراغ نہ تھے بلکہ بقول نذیر احمد وہ Self Made Manتھے اس لیے ان کی نظر میں نسب پر اصرار عیب ہو گیا لیکن اسلامی روایات کے علم بردار ہوتے ہوئے اچھی صورت کی تلاش پر اصرار باعث حیرت ہے۔ سنت کی روشنی میں انھیں تو لڑکی کے دین دار ہونے پر زور دینا چاہیئے تھا۔ شارع علیہ السلام نے تو حسب نسب اور مال و دولت کے ساتھ ساتھ حسن و جمال کو بھی اہمیت دینے کے بجائے صرف دین داری کو فوقیت دینے کی تاکید کی تھی۔
شادی بیاہ کی بات چھڑی تو ڈپٹی نذیر احمد اپنے کم سن بیٹے کو ازدواجی زندگی کے بعض اہم پہلو سمجھاتے ہوئے میاں بیوی کے تعلقات پریوں روشنی ڈالتے ہیں:
’’جوش جوانی میں احمق مرد عورتوں کو اس قدر بے تکلف اور گستاخ کر لیا کرتے ہیں کہ پھر ساری عمر وہ ان کو دبا نہیں سکتے اور گھر میں دو عملی رہتی ہے۔۔ ۔ مجھ کو اپنے عزیزوں میں ایک شخص کا حال معلوم ہے کہ وہ ابتداء میں بی بی کی خدمت گاری کرتا تھا اور میاں بی بی میں پیار اخلاص کے واسطے دھول دھپا ہوتا تھا ایک دوسرے کے چٹکیاں لیا کرتے تھے اور گفت گو میں بھی سخت بے تہذیبی جانبین سے ہوتی تھی انجام یہ ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے۔
(خط نمبر (۷۸)۱۸۷۹ء صفحہ ۱۲۲)
ڈپٹی نذیر احمد نے سو سال پہلے میاں بیوی کے تعلقات کا جو نقشہ کھینچا آج بھی بعض گھرانوں میں دکھائی دیتا ہے۔ سچ ہے بڑا آدمی الہامی انداز فکر رکھتا ہے جو زبان و مکاں کی قید سے ماورا ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر غالب کا شعر یاد آ رہا ہے۔
ہوں گرمی نشاط تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں
ڈپٹی نذیر احمد نے اپنے قلم کے ذریعہ تعلیم نسواں اور حقوق کی وکالت کی مگر طنزاً ایک خط میں وہ عورت کو اس حق سے محروم بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’میں جب کسی میاں بی بی کو آپس میں لڑتے سنتا ہوں گو وہ میرے ہی بیٹی داماد کیوں نہ ہوں تو بدوں اس کے کہ دونوں کا دکھڑا سنوں میں عورت کو ملزم ٹھیراتا ہوں کیوں کہ ہماری سوسائیٹی میں مرد کے مقابلے میں عورت اس قدر مجبور ہے کہ گویا اس کی کچھ ہستی ہی نہیں۔ پس جب بد نصیب عورت کو شوہر کی طرف سے کوئی امر خلاف مزاج پیش آئے چار و ناچار اس کو صبر کرنا چاہیئے۔‘‘
(خط نمبر (۹۷)صفحہ ۱۳۸)
اس کے فوری بعد جو خط ہے اس میں سورہ کہف کے حوالے سے موسیٰ و خضر کے ملنے بچھڑنے کی بات کی ہے جو اس مرحلے پر بڑی معنی خیز لگتی ہے۔
الغرض خضر نے موسیٰ سے شرط کر لی تھی کہ تم میری کسی بات میں دخل نہ دینا موسیٰ سے صبر نہ ہو سکا اور لگے بات بات پر الجھنے پہلی دفع خضر نے ان کو متنبہ کیا۔۔ ۔‘‘
(خط (۹۸) صفحہ ۱۳۹)
گویا ڈپٹی نذیر احمد اشارۃ ً یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میاں بیوی میں بھی اسی طرح نباہ ہو سکتا ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد سرسید کے بڑے معتقد اور ہم نوا تھے لیکن وہ ان کی ’’مذہبی نیچریت‘‘ کو خراج پیش نہیں کرتے وہ اپنی دانست میں سرسید سے یکسر مختلف تھے اور ایک خط میں وہ سر سید کے معتقدات کے متعلق کھل کر تنقید کرتے ہوئے میاں بشیر کو لکھتے ہیں:
’’سید احمد خاں صاحب کی شان ایسی ارفع و اعلیٰ ہے کہ ماو شما کو ان کی نسبت کسی رائے کا ظاہر کرنا داخل شوخ چشمی ہے جس طرح کا برتاؤ میں نے سید احمد خاں صاحب کے ساتھ رکھا ہے تم کو اس سے میری رائے کا مستبط کر لینا کچھ مشکل نہ تھا۔۔ ۔ اس وقت تک سید احمد خاں صاحب کے اخبار یا لکچر یا مواعظ یا تحریرات کا ایک پرچہ کبھی مول نہیں لیا یعنے مجھ کو ان کے معتقدات باسرہا (پورے طور پر ) تسلیم نہیں۔ سید احمد خاں صاحب کی تفسیر ( سر سید کی تبیین الکلام کی طرف اشارہ ہے ) ایک دوست کے پاس دیکھنے کا اتفاق ہوا میرے نزدیک وہ تفسیر دیوان حافظ کی اُن شروح سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی جن کے مصنفین نے چوتڑوں سے کان گانٹھ کر (ڈپٹی نذیر احمد کا یہ خاص محاورہ بلکہ تکیۂ کلام تھا) سارے دیوان کو کتاب تصوف بنانا چاہا۔ جو معانی سید احمد خاں صاحب نے منطوق آیات قرآنی سے اپنے پندار میں استنباط کیے (اور میرے نزدیک زبردستی مڑھے اور چپکائے ) قرآن کے منزل من اللہ ہونے سے انکار کرنا سہل ہے، اور ان معانی کا ماننا مشکل۔ مجھ کو مکر نا پڑا۔ ہاں ہاں میں نے کہا تھا کہ یہ معنی ہیں جن کی طرف نہ خدا کا ذہن منتقل ہوا نہ جبریل حامی وحی کا نہ رسول خدا کا نہ قرآن کے کاتب د مدون کا نہ اصحاب کا نہ تابعین کا نہ تبع تابعین کا نہ جمہورِ مسلمین کا مگر میں نے تم کو بار بار منع نہیں کیا کہ مذہب کے گور کھ دھندے کو سلجھانے کا ابھی تمہارا وقت نہیں۔ محکمات کیا کم ہیں کہ آدمی متشابہات کی تاویل میں لاحاصل بھٹکتا پھرے۔‘‘
(خط (۹۹) صفحہ ۱۴۰)
سر سید کے اجتہادات اور ان کی عقلیت پسندی پر تو چوٹ کی مگر خود ڈپٹی نذیر احمد کا یہ حال تھا کہ وہ پرامیسری نوٹ لکھوا کر سودی لین دین جائز سمجھتے تھے حتیٰ کہ خود اپنے چہیتے شاگرد مرزا فرحت اللہ بیگ کو بھی پیسہ بغیر سود کے اور بغیر ضمانت کے دینے پر آمادہ نہ تھے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو مرزا فرحت اللہ بیگ کی لکھی ہوئی ’’ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری کچھ ان کی زبانی‘‘۔
ڈپٹی نذیر احمد کی نگاہ میں دولت کی بڑی اہمیت تھی۔ ان کا بچپن انتہائی کس مپرسی میں گزرا تھا حتیٰ کہ وہ ایک مسجد میں خدمتی کے فرائض انجام دیتے ہوئے آس پاس کے گھروں سے روٹیاں بٹور کر لاتے اور انہی پر گزارا کیا کرتے تھے۔ شاید یہی سبب تھا کہ وہ پیسے ہی کو سب کچھ سمجھتے تھے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’دنیا عبارت ہے روپے سے۔ میں نہیں سمجھتا کہ افلاس کے ساتھ دنیا میں کوئی چیز بھی انسان کو راحت پہنچا سکتی ہے۔ بے وقعتی مفلسی کا نتیجۂ عاجل۔ دولت کا کمانا مشکل۔ حاجت کے پیش آنے سے جو تکلیف محسوس ہوتی ہے اس سے بچنے کی دو ہی تدبیریں ہیں اول نفس کشی (Self-Denial) دوسری مایحتاج الیہ کا بہم پہچانا۔‘‘
(خط (۱۰۰) صفحہ ۱۴۰)
زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی یہی لگن انگریزی حکومت کی ڈپٹی کلکٹری چھڑوا کر انھیں حیدرآباد دکن کے نظام کی چاکری پر آمادہ کرتی ہے اور وہ ایک عرصے تک یہاں بورڈ آف ریوینیو کے ممبر رہے اور ماہانہ یافت بارہ سو روپئے حالی پاتے رہے جس کے بارے میں وہ اپنے بیٹے کو اک خط میں لکھتے ہیں:
’’اتنی تنخواہ مجھ کو سرکار انگریزی میں تمام عمر پانے کی توقع نہیں‘‘۔
آج بڑے بڑے ادیب شاعر و مصلح قوم ہندومسلم قومی یک جہتی کے خواب دیکھتے ہیں تعلیم آدمی کو روشن خیال بنا کر تعصب و تنگ نظری سے بہت بلند و ماورا کر دیتی ہے مگر یہ خیال جس قدر بے معنی آج بھی دکھائی دیتا ہے سو سال پہلے بھی یہی حال تھا۔ چنانچہ ڈپٹی نذیر احمد نے ایک خط میں جن خیالات کا اظہار کیا وہ آج بھی لمحۂ فکر عطا کرتے ہیں:
’’لوگ ایسا خیال کرتے تھے کہ انگریزی تعلیم رفتہ رفتہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک کر دے گی لیکن علی الرغم التوقع چند سال سے دیکھتے ہیں کہ دونوں قوموں میں الٹی ایک طرح کی مخاصمت سی پیدا ہوتی جاتی ہے اگر یہ مخاصمت صرف طرفین کی عوام میں ہو تو کچھ پروا کی بات نہیں مگر افسوس ہے کہ تعلیم یافتہ اور انلائٹنڈ لوگوں کے دلوں میں تکدر آ گیا ہے یہ باہمی نفاق اگر جڑ پکڑ گیا ممکن نہیں کہ ملک کو پنپنے دے اس فتنۂ خوابیدہ کو بیدار کیا ہے تاریخوں نے جو سرکاری مدارس کے کورس میں داخل ہیں۔ اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ بعض مسلمان پادشاہوں نے ہندوؤں کے ساتھ ظالمانہ مدارات کی لیکن کس قوم کی شخصی سلطنت میں (اور سلطنت بھی بہ زور شمشیر حاصل کی ہوئی ) ایسی مثالیں نہیں ہیں۔ اور اگر بعض مسلمان بادشاہوں نے ہندوؤں پر ظلم کیا ہے تو بعض نے (اور یہ بعض ظالموں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں ) ہندوؤں کے ساتھ سلوک بھی ایسے ایسے کیے ہیں کہ کسی گورنمنٹ نے غیر مذہب کی رعایا کے ساتھ نہ کیے ہوں گے۔ مسلمانوں کی سلطنت میں ظلم متوارث ہوتا تو آج ہندو دوا کو بھی ڈھونڈے نہ ملتے۔ مجھ سے سر رشتہ تعلیم کے کسی افسر سے اگر کبھی ملاقات کا اتفاق ہوا تو میں ضرور اس سے کہہ کر رہوں گا کہ ایسی تاریخیں بناؤ یا بہ فرمائش بنواؤ اور مدارس میں پھیلاؤ کہ یہ دونوں قومیں پچھلی نا اتفاقیوں کو بھلا کر آئندہ صلح کاری سے زندگی بسر کریں مگر میری کون سنے گا۔ خدا کرے گورنمنٹ کو خود ہی سوجھ پڑے۔‘‘
(خط (۱۰۱) صفحہ ۱۴۱)
ڈپٹی نذیر احمد کی یہ بات ارباب مجاز کے کانوں تک پہنچ نہ سکی نتیجتاً آج تک ایسی ہی زہریلی تاریخیں داخل نصاب ہیں۔
مختصر یہ کہ مکتوبات جو ادب کا بہ ہر حال اک حصہ ہوتے ہیں نجی نوعیت کے ہوتے ہوئے بھی مکتوب نگار کی شخصیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ غالب، حالی، سرسید، شبلی، اقبال کے خطوط جس طرح اک ادبی شان بھی رکھتے ہیں وہیں مولانا ابو الکلام آزاد کے خطوط بھی نرا ’’غبار خاطر‘‘ نہیں اسی طرح ڈپٹی نذیر احمد کے یہ خطوط اپنے بارہ تیرہ برس کے سا تویں کلاس میں زیر تعلیم بیٹے کو ضرور لکھے گئے ہیں لیکن ان کی ادب آموزی ان کو ادب کا درجہ بھی دیتی ہے۔ قدیم و جدید کتاب کا فرق سمجھاتے ہوئے ڈپٹی نذیر احمد کہتے ہیں:
’’کتاب زمانۂ تصنیف و تالیف کے اعتبار سے جس قدر پرانی اسی قدر ہم لوگوں میں معتبر و مستند بر خلاف انگریزی کے سوبرس کی کتاب مثل تقویم پارینہ سلسلہ درس سے خارج۔ اسی سے ظاہر کہ کسی علم میں ہم نے ترقی نہیں کی۔ کی ہوتی تو عظام رمیم (بوسیدہ ہڈیوں )کو کیوں پڑے چچوڑ تے‘‘۔
(خط (۹۲) صفحہ ۱۳۶)
ڈپٹی نذیر احمد کے یہ خطوط پڑھنے سننے کے بعد آپ مجھ سے متفق ہوں گے کہ ایک سو پچاس سال پہلے لکھے ہوئے خطوط آج کے دور پر بھی کس قدر منطبق ہوتے ہیں۔ یہ عظام رمیم نہیں بلکہ عظیم ہیں۔ ان بوڑھی ہڈیوں میں بڑا کس بل ہے۔
٭٭٭
خط خیر۔ و۔ جوابِ ناوک
میں شروع ہی سے جنابِ ناوکؔ حمزہ پوری کی علمیت اورفن کارانہ جہات کا معترف رہا ہوں۔ انھوں نے میری کاوشوں کی داد دے کر میرا حوصلہ بڑھایا۔ پھر جب اپنی گیارہ سورباعیات پر مشتمل مجموعے کے لیے مجھ سے مقدمہ لکھنے کی فرمائش کی تو میں نے اسے اپنے لیے اعزاز ہی سمجھا اور یہ خوش گوار فریضہ انجام بھی دیا۔ میں نے جناب ناوک کے فکر و فن کو سراہتے ہوئے لکھا تھا کہ اٹھا رہ۱۸ سے اسی ۸۰ سال عمر والا کوئی طالب علم اگر جناب ناوک حمزہ پوری سے واقف نہیں تو اسے یہ دعا ضرور مانگنی چاہئیے کہ رب زدنی علماً
جناب ناوک کو پڑھ پڑھ کر لوگوں نے قلم پکڑنا سیکھا۔ اللہ نظر بد سے بچائے کوئی میدان ایسا نہیں جس میں جناب ناوک نے اپنی شناخت نہ بنائی ہو۔ ہر صنف سخن جنابِ ناوک کی ممنونِ کرم ہے۔ انھوں نے رباعیات میں تو حید خالص پیش کی ہے۔
ابدال سے کچھ اے دل ناشاد نہ مانگ
کچھ جاکے سرمزارِ اوتاد نہ مانگ
اقطاب و اولیا کی تعظیم تو کر
محبوب الاولیا سے اولاد نہ مانگ
غیر شرعی امور پر بھی جناب ناوک کی گرفت بڑی بے باکانہ ہوتی ہے۔
مومن کے لیے وجہ مصیبت ہے سماع
قزاقِ حواس در حقیقت ہے سماع
شیطان کے ہتھیار ہیں ساز و مضراب
ناجائز از رہ شریعت ہے سماع
ایسی ہی رباعیات کی تعریف کرتے ہوئے میں نے ان کے فکر و فن کو کافی سراہا تھا کہ اردو میں حروف تہجی کے مطابق ردیف وار گیارہ سو رباعیات پر مشتمل کسی کا مجموعہ کم از کم میری نظر سے تو نہیں گزرا۔ میں نے البتہ دبی زبان سے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ مختلف موڈ میں کہی ہوئی یہ رباعیات قاری پر یکساں تاثر نہیں چھوڑتیں مگر انھیں ’’امام رباعیات‘‘ ضرور بنا سکتی ہیں۔
ایک جامع ’’مقدمہ‘‘ لکھتے ہوئے میں نے جناب ناوک کے فکرو فن کو خراجِ تحسین پیش کیا تھا لیکن نہایت ہی احترام کے ساتھ ایک الگ خط میں چند اہم امور کی طرف ان کی توجہ بھی دلائی تھی۔ میں نے لکھا تھا کہ پہلے مقدمہ آپ پڑھ لیں اور دوسرے دن میرا خط ملاحظہ فرمائیں۔ یہ ان کی خیر نوازی ہے کہ انھوں نے میرے معروضات کو درخورِ اعتنا سمجھا۔ بیشتر معاملات میں وہ مجھ سے متفق ہوئے البتہ بعض گزارشات کو نہایت سلیقے سے رد بھی کیا اور اپنے دلائل بھی دیئے۔ یہ چونکہ علمی معاملہ ہے اور ناوک صاحب کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ انھوں نے باپ دادا سے چلی آنے والی روایات سے برأت کا کھلے دل سے اعلان بھی کیا اور اپنے شائع ہونے والے مجموعہ ’’ہزار رنگ‘‘ میں غیر مصدقہ روایات پر مبنی رباعیات شامل نہیں کیں۔ ناوک صاحب کے نام میرا لکھا ہوا معروضہ اور اس کا جواب ملاحظہ فرمائیں:
رؤف خیر کا حظ محترم ناوک حمزہ پوری کے نام
مرے محترم السلام علیکم
الحمد اللہ میں اب مزے میں ہوں۔ ہر چند کہ سکوٹر چلانے کے قابل نہیں ہوا۔ قلم چلانے کے قابل ہو چکا ہوں۔ لکھنا پڑھنا یوں بھی جان کے ساتھ ہی جائے گا۔ آپ کی رباعیات ’’ہزار رنگ‘‘ کا لطف لیتا رہا۔۔ ماشاء اللہ۔ رباعی کا وجود آپ کے حق میں عدمؔ کا قطعہ ہو کر رہ گیا ہے۔ زبان و بیان پر دسترس ہی سے تو شاعر جانا جاتا ہے۔
ہزار رنگ رباعیات کے تعلق سے میں نے حسب الحکم ’’مقدمہ‘‘ لکھ دیا ہے۔ امید ہے پسند خاطر ہو گا۔ میں نے پوری گیارہ سو تین رباعیات بالا ستیعاب پڑھی ہیں۔ چند معروضات ڈرتے ڈرتے کر رہا ہوں۔ چھوٹا منہ بڑی بات۔ اس جسارت کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ در اصل مجھے آپ سے خلوص ہے اور خلوص کا تقاضہ ہے کہ کہیں کوئی جھول نظر آئے تو مطلع کر دیا جائے۔ ممکن ہے یہ میری اپنی آنکھ کا جھول ہو۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں عروض میں کوئی شدبد نہیں رکھتا۔ بقول خیرؔ:
ہم شعر کہا کرتے ہیں وجدان کے بل پر
کچھ لوگوں کو زعم فعلاتن بھی بہت ہے
اور پھر رباعی جیسی مشکل صنف سخن ! آپ نے تو اس میں ماشاء اللہ کافی مشق بہم پہنچائی ہے۔ کہیں کہیں بعض مصرعے مجھے رباعی کی مخصوص بحر سے ہٹے ہوئے لگے جیسے:
بستی بستی صحرا صحرا ڈھونڈا (صفحہ ۴) چھانا گوشہ گوشہ اس دنیا کا
اصحابِ صفہ اصحاب صفہ (صفحہ ۷)
ناوک صاحب نے مطبوعہ ’’ہزار رنگ‘‘ میں اسے یوں بدل دیا ہے ’’اصحاب نبی زینت بزم صفا‘‘ (صفحہ ۱۲)۔ شاید صاحب ’’بحر الفصاحت‘‘ کی کسی گنجائش سے فائدہ اٹھایا گیا ہو۔ مگر میرا وجدان ان مصرعوں کو قبول نہیں کر رہا ہے۔ اسی لیے توجہ فرمانے کی گزارش کر رہا ہوں۔ ’’فانی ہے تمام چیز، باقی ہے خدا‘‘۔ اس مصرعے میں ’’چیز حشو ہے۔ فانی ہے تمام اور باقی ہے خدا۔ ’’ثنا‘‘۔ کا لفظ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہونا چاہئے۔ حمد و ثنا۔ ثنا سبحانک۔ آپ کا شعر ہے۔
ٹپکا ہوا شبیر کے غم میں ہر اشک
قیمت میں ہے ہر نعمت عقبیٰ سے سوا
کچھ اندازہ بھی ہے آپ نے ہر نعمت عقبیٰ کو کس قدر بے مایہ کر کے رکھ دیا ہے۔
(ناوکؔ صاحب نے اپنے مطبوعہ مجموعے ’’ہزار رنگ‘‘ میں یہ رباعی شامل کرتے ہوئے نعمت عقبیٰ‘‘ کو ’’ نعمت دنیا‘‘ سے بدل دیا۔
یہاں حیدرآباد کے ایک شاعر نے بھی جواب شیعہ نہیں رہے، کہا ہے:
اسی کا غم ہے عزیز و اسی کا ماتم ہے
غم حسین زیادہ ہے زندگی کم ہے
حسن حسین اور زہرہ کے سلسلے میں منقبتی رباعیات خوب ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا رسول اللہ کی صرف ایک ہی بیٹی تھی اور پھر حضرت علیؓ کے علاوہ بھی تو آپ کے دو داماد اور بھی تھے جو جلیل القدر صحابہ شمار ہوتے ہیں۔ ان کا ذکر ہمارے شعرائے کرام کے لبوں پر آتا ہی نہیں۔ در اصل ہماری اردو شاعری پر ابن سبا اور ابنِ رضاؔ کا تسلط ہے جو ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
اللہ تو حکم دیتا ہے کہ اٹھتے بیٹھتے ہمارا ذکر کیا کرو اور آپ کا مصرع ہے ع ہر دم جاری زبان پہ رکھ نام حسین(ص ۱۲۴)۔ جب کہ آپ نے ماشاء اللہ بڑی اچھی رباعیات کہی ہیں جن میں توحید ہی توحید ہے۔ ایک جگہ آپ نے لکھا ہے (ص ۷۵)۔ اللہ اللہ مثل جنت اجمیر۔ (استغفراللہ )
(مطبوعہ ہزار رنگ میں ’’ہر دم جاری زباں پہ رکھ نام حسین‘‘والی رباعی تو شامل نہیں رکھی البتہ دوسرے مصرعے کو یوں بدل کر شامل رکھا ’’اللہ اللہ مثیل جنت اجمیر‘‘ یعنے مثل کے بجائے مثیل کر دیا۔ پتہ نہیں اس سے کیا فرق پڑ گیا )۔
’’لو لاک لماخلقت الافلاک‘‘ کے بارے میں عرض ہے کہ یہ ’’موضوعات کبیر‘‘ کا جز ہے اور ’’قاب قوسین اوادنیٰ‘‘ در اصل جبرئیل امین و آنحضورﷺ کے درمیانی فاصلے کے لیے کہا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو سورۃ نجم کی آیاتِ سیاق و سباق یا پھر کسی راسخ العقیدہ مفسرِ قرآن کی تفسیر دیکھ لیجئے۔ کم سے کم مولانا مودودی کی تفہیم القرآن ہی دیکھئیے۔ یا پھر آپ کو حج کے موقع پر سعودی حکومت کی طرف سے قرآن مجید کا جو تحفہ ملا وہی پڑھ لیں تو کافی ہے۔ موجودہ ترجمہ والا تحفہ مولانا محمد جوناگڈھی جیسے بے پناہ عالم بے بدل کا ترجمہ ہے۔ جس کے حاشیئے تین تین قابل ترین علماء نے لکھے ہیں یعنے مولانا صلاح الدین یوسف، ڈاکٹر وصی اللہ عباس اور ڈاکٹر اختر جمال لقمان، نظرِ ثانی کی مولانا صفی الرحمن مبارکپوری نے جنھیں ان کی کتاب الرحیق المختوم (سیرت نبوی ) پر شاہ فیصل انعام مل چکا ہے۔ (شکر ہے کہ ناوکؔ صاحب نے ایسی تمام رباعیات ہزار رنگ میں شامل نہیں رکھیں )۔
بعض غیر معروف لوگوں کی شادی بیاہ پر کہی ہوئی رباعیات آپ کے لیے اور مجموعے میں بہت ہلکی حیثیت رکھتی ہیں۔ ٹھیک ہے دل جوئی کے لیے رباعی کہہ دی یا کوئی تاریخی قطعہ کہہ دیا مگر اسے کتاب کی زینت بنانا قطعی نامناسب ہے۔ آپ کی مرضی۔ بہر حال کتاب آپ کی ہے۔
(اس قسم کی تہنیتی رباعیات بھی ناوکؔ صاحب نے ہزار رنگ سے نکال دی ہیں )۔
کونین جمع ہے مگر آپ نے اسے واحد باندھا ہے کونین ہے مظہر تری خلاقی کا (ناوکؔ صاحب نے ’’ہزار رنگ‘‘ میں اس مصرع کو یوں بدلا ع ہر چیز ہے مظہر تری خلاقی کا۔ مصرع پھر بھی غلط رہ گیا (کا) کی جگہ (کی) کا محل ہے۔ )
ص۲۵ کی رباعی میں اکسویں ستمبر آپ نے لکھا ہے جبکہ وہ تاریخی کارنامہ گیارہ ستمبر کا ہے۔ (ناوکؔ صاحب نے یہ 9/11والی رباعی ہی نکال دی )۔
ص۱۳۰ آپ نے ’’فتنے‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ع اولاد کہ اموال ہوں سب فتنے ہیں کتنے، جتنے کے قافیے کے طور پر۔ حالانکہ محل کے اعتبار سے فتنہ کہا جاتا ہے چاہے کسی مونث کے لیے آئے کہ جمع مذکر کے لیے۔ ان کی رباعی ہے:
دنیا میں رشتے ناتے جتنے ہیں
ان سب میں بہی خواہ ترے کتنے ہیں
ہم نے تو سنی ہے یہ ندائے غیبی
اولاد کہ اموال ہوں سب فتنے ہیں
ص۱۶ خوشیوں کی منادی کی طرح ہے دنیا۔ ہونا چاہیے۔ کمپوزر نے شاید (کے منادی) کر دیا ہے۔
ص ۱۵ پر ایک رباعی ہے
حیلوں کے ہمالے کی طرح ہے دنیا
تاویل کی اک لے کی طرح ہے دنیا
ہر کام میں ہے لیت و لعل کی خوگر
یعنی سچپوالے کی طرح ہے دنیا
ہمالے اور سچپوالے تو خیر قافیے ہیں ’’اک لے‘‘کیسے آئے گا۔ دوسرے مصرع میں بھی حرف روی کا خیال رکھا جاتا تو بہتر ہوتا۔ مثلاً ع ’’ تاویل کی کیا لے کی طرح ہے دنیا‘‘ اصلاح مقصود نہیں مثال پیش کر رہا ہوں ورنہ یہ تاب یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے۔
تعمیل حکم میں مقدمہ حاضر ہے۔ اللہ کرے پسند آئے اور خط میں جو معروضات ہیں وہ محض آپ سے خلوص کی بنیاد پر ہیں۔ للہ کچھ اور خیال نہ فرمائیے۔ آپ میرے بزرگ ہیں۔ کتاب چھپ جاتی تو تیر کمان سے نکل جاتا۔ نظر ثانی فرما لیجئے۔ یا اگر میں غلطی پر ہوں تو مجھے اپنی اصلاح کا موقع دیجئے گا۔
آپ کا اپنا
رؤف خیرؔ
۲۰۰۴۔ ۸۔ ۲۷
بڑے ہی حدو ادب کے ساتھ لکھے ہوئے اس خط کے جواب میں محترم المقام جناب ناوکؔ حمزہ پوری نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ بعض اعتراضات کو تسلیم کر لیا البتہ بعض اعتراضات کو اپنے دلائل کے ساتھ رد بھی کیا۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ ناوکؔ صاحب نے ان مفروضات کا بھی جواب دیا ہے جو سرے سے میرے خط میں موجود ہی نہیں ہیں۔
جناب ناوک حمزہ پوری کا خط بہ نام رؤف خیر
برادر مکرم السلام علیکم و رحمۃ اللہ
کل 4/9 کو پارسل موصول ہوا۔ متشکر ہوں۔ مقدمہ بھی دیکھا اور اس کے فوراً بعد لفافے کی تحریر بھی دیکھی۔ حسب الحکم دوسرے دن کا انتظار پر صبر نہ ہو سکا (کذا)۔ معذرت خواہ ہوں۔ دونوں چیزوں کے لیے پوری سچائی کے ساتھ متشکر ہوں۔ لفافے کے لیے کچھ زیادہ ہی۔
آپ صاحب نظر ہیں۔ یہ جانتے ہیں کہ جو جس قدر تیز بھاگتا ہے اتنی ہی ٹھوکر یں کھاتا ہے اور بفضلہ تعالیٰ گذشتہ پچاس برسوں سے ادبی بساط پر سرپٹ دوڑ رہا ہوں اور اس کا خمیازہ تو بھگتنا ہی پڑے گا۔ آپ کی بیشتر رائیں درست ہیں اور جو نادرست ہیں یا جن کے لیے جواز پیدا کیا جا سکتا ہے ان سب کے لیے ایک بار پھر شکریہ ادا کرتا ہوں آپ نے زحمت اٹھائی یہی کیا کم ہے۔
’’لولاک لما‘‘۔۔ ۔ اور ’’قابَ قوسین‘‘ ہر دو معاملے میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں، انھیں نکال دوں گا۔ افسوس اس کا ہے کہ یہ رباعیاں ایک نعتیہ مجموعے میں چھپ چکیں۔ آپ کا مشورہ پہلے آ جاتا تو وہاں سے بھی نکال دیتا۔ بہر حال صبر اس طرح کر رہا ہوں کہ رباعیاں عقیدۂ توحید پر ضرب نہیں لگاتیں۔
رباعی کے بحر و وزن کے معاملے میں، میں نجم الغنی کا پابند نہیں۔ انشاؔ کے قطعے کو جو شخص رباعی کہے اس کی پابندی بھی کیا۔ اپنے طور پر گذشتہ پچیس تیس برسوں میں خود میں نے بہت چھان پٹک کی ہے کہ بفضلِ خدا اب ہند و پاک کے عروض داں اس کا اعتراف کرتے ہیں۔
(۱) بستی بستی صحرا صحرا ڈھونڈا
(۲) چھانا اس دنیا کا گوشہ گوشہ۔ یا پھر
(۳) اصحابِ صفہ اصحاب صفہ
تینوں مصرعے۔ مفعولن مفعولن مفعولن فع۔ پر تقطیع ہوں گے۔ قدرے پریشانی اصحاب صفہ کے سلسلے میں ہوئی ہو گی لیکن اصول تقطیع اور کہنا چاہئے کہ مسلمہ اصول تقطیع یہ ہے کہ ضرورتاً ہر اضافت کو بھی بجائے یک حرف شمار کرنا جائز ہے۔
اس مصرعے میں تبدیلی ممکن تھی لیکن تکرار سے جو زورِ بیان پیدا ہوتا ہے وہ مفقود ہو جاتا۔
ع فانی ہیں تمام چیز یں باقی ہے خدا۔ میں چیزیں حشو نہیں بلکہ میرے خیال میں اردو کا روزمرہ ہے۔ تمام لوگ آ گئے۔ تمام کام نمٹا لو وغیرہ آئے دن کی گفتگو میں عام ہے۔
میں اس سے بھی اتفاق نہیں کرتا کہ ثنا کا لفظ صرف اللہ کے لیے مخصوص ہے۔ انیسؔ فرماتے ہیں ع سوکھے ہوئے ہونٹوں پہ محمد کی ثنا تھی۔
’’ڈھیر‘‘ والی رباعی مطبوعہ ہے اور شکر ہے کہ یہ لفظ مذکر ہی استعمال کرتا ہوں۔ خوشیوں کی منادی۔۔ ۔ والی رباعی بھی (کے منادی ) کے ساتھ مطبوعہ ہے۔
ہمالے اور لے نیز سچپوالے تینوں الفاظ ہندی کے ہیں اور یہ بطریق احسن قافیے ہو سکتے ہیں۔
حرف روی کا اختلاف آپ کو کہاں لگا ؟
ولادت، وفات اور شادی بیاہ کے مواقع پر جو بے شمار رباعیاں کہی ہیں ان میں سے کچھ نمونتاً دے دی تھی۔ تاریخ گوئی بھی کسی زمانے میں ایک فن تھا اور متعدد تاریخ گو شعراء کو دیکھا ہے بقید رباعی تاریخ گوئی ان (کے ) ہاں مفقود ہے۔ میں نے بیشتر تاریخیں بقید رباعی کہی ہیں۔ یوں ان کا نمونہ میرے خیال میں جانا چاہیے تھا۔
ابن سباؔ اور ابنِ رضاؔ کی گرفت کرتا رہتا ہوں یہ آپ پر مخفی نہیں ہے لیکن میرا حال یہ ہے کہ ابنِ تیمیہ کو بھی پوری طرح قبول نہیں کرتا اور امام حسین کو باغی قرار نہیں دیتا۔ آپ اسے جو کہیں۔ ممکن ہے چونکہ ماں باپ دونوں طرف سے حسینی ہوں اس لیے آپ اسے عصبیت بھی کہہ سکتے ہیں۔ میں روکتا نہیں۔ امام حسین کا خروج اگر ناجائز تھا تو پھر ساری قربانیاں رائگاں قرار پائیں گی۔ البتہ ’’ہر نعمت عقبیٰ‘‘ کو بدل دوں گا۔
کوشش یہ کروں گا کہ ’’مثیل جنت اجمیر‘‘ کو بھی بدل دوں۔ حالانکہ جب ہم ایمان کو خطرے میں ڈالے بغیر کشمیر کو جنت کہہ سکتے ہیں تو یہ کوئی بہت گرفت والی بات نہیں۔ عرس و قوالی کو یا پھر بزرگوں کے مزارات پر جو کچھ ہوتا ہے وہ بعد کے لوگوں کا اپنا عمل ہے اور اس کے لیے وہ خود جواب دہ ہیں۔ کسی بزرگ نے غالباً یہ نہیں کہا ہے کہ میری پوجا بھی کیجیو۔
آپ نے توجہ سے رباعیاں پڑھی ہوتیں تو شیعیت کا خرخشہ نہ چھوڑتے۔ شیعہ بھول کر بھی ام المومنین حضرت عائشہ کی تعریف میں زبان نہیں کھولتے۔ میں نے کئی کئی رباعیاں کہی ہیں اور ایک رباعی تو امہات المومنین کی شان میں بھی ہے۔ یوں ہی ایک داماد حضرت علی کا ذکر نہیں کیا ہے۔ حضرت عثمان کی شان میں بھی کئی رباعیاں ہیں۔ رہا سوال حضرت فاطمہ کا یا حضرات حسنین کا۔ یہ درست ہے کہ ان پر زیادہ روشنی ڈال دی ہے تو میرے بھائی وہ ساری حدیثیں بھی کیا موضوع ہیں جن میں حضرت فاطمہ کا بار بار ذکر آیا ہے۔ سفر کے لیے جانے سفر سے واپسی پر پھر روزانہ کسی نہ کسی وقت ملاقات کو آپ کا جانا۔ پھر اسی طرح حسین کو آغوش رحمت میں بٹھانا، انھیں کندھے پر سوار کرنا۔ ان کے ساتھ کھیلنا وغیرہ وغیرہ کا ذکر جس کثرت سے ہے اتنا ذکر کسی دوسری بیٹی کا ہے نہ بیٹی کی اولاد کا۔ یہ اگر غلطی ہے تو غلطی کہاں سے شروع ہوئی ؟
(حالانکہ میرے خط میں شیعیت کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا )
آپ نے دیکھا کہ جو اصحاب صفہ کی مدح میں بھی رباعی کہی ہے اور عشرۂ مبشرہ کی مدح میں۔ لیکن بقدرِ ضرورت۔ اس لیے اس باب میں آپ کم از کم میرے بارے میں غلو کا شکار ہو گئے۔ اور میں اپنی حد تک ہی جواب دہ ہوں۔ دوسروں کی بات کیا کہوں۔ وہ جانیں اور ان کا اللہ۔
ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہر چند کہ آپ کی یہ تحریر مقدمے کی تعریف میں نہیں آتی تاہم اس سے مجھے بہت فائدہ پہنچا ہے اور میں نے متعدد رباعیاں ہٹا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پروفیسر گیان چند نے بھی ردیف وار ترتیب سے منع کیا تھا۔ اس سے جیسا کہ آپ نے بھی اشارہ کیا ہے فضا ایک رباعی سے دوسری رباعی میں جو ایک جھٹکے سے بدل جاتی ہے وہ کوئی خوشگوار تاثر نہیں چھوڑتی۔ اس لیے انشاء اللہ اسے از سر نو مرتب کروں گا۔
آپ کا بے حد ممنون ہوں کہ آپ نے ان حالات میں بھی توجہ فرمائی اور زحمت گوارا کی۔ والسلام علیکم
دعاگو دستخط
ناوک حمزہ پوری
5-9-2004
نوٹ: ۔ ناوک صاحب نے مجھ سے اپنی رباعیات کے مجموعے پر مقدمہ لکھوایا تھا لیکن اپنی کتاب میں شامل نہیں رکھا۔ چونکہ یہ مضمون علمی نوعیت کا ہے۔ اس میں عروض، زبان و بیان کے جو نکات زیر قلم آئے ہیں ان سے قارئین استفادہ کر سکتے ہیں۔ اس سے کسی کی تنقیص، دل آزادی یا تنقید برائے تنقید مقصود نہیں۔ مضمون میں بہر حال احترام ملحوظ رکھا گیا ہے۔ چونکہ ناوکؔ صاحب نے اپنے مجموعے ’’ہزار رنگ‘‘ میں میرا مقدمہ شائع نہیں کیا تو مجھے اچھا نہیں لگا اس لیے میں نے اپنا اور ان کا خط پیش رفت میں چھپوا دیا۔ (مطبوعہ ماہ نامہ ’’ پیش رفت‘‘ دہلی مارچ ۲۰۰۹ء)جس کا جواب ناوک صاحب نے یوں دیا:
چشمۂ آفتاب را چہ گناہ
ماہنامہ پیش رفت کے مارچ کے شمارے میں برادر گرامی حضرت عبد الرؤف خیر کا خط خیر نظر نواز ہوا تھا۔ مسکرا کر خاموش ہو گیا تھا۔ پھر ہو بہو وہی تحریر ’’ رہنمائے تعلیم‘‘ دہلی میں جنت نظر ہوئی۔ دل شاد ہوا۔ کم از کم ایک خیرخواہ تو ہے جو ناوک حمزہ پوری کا وظیفہ پڑھ رہا ہے۔ تعلق اس خانوادے سے ہے جس نے دشمنوں کو بھی دعائیں دی ہیں۔ سو خیر صاحب کے حق میں دعائے خیر کی۔ پھر یہ ہوا کہ عزیزم التفات امجدی سلمہٗ حیدرآباد گئے تھے۔ انہیں بھی حیدرآبادی بریانی کھلا کر آنجناب نے اپنی نگار شات دکھلائیں اور یہ باور کرانے کی سعی لا حاصل کی کہ ناوک حمزہ پوری زبان و فن اور بالخصوص اوزان رباعی سے نا آشنا ہیں۔ اب کل شام (۲۷؍اپریل)عزیر خوشؔ دل (ہزاری باغ) نے فون پر اطلاع دی کہ خیر صاحب انہیں بھی ناوک حمزہ پوری کی عروض دانی سے متعلق بریف کر رہے تھے۔ حیرت ہوئی کہ آخر برادرم خیر کے جذبۂ انا کی سیری کب ہو گی؟
سوال یہ ہے کہ ناوک حمزہ پوری نے کبھی بہ زبان خود یا بقلم خود یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ یکے از ماہرین عروض ہے۔ اب اگر برادرم خیرؔ خود مصر ہیں کہ ریاست بہار کی حد تک ناوک رباعی گو شعراء کے امام ہیں اور آنجہانی جگناتھ آزاد تسلیم کرتے ہیں کہ عصر حاضر میں ناوک حمزہ پوری رباعی کی آبرو ہے اور بھر بیسیوں مشاہیر علم و ادب اگر اس کو ماہر عروض بھی جانتے ہیں تو اس میں اس کم نظر و بے بصر فقیر بوریا نشیں کا کیا قصور۔
حیرت یہ ہے کہ ابھی کل تک تو اس خاکسار کا یہ دیرینہ خیر خواہ بھائی اس ہیچمداں کے بارے میں اسی خوش فہمی کا شکار تھا۔ ایسانہ ہوتا تو جب سردار نے عروضی بساط پر گزشتہ سال انہیں پٹخنیاں دیں تو وہ مدد کے لیے سب سے پہلے ناوک حمزہ پوری کو نہ پکارتے۔ اب حالاں کہ اس فقیر کی سردار سے صاحب سلامت تک نہ تھی نہ ہے دوسری طرف معاملہ ایک خیر خواہ بھائی کا تھا۔ لیکن بحث جب علمی نوعیت کی ہو تو کوئی کیا کرے۔ مجھے سردار ہی کا موقف صحیح تر لگا۔ یوں میں نے خیر صاحب کو مشورہ دیا کہ خاموشی کو راہ دیں۔ اور غالباً ہمارے تعلقات میں خیر صاحب کی طرف سے ٹرننگ پوائنٹ یہی ثابت ہوا۔
بہر حال خیر بھائی اگر آمادۂ شر ہی ہیں تو یہ فقیر کیا کر سکتا ہے سوائے اس کے کہ ان کے حق میں دعائے خیر کرتا رہے۔ البتہ یہ فقیر آج بھی بہ بانگ دہل یہ اقرار کرتا ہے کہ اس کا کوئی استاد و ستاد نہیں۔ صرف اور صرف مطالعے اور مسلسل مطالعے کی راہ سے گرتے پھسلتے، ٹھوکریں کھاتے اور سنبھلتے اس مقام تک آیا ہے اور اب بھی کسی زعم فعلاتن کا اسیر نہیں۔ یعنی کہ سیکھنے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کر لینے میں آج بھی عارمحسوس نہیں کرتا۔ اور اس کے شاہد عادل تو خود حضرت خیر ہیں۔ بہر حال صرف اس خیال سے کہ بحث علمی ہے اور معلوم نہیں برادرم خیرؔ ابھی اور کس کس کو یہ باور کراتے پھر یں گے کہ ناوک حمزہ پوری جاہل ہے اپنا موقف اہل علم کے سامنے رکھ دینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
چنانچہ عرض ہے کہ وزن ’’اصحاب صفہ، اصحاب صفہ‘‘ بحر رباعی کے ایک وزن مفعولن مفعولن فع پردرست ہے۔ تقطیع کے لیے ہر دو زیر اضافت کو بجائے یک حرف تسلیم کرنا ہو گا۔ اور یہ کچھ میرا خودساختہ اصول نہیں۔ بے شک میں نے اس مصرعے کو ’’اصحاب نبی، زینت بزم صفہ بھی، کر دیا ہے لیکن غلطی تسلیم کرتے ہوئے نہیں۔ یہ دیکھ کر کہ اب زیادہ تر لوگ تو برادر گرامی قدر خیرؔ صاحب ہی کے علم و استعداد والے ہیں۔ خیر اسی طرح جو شخص بھی ’’بستی بستی صحرا صحرا ڈھونڈا‘‘ یا ’’ چھانا گوشہ گوشہ گوشہ اس دنیا کا‘‘ وغیرہ کو ساقط الوزن کہتا ہے وہ اوزان رباعی سے اپنی عدم واقفیت کا خود ڈھنڈ ورا پیٹتا ہے۔ (آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں ) پھر یہ کہ جو شخص اس رباعی:
حیلے کے ہمالے کی طرح ہے دنیا
تاویل کی ایک لے کی طرح ہے دنیا
ہر بات میں ہے لیت و لعل کی خوگر
یعنی سچوالے کی طرح ہے دنیا
میں قوافی کے عیوب کی نشان دہی کرتا ہے وہ یہ اقرار کرتا ہے کہ وہ زبان ہندی سے ناواقف ہے۔ ہمالے جسے اردو میں ہمالیہ بھی لکھتے ہیں اصلاً مرکب ہے ہم +آلے سے۔ دوسرے مصرعے میں جو ’’لے‘‘ آیا ہے وہ آزاد، معنی کے لحاظ سے خود مکتفی اور منفرد لفظ ہے۔ معنی اس کے اردو لغات میں بھی سر، تال، تغمگی، دھن وغیرہ دیے ہوئے ہیں۔ اب جو شخص ہمالے کا قافیہ لے کو قبول نہیں کرتا ہے وہ میرے خیال میں نہ قافیے کی تعریف سے واقف ہے نہ حروف قافیہ کا علم و ادراک رکھتا ہے اور مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی ہے کہ برادر محترم عبدالرؤف بھی ان میں شامل ہیں۔ بایں عقل و دانش بباید گریست:
سوئے دانش گاہ جب جاہل گیا
کانپ اٹھیں دیواریں چھپر ہل گیا
میری سمجھ سے باہر ہے کہ ’’ہر چیز تیری خلاقی کا مظہر ہے‘‘۔ غلط ہے اور یہ کہ بقول برادرم خیرؔ، ’’ہر چیز تیری خلاقی کی مظہر ہے‘‘ ہونا چاہئے۔ اسی طرح کتنے، جتنے کے قافیے کے طور پر فتنے کو جو لوگ بھی غلط ٹھہرائیں خواہ ان میں فاضل اجل بھائی خیر صاحب مدظلہٗ ہی ہوں کو اپنی زبان دانی پر غور کرنا لازم ہے۔
’’فانی ہیں تمام چیزیں باقی ہے خدا‘‘ میں چیزیں ’’حشو کے ذیل میں نہیں آتیں۔ ضرورت زبان ہے۔ تمام صفت ہے۔ کل کا کل، سب کی سب۔ حشو کی تعریف پر برادرم خیر کو ازسر نو غور کرنا چاہئے۔
’’چھان پھٹک، پر بھی عتاب نازل ہوا ہے۔ چھاننا اور پھٹکنا دونوں فعل متعدی ہیں۔ چیزوں کو آلائشوں سے پاک کرنا لغات میں موجود ہیں۔ خداوند قدوس کی سوگندہ یہ الفاظ درست ہیں
’’مثیل جنت اجمیر‘‘ کہنا یا یہ کہنا کہ ’’ہر دم جاری زبان پہ رکھ نام حسین‘‘ سے متعلق عرض ہے کہ شاعری مبالغے سے خالی نہیں ہوتی بھائی ! ہر خوبصورت منظر کو جنت نظیر اور ہر سریلی آواز کو فردوس گوش کہنا عام بات ہے۔
اور پھر انصاف کر و بھائی ! کہ اجمیر کو مثل جنت کہنا یا حسین کا نام لیتے رہنے کو کہنا شرک کی بات ہے یا شرک یہ ہے کہ اچھے بھلے نام ’’عبدالرؤف‘‘ سے عبد کو حذف کر کے صرف رؤف بن جانا ؟ فاعتبرو ایا اولی الابصار۔
پھر عرض کرتا ہوں کہ آپ کو اپنا بھائی سمجھتا ہوں۔ آپ کو ٹوکتے ٹاکتے رہنے کا حق ہے۔ اور جو باتیں علم و صداقت کے معیار پر کھری ٹھہریں گی انہیں تسلیم کر لوں گا۔
کسی ایک رسالے میں خط کا چھپوا دینا اور چار پانچ برس بعد چھپوانا بہ اکر اہ درست کہا جا سکتا ہے لیکن پھر اسی کو دوسرے رسالے میں بھی چھپوانے کو انانیت کی آسودگی کے سوا کچھ اور نہیں کہا جا سکتا۔ پھر یہ کہ ایسے لوگوں (سے )ٹیلی فونک رابطہ کر کے ذکر کرنا یا بریانی کھلا کے ذکر کرنا جواس خاکسار کے شاگرد ہیں بڑی قابل اعتراض حرکت ہے۔ و باللہ التوفیق
ناوک حمزہ پوری
مذکورہ جواب کے جواب میں رؤف خیر نے حسب ذیل خط ’’ گلبن‘‘ لکھنؤ جولائی۔ اگسٹ ۲۰۱۰ء میں اشاعت کے لیے دیا تھا۔ کیوں کہ ناوک صاحب نے اپنا جواب ’’گلبن‘‘ کے پچھلے شمارے میں شائع کروایا تھا۔
حرف خیر
’’خط خیرؔ اور جواب ناوک‘‘ ماہ نامہ ’’ پیش رفت ‘‘دہلی (مارچ ۲۰۰۹ء) اور ماہ نامہ ’’رہنمائے تعلیم جدید‘‘ دہلی (اپریل ۲۰۰۹ء) میں شائع ہوا تھا۔ جناب ناوک نے ’’پیش رفت‘‘ جولائی ۲۰۰۹ء میں ایک خط شائع کروایا جس میں میرے لیے ’’کلمات خیر‘‘ کہے۔ اپنی رباعی
حیلے کے ہمالے کی طرح ہے دنیا
تاویل کی اک لے کی طرح ہے دنیا
ہر بات میں ہے لیت و لعل کی خوگر
لیکن سچیوالے کی طرح ہے دنیا
کے قوافی کو جائز قرار دیتے ہوئے علامہ کہلانے والے جناب ناوکؔ نے مجھے ایک شعر نذر کیا جس میں ’’جہالت‘‘ کارفرما ہے۔ میرا مطلب ہے شعر میں جہالت کی کارستانی ہے۔ وہ شعر ہے:
سوئے دانش گاہ جب جاہل گیا
کانپ اٹھیں دیواریں چھپر ہل گیا
اسّی پچاس برس کے ایک بزرگ کو قافیے کے بارے میں بنیادی بات بتاتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے: قاعدہ ہے کہ جو لفظ یا الفاظ دہرائے جاتے ہیں وہ ردیف میں شامل ہوتے ہیں اور قافیہ اس لفظ سے بنتا ہے جو حرف روی سے عبارت ہے جس میں اعراب کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ مثلاً مذکورہ شعر میں ’’ہل گیا‘‘ تو ردیف شمار ہو گا اب رہ گیا (جا) اور (چھپر) یہ کیسے قافیہ ہو گا۔ یعنے (جاہل) کا قافیہ (چھپر ہل ) ؟ یہی حال موصوف کی رباعی کا ہے۔ ہمالے۔ سچپوالے کے ساتھ (اک لے ) کیسے قافیہ ہو گا جب کہ (لے ) سے پہلے (ہما) اور (سچپوا) تو ٹھیک ہیں (اک) کیسے آئے گا۔ ؟
ناوکؔ صاحب نے میری کئی اصلاحیں قبول کر لیں جیسا کہ انہوں نے خود اعتراف کیا ہے۔ میری صلاح پر کئی رباعیاں نکال دیں۔ اگر وہ مذکورہ رباعی کے صحیح ہونے پر اصرار کرتے ہیں تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ البتہ نئی نسل کے شعراء کو میرا مشورہ ہے کہ وہ علم قافیہ سے پوری طرح آگاہی حاصل کریں۔ ایطائے جلی و ایطائے خفی سے واقف ہو جائیں تاکہ غلط سلط شعر کہہ کر شرمندہ ہونے سے بچیں۔
ناوک صاحب نے اس علمی معاملے کو اپنی عزت نفس کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ غلطی کی مثالیں دے کراپنی غلطی پر اصرار بجائے خود غلطی ہے۔ انہوں نے میرے علاوہ محترم ریاض الرحمن شروانی جیسے بزرگ کو بھی نہیں بخشا جنہوں نے میری تائید میں خط ’’گلبن‘‘ میں چھپوا یا تھا۔ ’’اڑے ہمارے تو ہم بھی اڑائیں گے پرزے‘‘ جیسے عامیانہ عنوان کے تحت انھیں گھسیٹنا علمی متانت کے مغائر ہے۔ بھول چوک تو ہر انسان سے ہوتی ہے کیا میرؔو غالبؔ ، ناسخؔ ، امیرؔ، ذوقؔ، داغؔ سے غلطی کا صدور ممکن ہی نہیں ؟
اہلِ بیت سے تعلقِ خاطر کی وجہ سے ناوک صاحبؔ نے ان کی شان میں زیادہ رباعیات کہیں مگر اہل بیت کی اولین حقدار امہات المومنین ہیں۔ گیارہ بیویوں میں سے صرف خدیجۃ الکبریٰؓ اور عائشہ صدیقہؓ کی تعریف میں ایک ایک رباعی کہہ دینے سے اہل بیت کا حق ادا نہیں ہو جاتا۔ دو چار رباعیاں حضرت عمرؓ کی شان میں بھی کہی ہوتیں جو رسول اکرمﷺ کے خسر ہونے کے ساتھ ساتھ شیر خدا کے داماد بھی تو تھے۔
خسر رسول خدا کے، علیؓ کے تھے داماد
ملا عمرؓ کو یہ دہرا شرف نجابت کا
رہ گیا میرا نام۔ میں تو رؤف ہو کر بھی عبدالرؤف ہی ہوں۔ نعوذ باللہ خدائی کا دعویدار نہیں۔ اپنی عبدیت سے قطعی انکار نہیں۔ میں اگر خطا کار ہوں بھی تو ایک رؤف با العباد کا جو غفور الرحیم ہے۔ اس کے بارے میں کیا کہا جائے جو غلام السیدین ہے۔ یعنے دو دو سرداروں کا غلام۔ بھلا ایک شخص دو دو آقاؤں کی غلامی کیسے نباہ سکتا ہے۔ یہ تو آقاؤں کے ساتھ مذاق ہے بلکہ غلامی کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ پھر غلام السیدین نے ناوک اندازی اختیار کی۔ (مخفی مباد کہ ناوک حمزہ پوری کا اصلی نام غلام السیدین ہے )
بہار کے خوشدل فون نہیں کرتے
صرف مس کال دیا کرتے ہیں۔
وعدہ وصل تووہ ٹال دیا کرتے ہیں
صرف مس کال پہ مس کال دیا کرتے ہیں
ان کے کندھوں پر کمان رکھ کر ناوک صاحب نے ناوک اندازی کی ہے۔ میں نے کہا تھا کہ ثناء کا لفظ صرف اللہ کے لیے زیب دیتا ہے۔ دلیل میں کہا تھا ثنا سبحانک اللہم بحمدک۔ اور میں نے اپنے خط میں کہا تھا کہ لولاک لما حلقت الافلاک جھوٹی من گھڑت روایت ہے۔ حدیث کے کسی ذخیرے میں نہیں ملے گی۔ ناوک صاحب نے قبول کر لیا۔ اسی طرح قاب قوسین کے بارے میں بھی میں نے کہا تھا کہ یہ جبرئیل اور رسول اللہﷺ کے درمیان فاصلے کے لیے آیا ہے۔ یہ بھی ناوک صاحب نے تسلیم کر لیا۔ مگر ان کے شاگرد نے مذکورہ امور کو حق ثابت کرنے کے لیے قرآن و حدیث سے دلیل پیش کرنے کے بجائے شاعروں کے شعر سامنے رکھ دیئے۔ ان کی ’’علمیت‘‘ کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا۔ احباب ان کے مبلغ علم سے اچھی طرح واقف ہیں۔
ان کے دوسرے شاگرد ڈاکٹر التفات امجدی کی مہمان نوازی پر بھی ناوک صاحب کو اعتراض ہے یہ غلط ہے کہ کھلا پلا کر میں نے ان کے سامنے ناوک صاحب کی برائیاں کیں۔ میرا پورا مضمون گواہ ہے کہ میں نے ہمیشہ احترام ملحوظ رکھا ہے۔ حیدرآبادی روایت ہے کہ گھر آئے مہمانوں کی خاطر مدارات کی جائے۔
میرا غریب خانہ قلعہ گولکنڈہ کے بالکل روبرو ہے۔ بعض کرم فرما حیدرآباد آ کر مجھے یاد کر لیا کرتے ہیں۔ جیسے ڈاکٹر مناظر عاشق، ڈاکٹر عبد الواسع، ڈاکٹر مظفر حنفی، ڈاکٹر محبوب راہی، سکندر احمد، فاروق جائسی، فراغ روہوی، شبیر احمد (افسانہ نگار ) ڈاکٹر ابرار الحق لیبر کمشنر رانچی وغیرہ وغیرہ۔ مجھے الحمد للہ قطب شاہی تاریخ میں کچھ شدبد ہے۔ میں گنبدان شاہی دکھاتے ہوئے ساری تاریخ بتا دیا کرتا ہوں۔ ڈاکٹر التفات امجدی نے بھی مجھے یاد کیا۔ انھیں بھی میں نے گنبدان قطب شاہی دکھائیں۔ ان کے اعزاز میں ایک مشاعرہ بھی کروایا۔ اب جگر تھام کے سنیئے کہ ڈاکٹر التفات امجدی نے یہ انکشاف کیا کہ وہ تو شہر سیوان کے کہنہ مشق استاد شاعر قمر سیوانی کے شاگرد ہیں مگر التفات امجدی کے مجموعے ’’چکنے پات‘‘ پر پیش لفظ لکھتے ہوئے ناوک صاحب نے ایک رباعی اپنی طرف سے التفات امجدی کے نام سے مجموعے میں شامل کر ڈالی۔
سیوان سے چل کر جو گیا حمزہ پور
جلوہ گہ علم و فضل کا دیکھا طور
سر چشمۂ آداب سخن ہیں ناوکؔ
آ کر ہوئی تشنگی یہاں میری دور
ڈاکٹر التفات امجدی بڑی مروتوں کے مہذب آدمی ہیں۔ شاید اس لیے رباعی بار پا گئی۔ علم و فضل کی جلوہ گاہ۔ یا علم و فضل کا طور۔ کہنا چاہئے تھا۔ جلوہ گہ علم و فضل کا طور ناوک صاحب ہی کہہ سکتے ہیں۔ اس رباعی کی وجہ سے قمر سیوانی اور التفات امجدی کے مابین دراڑ آ گئی۔ علی گڑھ سے محترم ریاض الرحمن شروانی صاحب نے گلبن (نومبر دسمبر ۲۰۰۹ء) میں اور محترم خالد محی الدین صاحب نے (دہلی سے )گلبن (جنوری تا اپریل ۲۰۱۰ء) میں میری تائید میں اتنا کچھ تحریر فرمایا ہے کہ میرے لکھنے کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی تھی۔ پھر بھی احباب کے اصرار اور ظفر ہاشمی صاحب کی دعوت پریہ چند کلمات لکھ دیئے ہیں۔
بعض دوستوں کا خیال ہے کہ اب میرے اس مقدمے ( پیش لفظ )کو بھی منظر عام پر آ جانا چاہئے جو ناوک صاحب کی کتاب میں چھپنے سے رہ گیا !۔ ناوک صاحب کے لیے عرض ہے کہ افتخار نسیم نے اپنے ایک تبصرے میں ایک اچھی بات کہی کہ کسی کے بارے میں کچھ لکھتے ہوئے یہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ اس کے ہاتھ میں بھی قلم ہے۔
۵؍مارچ ۲۰۱۰ء
موتی محل، گولکنڈہ
حیدرآباد۔ 500008
(خط مطبوعہ دو ماہی ’’گلبن‘‘ لکھنؤ جولائی اگست ۲۰۱۰)
٭٭٭
عصمت چغتائی نایاب خطوط کے حوالے سے
عصمت چغتائی کے فکرو فن پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور بہت کچھ لکھا جاتا رہے گا۔ ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی ایک خوبی یہ رہی ہے کہ وہ اپنے ہم مشرب لکھنے والوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے تھے۔ کم سوادوں کی طرح ایک دوسرے کی ٹانگ نہیں کھینچا کرتے تھے۔ اب جامعات کی سطح پر ریسرچ سکالروں کو تانیثی ادب وغیرہ کے موضوع پر کچھ نہ کچھ لکھ کر ڈگری لینی ہوتی ہے چنانچہ اس طرح بھی عصمت چغتائی موضوع بحث ٹھیرتی ہیں۔ عصمت کے بارے میں ان کے ایک ہم عصر ادیب پطرس بخاری کی رائے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ پطرس کے ایک درجن مضامین ستر اسّی برس بعد بھی ادب کے بے مثال شاہ کار سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنی ہم عصر لکھنے والی کے بارے میں جو رائے دی وہ عصمت کی ناول ٹیڑھی لکیر ’’کے سرنامے کے طور پر شائع کی گئی ہے: لکھتے ہیں:
’’عصمت کی شخصیت اردو ادب کے لیے باعثِ فخر ہے۔ انھوں نے بعض ایسی پرانی فصیلوں میں رخنے ڈال دیے ہیں کہ جب تک وہ کھڑی تھیں کئی رستے آنکھوں سے اوجھل تھے۔ اردو ادب میں جو امتیاز عصمت کو حاصل ہے اس سے منکر ہونا کج بینی اور بخل سے کم نہ ہو گا۔‘‘ (ٹیڑھی لکیر۔ کتاب کار رام پور یوپی اشاعت مئی ۱۹۶۷ء)
مدیر ’’نقوش‘‘ محمد طفیل سے تقریباً ہر قابل ذکر ادیب و شاعرہ کی مراسلت رہی۔ کچھ نایاب خطوط بھی ان کے ہاں جمع تھے۔ اس طرح ان کے فرزند جاوید طفیل نے اپنے والد محمد طفیل کا یہ جمع کردہ پانچ ہزار خطوط کا نادر ذخیرہ جی سی یونیورسٹی لاہور کو بطور عطیہ دیا جہاں وہ محفوظ ہے۔ جی سی یونیورسٹی لاہور کے شعبۂ اردو نے معاصرین کے مکاتیب بنام محمد طفیل کا ایک خصوصی شمارہ تحقیق نامہ (۲۰۰۶۔ ۲۰۰۵)شائع کیا ہے۔ ان خطوط میں ہند و پاک کے کئی ادیبوں شاعروں کا ذہن و ذہنیت پڑھی جا سکتی ہے۔ اسی خصوصی شمارے میں عصمت چغتائی کے دس نایاب خطوط شامل ہیں۔ جن میں عصمت نے اپنے لکھنے لکھانے پر خود روشنی ڈالی ہے۔
محمد طفیل اپنے رسالے ’’نقوش‘‘ کے لیے نظمیں، غزلیں، افسانے، مضامین وغیرہ منگواتے تھے اور باضابطہ ان کا معاوضہ بھی ادا کرتے تھے۔ بلکہ بیشتر ادیبوں شاعروں کے مجموعے بھی شائع کیے سولہ اگست ۱۹۵۳ء کے خط میں عصمت انھیں لکھتی ہیں۔:
3-INDUS COURT A Rd, Marine Drive, Bombay
16-8-53
مکرمی۔ تسلیم
مضمون نہ بھیج کر صرف جواب دینا حماقت ہے۔ آپ کے خط مجھ تک کن راستوں سے پہنچے اور نہ بھی پہنچے۔ اس عرصہ میں میرا پتہ بدلتا رہا۔ عرصہ سے لکھنا بند ہے۔ کیوں ؟ یہ مجھے ٹھیک سے نہیں معلوم۔ کوشش جاری ہے۔ جس وقت معلوم ہو گیا فوراً علاج ہو جائے گا۔ زندگی کے اس دور سے گزر رہی ہوں جس سے ہماری دنیا میں لکھ کر پیٹ پالنے والے عام طور پر گزرتے رہتے ہیں۔ دیکھنا ہے کیا صورت لے کراس فضا سے نکلتی ہوں اور کب ؟ سطح پر آتے ہی اطلاع ہو جائے گی۔
کبھی منٹوؔ سے ملتے ہیں ؟ ملئے تو اس کے پورے خاندان کو دعا سلام اور پیار پہنچا دیجئے۔
فقط عصمت
محمد طفیل لکھنے والوں کو تخلیقات کا پیشگی معاوضہ ادا کر کے بھی لکھواتے تھے اور کبھی کبھی قلم کار حسن طلب سے کام لیا کرتے تھے۔ تیس ستمبر ۱۹۵۳ء کے اپنے خط میں عصمت انھیں لکھتی ہیں:
3-INDUS COURT A Rd, Marine Drive, Bombay
30-9-53
مکرمی۔ تسلیم۔
روپئے ملے۔ شکریہ۔ میں آج علی گڑھ جا رہی ہوں وہاں پہنچتے ہی پہلی فرصت میں مضمون صاف کر کے روانہ کر دوں گی۔ یعنی حد سے حد پانچ تاریخ تک مضمون روانہ کر دوں گی۔ پچھلے دنوں پریشانیوں نے ایسا گھیرا کہ بیان نہیں کر سکتی۔ پندرہ دن کے اندر میں ایک ناول بھی نظر ثانی کے بعد تیار کر لوں گی۔
اگر ادارہ کو دل چسپی ہوئی تو بھیج سکوں گی۔ مگر سانس لینے کے لیے مجھے کم از کم ہزار روپیہ کی اشد ضرورت ہو گی۔ مالی حالات نے مجھے سوچنے تک سے محروم کر دیا ہے۔
میرا علی گڑھ کا پتہ ہے:
c/o Prof A.M.KHAN
Shahin Villa- Doodhpur-Aligarh
خاکسار عصمت‘‘
ذرا سوچئے آج سے ساٹھ سال پہلے ایک ہزار روپیہ کتنی قدر رکھتا تھا اور ایسی کثیر رقم کا محمد طفیل سے مطالبہ کیا گیا تھا۔ دس گیارہ دن بعد ہی وہ محمد طفیل کے نام ایک اور خط مورخہ گیارہ اکتوبر ۱۹۵۳ء کو علی گڑھ سے لکھتی ہیں:
c/o Dr. Mujeeb, Shahin Villa, Dhodhpur, Aligarh
11-10-53
مکرمی تسلیم
آپ کا خط ملا۔ یہاں آ کر چند دن بیمار رہی۔ پھر دوچار روز ملنا جلنا رہا۔ آج مضمون مکمل کر کے بھیج رہی ہوں۔ میں آپ کو ناول کا کچھ حصہ بھیج دوں گی۔ اسی سے اندازہ لگا لیجئے گا کہ ناول کس موضوع پر ہے۔ فلم لائن اس قدر اوٹ پٹا نگ ہے کہ وہاں کسی کا ٹھیک ٹھکانا ہی نہیں۔ آج گنگال (کنگال ) ہے تو شاید کل پھر مالا مال۔ جی اکتا گیا۔۔ ۔ شاہدؔ پرکلی بار ڈال کر کچھ دن آرام کرنے یہاں آ گئی ہو(ہوں ) مکمل سکون کا انتظار تو فضول ہے۔
روپیہ کا انتظام ایسے ہو سکتا ہے کہ آپ روپیہ وہاں میرے بھائی کو دے دیں۔ ڈاکٹر عثمانی جو پاکستان میں CCIہیں۔ وہ مجھے علی گڑھ سے دلوا دیں گے۔ شرائط کا آپ کے پاس پرانا ریکارڈ ہو گا یا جو بھی ہو۔ ضخامت ساڑھے تین سو سے اوپر ہو گی۔
زیادہ آداب۔
خاکسار۔ عصمت
محمد طفیل کے جمع کردہ خطوط کے تعلق سے ’’تحقیق نامہ‘‘ کے پیش لفظ میں محمد سعید نے مختلف ادیبوں شاعروں کے املے کے بارے میں بھی لکھا ہے۔ عصمت بھی املے کی بہت غلطیاں کرتی تھیں جن کی نشاندہی کی گئی ہے جیسے کنگال کو گنگال (ہوں ) کو صرف (ہو) لکھ دینا۔ ساڑھے تین سو کے بعد ( صفحات ) نہ لکھنا وغیرہ۔
عصمت چغتائی اپنی تخلیقات کی قیمت وصول کرنے میں پس و پیش سے کام نہیں لیتیں۔ کیونکہ ان کی گزر بسر ہی اسی پر ہوتی تھی۔ اگر لکھنے والا وقت پرا پنی تخلیق نہ دیتا تو محمد طفیل اس کا معاوضہ روک دیتے تھے۔ عصمت کے ساتھ بھی یہ صورت حال پیش آئی۔ اپنی مصروفیات کی وجہ سے انھوں نے اپنا وعدہ نہیں نبھایا تو ان کا چیک بھی روک لیا گیا تھا بعد میں جو چیک دیا گیا اس کے سلسلے میں عصمت چغتائی نے یکم دسمبر ۱۹۵۳ء کو مدیر نقوش محمد طفیل کے نام علی گڑھ سے اپنے خط میں لکھا:
C/o Dr. Mujeeb, Shahin Villa, Aligarh
1-12-53
مکرمی تسلیم
آپ کے سب خط ملے مگر کچھ دن یہاں ہنگاموں میں گزرے۔ کچھ کالج فنکشن، کچھ دعوتیں اور ملنے والوں کی یلغار۔ سمجھ ہی میں نہ آتا تھا کہ کیا لکھوں۔ پھر دعوتوں کا نتیجہ یعنی بیماری، ملیریا ، انفلوئنزہ اور بمبئی جانے کی گھڑی آن پہنچی۔۔ ۔ آپ نے وہ چیک روک دیا تو ٹھیک ہی کیا۔ میری ناول پھر رک گئی۔ سو صفحے ہوئے۔ اس کے بعد رات کے دس گیارہ بجے تک اودھم رہتی ہے۔ اب بمبئی جا کر کیا لکھ سکوں گی۔ اب تو جب تیار ہو جائے گی جب ہی آپ کو لکھوں گی۔۔ ۔۔
وہ چیک جو آپ نے دیا تھا وہ کیش نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ تو پاکستان میں میرے اکاؤنٹ میں جمع ہو سکتا تھا اور میرا وہاں اکاؤنٹ کہاں سے ہو سکتا ہے۔ آپ نے جو کرشنؔ اور بیدی پر مضمون لکھنے کو لکھا ہے تو میں خود کئی بار کوشش کر چکی ہوں۔ یہ دونوں گرفت میں ہی نہیں آتے۔ کبھی آ گئے تو لکھ ڈالوں گی۔۔ جس تیزی سے یہ سوصفحے لکھے اگر وہی رفتار جاری رہتی تو ناول آٹھ دن سے کم میں ختم ہو جاتا لیکن ایک ناول لکھنے کے لیے اتنی بکھری ہوئی زندگی راس نہیں آتی۔ شروع میں جب تک کسی کو پتہ نہ تھا تو دس بارہ دن کی مہلت ملی پھر وہی بے تکاپن شروع ہو گیا۔
فقط عصمت
اس دوران سعادت حسن منٹو کا انتقال ہو گیا۔ محمد طفیل کی فرمائش پر عصمت نے منٹو پر مضمون لکھ کر چودہ مارچ ۱۹۵۵ء کو انھیں اطلاع دی:
Filmina, Motion Picture Producers
3-INDUS COURT A Rd, Marine Drive, Bombay
14-3-55
مکرمی
میں نے منٹو پر مضمون لکھ لیا ہے۔ مگر نظر ثانی ضرور کرنا ہو گی۔ آٹھ روز تک مضمون بھیج سکوں گی۔ میں منٹو کے لیے دو لائین لکھ ہی نہیں سکتی۔ منٹو کی یاد کے ساتھ تو اتنا کچھ سمٹ آتا ہے کہ لکھنے کا دم نہیں۔
فقط عصمت
ظاہر ہے عصمت پر منٹو کی موت کا صدمہ قدرے شدید گزرا۔ دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب، ایک دوسرے کے معترف اور ایک دوسرے کے بہی خواہ تھے۔ حتیٰ کہ دونوں پر فحش نگاری کے تحت اکٹھے مقدمات بھی چلائے گئے تھے ہر چند کہ دونوں ان الزامات سے بری ہو گئے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے نرم گوشہ دل میں رکھتے تھے۔
عصمت چغتائی کی خوبی یہ ہے کہ وہ جو کچھ سوچتی ہیں بلا کم وکاست بیان بھی کر دیتی ہیں۔ بناوٹ اور تصنع سے پاک ان کی تحریر یں ان کا شناس نامہ ہیں۔
ہم نے اپنے مضمون کی ابتداء میں عصمت کے بارے میں پطرس بخاری کی رائے درج کر دی ہے مگر محمد طفیل کے نام ایک خط مورخہ تیئس جون ۱۹۵۹ء کو عصمت ان کے بارے میں لکھتی ہیں:
3-INDUS COURT A Rd, Marine Drive, Bombay
23-6-59
’’طفیل صاحب۔ یہ قطعی زیادتی ہے کہ آپ مجھ سے اوٹ پٹانگ مضمون لکھوا ہی لیتے ہیں یعنی میں پطرس کو بہت ہی کم جانتی ہوں پھر بھی جو کچھ میرے پاس تھا میں نے بے سوچے سمجھے لکھ دیا۔ آپ جانیں۔
خاکسار عصمت
عصمت کا یہ خط ’’تحقیق نامہ‘‘ کے علاوہ ’’نقوش‘‘ کے پطرس نمبر میں بھی شامل ہے۔
عصمت چغتائی اپنی تخلیقات کے معاوضے کے سلسلے میں براہ راست یا بالواسطہ توجہ دلاتی ہیں۔
بیس دسمبر ۱۹۶۲ء کے اپنے ایک مکتوب میں وہ محمد طفیل کو لکھتی ہیں۔
3-INDUS COURT A Rd, Marine Drive, Bombay
طفیل صاحب،
میں ڈیڑھ مہینہ بعد لکھنو ء اور حیدر آباد کا چکر لگا کر لوٹی۔ اس عرصے میں میری ڈاک بڑی اتھل پتھل ہو گئی۔ جامعہ ملیہ سے مبلغ پچاس روپیئے وصول ہوئے۔ آپ جو بھی دیں لینا پڑے گا۔
عصمت20-12-62
عصمت چغتائی کا ایک طویل خط محمد طفیل کے نام ایسا بھی ہے جس میں انھوں نے اپنے فکر و فن، پسند ناپسند وغیرہ پر کھل کر گفتگو کی ہے تخلیق و تنقید کے مابین امتیاز پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ وہ خود کو ہر قسم کی تنقید سے بے نیاز قرار دیتی ہیں۔ معاشی مسائل کس طرح ادبی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں ان کی بھی نشان دہی کی ہے۔ اس طرح ان کا یہ خط ان کے جذبات واحساسات کو سمجھنے میں بہت معاون ثابت ہوتا ہے۔ ’’تحقیق نامہ‘‘ میں شامل اس خط پر کوئی تاریخ درج نہیں ہے۔ تاہم یہ چھٹی دہائی کے اوائل ہی کا خط لگتا ہے۔ ان کے خط کے ضروری اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں۔ غالباً طفیل صاحب نے ان سے ادبی صورت حال اور تنقید نگاروں کے رویے کے تعلق سے کچھ لکھنے کو کہا تھا جس کے جواب میں عصمت نے لکھا:
Phone No: 243240
3-INDUS COURT
A-ROAD-CHURCH GATE
BOMBAY-1
طفیل صاحب۔
یعنی آپ بھی حد کرتے ہیں۔ میں کہانیاں لکھتی ہوں مگر یہ مجھے کیا معلوم کہ افسانہ ترقی کر رہا ہے (کہ) تنزل پذیر ہے ؟ مجھے فن تھوڑا بہت آتا ہو گا مگر فن کو پرکھنا میرا کام نہیں۔ یہ تنقید نگاروں کا کام ہے۔ ویسے عام طور پر زیادہ تر لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ کسی بھی چیز میں وہ پہلی سی بات نہیں۔۔ ۔ کیا اگر کوئی قائل کر دے کہ افسانہ ترقی پذیر ہے یا تنزل پذیر تو لکھنے والا اچھے افسانے لکھنے لگے گا ؟ کیا وہ قصداً لوگوں کو جلانے کے لیے برے افسانے لکھ رہا ہے یا لکھنا چاہتا ہے۔ لکھنے والا کسی کو مرعوب کرنے کے لیے نہیں لکھ سکتا وہ تو بس لکھتا ہے کیوں کہ لکھنے کو دل چاہتا ہے۔ اچھی چیز لکھنا نہ لکھنا اپنے بس کی بات نہیں۔ ایک شخص کی تعلیم، تربیت، مشاہدہ اور ماحول بے شک اثر انداز ہوتا ہے مگر یہ کوئی ضروری نہیں کہ ایک اچھا افسانہ نگار ہمیشہ ہی اچھا لکھے۔ باوجود تجربہ اور فن پر قابو رکھنے کے ایک اچھا افسانہ نگار نہایت تیسرے درجے کا افسانہ لکھ دیتا ہے اور ایک نیا مصنف اول درجے کی چیز لکھ دیتا ہے۔ میں سخت ناقدانہ نظر سے افسانے نہیں پڑھتی۔ لطف اٹھانے کے لیے پڑھتی ہوں۔۔ ۔ ویسے میں ایک بات کہوں آپ سے۔ مجھے تنقیدوں سے کبھی دل چسپی نہ رہی۔ کسی نے برائی کی تو میرا دل نہ ٹوٹا، کسی نے تعریف کی تو میرا دماغ نہ خراب ہوا۔۔ ۔ مجھے اپنی افسانہ نگاری سے زیادہ اور اہم باتوں کی فکر رہتی ہے مثلاً میری چھوٹی بچی کا خط پنچگنی سے بجائے ہفتے کے پیرکو کیوں آیا۔ بڑی بچی کے پرچے کیسے ہو رہے ہیں۔ اس مہینے تین مہینے کا کرایہ دینا ہے یا چار ماہ کا۔ ان سب باتوں کا اطمینان بخش جواب مل جانے کے بعد خیال آتا ہے کہ کہانیاں لکھوں۔ وہ بھی اگر بمبئی کی مشغول زندگی اجازت دے۔ اس سال میں نے کوئی فلم کی کہانی نہیں لکھی اس لیے ادھر کچھ لکھنے کی فرصت مل گئی۔ اب توڑ کا وقت آ گیا۔ کام کی تلاش ہے اور چولھے میں جائیں یہ افسانے۔ کچھ روٹی کی فکر بھی کرنا چاہئے اور میری بلا سے اگر افسانہ نگاری تنزل کی طرف جا رہی ہے چلی جائے کم بخت۔ اس سے زندگی کی ضرورتیں تو نہیں پوری کی جا سکتیں۔ ویسے بھی میرے تو یہ سن سن کر کان پک گئے کہ ادب میں جمود ہے۔ یہ جملہ تو فیشن میں داخل ہو گیا ہے اور ہر شخص اسے دہرانے کو ہی سب سے بڑی تنقید سمجھتا ہے۔ کیا مصیبت ہے۔ ادھر کچھ نئے لکھنے والوں کو شکایت ہے کہ انھیں ادب کے ٹھیکیدار ابھرنے نہیں دیتے۔ ادھر تنقید نگار کہتے ہیں ادب میں جمود ہے۔ یہ دونوں باتیں ایک وقت میں کیسے ہو سکتی ہیں۔ اگر ادب میں جمود ہے تو نئے لکھنے والوں پر ہم پرانے لکھنے والے کیوں کر حاوی ہو گئے ہیں۔۔ ۔ افسانوں سے زیادہ آج کل تنقیدیں لکھی جا رہی ہیں۔
کاش یہ لوگ بجائے ادب میں جمود کا رونا رونے کے خود کوئی جمود شکن افسانہ لکھ ماریں کہ چھٹی ہو۔ یہ لمبے لمبے مقالے لکھ کر بور کرے جاتے ہیں اور رسالے والے چھاپے جاتے ہیں۔ (ماہ نامہ ) ’’شمع‘‘ میں ’’بیسویں صدی‘‘ میں ہر ماہ تین چار کہانیاں چھپتی ہیں۔ ہزاروں آدمی شوق سے پڑھتے ہیں۔ جمود پر واقعی بحث نہیں ہوتی۔ پہلے (ماہ نامہ ) ’’ساقی‘‘، نیا ادب، ادب لطیف بھی ایسی ہی کہانیوں سے آراستہ چھپتے تھے۔ بغیر تنقیدوں کے لوگ پڑھتے تھے۔ لطف لیتے تھے۔ اب تو افسانہ پڑھنے کی کسی کو فرصت نہیں ہوتی۔ گاڑھے گاڑھے تنقیدی مضامین لوگ پڑھتے ہیں اور جمود اور غیر جمود کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ یقیناً آپ اپنی عادت کے مطابق ایک بھیانک حد تک موٹا سا جمود نمبر نکال دیں گے جس کے خیال سے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو رہے ہیں۔ براہ کرم مجھے وہ پرچہ بھیجنا یاد کر کے بھول جایئے گا۔ مجھے تنقیدوں، کتابوں کے دیباچوں، مقدموں اور مقالوں سے للہی بغض ہو گیا ہے۔ سخت بورنگ لگتے ہیں۔ ایک مضمون پڑھنے کے لیے مجھے قطعی کسی کی رائے کی
ضرورت نہیں۔ میں خود اپنی رائے قائم کرنا پسند کرتی ہوں۔
فقط عصمت چغتائی
زبان و بیان کی کوتاہیوں سے قطع نظر عصمت چغتائی کی صاف گوئی قابل داد ہے۔
اشاریات:
۱۔ تحقیق نامہ۔ (۲۰۰۶۔ ۲۰۰۵)شعبہ اردو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور۔ پاکستان
۲۔ ’’نقوش‘‘ لاہور۔ پطرس نمبر۔
۳۔ ٹیڑھی لکیر۔ ’’کتاب کار رام پور۔ یوپی اشاعت مئی ۱۹۶۷ء
٭٭٭
کوائف
اصلی نام : محمد عبدالرؤف، قلمی نام : رؤف خیرؔ
ولدیت : محمد ابو بکر صاحب، تاریخ پیدائش: ۵؍نومبر ۱۹۴۸ء، حیدرآباد دکن۔
تعلیم : ایم اے۔ اردو (عثمانیہ ) ایم اے۔ فارسی، پی ایچ ڈی اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ) لکچرر اردو، موظف، حیدرآبادیونیورسٹی نے ’’رؤف خیر شخصیت اور فن‘‘ پر صبیحہ سلطانہ کو ایم فل کی ڈگری کا مستحق قرار دیا۔ ہندو پاک اور کل ہند شاعروں کے علاوہ انڈین ایمبسی کی دعوت پر جدہ، ریاض، مکہ اور مدینہ کے مشاعروں میں شرکت کی۔
تصنیفا تِ خیر:
(۱) اقراء ۱۹۷۷ء شعری مجموعہ
(۲) ایلاف ۱۹۸۲ء شعری مجموعہ
(۳) شہداب ۱۹۹۳ء شعری مجموعہ
(۴) حیدرآباد کی خانقاہیں ۱۹۹۴ء تحقیقی مقالہ
(۵) خطّ خیر ۱۹۹۷ء تنقیدی مضامین
(۶) قنطار ۲۰۰۱ء (علامہ اقبال کے ۱۶۳ فارسی قطعات ’’لالہ طور‘‘ کا منظوم اردو ترجمہ )
(۷) سخن ملتوی ۲۰۰۴ء شعری مجموعہ
(۸) دکن کے رتن اور ارباب فن ۲۰۰۵ء تنقیدی مضامین
(۹) بچشم خیر ۲۰۰۷ء تنقیدی مضامین
(۱۰) خیریات ۲۰۱۰ء شعری مجموعہ
(۱۱) حق گوئی و بے باکی ۲۰۱۲ء تنقیدی مضامین
(۱۲) دکن کی چند ہستیاں ۲۰۱۴ء تنقیدی مضامین
(۱۳) عزیز احمد بہ حیثیت شاعر اور مترجم (زیر اشاعت )
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں