فہرست مضامین
محمد حنیف ندوی
محمد اسحٰق بھٹی، شکیل احمد میرٹھی
مولانا محمد حنیف ندوی اور ان کی علمی خدمات
محمد اسحٰق بھٹی
جناح اسٹریٹ اسلامیہ کالونی، ساندہ،
لاہور، پاکستان
مولانا محمد حنیف ندوی کا شمار بیسویں صدی عیسوی کے برصغیر کے مشاہیر علمائے اہل حدیث میں ہوتا ہے۔ وہ اس عہد کے ممتاز مصنف اور نامور محقق تھے۔ ۱۰ جون ۱۹۰۸ ء کو پنجاب کے مردم خیز شہر گوجراں والا میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام نورالدین تھا۔ بیٹے نے شعور کی دہلیز پر قدم رکھا تو باپ نے سرکاری اسکول میں داخل کرا دیا۔ اسکول میں صرف چار جماعتوں تک تعلیم پائی، جسے اس زمانے میں پرائمری کہا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ناظرہ قرآن مجید بھی پڑھ لیا۔
اپنی وفات (۱۹۶۸ ء) تک فریضہ تدریس سرانجام دیتے رہے۔ اڑتالیس برس کی اس طویل مدت میں محمد حنیف ندوی جیسا کوئی تیز فہم اور ذہین طالب علم ان کے حلقہ درس میں شریک نہیں ہوا۔ وہ مولانا سلفی کے لائق ترین شاگرد تھے۔
علومِ متداولہ سے فراغت کے فوراً بعد ۱۹۲۵ ہی میں مولانا محمد اسماعیل سلفی نے مولانا سید سلیمان ندوی کے نام سفارتی خط دے کر ان کو دارالعلوم ندوۃ العلماء (لکھنؤ) میں داخل کرا دیا تھا۔ یہ مولانا محمد حنیف ندوی کی زندگی کا ایک نیا موڑ تھا۔ پانچ سال وہ اس دارالعلوم میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ انھیں قرآن مجید سے انتہائی لگاؤ تھا چنانچہ اڑھائی سال میں انھوں نے قرآن مجید کے موضوع پر دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تخصص کا اعزاز حاصل کیا۔ اس اثنا میں انھوں نے تمام قدیم و جدید تفسیروں کا بے حد محنت اور دلچسپی سے مطالعہ کیا۔ عربی ادب بھی ان کا خاص موضوع تھا اس کے بھی تمام گوشوں پر عبور حاصل کیا۔ لکھنؤ کی زبان اور ثقافت و تہذیب سے بھی وہ بہت متاثر ہوئے۔
مولانا محمد حنیف ندوی کے اساتذہ کا حلقہ محدود ہے۔ گوجراں والا میں انھوں نے مولانا محمد اسماعیل سلفی اور دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں مولانا عبدالرحمٰن نگرامی، مولانا حیدر حسن ٹونکی اور شمس العلماء مولانا حفیظ اللہ سے استفادہ کیا۔ ۱۹۳۰ ء میں ندوۃ العلماء کا نصاب مکمل کر کے واپس اپنے وطن گوجراں والا آئے تو ایک سیاسی جماعت ’’نوجوان بھارت سبھا‘‘ میں شامل ہو گئے اور انگریزی حکومت کے خلاف تقریر یں کیں، جس کی پاداش میں انھیں گرفتار کر لیا گیا اور چھ مہینے کی سزاہوئی۔
رہائی کے بعد ۱۹۳۰ ہی میں لاہور کی مسجد مبارک (اہل حدیث) میں انھیں خطابت کا منصب عطا ہوا۔ یہ مسجداسلامیہ کالج کے متصل ہے۔ خطابت کے علاوہ نماز مغرب کے بعد وہ درسِ قرآن بھی دیتے تھے، خطبہ جمعہ اور درسِ قرآن میں اسلامیہ کالج کے پروفیسر اور طلبا باقاعدہ شامل ہوتے تھے۔ درسِ قرآن کا آغاز انھوں نے ابتداء قرآن سے کیا تھا، خطبہ جمعہ میں بھی یہی صورت حال تھی۔ سورہ فاتحہ سے خطبہ دینا شروع کیا اور ایک تسلسل کے ساتھ آخرِ قرآن تک پہنچے۔ درسِ قرآن میں ایک دفعہ قرآن مجید ختم کر کے دوسری دفعہ بھی چند سپارے ختم کر لیے تھے۔ خطبہ جمعہ اور روزانہ کے درس قرآن میں وہ نئے سے نئے نکات بیان کرتے تھے۔ سامعین کے سوالات کے جواب بھی نہایت عمدگی سے دیتے تھے۔ ان کی زبان اور لب و لہجے سے متاثر ہو کر کالج کے اساتذہ و طلبا کے علاوہ لاہور کے اخبار نویس اور ایڈیٹر بھی ان کے خطباتِ جمعہ اور درس میں حاضر ہوتے تھے۔
اس زمانے کا لاہور اردو زبان کے بڑے بڑے ماہرین کا مرکز تھا۔ مولانا ظفر علی خاں اس باب میں خاص طور سے شہرت رکھتے تھے۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ میں مولانا حنیف ندوی کے درسِ قرآن اور خطبہ جمعہ میں اردو زبان کے لیے حاضر ہوتا ہوں۔ یہ کوثر وتسنیم میں دھلی ہوئی زبان بولتے ہیں۔
بے شبہ مولانا محمد حنیف ندوی نستعلیق عالمِ دین تھے۔ شکل و صورت اور وضع قطع دور گزشتہ کے اساتذہ فن سے ملتی ہوئی۔ شبہ گزرتا تھا کہ غالب، ذوق، حالی اور نذیر احمد کے قبیلے کا کوئی فرد اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا ہے۔ لباس اور پہناوے کے اعتبار سے ایک خاص تہذیب اور خاص ثقافت کے حسین پیکر۔ لہجہ لکھنوی، اسلوبِ کلام میٹھا اور پیارا، لوگوں کو دھوکا ہوتا تھا کہ یوپی کے کسی بہت بڑے علمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
مسجد مبارک میں مولانا حنیف ندوی نے ۱۹۴۹ تک درسِ قرآن اور خطباتِ جمعہ کا سلسلہ جاری رکھا یعنی تقریباً بیس برس انھوں نے باقاعدگی سے یہ اہم خدمت سرانجام دی۔ بعد ازاں کچھ عرصہ ہر اتوار کو نماز عصر کے بعد ان کا (ہفتہ وار) درسِ قرآن ہوتا رہا لیکن افسوس ہے ان کے اس دور کے درسِ قرآن کسی نے قلم بند نہ کیے۔ لوگ اس سے متاثر تو بہت ہوئے، اس کا چرچا بھی ہوا لیکن سب زبانی کلامی۔
اب آئیے مولانا ندوی کی تحریری خدمتِ قرآن کی طرف۔ !
۱۔ ۱۹۳۴ میں انھوں نے تفسیر ’’سراج البیان‘‘ لکھی۔ یہ تفسیر متعدد مرتبہ چھپی اور بہت پڑھی گئی۔ یہی وہ تفسیر
اب قارئین کے زیر مطالعہ ہے۔ اس تفسیر کے سلسلے میں مولانا نے تفسیر و حدیث کی جن کتابوں سے مدد لی، وہ ہیں تفسیر خازن، تفسیرکبیر، تفسیر ابن جریر، درّ منثور، تفسیر ابن کثیر، روح المعانی، مدارک، مسند حاکم، مسند بزاز، سیوطی کی اسباب النزول، تفسیر حقانی، خلاصۃ التفاسیر، موضح القرآن، تفسیر حسینی، تفسیر بیان القرآن، صحاح ستہ اور بعض دیگر کتب حدیث۔
مولانا کی عمر اس وقت چوبیس برس کی تھی اور وہ ان کی بھر پور جوانی کا زمانہ تھا۔ انھوں نے تفسیر میں ہر صفحے کے اہم مضامین کی تبویب کی ہے۔ نیچے حلِّ لغات ہے جو لوگ مولانا کے اندازِ نگارش سے دلچسپی رکھتے ہیں، انھیں معلوم ہے کہ بولتے اور لکھتے وقت کوئی کمزور بات ان کے قریب آنے کی جرأت نہیں کرتی تھی۔ وہ علمی معاملات میں جہاں قدیم علوم سے استفادہ کرتے تھے، وہاں جدید کو بھی پیش نگاہ رکھتے تھے۔ اس تفسیر میں بھی انھوں نے قدیم و جدید سے رابطہ قائم رکھا ہے۔
یہاں یہ عرض کر دیں کہ متحدہ ہندوستان گیارہ صوبوں پر مشتمل تھا، جن میں ایک صوبہ پنجاب تھا جو دریائے اٹک کی لہروں سے لے کر دلی کی دیواروں تک انتیس ضلعوں میں پھیلا ہوا تھا۔ تقسیم ملک سے قبل اردو زبان میں شروع سے لے کر آخر تک پورے قرآن مجید کی تفسیر پنجاب کے صرف دو علمائے کرام نے لکھی اور وہ دونوں اہل حدیث ہیں۔ پہلے حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری جنھوں نے ’’تفسیر ثنائی‘‘ سپرد قلم کی اور دوسرے مولانا محمد حنیف ندوی جو ’’تفسیر سراج البیان‘‘ کے مصنفِ شہیر ہیں۔
۲۔ مولانا فتح محمد خاں جالندھری کا ترجمہ قرآن بہت مقبول ومتداول ہے۔ پاکستان میں قرآن مجید سے متعلق ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں اسی ترجمے کو پیش نگاہ رکھا جاتا ہے۔ اس ترجمے پر پہلی مرتبہ ناشر کی درخواست پر مولانا محمد حنیف ندوی نے نظر ثانی کی تھی۔
۳ ’’ مطالب القرآن فی ترجمۃ القرآن‘‘کو لاہور کے ایک قدیم اشاعتی ادارے ’’پیکو لمیٹڈ‘‘کی مطبوعات میں بے حد اہمیت حاصل ہے۔ اس میں دائیں جانب کے صفحے پر قرآن مجید کا متن اور بائیں طرف اس کا ترجمہ اور حاشیے میں تفسیر ہے۔ ترجمہ سید محمد شاہ (ایم اے) کا ہے اور اس پر نظر ثانی ’’مجلسِ فکر و نظر‘‘ نے کی جو تین اہل علم پر مشتمل تھی۔ ان کے اسمائے گرامی علی الترتیب اس طرح مرقوم ہیں :
٭ مولانا محمد حنیف صاحب ندوی خطیب جامع مسجد مبارک، لاہور۔
٭ مولانا شہاب الدین صاحب فاضل دیوبند، خطیب جامع مسجد چوبرجی، لاہور۔
٭ پروفیسر یوسف سلیم چشتی بریلوی بی اے پرنسپل اشاعتِ اسلام کالج لاہور۔
اس نظر ثانی شدہ مسودے کی برصغیر کے تیرہ معروف علمائے کرام نے تصدیق کی، جن میں علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا قطب الدین عبدالوالی فرنگی محلی لکھنوی، مولانا حیدر حسن ٹونکی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی، مولانا عبدالعزیز گوجراں والا، مولانا عبدالحلیم صدیقی لکھنؤ، مولانا محمد شبلی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، ڈاکٹر محمد ہدایت حسین پرنسپل مدرسہ عالیہ کلکتہ شامل ہیں۔
۴ تقسیم ہند سے پہلے پیکو لمیٹڈ (لاہور) کا ایک ماہنامہ ’’حقیقت اسلام‘‘ شائع ہوتا تھا۔ مولانا محمد حنیف ندوی نے اس رسالے میں قرآن مجید کے مختلف موضوعات پر بہت سے مقالات لکھے جو نہایت شوق سے پڑھے گئے۔
۱۹ ؍اگست ۱۹۴۹ ء کو گوجراں والا سے ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ جاری ہوا۔ اس وقت مولانا ندوی کا قافلہ عمرچالیس منزلیں مکمل کر کے اکتالیسویں منزل میں داخل ہو چکا تھا۔ اس اخبار کے اجرا سے ٹھیک ایک سال بعد ۲۵؍اگست ۱۹۵۰ ء کو یعنی اپنی عمر کے بیالیسویں سال میں مولانا ممدوح نے ’’قرآن کی منتخب آیات کی تفسیر ‘‘ کے عنوان سے اخبار میں قرآن مجید کی تفسیر لکھنے کا آغاز فرمایا۔ سب سے پہلے انھوں نے ایک طویل نوٹ میں ’’منتخب آیات‘‘ کے الفاظ کی وضاحت فرمائی جس کی چند سطور یہ ہیں :
’’ہم اس شمارے سے اس نئے اور مستقل باب کو شروع کر رہے ہیں۔ تفسیر آیات کا انتخاب ان معنوں میں ہے کہ اختصار کے تقاضوں کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ہم کن آیات کو اپنے ذوق کی رعایتوں سے آپ کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔ ورنہ یہاں متعارف معنوں میں انتخاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ یہاں تو ایک ایک آیت جانِ معنیٰ اور روحِ انتخاب ہے۔ اس باب میں ہم صرف ان آیات کو لائیں گے جن کی ادبی، نحوی یا کلامی و فقہی اہمیتوں کو اجاگر کر سکیں۔ مقصود یہ ہے کہ ہماری موجودہ پود کے دلوں میں قرآن کی عظمت کا صحیح صحیح احساس کروٹ لے اور انھیں یہ معلوم ہو کہ آج سے چودہ سو سال پہلے کی اس کتاب میں کتنا اعجاز، کتنے معانی اور فکر و عمل کا کتنا نکھار مضمر ہے۔ امید ہے ہمارے قارئین اسے دلچسپی سے پڑھیں گے۔ ‘‘
اس عنوان کے تحت سب سے پہلے مولانا ندوی نے ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ کے متعلق لکھا اور بڑی تفصیل سے لکھا۔ پھر سورہ فاتحہ کی چند آیات کو موضوعِ فکر ٹھہرا یا۔ اس کے بعد قرآن کے مختلف مقامات کی بہت سی آیات کی تفسیر قلم بند کی۔ ’’الاعتصام‘‘ میں یہ سلسلہ کافی عرصہ جاری رہا۔ میں اس وقت مولانا کے ساتھ ’’الاعتصام ‘‘ میں خدمت انجام دیتا تھا۔
۶ ۱۵؍مئی ۱۹۵۱ ء کو مولانا محمد حنیف ندوی ادارہ ثقافت اسلامیہ سے وابستہ ہو گئے (اور ’’الاعتصام‘‘ کی ادارت میرے سپرد کر دی گئی) جنوری ۱۹۵۵ ء میں ادارہ ثقافت اسلامیہ کا ماہنامہ مجلہ ’’ثقافت‘‘ جاری ہوا تو مولانا ندوی نے تفسیر قرآن کا سلسلہ اس مجلے میں شروع کر دیا۔ پھر جنوری ۱۹۶۸ میں ماہنامہ ’’ثقافت‘‘ کا نام بد ل کر اسے ’’المعارف‘‘ کے نام سے موسوم کر دیا گیا تو اس کے بعض شماروں میں بھی مولانا نے اس موضوع پر لکھا۔ (اکتوبر ۱۹۶۵ میں مجھے بھی ادارہ ثقافت اسلامیہ سے منسلک کر لیا گیا تھا اور ’’المعارف‘‘ کا ایڈیٹر مجھے مقرر کر دیا گیا تھا)
۷۔ ریڈیو پاکستان (لاہور) میں بھی مختلف اوقات میں بعض آیات قرآنی سے متعلق مولانا کی تقریریں ہوئیں۔
ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘، ماہنامہ ’’ثقافت‘‘، ماہنامہ ’’المعارف‘‘ اور ریڈیو کی تقریریں جمع کر لی جائیں تو ان سب آیات کی تفسیر کم سے کم پانچ سو صفحات کو پہنچ سکتی ہے۔ میں ان شاء اللہ یہ خدمت سرانجام دینے کی کوشش کروں گا۔
مولانا طویل عرصے تک ٹیلی ویژن کے ’’بصیرت‘‘ پروگرام میں بھی قرآن مجید کی تفسیر بیان فرماتے رہے لیکن یہ زبانی سلسلہ تھا جو محفوظ نہیں رہ سکا۔
۸۔ ادارہ ثقافت اسلامیہ سے وابستگی کے زمانے میں مولانا محمد حنیف ندوی نے قرآنِ مجید کی روشنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ لکھنے کا عزم کیا۔ طے یہ پایا کہ وہ اس موضوع سے متعلق ہر ہفتے ’’الاعتصام‘‘ میں اشاعت کے لیے مضمون عنایت فرمایا کریں گے۔ اس کا عنوان ہم نے ’’چہرہ نبوت قرآن کے آئینے میں ‘‘ رکھا۔ خیال یہ تھا کہ مضمون مکمل ہونے کے بعد اسی عنوان سے کتاب شائع کی جائے گی۔ مولانا نے ’’الاعتصام‘‘ میں بہتّر (۷۲) قسطیں لکھیں لیکن اس موضوع کی تکمیل نہ ہو سکی۔ ان کی وفات کے بعد میں نے ان کی تحریر فرمودہ بہتر قسطوں کو جمع کیا اور جو حصہ مولانا سے رہ گیا تھا اسے مکمل کیا اور اس کی تبویب کر کے ’’چہرہ نبوت قرآن کے آئینے میں ‘‘ کے نام سے کتاب شائع کر دی۔ یہ کتاب انتیس ابواب اور ۳۲۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب ۱۹۹۹ ء میں علم و عرفان پبلشرز اردو بازار لاہور نے شائع کی۔
۹مولانا ندوی نے ۱۹۷۸ میں ’’مطالعہ قرآن‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جو تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ قرآن کے موضوع پر مولانا ندوی کی یہ نہایت محققانہ کتاب ہے جس میں سولہ عنوانات کو موضوعِ گفتگو ٹھہرایا گیا ہے اور وہ عنوانات یہ ہیں (۱) قرآن کا تصور وحی و تنزیل (۲) قرآن مجید اور کتبِ سابقہ (۳) اسفار خمسہ (۴) عہد نامہ جدید اور اناجیل اربعہ (۵) قرآن حکیم اور اس کے اسما و صفات (۶) قرآنی سورتوں کی قسمیں اور ترتیب (۷) قرآنی سورتوں کی زمانی و مکانی تقسیم(۸) جمع و کتابتِ قرآن کے تین مراحل (۹) قرآن حکیم کی لسانی خصوصیات (۱۰) اعجاز قرآن اور اس کی حقیقت (۱۱) محتویاتِ قرآن (۱۲) مشکلات قرآن (۱۳) قرآن کے رسم الخط کے بارے میں نقطہ اختلاف (۱۴) تفسیر (۱۵) تفسیر کے دو مشہور مدرسہ فکر۔ اصحاب الحدیث اور اہل الرائے (۱۶) اوّلیاتِ قرآن۔
مطالعہ قرآن کا ’’پیش لفظ‘‘ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ایس اے رحمان مرحوم کا تحریر کردہ ہے۔
۱۰ گزشتہ سطور سے ہمیں مولانا محمد حنیف ندوی کی تفسیر سراج البیان کا پتا چلا جو ان کے کلکِ گوہر بار کے اس دور کا ذخیرہ علم و عرفان ہے، جب وہ چوبیس برس کے جوان رعنا تھے۔ پھر ہم ان کے ان قرآنی افکار سے متعارف ہوئے جو انھوں نے اکتالیس بیالیس سال کی عمر میں ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ اور بعض دیگر رسائل و جرائد کے اوراق کی وساطت سے ہمیں مہیا فرمائے۔ اب آپ ان کے ایک اور شاہ کار قرآنی سے مطلع ہوتے اور اس سے اپنے قلب و نظر کی تازگی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ اس شاہ کار کا نام ہے ’’لسان القرآن‘‘۔ حروفِ تہجی کی ترتیب سے قرآن کا یہ توضیحی لغت ہے، جس کو صفحاتِ قرطاس پر منقش کرنے کا عزم انھوں نے ۱۹۸۲ میں کیا تھا جب کہ لیل و نہار کی پیہم رفتار نے ان کو عمر کی پچھترویں منزل میں پہنچادیا تھا۔ وہ سن وسال کے اعتبار سے اس
وقت بوڑھے ہو چکے تھے لیکن ان کا قلم جوان تھا اور نئے سے نئے افکار اگلتا تھا اور واقعہ یہ ہے کہ ان کا قلم ہمیشہ عالم شباب میں رہا۔ شب و روز کی تقویمی رفتار کبھی اس کی روانی کو روک نہ سکی۔ جس طرح ان کے معلومات کا ذخیرہ وسعت پذیر اور مطالعے کا دامن ہمہ گیر تھا، اسی طرح ان کے پاس الفاظ کا خزینہ بھی بھر پور تھا اور الفاظ کے طرزِ ادا کا سلیقہ بھی اللہ نے ان کو خاص طور سے بخشا تھا۔ قرآن سے انھیں جو دلی لگاؤ اور روحانی وابستگی تھی، اس کا اظہار اس موضوع سے متعلق ان کی نگارشات کے ہر مقام پر ہوتا ہے، اس کے حوالے دینے کو جی چاہتا ہے، لیکن افسوس ہے اس مختصر تحریر میں اس کی گنجائش نہیں۔
لسان القرآن کی پہلی جلد حروفِ تہجی کی ترتیب سے ا ب (اب) سے شروع ہوئی اور ج ی د (جید) پر ختم ہوئی۔ یعنی یہ جلد پانچ حروف، الف، ب، ت، ث، ج پر مشتمل ہے اور چار سو صفحات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
اس کے بعد دوسری جلد مسلسل نمبروں کے ساتھ صفحہ ۴۰۱ سے شروع ہوئی ہے۔ اس جلد کا آغاز ح، ب، ب (حبّ) سے ہوتا ہے اور اختتام د، ی، ن (دین) پر ہوتا ہے۔ دونوں جلدیں ۷۹۳ صفحات پر محیط ہیں۔ پہلی جلد ۱۹۸۳ ء میں اور دوسری ۱۹۸۵ میں شائع ہوئی۔
سان القرآن کی دوسری جلد مولانا محمد حنیف ندوی کی آخری تصنیف ہے۔ اس کے بعد وہ بیمار ہو گئے اور قلم کی رفتار ہمیشہ کے لیے رک گئی۔ ۱۲؍ جولائی ۱۹۸۷ کو ان کی کتابِ حیات کا خاتمہ ہو گیا۔
انا لِلّٰہ وانا الیہ راجعون۔
پھر بہت سے دوستوں کے اصرار پر اس فقیر نے ’’لسان القرآن‘‘ کا سلسلہ شروع کیا اور اس کی تیسری جلد لکھی جو تین حروف (د، ر، ز) پر مشتمل ہے یہ جلد چھپ گئی ہے اور ساڑھے تین سو صفحات پر محیط ہے۔
اللہ تعالیٰ کا مولانا محمد حنیف ندوی پر یہ خاص فضل ہے کہ انھوں نے اپنے سفرِتحریر کا آغاز بھی قرآن مجید سے کیا اور اختتام بھی اللہ کی اسی متبرک ومقدس کتاب پر ہوا یعنی ان کی پہلی کتاب تفسیر سراج البیان ہے اور آخری لسان القرآن۔ یہ سعادت بہت کم مصنفین کے حصے میں آئی ہو گی۔
یہ مولانا محمد حنیف ندوی کی قرآنی خدمات کا تذکرہ تھا جو بدرجہ غایت اہمیت کا حامل ہے۔ اب ان کی دیگر علمی خدمات کا ذکر کیا جاتا ہے نمبر وار ملاحظہ فرمائیے۔
۱۔ مرزائیت نئے زاویوں سے :۔ یہ مولانا ندوی کے ان مضامین و مقالات کا مجموعہ ہے جو مرزائیت سے متعلق ان کے دورِ ادارت میں الاعتصام میں چھپتے رہے۔ ۱۹۵۲ ء کے آخر میں یہ مضامین پہلی دفعہ کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ یہ نہایت دلچسپ کتاب ہے اور اس میں واقعی مرزائیت کے بارے میں نئے زاویوں سے گفتگو کی گئی ہے۔ حال ہی میں یہ کتاب میرے طویل مقدمے کے ساتھ طارق اکیڈمی فیصل آباد نے شائع کی ہے۔
۲۔ مسئلہ اجتہاد :۔ یہ کتاب ۱۹۵۲ میں چھپی۔ صفحات ۲۰۰۔
۳۔ افکارِ ابن خلدون :۔ سالِ اشاعت ۱۹۵۴ ء صفحات ۲۳۳۔
۴۔ افکارِ غزالی :۔ یہ کتاب ۱۹۵۶ ء میں شائع ہوئی۔ صفحات ۵۱۴۔
۵۔ سرگزشتِ غزالی :۔ یہ امام غزالی کی تصنیف ’’المنقذمن الضظلال‘‘ کا ترجمہ ہے۔ کتاب ۱۹۵۹ ء میں چھپی۔ صفحات۱۹۶۔
۶۔ تعلیمات غزالی : امام غزالی کی ’’احیاء علوم الدین‘‘ ان ابواب کا اردو ترجمہ جن کا تعلق نماز، زکوٰۃ، روزے، حج وغیرہ اہم مسائل سے ہے۔ ۱۹۶۲ میں چھپی۔ صفحات ۵۶۰۔
۷۔ مکتوبِ مدنی :۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے ان کے دور کے ایک مشہور عالم اسماعیل بن عبداللہ آفندی رومی مدنی نے وحدت الوجود اور نظر یہ شہود کے بارے میں سوال کیا تھا۔ شاہ صاحب نے اس مکتوب میں اس کا تفصیل سے جواب دیا ہے۔ اسے’’ مکتوب مدنی‘‘ کہا جاتا ہے۔ مولانا محمد حنیف ندوی نے اس اہم علمی کا وش کا سلیس اور شگفتہ اردو ترجمہ کر دیا ہے۔ ۳۶صفحات کا یہ مکتوب ۱۹۶۵ میں چھپا۔
۸۔ عقلیات ابن تیمیہ:۔ اس کتاب کا اصل موضوع امام ابن تیمیہ کا فلسفہ اور منطق ہے۔ ۳۸۵ صفحات کی یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۹۶۶ ء میں چھپی
۹۔ مسلمانوں کے عقائد و افکار:۔ علامہ ابوالحسن اشعری چوتھی صدی ہجری کی جلیل القدر شخصیت تھے۔ ان کی تصانیف میں ’’مقالات الاسلامیین‘‘ کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ یہ کتاب دو ضخیم جلدوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ مولانا نے شگفتہ اردو میں اس کا ترجمہ کیا ہے اور دونوں جلدوں پر الگ الگ طویل مقدمہ لکھا ہے۔ اس کی پہلی جلد ۱۹۶۸ میں چھپی جو ۳۸۰ صفحات پر مشتمل ہے اور دوسری جلد ہے ۱۹۷۰ میں شائع ہوئی جو ۴۲۴ صفحات کو گھیرے ہوئے ہے۔
۱۰۔ اساسیاتِ اسلام:۔ اس کتاب میں اس حقیقت کی وضاحت کی گئی ہے کہ اسلام میں ہمارے تہذیبی، ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور روحانی مسائل کا حل بہ طریق احسن موجود ہے۔ اپنے موضوع کی یہ نہایت اہم کتاب ہے جو نو(۹)ابواب پر مشتمل ہے۔ تین سو صفحات کی یہ کتاب ۱۹۷۳میں چھپی۔
۱۱ تہافت الفلاسفہ (تلخیص و تفہیم) غزالی اور ابن رشد دونوں نے حکمت وفلسفہ کے امام و مجتہد کی حیثیت سے شہرت پائی۔ غزالی کی تصانیف میں سے ایک مشہور کتاب ’’تہافۃ الفلاسفہ‘‘ ہے اور ابن رشد کی قابلِ قدر فلسفیانہ تصانیف میں سے ایک معروف تصنیف ’’تہافۃ التہافہ‘‘ ہے جو انھوں نے غزالی کی تہافۃ الفلاسفہ کے جواب میں لکھی۔ مولانا محمد حنیف ندوی نے غزالی کی شاہ کار ’’تہافتہ الفلاسفہ ‘‘کی سلیس اور رواں دواں اردو میں تلخیص کی ہے۔ علاوہ ازیں اس پر طویل مقدمہ لکھا ہے، جس میں غزالی اور ابن رشد کے فلسفیانہ افکار و نظریات پر جنچا تلا محاکمہ کیا ہے۔ مولانا کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے فلسفہ اور منطق کے دقیق مباحث کو اردو ادب کے خوب صورت قالب میں ڈھال دیا ہے۔ ۲۲۵ صفحات کی یہ کتاب ۱۹۷۴ میں چھپی۔
۱۲مطالعہ حدیث: مستشرقین اور استشراق زدہ لوگوں نے ایک مدت سے حدیث وسنت کے بارے میں اس ہرزہ سرائی کو ’’علمی و تحقیقی‘‘ رنگ دینے کی جدوجہد شروع کر رکھی ہے کہ اس کی تدوین وتسوید کا سلسلہ محض تاریخی عوامل کی بنا پر ظہور میں آیا۔ ہمارے ہاں کے کچھ لوگ بھی اس سے متاثر ہوئے اور انھوں نے مستشرقین کے اس اندازِ فکر کو آگے بڑھانے اور پھیلانے کی کوشش کی۔ مولانا محمد حنیف ندوی نے’’ مطالعہ حدیث‘‘ میں اس کا پورا پورا جواب دیا ہے اور بتایا ہے کہ حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اشاعت و فروغ اور حفظ و صیانت کا معاملہ عہد نبوی سے لے کر صحاح ستہ کی تدوین تک ایک خاص نوع کا تسلسل لیے ہوئے ہے، جس میں شک و ریب کی کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی۔ علاوہ ازیں مولانا نے اس کتاب میں حدیث سے متعلقہ علوم و فنون پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور واضح کیا ہے کہ اس میں رجال و روّات کی جانچ پر کھ کے پیمانوں کی تشریح کا بھی پورا اہتمام کیا گیا ہے اور ان اصولوں کی بھی وضاحت کی گئی ہے، جن سے محدثین نے متنِ حدیث کی صحت واستواری کا تعین کیا ہے۔
’’مطالعہ حدیث‘‘ پندرہ عنوانات پر مشتمل ہے جو یہ ہیں (۱) قرآن حکیم اور اطاعت رسول (۲) سنت کن حقائق سے تعبیر ہے(۳) سنت عہد نبوی میں (۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلوبِ دعوت و ارشاد (۵) صحابہ اور تابعین کے دور میں علم حدیث کی اشاعت کا جذبہ (۶) صحابہ اور تابعین کے زمانے میں اشاعتِ حدیث کے اسباب و عوامل (۷) روایت کی دو قسمیں (۸) تدوینِ حدیث (۹) حدیث کے بارے میں فنِّ جرح و تعدیل (۱۰) فتنہ وضعِ حدیث اور محدثین کی مساعیٔ جمیلہ (۱۱) اصطلاحاتِ حدیث (۱۲) علومِ حدیث (۱۳) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (۱۴) امام زہری (۱۵) کتبِ حدیث اور ان کے مؤلفین۔
مولانا محمد حنیف ندوی کو حدیث وسنت سے قلبی شغف اور روحانی تعلق تھا اور منکرین و معترضینِ حدیث سے انتہائی نفرت! یہی جذبہ صادقہ اور داعیہ حق اس کتاب کی تصنیف کا باعث بنا۔
’’مطالعہ حدیث‘‘ ۲۳۰ صفحات پر مشتمل ہے جو ۱۹۷۹ میں طبع ہوئی۔
اس کتاب کے علاوہ اپنی مختلف کتابوں میں مولانا نے حجیت حدیث کے متعلق بہت کچھ لکھا۔ اخبار ’’الاعتصام‘‘ اور دیگر متعدد رسائل و جرائد میں نہایت مدلل انداز میں اس موضوع پر بے شمار مضامین تحریر فرمائے۔
مولانا محمد حنیف ندوی جماعت اہل حدیث کے گل سرسید تھے۔ تقسیم ملک کے بعد ۲۴ ؍ جولائی ۱۹۴۸ کو مغربی پاکستان کی مرکزی جمعیت اہل حدیث کا قیام عمل میں آیا تو وہ اس کے ارکان میں شامل تھے۔ مرکزی جمعیت کی مجلس عاملہ اور اس کی مختلف کمیٹیوں کے رکن تھے۔ ہفت روز ہ اخبار ’’الاعتصام‘‘ جاری ہوا تو انھیں اس کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا اور کئی سال اس کے ایڈیٹر رہے، مئی ۱۹۴۹ میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کی پہلی سالانہ کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی تو انھیں اس کانفرنس کا صدرِ استقبالیہ بنایا گیا جب کہ اس کانفرنس کی صدارت کے فرائض مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی نے انجام دیئے۔ مولانا ندوی کا خطبہ استقبالیہ زبان اور معلومات کے اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل تھا جو الاعتصام کے اجرا کے بعد اس کے چند شماروں میں چھپا۔ صدر جمعیت اہل حدیث مولانا سید محمد داؤد غزنوی کے نزدیک مولانا ندوی کو بے حد احترام کا مقام حاصل تھا جماعتی اور علمی معاملات میں وہ مولانا ندوی کو اپنا مشیر قرار دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جب میں مولانا حنیف ندوی سے گفتگو کرتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں امام غزالی کی مجلس میں بیٹھا ہوں۔
جماعت اہل حدیث کی مرکزی تعلیمی درس گاہ کا نام ’’جامعہ سلفیہ‘‘ مولانا محمد حنیف ندوی نے رکھا تھا تاکہ اس کے فارغ التحصیل حضرات اپنی نسبت سلفیت کی طرف کریں اور سلفی کہلائیں۔ جامعہ سلفیہ کے اولین اساتذہ کی جماعت میں مولانا ندوی بھی شامل تھے۔ جب کہ دیگر اساتذہ مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اور مولانا شریف اللہ خاں تھے۔ جامعہ سلفیہ کی نصابی کمیٹی کے بھی مولانا ندوی رکن تھے اور اس کے صدر مولانا سید محمد داؤد غزنوی تھے۔ اس کا نصاب تعلیم اسی کمیٹی نے ترتیب دیا تھا۔ جامعہ سلفیہ کی مجلس منتظمہ کے بھی مولانا ندوی ؒ رکن تھے۔ انھوں نے مرکزی جمعیت اہل حدیث کے بعض اجلاسوں کی صدارت بھی کی۔
مولانا محمد حنیف ندوی قدیم و جدید کے پیکر حسین اور صاحبِ فضل و کمال بزرگ تھے۔ مفسرِ کتاب ہدیٰ، فنونِ نقلیہ و عقلیہ کے ماہر، خزانہ علوم قرآن، محبِّ رسولِ عربی، دلدادہ حدیث نبوی، حاضر جواب، مقرر شیریں بیان، خطیبِ نکتہ طراز، خلوت گزیں مجمع کمال اور گوشہ نشیں محفل آرا تھے۔ دنیا اور اہلِ دنیا سے بے نیاز، دولت و ثروت سے مستغنی، لوگوں کی دادوتحسین سے بے پروا، عربی کے ادیب، اردو کے صاحب، طرز مصنف، متوکل علی اللہ، مجسمہ فہم و تدبر، اسلامی فلسفے میں یکتا، عمر انیات و علوم حاضرہ میں منفرد اور علم و مطالعہ کے علاوہ ہر شے سے بے تعلق۔ !
اس قناعت پیشہ صاحب علم و ہنر نے ۱۲ جولائی ۱۹۸۷ کو نمازِ مغرب کے بعد وفات پائی اور دوسرے دن ۱۳؍ جولائی کو انھیں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ۔
٭٭٭
مفکر اسلام مولانا محمد حنیف ندوی اور ان کی تفسیر سراج البیان
شکیل احمد میرٹھی
سابق امیر
جمعیت اہل حدیث دہلی
آن کریم اللہ رب العٰلمین کی وہ عظیم کتاب ہے جو اس نے اقوام عالم کی ہدایت و رہنمائی کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی، رسول کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیس سالہ نبوت کی حیات طیبہ قرآن کریم کی عملی تفسیر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و فرامین بھی قرآن کریم کی تفسیر ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو معلم قرآن بنایا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تفسیر قرآن کا علم اپنے صحابہ کو دیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس علم کو تابعین کو سکھایا اس طرح تفسیر قرآن اور علوم قرآن کا علم برابر منتقل ہوتا رہا چنانچہ ہر دور میں ربانی علماء اس علم کی تدوین و ترتیب اور نشر و اشاعت کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ قدیم و جدید دور میں پیدا ہونے والے فتنوں اور غیر اسلامی افکار و نظریات نے اس علم کو غبار آلود کرنے کی ہر چند کوشش کی مگر یہ علم کسی بھی طرح کے فتنے سے متاثر ہوئے بغیر اپنی اصل پر قائم رہا اور قیامت تک قائم رہے گا کیوں کہ قرآن کریم، تفسیر قرآن اور علوم قرآن کا محافظ اللہ رب العٰلمین ہے۔
تفسیرقرآن کریم اور تعلیمات قرآن کریم کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کے لیے علماء حق نے اس علم کو غیر عربی زبانوں میں منتقل کرنے کا اہم کام انجام دیا، برصغیر خصوصاً متحدہ ہندستان میں اس کام کی ابتداء امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے کی، حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اپنے وقت کی رائج زبان فارسی میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا تاکہ عام انسانوں کا رشتہ و تعلق اللہ کی کتاب سے براہ راست قائم ہو جائے۔ اس دور کے علماء سوء اور باطل پرستوں نے شاہ صاحب کی بے پناہ مخالفت کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے اور یہ انقلابی سلسلہ برابر چلتا رہا پھر اردو زبان کا دور آیا تو حضرت شاہ صاحب کے صاحبزادوں شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین رحمہما اللہ نے اردو زبان میں لفظی اور با محاورہ ترجمہ کیا اور پھر ان کے شاگردوں نے ان ہی ترجموں کو بنیاد بناکر مزید آسان زبان میں ترجمہ قرآن اور مختصر حواشی اور مفصل تفاسیر مرتب کیں۔
شاہ محمد اسحٰق رحمہ اللہ کے بعد مسند ولی اللہ کے امین اور شاہ صاحب رحمہ اللہ کی تحریک آزادی فکر (جس کی بنیاد عمل بالکتاب والسنۃ پر قائم تھی) کے پاسبان شیخ الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ قرار پائے، شیخ الکل رحمہ اللہ نے اس عظیم ذمہ داری کو نصف صدی سے زائد عرصے تک بحسن و خوبی انجام دیا، ملک اور بیرون ملک سے بے شمار تشنگان علوم کتاب وسنت حاضر خدمت ہوئے اور زیور علوم کتاب وسنت سے آراستہ ہو کر اپنے اپنے علاقوں کو واپس ہوئے تو نور ہدایت پھیلاتے چلے گئے جن جن علاقوں سے گزرے اور جہاں جہاں قیام کیا وہ علاقے اور بستیاں قال اللہ و قال الرسول کی صداؤں سے گونجنے لگیں، کسی نے درس وتدریس کی ذمہ داری نبھائی، کسی نے تصنیف و تالیف کا میدان سنبھالا اور کسی نے میدان خطابت کی شہسواری کی۔ متحدہ ہندستان میں خطیب الہند حضرت مولانا محمد صاحب جوناگڑھی رحمہ اللہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، مولانا جونا گڑھی رحمہ اللہ حضرت میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے شاگرد کے شاگرد ہیں یعنی مولانا جوناگڑھی کی سند حضرت شیخ الکل رحمہ اللہ کے واسطے سے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ سے جا ملتی ہے، مولانا جونا گڑھی نے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ کی عظیم و معتبر ومستند تفسیر ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ کا عربی سے اردو میں ترجمہ کیا، متحدہ ہندستان میں یہ سعادت سب سے پہلے مولانا جونا گڑھی رحمہ اللہ کے حصے میں آئی۔
حضرت مولانا سید احمد حسن دہلوی رحمہ اللہ، حضرت شیخ الکل میاں صاحب رحمہ اللہ کے تلامذہ میں اہم مقام رکھتے ہیں موصوف نے اردو زبان میں ’’احسن التفاسیر‘‘ کے نام سے قرآن کریم کی کئی جلدوں میں تفسیر لکھی جو تفسیر بالحدیث کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ حضرت میاں صاحب اور ان کے تلامذہ کی تصنیفی، تدریسی اور دعوتی خدمات کے ذکر کا موقع ہے نہ یہ صفحات اس کے متحمل ہیں۔ یہاں تو بس ایک دو حضرات کا مختصر ذکر برسبیل تذکرہ آ گیا ہے۔
تفسیر سراج البیان جو آپ کے ہاتھوں میں ہے حضرت مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ کی تصنیف ہے، اس تفسیر کی تصنیف پر تقریباً پون صدی گزر چکی ہے، اس عرصے میں اس کے تقریباً پندرہ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں، یہ تفسیر اہل علم و عرفان سے سند قبولیت حاصل کر چکی ہے۔ مولانا ندوی رحمہ اللہ نے جس زمانہ (۱۹۳۴ ء)میں یہ تفسیر لکھی تھی وہ ان کی جوانی کا دور تھا یعنی اس وقت ان کی عمر پچیس چھبیس برس کی تھی۔
حضرت مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ کی تصنیفی، تحقیقی، ادبی، دعوتی اور علمی صلاحیت کا جائزہ لینا میرے جیسے کم علم کے بس کی بات نہیں، میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ مولانا ندوی رحمہ اللہ کو جس عظیم و عبقری شخصیت کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا اس ذات گرامی کا نام نامی حضرت مولانا محمد اسمٰعیل سلفی گوجرانوالہ ہے، حضرت مولانا گوجرانوالہ رحمہ اللہ نے جس درسگاہ سے علمی پیاس بجھائی تھی وہ محدث پنجاب حضرت حافظ عبدالمنان وزیر آبادی رحمہ اللہ کی عالی مرتبت درسگاہ تھی اور محدث پنجاب رحمہ اللہ کو حضرت شیخ الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ اس طرح مولانا حنیف ندوی رحمہ اللہ اور شیخ الکل کے درمیان صرف دو واسطے ہیں۔ مولانا ندوی نے حضرت مولانا اسماعیل صاحب گوجرانوالہ رحمہ اللہ سے بھرپور استفادہ کیا۔ دینی نصاب کی تکمیل کے بعد استاد گرامی رحمہ اللہ کے سفارشی خط کے ذریعہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخلہ لیا، ۱۹۲۵ء سے ۱۹۳۰ء تک ندوہ میں رہے ’’تخصص فی القرآن الکریم‘‘ میں امتیازی حیثیت حاصل کی، ندوہ سے ۱۹۳۰ء میں فراغت کے بعد مولانا لاہور واپس ہوئے تو لاہور کی مسجد مبارک میں خطبہ جمعہ اور درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا۔ مولانا ندوی کے حلقہ درس قرآن کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں کالج کے پروفیسر، صحافی، ادیب اور طلباء کی خاصی تعداد شریک ہوتی تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ مولانا کا اسلوب قدیم و جدید کا سنگم ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت سنجیدگی اور گہرائی میں ڈوبا ہوا تھا، مولانا نہایت متانت و پختگی کے ساتھ معترضین اورمستشرقین کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات کا جواب بھی دیتے تھے۔ درس قرآن کا یہ سلسلہ ۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۹ء تقریباً بیس برس تک جاری رہا اسی دوران دو مرتبہ درس قرآن مجید کی تکمیل ہوئی۔ مولانا ندوی نے جمعہ کے خطبات میں بھی قرآن کریم ہی کی از اول تا آخر ترتیب کے ساتھ ترجمہ وتفسیر بیان فرمائی۔
مولانا ندوی تعلیم سے فراغت کے بعد یعنی ۱۹۳۰ء سے آخری دم تک یعنی ۱۹۸۷ء تقریباً ستاون برسوں میں درس قرآن، خطبہ جمعہ اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہے، مختلف موضوعات پر درجن بھر سے زیادہ نہایت معیاری کتابیں تصنیف فرمائیں جو اہل علم و فن کے حلقوں میں نہایت قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ تفسیر قرآن اور علوم قرآن کریم سے مولانا کو بے حد شغف تھا، مولانا کی قرآنی علوم پر گہری نظر ہی کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے پچیس چھبیس برس کی عمر میں سراج البیان کے نام سے نہایت جامع تفسیر لکھی۔
مولانا ندوی رحمہ اللہ کی قرآنی علوم پر گہری نظر کو ان کے اساتذہ کرام بھی تسلیم کرتے تھے یہ ان کے لیے بڑے شرف کی بات تھی اس سلسلہ میں ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے۔
برصغیر ہند و پاک کی جماعت اہل حدیث کی تاریخ میں ایک روشن نام حضرت مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ کا آتا ہے، مولانا سیالکوٹی جلیل القدر عالم اور منقول و معقول کے جامع و ماہر تھے، انھیں تفسیر قرآن پر مکمل عبور حاصل تھا، وہ فارغ التحصیل فضلاء کو تفسیر پڑھاتے تھے، ان کے درس قرآن میں دور و نزدیک سے بلا امتیاز مسلک فضلاء شریک ہوتے تھے۔ حضرت مولانا سیالکوٹی رحمہ اللہ، مولانا ندوی کے استاد گرامی حضرت مولانا محمد اسماعیل گوجرانوالہ کے استاد تھے، حضرت مولانا سیالکوٹی نے مولانا غلام رسول مہر صاحب رحمہ اللہ کی تجویز و تحریک پر سورہ فاتحہ کی تفسیر ’’واضح البیان فی تفسیر ام القرآن‘‘ کے نام سے لکھی تھی جو ۱۹۳۳ء میں چھپی تھی۔ اب اصل واقعہ مولانا ندوی کی زبانی مولانا ندوی فرماتے ہیں میں نے کمرے میں جا کر مسودہ دیکھا چند سطریں شروع کی، چند درمیان کی اور چند آخر کی پڑھیں۔ ظاہر ہے انھوں نے اس پر بڑی محنت کی تھی اور اسلوب نگارش عالمانہ تھا۔ صبح کو ملاقات ہوئی تو پوچھا۔
’’مسودہ پڑھا‘‘؟
عرض کیا ’’ابوالکلام کی تفسیر میں الفاظ ہیں اور یہاں شروع سے آخر تک علم ہی علم ہے۔ ‘‘
بہت خوش ہوئے۔ بولے: میں نے دل میں سوچ رکھا تھا کہ مسودہ تمھیں دکھاؤں گا اور تم اس کے بارے میں صحیح رائے دو گے۔ (قافلہ حدیث از مولانا محمداسحٰق بھٹی ص ۹۲-۹۱)
غور فرمائیے حضرت مولانا سیالکوٹی رحمہ اللہ فن تفسیر اور علوم قرآن میں اس دور کے امام تھے، مدارس کے فضلاء کو تفسیر کا درس دیتے تھے، انھیں مولانا ندوی پر کس درجہ اعتماد تھا جبکہ مولانا ندوی عمر کے اعتبار سے چھبیس سال کے جوان اور ان کے شاگرد کے شاگرد تھے بس واضح ہوا کہ جوانی کے دور میں ہی مولانا ندوی تفسیر قرآن اور اس سے متعلق علوم و فنون میں گہرائی اور مہارت حاصل کر چکے تھے۔
مولانا محمد حنیف ندوی عقیدہ و منہج کے اعتبار سے پختہ اور راسخ اہل حدیث عالم تھے، سلفیت ان کی گھٹی میں شامل تھی، حالاں کہ مولانا ندوی علم کلام اور فلسفہ کی باریکیوں سے بھی خوب خوب واقف تھے مگر فلسفہ اور علم کلام ان کی سلفیت کو متاثر نہ کرسکے اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے جن علماء کرام سے اکتساب علم کیا تھا اور جن کی تربیت میں پروان چڑھے تھے وہ سلفیت کے امام تھے ان اساطین علم و فن میں حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی گوجرانوالہ رحمہ اللہ کا نام نامی سرفہرست آتا ہے۔ پڑھتے جائیے اور روحِ قرآنی کی حلاوت محسوس کرتے جائیے۔
سلفی عقیدہ جو اسلام کی صحیح تعبیر ہے کی بنیادوں میں ایک اہم بنیاد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے عقیدت و محبت رکھنا ہے محبت رسول اور اس کے تقاضوں کو صحیح طور پر تسلیم کیے بغیر کوئی بھی سلفی عقیدہ و منہج سے منسلک نہیں ہو سکتا، تفسیر سراج البیان میں مولانا ندوی کی سلفیت و وہابیت کا یہ پہلو بڑا نمایاں نظر آتا ہے، قرآن مجید کی وہ آیات جن کے ظاہری معنی کو آڑ بنا کر بعض گمراہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت کو زیر بحث لاتے ہیں ان آیات کی تفسیر مولانا ندوی نے ایسے حقائق و دلائل کے ساتھ کی ہے کہ عصمت نبوی اور منصب رسالت پر انگلی اٹھانے والے دم بخود ہیں اور جن کے دلوں میں صحیح محبت رسول ہے وہ مولانا کی تفسیر کو پڑھ کر عش عش کر اٹھتے ہیں۔ چند مقامات بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں :
سورہ محمد کی آیت ۱۹؎
فَاعلَم اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاستَغفِرلِذَنبِکَ وَلِلمُؤمِنِینَ وَالمُؤمِنٰتِ
مولانا ندوی اس آیت میں لفظ استغفار کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔ لفظ استغفار کئی معانی کا حامل ہے جہاں تک اس کا تعلق حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ آپ کو گناہوں کے عدم صدور کی توفیق عنایت فرمائے یعنی آپ کو نور و عرفان بخشے کہ گناہوں کے پر فریب پہلو آپ کی نظروں سے اوجھل اور ڈھکے رہیں اور آپ ان سے قطعاً متاثر نہ ہوں اور جہاں اس کا تعلق عام مومنین و مومنات سے ہے اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ان کے لیے مغفرت طلب کریں اور خدا سے دعا مانگیں کہ ان کی لغزشوں کو درگزر فرمائے۔
سورہ فتح کی آیت ۲؎ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں :
لِیَغفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِکَ وَمَاتَاَخَّرَ
تاکہ اللہ تیری اگلی اور پچھلی لغزشیں معاف کرے۔
اس آیت کے الفاظ لیغفر اور ذنب کی تفسیر میں مولانا فرماتے ہیں غفران ذنب کے ضمن میں اہل تفسیر نے حسب ذیل تاویلات کا ذکر کیا ہے۔
۱۔ ذنبک سے مراد مسلمانوں کے گناہ اور حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) چوں کہ مخاطب اول ہیں اس لیے ان کی وساطت سے گناہوں کی بخشش عام کا مژدہ سنایا ہے۔
۲۔ مخاطب تو حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں مگر ذنب کے معنی ترک اولی کے ہیں۔ معصیت اور نافرمانی کے نہیں۔
۳۔ اس سے صغائر مراد ہیں جن کا صدور انبیاء سے ہو سکتا ہے۔
۴۔ اس سے مقصود عصمت کا ثبوت ہے یعنی اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ گناہوں کو آپ کی نظروں سے اوجھل کر دے۔
مگر ان سب تاویلوں میں ایک نقص ہے کہ ان کا تعلق نفس واقعہ سے کچھ بھی نہیں معلوم ہوتا۔ آیات میں فتح مکہ کا مژدہ سنایا جا رہا ہے اور درمیان مین غفران ذنب کا ذکر آ گیا ہے جو بظاہر بالکل غیر متعلق معلوم ہوتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ ذنب کے معنی یہاں گناہ معصیت یا تر ک اولی کے نہیں ہیں بلکہ الزام کے ہیں اور اس کی نظیر خود قرآن میں ملتی ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں وَلَھُم عَلَیَّ ذَنَبٌ کہ قبطیوں کا میرے اوپر ایک الزام ہے تو اس صورت میں ظاہر ہے کہ آیت کا معنے بالکل واضح ہیں کہ فتح مکہ کے بعد جب حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) ان مکے والوں سے نہایت تپاک اور محفوظ سلوک کریں گے اور ان لوگوں کو زیادہ قریب ہو کر اسلام کا مطالعہ کرنے کا موقع ملے گا تو پھر وہ الزامات جو انھوں نے آپ کی جانب منسوب کر رکھے تھے یا جن کے انتساب کا مستقبل میں احتمال پیدا ہو سکتا ہے وہ دور ہو جائیں گے اور فتح مکہ کی غرض بھی یہ ہے کہ ان لوگوں کو مشکوٰۃ نبوت کے انوار سے براہ راست استفادہ کی توفیق میسر ہو اور ان کے دلوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ذات کے متعلق جو شکوک و شبہات ہیں ان کا ازالہ ہو جائے۔
یہ بات اسلامی مسلمات میں سے ہے کہ انبیاء علیہم السلام نہ صرف معصوم ہوتے ہیں بلکہ ان کے آنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ معصوم انسانوں کے ایک گروہ کو پیدا کریں۔ وَیُزَکِّیھِم۔ اس لیے ان کے باب میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ خود معصوم ہوتے ہیں یا نہیں ان کا مقام عصمت سب سے زیادہ بلند ہوتا ہے وہ اس پاکیزگی سے بہرہ مند ہوتے ہیں جو عام انسانوں کے حصہ میں نہیں آسکتی۔
سورہ ضحی کی آیت ۷؎ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں
وَوَجَدَکَ ضَالّاًً فَھَدیٰ
اس آیت میں لفظ ضالاً وارد ہوا ہے اس کی تشریح میں مولانا فرماتے ہیں ووجدک ضالاً۔ قطبی نے تو ضلالت کے معنی ضلالت و کفر کے ہی لیے ہیں اور یہ وہ جسارت ہے جس کو نقل کرنے میں قلم کا جگر شق ہو جاتا ہے۔ مگر امام رازی نے کوئی بیس وجوہ تاویل کا ذکر کیا ہے جن میں سے ایک وجہ پسندیدہ ہے یہ ہے کہ ضلالت کے معنی محبت اور شوق کے بھی ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی وارفتگی و محبت کے متعلق ان کے لڑکوں نے کہا تھا أِنَّکَ لَفِی ضَلَالِکَ القَدِیمِ۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے آپ کو بدرجہ غایت حق و صداقت کا عاشق ومتجسس پایا اور پھر اس جانثار محبت کی تسکین یوں کی کہ آپ کو پورا نظام معرفت عطا کیا۔
مذکورہ تفصیل سے واضح ہو جاتا ہے کہ مولانا ندوی رحمہ اللہ تفسیر قرآن اور علوم قرآن پر کتنی عمیق نظر رکھتے تھے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کس درجہ محبت و عقیدت۔ مولانا ندوی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت و محبت کے سلسلہ میں اپنے ایک وقیع مضمون جس کا عنوان ’’اہل حدیث کے خلاف ہمہ گیر برہمی کے اسباب‘‘ ہے میں اہل حدیث پر لگائے جانے والے الزام کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’کچھ لوگ اس میں مسرت محسوس کرتے ہیں کہ انھیں حشویت کا طعنہ دیں۔ کچھ یہ کہہ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ یہ گستاخ ہیں، ائمہ اربعہ کا احترام نہیں کرتے، بزرگوں اور ولیوں کو نہیں مانتے، ستم بالائے ستم یہ کہ اس ذات گرامی کے منکر ہیں جس پر ایمان لانا نجات اخروی کے لیے شرط اول اور جس سے محبت و شیفتگی اور وابستگی و تعلق خاطر دنیا کی عزیز ترین متاع ہے اور عشاق شمع رسالت کا فائق ترین سرمایہ حیات!
کون بدبخت ہے جو ائمہ اربعہ کی جلالت قدر کا معترف نہیں اور ان کے علمی و فقہی احسانات کا قائل نہیں۔ کون محروم قسمت ہے جو بزرگوں اور ولیوں کی پاکیزگی اور اعلیٰ اور بے لوث کردار کا ماننے والا نہیں اور پھر اس ذات مکرم، اس ردائے محبوبی اور جان دل نوازی کے انکار کی کس کو جرأت ہے؟ جس کے احسانات سے دنیا قیامت تک سبکدوش نہیں ہو سکے گی۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔
اور اہل حدیث کے متعلق تو ایسے سوء ظن کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں، ان کے حق میں یہ الزام ایسا مستبعد اور تہمت ایسی بعید ازقیاس ہے کہ جس کے لیے کوئی وجہ جواز موجود نہیں کیوں کہ یہاں لے دے کر یہی دولت تو ہے جمو میسر ہے اور وجہ صد نازش ہے۔ (سہ روزہ منہاج لاہور بحوالہ’’ ماہنامہ التبیان‘‘ نئی دہلی۔ بابت ماہ ستمبر ؍ اکتوبر ۲۰۰۶ء )
مولانا ندوی کی مذکورہ تحریر حقائق سے لبریز، بصیرت سے پُر اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی آئینہ دار ہے۔
ہماری دعا ہے کہ رب العٰلمین مولانا محمد حنیف ندوی اور ان کے اساتذہ کے درجات بلند فرمائے اور اس تفسیر کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے، اسی طرح ناشر کو بھی دنیا و آخرت میں اجر عظیم سے نوازے آمین۔ وصلی اللہ علی النبی۔
۲۷؍ ربیع الثانی ۱۴۲۸ھ
بمطابق ۱۵؍ مئی ۲۰۰۷ ء
بروز منگل
٭٭٭
ماخوذ:تفسیر سراج البیان، حضرت مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ
ٹائپنگ: ام ثوبان
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
Kia yeh article apka PDF may majood hai or kaha say download kia ja sakta hai
سلام علیکم؛ یہ تعلیمات غزالی یا سرگزشت غزالی کتاب کیسے ڈاون لوٖٖٖڈ کر سکتے ہیں