فہرست مضامین
- محبت رنگ رکھتی ہے
- انتساب
- پیش لفظ
- اظہارِ تشکر
- دیباچہ
- پاکیزہ جذبوں کا شاعر
- دھنک موسم کا شعری ادراک
- محبت رنگ شاعر
- آراء
- حمد باری تعالیٰ
- نعتِ رسول مقبولﷺ
- منقبت
- محبت رنگ رکھتی ہے
- آنکھیں
- کیا کہوں تمہارے بِن
- غم
- کھلونا
- ایک لمحہ
- آشنائے محبت
- اک دن میری ہو جاؤ گی
- سپنا
- Strange Relationship
- بارش
- تبدیلی
- Miss You
- آ محبت کی بات کرتے ہیں
- Dementia
- سنو اے ظالمو سنو!
- دھنک
محبت رنگ رکھتی ہے
شعیب مظہرؔ
انتساب
والدین کے نام
جن کی بدولت محبت سے آشنا ہوا
پیش لفظ
شعر فن کا لباس پہنیں تو
بن کے حسنِ کتاب بکتے ہیں
اظہارِ تشکر
السلام علیکم !
مَیں رب العالمین کا شکر گزار ہوں کہ جس نے میرے دل میں محبت کا حسین جذبہ پیدا کیا، شاعری کا ادراک بخشا اور مجھے بے شمار نعمتوں سے نوازا۔ ادبی حلقوں میں میری پذیرائی رب العزت کے کرم کے بغیر ممکن نہ تھی۔ بعد ازاں اپنے والدین کا ممنون ہوں کہ انہوں نے میری بہت اچھے انداز سے پرورش کی۔ مجھے اعلیٰ تعلیم دِلوانے کے ساتھ ساتھ ادب سکھایا اور ہمیشہ مثبت اور وسیع سوچ رکھنے کی ترغیب دی۔ مَیں اپنے بھائیوں ذوہیب، خبیب اور عنیب کا بھی بے حد متشکر ہوں کہ جن کا ساتھ میرے لئے ہمیشہ باعثِ فخر رہا۔ والدین نے ایک گھنے پیڑ کی مانند ہم سب بھائیوں کو زندگی کی کڑی دھوپ سے بچا کر محبت و شفقت کا سایہ فراہم کیا۔ اللہ پاک یہ سایہ ہم پر ہمیشہ سلامت رکھے (آمین)۔
مَیں اپنے استادِ محترم جناب سحرؔ فارانی صاحب کا بھی سپاس گزار ہوں کہ جنہوں نے نہ صرف شاعری بلکہ زندگی کے مشکل مراحل میں قدم قدم پر میری رہنمائی کی، مجھے اپنے شفقت کے سائے میں رکھا اور شعر کہنے کا سلیقہ عطا کیا۔ سحرؔ فارانی صاحب استاد شاعر ہیں اور اِن کی شاعری زندگی کے تمام حوالوں کو چھوتی ہے۔ شاعری کے اِس سفر میں سلیم اخترؔ ملک صاحب، عاطفؔ سعید بھائی، انجینئر ظفرؔ محی الدین صاحب، سید احسنؔ کاظمی بھائی، اطہرؔ جعفری صاحب، اسلمؔ کولسری صاحب، سمرین صاحبہ، ممتاز ملک صاحب، زینؔ شکیل بھائی اور ناصرؔ ملک صاحب نے میرا بھر پورساتھ دیا اور میری حوصلہ افزائی کرتے رہے۔
حارث حیات خان میری زندگی میں ایک بہت اہم شخصیت ہیں جن سے میں نے "دوستی” لفظ کا مطلب سیکھا۔ مجھے ان سے اور ان کی فیملی سے بہت اپنائیت اور محبت ملی۔ مَیں ان کا شکر گزارا ور احسان مند ہوں۔ اُن تمام لوگوں کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے زندگی اور شاعری کے سفر میں میرا ساتھ دیا اور اُن لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے میرا ساتھ نہیں دیا کیونکہ مَیں نے اِن سے بھی بہت کچھ سیکھا۔
آخر میں اپنے "قارئین "کا ذکر کرنا چاہوں گا جو میرے لئے بہت اہم ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے اپنے ایک انٹرویو میں بھی کہا تھا کہ کوئی بھی لکھاری جسے اپنے قارئین کی توجہ اور محبت حاصل نہ ہو اُس کی حیثیت کچھ بھی نہیں۔ مجھے قارئین سے خوب محبت اور پذیرائی ملی۔ میں امید کرتا ہوں کہ وہ ہمیشہ کی طرح میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مجھے مایوس نہیں کریں گے اور انشاءاللہ مَیں بھی اپنے قارئین کی امیدوں پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔ آپ کی قیمتی آراء کا منتظر۔
شعیب مظہرؔ
Cell# +92-305-5632223
Email : shoaibmazhar87@gmail.com
دیباچہ
سچائی سے محبّت اور منافقت سے نفرت کرنے والے وجیہہ و شکیل نوجوان محمّد شعیب مظہرؔ ولد محمّد اقبال مظہر نے 30مارچ 1987 کو جھنگ کے ایک متوسط خاندان میں آنکھ کھولی۔ زندگی کے مختلف مراحل سے گزرا اور پھرM. Sc( الیکٹرانکس) کرنے کے بعد شعیبؔ نے ایک سرکاری محکمے میں با وقار عہدے پر ذمہ دار آفیسر کی حیثیّت سے ملک و قوم کی خدمت کا آغاز کیا۔ اِسی بِنا پر اِسلام آباد میں سکونت پذیر ہیں۔
زیرِ نظر مجموعۂ کلام(محبّت رنگ رکھتی ہے )شعر و ادب کی دنیا میں شعیب مظہرؔ کا پہلا قدم ہے جو اس کے لئے نویدِ منزل بھی ہے اور جادۂ منزل بھی۔ رہبر کا کام راستہ دکھانا اور راستے کے نشیب و فراز سے آگاہ کرنا ہوتا ہے سفر تو بہر حال مسافر کو خود ہی طے کرنا پڑتا ہے۔ لیکن شعر و ادب کی راہ میں ایسے عازمِ سفر بھی کثرت سے ملتے ہیں جو چل نہیں سکتے۔ وہ رہبر کے کاندھوں پر بیٹھ کر حصولِ منزل کی کوشش کرتے ہیں اور کسی کو کان و کان خبر بھی نہیں ہونے دیتے۔ شعیبؔ کا شمار ایسے گُم گشتۂ منزل لوگوں میں نہیں ہوتا وہ اپنے لئے راستہ خود متعیّن کر کے اپنے ہم عصروں سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہے۔ وہ مشاہدات کو طشت از بام کرتے ہوئے اپنے شب و روز کو کروٹ کروٹ اپنے اشعار میں سمونے کی کوشش کرتا ہے۔ شعیب کی تازہ کاری کا نمونہ اس کی کچھ آزاد نظمیں بھی ہیں۔ آزاد نظم میرے خیال میں پابند نظم سے زیادہ مشکل صنفِ سخن ہے وہ اس لئے کہ جدید اور آزاد نظم کے بھر پور اظہار میں تاثیر پیدا کرنے کے لئے گہرے تفکّر اور ایسے الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے جو جدید تقاضوں اور علامتوں کا بھرم رکھ سکیں۔
شعیبؔ کو نئے اسالیب برتنے اور نئے ڈھنگ سے بات کرنے کا بھی سلیقہ ہے اور اس کی نظر علومِ متداولہ پر بھی ہے تاہم کلام میں تصوّف کے اُلجھاوے پریشان نہیں کرتے۔ شاعری سے گہری لگن اور جذباتی تعلق شعیبؔ کی تخلیقی صلاحیّتوں کو مہمیز کرتا ہے۔ غزل ایک داخلی صنفِ سخن ہے اس میں ہمہ گیری اور لطافت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس میں شاعر کے خونِ جگر کے ساتھ ساتھ اُس کا ذاتی تاثر بھی شامل ہو۔ شعیبؔ ذاتی احساسات کی آمیزش سے شعر کہتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری یاسیّت سے پاک اور امّید افزا ہے۔
شاعری میں جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ فنی موشگافیوں کا اِدراک بھی ضروری ہے جو شعیبؔ کے کلام میں واضع نظر آتا ہے۔ فکر کی لہریں زیادہ گہری نہ سہی لیکن ان لہروں کی تہہ میں ایسے صدف موجود ہیں جو احساس کے قطرے کو گہر بنانے کی صلاحیّت رکھتے ہیں۔ شاعر کسی غیر مرئی دنیا کی مخلوق نہیں یہ تو امکانات کی دنیا میں رہتا ہے۔ ہمارا شاعر، شاعری کی لگن میں اس مقام کا متلاشی ہے جہاں سے آواز اور الفاظ کے سوتے پھوٹتے ہیں اور یہ منزل اس کی نظروں سے زیادہ دور نہیں۔
شعیبؔ نے نام نہاد جدّت پسندوں کی طرح بھونڈے انداز میں غیر مانوس الفاظ کا مینا بازار نہیں سجایا بلکہ جدّت اور روایت کے امتزاج سے شعر کہنے کی کوشش کی ہے جو لائقِ تحسین ہے۔ اس کی غزلوں میں عصری صداقتوں اور رومانیّت کی چاپ بھی سنائی دیتی ہے۔ وہ بہار کے رنگوں سے رنگ کشید کر کے اپنے جذبوں میں سموتا ہے اور پھر اس آمیزے سے دھنک تخلیق کر کے اس کا نام نظم رکھتا ہے اور کبھی کوئی کہکشاں ترتیب دے کراس کا نام غزل رکھ دیتا ہے۔ مجھے امّید ہے کہ قارئین شعیبؔ مظہر کی شعری بوقلمونیوں سے ضرور محظوظ ہوں گے۔ زیرِ قلم مقدمہ میں شاعری سے متعلقہ مندرجات کو تقریظ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کیونکہ تقریظ سے اِختلاف ممکن ہے۔ آخر میں شعیبؔ کے چند اشعار پیش کر کے اجازت چاہوں گا۔
سجی مسکان ہونٹوں پر مگر دل میں کدورت ہے َ اے نفرت بانٹنے والو! محبت کی ضرورت ہے
چومی تھی اتنے پیار سے ماں نے مری جبیں : اب تک مرے وجود سے خوشبو نہیں گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکرم سحرؔ فارانی (لاہور) 20 اپریل، 2015
پاکیزہ جذبوں کا شاعر
شعیب مظہرؔ سے میرا ابتدائی تعارف فیس بک کے ذریعے ہوا۔ انہیں کسی ماہرِ فن کی تلاش تھی۔ اِس لئے اِنہوں نے میری شاگردی میں آنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ چونکہ مَیں اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کی وجہ سے اِن کو زیادہ وقت نہیں دے سکتا تھا تو مَیں نے اپنے دوست شاعر سحرؔ فارانی صاحب، جن کی مَیں دل سے قدر کرتا ہوں، کو اِن کی رہنمائی کے لئے کہا۔ یوں یہ باقاعدہ طور پر سحرؔ فارانی صاحب کے شاگرد بن گئے۔ شعیبؔ محنت اور لگن سے سیکھنے کے بعد اب ماشاءاللہ اتنے خوبصورت شعر کہتے ہیں کہ بے ساختہ داد دینے کو دل کرتا ہے۔ شعیبؔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور بڑوں کی عزت کرنا بخوبی جانتے ہیں۔
شاعری کا عمل انسان کے اندر سے ایک جھرنا بہنے کا عمل ہے اور اِس جھرنے کے بہتے ہوئے پانی کے خالص پن سے ہم انکار نہیں کر سکتے۔ اب تو ماشاءاللہ شعیبؔ کی شاعری سے فکر و فن کے جھرنے پھوٹتے ہیں اور اِن جھرنوں کی مٹھاس براہِ راست دِلوں پر اثر کرتی ہے۔ اعترافِ شخصیت کے لئے ایسے روّیے کی ضرورت ہوتی ہے جو اخلاص پر مبنی ہو اور مَیں خلوصِ دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ آنے والا دور شعیب مظہرؔ کا دور ہو گا۔ انشاءاللہ شعیبؔ شاعری کے تقاضوں پر پورا اتریں گے اور ان کی شاعری پڑھنے والے اِن کے کلام کو سراہیں گے۔ مثال کے طور پر
اگر تُو چاند ہے تو مستعاری ہے تری تابش
مری مٹھی میں ہے سورج، مجھے آکاش کہتے ہیں
معطر کر رہا ہے جو صبا کو کھول کر زلفیں
مجھے اُس کے ارادے آج کل اچھے نہیں لگتے
حسن بکتا ہے خواب بکتے ہیں
تشنگی میں سراب بکتے ہیں
انمول تھا شعیبؔ تُو اِس شہرِ حسن میں
اک بار مسکرا کے وہ قیمت چکا گئے
شعیب مظہر! مَیں آپ کی کامیابی کے لئے دعا گو ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
حکیم سلیم اخترؔ ملک(لاہور)
سر پرستِ اعلیٰ خواجہ فرید سنگت، پاکستان
ممبر رائٹر ویلفیئر فنڈ کمیٹی، حکومتِ پنجاب
دھنک موسم کا شعری ادراک
شاعری کو دھنک سے تعبیر کیا جائے، قوس قزح سے موسوم کیا جائے، ساون اور برسات قرار دیا جائے، موسمِ بہار کی جلترنگ کہا جائے، دسمبر کی خنک اُداسی کا عنوان دیا جائے، یہ بہرحال طے ہے کہ محبت سیکڑوں رنگ اپنے کشادہ دامن میں سمیٹ کر چلتی ہے۔ اس کا ہر رنگ انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ وصال آمیز و وصال انگیز، فراق یافتہ و فراق گیں۔ کشائش انتظار کے رنگوں سے آراستہ جذبۂ محبت کتنا کیف آور اور امید افزا ہوتا ہے، یہ رنگوں سے شناسائی رکھنے والوں کو بخوبی علم ہے جو زندگی بھر اس کے خمار میں اپنے حصے کے آلام بخوشی کاٹ دیتے ہیں۔ ;
شعیب مظہر اپنی بے ساختہ عمر کی جذباتیت کے بل پر ان رنگوں کے لطیف و عمیق مشاہدے اپنی شعری وارداتوں میں فطری بے باکی کے ساتھ عبارت کرتا ہے تو اس سمے بہت معتبر اور دل نشیں معلوم ہوتا ہے۔ وہ شعری بندوبست اور لفظی نشست و برخاست کا مقید رہ کر پروازِ خیال کو پابندِ سخن نہیں کرتا بلکہ وارداتِ قلب کو حقیقی جاذبیت کے ساتھ پابندِ شعر کرتا ہے۔ اسے لفظوں کے مفاہیم کے ساتھ ساتھ اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کا ہنر میسر ہے جو بلاشبہ خداداد ہے۔ ;
عہدِ موجود کا کوئی شاعر معاشرتی ناہمواریوں اور نا انصافیوں سے ماورا ہو کر اپنے فطری اور تخیلاتی ماحول میں ہمہ نفس رہ کر تخلیق نہیں کر سکتا بلکہ احتیاط کے با وصف وہ ارد گرد ہونے والے واقعات سے متاثر ہو کر لفظوں کی بساط سجا بیٹھتا ہے۔ یہ بساط اور خود تراشیدہ مہرے اس کی رگوں کے تازہ خون پر پلتے ہوئے اسے دم بدم نڈھال کرتے جاتے ہیں۔ وہ انسانی دکھ کو پوری شدت سے محسوس کرتا ہے اور یہ احساس ایک طرف تو اسے نئی تخلیقات اور اظہاریوں پر مائل کرتا ہے جبکہ دوسری طرف اس کی سانسیں شمار کرنے لگتا ہے۔ شعیب مظہر بھی انہی حساس قافلے کا مسافر ہے۔ اُس پر معاشرتی زبوں حالی اثر انداز ہوتی ہے تو وہ عارضی طور پر ہجر و وصال کے رنگوں سے کٹ کر لہو رنگ پیرایوں میں کھو جاتا ہے۔ تب اس پر ناصحانہ رنگ بھی غالب آ جاتا ہے جو اُس کا رنگ نہیں ہے کیونکہ وہ معصوم اور بے ساختہ انسان ہے۔ ;
سجی مسکان ہونٹوں پر مگر دل میں کدورت ہے
اے نفرت بانٹنے والو! محبت کی ضرورت ہے
ہاں ! اس کے جذبے ابھی اتنے توانا ہیں کہ اس مکرو فریب سے لبریز دنیا سے بھی محبت و اخلاص کے رنگ چن لیتے ہیں۔ اس کی آنکھوں میں ابھی اتنی کشش موجود ہے کہ وہ سیاہی بھرے پاتال سے سنہرے رنگ چن لیتی ہیں۔ اس کے لبوں کے پاس اتنی مہلتیں ابھی موجود ہیں کہ وہ نفرت، کدورت اور تلخیوں کے گھونٹ بھرنے کے باوجود شیرینی اگل سکتے ہیں۔ اس کی سماعتیں ابھی اتنی بحال ہیں کہ آوازوں سے بھری جہان سے چند سریلے اور محبت بھرے گیت تلاش کر لیتی ہیں۔ ;
چومی تھی اتنے پیار سے ماں نے مری جبیں
اب تک مرے وجود سے خوشبو نہیں گئی
اُس کی شاعری میں ایک دلفریب تمکنت موجود ہے۔ ۔ ۔
;تمکنت! کہ اُس نے اس زمین پر بسنے والوں کی نمائندگی کرنے کی سعی کی ہے۔ ۔ ۔
تمکنت! کہ اُس نے خاک زادگی کے حسن کو فطرت کے چاک پر گھومتے دیکھا ہے اور تصویر کیا ہے۔ ۔ ۔
تمکنت! کہ اُس نے اسی خاک سے اشعار چننے کے لیے اپنی انگلیوں کی پوروں کو زخمی کیا ہے۔ ۔ ۔
تمکنت! کہ اُسے انسان سے لگاؤ ہے اور اسی لگاؤ کی بنیاد پر اس نے تصورات کا سفر کیا اور مسافتوں کا احوال پوری ایمانداری سے رقم کیا۔ ۔ ۔
تمکنت! کہ اُسے جو زندگی نے دیا، اس نے بلا کم و کاست لفظوں کا پیراہن دے کر پیش کر دیا اور کہیں بھی اپنا اخلاص داغ دار نہیں ہونے دیا۔ ۔ ۔
اس کی شاعری سادہ بیانی سے مزین ہے جو اپنے قاری کے ذہن و دل کو اپنے حصار میں رفتہ رفتہ لیتی جاتی ہے۔ یوں کہ قاری کو اپنی گرفتاری کا مطلق احساس بھی نہیں ہوتا۔ اپنی شعری جہتوں کی عمدہ توجیہہ پیش کرتے ہوئے کہتا ہے :
کیا بتاؤں کہ شاعری کیا ہے
کتنی گہرائی اِس کے اندر ہے
یہ تو اک بے کراں سمندر ہے
میری دعا ہے کہ زورِ قلم اور زیادہ ہو اور میرا ویر شعیب مظہر اپنے ذوقِ سلیم اور شوقِ مہمیز کے بل پر انسانیت کی خدمت میں کشاں کشاں رہے۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔
ناصر ملک
اردو سخن پاکستان
8 مئی 2015ء
محبت رنگ شاعر
شاعری بھی محبت کی طرح ہوتی ہے، کی نہیں جا سکتی۔ سچا اور سُچا شعر تبھی وجود میں آتا ہے جب سوچ کی زمین میں شاعر پوری ایمانداری اور خلوص کے ساتھ آبیاری کرتا ہے۔ خیال کے شعر میں ڈھلنے کے عمل کو توجہ بھی درکار ہوتی ہے اور سانسیں بھی۔ اگر لکھنے والے کا اپنے ارد گرد سے رابطہ استوار نہ ہو تو خیال میں وسعت نہیں آتی اور شاعری بھی کچھ ہی موضوعات کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ شعیبؔ سے جب میری پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی تو مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ دھیمے لہجے میں بولنے والا، نہایت مؤدب اور سوال رکھنے والا لڑکا شعر و سخن کے میدان میں بھی طبع آزمائی کرتا ہے۔ مطالعہ اور نئے جہان تلاشنے کا شوق رکھنے والے شعیبؔ کا کلام جب فیس بُک پر میری نظر کے سامنے سے گزرا تو ایک طرف خوشگوار حیرت ہوئی اور دوسری طرف تعجب بھی کہ اس کم کم بولنے والے کے اندر کتنا شور ہے اور وہ اس شور کو کس خوبصورتی سے الفاظ کا پیرہن دے کر کیسے سندر اور سجیلے شعر کہہ رہا ہے۔ اس کی شاعری میں روایت سے انحراف بھی نظر نہیں آتا مگر بدلتے زمانے کے ساتھ اس کے اشعار جدّت لیے ہوئے ہیں اور آج کل کے موضوعات اور حالات کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس کی نظم بھی جاندار ہے اور پڑھنے والے کو خود سے الگ نہیں ہونے دیتی۔ شعیبؔ کی شاعری میں غم جاناں کی جھلک کے ساتھ ساتھ غم دوراں کے نظارے بھی ملتے ہیں جو اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ اپنے اردگرد وقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات سے آگاہ بھی ہے اور اُن کے اثر کو اتنا محسوس بھی کرتا ہے کہ انہیں شاعری کے رنگ میں ڈھال سکے۔ شعیبؔ کی کتاب اپنے عنوان کی طرح محبت کے کئی رنگوں کا احاطہ کرتی ہے اور اس نے ہر رنگ کو اس خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ محبت سے محبت ہونے لگتی ہے۔ ابھی آغاز سفر ہے اور لہجے کی توانائی بتا رہی ہے کہ شعیبؔ سفر کو جاری رکھنے اور مزید آگے بڑھنے کی تمام تر صلاحیتیں رکھتا ہے۔ دعا ہے کہ ربِ محبت اس کے قلم کو مزید طاقت اور سوچ کو مزید وسعت عطا کرے۔ آمین
۔۔۔۔۔۔
عاطفؔ سعید
( اسلام آباد)
5مئی، 2015
آراء
شعیب مظہرؔ کے پہلے شعری مجموعہ کلام( محبت رنگ رکھتی ہے ) کا مسودہ اس وقت میرے سامنے ہے اور اس کا مطالعہ کرتے ہوئے میرے ذہن میں بار بار ایک محاورہ آ رہا ہے، ہونہار بروے کے چکنے چکنے پات۔
;آج کل شاعری کرنا غالباً ایک فیشن بن گیا ہے۔ جس کو دیکھو وہ شاعر بنا بیٹھا ہے۔ ہر طرف بے وزن اور لا یعنی تک بندیوں کی بھرمار ہے۔ ان حالات میں شعیبؔ کی شاعری پڑھ کر نہ صرف خوشی ہو رہی ہے بلکہ اطمینان بھی کہ شاعری بالخصوص اچھی غزل کہنے والے اور غزل کو آگے بڑھانے والے بھی سامنے آ رہے ہیں۔ شعیبؔ کے ہاں مضامین عامیانہ نہیں بلکہ بعض اشعار پڑھ کر تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ غزل کی روایت سے ہٹ کر بھی بہت کچھ کہہ رہا ہے اور حالاتِ حاضرہ کے مسائل کے ساتھ ساتھ انسانی اقدار اور انسانیت کو درپیش چیلنجز کو بھی موضوعِ سخن بناتا ہے۔ شعیبؔ نے اپنی خواہشات، تجربات اور مشاہدات کو متوازن اور خوبصورت آہنگ انداز میں شعری پیکر میں ڈھالا ہے۔ اِس کی شاعری زندگی سے جڑی ہوئی ہے اور جذبات و احساسات سے مزینّ ہے۔ ایسی شاعری زندہ رہنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
شعیبؔ کا انداز سادہ اور دلنشین ہے اور اپنی بات قاری تک پہنچانے والا اسلوب شعیبؔ کی شاعری کو مقبولِ عام کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
اطہرؔ جعفری
(اسلام آباد)
مجھے سب سے زیادہ شعیب مظہرؔ صاحب کی راست فکری نے متاثر کیا۔ مجموعہ کلام کا آغاز حمد سے کیا اور حمد دل سے کہی ہے۔ پھر بعد از خدا بزرگ تُوئی قصہ مختصر۔ نعت نبیِ مکرمؐ کہی اور وہ بھی آنکھوں سے جھلکتے اشکوں کی مانند صفحۂ قرطاس پر اتری ہے۔ محبت کی بات کی ہے مگر ایک سلیقے سے اور عمومی سطح سے بلند ہو کر۔ اِس قدر بلند کہ انسانوں میں باہمی محبت و اخلاص کی فضا ان کی آرزو ہو گئی ہے۔ اِس مجموعہ شعر کی آمد پر شعیبؔ مظہر صاحب کو دلی مبارک باد۔
اسلم کولسری
(لاہور)
شعیب مظہرؔ جی سے میری ملاقات دو برس پہلے ہوئی اور آج اِن کی کتاب کا مسوّدہ میرے ہاتھ میں ہے۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ مَیں کسی تحقیق کار کے ہاں کیسے لکھوں جو کہ خود ایک سمندر کی تہہ میں ڈوب کر لکھنے والا ہو اور لازوال تحریر کا مالک ہو۔ اِس کے علاوہ مجھے اِس بات کا احساس بھی ہے کہ مجھے تو شاعری کے رموز کا بھی پتہ نہیں، زبان و وزن تو بڑی دور کی بات ہے۔ بس اتنا کہتا ہوں کہ شعیبؔ جی خوب ڈوب کر لکھتے ہیں۔ اِس پر آشوب دور میں اِن کی شاعری قاری کو سکون بخشتی ہے۔ اِن کا درد ہر قاری کا درد ہے۔ مختصراً شعیبؔ جی اپنی خوبصورت شخصیت کی طرح اشعار بھی خوبصورت کہتے ہیں۔ اِن کی شاعری میں حقیقت کا رنگ موجود ہے اور یہی رنگ بعنوانِ "محبت رنگ رکھتی ہے ” شائع ہو رہا ہے۔ اللہ کریم اِن کو کامیابی و کامرانی دے۔ آمین
انجینئر ظفرؔ محی الدین (لاہور)
30اپریل، 2015
شعیب مظہرؔ صاحب کا شعری مجموعہ "محبت رنگ رکھتی ہے ” پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ بہت کمال کی شاعری ہے۔ ہر شعر اپنے اندر مکمل اظہار رکھتا ہے۔ زندگی کے ہر پہلو پر اشعار کے ذریعے بات کی ہے۔ شعیبؔ صاحب نے بہت خوبصورت طریقے سے اپنے جذبات قاری تک پہنچائے۔ الفاظ کا چناؤ بہت زبردست ہے۔
ہم نے اُن سے کی لڑائی جان کر کچھ اِس لئے
دیکھتے ہیں کون آتا ہے منانے کے لئے
اب اِس شعر کو ہی دیکھیں کہ اِس میں اپنے اندر کی سوچ کو کتنی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ شعیبؔ صاحب کا شعری مجموعہ پہلی بار پڑھا ہے اور مَیں بہت متاثر ہوئی ہوں۔
سمرین
(RJ)، لاہور
FM 95&101
زندگی میں کچھ لوگ پل دو پل کے لئے ملتے ہیں لیکن ہمارے دِلوں میں اپنی محبت کے گہرے اور نہ مٹنے والے نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ اِن کو ملنے کے لئے دل ہمیشہ ہی بے تاب، آنکھیں متلاشی اور زبان سے دعائیں ہی دعائیں نکلتی ہیں۔ ایسی ہی ایک سحر آگیں اور خوبصورت شخصیت شعیب مظہرؔ سے کچھ عرصہ پہلے بہت ہی پیارے اور محترم جناب ظفر محی الدین صاحب کے ہمراہ ملاقات ہوئی۔ اُس ملاقات کا مزہ اور نشہ آج بھی برقرار ہے۔ شعیبؔ محبت کرنے والا اور محبت بانٹنے والا انسان ہے۔ اس کی محبت وقتی اور فرضی نہیں ہوتی بلکہ شعیبؔ کی "محبت رنگ رکھتی ہے "۔ شعیبؔ کی شاعری کے ذریعے اس کا احساس سامنے آیا تو پیار اور بھی بڑھ گیا۔ دل خوش ہو گیا کہ یہ اردو ادب میں بہت خوبصورت اضافہ ہوا ہے۔ شعیبؔ کے لئے بہت ساری دعائیں۔ اللہ پاک بہت عزت اور شہرت سے نوازے۔ آمین
ممتاز ملک
(R.A)، لاہور
FM 95 Punjab Rang;
& FM 101 Radio Pakistan
28اپریل، 2015
حمد باری تعالیٰ
نام تیرا کیوں نہ لوں مَیں پہلے ہر اِک کام سے ؟
میری ساری مشکلیں ٹلتی ہیں تیرے نام سے
پھول، جگنو، چاند، تارے تیری قدرت کے نشاں
تیرے آگے سَر نگوں یا رب زمین و آسماں
ایک ننھے بیج سے تُو پیدا کرتا ہے شجر
اور شاخوں کو عطا کرتا ہے تُو برگ و ثمر
تتلیوں کے رنگ، کلیوں کی چٹخ تیری عطا
تیرے نغمے کیوں نہ گائیں عندلیبِ خوش نوا؟
رزق کی ترسیل کا ہے تیرے ہاتھوں میں نظام
ماورا ہے میری سوچوں سے ترا اعلیٰ مقام
تیری حکمت کا احاطہ کر نہیں سکتا کوئی
اور آنکھوں میں تجلّی بھر نہیں سکتا کوئی
تیری قدرت کا مجھے اتنا سا ہی اِدراک ہے
قادرِ مطلق فقط تیری ہی ذاتِ پاک ہے
شرک کی آلائشوں سے پاک نہ ہو جو وجود
بے ثمر اُس کی نمازیں بے اثر اُس کے سجود
شش جہت میں جب ترا جلوہ نظر آنے لگا
عشق پھر مظہرؔ سے تیری حمد لکھوانے لگا
٭٭٭
نعتِ رسول مقبولﷺ
جس کو ملے نبیؐ سے بہارِ ہدیٰ کے پھول
اُس کے لبوں پہ کھل اُٹھے صلِّ علیٰ کے پھول
خوشبو سے اُن کی سارا زمانہ مہک اُٹھا
مہکے نبیؐ کے گھر میں جو صدق و صفا کے پھول
مکہ کے کافروں نے جفائیں ہزار کیں
بانٹے نبی کریمؐ نے مہر و وفا کے پھول
آقاؐ کی بردباری کا عالم تو دیکھیے
پتھر لگانے والوں کو بخشے دعا کے پھول
بے بس تھی اُن کے سامنے یورش خزاؤں کی
بانٹے نبیؐ کی آل نے جود و سخا کے پھول
بھیجوں مَیں جب درود رسولِ کریمؐ پر
تب دیکھتے ہیں میری طرف مسکرا کے پھول
خوشبو مرے نبیؐ کے پسینے کی اِن میں ہے
دیکھے ہیں سونگھ کر کبھی دل سے لگا کے پھول
مجھ پر کرم ہے خاص یہ پروردگار کا
دامن میں بھر رہا ہوں میں حمد و ثناء کے پھول
مظہرؔ مدینے جا کے سناؤں گا حالِ دل
دل میں سجا کے لاؤں گا مہکی فضا کے پھول
٭٭٭
منقبت
ہمارے دل کی دھڑکنوں کے درمیاں حسینؓ ہیں
مری نگاہ میں متاعِ جسم و جاں حسینؓ ہیں
زمیں سے آسمان تک ہے ذکر اُنؓ کا ہر طرف
بقائے دیں کی اِک عظیم داستاں حسینؓ ہیں
لہو کی ایک ایک بوند ہے فلک پہ ضو فشاں
سمجھ گیا ہوں میں بِنائے کہکشاں حسینؓ ہیں
تھا کل بھی اور آج بھی دِلوں پہ اُنؓ کا راج ہے
ازل سے تا ابد حیاتِ جاوداں حسینؓ ہیں
سماعتوں میں ہے صدائے یا حسینؓ یا حسینؓ
سنا ہے آس پاس ہی کہیں نہاں حسینؓ ہیں
زمینِ کربلا لہو سے جن کے لالہ زار ہے
وہ باغِ دین مصطفیٰؐ کے باغباں حسینؓ ہیں
وہ مظہرِؔ ہدیٰ بھی ہیں نواسۂ رسولؐ بھی
وفا کی رہ گزر میں میر کارواں حسینؓ ہیں
٭٭٭
محبت رنگ رکھتی ہے
سنا ہے مَیں نے لوگوں سے
محبت اندھی ہوتی ہے
مَیں کیسے مان لوں جاناں ؟
یہاں تو مَیں نے دیکھا ہے
محبت رنگ رکھتی ہے
جہاں میں زندہ رہنے کے
ہزاروں ڈھنگ رکھتی ہے
جو اِس کے ساتھ چلتے ہیں
اُنہیں یہ سنگ رکھتی ہے
محبت رنگ رکھتی ہے
بہت ہی خوبصورت ہیں کھلی آنکھیں محبت کی
محبت روشنی بھی ہے ہر اک چشمِ بصیرت کی
محبت ایک تتلی ہے
جو گلشن کی فضاؤں میں
انوکھے رنگ بھرتی ہے
اگر اِس کو پکڑ لیں تو
پروں کے رنگ دے دیتی ہے یہ ہاتھوں کی پوروں کو
مگر پھر اُڑ نہیں سکتی
محبت نرم و نازک ہے
محبت پھول جیسی ہے
کسی چنچل حسینہ کی
نرالی بھول جیسی ہے
محبت دل میں اترے تو
مہکتا ہے مشامِ جاں
محبت چند لمحوں میں وہ رشتے جوڑ دیتی ہے
جو نفرت توڑ دیتی ہے
محبت اک کہانی ہے
محبت زندگانی ہے
محبت قدر دانوں کا ہمیشہ مان رکھتی ہے
یہ ہر محفل میں اپنی اک الگ پہچان رکھتی ہے
محبت جان رکھتی ہے
یہ دل والوں کی بستی میں دِلوں پر راج کرتی ہے
محبت زندگی کی داستاں میں رنگ بھرتی ہے
یہ ایسے کام کرتی ہے
مَیں کیسے مان لوں جاناں ؟
محبت اندھی ہوتی ہے
محبت شان رکھتی ہے
الگ پہچان رکھتی ہے
وفا کے مرَغ زاروں میں
یہ مظہرؔ سنگ رکھتی ہے
محبت رنگ رکھتی ہے
٭٭٭
دی یاد نے دستک جو کبھی خواب میں آ کر
تصویر تری چوم لی آنکھوں سے لگا کر
رہتی ہیں تعاقب میں ہوس کار نگاہیں
اے حسن سرِ بزم تُو پردے میں رہا کر
تُو مجھ کو کہاں ڈھونڈتا پھرتا ہے جہاں میں
رہتا ہوں ترے دل میں کبھی دیکھ لیا کر
ارمان مچلتے ہیں تڑپتا ہوں اکیلا
ساون کی کوئی شام مرے نام کیا کر
پڑھتا ہی نہیں کوئی مرے غم کی کہانی
پھرتا ہوں مَیں آنکھوں میں کئی خواب سجا کر
جذبوں کے شہنشاہ سے اے حسن کی ملکہ
تنہائی کے لمحوں میں کبھی مل بھی لیا کر
زلفیں شبِ ظلمت کی سمیٹی نہیں جاتیں
اے چاند مرے گھر کو بھی چمکا کبھی آ کر
بیٹھا ہوں سرِ راہ یہ اُس شوخ سے کہنا
اِتنا سا مرا کام ہی اے بادِ صبا کر
اک شخص نے مجھ سے یہ کہا تھا اے سخنور!
سنتا ہے تری رب تُو مرے حق میں دعا کر
جو لوگ بھی کرتے ہیں ترے ساتھ جفائیں
مظہرؔ کا دل تو کہتا ہے ان سے بھی وفا کر
ساقی جو نظر آئے سرِ راہ بھی مظہرؔ
تُو جام محبت کے نگاہوں سے پیا کر
٭٭٭
وہی رب ہے ترا جو ہے مرا بھی
نہیں ہے فرق دونوں میں ذرا بھی
کہ سب کا خالق و مالک وہی ہے
اُسی سے ابتدا ہے انتہا بھی
تری مسجد، مری مسجد یہ کیا ہے ؟
نبیؐ ہے ایک سب کا اِک خدا بھی
سمجھ میں روح کلمے کی نہ آئی
اگرچہ بارہا کلمہ پڑھا بھی
یہ مانا حافظِ قرآن ہے تُو
بتا مطلب ترے پلّے پڑا بھی؟
لہو ناحق بہایا جا رہا ہے
دِلوں میں اب نہیں خوفِ خدا بھی
رسولِ پاکؐ سے نسبت پہ نازاں
زمانے کے شہنشاہ بھی گدا بھی
مرے مولا تری ہر اِک رضا میں
رہے شامل سدا میری رضا بھی
نہ مظہرؔ دل کسی انساں کا توڑو
دِلوں میں ہے محبت بھی خدا بھی
٭٭
شہرِ خوباں میں تو رائج ہے ازل سے یہ اصول
جو بھی وہ حکم کریں اُس کو نہ ٹالا جائے
سیکھ لے، سیکھ لے آدابِ محبت مظہرؔ
غیر ممکن ہے تجھے دل سے نکالا جائے
٭٭٭
بے اختیار رہنا، بے اختیار رکھنا
عشق و جنوں کو یونہی سَر پر سوار رکھنا
تم سے بچھڑ نہ جاؤں اِس غم کے شب کدے میں
تم دل کے آئینے میں مجھ کو اُتار رکھنا
جتنی کرو گے نفرت اُتنا ہی پیار دوں گا
عادت نہیں ہے میری سَر پر اُدھار رکھنا
میری دعا ہے تم کو خالق عروج بخشے
بس دوستوں میں اپنے مجھ کو شمار رکھنا
بادِ صبا نے اکثر اُن عارضوں کو چوما
میں بھول ہی گیا تھا یہ اختیار رکھنا
ہم ایک ہوں گے اک دن پختہ یقیں ہے مجھ کو
تم میری چاہتوں کے گیسو سنوار رکھنا
مر جاؤں گا ستم گر مجھ کو بھلا نہ دینا
جو دل کے رابطے ہیں وہ اُستوار رکھنا
آتا نہیں نظر کچھ دھندلائے آئینوں میں
آنکھوں کو تم نہ ہرگز یوں اشکبار رکھنا
تیری نظر سے پی کر جو بے خبر پڑے ہیں
آنکھوں میں اُن کی اپنا قائم خمار رکھنا
جتنے ہیں درد دل میں کاغذ پہ تم اُتارو
مظہرؔ نہیں مناسب دل میں غبار رکھنا
٭٭٭
خمار آنکھوں میں بن کر اک خوشی کی لہر رہتا ہے
جگر میں درد کا طوفاں برنگِ قہر رہتا ہے
چھپا بیٹھا ہے میرے دل میں جو اک چاند کا ٹکڑا
شہر سے وہ چلا جائے تو ویراں شہر رہتا ہے
مہرباں اِس قدر مجھ پر ہوئی ہے عشق کی دیوی
کہ طاری مجھ پہ تیرا سحر آٹھوں پہر رہتا ہے
یہ آنسو کھول دیتے ہیں حقیقت چشمِ ویراں کی
رواں آنکھوں سے سَیلِ غم مثالِ نہر رہتا ہے
کسی کی گفتگو ہے اِس قدر کڑوی وہ جب بولے
تو لہجے میں کئی گھنٹے اُسی کا زہر رہتا ہے
مسرت کو تو میرے گھر کا رستہ ہی نہیں آتا
سدا آباد مظہرؔ غم سے دل کا شہر رہتا ہے
٭٭٭
آنکھیں
یہ شوخ چنچل نہال آنکھیں
جہاں میں ہیں بے مثال آنکھیں
خوشی سے دم ہی نکل نہ جائے
نہ میری آنکھوں میں ڈال آنکھیں
ابھی محبت کی ابتدا ہے
ابھی سے نہ یوں نکال آنکھیں
نہیں ہے کوئی بھی اِن کا ثانی
جواب آنکھیں سوال آنکھیں
نظر سے پینا سکھا رہی ہیں
کریں کچھ ایسا کمال آنکھیں
مَیں بادہ کش تو نہیں ہوں لیکن
نظر سے پی کر ہیں لال آنکھیں
حریمِ جاں میں اُتر گئی ہیں
چَلِیں کچھ ایسی ہی چال آنکھیں
نجانے کتنوں نے اِن پہ لکھا
ہیں شاعروں کا خیال آنکھیں
اسیر کیوں نہ ہو دل ہمارا؟
حسین و دلکش ہیں جال آنکھیں
ہے رَت جگے کا خمار اِن میں
جو صبحِ دم ہیں نڈھال آنکھیں
یہ میری رب سے اک التجا ہے
رہیں سدا لازوال آنکھیں
کریں گی نظرِ کرم وہ مظہرؔ
کریں گی تیرا خیال آنکھیں
٭٭
کیا کہوں تمہارے بِن
کس طرح سے جیتا ہوں
آنسوؤں کو پیتا ہوں
٭٭٭
آدمی ہے حیاتِ فاش میں گم
سوچ اِس کی کسی آکاش میں گم
رزق وافر کہاں سے ملتا ہے
ہر نظر ہے اِسی تلاش میں گم
ڈھونڈنے پر نظر نہیں آتی
روح کب سے ہے میری لاش میں گم
مجھ کو میری خبر نہیں ملتی
آج کل ہوں اِسی تلاش میں گم
جس کو چاہا تھا اُس کو پا نہ سکا
اب تو حسرت ہے لفظِ کاش میں گم
جو لگی تھی جفا کے ناخن سے
زخم دل کے ہیں اُس خراش میں گم
تیرا پیکر بنا کے سنگ تراش
رہ گیا اپنی اُس تراش میں گم
یوں ہی مظہرؔ حیات کاٹی ہے
عشق میں گم کبھی معاش میں گم
٭٭٭
دیکھے روز نرالے لوگ
دو دو چہروں والے لوگ
چہروں کے ہیں گورے رنگ
لیکن من کے کالے لوگ
کرنوں سے رہتے ہیں دور
یہ ظلمت کے پالے لوگ
صحراؤں میں ڈھونڈیں پھول
خوشبو کے متوالے لوگ
ملتے ہیں بن کر انجان
میرے دیکھے بھالے لوگ
طوفاں سے رہتے ہیں دور
اب لہروں کے پالے لوگ
مظہرؔ اب نایاب ہوئے
ہم جیسے دل والے لوگ
٭٭٭
غم
بیٹھا ہوں اک جھیل کنارے
یادوں کا اک شہر بسائے
آنکھ میں لے کر دید کی حسرت
نظروں میں اَن دیکھے منظر
پلکوں پر ہیں خون کے آنسو
دل ہے راکھ جلے خوابوں کی
لیکن سانسیں رواں دواں ہیں
کھا کر دل پر گہرا گھاؤ
بیٹھا ہوں اک جھیل کنارے
جھیل میں پتھر پھینک رہا ہوں
زخم کا مرہم ڈھونڈ رہا ہوں
جھیل بھی ہے اب غم میں ڈوبی
میری چشمِ نم میں ڈوبی
سُلگ رہی ہے پوچھ رہی ہے
رہِ وفا کے تھکے مسافر
آخر تیری منزل کیا ہے ؟
تیرے غم کا حاصل کیا ہے ؟
٭٭٭
زندگی کا نصاب ہو جائیں
ہم ترے ہم رکاب ہو جائیں
تُو جسے شوق سے پڑھے دن رات
کاش ہم وہ کتاب ہو جائیں
تیرے ہاتھوں کا لمس پاتے ہی
سارے کانٹے گلاب ہو جائیں
ہیں ترے سامنے بہت چہرے
ہم ترا انتخاب ہو جائیں
ڈر رہا ہوں گذشتہ شب کی طرح
تیرے وعدے نہ خواب ہو جائیں
تیرے جلوؤں کی دھوپ نکلے تو
جھیل آنکھیں سراب ہو جائیں
کاش آئے ہوا کا اک جھونکا
اور وہ بے نقاب ہو جائیں
اُن کی پلکوں پہ جو گریں آنسو
میرے دل پر حباب ہو جائیں
غم کے گلشن میں وہ بہار آئے
زخم دل کے گلاب ہو جائیں
یاد آتا ہے بے وفا کوئی
جب جفائیں عذاب ہو جائیں
کس نے کی ہے وفا، جفا کس نے
آؤ سارے حساب ہو جائیں
تیرے دل کے نگر میں پہنچیں گے
چاہے رستے خراب ہو جائیں
مست آنکھیں کریں سوال شعیبؔ
ہم سراپا جواب ہو جائیں
٭٭٭
کھلونا
جن سے بچپن میں کھیلے تھے
دیدہ زیب کھلونے تھے وہ
اور کھلونے جب ٹوٹے تھے
اشکوں کے جھرنے پھوٹے تھے
بچپن بِیتا جوبن آیا
بچپن کی ہر عادت چھوٹی
چھوڑ سکے نہ کھیل کی عادت
اب دِلوں سے کھیل رہے ہیں
ہم جذبوں سے کھیل رہے ہیں
چھین رہے ہیں خواب آنکھوں سے
جن کے سپنے چھِن جاتے ہیں
رشتے ناطے چھِن جاتے ہیں
وہ آنکھیں نم ہو جاتی ہیں
یاسیّت میں کھو جاتی ہیں
آج کا انساں بھول رہا ہے
وہ بھی ایک کھلونا سا ہے
بولنے والا ایک کھلونا
جس کو سب” انساں ” کہتے ہیں
ٹوٹ کے مٹی میں ملنا ہی
اِس کی قسمت میں لکھا ہے
آج کا انساں بھول رہا ہے
٭٭٭
لگا جب تیر نظروں کا تڑپنا سیکھ لو گے تم
محبت میں مچلنا اور جلنا سیکھ لو گے تم
جوانی تو ہے دیوانی، تکبر ہے ادا اِس کی
ڈھلا سورج جوانی کا تو جھکنا سیکھ لو گے تم
کوئی جب کھول کر بانہیں پکارے گا محبت سے
صنم پھر اُس کی بانہوں میں سمٹنا سیکھ لو گے تم
بکھرتی ہے ابھی خوشبو تمہاری زلفِ عنبر سے
کسی کی راہ میں اِک دن بکھرنا سیکھ لو گے تم
کبھی جب لڑکھڑاتے ہو مَیں بڑھ کر تھام لیتا
یہ ہے کامل یقیں مجھ کو سنبھلنا سیکھ لو گے تم
تمہاری دسترس میں ہوں مگر جب مَیں نہیں ہوں گا
تو پھر ماضی کی یادوں سے بہلنا سیکھ لو گے تم
کوئی جب راہِ الفت میں اکیلا چھوڑ جائے گا
تو ہنس کر زہرِ تنہائی نگلنا سیکھ لو گے تم
اگر جبرِ مسلسل سے ڈبونے کی ہوئی سازش
غموں کے تیز طوفاں میں اُبھرنا سیکھ لو گے تم
ابھی کم سِن ہو، ناداں ہو، محبت کیا نبھاؤ گے ؟
شعیبؔ اِس آگ سے اِک دن گزرنا سیکھ لو گے تم
٭٭
مارچ کے مہینے میں پھول مسکراتے ہیں
مجھ کو یاد آتا ہے چہرہ اک گلاب سا
جھیل جیسی آنکھوں میں وہ کنول نشاط کے
اور اُن پہ زلف کا اک حسیں نقاب سا ٭٭٭
ایک لمحہ
کاش ایسا کوئی حسیں لمحہ
میری قسمت میں لکھ دیا جائے
جو مری زندگی کا حاصل ہو
ایک لمحہ کہ جس کے دامن میں
تیری زلفوں کی اک مہک سی ہو
تیری باتوں کی اک چہک سی ہو
تیری چوڑی کی اک کھنک سی ہو
تیرے چہرے کی اک دھنک سی ہو
تیرے نغمات کی صدائیں ہوں
گنگناتی ہوئی ہوائیں ہوں
تیرے آنچل سے کھیلتی ہو نظر
سارا جیون ہی اِس طرح ہو بسر
تیری فرقت مجھے رُلا نہ سکے
تیری دوری مجھے ستا نہ سکے
دل لبھائے وفاؤں کی شوخی
تیری دلکش اداؤں کی شوخی
چاہتوں کے دئیے جلائیں ہم
ظلمتوں کے نشاں مٹائیں ہم
میری آنکھوں کی جھیل میں جاناں
عکس تیرا ہو چاند کی صورت
جس کی کرنوں سے دل کو بہلاؤں
غم کی بستی میں روشنی پاؤں
عشق میں ہو مری پذیرائی
خود سے ہو جائے خود شناسائی
دور رہ کر بھی تُو قریب رہے
تُو ہمیشہ مرا نصیب رہے
تجھ سے جاناں مجھے محبت ہے
اِس جہاں کو یہی شکایت ہے
دھوپ غم کی کڑی ہے کچھ تو کرو
مشکلوں کی گھڑی ہے کچھ تو کرو
شام کر دو بکھیر کر زلفیں
مَیں بھی سائے میں زندگی کر لوں
غم کی حدّت میں کچھ کمی کر لوں
٭٭٭
زندگی ہوتی ہے ہمدم مسکرانے کے لئے
پیار کے نغمات پیہم گنگنانے کے لئے
ہم نے اُن سے کی لڑائی جان کر کچھ اِس لئے
دیکھتے ہیں کون آتا ہے منانے کے لئے
مصلحت آمیز ہوتی ہے محبت آج کل
غم کی رُت میں غم زدوں کا دل لبھانے کے لئے
تیری گلیوں سے گزرتا ہوں کہ شاید تُو ملے
ورنہ رستے اور بھی ہیں آنے جانے کے لئے
خواب کل جو مَر گیا تھا آنکھ کی آغوش میں
تُو اُسی کا عکس ہے غم کو بھلانے کے لئے
ایک تُو ہی تو نہیں مقصد ہماری زیست کا
حسرتیں کچھ اور بھی ہیں گھر بسانے کے لئے
کھول کر زلفیں کسی نے کر لیا مجھ کو اسیر
یہ ضروری تھا محبت میں پھنسانے کے لئے
پھر سرِ محفل کوئی آنچل کو لہرانے لگا
پھر ہوا دینے لگا وہ دل جلانے کے لئے
جس کی خاطر مَیں ہوا سارے زمانے سے خفا
مجھ کو تنہا کر گیا ہے وہ زمانے کے لئے
درس دیتے ہیں پرندے عزم و ہمت کا ہمیں
تنکا تنکا لا رہے ہیں آشیانے کے لئے
مَیں ہوں مظہرؔ گلستاں میں ایک ایسا عندلیب
منتظر ہو پھول کا جو چہچہانے کے لئے
٭٭٭
حسن بکتا ہے خواب بکتے ہیں
تشنگی میں سراب بکتے ہیں
ایک جلوے کے مول روزانہ
میری آنکھوں کے خواب بِکتے ہیں
یہ نہ سمجھو قلم نہیں بِکتے
غور کرنا جناب بِکتے ہیں
یہ گناہوں کی ایسی بستی ہے
جس میں اہلِ ثواب بِکتے ہیں
جن کا ہوتا نہیں ضمیر کوئی
ایسے خانہ خراب بِکتے ہیں
تیری آنکھوں کے جام کی خاطر
مجھ سے عزت مآب بِکتے ہیں
لے کے رنگت تمہارے ہونٹوں سے
خوبصورت گلاب بِکتے ہیں
شعر فن کا لباس پہنیں تو
بن کے حسنِ کتاب بِکتے ہیں
دور کیسا یہ آ گیا مظہرؔ
کوڑیوں میں خطاب بِکتے ہیں
٭٭٭
محبت کے لئے جو ایک دن مخصوص کرتے ہیں
وہ شاید بے خبر ہیں اِس عبادت کی طوالت سے
محبت کے لئے عمرِ خضر درکار ہوتی ہے
٭٭٭
بہت سوچا تھا کم سوچا کریں گے
ترے بارے جو ہم سوچا کریں گے
زمانے بھر میں خوشیاں بانٹ کر ہم
زمانے بھر کے غم سوچا کریں گے
فقط غم ہی نہیں خوشیاں بھی دی تھیں
ترے لطف و کرم سوچا کریں گے
نجانے کیوں جدا ہوتے ہوئے بھی
تری نظریں تھیں خم، سوچا کریں گے
تری قربت کے لمحے زندگی تھے
ہیں کیوں دل پر رقم سوچا کریں گے
ہماری دید سے ہوتی تھیں تیری
خوشی سے آنکھیں نم، سوچا کریں گے
نجانے کس لئے توڑا تھا تم نے
محبت کا بھرم، سوچا کریں گے
ابھی زندہ ہیں تو پوچھے نہ کوئی
جونہی نکلے گا دم، سوچا کریں گے
شعیبؔ اُن کو کہاں تم سا ملے گا؟
یہ پتھر کے صنم سوچا کریں گے
چلے ہیں دو قدم جو ساتھ مظہرؔ
اُنہیں ہم ہر قدم سوچا کریں گے
٭٭
مجھ سے قائم ہے یوں ترا رشتہ
جیسے رشتہ بدن کا روح سے ہے
پھول کا جیسے رنگ و بو سے ہے
پہلو میں جگہ دیتے اور دل میں اُتر جاتے
تم حسنِ نظر کرتے تو ہم بھی نکھر جاتے
اک طرزِ تغافل تھا دونوں کے روّیے میں
دو گام اِدھر آتے، دو گام اُدھر جاتے
ہم کو جو یقیں ہوتا تم ہم کو سمیٹو گے
تاخیر نہ کرتے ہم، اک پل میں بکھر جاتے
آنکھوں میں مری تکتے، سوچوں میں ذرا کھوتے
کچھ تم بھی سنور جاتے، کچھ ہم بھی سنور جاتے
سانسوں کی جو سرگم ہے بے تال ہوئی پھرتی
پل بھر کے لئے جانم تم دور اگر جاتے
دیوار سے لگ کر ہم روئے ہیں بہت یارو
ہارے ہوئے بندے ہم جاتے تو کدھر جاتے ؟
در در پہ بھٹکنے سے بہتر تھا ترے در کی
دہلیز پہ سَر ہوتا، سجدے میں ہی مَر جاتے
لفظوں میں جو خوشبو ہے تیری ہی بدولت ہے
کچھ دیر لگی تجھ تک خوشبو کا اثر جاتے
قربت بھی میسّر تھی کچھ بھی نہ کیا ہم نے
کرنے پہ جو آتے ہم، ہر حد سے گزر جاتے
شکوے تو ہزاروں تھے اے دوست ہمیں تم سے
دل سے جو نکلتے یہ، ہونٹوں پہ ہی مَر جاتے
میّت پہ وہ کیا آتے ؟ مظہرؔ ذرا سوچو تو
تدفین مکمل تھی اُن تک یہ خبر جاتے
٭٭٭
آشنائے محبت
سنو ہمدم!
ابھی تم کو نہیں معلوم
محبت کس کو کہتے ہیں
ابھی تم نے نہیں جانا
جدائی چیز کیا ہو گی
ابھی تو تم نے دیکھے ہیں
وہ لب جو مسکراتے ہیں
خوشی کے گیت گاتے ہیں
مگر تم نے نہیں جھانکا
کبھی ویران آنکھوں میں
جہاں خوابوں کے سوکھے پیڑ
مسلسل سرد جھونکوں میں
ہوا سے لڑتے لڑتے اپنے پتّے ہار جاتے ہیں
تو پھر سوکھے درختوں پر
کبھی دیوی بہاروں کی
مہرباں ہو نہیں سکتی
کبھی جب وقت ہو ہمدم
مری آنکھوں میں جھانکو تم
محبت کے انوکھے رنگ
نظر آئیں گے آنکھوں میں
اُنہی رنگوں کا گلدستہ
سجا لو قصرِ دل میں تم
مری مانو مرے ہمدم
ذرا خود کو بھی پہچانو
یہ اپنی ذات کا عرفاں
سبھی پہلو محبت کے سمجھنے میں
تمہارے کام آئے گا
٭٭
یقیں اُس کی محبت کا کروں کیا
وہ جھوٹا بھی ہے، ظالم، بے وفا بھی
اُسے مَیں کس طرح دل سے بھلا دوں ؟
مرے دل میں محبت ہے، وفا بھی
٭٭٭
ترے دیار سے یوں ہو کے بے قرار چلے
چمن سے روٹھ کے جیسے کبھی بہار چلے
جو پیاس بانٹتے دیکھا خزاں کے موسم کو
جگر کے خون سے گلشن کو ہم نکھار چلے
جو مشکبار تھے اک گل بدن کے دامن سے
بچھڑ کے اُس سے وہ جھونکے بھی اشکبار چلے
جو پورے شہر میں تھے خوش لباس مانے ہوئے
وہ تیرے عشق میں پوشاکِ زر اُتار چلے
کسی کے شہر کا موسم ہمیں نہ راس آیا
"جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے ”
کسی کے حسن کا لے کر خمار آنکھوں میں
رہِ وفا پہ محبت کے بادہ خوار چلے
میں تم کو دل میں چھپا لوں کہیں نہ جانے دوں
مرا جو تیری جفاؤں پہ اختیار چلے
نہ نیند آئی نہ خوابوں کا در کھلا ہم پر
ہزار دستکیں دِیں، کر کے انتظار چلے
وہ آئے رات کو چھت پر تو دیکھنے اُن کو
وفا پرست بھی باندھے ہوئے قطار چلے
جو چار دن کی جوانی ہمیں ملی مظہرؔ
کسی کے کام نہ آئی یونہی گزار چلے
٭٭٭
اک دن میری ہو جاؤ گی
تم سے اکثر کہنا چاہا
تم ہو میری دنیا ہمدم
چہرہ ہے تمہارا ہی وہ
جس میں پاؤں اپنی خوشیاں
پیاری آنکھوں میں تمہاری
دیکھ رہا ہوں ساری دنیا
میٹھی باتوں میں تمہاری
مَیں اکثر گم ہو جاتا ہوں
ہاں یہ سچ ہے میرے ہمدم
مَیں سوچوں میں کھو جاتا ہوں
تم پر کیوں نہ یہ دل آئے ؟
کیوں نہ حسن کے یہ گُن گائے ؟
نرم و نازک گال تمہارے
پھولوں سے کچھ کم تو نہیں ہیں
بانہوں پر چوڑے کی کھن کھن
چہرے پر زلفوں کی چلمن
سانسوں کی یہ پیاری خوشبو
مہکاتی ہے دل کا موسم
ہونٹوں پر مسکان تمہاری
میرے جیون کا حاصل ہے
پھر یہ میرے دل کا بلبل
کیوں نہ میٹھے نغمے گائے ؟
کیوں نہ تمہیں پاس بلائے ؟
کیا مَیں بولوں تو جانو گی؟
خود سے نہ تم پہچانو گی؟
میری چاہت کے رستے پر
لوٹ کے آؤ گی تم اک دن
میرے سپنوں میں اے جانم
تم بھی اک دن کھو جاؤ گی
اک دن میری ہو جاؤ گی
٭٭
تری یادیں ستاتی ہیں تو مَیں گھر چھوڑ دیتا ہوں
مَیں منزل کے تجسس میں مناظر چھوڑ دیتا ہوں
نہ تھکتا ہوں نہ رکتا ہوں وفا کی رہگزاروں میں
جو خود غافل ہوں منزل سے وہ رہبر چھوڑ دیتا ہوں
٭٭٭
اُس کا مجھ پر کرم بے کراں ہو چکا
میرے سَر پر فلک سائباں ہو چکا
ڈھونڈتا ہوں جسے مَیں بھرے شہر میں
مجھ سے وہ بے وفا بدگماں ہو چکا
اب مری خامشی میں بھی اک شور ہے
وصل کا شوق تو بے زباں ہو چکا
میرا دل بھی صنم تیرا گھر تھا کبھی
تیرے جانے سے خالی مکاں ہو چکا
دل کی کشتی گھِری غم کے طوفان میں
دور ہاتھوں سے اب بادباں ہو چکا
حالِ دل کیا کسی چارہ گر سے کہیں
"مٹ گئے عشق میں امتحاں ہو چکا”
پھر ملیں گے کبھی سوچ سکتے نہیں
فاصلہ اِس قدر درمیاں ہو چکا
جس کو کہتے ہیں جذبِ وفا دوستو!
ایک بھولی ہوئی داستاں ہو چکا
اب نگاہیں چرانے سے کیا فائدہ؟
عشق مظہرؔ کا سب پر عیاں ہو چکا
٭٭
سوچوں پہ جمی گرد ہٹاتے رہے اقبالؒ
منزل کا پتہ سب کو بتاتے رہے اقبالؒ
آزادیِ ملّت کی نئی شمع جلا کر
ظلمت بھی، جہالت بھی مٹاتے رہے اقبالؒ
٭٭٭
سپنا
وہ زیرِ لب مسکراتی لڑکی
دِلوں میں طوفاں اُٹھاتی لڑکی
جو اپنا کنگن گھما رہی تھی
نجانے کیا گنگنا رہی تھی
گلاب جیسی گلابی لڑکی
وہ رشکِ صندل پنجابی لڑکی
مجھے نظر سے پلا رہی تھی
مگر وہ خود ڈگمگا رہی تھی
وہ جس کی آنکھوں سے جام پی کر
سبھی نظارے بہک رہے تھے
پرندے ہر سو چہک رہے تھے
کسی کی یادوں میں کھوئی کھوئی
زمانے والوں سے بے خبر تھی
جو مجھ سے نظریں چرا رہی تھی
وہ زیرِ لب مسکرا رہی تھی
نظر نظر سے ٹپکتی شوخی
فسانہ اُس کا سنا رہی تھی
مگر تھا مجھ پر بھی کیف طاری
عجب سی دل میں تھی بے قراری
ہوا جو بیدار مَیں تو دیکھا
وہ سارا سپنا بکھر چکا تھا
٭٭
اپنے گھر میں دہشت گردی دیکھ رہے ہیں
خون میں تَر اسکول کی وردی دیکھ رہے ہیں
بھانپ چکے ہیں دشمن کی ہم ساری چالیں
اب اُس کی جھوٹی ہمدردی دیکھ رہے ہیں ٭٭٭
کس خوف سے یہ دیدۂ تر کانپ رہا ہے ؟
دل تھام بھی رکھا ہے مگر کانپ رہا ہے
روشن ہے یہ دل تیری محبت کی ضیاء سے
بے تاب ہے ظلمت کا نگر کانپ رہا ہے
اب چاروں طرف شہر میں محشر سا بپا ہے
یہ دیکھ کے ہر اہلِ نظر کانپ رہا ہے
اِس بار جدا ہو گا تو لوٹے گا نہیں وہ
سن کر یہ خبر میرا جگر کانپ رہا ہے
سائے میں جو بیٹھا ہے وہی کاٹے گا مجھ کو
یہ سوچ کے اک بوڑھا شجر کانپ رہا ہے
کلیوں کی وفاؤں پہ نہیں اِس کو بھروسہ
بھنورہ ہے ابھی محوِ سفر کانپ رہا ہے
اے ترچھی نگاہو! مجھے اتنا تو بتا دو
کس تیر کی آمد ہے ؟ جگر کانپ رہا ہے
مظہرؔ تو ہے پروانہ ہواؤں سے لڑے گا
اے شمع ترا شعلہ مگر کانپ رہا ہے
٭٭
دل پہ دی ہے کسی نے پھر دستک
قصرِ دل میں قیام کرنے کو
کتنا مطلب پرست ہے ظالم
آیا اپنا ہی کام کرنے کو
٭٭٭
آ گئے خود نمائی کے بازار تک
بیچ دی ہم نے آباء کی دستار تک
مَیں گلی میں ہوں محبوب ہے بام پر
"ہاتھ کیا پہنچے گیسوئے خم دار تک؟”
دل کی کشتی بھنور سے نکالے گا کیا
چھِن گیا جس کے ہاتھوں سے پتوار تک
ضبط کے بند ٹوٹے تو فرقت کی شب
آ گئے اشک آنکھوں سے رخسار تک
روکنا ہو گا اشکوں کے سیلاب کو
آ نہ جائے یہ خوشیوں کے گلزار تک
رخ سے آنچل ہٹائے گا مہتاب تو
روشنی جائے گی چشمِ بیدار تک
دے گیا ہے جو یادوں کا تحفہ مجھے
چھین کر لے گیا میرے افکار تک
دل تو پاگل ہے تڑپے گا یہ رات دن
چین ممکن نہیں اُس کے دیدار تک
ہم بھی مظہرؔ نئی راہ پر چل پڑے
سوچ پہنچی ہے جب اُس کے کردار تک
٭٭
تیرے آنے سے مہکتا ہے گلستاں میرا
پھول کلیوں سے بھرا جیسے ہو داماں میرا
مَیں تجھے دور تلک ساتھ ہی لے کر چلتا
تُو نے ہی چھوڑ دیا ساتھ مری جاں میرا
٭٭٭
Strange Relationship
عجب رشتہ ہمارے درمیاں قائم ہے برسوں سے
بنا ہے وہ نہ ٹوٹا ہے
نہ سچا ہے نہ جھوٹا ہے
نہ کوئی نام ہے اِس کا
نہ کوئی کام ہے اِس کا
کبھی اتنا قریب آتا ہے کوئی مہرباں ہو کر
کہ جیسے ساتھ برسوں کا نبھانا چاہتا ہے وہ
مگر ایسا نہیں شاید
کبھی وہ دور ہو تو یوں مجھے محسوس ہوتا ہے
کہ صدیوں کی مسافت ہے ہمارے درمیاں حائل
مسافت ہی وہ ایسی ہے کبھی جو کم نہیں ہوتی
مری آنکھیں برستی ہیں
یہ دھرتی نم نہیں ہوتی
٭٭٭
بارش
اُن کی یاد کا میرے من میں دیپ جلایا بارش نے
دل میں پھر سے ایک نیا طوفان اُٹھایا بارش نے
امیدیں دم توڑ رہی تھیں غم کے جلتے صحرا میں
مجھ کو بخشا جذبوں کا وافر سرمایا بارش نے
جتنا بارش میں بھیگا ہوں اُتنا ہی من پیاسا ہے
مجھ کو نئے سراب کا رستہ آج دکھایا بارش نے
رم جھم رم جھم ٹپ ٹپ ٹپکی میرے دل کی دھرتی پر
چھم چھم کر کے مجھ کو سندر گیت سنایا بارش نے
جتنے بھی تھے زخم پرانے پھول بنے وہ پل بھر میں
میرے دل کے آنگن کو گلزار بنایا بارش نے
بارش نے بھی میری آنکھوں سے ہی برسنا سیکھا تھا
مَیں تو کب کا بھول چکا تھا، یاد دِلایا بارش نے
افسردہ سپنوں کو اُس نے پھر نغمات میں ڈھال دیا
جاتے جاتے مظہرؔ یہ بھی کام دکھایا بارش نے
٭٭
گلے میں ہو جن کے بھی طوقِ غلامی
وہ محفل میں سَر کو اُٹھاتے نہیں ہیں
جنہیں سَر سے دستار گرنے کا ڈر ہو
درِ غیر پر سَر جھکاتے نہیں ہیں ٭٭٭
تم محبت کی ابتدا کرتے
ہم وفاؤں کی انتہا کرتے
کاش ہوتا کسی طرح ممکن
سانس لیتا مَیں تم جیا کرتے
یوں مصائب میں ہم ہوئے گھائل
بے بسی میں رہے صدا کرتے
کوئی پہنچا نہیں دوا لے کر
چارہ گر بھی رہے دعا کرتے
بھول بیٹھے ہیں جو فرائض کو
وہ نوافل رہے ادا کرتے
کاش ملتا یہ اختیار ہمیں
تیری آنکھوں سے ہم پیا کرتے
زیست میں ایک بار ہوتا ہے
کیسے ہم عشق دوسرا کرتے ؟
حسن والے جفائیں لاکھ کریں
عشق والے نہیں گلہ کرتے
عام ہوتی صدا محبت کی
تم جو مظہرؔ کو ہمنوا کرتے
٭٭
مَیں نے دیکھا ہے اِس کا ہو کر بھی
میرا نادان دل ہے خود سَر بھی
تیرے در پر مجھے بلاتا ہے
میرا آقا ہے تیرا نوکر بھی
٭٭٭
تیرگی میں امیدوں کو تنویر کر
شمع گھر گھر جلانے کی تدبیر کر
ہیں زمان و مکاں دسترس میں تری
دل کی دنیا محبت سے تسخیر کر
بے اثر ہے ہر اک بے عمل کی دعا
"اپنے ہاتھوں سے قسمت بھی تحریر کر”
تیرے اخلاق کی دیں مثالیں سبھی
گفتگو میں تُو پیدا وہ تاثیر کر
یہ وہ دولت ہے جو کم نہ ہو گی کبھی
حسنِ علم و عمل اپنی جاگیر کر
ریشمی خواب آنکھوں کے دامن میں رکھ
وقت ملنے پہ خوابوں کو تعبیر کر
نورِ ایماں سے دے قلب کو روشنی
زندگی کے حوالوں کو تنویر کر
پارہ پارہ کرے جو عداوت کے بت
ہاتھ میں وہ اخوت کی شمشیر کر
آنسوؤں کو تُو آنکھوں کے محور میں رکھ
غم کی ایسے تُو مظہرؔ نہ تشہیر کر
٭٭
کس قدر ہیں پیچ و خم اِس زیست کے حوالوں میں
دل الجھ کر رہ گیا انجان سے سوالوں میں
پھر سمجھ میں آئے گا بے چین دل کا مدعا
جب اُتر آئے گی چاندی اِن سنہرے بالوں میں
٭٭٭
دل نے کھایا جو وار شیشے کا
چیخ اٹھا یہ جار شیشے کا
مَیں نے پتھر کے گھر میں دیکھا ہے
سارا نقش و نگار شیشے کا
راہ کے سنگ بھی ہیں نوکیلے
اور ہے راہوار شیشے کا
ساتھ چلتے تو کس طرح چلتے ؟
لوگ پتھر کے پیار شیشے کا
تم نے دل میں مجھے اتارا ہے
کیا مگر اعتبار شیشے کا
بانہیں میرے گلے میں ڈالو ناں
اچھا لگتا ہے ہار شیشے کا
ایک پتھر تباہ کر دے گا
ہائے یہ کاروبار شیشے کا
ساری بستی نظر میں ہے مظہرؔ
میرا گھر ہے کہ غار شیشے کا؟
٭٭
یا رب پڑا ہے واسطہ کیسے طبیب سے
تشخیصِ مرض بھی نہیں ہوتی غریب سے
کہہ بھی دیا کہ عشق میں تیرے ہوں مبتلا
گزرا نہیں ہے پھر بھی وہ میرے قریب سے ٭٭٭
تبدیلی
سنو! کیا تم وہی ہو جو
مرا دل شاد رکھتے تھے
مجھے آباد رکھتے تھے
تمہارے لب پہ رقصاں ہر گھڑی اک نام ہوتا تھا
اُسی کا ورد کرنا ہی تمہارا کام ہوتا تھا
مگر تم بھول بیٹھے ہو
وہ میرا نام ہوتا تھا
تمہارے پاس میرے واسطے فرصت ہی فرصت تھی
تمہاری دھڑکنیں تم سے مری باتیں بھی کرتی تھیں
مگر اب کیا ہوا تم کو؟
بہت مصروف رہتے ہو
کبھی جو وقت دے بھی دو
تو یوں محسوس ہوتا ہے
کہ تم احسان کرتے ہو
اگر مَیں وہ نہیں جو تھا
تو نظریں شوق سے بدلو
اچانک کیا ہوا تم کو؟
نہ آتے ہو نہ ملتے ہو
نہ مجھ سے بات کرتے ہو
٭٭٭
اے مرے غم شناس رہنے دے
تُو مجھے اب اداس رہنے دے
وہ برا ہی نہ مان جائے کہیں
دل میں دل کی بھڑاس رہنے دے
تیری چاہت بسائی ہے دل میں
ہو سکے تو یہ باس رہنے دے
سارے در تو نہ بند کر مجھ پر
لوٹ آنے کی آس رہنے دے
تیری یادوں کو اوڑھ رکھا ہے
میرے تن پر لباس رہنے دے
مَیں اجالوں میں ڈھل نہ پاؤں گا
عشق اور مجھ کو راس؟ رہنے دے
اور نہ اب مجھے پلا ساقی
میری نظروں میں پیاس رہنے دے
آئینے کو دکھا نہ یوں جلوے
میرا حق میرے پاس رہنے دے
لُوٹ لے دل کے کھیت سے فصلیں
بس ذرا سی کپاس رہنے دے
شوق سے چھوڑ دے مجھے مظہرؔ
اپنا سایہ تو پاس رہنے دے
٭٭
کیا بتاؤں کہ شاعری کیا ہے
کتنی گہرائی اِس کے اندر ہے
یہ تو اک بے کراں سمندر ہے
٭٭٭
سنتا ہی نہیں میری یہ نادان بہت ہے
مَیں دل سے، یہ دل مجھ سے پریشان بہت ہے
آنکھوں میں بھی سیلاب ہے پہلے سے زیادہ
اب دل کے سمندر میں بھی طوفان بہت ہے
دل سینے میں ہوتے ہوئے اپنا نہیں رہتا
اِس پیار کے سودے میں بھی نقصان بہت ہے
بچ بچ کے گزرتا ہوں مَیں گو تیرِ نظر سے
اب تیر کے لگ جانے کا امکان بہت ہے
دیکھا ہے ستم گر نے پلٹ کر تری جانب
اے دل ترے زخموں کا یہ درمان بہت ہے
وہ شوخ جو پوچھے کبھی قیمت مرے دل کی
کہہ دینا کہ اک ہلکی سی مسکان بہت ہے
غربت کے ڈسے شخص کا دشوار ہے جینا
مرنا مگر اِس دور میں آسان بہت ہے
ہر چوک میں نفرت کے بڑی بھیڑ لگی ہے
رستہ جو محبت کا ہے سنسان بہت ہے
سنت مری رہبر ہے، حدیثیں ہیں عقیدہ
مشکل جو پڑے کوئی تو قرآن بہت ہے
اُس شخص کو ساحل بھی ڈبو دیتا ہے اکثر
جو سوچتا رہتا ہے کہ طوفان بہت ہے
اُس کے لئے جیتا ہوں مَیں مرتا ہوں اُسی پر
جو میری محبت سے بھی انجان بہت ہے
ہر دور میں ہی دھن کا پجاری رہا انساں
اِس دور میں بھی حرص کا سرطان بہت ہے
مَیں کیوں نہ رہوں عُشوہ طرازوں سے گریزاں ؟
ایمان کے لٹ جانے میں نقصان بہت ہے
تنہائی کے لمحات میں زندہ ہے جو مظہرؔ
مغموم ہے، بے تاب ہے، حیران بہت ہے
٭٭٭
Miss You
مری جاں یاد آتی ہو
ٹھٹھرتی سرد راتوں میں
مَیں آتش دان کے نزدیک بیٹھا کھو سا جاتا ہوں
اُنہی ماضی کی یادوں میں
کہ جب مَیں تیری نظروں میں
بہت ہی خاص ہوتا تھا
کبھی جو سرد موسم میں
بدن پر شال اوڑھوں تو
وہ تیری یاد کا موسم اچانک لوٹ آتا ہے
لبوں کا لمس میری دھڑکنوں کو گدگداتا ہے
مرے کمرے کی کھڑکی پر
جونہی شبنم برستی ہے
خیالوں میں تمہیں لا کر
مَیں اپنی سرد پوروں سے
وہاں اک دل بناتا ہوں
تمہارا نام لکھ کر ساتھ اپنا نام لکھتا ہوں
مجھے معلوم ہے کہ یوں بھی حاصل کچھ نہیں ہو گا
مگر پھر بھی نجانے کیوں
عجب تسکین پاتا ہوں
مری پوروں سے کرنیں پھوٹتی محسوس ہوتی ہیں
تمہاری یاد کی مہکار دل کو شاد رکھتی ہے
تمہیں بس اتنا کہنا ہے
کہ تم تو آج بھی شدّت سے مجھ کو یاد آتی ہو
مری جاں یاد آتی ہو
تو مَیں ویران دل کو یاد سے آباد کرتا ہوں
غمِ دنیا سے خود کو اِس طرح آزاد کرتا ہوں
٭٭
سب نے آنکھوں سے محبت کی کہانی پڑھ لی
راز کی بات بھی مجھ سے تو سنبھالی نہ گئی
سامنا اُن کا کئی بار ہوا ہے لیکن
مجھ پہ اک نظرِ عنایت کبھی ڈالی نہ گئی
٭٭٭
آ محبت کی بات کرتے ہیں
آ محبت کی بات کرتے ہیں
حسنِ فطرت کی بات کرتے ہیں
ختم کر کے ہر اک عداوت کو
عام کرتے ہیں اب محبت کو
توڑ دیتے ہیں بت جدائی کے
جبر و ظلمت کے، خود نمائی کے
چاہتوں کا نگر بساتے ہیں
بے بسوں کو گلے لگاتے ہیں
سرد لہجوں میں آئے گی حدّت
کام اپنا دکھائے گی حدّت
بے وفائی کی برف پگھلے گی
کوئی صورت وفا کی نکلے گی
دل کی وادی مہک سی جائے گی
زندگی پھر سے مسکرائے گی
باغ خوشیوں کے ہم اُگاتے ہیں
زرد موسم کو بھول جاتے ہیں
چھیڑتے ہیں وفاؤں کا قصّہ
شوخ چنچل اداؤں کا قصّہ
تلخیوں کو نبات کرتے ہیں
آ محبت کی بات کرتے ہیں
٭٭٭
"سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں "
سو ہم بھی اُس کا نظارہ ہی کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے وہ تو گلابوں سے خوبصورت ہے
تبھی تو اُس کو یہ بلبل ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے وہ ہے بہاروں کے دیس کا والی
چمن میں آئیں تو گلچیں بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
صبا چراتی ہے اُس کے بدن سے خوشبوئیں
گلاب راستے اُس کے نگر کے دیکھتے ہیں
طواف اُس کا ہی اِن تتلیوں کی عادت ہے
سنا ہے پھول اُسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
کبھی جو اُس سے کسی آئینے کا سامنا ہو
تو عکس شوق سے اُس کو اُبھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آنکھوں میں اُس کی چمک کچھ ایسی ہے
کہ لوگ تارے سمجھ کر ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چھو کے وہ پتھر کو موم کرتا ہے
سو ہم بھی کام یہ دستِ ہنر کے دیکھتے ہیں
وہ مسکرائے تو خوشیاں بکھیر دیتا ہے
اُداس ہو تو ستارے اُتر کے دیکھتے ہیں
شعیبؔ وہ تو مری دسترس سے باہر ہے
سو اُس کے خواب ہی آنکھوں میں بھر کے دیکھتے ہیں
٭٭٭
Dementia
کچھ تو تھا جو بھول گیا ہوں
کیا بھولا ہوں
یاد نہیں ہے
تم سے کچھ کہنا تھا مجھ کو
یا پھر کچھ واپس دینا تھا
یا کہنا تھا ہم ملتے ہیں
پل دو پل باتیں کرتے ہیں
یا پھر مجھ کو کام تھا کوئی
یاد نہیں ہے
اک تحفہ جو تم لائی تھیں
وہ الماری میں رکھنا تھا
اِتنا مجھ کو یاد ہے جاناں
پھر بھی کچھ تو بھول گیا ہوں
کیا کرنا تھا
کیا کہنا تھا
مجھ کو کس سے کب ملنا تھا
یا بازار سے کچھ لانا تھا
یاد نہیں ہے
پہلے لانا بھول گیا تھا
اب وہ رکھ کر بھول گیا ہوں
کیا رکھا تھا
کیا بھولا ہوں
یاد نہیں ہے
ہاں ! جاناں کچھ یاد تو آیا
تم سے مل کر یہ کہنا تھا
میری نیند جو لُوٹی تم نے
واپس کر دو
ہاں ! تم سے کہنا تھا شاید
تم میری ہو
مَیں تمہارا
تم سے یہ کہنا ہے مشکل
اب تنہا رہنا ہے مشکل
٭٭٭
سوجھا کوئی خیال جو دلدار کے سوا
سامع ملا نہ کوئی بھی دیوار کے سوا
میں منفرد خیال کی کرنیں لٹاؤں گا
باتیں تمام ہوں گی مرے یار کے سوا
دیکھوں جدھر ہجوم کے سب پیروکار ہیں
محفل میں کند ذہن ہیں دو چار کے سوا
اپنوں کی آستیں میں ہیں خنجر چھپے ہوئے
پہلے کسی سے ڈر نہ تھا اغیار کے سوا
اپنوں کے درمیان یوں حائل ہیں دوریاں
ملتے نہیں کبھی کسی تہوار کے سوا
کچھ بولنے سے پہلے ہی ہر لفظ تولنا
لگتے ہیں گھاؤ روح پہ تلوار کے سوا
افسردگی پہ اوڑھتے ہو مسکراہٹیں
ممکن نہیں یہ کام تو فنکار کے سوا
بہروں کی انجمن میں ہوں خاموش اِس لیے
مظہرؔ نہیں سنتا کوئی دیوار کے سوا
٭٭٭
سنو اے ظالمو سنو!
سنو اے ظالموں سنو!
کہ وقت اب قریب ہے
تمہارے ظلم و جبر کا
حساب مانگا جائے گا
جو گلستاں کے پھول تم
مسل گئے کچل گئے
تمہارا دین کچھ نہیں
کہ تم پجاری دھن کے ہو
ہمارا دین تو ہے یہ
ہے آدمی کا قتل، قتل پوری نسلِِ اِنس کا
سنو اے بزدلو سنو!
اگر ہے تاب تو سنو
کرو نہ چھپ کے وار تم
اگر جوان مرد ہو
نہ وار بچوں پر کرو
جگر کے ٹکڑے ماؤں سے
یوں چھینتے پھرو نہ تم
بتاؤ کیا قصور ہے ؟
مہکتے نرم غنچوں کا
یہ گلستاں کی شان ہیں
بہارِ نو کی جان ہیں
اے ظالموں نہ بھولنا
وطن ہماری جان ہے
ہماری آن بان ہے
وطن نے دی صدا ہمیں
تو اپنی جان دے کے اِس کو سرخرو کریں گے ہم
وطن کہے گا جو ہمیں
وہ ہو بہو کریں گے ہم
٭٭٭
دھنک
لکیریں مٹ چکی ہیں کب کی مظہرؔ
ہمارے ہاتھ خالی رہ گئے ہیں
حیران ہوں مَیں سجدہ ترا دیکھ کے مظہرؔ
دل تیرا کہیں اور ہے سَر تیرا کہیں اور
حرف بکھرے پڑے تھے ہونٹوں پر
تجھ کو نظروں سے الوداع کہہ کر
انمول تھا شعیبؔ تُو اِس شہرِ حسن میں
اک بار مسکرا کے وہ قیمت چکا گئے
عبادت کرو اور سدا مسکراؤ
یہ غم کیا ہے مظہرؔ اِسے بھول جاؤ
یہ عزم لے کے آیا ہوں بازار میں شعیبؔ
مَیں تیرے غم خرید لوں خوشیوں کو بیچ کر
آج صبا نے جاتے جاتے مجھ سے کی یہ سرگوشی
پھولوں نے بھی دھار لیا ہے روپ تری محبوبہ کا
یہ کس نے دل کے کاغذ پر نہایت ہی صفائی سے
محبت لفظ لکھ ڈالا وفا کی روشنائی سے
اک شور سا ہے دل میں شعیبؔ آہ و فغاں کا
شاید کسی ارمان کا نکلا ہے جنازہ
یوں حسابوں کے تو پکے ہیں مگر
ذات کی تفریق میں ہم فیل ہیں
مظہرؔ کا روّیہ ہے ہرجائی حسینوں سے
وہ آئیں تو بسم اللہ، جائیں تو خدا حافظ
آیا یہ کیسا موڑ رہِ عشق میں شعیبؔ
راہِ فرار ڈھونڈتی نظریں صنم کی ہیں
نہیں فرصت ملی اُن کو ہمارا حال ہی پوچھیں
وہ مستقبل میں گم ہیں اور ہمیں ماضی بنا ڈالا
وعدہ کیا تھا خواب میں آنے کا تم نے آج
آیا جو یہ خیال تو مظہرؔ مَیں سو گیا
رہبر ملے ہوئے ہوں جہاں رہزنوں کے ساتھ
کس سے کسی کی جا کے شکایت کرے کوئی؟
چومی تھی اتنے پیار سے ماں نے مری جبیں
اب تک مرے وجود سے خوشبو نہیں گئی
تیرا سایہ چھو لیتا ہوں اپنے ہاتھ کے سائے سے
دل کو یوں احساس دلاتا ہوں مَیں تیری قربت کا
لفظوں پہ دیکھا اُس نے جو پہرہ لگا ہوا
مظہرؔ کی خامشی نے حقیقت بیان کی
راہِ الفت پر چلنے کا ہم کیسے آغاز کریں ؟
تیرے پاس بھی وقت نہیں ہے مَیں بھی ہوں مصروف بہت
اگر بربادیاں قسمت میں تھیں آباد نہ کرتے
مجھے ناشاد رکھنا تھا تو دل کو شاد نہ کرتے
مری نبضیں تری پوروں سے چھو جانے کی چاہت میں
مرے دلبر مجھے اکثر یونہی بیمار رکھتی ہیں
کبھی تو بام پر آؤ کبھی تو دید ہو جائے
گلے لگ کر ملو ہم سے ہماری عید ہو جائے
رنگ میرے خیال سے لے کر
تم نے سوچا کہ مجھ سا ہو لو گے ؟
مل گئے ہیں ستارے قسمت کے
اِس لئے ہم جدا نہیں ہوتے
جفا کی ضرب ٹکڑوں میں مجھے تقسیم کر دے تو
خیالوں کو جمع کر کے نفی کرتا ہوں مایوسی
وہ بھی دن تھے میری چپ سے اُس کے دل میں ہلچل تھی
یہ بھی دن ہیں چیخ رہا ہوں اور اُسے احساس نہیں
موت جس کو کبھی ڈرا نہ سکی
زندگی نے اُسے بھی مار دیا
محبت بانٹتے رہنا مسلماں کی عبادت ہے
محبت بانٹ کر مظہرؔ مَیں اکثر مسکراتا ہوں
دعائیں بے اثر میری، صدائیں بے ہنر میری
نہ مَیں نے بندگی سیکھی نہ رب سے مانگنا آیا
جو چیز تُو مانگے وہ تجھے رب سے عطا ہو
ہر سالگرہ رحمتِ محبوبِ خدا ہو
زلفِ برہم کا ہو گیا ہے اسیر
دل تجھے دیکھ کر جو دھڑکا تھا
نامِ نبیؐ لبوں پہ جو آیا ہے ایک بار
لب خوش ہوئے اِس نام کو دو بار چوم کر
معطر کر رہا ہے جو صبا کو کھول کر زلفیں
مجھے اُس کے ارادے آج کل اچھے نہیں لگتے
وہ جو گزرے شعیبؔ چھو کے مجھے
اک قیامت گزر گئی دل پر
ساجد کے لئے ماتھے کی محراب سے بڑھ کر
سجدے کے لئے دل کو جھکانا ہے ضروری
مجھ سے نظریں وہ کیا ملائیں گے
آئینوں سے جو بچتے پھرتے ہیں
اِس دل کے تو بدلے نہیں برسوں میں بھی حالات
کل بھی تھا فدا تم پر اب بھی ترا دیوانہ
ہمیشہ یاد رکھوں گا، کبھی نہ بھول پاؤں گا
یہ تیری بھول ہے ہمدم، تجھے مَیں بھول جاؤں گا
اک پل بھی تیری یاد سے غافل نہیں رہا
مظہرؔ نے سارا سال دسمبر بنا لیا
شعیبؔ آنکھوں سے پیتا ہوں بٹھا کر سامنے ساقی
سنا ہے یہ غلط تم نے کہ پینی چھوڑ دی مَیں نے
مرے دل میں تری یادوں کے جگنو جب اترتے ہیں
تو اِس ویران بستی میں اُجالے رقص کرتے ہیں
نجانے جان کیسے آ گئی بے جان سپنوں میں
جنہیں دفنا دیا تھا مَیں نے اشکوں سے غسل دے کر
زندگانی ہے برف کی مانند
رفتہ رفتہ پگھلتی رہتی ہے
حُسن تیرا ہے بے مثال اگر
عشق میں لاجواب مَیں بھی ہوں
اُس سے بھلا کسی کو وفا کی امید کِیا؟
ماں کے لئے جس شخص کے دل میں وفا نہ ہو
یہ دل نغمات گاتا ہے وفائیں رقص کرتی ہیں
اگر تُو سامنے میرے کبھی خاموش بیٹھا ہو
سحر کی شوخ کرنوں سے مَیں کچھ بھی کہہ نہیں پایا
ترے خوابوں کے سارے رنگ چرا کر لے گئیں ظالم
جو روٹھ کر گئے تھے وہ آئے ہیں لوٹ کر
باقی کسر جو رہ گئی پوری کریں گے اب
تیری آنکھوں کی اداسی سے پتا چلتا ہے
عکس اِن میں بھی نمایاں ہے مری آنکھوں کا
مجھے مشہور ہونے میں نہیں تھی کوئی دلچسپی
ترے ہی نام کے صدقے مرا اب نام روشن ہے
میرے آنگن میں شام ہوتے ہی
تیری یادوں کے دیپ جلتے ہیں
اگر وہ سامنے آئے تو سب کچھ بھول جاتا ہوں
کسی کو یاد رکھنا بھی مجھے کب یاد رہتا ہے
موسمِ حبس میں کہیں مظہرؔ
آرزوؤں کا دم نہ گھٹ جائے
آئینے کو نہ غور سے دیکھو
آئینے کی نظر نہ لگ جائے
بیٹھا ہے جو حالات کے آئینے میں چھپ کر
یہ کون ہے مظہرؔ جو مجھے دیکھ رہا ہے ؟
تمہارے حصّے کے جتنے غم تھے ہمارے دل میں سما گئے ہیں
تمہاری پلکوں سے خواب اُڑ کر ہماری آنکھوں میں آ گئے ہیں
اگر تُو چاند ہے تو مستعاری ہے تری تابش
مری مٹھی میں ہے سورج، مجھے آکاش کہتے ہیں
شب فرقت کی ہے اک داستاں بستر کی ہر سلوٹ
کہوں کیا مَیں نے اُن کی یاد میں لِیں کروٹیں کیا کیا
سجی مسکان ہونٹوں پر مگر دل میں کدورت ہے
اے نفرت بانٹنے والو! محبت کی ضرورت ہے
سب کے غم اٹھا کر بھی مظہرؔ یہ نہ سوچا تھا
مجھ مزدورِ الفت کو بدلے میں وہ کیا دیں گے
غیروں پہ کھلا دیر سے یہ بات الگ ہے
ورنہ تو ہمیشہ سے ہی مظہرؔ تھا مرا نام
٭٭٭
تشکر:
www.idealideaz.com
www.kitaabapp.com
ماخذ: کتاب ایپ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید