FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

مجلس ہجر میں

 

 

 

               مبشر سعید

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

عجیب طور درختوں نے شب گزاری ہے

کہ شاخ شاخ قیامت کی سوگواری ہے

 

یہ کیسا عشق ہے جو آنکھ تک نہیں آتا

یہ کیسی آگ ہے جو روشنی سے عاری ہے

 

ہمارے دل کا ابد تو ہمیں نہیں معلوم

ہمارے دل کو ازل سے لگن تمہاری ہے

 

جمالِ یار نے خود مست کر دیا پھر بھی

مرے حواس پہ اب تک شعور طاری ہے

 

وہ جس کے سامنے کاسہ بدست ہے دنیا

سعید تک اُسی دہلیز کا بھکاری ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

انکار کی لذت سے نہ اقرار جنوں سے

یہ ہجر کھلا مجھ پہ کسی اور فسوں سے

 

یہ جان چلی جائے مگر آنچ نہ آئے

آداب محبت پہ کسی اور جنوں سے

 

عجلت میں نہیں ہو گی تلاوت ترے رخ کی

آ بیٹھ مرے پاس ذرا دیر سکوں سے

 

اے بار! کوئی بول محبت سے بھرا بول

کیا سمجھوں بھلا میں تری ہاں سے تری ہوں سے

 

دیوار کا سایہ تو مجھے مل نہیں پایا

بیٹھا ہوں تری یاد میں اب لگ کے ستوں سے

 

تجھ سے تو مری روح کا بندھن تھا مرے بار

انجان رہا تو بھی مرے حال دروں سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تیز ہوا میں دیپ جلایا جا سکتا ہے

لفظوں تک ادراک کا سایہ جا سکتا ہے

 

در کو بھی دیوار بنایا جا سکتا ہے

غاصب کا دربار گرایا جا سکتا ہے

 

ہم ٹھہرے گمنام گھروں کے باسی، جگ میں

ہم پر ہر الزام لگایا جا سکتا ہے

 

تیری دید پرستش کے قابل ہے جاناں

تیرا مُکھ تعویذ بنایا جا سکتا ہے

 

عشق نے مُجھ کو یہ نقطہ تعلیم کیا ہے

خود میں ڈوب کے خود کو پایا جا سکتا ہے

 

خوابوں کو تو الفاظ میں لانا مشکل ہے

لفظوں سے تو خواب بنایا جا سکتا ہے

 

مُجھ کو یہ سکھلاتے ہیں اہلِ صبر سعید

سر کٹوا کے دین بچایا جا سکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

موسمِ وصل کا امکان ہُوا کرتے تھے

ہم تری آنکھ میں مہمان ہُوا کرتے تھے

 

آج جس دوست نے دھُتکار دیا ہے مُجھ کو

ہم اُسی دوست پہ قربان ہُوا کرتے تھے

٭٭٭

 

 

 

کام مُشکل تھا مگر چھوڑ آیا

مَیں محبت کا نگر چھوڑ آیا

 

خواب تو زادِ سفر ہوتے ہیں

اور مَیں زادِ سفر چھوڑ آیا

 

خود کو لے آیا مَیں اُس منظر سے

اور وہاں دیدۂ تر چھوڑ آیا

 

لُو بچاتا تو یہ دن کب آتے

رات کی تیغ پہ سَر چھوڑ آیا

 

آشیاں میں غمِ ہجرت کا نِشاں

ایک ٹوٹا ہُوا پر چھوڑ آیا

 

ایک دہلیز پہ کُچھ پھُول دھرے

اِک دریچے میں سحر چھوڑ آیا

٭٭٭

 

 

 

 

کب مری حلقۂ وحشت سے رہائی ہوئی ہے

دل نے اِک اور بھی زنجیر بنائی ہوئی ہے

 

اور کیا ہے مرے دامن میں محبت کے سوا

یہی دولت مری محنت سے کمائی ہوئی ہے

 

تیری صورت کو مَیں دیکھوں تو گماں ہوتا ہے

تو کوئی حور ہے جو فرش پہ آئی ہوئی ہے

 

 

اِک پری زاد کے یادوں میں اُتر آنے سے

زندگی وصل کی بارش میں نہائی ہوئی ہے

 

میں تمہیں اور کسی کا نہیں ہونے دوں گا

اب کہانی تو عجب موڑ پہ آئی ہوئی ہے

 

تم گئے ہو یہ وطن چھوڑ کے جس دن سے سعید

اِک اُداسی درو دیوار پہ چھائی ہوئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تیری آنکھوں میں رتجگا تو نہیں

تو بھی اب ہجر آشنا تو نہیں

 

تو کسی ہجر کی فضا تو نہیں

پوچھ خود سے تو بے وفا تو نہیں

 

آسماں تک جو یہ اُداسی ہے

یہ مری ذات کا خلا تو نہیں

 

تیری آنکھوں میں تیرتا ہوں میں

تیری آنکھوں میں ڈوبتا تو نہیں

 

عرش سے فرش تک اُداسی ہے

عرش تا فرش کربلا تو نہیں

 

آئینہ دیکھ کے یہ پوچھتا ہوں

میں کہیں آپ سے مِلا تو نہیں

 

اُس کا رستہ جُدا سہی لیکن

وہ مری ذات سے جُدا تو نہیں

 

تُجھ سے تو بے تکلفی ہے مری

تو مرا دوست ہے ! خُدا تو نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو رنگہائے رُخِ دوستاں سمجھتے تھے

وہ ہم نفس بھی مرا دکھ کہاں سمجھتے تھے

 

وہی تو حاصلِ عمرِ رواں سمجھتے تھے

جو برق و باد کو بھی آشیاں سمجھتے تھے

 

محبتوں میں کنارے نہیں مِلا کرتے

”مگر یہ ڈوبنے والے کہاں سمجھتے تھے ”

 

کھُلا کہ چادرِ شب میں بھی وسعتیں ہیں کئی

ذرا سی دھوپ کو ہم آسماں سمجھتے تھے

 

خزاں کے عہدِ اسیری سے پیشتر طائر

چمن میں موسمِ گُل کی زباں سمجھتے تھے

 

انہیں بھی دہر کی فرزانگی نہ راس آئی

جو کارِ عشق میں سُود و زیاں سمجھتے تھے

 

کسی کا قُرب قیامت سے کم نہیں تھا سعید

فقط فراق کو ہم امتحاں سمجھتے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

عجیب طور درختوں نے شب گزاری ہے

کہ شاخ شاخ قیامت کی سوگواری ہے

 

یہ کیسا عشق ہے جو آنکھ تک نہیں آتا

یہ کیسی آگ ہے جو روشنی سے عاری ہے

 

ہمارے دل کا ابد تو ہمیں نہیں معلوم

ہمارے دل کو ازل سے لگن تمہاری ہے

 

جمالِ یار نے خود مست کر دیا پھر بھی

مرے حواس پہ اب تک شعور طاری ہے

 

وہ جس کے سامنے کاسہ بدست ہے دنیا

سعید تک اُسی دہلیز کا بھکاری ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

آنکھوں آنکھوں میں محبت کا اشارہ کر کے

وقت چھوڑے گا مجھے دوست تمہارا کر کے

 

بات دریا بھی کبھی رک کے کیا کرتا تھا

اب تو ہر موج گزرتی ہے کنارہ کر کے

 

وہ عجب دشمنِ جاں تھا جو مجھے چھوڑ گیا

مرے اندر ہی کہیں مجھ کو صف آرا کر کے

 

خواب تو خواب یہاں آنکھ اُجڑ جاتی ہے

حاصلِ جاں ! تری فرقت کو گوارا کر کے

 

اِک دیا اور جلایا ہے سحر ہونے تک

شبِ ہجراں ترے نام ایک ستارہ کر کے

 

اک کلی شاخ کے اندر ہی کہیں روتی تھی

روزنِ در سے بہاروں کا نظارہ کر کے

 

جب سے جاگی ہے ترے لمس کی خواہش دل میں

رہنا پڑتا ہے مجھے خود سے کنارہ کر کے

 

دشت چھانوں گا تری خاک محبت سے میں

عشق! دیکھوں گا تجھے سارے کا سارا کر کے

٭٭٭

 

 

 

 

آپ آئے ہیں ، آئیے صاحِب

دل کا دکھڑا سنائیے صاحِب

 

حالتِ ہجر میں بھی زندہ ہوں

مجھ کو غیرت دلائیے صاحِب

 

بیٹھئے چین سے یہاں ، کچھ پل

دشت کی خاک کھائیے صاحِب

 

دشتِ حیرت سے بچ نکلنے کی

صورتیں بھول جائیے صاحِب

 

سانس لینی ہے کچھ نظاروں نے

اپنی پلکیں جھکائیے صاحِب

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں بھی ثروت کی پیروی کر لوں

جی میں آتا ہے خود کشی کر لوں

 

موت کی بارگاہ میں جا ؤ ں

اپنے جیون کو دائمی کر لوں

 

حضرت قیس جو اجازت دیں

میں دوانوں کی رہبری کر لوں !!

 

جا کے بیٹھوں میں دشت کے اندر

خود کو دنیا سے اجنبی کر لوں

 

کوئی میرا بھی ہو زمانے میں

یعنی پیڑوں سے دوستی کر لوں

 

قبر کھودوں میں جا کے جنگل میں

اور وہاں خود کو دفن ہی کر لوں

 

زیب تن خود پہ خامشی کا لباس

تو کہے تو ابھی ابھی کر لوں

 

آپ کی بے مثال آنکھوں پر

گر اجازت ہو، شاعری کر لوں ؟؟

 

خود کو پھیروں تری محبت میں

کس لئے خود کو لعنتی کر لوں

 

مجھ کو وحشت کا مشورہ ہے سعید

کسی صحرا کی نوکری کر لوں

٭٭٭

 

 

 

 

بے خبر ہوتے ہوے  ساری خبر جانتے ہیں

ہم پرندوں کی محبت کو شجر  جانتے ہیں

 

زیست کرنا تو  کوئی  کام نہیں ہے صاحب !!

کرنے والے تو یہاں عشق بھی کر  جانتے ہیں

 

دیکھ رکھا ہے کئی  بار منڈیروں پہ اسے

اہل دل چاند  کو بھی کونج کا پر  جانتے ہیں

 

میں کروں  جب بھی بیان مدح جمال جاناں

یار ،  اس کو بھی مرا حسن  نظر  جانتے ہیں

 

کبھی خو ا ہش  نہیں رکھی یہاں رہنے کی سعید

دنیا ! ہم لوگ  تجھے راہ گزر  جانتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

پہلے وہ اچانک نظر آیا ، اسے دیکھا

پھر دل نے کیا اور تقاضا ،  اسے دیکھا

 

وہ حسن بڑی  دیر رہا سامنے میرے

پھر میں نے میاں ! جس طرح  چاہا ،  اسے دیکھا

 

وہ پل تو مری آنکھ سے جاتا ہی نہیں ہے

اک روز دریچے سے میں جھانکا ،  اسے دیکھا

 

وہ حسن کے معیار  پہ پورا تھا بہر  طور

دیکھا ہی نہیں کوئی بھی جیسا ،  اسے دیکھا

 

اک  شام وہ کچھ ایسا کھلا  ایسا کھلا بس

جیسا میں  سمجھتا  تھا سو ، ویسا ،  اسے دیکھا

 

وہ حسن تھا کچھ اپنی ستایش  کا طلبگار

دریا تھا مگر پیاس کا صحرا ،  اسے دیکھا

 

چھایا  ہے خیالوں میں سعید ایسا کوئی شخص

لگتا ہے کہ جس نے مجھے دیکھا ،  اسے دیکھا

٭٭٭

 

 

 

 

جتنا ہوں بے قرار ، تجھے دیکھ کر ہوا

دل میں لہو ، شرار  تجھے دیکھ کر ہوا

 

آنے سے تیرے ہجر کی صورت ، بدل گئ

یہ وصل  کا خمار ،  تجھے دیکھ کر ہوا

 

کل تک خزاں  گزیدہ  درختوں کا شور تھا

اندیشہ بہار ،  تجھے دیکھ کر ہوا

 

کیسے کہوں یہ تجھ سے، مری جان  آرزو

سانسوں پہ اعتبار ،  تجھے دیکھ کر ہوا

 

مجھ سے خفا نہ ہو ، مرے اچھے دنوں کے یار

بانہوں کا یہ حصار ،  تجھے دیکھ کر ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

مسند دل پہ ترا عشق بٹھایا ہے  میاں

شہر احساس کو یوں ہم نے سجایا ہے میاں

 

دل سمندر میں تری یاد بہا کر ہم نے

چشم حیراں  کو عزا دار  بنایا ہے  میاں

 

مجھ کو دریا کی روانی میں روانہ کر کے

میرے قاتل  نے مرا سوگ منایا ہے  میاں

 

پیڑ  کی اوٹ  لئے چاند  جو شرماتا ہے

ہم نے اس کو بھی ترا ذکر سنایا ہے  میاں

 

دل یہ کہتا ہے کہ آنکھیں ہی جلا دوں اپنی

اک عجب خواب مری آنکھ میں آیا ہے  میاں

 

ہم سے پہلے  ہی مرے،، مارنے والے ہم کو

عرصہ  دار میں وہ حشر  اٹھایا ہے  میاں

 

اب مرا عشق فقط اشک فشانی ہے سعید

دل کو جذبات کی شدت نے رلایا ہے  میاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں نے دیکھا ہے اس کی آنکھوں میں

کوئی، رہتا ہے اس کی آنکھوں میں

 

ساری دنیا سے چھین لو ں اس کو

یہ تقاضا ہے اس کی آنکھوں میں

 

اب تو صحرا بھی اس سے جلتے ہیں

ایسا سبزہ ہے اس کی آنکھوں میں

 

اس کی آنکھوں پہ لوگ مرتے ہیں

کچھ تو ایسا ہے اس کی آنکھوں میں

 

میں کنارے سے دیکھ سکتا ہوں

کوئی دریا ہے اس کی آنکھوں میں

 

وہ سمندر مثال ہے ، تب ہی

چاند ڈوبا ہے اس کی آنکھوں میں

 

رات زلفوں میں ڈوب جاتی ہے

دن نکلتا ہے اس کی آنکھوں میں

 

حسن آدھا ہے مسکراہٹ میں

اور ، پورا ہے اس کی آنکھوں میں

 

صبح ہونے کا خوشنما منظر

بھیگا بھیگا ہے اس کی آنکھوں میں

 

مجھ کو حیرت میں ڈال دیتا ہے

وہ نظارہ ہے اس کی آنکھوں میں

 

آنکھ ٹکتی نہیں ہے ، دیکھے سے

وہ اجالا ہے اس کی آنکھوں میں

 

حسن خو بان جملہ عالم کا

سمٹ آیا ہے اس کی آنکھوں میں

 

یہ مبشر بھی دھیان جینے کا

بھول آیا ہے اس کی آنکھوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

حالتِ حال میں کیا رو کے سناؤں تجھ کو

تو نظر آئے تو پلکوں پہ بٹھاؤں تجھ کو

خود کو اس ہوش میں مدہوش بنانے کے لئے

آیتِ حسن پڑھوں دیکھتا جاؤں تجھ کو

 

تو نہیں مانتا مٹی کا دھواں ہو جانا

تو ابھی رقص کروں ہو کے دکھاؤں تجھ کو

 

کر لیا ایک محبت پہ گزارا میں نے

چاہتا تھا کہ میں پورا بھی تو آؤں تجھ کو

 

اب میرا عشق دھمالوں سے کہیں آگے ہے

.اب ضروری ہے کہ میں وجد میں لاؤں تجھ کو

 

کیوں کسی اور کی آنکھ کا قصیدہ لکھوں

کیوں کسی اور کی مدحت سے جلاؤں تجھ کو

 

عین ممکن ہے تیرے عشق میں ضم ہو جاؤں

اور پھر دھیان کی جنت میں نہ لاؤں تجھ کو

 

اس نے اِک بار مجھے پیار سے بولا تھا سعیؔد

میرا دل ہے کبھی سینے سے لگاؤں تجھ کو

٭٭٭

 

 

 

یاد کا دُکھ

 

 

یادوں کے انبار پہ بیٹھا

اِک تنہا آوارہ شاعر !!!!

لمحوں کو کھنگال رہا ہے

اشکوں سے تر پلکوں پر

تیرا سُندر روپ سجا کر

دُکھ درد کا مارا شاعر تیری خوشبو ڈھونڈ رہا ہے

جب سے اُس سے دُور ہُوا ہے

اُس کا پیارا میت

عجب سا رُوپ بنائے پھرتے ہیں

اُس کے سارے گیت

اِسی طور ہی سج پائے گی خوشیوں کی ہر سیج

ہواؤں کے ہاتھ پہ رکھ کے تُو اپنی خوشبو بھیج

دعاؤں کے در پہ بیٹھا ہے

وہ روتا ہے

کھو کے سارے سُکھ

تُم کیا جانو پگلی لڑکی !!!

اِس شاعر کا دُکھ

٭٭٭

 

 

خدا کے دستِ  ہنر کو حسینؑ کہتے ہیں

نبیؑ کے حُسنِ  نظر  کو حسینؑ کہتے ہیں

 

وہ جس کا خوف یزیدوں کے دل پہ طاری ہے

دلیر، جرّی، نڈر کو حسینؑ کہتے ہیں

 

یزید تابہ قیامت قضا نے مار دیا

بقا فروغ شجر کو حسینؑ کہتے ہیں

 

جنہیں خبر ہے شہادت کا فلسفہ کیا ہے

شعورِ  حق کی ڈگر کو حسینؑ کہتے ہیں

 

جو خاک میں ہی ملا دے یزیدیت کا غرور

کمالِ  اوجِ  بشر کو حسینؑ کہتے ہیں

 

وہ ریگ زار مہکتا گلاب زار ہوا

شہادتوں کے ثمر کو حسینؑ کہتے ہیں

 

علیؑ کے جسم ولایت دراز قلزم میں

رواں لہو کے اثر  کو حسینؑ کہتے ہیں

 

ہم ایسے لوگ جو ہیں روشنی شعار سعیدؔ

وہ ارتقائے سفر کو حسینؑ کہتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

ایک تصویر جو آنکھوں میں بسائی ہوئی ہے

دل کی دیوار پہ دیوار بنائی ہوئی ہے

 

وصل دریا کی روانی سے نہیں بجھنے کی

آج تنہائی نے وہ آگ لگائی ہوئی ہے

 

ایک حیرت مری وحشت کو بڑھانے کے لیے

جانے کیوں دشت سے بازار میں آئی ہوئی ہے؟

 

سامنے بیٹھ کے دیکھا تھا اُسے وصل کی شب

اور وہ رات ہی اعصاب پہ چھائی ہوئی ہے

 

اِک کہانی جو محبت کی کہانی ہے سعیدؔ

اُس کہانی نے تو محفل ہی سجائی ہوئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دل کی دنیا پہ حکومت ہے پرانی دل کی

ہر محبت کی کہانی ہے کہانی دل کی

 

ہم ترے دل سے نکل کر بھی ترے دل میں ہیں

اِس کو کہتے ہیں میاں ! نقل مکانی دل کی

 

یہ جو ہم لوگ ہیں چاہت کے نوازے ہوئے لوگ

بات کرتے ہیں تو کرتے ہیں زُبانی دل کی

 

زندگی! تجھ سے یہی ایک گلہ ہے، تو نے

ساتھ رہ کر بھی کوئی بات نہ جانی دل کی

 

لاکھ کہتا رہا اظہارِ  محبت کر لوں

اور میں تھا کہ کوئی بات نہ مانی دل کی

 

وصل کے دن ہیں، مگر یاد بہت آتی ہے

موسمِ  ہجر میں آواز لگانی دل کی

 

رات تورات یہاں چاند بھی ہنستا ہے سعیدؔ

جب سُناتا ہوں اُسے رام کہانی دل کی

٭٭٭

 

 

آنکھ کھولوں گا تو یادوں کے خزانے ہوں گے

نئے کپڑوں میں وہی لوگ پرانے ہوں گے

 

پیڑ نے بُور نہیں عشق اُٹھایا ہے میاں !

اب درختوں سے بھی منسوب فسانے ہوں گے

 

میرا دشمن مرے اندر ہی چُھپا بیٹھا ہے

مجھ کو خود اپنی طرف تیر چلانے ہوں گے

 

یہ جو اپنے ہیں مرے جان سے پیارے اپنے

موت آئی تو سبھی چھوڑ کے جانے ہوں گے

 

مجلسِ  ہجر کی توقیر بڑھانے کے لیے

آنکھ سے اشک نہیں خواب بہانے ہوں گے

 

یوں بچھڑنے پہ تو دل اپنا بُرا تو نہ کر

فیصلے یوں ہی لکھے میرے خدا نے ہوں گے

 

بس کہانی میں یہاں تک ہی سفر تھا اپنا

اِس سے آگے تو ہمیں ہاتھ چھڑانے ہوں گے

 

اب یہاں شور ہے چیخیں ہیں عداوت ہے سعیدؔ

اب یہاں عشق کے اشعار سُنانے ہوں گے

٭٭٭

 

 

 

ماہئے

 

 

تہذیب سِکھا جاتے

لوگ پیمبر سے

انسان   بنا   جاتے

٭٭

 

پوشاک تو اُونی  تھی

شوخ دسمبر کی

ہر شام   بھی سُونی تھی

٭٭

 

 

گُمنام  ستارا   ہوں

عشق محبت کی

ہر جنگ میں ہارا ہوں

٭٭

 

 

اب جسم  پہ آنچل  کر

دیکھ، ز مانے کو

مت  جان کے  پاگل کر

٭٭

 

 

آنکھوں  میں  اُداسی  ہے

یا ر  نہیں  کوئی

ہر  شخص   سیاسی     ہے

٭٭

 

 

 

خو شبو  کا  بدل   لکھّوں

چاند سی لڑکی پر

ہر   رات غزل  لکھّوں

٭٭

 

 

رانجھوں  کا  نہ  ہیروں  کا

شہرِ ملتان مِرا

تو   شہر  ہے  پِیروں  کا

٭٭

 

 

دنیا   کو    جلا تی      ہو

ہاتھوں پہ اب بھی

کیا    مہندی   لگاتی   ہو

٭٭

 

 

کُچھ پھول ہیں  کلیاں ہیں

اب تک یادوں میں

مُجھ دیس  کی  گلیاں  ہیں

٭٭

 

 

ادراک  کے  درپن  میں

خوب رُلاتے ہیں

جو خواب ہیں  اکھین  میں

٭٭

 

 

کم  ظرف   سا   لگتا  ہے

فوج کی وردی کو

جو   کھال  سمجھتا      ہے

٭٭

 

 

ہر  دُکھ  کو  اب    سہنا

لوٹ کے آؤں گا

مت  رو  میری     بہنا

٭٭

 

 

یہ  سانس  تو  فرضی   ہے

تُم بن میری جاں

جینا  خود    غرضی   ہے

٭٭

 

 

تُجھ   نام   لگانی    ہے

ویسے  بھی دلبر

یہ  جان  تو  جانی     ہے

٭٭

 

 

دل   جان   جگر    ما ہیا

ساتھ چلو دلبر

مشکل  ہے  سفر   ماہیا

٭٭

 

 

پیتل  کا  کٹورا   ہے

یار نے میرا دل

خود جان  کے  توڑا ہے

٭٭

 

 

یہ  عشق    چنیدہ   ہے

دل کا حسیں دامن

برسوں سے دریدہ   ہے

٭٭

 

 

دریا کے  کنارے  تھے

دور رہے خود سے

ہم  ہجر کے مارے  تھے

٭٭٭

انٹر نیٹ کے مختلف  مآخذ سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید