FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

چاند جب اترے

 

 

               رمزی آثم

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

در و دیوار جاں چلے گئے ہیں

بارشوں میں مکاں چلے گئے ہیں

 

کچھ دنوں سے ملے نہیں خود سے

ہم اچانک کہاں چلے گئے ہیں

 

دشت میں رہ گئے اکیلے ہم

اور سب کارواں چلے گئے ہیں

 

کوئی آیا نہ دیکھنے کے لیے

ہم یونہی رائگاں چلے گئے ہیں

 

چند لاشیں ملی ہیں بچوں کی

اور کچھ نوجواں چلے گئے ہیں

 

ایک وحشت ہمارے ساتھ رہی

ہم یہاں سے وہاں چلے گئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

جنگلوں میں پکار دی گئی ہے

عمر ایسے گزار دی گئی ہے

 

اس شجر کے قریب مت جانا

اس میں حیرت اتار دی گئی ہے

 

یہ مری زندگی نہیں میری

یہ مجھے مستعار دی گئی ہے

 

ایک رستے پہ چل رہا ہوں میں

بس یہی رہ گزار دی گئی ہے

 

آنسوؤں کی قطار کے پیچھے

کیا کوئی آبشار دی گئی ہے

 

ہجر کا رنج کھنچتا ہوا دن

یا شب انتظار دی گئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

آنسوؤں کو بلائیے تو سہی

اور کچھ دن رلائیے تو سہی

 

آپ کے ہاتھ کی لکیروں میں

ہم کہیں ہیں دکھائیے تو سہی

 

کیا ملا دشت کی سیاحت سے

کچھ ملا بھی بتائیے تو سہی

 

زندگی بھی عجیب راحت ہے

خوش دلی سے بتائیے تو سہی

 

رنج تصویر میں نظر آئے

ایسا منظر بنائیے تو سہی

 

دھوپ خود راستہ بدل لے گی

پیڑ غم کا لگائیے تو سہی

٭٭٭

 

 

 

 

 

ابر سے ہاتھ چھڑایا نہ گیا

دھوپ نکلی بھی تو سایہ نہ گیا

 

میں محبت کے لئیے کافی ہوں

یہ مگر اُس کو بتایا نہ گیا

 

خوب رویا میں لپٹ کر خود سے

رنج ایسا تھا چھپایا نہ گیا

 

رات وہ آگ لگی جنگل میں

ایک بھی پیڑ بچایا نہ گیا

 

میں اکیلا ہی گیا غم کی طرف

کوئی اِس دشت میں آیا نہ گیا

 

تیری تصویر مکمل نہ ہوئی

کون سا نقش بنایا نہ گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

تیری آواز سے بنی ہوئی ہے

زندگی ساز سے بنی ہوئی ہے

 

غم سناتا ہوں بس اسی کو میں

میری غم ساز سے بنی ہوئی ہے

ْ

آخرش بھید یہ کھلا مجھ پر

تو کسی راز سے بنی ہوئی ہے

 

اک تحیر سے آشنائی مری

میرے آغاز سے بنی ہوئی ہے

 

وہ ستارہ ہے ہم سفر میرا

اسی دم ساز سے بنی ہوئی ہے

 

یہ عمارت پرانی ہوتے ہوئے

نئے انداز سے بنی ہوئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنے احباب کا ہونا ہی بدل سکتا ہوں

میں فقط خواب کا ہونا ہی بدل سکتا ہوں

 

روک سکتا ہی نہیں آنکھ میں آئے آنسو

گھر میں تالاب کا ہونا ہی بدل سکتا ہوں

 

ابر ہوں میرے مقدر میں نہیں ہے پانی

دشت میں آب کا ہونا ہی بدل سکتا ہوں

 

چاندنی روز لپٹ جاتی ہے آ کر مجھ سے

ورنہ مہتاب کا ہونا ہی بدل سکتا ہوں

 

مجھ سے اب خواب کی حیرت نہیں بدلی جاتی

ایسے اسباب کا ہونا ہی بدل سکتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہزار رنج اٹھائے ہوئے سے لگتے ہیں

کہ یہ چراغ بجھائے ہوئے سے لگتے ہیں

 

سوال پوچھ رہے ہیں کہ زندگی کیا ہے

جواب ڈھونڈ کے لائے ہوئے سے لگتے ہیں

 

پناہ مانگ رہے ہیں ہماری آنکھوں میں

ہمیں یہ خواب ستائے ہوئے سے لگتے ہیں

 

یہ چاندنی یہ ستارے یہ کہکشاں یہ چراغ

ہمارے ہاتھ میں آئے ہوئے سے لگتے ہین

 

کسی کی چھت ہی نہیں تو کسی کا دروازہ

یہ گھر ہوا کے بنائے ہوئے سے لگتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

تھکن سمیٹ چکے ہیں غبار باندھ لیا

تمام رخت سفر ایک بار باندھ لیا

 

درخت دیکھ رہے ہیں مسافروں کی طرف

یہ کس نے دھوپ کے آگے حصار باندھ لیا

 

طویل ہوتی ہوئی زندگی مجھے بھی دیکھ

مرے بدن نے یہ کیا اختصار باندھ لیا

 

ابھی میں تم سے جدا بھی نہیں ہوں پوری طرح

ابھی سے تم نے مرا انتظار باندھ لیا

 

کوئی چراغ جلے گا نہ روشنی ہو گی

ہوا نے عہد اگر میرے یار باندھ لیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہوا چلے تو اذیت شمار کرتے ہیں

چراغ صبح تلک انتظار کرتے ہیں

 

ہماری راہ میں دریا کہیں نہیں آتا

ہم آنسوؤں پہ فقط انحصار کرتے ہیں

 

وہ بند اپنے مکانوں کی کھڑکیاں کر لیں

ہوا کے جھونکے جنھیں سوگوار کرتے ہیں

 

درخت جانتے ہیں بولتے نہیں کچھ بھی

وہ کون ہیں جو پرندے شکار کرتے ہیں

 

رہا نہ بس میں کسی کے بھی زندگی کرنا

چلو یہ راہ بھی ہم اختیار کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

آنکھ حیران نہ ہو خواب کو مشکل نہ پڑے

اس طرح ٹوٹ کے اعصاب کو مشکل نہ پڑے

 

کھلا رکھتا ہوں گریبان ہمیشہ اپنا

زخم دیتے ہوئے احباب کو مشکل نہ پڑے

 

اپنا سامان اٹھا لایا ہوں میں آتے ہوئے

گھر سے جاتے ہوئے سیلاب کو مشکل نہ پڑے

 

لوٹ جاتے ہیں سر شام پرندے یوں بھی

چاند جب اترے تو تالاب کو مشکل نہ پڑے

 

اس طرف آگ دہکتی ہے ادھر جاتے ہوئے

کہیں اس خطہ شاداب کو مشکل نہ پڑے

٭٭٭

 

 

 

 

 

    کب ہمیں‌ چھوڑ کے غم جاتے ہیں

اشک ہی آنکھ میں‌ تھم جاتے ہیں

 

شام آتی ہے تو اُس گھر کی طرف

عادتاً اپنے قدم جاتے ہیں

 

ہاتھ اٹھتا نہیں‌ دستک کے لیے

پائوں‌ دہلیز پہ جم جاتے ہیں

 

کیسی ویراں ہے تعلق کی سڑک

آپ جاتے ہیں‌ نہ ہم آتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

کہیں پہ خواب کہیں حیرتیں پڑی ہوئی تھیں

کہ آئنے میں کئی صورتیں پڑی ہوئی تھیں

 

یہ کیا کہ ایک قدم بھی نہ بڑھ سکے آگے

ہمارے پاؤں میں جیسے گرہیں پڑی ہوئی تھیں

 

میں تیرا نام بھی لیتا تو کس طرح لیتا

ترے حضور کئی نسبتیں پڑی ہوئی تھیں

 

یہیں کہیں پہ تری یاد مسکراتی تھی

یہیں کہیں پہ ابھی فرصتیں پڑی ہوئی تھیں

 

بھر اس کے بعد کہیں چین ہی نہیں آیا

کہ میرے پیچھے مری حسرتیں پڑی ہوئی تھیں

 

جہاں جہاں پہ ہمارے قدم پڑے آثم

وہاں وہاں پہ کئی مشکلیں پڑی ہوئی تھیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ردائے خاک نہیں آسمان ہے یہ بھی

کبھی کبھار تو ہوتا گمان ہے یہ بھی

 

اتر رہے ہیں تواتر سے خواب آنکھوں میں

سمجھ رہا ہوں کوئی امتحان ہے یہ بھی

 

میں اپنی ذات کے اندر بھی جھانک لیتا ہوں

کہ حیرتوں سے بھرا اک جہان ہے یہ بھی

 

کچھ اس طرح میں ترا غم اٹھائے پھرتا ہوں

کہ جیسے دھوپ نہیں سائبان ہے یہ بھی

 

میں خود سے بھاگ کے خود میں پناہ لیتا ہوں

عجیب حلقہ دارالامان ہے یہ بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

آ ہی رہتی ہے وہ کبھی دل میں

ایک ہی شے ہے کام کی دل میں

 

میری آنکھوں میں ہے خدا موجود

اور آباد ہے نبی دل میں

 

میرا سینے پہ ہاتھ رکھا ہے

ہو رہا ہے علی علی دل میں

 

میں کہیں رکھ کے بھول بیٹھا ہوں

ایک تصویر آپ کی دل میں

 

یہ جو ہوتی ہے رات دن ٹھک ٹھک

کام کرتے ہیں مستری دل میں

 

دیکھتے کیا ہو یار دل کی طرف

کیا لکیریں ہیں ہاتھ کی دل میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کسی خیال کسی شاخ سےجھڑے ہوئے تھے

وہ چند پھول اسی دھوپ میں ہرے ہوئے تھے

 

انھیں میں نیند کی وادی میں کھینچ لایا تھا

مگر وہ لوگ کسی خواب سے ڈرے ہوئے تھے

 

ابھی جو اشک مری آنکھ سے گرا ہی نہیں

تمام پیڑ اسی بوند سے ہرے ہوئے تھے

 

پھر ایک روز گرانا پڑا اسے بھی ہمیں

ہم اپنی راہ میں دیوار ہی بنے ہوئے تھے

 

ہماری سانس سنبھلتی تھی ڈگمگاتی تھی

ہم اپنا ہاتھ کسی ہاتھ پر دھرے ہوئے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میری آواز سے بنی ہوئی ہے

زندگی ساز سے بنی ہوئی ہے

 

غم سناتا ہوں بس اسی کو میں

میری غم ساز سے بنی ہوئی ہے

 

آخرش بھید یہ کھلا مجھ پر

تو کسی راز سے بنی ہوئی ہے

 

اک تحیر سے آشنائی مری

میرے آغازسے بنی ہوئی ہے

 

وہ ستارہ ہے ہم سفر میرا

اسی دم ساز سے بنی ہوئی ہے

 

یہ عمارت پرانی ہوتے ہوئے

نئے انداز سے بنی ہوئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ابر سے ہاتھ چھڑایا نہ گیا

دھوپ نکلی بھی تو سایہ نہ گیا

 

میں محبت کے لیے کافی ہوں

یہ مگر اُس کو بتایا نہ گیا

 

خوب رویا میں لپٹ کر خود سے

رنج ایسا تھا چھپایا نہ گیا

 

رات وہ آگ لگی جنگل میں

ایک بھی پیڑ بچایا نہ گیا

 

میں اکیلا ہی گیا غم کی طرف

کوئی اِس دشت میں آیا نہ گیا

 

تیری تصویر مکمل نہ ہوئی

کون سا نقش بنایا نہ گیا

٭٭٭

 

 

 

کون سی سمت اجالا گیا ہے

کیا کوئی دیکھنے والا گیا ہے

 

دل ہی جاتا تو کوئی بات نہ تھی

ہاتھ سے غم کا حوالہ گیا ہے

 

شکر کرتی ہوئی آنکھیں میری

میرا ہر خواب سنبھالا گیا ہے

 

میں زمیں پر ہی گرا ہوں آ کر

مجھ کو جتنا بھی اچھالا گیا ہے

 

کون سا عکس بنا ہے غم کا

کون سی شکل میں ڈھالا گیا ہے

 

مبتلا عشق میں ایسا ہوا دل

غم کو سینے سے نکالا گیا ہے

٭٭٭

 

 

ایک اک ذرہ محبت سے مجھے دیکھتا ہے

دشت یہ کون سی وسعت سے مجھے دیکھتا ہے

 

کوئی دیوار اٹھائی ہی نہیں اس جانب

دیکھنے ولا سہولت سے مجھے دیکھتا ہے

 

میں ہوں اس باغ میں رکھا ہوا کوئی منظر

ہر کوئی اپنی ضرورت سے مجھے دیکھتا ہے

 

میں ترے ساتھ نہیں اور کسی پاس نہیں

یعنی ہر شخص ہی حسرت سے مجھے دیکھتا ہے

 

آسماں دیکھتا رہتا ہے مجھے مرتے ہوئے

اور کس شوق اذیت سے مجھے دیکھتا ہے

 

کل جسے میں نے سیکھایا تھا محبت کرنا

آج وہ شخص بھی نفرت سے مجھے دیکھتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

سب مرے یار ہیں لیکن وہ مرا یار نہیں

اس اذیت میں کوئی اور گرفتار نہیں

 

کیوں نہ آنکھیں کسی منظر کے حوالے کر دوں

میرے خوابوں کا یہاں کوئی خریدار نہیں

 

گھر کے آنگن میں لگے پیڑ سے وحشت ہے مجھے

یہ پرندوں کی طرح مجھ سے وفادار نہیں

 

میں ترے ساتھ محبت بھی نہیں کر سکتا

یہ محبت ہے تو پھر یہ مرا معیار نہیں

 

سانس لینے کے لئے تازہ ہوا چاہییے ہے

اس سے بڑھ کر تو مجھے کچھ یہاں درکار نہیں

 

میرا سایا ہی مرے ساتھ سفر کرتا ہے

ساتھ چلنے کو یہاں کوئی بھی تیار نہیں

 

شام آئی ہے نئی نیند کی چادر لے کر

اور ادھر خواب مری آنکھ میں بیدار نہیں

 

یہ کہانی جو مرے گرد کہیں گھومتی ہے

اس کہانی میں مرا کوئی بھی کردار نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

تمھارے بعد میں کیا رہ گیا ہوں

مکمل تھا میں آدھا رہ گیا ہوں

 

کسی آواز پر آیا نہیں میں

میں کل خود کو بلاتا رہ گیا ہوں

 

میں خود اپنے تعاقب میں گیا تھا

سو بن کر ایک قصہ رہ گیا ہوں

 

کوئی ترتیب میں لایا نہ مجھ کو

کہ جیسا تھا میں ویسا رہ گیا ہوں

 

مری آنکھیں دکھائی دے رہی ہیں

در و دیوار میں کیا رہ گیا ہوں

 

ہوا بھی ساتھ میرے اب نہیں ہے

میں کس درجہ اکیلا رہ گیا ہوں

 

اسے سب کچھ بتانا چاہتا تھا

مگر خاموش بیٹھا رہ گیا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

مجھے میرا مقدر لگ رہا تھا

وہ چھونے سے تو پتھر لگ رہا تھا

 

یونہی کل آئنے میں خود کو دیکھا

میں پہلے سے تو بہتر لگ رہا تھا

 

نکل آئے تھے صحرا کی طرف ہم

"درو دیوار سے ڈر لگ رہا تھا”

 

اسے یوں بھی ضروری تھا ہٹانا

فلک یہ میرے سر پر لگ رہا تھا

 

میں خود اپنا تماشائی ہوا تھا

تماشا میرے اندر لگ رہا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 گم ہوا کیا تھا ڈھونڈتا کیا ہے

آخر اس شخص کو ہوا کیا ہے

 

تیری آنکھیں نہ چھین لے کوئی

تو یہاں خواب دیکھتا کیا ہے

 

خود سے اکثر سوال کرتا ہوں

آخرش میرا مسئلہ کیا ہے

 

بعض اوقات سوچتا ہوں میں

سب پرانا ہے تو نیا کیا ہے

 

آ ہی جاتی ہے نیند کانٹوں پر

جاگنے والوں نیند کا کیا ہے

 

جاگتی ہیں یہ رات بھر آنکھیں

پوچھتی ہیں یہ رتجگا کیا ہے

 

کوئی آواز ہی نہیں آتی

مجھ میں آخر یہ ٹوٹتا کیا ہے

 

آپ کس موڑ پر بدل جائیں

اے مرے دوست آپ کا کیا ہے

 

آج ہم گھوم پھر کے دیکھے گے

اس جزیرے میں اور کیا کیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ میں کیا جون کیا حضرت رسا کیا

سبھی یہ عشق میں ہیں مبتلا کیا

 

میں شاید کچھ مکمل کر رہا تھا

مگر مجھ سے مکمل ہو سکا کیا

 

کوئی خوسبو چرا کر لے گیا تھا

میں پھولوں کی طرف پھر دیکھتا کیا

 

تماشا دیکھنے کو آئے تھے ہم

تماشہ گر تماشہ ہو چکا کیا

 

مجھے سب کچھ میسر آ چکا ہے

مجھے سب کچھ میسر آ چکا کیا

 

بہت خوش ہیں مگر ہم رو رہے ہیں

یہ ہم سے کہہ گیا ہے آئنہ کیا

 

تمھارے واسظے سب چھوڑ آیا

زمیں کیا آسماں کیا میں خدا کیا

 

اگر اپنے مقابل آ گیا میں

تو اپنا کر سکوں گا سامنا کیا

 

حقارت سے مجھے سب دیکھتے ہیں

نہیں میں اب رہا ہوں کام کا کیا ؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

میرے سینے میں آ لگی ہے آگ

اب کھلا مجھ پہ بولتی ہے آگ

 

اشک ایسے ہیں اس کی آنکھوں میں

جیسے پانی بنی ہوئی ہے آگ

 

دن گزارا ہے ہم نے پانی میں

اور کبھی رات بھر چنی ہے آگ

 

میں نے دیکھا ہے ہاتھ سے چھو کر

کاسنی ہے نہ سرمئی ہے آگ

 

اپنے اندر اتار لی تم نے

یوں چھپانے سے کیا چھپی ہے آگ

 

تم نہ صوفی نہ کوئی شاعر ہو

تم کو پہلے بھی رو چکی ہے آگ

 

کس کو رکھنا کسے جلانا ہے

سب کے بارے میں جانتی ہے آگ

 

جب جلاتی ہے تب جلاتی ہے

سوچتی ہے نہ دیکھتی ہے آگ

 

ہم بتاتے ہیں آگ کیا شے ہے

ہم دکھاتے ہیں دیکھتی ہے آگ

 

ہم زمیں سے نمک اٹھا لائے

اب وہاں خاک چاٹتی ہے آگ

 

میں سمندر کی سمت جانا تھا

کس نے رستے میں آ دھری ہے آگ

 

جل رہی ہے جو آب کے اندر

یار یہ ایسی کون سی ہے آگ

 

میں زمیں کو الٹ کے دیکھتا ہوں

شاید اس میں کہیں دبی ہے آگ

 

منتظر اب ہے آگ کا وہ بھی

شاید اس نے بھی دیکھ لی ہے آگ

 

جل رہا ہوں میں دیر سے آثم

میرے پہلو میں سو رہی ہے آگ

٭٭٭

 

 

 

 

 

پرانا زخم تازہ ہو گیا ہے

مرے حق میں یہ اچھا ہو گیا ہے

 

یہاں اب پھول کھل سکتے ہیں غم بھی

مرا سینہ کشادہ ہو گیا ہے

 

درختوں پر اداسی چھا گئی ہے

جدا کوئی پرندہ ہو گیا ہے

 

ابھی تعمیر ہونا ہے مکمل

مکمل آدھا حصہ ہو گیا ہے

 

یونہی اپنا گزارا ہو رہا تھا

یونہی اپنا گزارہ ہو گیا ہے

 

میں دنیا سے کنارا چاہتا تھا

تو کیا مجھ سے کنارا ہو گیا ہے

 

یہ لہریں کس طرف کو جا رہی ہیں

کدھر دریا روانہ ہو گیا ہے

 

تمھارے جسم کو آئی ہے چھو کر

ہوا کا رنگ کیسا ہو گیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بات کرنی ہے کیا کسی سے مجھے

خوف آنے لگا ابھی سے مجھے

 

جس گلی کا طواف کرتا ہوں

کوئی نسبت ہے اس گلی سے مجھے

 

کیوں مرا مسئلہ بنی ہوئی ہے

پوچھنا تھا یہ زندگی سے مجھے

 

یوں بھی ملتا نہیں کسی کے ساتھ

لوگ ملتے نہیں خوشی سے مجھے

 

کل مجھے جس نے چھوڑ جانا ہے

چھوڑ جائے وہ آج ہی سے مجھے

 

کیا بتانا ہے کیا دکھانا ہے

کیوں بلاتی ہو خامشی سے مجھے

 

ہر کسی سے گلہ نہیں کرتا

ہے شکایت کسی کسی سے مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تیری یادوں سے میں دل بہلانے لگتا ہوں

روتے روتے گیت کوئی میں گانے لگتا ہوں

 

آنکھیں اشک بہاتی ہیں دل میرا روتا ہے

غم کی خوشبو سے خود کو مہکانے لگتا ہوں

 

کوئی پیچھے سے آوازیں دیتا ہے مجھ کو

جب میں اپنے آپ سے باہر آنے لگتا ہوں

 

جانے ان نیلی آنکھوں میں کیسا جادو ہے

گھبرانے لگتا ہوں میں شرمانے لگتا ہوں

 

دل کی وحشت گھٹ جاتی ہے جب بڑھ جاتی ہے

دیواروں سے سر اپنا ٹکرانے لگتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کوئی بھی رنج نہیں ہے یہ سب بتانے میں

ہمارے ہاتھ چلے ہیں دیا جلانے میں

 

ہم ایک روز تری آنکھ سے اٹھا لیں گے

ہمارے خواب پڑے ہیں ترے خزانے میں

 

یہ اک مکان نہیں ہے یہ گھر ہمارا ہے

تمام عمر لگی ہے اسے بنانے میں

 

تمام عمر اسی کے ہی ساتھ کاٹی ہے

جو ایک شخص ملا تھا ہمیں زمانے میں

 

وہ ایک خواب کہیں منتظر ہمارا تھا

سو کتنی دیر لگی اس کو دیکھ آنے میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہماری ذات کا حصہ رہا ہے

یہ صحرا بھی کبھی دریا رہا ہے
تمھاری یاد بھی آتی رہی ہے

سفر اس بار بھی اچھا رہا ہے

 

درختوں کی زبانی سن رہا ہوں

جو اب تک دشت میں ہوتا رہا ہے

 

وہ آنکھیں جانتی ہیں مانتی ہیں

ہمارا نیند سے رشتہ رہا ہے

 

چلو ہم یاد تو آئے اسے بھی

ہمیں اک شخص جو بھولا رہا ہے

 

تمھاری یاد کا سایا ہمیشہ

درو دیوار سے لپٹا رہا ہے

 

ہے اس کے ساتھ رہنے کی خوشی بھی

بچھڑ جانے کا بھی خدشہ رہا ہے

 

تھکن سے چور ہیں سارے مسافر

مگر رستہ ترو تازہ رہا ہے

 

نہیں آئی میسر زندگی بھی

ہمارے ساتھ تو ایسا رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جب تری یاد سر اٹھاتی ہے

ایسے عالم میں نیند آتی ہے

 

چاند حیرت سے دیکھتا ہے اسے

جب وہ تالاب میں نہاتی ہے

 

وہ جو دل سے نہیں ملاتی دل

کیوں بدن سے بدن ملاتی ہے

 

کوئی دل میں مقیم ہے اب تک

کوئی آواز اب بھی آتی ہے

 

میں کسی کا نہیں سوا اس کے

وہ مجھے یاد کیوں دلاتی ہے

 

کم پڑے گی زمین کی چادر

اس میں حیرت کہاں سماتی ہے

 

ہم کہاں جاگتے خوشی سے ہیں

کوئی خواہش ہمیں جگاتی ہے

 

یاد رکھتا ہوں اس لئے بھی اسے

یاد وہ بھولنے سے آتی ہے

٭٭٭

ماخذ:

کتاب چہرہ اور اردو سخن

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید