فہرست مضامین
- متحدہ اسلامی قیادت کا مسلمانانِ ہند کے نام پیغام
- ابتدائیہ
- اتحاد و اتفاق ہی زندگی ہے
- نئے عزم و حوصلہ کی ضرورت
- خلق خدا کی خدمت کیجئے
- اخلاقی و روحانی قدروں کو بحال کیجئے
- قول و عمل کے ذریعہ اسلام کی صحیح تصویر پیش کریں
- برادران وطن تک اسلام کے فلسفہ قانون کو پہنچائیں
- صدر بورڈ کے پیغامات
- پیغام
- ظلم و نا انصافی اور خود غرضی سے بچنے کی ضرورت
- پیغام
- پیغام
- پیغام
- اتحاد و یکجہتی اور امت اسلامیہ
- صدر بورڈ آپ سے مخاطب ہیں
- پیغام
- پیغام
- پرسنل لا بورڈ کی ضرورت اور اس کا دائرۂ کار
- مسلمانوں کی عید ــ ــ شیطان کا روزہ
متحدہ اسلامی قیادت کا مسلمانانِ ہند کے نام پیغام
مرتب
محمد وقار الدین لطیفی ندوی
شائع کردہ
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ – نئی دہلی
ابتدائیہ
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کو قائم ہوئے ۳۷ سالوں کا طویل عرصہ ہو چکا ہے اور اب تک اس کے بیس (۲۰) اجلاس عمومی ملک کے مختلف بڑے شہروں میں منعقد ہو چکے ہیں ،بورڈ کے پندرہویں اجلاس عمومی بنگلور کے بعد ہر اجلاس عام کے بعد ایک اعلامیہ بھی منظور کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا،لوگوں نے اس کو پسند بھی کیا ،اب تک چھ اعلامیے منظور ہو چکے ہیں ،ضرورت محسوس کی گئی کہ اس کو ایک جگہ کتابی شکل میں جمع کر دیا جائے،چنانچہ عزیزم مولوی محمد وقار الدین لطیفی ندوی کارکن مرکزی دفتر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نئی دہلی نے بڑے سلیقے کے ساتھ اس کو ایک جگہ جمع کیا ہے اب اس کی افادیت کے پیش نظر کتابی شکل میں شائع کیا جا رہا ہے ۔ خدا کرے کہ یہ بورڈ کی تاریخ میں ایک اہم اضافہ ثابت ہو اور امید ہے کہ تعلیم یافتہ دانشور طبقہ اور عام مسلمان بھی اس کتابچہ سے استفادہ کریں گے۔ خدا تعالیٰ اس کی افادیت کو عام فرمائے۔
وماذلک علی اللّٰہ بعزیز۔ آمین
(حضرت مولانا) سید نظام الدین
جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
۸مارچ ۲۰۱۰ء مطابق ۲۱ ربیع الاول ۱۴۳۱ھ
اتحاد و اتفاق ہی زندگی ہے
٭ اس وقت ہمارا ملک ہندوستان اپنی تاریخ کے نہایت سنگین دور سے گزر رہا ہے اور فاشسٹ طاقتیں جو ملک کے جمہوری کردار اور ہمہ مذہبی سیکولر روایات پر یقین نہیں رکھتیں ، بام اقتدار تک پہنچ چکی ہیں ، اور وہ ایسی طاقتوں کے زیر اثر ہیں جو کبھی اس ملک کے تئیں ہمدرد و بہی خواہ نہیں رہے، چنانچہ ایک طرف ملک کی غالب اکثریت غربت اور خط غربت کے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور تعلیم و صحت اور تمام بنیادی ضرورتوں سے محروم ہے، دوسری طرف ملک کے باشندوں میں مذہبی بنیادوں پر باہم نفرت پھیلائی جا رہی ہے، تاکہ ملک کو درپیش اصل مسائل کی طر ف سے عوام کی توجہ ہٹ جائے اور ان کے مذموم مقاصد پورے ہو سکیں ۔
٭ ہم اس نازک موقع پر سب سے پہلے ملک کے تمام شہریوں سے یہ درد مندانہ اپیل کرتے ہیں کہ حالات کے اس سنگین رخ کو فرقہ پرست طاقتوں کے ناپاک ارادوں کو گہرائی سے سمجھیں اور آپس میں ایک دوسرے کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی اس سازش کو ہرگز کامیاب نہ ہونے دیں ۔
٭ ہم ملک کے تمام مذہبی رہنماؤں ، دانشوروں ، صحافیوں ، اساتذۂ کرام اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے ہر طبقے اور ہر فرد سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس وقت خاموش تماشائی نہ بنے رہیں ، بلکہ قائم کرنے اور قائم رکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں ۔
٭ ہم ملک کے ان تمام سیاسی قائدین سے بھی جو اپنے کو فسطائیت کا مخالف اور سیکولرزم کا علمبردار کہتے ہیں ، واضح لفظوں میں یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے حقیر مفادات پر ملک میں جمہوری روایات اور سیکولرزم کے تحفظ کو ترجیح دیں اور ایک مشترکہ منصوبہ بندی کے ذریعہ ملک کو درپیش داخلی و بیرونی خطروں سے بچانے کے مقصد کو ہر دوسرے مقصد سے مقدم رکھیں ۔
٭ حالات کے اس تناظر میں کہ ہندوستان کی مذہبی اقلیتیں اس وقت کھلم کھلا سرکاری دہشت گردی "State Terrorism” کا شکار ہیں ، ہم تمام اقلیتوں سے، خصوصاً ان کے رہنماؤں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایک منظم، اجتماعی، حوصلہ مندانہ اور مدبرانہ کوشش سے حالات کے مقابلے اور ملک کے ماحول کو ان برائیوں سے پاک کرنے کی جدوجہد کا آغاز کریں ۔
٭ ہم خاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں سے، جو طویل عرصے سے ظلم و تفریق (Discrimination) کا شکار ہیں ، اور اب پوری قوم کا حوصلہ، اس کا وقار، اس کے تعلیمی و تہذیبی مراکز، اس کی مذہبی جماعتیں اور تحریکات اور خصوصاً مسلم نوجوان، ظالمانہ حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں ، صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ ان حالات سے ہرگز خوفزدہ و ہراساں نہ ہوں ، بلکہ ان کو ایک چیلنج کی طرح قبول کر کے اس طرح اس کا مقابلہ کریں کہ:
۱- شریعت اسلامیہ سے اپنی عملی وابستگی کو اور بڑھائیں ۔
۲- ذات، برادری، خاندان کی تقسیم سے اوپر اٹھ کر، مسلک و مشرب کے تمام اختلافات سے بالاتر ہو کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں ، اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ اتحاد و اتفاق ہی زندگی ہے اور انتشار و اختلاف موت، لہٰذا اپنے مسلک اور مشرب کے اختلاف کو علمی دائرے تک محدود رکھیں اور امت کی اجتماعیت کو متاثر نہ ہونے دیں ۔
۳-اپنے نزاعی مسائل کو آپسی گفتگو سے حل کریں اور جہاں شرعی دار القضاء یا شرعی پنچایت موجود ہو وہاں اپنے مسائل اسی کے سامنے پیش کریں ۔
۴-اپنے پڑوسیوں اور ملک کے عام شہریوں سے رابطہ قائم کرنے میں پہل کریں ، اور اپنے اخلاق و معاملات اور خدمت خلق سے فاصلوں کو کم کرنے، غلط فہمیوں اور بد گمانیوں کو دور کرنے اور دلوں کو جیتنے کی کوشش کریں ، نیز یہ بھی یاد رکھیں کہ حسن اخلاق اور ہمت و عزیمت دونوں کی جامعیت اور حسین یکجائی سیرت اکرم ﷺ کا خاص پیغام ہے۔
نئے عزم و حوصلہ کی ضرورت
٭ ’’تہذیب و شائستگی، علم و ادب اور حوصلہ مندی و زندہ دلی کے گہوارے شہر حیدرآباد میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سولہویں اجلاس کے موقع پر ایک بار پھر ہم اپنے اس عہد کی تجدید کرتے ہیں ، کہ ہم اپنے محبوب وطن ہندوستان میں وحدت الٰہ، وحدت انسانیت، عدل و انصاف، امن و سلامتی، عفت و عصمت، شرافت و دیانت داری اور عقل و تدبر جیسی عالم گیر قدروں پر مشتمل اسلامی شریعت کے پابند بن کر زندگی گزاریں گے، اور بلا کسی تفریق کے سبھی انسانوں کو محبت اور خیرخواہی کے ساتھ خیر کی طرف دعوت دینے، بھلائیوں کی طرف بلانے اور بُرائیوں سے دور کرنے کی اپنی جد و جہد جاری رکھیں گے۔
٭ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ شیطانی طاقتیں راستہ میں رکاوٹوں کے پہاڑ کھڑے کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں ۔ مگر ہمارا پختہ یقین ہے کہ ان طاقتوں کو اپنی کارروائیاں کرنے کا موقع مالک کائنات کی طرف سے اپنے بندوں کے عزم و حوصلے اور ان کے ایمان و یقین کو آزمانے کی مصلحت سے ہی دیا جاتا ہے، اور جو لوگ اس آزمائش میں کھرے اترتے ہیں دنیا و آخرت کی کامیابی ان کے قدم چوم کر رہتی ہے۔
٭ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانانِ ہند کو یہ پیام دیتا ہے کہ:
٭ وہ اپنی منصبی اور دینی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی طرف متوجہ ہوں ، عزم و حوصلہ کے ساتھ ہر آزمائش کا مقابلہ کریں اور اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں دین حنیف کی مکمل پابندی کریں ۔
٭ ہم تمام علماء کرام، مشائخ عظام اور تمام مکاتب فکر کے نمائندہ حضرات سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ وہ موجودہ نازک ترین حالات میں فروعی و مسلکی اختلافات سے بالا تر ہو کر کلمہ کی بنیاد پر جذبۂ اتحاد اور اجتماعی شعور کے لئے ہر ممکن جد و جہد کریں ۔ ساتھ ہی وہ ہر گھر میں یہ پیغام بھی پہنچا دیں کہ معاشرتی بُرائیوں سے بچنے کا خاص اہتمام کیا جائے۔ گھروں میں الفت و محبت کا خوشگوار ماحول بنے، بے جا تقریبات میں فضول خرچیاں ، جہیز، گھوڑے جوڑے، لین دین جیسی غیر اسلامی رسوم کو ترک کیا جائے، اور اللہ کے عطا کردہ وسائل کو غربت و جہالت جیسی مہلک بیماریوں سے اپنے کروڑوں بھائیوں ، بہنوں اور بچوں کو نجات دلوانے کے تعمیری کاموں میں خرچ کرنے کی عادت ڈالی جائے۔
٭ ہم اپنے نوجوانوں سے کہتے ہیں کہ وہ ایک پاکیزہ اور حوصلہ مند وبا شعور کردار اپنائیں ، جہیز لینے سے انکار کرنا اور لڑکی والوں پر بوجھ نہ پڑنے دینا دراصل ان کی ذمہ داری ہے، وہ آگے آئیں اور محلوں کی سطح پر ان بُرائیوں سے اپنے معاشرہ کو پاک کرنے کی مہم کو تیز تر کر دیں ۔ ساتھ ہی ہم ان سے یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ موجودہ نازک حالات میں مشتعل ہو کر کوئی قدم اٹھانے کی بجائے سوچ سمجھ کر منصوبہ بند طریقہ پر اپنی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے مشورہ کے پابند ہو کر اقدام کرنے کی راہ اپنائیں ۔
٭ ہم اپنی خواتین سے کہتے ہیں کہ وہ بے حیائی و عریانیت کے اس ماحول میں حیا و حجاب اور عفت و عصمت کا نمونہ بنیں اور اپنے بچوں کی اسلامی تعلیم اور ایمانی و اخلاقی تربیت پر خاص دھیان دیں ، وہ شمع محفل بننے کی بجائے اپنے گھروں کو محبت و الفت اور سکون و اطمینان کا گہوارہ بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کریں ۔
٭ مغربی تہذیب نے خاندانی نظام کو درہم برہم کر کے پورے معاشرہ کو جس طرح روحانی اطمینان سے محروم کر دیا ہے اس میں ہم سب کے لئے کافی سامان عبرت ہے، بشرطیکہ ہمارے پاس دیدۂ عبرت نگاہ ہو۔ ہم مردوں اور عورتوں دونوں سے کہتے ہیں کہ شوہر اور بیوی کے باہم تعلقات کی بنیاد لطیف انسانی احساسات اور محبت بھری معاشرت پر ہے۔ باہم مسائل کو آپس ہی میں حل کرنے کی کوشش کریں اور ضرورت ہو تو اسلامی شریعت کے ماہرین سے رجوع کریں ۔
٭ حیدرآباد کے اس تاریخی اجلاس کے موقع پر ہم اس ملک کے کروڑوں انصاف پسند شہریوں ، صحافیوں ، دانش وروں ، تنظیموں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ مٹھی بھر فسطائی عناصر و دہشت گرد جس طرح ملک کی راہ عامہ کو گمراہ کر کے، اہل سیاست کی موقع پرست اور بے اصول سیاست سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے ملک کو باہم نفرت و عداوت اور لاقانونیت کی دوزخ میں جھونکتے چلے جا رہے ہیں ۔ آئیے! ہم سب مل جل کر اس صورت حال کے مقابلہ کے لئے بھرپور اجتماعی جد و جہد شروع کریں ۔ گجرات میں جہاں ریاستی دہشت گردی کے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیئے گئے، وہیں ایسے افراد اور تنظیموں کے بے شمار واقعات بھی دیکھنے میں آئے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی انسانیت زندہ ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ایسے تمام افراد اور تنظیموں کو سلام کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ہمارے درمیان بہتر رابطۂ باہمی کی شکلیں سامنے آئیں گی۔
٭ ہم اس موقع پر گجرات کے ہزاروں شہید مردوں اور عورتوں کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور ان بے شمار بیواؤں ، یتیم بچوں ، بے گھر لوگوں اور زخمیوں کو یقین دلاتے ہیں کہ پوری قوم آزمائش کی اس گھڑی میں آپ کے ساتھ ہے، اور انشاء اللہ آپ کو بے سہارا اور بے یار و مددگار نہیں چھوڑے گی۔
٭ ہم ان دہشت گرد، سماج دشمن اور فسطائی ذہنیت کے حامل افراد کو آگاہ کر دینا چاہتے ہیں جنہوں نے گجرات میں معصوم انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی ہے، کہ اسلام اور مسلمانوں کو اس سرزمین سے مٹا دینے کا ان کا خواب انشاء اللہ کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا، مسلمانوں کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے
٭ بورڈ یہ واضح کر دینا چاہتا ہے کہ مدارس اسلامیہ دینی و اخلاقی تعلیم کے مراکز ہیں ، ان کا دہشت گردی سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے، جو لوگ مدارس کے خلاف بے بنیاد اور گمراہ کن پروپگنڈہ کر رہے ہیں وہ دراصل مسلمانوں کو دین و تہذیب اور اسلامی تشخص سے محروم کر دینا چاہتے ہیں ، ہم مسلمانان ہند اس بات کا عزم کرتے ہیں کہ مدارس اسلامیہ کے خلاف اس مذموم مہم کو ناکام بنانے کی ہر ممکن جد و جہد کریں گے۔
٭ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ عالمی اور ملکی سطح پر اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی مذموم کوششوں پر اپنی سخت تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ اسلام دین رحمت ہے اور امن و آشتی اور اخوت و محبت اور عدل و انصاف پر مبنی ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرتا ہے جو ہر قسم کے ظلم و جور اور نا انصافی و استحصال سے پاک ہوتا ہے، وہ تمام انسانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اس گمراہ کن پروپگنڈہ سے متاثر ہو کر اسلام کے حقیقی کردار کو مجروح نہ کریں ‘‘۔
خلق خدا کی خدمت کیجئے
٭ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا یہ سترہواں اجلاس منعقدہ مونگیر بہار، ملک کی موجودہ صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے، دنیا کی تاریخ میں ایشیا ہی سے عالمگیر انسانیت اور حق و صداقت کی آواز بلند ہوئی ہندوستان کا امتیاز روحانیت کے گہوارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں اخلاقی اقدار و روحانی روایات کی پرورش ہوئی مگر اب دنیا کی یہ سب سے بڑی جمہوریت کو اقدار کی پامالی اور امتیاز سے محرومی کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ سیاسی مفادات اور مذہب کے استحصال کے ذریعہ ابھارے گئے جذبات نے مسیحاؤں کو بے آبرو کر دیا ہے، جذبات کے جنون میں حقائق و صداقتوں کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے، جمہوریت کی اساس احترام آدمیت اور مساوات ہیں ، جب انسانی خون کی آبرو نہ رہے ،کسی نہ کسی بہانے کسی گروہ یا طبقہ کے خون خرابے کو رد عمل قرار دیا جائے، قانون کو عوام کے چند گروہ اپنے ہاتھ لے لیں اور شہریوں کے درمیان مذہبی اور نسلی بنیادوں پر فرق قائم کرنے کی کوشش کی ہمت افزائی ہوتی رہے تو ایسے حالات میں جمہوریت دم توڑنے لگتی ہے، دستوری اداروں ، قومی انسانی حقوق کمیشن، الیکشن کمیشن عدالتوں اور سپریم کورٹ کی توہین کے ذریعہ ان کو بے وقعت کیا جا رہا ہے، ہتھیاروں کی تقسیم، دھاری دار اور آتشی اسلحہ کی تربیت کی ایک خاص تنظیم کو کھلی چھوٹ، فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کے آگے حکومت اور قانون کی بے بسی، اشتعال پذیری اور تشدد پسندی کو عوام کے ایک طبقہ کا مزاج بنانے کی کوشش، قتل و غارت گری پر ندامت کے بجائے فخر کا احساس اگر ان کو روکا گیا تو قانون کی عملداری ختم ہو جائے گی جس کے نتیجہ میں ملک نزاع کا شکار ہو جائے گا، صرف مسلمان اور دوسری اقلیتیں ہی نہیں بلکہ ملک اور سب اہل وطن کا عظیم نقصان ہوگا۔
٭ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ پوری درد مندی کے ساتھ تمام اہل ملک کو آواز دیتا ہے کہ وہ ملک کو بچانے اور دنیا کی اس عظیم جمہوریت کو قائم رکھنے کے لیے کمربستہ ہو جائیں ، سطحی جذبات سے بلند ہو کر دیکھیں کہ چند ماہر اپنے سیاسی اغراض کی خاطر ملک کو تباہی کے راستہ پر لے جا رہے ہیں ، ہتھیاروں کی تقسیم اور ان کے استعمال کی تربیت پر روک لگانے کی کوشش کریں ، بلا لحاظ فرقہ و طبقہ انسانیت کی بنیاد پر بھائی چارگی کو فروغ دیں ، تشدد کے رجحان کے خلاف صف آرا ہوں، حق و صداقت، عدل و انصاف اور قانون کے احترام کی قدروں کو پروان چڑھائیں اور اس ملک دوستی کے عمل کو ایک مہم اور تحریک بنانے کی کوشش کریں ۔
٭ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا یہ اجلاس مسلمانان ہند پر یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ موجودہ حالات کا وہ عزم و حوصلے اور فراست و دانشمندی کے ساتھ مقابلہ کریں ۔ ان کے بدخواہ اشتعال میں ان کو لا کر نشانہ بنانا چاہتے ہیں ، جو ان مشتعل ہونے کی بجائے سوچ سمجھ سے کام لیں ۔ یہ یاد رکھیں کہ ہند برادران وطن کی بہت بڑی اکثریت قتل و غارت گری اور خون خرابہ سے نفرت کرتی ہے وہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو قائم و برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور عدل و انصاف کی قدر جانتے ہیں ، مسلمان جہاں کہیں ہوں اپنے حلقوں میں ، دفاتر میں ، بازار میں ، کارخانوں میں ساتھ رہنے یا ساتھ کام کرنے والے غیر مسلم برادران وطن سے اپنے سماجی تعلقات کو استوار کریں ، ان کے دکھ درد میں شریک ہوں اور انسانی ہمدردی کا اپنے عمل کے ذریعہ مظاہرہ کریں اور اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں ، وہ ہمیشہ سچ بولیں ، دھوکہ نہ دیں ، امانت دار یعنی دیانت ان کی خصوصیت بن جائے اور مخلوق خدا کی خدمت کی راہ اپنائیں ۔
٭ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانان ہند سے یہ بھی کہنا چاہتا ہے کہ وہ مصائب سے نہ گھبرائیں پورے یقین کے ساتھ دین پر جمے رہیں ۔ اسلام پر کئے جانے والے بے بنیاد اعتراضات کا سلیقہ کے ساتھ مگر بے لاگ جواب دیں ، ان حالات نے موقع فراہم کیا ہے کہ اہل وطن پر اسلام کی حقانیت ، اس کی انسانیت نوازی اور اسلامی تعلیمات میں عدل و احسان کی کارفرمائی کو پیش کریں ، اس کا م کے لیے اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کریں اور سخت محنت سے پیچھے نہ ہٹیں ، شریعت اسلامی اس دین مبین کا اٹوٹ جز ہے، اس کو مضبوطی سے تھامے رہیں اور اللہ رب العزت پر مستحکم ایمان کے ساتھ جہد مسلسل کے لیے کمربستہ ہو جائیں تو ان شاء اللہ بدلیاں چھٹیں گی، تاریکی دور ہوگی اور امید کی کرنیں ضو فشاں ہوں گی۔
اخلاقی و روحانی قدروں کو بحال کیجئے
٭ اس وقت اُمت اسلامیہ نہایت ہی نازک دور سے گزر رہی ہے ، اور موجودہ عالمی حالات نے تاتاری فتنہ سے بھی زیادہ سخت آزمائش میں مسلمانوں کو ڈال دیا ہے، مغربی ذرائع ابلاغ اسلام کی صورت مسخ کرنے اور دین حق کے بارے میں شکوک و شبہات ابھارنے میں سرگرم ہیں ، اس پروپیگنڈہ کا اثر ہمارے ابنائے وطن پربھی پڑنا اور ان کا ایسی باتوں سے متاثر ہونا ایک فطری امر ہے، یہ بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمانوں میں مسلکی ، فروعی ،لسانی اور علاقائی اختلاف کو ہوا دی جائے اور انہیں باہمی جھگڑوں میں الجھا کر رکھ دیا جائے ، تاکہ وہ ایک بکھری ہوئی امت بن کر رہیں ، اور تعمیری و دعوتی کاموں کی طرف ان کی توجہ نہیں ہو سکے، اس پس منظر میں :
٭ ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اسلام کے بارے میں با شعور اور احکام شریعت اور اس کے پس منظر سے پوری طرح آگاہ ہوں ، ہمارا ایمان ہے کہ شریعت اسلامی رب کائنات کی اتاری ہوئی شریعت ہے، جو انسان کی ضروریات، خواہشات و جذبات اور اس کے نفع و نقصان سے پوری طرح با خبر ہے ،اس کا ہر حکم فطرت انسانی سے ہم آہنگ ، سماجی مصالح کے مطابق اور انسان کے لئے فائدہ پر مبنی ہے، ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم خود احکام شریعت اور ان احکام کے باہمی ارتباط اور ان کی سماجی اور عمرانی مصلحتوں اور حکمتوں سے واقف نہیں ہیں ، ضرورت ہے کہ ہم خود قانون شریعت کا مطالعہ کریں ، اور اپنے اندر اس بات کی لیاقت پیدا کریں کہ لوگوں کی غلط فہمیوں کو دور کر سکیں ، اس طرح ہم خود بھی اس غلط پروپیگنڈہ سے متاثر ہونے سے بچ سکیں گے، اور دین رحمت کی ترجمانی کا حق بھی ادا کر سکیں گے۔
٭ کسی بھی قانون کی نافعیت اور افادیت کو لوگ محض کتابوں کے اور اق میں دیکھنا نہیں چاہتے، بلکہ عملی زندگی میں اس کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں ، اس لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم خود قانون شریعت کی پوری پوری اتباع کریں ، قرآن میں جتنی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ سماجی اور خاندانی زندگی کے قوانین پر روشنی ڈالی گئی ہے، عبادات کے بارے میں بھی اس تفصیل سے احکام بیان نہیں کئے گئے ہیں ، اس سے شریعت کے سماجی قوانین کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، ہمارا فریضہ ہے کہ ہم ان قوانین پر عمل کر کے انسانیت کے سامنے اسلام کی روشن اور انسانیت نواز تعلیمات کا نمونہ پیش کریں ۔
٭ خاص طور پر ہمیں خواتین کے حقوق اور ان سے متعلق ذمہ داریوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اسلام نے عورتوں کو بلند مقام عطا کیا ہے، اور وہ حقوق دیئے ہیں ، جن کی دوسرے مذاہب اور نظامہائے قانون میں مثال نہیں ملتی، ان قوانین پر عمل کرنے میں نہ صرف ہمارے لئے آخرت کی کامیابی ہے، بلکہ دنیا میں بھی اس سے انسانی سماج کی فلاح و بہبود متعلق ہے، مغرب نے عورتوں کو حقوق اور آزادی کے نام پر متاع خرید و فروخت بنا دیا ہے، اور آج مختلف طریقوں سے ان کے ناموس اور آبرو کو پامال کیا جا رہا ہے، مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ خواتین کے حقوق پوری فراخ دلی کے ساتھ ادا کریں ، بوڑھے والدین کی خدمت ، بیوی کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک ، بیٹیوں اور بہنوں کو حق میراث کی ادائے گی، شادی بیاہ میں فضول خرچی اور زر طلبی سے اجتناب کر کے ابناء وطن کے سامنے شریعت کی حقیقی تصویر پیش کریں ، اسی طرح ہم تحفظ شریعت کا فریضہ ادا کر سکیں گے اور عدل و انصاف جو شریعت کے تمام احکام کی روح ہے، کا تقاضا پورا ہو سکے گا۔
٭ پوری ملت اسلامیہ کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے باہمی اختلافات اور خاندانی نزاعات کو دار القضاء میں لائیں ، اور کتاب و سنت کے مطابق جو فیصلہ ہو، اس پر اپنے آپ کو راضی رکھیں ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مسلمان جب تک اپنے آپسی اختلاف میں اللہ کے رسول کو حکم نہ بنائیں مسلمان نہیں ہو سکتے، اور اللہ کے رسول کو حکم بنانے کی صورت یہی ہے کہ جو قاضی شریعت اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق فیصلہ کرتا ہو، اس کے فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا جائے، اس میں خدا اور رسول ؐ کی خوشنودی بھی ہے، آخرت کی سرخروئی بھی ہے اور دنیا میں بھی ہماری عزت و آبرو اور مال و زر کی حفاظت ہے، کیونکہ آپ اسی نظام قضاء سے سستا اور سچا انصاف حاصل کر سکتے ہیں ۔
٭ اس وقت پوری دنیا میں بشمول ہمارے ملک ہندوستان میں اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمان چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹ جائیں ، گروہی، مسلکی اختلاف کو ابھارا جائے، اور امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا جائے، ہمارا فریضہ ہے کہ ہم دشمنوں کی چال کو سمجھیں اور کسی بھی قیمت پراس سازش کا شکار نہ ہوں ، ہم سب ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں ، ایک رسول پر ایمان رکھتے ہیں ، ایک کتاب ہمارے لئے ہادی و رہنما ہے، ہمارا قبلہ ایک ہے، دین کے بنیادی فرائض اور شریعت کے بنیادی قوانین کے بارے میں ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں ، اتنی ساری وحدتوں کو نظر انداز کر کے اختلاف کا اسیر بن جانا نہایت افسوسناک ہے، جن لوگوں کے درمیان فکر و نظر کا ایسا اختلاف ہے کہ گویا وہ دریا کے دو کنارے ہوں ، اسلام کی عداوت اور مخالفت نے ان کو متحد کر دیا ہے، اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے وہ کاندھے سے کاندھا ملائے ہوئے ہیں ، اگر ہم آزمائش کی اس فضاء میں بھی ایک دوسرے سے ٹوٹے رہیں ، تو یہ یقیناً انتہائی بدبختی کی بات ہوگی۔
٭ بورڈ کے اس اجلاس کے موقع پر ہم ابناء وطن سے بھی عرض کرتے ہیں کہ ہندوستان ہم سبھوں کا وطن ہے، ہم سب اس کی فضاؤں میں پلے ہیں ، اور غالباً ہم سب کو اسی کی خاک کا پیوند ہونا ہے، اس لئے اپنے اس ملک سے محبت اور خیر خواہی ایک فطری امر ہے، یہ ملک — جس کی پہچان مذاہب اور تہذیبوں کی کثرت ہے،—- ہم سبھوں کے آباء و اجداد کی کوشش سے آزاد ہوا ہے اور پروان چڑھا ہے، مذہبی قدروں کا احترام اور اخلاقی پیمانوں کا لحاظ اس ملک کی سرشت میں ہے، محبت ، رواداری، حیاء اور مروت سینکڑوں سال سے اس ملک کا ورثہ رہا ہے، موجودہ حالات میں گلوبلائزیشن کے نام پر اور میڈیا کے ذریعہ جو تہذیبی یلغار ہمارے ملک پرکی جا رہی ہے، اور اسے اس کی اخلاقی روایات اور شرم و حیاء پر مبنی اقدار سے محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ہم سبھوں کو مشترکہ طور پر اور کاندھے سے کاندھا ملا کر اس کا مقابلہ کرنا ہوگا، اور متحدہ و مشترکہ جدوجہد کے ذریعہ اس ملک کی مذہبی قدروں کو بچانا ہوگا، ہم مغرب کی علمی اور تکنیکی ترقی سے استفادہ کرنے کے خلاف نہیں ہیں ، لیکن ہم مادی ترقی کے نام پر اپنے روحانی ورثہ سے محرومی اور اخلاقی روایات کی پامالی کو بھی گوارہ نہیں کر سکتے۔
٭ ہم اس موقعہ پر تمام مذہبی پیشواؤں ، روحانی شخصیتوں اور سماجی و اصلاحی تنظیموں سے خواہش کرتے ہیں کہ مغربی تہذیب کے زیر اثر مادیت کے غلبہ نے ایک اخلاقی اور روحانی خلا پیدا کر دیا ہے، یہ صورت حال کسی بھی طرح ہمارے اس ملک کے حق میں مفید نہیں ہے، یہ مادیت شہوات کی غلامی کی طرف لے جاتی ہے اور فطرت سے بغاوت پر آمادہ کرتی ہے اور بالآخر یہ کسی بھی قوم کی تباہی و بربادی کا سبب بنتی ہے، اس لئے اہل مذہب، مذہبی پیشواؤں ،رہنماؤں ،سلیم الفکر سماجی تنظیموں اور کارکنوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میں رہنے والوں کو مادہ پرستی کی رو میں بہنے نہ دیں اور ان میں مذہبی ، روحانی اور اخلاقی قدروں کو باقی رکھنے کے لئے جد و جہد کریں ۔
٭ بورڈ کا یہ اجلاس مسلمانوں کے مذہبی قائدین ، علماء، مشائخ اور دانشوروں کو یاد دلاتا ہے کہ امت کی اصلاح کرنا، سماج کو شرعی احکام کا پابند بنانا اور مسلمانوں کو غیر شرعی رسم و رواج سے بچانا آپ کا فریضہ منصبی ہے، اور اس سلسلہ میں آپ عند اللہ جوابدہ ہیں ، اس لئے آپ کو چاہئے کہ کتاب و سنت کے مقرر کئے ہوئے اصول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ اصلاح کے نمونہ کو سامنے رکھتے ہوئے امت کی اصلاح اور خاص کر معاشرہ کی بگاڑ سے حفاظت کی طرف پوری پوری توجہ دیں ، اور برادران وطن کے سامنے بھی اسلام کے سماجی نظام کی اہمیت، شریعت میں خواتین کے حقوق کی پاسداری، پوری انسانیت کے ساتھ امن و سلامتی ، صلح جوئی، اور حسن سلوک کی اسلامی تعلیمات کو پیش کریں تاکہ حقائق لوگوں کے سامنے آ سکیں اور غلط فہمیاں دور ہو سکیں ۔
قول و عمل کے ذریعہ اسلام کی صحیح تصویر پیش کریں
٭ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا یہ نمائندہ اجلاس جس میں مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر، مختلف جماعتوں اور تنظیموں کے نمائندے شریک ہیں ، مسلمانانِ عالم کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں کو مسلکی، تنظیمی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے ، ان کی صفوں میں بکھراؤ پیدا کرنے اور انہیں ایک دوسرے کے خلاف اکسانے کی منظم سازش کی جا رہی ہے، جس کا مقصد امت مسلمہ کو کمزور، بے اثر اور بے وقار کرنا اور ان کے اختلاف سے فائدہ اٹھا کر مغربی استعماریت کو تقویت پہنچانا نیز عالم اسلام اور ترقی پذیر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا اور بالواسطہ طریقہ پر پوری دنیا میں صیہونی تسلط قائم کرنا ہے، مسلمان خواہ کہیں بھی ہوں اور ان کا تعلق کسی بھی رنگ و نسل اور زبان و علاقہ سے ہو، لیکن وہ ایک ہی امت کے افراد ہیں ، اور پیغمبر اسلام ﷺ نے حاملین حق کا جو قافلہ مرتب کیا ہے وہ اس کا ایک حصہ ہے، اس لئے تمام مسلمانوں کو اور خاص کر عالم اسلام کو مغرب کی اس سازش کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے اور ہرگز ان کا آلۂ کار نہیں بننا چاہئے۔
٭ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس امت کے درمیان جتنے اختلافی مسائل ہیں ان سے کہیں زیادہ وہ امور ہیں جن پر پوری امت کا اتفاق ہے، موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ اختلافی نکات کو ابھارنے کے بجائے مشترک قدروں کو سامنے رکھتے ہوئے اتفاق و اشتراک کی فضاء پیدا کی جائے، اور دشمنانِ اسلام کو اس کا موقع نہ دیا جائے کہ وہ ہماری صفوں میں بکھراؤ پیدا کر دیں۔
٭ اس اجلاس کا احساس ہے کہ مغربی طاقتیں نہ صرف مسلمانوں میں انتشار پیدا کر رہی ہیں ، بلکہ جو لوگ اپنے آپ کو تہذیب کا علمبردار اور انسانی حقوق کا پاسدار کہتے ہیں وہی امتِ مسلمہ کے جذبات کو مجروح کرنے اور ان کے دلوں کو زخمی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں ، مذہب سے دوری بلکہ مذہبی افکار و اقدار سے بیزاری ،نفسانیت اور مادیت کی غلامی کی وجہ سے مغربی اقوام کو اس کا احساس بھی شاید باقی نہیں رہا کہ مسلمان اپنے مذہبی شعائر کے ساتھ کتنی محبت و توقیر کے جذبات اور اسلامی شعائر پر اپنی جان نثار کر دینا ’’کھونا‘‘ نہیں بلکہ ’’پانا‘‘ ہے۔گذشتہ دنوں اہانت آمیز کارٹون اور بعض دوسرے اشتعال انگیز بیانات کے ذریعہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی بالارادہ کوشش کی گئی ہے، ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ایسی ناشائستہ حرکتیں انسانی حقوق کے احترام کے مغائر ہیں اور انسانی شرافت اور علمی دیانت کے بھی خلاف ہیں ، اس لئے دنیا میں امن و آشتی کو قائم رکھنے اور بقاء باہم کے اصول پر تمام گروہوں کے اپنے تشخصات کے ساتھ باقی رہنے کے لئے ایسی دل آزار حرکتوں سے اجتناب کرنا ضروری ہے اور مسلمانوں نے قرآن شریف کی ہدایت کے مطابق ہمیشہ دوسروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے سے اجتناب کیا ہے۔
٭ یہ اجلاس مسلمانوں سے بھی اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے خلاف ہونے والی منصوبہ بند کوششوں پر نظر رکھیں ، کچھ فرقہ پرست عناصر کوشاں ہیں کہ مسلمانوں کو مشتعل اور بے برداشت کیا جائے، ایسی باتیں کہی جائیں کہ مسلمان سڑک پر نکل آئیں اور پھر مشتعل مزاجی کے نام پر انہیں بدنام کیا جائے اور مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، مسلم دشمنی کے نام پر ہندوستان کے اکثریتی فرقہ کو متحد کیا جائے اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھایا جائے، ہم سمجھداری سے کام لے کر بے موقع اشتعال سے بچ کر ایسی سازشوں کو ناکام و نامراد کر دیں ۔
٭ اجلاس کو اس بات پر افسوس ہے کہ ذرائع ابلاغ جن کا فریضہ حقائق اور سچائیوں کو پیش کرنا ہے اور جن کا معاشرہ کی تعمیر میں نہایت اہم کردار ہے وہ بہت سی دفعہ صحیح راہ سے منحرف ہو جاتے ہیں اور کسی خاص گروہ کو بدنام، بے آبرو اور بے توقیر کرنے کے لئے دانستہ یا نا دانستہ کچھ لوگوں کا آلۂ کار بن جاتے ہیں ، کسی بات کو بلا تحقیق ایک واقعہ کی حیثیت سے پیش کرنا، کسی واقعہ کی غلط توجیہ کرنا، یا اس کے صرف ایک پہلو کو پیش کرنا اور دوسرے کو نظرانداز کرنا بددیانتی ہے، گذشتہ دنوں عالمی سطح پر بھی اور ہندوستان کی سطح پر بھی بعض واقعات کے سلسلہ میں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی جو کوششیں کی گئیں وہ نہایت ہی افسوسناک اور قابل مذمت ہیں ، بورڈ ذرائع ابلاغ کے اداروں سے خواہش کرتا ہے کہ وہ اپنے فریضۂ منصبی کو محسوس کریں ، مسلمانوں کی کردار کشی کے رویہ سے بچیں اور مسلمان جماعتوں ، تنظیموں ، اداروں اور شخصیتوں سے بھی اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے قول و عمل کے ذریعہ اسلام کی صحیح تصویر لوگوں کے سامنے پیش کریں اور اس بات کو ملحوظ رکھیں کہ ہمارے گروہی اختلافات قانونِ شریعت کی غلط تصویر پیش کئے جانے کا سبب نہ بن جائیں ۔
٭ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف نہ صرف عسکری بلکہ فکری یلغار بھی جاری ہے اور اس صورت حال نے صلیبی جنگوں کی یاد تازہ کر دی ہے، لیکن مسلمانوں کو ایسے واقعات سے ہرگز حوصلہ نہ ہارنا چاہئے اور شکستہ دل نہیں ہونا چاہئے، عالم اسلام اور امت مسلمہ پر پہلے بھی ایسے حالات گزر چکے ہیں ، ان حالات نے وقتی طور پر مسلمانوں کو ضرور زخم پہونچایا ہے، لیکن اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کی اپنے دین سے وابستگی پر کبھی کوئی آنچ نہ آ سکی، موجودہ سخت اور مشکل ترین حالات کی بہت سی خوشگوار جہتیں بھی ہیں ، مسلمانوں کی ایمانی حمیت میں اضافہ ہوا ہے، نئی نسل میں اپنے دین سے وابستگی اور اس کے لئے ہر طرح کی قربانی کا جذبہ بڑھا ہے، پوری دنیا میں دعوت اسلام کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں ، لوگ قرآن مجید اور پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں جاننے اور حقائق کو سمجھنے کے لئے کوشاں ہیں ، اور یہ سوچ مسلمانوں کے لئے نہایت ہی نتیجہ خیز اور ثمر آور ہے، کیوں کہ مسلمانوں کو تو شکست دی جا سکتی ہے، لیکن اسلام کو شکست نہیں دی جا سکتی ہے، اس دین کو معقولیت، قانون فطرت سے ہم آہنگی، دل و دماغ کو فتح کرنے کی صلاحیت اور اس کی سادگی اور انسانی ضرورتوں و مصلحتوں سے توافق وہ خوبیاں ہیں جنہوں نے ہمیشہ مخالف فاتحین کے دلوں کو فتح کیا ہے، اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ حوصلہ و ہمت سے کام لیں ، شکستہ دل نہ ہوں ، اور اپنے اندر داعیانہ کردار پیدا کرنے کی کوشش کریں ۔ اس بات کو فراموش نہ کریں کہ مسلمان جس ماحول میں رہتا ہے وہ وہاں خیر، انسانیت نوازی، عدل و انصاف کی قدروں کو فروغ دیتا ہے اور مسلمانان ہند نے اپنی اسی ذمہ داری کو فراموش کر دیا وہ اس ملک میں انسانیت نوازی، عدل و انصاف، غم خواری و ہمدردی کے نقیب اور علمبردار بن کر ابھریں ۔
٭ مسلمانوں کو یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہئے کہ موجودہ حالات میں پوری دنیا میں عموماً اور ہندوستان میں خصوصاً اسلام کی حفاظت اور امت کو ان کے دین سے جوڑے رکھنے میں دینی مدارس کا نہایت اہم کردار ہے، اگر کہا جائے کہ یہ مسلمانوں کے ملی و مذہبی وجود کے لئے شہ رگ کا درجہ رکھتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا، مدارس کے اس کردار کو باقی رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس امت کے تعاون سے چلیں اور حکومت کے اثر سے آزاد رہیں ، اسی لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے حکومت کے زیر نگرانی ’’مدرسہ بورڈ ‘‘ کے قیام کی تجویز سے اختلاف کیا ہے، مسلمان مدارس و مکاتب کے نظام کو فروغ دیں ، اس کو تقویت پہنچائیں اور اس دوستی نما دشمنی سے اپنی تعلیم گاہوں کو بچائیں ، ورنہ تعاون کے نام پر بتدریج مدارس کے نظام میں مداخلت کی راہ ہموار ہوگی، اور اس کے نقصانات نہایت سنگین ہوں گے، اسی لئے مدارس کے ذمہ داروں اور اساتذہ کا فریضہ ہے کہ وہ ان اداروں کو دوسروں کے تعاون سے بے نیاز رکھیں ۔
٭ ہر قیمت پر اپنی صفوں کو متحد رکھنا، اپنے قول و فعل کے ذریعہ اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنا، اپنے اجتماعی فیصلوں میں حکمت و تدبر کے پہلو کو محفوظ رکھنا،بے موقع اشتعال سے اپنے آپ کو بچانا اور دینی مراکز کو تقویت پہنچانا موجودہ حالات میں پوری دنیا کے مسلمانوں اور خاص کر مسلمانانِ ہند کی ذمہ داری ہے، اس کے بغیر ہم ان سازشوں کو ناکام نہیں بنا سکیں گے، جس کے جال ہمارے گرد بُنے جا رہے ہیں ۔
برادران وطن تک اسلام کے فلسفہ قانون کو پہنچائیں
٭ شریعت اسلامی خدا کی بھیجی ہوئی آخری شریعت ہے،جس سے قیامت تک انسانیت کی ہدایت و فلاح متعلق ہے، مسلمان اس دین خداوندی کے امین ہیں اور پوری انسانیت تک خدا کے اس پیغام کو پہنچانا امت کا فریضہ ہے،اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم خود اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہوں ،اور اس کے مطابق عمل کریں ، اگر ہم خود شریعت پر عمل پیرانہ ہوں اور اس بات کی توقع رکھیں کہ حکومت ہمارے قانون کی حفاظت کرے گی، تو یہ سادہ لوحی ہوگی، آج مسلم معاشرہ میں بہت سی برائیاں در آئی ہیں ، خاص کر شادی بیاہ میں بے جا مطالبہ، فضول خرچی، رشتہ داروں کے حقوق سے بے اعتنائی،بیوہ اور مطلقہ عورتوں کا نکاح نہ ہونا اور ان سے متعلق حقوق کی عدم ادائیگی، عورتوں کو حق میراث سے محروم رکھنا اور ایک دوسرے کے ساتھ ربط و تعلق میں شریعت اسلامی کو رہنما بنانے کے بجائے رسم و رواج کو معیار بنانا، یہ ایسی برائیاں ہیں ،جو آج دوسرے ہمسایوں سے متاثر ہو کر مسلم سماج کا حصہ بن چکی ہیں ، علماء اور خطباء کا فریضہ ہے کہ وہ ان کے بارے میں پوری قوت کے ساتھ عام مسلمانوں کو آگاہ کریں ،مذہبی تنظیموں ، سماجی کارکنوں اور تعلیمی اداروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ ٔ اثر میں سماج کو ان برائیوں سے دور رکھنے میں اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کریں اور مثالی اسلامی معاشرہ کی تشکیل کریں ، ایسا معاشرہ جس میں کسی پر ظلم نہ ہوتا ہو، ایسا معاشرہ جس میں کوئی شخص کس مپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور نہیں ہو، ایسا معاشرہ جس میں تمام طبقات کو اس کے حقوق دئیے جاتے ہوں ، کیوں کہ ہم اپنے عمل سے ہی اسلام کا صحیح اور مؤثر تعارف کرا سکتے ہیں ۔
٭ شریعت پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں اور خاص کر قانون دانوں اور دانشوروں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اسلامی شریعت پوری طرح انسانی فطرت، انسانی ضرورتوں اور عقل کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے،جس میں ہر طبقہ کے ساتھ عدل و انصاف اور حقوق کے درمیان توازن اور اعتدال سے کام لیا گیا ہے، کیوں کہ یہ شریعت خدا کی بھیجی ہوئی ہے اور خدا سے بڑھ کر انسان کی ضرورتوں اور مصلحتوں سے کوئی اور ذات آگاہ نہیں ہو سکتی،افسوس کہ اس بات پر بہت کم توجہ دی گئی کہ جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں میں شریعت اسلامی کی تفہیم کی کوشش کی جائے، بحمد للہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس کا بیڑا اٹھایا ہے اور وہ خاص طور پر محقق علماء،ارباب افتاء ،وکلاء اور دانشوروں سے اپیل کرتا ہے کہ اس موضوع پر باہمی مذاکرات رکھے جائیں ، قانون شریعت کو سمجھا اور سمجھایا جائے اور برادران وطن تک بھی اسلام کے فلسفۂ قانون کو پہنچایا جائے۔
٭ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانوں کو اس جانب متوجہ کرتا ہے کہ حق کے مقابلہ میں ہمیشہ باطل کی یلغار ہوتی رہی ہے، قرآن مجید میں انبیاء کے جو قصص و واقعات ذکر کئے گئے ہیں ،وہ اس حقیقت پر گواہ ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ باطل کے پرستاروں نے داعیان حق کا استقبال کیا ہو اور انہیں پھولوں کے ہار پہنائے ہوں ، بلکہ ہمیشہ ان کی راہ میں کانٹے بچھائے گئے، سبّ و شتم سے ان کا استقبال کیا گیا، انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی گئی، یہاں تک کہ بعض دفعہ انہیں ترک وطن پربھی مجبور ہونا پڑا، آج بھی دنیا میں اسلام اور امت اسلامیہ کے خلاف جو فکری،تہذیبی اور عسکری یلغار ہو رہی ہے اور ذرائع ابلاغ کی قوت سے فائدہ اٹھا کر مظلوموں کو ظالم کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا رہا ہے، یہ اسی کا تسلسل ہے اور انشاء اللہ بالآخر حق اور سچائی ہی کو کامیابی حاصل ہوگی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی گروہ کا راہ حق پر قائم رہنا اور باطل کے سامنے سرنگوں نہیں ہونا بجائے خود اس کی کامیابی ہے،اس لیے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے دین پر پوری قوت کے سا تھ ثابت قدم رہیں ، وہ معاندین کی ریشہ دوانیوں سے مرعوب نہ ہوں اور اپنے آپ کو بہرحال احساس کمتری سے بچائیں ، کیوں کہ دنیا میں یہی ایک ایسی امت ہے جو اپنے پاس خدا کی محفوظ کتاب رکھتی ہے، جس کا رشتہ ایسے نبی سے ہے جس کی نبوت قیامت تک کے لیے ہے اور جو اس گئی گزری حالت میں بھی واحد ایسی قوم ہے، جو اپنی عملی زندگی میں خدا کے بھیجے ہوئے دین سے مربوط ہے، اس وقت مغرب کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں پر جو پتھر پھینکے جا رہے ہیں ،اس کی مثال ان پتھروں کی سی ہے جو محروم لوگوں کی طرف سے کسی پھل دار درخت پر پھینکے جاتے ہیں ۔
٭ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے دو باتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں ،دین پر استقامت اور اتحاد امت،اگر مسلمان اپنی صفوں میں وحدت کو باقی رکھیں اور بکھراؤ نہ پیدا ہونے دیں ، تو ان کی طاقت بے پناہ ہو جائے گی، کیوں کہ وہ حقیقی معنوں میں ایسی امت ہیں ، جو پوری دنیا میں عددی اعتبار سے اکثریت کی حامل ہے، جس میں افرادی قوت میں اضافہ کی رفتار تمام مذاہب کے ماننے والوں سے زیادہ ہے اور جو اپنے فکر و عقیدہ کے اعتبار سے انسانی وحدت کی داعی ہے، خود ہمارے ملک میں وہ دوسری بڑی اکثریت ہے اور ملک کے چپہ چپہ پرنہ صرف اس کے وجود کے،بلکہ اس کی خدمات کے نقوش بھی ثبت ہیں ۔
٭ بورڈ کا یہ اجلاس حکومت ہند کو نہایت افسوس کے ساتھ اس رویہ پر متنبہ کرتا ہے کہ وہ مظلوموں کی ناصر و مددگار ہونے کے بجائے ظالموں کے ساتھ دوستی کا حق ادا کر رہی ہے، وہ امریکہ کی ہر آواز پر لبیک کہتی ہے اور اس کے غیر حقیقت پسندانہ رویہ کی بھی آنکھ بند کر کے تائید کرتی جا رہی ہے، حالاں کہ افغانستان و عراق اور ایران کے معاملہ میں اس کا نا منصفانہ اور جابرانہ طرز عمل کھلی کتاب ہے، اسرائیل سے ہمارے ملک کے بڑھتے ہوئے تعلقات فلسطینیوں کی مظلومیت اور ان کے خلاف روا رکھی جانے والی دہشت گردی کو تقویت پہنچانے کا ذریعہ ہیں ، حکومت کو اپنے اس رویہ سے باز آ جانا چاہئے۔ ہندوستان غیر جانبدار تحریک کے بانی ممالک میں ہے، جس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر انصاف کو قائم رکھنا اور کمزور چھوٹے ممالک کی سالمیت کو یقینی بنانا تھا، اس سے زیادہ افسوس ناک بات اور کیا ہوگی کہ خدا نے جس خطہ کو مقتدا اور رہنما کی حیثیت دی ہے، وہ بعض ظالم و جابر بڑی طاقتوں کا آلۂ کار بن کر رہنے پر راضی ہو جائے۔
٭ بورڈ کا یہ اجلاس سرمایہ دار مسلمانوں اور تجارت پیشہ لوگوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اس ملک میں جدید ذرائع ابلاغ میں حصہ دار بننے کی کوشش کریں ، خاص کر انگریزی ا ور مقامی زبانوں میں پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا کے ذریعہ عام لوگوں تک درست اور سچا پیغام پہنچانے کی سعی کریں ، تاکہ لوگ پروپیگنڈوں اور غلط فہمیوں کی دنیا سے باہر آ سکیں ، اور حقائق سے واقف ہونے میں ان کی مدد ہو سکے۔
٭ بورڈ عالمی اور ملکی سطح پر اس طرز عمل کی سخت مذمت کرتا ہے کہ بلا تحقیق مسلمان نوجوانوں پر الزام عائد کیا جاتا ہے اور الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی ان کے ساتھ وہ طرز عمل اختیار کیا جاتا ہے، جو شاید مجرموں کے ساتھ بھی اختیار کرنا انسانیت،اخلاق اور انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے خلاف ہے۔دہشت گردی کی تعریف آج بین الاقوامی سطح پر نہ تنظیم اقوام متحدہ نے متعین کی اور نہ ملکی سطح پر اس کو متعین کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بے قصور کی جانب و مال پر حملے کو جس نے کوئی جرم نہ کیا ہو قرآن کریم انسانیت کے خلاف جرم(Crime against Humanity) قرار دیتا ہے۔چاہے یہ حملہ فرد کرے،کوئی گروہ یا ریاست یا حکومت کی جانب سے ہو دراصل یہی دہشت گردی ہے۔ مسلمان ہرگز دہشت گردی کی تائید نہیں کرتا، لیکن یہ متعین کرنا ضروری ہے کہ دہشت گردی کیا ہے؟ ا ور دہشت گردی کے اسباب کیا ہیں ؟ جب کسی قوم کو انصاف حاصل نہیں ہوتا ہے اور وہ یہ سمجھنے لگتی ہے کہ کوئی ایسی جگہ موجود نہیں ہے، جوان کو انصاف فراہم کرے تواسی سے لاقانونیت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں ۔ اس لیے حکومت کو چاہئے کہ وہ ان اسباب پر بھی غور کرے، جو دہشت گرد پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں اور تمام لوگوں کو یکساں طریقہ پر انصاف فراہم کرے، تاکہ دہشت گردی کی جڑیں کھوکھلی ہو جائیں ۔ دہشت گردی کو صرف قانون و نظم(Law and Order)کا مسئلہ نہ سمجھا جائے اور حکومت اس کے اسباب پر غور کر کے اور جن کو مظلومیت کا شدید احساس ہے ان کی شکایات کا ازالہ کرے اور ان کو انصاف کا یقین دلائے، نیز اس سلسلہ میں امریکہ کی ہدایات کو اپنے لئے مشعل راہ نہ بنائے، کیوں کہ امریکہ اس وقت جن لوگوں کو دہشت گرد قرار دے رہا ہے، ان سب کو خود اسی نے پروان چڑھایا ہے، وہ خود افراد اور حکومتوں کو ان لوگوں کے خلاف استعمال کرتا ہے، جن کو زیر کرنا مقصود ہو، اور جب ان کا رخ امریکہ کی ظلم و زیادتی کی طرف مڑتا ہے تو خود ہی انہیں دہشت گرد قرار دیتا ہے، ہندوستان ایک عظیم ملک اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، اس کو چاہئے کہ ایسی باہری طاقت جس کے اپنے خاص استعماری مقاصد ہیں اس کی ہمنوائی نہ کرے، اپنی آزادی،وقار اور عظمت کا سودا نہیں کرے، اور ہندوستان کی روایت کے مطابق ایک انصاف پسند اور حق کے طرفدار ملک کی حیثیت سے اس کی شناخت باقی رہے۔
صدر بورڈ کے پیغامات
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ جس کے قیام کو تقریباً ۳۳ سال ہو چکے ہیں اور جس نے اپنے قیام کے اس مدت میں متعدد اہم ملی معاملات، جو مشکلات سے گھر گئے تھے، ان کا حل نکالنے کی قابل قدر کوششیں کیں ، یہ مسلمانوں کی شریعت اسلامی کے تحفظ کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کے مختلف مسلکوں اور جماعتوں کے نمائندوں کا ایک مشترکہ اتحاد ہے، جس کو مسلمانوں میں بڑا اعتبار حاصل ہوا، اور الحمد للہ وہ اعتبار برابر جاری ہے، لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے عام لوگوں کو اس کی کار کردگی سے پوری واقفیت نہیں کرائی جا سکی تھی، جس کی وجہ سے بعض افراد نے اس کی کارکردگی کے متعلق شکایتی انداز اختیار کیا، اس کو سامنے رکھتے ہوئے ضرورت یہ محسوس کی گئی کہ بورڈ کے مرکز سے ایک خبرنامہ شائع کیا جانا شروع کیا جائے جس سے بورڈ کی کارکردگی کی تفصیل اور بورڈ کے پیش نظر قابل فکر جو مسائل آئیں اور بورڈ ان میں جو فیصلہ کرے اور قدم اٹھائے وہ لوگوں کے سامنے آتا رہے، اس سے امید ہے کہ بورڈ کی طرف سے اگر کوئی بدگمانی یا شکایت ہو تو اس کا تدارک کاموں کی وضاحت کے ذریعہ کیا جا سکے۔
گذشتہ مدت میں بورڈ کی جو کارکردگی رہی ہے اس کی مختصر وضاحت اس خبرنامہ کے پہلے شمارہ کے ذریعہ کی جا رہی ہے، اس کی وجہ سے اس شمارہ کی ضخامت عام شماروں کی ضخامت سے بہت زیادہ ہے، اس کے بعد خبرنامہ اپنی مناسب ضخامت میں شائع ہوتا رہے گا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ کام مفید ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی طلب کے ساتھ انجام پاتا رہے۔
والسلام
سید محمد رابع حسنی ندوی
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
۵ /۳/ ۱۴۲۶ھ/۱۵/۴ /۲۰۰۵ء
پیغام
الحمدللّٰہ کفیٰ، و سلام علی عبادہ الذین اصطفی، أمابعد:
اسلامی شریعت دنیا کے دیگر مذہبی قوانین کے مقابلہ میں اپنی الگ خصوصیات رکھتی ہے، اس کی اہم ترین بات یہ ہے کہ اس کے یہ مذہبی قوانین اپنے ماننے والوں کے مذہبی معاملات کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کے دیگر معاملات کے لیے بھی ہدایات رکھتے ہیں ، ان کی یہ ہدایات زندگی کی مناسب اور معقول ضرورتوں کو روکتی نہیں ہیں ، بلکہ یہ صرف ان میں بہتری و افادیت کی صورتوں کی وضاحت اور تلقین کرتی ہیں ۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو ان کی زندگی کے تمام معاملات میں اس بات کا دھیان رکھنے کی تاکید کرتا ہے کہ انسان مخلوق ہے، خالق نہیں ہے، وہ مطلق اور بے مہار نہیں ، وہ اس کائنات کے خالق و مالک کا بندہ ہے، اس کو اپنے رب کی بندگی کے جو طریقے اس کے رب کی طرف سے بتائے گئے ہیں اس کو ان پر عمل کرنا ہے۔ وہ طریقے چونکہ اس کے رب کی طرف سے بتائے ہوئے ہیں ، اور وہ اس کا بندہ ہے لہٰذا وہ خود ان میں کوئی کمی و بیشی نہیں کر سکتا۔ اور اسے ایسے ملک میں جہاں اختیار و اقتدار ملی مسلمانوں کا نہ ہو خود مسلمانوں کو پرائیویٹ ذرائع اور دستور سے حاصل شدہ اختیار سے اپنے پروردگار سے ملے ہوئے قوانین کی پابندی اور حفاظت کی ذمہ داری انجام دینا ہے۔
ہمارا یہ ہندوستانی وطن چونکہ اسی نوعیت کا ہے اس لیے ضرورت کا تقاضہ ہوا کہ اپنی شریعت پر عمل کو قابل عمل اور محفوظ بنانے کے لیے ایک اعلیٰ سطح کا مشترکہ اتحاد جمہوری حقوق کے استحقاق کی بنا پر قائم ہو، چنانچہ ہمارا یہ پرسنل لا بورڈ قائم ہوا، اور اس نے مسلمانوں کے تمام گروہوں اور جماعتوں کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پران کے نمائندوں کے ذریعہ جمع کیا، اور وہ دستور اور جمہوری حقوق کی بنا پر ایک جمہوری طاقت کی حیثیت سے سامنے آیا، اور اس نے اپنی اس جمہوری طاقت کے ذریعہ الحمدللہ اب تک اپنے اوپر لی ہوئی ذمہ داری کو پوری طرح نبھایا، اس نے ملت کے بنیادی و مشترک مسائل کو ضرورت پڑنے پر ضرورت کے مطابق کوششیں کیں ، جو ہندوستان کے سیکولر دستور اور جمہوری اصولوں کے دائرہ میں رہتے ہوئے کی گئیں ۔
اس طرح یہ بورڈ تمام مسلمانوں کے ایک متفقہ و مشترکہ پلیٹ فارم کی حیثیت سے ہندوستانی ملت اسلامیہ کا قابل اعتماد ادارہ ثابت ہوا جس نے اپنے ممکنہ وسائل اور مناسب حکمت عملی سے متعدد مشکل معاملات کو حل کیا، جو الحمد للہ بورڈ میں شریک جماعتوں اور گروہوں کے نمائندوں کے آپسی تعاون سے انجام پائے ، اور آئندہ بھی انشاء اللہ یہ سلسلہ جاری ہے گا۔
ہمارا یہ خبرنامہ اس مقصد سے جاری کیا گیا ہے کہ بورڈ کی اہم کارکردگیاں کچھ کچھ وقفہ سے سامنے آتی رہیں ، اور مسلمانوں کو معلوم ہوتا رہے کہ بورڈ اپنے وسائل کے حدود میں برابر کوشاں ہے اور اس کا جو فرض ہے وہ انجام پا رہا ہے۔
سید محمجب ان کا رخ ا د رابع حسنی ندوی
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ – نئی دہلی
۱۸/ ۱۲/ ۱۴۲۶ھ/۱۹ /۰۱/ ۲۰۰۶ء
پیغام
الحمدللّٰہ کفیٰ، وسلام علی عبادہ الذین اصطفی، أمابعد:
ہندوستان ایک بڑا ملک ہے ، یہاں مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود بڑی تعداد میں ہیں ، وہ اپنی معتدبہ تعداد کی بنا پر اور اپنی مذہبی اخوت کے لحاظ سے مستقل ایک قوم اور ملت ہیں ، ملک کا دستور اپنے باشندوں کے ہر گروہ و مذہب کو اپنے مذہب اور پسند کے مطابق زندگی گزارنے اور ادارے قائم کرنے کا حق دیتا ہے، اس طرح یہاں مسلمانوں کو اپنے مذہب اور اس کے احکام پر عمل کرنے کا موقع حاصل ہے، اب یہ ان کا کام ہے کہ اپنے مذہبی احکام کی روشنی میں زندگی استوار کریں ، اور شریعت اسلامی کے مطابق زندگی گزاریں ۔ اور یہ بات بھی پیش نظر رکھیں کہ ان کو اپنی دین کے تقاضوں پر عمل کرنے ہی کی بنا پر ’’خیر امت‘‘ کہا گیا ہے، اور ان کو ’’امت دعوت‘‘ بھی بنایا گیا ہے۔
اپنے مذہب کے سلسلہ میں ہماری ذمہ داری اس ملک میں دو طرح کی بنتی ہے ایک تو یہ کہ ہم اپنے دین کی پابندی خود بھی کریں ، اور اپنے دیگر دینی بھائیوں کو بھی عمل کرنے کی طرف متوجہ کریں ، اور اسی کے ساتھ ساتھ ہم کو ملک کے دستور کے مطابق دین کے تقاضوں پر عمل کرنے کا جو حق دیا گیا ہے، اس پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس حق کے باقی رکھنے اور دین کے کسی عمل کو روکے جانے سے بچانے کی بھی فکر رکھیں ۔ اسی ضرورت اور اس کی فکر کے لئے ہمارا آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ بنایا گیا، اور مسلمانوں کے سب نقطہائے نظر اس میں شریک ہوئے، اور الحمدللہ سب نے بورڈ کو اس کے مقاصد کے مطابق تعاون دیا اور کامیاب بنایا۔
بورڈ بھی مسلمانوں کے تقطہائے نظر میں جو فروعی اختلافات ہیں ، ان سے اپنے کو الگ رکھتے ہوئے شریعت اسلامی پر عمل کرنے کے حق کی حفاظت کرنے اور امت کے افراد کو اس پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلانے اور اس پر عمل کے سلسلہ میں ناواقفیت یا انتظامی دشواری ہو تو اس کو دور کرنے کے لئے ممکنہ تدبیر اختیار کرتا ہے ، چنانچہ بورڈ نے اپنے کام کے ان تین پہلوؤں پر اپنی کوشش مرکوز رکھی ہے: اصلاح معاشرہ ، دار القضاء اور قانونی چارہ جوئی، اور الحمدللہ تینوں کام انجام دیئے جا رہے ہیں ۔ اس سلسلہ میں بورڈ کے عہدہ داران تنہا کام کا پورا حق ادا نہیں کر سکتے، ان سب کاموں کو ہم سب کو مل کر انجام دینا ہے، اور اس کے لئے برادران دین مبین کے تعاون کی ضرورت برابر قائم رہے گی، اور ہمیں امید ہے کہ وہ تعاون ملتا رہے گا۔
سید محمد رابع حسنی ندوی
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ – نئی دہلی
۲۹ ۰۱ ۱۴۲۷ھ/۲۸ ۰۲ ۲۰۰۶ء
ظلم و نا انصافی اور خود غرضی سے بچنے کی ضرورت
برصغیر ہندو پاک جس میں ہندوستان ایک وسیع و عریض اور کثیر آبادی کا ملک ہے، دو صدیوں تک سامراجی تسلط میں رہنے کے بعد آزاد ہوا، سامراجی دور میں یہاں کی آبادی کو نہایت کمزور اور پسماندہ زندگی سے گزرنا پڑا، لہٰذا ۱۹۴۷ء میں حاصل کردہ آزادی سے اس کو اپنی زندگی کو مضبوط و خوش حال اور ترقی یافتہ بنانا تھا، دنیا کے آزاد ملکوں میں جو ترقی ہو رہی تھی اس کی برابری بلکہ اس سے بھی بہتر صورت حاصل کرنا تھی، چنانچہ ملک کے اولوالعزم فرزندوں نے اس کا عزم کیا اور ملک آگے بڑھا۔ ترقی یافتہ لوگوں اور ملکوں کی صف میں پہونچنے کے لئے جس جد و جہد سے گزرنا تھا اس کا آغاز کیا، اور ملک نے ترقی کی، اور ابھی وہ اس تعمیری جد و جہد کے مرحلے سے گزرنے کی راہ میں ہے، ایسے مرحلے میں اور اس مقصد کے حصول کے لئے ملک کے اندر اتحاد اور آپسی تعاون کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، اور اس سلسلہ میں انسانی طاقتوں کا استعمال یکسوئی اور آپسی ہمدردی اور وسیع القلبی کے ساتھ کرنا ہوتا ہے۔
ملک کی آبادی چونکہ مختلف مذاہب مختلف تہذیبوں اور طبقاتی لحاظ سے مختلف عناصر پر مشتمل ہے، جن کے درمیان آسانی سے فرقہ وارانہ اور طبقاتی تعصب اور مفادات کا ٹکراؤ پیدا ہو سکتا ہے، جس کو حکمت اور خوش اخلاقی کے ذریعہ کنٹرول کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ ملک کی ترقی کے لئے اس کے مختلف عناصر اور طبقات کے مابین یکجہتی اور ہم آہنگی ہونے سے مدد مل سکے، اور ملک کے مفاد کی حفاظت ہو سکے۔ اس کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ ملک کے باشندوں کو ان کے وطنی حقوق مساویانہ طریقے سے حاصل ہوں ، اور جب ملک مختلف عناصر پر مشتمل ہے، جن میں اکثریت اور اقلیت کا فرق بھی ہے تو ضرورت ہے کہ اس بات کی فکر رکھی جائے کہ آپس کا اختلاف ایک دوسرے کو غلط نظر سے دیکھنے اور معاملات میں مساویانہ برتاؤ نہ کرنے کی حد تک نہ پہونچا دے اور تفرقہ و کشمکش کی صورت نہ پیدا ہو، اور کسی طبقے اور عنصر کو اپنے سے غالب عنصر کی طرف سے مخالفانہ طرز عمل سے سابقہ نہ پڑے، در اصل اس کی بڑی ذمہ داری ملک کے دانشوروں اور اصحاب اقتدار پر آتی ہے، ان کو اس بات کی فکر رکھنا ہوتی ہے کہ وہ ملک کے تمام باشندوں کے معاملے میں یکساں رویہ رکھے جانے پر توجہ دیں ، اور دیکھیں کہ ان کو ان کا حق جمہوری اور سیکولر بنیاد پر پورا مل رہا ہے؟ ظاہر ہے کہ ملک میں ایسے عناصر کچھ نہ کچھ ضرور ہو سکتے ہیں جو اپنے علاوہ دوسرے عناصر کو زیادہ موقع دینے کے حق میں نہ ہوں ، وہ بعض وقت اپنی اکثریتی طاقت کی بنا پر اقلیتی عناصر کے ساتھ حق تلفی اور زیادتی کرنے کو برا نہیں سمجھتے، اس طرح ملک کی آبادی کے ایک حصے کو بے چین اور بدگمان بنا سکتے ہیں ۔ اور ہمارے اس مختلف طبقات اور مختلف مذاہب رکھنے والے ملک میں ایسا ہو رہا ہے۔
آزادی کے بعد ملک میں پیش آنے والے واقعات میں اس کی واضح مثالیں ملتی رہی ہیں ، اور یہ صاف نظر آتا رہا ہے کہ یہ طرز عمل ملک کی ترقی کے لئے جو پرسکون فضا مطلوب ہے، اس کو بگاڑ تا رہا ہے، اکثریتی طبقے کے بعض عناصر کی طرف سے وسعت قلبی اور ہمدردی کے برعکس ٹکراؤ اور ظلم کا رویہ اختیار کرنا اور اصحاب اقتدار کی طرف سے کبھی کبھی اس پر چشم پوشی کا ظاہر ہونا ملک کے مستقبل کو بہتر طریقے سے بنانے میں کمزوری پیدا کرنے والا عمل ثابت ہو سکتا ہے، جس کی طرف ملک کے خیر خواہوں و دانشوروں کو مناسب توجہ دینے کی ضرورت ہے، اور اس کی برابر کمی ہے۔
مسلمان اس ملک میں ایک بڑی اقلیت ہیں ، اور جمہوری سطح پر وہ دیگر عناصر اور طبقات ہی کی طرح ملکی حقوق رکھتے ہیں ، لیکن ان کو وقتاً فوقتاً شک کے دائرے میں لے آیا جاتا ہے، حالانکہ ملک کو آزادی ملنے کے بعد ہندوستانی مسلمان اپنے ملک سے وابستگی کے معاملے میں برابر قابل اطمینان طریقے پر کاربند رہے ہیں ، اور ملک کی سالمیت کے لئے کوشش کی ہے، اور اس کی ترقی کے کاموں میں خاطر خواہ حصہ بھی لیا ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ملک میں بعض اوقات جو بعض تخریبی واقعات پیش آ جاتے ہیں ، ان میں فوراً مسلم اقلیت پر الزام لگا دینے کا ایک طریقہ سا بن گیا ہے، حالانکہ ملک کے طول و عرض میں پیش نے آنے والے تشدد و دہشت گردی کے بہت سے واقعات کا تعلق اکثریت کے لوگوں سے بھی ثابت ہوتا رہتا ہے، لیکن جہاں اور جس واقعے میں کچھ بھی گنجائش اقلیت کے کسی فرد یا افراد پر شبہہ کرنے کی ہوتی ہے۔ بغیر پوری تحقیق کے پوری مسلم قوم کی طرف اس کو منسوب کر دیا جاتا ہے، اور تحقیق سے پہلے ہی ان کو مجرم کے طور پر عوام میں ظاہر کر دیا جاتا ہے۔ ملک کے کئی حصے ہیں جہاں مذہب کی طرف سے نسبت نہیں کی جاتی، لیکن مسلم اقلیت کے کسی فرد یا افراد پر شبہہ ہو تو تو اس کو ان کے مذہبی تعلق کو کھل کر بیان کرایا جاتا ہے، حالانکہ جرم کرنے والے اپنے مذہب کے تعلق کی بنا پر نہیں ، اپنی خواہش اور اپنے ذاتی مجرمانہ جذبے سے کرتے ہیں ۔
مسلم اقلیت اس ملک میں جس تعداد میں ہے، وہ ملک کے جسم کا ایک مضبوط بازو ہے، اس بازو کو تکلیف پہونچا کر کمزور رکھنا یا وقتاً فوقتاً تردد اور بے چینی میں مبتلا کرتے رہنا ملک کی مضبوطی اور ترقی کو نقصان پہونچانے والی بات ہے، معاشی نظام ہو یا اقتدار و قوت کا معاملہ ہو، اس میں ملک کے اس اہم بازو کو پوری کارکردگی اور صلاحیت کا حق نہ دینا مستقبل کے لئے مددگار بننے والا رویہ نہیں ہے۔ یہ ملک کے تمام مختلف دانشوروں اور اصحاب اقتدار کے سمجھنے کی بات ہے کہ ملک کو آزادی ملنے کے بعد سے ترقی اور مضبوطی حاصل کرنے کی جو ضرورت ہے، اس کے ذرائع میں ملک کے مختلف طبقات میں آپس کی ہم آہنگی اور خوش دلی ایک بڑا ذریعہ ہے، اس ذریعہ کو کمزور نہ کرنا چاہئے، جو وسائل ہیں ، ان سے پوری مدد لینی چاہئے۔ ملک ابھی ترقی کرنے کے راستے میں ہے، اور اس کے رہنے والوں میں جو کمزوریاں کئی پہلوؤں سے پیدا ہو گئی ہیں ، ملک کی مضبوطی اور ترقی کے لئے ان کے ازالے کی بڑی ضرورت ہے، اس معاملے میں بے توجہی سے ملک کا حال بڑے بگاڑ کے خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اس وقت حال یہ ہے کہ جن افراد کے بھی ہاتھ میں فائدہ اٹھانے یا پہونچانے کا اختیار آ جاتا ہے، ان کی ساری فکر و توجہ اپنے ذاتی فائدے میں لگ جاتی ہے، خواہ اس سے ملک کو کتنا ہی نقصان پہونچے، ذاتی فائدے کے لئے وہ سب گوارہ ہو جاتا ہے۔
انسانی اقدار اور ملک کا جو اخلاقی ورثہ ہے اس کو نظر انداز کرتے ہوئے محض ذاتی و شخصی قسم کی مصلحتوں میں اپنی توجہات کو محدود کر دینا ایک طرح سے انسانی و اخلاقی بیماریاں ہیں ، یہ کسی بھی قوم میں ہو سکتی ہیں اور ہوتی ہیں ، لیکن ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ برائی کو برائی تسلیم کیا جائے، اور کم از کم دانشور حضرات اور اصحاب اقتدار برائی کو برائی کہنے اور اس کو دور کرنے کی فکر کریں ، ورنہ ملک و ملت میں پیدا ہونے والی برائیاں دیمک کی طرح خاموشی سے ملک و ملت کو کھوکھلا کر کے زوال میں مبتلا کر سکتی ہیں ۔
بہر حال ملک کے باشندوں کے مزاج کو معاملات میں انصاف کرنے اور اچھے برے کے درمیان فرق کرنے کا بتانے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں بڑی ذمہ داری ملک کے دانشوروں پر اور اصحاب اقتدار پر آتی ہے، اور میڈیا کو اس میں منصفانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنے پسند کے مذہب کے علاوہ مذہب والوں کے عیوب کو تلاش کر کے نمایاں کر کے دکھانا، اور اپنی پسند کے لوگوں کے عیوب کو چھپانا ملک و قوم کے ساتھ خیر خواہی نہیں ، بلکہ بد خواہی ہے کہ اپنے عیوب معلوم نہ ہونے پر ان سے بچنے کا جذبہ بھی پیدا نہ ہوگا، اور ملک میں سدھار نہ پیدا ہوگا۔ اصحاب اقتدار معاملات کو نفاذ میں لاتے ہیں ، اور میڈیا لوگوں کا ذہن بناتی ہے، لہٰذا دونوں کو اپنا یہ اہم فرض منصفانہ طریقے سے ادا کرنا چاہئے۔
اس ملک میں مختلف طبقات و مذاہب کے لوگ صدیوں سے آپس میں پڑوسیوں کی طرح رہ رہے ہیں ، ان میں آپس کا ٹکراؤ پیدا ہونے سے بچانے اور ہمدردانہ مشورے اور افہام و تفہیم سے کام لینے میں زیادہ فائدہ ہے، اور اس کے ساتھ دستور کے حوالے سے اہل اقتدار سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے اور حقوق حاصل کرنے کے لئے مناسب جمہوری جد و جہد کرنے کا بھی پورا حق ہے۔
آزادی کی جنگ میں ان طبقات میں آپسی تعاون و یکجہتی کا پورا عمل رہا ہے، اور اس کا کھلا ہوا فائدہ سامنے آیا ہے، اس یکجہتی کو کمزور کرنے والی طاقتوں اور طاقت ور کے کمزور کے ساتھ حق تلفی کرنے کے حالات کو کنٹرول کرنا ملک کی خیر خواہی اور ملک کی ترقی کے حصول کے مقصد میں معاون کام ہے، جس کی ذمہ داری اصحاب اقتدارپر آتی ہے، اور میڈیا فضا کو اچھا بنانے کا کام بخوبی کر سکتا ہے۔ بہر حال اس وقت نا انصافیوں کو روکنے کی اور شخصی خود غرضی سے ملک کی خیر خواہی کی طرف حالات کو موڑنے کی بڑی ضرورت ہے۔
٭٭٭
پیغام
حامداً و مصلیاً و مسلماً۔
امت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ نے امتیازی مقام عطا فرمایا ہے، وہ امتیازی مقام یہ ہے کہ ان کو جو شریعت دی، اس کو تکمیل کا درجہ عطا فرمایا، اور ان کو جو آسمانی کتاب عطا فرمائی، اس کی حفاظت کا خود وعدہ کیا ، ایک طرف تو ان کو اپنے عطا کردہ دین و شریعت کو مکمل صورت عطا فرمائی اور یہ کہ وہ قیامت تک اسی حالت پر قائم رہے گا جس حالت میں وہ عطا کیا گیا ، چنانچہ وہ زندگی کے مختلف پہلوؤں میں رہنمائی کرنے والا اور قیامت تک ہر عہد میں اور ہر طرح کے حالات میں عمل میں لانے کی صلاحیت رکھنے والا دین ہے، پھر اس دین کے محافظ کے طور پر اپنی عطا کردہ کتاب قرآن مجید کو قیامت تک باقی رہنے کا انتظام فرمایا۔
یہ آسمانی کتاب اور یہ تکمیل پائی ہوئی شریعت مسلمانوں کے ان کے ہر زمانہ میں پیش آنے والے حالات اور ضروریات میں رہنمائی و دستگیری کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اور اس طرح مسلمانوں کے لئے دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی کی راہ بتاتی ہے، لہٰذا ہر دور کے مسلمانوں پر یہ ذمہ داری آتی ہے کہ دونوں کی پوری قدر کریں اور ان کی رہنمائی میں زندگی کو درست اور کار آمد بنانے کی کوشش کریں ، اور وہ اس طرح کہ امت کے افراد اپنی زندگیوں کو اپنے پروردگار کے عطا کردہ اسی سانچے میں ڈھالیں جو اس کی کتاب اور اس کی عطا کردہ شریعت کے ذریعہ بنا ہے۔ اور اس طرح مسلمان اس مقام کے مستحق ہوں گے جو ’’خیر امت‘‘ کا ان کو دیا گیا ہے، اور اسی میں ان کے لئے دین و دنیا دونوں کی کامیابی رکھی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے {و أنتم الأعلون إن کنتم مؤمنین} کہ تم ہی سربلند ہو اگر تم ایمان والے ہو۔ اس میں مسلمانوں کی سربلندی ان کے ایمان کے ساتھ وابستہ کر دی گئی ہے، اور ایمان کی مکمل صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو اپنی انفرادی زندگی میں بھی نافذ کیا جائے اور اپنی سماجی زندگی کو بھی اس کے سانچے میں ڈھالا جائے، اس طرح جب اسلامی ضابطۂ حیات (شریعت اسلامی) ہماری زندگی میں جاری و ساری ہوگا تو وہ عملی طور پر بھی ظاہر ہوگا، اور غیروں کو بھی اس کی خوبی اور برتری نظر آئے گی۔ اور اس سے ہمارے تحفظ شریعت کے مطالبہ کو بھی مزید طاقت ملے گی، اور اس مطالبہ کے وزن میں اضافہ ہوگا۔
بورڈ کی طرف سے اسی لئے تحفظ شریعت کے مطالبہ کے ساتھ اس کے ماننے والوں کی زندگیوں میں اس کو جاری و ساری کرنے کی بھی تلقین کی جاتی ہے، جس کے لئے اصلاح معاشرہ کا شعبہ قائم ہے، ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ اس طرف توجہ کرے، خود بھی اپنی زندگی کو شریعت کے احکام کا پابند بنائے، اور جہاں تک اس کی پہنچ ہو وہاں تک اس کی توجہ دہانی کا کام انجام دے۔ اس طرح مسلمانوں کی زندگی ان کے تحفظ شریعت کے مطالبہ سے ہم آہنگ ہوگی، اور اس سے ان کا اپنا امتیازی مقام بھی بنے گا، اسی میں ان کی عزت اور سربلندی مضمر ہے، اور وہ اس طرح اس ارشاد الٰہی کے لائق بن سکیں گے کہ{وَأنتم الأعلون إن کنتم مؤمنین} کہ تم ہی سربلند ہو اگر تم ایمان والے ہو۔
(حضرت مولانا )سید محمد رابع حسنی ندوی
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
۶ ۱۲ ۱۴۲۷مطابق ۲۸ ۱۲ ۲۰۰۶ء
پیغام
الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ و السلام علی سید المرسلین سیدنا محمد، وعلی آلہٖ و صحبہ، ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین۔
اسلام میں دینی احکامات صرف عبادات کی مخصوص شکلوں میں ہی محدود نہیں رکھے گئے ہیں ، بلکہ وہ انسانی زندگی کے دیگر پہلوؤں کے لیے بھی ہدایات رکھتے ہیں ، اور اسلام میں ’’شریعت‘‘ ان ہی احکامات کا نام ہے۔ اسلام میں عبادت کا مطلب ہے زندگی کے تمام پہلوؤں میں اپنے پروردگار اللہ رب العزت کی فرمانبرداری۔ اور یہ فرمانبرداری زندگی کے ان پہلوؤں میں بھی کرنی ہے جو بظاہر دنیا کے فائدوں سے تعلق رکھتے ہیں ، مثلاً ازدواجی زندگی، معاشرتی تعلقات، اور معاشی اور سماجی ضروریات، اور اسی کے ساتھ ساتھ مروجہ رسوم و عادات۔ ایک مسلمان کو ان سب پہلوؤں میں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی عمل اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے خلاف نہ ہو۔
عبادت کی بنیادی اور کھلی ہوئی شکل تو بعض یا چند نمایاں صورتوں میں ہوتی ہے، جو اسلام میں نماز، روزہ، زکات اور حج کو عملی طور پر ادا کرنے میں ہے، اور انہیں ارکان اسلام یعنی اسلام کے بنیادی اعمال قرار دیا گیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ زندگی کے دوسرے آداب و اعمال جیسے میاں بیوی کے تعلقات، ماں باپ اور اعزہ کے حقوق، معاشی معاملات و اخلاقی طور و طریق اور شادی و غم کے حالات اسلامی زندگی کے وہ پہلو ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری، اس کے رسول خاتم النبین محمد(ﷺ) کے بتائے ہوئے طریقہ کو اختیار کرنا مسلمان کے لئے ضروری ہوتا ہے، ان سارے معاملات میں کچھ تو ایسے ہیں جن میں ملک کے دستور و قانون کی پابندی کا بھی معاملہ ہوتا ہے، اس کے لیے ملت کے قائدین اور علماء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس میں کوئی دشواری آتی ہو تو اس کی فکر کریں ، ان کے علاوہ دوسرے معاملات ایسے ہیں جن میں اسلام کو اپنا مذہب سمجھنے اور ماننے والوں کو عمل کرنے میں کوئی خاص رکاوٹ نہیں ، مسلمانوں کو ان تمام پہلوؤں میں اللہ تعالیٰ کے حکموں کی تابعداری کرنا ہوتا ہے۔ اور یہ سب مذہبی احکام ہی شریعت کہلاتے ہیں ۔
ان ہی احکام کی فرمانبرداری کی بناء پر مسلمان آخرت کی زندگی میں جزائے خیر اور ثواب کا مستحق ہوتا ہے، اور نافرمانی کی صورت میں وہ سزا اور عذاب کا مستحق بنتا ہے، اور ان کو اگر دل سے بھی نہ مانتا ہو تو وہ مسلمان نہیں رہتا ہے۔ ان کو دل اور زبان دونوں سے ماننے ہی پر وہ اسلام کے زمرہ میں شمار ہوتا ہے۔
ہمارے مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے ذمہ جو کام لے رکھا ہے وہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کے سلسلہ میں دئے گئے احکام شریعت کی حفاظت کا کام ہے، اور ان میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کرنا ہے، اور ان کے سلسلہ میں اگر کسی طرف سے رکاوٹ ڈالی جا رہی ہو، تو وہاں اس کو دور کرنے کی فکر کرنا ہے، اسی لئے جن معاملات میں عدالتی چارہ جوئی اور حکومت کو توجہ دہانی کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں بورڈ اپنی حد تک جو کوشش ہے، وہ کرتا ہے، لیکن جہاں خود مسلمانوں کی کوتاہی کا معاملہ ہوتا ہے، وہاں مسلمانوں کو سمجھانے کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے، اسی لئے بورڈ نے ایک طرف قانونی چارہ جوئی کا کام اپنے ذمہ لیا ہے، اور دوسری طرف اصلاح معاشرہ کے کام کی بھی اس کو فکر کرنا ہوتی ہے۔ ان دونوں کاموں میں بورڈ اپنی توجہ صرف کرتا ہے، لیکن چونکہ وہ حکومتی ادارہ نہیں ہے، اس کو صرف عوامی اور خود کار بنیاد پر چلایا جاتا ہے، اس لیے ملک کے سب مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جن باتوں پر ان کو خود عمل کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے، ان کو وہ خود انجام دیں ، تاکہ وہ اسلامی شریعت کے ماننے والے ثابت ہوں ۔ اگر مسلمان ایسا کرنے لگیں گے تو اس کے بعد صرف تھوڑے ہی معاملات ایسے رہ جاتے ہیں جن کو کرنے کے لئے حکومت یا عدالت سے رجوع کرنا پڑے۔ اسی بات کو سمجھانے کے لئے بورڈ کی طرف سے اصلاح معاشرہ کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ اور اسی کے ساتھ شریعت کے فیصلوں کو جاننے اور ان کو جان کر ان پر عمل کرنے میں آسانی پیدا کرنے کے لئے آپسی جھگڑوں کو اپنے اندر ہی حل کرا لینے کے لئے دار القضاء کا نظام رکھا گیا ہے، ان کے ذریعہ مسلمان اکثر آپسی جھگڑے ختم کرا سکتے ہیں ۔ اس کے بعد غیروں سے کچھ کہنے یا کرانے کا کام زیادہ نہیں رہ جاتا، اور اس طرح مسلمانوں کا معاشرہ ایک اچھا اسلامی معاشرہ بنتا ہے، اسی کو عمل میں لانے کی فکر و کوشش کے لئے بورڈ عمل پیرا ہے، لیکن یہ بورڈ اور عوام دونوں کا اپنی اپنی جگہ پر فرض ہے، جس کی ادائیگی میں دونوں کو شریک ہونا ہے۔ اسی کے ذریعہ سے مسلمان ملت کے لیے ایک کامیاب اور خیر و برکت کا معاشرہ بن سکے گا، چنانچہ ضروری ہے کہ ہم سب اپنے اپنے دائرۂ کار میں اپنا اپنا فرض انجام دیں ۔
سب مسلمان شریعت میں جہاں جہاں خود عمل کر سکتے ہیں عمل کریں ، اپنے جھگڑے اپنے اندر ہی حل کرائیں ، اور اپنے سماجی اور انفرادی معاملات اور رسوم و رواج میں اسلامی شریعت کی پابندی کریں ، جس میں خاصی کوتاہی پائی جاتی ہے، اور اس سلسلہ میں اصلاح معاشرہ کمیٹی کی کوششوں میں بھی ہاتھ بٹائیں تاکہ اس مقصد میں مدد ملے، اور اس طرح بورڈ ان کاموں میں جو اس کے ذمہ آتے ہیں ، اور بورڈ ہی کے ذریعہ سے انجام پا سکتے ہیں ، پوری توجہ دے سکے گا۔ اور اپنا فرض زیادہ توجہ سے پورا کرے گا۔
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس ملک کے مسلمان ملک کے حالات کے تناظر میں بورڈ کی اہمیت کو سمجھتے ہیں ، اور اس کو اپنی تائید اور تعاون سے مضبوط بنانے میں الحمد للہ حصہ لیتے ہیں ، اور اس میں وہ اپنے اپنے مسلک اور نقطہ ہائے نظر کے فرق کے ساتھ شریک اور متحد ہیں ، اور یہ شرکت و اتحاد ہندوستان جیسے ملک میں ملت کی ایک بڑی ضرورت کو پورا کرنے کا ذریعہ ہے، اور اس سے ان کی شریعت کے بقاء اور حفاظت کی بہت اچھی شکل بنتی ہے۔
بورڈ اپنی کوششوں کو بہتر سے بہتر طریقہ سے انجام دینے کے لئے غور و فکر و پروگرام کا جائزہ لیتے رہنے کے لئے سال میں ایک بار عمومی اجلاس، اور چند چند ماہ کے فرق سے عاملہ کا اجلاس کرتا ہے، اور اس طرح بورڈ اپنے فرائض انجام دے رہا ہے، اب کلکتہ جیسے بڑے شہر میں اس کا بیسواں عمومی اجلاس منعقد ہو رہا ہے، اللہ تعالیٰ مفید بنائے۔
(حضرت مولانا )سید محمد رابع حسنی ندوی
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
اکتوبر ۲۰۰۷ء تا مارچ ۲۰۰۸ء
پیغام
الحمد للہ کفیٰ، و سلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ، أما بعد:
ہماری یہ ملت باوجود ملک کی اقلیت ہونے کے اتنی بڑی ہے کہ مسلم اکثریت کے اکثر ملکوں کی آبادیاں بھی اتنی بڑی اور وسیع نہیں ہیں ، اس امت کو اپنی اسی وسعت کے مطابق عمومی زندگی کے لحاظ سے اور شریعت کے مقرر کردہ احکام کے لحاظ سے مختلف النوع مسائل اور ضروریات سے سابقہ پڑتا ہے، جن کے حل کے لئے اپنے ملک سے باہر سے ان کو کوئی خاص مدد نہیں مل سکتی، ان کو خود اپنے ہی اہل فکر و اہل قیادت افراد سے ہی مدد لینا ہے، لیکن امت مسلمہ ہونے کے تعلق سے اپنے اسلامی احکام کے ڈھانچہ کے اندر رہتے ہوئے کرنا ہوتا ہے۔
یہ مسائل کچھ تو عمومی ہیں جو ملک کے دوسرے مذاہب و طبقات میں اور مسلمانوں میں مشترک ہیں ، جو شہری حقوق اور تمدنی تقاضوں سے تعلق رکھتے ہیں ، اور ان میں ملک و ملت کے عام اہل فکر و دانشوروں کی رہنمائی کافی ہوتی ہے۔ اور دوسرے وہ مسائل ہیں جو شریعت کے متعینہ احکام کے تحت آتے ہیں ، اور ان کا تعلق حرام و حلال سے ہے، اور ان کی پابندی سے مسلمان مسلمان بنتا ہے۔ ان مسائل کے سلسلہ میں ’’مسلم پرسنل لا‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، ان مسائل کے سلسلہ میں کوئی قابل فکر بات ہوتی ہے تو شریعت کے علم سے واقف حضرات اور امت کے دیگر دانشور مل کر توجہ کرتے ہیں ، اور کوئی رکاوٹ آئے تو اس کو دور کرنے کی فکر کرتے ہیں ۔
’’ مسلم پرسنل لا‘‘ کی اس اصطلاح کے تحت آنے والے معاملات میں مسلمانوں کو دستور ہند کے سیکولر ہونے اور ہر مذہب والوں کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے کی اجاز ت ہونے کی بناء پر اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ اور یہ مسائل بھی ایسے ہیں کہ ان میں کوئی تبدیلی یا رکاوٹ اسلامی شریعت میں قبول نہیں کی جا سکتی۔ یہ مسائل حرام و حلال کا حکم رکھنے والے مسائل ہیں ، جن میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں بنایا جا سکتا۔ چنانچہ ان کے سلسلہ میں مسلمانوں کو اس بات پر نظر رکھنا ہوتی ہے کہ ملک کے کسی حلقہ سے شریعت اسلامی کے کسی حکم میں مداخلت تو نہیں ہو رہی ہے، اور ہم کو اہل قانون اور ارباب حکومت کے سامنے یہ بات واضح کرنا ہوتی ہے کہ اسلامی شریعت انسان کی بنائی ہوئی نہیں ہے کہ اس کو اس کے ماننے والے کسی وجہ سے تبدیل کر دیں ، یہ شریعت ہم کو وحی الہی کے ذریعہ ہمارے پروردگار کی طرف سے دی گئی ہے، لہذا اس میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ اسی کے ساتھ ہم مسلمانوں کو بھی یہ سمجھنا چاہئے کہ ہماری اس شریعت کا دائرہ زندگی کے مختلف پہلوؤں تک وسیع ہے، برخلاف دیگر قوموں کے مذہبی دستور العمل کے کہ جہاں صرف عبادات اور چند رسوم تک معاملہ محدود رہتا ہے۔
ہماری اسلامی شریعت صرف عبادات ہی نہیں ، بلکہ معاملات اور اخلاق تک پھیلی ہوئی ہے، اس میں شوہر وبیوی کے درمیان عقد ہونے، پھر ان کے درمیان ایک دوسرے کے حقوق قائم ہونے کے احکام، ماں باپ اور اولاد کے درمیان ایک دوسرے کے حقوق ، حصول مال اور ان کے لین دین کے معاملات ، نیز انتقال کے بعد ترکہ کی تقسیم کے احکام اور اس طرح کے بعض دوسرے معاملات شامل ہیں ، ان سب میں شریعت کا حکم دیکھنا ہوتا ہے، اور ان پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے، ایک طرف تو ان سب احکام پر عمل کرنا ، پھر اس بات کی فکر رکھنا کہ ان معاملات میں کوئی تغیر اور رکاوٹ آتی ہے تو اس کو دور کرنا ہے، اور دستور کے دئے ہوئے حق کی بناء پر اس کو ایسا کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔
شریعت کے مذکورہ بالا مسائل کے علاوہ شہری زندگی کے عمومی مسائل جو زندگی کو بہتر بنانے اور وسائل کو ترقی دینے اور عام شہری تقاضوں سے تعلق رکھتے ہیں ، ان کے معاملہ میں مسلمان اور دوسرے مذہبوں اور طبقات کے لوگ مشترک ضرورت رکھتے ہیں ، مثلاً معاشی استحکام ، سیاسی تقاضے، تعلیمی ضرورت اور امن و امان اور دیگر انسانی ضرورت کے معاملات ، یہ وہ مسائل ہیں جو حکومت کے ذمہ داروں اور سب شہریوں کی ذمہ داری میں آتے ہیں ، ان کے تقاضے پورے کرنے کے لئے دیگر فرقوں کے دانشوروں اور مسلمانوں کے دانشوروں کی طرف سے بھی اجتماعی ادارے اور انجمنیں قائم ہیں ، جو اپنے اپنے وسائل کے مطابق ان کے لئے کوشاں رہتے ہیں ، ان کے لئے مسلمانوں کی بھی مختلف جماعتیں اپنی اپنی جگہ پر قائم اور اپنے اپنے اختیار کردہ مقصد کے لئے کوشاں ہیں ۔
لیکن جو معاملات مخصوص طور پر ہماری اسلامی شریعت کے تحت آتے ہیں ، اور ان میں حرام و حلال کا مسئلہ بنتا ہے، خاص طور پر ان کے لئے ہمارے بورڈ کی تشکیل ہوئی ، اور ان کی تشکیل کی ضرورت اس وقت سے محسوس ہوئی جب ملک کے بعض لوگوں کی طرف سے ہمارے شریعت اسلامی کے کسی عمل کو قائم رکھنے کے حق کو ختم کرنے کی بات اٹھائی گئی، چنانچہ مسلمانوں نے اپنے تمام مسلکوں و جماعتوں کے مشترکہ جلسوں میں مشترکہ اور متحدہ آواز اٹھانے اور ضرورت کے مطابق جمہوری اور قانونی اقدام کرنے کے لئے بورڈ کی تشکیل کی، جو الحمد للہ فائدہ مند رہی، اور شریعت اسلامی کے تحفظ کے لئے ایک مشترکہ پلیٹ فارم بن گئی، اور اس پلیٹ فارم سے شریعت کے تحفظ کے لئے مفید خدمات انجام دی گئیں ، اور ان کا سلسلہ الحمد للہ قائم ہے۔
بورڈ اپنے دائرہ کار کے تحت جن پہلوؤں پر توجہ صرف کرتا ہے ، ان میں ایک اس بات پر نظر رکھنا ہوتا ہے کہ اگر شریعت میں کسی با اثر حلقہ سے تبدیلی کی کوئی بات سامنے آ رہی ہے تو اس کے تدارک کے لئے قانونی یا جمہوری طریقہ اختیار کر کے روکا جا سکے۔ دوسری طرف اس بات کی کوشش کہ شریعت کے احکام پر عمل کرنے کی پابندی تمام مسلمان اپنی عملی زندگی میں قائم رکھیں ، اس کے لئے اصلاح معاشرہ اور دار القضاء جیسی تدابیر بورڈ کی طرف سے اختیار کی جا رہی ہیں ۔
شریعت کے معاملات کی فکر کے ساتھ ساتھ بعض ایسے معاملات میں بھی جو ملت کے مشترکہ مفاد سے تعلق رکھتے ہیں ، بعض ناگزیر صورتوں میں بورڈ ضرورت محسوس کر کے تعاون دیتا ہے۔ اس طرح بورڈ نے بعض ایسے دیگر مسائل میں جو تعاون دیا، اس سے ملت کے بعض افراد کو یہ خیال ہونے لگا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا دائرہ کار ملت کے تمام معاملات تک پھیلا ہوا ہے، پھر اسی خیال کے مطابق انہوں نے بورڈ کی کارکردگی کا جائزہ لیا، اور پھر اسی کے مطابق ان کو اعتراض کا موقع محسوس ہوا، حالانکہ ملت کی ضروریات کے مختلف پہلوؤں کے لئے ملت کے اندر مختلف جماعتیں ہیں ، جو اپنی اپنی جگہ پر اپنے اختیار کردہ ملت کے مسائل کے لئے کوشاں ہیں ۔ اور اس طریقہ سے ملت کی وہ ضرورت پوری ہو رہی ہے جو اس مقصد سے تعلق رکھتی ہے، بورڈ ایسے معاملات میں باقاعدہ طریقہ سے شرکت کی ضرورت نہیں سمجھتا۔
وہ اسی کے ساتھ ان معاملات میں بھی جن میں ملت کے مختلف مسلکوں اور گروہوں کے درمیان باقاعدہ قسم کا اختلاف پایا جاتا ہے، ان کو بورڈ انہی جماعتوں اور گروہوں کے ساتھ مخصوص سمجھتا ہے، اور ان کو اپنے دائرہ کار میں شامل نہیں کرتا، اور اپنے کو شریعت کے بنیادی معاملات جن پر امت کے سب حلقوں یا اکثر حلقوں کا اتفاق ہے، اور جن کا شریعت کے تحفظ سے تعلق ہے، ان ہی تک محدود رکھتا ہے، بورڈ کا یہ طرز اور طریقۂ کار بورڈ کی کوششوں کا جائزہ لینے والوں کے سامنے رہے تو اس سلسلہ میں غلط فہمی کی صورت نہ پیدا ہوگی، اور اس سلسلہ میں بورڈ کے کاموں میں جو تعاون کر سکتے ہوں ، کرنا چاہئے۔
بورڈ شریعت اسلامی کی مشترکہ اور بنیادی ضرورت کا ادارہ ہے، اس کے کام کرنے والے سیاسی اور اختلافی معاملات میں غیر جانبداری کا اہتمام رکھتے ہیں ، اور اپنے طور پر رضاکارانہ خدمت انجام دیتے ہیں ۔ اس میں دین و شریعت کی فکر رکھنے والے تمام حضرات اپنی حد تک بورڈ کے کار گزاروں کے ساتھ تعاون کریں تو اس مشترکہ مقصد کے کام کو بڑی تقویت مل سکتی ہے، یہ سب کا کام ہے اور سب کے تعاون کا مستحق ہے۔
(حضرت مولانا )سید محمد رابع حسنی ندوی
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
اپریل تا جون ۲۰۰۸ء
اتحاد و یکجہتی اور امت اسلامیہ
ہندوستان میں مسلمان اگرچہ اقلیت میں ہیں ، لیکن یہ اقلیت بڑی بھی ہے اور خاصی حد تک با اثر بھی ہے، اسی کے ساتھ اس اقلیت کو دو خصوصیات ایسی بھی حاصل ہیں جو اس کو خود کفیل اور ترقی پذیر بننے والی امت بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں ۔ ایک خصوصیت تو یہ ہے کہ اس کے اسلاف نے اس ملک میں پانچ چھ صدی تک انتظام سنبھالا ہے، اور قائدانہ کردار بھی ادا کیا ہے، اس کے قائدانہ کردار سے اس ملک کی تہذیب و تمدن پر بھی اثر پڑا ہے جس سے اس ملک کی خوبیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی کے ساتھ اپنے غیر مسلم ہم وطنوں کے ساتھ کسی مغائرت کا نہیں بلکہ اعلی انسانی سلوک کا ثبوت دیا ہے۔
دوسری خصوصیت اس اقلیت کی اس کا دین و دنیا دونوں کا جامع مذہب ہے، جو اس کو اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی (ﷺ) کے ذریعہ ملا ہے، یہ مذہب اپنی رواداری اور اعلی انسانی کردار کے ساتھ ساتھ دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور اعلی انسانی قدروں کا لحاظ اور اپنے خالق و مالک کے احکامات کے ساتھ پوری زندگی کو وابستہ کرنے کی ذمہ داری بھی ڈالتا ہے جس کو انجام دینے کا کام اس امت نے اپنی گذشتہ تاریخ میں مخلصانہ انداز سے انجام دیا ہے، اور اس کو برابر قائم رہنے والی ذمہ داری سمجھا ہے، اس امت کی یہ دو خصوصیات ایسی ہیں کہ ان کے ذریعہ امت اپنے کو ہمیشہ ایک فعال اور مؤثر امت بنانے میں مدد لے سکتی ہے، اور اپنے پیش روؤں کے معاملہ میں انسانی نسلوں کا ہمیشہ یہ خاصہ بھی رہا ہے کہ ان کی کار گذاریوں کو اپنے لئے نمونہ بناتی ہیں ، اور اس کی بناء پر ماضی میں جو کوتاہیاں ہوئی ہوں ان سے اپنے کو بچانے کی فکر کرتی ہیں ۔ اس طرح ہماری اس امت کے لئے جو اس ملک میں اقلیت میں ہے، لیکن اپنے اسلاف کی شاندار تاریخ رکھتی ہے، سبق حاصل کرنے کا بڑا موقع ہے، جس سے بہت فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
اس امت کو ایک خصوصیت یہ بھی حاصل ہے کہ اس کے افراد ساری دنیا میں بھی پھیلے ہوئے پائے جاتے ہیں ، اور ان سب کا ایک بڑا دینی و فکری مرکز ہے لیکن اس ملک کے مسلمان اپنے اس مرکز مرکز اسلام سے تعلق قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی دینی و علمی صلاحیت دین اور علم دین کے معاملہ میں ممکنہ حد تک خود کفالتی کا طریقہ اختیار کرتے رہے ہیں ، اور اسی بناء پر اس ملک کے مسلمانوں میں بڑے بڑے جید علماء دین پیدا ہوئے، اور انہوں نے اس امت کی دینی و علمی ضرورت کو پورا کیا، اور امت کو مرکز اسلام سے دور ہونے سے اگر کوئی خرابی ہو سکتی تھی تو اس سے بچایا ہے، اور صحیح طریقہ سے خود کفیل بنایا ہے۔
یہ وہ خصوصیات ہیں جن کو اپنا کر یہ امت اس ملک میں اپنے لئے بڑا مقام بناسکتی ہے، اور اس ملک میں مصلحانہ و قائدانہ کردار کا ثبوت دے سکتی ہے، لیکن سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ یہ امت اپنے کو ان خصوصیات کی حامل امت سمجھے، اور اس سلسلہ میں متحد الفکر ہو کر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے۔ اس طرح کا احساس ہی وہ قوت ہے جو کسی بھی کام کو اعلی سطح سے انجام دینے میں ممد و معاون ہوتا ہے، اور اس سلسلہ میں اس امت سے اس کی تاریخ میں جب جب کوتاہی ہوئی تو اس امت کو بہت نقصان پہونچا ہے، خاص طور سے متحد و با مقصد ہو کر کام کرنے میں ۔ حالانکہ اس امت کو جو دین ملا ہے اس میں آپسی اخوت اور اتحاد پر بہت زور دیا گیا ہے، اور اس میں انسان کے جائز تقاضوں کی پوری رعایت رکھی گئی ہے، وہ تنگی کا دین نہیں ہے، وہ وسعت کا اور آسانی کا دین ہے، وہ دین انسانی معاشرہ کی مختلف الجہات ضرورتوں کو بہت اچھے طریقہ سے اور بہت اچھے انداز سے پورا کرتا ہے اور کام کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔
(حضرت مولانا )سید محمد رابع حسنی ندوی
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
جولائی تا ستمبر ۲۰۰۸ء
صدر بورڈ آپ سے مخاطب ہیں
محترم و مکرم زید مجدہ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کلکتہ میں منعقد کئے جانے والے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس میں میں نے بورڈ کے صدر ہونے کے تعلق سے بورڈ کے ارکان اور مدعوئین خصوصی کے سامنے جو عرض معروض کی تھی، اس میں بورڈ کی کارکردگی کے تعلق سے کچھ وضاحتیں تھیں اور ان کے ساتھ ہی کچھ گذارشات بھی پیش کی تھیں ، مجھے مسرت ہوئی تھی کہ آپ حضرات نے علی العموم ان کو پسند فرمایا جو کہ میرے لئے باعث تقویت ہے۔
بورڈ کو جیسا کہ آپ جانتے ہیں مسلمانوں کے ایک متحدہ پلیٹ فارم کی حیثیت حاصل ہے، اس میں ملت اسلامیہ ہند کے مختلف مسلکوں اور جماعتوں کی نمائندگی ہے، یہ نمائندگان کرام امت کے مشترکہ شرعی مسائل کے سلسلہ میں حسب ضرورت و بتقا ضائے وقت غور و فکر کرتے ہیں ، اور اس کے کارکن ان کے سلسلہ میں جس عمل کے وہ متقاضی ہیں عمل کرتے ہیں ، اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ اختلافی مسائل سے بچتے ہوئے متفقہ مسائل کے دائرہ میں کام کیا جائے، اور الحمد للہ بورڈ اس پر عامل ہے اور کسی بھی جماعت کی انتظامیہ میں رایوں کے اختلاف سے جماعتوں کو جو خطرہ پیش آ جایا کرتا ہے الحمد للہ اس سے بورڈ ابھی تک محفوظ ہے، لیکن یہ اس وجہ سے ہے کہ بورڈ کو اس سلسلہ میں اس کے ارکان کا تعاون حاصل ہے، اس کے ارکان اپنی رایوں کو امت کے مشترکہ مفاد کے خاطر اس شدت تک لے جانے سے بچتے ہیں جس میں بورڈ کی سالمیت اور اجتماعیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے، یہ الحمد للہ اطمینان اور خوشی کی بات ہے، اور بورڈ کے تحفظ اور بقاء کے لئے اس کی برابر ضرورت ہے۔
رایوں میں اختلاف ہونا فطری و قدرتی بات ہے لیکن اختلاف میں ایسی شدت اختیار کر لینا جس سے ایک دوسرے کی دل آزاری ہو، اور منفی صورت حال پیدا ہونے لگے، اجتماعیت اور اتحاد و اتفاق کو نقصان پہنچانے والی بات ہے، امید ہے کہ بورڈ میں اس بات کا لحاظ برابر قائم رہے گا۔
کلکتہ کا اجلاس الحمد للہ کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا اور اجلاس کے دوران شہر کے صحافی و سماجی حضرات کی طرف سے پورا تعاون بھی ملا، البتہ بعد میں بعض حضرات کی طرف سے بعض باتوں پر اعتراض صحافتی ذریعہ سے منظر عام پر لایا گیا، جس سے بورڈ کی کارکردگی کے سلسلہ میں عامۃ المسلمین میں بدگمانیاں پیدا ہو سکتی تھیں جو ایسے ادارہ کے لئے جو اس ملک میں شریعت اسلامی کے تحفظ کے کام کے لئے متحدہ شکل میں برابر عمل پیرا ہے، نقصان دہ بات ہوتی، بورڈ کے کسی ہمدرد یا رکن کو کوئی اختلاف یا بدگمانی ہو تو اس کو فوراً عوام الناس کے سامنے لانا اور بغیر کسی تحقیق کے برسر عام اس کو ظاہر کرنا احتیاط کے خلاف بات ہوتی ہے اور اس سے امت کے مشترکہ مفاد کو نقصان پہنچتا ہے، اس لئے آزادانہ انداز میں اظہار کرنے کے بجائے براہ راست ذمہ داروں سے صورت حال معلوم کرنا مناسب ہوتا ہے اور یہ اچھا ہوتا ہے ، بورڈ میں باہمی مفاہمت اور تعاون کی فضا بنائے رکھنا ہم سب کا فرض ہے، خاص طور پر اس موجودہ دور میں جبکہ امت کو اور اس کی شریعت کو ہر طرف سے عداوت کا سامنا ہے، اس امت اور اس کی شریعت کے مخالفین اس کے مذہبی وقار و عزت کو کسی نہ کسی شکل میں مجروح کر کے پوری انسانی برادری میں اس کو بے وقعت اور ناقص ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ، اور طرح طرح کے بہانوں سے اس کی عظمت و اہمیت کو گرانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ، اس کا تدارک اور اس کا مقابلہ الگ الگ ٹکڑیوں کے ذریعہ کرنا بہت کم مفید ہے، اس کے لئے اپنے انفرادی خیال اور ذہن سے بلند ہو کر متحدہ محاذ کے ذریعہ اور متفقہ طور پر اقدام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
حضرات! کسی بھی ملک میں اقلیت کی پوزیشن میں رہنے والی ملت کو اپنے ملی تحفظ کے لئے حکومت کی مدد نہیں حاصل ہو سکتی اس کے لئے امت کو خود ایک مضبوط متحد ہ محاذ بنانے کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے ہی اتحاد سے اس کو تقویت ملتی ہے اور وہ کام انجام پاتا ہے جو حکومت کے ذریعہ انجام دیا، اور اس کا اصل موضوع شریعت کا تحفظ بنایا گیا ہے، اور اس کی اصل طاقت بھی اسی اتحاد میں ہے، اور ہم ملت کی تاریخ پر جب نظر ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جب جب اتحاد میں کمی آئی ملت کو نقصان اٹھانا پڑا، اور ہمارے بورڈ کو بھی اس سلسلہ میں وقتاً فوقتاً مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے خاص طور پر جب بورڈ کے کسی رکن یا بورڈ کے ہمدرد نے کسی مسئلہ میں اپنے اختلاف کو زیادہ اہمیت دی اور کسی طرح کی کوتاہی یا کمزوری محسوس کر کے اس کو ایسی اہمیت سے پیش کیا کہ گویا بورڈ اپنے مقام سے ہٹ گیا اور وہ سخت کوتاہی کا مرتکب ہوا، بلکہ بعض متفقہ فیصلوں کو بھی بر سر عام قابل ملامت ظاہر کرنے میں بھی حرج نہیں سمجھا گیا، حالانکہ کثرت آراء سے جو فیصلہ ہوتا ہے اس سے بعض ارکان کو اختلاف ہو تو بھی اکثریت کی رائے کے سامنے اپنی رائے کو دبا لینا چاہئے، یہی طریقہ کسی متحدہ ادارہ کے کام کرنے میں معاون ہوتا ہے، بورڈ کا انتظامیہ اپنے متعلقہ کاموں میں فکر مندی اور توجہ کے مطابق کام انجام دیتا ہے، اس کے ذمہ دار حضرات انسان ہیں اور انسان سے کسی سبب سے کسی مفوضہ کام میں کمی واقع ہو سکتی ہے، لیکن اس کو انفرادی سطح پر دور کر لیا جائے تو معاملہ صحیح رہتا ہے، اس کو عیب جوئی کا معاملہ نہیں بنانا چاہئے، بورڈ کے ارکان کی عملی ذمہ داری، بورڈ کے سکریٹریٹ کی کارکردگی کی صرف جانچ کرتے رہنا اور اس میں کمزوری نکالنا نہیں ہے بلکہ مخلصانہ و محبانہ انداز میں مشورہ دینا اور امت کے مفاد کے لئے اپنی اپنی سطح پر جو عملی کوشش کر سکتے ہیں وہ کرنا ہے، اگر سارے ارکان یا اکثر ارکان اپنی انفرادی اور جماعتی سطح پر امت کے مسائل میں اپنی اپنی جگہ میں جو حصہ لے سکتے ہیں وہ حصہ لیں تو سکریٹریٹ کے کام کو بڑی تقویت مل سکتی ہے۔
شریعت کے تحفظ کی ذمہ داری تنہا کسی ایک یا دو ادارے قائم کرنے سے ہی پوری نہیں ہو جاتی بلکہ مطلوبہ مقصد کے لئے عملی طور پر ہر مسلمان اپنی اپنی جگہ جو کر سکتا ہے وہ بھی کرے تو ملت کے بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جائیں ، پھر نہ دارالقضاؤں کے قیام کی اتنی زیادہ ضرورت پڑے گی جیسی محسوس کی جا رہی ہے، نہ اصلاح معاشرہ کمیٹی کو اتنی محنت کرنی پڑے گی جتنی کہ اس کو کرنا ہے، دراصل شریعت کا تحفظ ملت کا اجتماعی مسئلہ بھی ہے اور امت کے ہر فرد کی ذمہ داری بھی ہے، ہمارا ملک بہت بڑا ہے، جس میں ملت پھیلی ہوئی ہے، اس وسیع الاطراف پھیلی ہوئی امت کے لئے بورڈ جیسا محدود وسائل اور محدود مادی قوت رکھنے والا ادارہ بغیر اپنے ہمدردوں اور ارکان کے مثبت تعاون کے بڑا کام انجام نہیں دے سکتا، اس کو کہیں تو کام کرنے والے افراد کے حصول کی کمی اور کہیں مادی ضروریات کو پورا کرنے میں محتاجی اس کے کام کو محدود بناتی رہتی ہے، ہمارے محترم ارکان اس کی طرف توجہ کریں کہ بورڈ کی انتظامیہ کے کام کو کیسے تقویت پہنچا سکتے ہیں اور مسلم عوام و خواص میں تحفظ شریعت پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلانے کے لئے وہ کیا کچھ کر سکتے ہیں اس کی طرف توجہ دیں ۔
ملک بڑا ہے اور ملت کے مسائل بھی بہت متنوع ہیں ، بورڈ اس کے سارے مسائل کا احاطہ نہیں کر سکتا، اور اس کا بنیادی اور اصل کام شریعت کی بقاء اور اس کے تحفظ کا ہے، باقی دیگر مسائل یا وہ مسائل جو بنیادی مسائل نہیں ہیں یا جن میں مسلکوں کا اختلاف ہے ان کو بورڈ اپنی کارکردگی میں عموماً نہیں لیتا، اس کے لئے مسلمانوں کی مختلف جماعتیں اور ادارے ان کے سلسلہ میں اپنی اپنی جگہ جو محنت کر رہے ہیں بورڈ ان کو کافی سمجھتا ہے اور قابل عمل حد تک اس میں جو تعاون ہو سکتا ہے وہ کر دیتا ہے۔
اسی طرح بنیادی معاملات میں بھی کوئی نیا مسئلہ اگر اچانک سامنے آ جاتا ہے تو اس کے سلسلہ میں بورڈ اپنی رائے کا اظہار کرنے میں جلدی نہیں کرتا، کیونکہ بورڈ کے بیان کے بہت ذمہ دارانہ ہونے کی ضرورت ہے، لہذا جب تک مسئلہ کی وجوہات اور کیفیت پوری طرح معلوم نہ کر لی جائے اس پر فوری طور پر بیان دینا ذمہ داری کے خلاف ہوتا ہے، البتہ بورڈ کا کوئی رکن اگر نئے ابھرنے والے مسئلہ کی اہمیت کو سمجھتے ہی کوئی بیان دیتا ہے تو اصولاً اس کا ذاتی بیان ہونا چاہئے اور صراحت ہونی چاہئے کہ وہ بحیثیت رکن بورڈ کے بیان نہیں دے رہا ہے بلکہ اپنی ذاتی حیثیت سے بیان دے رہا ہے، اور اگر واقعتہً بورڈ کی طرف سے جلد بیان دیئے جانے کی ضرورت محسوس کی جائے تو اس کے لئے بورڈ کے ترجمان، جنرل سکریٹری یا اسٹنٹ جنرل سکریٹری کو توجہ دلائی جا سکتی ہے، جو بورڈ کی ذمہ دارانہ حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے بیان دیں گے۔
حضرات! بورڈ کے ارکان منتخب حضرات ہیں وہ بورڈ کے وقار اور اہمیت کا خیال رکھیں گے ، تو اس کے کچھ کرنے کا کہنے کا وزن ہوگا اور وہ ذمہ داران حیثیت سے کام کرتا رہے گا، اور ملت کو اپنے بنیادی مسائل میں خصوصی مدد حاصل ہوگی، اسی طرح یہ بات بھی عرض کرنے کی ہے کہ بورڈ کے ارکان کا انتخاب مشورہ اور کثرت آراء سے ہوتا ہے، اس میں صدرو سکریٹری بھی محض اپنے عہدہ کی بنا پر رائے نافذ نہیں کر سکتا، کسی وقیع شخصیت کا انتخاب نہ ہو پایا ہو تو اس کو انتظامیہ کی کوتاہی یا زیادتی نہیں سمجھنا چاہئے، اور انتخاب کا عمل تو ہر تیسرے سال ہوتا ہے، کسی ایسی صورت میں موقع مل سکتا ہے۔
بہرحال یہ چند معروضات ہیں ، امید ہے کہ ان کو مخلصانہ اور ملت کے مفاد کا لحاظ کئے جانے کے تحت سمجھا جائے گا، تاکہ ہمارا بورڈ سب کے تعاون سے اپنا فرض انجام دیتا رہے۔
(حضرت مولانا )سید محمد رابع حسنی ندوی
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
جولائی تا ستمبر ۲۰۰۸ء
پیغام
الحمد ﷲ رب العالمین ، و الصلاۃ و السلام علیٰ سید المرسلین و خاتم النبیین سیدنا محمد ، و علیٰ آلہ و صحبہ أجمعین ، أما بعد :
اﷲ رب العالمین نے اپنے آخری نبی حضرت محمد (ﷺ) کے ذریعہ ہم انسانوں کو جو شریعت عطاء فرمائی ، اس میں انسانوں کی زندگی کی واقعی ضرورتوں اور تقاضوں کا پورا لحاظ رکھا ، اور اس کو آنے والے زمانوں اور دنیا کے مختلف علاقوں کے لحاظ سے بھی قابل عمل بنایا ، اسی لیے اس شریعت کو زندگی کے صرف عبادتی پہلو تک محدود نہیں رکھا ، بلکہ اس میں زندگی کے تمام پہلوؤں اور انسانی تقاضوں کی رعایت رکھی ، اسی کے ساتھ اس کو انسان کی خود غرضی اور نفسانی خواہشات کو کنٹرول کرنے والا بنایا ، تاکہ انسان اس زمین پر ایک دوسرے کے ساتھ آپسی میل جول اور خیر پسندی کے ساتھ زندگی گذار سکے ، اور اس پر عمل کرنے میں ایسی سہولت رکھی کہ مختلف انسانی حالات میں وہ قابل عمل ہو ، چنانچہ گذشتہ چودہ سو سال کے دوران انسانی زندگی پر جو مختلف دور گزرے ان میں اسلامی شریعت پر عمل کرنے میں کوئی دشواری یا پریشانی پیش نہیں آئی ، اس شریعت کو ماننے اور اس پر چلنے والوں کو حکومت کی ذمہ داریوں سے بھی گزرنا ہوا ، اور کبھی اکثریت میں اور طاقت میں ہونے کے حالات سے اور کبھی اقلیت میں ہونے اور کمزور ہونے کے حالات سے گزرنا ہوا ، کبھی ناخواندہ معاشرہ کا بھی حصہ بنے، اور تعلیم یافتہ ماحول بلکہ علوم و فنون کی سرپرستی کرنے کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کا بھی موقع ملا ، ان سب حالات میں اسلامی شریعت پر عمل کرنے اور اس کو زندگی کے مختلف پہلوؤں میں جاری و ساری رکھنے میں دشواری نہیں ہوئی ، اس شریعت کو اقتدار کے شخصی دور میں بھی دشواری نہیں ہوئی ، اور اب دنیا میں جمہوری نظام کے عام ہو جانے پر بھی دشواری نہیں ، بلکہ یہ صورت حال خاصی حد تک سازگار ہے۔
اس شریعت کی یہ وہ بڑی خوبی ہے جس کی بناء پر ہر زمانہ اور ہر معاشرہ میں اس پر عمل درآمد آسان رہا ہے اور اس کی تلقین کی جاتی رہی ہے ، اور چونکہ یہ شریعت انسانوں کی بنائی ہوئی نہیں ہے ، بلکہ اس ارض و سماء اور اس کی مخلوقات کے خالق اﷲ رب العالمین کی طرف سے مقرر کردہ ہے ، اور وہ انسان کی طاقت عمل اور ضرورت کو سب سے زیادہ جانتا ہے ، اس لیے یہ قانون شریعت انسان کی فطرت کے بالکل مطابق ہے ، اسی لیے دین اسلام کو ’’ دین فطرت ‘‘ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے ، اور چونکہ یہ شریعت اسی ذات اعلیٰ و اجل ّکی مقرر کردہ ہے اس لیے اس کی مخلوق میں سے کسی کو بھی اس میں کسی ترمیم و تغییر کا حق نہیں ہے ، اس کو اسی طرح عمل میں لانا ہوگا جس طرح وہ مقرر کی گئی ہے ، اور اس ذات مقدس خالق انس و جن نے اپنے بندوں پر یہ لازم کر دیا کہ وہ اپنی زندگیوں میں اس کی پابندی کریں اور اپنے کردار اور طریقۂ زندگی میں اس کے خلاف نہ جائیں ، قرآن مجید میں فرمایا { فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ، ثم لا یجدوا في أنفسھم حرجاً مما قضیت ، و یسلموا تسلیماً } (سورۃ النساء : ۶۵) (ترجمہ) (سنئے ،توجہ کیجئے) قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ ایمان والے نہ ہوں گے جب تک ان میں یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جو جھگڑا واقع ہو اس میں یہ لوگ آپ سے تصفیہ کرا ویں ، پھر آپ کے اس تصفیہ سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پائیں ، اور پورے طور پر تسلیم کر لیں )۔
شریعت اسلامی کی یہ اہمیت ہوتے ہوئے ہندوستان میں جب یہ بات سامنے آنے لگی کہ اس شریعت میں کسی طرح کے تغیر کا کوئی ارادہ پیش نظر لایا جا رہا ہے تو مسلمانوں نے اس بات کو واضح کر دیا کہ یہ صورت قابل قبول نہیں ہو سکتی ، اور جب ہندوستانی دستور مسلمانوں کو اپنی شریعت یعنی مذہبی احکام پر عمل کرنے کی اجازت بھی دے چکا ہے تو اس کو روکنے یا کسی طرح کا تغیر کرنے کی کیسے اجازت دی جا سکتی ہے!!!۔
لہذا مسلم پرسنل لا کی حفاظت کی فکر کرنے کے لیے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ قائم ہوا ، اور اس نے اپنی گذشتہ ۳۸ سالہ مدت میں اس سلسلہ کی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں جو مسرت کی بات ہے، اور بورڈ اس سلسلہ میں مسلمانوں کا متحدہ پلیٹ فارم رہا ، یہ مزید خوشی کی بات ہے، لیکن اس خوشی کی بات کے ساتھ ہم پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اس شریعت کی حفاظت صرف غیروں سے ہی کرانا نہیں ہے ، بلکہ ہم کو اس بات کا بھی خیال رکھنا ہے کہ اس کی حفاظت خود ہماری زندگیوں میں بھی پابندی سے ہو،لہذا ہم کو اپنی زندگیوں کا برابر جائزہ بھی لیتے رہنا ہے کہ ہم اپنے خالق و مالک رب العالمین کے مقرر کردہ احکام پر کس حد تک عمل کر رہے ہیں ، اور اس سلسلہ میں جو کوتاہی ہے اس کو دور کرنے کے لیے ہم کیا تدبیریں اختیار کر رہے ہیں ۔
لہذا بورڈ نے اس کے لیے بھی فکر اپنے پروگرام میں رکھی ہے ، چنانچہ شریعت پر عمل کرنے میں کوتاہی کو دور کرانے کے لیے اصلاح معاشرہ کمیٹی قائم کی گئی ہے ، شریعت کے مطابق فیصلے حاصل کرنے کے لیے دار القضاء کا انتظام کیا گیا ہے ، اس کے لیے کمیٹی ہے جو اس کا انتظام کرتی ہے ، شریعت کے احکام کی وضاحت کے لیے تفہیم شریعت کمیٹی قائم ہے، اور عدالتی معاملات کے لیے قانون شریعت کمیٹی ہے ، اور الحمد ﷲ یہ کمیٹیاں اپنا اپنا کام انجام دے رہی ہیں ۔ ضرورت ہے کہ سب مسلمان احکام الہی کی فرمانبرداری کی فکر رکھیں ، اور بورڈ کی ان کمیٹیوں کے ساتھ تعاون کریں اور ان سے حسب ضرورت فائدہ اٹھائیں ۔
مسلمانوں کی یہ امت زندہ اور تابندہ امت ہے ، اس کو اپنی خصوصیات اور تشخصات کو برقرار رکھنے کی برابر فکر رکھنا ہے ، اور احکام الہی کو پورے طور پر جاری اور قائم رکھنا ہے ، اسی کے ذریعہ یہ امت رب العالمین کے دربار میں سرخرو اور کامیاب ہوگی ، اور اپنے رسول مقبول حضرت محمد مصطفی (ﷺ) کو روز قیامت مسرور و شادماں کرے گی۔
(حضرت مولانا )سید محمد رابع حسنی ندوی
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
اکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۸ء
پیغام
کرۂ ارضی پر انسانوں کے طرز عمل کی یہ تاریخ رہی ہے کہ انسانوں کو اپنی اجتماعی زندگی میں اجتماعیت پیدا کرنے اور اس کو متعینہ نظام کے تحت لانے کے لیے کچھ اصول و اقدار طے کرنے ہوتے ہیں ، یہ اصول و اقدار کچھ تو اپنے سے پہلے کے لوگوں کے اختیار کردہ طریقہائے زندگی سے ماخوذ ہوتے ہیں اور کچھ اس سوسائٹی کے دانشور افراد متعین کرتے ہیں ، جن کو باقاعدہ طے کر دیئے جانے پر ان پر عمل ضروری قرار دے دیا جاتا ہے، یہی عمل جب متمدن سطح پر انجام دیا جاتا ہے تو اس کو ملک و قوم کا دستور قرار دیا جاتا ہے، دنیا میں اسی کا رواج ہے، لیکن اس طرح کے دستور و ضوابط چونکہ انسانوں کے بنائے ہوئے ہوتے ہیں ، اس لیے ضروری نہیں کہ وہ مکمل و اعلیٰ ترین معیار کے ہوں ، اور ان میں انسان کی کامل فلاح کی پوری ضمانت ہو، یہ ضوابط اور قوانین کتنے ہی بہتر اور کامیاب ہوں اگر ان کو آسمانی رہنمائی حاصل نہ ہو تو یہ ضرورت کو احسن اور بہتر طریقہ سے انجام دینے میں کوتاہ رہتے ہیں ، لیکن جو لوگ آسمانی رہنمائی کی ضرورت کو نہیں تسلیم کرتے وہ قانون سازی میں صرف اپنے انسانی علم و تجربہ پر انحصار کرتے ہوئے اسی پر اکتفاء کر لیتے ہیں ، البتہ وہ جو اس ابدی حقیقت کو مانتے ہیں کہ انسانوں کو خواہ کتنے ہی دانشور ہوں اپنے بنانے والے اور پیدا کرنے والے کی ہدایت و رہنمائی کی ضرورت ہے، وہ دستور سازی میں اس کا خیال رکھتے ہیں ۔
اپنے خالق و مالک کی رہنمائی ہم انسانوں کو اپنے اپنے عہد میں مبعوث ہونے والے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ سے حاصل ہوتی رہی ہے، اور یہ انبیاء ہر قوم و زمانہ میں حسب ضرورت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جاتے رہے ہیں ، اور اپنے اپنے زمانے کی ضرورت کے مطابق پیغام ہدایت و رہنمائی لاتے رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا کے جدید عہد کے لیے جو آج سے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال قبل شروع ہوا، اس کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے، ان کی رہنمائی و ہدایت سے پوری انسانیت کو کامل و اعلیٰ مرتبہ کی راہ حاصل ہوئی، اس کے لیے ان سے ملنے والی ہدایات کی دو بڑی خصوصیتیں سامنے آئیں ، ایک تو یہ کہ دنیا کی متفرق قوموں کو یکساں طور پر راہ حق ملی اور ان کو اجتماعیت کے یکساں اصول حاصل ہوئے، دوسرے یہ کہ علم کی اہمیت بڑھی اور اس کو عمومیت اور انسانیت کے لیے خیر خواہانہ مزاج حاصل ہوا اور وہ اس لیے کہ اس کائنات کے خالق و مالک کی طرف سے علم کو روز اول سے انسان کی اہم ترین خصوصیت قرار دیا گیا ہے، جس کا ذکر اس کی مقدس کتاب قرآن مجید میں کیا گیا ہے، چنانچہ آخری نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت سے ان کی رہنمائی اور ہدایات کے تحت دو باتیں خاص طور پر سامنے آئیں ، ایک تو انسانوں کو ان کے ضابطہ حیات کے لیے ضروری علم حاصل ہوا، اور آسمانی رہنمائی عالمی سطح پر اور زندگی کی ساری وسعتوں کے لحاظ سے حاصل ہوئی، جس کا ثبوت اس شاندار تاریخ سے ملتا ہے جس میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت پر عمل انسانوں کے تمام طبقات میں عام ہوا، اور وہ انسانی زندگی میں انسان کی انفرادی و اجتماعی ساری ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھنے والا تھا، اور اس سے فائدہ اٹھانا اسلام کے ہر فرزند کے لیے ضروری قرار پایا تاکہ وہ اپنے پروردگار کی طرف سے اس کے آخری نبی کے ذریعہ جو معلومات اور ہدایات اس تک پہنچی ہیں ان سے اس کو صحیح روشنی ملے اور اس کی زندگی کے طور طریق ان روایات کے خلاف نہ ہوں ، یہی شریعت اسلامی ہے، اور اس کے احکام پر ذرا بھی نظر ڈالی جائے تو یہ بات صاف ظاہر ہو جاتی ہے کہ اس کے قوانین انسان کے فطری تقاضوں اور انسانی ضرورتوں سے ٹکراتے نہیں ہیں ، بلکہ ان کو زیادہ بہتر سانچہ مہیا کرتے ہیں ۔
دنیا میں اس وقت عموماً ہر جگہ زندگی کو بہتر بنانے کی غرض سے جمہوریت کا نظام اختیار کیا گیا ہے، اس میں بیشتر باتیں ایک حد تک انسان کی ضرورت کے لحاظ سے رکھی گئی ہیں ، لیکن اس کو خدائے واحد کے احکام اور اس کی تعلیمات کی رہنمائی حاصل کر کے مکمل طریقہ سے بہتر بنایا جا سکتا ہے، کیونکہ انسانوں کو پیدا کرنے والی ذات اقدس انسان کی ضرورتوں اور خصوصیات اور تقاضوں کو سب سے زیادہ جاننے والی ہے۔
ہندوستان کا دستور ملک کے بڑے دانشوروں کا بنایا ہوا ہے، اور اس میں ملک کے مختلف فرقوں کی رعایت رکھی گئی ہے، یہ دستور اپنے عمومی قوانین پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ اپنے اپنے مذہبی احکام پر عمل کرنے کی اجازت دیتا ہے، اور یہاں پر ذمہ داران حکومت اس دستور کی اجازت کے پابند ہیں ، لیکن ہمارے مذہبی قوانین پر عمل کرنے کرانے کی فکر اور اس کو ضروری سمجھنا اصلاً خود ہماری بھی ذمہ داری ہے، اور اس سلسلہ میں ہم پر عائد یہ ذمہ داری دو پہلو رکھتی ہے، ایک تو یہ کہ ہم سب مسلمان اپنی زندگیوں میں خود اپنے مذہبی احکام یعنی اسلامی شریعت پر عمل کرنے کا اہتمام رکھیں ، اور دوسرے یہ کہ اگر باہر سے اس میں کوئی رخنہ ڈالا جائے یا اس میں تغیر کا مطالبہ ہو تو ہم ملک کے دستور میں ملی ہوئی اجازت کے حوالہ سے اس کا مقابلہ کریں ، اس سلسلہ میں ملک کے جمہوری اور دستوری ہونے کی بناء پر ہماری جدوجہد جمہوریت اور دستور کے مطابق ہوگی اور اس طرح ہم پر امن طریقہ سے اس رکاوٹ کو دور کر سکتے ہیں ، ہمارا آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اسی مقصد کے لیے قائم کیا گیا، اور وہ الحمدللہ مسلمانوں کے متحدہ پلیٹ فارم کی حیثیت سے اپنا فرض انجام دے رہا ہے، مسلمانوں کی شریعت میں غیروں کی طرف سے تغیر کا جو رجحان سامنے آیا تھا، اس کے مقابلہ کے لیے آج سے ۳۷ سال قبل بورڈ کے کام کا آغاز ہوا تھا، اس دوران کئی مسئلوں میں کامیابی ملی اور ضرورت کو دیکھتے ہوئے بورڈ کا دائرہ عمل بھی بتدریج بڑھا، چنانچہ بورڈ نے متبنی کے سلسلہ میں اور یکساں سول کوڈ کے سلسلہ میں اور مطلقہ کے نفقہ کے سلسلہ میں قانون و دستور اور جمہوری طریقوں کو اختیار کرتے ہوئے جدوجہد کی، اور اب حال میں داڑھی اور پردہ کے سلسلہ میں کچھ باتیں اٹھی ہیں ، ان میں بھی بورڈ ضابطہ و قانون کا لحاظ کرتے ہوئے ضروری فکر و توجہ سے کام لے رہا ہے، اور نچلی عدالتوں کے بعض فیصلے اور اسی طرح کے بعض دیگر معاملات اور شریعت اسلامی میں مداخلت کو روکنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا خود بھی اپنی شریعت پر عمل کرنے کی طرف بھی توجہ دینے کی کوشش بورڈ کی طرف سے کی جا رہی ہے، اس کے تحت اصلاح معاشرہ کا کام، تفہیم شریعت کی کوشش اور دارالقضاء کے قیام جیسی ضرورتوں کی اہمیت محسوس کرتے ہوئے کمیٹیاں ہیں جو اپنی اپنی ذمہ داری کی فکر کرتی ہیں ، لیکن بورڈ کے ذرائع محدود ہیں ، جو کام ہوا، ان ہی محدود ذرائع کے اندر ہوا،مزید کے لیے اس کو اپنے دانشور حامیوں اور دین شریعت کا صحیح جذبہ رکھنے والے لوگوں کے تعاون کی خاصی ضرورت ہے، تاکہ تحفظ شریعت کے یہ دونوں میدان صحیح طور پر لوگوں کی توجہ حاصل کر سکیں ، اور اس کا حسب طلب نتیجہ سامنے آسکے، بورڈ کوئی حکومتی یا حکومت سے امداد یافتہ ادارہ نہیں ہے، اس کو خود اپنے ہم مذہب بھائیوں کے تعاون سے اپنا کام چلاناہوتا ہے، اور ان کے تعاون کی مقدار کے مطابق ہی وہ کام انجام پاتا ہے۔
ان کاموں کی ترقی و وسعت کے لیے سب کے اور زیادہ تعاون کی ضرورت ہے، بورڈ چونکہ اعلیٰ مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے قائم ہوا تھا، وہ الحمدللہ اسی پر گامزن ہے، اس میں سارے مسلمانوں کی نمائندگی بھی ہے، اعلیٰ مقصد کے لیے کوشش اور سارے مسلمانوں کی مشترکہ نمائندگی، یہ وہ خصوصیت ہے جو الحمد للہ بورڈ کو حاصل ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک نعمت ہے، اس پر ہم اس کے شکر گزار ہیں ۔
(حضرت مولانا )سید محمد رابع حسنی ندوی
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
جنوری تا مارچ ۲۰۰۹ء
پرسنل لا بورڈ کی ضرورت اور اس کا دائرۂ کار
انسانی زندگی کو اعلیٰ انسانی اقدار کا پابند رکھنے اور اس کو خالق کائنات رب العالمین کے حکموں کے مطابق گزارنے کے لیے جو ہدایات اسلام اور دیگر مذاہب میں دی گئیں ہیں ان کے درمیان بڑا فرق پایا جاتا ہے، اسلام کے برخلاف دیگر مذاہب میں جو احکام دیے گئے ہیں وہ عموماً اپنے اپنے تصور کے مطابق عقیدہ اور عبادت کی چند رسموں تک محدود ملتے ہیں ، لیکن اسلام کا معاملہ اس سلسلہ میں بہت مختلف ہے، اس میں توحید کے واضح عقیدہ اور عبادت کے متعدد پہلوؤں پر مشتمل اور جامع نظام رکھا گیا ہے، اور ان پر کسی کمی و بیشی کے بغیر عمل کرنا لازم قرار دیا گیا ہے، اور اسی کے ساتھ زندگی کے دیگر تمام احوال و معاملات کے سلسلہ میں بھی متعینہ احکام دیے گئے ہیں ، اور یہ سب ’’شریعت اسلامی‘‘ کے تحت آتے ہیں ، اور ان کی پابندی اسلام کے سب ماننے والوں کے لیے خدائے برتر و اعلیٰ کی طرف سے ضروری قرار دی گئی ہے، اور چونکہ یہ احکام خدائے برتر و اعلیٰ کی طرف سے ہیں اس وجہ سے ان میں کسی انسانی تصرف یا تغیر کی گنجائش نہیں دی گئی ہے، یہ احکام عبادت کے تعلق سے ہوں یا دیگر پہلوؤں کے سلسلہ کے ہوں ، انفرادی زندگی کے ہوں یا عائلی، سماجی معاملات کے ہوں ، آپسی تعلقات کے ہوں یا مالی معاملات کے ہوں ، یہ سب شریعت اسلامی کی رہنمائی و ہدایات کے تحت رکھے گئے ہیں ، ان میں اجتماعی و سماجی معاملات کے سلسلہ کے احکام اور عمل کرانے کی ذمہ داری اصحاب اقتدار پر رکھی گئی ہے، اور انفرادی دائرہ میں آخرت میں ملنے والی جزا و سزا کے حوالہ سے تلقین و نصیحت رکھی گئی ہے، اور جو معاملات شخصی اور انفرادی حالات سے تعلق رکھتے ہوں ان کے لیے بھی آخرت کی سزا و جزا کا احساس دلانے اور نصیحت و تلقین کی صورت رکھی گئی ہے۔
اس طرح انسانی زندگی کے صلاح و فلاح کے لیے اسلامی قانونِ شریعت بڑا ہمہ گیر، اور زندگی کی ضرورتوں اور تقاضوں پر عمل کرنے کے سلسلہ میں اچھے برے کے درمیان واضح فرق بتانے والا اور پھر اس کو کنٹرول کرنے والا ہے، اسلامی شریعت کے احکام کے اجراء کے سلسلہ میں ایک خاص بات یہ رکھی گئی ہے کہ قوت حاکمہ کے ذریعہ ضابطوں کا نفاذ صرف اسلام کے ماننے والوں کے لیے رکھا گیا ہے، اسلام سے باہر کے لوگوں پر ان کا نفاذ نہیں رکھا گیا ہے، ان کو ان کے مذہب کے مطابق عمل کرنے کا حق دیا گیا ہے، یہ وہ طرز عمل ہے جس کو حاکمانہ اقتدار رکھنے والی اسلامی حکومتوں نے برابر اختیار کیا ہے، کیونکہ قرآن مجید میں آیا ہے ’’لا إکراہ في الدین‘‘ کہ دیگر مذاہب کے لوگوں پر مذہب کے سلسلہ میں دباؤ نہیں ہے۔ یہ صرف اسلام کے ماننے والوں کے لیے لازم کیا گیا ہے کہ زندگی کے معاملات خواہ انفرادی دائرے کے ہوں یا اجتماعی زندگی کے ہوں ، مالی معاملات ہوں یا عائلی خاندانی معاملات ہوں ، ان سب میں احکام الٰہی کی پابندی ضروری ہے، اس طرح مسلمان اقتدار کے تحت ہوں یا اسلامی اقتدار کے باہر ہوں ان کے لیے احکام الٰہی پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے، مسلمان اگر کسی غیر اسلامی اقتدار کے ملک میں ہیں تو ان کا مطالبہ اس حکومت سے یہ ہوتا ہے کہ جس طرح اسلامی اقتدار میں غیرمسلم قوموں کے مذہبی امور میں مداخلت کا حق ملک کی قوت حاکمہ کو نہیں ہوتا تو اسی طرح مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں غیر مسلم حکومت کو بھی مداخلت نہیں کرنی چاہئے، اور خاص طور پر جب ملک کا دستور سیکولر ہونے کی بناء پر کسی کے مذہبی امور میں مداخلت کا حق نہیں دیتا، لہٰذا قانونی طور پر بھی مسلمانوں کا یہ حق بنتا ہے کہ ان کے مذہبی معاملات میں سیکولر حکومت کو دخل نہیں دینا چاہیے، اسی اصول و قاعدہ پر عمل کرانے کے لیے اور اس سلسلے میں اسلامی شریعت پر عمل کرنے کے جذبہ کا تحفظ برقرار رکھنے کی فکر کرنے کے لیے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی ضرورت پڑی، اور اس کے ذریعے اس ملک میں مذہبی حقوق کے تحفظ کے لیے جب ضرورت پڑی کوشش کی گئی اور الحمد للہ کامیابی ہوئی، اس طرح ہمارے اس ملک میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ایک ایسا جامع اور معین ادارہ بن گیا جو ہماری اسلامی شریعت کے بقا و تحفظ کا اہم کام انجام دیتا ہے، یہ مسلمانوں کے مشترکہ ادارہ کی حیثیت سے مسلمانوں کے مختلف مسلکوں اور مختلف نقطۂ نظر کی جماعتوں کی پوری نمائندگی رکھتا ہے، اور اس طرح اتفاق و وحدت کے ساتھ مسلمانوں کے مشترکہ مذہبی احکام کے تحفظ کی ذمہ داری انجام دیتا ہے، وہ احکام جن میں مسلکی اختلاف ہے یا نقطہائے نظر کا فرق ہے ان کو انھی مسلکوں اور انھی نقطہائے نظر کی ذمہ داری کے ساتھ مخصوص رکھتا ہے، اور ان میں دخل نہیں دیتا، کیوں کہ وہ احکام ان کے مسلکوں کا داخلی معاملہ ہے جن کو دیکھنے اور فکر کرنے کی ذمہ داری انہیں مسلکوں کے ذمہ داروں کی ہے، اسی طرح ان معاملات میں بھی جو مشترک ملکی معاملات ہیں اور ان میں مسلمان اور غیر مسلمان دونوں یکساں شریک ہیں ، ان کو بھی بورڈ ملک کی سیاسی، علاقائی و ملکی سطح کی جماعتوں کے ساتھ مخصوص کرتا ہے، اور ان میں دخل دینا اپنا فریضہ نہیں سمجھتا، اس طرح بورڈ کو ملت کے اختلافی و جزئی معاملات میں الجھنے سے اپنے کو محفوظ رکھنے کا فائدہ حاصل ہوتا ہے، اور بورڈ کی آواز شریعت اسلامی کے معاملات اور ان کے تحفظ کے دائرے میں رہتی ہے، اور وہ اس سلسلہ میں مسلمانوں کی مشترکہ و متحدہ آواز سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے ارکان کرام الحمدللہ بورڈ کے اس نظام و رویہ سے اتفاق رکھتے ہوئے پورا تعاون دیتے ہیں ، اور اس طرح بورڈ کو اپنی ذمہ داری انجام دینے میں مدد ملتی ہے، ضرورت ہے کہ بورڈ کو اس کے دائرے میں شامل مسلمانوں کے تمام گروہوں کے ذمہ داروں کی طرف سے یہ تعاون ملتا رہے جو خود مسلمانوں کے مشترکہ معاملات کے لیے تقویت کا ذریعہ ہے اور اس سے اسلامی امت کو اپنی آواز کو مضبوط بنانے کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
(حضرت مولانا )سید محمد رابع حسنی ندوی
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
اپریل تا جون ۲۰۰۹ء
مسلمانوں کی عید ــ ــ شیطان کا روزہ
مسلمانوں کو اسلام نے دو عیدیں عطا کی ہیں ، ایک عیدالفطر دوسری عید الاضحی، یہ دونوں عیدیں اور تہوار حضور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے پر اہل مدینہ کے تہواروں کو دیکھ کر مسلمانوں کو پروردگار عالم کے حکم سے ان کی ضروریات اور خصوصیات کا لحاظ رکھتے ہوئے بتائے تھے، اس وقت سے یہ مسلمانوں کے تہوار ہیں جن کو تمام دنیا کے مسلمان جو دنیا کے مختلف علاقوں اور ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنی زندگی کو اپنے رسول پاکؐ کے بتائے ہوئے طریقہ کا پابند مانتے ہیں ، خوشی و مسرت کے دن کی حیثیت سے اختیار کرتے اور مناتے ہیں ، دنیا کے تمام ملکوں اور قوموں میں اپنے اپنے حالات و خصوصیات کے لحاظ سے تہوار ہوتے ہیں ، ہر قوم کے تہوار میں اس قوم کے مذہبی واقعات یا زراعتی موسموں کی تبدیلی کے ساتھ ایک ربط ملتا ہے، اور اس طرح ہر قوم کا تہوار اس کی اپنی مذہبی اور دنیاوی ثقافت کا مظہر ہوتا ہے، جس میں اس قوم کے قومی احساسات اور دینی تصورات کی جھلک ملتی ہے اسی لیے تہوار ایک ایسا موقع ہوتا ہے کہ اس میں قوم کے سب خاص و عام یکساں طریقہ سے حصہ لیتے ہیں اور اس طریقہ سے ان تصورات سے اپنی وابستگی کا ثبوت دیتے ہیں ، جو تہوار کے پس منظر میں ہوتے ہیں ۔
مسلمانوں میں عید الفطر اور عید الاضحی ان کے مشترک دینی اور ملی تصورات کا مظہر ہیں ، مسلمانوں کے مشترک تصورات خدائے واحد کی بندگی اور اس کی اطاعت کے احساس سے وابستہ ہیں ، اس بندگی اور اطاعت کے احساس کو ان کی مسرت و خوشی کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے، چنانچہ مسلمانوں کی یہ عیدیں بیک وقت اطاعت خداوندی کا رمز اور سرور و شادمانی کا موقع ہیں ، عیدالفطر ایک ماہ کے روزوں کے اختتام پر آتی ہے اور عید الاضحی خدا کے حضور میں نذرانہ بندگی پیش کرنے کی علامت کے طور پر انجام پاتی ہے اس طرح دونوں دن اطاعت خداوندی اور اس کے لیے اپنی مثالی کارکردگی کے انجام دینے پر پُر مسرت اظہار کے دن ہوتے ہیں ۔
اسلام نے مسلمانوں کو دنیا و دین دونوں کو جمع کرنے کی تلقین کی ہے، دنیا کے وہ تقاضے جو انسانی فطرت کا نتیجہ ہیں ، انکو پورا کرنے کی نہ صرف یہ کہ اجازت دی گئی ہے بلکہ اگر ان کے پورا کرنے میں یہ احساس شامل رکھا جائے کہ ان کے پورا کرنے کی ہم کو ہمارے خدا نے اپنی خوشی کے ساتھ اجازت دی ہے اور ہمارے رسول برحق نے اس اجازت کو خدا کی مرضی کی اجازت بتایا ہے تو ان دنیاوی تقاضوں کو پورا کرنے میں بھی وہ ثواب ملتا ہے جو عبادت میں ملتا ہے، اس طرح ایک مسلمان کو خوشی منانے کی اجازت ملنے پر خوشی منانے پر بھی ثواب ملتا ہے ، اس کو اپنی دنیاوی ضرورت کو خدا کی اجازت کی بنا پر پورا کرنے پر بھی اجر ملتا ہے، چنانچہ عیدالفطر ہو یا عید الاضحی ان میں اچھا لباس زیب تن کرنا اور مسرت کا اظہار کرنا بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کی اجازت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کرنے پر ثواب ملتا ہے، پھر دونوں عیدوں کے پس منظر میں جو مذہبی محرک پایا جاتا ہے وہ ان دونوں عیدوں کو صرف ثواب کا موقع ہی نہیں بلکہ ان دنوں کو مجسم مذہبی موقع بنا دیتا ہے، اسی کو کہتے ہیں ’’ہم خرما و ہم ثواب‘‘ کہ ایک طرف تو اچھا لباس پہننا پسندیدہ کھانے کھانا، ایک دوسرے سے مسرت و لطف کا اظہار کرنا، جشن کی شکل میں سب کا عیدگاہ جانا، دوگانہ ادا کرنا اور واپس آنا اور عید کی مبارک باد دینا، ملنا اور پُر لطف طریقہ سے کھانا کھانا، کھلانا ملتا ہے، دوسری طرف مذہبی اور سنجیدہ طریقہ سے طہارت و صفائی کرنا اور دعاؤں کے ساتھ عیدگاہ جانا اور وہاں سب کا مل کر اپنے پروردگار کے سامنے سر بسجود ہونا، امام و خطیب سے نصائح سننا، اللہ اکبر اللہ اکبر کا ورد کرنا اپنے پروردگار کا شکر بجا لانا ملتا ہے۔
عیدالفطر میں اپنے پروردگار کا شکر کہ اس نے مہینہ بھر کے روزوں کا جو حکم دیا تھا اس حکم کو بجا لانے کی توفیق ملی، کسی نے اگر کچھ روزے چھوڑ دیئے تو اس لیے کہ اس کے پروردگار کی طرف سے اجازت ہے کہ بیمار ہو یا سفر پر ہو تو آئندہ کے لیے روزہ مؤخر کرتے ہوئے عام دنوں کی طرح کھا پی سکتے ہو، لیکن سر بازار نہیں بلکہ ذرا نظروں سے بچ کرتا کہ روزہ کی جو عمومی و مجموعی فضا ہے وہ خراب نہ ہو۔
ایک ماہ کی ایک خاص کارکردگی پوری کی ہے اس کا ثواب بھی ملے گا اور خوش ہو اور خوشی کا اظہار بھی کرو، اب رہ گئے وہ لوگ جو بلا عذر محض کوتاہی میں یہ فرض روزے نہیں انجام دے سکے ان کو عیدالفطر یہ احساس دلاتی ہے کہ ان سے کوتاہی ہوئی کہ سب بھائی بند تو اچھی کارکردگی انجام دے کر سرخرو ہوئے، اور یہ اس سرخروئی سے رہ گئے اب یہ اپنے پروردگار سے عفو و معافی کے طالب ہوں ، اور اس کی تلافی قضاء کی صورت میں کریں ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے پروردگار کی طرف سے عطا کئے ہوئے خوشی کے اس موقع میں شریک رہیں ، خوشی کا دن ہے اور پروردگار کی طرف سے عطا کیا ہوا ہے اس کو لیں اور اس سے اپنے کو محروم نہ کریں ۔
عید کا دن خوشی اور کھانے پینے کا دن خود پروردگار عالم کی طرف سے بنایا گیا ہے اس لیے اس کے بھی خلاف کرنے کی اجازت نہیں ، عید کے دن کوئی روزہ رکھنا چاہے تو بذات خود روزہ رکھنا اچھا اور نیکی اور عبادت کا عمل ہے لیکن عید کے دن وہ حرام ہے کیونکہ جب پروردگار یہ کہتا ہے کہ کھاؤ پیو اور خوش ہو، ایسے میں بندہ کے لیے کیسے اس کی اجازت ہو سکتی ہے کہ نہیں ہم صبح سے شام تک کچھ نہیں کھائیں گے روزہ رکھیں گے، حدیث شریف میں آیا ہے کہ عید کے دن شیطان روزہ رکھتا ہے، لیکن اس کا روزہ اپنے پروردگار کو خوش کرنے یا اس کے حکم کی اطاعت میں نہیں ہوتا، وہ اس رنج و غم میں ہوتا ہے کہ کتنی کثرت سے آدمیوں نے اپنے پروردگار کی زبردست اطاعت کر دکھائی کہ پورے ایک مہینے، دن میں بھوکے پیاسے رہے اور کتنے بشری تقاضوں کو دن کے حصہ میں روکے رکھے رہے، ایسی زبردست اطاعت اور کارکردگی انجام پا گئی لہٰذا اس افسوس میں شیطان کچھ کھاتا پیتا نہیں گویا روزہ رکھتا ہے اور خوشی کے اس موقع پر غم مناتا ہے۔
روزہ کی کارکردگی واقعی ایک اعلیٰ کارکردگی ہے جس کے بارے میں خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر عمل کا اجر تو اس طرح دیا جائے گا جیسا مقرر کیا گیا ہے، لیکن روزہ کا اجر میں خود خاص طریقہ سے اپنی طرف سے دوں گا، لہٰذا شیطان کا عید کے دن روزہ رکھنا اور غم کرنا بجا ہے کہ اس کے شکار سے کتنے انسان نہ صرف یہ کہ بچ نکلے بلکہ اس کی تدبیر و کوشش کو برباد کر گئے اور روزہ داروں کی خوشی بھی بجا ہے کہ انہوں اپنے کو شیطان کے نرغے سے بچا لیا اور اپنے پروردگار کو راضی و خوش کیا، وہ اپنے پروردگار کی عظمت اور وحدانیت کا کلمہ پڑھتے ہوئے عید کے روز نماز کے لیے جاتے ہوئے یہ الفاظ ادا کرتے ہیں ، ’’اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الٰہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر و للّٰہ الحمد‘‘ اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہر طرح کی ستائش اور خوبی اسی کے لیے ہے، اور اس طریقہ سے وہ شیطان کے روزے کو اور بھی سخت اور تکلیف کا روزہ بنا دیتے ہیں ۔
(حضرت مولانا )سید محمد رابع حسنی ندوی
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
جولائی تا ستمبر ۲۰۰۹ء
٭٭٭
آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کی اجازت اور تشکر کے ساتھ
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل۔ اعجاز عبید