FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

ماں کے آنسو

 

 

 

                سلمیٰ یاسمین

 

 

 

 

 

پیش لفظ

 

محترمہ سلمیٰ یاسمین نجمی صاحبہ نے اس افسانہ ’’ماں کے آنسو‘‘ میں موجودہ معاشرے میں اولادوں کی طرف سے اپنے والدین کے تئیں برے سلوک کی تصویر کشی کی ہے۔ زمانۂ حاضر سے مماثلت رکھتے ہوئے اس میں بہت سے گھریلو مسائل پر بھی مفید اور نصیحت آموز باتیں افسانے کی صورت میں پیش کی گئی ہیں ۔

اس وقت معاشرہ بہت ساری خرابیوں سے دوچار ہے اور ہر شخص اپنے بیتے دنوں کی بات کر کے ان کے محاسن اور اس وقت کے لوگوں کی خوبیوں کو یاد کر کے خون کے آنسو بہاتا ہے، اور تمنا کرتا ہے کہ کاش وہ پرانے لوگوں کا حُسن معاشرت پھر سے لوٹ آئے۔ تاکہ آج کی طرح معاشرے میں والدین اس طرح کی بے بسی کی تصویر نہ بن جاتے۔ تاریخ کے دامن میں حضرت اویس قرنی  ؒ کا وہ واقعہ ناقابل فراموش ہے کہ جب انہیں حضور ﷺ پر ایمان لانے کی سعادت نصیب ہوئی تو آپؐ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتے تھے لیکن ماں کی شدید علالت اور ان کی خدمت کی وجہ سے حاضری سے معذور تھے۔ رسول اللہ ﷺ کو اویس قرنی  ؒ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ آپ ؐ نے اویس ؒ کی ماں کی خدمت کی وجہ سے ان کی تحسین فرمائی۔

اولاد کی پرورش میں ماں باپ دونوں کا ہی حصہ ہے۔ دونوں اپنے آرام پر بچے کے آرام کو فوقیت دیتے ہیں ۔ ماں اپنا خونِ جگر پلا پلا کر اس کو پالتی ہے اور بچے کی خاطر جس طرح اپنے دن و رات کا آرام مسلسل قربان کرتی ہے اس خدمت و جانثاری کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس لئے قرآن نے ماں باپ دونوں کیساتھ نیک سلوک کی تاکید کرتے ہوئے ماں کی پیہم رحمتوں کا نقشہ کھینچا ہے کہ’’ جانثاری میں ماں، باپ کے مقابلے میں تمہاری خدمت و اطاعت کی زیادہ مستحق ہے ‘‘ ۔

ماں کی کمزور ہستی اولاد کی خدمت و محبت، اطاعت و فرماں برداری اورحسن سلوک کی زیادہ مستحق ہے کیوں کہ ماں اپنے اولاد کی پیدائش اور پرورش میں زبردست تکلیفیں اٹھاتی ہیں ۔جہاں تک ادب و تہذیب کا تعلق ہے، ماں کے ساتھ ساتھ باپ بھی اس کامستحق ہے اور باپ سے بے تعلق ہونا کسی بھی طرح مومنانہ طرزِ عمل نہیں ہے۔ دونوں ہی کے ساتھ نیک سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ ماں باپ قدرت کی بہترین تخلیق، زندگی کی حسین تحریک، اخلاق کا آئینہ، محبت کا مجسمہ اور عزم و حوصلے کی چٹان ہیں اور ماں باپ کے رشتے سے بڑھ کر کوئی رشتہ نہیں ۔

آخر پر دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ماں باپ کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور محترمہ سلمیٰ یاسمین  صاحبہ کی اس کوشش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین

رخسانہ رحیم صالحاتی

ریسرچ اسکالر کشمیر یونیورسٹی سرینگر

 

 

 

 

 

دھوپ آہستہ آہستہ ان کے چہرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی، کرنیں آنکھوں میں گھسی جا رہی تھیں، دھندلی نظریں بالکل ہی چندھیا گئی تھیں ۔ انہوں نے چہرہ دوسری طرف پھیر لیا تو کرنیں ان کی گردن اور مٹھی بھر بالوں میں سے گزر کر چندیا میں چبھنے لگیں، تمازت بڑھتی جا رہی تھی، انہوں نے آواز دینا چاہی مگر پھر یاد آ گیا کہ بیٹا بہو پوتے پوتیاں تو مَری گئے ہوئے ہیں ۔ صبح سویرے ناشتہ کر کے وہ چلے گئے تھے۔ ان کی چارپائی برامدے میں ڈال دی تھی۔ سرہانے چھوٹی میز پر پانی، چائے کا تھرمس اور ایک پیالے میں دلیہ ڈھک کر رکھ دیا تھا۔خوراک ہی کتنی تھی ان کی، فالج کے حملے نے جسم کا سارا ست نکال کر رکھ دیا تھا۔ سنبھل تو گئی تھیں مگر چلنا پھرنا اب ایک مشقت بن گیا تھا، ان کا جی تو چاہا تھا کہ وہ بچوں کو جانے سے روک دیں، تنہائی کے خوف کے علاوہ یہ ڈر بھی تھا کہ اگر کچھ ہو گیا تووہ کیا کرے گی، مگر رات کو بیٹے بہو کی گفتگو نے کچھ کہنے سننے کا حوصلہ ہی چھین لیا تھا ۔

ان کی بہو کہہ رہی تھی:’’اماں جی کی وجہ سے ہم تو بس قید ہو کر رہ گئے ہیں نہ کہیں آسکتے ہیں نہ کہیں جا سکتے ہیں ۔ کب سے بچے مَری اور پڑیاٹہ جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ اماں جی ایک بوجھ بن گئی ہیں جو نہ اُٹھایا جائے نہ پھینکا جائے۔‘‘

’’بُری بات : اس طرح بات نہیں کرتے، بزرگ بوجھ نہیں ہوتے، ہمیں صبر اور حوصلے سے کام لینا چاہیے، نہ جانے کتنی زندگی ہے۔‘‘

’’کتنی زندگی ہے ‘‘ بہو نے جل کر دہرایا۔چودہ برس کا بن باس تو کاٹ چکی ہوں صبر اور حوصلے کے ساتھ، اب اور نہیں ہوتا، فالج کے حملے سے بھی بچ نکلیں، دیکھ لینا یہ نہیں مری گی۔ ہمیں مار کر مریں گی۔‘‘

’’یہ آج تم کیسی باتیں کر رہی ہو؟ ماں ہے وہ میری! ‘‘

تمہاری ماں ہیں تو پھر کرو بیٹھ کے ان کی خدمت، یہ میرا فرض نہیں ہے، ہم تو اس بار ضرور مَری جائیں گے خواہ کچھ بھی ہو۔ آخر میرے بچوں نے کیا قصور کیا ہے؟ کیا ان کا دل نہیں ہے۔‘‘

’’اچھا ایسا کرتے ہیں اماں جی سے پوچھ لیتے ہیں ۔ اگر وہ خوشی سے اجازت دیں تو چلے چلیں گے۔‘‘

’’وہ بھلا کیوں اجازت دینے لگیں ۔ دو گھڑی کو بازار بھی جانا ہو تو ان کے ماتھے پر بل پڑ جاتے ہیں، پوچھ پوچھ کر ناطقہ بند کر دیتی ہیں، کب آؤ گی بہو؟ دیکھو زیادہ دیر نہ کرنا، میرا دل گھبرانے لگتا ہے۔ میں پوچھتی ہوں کیا صرف تم ہی ان کی اولاد ہو۔ باقی سب کیا مر گئے ہیں ۔ آخر وہ کیوں نہیں کبھی اماں کا ڈولا اپنے گھر لے جاتے۔ کیا ہم نے ہی ساری عمر کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟

میں بڑا ہوں نا ! ہمارا گھر بھی بڑا ہے، اللہ نے خوش حالی بھی زیادہ دے رکھی ہے، شاید اماں جی کی برکت ہو۔‘‘

’’اونہہ اماں جی کی برکت! محنت تم کرو، جان تک کھپاؤ اور کریڈٹ (Credit) اماں جی کو چلا جائے۔ اصل میں باقی سب رکھنے سے گھبراتے ہیں ۔ کون خوشی سے بوجھ اٹھاتا ہے۔ یہ تو ہمارا ہی جگر ہے کہ ہم نے ان کی خاطر اپنے اوپر سارا عیش و آرام حرام کر لیا ہے اور رات دن ان کی خدمت……۔‘‘

’’کوئی اٹھائے یا نہ اٹھائے میری ماں ہیں ۔ میں تو بقول تمہارے اس بوجھ کو نہیں پٹخ سکتا۔ اور اتنی زور سے نہ بولو کہیں اماں جی سن نہ لیں ۔‘‘

’’سن لیں مجھے پرواہ نہیں، سارے اعضاء جواب دے گئے ہیں مگر کان !! اللہ توبہ، میلوں دور کی بات بھی سن لیتی ہیں ۔ لگتا ہے ساری قوت ان میں ہی آ گئی ہے۔ ‘‘بہو بڑ بڑانے لگی۔

اماں جی کی آنکھ سے دو آنسو ٹپک کر تکیے میں جذب ہو گئے۔ لہٰذا جب بیٹے نے مَری جانے کے بارے میں پوچھا تو وہ کچھ نہ کہہ سکیں ۔ صبح سویرے ناشتہ کر کے لد پھند کے سب چلے گئے، کام والی نے صفائی کی، برتن دھوئے، اماں جی کا دلیہ پکایا، چائے گرم کر کے تھرمس میں ڈالی۔

’’اچھا اماں جی، اب میں چلتی ہوں، شام کو آ کر آپ کو یخنی اور کھچڑی بنا دوں گی اور کوئی کام ہو تو بتا دیں ۔ میں ضرور رات کو آپ کے پاس ٹھہر جاتی، بیٹی پورے دنوں سے ہے، دائی کا گھر بھی ذرا دور ہے اور یہاں بھی میں بس پر ہی آتی ہوں ۔ آپ کو تو پتا ہے، گھر قریب ہوتا تو کوئی بات نہ تھی۔ میں شام کو ضرور آؤں گی آپ فکر نہ کریں۔‘‘

کوئی بات نہیں تم جاؤ۔ وقت جیسا کیسا بھی ہو، گزر ہی جاتا ہے، انہوں نے نحیف آواز میں کہا۔

٭٭

 

دھوپ اب چہرے کا طواف کر کے جسم پر آ گئی تھی۔ وہ ماضی کی یادوں میں گم ہو گئیں ۔ ذہن کی اسکرین پر مختلف مناظر ابھرنے لگے۔ وہ دلہن بنی بیٹھی تھیں ۔ لگتا ہے کل کی با ت ہے۔ سرخ رنگ کے دوپٹے پر گوٹا کرن لگا تھا۔ سادہ سا سوٹ تھا۔ آج کل کی طرح منوں سلمہ ستارے سے لدا ہوا نہیں تھا۔ لال جرابیں، لال پراندہ، ہونٹوں پر لالی اور آنکھوں میں کاجل، بس یہی میک اپ(Makeup) تھا۔ مگر جب ان کے دولہا نے گھونگھٹ اٹھایا تو وہ مبہوت ہو کر رہ گیا۔ معصومیت، حیا اور کم سنی نے جیسے آنکھوں میں ستارے بھر دئے تھے اور گالوں پر گلاب کھلا دئے تھے۔ عطر، سہاگ، مہندی اور پھولوں کی مہک ان کے مشام جاں میں اتر گئی۔ انہوں نے کون سا اور حسیناؤں کا دیدار کیا تھا، یا عشق لڑائے تھے۔ ان کی زندگی میں آنے والی یہ پہلی ہی تو لڑکی تھی جو کھٹ سے آنکھوں کی راہ سے دل میں اتر گئی۔ وہ خود بھی ایسے کون سے بڑے تھے۔ بڑے بڑے پائنچوں والا سفید براق پاجامہ اور کڑھا ہوا سفید ململ کا کُرتا تھا۔ کالے سیاہ خم کھائے بال اور چھوٹی سی سیاہ داڑھی ان پر خوب جچ رہی تھی۔ اماں جی کے ہونٹوں پر دبی دبی سی مسکراہٹ آ گئی اور آنکھوں کے گوشے بھیگ گئے۔

انہوں نے آسمان پر نگاہ ڈالی۔ نیلے کانچ آسمان پر سفید پھولے پھولے بادلوں کے ڈھیر چاندی کی طرح چمک رہے تھے۔ انہوں نے اپنے ہاتھ دیکھے، سوکھے سوکھے چمرخ سے ہاتھ کتنے بد وضع اور بد رنگ ہو گئے ہیں ۔ پر اس دن ہاتھ ایسے تونہ تھے۔کیسے گورے گورے اور نرم نرم تھے،مہندی سے لال اور انگوٹھیوں سے سجے ہوئے۔

انہوں نے اماں جی کے ہاتھ تھام لئے تھے، وہ بے چارے بھی نا تجربہ کاری اور جذبات کے طوفان کے سامنے لرزیدہ تھے۔ انہوں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے انہیں رونمائی کی انگوٹھی پہنانی چاہی تو انگوٹھی انگلی کے بجائے گود میں گر گئی اور سرخ کپڑوں کی گٹھری میں کہیں گم ہو گئی۔ دونوں جلدی جلدی انگوٹھی ڈھونڈنے لگے۔ شگن کی انگوٹھی ملی تو اماں جی نے خود ہی اپنی انگلی میں پہن لی۔

کیسے اچھے دن تھے وہ۔ اماں جی نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ نو عمر دولہا دلہن نے ساتھ جینے اور ساتھ مرنے کی قسمیں کھائیں ۔

’’اگر ہم ساتھ نہ مر سکے تو؟ ‘‘ انہوں نے پوچھا تھا، ’’یا اگر میں پہلے مر گیا تو ؟‘‘

’’مریں آپ کے دشمن، خاوند کے بغیر عورت کی بھی کوئی زندگی ہوتی ہے۔ عورت وہی خوش نصیب ہے جس کے جنازے کو شوہر کندھا دے اور اپنے ہاتھوں سے قبر میں اُتارے۔

’’تمہارے بغیر میں کیا کروں گا؟‘‘

’’آپ دوسری شادی کر لیجئے گا اور عیش کیجئے گا ۔‘‘

سوتیلی بیوی کے ساتھ۔ انہوں نے معصومیت سے پوچھا۔ اماں جی زور سے ہنس پڑیں ۔ ’’یہ بھی خوب رہی۔ کیا بیوی بھی سگی سوتیلی ہوتی ہیں ؟ ‘‘

’’بس تم مجھے سگی لگتی ہو۔ مجھے ایسے فضول مشورے مت دو۔ اگر میں مر گیا تو کیا تم بھی دوسری شادی کر لو گے؟

’’دوسری شادی‘‘ اماں جی کو یوں لگا جیسے انہیں کسی نے گالی دی ہو۔ اماں جی نے اپنی بڑی بڑی غزالی آنکھیں حیرت سے ان کے چہرے پر گاڑ دیں ۔

’’عورتیں کب دوسری شادی کرتی ہیں ۔ ہم بڑے توحید پرست ہوتے ہیں بس ایک اللہ اور ایک شوہر سے لو لگاتے ہیں ۔ ہم شرک نہیں کرتے۔‘‘

’’تو گویا ہم مشرک ہیں ؟ ‘‘

مجھے کیا معلوم، پر یہ تو ہے ناکہ آپ لوگوں کو چار چار بیاہ کرنے کی اجازت ہے اور آپ لوگ ٹھاٹ سے کرتے بھی ہیں ۔ ’’کرتے ہوں گے، میں ان میں سے نہیں ہوں ۔ بیوی ! میری آنکھ کی پتلی پر تو تمہاری شبیہ جمی ہوئی ہے، بے شک جھانک کر دیکھ لو۔ یہ تصویر ہٹے گی تو کسی دوسری کا عکس نظر نہ آئے گا۔ ہم تو تمہارے ساتھ ہی جینے مرنے کی تمنا رکھتے ہیں ۔‘‘

اور پھر یہ تمنا پوری نہ ہو سکی اور وہ عین جوانی میں چار چھوٹے چھوٹے بچوں کا بوجھ ان کے ناتواں کندھوں پر ڈال کر دنیا سے کنارہ کر گئے۔ اور وہ بے چاری دنیا کے اس خار زار میں تنِ تنہا رہ گئی۔ ان کے بغیر زندگی کیسی کٹھن تھی۔ چار بچوں کی پرورش، ان کا پیٹ بھرنا، پڑھانا لکھانا، وہ تو اپنی سُدھ بُدھ بھول گئیں ۔ سر پر بیوگی کی چادر ایسی اوڑھی کہ جوانی خاک میں ملا دی۔ اپنے آپ کو تو خیر انہوں نے اس وقت ہی بھلا دیا تھا جب وہ ماں بنی تھیں ۔ کتنی آرزوؤں، امنگوں اور انتظار کے بعد پہلا بچہ ان کی گود میں آیا تھا۔ تین دن وہ درد سے تڑپتی رہیں ۔ آخر ہسپتال لے جانا پڑا۔ لیڈی ڈاکٹر نہ ہوتی تو شاید نہ وہ خود ہوتیں نہ بچہ۔ بچہ کو دیکھ کر وہ حیرت سے دم بخود رہ گئیں، انہیں ایسا لگا جیسے وہ دنیا کی پہلی ماں اور یہ پہلا بچہ، دنیا میں ان کے علاوہ کسی نے بچے کو جنم نہیں دیا۔ یہ دنیا کے سارے انسان تو بس ایسے ہی ہیں جیسے ایک ہجوم بیکراں جو پانی کے ریلے کی طرح آپ ہی آپ بہتا رہتا ہے۔ بغیر کسی خواہش کے، بغیر کسی کوشش کے، کوئی خصوصیت نہیں ۔ اصل حقیقت وہ خود ہیں اور ان کی گود کا یہ بچہ۔ ساری کائنات جیسے ان کی آغوش میں آ گئی تھی۔ ان کا سر جیسے آسمان کو چھو رہا تھا وہ آپ ہی آپ مسکرا دیں ۔ وہ انوکھا لاڈلا اب کہاں ہے جس نے ان کی قامت و عظمت بڑھائی تھی۔ چڑیا کے بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو اپنے والدین کو ٹھونگے مار مار کر انہیں گھونسلے سے نکال دیتے ہیں ۔ مگر انسان کے بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو اپنے والدین کو ٹھونگے مارنے لگتے ہیں،ا ن سے بے زار ہو جاتے ہیں ۔ ان کا وجود ان کو شرمسار کرنے لگتا ہے۔

٭٭

 

دھوپ سرک کر ان کے گھٹنوں تک آ پہنچی تھی۔ انہیں خیال آیا کہ انہوں نے تو کچھ کھایا پیا ہی نہیں ۔ بمشکل وہ اُٹھیں، کانپتے ہاتھوں سے دلیے کا پیالہ پکڑ کر چند چمچے منہ میں ڈالے۔ گھسٹتی گھسٹاتی غسل خانے تک گئیں، وضو کیا، واپس آتے آتے ہانپنے لگی تھیں ۔ چہرہ اور ہونٹ نیلے پڑ گئے، سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگی، عموماًَ ضو پلنگ پر بیٹھ کر ہی کرتی تھیں، کوئی پوتا پوتی یا کام کرنے والی ماسی پانی ڈلوا دیتی تھی۔ نماز پڑھ کر پھر لیٹ گئیں ۔ ماضی کی ریل پھر آنکھوں کے سامنے چلنے لگی۔

پہلے بچے نے جیسے دروازہ کھول دیا تھا، ہر سال ایک نئے ایڈیشن کا اضافہ ہو جاتا تھا۔ وہ گھن چکر بن کر رہ گئی تھیں ۔ راتوں کو جاگنا، گود میں لے لے کر ٹہلنا، دودھ کی بوتلیں، کپڑوں کی دھلائی سلائی اور گھر کے کام کاج الگ۔ گہری نیند کیا ہوتی ہے،سکون سے بیٹھ کر کھانا کس طرح کھایا جاتا ہے، سب خواب و خیال بن کر رہ گیا تھا۔ دن گزر جاتے، کنگھی چوٹی کا وقت نہ ملتا۔ صبح شام کیسے ہوتی ہے پتا ہی نہیں چلتا تھا، البتہ رات کی ایک ایک گھڑی اتنی طویل ہو جاتی کہ صبح ہونے کا نام نہیں لیتی تھی۔ وہ بچے کو کندھے سے لگائے نیند سے جھولتی رہتی تھیں ۔ اوپر سے بچوں کی           بیماریاں، آج خسرہ ہے تو کل راکڑا نکل آیا، کبھی ملیریا ہے تو کبھی ٹائیفائڈ،کبھی ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھی جا رہی ہیں تو کبھی گلے میں پھریریاں لگا رہی ہیں، کبھی سینے پر سفید تیل کی مالش ہو رہی ہے تو کبھی آنکھیں بورک ایسڈ سے دھوئی جا رہی ہیں، کبھی درد سے تڑپتے بچے کے کان تمباکو والی پیک ڈال رہی ہیں، کالی کھانسی ہوئی تو سب کو ہی ہو گئی، سب کے سرہانے راکھ بھرے کونڈے رکھ رہی ہیں …… اور تو اور وہ تو بچوں کے باپ کو بھی بھول گئی تھی۔ جن کے ساتھ مرنے جینے کے وعدے کیے تھے۔ دن گزر جاتے، باہم بات کرنے کا وقت نہ ملتا، زیادہ تر موضوع ِ گفتگو بچوں کی بیماریاں اور ان کی فکریں ہی ہوتی تھیں ۔ ان کے لائے ہوئے موتی کے گجرے پڑے پڑے سوکھ جاتے، کلائیوں تک جانے کی نوبت ہی نہ آتی۔ کئی دفعہ وہ بے چارے کہتے بھی ’’اری نیک بخت یہ جن کے لئے تو اتنے جوکھم کاٹ رہی ہے کہ مجھے تک بھلا بیٹھی ہے، یہ سب بڑے ہو کر تجھے بھول جائیں گے۔سنا نہیں ہے۔’’دھیاں لے گئے جوانی اور بہوئیں لے گئیں پوت ‘‘ ہم رہ گئے اوت کے اوت۔ ہم اوت ہی ایک دوسرے کے کام آئیں گے۔‘‘

کہاں گئے وہ جو کام آنے کی بات کرتے تھے۔ ہائے اگر مجھے پتا ہوتا کہ اتنا مختصر ساتھ ہو گا تو میں کیوں اتنی بے پروائی برتتی۔ دل بھر کی باتیں ہی کر لیتی۔ انہوں نے ایک آہ بھری، اور اب آج میں بہو کے لئے ایک بوجھ بن گئی ہوں، بہو تو پھر پرائی بیٹی ہے، اپنی اولاد جو پیٹ سے پیدا ہوئی ہے وہ بھی کتنا گھبراتی ہے۔ کتنے دن گزر جاتے ہیں بیٹے کی صورت دیکھے۔ اگر شکوہ کروں تو کیسے خشک سے انداز میں کہہ دیتا ہے:

’’کیا کروں اماں جی فرصت ہی نہیں ملتی۔ روزی کمانا آسان تو نہیں ۔‘‘

فلمیں دیکھنے اور دوستوں سے گھپ شپ کرنے کے لئے فرصت ہی فرصت ہے بس ایک بوڑھی ماں کے لئے چند منٹ نہیں ہیں ۔ بیٹی جو اس شہر میں بیاہی گئی تھی وہ دسویں پندرھویں دن ایک چکر لگا لیتی تھی، ان کو نہلا دھلا کر تیل کنگھی کر دیتی تھی۔ اس کا آنا بھاوج کو ذرا بھی پسند نہیں تھا،بچے آخر بچے ہیں آپس میں دنگا فساد، چھینا جھپٹی ہو جاتی تھی۔ بھاوج کا موڈ فوراً خراب ہو جاتا اور وہ اپنے بچوں کو جتا جتا کر دھموکے لگاتی، ساس نند اور بچوں کا سارا غصہ اپنے بچوں پر اتارتی، بے چاری بیٹیاں تو مجبور اور دوسرے کی دست نگر ہوتی ہیں ان کا کیا شکوہ، میکے اور سسرال دو پاٹوں میں پس کر سرمہ ہو جاتی ہیں ۔ نہ وہ خوش ہوتے ہیں نہ یہ، بیٹیوں کے ہاں سکھ ملتا ہے پر دنیا والے کہاں جینے دیتے ہیں کہ بیٹوں کے ہوتے ہوئے بیٹیوں کے در پر پڑی رہیں ۔ ویسے بھی دامادوں کے گھر میں کون زور دے کر رہ سکتا ہے۔ پر اب دونوں کے لئے تو اسی سے کہا جا سکتا تھا کہ وہ میرے پاس آ کر رہ لے۔ آخر دو دن میں اس کے بچے کتنا کھا لیتے، کتنی گھر کی بربادی کر لیتے، میری تنہائی اور اکلاپے کا بھی کچھ خیال نہیں کیا۔

دھوپ زرد پڑھ رہی تھی انہوں نے چارپائی پر بیٹھ کر ہی عصر کی نماز پڑھی تھی، تھرمس میں چائے نکال کر گھونٹ گھونٹ بھرنے لگیں، چائے کا ذائقہ بدل گیا تھا آدھی پیالی بمشکل حلق سے اتاری۔

ابا میاں کے بغیر انہوں نے زندگی کا سفر کیسے طے کیا تھا یہ ان کا ہی جی جانتا تھا۔ چار بچے اور وہ خود، اللہ کے سوا کوئی آسرا نہیں ۔ شکر ہے کہ سر پر گھر کی چھت تھی۔ محلے کے بچوں کو قرآن مجید پڑھایا، کپڑے سیے، چٹاپٹی کے جوڑے بنائے، دوپٹوں پر گوٹا لگایا، اچار چٹنیاں بنائیں،کُرتے کاڑھے،غرض یہ کہ کون سا کام تھا جو انہوں نے گھر بیٹھ کر نہیں کیا۔ مگر اپنے بچوں کو بھوکا نہیں رہنے دیا۔ صبح کو پراٹھا ضرور کھلاتی تھیں ہفتے میں ایک دو بار انڈا بھی ضرور دیتی تھیں ۔ ان کی خاطر ہی تو مرغیاں رکھی تھیں، صحن کے ایک طرف کیاریاں بنا کر موسمی سبزیاں بھی اُگا لیتی تھیں ۔

آخر بچے پال پوس کے بڑے کر ہی ڈالے۔ کالج یونیورسٹی کے وقت جو تھوڑا بہت زیور تھا وہ فروخت کر ڈالا۔ اور جب بچے اپنے قدموں پر کھڑے ہوئے اور انہوں نے ذرا ٹک کر خو د کو دیکھا تو پتا چلا کہ جوانی تو دبے پاؤں نہ جانے کب گزر گئی۔ گزرتے وقت اور کٹھن محنت نے وقت سے پہلے ہی ان کو بوڑھا کر دیا تھا۔ بالوں کی سیاہی چوس لی تھی، آنکھوں کو دھندلا دیا اور جسم کا کس بل نکال دیا تھا۔ کہاں گئی وہ سولہ برس کی دلہن جس کی آنکھوں میں ستارے تھے اور بالوں میں شب کی سیاہی، گالوں پر گلاب کھلتے تھے اور منہ سے پھول جھڑتے تھے۔ انہوں نے آئینے پر نظر ڈالی وہاں تو تین جوان کڑیل بیٹوں اور ایک نوجوان بیٹی کی بوڑھی ماں کھڑی تھی۔ زندگی کے خارزار کے طویل سفر سے لہو لہان، تھک کر چور، اب اس میں کسی بھی چیز سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ نہیں رہا تھا۔ تب ہی تو فالج کے پہلے ہی حملے نے انہیں زمین بوس کر دیا، بچ تو وہ گئیں مگر زندگی موت سے بدتر ہو گئی۔

٭٭

 

دھوپ اب نہیں تھی، انہوں نے پائنتی پڑی دوہرا اپنے اُوپر ڈال لی۔ آسمان پر کوؤں کی ڈاریں بسیرا لینے کے لیے اُڑ رہی تھی، انہیں کچھ بھوک سی بھی لگ رہی تھی، صبح سے چند نوالے دلیے کے اور آدھی پیالی چائے ہی تو پی تھی۔ پتہ نہیں ماسی اب تک کیوں نہیں آئی۔ اب تو سورج بھی ڈوبنے والا ہے، انہیں کچھ بے چینی سی ہو رہی تھی، مغرب کی نماز بھی پڑھ لی، ماسی نہ آئی، باہر خنکی بڑھتی جا رہی تھی وہ اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گئیں اور سونے کی کوشش کرنے لگی، بھوک اب ان کا کلیجہ کھرچ رہی تھی۔

ساری رات سوتے جاگتے گزر گئی، کبھی خواب دیکھتیں کہ وہ تن ِ تنہا کسی تاریک راستے پر چلی جا رہی ہیں ۔ وہ راستہ پہاڑ کے کنارے پر جا کر ختم ہو جاتا ہے جس کے آگے گہری کھائی ہے، وہ ڈر کر اُٹھ بیٹھیں، دل تھر تھر کانپ رہا تھا۔ کبھی لگتا کہ کوئی ہزار پایہ ان کے معدے میں گُھس کر اپنے پنجے گاڑ رہا ہے، وہ اپنے پیٹ کو اپنے دونوں ہاتھوں سے دبانے لگتیں ۔

صبح جب آنکھ کھلی تو سورج پوری طرح نکل آیا تھا، برآمدے میں بچھی ہوئی چار پائی پر دھوپ اپنا ڈیرہ جما چکی تھی۔ انہیں نقاہت سی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ چل کر کمرے سے باہر آ کر پلنگ پر لیٹ گئیں ۔ ماسی ابھی تک نہیں آئی تھی۔ غالباََ اس کی بیٹی کے ہاں بچہ ہو گیا تھا یا پھر کوئی اور افتاد آن پڑی تھی۔ ان کے لب خشک ہو رہے تھے۔انہوں نے ساتھ رکھی میز پر جگ اُٹھا کر منہ میں پانی ڈالا اور واپس رکھتے ہوئے جگ ہاتھ سے چھوٹ کر گر کے کرچی کرچی ہو گیا۔ انہوں نے زمین پر پڑی کرچیوں کو دیکھا۔ ان کا دل بھی تو اسی طرح اس دن کرچی کرچی ہو گیا تھا، جب ان کی اولاد ان کے رہنے کا فیصلہ کر رہی تھی۔

چھوٹے بیٹے نے کہا ’’بھائی جان آپ کو تو پتہ ہے کہ میرے پاس دو بیڈ روم والا فلیٹ ہے، ایک میں ہم ہیں اور دوسرے میں بچے، کوئی مہمان آ جائے تو بچوں کو اپنے کمرے میں سُلانا پڑتا ہے۔ اماں جی بھی کیسے رہیں گی، انہیں تکلیف ہو گی۔

منجھلا بولا ’’تم نے جان بوجھ کر دو کمروں کا فلیٹ لیا ہے تاکہ اماں جی کو نہ رکھنا پڑے۔ تمہاری بیوی کو اماں جی کا وجود ہی گوارا نہیں ۔‘‘

’’یہ آپ بہتان لگا رہے ہیں، آپ جانتے ہیں کہ گھر کے کتنے کرائے ہیں ۔ میری آمدنی بھی آپ کو پتہ ہے، آپ کی بھی تو ماں ہیں آپ رکھ لیں ۔ آپ کی بیوی تو اماں کی عاشقہ ہیں نا۔‘‘

میں ضرور رکھ لیتا مگر میرا آئے دن تبادلہ ہوتا رہتا ہے، وہ بے چاری میرے ساتھ کہاں کہاں پھریں گی، پھر وہ بیمار رہتی ہیں، یہاں کے ڈاکٹر ان کو سمجھتے ہیں ۔ نئی جگہوں پر روز نت نئے ڈاکٹر ان کے لئے مسئلہ بن جائیں گے۔

’’خوئے بدرا بہانہ بسیار‘‘ چھوٹا بڑ بڑایا۔

بڑا خاموش بیٹھا تھا ’’آپ بھی تو کچھ بولیں نا بھائی جان‘‘

میں کیا بولوں ؟ شروع سے میرے ہی پاس ہیں، سو اب بھی رہ لیں گی۔ جب تم دونوں رکھنے کو تیار نہیں ہو تو اور کیا صورت رہ جاتی ہے۔‘‘

’’آپ کا گھر بھی ماشاء اللہ بڑا ہے اور اماں جی بھی آپ کے ہاں رہنے کی عادی ہو گئی ہیں ۔‘‘

’’گھر چھوٹا ہو تو کوئی بات نہیں دل بڑا ہونا چاہیے‘‘ بڑی بہو ناک چڑھا کر بولیں ۔ مگر افسوس کہ تم دونوں کا نہیں ہے۔ ماں سب کی ہیں، سب کا فرض ہے، صرف ہماری ہی ماں تو نہیں ہیں ۔ تین بیٹے ہیں ہر ایک کو چار چار ماہ رکھنا چاہیے، بیٹی نے کہا۔

ایسا کیا مسئلہ ہو گیا کہ اماں جی بے چاری کو ہر ماہ بعد ڈنڈا ڈولی کر کے ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل کیا جائے، وہ انسان ہیں کوئی بے جان کرسی میز تو نہیں ہے۔ ان سے بھی تو پوچھنا چاہیے کہ وہ کہاں رہنا پسند کریں گی۔ ’’خود ہی بیٹھ کر فیصلہ کیے جار ہے ہیں ۔‘‘

’’ان سے کیا پوچھنا وہ بے چاری اگر یہ کہیں کہ میں چھوٹے کے پاس رہنا چاہتی ہوں تو چھوٹا تو جان چھڑا رہا ہے کہ اس کے پاس جگہ نہیں ہے۔ وہ رکھنا چاہتا تو ذرا بڑا گھر لے سکتا تھا۔ وہ اگر کہیں کہ دوسرے کے ساتھ رہنا ہے تو دوسرا معذرت کر رہا ہے کہ میرا آئے دن تبادلہ ہوتا رہتا ہے اور میں اماں جی کو اپنی پیٹھ پر لاد کر اِدھر اُدھر نہیں لے جا سکتا، ان کے پاس کون سی چوائس(Choice) ہے،  بہرحال پوچھنا چاہیں تو پوچھ لیں ‘‘بڑی بہو بولی۔ کاش کوئی اولڈ ہوم(Old Home) ہوتا تو ہم انہیں وہاں چھوڑ آتے،بیٹوں کے گھر میں جگہ نہیں ہے، بیٹی بڑے دکھ سے بولی۔

’’فضول باتیں مت کرو‘‘ بڑے بھائی نے ڈانٹا۔

اتنا ہی ہے تو تم اپنے گھر لے جاؤ اللہ نے بہت کچھ دے رکھا ہے، چھوٹی بہو تڑپ کر بولی۔

سو بسم اللہ کر کے لے جاتی اگر میرے ساس سسر میرے ساتھ نہ رہ رہے ہوتے۔ صحیح کہا ہے کسی نے کہ ایک ماں اپنے دس بچے سنبھال لیتی ہیں مگر دس بچے مل کر ایک ماں کو نہیں سنبھال سکتے ‘‘ بیٹی نے رونا شروع کر دیا۔

وہ اپنے کمرے میں لیٹی ساری باتیں سن رہی تھیں ۔

’’کیا میں نے رکھنے سے انکار کیا ہے۔ میں تو ذرا دیکھنا چاہتا تھا کہ باقی دونوں کی کیا مرضی ہے۔ تم رونا بند کرو، ساری آوازیں ان تک جا رہی ہوں گی۔ ‘‘

بڑی بہو نے ہاتھ میں پکڑی اون سلائیاں زمین پر دے ماریں ۔’’ ہر بیگار کے لئے ہم ہی رہ گئے ہیں، کہیں لین دین کرنا ہو تو مل کرنا ہے، زیادہ حصہ ہم دیں اور نام سب کا ہو۔بہن کو جہیز دینا تھا تو مہنگی چیزیں ہمارے ذمہ لگا دیں ۔ کیا ہم ہی بے وقوف نظر آتے ہیں ……‘‘

وہ یک لخط چپ ہو گئی، اماں جی دروازے پے کھڑی تھیں ۔ بیٹی نے لپک کر سہارا دیا۔

’’میری وجہ سے تم سب پریشان نہ ہو، میں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتی۔ تم لوگ مجھے ایدھی سینٹر چھوڑ آؤ۔ میری وجہ سے ایک دوسرے پر الزام تراشی کر کے اپنے تعلقات خراب نہ کرو۔ زندگی کے جو چار دن باقی ہیں وہ کسی طور گزر ہی جائیں گے۔‘‘

بڑے بیٹے نے اُٹھ کر بازو ماں کے گرد ڈال کر اپنے سینے سے لگا لیا۔

’’کیا ابا جی کے مرنے پر آپ نے ہمیں ایدھی سینٹر کے حوالے کر دیا تھا؟ میں سب جانتا ہوں، سمجھتا ہوں، آپ کسی کی پروا نہ کریں، کسی کو اچھا لگے یا بُرا، آپ میرے ساتھ رہیں گی۔‘‘

پُرانی یادوں کے خیال سے ان کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ چاروں طرف عجیب سی خاموشی تھی، جمعہ کا دن تھا، چھٹی تھی، لہٰذا سارے پڑے سو رہے تھے۔ابھی چہل پہل شروع نہیں ہوئی تھی، بھوک کی اینٹھن محسوس ہو رہی تھی، کل صبح دلیے کے چند چمچے کھائے تھے، آج جمعہ ہے ان کی واپسی تو شاید پرسوں کی ہے۔ اگر ماسی نہ آئی تو میں کیا کروں گی۔ پیاس بھی بڑھتی جا رہی تھی، وہ بمشکل اُٹھیں اور غسل خانے کی طرف گئیں کہ پانی پی لیں، انہوں نے نلکا کھولا تو پانی کے بجائے ہوا نکلی، ان کا دل دھک سے رہ گیا۔ اس کا مطلب ہے کوئی نلکا کھلا رہ گیا یا پھر بچوں کے غسل خانے کی فلش کی ٹنکی ہے جو ٹھیک طرح بند نہ ہو تو پھر پانی بہتا رہتا ہے۔ کسی بچے نے جلدی میں صحیح طرح دبا کر بند نہیں کیا۔ اب تو ماسی آئے گی تب ہی ٹنکی میں پانی چڑھ سکے گا۔ آخر یہ ماسی کہاں رہ گئی۔ انہیں پتہ تھا کہ میں گھر میں اکیلی ہوں، کھانا پکانے کے قابل نہیں ہوں، وہ خود کلامی میں مصروف تھیں ۔ چلوں دیکھوں شاید فرج(Frig) میں کچھ پڑ ا ہو۔ اس میں دودھ کی پتیلی میں تھوڑا سا دودھ تھا، وہ پیالے میں انڈیل کر انہوں نے ایسے ہی ٹھنڈا پی لیا۔ پیٹ کی جلن میں کچھ کمی ہوئی، وہ پھر واپس آ کر لیٹ گئیں، اس سارے کام نے انہیں بُری طرح تھکا دیا۔ پورے بدن میں ایک لرزش سی تھی، دل بھی خزاں رسیدہ پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔ ایک اضطراب سا محسوس ہو رہا تھا، آسمان پر بادلوں کے گالے آ آ کر جمع ہو رہے تھے ان پر غنودگی سی طاری ہونے لگی۔ پھر شاید وہ سو گئیں ۔ پتہ نہیں وہ خواب دیکھ رہی تھیں یا یادوں کے دریچے سے اپنے ماضی میں جھانک رہی تھیں ۔

وہ بخار میں پھنک رہی تھیں، سردی لگ رہی تھی، ابا جی نے دو لحاف ان کے اوپر ڈال دئے تھے مگر کپکپاہٹ دور ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ ابا جی کا مارے پریشانی کے بُرا حال تھا۔ کبھی سر دباتے کبھی کمر، کبھی اپنے ہاتھوں سے مکسچر پلا رہے ہیں تو کبھی یخنی بنا رہے ہیں، بچوں کو بھی وہی سنبھال رہے تھے، وہ بار بار ان کے جلتے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیتے تھے۔

’’تم زندہ رہو گی نا، مر تو نہیں جاؤ گی، دیکھو تمہارے بغیر میں نہ رہ سکوں گا۔‘‘

انہوں نے جلتی آنکھیں بمشکل کھولیں، ’’بخار ہے اتر جائے گا، ذرا سے بخار سے کوئی مر تو نہیں جاتا۔ آپ تو بہت کم حوصلہ ہیں ‘‘

جب تک ان کا بخار نہیں اترا با جی نے نہ کھانا کھایا نہ چائے پی، بس یہی کہتے رہے،’’حلق بند ہو گیا ہے کوئی چیز نیچے نہیں اُترتی، بھوک مر گئی ہے، تم ٹھیک ہو جاؤ پھر مل کر کھائیں گے، بس تم وعدہ کرو کہ مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤ گی۔‘‘

’’پگلے ہیں آپ تو۔ میں بھلا یہ وعدہ کیوں کہ کروں، زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے،’’اور پھر،جو ان سے وعدہ لے رہے تھے وہ سارے ناطے توڑ کر خود چل دئے۔ جو ان کو اپنے ہاتھوں سے گھونٹ گھونٹ یخنی پلا رہے تھے، کھچڑی کے نوالے کھلا رہے تھے، آج وہ آ کر دیکھیں کہ ان کی چہیتی بیوی کے پیٹ میں بھوک سے کیسی کھرچن ہو رہی ہے، وہ جو بیماری میں ان کی پائنتی نہیں چھوڑتے تھے، آج کیسی بے یارو مدد گار پڑی ہیں ۔

گھڑ گھڑاہٹ کی آواز سے ان کی آنکھ کھل گئی۔ ارے یہ بادل کہاں سے آ گئے، بادل غراتے ہوئے آپس میں ٹکرا رہے تھے، ہوا بھی گھمن گھیریاں کھا رہی تھی، کاغذ کے ٹکڑے، لفافے، درختوں کے پتے صحن میں چکراتے پھر رہے تھے، ہلکی ہلکی بوندیں پڑنے لگیں، انہوں نے اٹھنا چاہا مگر وہ بہت زیادہ نا طاقتی محسوس کر رہی تھیں ۔ اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ پتہ نہیں شام ہے کہ صبح ۔ نہ جانے بجا کیا ہے، انہوں نے کسی نہ کسی طرح چادر اوڑھ لی۔ بادل نہیں تھے تو دھوپ سے کچھ نہ کچھ وقت کا اندازہ تو ہو ہی رہا تھا، ویسے بھی وقت کا پتہ چلا کر کیا کرنا ہے۔ ہمارے لئے تو اب وقت ایک لمبی اکائی بن گیا ہے    ؎

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے

اصل چیز تو یہ ہے کہ یہ عمر کب تمام ہو گی، ہر صبح اور شام ایک جیسی ہی تو ہے، ہر دن دوسرے دن جیسا ہے۔پہلے ہم زندگی گزار رہے تھے، سو اب زندگی ہمیں گزار رہی ہے۔ انہوں نے ایک طویل سانس  لیا،میں اتنی زیادہ کمزوری کیوں محسوس کر رہی ہوں ؟ وہ پھر غنودگی میں چل گئیں ۔ گھر داری اور بچوں کی پرورش میں وہ ایسے لگے کہ اپنا ہوش گنوا بیٹھے۔ آخر ابا میاں نے دو دن کی چھٹی لی اور انہیں اور بچوں کو لیکر پہاڑ پر چلے گئے۔ جانے ڈلہوزی تھا یا شملہ یا شاید نینی تال تھا، کچھ یاد نہیں آ رہا، بچے دن بھر کھیلتے رہے، صنوبر کے درختوں سے ہلکی پھلکی ہوا سائیں سائیں کر کے گزرتی اور مدھ بھری خوشبو سانس کے ذریعہ رگ و پے میں اتر جاتی، بے اندازہ خاموشی اور سکون تھا۔ اونچے اونچے درخت، ہری ہری گھاس، گہری دھند، بادل نیچے اتر آتے۔ روز رات کو بارش ہوتی تھی۔ آتش دان میں لکڑیاں چٹختی رہتی تھیں ۔ ان کے جلنے سے بھی خوشبو اٹھتی تھیں ۔ باتیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں، ماضی کی، حال کی، سنہرے مستقبل کی۔ بچوں کے بارے میں کیسے کیسے منصوبے بنائے تھے۔ جان ماریں گے مگر اعلیٰ تعلیم دلوائیں گے ۔

تین سال کی مُنی کی شادی کے خواب اور پھر اس کی رخصتی کا خیال کر کے دونوں آنسو بہاتے رہتے، اور پھر خود ہی ہنس پڑے کہ ہم ابھی سے رونے لگے، ابھی تو وہ محض تین سال کی ہے۔ بچیاں پیدا ہوتی ہیں تو ان کی آمد کے ساتھ ہی ان کے ہجر کا دکھ بھی کلیجے میں پنجے گاڑ دیتا ہے۔

’’تم نے مجھے اتنی خوشیاں دی ہیں کہ میرا دامن چھوٹا پڑ گیا ‘‘ ابا جی نے ان کی گود میں سر رکھ کر سکون سے آنکھیں موند لیں، ’’واقعی اچھی بیوی ایک نعمت ہے‘‘۔

’’ آپ نے بھی تو میرا اتنا خیال کیا ہے۔ محبت،احترام اور تحفظ دیا ہے۔ میں بھی بڑی خوش نصیب ہوں ۔ آنسوؤں کا پانی ہے جس نے مجھے یوں جل تھل کر دیا ہے‘‘۔ انہوں نے اپنی بھیگی چادر چہرے پر سے ہٹا کر دیکھا، بارش تیز ہو گئی تھی۔ وہ ہمت کر کے اُٹھ کھڑی ہوئیں اور اندر کمرے میں چلی گئی، گیلے کپڑوں کے ساتھ کمرے کی گرمی اچھی لگ رہی تھی، کپڑے بدلنے کی ہمت نہیں تھی، بس کپڑے اُتار کر کانپتے ہاتھوں سے نچوڑ کر کرسی پر ڈال دئے اور خود کھیس اوڑھ کر لیٹ گئیں ۔ ماسی آئے گی تو کپڑے نکال کے دے گی وہ میں پہن لوں گی۔ وقت آہستہ آہستہ گزر رہا تھا، وہ کہیں خواب اور حقیقت کے درمیان معلق تھیں ۔ کبھی خواب حقیقت لگنے لگتا اور حقیقت خواب کی صورت اختیار کر لیتی۔ اُف کتنی کٹھن زندگی تھی، پیٹ بھرنے اور تن ڈھکنے کے لئے جان توڑ محنت، شب بے داریاں، تنہائیاں، بے تابیاں، کتنی ریاضت کی تھی انہوں نے؟ اپنی جوانی اس کی خواہشات اور اُمنگیں سب جلا کر خاکستر کر دی تھیں ۔ انہوں نے تو جیسے جو گ لے لیا تھا۔ اپنے بچوں کے خاطر ہر غم، ہر پریشانی وہ اپنے دل کے اندر دفن کرنے کی عادی ہوتی چلی گئیں ۔ شوہروں کے پہلو میں بیٹھی رانیاں کیا جانیں کہ بیوگی کی کٹھنائیاں کیا ہوتی ہیں، اکلاپے کی آگ کیسی ہوتی ہے۔

انہوں نے کراہ کر آنکھیں کھول دیں ۔ بجلی چلی گئی تھی، چاروں طرف اندھیرا تھا، بارش چھما چھم برس رہی تھی۔ باہر جل تھل تھا مگر اندر جیسے صدیوں کی پیاس اتر آئی تھی۔ حلق سوکھ کر کانٹا بن گیا تھا۔ یہ بارش میرے اندر کیوں نہیں برستی، میں کتنی تھک گئی ہوں، جانے یہ سفر کب ختم ہو گا۔ میرے سارے کام ختم ہو گئے اب کسی کو میری ضرورت نہیں ۔ میرا وجود تو اب کاغذ کے ایک ٹکڑے یا چیتھڑے کی طرح ہے بس اسے اٹھا کر ڈسٹ بن(Dust Bin) میں پھینکا جا سکتا۔ وہ جو رات کو میرے کلیجے سے لگ کر سوتے تھے، اپنے بستر چھوڑ کر میرے بستر پر آ لیٹتے تھے، ان کے چہروں پر مجھے دیکھتے ہی بیزاری کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں ۔ دو دو گھنٹے فون پر گپیں لگانے والی بہوؤں کے پاس مجھے دینے کے لئے دو لفظوں کی خیرات نہیں نکلتی، حال پوچھنے سے بھی کتراتی ہیں کہ کہیں میں اپنی بیماریوں کی داستان نہ شروع کر دوں ۔ میرے کام بھی یوں کئے جاتے ہیں جیسے سر سے بوجھ اُتارا جا رہا ہو، ان سے زیادہ تو ماسی میرا خیال کر لیتی ہے۔

پتا نہیں یہ ماسی کہاں رہ گئی، رکنے والی وہ نہیں تھی، خدا جانے کیا آفت ٹوٹ پڑی ہو گی، آتی تو دو گھونٹ پانی ہی میرے حلق میں ٹپکا دیتی۔

انہوں نے ایک لمبا سانس لیا، کھیس کو اپنے ارد گرد اچھی طرح لپیٹا، یہ سردی سی کیوں لگ رہی ہے۔ جسم بھی گرم ہوتا جا رہا ہے، کہیں بخار تو نہیں پھر چڑھ رہا مجھے، بہوؤں بے چاریوں سے کیا گلا وہ تو پرائی بیٹیاں ہیں، ان کے دل میں وہ درد تو نہیں ہو سکتا، شکوہ تو اپنے بیٹوں سے ہے جن کی خاطر میں نے اپنی جوانی گھلا دی، اپنی آنکھوں کا تیل نکال لیا، دن میں کبھی پلنگ سے کمر نہ لگائی، دو گھڑی بیٹھ کر سکھ کا سانس نہیں لیا، پیٹ بھر کھانا نہیں کھایا، پوری نیند نہیں سوئی، وہ بھی یہی کہتے ہیں ۔

’’کیا کریں اماں جی کمپٹشن(Competition) کا دور ہے، اگر سارا دن محنت نہ کریں تو دو روٹیاں نہیں کما ئے جا سکتے۔ آپ کو پتہ ہے اب بچے سرکاری اسکولوں میں تو نہیں جا سکتے نا، اور پرائیوٹ سکولوں کی فیس بہت زیادہ ہے، گاڑی الگ سفید ہا تھی ہے اس کے خرچے بھی پورے کرنے ہیں ۔ بسوں میں تو دھکے نہیں کھائے جا سکتے، اب کیا کیا بتائیں آپ کو، مہنگائی دن بدن بڑھ رہی ہے آپ کے پاس بیٹھنے کا وقت کہاں سے لائیں ؟ آپ نے ہمارے لئے بڑی جان ماری کی ہے، اب آپ آرام کر لیں، اللہ کو یاد کریں، ہمارے لئے دعائیں کریں، کسی چیز کی ضرورت ہو تو بلا تکلف کہیں ۔‘‘

ضرورت؟ اَرے بیٹے تم کیا جانو گے میری ضرورت کو۔ پیٹ بھرتا ہے دل نہیں بھرتا، پیاس بجھتی ہے مگر روح تڑپتی رہتی ہے۔ تن تو ڈھک جاتا ہے مگر من کو کون ڈھکے؟ میں تو سارا دن تمہارے قدموں کی آواز کی منتظر رہتی ہوں، نگاہیں دروازے پر لگی رہتی ہیں، مگر چاپ میرے دروازے سے گزر کر چلی جاتی ہے ۔

یہ کیسی آواز ہے؟ جیسے کوئی کمرے میں چل پھر رہا ہو، ماسی، انہوں نے آواز دینی چاہی مگر وہ سوکھے حلق کی بھول بھلیوں میں گم ہو گئی۔ انہوں نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا، اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ کچھ نظر نہیں آیا۔ انہوں نے باہر صحن پر نظر ڈالی،ایک سایہ سا تھا، غور سے دیکھا۔

’’ارے یہ تو عمر کے ابا جی لگ رہے ہیں، یہ کہاں سے آ گئے‘‘؟

وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھیں، انہوں نے جلدی جلدی اپنے گیلے کپڑے پہنے اور باہر برآمدے میں آ گئیں مگر وہاں تو کوئی نہیں تھا، ان کی آنکھیں جل رہی تھیں اور سر درد سے پھٹا جا رہا تھا، کیا یہ وہم تھا یا حقیقت ؟ وہ وہیں برآمدے میں پلنگ پر بیٹھ گئیں ۔ اب بارش بھی ہو رہی تھی مگر ہلکی ہو گئی تھی۔ وہ وہیں بھیگے بستر پر لیٹ گئیں ۔ پیاس شدید ہوتی جا رہی تھی۔ حلق میں کانٹے سے اُگ آئے تھے۔ لبوں پر پیڑیاں جم گئی تھیں ۔ زبان سوکھ کر تالو سے چپکی جا رہی تھی۔ پیٹ میں ہلکا ہلکا مروڑ ہو رہا تھا۔ ان کی آنکھ پھر لگ گئی۔ جانے یہ نیند تھی یا کمزوری کی مدہوشی! عجیب و غریب خواب دیکھ رہی تھیں، وہ بار بار چونک اُٹھتی تھیں جیسے کوئی انہیں آواز دے رہا ہو، وہ جواب بھی دیتیں، مگر پھر خاموشی سی چھا جاتی تھی ۔ کبھی وہ ٹھنڈے شربت کا گلاس دیکھتیں، لال لال افزا، کرسٹل کے یخ گلاس میں، گلاس کے باہر بھی قطرے نظر آرہے تھے، وہ لبوں پر زبان پھیر کر ہاتھ بڑھاتیں تو گلاس غائب ہو جاتا۔ کبھی کسی دعوت میں کھانے کی میز کے آگے بیٹھی ہوتیں، سامنے انواع و اقسام کے کھانے سجے ہوتے، وہ باقاعدہ کھانوں کی مہک محسوس کرتیں اور بھاپ اُٹھتی دیکھتیں مگر پھر میز پیچھے ہٹتی چلی جاتی اور وہ حسرت سے دیکھتی رہ جاتیں ۔ بارش اب بھی ہو رہی تھی، ان کو دن رات یا تاریخ کا کوئی احساس نہیں رہا تھا۔ اس حالت میں جیسے صدیاں گزر گئی ہیں، ہلکی ہلکی روشنی سی ہو گئی تھی، انہوں نے دیکھا کہ ابا جی ان کی چارپائی کے پاس کھڑے کچھ پوچھ رہے ہیں وہ جواب نہ دے سکیں ۔

وہ پوچھ رہے تھے ’’کیا بہت پیاس لگ رہی ہے‘‘؟

انہوں نے اثبات میں سر ہلادیا۔

انہوں نے صحن کی طرف اشارہ کیا جہاں چھت کے پرنالے سے صحن کی نالی میں پانی بہہ رہا تھا۔ انہوں نے بے بسی سے اشارے میں بتایا کہ اٹھا نہیں جا رہا ۔

ابا جی نے ہمت بندھائی اور اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔

وہ بمشکل پلنگ سے اٹھیں، ابا جی پرنالے کی طرف جا رہے تھے وہ بھی پیچھے گھسٹتی گھسٹاتی چلی جا رہی تھیں ۔ وہ اسی طرح ہاتھ بڑھائے انہیں بلا رہے تھے، ان کے جلتے بدن پر بارش کی ٹھنڈی ٹھنڈی پھوار پڑ رہی تھی۔

’’یہ عمر کے ابا کہاں چلے گئے؟‘‘ انہوں نے آنکھیں مَلیں ۔

ابا میاں تو نظر نہیں آرہے تھے مگر پرنالے کا پانی گر رہا تھا، ان کا جی چاہا کہ وہ دوڑ کر وہاں پہنچ جائیں اور غٹا غٹ سارا پانی پی جائیں یہاں تک کہ ساری پیاس بجھ جائے۔ وہ سحر زدہ سی نالی کی طرف گھسٹ رہی تھیں ۔ ان کے بال گیلے ہو کر پیشانی اور گردن سے چپک گئے تھے۔ کمزور بدن سردی سے کپکپانے لگا، چار قطرے آنسوؤں کے ان کی آنکھوں سے ہوتے ہوئے ہونٹوں تک ڈھلک آئے جنہیں انہوں نے چاٹ لیا۔ وہ تھک گئی تھیں، مگر انہیں پانی خواہ کچھ بھی ہو ضرور پینا تھا۔ وہ نالی تک پہنچ کر بے دم ہو کر اوندھے منہ گر گئیں، انہوں نے ہاتھ کے چلو سے پانی پینا چاہا مگر ہاتھ اور بازوؤں نے ہلنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے نالی میں منہ ڈال کر پانی پینا شروع کر دیا۔ خالی پیٹ میں پانی پہلے انگاروں کی طرح محسوس ہوا پھر ایک تراوٹ سی ان کے رگ و پے میں اترنے لگی، ایک نشہ سا ان پر چھانے لگا، انہوں نے دیکھا کہ ابا جی مسکرا رہے ہیں، انہوں نے ہاتھ بڑھایا اور اس دفعہ ان کا ہاتھ ابا جی کے ہاتھ میں آ ہی گیا۔

سب لوگ تھکے ماندے گاڑی میں سے اُتر رہے تھے، سامان اُتار رہے تھے۔

’’ہائے میرے اللہ ! بہو نے سینے پر ہاتھ رکھ لیا‘‘۔

ماسی دم بخود بیٹھی ہوئی تھی اور اماں جی نالی کے پاس اوندھے منہ پڑی تھیں ۔

بیٹا بھی دوڑ کر اندر آ گیا۔ ماسی نے سر اُٹھایا ۔

میری تو جی بیٹی زچگی میں مر گئی تھی، میں تو آ ہی نہیں سکی، جنازہ لے کر گاؤں چلے گئے تھے، اماں جی کی وجہ سے بغیر جمعرات کے آج ہی واپس آئی ہوں، آ کر دیکھا تو اماں جی یہاں پڑی تھیں ۔

بیٹے نے آ کر چھوا۔ بدن پتھر کی طرح سخت ہو چکا تھا، نہ جانے کب وہ اپنی تنہائیوں اور محرومیوں سے آزاد ہو گئی تھیں ۔ ’’جس کی نہ طلب ہو، نہ ضرورت ہو، تو وہ پھر بوجھ ہی ہوتا ہے اور بوجھ کا ہٹ جانا ہی اچھا ہے‘‘۔

میرے بھائیو اور بہنو!اپنے والدین کے تئیں کہیں ہمارا رویہ بھی ایسا تو نہیں ہیں ؟ ’’اگر ہے تو یاد رکھئے عنقریب ہماری اولاد ہم سے یہی طریقہ اختیار کریں گے۔ اس لئے اپنے آپ کا اس دن سے پہلے ہی احتساب کرنا ہو گا، تاکہ ہم اس معاشرتی بیماری کو جڑھ سے اُکھاڑ پھینک سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر وقت اور ہر لمحہ اپنے والدین کی صحیح معنیٰ میں خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

اے دوست ! ماں باپ کے سائے کی ناقدری نہ کر

دھوپ کاٹے گی بہت جب یہ شجر کٹ جائے گا

٭٭٭

تشکر: ابراہیم جمال بٹ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید