FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

لمحاتِ نظر

(نظمیں)

محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل 

ای پب فائل 

کنڈل فائل

قطعہ

اشعار میں مرے مئے باطل کی بو نہیں

عشقِ بتانِ دہر کی بھی ہاؤ ہو نہیں

اسپِ سخن مرا ہے بقیدِ زمامِ دیں

دادِ سخن کی مجھ کو نظرؔ آرزو نہیں

ابتدائیہ

بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ سال ہا سال ان کی طرف توجہ نہیں ہو پاتی، اور پھر کہیں نہ کہیں سے ایسی تحریک ملتی ہے کہ وہ با آسانی پایۂ تکمیل تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ میرے دادا مرحوم محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی کی غیر مطبوعہ شاعری کا بھی ہے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے کبھی شاعری کی اشاعت کے حوالے سے نہیں سوچا۔ ان کا نعتیہ کلام کا مجموعہ "لمعاتِ نظر” ان کی وفات کے دس سال بعد ۲۰۰۵ء شائع ہوا۔ البتہ ان کی غزلیں اور نظمیں غیر مطبوعہ ہی رہیں، اور اب تک مختلف کاپیوں اور ڈائریوں میں محفوظ تھیں۔ نعتیہ کلام کی طباعت کے وقت اور نہ ہی اس کے بعد بقیہ کلام کی طباعت کا خیال کبھی ذہن میں آیا۔ گزشتہ سال انٹرنیٹ پر ‘اردو محفل فورم’ سے وابستگی ہوئی۔ وہاں پر مختلف کتب کی کمپوزنگ کے حوالے سے رضا کارانہ طور پر بہت کام ہو رہا ہے۔ اردو کمپوزنگ سے تعلق تو پہلے سے موجود تھا، لہٰذا یہاں سے تحریک ہوئی کہ دادا کے کلام کو کم از کم کمپوز کر کے محفوظ کر لیا جائے۔ والدِ محترم محمد احسن صدیقی صاحب کے سامنے اپنا منصوبہ رکھا تو انہوں نے بخوشی اجازت دے دی۔ اور تمام کلام جس صورت میں بھی موجود تھا، فراہم کر دیا۔ شروع میں لکھائی کو سمجھنا ذرا مشکل معلوم ہوا، مگر والد محترم کی مدد سے یہ مشکل بھی آسان ہو گئی۔ اس کے علاوہ اپنی کم علمی کے باعث بہت سی فارسی تراکیب کو سمجھنا بھی والدِ محترم کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھا۔ الحمد للہ، پانچ سے چھ ماہ کے مختصر عرصہ میں یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔

دادا کے تعارف اور ان کی شاعری کے اسلوب اور مزاج سے آگہی کے لئے میں اپنے والد کی تحریر "میرے ابو ” کا اقتباس پیش کر رہا ہوں، جو کہ ان کے نعتیہ مجموعۂ کلام "لمعاتِ نظر” میں طبع ہو چکا ہے۔

"اُن اربابِ ذوق کے لئے جو میرے والد سے براہ راست واقفیت نہیں رکھتے، اپنے والد کا ایک مختصر تعارف تحریر کر رہا ہوں۔ شاید یہ تعارف ان کی شاعری کی تفہیم میں بھی کچھ مدد گار ثابت ہو۔

نام محمد عبد الحمید صدیقی، تخلص نظرؔ لکھنوی 3 جولائی 1927ء کو لکھنؤ موضع ‘چنہٹ ‘میں پیدا ہوئے۔ ہائی سکول کی تعلیم موضع اُترولہ ضلع گونڈہ سے 1944ء میں مکمل کی اور 1945ء میں ملٹری اکاؤنٹس لکھنؤ میں ملازم ہو گئے۔ دسمبر 1947ء کو پاکستان ہجرت کی اور ملٹری اکاؤنٹس راولپنڈی میں تعینات ہوئے۔ اس طرح راولپنڈی دار الہجرت قرار پایا۔ پہلی اہلیہ کا 5 جنوری 1958ء کو راولپنڈی میں انتقال ہوا۔ ان سے پانچ اولادیں ہوئیں جن میں سے تین بیٹے شیر خوارگی کی عمر میں ہی وفات پا گئے اور دو اولادیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی حیات رہے۔ عقد ثانی 1960ء میں کیا جن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ دوسری اہلیہ کا انتقال بھی 3 جنوری 1980ء میں راولپنڈی میں ہوا۔ ملازمت کے آخری دس سال فیلڈ پے آفس(FPO)، آرٹلری سنٹر اٹک شہر میں گزارے اور وہیں سے 1979ء میں چونتیس سالہ ملازمت کے بعد اپنی بیمار اہلیہ کی تیمار داری کے لئے بحیثیت اکاؤنٹنٹ ریٹائرمنٹ لے لی۔ اپنی عمر کے آخری دس سال اسلام آباد میں میرے ہمراہ گزارے۔ 3 جنوری 1994ء کو وفات پائی اور اسلام آباد میں سپرد خاک ہوئے۔ ایک بیٹا، ایک بیٹی، چھ پوتے پوتیاں اور تین نواسہ نواسیاں سوگوار چھوڑیں۔

ابّو کی شخصیت میں لکھنؤ کی تہذیبی روایت کی نفاست اور شائستگی پوری طرح موجود تھی لیکن تصنّع اور بناوٹ سے کوسوں دور تھے۔ تدیّن، خود داری، وضع داری، قناعت اور اخلاص ان کی شخصیت کے نمایاں پہلو تھے۔ جس محفل میں شامل ہوتے ان کی موجودگی نمایاں ہو جاتی تھی۔ نہایت خوش مزاج تھے اور بچوں سے لے کر بوڑھوں تک ہر عمر کے لوگوں میں گھل مل جاتے۔ لیکن تعلقات کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے اور جب چاہے سنجیدگی اور متانت کی لکیر کھینچ لیتے۔ ان کی صداقت، دیانت اور معاملہ فہمی پر بھروسہ کیا جاتا تھا اور بکثرت احباب مشورہ کے لئے ان سے رجوع کرتے تھے۔

شاعری کا ملکہ فطری تھا اور مڈل سکول کے زمانے سے شاعری شروع کر دی تھی۔ ایک رشتہ کے ماموں جو عمر میں چند سال بڑے تھے شاعری کرتے تھے۔ انہی کی صحبت میں ذوق و شوق کی تربیت ہوئی اور ابتدائی اصلاح بھی انہی سے لی۔ کسی مشہور استادِ فن سے وابستہ نہ ہوئے۔ البتہ کلاسیکی ادب پڑھا اور ہم عصر اساتذۂ فن اور مشاعروں میں ان کی چشمک کے عینی شاہدین میں سے تھے۔ جب تک لکھنؤ میں رہے اور گھر بار کی ذمہ داریاں کم تھیں تو مشاعروں میں شرکت کا شوق رہا۔

روایت پسند تھے اور شاعری کے دبستانِ لکھنؤ کے لئے ایک خاص حمیت رکھتے تھے۔ دبستانِ لکھنؤ پر کی گئی تنقید پڑھتے ضرور تھے لیکن تسلیم نہیں کرتے تھے۔ عملی طور پر زندگی کے مشاغل میں مثبت مقصدیت کے سختی سے قائل تھے۔ ‘ادب برائے ادب’ اور ‘ادب برائے زندگی’ کی بحث میں ان کی رائے بَین بَین تھی۔ ان کا خیال تھا کہ حسنِ شعری کے وہ سارے ظاہری لوازم جو لکھنؤ دبستان کی پہچان ہیں، شاعری کی مقصدیت کے ساتھ برتے جا سکتے ہیں۔ میری اس سلسلہ میں ان سے بارہا بحث رہتی تھی جو بالآخر ان کی ہلکی سی ڈانٹ یا جھنجھلاہٹ کے ساتھ ختم ہو جاتی تھی۔

غزل اور نظم دونوں اصناف سے مناسبت تھی۔ پاکستان کی تاریخ کے اہم واقعات کے حوالے سے موضوعاتی نظمیں بھی کہیں۔ عام طور پر سال میں تین چار مرتبہ شاعری کی کیفیت طاری ہوتی تھی جس کی ظاہری علامت زیر لب گنگناہٹ اور رات کو بار بار اٹھ کر بجلی جلانا اور لکھنا ہوتا تھا۔ پان کا استعمال بڑھ جاتا۔ ان دنوں تواتر سے کئی غزلیں، نعتیں یا نظمیں ہو جاتی تھیں۔ بیاض میں درج ہو جانے کے بعد سب سے پہلے اور اکثر اوقات آخری سامعین میں، میری بہن اور والدہ ہوتے تھے۔ میرے ایک ماموں محمد قمر الہدیٰ صاحب ذوقِ شعری سے بہرہ یاب تھے اور داد دینے کا ایک والہانہ اور مشاعرانہ انداز رکھتے تھے۔ وہ بھی مستقل سامعین میں شامل تھے اور ان کی موجودگی میں گھر کے اندر ہی مشاعرہ کا سماں بندھ جاتا تھا۔ خاندانی تقریبات کے موقع پر یا احباب کے درمیان فرمائش پر کچھ سنا دیا کرتے تھے۔ میں جب انجینئرنگ کی تعلیم اور اس کے بعد ملازمت کے سلسلہ میں گھر سے دور رہا تو جب بھی گھر جانا ہوتا تھا تو میری غیر موجودگی میں کی ہوئی شاعری مجھے سناتے تھے اور تبصرہ ‘برداشت’ کر لیا کرتے تھے۔ مشاعروں میں شرکت سے گریز کرتے تھے۔

ستر کی دہائی کے ابتدائی سالوں سے رجحان نعتیہ شاعری کی طرف زیادہ ہو گیا اور اس دہائی کے اختتام تک صرف نعتیہ شاعری ہی کرنے لگے۔ جس کا سلسلہ آخر تک جاری رہا۔ فرمائشی شاعری از قسم سہرا، سالگرہ وغیرہ کے سلسلہ میں باوجود ناپسندیدگی کے بے بس تھے۔ کسی کو انکار نہیں کر سکتے تھے اور کچھ نہ کچھ لکھ کر دے دیتے تھے۔ جس کا کوئی ریکارڈ اپنے پاس نہیں رکھتے تھے۔

ان کی غزلیں اور نظمیں بھی نعتیہ اشعار سے مزین ہیں اور ان کی پوری شاعری پر دینی اور ملی فکر کی گہری چھاپ ہے۔ اپنی بیاضِ غزل کا آغاز درج ذیل قطعہ سے کیا ہے جو بخوبی ان کے نظریۂ فن کو ظاہر کرتا ہے:

اشعار میں مرے مئے باطل کی بو نہیں

عشقِ بتانِ دہر کی بھی ہاؤ ہو نہیں

اسپِ سخن مرا ہے بقیدِ زمامِ دیں

دادِ سخن کی مجھ کو نظرؔ آرزو نہیں

اس قطعہ کا آخری مصرع محض شاعرانہ پیرایۂ اظہار نہیں بلکہ ان کی زندگی بھر کا عمل تھا۔ مجھے ان کی زندگی اقبالؔ کے اس مردِ مؤمن کی طرح نظر آتی ہے جس کی تمنا قلیل تھی اور مقاصد جلیل تھے۔”

مکمل کلام کے دو مجموعے مرتب کئے ہیں۔ "غزلیاتِ نظر” تمام غزلوں پر مشتمل ہے اور جیسا کہ والدِ محترم نے اپنے مضمون میں رقم کیا ہے کہ ان کی غزلوں پر بھی دینی اور ملی فکر کی گہری چھاپ ہے۔ نظریہ اور فکر کی پختگی ان کے کلام سے عیاں ہے۔ "لمحاتِ نظر” تمام نظموں پر مشتمل ہے، جو کہ زیادہ تر واقعاتی ہیں۔ اور ان کی زندگی میں رونما ہونے والے نجی و قومی واقعات و حادثات پر لکھی گئی ہیں۔ یہاں بھی دینی اور ملی فکر نمایاں نظر آئے گی۔

یہ کام اللہ تعالیٰ کی نصرت کے بغیر نا ممکن تھا۔ میں سب سے پہلے تو والدِ محترم کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے نہ صرف اس کام کی بخوشی اجازت دی، بلکہ کلام کی تفہیم میں مدد بھی کی اور آخر میں پروف ریڈنگ کا مشکل اور محتاط کام بھی سر انجام دیا۔ اپنی اہلیہ کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہوں گا کہ جنہوں نے میری اس اضافی مصروفیت کو تحمل سے برداشت کیا۔ ‘اردو محفل فورم’ کا شکریہ ادا کروں گا کہ جس کی وجہ سے اس کام کی تحریک ملی اور حوصلہ ملتا رہا۔ کتاب کی تدوین کے حوالے سے تکنیکی معاونت پر خاص طور پر محترم عارف کریم کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہوں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ اور اس کاوش کو اپنی جناب میں قبول فرمائے۔ آمین۔

محمد تابش صدیقی

اسلام آباد

9 رجب المرجب، 1437ھ

بمطابق 17 اپریل 2016ء

نوائے پر سوز

حضوری میں تری اے ربِ برتر

ترا بندہ ہے یہ حاضر نگوں سر

زبان و دل ہیں محوِ آہ و زاری

دعا سن لے غرض ہے یہ ہماری

نہیں تجھ سے نہاں کچھ رازِ عالم

مری دنیا ہے اب مثلِ جہنم

بہر سو معصیت کی ہیں گھٹائیں

ہیں کفر آلودہ دنیا کی فضائیں

سکونِ دل ہوا جاتا ہے رخصت

دلِ انساں ہے نامانوسِ راحت

بہر سو قتل و خوں غارت گری ہے

نظامِ زندگی میں ابتری ہے

رواجِ اختلاطِ مرد و زن ہے

برائی کا بہر سو اک چلن ہے

مئے گلگوں ہے خونِ ابنِ آدم

اسی سے ہے فروغِ ساغرِ جم

برہنہ ہے مذاقِ عشق و الفت

سر اپنا پیٹتی ہے آدمیت

ہے فن اک اب فریب و مکر و حیلہ

چلن سا ہے عداوت بغض و کینہ

ہے انسانوں پہ انساں کی خدائی

نہیں باقی تری فرماں روائی

گناہوں کی ادا استغفر اللہ

حیا سے ہے حیا استغفر اللہ

ہوائے نفس کی ہے حکمرانی

لٹیرا کر رہا ہے پاسبانی

صنم خانہ حریمِ دل بنا ہے

ترا گھر اب بتوں کا ہو گیا ہے

حقیقت پر ہے پھر باطل کا دعویٰ

جھکے سر پھر ہیں پیشِ لات و عزیٰ

بھیانک پنجۂ سرمایہ داری

سسکتی ہے تری مخلوق ساری

کسی کے پاس ہے دولت ہی دولت

کہیں فاقوں سے مر جانے کی نوبت

کہاں تک ہو بیانِ حالِ دنیا

سناتا ہوں تجھے کچھ حال اپنا

وہ مسلم فخرِ موجوداتِ عالم

وہ مسلم محورِ برکاتِ عالم

تھی جس کی زندگی تیری اطاعت

تھا جس کا ہر نفس تیری عبادت

تھی جس کی سعی پیہم نہی منکر

تھا جس کا ہر سخن معروف محور

تھا جس کا کام دیں کی سرفرازی

تھا میدانِ وغا کا جو کہ غازی

گرا صد حیف در قعرِ مذلت

ندامت ہے ندامت ہے ندامت

رکھا قرآن کو بر طاقِ نسیاں

بنا لی زندگی طغیان و عصیاں

بنایا تیرِ غفلت کا نشانہ

ستونِ دیں نمازِ پنج گانہ

رہا اب وہ نہ پابندِ شریعت

شریعت کو کیا پابندِ عادت

حلف لینے کو ہے قرآن تیرا

سمٹ کر رہ گیا ایمان اتنا

جمیعت اس کی فرقوں میں بٹی ہے

نگہ قرآن و سنت سے ہٹی ہے

نکالا ہے جوازِ رقص و نغمہ

بغل میں ہے شراب و جام و شیشہ

حریصِ زر ہے شہوت کا ہے بھوکا

سہارا پھر بھی ہے لا تقنطوا کا

چھٹی جب سے ترے در کی گدائی

ہے اس پر سو خداؤں کی خدائی

گناہوں پر نہیں اپنے وہ نادم

گریزاں ہو گیا آقا سے خادم

زمانہ کی بدل جائیں ہوائیں

ضلالت کی یہ چھٹ جائیں گھٹائیں

طلوعِ مہر کا پیغام آئے

کٹے ظلمت کی شب اسلام آئے

ابو بکرؓ و عمرؓ سے حکمراں ہوں

پھر عثمانؓ و علیؓ سے مہرباں ہوں

مئے توحید کا جام و سبو ہو

اسی بادہ سے پھر جوشِ لہو ہو

ہر اک انساں خوشی سے نعرہ زن ہو

مسرت درد و غم پر خندہ زن ہو

غریبوں کے لئے فریاد رس ہوں

مریضوں کے لئے عیسیٰ نفس ہوں

ترا قرآن سینے سے لگے پھر

حیات و موت ہو پھر دیں کی خاطر

احادیثِ پیمبر سے شغف ہو

مسلماں دیں کی خاطر سر بکف ہو

مسلماں کو جہاں بانی عطا کر

اسے پھر تختِ سلطانی عطا کر

عطا کر پھر وہی ایماں کی رفعت

کہ مجرم آپ ہو پیشِ عدالت

دعاؤں میں مری رنگِ اثر دے

شبِ تیرہ کو بھی نورِ سحر دے

نظرؔ کی ہو دعا مقبول یا رب

کہ یارائے سخن اس کو نہیں اب

٭٭٭

نذرانۂ عقیدت بحضورِ صحابہ کرامؓ

اصحابِ نبیؐ کی باتیں ہیں گلزارِ عقیدت کھل اُٹھا

ہے روئے سخن تک تابندہ ہے لب پہ سخن اُن لوگوں کا

ہے ربِ جہاں جن سے راضی ہے خوب مقدر اُن سب کا

تو ان کا ثنا خواں کیا ہو گا باتیں وہ بڑی یہ منہ چھوٹا

بُستانِ نبوت کا جس دم دلکش وہ گلِ آخر مہکا

گِرد آئے تھے جتنے صاحبِ دل وہ سب تھے یہی مردِ رعنا

سب ایک ہی صورت رکھتے ہیں اک ماہِ مبیں کی سب کرنیں

اک بحر کی یہ سب موجیں ہیں اک سبحہ کا سب گوہر دانا

دنیائے محبت کے قصّے تم نے بھی سنے ہوں گے لاکھوں

پر ان کی طرح کا قصہ تو سننے میں نہیں آیا ہو گا

سب عشق و محبت کے پیکر ایمان و عمل میں سب مخلص

سب شمع رسالت پر قرباں ہر ایک اسی کا پروانہ

صدیقؓ و عمرؓ عثمانؓ و علیؓ منجملۂ یارانِ صادق

اس ماہِ عربؐ کے ہالے میں ہیں نجم درخشندہ کیا کیا

وہ ثور کے اندر کی خلوت محبوبِ خدا کا وہ ساتھی

وہ یارِ نبیؐ کی گھبراہٹ وہ آپؐ کا قولِ دل آرا

ہجرت میں نبیؐ کے وہ ساتھی جلوت میں وہ جلوہ گیر اس کے

ہر عیش و طرب کو ٹھکرا کر ہر قولِ نبیؐ کو اپنایا

ہو معرکۂ حق کوئی بھی سب جان بکف ہو جاتے تھے

شیرانِ وِغا یوں لڑتے تھے میدانِ وِغا کانپ اٹھتا تھا

وہ حضرت خالدؓ سیف اللہ وہ برقِ غضب سیلِ طوفاں

دشمن کے مقابل جب نکلے سو سو کے مقابل میں تنہا

کیسے ملکوتی انساں ہیں اس بزمِ رسالت میں دیکھو

کیسی یہ انوکھی محفل ہے سیرت کے نمونے ہیں یکجا

یہ عشقِ مجسم ظلِ نبی معیارِ امامت پر کامل

وہ شوکت و حشمت کا مالک مصداقِ نبوت ہے بیٹھا

وہ کانِ مروت بحر سخا وہ شرم مجسم جانِ حیا

سرمایۂ حکمت کا مالک وہ شیرِ خدا جانِ تقویٰ

تسلیم و رضا جوہر اس کا وہ صبر سراپا بیٹھا ہے

یہ حسنِ تکلم کا مالک وہ اپنی شرافت میں اونچا

یہ اپنی شجاعت میں یکتا ہے شوقِ شہادت لا ثانی

وہ زہد و اطاعت میں اعلیٰ ہے ذوقِ عبادت میں یکتا

اُس سمت کا نظّارہ دیکھو وہ تارکِ دنیا بیٹھے ہیں

مصروفِ عبادت رہتے ہیں ہر آن یہ اصحابِ صفہ

ہم کیوں نہ رہینِ منت ہوں ہم کیوں نہ ہوں دامن گیر ان کے

اسلام کی دولت ان سے ملی ایمان کا گوہر ہاتھ آیا

ہر گام ستارے روشن ہیں ہے جادۂ منزل تو واضح

گم کردۂ منزل کی شامت اپنی ہے جو ایسے میں بھٹکا

دامانِ صحابہ تھام نظرؔ سر رشتۂ ایماں کے طالب

دامن جو کہیں ان کا چھوٹا خَسِرَ الآخر خَسِرَ الدنیا

٭٭٭

سفرنامۂ حج

سرگذشتِ مختصر ہے حجِ بیت اللہ کی

یعنی رودادِ سفر ہے حجِ بیت اللہ کی

سایہ افگن ہو گئی جب مجھ پہ شامِ زندگی

آرزوئے حجِ بیت اللہ دل میں جاگ اٹھی

اپنے خالق سے دعا جو روز و شب رہتا تھا میں

سننے والا ہے جو سب کی اس سے بس کہتا تھا میں

قرعہ اندازی میں فضلِ رب سے نام آیا نکل

ہو گیا سجدہ کناں پیشِ خدائے لم یزل

جامۂ احرام باندھا ساز و ساماں کچھ لیا

گھر سے پھر لبیک کہتا سر خوشی میں چل دیا

سن بیاسی کے ستمبر میں بوقتِ سہ پہر

رخ مری پرواز کا تھا میری منزل تھی جدھر

شام کو جدہ پہنچ کر عازمِ مکہ ہوا

مولدِ ختم الرسلؐ یعنی سوئے ام القریٰ

غرق سیلِ سر خوشی تھا دل در اثنائے سفر

اشک امڈ آتے تھے اکثر آنکھ ہو جاتی تھی تر

اپنے اک ناچیز بندہ پر خدا کا یہ کرم

عزت و اکرام سے لے جا کے دکھلایا حرم

الغرض گیارہ بجے شب داخلِ مکہ ہوا

جھانک کر دیکھا حرم تھا نور میں ڈوبا ہوا

روشنی تھی اس قدر تھا رات کو دن کا سماں

ایسا لگتا تھا کہ رات آتی نہیں جیسے یہاں

ساتھ سب ہمراہیوں کے پھر کیا عمرہ ادا

طوفِ بیت اللہ کیا سعی صفا مروہ کیا

خانۂ کعبہ پہ طاری تھا خداوندی جلال

کر سکے کوئی بیاں اتنی کہاں تاب و مجال

اک ہجومِ عاشقاں طوفِ حرم میں مست تھا

غافل از ہنگامۂ دنیائے بود و ہست تھا

ختم دوری لگ رہی تھی عابد و معبود میں

فاصلہ جیسے نہ تھا کچھ ساجد و مسجود میں

سعی بیتابانہ مروہ اور صفا کے درمیاں

عشقِ قلبِ ہاجرہ کی ایک زندہ داستاں

آبِ زمزم پر مزہ شیریں مصفّیٰ خوشگوار

سیر ہو کر زائریں پیتے تھے جس کو بار بار

پیٹ بھر کر ہی پیا ہم نے اسے جس دم پیا

ہم یہ کہہ سکتے ہیں ہم نے خوب ہی زمزم پیا

دیکھتے ہی دیکھتے ایامِ حج جب آ گئے

جامۂ احرام میں حاجی منیٰ کو چل دیے

قلبِ ہر زائر منیٰ جانے کو بے کل ہو گیا

پانچ دن کے واسطے جنگل میں منگل ہو گیا

ایک وادی دور تک پھیلی ہوئی وہ بے کنار

چاروں جانب ایستادہ جس کے اونچے کوہسار

شام آئی رات گزری جب ہوا وقتِ پگاہ

بس پہ چڑھ کر منزلِ عرفات کی لی سب نے راہ

تھا عجب خیموں کا منظر وادی عرفات میں

آ گئی دنیا سمٹ کر وادی عرفات میں

ازدحام اللہ اکبر وادی عرفات میں

آ رہی تھی یادِ محشر وادی عرفات میں

شام ہوتے ہی وہاں سے سوئے مزدلفہ چلے

جا رہے تھے آگے پیچھے حاجیوں کے قافلے

وقتِ رخصت اف دعائیں سسکیوں کے درمیاں

رقت انگیزی کا دل کی یاد ہے اب تک سماں

قدر کی شب سے بھی افضل رات مزدلفہ کی ہے

ہے وہ بابرکت جگہ کیا بات مزدلفہ کی ہے

زیرِ چرخِ پیر فرشِ خاک پر بستر بچھا

صبح ہوتے ہی منیٰ پھر قافلہ واپس ہوا

جمرۂ عقبیٰ پہ کی ہر فرد نے جا کر رمی

مستقر پر آ گیا کر کے رمی ہر آدمی

ہم چلے خیمہ سے اپنے جانبِ قربان گاہ

تھا ہجوم اتنا بڑا ملتی نہ تھی چلنے کی راہ

ذبحِ اسماعیل کی اللہ رے یہ یادگار

ذبح ہونے کو مویشی تھے قطار اندر قطار

جانور مذبوح جتنے تھے زمیں پر تھے پڑے

ذبح ہونا تھا جنھیں وہ سر جھکائے تھے کھڑے

اونٹ کا سودا چکا کر اونٹ قرباں کر دیا

کام قربانی کا ہم نے حسبِ فرماں کر دیا

طوفِ زیارت دوسرے دن جا کے مکہ میں کیا

اپنے خیمہ میں اسی دن پھر منیٰ واپس ہوا

بارھویں کی شام تک ہم آ گئے ام القریٰ

لطف و فضلِ رب سے فرض حج پورا ہو گیا

اب دلِ پر شوق میں تھا بس مدینے کا خیال

کر رہے تھے انتظارِ لطفِ ربِ ذوالجلال

تیرہ اکتوبر کی آئی آخرش صبح سعید

سوئے طیبہ چلنے کی آخر ملی ہم کو نوید

شہرِ طیبہ میں قدم زن ہم ہوئے وقتِ عشا

آٹھ دن رہنے کی اگلی صبح سے تھی ابتدا

گنبدِ خضریٰ پہ میری جب پڑی پہلی نظر

کیا بتائیں کیفیت گزری جو قلب و روح پر

مسجدِ نبوی کے سب مینار ہیں کیف آفریں

شہر پورا فیضیابِ رحمۃ اللّعٰلمیں

ہر نمازِ صبح ہم نے کی مواجہ میں ادا

بابِ جبرائیل سے اقرب ہے جس میں داخلہ

اشک افشاں آنکھ ہو جاتی تھی دورانِ سلام

کیا کہیں کیسی جگہ ہے روضۂ خیر الانامؐ

روح کو تسکین ملتی دل کو ملتا تھا قرار

ہم سلام اٹھ کر پڑھا کرتے تھے دن میں بار بار

جس طرف اٹھتی تھیں نظریں تھے نمازی ہر جگہ

کوئی باقی تھی نہ مسجد میں کہیں تل بھر جگہ

ہر گلی کوچہ سے وابستہ ہے یادِ مصطفیٰ

سیر ان کوچوں میں کی ہے آٹھ دن تک مرحبا

ذرہ ذرہ خاکِ طیبہ کا قدم بوسِ رسولؐ

چشمِ ہر مومن کا سرمہ مرحبا ہے واں کی دھول

آٹھ دن وہ زندگی کے زندگی کی یادگار

پر جمال و بے مثال و پر سکون و پر بہار

الوداع اس شہرِ خوباں کو کہا اکیس کو

آ گئے پھر ماہِ اکتوبر کی ہم چوبیس کو

دل کی دنیا میں اجاگر ہے مدینے کا خیال

پھر رہا ہے میری نظروں میں مدینہ کا جمال

رات کی تنہائیوں میں دل پہنچتا ہے وہیں

تا دمِ آخر مدینہ بھول سکتا ہوں کہیں

ہے خدا کا شکر روضہ کی زیارت ہو گئی

اے نظرؔ اب دل کو امیدِ شفاعت ہو گئی

٭٭٭

تلاش

بندۂ حق نگر و مردِ مسلماں کی تلاش

پھر زمانہ کو ہوئی جرأتِ ایماں کی تلاش

صبحِ خاموش کو ہے مہرِ درخشاں کی تلاش

شامِ تاریک کو ہے شمعِ فروزاں کی تلاش

ہے عزائم کو بلا خیزی طوفاں کی تلاش

ہے مقدر کو ابھی گردشِ دوراں کی تلاش

سینہ و دل کو ابھی گرمی ایماں کی تلاش

ہے نگاہوں کو ابھی منزلِ عرفاں کی تلاش

اہلِ ایماں کو ہے اس رفعتِ ایماں کی تلاش

لغزشِ پا کو ہو خود حلقۂ زنداں کی تلاش

ایک وہ دور کہ انساں تھے فرشتہ خصلت

ایک یہ وقت کہ انساں کو ہے انساں کی تلاش

الاماں پستی اخلاقِ زمانہ ہمدم

بے حیائی کو ہوئی دیدۂ حیراں کی تلاش

میگسارانِ حقیقت ہیں ابھی بادہ بجام

ہے انہیں فصلِ گل و ابرِ بہاراں کی تلاش

موسمِ لالۂ و گل آئے مقدر چمکے

ہو جنوں کو مرے پھر جیب و گریباں کی تلاش

شمع بردارِ شریعت کو سنا دو مژدہ

نظمِ عالم کو ہے اک شمع فروزاں کی تلاش

یا الٰہی وہ نظامِ ازلی کر برپا

جس میں حاکم کو ہو خود بے سر و ساماں کی تلاش

مجھ کو آیا ہے نظرؔ خواب میں تعبیر کرو

ہے زلیخا کو بہت یوسفِ کنعاں کی تلاش

٭٭٭

صبحِ آزادی

آفتابِ صبحِ آزادی ہوا پھر ضو فگن

مژدہ باد اے ساکنانِ خطّۂ پاکِ وطن

مسکراہٹ دل ربا ہے غنچۂ لب بستہ کی

رقص میں بادِ سحر ہے آئی پھولوں کو ہنسی

چہچہاتے پھر رہے ہیں طائرانِ خوش نوا

صحنِ گلشن کی فضا ہے روح پرور دل کشا

ہے نظر افروز سبزہ کی ردائے اخضری

سازِ فطرت کی صداؤں سے فضا میں نغمگی

کوچہ و بازار و دوکان و مکاں سجنے لگے

لیجئے وہ ہر طرف سازِ طرب بجنے لگے

غمزدہ بھی خوش ہوئے کر کے غمِ دل بر طرف

ہے جو ماحولِ مسرت دائیں بائیں ہر طرف

کتنی تلخی اس نشاط و کیف میں رو پوش ہے

بادۂ عشرت کی سر مستی میں کس کو ہوش ہے

کس لئے چاہا گیا تھا اک وطن اندر وطن

اس کا پس منظر بھی دیکھیں نوجوانانِ چمن

بالمقابل جس کے کوئی شے نہیں رہتی عزیز

جذبۂ دیں اللہ اللہ ہے جہاں میں ایسی چیز

جانبِ گرداب و طوفاں ناؤ کو کھیتا ہے کون

جان اپنی خون اپنا بے سبب دیتا ہے کون

ملّتِ مسلم کا لیکن اس میں مستقبل نہ تھا

دورِ محکومی میں ہم کو ویسے کیا حاصل نہ تھا

انتظارِ موسمِ خوش کر رہے تھے چارہ گر

دردِ پنہاں تھا علاجِ درد پنہاں تھا مگر

عظمتِ اسلام و تنفیذِ شریعت کے لئے

چاہئے تھی اک زمیں دیں کی سیادت کے لئے

اک نئی منزل عروجِ آدمیت کے لئے

ایک میداں اپنی تہذیب و ثقافت کے لئے

آرزوؤں اور منزل کا نشاں بن کر اٹھے

قائدِ اعظم امیرِ کارواں بن کر اٹھے

پھر نہ پوچھیں جو ہوئے تھے واقعاتِ دل شکن

جہدِ پیہم سے جب ان کی بن گیا اپنا وطن

خانۂ کافر میں اس خوں سے چراغاں ہو گیا

مسلمِ ہندوستاں کا خون ارزاں ہو گیا

دل کو تڑپاتا رہے گا وہ زمانہ تا ابد

ہندوؤں سکھوں کا اف وہ کینہ و بغض و حسد

کچھ نظر آتا نہ تھا ہر سمت جز خونِ رواں

قریہ قریہ آگ بھڑکائی لئے تیغ و سناں

جس کو کھانے آ گئے تھے گُرسنہ زاغ و زغن

ہر طرف بکھری تھیں لاشیں اور بے گور و کفن

شیر خواروں پر قیامت کی مصیبت آ گئی

ماؤں بہنوں بیٹیوں کی چادرِ عصمت لٹی

کارواں کے کارواں پھر سوئے پاکستاں چلے

خانہ ویراں ہو چکے جب ساز و ساماں لٹ چکے

سینہ بریاں سوختہ جاں آخرش پہنچے یہاں

سر برہنہ پا پیادہ دل شکستہ نیم جاں

جس جگہ کرنی تھی تعمیرِ حیاتِ اخروی

دیکھنا ہے ہم نفس کیا ہے یہ پاکستاں وہی

ہاں نہیں ہرگز نہیں یہ سر زمیں وہ سرزمیں

کہہ رہا ہوں سچ کہ مجھ کو جھوٹ کی عادت نہیں

ہے بہت ہی دل شکن تعبیرِ خوابِ آرزو

فی الحقیقت یہ تو نکلا اک سرابِ آرزو

نے وہی بربط وہی نغمہ وہی اور لے وہی

نظمِ میخانہ وہی جام و سبو اور مئے وہی

صاعقے صرصر وہی مسکن اگر بدلا تو کیا

گل وہی نکہت وہی گلشن اگر بدلا تو کیا

ناقۂ لیلیٰ وہی لیلیٰ وہی محمل وہی

تیزی خنجر وہی زاری وہی بسمل وہی

چارہ گر بدلے ہیں بے شک پر ہے سوزِ دل وہی

راہبر بدلے ہیں لیکن جادہ و منزل وہی

نالہ و شیون وہی اب تک وہی فریاد ہے

دام ہے صیدِ زبوں ہے پنجۂ صیاد ہے

آج بھی سب کچھ وہی ہے جو نظر آتا تھا کل

مختصر یہ گر پڑے سارے تصور کے محل

اوجِ دیں اوجِ شریعت اوجِ قرآں دیکھئے

رہ گئی حسرت مسلماں کو مسلماں دیکھئے

حال کا پردہ سیہ تر پردۂ ماضی سے ہے

بعدِ آزادی تو بد تر قبلِ آزادی سے ہے

خوشبوئے دیں سے نظرؔ یہ گلستاں مہکائیں ہم

عہدِ پاکستاں کو آ اے ہم نفس دہرائیں ہم

٭٭٭

انقلاب 1947ء

زخمِ دل ہونے لگا پھر خوں چکاں

پھر چمک اٹھا مرا دردِ نہاں

آ سنائیں ہم تجھے اے مہرباں

بن گئی ناسورِ دل جو داستاں

انقلابِ کشورِ ہندوستاں

دل گداز و روح فرسا خوں چکاں

بن گیا جب کشورِ عالی نشاں

کافر و مشرک ہوئے آتش بجاں

ہاتھ میں لے کر اٹھے تیغ و سناں

خونِ مسلم سے منائیں ہولیاں

دشمنی کا تھا نہ کچھ جن پر گماں

وہ بھی تھے من جملۂ آفت رساں

سینۂ بسمل میں گم نوکِ ستاں

ہاتھ بھر نکلی ہوئی منہ سے زباں

لاش کے انبار زیرِ آسماں

تھا پڑا کوئی یہاں کوئی وہاں

صاحبانِ ثروت و صولت نشاں

صاحبانِ جاہ و عالی خانداں

ہفت منزل کے مکیں جنت مکاں

صاحبانِ کرّ و فرّ و عزّ و شاں

حور آسا مہوشاں ابرو کماں

دم زدن میں تھے اجل کے میہماں

بستیوں پر تھا یہ شب خوں کا سماں

آگ تھے شعلے تھے ہر سو تھا دھواں

چار سو ہنگامۂ آہ و فغاں

شور و غوغا اک زمیں تا آسماں

مسلمِ خستہ جگر بیزارِ جاں

ہر نفس گریہ کناں ماتم کناں

بیٹے بیٹی بھائی بہنیں باپ ماں

قتل و خوں میں منتشر سب خانداں

دیکھ کر یہ بربریت کا سماں

لرزہ بر اندام تھے کرّوبیاں

جب نہ پائی کوئی بھی جائے اماں

سوئے پاکستاں چلے پسماندگاں

سینہ بریاں سوختہ دل نیم جاں

کیا کہیں کس کس طرح پہنچے یہاں

دل میں قوت ہے نہ یارائے زباں

ختم کرتا ہے نظرؔ یہ داستاں

٭٭٭

قائدِ اعظمؒ (1)

یہ فطرت ہے بشر ہوتا ہے از نسلِ بشر پیدا

یہ قدرت ہے جو تم سا کر دیا اک شیرِ نر پیدا

چمن باقی تو ہوں گے سیکڑوں گل ہائے تر پیدا

یہ دنیا ہے تو ہوں گے سیکڑوں اہلِ بصر پیدا

ہزاروں لاکھوں ہوں گے صاحبِ فکر و نظر پیدا

نہیں ہونے کا اے قائد پہ تم سا راہبر پیدا

تمہیں اس مصرعِ اقبال کے مصداق ہو قائد

"بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا”

زمانہ منقلب ہوتا رہے پر مٹ نہیں سکتا

جو تیری یاد کا ہے دل میں نقشِ کالحجر پیدا

ترے ہاتھوں خدا نے مملکت ہم کو یہ دلوائی

اسی خاطر کیا تھا جیسے تجھ کو خاص کر پیدا

تو اپنی دھن کا پکا تھا جو کہتا تھا وہ کرتا تھا

شبِ تاریک میں تو نے کیا نورِ سحر پیدا

شکستہ پر مسلماں تھے کہاں اڑنے کی طاقت تھی

دمِ اعجاز سے تیرے ہوئے تھے بال و پر پیدا

ترے گنتی کے ساتھی تھے ہوا جب عازمِ منزل

ترے اقبال سے لاکھوں ہوئے پھر ہمسفر پیدا

نگاہوں میں تھی گو منزل مگر ناپید تھا رستہ

قدم زن جب ہوا تو ہو گئی خود رہ گزر پیدا

بھرے مجمع پہ ہو جاتا تھا سناٹا عجب طاری

تری تقریر سے ہوتا تھا جادو سا اثر پیدا

نہ چین آیا تجھے دن کو نہ نیند آئی تجھے شب بھر

بحالِ قوم جب سے دل میں تھا سوز و شرر پیدا

تری ہیبت مسلّم تھی تری سیرت جلالی تھی

اٹھا سکتا نہ سر فتنہ کہیں ہوتا بھی گر پیدا

ترا اعجاز یہ دیکھا ہے اے معمارِ پاکستاں

بنا رکھتے ہی گھر کی ہو گئے سب بام و در پیدا

پٹی راہوں پہ چلنا عار جانا آخری دم تک

کیا کرتا تھا چلنے کو الگ اپنی ڈگر پیدا

وطن کی خاک سے چنتے رہے ہم تو خزف ریزے

اسی مٹی سے تُو ہوتا تو کر لیتا گہر پیدا

بہر نخلِ چمن لگتے ہیں پھل پر غیر مطلوبہ

تجھے ارماں تھا جن کا وہ نہیں اب تک ثمر پیدا

تو خورشیدِ درخشاں ہے چمکتا ہی رہے گا تو

اُفق بدلا ہے بس تیرا اِدھر پنہاں اُدھر پیدا

سلام اے مطمئنہ روحِ پاکِ قائدِ اعظم

بنا کر تو نے پاکستاں کیا اک مستقر پیدا

ترے اس سبز پرچم کو ثریا تک جو پہنچا دے

خدا سے ہے دعا ایسا کرے بالغ نظرؔ پیدا

٭٭٭

قائدِ اعظمؒ (2)

نئی منزل کے جب ابھرے نشاں تھے

وہی بانگِ رحیلِ کارواں تھے

چراغِ راہ تھے منزل نشاں تھے

امیرِ مسلمِ ہندوستاں تھے

وہ ہندی میکدے میں اک اذاں تھے

نوائے خوش سروشِ دلستاں تھے

دماغ و دل تھے وہ سب کی زباں تھے

وہ پوری قوم کی روحِ رواں تھے

ضعیفی تھی مگر بوڑھے کہاں تھے

اولو العزمی کے پہلو سے جواں تھے

بظاہر گو نحیف و ناتواں تھے

بباطن وہ مگر کوہِ گراں تھے

تنِ مسلم میں وہ قلبِ تپاں تھے

رگِ ملت میں وہ خونِ رواں تھے

سوا افروختہ داغِ نہاں تھے

سکوتِ شب میں وہ سوتے کہاں تھے

دمِ تقریر یوں معجز بیاں تھے

کہ سب انگشت حیرت در دہاں تھے

خموشی بھی سخن پرور تھی ان کی

کبھی جب بولتے تو دُر فشاں تھے

نگاہوں سے ٹپکتی تھی ذہانت

متانت کے وہ اک کوہِ گراں تھے

غمِ دنیا سے تھی گو بے نیازی

غمِ ملت سے لیکن خوں چکاں تھے

مذاقِ غزنوی رکھتے تھے دل میں

بتوں کے حق میں تیغِ بے اماں تھے

ہلے ان کے نہ پائے استقامت

وہیں تھے تا دمِ آخر جہاں تھے

اٹھایا قم باذن اللہ کہہ کر

مسیحا دم برائے مردہ جاں تھے

ستائش کیجئے جتنی بھی کم ہے

وہ اپنے عہد کی اک داستاں تھے

نظرؔ رحمت کی ہو ان پر خدایا

وہ پاکستان کے بابا تھے جاں تھے

٭٭٭

قطعات: بیادِ قائدِ اعظمؒ

بسلسلۂ جشنِ صد سالہ 1977ء

لکھیں اہلِ قلم ان کے قصائد

کہ ان پر فرض یہ ہوتا ہے عائد

نظرؔ میں تو کہوں بس ایک جملہ

کروڑوں رحمتیں بر روحِ قائد

٭

وہ اک مردِ مجاہد مردِ مومن

وہ خوش باطن مسلمانوں کا محسن

نہ بھولی ہے نہ بھولے یاد اس کی

منائیں ہر برس ہم یاد کا دن

٭

چمک اٹھا شرارِ دردِ باطن

ہوئی بیدار چشمِ مردِ مومن

وطن آزاد پاکستاں بنایا

کٹی ظلمت کی شب آخر ہوا دن

٭

ضمانت دے کے اک نو مملکت کی

کیا ثابت کہ تھا سچا وہ ضامن

زہے یومِ ولادت پر سعادت

کہیں سب لوگ اس دن کو بڑا دن

٭

ہیں پاکستان کے بانی جنابِ قائدِ اعظم

حقیقت بن گیا دیکھیں کہ خوابِ قائدِ اعظم

سوالِ قومِ مسلم ہے تمام اقوامِ عالم سے

کہیں سے لا کے دکھلائیں جوابِ قائدِ اعظم

٭

مردِ مؤمن وہ اک تہِ افلاک

تیز و طرار و دیدہ ور بے باک

موجِ طوفاں اسے خس و خاشاک

سرنگوں اس سے فتنۂ چالاک

٭٭٭

علامہ اقبالؒ

یاد تیری لے رہی ہے آج دل میں چٹکیاں

ہم تیری توصیف میں پھر ہو گئے رطب اللساں

افتخارِ آدمیت نازِ ابنائے زماں

ارجمند اقبال اے اقبال تو فخرِ جہاں

طائرِ رنگیں نوا اے آبروئے گلستاں

خوش ادا شیریں سخن شیریں دہن شیریں زباں

اے کہ تو اک فلسفی علامۂ دورِ زماں

شاعرِ شعلہ نفس آتش نوا معجز بیاں

واقفِ اسرارِ پنہاں کاشفِ سرِّ نہاں

رازدانِ بے خودی سرِّ خودی کا ترجماں

تھا سراپا دردِ ملت پیکرِ آہ و فغاں

سینۂ اسلام کا بسمل جگر قلبِ تپاں

بے قرار و مضطرب آشفتۂ و شعلہ بجاں

تھا فراقِ دینِ احمد میں نوا سنجِ فغاں

اے کہ تو مستِ مئے نابِ خمستانِ حجاز

تھا تو ہندی میکدے میں مثلِ گلبانگِ اذاں

تو مذاقِ دل بھی سمجھا تو مذاقِ عقل بھی

راز دارِ عشق حسنِ لم یزل کا راز داں

تھے زمین و آسماں تیرے تخیل کے اسیر

وسعتِ پایاں تھی تجھ کو وسعتِ کون و مکاں

فخرِ دانش نازِ حکمت افتخارِ فلسفہ

معنی و مضموں کا تھا لاریب بحرِ بیکراں

ذات سے تیری سراپائے سخن ہر اک نکھار

گیسوئے اردو کو تو نے کر دیا عنبر فشاں

شعر تیرے آئینہ دارِ حقائق بر ملا

طائرِ فکرِ رسا تیرا تھا اف عرش آشیاں

تاجدارِ نظم بھی ہے اور شہنشاہِ غزل

ہر گلستانِ ادب میں تو رہا گوہر فشاں

دور رس تیری نظر تھی دور رس تیرا خیال

نکتہ بین و نکتہ پرور نکتہ سنج و نکتہ داں

ہے ترے اشعار میں وہ نورِ ایماں کی چمک

مقتبس لاریب جس سے ہوں قلوبِ مومناں

ہاں وہی ملت کہ کہتے ہیں براہیمی جسے

تو اسی کا نوحہ گر تھا تو اسی کا نغمہ خواں

تو کہ تھا نباضِ ملت اے حکیمِ بے بدل

نسخۂ اکسیر اثر بتلا دیے سب بے گماں

شاعرِ مشرق نہیں بس شاعرِ اسلام ہے

ترجمانِ اَلحدیث و ترجمانِ اَلقرآں

خواب دیکھا تھا کبھی تو نے جو پاکستان کا

اٹھ کے تعبیر اس کی دیکھ آسودۂ خوابِ گراں

منزلِ ہستی میں تھا جب تک بقیدِ غم رہا

ہو مبارک تجھ کو لطف و عیشِ باغاتِ جناں

تیری تخلیقات ساری باقیات الصالحات

تو سدا موجود ہے اہلِ نظرؔ کے درمیاں

٭٭٭

نذرانۂ عقیدت بانی جماعتِ اسلامی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ

(یہ نظم اس وقت لکھی گئی جب مولانا مودودیؒ حیات تھے)

آلِ سید اے ابو الاعلیٰ جواں قسمت ہے تو

حاملِ اخلاقِ اعلیٰ اور نکو سیرت ہے تو

شاہکارِ لم یزل نقشِ یدِ قدرت ہے تو

کیا حسیں صورت حسیں سیرت حسیں فطرت ہے تو

فکر کی قندیلِ روشن علم کی دولت ہے تو

فہم کی سرعت ہے تو ادراک کی قوت ہے تو

پیکرِ عزم و عمل ہے صبر کی طاقت ہے تو

تو جری پیشہ ہے با جرأت ہے پُر ہمت ہے تو

آئینہ اسلام کا ہے دین کی نصرت ہے تو

ہے ستونِ استقامت لائقِ مدحت ہے تو

شوکتِ اسلام ہے اسلام کی غیرت ہے تو

دین کی حشمت ہے تو سطوت ہے تو صولت ہے تو

عالمِ دیں پیروِ حق تابعِ سنت ہے تو

ترجمانِ الَقرآں گنجینۂ حکمت ہے تو

خادمِ دینِ ہدیٰ ہے سیدِ ملت ہے تو

تو مفکر ہے محقق ہے ابو الحکمت ہے تو

گل ہے تو گلزار تو گلزار کی نزہت ہے تو

روح جس سے وجد میں آ جائے وہ نکہت ہے تو

مال و زر رکھتا نہیں کب صاحبِ ثروت ہے تو

دیدہ ور کہتے ہیں پَر سرمایۂ ملت ہے تو

حق شناس و حق رس و حق بین و حق آگاہ ہے

دینِ قیم کے لئے برہان ہے حجت ہے تو

اک منارِ روشنی گم کردۂ منزل کو ہے

خفتہ بختوں کے لئے بیداری قسمت ہے تو

نوجوانی چند ساتھی اور وہ ترکِ وطن

اے مہاجر آشنائے لذتِ ہجرت ہے تو

جادۂ حق میں اکیلا ہی قدم زن ہو گیا

رہ گزارِ عشق میں بیگانۂ راحت ہے تو

تو علمدارِ نظامِ حق بہ استدلال ہے

پرچمِ اسلام کی عظمت ہے تو رفعت ہے تو

جانبِ منزل چلا بن کر امیرِ کارواں

امتِ مسلم کو مثلِ خوبی قسمت ہے تو

تو صداقت کی نوا اس دورِ شر انگیز میں

ہر نظامِ کفر و باطل کے لئے ہیبت ہے تو

تیری تحریریں کہ تقریریں سبھی ہیں دل پذیر

مایۂ خلوت ہے تو سرمایۂ جلوت ہے تو

ظلم و طغیاں کے مقابل تو رہا سینہ سپر

لشکرِ شر کے لئے کوہِ گراں عظمت ہے تو

ہر عمل محکم ترا ہر قول ہے قولِ سدید

عاملِ قرآں ہے تو اور حاملِ سنت ہے تو

قصۂ دار و رسن سے زندگی رنگیں تری

موت خائف تجھ سے وہ پر رعب و پر ہیبت ہے تو

ہو نظامِ حق وہ برپا تو ہے جس کا منتظر

ہوش جب سے تجھ کو ہے آزردۂ فرقت ہے تو

گو تجھے حاصل نہیں صحبت زمانہ سے مگر

غلبۂ دیں کے لئے جاں دادۂ محنت ہے تو

اے ابو الاعلیٰ خدا بخشے تجھے عمرِ طویل

رہبرِ امت ہے تو اللہ کی نعمت ہے تو

بارک اللہ و جزاک اللہ کہتا ہے نظرؔ

ملک و ملت کے لئے سب سے بڑی حاجت ہے تو

٭٭٭

ملّی نغمہ

نظر نواز طرب آفریں جمیل و حسیں

خوشا اے مملکتِ پاک رشکِ خلدِ بریں

سلام تجھ کو کریں جھک کے مہر و ماہِ مبیں

تو دینِ مصطفویؐ کا ہے پاسبان و امیں

ترے وجود پہ نازاں ہیں آسمان و زمیں

ستارہ اوجِ مقدر کا زینتِ پرچم

ہلالِ نو ہے نویدِ خوشی لئے ہر دم

ہے سبز رنگ سے باغ و بہار کا عالم

سکونِ روح یہیں ہے قرارِ دل ہے یہیں

ترے وجود پہ نازاں ہیں آسمان و زمیں

بنائے پاک وطن لا الٰہ الّا اللہ

نگاہِ قوم پہ روشن ہے اس کی منزل و راہ

خدا گواہ فرشتے گواہ قوم گواہ

ترا ضمیر ہے زندہ دمک رہی ہے جبیں

ترے وجود پہ نازاں ہیں آسمان و زمیں

ترا پیام محبت خلوص امن و اماں

ترے نظامِ حکومت میں عدل روحِ رواں

تری نظر میں برابر ہیں شہری و دہقاں

ترا شعور ہے تنظیم و اتحاد و یقیں

ترے وجود پہ نازاں ہیں آسمان و زمیں

٭٭٭

تنظیمِ گلستاں

تنظیمِ گلستاں کی خاطر کیوں اہلِ گلستاں لڑتے ہیں

ہے بات خلافِ ایماں یہ کیوں صاحبِ ایماں لڑتے ہیں

ہم کیوں نہ کبیدہ خاطر ہوں جب حاملِ قرآں لڑتے ہیں

فرمائے خدا ہی رحم ان پر آپس میں مسلماں لڑتے ہیں

جب ایک ہی اپنا قبلہ ہے جب ایک ہی چاہِ زمزم ہے

جب ایک ہی اپنا قرآں ہے جب ایک ہی اپنا پرچم ہے

جب ایک نبیؐ کے آگے ہی سر اپنی اطاعت کا خم ہے

جب ایک ہے خالق ایک ہے دیں پھر کیوں یہ نزاعِ باہم ہے

جب ایک نظامِ برحق پر ایمان ہمارا کامل ہے

جب ختمِ رسل کے صدقہ میں دستورِ شریعت حاصل ہے

جب ایک سفر کے راہی ہیں جب ایک ہی اپنی منزل ہے

ایسے میں نگاہِ مسلم کیوں حیراں ہوں کہ سوئے باطل ہے

تزئینِ چمن کو ساماں سب ہم شان کے شایاں رکھتے ہیں

ہم سرو صنوبر نرگسِ شہلا سوسن و ریحاں رکھتے ہیں

ہم سبزۂ اخضر لالہ و نسریں سنبلِ پیچاں رکھتے ہیں

ہم قمری و طوطی بلبلِ شیدا مرغِ خوش الحاں رکھتے ہیں

کچھ حرص و ہوس کے بندے ہیں جو اور ارادہ رکھتے ہیں

کچھ اور ہی منزل ہے ان کی کچھ اور ہی جادہ رکھتے ہیں

وہ جامِ تعقل میں اپنے الحاد کا بادہ رکھتے ہیں

خود بہکے ہیں اور بہکائیں انہیں جو فطرتِ سادہ رکھتے ہیں

اربابِ ہوس وہ رہتے ہیں خسخانوں میں ایوانوں میں

مشروب مفرح پیتے ہیں کھاتے ہیں مرغن کھانوں میں

تفریح کریں وہ کلبوں میں جم خانوں میں میخانوں میں

دل دور حقیقت سے ان کے کھوئے ہوئے وہ افسانوں میں

آگاہ نہیں تم اے لوگوں ان کی شطرنجی چالوں سے

تم کھاتے آئے ان کے ہاتھوں ماتیں اکتیس سالوں سے

ہے بغض انہیں للّٰہی کچھ اسلام کے سب متوالوں سے

پہچانو لوگو دور رہو ابلیس کے ان دلالوں سے

ہے عرضِ نظرؔ احساسِ زیاں خدامِ شہِ لولاک کریں

جو دیں کے تقاضے ہیں ان کا للہ ذرا ادراک کریں

ظلمت کا گریباں تار کریں الحاد کا پردہ چاک کریں

فی الاصل بنا دیں پاکستاں یوں خاکِ وطن کو پاک کریں

٭٭٭

دید شنید

کتاب میں ہے ذکر کچھ تو دیکھنے میں اور ہے

 عجیب تجھ پہ وقت ہے عجیب تجھ پہ دور ہے

نماز تجھ پہ بار ہے زکوٰة تجھ پہ شاق ہے

 تو نیکیوں میں سست ہے برائیوں میں چاق ہے

دماغ میں غرور ہے خیال میں فتور ہے

 نگاہ نشہ خیز ہے شراب کا سرور ہے

زبان بھی کرخت ہے کلام بھی درشت ہے

تو جنگ جو تو تند خو پسند خون و کشت ہے

یہ عرس ہے مزار پر یہ نغمہ و سرود ہے

یہ راگ رنگ ہے ادھر یہ ناچ اور کود ہے

تو عقل کا اسیر ہے تو عقل کا غلام ہے

حرام اب حلال ہے حلال اب حرام ہے

نہ گرم تجھ سے بزم ہے نہ گرم تجھ سے رزم ہے

تو پست جان و تنگ دل نہ حوصلہ نہ عزم ہے

نہ قلب ہی سلیم ہے نہ ذہن تیرا صاف ہے

عزیز تر ہے تجھ کو وہ جو دین کے خلاف ہے

نہ عہد استوار ہے نہ قول میں قرار ہے

گرا ہے پستیوں میں تو زبون و خستہ خوار ہے

یہود سے ہنود سے مشابہت کا رنگ ہے

وہ طرز ہے وہ طور ہے وہ رنگ ہے وہ ڈھنگ ہے

خدا کا دین چھوڑ کر تو آپ بے ضمیر ہے

تو دشمنانِ دین کی لکیر کا فقیر ہے

فراق اَلکتاب سے فراق اَلحدیث سے

تو سیکھتا ہے علم و فن فرنگی خبیث سے

کتاب میں ہے ذکر کچھ تو دیکھنے میں اور ہے

عجیب تجھ پہ وقت ہے عجیب تجھ پہ دور ہے

٭٭٭

جنگِ ستمبر 1965ء

وہ موسمِ گرما وہ شبِ ماہِ ستمبر

دشمن کے خطرناک عزائم کا وہ منظر

جب سرحدِ لاہور میں در آئے تھے چھپ کر

مکار و جفا کار و سیہ کار و ستمگر

سب بسترِ راحت سے ہم آغوش پڑے تھے

دن بھر کے تھکے خواب میں مد ہوش پڑے تھے

مہتاب جبیں گھر میں ردا پوش پڑے تھے

طفلانِ حسیں گود میں خاموش پڑے تھے

ناگاہ فضا میں تھے جگر دوز دھماکے

دشمن کے ہوا باز تھے شانوں پہ ہوا کے

تھے شعلہ فشاں پردۂ تاریک فضا کے

گھبرا کے اٹھے لوگ مرے شہرِ وفا کے

بد بختی روباہ کہ شیروں کو جگایا

کج فہمی کنجشک کہ بازوں کے جگایا

زاغوں کی سفاہت کے عقابوں کو جگایا

کفار نے اللہ کے بندوں کو جگایا

ہر فوج لے آئے تھے وہ میدانِ وغا میں

برّی تھی زمیں پر تو فضائی تھی ہوا میں

توپوں کی گرج بم کے دھماکے تھے فضا میں

گھیرا تھا مرے شہر کو گردابِ بلا میں

فی الفور اٹھے دیکھ کے یہ فتنہ طرازی

یہ پیروِ اسلام یہ اللہ کے غازی

جنگاہ میں جا پہنچے غلامانِ حجازی

جا پہنچے لگانے کے لئے جان کی بازی

جھپٹے صفتِ شیر صفِ دشمنِ دیں پر

کڑکے صفتِ برق فضاؤں میں زمیں پر

گرجے صفتِ رعد جگر پاش کہیں پر

دشمن تھے جہاں کشتوں کے پشتے تھے وہیں پر

دشمن کی ہر اک ضرب ہر اک وار تھا خالی

تھے سارے زمیں بوس محل ان کے خیالی

تھے موت کے چنگل میں تو یہ راہ نکالی

تھا امن طلب ہم سے اماں کا تھا سوالی

ہم شورشِ دشمن کے لئے صرصر و طوفاں

ہم صلح کے خواہاں کے لئے امن بہ داماں

ہم تابعِ فرمانِ نبیؐ تابعِ قرآں

یہ شانِ مسلماں ہے یہی شیوۂ ایماں

آخر کو چھٹیں جنگ کی تاریک گھٹائیں

ضو پاش ہوئیں نور سے محروم فضائیں

چلنے لگیں پھر امن کی معصوم ہوائیں

آنے لگیں ہر سو سے طرب خیز صدائیں

گلشن نظرؔ اپنا یونہی آباد رہے گا

بد خواہ جو اس کا ہے وہ برباد رہے گا

واللہ کہ یہ ملکِ خداداد رہے گا

آزاد تھا آزاد ہے آزاد رہے گا

٭٭٭

ٹینکوں کی جنگ بر محاذِ سیالکوٹ 1965ء

آتی ہے جب بھی اے ندیم موجِ صبائے سیالکوٹ

آتی ہے مجھ کو بالیقیں بوئے وفائے سیالکوٹ

یاد ہے وہ شب سیاہ اور وہ عالمِ سکوت

آئے تھے جب مثالِ دزد مادرِ ہند کے سپوت

دشمنِ دیں وہ کینہ توز آئے وہاں تھے بہرِ جنگ

دل میں لئے ہوئے لعیں فتحِ مبیں کی اک امنگ

ساماں کئے ہوئے ہزار آئے وہاں صنم پرست

فوجِ پیادہ و سوار ٹینک مثالِ فیلِ مست

امن و اماں کے شہر میں لوگ پڑے ہوئے خموش

خواب کا عالمِ سرور تھا نہ کسی کو کوئی ہوش

اٹھا جو شورِ حشر خیز جاگے وہاں کے سب غیور

ڈالی جو ہر طرف نگاہ دیکھا عدوئے پر غرور

چونکے جو خواب سے یہ شیر دیکھ سکے نہ یہ سماں

جنگ کے آزمودہ کار پہنچے وہاں وہ تھے جہاں

گرجے عدو پہ مثلِ رعد چمکے سروں پہ مثلِ برق

دم بھر میں کر دیا انہیں آب جوئے لہو میں غرق

فوجِ خدائے لا شریک تھی جو ادھر شریکِ حال

ان کی صفوں میں آشکار خوف و ہراس و اختلال

دشمنِ دیں پہ تھا وہ رعب بھاگے وہ رکھ کے سر پہ پاؤں

خالی پڑے تھے ان کے شہر اجڑے پڑے سب ان کے گاؤں

آئے تھے دشمنانِ دیں شیروں پہ ڈالنے کمند

اپنے ہی دام میں اسیر آخر ہوئے یہ گو سفند

شکرِ خدائے دو جہاں لازم نظرؔ ہے ہم پہ آج

رکھا ہے جس نے سرفراز رکھی وطن کی جس نے لاج

٭٭٭

ہم لوگ

روشن پہلو

خوش ادا خوش خصال ہیں ہم لوگ

آپ اپنی مثال ہیں ہم لوگ

خیرِ امت ملا ہمیں کو خطاب

وہ عدیم المثال ہیں ہم لوگ

بات کرتے ہیں پھول جھڑتے ہیں

اتنے شیریں مقال ہیں ہم لوگ

ہر نشیب و فراز میں محتاط

برسرِ اعتدال ہیں ہم لوگ

رِستے زخموں کو قلب گیتی کے

مرہمِ اندمال ہیں ہم لوگ

میرے دامن میں ہے جہاں کا سکوں

دافعِ ہر وبال ہیں ہم لوگ

یا الٰہی نظرؔ عنایت کی

تیری عظمت پہ دال ہیں ہم لوگ

تاریک پہلو

سر بریدہ نہال ہیں ہم لوگ

کس قدر بد مآل ہیں ہم لوگ

پیکرِ صد ملال ہیں ہم لوگ

خستہ دل خستہ حال ہیں ہم لوگ

فکرِ عقبیٰ سے ہم کو بے فکری

صیدِ مال و منال ہیں ہم لوگ

سیئاتِ عمل خدا کی پناہ

اب تو ضرب المثال ہیں ہم لوگ

بے عمل ہی امیدِ حور و قصور

کس قدر خوش خیال ہیں ہم لوگ

اب قریبِ غروب آ پہنچا

آفتابِ زوال ہیں ہم لوگ

اک معمہ نظرؔ سمجھنے کو

اک نشانِ سوال ہیں ہم لوگ

٭٭٭

مکالمہ مابین مسلمان اور سوشلسٹ

مسلمان

اپنا یہ چمن دیں کی نواؤں کے لئے ہے

اسلام کی جاں بخش فضاؤں کے لئے ہے

ہم فلسفۂ دینِ محمدؐ کے فدائی

دستورِ شریعت کے ہیں اس ملک میں داعی

ہم امن و مساوات و محبت کے پیامی

آپس میں رواداری و نصرت کے ہیں حامی

دنیا ہمیں درکار ہے بس دین کی خاطر

ہر دائرۂ زیست میں معروف کے آمر

روٹی کی طلب ہم کو پئے رشتۂ جاں ہے

تسکین مرے دل میں ہے دامن میں اماں ہے

اللہ کی تکبیر تگ و تاز کا مقصد

اخلاق کی سرحد مرے اعمال کی سرحد

رکھنی ہے ہمیں شمعِ توحید فروزاں

اس مقصدِ پاکیزہ پہ جاں بھی مری قرباں

سوشلسٹ

یہ صحنِ چمن تازہ نواؤں کے لئے ہے

الحاد کی مد مست گھٹاؤں کے لئے ہے

ہم فلسفۂ لینن و ماؤ کے فدائی

بے دینی و الحاد کے اس ملک میں داعی

ہم صرف مساواتِ شکم کے ہیں پیامی

ہم بورژوا طبقے کے ہرگز نہیں حامی

دنیا ہمیں درکار ہے بس نفس کی خاطر

انسان بھی اک طرح کا حیوان ہے آخر

روٹی کی طلب ہی تو مرا مقصدِ جاں ہے

بے چین ہوں طوفان مرے دل میں نہاں ہے

الحاد کی تشہیر تگ و تاز کا مقصد

ہے نانِ شبینہ مرے اعمال کی سرحد

کرنا ہے ہمیں شمعِ لینن کو فروزاں

اس آرزوئے دل پہ ہے ہر شے مری قرباں

٭٭٭

شامِ انتخاب 1970ء

انتخابِ عام کا ظاہر نتیجہ ہو گیا

کلمہ گوؤں کے دلوں کا راز افشا ہو گیا

حسنِ ظن ان کی طرف سے تھا جو رسوا ہو گیا

محوِ حیرت ہوں کہ کیا ہونا تھا اور کیا ہو گیا

ہم کہ پر امید تھے آئے گی صبحِ زر نگار

خیمہ زن ہو گی چمن میں ہر طرف فصلِ بہار

یک بیک آ جائے گا ہر غنچہ و گل پر نکھار

طائرانِ خوش نوا ہر سو پھریں گے نغمہ بار

کر گئیں مایوس لیکن وقت کی نیرنگیاں

پھر شبِ ہجراں کا منظر پھر وہی تنہائیاں

پھر وہی نالہ کشی ہے پھر وہی دل سوزیاں

پھر ستم کیشی وہی ہے پھر وہی بربادیاں

شب پرستوں کی مگر محفل میں ہے دورِ شراب

نغمہ و رقص اک طرف ہے اک طرف چنگ و رباب

بے نیازِ حال و مستقبل ہوا ہر شیخ و شاب

ساقی محفل کی حالت ہو گئی سب سے خراب

اف فریبِ نفس میں قومِ مسلماں آ گئی

روٹی کپڑے کے فقط وعدے پہ دھوکہ کھا گئی

صرف جوشیلی صدا اک ان کے دل گرما گئی

عقل اندھی ہو گئی اور آنکھ بھی پتھرا گئی

نیک و بد میں کر نہ پائے امتیازِ واقعی

کچھ نہ سوچا حق کدھر ہے اور کدھر ہے گمرہی

کس طرف ناموسِ دیں ہے کس طرف بے غیرتی

کس طرف اخلاصِ دل ہے کس طرف بازی گری

اہلِ حق تو چاہتے تھے اقتدارِ لا الٰہ

جس کی نظروں میں برابر ہیں عوام و سربراہ

جس کے دامن میں محبت جس کے دامن میں پناہ

منصفی میں جس کییکساں ہیں فقیر و بادشاہ

ووٹ اہلِ حق کو دے دیتے تو کیا کچھ تھا برا

اقتدار اسلام کا آتا تو سب کا تھا بھلا

مفسدہ ہے اقتدار انسان پر انسان کا

اتنی صدیوں کا نہ کام آیا تجھے کچھ تجربہ

رزق کا ضامن خدا فرمودۂ قرآن ہے

اس سے بڑھ کر بھی تجھے اف وعدۂ انسان ہے

کس پہ تکیہ کر لیا ہے تو بڑا نادان ہے

غیرتِ حق کیا یہی ہے کیا یہی ایمان ہے

اے مسلماں سن کہ روٹی ہی ترا مقصد نہیں

کسبِ دنیا میں جگر سوزی ترا مقصد نہیں

مال و زر کی برتری کوئی ترا مقصد نہیں

عیش کوشی جہاں یعنی ترا مقصد نہیں

تو نے دیکھا ہی نہیں اب تک رخِ زیبائے دیں

تو نے سمجھا ہی نہیں منشائے رب العٰلمیں

دیں کو ساری زندگی میں تو نے برتا ہی نہیں

دل تک اترا ہی نہیں تیرے یہ قرآنِ مبیں

ٹھوکریں کھانی ہیں لکھی تیری قسمت میں ابھی

طالبِ دنیا ہے جب تک مل چکی تجھ کو خوشی

جھیلتا رہ بے کسی کی بے بسی کی زندگی

ہوش مستقبل میں آپ آ جائے گا تجھ کو کبھی

عالمانِ دینِ برحق ذی حشم والا تبار

سلکِ مروارید کے سب دانہ ہائے بے شمار

ان سے بھی با صد ادب اتنی ہے عرضِ خاکسار

یہ جماعت سازیاں چھوڑیں بہ عنوانِ ہزار

اقتدارِ دینِ محکم کا کریں بس اہتمام

تا دمِ فتح و ظفر محنت کریں وہ صبح و شام

متحد ہو کر بدل ڈالیں یہ طاغوتی نظام

تا ہو پورا مقصدِ فرمودۂ رب الانام

ہم بھی لوگوں کو نظرؔ بارِ دگر سمجھائیں گے

پاس ان کے جا کے ہم پیغامِ حق پہنچائیں گے

یہ جہادِ زندگی ہے اور موقع آئیں گے

اُن کے ہاتھوں ہی نظامِ حق یہاں پر لائیں گے

٭٭٭

سقوطِ ڈھاکہ

دل آج ہے رنجور ز نیرنگی حالات

آنکھوں سے رواں اشک ہیں مجروح ہیں جذبات

مسلم پہ ہے کیسی مرے اللہ یہ افتاد

مائل بہ ستم اس پہ ہے چرخِ ستم ایجاد

بربادی احوال یہ کس طرح رقم ہو

قابو میں نہ جذبات ہوں جب شدتِ غم ہو

بنگال میں سنتے ہیں قیامت کا سماں ہے

ہر سمت لگی آگ ہے شعلے ہیں دھواں ہے

ارزانی اموات ہے چیخوں کی صدائیں

نم ناک ہوائیں ہیں تو غم ناک فضائیں

مفتوح ہے پامال ہے تاراج ہے ڈھاکہ

دشمن نے شکنجوں میں کسا آج ہے ڈھاکہ

ہندو کے تسلط میں گیا مشرقی بنگال

قدرت نے دکھایا ہے یہ انجامِ بد اعمال

اک لاکھ جواں مرد بنے قیدی زنداں

سو لاکھ گھرانے ہیں یہاں خانۂ ویراں

کتنوں نے پیا جامِ شہادت نہیں معلوم

کتنوں کی لٹی چادرِ عصمت نہیں معلوم

کتنے ہی دلوں کو ہے ملا داغِ یتامت

سوزاں ہیں جگر کتنے ہی از داغِ محبت

لڑنا جنہیں معلوم نہیں وہ ہوئے غالب

ہارے ہیں مسلماں جو شہادت کے ہیں طالب

ہارا ہو مسلماں یہ کبھی ہو نہیں سکتا

کہتا ہوں بہ ایماں یہ کبھی ہو نہیں سکتا

تاریخِ مسلماں کے ہیں ابو اب درخشاں

کیسا یہ سیہ باب پھر اے گردشِ دوراں

مغلوبی جذبات سے سر اپنا اٹھا تو

تصویرِ حقائق پہ جو پردہ ہے اٹھا تو

بنیاد ہے ملت کی فقط کلمۂ توحید

فرمودۂ قرآں ہے احادیث کی تائید

اللہ کی رسی یہی سر چشمۂ قوت

زندہ ہے مسلمان اسی شے کی بدولت

کلمہ جو پڑھے دین کا اپنا ہے وہ بھائی

یہ بات مرے پاک نبیؐ نے ہے بتائی

تعلیم ہے اسلام کی آپس میں وفا ہو

ہو عفو و کرم عام اگر کوئی خطا ہو

آپس میں مسلمان سدا شیر و شکر ہوں

اللہ سے ڈرتے ہوئے دنیا سے نڈر ہوں

بے چین ہو اک فرد تو ہر فرد ہو بے کل

یک جان و دو قالب کی ہو تصویرِ مکمل

دنیا میں رہیں جیسے کہ رہتا ہے مسافر

ہوں طالبِ عقبیٰ ہے وہی منزلِ آخر

معروف کو پھیلائیں تو منکر کو مٹا دیں

سدِّ رہِ اسلام جو شے آئے ہٹا دیں

ہر کام ہو در پیروی حکمِ شریعت

اللہ کا قانون ہو قانونِ حکومت

اب دیکھئے کیا ہم میں یہی شان ہے باقی

ایمان میں کیا پختگی و جان ہے باقی

ماضی تو درخشاں ہے مگر حال ہے بے نور

اسلام کے معیار سے اسلام سے ہم دور

کہنے کو ہیں در اصل مسلمان نہیں ہیں

ہم صورت و سیرت میں کہو سچ کہ کہیں ہیں

انگریز سے جب ہم کو ملا ملکِ خداداد

وعدہ تھا کریں گے اسے اسلام سے آباد

اک ہم نے لگایا تھا ذرا نعرۂ اسلام

تھاما تھا مشیت نے قدم بڑھ کے بہر گام

تھی پشت پناہی پہ مری خوبی تقدیر

اک جذبۂ اسلام کی اللہ رے تاثیر

جب نقشۂ دنیا پہ مری سلطنت ابھری

ابلیس نے سوچا کہ ہوا اُس کی اب اُکھڑی

ہر سمت لگا پہرۂ اخوانِ شیاطیں

تا آ نہ سکے ملک میں اسلام کا آئیں

اس قوم کو جتنے بھی ملے قافلہ سالار

مَس ان کو نہ تھا دیں سے تھے وابستۂ اغیار

عیاش تھے چھوڑا نہ کبھی شیش محل کو

آرام میں آنے نہ دیا اپنے خلل کو

وہ مقتدرِ قوم تھے سب فاسق و فاجر

کم ظرف و کم آگاہ تھے اور جابر و آمر

تھی فکرِ صدارت یا انہیں فکرِ وزارت

محور پہ اسی فکر کے تھی گردشِ سیاست

کہتا ہوں نڈر ہو کے سب اربابِ ہوس تھے

جتنے بھی کہ مختار بہ چوبیس برس تھے

اسلام کا دستور انہیں تھا نہیں منظور

چوبیس برس دے نہ سکے قوم کو دستور

اس ملک کو اس قوم کو دل کھول کے لوٹا

وہ ظلم کی چکی تھی کہ ہر فرد کو پیسا

مرغوب رہی قوم میں کردار کی پستی

اخلاق کی اعمال کی افکار کی پستی

حجروں میں رہے چین سے اربابِ تقدس

معلوم نہ تھے ان کو جو آدابِ تقدس

یوں کہنے کو رکھتے تھے وہ تقویٰ کا لبادہ

سمجھے نہ مگر دینِ محمدؐ کا تقاضہ

علماء بھی بناتے رہے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد

یک دل نہ کبھی ہو سکے آپس میں رکھی ضد

کچھ اہلِ دل اٹھے جو لئے پرچمِ اسلام

اربابِ حکومت نے کیا خوب انہیں بدنام

رکھی گئی ان کے لئے تعزیرِ سلاسل

در اصل وہی سمجھے گئے مدِ مقابل

ہر کفر سے آلودہ کیا دینِ محمدؐ

ہر عہد میں ڈھائی گئی اسلام کی سرحد

تعلیم کے اغراض پہ کوئی نہ تھی قدغن

استادوں نے بچوں کو کیا دین سے بد ظن

ماحول تھا اسکول کا غارت گرِ ایماں

اس قوم کی بیٹی سے چھنا جوہرِ نسواں

ہندو نے جو دیکھا کہ مسلمان ہے غافل

بنگال کے مسلم کو کیا قوم سے بد دل

دشمن نے خطرناک عزائم کی چلی چال

آمادہ بغاوت پہ ہوا خطۂ بنگال

آپس میں ہو پیکار تو دشمن کا بھلا ہے

آنکھیں نہ کھلیں اب بھی تو یہ کتنا برا ہے

پاداشِ عمل ہے کہ جدا ایک ہے بازو

بے سود کہ اب روئیے گر خون کے آنسو

باقی پہ بھی للچائی ہوئی ہے نگہِ غیر

اللہ مرے خیر ہو اللہ مرے خیر

جو خواب کہ دیکھا تھا کہاں اس کی ہے تعبیر

اے شومیِ تقدیر مری شومیِ تقدیر

دل گیر ہوں ہر چند پہ مایوس نہیں میں

بے نور ہوں ٹوٹا ہوا فانوس نہیں میں

اب بھی جو سدھر جائے کہیں قومِ مسلماں

ہو سکتی ہے مائل بہ کرم رحمتِ یزداں

آتی ہے صدا غیب سے ہو گوش بر آواز

ہے دینِ محمدؐ میں ترقی کا تری راز

اسلام کے دامن کو پکڑ خوفِ خدا کر

پھر خیرِ امم تو ہے تو ہی ملتِ برتر

اللہ مری قوم کو احساسِ زیاں دے

اسلام کی خدمت کے لئے عزمِ جواں دے

رہبر وہ عطا کر جو ہوں اسلام کے پیرو

ہو جن کے سب اعمال پہ ایمان کا پرتو

اخلاصِ عمل حسنِ نظرؔ سوزِ دروں دے

ملت کی رگوں میں مرے اسلاف کا خون دے

٭٭٭

فسادِ بنگال

گل و صنوبر و سرو سمن میں آگ لگی

پرِ عنادلِ شیریں دہن میں آگ لگی

دھواں ہے شعلے ہیں سارے چمن میں آگ لگی

تری پناہ خدایا وطن میں آگ لگی

چمن سے اہلِ چمن کی عداوتیں توبہ

خود اپنی قوم و وطن سے عداوتیں توبہ

حسد کی آگ میں جل کر شرارتیں توبہ

ابل پڑی ہیں دلوں کی کثافتیں توبہ

اٹھا مجیب وہاں لے کے فتنۂ دجال

اٹھائے سیکڑوں فتنے بہ عذرِ استحصال

درونِ پردہ بنا اندرا کا وہ دلال

گیا اسی کی ہی سازش سے مشرقی بنگال

نہ دل میں اس کی رہا جذبۂ مسلمانی

زبانِ فتنہ سے کی اس نے زہر افشانی

بہاریوں کا ہوا سخت دشمنِ جانی

بہا وہ خون کا دریا رواں ہو جوں پانی

بچے نہ جتنے بھی رہتے تھے غیر بنگالی

خدا نے جن کو بچایا وہی بچے خالی

نہ ہم سے پوچھ کہ نقصان کیا ہوا مالی

بہا وہ خوں کہ سمندر پہ چھا گئی لالی

کیا ہے جرمِ بغاوت برائے بنگلہ دیش

نہ اس کو یاد رہا کچھ سوائے بنگلہ دیش

ملی خدا کی طرف سے سزائے بنگلہ دیش

بنا ہے گوشۂ زنداں بجائے بنگلہ دیش

پڑے گا اور ابھی تازیانۂ فطرت

ملے گی اور بھی اُن کو ندامت و ذلت

مٹے گا ان کا تکبر مٹے گی سب نخوت

کہے گا ایک سے اک وائے شومیِ قسمت

ذو الانتقام خدا ہے خدا عزیز و مجید

بچا نہ اس کی پکڑ سے کوئی پکڑ ہے شدید

کیا ہے قتلِ مسلماں تو ہم سے سن لیں وعید

خلودِ نارِ جہنم نظرؔ عذابِ مزید

٭٭٭

آگ

گلوں میں لالۂ و سرو سمن میں آگ لگی

لگائی کس نے کہ سارے چمن میں آگ لگی

مجیب بد نظر و بد سرشت و ابن الوقت

اسی خبیث کے ہاتھوں وطن میں آگ لگی

سلگ رہی تھی جو دل میں حسد کی چنگاری

لہک اٹھی تو ہر اک موئے تن میں آگ لگی

خلافِ قوم و وطن کی ہزار تقریریں

جو دل میں آگ لگی تھی سکن میں آگ لگی

حسد کی آگ میں بنگالیوں کو جھونک دیا

وہاں ہر ایک دلِ مرد و زن میں آگ لگی

دلوں میں بیج جو نفرت کے بو دیے اس نے

ہر ایک طور طریقہ چلن میں آگ لگی

بچا بچا کے رکھا ہم نے جن کو طوفاں سے

انہیں چراغوں سے اف انجمن میں آگ لگی

بجھا رہے تھے محبِ وطن جو شعلوں کو

دل اندرا کا جلا تن بدن میں آگ لگی

سپاہِ کفر نے بھڑکائی آگ کی بھٹی

گھروں میں کھیت میں ہر باغ و بَن میں آگ لگی

وہ شعلہ بازی توپ و تفنگ تھی ہر سو

فضا میں بحر میں دشت و دمن میں آگ لگی

بچا نہ کوئی بھی امن و اماں کا گہوارا

مراکزِ ہنر و علم و فن میں آگ لگی

فضا میں آگ کے گولوں کی وہ ہوئی کثرت

کہ آفتاب کی اک اک کرن میں آگ لگی

لگی تھی آگ تو بڑھ کر وہ چارسو پھیلی

شمال و مشرق و مغرب دکن میں آگ لگی

جلایا جامۂ انسانیت معاذ اللہ

جو ستر پوش تھا اس پیرہن میں آگ لگی

جو بلبلوں کو اجاڑا تو خود بھی بچ نہ سکے

ہر آشیانۂ زاغ و زغن میں آگ لگی

زمیں سے اٹھے تو شعلے گئے ثریا تک

لگا یہ جیسے کہ چرخِ کُہن میں آگ لگی

نہ تھی زمین کے اوپر ہی شعلہ سامانی

زمیں کے نیچے بھی تارِ کفن میں آگ لگی

مرے دیار کا چہرہ جھلس گیا آدھا

دیارِ پاک کے اف بانکپن میں آگ لگی

مرا ہی قول نہیں سب نظرؔ یہ کہتے ہیں

کہ بنگلہ دیش کے دیوانہ پن میں آگ لگی

٭٭٭

بلا خیز سیلاب 1973ء

زد میں امواجِ بلا خیز کے پنجاب آیا

صوبۂ سندھ بھی در حلقۂ گرداب آیا

گاؤں ڈوبے تو کہیں شہر تہِ آب آیا

قہر اللہ کا ٹوٹا ہے کہ سیلاب آیا

رات کے وقت یکایک یہ مصیبت آئی

کبھی دیکھی نہ جو درپیش وہ صورت آئی

تھا گماں بھی نہ کبھی جس کا وہ شامت آئی

لوگ گھبرا کے یہ سمجھے کہ قیامت آئی

وہی پانی کہ سبک رو تھا بہ حدِّ ساحل

شکلِ طوفاں جو اٹھا چڑھ گیا منزل منزل

پھر نہ محفل رہی باقی نہ چراغِ محفل

جز بپھرتی ہوئی موجوں میں تڑپتے ہوئے دل

پانی چڑھتا رہا خطرے کے نشاں کے آگے

ایک غمناک حقیقت تھی گماں کے آگے

بند سب ٹوٹ گئے سیلِ رواں کے آگے

موت تھی رقص میں ہر پیر و جواں کے آگے

دیکھنے میں جو نہ آیا تھا وہ منظر آیا

قہرِ سیلاب یہ ایسا تھا کہ گھر گھر آیا

دندناتا ہوا شہروں میں بھی یہ در آیا

ایسا لگتا تھا کہ خشکی پہ سمندر آیا

مال و زر غلہ و اسباب و مکاں سب ڈوبا

ہے خدا ہی کو خبر کون کہاں کب ڈوبا

دن دہاڑے کوئی ڈوبا تو کوئی شب ڈوبا

سارا عالم ہی لگا جیسے کہ بس اب ڈوبا

کھیتیاں ڈوب گئیں دانۂ و خرمن ڈوبے

ریگ زاروں کا تو کیا ذکر ہے گلشن ڈوبے

کوئی تخصیص نہ تھی شیخ و برہمن ڈوبے

عورتیں بچے ضعیف اور جواں تن ڈوبے

سانپ لہرا کے نگل جاتا ہے مینڈک جیسے

موجِ خونخوار نے انسانوں کو نگلا ایسے

دیکھتے دیکھتے انساں گئے کیسے کیسے

گنگناتی رہیں امواج پر اپنی لے سے

تابِ گفتن نہیں مجھ میں کہ بیاں اور کروں

دل بھی کہتا ہے اسے ختم میں فی الفور کروں

لیکن اتنا تو بہ ہر حال بہ ہر طور کروں

قہرِ یزداں کے اس انداز پہ کچھ غور کروں

ہم کو اللہ نے آزادی کی نعمت بخشی

ہم کو اک ملک دیا اپنی حکومت بخشی

اپنا قرآن دیا اپنی شریعت بخشی

امتحاں گاہ میں رکھ کر ہمیں مہلت بخشی

ہم سیہ مست ہوئے ایسے کہ سب بھول گئے

جس نے سب کچھ ہمیں بخشا وہی رب بھول گئے

ترکِ قرآن کیا طاعتِ شب بھول گئے

آئی پھر یاد دہانی ہے کہ جب بھول گئے

مل کے توبہ کریں اب آؤ سیہ مستی سے

دامن اپنا ہی چھڑا لیں گے سیہ بختی سے

بات کہتا ہے نظرؔ تجھ سے ذرا سختی سے

نورِ قرآں کے اجالے میں نکل پستی سے

٭٭٭

روٹی کپڑا اور مکان

بھٹو کا یہ تھا اعلان

اے میرے مزدور کسان

ووٹ مجھے دو دوں گا میں

روٹی کپڑا اور مکان

بن کر صدرِ پاکستان

بھولے ہیں قومی پیمان

مانگے ان سے روز عوام

روٹی کپڑا اور مکان

سبزی دالیں گندم دھان

آٹے چینی کا فقدان

مہنگا ان کے آتے ہی

روٹی کپڑا اور مکان

سوئی دھاگہ کاغذ بان

انڈا مچھلی بسکٹ نان

پہلے سے زیادہ مہنگے اب

روٹی کپڑا اور مکان

سوکھے لب ہیں خشک زبان

غائب دوکانوں سے پان

عنقا یہ تو ملنا کیا

روٹی کپڑا اور مکان

کاریں کوٹھی سبزہ لان

دورِ مَے دورِ شیزان

رقص و مستی میں کب یاد

روٹی کپڑا اور مکان

نتھو کلو فتو خان

عہدے بانٹے عالی شان

چوپٹ نگری ملنا کیا

روٹی کپڑا اور مکان

سنتے تھے اونچی دوکان

لیکن ہے پھیکا پکوان

نعرہ پھر بھی پہلا ہی

روٹی کپڑا اور مکان

از لڑکانہ تا مردان

بھوکے ننگے ہیں انسان

جلسے نعرے تقریریں

روٹی کپڑا اور مکان

خستہ دل اور خستہ جان

اب تک ہیں مزدور کسان

ملنا ان کو نا ممکن

روٹی کپڑا اور مکان

کہتا ہوں سن بھائی جان

تیری پونجی دین ایمان

سب کچھ ملنا قسمت سے

روٹی کپڑا اور مکان

اللہ رکھے پاکستان

آئے دیں آئے قرآن

پھر پاؤ گے سب کچھ تم

روٹی کپڑا اور مکان

دینِ احمد کی یہ شان

مٹ جاتا ہے ہر بحران

فضلِ رب سے ملتا ہے

روٹی کپڑا اور مکان

مسلم کی یہ ہے پہچان

مذہب پر اپنے قربان

خلد نظرؔ میں مانگے کون

روٹی کپڑا اور مکان

٭٭٭

مسلم سربراہ کانفرنس

خلاقِ دو جہاں کے ثنا خواں ہوئے بہم

پروانہ ہائے شمعِ ایماں ہوئے بہم

اے مرحبا کہ پیروِ قرآں ہوئے بہم

یا رب ترا کرم کہ مسلماں ہوئے بہم

شام و عرب جزائر و مصر و یمن ہیں ایک

لرزاں ہے سومنات کہ پھر بت شکن ہیں ایک

رونق بڑی ہے رونقِ صد انجمن ہیں ایک

کیسی بہار چھائی ہے نازِ چمن ہیں ایک

گل عطر بیز زیبِ گلستاں ہوئے تو ہیں

رنگیں نوا طیور غزل خواں ہوئے تو ہیں

آثارِ نو بہار نمایاں ہوئے تو ہیں

اس ربِ ذو الجلال کے احساں ہوئے تو ہیں

میرے چمن میں جمع ہیں یکتائے روزگار

بچھ جائے ان کے قدموں میں کہہ دو کہ سبزہ زار

بادِ صبا ادب سے چلے ہو کے مشکبار

اے عندلیب چھیڑ دے تو نغمۂ بہار

چہروں پہ ہے نکھار دلوں میں ہے اک امنگ

گھل مل گیا ہے رنگِ عجم میں عرب کا رنگ

باطل سے دبنے والے نہیں سب یہ ہیں دبنگ

فق چہرۂ یہود ہے فق چہرۂ فرنگ

یکجا ہیں سربراہِ ممالک جو خوش نہاد

بزمِ طرب کے بھیس میں برپا ہے اک جہاد

توفیق دے خدا کہ بڑھے ان میں اتحاد

لوٹیں یہ با مراد رہیں کامران و شاد

لا ریب تاک میں ہے ہماری ہر اک عدو

ہم کو ہے حکمِ ربِ جہاں لا تفرقوا

مصداقِ حکمِ رب جو بنیں ہم ہوں سرخرو

رسی خدا کی دینِ خدا ہے خُذوا خُذوا

حقا کہ ہیں زمانے میں خیر الامم ہمیں

دنیا ہمیں مٹا نہیں سکتی ہے بالیقیں

یا رب مری زباں پہ ہے ایاک نستعیں

پیشِ نظرؔ ہمارے ہے کارِ فروغِ دیں

٭٭٭

انتخاب 1988ء

قوم تھی یہ جس کی خاطر ایک مدت سے بضد

انتخابِ عام آخر ہو گیا وہ منعقد

صبح کو سولہ نومبر کی تھا میلے کا سماں

ووٹ دینے آئے تھے سب مرد و زن پیر و جواں

ہر طرح کے لوگ تھے سب میں تھا اک جوش و خروش

تھے وفادارانِ ملت اور تھے ملت فروش

عورتوں مردوں کا تھا چاروں طرف اک ازدحام

تھا الیکشن کا نظارہ صبح سے تا وقتِ شام

ہو چکا جب قوم کے پوشیدہ ووٹوں کا شمار

مرضی اہلِ وطن کھل کر ہوئی پھر آشکار

اکثریت کو پسند آئی ہے پیپل پارٹی

از سرِ نو دے گئی ہے قوم کو جل پارٹی

کلمہ گوؤں کے دلوں کا راز افشا ہو گیا

حسنِ ظن ان کی طرف سے تھا جو رسوا ہو گیا

رہ گئے حیرت زدہ سارے بہی خواہانِ دیں

داؤں اپنا چل گیا لوگوں پہ شیطانِ لعیں

چاہتے تھے جو یہاں برپا ہو اسلامی نظام

وہ نتیجہ سن کے آخر رہ گئے پھر دل کو تھام

اک زنِ برگشتۂ دیں پر کیا ہے اعتبار

دیں کی جانب پشت کر دی قوم نے بالاختیار

اللہ اللہ قوم کی ناعاقبت اندیشیاں

کس قدر یہ ہو گئی ناواقفِ سود و زیاں

ایک عورت کی قیادت پر ہوئے راضی عوام

کیا عجب آ جائے اب قدرت کے زیرِ انتقام

دورِ استبدادِ بھٹو اف بھلا بیٹھی ہے قوم

حافظہ کیسا ہے اس کا آہ یہ کیسی ہے قوم

نعرہ ہائے دل نشیں کا اس نے ڈالا دام سخت

پھنس گئے تھے اس میں بھی اس قوم کے شوریدہ بخت

بر گلوئے قوم پھیری اس نے شمشیرِ ستم

اور کیا کہئے وطن کو کر گیا ظالم دو لخت

پھر خدا نا آشنا لوگوں نے پایا اقتدار

ہوں گے پھر اہلِ وطن ہر بربریت کا شکار

تیر تھا تیرِ ستم کہ جس کے حق میں رائے دی

اپنے ہاتھوں اپنے پاؤں پر کلھاڑی مار لی

اپنے کرتوتوں کا پھر یہ قوم چکھے گی مزا

آسماں سے کوئی نازل ہو گی پھر تازہ سزا

عالمانِ دینِ قیم سے میں شکوہ سنج ہوں

ان کی بد اعمالیوں پر میں اسیرِ رنج ہوں

اقتدارِ دیں کی خاطر بھی ہوئے کب متحد

اپنے مسلک پر رہے وہ تا دمِ آخر بضد

مجتمع ہونا تھا لیکن ٹولیوں میں بٹ گئے

ہے غضب کی بات وہ حکمِ خدا سے ہٹ گئے

متحد ہوتے جو سب دے دیتے باطل کو شکست

فتح مندی کے نشہ میں آج یوں پھرتا نہ مست

اہلِ علم اہلِ قلم سے بھی شکایت ہے مجھے

ہے بُرا ان کا رویہ غم نہایت ہے مجھے

اہلِ باطل کی وکالت اہلِ حق سے اختلاف

فکر ژولیدہ کے بل پر ہوتے ہیں وہ موشگاف

لکھتے رہتے ہیں جو باتیں وہ خلافِ الکتاب

ایک دن دینا پڑے گا اپنے لکھے کا حساب

پیشوایانِ تصوف کا الگ ہے راستہ

دین کو ان کے نہیں دنیا سے جیسے واسطہ

وہ اترتے ہی نہیں در کارزارِ زندگی

وہ سمجھتے ہی نہیں یہ بھی ہے کارِ بندگی

دین و دنیا کی دوئی کا فلسفہ ان کو عزیز

پڑ گئے غفلت کے ان کی آنکھ پر پردے دبیز

نظمِ دنیا دیں پہ یا طاغوت پر ہو استوار

اِس سے اُن کو کیا غرض ہے، وہ ہیں یونہی رستگار

درد مندی سے میں یہ کہتا ہوں اپنی قوم سے

واسطہ رکھیں نہ وہ خالی صلٰوة و صوم سے

اجتماعی زندگی کو بھی سنورنا چاہئے

اہلِ حق پر فرض ہے یہ کام کرنا چاہئے

مصطفیٰ کا دینِ قیم ہے محیطِ زندگی

رنگ اسلامی ہو گر کل زندگی ہے بندگی

جو بھی شعبہ زندگی کا دین سے آزاد ہو

زندگی برباد ہو ایمان بھی برباد ہو

چھوڑ دو اے بھائیوں قول و عمل کا تم تضاد

تاکہ مٹ جائے ہماری زندگی سے ہر فساد

متحد ہو کر کے لانا ہے نظامِ مصطفیٰ

عام کرنا ہے ہمیں ہر سو پیامِ مصطفیٰ

ہے عبث یہ حرص و آزِ ساز و سامانِ

حیات کام وہ کر جائیے کام آئے جو بعد ممات

قوم یہ باقی ہے پھر آئے گا یومِ انتخاب

دیں کے متوالوں کو ہونا ہے بالآخر کامیاب

قوم کی بگڑی بنا دے اے خدائے کارساز

کر دے گلشن کو مرے پابندِ آئینِ حجاز

چشمِ رحمت کی نظرؔ یا رب مسلمانوں پہ کر

بارشِ انوارِ حق دل کے سیہ خانوں پہ کر

٭٭٭

سانحۂ اجودھیا (شہادتِ بابری مسجد)

زخم خوردہ ہوا دل اشک چکیدہ آنکھیں

پڑھ کے منحوس خبر قلب سے نکلی آہیں

کام ہندو نے جنوں خیز و دل افگار کیا

بابری مسجدِ ذیشان کو مسمار کیا

تودۂ خاک میں تبدیل وہ شہکار کیا

مسلمِ ہند کو آمادۂ پیکار کیا

منہدم کر کے ستم پھر کہ اسی کے اندر

رام کے نام کا تعمیر کیا ہے مندر

مشرک آزاد ہوئے جب سے بہت کھل کھیلے

ان کے ہاتھوں سے مسلماں نے ستم ہی جھیلے

لوٹ لیتے ہیں دکاں گھر کو جلا دیتے ہیں

کر کے بے گھر انہیں قلاش بنا دیتے ہیں

خونِ مسلم سے مناتے ہیں وہ ہولی ہر سال

سیکڑوں پر وہ چلا دیتے ہیں گولی ہر سال

فوج ان کی ہے پولیس ان کی حکومت ان کی

ختم بھارت سے مسلماں ہوں سیاست ان کی

دورِ شاہی وہ مسلماں کا ذرا یاد کریں

اپنے کردار پہ پھر شرم سے وہ ڈوب مریں

امن و خوشحالی کا ان پر رہے سایہ بن کر

کتنے آرام سے تھے ان کی رعایا بن کر

جان محفوظ تھی محفوظ عبادت خانے

اک حقیقت ہے یہ تاریخ کی دنیا مانے

اکبری عہد ہے ان کے لئے عہدِ زریں

تھے مسلماں کی طرح با شرف و با تمکیں

رکن ہندو بھی تھا اس نورتنی مجلس کا

نام گنوائیں تو گنوائیں تمہیں کس کس کا

بیربل کون تھا کیا نسل تھی ٹوڈرمل کی

مشرکو! بات نہیں یاد یہ تم کو کل کی

کیا کہیں تم سے کہ احسان فراموش ہو تم

ستم و ظلم میں فی الحال تو مد ہوش ہو تم

ہے حکومت جو مددگار تو پر جوش ہو تم

ہم جو تلوار اٹھا لیں ابھی خاموش ہو تم

بھائیوں سے میں کہوں اپنے خدارا جاگو

مرکزِ دیں کی طرف از سرِ نو پھر بھاگو

ہم نے ناراض کیا سوءِ عمل سے رب کو

برتری اس لئے حاصل ہوئی ہم پر سب کو

آخرت بھول کے دنیا کی طرف رخ موڑا

پنجگانہ بھی نہیں یاد ہے قرآں چھوڑا

رب کی امداد نہ ہو گر تو مسلماں مغلوب

رب کی امداد ہو حاصل تو یہ دنیا مرعوب

پھر سے مضبوط پکڑ لیں جو خدا کی رسی

ہم پہ غالب نہیں آ سکتا ہے ہرگز کوئی

ہم تن آساں ہوئے اتنے کہ دیا چھوڑ جہاد

ہے نتیجہ کہ زمیں بھر گئی از ظلم و فساد

ایک ہوں نیک ہوں دنیا میں مسلمان اگر

عالمِ کفر کو دو دن میں کریں زیر و زبر

اپنے اربابِ حکومت سے بھی کرتا ہوں میں عرض

مسلمِ ہند کی ہر طرح سے امداد ہے فرض

دین کے رشتہ سے بھائی وہ ہمارے ٹھہرے

از رخِ قولِ نبیؐ ہم کو وہ پیارے ٹھہرے

بھینٹ ہندو کی چڑھیں ایسا نہ ہونے دیں گے

ان سے کہہ دیجئے ہر جان کا بدلہ لیں گے

جہد سے ان کی ہی حاصل یہ ہوا پاکستاں

بھول سکتے نہیں ہرگز کبھی ان کا احساں

٭٭٭

ضبطِ تولید

ہے ملک میں جو تیزی رفتارِ ولادت

آزردہ و آشفتہ ہیں اربابِ حکومت

کہتے ہیں کہ محدود ہے سامانِ معیشت

اب ملک میں انساں کی نہیں اور ضرورت

آئے نہ کہیں فاقوں سے مر جانے کی نوبت

ہے قوم پہ لازم عملِ ضبطِ ولادت

میداں میں نکل آئے ہیں کچھ عالمِ دیں بھی

ثابت اسے کرتے ہیں جو از روئے شریعت

تحریر سے تقریر سے تصویر کے ذریعے

ہے درس کہ ہے کثرتِ اولاد مصیبت

بد حال یہ کنبہ ہے تو خوشحال وہ کنبہ

سمجھاتے ہیں یوں فلسفۂ کثرت و قلت

انساں یہ چلا جائے عدم ہی سے عدم کو

سو طرح کی تدبیر ہے سو طرح کی حکمت

ہر جا پہ شفا خانوں میں ملتی ہیں دوائیں

بے فیس کے ہر قسم کی ملتی ہے ہدایت

سرجن کی ضرورت ہو تو سرجن بھی ہے حاضر

ہے نرس بھی ہر لحظہ کمر بستۂ خدمت

لبیک کہا قوم کے افراد نے افسوس

خوش آئی جو سرکار کی یہ پند و نصیحت

محروم ہوئے آلۂ تولید سے جا کر

کچھ مرد و زن ایسے بھی نکل آئے صد حیرت

میں کانپ اٹھا دیکھ کے یہ پستی ایماں

لے آئی مسلماں کو کہاں گردشِ دوراں

دل ورطۂ حیرت میں خرد سر بہ گریباں

ہے رخنہ گرِ مسئلۂ حکمتِ یزداں

اک دانے سے سو دانے نکلتے ہوئے آئے

بڑھتی ہوئی آئی ہے یہ دنیا اسی عنواں

پیدائشِ انساں ہے باندازۂ خالق

انساں کو ہوا کیا جو ہے بے وجہ پریشاں

رزاقی انساں کا جنوں کیوں ہے بشر کو

اللہ کے بندوں کا ہے اللہ نگہباں

کیا سورہ الحمد بھی اب یاد نہیں ہے

یا بھول گیا معنی دیباچۂ قرآں

ہے قاضی حاجات جو ہے خالقِ عالم

کیوں تو متفکر ہے ز پیدائشِ انساں

آ تجھ کو دکھاتا ہوں میں آئینۂ ماضی

خالی نہیں اس باب سے تاریخِ مسلماں

تھی عزل کی تدبیر کبھی ملکِ عرب میں

افلاس کا ڈھونڈا تھا انہوں نے بھی یہ درماں

مشکوک تھا نظروں میں جو آپ اپنا عمل یہ

دربارِ نبیؐ میں گئے اصحابِ ثنا خواں

پوچھا عملِ عزل کی بابت جو نبیؐ سے

گویا ہوئے یوں ختمِ رسل صاحبِ قرآں

اللہ کی تقدیر میں ارواح ہیں جتنی

پیدا انہیں ہونا ہے بہر صورت و عنواں

تم محترزِ وصلتِ ازواج بھی گر ہو

ہو گا نہ مفر پھر بھی ز پیدائشِ طفلاں

فرمودۂ محبوبِ خدا سن کے ہوئے چپ

دل ان کے ہوئے نورِ حقیقت سے فروزاں

باز آ کہ نظرؔ اب بھی گیا وقت نہیں کچھ

یہ شمع ہدایت ہے اگر تو ہے مسلماں

٭٭٭

سرکش بیل (عیدِ قرباں 1986ء)

ساتھ میرے عیدِ قرباں پر جو گزرا سانحہ

میں سناتا ہوں ذرا تفصیل سے وہ واقعہ

تھی جو نیت گاؤ نر میں عید پر قرباں کروں

تاکہ حاصل اس طرح خوشنودی یزداں کروں

جا کے پنڈی میں خریدا جانور اک فربہ تن

جلد کو چمکا رہی تھی جس کے سورج کی کرن

جانور تھے سیکڑوں وہ سیکڑوں میں ایک تھا

خورد سال و خوبصورت اور بظاہر نیک تھا

الغرض اس کو خریدا صرف کر کے دو ہزار

باغِ سرداراں سے گھر تک وہ نہ بدکا ایک بار

لان میں باندھا گیا وہ گھاس چرنے کے لئے

بالٹی پانی کی رکھی تاکہ وہ پانی پئے

منہ لگایا گھاس کو اس نے نہ پانی ہی پیا

دوپہر سے شام تک بھوکا پیاسا وہ رہا

قیدِ تنہائی پہ اپنی تھا وہ بے حد بد حواس

سلبِ آزادی پہ اپنے تھا اسے خوف و ہراس

آہنی پھاٹک کی جانب دیکھتا تھا بار بار

مضطرب تھا وہ کسی عنواں ملے راہِ فرار

بعد کچھ وقفہ کے دیکھا دھوپ کی زد میں اسے

میں نے سوچا باندھ دوں اب سایہ کی حد میں اسے

پاس سے گزرا تو بڑھ کر میری جانب ‘فُوں’ کیا

میں یہ سمجھا جانور ہے عادتاً ہی یوں کیا

کھول دی رسّی تو پھر منظر ہوا نا دیدنی

تل گیا وہ کام کرنے جو کہ تھا نا کردنی

جارحانہ وحشیانہ جنگ جویانہ بڑھا

جان کر مجھ کو حریف اپنا حریفانہ بڑھا

نیک خو سمجھے تھے ہم پر وہ تو نکلا بد نہاد

ڈھیل پا کر ہو گیا آمادۂ شر نا مراد

اس کی ٹکر سے گرا چت بے دھڑک میں لان پر

ہوش پرّاں تھے مرے اور بن گئی تھی جان پر

پھر بڑھا وہ دوسری ٹکر لگانے کے لئے

دستِ غیبی آ گیا آڑے بچانے کے لئے

سینگ دونوں رک گئے آ کر مری پسلی کے پاس

میں کہ تھا در عالمِ بے چارگی و حزن و یاس

پوری قوت مجتمع کر کے ہوا اٹھ کر کھڑا

تیسری ٹکر لگانے مجھے کو ظالم پھر بڑھا

ہو گیا مجھ کو یقیں ہرگز نہ چھوڑے گا مجھے

روند ڈالے گا یہ ظالم آج زیرِ پا مجھے

شور پوتے نے مچایا آ گیا بیٹا مرا

آتے ہی اس کو رسید اک زور کا ڈنڈا کیا

میری جانب سے مڑا اور اس کی جانب منہ کیا

اس کو اک ٹکر لگانے کے لئے آگے بڑھا

مل گیا موقع غنیمت اٹھ کے بھاگا بے تکاں

گھس گیا گھر میں گلے آ کر ملی عمرِ رواں

آ گئی تھی سر پہ لیکن ٹل گئی میری قضا

دو نفل میں نے پڑھے اور بعدہٗ صدقہ دیا

بچ گیا کیسے مگر مجھ پر کھلا یہ بعد میں

گیارھویں آیت پڑھی جب سورۂ الرعد میں

کچھ فرشتے ہیں مقرر پیش و پس انسان کے

جو محافظ حکمِ رب سے ہیں ہر اک کی جان کے

جانور سرکش اگر ہو موت کا پروانہ ہے

یہ نصیحت سن لے میری جو کوئی فرزانہ ہے

دل میں ٹھانی ہے نظرؔ میں نے گر آئندہ جیوں

عیدِ قرباں پر میں قرباں جانور چھوٹا کروں

٭٭٭

غبارِ غم بسلسلۂ مرگِ زوجۂ اول (1958ء)

کٹ چکی ہے رات ہے پچھلا پہر

نیند کوسوں دور آنکھوں سے مگر

روئے عالم پر ہے اک افسردگی

جس طرف دیکھو ادھر پژمردگی

محفلِ انجم بھی ہے ماتم گسار

آنکھ ہر تارے کی کیوں ہے اشک بار

چاند کے چہرہ کا بھی ہے رنگ زرد

ہے لبِ موجِ ہوا پر آہِ سرد

گریۂ شبنم گلستانوں میں ہے

کیسی خاموشی بیابانوں میں ہے

دور تک ہے منظرِ خونِ شفق

سینۂ مشرق ہوا کس غم سے شق

عقدۂ ماتم گساری وا ہوا

رازِ سر بستہ یہ آخر کھل گیا

ہے مرے ساتھی پہ وقتِ جاں کنی

سب کو یہ منظر ہوا نا دیدنی

بجھ گئی لو آخرش شمعِ حیات

میری قسمت سے گیا دن آئی رات

مرگ نے توڑا ہے سازِ زندگی

کھل گیا ہے مجھ پہ رازِ زندگی

اک رفیقِ زندگانی چھٹ گیا

گلشنِ صد شادمانی لٹ گیا

دل ہے اف در نرغۂ افسردگی

زندگی اب کیا کہ کہئے زندگی

زندگی میں بھر گئیں تنہائیاں

دل سے غائب سب ہوئیں رعنائیاں

ہم سفر گزرا ہے مجھ کو چھوڑ کر

کس طرح گزرے گا اب میرا سفر

اب ڈسے گی تیرگی شب مجھے

نیند آئے گی سکوں سے کب مجھے

جب ستائیں گے مجھے رنج و الم

کس کو دیکھیں گے پَئے تسکین ہم

کون پوچھے گا مرے غم کا سبب

دلدہی میری کرے گا کون اب

رازِ دل کس پر کروں گا آشکار

کون ہو گا بے قراری میں قرار

میرے اشکوں میں ملائے اشکِ خوں

کون غم خواری کرے گا میری یوں

زندگی ہے اب مجھے صحرا سرشت

کلکِ قدرت بر دلِ من غم نوشت

تو نہیں ملنے کا میں کچھ بھی کروں

تو پلٹنے کا نہیں کچھ بھی کہوں

مل گئی تجھ کو حیاتِ جاوداں

پر بہار و پر نشاط و بے خزاں

سیلِ غم میں دل ہمارا بہہ گیا

جو نہ کہنا چاہئے تھا کہہ گیا

موت تو برحق ہے مؤمن کے لئے

منتظر سب ہیں اسی دن کے لئے

تیرے حق میں ہے لبوں پر یہ دعا

جنت الفردوس ہو مسکن ترا

مندمل ہو جائیں سبزخمِ جگر

اے خدا بندے پہ رحمت کی نظرؔ

٭٭٭

قطعہ بسلسلۂ مرگِ زوجۂ دوم

ازدواجی زندگی کی اے درخشاں یادگار

اے چمن زار محبت کی مرے رنگیں بہار

خواب آسودہ ہے تو جا کر تہِ خاکِ مزار

ہو ورودِ رحمتِ حق تجھ پہ تا روزِ شمار

٭٭٭

صبحِ غم بسلسلۂ مرگِ زوجۂ دوم (1980ء)

دلِ بر گشتہ قسمت کی پریشانی نہیں جاتی

ملا وہ غم کہ جس کی شعلہ سامانی نہیں جاتی

نہ بھولے گا وہ صبحِ غم دلِ رنجور و صد پارا

شبستانِ محبت کی بجھی جب شمع دل آرا

لیا دستِ قضا نے چھین تم کو اے وفا پیکر

کفِ افسوس ملتا رہ گیا اپنا دلِ مضطر

تمہارا آفتابِ زندگی روپوش ہوتے ہی

مری دنیائے دل پر چھا گئی کس درجہ تاریکی

ورق الٹا تصور نے کتابِ زندگانی کا

کھلا ہے باب ایسا ہی مرے عہدِ جوانی کا

سکوں نا آشنا تھا دل ز مرگِ زوجۂ اول

تھے میرے قلب پر سایہ فگن غم کے سیہ بادل

بہارِ گلشنِ ہستی ہوئی گلشن سے جب پراں

خزاں دیدہ چمن میں تھیں مرے افسردہ دو کلیاں

تم اس تاریکی فرقت میں آئی تھیں کرن بن کر

خزاں آغوش گلشن میں قدم رکھا دلہن بن کر

تمہارے آتے ہی گلشن میں میرے پھر بہار آئی

کھلا پھر غنچۂ دل پھر ہوائے خوش گوار آئی

تمہارے دم قدم سے بس گیا پھر میرا کاشانہ

خوشی سے پھر ہوا لبریز میرے دل کا پیمانہ

سکوں مجھ کو میسر از سرِ نو ہو گیا تم سے

سفینہ دل کا باہر آ گیا غم کے تلاطم سے

فراہم تھا مجھے آرامِ جاں خدمت گزاری سے

تمہاری خانہ داری دل نوازی غم گساری سے

گزرتی تھی گراں تم پر پریشاں خاطری میری

تمہیں وجہِ مسرت تھی ہنسی میری خوشی میری

ہماری منتظر رہتی تھیں تم دفتر سے آنے تک

وتیرہ مستقل رکھا یہی آخر زمانے تک

گزرتی جا رہی تھی زندگی جوئے رواں بن کر

خوشی کی ترجماں بن کر محبت کا نشاں بن کر

خبر کیا تھی کہ تیرِ آسماں کا پھر ہدف ہو گی

غموں کا راج ہو گا پھر خوشی پھر بر طرف ہو گی

تمہیں لاحق ہوئی آخر وہ ناہنجار بیماری

کہ جس نے رفتہ رفتہ چھین لیں رعنائیاں ساری

مرض بڑھتا گیا تا آنکہ خستہ جاں کیا تم کو

دعائیں کارگر ٹھہریں نہ راس آئی دوا تم کو

تمہارے جامِ ہستی کے چھلکنے میں تھا اک ہفتہ

کہ فالج کے اثر نے کر دیا تھا تم کو لب بستہ

زباں ہلتی نہ تھی بالکل جو کرتیں بات کچھ ہم سے

تکا کرتی تھیں میری سمت بس تم چشمِ پر نم سے

کبھی بے ہوش رہتی تھیں کبھی کچھ ہوش آتا تھا

علالت کا زمانہ آخری دیکھا نہ جاتا تھا

تمہاری حالتِ نا گفتہ بہ سے دل یہ کٹتا تھا

تصور سے کسی نادیدہ غم کے خون گھٹتا تھا

تمہارے رخ پہ سب کیفیتیں دل کی عیاں دیکھیں

اداسی بے قراری حسرتیں مایوسیاں دیکھیں

وبالِ جان بن کر رہ گیا تھا یہ مرض تم کو

کشش باقی نہ تھی اس زندگی میں الغرض تم کو

بڑی حسرت سے لیٹے لیٹے آہِ سرد بھرتی تھیں

کبھی گھبرا کے بے حد تم دعائے موت کرتی تھیں

سلامت چھوڑ کر دار الشفا میں شب کو گھر آیا

چراغِ زندگی اگلی سحر لیکن بجھا پایا

چلا داؤں نہ کچھ انسان کی تدبیر و حکمت کا

ہوا پورا بالآخر تھا جو لکھا لوحِ قسمت کا

چھٹی اس غم کدے سے جاں ملا ہے گوشۂ راحت

خدا کا فضل ہو تم پر خدا کی تم پہ ہو رحمت

ثوابِ آخرت بخشوں گا تم کو میں بہر عنواں

خلوصِ دل سے پڑھ پڑھ کر تمہیں بخشوں گا میں قرآں

ہمیں جنت میں ملوا دے عجب کیا اس کی قدرت سے

بڑی امید رکھتا ہوں خدا کی شانِ رحمت سے

سرائے عالمِ فانی سے سب کو ہی گزرنا ہے

لحد کی گود میں اک دن بالآخر جا اترنا ہے

تمہاری کشتی عمرِ رواں پہنچی سرِ ساحل

سفر پورا ہوا لو اب اٹھاؤ راحتِ منزل

بڑی سنسان لگتی ہے اکیلے رہ گزر ہم کو

نہیں باقی تمہارے بعد اب لطفِ سفر ہم کو

بہت شعلہ فشاں ہے دل میں تیرا دردِ مہجوری

علاج اس کا نہیں ممکن مگر اے وائے مجبوری

جو دل سرشارِ دنیا تھا وہ اب بیزارِ دنیا ہے

نہ ہونے اور ہونے میں تمہارے فرق کتنا ہے

تمہاری یاد آتی ہی رہے گی ہم نفس مجھ کو

اکیلے کاٹنی ہے اب تو یہ قیدِ قفس مجھ کو

ٹھہر بس اے دلِ مضطر متاعِ صبر بہتر ہے

فغاں سے فائدہ کیا آخرت کا اجر بہتر ہے

ہماری اہلیہ کی یا الٰہی مغفرت فرما

بہ فردوسِ بریں اس کو ٹھکانہ مرحمت فرما

دلِ مہجور کی میرے مٹا دے سب پریشانی

متاعِ صبر دے، کر محو دل کا سوزِ پنہانی

رفو کر چاکِ دل اور مندمل زخمِ جگر کر دے

مرے اللہ مجھ پر اپنی رحمت کی نظرؔ کر دے

٭٭٭

سہرا

(بیٹے کی شادی پر)

چھوڑ کر اپنا پری خانۂ گلشن سہرا

کس کی شادی میں چلا خوب یہ بن ٹھن سہرا

جوں ہی پہنچا ہے سرِ بزم یہ روشن سہرا

ہر طرف شور ہوا اھلاً وَّ سہلاً سہرا

کیف پرور ہے خوشا بر رخِ روشن سہرا

للہ الحمد کہ دیکھا سرِ ‘احسن’ سہرا

قابلِ دید ہے حسناً وَّ جمالاً سہرا

کسی ماہر ہی نے گوندھا ہے یہ پر فن سہرا

مقتبس آج ہے از جلوۂ احسن سہرا

ہو گیا اور طرح دار و مزین سہرا

اک طرف نورِ ہدیٰ ایک طرف نورِ قمر

کیسے ممکن ہے کہ اب بھی نہ ہو روشن سہرا

عطر بیزی ہے وہ سہرے سے کہ سبحان اللہ

کیوں نہ ہو ہے بھی تو یہ حاصلِ گلبن سہرا

ایک دھاگے میں پروئے گئے گل ہائے چمن

یہ اشارا ہے کہ ہے عشق کا بندھن سہرا

اف جمالِ رخِ نوشہ سے ہوا ہے بے خود

کبھی چومے سرِ نوشہ کبھی گردن سہرا

اس قدر حبّ ہے نوشہ سے کہ حباً جمّا

سب نچھاور کئے دیتا ہے یہ تن من سہرا

قلبِ نوشاہ میں بس جائے نہ کیوں حبِ عروس

قل ہو اللہ احد سے ہے معنون سہرا

پائے نوشاہ کے قدموں کا ارادہ لے کر

ابھی پہنچا ہے فقط تا سرِ دامن سہرا

آج بھر پور محبت کا خزینہ دل ہے

فکر و غم پر ہے لگائے ہوئے قدغن سہرا

دلِ ہمشیر ہے شاداں دلِ مادر فرحاں

کبھی نوشاہ کو دیکھیں کبھی روشن سہرا

مثلِ مادر ہے ممانی کی خوشی کیا کہنے

مست ہیں دیکھ کہ وہ بر رخِ روشن سہرا

خالہ خالو کی یہ بھانجہ سے محبت واللہ

دیکھنے آئے کراچی سے خصوصاً سہرا

دیدِ نوشہ کے لئے بھائی بہن سب بیتاب

ان کی مشتاق نگاہی کو ہے الجھن سہرا

سن کے سہرے کو ہے محفل میں بڑی سرگوشی

کس نے احسن کا لکھا اس قدر احسن سہرا

اے نظرؔ مانگ دعا روک کے رہوارِ سخن

گھر کو لے جائے مع الخیر یہ دلہن سہرا

٭٭٭

رخصتی

(بیٹی)

نورِ عینی لختِ دل پاکیزہ سیرت نیک نام

بنتِ خوش اختر مری ہوتا ہوں تجھ سے ہم کلام

عقد تیرا کر دیا بر سنتِ خیر الانامؐ

آج تو ہم سے جدا ہو جائے گی تا وقتِ شام

دل میں اک طوفانِ غم ہے روح میں اک اضطراب

ہے طبیعت میں تکدر بے نہایت بے حساب

آگ سی سینے میں ہے اک ہے جگر میں التہاب

اک تری فرقت سے اف برپا ہیں کتنے انقلاب

ہے تری دنیائے دل میں ہر طرف غم کا غبار

از وفورِ سیلِ غم آنکھیں تری ہیں اشک بار

چھٹ رہا ہے گھر تری بے چینیوں کا کیا شمار

لیکن اے بیٹی سنبھل خود کو نہ کر یوں دلفگار

سن توجہ سے ذرا اے دخترِ شیریں دہن

باپ کا گھر بیٹیوں کے حق میں ہے مثلِ چمن

جب جوانی کی بہار آ جائے اے گل پیرہن

چھوڑنا پڑتا ہے یہ صحنِ چمن بن کر دلہن

میں خبر دیتا ہوں تجھ کو دخترِ غمگیں مری

تیرگی غم کے پس منظر میں ہے اک روشنی

ساغرِ تلخِ الم میں ہے نہاں کیفِ خوشی

ختم ہے پامال منزل آ گئی منزل نئی

میہماں تھی تو یہاں اب تجھ کو تیرا گھر ملا

اب قدم باہر نہ نکلیں جس سے ایسا در ملا

ایک پاکیزہ گھرانہ نیک دل شوہر ملا

شکر واجب تجھ پہ ہے سب کچھ تجھے بہتر ملا

تو کہ تھی محروم لے ماں کی محبت مل گئی

اپنے والد کی طرح ایک اور شفقت مل گئی

پانچ بھائی اور دو بہنوں کی الفت مل گئی

رحمتِ حق سے تجھے ہر شے بکثرت مل گئی

ہے خسر تیرا سبحان اللہ غلامِ آں رسولؐ

ایک سادہ دل مسلماں آدمی اک با اصول

ہو گئیں میری دعائیں سب ترے حق میں قبول

کیوں نصیبِ دشمناں ہوتی ہے تو اتنی ملول

رخصتی کو جمع ہیں کیا اقربا کیا دوسرے

جمگھٹا مردوں کا بھی ہے عورتوں کے بھی پرے

ماں تری لاؤں کہاں سے جو تجھے رخصت کرے

اف پرانے زخم دل کے ہو گئے اس دم ہرے

رخصتی کا مرحلہ لاریب ہے دشوار و سخت

آ کہ سینہ سے لگا لوں اے مری فرخندہ بخت

دیر اب کیوں کر رہی ہے لے سنبھال اپنا یہ رخت

ہو مبارک تجھ کو بیٹی اپنے گھر کا تاج و تخت

اے مرے نوشاہِ خوش خو اے مرے بیٹے رفیق

آ کہ پیشانی پہ بوسہ دوں بہ جذباتِ عمیق

ہے قسم اس ذات کی مجھ کو جو ہے بے حد شفیق

ہم سفر تو نے جو پایا ہے ہنر مند و خلیق

ہے دعا گو اب نظرؔ دونوں سدا شاداں رہو

غم نہ بھٹکے پاس کوئی خوش رہو خنداں رہو

دہر کی نیرنگیوں میں دین کے خواہاں رہو

با مراد و کامراں دونوں بہ ہر عنواں رہو

٭٭٭

قطعہ

سب مہاجر ہیں مقامی ہے یہاں کوئی کب

زینتِ بزم میں سب مثلِ چراغِ یک شب

ایک تسبیح کے ہم دانۂ رخشندہ ہیں سب

اک نبیؐ ایک حرم ایک کتاب ایک ہے رب

٭٭٭

تشکر: محمد تابش صدیقی، جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل 

ای پب فائل 

کنڈل فائل

لمحاتِ نظر (نظمیں) محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی   قطعہ اشعار میں مرے مئے باطل کی بو نہیں عشقِ بتانِ دہر کی بھی ہاؤ ہو نہیں اسپِ سخن مرا ہے بقیدِ زمامِ دیں دادِ سخن کی مجھ کو نظرؔ آرزو نہیں