FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

قرآنِ کریم


ترجمہ: فتح محمد خاں جالندھری

حصّہ اوّل

سورۂ فاتحۃ تا الاعراف

 

سورة الفَاتِحۃ

شروع اللہ  کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے (۱)

سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے (۲) بڑا مہربان نہایت رحم والا (۳) انصاف  کے دن کا حاکم (۴) (اے پروردگار) ہم تیری ہی عبادت  کرتے ہیں اور تجھ ہی سے د د مانگتے ہیں (۵) ہم کو سیدھے رستے چلا (۶) ان لوگوں  کے رستے جن پرتو اپنا فضل و کرم  کرتا رہا نہ ان  کے جن پر غصے ہوتا رہا اور نہ گمراہوں  کے (۷)

 

سورة البَقَرَة

شروع اللہ  کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

الم (۱) یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں (کہ کلامِ  خدا ہے۔   خدا سے) ڈرنے والوں کی رہنما ہے (۲) جو غیب پر ایمان لاتے اور آداب  کے ساتھ نماز پڑھتے اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ  کرتے ہیں (۳) اور جو کتاب (اے محمدﷺ) تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے (پیغمبروں پر) نازل ہوئیں سب پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں (۴) یہی لوگ اپنے پروردگار (کی طرف) سے ہدایت پر ہیں اور یہی نجات پانے والے ہیں (۵) جو لوگ کافر ہیں انہیں تم نصیحت  کرو یا نہ  کرو ان  کے لیے برابر ہے۔   وہ ایمان نہیں لانے  کے (۶) خدا نے ان  کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے اور ان  کے لیے بڑا عذاب (تیار) ہے (۷) اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور روزِ  آخرت پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے (۸) یہ (اپنے پندار میں) خدا کو اور مومنوں کو چکما دیتے ہیں مگر (حقیقت میں) اپنے سوا کسی کو چکما نہیں دیتے اور اس سے بے خبر ہیں (۹) ان  کے دلوں میں (کفر کا) مرض تھا۔  خدا نے ان کا مرض اور زیادہ  کر دیا اور ان  کے جھوٹ بولنے  کے سبب ان کو دکھ دینے والا عذاب ہو گا (۱۰) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں ، ہم تو اصلاح  کرنے والے ہیں (۱۱) دیکھو یہ بلاشبہ مفسد ہیں ، لیکن خبر نہیں رکھتے (۱۲) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح اور لوگ ایمان لے آئے ، تم بھی ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں ، بھلا جس طرح بے وقوف ایمان لے آئے ہیں اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں ؟ سن لو کہ یہی بے وقوف ہیں لیکن نہیں جانتے (۱۳) اور یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں ، اور جب اپنے شیطانوں میں جاتے ہیں تو (ان سے) کہتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں اور (پیروانِ  محمدﷺ سے) تو ہم ہنسی کیا  کرتے ہیں (۱۴) ان (منافقوں) سے خدا ہنسی  کرتا ہے اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت و سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں (۱۵) یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت چھوڑ  کر گمراہی خریدی، تو نہ تو ان کی تجارت ہی نے کچھ نفع دیا اور نہ وہ ہدایت یاب ہی ہوئے (۱۶) ان کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس نے (شبِ  تاریک میں) آگ جلائی۔  جب آگ نے اس  کے اردگرد کی چیزیں روشن کیں تو خدا نے ان کی روشنی زائل  کر دی اور ان کو اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں دیکھتے (۱۷) (یہ) بہرے ہیں ، گونگے ہیں ، اندھے ہیں کہ (کسی طرح سیدھے رستے کی طرف) لوٹ ہی نہیں سکتے (۱۸) یا ان کی مثال مینہ کی سی ہے کہ آسمان سے (برس رہا ہو اور) اس میں اندھیرے پر اندھیرا (چھا رہا) ہو اور (بادل) گرج (رہا) ہو اور بجلی (کوند رہی) ہو تو یہ کڑک سے (ڈ ر  کر) موت  کے خوف سے کانوں میں انگلیاں دے لیں اور اللہ کافروں کو (ہر طرف سے) گھیرے ہوئے ہے (۱۹) قریب ہے کہ بجلی (کی چمک) ان کی آنکھوں (کی بصارت) کو اچک لے جائے۔   جب بجلی (چمکتی اور) ان پر روشنی ڈالی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں اور جب اندھیرا ہو جاتا ہے تو کھڑے  کے کھڑے رہ جاتے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو ان  کے کانوں (کی شنوائی) اور آنکھوں (کی بینائی دونوں) کو زائل  کر دیتا ہے۔   بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے (۲۰) لوگو! اپنے پروردگار کی عبادت  کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس  کے عذاب سے) بچو (۲۱) جس نے تمھارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے مینہ برسا  کر تمہارے کھانے  کے لیے انواع و اقسام  کے میوے پیدا کئے۔   پس کسی کو خدا کا ہمسر نہ بناؤ۔  اور تم جانتے تو ہو (۲۲) اور اگر تم کو اس (کتاب) میں ، جو ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ عربی) پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور خدا  کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلا لو اگر تم سچے ہو (۲۳) لیکن اگر (ایسا) نہ  کر سکو اور ہرگز نہیں  کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے (اور جو) کافروں  کے لیے تیار کی گئی ہے (۲۴) اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل  کرتے رہے ، ان کو خوشخبری سنا دو کہ ان  کے لیے (نعمت  کے) باغ ہیں ، جن  کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔   جب انہیں ان میں سے کسی قسم کا میوہ کھانے کو دیا جائے گا تو کہیں گے ، یہ تو وہی ہے جو ہم کو پہلے دیا گیا تھا۔  اور ان کو ایک دوسرے  کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے اور وہاں ان  کے لیے پاک بیویاں ہوں گی اور وہ بہشتوں میں ہمیشہ رہیں گے (۲۵) اللہ اس بات سے عار نہیں  کرتا کہ مچھر یا اس سے بڑھ  کر کسی چیز (مثلاً مکھی مکڑی وغیرہ) کی مثال بیان فرمائے۔   جو مومن ہیں ، وہ یقین  کرتے ہیں وہ ان  کے پروردگار کی طرف سے سچ ہے اور جو کافر ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس مثال سے خدا کی مراد ہی کیا ہے۔   اس سے (خدا) بہتوں کو گمراہ  کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت بخشتا ہے اور گمراہ بھی  کرتا تو نا فرمانوں ہی کو (۲۶) جو خدا  کے اقرار کو مضبوط  کرنے  کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس چیز (یعنی رشتۂ قرابت)  کے جوڑے رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اس کو قطع کئے ڈالتے ہیں اور زمین میں خرابی  کرتے ہیں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں (۲۷) (کافرو!) تم خدا سے کیوں  کر من کر ہو سکتے ہو جس حال میں کہ تم بے جان تھے تو اس نے تم کو جان بخشی پھر وہی تم کو مارتا ہے پھر وہی تم کو زندہ  کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹ  کر جاؤ گے (۲۸) وہی تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں تمہارے لیے پیدا کیں پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو ان کو ٹھیک سات آسمان بنا دیا اور وہ ہر چیز سے خبردار ہے (۲۹) اور (وہ وقت یاد  کرنے  کے قابل ہے) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں (اپنا) نائب بنانے والا ہوں۔   انہوں نے کہا۔  کیا تُو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں  کرے اور کشت و خون  کرتا پھرے اور ہم تیری تعریف  کے ساتھ تسبیح و تقدیس  کرتے رہتے ہیں۔   (خدا نے) فرمایا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے (۳۰) اور اس نے آدم کو سب (چیزوں  کے) نام سکھائے پھر ان کو فرشتوں  کے سامنے کیا اور فرمایا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان  کے نام بتاؤ (۳۱) انہوں نے کہا، تو پاک ہے۔   جتنا علم تو نے ہمیں بخشا ہے ، اس  کے سوا ہمیں کچھ معلوم نہیں۔   بے شک تو دانا (اور) حکمت والا ہے (۳۲) (تب) خدا نے (آدم کو) حکم دیا کہ آدم! تم ان کو ان (چیزوں)  کے نام بتاؤ۔  جب انہوں نے ان کو ان  کے نام بتائے تو (فرشتوں سے) فرمایا کیوں میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) پوشیدہ باتیں جاتنا ہوں اور جو تم ظاہر  کرتے ہو اور جو پوشیدہ  کرتے ہو (سب) مجھ کو معلوم ہے (۳۳) اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم  کے آگے سجدہ  کرو تو وہ سجدے میں گر پڑے مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آ  کر کافر بن گیا (۳۴) اور ہم نے کہا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو اور جہاں سے چا ہو بے روک ٹوک کھاؤ (پیو) لیکن اس درخت  کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں (داخل) ہو جاؤ گے (۳۵) پھر شیطان نے دونوں کو وہاں سے پھسلا دیا اور جس (عیش و نشاط) میں تھے ، اس سے ان کو نکلوا دیا۔  تب ہم نے حکم دیا کہ (بہشت بریں سے) چلے جاؤ۔  تم ایک دوسرے  کے دشمن ہو، اور تمہارے لیے زمین میں ایک وقت تک ٹھکانا اور معاش (مقرر  کر دیا گیا) ہے (۳۶) پھر آدم نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمات سیکھے (اور معافی مانگی) تو اس نے ان کا قصور معاف  کر دیا بے شک وہ معاف  کرنے والا (اور) صاحبِ  رحم ہے (۳۷) ہم نے فرمایا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو (اس کی پیروی  کرنا کہ) جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمناک ہوں گے (۳۸) اور جنہوں نے (اس کو) قبول نہ کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا، وہ دوزخ میں جانے والے ہیں (اور) وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے (۳۹) اے یعقوب کی اولاد! میرے وہ احسان یاد  کرو جو میں نے تم پر کئے تھے اور اس اقرار کو پورا  کرو جو تم نے مجھ سے کیا تھا۔  میں اس اقرار کو پورا  کروں گا جو میں نے تم سے کیا تھا اور مجھی سے ڈرتے رہو (۴۰) اور جو کتاب میں نے (اپنے رسول محمدﷺ پر) نازل کی ہے جو تمہاری کتاب تورات کو سچا کہتی ہے ، اس پر ایمان لاؤ اور اس سے منکرِ  اول نہ بنو، اور میری آیتوں میں (تحریف  کر  کے) ان  کے بدلے تھوڑی سی قیمت (یعنی دنیاوی منفعت) نہ حاصل  کرو، اور مجھی سے خوف رکھو (۴۱) اور حق کو باطل  کے ساتھ نہ ملاؤ، اور سچی بات کو جان بوجھ  کر نہ چھپاؤ (۴۲) اور نماز پڑھا  کرو اور زکوٰۃ دیا  کرو اور (خدا  کے آگے) جھکنے والوں  کے ساتھ جھکا  کرو (۴۳) (یہ) کیا (عقل کی بات ہے کہ) تم لوگوں کو نیکی  کرنے کو کہتے ہو اور اپنے تئیں فراموش کئے دیتے ہو، حالانکہ تم کتاب (خدا) بھی پڑھتے ہو۔  کیا تم سمجھتے نہیں ؟ (۴۴) اور (رنج و تکلیف میں) صبر اور نماز سے مد د لیا  کرو اور بے شک نماز گراں ہے ، مگر ان لوگوں پر (گراں نہیں) جو عجز  کرنے والے ہیں (۴۵) اور جو یقین کئے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں اور اس کی طرف لوٹ  کر جانے والے ہیں (۴۶) اے یعقوب کی اولاد! میرے وہ احسان یاد  کرو، جو میں نے تم پر کئے تھے اور یہ کہ میں نے تم کو جہان  کے لوگوں پر فضیلت بخشی تھی (۴۷) اور اس دن سے ڈرو جب کوئی کسی  کے کچھ کام نہ آئے اور نہ کسی کی سفارش منظور کی جائے اور نہ کسی سے کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے اور نہ لوگ (کسی اور طرح) مد د حاصل  کر سکیں (۴۸) اور (ہمارے ان احسانات کو یاد  کرو) جب ہم نے تم کو قومِ  فرعون سے نجات بخشی وہ (لوگ) تم کو بڑا دکھ دیتے تھے تمہارے بیٹوں کو تو قتل  کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (سخت) آزمائش تھی (۴۹) اور جب ہم نے تمہارے لیے دریا کو پھاڑ دیا تم کو نجات دی اور فرعون کی قوم کو غرق  کر دیا اور تم دیکھ ہی تو رہے تھے (۵۰) اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا وعدہ کیا تو تم نے ان  کے پیچھے بچھڑے کو (معبود) مقرر  کر لیا اور تم ظلم  کر رہے تھے (۵۱) پھر اس  کے بعد ہم نے تم کو معاف  کر دیا، تاکہ تم شکر  کرو (۵۲) اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے ، تاکہ تم ہدایت حاصل  کرو (۵۳) اور جب موسیٰ نے اپنی قوم  کے لوگوں سے کہا کہ بھائیو، تم نے بچھڑے کو (معبود) ٹھہرانے میں (بڑا) ظلم کیا ہے ، تو اپنے پیدا  کرنے والے  کے آگے توبہ  کرو اور اپنے تئیں ہلاک  کر ڈالو۔  تمہارے خالق  کے نزدیک تمہارے حق میں یہی بہتر ہے۔   پھر اس نے تمہارا قصور معاف  کر دیا۔  وہ بے شک معاف  کرنے والا (اور) صاحبِ  رحم ہے (۵۴) اور جب تم نے (موسیٰ) سے کہا کہ موسیٰ، جب تک ہم خدا کو سامنے نہ دیکھ لیں گے ، تم پر ایمان نہیں لائیں گے ، تو تم کو بجلی نے آ گھیرا اور تم دیکھ رہے تھے (۵۵) پھر موت آ جانے  کے بعد ہم نے تم کو از سرِ  نو زندہ  کر دیا، تاکہ احسان مانو (۵۶) اور بادل کا تم پر سایہ کئے رکھا اور (تمہارے لیے) من و سلویٰ اتارتے رہے کہ جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائی ہیں ، ان کو کھاؤ (پیو) مگر تمہارے بزرگوں نے ان نعمتوں کی کچھ قدر نہ جانی (اور) وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑتے تھے بلکہ اپنا ہی نقصان  کرتے تھے (۵۷) اور جب ہم نے (ان سے) کہا کہ اس گاؤں میں داخل ہو جاؤ اور اس میں جہاں سے چا ہو، خوب کھاؤ (پیو) اور (دیکھنا) دروازے میں داخل ہونا تو سجدہ  کرنا اور حطۃ کہنا، ہم تمہارے گناہ معاف  کر دیں گے اور نیکی  کرنے والوں کو اور زیادہ دیں گے (۵۸) تو جو ظالم تھے ، انہوں نے اس لفظ کو، جس کا ان کو حکم دیا تھا، بدل  کر اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع کیا، پس ہم نے (ان) ظالموں پر آسمان سے عذاب نازل کیا، کیونکہ نافرمانیاں کئے جاتے تھے (۵۹) اور جب موسیٰ نے اپنی قوم  کے لیے (خدا سے) پانی مانگا تو ہم نے کہا کہ اپنی لاٹھی پتھر پر مارو۔  (انہوں نے لاٹھی ماری) تو پھر اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ، اور تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم  کر (کے پانی پی) لیا۔  (ہم نے حکم دیا کہ) خدا کی (عطا فرمائی ہوئی) روزی کھاؤ اور پیو، مگر زمین میں فساد نہ  کرتے پھرنا (۶۰) اور جب تم نے کہا کہ موسیٰ! ہم سے ایک (ہی) کھانے پر صبر نہیں ہو سکتا تو اپنے پروردگار سے دعا کیجئے کہ ترکاری اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز (وغیرہ) جو نباتات زمین سے اُگتی ہیں ، ہمارے لیے پیدا  کر دے۔   انہوں نے کہا کہ بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ  کر ان  کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہوں۔   (اگر یہی چیزیں مطلوب ہیں) تو کسی شہر میں جا اترو، وہاں جو مانگتے ہو، مل جائے گا۔  اور (آخرکار) ذلت (و رسوائی) اور محتاجی (و بے نوائی) ان سے چمٹا دی گئی اور وہ اللہ  کے غضب میں گرفتار ہو گئے۔   یہ اس لیے کہ وہ اللہ کی آیتوں سے انکار  کرتے تھے اور (اس  کے) نبیوں کو ناحق قتل  کر دیتے تھے۔   (یعنی) یہ اس لیے کہ نافرمانی کئے جاتے اور حد سے بڑھے جاتے تھے (۶۱) جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست، (یعنی کوئی شخص کسی قوم و مذہب کا ہو) جو خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے گا، اور نیک عمل  کرے گا، تو ایسے لوگوں کو ان (کے اعمال) کا صلہ خدا  کے ہاں ملے گا اور (قیامت  کے دن) ان کو نہ کسی طرح کا خوف ہو گا اور نہ وہ غم ناک ہوں گے (۶۲) اور جب ہم نے تم سے عہد (کر) لیا اور کوہِ  طُور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا (اور حکم دیا) کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی ہے ، اس کو زور سے پکڑے رہو، اور جو اس میں (لکھا) ہے ، اسے یاد رکھو، تاکہ (عذاب سے) محفوظ رہو (۶۳) تو تم اس  کے بعد (عہد سے) پھر گئے اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو تم خسارے میں پڑے گئے ہوتے (۶۴) اور تم ان لوگوں کو خوب جانتے ہوں ، جو تم میں سے ہفتے  کے دن (مچھلی کا شکار  کرنے) میں حد سے تجاوز  کر گئے تھے ، تو ہم نے ان سے کہا کہ ذلیل و خوار بندر ہو جاؤ (۶۵) اور اس قصے کو اس وقت  کے لوگوں  کے لیے اور جو ان  کے بعد آنے والے تھے عبرت اور پرہیز گاروں  کے لیے نصیحت بنا دیا (۶۶) اور جب موسیٰ نے اپنی قوم  کے لوگوں سے کہا کہ خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ ایک بیل ذبح  کرو۔  وہ بولے ، کیا تم ہم سے ہنسی  کرتے ہو۔  (موسیٰ نے) کہا کہ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں (۶۷) انہوں نے کہا کہ اپنے پروردگار سے التجا کیجئے کہ وہ ہمیں یہ بتائے کہ وہ بیل کس طرح کا ہو۔  (موسیٰ نے) کہا کہ پروردگار فرماتا ہے کہ وہ بیل نہ تو بوڑھا ہو اور نہ بچھڑا، بلکہ ان  کے درمیان (یعنی جوان) ہو۔  جیسا تم کو حکم دیا گیا ہے ، ویسا  کرو (۶۸) انہوں نے کہا کہ پروردگار سے درخواست کیجئے کہ ہم کو یہ بھی بتائے کہ اس کا رنگ کیسا ہو۔  موسیٰ نے کہا ، پروردگار فرماتا ہے کہ اس کا رنگ گہرا زرد ہو کہ دیکھنے والوں (کے دل) کو خوش  کر دیتا ہو (۶۹) انہوں نے کہا کہ (اب  کے) پروردگار سے پھر درخواست کیجئے کہ ہم کو بتا دے کہ وہ اور کس کس طرح کا ہو، کیونکہ بہت سے بیل ہمیں ایک دوسرے  کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں ، (پھر) خدا نے چاہا تو ہمیں ٹھیک بات معلوم ہو جائے گی (۷۰) موسیٰ نے کہا کہ خدا فرماتا ہے کہ وہ بیل کام میں لگا ہوا نہ ہو، نہ تو زمین جوتتا ہو اور نہ کھیتی کو پانی دیتا ہو۔  اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو۔  کہنے لگے ، اب تم نے سب باتیں درست بتا دیں۔   غرض (بڑی مشکل سے) انہوں نے اس بیل کو ذبح کیا، اور وہ ایسا  کرنے والے تھے نہیں (۷۱) اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کیا، تو اس میں باہم جھگڑنے لگے۔   لیکن جو بات تم چھپا رہے تھے ، خدا اس کو ظاہر  کرنے والا تھا (۷۲) تو ہم نے کہا کہ اس بیل کا کوئی سا ٹکڑا مقتول کو مارو۔  اس طرح خدا مردوں کو زندہ  کرتا ہے اور تم کو اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو (۷۳) پھر اس  کے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے۔   گویا وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت۔  اور پتھر تو بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں سے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں ، اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ پھٹ جاتے ہیں ،اور ان میں سے پانی نکلنے لگتا ہے ، اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ خدا  کے خوف سے گر پڑتے ہیں ، اور خدا تمہارے عملوں سے بے خبر نہیں (۷۴) (مومنو) کیا تم امید رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے (دین  کے) قائل ہو جائیں گے ، (حالانکہ) ان میں سے کچھ لوگ کلامِ  خدا (یعنی تورات) کو سنتے ، پھر اس  کے سمجھ لینے  کے بعد اس کو جان بوجھ  کر بدل دیتے رہے ہیں (۷۵) اور یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ، ہم ایمان لے آئے ہیں۔   اور جب آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ، جو بات خدا نے تم پر ظاہر فرمائی ہے ، وہ تم ان کو اس لیے بتائے دیتے ہو کہ (قیامت  کے دن) اسی  کے حوالے سے تمہارے پروردگار  کے سامنے تم کو الزام دیں۔   کیا تم سمجھتے نہیں ؟ (۷۶) کیا یہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ جو کچھ یہ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر  کرتے ہیں ، خدا کو (سب) معلوم ہے (۷۷) اور بعض ان میں ان پڑھ ہیں کہ اپنے باطل خیالات  کے سوا (خدا کی) کتاب سے واقف ہی نہیں اور وہ صرف ظن سے کام لیتے ہیں (۷۸) تو ان لوگوں پر افسوس ہے جو اپنے ہاتھ سے تو کتاب لکھتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ یہ خدا  کے پاس سے (آئی) ہے ، تاکہ اس  کے عوض تھوڑی سے قیمت (یعنی دنیوی منفعت) حاصل  کریں۔   ان پر افسوس ہے ، اس لیے کہ (بے اصل باتیں) اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور (پھر) ان پر افسوس ہے ، اس لیے کہ ایسے کام  کرتے ہیں (۷۹) اور کہتے ہیں کہ (دوزخ کی) آگ ہمیں چند روز  کے سوا چھو ہی نہیں سکے گی۔  ان سے پوچھو، کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے کہ خدا اپنے اقرار  کے خلاف نہیں  کرے گا۔  (نہیں)، بلکہ تم خدا  کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہو جن کا تمہیں مطلق علم نہیں (۸۰) ہاں جو برے کام  کرے ، اور اس  کے گناہ (ہر طرف سے) گھیر لیں تو ایسے لوگ دوزخ (میں جانے) والے ہیں (اور) وہ ہمیشہ اس میں (جلتے) رہیں گے (۸۱) اور جو ایمان لائیں اور نیک کام  کریں ، وہ جنت  کے مالک ہوں گے (اور) ہمیشہ اس میں (عیش  کرتے) رہیں گے (۸۲) اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا  کے سوا کسی کی عبادت نہ  کرنا اور ماں باپ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں  کے ساتھ بھلائی  کرتے رہنا اور لوگوں سے اچھی باتیں کہنا، اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے رہنا، تو چند شخصوں  کے سوا تم سب (اس عہد سے) منہ پھیر  کر پھر بیٹھے (۸۳) اور جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ آپس میں کشت و خون نہ  کرنا اور اپنے کو ان  کے وطن سے نہ نکالنا تو تم نے اقرار  کر لیا، اور تم (اس بات  کے) گواہ ہو (۸۴) پھر تم وہی ہو کہ اپنوں کو قتل بھی  کر دیتے ہو اور اپنے میں سے بعض لوگوں پر گناہ اور ظلم سے چڑھائی  کر  کے انہیں وطن سے نکال بھی دیتے ہو، اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہو  کر آئیں تو بدلہ دے  کر ان کو چھڑا بھی لیتے ہو، حالانکہ ان کا نکال دینا ہی تم کو حرام تھا۔  (یہ) کیا (بات ہے کہ) تم کتابِ  (خدا)  کے بعض احکام کو تو مانتے ہو اور بعض سے انکار کئے دیتے ہو، تو جو تم میں سے ایسی حرکت  کریں ، ان کی سزا اس  کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا کی زندگی میں تو رسوائی ہو اور قیامت  کے دن سخت سے سخت عذاب میں ڈال دیئے جائیں اور جو کام تم  کرتے ہو، خدا ان سے غافل نہیں (۸۵) یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت  کے بدلے دنیا کی زندگی خریدی۔  سو نہ تو ان سے عذاب ہی ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کو (اور طرح کی) مد د ملے گی (۸۶) اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت کی اور ان  کے پیچھے ی کے بعد دیگرے پیغمبر بھیجتے رہے اور عیسیٰ بن مریم کو کھلے نشانات بخشے اور روح القدس (یعنی جبرئیل) سے ان کو مد د دی۔ تو جب کوئی پیغمبر تمہارے پاس ایسی باتیں لے  کر آئے ، جن کو تمہارا جی نہیں چاہتا تھا، تو تم سرکش ہو جاتے رہے ، اور ایک گروہ (انبیاء) کو تو جھٹلاتے رہے اور ایک گروہ کو قتل  کرتے رہے (۸۷) اور کہتے ہیں ، ہمارے دل پردے میں ہیں۔   (نہیں) بلکہ اللہ نے ان  کے کفر  کے سبب ان پر لعنت  کر رکھی ہے۔   پس یہ تھوڑے ہی پر ایمان لاتے ہیں (۸۸) اور جب اللہ  کے ہاں سے ان  کے پاس کتاب آئی جو ان کی (آسمانی) کتاب کی بھی تصدیق  کرتی ہے ، اور وہ پہلے (ہمیشہ) کافروں پر فتح مانگا  کرتے تھے ، تو جس چیز کو وہ خوب پہچانتے تھے ، جب ان  کے پاس آ پہنچی تو اس سے کافر ہو گئے۔   پس کافروں پر اللہ کی لعنت (۸۹) جس چیز  کے بدلے انہوں نے اپنے تئیں بیچ ڈالا، وہ بہت بری ہے ، یعنی اس جلن سے کہ خدا اپنے بندوں میں جس پر چاہتا ہے ، اپنی مہربانی سے نازل فرماتا ہے۔   خدا کی نازل کی ہوئی کتاب سے کفر  کرنے لگے تو وہ (اس  کے) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہو گئے۔   اور کافروں  کے لیے ذلیل  کرنے والا عذاب ہے (۹۰) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو (کتاب) خدا نے (اب) نازل فرمائی ہے ، اس کو مانو۔  تو کہتے ہیں کہ جو کتاب ہم پر (پہلے) نازل ہو چکی ہے ، ہم تو اسی کو مانتے ہیں۔   (یعنی) یہ اس  کے سوا کسی اور (کتاب) کو نہیں مانتے ، حالانکہ وہ (سراسر) سچی ہے اور جو ان کی (آسمانی) کتاب ہے ، اس کی بھی تصدیق  کرتی ہے۔   (ان سے) کہہ دو کہ اگر تم صاحبِ  ایمان ہوتے تو اللہ  کے پیغمبروں کو پہلے ہی کیوں قتل کیا  کرتے (۹۱) اور موسیٰ تمہارے پاس کھلے ہوئے معجزات لے  کر آئے تو تم ان  کے (کوہِ  طور جانے  کے) بعد بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے اور تم (اپنے ہی حق میں) ظلم  کرتے تھے (۹۲) اور جب ہم نے تم (لوگوں) سے عہد واثق لیا اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا (اور حکم دیا کہ) جو (کتاب) ہم نے تم کو دی ہے ، اس کو زور سے پکڑو اور جو تمہیں حکم ہوتا ہے (اس کو) سنو تو وہ (جو تمہارے بڑے تھے) کہنے لگے کہ ہم نے سن تو لیا لیکن مانتے نہیں۔   اور ان  کے کفر  کے سبب بچھڑا (گویا) ان  کے دلوں میں رچ گیا تھا۔  (اے پیغمبر ان سے) کہہ دو کہ اگر تم مومن ہو تو تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے (۹۳) کہہ دو کہ اگر آخرت کا گھر اور لوگوں (یعنی مسلمانوں)  کے لیے نہیں اور خدا  کے نزدیک تمہارے ہی لیے مخصوص ہے تو اگر سچے ہو تو موت کی آرزو تو  کرو (۹۴) لیکن ان اعمال کی وجہ سے ، جو ان  کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں ، یہ کبھی اس کی آرزو نہیں  کریں گے ، اور خدا ظالموں سے (خوب) واقف ہے (۹۵) بلکہ ان کو تم اور لوگوں سے زندگی  کے کہیں حریص دیکھو گے ، یہاں تک کہ مشرکوں سے بھی۔  ان میں سے ہر ایک یہی خواہش  کرتا ہے کہ کاش وہ ہزار برس جیتا رہے ، مگر اتنی لمبی عمر اس کو مل بھی جائے تو اسے عذاب سے تو نہیں چھڑا سکتی۔  اور جو کام یہ  کرتے ہیں ، خدا ان کو دیکھ رہا ہے (۹۶) کہہ دو کہ جو شخص جبرئیل کا دشمن ہو (اس کو غصے میں مر جانا چاہیئے) اس نے تو (یہ کتاب) خدا  کے حکم سے تمہارے دل پر نازل کی ہے جو پہلی کتابوں کی تصدیق  کرتی ہے ، اور ایمان والوں  کے لیے ہدایت اور بشارت ہے (۹۷) جو شخص خدا کا اور اس  کے فرشتوں کا اور اس  کے پیغمبروں کا اور جبرئیل اور میکائیل کا دشمن ہو تو ایسے کافروں کا خدا دشمن ہے (۹۸) اور ہم نے تمہارے پاس سلجھی ہوئی آیتیں ارسال فرمائی ہیں ، اور ان سے انکار وہی  کرتے ہیں جو بدکار ہیں (۹۹) ان لوگوں نے جب (خدا سے) عہد واثق کیا تو ان میں سے ایک فریق نے اس کو (کسی چیز کی طرح) پھینک دیا۔  حقیقت یہ ہے کہ ان میں اکثر بے ایمان ہیں (۱۰۰) اور جب ان  کے پاس اللہ کی طرف سے پیغمبر (آخرالزماں) آئے ، اور وہ ان کی (آسمانی) کتاب کی بھی تصدیق  کرتے ہیں تو جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی، ان میں سے ایک جماعت نے خدا کی کتاب کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا، گویا وہ جانتے ہی نہیں (۱۰۱) اور ان (ہزلیات)  کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان  کے عہدِ  سلطنت میں شیاطین پڑھا  کرتے تھے اور سلیمان نے مطلق کفر کی بات نہیں کی، بلکہ شیطان ہی کفر  کرتے تھے کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔   اور ان با توں  کے بھی (پیچھے لگ گئے) جو شہر بابل میں دو فرشتوں (یعنی) ہاروت اور ماروت پر اتری تھیں۔   اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے ، جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو (ذریعۂ) آزمائش ہیں۔   تم کفر میں نہ پڑو۔  غرض لوگ ان سے (ایسا) جادو سیکھتے ، جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں۔   اور خدا  کے حکم  کے سوا وہ اس (جادو) سے کسی کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے تھے۔   اور کچھ ایسے (منتر) سیکھتے جو ان کو نقصان ہی پہنچاتے اور فائدہ کچھ نہ دیتے۔   اور وہ جانتے تھے کہ جو شخص ایسی چیزوں (یعنی سحر اور منتر وغیرہ) کا خریدار ہو گا، اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔   اور جس چیز  کے عوض انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا، وہ بری تھی۔  کاش وہ (اس بات کو) جانتے (۱۰۲) اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیز گاری  کرتے تو خدا  کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا۔  اے کاش، وہ اس سے واقف ہوتے (۱۰۳) اے اہل ایمان! (گفتگو  کے وقت پیغمبرِ  خدا سے) راعنا نہ کہا  کرو۔  انظرنا کہا  کرو۔  اور خوب سن رکھو، اور کافروں  کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے (۱۰۴) جو لوگ کافر ہیں ، اہل کتاب یا مشرک وہ اس بات کو پسند نہیں  کرتے کہ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے خیر (و برکت) نازل ہو۔  اور خدا تو جس کو چاہتا ہے ، اپنی رحمت  کے ساتھ خاص  کر لیتا ہے اور خدا بڑے فضل کا مالک ہے (۱۰۵) ہم جس آیت کو منسوخ  کر دیتے یا اسے فراموش  کرا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت بھیج دیتے ہیں۔   کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر بات پر قادر ہے (۱۰۶) تمہیں معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت خدا ہی کی ہے ، اور خدا  کے سوا تمہارا کوئی دوست اور مد د گار نہیں (۱۰۷) کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے پیغمبر سے اسی طرح  کے سوال  کرو، جس طرح  کے سوال پہلے موسیٰ سے کئے گئے تھے۔   اور جس شخص نے ایمان (چھوڑ  کر اس)  کے بدلے کفر لیا، وہ سیدھے رستے سے بھٹک گیا (۱۰۸) بہت سے اہل کتاب اپنے دل کی جلن سے یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لا چکنے  کے بعد تم کو پھر کافر بنا دیں۔   حالانکہ ان پر حق ظاہر ہو چکا ہے۔   تو تم معاف  کر دو اور در گزر کرو۔  یہاں تک کہ خدا اپنا (دوسرا) حکم بھیجے۔   بے شک خدا ہر بات پر قادر ہے (۱۰۹) اور نماز ادا  کرتے رہو اور زکوٰۃ دیتے رہو۔  اور جو بھلائی اپنے لیے آگے بھیج رکھو گے ، اس کو خدا  کے ہاں پا لو گے۔   کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے (۱۱۰) اور (یہودی اور عیسائی) کہتے ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں  کے سوا کوئی بہشت میں نہیں جانے کا۔  یہ ان لوگوں  کے خیالاتِ  باطل ہیں۔   (اے پیغمبر ان سے) کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو دلیل پیش  کرو (۱۱۱) ہاں جو شخص خدا  کے آگے گردن جھکا دے ، (یعنی ایمان لے آئے) اور وہ نیکو کار بھی ہو تو اس کا صلہ اس  کے پروردگار  کے پاس ہے اور ایسے لوگوں کو (قیامت  کے دن) نہ کسی طرح کا خوف ہو گا اور نہ وہ غمناک ہوں گے (۱۱۲) اور یہودی کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودی رستے پر نہیں۔   حالانکہ وہ کتاب (الہٰی) پڑھتے ہیں۔   اسی طرح بالکل انہی کی سی بات وہ لوگ کہتے ہیں جو (کچھ) نہیں جانتے (یعنی مشرک) تو جس بات میں یہ لوگ اختلاف  کر رہے خدا قیامت  کے دن اس کا ان میں فیصلہ  کر دے گا (۱۱۳) اور اس سے بڑھ  کر ظالم کون، جو خدا کی مسجدوں میں خدا  کے نام کا ذکر کئے جانے کو منع  کرے اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو۔ ان لوگوں کو کچھ حق نہیں کہ ان میں داخل ہوں ، مگر ڈرتے ہوئے۔   ان  کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بڑا عذاب (۱۱۴) اور مشرق اور مغرب سب خدا ہی کا ہے۔   تو جدھر تم رخ  کرو۔  ادھر خدا کی ذات ہے۔   بے شک خدا صاحبِ  وسعت اور باخبر ہے (۱۱۵) اور یہ لوگ اس بات  کے قائل ہیں کہ خدا اولاد رکھتا ہے۔   (نہیں) وہ پاک ہے ، بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ، سب اسی کا ہے اور سب اس  کے فرماں بردار ہیں (۱۱۶) (وہی) آسمانوں اور زمین کا پیدا  کرنے والا ہے۔   جب کوئی کام  کرنا چاہتا ہے تو اس کو ارشاد فرما دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے (۱۱۷) اور جو لوگ (کچھ) نہیں جانتے (یعنی مشرک) وہ کہتے ہیں کہ خدا ہم سے کلام کیوں نہیں  کرتا۔  یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی۔  اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے تھے ، وہ بھی انہی کی سی باتیں کیا  کرتے تھے۔   ان لوگوں  کے دل آپس میں ملتے جلتے ہیں۔   جو لوگ صاحبِ  یقین ہیں ، ان  کے (سمجھانے  کے) لیے نشانیاں بیان  کر دی ہیں (۱۱۸) (اے محمدﷺ) ہم نے تم کو سچائی  کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا  کر بھیجا ہے۔   اور اہل دوزخ  کے بارے میں تم سے کچھ پرسش نہیں ہو گی (۱۱۹) اور تم سے نہ تو یہودی کبھی خوش ہوں گے اور نہ عیسائی، یہاں تک کہ تم ان  کے مذہب کی پیروی اختیار  کر لو۔  (ان سے) کہہ دو کہ خدا کی ہدایت (یعنی دین اسلام) ہی ہدایت ہے۔   اور (اے پیغمبر) اگر تم اپنے پاس علم (یعنی وحی خدا)  کے آ جانے پر بھی ان کی خواہشوں پر چلو گے تو تم کو (عذاب) خدا سے (بچانے والا) نہ کوئی دوست ہو گا اور نہ کوئی مددگار (۱۲۰) جن لوگوں کو ہم نے کتاب عنایت کی ہے ، وہ اس کو (ایسا) پڑھتے ہیں جیسا اس  کے پڑھنے کا حق ہے۔   یہی لوگ اس پر ایمان رکھنے والے ہیں ، اور جو اس کو نہیں مانتے ، وہ خسارہ پانے والے ہیں (۱۲۱) اے بنی اسرائیل ! میرے وہ احسان یاد  کرو، جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تم کو اہلِ  عالم پر فضیلت بخشی (۱۲۲) اور اس دن سے ڈرو جب کوئی شخص کسی شخص  کے کچھ کام نہ آئے ، اور نہ اس سے بدلہ قبول کیا جائے اور نہ اس کو کسی کی سفارش کچھ فائدہ دے اور نہ لوگوں کو (کسی اور طرح کی) مد د مل سکے (۱۲۳) اور جب پروردگار نے چند با توں میں ابراہیم کی آزمائش کی تو ان میں پورے اترے۔   خدا نے کہا کہ میں تم کو لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔  انہوں نے کہا کہ (پروردگار) میری اولاد میں سے بھی (پیشوا بنائیو)۔  خدا نے فرمایا کہ ہمارا اقرار ظالموں  کے لیے نہیں ہوا  کرتا (۱۲۴) اور جب ہم نے خان کعبہ کو لوگوں  کے لیے جمع ہونے اور امن پانے کی جگہ مقرر کیا اور (حکم دیا کہ) جس مقام پر ابراہیم کھڑے ہوئے تھے ، اس کو نماز کی جگہ بنا لو۔  اور ابراہیم اور اسمٰعیل کو کہا کہ طواف  کرنے والوں اور اعتکاف  کرنے والوں اور رکوع  کرنے والوں اور سجدہ  کرنے والوں  کے لیے میرے گھر کو پاک صاف رکھا  کرو (۱۲۵) اور جب ابراہیم نے دعا کی کہ اے پروردگار، اس جگہ کو امن کا شہر بنا اور اس  کے رہنے والوں میں سے جو خدا پر اور روزِ  آخرت پر ایمان لائیں ، ان  کے کھانے کو میوے عطا  کر، تو خدا نے فرمایا کہ جو کافر ہو گا، میں اس کو بھی کسی قدر متمتع  کروں گا، (مگر) پھر اس کو (عذاب) دوزخ  کے (بھگتنے  کے) لیے ناچار  کر دوں گا، اور وہ بری جگہ ہے (۱۲۶) اور جب ابراہیم اور اسمٰعیل بیت اللہ کی بنیادیں اونچی  کر رہے تھے (تو دعا کئے جاتے تھے کہ) اے پروردگار، ہم سے یہ خدمت قبول فرما۔  بے شک تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے (۱۲۷) اے پروردگار، ہم کو اپنا فرمانبردار بنائے رکھیو۔  اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو اپنا مطیع بنائے رہیو، اور (پروردگار) ہمیں طریق عبادت بتا اور ہمارے حال پر (رحم  کے ساتھ) توجہ فرما۔  بے شک تو توجہ فرمانے والا مہربان ہے (۱۲۸) اے پروردگار، ان (لوگوں) میں انہیں میں سے ایک پیغمبر مبعوث کیجیو جو ان کو تیری آیتیں پڑھ پڑھ  کر سنایا  کرے اور کتاب اور دانائی سکھایا  کرے اور ان (کے دلوں) کو پاک صاف کیا  کرے۔   بے شک تو غالب اور صاحبِ  حکمت ہے (۱۲۹) اور ابراہیم  کے دین سے کون رو گردانی  کر سکتا ہے ، بجز اس  کے جو نہایت نادان ہو۔  ہم نے ان کو دنیا میں بھی منتخب کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ (زمرۂ) صلحا میں سے ہوں گے (۱۳۰) جب ان سے ان  کے پروردگار نے فرمایا کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین  کے آگے سر اطاعت خم  کرتا ہوں (۱۳۱) اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی (اپنے فر زندوں سے یہی کہا) کہ بیٹا خدا نے تمہارے لیے یہی دین پسند فرمایا ہے تو مرنا ہے تو مسلمان ہی مرنا (۱۳۲) بھلا جس وقت یعقوب وفات پانے لگے تو تم اس وقت موجود تھے ، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت  کرو گے ، تو انہوں نے کہا کہ آپ  کے معبود اور آپ  کے باپ دادا ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق  کے معبود کی عبادت  کریں گے جو معبود یکتا ہے اور ہم اُسی  کے حکم بردار ہیں (۱۳۳) یہ جماعت گزر چکی۔  ان کو اُن  کے اعمال (کا بدلہ ملے گا) اور تم کو تمھارے اعمال (کا) اور جو عمل وہ  کرتے تھے ان کی پرسش تم سے نہیں ہو گی (۱۳۴) اور (یہودی اور عیسائی) کہتے ہیں کہ یہودی یا عیسائی ہو جاؤ تو سیدھے رستے پر لگ جاؤ۔  (اے پیغمبر ان سے) کہہ دو، (نہیں) بلکہ (ہم) دین ابراہیم (اختیار کئے ہوئے ہیں) جو ایک خدا  کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے (۱۳۵) (مسلمانو) کہو کہ ہم خدا پر ایمان لائے اور جو (کتاب) ہم پر اتری، اس پر اور جو (صحیفے) ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر نازل ہوئے ان پر اور جو (کتابیں) موسیٰ اور عیسی کو عطا ہوئیں ، ان پر، اور جو اور پیغمبروں کو ان  کے پروردگار کی طرف سے ملیں ، ان پر (سب پر ایمان لائے) ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں  کرتے اور ہم اسی (خدائے واحد)  کے فرمانبردار ہیں (۱۳۶) تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہو جائیں اور اگر منہ پھیر لیں (اور نہ مانیں) تو وہ (تمھارے) مخالف ہیں اور ان  کے مقابلے میں تمھیں خدا کافی ہے۔   اور وہ سننے والا (اور) جاننے والا ہے (۱۳۷) (کہہ دو کہ ہم نے) خدا کا رنگ (اختیار  کر لیا ہے) اور خدا سے بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے۔   اور ہم اسی کی عبادت  کرنے والے ہیں (۱۳۸) (ان سے) کہو، کیا تم خدا  کے بارے میں ہم سے جھگڑتے ہو، حالانکہ وہی ہمارا اور تمھارا پروردگار ہے اور ہم کو ہمارے اعمال (کا بدلہ ملے گا) اور تم کو تمھارے اعمال (کا) اور ہم خاص اسی کی عبادت  کرنے والے ہیں (۱۳۹) (اے یہود و نصاریٰ) کیا تم اس بات  کے قائل ہو کہ ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد یہودی یا عیسائی تھے۔   (اے محمدﷺ ان سے) کہو کہ بھلا تم زیادہ جانتے ہو یا خدا؟ اور اس سے بڑھ  کر ظالم کون، جو خدا کی شہادت کو، جو اس  کے پاس (کتاب میں موجود) ہے چھپائے۔   اور جو کچھ تم  کر رہے ہو، خدا اس سے غافل نہیں (۱۴۰) یہ جماعت گزر چکی۔  ان کو وہ (ملے گا) جو انہوں نے کیا، اور تم کو وہ جو تم نے کیا۔  اور جو عمل وہ  کرتے تھے ، اس کی پرسش تم سے نہیں ہو گی (۱۴۱) احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلے پر (پہلے سے چلے آتے) تھے (اب) اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے۔   تم کہہ دو کہ مشرق اور مغرب سب خدا ہی کا ہے۔   وہ جس کو چاہتا ہے ، سیدھے رستے پر چلاتا ہے (۱۴۲) اور اسی طرح ہم نے تم کو امتِ  معتدل بنایا ہے ، تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخرالزماں) تم پر گواہ بنیں۔   اور جس قبلے پر تم (پہلے) تھے ، اس کو ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ معلوم  کریں ، کون (ہمارے) پیغمبر کا تابع رہتا ہے ، اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔   اور یہ بات (یعنی تحویل قبلہ لوگوں کو) گراں معلوم ہوئی، مگر جن کو خدا نے ہدایت بخشی (وہ اسے گراں نہیں سمجھتے) اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یونہی کھو دے۔   خدا تو لوگوں پر بڑا مہربان (اور) صاحبِ  رحمت ہے (۱۴۳) (اے محمدﷺ) ہم تمہارا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر  کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں۔   سو ہم تم کو اسی قبلے کی طرف جس کو تم پسند  کرتے ہو، منہ  کرنے کا حکم دیں گے تو اپنا منہ مسجد حرام (یعنی خانۂ کعبہ) کی طرف پھیر لو۔  اور تم لوگ جہاں ہوا  کرو، (نماز پڑھنے  کے وقت) اسی مسجد کی طرف منہ  کر لیا  کرو۔  اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے ، وہ خوب جانتے ہیں کہ (نیا قبلہ) ان  کے پروردگار کی طرف سے حق ہے۔   اور جو کام یہ لوگ  کرتے ہیں ، خدا ان سے بے خبر نہیں (۱۴۴) اور اگر تم ان اہلِ  کتاب  کے پاس تمام نشانیاں بھی لے  کر آؤ، تو بھی یہ تمہارے قبلے کی پیروی نہ  کریں۔   اور تم بھی ان  کے قبلے کی پیروی  کرنے والے نہیں ہو۔  اور ان میں سے بھی بعض بعض  کے قبلے  کے پیرو نہیں۔   اور اگر تم باوجود اس  کے کہ تمہارے پاس دانش (یعنی وحیِ خدا) آ چکی ہے ، ان کی خواہشوں  کے پیچھے چلو گے تو ظالموں میں (داخل) ہو جاؤ گے (۱۴۵) جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے ، وہ ان (پیغمبر آخرالزماں) کو اس طرح پہچانتے ہیں ، جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانا  کرتے ہیں ، مگر ایک فریق ان میں سے سچی بات کو جان بوجھ  کر چھپا رہا ہے (۱۴۶) (اے پیغمبر، یہ نیا قبلہ) تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے تو تم ہرگز شک  کرنے والوں میں نہ ہونا (۱۴۷) اور ہر ایک (فرقے)  کے لیے ایک سمت (مقرر) ہے۔   جدھر وہ (عبادت  کے وقت) منہ کیا  کرتے ہیں۔   تو تم نیکیوں میں سبقت حاصل  کرو۔  تم جہاں رہو گے خدا تم سب کو جمع  کر لے گا۔  بے شک خدا ہر چیز پر قادر ہے (۱۴۸) اور تم جہاں سے نکلو، (نماز میں) اپنا منہ مسجد محترم کی طرف  کر لیا  کرو بے شک وہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے۔   اور تم لوگ جو کچھ  کرتے ہو۔  خدا اس سے بے خبر نہیں (۱۴۹) اور تم جہاں سے نکلو، مسجدِ  محترم کی طرف منہ (کر  کے نماز پڑھا)  کرو۔  اور مسلمانو، تم جہاں ہوا  کرو، اسی (مسجد) کی طرف رخ کیا  کرو۔  (یہ تاکید) اس لیے (کی گئی ہے) کہ لوگ تم کو کسی طرح کا الزام نہ دے سکیں۔   مگر ان میں سے جو ظالم ہیں ، (وہ الزام دیں تو دیں) سو ان سے مت ڈرنا اور مجھی سے ڈرتے رہنا۔  اور یہ بھی مقصود ہے کہ تم کو اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہِ  راست پر چلو (۱۵۰) جس طرح (منجملہ اور نعمتوں  کے) ہم نے تم میں تمھیں میں سے ایک رسول بھیجے ہیں جو تم کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ  کر سناتے اور تمہیں پاک بناتے اور کتاب (یعنی قرآن) اور دانائی سکھاتے ہیں ، اور ایسی باتیں بتاتے ہیں ، جو تم پہلے نہیں جانتے تھے (۱۵۱) سو تم مجھے یاد  کرو۔  میں تمہیں یاد کیا  کروں گا۔  اور میرے احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ  کرنا (۱۵۲) اے ایمان والو صبر اور نماز سے مد د لیا  کرو بے شک خدا صبر  کرنے والوں  کے ساتھ ہے (۱۵۳) اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جائیں ان کی نسبت یہ کہنا کہ وہ مرے ہوئے ہیں (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں جانتے (۱۵۴) اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میوؤں  کے نقصان سے تمہاری آزمائش  کریں گے تو صبر  کرنے والوں کو (خدا کی خوشنودی کی) بشارت سنا دو (۱۵۵) ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم خدا ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ  کر جانے والے ہیں (۱۵۶) یہی لوگ ہیں جن پر ان  کے پروردگار کی مہربانی اور رحمت ہے۔   اور یہی سیدھے رستے پر ہیں (۱۵۷) بے شک (کوہ) صفا اور مروہ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں۔   تو جو شخص خانۂ کعبہ کا حج یا عمرہ  کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف  کرے۔   (بلکہ طواف ایک قسم کا نیک کام ہے) اور جو کوئی نیک کام  کرے تو خدا قدر شناس اور دانا ہے (۱۵۸) جو لوگ ہمارے حکموں اور ہدایتوں کو جو ہم نے نازل کی ہیں (کسی غرض فاسد سے) چھپاتے ہیں باوجود یہ کہ ہم نے ان لوگوں  کے (سمجھانے  کے) لئے اپنی کتاب میں کھول کھول  کر بیان  کر دیا ہے۔   ایسوں پر خدا اور تمام لعنت  کرنے والے لعنت  کرتے ہیں (۱۵۹) ہاں جو توبہ  کرتے ہیں اور اپنی حالت درست  کر لیتے اور (احکام الہٰی کو) صاف صاف بیان  کر دیتے ہیں تو میں ان  کے قصور معاف  کر دیتا ہوں اور میں بڑا معاف  کرنے والا (اور) رحم والا ہوں (۱۶۰) جو لوگ کافر ہوئے اور کافر ہی مرے ایسوں پر خدا کی اور فرشتوں اور لوگوں کی سب کی لعنت (۱۶۱) وہ ہمیشہ اسی (لعنت) میں (گرفتار) رہیں گے۔   ان سے نہ تو عذاب ہی ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں (کچھ) مہلت ملے گی (۱۶۲) اور (لوگو) تمہارا معبود خدائے واحد ہے اس بڑے مہربان (اور) رحم  کرنے  کے سوا کوئی عبادت  کے لائق نہیں (۱۶۳) بے شک آسمانوں اور زمین  کے پیدا  کرنے میں اور رات اور دن  کے ایک دوسرے  کے پیچھے آنے جانے میں اور کشتیوں اور جہازوں میں جو دریا میں لوگوں  کے فائدے کی چیزیں لے  کر رواں ہیں اور مینہ میں جس کو خدا آسمان سے برساتا اور اس سے زمین کو مرنے  کے بعد زندہ (یعنی خشک ہوئے پیچھے سرسبز)  کر دیتا ہے اور زمین پر ہر قسم  کے جانور پھیلانے میں اور ہواؤں  کے چلانے میں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین  کے درمیان گھرے رہتے ہیں۔   عقلمندوں  کے لئے (خدا کی قدرت کی) نشانیاں ہیں (۱۶۴) اور بعض لوگ ایسے ہیں جو غیر خدا کو شریک (خدا) بناتے اور ان سے خدا کی سی محبت  کرتے ہیں۔   لیکن جو ایمان والے ہیں وہ تو خدا ہی  کے سب سے زیادہ دوستدار ہیں۔   اور اے کاش ظالم لوگ جو بات عذاب  کے وقت دیکھیں گے اب دیکھ لیتے کہ سب طرح کی طاقت خدا ہی کو ہے۔   اور یہ کہ خدا سخت عذاب  کرنے والا ہے (۱۶۵) اس دن (کفر  کے) پیشوا اپنے پیرووں سے بیزاری ظاہر  کریں گے اور (دونوں) عذاب (الہیٰ) دیکھ لیں گے اور ان  کے آپس  کے تعلقات منقطع ہو جائیں گے (۱۶۶) (یہ حال دیکھ  کر) پیروی  کرنے والے (حسرت سے) کہیں گے کہ اے کاش ہمیں پھر دنیا میں جانا نصیب ہو تاکہ جس طرح یہ ہم سے بیزار ہو رہے ہیں اسی طرح ہم بھی ان سے بیزار ہوں۔   اسی طرح خدا ان  کے اعمال انہیں حسرت بنا  کر دکھائے گا اور وہ دوزخ سے نکل نہیں سکیں گے (۱۶۷) لوگو جو چیزیں زمین میں حلال طیب ہیں وہ کھاؤ۔  اور شیطان  کے قدموں پر نہ چلو۔  وہ تمہارا کھلا دشمن ہے (۱۶۸) وہ تو تم کو برائی اور بے حیائی ہی  کے کام  کرنے کو کہتا ہے اور یہ بھی کہ خدا کی نسبت ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں (کچھ بھی) علم نہیں (۱۶۹) اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو (کتاب) خدا نے نازل فرمائی ہے اس کی پیروی  کرو تو کہتے ہیں (نہیں) بلکہ ہم تو اسی چیز کی پیروی  کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا۔  بھلا اگرچہ ان  کے باپ دادا نہ کچھ سمجھتے ہوں اورنہ سیدھے رستے پر ہوں (تب بھی وہ انہیں کی تقلید کئے جائیں گے) (۱۷۰) جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز  کے سوا کچھ سن نہ سکے۔   (یہ) بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں کہ (کچھ) سمجھ ہی نہیں سکتے (۱۷۱) اے اہل ایمان جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائیں ہیں ان کو کھاؤ اور اگر خدا ہی  کے بندے ہو تو اس (کی نعمتوں) کا شکر بھی ادا  کرو (۱۷۲) اس نے تم پر مرا ہوا جانور اور لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا  کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام  کر دیا ہے ہاں جو ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) خدا کی نافرمانی نہ  کرے اور حد (ضرورت) سے باہر نہ نکل جائے اس پر کچھ گناہ نہیں۔   بے شک خدا بخشنے والا (اور) رحم  کرنے والا ہے (۱۷۳) جو لوگ (خدا) کی کتاب سے ان (آیتوں اور ہدایتوں) کو جو اس نے نازل فرمائی ہیں چھپاتے اور ان  کے بدلے تھوڑی سی قیمت (یعنی دنیاوی منفعت)حاصل  کرتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں محض آگ بھرتے ہیں۔   ایسے لوگوں سے خدا قیامت  کے دن نہ کلام  کرے گا اور نہ ان کو (گنا ہوں سے) پاک  کرے گا۔ اور ان  کے لئے دکھ دینے والا عذاب ہے (۱۷۴) یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت چھوڑ  کر گمراہی اور بخشش چھوڑ  کر عذاب خریدا۔  یہ (آتش) جہنم کی کیسی برداشت  کرنے والے ہیں ! (۱۷۵) یہ اس لئے کہ خدا نے کتاب سچائی  کے ساتھ نازل فرمائی۔  اور جن لوگوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا وہ ضد میں (آ  کر نیکی سے) دور (ہو گئے) ہیں (۱۷۶) نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کو (قبلہ سمجھ  کر ان) کی طرف منہ  کر لو بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ خدا پر اور روز آخرت پر اور فرشتوں پر اور (خدا کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں۔   اور مال باوجود عزیز رکھنے  کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں (کے چھڑانے) میں (خرچ  کریں) اور نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں۔   اور جب عہد  کر لیں تو اس کو پورا  کریں۔   اور سختی اور تکلیف میں اور (معرکہ) کار زار  کے وقت ثابت قدم رہیں۔   یہی لوگ ہیں جو (ایمان میں) سچے ہیں اور یہی ہیں جو (خدا سے) ڈرنے والے ہیں (۱۷۷) مومنو! تم کو مقتولوں  کے بارے میں قصاص (یعنی خون  کے بدلے خون) کا حکم دیا جاتا ہے (اس طرح پر کہ)آزاد  کے بدلے آزاد (مارا جائے) اور غلام  کے بدلے غلام اور عورت  کے بدلے عورت اور قاتل کو اس  کے (مقتول) بھائی (کے قصاص میں) سے کچھ معاف  کر دیا جائے تو (وارث مقتول) کو پسندیدہ طریق سے (قرار داد کی) پیروی (یعنی مطالبۂ خون بہا)  کرنا اور (قاتل کو) خوش خوئی  کے ساتھ ادا  کرنا چاہیئے یہ پروردگار کی طرف سے تمہارے لئے آسانی اور مہربانی ہے جو اس  کے بعد زیادتی  کرے اس  کے لئے دکھ کا عذاب ہے (۱۷۸) اور اے اہل عقل (حکم) قصاص میں (تمہاری) زندگانی ہے کہ تم (قتل و خونریزی سے) بچو (۱۷۹) تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آ جائے تو اگر وہ کچھ مال چھوڑ جانے والا ہو تو ماں با پ اور رشتہ داروں  کے لئے دستور  کے مطابق وصیت  کر جائے (خدا سے) ڈر نے والوں پر یہ ایک حق ہے (۱۸۰) جو شخص وصیت کو سننے  کے بعد بدل ڈالے تو اس (کے بدلنے) کا گناہ انہیں لوگوں پر ہے جو اس کو بدلیں۔   اور بے شک خدا سنتا جانتا ہے (۱۸۱) اگر کسی کو وصیت  کرنے والے کی طرف سے (کسی وارث کی) طرفداری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو تو اگر وہ (وصیت کو بدل  کر) وارثوں میں صلح  کرا دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔   بے شک خدا بخشنے والا (اور) رحم والا ہے (۱۸۲) مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں۔   جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو (۱۸۳) (روزوں  کے دن) گنتی  کے چند روز ہیں تو جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزوں کا شمار پورا  کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھیں (لیکن رکھیں نہیں) وہ روزے  کے بدلے محتاج کو کھانا کھلا دیں اور جو کوئی شوق سے نیکی  کرے تو اس  کے حق میں زیادہ اچھا ہے۔   اور اگر سمجھو تو روزہ رکھنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے (۱۸۴) (روزوں کا مہینہ) رمضان کا مہینہ (ہے) جس میں قرآن (اول اول) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل کو) الگ الگ  کرنے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو چاہیئے کہ پورے مہینے  کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں (رکھ  کر) ان کا شمار پورا  کر لے۔   خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا اور (یہ آسانی کا حکم) اس لئے (دیا گیا ہے) کہ تم روزوں کا شمار پورا  کر لو اور اس احسان  کے بدلے کہ خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد  کرو اور اس کا شکر  کرو (۱۸۵) اور (اے پیغمبر) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت  کریں تو (کہہ دو کہ) میں تو (تمہارے) پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول  کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک رستہ پائیں (۱۸۶) روزوں کی را توں میں تمہارے لئے اپنی عور توں  کے پاس جانا  کر دیا گیا ہے وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو خدا کو معلوم ہے کہ تم (ان  کے پاس جانے سے) اپنے حق میں خیانت  کرتے تھے سو اس نے تم پر مہربانی کی اور تمہاری حرکات سے درگزر فرمائی۔ اب (تم کو اختیار ہے کہ) ان سے مباشرت  کرو۔  اور خدا نے جو چیز تمہارے لئے لکھ رکھی ہے (یعنی اولاد) اس کو (خدا سے) طلب  کرو اور کھاؤ پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے۔   پھر روزہ (رکھ  کر) رات تک پورا  کرو اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو ان سے مباشرت نہ  کرو۔  یہ خدا کی حدیں ہیں ان  کے پاس نہ جانا۔  اسی طرح خدا اپنی آیتیں لوگوں  کے (سمجھانے  کے) لئے کھول کھول  کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیزگار بنیں (۱۸۷) اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ اس کو (رشوۃً) حاکموں  کے پاس پہنچاؤ تاکہ لوگوں  کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر کھا جاؤ اور (اسے) تم جانتے بھی ہو (۱۸۸) (اے محمدﷺ) لوگ تم سے نئے چاند  کے بارے میں دریافت  کرتے ہیں (کہ گھٹتا بڑھتا کیوں ہے) کہہ دو کہ وہ لوگوں  کے (کاموں کی میعادیں) اور حج  کے وقت معلوم ہونے کا ذریعہ ہے اور نیکی اس بات میں نہیں کہ (احرام کی حالت میں) گھروں میں ان  کے پچھواڑے کی طرف سے آؤ۔  بلکہ نیکو کار وہ ہے جو پرہیز گار ہو اور گھروں میں ان  کے دروازوں سے آیا  کرو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ نجات پاؤ (۱۸۹) اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی خدا کی راہ میں ان سے لڑو مگر زیادتی نہ  کرنا کہ خدا زیادتی  کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا (۱۹۰) اور ان کو جہاں پاؤ قتل  کر دو اور جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے (یعنی م کے سے) وہاں سے تم بھی ان کو نکال دو۔  اور (دین سے گمراہ  کرنے کا) فساد قتل وخونریزی سے کہیں بڑھ  کر ہے اور جب تک وہ تم سے مسجد محترم (یعنی خانہ کعبہ)  کے پاس نہ لڑیں تم بھی وہاں ان سے نہ لڑنا۔  ہاں اگر وہ تم سے لڑیں تو تم ان کو قتل  کر ڈالو۔  کافروں کی یہی سزا ہے (۱۹۱) اور اگر وہ باز آ جائیں تو خدا بخشنے والا (اور) رحم  کرنے والا ہے (۱۹۲) اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہنا کہ فساد نابود ہو جائے اور (ملک میں) خدا ہی کا دین ہو جائے اور اگر وہ (فساد سے) باز آ جائیں تو ظالموں  کے سوا کسی پر زیادتی نہیں (کرنی چاہیئے) (۱۹۳) ادب کا مہینہ ادب  کے مہینے  کے مقابل ہے اور ادب کی چیزیں ایک دوسرے کا بدلہ ہیں۔   پس اگر کوئی تم پر زیادتی  کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر  کرے ویسی ہی تم اس پر  کرو۔  اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا ڈرنے والوں  کے ساتھ ہے (۱۹۴) اور خدا کی راہ میں (مال) خرچ  کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی  کرو بے شک خدا نیکی  کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے (۱۹۵) اور خدا (کی خوشنودی)  کے لئے حج اور عمرے کو پورا  کرو۔  اور اگر (راستے میں) روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کر دو) اور جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے سر نہ منڈاؤ۔  اور اگر کوئی تم میں بیمار ہو یا اس  کے سر میں کسی طرح کی تکلیف ہو تو (اگر وہ سر منڈا لے تو) اس  کے بدلے روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی  کرے پھر جب (تکلیف دور ہو  کر) تم مطمئن ہو جاؤ تو جو (تم میں) حج  کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے وہ جیسی قربانی میسر ہو  کرے۔   اور جس کو (قربانی) نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو۔  یہ پورے دس ہوئے۔   یہ حکم اس شخص  کے لئے ہے جس  کے اہل و عیال مکے میں نہ رہتے ہوں اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے (۱۹۶) حج  کے مہینے (معین ہیں جو) معلوم ہیں تو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت  کر لے تو حج (کے دنوں) میں نہ عور توں سے اختلاط  کرے نہ کوئی برا کام  کرے نہ کسی سے جھگڑے۔   اور جو نیک کام تم  کرو گے وہ خدا کو معلوم ہو جائے گا اور زاد راہ (یعنی رستے کا خرچ) ساتھ لے جاؤ کیونکہ بہتر (فائدہ) زاد راہ (کا) پرہیزگاری ہے اور اے اہل عقل مجھ سے ڈرتے رہو (۱۹۷) اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ (حج  کے دنوں میں بذریعہ تجارت) اپنے پروردگار سے روزی طلب  کرو اور جب عرفات سے واپس ہونے لگو تو مشعر حرام (یعنی مزدلفے) میں خدا کا ذکر  کرو اور اس طرح ذکر  کرو جس طرح اس نے تم کو سکھایا۔  اور اس سے پیشتر تم لوگ (ان طریقوں سے) محض ناواقف تھے (۱۹۸) پھر جہاں سے اور لوگ واپس ہوں وہیں سے تم بھی واپس ہو اور خدا سے بخشش مانگو۔  بے شک خدا بخشنے والا اور رحمت  کرنے والا ہے (۱۹۹) پھر جب حج  کے تمام ارکان پورے  کر چکو تو (منیٰ میں) خدا کو یاد  کرو۔  جس طرح اپنے باپ دادا کو یاد کیا  کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور بعض لوگ ایسے ہیں جو (خدا سے) التجا  کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو (جو دنیا ہے) دنیا ہی میں عنایت  کر ایسے لوگوں کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں (۲۰۰) اور بعضے ایسے ہیں کہ دعا  کرتے ہیں کہ پروردگار ہم کو دنیا میں بھی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھی نعمت بخشیو اور دوزخ  کے عذاب سے محفوظ رکھیو (۲۰۱) یہی لوگ ہیں جن  کے لئے ان  کے کاموں کا حصہ (یعنی اجر نیک تیار) ہے اور خدا جلد حساب لینے والا (اور جلد اجر دینے والا) ہے (۲۰۲) اور (قیام منیٰ  کے) دنوں میں (جو) گنتی  کے (دن میں) خدا کو یاد  کرو۔  اگر کوئی جلدی  کرے (اور) دو ہی دن میں (چل دے) تو اس پر بھی کچھ گناہ نہیں۔   اور جو بعد تک ٹھہرا رہے اس پر بھی کچھ گناہ نہیں۔   یہ باتیں اس شخص  کے لئے ہیں جو (خدا سے) ڈرے اور تم لوگ خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تم سب اس  کے پاس جمع کئے جاؤ گے۔   (۲۰۳) اور کوئی شخص تو ایسا ہے جس کی گفتگو دنیا کی زندگی میں تم کو دلکش معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنی مانی الضمیر پر خدا کو گواہ بناتا ہے حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے (۲۰۴) اور جب پیٹھ پھیر  کر چلا جاتا ہے تو زمین میں دوڑتا پھرتا ہے تاکہ اس میں فتنہ انگیزی  کرے اور کھیتی کو (برباد) اور (انسانوں اور حیوانوں کی) نسل کو نابود  کر دے اور خدا فتنہ انگیزی کو پسند نہیں  کرتا (۲۰۵) اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ خدا سے خوف  کر تو غرور اس کو گناہ میں پھنسا دیتا ہے۔   سو ایسے کو جہنم سزاوار ہے۔   اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے (۲۰۶) اور کوئی شخص ایسا ہے کہ خدا کی خوشنودی حاصل  کرنے  کے لئے اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور خدا بندوں پر بہت مہربان ہے (۲۰۷) مومنو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان  کے پیچھے نہ چلو وہ تو تمہارا صریح دشمن ہے (۲۰۸) پھر اگر تم احکام روشن پہنچ جانے  کے بعد لڑکھڑا جاؤ تو جان جاؤ کہ خدا غالب (اور) حکمت والا ہے (۲۰۹) کیا یہ لوگ اسی بات  کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا (کا عذاب) بادل  کے سائبانوں میں آ نازل ہو اور فرشتے بھی (اتر آئیں) اور کام تمام  کر دیا جائے اور سب کاموں کا رجوع خدا ہی کی طرف ہے (۲۱۰) (اے محمد) بنی اسرائیل سے پوچھو کہ ہم نے ان کو کتنی کھلی نشانیاں دیں۔   اور جو شخص خدا کی نعمت کو اپنے پاس آنے  کے بعد بدل دے تو خدا سخت عذاب  کرنے والا ہے (۲۱۱) اور جو کافر ہیں ان  کے لئے دنیا کی زندگی خوشنما  کر دی گئی ہے اور وہ مومنوں سے تمسخر  کرتے ہیں لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت  کے دن ان پر غالب ہوں گے اور خدا جس کو چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے (۲۱۲) (پہلے تو سب) لوگوں کا ایک ہی مذہب تھا (لیکن وہ آپس میں اختلاف  کرنے لگے) تو خدا نے (ان کی طرف) بشارت دینے والے اور ڈر سنانے والے پیغمبر بھیجے اور ان پر سچائی  کے ساتھ کتابیں نازل کیں تاکہ جن امور میں لوگ اختلاف  کرتے تھے ان کا ان میں فیصلہ  کر دے۔   اور اس میں اختلاف بھی انہیں لوگوں نے کیا جن کو کتاب دی گئی تھی باوجود یہ کہ ان  کے پاس کھلے ہوئے احکام آ چکے تھے (اور یہ اختلاف انہوں نے صرف) آپس کی ضد سے (کیا) تو جس امر حق میں وہ اختلاف  کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھا دی۔  اور خدا جس کو چاہتا ہے سیدھا رستہ دکھا دیتا ہے (۲۱۳) کیا تم یہ خیال  کرتے ہو کہ (یوں ہی) بہشت میں داخل ہو جاؤ گے اور ابھی تم کو پہلے لوگوں کی سی (مشکلیں) تو پیش آئی ہی نہیں۔   ان کو (بڑی بڑی) سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ (صعوبتوں میں) ہلا ہلا دیئے گئے۔   یہاں تک کہ پیغمبر اور مومن لوگ جو ان  کے ساتھ تھے سب پکار اٹھے کہ کب خدا کی مد د آئے گی۔   دیکھو خدا کی مد د (عن) قریب (آیا چاہتی) ہے (۲۱۴) (اے محمدﷺ) لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ (خدا کی راہ میں) کس طرح کا مال خرچ  کریں۔   کہہ دو کہ (جو چا ہو خرچ  کرو لیکن) جو مال خرچ  کرنا چا ہو وہ (درجہ بدرجہ اہل استحقاق یعنی) ماں باپ اور قریب  کے رشتے داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور مسافروں کو (سب کو دو) اور جو بھلائی تم  کرو گے خدا اس کو جانتا ہے (۲۱۵) (مسلمانو) تم پر (خدا  کے رستے میں) لڑنا فرض  کر دیا گیا ہے وہ تمہیں ناگوار تو ہو گا مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے مضر ہو۔  اور ان با توں کو) خدا ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے (۲۱۶) (اے محمدﷺ) لوگ تم سے عزت والے مہینوں میں لڑائی  کرنے  کے بارے میں دریافت  کرتے ہیں کہہ دو کہ ان میں لڑنا بڑا (گناہ) ہے اور خدا کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر  کرنا اور مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ میں جانے) سے (بند  کرنا)۔  اور اہل مسجد کو اس میں سے نکال دینا (جو یہ کفار  کرتے ہیں) خدا  کے نزدیک اس سے بھی زیادہ (گناہ) ہے۔   اور فتنہ انگیزی خونریزی سے بھی بڑھ  کر ہے۔   اور یہ لوگ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر مقدور رکھیں تو تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں۔   اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر  کر (کافر ہو) جائے گا اور کافر ہی مرے گا تو ایسے لوگوں  کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہو جائیں گے اور یہی لوگ دوزخ (میں جانے) والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے (۲۱۷) جو لوگ ایمان لائے اور خدا  کے لئے وطن چھوڑ گئے اور (کفار سے) جنگ  کرتے رہے وہی خدا کی رحمت  کے امیدوار ہیں۔   اور خدا بخشنے والا (اور) رحمت  کرنے والا ہے (۲۱۸) (اے پیغمبر) لوگ تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت  کرتے ہیں۔   کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں  کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں مگر ان  کے نقصان فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ (خدا کی راہ میں) کون سا مال خرچ  کریں۔   کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو۔  اس طرح خدا تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول  کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو (۲۱۹) (یعنی) دنیا اور آخرت (کی با توں) میں (غور  کرو)۔  اور تم سے یتیموں  کے بارے میں دریافت  کرتے ہیں کہہ دو کہ ان کی (حالت کی) اصلاح بہت اچھا کام ہے۔   اور اگر تم ان سے مل جل  کر رہنا (یعنی خرچ اکھٹا رکھنا) چا ہو تو وہ تمہارے بھائی ہیں اور خدا خوب جانتا ہے کہ خرابی  کرنے والا کون ہے اور اصلاح  کرنے والا کون۔  اور اگر خدا چاہتا تو تم کو تکلیف میں ڈال دیتا۔ بے شک خدا غالب (اور) حکمت والا ہے (۲۲۰) اور (مومنو) مشرک عور توں سے جب تک کہ ایمان نہ لائیں نکاح نہ  کرنا۔  کیونکہ مشرک عورت خواہ تم کو کیسی ہی بھلی لگے اس سے مومن لونڈی بہتر ہے۔   اور (اسی طرح) مشرک مرد جب تک ایمان نہ لائیں مومن عور توں کو ان کو زوجیت میں نہ دینا کیونکہ مشرک (مرد) سے خواہ وہ تم کو کیسا ہی بھلا لگے مومن غلام بہتر ہے۔   یہ (مشرک لوگوں کو) دوزخ کی طرف بلاتے ہیں۔   اور خدا اپنی مہربانی سے بہشت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے۔   اور اپنے حکم لوگوں سے کھول کھول  کر بیان  کرتا ہے تاکہ نصیحت حاصل  کریں (۲۲۱) اور تم سے حیض  کے بارے میں دریافت  کرتے ہیں۔   کہہ دو کہ وہ تو نجاست ہے۔   سو ایام حیض میں عور توں سے کنارہ کش رہو۔  اور جب تک پاک نہ ہو جائیں ان سے مقاربت نہ  کرو۔  ہاں جب پاک ہو جائیں تو جس طریق سے خدا نے ارشاد فرمایا ہے ان  کے پاس جاؤ۔  کچھ شک نہیں کہ خدا توبہ  کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے (۲۲۲) تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چا ہو جاؤ۔  اور اپنے لئے (نیک عمل) آگے بھیجو۔  اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ (ایک دن) تمہیں اس  کے روبرو حاضر ہونا ہے اور (اے پیغمبر) ایمان والوں کو بشارت سنا دو (۲۲۳) اور خدا (کے نام کو) اس بات کا حیلہ نہ بنانا کہ (اس کی) قسمیں کھا کھا  کر سلوک  کرنے اور پرہیزگاری  کرنے اور لوگوں میں صلح و سازگاری  کرانے سے رک جاؤ۔  اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے (۲۲۴) خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہ  کرے گا۔  لیکن جو قسمیں تم قصد دلی سے کھاؤ گے ان پر مواخذہ  کرے گا۔  اور خدا بخشنے والا بردبار ہے (۲۲۵) جو لوگ اپنی عور توں  کے پاس جانے سے قسم کھالیں ان کو چار مہینے تک انتظار  کرنا چاہیئے۔   اگر (اس عرصے میں قسم سے) رجوع  کر لیں تو خدا بخشنے والا مہربان ہے (۲۲۶) اور اگر طلاق کا ارادہ  کر لیں تو بھی خدا سنتا (اور) جانتا ہے (۲۲۷) اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنی تئیں رو کے رہیں۔   اور اگر وہ خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کا جائز نہیں کہ خدا نے جو کچھ ان  کے شکم میں پیدا کیا ہے اس کو چھپائیں۔   اور ان  کے خاوند اگر پھر موافقت چاہیں تو اس (مدت) میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے  کے زیادہ حقدار ہیں۔   اور عور توں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور  کے مطابق (مردوں کا حق) عور توں پر ہے۔   البتہ مردوں کو عور توں پر فضیلت ہے۔   اور خدا غالب (اور) صاحب حکمت ہے (۲۲۸) طلاق (صرف) دو بار ہے (یعنی جب دو دفعہ طلاق دے دی جائے تو) پھر (عور توں کو) یا تو بطریق شائستہ (نکاح میں) رہنے دینا یا بھلائی  کے ساتھ چھوڑ دینا۔  اور یہ جائز نہیں کہ جو مہر تم ان کو دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لے لو۔  ہاں اگر زن و شوہر کو خوف ہو کہ وہ خدا کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت (خاوند  کے ہاتھ سے) رہائی پانے  کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں۔   یہ خدا کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں ان سے باہر نہ نکلنا۔  اور جو لوگ خدا کی حدوں سے باہر نکل جائیں گے وہ گنہگار ہوں گے (۲۲۹) پھر اگر شوہر (دو طلاقوں  کے بعد تیسری) طلاق عورت کو دے دے تو اس  کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ  کر لے اس (پہلے شوہر) پر حلال نہ ہو گی۔  ہاں اگر دوسرا خاوند بھی طلاق دے دے اور عورت اور پہلا خاوند پھر ایک دوسرے کی طرف رجوع  کر لیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ دونوں یقین  کریں کہ خدا کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ خدا کی حدیں ہیں ان کو وہ ان لوگوں  کے لئے بیان فرماتا ہے جو دانش رکھتے ہیں (۲۳۰) اور جب تم عور توں کو (دو دفعہ) طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو انہیں یا تو حسن سلوک سے نکاح میں رہنے دو یا بطریق شائستہ رخصت  کر دو اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہئے کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی  کرو۔  اور جو ایسا  کرے گا وہ اپنا ہی نقصان  کرے گا اور خدا  کے احکام کو ہنسی (اور کھیل) نہ بناؤ اور خدا نے تم کو جو نعمتیں بخشی ہیں اور تم پر جو کتاب اور دانائی کی باتیں نازل کی ہیں جن سے وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے ان کو یاد  کرو۔  اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا ہر چیز سے واقف ہے (۲۳۱) اور جب تم عور توں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو ان کو دوسرے شوہروں  کے ساتھ جب وہ آپس میں جائز طور پر راضی ہو جائیں نکاح  کرنے سے مت روکو۔  اس (حکم) سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں خدا اور روز آخرت پر یقین رکھتا ہے۔   یہ تمہارے لئے نہایت خوب اور بہت پاکیزگی کی بات ہے اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے (۲۳۲) اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص  کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔   اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور  کے مطابق باپ  کے ذمے ہو گا۔  کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی (تو یاد رکھو کہ) نہ تو ماں کو اس  کے بچے  کے سبب نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور اسی طرح (نان نفقہ) بچے  کے وارث  کے ذمے ہے۔   اور اگر دونوں (یعنی ماں باپ) آپس کی رضامندی اور صلاح سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔   اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چا ہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ تم دودھ پلانے والیوں کو دستور  کے مطابق ان کا حق جو تم نے دینا کیا تھا دے دو اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم  کرتے ہو خدا اس کو دیکھ رہا ہے (۲۳۳) اور جو لوگ تم میں سے مر جائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں تو عورتیں چار مہینے دس دن اپنے آپ کو رو کے رہیں۔   اور جب (یہ) عدت پوری  کر چکیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام (یعنی نکاح)  کر لیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔   اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے (۲۳۴) اور اگر تم کنائے کی با توں میں عور توں کو نکاح کا پیغام بھیجو یا (نکاح کی خواہش کو) اپنے دلوں میں مخفی رکھو تو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔   خدا کو معلوم ہے کہ تم ان سے (نکاح کا) ذکر  کرو گے۔   مگر (ایام عدت میں) اس  کے سوا کہ دستور  کے مطابق کوئی بات کہہ دو پوشیدہ طور پر ان سے قول واقرار نہ  کرنا۔  اور جب تک عدت پوری نہ ہولے نکاح کا پختہ ارادہ نہ  کرنا۔  اور جان رکھو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے تو اس سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا بخشنے والا اور حلم والا ہے (۲۳۵) اور اگر تم عور توں کو ان  کے پاس جانے یا ان کا مہر مقرر  کرنے سے پہلے طلاق دے دو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔   ہاں ان کو دستور  کے مطابق کچھ خرچ ضرور دو (یعنی) مقدور والا اپنے مقدور  کے مطابق دے اور تنگدست اپنی حیثیت  کے مطابق۔  نیک لوگوں پر یہ ایک طرح کا حق ہے (۲۳۶) اور اگر تم عور توں کو ان  کے پاس جانے سے پہلے طلاق دے دو لیکن مہر مقرر  کر چکے ہو تو آدھا مہر دینا ہو گا۔  ہاں اگر عورتیں مہر بخش دیں یا مرد جن  کے ہاتھ میں عقد نکاح ہے (اپنا حق) چھوڑ دیں۔   (اور پورا مہر دے دیں تو ان کو اختیار ہے) اور اگر تم مرد لوگ اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیزگاری کی بات ہے۔   اور آپس میں بھلائی  کرنے کو فراموش نہ  کرنا۔  کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے (۲۳۷) (مسلمانو) سب نمازیں خصوصاً بیچ کی نماز (یعنی نماز عصر) پورے التزام  کے ساتھ ادا  کرتے رہو۔  اور خدا  کے آگے ادب سے کھڑے رہا  کرو (۲۳۸) اگر تم خوف کی حالت میں ہو تو پیادے یا سوار (جس حال میں ہو نماز پڑھ لو) پھر جب امن (و اطمینان) ہو جائے تو جس طریق سے خدا نے تم کو سکھایا ہے جو تم پہلے نہیں جانتے تھے خدا کو یاد  کرو (۲۳۹) اور جو لوگ تم میں سے مر جائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں وہ اپنی عور توں  کے حق میں وصیت  کر جائیں کہ ان کو ایک سال تک خرچ دیا جائے اور گھر سے نہ نکالی جائیں۔   ہاں اگر وہ خود گھر سے نکل جائیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام (یعنی نکاح)  کر لیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔   اور خدا زبردست حکمت والا ہے (۲۴۰) اور مطلقہ عور توں کو بھی دستور  کے مطابق نان و نفقہ دینا چاہیئے پرہیزگاروں پر (یہ بھی) حق ہے (۲۴۱) اسی طرح خدا اپنے احکام تمہارے لئے بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو (۲۴۲) بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو (شمار میں) ہزاروں ہی تھے اور موت  کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل بھاگے تھے۔   تو خدا نے ان کو حکم دیا کہ مر جاؤ۔  پھر ان کو زندہ بھی  کر دیا۔  کچھ شک نہیں کہ خدا لوگوں پر مہربانی رکھتا ہے۔   لیکن اکثر لوگ شکر نہیں  کرتے (۲۴۳) اور (مسلمانو) خدا کی راہ میں جہاد  کرو اور جان رکھو کہ خدا (سب کچھ) جانتا ہے (۲۴۴) کوئی ہے کہ خدا کو قرض حسنہ دے کہ وہ اس  کے بدلے اس کو کئی حصے زیادہ دے گا۔  اور خدا ہی روزی کو تنگ  کرتا اور (وہی اسے) کشادہ  کرتا ہے۔   اور تم اسی کی طرف لوٹ  کر جاؤ گے (۲۴۵) بھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا جس نے موسیٰ  کے بعد اپنے پیغمبر سے کہا کہ آپ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر  کر دیں تاکہ ہم خدا کی راہ میں جہاد  کریں۔   پیغمبر نے کہا کہ اگر تم کو جہاد کا حکم دیا جائے تو عجب نہیں کہ لڑنے سے پہلو تہی  کرو۔  وہ کہنے لگے کہ ہم راہ خدا میں کیوں نہ لڑیں گے جب کہ ہم وطن سے (خارج) اور بال بچوں سے جدا  کر دیئے گئے۔   لیکن جب ان کو جہاد کا حکم دیا گیا تو چند اشخاص  کے سوا سب پھر گئے۔   اور خدا ظالموں سے خوب واقف ہے (۲۴۶) اور پیغمبر نے ان سے (یہ بھی) کہا کہ خدا نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا ہے۔   وہ بولے کہ اسے ہم پر بادشاہی کا حق کیوں کر ہو سکتا ہے بادشاہی  کے مستحق تو ہم ہیں اور اس  کے پاس تو بہت سی دولت بھی نہیں۔   پیغمبر نے کہا کہ خدا نے اس کو تم پر فضیلت دی ہے اور (بادشاہی  کے لئے) منتخب فرمایا ہے اس نے اسے علم بھی بہت سا بخشا ہے اور تن و توش بھی (بڑا عطا کیا ہے) اور خدا (کو اختیار ہے) جسے چاہے بادشاہی بخشے۔   وہ بڑا کشائش والا اور دانا ہے (۲۴۷) اور پیغمبر نے ان سے کہا کہ ان کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس ایک صندوق آئے گا جس کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تسلی (بخشنے والی چیز) ہو گی اور کچھ اور چیزیں بھی ہوں گی جو موسیٰ اور ہارون چھوڑ گئے تھے۔   اگر تم ایمان رکھتے ہو تو یہ تمہارے لئے ایک بڑی نشانی ہے (۲۴۸) غرض جب طالوت فوجیں لے  کر روانہ ہوا تو اس نے (ان سے) کہا کہ خدا ایک نہر سے تمہاری آزمائش  کرنے والا ہے۔   جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا (اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ) وہ میرا نہیں۔   اور جو نہ پئے گا وہ (سمجھا جائے گا کہ) میرا ہے۔   ہاں اگر کوئی ہاتھ سے چلو بھر پانی پی لے (تو خیر۔  جب وہ لوگ نہر پر پہنچے) تو چند شخصوں  کے سوا سب نے پانی پی لیا۔  پھر جب طالوت اور مومن لوگ جو اس  کے ساتھ تھے نہر  کے پار ہو گئے۔   تو کہنے لگے کہ آج ہم میں جالوت اور اس  کے لشکر سے مقابلہ  کرنے کی طاقت نہیں۔   جو لوگ یقین رکھتے تھے کہ ان کو خدا  کے روبرو حاضر ہونا ہے وہ کہنے لگے کہ بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے خدا  کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے اور خدا استقلال رکھنے والوں  کے ساتھ ہے (۲۴۹) اور جب وہ لوگ جالوت اور اس  کے لشکر  کے مقابل آئے تو (خدا سے) دعا کی کہ اے پروردگار ہم پر صبر  کے دہانے کھول دے اور ہمیں (لڑائی میں) ثابت قدم رکھ اور (لشکر) کفار پر فتحیاب  کر (۲۵۰) تو طالوت کی فوج نے خدا  کے حکم سے ان کو ہزیمت دی۔  اور داؤد نے جالوت کو قتل  کر ڈالا۔  اور خدا نے اس کو بادشاہی اور دانائی بخشی اور جو کچھ چاہا سکھایا۔  اور خدا لوگوں کو ایک دوسرے (پر چڑھائی اور حملہ  کرنے) سے ہٹاتا نہ رہتا تو ملک تباہ ہو جاتا لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہربان ہے (۲۵۱) یہ خدا کی آیتیں ہیں جو ہم تم کو سچائی  کے ساتھ پڑھ  کر سناتے ہیں (اور اے محمدﷺ) تم بلاشبہ پیغمبروں میں سے ہو (۲۵۲) یہ پیغمبر (جو ہم وقتاً فوقتاً بھیجتے رہیں ہیں) ان میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔   بعض ایسے ہیں جن سے خدا نے گفتگو فرمائی اور بعض  کے (دوسرے امور میں) مرتبے بلند کئے۔   اور عیسیٰ بن مریم کو ہم نے کھلی ہوئی نشانیاں عطا کیں اور روح القدس سے ان کو مد د دی۔  اور اگر خدا چاہتا تو ان سے پچھلے لوگ اپنے پاس کھلی نشانیاں آنے  کے بعد آپس میں نہ لڑتے لیکن انہوں نے اختلاف کیا تو ان میں سے بعض تو ایمان لے آئے اور بعض کافر ہی رہے۔   اور اگر خدا چاہتا تو یہ لوگ باہم جنگ و قتال نہ  کرتے۔   لیکن خدا جو چاہتا ہے  کرتا ہے (۲۵۳) اے ایمان والو جو (مال) ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے اس دن  کے آنے سے پہلے پہلے خرچ  کر لو جس میں نہ (اعمال کا) سودا ہو اور نہ دوستی اور سفارش ہو سکے اور کفر  کرنے والے لوگ ظالم ہیں (۲۵۴) خدا (وہ معبود برحق ہے کہ) اس  کے سوا کوئی عبادت  کے لائق نہیں زندہ ہمیشہ رہنے والا اسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہیں سب اسی کا ہے کون ہے جو اس کی اجازت  کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش  کر سکے جو کچھ لوگوں  کے روبرو ہو رہا ہے اور جو کچھ ان  کے پیچھے ہو چکا ہے اسے سب معلوم ہے اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں  کر سکتے ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے (اسی قدر معلوم  کرا دیتا ہے) اس کی بادشاہی (اور علم) آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے اور اسے ان کی حفاظت کچھ بھی دشوار نہیں وہ بڑا عالی رتبہ اور جلیل القدر ہے (۲۵۵) دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے ہدایت (صاف طور پر ظاہر اور) گمراہی سے الگ ہو چکی ہے تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور خدا پر ایمان لائے اس نے ایسی مضبوط رسی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں اور خدا (سب کچھ) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے (۲۵۶) جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کا دوست خدا ہے کہ اُن کو اندھیرے سے نکال  کر روشنی میں لے جاتا ہے اور جو کافر ہیں ان  کے دوست شیطان ہیں کہ ان کو روشنی سے نکال  کر اندھیرے میں لے جاتے ہیں یہی لوگ اہل دوزخ ہیں کہ اس میں ہمیشہ رہیں گے (۲۵۷) بھلا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس (غرور  کے) سبب سے کہ خدا نے اس کو سلطنت بخشی تھی ابراہیم سے پروردگار  کے بارے میں جھگڑنے لگا۔  جب ابراہیم نے کہا میرا پروردگار تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے۔   وہ بولا کہ جلا اور مار تو میں بھی سکتا ہوں۔   ابراہیم نے کہا کہ خدا تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے آپ اسے مغرب سے نکال دیجیئے (یہ سن  کر) کافر حیران رہ گیا اور خدا بے انصافوں کو ہدایت نہیں دیا  کرتا (۲۵۸) یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جسے ایک گاؤں میں جو اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا اتفاق سے گزر ہوا۔  تو اس نے کہا کہ خدا اس (کے باشندوں) کو مرنے  کے بعد کیوں کر زندہ  کرے گا۔  تو خدا نے اس کی روح قبض  کر لی (اور) سو برس تک (اس کو مردہ رکھا) پھر اس کو جلا اٹھایا اور پوچھا تم کتنا عرصہ (مرے)رہے ہو اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔  خدا نے فرمایا (نہیں) بلکہ سو برس (مرے) رہے ہو۔  اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ (اتنی مدت میں مطلق) سڑی بسی نہیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو (جو مرا پڑا ہے) غرض (ان با توں سے) یہ ہے کہ ہم تم کو لوگوں  کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنائیں اور (ہاں گدھے) کی ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیوں کر جوڑے دیتے اور ان پر (کس طرح) گوشت پوست چڑھا دیتے ہیں۔   جب یہ واقعات اس  کے مشاہدے میں آئے تو بول اٹھا کہ میں یقین  کرتا ہوں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے (۲۵۹) اور جب ابراہیم نے (خدا سے) کہا کہ اے پروردگار مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیوں کر زندہ  کرے گا۔  خدا نے فرمایا کیا تم نے (اس بات کو) باور نہیں کیا۔  انہوں نے کہا کیوں نہیں۔   لیکن (میں دیکھنا) اس لئے (چاہتا ہوں) کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل  کر لے۔   خدا نے فرمایا کہ چار جانور پکڑوا  کر اپنے پاس منگا لو (اور ٹکڑے ٹکڑے  کرا دو) پھر ان کا ایک ٹکڑا ہر ایک پہاڑ پر رکھوا دو پھر ان کو بلاؤ تو وہ تمہارے پاس دوڑتے چلے آئیں گے۔   اور جان رکھو کہ خدا غالب اور صاحب حکمت ہے۔   (۲۶۰) جو لوگ اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ  کرتے ہیں ان (کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بال میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس (کے مال) کو چاہتا ہے زیادہ  کرتا ہے۔   وہ بڑی کشائش والا اور سب کچھ جاننے والا ہے (۲۶۱) جو لوگ اپنا مال خدا  کے رستے میں صرف  کرتے ہیں پھر اس  کے بعد نہ اس خرچ کا (کسی پر) احسان رکھتے ہیں اور نہ (کسی کو) تکلیف دیتے ہیں۔   ان کا صلہ ان  کے پروردگار  کے پاس (تیار) ہے۔   اور (قیامت  کے روز) نہ ان کو کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے (۲۶۲) جس خیرات دینے  کے بعد (لینے والے کو) ایذا دی جائے اس سے تو نرم بات کہہ دینی اور (اس کی بے ادبی سے) درگزر کرنا بہتر ہے اور خدا بے پروا اور بردبار ہے (۲۶۳) مومنو! اپنے صدقات (و خیرات)احسان رکھنے اور ایذا دینے سے اس شخص کی طرح برباد نہ  کر دینا۔  جو لوگوں کو دکھاوے  کے لئے مال خرچ  کرتا ہے اور خدا اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔  تو اس (کے مال) کی مثال اس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو اور اس پر زور کا مینہ برس  کر اسے صاف  کر ڈالے۔   (اسی طرح) یہ (ریاکار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں  کر سکیں گے۔   اور خدا ایسے ناشکروں کو ہدایت نہیں دیا  کرتا (۲۶۴) اور جو لوگ خدا کی خوشنودی حاصل  کرنے  کے لئے خلوص نیت سے اپنا مال خرچ  کرتے ہیں ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو(جب) اس پر مینہ پڑے تو دگنا پھل لائے۔   اور اگر مینہ نہ بھی پڑے تو خیر پھوار ہی سہی اور خدا تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے (۲۶۵) بھلا تم میں کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو جس میں نہریں بہہ رہی ہوں اور اس میں اس  کے لئے ہر قسم  کے میوے موجود ہوں اور اسے بڑھاپا آ پکڑے اور اس  کے ننھے ننھے بچے بھی ہوں۔   تو (ناگہاں) اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولا چلے اور وہ جل  کر (راکھ کا ڈھیر ہو) جائے۔   اس طرح خدا تم سے اپنی آیتیں کھول کھول  کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو (اور سمجھو) (۲۶۶) مومنو! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہوں اور جو چیزیں ہم تمہارے لئے زمین سے نکالتے ہیں ان میں سے (راہ خدا میں) خرچ  کرو۔  اور بری اور ناپاک چیزیں دینے کا قصد نہ  کرنا کہ (اگر وہ چیزیں تمہیں دی جائیں تو) بجز اس  کے کہ (لیتے وقت) آنکھیں بند  کر لو ان کو کبھی نہ لو۔  اور جان رکھو کہ خدا بے پروا (اور) قابل ستائش ہے (۲۶۷) (اور دیکھنا) شیطان (کا کہنا نہ ماننا وہ) تمہیں تنگ دستی کا خوف دلاتا اور بے حیائی  کے کام  کر نے کو کہتا ہے۔   اور خدا تم سے اپنی بخشش اور رحمت کا وعدہ  کرتا ہے۔   اور خدا بڑی کشائش والا (اور) سب کچھ جاننے والا ہے (۲۶۸) وہ جس کو چاہتا ہے دانائی بخشتا ہے۔   اور جس کو دانائی ملی بے شک اس کو بڑی نعمت ملی۔  اور نصیحت تو وہی لوگ قبول  کرتے ہیں جو عقلمند ہیں (۲۶۹) اور تم (خدا کی راہ میں) جس طرح کا خرچ  کرو یا کوئی نذر مانو خدا اس کو جانتا ہے اور ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں (۲۷۰) اگر تم خیرات ظاہر دو تو وہ بھی خوب ہے اور اگر پوشیدہ دو اور دو بھی اہل حاجت کو تو وہ خوب تر ہے اور (اس طرح کا دینا) تمہارے گنا ہوں کو بھی دور  کر دے گا۔  اور خدا کو تمہارے سب کاموں کی خبر ہے (۲۷۱) (اے محمدﷺ) تم ان لوگوں کی ہدایت  کے ذمہ دار نہیں ہو بلکہ خدا ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے۔   اور (مومنو) تم جو مال خرچ  کرو گے تو اس کا فائدہ تمہیں کو ہے اور تم جو خرچ  کرو گے خدا کی خوشنودی  کے لئے  کرو گے۔   اور جو مال تم خرچ  کرو گے وہ تمہیں پورا پورا دے دیا جائے گا اور تمہارا کچھ نقصان نہیں کیا جائے گا، (۲۷۲) (اور ہاں تم جو خرچ  کرو گے تو) ان حاجتمندوں  کے لئے جو خدا کی راہ میں ر کے بیٹھے ہیں اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے (اور مانگنے سے عار رکھتے ہیں) یہاں تک کہ نہ مانگنے کی وجہ سے ناواقف شخص ان کو غنی خیال  کرتا ہے اور تم قیافے سے ان کو صاف پہچان لو (کہ حاجتمند ہیں اور شرم  کے سبب) لوگوں سے (منہ پھوڑ  کر اور) لپٹ  کر نہیں مانگ سکتے اور تم جو مال خرچ  کرو گے کچھ شک نہیں کہ خدا اس کو جانتا ہے (۲۷۳) جو لوگ اپنا مال رات اور دن اور پوشیدہ اور ظاہر (راہ خدا میں) خرچ  کرتے رہتے ہیں ان کا صلہ پروردگار  کے پاس ہے اور ان کو (قیامت  کے دن) نہ کسی طرح کا خوف ہو گا اور نہ غم (۲۷۴) جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ  کر دیوانہ بنا دیا ہو یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ سودا بیچنا بھی تو (نفع  کے لحاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ سودے کو خدا نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔  تو جس شخص  کے پاس خدا کی نصیحت پہنچی اور وہ (سود لینے سے) باز آ گیا تو جو پہلے ہو چکا وہ اس کا۔  اور (قیامت میں) اس کا معاملہ خدا  کے سپرد اور جو پھر لینے لگا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں کہ ہمیشہ دوزخ میں (جلتے) رہیں گے (۲۷۵) خدا سود کو نابود (یعنی بے برکت)  کرتا اور خیرات (کی برکت) کو بڑھاتا ہے اور خدا کسی ناشکرے گنہگار کو دوست نہیں رکھتا (۲۷۶) جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل  کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے رہے ان کو ان  کے کاموں کا صلہ خدا  کے ہاں ملے گا اور (قیامت  کے دن) ان کو نہ کچھ خوف ہوا اور نہ وہ غمناک ہوں گے (۲۷۷) مومنو! خدا سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو (۲۷۸) اگر ایسا نہ  کرو گے تو خبردار ہو جاؤ (کہ تم) خدا اور رسول سے جنگ  کرنے  کے لئے (تیار ہوتے ہو) اور اگر توبہ  کر لو گے (اور سود چھوڑ دو گے) تو تم کو اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے جس میں نہ اوروں کا نقصان اور تمہارا نقصان (۲۷۹) اور اگر قرض لینے والا تنگ دست ہو تو (اسے) کشائش (کے حاصل ہونے) تک مہلت (دو) اور اگر (ز ر قرض) بخش ہی دو تو تمہارے لئے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو (۲۸۰) اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا  کے حضور میں لوٹ  کر جاؤ گے اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا۔  اور کسی کا کچھ نقصان نہ ہو گا (۲۸۱) مومنو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین  کے لئے قرض کا معاملہ  کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا  کرو اور لکھنے والا تم میں (کسی کا نقصان نہ  کرے بلکہ) انصاف سے لکھے نیز لکھنے والا جیسا اسے خدا نے سکھایا ہے لکھنے سے انکار بھی نہ  کرے اور دستاویز لکھ دے۔   اور جو شخص قرض لے وہی (دستاویز کا) مضمون بول  کر لکھوائے اور خدا سے کہ اس کا مالک ہے خوف  کرے اور زر قرض میں سے کچھ کم نہ لکھوائے۔   اور اگر قرض لینے والا بے عقل یا ضعیف ہو یا مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتا ہو تو جو اس کا ولی ہو وہ انصاف  کے ساتھ مضمون لکھوائے۔   اور اپنے میں سے دو مردوں کو (ایسے معاملے  کے) گواہ  کر لیا  کرو۔  اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند  کرو (کافی ہیں) کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلا دے گی۔  اور جب گواہ (گواہی  کے لئے طلب کئے جائیں تو انکار نہ  کریں۔   اور قرض تھوڑا ہو یا بہت اس (کی دستاویز)  کے لکھنے میں کاہلی نہ  کرنا۔  یہ بات خدا  کے نزدیک نہایت قرین انصاف ہے اور شہادت  کے لئے بھی یہ بہت درست طریقہ ہے۔   اس سے تمہیں کسی طرح کا شک وہ شبہ بھی نہیں پڑے گا۔  ہاں اگر سودا دست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو تو اگر (ایسے معاملے کی) دستاویز نہ لکھو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔   اور جب خرید و فروخت کیا  کرو تو بھی گواہ  کر لیا  کرو۔  اور کاتب دستاویز اور گواہ (معاملہ  کرنے والوں کا) کسی طرح نقصان نہ  کریں۔   اگر تم (لوگ) ایسا  کرو تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے۔   اور خدا سے ڈرو اور (دیکھو کہ) وہ تم کو (کیسی مفید باتیں) سکھاتا ہے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے (۲۸۲) اور اگر تم سفر پر ہو اور (دستاویز) لکھنے والا مل نہ سکے تو (کوئی چیز) رہن یا قبضہ رکھ  کر (قرض لے لو) اور اگر کوئی کسی کو امین سمجھے (یعنی رہن  کے بغیر قرض دیدے) تو امانتدار کو چاہیئے کہ صاحب امانت کی امانت ادا  کر دے اور خدا سے جو اس کا پروردگار ہے ڈرے۔  اور (دیکھنا) شہادت کو مت چھپانا۔  جو اس کو چھپائے گا وہ دل کا گنہگار ہو گا۔  اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے (۲۸۳) جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے۔   تم اپنے دلوں کی بات کو ظاہر  کرو گے تو یا چھپاؤ گے تو خدا تم سے اس کا حساب لے گا پھر وہ جسے چاہے مغفرت  کرے اور جسے چاہے عذاب دے۔   اور خدا ہر چیز پر قادر ہے (۲۸۴) رسول (خدا) اس کتاب پر جو ان  کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور مومن بھی۔  سب خدا پر اور اس  کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس  کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم اس  کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں  کرتے اور وہ (خدا سے) عرض  کرتے ہیں کہ ہم نے (تیرا حکم) سنا اور قبول کیا۔  اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ  کر جانا ہے (۲۸۵) خدا کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔  اچھے کام  کرے گا تو اس کو ان کا فائدہ ملے گا برے  کرے گا تو اسے ان کا نقصان پہنچے گا۔  اے پروردگار اگر ہم سے بھول یا چوک ہو گئی ہو تو ہم سے مؤاخذہ نہ کیجیو۔  اے پروردگار ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالیو جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔  اے پروردگار جتنا بوجھ اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں اتنا ہمارے سر پر نہ رکھیو۔  اور (اے پروردگار) ہمارے گنا ہوں سے در گزر کر اور ہمیں بخش دے۔   اور ہم پر رحم فرما۔  تو ہی ہمارا مالک ہے اور ہم کو کافروں پر غالب فرما (۲۸۶)

 

سورة آل عِمرَان

شروع اللہ  کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

الم (۱) خدا (جو معبود برحق ہے) اس  کے سوا کوئی عبادت  کے لائق نہیں ہمیشہ زندہ رہنے والا (۲) اس نے (اے محمدﷺ) تم پر سچی کتاب نازل کی جو پہلی (آسمانی) کتابوں کی تصدیق  کرتی ہے اور اسی نے تورات اور انجیل نازل کی (۳) (یعنی) لوگوں کی ہدایت  کے لیے پہلے (تورات اور انجیل اتاری) اور (پھر قرآن جو حق اور باطل کو) الگ الگ  کر دینے والا (ہے) نازل کیا جو لوگ خدا کی آیتوں کا انکار  کرتے ہیں ان کو سخت عذاب ہو گا اور خدا زبردست (اور) بدلہ لینے والا ہے (۴) خدا (ایسا خبیر و بصیر ہے کہ) کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں نہ زمین میں اور نہ آسمان میں (۵) وہی تو ہے جو (ماں  کے پیٹ میں) جیسی چاہتا ہے تمہاری صورتیں بناتا ہے اس غالب حکمت والے  کے سوا کوئی عبادت  کے لائق نہیں (۶) وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں (اور) وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں تو جن لوگوں  کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع  کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا  کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی خدا  کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں دست گاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقل مند ہی قبول  کرتے ہیں (۷) اے پروردگار جب تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے تو اس  کے بعد ہمارے دلوں میں کجی نہ پیدا  کر دیجیو اور ہمیں اپنے ہاں سے نعمت عطا فرما تو تو بڑا عطا فرمانے والا ہے (۸) اے پروردگار! تو اس روز جس (کے آنے) میں کچھ بھی شک نہیں سب لوگوں کو (اپنے حضور میں) جمع  کر لے گا بے شک خدا خلاف وعدہ نہیں  کرتا (۹) جو لوگ کافر ہوئے (اس دن) نہ تو ان کا مال ہی خدا (کے عذاب) سے ان کو بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی (کچھ کام آئے گی) اور یہ لوگ آتش (جہنم) کا ایندھن ہوں گے (۱۰) ان کا حال بھی فرعونیوں اور ان سے پہلے لوگوں کا سا ہو گا جنہوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی تھی تو خدا نے ان کو ان  کے گنا ہوں  کے سبب (عذاب میں) پکڑ لیا تھا اور خدا سخت عذاب  کرنے والا ہے (۱۱) (اے پیغمبر) کافروں سے کہہ دو کہ تم (دنیا میں بھی) عنقریب مغلوب ہو جاؤ گے اور (آخرت میں) جہنم کی طرف ہانکے جاؤ گے اور وہ بری جگہ ہے (۱۲) تمہارے لیے دو گروہوں میں جو (جنگ بدر  کے دن) آپس میں بھڑ گئے (قدرت خدا کی عظیم الشان) نشانی تھی ایک گروہ (مسلمانوں کا تھا وہ) خدا کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ (کافروں کا تھا وہ) ان کو اپنی آنکھوں سے اپنے سے دگنا مشاہدہ  کر رہا تھا اور خدا اپنی نصرت سے جس کو چاہتا ہے مد د دیتا ہے جو اہل بصارت ہیں ان  کے لیے اس (واقعے) میں بڑی عبرت ہے (۱۳) لوگوں کو ان کی خواہشوں کی چیزیں یعنی عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی  کے بڑے بڑے ڈھیر اور نشان لگے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی بڑی زینت دار معلوم ہوتی ہیں (مگر) یہ سب دنیا ہی کی زندگی  کے سامان ہیں اور خدا  کے پاس بہت اچھا ٹھکانا ہے (۱۴) (اے پیغمبر ان سے) کہو کہ بھلا میں تم کو ایسی چیز بتاؤں جو ان چیزوں سے کہیں اچھی ہو (سنو) جو لوگ پرہیزگار ہیں ان  کے لیے خدا  کے ہاں باغات (بہشت) ہیں جن  کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور پاکیزہ عورتیں ہیں اور (سب سے بڑھ  کر) خدا کی خوشنودی اور خدا (اپنے نیک) بندوں کو دیکھ رہا ہے (۱۵) جو خدا سے التجا  کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم ایمان لے آئے سو ہم کو ہمارے گناہ معاف فرما اور دوزخ  کے عذاب سے محفوظ رکھ (۱۶) یہ وہ لوگ ہیں جو (مشکلات میں) صبر  کرتے اور سچ بولتے اور عبادت میں لگے رہتے اور (راہ خدا میں) خرچ  کرتے اور اوقات سحر میں گنا ہوں کی معافی مانگا  کرتے ہیں (۱۷) خدا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس  کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور علم والے لوگ جو انصاف پر قائم ہیں وہ بھی (گواہی دیتے ہیں کہ) اس غالب حکمت والے  کے سوا کوئی عبادت  کے لائق نہیں (۱۸) دین تو خدا  کے نزدیک اسلام ہے اور اہل کتاب نے جو (اس دین سے) اختلاف کیا تو علم ہونے  کے بعد آپس کی ضد سے کیا اور جو شخص خدا کی آیتوں کو نہ مانے تو خدا جلد حساب لینے والا (اور سزا دینے والا) ہے (۱۹) اے پیغمبر اگر یہ لوگ تم سے جھگڑنے لگیں تو کہنا کہ میں اور میرے پیرو تو خدا  کے فرمانبردار ہو چکے اور اہل کتاب اور ان پڑھ لوگوں سے کہو کہ کیا تم بھی (خدا  کے فرمانبردار بنتے ہو) اور اسلام لاتے ہو؟ اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بے شک ہدایت پا لیں اور اگر (تمہارا کہا) نہ مانیں تو تمہارا کام صرف خدا کا پیغام پہنچا دینا ہے اور خدا (اپنے) بندوں کو دیکھ رہا ہے (۲۰) جو لوگ خدا کی آیتوں کو نہیں مانتے اور انبیاء کو ناحق قتل  کرتے رہے ہیں اور جو انصاف (کرنے) کا حکم دیتے ہیں انہیں بھی مار ڈالتے ہیں ان کو دکھ دینے والے عذاب کی خوشخبری سنا دو (۲۱) یہ ایسے لوگ ہیں جن  کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہیں اور ان کا کوئی مدد گار نہیں (ہو گا) (۲۲) بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب (خدا یعنی تورات سے) بہرہ دیا گیا اور وہ (اس) کتاب اللہ کی طرف بلائے جاتے ہیں تاکہ وہ (ان  کے تنازعات کا) ان میں فیصلہ  کر دے تو ایک فریق ان میں سے کج ادائی  کے ساتھ منہ پھیر لیتا ہے (۲۳) یہ اس لیے کہ یہ اس بات  کے قائل ہیں کہ (دوزخ کی) آگ ہمیں چند روز  کے سوا چھو ہی نہیں سکے گی اور جو کچھ یہ دین  کے بارے میں بہتان باندھتے رہے ہیں اس نے ان کو دھو کے میں ڈال رکھا ہے (۲۴) تو اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ان کو جمع  کریں گے (یعنی) اس روز جس (کے آنے) میں کچھ بھی شک نہیں اور ہر نفس اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا (۲۵) کہو کہ اے خدا (اے) بادشاہی  کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخشے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل  کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے اور بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے (۲۶) تو ہی رات کو دن میں داخل  کرتا اور تو ہی دن کو رات میں داخل  کرتا ہے تو ہی بے جان سے جاندار پیدا  کرتا ہے اور تو ہی جاندار سے بے جان پیدا  کرتا ہے اور تو ہی جس کو چاہتا ہے بے شمار رزق بخشتا ہے (۲۷) مؤمنوں کو چاہئے کہ مؤمنوں  کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو ایسا  کرے گا اس سے خدا کا کچھ (عہد) نہیں ہاں اگر اس طریق سے تم ان (کے شر) سے بچاؤ کی صورت پیدا  کرو (تو مضائقہ نہیں) اور خدا تم کو اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف (تم کو) لوٹ  کر جانا ہے (۲۸) (اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ کوئی بات تم اپنے دلوں میں مخفی رکھو یا اسے ظاہر  کرو خدا اس کو جانتا ہے اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے اس کو سب کی خبر ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے (۲۹) جس دن ہر شخص اپنے اعمال کی نیکی کو موجود پالے گا اور ان کی برائی کو بھی (دیکھ لے گا) تو آرزو  کرے گا کہ اے کاش اس میں اور اس برائی میں دور کی مسافت ہو جاتی اور خدا تم کو اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے اور خدا اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے (۳۰) (اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی  کرو خدا بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف  کر دے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے (۳۱) کہہ دو کہ خدا اور اس  کے رسول کا حکم مانو اگر نہ مانیں تو خدا بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا (۳۲) خدا نے آدم اور نوح اور خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو تمام جہان  کے لوگوں میں منتخب فرمایا تھا (۳۳) ان میں سے بعض بعض کی اولاد تھے اور خدا سننے والا (اور) جاننے والا ہے (۳۴) (وہ وقت یاد  کرنے  کے لائق ہے) جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے پروردگار جو (بچہ) میرے پیٹ میں ہے میں اس کو تیری نذر  کرتی ہوں اسے دنیا  کے کاموں سے آزاد رکھوں گی تو (اسے) میری طرف سے قبول فرما تو تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے (۳۵) جب ان  کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان  کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار! میرے تو لڑکی ہوئی ہے اور (نذر  کے لیے) لڑکا (موزوں تھا کہ وہ) لڑکی کی طرح (نا تواں) نہیں ہوتا اور میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے اور میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں (۳۶) تو پروردگار نے اس کو پسندیدگی  کے ساتھ قبول فرمایا اور اسے اچھی طرح پرورش کیا اور ز کریا کو اس کا متکفل بنایا ز کریا جب کبھی عبادت گاہ میں اس  کے پاس جاتے تو اس  کے پاس کھانا پاتے (یہ کیفیت دیکھ  کر ایک دن مریم سے) پوچھنے لگے کہ مریم یہ کھانا تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے وہ بولیں خدا  کے ہاں سے (آتا ہے) بیشک خدا جسے چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے (۳۷) اس وقت ز کریا نے اپنے پروردگار سے دعا کی (اور) کہا کہ پروردگار مجھے اپنی جناب سے اولاد صالح عطا فرما تو بے شک دعا سننے (اور قبول  کرنے) والا ہے (۳۸) وہ ابھی عبادت گاہ میں کھڑے نماز ہی پڑھ رہے تھے کہ فرشتوں نے آواز دی کہ (ز کریا) خدا تمہیں یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو خدا  کے فیض یعنی (عیسیٰ) کی تصدیق  کریں گے اور سردار ہوں گے اور عور توں سے رغبت نہ رکھنے والے اور (خدا  کے) پیغمبر (یعنی) نیکو کاروں میں ہوں گے (۳۹) ز کریا نے کہا اے پروردگار میرے ہاں لڑکا کیوں کر پیدا ہو گا کہ میں تو بڈھا ہو گیا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے خدا نے فرمایا اسی طرح خدا جو چاہتا ہے  کرتا ہے (۴۰) ز کریا نے کہا کہ پروردگار (میرے لیے) کوئی نشانی مقرر فرما خدا نے فرمایا نشانی یہ ہے کہ تم لوگوں سے تین دن اشارے  کے سوا بات نہ  کر سکو گے تو (ان دنوں میں) اپنے پروردگار کی کثرت سے یاد اور صبح و شام اس کی تسبیح  کرنا (۴۱) اور جب فرشتوں نے (مریم سے) کہا کہ مریم! خدا نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور پاک بنایا ہے اور جہان کی عور توں میں منتخب کیا ہے (۴۲) مریم اپنے پروردگار کی فرمانبرداری  کرنا اور سجدہ  کرنا اور رکوع  کرنے والوں  کے ساتھ رکوع  کرنا (۴۳) (اے محمدﷺ) یہ باتیں اخبار غیب میں سے ہیں جو ہم تمہارے پاس بھیجتے ہیں اور جب وہ لوگ اپنے قلم (بطور قرعہ) ڈال رہے تھے کہ مریم کا متکفل کون بنے تو تم ان  کے پاس نہیں تھے اور نہ اس وقت ہی ان  کے پاس تھے جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے (۴۴) (وہ وقت بھی یاد  کرنے  کے لائق ہے) جب فرشتوں نے (مریم سے کہا) کہ مریم خدا تم کو اپنی طرف سے ایک فیض کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح (اور مشہور) عیسیٰ ابن مریم ہو گا (اور) جو دنیا اور آخرت میں با آبرو اور (خدا  کے) خاصوں میں سے ہو گا (۴۵) اور ماں کی گود میں اور بڑی عمر کا ہو  کر (دونوں حالتوں میں) لوگوں سے (یکساں) گفتگو  کرے گا اور نیکو کاروں میں ہو گا (۴۶) مریم نے کہا پروردگار میرے ہاں بچہ کیوں کر ہو گا کہ کسی انسان نے مجھے ہاتھ تک تو لگایا نہیں فرمایا کہ خدا اسی طرح جو چاہتا ہے پیدا  کرتا ہے جب وہ کوئی کام  کرنا چاہتا ہے تو ارشاد فرما دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے (۴۷) اور وہ انہیں لکھنا (پڑھنا) اور دانائی اور تورات اور انجیل سکھائے گا (۴۸) اور (عیسیٰ) بنی اسرائیل کی طرف پیغمبر (ہو  کر جائیں گے اور کہیں گے) کہ میں تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے  کر آیا ہوں وہ یہ کہ تمہارے سامنے مٹی کی مورت بشکل پرند بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ خدا  کے حکم سے (سچ مچ) جانور ہو جاتا ہے اور اندھے اور ابرص کو تندرست  کر دیتا ہوں اور خدا  کے حکم سے مردے میں جان ڈال دیتا ہوں اور جو کچھ تم کھا  کر آتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع  کر رکھتے ہو سب تم کو بتا دیتا ہوں اگر تم صاحب ایمان ہو تو ان با توں میں تمہارے لیے (قدرت خدا کی) نشانی ہے (۴۹) اور مجھ سے پہلے جو تورات (نازل ہوئی) تھی اس کی تصدیق بھی  کرتا ہوں اور (میں) اس لیے بھی (آیا ہوں) کہ بعض چیزیں جو تم پر حرام تھیں ان کو تمہارے لیے حلال  کر دوں اور میں تو تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے  کر آیا ہوں تو خدا سے ڈرو اور میرا کہا مانو (۵۰) کچھ شک نہیں کہ خدا ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے تو اسی کی عبادت  کرو یہی سیدھا رستہ ہے (۵۱) جب عیسیٰؑ نے ان کی طرف سے نافرمانی اور (نیت قتل) دیکھی تو کہنے لگے کہ کوئی ہے جو خدا کا طرف دار اور میرا مدد گار ہو حواری بولے کہ ہم خدا  کے (طرفدار اور آپ  کے) مدد گار ہیں ہم خدا پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہیں کہ ہم فرمانبردار ہیں (۵۲) اے پروردگار جو (کتاب) تو نے نازل فرمائی ہے ہم اس پر ایمان لے آئے اور (تیرے) پیغمبر  کے متبع ہو چکے تو ہم کو ماننے والوں میں لکھ رکھ (۵۳) اور وہ (یعنی یہود قتل عیسیٰ  کے بارے میں ایک) چال چلے اور خدا بھی (عیسیٰ کو بچانے  کے لیے) چال چلا اور خدا خوب چال چلنے والا ہے (۵۴) اس وقت خدا نے فرمایا کہ عیسیٰ! میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری  کر  کے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا اور تمہیں کافروں (کی صحبت) سے پاک  کر دوں گا اور جو لوگ تمہاری پیروی  کریں گے ان کو کافروں پر قیامت تک فائق (و غالب) رکھوں گا پھر تم سب میرے پاس لوٹ  کر آؤ گے تو جن با توں میں تم اختلاف  کرتے تھے اس دن تم میں ان کا فیصلہ  کر دوں گا (۵۵) یعنی جو کافر ہوئے ان کو دنیا اور آخرت (دونوں) میں سخت عذاب دوں گا اور ان کا کوئی مدد گار نہ ہو گا (۵۶) اور جو ایمان لائے اور نیک عمل  کرتے رہے ان کو خدا پورا پورا صلہ دے گا اور خدا ظالموں کو دوست نہیں رکھتا (۵۷) (اے محمدﷺ) یہ ہم تم کو (خدا کی) آیتیں اور حکمت بھری نصیحتیں پڑھ پڑھ  کر سناتے ہیں (۵۸) عیسیٰ کا حال خدا  کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اس نے (پہلے) مٹی سے ان کا قالب بنایا پھر فرمایا کہ (انسان) ہو جا تو وہ (انسان) ہو گئے (۵۹) (یہ بات) تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے تو تم ہرگز شک  کرنے والوں میں نہ ہونا (۶۰) پھر اگر یہ لوگ عیسیٰ  کے بارے میں تم سے جھگڑا  کریں اور تم کو حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چلی ہے تو ان سے کہنا کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں اور عور توں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں اور عور توں کو بلاؤ اور ہم خود بھی آئیں اور تم خود بھی آؤ پھر دونوں فریق (خدا سے) دعا و التجا  کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں (۶۱) یہ تمام بیانات صحیح ہیں اور خدا  کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک خدا غالب اور صاحبِ  حکمت ہے (۶۲) تو اگر یہ لوگ پھر جائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے (۶۳) کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں  کے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ خدا  کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ  کریں اور اس  کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا  کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (ان سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (خدا  کے) فرماں بردار ہیں (۶۴) اے اہلِ  کتاب تم ابراہیم  کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل ان  کے بعد اتری ہیں (اور وہ پہلے ہو چکے ہیں) تو کیا تم عقل نہیں رکھتے (۶۵) دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا جس کا تمہیں کچھ علم تھا بھی مگر ایسی بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں کچھ بھی علم نہیں اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے (۶۶) ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ عیسائی بلکہ سب سے بے تعلق ہو  کر ایک (خدا)  کے ہو رہے تھے اور اسی  کے فرماں بردار تھے اور مشرکوں میں نہ تھے (۶۷) ابراہیم سے قرب رکھنے والے تو وہ لوگ ہیں جو ان کی پیروی  کرتے ہیں اور پیغمبر (آخر الزمان) اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور خدا مومنوں کا کارساز ہے (۶۸) (اے اہل اسلام) بعضے اہلِ  کتاب اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ تم کو گمراہ  کر دیں مگر یہ (تم کو کیا گمراہ  کریں گے) اپنے آپ کو ہی گمراہ  کر رہے ہیں اور نہیں جانتے (۶۹) اے اہلِ  کتاب تم خدا کی آیتوں سے کیوں انکار  کرتے ہو اور تم (تورات کو) مانتے تو ہو (۷۰) اے اہلِ  کتاب تم سچ کو جھوٹ  کے ساتھ خلط ملط کیوں  کرتے ہو اور حق کو کیوں چھپاتے ہو اور تم جانتے بھی ہو (۷۱) اور اہلِ  کتاب ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ جو (کتاب) مومنوں پر نازل ہوئی ہے اس پر دن  کے شروع میں تو ایمان لے آیا  کرو اور اس  کے آخر میں انکار  کر دیا  کرو تاکہ وہ (اسلام سے) برگشتہ ہو جائیں (۷۲) اور اپنے دین  کے پیرو  کے سوا کسی اور  کے قائل نہ ہونا (اے پیغمبر) کہہ دو کہ ہدایت تو خدا ہی کی ہدایت ہے (وہ یہ بھی کہتے ہیں) یہ بھی (نہ ماننا) کہ جو چیز تم کو ملی ہے ویسی کسی اور کو ملے گی یا وہ تمہیں خدا  کے روبرو قائل معقول  کر سکیں گے یہ بھی کہہ دو کہ بزرگی خدا ہی  کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور خدا کشائش والا (اور) علم والا ہے (۷۳) وہ اپنی رحمت سے جس کو چاہتا ہے خاص  کر لیتا ہے اور خدا بڑے فضل کا مالک ہے (۷۴) اور اہلِ  کتاب میں سے کوئی تو ایسا ہے کہ اگر تم اس  کے پاس (روپوں کا) ڈھیر امانت رکھ دو تو تم کو (فوراً) واپس دے دے اور کوئی اس طرح کا ہے کہ اگر اس  کے پاس ایک دینار بھی امانت رکھو تو جب تک اس  کے سر پر ہر وقت کھڑے نہ رہو تمہیں دے ہی نہیں یہ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ امیوں  کے بارے میں ہم سے مواخذہ نہیں ہو گا یہ خدا پر محض جھوٹ بولتے ہیں اور (اس بات کو) جانتے بھی ہیں (۷۵) ہاں جو شخص اپنے اقرار کو پورا  کرے اور (خدا سے) ڈرے تو خدا ڈرنے والوں کو دوست رکھتا ہے (۷۶) جو لوگ خدا  کے اقراروں اور اپنی قسموں (کو بیچ ڈالتے ہیں اور ان)  کے عوض تھوڑی سی قیمت حاصل  کرتے ہیں ان کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں ان سے خدا نہ تو کلام  کرے گا اور نہ قیامت  کے روز ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ان کو پاک  کرے گا اور ان کو دکھ دینے والا عذاب ہو گا (۷۷) اور ان (اہلِ  کتاب) میں بعضے ایسے ہیں کہ کتاب (تورات) کو زبان مروڑ مروڑ  کر پڑھتے ہیں تاکہ تم سمجھو کہ جو کچھ وہ پڑھتے ہیں کتاب میں سے ہے حالانکہ وہ کتاب میں سے نہیں ہے اور کہتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے (نازل ہوا) ہے حالانکہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہوتا اور خدا پر جھوٹ بولتے ہیں اور (یہ بات) جانتے بھی ہیں (۷۸) کسی آدمی کو شایاں نہیں کہ خدا تو اسے کتاب اور حکومت اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ خدا کو چھوڑ  کر میرے بندے ہو جاؤ بلکہ (اس کو یہ کہنا سزاوار ہے کہ اے اہلِ  کتاب) تم (علمائے) ربانی ہو جاؤ کیونکہ تم کتابِ  (خدا) پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو (۷۹) اور اس کو یہ بھی نہیں کہنا چاہیے کہ تم فرشتوں اور پیغمبروں کو خدا بنا لو بھلا جب تم مسلمان ہو چکے تو کیا اسے زیبا ہے کہ تمہیں کافر ہونے کو کہے (۸۰) اور جب خدا نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور دانائی عطا  کروں پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو تمہاری کتاب کی تصدیق  کرے تو تمھیں ضرور اس پر ایمان لانا ہو گا اور ضرور اس کی مد د  کرنی ہو گی اور (عہد لینے  کے بعد) پوچھا کہ بھلا تم نے اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا (یعنی مجھے ضامن ٹھہرایا) انہوں نے کہا (ہاں) ہم نے اقرار کیا (خدا نے) فرمایا کہ تم (اس عہد و پیمان  کے) گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں (۸۱) تو جو اس  کے بعد پھر جائیں وہ بد  کردار ہیں (۸۲) کیا یہ (کافر) خدا  کے دین  کے سوا کسی اور دین  کے طالب ہیں حالانکہ سب اہلِ  آسمان و زمین خوشی یا زبردستی سے خدا  کے فرماں بردار ہیں اور اسی کی طرف لوٹ  کر جانے والے ہیں (۸۳) کہو کہ ہم خدا پر ایمان لائے اور جو کتاب ہم پر نازل ہوئی اور جو صحیفے ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر اترے اور جو کتابیں موسیٰ اور عیسیٰ اور دوسرے انبیاء کو پروردگار کی طرف سے ملیں سب پر ایمان لائے ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں  کرتے اور ہم اسی (خدائے واحد)  کے فرماں بردار ہیں (۸۴) اور جو شخص اسلام  کے سوا کسی اور دین کا طالب ہو گا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہو گا (۸۵) خدا ایسے لوگوں کو کیوں کر ہدایت دے جو ایمان لانے  کے بعد کافر ہو گئے اور (پہلے) اس بات کی گواہی دے چکے کہ یہ پیغمبر برحق ہے اور ان  کے پاس دلائل بھی آ گئے اور خدا بے انصافوں کو ہدایت نہیں دیتا (۸۶) ان لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر خدا کی اور فرشتوں کی اور انسانوں کی سب کی لعنت ہو (۸۷) ہمیشہ اس لعنت میں (گرفتار) رہیں گے ان سے نہ تو عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں مہلت دے جائے گی (۸۸) ہاں جنہوں نے اس  کے بعد توبہ کی اور اپنی حالت درست  کر لی تو خدا بخشنے والا مہربان ہے (۸۹) جو لوگ ایمان لانے  کے بعد کافر ہو گئے پھر کفر میں بڑھتے گئے ایسوں کی توبہ ہرگز قبول نہ ہو گی اور یہ لوگ گمراہ ہیں (۹۰) جو لوگ کافر ہوئے اور کفر ہی کی حالت میں مر گئے وہ اگر (نجات حاصل  کرنی چاہیں اور) بدلے میں زمین بھر  کر سونا دیں تو ہرگز قبول نہ کیا جائے گا ان لوگوں کو دکھ دینے والا عذاب ہو گا اور ان کی کوئی مد د نہیں  کرے گا (۹۱) (مومنو!) جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمھیں عزیز ہیں (راہِ  خدا میں) صرف نہ  کرو گے کبھی نیکی حاصل نہ  کر سکو گے اور جو چیز تم صرف  کرو گے خدا اس کو جانتا ہے (۹۲) بنی اسرائیل  کے لیے (تورات  کے نازل ہونے سے) پہلے کھانے کی تمام چیزیں حلال تھیں بجز ان  کے جو یعقوب نے خود اپنے اوپر حرام  کر لی تھیں کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تورات لاؤ اور اسے پڑھو (یعنی دلیل پیش  کرو) (۹۳) جو اس  کے بعد بھی خدا پر جھوٹے افترا  کریں تو ایسے لوگ ہی بے انصاف ہیں (۹۴) کہہ دو کہ خدا نے سچ فرمایا دیا پس دین ابراہیم کی پیروی  کرو جو سب سے بے تعلق ہو  کر ایک (خدا)  کے ہو رہے تھے اور مشرکوں سے نہ تھے (۹۵) پہلا گھر جو لوگوں (کے عبادت  کرنے)  کے لیے مقرر کیا گیا تھا وہی ہے جو م کے میں ہے بابرکت اور جہاں  کے لیے موجبِ  ہدایت (۹۶) اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراہیم  کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے جو شخص اس (مبارک) گھر میں داخل ہوا اس نے امن پا لیا اور لوگوں پر خدا کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج  کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہ  کرے گا تو خدا بھی اہلِ  عالم سے بے نیاز ہے (۹۷) کہو کہ اہلِ  کتاب! تم خدا کی آیتوں سے کیوں کفر  کرتے ہو اور خدا تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے (۹۸) کہو کہ اہلِ  کتاب تم مومنوں کو خدا  کے رستے سے کیوں روکتے ہو اور باوجود یہ کہ تم اس سے واقف ہو اس میں کجی نکالتے ہو اور خدا تمھارے کاموں سے بے خبر نہیں (۹۹) مومنو! اگر تم اہلِ  کتاب  کے کسی فریق کا کہا مان لو گے تو وہ تمھیں ایمان لانے  کے بعد کافر بنا دیں گے (۱۰۰) اور تم کیوں کر کفر  کرو گے جبکہ تم کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ  کر سنائی جاتی ہیں اور تم میں اس  کے پیغمبر موجود ہیں اور جس نے خدا (کی ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑ لیا وہ سیدھے رستے لگ گیا (۱۰۱) مومنو! خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا (۱۰۲) اور سب مل  کر خدا کی (ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور خدا کی اس مہربانی کو یاد  کرو جب تم ایک دوسرے  کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ  کے گڑھے  کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح خدا تم کو اپنی آیتیں کھول کھول  کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ (۱۰۳) اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام  کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع  کرے یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں (۱۰۴) اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہو گئے اور احکام بین آنے  کے بعد ایک دوسرے سے (خلاف و) اختلاف  کرنے لگے یہ وہ لوگ ہیں جن کو قیامت  کے دن بڑا عذاب ہو گا (۱۰۵) جس دن بہت سے منہ سفید ہوں گے اور بہت سے منہ سیاہ تو جن لوگوں  کے منہ سیاہ ہوں گے (ان سے خدا فرمائے گا) کیا تم ایمان لا  کر کافر ہو گئے تھے ؟ سو (اب) اس کفر  کے بدلے عذاب (کے مزے) چکھو (۱۰۶) اور جن لوگوں  کے منہ سفید ہوں گے وہ خدا کی رحمت (کے باغوں) میں ہوں گے اور ان میں ہمیشہ رہیں گے (۱۰۷) یہ خدا کی آیتیں ہیں جو ہم تم کو صحت  کے ساتھ پڑھ  کر سناتے ہیں اور خدا اہلِ  عالم پر ظلم نہیں  کرنا چاہتا (۱۰۸) اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے اور سب کاموں کا رجوع (اور انجام) خدا ہی کی طرف ہے (۱۰۹) (مومنو) جتنی امتیں (یعنی قومیں) لوگوں میں پیدا ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو کہ نیک کام  کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع  کرتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہلِ  کتاب بھی ایمان لے آتے تو ان  کے لیے بہت اچھا ہوتا ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں (لیکن تھوڑے) اور اکثر نافرمان ہیں (۱۱۰) اور یہ تمہیں خفیف سی تکلیف  کے سوا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور اگر تم سے لڑیں گے تو پیٹھ پھیر  کر بھاگ جائیں گے پھر ان کو مد د بھی (کہیں سے) نہیں ملے گی (۱۱۱) یہ جہاں نظر آئیں گے ذلت (کو دیکھو گے کہ) ان سے چمٹ رہی ہے بجز اس  کے کہ یہ خدا اور (مسلمان) لوگوں کی پناہ میں آ جائیں اور یہ لوگ خدا  کے غضب میں گرفتار ہیں اور ناداری ان سے لپٹ رہی ہے یہ اس لیے کہ خدا کی آیتوں سے انکار  کرتے تھے اور (اس  کے) پیغمبروں کو ناحق قتل  کر دیتے تھے یہ اس لیے کہ یہ نافرمانی کیے جاتے اور حد سے بڑھے جاتے تھے (۱۱۲) یہ بھی سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہلِ  کتاب میں کچھ لوگ (حکمِ  خدا پر) قائم بھی ہیں جو رات  کے وقت خدا کی آیتیں پڑھتے اور (اس  کے آگے) سجدہ  کرتے ہیں (۱۱۳) (اور) خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے اور اچھے کام  کرنے کو کہتے اور بری با توں سے منع  کرتے اور نیکیوں پر لپکتے ہیں اور یہی لوگ نیکو کار ہیں (۱۱۴) اور یہ جس طرح کی نیکی  کریں گے اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور خدا پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے (۱۱۵) جو لوگ کافر ہیں ان  کے مال اور اولاد خدا  کے غضب کو ہرگز نہیں ٹال سکیں گے اور یہ لوگ اہلِ  دوزخ ہیں کہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے (۱۱۶) یہ جو مال دنیا کی زندگی میں خرچ  کرتے ہیں اس کی مثال ہوا کی سی ہے جس میں سخت سردی ہو اور وہ ایسے لوگوں کی کھیتی پر جو اپنے آپ پر ظلم  کرتے تھے چلے اور اسے تباہ  کر دے اور خدا نے ان پر کچھ ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنے اوپر ظلم  کر رہے ہیں (۱۱۷) مومنو! کسی غیر (مذہب  کے آدمی) کو اپنا راز داں نہ بنانا یہ لوگ تمہاری خرابی اور (فتنہ انگیزی  کرنے) میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں  کرتے اور چاہتے ہیں کہ (جس طرح ہو) تمہیں تکلیف پہنچے ان کی زبانوں سے تو دشمنی ظاہر ہوہی چکی ہے اور جو (کینے) ان  کے سینوں میں مخفی ہیں وہ کہیں زیادہ ہیں اگر تم عقل رکھتے ہو تو ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول  کر سنا دی ہیں (۱۱۸) دیکھو تم ایسے (صاف دل) لوگ ہو کہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہو حالانکہ وہ تم سے دوستی نہیں رکھتے اور تم سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہو (اور وہ تمہاری کتاب کو نہیں مانتے) اور جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے اور جب الگ ہوتے ہیں تو تم پر غصے  کے سبب انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں (ان سے) کہہ دو کہ (بدبختو) غصے میں مر جاؤ خدا تمہارے دلوں کی با توں سے خوب واقف ہے (۱۱۹) اگر تمہیں آسودگی حاصل ہو تو ان کو بری لگتی ہے اور اگر رنج پہنچے تو خوش ہوتے ہیں اور اگر تم تکلیفوں کی برداشت اور (ان سے) کنارہ کشی  کرتے رہو گے تو ان کا فریب تمھیں کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گا یہ جو کچھ  کرتے ہیں خدا اس پر احاطہ کیے ہوئے ہے (۱۲۰) اور (اس وقت کو یاد  کرو) جب تم صبح کو اپنے گھر روانہ ہو  کر ایمان والوں کو لڑائی  کے لیے مورچوں پر (موقع بہ موقع) متعین  کرنے لگے اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے (۱۲۱) اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے جی چھوڑ دینا چاہا مگر خدا ان کا مدد گار تھا اور مومنوں کو خدا ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیئے (۱۲۲) اور خدا نے جنگِ  بدر میں بھی تمہاری مد د کی تھی اور اس وقت بھی تم بے سر و سامان تھے پس خدا سے ڈرو (اور ان احسانوں کو یاد  کرو) تاکہ شکر  کرو (۱۲۳) جب تم مومنوں سے یہ کہہ (کر ان  کے دل بڑھا) رہے تھے کہ کیا یہ کافی نہیں کہ پروردگار تین ہزار فرشتے نازل  کر  کے تمہیں مد د دے (۱۲۴) ہاں اگر تم دل کو مضبوط رکھو اور (خدا سے) ڈرتے رہو اور کافر تم پر جوش  کے ساتھ دفعتہً حملہ  کر دیں تو پروردگار پانچ ہزار فرشتے جن پر نشان ہوں گے تمہاری مد د کو بھیجے گا (۱۲۵) اور اس مد د کو خدا نے تمھارے لیے (ذریعۂ)  بشارت بنایا یعنی اس لیے کہ تمہارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو ورنہ مد د تو خدا ہی کی ہے جو غالب (اور) حکمت والا ہے (۱۲۶) (یہ خدا نے) اس لیے (کیا) کہ کافروں کی ایک جماعت کو ہلاک یا انہیں ذلیل و مغلوب  کر دے کہ (جیسے آئے تھے ویسے ہی) ناکام واپس جائیں (۱۲۷) (اے پیغمبر) اس کام میں تمہارا کچھ اختیار نہیں (اب دو صورتیں ہیں) یا خدا ان کے حال پر مہربانی  کرے یا انہیں عذاب دے کہ یہ ظالم لوگ ہیں (۱۲۸) اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے وہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب  کرے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے (۱۲۹) اے ایمان والو! دگنا چوگنا سود نہ کھاؤ اور خدا سے ڈرو تاکہ نجات حاصل  کرو (۱۳۰) اور (دوزخ کی) آگ سے بچو جو کافروں  کے لیے تیار کی گئی ہے (۱۳۱) اور خدا اور اس  کے رسول کی اطاعت  کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے (۱۳۲) اپنے پروردگار کی بخشش اور بہشت کی طرف لپکو جس کا عرض آسمان اور زمین  کے برابر ہے اور جو (خدا سے) ڈرنے والوں  کے لیے تیار کی گئی ہے (۱۳۳) جو آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال خدا کی راہ میں) خرچ  کرتے ہیں اور غصے کو روکتے اور لوگوں  کے قصور معاف  کرتے ہیں اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے (۱۳۴) اور وہ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور برائی  کر بیٹھتے ہیں تو خدا کو یاد  کرتے اور اپنے گنا ہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور خدا  کے سوا گناہ بخش بھی کون سکتا ہے ؟ اور جان بوجھ  کر اپنے افعال پر اڑے نہیں رہتے (۱۳۵) ایسے ہی لوگوں کا صلہ پروردگار کی طرف سے بخشش اور باغ ہیں جن  کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور) وہ ان میں ہمیشہ بستے رہیں گے اور (اچھے) کام  کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے (۱۳۶) تم لوگوں سے پہلے بھی بہت سے واقعات گزر چکے ہیں تو تم زمین کی سیر  کر  کے دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا (۱۳۷) یہ (قرآن) لوگوں  کے لیے بیان صریح اور اہلِ  تقویٰ  کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے (۱۳۸) اور (دیکھو) بے دل نہ ہونا اور نہ کسی طرح کا غم  کرنا اگر تم مومن (صادق) ہو تو تم ہی غالب رہو گے (۱۳۹) اگر تمہیں زخم (شکست) لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی ایسا زخم لگ چکا ہے اور یہ دن ہیں کہ ہم ان کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں اور اس سے یہ بھی مقصود تھا کہ خدا ایمان والوں کو متمیز  کر دے اور تم میں سے گواہ بنائے اور خدا بے انصافوں کو پسند نہیں  کرتا (۱۴۰) اور یہ بھی مقصود تھا کہ خدا ایمان والوں کو خالص (مومن) بنا دے اور کافروں کو نابود  کر دے (۱۴۱) کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ (بے آزمائش) بہشت میں جا داخل ہو گے حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد  کرنے والوں کو تو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں اور (یہ بھی مقصود ہے) کہ وہ ثابت قدم رہنے والوں کو معلوم  کرے (۱۴۲) اور تم موت (شہادت)  کے آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا  کرتے تھے سو تم نے اس کو آنکھوں سے دیکھ لیا (۱۴۳) اور محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) تو صرف (خدا  کے) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہو گزرے ہیں بھلا اگر یہ مر جائیں یا مارے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ؟ (یعنی مرتد ہو جاؤ؟) اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا تو خدا کا کچھ نقصان نہ  کر سکے گا اور خدا شکر گزاروں کو (بڑا) ثواب دے گا (۱۴۴) اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا  کے حکم  کے بغیر مر جائے (اس نے موت کا) وقت مقرر  کر  کے لکھ رکھا ہے اور جو شخص دنیا میں (اپنے اعمال کا) بدلہ چاہے اس کو ہم یہیں بدلہ دے دیں گے اور جو آخرت میں طالبِ  ثواب ہو اس کو وہاں اجر عطا  کریں گے اور ہم شکر گزاروں کو عنقریب (بہت اچھا) صلہ دیں گے (۱۴۵) اور بہت سے نبی ہوئے ہیں جن  کے ساتھ ہو  کر اکثر اہل اللہ (خدا  کے دشمنوں سے) لڑے ہیں تو جو مصیبتیں ان پر راہِ  خدا میں واقع ہوئیں ان  کے سبب انہوں نے نہ تو ہمت ہاری اور نہ بزدلی کی نہ (کافروں سے) دبے اور خدا استقلال رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے (۱۴۶) اور (اس حالت میں) ان  کے منہ سے کوئی بات نکلتی ہے تو یہی کہ اے پروردگار ہمارے گناہ اور زیادتیاں جو ہم اپنے کاموں میں  کرتے رہے ہیں معاف فرما اور ہم کو ثابت قدم رکھ اور کافروں پر فتح عنایت فرما (۱۴۷) تو خدا نے ان کو دنیا میں بھی بدلہ دیا اور آخرت میں بھی بہت اچھا بدلہ (دے گا) اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے (۱۴۸) مومنو! اگر تم کافروں کا کہا مان لو گے تو وہ تم کو الٹے پاؤں پھیر  کر (مرتد  کر) دیں گے پھر تم بڑے خسارے میں پڑ جاؤ گے (۱۴۹) (یہ تمہارے مدد گار نہیں ہیں) بلکہ خدا تمہارا مدد گار ہے اور وہ سب سے بہتر مدد گار ہے (۱۵۰) ہم عنقریب کافروں  کے دلوں میں تمہارا رعب بٹھا دیں گے کیونکہ یہ خدا  کے ساتھ شرک  کرتے ہیں جس کی اس نے کوئی بھی دلیل نازل نہیں کی اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے وہ ظالموں کا بہت بُرا ٹھکانا ہے (۱۵۱) اور خدا نے اپنا وعدہ سچا کر دیا (یعنی) اس وقت جبکہ تم کافروں کو اس  کے حکم سے قتل  کر رہے تھے یہاں تک کہ جو تم چاہتے تھے خدا نے تم کو دکھا دیا اس  کے بعد تم نے ہمت ہار دی اور حکم (پیغمبر) میں جھگڑا  کرنے لگے اور اس کی نافرمانی کی بعض تو تم میں سے دنیا  کے خواستگار تھے اور بعض آخرت  کے طالب اس وقت خدا نے تم کو ان (کے مقابلے) سے پھیر (کر بھگا) دیا تاکہ تمہاری آزمائش  کرے اور اس نے تمہارا قصور معاف  کر دیا اور خدا مومنو پر بڑا فضل  کرنے والا ہے (۱۵۲) (وہ وقت بھی یاد  کرنے  کے لائق ہے) جب تم لوگ دور بھاگے جاتے تھے اور کسی کو پیچھے پھر  کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول اللہ تم کو تمہارے پیچھے کھڑے بلا رہے تھے تو خدا نے تم کو غم پر غم پہنچایا تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہی یا جو مصیبت تم پر واقع ہوئی ہے اس سے تم اندوہ ناک نہ ہو اور خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے (۱۵۳) پھر خدا نے غم و رنج  کے بعد تم پر تسلی نازل فرمائی (یعنی) نیند کہ تم میں سے ایک جماعت پر طاری ہو گئی اور کچھ لوگ جن کو جان  کے لالے پڑ رہے تھے خدا  کے بارے میں ناحق (ایام) کفر  کے سے گمان  کرتے تھے اور کہتے تھے بھلا ہمارے اختیار کی کچھ بات ہے ؟ تم کہہ دو کہ بے شک سب باتیں خدا ہی  کے اختیار میں ہیں یہ لوگ (بہت سی باتیں) دلوں میں مخفی رکھتے ہیں جو تم پر ظاہر نہیں  کرتے تھے کہتے تھے کہ ہمارے بس کی بات ہوتی تو ہم یہاں قتل ہی نہ کیے جاتے کہہ دو کہ اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن کی تقدیر میں مارا جانا لکھا تھا وہ اپنی اپنی قتل گا ہوں کی طرف ضرور نکل آتے اس سے غرض یہ تھی کہ خدا تمہارے سینوں کی با توں کو آزمائے اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس کو خالص اور صاف  کر دے اور خدا دلوں کی با توں سے خوب واقف ہے (۱۵۴) جو لوگ تم میں سے (اُحد  کے دن) جبکہ (مومنوں اور کافروں کی) دو جماعتیں ایک دوسرے سے گتھ گئیں (جنگ سے) بھاگ گئے تو ان  کے بعض افعال  کے سبب شیطان نے ان کو پھسلا دیا مگر خدا نے ان کا قصور معاف  کر دیا بے شک خدا بخشنے والا اور بردبار ہے (۱۵۵) مومنو! ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر  کرتے ہیں اور ان  کے (مسلمان) بھائی جب (خدا کی راہ میں) سفر  کریں (اور مر جائیں) یا جہاد کو نکلیں (اور مارے جائیں) تو ان کی نسبت کہتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے پاس رہتے تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے۔   ان با توں سے مقصود یہ ہے کہ خدا ان لوگوں  کے دلوں میں افسوس پیدا  کر دے اور زندگی اور موت تو خدا ہی دیتا ہے اور خدا تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے (۱۵۶) اور اگر تم خدا  کے رستے میں مارے جاؤ یا مر جاؤ تو جو (مال و متاع) لوگ جمع  کرتے ہیں اس سے خدا کی بخشش اور رحمت کہیں بہتر ہے (۱۵۷) اور اگر تم مر جاؤ یا مارے جاؤ خدا  کے حضور میں ضرور اکھٹے کئے جاؤ گے (۱۵۸) (اے محمدﷺ) خدا کی مہربانی سے تمہاری افتاد مزاج ان لوگوں  کے لئے نرم واقع ہوئی ہے۔   اور اگر تم بد خو اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے۔   تو ان کو معاف  کر دو اور ان  کے لئے (خدا سے) مغفرت مانگو۔  اور اپنے کاموں میں ان سے مشورت لیا  کرو۔  اور جب (کسی کام کا) عزم مصمم  کر لو تو خدا پر بھروسا رکھو۔  بے شک خدا بھروسا رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے (۱۵۹) اور خدا تمہارا مدد گار ہے تو تم پر کوئی غالب نہیں آ سکتا۔  اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو پھر کون ہے کہ تمہاری مد د  کرے اور مومنوں کو چاہیئے کہ خدا ہی پر بھروسا رکھیں (۱۶۰) اور کبھی نہیں ہو سکتا کہ پیغمبر (خدا) خیانت  کریں۔   اور خیانت  کرنے والوں کو قیامت  کے دن خیانت کی ہوئی چیز (خدا  کے روبرو) لا حاضر  کرنی ہو گی۔  پھر ہر شخص کو اس  کے اعمال کا پورا پورا بدلا دیا جائے گا اور بے انصافی نہیں کی جائے گی (۱۶۱) بھلا جو شخص خدا کی خوشنودی کا تابع ہو وہ اس شخص کی طرح(مرتکب خیانت) ہو سکتا ہے جو خدا کی نا خوشی میں گرفتار ہو اور جس کا ٹھکانہ دوزخ ہے ، اور وہ برا ٹھکانا ہے (۱۶۲) ان لوگوں  کے خدا  کے ہاں (مختلف اور متفاوت) درجے ہیں اور خدا ان  کے سب اعمال کو دیکھ رہا ہے (۱۶۳) خدا نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہیں میں سے ایک پیغمبر بھیجے۔   جو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ  کر سناتے اور ان کو پاک  کرتے اور (خدا کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے (۱۶۴) (بھلا یہ) کیا (بات ہے کہ) جب (اُحد  کے دن کافر  کے ہاتھ سے) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ (جنگ بدر میں) اس سے دوچند مصیبت تمہارے ہاتھ سے ان پر پڑ چکی ہے تو تم چلا اٹھے کہ (ہائے) آفت (ہم پر) کہاں سے آ پڑی کہہ دو کہ یہ تمہاری ہی شامت اعمال ہے (کہ تم نے پیغمبر  کے حکم  کے خلاف کیا) بے شک خدا ہر چیز پر قادر ہے (۱۶۵) اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں  کے مقابلے  کے دن واقع ہوئی سو خدا  کے حکم سے (واقع ہوئی) اور (اس سے) یہ مقصود تھا کہ خدا مومنوں کو اچھی طرح معلوم (۱۶۶) اور منافقوں کو بھی معلوم  کر لے اور (جب) ان سے کہا گیا کہ آؤ خدا  کے رستے میں جنگ  کرو یا (کافروں  کے) حملوں کو روکو۔  تو کہنے لگے کہ اگر ہم کو لڑائی کی خبر ہوتی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ رہتے یہ اس دن ایمان کی نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان  کے دل میں نہیں ہیں۔   اور جو کچھ یہ چھپاتے ہیں خدا ان سے خوب واقف ہے (۱۶۷) یہ خود تو (جنگ سے بچ  کر) بیٹھ ہی رہے تھے مگر (جنہوں نے راہ خدا میں جانیں قربان  کر دیں) اپنے (ان) بھائیوں  کے بارے میں بھی کہتے ہیں کہ اگر ہمارا کہا مانتے تو قتل نہ ہوتے۔   کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو اپنے اوپر سے موت کو ٹال دینا (۱۶۸) جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں) بلکہ خدا  کے نزدیک زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے (۱۶۹) جو کچھ خدا نے ان کو اپنے فضل سے بخش رکھا ہے اس میں خوش ہیں۔   اور جو لوگ ان  کے پیچھے رہ گئے اور(شہید ہو کر) ان میں شامل نہیں ہو سکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں کہ (قیامت  کے دن) ان کو بھی نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمناک ہوں گے (۱۷۰) اور خدا  کے انعامات اور فضل سے خوش ہو رہے ہیں۔   اور اس سے کہ خدا مومنوں کا اجر ضائع نہیں  کرتا (۱۷۱) جنہوں نے باوجود زخم کھانے  کے خدا اور رسول (کے حکم) کو قبول کیا جو لوگ ان میں نیکو کار اور پرہیزگار ہیں ان  کے لئے بڑا ثواب ہے (۱۷۲) (جب) ان سے لوگوں نے آ  کر بیان کیا کہ کفار نے تمہارے (مقابلے  کے) لئے لشکر کثیر) جمع کیا ہے تو ان سے ڈرو۔  تو ان کا ایمان اور زیادہ ہو گیا۔  اور کہنے لگے ہم کو خدا کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے (۱۷۳) پھر وہ خدا کی نعمتوں اور اس  کے فضل  کے ساتھ (خوش و خرم) واپس آئے ان کو کسی طرح کا ضر ر نہ پہنچا۔  اور وہ خدا کی خوشنودی  کے تابع رہے۔   اور خدا بڑے فضل کا مالک ہے (۱۷۴) یہ (خوف دلانے والا) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تو اگر تم مومن ہو تو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا (۱۷۵) اور جو لوگ کفر میں جلدی  کرتے ہیں ان (کی وجہ) سے غمگین نہ ہونا۔  یہ خدا کا کچھ نقصان نہیں  کر سکتے خدا چاہتا ہے کہ آخرت میں ان کو کچھ حصہ نہ دے اور ان  کے لئے بڑا عذاب تیار ہے (۱۷۶) جن لوگوں نے ایمان  کے بدلے کفر خریدا وہ خدا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور ان کو دکھ دینے والا عذاب ہو گا (۱۷۷) اور کافر لوگ یہ نہ خیال  کریں کہ ہم جو ان کو مہلت دیئے جاتے ہیں تو یہ ان  کے حق میں اچھا ہے۔   (نہیں بلکہ) ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ  کر لیں۔   آخرکار ان کو ذلیل  کرنے والا عذاب ہو گا (۱۷۸) (لوگو) جب تک خدا ناپاک کو پاک سے الگ نہ  کر دے گا مومنوں کو اس حال میں جس میں تم ہو ہرگز نہیں رہنے دے گا۔  اور اللہ تم کو غیب کی با توں سے بھی مطلع نہیں  کرے گا البتہ خدا اپنے پیغمبروں میں سے جسے چاہتا ہے انتخاب  کر لیتا ہے۔   تو تم خدا پر اور اس  کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور اگر ایمان لاؤ گے اور پرہیزگاری  کرو گے تو تم کو اجر عظیم ملے گا (۱۷۹) جو لوگ مال میں جو خدا نے اپنے فضل سے ان کو عطا فرمایا ہے بخل  کرتے ہیں وہ اس بخل کو اپنے حق میں اچھا نہ سمجھیں۔   (وہ اچھا نہیں) بلکہ ان  کے لئے برا ہے وہ جس مال میں بخل  کرتے ہیں قیامت  کے دن اس کا طوق بنا  کر ان کی گردنوں میں ڈالا جائے گا۔  اور آسمانوں اور زمین کا وارث خدا ہی ہے۔   اور جو عمل تم  کرتے ہو خدا کو معلوم ہے (۱۸۰) خدا نے ان لوگوں کا قول سن لیا ہے جو کہتے ہیں کہ خدا فقیر ہے۔   اور ہم امیر ہیں۔   یہ جو کہتے ہیں ہم اس کو لکھ لیں گے۔   اور پیغمبروں کو جو یہ ناحق قتل  کرتے رہے ہیں اس کو بھی (قلمبند  کر رکھیں گے) اور (قیامت  کے روز) کہیں گے کہ عذاب (آتش) سوزاں  کے مزے چکھتے رہو (۱۸۱) یہ ان کاموں کی سزا ہے جو تمہارے ہاتھ آگے بھیجتے رہے ہیں اور خدا تو بندوں پر مطلق ظلم نہیں  کرتا (۱۸۲) جو لوگ کہتے ہی کہ خدا نے ہمیں حکم بھیجا ہے کہ جب تک کوئی پیغمبر ہمارے پاس ایسی نیاز لے  کر نہ آئے جس کو آگ آ  کر کھا جائے تب تک ہم اس پر ایمان نہ لائیں گے (اے پیغمبر ان سے) کہہ دو کہ مجھ سے پہلے کئی پیغمبر تمہارے پاس کھلی ہوئی نشانیاں لے  کر آئے اور وہ (معجزہ) بھی لائے جو تم کہتے ہو تو اگر سچے ہو تو تم نے ان کو قتل کیوں کیا؟ (۱۸۳) پھر اگر یہ لوگ تم کو سچا نہ سمجھیں تو تم سے پہلے بہت سے پیغمبر کھلی ہوئی نشانیاں اور صحیفے اور روشن کتابیں لے  کر آ چکے ہیں اور لوگوں نے ان کو بھی سچا نہیں سمجھا (۱۸۴) ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے اور تم کو قیامت  کے دن تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلا دیا جائے گا۔  تو جو شخص آتش جہنم سے دور رکھا گیا اور بہشت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچ گیا اور دنیا کی زندگی تو دھو کے کا سامان ہے (۱۸۵) (اے اہل ایمان) تمہارے مال و جان میں تمہاری آزمائش کی جائے گی۔  اور تم اہل کتاب سے اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سی ایذا کی باتیں سنو گے۔   اور تو اگر صبر اور پرہیزگاری  کرتے رہو گے تو یہ بڑی ہمت  کے کام ہیں (۱۸۶) اور جب خدا نے ان لوگوں سے جن کو کتاب عنایت کی گئی تھی اقرار  کر لیا کہ (جو کچھ اس میں لکھا ہے) اسے صاف صاف بیان  کرتے رہنا۔  اور اس (کی کسی بات) کو نہ چھپانا تو انہوں نے اس کو پس پشت پھینک دیا اور اس  کے بدلے تھوڑی سی قیمت حاصل کی۔  یہ جو کچھ حاصل  کرتے ہیں برا ہے (۱۸۷) جو لوگ اپنے (ناپسند) کاموں سے خوش ہوتے ہیں اور پسندیدہ کام) جو  کرتے نہیں ان  کے لئے چاہتے ہیں کہ ان ک تعریف کی جائے ان کی نسبت خیال نہ  کرنا کہ وہ عذاب سے رستگار ہو جائیں گے۔   اور انہیں درد دینے والا عذاب ہو گا (۱۸۸) اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی خدا ہی کو ہے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے (۱۸۹) بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن  کے بدل بدل  کے آنے جانے میں عقل والوں  کے لیے نشانیاں ہیں (۱۹۰) جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں) خدا کو یاد  کرتے اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور  کرتے (اور کہتے ہیں) کہ اے پروردگار! تو نے اس (مخلوق) کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا تو پاک ہے تو (قیامت  کے دن) ہمیں دوزخ  کے عذاب سے بچائیو (۱۹۱) اے پروردگار جس کو تو نے دوزخ میں ڈالا اسے رسوا کیا اور ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں (۱۹۲) اے پروردگار ہم نے ایک ندا  کرنے والے کو سنا کہ ایمان  کے لیے پکار رہا تھا (یعنی) اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے اے پروردگار ہمارے گناہ معاف فرما اور ہماری برائیوں کو ہم سے محو  کر اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں  کے ساتھ اٹھا (۱۹۳) اے پروردگار تو نے جن جن چیزوں  کے ہم سے اپنے پیغمبروں  کے ذریعے سے وعدے کیے ہیں وہ ہمیں عطا فرما اور قیامت  کے دن ہمیں رسوا نہ کیجو کچھ شک نہیں کہ تو خلاف وعدہ نہیں  کرتا (۱۹۴) تو ان  کے پروردگار نے ان کی دعا قبول  کر لی (اور فرمایا) کہ میں کسی عمل  کرنے والے  کے عمل کو مرد ہو یا عورت ضائع نہیں  کرتا تم ایک دوسرے کی جنس ہو تو جو لوگ میرے لیے وطن چھوڑ گئے اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور لڑے اور قتل کیے گئے میں ان  کے گناہ دور  کر دوں گا اور ان کو بہشتوں میں داخل  کروں گا جن  کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں (یہ) خدا  کے ہاں سے بدلہ ہے اور خدا  کے ہاں اچھا بدلہ ہے (۱۹۵) (اے پیغمبر) کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا تمہیں دھوکا نہ دے (۱۹۶) (یہ دنیا کا) تھوڑا سا فائدہ ہے پھر (آخرت میں) تو ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے (۱۹۷) لیکن جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے رہے ان  کے لیے باغ ہے جن  کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور) ان میں ہمیشہ رہیں گے (یہ) خدا  کے ہاں سے (ان کی) مہمانی ہے اور جو کچھ خدا  کے ہاں ہے وہ نیکو کاروں  کے لیے بہت اچھا ہے (۱۹۸) اور بعض اہلِ  کتاب ایسے بھی ہیں جو خدا پر اور اس (کتاب) پر جو تم پر نازل ہوئی اور اس پر جو ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور خدا  کے آگے عاجزی  کرتے ہیں اور خدا کی آیتوں  کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہیں لیتے یہی لوگ ہیں جن کا صلہ ان  کے پروردگار  کے ہاں تیار ہے اور خدا جلد حساب لینے والا ہے (۱۹۹) اے اہل ایمان (کفار  کے مقابلے میں) ثابت قدم رہو اور استقامت رکھو اور مورچوں پر جمے رہو اور خدا سے ڈرو تاکہ مراد حاصل  کرو (۲۰۰)

 

سورة النِّسَاء

شروع اللہ  کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا (یعنی اول) اس سے اس کا جوڑا بنایا۔  پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت (پیدا  کر  کے روئے زمین پر) پھیلا دیئے۔   اور خدا سے جس  کے نام کو تم اپنی حاجت بر آری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو اور (قطع مودت) ارحام سے (بچو) کچھ شک نہیں کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے (۱) اور یتیموں کا مال (جو تمہاری تحویل میں ہو) ان  کے حوالے  کر دو اور ان  کے پاکیزہ (اور عمدہ) مال کو (اپنے ناقص اور) برے مال سے نہ بدلو۔  اور نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا  کر کھاؤ۔  کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے (۲) اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں  کے بارے انصاف نہ  کر سکو گے تو ان  کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح  کر لو۔  اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عور توں سے) یکساں سلوک نہ  کر سکو گے تو ایک عورت (کافی ہے) یا لونڈی جس  کے تم مالک ہو۔  اس سے تم بے انصافی سے بچ جاؤ گے (۳) اور عور توں کو ان  کے مہر خوشی سے دے دیا  کرو۔  ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ تم کو چھوڑ دیں تو اسے ذوق شوق سے کھالو (۴) اور بے عقلوں کو ان کا مال جسے خدا نے تم لوگوں  کے لئے سبب معیشت بنایا ہے مت دو (ہاں) اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہے اور ان سے معقول باتیں کہتے رہو (۵) اور یتیموں کو بالغ ہونے تک کام کاج میں مصروف رکھو پھر (بالغ ہونے پر) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو تو ان کا مال ان  کے حوالے  کر دو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہو جائیں گے (یعنی بڑے ہو  کر تم سے اپنا مال واپس لے لیں گے) اس کو فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا۔  جو شخص آسودہ حال ہو اس کو (ایسے مال سے قطعی طور پر) پرہیز رکھنا چاہیئے اور جو بے مقدور ہو وہ مناسب طور پر (یعنی بقدر خدمت) کچھ لے لے اور جب ان کا مال ان  کے حوالے  کرنے لگو تو گواہ  کر لیا  کرو۔  اور حقیقت میں تو خدا ہی (گواہ اور) حساب لینے والا کافی ہے (۶) جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں تھوڑا ہو یا بہت۔  اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عور توں کا بھی یہ حصے (خدا  کے) مقرر کئے ہوئے ہیں (۷) اور جب میراث کی تقسیم  کے وقت (غیر وارث) رشتہ دار اور یتیم اور محتاج آ جائیں تو ان کو بھی اس میں سے کچھ دے دیا  کرو۔  اور شیریں کلامی سے پیش آیا  کرو (۸) اور ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہیئے جو (ایسی حالت میں ہوں کہ) اپنے بعد ننھے ننھے بچے چھوڑ جائیں اور ان کو ان کی نسبت خوف ہو (کہ ان  کے مرنے  کے بعد ان بیچاروں کا کیا حال ہو گا) پس چاہیئے کہ یہ لوگ خدا سے ڈریں اور معقول بات کہیں (۹) لوگ یتیموں کا مال ناجائز طور پر کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں۔   اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے (۱۰) خدا تمہاری اولاد  کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑ کے کا حصہ دو لڑکیوں  کے حصے  کے برابر ہے۔   اور اگر اولاد میت صرف لڑکیاں ہی ہوں (یعنی دو یا) دو سے زیادہ تو کل تر کے میں ان کا دو تہائی۔  اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا حصہ نصف۔  اور میت  کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا تر کے میں چھٹا حصہ بشرطیکہ میت  کے اولاد ہو۔  اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس  کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ۔  اور اگر میت  کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ۔  (اور یہ تقسیم ترکہ میت کی) وصیت (کی تعمیل)  کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض  کے (ادا ہونے  کے بعد جو اس  کے ذمے ہو عمل میں آئے گی) تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ دادوں اور بیٹوں پو توں میں سے فائدے  کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے ، یہ حصے خدا  کے مقرر کئے ہوئے ہیں اور خدا سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے (۱۱) اور جو مال تمہاری عورتیں چھوڑ مریں۔   اگر ان  کے اولاد نہ ہو تو اس میں نصف حصہ تمہارا۔  اور اگر اولاد ہو تو تر کے میں تمہارا حصہ چوتھائی۔  (لیکن یہ تقسیم) وصیت (کی تعمیل)  کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض  کے (ادا ہونے  کے بعد جو ان  کے ذمے ہو، کی جائے گی) اور جو مال تم (مرد) چھوڑ مرو۔  اگر تمہارے اولاد نہ ہو تو تمہاری عور توں کا اس میں چوتھا حصہ۔  اور اگر اولاد ہو تو ان کا آٹھواں حصہ (یہ حصے) تمہاری وصیت (کی تعمیل)  کے بعد جو تم نے کی ہو اور (ادائے) قرض  کے (بعد تقسیم کئے جائیں گے) اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس  کے نہ باپ ہو نہ بیٹا مگر اس  کے بھائی بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ اور اگر ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ حصے بھی ادائے وصیت و قرض بشرطیکہ ان سے میت نے کسی کا نقصان نہ کیا ہو (تقسیم کئے جائیں گے) یہ خدا کا فرمان ہے۔   اور خدا نہایت علم والا (اور) نہایت حلم والا ہے (۱۲) (یہ تمام احکام) خدا کی حدیں ہیں۔   اور جو شخص خدا اور اس  کے پیغمبر کی فرمانبرداری  کرے گا خدا اس کو بہشتوں میں داخل  کرے گا جن میں نہریں بہہ رہی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔  اور یہ بڑی کامیابی ہے (۱۳) اور جو خدا اور اس  کے رسول کی نافرمانی  کرے گا اور اس کی حدوں سے نکل جائے گا اس کو خدا دوزخ میں ڈالے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔  اور اس کو ذلت کا عذاب ہو گا (۱۴) مسلمانو تمہاری عور توں میں جو بدکاری کا ارتکاب  کر بیٹھیں ان پر اپنے لوگوں میں سے چار شخصوں کی شہادت لو۔  اگر وہ (ان کی بدکاری کی)گواہی دیں تو ان عور توں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت ان کا کام تمام  کر دے یا خدا ان  کے لئے کوئی اور سبیل (پیدا)  کرے (۱۵) اور جو دو مرد تم میں سے بدکاری  کریں تو ان کو ایذا دو۔  پھر اگر وہ توبہ  کر لیں اور نیکو کار ہو جائیں تو ان کا پیچھا چھوڑ دو۔  بے شک خدا توبہ قبول  کرنے والا (اور) مہربان ہے (۱۶) خدا انہیں لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو نادانی سے بری حرکت  کر بیٹھے ہیں۔   پھر جلد توبہ قبول  کر لیتے ہیں پس ایسے لوگوں پر خدا مہربانی  کرتا ہے۔   اور وہ سب کچھ جانتا (اور) حکمت والا ہے (۱۷) اور ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو (ساری عمر) برے کام  کرتے ہیں۔   یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی موت آ موجود ہو تو اس وقت کہنے لگے کہ اب میں توبہ  کرتا ہوں اور نہ ان کی (توبہ قبول ہوتی ہے) جو کفر کی حالت میں مریں۔   ایسے لوگوں  کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار  کر رکھا ہے (۱۸) مومنو! تم کو جائز نہیں کہ زبردستی عور توں  کے وارث بن جاؤ۔  اور (دیکھنا) اس نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ لے لو انہیں (گھروں میں) میں مت روک رکھنا ہاں اگر وہ کھلے طور پر بدکاری کی مرتکب ہوں (تو روکنا مناسب نہیں) اور ان  کے ساتھ اچھی طرح رہو سہو اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند  کرو اور خدا اس میں بہت سی بھلائی پیدا  کر دے (۱۹) اور اگر تم ایک عورت کو چھوڑ  کر دوسری عورت  کرنی چا ہو۔  اور پہلی عورت کو بہت سال مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ مت لینا۔  بھلا تم ناجائز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال اس سے واپس لے لو گے ؟ (۲۰) اور تم دیا ہوا مال کیوں کر واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے  کے ساتھ صحبت  کر چکے ہو۔  اور وہ تم سے عہد واثق بھی لے چکی ہے (۲۱) اور جن عور توں سے تمہارے باپ نے نکاح کیا ہو ان نکاح مت  کرنا (مگر جاہلیت میں) جو ہو چکا (سو ہو چکا) یہ نہایت بے حیائی اور (خدا کی) نا خوشی کی بات تھی۔  اور بہت برا دستور تھا (۲۲) تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور رضاعی بہنیں اور ساسیں حرام  کر دی گئی ہیں اور جن عور توں سے تم مباشرت  کر چکے ہو ان کی لڑکیاں جنہیں تم پرورش  کرتے (ہو وہ بھی تم پر حرام ہیں) ہاں اگر ان  کے ساتھ تم نے مباشرت نہ کی ہو تو (ان کی لڑکیوں  کے ساتھ نکاح  کر لینے میں) تم پر کچھ گناہ نہیں اور تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں بھی اور دو بہنوں کا اکٹھا  کرنا بھی (حرام ہے) مگر جو ہو چکا (سو ہو چکا) بے شک خدا بخشنے والا (اور) رحم  کرنے والا ہے (۲۳) اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو  کر لونڈیوں  کے طور پر) تمہارے قبضے میں آ جائیں (یہ حکم) خدا نے تم کو لکھ دیا ہے اور ان (محرمات)  کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اس طرح سے کہ مال خرچ  کر  کے ان سے نکاح  کر لو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی تو جن عور توں سے تم فائدہ حاصل  کرو ان کا مہر جو مقرر کیا ہو ادا  کر دو اور اگر مقرر  کرنے  کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی  کر لو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بے شک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے (۲۴) اور جو شخص تم میں سے مومن آزاد عور توں (یعنی بیبیوں) سے نکاح  کرنے کا مقدور نہ رکھے تو مومن لونڈیوں میں ہی جو تمہارے قبضے میں آ گئی ہوں (نکاح  کر لے) اور خدا تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے تم آپس میں ایک دوسرے  کے ہم جنس ہو تو ان لونڈیوں  کے ساتھ ان  کے مالکوں سے اجازت حاصل  کر  کے نکاح  کر لو اور دستور  کے مطابق ان کا مہر بھی ادا  کر دو بشرطیکہ عفیفہ ہوں نہ ایسی کہ کھلم کھلا بدکاری  کریں اور نہ درپردہ دوستی  کرنا چاہیں پھر اگر نکاح میں آ  کر بدکاری کا ارتکاب  کر بیٹھیں تو جو سزا آزاد عور توں (یعنی بیبیوں)  کے لئے ہے اس کی آدھی ان کو (دی جائے) یہ (لونڈی  کے ساتھ نکاح  کرنے کی) اجازت اس شخص کو ہے جسے گناہ  کر بیٹھنے کا اندیشہ ہو اور اگر صبر  کرو تو یہ تمہارے لئے بہت اچھا ہے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے (۲۵) خدا چاہتا ہے کہ (اپنی آیتیں) تم سے کھول کھول  کر بیان فرمائے اور تم کو اگلے لوگوں  کے طریقے بتائے اور تم پر مہربانی  کرے اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے (۲۶) اور خدا تو چاہتا ہے کہ تم پر مہربانی  کرے اور جو لوگ اپنی خواہشوں  کے پیچھے چلتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم سیدھے راستے سے بھٹک  کر دور جا پڑو (۲۷) خدا چاہتا ہے کہ تم پر سے بوجھ ہلکا  کرے اور انسان (طبعاً) کمزور پیدا ہوا ہے (۲۸) مومنو! ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کا لین دین ہو (اور اس سے مالی فائدہ حاصل ہو جائے تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو ہلاک نہ  کرو کچھ شک نہیں کہ خدا تم پر مہربان ہے (۲۹) اور جو تعدی اور ظلم سے ایسا  کرے گا ہم اس کو عنقریب جہنم میں داخل  کریں گے اور یہ خدا کو آسان ہے (۳۰) اگر تم بڑے بڑے گنا ہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے اجتناب رکھو گے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف  کر دیں گے اور تمہیں عزت  کے مکانوں میں داخل  کریں گے (۳۱) اور جس چیز میں خدا نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اس کی ہوس مت  کرو مردوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے اور عور توں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے اور خدا سے اس کا فضل (و کرم) مانگتے رہو کچھ شک نہیں کہ خدا ہر چیز سے واقف ہے (۳۲) اور جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں تو (حق داروں میں تقسیم  کر دو کہ) ہم نے ہر ایک  کے حقدار مقرر  کر دیئے ہیں اور جن لوگوں سے تم عہد  کر چکے ہو ان کو بھی ان کا حصہ دو بے شک خدا ہر چیز  کے سامنے ہے (۳۳) مرد عور توں پر مسلط و حاکم ہیں اس لئے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ  کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں  کے حکم پر چلتی ہیں اور ان  کے پیٹھ پیچھے خدا کی حفاظت میں (مال و آبرو کی) خبرداری  کرتی ہیں اور جن عور توں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی (اور بدخوئی)  کرنے لگی ہیں تو (پہلے) ان کو (زبانی) سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں تو) پھر ان  کے ساتھ سونا ترک  کر دو اگر اس پر بھی باز نہ آئیں تو زد و کوب  کرو اور اگر فرمانبردار ہو جائیں تو پھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانہ مت ڈھونڈو بے شک خدا سب سے اعلیٰ (اور) جلیل القدر ہے (۳۴) اور اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں ان بن ہے تو ایک منصف مرد  کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت  کے خاندان میں سے مقرر  کرو وہ اگر صلح  کرا دینی چاہیں گے تو خدا ان میں موافقت پیدا  کر دے گا کچھ شک نہیں کہ خدا سب کچھ جانتا اور سب با توں سے خبردار ہے (۳۵) اور خدا ہی کی عبادت  کرو اور اس  کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسائیوں اور اجنبی ہمسائیوں اور رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب  کے ساتھ احسان  کرو کہ خدا (احسان  کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور) تکبر  کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا (۳۶) جو خود بھی بخل  کریں اور لوگوں کو بھی بخل سکھائیں اور جو (مال) خدا نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے اسے چھپا چھپا  کے رکھیں اور ہم نے ناشکروں  کے لئے ذلت کا عذاب تیار  کر رکھا ہے (۳۷) اور خرچ بھی  کریں تو (خدا  کے لئے نہیں بلکہ) لوگوں  کے دکھانے کو اور ایمان نہ خدا پر لائیں اور نہ روز آخرت پر (ایسے لوگوں کو ساتھی شیطان ہے) اور جس کا ساتھی شیطان ہوا تو (کچھ شک نہیں کہ) وہ برا ساتھی ہے (۳۸) اور اگر یہ لوگ خدا پر اور روز قیامت پر ایمان لاتے اور جو کچھ خدا نے ان کو دیا تھا اس میں سے خرچ  کرتے تو ان کا کیا نقصان ہوتا اور خدا ان کو خوب جانتا ہے (۳۹) خدا کسی کی ذرا بھی حق تلفی نہیں  کرتا اور اگر نیکی (کی) ہو گی تو اس کو دوچند  کر دے گا اور اپنے ہاں سے اجر عظیم بخشے گا (۴۰) بھلا اس دن کا کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتائے والے کو بلائیں گے اور تم کو ان لوگوں کا حال (بتانے کو) گواہ طلب  کریں گے (۴۱) اس روز کافر اور پیغمبر  کے نافرمان آرزو  کریں گے کہ کاش ان کو زمین میں مدفون  کر  کے مٹی برابر  کر دی جاتی اور خدا سے کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے (۴۲) مومنو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جب تک (ان الفاظ کو) جو منہ سے کہو سمجھنے (نہ) لگو نماز  کے پاس نہ جاؤ اور جنابت کی حالت میں بھی (نماز  کے پاس نہ جاؤ) جب تک کہ غسل (نہ)  کر لو ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جا رہے ہو اور پانی نہ ملنے  کے سبب غسل نہ  کر سکو تو تیمم  کر  کے نماز پڑھ لو) اور اگر تم بیمار ہو سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی بیت الخلاء سے ہو  کر آیا ہو یا تم عور توں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی لو اور منہ اور ہاتھوں پر مسح (کر  کے تیمم)  کر لو بے شک خدا معاف  کرنے والا اور بخشنے والا ہے (۴۳) بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا تھا کہ وہ گمراہی کو خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی رستے سے بھٹک جاؤ (۴۴) اور خدا تمہارے دشمنوں سے خوب واقف ہے اور خدا ہی کافی کارساز ہے اور کافی مدد گار ہے (۴۵) اور یہ جو یہودی ہیں ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ کلمات کو ان  کے مقامات سے بدل دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور نہیں مانا اور سنے نہ سنوائے جاؤ اور زبان کو مروڑ  کر اور دین میں طعن کی راہ سے (تم سے گفتگو)  کے وقت راعنا کہتے ہیں اور اگر (یوں) کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور (صرف) اسمع اور (راعنا کی جگہ) انظرنا (کہتے) تو ان  کے حق میں بہتر ہوتا اور بات بھی بہت درست ہوتی لیکن خدا نے ان  کے کفر  کے سبب ان پر لعنت  کر رکھی ہے تو یہ کچھ تھوڑے ہی ایمان لاتے ہیں (۴۶) اے کتاب والو! قبل اس  کے کہ ہم لوگوں  کے مونہوں کو بگاڑ  کر ان کی پیٹھ کی طرف پھیر دیں یا ان پر اس طرح لعنت  کریں جس طرح ہفتے والوں پر کی تھی ہماری نازل کی ہوئی کتاب پر جو تمہاری کتاب کی بھی تصدیق  کرتی ہے ایمان لے آؤ اور خدا نے جو حکم فرمایا سو (سمجھ لو کہ) ہو چکا (۴۷) خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس  کے سوا اور گناہ جس کو چاہے معاف  کر دے اور جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا (۴۸) کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے تئیں پاکیزہ کہتے ہیں (نہیں) بلکہ خدا ہی جس کو چاہتا ہے پاکیزہ  کرتا ہے اور ان پر دھاگے  کے برابر بھی ظلم نہیں ہو گا (۴۹) دیکھو یہ خدا پر کیسا جھوٹ (طوفان) باندھتے ہیں اور یہی گناہ صریح کافی ہے (۵۰) بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا ہے کہ بتوں اور شیطان کو مانتے ہیں اور کفار  کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ مومنوں کی نسبت سیدھے رستے پر ہیں (۵۱) یہی لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور جس پر خدا لعنت  کرے تو تم اس کا کسی کو مدد گار نہ پاؤ گے (۵۲) کیا ان  کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے تو لوگوں کو تل برابر بھی نہ دیں گے (۵۳) یا جو خدا نے لوگوں کو اپنے فضل سے دے رکھا ہے اس کا حسد  کرتے ہیں تو ہم نے خاندان ابراہیم ؑ کو کتاب اور دانائی عطا فرمائی تھی اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی (۵۴) پھر لوگوں میں سے کسی نے تو اس کتاب کو مانا اور کوئی اس سے رکا (اور ہٹا) رہا تو نہ ماننے والوں (کے جلانے) کو دوزخ کی جلتی ہوئی آگ کافی ہے (۵۵) جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ان کو ہم عنقریب آگ میں داخل  کریں گے جب ان کی کھالیں گل (اور جل) جائیں گی تو ہم اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ (ہمیشہ) عذاب (کا مزہ چکھتے) رہیں بے شک خدا غالب حکمت والا ہے (۵۶) اور جو ایمان لائے اور نیک عمل  کرتے رہے ان کو ہم بہشتوں میں داخل  کریں گے جن  کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے وہاں ان  کے لئے پاک بیبیاں ہیں اور ان کو ہم گھنے سائے میں داخل  کریں گے (۵۷) خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان  کے حوالے  کر دیا  کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ  کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا  کرو خدا تمہیں بہت خوب نصیحت  کرتا ہے بے شک خدا سنتا اور دیکھتا ہے (۵۸) مومنو! خدا اور اس  کے رسول کی فرمانبرداری  کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس  کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع  کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے (۵۹) کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ  کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش  کے پاس لے جا  کر فیصلہ  کرائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس سے اعتقاد نہ رکھیں اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا  کر رستے سے دور ڈال دے (۶۰) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو حکم خدا نے نازل فرمایا ہے اس کی طرف (رجوع  کرو) اور پیغمبر کی طرف آؤ تو تم منافقوں کو دیکھتے ہو کہ تم سے اعراض  کرتے اور ر کے جاتے ہیں (۶۱) تو کیسی (ندامت کی) بات ہے کہ جب ان  کے اعمال (کی شامت سے) ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو تمہارے پاس بھاگے آتے ہیں اور قسمیں کھاتے ہیں کہ واللہ ہمارا مقصود تو بھلائی اور موافقت تھا (۶۲) ان لوگوں  کے دلوں میں جو کچھ ہے خدا اس کو خوب جانتا ہے تم ان (کی با توں) کو کچھ خیال نہ  کرو اور انہیں نصیحت  کرو اور ان سے ایسی باتیں کہو جو ان  کے دلوں میں اثر  کر جائیں (۶۳) اور ہم نے جو پیغمبر بھیجا ہے اس لئے بھیجا ہے کہ خدا  کے فرمان  کے مطابق اس کا حکم مانا جائے اور یہ لوگ جب اپنے حق میں ظلم  کر بیٹھے تھے اگر تمہارے پاس آتے اور خدا سے بخشش مانگتے اور رسول (خدا) بھی ان  کے لئے بخشش طلب  کرتے تو خدا کو معاف  کرنے والا (اور) مہربان پاتے (۶۴) تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم  کر دو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے (۶۵) اور اگر ہم انہیں حکم دیتے کہ اپنے آپ کو قتل  کر ڈالو یا اپنے گھر چھوڑ  کر نکل جاؤ تو ان میں سے تھوڑے ہی ایسا  کرتے اور اگر یہ اس نصیحت پر کاربند ہوتے جو ان کو کی جاتی ہے تو ان  کے حق میں بہتر اور (دین میں) زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتا (۶۶) اور ہم ان کو اپنے ہاں سے اجر عظیم بھی عطا فرماتے (۶۷) اور سیدھا رستہ بھی دکھاتے (۶۸) اور جو لوگ خدا اور اس  کے رسول کی اطاعت  کرتے ہیں وہ (قیامت  کے روز) ان لوگوں  کے ساتھ ہوں گے جن پر خدا نے بڑا فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے (۶۹) یہ خدا کا فضل ہے اور خدا جاننے والا کافی ہے (۷۰) مومنو! (جہاد  کے لئے) ہتھیار لے لیا  کرو پھر یا تو جماعت جماعت ہو  کر نکلا  کرو یا سب اکھٹے کوچ کیا  کرو (۷۱) اور تم میں کوئی ایسا بھی ہے کہ (عمداً) دیر لگاتا ہے۔   پھر اگر تم پر کوئی مصیبت پڑ جائے تو کہتا ہے کہ خدا نے مجھ پر بڑی مہربانی کی کہ میں ان میں موجود نہ تھا (۷۲) اور اگر خدا تم پر فضل  کرے تو اس طرح سے کہ گویا تم میں اس میں دوستی تھی ہی نہیں (کہ افسوس  کرتا اور) کہتا ہے کہ کاش میں بھی ان  کے ساتھ ہوتا تو مقصد عظیم حاصل  کرتا (۷۳) تو جو لوگ آخرت (کو خریدتے اور اس)  کے بدلے دنیا کی زندگی کو بیچنا چاہتے ہیں اُن کو چاہیئے کہ خدا کی راہ میں جنگ  کریں اور جو شخص خدا کی راہ میں جنگ  کرے اور شہید ہو جائے یا غلبہ پائے ہم عنقریب اس کو بڑا ثواب دیں گے (۷۴) اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خدا کی راہ میں اور اُن بے بس مردوں اور عور توں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو دعائیں کیا  کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو اس شہر سے جس  کے رہنے والے ظالم ہیں نکال  کر کہیں اور لے جا۔  اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا۔  اور اپنی ہی طرف سے کسی کو ہمارا مدد گار مقرر فرما (۷۵) جو مومن ہیں وہ تو خدا  کے لئے لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ بتوں  کے لئے لڑتے ہیں سو تم شیطان  کے مدد گاروں سے لڑو۔  (اور ڈرو مت) کیونکہ شیطان کا داؤ بودا ہوتا ہے (۷۶) بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو (پہلے یہ) حکم دیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو (جنگ سے) رو کے رہو اور نماز پڑھتے رہو اور زکوٰۃ دیتے رہو پھر جب ان پر جہاد فرض  کر دیا گیا تو بعض لوگ ان میں سے لوگوں سے یوں ڈرنے لگے جیسے خدا سے ڈرا  کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ اور بڑبڑانے لگے کہ اے خدا تو نے ہم پر جہاد (جلد) کیوں فرض  کر دیا تھوڑی مدت اور ہمیں کیوں مہلت نہ دی (اے پیغمبر ان س)ے کہہ دو کہ دنیا کا فائدہ بہت تھوڑا ہے اور بہت اچھی چیز تو پرہیزگار  کے لئے (نجات) آخرت ہے اور تم پر دھاگے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا (۷۷) (اے جہاد سے ڈرنے والو) تم کہیں رہو موت تو تمہیں آ  کر رہے گی خواہ بڑے بڑے محلوں میں رہو اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے تو (اے محمدﷺ تم سے) کہتے ہیں کہ یہ گزند آپ کی وجہ سے (ہمیں پہنچا) ہے کہہ دو کہ (رنج و راحت) سب اللہ ہی کی طرف سے ہے ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے (۷۸) اے (آدم زاد) تجھ کو جو فائدہ پہنچے وہ خدا کی طرف سے ہے اور جو نقصان پہنچے وہ تیری ہی (شامت اعمال) کی وجہ سے ہے اور (اے محمدﷺ) ہم نے تم کو لوگوں (کی ہدایت)  کے لئے پیغمبر بنا  کر بھیجا ہے اور (اس بات کا) خدا ہی گواہ کافی ہے (۷۹) جو شخص رسول کی فرمانبرداری  کرے گا تو بے شک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی اور جو نافرمانی  کرے گا تو اے پیغمبر تمہیں ہم نے ان کا نگہبان بنا  کر نہیں بھیجا (۸۰) اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ (آپ کی) فرمانبرداری (دل سے منظور ہے) لیکن جب تمہارے پاس سے چلے جاتے ہیں تو ان میں سے بعض لوگ رات کو تمہاری با توں  کے خلاف مشورے  کرتے ہیں اور جو مشورے یہ  کرتے ہیں خدا ان کو لکھ لیتا ہے تو ان کا کچھ خیال نہ  کرو اور خدا پر بھروسہ رکھو اور خدا ہی کافی کارساز ہے (۸۱) بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں  کرتے ؟ اگر یہ خدا  کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے (۸۲) اور جب ان  کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اس کو مشہور  کر دیتے ہیں اور اگر اس کو پیغمبر اور اپنے سرداروں  کے پاس پہنچاتے تو تحقیق  کرنے والے اس کی تحقیق  کر لیتے اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو چند اشخاص  کے سوا سب شیطان  کے پیرو ہو جاتے (۸۳) تو (اے محمدﷺ) تم خدا کی راہ میں لڑو تم اپنے سوا کسی  کے ذمہ دار نہیں اور مومنوں کو بھی ترغیب دو قریب ہے کہ خدا کافروں کی لڑائی کو بند  کر دے اور خدا لڑائی  کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا  کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے (۸۴) جو شخص نیک بات کی سفارش  کرے تو اس کو اس (کے ثواب) میں سے حصہ ملے گا اور جو بری بات کی سفارش  کرے اس کو اس (کے عذاب) میں سے حصہ ملے گا اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے (۸۵) اور جب تم کو کوئی دعا دے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے) سے (اسے) دعا دو یا انہیں لفظوں سے دعا دو بے شک خدا ہر چیز کا حساب لینے والا ہے (۸۶) خدا (وہ معبود برحق ہے کہ) اس  کے سوا کوئی عبادت  کے لائق نہیں وہ قیامت  کے دن تم سب کو ضرور جمع  کرے گا اور خدا سے بڑھ  کر بات کا سچا کون ہے ؟ (۸۷) تو کیا سبب ہے کہ تم منافقوں  کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو حالانکہ خدا نے ان کو ان  کے  کر تو توں  کے سبب اوندھا  کر دیا ہے کیا تم چاہتے ہو کہ جس شخص کو خدا نے گمراہ  کر دیا ہے اس کو رستے پر لے آؤ اور جس شخص کو خدا گمراہ  کر دے تو اس  کے لئے کبھی بھی رستہ نہیں پاؤ گے (۸۸) وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں (اسی طرح) تم بھی کافر ہو  کر (سب) برابر ہو جاؤ تو جب تک وہ خدا کی راہ میں وطن نہ چھوڑ جائیں ان میں سے کسی کو دوست نہ بنانا اگر (ترک وطن کو) قبول نہ  کریں تو ان کو پکڑ لو اور جہاں پاؤ قتل  کر دو اور ان میں سے کسی کو اپنا رفیق اور مدد گار نہ بناؤ (۸۹) مگر جو لوگ ایسے لوگوں سے جا ملے ہوں جن میں اور تم میں (صلح کا) عہد ہو یا اس حال میں کہ ان  کے دل تمہارے ساتھ یا اپنی قوم  کے ساتھ لڑنے سے رک گئے ہوں تمہارے پاس آ جائیں (تو احتراز ضروری نہیں) اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر غالب  کر دیتا تو وہ تم سے ضرور لڑتے پھر اگر وہ تم سے (جنگ  کرنے سے) کنارہ کشی  کریں اور لڑیں نہیں اور تمہاری طرف صلح (کا پیغام) بھیجیں تو خدا نے تمہارے لئے ان پر (زبردستی  کرنے کی) کوئی سبیل مقرر نہیں کی (۹۰) تم کچھ اور لوگ ایسے بھی پاؤ گے جو یہ چاہتے ہیں کہ تم سے بھی امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہیں لیکن فتنہ انگیزی کو بلائے جائیں تو اس میں اوندھے منہ گر پڑیں تو ایسے لوگ اگر تم سے (لڑنے سے) کنارہ کشی نہ  کریں اور نہ تمہاری طرف (پیغام) صلح بھیجیں اور نہ اپنے ہاتھوں کو روکیں تو ان کو پکڑ لو اور جہاں پاؤ قتل  کر دو ان لوگوں  کے مقابلے میں ہم نے تمہارے لئے سند صریح مقرر  کر دی ہے (۹۱) اور کسی مومن کو شایان نہیں کہ مومن کو مار ڈالے مگر بھول  کر اور جو بھول  کر بھی مومن کو مار ڈالے تو (ایک تو) ایک مسلمان غلام آزاد  کر دے اور (دوسرے) مقتول  کے وارثوں کو خون بہا دے ہاں اگر وہ معاف  کر دیں (تو ان کو اختیار ہے) اگر مقتول تمہارے دشمنوں کی جماعت میں سے ہو اور وہ خود مومن ہو تو صرف ایک مسلمان غلام آزاد  کرنا چاہیئے اور اگر مقتول ایسے لوگوں میں سے ہو جن میں اور تم میں صلح کا عہد ہو تو وارثین مقتول کو خون بہا دینا اور ایک مسلمان غلام آزاد  کرنا چاہیئے اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ متواتر دو مہینے  کے روزے رکھے یہ (کفارہ) خدا کی طرف سے (قبول) توبہ (کے لئے) ہے اور خدا (سب کچھ) جانتا اور بڑی حکمت والا ہے (۹۲) اور جو شخص مسلمان کو قصداً مار ڈالے گا تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ (جلتا) رہے گا اور خدا اس پر غضبناک ہو گا اور اس پر لعنت  کرے گا اور ایسے شخص  کے لئے اس نے بڑا (سخت) عذاب تیار  کر رکھا ہے (۹۳) مومنو! جب تم خدا کی راہ میں باہر نکلو  کرو تو تحقیق سے کام لیا  کرو اور جو شخص تم سے سلام علیک  کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں اور اس سے تمہاری غرض یہ ہو کہ دنیا کی زندگی کا فائدہ حاصل  کرو سو خدا  کے نزدیک بہت سے غنیمتیں ہیں تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے پھر خدا نے تم پر احسان کیا تو (آئندہ) تحقیق  کر لیا  کرو اور جو عمل تم  کرتے ہو خدا کو سب کی خبر ہے (۹۴) جو مسلمان (گھروں میں) بیٹھ رہتے (اور لڑنے سے جی چراتے) ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے وہ اور جو خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے لڑتے ہیں وہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے خدا نے مال اور جان سے جہاد  کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے اور (گو) نیک وعدہ سب سے ہے لیکن اجر عظیم  کے لحاظ سے خدا نے جہاد  کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر کہیں فضیلت بخشی ہے (۹۵) (یعنی) خدا کی طرف سے درجات میں اور بخشش میں اور رحمت میں اور خدا بڑا بخشنے والا (اور) مہربان ہے (۹۶) اور جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم  کرتے ہیں جب فرشتے ان کی جان قبض  کرنے لگتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز ونا تواں تھے فرشتے کہتے ہیں کیا خدا کا ملک فراخ نہیں تھا کہ تم اس میں ہجرت  کر جاتے ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے (۹۷) ہاں جو مرد اور عورتیں اور بچے بے بس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ  کر سکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں (۹۸) قریب ہے کہ خدا ایسوں کو معاف  کر دے اور خدا معاف  کرنے والا (اور) بخشنے والا ہے (۹۹) اور جو شخص خدا کی راہ میں گھر بار چھوڑ جائے وہ زمین میں بہت سی جگہ اور کشائش پائے گا اور جو شخص خدا اور رسول کی طرف ہجرت  کر  کے گھر سے نکل جائے پھر اس کو موت آ پکڑے تو اس کا ثواب خدا  کے ذمے ہو چکا اور خدا بخشنے والا اور مہربان ہے (۱۰۰) اور جب تم سفر کو جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم  کر  کے پڑھو بشرطیکہ تم کو خوف ہو کہ کافر لوگ تم کو ایذا دیں گے بے شک کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں (۱۰۱) اور (اے پیغمبر) جب تم ان (مجاہدین  کے لشکر) میں ہو اور ان کو نماز پڑھانے لگو تو چاہیئے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ مسلح ہو  کر کھڑی رہے جب وہ سجدہ  کر چکیں تو پرے ہو جائیں پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی (ان کی جگہ) آئے اور ہوشیار اور مسلح ہو  کر تمہارے ساتھ نماز ادا  کرے کافر اس گھات میں ہیں کہ تم ذرا اپنے ہتھیاروں اور سامان سے غافل ہو جاؤ تو تم پر یکبارگی حملہ  کر دیں اگر تم بارش  کے سبب تکلیف میں یا بیمار ہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اتار رکھو مگر ہوشیار ضرور رہنا خدا نے کافروں  کے لئے ذلت کا عذاب تیار  کر رکھا ہے (۱۰۲) پھر جب تم نماز تمام  کر چکو تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حالت میں) خدا کو یاد  کرو پھر جب خوف جاتا رہے تو (اس طرح سے) نماز پڑھو (جس طرح امن کی حالت میں پڑھتے ہو) بے شک نماز کا مومنوں پر اوقات (مقررہ) میں ادا  کرنا فرض ہے (۱۰۳) اور کفار کا پیچھا  کرنے میں سستی نہ  کرنا اگر تم بے آرام ہوتے ہو تو جس طرح تم بے آرام ہوتے ہو اسی طرح وہ بھی بے آرام ہوتے ہیں اور تم خدا سے ایسی ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھ سکتے اور خدا سب کچھ جانتا اور (بڑی) حکمت والا ہے (۱۰۴) (اے پیغمبر) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ خدا کی ہدایت  کے مطابق لوگوں  کے مقدمات میں فیصلہ  کرو اور (دیکھو) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ  کرنا (۱۰۵) اور خدا سے بخشش مانگنا بے شک خدا بخشنے والا مہربان ہے (۱۰۶) اور لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت  کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ  کرنا کیونکہ خدا خائن اور مرتکب جرائم کو دوست نہیں رکھتا (۱۰۷) یہ لوگوں سے تو چھپتے ہیں اور خدا سے نہیں چھپتے حالانکہ جب وہ را توں کو ایسی با توں  کے مشورے کیا  کرتے ہیں جن کو وہ پسند نہیں  کرتا ان  کے ساتھ ہوا  کرتا ہے اور خدا ان  کے (تمام) کاموں پر احاطہ کئے ہوئے ہے (۱۰۸) بھلا تم لوگ دنیا کی زندگی میں تو ان کی طرف سے بحث  کر لیتے ہو قیامت کو ان کی طرف سے خدا  کے ساتھ کون جھگڑے گا اور کون ان کا وکیل بنے گا؟ (۱۰۹) اور جو شخص کوئی برا کام  کر بیٹھے یا اپنے حق میں ظلم  کر لے پھر خدا سے بخشش مانگے تو خدا کو بخشنے والا اور مہربان پائے گا (۱۱۰) اور جو کوئی گناہ  کرتا ہے تو اس کا وبال اسی پر ہے اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے (۱۱۱) اور جو شخص کوئی قصور یا گناہ تو خود  کرے لیکن اس سے کسی بے گناہ کو مہتم  کر دے تو اس نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا (۱۱۲) اور اگر تم پر خدا کا فضل اور مہربانی نہ ہوتی تو ان میں سے ایک جماعت تم کو بہکانے کا قصد  کر ہی چکی تھی اور یہ اپنے سوا (کسی کو) بہکا نہیں سکتے اور نہ تمہارا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور خدا نے تم پر کتاب اور دانائی نازل فرمائی ہے اور تمہیں وہ باتیں سکھائی ہیں جو تم جانتے نہیں تھے اور تم پر خدا کا بڑا فضل ہے (۱۱۳) ان لوگوں کی بہت سی مشورتیں اچھی نہیں ہاں (اس شخص کی مشورت اچھی ہو سکتی ہے) جو خیرات یا نیک بات یا لوگوں میں صلح  کرنے کو کہے اور جو ایسے کام خدا کی خوشنودی حاصل  کرنے  کے لئے  کرے گا تو ہم اس کو بڑا ثواب دیں گے (۱۱۴) اور جو شخص سیدھا رستہ معلوم ہونے  کے بعد پیغمبر کی مخالف  کرے اور مومنوں  کے رستے  کے سوا اور رستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت  کے دن) جہنم میں داخل  کریں گے اور وہ بری جگہ ہے (۱۱۵) خدا اس  کے گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس  کے سوا (اور گناہ) جس کو چاہیے گا بخش دے گا۔  اور جس نے خدا  کے ساتھ شریک بنایا وہ رستے سے دور جا پڑا (۱۱۶) یہ جو خدا  کے سوا پرستش  کرتے ہیں تو عور توں کی اور پکارتے ہیں تو شیطان کی سرکش ہی کو (۱۱۷) جس پر خدا نے لعنت کی ہے (جو خدا سے) کہنے لگا میں تیرے بندوں سے (غیر خدا کی نذر دلوا  کر مال کا) ایک مقرر حصہ لے لیا  کروں گا۔  (۱۱۸) اور ان کو گمراہ  کرتا اور امیدیں دلاتا رہوں گا اور یہ سکھاتا رہوں گا کہ جانوروں  کے کان چیرتے رہیں اور (یہ بھی) کہتا رہوں گا کہ وہ خدا کی بنائی ہوئی صور توں کو بدلتے رہیں اور جس شخص نے خدا کو چھوڑ  کر شیطان کو دوست بنایا اور وہ صریح نقصان میں پڑ گیا (۱۱۹) وہ ان کو وعدے دیتا رہا اور امیدیں دلاتا ہے اور جو کچھ شیطان انہیں وعدے دیتا ہے جو دھوکا ہی دھوکا ہے (۱۲۰) ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے۔   اور وہ وہاں سے مخلصی نہیں پا سکیں گے (۱۲۱) اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام  کرتے رہے ان کو ہم بہشتوں میں داخل  کریں گے جن  کے نیچے نہریں جاری ہیں۔   ابدالآباد ان میں رہیں گے۔   یہ خدا کا سچا وعدہ ہے۔   اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہو سکتا ہے (۱۲۲) (نجات) نہ تو تمہاری آرزوؤں پر ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر۔  جو شخص برے عمل  کرے گا اسے اسی (طرح) کا بدلا دیا جائے گا اور وہ خدا  کے سوا نہ کسی کو حمایتی پائے گا اور نہ مدد گار (۱۲۳) اور جو نیک کام  کرے گا مرد ہو یا عورت اور وہ صاحب ایمان بھی ہو گا تو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہوں گے اور ان کی تل برابر بھی حق تلفی نہ کی جائے گی (۱۲۴) اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہو سکتا ہے جس نے حکم خدا کو قبول کیا اور وہ نیکو کار بھی ہے۔   اور ابراہیم  کے دین کا پیرو ہے جو یکسو (مسلمان) تھے اور خدا نے ابراہیم کو اپنا دوست بنایا تھا (۱۲۵) اور آسمان و  زمین میں جو کچھ ہے سب خدا ہی کا ہے۔   اور خدا ہر چیز پر احاطے کئے ہوئے ہے (۱۲۶) (اے پیغمبر) لوگ تم سے (یتیم) عور توں  کے بارے میں فتویٰ طلب  کرتے ہیں۔   کہہ دو کہ خدا تم کو ان  کے (ساتھ نکاح  کرنے  کے) معاملے میں اجازت دیتا ہے اور جو حکم اس کتاب میں پہلے دیا گیا ہے وہ ان یتیم عور توں  کے بارے میں ہے جن کو تم ان کا حق تو دیتے نہیں اور خواہش رکھتے ہو کہ ان  کے ساتھ نکاح  کر لو اور (نیز) بیچارے بیکس بچوں  کے بارے میں۔   اور یہ (بھی حکم دیتا ہے) کہ یتیموں  کے بارے میں انصاف پر قائم رہو۔  اور جو بھلائی تم  کرو گے خدا اس کو جانتا ہے (۱۲۷) اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی طرف سے زیادتی یا بے رغبتی کا اندیشہ ہو تم میاں بیوی پر کچھ گناہ نہیں کہ آپس میں کسی قرارداد پر صلح  کر لیں۔   اور صلح خوب (چیز) ہے اور طبیعتیں تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں اور اگر تم نیکو کاری اور پرہیزگاری  کرو گے تو خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے (۱۲۸) اور تم خواہ کتنا ہی چا ہو عور توں میں ہرگز برابری نہیں  کر سکو گے تو ایسا بھی نہ  کرنا کہ ایک ہی کی طرف ڈھل جاؤ اور دوسری کو (ایسی حالت میں) چھوڑ دو کہ گویا ادھر ہوا میں لٹک رہی ہے اور اگر آپس میں موافقت  کر لو اور پرہیزگاری  کرو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے (۱۲۹) اور اگر میاں بیوی (میں موافقت نہ ہو سکے اور) ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تو خدا ہر ایک کو اپنی دولت سے غنی  کر دے گا اور خدا بڑی کشائش والا اور حکمت والا ہے (۱۳۰) اور جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے۔   اور جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ان کو بھی اور (اے محمدﷺ) تم کو بھی ہم نے حکم تاکیدی کیا ہے کہ خدا سے ڈرتے رہو اور اگر کفر  کرو گے تو (سمجھ رکھو کہ) جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے۔   اور خدا بے پروا اور سزاوار حمد و ثنا ہے (۱۳۱) اور (پھر سن رکھو کہ) جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے اور خدا کارساز کافی ہے (۱۳۲) لوگو! اگر وہ چاہے تو تم کو فنا  کر دے اور (تمہاری جگہ) اور لوگوں کو پیدا  کر دے۔  اور خدا اس بات پر قادر ہے (۱۳۳) جو شخص دنیا (میں عملوں) کی جزا کا طالب ہو تو خدا  کے پاس دنیا اور آخرت (دونوں)  کے لئے اجر (موجود) ہیں۔   اور خدا سنتا دیکھتا ہے (۱۳۴) اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خدا  کے لئے سچی گواہی دو خواہ (اس میں) تمہارا یا تمہارے ماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔  اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو خدا ان کا خیر خواہ ہے۔   تو تم خواہش نفس  کے پیچھے چل  کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔  اگر تم پیچیدہ شہادت دو گے یا (شہادت سے) بچنا چا ہو گے تو (جان رکھو) خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے (۱۳۵) مومنو! خدا پر اور اس  کے رسول پر اور جو کتاب اس نے اپنی پیغمبر (آخرالزماں) پر نازل کی ہے اور جو کتابیں اس سے پہلے نازل کی تھیں سب پر ایمان لاؤ۔  اور جو شخص خدا اور اس  کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس  کے پیغمبروں اور روز قیامت سے انکار  کرے وہ رستے سے بھٹک  کر دور جا پڑا (۱۳۶) جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہو گئے پھر ایمان لائے پھر کافر ہو گئے پھر کفر میں بڑھتے گئے ان کو خدا نہ تو بخشے گا اور نہ سیدھا رستہ دکھائے گا (۱۳۷) (اے پیغمبر) منافقوں (یعنی دو رخے لوگوں) کو بشارت سنا دو کہ ان  کے لئے دکھ دینے والا عذاب (تیار) ہے (۱۳۸) جو مومنوں کو چھوڑ  کر کافروں کو دوست بناتے ہیں۔   کیا یہ ان  کے ہاں عزت حاصل  کرنا چاہتے ہیں تو عزت تو سب خدا ہی کی ہے (۱۳۹) اور خدا نے تم (مومنوں) پر اپنی کتاب میں (یہ حکم) نازل فرمایا ہے کہ جب تم (کہیں) سنو کہ خدا کی آیتوں سے انکار ہو رہا ہے اور ان کی ہنسی اڑائی جاتی ہے تو جب تک وہ لوگ اور باتیں (نہ)  کرنے لگیں۔   ان  کے پاس مت بیٹھو۔  ورنہ تم بھی انہیں جیسے ہو جاؤ گے۔   کچھ شک نہیں کہ خدا منافقوں اور کافروں سب کو دوزخ میں اکھٹا  کرنے والا ہے (۱۴۰) جو تم کو دیکھتے رہتے ہیں اگر خدا کی طرف سے تم کو فتح ملے تو کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے۔   اور اگر کافروں کو (فتح) نصیب ہو تو (ان سے) کہتے ہیں کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے اور تم کو مسلمانوں (کے ہاتھ) سے بچایا نہیں۔   تو خدا تم میں قیامت  کے دن فیصلہ  کر دے گا۔  اور خدا کافروں کو مومنوں پر ہرگز غلبہ نہیں دے گا (۱۴۱) منافق (ان چالوں سے اپنے نزدیک) خدا کو دھوکا دیتے ہیں (یہ اس کو کیا دھوکا دیں گے) وہ انہیں کو دھو کے میں ڈالنے والا ہے اور جب یہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہو  کر (صرف) لوگوں  کے دکھانے کو اور خدا کی یاد ہی نہیں  کرتے مگر بہت کم (۱۴۲) بیچ میں پڑے لٹک رہے ہیں نہ ان کی طرف (ہوتے ہیں) نہ ان کی طرف اور جس کو خدا بھٹکائے تو اس  کے لئے کبھی بھی رستہ نہ پاؤ گے (۱۴۳) اے اہل ایمان! مومنوں  کے سوا کافروں کو دوست نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر خدا کا صریح الزام لو؟ (۱۴۴) کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ  کے سب سے نیچے  کے درجے میں ہوں گے۔   اور تم ان کا کسی کو مدد گار نہ پاؤ گے (۱۴۵) ہاں جنہوں نے توبہ کی اور اپنی حالت کو درست کیا اور خدا (کی رسی) کو مضبوط پکڑا اور خاص خدا  کے فرمانبردار ہو گئے تو ایسے لوگ مومنوں  کے زمرے میں ہوں گے اور خدا عنقریب مومنوں کو بڑا ثواب دے گا (۱۴۶) اگر تم (خدا  کے شکرگزار رہو اور (اس پر) ایمان لے آؤ تو خدا تم کو عذاب دے  کر کیا  کرے گا۔  اور خدا تو قدرشناس اور دانا ہے (۱۴۷) خدا اس بات کو پسند نہیں  کرتا کہ کوئی کسی کو علانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔  اور خدا (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے (۱۴۸) اگر تم لوگ بھلائی کھلم کھلا  کرو گے یا چھپا  کر یا برائی سے درگزر کرو گے تو خدا بھی معاف  کرنے والا (اور) صاحب قدرت ہے (۱۴۹) جو لوگ خدا سے اور اس  کے پیغمبروں سے کفر  کرتے ہیں اور خدا اور اس  کے پیغمبروں میں فرق  کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور ایمان اور کفر  کے بیچ میں ایک راہ نکالنی چاہتے ہیں (۱۵۰) وہ بلا اشتباہ کافر ہیں اور کافروں  کے لئے ہم نے ذلت کا عذاب تیار  کر رکھا ہے (۱۵۱) اور جو لوگ خدا اور اس  کے پیغمبروں پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی میں فرق نہ کیا (یعنی سب کو مانا) ایسے لوگوں کو وہ عنقریب ان (کی نیکیوں)  کے صلے عطا فرمائے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے (۱۵۲) (اے محمدﷺ) اہل کتاب تم سے درخواست  کرتے ہیں کہ تم ان پر ایک (لکھی ہوئی) کتاب آسمان سے اتار لاؤ تو یہ موسیٰ سے اس سے بھی بڑی بڑی درخواستیں  کر چکے ہیں (ان سے) کہتے تھے ہمیں خدا ظاہر (یعنی آنکھوں سے) دکھا دو سو ان  کے گناہ کی وجہ سے ان کو بجلی نے آ پکڑا۔  پھر کھلی نشانیاں آئے پیچھے بچھڑے کو (معبود) بنا بیٹھے تو اس سے بھی ہم نے درگزر کی۔  اور موسیٰ کو صریح غلبہ دیا (۱۵۳) اور ان سے عہد لینے کو ہم نے ان پر کوہ طور اٹھا کھڑا کیا اور انہیں حکم دیا کہ (شہر  کے) دروازے میں (داخل ہونا تو) سجدہ  کرتے ہوئے داخل ہونا اور یہ بھی حکم دیا کہ ہفتے  کے دن (مچھلیاں پکڑنے) میں تجاویز (یعنی حکم  کے خلاف) نہ  کرنا۔  غرض ہم نے ان سے مضبوط عہد لیا (۱۵۴) (لیکن انہوں نے عہد کو توڑ ڈالا) تو ان  کے عہد توڑ دینے اور خدا کی آیتوں سے کفر  کرنے اور انبیاء کو ناحق مار ڈالنے اور یہ کہنے  کے سبب کہ ہمارے دلوں پر پردے (پڑے ہوئے) ہیں۔   (خدا نے ان کو مردود  کر دیا اور ان  کے دلوں پر پردے نہیں ہیں) بلکہ ان  کے کفر  کے سبب خدا نے ان پر مہر  کر دی ہے تو یہ کم ہی ایمان لاتے ہیں (۱۵۵) اور ان  کے کفر  کے سبب اور مریم پر ایک بہتان عظیم باندھنے  کے سبب (۱۵۶) اور یہ کہنے  کے سبب کہ ہم نے مریم  کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو جو خدا  کے پیغمبر (کہلاتے) تھے قتل  کر دیا ہے (خدا نے ان کو ملعون  کر دیا) اور انہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا اور نہ انہیں سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو ان کی سی صورت معلوم ہوئی اور جو لوگ ان  کے بارے میں اختلاف  کرتے ہیں وہ ان  کے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں اور پیروی ظن  کے سوا ان کو اس کا مطلق علم نہیں۔   اور انہوں نے عیسیٰ کو یقیناً قتل نہیں کیا (۱۵۷) بلکہ خدا نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔  اور خدا غالب اور حکمت والا ہے (۱۵۸) اور کوئی اہل کتاب نہیں ہو گا مگر ان کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئے گا۔  اور وہ قیامت  کے دن ان پر گواہ ہوں گے (۱۵۹) تو ہم نے یہودیوں  کے ظلموں  کے سبب (بہت سی) پاکیزہ چیزیں جو ان کو حلال تھیں ان پر حرام  کر دیں اور اس سبب سے بھی کہ وہ اکثر خدا  کے رستے سے (لوگوں کو) روکتے تھے (۱۶۰) اور اس سبب سے بھی کہ باوجود منع کئے جانے  کے سود لیتے تھے اور اس سبب سے بھی کہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے۔   اور ان میں سے جو کافر ہیں ان  کے لئے ہم نے درد دینے والا عذاب تیار  کر رکھا ہے (۱۶۱) مگر جو لوگ ان میں سے علم میں پ کے ہیں اور جو مومن ہیں وہ اس (کتاب) پر جو تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں (سب پر) ایمان رکھتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور خدا اور روز آخرت کو مانتے ہیں۔   ان کو ہم عنقریب اجر عظیم دیں گے (۱۶۲) (اے محمدﷺ) ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور ان سے پچھلے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔  اور ابراہیم اور اسمعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اولاد یعقوب اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف بھی ہم نے وحی بھیجی تھی اور داؤد کو ہم نے زبور بھی عنایت کی تھی (۱۶۳) اور بہت سے پیغمبر ہیں جن  کے حالات ہم تم سے پیشتر بیان  کر چکے ہیں اور بہت سے پیغمبر ہیں جن  کے حالات تم سے بیان نہیں کئے۔   اور موسیٰ سے تو خدا نے باتیں بھی کیں (۱۶۴) (سب) پیغمبروں کو (خدا نے) خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے (بنا  کر بھیجا تھا) تاکہ پیغمبروں  کے آنے  کے بعد لوگوں کو خدا پر الزام کا موقع نہ رہے اور خدا غالب حکمت والا ہے (۱۶۵) لیکن خدا نے جو (کتاب) تم پر نازل کی ہے اس کی نسبت خدا گواہی دیتا ہے کہ اس نے اپنے علم سے نازل کی ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں۔   اور گواہ تو خدا ہی کافی ہے (۱۶۶) جن لوگوں نے کفر کیا اور (لوگوں کو) خدا  کے رستے سے روکا وہ رستے سے بھٹک  کر دور جا پڑے (۱۶۷) جو لوگ کافر ہوئے اور ظلم  کرتے رہے خدا ان کو بخشنے والا نہیں اور نہ انہیں رستہ ہی دکھائے گا (۱۶۸) ہاں دوزخ کا رستہ جس میں وہ ہمیشہ (جلتے) رہیں گے۔   اور یہ (بات) خدا کو آسان ہے (۱۶۹) لوگو! خدا  کے پیغمبر تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے حق بات لے  کر آئے ہیں تو (ان پر) ایمان لاؤ (یہی) تمہارے حق میں بہتر ہے۔   اور اگر کفر  کرو گے تو (جان رکھو کہ) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے اور خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے (۱۷۰) اے اہل کتاب اپنے دین (کی بات) میں حد سے نہ بڑھو اور خدا  کے بارے میں حق  کے سوا کچھ نہ کہو۔  مسیح (یعنی) مریم  کے بیٹے عیسیٰ (نہ خدا تھے نہ خدا  کے بیٹے بلکہ) خدا  کے رسول اور کا کلمۂ (بشارت) تھے جو اس نے مریم کی طرف بھیجا تھا اور اس کی طرف سے ایک روح تھے تو خدا اور اس  کے رسولوں پر ایمان لاؤ۔  اور (یہ) نہ کہو (کہ خدا) تین (ہیں۔   اس اعتقاد سے) باز آؤ کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔   خدا ہی معبود واحد ہے اور اس سے پاک ہے کہ اس  کے اولاد ہو۔  جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔   اور خدا ہی کارساز کافی ہے (۱۷۱) مسیح اس بات سے عار نہیں رکھتے کہ خدا  کے بندے ہوں اور نہ مقرب فرشتے (عار رکھتے ہیں) اور جو شخص خدا کا بندہ ہونے کو موجب عار سمجھے اور سرکشی  کرے تو خدا سب کو اپنے پاس جمع  کر لے گا (۱۷۲) تو جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام  کرتے رہے وہ ان کو ان کا پورا بدلا دے گا اور اپنے فضل سے کچھ زیادہ بھی عنایت  کرے گا۔  اور جنہوں نے (بندوں ہونے سے) عار و انکار اور تکبر کیا ان کو تکلیف دینے والا عذاب دے گا۔  اور یہ لوگ خدا  کے سوا اپنا حامی اور مدد گار نہ پائیں گے (۱۷۳) لوگو تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس دلیل (روشن) آ چکی ہے اور ہم نے (کفر اور ضلالت کا اندھیرا دور  کرنے کو) تمہاری طرف چمکتا ہوا نور بھیج دیا ہے (۱۷۴) پس جو لوگ خدا پر ایمان لائے اور اس (کے دین کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہے ان کو وہ اپنی رحمت اور فضل (کے بہشتوں) میں داخل  کرے گا۔  اور اپنی طرف (پہنچنے کا) سیدھا رستہ دکھائے گا (۱۷۵) (اے پیغمبر) لوگ تم سے (کلالہ  کے بارے میں) حکم (خدا) دریافت  کرتے ہیں کہہ دو کہ خدا کلالہ بارے میں یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا مرد مر جائے جس  کے اولاد نہ ہو (اور نہ ماں باپ) اور اس  کے بہن ہو تو اس کو بھائی  کے تر کے میں سے آدھا حصہ ملے گا۔  اور اگر بہن مر جائے اور اس  کے اولاد نہ ہو تو اس  کے تمام مال کا وارث بھائی ہو گا اور اگر (مرنے والے بھائی کی) دو بہنیں ہوں تو دونوں کو بھائی  کے تر کے میں سے دو تہائی۔  اور اگر بھائی اور بہن یعنی مرد اور عورتیں ملے جلے وارث ہوں تو مرد کا حصہ دو عور توں  کے برابر ہے۔   (یہ احکام) خدا تم سے اس لئے بیان فرماتا ہے کہ بھٹکتے نہ پھرو۔  اور خدا ہر چیز سے واقف ہے (۱۷۶)

 

سورة المَائدة

شروع اللہ  کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

اے ایمان والو! اپنے اقراروں کو پورا  کرو۔  تمہارے لیے چار پائے جانور (جو چرنے والے ہیں) حلال  کر دیئے گئے ہیں۔   بجز ان  کے جو تمہیں پڑھ  کر سنائے جاتے ہیں مگر احرام (حج) میں شکار کو حلال نہ جاننا۔  خدا جیسا چاہتا ہے حکم دیتا ہے (۱) مومنو! خدا  کے نام کی چیزوں کی بے حرمتی نہ  کرنا اور نہ ادب  کے مہینے کی اور نہ قربانی  کے جانوروں کی اور نہ ان جانوروں کی (جو خدا کی نذر  کر دیئے گئے ہوں اور) جن  کے گلوں میں پٹے بندھے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو عزت  کے گھر (یعنی بیت اللہ) کو جا رہے ہوں (اور) اپنے پروردگار  کے فضل اور اس کی خوشنودی  کے طلبگار ہوں اور جب احرام اتار دو تو (پھر اختیار ہے کہ) شکار  کرو اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ  کرے کہ تم ان پر زیادتی  کرنے لگو اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری  کے کاموں میں ایک دوسرے کی مد د کیا  کرو اور گناہ اور ظلم کی با توں میں مد د نہ کیا  کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔  کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے (۲) تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا) لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا  کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ  کر مر جائے اور جو چوٹ لگ  کر مر جائے اور جو گر  کر مر جائے اور جو سینگ لگ  کر مر جائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں۔   مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح  کر لو اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے اور یہ بھی کہ پاسوں سے قسمت معلوم  کرو یہ سب گناہ (کے کام) ہیں آج کافر تمہارے دین سے نا امید ہو گئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل  کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری  کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے (۳) تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان  کے لیے حلال ہیں (ان سے) کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں تم کو حلال ہیں اور وہ (شکار) بھی حلال ہے جو تمہارے لیے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہو اور جس (طریق) سے خدا نے تمہیں (شکار  کرنا) سکھایا ہے (اس طریق سے) تم نے ان کو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو کھا لیا  کرو اور (شکاری جانوروں کو چھوڑتے وقت) خدا کا نام لے لیا  کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔  بے شک خدا جلد حساب لینے والا ہے (۴) آج تمہارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال  کر دی گئیں اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کو حلال ہے اور پاک دامن مومن عورتیں اور پاک دامن اہل کتاب عورتیں بھی (حلال ہیں) جبکہ ان کا مہر دے دو۔  اور ان سے عفت قائم رکھنی مقصود ہو نہ کھلی بدکاری  کرنی اور نہ چھپی دوستی  کرنی اور جو شخص ایمان سے من کر ہوا اس  کے عمل ضائع ہو گئے اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہو گا (۵) مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا  کرو تم منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا  کرو اور سر کا مسح  کر لیا  کرو اور ٹخنوں تک پاؤں (دھو لیا  کرو) اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو (نہا  کر) پاک ہو جایا  کرو اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلا سے ہو  کر آیا ہو یا تم عور توں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی لو اور اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح (یعنی تیمم)  کر لو۔  خدا تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں  کرنا چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک  کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری  کرے تاکہ تم شکر  کرو (۶) اور خدا نے جو تم پر احسان کئے ہیں ان کو یاد  کرو اور اس عہد کو بھی جس کا تم سے قول لیا تھا (یعنی) جب تم نے کہا تھا کہ ہم نے (خدا کا حکم) سن لیا اور قبول کیا۔  اور اللہ سے ڈرو۔  کچھ شک نہیں کہ خدا دلوں کی با توں (تک) سے واقف ہے (۷) اے ایمان والوں ! خدا  کے لیے انصاف کی گواہی دینے  کے لیے کھڑے ہو جایا  کرو۔  اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ  کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔  انصاف کیا  کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو۔  کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے (۸) جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام  کرتے رہے ان سے خدا نے وعدہ فرمایا ہے کہ ان  کے لیے بخشش اور اجر عظیم ہے (۹) اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں (۱۰) اے ایمان والو! خدا نے جو تم پر احسان کیا ہے اس کو یاد  کرو۔  جب ایک جماعت نے ارادہ کیا کہ تم پر دست درازی  کریں تو اس نے ان  کے ہاتھ روک دیئے اور خدا سے ڈرتے رہوں اور مومنو کو خدا ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیئے (۱۱) اور خدا نے بنی اسرائیل سے اقرار لیا اور ان میں ہم نے بارہ سردار مقرر کئے پھر خدا نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے اور میرے پیغمبروں پر ایمان لاؤ گے اور ان کی مد د  کرو گے اور خدا کو قرض حسنہ دو گے تو میں تم سے تمہارے گناہ دور  کر دوں گا اور تم کو بہشتوں میں داخل  کروں گا جن  کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں پھر جس نے اس  کے بعد تم میں سے کفر کیا وہ سیدھے رستے سے بھٹک گیا (۱۲) تو ان لوگوں  کے عہد توڑ دینے  کے سبب ہم نے ان پر لعنت کی اور ان  کے دلوں کو سخت  کر دیا یہ لوگ کلمات (کتاب) کو اپنے مقامات سے بدل دیتے ہیں اور جن با توں کی ان کو نصیحت کی گئی تھی ان کا بھی ایک حصہ فراموش  کر بیٹھے اور تھوڑے آدمیوں  کے سوا ہمیشہ تم ان کی (ایک نہ ایک) خیانت کی خبر پاتے رہتے ہو تو ان کی خطائیں معاف  کر دو اور (ان سے) درگزر کرو کہ خدا احسان  کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے (۱۳) اور جو لوگ (اپنے تئیں) کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں ہم نے ان سے بھی عہد لیا تھا مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جو ان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش  کر دیا تو ہم نے ان  کے باہم قیامت تک  کے لیے دشمنی اور کینہ ڈال دیا اور جو کچھ وہ  کرتے رہے خدا عنقریب ان کو اس سے آگاہ  کرے گا (۱۴) اے اہل کتاب! تمہارے پاس ہمارے پیغمبر (آخرالزماں) آ گئے ہیں کہ جو کچھ تم کتاب (الہٰی) میں سے چھپاتے تھے وہ اس میں سے بہت کچھ تمہیں کھول کھول  کر بتا دیتے ہیں اور تمہارے بہت سے قصور معاف  کر دیتے ہیں بے شک تمہارے پاس خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آ چکی ہے (۱۵) جس سے خدا اپنی رضا پر چلنے والوں کو نجات  کے رستے دکھاتا ہے اور اپنے حکم سے اندھیرے میں سے نکال  کر روشنی کی طرف لے جاتا اور ان کو سیدھے رستہ پر چلاتا ہے (۱۶) جو لوگ اس بات  کے قائل ہیں کہ عیسیٰ بن مریم خدا ہیں وہ بے شک کافر ہیں (ان سے) کہہ دو کہ اگر خدا عیسیٰ بن مریم کو اور ان کی والدہ کو اور جتنے لوگ زمین میں ہیں سب کو ہلاک  کرنا چاہے تو اس  کے آگے کس کی پیش چل سکتی ہے ؟ اور آسمان اور زمین اور جو کچھ ان دونوں میں ہے سب پر خدا ہی کی بادشاہی ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا  کرتا ہے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے (۱۷) اور یہود اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم خدا  کے بیٹے اور اس  کے پیارے ہیں کہو کہ پھر وہ تمہاری بد اعمالیوں  کے سبب تمھیں عذاب کیوں دیتا ہے (نہیں) بلکہ تم اس کی مخلوقات میں (دوسروں کی طرح  کے) انسان ہو وہ جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے عذاب دے اور آسمان زمین اور جو کچھ ان دونوں میں ہے سب پر خدا ہی کی حکومت ہے اور (سب کو) اسی کی طرف لوٹ  کر جانا ہے (۱۸) اے اہلِ  کتاب پیغمبروں  کے آنے کا سلسلہ جو (ایک عرصے تک) منقطع رہا تو (اب) تمہارے پاس ہمارے پیغمبر آ گئے ہیں جو تم سے (ہمارے احکام) بیان  کرتے ہیں تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس کوئی خوشخبری یا ڈر سنانے والا نہیں آیا سو (اب) تمہارے پاس خوشخبری اور ڈر سنانے والے آ گئے ہیں اور خدا ہر چیز پر قادر ہے (۱۹) اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ بھائیو تم پر خدا نے جو احسان کئے ہیں ان کو یاد  کرو کہ اس نے تم میں پیغمبر پیدا کیے اور تمہیں بادشاہ بنایا اور تم کو اتنا کچھ عنایت کیا کہ اہل عالم میں سے کسی کو نہیں دیا (۲۰) تو بھائیو! تم ارض مقدس (یعنی ملک شام) میں جسے خدا نے تمہارے لیے لکھ رکھا ہے چل داخل ہو اور (دیکھنا مقابلے  کے وقت) پیٹھ نہ پھیر دینا ورنہ نقصان میں پڑ جاؤ گے (۲۱) وہ کہنے لگے کہ موسیٰ! وہاں تو بڑے زبردست لوگ (رہتے) ہیں اور جب تک وہ اس سر زمین سے نکل نہ جائیں ہم وہاں جا نہیں سکتے ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم جا داخل ہوں گے (۲۲) جو لوگ (خدا سے) ڈرتے تھے ان میں سے دو شخص جن پر خدا کی عنایت تھی کہنے لگے کہ ان لوگوں پر دروازے  کے رستے سے حملہ  کر دو جب تم دروازے میں داخل ہو گئے تو فتح تمہارے ہے اور خدا ہی پر بھروسہ رکھو بشرطیکہ صاحبِ  ایمان ہو (۲۳) وہ بولے کہ موسیٰ! جب تک وہ لوگ وہاں ہیں ہم کبھی وہاں نہیں جا سکتے (اگر لڑنا ہی ضرور ہے) تو تم اور تمہارا خدا جاؤ اور لڑو ہم یہیں بیٹھے رہیں گے (۲۴) موسیٰ نے (خدا سے) التجا کی کہ پروردگار میں اپنے اور اپنے بھائی  کے سوا اور کسی پر اختیار نہیں رکھتا تو ہم میں اور ان نافرمان لوگوں میں جدائی  کر دے (۲۵) خدا نے فرمایا کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک  کے لیے حرام  کر دیا گیا (کہ وہاں جانے نہ پائیں گے اور جنگل کی) زمین میں سرگرداں پھرتے رہیں گے تو ان نافرمان لوگوں  کے حال پر افسوس نہ  کرو (۲۶) اور (اے محمد) ان کو آدم  کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل)  کے حالات (جو بالکل) سچے (ہیں) پڑھ  کر سنا دو کہ جب ان دونوں نے خدا (کی جناب میں) کچھ نیازیں چڑھائیں تو ایک کی نیاز تو قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی (تب قابیل ہابیل سے) کہنے لگا کہ میں تجھے قتل  کروں گا اس نے کہا کہ خدا پرہیزگاروں ہی کی (نیاز) قبول فرمایا  کرتا ہے (۲۷) اور اگر تو مجھے قتل  کرنے  کے لیے مجھ پر ہاتھ چلائے گا تو میں تجھ کو قتل  کرنے  کے لئے تجھ پر ہاتھ نہیں چلاؤں گا مجھے تو خدائے رب العالمین سے ڈر لگتا ہے (۲۸) میں چاہتا ہوں کہ تو میرے گناہ میں بھی ماخوذ ہو اور اپنے گناہ میں بھی پھر (زمرہ) اہل دوزخ میں ہو اور ظالموں کی یہی سزا ہے (۲۹) مگر اس  کے نفس نے اس کو بھائی  کے قتل ہی کی ترغیب دی تو اس نے اسے قتل  کر دیا اور خسارہ اٹھانے والوں میں ہو گیا (۳۰) اب خدا نے ایک کوّا بھیجا جو زمین  کریدنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیوں کر چھپائے کہنے لگا اے ہے مجھ سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ اس کوے  کے برابر ہوتا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا پھر وہ پشیمان ہوا (۳۱) اس قتل کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا کہ جو شخص کسی کو (ناحق) قتل  کرے گا (یعنی) بغیر اس  کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی  کرنے کی سزا دی جائے اُس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جو اس کی زندگانی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا اور ان لوگوں  کے پاس ہمارے پیغمبر روشن دلیلیں لا چکے ہیں پھر اس  کے بعد بھی ان سے بہت سے لوگ ملک میں حدِ  اعتدال سے نکل جاتے ہیں (۳۲) جو لوگ خدا اور اس  کے رسول سے لڑائی  کریں اور ملک میں فساد  کرنے کو دوڑتے پھریں ان کی یہی سزا ہے کہ قتل  کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا ان  کے ایک ایک طرف  کے ہاتھ اور ایک ایک طرف  کے پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا ملک سے نکال دیئے جائیں یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان  کے لیے بڑا (بھاری) عذاب تیار ہے (۳۳) ہاں جن لوگوں نے اس سے پیشتر کہ تمہارے قابو میں آ جائیں توبہ  کر لی تو جان رکھو کہ خدا بخشنے والا مہربان ہے (۳۴) اے ایمان والو! خدا سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب حاصل  کرنے کا ذریعہ تلاش  کرتے رہو اور اس  کے رستے میں جہاد  کرو تاکہ رستگاری پاؤ (۳۵) جو لوگ کافر ہیں اگر ان  کے پاس روئے زمین (کے تمام خزانے اور اس) کا سب مال و متاع ہو اور اس  کے ساتھ اسی قدر اور بھی ہو تاکہ قیامت  کے روز عذاب (سے رستگاری حاصل  کرنے) کا بدلہ دیں تو ان سے قبول نہیں کیا جائے گا اور ان کو درد دینے والا عذاب ہو گا (۳۶) (ہر چند) چاہیں گے کہ آگ سے نکل جائیں مگر اس سے نہیں نکل سکیں گے اور ان  کے لئے ہمیشہ کا عذاب ہے (۳۷) اور جو چوری  کرے مرد ہو یا عورت ان  کے ہاتھ کاٹ ڈالو یہ ان  کے فعلوں کی سزا اور خدا کی طرف سے عبرت ہے اور خدا زبردست (اور) صاحب حکمت ہے (۳۸) اور جو شخص گناہ  کے بعد توبہ  کرے اور نیکو کار ہو جائے تو خدا اس کو معاف  کر دے گا کچھ شک نہیں کہ خدا بخشنے والا مہربان ہے (۳۹) کیا تم کو معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں خدا ہی کی سلطنت ہے ؟ جس کو چاہے عذاب  کرے اور جسے چاہے بخش دے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے (۴۰) اے پیغمبر! جو لوگ کفر میں جلدی  کرتے ہیں (کچھ تو) ان میں سے (ہیں) جو منہ سے کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں لیکن ان  کے دل مومن نہیں ہیں اور (کچھ) ان میں سے جو یہودی ہیں ان کی وجہ سے غمناک نہ ہونا یہ غلط باتیں بنانے  کے لیے جاسوسی  کرتے پھرتے ہیں اور ایسے لوگوں (کے بہکانے)  کے لیے جاسوس بنے ہیں جو ابھی تمہارے پاس نہیں آئے (صحیح) با توں کو ان  کے مقامات (میں ثابت ہونے)  کے بعد بدل دیتے ہیں (اور لوگوں سے) کہتے ہیں کہ اگر تم کو یہی (حکم) ملے تو اسے قبول  کر لینا اور اگر یہ نہ ملے تو اس سے احتراز  کرنا اور اگر کسی کو خدا گمراہ  کرنا چاہے تو اس  کے لیے تم کچھ بھی خدا سے (ہدایت کا) اختیار نہیں رکھتے یہ وہ لوگ ہیں جن  کے دلوں کو خدا نے پاک  کرنا نہیں چاہا ان  کے لیے دنیا میں بھی ذلت ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے (۴۱) (یہ) جھوٹی باتیں بنانے  کے جاسوسی  کرنے والے اور (رشوت کا) حرام مال کھانے والے ہیں اگر یہ تمہارے پاس (کوئی مقدمہ فیصل  کرانے کو) آئیں تو تم ان میں فیصلہ  کر دینا یا اعراض  کرنا اور اگر ان سے اعراض  کرو گے تو وہ تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے اور اگر فیصلہ  کرنا چا ہو تو انصاف کا فیصلہ  کرنا کہ خدا انصاف  کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے (۴۲) اور یہ تم سے (اپنے مقدمات) کیوں کر فیصل  کریں گے جبکہ خود ان  کے پاس تورات (موجود) ہے جس میں خدا کا حکم (لکھا ہوا) ہے (یہ اسے جانتے ہیں) پھر اس  کے بعد اس سے پھر جاتے ہیں اور یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے (۴۳) بیشک ہم نے توریت نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے اسی  کے مطابق انبیاء جو (خدا  کے) فرمانبردار تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے ہیں اور مشائخ اور علماء بھی کیونکہ وہ کتاب خدا  کے نگہبان مقرر کیے گئے تھے اور اس پر گواہ تھے (یعنی حکم الہٰی کا یقین رکھتے تھے) تو تم لوگوں سے مت ڈرنا اور مجھی سے ڈرتے رہنا اور میری آیتوں  کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لینا اور جو خدا  کے نازل فرمائے ہوئے احکام  کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں (۴۴) اور ہم نے ان لوگوں  کے لیے تورات میں یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان  کے بدلے جان اور آنکھ  کے بدلے آنکھ اور ناک  کے بدلے ناک اور کان  کے بدلے کان اور دانت  کے بدلے دانت اور سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے لیکن جو شخص بدلہ معاف  کر دے وہ اس  کے لیے کفارہ ہو گا اور جو خدا  کے نازل فرمائے ہوئے احکام  کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ بے انصاف ہیں (۴۵) اور ان پیغمبروں  کے بعد انہی  کے قدموں پر ہم نے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق  کرتے تھے اور ان کو انجیل عنایت کی جس میں ہدایت اور نور ہے اور تورات کی جو اس سے پہلی کتاب (ہے) تصدیق  کرتی ہے اور پرہیزگاروں کو راہ بتاتی اور نصیحت  کرتی ہے (۴۶) اور اہل انجیل کو چاہیئے کہ جو احکام خدا نے اس میں نازل فرمائے ہیں اس  کے مطابق حکم دیا  کریں اور جو خدا  کے نازل کئے ہوئے احکام  کے مطابق حکم نہ دے گا تو ایسے لوگ نا فرمان ہیں (۴۷) اور (اے پیغمبر!) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق  کرتی ہے اور ان (سب) پر شامل ہے تو جو حکم خدا نے نازل فرمایا ہے اس  کے مطابق ان کا فیصلہ  کرنا اور حق جو تمہارے پاس آ چکا ہے اس کو چھوڑ  کر ان کی خواہشوں کی پیروی نہ  کرنا ہم نے تم میں سے ہر ایک (فرقے)  کے لیے ایک دستور اور طریقہ مقرر کیا ہے اور اگر خدا چاہتا تو سب کو ایک ہی شریعت پر  کر دیتا مگر جو حکم اس نے تم کو دیئے ہیں ان میں وہ تمہاری آزمائش  کرنی چاہتا ہے سو نیک کاموں میں جلدی  کرو تم سب کو خدا کی طرف لوٹ  کر جانا ہے پھر جن با توں میں تم کو اختلاف تھا وہ تم کو بتا دے گا (۴۸) اور (ہم پھر تاکید  کرتے ہیں کہ) جو (حکم) خدا نے نازل فرمایا ہے اسی  کے مطابق ان میں فیصلہ  کرنا اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ  کرنا اور ان سے بچتے رہنا کہ کسی حکم سے جو خدا نے تم پر نازل فرمایا ہے یہ کہیں تم کو بہکا نہ دیں اگر یہ نہ مانیں تو جان لو کہ خدا چاہتا ہے کہ ان  کے بعض گنا ہوں  کے سبب ان پر مصیبت نازل  کرے اور اکثر لوگ تو نافرمان ہیں (۴۹) کیا یہ زمانۂ جاہلیت  کے حکم  کے خواہش مند ہیں ؟ اور جو یقین رکھتے ہیں ان  کے لیے خدا سے اچھا حکم کس کا ہے ؟ (۵۰) اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ ایک دوسرے  کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہو گا بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا (۵۱) تو جن لوگوں  کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے تم ان کو دیکھو گے کہ ان میں دوڑ دوڑ  کے ملے جاتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں ہم پر زمانے کی گردش نہ آ جائے سو قریب ہے کہ خدا فتح بھیجے یا اپنے ہاں سے کوئی اور امر (نازل فرمائے) پھر یہ اپنے دل کی با توں پر جو چھپایا  کرتے تھے پشیمان ہو  کر رہ جائیں گے (۵۲) اور اس (وقت) مسلمان (تعجب سے) کہیں گے کہ کیا یہ وہی ہیں جو خدا کی سخت سخت قسمیں کھایا  کرتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ان  کے عمل اکارت گئے اور وہ خسارے میں پڑ گئے (۵۳) اے ایمان والو اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو خدا ایسے لوگ پیدا  کر دے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں  کے حق میں نرمی  کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں خدا کی راہ میں جہاد  کریں اور کسی ملامت  کرنے والی کی ملامت سے نہ ڈریں یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑی کشائش والا اور جاننے والا ہے (۵۴) تمہارے دوست تو خدا اور اس  کے پیغمبر اور مومن لوگ ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے اور (خدا  کے آگے) جھکتے ہیں (۵۵) اور جو شخص خدا اور اس  کے پیغمبر اور مومنوں سے دوستی  کرے گا تو (وہ خدا کی جماعت میں داخل ہو گا اور) خدا کی جماعت ہی غلبہ پانے والی ہے (۵۶) اے ایمان والوں ! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتابیں دی گئی تھیں ان کو اور کافروں کو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے دوست نہ بناؤ اور مومن ہو تو خدا سے ڈرتے رہو (۵۷) اور جب تم لوگ نماز  کے لیے اذان دیتے ہو تو یہ اسے بھی ہنسی اور کھیل بناتے ہیں یہ اس لیے کہ سمجھ نہیں رکھتے (۵۸) کہو کہ اے اہل کتاب! تم ہم میں برائی ہی کیا دیکھتے ہو سوا اس  کے کہ ہم خدا پر اور جو (کتاب) ہم پر نازل ہوئی اس پر اور جو (کتابیں) پہلے نازل ہوئیں ان پر ایمان لائے ہیں اور تم میں اکثر بد کردار ہیں (۵۹) کہو کہ میں تمہیں بتاؤں کہ خدا  کے ہاں اس سے بھی بدتر جزا پانے والے کون ہیں ؟ وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی اور جن پر وہ غضبناک ہوا اور (جن کو) ان میں سے بندر اور سور بنا دیا اور جنہوں نے شیطان کی پرستش کی ایسے لوگوں کا برا ٹھکانہ ہے اور وہ سیدھے رستے سے بہت دور ہیں (۶۰) اور جب یہ لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے حالانکہ کفر لے  کر آتے ہیں اور اسی کو لی کر جاتے ہیں اور جن با توں کو یہ مخفی رکھتے ہیں خدا ان کو خوب جانتا ہے (۶۱) اور تم دیکھو گے کہ ان میں اکثر گناہ اور زیادتی اور حرام کھانے میں جلدی  کر رہے ہیں بے شک یہ جو کچھ  کرتے ہیں برا  کرتے ہیں (۶۲) بھلا ان  کے مشائخ اور علماء انہیں گناہ کی با توں اور حرام کھانے سے منع کیوں نہیں  کرتے ؟ بلاشبہ وہ بھی برا  کرتے ہیں (۶۳) اور یہود کہتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ (گردن سے) بندھا ہوا ہے (یعنی اللہ بخیل ہے) انہیں  کے ہاتھ باندھے جائیں اور ایسا کہنے  کے سبب ان پر لعنت ہو (اس کا ہاتھ بندھا ہوا نہیں) بلکہ اس  کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں وہ جس طرح (اور جتنا) چاہتا ہے خرچ  کرتا ہے اور (اے محمد) یہ (کتاب) جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوئی اس سے ان میں سے اکثر کی شرارت اور انکار اور بڑھے گا اور ہم نے ان  کے باہم عداوت اور بغض قیامت تک  کے لیے ڈال دیا ہے یہ جب لڑائی  کے لیے آگ جلاتے ہیں خدا اس کو بجھا دیتا ہے اور یہ ملک میں فساد  کے لیے دوڑے پھرتے ہیں اور خدا فساد  کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا (۶۴) اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیز گاری  کرتے تو ہم ان سے ان  کے گناہ محو  کر دیتے اور ان کو نعمت  کے باغوں میں داخل  کرتے (۶۵) اور اگر وہ تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں) ان  کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئیں ان کو قائم رکھتے (تو ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ) اپنے اوپر سے پاؤں  کے نیچے سے کھاتے ان میں کچھ لوگ میانہ رو ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جن  کے اعمال برے ہیں (۶۶) اے پیغمبر جو ارشادات خدا کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچا دو اور اگر ایسا نہ کیا تو تم خدا  کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے (یعنی پیغمبری کا فرض ادا نہ کیا) اور خدا تم کو لوگوں سے بچائے رکھے گا بیشک خدا من کروں کو ہدایت نہیں دیتا (۶۷) کہو کہ اے اہل کتاب! جب تک تم تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں) تمہارے پروردگار کی طرف سے تم لوگوں پر نازل ہوئیں ان کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہو سکتے اور یہ (قرآن) جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور کفر اور بڑھے گا تو تم قوم کفار پر افسوس نہ  کرو (۶۸) جو لوگ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان لائیں گے اور عمل نیک  کریں گے خواہ وہ مسلمان ہوں یا یہودی یا ستارہ پرست یا عیسائی ان کو (قیامت  کے دن) نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ غمناک ہوں گے (۶۹) ہم نے بنی اسرائیل سے عہد بھی لیا اور ان کی طرف پیغمبر بھی بھیجے (لیکن) جب کوئی پیغمبر ان  کے پاس ایسی باتیں لے  کر آتا جن کو ان  کے دل نہیں چاہتے تھے تو وہ (انبیاء کی) ایک جماعت کو تو جھٹلا دیتے اور ایک جماعت کو قتل  کر دیتے تھے (۷۰) اور خیال  کرتے تھے کہ (اس سے ان پر) کوئی آفت نہیں آنے کی تو وہ اندھے اور بہرے ہو گئے پھر خدا نے ان پر مہربانی فرمائی (لیکن) پھر ان میں سے بہت سے اندھے اور بہرے ہو گئے اور خدا ان  کے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے (۷۱) وہ لوگ بے شبہ کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ مریم  کے بیٹے (عیسیٰ) مسیح خدا ہیں حالانکہ مسیح یہود سے یہ کہا  کرتے تھے کہ اے بنی اسرائیل خدا ہی کی عبادت  کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی (اور جان رکھو کہ) جو شخص خدا  کے ساتھ شرک  کرے گا خدا اس پر بہشت حرام  کر دے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں (۷۲) وہ لوگ (بھی) کافر ہیں جو اس بات  کے قائل ہیں کہ خدا تین میں کا تیسرا ہے حالانکہ اس معبود یکتا  کے سوا کوئی عبادت  کے لائق نہیں اگر یہ لوگ ایسے اقوال (و عقائد) سے باز نہیں آئیں گے تو ان میں جو کافر ہوئے ہیں وہ تکلیف دینے والا عذاب پائیں گے (۷۳) تو یہ کیوں خدا  کے آگے توبہ نہیں  کرتے اور اس سے گنا ہوں کی معافی نہیں مانگتے اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے (۷۴) مسیح ابن مریم تو صرف (خدا)  کے پیغمبر تھے ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے تھے اور ان کی والدہ (مریم خدا کی) ولی اور سچی فرمانبردار تھیں دونوں (انسان تھے اور) کھانا کھاتے تھے دیکھو ہم ان لوگوں  کے لیے اپنی آیتیں کس طرح کھول کھول  کر بیان  کرتے ہیں پھر (یہ) دیکھو کہ یہ کدھر الٹے جا رہے ہیں (۷۵) کہو کہ تم خدا  کے سوا ایسی چیز کی کیوں پرستش  کرتے ہو جس کو تمہارے نفع اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں ؟ اور خدا ہی (سب کچھ) سنتا جانتا ہے (۷۶) کہو کہ اے اہل کتاب! اپنے دین (کی بات) میں ناحق مبالغہ نہ  کرو اور ایسے لوگوں کی خواہشوں  کے پیچھے نہ چلو جو (خود بھی) پہلے گمراہ ہوئے اور اَور بھی اکثروں کو گمراہ  کر گئے اور سیدھے رستے سے بھٹک گئے (۷۷) جو لوگ بنی اسرائیل میں کافر ہوئے ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی یہ اس لیے کہ نافرمانی  کرتے تھے اور حد سے تجاوز  کرتے تھے (۷۸) (اور) برے کاموں سے جو وہ  کرتے تھے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے بلاشبہ وہ برا  کرتے تھے (۷۹) تم ان میں سے بہتوں کو دیکھو گے کہ کافروں سے دوستی رکھتے ہیں انہوں نے جو کچھ اپنے واسطے آگے بھیجا ہے برا ہے (وہ یہ) کہ خدا ان سے ناخوش ہوا اور وہ ہمیشہ عذاب میں (مبتلا) رہیں گے (۸۰) اور اگر وہ خدا پر اور پیغمبر پر اور جو کتاب ان پر نازل ہوئی تھی اس پر یقین رکھتے تو ان لوگوں کو دوست نہ بناتے لیکن ان میں اکثر بد کردار ہیں (۸۱) (اے پیغمبرﷺ!) تم دیکھو گے کہ مومنوں  کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی  کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور دوستی  کے لحاظ سے مومنوں سے قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اس لیے کہ ان میں عالم بھی ہیں اور مشائخ بھی اور وہ تکبر نہیں  کرتے (۸۲) اور جب اس (کتاب) کو سنتے ہیں جو (سب سے پہلے) پیغمبر (محمدﷺ) پر نازل ہوئی تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اس لیے کہ انہوں نے حق بات پہچان لی اور وہ (خدا کی جناب میں) عرض  کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم ایمان لے آئے تو ہم کو ماننے والوں میں لکھ لے (۸۳) اور ہمیں کیا ہوا ہے کہ خدا پر اور حق بات پر جو ہمارے پاس آئی ہے ایمان نہ لائیں اور ہم امید رکھتے ہیں کہ پروردگار ہم کو نیک بندوں  کے ساتھ (بہشت میں) داخل  کرے گا (۸۴) تو خدا نے ان کو اس کہنے  کے عوض (بہشت  کے) باغ عطا فرمائے جن  کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور نیکو کاروں کا یہی صلہ ہے (۸۵) اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں (۸۶) مومنو! جو پاکیزہ چیزیں خدا نے تمہارے لیے حلال کی ہیں ان کو حرام نہ  کرو اور حد سے نہ بڑھو کہ خدا حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا (۸۷) اور جو حلال طیّب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ اور خدا سے جس پر ایمان رکھتے ہو ڈرتے رہو (۸۸) خدا تمہاری بے ارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں  کرے گا لیکن پختہ قسموں پر (جن  کے خلاف  کرو گے) مواخذہ  کرے گا تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد  کرنا اور جس کو میسر نہ ہو وہ تین روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو (اور اسے توڑ دو) اور (تم کو) چاہئے کہ اپنی قسموں کی حفاظت  کرو اس طرح خدا تمہارے (سمجھانے  کے) لیے اپنی آیتیں کھول کھول  کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر  کرو (۸۹) اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پاسے (یہ سب) ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ (۹۰) شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے  کے سبب تمہارے آپس میں دشمنی اور رنجش ڈلوا دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے تو تم کو (ان کاموں سے) باز رہنا چاہیئے (۹۱) اور خدا کی فرمانبرداری اور رسولِ  (خدا) کی اطاعت  کرتے رہو اور ڈرتے رہو اگر منہ پھیرو گے تو جان رکھو کہ ہمارے پیغمبر  کے ذمے تو صرف پیغام کا کھول  کر پہنچا دینا ہے (۹۲) جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام  کرتے رہے ان پر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھا چکے جب کہ انہوں نے پرہیز کیا اور ایمان لائے اور نیک کام کیے پھر پرہیز کیا اور ایمان لائے پھر پرہیز کیا اور نیکو کاری کی اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے (۹۳) مومنو! کسی قدر شکار سے جن کو تم ہاتھوں اور نیزوں سے پکڑ سکو خدا تمہاری آزمائش  کرے گا (یعنی حالت احرام میں شکار کی ممانعت سے) تا کہ معلوم  کرے کہ اس سے غائبانہ کون ڈرتا ہے تو جو اس  کے بعد زیادتی  کرے اس  کے لیے دکھ دینے والا عذاب (تیار) ہے (۹۴) مومنو! جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار نہ مارنا اور جو تم میں سے جان بوجھ  کر اسے مارے تو (یا تو اس کا) بدلہ (دے اور وہ یہ ہے کہ) اسی طرح کا چار پایہ جسے تم میں دو معتبر شخص مقرر  کر دیں قربانی (کرے اور یہ قربانی) کعبے پہنچائی جائے یا کفارہ (دے اور وہ) مسکینوں کو کھانا کھلانا (ہے) یا اس  کے برابر روزے رکھے تاکہ اپنے کام کی سزا (کا مزہ) چکھے (اور) جو پہلے ہو چکا وہ خدا نے معاف  کر دیا اور جو پھر (ایسا کام)  کرے گا تو خدا اس سے انتقام لے گا اور خدا غالب اور انتقام لینے والا ہے (۹۵) تمہارے لیے دریا (کی چیزوں) کا شکار اور ان کا کھانا حلال  کر دیا گیا ہے (یعنی) تمہارے اور مسافروں  کے فائدے  کے لیے اور جنگل (کی چیزوں) کا شکار جب تک تم احرام کی حالت میں رہو تم پر حرام ہے اور خدا سے جس  کے پاس تم (سب) جمع کئے جاؤ گے ڈرتے رہو (۹۶) خدا نے عزت  کے گھر (یعنی) کعبے کو لوگوں  کے لیے موجب امن مقرر فرمایا ہے اور عزت  کے مہینوں کو اور قربانی کو اور ان جانوروں کو جن  کے گلے میں پٹے بندھے ہوں یہ اس لیے کہ تم جان لو کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے خدا سب کو جانتا ہے اور یہ کہ خدا کو ہر چیز کا علم ہے (۹۷) جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے اور یہ کہ خدا بخشنے والا مہربان بھی ہے (۹۸) پیغمبر  کے ذمے تو صرف پیغام خدا کا پہنچا دینا ہے اور جو کچھ تم ظاہر  کرتے ہو اور جو کچھ مخفی  کرتے ہو خدا کو سب معلوم ہے (۹۹) کہہ دو کہ ناپاک چیزیں اور پاک چیزیں برابر نہیں ہوتیں گو ناپاک چیزوں کی کثرت تمہیں خوش ہی لگے تو عقل والو خدا سے ڈرتے رہو تاکہ رستگاری حاصل  کرو (۱۰۰) مومنو! ایسی چیزوں  کے بارے میں مت سوال  کرو کہ اگر (ان کی حقیقتیں) تم پر ظاہر  کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر قرآن  کے نازل ہونے  کے ایام میں ایسی باتیں پوچھو گے تو تم پر ظاہر بھی  کر دی جائیں گی (اب تو) خدا نے ایسی با توں (کے پوچھنے) سے درگزر فرمایا ہے اور خدا بخشنے والا بردبار ہے (۱۰۱) اس طرح کی باتیں تم سے پہلے لوگوں نے بھی پوچھی تھیں (مگر جب بتائی گئیں تو) پھر ان سے من کر ہو گئے (۱۰۲) خدا نے نہ تو بحیرہ کچھ چیز بنایا ہے اور نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام بلکہ کافر خدا پر جھوٹ افترا  کرتے ہیں اور یہ اکثر عقل نہیں رکھتے (۱۰۳) اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو (کتاب) خدا نے نازل فرمائی ہے اس کی اور رسول اللہ کی طرف رجوع  کرو تو کہتے ہیں کہ جس طریق پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے وہی ہمیں کافی ہے بھلا اگر ان  کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ سیدھے رستے پر ہوں (تب بھی؟) (۱۰۴) اے ایمان والو! اپنی جانوں کی حفاظت  کرو جب تم ہدایت پر ہو تو کوئی گمراہ تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا تم سب کو خدا کی طرف لوٹ  کر جانا ہے اس وقت وہ تم کو تمہارے سب کاموں سے جو (دنیا میں) کئے تھے آگاہ  کرے گا (اور ان کا بدلہ دے گا) (۱۰۵) مومنو! جب تم میں سے کسی کی موت آ موجود ہو تو شہادت (کا نصاب) یہ ہے کہ وصیت  کے وقت تم (مسلمانوں) میں سے دو عادل (یعنی صاحب اعتبار) گواہ ہوں یا اگر (مسلمان نہ ملیں اور) تم سفر  کر رہے ہو اور (اس وقت) تم پر موت کی مصیبت واقع ہو تو کسی دوسرے مذہب  کے دو (شخصوں کو) گواہ (کر لو) اگر تم کو ان گوا ہوں کی نسبت کچھ شک ہو تو ان کو (عصر کی) نماز  کے بعد کھڑا  کرو اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں کہ ہم شہادت کا کچھ عوض نہیں لیں گے گو ہمارا رشتہ دار ہی ہو اور نہ ہم اللہ کی شہادت کو چھپائیں گے اگر ایسا  کریں گے تو گنہگار ہوں گے (۱۰۶) پھر اگر معلوم ہو جائے کہ ان دونوں نے (جھوٹ بول  کر) گناہ حاصل کیا ہے تو جن لوگوں کا انہوں نے حق مارنا چاہا تھا ان میں سے ان کی جگہ اور دو گواہ کھڑے ہوں جو (میت سے) قرابت قریبہ رکھتے ہوں پھر وہ خدا کی قسمیں کھائیں کہ ہماری شہادت ان کی شہادت سے بہت اچھی ہے اور ہم نے کوئی زیادتی نہیں کی ایسا کیا ہو تو ہم بے انصاف ہیں (۱۰۷) اس طریق سے بہت قریب ہے کہ یہ لوگ صحیح صحیح شہادت دیں یا اس بات سے خوف  کریں کہ (ہماری) قسمیں ان کی قسموں  کے بعد رد  کر دی جائیں گی اور خدا سے ڈرو اور اس  کے حکموں کو (گوشِ  ہوش سے) سنو اور خدا نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا (۱۰۸) (وہ دن یاد رکھنے  کے لائق ہے) جس دن خدا پیغمبروں کو جمع  کرے گا پھر ان سے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا تھا وہ عرض  کریں گے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں تو ہی غیب کی با توں سے واقف ہے (۱۰۹) جب خدا (عیسیٰ سے) فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! میرے ان احسانوں کو یاد  کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کئے جب میں نے روح القدس (یعنی جبرئیل) سے تمہاری مد د کی تم جھولے میں اور جوان ہو  کر (ایک ہی نسق پر) لوگوں سے گفتگو  کرتے تھے اور جب میں نے تم کو کتاب اور دانائی اور تورات اور انجیل سکھائی اور جب تم میرے حکم سے مٹی کا جانور بنا  کر اس میں پھونک مار دیتے تھے تو وہ میرے حکم سے اڑنے لگتا تھا اور مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو میرے حکم سے چنگا  کر دیتے تھے اور مردے کو میرے حکم سے (زندہ  کر  کے قبر سے) نکال کھڑا  کرتے تھے اور جب میں نے بنی اسرائیل (کے ہاتھوں) کو تم سے روک دیا جب تم ان  کے پاس کھلے نشان لے  کر آئے تو جو ان میں سے کافر تھے کہنے لگے کہ یہ صریح جادو ہے (۱۱۰) اور جب میں نے حواریوں کی طرف حکم بھیجا کہ مجھ پر اور میرے پیغمبر پر ایمان لاؤ وہ کہنے لگے کہ (پروردگار) ہم ایمان لائے تو شاہد رہیو کہ ہم فرمانبردار ہیں (۱۱۱) (وہ قصہ بھی یاد  کرو) جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تمہارا پروردگار ایسا  کر سکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے (طعام کا) خوان نازل  کرے ؟ انہوں نے کہا کہ اگر ایمان رکھتے ہو تو خدا سے ڈرو (۱۱۲) وہ بولے کہ ہماری یہ خواہش ہے کہ ہم اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل تسلی پائیں اور ہم جان لیں کہ تم نے ہم سے سچ کہا ہے اور ہم اس (خوان  کے نزول) پر گواہ رہیں (۱۱۳) (تب) عیسیٰ بن مریم نے دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما کہ ہمارے لیے (وہ دن) عید قرار پائے یعنی ہمارے اگلوں اور پچھلوں (سب)  کے لیے اور وہ تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق دے تو بہتر رزق دینے والا ہے (۱۱۴) خدا نے فرمایا میں تم پر ضرور خوان نازل فرماؤں گا لیکن جو اس  کے بعد تم میں سے کفر  کرے گا اسے ایسا عذاب دوں گا کہ اہل عالم میں کسی کو ایسا عذاب نہ دوں گا (۱۱۵) اور (اس وقت کو بھی یاد رکھو) جب خدا فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا  کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود مقرر  کرو؟ وہ کہیں گے کہ تو پاک ہے مجھے کب شایاں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کا مجھے کچھ حق نہیں اگر میں نے ایسا کہا ہو گا تو تجھ کو معلوم ہو گا (کیونکہ) جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے اسے میں نہیں جانتا بے شک تو علاّم الغیوب ہے (۱۱۶) میں نے ان سے کچھ نہیں کہا بجز اس  کے جس کا تو نے مجھے حکم دیا ہے وہ یہ کہ تم خدا کی عبادت  کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے اور جب تک میں ان میں رہا ان (کے حالات) کی خبر رکھتا رہا جب تو نے مجھے دنیا سے اٹھا لیا تو تو ان کا نگران تھا اور تو ہر چیز سے خبردار ہے (۱۱۷) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر بخش دے تو (تیری مہربانی ہے) بے شک تو غالب اور حکمت والا ہے (۱۱۸) خدا فرمائے گا کہ آج وہ دن ہے کہ راست بازوں کو ان کی سچائی ہی فائدہ دے گی ان  کے لئے باغ ہیں جن  کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ابد الآباد ان میں بستے رہیں گے خدا ان سے خوش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں یہ بڑی کامیابی ہے (۱۱۹) آسمان اور زمین اور جو کچھ ان (دونوں) میں ہے سب پر خدا ہی کی بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے (۱۲۰)

 

سورة الأنعَام

شروع اللہ  کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

ہر طرح کی تعریف خدا ہی کو سزاوار ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیرا اور روشنی بنائی پھر بھی کافر (اور چیزوں کو) خدا  کے برابر ٹھیراتے ہیں (۱) وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر (مرنے کا) ایک وقت مقرر  کر دیا اور ایک مدت اس  کے ہاں اور مقرر ہے پھر بھی تم (اے کافرو خدا  کے بارے میں) شک  کرتے ہو (۲) اور آسمانوں اور زمین میں وہی (ایک) خدا ہے تمہاری پوشیدہ اور ظاہر سب باتیں جانتا ہے اور تم جو عمل  کرتے ہو سب سے واقف ہے (۳) اور خدا کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ان لوگوں  کے پاس نہیں آتی مگر یہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں (۴) جب ان  کے پاس حق آیا تو اس کو بھی جھٹلا دیا سو ان کو ان چیزوں کا جن سے یہ استہزا  کرتے ہیں عنقریب انجام معلوم ہو جائے گا (۵) کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی امتوں کو ہلاک  کر دیا جن  کے پاؤں ملک میں ایسے جما دیئے تھے کہ تمہارے پاؤں بھی ایسے نہیں جمائے اور ان پر آسمان سے لگاتار مینہ برسایا اور نہریں بنا دیں جو ان  کے (مکانوں  کے) نیچے بہہ رہی تھیں پھر ان کو ان  کے گنا ہوں  کے سبب ہلاک  کر دیا اور ان  کے بعد اور امتیں پیدا  کر دیں (۶) اور اگر ہم تم پر کاغذوں پر لکھی ہوئی کتاب نازل  کرتے اور یہ اسے اپنے ہاتھوں سے بھی ٹٹول لیتے تو جو کافر ہیں وہ یہی کہہ دیتے کہ یہ تو (صاف اور) صریح جادو ہے (۷) اور کہتے ہیں کہ ان (پیغمبر) پر فرشتہ کیوں نازل نہ ہوا (جو ان کی تصدیق  کرتا) اگر ہم فرشتہ نازل  کرتے تو کام ہی فیصل ہو جاتا پھر انھیں (مطلق) مہلت نہ دی جاتی (۸) نیز اگر ہم کسی فرشتہ کو بھیجتے تو اسے مرد کی صورت میں بھیجتے اور جو شبہ (اب)  کرتے ہیں اسی شبے میں پھر انہیں ڈال دیتے (۹) اور تم سے پہلے بھی پیغمبروں  کے ساتھ تمسخر ہوتے رہے ہیں سو جو لوگ ان میں سے تمسخر کیا  کرتے تھے ان کو تمسخر کی سزا نے آ گھیرا (۱۰) کہو کہ (اے من کرین رسالت) ملک میں چلو پھرو پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا (۱۱) (ان سے) پوچھو کہ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے کس کا ہے کہہ دو خدا کا اس نے اپنی ذات (پاک) پر رحمت کو لازم  کر لیا ہے وہ تم سب کو قیامت  کے دن جس میں کچھ بھی شک نہیں ضرور جمع  کرے گا جن لوگوں نے اپنے تئیں نقصان میں ڈال رکھا ہے وہ ایمان نہیں لاتے (۱۲) اور جو مخلوق رات اور دن میں بستی ہے سب اسی کی ہے اور وہ سنتا جانتا ہے (۱۳) کہو کیا میں خدا کو چھوڑ  کر کسی اور کو مدد گار بناؤں کہ (وہی تو) آسمانوں اور زمین کا پیدا  کرنے والا ہے اور وہی (سب کو) کھانا دیتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا (یہ بھی) کہہ دو کہ مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ میں سب سے پہلے اسلام لانے والا ہوں اور یہ کہ تم (اے پیغمبر!) مشرکوں میں نہ ہونا (۱۴) (یہ بھی) کہہ دو کہ اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی  کروں تو مجھے بڑے دن  کے عذاب کا خوف ہے (۱۵) جس شخص سے اس روز عذاب ٹال دیا گیا اس پر خدا نے (بڑی) مہربانی فرمائی اور یہ کھلی کامیابی ہے (۱۶) اور اگر خدا تم کو کوئی سختی پہنچائے تو اس  کے سوا اس کو کوئی دور  کرنے والا نہیں اور اگر نعمت (و راحت) عطا  کرے تو (کوئی اس کو روکنے والا نہیں) وہ ہر چیز پر قادر ہے (۱۷) اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہ دانا اور خبردار ہے (۱۸) ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ  کر (قرین انصاف) کس کی شہادت ہے کہہ دو کہ خدا ہی مجھ میں اور تم میں گواہ ہے اور یہ قرآن مجھ پر اس لیے اتارا گیا ہے کہ اس  کے ذریعے سے تم کو اور جس شخص تک وہ پہنچ سکے آگاہ  کر دوں کیا تم لوگ اس بات کی شہادت دیتے ہو کہ خدا  کے ساتھ اور بھی معبود ہیں (اے محمدﷺ!) کہہ دو کہ میں تو (ایسی) شہادت نہیں دیتا کہہ دو کہ صرف وہی ایک معبود ہے اور جن کو تم لوگ شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں (۱۹) جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ ان (ہمارے پیغمبرﷺ) کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانا  کرتے ہیں جنہوں نے اپنے تئیں نقصان میں ڈال رکھا ہے وہ ایمان نہیں لاتے (۲۰) اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہے جس نے خدا پر جھوٹ افتراء کیا یا اس کی آیتوں کو جھٹلایا۔  کچھ شک نہیں کہ ظالم لوگ نجات نہیں پائیں گے (۲۱) اور جس دن ہم سب لوگوں کو جمع  کریں گے پھر مشرکوں سے پوچھیں گے کہ (آج) وہ تمہارے شریک کہاں ہیں جن کو تمہیں دعویٰ تھا (۲۲) تو ان سے کچھ عذر نہ بن پڑے گا (اور) بجز اس  کے (کچھ چارہ نہ ہو گا) کہ کہیں خدا کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم شریک نہیں بناتے تھے (۲۳) دیکھو انہوں نے اپنے اوپر کیسا جھوٹ بولا اور جو کچھ یہ افتراء کیا  کرتے تھے سب ان سے جاتا رہا (۲۴) اور ان میں بعض ایسے ہیں کہ تمہاری (با توں کی) طرف کان رکھتے ہیں۔   اور ہم نے ان  کے دلوں پرتو پردے ڈال دیئے ہیں کہ ان کو سمجھ نہ سکیں اور کانوں میں ثقل پیدا  کر دیا ہے (کہ سن نہ سکیں) اور اگر یہ تمام نشانیاں بھی دیکھ لیں تب بھی ان پر ایمان نہ لائیں۔   یہاں تک کہ جب تمہارے پاس تم سے بحث  کرنے کو آتے ہیں تو جو کافر ہیں کہتے ہیں یہ (قرآن) اور کچھ بھی نہیں صرف پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں (۲۵) وہ اس سے (اوروں کو بھی) روکتے ہیں اور خود بھی پرے رہتے ہیں مگر (ان با توں سے) اپنے آپ ہی کو ہلاک  کرتے ہیں اور (اس سے) بے خبر ہیں (۲۶) کاش تم (ان کو اس وقت) دیکھو جب یہ دوزخ  کے کنارے کھڑے کئے جائیں گے اور کہیں گے کہ اے کاش ہم پھر (دنیا میں) لوٹا دیئے جائیں تاکہ اپنے پروردگار کی آیتوں کی تکذیب نہ  کریں اور مومن ہو جائیں (۲۷) ہاں یہ جو کچھ پہلے چھپایا  کرتے تھے (آج) ان پر ظاہر ہو گیا ہے اور اگر یہ (دنیا میں) لوٹائے بھی جائیں تو جن (کاموں) سے ان کو منع کیا گیا تھا وہی پھر  کرنے لگیں۔  کچھ شک نہیں کہ یہ جھوٹے ہیں (۲۸) اور کہتے ہیں کہ ہماری جو دنیا کی زندگی ہے بس یہی (زندگی) ہے اور ہم (مرنے  کے بعد) پھر زندہ نہیں کئے جائیں گے (۲۹) اور کاش تم (ان کو اس وقت) دیکھو جب یہ اپنے پروردگار  کے سامنے کھڑے کئے جائیں گے اور وہ فرمائے گا کیا یہ (دوبارہ زندہ ہونا) برحق نہیں تو کہیں گے کیوں نہیں پروردگار کی قسم (بالکل برحق ہے)خدا فرمائے گا اب کفر  کے بدلے (جو دنیا میں  کرتے تھے) عذاب (کے مزے) چکھو (۳۰) جن لوگوں نے خدا  کے روبرو حاضر ہونے کو جھوٹ سمجھا وہ گھاٹے میں آ گئے۔   یہاں تک کہ جب ان پر قیامت ناگہاں آ موجود ہو گی تو بول اٹھیں گے کہ (ہائے) اس تقصیر پر افسوس ہے جو ہم نے قیامت  کے بارے میں کی۔  اور وہ اپنے (اعمال  کے) بوجھ اپنی پیٹھوں پر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔   دیکھو جو بوجھ یہ اٹھا رہے ہیں بہت برا ہے (۳۱) اور دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور مشغولہ ہے۔   اور بہت اچھا گھر تو آخرت کا گھر ہے (یعنی) ان  کے لئے جو (خدا سے) ڈرتے ہیں۔   کیا تم سمجھتے نہیں (۳۲) ہم کو معلوم ہے کہ ان (کافروں) کی باتیں تمہیں رنج پہنچاتی ہیں (مگر) یہ تمہاری تکذیب نہیں  کرتے بلکہ ظالم خدا کی آیتوں سے انکار  کرتے ہیں (۳۳) اور تم سے پہلے کبھی پیغمبر جھٹلائے جاتے رہے تو وہ تکذیب اور ایذا پر صبر  کرتے رہے یہاں تک کہ ان  کے پاس ہماری مد د پہنچتی رہی اور خدا کی با توں کو کوئی بھی بدلنے والا نہیں۔   اور تم کو پیغمبروں (کے احوال) کی خبریں پہنچ چکی ہیں (تو تم بھی صبر سے کام لو) (۳۴) اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے تو اگر طاقت ہو تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو یا آسمان میں سیڑھی (تلاش  کرو) پھر ان  کے پاس کوئی معجزہ لاؤ۔  اور اگر خدا چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع  کر دیتا پس تم ہرگز نادانوں میں نہ ہونا (۳۵) بات یہ ہے کہ (حق کو) قبول وہی  کرتے ہیں جو سنتے بھی ہیں اور مردوں کو تو خدا (قیامت ہی کو) اٹھائے گا۔  پھر اسی کی طرف لوٹ  کر جائیں گے (۳۶) اور کہتے ہیں کہ ان پر ان  کے پروردگار کے پاس کوئی نشانی کیوں نازل نہیں ہوئی۔  کہہ دو کہ خدا نشانی اتارنے پر قادر ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (۳۷) اور زمین میں جو چلنے پھرنے والا (حیوان) یا دو پروں سے اڑنے والا جانور ہے ان کی بھی تم لوگوں کی طرح جماعتیں ہیں۔   ہم نے کتاب (یعنی لوح محفوظ) میں کسی چیز (کے لکھنے) میں کوتاہی نہیں کی پھر سب اپنے پروردگار کی طرف جمع کئے جائیں گے (۳۸) اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ بہرے اور گونگے ہیں (اس  کے علاوہ) اندھیرے میں (پڑے ہوئے) جس کو خدا چاہے گمراہ  کر دے اور جسے چاہے سیدھے رستے پر چلا دے (۳۹) کہو (کافرو) بھلا دیکھو تو اگر تم پر خدا کا عذاب آ جائے یا قیامت آ موجود ہو تو کیا تم (ایسی حالت میں) خدا  کے سوا کسی اور کو پکارو گے ؟ اگر سچے ہو (تو بتاؤ) (۴۰) (نہیں) بلکہ (مصیبت  کے وقت تم) اسی کو پکارتے ہو تو جس دکھ  کے لئے اسے پکارتے ہو۔  وہ اگر چاہتا ہے تو اس کو دور  کر دیتا ہے اور جن کو تم شریک بناتے ہو (اس وقت) انہیں بھول جاتے ہو (۴۱) اور ہم نے تم سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف پیغمبر بھیجے۔   پھر (ان کی نافرمانیوں  کے سبب) ہم انہیں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے تاکہ عاجزی  کریں (۴۲) تو جب ان پر ہمارا عذاب آتا رہا کیوں نہیں عاجزی  کرتے رہے۔   مگر ان  کے تو دل ہی سخت ہو گئے تھے۔   اور جو وہ کام  کرتے تھے شیطان ان کو (ان کی نظروں میں) آراستہ  کر دکھاتا تھا (۴۳) پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو جو ان کو گی گئی تھی فراموش  کر دیا تو ہم نے ان پر ہر چیز  کے دروازے کھول دیئے۔   یہاں تک کہ جب ان چیزوں سے جو ان کو دی گئی تھیں خوب خوش ہو گئے تو ہم نے ان کو ناگہاں پکڑ لیا اور وہ اس وقت مایوس ہو  کر رہ گئے (۴۴) غرض ظالم لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی۔  اور سب تعریف خدائے رب العالمین ہی کو (سزاوار ہے) (۴۵) (ان کافروں سے) کہو کہ بھلا دیکھو تو اگر خدا تمہارے کان اور آنکھیں چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے تو خدا کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہیں یہ نعمتیں پھر بخشے ؟ دیکھو ہم کس کس طرح اپنی آیتیں بیان  کرتے ہیں۔   پھر بھی یہ لوگ روگردانی  کرتے ہیں (۴۶) کہو کہ بھلا بتاؤ تو اگر تم پر خدا کا عذاب بے خبری میں یا خبر آنے  کے بعد آئے تو کیا ظالم لوگوں  کے سوا کوئی اور بھی ہلاک ہو گا؟ (۴۷) اور ہم جو پیغمبروں کو بھیجتے رہے ہیں تو خوشخبری سنانے اور ڈرانے کو پھر جو شخص ایمان لائے اور نیکو کار ہو جائے تو ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ اندوہناک ہوں گے (۴۸) اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ان کی نافرمانیوں  کے سبب انہیں عذاب ہو گا (۴۹) کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ  کے خزانے ہیں اور نہ (یہ کہ) میں غیب جانتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا کہ میں فرشتہ ہوں۔   میں تو صرف اس حکم پر چلتا ہوں جو مجھے (خدا کی طرف سے) آتا ہے۔   کہہ دو کہ بھلا اندھا اور آنکھ والے برابر ہوتے ہیں ؟ تو پھر تم غور کیوں نہیں  کرتے (۵۰) اور جو لوگ جو خوف رکھتے ہیں کہ اپنے پروردگار  کے روبرو حاضر کئے جائیں گے (اور جانتے ہیں کہ) اس  کے سوا نہ تو ان کا کوئی دوست ہو گا اور نہ سفارش  کرنے والا، ان کو اس (قرآن)  کے ذریعے سے نصیحت  کر دو تاکہ پرہیزگار بنیں (۵۱) اور جو لوگ صبح وشام اپنی پروردگار سے دعا  کرتے ہیں (اور) اس کی ذات  کے طالب ہیں ان کو (اپنے پاس سے) مت نکالو۔  ان  کے حساب (اعمال) کی جوابدہی تم پر کچھ نہیں اور تمہارے حساب کی جوابدہی ان پر کچھ نہیں (پس ایسا نہ  کرنا) اگر ان کو نکالو گے تو ظالموں میں ہو جاؤ گے (۵۲) اور اسی طرح ہم نے بعض لوگوں کی بعض سے آزمائش کی ہے کہ (جو دولتمند ہیں وہ غریبوں کی نسبت) کہتے ہیں کیا یہی لوگ ہیں جن پر خدا نے ہم میں سے فضل کیا ہے (خدا نے فرمایا) بھلا خدا شکر  کرنے والوں سے واقف نہیں ؟ (۵۳) اور جب تمہارے پاس ایسے لوگ آیا  کریں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو (ان سے) سلام علیکم کہا  کرو خدا نے اپنی ذات (پاک) پر رحمت کو لازم  کر لیا ہے کہ جو کوئی تم میں نادانی سے کوئی بری حرکت  کر بیٹھے پھر اس  کے بعد توبہ  کر لے اور نیکو کار ہو جائے تو وہ بخشنے والا مہربان ہے (۵۴) اور اس طرح ہم اپنی آیتیں کھول کھول  کر بیان  کرتے ہیں (تاکہ تم لوگ ان پر عمل  کرو) اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہو جائے (۵۵) (اے پیغمبر! کفار سے) کہہ دو کہ جن کو تم خدا  کے سوا پکارتے ہو مجھے ان کی عبادت سے منع کیا گیا ہے۔   (یہ بھی) کہہ دو کہ میں تمہاری خواہشوں کی پیروی نہیں  کروں گا ایسا  کروں تو گمراہ ہو جاؤں اور ہدایت یافتہ لوگوں میں نہ رہوں (۵۶) کہہ دو کہ میں تو اپنے پروردگار کی دلیل روشن پر ہوں اور تم اس کی تکذیب  کرتے ہو۔  جس چیز (یعنی عذاب)  کے لئے تم جلدی  کر رہے ہو وہ میرے پاس نہیں ہے (ایسا) حکم اللہ ہی  کے اختیار میں ہے وہ سچی بات بیان فرماتا ہے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ  کرنے والا ہے (۵۷) کہہ دو کہ جس چیز  کے لئے تم جلدی  کر رہے ہو اگر وہ میرے اختیار میں ہوتی تو مجھ میں اور تم میں فیصلہ ہو چکا ہوتا۔  اور خدا ظالموں سے خوب واقف ہے (۵۸) اور اسی  کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو اس  کے سوا کوئی نہیں جانتا۔  اور اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے۔   اور کوئی پتہ نہیں جھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین  کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری اور سوکھی چیز نہیں ہے مگر کتاب روشن میں (لکھی ہوئی) ہے (۵۹) اور وہی تو ہے جو رات کو (سونے کی حالت میں) تمہاری روح قبض  کر لیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں  کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھا دیتا ہے تاکہ (یہی سلسلہ جاری رکھ  کر زندگی کی) معین مدت پوری  کر دی جائے پھر تم (سب) کو اسی کی طرف لوٹ  کر جانا ہے (اس روز) وہ تم کو تمہارے عمل جو تم  کرتے ہو (ایک ایک  کر  کے) بتائے گا (۶۰) اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے۔   اور تم پر نگہبان مقرر کئے رکھتا ہے۔   یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آتی ہے تو ہمارے فرشتے اس کی روح قبض  کر لیتے ہیں اور وہ کسی طرح کی کوتاہی نہیں  کرتے (۶۱) پھر (قیامت  کے دن تمام) لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ  کے پاس واپس بلائے جائیں گے۔   سن لو کہ حکم اسی کا ہے اور وہ نہایت جلد حساب لینے والا ہے (۶۲) کہو بھلا تم کو جنگلوں اور دریاؤں  کے اندھیروں سے کون مخلصی دیتا ہے (جب) کہ تم اسے عاجزی اور نیاز پنہانی سے پکارتے ہو (اور کہتے ہو) اگر خدا ہم کو اس (تنگی) سے نجات بخشے تو ہم اس  کے بہت شکر گزار ہوں (۶۳) کہو کہ خدا ہی تم کو اس (تنگی) سے اور ہر سختی سے نجات بخشتا ہے۔   پھر (تم) اس  کے ساتھ شرک  کرتے ہو (۶۴) کہہ دو کہ وہ (اس پر بھی) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں  کے نیچے سے عذاب بھیجے یا تمہیں فرقہ فرقہ  کر دے اور ایک کو دوسرے (سے لڑا  کر آپس) کی لڑائی کا مزہ چکھا دے۔   دیکھو ہم اپنی آیتوں کو کس کس طرح بیان  کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھیں (۶۵) اور اس (قرآن) کو تمہاری قوم نے جھٹلایا حالانکہ وہ سراسر حق ہے۔   کہہ دو کہ میں تمہارا داروغہ نہیں ہوں (۶۶) ہر خبر  کے لئے ایک وقت مقرر ہے اور تم کو عنقریب معلوم ہو جائے گا (۶۷) اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں  کے بارے میں بیہودہ بکواس  کر رہے ہوں تو ان سے الگ ہو جاؤ یہاں تک کہ اور با توں میں مصروف ہو جائیں۔   اور اگر (یہ بات) شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے پر ظالم لوگوں  کے ساتھ نہ بیٹھو (۶۸) اور پرہیزگاروں پر ان لوگوں  کے حساب کی کچھ بھی جواب دہی نہیں ہاں نصیحت تاکہ وہ بھی پرہیزگار ہوں (۶۹) اور جن لوگوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور دنیا کی زندگی نے ان کو دھو کے میں ڈال رکھا ہے ان سے کچھ کام نہ رکھو ہاں اس (قرآن)  کے ذریعے سے نصیحت  کرتے رہو تاکہ (قیامت  کے دن) کوئی اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے (اس روز) خدا  کے سوا نہ تو کوئی اس کا دوست ہو گا اور نہ سفارش  کرنے والا۔  اور اگر وہ ہر چیز (جو روئے زمین پر ہے بطور) معاوضہ دینا چاہے تو وہ اس سے قبول نہ ہو یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال  کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ان  کے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی اور دکھ دینے والا عذاب ہے اس لئے کہ کفر  کرتے تھے (۷۰) کہو۔  کیا ہم خدا  کے سوا ایسی چیز کو پکاریں جو نہ ہمارا بھلا  کرس کے نہ برا۔  اور جب ہم کو خدا نے سیدھا رستہ دکھا دیا تو (کیا) ہم الٹے پاؤں پھر جائیں ؟ (پھر ہماری ایسی مثال ہو) جیسے کسی کو جنات نے جنگل میں بھلا دیا ہو (اور وہ) حیران (ہو رہا ہو) اور اس  کے کچھ رفیق ہوں جو اس کو رستے کی طرف بلائیں کہ ہمارے پاس چلا آ۔  کہہ دو کہ رستہ تو وہی ہے جو خدا نے بتایا ہے۔   اور ہمیں تو یہ حکم ملا ہے کہ ہم خدائے رب العالمین  کے فرمانبردار ہوں (۷۱) اور یہ (بھی) کہ نماز پڑھتے رہو اور اس سے ڈرتے رہو۔  اور وہی تو ہے جس  کے پاس تم جمع کئے جاؤ گے (۷۲) اور وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو تدبیر سے پیدا کیا ہے۔   اور جس دن وہ فرمائے گا کہ ہو جا تو (حشر برپا) ہو جائے گا۔   اس کا ارشاد برحق ہے۔   اور جس دن صور پھونکا جائے گا (اس دن) اسی کی بادشاہت ہو گی۔  وہی پوشیدہ اور ظاہر (سب) کا جاننے والا ہے اور وہی دانا اور خبردار ہے (۷۳) اور (وہ وقت بھی یاد  کرنے  کے لائق ہے) جب ابراہیم نے اپنے باپ آز رسے کہا کہ تم بتوں کو کیا معبود بناتے ہو۔  میں دیکھتا ہوں کہ تم اور تمہاری قوم صریح گمراہی میں ہو (۷۴) اور ہم اس طرح ابراہیم کو آسمانوں اور زمین  کے عجائبات دکھانے لگے تاکہ وہ خوب یقین  کرنے والوں میں ہو جائیں (۷۵) (یعنی) جب رات نے ان کو (پردۂ تاریکی سے) ڈھانپ لیا (تو آسمان میں) ایک ستارا نظر پڑا۔  کہنے لگے یہ میرا پروردگار ہے۔   جب وہ غائب ہو گیا تو کہنے لگے کہ مجھے غائب ہو جانے والے پسند نہیں (۷۶) پھر جب چاند کو دیکھا کہ چمک رہا ہے تو کہنے لگے یہ میرا پروردگار ہے۔   لیکن جب وہ بھی چھپ گیا تو بول اٹھے کہ میرا پروردگار مجھے سیدھا رستہ نہیں دکھائے گا تو میں ان لوگوں میں ہو جاؤں گا جو بھٹک رہے ہیں (۷۷) پھر جب سورج کو دیکھا کہ جگمگا رہا ہے تو کہنے لگے میرا پروردگار یہ ہے یہ سب سے بڑا ہے۔   مگر جب وہ بھی غروب ہو گیا تو کہنے لگے لوگو! جن چیزوں کو تم (خدا کا) شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں (۷۸) میں نے سب سے یکسو ہو  کر اپنے تئیں اسی ذات کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں (۷۹) اور ان کی قوم ان سے بحث  کرنے لگی تو انہوں نے کہا کہ تم مجھ سے خدا  کے بارے میں (کیا) بحث  کرتے ہو اس نے تو مجھے سیدھا رستہ دکھا دیا ہے۔   اور جن چیزوں کو تم اس کا شریک بناتے ہو میں ان سے نہیں ڈرتا۔  ہاں جو میرا پروردگار چاہے۔   میرا پروردگار اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔   کیا تم خیال نہیں  کرتے۔   (۸۰) بھلا میں ان چیزوں سے جن کو تم (خدا کا) شریک بناتے ہو کیوں کر ڈ روں جب کہ تم اس سے نہیں ڈرتے کہ خدا  کے ساتھ شریک بناتے ہو جس کی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی۔  اب دونوں فریق میں سے کون سا فریق امن (اور جمعیت خاطر) کا مستحق ہے۔   اگر سمجھ رکھتے ہو (تو بتاؤ) (۸۱) جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو (شرک  کے) ظلم سے مخلوط نہیں کیا ان  کے امن (اور جمعیت خاطر) ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں (۸۲) اور یہ ہماری دلیل تھی جو ہم نے ابراہیم کو ان کی قوم  کے مقابلے میں عطا کی تھی۔  ہم جس  کے چاہتے ہیں درجے بلند  کر دیتے ہیں۔   بے شک تمہارا پروردگار دانا اور خبردار ہے (۸۳) اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب بخشے۔   (اور) سب کو ہدایت دی۔  اور پہلے نوح کو بھی ہدایت دی تھی اور ان کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو بھی۔  اور ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلا دیا  کرتے ہیں (۸۴) اور ز کریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو بھی۔  یہ سب نیکو کار تھے (۸۵) اور اسمٰعیل اور الیسع اور یونس اور لوط کو بھی۔  اور ان سب کو جہان  کے لوگوں پر فضلیت بخشی تھی (۸۶) اور بعض بعض کو ان  کے باپ دادا اور اولاد اور بھائیوں میں سے بھی۔  اور ان کو برگزیدہ بھی کیا تھا اور سیدھا رستہ بھی دکھایا تھا (۸۷) یہ خدا کی ہدایت ہے اس پر اپنے بندوں میں سے جسے چاہے چلائے۔   اور اگر وہ لوگ شرک  کرتے تو جو عمل وہ  کرتے تھے سب ضائع ہو جاتے (۸۸) یہ وہ لوگ تھے جن کو ہم نے کتاب اور حکم (شریعت) اور نبوت عطا فرمائی تھی۔  اگر یہ (کفار) ان با توں سے انکار  کریں تو ہم نے ان پر (ایمان لانے  کے لئے) ایسے لوگ مقرر  کر دیئے ہیں کہ وہ ان سے کبھی انکار  کرنے والے نہیں (۸۹) یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے ہدایت دی تھی تو تم انہیں کی ہدایت کی پیروی  کرو۔  کہہ دو کہ میں تم سے اس (قرآن) کا صلہ نہیں مانگتا۔  یہ تو جہان  کے لوگوں  کے لئے محض نصیحت ہے (۹۰) اور ان لوگوں نے خدا کی قدر جیسی جاننی چاہیئے تھی نہ جانی۔  جب انہوں نے کہا کہ خدا نے انسان پر (وحی اور کتاب وغیرہ) کچھ بھی نازل نہیں کیا۔  کہو جو کتاب موسیٰ لے  کر آئے تھے اسے کس نے نازل کیا تھا جو لوگوں  کے لئے نور اور ہدایت تھی اور جسے تم نے علیحدہ علیحدہ اوراق (پر نقل)  کر رکھا ہے ان (کے کچھ حصے) کو تو ظاہر  کرتے ہو اور اکثر کو چھپاتے ہو۔  اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ دادا۔  کہہ دو (اس کتاب کو) خدا ہی نے (نازل کیا تھا) پھر ان کو چھوڑ دیا کہ اپنی بیہودہ بکواس میں کھیلتے رہیں (۹۱) اور (ویسی ہی) یہ کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے بابرکت جو اپنے سے پہلی (کتابوں) کی تصدیق  کرتی ہے اور (جو) اس لئے (نازل کی گئی ہے) کہ تم م کے اور اس  کے آس پاس  کے لوگوں کو آگاہ  کر دو۔  اور جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور وہ اپنی نمازوں کی پوری خبر رکھتے ہیں (۹۲) اور اس سے بڑھ  کر ظالم کون ہو گا جو خدا پر جھوٹ افتراء  کرے۔   یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی آئی ہے حالانکہ اس پر کچھ بھی وحی نہ آئی ہو اور جو یہ کہے کہ جس طرح کی کتاب خدا نے نازل کی ہے اس طرح کی میں بھی بنا لیتا ہوں۔   اور کاش تم ان ظالم (یعنی مشرک) لوگوں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں (مبتلا) ہوں اور فرشتے (ان کی طرف عذاب  کے لئے) ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں۔   آج تم کو ذلت  کے عذاب کی سزا دی جائے گی اس لئے کہ تم خدا پر جھوٹ بولا  کرتے تھے اور اس کی آیتوں سے سرکشی  کرتے تھے (۹۳) اور جیسا ہم نے تم کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا ایسا ہی آج اکیلے اکیلے ہمارے پاس آئے اور جو (مال و متاع) ہم نے تمہیں عطا فرمایا تھا وہ سب اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ آئے اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کی نسبت تم خیال  کرتے تھے کہ وہ تمہارے (شفیع اور ہمارے) شریک ہیں۔   (آج) تمہارے آپس  کے سب تعلقات منقطع ہو گئے اور جو دعوے تم کیا  کرتے تھے سب جاتے رہے (۹۴) بے شک خدا ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑ  کر (ان سے درخت وغیرہ) اگاتا ہے وہی جاندار کو بے جان سے نکالتا ہے اور وہی بے جان کا جاندار سے نکالنے والا ہے۔   یہی تو خدا ہے۔   پھر تم کہاں بہ کے پھرتے ہو (۹۵) وہی (رات  کے اندھیرے سے) صبح کی روشنی پھاڑ نکالتا ہے اور اسی نے رات کو (موجب) آرام (ٹھہرایا) اور سورج اور چاند کو (ذرائع) شمار بنایا ہے۔   یہ خدا  کے (مقرر کئے ہوئے) اندازے ہیں جو غالب (اور) علم والا ہے (۹۶) اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور دریاؤں  کے اندھیروں میں ان سے رستے معلوم  کرو۔  عقل والوں  کے لئے ہم نے اپنی آیتیں کھول کھول  کر بیان  کر دی ہیں (۹۷) اور وہی تو ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا۔  پھر (تمہارے لئے) ایک ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سپرد ہونے کی سمجھنے والوں  کے لئے ہم نے (اپنی) آیتیں کھول کھول  کر بیان  کر دی ہیں (۹۸) اور وہی تو ہے جو آسمان سے مینھ برساتا ہے۔   پھر ہم ہی (جو مینھ برساتے ہیں) اس سے ہر طرح کی روئیدگی اگاتے ہیں۔   پھر اس میں سے سبز سبز کونپلیں نکالتے ہیں۔   اور ان کونپلوں میں سے ایک دوسرے  کے ساتھ جڑے ہوئے دانے نکالتے ہیں اور کھجور  کے گابھے میں سے لٹکتے ہوئے گچھے اور انگوروں  کے باغ اور زیتون اور انار جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں۔   اور نہیں بھی ملتے۔   یہ چیزیں جب پھلتی ہیں تو ان  کے پھلوں پر اور (جب پکتی ہیں تو) ان  کے پکنے پر نظر  کرو۔  ان میں ان لوگوں  کے لئے جو ایمان لاتے ہیں (قدرت خدا کی بہت سی) نشانیاں ہیں (۹۹) اور ان لوگوں نے جنوں کو خدا کا شریک ٹھہرایا۔  حالانکہ ان کو اسی نے پیدا کیا اور بے سمجھے (جھوٹ بہتان) اس  کے لئے بیٹے اور بیٹیاں بنا کھڑی کیں وہ ان با توں سے جو اس کی نسبت بیان  کرتے ہیں پاک ہے اور (اس کی شان ان سے) بلند ہے (۱۰۰) (وہی) آسمانوں اور زمین کا پیدا  کرنے والا (ہے)۔  اس  کے اولاد کہاں سے ہو جب کہ اس کی بیوی ہی نہیں۔   اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔   اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے (۱۰۱) یہی (اوصاف رکھنے والا) خدا تمہارا پروردگار ہے۔   اس  کے سوا کوئی معبود نہیں۔   (وہی) ہر چیز کا پیدا  کرنے والا (ہے) تو اسی کی عبادت  کرو۔  اور وہ ہر چیز کا نگراں ہے (۱۰۲) (وہ ایسا ہے کہ) نگاہیں اس کا ادراک نہیں  کر سکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک  کر سکتا ہے اور وہ بھید جاننے والا خبردار ہے (۱۰۳) (اے محمدﷺ! ان سے کہہ دو کہ) تمہارے (پاس) پروردگار کی طرف سے (روشن) دلیلیں پہنچ چکی ہیں تو جس نے (ان کو آنکھ کھول  کر) دیکھا اس نے اپنا بھلا کیا اور جو اندھا بنا رہا اس نے اپنے حق میں برا کیا۔  اور میں تمہارا نگہبان نہیں ہوں (۱۰۴) اور ہم اسی طرح اپنی آیتیں پھیر پھیر  کر بیان  کرتے ہیں تاکہ کافر یہ نہ کہیں کہ تم (یہ باتیں اہل کتاب سے) سیکھے ہوئے ہو اور تاکہ سمجھنے والے لوگوں  کے لئے تشریح  کر دیں (۱۰۵) اور جو حکم تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس آتا ہے اسی کی پیروی  کرو۔  اس (پروردگار)  کے سوا کوئی معبود نہیں۔   اور مشرکوں سے کنارہ  کر لو (۱۰۶) اور اگر خدا چاہتا تو یہ لوگ شرک نہ  کرتے۔   اور (اے پیغمبر!) ہم نے تم کو ان پر نگہبان مقرر نہیں کیا۔  اور نہ تم ان  کے داروغہ ہو (۱۰۷) اور جن لوگوں کو یہ مشرک خدا  کے سوا پکارتے ہیں ان کو برا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں خدا کو بے ادبی سے بے سمجھے برا (نہ) کہہ بیٹھیں۔   اس طرح ہم نے ہر ایک فرقے  کے اعمال (ان کی نظروں میں) اچھے  کر دکھائے ہیں۔   پھر ان کو اپنے پروردگار ک طرف لوٹ  کر جانا ہے تب وہ ان کو بتائے گا کہ وہ کیا کیا  کرتے تھے (۱۰۸) اور یہ لوگ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان  کے پاس کوئی نشانی آئے تو وہ اس پر ضروری ایمان لے آئیں۔   کہہ دو کہ نشانیاں تو سب خدا ہی  کے پاس ہیں۔   اور (مومنو!) تمہیں کیا معلوم ہے (یہ تو ایسے بدبخت ہیں کہ ان  کے پاس) نشانیاں آ بھی جائیں تب بھی ایمان نہ لائیں (۱۰۹) اور ہم ان  کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے (تو) جیسے یہ اس (قرآن) پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے (ویسے پھر نہ لائیں گے) اور ان کو چھوڑ دیں گے کہ اپنی سرکشی میں بہکتے رہیں (۱۱۰) اور اگر ہم ان پر فرشتے بھی اتار دیتے اور مردے بھی ان سے گفتگو  کرنے لگتے اور ہم سب چیزوں کو ان  کے سامنے لا موجود بھی  کر دیتے تو بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے اِ لّا ماشاء للہ بات یہ ہے کہ یہ اکثر نادان ہیں (۱۱۱) اور اسی طرح ہم نے شیطان (سیرت) انسانوں اور جنوں کو ہر پیغمبر کا دشمن بنا دیا تھا وہ دھوکا دینے  کے لیے ایک دوسرے  کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالتے رہتے تھے اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو وہ ایسا نہ  کرتے تو ان کو اور جو کچھ یہ افتراء  کرتے ہیں اسے چھوڑ دو (۱۱۲) اور (وہ ایسے کام) اس لیے بھی (کرتے تھے) کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان  کے دل ان کی با توں پر مائل ہوں اور وہ انہیں پسند  کریں اور جو کام وہ  کرتے تھے وہ ہی  کرنے لگیں (۱۱۳) (کہو) کیا میں خدا  کے سوا اور منصف تلاش  کروں حالانکہ اس نے تمہاری طرف واضح المطالب کتاب بھیجی ہے اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب (تورات) دی ہے وہ جانتے ہیں کہ وہ تمہارے پروردگار کی طرف سے برحق نازل ہوئی ہے تو تم ہرگز شک  کرنے والوں میں نہ ہونا (۱۱۴) اور تمہارے پروردگار کی باتیں سچائی اور انصاف میں پوری ہیں اس کی با توں کو کوئی بدلنے والا نہیں اور وہ سنتا جانتا ہے (۱۱۵) اور اکثر لوگ جو زمین پر آباد ہیں (گمراہ ہیں) اگر تم ان کا کہا مان لو گے تو وہ تمہیں خدا کا رستہ بھلا دیں گے یہ محض خیال  کے پیچھے چلتے اور نرے اٹکل  کے تیر چلاتے ہیں (۱۱۶) تمہارا پروردگار ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو اس  کے رستے سے بھٹ کے ہوئے ہیں اور ان سے بھی خوب واقف ہے جو رستے پر چل رہے ہیں (۱۱۷) تو جس چیز پر (ذبح  کے وقت) خدا کا نام لیا جائے اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو تو اسے کھا لیا  کرو (۱۱۸) اور سبب کیا ہے کہ جس چیز پر خدا کا نام لیا جائے تم اسے نہ کھاؤ حالانکہ جو چیزیں اس نے تمہارے لیے حرام ٹھیرا دی ہیں وہ ایک ایک  کر  کے بیان  کر دی ہیں (بے شک ان کو نہیں کھانا چاہیے) مگر اس صورت میں کہ ان  کے (کھانے  کے) لیے ناچار ہو جاؤ اور بہت سے لوگ بے سمجھے بوجھے اپنے نفس کی خواہشوں سے لوگوں کو بہکا رہے ہیں کچھ شک نہیں کہ ایسے لوگوں کو جو (خدا کی مقرر کی ہوئی) حد سے باہر نکل جاتے ہیں تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے (۱۱۹) اور ظاہری اور پوشیدہ (ہر طرح کا) گناہ ترک  کر دو جو لوگ گناہ  کرتے ہیں وہ عنقریب اپنے کئے کی سزا پائیں گے (۱۲۰) اور جس چیز پر خدا کا نام نہ لیا جائے اسے مت کھاؤ کہ اس کا کھانا گناہ ہے اور شیطان (لوگ) اپنے رفیقوں  کے دلوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑا  کریں اور اگر تم لوگ ان  کے کہے پر چلے تو بے شک تم بھی مشرک ہوئے (۱۲۱) بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس  کے لیے روشنی  کر دی جس  کے ذریعے سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھیرے میں پڑا ہوا ہو اور اس سے نکل ہی نہ سکے اسی طرح کافر جو عمل  کر رہے ہیں وہ انہیں اچھے معلوم ہوتے ہیں (۱۲۲) اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں بڑے بڑے مجرم پیدا کئے کہ ان میں مکاریاں  کرتے رہیں اور جو مکاریاں یہ  کرتے ہیں ان کا نقصان انہیں کو ہے اور (اس سے) بے خبر ہیں (۱۲۳) اور جب ان  کے پاس کوئی آیت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ جس طرح کی رسالت خدا  کے پیغمبروں کو ملی ہے جب تک اسی طرح کی رسالت ہم کو نہ ملے ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے اس کو خدا ہی خوب جانتا ہے کہ (رسالت کا کون سا محل ہے اور) وہ اپنی پیغمبری کسے عنایت فرمائے جو لوگ جرم  کرتے ہیں ان کو خدا  کے ہاں ذلّت اور عذابِ  شدید ہو گا اس لیے کہ مکّاریاں  کرتے تھے (۱۲۴) تو جس شخص کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام  کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ  کرے اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا  کر دیتا ہے گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے اس طرح خدا ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے عذاب بھیجتا ہے (۱۲۵) اور یہی تمہارے پروردگار کا سیدھا رستہ ہے جو لوگ غور  کرنے والے ہیں ان  کے لیے ہم نے اپنی آیتیں کھول کھول  کر بیان  کر دی ہیں (۱۲۶) ان  کے لیے ان  کے اعمال  کے صلے میں پروردگار  کے ہاں سلامتی کا گھر ہے اور وہی ان کا دوستدار ہے (۱۲۷) اور جس دن وہ سب (جنّ و انس) کو جمع  کرے گا (اور فرمائے گا کہ) اے گروہ جنّات تم نے انسانوں سے بہت (فائدے) حاصل کئے تو جو انسانوں میں ان  کے دوستدار ہوں گے وہ کہیں گے کہ پروردگار ہم ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے رہے اور (آخر) اس وقت کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر کیا تھا خدا فرمائے گا (اب) تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہے ہمیشہ اس میں (جلتے) رہو گے مگر جو خدا چاہے بے شک تمہارا پروردگار دانا اور خبردار ہے (۱۲۸) اور اسی طرح ہم ظالموں کو ان  کے اعمال  کے سبب جو وہ  کرتے تھے ایک دوسرے پر مسلط  کر دیتے ہیں (۱۲۹) اے جنّوں اور انسانوں کی جماعت کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے پیغمبر نہیں آتے رہے جو میری آیتیں تم کو پڑھ پڑھ  کر سناتے اور اس دن  کے سامنے آ موجود ہونے سے ڈراتے تھے وہ کہیں گے کہ (پروردگار) ہمیں اپنے گنا ہوں کا اقرار ہے ان لوگوں کو دنیا کی زندگی نے دھو کے میں ڈال رکھا تھا اور (اب) خود اپنے اوپر گواہی دی کہ کفر  کرتے تھے (۱۳۰) (اے محمدﷺ!) یہ (جو پیغمبر آتے رہے اور کتابیں نازل ہوتی رہیں تو) اس لیے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں کہ بستیوں کو ظلم سے ہلاک  کر دے اور وہاں  کے رہنے والوں کو (کچھ بھی) خبر نہ ہو (۱۳۱) اور سب لوگوں  کے بلحاظ اعمال درجے (مقرر) ہیں اور جو کام یہ لوگ  کرتے ہیں خدا ان سے بے خبر نہیں (۱۳۲) اور تمہارا پروردگار بے پروا (اور) صاحب رحمت ہے اگر چاہے (تو اے بندوں) تمہیں نابود  کر دے اور تمہارے بعد جن لوگوں کو چاہے تمہارا جانشین بنا دے جیسا تم کو بھی دوسرے لوگوں کی نسل سے پیدا کیا ہے (۱۳۳) کچھ شک نہیں کہ جو وعدہ تم سے کیا جاتا ہے وہ (وقوع میں) آنے والا ہے اور تم (خدا کو) مغلوب نہیں  کر سکتے (۱۳۴) کہہ دو کہ لوگو تم اپنی جگہ عمل کئے جاؤ میں (اپنی جگہ) عمل کئے جاتا ہوں عنقریب تم کو معلوم ہو جائے گا کہ آخرت میں (بہشت) کس کا گھر ہو گا کچھ شک نہیں کہ مشرک نجات نہیں پانے  کے (۱۳۵) اور (یہ لوگ) خدا ہی کی پیدا کی ہوئی چیزوں یعنی کھیتی اور چوپایوں میں خدا کا بھی ایک حصہ مقرر  کرتے ہیں اور اپنے خیال (باطل) سے کہتے ہیں کہ یہ (حصہ) تو خدا کا اور یہ ہمارے شریکوں (یعنی بتوں) کا تو جو حصہ ان  کے شریکوں کا ہوتا ہے وہ تو خدا کی طرف نہیں جا سکتا اور جو حصہ خدا کا ہوتا ہے وہ ان  کے شریکوں کی طرف جا سکتا ہے یہ کیسا برا انصاف ہے (۱۳۶) اسی طرح بہت سے مشرکوں کو ان  کے شریکوں نے ان  کے بچوں کو جان سے مار ڈالنا اچھا  کر دکھایا ہے تاکہ انہیں ہلاکت میں ڈال دیں اور ان  کے دین کو ان پر خلط ملط  کر دیں اور اگر خدا چاہتا تو وہ ایسا نہ  کرتے تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور ان کا جھوٹ (۱۳۷) اور اپنے خیال سے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ چار پائے اور کھیتی منع ہے اسے اس شخص  کے سوا جسے ہم چاہیں کوئی نہ کھائے اور (بعض) چارپائے ایسے ہیں کہ ان کی پیٹ پر چڑھنا منع  کر دیا گیا ہے اور بعض مویشی ایسے ہیں جن پر (ذبح  کرتے وقت) خدا کا نام نہیں لیتے سب خدا پر جھوٹ ہے وہ عنقریب ان کو ان  کے جھوٹ کا بدلہ دے گا (۱۳۸) اور یہ بھی کہتے ہیں کہ جو بچہ ان چار پایوں  کے پیٹ میں ہے وہ خاص ہمارے مردوں  کے لئے ہے اور ہماری عور توں کو (اس کا کھانا) حرام ہے اور اگر وہ بچہ مرا ہوا ہو تو سب اس میں شریک ہیں (یعنی اسے مرد اور عورتیں سب کھائیں) عنقریب خدا ان کو ان  کے ڈھکوسلوں کی سزا دے گا بے شک وہ حکمت والا خبردار ہے (۱۳۹) جن لوگوں نے اپنی اولاد کو بیوقوفی سے بے سمجھی سے قتل کیا اور خدا پر افترا  کر  کے اس کی عطا فرمائی کی ہوئی روزی کو حرام ٹہرایا وہ گھاٹے میں پڑ گئے وہ بے شبہ گمراہ ہیں اور ہدایت یافتہ نہیں ہیں (۱۴۰) اور خدا ہی تو ہے جس نے باغ پیدا کئے چھتریوں پر چڑھائے ہوئے بھی اور جو چھتریوں پر نہیں چڑھائے ہوئے وہ بھی اور کھجور اور کھیتی جن  کے طرح طرح  کے پھل ہوتے ہیں اور زیتون اور انار جو (بعض با توں میں) ایک دوسرے سے ملتے ہیں جب یہ چیزیں پھلیں تو ان  کے پھل کھاؤ اور جس دن (پھل توڑو اور کھیتی) کاٹو تو خدا کا حق بھی اس میں سے ادا  کرو اور بے جا نہ اڑاؤ کہ خدا بیجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا (۱۴۱) اور چار پایوں میں بوجھ اٹھانے والے (یعنی بڑے بڑے) بھی پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے (یعنی چھوٹے چھوٹے) بھی (پس) خدا کا دیا ہوا رزق کھاؤ اور شیطان  کے قدموں پر نہ چلو وہ تمہارا صریح دشمن ہے (۱۴۲) (یہ بڑے چھوٹے چار پائے) آٹھ قسم  کے (ہیں) دو (دو) بھیڑوں میں سے اور دو (دو) بکریوں میں سے (یعنی ایک ایک نر اور اور ایک ایک مادہ) (اے پیغمبر ان سے) پوچھو کہ (خدا نے) دونوں (کے) نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں (کی) مادنیوں کو یا جو بچہ مادنیوں  کے پیٹ میں لپٹ رہا ہو اسے اگر سچے ہو تو مجھے سند سے بتاؤ (۱۴۳) اور دو (دو) اونٹوں میں سے اور دو (دو) گایوں میں سے (ان  کے بارے میں بھی ان سے) پوچھو کہ (خدا نے) دونوں (کے) نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں (کی) مادنیوں کو یا جو بچہ مادنیوں  کے پیٹ میں لپٹ رہا ہو اس کو بھلا جس وقت خدا نے تم کو اس کا حکم دیا تھا تم اس وقت موجود تھے ؟ تو اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہے جو خدا پر جھوٹ افتراء  کرے تاکہ از راہِ بے دانشی لوگوں کو گمراہ  کرے کچھ شک نہیں کہ خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا (۱۴۴) کہو کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے حرام نہیں پاتا بجز اس  کے کہ وہ مرا ہوا جانور یا بہتا لہو یا سور کا گوشت کہ یہ سب ناپاک ہیں یا کوئی گناہ کی چیز ہو کہ اس پر خدا  کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو اور اگر کوئی مجبور ہو جائے لیکن نہ تو نافرمانی  کرے اور نہ حد سے باہر نکل جائے تو تمہارا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے (۱۴۵) اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام  کر دئیے تھے اور گایوں اور بکریوں سے ان کی چربی حرام  کر دی تھی سوا اس  کے جو ان کی پیٹھ پر لگی ہو یا اوجھڑی میں ہو یا ہڈی میں ملی ہو یہ سزا ہم نے ان کو ان کی شرارت  کے سبب دی تھی اور ہم تو سچ کہنے والے ہیں (۱۴۶) اور اگر یوں لوگ تمہاری تکذیب  کریں تو کہہ دو تمہارا پروردگار صاحب رحمت وسیع ہے مگر اس کا عذاب گنہ گاروں لوگوں سے نہیں ٹلے گا (۱۴۷) جو لوگ شرک  کرتے ہیں وہ کہیں گے کہ اگر خدا چاہتا تو ہم شرک نہ  کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا (شرک  کرتے) اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے اسی طرح ان لوگوں نے تکذیب کی تھی جو ان سے پہلے تھے یہاں تک کہ ہمارے عذاب کا مزہ چکھ  کر رہے کہہ دو کیا تمہارے پاس کوئی سند ہے (اگر ہے) تو اسے ہمارے سامنے نکالو تم محض خیال  کے پیچھے چلتے اور اٹکل کی تیر چلاتے ہو (۱۴۸) کہہ دو کہ خدا ہی کی حجت غالب ہے اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا (۱۴۹) کہو کہ اپنے گوا ہوں کو لاؤ جو بتائیں کہ خدا نے یہ چیزیں حرام کی ہیں پھر اگر وہ (آ  کر) گواہی دیں تو تم ان  کے ساتھ گواہی نہ دینا اور نہ ان لوگوں کی خواہشوں کی پیروی  کرنا جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور (بتوں کو) اپنے پروردگار  کے برابر ٹھہراتے ہیں (۱۵۰) کہہ کہ (لوگو) آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ  کر سناؤں جو تمہارے پروردگار نے تم پر حرام  کر دی ہیں (ان کی نسبت اس نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے) کہ کسی چیز کو خدا کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ (سے بدسلوکی نہ  کرنا بلکہ) سلوک  کرتے رہنا اور ناداری (کے اندیشے) سے اپنی اولاد کو قتل نہ  کرنا کیونکہ تم کو اور ان کو ہم ہی رزق دیتے ہیں اور بے حیائی  کے کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان  کے پاس نہ پھٹکنا اور کسی جان (والے) کو جس  کے قتل کو خدا نے حرام  کر دیا ہے قتل نہ  کرنا مگر جائز طور پر (یعنی جس کا شریعت حکم دے) ان با توں کا وہ تمہیں ارشاد فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو (۱۵۱) اور یتیم  کے مال  کے پاس بھی نہ جانا مگر ایسے طریق سے کہ بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے اور ناپ تول انصاف  کے ساتھ پوری پوری کیا  کرو ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت  کے مطابق اور جب (کسی کی نسبت) کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گو وہ (تمہارا) رشتہ دار ہی ہو اور خدا  کے عہد کو پورا  کرو ان با توں کا خدا تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم نصحیت  کرو (۱۵۲) اور یہ کہ میرا سیدھا رستہ یہی ہے تو تم اسی پر چلنا اور اور رستوں پر نہ چلنا کہ (ان پر چل  کر) خدا  کے رستے سے الگ ہو جاؤ گے ان با توں کا خدا تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم پرہیزگار بنو (۱۵۳) (ہاں) پھر (سن لو کہ) ہم نے موسیٰؑ کو کتاب عنایت کی تھی تاکہ ان لوگوں پر جو نیکو کار ہیں نعمت پوری  کر دیں اور (اس میں) ہر چیز کا بیان (ہے) اور ہدایت (ہے) اور رحمت ہے تاکہ (ان کی امت  کے) لوگ اپنے پروردگار  کے رُو برو حاضر ہونے کا یقین  کریں (۱۵۴) اور (اے کفر  کرنے والوں) یہ کتاب بھی ہمیں نے اتاری ہے برکت والی تو اس کی پیروی  کرو اور (خدا سے) ڈرو تاکہ تم پر مہربانی کی جائے (۱۵۵) (اور اس لیے اتاری ہے) کہ (تم یوں نہ) کہو کہ ہم سے پہلے دو ہی گروہوں پر کتابیں اتری تھیں اور ہم ان  کے پڑھنے سے (معذور اور) بے خبر تھے (۱۵۶) یا (یہ نہ) کہو کہ اگر ہم پر بھی کتاب نازل ہوتی تو ہم ان لوگوں کی نسبت کہیں سیدھے رستے پر ہوتے سو تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے دلیل اور ہدایت اور رحمت آ گئی ہے تو اس سے بڑھ  کر ظالم کون ہو گا جو خدا کی آیتوں کی تکذیب  کرے اور ان سے (لوگوں کو) پھیرے جو لوگ ہماری آیتوں سے پھیرتے ہیں اس پھیرنے  کے سبب ہم ان کو برے عذاب کی سزا دیں گے (۱۵۷) یہ اس  کے سوا اور کس بات  کے منتظر ہیں کہ ان  کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آ جائیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہو گا اس وقت اسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گا یا اپنے ایمان (کی حالت) میں نیک عمل نہیں کئے ہوں گے (تو گنا ہوں سے توبہ  کرنا مفید نہ ہو گا اے پیغمبر ان سے) کہہ دو کہ تم بھی انتظار  کرو ہم بھی انتظار  کرتے ہیں (۱۵۸) جن لوگوں نے اپنے دین میں (بہت سے) رستے نکالے اور کئی کئی فرقے ہو گئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں ان کا کام خدا  کے حوالے پھر جو کچھ وہ  کرتے رہے ہیں وہ ان کو (سب) بتائے گا (۱۵۹) اور جو کوئی (خدا  کے حضور) نیکی لے  کر آئے گا اس کو ویسی دس نیکیاں ملیں گی اور جو برائی لائے گا اسے سزا ویسے ہی ملے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا (۱۶۰) کہہ دو کہ مجھے میرے پروردگار نے سیدھا رستہ دکھا دیا ہے (یعنی دین صحیح) مذہب ابراہیم کا جو ایک (خدا) ہی کی طرف  کے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے (۱۶۱) (یہ بھی) کہہ دو کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب خدائے رب العالمین ہی  کے لیے ہے (۱۶۲) جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی بات کا حکم ملا ہے اور میں سب سے اول فرمانبردار ہوں (۱۶۳) کہو کیا میں خدا  کے سوا اور پروردگار تلاش  کروں اور وہی تو ہر چیز کا مالک ہے اور جو کوئی (برا) کام  کرتا ہے تو اس کا ضر ر اسی کو ہوتا ہے اور کوئی شخص کسی (کے گناہ) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا پھر تم سب کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کا جانا ہے تو جن جن با توں میں تم اختلاف کیا  کرتے تھے وہ تم کو بتائے گا (۱۶۴) اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا اور ایک  کے دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں بخشا ہے اس میں تمہاری آزمائش ہے بے شک تمہارا پروردگار جلد عذاب دینے والا ہے اور بے شک وہ بخشنے والا مہربان بھی ہے (۱۶۵)

 

سورة الأعرَاف

شروع اللہ  کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

المص (۱) (اے محمدﷺ) یہ کتاب (جو) تم پر نازل ہوئی ہے۔   اس سے تمہیں تنگ دل نہیں ہونا چاہیئے ، (یہ نازل) اس لیے (ہوئی ہے) کہ تم اس  کے ذریعے سے (لوگوں) کو ڈر سناؤ اور (یہ) ایمان والوں  کے لیے نصیحت ہے (۲) (لوگو) جو (کتاب) تم پر تمہارے پروردگار  کے ہاں نازل ہوئی ہے اس کی پیروی  کرو اور اس  کے سوا اور رفیقوں کی پیروی نہ  کرو (اور) تم کم ہی نصیحت قبول  کرتے ہو (۳) اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ  کر ڈالیں جن پر ہمارا عذاب (یا تو رات کو) آتا تھا جبکہ وہ سوتے تھے یا (دن کو) جب وہ قیلولہ (یعنی دوپہر کو آرام)  کرتے تھے (۴) تو جس وقت ان پر عذاب آتا تھا ان  کے منہ سے یہی نکلتا تھا کہ (ہائے) ہم (ہائے) ہم (اپنے اوپر) ظلم  کرتے رہے (۵) تو جن لوگوں کی طرف پیغمبر بھیجے گئے ہم ان سے بھی پرسش  کریں گے اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں گے (۶) پھر اپنے علم سے ان  کے حالات بیان  کریں گے اور ہم کہیں غائب تو نہیں تھے (۷) اور اس روز (اعمال کا) تلنا برحق ہے تو جن لوگوں  کے (عملوں  کے) وزن بھاری ہوں گے وہ تو نجات پانے والے ہیں (۸) اور جن  کے وزن ہل کے ہوں گے تو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے تئیں خسارے میں ڈالا اس لیے کہ ہماری آیتوں  کے بارے میں بے انصافی  کرتے تھے (۹) اور ہم ہی نے زمین میں تمہارا ٹھکانہ بنایا اور اس میں تمہارے لیے سامان معیشت پیدا کئے۔   (مگر) تم کم ہی شکر  کرتے ہو (۱۰) اور ہم ہی نے تم کو (ابتدا میں مٹی سے) پیدا کیا پھر تمہاری صورت شکل بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا آدم  کے آگے سجدہ  کرو تو (سب نے) سجدہ کیا لیکن ابلیس کہ وہ سجدہ  کرنے والوں میں (شامل) نہ ہوا (۱۱) (خدا نے) فرمایا جب میں نے تجھ کو حکم دیا تو کس چیز نے تجھے سجدہ  کرنے سے باز رکھا۔  اس نے کہا کہ میں اس سے افضل ہوں۔   مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے بنایا ہے (۱۲) فرمایا تو (بہشت سے) اتر جا تجھے شایاں نہیں کہ یہاں غرور  کرے پس نکل جا۔  تو ذلیل ہے (۱۳) اس نے کہا کہ مجھے اس دن تک مہلت عطا فرما جس دن لوگ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے (۱۴) فرمایا (اچھا) تجھ کو مہلت دی جاتی ہے (۱۵) (پھر) شیطان نے کہا مجھے تو تُو نے ملعون کیا ہی ہے میں بھی تیرے سیدھے رستے پر ان (کو گمراہ  کرنے)  کے لیے بیٹھوں گا (۱۶) پھر ان  کے آگے سے اور پیچھے سے دائیں سے اور بائیں سے (غرض ہر طرف سے) آؤں گا (اور ان کی راہ ماروں گا) اور تو ان میں اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا (۱۷) (خدا نے) فرمایا، نکل جا۔  یہاں سے پاجی۔  مردود جو لوگ ان میں سے تیری پیروی  کریں گے میں (ان کو اور تجھ کو جہنم میں ڈال  کر) تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا (۱۸) اور ہم نے آدم (سے کہا کہ) تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو سہو اور جہاں سے چا ہو (اور جو چا ہو) نوش جان  کرو مگر اس درخت  کے پاس نہ جاؤ ورنہ گنہگار ہو جاؤ گے (۱۹) تو شیطان دونوں کو بہکانے لگا تاکہ ان کی ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں کھول دے اور کہنے لگا کہ تم کو تمہارے پروردگار نے اس درخت سے صرف اس لیے منع کیا ہے کہ کہ تم فرشتے نہ بن جاؤ یا ہمیشہ جیتے نہ رہو (۲۰) اور ان سے قسم کھا  کر کہا میں تو تمہارا خیر خواہ ہوں (۲۱) غرض (مردود نے) دھوکہ دے  کر ان کو (معصیت کی طرف) کھینچ ہی لیا جب انہوں نے اس درخت (کے پھل) کو کھا لیا تو ان کی ستر کی چیزیں کھل گئیں اور وہ بہشت  کے (درختوں  کے) پتے توڑ توڑ  کر اپنے اوپر چپکانے لگے اور (ستر چھپانے لگے) تب ان  کے پروردگار نے ان کو پکارا کہ کیا میں نے تم کو اس درخت (کے پاس جانے) سے منع نہیں کیا تھا اور جتا نہیں دیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے (۲۲) دونوں عرض  کرنے لگے کہ پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں  کرے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے (۲۳) (خدا نے) فرمایا (تم سب بہشت سے) اتر جاؤ (اب سے) تم ایک دوسرے  کے دشمن ہو اور تمہارے لیے ایک وقت (خاص) تک زمین پر ٹھکانہ اور (زندگی کا) سامان (کر دیا گیا) ہے (۲۴) (یعنی) فرمایا کہ اسی میں تمہارا جینا ہو گا اور اسی میں مرنا اور اسی میں سے (قیامت کو زندہ  کر  کے) نکالے جاؤ گے (۲۵) اے نبی آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈھانکے اور (تمہارے بدن کو) زینت (دے) اور (جو) پرہیزگاری کا لباس (ہے) وہ سب سے اچھا ہے۔   یہ خدا کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں (۲۶) اے نبی آدم (دیکھنا کہیں) شیطان تمہیں بہکا نہ دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو (بہکا  کر) بہشت سے نکلوا دیا اور ان سے ان  کے کپڑے اتروا دیئے تاکہ ان  کے ستر ان کو کھول  کر دکھا دے۔   وہ اور اس  کے بھائی تم کو ایسی جگہ سے دیکھتے رہے ہیں جہاں سے تم ان کو نہیں دیکھ سکتے ہم نے شیطانوں کو انہیں لوگوں کا رفیق کار بنایا ہے جو ایمان نہیں رکھتے (۲۷) اور جب کوئی بے حیائی کا کام  کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو اسی طرح  کرتے دیکھا ہے اور خدا نے بھی ہم کو یہی حکم دیا ہے۔   کہہ دو خدا بے حیائی  کے کام  کرنے کا ہرگز حکم نہیں دیتا۔  بھلا تم خدا کی نسبت ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں (۲۸) کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو انصاف  کرنے کا حکم دیا ہے۔   اور یہ کہ ہر نماز  کے وقت سیدھا (قبلے کی طرف) رخ کیا  کرو اور خاص اسی کی عبادت  کرو اور اسی کو پکارو۔  اس نے جس طرح تم کو ابتداء میں پیدا کیا تھا اسی طرح تم پھر پیدا ہو گے (۲۹) ایک فریق کو تو اس نے ہدایت دی اور ایک فریق پر گمراہی ثابت ہو چکی۔  ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ  کر شیطانوں کو رفیق بنا لیا اور سمجھتے (یہ) ہیں کہ ہدایت یاب ہیں (۳۰) اے نبی آدم! ہر نماز  کے وقت اپنے تئیں مزّین کیا  کرو اور کھاؤ اور پیو  اور بے جا نہ اڑاؤ کہ خدا بے جا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا (۳۱) پوچھو تو کہ جو زینت (و آرائش) اور کھانے (پینے) کی پاکیزہ چیزیں خدا نے اپنے بندوں  کے لیے پیدا کی ہیں ان کو حرام کس نے کیا ہے ؟ کہہ دو کہ یہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ایمان والوں  کے لیے ہیں اور قیامت  کے دن خاص ان ہی کا حصہ ہوں گی۔  اسی طرح خدا اپنی آیتیں سمجھنے والوں  کے لیے کھول کھول  کر بیان فرماتا ہے (۳۲) کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو بے حیائی کی با توں کو ظاہر ہوں یا پوشیدہ اور گناہ کو اور ناحق زیادتی  کرنے کو حرام کیا ہے۔   اور اس کو بھی کہ تم کسی کو خدا کا شریک بناؤ جس کی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس کو بھی کہ خدا  کے بارے میں ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں کچھ علم نہیں (۳۳) اور ہر ایک فرقے  کے لیے (موت کا) ایک وقت مقرر ہے۔   جب وہ آ جاتا ہے تو نہ تو ایک گھڑی دیر  کر سکتے ہیں نہ جلدی (۳۴) اے نبی آدم! (ہم تم کو یہ نصیحت ہمیشہ  کرتے رہے ہیں کہ) جب ہمارے پیغمبر تمہارے پاس آیا  کریں اور ہماری آیتیں تم کو سنایا  کریں (تو ان پر ایمان لایا  کرو) کہ جو شخص (ان پر ایمان لا  کر خدا سے) ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا تو ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمناک ہوں گے (۳۵) اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے سرتابی کی وہی دوزخی ہیں کہ ہمیشہ اس میں (جلتے) رہیں گے (۳۶) تو اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو خدا پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے۔   ان کو ان  کے نصیب کا لکھا ملتا ہی رہے گا یہاں تک کہ جب ان  کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) جان نکالنے آئیں گے تو کہیں گے کہ جن کو تم خدا  کے سوا پکارا  کرتے تھے وہ (اب) کہاں ہیں ؟ وہ کہیں گے (معلوم نہیں) کہ وہ ہم سے (کہاں) غائب ہو گئے اور اقرار  کریں گے کہ بے شک وہ کافر تھے (۳۷) تو خدا فرمائے گا کہ جنّوں اور انسانوں کی جو جماعتیں تم سے پہلے ہو گزری ہیں ان  کے ساتھ تم بھی داخل جہنم ہو جاؤ۔  جب ایک جماعت (وہاں) جا داخل ہو گئی تو اپنی (مذہبی) بہن (یعنی اپنے جیسی دوسری جماعت) پر لعنت  کرے گی۔  یہاں تک کہ جب سب اس میں داخل ہو جائیں گے تو پچھلی جماعت پہلی کی نسبت کہے گی کہ اے پروردگار! ان ہی لوگوں نے ہم کو گمراہ کیا تھا تو ان کو آتش جہنم کا دگنا عذاب دے۔   خدا فرمائے گا کہ (تم) سب کو دگنا (عذاب دیا جائے گا) مگر تم نہیں جانتے (۳۸) اور پہلی جماعت پچھلی جماعت سے کہے گی کہ تم کو ہم پر کچھ بھی فضیلت نہ ہوئی تو جو (عمل) تم کیا  کرتے تھے اس  کے بدلے میں عذاب  کے مزے چکھو (۳۹) جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے سرتابی کی۔  ان  کے لیے نہ آسمان  کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ وہ بہشت میں داخل ہوں گے۔   یہاں تک کہ اونٹ سوئی  کے نا کے میں سے نہ نکل جائے اور گنہگاروں کو ہم ایسی ہی سزا دیا  کرتے ہیں (۴۰) ایسے لوگوں  کے لیے (نیچے) بچھونا بھی (آتش) جہنم کا ہو گا اور اوپر سے اوڑھنا بھی (اسی کا) اور ظالموں کو ہم ایسی ہی سزا دیا  کرتے ہیں (۴۱) اور جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک  کرتے رہے اور ہم (عملوں  کے لیے) کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔   ایسے ہی لوگ اہل بہشت ہیں (کہ) اس میں ہمیشہ رہیں گے (۴۲) اور جو کینے ان  کے دلوں میں ہوں گے ہم سب نکال ڈالیں گے۔   ان  کے محلوں  کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور کہیں گے کہ خدا کا شکر ہے جس نے ہم کو یہاں کا راستہ دکھایا اور اگر خدا ہم کو رستہ نہ دکھاتا تو ہم رستہ نہ پا سکتے۔   بے شک ہمارا پروردگار  کے رسول حق بات لے  کر آئے تھے اور (اس روز) منادی  کر دی جائے گی کہ تم ان اعمال  کے صلے میں جو دنیا میں  کرتے تھے اس بہشت  کے وارث بنا دیئے گئے ہو (۴۳) اور اہل بہشت دوزخیوں سے پکار  کر کہیں گے کہ جو وعدہ ہمارے پروردگار نے ہم سے کیا تھا ہم نے تو اسے سچا پا لیا۔  بھلا جو وعدہ تمہارے پروردگار نے تم سے کیا تھا تم نے بھی اسے سچا پایا؟ وہ کہیں گے ہاں تو (اس وقت) ان میں ایک پکارنے والا پکارے گا کہ بے انصافوں پر خدا کی لعنت (۴۴) جو خدا کی راہ سے روکتے اور اس میں کجی ڈھونڈتے اور آخرت سے انکار  کرتے تھے (۴۵) ان دونوں (یعنی بہشت اور دوزخ)  کے درمیان (اعراف نام) ایک دیوار ہو گی اور اعراف پر کچھ آدمی ہوں گے جو سب کو ان کی صور توں سے پہچان لیں گے۔   تو وہ اہل بہشت کو پکار  کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔  یہ لوگ بھی بہشت میں داخل تو نہیں ہوں گے مگر امید رکھتے ہوں گے (۴۶) اور جب ان کی نگاہیں پلٹ  کر اہل دوزخ کی طرف جائیں گی تو عرض  کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو ظالم لوگوں  کے ساتھ شامل نہ کیجیو (۴۷) اور اہل اعراف (کافر) لوگوں کو جنہیں ان کی صور توں سے شناخت  کرتے ہوں گے پکاریں گے اور کہیں گے (کہ آج) نہ تو تمہاری جماعت ہی تمہارے کچھ کام آئی اور نہ تمہارا تکبّر (ہی سودمند ہوا) (۴۸) (پھر مومنوں کی طرف اشارہ  کر  کے کہیں گے) کیا یہ وہی لوگ ہیں جن  کے بارے میں تم قسمیں کھایا  کرتے تھے کہ خدا اپنی رحمت سے ان کی دستگیری نہیں  کرے گا (تو مومنو) تم بہشت میں داخل ہو جاؤ تمہیں کچھ خوف نہیں اور نہ تم کو کچھ رنج و اندوہ ہو گا (۴۹) اور وہ دوزخی بہشتیوں سے (گڑگڑا  کر) کہیں گے کہ کسی قدر ہم پر پانی بہاؤ یا جو رزق خدا نے تمہیں عنایت فرمایا ہے ان میں سے (کچھ ہمیں بھی دو) وہ جواب دیں گے کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کافروں پر حرام  کر دیا ہے (۵۰) جنہوں نے اپنے دین کو تماشا اور کھیل بنا رکھا تھا اور دنیا کی زندگی نے ان کو دھو کے میں ڈال رکھا تھا۔  تو جس طرح یہ لوگ اس دن  کے آنے کو بھولے ہوئے اور ہماری آیتوں سے من کر ہو رہے تھے۔   اسی طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے (۵۱) اور ہم نے ان  کے پاس کتاب پہنچا دی ہے جس کو علم و دانش  کے ساتھ کھول کھول  کر بیان  کر دیا ہے (اور) وہ مومن لوگوں  کے لیے ہدایت اور رحمت ہے (۵۲) کیا یہ لوگ اس  کے وعدۂ عذاب  کے منتظر ہیں۔   جس دن وہ وعدہ آ جائے گا تو جو لوگ اس کو پہلے سے بھولے ہوئے ہوں گے وہ بول اٹھیں گے کہ بے شک ہمارے پروردگار  کے رسول حق لے  کر آئے تھے۔   بھلا (آج) ہمارا کوئی سفارشی ہیں کہ ہماری سفارش  کریں یا ہم (دنیا میں) پھر لوٹا دیئے جائیں کہ جو عمل (بد) ہم (پہلے)  کرتے تھے (وہ نہ  کریں بلکہ) ان  کے سوا اور (نیک) عمل  کریں۔   بے شک ان لوگوں نے اپنا نقصان کیا اور جو کچھ یہ افتراء کیا  کرتے تھے ان سے سب جاتا رہا (۵۳) کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار خدا ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔  وہی رات کو دن کا لباس پہناتا ہے کہ وہ اس  کے پیچھے دوڑتا چلا آتا ہے۔   اور اسی نے سورج اور چاند ستاروں کو پیدا کیا سب اس  کے حکم  کے مطابق کام میں لگے ہوئے ہیں۔   دیکھو سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی (اسی کا ہے)۔  یہ خدا رب العالمین بڑی برکت والا ہے (۵۴) (لوگو) اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپ کے چپ کے دعائیں مانگا  کرو۔  وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا (۵۵) اور ملک میں اصلاح  کے بعد خرابی نہ  کرنا اور خدا سے خوف  کرتے ہوئے اور امید رکھ  کر دعائیں مانگتے رہنا۔  کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی  کرنے والوں سے قریب ہے (۵۶) اور وہی تو ہے جو اپنی رحمت (یعنی مینھ) سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری (بنا  کر) بھیجتا ہے۔   یہاں تک کہ جب وہ بھاری بھاری بادلوں کو اٹھا لاتی ہے تو ہم اس کو ایک مری ہوئی بستی کی طرف ہانک دیتے ہیں۔   پھر بادل سے مینھ برساتے ہیں۔   پھر مینھ سے ہر طرح  کے پھل پیدا  کرتے ہیں۔   اسی طرح ہم مردوں کو (زمین سے) زندہ  کر  کے باہر نکال لیں گے۔   (یہ آیات اس لیے بیان کی جاتی ہیں) تاکہ تم نصیحت پکڑو (۵۷) جو زمین پاکیزہ (ہے) اس میں سے سبزہ بھی پروردگار  کے حکم سے (نفیس ہی) نکلتا ہے اور جو خراب ہے اس میں جو کچھ ہے ناقص ہوتا ہے۔   اسی طرح ہم آیتوں کو شکرگزار لوگوں  کے لئے پھیر پھیر  کر بیان  کرتے ہیں (۵۸) ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے (ان سے کہا) اے میری برادری  کے لوگو خدا کی عبادت  کرو اس  کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔   مجھے تمہارے بارے میں بڑے دن  کے عذاب کا (بہت ہی) ڈر ہے (۵۹) تو جو ان کی قوم میں سردار تھے وہ کہنے لگے کہ ہم تمہیں صریح گمراہی میں (مبتلا) دیکھتے ہیں (۶۰) انہوں نے کہا اے قوم مجھ میں کسی طرح کی گمراہی نہیں ہے بلکہ میں پروردگار عالم کا پیغمبر ہوں (۶۱) تمہیں اپنے پروردگار  کے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیرخواہی  کرتا ہوں اور مجھ کو خدا کی طرف سے ایسی باتیں معلوم ہیں جن سے تم بے خبر ہو (۶۲) کیا تم کو اس بات سے تعجب ہوا ہے کہ تم میں سے ایک شخص  کے ہاتھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس نصیحت آئی تاکہ وہ تم کو ڈرائے اور تاکہ تم پرہیزگار بنو اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے (۶۳) مگر ان لوگوں نے ان کی تکذیب کی۔  تو ہم نے نوح کو اور جو ان  کے ساتھ کشتی میں سوار تھے ان کو تو بچا لیا اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا انہیں غرق  کر دیا۔  کچھ شک نہیں کہ وہ اندھے لوگ تھے (۶۴) اور (اسی طرح) قوم عاد کی طرف ان  کے بھائی ہود کو بھیجا۔  انہوں نے کہا کہ بھائیو خدا ہی کی عبادت  کرو۔  اس  کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔   کیا تم ڈرتے نہیں ؟ (۶۵) تو ان کی قوم  کے سردار جو کافر تھے کہنے لگے کہ تم ہمیں احمق نظر آتے ہو اور ہم تمہیں جھوٹا خیال  کرتے ہیں (۶۶) انہوں نے کہا کہ بھائیو مجھ میں حماقت کی کوئی بات نہیں ہے بلکہ میں رب العالمین کا پیغمبر ہوں (۶۷) میں تمہیں خدا  کے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہارا امانت دار خیرخواہ ہوں (۶۸) کیا تم کو اس بات سے تعجب ہوا ہے کہ تم میں سے ایک شخص  کے ہاتھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں ڈرائے اور یاد  کرو تو  کرو جب اس نے تم کو قوم نوح  کے بعد سردار بنایا۔  اور تم کو پھیلاؤ زیادہ دیا۔  پس خدا کی نعمتوں کو یاد  کرو۔  تاکہ نجات حاصل  کرو (۶۹) وہ کہنے لگے کہ تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت  کریں۔   اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ؟ تو اگر سچے ہو تو جس چیز سے ہمیں ڈراتے ہو اسے لے آؤ (۷۰) ہود نے کہا تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر عذاب اور غضب کا (نازل ہونا) مقرر ہو چکا ہے۔   کیا تم مجھ سے ایسے ناموں  کے بارے میں جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے (اپنی طرف سے) رکھ لئے ہیں۔   جن کی خدا نے کوئی سند نازل نہیں کی۔  تو تم بھی انتظار  کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار  کرتا ہوں (۷۱) پھر ہم نے ہود کو اور جو لوگ ان  کے ساتھ تھے ان کو نجات بخشی اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان کی جڑ کاٹ دی اور وہ ایمان لانے والے تھے ہی نہیں (۷۲) اور قوم ثمود کی طرف ان  کے بھائی صالح کو بھیجا۔  (تو) صالح نے کہا کہ اے قوم! خدا ہی کی عبادت  کرو اس  کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔   تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک معجزہ آ چکا ہے۔   (یعنی) یہی خدا کی اونٹنی تمہارے لیے معجزہ ہے۔   تو اسے (آزاد) چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں چرتی پھرے اور تم اسے بری نیت سے ہاتھ بھی نہ لگانا۔  ورنہ عذابِ  الیم میں تمہیں پکڑ لے گا (۷۳) اور یاد تو  کرو جب اس نے تم کو قوم عاد  کے بعد سردار بنایا اور زمین پر آباد کیا کہ نرم زمین سے (مٹی لے لے  کر) محل تعمیر  کرتے ہو اور پہاڑوں کو تراش تراش  کر گھر بناتے ہو۔  پس خدا کی نعمتوں کو یاد  کرو اور زمین میں فساد نہ  کرتے پھرو (۷۴) تو ان کی قوم میں سردار لوگ جو غرور رکھتے تھے غریب لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لے آئے تھے کہنے لگے بھلا تم یقین  کرتے ہو کہ صالح اپنے پروردگار کی طرف بھیجے گئے ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں جو چیز دے  کر وہ بھیجے گئے ہیں ہم اس پر بلاشبہ ایمان رکھتے ہیں (۷۵) تو (سرداران) مغرور کہنے لگے کہ جس چیز پر تم ایمان لائے ہو ہم تو اس کو نہیں مانتے (۷۶) آخر انہوں نے اونٹی (کی کونچوں) کو کاٹ ڈالا اور اپنے پروردگار  کے حکم سے سرکشی کی اور کہنے لگے کہ صالح! جس چیز سے تم ہمیں ڈراتے تھے اگر تم (خدا  کے) پیغمبر ہو تو اسے ہم پر لے آؤ (۷۷) تو ان کو بھونچال نے آ پکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے (۷۸) پھر صالح ان سے (نا امید ہو  کر) پھرے اور کہا کہ میری قوم! میں نے تم کو خدا کا پیغام پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم (ایسے ہو کہ) خیر خواہوں کو دوست ہی نہیں رکھتے (۷۹) اور اسی طرح جب ہم نے لوط کو (پیغمبر بنا  کر بھیجا تو) اس وقت انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ایسی بے حیائی کا کام کیوں  کرتے ہو کہ تم سے اہل عالم میں سے کسی نے اس طرح کا کام نہیں کیا (۸۰) یعنی خواہش نفسانی پورا  کرنے  کے لیے عور توں کو چھوڑ  کر لونڈوں پر گرتے ہو۔  حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ حد سے نکل جانے والے ہو (۸۱) تو ان سے اس کا جواب کچھ نہ بن پڑا اور بولے تو یہ بولے کہ ان لوگوں (یعنی لوط اور اس  کے گھر والوں) کو اپنے گاؤں سے نکال دو (کہ) یہ لوگ پاک بننا چاہتے ہیں (۸۲) تو ہم نے ان کو اور ان  کے گھر والوں کو بچا لیا مگر ان کی بی بی (نہ بچی) کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں تھی (۸۳) اور ہم نے ان پر (پتھروں کا) مینھ برسایا۔  سو دیکھ لو کہ گنہگاروں کا کیسا انجام ہوا (۸۴) اور مَدین کی طرف ان  کے بھائی شعیب کو بھیجا۔  (تو) انہوں نے کہا کہ قوم! خدا ہی کی عبادت  کرو اس  کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔   تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی آ چکی ہے تو تم ناپ تول پوری کیا  کرو اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دیا  کرو۔  اور زمین میں اصلاح  کے بعد خرابی نہ  کرو۔  اگر تم صاحب ایمان ہو تو سمجھ لو کہ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے (۸۵) اور ہر رستے پر مت بیٹھا  کرو کہ جو شخص خدا پر ایمان نہیں لاتا ہے اسے تم ڈراتے اور راہ خدا سے روکتے اور اس میں کجی ڈھونڈتے ہو اور (اس وقت کو) یاد  کرو جب تم تھوڑے سے تھے تو خدا نے تم کو جماعت کثیر  کر دیا اور دیکھ لو کہ خرابی  کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا (۸۶) اور اگر تم میں سے ایک جماعت میری رسالت پر ایمان لے آئی ہے اور ایک جماعت ایمان نہیں لائی ہے۔   اور ایک جماعت ایمان نہیں لائی۔  تو صبر کیے رہو یہاں تک کہ خدا ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ  کر دے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ  کرنے والا ہے (۸۷) (تو) ان کی قوم میں جو لوگ سردار اور بڑے آدمی تھے ، وہ کہنے لگے کہ شعیب! (یا تو) ہم تم کو اور جو لوگ تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں ، ان کو اپنے شہر سے نکال دیں گے۔   یا تم ہمارے مذہب میں آ جاؤ۔  انہوں نے کہا خواہ ہم (تمہارے دین سے) بیزار ہی ہوں (تو بھی؟) (۸۸) اگر ہم اس  کے بعد کہ خدا ہمیں اس سے نجات بخش چکا ہے تمہارے مذہب میں لوٹ جائیں تو بے شک ہم نے خدا پر جھوٹ افتراء باندھا۔  اور ہمیں شایاں نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو (ہم مجبور ہیں)۔  ہمارے پروردگار کا علم ہر چیز پر احاطہ کیے ہوئے ہے۔   ہمارا خدا ہی پر بھروسہ ہے۔   اے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف  کے ساتھ فیصلہ  کر دے اور تو سب سے بہتر فیصلہ  کرنے والا ہے (۸۹) اور ان کی قوم میں سے سردار لوگ جو کافر تھے ، کہنے لگے (بھائیو) اگر تم نے شعیب کی پیروی کی تو بے شک تم خسارے میں پڑ گئے (۹۰) تو ان کو بھونچال نے آ پکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے (۹۱) (یہ لوگ) جنہوں نے شعیب کی تکذیب کی تھی ایسے برباد ہوئے تھے کہ گویا وہ ان میں کبھی آباد ہی نہیں ہوئے تھے (غرض) جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا وہ خسارے میں پڑ گئے (۹۲) تو شعیب ان میں سے نکل آئے اور کہا کہ بھائیو میں نے تم کو اپنے پروردگار  کے پیغام پہنچا دیئے ہیں اور تمہاری خیرخواہی کی تھی۔  تو میں کافروں پر (عذاب نازل ہونے سے) رنج و غم کیوں  کروں (۹۳) اور ہم نے کسی شہر میں کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر وہاں  کے رہنے والوں کو (جو ایمان نہ لائے) دکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی اور زاری  کریں (۹۴) پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا یہاں تک کہ (مال و اولاد میں) زیادہ ہو گئے تو کہنے لگے کہ اس طرح کا رنج و راحت ہمارے بڑوں کو بھی پہنچتا رہا ہے تو ہم نے ان کو ناگہاں پکڑ لیا اور وہ (اپنے حال میں) بے خبر تھے (۹۵) اگر ان بستیوں  کے لوگ ایمان لے آتے اور پرہیزگار ہو جاتے۔   تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات (کے دروازے) کھول دیتے مگر انہوں نے تو تکذیب کی۔  سو ان  کے اعمال کی سزا میں ہم نے ان کو پکڑ لیا (۹۶) کیا بستیوں  کے رہنے والے اس سے بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو واقع ہو اور وہ (بے خبر) سو رہے ہوں (۹۷) اور کیا اہلِ  شہر اس سے نڈر ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آ نازل ہو اور وہ کھیل رہے ہوں (۹۸) کیا یہ لوگ خدا  کے داؤ کا ڈر نہیں رکھتے (سن لو کہ) خدا  کے داؤ سے وہی لوگ نڈر ہوتے ہیں جو خسارہ پانے والے ہیں (۹۹) کیا ان لوگوں کو جو اہلِ  زمین  کے (مر جانے  کے) بعد زمین  کے مالک ہوتے ہیں ، یہ امر موجب ہدایت نہیں ہوا کہ اگر ہم چاہیں تو ان  کے گنا ہوں  کے سبب ان پر مصیبت ڈال دیں۔   اور ان  کے دلوں پر مہر لگا دیں کہ کچھ سن ہی نہ سکیں (۱۰۰) یہ بستیاں ہیں جن  کے کچھ حالات ہم تم کو سناتے ہیں۔   اور ان  کے پاس ان  کے پیغمبر نشانیاں لے  کر آئے۔   مگر وہ ایسے نہیں تھے کہ جس چیز کو پہلے جھٹلا چکے ہوں اسے مان لیں اسی طرح خدا کافروں  کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے (۱۰۱) اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں (عہد کا نباہ) نہیں دیکھا۔  اور ان میں اکثروں کو (دیکھا تو) بدکار ہی دیکھا (۱۰۲) پھر ان (پیغمبروں)  کے بعد ہم نے موسیٰ کو نشانیاں دے  کر فرعون اور اس  کے اعیانِ  سلطنت  کے پاس بھیجا تو انہوں نے ان  کے ساتھ کفر کیا۔  سو دیکھ لو کہ خرابی  کرنے والوں کا انجام کیا ہوا (۱۰۳) اور موسیٰ نے کہا کہ اے فرعون میں رب العالمین کا پیغمبر ہوں (۱۰۴) مجھ پر واجب ہے کہ خدا کی طرف سے جو کچھ کہوں سچ ہی کہوں۔   میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے  کر آیا ہوں۔   سو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے کی رخصت دے دیجیے (۱۰۵) فرعون نے کہا اگر تم نشانی لے  کر آئے ہو تو اگر سچے ہو تو لاؤ (دکھاؤ) (۱۰۶) موسیٰ نے اپنی لاٹھی (زمین پر) ڈال دی تو وہ اسی وقت صریح اژدھا (ہو گیا) (۱۰۷) اور اپنا ہاتھ باہر نکالا تو اسی دم دیکھنے والوں کی نگاہوں میں سفید براق (تھا) (۱۰۸) تو قوم فرعون میں جو سردار تھے وہ کہنے لگے کہ یہ بڑا علامہ جادوگر ہے (۱۰۹) اس کا ارادہ یہ ہے کہ تم کو تمہارے ملک سے نکال دے۔   بھلا تمہاری کیا صلاح ہے ؟ (۱۱۰) انہوں نے (فرعون سے) کہا کہ فی الحال موسیٰ اور اس  کے بھائی  کے معاملے کو معاف رکھیے اور شہروں میں نقیب روانہ  کر دیجیے (۱۱۱) کہ تمام ماہر جادوگروں کو آپ  کے پاس لے آئیں (۱۱۲) (چنانچہ ایسا ہی کیا گیا) اور جادوگر فرعون  کے پاس آ پہنچے اور کہنے لگے کہ اگر ہم جیت گئے تو ہمیں صلہ عطا کیا جائے (۱۱۳) (فرعون نے) کہا ہاں (ضرور) اور (اس  کے علاوہ) تم مقربوں میں داخل  کر لیے جاؤ گے (۱۱۴) (جب فریقین روزِ  مقررہ پر جمع ہوئے تو) جادوگروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم (جادو کی چیز) ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں (۱۱۵) (موسیٰ نے) کہا تم ہی ڈالو۔  جب انہوں نے (جادو کی چیزیں) ڈالیں تو لوگوں کی آنکھوں پر جادو  کر دیا (یعنی نظربندی  کر دی) اور (لاٹھیوں اور رسیوں  کے سانپ بنا بنا  کر) انہیں ڈرا دیا اور بہت بڑا جادو دکھایا (۱۱۶) (اس وقت) ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ تم بھی اپنی لاٹھی ڈال دو۔  وہ فوراً (سانپ بن  کر) جادوگروں  کے بنائے ہوئے سانپوں کو (ایک ایک  کر  کے) نگل جائے گی (۱۱۷) (پھر) تو حق ثابت ہو گیا اور جو کچھ فرعونی  کرتے تھے ، باطل ہو گیا (۱۱۸) اور وہ مغلوب ہو گئے اور ذلیل ہو کر رہ گئے (۱۱۹) (یہ کیفیت دیکھ  کر) جادوگر سجدے میں گر پڑے (۱۲۰) اور کہنے لگے کہ ہم جہان  کے پروردگار پر ایمان لائے (۱۲۱) یعنی موسیٰ اور ہارون  کے پروردگار پر (۱۲۲) فرعون نے کہا کہ پیشتر اس  کے کہ میں تمہیں اجازت دوں تم اس پر ایمان لے آئے ؟ بے شک یہ فریب ہے جو تم نے مل  کر شہر میں کیا ہے تاکہ اہلِ  شہر کو یہاں سے نکال دو۔  سو عنقریب (اس کا نتیجہ) معلوم  کر لو گے (۱۲۳) میں (پہلے تو) تمہارے ایک طرف  کے ہاتھ اور دوسری طرف  کے پاؤں کٹوا دوں گا پھر تم سب کو سولی چڑھوا دوں گا (۱۲۴) وہ بولے کہ ہم تو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ  کر جانے والے ہیں (۱۲۵) اور اس  کے سوا تجھ کو ہماری کون سی بات بری لگی ہے کہ جب ہمارے پروردگار کی نشانیاں ہمارے پاس آ گئیں تو ہم ان پر ایمان لے آئے۔   اے پروردگار ہم پر صبر و استقامت  کے دہانے کھول دے اور ہمیں (ماریو تو) مسلمان ہی ماریو (۱۲۶) اور قومِ  فرعون میں جو سردار تھے کہنے لگے کہ کیا آپ موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑ دیجیے گا کہ ملک میں خرابی  کریں اور آپ سے اور آپ  کے معبودوں سے دست کش ہو جائیں۔   وہ بولے کہ ہم ان  کے لڑکوں کو قتل  کر ڈالیں گے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیں گے اور بے شک ہم ان پر غالب ہیں (۱۲۷) موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا سے مد د مانگو اور ثابت قدم رہو۔  زمین تو خدا کی ہے۔   وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا مالک بناتا ہے۔   اور آخر بھلا تو ڈرنے والوں کا ہے (۱۲۸) وہ بولے کہ تمہارے آنے سے پہلے بھی ہم کو اذیتیں پہنچتی رہیں اور آنے  کے بعد بھی۔  موسیٰ نے کہا کہ قریب ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے دشمن کو ہلاک  کر دے اور اس کی جگہ تمہیں زمین میں خلیفہ بنائے پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل  کرتے ہو (۱۲۹) اور ہم نے فرعونیوں کو قحطوں اور میووں  کے نقصان میں پکڑا تاکہ نصیحت حاصل  کریں (۱۳۰) تو جب ان کو آسائش حاصل ہوتی تو کہتے کہ ہم اس  کے مستحق ہیں۔   اور اگر سختی پہنچتی تو موسیٰ اور ان  کے رفیقوں کی بد شگونی بتاتے۔   دیکھو ان کی بد شگونی خدا  کے ہاں مقرر ہے لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے (۱۳۱) اور کہنے لگے کہ تم ہمارے پاس (خواہ) کوئی ہی نشانی لاؤ تاکہ اس سے ہم پر جادو  کرو۔  مگر ہم تم پر ایمان لانے والے نہیں ہیں (۱۳۲) تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈیاں اور جوئیں اور مینڈک اور خون کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں۔   مگر وہ تکبر ہی  کرتے رہے اور وہ لوگ تھے ہی گنہگار (۱۳۳) اور جب ان پر عذاب واقع ہوتا تو کہتے کہ موسیٰ ہمارے لیے اپنے پروردگار سے دعا  کرو۔  جیسا اس نے تم سے عہد  کر رکھا ہے۔   اگر تم ہم سے عذاب کو ٹال دو گے تو ہم تم پر ایمان بھی لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی تمہارے ساتھ جانے (کی اجازت) دیں گے (۱۳۴) پھر جب ہم ایک مدت  کے لیے جس تک ان کو پہنچنا تھا ان سے عذاب دور  کر دیتے تو وہ عہد کو توڑ ڈالتے (۱۳۵) تو ہم نے ان سے بدلہ لے  کر ہی چھوڑا کہ ان کو دریا میں ڈبو دیا اس لیے کہ وہ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے اور ان سے بے پروائی  کرتے تھے (۱۳۶) اور جو لوگ کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو زمین (شام)  کے مشرق و مغرب کا جس میں ہم نے برکت دی تھی وارث  کر دیا اور بنی اسرائیل  کے بارے میں ان  کے صبر کی وجہ سے تمہارے پروردگار کا وعدۂ نیک پورا ہوا اور فرعون اور قوم فرعون جو (محل) بناتے اور (انگور  کے باغ) جو چھتریوں پر چڑھاتے تھے سب کو ہم نے تباہ  کر دیا (۱۳۷) اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا  کے پار اتارا تو وہ ایسے لوگوں  کے پاس جا پہنچے جو اپنے بتوں (کی عبادت)  کے لیے بیٹھے رہتے تھے۔   (بنی اسرائیل) کہنے لگے کہ موسیٰ جیسے ان لوگوں  کے معبود ہیں۔   ہمارے لیے بھی ایک معبود بنا دو۔  موسیٰ نے کہا کہ تم بڑے ہی جاہل لوگ ہو (۱۳۸) یہ لوگ جس (شغل) میں (پھنسے ہوئے) ہیں وہ برباد ہونے والا ہے اور جو کام یہ  کرتے ہیں سب بیہودہ ہیں (۱۳۹) (اور یہ بھی) کہا کہ بھلا میں خدا  کے سوا تمہارے لیے کوئی اور معبود تلاش  کروں حالانکہ اس نے تم کو تمام اہل عالم پر فضیلت بخشی ہے (۱۴۰) (اور ہمارے ان احسانوں کو یاد  کرو) جب ہم نے تم کو فرعونیوں (کے ہاتھ) سے نجات بخشی وہ لوگ تم کو بڑا دکھ دیتے تھے۔   تمہارے بیٹوں کو قتل  کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے۔   اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے سخت آزمائش تھی (۱۴۱) اور ہم نے موسیٰ سے تیس رات کی میعاد مقرر کی۔  اور اس دس (راتیں) اور ملا  کر اسے پورا (چلّہ)  کر دیا تو اس  کے پروردگار کی چالیس رات کی میعاد پوری ہو گئی۔  اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میرے (کوہِ ٰ طور پر جانے  کے) بعد تم میری قوم میں میرے جانشین ہو (ان کی) اصلاح  کرتے رہنا ٹھیک اور شریروں  کے رستے نہ چلنا (۱۴۲) اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر (کوہ طور) پر پہنچے اور ان  کے پروردگار نے ان سے کلام کیا تو کہنے لگے کہ اے پروردگار مجھے (جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار (بھی) دیکھوں۔   پروردگار نے کہا کہ تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے۔   ہاں پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو اگر یہ اپنی جگہ قائم رہا تو تم مجھے دیکھ سکو گے۔   جب ان کا پروردگار پہاڑ پر نمودار ہوا تو (تجلی انوارِ  ربانی) نے اس کو ریزہ ریزہ  کر دیا اور موسیٰ بے ہوش ہو  کر گر پڑے۔   جب ہوش میں آئے تو کہنے لگے کہ تیری ذات پاک ہے اور میں تیرے حضور توبہ  کرتا ہوں اور جو ایمان لانے والے ہیں ان میں سب سے اول ہوں (۱۴۳) (خدا نے) فرمایا موسیٰ میں نے تم کو اپنے پیغام اور اپنے کلام سے لوگوں سے ممتاز کیا ہے۔   تو جو میں نے تم کو عطا کیا ہے اسے پکڑ رکھو اور (میرا) شکر بجا لاؤ (۱۴۴) اور ہم نے (تورات) کی تختیوں میں ان  کے لیے ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی پھر (ارشاد فرمایا کہ) اسے زور سے پکڑے رہو اور اپنی قوم سے بھی کہہ دو کہ ان با توں کو جو اس میں (مندرج ہیں اور) بہت بہتر ہیں پکڑے رہیں۔   میں عنقریب تم کو نافرمان لوگوں کا گھر دکھاؤں گا (۱۴۵) جو لوگ زمین میں ناحق غرور  کرتے ہیں ان کو اپنی آیتوں سے پھیر دوں گا۔  اگر یہ سب نشانیاں بھی دیکھ لیں تب بھی ان پر ایمان نہ لائیں اور اگر راستی کا رستہ دیکھیں تو اسے (اپنا) رستہ نہ بنائیں۔   اور اگر گمراہی کی راہ دیکھیں تو اسے رستہ بنا لیں۔   یہ اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے غفلت  کرتے رہے (۱۴۶) اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں اور آخرت  کے آنے کو جھٹلایا ان  کے اعمال ضائع ہو جائیں گے۔   یہ جیسے عمل  کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا (۱۴۷) اور قوم موسیٰ نے موسیٰ  کے بعد اپنے زیور کا ایک بچھڑا بنا لیا (وہ) ایک جسم (تھا) جس میں سے بیل کی آواز نکلتی تھی۔  ان لوگوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ نہ ان سے بات  کر سکتا ہے اور نہ ان کو راستہ دکھا سکتا ہے۔   اس کو انہوں نے (معبود) بنا لیا اور (اپنے حق میں) ظلم کیا (۱۴۸) اور جب وہ نادم ہوئے اور دیکھا کہ گمراہ ہو گئے ہیں تو کہنے لگے کہ اگر ہمارا پروردگار ہم پر رحم نہیں  کرے گا اور ہم کو معاف نہیں فرمائے گا تو ہم برباد ہو جائیں گے (۱۴۹) اور جب موسیٰ اپنی قوم میں نہایت غصے اور افسوس کی حالت میں واپس آئے۔   تو کہنے لگے کہ تم نے میرے بعد بہت ہی بد اطواری کی۔  کیا تم نے اپنے پروردگار کا حکم (یعنی میرا اپنے پاس آنا) جلد چاہا (یہ کہا) اور (شدت غضب سے تورات کی) تختیاں ڈال دیں اور اپنے بھائی  کے سر (کے بالوں) کو پکڑ  کر اپنی طرف کھینچنے لگے۔   انہوں نے کہا کہ بھائی جان لوگ تو مجھے کمزور سمجھتے تھے اور قریب تھا کہ قتل  کر دیں۔   تو ایسا کام نہ کیجیے کہ دشمن مجھ پر ہنسیں اور مجھے ظالم لوگوں میں مت ملائیے (۱۵۰) تب انہوں نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار مجھے اور میرے بھائی کو معاف فرما اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل  کر تو سب سے بڑھ  کر رحم  کرنے والا ہے (۱۵۱) (خدا نے فرمایا کہ) جن لوگوں نے بچھڑے کو (معبود) بنا لیا تھا ان پر پروردگار کا غضب واقع ہو گا اور دنیا کی زندگی میں ذلت (نصیب ہو گی) اور ہم افتراء پردازوں کو ایسا ہی بدلہ دیا  کرتے ہیں (۱۵۲) اور جنہوں نے برے کام کیے پھر اس  کے بعد توبہ  کر لی اور ایمان لے آئے تو کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار اس  کے بعد (بخش دے گا کہ وہ) بخشنے والا مہربان ہے (۱۵۳) اور جب موسیٰ کا غصہ فرو ہوا تو (تورات) کی تختیاں اٹھا لیں اور جو کچھ ان میں لکھا تھا وہ ان لوگوں  کے لیے جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں۔   ہدایت اور رحمت تھی (۱۵۴) اور موسیٰ نے اس میعاد پر جو ہم نے مقرر کی تھی اپنی قوم  کے ستر آدمی منتخب (کر  کے کوہ طور پر حاضر) ٹل کیے۔   جب ان کو زلزلے نے پکڑا تو موسیٰ نے کہا کہ اے پروردگار تو چاہتا تو ان کو اور مجھ کو پہلے ہی سے ہلاک  کر دیتا۔  کیا تو اس فعل کی سزا میں جو ہم میں سے بے عقل لوگوں نے کیا ہے ہمیں ہلاک  کر دے گا۔  یہ تو تیری آزمائش ہے۔   اس سے تو جس کو چاہے گمراہ  کرے اور جس کو چاہے ہدایت بخشے۔   تو ہی ہمارا کارساز ہے تو ہمیں (ہمارے گناہ) بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے (۱۵۵) اور ہمارے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی لکھ دے اور آخرت میں بھی۔  ہم تیری طرف رجوع ہو چکے۔   فرمایا کہ جو میرا عذاب ہے اسے تو جس پر چاہتا ہوں نازل  کرتا ہوں اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے۔   میں اس کو ان لوگوں  کے لیے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری  کرتے اور زکوٰۃ دیتے اور ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں (۱۵۶) وہ جو (محمدﷺ) رسول (اللہ) کی جو نبی اُمی ہیں پیروی  کرتے ہیں جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔   وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں۔   اور پاک چیزوں کو ان  کے لیے حلال  کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سر) پر (اور گلے میں) تھے اتارتے ہیں۔   تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مد د دی۔  اور جو نور ان  کے ساتھ نازل ہوا ہے اس کی پیروی کی۔  وہی مراد پانے والے ہیں (۱۵۷) (اے محمدﷺ) کہہ دو کہ لوگو میں تم سب کی طرف خدا کا بھیجا ہوا (یعنی اس کا رسول) ہوں۔   (وہ) جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے۔   اس  کے سوا کوئی معبود نہیں وہی زندگانی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔   تو خدا پر اور اس  کے رسول پیغمبر اُمی پر جو خدا پر اور اس  کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں ایمان لاؤ اور ان کی پیروی  کرو تاکہ ہدایت پاؤ (۱۵۸) اور قوم موسیٰ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو حق کا راستہ بتاتے اور اسی  کے ساتھ انصاف  کرتے ہیں (۱۵۹) اور ہم نے ان کو (یعنی بنی اسرائیل کو) الگ الگ  کر  کے بارہ قبیلے (اور) بڑی بڑی جماعتیں بنا دیا۔  اور جب موسیٰ سے ان کی قوم نے پانی طلب کیا تو ہم نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی لاٹھی پتھر پر مار دو۔  تو اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے۔   اور سب لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم  کر لیا۔  اور ہم نے ان (کے سروں) پر بادل کو سائبان بنائے رکھا اور ان پر من وسلویٰ اتارتے رہے۔   اور (ان سے کہا کہ) جو پاکیزہ چیزیں ہم تمہیں دیتے ہیں انہیں کھاؤ۔  اور ان لوگوں نے ہمارا کچھ نقصان نہیں کیا بلکہ (جو) نقصان کیا اپنا ہی کیا (۱۶۰) اور (یاد  کرو) جب ان سے کہا گیا کہ اس شہر میں سکونت اختیار  کر لو اور اس میں جہاں سے جی چاہے کھانا (پینا) اور (ہاں شہر میں جانا تو) حِطّۃٌ کہنا اور دروازے میں داخل ہونا تو سجدہ  کرنا۔  ہم تمہارے گناہ معاف  کر دیں گے۔   اور نیکی  کرنے والوں کو اور زیادہ دیں گے (۱۶۱) مگر جو ان میں ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل  کر اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع کیا تو ہم نے ان پر آسمان سے عذاب بھیجا اس لیے کہ ظلم  کرتے تھے (۱۶۲) اور ان سے اس گاؤں کا حال تو پوچھو جب لب دریا واقع تھا۔  جب یہ لوگ ہفتے  کے دن  کے بارے میں حد سے تجاوز  کرنے لگے (یعنی) اس وقت کہ ان  کے ہفتے  کے دن مچھلیاں ان  کے سامنے پانی  کے اوپر آتیں اور جب ہفتے کا دن نہ ہوتا تو نہ آتیں۔   اسی طرح ہم ان لوگوں کو ان کی نافرمانیوں  کے سبب آزمائش میں ڈالنے لگے (۱۶۳) اور جب ان میں سے ایک جماعت نے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت  کرتے ہو جن کو اللہ ہلاک  کرنے والا یا سخت عذاب دینے والا ہے تو انہوں نے کہا اس لیے کہ تمہارے پروردگار  کے سامنے معذرت  کر سکیں اور عجب نہیں کہ وہ پرہیزگاری اختیار  کریں (۱۶۴) جب انہوں نے ان با توں کو فراموش  کر دیا جن کی ان کو نصیحت کی گئی تھی تو جو لوگ برائی سے منع  کرتے تھے ان کو ہم نے نجات دی اور جو ظلم  کرتے تھے ان کو برے عذاب میں پکڑ لیا کہ نافرمانی کئے جاتے تھے (۱۶۵) غرض جن اعمال (بد) سے ان کو منع کیا گیا تھا جب وہ ان (پراصرار اور ہمارے حکم سے) گردن کشی  کرنے لگے تو ہم نے ان کو حکم دیا کہ ذلیل بندر ہو جاؤ (۱۶۶) (اور اس وقت کو یاد  کرو) جب تمہارے پروردگار نے (یہود کو) آگاہ  کر دیا تھا کہ وہ ان پر قیامت تک ایسے شخص کو مسلط رکھے گا جو انہیں بری بری تکلیفیں دیتا رہے۔   بے شک تمہارا پروردگار جلد عذاب  کرنے والا ہے اور وہ بخشنے والا مہربان بھی ہے (۱۶۷) اور ہم نے ان کو جماعت جماعت  کر  کے ملک میں منتشر  کر دیا۔  بعض ان میں سے نیکو کار ہیں اور بعض اور طرح  کے (یعنی بدکار) اور ہم آسائشوں ، تکلیفوں (دونوں) سے ان کی آزمائش  کرتے رہے تاکہ (ہماری طرف) رجوع  کریں (۱۶۸) پھر ان  کے بعد نا خلف ان  کے قائم مقام ہوئے جو کتاب  کے وارث بنے۔   یہ (بے تامل) اس دنیائے دنی کا مال و متاع لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بخش دیئے جائیں گے۔   اور (لوگ ایسوں پر طعن  کرتے ہیں) اگر ان  کے سامنے بھی ویسا ہی مال آ جاتا ہے تو وہ بھی اسے لے لیتے ہیں۔   کیا ان سے کتاب کی نسبت عہد نہیں لیا گیا کہ خدا پر سچ  کے سوا اور کچھ نہیں کہیں گے۔   اور جو کچھ اس (کتاب) میں ہے اس کو انہوں نے پڑھ بھی لیا ہے۔   اور آخرت کا گھر پرہیزگاروں  کے لیے بہتر ہے کیا تم سمجھتے نہیں (۱۶۹) اور جو لوگ کتاب کو مضبوط پکڑے ہوئے ہیں اور نماز کا التزام رکھتے ہیں (ان کو ہم اجر دیں گے کہ) ہم نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں  کرتے (۱۷۰) اور جب ہم نے ان (کے سروں) پر پہاڑ اٹھا کھڑا کیا گویا وہ سائبان تھا اور انہوں نے خیال کیا کہ وہ ان پر گرتا ہے تو (ہم نے کہا کہ) جو ہم نے تمہیں دیا ہے اسے زور سے پکڑے رہو۔  اور جو اس میں لکھا ہے اس پر عمل  کرو تاکہ بچ جاؤ (۱۷۱) اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھوں سے ان کی اولاد نکالی تو ان سے خود ان  کے مقابلے میں اقرار  کرا لیا (یعنی ان سے پوچھا کہ) کیا تمہارا پروردگار نہیں ہوں۔   وہ کہنے لگے کیوں نہیں ہم گواہ ہیں (کہ تو ہمارا پروردگار ہے)۔  یہ اقرار اس لیے  کرایا تھا کہ قیامت  کے دن (کہیں یوں نہ) کہنے لگو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی (۱۷۲) یا یہ (نہ) کہو کہ شرک تو پہلے ہمارے بڑوں نے کیا تھا۔  اور ہم تو ان کی اولاد تھے (جو) ان  کے بعد (پیدا ہوئے)۔  تو کیا جو کام اہل باطل  کرتے رہے اس  کے بدلے تو ہمیں ہلاک  کرتا ہے (۱۷۳) اور اسی طرح ہم (اپنی) آیتیں کھول کھول  کر بیان  کرتے ہیں تاکہ یہ رجوع  کریں (۱۷۴) اور ان کو اس شخص کا حال پڑھ  کر سنا دو جس کو ہم نے اپنی آیتیں عطا فرمائیں (اور ہفت پارچۂ علم شرائع سے مزین کیا) تو اس نے ان کو اتار دیا پھر شیطان اس  کے پیچھے لگا تو وہ گمراہوں میں ہو گیا (۱۷۵) اور اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں سے اس (کے درجے) کو بلند  کر دیتے مگر وہ تو پستی کی طرف مائل ہو گیا اور اپنی خواہش  کے پیچھے چل پڑا۔  تو اس کی مثال کتے کی سی ہو گئی کہ اگر سختی  کرو تو زبان نکالے رہے اور یونہی چھوڑ دو تو بھی زبان نکالے رہے۔   یہی مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو ان سے یہ قصہ بیان  کر دو۔  تاکہ وہ ف کر  کریں (۱۷۶) جن لوگوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی ان کی مثال بری ہے اور انہوں نے نقصان (کیا تو) اپنا ہی کیا (۱۷۷) جس کو خدا ہدایت دے وہی راہ یاب ہے اور جس کو گمراہ  کرے تو ایسے ہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں (۱۷۸) اور ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ  کے لیے پیدا کیے ہیں۔   ان  کے دل ہیں لیکن ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں اور ان  کے کان ہیں پر ان سے سنتے نہیں۔   یہ لوگ بالکل چار پایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بھٹ کے ہوئے۔   یہی وہ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں (۱۷۹) اور خدا  کے سب نام اچھے ہی اچھے ہیں۔   تو اس کو اس  کے ناموں سے پکارا  کرو اور جو لوگ اس  کے ناموں میں کجی اختیار  کرتے ہیں ان کو چھوڑ دو۔  وہ جو کچھ  کر رہے ہیں عنقریب اس کی سزا پائیں گے (۱۸۰) اور ہماری مخلوقات میں سے ایک وہ لوگ ہیں جو حق کا رستہ بتاتے ہیں اور اسی  کے ساتھ انصاف  کرتے ہیں (۱۸۱) اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ان کو بتدریج اس طریق سے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم ہی نہ ہو گا (۱۸۲) اور میں ان کو مہلت دیئے جاتا ہوں میری تدبیر (بڑی) مضبوط ہے (۱۸۳) کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ ان  کے رفیق محمد (ﷺ) کو (کسی طرح کا بھی) جنون نہیں ہے۔   وہ تو ظاہر ظہور ڈر سنانے والے ہیں (۱۸۴) کیا انہوں نے آسمان اور زمین کی بادشاہت میں جو چیزیں خدا نے پیدا کی ہیں ان پر نظر نہیں کی اور اس بات پر (خیال نہیں کیا) کہ عجب نہیں ان (کی موت) کا وقت نزدیک پہنچ گیا ہو۔  تو اس  کے بعد وہ اور کس بات پر ایمان لائیں گے (۱۸۵) جس شخص کو خدا گمراہ  کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور وہ ان (گمراہوں) کو چھوڑے رکھتا ہے کہ اپنی سرکشی میں پڑے بہکتے رہیں (۱۸۶) (یہ لوگ) تم سے قیامت  کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس  کے واقع ہونے کا وقت کب ہے۔   کہہ دو کہ اس کا علم تو میرے پروردگار ہی کو ہے۔   وہی اسے اس  کے وقت پر ظاہر  کر دے گا۔  وہ آسمان و زمین میں ایک بھاری بات ہو گی اور ناگہاں تم پر آ جائے گی۔  یہ تم سے اس طرح دریافت  کرتے ہیں کہ گویا تم اس سے بخوبی واقف ہو۔  کہو کہ اس کا علم تو خدا ہی کو ہے لیکن اکثر لوگ یہ نہیں جانتے (۱۸۷) کہہ دو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع  کر لیتا اور مجھ کو کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔  میں تو مومنوں کو ڈر اور خوشخبری سنانے والا ہوں (۱۸۸) وہ خدا ہی تو ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس سے راحت حاصل  کرے۔   سو جب وہ اس  کے پاس جاتا ہے تو اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے اور وہ اس  کے ساتھ چلتی پھرتی ہے۔   پھر جب کچھ بوجھ معلوم  کرتی یعنی بچہ پیٹ میں بڑا ہوتا ہے تو دونوں میاں بیوی اپنے پروردگار خدائے عزوجل سے التجا  کرتے ہیں کہ اگر تو ہمیں صحیح وسالم (بچہ) دے گا تو ہم تیرے شکر گذار ہوں گے (۱۸۹) جب وہ ان کو صحیح و سالم (بچہ) دیتا ہے تو اس (بچے) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر  کرتے ہیں۔   جو وہ شرک  کرتے ہیں (خدا کا رتبہ) اس سے بلند ہے (۱۹۰) کیا وہ ایسوں کو شریک بناتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں  کر سکتے اور خود پیدا کیے جاتے ہیں (۱۹۱) اور نہ ان کی مد د کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ اپنی ہی مد د  کر سکتے ہیں (۱۹۲) اگر تم ان کو سیدھے رستے کی طرف بلاؤ تو تمہارا کہا نہ مانیں۔   تمہارے لیے برابر ہے کہ تم ان کو بلاؤ یا چپ کے ہو رہو (۱۹۳) (مشرکو) جن کو تم خدا  کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح  کے بندے ہی ہیں (اچھا) تم ان کو پکارو اگر سچے ہو تو چاہیئے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں (۱۹۴) بھلا ان  کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ہاتھ ہیں جن سے پکڑیں یا آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا کان ہیں جن سے سنیں ؟ کہہ دو کہ اپنے شریکوں کو بلا لو اور میرے بارے میں (جو) تدبیر (کرنی ہو)  کر لو اور مجھے کچھ مہلت بھی نہ دو (پھر دیکھو کہ وہ میرا کیا  کر سکتے ہیں) (۱۹۵) میرا مدد گار تو خدا ہی ہے جس نے کتاب (برحق) نازل کی۔  اور نیک لوگوں کا وہی دوستدار ہے (۱۹۶) اور جن کو تم خدا  کے سوا پکارتے ہو وہ نہ تمہاری ہی مد د کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ خود ہی اپنی مد د  کر سکتے ہیں (۱۹۷) اور اگر تم ان کو سیدھے رستے کی طرف بلاؤ تو سن نہ سکیں اور تم انہیں دیکھتے ہو کہ (بہ ظاہر) آنکھیں کھولے تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر (فی الواقع) کچھ نہیں دیکھتے (۱۹۸) (اے محمدﷺ) عفو اختیار  کرو اور نیک کام  کرنے کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ  کر لو (۱۹۹) اور اگر شیطان کی طرف سے تمہارے دل میں کسی طرح کا وسوسہ پیدا ہو تو خدا سے پناہ مانگو۔  بے شک وہ سننے والا (اور) سب کچھ جاننے والا ہے (۲۰۰) جو لوگ پرہیزگار ہیں جب ان کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے تو چونک پڑتے ہیں اور (دل کی آنکھیں کھول  کر) دیکھنے لگتے ہیں (۲۰۱) اور ان (کفار)  کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں پھر (اس میں کسی طرح کی) کوتاہی نہیں  کرتے (۲۰۲) اور جب تم ان  کے پاس (کچھ دنوں تک) کوئی آیت نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے (اپنی طرف سے) کیوں نہیں بنا لی۔  کہہ دو کہ میں تو اسی کی پیروی  کرتا ہوں جو میرے پروردگار کی طرف سے میرے پاس آتا ہے۔   یہ قرآن تمہارے پروردگار کی جانب سے دانش و بصیرت اور مومنوں  کے لیے ہدایت اور رحمت ہے (۲۰۳) اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا  کرو اور خاموش رہا  کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (۲۰۴) اور اپنے پروردگار کو دل ہی دل میں عاجزی اور خوف سے اور پست آواز سے صبح و شام یاد  کرتے رہو اور (دیکھنا) غافل نہ ہونا (۲۰۵) جو لوگ تمہارے پروردگار  کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے گردن کشی نہیں  کرتے اور اس پاک ذات کو یاد  کرتے اور اس  کے آگے سجدے  کرتے رہتے ہیں (۲۰۶)

  ٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید