FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

قرآن اور جدید سائنس

 

 

                نا معلوم

 

 

 

 

 

قرآن اور جدید سائنس یا اسلام اور سائنس، دراصل اسلام اور جدید سائنس کی آپس میں وابستگی، ربط اور موافقت کو کہا جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اسلام اور جدید سائنس میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اور قرآن مجید میں ایک ہزار سے زیادہ آیات سائنس کے متعلق گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود آیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں۔[1][2][3][4]

 

مجموعی جائزہ

 

جس وقت اور زمانے سے انسانی زندگی اس سیارے یعنی زمین پر نمودار ہوئی ہے انسان نے ہمیشہ سے فطرت ، تخلیق کے اس عظیم منصوبے میں اس کی اپنی حیثیت اور خود زندگی کا مقصد سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ سچ کی اس تلاش میں صدیوں کی مدت میں اور مختلف تہذیبوں نے منظم مذہب کو زندگی کی شکل دی۔ اور بڑی حد تک (انسانی) تاریخ کا راستہ متعین کیا۔ جبکہ بعض مذاہب کی بنیاد لکھے ہوئی متن (یعنی کتابوں ) پر ہے۔ جن کے پیرو کار اسے الہامی (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف) سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ جبکہ باقی کا انحصار صرف انسانی تجربے پر ہوتا ہے۔ قرآن جو مذہب اسلام کا اہم ذریعہ ہے، اس کے پیرو کار یعنی مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہ مکمل طور پر کلام الہیٰ ہے مسلمان اس بات پر یقین کرتے ہیں۔ کہ اس (قرآن) میں تمام انسانیت کے لئے ہدایت موجود ہے۔ چونکہ قرآن کے پیغام کو ہر دور کے لئے مانا جاتا ہے اس لیے یہ ہر زمانے کے متعلق ہونا چاہیے۔ لیکن کیا قرآن اس امتحان میں کامیاب ہوتا ہے؟

اس چھوٹی سی کتاب میں میری کوشش اور ارادہ یہ ہے کہ میں خاص طور پر ثا بت شدہ سائنسی دریافتوں کی روشنی میں قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا ایک حقیقی جائزہ پیش کرو۔ تاریخ میں ایک ایسا وقت بھی تھا کہ معجزہ کو یا جس چیز کو معجزہ سمجھا جاتا تھا، انسانی منطق اور دلیل پرسبقت حاصل تھی۔ عام تعریف معجزہ کی یہی ہے کہ ہر وہ چیز جو عام زندگی کے بر خلاف ہو اور جس کی انسان کے پاس کوئی تشریح نہیں ہوتی۔ تا ہم ہمیں کسی چیز کو معجزہ ماننے میں بہت احتیاط برتنی چاہیے۔

1993ء میں ٹائمز آف انڈیا (اخبار کا نام) ممبئی میں ایک خبر شائع ہوئی کہ ایک پیر جس کا نام بابا پائیلٹ تھا نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ مسلسل تین دن اور تین رات تک ایک پانی بھرے ٹینک (Tank) میں زیر آب (یعنی پانی کے اندر) رہا ہے۔ تا ہم جب رپورٹروں نے چا ہا کہ وہ اس ٹینک کی تہہ کا جائزہ لیں جس میں اس نے معجزانہ کرتب کرنے کا دعوی کیا تھا تو اُس نے انکار کر دیا اور جواب یہ دیا کہ کوئی کس طر ح رحم مادر کا معاینہ کر سکتا ہے جبکہ وہ بچہ جننے والی ہو۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ پیر کچھ چھپا رہا تھا۔اس نے یہ جھوٹا دعویٰ صرف اپنی شہرت کے لئے کیا تھا۔ یقینی طور پر کوئی بھی اس جدید دور کا آدمی جس کی سوچ کی صلاحیت بہت ہی کم ہو اس قسم کا معجزہ قبول نہیں کرے گا۔ اگر ایسے ہی معجزے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کے معیار ہو تو پھر ہمیں دنیا کے تمام مشہور جادوگر جو اپنی حیران کن جادوئی چالوں (شعبدہ بازی) اور بصری دھوکوں کے لئے جانے جاتے ہیں حقیقی خدائی نمائندے ماننے پڑیں گے (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے)۔ ایک کتاب جو  الٰہی کلام ہونے کا دعویٰ کرتی ہو تو خودبخود وہ ایک معجزہ ہونے کا دعویٰ بھی کر رہی ہوتی ہے۔ ایسا دعویٰ کسی بھی دور میں اُس دور کے معیار کے مطابق آسانی سے غلط یا صحیح ثابت ہونے چاہیے۔

مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری وحی اور کتاب ہے جو کہ معجزوں کا معجزہ ہے اور یہ انسانوں کے لئے ایک رحمت نازل کی گئی ہے اسی لئے آئیے ہم اس عقیدے کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کے لئے تحقیق کریں۔

 

قرآن مجید کا چیلنج (Challenge)

 

تمام تہذیبوں میں ادب اور شاعری انسانی اظہار اور تخلیق کا ہتھیار رہی ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کو اب ایک خاص مقام حاصل ہے اسی طرح ایک دور میں یہ مقام ادب اور شاعری کو حاصل تھا۔ یہاں تک کہ غیرمسلم علماء بھی ایک بات پر متفق ہے کہ قرآن عربی ادب کی نہایت عمدہ کتاب ہے۔ قرآن بنی نوع انسان کو یہ چیلنج کرتا ہے کہ اس جیسی کتاب بنا کر لاؤ۔

”      وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ O فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَO [5]

 

ترجمہ: ’’اور اگر تم اس (کلام) کے بارے میں شک میں مبتلا ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ، اور (اس کام کے لئے بیشک) اللہ کے سوا اپنے (سب) حمایتیوں کو بلا لو اگر تم (اپنے شک اور انکار میں ) سچے ہوo پھر اگر تم ایسا نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی (یعنی کافر) اور پتھر (یعنی ان کے بت) ہیں ، جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہےo‘‘

قرآن کا چیلنج یہ ہے کہ قرآن میں موجود سورتوں کی طرح کوئی ایک دوسری سورت بنا لاؤ، اور اسی چیلنج کو قرآن نے کئی مرتبہ دُہرایا ہے۔ قرآن کے ایک سورت بنانے کا چیلنج یہ ہے کہ وہ بنائی جانی والی سورت کی خوبصورتی، فصاحت، گہرائی اور معنی کم از کم قرآنی سورت جیسی ہونی چاہیے۔ تا ہم ایک جدید سوچ کا معقول آدمی کبھی بھی کسی ایسی مذہبی کتاب کو قبول کرنے سے انکار کر دے گا جو حتیٰ الامکان عمدہ شاعری میں کی گئی ہو کہ یہ دنیا (گول نہیں بلکہ) چپٹی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جس دور میں رہ رہے ہیں اس میں انسانی دلیل، منطق (logic) اور سائنس کو ترجیح دی جاتی ہیں۔ بہت سے لوگ قرآن کی غیر معمولی زبان کو اور اس کے کلام الٰہی ہونے کو نہیں مانتے۔ کوئی بھی کتاب جو کلام الٰہی ہونے کا دعویٰ کر رہی ہو تو وہ منطق (logic) اور دلیل کے لحاظ سے بھی قابل قبول ہونی چاہیے۔

مشہور ماہر طبیعیات اور نوبل انعام یافتہ البرٹ آئن سٹائن (Albert Einstein) کے مطابق:

”سائنس مذہب کے بغیر لنگڑی ہے اور مذہب سائنس کے بغیر اندھا ہے۔“

اسی لیے آئیے کہ قرآن مجید کا مطالعہ کریں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ قرآن اور جدید سائنس میں مطابقت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے یا نہیں۔ قرآن سائنس کی کتاب نہیں کہ بلکہ یہ نشانیوں یعنی آیات کی کتاب ہے۔ قرآن مجید میں چھ ہزار چھ سو چھتیس آیات ہیں ، جن میں ایک ہزار سے زیادہ سائنس کے متعلق ہیں ، (یعنی ان میں سائنسی معلومات موجود ہیں )

ہم سب جانتے ہیں کہ کئی مرتبہ سائنس قہقرائی حرکت (یوٹرن Uturn) کرتی ہے (یعنی طے شدہ نظریات کے خلاف جاتی ہے) اس لئے قرآنی تعلیمات کے ساتھ موازنے کے لئے صرف تسلیم شدہ سائنسی حقائق کو ہی پیش کیا جائے گا۔ قیاسات، تخمینوں اور مفروضوں سے بحث نہیں کی جا سکتی جو خود سائنسی طور پر ثابت نہیں ہیں۔

 

فلکیات (Astronomy)

 

کائنات کی تخلیق :بگ بینگ(Big Bang)

 

فلکی طبیعیات کے ماہرین ابتدائے کائنات کی وضاحت ایک ایسے مظہر کے ذریعے کرتے ہیں جسے وسیع طور پر قبول کیا جاتا ہے اور جس کا جانا پہچانا نا م ’’بگ بینگ‘‘ یعنی عظیم دھماکا ہے۔ بگ بینگ کے ثبوت میں گزشتہ کئی عشروں کے دوران مشاہدات و تجربات کے ذریعے ماہرین فلکیات و فلکی طبیعیات کی جمع کردہ معلومات موجود ہیں۔ بگ بینگ کے مطابق ابتداء میں یہ ساری کائنات ایک بڑی کمیت کی شکل میں تھی، (جسے Primary nebula بھی کہتے ہے) پھر ایک عظیم دھماکا یعنی بگ بینگ ہوا، جس کا نتیجہ کہکشانوں کی شکل میں ظاہر ہوا۔ پھر یہ کہکشانیں تقسیم ہو کر ستاروں ، سیاروں ، سورج، چاند وغیرہ کی صورت میں آئیں۔ کائنات کی ابتداء اس قدر منفرد اور اچھوتی تھی کہ اتفاق سے اس کے وجود میں آنے کا احتمال صفر (کچھ بھی نہیں ) تھا۔

قرآن پاک درج ذیل آیات میں ابتدائے کائنات کے متعلق بتایا گیا ہے:

” أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا  [6]

ترجمہ: ’’اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا‘‘

اس قرآنی آیت اور بگ بینگ کے درمیان حیرت انگیز مماثلت سے انکار ممکن ہی نہیں ! یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کتاب جو آج سے 1400سال پہلے عرب کے ریگستانوں میں ظاہر ہوئی، وہ اپنے اندر ایسی غیر معمولی سائنسی حقیقت لئے ہوئے ہو۔

 

پھیلتی ہوئی کائنات

 

1925ء میں امریکی ماہر طبیعیات ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے اس امر کا مشاہداتی ثبوت فراہم کیا کہ تمام کہکشانیں ایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہیں ، جس کا مطلب یہ ہو کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ یہ بات آج مسلمہ سائنسی حقائق میں شامل ہے۔ ملاحظہ فرمائیے کہ قرآن پاک میں کائنات کی فطرت اور خاصیت کے حوالے سے کیا ارشاد ہوتا ہے:

” وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ[7]

ترجمہ: ’’اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں ‘‘

عربی لفظ ’’موسعون‘‘ کا صحیح ترجمہ ’’ہم وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں ‘‘ بنتا ہے اور یہ ایک ایسی کائنات کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی وسعتیں مسلسل پھیلتی جا رہی ہوں۔ عصر حاضر کا مشہور ترین فلکی طبیعیات دان اسٹیفن ہاکنگ (Stephen Hawking) اپنی تصنیف اے بریف ہسٹری آف ٹائم میں لکھتا ہے۔ یہ دریافت کہ کائنات پھیل رہی ہے، بیسویں صدی کے عظیم علمی و فکری انقلابات میں سے ایک ہے۔

غور فرمائیے کہ قرآن پاک کے کائنات کے پھیلنے کو اس وقت بیان فرما دیا ہے جب انسان نے دوربین تک ایجاد نہیں کی تھی، اس کے باوجود متشکک ذہین رکھنے والے بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن پاک میں فلکیاتی حقائق کا موجود ہونا کوئی حیرت انگیز بات نہیں کیونکہ عرب اس علم میں بہت ما ہر تھے۔ فلکیات میں عربوں کی مہارت کی حد تک تو ان کا خیال درست ہے لیکن اس نکتے کا ادراک کرنے میں وہ ناکام ہو چکے ہیں کہ فلکیات میں عربوں کے عروج سے بھی صدیوں پہلے ہی قرآن پاک کا نزول ہو چکا تھا۔

علاوہ ازیں اوپر بیان کردہ بہت سے سائنسی حقائق، مثلاً بگ بینگ سے کائنات کی ابتداء وغیرہ سے تو عرب اس وقت بھی واقف نہیں تھے جب وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے عروج پر تھے لہٰذا قرآن پاک میں بیان کردہ سائنسی حقائق کسی بھی طرح سے فلکیات میں عربوں کی مہارت کا نتیجہ قرار نہیں دئیے جا سکتے۔ درحقیقت اس کے برعکس بات سچ ہے، عربوں نے فلکیات میں اس لئے ترقی کی کیونکہ فلکیاتی مباحث کو قرآن پاک میں اہم مقام دیا گیا ہے۔[8]

 

نباتیات (Botany)

 

پودوں میں نر اور مادہ

 

پرانے زمانے کے انسان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ پودوں میں بھی جانوروں کی طرح نر(male) اور مادہ (female) ہوتے ہیں۔ البتہ جدید نباتیات یہ بتاتی ہے کہ ہر پودے کی نر اور مادہ صنف ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ پودے جو یک صنفی (Unisexual) ہوتے ہیں۔ ان میں بھی نر اور مادہ کے امتیازی اجزاء یکجا ہوتے ہیں۔

وَّ اَنْذَ لَ مِنَ السَّمَآ ءِ مَآ ءً ط فَاَ خْرَجْنَا بِہ اَزْ وَا جًا مِّنْ نَّبَا تٍ شَتّیٰ ہ[9]

ترجمہ:۔ اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا اور اس میں ہم نے مختلف اقسام کے پودوں کے جوڑے پیدا کئے جو ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔

 

پھلوں میں نر اور مادہ کا فرق

 

وَ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ جعَلَ فِیْھَا زَوْ جَیْنِ اثْنَیْن[10]

ترجمہ :۔ اسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کئے ہیں۔

اعلیٰ درجے کے پودوں میں نسل خیزی (Reproduction) کی آخری پیدا وار انکے پھل ہوتے ہیں۔ پھل سے پہلے پھول کا مرحلہ ہوتا ہے جس میں نر اور مادہ اعضاء یعنی اسٹیمنز (Stamens) اور اوویولز (Ovueles) ہوتے ہیں جب کوئی زردانہ (Pollen) کسی پھول تک پہنچتا ہے، تبھی وہ پھول بار آور ہو کر پھل میں بدلنے کا قابل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ پھل پک جاتا ہے اور (اس پودے کی ) اگلی نسل کو جنم دینے والے بیج سے لیس ہو کر تیار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا تمام پھل اس امر کا پتہ دیتے ہیں کہ (پودوں میں بھی) نر اور اعضا ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جسے قرآن پاک بہت پہلے بیان فرما چکا ہے۔

پودوں کی بعض انواع میں غیر بار آور (non fertilized) پھولوں سے بھی پھل بن سکتے ہیں۔ (جنہیں مجموعی طور پ رپارتھینوکارپک فروٹ (parthinocarpic fruit) کہا جاتا ہے) ان میں کیلے کے علاوہ انناس ، انجیر، مالٹا اور انگور وغیرہ کی بعض اقسام شامل ہیں۔ ان پودوں میں بھی بہت واضح صنفی خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔

وَ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْنَا زَوْ جَیْنِ[11]

ترجمہ:۔ اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں۔

اس آیت مبارکہ میں ہر چیز کے جوڑوں کی شکل میں ہونے پر زور دیا گیا ہے۔ انسانوں ، جانوروں ، پھلوں اور پودوں کے علاوہ بہت ممکن ہے کہ یہ آیت مبارکہ بجلی کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہو کہ جس میں ایٹم منفی بار والے الیکٹرونوں اور مثبت بار والے مرکزے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے جوڑے ہو سکتے ہیں۔

سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْ وَاجَ کُلَّھَا وَ مِمَّا تُنْبِت ُ الْاَرْضُِ وَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَ مِمَّا لَا یَعْلَمُوْنَ ہ[12]

ترجمہ:۔ پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کئے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس (یعنی نوع انسانی) میں سے یا ان اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں۔

یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر چیز جوڑوں کی شکل میں پیدا کی گئی ہے ، جن میں وہ چیزیں بھی شامل ہیں۔ جنہیں آج کا انسان نہیں جانتا اور ہو سکتا ہے کہ آنے والے کل میں انہیں دریافت کر لے۔

 

حیوانیات (Zoology)

 

جانوروں اور پرندوں میں معاشرے کا وجود

 

وَمَا مِنْ دَ آ بَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰئِر یَطِیْرُ بِجَنَا حَیْہِ اِلَّآ اُ مَمُ اَمْثَا لُکُمْ

ترجمہ:۔ زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو یہ سب تہماری طرح کے معاشروں میں (رہتے )ہیں۔[13]

تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جانور اور پرندے بھی معاشروں (communities) کی شکل میں رہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ان میں بھی ایک اجتماعی نظم و ضبط ہوتا ہے۔ وہ مل جل کر رہتے ہیں اور کام بھی کرتے ہیں۔

 

پرندوں کی پرواز

 

اَ لَمْ یَرَ وْ ا اِ لَی الطَّیْرِ مُسَخَّرٰ تٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآ ئِ ط مَا یُمْسِکُھُنَّ اِ لّا اللّٰہ ُط اِ نَّ فِی ذَ ٰلِکَ لَاٰ یٰتٍ لِّقَوْ مٍٍ یُّؤ مِنُوْنَ ہ [14]

ترجمہ:۔ کیا ان لوگوں نے کھبی پرندوں کو نہیں دیکھا کہ فضائے آسمانی میں کس طرح مسخر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کس نے ان کو تھام رکھا ہے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں۔

ایک اور آیت مبارکہ میں پرندوں پر کچھ اس انداز سے بات کی گئی ہے۔

اَوَ لَمْ یَرَوْ ا اِ لَی الطَّیْرِ فَوْ قَہُمْ صٰفّٰتٍ وَّ یَقْبِضْنَ ط مَا یَمْسِکُھُنَّ اِ لَّا الرَّ حْمٰنِ ط اِ نَّہ بِکُلِّ شَیْئٍ م بَصِیْرُ ہ[15]

ترجمہ :۔ یہ لوگ اپنے اوپر اُڑنے والے پرندوں کو پر پھیلاتے اور سیکٹرتے نہیں دیکھتے ؟ رحمان کے سوا کوئی نہیں جو انہیں تھامے ہوئے ہو۔وہی ہر چیز کا نگہبان ہے۔

عربی لفظ اَم’سَکَ کا لغوی ترجمہ کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دینا، روکنا ، تھامنا، یا کسی کی کمر پکڑ لینا ہے۔ مذکورہ بالا آیت میں یمسکھن سے اس بات کا اظہار ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور اپنے اختیار سے پرندوں کو ہوا تھامے رکھتا ہے۔ ان آیات ربانی میں اس پر زور دیا گیا ہے کہ پرندوں کے طرز عمل کا مکمل انحصار انہی قوانین پر ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمایا ہے۔ (جنہیں ہم قوانین فطرت کے نام سے جانتے ہیں )

جدید سائنسی معلومات سے ثابت ہو چکا ہے کہ بعض پرندوں میں پرواز کی بے مثل اور بے عیب صلاحیت کا تعلق اس وسیع تر اور مجموعی منصوبہ بندی (programming) سے ہے جو ان کی حرکات و سکنات سے متعلق ہے۔ مثلاً ہزاروں میل دور تک نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی جینیاتی رموز (Genetic codes) میں انکے سفر تمام کی تفصیلات و جزئیات موجو د ہوتی ہیں۔ جو ان پرندوں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ نہایت کم عمری میں بھی لمبے سفر کے کسی تجربے کے بغیر ، کسی رہنما کے بغیر ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر لیں اور پیچیدہ راستوں سے پرواز کرتے چلے جائیں۔ بات صرف سفر کی یک طرفہ تکمیل ہی ہر ختم نہیں ہو جاتی۔ بلکہ وہ ایک مخصوص تاریخ پر اپنے عارضی مسکن سے پرواز کرتے ہیں اور ہزاروں میل واپسی کا سفر کر کے ایک بار پھر اپنے گھونسلوں تک بالکل ٹھیک ٹھیک جا پہنچتے ہیں۔

پروفیس ہمبر گر(Humberger) نے اپنی کتاب پاور اینڈ فریجیلٹی میں مٹن برڈ نامی ایک پرندے کی مثال دی ہے جو بحر الکاہل کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ نقل مکانی کرنے والا یہ پرندہ 24,000(چوبیس ہزار) کلو میٹر کا فاصلہ 8کی شکل میں چکر لگا کر طے کرتا ہے۔ یہ اپنا سفر چھ ماہ میں پورا کرتا ہے اور مقام ابتداء تک زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے کی تاخیر سے واپس پہنچ جاتا ہے۔ ایسے کسی سفر کے لئے پیچیدہ معلومات کا ہونا ضروری ہے۔ جو اس پرندے کے اعصابی خلیات (nervous cells) میں محفوظ ہونی چائیں۔ یعنی ایک باضابطہ پروگرام کی شکل میں پرندے کے جسم میں موجود اور ہمہ وقت دستیاب ہوتی ہے۔ اگر پرندے میں کوئی پروگرام ہے تو کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہو تاکہ اسے تشکیل دینے والے کوئی پروگرامر بھی یقیناً ہے۔

 

شہد کی مکھی اور اس کی مہارت

 

وَ اَوْ حیٰ رَ بُّکَ اِ لَی النَّحْلِ اَنِ ا تَّخِذِ یْ مِنَ الْجِبَا لِ بُیُوْ تًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِ شُوْ نَ ہ ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰ تِ فَا سْلُکِیْ سُبُلَ رَ بِّکِ ذُ لُلًا ط [16]

ترجمہ:اور دیکھو تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور اُونچی چھتریوں پر اپنے چھتےّ بنا تے اور ہر طرح کے پھولوں کا رس چوستے اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔

وان فرش (Von Frisch) نے شہد کی مکھیوں کے طرز عمل اور ان میں رابطہ و ابلاغ (Communication) کی تحقیق پر 1973ء میں نوبل انعام حاصل کیا۔ شہد کی کسی مکھی کو جب کوئی نیا باغ یا پھول دکھائی دیتا ہے تو وہ اپنے چھتے میں واپس جاتی ہے اور اپنی ساتھی شہد کی مکھیوں کو اُس مقام کا ٹھیک ٹھیک سمت اور وہاں پہنچنے والے راستے کے مفصّل نقشے سے آگاہ کرتی ہے۔ شہد کی مکھی ، پیغام رسانی کا یہ کام خاص طرح کی جسمانی حرکات سے لیتی ہے جنہیں شہد کی مکھی کا رقص (Bee dance) کہا جاتا ہے ظاہر ہے کہ یہ عام معنوں والا رقص نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد شہد کی کارکن مکھیوں (Worker bee) کو یہ سمجھانا ہوتا ہے کہ پھول کس سمت ہیں اور وہاں تک پہنچنے کے لئے انہیں کس انداز سے پرواز کرنا ہو گی۔ تا ہم شہد کی مکھی کے بارے میں یہ ساری معلومات ہم نے جدید فوٹو گرافی (photography)اور دیگر پیچیدہ مشاہداتی ذرائع ہی سے حاصل کی ہیں۔ لیکن ملاحظہ فرمائیے کہ مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں قرآن عظیم الشان نے کتنی صراحت کے ساتھ یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو خاص طرح کی مہارت عطا فرمائی ہے جس سے لیس ہو کر وہ اپنے رب کے بتائے ہوئے راستے تلاش کر لیتی ہے۔ ایک اور توبہ طلب نکتہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں شہد کی مکھی کے لئے جو صنف استعمال کی گئی ہے، وہ مادہ (female) کی ہے (یعنی ، فَاسُلِکی اور کُلی) اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غذا کی تلاش میں نکلنے والی شہد کی مکھی مادہ ہوتی ہے۔بالفاظ دیگر سپاہی یا کارکن شہد کی مکھی بھی مادہ ہی ہوتی ہے۔

دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ شکسپیر(Shakespear) کے ڈرامے ‘ہنری دی فورتھ میں بعض کردار شہد کی مکھیوں کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ (شہد کی) مکھیاں سپاہی ہوتی ہیں اور یہ کہ ان کا بادشاہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ شکسپیسر کے زمانے میں لوگ یہی سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ شہد کی کارکن مکھیاں نر ہو تی ہیں اور وہ شہد کی بادشاہ مکھی (نر) کو جوابدہ ہوتی ہیں۔ لیکن یہ درست نہیں۔ شہد کی کارکن مکھیاں مادہ ہوتی ہیں اور وہ شہد کی بادشاہ مکھی کو نہیں بلکہ ملکہ مکھی کو اپنی کارگزاری پیش کرتی ہیں۔ اب اس بارے میں کیا کہا جائے کہ گذشتہ 300سال کے دوران ہونے والی جدید تحقیق کی بدولت ہی ہم یہ سب کچھ دریافت کر پائے ہیں۔

 

مکڑی کا جالا ، نا پائیدار ترین گھر

 

وَ اَوْ حیٰ رَ بُّکَ اِ لَی النَّحْلِ اَنِ ا تَّخِذِ یْ مِنَ الْجِبَا لِ بُیُوْ تًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِ شُوْ نَ ہ ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰ تِ فَا سْلُکِیْ سُبُلَ رَ بِّکِ ذُ لُلًا ط [17]

ترجمہ:جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرست بنا لیے ہیں ان کی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا گھر بنا تی ہے اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے۔ کاش یہ لوگ علم رکھتے۔

مکڑی کے جالے نازک اور کمزور کے طور پر بیان کرنے کے علاوہ، قرآن پاک نے مکڑی کے گھر یلو تعلقات کے بھی نازک اور نا پائیدار ہونے پر زور دیا ہے۔ یہ صحیح بھی ہے کیونکہ بیشتر اوقات مکڑی اپنے ملاپ کار (Mate) یعنی نر کو مار ڈالتی ہے۔

یہی مثال ایسی لوگوں کی کمزوریوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بھی دی گئی ہے جو دنیا اور آخرت میں تحفظ و کامیابی حاصل کرنے کے لئے اللہ کو چھوڑ کردوسروں سے اس کی امید کرتے ہیں۔

 

چیو نٹیوں کا طرز حیات اور باہمی روابط

 

وَ حُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْ دُ ہ مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِ نْسِ وَ اطَّیْرِ فَھُمْ یُوْ زَ عُوْنَ ہ

حَتّیٰ اِ ذَآ اَ تَوْا عَلیٰ وَ ادِ النّمْلِ قَا لَتْ نَمْلَةُیّٰاَ یُّھَا النَّمْلُ ادْ خُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَ جُنُوْ دُ ہ وَ ھُمْ لَا یَشْعُرُوْ نَ ہ[18]

ترجمہ:سلمان کے لئے جن اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے تھے اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ جب یہ سب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا۔ اے چیوٹیو ! اپنے بلوں میں گھس جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ سیلمان اور اس کے لشکر تمھیں کچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔

ہو سکتا ہے کہ ماضی میں بعض لوگوں نے قرآن پاک میں چیونٹیوں کا مذکورہ بالا مکالمہ دیکھ کر اس پر نکتہ چینی کی ہو اور کہا ہو کہ چیونٹیاں تو صرف کہانیوں کی کتابوں ہی میں باتیں کرتی ہیں۔ البتہ ، حالیہ برسوں کے دوران ہمیں چیونٹیوں کے طرز حیات ، باہمی روابط اور پیچیدہ معلومات کے تبادلے کے حوالے سے بہت کچھ علم ہو چکا ہیں۔ یہ معلومات دور جدید سے پہلے کے انسانوں کو حاصل نہ تھیں۔ تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ وہ جانور یا حشرات (کیڑے مکوڑے) جن کا طرز حیات انسانی معاشرت سے غیر معمولی مما ثلت رکھتا ہے، وہ چیونٹیاں ہی ہیں۔ اس کی تصدیق چیونٹیوں کے بارے میں درج ذیل حالیہ دریافتوں سے بھی ہوتی ہے۔

١) چیونٹیاں بھی اپنے مردوں کو انسانوں کی طرح دفناتی ہیں۔

۲) ان میں کارکنوں کی تقسیم کا پیچیدہ نظام موجود ہے جس میں نگران،نگران کارکن اور مزدور وغیرہ شامل ہیں۔

۳۳) کبھی کبھار وہ آپس میں ملتی ہیں اور گفتگو بھی کرتی ہیں۔

٤) ان میں باہمی تبادلہ (communication) کا ترقی یافتہ نظام موجود ہے۔

۵) ان کی کالونیوں (colonies) میں باقاعدہ مارکیٹیس (markets) ہوتی ہیں جہاں وہ اشیاء کا تبادلہ کرتی ہیں۔

۶) سردیوں میں لمبے عرصے تک زیر زمین رہنے کے لئے وہ اناج کے دانوں کا ذخیرہ بھی کرتی ہیں۔اور اگر کوئی دانہ پھوٹنے لگے، یعنی اس سے پودا بننے لگے تو وہ فوراً اس کی جڑیں کاٹ دیتی ہیں۔ جیسے انہیں یہ پتا ہو کہ اگر وہ اس دانے کو یونہی چھوڑ دیں گی تو وہ بڑھنا اور پکنا شروع کر دے گا۔ اگر ان کا محفوظ کیا ہوا اناج کسی بھی وجہ سے مثلاً بارش سے گیلا ہو جائے تو وہ اسے اپنے بل سے باہر لے جاتی ہیں اور دھوپ میں سکھاتی ہیں۔ جب اناج سوکھ جاتا ہے تبھی وہ اسے بل میں واپس لے کر جاتی ہیں۔ یعنی یوں لگتا ہے، جیسے انہیں یہ علم ہو کہ نمی کی وجہ سے اناج کے دانے سے جڑیں نکل پڑیں گی جو دانے کو اس قابل نہیں چھوڑیں گی کہ اسے کھایا جا سکے۔

 

طب (Medicine)

 

شہد : نوع انسانی کے لئے شفا

 

شہد کی مکھی کئی طرح کے پھلوں اور پھولوں کا رس چوستی ہے اور اسے اپنے ہی جسم کے اندر شہد میں تبدیل کرتی ہے۔ اس شہد کو وہ اپنے چھتے میں بنے خانوں (Cells)میں جمع کرتی ہے۔ آج سے صرف چند صدیوں قبل ہی انسان کو یہ معلوم ہوا ہے کہ شہد اصل میں شہد کی مکھی کے پیٹ (Belly)سے نکلتا ہے، مگر یہ حقیقت قرآن پاک نے ۱۴۰۰ سال پہلے درج ذیل آیات مبارکہ میں بیان کر دی تھی۔

یَخْرُجُ مِنْ بَطُوْنِھَا شَرَا بُ مُّخْتَلِفُ اَ لْوَ انُہ فِیْہِ شِفَاآ ءُ لِّلنَّا سِ ط [19]

ترجمہ : اس مکھی کے (پیٹ کے) اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لئے۔

علاوہ ازیں ہم نے حال ہی میں دریافت کیا ہے کہ شہد میں زخم کو ٹھیک کرنے کی شفا بخش خصوصیات پائی جاتی ہیں اور یہ نرم(مرہم جیسی) جراثیم کش دوا (Mild antiseptic) کا کام بھی کرتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں رو سیوں نے بھی اپنے زخمی فوجیوں کے زخم ڈھانپنے کے لئے شہد کا استعمال کیا تھا۔ شہد کی یہ خاصیت ہے کہ یہ نمی کو برقرار رکھتا ہے اور بافتوں (tissue) بر زخمو ں کے بہت ہی کم نشان باقی رہنے دیتا ہے شہد کی کثافت (Density) کے باعث کوئی پھپھوندی (fungus) یا جراثیم، زخم میں پروان نہیں چڑھ سکتے۔

سسٹر کیرول (Carole) نامی ایک عیسائی راہبہ (Nun) نے برطانوی شفا خانوں میں سینے اور الزائیمر:Alzheimer) ایک بیماری کا نام )کے بیماریوں میں مبتلابائیس ۲۲ ناقابل علاج مریضوں کا علاج پرپولس (Propolis) نامی مادے سے کیا۔ شہد کی مکھیاں یہ مادہ پیدا کرتی ہیں اور اسے اپنے چھتّے کے خانوں کو جراثیموں کو روکنے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔

اگر کوئی شخص کسی پودے سے ہونے والی الرجی میں مبتلا ہو جائے تو اسی پودے سے حاصل شدہ شہد اس شخص کو دیا جا سکتا ہے تا کہ وہ الرجی کے خلاف مزاحمت پیدا کر لے۔ شہد  وٹامن۔ کے (vitamin K) اور فرکٹوز (: Fructoseایک طرح کی شکّر) سے بھی بھر پور ہوتا ہے۔

قرآن میں شہد اس کی تشکیل اور خصوصیات کے بارے میں جو علم دیا گیا ہے اسے انسان نے نزول قرآن کے صدیوں بعد اپنے تجربے اور مشاہدے سے دریافت کیا ہے۔

 

نشانات انگشت ( Finger Prints)

 

اَ یَحْسَبُ الْاِ نْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَا مَہ ط ہ بَلیٰ قٰدِ رِ یْنَ عَلیٰ اَنْ نُّسَوِّ یْ بَنَا نَہ ہ[20]

ترجمہ:۔ کیا انسا یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے؟ کیوں نہیں ؟ ہم تو اس کی انگلیوں کی پور پور (finger tips) تک ٹھیک بنا دینے پر قادر ہیں۔

کفار اور ملحدین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص مر جانے کے بعد مٹی میں مل جاتا ہے اور اس کی ہڈیاں تک بوسیدہ ہو جاتی ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ قیامت کے روز اس کے جسم کا ایک ایک ذرہ دوبارہ یکجا ہو کر پہلے والی( زندہ) حالت میں واپس آ جائے۔۔۔ اور اگر ایسا ہو بھی گیا تو روزِ محشراس شخص کی ٹھیک ٹھیک شناخت کیونکر ہو گی؟ اللہ تعالیٰ رب ذوالجلال نے مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں اسی اعتراض کا بہت واضح جواب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ ( اللہ تعالیٰ) صرف اسی پر قدرت نہیں رکھتا کہ ریزہ ہڈیوں کو واپس یکجا کر دے۔ بلکہ اس پر بھی قادر ہے کہ ہماری انگلیوں کی پوروں (finger tips) تک دوبارہ سے پہلے والی حالت میں ٹھیک ٹھیک طور لے آئے۔

سوال یہ ہے کہ جب قرآن پاک انسانوں کی انفرادی شناخت کی بات کررہا ہے تو انگلیوں کی پوروں کا خصوصیت سے تذکرہ کیوں کر رہا ہے؟ سرفرانسس گولڈ (Frances Gold) کی تحقیق کے بعد۱۸۸۰ء میں نشانات انگشت( finger prints) کو شناخت کے سائنسی طریقے کا درجہ حاصل ہوا۔ آج ہم یہ جانتے ہیں۔ کہ اس دنیا میں کوئی سے بھی دو افراد کی انگلیوں کے نشانات کا نمونہ بالکل ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔ حتیٰ کہ ہم شکل جڑواں افراد کا بھی نہیں یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں مجرموں کی شناخت کے لیے ان کے نشاناتِ انگشت ہی استعمال کیے جا تے ہیں۔کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ آج سے ١٤٠٠سال پہلے کس کو نشانات انگشت کی انفرادیت کے بارے میں معلوم تھا؟ یقیناً یہ علم رکھنے والی ذات اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کی نہیں ہو سکتی تھی۔

 

جلد میں درد کے آخذے ( Pain Receptors)

 

پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ محسوسات اور درد وغیرہ کا انحصار صرف اور صرف دماغ پر ہوتا ہے البتہ حالیہ دریافتوں سے یہ معلوم ہوا ہے کہ جلد میں درد کو محسوس کرنے والے آخذے (Receptors) ہوتے ہیں۔ اگر یہ خلیات نہ ہو تو انسان درد کو محسوس کرنے کے قابل نہیں رہتا۔

جب کوئی ڈاکٹر کسی مریض میں جلنے کی باعث پڑنے والے زخموں کا معائنہ کرتا ہے تووہ جلنے کا درجہ ( شدت) معلوم کرنے کے لئے ( جلے ہوئے مقام پر) سوئی چبھو کر دیکھتا ہے۔ اگر چُبھنے سے متاثرہ شخص کو درد محسوس ہوتا ہے تو ڈاکٹر کو اس پر خوشی ہوتی ہے۔۔۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جھلنے کا زخم صرف باہر کی حد تک ہے اوردردمحسوس کرنے والے خلیات (درد کے آخذے) محفوظ ہیں۔ اس کے برخلاف اگر متاثرہ شخص کو سوئی چُبھنے پر درد محسوس نہ ہو تو یہ تشویشناک امر ہوتا ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جلنے سے بننے والے زخم کی گہرائی زیادہ ہے اور درد کے آخذے (receptor) بھی مردہ ہو چکے ہیں۔

درج ذیل آیت مبارکہ میں قرآن پاک نے بہت واضح الفاظ میں درد کے آخذوں کی موجودگی کے بارے میں بیان فرمایا ہے:

اِنَّ الَّزِیْنَ کَفَرُوْ ا بِاٰ یٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْھِمْ نَا رًا ط کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّ لْنٰھُمْ جُلُوْ دًا غَیْرَھَا لِیَذُ وْ قُوا الْعَذَابَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَا نَ عَزِیزً ا حَکِیْمًا ہ[21]

ترجمہ۔:جن لوگوں نے ہماری آیات ماننے سے انکار کر دیا ہے انہیں بالیقین ہم آگ میں جھونکیں گے اور جب اس کے بدن کی کھال گَل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کر دیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں۔ اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور اپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت کو خوب جانتا ہے۔

تھائی لینڈ میں چانگ مائی یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف اناٹونی کے سربراہ پروفیسر تیگاتات تیجاشان (Tagatat Tejasen) نے درد کے آخذوں پر تحقیق میں بہت وقت صرف کیا۔ پہلے تو انہیں یقین ہی نہیں آیا کہ قرآن پاک نے ۱۴۰۰ سال پہلے اس سائنسی حقیقت کا انکشاف کر دیا ہو گا۔ تاہم بعد ازاں جب انہوں نے مذکورہ آیت قرآنی کے ترجمے کی باقاعدہ تصدیق کر لی تو وہ قرآن پاک کی سائنسی درستی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ سعودی عرب کے شہر ریاض میں منعقدہ آٹھویں سعودی طبی کانفرنس کے موقع پر جس کا موضوع ‘قرآن پاک اور سنت میں سائنسی نشانیاں ‘ تھا انہوں نے بھرے مجمعے میں فخر کے ساتھ کہا۔

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ الرَّسُوْلُ اللّٰہ۔

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں محمدؐ اللہَّ کے رسول ہے۔

 

جنینیات (Embryology)

 

ریڑھ کی ہڈی اور پسلیو ں کے درمیان سے خارج ہونے والا قطرہ

 

فَلْیَنْظُرِ الْاِ نْسَا نُ مِمَّ خُلِقَ ط ہ خُلِقَ مِنْ مَّآ ءٍٍ دَ افِقٍٍِِ ہ یَّخْرُجُ مِنْ م بَیْنِ الصُّلْبِ وَ التَّرَ آ ئِبِ ط ہ[22]

ترجمہ:۔پھرانسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا۔ ایک اُچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔

جُنینی مراحل (embryonic stages) میں مردانہ و زنانہ تولیدی اعضاء یعنی فوطے (testicle) اور بیضہ دان(Ovary) گردوں کے پاس سے ریڑھ کی ہڈی اور گیارہویں اور بارہویں پسلیوں کے درمیان سے نمو پذیر ہونا شروع کرتے ہیں۔ بعد ازاں وہ کچھ نیچے اُتر آتے ہیں ، زنا تولیدی غدود (gonads) یعنی بیضہ دانیاں پیڑو( pelvis) میں رُک جاتی ہے جبکہ مردانہ اعضائے تولید(inguinal canal) کے راستے خصیہ دانی (scrotum) تک جا پہنچتے ہیں۔ حتیٰ کہ بلوغت میں بھی جبکہ تولیدی غدود کے نیچے جانے کا عمل رک چکا ہوتا ہے ان غدود میں دھڑ والی بڑی رگ (Abdominal aorta) کے ذریعے خون اور اعصاب کی رسانی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ دھیان رہے کہ دھڑ والی بڑی رگ اس علاقے میں ہوتی ہے جو ریڑھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان ہوتا ہے۔ لمفی نکاس (Lymphetic drainage) اور خون کا وریدی بہاؤ بھی اس سمت ہوتا ہے۔

 

نطفہ: مائع کی معمولی سی مقدار

 

قرآن کریم میں کم از کم گیارہ مرتبہ کہا گیا ہے کہ انسان کو نطفہ سے تخلیق کیا گیا ہے جس کا مطلب مائع کی نہایت معمولی مقدار یا پیالہ خالی ہو جانے کے بعداس میں لگا رہ جانے والا مائع ہے۔ یہ بات قرآن عالی شان کی کئی آیات مبارکہ میں وارد ہوئی ہے جن میں سورة۲۲آیت ۵) سورة ۲۳ آیت ۱۳ کے علاوہ سورة  ۱۶ آیت ۴ ،سورة ۱۸ آیت ۳۷  سورة ۳۵ آیت ۱۱ سورة ۳۶  آیت ۷۷ ، سورة ۴۰سورة ۳۵ آیت ۴۶  سورة ۷۶  آیت ۲ سورة ۸۰  آیت ۱۹ شامل ہیں۔

سائنس نے حال ہی میں یہ دریافت کیا ہے کہ بیضے ( Ovum)کو بار آور کرنے کے لئے او سطاً تیس لاکھ خلیات نطفہ( sperms) میں سے صرف ایک کی ضرورت ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ خارج ہونے والے نطفے کی مقدار تیس لاکھواں حصّہ یا0.00003 فیصد مقدار ہی بار آوری ( حمل ٹھہرانے ) کے لئے کافی ہوتی ہے

 

سُلٰلَة مائع کا جوہر

 

ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّآ ئٍ مَّھِیْنٍ ہ [23]

ترجمہ:پھر اس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح ہے۔

عربی لفظ’ سُللة’ سے مراد کسی مائع کا بہترین حصہ خلاصہ یا جوہر ہے۔ ا ب ہم جان چکے ہیں کہ زنانہ بیضے کی بار آوری (fertilization) کے لئے مرد سے خارج ہونے والے لاکھو ں کروڑوں خلیات نطفہ میں سے صرف ایک کی خلیہ نطفہ کو قرآن پاک نے سللة کہا ہے۔ اب ہمیں یہ بھی پتا چل چکا ہے کہ عورت میں پیدا شدہ ہزاروں بیضوں (ovam) میں سے صرف ایک ہی بار آور ہوتا ہے۔ ہزاروں میں سے اسی ایک بیضے کے لئے( جو بار آور ہوتا ہے ) قرآن پاک)نے سللة کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس لفظ کا ایک اور مفہوم کسی مائع سے ( کسی چیز کا) بڑی احتیاط سے اخراج بھی ہے۔ اس مائع سے مراد زنانہ اور مردانہ دونوں طرح کے تولیدی مائعات بھی ہیں جن میں صنفی تخم (gametes) موجود ہوتے ہیں۔ بار آوری کے مرحلے کے دورا ن نطفہ خلیہ اور بیضہ دونوں ہی اپنے اپنے ماحول سے بہ احتیاط جدا ہوتے ہیں۔

 

نُطْفَةٍ اَمْشَاج۔۔۔ باہم ملے ہوئے مائعات

 

اِ نَّا خَلَقْنَا الْاِ نْسَا نَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَا ج

ترجمہ:۔ہم نے انسان کو ایک مخلوط(آپس میں ملے ہوئے) نطفے سے پیدا کیا۔[24]

عربی لفظ نُطْفَہٍ اَمْشاج کا مطلب، ملے ہوئے مایٔعات ہے، بعض مفسرین کے نزدیک ملے ہوئے مائعات سے مراد عورت یا مرد کے ( تولیدی) عامل (agent) یا مائعات ہیں۔ مردانہ اور زنانہ صنفی تخم (Gametes)کے باہم مل جانے کے بعد بننے والا جفتہ (zygote) بھی ابتداء میں نطفہ ہی رہتا ہے۔باہم ملے ہوئے ( ہم آمیز) مائعات سے ایک اور مراد وہ مائع بھی ہو سکتا ہے جس میں خلیات نطفہ تیر رہے ہوتے ہیں۔ یہ مائع کئی طرح کی جسمانی رطوبتوں (fluids)سے مل کر بنتا ہے جو کئی جسمانی غدود (glands)سے خارج ہوتی ہیں۔

لہٰذا نطفةٍ امشاج یعنی آپس میں ملے ہوئے مائعات کے ذریعے مردانہ و زنانہ صنفی مواد (تولیدی مائع یا خلیات) اور اس کے اردگرد مائعات کے کچھ حصّے کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہے۔

 

جنس کا تعین

 

پختہ جنین( foetus) کی جنس کا تعین ( یعنی اس سے لڑکا پیدا ہو گا یا لڑکی) نُطفہ کے خلیے ( sperm) سے ہوتا ہے نہ کہ بیضے (ovum) سے۔ مطلب یہ کہ رحم مادر میں ٹھہرے والے حمل سے لڑکا پیدا ہو گا یا لڑکی اس کاانحصارکروموسوم کے ۲۳ ویں جوڑے میں بالترتیب xx / xy کروموسومز کی موجودگی پر ہوتا ہے۔ ابتدائی طور پر جنس کا تعین بار آوری کے موقع پر ہی ہو جاتا ہے اور اس کا انحصار خلوی نطفے (sperm) کے صنفی کروموسومchromosomes) sex) پر ہوتا ہے۔ جو بیضے کو بار آور کرتا ہے۔ اگر بیضے کو بار آور کرنے والے سپرم (sperm) میں xصنفی کروموسوم ہے تو ٹھہرے والے حمل سے لڑکی پیدا ہو گی۔ اس کے برعکس ، اگراسپرم (sperm) میں صنفی کروموسوم yہے تو حمل کے نتیجے میں لڑکا پیدا ہو گا۔

وَ اَنَّہ خَلَقَ الذَّ وْ جَیْنِ الذَّ کَرَ وَ الْاُ نْثیٰ ہ مِنْ نُّطْفَةٍ اِ زَ اتُمْنیٰ ہ [25]

ترجمہ:۔ اور یہ کہ اسی نے نر اور مادہ کا جوڑا پیدا کیا ، ایک بوند سے جب وہ ٹپکائی جاتی ہے۔

یہاں عربی لفظ نطفہ کا مطلب تو مائع کی نہایت قلیل مقدار ہے جبکہ تمُنیٰ کا مطلب شدت سے ہونے والا اخراج یا پودے کی طرح بوئی گئی کوئی چیز ہے لہذا نطفہ بطور خاص اسپرم (sperm) ہی کی طرف اشارہ کر رہا ہے کیونکہ یہ شدت سے خارج ہوتا ہے۔

قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔

اَ لَمْ یَکُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍٍّ یُّمْنیٰ ہ ثُمَّ کَا نَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰ ی ہ فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّ وْ جَیْنِ الذَّ کَرَ وَا لْاُ نْثیٰ ط ہ [26]

ترجمہ:۔ کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو(رحم مادر میں ) ٹپکایا جاتا ہے ؟ پھر وہ ایک لوتھڑا بنا پھر اللہ تعالی نے اس کا جسم بنایااوراس کے اعضاء درست کیے، پھراس سے مرد اور عورت کی دوقسمیں بنائیں۔

ملأ خطہ فرمایے کہ یہاں ایک بار پھر یہ بتایا گیا ہے کہ نہایت قلیل مقدار ( قطرے) پر مشتمل مادہ تولید( جس کے لئے عربی عبادت نُطْفَةًمّن مَّنِیٍّ وارد ہوئی ہے ) جو کہ مرد کی طرف سے آتا ہے۔اور یہ رحم مادر میں بچے کی جنس کے تعین کا ذمہ دار ہے۔

بر صغیر میں یہ افسوس ناک رواج ہے کہ عام طور پر ساسوں کو پوتیوں سے زیادہ پوتوں کا ارمان ہوتا ہے۔ اور اگر بہو کے ہاں بیٹوں کی بجائے بیٹیاں پیدا ہو رہی ہوں تووہ انہیں اولادِ نرینہ پیدا نہ کرسکنے پر طعنہ دیتی ہیں۔ اگر انہیں صرف یہی پتہ چل جاتا کہ اولاد کی جنس کے تعین میں عورت کے بیضے کا کوئی کردار نہیں اور اس کی تمام تر ذمہ داری مردانہ نطفے (sperm) پر عائد ہوتی ہے اور اگر پھر بھی وہ لعن طعن پر آمادہ ہو تو اُنہیں چاہیے کہ وہ (اولادِ نرینہ کے نہ ہونے پر) اپنی بہوؤں کی بجائے اپنے بیٹوں کو طعنہ دیں۔ قرآن پاک اور جدید سائنس دونوں اس بات پر متفق ہے کہ بچے کی جنس کا تعین میں مردانہ تولیدی مواد ہی ذمہ دار ہے، عورت کا اس میں کوئی قصور نہیں۔

 

تین تاریک پردوں کی حفاظت میں رکھا گیا جنین (foetus)

 

یَخْلُقُکُمْ فِیْ بُطُوْ نِ اُ مَّھٰتِکُمْ خَلْقًا مِنْ م بَعْدِ خَلْقٍٍ فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ ط [27]

ترجمہ:۔ اسی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا پھر وہی ہے جس نے اس جان سے اس کا جوڑا بنایا اور اسی نے تمھارے لئے مویشیوں میں سے آٹھ نر ما دہ پیدا کیے۔ اور وہ تمھاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین باریک پردوں کے اندر تمھیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے۔ یہی اللہ ( جس کے یہ کام ہیں ) تمھارا  رب ہے۔ بادشاہ ہی اسی کی ہے۔ کوئی معبود اس کے سوانہیں ہے۔ پھر تم کدھرسے جا رہے ہو۔

پروفیسر ڈاکٹر کیتھ مور(Keith L. Moore) کے مطابق قرآن پاک میں تاریکی کے جن تین پردوں کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ درج ذیل ہیں :

۱۔ شکم مادر کی اگلی دیوار

۲۔  رحمِ مادر کی دیوار

۳۔ غلافِ جنین اور اس کے گرد لپٹی ہوئی جھلی (amino-chorionic membrane)

 

جنینی مراحل (Embryological stages)

 

وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِ نْسَا نَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍٍ ہ ثُمَّجَعَلْنٰہُ نُطْفَةً فِیْ قَرَ ارٍٍ مَّکِیْنٍٍ ہ ثُمَّ خَلَقْنَا ا لں طْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَْْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَکَسَوْ نَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ثُمَّ اَنْشَاْ نٰہُ خَلْقًا اٰ خَرَ ط فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ ہ ط[28]

ترجمہ:۔ اور یقیناً ہم نے انسا ن کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا پھر ہم نے اسے نطفہ بنا کر ایک محفوظ جگہ (رحم مادر)میں رکھا۔ پھر ہم نے نطفہ کو خون کا ایک لوتھڑا بنایا۔ پھر لوکو گوشت کی بو ٹی بنا یا پھر ہم نے لوتھڑے کو ہڈیاں بنا دیا۔ پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنایا پھر ہم نے اسے ایک نئی صورت دے دی۔ برکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان مائع کی حقیر مقدار سے تخلیق کیا گیا جسے امن کی جگہ پر رکھا جاتا ہے۔ مضبوطی سے جمایا ہوا( خوب مستحکم یا ٹھہرایا گیا) جس کے لیے عربی لفظ قرار مکین استعمال ہوا ہے۔ رحم مادر پچھلی جانب سے ریڑھ کے مہروں کے ستوں سے اچھی طرح محفوظ کیا گیا ہوتا ہے جسے کمر کے پٹھے مضبوطی سے سہارا دیتے ہیں۔ جنین ایمنیا ٹک فلویڈ(amniotic fluid) سے بھرے ایمنیاٹک سیک( amniotic sac) سے مزید محفوظ بنایا گیا ہوتا ہے۔ چنانچہ جنین( foetus) کی ایک بہترین محفوظ دینے کی جگہ ہوتی ہے۔ سیال(fluid) کی اس قلیل مقدار کو ‘علقہ’ میں تبدیل کیا جاتا ہے یعنی ایسی چیز جو چپک جاتی ہے۔ اس سے جونک(Leech) جیسی چیز بھی مراد ہے۔یہ دونوں تعریفیں سائنسی طور پر قابل قبول ہیں کیونکہ بالکل ابتدائی مراحل میں جنین ( رحم مادر کی) دیوار سے چپک جاتا ہے اور شکل کے لحاظ سے جونک سے بھی مشابہ ہوتا ہے۔ یہ جونک ہی کی طرح رویہ رکھتا ہے ( خون چوسنے والا) اور اپنی خونی رسد ناف کے ذریعے ماں سے حاصل کرتا ہے۔

‘علقہ’ کا تیسرا مطلب ہے جما ہوا خون۔ اس علقہ کے مرحلے کے دوران جو حمل کے تیسرے اور چوتھے ہفتے پر محیط ہوتا ہے خون بند نالیوں میں جم جاتا ہے چنانچہ جنین جونک کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ آسانی سے دسیتاب ہونے والے اس قرآنی علم کا سائنسی دریافتوں کے لئے انسانی محنت کے ساتھ موازنہ کر لیجئے۔

۱۶۷۷ء میں ہیم اور لیون ہک (hamm& leewenhoek) وہ پہلے سائنس دان تھے جنھوں نے ایک خوردبین کے ذریعے اسانی تولیدی خلیوں کا مشاہدہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ سپرم کے اندر انسان کا ایک مختصر نمونہ ہوتا ہے۔ جو ایک نوزائیدہ بچے کی شکل پانے کے لئے رحم کے اندر نشوونما پاتا ہے۔ یہ پر فوریشن تھیوری (perforation theory) کے نام سے جانی جاتی تھی۔ جب سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ بیضہ (ovum) یعنی مادہ تولیدی مادہ) سپرم (sperm) سے جسامت میں بڑا ہوتا ہے تو ڈی گراف (De Graf)اور دوسرے سائیسندانوں نے سوچاکہ جنین(foetus) ایک چھوٹے نمونے کی شکل میں بیضہ کے اندر موجود ہوتا ہے۔بعد ازاں اٹھارویں صدی میں ماپر چو یئس (Maupertuis) نے مادر پدر دو طرفہ وراثت کا نظریہ پیش کیا۔

‘علقہ’ ‘ مُضغہ’ میں تبدیل ہوتا ہے۔ جس کا مطلب ہے ایسی چیز جو چبائی گئی ہو( جس پر دانتوں کے نشان ہو) اورایسی چیز بھی جو نرم چپکے والی ہو اور گم(gum)کی طرح منہ میں رکھی جا سکے۔ یہ دونوں وضاحتیں سائینسی طورپردرست ہے پروفیسر کیتھ مور( Keith Moore) نے پلاسٹرٔسیل(plaster seal) کا ایک ٹکڑا لیا اور اسے جنین کے ابتدائی مرحلے کی جسامت اور شکل دی اور اسے مضغہ بنانے کے لئے دانتوں کے درمیان چبایا۔ انہوں نے اس کا تقابل جنین کے ابتدائی مرحلے کی تصاویر سے کیا۔دانتوں کے نشان سومائٹس(somites) سے مشابہ تھے جو ریڑھ کی ہڈی کی ابتدائی بناوٹ ہے۔ یہ مضغہ ہڈیوں ( عظام) میں تبدیل ہوتا ہے ہڈیاں سالم گوشت یا پٹھوں ( لحم) سے لپٹی ہوتی ہیں۔پھر اللہ تعالی اس کو ایک دوسری تخلیق میں ڈال دیتا ہے۔ پروفیسر مارشل جانسن(Marshal Johnson) جو امریکہ کے سرکردہ سائنس دانوں میں سے ایک ہیں اور اناٹومی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ اور تھا مس جیفر سن یونیورسٹی فایلاڈلفیا امریکہ کے ڈینیل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان سے علم الجنین (embroyology) سے متعلق قرآنی آیات پر تبصرہ کرنے کے لئے کہا گیا۔ ابتداء میں انہوں نے کہا کہ جنین کے مراحل سے تعلق رکھنے والی قرآنی آیات محض اتفاق نہیں ہو سکتی۔ ممکن ہے کہ محمدؐ کے پاس کوئی طاقت ور خورد بین ہو۔یہ یاد دلانے پر کہ کہ قرآن چودہ سو سال پہلے نازل ہوا اور خورد بینیں پیغمبر محمدؐ کے زمانے سے کئی صدیاں بعد ایجاد کی گئیں۔پروفیسر جانسن ہنسے اور یہ تسیلم کیا کہ ایجاد ہونے والی اولین خوردبین بھی دس گنا سے زیادہ بڑی شبیہ(image) دکھانے کے قابل نہیں تھی اور ا س کی مدد سے واضح ( خورد بینی) منظر بھی دیکھا نہیں جا سکتا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے کہا: سردست مجھے اس تصوّر میں کوئی تنازعہ د کھائی نہیں دیتا کہ جب محمدؐ نے قرآن پاک کی آیات پڑھیں تو اُس وقت یقیناً کوئی آسمانی ( الہامی ) قوت بھی ساتھ میں کار فرما تھی۔

ڈاکٹر کیتھ مور کا کہنا ہے کہ جنینی نشوونما کے مراحل کی وہ درجہ بندی جو آج ساری دنیا میں رائج ہے آسانی سے سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کیونکہ اس میں ہر مرحلے کو ایک عدد( نمبر) کے ذریعے شناخت کیا جاتا ہے۔ مثلاً مرحلہ نمبر1، مرحلہ نمبر2،وغیرہ۔ دوسری جانب قرآن پاک نے جنینی مراحل کی جو تقسیم بیان فرمائی ہیں ، اس کی بنیاد جداگانہ اور آسانی سے شناخت کے قابل حالتوں یاساختوں پر ہیں۔ یہی وہ مراحل ہیں جن سے کوئی جنین مرحلہ وار انداز میں گزرتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ حالتیں ( ساختیں ) بھی قبل از ولادت نشوونما کے مختلف مراحل کی علمبردار ہیں اور ایسی سائنسی توضیحات( وضاحتیں ) فراہم کرتی ہیں۔جو نہایت عمدہ اور قابل فہم ہونے کے ساتھ ساتھ عملی اہمیت بھی رکھتی ہیں۔رحم مادر  چھمیں انسانی جنین کی نشوونما کے مختلف مراحل درج ذیل آیات مبارکہ میں بھی بیان فرمایئے گئے ہیں :

اَ لَمْ یَکُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍٍّ یُّمْنیٰ ہ ثُمَّ کَا نَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰ ی ہ فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّ وْ جَیْنِ الذَّ کَرَ وَا لْاُ نْثیٰ ط ہ[29]

ترجمہ: کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو ( رحم مادر مین )ٹپکایا جاتا ہے؟ پھر وہ ایک لوتھڑا بنا پھر اللہ نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضا ء درست کیے۔پھر اس سے مرد اور عورت کی دوقسمیں بنائیں۔

الَّذِ یْ خَلَقَکَ فَسَوّٰ کَ فَعَدَ لَکَ ہ فِیْ اَیِّ صُوْ رَ ةٍ مَّا شَآءَ رَ کَّبَکَ ط[30]

ترجمہ۔ جس نے تجھے پیدا کیا، پھر تجھے درست کیا ، تجھے تناسب سے بنایا اور جس صورت میں چاہا تجھ  کو جوڑ  کر تیار کیا۔

 

نیم مکمل اور نیم نامکمل جنین(Embryo)

 

اگر’ مضغہ’ کے مرحلے پر جنینن کو درمیان سے کاٹا جائے اور اس کی اندرونی حصّوں کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں واضح طور پر نظر آئے گا کہ ( مضغہ کے اندرونی اعضاء میں سے) بیشتر پوری طرح بن چکے ہیں جبکہ بقیہ اعضاء اپنی تکمیل کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ پروفیسر مارشل جونسن (Prof. Marshal Johnson)کا کہنا ہے کہ اگر ہم پورے جنین کو ایک مکمل بنے ہو یے وجود کے طور پر بیان کریں تو ہم صرف اسی حصّے کی بات کر رہے ہوں گے جو پہلے سے مکمل ہو چکا ہے اور اگر ہم اسے نامکمل وجود کہیں تو پھر جنین کے ان حصّوں کا حوالہ دے رہے ہو گے جو ابھی پوری طرح سے مکمل نہیں ہوئے بلکہ تکمیل کے مراحل طے کر رہے ہیں۔ اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اس موقعے پر جنین کو کیا کہنا چاہیے : مکمل وجود یا نامکمل وجود؟ جنینی نشوونما کے اس مرحلے کی جو وضاحت قرآن پاک نے ہمیں دی ہے اس سے بہتر کوئی اور ممکن نہیں۔ قرآن پاک اس مرحلے کو نیم مکمل اور نیم نامکمل قرار دیتا ہے۔ درج ذیل آیات مبارکہ ملا خطہ فرمائیے۔

خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ تُرَ ابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّ غَیْرِ مُخَلّقَةٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمْ ط[31]

ترجمہ: ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے۔ پھر نطفے سے پھر خون کے لوتھڑے سے پھر گوشت کی بوٹی سے جو مکمل (بھی) ہوتی ہے اور نا مکمل بھی۔

 

سننے اور دیکھنے کی حِسّیات(Senses)

 

رحم مادر میں نشوونما پانے والے انسانی وجود میں سب سے پہلے جو حس جنم لیتی ہے وہ سننے کی حسِ (حسِ سامعہ) ہوتی ہے۔ ۲٤ ہفتوں بعد کاد اور خون کا وک کی تشکیل: اعجاز عبیدپختہ جنین ( foetus) آواز یں سننے کے قابل ہو جاتا ہے۔ پھر حمل کے ۲۷ ویں ہفتے تک دیکھنے کی حسِ( بصارت) بھی وجود میں آ جاتی ہے اور پردہ چشم ( Retina) روشنی کے لئے حساس ہو جاتا ہے ان مراحل کو قرآن پاک یوں بیان فرماتا ہے:۱کمر پکٹ۔

وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَ الْاَ بْصَارَ وَ الْاَفِْدَ ةَ ط [32]

ترجمہ:۔ اور تم کو کان دیے، آنکھیں دیں اور سمجھنے کی صلاحیت دی۔

اِ نَّا خَلَقْنَا الْاِ نْسَا نَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَا جٍٍٍ نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًا م بَصِیْرً ا ہ[33]

ترجمہ۔: ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس فرض کے لئے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔

وَ ھُوَ الَّذِ یْ اَنْشَاَ لَکُمُ السَّمْعَ وَ الْاَ بْصَارَ وَا لْاَ فْدَئِ ةَ ط قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ ہ[34]

ترجمہ:۔ وہ اللہ ہی ہے جس ے تمہیں دیکھنے اورسننے کی قوتیں دیں اور سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت دی ہے۔(لیکن) تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔

ملا خطہ فرمائے کہ تمام آیات مبارکہ میں حِس سماعت کا تذکرہ حسِ بصارت سے پہلے آیا ہے ، اس سے ثابت ہوا کہ قرآن پاک کی فراہم کردہ توضیحات کے جدید جننیات میں ہونے والی دریافتوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔

 

آبیات (Hydrology)

 

آبی چکر: (water cycle)

 

آج ہم جس تصور کو آبی چکر (water cycle ) کے نام سے جانتے ہیں ، اسے پہلے 1580ء میں برنارڈپیلیسی (Bernard Pallissy) نامی ایک شخص نے پیش کیا تھا۔ اس نے بتایا کہ سمندروں سے کس طرح پانی بخارات میں تبدیل ہوتی ہے اور کس طرح وہ سرد ہو کر بادلوں کی شکل میں آتا ہے۔ پھر یہ بادل خشکی پر آگے کی طرف بڑھتے ہیں ، بلند تر ہوتے ہیں ان میں پانی کی تکثیف (Condensation) ہوتی ہے اور بارش برستی ہے۔ یہ پانی جھیلوں ، جھرنوں ، ندیوں اور دریاؤں کی شکل میں آتا ہے اور بہتا ہوا واپس سمندر میں چلا جاتا ہے اس طرح پانی کا یہ چکر جاری رہتا ہے۔

ساتویں صدی قبل از مسیح میں تھیلس (Thallas) نامی ایک یونانی فلسفی کو یقین تھا کہ سطح سمندر پر باریک باریک آبی قطروں کی پھوار (اسپرے) پیدا ہوتی ہے۔ تیز ہوا اسی پھوار کو اٹھا لیتی ہے اور خشکی کے دور افتادہ علاقوں پر لے جا کر برسا دیتی ہے۔ یہی بارش ہوتی ہے۔

علاوہ ازیں ، پرانے وقتوں میں لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ زیر زمین میں پانی کا ماخذ کیا ہے۔ان کا خیال تھا کہ ہوا کی زبردست قوت کے زیر اثر سمند ر کی پانی براعظموں (خشکی) میں اندرونی حصوں میں چلا آتا ہے۔ انہیں یہ یقین بھی تھا کہ یہ پانی ایک خفیہ راستے یا عظیم گہرائی سے آتا ہے، سمند ر سے ملا ہوا یہ تصوراتی راستہ افلاطون کے زمانے سے ٹار ٹار س کہلاتا تھا۔ حتیٰ کے اٹھارویں صدی کے عظیم مفکّر ڈسکارٹس (Descartus) نے بھی انہی خیالات سے اتفاق کیا ہے۔

انسیویں صدی عیسوی تک اوسطو (Aristotle) کا نظریہ ہی زیادہ مقبول و معروف رہا۔ اس نظریے کے مطابق پہاڑوں کے سرد غاروں میں پانی کی تکثیف (Condensation) ہوتی ہے اور وہ زیر زمین جھیلیں بناتا ہے جو چشموں کا باعث بنتی ہیں۔

آج ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ بارش کا پانی زمین پر موجود دراڈوں کے راستے رس رس کر زیر زمین پہنچتا ہے اور چشموں کی وجہ بنتا ہے۔ درج ذیل آیات قرآنی میں اس نکتے کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔

اَ لَمْ تَرَ اَ نَّ اللّٰہَ اَنْزَ لَ مِنَ السَّمَاءِ مَآ ءً فَسَلَکَہ یَنَا بِیْعَ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ یُخْرِ جُ بِہ زَرْ عًا مُّخْتَالِفًا اَلْوَ انُہ ہ[35]

ترجمہ:۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریاؤں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا، پھر اس پانی کے ذریعے سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی قسمیں مختلف ہیں۔

وَّ یُنَزِّ لُ مِنَ السَّمَآ ءِ مَآءَ فَیُحْی بِہِ الْاَ رْضَ بَعْدَ مَوْ تِھَا ط اِ نَّ فِیْ ذٰ لِکَ لَاٰ یٰتٍٍ لِّقَوْ مٍٍ یَّعْقِلُوْ نَ ہ[36]

ترجمہ:۔ وہ آسمان سے پانی برساتا ہے۔ پھر اس کے ذریعے سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔

وَ اَنْزَ لْنَا مِنَ السَّمَآ ءِ مَآ ئً بِقَدَرٍٍ فَاَ سْکَنّٰہُ فِی الْاَرْ ضِ وَاِ نَّا عَلیٰ ذَ ھَا بٍٍ بِہ لَقٰدِ رُوْ نَ ہ[37]

ترجمہ:۔ اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھہرا دیا، ہم اسے جس طرح چاہے غائب کر سکتے ہیں۔

 

تبخیر (Evaporation)

 

وَا لسَّمَآ ءِ ذَاتِ الرَّ جْعِ ہ [38]

ترجمہ:۔ قسم ہے آسمان کی جو (پانی )کو لوٹاتا ہے (اپنے چکر میں )

 

بادلوں کو بار آور کرتی ہوائیں

 

وَ اَرْ سَلْنَا الرِّ یٰحَ لَوَ ا قِحَ فَاَ نْذَ لْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَا ءً فَاَ سْقَیْنٰکُمُوْ ہ [39]

ترجمہ:۔ اور ہم ہی ہواؤں کو بار آور بنا کر چلاتے ہیں ، پھر آسمان سے پانی برساتے اور تم کو اس سے سیراب کرتے ہیں۔

یہاں عربی لفظ لواقح ّاستعمال کیا گیا ہے، جو لاقح کی جمع ہے اور لاقحہ سے نکلا ہے، جس کا مطلب بار آور کرنا یا پھر دینا ہے، اسی سیاق و سباق میں ، بار آور سے مراد یہ ہے کہ ہوا، بادلوں کو ایک دوسرے کے قریب دھکیلتی ہے جس کی وجہ سے ان پر تکثیف (Condensation) کا عمل بڑھتا ہے جس کا نتیجہ بجلی چمکنے اور بارش ہونے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ کچھ اسی طرح کی توضیحات ، قرآن پاک کی دیگر آیات مبارک میں بھی موجود ہیں :

اَ لَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُذْ جِیْ سَحَبًا ثُمَّ یُؤ لِّفُ بَیْنَہ ثُمَّ یَجْعَلُہ رُکَا مًا فَتَرَ ی الْوَ دْقَ یَخْرُ جُ مِنْ خِلٰلِہ وَ یُنَزِّ لُ مِنَ السَّمَآ ءِ مِنْ جِبَا لٍٍ فِیْھَا مِنْ بَرَ دٍٍ فَیُصِیْبُ بِہ مَنْ یَّشَآ ئُ وَ یَصْرِ فُہ عَنْ مَّنْ یَّشَا ئُ ط یَکَا دُ سَنَا بَرْ قِہ یَذْ ھَبُ بِا لْاَ بْصَا رِ ہ [40]

ترجمہ:۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے اور پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف (Condense)ابر بنا دیتا ہے۔پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے اندر میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں اور وہ آسمان سے ان پہاڑوں جیسے (بادلوں )سے اولے برساتا ہے۔ پھر جسے چاہتا ہے ان کا نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے اس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کئے دیتی ہے۔

اَ للّٰہُ الَّذِیْ یُرْ سِلُ الرِّ یٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَا بًا فَیَبْسُطُہ فِیْ السّمَآ ئِ کَیْفَ یَشَآ ئُ یَجْعَلُہ کِسَفًا فَتَرَ ی الْوَ دْ قَ یَخْرُ جُ مِنْ خِلٰلِہ فَاِ ذَآ اَصَا بَ بِہ مَنْ یَّشَآ ءُ مِنْ عِبَا دِ ہ اِ ذَ ا ھُمْ یَسْتَبْشِر [41]

ترجمہ:۔ اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بادل اٹھاتی ہیں ، پھر وہ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلاتا ہے ، جس طرح چاہتا ہے اور انہیں ٹکڑوں میں تقسیم کرتا ہے ، پھر تو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل میں سے ٹپکتے چلے آتے ہیں۔ یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے برساتا ہے تو یکا یک وہ خوش و خرم ہو جاتے ہیں۔

آبیات (ہائیڈرولوجی Hydrology:) پر دستیا ب ، جدید معلومات بھی قرآن پاک میں بیان کردہ متعلقہ وضاحتوں کی پوری طرح تائید کرتی ہیں۔ قرآن مجید کی متعدد د آیات مبارکہ میں آبی چکر کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔ مثلاً ملا خطہ ہو: سورة 7آیت 57، سورة 13آیت 17، سورة 25آیات 48تا 49، سورة 35آیت 9، سورة3آیت 34، سورة 45آیت 5، سورة 50آیات 9تا 11، سورة 56آیات 68تا70اور سورة 67آیت 30،

 

طبیعیات (Physics)

 

ایٹم بھی تقسیم کئے جا سکتے ہیں

 

قدیم زمانوں میں ایٹم ازم کا نظریہ کے عنوان سے ایک مشہور نظریے کو وسیع پیمانے پر تسلیم کیا جاتا تھا۔ یہ نظریہ یونانیوں نے بالخصوص ڈیموکریٹس (Democritus) نامی ایک یونانی فلسفی نے پیش کیا تھا، جو آج سے 23صدیاں پہلے (2300سال پہلے) گزرا ہے۔ ڈیموکریٹس اور بعد ازاں اس کے ہم خیال لوگوں کا یہ تصور تھا کہ مادے کا مختصر ترین یونٹ (اکائی) ایٹم ہے۔ قدیم عرب بھی اسی تصور کو تسلیم کیا کرتے تھے۔ عربی لفظ ذرّہ کا عمومی مفہوم وہی ہو ا کرتا تھا جو یونانیوں کے یہاں ایٹم کا تھا۔ حالیہ تاریخ میں سائنس نے دریافت کیا ہے کہ ایٹم کے قابل تقسیم ہونے کا تصور بھی بیسویں صدی کی سائنسی پیش رفت میں شامل ہے۔ چودہ صدیوں پہلے خود عربوں کے لئے بھی یہ تصور نہایت غیر معمولی ہوتا۔ انکے نزدیک ذرّہ وہ حد تھی جس سے آگے مزید تقسیم ممکن ہی نہیں تھی۔ لیکن درج ذیل آیت میں قرآن پاک نے واضح طور پر اس حد کو ماننے سے انکار کیا ہے۔

وَ قَا لَ الَّذِ یْنَ کَفَرُوْ ا لَا تَا تِیْنَا السَّا عَةُ ط قُلْ بَلیٰ وَ رَبِّیْ لَتَاْ تِیَنَّکُمْ عٰلِمِ الْغَیْبِ لَا یَعْزُ بُ عَنْہُ مِثْقَا لُ ذَ رَّ ةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْ ضِ وَلَآ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِکَ وَلآ اَ کْبَرُ اِ لَّا فِیْ کِتٰبٍٍ مُّبِیْنٍٍ ہ[42]

ترجمہ:۔منکرین کہتے ہیں کیا بات ہے کہ قیامت ہم پر نہیں آ رہی ہو۔ کہو قسم ہے میرے عالم الغیب پروردگار کی،وہ تم پر آ کر رہی گی۔ اس سے ذرّہ برابر کوئی چیز نہ آسمانوں میں چھپی ہوئی ہے نہ زمین میں۔ نہ ذرّے سے بڑی اور نہ اس سے چھوٹی۔ یہ سب کچھ ایک نمایاں دفتر میں درج ہے۔

اسی طرح کا پیغام قرآن پاک کی سورة 10آیت 61میں بھی دیا گیا ہے۔

یہ آیت مبارکہ ہمیں اللہ تبارک و تعالیٰ کے عالم الغیب ہونے یعنی ہر پوشیدہ اور ظاہر چیز سے با خبر ہونے کے بارے میں بتاتی ہے۔ پھر یہ مزید آگے بڑھتی ہے اور کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ہر چیز سے با خبر ہے ، چاہے وہ ایٹم سے چھوٹی یا بڑی ہی کیوں نہ ہو۔ تو ثابت ہوا کہ یہ آیت مبارکہ واضح طور پر بتاتی ہے کہ ایٹم سے مختصر اشیاء بھی وجود رکھتی ہے۔۔۔۔اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو حال ہی میں جدید سائنس نے دریافت کی ہے۔

 

بحریات (Oceanology)

 

میٹھے اور نمکین پانیوں کے درمیان آڑ

 

مَرَجَ الْبَحْرَ یْنِ یَلْتَقِیٰنِ ہ بَیْنَھُمَا بَرْ زَ خُ لَّا یَبْغِیٰنِ ہ[43]

ترجمہ:۔ دو سمندروں کو اس نے چھوڑ دیا کہ باہم مل جائیں پھر بھی انکے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان آیات مبارکہ کے عربی متن میں لفظ برزخ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب رکاوٹ یا آڑ (partition ) کے ہے۔ تا ہم اسی تسلسل کا ایک اور عربی لفظ مرج بھی وارد ہوا ہے۔ جس کا مطلب وہ دونوں ایک دوسرے سے ملتے اور آپس میں ہم آمیز ہوتے ہیں بنتا ہے۔

ابتدائی ادوار کے مفسرین قرآن کے لئے یہ وضاحت کرنا بہت مشکل تھا کہ پانی کے دو مختلف اجسام سے متعلق دو متضاد مفہوموں سے کیا مراد ہے۔ مطلب یہ کہ دو طرح کے پانی ہیں جو آپس میں ملتے بھی ہیں اور ان کے درمیان آڑ(رُکاوٹ ) بھی ہے۔ جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ جہاں جہاں دو مختلف بحیرے آپس میں ملتے ہیں وہاں وہاں انکے درمیان آڑ بھی ہوتی ہے۔ دو بحیروں کو تقسیم کرنے والی رکاوٹ یہ ہے کہ ان میں ایک بحیرہ کا درجہ حرارت ، شوریدگی (Salinity) اور کثافت (Density) دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔[44] آج ماہرین بحریات مذکورہ آیات مبارکہ کی بہتر وضاحت کرسکتے ہیں۔ دو بحیروں کے درمیان پانی ہی کی ایک نازک رکاوٹ (طبعی قوتوں کی وجہ سے ) قائم ہوتی ہے۔جس سے گزر کر ایک بحیرے کا پانی دوسرے بحیرے میں داخل ہوتا ہے تو وہ اپنی امتیازی خصوصیات کھو دیتا ہے اور دوسرے کے پانی کے ساتھ ہم جنس آمیزہ بنا لیتا ہے، گویا ایک طرح سے یہ رکاوٹ کسی عبوری ہم آمیزی والے علاقے کا کام کرتی ہے، جو دونوں بحیروں کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ یہ مظہر درج ذیل آیت قرآنی میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

وَ جَعَلَ بَیْنَ الْبَحْرَیْنِ حَا جِزً ا ط[45]

ترجمہ: اور پانی کے دو ذخیروں کے درمیان پردے حائل کر دئیے۔ یہ مظہر متعدد مقامات پر وقوع پزیر ہوتا ہے جن میں جبل الطارق (جبرالٹر) کے علاقے میں بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس کے ملنے کا مقام نمایاں طور پر قابل ذکر ہے۔ اسی طرح کیپ پوائنٹ اور کیپ پینسولا جنوبی افریقہ میں بھی (پانی کے بیچ) ایک سفید پٹی واضح طور دیکھی جا  سکتی ہے جہاں بحر اوقیانوس اور بحر ہند کا ایک دوسرے سے ملاپ ہوتا ہے۔

لیکن جب قرآن پاک تازہ اور کھارے پانی کے درمیان رکاوٹ (آڑ) کا تذکرہ کرتا ہے تو اس آڑ کے ساتھ ایک ممنوعہ علاقے کے بارے میں بھی بتاتا ہے:

وَ ھُوَ الَّذِ یْ مَرَ جَ الْبَحْرَ یْنِ ھٰذَا عَذْ بُ فُرَا تُ وَّ ھٰذَا مِلْحُ اُ جَا جُ وَ جَعَلَ بَیْنَھُمَا بَرْ زَ خًا وَّ حِجْرً ا مَّحْجُوْ رًا ہ[46]

ترجمہ: اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا کر رکھا ہے، ایک لذیذ و شیریں ، دوسرا تلخ و شور اور ان دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے ایک رکاوٹ ہے جو انہیں گڈمڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے۔

جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ ساحل کے نزدیکی (سمندری) مقامات پر جہاں (دریا کا)تازہ (میٹھا) اور (سمندرکا) نمکین پانی آپس میں ملتے ہیں وہاں کی کیفیت ان مقامات سے قدرے مختلف ہوتی ہے جہاں دو سمندروں کے نمکین پانی آپس میں ملتے ہیں یہ دریافت کہ کھاڑیوں (سمندر کا شاخ) میں تازہ پانی کو کھاری پانی سے جو چیز جدا کرتی ہے وہ پایکنو کلائن زون (Pycnocline Zone) ہے جس کی کثافت غیر مسلسل ہوتی ہے (یعنی گھٹتی بڑھتی رہتی ہے) جو (کھاری اور تازہ پانی کی) مختلف پرتوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھتی ہے۔[47][48]

اس رکاوٹ (یعنی علاقہ امتیاز) کے پانی میں نمک کا تنا سب (شوریت) تازہ پانی اور کھاری پانی دونوں ہی سے مختلف ہوتا ہے۔

اس مظہر کا مشاہدہ بھی متعدد مقامات پر کیا گیا ہے جن میں مصر بطور خاص قابل ذکر ہے کہ جہاں دریائے نیل بحیرہ روم میں گرتا ہے۔

قرآن پاک میں بیان کئے گئے ان سائنسی مظاہر کی تصدیق ڈاکٹر ولیم ہے’ (Dr. William Hay) نے بھی کی ہے، جو کولوراڈو یونیورسٹی امریکہ کے مشہور ماہر بحریات اور علوم ارضی کے پروفیسر ہیں۔

 

سمندر کی گہرائیوں میں اندھیرا

 

پروفیسر درگاراؤ (Darga Rao) دنیا کے جانے پہچانے ماہر بحری ارضیات ہیں اور وہ شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی ، جدہ (سعودی عرب) میں پروفیسر بھی رہ چکے ہیں۔ ان سے درج ذیل آیت مبارکہ پر تبصرہ کرنے کے لئے کہا گیا۔

اَوْکَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍلُُّجِّیٍّ یَّغْشٰہُ مَوْج مِّنْ فَوْ قِہ مَوْج مِّنْ فَوْقِہ سَحَاب ط ظُلُمٰت بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ ط اِذَآاَخْرَجَ یَدَہُ لَمْ یَکَدْ یَرٰ ہَا ط وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ لَہُ نُوْرًافَمَالَہُ مِنْ نُّوْرٍ [49]

ترجمہ:۔ یا پھراس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا ہوجس پر ایک موج چھائی ہوئی ہو۔اس کے اوپر ایک اور موج آ رہی ہو اور اس کے اوپر بادل ہو، تاریکی پر تاریکی مسلط ہے۔ آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے۔ اللہ جسے نور نہ بخشے اس کے لئے پھر کوئی نور نہیں۔

پروفیسر راؤ نے کہا کہ سائنس دان صرف حال ہی میں جدید آلات کی مدد سے یہ تصدیق کرنے کے قابل ہوئے ہیں کہ سمندر کی گہرائیوں میں تاریکی ہوتی ہے۔ یہ انسان کے بس سے باہر ہے کہ وہ 20یا 30میٹر سے زیادہ گہرائی میں اضافی سازو سامان اور آلات سے لیس ہوئے بغیر غوطہ لگا سکے۔ علاوہ  ازیں ، انسانی جسم میں اتنی قوت برداشت نہیں کہ جو 200 میٹر سے زیادہ گہرائی میں پڑنے والے آبی دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے زندہ بھی رہ سکے۔ یہ آیت تمام سمندروں کی طرف اشارہ نہیں کرتی کیونکہ ہر سمندر کو پرت در پرت تاریکی کا حامل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ البتہ یہ آیت مبارک بطور خاص گہرے سمندروں کی جانب متوجہ کرتی ہے کیونکہ قرآن پاک کی اس آیت میں بھی وسیع اور گہرے سمندر کی تاریکی کا حوالہ دیا گیا ہے، گہرے سمندر کی یہ تہہ در تہہ تاریکی دو اسباب کا نتیجہ ہے۔

1۔ عام روشنی کی ایک شعاع سات رنگوں سے مل کر بنتی ہے۔ یہ سات رنگ با ترتیب ، بنفشی ، کاسنی، نیلا، سبز، پیلا، نارنجی اور سرخ ہے۔ روشنی کی شعاع جب پانی میں داخل ہوتی ہے تو انعطاف (Refraction) کے عمل سے گزرتی ہے اوپر کے دس سے پندرہ میٹر کے دوران پانی میں سرخ رنگ جذب ہو جاتی ہے۔ لہذا اگر کوئی غوطہ خود پانی میں پچیس میٹر کی گہرائی تک جا پہنچے اور زخمی ہو جائے تو وہ اپنے خون میں سرخی نہیں دیکھ پائے گا کیونکہ سرخ رنگ کی روشنی اتنی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتی۔ اسی طرح 30سے 50میٹر تک کی گہرائی تک آتے آتے نارنجی روشنی بھی مکمل طور پر جذب ہو جاتی ہے۔ پیلی روشنی 50 سے 110میٹر تک ، سبز روشنی 100سے 200میٹر تک، نیلی روشنی 200میٹر سے کچھ زیادہ تک جبکہ کاسنی اور بنفشی روشنی اس سے بھی کچھ زیادہ گہرائی تک پہنچتے پہنچتے مکمل طور پر جذب ہو جاتی ہیں۔ پانی میں رنگوں کے اس طرح ترتیب وار غائب ہونے کی وجہ سے سمندر بھی تہہ در تہہ کر کے باریک ہوتا چلا جاتا ہے ، یعنی اندھیرے کا ظہور بھی روشنی کی پر توں کی شکل میں پیدا ہوتا ہے۔ 1000میٹر سے زیادہ کی گہرائی میں مکمل اندھیرا ہوتا ہے۔[50]

2۔ دھوپ کی شعاعیں بادلوں میں جذب ہوتی ہیں۔ جو نسبتاً روشنی کی شعاعوں کو اِدھر اُدھر بکھیرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بادلوں کے نیچے تاریکی کی ایک پرت (تہہ) سی بن جاتی ہے۔ یہ تاریکی کی پہلی پرت ہے جب روشنی کی شعاعیں سطح سمندر سے ٹکراتی ہیں تو وہ (سمندری) لہروں کی سطح سے ٹکرا کر پلٹتی ہیں اور جگمگانے کا ساتاثردیتی ہیں ، لہٰذا یہ (سمندری) لہریں ہیں جو روشنی کو منعکس کرتی ہیں تاریکی کی وجہ بنتی ہیں۔ غیر منعکس شدہ روشنی ، سمندر کی گہرائیوں میں سرایت کر جاتی ہے۔ لہٰذا سمندر کے دو حصّے ہوئے ، سطح کی امتیازی علامت روشنی اور گرمی ہیں۔ جب کہ اندھیرا سمندری گہرائیوں کی وجہ سے ہے۔ علاوہ ازیں گہرے سمندر اور سطح سمندر کو ایک دوسرے سے ممتاز کرنے والی چیز بھی لہریں ہی ہیں۔

اندرونی موجیں سمندر کے گہرے پانیوں کا احاطہ کرتی ہیں کیونکہ گہرے پانیوں کی کثافت اپنے اوپر موجود کم گہرائی والے پانیوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ اندرونی پانیوں میں تاریکی کا راج ہوتا ہے۔ سمندر کی اتنی گہرائی میں مچھلیاں بھی نہیں دیکھ سکتیں۔روشنی کا واحد ذریعہ خود انکے جسم ہوتے ہیں۔

اسی بات کو قرآن پاک نہایت جامع انداز میں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے۔

ترجمہ:۔ مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہہ میں , جسے اوپر تلے کی موجوں نے ڈھانپ رکھا ہو۔ بالفاظ دیگر ان لہروں کے اوپر مزید اقسام کی لہریں ہیں یعنی وہ لہریں جو سمندر کی سطح پر پائی جائیں۔ اسی تسلسل میں یہ آیت مبارکہ فرماتی ہے۔پھر اوپر سے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ غرض اندھیروں میں جو اوپر تلے پے درپے ہیں۔ جیسا کہ وضاحت کی گئی یہ بادل وہ پے در پے رکاوٹیں ہیں۔ جو مختلف سطحوں پر روشنی کے مختلف رنگ جذب کرتے ہوئے اندھیرے کو بڑھا وا دیتی چلی جاتی ہیں۔ پروفیسر درگا راؤ نے یہ کہتے ہوئے اپنی بات مکمل کی 1400سال پہلے کوئی عام انسان اس مظہر کو اتنی تفصیل سے بیان نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا یہ معلومات یقیناً کسی مافوق الفطرت(super natural) ذریعے سے آئی ہیں۔

ترجمہ:۔ اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔ تیرا رب بڑا ہی قدرت والا ہے۔[51]

 

ارضیات (Geology)

 

خیموں کی میخوں کی مانند پہاڑ

 

ارضیات (Geology) میں بل پڑے (Folding Phenomenon) کا مظہر حالیہ دریافت شدہ حقیقت ہے۔ قشر ارض (Earth’s Crust) میں بل پڑنے ہی کی وجہ سے پہاڑی سلسلے وجود میں آتے ہیں۔قشر ارض ، جس پر ہم رہتے ہیں ، کسی ٹھوس گولے کی طرح ہے، جبکہ کرہ زمین کی اندرونی پرتیں (layers)، نہایت گرم اور مائع ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ زمین کا اندرون کسی بھی قسم کی زندگی کے لئے قطعاً غیر موزوں ہے۔ آج ہمیں یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ پہاڑوں کے استحکام کا تعلق، قشر ارض پر پڑنے والے بل ہی ہیں جو پہاڑوں کا کام کرتے ہیں۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ زمین کا رداس (Radius) یعنی نصف قطر (Diameter) تقریباً 6035 کلو میٹر ہے اور قشر ارض یعنی (Earth Crust) ، جس پر ہم رہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں بہت پتلی ہے، جس کی موٹائی 2کلو میٹر سے لے کر 35کلو میٹر تک ہے۔ چونکہ قشر ارض بہت پتلی ہے، لہذا اس کے تھر تھرانے یا ہلنے کا امکان بھی زیادہ ہے، ایسے میں پہاڑ کسی خیمے کی میخوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ جو قشر ارض کو تھام لیتے ہیں اور اسے استحکام (Stability) عطا کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں بھی عین یہی کہا گیا ہے۔

اَ لَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدً ا ہ وَّالْجِبَا لَ اَوْ تَا دً ا ہ[52]

ترجمہ:۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔

یہاں عربی لفظ اوتاد کا مطلب بھی میخیں ہی نکلتا ہے، ویسی ہی میخیں جیسی کہ خیمے کو باندھے رکھنے کے لئے لگائی جاتی ہیں۔ ارضیاتی بلوں ، یا سلوٹوں کی گہری بنیادیں بھی یہی ہیں۔ ایک کتاب جس کا نام Earth ہے اور یہ دنیا بھر کی کئی جامعات (Universities) میں ارضیات کی بنیادی حوالہ جاتی نصابی کتاب کا درجہ بھی رکھتی ہے، اس کتاب کے مصنفین میں ایک نام ڈاکٹر فرینک پریس (Frank Press) کا بھی ہے، جو 12سال تک امریکہ اکیڈمی آف سائنسز کے سربراہ رہے ہیں۔ جبکہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے زمانے میں صدارتی مشیر بھی تھے۔ اس کتاب میں وہ پہاڑوں کی وضاحت ، کلہاڑی کے پھل (Wedge Shape) جیسی شکل سے کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہاڑ بذات خود ایک وسیع تر وجود کا ایک چھوٹا حصہ ہوتا ہے۔ جس کی جڑیں زمین میں بہت گہرائی تک اتری ہوتی ہیں۔ [53][54]

ڈاکٹر فرینک پریس کے مطابق ، قشر ارض کی پائیداری اور قیام پذیری میں پہاڑ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

پہاڑوں کے کاموں کی وضاحت کرتے ہوئے قرآن پاک واضح طور پر یہ فرماتا ہے کہ انہیں اس لئے بنایا گیا ہے تاکہ یہ زمین کو لرزتے رہنے سے بچائیں :

وَ جَعَلْنَا فِی الْاَ رْضِ رَوَسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِھِم [55]

ترجمہ:۔ اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دئیے تاکہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔

اسی طرح کے ارشادات سورة 31آیت 10سورة 10آیت 15میں بھی وارد ہوئے ہیں ، لہذا قرآن پا ک کے فراہم کردہ بیانات جدید ارضیاتی معلوم سے مکمل طر پر ہم آہنگ ہیں۔

 

پہاڑوں کو مضبوطی سے جماد یا گیا ہے

 

سطح زمیں متعدد ٹھوس ٹکڑوں یعنی پلیٹوں میں ٹوٹی ہوئی ہے جن کی اوسط موٹائی تقریباً 100کلو میٹر ہے۔ یہ پلیٹیں ، جزوی طور پر پگھلے ہوئے حصے کے اوپر تیر رہی ہیں۔ اس حصے کو ایتسیو سفیر (Aesthenosphere) کہا جاتا ہے۔ پہاڑ عموماً پلیٹوں کی بیرونی حدود پر پائے جاتے ہیں۔ قشر ارض (Earth Crust) سمندروں کے نیچے 5کلو میٹر موٹی ہوتی ہے جبکہ خشکی پر اس کی اوسط موٹائی 35کلو میٹر ہوتی ہے۔ البتہ پہاڑی سلسلوں میں قشر ارض کی موٹائی 80کلو میٹر تک جا پہنچتی ہے ، یہی وہ مضبوط بنیادیں ہیں جن پر پہاڑ کھڑے ہیں پہاڑوں کی مضبوط بنیادوں کے بارے میں قرآن پاک نے درج ذیل آیت مبارکہ میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے۔

وَ الْجِبَا لَ اَرْ سٰھَا ہ[56]

ترجمہ:۔ اور پہاڑوں کو اس نے مضبوطی سے جما دیا۔

اسی طرح کا پیغام سورة نمبر 88آیت 19میں بھی دیا گیا ہے پس یہ ثابت ہوا کہ قرآن پاک میں پہاڑوں کی خصوصیت اور نوعیت کے بارے میں دی گئی معلومات بھی پوری طرح دور جدید کی ارضیاتی دریافتوں سے ہم آہنگ ہیں۔

 

فعلیات (Physiology)

 

خون کی گردش (Blood circulation) اور دودھ۔ قرآن پاک کا نزول ، دوران خون کی وضاحت کرنے والے اولین مسلمان سائنس دان ابن النفیس سے ۶۰۰ (چھ سو)سال پہلے اور اس دریافت کو مغرب میں روشناس کروانے والے ولیم ہاوے(William Harwey) سے ۱۰۰۰ایک ہزار) سال پہلے ہوا تھا۔ تقریباً تیرہ صدیوں پہلے یہ معلوم ہوا کہ آنتوں کے اندر ایسا کیا کچھ ہوتا ہے۔ جو نظام۔ہاضمہ(Digestive System) میں انجام پانے والے افعال کے ذریعے دیگر جسمانی اعضاء کی نشو و نما کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ قرآن پاک کی ایک آیت مبارکہ ، جو دودھ کے اجزاء کے ماخذ کی وضاحت کرتی ہے اس تصور کی عین مطابقت میں ہے۔

مذکورہ بالا تصور کے حوالے سے آیت قرآنی کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا اہم ہے کہ آنتوں میں کیمیائی تعاملات (chemical reaction) واقع ہوتے ہیں اور یہ کہ آنتوں ہی سے ہضم کردہ غذا سے اخذ کیے ہوئے مادے ایک پیچیدہ نظام سے گزر کر دوران خون میں شامل ہوتے ہیں۔ کھبی وہ (مادوں )کو تمام اعضاء تک پہنچاتا ہے جن میں دودھ پیدا کرنے والے (چھاتیوں کے) غدود بھی شامل ہیں۔

سادہ الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ آنتوں میں موجود غذا کے بعض مادے آنتوں کی دیوار سے سرایت کرتے ہوئے خون کی نالیوں (Vessels)میں داخل ہو جاتے ہیں ، اور پھر خون کے راستے یہ دوران خون کے ذریعے کئی اعضا تک جا پہنچتے ہیں۔ یہ فعلیاتی تصور مکمل طور پر لازماً ہماری گرفت میں آ جائے گا۔ اگر ہم قرآن پاک کی درج ذیل آیات مبارکہ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

وَ اِ نَّ لَکُمْ فِی الْاَ نْعَا مِ لَعِبْرَ ةً ط نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْ نِہ مِنْ م بََیْنَ فَرْ ثٍ وَّ دَ مٍٍ لَّبَنًا خَا لِصًا سَآ ئِغًا لِّلشّّٰرِ بِیْنَ ہ[57]

ترجمہ:اور  ۱۰۰۰ِنَ السَّمَآ ئتمھارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے۔ ان کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان سے ہم تمھیں ایک چیز پلاتے ہیں ، یعنی خالص دودھ، جو پینے والوں کیلئے نہایت خوشگوار ہے۔

وَ اِ نَّ لَکُمْ فِی الْاَ نْعَا مِ لَعِبْرَ ةً نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْ نِہَا وَ لَکُمْ فِیْھَا مَنَا فِعُ کَثِیْرَ ةُ وَّ مِنْھَا تَا کُلُوْ نَ ہ[58]

ترجمہ:۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تمھارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے۔ انکے پیٹوں میں جو کچھ ہے اسی میں ایک چیز (یعنی دودھ )ہم تمھیں پلاتے ہیں اور تمھارے لیے ان میں بہت فائدہ بھی ہیں۔ ان میں سے بعض کو تم کھاتے ہو۔

۱۴۰۰ سال قبل ، قرآن پاک کی فراہم کردہ یہ وضاحت جو گائے میں دودھ کے پیدا ہونے کے حوالے سے ہے، حیرت انگیز طور پر جدید فعلیات (physiology) سے بھر پور انداز میں ہم آہنگ ہے جس نے اس حقیقت کو حال ہی میں دریافت کیا ہے۔

 

ریاضیات (Mathematics)

 

پانی اور خشکی قرآن میں

 

قرآن مجید میں بحر (یعنی سمندر) کا لفظ 32 مرتبہ آیا ہے اور البر (یعنی خشکی) کا لفظ 13 مرتبہ آیا ہے۔ آئیے ایک ریاضی اور سائنسی ایکویشن کے ذریعے چیک کرتے ہیں۔اس میں پہلے ہم دونوں کو جمع کرے گے پھر ایک ایک (یعنی 13 اور 32) کو ٹوٹل (یعنی 45) پہ تقسیم کرے نگے اور پرسنٹیج نکالنے کے لئے 100 سے ضرب (ملٹی پلائی) کرے نگے :

البر: 13 مرتبہ

البحر: 32 مرتبہ

دونوں : 13+32= 45

آئیے پہلے البحر یعنی سمندر یا پانی کا موازنہ کرتے ہیں :

=(32/45) 100

=71.9%

اب البر یعنی خشکی کا موازنہ کرتے ہیں۔البر کا استعمال 13 مرتبہ ہوا ہے:

=(13/45) 100

= 28.1%

کیا آپ نے غور کیا کہ سمندر کا جواب 71.9 فیصد یا اس کے تقریباً آیا اور پانی کا 28.1 فیصد۔ اور ہم جانتے ہیں کہ سمندر دنیا میں 71.9 فیصد اور خشکی 28.1 فیصد ہے لیکن یہ بات قرآن کے نشانیوں نے ہمیں 1400 پہلی بتائی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

حوالہ جات

 

  1. Muzaffar Iqbal (2007). Science & Islam. Greenwood Press.
  2. قرآن اور جدید سائنس، مصنّف : ڈاکٹر ذاکر نائیک، صفحات 14-8
  3. قرآن، بائبل اور جدید سائنس، مصنّف: ڈاکٹر موریس بوکائے، صفحہ 45
  4. اسلام اور جدید سائنس، مصنّف: ڈاکٹر طاہر القادری، صفحہ 152
  5. القرآن، البقرۃ، 2 : 23، 24
  6. القرآن، الانبیاء، 21 : 30
  7. القرآن ، الذاریات، 51 : 47
  8. قرآن اور جدید سائنس، مصنّف : ڈاکٹر ذاکر نائیک، صفحات 14-8
  9. القرآن ، سورة طٰہ ، سورة 20 : آیت 53
  10. القرآن ، سورة الرعد ، سورة 13 : آیت 3
  11. القرآن ، سورة الذاریٰت، سورة 51 : آیت 49
  12. القرآن ، سورة یٰس، سورة ۳۳۶ : آیت ۳۳۶
  13. القرآن ، سورة انعام سورة 6: آیت 38
  14. القرآن ، سورة النحل سورة 16: آیت 79
  15. القرآن ، سورة الملک ،سورة 67: آیت 19
  16. القرآن ، سورة النحل سورة 16: آیت 68 تا 69
  17. القرآن ، سورة العنکبوت،سورة 29: آیت 41
  18. القرآن ، سورة النمل،سورة 27: آیت 18 تا 17
  19. القرآن ،سورة النحل 16سورةآیت69
  20. القرآن : سورة ۷۵ آیات ۳ تا ۴
  21. القرآن : سورة ۴: آیت ۵۶
  22. القرآن ، سورة الطاّرق، سورة 86: آیات 5تا7
  23. القرآن ، سورة السجدّہ ۳۲: آیت ۸
  24. القرآن : سورة ۷۶ آیت ۲
  25. القرآن : سورة 53، آیات 46-45
  26. القرآن : سورة ۷۵ آیات ۳۷ تا ۳۹
  27. القرآن ، سورة 39: آیت6
  28. القرآن ، سورة ۲۳: آیات ۱۲ تا ۱۴
  29. القرآن ، سورة ۷۵ آیات ۳۷تا ۳۹
  30. القرآن ، سورة ۸۲: آیات ۷تا ۸
  31. القرآن ، سورة حج، سورة ۲۲: آیت ۵
  32. القرآن ، سورة ۳۳۲: آیت ۹
  33. القرآن ، سورة ۷۶: آیت ۲
  34. القرآن ، سورة ۲۳: آیت ۷۸
  35. القرآن ، سورة 39آیت 21
  36. القرآن ، سورة 30 آیت 24
  37. القرآن ، سورة 23آیت 18
  38. القرآن ،سورة 86آیت11
  39. القرآن ،سورة 15آیت 22
  40. القرآن ،سورة نمبر24آیت 43
  41. القرآن، سورة نمبر30آیت 48
  42. القرآن ، سورة 34آیت 3
  43. القرآن ، سورة الرحمٰن سورة 55آیت 20تا 19
  44. پرنسپلز آف او شو گرافی از ڈیوس صفحہ 92تا93
  45. القرآن ، سورة النمل سورة نمبر27آیت61
  46. القرآن ، سورة الفرقان سورة 25آیت 53
  47. انٹروڈکٹری او شنوگرافی، از تھر میں صفحہ 300 تا301
  48. اوشنوگرافی، صفحہ244
  49. القرآن ، سورة النور سورة 24آیت 40
  50. اوشنز از ایلڈ اور پرنیٹا صفحہ 27
  51. القرآن ، سورة الفرقان 25آیت 54
  52. القرآن ، سورة 78آیت 6تا 7
  53. زمین (Earth) از پریس اور سیور ، صفحہ 435
  54. زمین کی سائنس (Earth science) از پریس اور سیور ، صفحہ 157
  55. القرآن ، سورة نمبر 21آیت 31
  56. القرآن ، سورة نمبر 79آیت 32
  57. القرآن ، سورة 16آیت 667
  58. القرآن ، سورة23آیت21

٭٭٭

ماخذ:

https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86_%D8%A7%D9%88%D8%B1_%D8%AC%D8%AF%DB%8C%D8%AF_%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%B3

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید