فہرست مضامین
- فہم مضامین قرآن
- اظہار تشکر
- یکم رمضان المبارک
- (1)سورہ الفاتحہ رکوع 1
- (2)سورہ البقرہ رکوع 1تا 21
- پارہ دوم
- دو رمضان المبارک
- (2)سورۃ البقرۃ (جاری) رکوع 22تا 40
- پارہ سوم
- (3)سورۃ اٰلِ عمران رکوع 1تا 2
- تین رمضان المبارک
- چار رمضان المبارک
- (4)سورۃ النساء رکوع 1تا 20
- پارہ پنجم
- پانچ رمضان المبارک
- (4)سورۃ النساء (جاری) رکوع 21تا 24
- پارہ ششم
- (5)سورۃ المائدہ رکوع 1تا 16
- پارہ ہفتم
- چھ رمضان المبارک
- (6)سورۃ الانعام رکوع 1تا 20
- پارہ ہشتم
- سات رمضان المبارک
- (7) سورۃ الاعراف رکوع 1تا 24
- پارہ نہم
- آٹھ رمضان المبارک
- (8)سورۃ الانفال رکوع 1تا 10
- پارہ دہم
- (9)سورۃ التوبہ رکوع 1تا 12
- نو رمضان المبارک
- (9)سورۃ التوبہ (جاری) رکوع 12تا 16
- (10)سورۃ یونس رکوع 1تا 11
- (11)سورۃ ہود رکوع 1تا 4
- دس رمضان المبارک
- (11) سورۃ ہود (جاری) رکوع 5تا 10
- (12)سورۃ یوسف رکوع 1تا 12
- پارہ تیرہ
- (13)سورۃ الرعد رکوع 1تا 2
- گیارہ رمضان المبارک
- (13) سورۃ الرعد (جاری) رکوع 3تا 6
- (14) سورۃ ابراہیم رکوع 1تا 7
- پارہ چودہ
- (15)سورۃ الحجر رکوع 1تا 6
- (16)سورۃ النحل رکوع 1تا 12
- بارہ رمضان المبارک
- (16)سورۃ النحل (جاری) رکوع 13تا 16
- (17)سورۃ بنی اسرائیل رکوع 1تا 12
- (18)سورۃ الکہف رکوع 1تا 10
- تیرہ رمضان المبارک
- (18 )سورۃالکہف (جاری) رکوع 11تا 12
- (19) سورۃ مریم رکوع 1تا 6
- (20) سورۃ طٰہٰ رکوع 1تا 8
- پارہ سترہ
- (21)سورۃ انبیاء رکوع 1تا 4
- چودہ رمضان المبارک
- (21) سورۃ الانبیاء (جاری) رکوع 5تا 7
- (22) سورۃ حج رکوع 1تا 10
- پارہ اٹھارہ
- (23) سورۃ المومنون رکوع 1تا 6
- (24) سورۃ نور رکوع 1تا 2
- پندرہ رمضان المبارک
- (24) سورۃ النور (جاری) رکوع 3تا 9
- (25) سورۃ الفرقان رکوع 1تا 6
- (26) سورۃ الشعراء رکوع 1تا 11
- سولہ رمضان المبارک
- (27) سورۃ النمل (جاری) رکوع 2تا 7
- (28) سورۃ القصص رکوع 1تا 9
- (29) سورۃ العنکبوت رکوع 1تا 4
- سترہ رمضان المبارک
- (29) سورۃ العنکبوت (جاری) رکوع 5تا 7
- (30) سورۃ الروم رکوع 1تا 6
- (31) سورۃ لقمان رکوع 1تا 4
- (32) سورۃ السجدہ رکوع 1تا 3
- (33) سورۃ الاحزاب رکوع 1تا 8
- پارہ بائیس
- اٹھارہ رمضان المبارک
- (33) سورۃ الاحزاب (جاری) رکوع 9
- (35) سورۃ فاطر رکوع 1تا 5
- (36) سورۃ یٰس رکوع 1تا 5
- پارہ تئیس
- (37) سورۃ الصّٰفّٰت رکوع 1تا 5
- انیس رمضان المبارک
- (38) سورۃ ص رکوع 1تا 5
- (39) سورۃ الزمر رکوع 1تا 8
- پارہ چوبیس
- (40) سورۃ المؤمن رکوع 1تا 9
- بیس رمضان المبارک
- (41) سورۃ حٰم السجدۃ رکوع 1تا 6
- (42) سورۃ الشوریٰ رکوع 1تا 5
- (43) سورۃ الزخرف رکوع 1تا 7
- (44) سورۃ الدخان رکوع 1تا 3
- (45) سورۃ الجاثیہ رکوع 1تا 4
- اکیس رمضان المبارک
- (46) سورۃ الاحقاف رکوع 1تا 4
- (47) سورۃ محمدؐ رکوع 1تا 4
- (48) سورۃ الفتح رکوع 1تا 4
- (49) سورۃ الحجرات رکوع 1تا 2
- (50) سورۃ ق رکوع 1تا 3
- (51) سورۃ الذٰریٰت رکوع 1تا 2
- بائیس رمضان المبارک
- (51) سورۃ الذٰریٰت رکوع 2تا 3
- (52) سورۃ الطور رکوع 1تا 2
- (53) سورۃ النجم رکوع 1تا 3
- (54) سورۃ القمر رکوع 1تا 3
- (55) سورۃ الرحمٰن رکوع 1تا 3
- (56) سورۃ الواقعہ رکوع 1تا 3
- (57) سورۃ الحدید رکوع 1تا 4
- تئیس رمضان المبارک
- پارہ اٹھائیس
- (58) سورۃ المجادلۃ رکوع 1تا 3
- (59) سورۃ الحشر رکوع 1تا 3
- (60) سورۃ الممتحنہ رکوع 1تا 2
- (61) سورۃ الصّف رکوع 1تا 2
- (62) سورۃ الجمعۃ رکوع 1تا 2
- (63) سورۃ المنافقون رکوع 1تا 2
- (64) سورۃ التغابن رکوع 1تا 2
- (65) سورۃ الطلاق رکوع 1تا 2
- (66) سورۃ التحریم رکوع 1تا 2
- چوبیس رمضان المبارک
- (67) سورۃ الملک رکوع 1تا 2
- (68 ) سورۃ القلم رکوع 1تا 2
- (69) سورۃ الحاق رکوع 1تا 2
- (70) سورۃ المعارج رکوع 1تا 2
- (71) سورۃ نوح رکوع 1تا 2
- (72) سورۃ الجن رکوع 1تا 2
- (73) سورۃ المزمل رکوع 1تا 2
- (74) سورۃ المدثر رکوع 1تا 2
- پچیس رمضان المبارک
- (75) سورۃ القیامۃ رکوع 1تا 2
- (76) سورۃ الدھر رکوع 1تا 2
- پارہ تیس
- (78 ) سورۃ النبا رکوع 1تا 2
- (79) سورۃ النّٰزعٰت رکوع 1تا 2
- (80) سورۃ عبس
- (81) سورۃ التکویر
- (82) سورۃ الانفطار
- چھبیس رمضان المبارک
- (83) سورۃ المطففین
- (84) سورۃ الانشقاق
- (85) سورۃ البروج
- (86) سورۃ الطارق
- (87) سورۃ الاعلیٰ
- (88) سورۃ الغاشیہ
- (89)سورۃ الفجر
- (90)سورۃ البلد
- (91) سورۃ الشمس
- (92)سورۃ الیل
- (93)سورۃ الضحیٰ
- (94)سورۃ الم نشرح
- (95)سورۃ التین
- ستائیس رمضان المبارک
- (96)سورۃ العلق
- (97)سورۃ القدر
- (98)سورۃ البینہ
- (99)سورۃ الزلزال
- (100)سورۃ العٰدیٰت
- (101)سورۃ القارعہ
- (102)سورۃ التکاثر
- (103)سورۃ العصر
- (104)سورۃ ہمزہ
- (105)سورۃ الفیل
- (106)سورۃ قریش
- (107)سورۃ الماعون
- (108)سورۃ الکوثر
- (109)سورۃ الکافرون
- (110)سورۃ النصر
- (111)سورۃ اللھب
- (112)سورۃ الاخلاص
- (113)سورۃ الفلق
- (114)سورۃ الناس
- سوچنے کی بات
فہم مضامین قرآن
مرتبہ: سرفراز محمد بھٹی
پیشکش: تجمل حسین
"اور کیا ان لوگوں کے لیے یہ (نشانی) کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل، جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے ؟ در حقیقت اس میں رحمت ہے اور نصیحت اُن لوگوں کے لیے، جو ایمان لاتے ہیں۔ ”
قُرآن (51:29)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
اما بعد: قرآن حکیم اللہ جل شانہ کا آخری صحیفہ ہدایت ہے جو حضور رسولِ آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوا۔ اس میں قیامت تک کے تمام فکری، تہذیبی، تمدنی، اجتماعی ضروریات پورا کرنے کی مکمل رہنمائی موجود ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اس دستورِ حیات کے مندرجات کو جان کر ان پر غور و فکر کر کے اسے سمجھا جائے اور اپنی زندگی کے ہر پہلو پر عملی طور پر اسے لاگو کر کے اس مقصدِ عظیم کو حاصل کیا جائے جس کے لئے پروردگارِ عالم نے ہماری تخلیق فرمائی۔
آج تک ہمارا زور صرف تلاوتِ قرآن حکیم پر ہی رہا ہے یہ عمل ہے تو حصولِ رحمت و برکت کا باعث، لیکن یہ انسان کو اصل منزل تک نہیں پہنچاتا۔ اللہ کریم فرماتا ہے کہ یہ دنیا دار العمل ہے اس میں انسان کو امتحان کے لئے بھجوایا گیا ہے اور یہ زندگی اس نے محنت و مشقت سے بسر کرنا ہے۔ اگر یہ محنت و مشقت اللہ کے حکموں کے بجا لانے میں ہو تو کامیابی اور اگر خواہشاتِ نفس کو پورا کرنے کے لئے ہو تو ناکامی۔ اب حکموں کو جاننے کے لئے قرآن کے مطالب جاننے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہم عربی زبان سے نابلد ہیں اس لئے تلاوت کے ساتھ ترجمہ پڑھے بغیر ہم مقصد تو نہیں پا سکتے۔ اسے اگر دوسری طرح بھی دیکھیں کہ اللہ کریم نے کتابِ رحمت میں توحید کے بعد سب سے زیادہ عقیدہ آخرت کو بیان فرمایا ہے کہ مر کر دوبارہ زندہ ہونا ہے، حساب کتاب حق ہے اور پھر اعمال کے مطابق دائمی جزا و سزا۔ اعمالِ صالح کے لئے پھر ہمیں احکامِ الٰہی جاننا ضروری ہیں اور اس کو ترجمہ کے ذریعے ہی جانا جا سکتا ہے۔
غالباً نظامِ تراویح اسی لئے وضع کیا گیا ہو گا کہ سامع قرآن سننے کے ساتھ احکامِ الٰہی کا بھی اعادہ کر لے تاکہ اگلے سال پھر وہ بہتر زندگی گزار سکے۔ اسی ضرورت کو مدِ نظر رکھ کر یہ کتابچہ مرتب کیا گیا ہے کہ کسی کے پاس اگر اتنا وقت نہیں کہ وہ اس سوا پارہ کا ترجمہ دن میں پڑھ لے جس کی تلاوت شام کو تراویح میں سننا ہے تو کم از کم اس کتابچہ سے چند صفحات پڑھ کر ان موضوعات اور اشارات کو جان لے جن پر اس شام اس نے کلامِ پاک سننا ہے۔ جان لیجئے کہ خلاصہ جیسا کہ یہ کتابچہ ہے کبھی اصل کتاب کا بدل نہیں ہو سکتا اس لئے اس کتابچہ کو ترتیب دیتے ہوئے اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ اسے پڑھنے سے قاری کو تشنگی کا احساس ہو اور وہ تفصیل جاننے کے لئے قرآن حکیم کی جانب راغب ہو۔ یہ کتابچہ قرآن حکیم کا ترجمہ نہیں بلکہ صرف مختصر مفہوم دیا گیا ہے۔ اسے مرتب کرنے میں ہر ممکن احتیاط برتی گئی ہے۔ اس کی تکمیل کے بعد محترم مولانا قاری محمد شریف صاحب نے اس کو بغور دیکھا پھر محبّی محترم رائے فقیر محمد صاحب فاضل علومِ دینی و فیلو چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ نے اس کو دیکھ کر جامعہ نعیمیہ میں جناب ڈاکٹر محمد سرفراز حسین نعیمی صاحب کو نظرِ ثانی کے لئے دیا۔ میں ان تمام حضرات کا تہہ دل سے مشکور و ممنون ہوں کہ ان کی تجاویز اور رہنمائی کے باعث بیان اور نکھر گیا۔
ان انتہائی کوششوں کے باوجود اگر کوئی کوتاہی باقی ہو تو میں اس کے لئے صدقِ دل سے توبہ کرتا ہوں اور اپنے ربِّ کریم سے معافی اور بخشش کا طالب ہوں۔ اہل علم سے بھی درخواست ہے کہ اگر کوئی غلطی ان کی نظر میں آئے تو احقر کو مطلع کریں تاکہ آئندہ اشاعت میں اس کی تصحیح کی جا سکے۔
میں جناب محمد انور صاحب کا بھی ممنون ہوں جنہوں نے بہت کم وقت میں اسے کمپوز کیا۔ جناب محمد معظم حمید صاحب اور احمد فراز بھٹی صاحب کی معاونت کے لئے بھی مشکور ہوں۔
اب مجھے اپنے جہل کا اقرار کرنا ہے کہ میں کوئی عالم نہیں صرف رحمتِ الٰہی اور ایک لگن سے اس کی تکمیل ممکن ہو سکی ہے۔
آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ کریم اس ناچیز بندے کی اس کاوش کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے، اسے توشۂ آخرت بنائے اور اس کے پڑھنے اور سننے والوں کو دولتِ ہدایت و عمل سے نوازے اور تمام محسنین کو جنہوں نے میری رہنمائی اور معاونت فرمائی ہے دنیا اور آخرت میں اجر خیر کثیر سے نوازے۔ اللہ کریم میرے والدین، عزیز و اقربا اور تمام مسلمانوں کو مغفرت اور اخروی نعمتوں سے نوازے۔ آمین ثم آمین۔
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم
وتب علینا انک انت التواب الرحیم
256۔ ستلج بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور
بندہ راجی شفاعت غفران
28شعبان المعظم 1424ھ
سرفراز محمد بھٹی
22ستمبر 2006ء
اظہار تشکر
فہم مضامین قرآن کا مجھ جیسے بے علم شخص کا ہاتھ سے تحریر میں لانا اللہ تعالیٰ کی ایک خاص عنایت تھی۔ انتہائی کوشش کے باوجود اس میں ابھی املا کی چند غلطیاں موجود تھیں کہ اللہ کریم نے اس سقم کو دور کرنے کا فریضہ اپنے ایک مخلص اور مقبول بندے جناب ملک مقبول احمد (مالک مقبول اکیڈمی) کو سونپا تو مقبول صاحب نے اس کا اظہار مجھ سے فرمایا میرے لئے یہ امر انتہائی خوش کن تھا۔ چنانچہ درستگی کے ساتھ ان کی خواہش کی تکمیل میں دو ایک مقامات پر مزید بہتری بھی لائی گئی۔ اب جناب ملک مقبول احمد صاحب اس کتاب کو ایک بہتر شان کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ ان کی اس سعی اور جذبہ کو منظور و مقبول فرمائے اور اس کاوش کو ان کے لئے توشہ آخرت بنائے۔ آمین۔ ثم آمین۔
سرفراز محمد بھٹی عفی عنہ
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں شیطان مردود (کے شر) سے
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
یکم رمضان المبارک
پارہ اول سورہ فاتحہ رکوع 1
سورہ بقرہ 1تا 16 رکوع
پارہ دوم سورہ بقرہ 17تا 21 رکوع
(1)سورہ الفاتحہ رکوع 1
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم والا ہے
الفاتحہ قرآن حکیم کی پہلی سورہ ہے جسے کلام الٰہی کا مقدمہ، دیباچہ اور خلاصہ کہا گیا ہے۔ اس کا اسلوب دعائیہ ہے۔ علماء کا قول ہے کہ یہ دعا ہے اور قرآن اس دعا (طلب ہدایت) کا جواب ہے۔
تمام تعریف ستائش حمد و ثناء کے لائق وہ ذاتِ اقدس ہے جو عالموں کا رب ہے جو رحمت والا ہے اور جس کی رحمت تمام مخلوقات کو اپنی بخششوں سے مالا مال کر رہی ہے۔ جو اس دن کا مالک ہے جس دن اعمال کا بدلہ لوگوں کے حصے میں آئے گا۔ (خدایا) ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور صرف تو ہی ہے جس سے (اپنی ساری احتیاجوں میں ) مدد مانگتے ہیں (خدایا) ہم پر (سعادت کی) سیدھی راہ کھول دے۔ وہ راہ جو ان لوگوں کی راہ ہوئی جن پر تو نے انعام کیا۔ نہ ان کا جن پر غضب کیا گیا نہ ان کا جو گمراہ ہوئے۔
(2)سورہ البقرہ رکوع 1تا 21
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم والا ہے
رکوع1۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: کہ یہ کتاب ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہے اس میں جو تعلیم دی گئی ہے وہی صراط مستقیم اور جو وعدے کیے گئے ہیں وہ یقینی طور پر پورے ہوں گے۔ یہ ان لوگوں کے راہ ہدایت ہے جنہوں نے اسلامی نظریۂ حیات قبول کیا، جنہیں سچائی طلب و تلاش ہے اور آخرت کی جواب دہی پر یقین ہے۔
یہ لوگ جو متقی ہیں، غیب پر ایمان لاتے، نماز پابندی سے ادا کرتے، نیکی کی راہ میں مال خرچ کرتے، تمام آسمانی کتابوں اور الہامی نوشتوں پر ایمان رکھتے، جزا اور سزا کے دن پر یقین رکھتے ہیں بلاشبہ یہی ہدایت یافتہ اور کامیاب لوگ ہیں۔ جو لوگ انکارِ حق کے عادی ہو چکے ہیں وہ کسی طرح ماننے والے نہیں۔ اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہریں لگا دی ہیں اور آنکھوں پر پردے تان دیئے ہیں اور ان کے لیے عذابِ عظیم تیار ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: منافق، ایماندار ہونا ظاہر کرتے ہیں پر دل سے نہیں۔ یہ بظاہر اللہ اور مومنوں کو دھوکہ دیتے ہیں لیکن خود دھوکے میں ہیں۔ یہ جھوٹے ہیں اور ان کے دلوں میں نفاق کا روگ ہے۔ ان کو فساد سے روکیں تو کہتے ہیں ہم اصلاح کر رہے ہیں۔ صحیح ایمان والوں کو بے وقوف کہتے ہیں۔ یہ خود جھوٹے اور بے وقوف ہیں۔ ان کے لیے عذاب الیم تیار ہے۔ یہ اللہ کے گھیرے میں ہیں وہ جب چاہے ان کی سماعت اور بصارت سلب کر لے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: کہ صرف اپنے خالق کی بندگی کرو۔ وہی کل کائنات کا خالق، مالک اور پروردگار ہے۔ قوت و حیات اس کے قبضۂ اختیار میں ہے۔ اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور یہ جہنم کے نافرمانوں کے لیے ہے۔ نیکوکاروں کو جنت کی خوشخبری ہے۔ تمہارے پروردگار نے کائنات زمین میں خزانے، سات آسمان، سورج، چاند، ستارے بنائے۔ بارش کے ذریعے تمہیں فائدے پہنچائے۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: اللہ نے انسان کو زمین پر نائب و خلیفہ بنانے کا فیصلہ کیا تو جن و ملائکہ کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کریں۔ صرف ابلیس نے تکبر کیا اور سجدہ سے انکار کیا تو مردود ٹھہرا اور قیامت تک کے لیے آدم اور ذریتِ آدم کا دشمن بن گیا۔ انسان کو دنیا کی امتحان گاہ میں بھیجا گیا کہ جو ہدایت پر چلیں گے انعام پائیں گے اور جو بھٹک کر شیطان کی پیروی کریں گے، آیات کا انکار کریں گے جہنم کا ایندھن بنیں گے۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ یہاں سے بنی اسرائیل کی تاریخ، ان کی فضلیت، لغزشوں، گناہوں اور پھر فضیلت کے چھن جانے کا بیان ہے جس میں عبرت اور نصیحت ہے۔ فرمایا: نماز قائم کرو۔ زکوٰۃ ادا کرو اور نماز میں جھکنے والوں کے ساتھ جھکو۔ اپنے معاملات کے حل کے لیے صبر و صلوٰۃ سے مدد لو۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل پر کیے گئے احسان بتلائے۔ فرمایا: کہ قیامت کے دن ہر ایک کو اپنی فکر ہو گی۔ کوئی نہ سفارش کر سکے گا نہ مجرم چھڑوا سکے گا۔ فرعون کے بنی اسرائیل پر مظالم اور فرعون کی تباہی بیان ہوئی۔ قوم موسیٰ علیہ السلام کا بچھڑے کی پوجا، من و سلویٰ کے نزول کا تذکرہ ہوا۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پانی مانگا تو بارہ چشمے عطا کیے گئے۔ پھر بنی اسرائیل کے کفرانِ نعمت، حکم عدولی، نبیوں کے ناحق قتل اور پھر ان پر عذاب کا مسلط ہونا بیان ہوا۔
رکوع 8۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے نظریہ کی نفی کی کہ وہ نبیوں کی اولاد ہونے کی وجہ سے زیادہ مقرب ہیں۔ فرمایا: تقرب صرف صحیح ایمان اور عمل صالح کرنے سے ہی ہو گا۔
رکوع 9۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: بڑے دلائل اور معجزات کے باوجود بنی اسرائیل کے دل موم ہونے کی بجائے پتھر ہو گئے جن پر کوئی بات کارگر نہیں ہوتی وہ خود کو جنت کے ٹھیکیدار سمجھتے۔ فرمایا: عذابِ جہنم سے نجات کسی قوم کا میراث نہیں بلکہ جو صاحب ایمان عمل صالح کرے گا، جنت میں داخل ہو گا۔
رکوع 10۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: کہ بنی اسرائیل نے اعمالِ صالح کے سب عہد توڑے۔ فسق و فجور میں مبتلا ہوئے۔ پس دنیا میں ذلیل و خوار ہوئے اور روز جزا میں بھی سخت ترین عذاب کا لقمہ بنیں گے جس میں کوئی کمی نہ آئے گی نہ ان کو کہیں سے مدد ملے گی۔
رکوع 11۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام ان پر مبعوث کیے گئے لیکن بنی اسرائیل نے تکبر اور سرکشی اختیار کی اور اپنی نفسانی خواہشات کی اتباع کی۔ اس کے باوجود خود کو مومن اور جنت کا ٹھیکیدار سمجھتے اور نجات کو اپنا حق سمجھتے۔ لمبی عمر کی حرص کرتے ہیں کہ عمر ہزار سال پائیں۔ یہ عذاب سے نہیں بچ سکتے۔
رکوع 12۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان نہ لانے کے عذر پیش کرتے۔ کتاب اللہ کی مخالفت کرتے۔ جادو، سفلی عملیات، تعویذ گنڈوں اور ٹونوں ٹوٹکوں جیسے شیطانی عملیات کی پیروی کرتے۔ فرمایا: جو شخص اپنے ایمان کے عوض ان شیطانی عملیات کو حاصل کرنے کا گھاٹے کا سودا کرتا ہے اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔
رکوع 13۔ ۔ ۔ ۔ مسلمانوں کو فرمایا: کہ یہود کی طرح ذو معنی لفظ "راعنا” سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو نہ پکاریں بلکہ "انظرنا” کہا کرو۔ فرمایا: نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو صرف نیکو کار جنت میں جائیں گے۔
رکوع 14۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: مشرق و مغرب سب اللہ ہی کا ہے۔ اس کی کوئی اولاد نہیں۔ جس کام کو حکم دیتا ہے کہ "ہو جا” وہ ہو جاتا ہے۔ وہ ہر چیز کا خالق و مالک ہے۔ نافرمانوں کے لیے دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں سخت عذاب ہے۔ فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سچ کے ساتھ بھیجا ہے۔ نیکوکاروں کو خوشخبری دینے اور نافرمانوں کو مواخذۂ الٰہی سے ڈرانے والا۔ اصل مومن وہ ہیں جو قرآن کو اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح پڑھنے کا حق ہے اور انکار والے دنیا اور آخرت میں خسارے میں رہیں گے۔
رکوع 15۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل کو احسان یاد دلائے اور فرمایا: کہ یہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کا صلہ ہے کہ ان کی اولاد کو امامت اور پیشوائی دی۔ ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ تعمیر کر کے دعا کی کہ الٰہی اس شہر کو امن والا شہر بنا اور یہاں بسنے والوں کے لئے میوے اور پھلوں کی بہتات کر دے۔ ہماری خطاؤں سے درگزر فرما اور یہاں بسنے والوں کے لیے انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو تیری آیتیں انہیں پڑھ کر سنائے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔
رکوع 16۔ ۔ ۔ ۔ توحید پر بات ہوئی۔ انبیاء کرام کے نام گنوا کر فرمایا: اُخروی نجات کے لیے اعمالِ صالح ضروری ہیں۔ مطلق نسب و نسبت پر مان کر کے اعمالِ صالح نہیں ترک کرنے چاہئیں۔ اس کے لیے نیک اعمال ضروری ہیں۔ فرمایا: دنیوی لالچ میں دینِ حق کو چھپانا بڑا ظلم ہے۔ فرمایا: ہر ایک کو اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔
پارہ دوم
رکوع 17۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آرزو دیکھ کر خانۂ خدا کو قبلہ قرار دیا ہے۔ پہلے تم بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے اب خانہ کعبہ کی طرف۔ جان لو سب سمتیں اللہ ہی کی ہیں۔
رکوع 18۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: بیت اللہ اب دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے قیامت تک کے لیے قبلہ مقرر کیا گیا ہے۔ دعائے ابراہیم علیہ السلام کے مطابق تم ایک اللہ، ایک رسول صلی اللہ علیہ و سلم، ایک کتاب اور ایک قبلہ کا پیروکار بنایا تاکہ تم باہم متحد رہو اور اپنے محسنِ حقیقی کے احسانات کو یاد رکھو، کفرانِ نعمت سے بچتے رہو۔ اللہ کی رحمت کے دروازے تم پر کھلے رہیں گے۔
رکوع 19۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا کہ: دنیا میں کامیابی کے لیے کچھ مشکلات سے دوچار ہونا لازمی ہے۔ تم صبر و رضا، نماز و دعا کے ذریعے اللہ کی مدد حاصل کرو۔ فرمایا: اللہ کی راہ میں جان دینے والے مرتے نہیں اور ہمیشگی کی زندگی پاتے ہیں لیکن تم کو اس کا شعور نہیں۔ جان لو حج و عمرہ کے مراسم صرف رسمیں نہیں بلکہ صفا اور مروہ اللہ کی نشانیاں ہیں۔ ان نشانیوں سے نیکی کا جذبہ پیدا ہونا چاہیے اور انسان گناہوں سے پاک ہو کر اللہ کے حضور سرِ تسلیم خم کر دے۔ فرمایا: خوف و طمع کی خاطر اللہ کے حکموں کو چھپانے والوں پر اللہ کی پھٹکار اور تمام مخلوقات کی لعنت ہے۔ صرف وہی معبودِ حقیقی معبودِ واحد ہے اس کے علاوہ کوئی قابل بندگی و پرستش نہیں۔
رکوع 20۔ ۔ ۔ ۔ رات اور دن کا چھوٹا بڑا ہونا، کشتیوں کا سمندر میں چلنا، بارش سے مردہ زمین کا زندہ ہونا، ہواؤں اور بادلوں کو قابو میں رکھنا عقل مندوں کے لیے اللہ کی نشانیاں ہیں۔
رکوع 21۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: حلال اور پاک چیزیں کھاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ تم پر مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور جس کو غیر اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو، حرام کیے گئے ہیں۔ مجبوری میں کہ زندگی ختم ہو رہی ہو تو حرام شے کی اجازت اس حد تک دی گئی ہے کہ جان بچ جائے۔
دو رمضان المبارک
پارہ دوم سورۃ البقرۃ رکوع 22تا 33
پارہ سوم سورۃ البقرۃ رکوع 33تا 40
پارہ سوم سورۃ آل عمران رکوع 1تا 2
(2)سورۃ البقرۃ (جاری) رکوع 22تا 40
رکوع 22۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: کہ اصل نیکی یہ ہے کہ ایمان لائے اللہ پر، قیامت پر، فرشتوں، کتابوں اور پیغمبروں پر اور اللہ خوشنودی کے لیے رشتہ داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں اور معاشرہ میں پھنسے محکوموں کو آزاد کرانے کے لیے مال خرچ کرے اور نماز کی پابندی، زکوٰۃ کی ادائیگی، ایفائے وعدہ اور مصائب میں صبر کرنے والے سچے متقی اور نیکو کار ہیں۔
فرمایا: قتل کا بدلہ قصاص ہے لیکن رضامندی کے ساتھ خون بہا اور معاف کرنا بھی جائز کر دیا۔ ترکہ چھوڑنے والا ورثاء کو جھگڑوں سے بچانے کے لیے دستور اسلامی کے تحت وصیت کر جائے۔
رکوع 23۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم میں پرہیز گاری پیدا ہو۔ یہ گنتی کے دن ہیں اور اس کے بے شمار فائدے ہیں اور اجتماعی تربیت بھی ہے۔ مریض اور مسافر مجبور ہوں تو دوسرے دنوں میں روزے پورے کر لیں اور ناتوان و کمزور جو روزہ نہ رکھ سکیں وہ فدیہ کے طور پر کسی غریب یا حاجت مند کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلا دیں۔
اسی مہینہ میں قرآن نازل ہوا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اس کے ہر حکم میں ان گنت برکتیں اور حکمتیں بھری ہوئی ہیں۔ فرمایا: کہ پوچھنے والوں کو بتا دیں کہ میں ان کے قریب ہوں اور ہر پکارنے والے کی پکار سنتا اور دعا قبول کرتا ہوں۔ شرط یہ ہے کہ میرا حکم مانیں پھر روزہ کے آداب و احکام بیان کیے گئے۔ فرمایا: کہ ایک دوسرے کا مال، دھوکہ، فریب، ظلم، زیادتی، خیانت و بے انصافی وغیرہ سے مت کھاؤ۔ نہ ہی رشوتیں دو۔
رکوع 24۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: نئے چاند لوگوں کے لیے وقت کا حساب کرنے کا آلہ ہیں۔ ان کے ذریعے عبادات اور حج کے اوقات مقرر کیے جاتے ہیں۔ فرمایا: اللہ کی راہ میں جنگ کرو لیکن زیادتی نہ کرو۔ فتنہ قتل سے بدتر ہے۔ مسجد الحرام کے پاس قتال نہ کرو اگر کوئی حملہ کرے تو جواب دو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو جائے۔ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ حرمت والے مہینوں کا احترام کرو۔ نیکی اور حسنِ سلوک کرو۔ حج و عمرہ صرف اللہ کی رضا کے لیے ہوں ان کے حدود و قواعد، احکام و فرائض پورے کرو۔
رکوع 25۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: حج کے مہینے مقرر ہیں اور اس سلسلے میں ضروری احکام بیان فرمائے۔ فرمایا: اچھی دعا دنیا و آخرت میں کامیابی کا مانگنا ہے۔ صرف دنیا میں آسائش مانگنے والوں کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔ نیکی کی اصل تقویٰ ہے۔ غرور اور فساد اللہ کو ناپسند ہیں۔ فرمایا: اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔ دانستہ غلطی نہ کرو۔ بنی اسرائیل سے عبرت حاصل کرو۔ مومنوں کا مذاق نہ اڑاؤ۔ شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔ راہِ ہدایت سے نہ بھٹکو کہ تمہارے پاس واضح نشانیاں آ چکی ہیں۔
رکوع 26۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: بنی اسرائیل کو ہم نے کیسی کھلی نشانیاں دکھائی ہیں۔ نعمت پا لینے کے بعد نافرمانوں کو سزا سامانِ عبرت و بصیرت ہے۔ ابتدا میں تمام انسان امتِ واحدہ تھے۔ جب لوگوں کے عقائد میں اختلاف ہوتا پیغمبر بھجوائے جاتے جو ان کے اختلاف ختم کرتے۔ پھر مال کو والدین، قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں پر خرچ کرنے کا حکم دیا۔ اللہ نے مسلمانوں کو جہاد/قتال کی اجازت دے دی۔
رکوع 27۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: حرمت والے مہینوں میں جنگ بڑا گناہ ہے۔ لیکن فتنہ قتل سے بڑا گناہ ہے۔ مرتد کی سزا دائمی جہنم ہے۔ صاحبِ ایمان جنہوں نے ہجرت کی، جہاد کیا، رحمت و بخشش کے مستحق ہیں۔ فرمایا: شراب اور جوا بہت بری چیزیں ہیں۔ جو تمہاری ضرورت سے بچ جائے اللہ کی راہ میں خرچ کر دو۔ یتیموں کی تربیت اور نگہداشت پر زور دیا گیا۔ فرمایا: نہ مشرکہ عورتوں سے نکاح کرو نہ اپنی عورتیں مشرک مردوں کے نکاح میں دو۔
رکوع 28۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: حیض کے دوران عورتوں سے جنسی تعلقات سے گریز کرو۔ پھر طلاق، عدت اور رجوع کرنے کے احکامات بیان فرمائے۔
رکوع 29۔ ۔ ۔ ۔ رجعی طلاق، خلع، رجوع، حلالہ اور بیویوں کے ساتھ برتاؤ کے احکام بیان ہوئے۔
رکوع 30۔ ۔ ۔ ۔ عدت، رضاعت کے احکام بیان ہوئے۔
رکوع 31۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: کہ چھونے سے پہلے طلاق میں عورت کو نصف مہر ادا کرنا ہو گا اور پورے مہر کی ادائیگی تقویٰ سے قریب ہے۔ فرمایا: نمازیں پابندی اوقات سے ادا کرو۔
رکوع 32۔ ۔ ۔ ۔ جہاد کرنے کا حکم ملا اور فرمایا کہ اس کی ضروریات کے سلسلے میں اللہ کی راہ میں بے دریغ خرچ کرو تاکہ وہ تمہارے مال کو برکت کے ذریعے کئی گنا زیادہ کر دے۔ پھر بنی اسرائیل کے سلسلے میں جالوت اور طالوت کے قصے بیان فرمائے۔
رکوع 33۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: فتح و نصرت کا انحصار لشکر کی قلت و کثرت پر نہیں یہ اللہ کی رحمت پر ہے۔
پارہ سوم
رکوع 34۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: قیامت سے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کرو کیونکہ پھر کسی عمل کا موقع نہ ملے گا۔ فرمایا: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ ہے، خود قائم ہے اور تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے۔ نہ اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند۔ زمین آسمان میں سب اسی کا ہے۔ وہ ہر کسی کے حالات سے باخبر ہے۔ کسی میں طاقت نہیں کہ اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کر سکے۔ ساری کائنات کی حفاظت اس کے لیے آسان ہے بلندی اور عظمت اسی کے لیے ہے۔ فرمایا: ہدایت اختیار کرنے والے کا رفیق و کارساز اللہ ہے اور کفر و سرکشی اختیار کرنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔
رکوع 35۔ ۔ ۔ ۔ نمرود اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بیان فرمایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی درخواست پر کہ الٰہی مُردوں کو زندہ کر کے دکھا تاکہ یقین اور بڑھ جائے۔ فرمایا: چار پرندوں کو ذبح کر کے ان کا گوشت ٹکڑے کر کے پہاڑوں پر ڈال دے۔ فرمایا: کہ اب آواز دو۔ پرندے دوبارہ زندہ ہو کر دوڑتے آئیں گے۔ اللہ زبردست حکمت والا ہے۔
رکوع 36۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: اللہ کی راہ میں خلوص دل سے مال خرچ کرنے اور صدقہ و خیرات کرنے کا بدلہ کئی گنا ہے۔ جس طرح زمین میں ایک دانے کے سات خوشے اور ہر خوشے میں سو دانے نکلتے ہیں۔ دکھاوا اور ریاکاری سب کچھ ضائع کر دیتی ہے۔ اگر ضرورت مند کو کچھ دے نہ سکو تو اس سے نرم گفتاری سے پیش آؤ کہ اسے ایذا رسانی نہ ہو۔
رکوع 37۔ ۔ ۔ ۔ اچھی اور محبوب چیز کو راہِ خدا میں خرچ کرنے کا ثواب زیادہ ہو گا۔ اللہ تمہارے صدقہ و خیرات سے کلی بے نیاز ہے۔ جتنا خوش دلی سے دو گے وہ اور دے گا۔ بہتر ہے خیرات چھپا کر دو۔ خیرات کے مستحق خاص طور پر وہ ہیں جو خود داری کے سبب اپنی غربت ظاہر نہیں کرتے۔
رکوع 38۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی رضا کی خاطر خیرات کرنے والوں کو نہ ماضی کا غم ہو گا نہ مستقبل کا۔ سود حرام ہے۔ اللہ سود کو مٹاتا ہے اور خیرات کو بڑھاتا ہے۔ سود لینا چھوڑ دو، تنگ دست کو مہلت دو یا بخش دو۔ آخرت میں یہ تمہارے لیے فائدہ مند ہے۔ فرمایا: نماز قائم رکھو۔ زکوٰۃ ادا کرتے رہو تمہیں پورا پورا اجر ملے گا اور نہ خوف ہو گا نہ غم۔
رکوع 39۔ ۔ ۔ ۔ جب بھی قرض دو لکھت پڑھت کر لیا کرو دو گواہ بھی رکھ لیا کرو۔ گواہوں کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ انصاف سے کام لیں۔ جب دستاویز لکھنا ممکن نہ ہو تو کوئی چیز رہن رکھ کر قرض لے لو۔ بہرحال رہن شدہ چیز سے کوئی مالی فائدہ نہ اٹھائے ورنہ وہ بھی سود تصور ہو گا۔
رکوع 40۔ ۔ ۔ ۔ سب مال و زر اور ارض و سماء میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے۔ اللہ تمہارے دلوں کے راز جانتا ہے اور جزا و سزا پر قادر ہے۔ مسلمان بننے کے لیے لازم ہے کہ اللہ پر، فرشتوں پر، کتابوں اور تمام رسولوں پر ایمان لاؤ اور یہ کہ اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ کامل ایمان کے لیے عقیدہ و احکام پر مکمل عمل ضروری ہے۔ سب کو اعمال کے مطابق سزا و جزا ہو گی۔ آخر میں دعا تعلیم فرمائی کہ الٰہی اگر ہم سے بھول چوک ہو جائے تو مواخذہ نہ کرنا۔ پہلی امتوں کی طرح ہم پر بوجھ نہ ڈالنا۔ ایسی ذمہ داریاں ہم پر نہ ڈالنا جو ہم پوری نہ کر سکیں۔ ہمیں معاف فرما اور بخش دے۔ تو ہی ہمارا مولیٰ ہے۔ کافروں کے مقابلے میں مدد فرما۔
(3)سورۃ اٰلِ عمران رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
رکوع 1: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ حیّ القیوم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن نازل فرمایا جو اس سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔ اللہ کا علم بہت وسیع ہے۔ قرآن دو طرح کی آیات محکم اور متشابہات نازل ہوئیں۔ محکم جن کا مفہوم معلوم اور مقرر ہے۔ متشابہات جن کے مفہوم میں کچھ شبہ واقع ہوتا ہے۔ بعض بد طنیت لوگ مغالطہ دے کر لوگوں کو گمراہی میں پھنسانے کے لیے متشابہات سے اپنی رائے اور خواہش کے مطابق کھینچ کر مطلب نکالنا چاہتے ہیں حالانکہ ان کا صحیح مطلب اللہ ہی کو معلوم ہے۔ بہتر ہے محکمات پر مکمل عمل کیا جائے اور متشابہات کو محکمات کی روشنی میں دیکھے اور اگر شک ہو تو اللہ پر چھوڑ دے۔ پھر دعا تعلیم کی کہ اے اللہ! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو پھر کجی میں مبتلا نہ کر اور ہم پر رحمت فرماتے رہنا۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ کفر کا رویہ اختیار کرنے والوں کو نہ مال اور نہ اولاد کسی کام آئے گی۔ وہ دوزخ کا ایندھن بن کر رہیں گے۔ ان کا انجام آیات جھٹلانے والے فرعون کے ساتھیوں جیسا ہو گا۔ فانی اشیاء مثلاً: عورتیں، بیٹے، سونا چاندی اور خزانے، گھوڑے، مویشی اور کھیتیاں ان سے فائدہ اٹھانا بری بات نہیں لیکن ان میں مگن ہو کر اصل مقصد حیات کو بھول جانا درست نہیں۔ متقیوں کے لیے جنت اور بڑا اجر ہے اور متقی بخشش مانگنے والے، صبر کرنے والے، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے، رات کے آخری حصہ میں عبادت کرنے والے اور حکم بجا لانے والے ہیں۔ اللہ کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں۔ اصل دین پر قائم رہو اور یہود و نصاریٰ کی طرح گروہ بندیوں کا شکار نہ ہو جاؤ۔ نبی کا فرض صرف بات کو پہنچانا ہے۔
تین رمضان المبارک
(3)اٰلِ عمران جاری رکوع 3تا 20
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ کافر جو پیغمبروں اور عدل و انصاف کی تلقین کرنے والوں سے جھگڑا کرتے اور ان کا ناحق قتل کرتے ہیں، بڑے ظالم ہیں ان کو سخت سزا ملے گی۔ عیسائی من گھڑت مسئلے بناتے ہیں کہ ان کو سزا نہ ملے گی اگر ملی بھی تو چند یوم کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا ہے۔ جان لیں آخرت اٹل ہے اور سب کو ان کے اعمال کے مطابق اجرو سزا ملے گی۔ بادشاہی صرف اللہ کے لیے ہے وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے۔ ہر شے پر اس کا کلی اختیار ہے۔ کائنات میں ہر طرح کی تبدیلیوں پر وہی قادر ہے۔ مسلمان کافروں کو دوست نہ بنائیں۔ اللہ کا علم وسیع ہے اور ہر شے پر حاوی ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہمیشہ شر، برائی اور گناہ سے بچتے رہیں اور تقویٰ اختیار کریں۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل اطاعت اور مکمل پیروی ہی اللہ سے محبت کا اظہار ہے۔ انبیاء کے سلسلہ کو بیان کیا۔ سیدہ مریم علیہ السلام کی پیدائش اور پرورش کا بیان آیا۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے اولاد کے لئے دعا کی تو انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی بشارت دی گئی اور ان کی نشانی بتائی۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ فرشتوں نے حضرت مریم علیہ السلام کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت دی جو بِن باپ کے ہوں گے۔ وہ اللہ کے مقرب ہوں گے اور ماں کی گود میں بھی لوگوں سے باتیں کریں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم بھی وہی تھی کہ صرف اللہ کے سامنے جھکو یہی سیدھی راہ ہے۔ یہود نے حضرت مسیح علیہ السلام کے خلاف سازشیں تیار کیں لیکن وہ اللہ کی مضبوط تدبیر کو توڑ نہ سکے۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے کہا: اے عیسیٰ! میں تیری حفاظت کروں گا اور ان لوگوں کی سازشوں کو ناکام کر دوں گا۔ یہ تجھے پکڑ کر قتل نہ کر سکیں گے۔ میں تجھے اوپر اٹھا لوں گا۔ کافروں کی عبرتناک سزا ہو گی۔ فرمایا: نیکوکار لوگوں کے لئے اجرِ عظیم ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کی مثال آدم علیہ السلام کی سی ہے کہ مٹی سے بنایا اور حکم دیا ہو جا اور وہ ہو گیا۔ نجران کے عیسائی مناظرہ کے لئے آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مباہلہ کا حکم ہوا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم اہل خانہ کو لے کر مباہلہ کے لئے آئے تو کافر انہیں دیکھ کر مقابلہ کا ارادہ چھوڑ گئے۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ مشرکوں کو کہو کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کا شریک کسی کونہ ٹھہرائیں، اللہ کے سوا کسی کو رب نہ بنائیں۔ اگر وہ قبول نہ کریں تو کہو کہ گواہ رہو کہ ہم تو اس کے حکم کے تابع ہیں۔ فرمایا: کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہودی یا نصرانی نہ تھے وہ دینِ حنیف پر تھے۔ اہل کتاب خود گمراہی میں مبتلا ہیں۔
رکوع 8۔ ۔ ۔ ۔ اہل کتاب کی چالاکیوں اور خیانتوں کا ذکر کیا گیا اور فرمایا: ان میں کچھ منافقین کہتے ہیں کہ صبح ایمان لاؤ شام کو انکار کر دو۔ اصل میں یہ مکاریاں مسلمانوں سے حسد کی بناء پر ہیں۔ پھر دینی خیانت کے ساتھ ان کی دنیوی خیانت بھی بیان کر دی۔ فرمایا: خیانت کرنے والوں کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ فرمایا: نبی تو لوگوں کو کفر سے نکال کر اسلام میں داخل کرتا ہے وہ کفر کی تعلیم نہیں دے سکتا۔ یہی اہل کتاب اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں۔
رکوع 9۔ ۔ ۔ ۔ نبیوں سے عہد لیا کہ وہ اللہ کی بندگی سکھائیں گے، وہ اپنی تعلیم کبھی نہیں دیتے۔ جو کوئی اسلام میں داخل ہونے کی بجائے خود ساختہ دین کے متلاشی ہیں، وہ نافرمان ہیں۔ انہیں عبرتناک عذاب ہو گا اور عذاب میں کوئی تخفیف نہ ہو گی اور جو صاحب ایمان ہو کر کافرانہ زندگی اختیار کرےس کی توبہ قبول نہ ہو گی۔ جو اس حالت میں مر گئے زمین بھر سونا بھی اس کا فدیہ قبول نہ ہو گا اور انہیں درد ناک عذاب ہے۔
رکوع 10۔ ۔ ۔ ۔ قربانی عزیز ترین چیز کی ہونا چاہئے۔ کھانے کی یہ ساری چیزیں جو اسلام میں حلال ہیں، بنی اسرائیل کے لیے بھی حلال تھیں۔ البتہ بعض چیزیں تورات کے نازل ہونے سے پہلے اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کر لی تھیں، اللہ نے حرام نہ کی تھیں۔ اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے والا ظالم ہے۔ فرمایا: کہو تم ابراہیم علیہ السلام کا اتباع کرو وہ شرک کرنے والے نہ تھے۔ فرمایا: اولین عبادت گاہ خانہ کعبہ ہے اس میں کھلی نشانیاں ہیں جیسے مقام ابراہیم۔ فرمایا: خانہ کعبہ کا حج لوگوں پر اللہ کا حق ہے۔ اہلِ کتاب کا کہا نہ مانو یہ تمہیں گمراہ کر دیں گے۔ مسلمان ایمان لانے کے بعد کفر نہیں کر سکتا جب ان میں اللہ کا عظیم پیغمبر موجود ہے جس نے مضبوطی کے ساتھ دینِ الٰہی پالیا اس نے راہِ ہدایت پالی۔
رکوع 11۔ ۔ ۔ ۔ اللہ سے ڈرتے رہو اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو۔ یہ اللہ کا احسان تھا کہ تم کو جو بکھرے تھے، یک جان کر دیا۔ فرمایا: اپنے میں سے ایک جماعت دعوت و تبلیغ کے لیے قائم رکھو، جو لوگوں کو نیکی کی تعلیم دیتی ہے۔ فرقہ بندی میں مت پڑو۔ مرتد، منافق اور کافروں سے اللہ سوال کرے گا کہ تم ایمان لانے کے بعد کفر بھی کرتے رہے۔ اب عذاب چکھو۔ یہ سب روسیاہ ہوں گے۔ صاحب ایمان اور متقی اللہ کی رحمت میں داخل ہوں گے اور ان کے نورانی چہرے سفید چمکتے ہوں گے۔ یہ اللہ کی آیات ہیں۔ اللہ قطعاً کسی پر ظلم پر نہ کرے گا اور تمام معاملات اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔
رکوع 12۔ ۔ ۔ ۔ تمام امتوں سے تم بہترین امت ہو جو اللہ پر ایمان لائے ہو۔ اچھے کاموں کا حکم دیتے ہو، برائی سے منع کرتے ہو۔ نافرمان اہل کتاب تمہارا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے۔ انہوں نے اللہ کا غصہ کمایا ہے اس لئے کہ آیات کا انکار کیا اور نبیوں کو قتل کیا اور نافرمان ہیں۔ کچھ اہل کتاب سیدھی راہ پر قائم ہیں۔ ذکرِ نیم شب کے علاوہ سجدے بھی کرتے ہیں، قیامت پر ایمان رکھتے ہیں، اچھائی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں۔ یہ لوگ نیک بخت ہیں۔ کافروں کا ٹھکانہ دوزخ ہے ان کا یہاں خرچ کیا آخرت میں کام نہ آئے گا۔ فرمایا: اے ایمان والو! غیروں کو راز دار نہ بناؤ، یہ تمہاری بربادی کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ تم اہل کتاب کی دوستی کا دم بھرتے ہو لیکن وہ تمہاری جڑیں کاٹنے والے دشمن ہیں۔ تمہارے مصائب سے خوش اور خوشی سے حسد میں جلتے ہیں۔
رکوع 13۔ ۔ ۔ ۔ غزوۂ احد پر تبصرہ فرمایا: کہ اگر غزوۂ بدر کی طرح نظم و ضبط، صبر و استقلال کیا جاتا اور دو جماعتیں بزدلی کا مظاہرہ نہ کرتیں تو یقیناً اللہ کی مدد و نصرت ان میں شامل ہوتی۔ پھر بھی اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مدد کی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خوشی و طمانیتِ قلب حاصل ہو۔ اے پیغمبر! آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس میں کوئی دخل نہیں کہ اللہ کس کو بخشتا ہے اور کس کو سزا دیتا ہے۔ زمین و آسمان کی ہر شے پر اللہ ہی کا قبضۂ اختیار ہے۔
رکوع 14۔ ۔ ۔ ۔ سودی لین دین ترک کر کے تقویٰ اختیار کرو تاکہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو۔ آگ سے بچنے کی کوشش کرو۔ اپنے معاملات میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کرو اور رحمتِ الٰہی کے حقدار بنو۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرو، لوگوں کی خطاؤں سے درگزر کرو۔ غلطی کی اسی وقت اللہ سے معافی مانگ لو۔ جان لو کہ محض زبان سے ایمان کا دعویٰ کر کے جنت میں داخل نہ ہو گے جب تک ایمان کے ساتھ عمل اور پھر مصائب سے صبر کے ساتھ مقابلہ نہ کرو گے۔
رکوع 15۔ ۔ ۔ ۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے سول اور صداقت کے پیامبر ہیں۔ جس طرح ان سے پہلے بہت سے رسول پیغام حق دے کر چلے گئے، اسی طرح انہوں نے بھی ایک دن انتقال فرمانا ہے۔ تو کیا تم پھر حق سے پھر جاؤ گے۔ یاد رکھو موت کا وقت مقرر ہے اور وقت سے پہلے موت نہیں آتی۔ پہلے بھی اللہ کے نیک بندوں نے انبیاء کی رفاقت میں اللہ کے دشمنوں سے جہاد کیا۔ مصائب و آلام پر ثابت قدم رہے اور اپنے رب سے استغفار کرتے رہے۔ ہم سے ثابت قدم رہنے اور مدد کی استدعا کرتے رہے۔ پروردگار نے انہیں دنیا اور آخرت میں بہترین صلہ عطا کیا اور وہ آخرت میں دائمی نعمتوں کے وارث بن گئے۔
رکوع 16۔ ۔ ۔ ۔ مسلمانوں کو فرمایا کہ منکرینِ حق کی باتوں کو نہ مانیں اس میں سخت نقصان ہے۔ فرمایا: غزوۂ احد میں مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی نافرمانی نہ کرتے تو جیتی ہوئی جنگ ہار میں نہ بدلتی۔ بہرحال یہ بھی مسلمانوں کا ایک امتحان تھا اور اللہ نے ان کا قصور معاف کر دیا۔
رکوع 17۔ ۔ ۔ ۔ مسلمانوں کو منافقت اختیار کرنے سے منع کیا۔ جہاد سے پہلو تہی کہ موت سے بچ جاؤ گے، فرمایا: موت و حیات تو اللہ قبضۂ اختیار میں ہے اور اس کے لیے وقت ازل سے مقرر ہے۔ اللہ کی راہ میں جان دینا بہت بڑی رحمت ہے۔ شہید کو حیات جاودانی نصیب ہوتی ہے اور اللہ کا قرب ملتا ہے۔
رکوع 18۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ زخم کھا کر بھی میدانِ جنگ میں رہے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی پکار پر فوراً لپکے وہی متقی ہیں، ان کے لیے بڑا اجر ہے۔ فرمایا: کہ اگر نافرمانوں کو کچھ ڈھیل ملی ہے تو اس لیے کہ وہ گناہوں میں اور ترقی کر کے دردناک عذاب میں مبتلا کر دیے جائیں۔ فرمایا: کہ اللہ چاہتا تو غیب کی خبریں سب کو دے دیتا لیکن اس نے اپنے رسولوں میں جسے چاہا چن لیا اور جتنا علم انہیں دینا چاہے دے دیتا ہے۔ پھر بخل سے منع فرمایا۔
رکوع 19۔ ۔ ۔ ۔ یہود نے اللہ کے حضور گستاخی کے کلمے کہے۔ انبیاء کا ناحق خون کیا اور دہکتی آگ کے عذاب سے مستحق ہوئے۔ فرمایا: اے پیغمبر یہ یہودو نصاریٰ جو آپ کو جھٹلا رہے ہیں انہوں نے آپ سے پہلے رسولوں کو بھی جھٹلایا جو روشن کتاب لائے۔ فرمایا: ہر ایک نے موت کا مزہ چکھنا ہے۔ دنیا کی زندگی نہیں مگر دھوکے کی پونجی ہے۔ فرمایا: جان و مال کی آزمائش ہو گی اور کامیابی مصائب کا صبر و استقلال سے مقابلہ کرنے اور آزمائشوں سے گزر کر حاصل ہو گی۔ اللہ گزشتہ امتوں کے واقعات بیان کرتا ہے کہ ہم عبرت حاصل کریں۔ فرمایا: یہودی علماء رشوتیں کھا کر غلط مسئلے بتاتے، ان لوگوں کی خوش فہمیاں انہیں عذاب سے نہ بچا سکیں گی۔
رکوع 20۔ ۔ ۔ ۔ صاحبانِ بصیرت، تخلیقاتِ ارض و سماء جو کھلی نشانیاں ہیں اور اس نظام پر غور کرتے ہیں تو وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے پروردگار تو نے یہ نظام بے مقصد نہیں بنایا۔ تُو پاک ہے ہم کو بخش دے اور عذاب سے بچا لے کیونکہ جس کو تو نے جہنم رسید کیا وہ ہمیشہ کے لیے ذلیل و خوار ہوا۔ ہمیں وہ سب عطا فرما جس کا تو نے اپنے رسولوں کی زبانی وعدہ فرمایا اور روز قیامت ہمیں رسوا نہ کرنا۔ منکرین کو دنیا میں عیش و عشرت ملی تو یہ دائمی نہیں ان کا مستقل ٹھکانہ جہنم ہے۔ مسلمانو! ہمیشہ صبر و استقامت سے کام لو۔ اللہ سے ڈرتے رہ تاکہ اپنے مقصد میں کامیابی اختیار کرو۔
چار رمضان المبارک
پارہ چہارم سورۃ النساء رکوع 1تا 4
پارہ پنجم سورۃ النساء رکوع 4تا 20
(4)سورۃ النساء رکوع 1تا 20
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: اللہ سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا پھر جوڑے بنائے اور قرابت داری کا خیال رکھو۔ یتیموں کا مال انہیں دے دو۔ ایک سے زیادہ نکاح تب کرو اگر انصاف کر سکو۔ حق مہر خوشی سے دو۔ یتیموں کی اچھی تربیت کرو اور انہیں اپنی اولاد پر قیاس کرو لڑکوں سے ساتھ لڑکیوں کو بھی میراث میں حصہ دار بنایا۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ میراث کی تقسیم تفصیل سے بیان فرمائی اور فرمایا: کہ میراث دو، وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد۔ جبکہ دوسروں کو نقصان نہ پہنچے۔ یہ اللہ کی حدیں ہیں جو پیروی کرے گا جنت میں جائے گا اور جو حد سے بڑھے گا وہ آگ میں جھونکا جائے گا۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ بدکار مردوں اور عورتوں کی سزا بیان کی۔ فرمایا: اللہ توبہ قبول کرتا ہے اور اگر برائی سے باز نہ آئیں اور گناہ پر انہیں ندامت نہ ہو تو اس کی جھوٹی توبہ ہرگز قبول نہیں ہوتی۔ فرمایا: بیواؤں کو وراثت کے طور نہ لو اور ماؤں کا احترام کرو۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ محرم عورتوں کی تفصیل بیان کی گئی اور فرمایا: کہ حرام کر دی گئیں تم پر تمہاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھائی اور بہن کی بیٹیاں، رضاعی مائیں اور بہنیں اور بیویوں کی مائیں اور ان کی بیٹیاں جو تمہاری پرورش میں ہوں، بیٹوں کی بیویاں، دو اکٹھی بہنیں اور وہ عورتیں جو کسی اور کے نکاح میں ہوں۔
پارہ پنجم
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ نکاح کے لیے حق مہر کا تعین لازمی قرار دیا اور لونڈیوں سے نکاح کی شرائط بیان فرمائیں۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: اللہ چاہتا ہے کہ انسان کو حلال و حرام میں فرق معلوم ہو جائے۔ اسے راہ ہدایت پر چلنا نصیب ہو اور اللہ اپنے بندوں کے گناہ بخشے اور ان پر رحمت کرے۔ فرمایا: کہ ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔ آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔ فرمایا: بڑے گناہوں سے بچو تو چھوٹے گناہ معاف کر دیں گے۔ فرمایا: مرنے والوں کا مال وارثوں کا حصہ ہے۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ مرد، عورتوں کی ضروریاتِ زندگی کا بندوبست کرنے والا اور کفیل و نگران مقرر کیا ہے۔ سرکش عورتوں کی اصلاح، مصالحت اور ثالثی بیان ہوئی۔ فرمایا: شرک نہ کرو۔ ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو۔ حقوق العباد بیان ہوئے۔ بخل اور دکھاوے کو برا قرار دیا۔ فرمایا: قیامت کے دن کفار سخت پریشان اور پشیمان ہوں گے۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ۔ اگر پانی میسر نہ ہو تو تیمّم کر لو۔ یہود کی لڑائیاں بیان فرمائیں اور فرمایا کہ: مشرک کے لیے بخشش نہیں اور جھوٹ اور بہتان سخت گناہ ہیں۔
رکوع 8۔ ۔ ۔ ۔ طاغوت اور بتوں کے فرمانبرداروں پر اللہ کی لعنت ہے۔ اللہ کی آیات کے منکر آگ کا ایندھن بنیں گے۔ ایماندار اور نیکوکاروں کو جنت کی نعمتیں ملیں گی۔ فرمایا: امانتوں کا احترام کرو اور عدل و انصاف سے کام لو۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کرو اور اختلاف کی صورت میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف رجوع کرو۔
رکوع 9۔ ۔ ۔ ۔ مسلمانوں کو ہر معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فیصلہ دل سے تسلیم کرنا پڑے گا۔ اس کے بغیر ایمان ناقص اور نامکمل ہو گا۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی فرمانبرداری کرنے والے روزِ قیامت نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور نیک لوگوں کے ساتھ ہوں گے۔
رکوع 10۔ ۔ ۔ ۔ جہاد کے لیے تیار رہو، اس کا بڑا اجر ہے۔ فرمایا: کہ مظلوموں کی مدد میں بھی جہاد کرو۔ شیطان کے چیلوں سے جنگ کرو، کامیابی تمہیں ہی ملے گی۔
رکوع 11۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ جہاد سے جی چراتے ہیں جان لیں کہ موت سے کسی صورت بچ نہیں سکتے۔ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ فرمایا: منافقین سے منہ موڑ لو اور صرف اللہ پر بھروسہ رکھو۔ سنی سنائی بات کو بلا تحقیق آگے نہ پھیلاؤ۔ دعا کے جواب میں بہتر دعا دو۔
رکوع 12۔ ۔ ۔ ۔ منافقوں اور مطلب پرستوں سے تعلق داری میں تمہیں کچھ نہ ملے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بداعمالیوں کے باعث دین سے محروم کر دیا ہے۔ اللہ ہر شے کا مالک ہے جسے چاہے ہدایت دے اور جسے چاہے گمراہی دے۔ فرمایا: منافقوں پر قابو پاکر انہیں قتل کر دو۔
رکوع 13۔ ۔ ۔ ۔ مسلمان مسلمان کو قتل نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر غلطی سے قتل ہو جائے تو قاتل ایک مسلمان کو آزاد کرے اور اس کے گھر والوں کو خون بہا ادا کرے اور اگر وہ معاف کر دیں تو یہ ان کی طرف سے صدقہ ہو گا۔ پھر قتلِ عمد کی سزا علیحدہ بیان کر دی۔ مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنے کی سزا جہنم ہے اور غضب اور لعنت اللہ۔ فرمایا: کہ جہاد کرنے والے اور جہاد سے جی چرانے والے برابر نہیں۔ جہاد کرنے والوں کے لیے اجرِ عظیم ہے۔
رکوع 14۔ ۔ ۔ ۔ ایمان لانے اور قرآن کو رہنما ماننے کے بعد دشمنوں کے خوف سے اپنے عقائد پر آزادانہ عمل نہ کر کے اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔ کیا اللہ کی زمین تم پر تنگ ہے کہ ہجرت نہیں کرتے۔ جنہوں نے ہجرت کی راہ اختیار کی اللہ کی راہ میں، اللہ انہیں کشادہ ٹھکانے دے گا اور اس کا ثواب دے گا۔
رکوع 15۔ ۔ ۔ ۔ سفر میں نماز قصر کر لیا کرو یعنی چار فرض کے بجائے دو فرض کر لو۔ نمازِ خوف کی ادائیگی کا بیان آیا اور فرمایا: دشمنوں کو ڈھیل نہ دو۔
رکوع 16۔ ۔ ۔ ۔ دنیا دار کی سرگوشیاں اور کانا پھوسیاں کوئی اچھا کام نہیں۔ جو حق و صداقت کے واضح ہو جانے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ سے روگردانی کرتا ہے، قول و عمل سے قرآن و سنت کی نافرمانی کرتا ہے تو اللہ اسے دنیا میں اسی کے راستہ پر چلاتا ہے اور مرنے کے بعد اسے جہنم میں جھونک دے گا۔
رکوع 17۔ ۔ ۔ ۔ (ترجمہ فی الحال کتاب میں موجود نہیں )
رکوع 18۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: غیر اللہ کو خدا سمجھ کر پکارنا یعنی شرک کے لیے کوئی بخشش نہیں۔ شرک صرف غیراللہ کو پکارنا یا پوجنا نہیں بلکہ شیطان مردود کی تابعدار بھی شرک ہے۔ شیطان کے وعدے فریب اور دھوکا ہیں ان سے نفع نہیں یہ راستہ دوزخ کو جاتا ہے۔ اللہ نیکوکاروں کو جنت میں داخل کرے گا، نیکی کا پورا ثواب ملے گا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مثال دیتے ہوئے فرمایا: کہ دین ان کا ہی سب سے اچھا ہے جو دل سے اللہ کی طرف جھک جاتے ہیں۔
رکوع 19۔ ۔ ۔ ۔ اگر عدل و مساوات کے ساتھ معاشرتی حقوق ادا کر سکو تو چار تک نکاح کر سکتے ہو اور تمام معاملات خواہ وہ مہر، وراثت، نان و نفقہ، نگہداشت یا اخلاقی تربیت ہو تمہیں اللہ کے احکام کو ماننا ہو گا۔ اسی طرح یتیموں کے معاملے میں عدل و انصاف سے کام لو۔ زمین و آسمان میں سب کچھ اللہ ہی کا ہے اور وہی کارساز ہے۔
رکوع 20۔ ۔ ۔ ۔ انصاف پر قائم رہو اور ہمیشہ سچی گواہی دو خواہ وہ تمہارے والدین یا قرابت داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ فرمایا: اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر پختہ ایمان ہونا چاہیے۔ متزلزل یقین والے منافق ہرگز نہ بخشیں جائیں گے۔ فرمایا: بری مجلس جہاں اللہ کی آیتوں کا انکار کیا جائے نہ بیٹھو کہ کہیں تم بھی انہیں میں سے نہ ہو جاؤ۔
پانچ رمضان المبارک
پارہ ششم سورۃ النساء رکوع 21تا 24
پارہ ششم سورۃ المائدہ رکوع 1تا 11
پارہ ہفتم سورۃ المائدہ رکوع 11تا 16
(4)سورۃ النساء (جاری) رکوع 21تا 24
پارہ ششم
رکوع 21۔ ۔ ۔ ۔ منافقین کی پانچ ظاہری علامات بیان کیں۔
1۔ خود دھوکہ میں مبتلا لیکن اپنے خیال میں اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں۔
2۔ سستی اور بے دلی سے نماز پڑھتے ہیں۔
3۔ نماز بغیر خلوص کے صرف دکھاوا اور ریا ہوتی ہے۔
4۔ اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں۔
5۔ ایمان اور کفر کے درمیان لٹکے رہتے ہیں۔ نہ دل سے ایمان قبول کرتے ہیں اور نہ کھل کر کفر کا ساتھ دیتے ہیں۔
فرمایا: کفار سے دوستی نہ رکھو۔ توبہ کرنے والے شکر گزار کر بن کر رہنے والوں کو بڑا ثواب ملے گا۔ اللہ پسند نہیں کرتا کہ کسی کی برائی ظاہر ہو مگر مظلوم کو ظلم کے خلاف فریاد کا حق دیتا ہے۔ لیکن اگر وہ وہ صبر کر کے معاف کر دے تو یہ اس کے حق میں بہتر ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے منکر اور اللہ کے رسولوں میں فرق نکالنے والے اصلی، مکمل کافر ہیں ان کے لیے ذلت کا عذاب ہے اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان رکھنے کا بے حد ثواب ہے۔
رکوع22۔ ۔ ۔ ۔ اہلِ کتاب کے سوال، یہود کی زیادتیاں، بد اعمالیاں اور ان کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سلوک، حیات و ممات مسیح کا بیان ہوا۔ فرمایا: ایمان لانے والوں، نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور اللہ پر یقین رکھنے والوں کو بڑا ثواب ہے۔
رکوع 23۔ ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف وحی بھیجی جیسے دوسرے نبیوں پر بھیجی۔ اس کا مقصد اللہ کے احکام پر عمل کرنے والوں پر رحمتوں کی خوشخبری اور منکروں کو دردناک عذاب کی وعید سناتا ہے تاکہ روزِ قیامت لوگوں کو کوئی عذر اور اللہ پر حجت نہ رہے۔ اللہ بد کرداروں کو نہ تو معاف کرے گا اور نہ سیدھی راہ دکھائے گا اور جہنم کی آگ میں جھونک دے گا۔ اے بنی نوع انسان تمہارے پاس آخری رسولِ صادق صلی اللہ علیہ و سلم سچائی لے کر آ چکا بس اس کے کہے کا یقین کرو اسی میں تمہاری بہتری ہے۔ اگر اس سچائی سے انکار کرو گے تو اللہ کی الوہیت اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت میں کوئی فرق نہ آئے گا البتہ تم ہی اپنا نقصان کرو گے۔ فرمایا: عیسیٰ علیہ السلام مریم علیہ السلام کا بیٹا، اللہ کا ایک حکم ہے۔ تمہارا بغیر کسی شریک کے تمہارا معبود ہے۔ اس کی ذات اولاد کی صفت سے پاک و منزہ ہے۔ ارض و سماء میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے اور وہی سب کا وکیل و کارساز ہے۔
رکوع 24۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ایمانداروں اور نیکوکاروں کو پورا ثواب اور تکبر کرنے والوں کو دردناک عذاب دے گا۔ نیک بندے وہ ہیں جنہوں نے قرآن مجید کو مضبوط پکڑا اور اللہ کے سوا کسی پر بھروسہ نہ کیا ان پر رحمتوں کا نزول ہو گا۔ پھر کلالہ کی وراثت کے احکام بیان ہوئے۔
(5)سورۃ المائدہ رکوع 1تا 16
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا مسلمانو! احکامِ الٰہی کی تکمیل و اطاعت کا عہد پورا کرو۔ حالتِ احرام میں شکار جائز نہیں۔ مسلمانو! شعائر اللہ کی بے حرمتی نہ کرو اور بے حرمتی نہ کرو حرمت کے مہینوں کی، قربانی کے جانوروں کی جن کے گلے میں پٹے ڈال دیئے گئے ہیں۔ نقصان نہ پہنچاؤ بیت اللہ کو آنے والے تاجروں کو۔ مشرکوں نے تمہیں حج سے روکا تھا تم اس کے بدلے میں حاجیوں کو نہ روکو۔ تم تو نیک کام میں مدد کرو اور برائی نہ کرو۔ مسلمانو! تم پر حرام ہوا مردار جانور، خون، سُور کا گوشت اور جس جانور پر غیراللہ کا نام پکارا گیا ہو ذبح کے وقت۔ فرمایا: تمہارے لیے دین مکمل ہو گیا۔ پھر حلال چیزوں کی تفصیل بیان فرمائی۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ وضو، غسل اور تیمم کا بیان آیا۔ فرمایا: اللہ کے ساتھ کیے گئے عہد و پیمان کو ہمیشہ یاد رکھو اسی کو پورا کرنے پر نجات کا دارو مدار ہے۔ تم عدل و صداقت کے پیکر بن جاؤ۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل سے بھی اللہ نے عہد لیا تھا لیکن انہوں نے عہد کو توڑا۔ عیسائیوں نے بھی عہد فراموش کر دیا۔ فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے دشمن بن گئے اور علماء یہود کلام الٰہی میں تحریف کر دیتے۔ فرمایا: ہمارا رسول تمہارے پاس آ چکا اور روشن کتاب آ چکی جو ایمان والوں کو جہل و گمراہی کی تاریکیوں سے نکالتا اور علم و بصیرت کی روشنی میں لاتا ہے۔ عیسائیوں نے کفر کیا کہ مسیح ابن مریم خدا ہے۔ یہود و نصاریٰ کا یہ کہنا کہ ہم خدا کے چہیتے ہیں ہم کچھ بھی کریں ہمیں نجات ہی نجات ہے تو ان سے پوچھو کہ پھر اللہ تم پر عذاب کیوں نازل کرتا رہا۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ علیہ السلام نے قوم کو ملک شام جو ان کے آباء کا وطن ہے فتح کر کے وہاں آباد ہونے کا کہا۔ جہاد کا حکم دیا اور ان کو اللہ کی ان پر مہربانیوں کا تذکرہ بھی کیا۔ قوم نے کہا کہ جب تک وہاں کی دیو قامت قوم وہاں سے نکل نہ جائے وہ نہ جائیں گے۔ دو صاحبانِ ایمان نے بھی ان کو سمجھایا لیکن قوم نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ تم جاؤ اور اپنے پروردگار کو بھی ساتھ لے جاؤ ہم تو یہیں رہیں گے۔ اللہ نے اس قوم پر وہ جگہ چالیس سال کے لیے حرام کر کے انہیں صحرائے سینا میں بھٹکائے رکھا۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ ہابیل اور قابیل کا قصہ بیان ہوا۔ فرمایا: کہ ایک ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور جس نے ایک انسان کو بچایا اس نے پوری انسانیت کو حیاتِ نو بخشی۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے جنگ کرنے والوں اور ملک میں بدامنی پھیلانے والوں کی سزا ہے کہ انہیں قتل کیا جائے، سولی چڑھایا جائے یا مخالف جانب سے ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں یا ملک بدر کیا جائے۔ دنیا میں یہ ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے عذاب عظیم تیار ہے۔ لیکن وہ لوگ جو پکڑے جانے سے پہلے توبہ کر لیں تو اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ ایمان والوں سے فرمایا: کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اس تک پہنچنے کا ذریعہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جد و جہد کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو۔ کفر کی راہ اختیار کرنے والوں کے لیے معافی نہیں، دردناک عذاب ہے۔ چوری کی سزا مردو عورت کے چوری کرنے پر ہاتھ کاٹ ڈالو۔ فرمایا: پھر جس نے اپنے اوپر ظلم کے بعد توبہ کر لی اور اصلاح کی تو اللہ توبہ قبول کرتا ہے۔ عدل و انصاف کا حکم دیا۔ فرمایا: کہ ارض و سماء کی حکومت صرف اللہ کی ہے وہ جسے چاہے بخش دے یا عذاب دے وہ ہر شے پر قادر ہے۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ تورات اور انجیل کی شان کا ذکر کر کے اور قرآن مجید کا وصف بیان کر کے فرمایا: کہ سب کتابیں برحق اور ایک دوسرے کی مددگار ہیں۔ فرمایا: کہ لوگ خواہشاتِ نفسانی کی بجائے قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزاریں اور آخرت کی تیاری کریں۔ نافرمان جاہلیت کے زمانہ کا حکم چاہتے ہیں کہ ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہوں۔ یہ لوگ انسان کی شکل میں جانور ہیں اور جانور جیسی مادر پدر آزادی کے خواہش مند ہیں۔
رکوع 8۔ ۔ ۔ ۔ یہودو نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ آپس میں ایک ہیں اور دو رُخی پالیسی رکھتے ہیں۔ مسلمانو! تمہارے حقیقی دوست و مددگار صرف اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور احکام دین پر عمل کرنے والے وہ مخلص مومن ہی ہیں جو نماز قائم کرتے، زکوٰۃ ادا کرتے اور ہر حال میں اللہ کے حضور خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں۔
رکوع 9۔ ۔ ۔ ۔ مسلمانوں کو دوبارہ تاکید کی گئی کہ یہودو نصاریٰ اور ان لوگوں سے جو تمہارے دین کا مضحکہ اڑاتے ہیں، نماز اور اذان کا تمسخر اڑاتے ہیں، یہ عقل سے خالی اور لعنت و غضب الٰہی کے مستحق ہو گئے ہیں۔ ان کے بزرگوں اور علماء کو کیا ہو گیا ہے کہ حرام خوری اور جھوٹ بولنے سے انہیں منع نہیں کرتے۔ یہود کی گستاخیاں کہ اللہ کے ہاتھ بندھ گئے ہیں، اللہ نے ان پر لعنت کی اور فرمایا: کہ اللہ کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں اور جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے مگر یہ اپنی سرکشی، نافرمانی اور کرتوتوں کی وجہ سے اللہ کا غضب اور اس کی لعنتیں سمیٹ رہے ہیں۔
رکوع 10۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے احکام لوگوں تک پہنچاؤ اور دشمنوں کی مخالفت کی پرواہ کیے بغیر دینِ حق کی تبلیغ کرتے رہو اللہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا محافظ ہے۔ فرمایا: جب تک اللہ کی وحدانیت کا اقرار نہ کریں، قیامت کو برحق سمجھ کر عمل صالح نہ کریں اس وقت تک آخرت کے غم اور اندوہ اور حزن و ملال سے چھٹکارا نہ پائیں گے۔ فرمایا: تثلیث کا عقیدہ کفر ہے۔ مسیح علیہ السلام مریم کا بیٹا اور اللہ کا رسول ہے۔ یہ دونوں خوراک کے محتاج تھے اور اللہ ان باتوں سے پاک ہے۔
رکوع 11۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل نافرمانی میں حد سے گزر کر پہلے داؤد علیہ السلام اور پھر عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی لعنت کیے گئے۔ فرمایا: یہود سے دوستی پر کبھی اعتماد نہ کرو یہ تمہارے بدترین دشمن ہیں اور نصاریٰ قدرِ کم اور وہ اس لئے کہ ان میں عالم اور درویش ہیں جو تکبر نہیں کرتے۔
پارہ ہفتم
رکوع 11۔ ۔ ۔ ۔ بعض ایسے رقیق القلب اور عارف حق ہیں کہ اللہ کا کلام سنتے ہی ان کی آنکھیں ڈبڈبا آتیں اور آنسو بہہ پڑتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم اس کلام پر ایمان لائے اور ہمیں دین حق کی گواہی دینے والوں میں شامل فرما۔ اللہ نے ان کے لیے جنت کے باغ اور منکروں اور آیتوں کے جھٹلانے والوں کے لیے دوزخ تیار کر رکھی ہے۔
رکوع 12۔ ۔ ۔ ۔ حلال چیزوں کو حرام نہ ٹھہراؤ۔ قسموں کے بارے میں احکام بیان ہوئے۔ فرمایا: شراب، جوا، بت پرستی، فال کے طریقے سب شیطانی کام ہیں۔ ان سے دور رہو جیسے بول و براز اور گندی چیزوں سے دور رہتے ہو تاکہ فلاح حاصل کرو کیونکہ شیطان ان گندی چیزوں کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت، کینہ بغض و عناد پیدا کرنا چاہتا ہے۔ فرمایا: لوگو! اللہ کا کہا مانو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کرو، کتاب اللہ کے مطابق زندگیاں بسر کرو اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت و فرمانبرداری میں خلل انداز ہونے والے کاموں کو چھوڑ دو۔ تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کرو اور اس میں بڑھتے چلے جاؤ۔
رکوع 13۔ ۔ ۔ ۔ جب حج کے لیے نکلو تو احرام کی حالت میں شکار نہ مارو اور جو کوئی جان بوجھ کر شکار کرے تو اسی کے برابر جانور خرید کر جرمانہ دینا ہو گا جو محتاجوں کو کھلایا جائے۔ تمہارے لیے سمندر اور دریا کا شکار اور اس کا کھانا ایسی حالت میں حلال ہے۔ حرم کا احترام قائم رہنا چاہیے۔ خبیث و طیب چیزیں ایک جیسی نہیں اسی طرح ناپاک اور پاک باز انسان برابر نہیں ہو سکتے۔
رکوع 14۔ ۔ ۔ ۔ مومنو ایسے سوال نہ کیا کرو کہ ان کے جواب سے تم میں رنج و غم پیدا ہو۔ یہ جو بتوں کے نام پر جانور چھوڑ کر انہیں مقدس سمجھتے ہیں یہ سب خرافات اور توہم پرستی ہے جس کا اللہ حکم نہیں دیتا۔ مرنے سے پہلے وصیت کرتے وقت دو گواہ بناؤ۔ ہر حال میں تقویٰ اختیار کرو، اللہ کے احکام کے منکر آخر کار رسوا ہوں گے۔
رکوع 15۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے دن اللہ سب پیغمبروں سے سوال کرے گا کہ لوگوں نے تمہاری تبلیغ کا کیا جواب دیا۔ رسول کہیں گے کہ سب کچھ اللہ ہی کو معلوم ہے جو چھپی باتوں کو جانتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کیے گئے انعامات اور معجزات کا تذکرہ فرمایا۔ ارشاد ہوا کہ ناشکروں کو ایسی سزا دوں گا جو زمانہ میں کسی کو نہ دی ہو۔
رکوع 16۔ ۔ ۔ ۔ اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سوال کرے گا کیا تو نے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے علاوہ معبود بنا لو۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام عرض کریں گے کہ تو شرک سے پاک ہے۔ میری کیا مجال کہ ایسا کہوں، میں نے وہی کہا جس کا کہنے کا تو نے مجھے حکم دیا۔ اگر تو ان کو بدکاریوں کی سزا دے تو تجھے کوئی روکنے والا نہیں اور اگر معاف کر دے تو تو زبردست حکمت والا ہے۔ فرمایا: کہ آج صادقین کو صداقت اور نیکو کاری نفع دے گی اور وہ ہمیشہ جنت کے باغوں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، رہیں گے اور اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ہوئے اور ارض و سماء میں ہر چیز کا مالک فقط اللہ ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ کلالہ: مرنے والا/والی جو بے اولاد ہو اور جس کے والدین بھی زندہ نہ ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھ رمضان المبارک
پارہ ہفتم سورۃ الانعام رکوع 1تا 13
پارہ ہشتم سورۃ الانعام رکوع 14تا 20
(6)سورۃ الانعام رکوع 1تا 20
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے ارض و سماء کو پیدا کیا۔ اندھیرا اور روشنی بنائی پھر بھی کافر شرک کرتے ہیں۔ اسی رب نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور عمر مقرر کر دی اور اس نے اس کائنات کی بھی مدت مقرر کر دی۔ تمہارا رب سب ظاہری اور پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے۔ فرمایا: کہ جب ان کے پاس اللہ کی کوئی نشانی (قرآن مجید) آتی ہے تو منہ موڑ لیتے ہیں انہیں اس بد عملی کی سزا جلد ملے گی۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ ان سے زیادہ قوت اور دبدبہ والی خوشحال قومیں برائیوں اور نافرمانی کے باعث کیسے مٹا دی گئیں۔ اگر ہم کتاب کو کاغذ پر لکھ کر بھجواتے تو یہ اسے جادو کہتے۔ پھر اعتراض کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی مدد کو فرشتے کیوں نہیں آتے مگر ان میں فرشتوں کو دیکھنے کی طاقت کہاں ؟ فرمایا: کہ رسولوں کی ہنسی اڑانے والوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ زمین میں گھومو پھرو۔ گزشتہ قوموں کے آثار دیکھو اور پیغمبروں اور حق کو جھٹلانے والوں کا انجام دیکھو۔ ارض و سماء اور ان میں ہر شے کا مالک اللہ ہے۔ اس نے رحمت کو اپنے اوپر لازم کر لیا ہے۔ وہ قیامت کے دن سب کو اکٹھا کر کے جزا اور سزا دے گا۔ وہی قادر مطلق ہے، اس کی اطاعت لازمی ہے، شرک سے نفرت کا اظہار کرو اور کہو اللہ واحد و یکتا ہے۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ سب سے بدبخت اور ظالم وہ لوگ ہیں جو اللہ پر جھوٹ افتراء کرتے اور اس کے احکام کا انکار کرتے ہیں۔ قیامت کے دن اللہ کے حضور پیش کیے جاؤ گے تو اللہ مشرکوں سے پوچھے گا بتاؤ وہ شریک کہاں ہیں جنہیں تم ہمارا حصہ دار بناتے تھے۔ وہ قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم نے شرک کیا ہی نہیں۔ لیکن یہ کذب بیانی ان کے کام نہ آئے گی۔ بعض چالباز مسلمانوں سے کہتے ہیں یہ پرانے قصے ہیں۔ وہ ظاہر کرتے ہیں کہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ان کا مقصد سمجھنا نہیں۔ باہر آتے ہی لوگوں سے کہتے ہیں کہ لوگوں ان کی باتیں مت سنو۔ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ وہ اسلام کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے اور ایک دن انہیں دوزخ پر کھڑا کیا جائے گا۔ یہ دنیا میں دوبارہ جانے کی تمنا کریں گے کہ کاش ہم آیتوں کو نہ جھٹلاتے۔ یہ وہ سخت دل ہیں کہ اگر یہ دوبارہ دنیا میں جائیں تو وہی کچھ دوبارہ کریں گے۔ قیامت کے دن ان کے لیے عذابِ الٰہی تیار ہے۔
رکوع 4۔ روزِ جزا کو جھٹلانے والوں پر جب قیامت کی گھڑی اچانک آئے گی تو وہ حسرت و یاس کے عالم میں افسوس کریں گے کہ کیوں انہوں نے احکامِ الٰہی کو نظر انداز کیا اور بد اعمالیاں کیں۔ فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ و سلم غمگین نہ ہوں ان لوگوں نے پہلے پیغمبروں کو بھی جھٹلایا ہے۔ فرمایا: لوگو! اگر تم پر افتاد آ پڑے تو کیا غیراللہ کو پکارو گے؟ نہیں، صرف اللہ کو۔ جو اگر چاہے تو تمہاری فریاد رسی کرے گا۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ پہلی قوموں کی طرف بھی پیغمبر بھجوائے اور ان کی سرکشی اور انکار کے باعث وہ نیست و نابود کر دی گئیں۔ ہم نے رسول ڈرانے اور خوشخبری دینے کو بھیجے۔ جو ایمان لایا، سنور گیا اور جس نے جھٹلایا، عذاب کا مستحق ٹھہرا۔ آپ بتا دیں کہ میرے پاس نہ اللہ کے خزانے ہیں نہ علم غیب ہے نہ فرشتہ ہوں۔ میں وہی کہتا ہوں جو وحی آئے۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ متقی وہی بن سکتا ہے جو اللہ سے ڈرے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم خلوص والوں کو دور نہ کریں بلکہ ان کی دلجوئی کریں۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ رسول کسی انسان کا پیرو نہیں ہوتا۔ منکروں کا فیصلہ اللہ پر ہے اور سزا دینا بھی اللہ ہی کا کام ہے۔ غیب کی کنجیاں اللہ ہی کے پاس ہیں اور اس کے علاوہ کوئی کچھ نہیں جانتا۔ انسان تو دن کو کام کرتا ہے اور رات کو تھک کر سوجاتا ہے پھر وہ ہمیشہ کے لیے سوجائے گا اور اٹھے گا تو سب اعمال اس کے سامنے ہوں گے پھر وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔
رکوع 8۔ ۔ ۔ ۔ ہر مشکل میں اللہ ہی حقیقی مددگار ہے۔ وہ ہر طرح کا عذاب بھیج سکتا ہے اس نے ہر چیز کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ فرمایا: کہ آیتوں کے جھگڑا کرنے والوں، ٹھٹھا مذاق کرنے والوں کے پاس سے اٹھ جائیں، جب یہ ایسا کریں۔ نیک لوگوں کی ذمہ داری نصیحت کرنا ہے۔ ان لوگوں سے بچو جنہوں نے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے۔ قیامت کے دن اپنے گناہوں کی شامت نے انہیں گھیر رکھا ہو گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔
رکوع 9۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی صفات بیاں کیں کہ وہ سب کا پالنہار ہے۔ قیامت میں اسی کے سامنے اکٹھا ہونا ہے۔ اس نے آسمان اور زمین بنائی۔ "کُن ” کہہ دے تو سب ہو جاتا ہے۔ قیامت کے دن کا بادشاہ وہی ہے۔ وہ چھپے اور کھلے کا واقف ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا جو ذاتِ خداوندی پر غور کرنے کی عمدہ مثال ہے۔ فرمایا: جنہوں نے اپنا ایمان بچا لیا وہی سیدھی راہ پر ہیں۔
رکوع 10۔ ۔ ۔ ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو دنیا کی چیزوں اور واقعات سے بالکل ٹھیک نتیجہ نکالنے کی سمجھ عنایت کی گئی تھی اور ان کو نبیوں کے گروہ میں ممتاز کیا اور ان کی توحید پرستی کے انعام میں ان کی نسل سے نبی پیدا کیے جو برگزیدہ اور ہدایت یافتہ مقبول لوگ تھے۔ تم بھی ان لوگوں کی پیروی کرو اور دنیا اور آخرت کی کامیابیوں سے ہمکنار ہو جاؤ۔
رکوع 11۔ ۔ ۔ ۔ بعض لوگوں نے اللہ کی صفات کا پورا پورا اندازہ نہیں لگایا اور پھر وحی الٰہی کا انکار کیا۔ ان کے پوچھئے کہ تورات جس کو تم مانتے ہو، موسیٰ علیہ السلام کو کس نے دی؟ اور یہ کتاب (قرآن مجید) جسے ہم نے اتارا ہے اس میں فائدے نہ ختم ہونے والے ہیں۔ آپ مکہ اور اس کے اطراف والوں کو اس کے فوائد بتائیں اور برے انجام سے ڈرائیں۔ لوگ اس کے احکام پر چلیں، نماز قائم کریں جو فرمانبردار کا نشان ہے۔ انکار کرنے والوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔ عیش و عشرت کا سامان سب یہیں رہ جائے گا اور تم جس طرح خالی ہاتھ آئے تھے اسی طرح خالی ہاتھ جاؤ گے اور مرتے وقت تم تنہا ہو گے کوئی تمہارا سفارشی تمہارے ساتھ نہ ہو گا۔
رکوع 12۔ ۔ ۔ ۔ بتایا گیا کہ کس طرح دانہ زمین میں پھٹ کر غلہ کے پودے، گٹھلی پھٹ کر درخت، انڈے سے زندہ جانور، اندھیرے سے روشنی، حساب کے لیے سورج، چاند کو پیدا کیا گیا۔ یہ سب بتاتے ہیں کہ ان کو بنانے والا بڑی قوت اور قدرت والا ہے۔ فرمایا: تمہیں بھی ایک شخص آدم علیہ السلام سے پیدا کیا۔ اس نے آسمان سے پانی اتارا اور سب پھل اور سبزیاں پیدا کیں۔ بعض کہتے ہیں فرشتے اللہ کے بیٹے بیٹیاں ہیں، یہ سب جہالت ہے۔ اللہ ان باتوں سے پاک اور بلند ہے۔
رکوع 13۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی کوئی بیوی اور اولاد نہیں۔ معبود فقط وہی ہے اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ تم کائنات کو دیکھ کر اللہ کو پہچانو۔ فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان نگہبان نہیں اور نہ ہی ان کے اعمال کے ذمہ دار ہیں۔ پھر رواداری کی تعلیم دی کہ تم ان کے معبودوں کو برا نہ کہو کہ کہیں وہ تمہارے رب کو بغیر سمجھے برا نہ کہیں۔ سنو! جو لوگ انکار اور سرکشی پر ڈٹے ہوئے ہیں اللہ ان کے دلوں اور آنکھوں کو پھیر دے گا اور وہ اسی کے اندر بھٹکتے رہیں گے۔
پارہ ہشتم
رکوع 14۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے فرشتے بھی آ جائیں اور مُردوں کو قبروں سے اٹھا کر ان سے ہمکلام کرا دیا جائے تو بھی یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں سوائے یہ کہ اللہ چاہے۔ قرآن مجید کے احکام اٹل ہیں اور بھٹکنے والوں کو اور راہِ راست پر چلنے والوں کو سب سے زیادہ اللہ ہی جانتا ہے۔ اللہ کے نام پر کیے گئے جانور کھاؤ، گناہ نہ کرو اور غیراللہ کا ذبیحہ حرام ہے۔
رکوع 15۔ ایمان روشنی اور کفر تاریکی ہے۔ اللہ جسے دین کی روشنی عطا کرے وہ کب برابر ہو سکتا ہے کسی جاہل، کافر، مشرک کے، جو اندھیروں میں بھٹک رہا ہے۔ ہر جگہ دین حق کی مخالفت وہاں کے مالدار بدقماش سردار ہی کیا کرتے ہیں تاکہ ان کا جھوٹا وقار اور اقتدار قائم رہے۔ پھر وہ ویسی ہی نشانیوں کے طالب ہوتے ہیں جو ہم اپنے رسولوں کو دیتے ہیں۔ آگاہ ہو جاؤ یہ مکار چالباز اپنی متکبرانہ شرارتوں کی وجہ سے جلد عذابِ شدید کا نشانہ بنیں گے۔ یاد رکھو دینِ اسلام ہی پروردگار کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ اور سیدھی راہ ہے۔
رکوع 16۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے دن جن و بشر سے پوچھا جائے گا کہ کیا تمہارے پاس ہمارے رسول نہیں آئے تھے اور ہماری آیات آیات سنا کر آج کے دن سے نہ ڈرایا ٹھا۔ سب جواب دیں گے ہم غلطی پر رہے کہ خود کو بڑی آفت میں پھنسا لیا ہے۔ اللہ نے کسی کو ناحق سزا نہیں دی اور اسے تمہارے ماننے نہ ماننے کی بھی پرواہ نہیں۔ اللہ نے اپنی رحمت سے کھیتی اور مویشی پیدا کیے۔ ان کافروں نے اللہ کے ساتھ جھوٹے معبودوں کا بھی حصہ نکالا جن کا کوئی دخل نہ تھا۔ انہیں اللہ کی بے ادبی کی سخت سزا ملے گی۔ دن میں جانوروں کی قربانی تھی، شیطان نے ان سے اولاد کو بتوں کے نام پر قربان کرایا۔ اس طرح دین کی کئی غلط شکلیں پیدا کیں جو سب گمراہی ہی گمراہی ہے۔
رکوع 17۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی مہربانیاں دیکھو، اس نے باغ پیدا کیے کہ پھل کھاؤ۔ جانور پیدا کیے کچھ بوجھ اٹھانے والے، کچھ دودھ اور گوشت فراہم کرنے والے۔ اللہ کی حلال چیزوں کو بلا تامل کھاؤ اور شیطان کی پیروی سے بچو۔
رکوع 18۔ ۔ ۔ ۔ مردار جانوروں، بہتا خون، سؤر کا گوشت، غیراللہ کے نام کا ذبیحہ تم پر حرام ہیں۔ حق و صداقت کی تکذیب کرنے والے نافرمان، انجام کار عذابِ الٰہی کا لقمہ بن کر صفحۂ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیئے جاتے ہیں۔
رکوع 19۔ ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو بتا دیں کہ قرآن مجید کے ذریعے جن باتوں کی ممانعت فرمائی گئی ہے اور جن کے احترام کا حکم دیا گیا وہ یہ ہیں :۔
1۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔
2۔ ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو۔
3۔ مفلسی کے ڈر سے اولاد کو ہلاک نہ کرو، رازق ہم ہیں۔
4۔ بے حیائی اور فواحش کے تمام طریقوں سے دور رہو۔
5۔ کسی کا ناحق قتل نہ کرو۔
6۔ یتیموں کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ۔
7۔ ناپ تول پورا کرو۔
8۔ تمام فیصلوں میں انصاف سے کام لو۔
9۔ اللہ کے ساتھ کیے عہد و پیمان کو دل و جان سے پورا کرو۔
اللہ نے تم کو یہ حکم اس لئے دیا ہے کہ تم نصیحت پکڑو اور سیدھی راہ پر چلو اور بھٹکنے سے بچ جاؤ۔
رکوع 20۔ ۔ ۔ ۔ کامل ترین کتاب "قرآن مجید”تمام انسانیت کی ہدایت کے لیے نازل کی گئی ہے لہٰذا تم اس کی پیروی کرو۔ اب جبکہ یہ کتاب آ چکی، دیکھتے ہیں کون اس ہدایت پر عمل کرتا ہے اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرتا ہے اور کون اس سے کترا کر مستحقِ عذاب ہوتا ہے۔ دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راز صرف توحید کے اقرار، رسولوں کی تعلیمات کی تصدیق اور ان احکام کی پیروی میں ہے۔ یاد رکھو اللہ کے سوا کوئی کچھ دینے والا نہیں۔ (اللہ کے سوا حقیقی داتا کوئی نہیں )
دین میں نئی راہیں نکالنے والوں، فرقہ بندی کرنے والوں اور امتِ مسلمہ میں اختلاف و انتشار پیدا کر کے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے والوں کا دین حق سے کوئی سروکار نہیں۔ یاد رکھو جو نیک کام کرے گا دس گنا اجر پائے گا اور برائی کا مرتکب اس برائی کے برابر ہی سزا کا مستحق ہو گا۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم فرما دیجئے کہ مجھے میرے پروردگار نے سیدھی راہ بتا دی ہے اور وہ مضبوط و مستحکم دین اسلام کی راہ ہے۔ پس میری نماز، میری قربانیاں، میرا مرنا اور جینا سب کچھ اللہ کے لیے ہی ہے جو تمام جہانوں کا پالنہار اور شرک و سانجھ پن سے پاک و منزّہ ہے۔
سات رمضان المبارک
پارہ ہشتم سورۃ الاعراف رکوع 1تا 11
پارہ نہم سورۃ الاعراف رکوع 12تا 24
(7) سورۃ الاعراف رکوع 1تا 24
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم! یہ قرآن ایک عظیم الشان کتاب ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل کی گئی ہے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے نافرمانوں کو ان کے انجامِ بد کی آگاہی ہو اور اہلِ ایمان کو نصیحت ہو۔ لوگو! احکام شریعت پر عمل کرو اور اللہ کو چھوڑ کر اپنے ٹھہرائے ہوئے مددگاروں کے پیچھے نہ چلو۔ دیکھو جن قوموں نے دعوتِ حق کا مقابلہ کیا وہ ہلاک کر دی گئیں۔ قوموں سے پُرسش ہو گی کہ انہوں نے حق کا اقرار کیوں نہ کیا اور پیغمبروں سے بھی بازپرس ہو گی کہ انہوں نے حقِ رسالت ادا کیا یا نہیں۔ پھر ہم اپنے علم سے احوال سنائیں گے کہ ہم کہیں غائب تو نہ تھے۔ اس دن اعمال تو لے جائیں گے، نیکیوں کا پلہ بھاری ہوا تو کامیابی ورنہ ناکامی۔ دیکھو ہم نے تم کو زندگی کا سامان دیا تھا لیکن تم شکر گزار نہیں ہو۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ آدم علیہ السلام کی پیدائش، ابلیس کا سجدہ سے انکار، اس کا تکبر، اللہ کا آدم علیہ السلام کو جنت میں ایک طرف نہ جانے کا حکم، ابلیس کا آدم و حوا کو بہکانا اور ان کا لغزش کے سرزد ہونے کے باعث برہنہ ہونا، پھر زمین پر اتارے جانے کا احوال، ابلیس کا مردود ہونا، اس کی درخواست پر اللہ نے اسے قیامت تک انسانوں کو گمراہ کرنے کی مہلت دی اور فرمایا: کہ جو تیری پیروی کرے گا اسے تیرے ساتھ جہنم میں جھونکوں گا۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے زمین میں ایسی چیزیں اگا دی ہیں جن سے تم لباس تیار کر کے ستر ڈھانپ سکتے ہو۔ اصل لباس تقویٰ ہے۔ تم شیطان کے بہکاوے میں نہ آنا کہیں وہ تمہیں ننگا اور بے حیا نہ کر دے۔ فرمایا: کہہ دیجئے کہ مجھے انصاف اور عبادت کو ہر وقت قائم رکھنے اور بندگی کو خالص اللہ کے لیے کرنے کا حکم ملا ہے۔ دنیا کی تمام نعمتیں استعمال کرو لیکن اسراف اور بے اعتدالی سے گریز کرو۔ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان سے کہیں : اللہ نے ان کے لیے جو پوشاکیں اور آرائشیں حلال کیں اور رزقِ حلال کی اشیاء پیدا کیں ان کو کس نے حرام کیا۔ وہ تو ایمان والوں کے لیے ہیں اور قیامت تک رہیں گی۔ سنو اللہ نے جو چیزیں تم پر حرام کی ہیں، یہ ہیں :
1۔ تمام بے حیائی اور فواحش کے کام خواہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ۔
2۔ ہر بات جو خلاف شرع اور گناہ ہو۔
3۔ کسی پر بلاوجہ ظلم و زیادتی۔
4۔ اللہ کے سوا دوسروں کی بندگی کرنا، حاجت روائی، مشکل کشائی میں کسی دوسرے کو شامل سمجھنا۔
5۔ اللہ کے نام ان باتوں کومنسوب کرنا جس کی سند اس نے نہیں اتاری اور اللہ کے نام ایسی بات کہنا جس کے متعلق تمہیں یقین نہ ہو کہ یہ اس کا فرمان ہے۔
فرمایا: اگر تمہارے پاس میرے رسول آئیں اور میری آیتیں سنائیں تو جنہوں نے تابعداری کی ان کو کوئی ڈر نہیں مگر جھٹلانے والے ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ زمین پر سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جو اللہ پر جھوٹا افتراء کرتے ہیں اس کے احکام اور آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے معبود کہاں گئے جنہیں تم اللہ کے ساتھ شریک کرتے تھے بولیں گے کہ ہم نے کفر کیا ان کا ٹھکانہ جہنم اور دہرا عذاب ہے۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ آیتوں کو جھٹلانے والے متکبروں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور نیکوں کی جزا جنت ہے۔ وہ شکر ادا کریں گے اور پکاریں گے کہ ہم نے رب کا وعدہ سچا پایا۔ غیبی آواز اللہ کی راہ سے روکنے والوں پر اللہ کی لعنت کرے گی۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ وہ لوگ جو دنیوی زندگی کی رعنائیوں اور رنگینیوں میں کھو کر آخرت کی حقیقتوں کو فراموش کر بیٹھے تھے اللہ بھی قیامت کے دن انہیں بھول جائے گا۔ اور جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں جھونک دے گا۔ آج کوئی ان کے کام نہ آئے گا اور نہ ہی ندامت و پشیمانی کسی کام آئے گی۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ تمہارے پروردگار نے چھ دنوں میں ارض و سماء کو تخلیق کیا پھر اپنے تختِ جلال پر جلوہ گر ہوا۔ پھر رات دن سورج چاند ستارے وغیرہ تمام عالم فلکیات کے نظام کو اس قاعدے اور قرینے کے ساتھ مربوط کیا کہ یہ سب اس کے تابع فرمان حرکت کر رہے ہیں۔ لیکن یہ سب اس نے بغیر کسی کی مدد اپنی قدرت سے بنایا ہے۔ اسی لیے ان پر حکم بھی صرف اسی کا چلتا ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔ اپنی تمام ضرورتوں کے لیے صرف اپنے رب کو ہی خشوع و خضوع سے پکارو یہ تمہارا رب ہی ہے جو بارانِ رحمت برساتا، پھل اُگاتا ہے۔
رکوع 8۔ ۔ ۔ ۔ نوح علیہ السلام کو رسول بنا کر ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ انہوں نے توحید کی تعلیم دی جسے لوگوں نے جھٹلایا۔ آخرکار ان کو طوفان کے ذریعے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا اور نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو کشتی کے ذریعے بچا لیا گیا۔
رکوع 9۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ہود علیہ السلام کو قوم عاد کی طرف بھیجا۔ انہوں نے قوم سے کہا صرف اللہ کی بندگی کرو جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ بدکاریوں سے بچو جب وہ سرکشی سے باز نہ آئے تو اللہ نے ان کو جڑ سے اکھاڑ کر صفحۂ ہستی سے مٹا دیا اور حضرت ہود علیہ السلام اور ان کے ساتھی عذاب سے محفوظ رہے۔
رکوع 10۔ ۔ ۔ ۔ قوم ثمود کو حضرت صالح علیہ السلام نے توحید کا پیغام دیا۔ انہوں نے اسے جھٹلایا تو لرزا دینے والے عذاب سے نیست و نابود کر دیئے گئے۔ پھر قوم لوط کی بدکاریوں اور بے حیائی کا تذکرہ فرمایا جن پر حضرت لوط علیہ السلام کی تعلیم بے اثر رہی اور وہ قوم بھی تباہی سے ہمکنار ہوئی۔
رکوع 11۔ ۔ ۔ ۔ اہل مدین کی تباہی کا ذکر ہوا جن کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔
پارہ نہم
رکوع 12۔ ۔ ۔ ۔ جہاں بھی کوئی نبی بھیجا گیا تو وہاں کے مغرور اور متکبر سرداروں نے اپنا اقتدار اور چودھراہٹ قائم رکھنے کے لیے حق کی مخالف کی اور عذابِ الٰہی سے نیست و نابود ہوئے۔ اگر یہ لوگ پیغمبروں کا کہا مانتے، گناہوں کو چھوڑ کر نیکوکار ہوتے تو ان پر رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دیا اور وہ عذابِ الٰہی کی گرفت میں نہ آتے۔
رکوع 13۔ ۔ ۔ ۔ پہلوں کی حالتوں سے پچھلے سبق سیکھیں پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے واقعات بیان ہوئے۔
رکوع 14۔ ۔ ۔ ۔ فرعون کے جادوگروں کا ذکر ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہار گئے۔
رکوع 15۔ ۔ ۔ ۔ جادوگروں کی شکست کے بعد فرعون اور اس کے سرداروں نے سوچا کہ موسیٰ علیہ السلام اور قوم موسیٰ کو کھلا نہ چھوڑنا چاہیے تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کی مدد مانگنے کی تلقین کی۔
رکوع 16۔ ۔ ۔ ۔ فرعونیوں پر ان کی بد کرداریوں کے باعث عذابوں کا ذکر فرمایا۔
رکوع 17۔ ۔ ۔ ۔ کوہِ طور پر موسیٰ علیہ السلام کے تیس شب و روز، معتکف ہو کر عبادت کرنا، تجلیِ الٰہی کا ظہور، تختیوں پر احکامات (تورات) عطا ہونے کے واقعات بیان ہوئے۔ فرمایا: کہ اجر صرف نیک عملوں پر ملے گا۔
رکوع 18۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیر حاضری میں سامری سنار نے گائے کے بچھڑے کی طلائی مورتی بنائی جس کی پرستش شروع کر دی گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور سے واپس آئے تو یہ حالات دیکھ کر غضب ناک ہوئے اور اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام پر ناراض ہوئے۔
رکوع 19۔ ۔ ۔ ۔ بچھڑے کو معبود بنانے والے پر عنقریب اللہ کا غضب پہنچے گا اور انہیں دنیا میں ذلت نصیب ہو گی اور جنہوں نے توبہ کی تو اللہ معاف کرنے والا ہے۔ فرمایا: کہ وہ جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائے ان کی رفاقت کی اور مدد کی ہے اور قرآن کے احکام پر عمل کیا ہے وہی لوگ کامیاب ہوئے۔
رکوع 20۔ ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کہہ دیں کہ وہ رسول جس کی تابعدار کا حکم دیا گیا ہے وہ میں ہوں۔ پھر بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کا ذکر کیا اور ان پر اپنی نوازشوں کا ذکر کیا۔ پھر جب یہ شرارتوں سے باز نہ آئے تو ان آسمان سے عذاب نازل کیا گیا۔
رکوع 21۔ ۔ ۔ ۔ یہاں بھی بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کے قصے بیان کیے گئے۔
رکوع 22۔ ۔ ۔ ۔ جب اللہ نے عالم ارواح میں تمام روحوں سے پوچھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ تو سب نے جواب دیا کہ ہم اقرار کرتے اور گواہی دیتے ہیں کہ تو ہی ہمارا رب ہے اور یہ عہدِ الست اس لیے لیا کہ قیامت کے روز تم یہ عذر نہ کر سکو کہ ہم بے خبر تھے۔ فرمایا: کہ شرک میں تقلید عذر نہیں کہ ہمارے باپ دادا بھی یہ کرتے تھے۔ پھر ایک شخص کا واقعہ فرمایا جسے اللہ نے اپنی آیات کا فہم عطا کیا مگر وہ دنیاوی لالچ اور خواہشات میں ایسا پھنسا جیسے کتا، کہ اگر اس پر بوجھ ڈالیں تو ہانپتا ہے اور اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو بھی ہانپتا رہتا ہے۔
رکوع 23۔ ۔ ۔ ۔ منکروں کو ایک دم نہیں پکڑا جاتا بلکہ انہیں ڈھیل دی جاتی ہے کہ۔ پھر دعوتِ فکر دی کہ اپنی حالت پر غور کرو۔ منکرین آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے قیامت کا پوچھتے ہیں تو فرما دیں کہ اس کا حقیقی علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اعلان کر دیں کہ میں خود اپنی جان کا نفع نقصان بھی اپنے اختیار میں نہیں رکھتا میں تو صرف بندوں کو بدکرداری کی سزا سے ڈرانے اور نیکوکاروں کو خوشخبری سنانے والا ہوں۔
رکوع 24۔ ۔ ۔ ۔ انسانی پیدائش کے متعلق بیان فرمایا کہ تم اللہ سے اولاد کی دعائیں کرتے ہو جب وہ تمہیں عطا کرتا ہے تو اسے بتوں کی طرف منسوب کرتے ہو۔ بت نہ تمہاری سنے ہیں اور نہ تمہاری مدد کر سکتے ہیں۔ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموش رہ کر غور سے سنو اور اللہ کی یاد دل سے کرو۔ آخر میں ملائکہ کی مثال دی کہ جب وہ اللہ کا بندہ رہنے اور اس کی اطاعت میں ہیٹی محسوس نہیں کرتے، اسے یاد کرتے ہیں اور اس پاک ذات کو سجدہ کرتے ہیں تو تم کیوں نہیں کرتے ؟
آٹھ رمضان المبارک
پارہ نہم سورۃ الانفال رکوع 1تا 5
پارہ دہم سورۃ الانفال رکوع 5تا 10
پارہ دہم سورۃ التوبہ رکوع 1تا 12
(8)سورۃ الانفال رکوع 1تا 10
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے مال غنیمت کا پوچھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کہہ دیجئے کہ یہ در اصل اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا حق ہے۔ اس لئے تم ہر حال میں تقویٰ اختیار کرو۔ آپس میں صلح سے رہو اور تمام معاملات میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت و فرمانبرداری کرو۔ ایمان والے ہر حال میں اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ خوفِ الٰہی سے ان کے دل دہل جاتے ہیں۔ نماز کی پابندی اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ غزوۂ احد میں اپنی مدد کا تذکرہ فرمایا۔ فرمایا کہ فسادیوں کی یہی سزا ہے اور اللہ مومنوں کے ساتھ ہے۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کرو۔ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق وہ ہے جو حق سننے سے بہرے، حق کہنے سے گونگے اور حق سمجھنے سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔ دینِ اسلام کے قانون اللہ کے مقرر کردہ ہیں جو ہر وقت تمہارے اعمال کو نظر میں رکھتا ہے خواہ ظاہری ہوں یا تنہائی میں۔ باہمی امانتوں میں بددیانتی اور خیانت مت کرو۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو وہ تمہیں گناہوں سے دور رکھے گا، بخش دے گا۔ پھر کفارِ مکہ کی سازشوں اورمسلمانوں پر اپنی مہربانی کا تذکرہ فرمایا۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ کفار سے کہہ دیں کہ اگر باز آ جائیں تو ان کے گذشتہ اعمال معاف کر دیئے جائیں گے۔ اگر نہ مانیں تو ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرو، اللہ کی مدد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہے۔
پارہ دہم
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ تقسیمِ غنیمت کے متعلق فرمایا کہ پانچ حصے کرو۔ ایک حصہ اللہ اور رسول صلی اللہ کے لئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں اور مسافروں کے لیے ہو گا اور چار حصے مجاہدین میں تقسیم کرو۔ مسلمان اللہ کی مدد کے بھروسے جہاد کرتے رہیں اور کفار کی کثرت اور سازوسامان کی فراوانی سے مرعوب نہ ہوں۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ جنگ میں ثابت قدم رہو، اللہ کو یاد کرو اور صبر کرو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ فرعونیوں کی سرکشی اور ان کی تباہی کی مثال دی اور فرمایا کہ بدترین لوگ وہ ہیں جو اللہ کے منکر ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عہد شکنی کرتے ہیں۔ اللہ ان کو عبرتناک سزا دے گا۔
رکوع 8۔ ۔ ۔ ۔ اپنی قوت کو بڑھاؤ تاکہ تمہارا رعب و دبدبہ دشمنوں پر قائم رہے اور وہ تم سے لڑائی کی جرأت نہ کریں اور اگر تمہارے مخالف صلح کی خواہش کریں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی صلح پر راضی ہو جائیں۔ اگر وہ دھوکہ کریں گے تو بھی تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔
رکوع 9۔ ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب اور شوق دلائیں۔ اگر ان میں سے بیس صبرواستقامت اور اللہ کے توکل پر ہوں گے تو وہ سو پر فتح حاصل کریں گے۔ سو ہوں گے تو ایک ہزار پر غالب ہوں گے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ اگر مشکلات میں صبر و استقامت کا دامن نہ چھوڑا تو دوگنی تعداد اور طاقت کے خلاف اللہ کی مدد سے کامیاب ہوں گے۔
رکوع 10۔ ۔ ۔ ۔ اسلامی برادری یعنی مہاجرین و انصار جنہوں نے جان و مال سے جہاد کیا آپس میں اچھے رفیق ہیں۔ جو لوگ ابھی مکہ میں ہی قیام پذیر ہیں ان کی اعانت و سرپرستی کی ضرورت ہے جب تک کہ ہجرت نہ کریں۔ لیکن اگر وہ دین کے معاملے میں مدد چاہیں تو مدد لازم ہے لیکن اگر اس قوم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی عہد ہو جن کے خلاف انہیں مدد درکار ہے تو عہد پورا کرنا بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرض ہے۔
(9)سورۃ التوبہ رکوع 1تا 12
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ جن مشرکوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صلح و امن کا معاہدہ کیا تھا اب اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے مشرکوں کی بد عہدیوں کی وجہ سے ان سے معاہدوں کے خاتمہ کا اعلان کیا جاتا ہے اور ان کو چار ماہ کی مہلت دی جاتی ہے۔ جس میں وہ یا تو شرک سے باز آ کر دینِ حق قبول کر لیں ورنہ پھر جزیرۃ العرب سے نکل جائیں ورنہ ان کو بزور شمشیر نکال دیا جائے گا۔ البتہ جنہوں نے بدعہدی نہیں کی ان کا عہد ان کے وعدہ تک پورا کرو۔ چار ماہ کی مدت ختم ہونے کے بعد مشرکوں کو پکڑو، مارو، قید کرو اور اگر توبہ کریں، نماز قائم کریں، زکوٰۃ دیں تو انہیں آزاد کر دو۔ اگر کوئی مشرک پناہ میں آئے تو اسے حفاظت میں رکھو، اللہ کے احکام سے آگاہ کرو پھر اس کو اس کے امن کی جگہ تک پہنچا دو۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ مشرکوں کے ساتھ کسی قسم کا نرم رویہ اختیار نہ کرو کیونکہ ان کے بغض و عداوت کا عالم یہ ہے کہ اگر تم پر غلبہ پالیں تو کسی کو زندہ نہ چھوڑیں۔ بہرحال اگر یہ توبہ کر لیں، نماز اور زکوٰۃ میں پابندی کریں، تمہارے بھائی بن جائیں تو پھر ان سے کوئی تعرض جائز نہیں اور اگر یہ مرتد ہو جائیں تو ان سے جہاد کرو اللہ ان کو تمہارے ہاتھوں ذلیل و خوار کرے گا اور تمہیں ان پر فتح و نصرت سے ہمکنار کرے گا۔ مت گمان کرو کہ بغیر کوشش اور جد و جہد کے کسی کو کامیابی کا پھل ملے گا۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ اب بیت اللہ کے انتظام و انصرام میں کفار و مشرکین کا کوئی حصہ نہیں اور یہ کام متقی لوگوں کے کرنے کا ہے۔ خانہ کعبہ کی دیکھ بھال کا کام ایمان اور جہاد کے برابر نہیں ہو سکتا۔ جن لوگوں کا آخرت پر یقین ہے انہوں نے ہجرت کی اور جہاد فی سبیل اللہ کیا ان کے درجات بہت عظیم ہیں۔ دین حق کے مقابلے میں قرابت داریوں اور دوستیوں کی پرواہ نہ کرو اور دیکھو کہ ان کی محبت تمہیں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت و فرمانبرداری سے غافل نہ کر دے۔ اللہ نافرمانوں کو راستہ نہیں دکھاتا۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ غزوۂ حنین کے حالات اور اپنی نوازشات کا تذکرہ فرمایا اور فرمایا کہ اس سال کے بعد (فتح مکہ کے بعد 9ھ میں حج کے موقع پر اعلان کر دیا گیا) مشرک مسجد الحرام کے نزدیک نہ آئیں۔ تم کو غربت و افلاس کا خوف کھانے کی ضرورت نہیں اللہ تمہیں اپنے فضل و کرم سے غنی کر دے گا۔ اہل کتاب جو اللہ کی وحدانیت اور آخرت پر یقین نہیں رکھتے نہ حرام کو حرام سمجھتے ہیں ان سے جہاد کرو جب تک جزیہ و خراج دینے اور تمہارے ماتحت رہنے کا عہد نہ کریں۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ یہود نے کہا عزیر علیہ السلام اللہ کا بیٹا ہے۔ نصاریٰ نے مسیح علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہا حالانکہ یہ دونوں ایک جیسے انسان تھے۔ اللہ کو چھوڑ کر یہ اپنے عالموں اور درویشوں اور مسیح کو اپنا پروردگار ٹھہراتے ہیں حالانکہ عالم انسانیت کو یہ حکم دیا گیا کہ اللہ واحد ہی تمہارا رب ہے اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔ منکرین حق اسلام کی روشنی کو مشرکانہ پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں مگر یہ اللہ کے مقابلے میں کبھی کامیاب نہ ہوں گے اس سچے دین کا ہر دین پر غلبہ ہو گا۔ اہل کتاب کے علماء اور درویش ان سے نذرانے وصول کر کے انہیں حق پر چلنے سے روکتے ہیں (غلط مسئلے بتا کر) تاکہ ان کی گدیاں قائم رہیں۔ جو لوگ سونا چاندی خزانہ کر کے رکھتے ہیں یہ سیم و زر آگ میں تپا کر اس سے ان کی پیشانیاں، پہلو اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ زمانے کی تقسیم کا ذکر فرمایا کہ سال میں بارہ مہینے ہیں اور ان میں چار ماہ مقدس ہیں۔ یہی درست بات ہے کہ تم ان کا تقدس پامال کر کے اپنے اوپر ظلم نہ کرو۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ جب تمہیں جہاد پر چلنے کو کہا جائے تو کاہلی مت کرو۔ اگر تم نہ نکلو گے تو دردناک عذاب میں مبتلا ہو جاؤ گے اور اللہ تمہاری جگہ اور لوگوں کو مقرر کر دے گا۔ پھر ہجرت، غارِ ثور کا ذکر فرمایا۔ جہاد کا حکم دیا اور منافقوں کے حیلے بیان فرمائے۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر منافقین کا پول کھول دیا۔ فرمایا کہہ دیں کہ نافرمانوں کا مال قبول نہیں ہو گا چاہے خوشی سے دیں یا ناخوشی سے، وہ اس لیے کہ ان کا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے انکار ہے۔ نماز بھی کاہلی سے پڑھتے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ وہ اللہ کے دیئے پر راضی رہتے اور کہتے کہ ہم کو اللہ ہی کافی ہے۔
رکوع 8۔ ۔ ۔ ۔ زکوٰۃ و صدقات اِن لوگوں کے لیے ہیں : مفلسوں، محتاجوں، زکوٰۃ کا کام کرنے والوں، جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو، غلاموں کی آزادی کے لیے، قرض داروں کی مدد کرنے میں، راہِ خدا میں اور مسافر نوازی میں۔ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دکھ دینے والوں کے لیے دردناک سزا ہے۔
رکوع 9۔ ۔ ۔ ۔ نفاق کی علامتیں، کافروں اور منافقوں کی سزا بیان کی اور فرمایا کہ پہلی قوموں کے حالات سے عبرت حاصل کرو۔ پھر مومنوں کی خصوصیات بتائیں کہ مرد و زن ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ نیک باتیں سکھاتے اور برائی سے منع کرتے ہیں۔ نماز قائم کرتے، زکوٰۃ دیتے اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم پر چلتے ہیں۔ اللہ نے ان سے جنت کا وعدہ کیا ہے اور اللہ کی رضامندی ان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
رکوع 10۔ ۔ ۔ ۔ کافروں اور منافقوں سے جہاد کریں اور ان سے سخت رویہ رکھیں۔ نفاق کی جڑ بخل ہے اللہ ان کے دلوں کے بھید خوب جانتا ہے اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ مغفرت کے لیے ایمان شرط ہے۔
رکوع 11۔ ۔ ۔ ۔ منافق کی پرکھ جہاد ہے۔ یہ عارضی آرام و راحت کی خاطر قوم کو آگے بڑھنے سے روکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم منافقوں سے قطع تعلق کر لیں اور اپنی جماعت کو متحد اور مضبوط کرنے میں لگ جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان فاسقوں کی نہ نمازِ جنازہ پڑھیں اور نہ ان کی قبر پر کھڑے ہوں۔ ان لوگوں کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہ تندرست ہو کر اپاہج بنتے ہیں۔ مومن تو اپنی جان و مال سے لڑتے ہیں اور ان کا انعام جنت کے باغ ہیں۔
رکوع 12۔ ۔ ۔ ۔ بعض لوگ جہاد میں کمزوری، ناتوانی، بیماری اور بے سامانی کی وجہ سے شریک نہ ہوئے تو ان پر کوئی دوش نہیں۔ البتہ وہ جو صرف بدنیتی سے جی کتراتے ہیں، بہانوں سے جہاد سے پیچھے رہ جانے کی اجازت مانگتے ہیں، ان کے دلوں پر اللہ نے مہریں لگا دی ہیں۔
نو رمضان المبارک
پارہ گیارہ سورۃ التوبہ رکوع 12تا 16
پارہ گیارہ سورۃ یونس رکوع 1تا 11
پارہ گیارہ سورۃ ہود رکوع 1
پارہ بارہ سورۃ ہود رکوع 2تا 4
(9)سورۃ التوبہ (جاری) رکوع 12تا 16
رکوع 12۔ ۔ ۔ ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم واپس لوٹیں گے تو منافق آ کر بہانے بنائیں گے اور جھوٹی قسمیں کھا کر عذرو معذرت کریں گے مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کسی بات کا یقین نہ کرنا، نہ ان سے راضی ہونا اور کہہ دینا کہ میرا اللہ تمہاری کرتوتوں سے آگاہ ہے۔
رکوع 13۔ ۔ ۔ ۔ مہاجر و انصار جو رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز پر فوراً اسلام میں داخل ہوئے اور جو لوگ راستبازی سے ان کے بعد اسلام میں داخل ہوتے رہے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے اور ان کے لیے جنت کے باغات تیار ہیں۔ مدینہ کے بعض لوگ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں اور گردو نواح کی آبادی کے بھی بعض لوگ منافق ہیں۔ اللہ انہیں جانتا ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب تیار ہے۔ بعض طبیعت کی کمزوری سے گناہ کر کے پھر نادم ہوتے ہیں اللہ انہیں معاف کر دے گا سب کچھ اللہ کی نظر میں ہے۔ پھر مسجد ضرار کا قصہ بیان کیا اور فرمایا کہ اصل چیز نیک نیتی ہے اور تقویٰ پائیدار بنیاد ہے۔
رکوع 14۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے ہاتھ اپنی جانیں اور مال بیچ دو۔ مسلمان توبہ کرنے، شکر اور بندگی کرنے والے ہیں۔ رکوع اور سجدہ کرنے والے، نیکی کا حکم دینے اور بدی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ ان مومنوں کو خوشخبری دے دو۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مومن کو زیبا نہیں کہ مشرکوں کے لیے خواہ وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، مغفرت کی دعا کریں۔
رکوع 15۔ ۔ ۔ ۔ ایمان والو! کسی حال میں بھی اللہ کے خوف سے بے پرواہ نہ ہو جاؤ۔ ہمیشہ سچوں کا ساتھ دو اور انہی جیسے کام کرو۔ اللہ سے بہترین صلہ پاؤ گے۔ اسلامی ریاست کے قیام و بقا کے لیے اور فساد کو ختم کرنے کے لیے جہاد ضروری ہے اور مومنوں کو زیبا نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ دینے کے بجائے پیچھے رہ جائیں۔
رکوع 16۔ ۔ ۔ ۔ مسلمانو! اپنے گرد و پیش پھیلے منکرینِ حق کے خلاف پوری شد و مد کے ساتھ جہاد کرو۔ مسلمانو! تمہارے پاس اللہ کا ایک عظیم الشان رسول صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لا چکا ہے جس کو تمہارا رنج و الم اور مصائب میں مبتلا ہونا شاق گزرتا ہے اور تمہاری بھلائی کا بے حد خواہش مند ہے۔ اگر تم اس کی اطاعت سے روگردانی کرو گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے کیونکہ انہوں نے تو کہہ دیا ہے کہ "میرے لیے اللہ ہی کافی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے اسی پر بھروسہ کیا وہی عرشِ عظیم کا مالک ہے۔ ”
(10)سورۃ یونس رکوع 1تا 11
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیات مضبوط اور پختہ کتاب کی ہیں جس میں شک و شبہ، تغیر و تبدل کی گنجائش نہیں اور یہ کتاب اللہ نے اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو دے کر انہیں انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجا ہے کہ وہ لوگوں کو گناہوں سے ڈرائے اور نیکوکاروں کو خوشخبری دے۔ تمہارا رب وہ ہے جس نے چھ دن میں زمین و آسمان بنائے پھر مستوی ہوا عرش پر۔ اس کی اجازت کے بغیر کوئی کسی کی سفارش نہیں کر سکتا۔ مرنے کے بعد تمہیں دوسری زندگی ملے گی اور تمہارے اعمال کی جوابدہی ہو گی۔ تمہارے اللہ نے سورج، چاند، ماہ و سال بنائے۔ ان کھلی نشانیوں کے باوجود اگر کوئی ہماری نشانیوں سے بے خبر ہے تو اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے البتہ نیکوکاروں کے لیے جنت ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ سرکشوں کو فوراً سزا دینا مشکل نہیں مگر ان کو اصلاح کے لیے مہلت دی جاتی ہے۔ انسان رنج و محن میں اللہ کو پکارتا ہے اور جب اس کی تکلیف دور ہوتی ہے تو پھر ہمیں بھول جاتا ہے۔ قرآن کے احکام اٹل ہیں حتیٰ کہ کوئی رسول بھی اپنی خواہشِ نفس کے مطابق نہیں بدل سکتا۔ جو لوگ اللہ کی بجائے ان کی پرستش کرتے ہیں جو انہیں نہ نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان اور کہتے ہیں یہ ہمارے سفارشی ہیں تو یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ اللہ تو ہر قسم کے شرک سے پاک ہے۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تمہیں بحر و بر کی تری اور خشکی کے نظارے کراتا ہے جب تم طوفانوں میں گھِر کر ہم سے مدد مانگتے ہو تو وہ تمہیں نجات دیتا ہے تو پھر تم شرارت و سرکشی پر اُتر آتے ہو اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہو۔ نیک اور احسان کرنے والے آخرت میں فلاح و کامرانی پائیں گے اور دینِ حق کے منکر اور شرک کرنے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ آخرت میں جب شرک کرنے والوں کے معبودوں کو ان کے ساتھ کھڑا کریں گے تو وہ مشرکوں سے کسی بھی تعلق سے انکار کر دیں گے اور کہیں گے کہ ہم تو اس قابل ہی نہیں کہ کوئی ہماری عبادت کرتا۔ تو یہ حقیقت بھی عیاں ہو جائے گی کہ اصل مالک تو صرف اللہ ہے۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ تمہارا رب صرف اللہ ہی ہے۔ وہی موت و حیات کا مالک ہے اور حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے تو پھر اس کے سوا پیروی کا مستحق کون ہے۔ بعض نے قرآن کو پیغمبر کی تصنیف کہا کہ یہ کلامِ الٰہی نہیں۔ ایسوں کو کھلا چیلنج ہے کہ سب مل کر اس جیسی ایک سورۃ ہی بنا لاؤ۔ تم سے پہلے بھی کچھ لوگ جھلا چکے ان ظالموں کا دردناک انجام بھی دیکھ لو۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ اس حق کو سنا اَن سنا نہ کرو یہ سرکشی اور ظلم ہے اور اس کا انجام بہت سخت ہے۔ کافروں پر واضح کر دیا گیا کہ اللہ کا ہر وعدہ پورا ہو کر رہے گا چاہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں ہو یا بعد میں۔ ہر امت کے لیے ایک مہلت رکھی گئی ہے۔ جس کے اختتام پر اس کی سرکشی کا حساب چکا دیا جائے گا اور عذاب مسلط کر دیا جائے گا۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کی ہولناکی اتنی سخت ہو گی کہ یہ ظالم اگر زمین کا سارا خزانہ بھی فدیہ میں دے دے تو عذاب سے نہ بچ سکے گا۔ فیصلہ انصاف سے ہو گا اور ان پر کوئی زیادتی نہ کی جائے گی۔ یاد رکھو ارض و سماء میں سب کچھ اللہ ہی کا ہے۔ اس وعدہ سچا ہے وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ یہ کتاب تیرے رب کی طرف سے نصیحت اور دلوں کے روگ کی شفاء، ہدایت اور رحمت ہے۔ مگر تم پھر بھی سرکشی کرتے ہو اور اس کتاب کی بجائے اپنی مرضی سے حلال و حرام کا معیار قائم کرتے ہو۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ لوگو تم جو اچھے یا برے فعل کرتے ہو سب اللہ کو معلوم ہیں اور زمین آسمان کی ذرہ برابر شے بھی اس کی نظر سے پوشیدہ نہیں۔ جو فقط اللہ سے لو لگاتے، اسی کا سہارا پکڑتے ہیں ان کو کوئی غم یا خوف نہیں۔ علم کی روشنی سے محروم ہی اللہ کے سوا بھی کسی کی بندگی کرتے ہیں۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے آرام کے لیے رات اور کام کے لیے دن بنایا اور اللہ پر جھوٹ افتراء کرنے والے آخرت میں کبھی فلاح نہ پائیں گے۔
رکوع 8۔ ۔ ۔ ۔ حضرت نوح علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام و ہارون علیہ السلام اور فرعون کا ذکر فرمایا اور سرکشی اور تکبر کرنے والوں کا حشر بیان فرمایا۔
رکوع 9۔ ۔ ۔ ۔ اس رکوع میں بھی فرعون کی سرکشی اور تباہی بیان ہوئی۔
رکوع 10۔ ۔ ۔ ۔ دنیا میں پھنس کر انسان غافل ہو کر اللہ سے بھی بے دھیان ہو جاتا ہے۔ اس غفلت کے باعث بہت سی قومیں اللہ کے عذاب سے تباہ و برباد ہوئیں۔ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا ذکر کیا کہ وہ عذاب کی ابتدائی علامات کو دیکھ کر ایمان لے آئے تو ہم نے عذاب ٹال دیا۔ ایمان میں زبردستی نہیں، لوگوں کے سامنے بے شمار نشانیاں ہیں۔ یہ غور کریں اگر پھر بھی ایمان لانے میں ہچکچاہٹ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ لوگ عذاب کی راہ دیکھ رہے ہیں۔
رکوع 11۔ ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرما دیں کہ میں ان کی بندگی نہیں کرتا جن کی اللہ کے سوا تم کرتے ہو۔ میرا اللہ سب سے زبردست ہے جس کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔ تم اللہ کے دین مضبوطی سے پکڑ لو اور اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔ وہ تمہیں نفع یا ضرر نہیں پہنچا سکتے۔ اور شرک ظلم ہے۔ لوگو! تمہارے پاس اب پیغام حق آ چکا ہے جو اس کے مطابق زندگی گزارے گا کامیاب ہو گا اور جو بے راہ روی و گمراہی اختیار کرے گا، ذلیل و خوار ہو گا۔ صبر کیجئے حتیٰ کہ اللہ فیصلہ کر دے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
(11)سورۃ ہود رکوع 1تا 4
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ قرآن حکیم ایک حکم اور ایک نظام ہے اور اس کا نازل کرنے والا بڑی حکمت والا دانا اور باخبر ہے۔ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔ اپنی کوتاہیوں کی معافی اسی سے مانگو اور ہر معاملے میں اسی کی طرف رجوع کرو۔ اس زندگی میں خوب نیکیاں کرو وہ تمہیں اجر و ثواب میں زیادہ دے گا۔ مرنے کے بعد تم سب اس کے سامنے حاضر ہو گے جو ہر شے پر قادر ہے اور تمہاری ہر پوشیدہ بات سے واقف ہے۔
پارہ بارہ
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ انسان کی سطحی سوچ کا ذکر فرمایا کہ اگر اسے آرام دیں تو یہ اترانے والا شیخی خور ہے اور اگر تکلیف دیں تو بے حد گھبرا جاتا ہے۔ کسی وقت بھی اسے اللہ کی طرف سے آزمائش یا اس کا انعام تصور نہیں کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے الزامات سے ہرگز پریشان نہ ہوں، اللہ کے احکام پر عمل کرتے جائیں۔ یہ کہتے ہیں کہ یہ کتاب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گھڑی ہے تو انہیں کہیں کہ اس جیسی دس سورتیں تو بنا لاؤ۔ اگر نہ کر سکو تو جان لو کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ انہوں نے دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے اور دنیا کے مال کے حصول کے لیے ہی سرگرداں ہیں ان کو یہ سب مال دے دیا جائے گا مگر آخرت میں ان کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے برعکس جو ایمان لا کر نیک کام کرے گا صرف اللہ کے سامنے جھکے گا وہ سدابہار دائمی باغات کا حقدار ہو گا۔ جیسے اندھے اور سوجاکھے، بہرے اور سننے والے ایک جیسے نہیں اسی طرح موحد اور مشرک برابر نہیں ہو سکتے۔ تو کیا تم اب بھی غور نہیں کرو گے ؟
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ حضرت نوح علیہ السلام کی دعوتِ توحید کا ذکر کیا کہ ان کی قوم نے آپ کی بشریت کی وجہ سے اور ان کے پیروؤں کو نچلے درجے کے جان کر ان کے پیغام کو جھٹلا دیا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے قوم سے کہا کہ اے قوم میرے پاس نہ تو خزانے ہیں نہ میں غیب دان نہ ہی فرشتہ ہوں تو انہوں نے کہا چھوڑو یہ باتیں تم ہم پر وہ عذاب لاؤجس کی بات کرتے ہو۔ نوح علیہ السلام نے کہا عذاب دینا یا رحمت و مغفرت سے ہمکنار کرنا صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ کشتی نوح اور قومِ نوح پر عذابِ الٰہی کی تفصیل بیان فرمائی اور کہا کہ ہم یہ پرانے قصے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ لوگ ان سے عبرت حاصل کریں۔
دس رمضان المبارک
پارہ بارہ سورۃ ہود رکوع 5تا 10
پارہ بارہ سورۃ یوسف رکوع 1تا 7
پارہ تیرہ سورۃ یوسف رکوع 7تا 12
پارہ تیرہ سورۃ رعد رکوع 1تا 2
(11) سورۃ ہود (جاری) رکوع 5تا 10
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ہود علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا۔ انہوں نے کہا کہ زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اے قوم اپنے رب سے اپنے گناہوں اور خطاؤں کی معافی مانگتے رہو۔ ہر مشکل میں صرف اسی کی طرف توجہ کرو اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ قوم سرکشی سے باز نہ آئی تو اللہ نے ان پر آندھی کا عذاب مسلط کر دیا اور وہ اللہ کے رحمت سے دور ہوئے۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ حضرت صالح علیہ السلام قوم ثمود کی طرف بھیجے گئے۔ قوم ثمود نے حق کی آواز کو جھٹلایا اور اللہ نے زلزلوں کے عذاب سے ان کو نیست و نابود کر دیا۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ قوم لوط علیہ السلام کی بد کرداریوں کا ذکر اور پھر پتھر جو کنکروں سے بنے تھے، برساکر انہیں تباہ و برباد کر دیا۔
رکوع 8۔ ۔ ۔ ۔ مدین میں حضرت شعیب علیہ السلام کو بھیجا۔ انہوں نے قوم کو اللہ کا پیغام دیا لیکن قوم نے اسے نہ مانا آخر اللہ نے ان پر عذاب نازل کیا کہ ان نافرمانوں کو کڑک نے آ پکڑا پھر یہ صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔
رکوع 9۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور قوم فرعون کا تذکرہ فرمایا کہ کس طرح انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بتائی ہوئی راہِ توحید کی نفی کی اور فرعون کو خدا مان کر اس تابعداری کرنے پر اصرار کرتے رہے چنانچہ ان کو دنیا میں بھی غرق کیا گیا اور آخرت میں ان کے لیے جہنم کا عذاب تیار ہے۔ فرمایا کہ ان اقوام کی تباہی اللہ کا ظلم نہیں بلکہ ان کی نافرمانیوں کے باعث ہے۔
رکوع 10۔ ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے پیغمبروں کے پیغام پر بھی قومیں اختلاف کرتی رہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے حکم کی پیروی کریں، حدود اللہ سے تجاوز نہ کریں اور نافرمانوں کے ساتھ تعلقات نہ بڑھائیں۔ نماز کو اپنے اوقات میں ادا کریں۔ اللہ نیکیوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ لوگو! تم سے پہلے جو قومیں تباہ ہوئی ہیں وہ اپنے کفر، شرک، ظلم وغیرہ کے باعث ہوئیں۔ ارض و سماء کی تمام مخفی باتیں صرف اللہ ہی کو معلوم ہیں اور سب معاملات کے فیصلے بھی صرف وہی کرتا ہے۔ پس ہر دم اسی کی بندگی کرو اور اسی پر بھروسہ رکھو وہ تمہارے اعمال سے ہرگز غافل نہیں۔
(12)سورۃ یوسف رکوع 1تا 12
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ عربی زبان میں تمہارے لیے غور و فکر کرنے کے لیے ایک بہترین تاریخی واقعہ بیان کیا جا رہا ہے جو اس سے پہلے نہ کہیں تم نے پڑھا اور نہ سنا۔ قصہ یوں ہے کہ بچپن میں ایک بچے نے خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند مجھے سجدہ کرتے ہیں۔ اس نے خواب اپنے والد کو سنایا تو والد نے کہا کہ اسے اپنے بھائیوں کو نہ سنانا اور تیرا رب تجھے برگزیدہ کرے گا۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ بھائی یوسف علیہ السلام سے حد کرتے تھے کیونکہ وہ والد کا پیارا تھا۔ آخر ان میں مشورہ ہونے لگا کہ یا یوسف علیہ السلام کو مار ڈالو یا کسی دوسرے ملک چھوڑ آؤ۔ ایک بھائی نے کہا کہ بہتر ہے کہ اسے مت مارو بلکہ کسی کنویں میں ڈال دو تاکہ کوئی مسافر اسے دیکھے اور لے جائے۔ ایک روز وہ یوسف علیہ السلام کو والد کی اجازت سے ساتھ لے گئے اور انہیں ایک کنویں میں ڈال دیا۔ واپس آ کر والد کے پاس روئے کہ یوسف علیہ السلام کو بھیڑیا اٹھا کر لے گیا ہے۔ ادھر یوسف علیہ السلام کو ایک قافلے والوں نے دیکھا اور نکال کر لے گئے اور اپنے ملک پہنچ کر انہیں بیچ دیا۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ خریدار مصر کا تھا۔ اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بیٹا بنا لیا۔ بعد میں اس کی عورت نے ان پر بری نگاہ ڈالی۔ ایک دن اس نے دروازہ بند کر لیا۔ یوسف علیہ السلام وہاں سے بھاگے۔ عورت نے پیچھے سے کرتہ پکڑا جو پھٹ گیا۔ آگے پیچھے بھاگے تو باہر دیکھا کہ اس کا خاوند عزیز کھڑا دیکھ رہا ہے۔ فوراً بولی کہ یہ مجھے برے ارادے سے پیش آیا ہے۔ آخر کار انہیں میں سے ایک شخص نے کہا کہ یوسف علیہ السلام کا کرتہ دیکھو۔ اگر آگے سے پھٹا ہے تو یوسف علیہ کا منہ زلیخا کی طرف تھا اور عورت سچی ہو گی۔ اگر پیچھے سے پھٹا ہے تو یوسف علیہ السلام بھاگ رہے تھے تو اس صورت میں یوسف درست کہہ رہے ہیں۔ آخر زلیخا ہی کا قصور ثابت ہوا۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ عورتوں کے مکرو فریب کو دیکھ کر یوسف علیہ السلام نے ان سے بچنے کے لیے رب سے قید طلب کی تو ان کی دعا قبول ہوئی۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے قید خانہ میں حق کی تبلیغ شروع کر دی اور لوگوں سے کہا کہ کیا ایک زبردست رب بہتر ہے یا جدا جدا معبود؟ لوگوں کو توحید کی تعلیم دی اور خوابوں کی تعبیر بتانے لگے۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ بادشاہ نے خواب میں دیکھا کہ سات دبلی گائیں سات موٹی گایوں کو کھاتی ہیں اور سات ہری بالیں اور سات سوکھی۔ درباریوں سے تعبیر پوچھی تو کوئی نہ بتاس کا۔ قید خانے کے ایک ساتھی نے جا کر اس خواب کی تعبیر یوسف علیہ السلام سے پوچھی اور اپنے بادشاہ کو بتائی۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ بادشاہ کو معلوم ہوا کہ تعبیر یوسف علیہ السلام نے بتائی ہے تو ان کو قید خانہ سے بلا کر شاہی مشیر مقرر کیا اور آخر میں انہیں مصر کی بادشاہت مل گئی۔
پارہ تیرہ
رکوع 8۔ ۔ ۔ ۔ مصر میں غلہ کا قحط تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے سالوں میں جو غلہ جمع کیا تھا، ضرورت مندوں میں بانٹتے تھے۔ ان کے بھائی بھی غلہ لینے حاضر ہوئے تو یوسف علیہ السلام نے انہیں پہچان لیا وہ نہ پہچان سکے۔ انہیں غلہ ملا تو انہوں نے اپنے بھائی کے حصے کا غلہ مانگا جو ساتھ نہ آیا تھا۔ یوسف علیہ السلام نے اس کے حصے کا غلہ بھی دیا اور غلہ کی قیمت بھی غلہ کے ساتھ واپس رکھوا دی۔ گھر جا کر سامان کھولا تو غلہ کے ساتھ پونجی دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور والد صاحب سے درخواست کی کہ آئندہ بھائی بنیامین (یوسف علیہ السلام کے سگے بھائی) کو بھی ساتھ لے جانے کی اجازت دیں۔ وہ دوبارہ غلہ لینے گئے تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا کہ الگ الگ دروازوں سے وہاں داخل ہونا۔
رکوع 9۔ ۔ ۔ ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے بنیامین اپنے پاس بلا کر اس پر اپنی اصلیت ظاہر کر دی اور بتا دیا میں تمہارا بھائی ہوں۔ واپسی پر بنیامین کے سامان میں ایک قیمتی پیالہ رکھ دیا گیا اور ان کا قافلہ روک کر تلاشی لی گئی تو پیالہ برآمد ہوا۔ اب سزا کے طور پر بنیامین کو رکھ لیا گیا۔
رکوع 10۔ ۔ ۔ ۔ واپسی پر انہوں نے والد کو ماجرہ سنایا کہ کس طرح ان کا بھائی وہاں رہ گیا ہے تو حضرت یعقوب علیہ السلام کے منہ سے بے اختیار نکلا: ” آہ یوسف” اور کہا میری اپنے رب سے کوئی شکایت نہیں وہ بڑا رحیم ہے مجھ پر رحم فرمائے گا۔ باپ نے کہا جاؤ اور یوسف کو تلاش کرو۔ وہ عزیز مصر کے پاس آئے اور عرض کی کہ ہمارے گھر پر سختی پڑی ہے اور ہم ناقص پونجی لائے ہیں ہمیں صدقہ و خیرات کے طور ہی غلہ دیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا دل بھر آیا اور پوچھا بتاؤ تم نے یوسف علیہ السلام اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ بھائی پکار اٹھے کہ تو یوسف علیہ السلام ہے۔ کہا ہاں میں یوسف علیہ السلام ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر احسان کیا۔ اللہ نے اپنے فضل سے ہم کو تقویٰ پر قائم رکھا اور مصیبتوں میں صبر و ہمت عطا کی۔ بھائیوں کے سر ندامت سے جھک گئے اور خطاکار ہونے کا اقرار کیا۔ یوسف علیہ السلام نے کہا میرا کرتہ لے جاؤ اور میرے والد کے منہ پر ڈال دو (ان کی بینائی بیٹے کے ہجر میں رو رو کر ختم ہو چکی تھی) ان کی بینائی لوٹ آئے گی پھر تم سب یہاں آؤ۔
رکوع 11۔ ۔ ۔ ۔ بھائی واپس آئے، کرتہ رکھا، حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس آئی۔ یہ سب مصر آ گئے اور اس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے بچپن کا خواب پورا ہوا۔
رکوع 12۔ ۔ ۔ ۔ پہلی قوموں کے قصے یہاں اس لیے بیان کیے جا رہے ہیں تاکہ عبرت حاصل کرو اور اپنے لیے مفید نتیجے نکالنے میں تمہیں مدد مل سکے۔
(13)سورۃ الرعد رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ قرآن حق ہے اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کے بغیر ستون کے بنایا پھر وہ عرش پر قائم ہوا اور سورج چاند کو اپنے اپنے کام پر لگا دیا۔ اللہ کا نظام مقررہ قاعدے کے مطابق چل رہا ہے۔ زمین بنائی، پہاڑ، ندیاں بنائیں، پھلوں کے جوڑے، رات دن بنائے۔ اہلِ فکر کے لیے یہ نشانیاں ہیں۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے معجزات مانگتے ہیں۔ فرما دیں کہ میرا معجزہ فصیح و بلیغ قرآن ہے جو تمہارے سامنے پیش کر دیا گیا ہے جس میں تمہارے لیے ہدایت ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ ہر بات کا علم اللہ ہی کو ہے۔ وہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ نہ بدلیں۔ ہر طرف پھیلی نشانیوں کے باوجود کس نشانی کی ضرورت ہے۔ صرف اللہ ہی کی بندگی کرو کسی اور کی بندگی کام نہ آئے گی اور کافروں کی سبھی بندگی گمراہی ہے۔ کائنات کی ہر چیز اللہ کو سجدہ کرتی ہے۔ ارض و سماء کا مالک صرف اللہ ہی ہے اس کے سوا تمہارے حمایتی تو خود اپنے بھلے برے کے بھی مالک نہیں (السجدہ)۔ اللہ ہی ہر شے کا خالق و مالک ہے اور وہی اکیلا زبردست ہے۔ جس نے اللہ کا حکم مانا نفع میں رہا اور جھٹلانے والا دوزخ کا ایندھن بنا۔
گیارہ رمضان المبارک
پارہ تیرہ سورۃ الرعد رکوع 3تا 6
پارہ تیرہ سورۃ ابراہیم رکوع 1تا 7
پارہ چودہ سورۃ الحجر رکوع 1تا 6
پارہ چودہ سورۃ النحل رکوع 1تا 12
(13) سورۃ الرعد (جاری) رکوع 3تا 6
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ عقل کے اندھے اور غور و فکر کرنے والے کبھی برابر نہیں ہو سکے۔ غور و فکر کرنے والے اور جن کے دل کی آنکھیں ہیں وہ راہِ حق کو پاکر اللہ سے کیے عہد کو پورا کرتے ہیں۔ اور جنہوں نے صبر کیا، نماز قائم رکھی اور اللہ سے ڈرتے رہے اور اللہ کی راہ میں ظاہراً اور پوشیدہ خرچ کیا ان کے لیے آخرت میں نعمتوں بھرے باغات ہیں مگر جو اللہ سے کیا عہد توڑتے ہیں اور فساد کی آگ بھڑکاتے ہیں ان کا انجام اچھا نہیں ہے۔ ان پر اللہ کی لعنت ہے اور برا ٹھکانہ ہو گا اور اللہ ہی ہے جو رزق تنگ یا کشادہ کرتا ہے اور آخرت کی زندگی ہی ہمیشہ کی زندگی ہے۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ کافر معجزوں کا اصرار کرتے ہیں سو ان کی قسمت میں ہدایت نہیں۔ وہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جو رجوع کریں انہیں ہدایت عطا کرتا ہے۔ دل اللہ کی یاد سے ہی سکون حاصل کرتے ہیں اور نیکوکاروں کا اچھا ٹھکانہ ہے۔ جو لوگ رحمٰن کے منکر ہیں انہیں کہہ دیں کہ میرا رب وہی اللہ ہے جو لاشریک ہے۔ وہی ہر کام میں میرا سہارا ہے اور وہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے پیغمبروں کا بھی مذاق اڑایا گیا اور دینِ حق کا انکار کیا گیا۔ اللہ نے اپنے قانون کے مطابق انہیں مہلت دی اور بالآخر انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ جو لوگ دنیا میں تقویٰ اختیار کریں گے انہیں سر سبز باغات والے گھروں بسایا جائے گا جہاں انہیں کوئی ڈر نہ ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرما دیں کہ میں تو صرف اللہ کی بندگی کرنے اور شرک سے باز رکھنے کے لیے آیا ہوں۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ رسول سچی باتیں بتانے کے لیے آتا ہے۔ بغیر اذنِ الٰہی وہ کوئی نشانی ظاہر نہیں کر سکتا۔ سب اختیار صرف اللہ کے پاس ہیں وہ جسے چاہتا ہے اپنی حکمت کے مطابق چلاتا ہے۔ سب اس نے لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے اور اللہ ہر شے کا گواہ ہے۔
(14) سورۃ ابراہیم رکوع 1تا 7
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا کہ اس کتاب کے نزول کا مقصد لوگوں کو فکر و عمل کی تاریکیوں سے نکال کر روشنی اور اللہ کی طرف جانے والی راہ پر ڈالنا ہے۔ ہم نے جو رسول بھیجا انہیں کی قوم سے تھا تاکہ وہ ان ہی کی زبان میں دینِ حق ان کو سمجھا دے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مثال دی کہ وہ اپنی قوم کو فرعون سے نجات دلانے کے باوجود انہیں گمراہی کے اندھیروں سے نہ نکال سکے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ کیا تمہارے پاس نوح علیہ السلام کی قوم اور عاد و ثمود کی خبریں نہیں پہنچیں جنہیں ہمارے رسولوں نے حق بات بتائی لیکن انہوں نے نہ مانی۔ وہ کہتے کہ تم تو ہم جیسے انسان ہو اور چاہتے ہو کہ ہم اپنے باپ دادا کا مذہب چھوڑ دیں اور فکر و عمل کی ظلمتوں میں ڈوبے رہیں۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ کافروں نے رسول سے کہا یا ہمارے دین کی طرف لوٹ آؤ ورنہ ہم تمہیں یہاں سے نکال دیں گے۔ ان کے حق کا مسلسل انکار کرنے پر رسول نے دعا کی کہ یا رب ان کا اور ہمارا فیصلہ کر دے اور ہمیں ان پر فتح دے۔ تو اللہ عزوجل نے اپنا وعدہ پورا کیا اور سب ضدی لوگ دنیا ہی میں تباہ ہو گئے۔ فرمایا: مرنے کے بعد یہ سب دوزخ میں جائیں گے۔ بدن سے جل جل کر جو پانی جیسی پیپ بہے گی وہ انہیں پلائی جائے گی۔ منکرین کے کوئی بھی اعمال مثلاً خوش خلقی، خیرات، صدقات اور نیک کام بغیر ایمان کے انہیں دوزخ سے نہیں بچا سکیں گے جہاں انہیں سخت اور دردناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے دن سب فیصلے ہو جانے کے بعد شیطان کہے گا کہ اللہ کے سب وعدے سچے تھے اور میرے جھوٹے۔ میں نے تمہیں دعوت دی اور تم نے قبول کر لی، قصور سب تمہارا تھا۔ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ تم احکامِ الٰہی پر عمل کرنے کی بجائے میری اطاعت کر کے شرک کے مرتکب ہوئے۔ فرمایا: جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے جنت کے باغوں میں داخل کیے گئے اور اللہ پختہ ایمان والوں کو دنیا اور آخرت میں ثابت قدم رکھتا ہے۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ ناشکروں نے اللہ کے احسان کا بدلہ کفر سے دیا اور جہنم کو پسند کیا اور یہ سخت نادان ہیں کہ اللہ کو چھوڑ کر اوروں کو اس کے برابر بنا رکھا ہے۔ یہ کچھ دن دنیا کے مزے اڑا کر ہمیشہ کے لیے دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے۔ ایمان والو سے کہو کہ نماز قائم رکھیں اور حاجت مندوں کو چپکے اور ظاہری طور پر اپنی حلال کمائی سے دیتے رہیں تاکہ قیامت میں ان کا پھل پا سکیں۔ پھر ارض و سماء رزق کا سامان، سمندر، ندیاں، سورج، چاند، رات دن، غلہ، پھل، ترکاریاں انسانوں کے لیے بنانے کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ تمہاری ہر خواہش پوری کی اگر اللہ کے احسان گنو تو گن نہ سکو گے۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کی کہ اے رب اس شہر کو امن والا کر دے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی کی بلا سے بچائے رکھ۔ عرض کی کہ میں چکا ہوں کہ بتوں نے کتنے لوگوں کو غلط رستے پر ڈالا ہے۔ لیکن جو میرے راستے پر رہا تو وہ میرا ہے اور جو گمراہ ہوا اس کا معاملہ تیرے ساتھ ہے۔ عرض کیا کہ اے رب اس ریگستان میں تیرے گھر کے پاس میں اپنی اولاد کو چھوڑ گیا تھا تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ اللہ انہیں میوے اور نعمتیں عطا فرما تاکہ وہ تیرے شکر گزار بندے بنیں۔ اے اللہ آپ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ شکر ہے اللہ کا جس نے مجھے بڑھاپے میں دو فرزند اسمٰعیل علیہ السلام اور اسحاق علیہ السلام عطا کیے بے شک میرا رب دعائیں سنتا ہے۔ پھر دعا فرمائی الٰہی مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا کر اور میری دعا قبول کر اور مجھ کو میرے ماں باپ اور سب ایمان والوں کو یوم حساب بخش دے۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے منکر سمجھ لیں کہ اس دنیا میں انہیں مہلت دی گئی ہے۔ اس دن سے ڈرو جب ان پر عذاب آئے گا۔ تہ وہ کہیں گے ہمیں مہلت دے کہ تیرا حکم مانیں اور رسولوں کی پیروی کریں۔ پھر وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ ہر ایک کو اس کے اعمال کا نتیجہ مل کر رہے گا۔
پارہ چودہ
(15)سورۃ الحجر رکوع 1تا 6
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ یہ عظیم الشان کتاب اور آیات واضح احکام پر مشتمل ہیں۔ منکرین کل آزردہ ہوں گے کہ بہتر تھا کہ ہم مسلمان ہوتے۔ چنانچہ جب مسلمانوں کو فتح ملی اور ان کو شکست تو یہ دنیا ہی میں پچھتائے اور آخرت میں بھی ان کے لیے حسرت اور پچھتاوا ہے۔ یہ ان کی عقل کا فتور ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کلام اللہ پڑھ کر سنایا اور ڈرایا تو بولے اگر تو اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے تو تیرے ساتھ فرشتے ہونے چاہئیں، وہ کہاں ہیں ؟ فرمایا ہم فرشتے نہیں اتارے، قرآن بجائے خود ایک زبردست نشانی ہے جو ہم نے اتاری اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔ پچھلی قوموں کے پاس بھی رسول آئے اور ان کی ہنسی اڑائی گئی۔ یہ لوگ دنیا ہی کی لذت میں پھنسے ہوئے ہیں اور کفر پر اڑے ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی بیہودہ گوئیوں سے کبیدہ خاطر نہ ہوں اور اپنے اللہ سے لو لگائے رہیں۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے آسمان میں برج بنا کر شیطان مردود سے محفوظ کیا اور دیکھنے میں خوشنما بنایا۔ زمین کی پائیداری کے لیے پہاڑ کھڑے کیے اور زمین سے زندگی کی تمام اشیائے ضرورت تمہیں بہم پہنچائی ہیں اور یہ سب حکم الٰہی سے ہوتا ہے۔ پھر ہوائیں چلائیں اور آسمان سے پانی برسایا۔ ہم ہی زندی اور موت دینے والے ہیں اور ہم ہی ایک دن سب انسانوں کو جمع کریں گے اور ہر ایک کو اعمال کی سزا عدل و انصاف کے ساتھ دیں گے۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ یہاں انسان کی پیدائش اور ابلیس کی سرکشی کا تذکرہ فرمایا۔ اللہ کے بندوں پر شیطان مردود کا کوئی زور نہ چل سکے گا لیکن بہکے ہوؤں میں سے جو شیطان کی راہ پر چلے داخلِ دوزخ ہوں گے۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ پرہیزگار بغیر کسی خوف کے سرسبز میوے دار باغات میں رہیں گے۔ لوگوں سے کہہ دیں کہ اللہ ہی بخشنے والا مہربان ہے اور اس کا عذاب بھی دردناک عذاب ہے۔ پھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے گھر آئے مہمانوں کا قصہ بیان فرمایا جو اصل میں فرشتے تھے اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بڑھاپے میں بیٹے کی خوشخبری دینے آئے تھے۔ فرشتوں نے انہیں بتایا کہ اب ان کی اگلی منزل قومِ لوط ہے جو اپنی بدکرداری اور سرکشی کے باعث عذاب سے بے نام ہو جائیں گے سوائے لوط علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کے کوئی عذاب سے نہ بچ سکے گا یہاں تک کہ ان کی بیوی بھی ہلاک ہونے والوں میں ہے۔ اللہ کے قانون کے مطابق محض رشتہ و قرابت داری کی بنیاد پر کسی کے ساتھ رعایت نہیں برتی جاتی۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ فرشتے انسانی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے گھر پہنچے تو وہ انہیں نہ پہچان سکے۔ پوچھنے پر بتایا کہ ہم تمہاری نافرمان قوم کو نیست و نابود کرنے آئے ہیں۔ پس آپ گھر والوں کو لے کر رات رہے شہر سے چلے جاؤ اور کوئی مڑ کر نہ دیکھے۔ صبح قوم تباہ ہو جائے گی۔ قوم لوط اسی اثناء میں ان خوبصورت نوجوانوں (فرشتوں ) پر بدکاری کی غرض سے ٹوٹ پڑی۔ لوط علیہ السلام نے منع کیا کہ یہ مہمان ہیں لیکن وہ حضرت لوط علیہ السلام کی کسی بات کے ماننے کو تیار نہ ہوئے۔ فرشتوں نے کہا کہ یہ آپ کی کوئی بات نہیں مان رہے ہم ان کی خرمستیوں کا علاج کریں گے۔ چنانچہ پو پھٹتے ہی بادلوں کی کڑک اور بجلیوں کی چمک کا شدید طوفان آیا اور کنکروں کا مینہ برسا جس نے اشراق تک تمام تباہ کر ڈالے۔ قومِ لوط کے قصے میں پہچان والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ اسی طرح قوم شعیب کا انجام تفصیل سے بیان ہوا۔ ان دو قوموں کی بستیوں کے کھنڈر حجاز اور شام کے راستے میں سبق آموز ہیں۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ قومِ ثمود کا حال بیان کیا جو پہاڑوں کو تراش کر گھر بنا کر رہتے تھے۔ انہوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا اور انہیں زلزلہ اور ہیبت ناک چنگھاڑ سے تباہ کر دیا۔ یہ کائنات نہ ہی کھیل ہے، نہ ہی بے مقصد تخلیق ہوئی اور نہ ہی قیامت کا وقوع غیر یقینی ہے۔ اگر تم اس کی ہولناکی سے بچنا چاہتے ہو تو اپنے اندر عفو و درگزر کی خوبی پیدا کرو۔ یقین جانو ہر شے کا خالق اللہ ہے جس نے تمہیں سورۃ فاتحہ اور بڑے درجے کا قرآن دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نہیں احکامِ الٰہی کھول کھول کر بتا دیں اور ان کی پرواہ نہ کریں اور اپنے رب کے آگے سجدہ کرنے والوں میں شامل رہو اور عبادت میں مشغول رہو کہ انہیں سے اطمینانِ قلب ملتا ہے۔
(16)سورۃ النحل رکوع 1تا 12
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے آسمان اور زمین بنائے۔ وہ ذات بلند و برتر ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ انسان کو ایک بوند سے پیدا کیا پھر وہ اپنی طاقت و قوت سے اتنا مغرور ہو گیا کہ اپنے خالق کو ہی بھول گیا۔ پھر اللہ نے انسانوں پر انعامات کا تذکرہ کیا۔ یہاں پر سیدھی راہ بھی ہے جس پر چل کر انعام ملتا ہے اور اس سے کچھ ٹیڑھی پگڈنڈیاں بھی ہیں جو تباہی و بربادی کی طرف لے جاتی ہیں۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ رازق اللہ ہی ہے جو آسمان سے مینہ برساکر زمین میں تمہارے لیے پھل، سبزیاں اور غلہ پیدا کرتا ہے۔ پھر سمندر، دریا تمہیں مچھلیاں دیتے ہیں کہ اور یہ کہ ان میں جہاز اور کشتیاں چلا کر تم تجارت کر سکو۔ غرض تمہیں اتنی نعمتیں دیں جن کا شمار نہیں۔ پھر تم جن کو اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ کچھ پیدا نہیں کر سکتے۔ یہ خود کیسے پیدا ہوئے۔ یہ تو مردہ و بے جان ہیں اور انہیں اس کا بھی شعور نہیں کہ یہ کب اٹھائے جائیں گے تو یہ کسی کو کیا دے سکتے ہیں۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ تمہارا معبود اکیلا معبود ہے اور جن کو آخرت کا شعور نہیں وہ مغرور ہیں اور اللہ تکبر کرنے والے مغروروں کو پسند نہیں کرتا۔ بعض لوگ قرآن کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں، یہ اللہ کے نزدیک بدترین جرم ہے جس کی سزا ان کو قیامت کے دن دگنے عذاب کی صورت میں بھگتنا پڑے گی، خود گمراہ ہونے اور دوسروں کو گمراہ کرنے کی۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ پہلے بھی کچھ لوگ بے خوف بیٹھے تھے اور رسولوں اور کتابوں کی ہنسی اڑاتے، اللہ نے ان پر ان کی چھتیں گرا کر چشم زدن میں انہیں تباہ کر ڈالا۔ پھر وہ آخرت میں بھی رسوا ہوں گے۔ کافر عذاب دیکھ کر برے کاموں سے مکر جائیں گے لیکن اللہ فرمائے گا میں تمہاری بدکاریوں سے واقف ہوں اب تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے اور نیک لوگوں کے لیے بھلائی ہے اور آخرت میں بڑا اجر۔ متقی ہمیشہ باغوں میں رہیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ ان کی جان قبض کرتے فرشتے ان کو جنت کی خوشخبری سنادیتے ہیں۔ کافروں کو سبق حاصل کرنا چاہیے ورنہ وہ سر پکڑ کر روئیں گے۔ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ انہوں نے رسولوں کی نصیحتوں کا ٹھٹھہ اڑایا اور آخر اس عذاب میں گھِر گئے جس کی ہنسی اڑاتے تھے۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے جو نظامِ دنیا کا قانون قائم کر رکھا ہے اس میں بدکاروں کو فوراً سزا نہیں دی جاتی انہیں نصیحت کے ذرائع مہیا کیے جاتے ہیں پھر اختیار اور مہلت۔ پھر بھی جو منکر ہوں گے انہیں سزا مل کر رہے گی۔ رسولوں کا کام صرف نصیحت کرنا ہے کہ صرف اللہ کی بندگی کرو۔ شیطان کے پھندے میں پھنسنے والوں کو ہدایت سے محروم کر دے گا اور وہ سزا سے نہ بچ سکیں گے۔ اللہ کا وعدہ پختہ وعدہ ہے اور اسے پورا کرنا اس نے اپنے اوپر لازم کر لیا ہے اور اللہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ کیے کا پھل ملے اور کافر جان جائیں کہ وہ جھوٹے تھے۔ اور سمجھ لو کہ ہمارے لیے کچھ کرنا دشوار نہیں ہے اور ہم کہیں "ہو جا” تو وہ ہو جاتا ہے۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ جنہوں نے اللہ کے واسطے گھر بار چھوڑا، ظلم اٹھایا، صبر کیا ان کے لیے دنیا میں بھی اچھا ٹھکانہ ہے اور آخرت میں بڑا ثواب ہے۔ پہلے بھی کچھ رسولوں کے ذریعے کتابیں بھجوائیں۔ اب تکمیل کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ آخری کتاب دے کر بھیجا ہے جو قیامت تک کے لیے ہدایت ہے (اور اس میں تمام گزشتہ شریعتوں کا نچوڑ ہے )۔ اگر ہم چاہیں تو دینِ حق کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو زمین میں دھنسا دیں یا ایسی جگہ سے عذاب بھیجیں کہ انہیں گمان بھی نہ ہو۔ کائنات کا مطالعہ کرو اور مادی اجسام کو دیکھو کہ ان کے سائے چاروں طرف جھک رہے ہیں اور اپنے پروردگار کے حضور سجدہ ریزہ ہو کر تابع داری کا درس دے رہے ہیں (السجدہ) اور ارض و سماء میں ہر شے جاندار ہو یا فرشتے، تکبر نہیں کرتے اور اللہ سے ڈر رکھتے ہیں وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انہیں حکم ملے۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ دو معبود مت بناؤ۔ معبود وہ ایک ہی ہے اسی سے ڈرو۔ ارض و سماء میں سب کچھ اسی کا ہی۔ اسی کی عبادت کرو۔ سب نعمتیں اسی کی طرف سے ملتی ہیں۔ عجیب بات ہے کہ مصیبت میں اسے پکارتے ہیں اور تکلیف دور ہو جائے تو دوسروں کو شریک بناتے ہو۔
رکوع 8۔ ۔ ۔ ۔ اگر اللہ لوگوں کو ان کی کرتوتوں پر فوراً پکڑتا تو زمین پر ایک بھی ذی روح نہ بچتا۔ یہ تو اس نے اپنے کرم سے ڈھیل دے رکھی ہے لیکن معینہ مدت گزر جانے پر ایک ساعت کی بھی دیر نہ ہو گی۔ سب فنا ہو جائے گا۔ شیطان سے بہکنے والوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
رکوع 9۔ ۔ ۔ ۔ غور کرو چوپایوں کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم تمہیں پینے کو دودھ دیتے ہیں۔ کھجور اور انگور سے تم نشہ والی چیز بناتے ہو۔ ہم نے شہد کی مکھی کی فطرت میں شامل کر دیا کہ وہ میووں اور پھلوں کا رس چوسے اور تمہارے لئے شہد بنائے جو بیماریوں کے لیے شفا ہے۔ انسان خود اپنی حالت پر غور کرے اللہ کو پہچاننے کے لیے اس میں بڑی نشانیاں ہیں۔
رکوع 10۔ ۔ ۔ ۔ غلام اور آقا برابر نہیں۔ عورت پیدا کی کہ نسل کا سلسلہ جاری رہے۔ کھانے کو تمہیں ستھری چیزیں دیں۔ وہ بھی ہیں جو ان کو پوجتے ہیں جو ان کے لیے نہ روزی دے سکتے ہیں نہ ارض و سماء میں کسی شے کے مختار ہیں۔ مالک اور محتاج بھی برابر نہیں ہو سکتے۔ عدل و انصاف کرنے والا ہی سیدھی راہ پر ہے۔
رکوع 11۔ ۔ ۔ ۔ آسمانوں اور زمینوں کے بھید اللہ عزوجل ہی کے پاس ہیں اور جب وہ قیامت کا ارادہ کرے گا وہ پلک جھپکنے میں آ جائے گی۔ اللہ نے تم کو ماں کے پیٹ سے پیدا کیا اور تم کو کان، آنکھیں اور دل دیا تاکہ احسان مانو۔ پرندوں کو دیکھو کہ ایک قاعدہ قانون کے تحت اڑتے ہیں اور اللہ کے سوا انہیں سنبھالنے اور تھامنے والا کوئی نہیں۔ یہ تمہارے لیے نشانیاں ہیں۔ پھر انسان کے استعمال میں آنے والی اشیاء کا ذکر فرمایا۔ ارشاد ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کام تو ان کو کھول کر باتیں سمجھانا ہے۔ پھر بھی اگر نافرمانی کریں تو آخر ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے۔
رکوع 12۔ ۔ ۔ ۔ قیامت میں رسول کو کھڑا کیا جائے گا کہ بتائے اس کی قوم نے کیا سلوک کیا۔ منکر بول نہ سکیں گے نہ ہی ان کی توبہ قبول ہو گی اور نہ ہی عذاب میں کمی ہو گی۔ پھر وہ اپنے شریکوں کو پکاریں گے تو شیطان کہے گا کہ تم نے خود خوشی سے میرا کہنا مانا۔ میں نے زبردستی تو نہیں کی تھی۔ فرمایا کہ ہم نے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ایک عظیم الشان کتاب اتاری ہے جس میں قیامت تک کے لیے ہدایت ہے اور تابعداری کرنے والوں کے لیے رحمت ہے۔
بارہ رمضان المبارک
پارہ چودہ سورۃ النحل رکوع 13تا 16
پارہ پندرہ سورۃ بنی اسرائیل رکوع 1تا 12
پارہ پندرہ سورۃ الکھف رکوع 1تا 10
(16)سورۃ النحل (جاری) رکوع 13تا 16
رکوع 13۔ ۔ ۔ ۔ اللہ انسانوں کو حکم دیتا ہے کہ اہل قرابت کے ساتھ عدل و انصاف، رحم و مروت اور نیکی سے پیش آؤ اور بے حیائی اور، ناشائستہ کام، ظلم و زیادتی اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ فرمایا: عہد و پیمان کو ہمیشہ پورا کرو، قول دے کر نہ پھرو، دھوکہ دینے کے لیے قسمیں نہ کھاؤ اور نہ انہیں معمولی دنیوی مفاد کے لیے استعمال کرتے پھرو۔ یاد رکھو جو تمہارے پاس ہے، ختم ہو جائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے سدا باقی رہے گا۔ دنیا میں صبر کرنے والوں کو اجر ملے گا۔ جب قرآن مجید پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو۔ یاد رکھو اللہ کی پناہ اور مدد مانگنے والوں پر شیطان کا زور نہیں چلتا اور اس کا زور تو ان پر ہی ہے جو اس کو رفیق سمجھتے ہیں اور رفیق مانتے ہیں۔
رکوع 14۔ ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کہہ دیں کہ میرے پاک رب نے قرآن اتارا تاکہ ایمان والوں کو ثابت قدم کرے اور مسلمانوں کو ہدایت اور خوشخبری دے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسے ایک عجمی شخص سکھاتا ہے، ایسی حماقت وہی کر سکتے ہیں جو اللہ کی نشانیاں دیکھ کر اللہ کو نہیں پہچانتے۔ قیامت کو ان منکروں کے لیے بڑا عذاب ہے۔ ان بدبختوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت سے عزیز رکھا تو اللہ نے ان کے دلوں اور آنکھوں اور کانوں پر مہریں لگا دی ہیں اور آخرت میں یہ لوگ خراب ہوں گے اور جو ایمان لائے، ہجرت کی، جہاد کیا، صبر و استقلال کے ساتھ دین پر جمے رہے اللہ ان کی پہلی لغزشیں معاف کر دے گا وہ غفور و رحیم ہے۔
رکوع 15۔ ۔ ۔ ۔ یاد رکھو ایک ایسا دن آئے گا جب ہر کسی کو انصاف ملے گا۔ کوئی ظلم نہ ہو گا۔ جن کے پاس رسولوں کو بھجوایا اور انہوں نے انہیں جھٹلایا تو ان پر عذاب نازل کیا گیا۔ اللہ نے تمہارے لیے حلال اور پاک نعمتیں عطا کی ہیں اللہ کے اس احسان کا شکر ادا کرو۔ اللہ نے حرام کیا ہے تم پر مردار، لہو، سؤر کا گوشت اور وہ جس پر بوقتِ ذبح غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ تم اپنی طرف سے کچھ حلال یا حرام نہ کرو۔ یہ اللہ پر بہتان ہو گا جس کے لیے دردناک عذاب ہے۔ جو جہالت کے باعث کوئی برا کام کر بیٹھے پھر نادم ہو کر توبہ اور اصلاح نفس کرے تو بلاشبہ تمہارا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے۔
رکوع 16۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم علیہ السلام فرمانبرداروں میں بہترین نمونہ تھے۔ وہ اپنے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے تھے اور شکرگزار تھے۔ ہم نے دنیا میں بھی انہیں منتخب بندہ بنایا اور آخرت میں بھی نیک بندوں میں شامل ہوں گے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ و سلم انہی باتوں کو جاری رکھنے کے لیے دنیا میں تشریف لائے ہیں۔ اگر کسی سے اذیت کا بدلہ لو تو اسی قدر لو جو تمہیں پہنچائی گئی ہے لیکن اگر صبر کرو تو یہ اللہ کو پسند ہے۔ یاد رکھو اللہ کی نصرت صرف انہی لوگوں کے ساتھ رہتی ہے جو برائیوں سے بچتے اور نیک روش اختیار کرتے ہیں۔
(17)سورۃ بنی اسرائیل رکوع 1تا 12
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ پاک ہے وہ ذات جو رات کو اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ و سلم) کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ جس کے گرداگرد ہم نے برکت دی ہے اپنی قدرت کے نمونے دکھانے کو لے گیا۔ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی تاکہ وہ بنی اسرائیل کو معرفت کا راستہ دکھائیں اور کتاب سے ہدایت حاصل کریں کہ اللہ کے سوا کوئی کارساز نہیں اور تم انہی لوگوں کی اولاد ہو جن کو نوح علیہ السلام کی کشتی پر بچایا۔ تمہیں تورات میں بتایا گیا کہ دو دفعہ خرابی پھیلاؤ گے۔ اللہ نے ان پر مہربانیاں کیں لیکن وہ پھر نافرمانیوں پر اتر آئے اور ان کی تباہی و بربادی ہوئی۔ یہ قرآن انسانوں کو توحید کی طرف بلاتا ہے اور نیکوکاروں کو اجر کثیر دیتا ہے اور منکرین کو عذابِ الیم۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ انسان بڑا جلد باز ہے ہم نے رات اور دن بنائے پھر رات کو مٹاکر روشن دن بنایا تاکہ تم روزی تلاش کر سکو اور تمہیں دنوں، مہینوں اور سالوں کی گنتی معلوم ہو۔ قیامت کے دن ہر ایک کا اعمال نامہ اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا جو برائی سے بچا اور سیدھی راہ پر رہا وہی کامیاب رہا۔ ہم بدلہ اس وقت لیتے ہیں جب رسولوں کے ذریعے ہدایت بھجوا چکے ہوں۔ نافرمانوں کے لیے تباہی ہی تباہی ہے۔ دنیا کے طالبوں کو نعمتیں دنیا میں ہی دے دیں لیکن آخرت میں دوزخ ٹھہرائی اور جنہوں نے آخرت کو ترجیح دی اور کوشش کی ان کے لیے آخرت میں آرام دہ زندگی ہے۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ورنہ بالکل محروم رہ جاؤ گے۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ تیرے پروردگار کا حکم ہے کہ اس کے سوا کسی نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور اگر وہ دونوں یا ایک تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچیں تو ان کے سامنے اف تک نہ کرو اور ان کو مت جھڑکو اور ان سے بات ادب سے کرو اور ان کے سامنے عاجزی اور انکساری اور نیاز مندی سے جھک جاؤ اور کہو اے رب! ان پر رحم کر جیسے انہوں نے مجھ پر بچپن میں رحم کیا۔ تمہارا رب تمہاری نیت جانتا ہے وہ توبہ کرنے والوں کو معاف کرتا ہے۔ فرمایا: قرابت داروں کو ان کا حق دے دو اور محتاجوں اور مسافروں کی مدد کرو۔ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ اگر تیرے پاس محتاج کو دینے کے لیے کچھ نہیں تو حاجت مند کو سختی سے جواب نہ دے کہ اس کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچے۔ تیرا رب جس کی چاہے روزی کھول دیتا ہے اور جس کے لیے چاہے تنگ کر دے۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ اپنی اولاد کو مفلسی کی وجہ سے ہلاک نہ کرو کیونکہ رازق تو ہم ہیں اور زنا کے پاس نہ جاؤ یہ بے حیائی اور بری راہ ہے۔ ناحق قتل حرام ہے۔ یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جاؤ۔ ناپ تول میں کمی بیشی نہ کرو۔ زمین پر اکڑ کر نہ چلو اور اللہ کے ساتھ کسی کو معبود نہ بناؤ ورنہ جہنم میں جھونک دیئے جاؤ گے۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ قرآن حکیم کا سب سے اہم مقصد انسانوں کو توحید سکھلانا ہے۔ دیکھو کائنات کی ہر شے اللہ کی حمد و ثناء میں مصروف خود کو مخلوق ہونے کا اقرار کرتی ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم قرآن پڑھ کر سناتے ہیں تو وہ لوگ جو آخرت کو نہیں مانتے ہم ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ وہ توحید کی آیات پر پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ہیں کیونکہ ان کو اپنے جھوٹے معبودوں کا ذکر ہی پسند ہے۔ پھر وہ آپس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں گمراہی کی باتیں کرتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ جب ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو جائیں گی تو ہم نئے سرے سے کیسے زندہ ہوں گے۔ وہ کیا جانیں کہ یہ اللہ کے لیے کیا مشکل ہے۔ قیامت برحق ہے اور جب وہ پکارے گا تو سب اس کے حکم کی تعمیل میں اس کے سامنے حاضر ہو جائیں گے۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ میرے بندوں سے کہہ دیں کہ وہی بات کہیں جو بہتر ہو۔ شیطان ان میں جھگڑا کرتا ہے بیشک وہ انسان کا کھلا دشمن ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے جو ارض و سماء میں ہے۔ فرمایا: ہم نے داؤد علیہ السلام کو زبور دی۔ تم اپنے جھوٹے معبودوں کو پکار کر دیکھو کوئی تمہاری مدد نہیں کر سکتا۔ مددگار فقط اللہ ہے۔ جن کو یہ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے رب تک وسیلہ ڈھونڈتے ہیں۔ قیامت سے پہلے نافرمانوں کی بستیوں کو تباہ برباد کر دیا جائے گا۔ قوم ثمود کو دیکھو کس طرح نافرمانیوں کے باعث ایسے تباہ ہوئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ تخلیق آدم اور ابلیس کا سجدہ سے انکار اور پھر اسے دھتکار دیئے جانے کا تذکرہ فرمایا۔ ارشاد ہوا کہ تمہارا رب وہ ہے جو تمہارے واسطے دریا میں کشتی چلاتا ہے تاکہ تو روزی کما سکے۔ پھر جب دریا میں طوفان ہو تو اللہ کو پکارتے ہو اور اپنے جھوٹے معبودوں کو بھول جاتے ہو۔ پھر جب تمہیں خشکی پر پہنچا دیا جاتا ہے تو اطمینان کا سانس لیتے ہی اللہ کو بھول جاتے ہو۔ یہ بڑی ناشکری ہے۔ یاد رکھو اگر وہ تم پر سخت عذاب مسلط کر دے تو کسی کو بچانے والا نہ پاؤ گے۔ ہم نے انسان کو بہت نعمتیں عطا کیں کہ وہ شکرگزار بندے بنیں لیکن بہت کم شکر گزار ہیں۔
رکوع 8۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے روز سب کو حاضر کیا جائے اور اعمال نامہ انہیں دیا جائے گا۔ جن کے دائیں ہاتھ میں ہو گا، خوش ہوں گے۔ ان کو انعام ملیں گے اور کسی پر ظلم نہ ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا محور صرف اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور بقیہ تمام معبودوں کے بطلان کا اعلان ہے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پریشان کر کے مکہ سے نکالنا چاہتے ہیں۔ یاد رکھو کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مکہ سے نکال کر چند روز بھی چین سے نہ رہیں گے۔ پھر یہ ہمیشہ کے لیے باہر نکال دیے جائیں گے۔ یہی ہمارا مقرر کردہ قاعدہ ہے۔
رکوع 9۔ ۔ ۔ ۔ آفتاب ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کے اوقات میں اپنے پروردگار کی عبادت کیا کرو۔ اور فجر کے وقت بھی لمبی قرأت کے ذریعے ایک نماز ادا کیا کرو۔ پھر رات کی تنہائیوں میں تہجد بھی پڑھا کرو یہ تمہارے لیے نفل ہے اور بعید نہیں کہ تمہارا رب تمہیں مقام محمود پر فائز کر دے۔ اور دعا کرو کہ پروردگار مجھ کو جہاں بھی تو لے جا، سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال، سچائی کے ساتھ نکال۔ اور اعلان کر دو حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔ ہم نے قرآن نازل فرمایا جو مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔
رکوع 10۔ ۔ ۔ ۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھتے ہیں روح کیا ہے، تو کہہ دیں کہ یہ میرے رب کا امر ہے اور تم لوگوں کو اس بارے میں بہت کم علم دیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی جو کچھ ملا ہے اپنے رب کی رحمت سے ہے اور پروردگار کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر بڑا فضل ہے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے معجزے مانگتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کہہ دیں کہ قرآن سے بڑھ کو کونسا معجزہ ہے۔ لیکن یہ تو چشمے، باغات، نہروں وغیرہ کے معجزے چاہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کہہ دیں کہ میں تو ایک بشر ہوں اور پیغام پہنچانے والا ہوں۔
رکوع 11۔ ۔ ۔ ۔ کیا اس بات نے کافروں کو ایمان لانے سے روک رکھا ہے کہ اللہ نے ہدایت کے لیے آدمی کو بھیجا ہے۔ ان سے کہہ دیں کہ اگر زمین پر فرشتے بستے تو اللہ فرشتوں کے ذریعے پیغام بھیجتا۔ یہ ان کی بہانہ بازیاں ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ریزہ ریزہ ہڈیوں سے دوبارہ کیسے زندہ ہو گا تو کہہ دیں جس اللہ نے زمین و آسمان بنائے ہیں وہ ایسوں کو بھی بنا سکتا ہے۔
رکوع 12۔ ۔ ۔ ۔ ارشاد ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے فرعون کو واضح معجزات دکھائے لیکن اس نے کہا یہ جادو ہے وہ جان بوجھ کر حقیقت کا انکار کرتا رہا۔ قرآن برحق ہے اور اے نبی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نذیر و بشیر بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ قرآن تمہارے سامنے ہے مانو یا نہ مانو مگر حقیقت حال جاننے والوں نے اسے پہچان لیا اور وہ آیتیں پڑھ کر سجدہ میں گر جاتے ہیں اور کہتے ہیں پاک ہے ہمارا رب اور پھر سجدہ میں گر جاتے ہیں (السجدہ)۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کہہ دیجئے کہ سبھی تعریفوں کا مستحق صرف اللہ ہی ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اس کی کوئی اولاد نہیں، سبھی اچھے نام اسی کے ہیں اسے اللہ کہو یا رحمٰن۔ اس کی بڑائی بیان کرتے رہو۔
(18)سورۃ الکہف رکوع 1تا 10
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل کیا اور اس میں کچھ کجی نہ رکھی تاکہ وہ ایمان لانے والوں کو خوشخبری اور منکروں کو آفات سے ڈرائے۔ رسول کا کام فقط راستہ بتانا اور اس پر چل کر دکھانا ہے۔ پھر اصحابِ کہف کا قصہ بیان فرمایا۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ اصحابِ کہف کی تفصیل ہے اور اس قصے میں مفید سبق یہ ہے کہ اللہ ہی کو رب ماننے اور فقط اسی کی عبادت کرنے سے دل کو بڑی تقویت ملتی ہے۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ یہ نہ کہیے کہ یہ کام میں کل کروں گا مگر یہ کہ اگر اللہ چاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم صرف انہی سے ہر وقت میل جول رکھو جو صبح و شام اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اسی کی رضا کے طالب ہیں۔ منکروں کے لیے عذابِ الیم تیار رکھا ہے اور ایمان والوں کو انعام میں جنت کے باغات ہیں۔ وہ اچھی جگہ اور اچھا بدلہ ہے۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ یہاں سے دو شخصوں کی تمثیل بیان کی کہ ایک شخص کو خوبصورت باغ عطا کیے تو وہ اپنی خوشحالی پر اتراتا اور اللہ کی ناشکری کرتا، قیامت کا بھی مذاق اڑاتا۔ دوسرا شخص صاحبِ ایمان و یقین مگر معاشی طور پر تہی دست تھا۔ اس نے باغ والے کو کہا کہ بدبخت اللہ کی نافرمانی نہ کرو جس نے تمہیں سب کچھ دیا ہے۔ وہ باز نہ آیا اور آخرکار ناگہانی آفت سے اس کے باغ برباد ہو گئے اب وہ کفِ افسوس ملتا کہ کاش ایمان رکھتا۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ ارشاد ہوا کہ آسمان سے پانی برسا۔ تمام اطراف سر سبزو شاداب ہو گئے۔ دیکھنے کو یہ بہار ابدی ہے مگر چار دن بعد سارا سبزہ سوکھ کر ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائے گا اسی طرح دنیوی زندگی ہے۔ آج ہری بھری تو کل اجڑی ہوئی۔ مال اور بیٹے زندگی کی رونق ہیں لیکن صرف نیکی ہی باقی رہتی ہے کہ اجر پا سکے۔ قیامت کے دن سب ہوں گے ہر ایک کے ہاتھ میں اعمال نامہ ہو گا۔ گنہگار ڈریں گے جو کیا تھا سامنے پائیں گے۔ تمہارا رب ظلم نہ کرے گا۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ جب ابلیس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تو کیا تم اس کو اور اس کی اولاد کو رفیق ٹھہراتے ہو۔ میرے سوا وہ تو تمہارے بھی دشمن ہیں۔ صرف بے انصاف لوگ ہی اسے رفیق بنائیں گے۔ اللہ عزوجل فرمائے گا پکارو ان کو جن کو میرے سوا پکارتے تھے تو کوئی جواب نہ آئے گا۔ پھر انہیں ہر جانب آگ ہی نظر آئے گی اور انہیں یقین ہو جائے گا کہ اب اسی میں جلتے رہنا ہے۔ قرآن مجید میں اسی لئے انسان سے کہا جا رہا ہے کہ اللہ سے دل لگاؤ ورنہ تباہ ہو جاؤ گے۔
رکوع 8۔ ۔ ۔ ۔ قرآن حکیم میں ہم نے لوگوں کو بات مثالیں دے دے کے سمجھائی۔ کیا ایمان لانے، استغفار کرنے سے ان کے اگلوں کی رسم نے روکا ہوا ہے کہ عذاب کا انتظار کریں۔ اور سنو اللہ نے پیغمبر اسی لئے مبعوث کیے کہ مومنوں کو خوشخبری دیں اور کافروں کو نافرمانی سے ڈرائیں۔ لیکن انہوں نے آیات کو ٹھٹھا سمجھ لیا اس سے بڑا ظالم کون ہے جس کو ہدایت پہنچی اور اس نے منہ پھیر لیا۔ ایسے لوگوں کو ماضی کے سرکشوں کا انجام نہیں بھولنا چاہیے اور اپنے حال سے سبق لینا چاہیے کہ حق و صداقت سے روگردانی کی پاداش میں قومیں کس طرح صفحۂ ہستی سے مٹا ڈالی گئیں۔
رکوع 9۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کا واقعہ بیان فرمایا جس میں کشتی ڈبونا، لڑکے کا قتل اور دیوار کی درستگی بیان کی گئی۔ کشتی محنت کشوں کی تھی اس میں خضر علیہ السلام نے سوراخ کر کے ناکارہ کر دیا کہ ظالم بادشاہ کے ہاتھ نہ آئے اور محنت کش معمولی مرمت سے اسے کام میں لا سکیں۔ لڑکے کے والدین نیک اور بڑے ایمان دار تھے۔ خضر علیہ السلام کو اندیشہ ہوا کہ وہ انہیں سرکشی اور کفر سے عاجز نہ کر دے سو لڑکے کو قتل کر دیا۔ دیوار گرنے والی شکستہ تھی اور اس کے نیچے دو یتیموں کا مال دفن تھا۔ خضر علیہ السلام نے دیوار گرا کر دوبارہ تعمیر کر دی کہ ان کا خزانہ محفوظ رہے۔
تیرہ رمضان المبارک
پارہ پندرہ سورۃ الکہف رکوع 11تا 12
پارہ سولہ سورۃ مریم رکوع 1تا 6
پارہ سولہ سورۃ طٰہٰ رکوع 1تا 8
پارہ سترہ سورۃ الانبیاء رکوع 1تا 4
(18 )سورۃالکہف (جاری) رکوع 11تا 12
رکوع 11۔ ۔ ۔ ۔ ذوالقرنین کا قصہ بیان ہوا۔ پھر قیامت کا احوال بیان فرمایا کہ پہلا صور پھونکتے ہی سب کچھ تباہ و فنا ہو جائے گا۔ پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا اور سب میدان حشر میں جمع ہو جائیں گے۔ منکروں پر دوزخ ہو گی جو ان کی مہمانداری کے لئے ہے۔
رکوع 12۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ حق و صداقت کا انکار کرتے رہے اور اللہ کو چھوڑ کر اس کے بندوں کو کارساز بناتے ہیں اچھی طرح سن لیں کہ ان کو اللہ کی پکڑ سے کوئی نہیں بچا سکتا اور نہ ہی دوزخ سے۔ یہ وہ ہیں جنہوں نے اللہ کی باتوں اور رسولوں کا مذاق اڑایا۔ ایمان والے فردوس کے باغات میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ کا علم اتنا وسیع ہے کہ ایک سمندر تو کیا اور سمندر بھی سیاہی بن جائیں پھر بھی اللہ کا علم نہ لکھا جائے۔ فرمایا: کہیے میں بھی ایک آدمی ہوں تم جیسا۔ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ نیک عمل کرو اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ کیونکہ مرنے کے بعد اعمال کا حساب دینے کے لیے ایک دن اس کے سامنے حاضر ہونا ہے۔
(19) سورۃ مریم رکوع 1تا 6
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ حضرت زکریا علیہ السلام کا تذکرہ بیان فرمایا جو اللہ کے نبی اور عبادت گزار بندے تھے۔ زکریا علیہ السلام جو ضعیفی کی عمر کو پہنچ چکے تھے اپنے رب سے دعا کرتے ہیں کہ میری عورت بھی بانجھ ہے مجھے اپنے پاس سے ایک وارث اور کام سنبھالنے والا بخش دے۔ دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں یحییٰ علیہ السلام جیسا فرمانبردار اور پاکیزہ فطرت بیٹا عطا فرمایا۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ حضرت مریم علیہ السلام کا ذکر بیان ہوا جو ایک با حیا اور پاک دامن ناکتخدا خاتون تھیں جنہیں اللہ نے شوہر نا دیدگی کی حالت میں معجزاتی طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسا جلیل القدر فرزند عطا فرمایا۔ لوگوں نے سیدہ مریم علیہ السلام پر تعجب کیا تو گود سے بچے نے جواب دیا میں اللہ کا بندہ ہوں مجھے کتاب دی گئی ہے اور نبی بنایا گیا ہے اور خیرو برکت لایا ہوں۔ مجھے حکم دیا گیا ہے نماز اور زکوٰۃ کا اور اپنی ماں کی فرمانبرداری اور خدمت گزاری کا۔ اور اللہ کا مجھ پر سلام ہے جس دن پیدا ہوا، جس دن مروں گا اور پھر دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔ فرمایا: صرف اللہ کی بندگی کرو وہی سیدھی راہ ہے۔ قرآن آج تم کو متنبہ کرتا ہے کہ اس کی ہدایت کی پیروی نہ کرو ورنہ قیامت کو پچھتاؤ گے۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم علیہ السلام سچا نبی تھا اس نے عقیدۂ توحید کی خاطر اپنے باپ سے بھی قطع تعلق کر لیا۔ باپ نے سنگساری کی کی دھمکی دی۔ ابراہیم علیہ السلام توحید پرستی کے جرم میں گھر، قوم، وطن عراق چھوڑ کر شام کے علاقہ کنعان میں چلے گئے جہاں اللہ نے انہیں اسحاق علیہ السلام و یعقوب علیہ السلام جیسی اولاد عطا فرمائی اور دونوں کو نبی کیا۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا کہ وہ میرے چنے ہوئے نبی اور پیامبر تھے۔ جن کو کوہِ طور کی دائیں جانب بلا کر راز کی باتیں بتلائیں اور ان کی مدد کے لیے بھائی ہارون کو نبی بنا کر ساتھ کر دیا۔ اسمعیٰل علیہ السلام وعدہ کا سچا، پیامبر اور نبی تھا اور گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا۔ پھر ادریس علیہ السلام کا ذکر آیا کہ سچا نبی تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نبی بنایا اور جن پر خاص انعام کیا۔ جب انہیں ہماری آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کے دل پر گہرا اثر ہوتا ہے کہ آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور ہمارے سامنے سجدہ میں گر پڑھتے ہیں (السجدہ)۔ فرمایا: پھر وہ آئے جو اپنی خواہشات کی پیروی میں نماز کھو بیٹھے۔ قیامت کا انکار کیا، شرک کے مرتکب ہوئے۔ پھر جس نے توبہ کی اور نیک عمل کیے وہ بہشت میں جائیں گے۔ جنت کے وارث پرہیزگار ہیں۔ پس تو اسی کی بندگی کر اور بندگی پر قائم رہ۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ بعض لوگ تعجب کرتے ہیں کہ کیا مجھے دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ جس نے پہلے بنایا وہ دوبارہ بھی زندہ کر سکتا ہے۔ شیطان کے ہمراہی ایک جگہ اکٹھے کیے جائیں گے اور انہیں گھٹنوں کے بل جہنم کے گرد گرادیں گے۔ ہر برائی کے قائد/پیشا کو الگ کر کے زیادہ سزا ملے گی۔ صاحبان تقویٰ جنت میں داخل کیے جائیں گے۔ گمراہیوں کو مقررہ مدت کے لیے مہلت دی جاتی ہے جس کے بعد عبرتناک سزا دنیا اور آخرت میں دی جاتی ہے۔ یہ اللہ کی آیات و احکامات کا مسلسل انکار کرنے والے ہیں۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے منکرین پر شیطان مسلط کر دیئے جاتے ہیں جو انہیں ہر وقت برائی کی طرف اکساتے ہیں اور مہلت ختم ہونے تک ایک ایک لمحہ پورا ہوتا ہے۔ پھر اعمال کی سزا بھگتیں گے۔ سفارش کی اجازت صرف اللہ کے مقبول بندوں کو ہو گی۔ جو نادان گستاخی کرتے ہیں کہ اللہ صاحب اولاد ہے تو یہ انہوں نے اللہ پر جھوٹ گھڑا ہے۔ اللہ کا کوئی ہمسر نہیں اور بقا صرف اللہ کو ہے جس نے قرآن کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان میں اتار کر آسان کر دیا۔ دیکھو لو کہ نافرمانوں کی نسلیں تباہ ہو چکیں ہیں اور ان کا کوئی وجود باتی نہیں۔
(20) سورۃ طٰہٰ رکوع 1تا 8
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ قرآن مجید ان کی نصیحت کے لیے اتارا ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔ اس کا نازل کرنے والا وہ ہے جس نے زمین و آسمان بنائے۔ وہ بڑی رحمت والا عرش پر قائم ہے۔ کائنات کی ہر شے اللہ کی ہے جو ہر کھلی اور چھپی باتوں اور بھیدوں کو جانتا ہے اور وہی معبود ہونے کے قابل ہے۔ موسیٰ علیہ السلام جنگل میں راستہ بھول گئے۔ آگ دیکھی اور اس کی طرف گئے۔ پہنچے تو آواز آئی میں تیرا رب ہوں اور رسالت مل گئی اور ہدایت ملی کہ میرے سوا کسی کی بندگی نہیں سو میری بندگی کر۔ نماز قائم کر اور قیامت آنے والی ہے اس کا وقت کسی کو نہیں بتایا تاکہ اس وقت کے انتظار میں رہیں اور کوئی برا کام نہ کریں۔ موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا یہ تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے۔ بولا لاٹھی۔ فرمایا: اسے زمین پر ڈال دو تو وہ دوڑتا سانپ بن گئی اور پکڑا تو لاٹھی۔ فرمایا: اپنا ہاتھ بغل میں رکھ۔ نکلا تو سورج کی طرح چمکتا نکلا۔ یہ نشانیاں دے کر فرعون کی سرکوبی کو جانے کا حکم دیا۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی پروردگار میرا سینہ کشادہ اور کام آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے اور میرے بھائی ہارون کو میرا کام بٹانے والا کر دے تاکہ ہم دونوں مل کر تیرا حکم بجا لائیں۔ فرمایا: موسیٰ علیہ السلام تیری درخواست منظور ہے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش، بچ کر فرعون کے گھر پہنچنا اور پرورش پانا یعنی پہلے احسانات کا احوال بیان کیا۔ ارشاد ہوا کہ فرعون نے بہت سر اٹھایا ہوا ہے تم دونوں اس کے پاس جاؤ۔ نرمی سے بات کرو شاید وہ سوچے یا ڈرے اور فرمایا مت ڈرو میں ساتھ ہوں، دیکھتا اور سنتا ہوں۔ کہو کہ ہم اپنے رب کے پیامبر ہیں۔ بنی اسرائیل پر ظلم نہ کرو انہیں غلامی سے آزاد کر دو۔ یہ گئے اور سب کا سب کہا۔ فرعون کج بحثی پر اتر آیا۔ پوچھا تمہارا رب کون ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے نشانیاں بیان کیں۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ فرعون نے جادوگروں کو مقابلے کے لیے بلا لیا۔ انہوں نے زمین پر رسیاں پھینکیں وہ سانپ بن گئیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے عصا پھینکا جو سانپ بن کر ان سب سانپوں کو کھا گیا۔ موسیٰ علیہ السلام کی باتیں سن کر جادوگر اللہ پر ایمان لے آئے اور سجدہ میں گر گئے اور فرعون کی دھمکیوں کے باوجود عقیدۂ توحید پر قائم رہے اور شرک سے بیزار۔ گنہگاروں اور نافرمانوں کے لیے دوزخ اور صاحبانِ ایمان کے لیے جنت دائمی ٹھکانہ ہے۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ میرے بندوں کے ساتھ رات یہاں سے نکل جائے۔ راہ میں بحر قلزم آئے تو پانی پر عصا مارے۔ وہاں راہ بنے تو اس سے چل کر آگے بڑھے۔ فرعون نے پیچھا کیا وہ بھی بحر قلزم کے خشک راہ میں داخل ہوا۔ فرعون اور اس کا لشکر درمیان میں تھے کہ موسیٰ علیہ السلام پار پہنچ گئے تو پانی مل گیا اور یوں فرعون لشکر سمیت سمندر میں ڈوب کر تباہ ہو گیا۔ اے بنی اسرائیل یاد کرو کہ تم کو تمہارے دشمن سے چھڑایا، تمہیں صاف ستھری روزی من و سلویٰ عطا کی مگر تم نافرمان بنے اور میرا غضب نازل ہوا۔
موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر خاص عبادت کے لیے گئے اور قوم کی نگرانی کے لیے بھائی ہارون کو چھوڑ گئے۔ بعد میں قوم نے سونے کا بچھڑا پوجنا شروع کر دیا جسے سامری نے بنایا۔ اللہ نے وحی کے ذریعے موسیٰ علیہ السلام کو مطلع کیا کہ قوم شرک پرستی میں مبتلا ہو گئی ہے۔ واپس لوٹے، قوم کو اللہ کے احسان بتائے اور کہا کہ وہ مشرکوں کی باتوں میں آ کر شرک میں مبتلا ہو گئے۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ ہارون علیہ السلام نے بھی قوم کو سمجھایا کہ حقیقی پروردگار صرف تمہارا رب ہے تم کیوں بہک گئے ہو لیکن وہ نہ مانے۔ سامری سے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے ایک مٹھی مٹی رسول (جبریل علیہ السلام) کے پاؤں کی لی اور وہ بچھڑے میں ڈال دی۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا جا دور ہو جا اور بچھڑے کو جلا کر دریا میں اس کی راکھ پھینک دی اور قوم سے کہا کہ معبود تو صرف اللہ ہی ہے۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ اللہ پہاڑوں کو اُڑا دے گا اور زمین کو صاف میدان میں بدل دے گا۔ اس دن رحمٰن کے ڈر سے سب کی آوازیں پست ہوں گی اور کسی کی سفارش کام نہ آئے گی مگر جسے اللہ نے اجازت دی۔ اس دن سب اس کے آگے جھکے ہوں گے۔ ایمان والوں کو کوئی خوف نہ ہو گا۔ ہم نے قرآن عربی زبان میں نازل کیا اور اس میں باتیں پھیر پھیر کر سنائیں تاکہ ہدایت پاؤ۔ اللہ ہی عالی مرتبت و بادشاہ حقیقی ہے۔ پس اسی کے آگے دعا مانگو کہ میرے علم دین میں فراوانی اور زیادتی عطا فرما۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ آدم کو سجدہ کرنے کا حکم اور ابلیس کا انکار۔ پھر آدم کو ایک کام سے منع کیا گیا لیکن وہ ابلیس کے بہلاوے میں آ گئے اور بھول کے نتیجے میں جنت چھوڑنا پڑی۔ فرمایا: جس نے ہماری یاد سے منہ موڑا ہم قیامت میں اسے اندھا اٹھائیں گے کیونکہ اس نے دنیا میں حق و صداقت دیکھنے اور قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرنے اور کلام الٰہی میں غور و فکر کرنے سے ہمیشہ چشم پوشی کی۔
رکوع 8۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا: اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم! اگر تمہارے پروردگار سے یہ قانون مقرر نہ ہوتا کہ انکار و بد عملی کے نتائج ایک معینہ وقت پر ظہور میں آئیں گے تو منکرینِ حق کو کب کا عذاب ہو چکا ہوتا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و سلم صبر کریں اور صبح و شام اور رات کو اللہ کی بندی میں مصروف رہیں۔ اپنے افرادِ خانہ کو باقاعدگی کے ساتھ پابندِ صلوٰۃ کریں اور بہانہ بازوں کو آگاہ کر دیں کہ انجام کے منتظر رہو۔ بہت جلد جان لو گے کہ کون صراطِ مستقیم پر تھا اور کون منزل مراد پا گیا۔
پارہ سترہ
(21)سورۃ انبیاء رکوع 1تا 4
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کا وقت اب قریب آ گیا ہے مگر افسوس کہ تم دنیا کے دھندوں میں پھنس کر آخرت سے غافل پڑے ہو۔ ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ تمہاری مانند ایک بشر ہی تو ہے کیا تم اس کا سحر مانتے ہو۔ اسے کہو کہ کوئی نشانی لائے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے بھی مرد ہی نبی بھیجے۔ ان سے پوچھیں کہ کیا وہ کھاتے نہ تھے، ان کے بدن اسی طرح کے نہ تھے اور نہ وہ سدا جینے والے تھے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو ہم نے کتنی بستیاں جو گنہگار تھیں، ہلاک کر دیں۔ ان کی جگہ دوسری قوموں کو پیدا کیا۔ جب وہ بھی شرک میں مبتلا ہوئے اور ہمارے رسولوں کا کہا نہ مانا تو عذاب نے ان کو گھیر لیا اور وہ ہلاک ہو گئے۔ زمین و آسمان کی تخلیق تفریحاً نہیں کی یہ مقصد کے تحت ہے۔ انسان کو بھی زندگی کھیل کود ہی میں نہ گزارنی چاہیے یہاں حق و باطل کی جنگ رہتی ہے۔ باطل بڑھ جائے تو اسے نیست و نابود کر دیا جاتا ہے۔ انسان کو حق کا ساتھ دینا چاہیے۔ کائنات کی سب مخلوق دن رات اللہ کی تسبیح کرتی ہیں اور تیرے سوا کوئی شے سرکشی نہیں کرتی نہ اس کے حکم کی ادائیگی میں کاہلی دکھاتی ہے۔ معبود تو ایک اللہ ہی ہے وہی عرش کا مالک ہے اور اس کا کوئی مددگار نہیں۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ کائنات کی پیدائش کی تفصیل بیان فرمائی۔ فرمایا کہ ہم نے انسان کو ہمیشہ کی زندگی نہیں دی۔ ہر زندہ کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ خیر و شر کے ذریعے آزمائش ہو گی اور ہر نیک و بد کو اور ہر فرد کو ایک دن اپنے خالق کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ کاش دینِ حق کے منکر اس وقت کو جان سکتے جب دوزخ کی آگ ان کو ہر طرف سے گھیر لے گی، انہیں جلائے گی اور کوئی ان کی مدد کو نہ پہنچ سکے گا۔ یہ سب کچھ اتنا اچانک ہو گا اور انہیں کوئی مہلت نہ مل سکے گی۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ حق تعالیٰ اگر تمہیں پکڑنا چاہے تو تمہیں کون پناہ دے سکتا ہے۔ جن فرضی خداؤں پر تم تکیہ کیے ہوئے ہو وہ بیچارے تو خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتے۔ جان لو کہ متاع زیست دینے والی واحد ذات اللہ ہی ہے۔ جو لوگ ہدایت حاصل نہیں کرنا چاہتے تو آخرکار تباہی سے ہمکنار ہوں گے۔ قیامت کے دن کسی پر ظلم نہ ہو گا۔ ہر ایک کا رائی کے برابر عمل بھی ضائع نہ ہو گا۔ فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو تورات دی تھی اور اب قرآن نازل فرمایا ہے جس میں پچھلی کتابوں کا خلاصہ درج ہے۔ کیا ایسے فائدہ مند نصیحت نامہ کا اقرار کرتے ہو؟
چودہ رمضان المبارک
پارہ سترہ سورۃ الانبیاء رکوع 5تا 7
پارہ سترہ سورۃ الحج رکوع 110
پارہ اٹھارہ سورۃ المومنون رکوع 1تا 6
پارہ اٹھارہ سورۃ نور رکوع 1تا 2
(21) سورۃ الانبیاء (جاری) رکوع 5تا 7
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت حق اور ان کی قوم کے رد عمل کا ذکر فرمایا۔ قوم نے بتوں کی مخالفت کے جرم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے الاؤ ڈالا تو اللہ نے اپنے بندے کی مدد کی اور آگ کو حکم دیا کہ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا تاکہ ابراہیم علیہ السلام تیرے اندر آرام سے صحیح سلامت رہیں۔ یوں حق و صداقت کا بول بالا ہوا۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کو عراق سے شام پہنچایا اور اسحاق علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام انعام میں دیئے اور انہیں پیشوا بنایا اور انہیں نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا۔ لوط علیہ السلام کو سمجھ اور دانائی دی اور گندے کام کرنے والوں کی بستی سے بچا کر نکالا اور اپنی رحمت میں لے لیا۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ حضرت نوح علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام، سلیمان علیہ السلام، ایوب علیہ السلام، اسمیٰل علیہ السلام، ادریس علیہ السلام، ذوالکفل علیہ السلام، یونس علیہ السلام اور زکریا علیہ السلام کا تذکرہ فرمایا۔ ارشاد ہوا کہ یہ سب اپنے خالق کو پکارنے والے اور صرف اسی کے آگے جھکنے والے تھے۔ پھر حضرت مریم علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی قدرت کی نشانی بتایا۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ جو صاحبِ ایمان اعمال صالح کی بجا آوری میں محنت و سعی کرے گا اس کی محنت اور کوشش رائے گاں نہ جائے گی کیونکہ ہر عمل اللہ کے ہاں قلمبند ہو رہا ہے اور جس بستی کا مقدر تباہی ہو چکا وہ کسی صورت شرک و سرکشی چھوڑ کر توحید اور فرمانبرداری کی راہ پر نہ آئیں گے۔ پھر علاماتِ قیامت بیان فرمائیں۔ فرمایا کہ اللہ کے سوا جنہیں تم پوجتے ہو، دوزخ کا ایندھن ہیں۔ اگر یہ بت معبود ہوتے تو دوزخ تک نہ جاتے جبکہ مقبول بندے جنت کی راحتوں بھری دنیا میں ہوں گے اور انہیں جنت کی سرزمین کا وارث بنایا جائے گا۔
لوگو! رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے، جنہوں نے اعلان کیا کہ تمام انسانوں کا معبود، معبودِ واحد ہی ہے۔ پس اس کے آگے سرِ تسلیم خم کرو اور یقین کرو کہ وہ ہر بات کو جانتا ہے جو برملا کہی جائے یا صیغۂ راز میں رکھی جائے۔
(22) سورۃ حج رکوع 1تا 10
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ لوگو! اپنے رب سے ڈرو۔ قیامت کے دن دودھ پلانے والی بچوں کو دودھ پلانا بھول جائیں گی۔ حمل والیوں کے حمل گر جائیں گے۔ اللہ کا عذاب دیکھ کر لوگوں کے ہوش اڑے ہوں گے۔ بعض بے علم اللہ کے متعلق جھگڑتے اور ابلیس کے پیرو ہیں۔ شیطان کے رفیقوں کا راستہ دوزخ کو پہنچتا ہے۔ اگر تم کو دوبارہ جی اٹھنے پر شک ہے تو غور کرو کہ کس طرح تمہیں ایک قطرہ پانی سے بنایا، پھر کوئی بچپن یا جوانی میں مر جاتے ہیں، کچھ بڑھاپے تک زندہ رہتے ہیں۔ پھر زمین پر غور کرو پانی برسنے سے کس طرح سرسبز ہو جاتی ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جو مُردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ قیامت آنے میں کوئی شبہ نہیں جب سب مُردے اٹھائے جائیں گے۔ بدکاروں، خود پرستوں، ٹیڑھی عقل والوں کو دوزخ کی دہکتی آگ میں جانا ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ متزلزل یقین دنیا اور آخرت گنوا بیٹھتا ہے۔ شرک تباہی کا سبب ہے اور نیکو کاروں کا بدلہ جنت ہے۔ بندگی کا تقاضا ہے کہ بندہ مالک کا ہر حکم سرِتسلیم خم کر کے بخوشی قبول کرے۔ قیامت کے دن اللہ مسلمان، یہود، صابی، نصاریٰ، مجوسی اور مشرکین مکہ کے درمیان فیصلہ کرے گا کہ کون حق پر تھا، اس لئے کہ ہر ایک پر چشم دید گواہ ہے۔ کائنات کا ہر ذرہ اللہ کو سجدہ کرتا ہے اور جو اس اکیلے کے حضور سجدہ ریزی کو گراں سمجھتا ہے اس کو آخرت میں آگ کا لباس پہنایا جائے گا (السجدہ)۔ ان پر کھولتا پانی ڈالا جائے گا۔ لوہے کے گرز مارے جائیں گے اور اگر نکلنا چاہیں تو واپس دھکیل دیئے جائیں گے۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ ایمان والوں کو انعامات سے نوازا جائے گا اور جنت ان کا دائمی ٹھکانہ ہو گا اور منکرین مسلمانوں کو مسجد الحرام جانے سے روکتے تھے انہیں دردناک عذاب ملے گا۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ یہاں بیت اللہ بنائے جس میں اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ ہو گی اور اسے پاک رکھا جائے طواف، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لئے۔ اور لوگوں کو اس کے حج کے لئے پکارے۔ وہ قربانی دیں اور اس گھر کا طواف کریں۔ فقط اللہ کی عبادت کرو۔ جھوٹ سے بچو اور نہ دوسروں کو دھوکا دو اور شرک تباہ کن ہے۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے ہر امت کے لیے قربانی کو عبادت قرار دیا اور یہ کہ ذبح صرف اللہ کے نام پر کیا جائے جو تمام انسانوں کا واحد رب ہے۔ خوشخبری دیں ان کو جن کے دل اللہ کی عظمت و جلال کے تصور سے لرز جاتے ہیں، مصائب و آلام، صبر و استقلال سے برداشت کرتے ہیں۔ نماز پابندی سے ادا کرتے اور خوشی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ اللہ کے پاس گوشت اور لہو نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا اخلاص اور فرمانبرداری کا جذبہ پہنچتا ہے۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین مکہ سے لڑائی کی اجازت مل گئی۔ ایمان والوں کی پہچان یہ ہے جب ان کو اقتدار ملے تو وہ نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں، اچھائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔ لیکن انجام ہر بات کا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ پھر منکروں کا تذکرہ فرمایا جن کا انجام تباہی تھا۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ ارشاد ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان سے کہیں کہ میں تو تمہیں تمہارے اعمال کے نتیجوں سے خبردار کرنے والا ہوں۔ جو یقین کرے، نیک کام کرے، ان کی بخشش ہو جائے گی اور منکروں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ شیطان تو نبیوں کے پیغام میں شبہے ڈالتا رہا ہے اور پختہ یقین کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اللہ سیدھا راستہ دکھا دے گا۔ مگر منکر صراطِ مستقیم نہ پا سکیں گے یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی پھر اس دن یقین کے ساتھ بھلائیاں کرنے والے جنت اور منکروں کے لیے ذلت کا عذاب ہو گا۔
رکوع 8۔ ۔ ۔ ۔ گھر، وطن اور جاں نثار کرنے والوں کو اللہ آخرت میں عمدہ روزی اور پسند کی جگہ عطا کرے گا۔ اللہ نے مظلوم کی مدد کا وعدہ کیا ہے۔ وہی سچا معبود ہے اس کے سوا لوگوں کے بنائے ہوئے سب معبود جھوٹے ہیں۔ وہی سب سے بلند اور برتر ہے۔ اس سے بڑا کوئی نہیں۔ وہی آسمان سے پانی برساکر زمین کو سر سبز کرتا ہے۔ وہ کائنات کی ہر شے کا مالک بڑا خوبیوں والا بے پرواہ ہے۔
رکوع 9۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے اپنی قدرت کی نشانیاں بیان کیں۔ اللہ نے اپنی قدرت کی نشانیاں بیان کیں۔ فرمایا کہ ہر اُمت کے لیے بندگی کی ایک راہ مقرر کر دی گئی ہے۔ لوگ اس میں نہ مین میخ نکالیں نہ فضول جھگڑے کریں۔ اللہ قیامت کے دن تم میں فیصلہ کر دے گا۔ افسوس کہ لوگ اس کو چھوڑ کو ایسوں کی بندگی کرتے ہیں جن کی ان کے پاس نہ سند ہے نہ دلیل۔ جب ان کے روبرو تلاوت کی جاتی ہے ان کے چہرے خبث باطنی سے سیاہ ہو جاتے ہیں۔ انجام کار انہیں آگ کا ایندھن ہی تو بننا ہے۔
رکوع 10۔ ۔ ۔ ۔ سنو جو لوگ اللہ کے سوا تمہارے معبود بنے بیٹھے ہیں وہ سب مل کر ایک مکھی بھی نہیں بناسکتے۔ اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین کر لے جائے تو چھڑا نہیں سکتے۔ یاد رکھو کائنات میں صرف اللہ ہی غالب اور طاقت ور ہے۔ ایمان والوں کا یہی کام ہے کہ رکوع کریں، سجدہ کریں، اپنے رب کی بندگی کریں، بھلائی کریں تاکہ ان کا بھلا ہو۔ احکام الٰہی بجا لانے میں اپنی جان و مال سب کچھ لگا دو۔ یہ اس کی مہربانی ہے کہ اس نے تمہیں اپنے کام کے لیے منتخب کیا۔ تمہارا نام مسلم رکھا۔ قرآن کے ذریعے ہدایت دی اور اب مسلمانوں کا فرض ہے کہ جو کچھ تم نے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے سیکھا ہے آنے والوں کو سکھاؤ۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ کو مضبوط پکڑو، وہی تمہارا کارساز ہے، مالک و مددگار ہے۔
پارہ اٹھارہ
(23) سورۃ المومنون رکوع 1تا 6
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ فلاح حاصل ہوئی ایمان والوں کو جو نماز میں جھکنے والے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور نکمی باتوں پر دھیان نہیں دیتے۔ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنی ضرورت اپنی بیویوں سے پوری کرتے ہیں۔ امانتوں اور عہد کا پورا کرتے ہیں، نمازوں سے خبردار رہتے ہیں، وہی جنت کے وارث ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ پھر انسان کی پیدائش اور زندگی کے بعد کے مرحلے بیان فرمائے۔ فرمایا کہ ہم نے آسمان سے پانی ناپ کر برسایا۔ تمہارے لئے باغات اُگائے، ان میں میوے پیدا کیے اور پینے کو مویشیوں کے پیٹ سے دودھ۔ تم ان سے کھانے کو گوشت، سواری اور بار برداری کا کام بھی لیتے ہو اور کشتی پر سوار ہوتے ہو۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ نوح علیہ السلام کو اس کی قوم کے پاس ہدایت پہنچانے کو بھجوایا۔ قوم نے انکار کیا تو ہم نے اسے کشتی بنانے کا حکم دیا کہ اس میں ہر چیز جوڑا جوڑا ڈالے اور گھر والوں بھی۔ پھر ہم نے ظالموں کو طوفان میں غرق کر دیا اور پھر ایک اور قوم پیدا کی۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ اس قوم بھی وہی ٹیڑھی راہ اختیار کی۔ منکروں نے کہا کہ حقیقت میں یہی اس دنیا کی زندگی ہے۔ اس کے بعد جزا اور سزا کچھ نہیں۔ یہ ایک آدمی (رسول) ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھ لایا ہے اور یہ بات ہم نہیں مانتے۔ رسول علیہ السلام نے اللہ سے مدد مانگی کہ انہوں نے مجھے جھٹلایا ہے تو اللہ نے عذاب نازل کیا اور انہیں کوڑا کرکٹ بنا دیا۔ اس کے بعد ہم لگاتار رسول بھیجتے رہے۔ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو کھلی نشانیاں دے کر بھیجا۔ فرعون اور اس کے سردار متکبر تھے انہوں نے حق بات کو جھٹلایا اور غارت ہونے والوں میں سے ہو گئے۔ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام اور مریم علیہ السلام کو بھی نشانی بنایا۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ دین ایک ہی ہے اور رسولوں سے فرمایا کہ وہ نمونہ بن کر رہیں۔ فرقہ بندی بری چیز ہے۔ لیکن وہ لوگ جو اپنے رب سے خوف کھاتے ہیں، اس کی باتوں میں یقین رکھتے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں مانتے، صدقہ و خیرات دیتے ہیں اور انہیں آخرت کا یقین ہے۔ بھلائی اور نیکیاں حاصل کرنے میں سب سے آگے آگے ہیں، وہی کامیاب ہیں۔ ہم کسی کی برداشت سے زیادہ اس پر بوجھ نہیں ڈالتے۔ جب منکر عذاب کے شکنجے میں آئیں گے تو چلائیں گے، اس دن کی چیخ و پکار نہ سنی جائے گی۔ ان کے پاس رسول آتے رہے لیکن انہوں نے نہ پہچانا اور کہتے اسے سودا (جنون) ہے۔ اصل میں نادانوں کو سچی بات کڑوی لگتی، سو یہ عذاب ان کی کرتوتوں کا بدلہ ہے۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے تمہیں کان، آنکھیں اور دل دیا کہ ان سے ٹھیک ٹھیک کام لو۔ تم آخر اس کے سامنے پیش ہو گے، وہی مارتا اور زندہ کرتا ہے۔ یہ لوگ وہی کہتے ہیں جو ان کے باپ دادا کہتے تھے۔ ان سے پوچھو کہ اس کائنات کا مالک کون ہے ؟ سب کچھ اسی کے حکم کے تابع ہے، وہ دوبارہ زندہ کرے گا اور جزا و سزا دے گا۔ اس کی نہ کوئی اولاد ہے نہ اس کا کوئی شریک ہے۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے غضب سے پناہ مانگو اور کہو کہ اے رب! اگر میری زندگی میں تیرا عذاب ان نافرمانوں پر آنے والا ہے تو مجھے ان کے ساتھ عذاب میں شریک نہ کرنا اور اپنی رحمت سے تمام آفتوں سے محفوظ رکھنا۔ فرمایا جب صور پھونکا جائے گا اس دن نہ قرابتیں رہیں گی نہ کوئی ایک دوسرے کو پوچھے گا۔ پھر حشر میں جن کے اعمال بھاری ہوں گے جنت میں جائیں گے اور ہلکے اعمال والوں کا ٹھکانہ دوزخ ہو گا۔ جہاں آگ ان کے منہ جھلس دے گی۔ یہی تھے جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے پھر انہیں پچھتاوا ہو گا۔ زندگی کھیل نہیں، دار العمل ہے۔ تمہارے اعمال کا بڑا زبردست نتیجہ نکلے گا یا تو جنت میں داخل ہو کر آرام کرو گے یا دوزخ کی دہکتی آگ میں نہ جانے کب تک جلو گے۔ اللہ کے سوا کوئی مالک و معبود نہیں اور منکروں کا بھلا نہ ہو گا اور تو رب سے معافی اور رحم مانگ وہ سب رحم کرنے والوں سے بہتر ہے۔
(24) سورۃ نور رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ یہ سور ۃ ہماری نازل کردہ ہے اور اس میں دیئے گئے احکام ہم نے فرض قرار دیئے ہیں۔ زناکار مرد اور زناکار عورت کی سزا ہر ایک کو سو، سو کوڑے مارو۔ ان پر ترس نہ کھاؤ۔ زانی مرد زانیہ عورت یا مشرکہ کے ساتھ ہی نکاح کرے اور زانیہ عورت زانی مرد یا مشرک سے نکاح کرے اور اہل ایمان کے لیے حرام ہے کہ فاجروں کو اپنی لڑکیاں دیں۔ اسی طرح زانیہ کسی مومنِ صالح کے لیے موزوں نہیں۔ جو لوگ پاک عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ لائیں تو ان کی سزا 80کوڑے ہے۔ ان کی گواہی کبھی قبول نہ ہو گی وہ فاسق ہیں سوائے اس کے کہ وہ تائب ہو جائیں اور اپنی اصلاح کر لیں۔ پھر بیوی پر تہمت اور لعان کا معاملہ بیان ہوا۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ واقعہ افک بیان ہوا اور فرمایا کہ بہتان غلط تھا اور مسلمانوں کو بھی چاہیے تھا کہ اس بے ہودہ خبر کو سن کر اچھے گمان کا اظہار کرتے۔ جو لوگ اس گناہ میں شریک ہوئے ان کے لیے دنیا میں ذلت و رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بدکاری کا چرچا ہو ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ تم منافقوں کی فریب کاریوں کو نہیں جانتے تمہیں ان کی باتوں میں نہ آنا چاہیے۔ اس فتنہ کا وبال سب پر پڑتا لیکن اللہ نے اپنے فضل اور رحمت سے اسے رفع دفع کر دیا ہے۔ یہ اس کی مہربانی اور شفقت تھی جس سے تم بچ گئے ورنہ تمہیں نہ معلوم کیا ہوتا۔
پندرہ رمضان المبارک
پارہ اٹھارہ سورۃ النور رکوع 3تا 9
سورۃ الفرقان رکوع 1تا 2
پارہ انیس سورۃ الفرقان رکوع 3تا 6
سورۃ الشعراء رکوع 1تا 11
سورۃ النمل رکوع1
(24) سورۃ النور (جاری) رکوع 3تا 9
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو! شیطان کے نقشِ قدم پر مت چلو وہ تو صرف بدی اور فحش باتوں کا ہی حکم دیتا ہے اور جان لو اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کبھی ایک شخص بھی نہ سنورتا۔ اور تم میں سے مال دار لوگوں کو اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھنا چاہیے کہ وہ ضرورت مندوں کی مدد نہ کریں گے۔ انہیں درگزر کرنا چاہیے اگر چاہتے ہیں کہ اللہ ان سے درگزر کرے اور انہیں معاف کرے، اور اللہ غفور الرحیم ہے۔ مومن پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے والوں پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی لعنت اور بڑا عذاب ہے۔ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے صاحب خانہ سے اجازت لو اور اہلِ خانہ کو بلند آواز میں سلام کہو۔ اگر صاحب خانہ کسی وجہ سے ملنے سے معذرت چاہے تو خوش دلی سے لوٹ جاؤ، البتہ غیر مسکونہ مکانات اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ ایمان والوں سے کہہ دیں کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنے ستر کی حفاظت کریں۔ مومنات بھی نظریں نیچی رکھیں اور اپنے ستر کی حفاظت کریں اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈال رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوند، اپنے باپ، اپنے خاوندوں کے باپ، اپنے بیٹے، اپنے خاوندوں کے بیٹے، اپنے بھائی، بھتیجوں، بھانجوں، اپنی عورتوں، لونڈیوں، باندیوں اور چھوٹے بچوں پر۔ عورتیں اپنے پاؤں زمین پر نہ ماریں کہ زیور کی جھنکار سنائی دے اور ڈھکی ہوئی زیب و زینت ظاہر ہو اور آس پاس کے لوگ اس طرف متوجہ ہوں۔ اپنے بن بیا ہے مردوں، عورتوں اور اپنے نیکوکار غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کرو۔ جنہیں نکاح نہ ملے صبر کریں۔ لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کریں۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور وہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے۔ اللہ کے عبادت گزار بندے مساجد میں باقاعدہ حاضر ہوتے ہیں، صبح و شام اس کی حمد و ثناء کرتے ہیں۔ دنیوی کاروبار ان کو مقررہ اوقات میں ذکر کرنے سے نہیں روکتا۔ وہ آخرت سے ڈرتے ہیں کہ اس دن اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا۔ منکروں کے عمل اللہ کے نور سے خالی ہوتے ہیں وہ صحرا میں پیسے کی طرح ہیں کہ دور سے تو پانی نظر آئے اور نزدیک پہنچے تو کچھ نہ پائے۔ یہ اچھے برے میں فرق نہیں کرتے، دنیا کے مزے میں پھنسے رہتے ہیں، ان کی حالت بڑی ہولناک ہے۔ ان پر تہ بہ تہ اندھیرے چھائے ہوئے ہیں اور جو اللہ پر ایمان نہ لائے اللہ اسے روشن نہ کرے تو اسے روشنی نصیب نہیں ہو سکتی۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ کیا دیکھا نہیں کہ زمین و آسمان میں ہر چیز اللہ کی پاکی بیان کرتی ہے۔ پرندے پر پھیلائے اسی کے گن گا رہے ہیں تو انسان کیوں غافل ہے۔ ارض و سماء پر اسی کی حکومت ہے اور سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ دیکھو اللہ کس طرح بادلوں کو تہ بہ تہ لا رہا ہے، پھر مینہ برساتا ہے۔ اسی طرح اللہ دیگر نشانیاں، بجلی کی چمک، اولوں کا گرنا، رات اور دن کا بدلنا، جانداروں کا ظہور اور ان کا مختلف طریقوں سے حرکت کرنا، بیان فرماتا ہے۔ بعض منہ سے ایمان کا اقرار کرتے ہیں اور جب عمل کا موقع آئے تو کترا جاتے ہیں۔ اصل میں یہ ایمان ہی نہ لائے تھے۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ سچا اور حقیقی ایماندار وہ ہے جو خود کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا تابع فرمان بنا لیتا ہے اور ان کے ہر فیصلہ پر راضی ہو، خواہ وہ اس کی خواہش و مفاد کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے لوگ ہی کامیاب و کامران ہوں گے۔ ہمیں زبانی جمع خرچی اور لمبی چوڑی قسمیں نہیں، دستور کے مطابق تابعداری مطلوب ہے۔ یاد رکھو اللہ کو ہر کام کی خبر ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ جو ایمان لائے اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت کے مطابق عمل کرے آئندہ اس زمین پر حاکم بنایا جائے گا مگر شرط یہ ہے کہ میری عبادت کرو، میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، ناشکری نہ کرو اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم پر چلو۔ یاد رکھو منکروں کا ٹھکانہ تو آگ ہے۔
رکوع 8۔ ۔ ۔ ۔ مسلمانوں تمہارے خادم اور نابالغ بچے تمہاری اجازت کے بغیر کے بغیر فجر کی نماز سے پہلے اور دوپہر کو آرام کے وقت اور عشاء کی نماز کے بعد تمہارے خلوت کدوں میں داخل نہ ہوں۔ یہ وہ اوقات ہیں کہ تم اپنے زائد کپڑے اُتار کر رکھ دیتے ہو۔ ان اوقات کے علاوہ نابالغ بچے بغیر اجازت گھر میں آ جا سکتے ہیں لیکن جب وہ بالغ ہو جائیں تو ان کا حکم مردوں کا سا ہے۔ ارشاد ہوا کہ بوڑھی عورتیں گھر کے اندر اوپر کے کپڑے اتار رکھیں تو مضائقہ نہیں لیکن اگر وہ بھی پردہ داری کریں تو یہ بہتر ہے۔ اندھے، لنگڑے، بیمار اور خود تم پر کوئی پابندی نہیں کہ کھانا گھر سے، باپ دادا کے ہاں سے، قرابت داروں کے گھروں سے کھاؤ یا دوستوں کے ہاں سے، پابندی نہیں ہے کہ علیحدہ علیحدہ یا سب مل کر کھاؤ۔ مگر یہ پابندی ہے کہ دوسرے کے گھر میں داخل ہو تو السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہو۔
رکوع 9۔ ۔ ۔ ۔ ایمان والے وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائے اور جب رسول صلی اللہ علیہ و سلم ان کو اجتماعی کام کے لیے بلائیں تو فوراً حاضر ہو جائیں اور کام ختم ہونے تک بلا اجازت واپس نہ ہوں۔ اور جب وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے کسی کام کے لیے اجازت مانگیں تو جسے چاہیں اجازت دے دیا کریں اور اللہ سے ان کے لیے مغفرت مانگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس طرح نہ پکارو جیسے آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ جان لو کہ اللہ کے حکموں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ارض و سماء کی ہر چیز اللہ کی ہے، وہ تمہارا حال کلی طور پر جانتا ہے، اسے کوئی دھوکہ نہیں دے سکتا۔ اس دن وہ تمہارا کچا چٹھا کھول کر تمہارے سامنے رکھ دے گا، ابھی سمجھ لو کہ اس سے ڈرنا چاہیے۔
(25) سورۃ الفرقان رکوع 1تا 6
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ وہ ذات پاک اور بڑی حکمت والی ہے جس نے حق و باطل کی تمیز کے لیے قرآن حکیم نازل فرمایا۔ اور اپنے ایک برگزیدہ بندہ کو اسے سنانے اور انسانوں کو برے اعمال سے ڈرانے کے لیے دنیا میں بھیجا۔ اللہ کی سلطنت آسمانوں اور زمین پر ہے، اس کی کوئی اولاد نہیں، نہ ہی سلطنت میں کوئی اس کا ساجھی یا شریک ہے۔ عجیب بات ہے کہ لوگوں نے اس کے سوا بھی معبود تجویز کر رکھے ہیں جو کوئی چیز نہ بناس کیں بلکہ خود بنائے گئے ہیں اور وہ اپنے حق میں برے بھلے کے مالک نہیں نہ ہی مرنے، جینے اور مر کر جی اٹھنے کے۔ منکروں نے کہا قرآن بھی کچھ نہیں یہ تو پہلوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کہہ دیں کہ یہ اس نے اتارا جو زمین و آسمان کے بھید جانتا ہے۔ پھر انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے بشر ہونے پر اعتراض کیا کہ یہ تو کھانا کھاتا اور بازاروں میں پھرتا ہے۔ اس کے ساتھ فرشتہ ہوتا یا خزانہ ہوتا یا باغ ہوتا کہ فراغت کے ساتھ کھانا کھاتا۔ یہ تو بہکے ہوئے لوگ ہیں جو راستہ نہیں پا سکتے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ اللہ چاہے تو اس سے بہتر دے سکتا ہے لیکن یہ تو قیامت کے منکر ہیں اور قیامت کے جھٹلانے والوں کے لیے ہم نے آگ بنا رکھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بتا دیں کہ پرہیز گاروں سے دائمی باغ کے ٹھکانے کا وعدہ ہو چکا ہے جو ان کا بدلہ ہو گا اور اس دن جھوٹے معبودوں سے بازپرس ہو گی کہ کیا تم نے میرے بندوں کو بہکایا یا وہ خود راہ سے بھٹکے۔ وہ کہیں گے تو پاک ہے، ہمارے لائق نہ تھا کہ انہیں اپنی پوجا کو کہتے لیکن تو نے ان کے باپ دادا کو آسودہ کر دیا تھا کہ وہ تیری یاد بھول گئے اور یہ تباہ ہونے والے لوگ تھے اور مشرکوں کو عذاب دیا جائے گا۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ یہ متکبر لوگ ہیں کہ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور کہتے ہیں کہ ہم پر فرشتے کیوں نہ اترے یا ہم رب کو دیکھ لیتے۔ ارشاد ہوا کہ جس دن فرشتے تمہارے سامنے آئیں گے ان مجرموں کی کم بختی آ جائے گی۔ اس دن بہشت کے لوگوں کا ٹھکانہ اچھا ہو گا۔ روزِ قیامت جب آسمان پھٹ جائے گا، آسمان سے بے شمار فرشتے اتریں گے، دربارِ الٰہی قائم ہو گا، منکروں پر یہ دن بھاری ہو گا۔ اس دن گنہگار حسرت سے کہیں گے کہ کاش ہم نے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا راستہ اختیار کیا ہوتا۔ میں نے فلاں فلاں کو دوست کیوں بنایا کہ اس نے مجھے سیدھی راہ سے ہٹایا۔ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کہے گا میرے رب! میری قوم نے قرآن کو بے کار سمجھ لیا تھا۔ منکر کہنے لگے کہ قرآن کو ایک ہی دفعہ کیوں نہ اتارا۔ یہ اس لئے تھا کہ اس کے ذریعے تیرے دل کو قوی رکھیں اور اس کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سنائیں۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی اور ایک ساتھی ہارون علیہ السلام دیا۔ پھر جنہوں نے ہماری باتوں کو جھٹلایا انہیں نیست و نابود کر دیا۔ اسی طرح قوم نوح، عاد اور ثمود کی نافرمانی اور تباہی کا احوال بیان ہوا۔ فرمایا تو نے اس شخص پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا بنا رکھا ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسے راہِ راست پر لانے کا ذمہ لیتے ہیں۔ لیکن یہ تو جانوروں کی طرح ہیں جو سنتے سمجھتے نہیں۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ تیرے رب نے سائے کو کیسا لمبا کیا وہ چاہتا تو ٹھہرا رکھتا۔ پھر رات کو اوڑھنا بنایا اور نیند کو آرام، دن کو کام کاج کے لیے بنایا اور وہی ہے جو بارش سے مردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے۔ انسان کتنا نادان ہے کہ اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتا ہے جو اسے نہ نفع دے سکیں نہ نقصان۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرما دیں کہ مجھے تم سے کچھ نہیں چاہیے، میرا مقصد تو صرف تم کو اللہ کی طرف پہنچنے کی راہ بتانا ہے۔ ارشاد ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسی حیّ و قیّوم پر بھروسہ رکھیں، اس کی خوبیاں بیان کریں، وہ اپنے بندوں کے گناہوں کی خبر رکھنے کے لیے کافی ہے۔ یہ مشرک لوگ کیا ہیں جب ان سے کہو کہ رحمٰن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں کہ رحمٰن کون ہے (السجدہ)۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ یہ باقاعدہ نظام ہے جسے دیکھ کر اگر عقل والے چاہیں تو اللہ عزوجل کو بہ آسانی پہچان سکتے ہیں اور اس کی شکر گزاری اپنے اوپر لازم کر سکتے ہیں۔ رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر دبے پاؤں چلتے ہیں۔ ناسمجھ لوگوں کو نرم جواب دیتے ہیں تاکہ شر نہ بڑھے۔ رات اللہ کے حضور سجدہ و قیام میں گزارتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ الٰہی ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا اور جہنم سے ہمیں دور رکھ۔ پھر نیکوں کی کچھ اور صفتیں بیان فرمائیں۔ خرچ میں میانہ روی برتتے ہیں، اللہ کے ساتھ کسی کو معبود نہیں پکارتے، ناحق کسی کا قتل نہیں کرتے اور بدکاری نہیں کرتے۔ جو اللہ کے قانون کو نہ مانے اسے قیامت کے دن دوگنا عذاب ہو گا مگر جس نے توبہ کی، نیک عملی اختیار کی اور اللہ کی طرف پلٹا جیسے پلٹنے کا حق ہے۔ اللہ کے بندے جھوٹ میں شامل نہیں ہوتے اور نہ دغا، فریب، جعلسازی میں حصہ لیتے ہیں اور جب ان کو رب کی باتیں سمجھائی جائیں تو توجہ سے سنتے اور اثر لیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ الٰہی ہم کو ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا۔ ان لوگوں کو جنت کے محلات میں رکھا جائے گا۔ اور جو لوگ نہ اللہ کو پکاریں گے نہ دینِ حق پر عمل کریں گے تو اللہ کو بھی ایسے بے غیرتوں کی پرواہ نہیں۔ وہ عنقریب اپنے کرتوتوں کا خمیازہ بھگتیں گے۔
(26) سورۃ الشعراء رکوع 1تا 11
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ یہ واضح کتاب کی آیتیں ہیں۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم اگر کوئی بدبخت دین حق کو نہیں مانتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود کو کیوں ہلکان کرتے ہیں۔ منکرین کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ پیغمبروں کا بتایا ہوا راستہ درست ہے لیکن ہم اپنی آبائی جہالت میں مبتلا غلطی پر تھے۔ اگر یہ ایمان لانا چاہتے تو زمین پر قدرت کی اَن گنت نشانیاں بکھری ہوئی ہیں وہ انہیں دیکھ کر گردنیں عاجزی سے جھکا دیتے لیکن اکثر نے بے ایمانی پر کمر باندھ رکھی ہے جبکہ تمہارا پروردگار زبردست رحم کرنے والا ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ پچھلے زمانہ کے حالات بتاتے ہوئے موسیٰ علیہ السلام، ان کے معجزات، عصائے موسیٰ، یِد بیضاء اور فرعون کا احوال بتایا۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے جادوگروں کا مقابلہ، جادوگروں کا ہارنا اور ایمان لانا اور فرعون کے غضبناک ہونے کا قصہ بیان ہوا۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ جادوگروں کی ہار کے بعد فرعون سرکشی سے باز نہ آیا تو موسیٰ علیہ السلام کو راتوں رات مصر سے نکلنے کا حکم دیا۔ موسیٰ علیہ السلام کا سمندر پار کرنا، فرعون کا لشکر سمیت پیچھا کرتے سمندر میں داخل ہونا، پانی کا مل جانا اور ان کا سمندر میں غرق ہونے کے واقعات بیان فرمائے۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم علیہ السلام نے باپ اور قوم کو کہا کہ کیا مورتیاں سنتی ہیں یا کسی کا برا بھلا کرتی ہیں تو جواب ملا کہ ہم تو آباء و اجداد کو ایسا ہی کرتے دیکھتے آئے ہیں تو ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میرا رب تو مجھے راہ دکھاتا اور کھلاتا پلاتا ہے۔ پھر اس نے دعا کی "الٰہی مجھے نیکوں میں شامل کر دے، میرا ذکرِ خیر میرے بعد آنے والے لوگوں میں باقی رکھ، مجھے جنت کا مستحق اور وارث بنا۔ میرے باپ کی ہدایت کر جو اس کی مغفرت کا باعث ہو۔ قیامت میں مجھے رسوا نہ کر۔ جو اللہ کے سامنے کفرو شرک سے محفوظ دل لے کر حاضر ہو گا وہی فلاح پائے گا اور متقیوں کو جنت میں ڈالا جائے گا اور نافرمان گمراہی میں مبتلا جہنم میں جائیں گے۔ یہ لوگ اقرار کریں گے ہم صریح غلطی پر تھے۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ قوم نوح کے رسولوں کو جھٹلانے اور غرق ہونے کا واقعہ بیان ہوا۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ قوم عاد کی نافرمانی، حضرت ہود علیہ السلام کا قوم کو سمجھانا، قوم کا انکار اور ان پر تباہی کا آنا بیان کیا گیا۔
رکوع 8۔ ۔ ۔ ۔ قوم ثمود کی نافرمانی اور تباہی کا احوال۔
رکوع 9۔ ۔ ۔ ۔ قوم لوط کی نافرمانی اور ان کا برا انجام بیان فرمایا۔
رکوع 10۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت شعیب علیہ السلام کا قوم کو ہدایت کرنا کہ اللہ سے ڈرو، ناپ تول میں کمی نہ کرو، ترازو سیدھے رکھو، کسی کی حق تلفی نہ کرو، ملک میں فساد خرابی نہ پھیلاؤ۔ قوم کا ان کی ہدایت کو جھٹلانا اور آخر تباہ و برباد ہونا۔
رکوع 11۔ ۔ ۔ ۔ قرآن عربی زبان میں اللہ نے اپنے معتبر فرشتے جبریل علیہ السلام کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دل پر اتارا کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ڈرانے والا مقرر کیا گیا۔ اس میں پہلی کتابوں کا ذکر بھی ہے اور علمائے بنی اسرائیل اسے خوب پہچانتے ہیں مگر یہ ایمان نہ لائیں گے جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔ ہم نے کسی بستی کو تباہ نہیں کیا جب تک وہاں ڈرانے والا نہیں بھیجا۔ اللہ کے ساتھ دوسرا معبود مت پکارو اور صرف اللہ ہی پر بھروسہ کرو جو رحم کرنے والا ہے۔ شیاطین جھوٹے، دغا باز، گناہوں میں لت پت ناپاک لوگوں سے میل رکھتے ہیں۔ شاعر لوگوں کی بنیاد محض تخیل پر ہوتی ہے اس کے برعکس توحید پرست صاحبِ عمل نیکوکار ہوتے ہیں۔
(27) سورۃ النمل رکوع 1
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم والا ہے۔
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ قرآن صاحبان ایمان کے لیے خوشخبری اور واضح رہنمائی مہیا کرتا ہے۔ جو نماز قائم کرتے، زکوٰۃ ادا کرتے اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور آخرت کے منکروں کے لیے سخت عذاب ہے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کا کوہِ طور پر جانے، وہاں پیغمبری ملنے، ہدایت حاصل ہونے کا ذکر ہوا۔ پھر فرعون کا تکبر، انکار اور اس کے انجام کا تذکرہ فرمایا۔
سولہ رمضان المبارک
پارہ انیس سورۃ النمل رکوع 2تا 4
پارہ بیس سورۃ النمل رکوع 5تا 7
سورۃ القصص رکوع 1تا 9
سورۃ العنکبوت رکوع 1تا 4
(27) سورۃ النمل (جاری) رکوع 2تا 7
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا احوال بیان فرمایا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو خاص علم دیا کہ وہ پہاڑ کی تسبیح سنتے اور سلیمان علیہ السلام چرند پرند کی بولیاں سمجھتے تھے۔ پھر ہد ہد اور ملکہ سبا کا قصہ بیان کیا۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ ملکہ نے پہلے تحفے بھجوائے جو واپس ہوئے، پھر وہ حاضر ہوئی اور بالآخر ایمان لے آئی۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ قوم ثمود کی طرف حضرت صالح علیہ السلام کو بھیجا کہ اللہ کی بندگی کرو مگر وہ نافرمانی کے باعث ہلاک ہوئے۔ لوط علیہ السلام نے قوم کو بے حیائی سے منع کیا لیکن وہ قوم بھی اپنی بد اخلاقی اور بے حیائی کے باعث ہلاک ہوئی۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ بھلا کس نے بنائے ارض و سماء اور کس نے آسمان سے پانی اتارا اور رونق والے باغ اُگائے۔ سوچو کہ ان سب کو بنانے والا معبود ہونا چاہیے یا کوئی اور؟ زمین کو جانداروں کے ٹھہرنے کے قابل کس نے بنایا؟ پہاڑ بنائے، ندیاں بنائیں، کیا کوئی اور معبود ایسے عجائبات پیدا کر سکتا ہے ؟ بھلا بے کس کی پکار کو کون پہنچتا ہے ؟ جب وہ اسے پکارے تو کون اس کی سختی کو دور کرتا ہے ؟ زمین کا وارث کرتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ؟ نہیں۔ بھلا تمہیں جنگل اور دریا کے اندھیروں میں کون چلاتا ہے۔ کیا اور بھی کوئی معبود ہے اللہ کے ساتھ، جسے تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو؟ مخلوق کو کون پیدا کرتا اور روزی دیتا ہے ؟ نہیں مانتے تو کوئی پختہ سند لاؤ۔ زمین و آسمان میں چھپی چیزوں کی خبر فقط اللہ کو ہے اور جن کو تم اللہ کے ساتھ شریک کرتے ہو ان کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ دوبارہ کب جی اٹھیں گے۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ منکروں کو دوبارہ جی اٹھنے کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مردہ زمین میں گل سڑ جائے تو دوبارہ زندہ ہوں، یہ کہانیاں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان سے کہہ دیں کہ زمین میں پھرو اور دیکھو کہ مجرموں کا انجام کیسا ہوا اور اے رسول صلی اللہ علیہ و سلم آپ غمگین نہ ہوں اور ان کی چالوں سے تنگ نہ ہوں۔ یہ کہتے ہیں کہ عذاب کیوں نہیں آتا؟ تو کہہ دیں کہ جس کی تم جلدی کر رہے ہو وہ تمہارے قریب پہنچ چکا ہے (یہ بات غزوۂ بدر میں پوری ہوئی)۔ ہر چیز لکھی ہوئی ہے۔ سمجھ دار ہی سمجھیں گے۔ جب قیامت ہو گی تو ہم جانور زمین سے نکالیں گے وہ باتیں کرے گا اور بتائے گا کہ قیامت قریب ہے۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے دن سب فرقوں کے جو ہماری آیات کو جھٹلاتے تھے الگ الگ گروہ بنا دیں گے اور پوچھیں گے کیا تم نے میری آیتوں کو جھٹلایا بغیر غور کیے۔ جو نیکی لے کر آیا اسے اس سے بہتر ملے گا اور جو برائی لے کر آیا وہ آگ میں ڈالا جائے گا۔ اور مجھے صرف یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنے رب کی عبادت کرو جو اس شہر (مکہ) کا مالک ہے اور فرمانبرداروں میں ہو جاؤ۔ آگے چل کر تمہیں اپنی صاف صاف نشانیاں دکھلائے گا اور تم دیکھ کر سمجھ جاؤ گے کہ میں جو کہا تھا سچ تھا۔
(28) سورۃ القصص رکوع 1تا 9
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا واقعہ بیان کیا کہ فرعون کس طرح کمزوروں پر ستم ڈھاتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش، فرعون کے محل میں ان کی پرورش کا بندوبست، موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو بھی محل میں بھیجنے کا انتظام کرنا۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ علیہ السلام کا جوانی میں ایک شخص کو قتل کرنا، پھر اللہ سے معافی مانگنا اور معافی قبول ہونا۔ دربار میں موسیٰ علیہ السلام کو قتل کا مشورہ لیکن اللہ کا ان کو نکال لینا۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ وہاں سے نکال کر مدین پہنچانا۔ وہاں حضرت شعیب علیہ السلام سے ملاقات کا ہونا۔ موسیٰ علیہ السلام کا ان کے پاس ملازمت کرنا۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ مدتِ ملازمت پوری کرنے کے بعد وہاں سے روانہ ہونا، راہ میں کوہِ طور پر آگ کا نظر آنا، آگ لینے جانا اور نبوت کا ملنا، عصا اور یدِ بیضاء کے معجزے ملنا۔ بھائی ہارون علیہ السلام کا مددگار ہونا، فرعون کے پاس جانا اور ہدایت کرنا، فرعون کا موسیٰ علیہ السلام کو جھٹلانا اور پھر فرعون اور اس کے لشکر کا سمندر میں غرق ہونا۔ تمام واقعات بیان ہوئے۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے لوگوں کی ہدایت کے لیے موسیٰ علیہ السلام کو تورات عطا کی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم وہاں موجود نہ تھے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدین والوں میں بھی نہ تھے اور نہ ہی طور پر تھے، یہی دلیل کافی ہے۔ اور اللہ عالم الغیب کی رحمت ہے کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نبی مرسل کیا۔ وحی سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ان باتوں کا نزول فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس قدر تفصیل اور صحت کے ساتھ تمام انبیاء کے واقعات بیان کر رہے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ سلم سے بہت پہلے مبعوث ہوئے تھے۔ یہ اسے بھی جادو کہتے ہیں تو انہیں کہیے کہ تم بھی کوئی کتاب لاؤ جو ان دونوں سے بہتر ہو، اگر سچے ہو۔ اور جب وہ ایسا نہ کر سکیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم جان جائیں کہ یہ لوگ اپنی خواہشات پر چلتے ہیں اور اس بات سے بڑی گمراہی کوئی نہیں۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے بھی ہم نے ان کے پاس ہدایت بھجوانے میں کمی نہیں کی اور جو لوگ گزشتہ پیغمبروں کی حقیقی تعلیمات پر قائم تھے وہ فوراً قرآن پر ایمان لے آئے، حق کی تصدیق کر دی، اپنے رب کے حضور جبینِ نیاز خم کر دی اور انہیں دہرا اجر ملے گا۔ اور اللہ جسے ہدایت کا اہل سمجھتا ہے اسے ہدایت سے ہمکنار کرتا ہے۔ اللہ کے ساتھ دوسری ہستیوں کو شریک کرنے والو باز آ جاؤ، اس کے قہر سے ڈرو جس نے تم سے پہلے حق کے پیغام کو جھٹلانے والوں کی کتنی بستیاں تباہ کر دیں۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ قیامت حق ہے۔ وہاں کہا جائے گا کہ اپنے جھوٹے معبودوں کو پکارو۔ وہ انہیں پکاریں گے تو کوئی انہیں جواب نہ دے گا۔ وہی ایک اللہ ہے اس کے سوا کوئی بندگی کا سزاوار نہیں۔ دنیا اور آخرت کی ہر چیز اسی کی ثنا میں مشغول ہے اور ہر جگہ اس کا حکم چلتا ہے۔ ان سے پوچھو اگر سورج نکلنا بند ہو جائے، روشنی کے ذریعے مفقود ہو جائیں، دنیا میں قیامت تک ہمیشہ رات ہی رہے تو کیا تمہارے معبودوں میں کوئی ہے جو روشنی یا رات لا سکتا۔ ہرگز نہیں، اللہ کے سوا کسی میں قدرت نہیں۔ دن اور رات اللہ ہی نے بنائے ہیں۔
رکوع 8۔ ۔ ۔ ۔ قارون کا قصہ بیان فرمایا۔ ارشاد ہوا کہ دنیا پر مغرور نہ ہو، نہ ہی دولت پر اکڑو۔ قارون کو نصیحت کی تو اس نے کہا کہ میں نے دولت اپنی چالاکی اور ہوشیاری سے حاصل کی ہے۔ اب تم کہتے ہو اللہ نے دی ہے تو تمہیں کیوں نہ دی۔ جب وہ دولت کی بدمستی میں انتہا کو پہنچ گیا اوروں سے تو الجھتا ہی تھا، موسیٰ علیہ السلام سے بھی الجھ پڑا تو پھر ہم نے اسے اسی کے گھر اور خزانہ سمیت زمین میں دھنسا دیا اور کوئی اس کی مدد کو نہ آ سکا۔
رکوع 9۔ ۔ ۔ ۔ ہم بھلائی کا بہتر بدلہ دیں گے اور برائی والوں کو سزا۔ جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو قرآن جیسی شاندار کتاب دی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس شہر میں عزت کے ساتھ واپس لائے گا۔ اللہ خوب جانتا ہے کون راہِ ہدایت پر ہے اور کون گمراہی پر۔ اب قرآن نازل ہو چکا ہے جو اس کے احکام کی پابندی کرے گا وہی تیرا اپنا ہے۔ دیکھو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، ہر چیز فنا ہونے والی ہے، اس کے سوا کسی کا حکم کائنات پر نہیں چلتا اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
(29) سورۃ العنکبوت رکوع 1تا 4
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ یہ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ کہہ دینا کافی ہے کہ "ہم ایمان لائے ” اور پھر انہیں آزمایا نہ جائے گا۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان سے پہلوں کی بھی ہم آزمائش کر چکے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون۔ اور جنہوں نے نیک کام کیے انہیں بہتر بدلہ ملے گا۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اور وہ اگر تم پر دباؤ ڈالیں کہ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کرو تو ان کا کہا نہ مانو۔ ایمان پر یقین کے ساتھ قائم رہو۔ ڈانواں ڈول نہ ہو اور اللہ سب جانتا ہے۔ کوئی کسی کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا تاریخ سے سبق لو۔ پھر قومِ نوح اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بیان فرمایا۔ ارشاد ہوا کہ جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو یہ تو تمہاری روزی کے مالک نہیں اور اللہ ہی روزی رساں ہے، اسی کی بندگی کرو۔ شکر ادا کرو وہی تمہیں دوبارہ پیدا کرے گا وہ ہر شے پر قادر ہے۔ وہ جسے چاہے دکھ دے جس پر چاہے رحم کرے اس کے علاوہ حمایتی یا مددگار نہیں۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ قوم ابراہیم علیہ السلام توحید کا پیغام سن کر سیخ پا ہو گئی اور کہا کہ اسے جلادو۔ پھر اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے صحیح نکالا اور ان کو ہجرت کا حکم دیا جو بہت مبارک تھی۔ ان کو بیٹا اسحاق علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام دیا اور ان کی اولاد کو پیغمبری اور کتاب دی۔ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے نصیحت نہ مانی اور بے حیائی پر قائم رہے۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ پھر قوم لوط پر عذاب آیا اور وہ تباہ ہوئی۔ پھر قومِ عاد اور ثمود کی گمراہی کے باعث ان کی تباہی کا ذکر ہوا اور فرمایا کہ اللہ کسی پر ظلم کرنے والا نہ تھا۔ انہوں نے خود تکبر اور نافرمانی کی روش اختیار کر کے قہرِ الٰہی کو دعوت دی۔
سترہ رمضان المبارک
پارہ اکیس سورۃ العنکبوت رکوع 5تا 7
سورۃ الروم رکوع 1تا 6
سورۃ لقمان رکوع 1تا 4
سورۃ السجدۃ رکوع 1تا 3
سورۃ الاحزاب رکوع 1تا 3
پارہ بائیس سورۃ الاحزاب رکوع 4تا 8
(29) سورۃ العنکبوت (جاری) رکوع 5تا 7
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ قرآن مجید کو پڑھو، نماز قائم رکھو کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کی یاد سب سے بڑی چیز ہے، یہی انسانوں کو گناہوں سے بچاتی ہے اور اللہ تمہاری ہر بات سے باخبر ہے۔ اہلِ کتاب کو نرمی سے سمجھاؤ کہ ہم تمہاری اور اپنی آسمانی کتابوں کو سچا مانتے ہیں۔ ہمارا اور تمہارا دونوں کا معبود ایک ہی ہے۔ ہم فقط اس کے حکم پر چلتے ہیں اور کسی کو اس کے برابر شریک نہیں مانتے۔ فرمایا بلاشبہ قرآن کو ہم نے فرمایا، جیسے اس سے پہلے تورات، انجیل اور زبور نازل کیں تھیں۔ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ کسی سے پڑھنا سیکھا، نہ لکھنا سیکھا، نہ کوئی کتاب کسی سے پڑھی، نہ کبھی ہاتھ سے لکھی۔ یہ جھوٹے ہیں۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے سے سنی اور حفظ ہو گئی اور اسی طرح قیامت تک حافظوں کے سینے میں محفوظ رہے گی۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم معجزے مانگتے ہیں تو فرما دیں کہ میں معجزے دکھانے نہیں بلکہ برے کاموں کے انجام سے ڈرانے آیا ہوں۔ کیا یہ معجزہ کافی نہیں کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن نازل کیا جو سراسر رحمت و نصیحت ہے ان لوگوں کے لیے جو مانتے ہیں۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ عذاب مانگتے ہیں انہیں کہیے کہ جب وقت آئے گا تو عذاب اچانک آئے گا۔ اگر مشرک وطن میں اللہ کی عبادت نہیں کرنے دیتے تو ہجرت کر جائیے۔ اللہ کی زمین بڑی کشادہ ہے اور ہجرت کرنے والوں کے لیے جنت میں اونچے مکان ہیں۔ رازق صرف اللہ ہے اور وہی جس کی روزی چاہتا ہے کشادہ یا تنگ کرتا ہے اور وہی آسمان سے پانی برساکر مردہ زمین کو پھر زندہ کرتا ہے۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ یہ دنیا تو چند روزہ محض جی کا بہلاوا ہی تو ہے اور اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اس لیے زیادہ وقت اس کی تیاری میں صرف کرنا چاہیے۔ لوگوں کا رویہ ہے کہ مصیبت میں اللہ کو پکارتے ہیں اور جب وہ مصیبت ٹال دیتا ہے تو پھر غیر اللہ کو پکارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے زیادہ نا انصافی کیا ہے کہ اس کے پاس پیغامِ حق پہنچے اور وہ اسے جھٹلائے اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور جو ہمارے لیے محنت و مشقت اٹھائے گا ہم اس پر اپنی راہیں واضح کر دیں گے۔
(30) سورۃ الروم رکوع 1تا 6
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ شکست و فتح اللہ کے ہاتھ میں ہے اور پیش گوئی فرمائی کہ رومی ایران پر غالب ہوں گے اور اسی روز مسلمانوں کو بھی اللہ کی مدد سے راحت ملے گی۔ چنانچہ جس روز بدر میں مسلمانوں کو فتح ملی اسی روز رومیوں نے اپنے علاقے ایران سے واگزار کروا لیے۔ فرمایا دنیا کی خوشحالی، شان و شوکت اور فراخی میں کچھ نہیں رکھا، اصل بہتری آخرت کی بہتری ہے۔ اور غور کرنے والے ملک میں چل پھر کر ان لوگوں کا انجام بھی دیکھ سکتے ہیں جو کبھی یہاں بستے تھے اور آج اپنی غفلت میں مبتلا ہونے کی وجہ سے بے نشان ہو گئے۔ انہوں نے خود پر ظلم کیا، برے کام کیے اللہ کی نافرمانی کی اور اعمال کی شناخت سے برباد ہوئے۔ ان کا انجام دنیا اور آخرت میں ہی برا ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ قیامت یقینی ہے۔ اس دن گنہگاروں کے شریکوں میں سے کوئی ان کی سفارش کرنے والا نہ ہو گا۔ قیامت قائم ہو گی، حق کو جھٹلانے والے الگ الگ کر دیے جائیں گے۔ ایمان والوں کی آؤ بھگت ہو گی اور جھٹلانے والے عذاب میں پکڑے جائیں گے۔ اللہ کی پاکی بیان کرو صبح و شام، عصر اور ظہر کے وقت یعنی ہر وقت اور اللہ ہی ہے جو زندہ کو مردہ اور مردہ کو زندہ کرتا ہے۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا۔ پھر تمہاری ہی نوع سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم آپس میں پیار اور چین سے رہو۔ پھر اس کی نشانیاں ہی ہیں کہ ارض و سماء بنائے۔ انسانوں کو الگ الگ بولیاں سکھائیں، پھر رات آرام کے لیے اور دن اس کے فضل کی تلاش کے لیے بنائے، پھر آسمان میں بجلی چمکتی ہے، مینہ برساکر مردہ زمینوں کو زندہ کرتا ہے۔ اسی کے حکم سے زمین و آسمان کھڑے ہیں جو کچھ ارض و سماء میں ہے اسی کا ہے اور اس کے حکم کے تابع ہے اور وہ زبردست حکمت والا ہے۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ شرک نامعقول ہے۔ جو ناسمجھ اپنی خواہشوں کے غلام ہیں ان کو ان کے حال پر رہنے دو اور یکسوئی کے ساتھ دین کے سیدھے راستے پر چلو۔ اللہ سے ڈرو، نماز قائم کرو، شرک سے باز رہو اور ان سے بھی جنہوں نے دین میں پھوٹ ڈال کر فرقوں میں بانٹ دیا۔ ان پر غفلت کا پردہ پڑا ہے کہ اپنی بات پر اڑے ہوئے ہیں۔ جب انہیں رحمت کا مزہ ملے تو خوش اور مصیبت آئے تو مایوس ہو جاتے ہیں۔ قرابت داروں، محتاجوں اور مسافروں کی اللہ کی رضا کی خاطر مالی مدد کرو۔ اللہ نفع میں مال بڑھائے گا۔ تمہیں اللہ ہی نے پیدا کیا، روزی دی، وہی مارتا ہے اور دوبارہ زندہ کرے گا۔ وہ پاک و برتر ہے اس سے جسے تم شریک بناتے ہو۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ پہلوں کا انجام بد دیکھو جو شرک اور برے اعمال میں مبتلا ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس مستحکم اور سیدھے دین پر چلو اور ان کو کہو کہ قیامت کا دن ضرور آئے گا اور منکروں پر انکار کا وبال پڑے گا اور نیکو کاروں کو اچھا بدلہ ملے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم حق کا پیغام سناتے جائیں جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات نہیں سنتے ان کے دل مردہ، کان بہرے اور آنکھیں اندھی ہو چکی ہیں اور جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی باتیں سنیں گے وہی ہماری آیات کو سچا مانتے ہیں اور ہی ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا اور مسلم کہلائے۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے تمہیں کمزور پیدا کیا، پھر قوت دی، پھر بڑھاپا دیا۔ قیامت کے دن گنہگار کہیں گے کہ ہم تو ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے اور ایمان والے کہیں گے یہ ٹھہرنا تو قیامت کے دن تک تھا۔ ہم نے قرآن میں ہر طرح کی مثالیں دیں مگر یہ لوگ ماننے کو تیار نہ ہوئے۔ ان کے دلوں پر اللہ نے مہریں لگا دیں۔
(31) سورۃ لقمان رکوع 1تا 4
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ یہ پُر حکمت کتابِ ہدایت ہے نیکی کرنے والوں کے لیے جو نماز قائم کرتے، زکوٰۃ دیتے اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی راہِ راست پر ہیں اور دونوں جہانوں میں کامیاب ہیں۔ اور ایک وہ لوگ ہیں جو صرف وقت ضائع کر رہے ہیں ان کے لیے ذلت کا عذاب ہے، نیکوکاروں کے لیے انعام و اکرام ہیں۔ زمین پر پہاڑ بنائے، بادلوں سے پانی برسایا اور نباتات گھاس، سبزیاں، ترکاریاں، میوے اور غلے پیدا کیے جن سے زندگی قائم ہے۔ یہ سب اللہ نے اپنی قدرت سے بنایا۔ پھر اس کے ساتھ شریک بنانا نا انصافی ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ لقمان علیہ السلام کو دانا آدمی بنایا اور بتایا کہ شکر گزاری کرتا رہے۔ اس نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ، یہ بڑی بے انصافی ہے۔ فرمایا میرے شکر کے ساتھ ماں باپ کا شکر بھی ادا کرو۔ ماں نے ایک مدت تمہیں پیٹ میں رکھا اور کمزوری جھیلی، دو سال تک دودھ پلایا لیکن والدین اگر شرک کے لیے کہیں تو انکار کر دو کہ یہ اللہ کی حق تلفی ہے۔ اللہ کے راستہ پر ہی چلو، اللہ ان چیزوں کو خواہ رائی کے دانے کے برابر ہوں اور پتھر کے اندر چھپی ہوں، ہر شے کو جانتا ہے اور خبردار ہے۔ لقمان علیہ السلام نے بیٹے کو سمجھایا کہ نماز قائم رکھو، نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو، اگر رنج پہنچے تو صبر سے کام لو، لوگوں سے منہ پھلا کر بات نہ کرو کہ یہ متکبروں کا کام ہے اور زمین پر اکڑ کر مت چلو، میانہ روی اختیار کرو اور پست اور نرم آواز سے بات کرو، گدھے کی طرح مت چلاؤ۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم نے غور نہیں کیا کہ اللہ نے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، تمہارے کام میں لگا دیا ہے اور تم پر نعمتیں پوری کر دی ہیں۔ پھر بھی یہ لوگ سب کچھ دیکھ کر بھی اس کا اقرار نہیں کرتے اور نامعقول بہانے کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کا غم نہ کریں، ان منکروں کو آخر ہماری طرف آنا ہے اور ان کو اپنے اعمال کا نتیجہ مل جائے گا۔ ارض و سماء میں ہر شے اللہ ہی کی ہے، وہ بے پروا سب خوبیوں والا ہے۔ اگر دنیا کے درخت قلم بن جائیں اور سمندر سیاہی تو بھی اللہ کی ساری خوبیاں لکھی نہیں جا سکتیں۔ ہر شے اللہ کی قدرت کے تحت کام کر رہی ہے اور صرف وہی معبود برحق ہے باقی سب با طل ہیں۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ جہاز کس طرح سطح پر چل کر اللہ کی نعمتوں کو اِدھر اُدھر پہنچا دیتے ہیں۔ کیا تمہیں ان میں اللہ کی قدرت نظر نہیں آتی؟ اللہ کی ناراضگی سے ہر آن ڈرتے رہو۔ یاد رکھو ایک ایسا ہولناک دن آنے والا ہے جب بیٹا باپ اور باپ بیٹے کام نہ آئے گا۔ قیامت کا علم اللہ ہی کو ہے۔ وہی جانتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے، وہی مینہ برساتا ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ کل اس کے ساتھ کیا واقعات پیش آنے ہیں۔
(32) سورۃ السجدہ رکوع 1تا 3
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ قرآن اللہ ہی کی بھیجی ہوئی کتابِ ہدایت ہے۔ ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو اسے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے منسوب کرتے ہیں، جو باطل خیال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس لیے بھجوایا اور کتاب دی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کو اچھی طرح سمجھا اور ڈرا دیں تاکہ وہ راہ پر آ جائیں۔ اللہ ہی ہے جس نے آسمان و زمین کو چھ دن کے اندر بنایا، پھر عرش پر قائم ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کہہ دیں کہ کیوں نافرمانی کرتے ہو، کہاں جاؤ گے اور کس کی پناہ ڈھونڈو گے۔ ارشاد ہوا کہ اس نے ایک نظام اپنی قدرت سے مقرر کیا ہے اور اسے سب ظاہری اور پوشیدہ باتوں کا علم ہے۔ مرنے کے بعد پھر جینا ہے اور اپنے رب کی طرف لوٹ جانا ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کا انکار کرنے والے اس کے سامنے سر جھکا کر کھڑے ہوں گے اور عرض کریں گے کہ اب ہماری آنکھیں اور کان کھل گئے ہیں۔ جو تیرے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا تھا، درست تھا۔ ہمیں پھر زمین پر بھیج کہ نیک کام کر سکیں۔ لیکن یہ درخواست فضول ہو گی، دنیا ختم ہو چکی ہو گی۔ اب مزے چکھو، تمہارے لیے دائمی عذاب ہے۔ ہماری آیتوں کو ماننے والے وہ ہیں جو انہیں سن کر سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں (السجدہ)۔ ایمان والے رات کو قیام کرتے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ ان کا ٹھکانہ جنت ہے اور نافرمانوں کے لیے عذابِ دوزخ۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی اور بنی اسرائیل کے لیے ذریعۂ ہدایت بنایا۔ اور ان سے دینی پیشوا پیدا کئے جو ہماری راہ پر چلتے اور صبر کرتے تھے۔ لوگ اپنی اپنی ڈگر پر گامزن ہیں، ہر ایک خود کو درست سمجھتا ہے۔ اب قیامت کے دن فیصلہ کر دیا جائے گا کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔ پوچھتے ہیں قیامت کب آئے گی ان سے کہہ دیں کہ اس دن ایمان لانا تمہارے کسی کام نہ آئے گا۔
(33) سورۃ الاحزاب رکوع 1تا 8
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم صرف اللہ سے ڈرتے رہیے اور منکروں اور منافقوں کا کہا نہ مانیں۔ اللہ نے کسی کے سینے میں دو دل نہیں رکھے، ان کا اعتقاد کہ بیوی کو ماں کہہ دیا تو وہ ماں ہو گئی، غلط بات ہے اور جس کو زبان سے بیٹا کہہ دیا تو وہ سچ مچ کا بیٹا ہو گیا، یہ سب خلافِ واقعہ باتیں ہیں۔ لے پالک کو ہمیشہ اس کے اصل باپ کی طرف منسوب کرو اور غلط بات سے توبہ کرو، اللہ بخشنے والا ہے۔ ایمان والوں کو اپنی جان سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے لگاؤ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں امت کی مائیں ہیں اور رشتہ دار میراث میں عام مسلمان اور ہجرت کرنے والوں سے زیادہ حق رکھتے ہیں، تاہم اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم رفیقوں کے ساتھ احسان کرنا چاہو تو کتاب اللہ کی روشنی میں ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ اللہ نے نبیوں سے پختہ عہد لیا تھا کہ وہ بے غرضی کے ساتھ انسان کو سچی سچی باتیں بتائیں گے اور بندوں کو صحیح راہ پر ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ غزوۂ احزاب کا ذکر فرمایا کہ اللہ کا احسان یاد کرو جب تمہارے اوپر فوجیں چڑھ آئیں پھر اللہ کی مدد سے تمہارے دشمنوں کے لشکر پر آندھی کے طوفان سے انہیں تباہ کر دیا۔ پھر اللہ نے دل کے کھوٹ والوں کی نشاندہی کی، جنہوں نے جھوٹے عذر بنائے اور گھروں کی حفاظت کا بہانہ کیا۔ منافق خطرے کے وقت ضروری کاموں میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں اور جب خطرہ نہیں رہتا تو بڑھ چڑھ کر بولنے لگتے ہیں۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ جو اللہ اور آخرت کو مان چکے ہیں اور اللہ ہی کو یاد کرتے ہیں ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بہترین نمونہ ہیں، جس پر انہیں چلنا چاہیے۔ جب مومنوں نے کفار کی فوجیں دیکھیں تو بے ساختہ بول اٹھے کہ اب آزمائش اور امتحان کا وقت آ پہنچا اور یہ وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں وعدہ دیا تھا۔ اور ایمان والے اپنے وعدہ پر قائم رہے اور اپنی بات سے نہ پھرے۔ ان سچے اور وفادار لوگوں کو اللہ پورا پورا اجر دے گا اور دغا باز اور قول سے پھر جانے والوں کو عذاب میں مبتلا کرے گا یا مہربانی کر کے انہیں توبہ کی توفیق دے گا، اللہ بخشنے والا ہے۔ پھر لڑائی میں دونوں کا رویہ بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ اللہ کی آزمائش پوری ہوئی، منافقوں کا حال کھل گیا، ایمان والے کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد غدار بنو قریظہ کے یہودیوں کی باری آئی اور اللہ نے انہیں بھی مضبوط قلعوں سے نکالا اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی۔ پھر کتنوں کو تم نے قتل کیا اور کتنوں کو گرفتار۔ اور اللہ نے تمہیں ان کی زمینوں کا وارث بنایا۔
پارہ بائیس
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی بیویوں سے کہہ دیں کہ وہ ایسا طرزِ زندگی اختیار کریں جو ایمان والے مرد اور عورتوں کے لیے نمونہ بنے۔ اگر انہیں دنیا کی عیش و آرام چاہیے تو آرام سے بھلی طرح رخصت ہو جاؤ اور اگر آخرت اختیار کر لیں تو انہیں اسی طرح رہنا پڑے گا اور آخرت میں بڑا انعام و اکرام تیار رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے مرتبہ کا خیال کریں، بڑے مرتبہ والوں کا اجر بھی بڑا ہے اور دوگنا ثواب۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ نیک کاموں کی کوشش کرنے میں مرد اور عورتیں برابر ہیں اور ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔ پھر دس صفتوں کو کھول کر بتایا:
1۔ اسلام یعنی حکم بجا لانے کے لیے تیار ہو جانا۔
2۔ ایمان یعنی عقیدہ درست رکھنا۔
3۔ عبادت یعنی حکم کے مطابق کام شروع کر دینا۔
4۔ صدق یعنی قول و فعل میں سچائی اور دیانت۔
5۔ صبر یعنی نیک کاموں کے لیے مصیبتیں جھیلنا۔
6۔ تواضع یعنی اللہ کے سامنے عاجزی کا اظہار۔
7۔ خیرات یعنی اپنے مال سے ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرنا۔
8۔ روزہ رکھنا۔
9۔ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنا۔
10۔ ذکرِ الٰہی کثرت سے کرنا۔
فرمایا کہ اب جن باتوں کو کھول کر بیان کیا گیا ہے ان کو اختیار کرنا ہے۔ اب ان میں کوئی حیل و حجت یا اپنی مرضی نہ چلاؤ۔ فضول رسم مٹ کر رہے گی، لے پالک کی مطلقہ بیوی سے نکاح حلال ہے اور نبی اللہ کے طابع فرمان ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم ہیں اور ہر چیز کا علم تو اللہ ہی کو ہے۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو! اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو اور صبح و شام دل سے اس کی تسبیح کو اپنا وِرد بناؤ۔ اللہ نے اپنی رحمتیں یعنی آیات نازل کیں اور تمہیں جہالت کی تاریکیوں سے نکالا، وہ ایمان والوں پر مہربان ہے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دنیا میں سب کے اوپر گواہ، اچھوں کو خوشخبری سنانے والا اور بدکاروں کو ڈرانے اور اللہ کی طرف بلانے والا، روشنی پھیلانے والا چمکتا چراغ بنا کر بھیجا ہے۔ غیر مدخولہ کی طلاق کے لیے عدت نہیں ہے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں جو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نکاح میں ہیں، حلال کیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مزید رعایت دی۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر بے باکی سے نہ جایا کرو۔ اگر تمہیں دعوت ملے تو عین وقت پر جا کر کھانا کھا کر فوراً اُٹھ آیا کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تمہاری بے باکی سے تکلیف ہوتی ہے لیکن وہ شرم کے لحاظ سے تمہیں کچھ نہیں کہتے۔ امہات المومنین سے نکاح جائز نہیں، بڑا گناہ ہے۔ پردہ کے مزید احکام آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا احترام نہ کرنے والوں پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی لعنت اور عذاب ہے۔
رکوع 8۔ ۔ ۔ ۔ مسلمان عورتوں کے لیے لازم ہے کہ جب کسی ضرورت کے لیے گھر سے نکلیں تو چادر کا ایک حصہ سر سے چہرہ پر نیچے تک لٹکا لیں تاکہ ان میں اور لونڈیوں، باندیوں میں فرق کرنا آسان ہو۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے قیامت کی تاریخ پوچھتے ہیں، کہہ دیں کہ اس کا علم اللہ ہی کو ہے لیکن اس کا انکار کرنے والے دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔
اٹھارہ رمضان المبارک
پارہ بائیس سورۃ الاحزاب رکوع 9
سورۃ سبا رکوع1تا 6
سورۃ فاطر رکوع 1تا 5
سورۃ یٰس رکوع 1تا 2
پارہ تئیس سورۃ یٰس رکوع 2تا 5
سورۃ الصٰفٰت رکوع 1تا 5
(33) سورۃ الاحزاب (جاری) رکوع 9
رکوع 9۔ ۔ ۔ ۔ اللہ سے ڈرو اور سچی بات کہو، اللہ تمہارے کام سنوار دے گا۔ اور جو کوئی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلا، اسے بڑی کامیابی ملی۔ عہد و پیمان ایک امانت ہے جس کی حفاظ اور نگہبانی ہر انسان کے ذمہ واجب ہے اور اس سے بے پرواہی کرنے والے سزا کے مستحق ہیں۔
(34) سورۃ سبا رکوع 1تا 6
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ زمین و آسمان کا اللہ ہی تنہا مالک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسے ظاہر یا پوشیدہ ذرہ ذرہ کا علم ہے، وہی رحم کرنے والا بخشنے والا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کو کہہ دیں کہ قیامت ضرور آئے گی اور تمہیں گرفت میں لے گی۔ قیامت اسی لیے آنا ہے کہ فرمانبرداروں کو انعام اور نافرمانوں کو دردناک عذاب ملے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے اپنی قدرتِ کاملہ کی نشانیاں بیان فرمائیں۔ قومِ سبا کا تذکرہ آیا کہ ان کی بستی میں باغات اور میووں کی کثرت دی اور کہا کہ شکر کرو لیکن انہوں نے ناشکری کی تو ہم نے پانی کا بند توڑ دیا تو سب کچھ بہہ گیا اور خشک میدان پیدا ہو گئے، جن میں کڑوے کسیلے پھل اور جنگلی بیریاں تھیں۔ یہ لوگ شیطان کے جال میں پھنس گئے اور برباد ہوئے لیکن کچھ لوگ جو اللہ پر ایمان رکھتے تھے، بچ گئے۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو ایک ذرہ بھر کے بھی مالک نہیں۔ اللہ نے نہ یہ عالم بنانے میں کسی کی مدد لی نہ اسے کسی کام میں کسی مدد کی ضرورت ہے۔ اس کے سامنے کوئی سفارش نہیں کر سکتا مگر جسے وہ اجازت دے۔ ہر ایک کے اعمال کی پوچھ گچھ ہو گی اور فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان سے فرما دیں کہ قیامت اپنے عین وقت پر آئے گی اور سب اللہ کے سامنے حاضر ہو جائیں گے۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ آج کافر یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم قرآن کو تسلیم نہیں کرتے اور جب یہ رب کے حضور کھڑے کیے جائیں گے تو آپس میں ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے، کمزور لوگ کہیں گے کہ تم نے ہمیں زبردستی کفر اختیار کرنے کو نہیں کہا مگر چال ایسی اختیار کی کہ ہم پھسل گئے۔ ان کے گلوں میں طوق ڈال دیئے جائیں گے۔ اللہ ہی روزی کم یا زیادہ کرتا ہے لیکن اکثر نہیں سمجھتے۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ مال اچھے کاموں میں لگاؤ۔ اولاد کی اچھی تربیت کرو تو اللہ تمہیں درجہ دے گا ورنہ سب بے کار ہے۔ ایمان اور نیک کام ہی کام آئیں گے۔ اللہ آزمائش کے لئے کسی کا رزق وسیع کر دیتا ہے اور کسی کا بہت ہی کم۔ نیک کاموں میں خرچ کرنے سے رزق ختم نہیں ہوتا، اللہ اس کا بدلہ دیتا ہے۔ غیر اللہ کی پرستش جہنم میں لے جاتی ہے۔ دیکھ لو میرا انکار کرنے والوں کی کیا درگت بنی۔ وہ بڑی جسمانی قوت کے مالک، مال و دولت اور لمبی عمروں والے تھے، ان کو تو ان کے سامانِ عیش کا دسواں حصہ بھی نہیں ملا۔ یہ لوگ قرآن کو جھٹلا کر ہماری پکڑ سے کیسے بچ سکتے ہیں۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ انہیں نصیحت کیجئے کہ ذاتی منفعت کا خیال چھوڑ کر محض اللہ کے لیے کھڑے ہو جاؤ اور بے جا تعصب چھوڑ دو اور انفرادی اور اجتماعی طور پر سوچو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کوئی جنون نہیں وہ تو تمہیں ایک بڑے عذاب کے آ نے سے پہلے بُرے کاموں سے ڈرا تا ہے۔ اس نے کبھی معاوضہ طلب نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کہہ دیں کہ سچ آ چکا جھوٹ غارت ہوا، حق کی قوت غالب آئی اور باطل دب کر رہ گیا۔ میرا راستہ درست اور سیدھا ہے کیونکہ میرا رب برابر میری طرف وحی بھیج رہا ہے۔ ایمان سے محروم رہنے والے سزا کے مستحق ہوں گے۔
(35) سورۃ فاطر رکوع 1تا 5
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ہی سب کا خالق ہے۔ وہ کسی کو اپنی رحمت سے دینا چاہے تو اس کو روکنے کی کسی میں مجال نہیں اور نہ دینا چاہے تو کوئی کچھ نہیں دے سکتا۔ وہی ہر قوت کا مالک ہے اس کے سوا کوئی روزی رساں نہیں اور نہ کوئی معبود ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا کہ رنجیدہ نہ ہوں، پہلے بھی رسول جھٹلائے گئے ہیں۔ لوگو! شیطان تمہارا دشمن ہے، اس کے بہکاوے سے بچو۔ اس کا مقصد ہے کہ تم دوزخ والوں میں سے ہو۔ کافروں کے لیے سخت عذاب اور ایمان والوں کے لیے اجرِ کبیر ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ جو شیطان کے پھندے میں پھنستا ہے اللہ اسے گمراہ کر دیتا ہے اور جو اللہ کی طرف مائل ہو، اسے ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر ایک کے ذرا ذرا سے کام سے واقف ہے۔ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ ہوائیں چلائیں، بادل اٹھائے، مینہ برساکر مردہ زمینوں کو زندہ کیا، اسی طرح تم بھی مر کر زندہ ہو جاؤ گے۔ پھر اپنی قدرت کی نشانیاں بتائیں اور فرمایا کہ جھوٹے معبود تمہاری پکار نہ سنیں گے اور قیامت کو تمہارے شریک ٹھہرانے سے منکر ہوں گے اور اللہ ہر بات کی تہہ سے واقف ہے۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ اے لوگو! تم اللہ ہی کے محتاج ہو اور وہی بے پروا سب تعریفوں والا ہے۔ اس کے لیے مشکل نہیں کہ تمہیں ہٹا کر دوسری مخلوق لے آئے۔ ہر کوئی اپنا بوجھ اٹھائے گا۔ جس طرح اندھا اور سوجاکھا برابر نہیں اسی طرح اندھیرا اور اجالا برابر نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سچا دین دے کر خوشخبری دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھجوایا ہے۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو اللہ مینہ برسا کر طرح طرح کے میوے، پھل اور سبزیاں اُگاتا ہے۔ اور وہ لوگ جو قرآن پڑھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور اللہ کے دیے میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ایسی تجارت کر رہے ہیں جس میں نفع ہی نفع ہے۔ یہی لوگ کامیاب و کامران اور یہی لوگ انعام و اکرام سے بہرہ اندوز ہوں گے۔ قرآن حق ہے پھر منکرین کے قول و فعل میں تضاد کو واضح کیا۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ہی ارض و سماء کے بھید جاننے والا ہے۔ ناشکری کرنے والا ذلیل و رسوا ہو گا۔ قیامت میں مشرکوں سے پوچھا جائے گا کیا تمہارے جھوٹے معبودوں نے کائنات میں کوئی چیز پیدا بھی کی؟ حقیقت میں غیر اللہ کی پرستش دھوکہ اور فریب ہی ہے۔ یقیناً اللہ ہی ہے جس نے عالم ارض و سماء کے نظام کو اپنی قدرت سے تھام رکھا ہے کہ ٹل نہ جائے۔ اگر یہ ٹل جائے تو اللہ کے سوا کوئی تھام نہیں سکتا۔ اے نافرمانی کرنے والو! دنیا میں پھر کر اگلوں کی تباہی دیکھو، جنہوں نے حق و صداقت کو جھٹلایا اور اللہ کی وحدانیت کا انکار کیا، یہ سب صفحۂ ہستی سے مٹا ڈالے گئے۔ اللہ ایک مقرر میعاد تک ڈھیل دیتا ہے مگر جب گھڑی آ جائے تو پھر کسی کی کچھ نہ چلے گی۔
(36) سورۃ یٰس رکوع 1تا 5
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ قسم ہے اس قرآن برحق کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم یقیناً نبی مرسل اور صراطِ مستقیم پر ہیں۔ اور یہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف اس لیے نازل کیا ہے کہ اس قوم کو برے اعمال کے نتیجہ سے خبردار کریں جن کے پاس مدت سے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا اور جن کے باپ دادا نے بھی ایسی باتیں نہیں سنیں، اس لیے وہ خوابِ غفلت میں گرفتار ہیں۔ ان لوگوں میں بعض ایسے سخت دل ہوں گے کہ ان آیتوں پر بالکل توجہ نہ دیں گے۔ ان کی گردنوں کو طوقوں میں جکڑ کر رکھا ہے اور آگے پیچھے دیواریں ہیں، چاروں طرف کے واقعات انہیں نظر نہیں آتے۔ وہ تعصبات کے اسیر ہیں، انہیں سمجھانا نہ سمجھانا برابر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نصیحت وہ مانیں جن کے دل بن دیکھے رب کا ڈر رکھتے ہیں۔ سو آپ صلی اللہ علیہ و سلم انہیں بخشش اور انعام و اکرام کی خوشخبری دیں۔ لوگو! مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جاؤ گے اور تمہارا تمام اعمال کا ریکارڈ محفوظ ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ لوگوں کو ایک بستی والوں کا قصہ سناؤ جن کی طرف ہم نے دو رسول بھیجے تھے پھر تیسرا ان کی مدد کو بھیجا تو لوگوں نے رسولوں سے کہا کہ تم تو ہم جیسے انسان ہو تم جھوٹ کہتے ہو۔ رسولوں نے کہا ہمیں بے شک رب نے ہی بھجوایا ہے اور ہدایت کا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہم تمہیں نا مبارک پاتے ہیں، اپنی زبان کو روکو ورنہ ہم تم کو سنگسار کر دیں گے۔ رسولوں نے کہا یہ مصیبتیں تو تمہاری شامتِ اعمال ہے۔ شہر کے پرلے سرے سے ایک مرد بھاگتا آیا اور کہا میرے ہم وطنو! ان کی بات مان لو، یہ حق ہے ان کے کہنے پر چلو۔
پارہ تئیس
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ شرک چھوڑ کر ایک رب کا اقرار کر لو۔ اسی نے خلق کیا ہے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ بھلا ان ہستیوں کی بندگی کیسی جو نہ نفع دے سکیں اور نہ کسی مصیبت سے جان چھڑا سکیں۔ یہ سن کر قوم نے اسے ہلاک کر دیا اور انجام کار ایک ہولناک چنگھاڑ سے وہ سب بجھ گئے۔ فرمایا افسوس انہوں نے رسولوں کی ہنسی اڑائی پھر ان کا نام و نشان نہ رہا۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے مینہ برساکر مردہ زمین کو زندہ کرنے اور نعمتیں اُگانے کا ذکر فرمایا۔ پھر فرمایا کہ ہم نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں اور کائنات میں ہر چیز ایک نظم کے تحت چل رہی ہے۔ اگر ہم سمندر میں ان کو کشتیوں اور جہازوں سمیت ڈبو دیں تو کوئی انہیں بچانے والا نہیں۔ ہم تو ان کو اپنی رحمت سے بچائے ہوئے ہیں۔ جب انہیں کہا جائے کہ ہمارے دیے میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو کافر کہتے ہیں کہ ہم ان کو کیوں کھلائیں جنہیں اللہ خود نہیں کھلاتا۔ یہ لوگ واضح گمراہی میں مبتلا ہیں۔ یہ قیامت کا پوچھتے ہیں تو جب ایک چنگھاڑ ان کو آ پکڑے گی پھر وہ گھر لوٹ نہ سکیں گے۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ صور پھونکا جائے گا تو مُردے قبروں سے اٹھ کر اپنے رب کی طرف دوڑیں گے اور کہیں گے کہ ہمیں کس نے خواب گاہ سے جھنجھوڑ کر اٹھا دیا ہے ؟ تو فرشتے جواب دیں گے یہ وہی میدانِ حشر ہے جس کا وعدہ رحمٰن نے کیا تھا اور رسولوں نے اس کی سچی خبر دی تھی۔ پھر فرشتے انہیں اللہ کے حضور پیش کریں گے اور ہر ایک کے ساتھ پورا پورا انصاف ہو گا، کسی پر ظلم نہ ہو گا۔ نیکوں کا انجام بہشت ہو گا جہاں اللہ کی نعمتیں ہوں گی۔ ارشاد ہوا کہ اے آدم کی اولاد کیا تمہیں رسولوں کے ذریعے اچھی طرح سمجھا نہ دیا گیا تھا کہ شیطان کے بہکاوے میں مت آنا یہ تمہارا دشمن ہے، تم میری ہی عبادت کرنا اور میرے احکامات پر عمل کرنا۔ سیدھی راہ پر ہی چلو ورنہ دنیا اور آخرت خراب ہو جائے گی اور کفر کا بدلہ دوزخ ہے۔ مجرموں کے ہاتھ پاؤں ان کے گناہوں کی گواہی دیں گے۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے صحت و تندرستی دی تو یہ اپنے اعضاء سے اچھے کام کریں۔ رسول صلی اللہ علیہ و سلم جو کلام سناتے ہیں اس میں نصیحت اور انسانی خیرخواہی کے سوا کچھ نہیں۔ بعض لوگ دنیا کی چہل پہل میں پھنس کر شیطان کے بہکاوے میں بھول گئے کہ انسان کے لیے بھلائی کی باتیں قرآن میں جمع کر دی گئی ہیں جو انہیں صاف زندگی کے گُر بتاتا اور برے اعمال کے نتیجے سے ڈراتا ہے۔ ہم نے ان کی خدمت کے لیے چوپائے اور مویشی پیدا کیے وہ ان کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ ان کو بنانے والا کون ہے اور یہ کس کے حکم کے تابع ہیں۔ وہ ان کو کھاتے اور ان سے دودھ نکالتے ہیں پھر بھی شکر نہیں کرتے اور اللہ کے سوا بھی معبود بناتے ہیں لیکن وہ ان کے کام نہ آئیں گے۔ کیا انسان کو اپنی حقیقت معلوم ہے کہ اسے ایک قطرہ سے بنایا اور پھر وہ جھگڑنے بولنے والا ہو گیا اور اصلیت بھول گیا اور اب کہتا ہے کہ گلی ہڈیوں سے کس طرح دوبارہ زندہ کرے گا۔ تو ان سے کہیے کہ جس نے پہلے پیدا کیا تھا وہی دوبارہ زندہ کرے گا۔ اللہ تو وہ ہے جو سبز درختوں سے آگ نکالتا ہے۔ زمین و آسمان کا پیچیدہ نظام اس نے پیدا کیا، وہ ہر شے کا مالک ہے۔ ایک کلمہ "کُن” سے وہ جو چاہے پیدا کرے، اس کے لیے تمہیں دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے۔
(37) سورۃ الصّٰفّٰت رکوع 1تا 5
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ تمہارا معبود حقیقی بس ایک ہی جو ارض و سماء اور تمام چیزوں کا جو ان میں ہیں، تنہا مالک ہے اور تمام مشرقوں کا مالک ہے۔ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے سجایا، مسافروں کے راستے جاننے کا سبب بنایا اور اسے سرکش شیطان سے شہابِ ثاقب کے نظام کو قائم کر کے محفوظ بنایا۔ یہ سب بنانا مشکل تھا یا انسان کو چپکتے گارے سے بنانا۔ یہ نادانی کی باتیں کرتے ہیں اور نشانیاں دیکھ کر ہنسی میں اڑا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے، مر کر جب ہڈیاں گل سڑ جائیں گی تو پھر کیسے زندہ کیا جائے گا اور ہمارے باپ دادا کو بھی۔ کہہ دیں کہ ہاں بس ایک جھڑکی ہو گی اور سب زندہ ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ ہماری خرابی کا دن آ گیا۔ ہاں یہ ہے فیصلے کا دن جسے تم جھٹلاتے تھے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ حکم ہو گا کہ سب گنہگاروں کو جو غیراللہ کو پوجتے تھے، اکٹھا کرو اور داخل دوزخ کرو۔ وہ آپس میں جھگڑ کر کمزور زبردستوں پر الزام لگائیں گے کہ ان کی وجہ سے یہ مصیبت آئی ہے، یہ بھلی باتوں سے روکتے تھے۔ بڑے کہیں گے کہ تم خود اپنی حدوں سے نکلنے والے ہو اور رب کی بات سچی تھی اور ہم کو بداعمالیوں کا مزا چکھنا ہے۔ جب ان سے کہا جاتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو تکبر کرتے اور کہتے ہم ایک دیوانے اور شاعر کے کہنے پر اپنے بڑوں کو کیسے چھوڑ دیں۔ دوسری طرف اللہ کے پسندیدہ بندے سرسبز باغوں میں شاندار تختوں پر بیٹھے ہوں گے، جہاں بے شمار نعمتیں ہوں گی۔ منکرینِ حق کو زقوم کھانے کو اور ابلتا پانی پینے کو دیا جائے گا یہ سامانِ ہدایت ہونے کے باوجود اپنے گمراہ آباء کے نقشِ قدم پر چلے۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ نوح علیہ السلام کی پکار پر قومِ نوح کا صفحۂ ہستی سے مٹنا، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ہدایت کا درس دینا، قوم کا انہیں آگ میں ڈالنا اور ان کا سلامت رہنا، ہجرت کرنا، اسمٰعیل علیہ السلام کی پیدائش اور قربانی کے واقعات بیان فرمائے۔ فرمایا سلام ہو ابراہیم علیہ السلام پر۔ انہیں اسحاق علیہ السلام کی خوشخبری دی جو نبی ہوں گے اور دونوں اسمٰعیل علیہ السلام اور اسحاق علیہ السلام کی نسل خوب پھیلے گی، ان میں کچھ نیکوکار اور بعض گنہگار ہوں گے۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو واضح ہدایتوں والی کتاب دی۔ انہوں نے فرعون کے ہاتھوں بڑی پریشانیاں اٹھائیں۔ آخرکار اللہ کی مدد سے انہوں نے دشمن کو شکست دی اور ان کی قوم مصیبتوں سے چھوٹی اور ان کو نیک ناموں میں رکھا۔ پھر حضرت الیاس علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کا تذکرہ ہوا۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ یونس علیہ السلام بھی اللہ کے رسول تھے۔ قوم ان کی تبلیغ سے راہِ راست پر نہ آئی تو آپ اللہ کے حکم کے بغیر وہاں سے چل دیئے۔ پھر ان کے کشتی پر سوار ہونے، دریا میں ڈالے جانے، مچھلی کے پیٹ میں جانے اور نجات کے واقعات بیان فرمائے۔ صحت یاب ہوئے تو انہیں دوبارہ قوم کی طرف بھیجا گیا اور اس دفعہ اہل نینوا ایک لاکھ یا اس سے زیادہ کی تعداد میں حلقہ بگوشِ توحید ہوئے۔ فرمایا منکر ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں کہتے ہیں جنہیں وہ اپنے لیے پسند نہیں کرتے۔ ان سے پوچھیں کہ جب ہم نے ملائکہ کو پیدا کیا تو کیا یہ دیکھ رہے تھے کہ وہ نر ہیں یا مادہ۔ یہ خیال سرے سے ہی غلط ہے کہ اللہ کی اولاد ہے۔ اللہ ان باتوں سے پاک ہے اور سلام ہو رسولوں پر اور ساری خوبیاں رب اللعالمین کے لے ہیں۔
انیس رمضان المبارک
پارہ تئیس سورۃص رکوع 1تا 5
سورۃ الزمر رکوع 1تا 3
پارہ چوبیس سورۃ الزمر رکوع 4تا 8
سورۃ المؤمن رکوع 1تا 9
(38) سورۃ ص رکوع 1تا 5
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ قسم ہے اس نصیحت سے لبریز قرآنِ مقدس کی جس کی صداقت اس کی تعلیم سے واضح ہے مگر یہ انکار کرنے والے بے جا قسم کے تکبر میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے یہ ایک معاندانہ ذہن بنا چکے ہیں، اس لیے وہ اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ یہ دھوکے میں ہیں انہوں نے ابھی میری مار نہیں چکھی۔ اس سے پہلے بھی بہت سی جھٹلانے والی قومیں اور لشکر تباہ ہوئے، ان سب نے بھی رسولوں کو جھٹلایا تھا۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ (کافروں کی گستاخیاں بڑھ گئی تھیں تو) حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے ارشاد ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم صبر و تحمل سے کام لیں اور پھر داؤد علیہ السلام کا قصہ بیان فرمایا کہ وہ وسیع و عریض سلطنت کے حاکم تھے۔ دو آدمی ان کے پاس مقدمہ لے کر آئے، انہوں نے فیصلہ سنادیا۔ کچھ خیال آیا تو اللہ سے معافی کے لیے سجدہ میں گر گئے (السجدہ)۔ پھر ہم نے اس کی وہ خطا معاف کر دی، اس کے لیے ہمارے پاس مرتبہ ہے اور اچھا ٹھکانہ۔ پھر داؤد علیہ السلام کو نصیحت کی کہ وہ انصاف سے حکومت کرے اور اپنی خواہشوں پر نہ چلے۔ جو اللہ کی راہ سے ہٹا اس کے لیے سخت عذاب ہے۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ ارض و سماء اور جو کچھ ان میں ہے بے مقصد نہیں بنایا۔ منکروں کا ٹھکانہ آگ ہے۔ کیا ہم ایمان والے نیکوکاروں کو شریروں اور فسادیوں کے برابر کر دیں گے۔ سنو قرآن نصیحت و ہدایت کا خزانہ اور برکت والا ہے اس پر غور کیا جائے۔ پھر حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ بیان فرمایا کہ گھوڑوں کے معائنے میں نماز قضا کر بیٹھے تو اتنا صدمہ ہوا کہ سب گھوڑے قتل کر دیے کہ ان سے اللہ کی یاد میں غفلت آئی ہے اور سربسجود ہو کر اپنے پروردگار سے معافی کے خواستگار ہوئے۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ پھر حضرت ایوب علیہ السلام کی سرگزشت بیان فرمائی کہ ان پر بڑی مصیبتیں آئیں مگر وہ صبر و شکر کی تصویر بنے رہے۔ جب اللہ سے مدد چاہی تو پہلے سے سوا عطا ہوا۔ پھر رسولوں کا ذکر کیا کہ وہ دوسروں کی نسبت اللہ کی زیادہ اطاعت کرتے اور آخرت کی یاد زیادہ کرتے ہیں۔ اور آخرت کی یاد کرنے والے ہی بہشتوں میں جائیں گے اور منکرین جہنم میں جائیں گے۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ ارشاد ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرما دیں کہ میں فقط برے انجام سے ڈرانے آیا ہوں، میں کوئی حاکم نہیں مگر اللہ اکیلا حاکم و معبود ہے۔ وہی زور، دباؤ اور رعب والا ہے۔ پھر انسان کی پیدائش، فرشتوں کا سجدہ کرنا، ابلیس کا غرور کے باعث انکار، اِسے رد کیا جانا اور اس کا مہلت مانگنا بیان ہوا۔ ارشاد ہوا کہ کہیے میں پیغامِ حق سنا رہا ہوں جو تمام جہان والوں کے لیے نصیحت اور یاد دہانی ہے۔ آخر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ قرآن کا کہا سب سچ ہے۔
(39) سورۃ الزمر رکوع 1تا 8
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ یہ قرآنِ مقدس زبردست حکمتوں والے بادشاہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، پس تم خلوصِ کامل سے اسی کی بندگی کرو۔ یہی خالص دین ہے اور جنہوں نے اللہ کے سوا مددگار پکڑ رکھے ہیں کہ وہ ان کو اللہ کے نزدیک کر دیں گے تو یہ قرآن کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ اللہ جھوٹے کو راہ نہیں دکھاتا۔ اللہ اکیلا اور طاقت والا ہے۔ پھر نظامِ کائنات کا ذکر فرما کر ارشاد ہوا کہ مصیبت ہو تو انسان رب کو پکارتا ہے اور نعمت پانے پر اوروں کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو ان شرک اور کفر کرنے والوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ اور وہ جو راتوں کو اللہ کے آگے جھکتا ہے، سجدہ کرتا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے، اس کی رحمت کا امیدوار ہے وہ اللہ کے نافرمانوں کے برابر نہیں ہو سکتا۔ ظاہر ہے کہ علم والے اور جاہل برابر نہیں ہوتے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ دنیا میں اطاعت گزاروں، صبر کرنے والوں کے لیے آخرت میں بے شمار انعام و اکرام ہیں۔ کہیے کہ مجھے حکم ہے کہ صرف اللہ ہی کی خالص بندگی کروں اور تم جسے چاہو پوجو اور قیامت کے دن آفت مول لو اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے، یہ سراسر خسارے کا سودا ہے۔ منکروں کے لیے آگ کے بادل ہیں اور نیچے آگ کی تہ بہ تہ چادریں۔ خالص اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں کے لیے خوشخبری ہے اور منکروں کے لیے عذاب۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ اہلِ اسلام کو روشنی مل گئی اور غافلوں کی گمراہی بھی صاف عیاں ہو گی۔ اللہ نے بہترین کتاب اتاری جس میں سب اچھی باتیں جمع ہیں اور پھر اس نے ساری کام کی باتوں کو بار بار دہرایا ہے اب جو اللہ کو مان چکے ہیں، اللہ کا کلام سن کر لرز جاتے ہیں اور پھر راہ سے بھٹکے ہوئے تو قیامت میں عذاب جھیلیں گے۔ اگلے بھی منکر ہوئے تو تباہ و بے نشان ہو گئے اور آخرت کا عذاب بھی شدید ہے۔ پھر مشرک اور موحد کی مثال دی کہ یہ کب برابر ہیں۔ فرمایا تم سب قیامت کے دن اللہ کے حضور پیش ہوں گے اور وہیں سارے جھگڑے چکائے جائیں گے۔
پارہ چوبیس
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے جس نے اللہ پر جھوٹ بولا اور سچ جھٹلایا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ نہیں ؟ اللہ سے ڈرنے والے ہی نیک لوگ ہیں ان کو رب سے وہ سب کچھ ملے گا جو وہ چاہیں گے۔ اللہ اپنے بندے کو کافی ہے۔ ان سے کہیے کہ اگر اللہ مجھے تکلیف دینا چاہے تو کیا تمہارے جھوٹے معبود میری تکلیف دور کر دیں گے اور اگر رحمت کرنا چاہے تو روک دیں گے۔ کہیے نہیں، مجھے صرف رب پر بھروسہ ہے۔ ہر طرح کی مثالیں دے کر تمہیں سمجھا دیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں، اسی کی عبادت کرو، شرک نہ کرو، اگر نہیں مانتے تو دنیا کی آفتوں میں پھنس کر ذلیل و خوار ہوں گے اور پھر آخرت میں ابدی عذاب کے مستحق ٹھہرو گے۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ نیند میں بے خبری کی کیفیت بھی موت ہی کی تمثیل ہے اور بیداری دوبارہ جینے کی، تو تم پھر بھی بے اختیار و بے بس ہستیوں کو سفارشی بناتے ہو حالانکہ شفاعت اللہ کے اختیار میں ہے۔ ظالم لوگوں کو قیامت کے روز اگر دنیا بھر کی دولت بلکہ اس سے دوگنی ہاتھ آ جائے تو سخت عذاب سے چھڑانے کو وہ بھی کام نہ آئے گی اور اپنی ساری بد معاشیاں اور برائیاں جو انہوں نے دنیا میں کیں وہ ساری کی ساری ان کی آنکھوں میں آ جائیں گی اور یہ عذابِ الیم میں ہمیشہ کے لیے محصور ہو جائیں گے۔ اور انسان کی جہالت دیکھو کہ تکلیف میں ہمیں پکارتا ہے اور نعمتیں ملنے پر کہتا ہے کہ یہ خوشحالی تو مجھے ملنی تھی۔ ان کے اگلے بھی اسی طرح کہتے تھے اور انہوں نے بھی برے کاموں کے نتیجے بھگتے اور بڑی آفتوں میں گھر گئے اور جان لیں کہ روزی کی تنگی اور زیادتی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے سوا سب کا خوف دور کر دو اور امید بھی اس کے سوا کسی سے نہ رکھو اور اس کے غضب سے ڈرو، اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آئے اسی کی طرف رجوع کرو، وہی گناہ معاف کرنے والا ہے۔ قیامت کے دن ندامت اور پچھتاوا کسی کام نہ آئے گا۔ اور قیامت کے دن اللہ پر جھوٹ بولنے والے روسیاہ ہوں گے اور متکبر و مغرور دوزخ میں ہوں گے۔ لیکن اللہ سے ڈرنے والے امن و امان کی جگہ ہوں گے۔ ارض و سماء کی کنجیاں اللہ کے پاس ہیں۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ جان لو کہ جنہوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مان لیا اس کے سارے عمل اکارت ہو جائیں گے۔ پھر قیامت آنا، دوبارہ جینے اور انصاف کے فیصلے کا ذکر فرمایا۔
رکوع 8۔ ۔ ۔ ۔ دوزخ میں منکر ہانک دیئے جائیں گے۔ دروازہ پر داروغہ پوچھے گا کیا تمہارے پاس رسول ہدایت لے کر نہ آئے تھے جو تمہیں ڈراتے اور سمجھاتے تھے۔ بولیں گے کیوں نہیں، اور دوزخ میں داخل کیے جائیں گے۔ اور رب سے ڈرنے والے گروہ در گروہ جنت میں داخل کیے جائیں اور داروغہ کہے گا سلام ہو تم پر، تمہارے لیے دروازے کھلے ہیں، داخل ہو جاؤ ہمیشہ رہنے کے لیے، اور وہ شکر کریں گے اللہ کا وعدہ سچا تھا۔ فرشتے فیصلوں کے وقت عرش کے گرد گھیرا ڈال کر ثنا کر رہے ہوں گے۔
(40) سورۃ المؤمن رکوع 1تا 9
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ یہ کتاب اللہ کی طرف سے اُتری ہے جو زبردست، خبردار، گناہ بخشنے والا، توبہ قبول کرنے والا اور سخت عذاب دینے والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اللہ کے منکر ہی قرآن کے منکر ہیں۔ اس سے پہلے قوم نوح نادانی سے رسولوں کو جھٹلانے کے باعث تباہ ہوئی۔ عرش کے گرد فرشتے ہر دم اللہ کی پاکی بیان کرتے اور ایمان والے نیکوکاروں کے لیے مغفرت کی دعا مانگتے ہیں کہ توبہ کرنے والوں کو معاف فرما اور راہِ ہدایت پر چلنے والوں کو دوزخ سے بچا اور جنت کے باغوں میں داخل کر اور ان کے نیک باپ، دادا اور بیوی، اولاد کو بھی جنت میں داخل کر۔ تو ہی زبردست حکمت والا ہے، انہیں برائیوں سے بچا۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ منکروں کو پکار کر کہیں گے اللہ تم سے بہت بیزار ہوتا تھا جب تم انکار کرتے تھے۔ کہیں گے اب ہمیں موت کے بعد دوبارہ زندگی ملی ہے تو کیا کوئی بچنے کی راہ ہے۔ کہیں گے کہ تم تو اللہ کے ساتھ شریک لاتے تھے آج تو فیصلہ اللہ بزرگ و برتر ہی سنائے گا تمہارے اعمال کا۔ پھر اللہ کی صفات بیان ہوئیں اور فرمایا آج گنہگاروں کا کوئی دوست ہے نہ سفارشی، جس کی بات مانی جائے گی۔ اللہ سب پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے اور انصاف سے فیصلہ فرماتا ہے۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ پھرو اور نشانیاں دیکھو، انکار کرنے والوں کا انجام کہ جب اللہ نے انہیں برائیوں پر پکڑا تو کوئی بچانے والا نہ ہوا۔ ان لوگوں کے پاس رسول ہدایت لے کر گئے لیکن نہ مانے اور اللہ کے عذاب سے تباہ ہوئے۔ موسیٰ علیہ السلام کو فرعون، ہامان اور قارون کے پاس کھلی نشانیاں دے کر بھیجا، انہوں نے تکذیب کی اور تباہ و برباد ہوئے۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ ادھر ایک مردِ مومن جو خفیہ طور پر ایمان لا چکا تھا بولا کہ تم اس لیے قتل کرتے ہو کہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور واضح نشانیاں لایا ہے۔ اگر اس انکار کی وجہ سے ہم پر عذاب آیا تو ہمیں کون بچائے گا۔ اگر قوم نوح، عاد اور ثمود کا سا حال ہوا تو ڈرتا ہوں کہ کیا ہو گا۔ تمہیں اللہ سے کوئی نہ بچا سکے گا۔ تمہارے پاس یوسف علیہ السلام بھی آئے، پر تم دھوکہ میں رہے۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ اسی مردِ مومن نے کہا کہ حیات تو محض چند روزہ ہے اصل تو آخرت کی زندگی ہے۔ دنیا کے فانی عیش و عشرت میں آخرت میں دائمی راحت کا نقصان نہ کرو۔ جو ایمان و یقین سے صالح زندگی بسر کریں گے، بہشت میں داخل ہوں گے اور زیادتی کرنے والے دوزخ کے لوگ ہیں۔ میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ آخر جب وقت آیا تو اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو ساتھیوں سمیت بچا لیا اور فرعون کو لشکر سمیت سمندر میں غرق کر دیا اور مرنے کے بعد حشر تک روزانہ صبح و شام ان کو آگ دکھائی جاتی ہے اور آخرت میں دوزخ میں انہیں سخت ترین عذاب ہو گا اور وہاں ان کا کوئی مددگار نہ ہو گا۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کی مدد کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور ایمان والوں کی بھی دنیا اور آخرت میں مدد کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی شرارتوں پر صبر کریں اور ہر دم توبہ استغفار کریں اور صبح و شام اللہ کی تعریف اور پاکی بیان کریں۔ ارض و سماء پیدا کرنا انسان پیدا کرنے سے بڑا کام ہے لیکن یہ لوگ نہیں سمجھتے۔ ارشاد ہوا کہ مجھے پکارو میں تمہاری پکار کو پہنچوں گا اور بندگی سے تکبر کرنے والے عنقریب دوزخ میں ہوں گے۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے دن، رات تمہارے فضل تلاش کرنے اور آرام کرنے کو بنائے۔ اللہ کو پہچانو یہ ہی سب کچھ بنانے والا ہے۔ اس کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں۔ وہ بڑی برکتوں والا اور زندہ رہنے والا ہے۔ اس کی خالص بندگی کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔ پھر انسان کی پیدائش کے مرحلے بیان فرمائے۔ عاقل کے لیے اس میں اللہ کی نشانیاں ہیں۔ وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ اس کے نزدیک کچھ مشکل نہیں، وہ جو کام چاہے بس کہہ دے "ہو جا” اور وہ ہو جاتا ہے۔
رکوع 8۔ ۔ ۔ ۔ جھگڑنے والوں، رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کا انجام برا ہوا ہے کہ ان کی گردنوں میں طوق پڑیں گے، زنجیروں سے گھسیٹے جائیں گے، جلتے پانی پھر آگ میں جھونک دیے جائیں گے اور یہ بدلہ ہے جو وہ زمین پر کرتے تھے۔ ان کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے حال پر چھوڑ دو۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے یہ اپنی نادانی کا بدلہ پاکر رہیں گے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بعض رسولوں کا حال سنایا۔ یہ کسی رسول میں نہ تھا کہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی نشانی لاتا۔
رکوع 9۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے تمہارے لیے چوپائے بنائے جن میں سے بعض کو کھاتے اور بعض کو سواری اور بار برداری کے کام لاتے ہو۔ ان میں بڑے فائدے ہیں۔ اور پھر اللہ کی نشانیاں دیکھو کہ پہلے جو تم سے زیادہ طاقت ور تھے ان کا انجام کیا ہوا۔ کوئی چیز ان کے کام نہ آ سکی۔ یہ سب ان کی سرکشی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے ہمارے رسولوں سے ہدایت نہ لی بلکہ ہنسی اڑائی۔ پھر ان پر ہمارا عذاب آیا تو بولے ہم ایمان لائے اکیلے اللہ پر، لیکن عذاب آنے کے بعد ایمان لانے اور توبہ کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ یہی اللہ کا قائم کردہ قاعدہ ہے۔
بیس رمضان المبارک
پارہ چوبیس سورۃ حٰم السجدۃ رکوع 1تا 5
پارہ پچیس سورۃ حٰم السجدۃ رکوع 6
سورۃ الشوریٰ رکوع 1تا 5
سورۃ الزخرف رکوع 1تا 7
سورۃ الدخان رکوع 1تا 3
سورۃ الجاثیہ رکوع 1تا 4
(41) سورۃ حٰم السجدۃ رکوع 1تا 6
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ یہ کتابِ ہدایت بڑے مہربان اور رحم کرنے والے نے اتاری ہے جس کی آیتیں کھلی اور صاف ہیں اور سمجھنے والوں کے لیے فائدہ مند۔ اس میں خوشخبری ہے اور ڈراوا بھی۔ افسوس کہ اکثر لوگ توجہ نہیں کرتے اور سنتے ہی نہیں کہ ہمارے تمہارے درمیان پردہ ہے۔ ان سے کہیے کہ تمہیں میری بات آسانی سے سمجھ میں آنا چاہیے۔ مجھے حکم ملا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جس کی پوجا کی جائے۔ اللہ کا شریک ٹھہرانے والوں، زکوٰۃ نہ دینے والوں اور آخرت کے منکروں کے لیے خرابی ہے۔ صرف مومنوں اور صالح لوگوں کے لیے ثواب ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ ارض و سماء بنانے کا احوال بتایا۔ فرمایا کہ عاد اور ثمود نے ہمارے رسولوں کو جھٹلایا تو آخر ان پر زور کی آندھیاں بھیجیں اور عذاب کا مزہ چکھایا اور ثمود کو ایک کڑک نے آن پکڑا۔ صرف قوم ثمود کے ایماندار لوگ بچے۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ دوزخ کے پاس پہنچ کر دنیا میں برائی سے انکار کریں گے تو ان کے کان، آنکھیں اور چمڑے گواہی دیں گے۔ تمہاری بربادی کی وجہ تمہارا یقین تھا کہ اللہ تمہارے کرتوتوں کو نہیں جانتا۔ اب ان کا معافی مانگنا بے کار ہے۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ جن پر قرآن کا اثر ہونے لگا انہیں کہ مت سنو اور جب کوئی پڑھے تو شور و غل مچایا کرو کہ کوئی سمجھ نہ سکے۔ بدکاروں کو سزا آخر کو ملنا ہی ہے اور اللہ کے ماننے والوں کے لیے دنیا اور آخرت میں جنت کی خوشخبری ہے۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو خود بھی موحد ہیں اور دوسروں کو بھی توحید کی دعوت دیتے ہیں، صالحانہ زندگی گزارتے ہیں۔ نیکی اور بدی قطعاً یکساں نہیں، تم بدی سے دفاع نیکی اور خوش اخلاقی کے ساتھ کرو تاکہ تمہارے بدترین دشمن بھی جگری دوست بن جائیں اور یہ بات صبر سے ملتی ہے۔ اگر شیطان کبھی کچوکا دے تو اللہ کی پناہ پکڑو۔ سورج اور چاند اللہ کی قدرت کے نمونے ہیں، ان کو اور ان میں سے کسی کو سجدہ نہ کرو، جب عبادت اللہ کے لیے ہے تو اسے سجدہ کرو (السجدۃ)۔ اسی نے تمہیں پیدا کیا۔ پھر بھی اگر یہ غرور کریں تو دیکھو اللہ کے قرب میں فرشتے دن رات اس کی پاکی بیان کرتے نہیں تھکتے۔ پھر قدرت کی نشانیاں بیان کیں کہ کس طرح مردہ زمین مینہ برساکر زندہ کرتا ہے اور سبزہ اُگاتا ہے۔ اسی طرح انسان بھی دوبارہ زندہ ہو گا۔ یاد رکھو کہ قرآنِ عزیز سے لو لگانے والوں کا انعام جنت ہے اور ٹیڑھے مفہوم نکالنے والے جہنم کا عذاب پائیں گے۔ صاحبانِ ایمان کے لیے قرآن ہدایت و شفا ہے اور بے ایمانوں کے لیے تاریکی اور اندھا پن۔
پارہ پچیس
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ احوال قیامت بیان ہوا۔ فرمایا کہ انسان کی خصوصیت ہے کہ جب اللہ اس پر انعام کرتا ہے تو سرکش ہو کر اس کی یاد سے کروٹ بدلتا ہے اور تکلیف پہنچے تو دعائیں مانگتا ہے۔ یاد رکھو قرآن اللہ کا کلام ہے جو اس کا انکار کرے گا وہ گمراہی و ضلالت کا شکار ہو گا۔ کیونکہ کائنات کی ہر چیز میں اور خود انسان کے وجود میں بھی اللہ کی نشانیاں موجود ہیں جو بتا رہی ہیں کہ قرآن حق ہے اور اللہ اس کی حقانیت پر گواہ ہے۔
(42) سورۃ الشوریٰ رکوع 1تا 5
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ جیسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف اور پہلوں کی طرف بھی وحی بھیجی جاتی رہی، ارض و سماء سب اسی کا ہے۔ وہ زبردست حکمت والا اور صاحب عظمت ہے۔ فرشتے اس کی پاکی بولتے ہیں اور زمین والوں کے گناہ بخشواتے ہیں، وہ بڑا مہربان ہے۔ جنہوں نے اس کے سوا اپنے محافظ اور کارساز بنا رکھے ہیں وہ سب اللہ کی نگاہ میں ہیں۔ اللہ اگر چاہتا تو سب کو ایک ہی فرقہ کر دیتا لیکن یہ اس کی مرضی ہے کہ جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل کرے اور جسے چاہے راندۂ درگاہ کرے۔ وہ سب کا کارساز، مُردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے اور کائنات کی ہر شے اس کے قبضۂ اختیار میں ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ اگر خیالات میں فرق ہو اور جھگڑے کی صورت پیدا ہو تو اللہ ہی کی طرف فیصلہ چھوڑو اور کہو کہ میرا بھروسہ اپنے رب پر ہی ہے۔ اسی نے تم میں اور چوپایوں میں نر اور مادہ کے جوڑے بنائے اور نسل پھیلائی۔ ارض و سماء کی کنجیاں اللہ ہی کے پاس ہیں وہ جس کی چاہے روزی کم یا زیادہ کر دے، وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔ اس نے رسولوں کے ذریعے دنیا میں زندگی بسر کرنے کا مقرر کردہ طریقہ تم تک پہنچایا۔ دنیا کی چاہت کرنے والوں کو توحید کی دعوت سے پریشانی ہوتی ہے لیکن ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے جسے چُن لے اپنی طرف بلا لے مگر وہ جو رجوع کرے۔ منکر صرف ضد اور حسد کی خاطر دین میں اختلاف کرتے ہیں۔ تاہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نصیحت کرتے رہو اور انصاف پر قائم رہو۔ وہی ایک پالنہار ہے اور وہی قیامت کے روز سب کو جمع کرنے والا ہے اور جو لوگ دینِ حق کی بات میں کج بحثی کرتے ہیں اللہ کے غضب اور شدید عذاب کے مستحق ہوں گے۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ آخرت کے طلب گاروں کو آخرت اور دنیا کے طالبوں کو دنیا دیتے ہیں اور صرف دنیا کے متوالے اُخروی نعمتوں سے سراسر محروم رہیں گے اور باطل اختیار کرنے والوں کے لیے دردناک عذاب ہو گا۔ تمہارا رب سینوں کے رازوں سے واقف ہے، اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے، خطاؤں سے درگزر اور دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخشتا ہے۔ وہی مینہ برساتا ہے، وہی ہر شے کا خالق ہے اور جب چاہے انہیں اکٹھا کر سکتا ہے۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ اس کی نافرمانی کر کے تم اس کے ہاتھ سے بچ کر کسی جگہ بھاگ نہیں سکتے اور نہ اللہ کے سوا تمہارا کوئی دوست اور مددگار ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی چیزیں دیکھو اور اس کی قدرت کو پہچانو۔ جو لوگ بڑے گناہوں سے بچتے ہیں، غصہ پر قابو رکھتے ہیں، دوسروں کے قصور معاف کرتے، گندی باتوں اور عادتوں سے دور رہتے، نماز کی پابندی کرتے، کام آپس کے مشورے سے کرتے اور مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، وہی کامیاب لوگ ہیں۔ برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے اور اگر معاف کرے، صلح کرے تو ثواب اللہ کے ذمہ۔ ملک میں بلاوجہ فساد اٹھانے والوں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ بدکار لوگ عذاب میں رہیں گے اور اللہ ہی سہارا ہے اور اگر وہ کسی کو بھٹکائے تو اس کے لیے کہیں راہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذمہ تو صرف پیغام پہنچا دینا ہے، ان پر افسوس نہ کرو۔ دیکھو کسی کو خوشحالی ملے تو مغرور ہو جاتا ہے اور مصیبت کے وقت کفر کے الفاظ نکلنے لگتے ہیں، انسان بڑا ناشکرا ہے۔ اللہ تو ارض و سماء کا مالک ہے۔ یہ اللہ کی شان ہے کہ کسی کو بیٹی یا بیٹا بخشے، یا بیٹوں اور بیٹیوں کی جوڑیاں دے یا بانجھ کر دے، وہی جانتا ہے کہ کس کے لیے کیا مناسب ہے۔ عالم انسان میں کوئی انسان براہِ راست اللہ سے ہمکلام نہیں ہوا مگر وحی یا پسِ پردہ یا فرشتہ کے توسط سے اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی کی گئی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نہ جانتے تھے کہ کتاب یا ایمان کیا ہے۔ لیکن اب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کر رہے ہیں جو حق تعالیٰ تک پہنچتی ہے اور اللہ ہر شے کا مالک ہے۔
(43) سورۃ الزخرف رکوع 1تا 7
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ قرآن بہت بلند، واضح اور روشن کتاب ہے اور یہ تمام عالم کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ پہلوں میں بھ نبی آئے، لوگوں نے ان کی ہنسی اڑائی اور یہ مغرور آخر برباد ہوئے اور عبرت کا باعث بنے۔ مینہ برسا کر مُردہ زمین کو زندہ کیا، اسی طرح تم کو بھی زمین سے نکالیں گے اور تمہارے لیے سب چیزوں کے جوڑے بنائے اور کشتیوں اور چوپایوں کو بنایا اور ان کو تمہارے قابو میں کر دیا۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ لوگوں کی لغویات دیکھو اپنے لیے اولادِ نرینہ پسند کرتے ہیں اور "الرحمٰن” کے لیے مادینہ، جسے وہ اپنے لئے ناپسند کرتے ہیں۔ یہ ان کی ناسمجھی کی باتیں ہیں۔ لوگ اپنے باپ دادا کی اندھی تقلید کرتے ہیں اور آنکھیں بند کر کے ایسا کرنا کوئی عقل کا راستہ نہیں۔ جب انہوں نے اس کے بدلے حق تسلم کرنے سے انکار کیا تو آخر کار انہیں اس کا مزہ چکھایا گیا اور ان کا انجام تمہارے سامنے ہے۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ اور قوم کو راہِ حق دکھانے کی کوشش کی اور کہا کہ جن ہستیوں کی تم پرستش کرتے ہو میں ان سے بیزار ہوں۔ میں تو اپنے خالق کو مانتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا، وہی مجھے سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔ پھر اس نے اپنی اولاد کو بھی یہی تلقین کی تاکہ آنے والی نسلیں توحید کو اپنا کر شرک کی لعنت سے بچ سکیں۔ لوگ دنیا میں مال و دولت کو عزت و افتخار کا ذریعہ سمجھتے ہیں حالانکہ اللہ کے ہاں اس کی پرِ کاہ جتنی حیثیت بھی نہیں۔ ان کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ دولت و ثروت کی فراوانی صرف آزمائش ہی نہیں بلکہ سزا بھی ہے کیونکہ اس سے گمراہی میں اضافہ ہوتا ہے۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ جو شخص اللہ کی یاد سے غفلت برتتے ہیں ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں وہ اس کے ساتھ رہ کر اسے بے راہ کرتا رہتا ہے۔ قیامت کو وہ جان جائیں گے کہ یہ ساتھ برا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم صریح گمراہی میں پڑوں کو راہِ حق پر نہیں لا سکتے۔ قرآن سے تعلق مضبوط رکھو، راہِ راست پر رہو گے۔ ہر رسول نے لوگوں کو صرف اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور شرک سے باز رکھا۔
رکوع 5۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور قوم فرعون کے سامنے توحید پیش کی۔ عصا اور یدِبیضاء کے معجزے دکھائے اور کہا کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو اقرار کی بجائے موسیٰ علیہ السلام کا مذاق اڑایا، پھر ان کی سرکشیاں بڑھیں اور یہ نشانِ عبرت بنا دیے گئے۔
رکوع 6۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثال دی اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کرو، یہی صراطِ مستقیم ہے اور شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اس کی تابعداری سے بچو۔ جب عیسیٰ علیہ السلام نشانیاں لے کر آیا تو کہا اللہ سے ڈرو، میرا کہا مانو، اسی کی عبادت کرو، پھر وہ فرقوں میں بٹ گئے۔ قیامت کے دن دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔
رکوع 7۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے دن صاحبانِ تقویٰ کو حکم ہو گا کہ آج کے بعد تمہارے لیے نہ آئندہ کا ڈر اور نہ گزشتہ کا غم ہے۔ اپنی بیویوں کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ اور وہاں انہیں انعامات سے نوازا جائے گا اور مجرمین ہمیشہ جہنم کے عذاب میں رہیں گے اور وہاں ہمیشہ کی زندگی ہے اور موت نہ آئے گی۔ تم نے جو اولاد اللہ کی مقرر کی ہے سب جھوٹ ہے، اللہ تو ان باتوں سے پاک ہے۔
(44) سورۃ الدخان رکوع 1تا 3
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ قرآن حق ہے، جسے ہم نے خیر و برکت والی رات میں نازل کیا کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ تمہارا رب ہی زمین و آسمان کا اور جو کچھ اس میں ہے، مالک ہے۔ وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یہ لوگ غفلت میں پھنسے ہوئے ہیں اور یہ جبھی چونکیں گے جب آفت بھرا دن آئے گا۔ قیامت کا دن آنے والا ہے، جس دن نافرمانیوں کا پورا بدلہ لیا جائے گا۔ پھر فرعون کے سمندر میں ڈبونے کا ذکر فرمایا کہ انکار کیا اور تباہ و برباد ہوئے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ذلت آمیز مظالم سے نجات دی اور دوسری قوموں پر فضیلت دی لیکن یہ بدکاریوں کے مرتکب ہوئے۔ پھر قوم تبع کی تباہی کا احوال بتایا اور فرمایا کہ آخر کار سب کے لیے ایک فیصلے کا دن مقرر ہے جب کوئی رشتہ کسی کے کام نہ آئے گا۔ نہ اس کی رحمت کے سوا کہیں سے کوئی مدد مل سکے گی۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ اہلِ دوزخ کی غذا زقوم اور مشروب اس کا رس ہو گا جو پگھلے تانبے کی طرح پیٹوں میں کھلبلی مچائے گا اور فرشتوں کو حکم کہو گا کہ ان کو گھسیٹ کر جہنم کے وسط میں لے جاؤ اور ان کے سروں پر کھولتا پانی ڈالو اور کہو کہ اپنے کرتوت کا مزہ چکھو۔ یہ سب وہ ہے جس کا تم یقین نہ کرتے تھے۔ صاحبانِ تقویٰ نفیس پوشاکیں پہنے جنت میں ہوں گے، انہیں ہر قسم کے میوے عطا ہوں گے اور وہاں کی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہو گی۔ یہ سب کچھ انہیں پروردگار کے فضل سے عطا ہو گا۔
(45) سورۃ الجاثیہ رکوع 1تا 4
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ کتاب تمہارے حکمتوں والے رب کی طرف سے نازل ہوئی، جس کی خالقیت کی گواہی کائنات ارض و سماء کا ذرہ ذرہ دے رہا ہے۔ پھر اللہ کی قوتوں کا بیان آیا۔ فرمایا ہر جھوٹا، گنہگار غرور اور ضد کی وجہ سے جان بوجھ کر حقیقت کو جھٹلاتا ہے۔ سو ان کو دردناک عذاب ہے۔ ان سرکشوں اور شرک کرنے والوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے منکروں کے لیے بلا کا دردناک عذاب ہے۔ اللہ نے گہرے سمندروں اور دریاؤں کو تمہارا مددگار بنایا تاکہ تم کشتیاں اور جہاز چلا کر اللہ کا فضل حاصل کرو۔ ارض و سماء کی ساری چیزیں تمہاری خدمت میں لگی ہیں۔ یہ عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ منکروں کو ان کے حال پر چھوڑ دو، قیامت کے روز ان کا حساب چکا دیا جائے گا۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ ارض و سماء عبث ہی نہیں بنائے گئے، کسی مقصد کے تحت ان کی تخلیق ہوئی۔ جو لوگ خواہشاتِ نفس کو اپنا معبود بنا بیٹھے اور دنیا کی رنگینیوں میں پھنس گئے ہیں اور اس دنیا کے جینے کو ہی سب کچھ سمجھ لیا اور جب ہماری آیتیں آتی ہیں تو کہتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا زندہ کرو، ان سے کہہ دیں کہ وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے، وہی قیامت کو اکٹھا کرے گا۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ آسمانوں اور زمینوں میں اللہ ہی کی بادشاہی ہے اور قیامت کے دن جھوٹے خراب ہوں گے اور نیکوکاروں کو اللہ اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ اللہ کی باتوں کا ٹھٹھا بنانے والوں کو دوزخ میں داخل کر دیا جائے گا کہ یہ ان کا گھر ہے اور ان کا کوئی مددگار نہ ہو گا۔ ساری خوبیاں اللہ ہی کے لیے ہیں جو ارض و سماء کی ہر شے کا مالک اور حکمت والا ہے۔
اکیس رمضان المبارک
پارہ چھبیس سورۃ الاحقاف رکوع 1تا 4
سورۃ محمدؐ رکوع 1تا 4
سورۃ الفتح رکوع 1تا 4
سورۃ الحجرات رکوع 1تا 2
سورۃق رکوع 1تا 3
سورۃ الذّٰریٰت رکوع 1تا 2
(46) سورۃ الاحقاف رکوع 1تا 4
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ قرآن نازل کیا اللہ نے جو زبردست حکمت والا ہے، جس نے زمین و آسمان اور اس میں ہر شے کو بنایا۔ اور جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر اوروں کو پوجتے ہیں، بتائیں کہ ان کے معبودوں نے زمین یا آسمان میں کیا بنایا۔ یقیناً اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ جب انہیں کھلی باتیں بتائی جاتی ہیں تو انہیں جادو کہتے ہیں اور بعض انہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خود ساختہ آیتیں۔ ان سے کہیے کہ اللہ کے سامنے ایسی جرأت کون کر سکتا ہے اور کر کے کیونکر بچ سکتا ہے اس کے غضب سے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کہیے کہ میں کوئی نیا رسول نہیں آیا۔ مجھے تو حکم ہے کہ تمہیں کفر اور شرک کے انجام بد سے آگاہ کروں۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ منکر کہتے ہیں کہ اگر یہ اچھا دین ہوتا تو پہلے معزز لوگ اسے اختیار کرتے اور کمزور لوگ پہل نہ کرتے۔ اس سے پہلے تورات کے ذریعے ہدایت بھیجی گئی۔ اب یہ قرآن اسی کی تائید و تصدیق کرتا ہے کہ ظالموں کو ان کے انجام سے ڈرائے اور نیک لوگوں کو خوشخبری دے اور ایمان لانے والوں اور اس پر قائم رہنے والوں کو نہ خوف ہے نہ رنج ہے، ان کا ٹھکانہ بہشت ہے جہاں سدا رہیں گے۔ ہم نے ماں باپ کا شکر ادا کرنے کی ہدایت کی ہے، اس میں ماں کا حق زیادہ ہے کہ اس نے بڑی مشقتیں برداشت کیں۔ پھر دعا کرنا سکھائی۔ قبر سے دوبارہ زندہ ہونے کا انکار کرنے والے عذاب سمیٹ رہے ہیں۔ قیامت کے دن منکرین کو دوزخ کے اوپر کھڑا کیا جائے گا کہ تم نے آخرت چھوڑ کر دنیا اختیار کی، اب یہاں فقط ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ یہ تمہارے خوامخواہ اکڑتے رہنے کا بدلہ ہے۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں اور قرآن کو جنات تک نے مان لیا اور کہا یہ سچا دین ہے اور سیدھی راہ۔ اور جنوں نے قوم سے کہا کہ حق کی دعوت مان لو تو اللہ تمہارے گزشتہ گناہ معاف کر دے گا اور دردناک عذاب سے بچا دے گا اور ایسا نہ کرنے والے کو بچانے والا کوئی نہ ہو گا۔ اللہ جس نے زمین و آسمان بنائے اور نہ تھکا وہ مردوں کو بھی زندہ کر دے گا اور پھر منکر سزا بھگتیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم صبر سے کام لیں اور کافروں کی شرارت سے نہ گھبرائیں اور اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں یہ تو برباد ہونے والے ہیں۔
(47) سورۃ محمدؐ رکوع 1تا 4
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کا انکار کرتے ہیں اور اللہ کے بندوں کو دینِ حق سے منع کرتے ہیں ان کے تمام اعمال برباد ہو جاتے ہیں اور یقین کے ساتھ ایمان لانے والوں، نیک کام کرنے والوں کے گناہ اللہ نے معاف فرما دیے۔ منکروں نے غلط راہ اختیار کی ہے اور ایمان والے رب کا مقرر طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ سو جب معرکہ پیش آئے تو منکروں کو بے دریغ قتل کرو اور جب ان کی کمر ٹوٹ جائے تو باقی قیدی بنا لو یا پھر ان پر احسان کرو۔ جان لیں کہ جہاد سے اچھوں کی آزمائش ہوتی ہے۔ اللہ کی مدد کرنے والوں کی اللہ مدد کرے گا اور نہ ماننے والے تباہ ہوں گے۔ دیکھ لو کہ پہلے جو نافرمان ہوئے تباہ و برباد کر دیے گئے۔ اللہ یقین لانے والوں کا رفیق ہے اور منکروں کا کوئی رفیق نہیں۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ منکر دنیا کے سامان سے خوب فائدہ اٹھائیں اور جانوروں کی طرح اندھا دھند کھا پی لیں۔ آخرت میں انہیں کچھ نہ ملے گا اور جہنم ٹھکانہ ہو گا۔ مکہ والوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہجرت پر مجبور کیا ہے اور طاقت و قوت میں مست، انہیں احساس نہ تھا کہ عنقریب ان کا کیا انجام ہو گا۔ میں نے انہیں غارت کر دیا اور کوئی ان کی مدد کو نہ آیا۔ صاحبانِ ایمان جو راہِ پر چلتے ہیں وہ ان بدکاروں جیسے کب ہو سکتے ہیں جو اپنی خواہشات کے غلام ہیں۔ جنت نعمتوں سے بھری ہو گی اور جہنم میں سدا آگ میں رہنا ہو گا اور پینے کو کھولتا پانی جو انتڑیاں کاٹ ڈے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر مہر لگی ہے اور یہ خواہشات کے غلام ہیں۔ یہ اب قیامت کے انتظار میں ہیں جو اچانک آئے گی اس کے آنے کے بعد کوئی موقع نہ ہو گا۔ پھر سمجھ آئی بھی تو بے سود۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ مسلمان جہاد کا حکم پاکر خوش ہوتے ہیں لیکن منافقین پریشانی اور بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لڑائی کی غرض تو فساد مٹانا ہے۔ منافقین اسلام میں داخل ہو کر اقرار کے بعد پیٹھ پھیر کر الٹے پھر جاتے ہیں حالانکہ ان کو معلوم ہے کہ سچا دین اور سیدھی راہ اسلام ہی ہے۔ اگر یہ لڑائی میں شامل نہ بھی ہوں تو اور کتنے دن زندہ رہیں گے۔ یہ شیطان کی گرفت میں آ گئے ہیں جو کہتا ہے کہ لڑ کر کیوں مرتے ہو تمہاری بڑی زندگی ہے۔ انہوں نے دھوکا دینے کو کلمہ پڑھا ہے۔ نہیں سوچتے کہ ایک دن مرنا ہے، جب فرشتے ان کی جان نکالیں گے اور ان کے منہ اور پیٹھ پر ضربیں لگائیں گے تو ان کا کیا حال ہو گا۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ ان کی یہ حرکت کہ انہوں نے اللہ کو ناراض کرنے والی باتیں اختیار کی ہیں اور مسلمانوں کے لیے دشمنی اور کینہ چھپا رہے گا۔ نہیں ہم چاہیں تو ان کا پردہ چاک کر دیں۔ مگر دنیا میں کسی کو بدنام کرنا مقصود نہیں، آزمانا مقصود ہے کہ اللہ کے لیے جان دینے کو کون تیار ہے۔ جان لو کہ دنیا کے عیش و آرام صرف کھیل تماشا ہے اور آخرت میں ایمان تقویٰ اور پرہیزگاری ہی کام آئے گی اور اجر پائے گی۔ سنو اللہ کی راہ میں بخل نہ کرو جو کرے گا حقیقت میں خود سے ہی بخل کرے گا۔ اللہ تو غنی اور بے نیاز ہے اور تم سب اس کے محتاج۔ یاد رکھو اگر تم نے قرآن سے منہ پھیرا تو یہ زمین کسی اور کے قبضے میں دے دی جائے گی۔ اللہ دوسری قوموں کو ایمان کی توفیق دے گا اور ان کے ذریعے دین کا تسلسل قائم رکھے گا۔
(48) سورۃ الفتح رکوع 1تا 4
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ یہ صلح کھلی فتح ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دی ہے تاکہ اللہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر اپنی نعمتیں پوری کر دے اور زبردست مدد دے۔ ایمان والوں میں اطمینان اور سکون پیدا کیا ہے تاکہ ان کا ایمان بڑھ جائے۔ آسمانوں اور زمینوں میں سب لشکر اللہ ہی کے ہیں۔ اللہ جو حکمت والا ہے وہ ایمان والے مردوں اور عورتوں کو جنت کے باغوں میں رکھے گا اور وہ ہمیشہ وہیں رہیں گے۔ فسادیوں کا برا انجام ہو گا۔ اللہ ان سے سخت ناراض ہے یہ جہنم میں جائیں گے جو بُرا ٹھکانہ ہے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو شہادت دینے والا، بشارت دینے والا، خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے تاکہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لاؤ، اس کی حمایت اور تعظیم کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیعت، اللہ ہی سے بیعت کرنا ہے۔ جس نے بیعت کو توڑا وہ اپنا نقصان کرے گا اور عہد کو نبھانے کا بڑا اجر ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ کمزور ایمان والے جھوٹے بہانے گھڑتے ہیں۔ اللہ کو ان کا پورا حال معلوم ہے اور وہ جانتا ہے کہ یہ پیچھے کیوں رہے۔ یہ تو سوچتے تھے کہ مسلمان اب کفار سے بچ کر واپس آنے کے نہیں۔ انہوں نے برا گمان کیا اور بربادی مقدر کر لی۔ منکروں کے لیے بھڑکتی آگ تیار رکھی ہے۔ ارض و سماء کی بادشاہت اللہ ہی کی ہے، وہ جسے چاہے بخش دے یا عذاب دے، وہ بخشنے والا مہربان ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم غنیمت لینے چلیں گے تو یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ چلنے کو کہیں گے۔ ان سے کہہ دیں کہ تم ہرگز ساتھ نہ جاؤ گے اور یہ کہ آئندہ ایک سخت لڑاکا قوم کے ساتھ لڑنے کو بلایا جائے گا۔ حکم مانو گے تو اچھا بدلہ ملے گا اور منہ موڑو گے تو دردناک عذاب ہو گا۔ ہاں اندھے، لنگڑے اور بیمار پر کچھ گناہ نہیں۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ جو ہر معاملہ اور ہر کام میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی فرمانبرداری کرے گا اللہ اسے بہشت کے باغوں میں داخل کرے گا اور منکروں کو اچھے کام بھی کام نہ آئیں گے اور ان کو دکھ دینے والا سخت عذاب ہے۔ پھر اللہ نے درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں کے ایمان اور سچائی کی تعریف کی کہ انہوں نے جان و مال قربان کرنے کا عہد کیا اور اللہ ان سے راضی ہو گیا۔ ان کو اطمینان عطا کیا اور فوراً فتح خیبر کی غنیمتوں سے مالا مال کیا۔ اب یہاں فتح مکہ کی بشارت دی۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھی جو دشمنانِ حق کے مقابلہ میں نہایت سخت مگر آپس میں نہایت رحم دل ہیں، وہ ہمیشہ اللہ کے آگے رکوع و سجود میں رہتے اور اللہ کی خوشنودی کے طالب ہیں۔ اللہ ان لوگوں سے وعدہ فرماتا ہے کہ جو تم میں سے ایمان لائے اور اعمالِ صالحہ اختیار کرے ان کے لیے مغفرت اور اجرِ عظیم ہے۔
(49) سورۃ الحجرات رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے گفتگو کرنے اور انہیں بلانے میں شائستگی کو ملحوظ رکھو۔ ان کے سامنے اپنی رائے مت چلاؤ اور اپنی آواز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز سے اونچا مت کرو، نہ اس طرح زور زور سے بات کرو جیسے آپ میں بات کرتے ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں محسوس بھی نہ ہو۔ جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مکان کے باہر سے نام لے کر پکارتے ہیں یہ عقل و تمیز نہیں رکھتے، ان کے لیے بہتر ہے کہ صبر کریں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے باہر آنے کا انتظار کریں۔ مسلمانو! اگر کوئی فاسق کوئی خبر لائے تو پہلے اس کی تحقیق کر لیا کرو تاکہ غلط کام نہ کر بیٹھو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تمہاری رائے کے پابند نہیں وہ تو اللہ کے حکم پر چلتے ہیں اور اگر وہ تمہاری رائے پر چلتے تو ان میں اور عام لوگوں میں کیا فرق رہ جاتا۔ جب دو مسلمان فریق لڑ پڑیں تو ان کی صلح کرا دیا کرو۔ ہرحال میں انصاف کا خیال رکھو، مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ دوسرے سے بہتر ہو۔ نہ کسی کو طعن دو نہ برے القاب سے یاد کرو۔ کسی کے خلاف بدگمانی سے بچو، کسی کی کمزوریوں کی ٹوہ نہ لگاتے رہو اور نہ ہی کسی کی غیبت کرو، یہ باتیں بری اور تقویٰ کے خلاف ہیں۔ تمام انسان برابر ہیں، ایک والدین کی اولاد ہیں۔ شعوب و قبائل باہمی تعارف کے لیے ہیں، اللہ کے نزدیک زیادہ معزز وہی ہے جو خدا سے زیادہ ڈرنے والا اور متقی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سچے دل سے فرمانبرداری ضروری ہے اس سے دل میں ایمان کی روشنی ظاہر ہو گی۔ سچے مومن وہ ہیں جو ایمان لانے کے بعد کسی شک و اضطراب میں مبتلا نہ ہوں اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے والے ہوں۔ اسلام میں داخل ہو کر تم نے اللہ پر نہیں بلکہ خود پر احسان کیا ہے اور سراسر اپنا ہی بھلا ہے۔ اور اپنی خوش قسمتی پر فخر کرو کہ تم نے اسلام اختیار کیا ہے۔ اب سچے دل سے دین پر عمل کرو اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
(50) سورۃ ق رکوع 1تا 3
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ قرآن مجید اپنی سچائی کا خود گواہ ہے، اسے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی انسان کا نہیں بلکہ خدا کا پیغام ہے۔ منکر کہتے ہیں کہ مر کر جب ہم مٹی ہو جائیں گے تو پھر دوبارہ کیسے زندہ ہوں گے۔ یہ لوگ نہیں سمجھتے لیکن ہمیں معلوم ہے کہ ان کے بدن کا ذرہ ذرہ کہاں ہے اور ان کو اکٹھا کر سکتے ہیں۔ ہر چیز ہمارے دفتر میں لکھ کر محفوظ ہے۔ پھر ارض و سماء نباتات، پھل، میوے، غلہ وغیرہ کا تذکرہ فرمایا اور ارشاد ہوا کہ جس طرح اللہ نے پانی برساکر مردہ زمین کو زندہ کیا ایسے ہی مردہ انسان قبروں سے زندہ کرے گا۔ پھر منکر قوموں کی تباہی کا احوال بتایا۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ دو فرشتے انسان کے دائیں بائیں بیٹھے اس کے تمام اعمال لکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ انسان کو موت آ جاتی ہے جو یقینی ہے جس سے انسان بچتا ہے ہے کہ کسی طرح ٹل جائے۔ پھر قیامت اور جزا سزا بیان فرمائی۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ جب دوزخ سے پوچھیں گے کیا تو بھر چکا ہے تو کہے گا کچھ اور لاؤ۔ اُدھر جنت پرہیزگاروں کے بالکل قریب کر دی جائے گی اور اللہ فرمائے گا یہ جنت ہے جس کا میں نے قرآن میں وعدہ کیا تھا۔ یہ ان لوگوں کے لیے تیار ہے جو اللہ ہی کا خیال رکھتے تھے، اس کے حکموں کو یاد رکھتے اور پابندی سے انہیں بجا لاتے، ان کو جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ وہاں انہیں پسند کی ہر شے ملے گی اور وہ یہاں دائمی ٹھکانہ ہو گا۔ پہلی قومیں نافرمانی نہ کرتیں تو تباہ نہ ہوتیں اور آخرت کے صدموں سے بھی بچ جاتیں۔ اللہ کی یاد میں مصروف ہو جاؤ، سورج نکلنے سے پہلے اور سورج غروب ہونے کے بعد خاص طور پر اس کا ذکر کرو۔ کہو وہ ہر عیب سے پاک ہے اور ساری خوبیوں کا مالک ہے اور رات کا کچھ حصہ نماز میں گزارو اور قیامت کا ایک دن آنا ہے جب سب مردے دوبارہ زندہ کریں گے اور فرشتے انہیں ہمارے سامنے پیش کریں گے جن کا وہ حساب لے گا۔ بہرحال آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی باتوں سے بے دل نہ ہوں، صبر و استقامت اور مسلسل ذکرِ الٰہی سے کام لیتے رہیں۔
(51) سورۃ الذٰریٰت رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ قسم ہے ان ہواؤں کی جو بادلوں کو اڑائے پھرتی ہیں، پھر مینہ کا بوجھ اٹھاتی آہستہ آہستہ چلتی ہیں، پھر بارانِ رحمت زمین پر تقسیم کرتی ہیں اور یہ کام وہ ایک مقررہ قاعدہ اور معین نظام کے مطابق سرانجام دیتی ہیں۔ منکرین کو جب قیامت یاد دلاتے ہیں تو ہنس کر کہتے ہیں کب آئے گی۔ کہو کہ یہ وہ دن ہو گا جب تمہیں دوزخ میں پٹخ دیا جائے گا اور ہدایت کو ماننے والے جنہوں نے نیک کام کیے، جو رات کو تھوڑا سوتے اور فجر کو اپنے گناہوں کی معافی مانگتے، ضرورت مندوں کی مالی امداد کرتے وہ آج باغوں اور چشموں کے درمیان ہوں گے۔ یہ لوگ کسی دنیاوی غرض سے نہیں بلکہ اللہ کی ناراضگی کے ڈر سے نیک اعمال کرتے تھے۔ روزی جس کا تم سے وعدہ کیا تھا اس کا انتظام اوپر سے ہی کر دیا گیا ہے اور یہ حق ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم علیہ السلام کے گھر اجنبی مہمانوں کا اور ایک ہوشیار لڑکے کی پیدائش کا مژدہ سنانا بیان ہوا۔
بائیس رمضان المبارک
پارہ ستائیس سورۃ الذٰریٰت رکوع 2تا 3
سورۃ الطور رکوع 2
سورۃ النجم رکوع 3
سورۃ القمر رکوع 3
سورۃ الرحمٰن رکوع 5
سورۃ الواقعہ رکوع 3
سورۃ الحدید رکوع 4
(51) سورۃ الذٰریٰت رکوع 2تا 3
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم علیہ السلام نے مہمانوں سے پوچھا کہ وہ کس مہم پر آئے ہیں تو بولے کہ ایک مجرم قوم کو پتھر برسا کر ہلاک کرنے (قوم لوط)۔ پھر فرعون، قوم عاد، ثمود، قوم نوح کی تباہی کا احوال بتایا۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ زمین و آسمان کو بنایا۔ ہر چیز کے جوڑے بنائے اور بتایا کہ ہمارا انکار مت کرو اور کسی کو ہمارا شریک یا برابر نہ مانو۔ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات نہیں سنتے، پہلوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا۔ بہرحال آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا فرض پورا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان سے منہ موڑ لیں اور ان کی طرف توجہ دیں جو اللہ اور رسول صلی اللہ پر ایمان لائے۔ اور منکروں کے لیے خرابی ہے کہ اس دن ان بری گت بنے گی۔
(52) سورۃ الطور رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ روزِ جزا ضرور آنے والا ہے جس میں منکرینِ حق کو ضرور عذاب ہو گا، جسے کوئی نہیں ٹال سکتا۔ اس دن آسمان پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا اور پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑیں گے اور اس دن سب دیکھ لیں گے کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا کہنا حق تھا۔ منکر دوزخ کی طرف دھکیلے جائیں گے کہ یہ وہ آگ ہے ہے جسے جھوٹ جانتے تھے۔ اور پرہیزگاروں کو انعام میں باغ اور نعمتیں ملیں گی اور ایمانداروں کی اولاد جو ان کی راہ پر چلے گی جن میں ان سے ملا دیں گے۔ جنتی کہیں گے اللہ نے احسان کر کے ہمیں جہنم سے بچا لیا۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ یونہی باتیں بنائیں گے، کبھی کاہن، کبھی مجنوں کہیں گے، ان کی پرواہ نہ کرو، برا بھلا انہیں سمجھاتے رہو۔ کتنے نادان ہیں جو یقین نہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ غلط خیالات رکھتے ہیں، ان کے داؤ پیچ کا وبال خود ان پر پڑنے والا ہے اور حق کو دبانے والے خود دب جانے والے ہیں۔ ان کے شرک سے اللہ کا کچھ نہیں بگڑتا وہ تو بے مثال معبود ہے۔ یہ سمجھانے سے نہ سمجھیں گے۔ آخر ایک دن زور کی کڑک سے بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے اور کوئی ان کا مددگار نہ ہو گا اور ان کی اس سے پہلے بھی بری گت بنے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم شب و روز اپنے رب کی تسبیح و عبادت کرتے رہو۔
(53) سورۃ النجم رکوع 1تا 3
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ دنیا میں ایک اٹل قانون نافذ ہے اور محمد مصطفے ٰ صلی اللہ علیہ و سلم وہی بیان کر رہے ہیں جو اللہ کی طرف سے وحی ہوتا ہے اور وہ اپنی خواہشات سے کچھ نہیں کہتے۔ واقعہ معراج کا تذکرہ فرمایا کہ اس پورے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نہ کہیں بھولے اور بھٹکے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے مقرب فرشتے (جبرائیل علیہ السلام) کے اتنے قریب ہوئے کہ صرف دو کمان کا فاصلہ رہ گیا یا اس سے کم بھی کم۔ تب جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی پہنچائی جو وحی بھی اسے پہنچانی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کی قدرت کی نشانیاں اس یقین کامل سے مشاہدہ فرمائیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی چشم مبارک نہ جھپکی نہ اِدھر اُدھر بھٹکی۔ فرمایا لات، عزیٰ اور مناۃ بے حقیقت نام ہیں اور یہ محض خیالی چیزوں کے پیچھے چل رہے ہیں یہ دیویاں ان کے کسی کام نہ آئیں گی۔ بھلا انسان جو سوچے اسے مل جائے یہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے پاس فرشتوں کی سفارش بھی نہیں چلتی یہ بت کس گنتی میں ہیں۔ آسمانوں میں بڑے مرتبے والے فرشتے بھی ہیں لیکن کسی کی مجال نہیں کہ اس کے پاس سفارش کر سکیں جب تک اللہ اجازت نہ دے۔ آخرت کے منکر فرشتوں کے زنانہ نام رکھتے ہیں، انہیں خبر نہیں کہ وہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ انہوں نے دنیا کو ہی مقصدِ حیات بنا لیا ہے۔ اللہ جانتا ہے کون راہ پر ہے اور کون گمراہ۔ اللہ ارض و سماء کا مالک ہے۔ انسان کو اس کے بھلے برے اعمال کی جانچ کے لیے دنیا میں رکھا گیا ہے۔ ہر انسان کو مرنا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچنے والے نیک لوگ ہیں جن کے چھوٹے موٹے قصور معاف کر دیے جائیں گی۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ غلط خیالات والوں کو تنبیہ فرمائی۔ جس نے جو کمایا اس کا اجر پائے گا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ وہی ہنساتا رلاتا ہے اور مارتا اور دوبارہ زندہ کرتا ہے۔ وہی ہے جس نے قوم عاد، قوم ثمود اور قوم نوح کو ان کی برائیوں کی وجہ سے تباہ کیا۔ فرمایا حضور صلی اللہ علیہ و سلم رسولوں کے سلسلے کی آخری کڑی ہیں اور قرآن آخری کتاب ہے جس میں سب کتابوں کی سب باتیں جمع کر دی گئی ہیں۔ قیامت آنے والی ہے اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ تم لوگوں نے جو چلن اختیار کر رکھا ہے چھوڑو اور اللہ کو سجدہ کرو اور صرف اسی کی بندگی اختیار کرو (السجدہ)۔
(54) سورۃ القمر رکوع 1تا 3
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ قیامت برحق ہے وہ ضرور آ کر رہے گی اور چاند پھٹ جانا اس کی قطعی نشانی ہے۔ کچھ لوگ اپنی خواہشوں کے پیچھے لگے حق کو جادو کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔ یہ نادان یہ نہیں جانتے کہ ہر چیز کا وقت مقرر ہے اور ہر بات اپنے وقت پر ہو گی۔ قیامت کے دن اسرافیل صور میں پکاریں گے، چلو میدانِ حشر کی طرف تو سبھی مردے اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑے ہو جائیں گے اور پکارنے والے کی آواز پر دوڑیں گے۔ اور کہتے جائیں گے یہ دن بڑا کٹھن ہے۔ پھر قوم نوح اور عاد کی تباہی بیان کی۔ فرمایا قرآن سے نصیحت حاصل کرنا آسان ہے بشرطیکہ کوئی نصیحت ماننے کو تیار ہو۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ قوم ثمود کا اپنے رسول صالح علیہ السلام کی بات نہ ماننا، سرکشی کرنا اور تباہ ہونا بیان کیا۔ اور فرمایا کہ اللہ کے عذاب سے ڈرو، قرآن سے نصیحت حاصل کرو۔ اس سے نصیحت حاصل کرنا آسان ہے۔ پھر قوم لوط کی بے حیائی اور اس کی تباہی کا احوال بیان فرمایا۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے سرکشی اختیار کی تو سب کو سمندر میں ڈبو کر تباہ کر دیا۔ وہ لوگ جو ڈرنے والے ہیں باغوں اور نہروں کے درمیان رہیں گے جو مستقل جگہ ہو گی اور وہ اپنے شہنشاہ کے قریب ہوں گے، جو سب سے زیادہ قوت اور قدرت والا ہے۔
(55) سورۃ الرحمٰن رکوع 1تا 3
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ الرحمٰن ہی ہے جس نے قرآن نازل کیا۔ انسان کو بولنا سکھایا۔ سورج اور چاند ایک مقرر طریقے سے بنائے۔ دنیا کو نظام عدل و انصاف پر قائم کیا۔ چھوٹے بڑے درخت اسی کو سجدہ کرنے میں مشغول ہیں ترازو رکھی کہ زیادتی نہ کرو، تول میں کمی بیشی نہ کرو۔ زمین کو مخلوق کے لیے بچھایا۔ اس میں میوے، پھل، ترکاریاں، غلہ اور خوشبودار پھول پیدا کیے۔ تو تم اس کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ انسان کو مٹی اور جن کو آگ سے پیدا کیا۔ دریا میٹھے اور کھارے پانی کے بنائے جو ساتھ نکلتے ہیں اور ایک دوسرے میں خلط ملط نہیں ہوتے۔ ان سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں اور پہاڑ جیسے جہاز ان میں کھڑے ہیں، یہ سب تیرے فائدے کے لیے ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ اپنے رب کو یاد رکھو یہ سب ایک دن فنا ہو جائے گا اور فقط اللہ کی عظمت باقی رہے گی۔ آسمانوں اور زمین میں تمام زندہ مخلوق اپنی ہر ضرورت اسی سے مانگتے ہیں اور وہ ہر وقت یہ ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ ارض و سماء پر ہر جگہ اسی کی حکومت ہے، کوئی اس کی سرحدوں سے بھاگ نہیں سکتا۔ سرکش انسانوں اور جنوں پر خالص آگ کے شعلے چھوڑے جائیں گے اور دھواں بھی ان کے گرد بھر جائے گا۔ پھر ان سے نہ بچ سکیں گے نہ بدلہ لے سکیں گے۔ جب آسمان پھٹ جائے گا تو اس کا رنگ رنگے ہوئے چمڑے کی طرح سرخ ہو جائے گا۔ تم اللہ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ قیامت میں گنہگار چہرے اور حلیہ سے پہچانے جائیں گے، البتہ الزام قائم کرنے کے لیے ان سے سوال ہو گا اور ان کو گھسیٹ کر دوزخ میں جھونک دیں گے۔ وہ دوزخ جسے دنیا میں تم جھوٹی اور بناوٹی چیز سمجھتے تھے۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ جو اللہ کے ڈر سے دنیا میں برے کاموں سے بچتے رہے ان کو دو باغ ملیں گے، جہاں گھنے درخت، چشمے اور ہر قسم کے میوے ہوں گے۔ وہاں بچھونے اطلس کے ہوں گے اور تکیے لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ باغوں میں پھل اتنے جھکے ہوئے ہوں گے کہ آرام سے چن لیں۔ شرمیلی آنکھوں والی پاکیزہ جیون ساتھی ہوں گی گویا لعل و یاقوت و مرجان۔ دنیا میں اخلاصِ عبادت کا بدلہ اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ آخرت میں مالا مال کیا جائے۔ پھر اور جنتوں کی نعمتوں کا ذکر کیا اور فرمایا کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ سنو تمہارا رب بڑی برکت، بڑائی اور عظمت والا ہے۔
(56) سورۃ الواقعہ رکوع 1تا 3
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کو نہ بھولو، یہ حق ہے۔ اس دن سخت زلزلہ آئے گا۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ انسانوں کے دو گروہ بن جائیں گے۔ دائیں والے اور بائیں والے۔ اور وہ جو سب سے پہلے ایمان لائے ان کے درجے بہت بلند ہوں گے، ان کا درجہ اللہ کے قریب ہو گا۔ پھر جنت کا احوال بتایا جو ان کو نیک کاموں کے بدلہ میں ملے گی۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ جن کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں ہوں گے یہ لوگ گناہ کرنے کی ضد کرتے تھے اور آخرت کے منکر تھے۔ دوزخ میں جہاں گرم ہوا، بھاپ اور کھولتے ہوئے پانی میں جھلس رہے ہوں گے۔ سیاہ دھواں ان کو ہر طرف سے ڈھانپ لے گا۔ پھر منکروں اور ان پر عذاب بیان ہوا۔ فرمایا کہ اگر تمہاری لہلہاتی کھیتیوں کو برباد کر کے تمہارے ہوش اڑا دے تو کیا کر لو گے۔ تم جس سے پیاس بجھاتے ہو بادلوں سے وہ پانی کون برساتا ہے اور وہ اسے کھارا کر دے تو میٹھا کون کر سکتا ہے۔ وہ کون ہے جو آگ جلانے والے درخت پیدا کرتا ہے۔ بلاشبہ اللہ ہی ہے۔ تو کیا یہ ضروری نہیں کہ ان نعمتوں کے لیے اپنے رب کی پاکی بیان کرو۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی مقدس کتاب کو جو آخرت کا نظریہ بیان کر رہی ہے، اس کا انکار کر کے بدنصیب نہ بنو۔ بہرحال آخرت کی زندگی سے کوئی مفر نہیں۔ مفر ہے تو مرنے والے کو مرنے سے روک کر دکھاؤ، اگر تم سچے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات کو جھٹلانے والوں، راہ سے بھٹکنے والوں کے لیے آگ اور کھولتا پانی تیار ہے اور اگر آخرت کے عذاب سے بچنا ہے تو اللہ کے نام کی تسبیح بیان کرو۔
(57) سورۃ الحدید رکوع 1تا 4
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ ارض و سماء کی ہر شے اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے اور ہر شے پر اس کی حکومت ہے۔ زندہ کرنا اور مارنا اسی کے کام ہیں۔ کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں۔ سب سے پہلا وہی ہے اور سب کے بعد بھی وہی رہے گا۔ وہ ہر جگہ ہے اور کوئی شے اس کے علم سے باہر نہیں۔ اسی نے ساری کائنات بنائی، وہ اس کی ہر شے سے واقف ہے۔ تمہیں دنیا میں خلیفہ مقرر کیا تو یقین لاؤ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر اور مال جیسے وہ کہے خرچ کرو، اس کا بڑا اجر ہے۔ تم پہلے بھی رب سے وعدہ کر چکے ہو، اب اس کے حکم پر چلو۔ اللہ نے رسول صلی اللہ علیہ و سلم بھیج کر انسان کو تاریکی سے بچا لیا اور قرآن کی صاف کھلی آیتیں بھیج کر اسے اندھیرے سے روشنی میں کھڑا کر دیا، یہ اللہ کی مہربانی ہے۔ اب بھی اگر تم گمراہی میں پھنس رہو تو تعجب کی بات ہے۔ سمجھ لو مال اصل مالک اللہ ہے۔ جس نے سخت ضرورت (جنگ) میں خرچ کیا اس کا ایمان کامل ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ یہ مال تمہارے پاس نہ رہے گا۔ بہتر ہے کہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر کے دنیا اور آخرت میں اپنی کامیابی کا ذریعہ بنا لو۔ دولت پر سانپ بن کر بیٹھنے والے منافق تمہارے اجر و ثواب پر رشک کریں گے اور پچھتائیں گے مگر بے فائدہ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اللہ کے سامنے جھکو، حق کی بات دل سے مانو اور ویسا ہی کرو۔ نیک کاموں میں مال خرچ کرنے کا بڑا ثواب ہے۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ مال و اولاد اور فخر و زیبائش والی ظاہر خوش کن زندگی کھیت کی فصل کی طرح ہے جو چند روز لہلہانے کے بعد بھوسے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے فخر و غرور اور بخل و امساک میں مبتلا ہو کر انہیں اللہ کی رحمت اور مغفرت عامہ سے محروم نہیں ہونا چاہیے۔
رکوع 4۔ ۔ ۔ ۔ نوح علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کو رسول بنا بھیجا اور دونوں کی اولاد میں پیغمبری کا سلسلہ جاری رکھا۔ لیکن بہت کم لوگ راہ پر آئے، زیادہ نافرمان رہے۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام کو انجیل عطا کی، پھر جو ایمان لائے ان کے دل میں نرمی اور مہربانی پیدا کی۔ بعد میں انہوں نے لوگوں کے ظلم سے تنگ آ کر رہبانیت اختیار کر لی۔ ہم نے اس کا حکم نہیں دیا تھا لیکن وہ رہبانیت کو نبھا نہ سکے۔ اہلِ ایمان کو ہر وقت اللہ سے ڈرنا اور ایمان کے تقاضے پورے کرنا چاہیے تاکہ وہ فضل و کرم کے اہل ہو جائیں۔
تئیس رمضان المبارک
سورۃ المجادلۃ تا سورۃ التحریم 58تا 66
پارہ اٹھائیس
(58) سورۃ المجادلۃ رکوع 1تا 3
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ ظہار کی تفصیل بیان فرمائی اور ارشاد ہوا کہ اللہ کی حدود میں رہو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اللہ اور اس کی مخالفت کرنے والے ذلیل و خوار ہوں گے جس طرح پہلے والے تباہ ہوئے۔ ہم نے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی معرفت صاف اور کھلی باتیں بیان کر دی ہیں اور جو نہ مانے قیامت کے دن ذلت والے عذاب کا مستحق ہو گا۔ اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ان کی تمام حرکتوں سے آگاہ ہے جو منع کرنے کے باوجود پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف باہمی سرگوشیوں سے باز نہیں آتے، یہ لوگ جان لیں کہ یہ جہنمی ہو چکے ہیں۔ اللہ ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہے اور ہر جگہ موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں مسخروں کی سی حرکتیں کرنا چھوڑ دو۔ انہیں ان کی ان گستاخیوں پر شدید عذاب ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم منافقین کی خفیہ سرگوشیوں سے پریشان نہ ہوں یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ یہ اللہ کی سنت ہے کہ اپنے رسولوں کو ہمیشہ غالب رکھے۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ جن ایمان والوں نے آخرت پر یقین کر لیا وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے مخالفین سے کبھی دوستی نہ کریں خواہ وہ ان کے کتنے قریبی عزیز ہوں۔ ایسے مومن ہی اللہ کے محبوب اور کامیاب و کامران ہیں۔
(59) سورۃ الحشر رکوع 1تا 3
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ تمہارا رب بڑا حکیم و عزیز ہے اور ارض و سماء کی ہر شے اس کی تسبیح کہتی ہے اور اس کی مطیع و فرمانبردار ہے۔ پھر بنو نضیر کا ذکر فرمایا کہ انہیں کس طرح مسلمانوں کے ہاتھوں ذلیل و رسوا کیا اور انہیں اپنے قلعہ نما مکانات خود اپنے ہاتھوں ڈھا کر بے گھر ہونا پڑا۔ انہیں یہ سزا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت کی دی گئی۔ اللہ نے یہ مال تمہیں بغیر لڑائی کے دیا ہے وہ مال غنیمت نہیں۔ اس لئے بنو نضیر کا منقولہ مال اور غیر منقولہ املاک جائیداد اور باغ "فئی” ہیں جس کی تقسیم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی مصلحت پر چھوڑ دی گئی ہے۔ لہٰذا وہ اس میں زیادہ لالچ نہ کریں، جو ملے لے لیں اور اس کے ساتھ ہی اس کے مستحقین بھی بیان کر دیئے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ منافقین ایک طرف ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں دوسری طرف دشمنانِ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم بنی نضیر سے ہر طرح نبھانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے عذاب الیم کی سزا رکھی ہے۔
رکوع 3۔ ۔ ۔ ۔ اے اہل ایمان اللہ سے ڈرتے رہو اور مال و متاعِ دنیا یا کسی مفاد کی خاطر منافقانہ روش اختیار کرنے کی بجائے آخرت پر نظر رکھیں اور تقویٰ کی راہ اختیار کریں۔ قرآن مجید جس کی تلاوت سے پہاڑ بھی پگھل جاتے ہیں، انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا۔ تو تعجب ہے کہ اس سے انسانوں کے دل گداز نہ ہوں اور ان میں تقویٰ اور اللہ کا ڈر پیدا نہ ہو۔ پھر اللہ کی صفتیں بیان ہوئیں۔
(60) سورۃ الممتحنہ رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست بت بناؤ۔ یہ جنہوں نے تمہیں گھروں سے نکالا کہ تم اللہ پر ایمان لائے۔ تو جو پوشیدہ پیغام انہیں بھیجتے ہو اللہ کے سب علم میں ہے جو تم پوشیدہ اور اعلانیہ کرتے اور تم میں سے جو ایسا کرے جان لو وہ راہ سے بھٹک گیا۔ یہ تو چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم اسلام کا انکار کرو اور ان کا مذہب اختیار کرو۔ قیامت کے دن تمہاری اولاد اور رشتہ دار کام نہ آئیں گے۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کی مثال دی کہ کس طرح انہوں نے اللہ کی خاطر اپنے حقیقی رشتہ داروں اور پھر اپنی قوم تک سے علیحدگی اختیار کر لی اور انہیں کہا کہ اب ہمارے تمہارے درمیان دشمنی ظاہر ہو گئی ہے جب تک تم اکیلے رب پر یقین نہ لاؤ۔ تم میں سے جنہیں اللہ پر بھروسہ ہے ابراہیم علیہ السلام والا طریقہ اختیار کرو۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ قطع تعلق کا یہ حکم ان کفار کے بارے میں نہیں جس کی روش تمہارے بارے میں معاندانہ نہیں۔ ان سے حسنِ معاملہ کر سکتے ہو۔ یہ حکم صرف ان کفار کے بارے میں ہے جو تمہیں اپنے گھروں سے نکالتے یا اس میں معاونت کرتے ہیں۔ ایمان والی عورتیں وطن چھوڑ کر آئیں تو ان کو جانچ لو اگر وہ ایمان پر ہیں تو ان کو کافروں میں واپس مت کرو۔ نہ یہ عورتیں کافروں کو حلال ہیں نہ کافر ان عورتوں کو۔ اگر مسلمان ان کو نکاح میں لینا چاہے تو مہر دے کر نکاح کر سکتا ہے۔ جب مسلمان عورتیں بیعت کرنے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں تو ان سے بیعت لے لیں اس بات پر کہ:۔
اللہ کا شریک کسی کو نہ ٹھہرائیں۔ چوری نہ کریں۔ بدکاری نہ کریں اور اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں۔ کسی پر بہتان نہ گھڑیں اور نہ دستور کی نافرمانی کریں۔ آخر میں پھر تاکید فرمائی کہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے ان سے دوستی نہ کرو۔
(61) سورۃ الصّف رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ ارض و سماء کی ہر شے اللہ کی تسبیح میں لگی ہوئی ہے۔ وہ کیوں کہتے ہو جو تم نہیں کرتے۔ یہ بات اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ ڈینگیں مت مارو یہ نکمے اور ناکارہ لوگوں کا کام ہے۔ حق و باطل کی یہ کشمکش ازلی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔ عیسیٰ علیہ السلام نے قوم کو بشارت دی کہ میرے بعد جو رسول آئے گا اس کا نام احمد صلی اللہ علیہ و سلم ہے۔ جو اللہ پر جھوٹ گھڑے سب سے بڑا ظالم ہے اور اللہ ظالموں کو راہ نہیں دکھاتا۔ اللہ نے اپنا رسولِ ہدایت دین حق دے کر بھیجا کہ وہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرکوں کو برا لگے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ ایمان والوں کو ہدایت دی کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لاؤ۔ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ وہ تمہیں بخش دے گا اور جنت کے باغوں میں داخل کر دے گا۔ تم اللہ کے مددگار بن جاؤ جیسا عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں نے جواب دیا کہ آپ اللہ کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو ہم آپ کے حمایتی ہیں۔ اور ہم نے مومنوں کی مدد کی اور وہ مخالفوں پر غالب آ گئے۔ اس طرح مسلمانوں کو فتح و غلبہ کی خوشخبری سنائی۔
(62) سورۃ الجمعۃ رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ کا فضلِ عظیم ہے کہ عرب کی امی قوم میں ایک پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم بھیجا جو انہیں گمراہیوں سے نکال کر اللہ کی آیتیں سناتا ہے۔ ان کے نفوس کا تزکیہ کرتا ہے۔ ان کے مقابلے میں یہود ہیں جنہیں حامل کتاب ہونے کا دعویٰ ہے۔ جنہوں نے نہ خود کتاب سے ہدایت حاصل کی اور نہ دوسروں کو اس سے فائدہ پہنچایا۔ یہود سے کہو کہ تم خود کو اللہ کا محبوب اور دوست کہتے ہو تو پھر موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ جمعہ کے دن نماز کی اذان ہو تو سب کام چھوڑ دو اور اللہ کی یاد کے لیے دوڑ پڑو اور نماز کے بعد زمین پر پھیل جاؤ اور اپنا رزق تلاش کرو۔ روزی دینے والی ذات تو اللہ ہے اور تلاش رزق کا کام بعد میں بھی ہو سکتا ہے، اس کاروبار کو جمعہ کی اس افادیت میں مخل نہیں ہونا چاہیے۔
(63) سورۃ المنافقون رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ منافق جھوٹے ہیں۔ یہ مسلمانوں سے جان بچانے کے لیے فوراً قسمیں کھا لیتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ پھر دوسروں سے مسلمانوں کی برائی کر کے انہیں مسلمان ہونے سے روکتے ہیں، ان کی زبان اور دل میں کفر ہے۔ انہیں کہا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آؤ تمہاری بخشش کی دعا کریں تو تکبر سے ٹال جاتے ہیں۔ وہ اگر معافی مانگیں بھی تو معاف نہیں کیا جاتا۔ وہ لوگوں کی مالی امداد سے روکتے ہیں اور مسلمانوں کو ذلیل کر کے مدینہ سے نکالنا چاہتے ہیں۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ ان کی یہ منافقت مال و اولاد کی خاطر ہے۔ تم کہیں اس چکر میں پڑ کر اللہ سے غافل نہ ہو جانا ورنہ زندگی کی آخری گھڑیوں میں پچھتانا پڑے گا مگر وقت ہاتھ سے نکل چکا ہو گا۔
(64) سورۃ التغابن رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ کائنات کی ہر شے اللہ کی پاکی بیان کر رہی ہے۔ وہ سارے ملک کا مالک ہے اور ساری خوبیاں اس کے اندر جمع ہیں۔ اسی نے سب انسانوں کو پیدا کیا کچھ ایمان لے آئے اور کچھ منکر بنے۔ تعجب ہے کہ انکار کرنے والوں نے پہلوں کا حال معلوم نہیں کیا جو منکر ہوئے اور سزا چکھی اور ان کے لیے آخرت میں بھی دردناک عذاب ہے۔ ایک دن تم سب کو دوبارہ زندہ کر کے اکٹھا کیا جائے گا اور نیک کام کرنے والوں کو جنت اور آیتوں کو جھٹلانے والوں کو دوزخ ملے گی۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا حکم مانو۔ اگر منہ پھیرا تو تمہارا نقصان ہے۔ یاد رکھو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ایمان والوں کو چاہیے اسی پر بھروسہ کریں۔ بعض بیویاں اور اولاد تمہاری دشمن ہیں جو تم کو اللہ کا حکم بجا لانے سے روکتی ہیں سو ان سے بچے رہو۔ ان سے تو تمہاری آزمائش مقصود ہے۔ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرو یہ اللہ کو قرض ہے اور وہ تمہارا قرض چکا دے گا بلکہ زیادہ دے گا۔
(65) سورۃ الطلاق رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ طلاق عورت کو ستانے کے لیے نہیں نہ ہی غصہ نکالنے کے لیے ہے۔ طلاق اس وقت دو کہ عدت پوری ہو سکے۔ پھر طلاق کے لیے اصول بیان فرمائے اور فرمایا کہ اللہ کی حدود میں رہو باہر نہ نکلو۔ طلاق رجعی کا طریقہ بیان کیا۔ بوڑھیوں اور نابالغ لڑکیوں کی عدت بتائی۔ حاملہ مطلقہ کی طلاق اور رضاعت وغیرہ کی تفصیل اور خدا خوفی کی تلقین فرمائی۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ پہلے حدود اللہ توڑنے پر بہت سی بستیاں خسارہ اٹھا چکی ہیں۔ فرمایا ان سے نصیحت لو ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ کہیں ایسی غلطی نہ کر بیٹھو جس سے تم پر اللہ کا عذاب نازل ہو۔ اللہ نے تمہاری ہدایت کے لیے قرآن نازل فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان و زمین پیدا کیے اور ان کا نظام بڑی خوبی سے چلا رہا ہے کیا تم ایک چھوٹے سے گھر کا نظام خوبی سے نہیں چلا سکتے۔
(66) سورۃ التحریم رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی بیویوں کی خوشی کے لیے اس چیز کو اپنے اوپر کیوں حرام کرتے ہو جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر حلال کر دی ہے۔ اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔ بیشک اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر فرض کر دیا ہے کہ اپنی قسموں کو کھول دو۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دوست سب کچھ جاننے والا اور دانا ہے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ان ازواج کو جن کا معاملہ تھا، متنبہ کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مرضی پر چلیں ورنہ ان سے علیحدگی ہو سکتی ہے۔ مسلمانوں سے فرمایا کہ اپنے گھر والوں کو بھی قرآن کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تربیت دیں اور دوزخ سے بچیں۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو! اللہ کے آگے سچے دل سے توبہ کرو وہ تمہاری توبہ برائیاں دور کر دے گا اور تمہیں جنت میں داخل کر دے گا۔ یہی طریقہ ہے دوزخ سے بچنے کا۔ پھر اللہ نے دو مثالیں پیش کیں کہ نوح علیہ السلام و لوط علیہ السلام کی ازواج اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے مستحق عذاب ٹھہریں اور فرعون کی بیوی اور مریم علیہ السلام اپنی نیک سیرتی کی وجہ سے عند اللہ مقبول ٹھہریں۔
1۔ فئی: جو مال دشمن سے بغیر لڑے یا صلح کے ذریعے حاصل ہو یہ سارے کا سارا ہی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا حصہ ہے۔
چوبیس رمضان المبارک
سورۃ الملک تا سورۃ المدثر 67تا 74
(67) سورۃ الملک رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ایک ہے اور ساری کائنات کی سلطنت اس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ برکت والا ہے، اس نے زندگی دی اور وہی موت دے گا اور اسی موت و حیات کا مقصد امتحان لینا ہے کہ اس عارضی زندگی میں کس کا عمل اچھا ہے۔ اسی نے اوپر تلے سات آسمان بنائے جن میں کوئی خلا نہیں اور دنیا کے آسمان کو رونق دی چراغوں سے اور شیطان کو پتھر مارنے کا انتظام کیا اور منکروں کے لیے دوزخ بنائی۔ پھر دوزخ کا احوال بتایا کہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے بڑا ثواب ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ اپنے سروں کے اوپر فضاؤں میں اڑتے پرندوں کو دیکھو جو کبھی اپنے پر کھولتے اور بند کرتے ہیں۔ کس نے انہیں تھام رکھا ہے۔ تم اپنی حمایت میں کتنے ہی لشکر لے آؤ، اللہ کے عذاب سے تمہیں کون بچاسکتا ہے۔ سن لو اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی حقیقی مددگار ہے نہ بچانے والا۔ یہ اللہ کو نہ ماننے والے تو شیطان کے بہکاوے میں آ کر دھوکے میں پڑے ہیں۔ اگر وہ تمہاری ضرورت کی چیزیں دینا بند کر دے تو کون تمہیں دے سکتا ہے۔ یہ جھوٹے معبود تمہاری کچھ مدد نہیں کر سکتے۔ قیامت نے آنا ہے، مشرک کہتے ہیں کہ کب؟ تو کہیے اس کی خبر اللہ کو ہے میرا کام تو تمہیں نافرمانی سے ڈرانا اور ہاں قربِ قیامت میں منکروں کے چہرے بگڑ جائیں گے اور کہا جائے گا یہی ہے، جسے تم مانگتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم منکرین کو متنبہ کر دیں کہ اگر مجھے یا میرے ساتھیوں کو ہلاک کر دے یا ہم پر رحم کرے تو خدا کے عذاب سے تمہیں کوئی نہ بچا سکے گا اور بتا دیں کہ تمام نعمتیں خدائے مہربان کی دی ہوئی ہیں۔ ہم تو اسی کو مانتے اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ تمہیں تمہاری غلطی کا احساس ہو جائے گا۔ صرف اتنا سوچ لو کہ پانی جس پر تمہاری زندگی کا دارومدار ہے اگر اللہ خشک کر دے تو ہے کوئی اور جو اس کے چشمے کو جاری کر سکے۔
(68 ) سورۃ القلم رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ قلم و اہلِ قلم کی قسم! اے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم آپ کاہن و دیوانے نہیں بلکہ اخلاق کے عظیم ترین مرتبہ پر فائز ہیں اور اللہ کے ہاں غیر متناہی اجر کے مستحق ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جھٹلانے والوں کی طرف کوئی دھیان نہ دیں اور اپنا کام جاری رکھیں۔ ان شاء اللہ ہر بات میں کہنا ضروری ہے۔ پھر قصہ بیان فرمایا کنجوسوں کا جو اپنے باغ میں کسی محتاج کو داخل نہ ہونے دیتے۔ تو جب ان کے باغ کا پھل پکنے کا وقت آیا تو اچانک آسمانی آفت سے سارا باغ اجڑ گیا۔ یہی دولت مندوں کا حال ہو گا۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ اصل چیز اللہ سے ڈر کر برے خیالات سے دور رہنا اور برے کاموں سے بچنا ہے۔ ایسے لوگوں کو مرنے کے بعد نعمتیں ملیں گی۔ یہ مت سمجھنا کہ پرہیزگار اور گنہگار برابر ہیں۔ اچھائی کا بدلہ اچھا اور برائی کا بدلہ برا مل کر رہے گا۔ یہ لوگ جو غلط خیالات پر قائم ہیں کیا ان کے پاس کوئی سند ہے کہ یہ ٹھیک راستہ پر ہیں۔ قیامت میں حقیقت کھل جائے گی تو ان کی آنکھیں بھی کھل جائیں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم صبر کریں اور اللہ کے احکام دل و جان سے بجا لاتے رہیں، نیکی کا انجام اچھا ہے۔
(69) سورۃ الحاق رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ ارشاد ہوا قیامت نے ضرور آنا ہے جنہوں نے اسے نہ مانا آخر تباہ ہوئے۔ قوم ثمود اور عاد نے انکار کیا تو بے نشان ہو گئے اور انہیں کوئی نہ بچاس کا۔ پھر فرعون اور اس سے پہلوں نے اسے جھٹلایا، اللہ کا حکم نہ مانا تو نافرمان تباہ ہوئے اور فرمانبرداروں کو بچا لیا۔ پھر قیامت کا حال بیان فرمایا۔ ارشاد ہوا کہ آج یہ دوزخی اپنی بدقسمتی پر روتا ہے اسے کہہ دیں کہ دنیا میں اسے ہوش کیوں نہ آیا کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت پر اللہ کو مان لیتا، محتاجوں کی مدد کرتا اور انہیں کھانا کھلاتا۔ اگر یہ دنیا میں اچھے کام کرتا تو آج اسے بھی نعمتیں ملتیں۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ قیامت، حساب کتاب اور جنت دوزخ کی باتیں سنانے والا شخص شاعری نہیں کر رہا۔ نہ وہ سخن طراز کاہن ہے بلکہ وہ تو اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے اور تمہیں اللہ کی باتیں سنا رہا ہے جو حق ہیں، اس پر یقین کرو، اللہ سے ڈرو، اسے جھٹلانے کے حسرتناک انجام سے بچو اور اپنے رب عظیم کی تسبیح بیان کرو۔
(70) سورۃ المعارج رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ کافروں سے جب کہا گیا کہ اللہ کے عذاب سے ڈرو تو وہ ہنسی اڑانے لگے کہ عذاب نے آنا ہے تو ابھی کیوں نہیں آتا۔ ان کو پتہ نہیں عذاب کیا ہے۔ جب آئے گا تو ہٹائے نہ ہٹے گا۔ تمام مخلوقات کی روحیں اللہ کے روبرو ہوں گی اور ہر انسان سے اس کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم صبر کریں، وہ عذاب جس کا یہ مطالبہ کر رہے ہیں آ کر رہے گا۔ پھر عذاب کی تفصیلات بیان فرمائیں۔ فرمایا انسان کم ہمت ہے، ذرا سا دکھ ہو تو گھبرا جاتا ہے اور مال ملے تو روک لینے والا ہے مگر وہ لوگ اس عیب سے بچے ہوئے ہیں جو نماز پابندی سے پڑھتے ہیں۔ اپنے مالوں میں محتاجوں اور مساکین کے لیے بھی حصہ رکھتے ہیں، اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں بجز اپنی بیویوں کے۔ حدود سے تجاوز نہیں کرتے، اپنی امانتوں کی حفاظت اور عہد کا پاس کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جنت کے باغ ہیں۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ کفار کو بتایا گیا کہ جنت چاہتا تو ہر ایک ہے، مگر وہ صرف آرزوؤں سے نہیں عمل سے ملتی ہے اور انہیں متنبہ کیا گیا کہ اگر یہ لوگ قیامت کے حساب کتاب سے بے نیاز ہو کر اپنی بداعمالیوں میں لگے رہے تو اللہ ان کی جگہ اچھے لوگ لے آنے پر بھی قادر ہے۔
(71) سورۃ نوح رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے نوح علیہ السلام کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ وہ انہیں بد عملی سے ڈرائے، انہیں اللہ کی بندگی کی تعلیم دے اور بتائے کہ قیامت حق ہے اور یہ کہ صرف اسی کی عبادت و اطاعت کی جائے تاکہ اللہ کے عذاب سے بچ جاؤ۔ نوح علیہ السلام نے ایک مدت تک اپنی قوم کو دعوت دی لیکن وہ جھٹلاتے رہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ آخر بارگاہِ الٰہی میں عرض کی کہ یہ میری بات نہیں مانتے، یہ اپنے رئیسوں اور مالداروں کی بات سنتے ہیں اور مال و اولاد پر اِتراتے ہیں۔ یہ لوگ خود نہیں سنتے اور دوسروں کو روکتے ہیں اور کہا الٰہی ان کا ایک گھر بھی بستا زمین پر نہ چھوڑو۔ آخر وہ قوم سیلاب کی نذر ہو گئی۔
(72) سورۃ الجن رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ کہیے مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے قرآن پڑھتے دیکھ کر کان لگا کر سنا اور قوم کو جا کے بتایا کہ یہ عجیب قرآن ہے جو راہِ راست کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ اس لیے ہم اس پر ایمان لے آئے اور اب اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ وہ بڑی شان والا ہے اس نے کسی کو اپنی بیوی یا بیٹا نہیں بنایا اور یہ کہ ہمارے نادان لوگ اللہ کے بارے میں خلافِ حق بات کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آسمان کی طرف جانے کی کوشش کی لیکن وہاں تو کایا پلٹی پائی۔ ہر ناکے پر فرشتے سامان سے لیس پہرے پر ہیں اور ہر جگہ آگ کے گولے تیار ہیں اور ہم میں سے کسی کو پاس پھٹکنے نہیں دیتے۔ یہ نیا انتظام نئے کلام کی حفاظت کے لیے ہے تاکہ شریر جن اس میں کچھ ملا نہ دیں۔ ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ اطاعت کے بغیر چارہ نہیں اور نافرمانی کر کے ہم کہیں چھپ نہیں سکتے نہ بھاگ کر جان بچاسکتے ہیں۔ سو ہم ایمان لے آئے۔ فرمایا کہ بندوں کی آزمائش تنگی یا فراخی سے ہے کہ دیکھیں تنگی میں صبر اور فراخی میں شکر کرتا ہے ؟ مساجد صرف اللہ کے لیے ہیں ان میں کسی اور کو مت پکارو اور اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ نفع نقصان کا مالک اللہ ہی ہے۔ مشرکوں کو اللہ کے بندہ کو اللہ کی عبادت سے نہیں روکنا چاہیے۔ اللہ کے نافرمان دوزخ میں جائیں گے اور وقت مقررہ کا پتہ فقط اللہ کو ہے۔ پیغمبر کا کام تو اللہ کے پیغام کو بلا کم و کاست لوگوں تک پہنچا دینا ہے۔
(73) سورۃ المزمل رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات کو نماز میں کھڑے ہو کر آدھی رات یا اس سے کچھ کم یا اس سے زیادہ بڑھا دو اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو، ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں۔ رات کو اٹھنا نفس کو قابو کرنے کے لیے بہت کارآمد اور ٹھیک پڑھنے کے لیے بہت موزوں ہے۔ اور اللہ کے نام کا ذکر کیا کرو اور صرف اسی کے ہو جاؤ۔ وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے اس کے سوا کوئی اللہ نہیں، اسی کو کارساز بنا لو اور اسی پر بھروسہ کرو۔ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو رسول بنا کر بھیجا ہے جیسے فرعون کی طرف موسیٰ علیہ السلام کو بھیجا تھا۔ اس نے نافرمانی کی اور بری طرح تباہ ہو گیا۔ اب اگر تم نے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا کہا نہ مانا، قرآن پر عمل نہ کیا تو عذاب سے کیسے بچو گے۔ یاد رکھو قیامت حق ہے اور ہم نے تو نصیحت بھجوا دی ہے، اب جو چاہے اس راہ کو اختیار کرے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ ارشاد ہوا کہ محبوب! ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھی کبھی آدھی، کبھی دوتہائی رات کے قریب نماز میں کھڑے ہوتے ہو تو رات کے طویل حصہ تک قیام کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ و سلم جتنی دیر آسانی سے تلاوت کر سکتے ہیں، کر لیا کریں کیونکہ تم لوگ بیمار بھی ہوتے ہو، روزی بھی تلاش کرنا ہوتی ہے، کچھ کو جہاد میں بھی شریک ہونا ہوتا ہے۔ البتہ نماز قائم رکھو، زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور خالص نیت سے کچھ غرباء و مساکین پر بھی خرچ کرتے رہو اور استغفار کرتے رہو۔ بیشک اللہ بخشنے والا ہے۔
(74) سورۃ المدثر رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنے دامن کو ہر طرح کی آلودگی سے محفوظ رکھتے ہوئے دعوت کے کام کا آغاز کریں اور اپنے رب کی عظمت کا اعلان کریں لیکن اس راہ میں بڑے خوشحال اور قیادت کے خواہش مند لوگوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لہٰذا صبر و تحمل سے کام لیں اور ایسے لوگوں کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دیں۔ پھر عرب کے مشہور شاعر ولید بن مغیرہ کا واقعہ بیان فرمایا کہ کس طرح ابوجہل نے اسے ورغلا کر حق تسلیم کرنے سے روکا۔ پھر جہنم کی حقیقت واضح فرمائی۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ دوزخی خود اقرار کریں گے کہ وہ نماز ادا نہ کرتے، محتاجوں کو کھانا نہ دیتے، دنیا کے دھندوں میں پھنسے رہتے، روزِ آخرت کے منکر تھے، یہاں تک کہ انہیں موت آ گئی۔ کوئی سفارش کام نہ آئے گی۔ ان کا یہ مطالبہ کتنا غلط تھا کہ ان سب کو اللہ کی طرف سے کھلے خط ملنے چاہئیں تھے جن پر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کی تصدیق ہوتی۔
پچیس رمضان المبارک
سورۃ القیامۃ تا سورۃ الانفطار 75تا 82
(75) سورۃ القیامۃ رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ یوم قیامت انسان اپنے دوبارہ جی اٹھنے سے بظاہر اس لیے انکار کر رہا ہے کہ انسان کی بوسیدہ اور بکھری ہوئی ہڈیاں دوبارہ کیسے جمع کی جا سکیں گی۔ یہ اس کے لیے کچھ مشکل نہیں، وہ تو انسان کی پور پور کو ٹھیک ٹھیک بٹھا دینے پر قادر ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ انکار کر کے اپنے فسق و فجور میں ڈوبا رہنا چاہتے ہیں مگر جب قیامت کے آثار ظاہر ہوں گے تو چلّائے گا کہ اب کہاں جاؤں، کوئی جائے پناہ نہیں۔ اس دن اس کے اچھے برے اعمال اس پر واضح ہو جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ لاکھ بہانے بنائے اس کا ضمیر اس کی کرتوتوں کا خود ہی واقف ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو فرمایا کہ جب وحی نازل ہوتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ساتھ ساتھ پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم یاد کرنے کی کوشش نہ کریں صرف غور سے سنتے رہیں، اسے یاد کرنا، بعد میں ٹھیک ٹھیک پڑھوانا اور تفسیر و تشریح کرنا ہمارا کام ہے۔ قیامت کے انکار کی وجہ یہ بھی ہے کہ انسان آخرت کے مقابل دنیا کو پسند کرتا اور ترجیح دیتا ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ جنہوں نے زندگی کے آخری سانس تک کوئی نیک کام نہ کیا وہ یقیناً آج سزا کے مستحق ہیں۔ انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ انہیں بے مقصد تو پیدا نہیں کیا گیا۔ انسان کو سوچنا چاہیے کہ اللہ نے نطفہ کی ایک بوند سے تجھے ہر طرح ٹھیک ٹھاک کر کے نیا کھڑا کیا اور اسی میں نر اور مادہ جوڑے بنائے۔ تو کیا یہ خدا مُردوں کو زندہ نہیں کر سکتا؟
(76) سورۃ الدھر رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ ایک زمانہ تھا کہ انسان قابلِ ذکر نہ تھا تو ہم نے اسے مخلوط نطفے سے بنایا تاکہ اسے آزمائش میں ڈالیں گے۔ اسے سمیع و بصیر بنایا اور پھر صراطِ مستقیم بھی بتایا پھر اسے اس کے اختیار پر چھوڑ دیا کہ چاہے تو اللہ کی شکر گزاری کی راہ اختیار کرے اور چاہے تو ناشکری کی راہ پر گامزن ہو۔ ناشکری کرنے والوں کا ٹھکانہ آگ ہو گا اور شکر گزاروں کو آسائش کی ہر چیز مہیا ہو گی۔ پھر شکر گزاروں کا کردار اور جنت کی نعمتیں بیان فرمائیں۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ اس صراطِ مستقیم کی نشاندہی کے لیے ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن نازل کیا اور بتایا کہ صراطِ مستقیم کی طرف دعوت میں آزمائشیں آئیں گی، ایسے وقت میں صبر اور صبح و شام ذکرِ الٰہی سے کام لیں۔ ہم کسی پر زبردستی نہیں کرتے۔ قرآن بھیج دیا، صحیح حالات و واقعات لوگوں کو بتا کر ان کی کامیابی کا راستہ انہیں بتا دیا۔ اب اسے قبول کرنے یا رد کرنے والوں کے لیے آخرت میں جزا و سزا مقرر کر رکھی ہے۔
(77) سورۃ المرسلات رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ ہواؤں کی قسم کھا کر بتایا کہ جس طرح یہ ہوائیں بارش برساکر مُردہ زمینوں کو زندہ کر کے سر سبز کر دیتی ہیں اسی طرح اللہ مُردوں کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ پھر قیامت برپا ہونے سے پہلے کے واقعات کی منظر کشی فرمائی تاکہ انسان کے دل میں اس دن کی ہیبت پیدا ہو اور وہ ایمان کے لیے نرم و گداز ہو جائے۔ پھر منکرین کے انجامِ بد سے انہیں ڈرایا۔ فرمایا کہ اللہ نے انسانوں کو بے مقصد نہیں بنایا بلکہ اپنی اطاعت و بندگی کروانے کے لیے۔ پھر دوزخ کی ہولناکیوں کا منظر دکھایا جس میں یہ گرنے والے ہیں۔ کہا کوئی بچنے کی تدبیر ہو تو کر دیکھو۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ پھر ان کے مقابلے میں مومنین کی آسائشوں کا تذکرہ کیا جو انہیں حاصل ہوں گی تاکہ ان کو بھی نیکی کی ترغیب ہو۔ کہا کہ اس چند روزہ زندگی سے فائدہ اٹھا لو اور خرابی ہے جھٹلانے والوں کے لیے۔ آخری وحی آ چکی اب یہ اس کے بعد کس بات پر یقین لائیں گے۔
پارہ تیس
(78 ) سورۃ النبا رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کا ذکر سن کر یہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کیا چیز ہے۔ بعض ہنسی اڑانے کے لہجے میں اور بعض صاف انکار کے طور کے طور پر۔ یہ بڑی ڈراؤنی چیز ہے اس کا یقین ہی کر لو تو تمہارے لیے بہتر ہے ورنہ سر پکڑ کر روؤ گے۔ پھر سمجھایا کہ بھلا اللہ تعالیٰ نے تمہاری معیشت کے جو اسباب زمین و آسمان، پہاڑ، دریا، بادل، اناج، باغات اور کام اور نیند کے لیے دن، رات وغیرہ پیدا کیے ہیں یہ سب کچھ کیا بے مقصد ہے ؟ فرمایا جزا اور سزا کا دن ضرور آ کر رہے گا۔ اور یہ کہ جو لوگ مقصدِ حیات پورا نہیں کرتے ان کے لیے شدید عذاب ہے۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس انعام و اکرام کا ذکر کیا جو ہدایت پر چلنے والے خوش نصیبوں کو اس روز عطا ہوں گے جبکہ آخرت سے انکار کرنے والے اپنی بے لگام کرتوتوں اور ان کی سزاؤں کو سامنے پاکر انتہائی مایوسی میں کہیں گے کاش ہم مر کر مٹی ہی رہتے۔
(79) سورۃ النّٰزعٰت رکوع 1تا 2
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
رکوع 1۔ ۔ ۔ ۔ اس کائنات کے نظام پر متعین فرشتوں کی قسم اٹھا کر بتایا ہے کہ قیامت ضرور آئے گی۔ زلزلہ ہائے قیامت کی نشانیوں سے حساب کتاب کے دن کو سامنے آتے دیکھ کر مارے خوف کے ان مجرموں کی آنکھیں سہمی اور دل کانپ رہے ہوں گے کیونکہ اپنی بد کرداریوں کا انجام اب انہیں یقینی دکھائی دینے لگے گا۔ لوگ کہتے ہیں کہ کیا ہم کو پہلی حالت پر لوٹا دیا جائے گا جبکہ ہم کھوکھلی اور بوسیدہ ہڈیاں بن جائیں گے۔ فرمایا اللہ کے لیے یہ کام مشکل نہیں۔ دو جھٹکے ہوں، ایک میں اس کائنات کا موجودہ نظام ختم ہو جائے گا اور دوسرے میں ایک ڈانٹ پڑے گی اور سب لوگ قبروں سے نکل کر میدانِ حشر میں ہوں گے۔ فرعون جس نے رب ہونے کا دعویٰ کیا اور موسیٰ علیہ السلام کی ہدایت پر کان نہ دھرا بلکہ ان کی مخالفت کی تو اللہ نے اسے داستانِ عبرت بنا دیا، وہ بھی آخرت کا منکر تھا۔
رکوع 2۔ ۔ ۔ ۔ زمین و آسمان کی تخلیق تمہاری دوسری تخلیق سے زیادہ مشکل و پیچیدہ ہے۔ جب اللہ اس کے کرنے پر قادر ہے تو وہ تمہیں دوبارہ زندہ بھی کر سکتا ہے۔ اللہ نے تمہارا یہ سامانِ زیست بے مقصد نہیں بنایا۔ جو دنیا کی محبت میں لگا رہا اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور رب سے ڈرنے والے اور جنہوں نے اپنے دل کو نفسانی خواہشات سے روکا ان کا ٹھکانہ بہشت ہے اور یہ کہ قیامت کا ٹھیک وقت صرف اللہ کو معلوم ہے جب یہ اسے دیکھ لیں گے کہیں گے کہ ہائے یہ ابھی کیوں آ گئی، ابھی تو ہم نے دنیا میں ایک ہی شام یا ایک ہی صبح گزاری تھی کہ اس نے جلدی میں خاتمہ کر دیا۔
(80) سورۃ عبس
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم! مال دار اور صاحبِ اقتدار لوگ بے پرواہ ہوتے ہیں، اس لیے ان میں نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت کم ہی ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے مقابلے میں غریب و مسکین لوگ جلد ہدایت پا لیتے ہیں۔ لہٰذا اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم! آپ ڈرنے والوں کی طرف زیادہ توجہ دیں کہ وہ پاکیزگی حاصل کریں۔ جب شورِ قیامت اٹھے گا اس دن ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی، بچے کوئی کسی کے کام نہ آئیں گے، ہر ایک اپنی فکر میں ہو گا۔ نیکوکار خوش اور بدکار سیاہ رُو ہوں گے۔
(81) سورۃ التکویر
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
ارشاد ہوا کہ اس دنیا کی زندگی نا پائیدار ہے جو ایک دن ختم ہو گی اور یہ سارا کارخانہ درہم برہم ہو جائے گا اور وہ باتیں ظاہر ہوں گی جو اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں۔ اس دن سورج کی روشنی اور گرمی نام کو بھی نہ رہے گی۔ ستارے ماند پڑ جائیں گے، پہاڑ فضا میں اڑتے پھریں گے، انسان کو نہ اپنا نہ اپنے مال و متاع کا ہوش رہے گا، سمندر کا پانی گرم آگ ہو جائے گا، انسانوں کے اعمال کے مطابق گروہ بنائے جائیں گے، زندہ گاڑ دی گئی لڑکیوں سے پوچھا جائے گا کہ کس جرم میں ایسا کیا گیا، دوزخ دہکائی جائے گی، جنت کو قریب لایا جائے گا، اس طرح قیامت کی تصویر کھینچی گئی۔ یہ روشن کتاب نصیحت و خیرخواہی پر مبنی ہے۔ جو چاہتا ہے اسے قبول کرے کوئی جبر نہیں، لیکن تمہارے دلوں میں ایسی چاہت کا پیدا ہونا بھی تو اللہ کی مشیت پر موقوف ہے۔
(82) سورۃ الانفطار
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
جب قیامت برپا ہو گی، انسان قبروں سے باہر آ جائیں گے اور اس کے اعمال اس کے سامنے آ جائیں گے۔ فرمایا آخر کس چیز نے تمہیں رب سے باغی کر رکھا ہے، وہ جس نے تجھے پیدا کیا، مناسب اعضا اور شکل و صورت دی۔ فرمایا صرف نیکوکار ہی بہشت میں ہوں گے اور نافرمان جہنم میں ہوں اور وہاں سے کہیں بھاگ نہ سکیں گے۔ پھر قیامت کی ہولناکی بیان کی کہ یہ کسی کے اندازہ میں نہیں آ سکتی، وہی اس دن کا مالک ہو گا اور کسی کا بس نہ چل سکے گا۔
چھبیس رمضان المبارک
سورۃ المطففین تا سورۃ التین 83تا 95
(83) سورۃ المطففین
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
ناپ تول اور کمی بیشی کرنے والوں کے لیے سخت خرابی ہے۔ یہ یومِ آخر پر یقین نہ ہونے کے باعث ہے اور اسی باعث انسان ایسی ہی بد اعمالیاں کر کے معاشرے میں بگاڑ اور فساد کا موجب بنتا ہے۔ کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ ایک عظیم دن انہیں دوبارہ اٹھایا جائے گا جب تمام لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ ایسا کر کے ان کے دل زنگ آلودہ ہو چکے ہیں اور ان میں خیرو شر کا احساس نہیں رہا، چنانچہ انہیں جہنم میں پھینک کر پوچھا جائے گا کہ جب پیغمبر تمہیں یہ بات بتاتے تھے تو تم جھوٹ جانتے تھے۔ فرمایا ان کے مقابلے میں نیک لوگوں کو ہر طرح کی نعمتیں اور آسائشیں حاصل ہوں گی۔ دنیا میں بدکار، نیک لوگوں پر ہنستے تھے آج یہ بدکاروں پر ہنسیں گے۔
(84) سورۃ الانشقاق
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
قیامت نے آنا ہے۔ جب یہ کارخانہ پھٹ جائے گا، زمین پھیل کر برابر ہو جائے گی اور اندر کی ہر چیز کو باہر نکال ڈالے۔ اے انسان! تجھے دنیا میں محنت اور مشقت کی زندگی بسر کرنی ہے، خواہ وہ محنت مشقت اللہ کے حکم کی تعمیل میں ہو یا اپنے نفس کی خواہشات کو پورا کرنے میں ہو، پھر مر کر دوبارہ زندہ ہونا ہے۔ اعمال نامے تقسیم ہوں گے، جس کے داہنے ہاتھ میں ہو گا اس کا حساب آسان ہو گا، جسے پیٹھ پیچھے پکڑایا جائے گا وہ موت کو پکارے گا تاکہ آفتوں سے چھٹ جائے، لیکن موت کہاں ؟ وہ دہکتی آگ میں ڈالا جائے گا کیونکہ انہوں نے دنیا کی خوشیوں میں مگن رہ کر آخرت کو بھلائے رکھا۔
(85) سورۃ البروج
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
جن لوگوں نے کسی بھی مسلمان مرد و عورت کو ایذا پہنچائی اور پھر توبہ کیے بغیر مر گئے تو ان کے لیے جہنم میں جلنے والا عذاب تیار کیا گیا ہے اور جو لوگ ایمان لا کر عمل صالح کرتے ہیں ان کا ٹھکانہ جنت کے باغات ہیں۔ تم پیدا ہو کر مرو گے اور پھر زندہ ہو گے۔ اللہ بخشنے والا اور اپنے بندوں کو ٹوٹ کر چاہنے والا عرشِ بریں کا مالک ہے۔ سرکشوں کو پل بھر میں تباہ کر ڈالتا ہے، یقین نہ ہو تو فرعون و ثمود کے حالات دیکھ لو۔ مگر کفار ان واقعات سے سبق لینے کی بجائے قرآن کو جھٹلانے اور مٹانے کے درپے ہیں مگر قرآن تو محفوظ ہے البتہ یہ لوگ گرفت میں آنے والے ہیں۔
(86) سورۃ الطارق
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
آسمان اور رات کو چمکتے ستاروں کی قسم کھائی تاکہ انسان اس نظام سماوی پر غور کر کے اس کے خالق کو پہچانے۔ ہر انسان پر ایک نگران مقرر ہے جو اسے حدود میں رکھتا ہے۔ جس اللہ نے آدمی کو ایک قطرہ سے بنایا وہ اسے دوبارہ بھی بناسکتا ہے۔ آخرت میں اعمال کی جانچ ہو گی۔ اعمال بد سے بچنے کے لیے آدمی کے پاس کوئی طاقت ہو گی نہ کوئی مددگار۔ کافروں کی چالا گیاں ان کی کامیابی کی دلیل نہیں۔ انہیں مہلت دی جا رہی ہے۔
(87) سورۃ الاعلیٰ
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
اللہ کی حمد کرو جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا، جس نے تقدیر بنائی اور رہنمائی کی، نباتات اُگائے پھر ان کو سیاہ کوڑا بنا دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی کہ وحی کا پڑھوانا اور حفظ کرانا ہمارا ذمہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نصیحت کریں۔ وہی شخص نصیحت قبول کرتا ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے۔ جو گریز کرے گا بڑا بدبخت ہے، وہ آگ میں جائے گا۔ جس نے پاکیزگی اختیار کی، نماز پڑھی وہ کامیاب ہوا اور جو آخرت چھوڑ کر دنیا کو اختیار کرتے ہیں وہ کیسے فلاح پا سکتے ہیں۔ یہی پیغام ابراہیم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے صحیفوں میں لکھا ہے۔
(88) سورۃ الغاشیہ
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
سرکش اور منکر لوگوں کا قیامت کے روز جو حشر ہو گا اور فرمانبردار لوگوں کو جا آسائشیں حاصل ہوں گی ان کا تذکرہ کیا گیا ہے تاکہ غور کرنے والوں کو نصیحت ملے۔ فرمایا کہ انسانوں کے اردگرد پروردگار کی اتنی نشانیاں بکھری پڑی ہیں کہ وہ ان میں غور و فکر کریں تو معلوم ہو گا کہ اللہ نے انہیں بلا مقصد نہیں بنایا۔ یہ آیات انسان کو اپنے خالق کی معرفت حاصل کرنے کے لیے کافی ہیں۔ آپﷺ ان کو صرف یاد دہانی کرائیں۔ جس نے منہ موڑا اور انکار کیا اللہ انہیں بڑا عذاب دے گا۔ آخر انہوں نے ہمارے پاس ہی آنا ہے اور ہمیں ان سے حساب لینا ہے۔
(89)سورۃ الفجر
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
فرمایا: تمہاری دنیاوی دولت و اقتدار کی یہ چار روزہ چاندنی آخر کار اندھیری رات میں بدلنے والی ہے۔ یقین نہ آئے تو بڑی طاقتور قوموں، عاد، ثمود اور فرعون کا انجام دیکھ لو۔ اللہ کی ہر قوم کے اعمال پر نظر ہے اور وقت آنے پر وہ سخت گرفت کرتا ہے۔ انسان کس قدر خود غرض، زرپرست ہے اور یتیموں اور مسکینوں کے بارے میں کس قدر بے رحم واقع ہوا ہے کہ میراث کا مال سمیٹ کر کھا جاتا ہے لیکن قیامت کے روز ان اعمال پر پچھتائے گا۔ آخر میں نصیحت کی کہ وہ اب بھی ان اعمال سے باز آ کر خدا کا مطیع فرمان بن جائے۔
(90)سورۃ البلد
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
فرمایا: قسم ہے اس شہر (مکہ) کی جس میں آپﷺ مقیم ہیں۔ انسانوں کو آزمائشوں اور مشقت کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور اسے خیال ہے کہ اس پر کوئی قابو نہ پائے گا، یہ خام خیال ہے۔ وہ دولت برباد کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کوئی اسے اللے تللے کرتے نہیں دیکھ رہا۔ گویا اسے یقین نہیں کہ دوبارہ زندہ ہونا ہے اور کسی کے سامنے جوابدہ ہونا ہے۔ نہ ہی اسے احساس ہے کہ مشاہدہ کے لیے اسے آنکھیں اور زبان دے رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یتیم، مسکین، فاقہ زدہ بندوں پر ترس نہیں کھاتا اور نہ ہی ایمان لا کر صبر و رحم کی تلقین کرنے والوں میں شامل ہوتا ہے۔ فرمایا: جو آپس میں رحم کھانے کی نصیحت کرتے ہیں وہی خوش نصیب لوگ ہیں اور ہماری آیات کے منکر بدنصیب ہیں۔ ان پر آگ ڈھانپ دی جائے گی۔
(91) سورۃ الشمس
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
فرمایا: شمس و قمر، ان کا تابانیوں، رات کی تاریکیوں، آسمان کی رفعتوں، زمین کی ہمواریوں اور انسان کی عقل صحیحہ و فطرت کاملہ کی قسم، جس نے تزکیہ نفس کیا وہ فلاح پائے گا اور جو اپنے نفس کو برائیوں میں پھنسادے گا اور اسے مضر باتوں سے بچانے کی فکر نہ کرے گا وہ سراسر نقصان میں رہے گا۔ پھر اس کو قوم ثمود کی مثال دے کر اچھی طرح واضح کر دیا۔
(92)سورۃ الیل
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
فرمایا: جیسے رات دن، نر اور مادہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ان میں سے ہر دور کے آثار و نتائج بھی باہم متضاد ہیں اسی طرح انسانی کوششیں بھی مختلف اور متضاد ہیں۔ جو اللہ سے ڈرتا ہے اور اچھی باتوں کی تصدیق کرتا ہے اس کی زندگی آسان ہو گی اور جو کنجوسی کرتا ہے، اچھے کاموں کی تکذیب کرتا ہے اس کی زندگی مشکل ہو گی اور مصیبت میں مال بھی اس کے نہ آئے گا۔ فرمایا: ہمارے ذمہ تھا کہ ہم انسان کی راہنمائی کریں وہ ہم نے کر دی، نیکی بھی بتا دی اور بدی بھی۔ پھر دنیا اور آخرت دونوں ہمارے اختیار میں ہیں ان میں سے جو وہ لینا چاہے لے سکتا ہے۔ فرمایا: لوگو بھڑکتی آگ سے بچنے کا سامان کر لو۔ اس میں وہی گرے گا جو بدبخت ہو گا، جس نے ہدایت کو جھوٹ جانا اور منہ پھیر لیا۔ اور صاحبانِ تقویٰ اس سے محفوظ و مامون رہیں گے کیونکہ وہ اپنا مال پاکیزگیِ نفس و خوشنودیِ رب اعلیٰ کے لئے خرچ کرتے آئے ہیں اور وہ ضرور ان سے خوش ہو گا۔
(93)سورۃ الضحیٰ
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
اللہ تعالیٰ حضورﷺ کو تسلی فرما رہے ہیں کہ دن ہو یا رات، میں آپﷺ کے ساتھ ہوں۔ آپﷺ مشکلات اور دکھ دینے والی باتوں سے نہ گھبرائیں۔ آنے والا وقت بہت بہتر ہو گا، جلد ہی ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔ فرمایا: آپﷺ یتیم تھے، تو ہم نے آپﷺ کا بندوبست کیا۔ آپﷺ حق کی تلاش میں سرگرداں تھے تو اللہ نے وحی سے راہ دکھا دی۔ آپﷺ کو غریب سے امیر کیا۔ اب آپﷺ بھی یتیم کا خیال رکھیں۔ سوالی کو مت جھڑکیں اور عطا کردہ نعمتوں پر شکر بجا لاتے رہا کریں۔
(94)سورۃ الم نشرح
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
فرمایا: کیا ہم نے آپﷺ کی خاطر آپﷺ کا سینہ کشادہ نہیں کر دیا؟ اور آپﷺ سے وہ بھاری بوجھ نہیں اتار دیا جس نے آپﷺ کی پیٹھ کو گراں بار کر رکھا تھا۔ اور ہم نے آپﷺ کے ذکر کو رفعت اور بقائے دوام عطا فرمائی۔ فرمایا کہ جب اللہ کی راہ میں مشکلات برداشت کی جائیں تو اللہ ان کے بعد آسانیاں پیدا کر دیتا ہے۔ فرمایا: جب نبوت کی مصروفیات سے کچھ فرصت ملے تو فارغ وقت عبادت کی مشقت میں صرف اور اپنے رب ہی کی طرف راغب رہیے۔
(95)سورۃ التین
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
فرمایا: انجیر اور زیتون اور طورسینا اور مکہ کی قسم ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا مگر وہ بدی کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کردار کی پستیوں میں گر گیا۔ صرف ایمان والے اور نیک عمل کرنے والے ان پستیوں میں گرنے سے محفوظ رہے۔ افسوس منکرینِ حق اللہ کے انصاف کی تکذیب کرتے ہیں۔ وہ تمام فیصلہ کرنے والوں سے بہترین فیصلہ کرنے والا ہے اور سب حاکموں سے بڑا حاکم ہے۔
ستائیس رمضان المبارک
سورۃ العلق تا سورۃ الناس 96 سے 114
(96)سورۃ العلق
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
فرمایا: اللہ تعالیٰ نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا اور قلم کے ذریعہ ان چیزوں کا علم دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ اس کا تقاضا تھا کہ علم سے اپنے رب کو پہچان کر اس کی فرمانبرداری کرتا مگر دستیاب اسباب کو پاکر اس نے نہ صرف خدا سے سرکشی اختیار کی بلکہ دوسروں کو بھی اس کی عبادت و اطاعت سے روکنے لگا۔ جانے کہ سب نے رب ہی کی طرف پلٹنا ہے۔ یاد رکھ اگر تیری سرکشی جاری رہی تو ہمارے کارندے پیشانی پکڑ کر گھسیٹ لائیں گے اور کوئی چھڑانے والا نہ ہو گا۔ فرمایا: آپﷺ ان کا کہا نہ مانیں اور اللہ کو سجدہ کریں اور اس کے مقرب بن جائیں۔ (السجدہ)
(97)سورۃ القدر
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
فرمایا: ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا اور یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ملائکہ سماوی اور جبریل امین علیہ السلام کا اس میں ہر طرف نزول ہوتا ہے اور اس وقت سے خیرو برکت کا خاص نزول ہوتا ہے اور سلامتی اور امن و امان کا یہ منظر ساری رات عالم میں صبح کے طلوع ہونے تک چھایا رہتا ہے۔
(98)سورۃ البینہ
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
فرمایا: اہلِ کتاب اور مشرکین کو کفر سے نکالنے کے لئے پیغمبر آخر الزمانﷺ کو مبعوث کیا گیا۔ مگر اس بات کے باوجود کہ توحید، زکوٰۃ اور اقامت و صلوٰۃ جو قرآن کی بنیادی تعلیم ہے ان کی کتب میں بھی موجود ہیں۔ مگر انہوں نے قرآن کی تصدیق کرنے کی بجائے کفر کی راہ اختیار کی اور اس طرح بدترین مخلوق قرار پائے جبکہ قرآن مجید کی تعلیم کو اپنی سابقہ کتب میں پاکر کچھ لوگ ایمان لے آئے، عمل صالح کی راہ اختیار کی اور بہترین مخلوق ٹھہرے۔ انہوں نے خوفِ خدا سے یہ طرزِ عمل اپنا کر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی اور جنت کے مستحق ہوئے۔
(99)سورۃ الزلزال
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
فرمایا: قیامت برپا ہو گی اور زمین کے اندر تمام بوجھ انسانوں سمیت باہر آ جائیں گے اور زمین ان کو وہ اعمال بتا دے گی جو اس کی پیٹھ پر کیے گئے۔ یہ اللہ کے حکم سے ہو رہا ہو گا۔ تمام لوگ اپنے مدفن سے نکل کر اپنے اعمال دیکھ لیں گے۔ ان کا ہر چھوٹا، بڑا، اچھا، برا عمل سامنے آ جائے گا جس کی انہیں سزا و جزا پانی ہو گی۔
(100)سورۃ العٰدیٰت
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
جنگی گھوڑوں کی قسمیں کھا کر فرمایا کہ دیکھو یہ اپنے مالک کے کتنے وفادار و جانثار ہیں کہ اس کے اشارے پر دوڑتے، ہانپتے، گرد و غبار سے اٹے میدان جنگ میں گھس جاتے ہیں۔ مگر انسان ہے کہ ناشکرا ہے اور مال سے محبت کرتا ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ایک دن اسے قبروں سے نکالا جائے گا، ان کے بھید ظاہر کیے جائیں گے پھر ان پر جزا و سزا ہو گی۔
(101)سورۃ القارعہ
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
قیامت کی ہولناکی کو ظاہر کر کے فرمایا کہ لوگ پتنگوں کی طرح ہوں گے اور پہاڑ دھنکی ہوئی اون کی طرح ہوں گے۔ اعمال کا وزن کیا جائے گا۔ بھاری وزن والے خوش باش رہیں گے اور ہلکے وزن والوں کو ایک گڑھے میں ڈال دیا جائے گا جو آگ سے بھرا ہو گا۔
(102)سورۃ التکاثر
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
فرمایا: انسان زیادہ سے زیادہ دنیا جمع کرنے میں لگا رہتا ہے کہ حتیٰ کہ وہ قبر میں جا پہنچتا ہے۔ اگر اسے علم ہوتا تو ایسا نہ کرتا۔ اسے جلد معلوم ہو جائے گا جب دوزخ دیکھے گا اور اس وقت اس سے پوچھا جائے گا کہ بتاؤ اس دوڑ میں جو دولت تم نے کمائی وہ کیسے کمائی اور کہاں خرچ کی؟
(103)سورۃ العصر
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
فرمایا: انسانی تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ آسمانی تعلیم سے بے نیاز ہو کر اور اپنی راہ اپنی رائے سے اختیار کر کے انسان نے ہمیشہ خسارہ اٹھا ہے۔ صرف وہی لوگ خسارے سے محفوظ رہتے ہیں جو ایمان لا کر اچھے عمل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی حق بات اور صبر کی تاکید کرتے ہیں۔
(104)سورۃ ہمزہ
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
فرمایا: دوسروں کو طعنے دینا اور عیب لگانا اس سے بڑی بد اخلاقی کوئی نہیں۔ ایسا شخص مال اکٹھا کرنے میں لگا رہتا ہے کہ شاید اس کی وجہ سے وہ ہمیشہ باقی رہے گا۔ فرمایا: کیا تجھے خبر ہے کہ انجام کار ایک چکی میں ڈالا جائے گا۔ چکی جو ایک آگ ہے اور دلوں پر جا پہنچتی ہے۔ اس آگ کے بڑے بڑے ستونوں کے درمیان اسے قید کر دیا جائے گا۔
(105)سورۃ الفیل
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
فرمایا: کیا آپﷺ نے نہیں دیکھا کہ آپﷺ کے رب نے اس لشکر کے ساتھ کیا سلوک کیا جو ہاتھیوں کا ایک غول لے کر مکہ پر حملہ آور ہوا۔ خدا نے ان کے تمام داؤ غلط کر دیئے اور ان جھنڈ کے جھنڈ پرندے بھیجے جو ان پر کنکروں والے پتھر پھینکتے اور انہیں کھائے ہوئے بھس کی طرح کر دیا۔
(106)سورۃ قریش
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
قریش تاجروں کو یاد دلایا کہ تم سردی اور گرمی میں تجارتی قافلوں میں جاتے ہو اور وہاں سے نفع کما کر آسودہ حال ہو کر مکہ میں رہتے ہو جہاں تمہیں نہ فاقوں کا خوف اور نہ لڑائی کا ڈر ہے۔ پھر تم ربِ کعبہ کی عبادت کیوں نہیں کرتے جس نے تمہیں سب سہولتیں دی ہیں۔
(107)سورۃ الماعون
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
ارشاد ہوا: بھلا آپﷺ نے شخص کو دیکھا ہے جو جزا و سزا کی تکذیب کرتا ہے ؟ یہ وہ شخص ہے جو یتیموں کو دھکے دیتا ہے۔ مساکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔ ایسے نمازیوں کے لیے تباہی ہے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں، ریاکاری کرتے ہیں اور افسوس ہے ان پر کہ ان سے کوئی معمولی چیز بھی مانگے تو انکار کر دیتے ہیں۔
(108)سورۃ الکوثر
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
فرمایا: اے نبیﷺ ہم نے آپ کو خیرِ کثیر عطا فرمائی ہے۔ لہٰذا آپﷺ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیے اور قربانی کیجئے۔ یقیناً آپﷺ کا دشمن ہی بے نام ہو گا۔
(109)سورۃ الکافرون
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
اے نبیﷺ! آپ کہہ دیجئے کہ اے کافروں میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کر رہے ہو اور نہ تم اس کی عبادت کر رہے ہو جس کی میں عبادت کر رہا ہوں۔ اور نہ میں تمہارے خود ساختہ معبودوں کی پرستش کرنے والا ہوں اور نہ ہی تم میرے معبود کی عبادت کرنے والے ہو۔ چنانچہ ہم دونوں کی راہیں الگ الگ ہیں۔ تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین۔
(110)سورۃ النصر
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
فرمایا: جب خدا کی نصرت آ پہنچی اور حق و صداقت کو فتح ہوئی اور آپﷺ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ دینِ الٰہی میں لوگ جوق در جوق داخل ہو رہے ہیں تو اب پروردگار کی حمد و ثنا کیجئے اور اس سے استغفار کیجئے۔ یقیناً وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔
(111)سورۃ اللھب
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
فرمایا: ابولہب اور اس کی بیوی حضورﷺ کی مخالفت کی وجہ سے اپنی دولت کے باوجود دنیا میں بھی تباہ و برباد ہوئے۔ ان کی دولت کسی کام نہ آئی اور آخرت میں بھی بڑی ذلت کے ساتھ دوزخ میں جلنا ہو گا۔ اس کی بیوی جو ایندھن کی لکڑیاں لانے والی ہے اس کی گردن میں مونج کی رسی ہو گی۔
(112)سورۃ الاخلاص
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
فرمایا: اللہ اپنی ذات و صفات میں یگانہ و بے مثال ہے۔ اس کا نہ کوئی شریک و ساجھی ہے اور نہ کوئی مشیر و مددگار۔ وہ بے نیاز اور ہر قسم کی احتیاج سے پاک ہے۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا، نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ اور وہ ایسی یکتا ذات ہے کہ کوئی ہستی کسی بھی اعتبار سے اس کے درجے کی نہیں ہے۔
(113)سورۃ الفلق
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
اے نبیﷺ! آپ کہیے میں صبح کے رب کی پناہ لیتا ہوں اور ہر اس چیز کے شر سے جسے اس نے پیدا کیا اور رات کی تاریکی کے شر سے جبکہ وہ چھا جائے، اور ٹونے ٹوٹکے کرنے والیوں کے شر سے اور حسد کرنے والے کے شر سے جس وقت وہ میرے ستانے پر آمادہ ہو جائے۔
(114)سورۃ الناس
اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
اے نبیﷺ! یوں کہیے میں پناہ لیتا ہوں انسانوں کے رب، بادشاہ اور معبود حقیقی سے۔ اس وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے جو بار بار پلٹ کر آتا ہے۔ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے خواہ وہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔
٭٭٭
سوچنے کی بات
الحمد للہ کہ ہم نے جو سفر اھِدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ سے شروع کیا تھا وہ ” وَالْعَصْرِ (1)اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِىْ خُسْرٍ (2)اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(3)”پر مکمل کیا۔ ہم نے دیکھا کہ گزشتہ قومیں اللہ کی واحدانیت اور آخرت کے تصور (دوبارہ زندہ ہو کر سزا اور جزا کے عمل سے گزرنے ) سے انکار کے باعث تباہ ہوئیں۔
ہمیں پیغام الٰہی پر غور کرنا چاہیے اور اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا ہم درست سمت چل رہے ہیں یا ہمیں راہ تبدیل کر کے فلاح حاصل کرنا ہے ؟۔ پیغام کا کچھ حصہ اس طرح ہے :۔
اللہ یکتا ہے وہ بے نیاز ہے۔ سب اس کے محتاج ہیں۔ اس کا نہ کوئی شریک ہے نہ مددگار نہ ہمسر۔
تمام عبادات قیام، رکوع، سجود اور فریاد اللہ ہی کے لیے ہے۔
اللہ ہی فریاد رس، مشکل کشا، غریب نواز ہے اور مصیبت میں بھی وہی تھامتا ہے۔ رزق، اولاد، خزانے، عزت، ذلت، موت و حیات صرف اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔
رسول اللہﷺ کی زندگی پیروی کے لیے بہترین نمونہ ہے۔
شرک ظلم عظیم ہے۔
ایسا نہیں کہ کچھ احکام مانے جائیں اور کچھ کا انکار ہو۔ ان حالات میں انسان کو دنیا میں رسوائی اور آخرت میں شدید ترین عذاب ہو گا۔
حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ حقوق العباد اور معاملات کی درست ادائیگی اور اوامر و نواہی پر عمل ضروری ہے۔
مختصر یہ کہ اسلام نام ہی اطاعت و فرمانبرداری میں خود کو اللہ کے سپرد کرنا اور اللہ کے مقابلہ میں اپنی آزادی اور خود مختاری سے دست بردار ہو جانا ہے۔
٭٭٭
الحمد للہ
پچھلے سال کا شروع کردہ یہ سلسلہ اللہ کے فضل و کرم سے تکمیل کو پہنچا۔ اس کے لیے میں محترمہ جاسمن بہنا کا بھی شکرگزار ہوں جنہوں نے مفہومِ قرآن مجید کو غلطیوں سے پاک کرنے کے لیے غلطیوں کی نشاندہی کر کے میرا ساتھ دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں اردو محفل کے محترم مدیر صاحبان کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے مراسلوں کو ایڈیٹنگ کر کے غلطیاں دور کرنے کا کام کیا۔ ابھی بھی غلطیوں سے پاک کرنے کا بہت سا کام رہتا ہے۔ اس لیے آپ سب احباب سے گزارش ہے کہ اگر آپ کے لیے ممکن ہو تو پڑھنے کے ساتھ ساتھ جہاں بھی غلطی کا شبہ ہو اس کے بارے میں مطلع کرنے سے نہ ہچکچائیے۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ اس محنت کو قبول فرمائے اور کتاب کے مصنف (محترم سرفراز محمد بھٹی صاحب) کی مغفرت فرما کر ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔
تجمل حسین
٭٭٭
کمپوزنگ: تجمل حسین
تشکر: تجمل حسین جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید