FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فکر اقبال

 

 

                ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

جلد۔ ۱

 

 

 

 

 

فکر من از جلوہ اش مسحور گشت

خامہ من شاخ نخل طور گشت

اقبال

 

 

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

سینہ تھا ترا بام مشرق و مغرب کا خزینہ

دل تھا ترا اسرار و معارف کا دفینہ

 

ہر شعر ترا بام ترقی کا ہے زینہ

مانند مہ نو تھا فلک سیر سفینہ

 

اس ساز کے پردے میں تھی عرفان کی آواز

کیا عرش سے ٹکرائی ہے انسان کی آواز

 

سچ تلخ تھا لیکن اسے شیریں کیا تو نے

تلخابہ غم کو شکر آگیں کیا تو نے

 

تعلیم خودی دے کے خدا بیں کیا تو نے

کنجشک فرومایہ کو شاہیں کیا تو نے

 

پر ٹوٹے تھے جن کے انہیں پرواز عطا کی

گونگے تھے جو انساں انہیں آواز عطا کی

 

دل تیرا مئے عشق سے لبریز تھا ساقی

اور درد کی لذت سے طرب خیز تھا ساقی

 

قطرہ تری مے کا شرر انگیز تھا ساقی

ساغر ترا گل بیز و گہر ریز تھا ساقی

 

تف مے پہ جو سنبھلے ہوئے انساں کو گرا لے

وہ مے تھی ترے خم میں جو گر توں کو سنبھالے

 

وہ عشق جو انسان کی ہمت کو ابھارے

وہ عشق جو دنیا میں بگڑتے کو سنوارے

 

جس عشق سے اغیار بھی بن جاتے ہیں پیارے

جس عشق کے اشکوں سے فلک پر بنے تارے

 

وہ عشق تھا تیرے دل و جاں میں رگ و پے میں

جس طرح نشہ مے میں ہے، اور نغمہ ہے نے میں

٭٭٭

 

                میں (ر)

 

منزل ہی نہیں جس کی کہیں پر وہ ترا شوق

سیارۂ گردوں کو نہ ہے تحت نہ ہے فوق

آزادی انسان کا ترے دل میں تھا کیا ذوق

زنجیر علائق نہ تو ہم کا کوئی طوق

 

وہ بحر تفکر کہ نہیں جس کا کنارا

سیلاب نہیں ڈھونڈتا ساحل کا سہارا

 

حکمت ہمیں دی شعر کی صہبا میں ڈبو کر

حق پیش کیا سوز نہانی میں سمو کر

جس نخل کا دنیا میں گیا پج تو بو کر

اک روز رہے گا وہ فلک بوس ہی ہو کر

 

رس عشق کا اس نخل کی رگ رگ میں چلے گا

ہر سمت میں وہ پھولے گا پھیلے گا پھلے گا

 

سمجھایا ہمیں کیا ہے بری چیز غلامی

تھے جس سے زبوں ہو کوئی گمنام کہ نامی

محکوم ہے تو، تو تری فطرت کی ہے خامی

آزادی افکار سے انساں ہے گرامی

 

آزاد ہی دنیا میں ہے اللہ کا شہکار

ہر بندۂ آزاد ہے تقدیر کا معمار

 

ہندی تھے غلامی کے نشے میں سبھی مدہوش

تھے سر پہ رکھے فخر سے اغیار کی پاپوش

حیوانوں کا مقصد تھا فقط خواب و خور و نوش

بے عزت و بے غیرت و بے ہمت و بے ہوش

 

رسوائی میں جو مست تھے ہشیار ہوئے ہیں

صدیوں سے جو سوتے تھے، وہ بیدار ہوئے ہیں

٭٭٭

 

                (س)

 

ڈھانچا جو غلط تھا تہ و بالا کیا تو نے

دنیا کے اندھیرے میں اجالا کیا تو نے

اس قوم میں کیا کام نرالا کیا تو نے

منہ جھوٹ کا اور مکر کا کالا کیا تو نے

 

تہذیب و سیاست کے طلسمات کو توڑا

سچائی سے ہر جھوٹی کرامات کو توڑا

 

اقبال! تو پیغام بر عشق و عمل ہے

انساں کی ترقی کا یہ قانون اٹل ہے

یہ نغمہ جاوید ہے یہ ساز ازل ہے

ہاں زیست کی مشکل کا فقط ایک ہی حل ہے

 

جاں صرف عمل اور ہو دل عشق سے لبریز

اٹھتا ہے یونہی جادۂ ہستی میں قدم تیز

 

عاقل تھا مگر عقل کے پیچاک سے آزاد

اور حکمت افرنگ کے فتراک سے آزاد

دنیا میں تھا دنیا کے غم و باک سے آزاد

خاکی تو وہ بے شک تھا مگر خاک سے آزاد

 

ہے دل کی جگہ دور کہیں ارض و سما سے

ہوتا ہے جہاں بندہ ہم آغوش خدا سے

 

ہادی ہے وہ انساں کو جو آگے کو بڑھا دے

تاریکی میں انساں کے ہاتھوں میں دیا دے

جو عقل پہ پردے ہیں پڑے ان کو اٹھا دے

صیقل کرے آئینہ دل اس کو جلا دے

 

ہر قلب کو تقدیر حقیقی نظر آئے

اور آنکھ کو تصویر حقیقی نظر آئے

٭٭٭

 

                (ش)

 

اقوام ہوں جس بانگ سے بیدار وہ پیغام

انساں ہوں مے عشق سے سرشار وہ پیغام

ہو بار امانت سے گرانبار وہ پیغام

ہر روح، حقیقت سے ہو دو چار وہ پیغام

 

وہ جوش کہ انسان ابھر جاتے ہیں جسے سے

کھوٹے بھی کھرے بن کے نکھر جاتے ہیں جس سے

 

کہتے ہیں سخنور کہ تھا شاہ سخن اقبال

ظاہر میں فقط شعر میں تھا اہل فن اقبال

ہے اصل حقیقت یہ کہ تھا بت شکن اقبال

مولا کو وطن کہتا تھا یہ بے وطن اقبال

 

اس جسم میں تھا روح کی معراج کا طالب

انساں کے لیے دل کے سواراج کا طالب

 

عارف کی نظر اپنے وطن تک نہیں محدود

کیوں اس کی نظر ہو در و دیوار میں مسدود

گو حب وطن اس میں تھی اک جذبہ محدود

اقبال نے دھرتی کو بنایا نہیں معبود

 

خاکی جو نہیں کرتا ہے افلاک کی پوجا

کس طرح سے کر سکتا ہے وہ خاک کی پوجا

 

عارف کی نظر گاہ وہی اس کا وطن ہے

پورب ہے نہ پچھم ہے نہ اتر نہ دکن ہے

ندی کوئی اس میں ہے نہ پربت ہے نہ بن ہے

نہ دیر و حرم کی کوئی تعمیر کہن ہے

 

نہ شوق کا گرویدہ نہ افرنگ کا عاشق

کس طرح سے ہو وہ چمن و گنگ کا عاشق

٭٭٭

 

                (ص)

 

کم کوئی ہے اس غمکدۂ دہر میں آیا

جس نے وطن اپنا دل انساں میں بنایا

انسان کی توقیر کا وہ راگ ہے گایا

موسیقی جاں بن کے جو جانوں میں سمایا

 

یہ راگ ہے وہ، کون و مکان ساز ہے جس کا

روحوں میں نہاں اور عیاں راز ہے جس کا

 

تھا شیخ سے بیزار برہمن سے بھی بیزار

نہ اس کا پرستار تھا نہ اس کا گرفتار

دولت کا شکار اور نہ سیاست کا گنہگار

افکار سے مستقبل اقوام کا معمار

 

جن ابلہ فریبوں میں ہے مکتی کا اجارہ

تعلیم سے تیری ہے بہت ان کو خسارہ

 

ہر شعر سے اٹھتا ہے سدا نعرۂ تکبیر

خوں تیری سیاہی ہے قلم تیری ہے شمشیر

اشعار ترے کاتب تقدیر کی تحریر

آئینہ بکف جس میں ہے اقوام کی تقدیر

 

مضراب ترے شعر ہیں انسان کا دل ساز

فطرت ترے نغموں پہ رہی گوش بر آواز

 

یہ شعر ہے، کہتے ہیں جسے جزو نبوت

یہ شعر ہے شاگردی رحمان کی آیات

یہ شعر بدل دیتا ہے انسان کی حالت

اس شعر میں ہے عالم لاہوت کی دولت

 

یہ شعر حقیقت میں ہے پروردۂ الہام

نعمت ہے بہت خاص مگر فیض بہت عام

٭٭٭

 

                (ض)

 

جس کا ہو کلام ایسا کلیم اس کو ہیں کہتے

حکمت سے ہو لبریز حکیم اس کو ہیں کہتے

افکار کی جنت ہے، نعیم اس کو ہیں کہتے

اے صاحب دل، طبع سلیم اس کو ہیں کہتے

 

انسان ہے اللہ کا معشوق اسی سے

خاکی یہ ہوا اشرف مخلوق اسی سے

 

اقبال کے ہیں شعر سخنداں کی زباں پر

اقبال کے اقوال ہوئے نقش ہیں جاں پر

اقبال کے ہیں تیر سیاست کی کماں پر

تیغوں کو جلا دیتے ہیں اس سنگ فساں پر

 

اقبال نے رنگ اپنا ادیبوں پہ چڑھایا

رنگ اپنی خطابت کا خطیبوں پہ چڑھایا

 

اب دل میں ہے ہر ایک کے پیدا وہی انداز

اب قوم کی آواز بنی ہے تری آواز

الفاظ میں تیرے ہے کوئی سحر کے اعجاز

بجتا ہے ہر اک رنگ کی محفل میں ترا ساز

 

اشعار ترے پیر و جواں سب کو ہیں ازبر

محفل کی ہیں رونق تو کہیں گرمی منبر

 

تھے صاحب دل رومی و عطار و سنائی

تھی جن کی خودی آئنہ راز خدائی

لے عالم ارواح کی انساں کو سنائی

کچھ لذت وصل اس میں ہے کچھ درد جدائی

 

ایسے ہی فقیروں کا ہم آہنگ تھا اقبال

مردان خدا دوست کا ہم رنگ تھا اقبال

٭٭٭

 

                (ط)

 

انسان کا کیا قحط ہے اس دیر کہن میں

اک مرد حق آتا ہے کئی ایک قرن میں

سمجھائے انہیں کون جویاں مست ہیں دھن میں

دولت جو حقیقی ہے وہ انساں کے ہے من میں

 

اس دولت سرمد کا شہنشاہ تھا اقبال

فطرت کی گواہی ہے حق آگاہ تھا اقبال

 

کام ایسا جو کرتا ہے وہ مرتا نہیں ہرگز

ایسے جو جیے موت سے ڈرتا نہیں ہرگز

دنیا سے گیا، دل سے گزرتا نہیں ہرگز

اس صفحے سے یہ نقش اترتا نہیں ہرگز

 

جب تک کہ دل افروز یہ پیغام ہے باقی

عالم کے جریدے پہ ترا نام ہے باقی

٭٭٭

؎یہ نظم علامہ اقبال کی وفات پر کہی گئی۔ خلیفہ عبدالحکیم

 

 

 

 

تمہید

 

 

اقبال شاعر بھی ہے اور مفکر بھی، وہ حکیم بھی ہے اور کلیم بھی، وہ خودی کا پیغامبر بھی ہے اور بے خودی کا رمز شناس بھی، وہ تہذیب و تمدن کا نقاد بھی ہے اور محی الملت والدین بھی، وہ توقیر آدم کا مبلغ بھی ہے اور تحقیر انسان سے درد مند بھی۔ اس کے کلام میں فکر و ذکر ہم آغوش ہیں اور خبر و نظر آئینہ یک دگر۔ ایسے ہمہ گیر دل و دماغ کے مالک اور صاحب عرفان و وجدان کے افکار اور تاثرات کا تجزیہ اور اس پر تنقید کوئی آسان کام نہیں۔ اس نے زیادہ تر شعر ہی کو ذریعہ اظہار بنایا، کیوں کہ فطرت نے اس کو اسی حیثیت سے تلمیذ الرحمان بنایا تھا۔

کسی بڑے شاعر کے کلام میں سے ایک مربوط نظریہ حیات و کائنات کو اخذ کرنا ایک دشوار کام ہے۔ شاعری منطق کی پابند نہیں ہوتی اور شاعر کا کام استدلالی حیثیت سے کسی نظام فلسفہ کو پیش کرنا نہیں ہوتا۔ اقبال نے نثر میں اپنے افکار کو بہت کم پیش کیا ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا فکر کبھی جذبے سے خالی نہیں ہوتا تھا اور حقیقت میں وہ اسرار حیات کو نثری استدلال میں پیش کرنے کا قائل ہی نہ تھا۔ وہ رازی اور بو علی کا مداح نہ تھا، اس کے پیش نظر ہمیشہ رومی جیسا عارف رہتا تھا، جس کے فکر کا ساز بے سوز نہ تھا۔ اس فرق کو اقبال نے لا تعداد اشعار میں نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ فقط اس قطعے سے بھی یہ فرق و تضاد واضح ہو جاتا ہے:

بو علی اندر غبار ناقہ گم

دست رومی پردۂ محمل گرفت

حق اگر سوزے ندارد حکمت است

شعر می گردد چو سوز از دل گرفت

نثری تنقید و تشریح میں فکر اقبال کو پیش کرنے والا کبھی اس کے ساتھ پورا انصاف نہیں کر سکتا۔ گوئٹے نے کیا خوب کہا ہے کہ زندگی تو ایک ہرا بھرا درخت ہے لیکن اس کے متعلق نظریات برگ خزاں کی طرح زرد ہوتے ہیں۔ مضمون کو خشکی سے بچانے کی ایک ہی ترکیب ہو سکتی ہے کہ ہر موضوع کے متعلق اقبال کے اشعار بکثرت پیش کر دیے جائیں اور نثر کی تشریح اور تنقید کے رشتے میں ان انمول موتیوں کو پرو دیا جائے۔ مالا میں دھاگا موتیوں کے مقابلے میں بے قیمت اور بے حیثیت ہوتا ہے لیکن ایک بڑی خدمت انجام دیتا ہے، دھاگا نہ ہو تو موتی منتشر رہیں گے۔ دشواریوں کے باوجود اقبال کے افکار کو کسی نظم و ربط میں لانا نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے تاکہ مجموعی حیثیت سے اس کا نظریہ حیات واضح ہو سکے مگر شعر جیسی وجدانی اور جذباتی چیز منطقی تنقید و تجزیہ کی متحمل نہیں ہو سکتی اور شاعر اس سے بے زار ہو کر انوری کی طرح کہہ اٹھتا ہے کہ ’’شعر مرا بمدرسہ کہ برو‘‘ لیکن سمجھنے اور سمجھانے کا اور کوئی طریقہ بھی نہیں۔

اقبال کے کلام کو محض شاعری کی حیثیت سے بھی دیکھ سکتے اور پرکھ سکتے ہیں، اگرچہ وہ کہہ گئے ہیں کہ خدا اس شخص کو نہ بخشے جس نے مجھے شاعر جانا۔ خود فرماتے تھے کہ اس کا امکان ہے کہ مستقبل میں فن شعر کے نقاد مجھے شاعروں کی فہرست میں سے خارج کر دیں لیکن شاعری، شاعری میں فرق ہے۔ اقبال کی شاعری وہ شاعری ہے جو شاعر کے تلمیذ الرحمان ہونے کا نتیجہ ہوتی ہے اور جسے پیغمبری کا ایک جزو قرار دیا گیا ہے اور جس کی نسبت ایک استاد بلیغ شعر کہہ گیا ہے:

مشو منکر کہ در اشعار ایں قوم

ورائے شاعری چیزے دگر ہست

فرماتے تھے کہ میں نے شاعری پر بحیثیت فن توجہ نہیں کی، اس کے لیے خاص محنت اور فرصت درکار ہے۔ جواب شکوہ پر ایک صاحب نے فنی تنقید کی اور زبان و محاورہ کے لحاظ سے اشعار کو قابل اصلاح قرار دیا۔ اس کے جواب میں علامہ نے فرمایا کہ میں نے اپنے مسودے میں اس سے زیادہ اشعار اور الفاظ پر نشان لگا رکھے ہیں جن کے متعلق مجھے خود تسلی نہیں، لیکن تزئین کلام اور اصلاح زبان کے لیے فرصت چاہیے، جو مجھے میسر نہیں۔ تمام ملک میں شاعر غرا مشہور ہو جانے کے بعد بھی وہ بانگ درا کے مجموعے کی طباعت و اشاعت کی تعویق میں ڈالتے رہے کہ اکثر نظموں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود ان کا کلام محض فن کی حیثیت سے بھی ہر قسم کے کمالات کا آئینہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو فطرت نے شاعر بنایا تھا اور بقول غالب:

خواہش شعر خود آں بود کہ گردد فن ما

اردو اور فارسی کے تمام اساتذہ میں سے شاید ہی کوئی دوسرا شاعر اس قماش کامل سکے، جس نے بغیر اپنی باطنی نفسی تحریک کے کبھی شعر نہیں کہا۔ اقبال کا تمام کلام آمد کا نتیجہ ہے، آورد کو اس میں کہیں دخل نہیں، اپنے متعلق بالکل بجا فرماتے ہیں کہ مجھے آرائش بیان میں کوششیں کرنے کی ضرورت نہیں :

کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی

اقبال کی شاعری میں بغیر کوشش کے سخن نغز کے تمام تقاضے پورے ہو جاتے ہیں۔ انسان کے لیے زبان فطرت بناتی ہے لیکن اس کے بعد صرف و نحو کے قواعد اس میں سے اخذ کر لیے جاتے ہیں جو اس کے اندر مضمر ہوتے ہیں، جس طرح شجر اور شگوفہ و ثمر فطرت کا جذبہ نما و نمود پیدا کرتا ہے، لیکن عالم نباتات آفرینش کے بعد ان قوانین کا سراغ لگاتا ہے جن کی تحقیق کی بدولت برگ درخت سبز معرفت کردگار کا دفتر معلوم ہوتا ہے۔ ایک متشاعر کے کلام میں صنعت مقدم ہوتی ہے اور آفرینش شعر موخر، لیکن تلمیذ الرحمان شاعر کے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ شعر اپنی موزونی اور جمال کے ساتھ بے تکلف طبیعت میں ابھرتا ہے، اس کے بعد نقاد شعر دیکھتا ہے کہ اس میں خود بخود لطیف صنعتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ بڑے سے بڑا قادر الکلام شاعر جس کا مجموعہ کلام اقبال کے برابر ہو نہ تو خود اس کا دعویٰ کر سکتا ہے اور نہ کوئی نقاد اس کا مدعی ہو سکتا ہے کہ اس کے کلام میں کہیں کوئی خامی نظر نہیں آتی:

گر سخن اعجاز باشد بے بلند و پست نیست

در ید بیضا ہمد انگشتہا یک دست نیست

غالب بھی اگرچہ فطرت کا بنایا ہوا شاعر تھا لیکن وہ اپنے شعر کو فنی لحاظ سے کامل اور رفتہ و شستہ بنانے کی کوشش کرتا تھا، اس کے باوجود اس کے مختصر مجموعہ اردو میں ناقدوں اور شرح نویسوں نے زبان اور محاورے کی بے شمار خامیوں پر انگشت اعتراض دھری ہے۔ اقبال کے متعلق اتنی بات دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ فن کی طرف سے بے نیاز ہونے کے باوجود اس کے کلام میں قابل قبول اعتراض کی گنجائش کہیں شاذ و نادر ہی ملے گی۔ علامہ اقبال کے احتجاج کے باوجود یہ نا ممکن ہے کہ بحیثیت شاعر ان پر نظر نہ ڈالی جائے لیکن شعر اقبال بحیثیت فن اقبال کے فلسفہ حیات سے ایک الگ اور مستقل موضوع ہے۔

قرآن کریم نے سورۃ شعراء میں شاعر کی حیثیت اور اس کے انداز حیات کا مختصر مگر جامع الفاظ میں تجزیہ کیا ہے۔ اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ نبی کریم ؐ کو مخالفین کبھی مجنوں کہتے تھے اور کبھی شاعر قرار دیتے تھے اور وہ محض اس لیے کہ قرآن میں اچھی شاعری کی تمام خوبیاں موجود ہیں، تشبیہہ و تمثیل و استعارہ، مسجع اور مقفی سورتیں، دل نشیں انداز کلام، سبھی کچھ اس صحیفے میں بدرجہ کمال موجود ہے۔ اسرار حیات سے نا آشنا اور روح کی گہرائیوں سے بے تعلق ظاہر بینوں کو وہ ایک شاعر کا کلام دکھائی دیا، قرآن کو نازل کرنے والے نے اس کی تردید کی کہ ہم نے اس نبی کو شاعری نہیں سکھائی، پھر کہا ’’ آؤ تمہیں بتائیں کہ شاعر علی العلوم کیا ہوتے ہیں اور انبیاء سے ان کو کس طرح ممتاز کر سکتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ محض شاعر اچھا رہنما نہیں بن سکتا۔ اس کا کوئی مخصوص نظریہ حیات اور مقصود زندگی نہیں ہوتا، اس کی کوئی منزل معین نہیں ہوتی جس کی طرف وہ یقین اور استحکام سے گامزن ہو۔ وہ زندگی کی تمام وادیوں میں ہرزہ گردی کرتا ہے اور جس منظر سے جس طرح ہنگامی طور پر متاثر ہوتا ہے اس کو بیان کے سانچے میں ڈھال لیتا ہے۔ اس کے جذبات اور تاثرات کی لہریں کسی آئین کی پابند نہیں ہوتیں، وہ کسی خاص ضابطہ حیات کا مبلغ نہیں ہوتا، اس لیے کہ وہ خود کسی یقین محکم پر زندگی بسر نہیں کرتا، وہ اپنے آپ کو اس کا پابند نہیں سمجھتا کہ اس کے قول اور فعل میں مطابقت ہو۔ حساس طبیعت رکھنے کی وجہ سے اس کے ہاں فقط تاثر اور اظہار تاثر ہے لیکن چونکہ اس کا تاثر ہنگامی ہوتا ہے اس لیے وہ کسی مستقل ارادے اور عمل میں تبدیل نہیں ہوتا، ایسے شخص کو جس کے مزاج میں تلون اور گوناگونی ہے، اگر کوئی رہنما سمجھ لے تو وہ یقیناً گمراہ ہے۔ ‘‘

اس ضمن میں ایک لطیفہ بیان کیا جاتا ہے کہ کسی مسلمان سلطان کے دربار میں شعراء کو دعوت دی گئی کہ وہ ایک روز حاضر ہو کر اپنا کلام سنائیں۔ چوبداروں نے شاعروں کو ان کے گھروں سے جمع کیا اور ایک جلوس کی صورت میں ان کو ہمراہ لے کر قصر شاہی کی طرف چلے۔ بعض آوارگان بازار بھی ان کے پیچھے پیچھے ہو لیے کہ اس طرح قصر شاہی میں داخل ہونے اور دربار میں حاضری کا موقع مل جائے گا۔ ان کا یہ حیلہ کامیاب ہو گیا۔ دربار میں شعراء کی صف کے پیچھے وہ بھی کھڑے ہو گئے۔ بادشاہ نے ان کو بھی شاعر سمجھا۔ جب شعراء اپنا کلام سنا چکے تو اس پچھلی صف والوں کو حکم ہوا تم بھی اپنا کلام سناؤ۔ انہوں نے کہا کہ حضور ہم شاعر نہیں ہیں۔ اس پر بادشاہ کو نہایت غصہ آیا اور پوچھا کہ تم یہاں کس حیثیت سے داخل ہوئے۔ ان میں سے ایک ظریف نے جواب دیا ’’ ہم غادون یعنی گمراہ لوگ ہیں اور از روئے قرآن شاعروں کے پیچھے پیچھے چلے آئے ہیں۔ ‘‘ اس پر دربار میں خوف قہقہہ لگا بادشاہ کا غصہ فرو ہوا اور ان کو بھی کچھ انعام اکرام مل گیا۔

قرآن حکیم اگر شاعروں کے متعلق فقط اتنا ہی کہہ کر چھوڑ دیتا تو بات ادھوری رہ جاتی لیکن قرآن کی نظم زندگی کے تمام پہلوؤں پر ہوتی ہے، اسی لیے عام شعراء کی سیرت کا یہ نقشہ کھینچنے کے بعد یہ ارشاد ہے کہ اس گروہ میں کچھ مستثنیات بھی ہیں، کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں شاعر کا حساس قلب اور حسن بیان عطا کیا جاتا ہے لیکن وہ ہرزہ گر نہیں ہوتے، وہ صاحب ایمان ہوتے ہیں اور ایک معین نظریہ حیات رکھتے ہیں اور اس ایمان کی بدولت ان سے اعمال صالحہ بھی سرزد ہوتے ہیں جو یقین محکم کا نتیجہ ہوتے ہیں، ان کے اقوال و افعال میں تفاوت نہیں ہوتا، ان کے بیان میں خلوص ہوتا ہے، وہ دروغ بیانی نہیں کرتے، جذبات رذیلہ ان کی طبیعت میں انہیں ابھرتے اور نہ ہی وہ سامعین کی طبیعتوں میں ان کو اکسانا چاہتے ہیں۔ قرآن کے بیان کے مطابق ایسے شعراء کی تعداد نہایت قلیل ہو گی کیونکہ اس سورۂ میں ایسوں کو بطور استثناء پیش کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود رسول کریم ؐ اچھے شعر کے قدر دان تھے بشرطیکہ اس سے اچھے افکار پیدا ہوں اور شریفانہ جذبات کی پرورش ہو۔ حضرت عمر فاروقؓ جیسا سراپا عدل و عمل شخص بھی اچھی شاعری کا قدر دان تھا، وہ مسلمانوں کو تاکید کیا کرتے تھے کہ اپنی اولاد کو اچھے اشعار یاد کرایا کرو۔ امراء القیس کے متعلق رسول کریم ؐ کی تنقید کس قدر حکمت آموز ہے، اسے بشعر الشعراء کہنے کے ساتھ ’’ قانہ ھم الی النار‘‘ بھی کہا جس کا مطلب یہ ہے کہ کامل فن ہونے کے باوجود ایک شاعر ایمان اور اعمال صالحہ سے معرا ہو سکتا ہے اور اپنے کمال سے یہ کام لے سکتا ہے کہ جذبات رذیلہ کو ابھار کر لوگوں کو جہنم کی طرف لے جائے۔ شعر کی حیثیت بھی علم کی سی ہے کہ علم ایک زبردست مگر بے طرف قوت ہے: علم کے غلط استعمال سے ایک عالم بہ عمل اپنے آپ کو بھی تباہ کر سکتا ہے اور دوسروں کو بھی، لیکن علم کے صحیح استعمال سے انسانیت عروج حاصل کر سکتی ہے:

علم چون بر تن زنی مارے شود

علم چون بر جان زنی یارے شود

زندگی میں قوت کے ہو اور سرچشمے ہیں ان ک ابھی یہی حال ہے۔ مال کی بھی یہی کیفیت ہے، زندگی بسر کرنے کے لیے مال کی بھی ایسی ہی ضرورت ہے جیسے کشتی چلانے کے لیے پانی لازم ہے: لیکن مال اگر کشتی روح کے اندر جائے تو اس کو ڈبو دے گا:

مال را گر بہر دین باشی ممول

نعم مال صالح گفتا رسولؐ

آب در کشتی ہلاک کشتی است

زیر کشتی بہر کشتی پشتی است

مسلمانوں میں شعراء بے شمار گزرے ہیں لیکن ایسے شعراء کو شاید ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گن سکیں جو اس معیار پر پورے اتر سکیں، جو قرآن نے اچھے شاعر کے لیے قائم کیا ہے۔ زیادہ تر شعراء ایسے ہی ہیں جنہوں نے اپنے کمال کو ہوس پروری اور ہوس انگیزی ہی میں صرف کیا۔ شعرائے ہند اور شعرائے عجم کے تمام تذکرے دیکھ جاؤ، ان میں رومی، سنائی، عطار اور حالی جیسے شاعر خال خال نظر آئیں گے، باقی سب کا وہی حال ہے جو حالی نے مسدس میں لکھا ہے۔ شعر و قصائد کا دفتر زیادہ تر ناپاک ہی ہے۔

اقبال نے شاعری سے جو کام لیا ہے اس کی نظیر مسلمانوں کی شاعری کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ اقبال کے کلام میں جو ثروت افکار ہے وہ عدیم المثال ہے، شاعری کے عام طور پر لطف طبع کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور اس کو اعمال حسنہ میں شمار نہیں کیا جاتا۔ زیادہ تر شاعری ہوتی بھی ایسی ہے لیکن شاعری کی ایک وہ بھی قسم ہے جو گرتوں کو ابھارتی ہے اور خستگان حیات کے دل قوی کرتی ہے۔ انگریزی شاعر ٹینی سن نے بجا فرمایا ہے کہ جس شاعری سے ملت کا دل قوی ہو اور اس کی ہمتیں بلند ہوں اس کو اعلیٰ درجے کے اعمال حسنہ میں شمار کرنا چاہیے۔

اقبال کے افکار و تاثرات کی گوناگونی اور بو قلمونی کی کوئی حد نہیں لیکن جس طرح کائنات کی کثرت میں ایک وحدت مضمر ہے اسی طرح اقبال کے افکار بھی اپنے اندر ایک وحدت نظر رکھتے ہیں۔ اس ثروت افکار کو ضبط میں لانے کا بہتر طریقہ یہ ہو گا کہ اس کو خاص عنوانات کے تحت مرتب کیا جائے۔ بعض مضامین اقبال کے ساتھ مخصوص ہو گئے ہیں، ان میں سے ہر ایک کے لیے الگ الگ باب قائم کرنا پڑے گا، مثلاً عشق کا موضوع اگرچہ حکماء اور صوفیہ کے ہاں بکثرت ملتا ہے لیکن اقبال نے اس میں جو نکات پیدا کیے ہیں وہ کسی اور کے کلام میں نہیں ملتے۔ اسی طرح توقیر نفس اور عرفان نفس کا مضمون اگرچہ قدیم ہے لیکن اقبال نے خودی کا فلسفہ اس زور شور سے پیش کیا ہے اور اتنے پہلوؤں سے اس پر نظر ڈالی ہے کہ وہ اس کا خاص مضمون بن گیا ہے۔ اسلام کے متعلق بھی اس کا جو زاویہ نگاہ ہے وہ صوفی و ملا و حکیم سب سے الگ ہے۔ قومی شاعری کی ابتداء اگرچہ حالی نے کی لیکن اقبال جس طرح قومی مسائل سے دست و گریبان ہوا ہے اس کی مثال بھی کہیں اور نہیں ملتی۔ حدی خوانی حالی نے شروع کی لیکن محمل کو گراں دیکھ کر اقبال نے اس حدی خوانی کو تیز اور وجد آور بنا دیا۔ اقبال شرق و غرب کے بہترین اور بلند ترین افکار کا وارث ہے۔ اقبال نے اس ورثے کو صرف پیش ہی نہیں کیا بلکہ اس میں گراں بہا اور قابل قدر اضافہ بھی کیا ہے، وہ صحیح معنوں میں آزادانہ اور محققانہ نظر رکھتا ہے، وہ اندھا دھند کسی کی تقلید نہیں کرتا، ہر چیز کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے اس لیے کلیتاً کسی حکیم یا صوفی یا فقیہہ و مفسر سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔ کسی بڑے مفکر کا قلب مومن اور دماغ کافر معلوم ہوتا ہے تو اس کی داد دیتے ہوئے اس پر بصیرت افروز تنقید بھی کرتا ہے۔ آزادانہ تحقیق و تنقید کے شوق میں کہتا ہے کہ کوئی نبی بھی پرانی لکیروں کا فقیر رہ کر پیغمبر نہ ہو سکتا:

چہ خوش بودے اگر مرد نکوے

ز بند پاستاں آزاد رفتے

اگر تقلید بودے شیوۂ خوب

پیمبر ہم رہ اجداد رفتے

اقبال پر درجنوں کتابیں اور ہزاروں مضامین لکھے گئے ہیں اور بے شمار تقریریں اس پر ہو چکی ہیں لیکن یہ سلسلہ نہ ختم ہوا نہ ہو گا۔ اقبال پر جو کتابیں نہایت عالمانہ، نہایت بلیغ اور نہایت جامع ہیں۔ ڈاکٹر یوسف حسین خان صاحب کی ’’روح اقبال‘‘ اور مولانا عبدالسلام صاحب ندوی کی کتاب ’’ اقبال کامل‘‘ ان دو کتابوں کو ملا کر پڑھیں تو اقبال کے کلام اور اس کی تعلیم کا کوئی پہلو ایسا دکھائی نہیں دیتا جو محتاج تشریح اور تشنہ تنقید باقی رہ گیا ہو لیکن اقبال کے افکار میں اتنی گہرائی، اتنی پرواز اور اتنی وسعت ہے کہ ان کتابوں کے جامع ہونے کے باوجود مزید تصنیف کے لیے کسی معذرت کی ضرورت نہیں۔ اقبال کا کلام ایک طرح کا مذہبی صحیفہ ہے اور مذہبی صحیفوں کی شرحوں کی طرح ہر لکھنے اور سوچنے والا اپنے انداز نگاہ اور انداز بیاں ہے خاص خاص پہلوؤں کو اجاگر کر سکتا ہے۔ راقم الحروف نے بھی اقبال پر بہت کچھ لکھا ہے لیکن وہ بعض مخصوص مضامین پر مشتمل ہے۔ میں پہلے جو کچھ لکھ چکا ہوں اس کتاب میں اس سے قطع نظر کرنا نا ممکن ہے اس لیے یا تو انہی کہی ہوئی باتوں کو دوسرے انداز میں کہنا پڑے گا یا لازماً کچھ اقتباسات دوران شرح میں درج کرنے ہوں گے۔ اقبال کے افکار کا احاطہ کرنا اور اس کے ہر خیال اور ہر تاثر کے مضمرات کو کماحقہ پیش کرنا کسی ایک مصنف کا کام نہیں اور نہ ہی کوئی ایک تصنیف اس کا حق ادا کر سکتی ہے۔ اقبال مسلمانوں کے مذہبی اور تہذیبی شعور کا ایک جزو لاینفک بن گیا ہے۔ اقبال اگر انا الملت کا نعرہ لگاتا تو بجا ہوتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملت اسلامیہ کے ساتھ اقبال بھی ابد قرار ہو گیا ہے، اگر اس کے افکار محدود اور ہنگامی ہوتے تو کچھ عرصے کے بعد زمانہ انہیں پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جاتا، لیکن اقبال کے افکار اور اس کے وجدانات میں ایک لامتناہی صفت پائی جاتی ہے۔ جو نہ صرف زمان و مکان بلکہ اس ملت کے حدود سے بھی وسیع تر ہیجس کا عروج و زوال اس کا خاص موضوع فکر اور جس کا درد اس کے دل و جگر کا سرمایہ تھا۔

مختلف ادوار میں اقبال کے فکر میں ارتقاء کے مدارج کا مطالعہ زیادہ مشکلات پیش نہیں نہیں کرتا، بانگ درا میں جس کا پہلا ایڈیشن ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا، انہوں نے خود اپنی نظموں کو زمانی لحاظ سے مرتب کیا ہے، بعد میں شائع کردہ مجموعوں کی طباعت کا زمانہ بھی یقینی طور پر معلوم ہے، چنانچہ ابتداء سے انتہا تک اقبال کے فکر کا ارتقاء مطالعہ کرنے والے پر روشن ہو جاتا ہے اور اس زمانی ترتیب کی بدولت اقبال کی شاعری اور کے تفکر کا ارتقاء بھی واضح ہو جاتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

پہلا باب

اقبال کی شاعری کے ارتقائی منازل

 

 

جس شخص کو ملکہ شاعری ودیعت کیا گیا ہو وہ بچپن ہی میں کچھ نہ کچھ مصرعے موزوں کرنے لگتا ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ پندرہ سولہ برس کی عمر یعنی مدرسے کی تعلیم کے اختتام کے زمانے میں اچھی خاصی نظمیں لکھ سکتا ہے، خود ان کا انداز تقلیدی یا مشقی ہی ہو، لیکن اس زمانے کی ابتدائی شاعرانہ کوششیں نہ اقبال نے محفوظ رکھنے کے قابل سمجھیں اور نہ ان کے قدر دانوں کو اس کے نمونے مل سکے۔ اقبال نے ایف اے کا امتحان مشن کالج سیالکوٹ سے پاس کیا تھا، اس زمانے میں ان کو ایک یگانہ روزگار صاحب بصیرت استاد سے حصول فیضان کا نادر موقع ملا۔ مولانا میر حسن اردو، فارسی اور عربی کے جید عالم تھے اور اسلامیات پر کامل عبور رکھنے کے باوجود خشک ملا نہ تھے، سرسید علیہ الرحمۃ کے مداحوں میں سے تھے، راسخ الاعتقاد ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی وسعت مشرب سے غیر مسلم طلباء بلکہ مشنری پادری اساتذہ بھی متاثر تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں اقبال نے اردو اور فارسی اساتذہ کا کلام کثرت سے مطالعہ کیا اور مولانا میر حسن شعر کا صحیح ذوق پیدا کرنے میں اس نو خیز شاعر کے معاون ہوئے۔ مولانا میر حسن کا تبحر علمی اور ان کے اخلاق کچھ اس انداز کے تھے کہ اقبال آخر عمر تک ان کو علم و اخلاق میں اسوۂ حسنہ اور اپنا محسن گردانتے تھے۔ اس معاملے میں اقبال شروع سے خوش قسمت رہے کہ ان کو اعلیٰ درجے کے استاد تعلیم کی ہر منزل میں میسر آئے۔ ان کی خوش بختی پیدائش ہی سے ان کی ہم عنان تھی۔ ان کے سب سے پہلے اور فطری اساتذہ ان کے والدین تھے۔ راقم الحروف کو ان کے والد ماجد شیخ نور محمد صاحب سے ملنے کا بھی اتفاق ہوا، جس زمانے میں علامہ اقبال انار کلی میں رہتے تھے۔ وہ در حقیقت اسم با مسمیٰ تھے، نور محمدی ان کے چہرے پر متجلی تھا۔ ایک محمدی کیفیت ا ن میں یہ بھی تھی کہ وہ نبی امی کی طرح نوشت و خواند کے معاملے میں امی تھے، وہ خدا رسیدہ صوفی تھے۔ پاکیزہ اسلامی تصوف کا ذوق اقبال کو باپ سے ورثے میں ملا۔ مولانا روم نے ایک شعر میں بلند مقامات پر پہنچے ہوئے عارفوں کے متعلق بڑے جوش سے کہا ہے کہ وہ شکاری ہوتے ہیں، اپنی جسمانی ہوا و ہوس کو اسیر فتراک کر چکنے کے بعد بھی ان کا ذوق صیادی تسکین نہیں پاتا۔ اس کے بعد وہ ملائکہ پر اپنا جال ڈالتے ہیں، اس کے بعد پیمبرانہ صفات کے حصول کے لیے انبیاء کا شکار کرتے ہیں اور آخر میں جب تک خدا بھی ان کی لپیٹ میں نہیں آ جاتا تب تک ان کی صیادی باقی رہتی ہے:

بزیر کنگرؤ کبریاش مردانند

فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر

اسی مضمون کو اقبال نے ذرا سے تصرف کے ساتھ اپنے شعر میں دہرایا ہے:

در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے

یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ

اب میں یہ عرض کرتا ہوں کہ اقبال کے عارف باپ کے ذکر میں مولانا روم کا یہ شعر کیوں یاد آ گیا۔ پہلی ہی ملاقات میں شیخ نور محمد صاحب نے اقبال کی پیدائش کا ایک دلچسپ قصہ مجھ سے بیان کیا، فرمانے لگے کہ اقبال ابھی ماں کے پیٹ میں تھا کہ میں نے ایک عجیب خواب دیکھا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت خوش نما پرندہ سطح زمین سے تھوڑی بلندی پر اڑ رہا ہے اور بہت سے لوگ ہاتھ اٹھا کر اور اچھل کر اس کو پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ کسی کی گرفت میں نہیں آیا۔ میں بھی ان تماشائیوں میں کھڑا تھا اور خواہش مند تھا کہ غیر معمولی جمال کا یہ پرندہ میرے ہی ہاتھ آ جائے وہ پرندہ یک بیک میری آغوش میں آ گرا، میں بہت خوش ہوا اور دوسرے منہ تکتے رہ گئے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مجھے اس خواب کی تعبیر القا ہوئی کہ پرندہ عالم روحانی میں میرا پیدا ہونے والا بچہ ہے جو صاحب اقبال ہو گا۔ اقبال کے حصول کمال اور اس کی شہرت کے بعد مجھے اپنی تعبیر کے درست ہونے کا یقین ہو گیا۔ عالم مثال میں ارواح پرندوں کی طرح متمشل ہوتی ہیں۔ انجیل میں ہے کہ روح القدس فاختہ کی صورت میں زمین پر اترتی ہوئی دکھائی دی۔ شیخ نور محمد کو عالم ارواح میں سے ایک نادر روح بطور شکار ہاتھ آئی۔ عارف رومی نے بجا فرمایا تھا کہ روحانی ترقی کے ایک خاص درجے پر پہنچ کر اسی قسم کے شکار عارفوں کے ہاتھ آتے ہیں۔ علامہ اقبال نے ایک روز مجھ سے فرمایا کہ والد مرحوم کو غیر معمولی روحانی مشاہدات بھی ہوتے تھے۔ فرمایا کہ والدہ مرحومہ کا بیان ہے کہ اندھیری رات تھی، کمرے میں بھی چراغ روشن نہیں تھا، آنکھ کھلی تو دیکھا کہ کمرہ تمام روشن ہے حالانکہ نہ باہر چاندنی تھی اور نہ چراغ تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال کے دماغ کی پرورش تو طویل سلسلہ تعلیم میں ہوتی رہتی لیکن غذائے روح ان کو شروع ہی سے جسمانی رزق کے ساتھ باپ سے ملتی رہی۔ والدہ ماجدہ کی اچھی تربیت کا اندازہ اس مرثیے سے ہو سکتا ہے جس میں بڑھاپے کے قریب پہنچے ہوئے اقبال نے کس سوز و گداز سے ماں کو یاد کیا ہے اور اپنے جوہر کمال کو اس کا مرہون منت قرار دیا ہے۔ اقبال آخر عمر میں فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اپنا نظریہ حیات فلسفیانہ جستجو سے حاصل نہیں کیا، زندگی کے متعلق ایک مخصوص زاویہ نگاہ ورثے میں مل گیا تھا، بعد میں میں نے عقل و استدلال کو اسی کے ثبوت میں صرف کیا ہے۔ انسان کے سب سے پہلے اساتذہ اس کے ماں باپ ہی ہوتے ہیں اور ماں سے شعوری اور غیر شعوری طور پر جو کچھ حاصل کیا جاتا ہے اس کے نقوش نہایت گہرے اور ان مٹ ہوتے ہیں۔ والدین کے ساتھ ساتھ ان کو مولانا میر حسن جیسا علمی، ادبی، اخلاقی استاد ملا اس استاد کی سیرت اور بصیرت کے خط و خال بھی اقبال کی فطرت کا جزو بن گئے۔ شعر فہمی اور سخن میں یقیناً مولانا میر حسن سے ان کو غیر معمولی فیض حاصل ہوا۔

سیالکوٹ میں ایف اے کے زمانے میں ضرور اقبال نے بہت کچھ مشق سخن کی ہو گی لیکن اس کو محفوظ رکھنے کے لائق نہ سمجھا بی اے کی تعلیم کے لیے وہ لاہور گورنمنٹ کالج میں آ گئے، یہاں کی صحبتوں میں ان کی شاعری کا نخل شگوفہ و ثمر پیدا کرنے لگا۔ ان کی شاعری کا چرچا ہم جماعتوں سے نکل کر خاص احباب کے حلقوں میں ہونے لگا۔ اس زمانے میں لاہور میں مشاعروں کا رواج ہو گیا تھا، حالی اور آزاد نے لاہور کے ہونہار نوجوانوں میں شعر کا چسکا پیدا کر دیا تھا۔ ا رشد گورگانی بھی کچھ عرصہ لاہور میں رہے، وہ پر گو اور بدیہہ گو شاعر تھے مگر ان کی زبان ٹکسالی تھ، خود بھی اچھے شعر برجستہ کہتے تھے اور شعر کے اچھے نقاد بھی تھے۔ لاہور کے کشمیریوں نے بھی ایک مجلس مشاعرہ قائم کی تھی جس کے کرتا دھرتا محمد دین فوق تھے جو اخبار کشمیری کے ایڈیٹر اور کشمیر کے متعلق متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ کالج کی طالب علمی کے زمانے میں اقبال پہلے پہل اسی کشمیری مشاعرے میں نظر آتے ہیں۔ اقبال نے کشمیر کے متعلق یہ رباعی اسی مشاعرے کی ایک مجلس میں پڑھی:

سو تدابیر کی اے قوم یہ ہے اک تدبیر

چشم اغیار میں بڑھتی ہے اسی سے توقیر

در مطلب ہے اخوت کے صدف میں پنہاں

مل کے دنیا میں رہو مثل حروف کشمیر

یہ وہی زمانہ ہے کہ مرزا داغ کے مراسلتی شاگرد تمام ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے اور مرزا داغ نے گھر میں شاعری کا ایک محکمہ کھول رکھا تھا، اصلاح کے لیے غزلیں ڈاک میں پہنچتی تھیں اور اصلاح و تنقید کے بعد واپس کر دی جاتی تھیں۔ اقبال نے داغ کی شاگردی چند ہی روز کی۔ سنا گیا ہے کہ داغ نے ان کو چند غزلوں کی اصلاح کے بعد لکھ بھیجا کہ اب تمہارے کلام کو اصلاح کی ضرورت نہیں۔ داغ کی شاعری کا موضوع تو عشق کی بجائے ہوس ہی تھا، لیکن اردو زبان میں اس سے بہتر استاد ملک میں کوئی نہ تھا، داغ کا یہ دعویٰ ثابت اور مسلم تھا:

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

داغ کی وفات پر اس کے سینکڑوں شاگردوں نے مرثیے لکھے جن کا اب کہیں نام و نشان نہیں، لیکن اقبال نے جو مرثیہ لکھا وہ داغ کے کمالات کی صحیح تصویر ہے اور اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال داغ کے کلام سے کس قدر متاثر تھا۔ اقبال عشق مجازی کا شاعر نہ تھا لیکن محض مشق سخن کے طور پر مصنوعی عاشقی کی کچھ غزلیں اقبال نے کہیں، جنہیں بعد میں انہوں نے خود حرف غلط کی طرح مٹا دیا۔ اس ابتدائی زمانے ہی میں اقبال کو یہ احساس پیدا ہو گیا تھا کہ دلی اور لکھنو کی شاعری کے حدود و قیود سے آزاد ہو کر اپنے مخصوص انداز میں کمال پیدا کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے مشاعرے ہی میں اقبال نے جو غزل پڑھی اس کا مقطع یہ تھا:

اقبال لکھنو سے نہ دلی سے ہے غرض

ہم تو اسیر ہیں خم زلف کمال کے

اس ابتدائی زمانے کی یادگار کچھ غزلیں بانگ درا میں موجود ہیں۔ ان غزلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جا بجا داغ کی زبان کی مشق کر رہے ہیں، موضوع بھی وہی داغ والے ہیں، کہیں کہیں داغ کے انداز کے شعر نکال لیتے ہیں، زبان کے معاملے میں ایک آدھ جگہ ٹھوکر بھی کھا جاتے ہیں :

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی

مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

اہل زبان کے ہاں عار مذکر ہے۔

اس سے آگے تین اشعار ایسے ہیں جو داغ کی غزل میں رکھے جا سکتے ہیں :

تمہارے پیامی نے سب راز کھولا

خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی

بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا

تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی

تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد

مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی

لیکن اس دور عشق و تقلید میں بھی اس اقبال کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں جس کا آفتاب کمال بہت جلد افق سے ابھرنے والا تھا اس دور کی شاعری کو اقبال کی شاعری کی صبح کاذب کہنا چاہیے جس کی روشنی طلوع آفتاب کا پیش خیمہ ہوتی ہے، غزل کے روایتی مضامین میں سر راہ حکمت و فلسفہ کی کرنیں دکھائی دیتی ہیں۔ ایک غزل کے مطلع اور مقطع میں واعظ پر چوٹ کی ہے جو صدیوں سے رند اور صوفی شعراء کا ایک تفریحی مضمون ہے:

عجب واعظ کی دینداری ہے یا رب

عداوت ہے اسے سارے جہاں سے

بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں

لرز جاتا ہے آواز اذاں سے

لیکن اس مختصر سی غزل میں دو حکیمانہ اشعار بھی ہیں :

کوئی اب تک نہ یہ سمجھا کہ انساں

کہاں جاتا ہے آتا ہے کہاں سے

وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے

چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے

ان چند غزلیات میں بھی جو بانگ درا میں درج ہیں ارتقائے فن کی رفتار خاصی تیز معلوم ہوتی ہے، بعض غزلوں میں فکر کی گہرائی اور فن کی پختگی نمایاں ہے۔ ان میں کچھ عشق مجازی کی آمیزش ہے، کچھ روایتی متصوفانہ مضامین ہیں لیکن ان کے ساتھ ملے جلے حکیمانہ اشعار بھی ہیں۔ انداز بیان میں انوکھا پن ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شاعر روایتی تغزل سے رفتہ رفتہ الگ ہو رہا ہے:

کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیوں کر ہوا

اور اسیر حلقہ دام ہوا کیوں کر ہوا

جائے حیرت ہے برا سارے زمانے کا ہوں میں

مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیوں کر ہوا

کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طور پر

کیا خبر ہے تجھ کو اے دل فیصلہ کیوں کر ہوا

ہے طلب بے مدعا ہونے کی بھی اک مدعا

مرغ دل دام تمنا سے رہا کیوں کر ہوا

موسیٰ و طور کے قصے کا مندرجہ بالا شعر دیکھئے اور پھر آخر میں پیغمبر خودی اقبال کا یہ شعر پڑھیے:

کب تلک طور پہ دریوزہ گری مثل کلیم

اپنی ہستی ہے عیاں شعلہ سینائی کر

تو اس کا کچھ اندازہ ہو گا کہ اقبال اپنے ارتقائے فکر میں رفتہ رفتہ کہاں سے کہاں پہنچا ہے:

وہی اقبال جو آخر میں نفس انسانی کی بقاء کا قائل اور شدت سے آرزو مند ہے، تصوف کے روایتی نظریہ فنا کے زیر اثر ابتدائی دور میں یہ کہہ جاتا ہے:

نہیں بیگانگی اچھی رفیق راہ منزل سے

ٹھہر جا اے شرر ہم بھی تو آخر مٹنے والے ہیں

وہی اقبال جو بعد میں یہ تلقین کرنے لگا کہ آفاق اور اس کے مظاہر کو آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہیے کیونکہ خدا کا جلوہ جیسا بطون میں ہے ویسا شہود میں بھی ہے ’’ ھو الظاہر ھو الباطن‘‘ وہ شروع میں یہ کہہ رہا تھا:

ہو وید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر

ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی

متصوفین کے فلسفہ فنا کا یہ ایک مسلمہ مضمون تھا کہ نفس کی انفرادیت ایک دھوکا ہے، نمود حق کے بعد یہ فریب ادراک مٹ جاتا ہے اور اس کے بعد پھر وہی ازلی حقیقت ’’ لا موجود الا اللہ‘‘ رہ جاتی ہے۔ غالب کے ہاں یہ متصوفانہ افکار بہت ملتے ہیں :

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

اقبال بھی تصوف کے زیر اثر فرماتے ہیں :

میں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی

جو نمود حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں

یا ایک دوسری غزل میں کہتے ہیں :

میری ہستی ہی تھی خود میری نظر کا پردہ

اٹھ گیا بزم سے میں پردۂ محفل ہو کر

اقبال نے اپنے ترقی یافتہ دور میں اسی فلسفہ فنا کے خلاف زور شور سے جہاد کیا، تاہم ابھی غزلوں میں تحقیق کا شائق اور تقلید سے گریز کرنے والا اقبال بھی دکھائی دیتا ہے:

تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی

رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے

مانند خامہ تیری زباں پر ہے حرف غیر

یگانہ شے پہ نازش بے جا بھی چھوڑ دے

اسی غزل میں ایک اور شعر بھی تھا جو انتخاب کرتے ہوئے اقبال نے نکال دیا:

مینار دل پہ اپنے خدا کا نزول دیکھ

یہ انتظار مہدی و عیسیٰ بھی چھوڑ دے

یہ شعر غالباً اس لیے نکال دیا کہ مہدی و عیسیٰ کے متعلق مسلمانوں کے عام عقائد کو اس سے ٹھیس لگتی تھی، خواہ مخواہ ہدف تکفیر بننے سے فائدہ؟ لیکن آخر تک اقبال کا عقیدہ یہی تھا کہ کسی نجات دہندہ کا انتظار شکست خوردہ قوموں کا عقیدہ ہے؟ ہر مسلمان کی نجات اور ملت اسلامیہ کی نجات و فلاح عرفان نفس اور خودی کے استحکام میں ہے۔

۱۹۰۵ء تک اقبال ایک علی الاطلاق شاعر ہے زندگی اور فطرت کے جس منظر اور جن حوادث سے متاثر ہوتا ہے ان کو اپنے حسن بیان کا جامہ پہنا دیتا ہے، تقلیدی اور روایتی شاعری سے اس نے بہت جلد چھٹکارا حاصل کر لیا، جہاں تک فن کا تعلق ہے اس نے کمال پیدا کر لیا، کہیں داغ سے فیض یاب ہے اور کہیں غالب کے تخیل کا قدر دان:

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

فن کے لحاظ سے اقبال ہر استاد سے کچھ نہ کچھ لیتے گئے، یہاں تک کہ فرماتے تھے کہ میں نے ناسخ سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔

آزاد، حالی اور شبلی کے ہاں اردو شاعری اگر قدیم ڈگر سے بٹنا شروع ہوئی تو یہ مغربی افکار کا نتیجہ تھا۔ اس کا احساس غالب کو بھی ہو گیا تھا کہ جدید تہذیب اور علوم و فنون ہو انگریزوں کے ساتھ مغرب سے آئے ہیں، ان کی بدولت زندگی کے اقدار اور انسان کا زاویہ نگاہ بدل گیا ہے یا بدل جانا چاہیے۔ چنانچہ سید احمد خاں نے جب ’’ آئین اکبری‘‘ کا تصحیح کردہ ایڈیشن شائع کیا اور غالب کو تقریظ کے لیے بھیجا تو غالب نے اپنے دوست سید احمد کا کچھ لحاظ نہ کیا اور سخت مخالفانہ تنقید اس پر کی جو غالب کے کلیات فارسی میں شامل ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ قابل غور اب صرف نئے آئین و قوانین ہیں، تہذیب و تمدن کی ترقی نے پرانے قاعدوں کو منسوخ کر دیا ہے، اب ان پر دماغ سوزی کرنا محض مردہ پرستی ہے جو سید جیسے مصلحین قوم کے شایان شان نہیں۔ لیکن غالب کی شاعری پر اس جدت پسندی کا کچھ اثر نہ پڑا اس لیے کہ جب اس کو یہ احساس پیدا ہوا، اس وقت وہ اپنی شاعری ختم کر چکا تھا اور وہ اپنے فن کے عمر بھر کے تیار کردہ اور پختہ سانچوں کو توڑ کر نئے سانچے تیار نہ کر سکتا تھا، پیری، ناداری اور بیماری نے اس کی قوتوں کو مضمحل کر دیا تھا ورنہ وہ آخر ایام میں سید احمد خاں اور ان کے رفقا سے کم تجدید کا تمنائی نہ تھا۔

حالی کو فطری اور قومی شاعری کی طرف سید احمد خاں لائے۔ حالی انگریزی داں نہ تھے اور نہ ہی سید احمد خاں انگریزی داں تھے اگرچہ اکبر نے سید صاحب کے متعلق بہت خوب کہا ہے کہ تم انگریزی داں ہو وہ انگریز داں تھا۔ علی گڑھ میں انگریزی تعلیم کا چرچا ہو گیا تھا، مغربی علوم و فنون کا سواد تعلیم میں داخل تھا، انگریز اور انگریزی داں ہندوستانی علی گڑھ میں جمع تھے۔ سید صاحب اور ان کے رفقاء ان سے ہر طرح معلومات حاصل کرتے تھے اور ان کے زیر اثر اپنے افکار میں ثروت پیدا کرتے تھے یا ان کا رخ بدلتے تھے۔ غدر کے بعد محمد حسین آزاد ہجرت کر کے لاہور آ گئے تھے اور گورنمنٹ کالج میں پروفیسر ہو گئے تھے وہ بھی انگریزی داں نہ تھے، علی گڑھ کی تحریک سے انہوں نے بھی مغربی انداز کی جدید شاعری شروع کر دی اور گل و بلبل کی شاعری کو خیر باد کہا۔ اقبال کی گورنمنٹ کالج کی طالب علمی کے زمانے میں یہ نمونے موجود تھے اور جدید اثرات کام کر رہے تھے۔ سید صاحب ہوں یا حالی یا شبلی یا مولانا نذیر احمد افکار کماحقہ ان کی گرفت سے باہر تھے اور وہ اس کی کمی کو تاسف کے ساتھ محسوس کرتے تھے۔ آزاد نے نیرنگ خیال میں یہ پیش گوئی کی کہ آئندہ بلند درجے کا ادب وہی لوگ پیدا کر سکیں گے جن کے ہاتھوں میں مغرب اور مشرق دونوں کے خزینہ افکار کی کنجیاں ہوں گی۔

یہ سب زبردست عالم اور ادیب تھے اور انگریزی دانوں کی اعانت سے بعض اوقات ایسی چیزیں لکھ جاتے تھے جو اب تک مستند شمار ہوتی ہیں چنانچہ مولوی نذیر احمد کا انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ تعزیرات ہند جدید قانون میں اصطلاح سازی کا ایک شاہکار ہے، یہ کام کسی خالی انگریزی داں سے سر انجام نہ پا سکتا۔ اسی طرح دہلی کالج کے سلسلے میں مولوی ذکاء اللہ نے درجنوں علوم و فنون جدیدہ کی کتابوں کو اردو زبان میں منتقل کر دیا۔

اپنے غیر معمولی کمال کے باوجود یہ سب بزرگ جس کمی کو محسوس کر رہے تھے وہ کمی اقبال نے پوری کی اقبال جتنی قدرت اردو اور فارسی پر رکھتے تھے اتنی ہی دسترس ان کو انگریزی زبان پر بھی حاصل تھی، مغربی افکار کا تمام سرمایہ اقبال کو براہ راست ہاتھ آیا اور مشرق و مغرب کا قرآن السعد بن اقبال ہی میں ظہور پذیر ہوا، آزاد کی تمنا اقبال میں مجسم ہو گئی۔ بطور نمونہ موجود تھی، اعلیٰ جذبات تو درکنار ادنیٰ شہوات کا انداز بھی غیر فطری ہو گیا تھا، زن و اردو زبان مسلمانوں کے دور انحطاط کی پیداوار ہے۔ اردو شاعری کے سامنے جو نمونہ تھا وہ متاخرین کی فارسی شاعری تھی۔ قصیدہ گوئی اور ہوس پرستی کے تغزل دور از کار تخیل اور مضمون آفرینی نے اس کو خلوص اور حقیقت سے کوسوں دور کر دیا تھا اور جذبات عالیہ کا اس میں فقدان تھا، دیرینہ تقلید سے وہ اپنی خامیوں میں پختہ ہو گئی تھی، کوئی داخلی محرکات اصلاح و تجدید کے اس کے اندر سے پیدا نہ ہو سکتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی تہذیب و تمدن اور مغربی سیاسی غلبے نے مشرق کی آنکھیں کھول دیں اور اس کو اپنے احتساب پر مجبور کیا۔

اقبال کے سامنے اردو اور فارسی کی شاعری کے علاوہ انگریزی شاعری کے بہترین نمونے موجود تھے۔ انگریزی شاعری ایک آزاد قوم کی شاعری ہے یہ قوم طرح طرح کے سیاسی انقلابات میں سے گزری اور اس کی تاریخ میں شروع سے آخر تک حریت کی جدوجہد نظر آتی ہے۔ اس میں اچھے اور برے، مطلق العنان اور پابند آئین و دستور ہر طرح کے بادشاہ اور حکمران گزرے ہیں لیکن اس قوم میں کبھی غلامانہ ذہنیت پیدا نہیں ہوئی۔ اگر کوئی بادشاہ دستور شکن اور مستبد معلوم ہوا تو اس کی گردن کاٹ دی گئی۔ کسی نے مذہبی استبداد کی کوشش کی تو اس کے خلاف بھی لوگ جہاد پر آمادہ ہو گئے۔ مسلمانوں کو اسلام نے یہ تعلیم دی تھی کہ حکومت علما و صلحا اور رموز شناس مملکت کے مشورے سے ہونی چاہیے لیکن طلوع اسلام کے چند سال بعد ہی وہ حکمت و حریت کے تمام سبق بھول گئے، اس کا جو نتیجہ ہوا وہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک المناک پہلو ہے۔

عربوں کی اپنی قوی اور طبعی شاعری میں بہت زیادہ تخیل اور مضمون آفرینی تو نہ تھی لیکن حقیقت اور خلوص تھا۔ عجم اسلام کا سیاسی طور پر تو مطیع و مسخر ہو گیا لیکن شاہ پرستی کی عجمی روایات نے اسلامی خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کر دیا افراد مملکت، مسلم ہوں یا غیر مسلم حریت و مساوات سے بیگانہ ہو گئے۔ اس کا بہت برا اثر شاعری پر پڑا عجم میں پہنچ کر پہلے عربی زبان میں قصیدہ گوئی شروع ہوئی اور اس کے بعد فارسی میں بادشاہوں اور امراء کی جھوٹی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے۔ شاعروں نے جب دیکھا کہ دروغ ہی سے فروغ ہوتا ہے تو دروغ بافی اور مبالغہ آرائی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کی روحانیت اور اخلاقیات شاعری میں سے عنقا ہو گئے، فطری اور سچے جذبات کو خلوص سے بیان کرنے والا کوئی نہ رہا۔ رندی، شراب خواری اور ہوس پرستی شاعری کا موضوع بن گئی، رود کی سے لے کر قاآنی تک اس بد روی میں ترقی ہوتی گئی۔ چند بلند پایہ، صالح الفکر اور صوفی شعراء کو چھوڑ کر باقی سب کا یہ حال ہے ادب کی یہی مسخ شدہ صورت اردو شاعروں کے سامنے مرد کی محبت کی جگہ امرد پرستی نے لے لی۔ اس لغو قسم کی مشق سخن میں زبان میں لطافت اور نکتہ آفرینی نے تو ترقی کی لیکن موضوع سخن زیادہ تر بیہودہ ہی رہا۔

تصوف جس کا حقیقی وظیفہ عرفان نفس سے عرفان الٰہی کی طرف رہنمائی کرنا تھا، وہ بھی غیر اسلامی تخریبی عناصر کی بدولت جادۂ صداقت سے ہٹ گیا۔ کچھ غلامانہ اور عیاشانہ زندگی نے اور کچھ تشکیک آفرین فلسفے نے ایمان و عمل کی بنیادیں متزلزل کر دیں، ہر قسم کے استبداد نے لوگوں میں اختیار کی بجائے جبر کے عقیدے کو استوار کر دیا عوام کو یہ تلقین کی گئی کہ رموز مملکت فقط بادشاہ جانتے ہیں، گدائے گوشہ نشیں کو خواہ مخواہ اعتراض اور احتجاج نہیں کرنا چاہیے، جو کچھ ہوتا ہے وہ خدا کی مرضی سے ہوتا ہے، مومن کا فرض ہے کہ وہ تن بہ تقدیر تسلیم و رضا کا شیوہ اختیار کرے، اگر بادشاہ دن کو رات کہے تو سننے والا اس کی تائید میں یہ اقرار کرے کہ ہاں مجھے تارے نظر آ رہے ہیں۔ زاہد اور زہد اور عاصی کا عصیان، عابد کی عبادت اور فاسق کا فسق سب مشیت الٰہی ہے جس کے آگے دم مارنا مومن کا کام نہیں، زاہد کے زہد سے اور فاجر کے فجور سے عبادت و کائنات کے لامتناہی کارخانے میں کون سا فرق پڑتا ہے:

بیا کہ رونق این کارخانہ کم نشود

ز زہد ہمچو توئی، و ز فشق ہمچو منے

حافظ بخود نپوشید این خرقہ مے آلود

اے شیخ پاک دامن معذور دار مارا

در کوے نیک نامی مارا گذر ندادند

گر تو نمی پسندی تغیر کن قضا را

زندگی بھی کسی کی سمجھ میں آنے کی چیز نہیں :

اک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

زندگی کا ہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

اب جب کچھ سمجھ میں نہیں آ سکتا تو کیا کیا جائے سوائے اس کے کہ گاؤ بجاؤ، پیو پلاؤ اور خوش رہو:

حدیث از مطرب و مے گو و راز دہر کمتر جو

کہ کس نکشود و نکشاید بحکمت ایں معما را

متصوفانہ افکار کے ساتھ ان تمام خیالات کی اس طرح آمیزش ہوئی کہ تمام عقائد اور زاویہ ہائے نگاہ دین بن گئے حقیقی فلسفہ، آزادی فکر سے حقیقت کی جستجو کا نام ہے اور یہ جستجو اس اذعان و یقین کے ساتھ کی جاتی ہے کہ خدا نے عقل اس لیے دی ہے کہ مشاہدے اور تفکر سے وجود حقیقی کی ذات اور صفات کو حتیٰ الامکان معلوم کیا جائے اور پھر اس دریافت شدہ حکمت کے مطابق اعمال کو ڈھالا جائے۔ تصوف کا کام اس سے بھی زیادہ عرفان اور تزکیہ قلب تھا لیکن مسلمانوں کی شاعری میں حکمت اور تصوف دونوں نے زیادہ تر تعمیر حیات کی بجائے تخریب ہی کا کام کیا، شاعری، نہایت ادنیٰ سطح پر فن برائے فن رہ گئی یا فن برائے زرانہ دوزی و جاہ طلبی۔

یہ جو کچھ کہا گیا ہے فارسی کی تمام شاعری پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا، آخر سعدی و رومی اور سنائی و عطار بھی شاعر ہیں، اعلیٰ درجے کی حکیمانہ باتیں بھی بعض شعراء میں منتشر طور پر ملتی ہیں، لیکن شاعری کے طوفان بے تمیزی میں یہ گوہر کہیں نایاب اور کہیں کمیاب ہیں۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اقبال نے عجمی شاعری سے فائدہ نہیں اٹھایا یا ساز عجم کے نغمے اس کے اشعار میں نہیں ہیں لیکن ساز کے ہم رنگ و ہم آہنگ ہونے کے باوجود اقبال کے ہاں نغموں کا موضوع اور تاثر بہت کچھ الگ ہو گیا۔ اقبال نے اردو اور فارسی کی تمام شاعری کے طومار کو سامنے رکھ کر ’’ خذما صفا و دع ما کدر‘‘ سے کام لیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شروع میں اقبال کی شاعری کا رخ مغرب کے اثرات نے بدلا؟ اردو اور فارسی میں مناظر فطرت کی شاعری نہ ہونے کے برابر تھی، فارسی میں گلزار کوہسار کے متعلق جو کچھ ملتا ہے وہ محاکات نہیں بلکہ تخیل ہے، ایران اچھی آب و ہوا اور باغ و بہار کا ملک ہے لیکن انگریزی شاعری کے مقابلے میں اس موضوع پر اس کا سرمایہ شعر عشر عشیر بھی نہیں، وطن اور قوم کی محبت کی شاعری بھی مفقود ہے، اس لیے کہ نہ کسی شاعر میں حب وطن تھی اور نہ جذبہ ملت۔ قدیم عربی شعراء میں قبیلوی عصبیت شدت سے موجود تھی اس لیے وہ جائز یا ناجائز طور پر اپنے قبیلے کے جذبات کو ابھار کر افراد قبیلہ کی ہمت افزائی کر سکتے اور ان کو عمل و ایثار اور جانبازی پر آمادہ کر سکتے تھے۔ یہ جذبہ انگریزی شاعری میں ملتا ہے۔ فارسی شاعری کو گل و بلبل کی شاعری کہا جاتا ہے لیکن ایرانی شعراء نے گل و بلبل کو فقط اپنی جھوٹی عاشقی کے بیان میں تمثیل و استعارہ کے طور پر استعمال کیا۔ پھولوں کی رنگینی اور پرندوں کی خوش نوائی سے جو اثر طبیعت پر ہوتا ہے اس کا بیان کہیں ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ انگریزی شاعر حقیقت کو نمایاں کرنے کے لیے تخیل سے کام لیتا ہے، اس کے ہاں تخیل ایک پاور ہوا عنکبوت کا تانا بانا نہیں۔ اقبال کی ۱۹۰۵ء تک کی نظموں میں انگریزی شاعری کا اثر غالب ہے کئی نظمیں انگریزی نظموں کا آزاد اور دلکش ترجمہ ہیں، کئی نظمیں ایسی ہیں جو ترجمہ تو نہیں لیکن انداز تاثر و تفکر اور اسلوب بیان انگریزی ہے۔ ہمالیہ جیسا عظیم الشان سلسلہ کوہسار جس کے جلال و جمال کی مثال کرۂ ارض اور کہیں نہیں ملتی، کیا وجہ ہے کہ اقبال سے پہلے کسی شاعر نے اس سے متاثر ہو کر ایک شعر بھی نہ کہا؟ اسی طرح بادل کے مضمون کو لیجئے، اردو اور فارسی میں کوئی نظم ابر پر بحیثیت ابر نہیں ملتی، البتہ محرک شراب نوشی قرار دے کر بادلوں کے متعلق بہت سے اشعار ملتے ہیں :

بدلی آتی ہے بدل جاتی ہے نیت میری

کی فرشتوں کی راہ ابر نے بند

جو گنہ کیجئے ثواب ہے آج

مکڑے اور مکھی اور پہاڑ اور گلہری پر اردو اور فارسی روایات کا پابند شاعر، کاہے کو کوئی نظم لکھتا۔

مغربی شاعری کا سب سے اچھا اثر اقبال پر یہ ہوا کہ وہ مصنوعی اور بے حقیقت شاعری سے بچ گیا۔ کوئی اچھا انگریزی شاعر بغیر گہرے ذاتی تاثر کے محض صناعی اور اظہار کمال کے لیے نظم نہیں لکھتا۔ اقبال بھی ایسی فطرت کا شاعر ہے اس نے کئی مرتبہ احباب سے بیان کیا کہ میں دوسروں کے تقاضے سے شعر نہیں کہتا جب تک کوئی زبردست داخلی یا خارجی محرک میری طبیعت میں سے نغمہ یا نالہ پیدا نہ کرے۔ غالب کو بھی فطرت نے شاعر بنایا تھا لیکن وہ بہت کچھ غلط روایات شعری کا شکار ہو گیا، ایک خط میں کہتا ہے کہ شاعری قافیہ پیمائی نہیں بلکہ مضمون آفرینی ہے۔ ایک دوسری جگہ اپنے متعلق کہتا ہے کہ ’’ نگویم اگر نغز نباشد‘‘ لیکن اقبال کے ہاں شاعری نہ قافیہ پیمائی ہے اور نہ مضمون آفرینی اور نہ نغز گوئی ہے۔ اچھا شعر شاعر کی فطرت کے باطنی تقاضے سے پیدا ہوتا ہے، یہ تقاضا خود بخود قافیہ پیمائی بھی کرتا ہے اور مضمون آفرینی بھی اور جو شعر اس آمد سے نکلتا ہے وہ نغز بھی ہوتا ہے۔ مولانا روم اپنے متعلق فرماتے ہیں :

من نہ دانم فاعلات فاعلات

شعر مے گویم بہ از آب حیات

ایسی شاعری وہ شخص کر سکتا ہے جس کے اندر آب حیات کا چشمہ ہو اور جو ادھر ادھر کے نالوں یا پرنالوں سے اپنا تالاب نہ بھرتا ہو۔

۱۹۰۵ء تک کی شاعری کو اقبال اپنی سخن گوئی کا دور اول قرار دیا ہے۔ اس سن کو حد فاضل اس لیے بنایا کہ ۱۹۰۵ء میں اقبال یورپ چلے گئے یورپ میں ان کے مطالعے اور مشاہدے اور تفکر نے ان کی طبیعت کا رنگ بہت کچھ بدل گیا فرنگ کی دنیا ایشیا کی دنیا سے بے حد مختلف تھی، اس نئی دنیا نے اقبال کی طبیعت میں نئے تاثرات پیدا کیے جس کا تجزیہ ہم اس کے بعد کریں گے۔ ۱۹۰۵ء میں اقبال کی عمر قریباً تیس سال تھی اس عمر تک کسی ذہین و فطین انسان کے افکار و جذبات کے سانچے میں بہت کچھ بن چکتے ہیں اور اس عمر کے بعد شاذ و نادر ہی کسی شخص میں کوئی بنیادی تبدیلی ہوتی ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ اس عمر تک لگے ہوئے بعض پودے بعد میں مزید نشوونما سے نخل بلند و بالا بن جائیں اور ان میں کثرت سے برگ و بار اور شگوفہ و اثمار نکلیں، یا یہ کہ اس کی عمر تک بعض باتیں طبیعت کی زمین میں ابھی خاک پوش تخم کی طرح موجود ہوں اور آگے چل کر وہ کھلی فضا میں پھلیں اور پھولیں۔ اس سن تک اقبال کا کلام سو سے کچھ زائد صفحات پر بانگ درا میں ملتا ہے، اس میں ہر طرح کی نظمیں ہیں، ان نظموں میں ابھی شاعری جزو پیغمبری نہیں بنی، شاعر جس چیز سے متاثر ہوتا ہے اس پر شعر کہہ دیتا ہے لیکن ان نظموں میں بھی افکار کی وسعت، گہرائی اور تنوع موجود ہے اور وہ افکار اور تاثرات بھی جا بجا موجود ہیں جو آگے چل کر اقبال کا مخصوص پیغام اور اس کی امتیازی خصوصیت بن گئے ان نظموں میں بھی وہ اقبال ملتا ہے جو دل کی بصیرت اور وجدان کو حسی ادراک اور استدلالی عقل پر مرجح سمجھتا ہے۔ جا بجا خودی بھی ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے، طبیعت میں وہ اضطراب اور تپش بھی موجود ہے جو بڑھتے بڑھتے بعد میں کوہ آتش فشاں بن جائے گی ذوق انقلاب و ارتقاء بھی ناپید نہیں، وطن کی محبت شدت سے موجود ہے لیکن وہ عالم گیر انسانی ہمدردی اور ہمہ گیر اخوت کے راستے میں حارج نہیں، تصوف کے روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ اپنا مخصوص حیات پرور عرفان بھی جا بجا جھلکتا ہے، اقبال جو کچھ بعد میں بنا اس کی داغ بیل ان نظموں میں بھی موجود ہے۔

مثال کے طور پر لیجئے۔ عقل و دل کا تضاد یا تصادم اور ان کی باہمی موافقت یا مخالفت زندگی کی ادنیٰ سطحوں پر ہر وقت موجود رہتی ہے، ادنیٰ درجے کی ہوس یا اعلیٰ درجے کا عشق، یہ کشمکش کسی نہ کسی صورت میں ضرور پائی جاتی ہے، اس کی ادنیٰ صورت یہ ہے:

دل یہ کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف

عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا

اور اعلیٰ صورت پیکار یہ ہے کہ عقل تشکیک میں گرفتار رہتی ہے اور دل ایمان کا طالب ہوتا ہے، عقل نفع و ضرر اور تنگ و نام کے پیمانوں سے سوچتی اور احتیاط برتنے کی تلقین کرتی ہے اور عشق پروانے کی طرح شمع پر گرتا ہے۔ ا گر ہمیشہ عقل ہی کی رہبری تسلیم کریں تو ان میں مہم وری غائب ہو جانے برنارڈ شا نے اپنے مخصوص انداز بیان میں کیا خوب کہا ہے کہ انسانی زندگی میں بڑے بڑے انقلابات اور ترقیاں نامعقولوں کی بدولت ظہور میں آئی ہیں، انہوں نے جو کچھ کہنا یا کرنا چاہا، ہر محتاط عاقل نے انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کسی کی نہ سنی۔ عقل و عشق کا تضاد صوفیہ کا خاص مضمون ہے، مولانا روم کے ہاں سینکڑوں اشعار اس مضمون کے ملتے ہیں کہ:

عقل در شرحش چو خر در گل بخفت

شرح عشق و عاشقی ہم عشق گفت

اقبال نے اپنی پیغمبرانہ شاعری میں آگے چل کر اس کو اس طرح اپنایا اور گرمایا ہے کہ وہ تنوع بیان اور نکتہ آفرینی میں تمام صوفیہ اور عشاق کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ اقبال نے ابتدائی نظموں میں ایک مرتبہ تو ذرا جھجک کر اور کسی قدر احتیاط برت کر کہا ہے کہ:

اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

لیکن جو سادہ اور سلیس نظم عقل و دل کے عنوان سے لکھی ہے، اس میں عقل و دل کا مکالمہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس سے بہتر چند اشعار میں نہ عقل کی ماہیت کو کوئی پیش کر سکتا ہے اور نہ دل کی مخصوص حیثیت کو بعد میں اقبال نے سینکڑوں اشعار اس مضمون پر لکھے ہیں لیکن وہ سب انہی سادہ اشعار کی شرح ہیں :

عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا

بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں

ہوں زمین پر، گزر فلک پہ مرا

دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں

کام دنیا میں رہبری ہے مرا

مثل خضر خجستہ پا ہوں میں

ہوں مفسر کتاب ہستی کی

مظہر شان کبریا ہوں میں

بوند اک خون کی ہے تو لیکن

غیرت لعل بے بہا ہوں میں

دل نے سن کر کہا یہ سب سچ ہے

پر مجھے بھی تو دیکھ، کیا ہوں میں

راز ہستی کی تو سمجھتی ہے

اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں

ہے تجھے واسطہ مظاہر سے

اور باطن سے آشنا ہوں میں

علم تجھ سے، تو معرفت مجھ سے

تو خدا جو، خدا نما ہوں میں

علم کی انتہا ہے بے تابی

اس مرض کی مگر دوا ہوں میں

شمع تو محفل صداقت کی

حسن کی بزم کا دیا ہوں میں

تو زمان و مکاں سے رشتہ بپا

طائر سدرہ آشنا ہوں میں

کس بلندی پہ ہے مقام مرا

عرش رب جلیل کا ہوں میں

اقبال نے عقل اور عشق کے موازنے اور معاملے میں اردو اور فارسی میں سینکڑوں بلیغ اشعار کہے ہیں۔ یہ مضمون اس کی طبیعت میں بار بار ہزار رنگ میں ابھرتا ہے اور ہر بار اس میں نیا جوش اور طرز بیان میں جدت ہوتی ہے لیکن اس تمام عرفان وجدان اور تمام فلسفے میں اساسی طور پر کوئی ایک نکتہ نہیں جو اس چھوٹی سی نظم میں موجود نہ ہو، اقبال کی نظموں میں یہ نظم سادہ گوئی کا ایک شاہکار ہے۔ فارسی نظموں میں اقبال نے عقل و خرد کی بہت تذلیل و تحقیر کی ہے اور جیسا کہ ایک نقاد نے کہا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال عقل کے پیچھے لٹھ لیے پھرتا ہے کہ جب بھی موقع ملے ایک ضرب رسید کر دے لیکن اس اردو نظم میں بڑا اعتدال اور نہایت منصفانہ توازن ہے۔ عقل نے اپنی فضیلت اور کار گزاری میں جو کچھ کہا وہ سچ ہے، اس لیے دل نے اس کی تردید نہیں کی، دل نے صرف اس کے حدود و قیود کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اپنی غرض و غایت کے لحاظ سے تو حق بجانب ہے لیکن ہستی حقیقی یا وجود مطلق صرف اتنا ہی نہیں جتنا کہ تجھ کو ادراک ہوتا ہے۔ عقل کی رسائی میں کس کو شک ہے؟ وہ زمین کے جماد و نبات ہی نہیں بلکہ فلکیات کی بھی محاسب ہے، خدا چونکہ عاقل ہے اس لیے عقل کا یہ دعویٰ کہ میں مظہر شان کبریا ہوں بجا اور درست لیکن سمجھنے اور دیکھنے میں فرق ہے، عین الیقین کا درجہ علم الیقین سے بڑھا ہوا ہے، عقل کا کام علم الیقین تک پہنچانا ہے، اس کی رہبری یہاں پہنچ کر ختم ہو جاتی ہے:

عقل گو آستان سے دور نہیں

اس کی تقدیر میں حضور نہیں

حکمت، سائنس یا فلسفے کا کام مظاہر فطرت کا مطالعہ ہے تاکہ یہ کثرت، آئین کی وحدت میں پروئی جائے لیکن کنہ وجود تک اس کی رسائی نہیں، عقل کی بینائی مظاہر کی سطح تک خوب کام کرتی ہے۔ لیکن عین وجود میں غوطہ زنی اس کا کام نہیں۔ عقلی ادراک ہمیشہ بالواسطہ ہوتا ہے، استدلال کی کئی کڑیاں ایک نتیجے پر منتج ہوتی ہیں۔ اگر استدلال کے زینے میں سے کوئی ایک پایہ ٹوٹ جائے تو نتیجے تک پہنچنا محال ہو جائے۔ عقل میں شک اور گمان کا شائبہ ہمیشہ باقی رہتا ہے لیکن براہ راست مشاہدے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی:

راز ہستی کو تو سمجھتی ہے

اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں

عقل و دل کا یہ مکالمہ بو علی سینا اور ابو سعید ابو الخیر کی ملاقات میں بھی ملتا ہے۔ حضرت ابو سعید کے سوانحی حیات میں یہ لکھا ہے کہ حکیم بو علی سینا سے ان کی ملاقات ہوئی اور عالم روحانی کی بابت بو علی نے نہایت عمدہ استدلال سے اس عالم کی کیفیات کا اثبات کیا اور کہا کہ ازروئے حکمت انسان ان نتائج پر پہنچتا ہے۔ حضرت ابو سعید نے سب کچھ سن کر فقط یہ فرمایا کہ ’’ ہر چہ می دانی من می بینم‘‘ جو کچھ تو جانتا ہے میں اس کو چشم دل یا دیدۂ باطن سے دیکھتا ہوں۔ استدلال اور مشاہدے یا دانش و بینش کا فرق ہے۔ حقیقت رسی کے معاملے میں علم کا تذبذب کبھی ختم نہیں ہوتا۔ عقل اپنے نتائج حسی ادراک کے مواد سے اخذ کرتی ہے اور تمام حسی مظاہر زمان و مکان کے سانچوں میں ڈھل کر عقل کے لیے قابل ادراک ہوتے ہیں، اس لیے جو حقیقت نہ زمانی ہے نہ مکانی، وہ عقل کی گرفت سے لازماً باہر رہے گی۔ صوفیہ کشف و وجدان سے اس حقیقت پر پہنچے کہ دل کے مشاہدات اور احوال زمانی اور مکانی نہیں ہوتے اور یورپ کا سب سے بڑا فلسفی کانٹ بڑے طویل اور دقیق استدلال سے اس نتیجے پر پہنچا کہ زمان و مکان کوئی مستقل اور لا محدود حقائق وجود نہیں بلکہ عقل و ادراک کے سانچے میں خدا اور روح کی حقیقت ان سے ماوریٰ ہے عقل کا وظیفہ مطالعہ مظاہر اور علت و معلول کے روابط تلاش کرنا ہے، ہستی کی حقیقت تک اس کی رسائی نا ممکن ہے، عقل بے کار چیز نہیں لیکن جب وہ اپنی حد سے باہر قدم رکھنا چاہتی ہے تو سوخت ہو جاتی ہے:

اگر یک سر موے بر تر پرم

فروغ تجلی بسوز د پرم

اسی دور کی نظموں میں ایک نظم دل کے عنوان سے دل کی ردیف میں لکھی ہے، اس نظم میں بھی خودی اور عشق کے مضامین دلکش انداز میں بیان کیے ہیں، دل کی لامتناہی صلاحیتوں کا ذکر ہے:

قصہ دار و رسن بازی طفلانہ دل

التجائے ارنی سرخی افسانہ دل

یا رب اس ساغر لبریز کی مے کیا ہو گی

جادۂ ملک بقا ہے خط پیمانہ دل

ابر رحمت تھا کہ تھی عشق کی بجلی یا رب

جل گئی مزرع ہستی تو اگا دانہ دل

حسن کا گنج گرانمایہ تجھے مل جاتا

تو نے فرہاد نہ کھودا کبھی ویرانہ دل

مقطع میں کہتے ہیں :

عشق کے دام میں پھنس کر یہ رہا ہوتا ہے

برق گرتی ہے تو یہ نخل ہرا ہوتا ہے

اقبال کی شاعری آخری میں دل کی حقیقت کی شاعری بن گئی اسی دل کی حقیقت شناسی نے عشق کا راگ الاپا، اسی نے خودی کے تحقق اور استحکام کو شد و مد کے ساتھ پیش کیا، اسی دل نے عقل پر تنقید کی، اسی نے مقصود حیات متعین کیا، اسی نے اپنے اندر سے خدا کی طرف جانے کا دروازہ کھولا، اسی نے انسان کی موجودہ بے بسی پر آنسو بہائے، اسی نے انسان کو محدود سے لامحدود ہونے کے طریقے سمجھائے۔ اقبال کے نزدیک دل ہی ہے جو لامتناہی قوتوں کا سر چشمہ اور لا محدود بصیرت کا آئینہ ہے جس نے اس کی حقیقت نہیں پہچانی وہ محض جسم ہے، مادہ ہے، غلام عقل و حواس ہے اور بندۂ حرص و ہوا ہے۔

شیخ عبدالقادر مرحوم نے جو ایک بلند پایہ نقاد سخن اور ادب نواز و ادیب پرور ہونے کے علاوہ علامہ اقبال کے عمر بھر کے مخلص دوست بھی تھے، بانگ درا پہ دیبا چہ لکھا، اس دیباچے کی ابتداء میں وہ غالب اور اقبال کی مماثلت پر رقمطراز ہیں :

’’ کسے خبر تھی کہ غالب مرحوم کے بعد ہندوستان میں پھر کوئی ایسا شخص پیدا ہو گا جو اردو شاعری کے جسم میں ایک نئی روح پھونک دے گا اور جس کی بدولت غالب کا بے نظیر تخیل اور نرالا انداز بیان پھر وجود میں آئیں گے اور ادب اردو کے فروغ کا باعث ہوں گے مگر زبان اردو کی خوش اقبالی دیکھئے کہ اس زمانے میں اقبال سا شاعر اسے نصیب ہوا جس کے کلام کا سکہ ہندوستان بھر کی اردو داں دنیا کے دلوں پر بیٹھا ہے اور جس کی شہرت روم و ایران بلکہ فرنگستان تک پہنچ گئی ہے۔

غالب اور اقبال میں بہت سی باتیں مشترک ہیں اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو ضرور کہتا کہ مرزا اسد اللہ خاں غالب کو اردو اور فارسی کی شاعری سے جو عشق تھا اس نے ان کی روح کو عدم میں جا کر بھی چین نہ لینے دیا اور مجبور کیا کہ وہ پھر کسی جسد خاکی میں جلوہ افروز ہو کر شاعری کے چمن کی آبیاری کرے اور اس نے پنجاب کے ایک گوشے میں جسے سیالکوٹ کہتے ہیں، دوبارہ جنم لینا اور محمد اقبال نام پایا۔ ‘‘

ایک مختصر دیباچے میں اس خیال کے ثبوت میں شیخ صاحب دونوں کے کلام کے نمونے پیش نہ کر سکتے تھے جن سے یہ مماثلت واضح ہو جاتی۔ اس کتاب میں بھی زیادہ تفصیلی موازنے اور مقابلے کی گنجائش نہیں لیکن شیخ صاحب کے خیال کی وضاحت کے لیے کچھ نہ کچھ لکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اگر کوئی شاعر کسی دوسرے شاعر کا صمیم قلب سے جوش و خروش کے ساتھ مداح ہو تو از روئے نفسیات یہ لازم آتا ہے کہ مادح اور ممدوح میں کوئی گہری مشابہت ضروری ہے۔ ہر انسان اپنے ممدوح کی غیر شعوری طور پر تقلید بھی کرتا ہے اور انداز نگاہ طرز کلام میں خود بخود کم و بیش مماثلت پیدا ہو جاتی ہے۔ اقبال کے ابتدائی کلام میں مرزا غالب پر ایک مستقل نظم ملتی ہے جس کا پہلا بند ہے:

فکر انسان پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا

ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تا کجا

تھا سراپا روح تو، بزم سخن پیکر ترا

زیب محفل بھی رہا، محفل سے پنہاں بھی رہا

دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے

بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے

ایک بند میں غالب کو جرمنی کے یگانہ روزگار مفکر و شاعر گوئٹے کا ہم نوا قرار دیا ہے۔ ایک عرصے بعد پیام مشرق کے تمہیدی اشعار میں خود اپنا اور گوئٹے کا مقابلہ کیا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ میں بھی تمہاری طرح کا مفکر اور صاحب بصیرت و وجدان شاعر ہوں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ:

من دمیدم از زمین مردۂ

میں ایک مردہ قوم میں پیدا ہوا جو فقدان حیات کی وجہ سے میری قدر شناس نہیں اور تو نے ایک زندہ قوم میں جنم لیا۔ اگر غالب اور اقبال دونوں گوئٹے کے مماثل اور اس کے ہم نوا ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ دونوں بھی باہم ہم رنگ و ہم آہنگ ہوں گے۔ اقبال کی مماثلت غالب سے کس چیز میں ہے، وہ اسی نظم کے ایک بند سے واضح ہو جاتی ہے:

لطف گویائی میں تیری ہم سری ممکن نہیں

ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں

ہائے! اب کیا ہو گئی ہندوستاں کی سر زمیں

آہ! اے نظارہ آموز نگاہ نکتہ بیں

گیسوے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے

شمع یہ سودائی دلسوزی پروانہ ہے

اچھی شاعری کے لیے خالی پرواز تخیل کافی نہیں، اس کے ساتھ فکر حقیقت رس بھی ہونا چاہیے۔ یہ دونوں چیزیں غالب میں ہم آغوش پائی جاتی ہیں اور نہی دو صفات کی دل کش آمیزش نے اقبال کے کلام میں دل رسی پیدا کی ہے۔ انسانی روح کو گرمانے والی ایک تیسری چیز بھی ہے جس کے لیے کبھی درد دل اور کبھی سوز قلب اور کبھی عشق کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور یہ کیفیت ترقی کر کے جنون کی ہم رنگ ہو جاتی ہے۔ غالب کے ہاں یہ چیز بہت نمایاں نہیں لیکن اس کے جن اشعار میں یہ ملتی ہے وہ فکر و تخیل کے ساتھ مل کر روح انسانی میں کبھی ہیجان و بے تابی اور کبھی سوز و گداز پیدا کرتے ہیں، عشق حقیقی میں سرمست صوفیہ کے ہاں اس کا بہت غلبہ ہوتا ہے۔ مولانا روم کے دیوان موسوم بہ دیوان شمس تبریز مین جو وجد و حال سے لبریز غزلیں ہیں وہ صاحب حال صوفی ہی کے قلب سے نکل سکتی ہیں۔ اس بارے میں غالب کے ہاں جو کمی ہے وہ اقبال کے کلام میں بہت کچھ پوری ہو جاتی ہے اور بہت سی غزلوں اور قطعات مینوہ سنائی و عطار و رومی کی صف میں دوش بدوش کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ جہاں تک عشق مجازی کا تعلق ہے ان صوفیائے کبار نے یا تو اس میں قدم ہی نہیں رکھا یا بقول عارف رومی کر دے و گذشتے کے اصول کے مطابق جلد مجاز سے حقیقت کی طرف عبور کر گئے ہیں۔ المجاز قنطرۃ الحقیقتہ غالب کے ہاں آخر تک مجاز و حقیقت کی آمیزش چلی گئی ہے اور جہاں تک عشق حقیقی کا تعلق ہے وہ صوفی نہیں بلکہ متصوف ہے جو بر بنائے تفکر تصوف کا دلدادہ اور بحیثیت نظریہ حیات وحدت وجود کا قائل ہے۔ اقبال کے شباب میں رندی اور عشق مجازی کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں لیکن اس نے کبھی ہوس محبت کو اپنے نفس پر مسلط نہیں ہونے دیا، خود ہی اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ دل بکسے نہ باختہ اقبال نے شروع سے آخر تک عشق کے جوگن گائے ہیں اس کی مثال شاید دنیا کے کسی ادب میں نہ ملے لیکن یہ عشق حیات و کائنات کی ایک اساسی اور نفسیاتی کیفیت ہے، یہ حیات علی الاطلاق کا عشق ہے جو افراد و اشیاء سب پر پھیلا ہوا ہے، لیکن کوئی ایک فرد اس کا مرکز یا مطمح نظر نہیں۔ اس کا عشق فرد سے گزر کر ملت کا عشق بن جاتا ہے، اس کے بعد وہ تمام نوع انسان پر بلا امتیاز مذہب و ملت پھیل جاتا ہے۔ آخر میں تمام حیات و کائنات اس میں غرق ہو جاتی ہے، مجاز سے حقیقت کی طرف ترقی نفوس عالیہ میں اسی انداز کی ہوتی ہے۔ عشق کی اس حالت میں کائنات کی ہر چیز زندہ اور حسن و عشق سے مرتعش معلوم ہوتی ہے، احترام حیات، احترام کائنات بن جاتا ہے۔ میر درد کا یہ شعر اسی لطیف احساس کو بیان کرتا ہے:

آہستہ سے چل میان کوہسار

ہر سنگ دکان شیشہ گر ہے

آتے ہیں مری نظر میں سب خوب

جو عیب ہے پردۂ ہنر ہے

غالب کے ہاں بھی بعض اشعار ملتے ہیں جن میں کائنات کے تمام ذرے نفوس اور عشاق کے قلوب دکھائی دیتے ہیں :

ذرہ ذرہ ساغر میخانہ نیرنگ ہے

دیدۂ مجنوں بہ چشمکہائے لیلیٰ آشنا

از مہر تا بہ ذرہ، دل و دل ہے آئنہ

طوطی کوشش جہت میں مقابل ہے آئنہ

اے تو کہ ہیچ ذرہ را جز بہ رہ تو روئے نیست

در طلبت تواں گرفت بادیہ را بہ رہبری

اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ شاعری کے بعض پہلوؤں میں غالب اور اقبال میں مماثلت پائی جاتی ہے، لیکن اقبال کے کلام میں اور بھی بہت کچھ ہے جو غالب میں نہیں مل سکتا اور اگر کہیں ملتا ہے تو وہ تفکر اور تاثر کی ہلکی سی لہر ہوتی ہے جو تلاطم خیز نہیں ہو سکتی، یا تخیل کی پرواز ہوتی ہے جو شاخ سدرہ تک نہیں پہنچتی۔ اقبال داغ کی تقلید سے تو بہت جلد گزر گیا لیکن غالب کا اثر زیادہ دیر پا تھا۔ افسوس ہے کہ اقبال کا وہ کلام جس میں غالب کا انداز تخیل تھا بانگ درا میں شامل نہیں کیا گیا، جس طرح کہ غالب نے وہ اشعار اردو دیوان میں شامل نہیں کیے تھے جن میں بیدل کے پیچ در پیچ تخیلات کی بھول بھلیاں تھیں۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں انہوں نے جو نظمیں پڑھیں ان میں جا بجا غالب کا انداز تخیل اور اسلوب بیان پایا جاتا ہے۔ الفاظ، بندشیں، ترکیبیں، اضافتیں غالب سے بہت کچھ مماثل معلوم ہوتی ہیں :

نہیں منت کش تاب شنیدن داستان میری

خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زبان میری

یا نالہ یتیم کا یہ بند جو ۱۸۹۹ء میں انجمن کے جلسے میں پڑھی گئی:

آمد بوئے نسیم گلشن رشک رام

ہو نہ مرہون سماعت جس کی آواز قدم

لت رقص شعاع آفتاب صبح دم

یا صدائے نغمہ مرغ سحر کا زیر و بم

رنگ کچھ شہر خموشاں میں جما سکتے نہیں

خفتگان کنج مرقد کو جگا سکتے نہیں

حضرت اقبال آخر تک غالب کے مداح رہے اور وہ اس لیے کہ وہ بھی اقبال کی طرح ایک مفکر شاعر تھا، روایتی اور تقلیدی شاعری کے پیچ میں وہ عرفی کی طرح یا فیضی کی طرح بلند حکیمانہ باتیں کہہ جاتا، اقبال جیسے کائناتی عشق کی تڑپ اس میں بھی کہیں کہیں ملتی ہے، اگرچہ وہ آخر تک سفلی اور علوی جذبات کی کشمکش میں مبتلا رہا اور اپنی آرزوؤں میں کوئی ہم آہنگی پیدا نہ کر سکا، اس کی آخر تک یہی کیفیت رہی:

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر

کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

سراپا رہن عشق و ناگزیر الفت ہستی

عبارت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا

اقبال کے لیے بھی حیات، عشق و شوق و آرزو ہے لیکن وہ بہت جلد اسفل سے اعلیٰ کی طرف صعود کر گیا اور وحدت نظریہ حیات کی آرزوؤں کی کثرت میں بھی وحدت پیدا کر دی۔ اضطراب تمنا کے باوجود اس کو اطمینان حاصل ہو گیا کہ اس قدم جادۂ حقیقت پر ہے۔ غالب کے ہاں بھی آرزو کی نفسیات اور اس کا گہرا فلسفہ جا بجا ملتا ہے۔ ایک شعر جو اس کے منتخب دیوان میں درج نہیں لیکن بھوپال والے نسخے میں موجود ہے، ایسا کہا گیا ہے کہ اقبال بھی اس پر وجد کرنے لگے۔ اقبال نے اپنا یہ خیال کئی اشعار میں بیان کیا ہے کہ عالم آرزوئے حیات ہی کی پیداوار اور تمنائے وجود کا مظہر ہے۔ یہ نبات و جماد و نجوم کا جہان کا مخلوقات نہیں اور نہ ہی آخر تک کا کوئی ایک معین عالم ہے۔ خلاق فطرت کے ضمیر میں لامتناہی عالم مضمر ہیں اور انسان کی خودی بھی اسی لامتناہی تمنائے حیات سے بہرہ اندوز ہو کر کئی اور عوالم پیدا کر سکتی اور کئی دیگر عوالم میں قدم رکھ سکتی ہے، جس کا کوئی وہم و گمان انسان کو موجودہ حالت میں نہیں ہو سکتا۔ دیکھیے اسی خیال کو غالب نے کس بلیغ انداز میں پیش کیا ہی:

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

غالب کی اسی انداز کی شاعری تھی جس سے اقبال متاثر ہوا، لیکن غالب میں اسی انداز کا جو تفکر و تخیل ہے وہ اقبال میں نہایت درجہ ارتقا یافتہ صورت میں ملتا ہے۔ پھولوں کے رنگ و بو میں مماثلت ہے لیکن غالب کے ہاں کے گلدستے اقبال کے کلام میں سدا بہار گلزار بن گئے ہیں۔

اقبال کی شاعری میں ابتدائی دور میں جو محرکات و اثرات نظر آتے ہیں وہ گوناگوں ہیں، جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے مغربی انداز فکر نے اچھے نتائج پیدا کیے ہیں، کئی نظمیں انگریزی شعراء کے ترجمے میں لیکن ترجمے ایسے ہیں کہ ترجمے معلوم نہیں ہوتے۔ کسی زبان کی نظم نفسیات میں غوطہ لگا سکے، اس کے خم میں اپنا ساغر ڈبونے اور پھر اس کو اپنے کوثر میں ڈال کر نکالے:

راہے ز کنج دیر بہ مینو کشودہ ام

از خم کشم پیالہ و در کوثر افگنم

انگریزی زبان میں شیلے جیسے شاعر نے بھی گوئٹے کی بعض نظموں کے ترجمے کیے ہیں اور لانگ فیلو کے کلیات میں بھی گوئٹے کے علاوہ دوسری زبانوں کے شعراء کے بعض شاہکاروں کے ترجمے ملتے ہیں، اور یہ سب ترجمے ایسے ہیں جو شاعری میں ایک مستقل حیثیت بھی رکھتے ہیں، ان میں دو اعلیٰ درجے کے شاعروں کی طبیعتوں کے دو ساز ہم آہنگ ہو کر بجتے ہیں جس سے نغمے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ فٹنر جیرالڈ کا عمر خیام کی رباعیوں کا ترجمہ انگریزی شاعری میں ادب عالیہ میں داخل ہو گیا ہے۔ اقبال کے ہاں ترجمے زیادہ نہیں ملتے لیکن جتنے بھی ہیں نہایت رواں  اور سلیس ہیں، جہاں صرف فکر کے سانچے لیے ہیں ان کو بھی بڑی خوبی سے اپنایا ہے۔ داغ کے مرثیے کا آغاز بعنیہ و یسا ہے جیسا کہ میتھیو آرنلڈ کے ورڈز ورتھ کے مرثیے کا ہے، جہاں وہ دو تین اور تازہ مرحوم شاعروں کی نوحہ گری کے بعد کہتا ہے کہ آج ہم ورڈز ورتھ کی قبر پر کھڑے ہیں :

عظمت غالب ہے اک مدت سے پیوند زمیں

مہدی مجروح ہے شہر خموشاں کا مکیں

توڑ ڈالی موت نے غربت میں مینائے امیر

چشم محفل میں ہے اب تک کیف صہبائے امیر

آج لیکن ہم نوا سارا چمن ماتم میں ہے

شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے

اسی طرح گرے کی مشہور ایلیجی نظم کا ایک بند ہے جس میں زندگی کی گہما گہمی اور ہنگامہ و شورش کو بیان کر کے کہتا ہے کہ شہر خموشاں کے سونے والوں کو اب کسی قسم کا ہنگامہ خواب سے بیدار نہیں کر سکتا۔ اقبال نے اس کو اس طرح ڈھالا ہے:

شورش بزم طرب کیا عود کی تقریر کیا

درد مندان جہاں کا نالہ شب گیر کیا

خون کو گرمانے والا نعرۂ تکبیر کیا

اب کوئی آواز سوتوں کو جگا سکتی نہیں

سینہ ویراں میں جان رفتہ آ سکتی نہیں

مغربی شاعری کے اثر کے علاوہ بہت کچھ روایتی تصوف اور وحدت وجود بھی موجود ہے۔

شمع کے عنوان سے ایک متصوفانہ اور فلسفیانہ نظم لکھی ہے:

یک بین تری نظر صفت عاشقان راز

میری نگاہ مایہ آشوب امتیاز

کعبے میں، بتکدے میں ہے یکساں تری ضیا

میں امتیاز دیر و حرم میں پھنسا ہوا

ہاں آشنائے لب نہ ہو راز کہن کہیں

پھر چھڑ نہ جائے قصہ دار و رسن کہیں

جگنو والی نظم اردو شاعری کا ایک شاہکار ہے، اس کے پہلے بند میں جگنو کے متعلق نادر تشبیہات ملتی ہیں۔ یہ اپنے اندر سے روشنی پیدا کرنے والا چھوٹا سا کرمک شب تاب آخر تک اقبال کے لیے روح انسانی کی نور طلبی اور نور آفرینی کی تمثیل اور علامت بنا رہا۔ فارسی میں بھی جگنو پر اقبال نے بڑے دلکش اشعار لکھے ہیں۔ اردو کی یہی نظم دوسرے بند میں وحدت و کثرت کا مضمون بن گئی ہے اور تیسرے بند میں فطرت کی بو قلمونی میں وحدت وجود نمایاں ہو گئی ہے:

جسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے

انساں میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے

یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا

واں چاندنی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے

انداز گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ

نغمہ ہے بوئے بلبل بو پھول کی چہک ہے

کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی

جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے

یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو؟

ہر شے میں جبکہ پنہاں خاموشی ازل ہو

۱۹۰۵ء سے پہلے کا اقبال آٹھ دس برس کے قلیل عرصے میں تمام اردو داں ہندوستان میں مقبول خاص و عام ہو گیا۔ اس سریع السیر شہرت کے کئی اسباب تھے، ایک یہ کہ غالب کے بعد سے اردو زبان نے کوئی مفکر شاعر پیدا نہ کیا تھا جس میں ہوس کی غزل سرائی اور محض قافیہ بندی اور دور از حقیقت مضمون آفرینی اور ادنیٰ درجے کے فن برائے فن سے پوری طرح رو گردانی کر کے ایک شاعر قلب انسانی کی آواز اور فطرت کے دل کی دھڑکن بن گیا ہو اور جس کی طبیعت میں وطن و ملت اور انسانی زندگی کے حقیقی اور ابدی مسائل پر سوز اظہار کے لیے بیتاب ہوں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان کے تعلیم یافتہ طبقے میں بیداری، غلامی سے بیزاری اور آزادی کی طلب انگڑائیاں لینے لگی تھی، یہ طلب انگریزی تعلیم اور مغربی تہذیب سے تصادم کا نتیجہ تھی، نئے تعلیم یافتہ گروہ نے دیکھا کہ انگریزوں نے اور مغرب کی دیگر اقوام نے حب الوطنی اور وطن پرستی کے جذبے سے ترقی کی ہے، کیا وجہ ہے کہ یہ قومیں آزاد ہیں اور ہم غلام ہیں ؟ آؤ ہم بھی وہی جذبہ پیدا کریں اور ان کی طرح آزاد اور ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑے ہو جائیں، لیکن اس مسئلے کا حل اتنا آسان نہیں تھا، ہندوستان ایک وسیع ملک بلکہ ایک بر کبیر تھا جس میں مختلف مذاہب رکھنے والے اور مختلف طریق معاشرت پر زندگی بسر کرنے والے ایک دوسرے سے متغائر گروہ اور ملتیں موجود تھیں، انگلستان کی طرح یہاں ایک قوم ایک مذہب اور ایک زبان سے مربوط و منسلک ملت ناپید تھی اور مغرب کے انداز کا وطن کا تصور اور اس کے ساتھ وابستہ جذبہ یہاں تاریخ کے کسی دور میں بھی موجود نہ تھا، مغربی اقوام نے اپنے لیے جو حل تلاش کیا تھا وہ یہاں قابل اطلاق نہ تھا، یہاں صرف ہندو اور مسلمان ہی دو مختلف العقائد اور مختلف المعاشرت گروہ نہ تھے، ہندوؤں میں سینکڑوں مذہبی فرقے موجود تھے اور کوئی عقیدہ بھی ایسا نہ تھا جو ان سب میں مشترک ہو۔ تمام ہندوستان کا بحیثیت وطن کوئی ایک نام بھی نہ تھا، یہاں تک کہ ہندو مذہب کا بھی کوئی نام نہ تھا۔ ہندوستان اور ہندو کے الفاظ باہر سے آنے والے مسلمانوں کے وضع کردہ ہیں، دریائے سندھ کو ہند کہہ کر یہ اصطلاحیں وضع ہوئی تھیں، مسلمانوں میں دینی اور لسانی وحدت بہت زیادہ موجود تھی اور اس لحاظ سے تمام ملک کے مسلمان ایک قوم یا ملت کہلا سکتے تھے لیکن مذہبی تنگ نظری نے یہاں بھی فرقے بنا رکھے تھے جو ملت کے اندر کوئی پائدار وحدت پیدا کرنے میں مانع تھے۔ اس قسم کا انتشار غیر ملکی ملوکیت کو بہت راس آتا ہے، ملوکیت ہمیشہ اقوام کے تفرقے سے فائدہ اٹھا کر غلامی کا جو ان کی گردن پر رکھتی رہی ہے۔ انگریزوں کو اس ملک میں تفرقہ اندازی کی ضرورت نہ تھی کیوں کہ یہاں ہزاروں برس سے انسانی گروہوں کے درمیان ناقابل عبور خلیجیں حائل تھیں، ایسی حالت میں غیر ملکی حکومت اور استحصال کرنے والی ملوکیت سے نجات ہو تو کس طرح ہو۔ آزادی طلب نوجوانوں کی سمجھ میں پہلے یہی بات آئی کہ ہم بھی انگریزوں کی طرح ایک قوم بن جائیں اور تمام ملک کو اپنا وطن قرار دے کر اس کے متعلق جذبہ وطنیت کو ابھاریں، مذہبی اختلافات کو غیر اصلی قرار دیا جائے اور وطن کی عظمت کے گیت گائے جائیں تاکہ غیر ملکی حکومت نے جو احساس کمتری پیدا کر دیا ہے اس کے خلاف ایک زبردست رد عمل ہو، پرانے دیوتاؤں کی پوجا کو باطل قرار دے کر وطن کے بڑے بت کی پوجا کی جائے۔ اسی حال اور اسی جذبے کے ماتحت نوجوان اقبال کا حساس قلب وطن کے ترانے گانے لگا۔ چونکہ ہندو قوم کا وطن اور اس کا مذہب گوناگونی کے باوجود باہم وابستہ ہیں، اس لیے وطن پرستی کی تحریک ہندوؤں میں مسلمانوں سے قبل پیدا ہوئی، لیکن ہندو قوم کوئی ایسا شاعر پیدا نہ کر سکی جو اس کے اس جذبے کو ابھار سکے اور اس کے قلوب کو گرما سکے۔ ہندو قوم کے پاس وطنیت کا کوئی ترانہ موجود نہیں تھا۔ اقبال نے جب اپنے شاعرانہ کمال کو وطنیت کی خدمت کے لیے وقف کیا تو مسلمانوں کے علاوہ، بلکہ ان سے زیادہ ہندو اس سے متاثر ہوئے:

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

ملک کے طول و عرض میں گونجنے لگا، بعض ہندو مدارس میں مدرسہ شروع ہونے سے قبل تمام طالب علم اس کو ایک کورس میں گاتے تھے۔ ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے وقت آزاد ہندوستان کی تاسیس میں نصف شب کے بعد آزادی کی شراب سے سرشار ہندوؤں نے جن گن کے ساتھ ساتھ یہی ترانہ گایا اور یہ بات بھول گئے کہ یہ ترانہ پاکستان کے نظریاتی بانی کا لکھا ہوا ہے۔ گاندھی جی کی راکھ جب گنگا جی میں ڈالی جا رہی تھی تو دیوان چمن لعل اردو میں ریڈیو پر ’’رواں بیاں ‘‘ کر رہے تھے اور یہ شعر نشر کر رہے تھے:

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

یہ ایک جملہ معترضہ تھا، یہاں فقط یہ بیان کرنا مقصود تھا کہ ہندوستان میں وطنیت کے جذبے کو جس شاعر نے پہلے گرمایا وہ اقبال باکمال تھے۔ ہندوستان اگر ایک وطن اور ایک قوم بن سکتا تو اقبال کا وطنیت کا کلام اس کے لیے الہامی صحیفہ ہوتا۔ لیکن ملک کے حالات ایسے تھے کہ یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔

یورپ سے واپس ہونے کے بعد اقبال اس نتیجے پر پہنچا کہ ہندوستان ایک مختلف الملل بر اعظم ہے، اس کے مسائل کا حل مغربی انداز کی جمہوریت نہیں بلکہ ایک نظام سیاست ہے جس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو اپنے اپنے زاویہ نگاہ کے مطابق زندگی بسر کرنے کا موقع حاصل ہو اور ملک کے جس حصے میں جس قوم کی اکثریت ہے اس کو وہاں کامل دینی اور معاشرتی آزادی حاصل ہو۔ کوئی ملت دوسری ملت پر ناجائز غلبہ حاصل نہ کر سکے اور عادلانہ طور پر فیڈریشن کا انتظام ہو سکے۔ پاکستان کا مطالبہ اقبال نے سب سے پہلے اسی انداز میں پیش کیا۔ اس سیاسی ادھیڑ بن سے بہت پہلے ہی اسلام اور مسلمانوں سے متعلق اقبال کے خیالات میں ایک تغیر عظیم واقع ہوا تھا، اقبال نے مغرب میں جغرافیائی، نسلی اور لسانی قومیت کے تاریک پہلو کا بھی بغور مطالعہ کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ مغربی انداز کی نیشنلزم انسانیت کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان مصنوعی ملتوں کو ایک دوسرے کی جانی دشمن بنا رہی ہے، یہ تنازع للبقا کی بھیانک صورت ہے، علوم و فنون اور جذبہ وطنیت نے ان قوموں میں جو قوتیں پیدا کر دی  ہیں، ان کا انجام یہی ہو گا کہ کمزور قوموں کو لوٹنے اور مغلوب کرنے میں ان کی سعی مسابقت سب کو ایک عالم گیر جنگ میں جھونک دے۔ جنگ عظیم سے کوئی پچاس سال قبل انگلستان کے ایک دیدہ ور اور عارف ادیب نے پیش گوئی کی تھی کہ اگر انگلستان اسی روش پر گامزن رہا تو کوئی نصف صدی کے عرصے میں اسے جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد میں نے ایک روز علامہ اقبال سے کار لائل کی اس پیش گوئی اور اس کے پورا ہونے کا ذکر کیا تو فرمایا کہ کار لائل بڑی گہری روحانی بصیرت کا شخص تھا، اپنی قوم کی معاشرت اور سیاست کے رخ کو دیکھ کر اس کا یہ پیش گوئی کرنا کوئی تعجب خیز بات نہیں۔

اقبال اس نتیجے پر پہنچے کہ جغرافیائی، نسلی، لسانی معاشیاتی وحدت مصنوعی چیز ہے، اصلی وحدت فکری اور نظریاتی وحدت ہے، اس لحاظ سے تمام دنیا کے مسلمان ایک وحدت ہیں۔ وطن کی محبت ایک فطری اور لازمی چیز ہے، چنانچہ وطنیت کے خلاف جہاد کرنے کے بعد بھی یہ جذبہ ان میں موجود تھا لیکن حب وطن، وطن پرستی سے الگ چیز ہے، اس وطن پرستی سے لوگوں نے وطن کو معبود بنا لیا ہے اور اس جھوٹے معبود کے مذبح پر انسانوں کو بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا یہ خیال کہ آخری دور میں وطن کی محبت اقبال کے دل سے نکل گئی تھی بالکل باطل ہے۔ ہندوستان اور اس کے رہنے والوں سے اس کا رشتہ قلبی آخر تک نہیں ٹوٹا، اقبال ہندوستان کی زبوں حالی اور غلامی پر آخر تک آنسو بہاتا رہا اور اس ملک کے ساتھ غداری کرنے والوں کا عالم عقبیٰ میں کیا حشر ہوا، اس کا نقشہ اقبال نے جاوید نامہ میں کس قدر بھیانک کھینچا ہے:

’’ ارواح رذیلہ کہ با ملک و ملت غداری کردہ و دوزخ ایشاں را قبول نکردہ‘‘ ان ارواح خبیثہ کو ایسے سیارے میں پھینکا ہے جس کی عقوبت کا یہ حال ہے کہ:

صد ہزار افرشتہ تندر بدست

قہر حق را قاسم از روز الست

درہ پیہم می زند سیارہ را

از مدارش بر کند سیارہ را

منزل ارواح بے یوم النشور

دوزخ از احراق شاں آمد نفور

جعفر از بنگال و صادق از دکن

تنگ آدم تنگ دیں تنگ وطن

اور دیکھئے ہندوستان کی عرفانی عظمت کس قدر اقبال کے دل میں جا گزیں ہے، فرماتے ہیں :

می ندانی خطہ ہندوستان

آں عزیز خاطر صاحبدلاں

خط ہر جلوہ اش گیتی فروز

درمیان خاک و خوں غلطد ہنوز

اقبال کشمیری الاصل تھے، ان کے اجداد کشمیر سے ترک وطن کر کے پنجاب میں سیالکوٹ کے شہر میں آباد ہو گئے تھے لیکن عرصہ دراز گزرنے کے بعد بھی کشمیر سے ان کی والہانہ محبت کبھی کبھی ان سے نہایت جذباتی اشعار نکلواتی تھی۔ وہ ابھی تک اپنے کالبد خاکی کو کشمیر ہی کی گلزار آفریں خاک کا پتلا سمجھتے تھے:

تم کلے ز خیابان جنت کشمیر

دل از حریم حجاز و نوا ز شیراز است

زندگی کے تمام ادوار میں کشمیر اور اہل کشمیر سے اقبال کی محبت، اور ان کی غلامی اور کس مپرسی پر اقبال کی جگر کاہی مسلسل قائم رہی۔ ارمغان حجاز میں ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض اقبال کا اپنا بیاض قلب ہے، اس میں کشمیر کے متعلق اقبال کا جذبہ اور اضطراب اس کے فلسفہ حیات کی آمیزش سے نہایت درد و گداز کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔ اگرچہ اقبال جاہلانہ اور متعصبانہ وطن پرستی کے خلاف آواز بلند کرتا ہوا کہتا ہے کہ:

پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تیرا

تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعان تیرا

لیکن وہ اپنے قلب کی گہرائیوں میں اپنے آپ کو کشمیر ہی کے کنعان کا گم گشتہ یوسف سمجھتا تھا:

پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب

مرغان سحر تیری فضاؤں میں ہیں بیتاب

اے وادی لولاب

اقبال کو اس جنت میں چشموں اور مرغان سحر کی نواؤں میں بھی تڑپ محسوس ہوتی ہے، لیکن اس خطے کے جلوہ گران منبر و محراب کے قلوب میں اس کو کوئی ہنگامہ نظر نہیں آتا۔ یہاں کے ملا و صوفی کے لیے دین فقط افیون بن کر رہ گیا ہے:

گر صاحب ہنگامہ نہ ہو منبر و محراب

دیں بندۂ مومن کے لیے مومن ہے یا خواب

اے وادی لولاب

ملا کی نظر نور فراست سے ہے خالی

بے سوز ہے میخانہ صوفی کی مے ناب

اے وادی لولاب

اس کے دل میں یہ تمنا شعلہ فگن ہے کہ یہ خطہ کوئی درویش قائد پیدا کرے جو حضرت موسیٰ ؑ کی طرح اس قوم کو غلامی سے نجات دلوائے:

بیدار ہوں دل جس کی فغان سحری سے

اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہے نایاب

اے وادی لولاب

دیکھئے اپنے آبائی وطن کی حالت پر وہ کیسی درد ناک اور حسرت انگیز آہیں کھینچتا ہے:

آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر

کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر

سینہ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک

مرد حق ہوتا ہے جب مرعوب سلطان و امیر

کہ رہا ہے داستان بیدردی ایام کی

کوہ کے دامن میں وہ غم خانہ دہقان پیر

آہ یہ قوم نجیب و  چرب دست و تر دماغ

ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر

ملک خدا اور انسانوں کو مال تجارت سمجھ کر خریدنا بیچنا ایسٹ انڈیا کمپنی کی تاجرانہ ملوکیت میں جائز تھا، چنانچہ کمپنی کو جب روپے کی ضرورت محسوس ہوئی تو ایک کروڑ روپے سے کم میں کشمیر اور اہل کشمیر کو گلاب سنگھ ڈوگرے کے ہاتھ بیچ دیا:

دہقان و کشت و جوے و خیابان فروختند

قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند

کشمیر پر اقبال کی عاشقانہ غزل کیسی وجد انگیز ہے:

رخت بہ کاشمر کشا کوہ و تل و دمن نگر

سبزہ جہاں جہاں ببیں لالہ چمن چمن نگر

باد بہار موج موج مرغ بہار فوج فوج

صلصل و صار زوج زوج بر سر نارون نگر

ہندوستان کی روحانیت نے جو برگزیدہ انسان پیدا کیے ہیں اقبال نے ان پر نہایت خلوص، فراخ دلی اور وسیع المشربی سے نظمیں لکھی ہیں۔ ہندوستانی بچوں کے قومی گیت میں وہ پہلے ہی شعر کے دو مصرعوں میں چشتی علیہ الرحمہ اور نانک دونوں کو پیامبران توحید و حق قرار دے کر کہتے ہیں :

چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا

نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا

میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے

بابا گرو نانک پر اقبال کی یک مستقل نظم بھی ہے جو اس وقت کہی گئی ہے جب وہ زیادہ تر اسلامی نظمیں لکھ رہے تھے۔ اس نظم کے پہلے شعر میں گوتم بدھ کو بھی پیغمبر قرار دیا ہے:

قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پروا نہ کی

قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی

بابا گرو نانک کی شان میں کہتے ہیں :

بتکدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا

نور ابراہیم سے آزر کا گھر روشن ہوا

پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے

ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے

بانگ درا میں نہایت خلوص کے ساتھ شری رام چندر جی کی توصیف میں کچھ اشعار لکھے ہیں۔ ہندو تو مبالغہ کر کے اس برگزیدہ انسان کو اوتار مانتے ہیں، جیسے حضرت مسیح کو بلند پایہ پیغمبر کی بجائے عیسائیوں نے خدائے مجسم سمجھ لیا، لیکن اقبال ان کو ہندوستان کا امام یا پیغمبر تسلیم کرتے ہیں۔ ہندوستان نے مختلف زمانوں میں نہایت عمیق الفکر مفکر اور صاف باطن پیدا کیے ہیں۔ اقبال نہایت فراخدلی اور وسیع المشربی سے اس کا اقرار کرتا ہے۔ اس کا دل نہ ہندوستان سے برداشتہ ہے اور نہ وہ ہندو قوم سے نفرت کرتا یا اس کی تحقیر کرتا ہے۔ بلند پایہ نفوس کا یہ شیوہ نہیں ہے کہ وہ دوسری ملتوں کے مذہبی پیشواؤں کی تذلیل کریں اور اپنی متعصبانہ ملت پرستی میں دوسری ملتوں کے دینی اور تہذیبی کارناموں کی داد نہ دیں :

لبریز ہے شراب حقیقت سے جام ہند

سب فلسفی ہیں خطہ مغرب کے رام ہند

یہ ہندیوں کے فکر فلک رس کا ہے اثر

رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بام ہند

اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں ملک سرشت

مشہور جن کے دم سے ہے دنیا میں نام ہند

ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز

اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند

اعجاز اس چراغ ہدایت کا ہے یہی

روشن تر از سحر ہے زمانے میں شام ہند

تلوار کا دہنی تھا شجاعت میں فرد تھا

پاکیزگی میں جوش محبت میں فرد تھا

پنجاب کے مشہور ہندو صوفی سوامی رام تیرتھ، اقبال کے ہم عصر اور لاہور کالج میں پروفیسر تھے، انہوں نے تزکیہ قلب سے عالم روحانی میں ایک بلند مقام حاصل کر لیا تھا، پنجاب والے اور تمام اہل ہند ان کی روحانیت سے متاثر ہوئے، وہ اچھے اہل قلم بھی تھے، ان کی وفات دریا میں غرق ہونے سے واقع ہوئی۔ اقبال نے اس اہل دل پر بھی بہت اچھے اشعار کہے جو بانگ درا میں درج ہیں :

ہم بغل دریا سے ہے اے قطرۂ بیتاب تو

پہلے گوہر تھا بنا اب گوہر نایاب تو

نفی ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا

لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا اللہ کا

٭٭٭

 

 

 

 

دوسرا باب

 

اقبال کی شاعری کی پہلی منزل

 

۱۹۰۵ء تک کے کلام پر اعادۂ نظر

 

یہ کلام کوئی تیس سال کی عمر تک کا کلام ہے۔ اقبال کی شہرت اس سن تک عام ہو گئی تھی، ادیبوں اور شاعروں کو نظر آنے لگا تھا کہ شاعری کے افق پر ایک نیا ستارہ طلوع ہوا ہے جس کے انداز سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آگے چل کر مہتاب و آفتاب بننے والا ہے۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں اقبال نے ایک طویل نظم پڑھی جس کے ہر شعر میں فکر و تخیل کا انوکھا پن تھا۔ مولانا شبلی وہاں موجود تھے، انہوں نے داد دیتے ہوئے فرمایا کہ جب حالی اور آزاد کی کرسیاں خالی ہوں گی تو لوگ اقبال کو ڈھونڈیں گے۔ آزاد نثر میں سحر نگار تھا مگر شاعری میں اس کا مرتبہ بہت بلند بہ تھا، لیکن حالی اپنی شاعری میں صاحب طرز تھے، سہل ممتنع میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ ورڈز ورتھ کی طرح سادگی کو موثر بنانا اسی شاعر کا کام ہے جسے فطرت نے خاص جوہر عطا کیا ہو۔ قومی شاعری کی داغ بیل بھی حالی نے ڈالی لیکن مسلمانوں کی حیات ملی میں وہ زمانہ ہی ایسا تھا کہ قومی شاعری زیادہ تر قوم کا ماتم ہی تھی۔ سلطنت مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل چکی تھی، ان کے علوم و فنون میں فرسودگی پیدا ہو گئی تھی، حامیان دین، اسلام کے نادان دوست تھے اور عصر حاضر کے تقاضوں سے غافل تھے، مسلمانوں کے پاس نہ دولت دنیا رہی اور نہ دولت دین اس لیے حالی کی اکثر نظموں میں افسردگی زیادہ پائی جاتی ہے:

سینہ کوبی میں رہے جب تک کہ دم میں دم رہا

ہم رہے اور قوم کے اقبال کا ماتم رہا

علاج کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا اس لیے حالی کہتا ہے کہ بس اب دعا کرنی چاہیے اور سوچتا ہے کہ ہماری دعا سے بھی کیا ہو گا، رسول کریم رحمۃ للعالمین ؐ سے دعا کی درخواست کرنی چاہیے:

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے

امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے

ہم نیک ہیں یا بد ہیں پر آخر ہیں تمہارے

نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے

حالی اور آزاد کے علاوہ باقی دلی اور لکھنو، آگرہ اور اودھ کے شعراء ابھی تک تغزل میں پرانی لکیریں پیٹ رہے تھے اور چچوڑی ہوئی ہڈیوں کو برابر چوستے جاتے تھے۔ یہ شاعری کیا تھی؟ قافیہ پیمائی کی بیہودہ مشق اور جھوٹا تفاخر:

جناب داغ کے داماد ہیں اور دلی والے ہیں

اقبال نے اس وقت زندہ شاعری شروع کی جب باقی سب غزل گو یوں ہی جگالی کر رہے تھے یہ شعراء حالی پر بھی معترض تھے کیوں کہ اس کی قوی اور فطری شاعری میں ان کو کوئی چٹخارا نظر نہیں آتا تھا۔ اردو زبان کا اجارہ چند شہروں اور ان شہروں میں بھی چند خاندانوں اور چند محلوں کے پاس تھا۔ حالی کو اس لیے مستند نہیں سمجھتے تھے کہ اس کا وطن پانی پت تھا جہاں کی زبان ٹکسالی نہیں۔ حالی نے جل کر کہا:

حالی کو تو بدنام کیا اس کے وطن نے

پر آپ نے بدنام کیا اپنے وطن کو

جب حالی کے ساتھ یہ سلوک تھا، لاہور یا سیالکوٹ میں پیدا ہونے والا کس شمار و قطار میں تھا لیکن خدا کی قدرت ہے کہ اردو کے تمام شعراء میں سب سے بڑا شاعر وہاں پیدا ہوا جہاں گھر میں پنجابی بولی جاتی ہے۔ ٹکسالی زبان کے مدعیان نے شروع میں اقبال پر بھی زبان و محاورے کے بارے میں نکتہ چینی شروع کی لیکن اقبال بے پروا ہو کر اپنے مخصوص جادۂ فن پر گامزن رہا۔ جو لوگ شعر کی حیثیت سے واقف تھے ان کے دلوں پر اقبال کا سکہ بیٹھا رہا، داغ اور امیر مینائی کا مقابلہ اور موازنہ ابھی جاری تھا اور وہ اپنے فن میں اظہار کمال کر رہے تھے کہ اقبال کا شہرہ تمام ہندوستان میں سنائی دینے لگا جس کی شاعری کا موضوع اس کے انداز تفکر و تخیل اساتذہ متقدمین و متاخرین سے بھی الگ تھا اور معاصرین میں سے بھی کوئی شاعر اس انداز کی نظمیں نہ کہہ سکتا تھا۔ اقبال میں حالی کی حقیقت شناسی اور خلوص، غالب کے تخیل کے ساتھ ہم آغوش ہو گیا، جذبہ وطنیت اور درد ملت کے ساتھ ساتھ گہرے فلسفیانہ مضامین و حکیمانہ افکار اور صوفیانہ وجدانات، اثر انگیز شاعری کا جامہ پہن کر عالم ادب میں جلوہ افروز ہوئے۔ یہ تمام عناصر اور صفات اقبال کے ابتدائی دور کی شاعری میں بھی موجود ہیں، فن کے لحاظ سے شروع ہی سے اس صاحب کمال میں ایک پختگی نظر آتی ہے، مصلحانہ اور مبلغانہ انداز کی جھلک اس دور میں بھی موجود ہے لیکن ابھی مدھم ہے، حسن و عشق پر اعلیٰ درجے کی نظمیں موجود ہیں، ان میں عشق مجازی بھی ہے اور عشق حقیقی بھی لیکن عشق کے متعلق وہ نادر جذبات اور خیالات نہیں جو ارتقاء کی آخری منزل میں بڑے سوز و گداز اور بڑی شان کے ساتھ ظاہر ہوئے۔

خودی کا مضمون جو اقبال کے خاص نظریہ حیات کی پیداوار ہے۔ اس دور کی شاعری میں بہت کم نظر آتا ہے، حب وطن کے بڑے دل نواز اور دل گداز گیت اس میں موجود ہیں چونکہ ابھی تک اصلاح ملت اور تبلیغ کو اقبال نے اپنا وظیفہ حیات قرار نہیں دیا تھا اس لیے اس کے متعلق بھی نظمیں اور اشعار ڈھونڈے سے ہی ملتے ہیں۔ ان نظموں میں زندگی کے ہر پہلو سے متاثر ہونے والا شاعر ملتا ہے، اس کی شاعری کے موضوع ابھی محدود نہیں ہوئے لیکن بہت کم نظمیں ایسی ہیں جو فلسفیانہ افکار سے خالی ہوں۔ اقبال کے کلام میں شاعری اور حکمت شروع ہی سے توام نظر آتی ہیں لیکن کہیں بھی خالی فلسفہ شعریت پر غالب نہیں آیا۔ بعد میں آنے والے اقبال کے تمام عناصر اس دور میں بھی موجود ہیں مگر ان کی تکمیل مزید ارتقاء کی طالب تھی، لیکن اس دور کی شاعری کے کچھ موضوع ایسے ہیں جو بعد میں قریباً غائب ہو گئے ہیں اور ان کی کہیں کہیں ہلکی جھلکیاں رہ گئی ہیں جغرافیائی وطنیت کا جذبہ جو پہلے دور میں موجود ہے آگے چل کر ساقط ہو جائے گا، عشق مجازی کی لہریں جو اس میں موجود ہیں وہ یورپ میں کہی ہوئی نظموں میں بھی دکھائی دیں گی، لیکن حکمت و وجدان اور درد ملت کی فراوانی سے بعد میں ناپید ہو جائیں گی، عشق ایک لا محدود جذبہ حیات اور خودی پروردگار بن جائے گا۔ اس دور کی شاعری میں کچھ روایتی تصوف بھی ہے جو بعد میں چل کر اقبال کے اجتہادی تصوف میں بدل جائے گا۔ اسلامیات کا عنصر ابھی نمایاں نہیں، وسیع المشربی کی طرف میلان زیادہ ہے، شاعر ابھی کسی پختہ یقین پر نہیں پہنچا، ابھی راز حیات کو ٹٹولتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ابھی تک یقین و گمان کی آویزش سے نہیں نکلا، زندوں سے جواب نہیں ملتا تو خفتگان خاک سے استفسار کرتا ہے ایک مولوی صاحب نے جو اس کے متعلق اعتراضات کیے ہیں کہ تو صوفی بھی معلوم ہوتا ہے اور رند بھی، مسلمان ہے مگر ہندو کو کافر نہیں سمجھتا۔ کسی قدر شیعہ اور تفضیلی بھی دکھائی دیتا ہے، راگ کو بھی داخل عبادت سمجھتا ہے اور اکثر شعراء کی طرح تجھے حسن فروشوں سے بھی عار نہیں، رات کو محفل رقص و سرود میں شامل ہوتا ہے اور صبح کے وقت خشوع و خضوع سے تلاوت بھی کرتا ہے، مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ اس مجموعہ اضداد کی سیرت ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ اس سب کے جواب میں اقبال نے جو کچھ کہا ہے وہ اس زمانے میں اقبال کی طبیعت کا صحیح نقشہ ہے۔ یہ وہ دور ہے کہ اقبال کے لیے زندگی ایک معما ہے، گہرے خیالات پیدا ہوتے ہیں لیکن حقیقت کی تہ کو نہیں پہنچتے، کنہ حیات کا انکشاف نہیں ہوتا، وہ ابھی اپنے تئیں دانائے راز نہیں سمجھتا اس لیے کسی صداقت کی تبلیغ کا جوش بھی پیدا نہیں ہوتا:

میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا

گہرا ہے مرے بحر خیالات کا پانی

مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں

کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی

اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے

کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے

اس دور میں اقبال کو یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ درجے کا شاعر ہے اور وہ شاعر ہونے پر فخر کرتا ہے، یہ وہ اقبال نہیں جو آخر میں ان لوگوں کو بد دعائیں دینے لگا جو اس کو فقط شاعر سمجھیں، وہ اپنی قسم کے اچھے شاعر کو قوم کی آنکھ سمجھتا ہے جو بینا بھی ہے اور درد ملت سے اشک ریز بھی:

قوم گویا جسم ہے افراد ہیں اعضائے قوم

منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دشت و پاے قوم

محفل نظم حکومت چہرۂ زیبائے قوم

شاعر رنگین نوا ہے دیدۂ بینائے قوم

مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ

کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

یورپ کی عمل پیرا زندگی کو دیکھ کر اسے شاعری کی افادیت پر شک پیدا ہو گیا۔ فرنگ کی تہذیب اور تمدنی جدوجہد، علوم و فنون کے فروغ اور سائنس کی تسخیر فطرت میں اسے شاعری کا کوئی مقام دکھائی نہیں دیتا اور اپنے سخن شناس دوست شیخ عبدالقادر سے اس خیال کا اظہار کیا کہ شاعری کو ترک کر دیا جائی:

مدیر مخزن سے کوئی اقبال جا کے میرا پیام کہہ دے

ہو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انہیں مذاق سخن نہیں ہے

لیکن کچھ شیخ صاحب کی ترغیب سے اور کچھ اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ کے مشورے سے وہ ترک شعر کے ارادے سے باز آ جاتا ہے اور پھر اس کو احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ فقط شمشیر اور عالم فطرت کی تسخیر ہی سے نہیں بلکہ تقریر اور شعر کی تاثیر سے بھی فتوحات حاصل کی جاتی ہیں، اچھی شاعری سے دلوں کو مسخر کر سکتے اور قوم کے اندھیرے میں اجالا کر سکتے ہیں :

اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر

بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں

شیخ صاحب کو دعوت دیتے ہوئے اقبال نے جو کچھ کہا اور جو ارادہ کیا اس کو پورا کر دکھایا:

اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر

قطرۂ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں

دیکھ یثرب میں ہوا ناقہ لیلیٰ بے کار

قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں

اقبال نے شاعری کا رخ بدل کر قوم کے لیے بیداری اور خود داری کا سامان پیدا کر دیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

تیسرا باب

 

۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک

 

یہ زمانہ اقبال کے قیام فرنگ کا زمانہ ہے۔ یورپ کا سفر مختلف قسم کے انسان مختلف اغراض اور محرکات کی وجہ سے کرتے ہیں، کوئی سیر و تفریح کی خاطر جاتا ہے، کوئی تجارت کی غرض سے، کوئی علوم و فنون کے حصول کے لیے اور کوئی جدید تہذیب و تمدن کا جلوہ دیکھنا چاہتا ہے۔ بقول اکبر الٰہ آبادی:

سدھاریں شیخ کعبے کو ہم انگلستان دیکھیں گے

وہ دیکھیں گے خدا کو ہم خدا کی شان دیکھیں گے

اقبال نے روانگی کے وقت فقط اس مقصد کا اظہار کیا کہ وہ حصول علم کی خاطر ادھر کا رخ کر رہا ہے:

چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے

شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو

وہاں ایک عرصہ رہ کر اور اس شراب کے نشے کا تجربہ کر چکنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس نشے میں سوز و گداز کی کیفیت نہیں اور وہ غم عشق نہیں جس سے روح اپنی غذا حاصل کرتی ہے:

پیر مغاں ! فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر

اس میں وہ کیف غم نہیں مجھ کو تو خانہ ساز دے

اقبال اساسی طور پر ایک مشرقی انسان تھا، وہ مشرقی روحانیت کا دلدادہ تھا، تمام مذہب عالیہ مشرق ہی کے مختلف خطوں میں پیدا ہوئے ہیں، مشرق ہمیشہ سے ادیان کا گہوارہ اور روحانیت کا سرچشمہ رہا ہے، مشرق نے دنیاوی تمدن اور تہذیبیں بھی اعلیٰ درجے کی پیدا کیں، اس نے علوم و فنون بھی پیدا کیے، بڑی بڑی ملکی فتوحات بھی کیں، وسیع سلطنتیں بھی یہاں قائم ہوئیں، پیغمبروں، رشیوں اور سنیوں کے ساتھ چنگیز، ہلاکو اور تیمور جیسے سنگ دل شمشیر زن بھی یہیں پیدا ہوئے۔ لیکن ان تمام جلوؤں اور ہنگاموں کے باوجود مشرق کے بلند ترین نفوس مادیت سے روحانیت کی طرف گریز کرتے رہے، بڑے بڑے کشور کشا بھی روحانی انسانوں کے سامنے سر تسلیم خم کرتے رہے۔ اکبر اعظم جیسا کشور کشا اور دنیوی سیاست کا مدبر بھی ننگے پاؤں چل کر سلیم چشتی جیسے درویش کے پاس پہنچا کہ اس سے اولاد نرینہ کے لیے دعا کرائے اور جہانگیر جب بموجب عقیدۂ اکبر اس درویش کی دعا سے عالم وجود میں آیا تو اس کا نام بھی اسی درویش کے نام پر رکھا۔ شاہ جہان قیصر و کسریٰ کی شوکت کو مات کرنے کے لیے نو کروڑ روپے کی لاگت سے جواہرات سے مرصع تخت طاؤس بناتا ہے لیکن اس پر جلوس کرنے سے قبل تخت کے سامنے زمین پر سر بہ سجود ہو کر خدا سے کہتا ہے کہ فرعون آبنوس کے تخت پر بیٹھتا تھا اور خدائی کا دعویٰ کرتا تھا، میں اس مرصع تخت پر بیٹھنے سے قبل عجز و بندگی کا اظہار کرتا ہوں۔ شاید کوئی یہ کہے کہ ایسا تخت بنوانا کہاں کی بندگی اور کہاں کی عاجزی ہے؟ لیکن یہاں صرف یہ بات قابل غور ہے کہ ایک مشرقی انسان شوق شکوہ کے رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے قلب کی گہرائیوں میں اس خدا سے بھی رابطہ قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے جس کے سامنے تمام دنیاوی شوکتیں ہیچ ہیں اور جس تک رسائی فقط درویشی ہی کے راستے سے ہو سکتی ہے۔ مشرقی انسان کے لیے شاعری بھی وہی اثر آفرین ہوتی ہے جس میں روحانیت کی چاشنی ہو؟ سنائی اور عطار اور رومی کی گرفت مشرقی انسانوں کے قلوب پر، فردوسی و انوری و خاقانی سے بدرجہا زیادہ ہے۔ اقبال کو یورپ جانے سے قبل بھی انگریزی شاعری کے بہت سے انداز پسند تھے اور اس نے مغربی سانچوں سے بہت کچھ فائدہ بھی اٹھایا لیکن مغربی افکار پر بھی مشرقی روحانیت کا رنگ چڑھتا گیا اور اس طرح شرق و غرب کے امتزاج سے نئے مرکبات پیدا ہوئے لیکن مشرقی عنصر ہمیشہ غالب رہا۔

اقبال کو یورپ میں رہنے، حکمت فرنگ سے گہرا تعلق پیدا کرنے اور اس کی تہذیب و تمدن کا براہ راست مشاہدہ کرنے سے طرح طرح کے فائدے پہنچے۔ اقبال کی نظر آغاز ہی سے محققانہ تھی، اس لیے اس کی زندگی میں مغرب کی کورانہ تقلید کا کوئی شائبہ پیدا نہ ہو سکتا تھا۔ اس نے یورپ کے سطحی جلوؤں کو بھی دیکھا لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس کے باطن پر بھی گہری نظر ڈالتا گیا، اس نے فرنگ میں علم و ہنر کے کمالات اور انسانی زندگی کی بہبود کے لیے ان کے مفادات کو بھی دیکھا لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس سے بھی آگاہ ہو گیا کہ اس تعمیر میں ایک خرابی کی صورت بھی مضمر ہے۔ یورپ میں اس نے عقل کی کرشمہ سازیاں بھی دیکھیں لیکن اس کے ساتھ ہی اس کو نظر آیا کہ اس علم و فن کی نظر زیادہ تر تن کی طرف ہے من کی طرف نہیں، دماغ کی تربیت ہوتی ہے مگر دل تشنہ و گرسنہ رہ جاتا ہے:

افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کے مانند

مگر یہ خلد بس جنت نگاہ اورفردوس کوش ہے جس کے گرویدہ ہونے کا عبرت انگیز انجام غالب نے بھی آخر عمر میں ایک قطعے میں یہاں کیا تھا:

اے تازہ واردان بساط ہوائے دل

زنہار اگر تمہیں ہوس نا و نوش ہے

اقبال نے دیکھا کہ فرنگ کی زیرکی مادی مفاد اندوزی میں اس عشق سے بے گانہ ہو گئی ہے جو انسانی روح کے اندر زندگی کی لامتناہی اقدار کا خلاق اور حقیقی ارتقائے حیات کا ضامن ہے۔ یورپ میں جو اس کو تجلی نظر آئی اس کی مشرقی بصیرت نے اس کے متعلق فتویٰ دیا:

ہنگامہ گرم ہستی ناپائدار کا

چشمک ہے برق کی کہ تبسم شرار کا

سید احمد خاں ہوں یا ان کے شرکاء کار، شبلی و حالی، چراغ علی، نذیر یا مولوی ذکاء اللہ، ان سب کو مغربی تہذیب کا روشن پہلو ہی نظر آیا تھا، وہ اس کی تعریف میں رطب اللسان اور اس کی تجلی سے مرعوب و مغلوب تھے، وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ محسوس کرتے تھے کہ تہذیب و تمدن اور علوم و فنون ہی نہیں بلکہ اخلاق کے معیار بھی مغرب ہی سے حاصل کرنے چاہئیں، ان میں سے ہر شخص اپنی تحریروں میں، نثر یا نظم میں جب شرق و غرب کا موازنہ کرتا ہے تو نہایت درجہ احساس کمتری کے ساتھ مغرب کی برتری کو تسلیم کرتا ہے، دین کے مقابلے میں عیسوی عقائد کو چھوڑ کر باقی ہر چیز میں مغرب کی تقلید کو ترقی کا واحد راستہ سمجھتا ہے۔ اقبال میں یہ مغرب زدگی یورپ جانے سے پہلے بھی نہ تھی لیکن یورپ کے حقائق کے متعلق عین الیقین اور حق الیقین کے پیدا ہونے کے بعد اقبال کی طبیعت میں مغرب کے خلاف ایک زبردست رد عمل پیدا ہوا۔ یورپ کی ترقی زیادہ تر عقلی ترقی تھی اس لیے اس نے اس طبیعات میں گھری ہوئی عقل کے خلاف ہی جہاد شروع کر دیا جو اس کے آخری لمحہ حیات تک پورے جوش و خروش کے ساتھ قائم رہا۔

اقبال نے یورپ میں نظمیں بہت کم کہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ وہاں فلسفہ کی تعلیم و تحقیق اور تصنیف کے لیے مواد جمع کرنے میں منہمک رہا۔ شاعری کے لیے جس قسم کی فرصت اور فراغ قلب کی ضرورت ہے وہ اس کو میسر نہ تھی اور یورپ کی جدوجہد کو دیکھ کر یہ خیال بھی طبیعت میں گردش کرنے لگا:

جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انہیں مذاق سخن نہیں ہے

لیکن اقبال جیسے فطری شاعر کے لیے بالکل سکون بھی ممکن نہ تھا۔ اس زمانے کی نظموں میں بھی جو تعداد میں بہت کم ہیں ہر رنگ کی شاعری ملتی ہے، حسن اور عشق پر اعلیٰ درجے کی نظمیں موجود ہیں۔ یہ نا ممکن تھا کہ جو ان شاعر فرنگ میں حسن نسوانی سے متاثر نہ ہوا، چنانچہ بعض نظمیں مخصوص محبوبوں کے متعلق ہیں۔ ان نظموں میں ایک لا جواب نظم حسن و عشق کے عنوان سے ہے جس میں حسن و عشق کا فلسفہ نہیں بلکہ کسی ایک حسین کے حسن سے پیدا شدہ تاثر ہے۔ ویسے تو اردو اور فارسی کا تمام تغزل عاشقانہ شاعری میں ہے لیکن اردو اورفارسی کے کسی شاعر کے کلام میں اس قسم کی لطیف عاشقانہ غزل یا نظم نہ ملے گی:

جس طرح ڈوبتی ہے کشتی سیمین قمر

نور خورشید کے طوفان میں ہنگام سحر

جیسے ہو جاتا ہے گم نور کا لے کر آنچل

چاندنی رات میں مہتاب کا ہم رنگ کنول

جلوہ طور میں جیسے ید بیضائے کلیم

موجہ نگہت گلزار میں غنچے کی شمیم

ہے ترے سیل محبت میں یونہی دل میرا

اس نظم میں کل تین بند ہیں اور شروع سے آخر تک تشبیہہ و تمثیل اور تخیل کی معراج ہر بند میں نظر آتی ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ یہ حسینہ کون تھی اور نہ ہی معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ عشق حسینہ کے حسن کی طرح نا پائیدار ہی ہو گا لیکن اس نے اس حساس اور باکمال شاعر کو متاثر کر کے جو اشعار لکھوائے ہیں وہ عشقیہ شاعری میں ہمیشہ لطافت فکر و تاثر اور حسن کلام کا نمونہ پیش کرتے رہیں گے اور اقبال کے متعلق آئندہ نسلوں کو یہ یاد کراتے رہیں گے کہ یہ ’’ دل بکسے نہ باختہ‘‘ کہنے والا شاعر کہیں کہیں عشق مجازی کا بھی شکار ہوا ہے۔ ایک جگہ اقبال نے اپنی نسبت کہا ہے:

کہ درس فلسفہ می داد و عاشقی ور زید

معلوم ہوتا ہے کہ کائناتی عشق کے علاوہ انفرادی عشق کی ورزش بھی کبھی کبھی کی ہے، کسی کی گود میں بلی دیکھ کر جو کچھ کہا ہے وہ بھی اسی راز کا غماز ہے۔ لیکن اقبال کی طبیعت میں ہر جزو اور ہر فرد کے حسن و عشق کے ساتھ ہی حسن کلی اور عشق کلی کا جذبہ بھی ابھرتا ہے اور اس کا فلسفہ بیان کرنے کے بغیر اقبال کے نزدیک بات پوری نہیں ہوتی، بات بلی سے شروع ہوتی ہے:

تجھ کو دزدیدہ نگاہی یہ سکھا دی کس نے

رمز آغاز محبت کی بتا دی کس نے

ہر ادا سے تری پیدا ہے محبت کیسی

نیلی آنکھوں سے ٹپکتی ہے ذکاوت کیسی

لیکن آخری اشعار میں حسن و عشق کا احساس کائنات پر پھیل جاتا ہے:

کیا تجسس ہے تجھے؟ کس کی تمنائی ہے

آہ! کیا تو بھی اسی چیز کی سودائی ہے

خاص انسان سے کچھ حسن کا احساس نہیں

صورت دل ہے یہ ہر چیز کے باطن میں مکیں

شیشہ دہر میں مانند مے ناب ہے عشق

روح خورشید ہے خون رگ مہتاب ہے عشق

دل ہر ذرہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی

نور یہ وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے اس کی

کہیں سامان مسرت کہیں ساز غم ہے

کہیں گوہر ہے کہیں اشک کہیں شبنم ہے

کلی کی نظم میں بھی جو خورشید ہے وہ بھی کوئی مہ وش ہی ہے:

مرے خورشید! کبھی تو بھی اٹھا اپنی نقاب

بہر نظارہ تڑپتی ہے نگاہ بیتاب

ترے جلوہ کا نشیمن ہو مرے سینے میں

عکس آباد ہو تیرا مرے آئینے میں

اپنے خورشید کا نظارہ کروں دور سے میں

صفت غنچہ ہم آغوش رہوں نور سے میں

اقبال کی عاشقانہ نظموں کے متعلق یہ بات خاص طور پر ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ کسی محبوب پر اگر اس نے کبھی کوئی نظم لکھی ہے تو وہ حقیقی انسان تھا، اقبال کی شاعری کہیں بھی مصنوعی نہیں۔ اردو اور فارسی کے دیوان کے دیوان ایسی غزلوں سے بھرے پڑے ہیں جو کسی مخصوص محبوب کے متعلق نہیں، زیادہ تر معشوق ایک فرضی معشوق ہوتا ہے اور اس فرضی بت کے متعلق تمام تاثرات و تخیلات آورد سے پیدا کیے جاتے ہیں۔ ایسی شاعری شاعری نہیں بلکہ محض صناعی ہوتی ہے، جیسے خمریات میں ایسے لوگوں نے دیوانوں کے دیوان بھر دیے جنہوں نے مے انگور کو کبھی منہ نہیں لگایا لیکن تخیل میں تمام عمر مے خواری میں اور میخانے ہی میں گزار دی۔ ریاض کے خمریات کو دیکھیے کون شخص یہ یقین کر سکتا ہے کہ اس مرد خدا نے کبھی پی ہی نہیں لیکن اس کی زندگی سے واقف لوگ اس کی پارسائی کے شاہد ہیں۔ امیر مینائی کو دیکھئے تہجد گزار، ہر وقت تسبیح بدست، عابد و زاہد ہوس رانی کے کیا کیا نقشے مزے لے لے کر کھینچتا ہے اور کتنی مضمون آفرینی کرتا ہے، ابتذال سے بھی اس کو گریز نہیں، شراب کے بارے میں بھی جھوم جھوم کر نکتے پیدا کرتا ہے:

انگور میں تھی یہ مے پانی کی چار بوندیں

جس دن سے کھچ گئی ہے تلوار ہو گئی ہے

لیکن فرضی معشوق کے مصنوعی عشق آورد اس کے بیان میں آورد کی شاعری سوز و گداز سے معرا ہوتی ہے اور جو بات دل سے نہیں نکلی وہ دلوں میں گھستی بھی نہیں۔ داغ اور امیر مینائی دونوں ہوس پرستی کے تغزل میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے رہے لیکن امیر مینائی زاہد تھا اور داغ کو اس چیز سے حقیقی رابطہ بھی رہا تھا جس کے مختلف پہلوؤں کو بیان کر کے وہ لطف آفرینی کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ امیر مینائی نے داغ کے سامنے ایک روز اقرار کیا کہ ہم نے غزل میں بہت زور مارا لیکن تمہارے تغزل والی بات نہ ہو سکی۔ اس کے جواب میں داغ نے کہا کہ بھائی جورو کے عاشق کی غزل ایسی ہی ہوتی ہے جیسی تمہاری ہے۔

اقبال کی زندگی سے جو لوگ واقف ہیں وہ اس کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ رندی اور شباب کے زمانے میں بھی وہ عاشقی کے معاملے میں ’’ کر دے و گذشتے‘‘ ہی تھا اور ’’ دل بکسے نہ باختہ‘‘ میں اس نے اپنی نسبت صحیح بات کہی ہے۔ بقول غالب وہ اس معاملے میں مصری کی مکھی تھا، شہد کی مکھی نہ تھا جس کے پاؤں اس میں دھس جائیں :

من بجا ماندم و رقیب بدر زد

نمہ لبش انگبین و نمہ طبر زد

یورپ میں لکھی ہوئی نظموں میں ایک نظم میں کھول کر اپنے عاشق ہرجائی ہونے کا ذکر کیا ہے اور اس نظم کا عنوان ہی عاشق ہرجائی رکھا ہے:

ہے عجب مجموعہ اضداد اے اقبال تو

رونق ہنگامہ محفل بھی ہے تنہا بھی ہے

حسن نسوانی ہے بجلی تیری فطرت کے لیے

پھر عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پروا بھی ہے

تیری ہستی کا ہے آئین تفنن پر مدار

تو کبھی ایک آستانے پر جبیں فرسا بھی ہے؟

ہے حسینوں میں وفا نا آشنا تیرا خطاب

اے تلون کیش تو مشہور بھی رسوا بھی ہے

لے کے آیا ہے جہاں میں عادت سیماب تو

تیری بیتابی کے صدقے، ہے عجب بیتاب تو

اس نظم کے دوسرے بند میں اس تلون اور بے وفائی کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہتا ہے کہ میرے سینے میں جو دل ہے وہ ایک تراشا ہوا ہیرا ہے جس کے کئی پہلو ہیں اور ہر پہلو میں نیا رنگ جھلکتا ہے میرے دل میں گیتوں کا ایک محشر ہے، ہر کیفیت میں ایک نئے جلوے کی آرزو ہے میں کسی ایک حسین کے عشق میں کیسے ہمیشہ گرفتار رہ سکتا ہوں، میرا پیمان وفا حسن سے ہے نہ کسی فرد حسین سے میں حسینوں کے نظارے میں حسن کامل کو ڈھونڈتا ہوں :

ہر تقاضا عشق کی فطرت کا ہو جس سے خموش

آہ! وہ کامل تجلی مدعا رکھتا ہوں میں

جستجو کل کی لیے پھرتی ہے اجزاء میں مجھے

حسن بے پایاں ہے درد لا دوا رکھتا ہوں میں

زندگی الفت کی درد انجامیوں سے ہے مری

عشق کو آزاد دستور وفا رکھتا ہوں میں

معشوق کو تمام شعراء بے وفا کہتے ہوئے چلے آئے ہیں لیکن عاشق بے وفا کا مضمون اور وہ بھی عاشق شاعر کی اپنی زبان سے شاید اقبال کے سوا اور کہیں نہ ملے، جو اپنے بے وفائی کو وفا سے کہیں زیادہ قابل قدر چیز سمجھتا ہے۔ اس بے وفائی کو اس نے اعلیٰ درجے کا تصوف اور جزو کل کا فلسفہ بنانے کی ایک دل کش کوشش کی ہے۔ کہتا ہے کہ یہ تو تنگی دل اور افلاس تخیل کی بات ہے کہ کوئی شخص کسی ایک محبوب کا گرویدہ ہو کر اور محبوبوں کی طرف توجہ نہ کرے جو ویسے ہی حسن مطلق کے جزئی مظاہر ہیں :

سچ اگر پوچھے تو افلاس تخیل ہے وفا

دل میں ہر دم اک نیا محشر بپا رکھتا ہوں میں

اگر کائنات میں حسن ایسا ہی محدود اور تنگ جلوہ تھا کہ عاشق کو کسی ایک کے حسن ہی میں گرفتار کر کے محو کر دے تو یہ لا انتہا تخیل مجھے عطا کیا گیا جو خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہمیشہ تگ و دو کرتا رہتا ہے۔ اس تصوف اور اس جواز بے وفائی کو بھلا کون حسین قبول کرے گا، اور اقبال کے سوا کون سا عاشق ہے جس نے اپنے ہرجائی ہونے پر فخر کیا ہو اور اس عیب کو ایسا حسین کر کے پیش کیا ہو۔ ایک شاعر نے معشوق کے ہرجائی پن سے جل کر انتقاماً یہ ارادہ کیا تھا:

تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی

تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی

لیکن اقبال کے ہاں یہ انتقام نہیں بلکہ صوفی مزاج شاعر کی ایک لازمی صفت بن گئی ہے۔ اقبال نے اپنے آپ ہی کو ہرجائی نہیں بنایا بلکہ شکوے میں خدا کو بھی ہرجائی ہونے کا طعنہ دیا ہے:

کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے

بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے

یورپ میں کہی ہوئی نظموں میں قبل سیاحت فرنگ کا اقبال بھی موجود ہے۔ وہی اقبال جس کے کلام میں تصوف اور فلسفہ مجاز اور حقیقت کی آمیزش نے ایک امتیازی خصوصیت پیدا کر دی تھی، اسلام اور ملت اور وطنیت کا جذبہ یورپ میں بھی برقرار رکھتا ہے۔ بعض نظموں میں شاعر بحیثیت شاعر بھی پایا جاتا ہے، لیکن اس کے علاوہ ہلکی سی مبلغانہ جھلک بھی ہے اور پیام رسائی کا جذبہ بھی ابھرتا ہوا نظر آتا ہے، جو اس سے پہلے اقبال کے کلام میں موجود نہ تھا۔ علاوہ متفرق اشعار کے تین نظموں میں پیام کا عنوان بھی ہے ایک پیام طلبہ علی گڑھ کے نام ہے، دوسری نظم پیام عشق اور تیسری کا عنوان فقط پیام ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے اقبال میں یہ احساس ترقی کر رہا ہے کہ اچھی شاعری کو پیغمبری کا جزو ہونا چاہیے اور تلمیذ الرحمان کے پاس انسانوں کے لیے کچھ پیام حیات کا ہونا بھی لازمی ہے۔ پیام کے عنوان والی نظم کا مطلع ہے:

عشق نے کر دیا تجھے ذوق تپش سے آشنا

بزم کو مثل شمع بزم حاصل سوز و ساز دے

دوسرے شعر میں کہتا ہے کہ عشق کی دولت ایک فضل الٰہی ہے جس کے حصول کا مدار محض کوشش پر نہیں ہے، یہ خدا کا کرم ہے اور اس فیض رسائی میں ادیان و ملل کی تفریق حائل نہیں :

شان کرم پہ ہے مدار عشق گرہ کشائی کا

دیر و حرم کی قید کیا جس کو وہ بے نیاز دے

یہ مضمون صوفیہ اور متصوفین شعراء کا ایک مسلمہ اور عام عقیدہ ہے، بقول عارف رومی:

مذہب عشق از ہمہ دین باجداست

عشق والوں کا بیان الفاظ میں خواہ کافرانہ ہی معلوم ہو لیکن اس میں سے بوئے دین آتی ہے:

گر بگوید کفر آید بوئے دیں

می تراود از شکش بوئے یقیں

مرزا غالب کہتے ہیں کہ کافر عشق کو ایک خدا داد دولت ملتی ہے جو محض سعی حاصل نہیں ہو سکتی:

دولت بغلط نہ رسد از سعی پشیمان شو

کافر نتوانی شد ناچار مسلمان شو

ایک اور شاعر کہتا ہے کہ:

پروانہ چراغ حرم و دیر ندارد

وحدت وجود کے عقیدے کی جھلک بھی اس غزل کے ایک شعر میں موجود ہے:

تارے میں وہ قمر میں وہ جلوہ گہ سحر میں وہ

چشم نظارہ میں نہ تو سرمہ امتیاز دے

پھر کہتا ہے کہ تزکیہ نفس اور ترقی روح کے لیے طبیعت میں سوز و گداز کا ہونا لازمی ہے:

صورت شمع نور کی ملتی نہیں قبا اسے

جس کو خدا نہ دہر میں گریہ جان گداز دے

غالب پہلے سے کہہ گیا ہے کہ روح پرور سخن وری کے لیے بھی یہ لازمی شرط ہے:

حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد

پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی

اقبال کا پیام حقیقت میں آغاز ہی سے عشق کا پیام تھا اس کی شاعری کا بہترین حصہ جو روح میں ارتعاش اور اہتزاز پیدا کرتا ہے وہ آیت عشق ہی کی تفسیر اور اسی خواب کی تعبیر ہے۔ طلبہ علی گڑھ کے نام جو پیام اس کے مطلع میں بھی عشق کی تبلیغ ہے:

اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے

عشق کے درد مند کا طرز کلام اور ہے

دوسرے شعر میں یہ اشارہ ہے کہ تمہارے رہبر، واعظ و مصلح اور ناصح سب غلامی میں مبتلا ہیں اور ان کا نالہ و فریاد زیر دام کی چیخ پکار ہے لیکن مجھے خدا نے دام و قفس سے نجات دی ہے اس لیے میرا نالہ طائر بام ہے۔ آزاد کی فریاد کی لے غلام اور گرفتار کی فریاد و لے سے الگ ہوتی ہے:

طائر زیر دام کے نالے تو سن چکے ہو تم

یہ بھی سنو کہ نالہ طائر بام اور ہے

تیسرے شعر میں اقبال کا خاص فلسفہ حیات ہے جس کی شرح وہ تمام عمر کرتا رہے گا کہ حیات و کائنات میں سکون مجازی و اعتباری ہے اور حرکت ماہیت حیات میں داخل ہے اس لحاظ سے کہسار کی بظاہر سکونی عظمت اور وقار کے مقابلے میں کمزور چیونٹی کی حرکت زندگی کا بہتر مظہر ہے:

آتی تھی کوہ سے صدا راز حیات ہے سکوں

کہتا تھا مور ناتواں لطف خرام اور ہے

چوتھے شعر میں وطنیت کی جگہ ملت اسلامیہ کی مرکزیت اور اس کی عالمی ہیئت نے لے لی ہے:

جذب حرم سے ہے فروغ انجمن حجاز کا

اس کا مقام اور ہے اس کا نظام اور ہے

جب یہ نظم علی گڑھ والوں کو بھیجی گئی تو اس میں ایک اور شعر جس کا مضمون یہ تھا کہ نظام اسلام بے قید مقام ہے یعنی جغرافیائی حدود و قیود کا پابند نہیں معلوم نہیں کہ بانگ درا کی اشاعت کے وقت اقبال نے اس شعر کو کیوں خارج کر دیا تھا، وہ شعر یہ تھا:

جس بزم کی بساط ہو سرحد چیں سے مصر تک

ساقی ہے اس کا اور ہی مے اور جام اور ہے

ہم نے طالب علمی کے زمانے میں جب یہ شعر پڑھا تو اصل خیال سے تو لطف اٹھایا لیکن یہ بات ذرا کھٹکی کہ اسلامی دنیا کے حدود سرحد چین سے مصر تک ہی تو نہیں جاوا سماٹرا سے لے کر مراکش کے ساحل بحری تک اور ایشیا و افریقہ میں شمال سے لے کر جنوب تک اسلامی دنیا پھیلی ہوئی ہے، اقبال نے اس عالم گیر ملت کی حدود کو اتنا محدود کیوں کر دیا ہے۔ خیال ہوا کہ مصرع کی تنگی سے مجبور ہو کر ایسا کرنا پڑا ہے، ممکن ہے کہ خیال بعد میں اقبال کے دل میں بھی پیدا ہوا ہو اس لیے اس نے اس شعر ہی کو نکال دیا۔

آگے دو اشعار میں اپنے مخصوص عقائد کو دہرایا ہے کہ عیش جاوداں تن کا ہو یا من کا ایک قسم کی موت ہے اگر وہ کامل سکون اور اطمینان پیدا کر کے ذوق طلب کو فنا کر دے۔ زندگی ذوق طلب ہے اور سوز اس کا ساز ہے سوز ختم ہوا تو شمع حیات بھی بجھ جائے گی، جام میں اگر گردش نہ بھی ہو تو وہ جام رہتا ہے لیکن نفس انسانی میں اگر طلب اور تگ و دو ختم ہوئی تو آدمی آدمی نہیں رہ سکتا:

موت ہے عیش جاوداں ذوق طلب اگر نہ ہو

گردش آدمی ہے اور گردش جام اور ہے

شمع سحر یہ کہہ گئی، سوز ہے زندگی کا ساز

غمکدہ نمود میں شرط دوام اور ہے

اس پیغام کی شان نزول یہ تھی کہ علی گڑھ کے طلباء نے انگریزی اساتذہ کے خلاف اسٹرائک کر دی تھی۔ اقبال اس سے تو خوش تھا کہ ان میں آزادی، خود داری اور بیداری پیدا ہوئی ہے اور غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کا جذبہ ابھرا ہے، لیکن ملت اسلامیہ کی عام حالت اور علی گڑھ کالج کی حیثیت کچھ ایسی تھی کہ ابھی کچھ عرصے تک سید احمد خان کی مصلحت اندیشی پر چلنا قرین صواب تھا۔ مسلمان غدر کے بعد علم اور دولت و اقتدار سے محروم ہو گئے تھے، ایک طرف ہندو اور دوسری طرف انگریز ان سے بد ظن تھے اور ان کے مخالف ان کو نیچا دکھانے پر تلے ہوئے تھے، کسی کامیاب کوشش کے لیے مزید علمی جدوجہد اور مزید تنظیم کی ضرورت تھی اس لیے اقبال نے نوجوانوں کو کچھ عرصے تک خاموش اور محتاط رہنے کا مشورہ دیا۔ اسی لیے مقطع میں کہا کہ:

بادہ ہے نیم رس ابھی، شوق ہے نارسا ابھی

رہنے دو خم کے سر پہ تم خشت کلیسیا ابھی

مرور ایام سے جب یہ بادہ نیم رس نہ رہا اور کچھ انقلاب روزگار سے اور کچھ اقبال کی تلقین اور شعلہ نوائی سے شوق رسا ہو گیا تو اقبال سے زیادہ کسی نے زبان و قلم اور دل و دماغ سے یہ جہاد نہیں کیا کہ اسلام اور ملت اسلامیہ کے خم صہبائے کہن کے منہ پر سے خشت کلیسیا کو ہٹا دیا جائے تاکہ وہ کیفیت پیدا ہو سکے جسے آتش نے اس مطلع میں بیان کیا ہے:

یہ نصیحت مری ساقی نہ فراموش کرے

کاسہ سر کو خم بادہ کا سر پوش کرے

یورپ سے فرستادہ پیامات کی تیسری نظم کا عنوان پیام عشق ہے جس میں اقبال کے ہاں عشق کے جو مخصوص معنی ہیں وہ بہت کچھ واضع ہو گئے ہیں، اگرچہ یہ مضمون اس قدر اقبال کا جزو طبیعت اور جوہر دین ہے کہ بعد میں ہزار ہا اشعار کہہ کر بھی وہ مطمئن نہ ہو گا کہ بات پوری طرح کہی گئی ہے:

سن اے طلبگار درد پہلو میں ناز ہوں تو نیاز ہو جا

میں غزنوی سومنات دل کا ہوں تو سراپا ایاز ہو جا

یہاں عشق عاشق سے نیاز طلبی کر رہا ہے، بعد میں یہ نیاز درجہ کمال کو پہنچ کر ناز کا رنگ اختیار گا اور جوش و خروش میں ملائکہ، انبیاء اور خدا تک کا شکار کرنے لگے گا لیکن ابتداء نیاز ہی سے کرنی پڑے گی، مگر یہاں بھی دوسرے ہی شعر میں عشق میں خودی کا پہلو نمایاں ہو گیا ہے:

نہیں ہے وابستہ زیر گردوں کمال شان سکندری سے

تمام ساماں ہیں تیرے سینے میں تو بھی آئینہ ساز ہو جا

عشق خالی ناز یا نیاز سے نہیں بلکہ جدوجہد اور پیکار سے کمال پاتا ہے مسلمانوں نے جو ہلال کو نشان علم بنا لیا تو اس میں غیر شعوری طور پر یہ رمز پائی جاتی ہے کہ زندگی کا مقصد ارتقاء ہے، ہلال اپنی گردش سے روز افزوں ترقی کرتا ہوا بدر کامل بن جاتا ہے، انسان کی تقدیر بھی یہی ہے یا ہونی چاہیے:

غرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا

جہاں کا فرض قدیم ہے تو، ادا مثال نماز ہو جا

اکثر مذاہب میں قناعت اور توکل کی بہت تلقین کی گئی ہے، اسی تعلیم پر زیادہ زور دینے اور مبالغہ کرنے سے مذاہب عالیہ میں رہبانیت اور روحانیت کے مرادف بن گئی، مذہبی لوگوں نے تہذیب و تمدن کی طرف سے رخ پھیر لیا، زندگی کی جدوجہد کو ایک لا حاصل مشغلہ قرار دیا اور تقدیر کے غلط معنی لے کر ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ گئے کہ ہو گا وہی جو مقدر ہے، ہماری دوڑ دھوپ اور سعی و طلب سے کیا ہوتا ہے۔ قناعت و توکل کے صحیح معنے نبی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علماً اور عملاً واضح کیے۔ فقر کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن کی اصلاح میں انتہائی کوشش اسلام کی تعلیم کا طرۂ امتیاز تھا۔ مشرق و مغرب میں ہندومت، بدھ مت اور عیسائیت سب نے ترک آرزو اور ترک دنیا کو مقصود دین بنا لیا، اسلام اسی کے خلاف ایک زبردست احتجاج تھا لیکن خود مسلمان میں غیر اسلامی تعلیمات رفتہ رفتہ سرایت کرتی گئیں اور حیات گریز تصوف میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ:

ترک دنیا، ترک عقبیٰ، ترک مولیٰ، ترک ترک

عشق الٰہی کو ایک ایسی مجرد اور تنزیہی چیز بنا دیا کہ تمام اشیا و افراد کی محبت اور زندگی کے تمام اقدار عالیہ کا عشق اس کے منافی اور اس کے خارج ہو گیا۔ جب انسان کسی چیز کو اچھا سمجھے گا تو اس کے حصول کی آرزو پیدا ہو گی۔ کسی مقصد سے محبت نہ ہو گی تو اس کے لیے جدوجہد کون کرے گا۔ اقبال نے یہ ضروری سمجھا کہ مسلمانوں کے عقائد میں سے اس غیر اسلامی رہبانی عنصر کو خارج کیا جائے اور جس تصوف نے یہ تعلیم دی ہے اس کے خلاف علمی اور عملی جہاد کیا جائے اور مسلمانوں کو فقر اور تسلیم و رضا اور تقدیر کے صحیح معنی سمجھائے جائیں :

نہ ہو قناعت شعار گلچیں اسی سے قائم ہے شان تیری

وفور گل ہے اگر چمن میں تو اور دامن دراز ہو جا

حقیقی عشق خاروں کی خلوت یا صحرا نوردی کا تقاضا نہیں کرتا، شمع کی طرح سوز و گداز محفل کی خاطر ہونا چاہیے، عشق کے سوز و ساز کو تعمیر ملت میں کام آنا چاہیے:

گئے وہ ایام اب زمانہ نہیں ہے صحرا نوردیوں کا

جہاں میں مانند شمع سوزاں میان محفل گداز ہو جا

روح ملت روح فرد کے مقابلے میں ایک عمیق تر، وسیع تر حقیقت ہے، ملت کے مقابلے میں انفرادی نفس ایک مجازی حقیقت رکھتا ہے:

وجود افراد کا مجازی ہے، ہستی قوم ہے حقیقی

فدا ہو ملت پہ یعنی آتش زن طلسم مجاز ہو جا

آخر میں اسلام کی اصلیت اور مرکزیت کی طرف واپس آنے کی تلقین کرتا ہے، اس کے علاوہ جو بھی مقصود ہے وہ جھوٹا معبود ہے:

یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزری کر رہے ہیں گویا

بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبار راہ حجاز ہو جا

قیام فرنگ کے دوران ہی میں اقبال کا زاویہ نگاہ وطنیت سے ملت کی طرف پھر گیا، اس کے دو وجوہ تھے۔ ایک تو یہ کہ ملت اسلامیہ کا کوئی ایک وطن نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ جغرافیائی اور نسلی و لسانی وطنیت اور قوم پرستی کے انداز جو اس نے مغرب میں دیکھے تو اس کے تاریک پہلو اس کو نہایت بھیانک نظر آئے۔ تنگ نظر اور خود غرض وطنیت کے خلاف بعد میں اقبال عمر بھر کچھ نہ کچھ کہتا رہا لیکن اس نظریے کا آغاز یورپ ہی میں ہوا۔ نیشنلزم نے نہ صرف اقوام فرنگ کو اتحاد دین کے باوجود ٹکڑے ٹکڑے کر رکھا تھا اور جغرافیائی حدود کے اس پاس اور اس پار کے انسان ایک دوسرے کے خلاف صلح میں بھی آمادہ جنگ رہتے تھے۔ بقول حالی:

صلح ہے اک مہلت سامان جنگ

کرتے ہیں یہ بھرنے کو خالی تفنگ

بلکہ ان اقوام کو فرنگ سے باہر ایشیا اور افریقہ میں کمزور اقوام کا شکاری بنا دیا تھا۔ جن اقوام کے پاس فرنگ کے سے ہلاکت آفرین ہتھیار نہ تھے، ان کی جان و مال و ابرو فاتحین کے لیے مال غنیمت تھے۔ بعد میں اس مال غنیمت کی تقسیم پر ڈاکوؤں میں تصادم ہو گیا اور دو عظیم جنگوں میں مشرق و مغرب میں وہ تباہی اور بربادی ہوئی جس کے مقابلے میں چنگیز اور تیمور کی غارت گری بچوں کا کھیل معلوم ہوتی ہے۔ اقبال کو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں ملت اسلامیہ فرنگ کی نقالی میں اس قسم کی نیشنلزم کا شکار نہ ہو جائے اسی لیے اقبال نے یہ پکارنا شروع کیا کہ مسلمان کا وطن کہیں نہیں ہے، یا یہ کہ مشرق و مغرب میں تمام روئے زمین مسلمان کا وطن ہے:

ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست

نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا

بنا ہمارے حصار ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے

کہاں کا آنا، کہاں کا جانا، فریب ہے امتیاز عقبیٰ

نمود ہر شے میں ہے ہماری کہیں ہمارا وطن نہیں ہے

دوسرے شعر میں اقبال حسب عادت تصوف اور فلسفے میں غوطہ لگا گیا ہے۔ تمام کائنات انسان کا وطن ہے، بلکہ دنیا و عقبیٰ کا امتیاز زمانی و مکانی بھی فریب ادراک ہی ہے۔ یہ جہاں اور وہ جہان یعنی کونین حقیقت میں ایک ہی ہیں۔ مومن کا وطن کوئی ایک مقام نہیں۔ حقیقت کلی یا بہ الفاظ دیگر خدا اس کا وطن ہے۔ وہی اس کا مقام ہے اور وہی اس کی منزل، بقول عارف رومی:

منزل ماکبریاست

یورپ ہی میں اقبال میں یہ احساس پیدا ہوا کہ میرے اندر انفرادی اور اجتماعی آرزوؤں کا ایک محشر ہے جو عنقریب ایک رستخیز پیدا کرنے والا ہے۔ لوگ سمجھتے ہوں گے کہ اقبال یورپ میں پہنچ کر خاموش ہو گیا ہے۔ وہ ان کو بتا دینا چاہتا ہے کہ ذرا صبر کرو اور دیکھو کہ یہ طوفان آرزو گفتگو کا کیا ہنگامہ پیدا کرتا ہے:

زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا

مری خموشی نہیں ہے گویا مزار ہے حرف آرزو کا

شیخ عبدالقادر کے نام دعوت شعلہ نوائی بھی اسی زمانے کے احساس کی پیداوار ہے کہ سخن گرم سے شعلے پیدا ہو سکتے ہیں اور اس نار سے ظلمت ربا نور ظہور میں آ سکتا ہے۔ اس دور کی نظموں میں وہ مضامین بھی موجود ہیں جو شروع سے اقبال کے کلام کا جزو تھے۔ کائناتی عشق و حسن بھی ہے لیکن مخصوص محبوبوں کی محبت میں بھی اعلیٰ درجے کی نظمیں ہیں جو نہ پہلے دور میں ملتی ہیں اور نہ بعد میں ملیں گی۔ لیکن فلسفے اور تصوف میں ابھی تک اکثر صوفیہ کی طرح اقبال کی طبیعت پر وحدت وجود کا نظریہ طاری ہے۔ اقبال کے استاد فلسفہ میک ٹیگرٹ نے اسرار خودی کے شائع کرنے کے بعد ایک خط میں اس کی طرف ٹھیک اشارہ کیا تھا کہ کیمبرج میں تم ہمہ اوستی تھے اب کچھ اور ہو گئے ہو۔ اس زمانے کی ایک نظم قریباً پوری وحدت و جود پر ہے:

چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں

جھلک تیری ہویدا چاند میں سورج میں تارے میں

بلندی آسمانوں میں زمینوں میں تیری پستی

روانی بحر میں افتادگی تیری کنارے میں

وجودی صوفیہ طریقت اور معرفت میں جو کچھ کہہ جاتے ہیں وہ بظاہر شریعت کے منافی معلوم ہوتا ہے، اس سے اہل ظاہر ان پر بہت کچھ رد و قدح کرتے ہیں۔ اگر عابد و معبود اور شاہد و مشہود کو ایک ہی سمجھا جائے تو امتیاز اور فرق مراتب غائب ہو کر خالق و مخلوق میں کوئی حد فاصل نہیں رہتی اور خیر و شیر کی تمیز کو قائم رکھنا بھی دشوار معلوم ہوتا ہے۔ ہمہ اوست اور ہمہ از اوست دونوں نظریات شریعت کے مخالف معلوم ہوتے ہیں اور کہنے والے کی مصلوب ہونے تک نوبت پہنچتی ہے۔ مرزا غالب شدت کے ساتھ ہمہ اوستی تھے ان کا اردو اور فارسی کا کلام جا بجا اس کا شاہد ہے کہیں استعجاب سے پوچھتے ہیں :

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں

ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے

لیکن کہیں یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن عابد و معبود دراصل ہیں ایک ہی:

دیدہ بیرون و درون از خویشتن پر وانگہی

پردۂ رسم پرستش درمیان انداختہ

خدا نے ظاہر و باطن کے درمیان فریب ادراک سے یوں ہی پرستش کا ایک پردہ حائل کر دیا ہے جو حقیقت میں موجود نہیں۔ اس عقیدے کو بالکل کھلم کھلا بیان کرنے سے فساد کا اندیشہ ہوتا ہے اس لیے صوفیہ نے ان عقائد کو بہت کچھ استعاروں میں چھپانے کی کوشش کی ہے چنانچہ اقبال نے بھی یہی روش اختیار کی ہے:

شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوق تکلم کی

چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعارے میں

جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے

شجر میں پھول میں حیواں میں پتھر میں ستارے میں

جگنو پر اقبال کی نظم کے دوسرے بند کا ان اشعار سے مقابلہ کر کے دیکھئے تو معلوم ہو گا کہ اقبال پر یورپ جانے سے قبل بھی وحدت وجود کا نظریہ طاری تھا اور یورپ کے قیام کے دوران میں اور محرکات اور جذبات پیدا ہونے کے بعد بھی یہ عقیدہ قائم رہا۔

وحدت وجود کے عقیدے میں اور کچھ خلل ہو یا نہ ہو لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ نظر انسانی اختیار کے منافی پڑتا ہے۔ اخلاقیات کی تمام بنیاد یہی ہے کہ انسان ایک صاحب اختیار ہستی ہے خدا نے خیر و شر کو اس پر واضح کر دیا ہے، اب وہ چاہے یہ راستہ اختیار کرے اور چاہے وہ، ادھر جائے گا تو اجر و ثواب حاصل کرے گا اور ادھر جائے گا تو جہنم واصل ہو گا۔ لیکن اگر تمام انسانی اعمال بھی خدا ہی کے اعمال ہیں تو پھر خیر و شر میں کیا تمیز رہتی ہے اور ثواب و عذاب مہمل بن جاتے ہیں، اسی خطرے کی وجہ سے اقبال رفتہ رفتہ اس عقیدہ سے لے گئے۔ ان کا نظریہ خودی در حقیقت اس روایتی وجودی فلسفے کی تردید ہے اقبال نے فلسفہ خودی کے ماتحت انسان کو بھی خالق قرار دیا اور اس خیال کو طرح طرح سے بیان کیا کہ کائنات مادی ذات پر نہیں بلکہ نفوس پر مشتمل ہے جو خودی کے لحاظ سے مختلف مدارج میں ہیں اور کسی نہ کسی حیثیت میں کائنات میں بے شمار خالق موجود ہیں جو مختلف ہونے کے باوجود خالق کی صفت خلق سے بھی متصف ہیں۔ ایک گفتگو میں انہوں نے فرمایا کہ قرآن خدا کو احسن الخالقین کہتا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ کائنات میں اور خالق بھی موجود ہیں۔ حضرت آدم کے قصے کے متعلق بھی ان کی تاویل یہ تھی کہ خدا کے حکم کی خلاف ورزی سے آدم نے اپنی خودی کی بیداری کا ثبوت دیا جو انسانیت کا آغاز ہے یہی افتادگی عروج آدم خاکی کا پیش خیمہ بنی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اس دور تک خودی اور خدا کا باہمی رابطہ اقبال پر پوری طرح واضح نہیں ہوا، ابھی اس کا تفکر خدا کی وحدت اور نفوس کی کثرت کا تعلق سمجھنے سے قاصر ہے کبھی وحدت وجود میں بہ جاتا ہے اور کبھی عشق اور خودی کی خلاقی کی طرف کھنچا آتا ہے۔

اقبال کی اس دور کی نظموں میں مارچ ۱۹۰۷ء کی لکھی ہوئی نظم کئی حیثیتوں سے قابل غور ہے۔ یہ نظم پیشگوئیوں سے لبریز ہے اس لیے ’’ ہو گا‘‘ کی ردیف استعمال کی ہے۔ پہلے دو اشعار میں کہتا ہے کہ اس سے پہلے ادوار میں زندگی کے بہت سے اسرار سربستہ تھے اب افشائے راز کا زمانہ ہے۔ اس سے قبل اگرکسی کو کچھ معلوم نہ تھا تو وہ کچھ کہنا نہ تھا اس خیال سے کہ:

فاش گر گویم جہاں برہم زنم

اب زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ نیکی ہو یا بدی، حق ہو یا باطل، سب کچھ ببانگ دہل ظاہر ہو گا:

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہو گا

سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا

گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے

بنے گا سارا جہاں مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہو گا

مطلب یہ ہے کہ آزادی گفتار اور آزادی عمل اس سے پہلے چند افراد اور مخصوص طبقات کو حاصل تھی، اب آنے والے دور میں یہ امتیاز اٹھ جائے گا۔

اس سے قبل خدا کے عاشق بنوں میں مارے مارے پھرتے تھے اب یہ لوگ انسانی جماعتوں میں رہ کر عشق سے کوئی تعمیری کام لیں گے اور عشاق اپنے لیے نئے میدان عمل ڈھونڈیں گے، حیات گریز تصوف ختم ہو جائے گا، اب صوفی جماعتوں کے اندر کام کرتے ہوئے نظر آئیں گے:

کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے

برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہو گا

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے

میں اس کا بندۂ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

اس کے بعد دو اشعار ملت اسلامیہ کے متعلق رجائی پیش گوئی ہیں کہ یہ شیر خفتہ جی ہشیار ہو گا اور وہ اسی قوت کا مظاہرہ کرے گا جس نے کسی زمانے میں روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا۔ دو اشعار میں تہذیب مغرب پر تنقید ہے اور اس کی تخریب کے متعلق وہ پیش گوئی ہے جو چند ہی سال بعد پوری ہو گئی: کہتا ہے کہ مغرب کی ملوکیت کی حقیقت یہ ہے کہ وہ تاجرانہ ملوکیت ہے، مغربی اقوام کمزور اقوام کو اس لیے مطبع و مغلوب کرتی ہیں کہ تجارت کے ذریعے سے ان سے ناجائز فائدے اٹھائے جائیں، غلاموں کو خام پیداوار کی افزائش میں لگایا جائے اور پھر اپنی صناعی سے اسے مصنوعات میں بدل کر من مانی قیمت پر پھر انہیں غلاموں کے ہاتھ فروخت کیا جائے، دونوں بڑی جنگیں دراصل تجارت کی منڈیوں پر قبضہ کرنے کی کوششیں تھیں۔ اقبال کہتا ہے کہ ان مغربی اقوام نے خدا کی بستیوں کو خرید و فروخت کی دکانیں سمجھ لیا ہے انسانی ہمدردی اور انسانیت کا وقار ان کے زاویہ نگاہ میں نہیں ہر وقت اسی فکر میں ہیں کہ سستا خریدو اور مہنگا بیچو اور اگر چین ہماری افیون خرید کر مدہوش ہونے پر رضا مند نہ ہو تو اس کے خلاف جنگ کر کے زبردستی اس کے پاس افیون بیچو، پس ماندہ اقوام کے پاس شراب بیچ کر ان کی قوتوں میں اضمحلال پیدا کرو۔ اقبال کہتا ہے کہ اب وہ دور قریب ہے کہ تمہارے یہ ہتھکنڈے کام نہیں آئیں گے، قومیں بیدار ہو کر احتجاج میں اٹھ کھڑی ہوں گی اور تم خود آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کو تباہ کرو گے اس لیے کہ تمہاری تہذیب کی بنیاد ہی اس لوٹ کھسوٹ پر ہے مگر اب یہ جاری نہ رہ سکے گی۔ دیکھئے کہ ان دو جنگوں کے بعد کتنی قومیں بیدار اور آزاد ہو گئیں اور انگریزوں کو ہندوستان کا وسیع ملک اس لیے چھوڑنا پڑا کہ اب غاصبانہ تجارت کا موقع نہیں رہا تھا کہ لنکا شائر کے کارخانوں کے مالکوں کے تقاضے سے ہندوستانی صنعت پارچہ بافی پر اتنا ٹیکس لگایا جائے کہ وہ انگریزوں کے مقابلے میں کم قیمت پر مال فروخت نہ کر سکیں۔ ایسی تجارت کے متعلق نطشے نے خوب کہا ہے کہ پہلے زمانے میں بحری ڈاکو تمام سمندروں میں اپنے جہاز لیے پھرتے تھے کہ جہاں بھی موقع ملے دوسروں کے جہازوں کا مال لوٹ لیں زمانہ حال کی وسیع تجارتیں بھی حقیقت میں ڈاکا ہی ہیں لیکن اس کی صورت ایسی ہے کہ آسانی سے لوگوں کو اس غارت گری کا پتہ نہیں چلتا:

دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان نہیں ہے

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی

ہو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہو گا

جس زمانے میں اقبال نے یہ نظم لکھی ہے تمام عالم اسلامی، ایشیا کا معتدبہ حصہ اور پورا ہندوستان احساس کمتری میں مبتلا تھا۔ مغرب کے سیاسی علمی اور تہذیبی غلبے نے عام و خاص سب کی طبائع پر جادو کر رکھا تھا جس کا لب لباب اقبال نے ایک مصرعے میں بیان کر دیا ہے کہ ’’سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادو گری‘‘ اس بپنا ٹزم کا نتیجہ یہ تھا کہ تمام زندگی کو مغرب کی عینک سے دیکھا اور پرکھا جاتا تھا، اپنی خوبیاں بھی عیب معلوم ہوتی تھیں اور مغربیوں کے عیوب بھی خوشنما معلوم ہوتے تھے: بقول میر درد

جو عیب ہے پردۂ ہنر میں

مٹھی بھر انگریز تھے جو اس برصغیر پر تھوڑی سی فوج اور شاید ایک ہزار سے کم سول سروس والوں کے بل بوتے پر حکومت کرتے تھے شکاری کو صید افگنی میں کچھ خاص زحمت اٹھانی نہیں پڑتی تھی، صید خود گردن ڈالے، سر تسلیم خم کیے چلے آتے تھے۔ سکھوں کی حکومت کے زمانے میں نشہ اقتدار کے زور میں جب ایک سکھ دوسرے سے سر راہ ملتا تھا تو پوچھتا تھا کہ فوجیں کدھر سے ا رہی ہیں، گویا ہر ایک سکھ فرد اپنے آپ کو ایک لشکر کے برابر سمجھتا تھا سکھوں کے ہاتھ سے حکومت کے نکل جانے کے بعد بھی یہ طرز کلام مدتوں تک باقی رہا۔ انگریزوں کا بھی ہندوستان میں یہ حال تھا، کوئی انگریز یوں کہتا تو نہیں تھا لیکن اپنے آپ کو سمجھتا یوں ہی تھا: مغلوبیت کی ساحری میں ہندوستانی انگریز کو اس سے بھی کہیں زیادہ سمجھتے تھے جتنا کہ وہ تھا یا وہ اپنے آپ کو تصور کرتا تھا۔ یہ ایک نفسیاتی بات ہے کہ بزدلوں کو مخالفوں کی تعداد ہمیشہ اصل سے کہیں زیادہ دکھائی دیتی ہے اور بہادروں کو دشمن اصل سے کم محسوس ہوتے ہیں۔ اس شعر میں اقبال نے ایسی غلامانہ نگاہ کی کیفیت بیان کی ہے:

جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا

یہی رہی کیفیت جو تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا

پہلی جنگ عظیم سے قبل تک برٹش امپریلزم بڑے زوروں پر تھی انگریز صرف ہندوستان ہی کے مطلق العنان حاکم نہیں تھے بلکہ سیاست اور تجارت کے زور پر بالواسطہ یا بلا واسطہ نصف دنیا پر قابض تھے، انگریز کا رعب صرف ایشیا اور افریقہ ہی نہیں بلکہ یورپ کے ممالک پر بھی تھا، ہندوستان کے رئیسوں اور راجوں، نوابوں کی یہ حیثیت تھی کہ وہ اپنی نمائشی حکومتوں کے باوجود انگریزوں کے بے دام غلام تھے۔ جب دیسی حکمرانوں کی یہ حالت تھی تو عام دیسی عہدہ داروں کی ذہنیت کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔ یہاں مجھے حضرت اقبال کا بیان کردہ ایک لطیفہ یاد آ گیا جس سے بہت اچھی طرح سمجھ میں آ سکتا ہے کہ اس زمانے میں ہندوستانی عہدہ داروں اور رئیسوں کی کیا نفسیات تھی۔ لاہور کا ایک قدیم امیر خاندان ہے جنہوں نے فقیر کا لقب اختیار کر رکھا ہے۔ اس خاندان کے ایک فرد فقیر افتخار الدین حکومت میں بڑے عہدوں پر سرفراز تھے اور اقبال کے دوست تھے۔ اس زمانے میں تار کے دو پہیوں والی ایک انگریزی گاڑی کا رواج تھا۔ جسے گک کہتے تھے۔ گک کا مالک خواہ رئیس و امیر ہی کیوں نہ ہو، اسے خود چلاتا تھا اور نوکر خاموشی سے عقب میں بیٹھتا تھا۔ اقبال کے پاس بھی برسوں تک گک تھی جسے وہ حسب دستور چلاتے تھے مگر ایک روز فقیر صاحب اقبال کو اپنے ساتھ بٹھائے ہوئے اپنی گک میں انہیں مال روڈ کی سیر کرا رہے تھے، سامنے سے ایک انگریز اپنی گک زور و شور سے چلاتا ہوا آ رہا تھا حالانکہ فقیر صاحب کی سواری بائیں ہاتھ قاعدے سے نصف سڑک پر چل رہی تھی لیکن وہ انگریز سیدھا ان کی طرف بڑھا، حسب قاعدہ اسے بھی بائیں ہاتھ پر گاڑی چلانی چاہیے تھی لیکن غرور میں وہ سیدھا ان کی طرف لپکا کہ دیسی آدمیوں کو اپنی گاڑی سامنے سے ہٹانی چاہیے، ہم انگریز ہیں ادھر ادھر ہونا ہمارے لیے ہتک ہے۔ ا گر فقیر افتخار الدین گھبراہٹ میں جلدی سے اور بائیں طرف گک کو نہ ہٹاتے تو ٹکر کا اندیشہ تھا نتیجہ یہ ہوا کہ انگریز کی تک تو سیدھی نکل گئی لیکن فقیر صاحب کی گک کا پہیا پیدل پٹڑی پر چڑھ گیا، خیر بعد میں بہت جلد پھر گک سڑک پر آ گئی۔ اقبال فرماتے تھے کہ میں نے فقیر صاحب سے کہا کہ تم ٹھیک قاعدے سے جا رہے تھے نصف سڑک تمہارا حق تھا، تم نے کیوں گھبرا کر اپنا حق چھوڑ دیا، اگر ٹکر ہوتی تو انگریز کا قصور تھا۔ اس پر فقیر صاحب نے فرمایا کہ بھائی! تمام ملک ان کو دے کر ہم خاموش ہو گئے اور صبر کر لیا، اب کیا اس سے آدھی سڑک پر جھگڑا کرتا۔ اس دو رمیں آزاد کہلانے والے رئیسوں کا یہ حال تھا، یہ شعر اسی ذہنیت کا آئینہ ہے:

کہا جو قمری سے میں لے اک دن یہاں کے آزاد پا بگل

ہیں تو غنچے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ راز دار ہو گا

غدر کے بعد تو مسلمان بہت ہی خوف زدہ اور دبکے ہوئے تھے۔ سرسید علیہ رحمۃ کی فطرت میں حریت کے غیر معمولی جوہر تھے اور اس وقت کی حکومت کے مقابلے میں تعاون کی ضرورت کو محسوس کرنے کے باوجود انہوں نے حق کوشی اور حق گوئی سے دریغ نہیں کیا لیکن حکمرانی کی ساحری کا یہ حال تھا کہ منشی عنایت اللہ صاحب (مشہور مترجم) پسر مولوی ذکاء اللہ صاحب نے جو سید صاحب کے دار العلوم کے ابتدائی طالب علموں میں سے تھے اور سید صاحب ان کی شرافت اور ذکاوت اور ان کے والد سے دوستی کی وجہ سے ان سے بہت محبت کرتے تھے، ایک روز مجھ سے بیان کیا کہ سید صاحب گھوڑا گاڑی پر ہوا خوری کو نکلا کرتے تھے، راستے میں جو گورا سڑک پر پیدل چلتا ہوا نظر آتا، اس کو ضرور سلام کرتے تھے تاکہ وہ انہیں اپنی قوم کا وفادار دوست سمجھے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ انگریزی سامراج کے زوروں میں کس طرح یہاں کے آزاد بھی پابگل تھے۔ ایسی حالت میں اقبال کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ آزادی کے لیے جدوجہد کی جائے اور اپنے متعلق یہ اعتماد پیدا ہوا کہ میں اپنے کلام سے قوم کو خود داری کی تعلیم دے کر اور اس کی رگ حمیت کو جوش میں لا کر، اسے استبداد کے پنجوں سے رہائی دلا سکتا ہوں :

میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو

شرر فشاں ہو گی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہو گا

اس زمانے میں اقبال کو لوگ اچھا شاعر سمجھتے تھے، کوئی اس کو مبلغ یا مصلح یا شان پیغمبری سے بہرہ اندوز تصور نہیں کرتا تھا، لوگوں نے یہ نظم پڑھی اور لطف سخن کی داد دی اور اس مقطع کی نسبت یہی خیال کیا کہ یہ ایک شاعر کی تمنا ہے یا محض تعلی ہے جسے شعر میں جائز سمجھا جاتا ہے عرفی اور غالب میں اس  سے دس گنا زیادہ تعلی موجود ہے لیکن اسے شاعری سمجھ کر اس سے لطف اٹھایا جاتا ہے۔ کسے معلوم تھا کہ یہ نوجوان شاعر جو کچھ کہہ رہا ہے وہ اسے کر کے دکھائے گا اور اس دنیا سے گزرنے سے پہلے اپنی قوم کے لیے ایک آزاد ملت و مملکت کا سامان مہیا کر دے گا۔

یہ اقبال ہی کی قسم کی شاعری ہے جسے جزو پیغمبری کہا گیا ہے۔ اس نظم میں اقبال نے جو پیش گوئیاں کی ہیں ان میں سے کچھ پوری ہو چکی ہیں اور باقی کے متعلق یقین رکھنا چاہیے کہ وہ بھی پوری ہو کر رہیں گی تمام دنیا میں ملت اسلامی کا احیاء شروع ہو گیا ہے، کئی اسلامی ممالک نے مغربی سامراج کا جو اپنی گردن سے اتار پھینکا ہے اور وہ زمانہ دور نہیں جب ملت اسلامیہ ہر جگہ آزاد اور جادہ ترقی پر گامزن ہو گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

چوتھا باب

 

۱۹۰۸ء سے۔۔۔

 

یورپ میں کہی ہوئی اقبال کی نظمیں بہت کم ہیں لیکن انہیں میں سے بعض میں اس کی شاعری کے موضوعات کا رخ بدلتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس تمنا نے اسے بیتاب کرنا شروع کیا ہے کہ اپنی پس ماندہ اور افتادہ ملت کو بیدار اور ہشیار کیا جائے، عظمت دیرینہ اور عروج رفتہ کے نقشے اس کے سامنے رکھے جائیں، موجودہ حالت کی درماندگی اور پستی کو بھی اچھی طرح نمایاں کیا جائے لیکن اس انداز سے نہیں کہ اس میں یاس آفرینی اور ہمت شکنی کی کیفیت پیدا ہو، حالی بہت کچھ قوم کا ماتم کر چکا ہے، اب مزید اشک ریزی اور سینہ زنی سے انفعالی کیفیت کو ترقی دینا نقصان کا باعث ہو گا، مومن کی سیرت کے خط و خال اعلیٰ درجے کی مصوری سے کھینچے جائیں، اسلاف سے اس کے نمونے پیش کئے جائیں، قوم میں خودی اور خود داری کا احساس پیدا کیا جائے، احساس کمتری کو مٹا کر اس میں خودی کے جذبے کو ابھارا جائے، بلبل کو خیر باد کہہ کر شاہین کی سیرت کو اردو اور فارسی شاعری میں پہلی مرتبہ فقر و خود داری، جرأت و ہمت اور بلند پروازی کا نمونہ بنایا جائے قوم کے جمود کو توڑا جائے اور اسے یہ تعلیم دی جائے کہ زندگی ذوق ارتقاء ہے، حرکت مسلسل ہے، سوز نیم خام ہے، خوب تر کی تلاش ہے، جذبہ نشوونما ہے قناعت پسندوں اور تقدیر پرستوں کو یہ بتایا جائے کہ سعی پیہم سے جہان نو پیدا کرنا انسان کی تقدیر ہے، عقل اچھی چیز ہے لیکن خالی عقل خنک جرأت آموز اور خلا ق نہیں ہوتی، زیر کی سے زیادہ عشق کی ضرورت ہے، جب تک قوم میں زندگی کے اعلیٰ اقدار کی تڑپ پیدا نہ ہو گی وہ جمود اور خفتگی میں سے نہیں نکل سکے گی، بقول عارف رومی:

کوشش بے ہودہ بہ از خفتگی

شیخ عبدالقادر کے نام جو پیغام ہے اس میں بھی یہ کہیں نہیں ملتا کہ آؤ اپنی قوم کو جدید علوم و فنون اور عقل فرنگ سے آراستہ کر کے ترقی یافتہ اور مہذب اقوام کی صف میں کھڑے ہو جائیں۔

اقبال اس سے قبل حسن و عشق میں بہت سی نظمیں اور بہت سے اچھے اشعار لکھ چکا تھا لیکن وہ عشق یا مجازی تھا یا متصوفانہ انداز کا عشق جس میں انسانوں کو اپنے ماحول سے بیگانہ کرنے کا میلان ہوتا ہے۔ اب اقبال وضاحت کے ساتھ جس عشق کی تلقین شروع کرتا ہے وہ حیات لامتناہی کا عشق ہے، زندگی کے لامتناہی ممکنات کو معرض وجود میں لانے کا جذبہ ہے یہ عشق وہ ہے جو آئینہ بصیرت کو صیقل کرتا ہے، پتھر کو آئینہ اور قطرے کو گوہر بناتا ہے یہ عشق وہ ہے جو خاک سے گل و ثمر پیدا کرتا ہے اور جس سے قطرے میں بحر آشامی کی تشنگی اضطراب آفرین ہوتی ہے۔ دنیا میں اسلام کو اپنی اصل صورت میں پیش کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے والے اس عشق کا تجربہ کر چکے ہیں کہ وہ ظاہر و باطن میں کیسا خلاق اور انقلاب زا ہوتا، عہد حاضر میں وہ نمونے نظر نہیں آتے لیکن مسلمانوں کی تاریخ اور روایات میں تو موجود ہیں، ان کا جلوہ مسلمانوں کو پھر دکھایا جائے:

جلوۂ یوسف گم گشتہ دکھا کر ان کو

تپش آمادہ تر از خون زلیخا کر دیں

اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر

قطرۂ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں

دیکھ! یثرب میں ہوا ناقہ لیلیٰ بیکار

قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں

اسلام کی کیفیت تو شراب کی سی ہے وہ فرسودہ نہیں ہوا، کہنہ ہونے سے تو اس میں اور تیزی پیدا ہوتی ہے:

بادہ دیرینہ ہو اور گرم ہو ایسا کہ گداز

جگر شیشہ و پیمانہ و مینا کر دیں

اقبال نے یہ فیصلہ کر لیا کہ باقی عمر میں شاعری سے اب یہی احیائے ملت کا کام لیا جائے گا۔ فرماتے تھے کہ میرے والد نے مجھ سے یہ خواہش کی تھی اور مجھے نصیحت کی تھی کہ اپنے کمال کو اسلام کی خدمت میں صرف کرنا۔ حالی کی شاعری کا رخ سرسید نے پھیرا اور اس کے جوہر کو ملت کے لیے وقف کرایا۔ سید علیہ الرحمۃ کی صحبت سے پہلے حالی میں یہ چیز بالکل موجود نہ تھی، روایتی تغزل کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہ تھا۔ اقبال میں یہ جذبہ شروع سے موجود تھا لیکن اس میں شدت اور گرمی مغرب میں پیدا ہوئی، اس کی طبیعت میں یہ آفتاب محشر مغرب میں طلوع ہوا:

گرم رکھتا تھا ہمیں سردی مغرب میں جو داغ

چیر کر سینہ اسے وقف تماشا کر دیں

شمع کی طرح جبیں بزم گہ عالم میں

خود جلیں دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں

ہر چہ در دل گذرد وقف زباں دارد شمع

موختن نیست خیالے کہ نہاں دارو شمع

اس ذہنی انقلاب سے پہلے کی شاعری میں بھی اقبال کے اندر اسلامی جذبات کا کافی ثبوت ملتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہی یہ دبی ہوئی آگ چادر خاکستر کو برطرف کر کے بھڑکنے لگتی ہے اور رفتہ رفتہ یہ کیفیت ہوتی ہے کہ:

پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے

اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے

واپسی میں اقبال کا جہاز ابھی سمندر میں ہی تھا کہ جزیرۂ سسلی دکھائی دیتا ہے جہاں مسلمانوں نے ایک عرصے تک نہ صرف حکومت کی بلکہ علم و فنون اور تہذیب و تمدن کے ایسے اچھے نمونے پیش کیے جس سے بعد میں تہذیب فرنگ نے اپنے چراغ جلائے۔ وہ عظمت رفتہ اقبال کی چشم تصور کے سامنے آ کر درد انگیز ہو گئی اور شاعر بے اختیار اشک افشاں ہو کر اس کا مرثیہ خواں ہو گیا اس کے تخیل نے تصویر کہن میں رنگ بھر دیے:

رنگ تصویر کہن میں بھر کے دکھلا دے مجھے

قصہ ایام سلف کا کہہ کے تڑپا دے مجھے

میں ترا تحفہ سوئے ہندوستان لے جاؤں گا

خود یہاں روتا ہوں اوروں کو وہاں رلواؤں گا

وہ اس ملت کی مرثیہ خوانی اس لیے نہیں کر رہا کہ کسی زمانے میں اس کی عظیم الشان سلطنت تھی جو انقلاب روزگار سے جاتی رہی، وہ اس ملت کے زوال پر اس لیے افسوس کرتا ہے کہ وہ ایک شاندار نصب العین کی حامل تھی:

اک جہان تازہ کا پیغام تھا جن کا ظہور

کھا گئی عصر کہن کو جن کی تیغ ناصبور

مردہ عالم زندہ جن کی شورش قم سے ہوا

آدمی آزاد زنجیر توہم سے ہوا

غلغلوں سے جس کے لذت گیر اب تک گوش ہے

کیا وہ تکبیر اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے

یورپ سے واپسی کے بعد اقبال کی غالباً سب سے پہلی نظم بلاد اسلامیہ ہے، جو مخزن میں چھپی تھی۔ یہ نظم اس انقلاب کا پتہ دیتی ہے کہ اقبال نے اب اس وطنیت کے دائرے سے باہر قدم رکھا ہے جس کے متعلق وہ پہلے جذبات انگیز شاعری کر چکا تھا۔ اب تمام عالم اسلامی اس کا وطن بن گیا ہے، اسی جذبے نے تھوڑی عرصے کے بعد اس سے ترانہ ہندی کی زمین میں ترانہ ملی لکھوایا:

چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا

مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

بلاد اسلامیہ کی نظم اس ترانے کا پیش خیمہ تھی، اس نظم میں تاریخ اسلام کا ایک رومانی تصور ملتا ہے۔ دلی اور بغداد اور قرطبہ اور قسطنطنیہ مسلمانوں کے سیاسی اقتدار اور تہذیب و تمدن کے مراکز تھے۔ مسلمان کہلانے والی اقوام ان اقالیم میں غالب اور حکمران تھیں لیکن ان سلطنتوں کا انداز اور ان کے حکمرانوں کے اسلوب حکمرانی ہر حیثیت سے اسلامی نہ تھے۔ ان میں سے اکثر نے تو محض قیصر و کسریٰ کی جانشینی ہی کی ہے اور اسلامی زندگی کے کوئی اعلیٰ نمونے پیش نہیں کیے۔ بعد میں تو اقبال علی الاعلان یہ کہنے لگے کہ مسلمان حکمرانوں کی ملوکیت ہی نے اسلام کی صورت کو مسخ کیا ہے، لیکن بلاد اسلامیہ والی نظم میں ابھی تاریخ اسلامیہ کا روشن پہلو ہی ان کے سامنے ہے۔ سوا چند مستثنیٰ صورتوں کے ان سلطنتوں کے حکمرانوں کا طریقہ غیر اسلامی تھا لیکن ان تمام نقائص کے باوجود یہ بات تاریخی حیثیت سے غلط نہیں کہ اچھے ادوار میں اور ان مراکز میں جن کا ذکر اس نظم میں ہے، مسلمانوں نے تہذیب و تمدن کے ایسے نمونے پیش کیے جو دیگر اقوام کی معاصرانہ زندگی سے بہت زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ سب جگہ محکوم ملتوں کے ساتھ بے حد رواداری کا سلوک کیا گیا، اگرچہ سیاسی لحاظ سے آخر میں یہی رواداری مسلمانوں کے لیے تباہی کا باعث بنی۔ یہ درست ہے کہ مسلمان اپنے عروج و اقتدار کے زمانے میں ہندوستان اور شرقی اور غربی یورپ کے بہت سے حصے کو جبر سے مسلمان کر سکتے تھے اور اگر ایسا کیا ہوتا تو آج وہاں ایک غیر مسلم بھی نظر نہ آتا، لیکن ایسا جبر مسلمان کیسے کر سکتے تھے؟ اسلام میں اس کی قطعاً اجازت نہ تھی؟ اگر ایسا کیا ہوتا تو ان خطوں کی غیر مسلم ملتیں بعد میں قوت حاصل کر کے مسلمانوں کو تباہ نہ کر سکتیں اور آج وہاں کوئی فرد اسلام اور مسلمانوں کو برا کہنے والا نہ ملتا، مگر یہ حقیقت ہے کہ ایسے جبر سے مسلمانوں کو سیاسی فائدہ تو پہنچتا لیکن اسلام کا دعویٰ حریت ضمیر باطل ہو جاتا۔

بلاد اسلامیہ میں آخری بند مدینہ منورہ پر ہے، جس کے ساتھ مسلمانوں کا قلبی اور روحانی تعلق اس انداز کا ہے جو کسی اور شہر کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ یہ خواب گاہ مصطفی ؐ، ملت اسلامیہ کی عظمت کی ولادت گاہ تھی۔ اس کے متعلق اقبال کہتا ہے کہ قومیت اسلام پابند مقام نہیں، لیکن اگر کسی مقام کے ساتھ اس کو وابستگی ہو سکتی ہے تو مدینہ منورہ ہی ہے۔ عالم اسلامی کا نقطہ جاذب اور مرکز یہی مقام ہے، جو اقوام اسلامیہ کا شیرازہ بند ہے:

ہے اگر قومیت اسلام پابند مقام

ہند ہی بنیاد ہے اس کی، نہ فارس ہے، نہ شام

آہ! یثرب دیس ہے مسلم کا تو ماویٰ ہے تو

نقطہ جاذب تاثر کی شعاعوں کا ہے تو

صبح ہے تو اس چمن میں گوہر شبنم بھی ہیں

مسلمانوں کا سب سے زیادہ شاندار اور علوم و فنون کے لحاظ سے قابل فخر تمدن اندلس میں تھا۔ فرنگ نے اس تہذیب و تمدن سے بہت کچھ حاصل کیا اور مغرب کے بعض جدید مورخین نے فراخ دلی سے اس احسان کا اقرار بھی کیا ہے۔ اس لیے قرطبہ کی یاد مسلمانوں کے قلوب میں بہت رنج و الم پیدا کرتی ہے۔ حالی نے بھی مسدس میں قرطبہ ہی کے متعلق حسرت و حرمان سے یہ اشعار لکھے ہیں :

کوئی قرطبہ کے کھنڈر جا کے دیکھے

مساجد کے محراب و در جا کے دیکھے

حجازی امیروں کے گھر جا کے دیکھے

خلافت کو زیر و زبر جا کے دیکھے

جلال ان کا کھنڈروں میں ہے یوں چمکتا

کہ ہو خاک میں جیسے کندن دمکتا

حالی کے بعد قرطبہ کی یاد میں اقبال ایک المناک تاریخی حقیقت کو بیان کرتا ہے:

ہے زمین قرطبہ بھی دیدۂ مسلم کا نور

ظلمت مغرب میں جو روشن تھی مثل شمع طور

بجھ کے بزم ملت بیضا پریشاں کر گئی

اور دیا تہذیب حاضر کا فروزاں کر گئی

قبر اس تہذیب کی یہ سر زمین پاک ہے

جس سے تاک گلشن یورپ کی رگ نمناک ہے

یورپ سے واپسی کے کچھ عرصے بعد اقبال حیدر آباد دکن غالباً اکبر حیدری کی دعوت پر گئے اور انہیں کے ہاں مہمان بھی رہے۔ حیدر آباد میں سب سے زیادہ حسرت ناک اور عبرت انگیز مقام گورستان شاہی ہے جہاں قطب شاہیوں کے مقابر کے عظیم الشان گنبد ہیں۔ مسلمان بادشاہوں کے اتنے عظیم و رفیع مقبرے شاید دنیائے اسلام میں کہیں اور یکجا نہیں ملتے، ان کو دیکھ کر دنیازی جاہ و جلال کا انجام اور زندگی کی بے ثباتی طبیعت میں ایک گہرا تاثر پیدا کرتی ہے۔ اقبال نے اس تاثر سے جو نظم لکھی ہے وہ اس کی بہترین نظموں میں سے ہے۔ اس کے پہلے بند میں لطیف تاثر کی ایسی مصوری ملتی ہے جو اقبال جیسے قادر الکلام شاعر ہی کا کمال ہے۔ اس میں خارجی فطرت اور شاعر کا باطنی تاثر ایک دوسرے کا آئینہ بن گئے ہیں، فطرت کی نوائے خاموش شاعر کے ساز فطرت سے ہم آہنگ ہو گئی ہے:

آسماں بادل کا پہنے خرقہ دیرینہ ہے

کچھ مکدر سا جبین ماہ کا آئینہ ہے

چاندنی پھیکی ہے اس نظارۂ خاموش میں

صبح صادق سو رہی ہے رات کی آغوش میں

کس قدر اشجار کی حیرت فزا ہے خامشی

بربط قدرت کی اک دھیمی نوا ہے خامشی

باطن ہر ذرہ عالم سراپا درد ہے

اور خاموشی لب ہستی پہ آہ سرد ہے

اس بے مثل نظم میں محض صنعت اور فن کے لحاظ سے بھی اقبال کی شاعری کا کمال جھلکتا ہے، پہلے کئی بند زندگی کی بے ثباتی اور موت کی ہمہ گیری پر مشتمل ہیں۔ اقبال کہتا ہے کہ قانون انقلاب اور آئین فنا سے نہ شاہوں کو گریز حاصل ہے اور نہ گداؤں کو:

موت ہر شاہ و گدا کے خواب کی تعبیر ہے

اس ستم گر کا ستم انصاف کی تصویر ہے

اس تمام مرثیے کی تہ میں دراصل غم ملت ہے جو آخری بندوں میں نمایاں ہونے لگتا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ جس طرح موت کی یورش افراد پر ہے اسی طرح اقوام بھی اس کی دستبرد سے نہیں بچ سکتیں۔ ’’ ولکل امۃ اجل‘‘ :

زندگی اقوام کی بھی ہے یونہی بے اعتبار

رنگ ہائے رفتہ کی تصویر ہے ان کی بہار

اس زیاں خانے میں کوئی ملت گردوں وقار

رہ نہیں سکتی ابد تک بار دوش روزگار

اس قدر قوموں کی بربادی سے ہے خوگر جہاں

دیکھتا بے اعتنائی سے ہے یہ منظر جہاں

اس کے بعد اقبال سوچتا ہے کہ مصر، بابل اور یونان و روما کی طرح عظمت مسلم بھی ایام نے لوٹ لی ہے، عالم گیر آئین فنا سے یہ کیسے بچ سکتے تھے۔ اس نظم کے بیشتر حصے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال زندگی کی بے ثباتی اور موت کی ہمہ گیری سے مغلوب ہو کر ایک انفعالی کیفیت میں ڈوب گیا ہے، لیکن اقبال کی فطرت کا ناقابل شکست تقاضا تو وہ ہے جسے غالب نے اس شعر میں ادا کیا ہے:

ہنگامہ زبونی ہمت ہے انفعال

حاصل نہ کیجئے دیر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو

شروع کے آٹھ نو بندوں میں ایسی حسرت برستی ہے اور ایسی عبرت پیدا ہوتی ہے کہ انسان کا دل زندگی اور اس کے ناپائدار دھوکوں سے سرد ہو جاتا ہے، لیکن یہ کیفیت کبھی اقبال پر طاری بھی ہوتی ہے تو جلد رفع ہو جاتی ہے اور جب تک وہ غم زندگی کو اپنی کیمیائے نظر سے امید اور لطف حیات میں تبدیل نہیں کر لیتا وہ بات کو ختم نہیں کرتا۔ اس کی بعض شاندار نظموں میں آپ یہی دیکھیں گے کہ وہ غم و رنج کی گہرائیوں میں غوطہ لگا کر نہ صرف سطح حیات پر ابھرتا ہے بلکہ اس سے اوپر لامتناہی فضا میں پرواز کرنے لگتا ہے۔ وہ یاس کا مبلغ نہیں، وہ غم کا مصور نہیں، وہ امید کا پیغمبر اور زندگی کا پرستا رہے۔ موت اور فنا کو وہ آنی جانی کیفیتیں سمجھتا ہے۔ چنانچہ اس نظم میں فنا اور موت کی مصوری کر چکنے کے بعد وہ آخر میں زندگی کا نقشہ کھینچتا ہے اور اس نتیجے پر تان توڑتا ہے کہ موت سے بھی ہر جگہ زندگی ابھرتی دکھائی دیتی ہے۔ موت کوئی مستقل چیز نہیں، وہ زندگی ہی کا ایک مظہر اور اس کے ظہور تازہ بتازہ اور نو بنو کا ذریعہ ہے:

زندگی سے یہ پرانا خاکداں معمور ہے

موت میں بھی زندگانی کی تڑپ مستور ہے

پتیاں شاخوں سے گرتی ہیں خزاں میں اس طرح

دست طفل خفتہ سے رنگیں کھلونے جس طرح

اس نظم کا داخلی ارتقاء اقبال کی فطرت اور اس کے نظریہ حیات کا آئینہ دار ہے۔ نظم کا موضوع اور محرک گورستاں ہے جس سے زیادہ غم و اندوہ کا محل اور خوں گشتہ آرزو کا مدفن اور کوئی مقام نہیں ہو سکتا۔ ابتدائی تاثر وہی ہے جو کسی انسان کے بھی حساس دل میں پیدا ہو سکتا ہے، گو ایک لطیف طبع والے شاعر کی طبیعت میں حسرت و عبرت اور انجام حیات روح کی گہرائیوں کو خاص طور پر متاثر کرتے ہیں اس فوری اور ابتدائی تاثر سے شاعر یہ محسوس کرتا ہے کہ:

باطن ہر ذرۂ عالم سراپا درد ہے

اور خاموشی لب ہستی پہ آہ سرد ہے

یہ تاثر اتنا شدید ہے کہ افراد و اقوام تمام کی زندگی کو ایک المیہ بنا دیتا ہے، لیکن کوئی حقیقت شناس شاعر اور مفکر تمام زندگی کو فنا انجام سمجھ کر یاس کو ہمیشہ اپنی روح پر قابض نہیں ہونے دیتا، کیوں کہ زندگی میں جہاں رات آتی ہے وہاں اس کے بعد لازماً سحر بھی نمودار ہوتی ہے، فنا کے ساتھ ساتھ حیات نباتی و حیوانی کی بقا کوشی بھی ہے اور اکثر چیزیں جو بادی النظر میں شر معلوم ہوتی ہیں وہ مزید تجربے سے اعلیٰ درجے کی بھلائیوں کا مصدر و منبع بنتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ زندگی میں سب کچھ ہے، یاس بھی ہے اور امید بھی، رنج بھی ہے اور مسرت بھی، درد بھی ہے اور دوا بھی۔ اب یہ انسانی فطرتوں کا اختلاف ہے کہ بعض طبائع بہار کو دیکھ کر بھی مسرور ہونے کے بجائے یہ خیال اپنے اوپر طاری کر لیتی ہیں کہ یہ بہار چند روزہ ہے اور یہ سب پھول تھوڑے عرصے میں مرجھا جانے والے ہیں۔ خزاں میں نہ خندہ گل ہو گا اور نہ نغمہ بلبل، اس کے برعکس ایک رجائی زاویہ نگاہ ہے جو غالب جیسے مصیبت زدہ شاعر میں غم و اندوہ کے باوجود برقرار رہتا ہے:

نہیں بہار کو فرصت نہ ہو بہار تو ہے

طراوت چمن و خوبی ہوا کہیے

فارسی میں بھی غالب کا ایک نہایت حکیمانہ شعر اس کے رجائی نقطہ نظر کو واضح کرتا ہے۔ جہاں زندگی ہے، خواہ وہ نباتی ہو یا حیوانی، وہاں اس کے ساتھ روزگار کے آئین کے مطابق کبھی کبھی جادۂ صحت و توازن سے ہٹ کر مرض کا ظہور بھی ہوتا ہے۔ دنیا میں رنج و درد کے مظاہر کو دیکھ کر بعض لوگ خدائے حکیم و رحیم کی ہستی ہی کے منکر ہو جاتے ہیں۔ غالب کہتا ہے کہ حکیم مطلق کی رحمت کا اس سے اندازہ کرو کہ بیماریوں کے تمام علاج جماد و نبات میں ملتے ہیں اور انہیں کے عناصر سے دوائیں بنتی ہیں، لیکن مخلوقات کی تدریجی تکوین میں جماد و نبات پہلے نمودار ہوئے ہیں اور حیوانات، جو امراض کا شکار ہو سکتے ہیں، بعد میں پیدا ہوئے ہیں۔ رنج و مرض کے وجود سے پہلے فطرت نے علاج کے سامان مہیا کر رکھے تھے:

چارہ در سنگ و گیاہ و رنج با جاندار بود

پیش ازیں کیں در رسد آن را مہیا ساختی

اقبال کا فلسفہ حیات بھی شدت کے ساتھ رجائی ہے۔ وہ دنیا والوں کے لیے امید کا پیغام رساں ہے جیسا کہ ہر اولو العزم نبی بھی ’’ لا تقنطوا من رحمت اللہ‘‘ ہی کی بشارت انسانوں تک پہنچانے کے لیے آتا ہے۔ اس نظم میں یاس انگیزی جب ایک خاص حد تک پہنچ جاتی ہے تو اقبال یک بیک چونک اٹھتا ہے کہ ہیں یہ میں نے اپنے اوپر کیا غلط جذبہ طاری کر لیا ہے۔ فنا تو زندگی کی ماہیت نہیں ہو سکتی، قدیم اقوام کے زوال پر نظر ڈالتے ہوئے ملت مسلمہ کی طرف آتا ہے تو یہ شعر لکھنے کے بعد کہ:

آہ! مسلم بھی زمانے سے یونہی رخصت ہوا

آسماں سے ابر آزادی اٹھا برسا گیا

یک دم فطرت کی حیات انگیزی کی طرف مڑ کر دیکھتا ہے تو کہیں فنائے محض نظر نہیں آتی، رگ گل میں شبنم کے موتی پروئے ہوئے ہیں، سینہ دریا شعاعوں کا گہوارہ ہے، پرندوں کی رنگیں نوائی پھولوں کی رنگینی کا جواب ہے، ہر جگہ عشق سے حسن اور حسن سے عشق پیدا ہو رہا ہے، موت میں بھی زندگی کی تڑپ محسوس ہو رہی ہے۔ تمام فطرت نشاط آباد دکھائی دیتی ہے، لیکن پھر ہوک سینے میں اٹھتی ہے کہ فطرت کی نشاط انگیزی اس غم کا علاج تو نہیں ہو سکتی جو زوال ملت سے طبیعت کو غم کدہ بنا رہا ہے:

اس نشاط آباد میں گو عیش بے اندازہ ہے

ایک غم یعنی غم ملت ہمیشہ تازہ ہے

دو چار اشعار میں پھر یہ غم نشاط فطرت پر غالب آ جاتا ہے، لیکن آخری مرحلے میں یاس و حسرت امید کو جنم دیتے ہیں :

دہر کو دیتے ہیں موتی دیدۂ گریاں کے ہم

آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم

ہیں ابھی صدہا گہر اس ابر کی آغوش میں

برق ابھی باقی ہے اس کے سینہ خاموش میں

وادی گل خاک صحرا کو بنا سکتا ہے یہ

خواب سے امید دہقان کو جگا سکتا ہے یہ

اسلامی تاریخ میں فتوحات ملکی کا دور گزر گای ہے، جاہ و جلال والی سلطنتیں شاید دوبارہ قائم نہ ہو سکیں، لیکن زندگی میں جلال کے علاوہ جمال بھی ہے اور ممکن ہے کہ جلال فی نفسہ مقصود نہ ہو بلکہ جمال آفرینی کے لیے محض ایک شرط مقدم ہو، اخلاقی اور روحانی، علمی اور فنی مقاصد کا حصول عظیم سلطنتوں کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ سلاطین کا دور دورہ ختم ہو گیا، کیا ضروری ہے کہ اس کے ساتھ باطنی کمالات کا ظہور بھی ختم ہو جائے۔ اسلامی زندگی کے مقاصد لامتناہی ہیں اور چونکہ اسلام ابدی حقائق کی تحقیق کا نام ہے اس لیے یہ دین کبھی فرسودہ نہیں ہو سکتا اور ملت اسلامیہ جو اس کی علم بردار ہے اس کے لیے ماضی کی عظمت رفتہ اور حال کی تباہ حالی کے بعد ایک درخشاں مستقبل بھی ہے، نا امیدی کفر ہے:

ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور

ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور

اس آخری شعر میں اس خیال کا اظہار ہے کہ قوت، اقتدار اور حکمرانی کی شان و شوکت اور دبدبہ شاید اب واپس نہیں آ سکتا، لیکن بعد میں اسرار خودی کو پیش کرنے والا اقبال پھر جلال کی طرف واپس آئے گا:

لاکھ حکیم سربجیب ایک کلیم سر بکف

اور یہ تلقین شروع کرے گا کہ خالی باطن کی تنویر بھی بغیر شمشیر کوئی اہم نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی، مادی قوت اور زبردست خود مختار حکومت کا ہونا بھی لازمی ہے۔ ملوکیت تو واپس نہیں آ سکتی اور نہ ارتقائے حیات اجتماعی میں اس کا دوبارہ آنا مفید ہے، لیکن سیاسی اور معاشی قوت اور علوم و فنون سے پیدا کردہ تسخیر فطرت کا ملکہ روحانیت اور استحکام خودی کے لیے لازمی ہیں۔ نوع انسان کے آئندہ ارتقاء میں جلال و جمال کا ایک دل کش مرکب تیار ہونا چاہیے۔ اسلام اسی نظریہ حیات کو پیش کرنے والا دین تھا، اس لیے اس نظریہ حیات کے مطابق حیات ملی کو ڈھالنا ملت اسلامیہ ہی کا حق اور اسی کا فرض اولین ہے۔

۱۹۰۸ء سے لے کر عالم جاودانی کو سدھارنے تک اقبال کی شاعری میں کم از کم تین چوتھائی حصہ اسلامی اور ملی شاعری کا ہے، اس میں بے شمار فلسفیانہ افکار اور حکیمانہ جواہر ریزے بھی ملتے ہیں لیکن سب کا محور تعلیمات اسلامی اور جذبہ احیائے ملت ہے۔ جو لوگ اقبال کو محض شاعر جانتے تھے اور اس کے سخن کی لطافتوں، نادر ترکیبوں اور دل آویزیوں کے شیدائی تھے ان کو اقبال کی شاعری کا یہ انقلاب ایک رجعت قہقری محسوس ہوا اور بعض نقادوں نے کہنا شروع کیا کہ اقبال پہلے اچھا تھا، حسن و عشق اور مناظر فطرت پر نظمیں لکھتا تھا، صبح و شام کے مناظر کو دل کش انداز میں پیش کرتا تھا اور اگر انسانوں کے متعلق کوئی بات کہتا تھا تو اس کی مخاطب تمام نوع انسان ہوتی تھی، اب وہ محدود و محصور ہو کر فقط مسلمانوں کا شاعر رہ گیا ہے، اب وہ مبلغ ہو گیا ہے، واعظ ہو گیا ہے، اسلام اور مسلمانوں کا پروپیگنڈا کرتا ہے، اس کے غیر مسلم قدر دانوں نے مایوس ہو کر اس سے شکایت کرنی شروع کی کہ اب ہم لوگ آپ کے مخاطب نہیں رہے، وطن پرستوں نے کہا ہم تو اقبال کی پرستش اس لیے کرتے تھے کہ وطن پرست تھا، خاک وطن کا ہر ذرہ اس کو دیوتا دکھائی دیتا تھا، وہ مذاہب کی باہمی پیکار و پرخاش کو مٹانا چاہتا تھا، آوارہ اذان کو ناقوس میں چھپانے اور تسبیح کے دانوں کو رشتہ زنار میں پرونے کا آرزو مند تھا، لیکن اب وہ اسلام کے سوا کسی دین کو سچا نہیں سمجھتا، اب یہ پروانہ فقط چراغ حرم کا طواف کرتا ہے اور چراغ دیر کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا، بھلا مصلحانہ شاعری بھی کوئی شاعری ہوتی ہے؟ فن لطیف کا کام براہ راست وعظ کرنا تو نہیں۔ تبلیغ سے تو فن لطیف آلودہ اور کثیف ہو جاتا ہے۔ مسلمانوں میں بھی فن برائے فن کے دلدادہ کہنے لگے کہ کیا افسوس ہے کہ اقبال جیسے صاحب کمال کو زوال آ گیا ہے۔ ایک مرتبہ لاہور کی ایک نمائش میں جوش ملیح آبادی اور ساغر مجھ سے کہنے لگے کہ بھائی اقبال سے تمہارے دیرینہ تعلقات ہیں اور تم خود ذوق سخن بھی رکھتے ہو، ذرا یہ بتاؤ اقبال اب جو شاعری کرتا ہے یہ کوئی شاعری ہے؟ ذرا اس کو کہو کہ وہ اس روش کو چھوڑ دے اور اپنے کمال کو اس بیہودہ کوشش میں ضائع نہ کرے۔ میں ان کو کیا جواب دیتا، مسکرا کر خاموش ہو گیا، اس بارے میں بحث بالکل بے نتیجہ ہوتی۔ ساغر صاحب فن برائے فن والے شاعر تھے اور اقبال کے نزدیک یہ انحطاط اور بے روحی کی علامت تھی۔ ہوش صاحب کا مضمون خاص رندی اور خمریات تھا جس میں ان کی صناعی اکثر نوجوانوں سے تحسین حاصل کرتی تھی، لوگ انہیں شاعر انقلاب کہنے لگے تھے اس لیے کہ وہ انگریزوں کی حکومت کے علاوہ خدا اور رسول کی حکومت سے بغاوت کا اظہار کرتے تھے اور الحاد کو خوش گوار بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ ایسے لوگوں کے لیے اقبال یا تو ناقابل فہم تھا یا جو کچھ وہ کہتا تھا اس کو سمجھنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ یہ باتیں بے کار ہیں۔ اسلام کسی زمانے میں کچھ کام آیا ہو گا اب:

این دفتر بے معنی غرق مے ناب اولیٰ

ملت اسلامیہ کے احیا کا خواب اب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا:

آن قدح بشکست و آن ساقی نماند

اب یا وطنیت کے راگ گانے چاہئیں یا روسی اشتراکیت کے، جو الحاد کی بنیاد پر ایک نئی عالمگیر برادری پیدا کر رہی ہے، ان کے نزدیک اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مذہب غلامانہ اخلاق کی تلقین کرتا ہے اور دیر و حرم میں یہ افیون لوگوں کو اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ ہر قسم کے استبداد کو مشیت ایزدی سمجھ کر برضا و رغبت قبول کر لیں۔ مسلمان پہلے استبداد کے افیون خوردہ تھے، اب حضرت اقبال بھی ان کو یہی افیون اپنی شاعری میں گھول کر پیش کر رہے ہیں۔ یہ کہا گیا کہ اقبال مسلمانوں کے خون کو گرما کر ان کو دوسری ملتوں سے برسر پیکار کرنے میں کوشاں ہے۔ ان اعتراضات کا تفصیلی جواب اقبال کی تعلیمات کو پیش کرتے ہوئے دیا جائے گا، یہاں اس وقت فقط یہ بتانا مقصود ہے کہ اقبال نے جب شاعری کا رخ بدلا تو بعض طبائع پر اس کا کیا رد عمل ہوا۔

اسرار خودی کے شائع ہونے کے بعد بعض لوگوں میں ایک دوسری قسم کی مایوسی پیدا ہوئی ان میں کچھ ایسے تھے جو اقبال سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ اپنی ثروت افکار اور پرواز تخیل سے اردو زبان کو سرمایہ افتخار بنائے گا۔ غالب کے متعلق خود اقبال کہہ چکا تھا:

گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے

شمع یہ سودائی دلسوزی پروانہ ہے

اور اقبال کی قادر الکلامی نے یہ توقع پیدا کر دی تھی کہ اردو شاعری کو اقبال مہی با ثروت بنانے کا اب لوگوں کو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اقبال نے شاید اردو کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ اسرار خودی، بانگ درا کے اردو مجموعے سے بہت پہلے شائع ہوئی۔ اشاعت کے لحاظ سے اقبال ابھی پوری طرح اردو دانوں کے سامنے نہیں آیا تھا کہ وہ ایک فارسی شاعر کی حیثیت سے نمودار ہو گیا۔ اسرار خودی کو دیکھ کر ایک دوسری شکایت یہ پیدا ہوئی کہ اس میں زیادہ تر درس فلسفہ ہی ہے۔ وہ اقبال اس میں نہیں ہے جو درس فلسفہ کے ساتھ ساتھ عشق ورزی بھی کرتا تھا:

کہ درس فلسفہ می داد و عاشقی ورزید

اس کتاب میں ما بعد الطبیعیات کو نظم کر دیا ہے، جس میں ماہیت وجود اور زمان و مکان کی ناقابل فہم بحثیں ہیں یا خودی کی تلقین ہے۔ یہ بات بھی کچھ انوکھی معلوم ہوئی کیوں کہ اس سے قبل تمام اردو اور فارسی شاعری میں بے خودی کو سراہا گیا تھا اور بعض متصوفین نے خودی ہی کو سب سے بڑا گناہ کبیرہ قرار دیا تھا۔ صوفیہ کا یہ مقولہ عام ہو گیا تھا کہ (وجودک ذنب) تیرا وجود اور انفرادی ہستی کا احساس ہی سب سے بڑا فریب ہے اور اسی ’’ ہم‘‘ یا’’ میں ‘‘ کو فنا کرنا ہی روحانیت کی معراج ہے:

گو لاکھ سبک دست ہوئے بت شکنی میں

ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور

اور اس سے پہلے روایتی تصوف کے زیر اثر اقبال خود بھی کہہ چکا تھا:

میری ہستی ہی تھی خود میری نظر کا پردہ

اٹھ گیا بزم سے میں پردۂ محفل ہو کر

زیر اثر اقبال خود بھی کہہ چکا تھا:

میری ہستی ہی تھی خود میری نظر کا پردہ

اٹھ گیا بزم سے میں پردۂ محفل ہو کر

غرضیکہ اقبال نے جب اپنی شاعری اور اس کے مضامین کا رخ بدلا تو اس سے دو قسم کے نتائج پیدا ہوئے۔ جن لوگوں میں دینی اور ملی جذبہ تھا وہ تو بہت مسرور ہوئے کہ ایک باکمال شاعر نے محض تفنن طبع کو چھوڑ کر اپنی شاعری کو شعور ملی کا ترجمان بنایا ہے، جس نے قوم میں ایک نئی روح پھونکنی شروع کی ہے۔ اقبال نے اب مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات اور ان کی صداقت و عظمت سے آگاہ کر کے ان کے احساس کمتری کو مٹانے اور ان کے احساس خودی کو ابھارنے کی کوشش کی۔ شرق و غرب جہاں جہاں سے حیات آفرین افکار ملے ان کی پر زور تلقین کی۔ شاعری کو محض چٹخارا سمجھنے والوں کو چھوڑ کر اقبال اب خاص و عام کے لیے ترجمان حقیقت بن گیا۔

مسلمانوں کی شاعری صدیوں کے انحطاط سے ہر قسم کے حقائق سے دور ہو گئی تھی اور غیر شعوری طور پر یہ ایک مسلمہ قائم ہو گیا تھا کہ شاعری کے لیے حقیقت کی ضرورت نہیں، زندگی کی حقیقتیں یا تو پھیکی ہوتی ہیں یا تلخ، شیرینی اور لطف تو حقیقت سے گریز ہی میں پیدا ہوتا ہے۔ قصائد تھے تو سب جھوٹ کا طومار اور عشقیہ شاعری تھی تو فرضی معاملات اور بیان میں دور از کار صناعی، حالی نے جب سچی شاعری کے لیے حقیقت کو لازمی عنصر قرار دیا اور اسی معیار کے مطابق اپنی شاعری کا رنگ بدلا تو اس کی نئی شاعری قدیم ڈگر پر چلنے والے پیشہ ور شعراء کو بالکل پھیکی معلوم ہوئی، لیکن حالی کو فطرت نے شاعر بنایا تھا اس لیے سادگی اور حقیقت پر استقلال سے قائم رہنے کے بعد اس نے بھی عام و خاص سے اپنا لوہا منوا لیا۔ وہی مسدس جس کو حالی کے معاصر شعراء نے محض اس قابل سمجھا کہ اس پر پھبتیاں کسی جائیں، اسی مسدس سے سید احمد خاں کی روح اس قدر متاثر ہوئی کہ انہوں نے فرمایا کہ اگر آخرت میں خدا نے مجھ سے پوچھا کہ اعمال میں تو کیا چیز اپنی نجات کے لیے لایا ہے تو میں عرض کروں گا کہ میں نے حالی سے مسدس لکھوایا۔ حالی نے اپنی وفات سے قبل ہی تمام جھوٹے شاعروں اور کم نظر نقادوں پر فتح پا لی تھی۔ یہی معاملہ اقبال کے ساتھ بھی پیش آیا، پہلے اس کی اردو شاعری پر مدعیان زباندانی نے اعتراض کرنے شروع کیے اور اس کی شاعری کی جدت اور کمال ان کی نظر سے اوجھل رہا، لیکن کچھ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اقبال کی آواز چاروں طرف گونجنے لگی اور معترضین کی آواز صدا بہ صحرا ہو گی۔

اس بات پر اچھی طرح غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا اسلام اور فلسفے اور تبلیغ اور وعظ نے اقبال کی شاعری کو نقصان پہنچایا اور کیا یہ صحیح ہے کہ اس نے اپنے شاعرانہ کمال کو اپنے عقائد اور نظریات حیات پر قربان کر دیا؟ ہمارے نزدیک اس کا جواب نفی میں ہے۔ اقبال کو فطرت نے ایسا قادر الکلام باکمال شاعر بنایا تھا کہ وہ موضوع کچھ بھی منتخب کرے اور شعر خواہ آمد سے کہے اور خواہ آورد سے وہ کبھی حسن کلام سے معرا نہیں ہوتا۔ اردو اور شاعری کی عام روایات کو مد نظر رکھ کر عام ادیبوں اور شاعروں اور نقادوں نے یہ فرض کر لیا تھا کہ شاعری کے لیے کچھ مضامین اور موضوع مقرر ہیں اور ان کو ادا کرنے کے لیے خاص اسالیب بیان اور خاص قسم کی زبان بھی لازم ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شاعری کے لیے نہ کوئی موضوع مقرر اور مفید ہیں اور نہ ہی اسالیب بیان کا احصا ممکن ہے۔ زندگی اور کائنات کی ہر چیز، ہر حادثہ اور ہر واقعہ شعر کا موضوع بن سکتا ہے اور اگر شاعر فطری شاعر ہے اور مبدء فیاض سے جوہر سخنوری اس کو ودیعت ہوا ہے تو وہ جو کچھ بھی کہے گا اس کا انداز دل نشین اور اثر آفرین ہو گا۔ ایک زمانہ تھا کہ غزل کا کوئی مستقل وجود نہ تھا، پھر غزل قصائد کی تشبیب کے طور پر نمودار ہوئی، اس کے بعد غزل فقط اظہار تعشق یا رندی کے مضامین کے لیے مخصوص ہو گئی، عطار اور سنائی، سعدی اور رومی کے ہاں غزل میں تصوف کے مضامین داخل ہو گئے اور تصوف کی راہ سے فلسفہ بھی آ گیا، عشق مجازی کے ساتھ عشق الٰہی کی آمیزش نے غزل کو نقصان پہنچانے کی بجائے اس کو اور موثر اور دلآویز بنا دیا۔ حافظ کی غزلوں میں یہی آمیزش یا یوں کہیے مجاز و حقیقت کا التباس و اشتباہ سحر آفرین ہو گیا ہے، جو چاہے اپنے مذاق کے موافق مجازی معنی قرار دے کر لطف اٹھائے اور جو چاہے صہبا و ساغر و مینا کو روحانیت کے استعارے سمجھ لے:

ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو

بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

(غالب)

حق را ز دل خالی از اندیشہ طلب کن

از شیشہ بے مے مے بے شیشہ طلب کن

(صائب)

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ شاعری میں تبلیغ نہیں ہونی چاہیے وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ رندی و ہوس کی ستائش بھی تو تبلیغ و ترغیب و تحریص ہی ہے۔ اردو اور فارسی کی تمام شاعری اس سے بھری پڑی ہے۔ در اصل شعر میں تبلیغ کے مخالف یہ چاہتے ہیں کہ رندی و ہوس ناکی کی تبلیغ ہو، اس کے برعکس اگر روحانیت اور اخلاق حسنہ کی تبلیغ ہو تو وہ شاعری نہیں رہتی۔

اقبال کی شاعری سے صدیوں پہلے تصوف اور فلسفہ شاعری کا ایک جزو بن چکا تھا۔ کلام اقبال میں صرف یہ جدت اور وسعت ہے کہ جو فلسفہ یا تصوف حکمت پسند اور روحانیت پسند شعراء میں ملتا ہے اس کے بہترین عناصر بھی کلام اقبال میں موجود ہیں، مگر حکمت کی ایسی باتیں اس میں اضافہ ہو گئی ہیں جو متقدمین میں ملتی ہیں نہ متاخرین میں اور نہ اقبال کے معاصرین میں۔ خاقانی اپنے قصائد میں فلکیات اور ریاضی اور دیگر علوم و فنون کی اصطلاحیں داخل کر کے ان سے اپنے غیر حقیقی تخیلات اور افکار کو استوار کرتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی شاعری کو استناد کا درجہ حاصل ہے اور بعد میں آنے والے شاعر، خواہ قا آنی کی طرح اس کے مقابلے میں زبان و بیان پر زیادہ قدرت رکھنے والے ہوں، اس کا لوہا مانتے ہیں :

شاہا بہ قا آنی نگر خاقانی ثانی نگر

لیکن اقبال اگر فلسفہ قدیم کے علاوہ فلسفہ جدید کی بعض اصطلاحیں اور نظریات اپنے کلام میں داخل کرے تو اس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ شاعری کے درجے سے گر گیا ہے۔

اسی طرح یہ اعتراض بھی لغو ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری کے بیشتر حصے کو احیائے ملت کے لیے کیوں وقف کر دیا؟ کیا شاعری واقعی اس سے خراب ہو جاتی ہے؟ عربی اور فارسی شاعری کا موازنہ اور مقابلہ کرتے ہوئے مولانا شبلی اور دیگر نقادوں نے اس کو تسلیم کیا ہے کہ عجم کے تخیلات سے متاثر ہونے کے قبل سر زمین عرب کے اندر شاعری حقیقت نگاری تھی اور عرب شاعر اپنے کلام میں دروغ سے فروغ نہیں پیدا کرتا تھا، وہ حقیقت کو سادگی کے ساتھ اس انداز میں پیش کرتا تھا کہ وہ سننے والے کے دل کے اندر اتر جاتی تھی۔ ہر شاعر اپنے شخصی عشق یا ذاتی تاثرات مسرت و الم کے علاوہ اپنے قبیلے کے نفس کا ترجمان ہوتا تھا۔ وہ اپنے قبیلے کے کارناموں کو دہراتا تھا، ہمت و ایثار کی مثالیں اسی قبیلے کے گزرے ہوئے افراد سے لیتا تھا اور دشمنوں کے مقابلے میں اپنے قبیلے والوں کے دل مضبوط کرتا تھا۔ انہیں صفات کی وجہ سے قدیم عربی شاعری اب تک حقیقت شناسوں سے داد حاصل کرتی ہے۔ وہ عربی شاعری قبیلوی عصبیت کی شاعری تھی، اس کے مقابلے میں اس اقبال کی ملت پرستی کی شاعری غیر معمولی وسعت رکھتی ہے جس میں جذبات عالیہ کی فراوانی ہے اور جذبات اسفل کا فقدان ہے۔ اقبال اپنی ملت کے متعلق بہت کچھ وہی انداز اختیار کرتا ہے جو کسی عرب قبیلے کا اعلیٰ درجے کا شاعر اختیار کرتا تھا۔ اقبال بھی اپنی ملت کے اچھے کارناموں کو دہراتا ہے لیکن اس کی نظر میں وسعت اور اس کے قلب میں زیادہ صداقت پیدا ہو گئی ہے جو تنگ نظر عصبیت پر غالب آ گئی ہے۔ وہ صرف قوم کا قصیدہ نہیں پڑھتا بلکہ اس کے عیوب بھی اس طرح بیان کرتا ہے کہ اس قوم کا دشمن بھی اس سے زیادہ تلخ گوئی سے کام نہیں لے سکتا۔ اس کا مقصد اپنی قوم میں بلند نظری اور مقاصد حیات کی بلندی پیدا کرنا ہے جو نہ صرف اس مخصوص ملت بلکہ تمام نوع انسان کے لیے باعث خیر ہو۔

شاعری کے متعلق یہ ایک لغو نظریہ ہے کہ شاعر نہ کسی خاص عقیدۂ زندگی کا مبلغ ہو اور نہ کسی خاص ملت کی وابستگی سے شعر کہے، اور یہ کہ شاعر کو تمام نوع انسان کے لیے ایک بے طرف اور غیر جانبدار انسان ہونا چاہیے۔ ہومر خالص یونانی شاعر ہے، اس کے عقائد، اس کے تاثرات، اس کی صنمیات سب یونانی ہیں، اس کے ہیرو یونانی ہیرو ہیں، لیکن اس کے باوجود کوئی صاحب ذوق آدمی اس کی شاعری کو یہ کہہ کر نہیں ٹھکرا دیتا کہ وہ یونانی ماحول کی پیداوار ہے جو تین چار ہزار برس پہلے ایک مخصوص خطہ زمین میں پایا جاتا تھا۔ اس کے دیوتاؤں کا اب کون قائل ہے اور اس کی اخلاقیات بھی اب ہمارے کس کام کی ہے، لیکن عیسویٰ مغرب کو دیکھئے کہ ہومر کے دیوتاؤں کو باطل سمجھنے کے باوجود اب تک اس کی شاعری کو جزو تعلیم ادب عالیہ بنائے ہوئے ہے اور کلیسا کے بڑے پادری بھی اس کو پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی ملی اور اسلامی شاعری پر ناک بھوں چڑھانے والے اور اسلامیات کی وجہ سے اس کی شاعری کو پست گردانتے والے وہی لوگ ہیں جو دین سے بے بہرہ اور متنفر ہیں اور ملت کے عروج و زوال سے بھی ان کو کوئی واسطہ نہیں، ان کے نزدیک شاعری تفنن طبع کا نام ہے۔ اگر وہ اشتراکی ہیں تو اشتراکیت کی تبلیغ کو تو اچھی شاعری اور اعلیٰ درجے کا فن لطیف سمجھتے ہیں اور اسلام کی شاعری ان کے نزدیک محض ملائی وعظ و تلقین ہے۔ الحاد پر شعر کہو تو لطف اٹھاتے ہیں اور توحید پر اعلیٰ درجے کے اشعار بھی لکھو تو انہیں بے لطف معلوم ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کی طبیعت میں اس کا کوئی اذعان یا رجحان نہیں۔

فنون لطیفہ کی بھی وہی کیفیت ہے جو علم کی ہے، علم فی نفسہ نہ مفید ہے اور نہ مضر، نہ معاون حیات ہے اور نہ مزاحم زندگی۔ علم ایک بے طرف قوت ہے اور علوم کے بے شمار اقسام ہیں۔ اسی طرح شعر ہر قسم کا ہو سکتا ہے، مختلف اشعار ہر قسم کے افکار اور تاثرات کے حاصل ہو سکتے ہیں، شاعری ادنیٰ جذبات کو بھی ابھار سکتی ہے، بعض اشعار میں جذبہ غالب ہوتا ہے اور بعض میں تفکر اگرچہ جذبے کی آمیزش سے بالکل معرا شعر بہت ٹھنڈا اور پھیکا ہوتا ہے، وہ کانوں کے راستے سے دماغ سے تو ٹکراتا ہے لیکن دل کا کوئی تار اس سے مرتعش نہیں ہوتا۔ ایک قسم کی شاعری ہے جو محض مسرت کے لیے کی جاتی ہے، اس کے برعکس ایک دوسری قسم کی شاعری ہے جس کا مقصود اندوہ گینی اور اندوہ افزائی ہے، جیسے لکھنو کی مرثیہ گوئی خالی ہوس پرستی اور رندی نے بھی اردو اور فارسی شاعری کے کثیر حصے کو گھیر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ وہ شاعری بھی ہے جس میں حکمت اور تجربہ حیات کو دلنشیں اور موثر انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ تصوف نے بھی اعلیٰ درجے کی شاعری کو جنم دیا جس میں حکمت بالغہ اور عشق الٰہی کی آمیزش اور تزکیہ نفس کی ترغیب ہے۔ خوشامد کی جھوٹی شاعری نے قصیدوں کا ایک دفتر بے معنی مہیا کر دیا جو اب تک دار العلوموں کے نصاب میں داخل ہے۔ شاعری کے تمام ا قسام آخر ایک ہی جنس کے انواع ہیں۔

بعض نقاد کہتے ہیں کہ فن کو فن ہی کے معیار سے پرکھنا چاہیے۔ علم علمی معیار سے پرکھا جاتا ہے، اخلاق اخلاقیات کی کسوٹی پر جانچا جاتا ہے، دینیات کے لیے دین معیار ہے، اسی طرح فن لطیف کے صرف فن ہی کو معیار ہونا چاہیے۔ فن کی مملکت ایک آ زاد مملکت ہے جس کے اپنے آئین ہیں۔ اس مسئلے پر کسی قدر مفصل اظہار خیال اقبال کے نظریات فن کی بحث میں آئے گا، یہاں صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ اقبال کی اسلامی اور ملی شاعری اور اس کی فلسفیانہ شاعری، شاعری کے وسیع حدود سے باہر نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس قسم کی تلقین و تبلیغ خطیبانہ نثر میں بھی ہو سکتی ہے بلکہ ہونی ہی نثر میں چاہیے، یہ تقاضا لغو اور بے معنی ہے۔ شاعری کا کام بات کو موثر اور دل نشیں بناتا ہے، اگر کوئی شخص خاص عقابر اور خاص نظریات حیات رکھتا ہے اور خدا نے اس کو شاعر بھی بنایا ہے تو وہ کیوں اپنے افکار و تاثرات کو شعر کے سانچے میں نہ ڈھالے، جو نثر کے مقابلے میں زیادہ موثر پیرایہ بیان ہے۔ میرے نزدیک اقبال نے اسلام اور ملت اسلامیہ کے علاوہ اپنی مخصوص شاعری سے عام نوع انسان کی بے حد خدمت کی ہے، اس کے اشعار بلند افکار اور جذبات عالیہ سے مملو ہیں جو تمام نوع انسان کی بے حد خدمت کی ہے، اس کے اشعار بلند افکار اور جذبات عالیہ سے مملو ہیں جو تمام نوع انسان کی روحانی دعوت دیتے ہیں، اس میں کسی مذہب و ملت کی تخصیص نہیں اور اسلام کی تعبیر میں اس نے جو باتیں کہی ہیں وہ بلا تفریق مذہب و ملت تمام دنیا کے لیے پیغام حیات ہیں چونکہ کہنے والا مسلمان ہے، اس کے مخاطبین براہ راست تو مسلمان ہیں لیکن بالواسطہ اس کا خطاب ہر انسان سے ہے خواہ وہ شرقی ہو یا غربی:

گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمرقند

اقبال کی شاعری کا زیادہ حصہ ایسا ہے جس میں فلسفے اور دینیات اور احیائے ملت کے تقاضے نے شعر کو شعریت کے زاویہ نگاہ سے بھی پست نہیں ہونے دیا۔ اگر اقبال ایک غیر معمولی صاحب کمال شاعر نہ ہوتا تو اس کی نظموں میں فلسفہ خشک ہوتا، وعظ بے اثر ہوتا اور تبلیغ بے نتیجہ ہوتی۔ یہ اس کا کمال ہے کہ وہ فلسفیانہ اشعار کہتا ہے تو بات خالی فلسفے کے مقابلے میں زیادہ دل نشیں اور یقیناً آفرین بن جاتی ہے۔ ملت کے عروج و زوال اور مرض و علاج کو بھی جب وہ اپنی ساحرانہ شاعری کے سانچے میں ڈھالتا ہے تو سننے والوں کے دلوں میں ایک زیر و بم پیدا ہوتا ہے۔

اقبال اعلیٰ درجے کا شاعر ہونے کے علاوہ مفکر اور مصلح بھی ہے، بعض نظمیں وہ محض بحیثیت شاعر لکھتا ہے، بعض نظموں میں حکیمانہ افکار شعر کے پیرائے میں ڈھل گئے ہیں اور بعض نظموں میں جذبہ اصلاح غالب ہے اس لیے اس کے تمام کلام کو محض شاعری کے نقطہ نظر سے نہیں جانچ سکتے اگرچہ محض فن کی حیثیت سے بھی اس کی اکثر مبلغانہ اور حکیمانہ نظمیں ایک خاص پائے سے نیچے نہیں گرنے پاتیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

پانچواں باب

 

اسلام۔۔۔۔ اقبال کی نظر میں

 

زہد و رندی کی نظم میں اقبال کے متعلق ایک مولوی صاحب نے اس خیال کا اظہار کیا تھا:

اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھلتی

ہو گا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی

مولوی صاحب کو خدشہ اس سے پیدا ہوا کہ اقبال اپنے مذہبی عقائد کو جس انداز میں بیان کرتا تھا وہ عام راسخ العقیدہ ملاؤں اور فقیہوں کے انداز سے الگ تھا اس انداز کا نرالا پن اقبال کے اندر آخر تک قائم رہا، اس انوکھے پن کی وجہ سے وہ شروع ہی میں کہہ رہا تھا:

زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا

اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں

اقبال کے دینی عقائد کو چند صفحات میں بیان کرنا دشوار ہے لیکن یہ کوشش لازمی ہے۔

اقبال موحد ہے اور توحید میں کسی قسم کے اشتراک کو گوارا نہیں کرتا۔ مسلمانوں میں بعد میں وحدت وجود اور وحدت شہود کی بحثیں چھڑ گئیں، اقبال کے نزدیک یہ بحثیں دینی بحثیں نہیں بلکہ فلسفیانہ مسائل و مباحث ہیں، اسلام میں توحید کے مقابلے میں فقط شرک ہے، وحدت و کثرت کی بحث اسلامی بحث نہیں اور نہ ہی اشاعرہ اور معتزلہ کے یہ کلامی مباحث اصل اسلام سے کچھ تعلق رکھتے ہیں کہ وحدت ذات کے اندر کثرت صفات الٰہیہ عین ذات ہیں یا غیر ذات۔

اس کے نزدیک خدا ایک نفس کلی یا ایک ’’ انا‘‘ ہے انائے کامل و مطلق فقط خدا ہے، اس کی عینی اور اساسی صفت خلاقی ہے ’’ کل یوم ھو فی شان‘‘ کے معنی اقبال کے نزدیک یہی ہیں کہ اس کی خلاقی مسلسل اور لامتناہی ہے، ’’ کن فیکون‘‘ کی صدا ہر لمحے میں آ رہی ہے۔

انگریزی لیکچروں میں اس نے اس عقیدے کا اظہار کیا ہے کہ خدا اپنی ماہیت میں چونکہ ایک نفس ہے اس لیے وہ نفوس ہی کو خلق کرتا ہے؟ تمام کائنات نفوس ہی پر مشتمل ہے جو قوت و شعور کے لحاظ سے ارتقاء کے مختلف مدارج میں ہیں۔ یہ عقیدہ پہلے مسلمان حکماء و صوفیہ میں بھی ملتا ہے، یہ عقدہ عارف رومی کے اساسی عقائد میں سے ہے چنانچہ مثنوی کے آغاز ہی میں یہ خیال ملتا ہے کہ کائنات ارواح کا ایک نیستان ہے ہر روح خدا ہی میں سے الگ ہوئی ہے اور اس کے اندر بے تابی اور فریاد کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے اصل کی طرف عود کرنا چاہتی ہے، ’’ کل شی یرجع الی اصلہ‘‘

ہر کسی کو دور ماند از اصل خویش

باز جوید روزگار وصل خویش

اسی وجہ سے تمام موجودات میں ایک جذبہ ا رتقاء پایا جاتا ہے۔

’’ انا‘‘ کی سب سے زیادہ ارتقاء یافتہ صورت انسان میں ملتی ہے لیکن چونکہ خدا تک واپسی کا راستہ لامتناہی ہے اس لیے انائے انسانی کے ممکنات ارتقاء بھی لا محدود ہیں۔

انائے انسانی مخلوق ہے لیکن اس میں ابد قرار ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔ اقبال نے عرفان نفس کا نام خودی رکھا ہے جو اس کی اپنی وضع کردہ اصطلاح ہے؟ خودی کا لفظ اقبال سے پہلے انانیت کے معنوں میں نہیں بلکہ انانیت کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا، اور یہ معنی مستحسن نہیں بلکہ مذموم تھے۔

جذبہ تخلیق و ارتقاء کا نام عشق ہے سعی تخلیق و ارتقاء حرکت کے بغیر ناممکن ہے اس لیے زندگی سراپا حرکت و انقلاب ہے۔

مقصود حیات اور غایت دین انسان کی خودی کو بیدار کرنا اور اس کے جذبہ عشق میں اضافہ کرنا ہے، دنیا ہو یا آخرت، یہ عالم ہو یا وہ عالم، ہر جگہ، ہر حالت اور ہر مقام پر جذبہ عشق اور شوق ارتقاء کا پایا جانا لازمی ہے۔

اسلام اسی لیے ایک دین کامل ہے کہ اس کی تعلیم میں انسان پر زندگی کی ماہیت کو واضح کر دیا گیا ہے اور اس کو تکمیل خودی کے سیدھے راستے بتا دیے گئے ہیں، ان طریقوں کا عرفان جدوجہد ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ قلزم حیات کے کنارے پر بیٹھ کر جو حکمت حقیقت تک پہنچنا چاہتی ہے، اس کو کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی اس لیے کہ زندگی حرکت ہے اور سکون سے سمجھ میں نہیں آ سکتی، فقط جدوجہد کرنے والوں کو خدا حقیقت حیات سے آشنا کرتا ہے الذین جاھد افینا لنھد پنھم سبلنا

ساحل افتادہ گفت گرچہ بسے زیستم

ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من کیستم

موجے ز خود رفتہ تیز خرامید و گفت

ہستم اگر می روم گرنہ روم نیستم

تمام احکام شریعت کا مقصود یہی ہے کہ انسان اپنے نفس کو پاکیزہ اور قوی بنائے جو طریق عمل اس کی وسعت اور قوت میں خارج ہوتے ہیں ان سے اجتناب کی تلقین کرے۔

اسلام پیش کرنے والے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خودی تمام انبیاء اور انسانوں کے مقابلے میں زیادہ بیدار اور استوار تھی، اسی لیے ان کی زندگی نوع انسان کے لیے اسوۂ حسنہ بن گئی۔ اسلام ایک خالص ترین پیغام حیات ہے، نہ نبی کی ترقی کی کوئی انتہا ہے اور نہ عام انسانوں کی ترقی کی کوئی آخری حد ارتقاء جاری ہے اور جاری رہے گا، لیکن نبوت کا مقصد حقیقت حیات کو واضح کر دینے کے بعد پورا ہو گیا، اکملت لکم دینکم کے یہی معنی ہیں۔ اگر قرآن نے واضح طور پر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خاتم النبیین نہ بھی کہا ہوتا تو بھی وضاحت مقصود دین کے بعد کسی اور نبی کا آنا تحصیل حاصل ہوتا، اقبال بڑی شدت کے ساتھ ختم نبوت کے قائل تھے۔ ایک مغربی مفکر نے اقبال کے عقائد پر یہ اعتراض کیا ہے کہ ارتقائے لامتناہی کا قائل ختم نبوت کا کس طرح قائل ہو سکتا ہے؟ جب زندگی ابد الآباد تک نئے اقدار نئے انداز حیات پیدا کر سکتی ہے تو کسی ایک شخص کی تعلیم یا زندگی خاتم کیسے ہو سکتی ہے؟ دراصل یہ تناقض ایک ظاہری تناقض ہے، اقبال کے ہاں اس کا جواب یہ ہے کہ زندگی کے لامتناہی ارتقاء اور اس کے لا محدود ممکنات کو واضح کر دینا ہی نبوت کا منتہیٰ تھا۔ یہ کام پورا ہو گیا تو نبوت بھی لازما ختم ہو گئی خود نبی کے انسان کامل ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کی اپنی ذات کے لیے کوئی بلند تر درجہ ارتقاء باقی نہیں رہا۔ ارتقاء کی آخری منزل تو خدا ہے مگر کوئی شخص لامتناہی ارتقاء سے بھی خدا نہیں بن سکتا نہ عمل کی کوئی انتہا ہے اور نہ علم کی اسی لیے نبی مسلسل استغفار بھی کرتا ہے اور ’’ رب زدنی علما‘‘ کی دعا بھی مانگتا ہے۔ عرفان کی بھی کوئی انتہا نہیں اس لیے مدارج میں بھی ’’ ماء فناک حق معرفتک‘‘ کہتا ہے۔

اسلام کا مقصد زندگی کو کسی ایک صورت میں جامد کرنا نہ تھا بلکہ اسے لامتناہی انقلاب و ارتقاء کا راستہ بتانا تھا۔ نبوت کا ایک انداز ختم ہو گیا لیکن ارتقائے حیات ختم نہیں ہوا۔ اسلام کے دین کامل ہونے کے یہ معنی نہیں کہ اس نے انسانی زندگی کی کوئی آخری صورت معین کر دی بلکہ اس کا کمال یہ ہے کہ اس نے یہ تلقین کی کہ کوئی صورت قابل پرستش نہیں :

’’ صورت نہ پرستم من‘‘

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں

یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں

اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا

کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی

اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے

اقبال قرآن کریم کو دین کی ایک مکمل کتاب سمجھتا ہے، اکثر مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ فقط قرآن اسلام کے لیے کافی نہیں اور حدیث کے بغیر قرآن کی تکمیل نہیں ہوتی۔ اقبال کا عقیدہ یہ ہے کہ صحیح اور مستند احادیث مقاصد قرآن اور مقاصد اسلام کو واضح کرتی ہیں اور خاص حالات پر اسلامی عقائد کا اطلاق ہیں، لیکن جہاں تک اصول اور اساس اسلام کا تعلق ہے، قرآن سے باہر جانے کی ضرورت نہیں، احادیث کی صداقت و صحت کا معیار بھی قرآن ہی ہے:

گر تو می خواہی مسلماں زیستن

نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن

قرآن بھی ماہیت حیات اور نفس انسانی کی طرح اپنے اندر لامتناہی زندگی رکھتا ہے انسانی زندگی کے مزید ارتقاء میں کوئی دور ایسا نہیں آ سکتا جس میں قرآنی حقائق کا نیا انکشاف ترقی حیات میں انسان کی رہبری نہ کر سکے۔ زندگی نو بہ نو صورتیں پیدا ہوتی جائیں گی لیکن قرآن کے اساسی حقائق کبھی دفتر پارینہ نہ بنیں گے۔

اقبال کے ہاں عذاب و ثواب اور جنت و دوزخ کا تصور بھی عام عقائد سے بہت کھ الگ ہو گیا ہے، وہ جنت کو مومن کا مقصود نہیں سمجھتا اور نہ ہی اسے ابدی عشرت کا مقام خیال کرتا ہے۔ اس کے نزدیک جنت یا دوزخ مقامی نہیں بلکہ نفسی ہیں :

جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے

حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر

اقبال کا عقیدہ یہ ہے کہ جہاں حرکت و ارتقاء اور مسلسل خلاقی نہیں وہاں زندگی کا فقدان ہے، جنت اگر جز اے اعمال حسنہ ہو تو وہ اس کیفیت نفس کا نام ہونا چاہیے جہاں عرفان خودی، استحکام خودی اور عشق خلاق ترقی یافتہ صورتوں میں پایا جائے، دوزخ خودی کے سوخت ہو جانے کا نام ہے اس لیے نار دوزخ کی ماہیت کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں واضح کیا ہے کہ وہ ایک آگ ہے جس کے شعلے کسی خارجی ایندھن سے نہیں بلکہ قلب انسانی میں سے بلند ہوتے ہیں۔

’’ تطلع علیت الافندۃ‘‘

بقائے روح کی نسبت علامہ اقبال کا خیال تھا یہ  بقا غیر مشروط نہیں، جسمانی موت کے بعد روح کا باقی رہنا یا نہ رہنا یاس کا کسی ایک مخصوص حالت میں رہنا انسان کی خودی پر موقوف ہے۔ اگر کسی شخص نے صحیح علم و عمل سے اپنی خودی کو استوار نہیں کیا تو اس کا امکان ہے کہ وہ فنا ہو جائے اور اگر اچھی زندگی سے اس نے اپنی روح کو قوی بنا لیا ہے تو وہ باقی رہے گی۔ کچھ اسی قسم کے خیال کی طرف مثنوی مولانا روم میں بھی ایک اشارہ ملتا ہے وہاں بحث یہ ہے کہ ’’ کل شیی ھالک الا وجہہ‘‘ اور کل من علیہا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام اگر درست ہے تو انسانوں کے انفرادی نفوس کا باقی رہنا کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب عارف رومی یہ دیتے ہیں۔ ’’ کل شی ھالک‘‘ کے بعد ’’ الا وجہہ‘‘ موجود ہے لہٰذا انسان کی بقا اسی حالت میں ممکن ہو سکتی ہے کہ وہ وجہ الٰہی یعنی صفات ذات الٰہی میں داخل ہو کر اپنی زندگی کو قائم رکھے صحیح زندگی بسر کرنا وجہ الٰہی میں داخل ہو کر زندہ رہنا ہے، خواہ وہ اس عالم میں ہو یا کسی اور عالم میں۔ خدا سے باہر رہ کر کوئی زندگی نہیں ہو سکتی اور خدا کے اندر رہ کر زندگی ہی زندگی ہے۔ روح انسانی بقائے ذات الٰہی سے بہرہ اندوز ہو سکتی ہے لیکن یہ عشق الٰہی ہی کی بدولت ہو سکتا ہے۔ اقبال بھی کہتا ہے کہ عشق سے انسان اپنی روح کو قوی اور پائدار کرتا ہے اگر اس نے ایسا نہ کیا تو وہ فنا ہو جائے گا:

بمیری گر بہ تن جانے نداری

وگر جانے بہ تن داری نہ میری

اسی عقیدے کے مطابق مرض الموت کے آخری ایام میں فرمایا کرتے تھے کہ میں معالجے سے جسمانی صحت کی درستی میں اس لیے کوشاں ہوں کہ مجھے خدشہ ہے کہ جسمانی اضمحلال اور اختلال میری خودی کو کمزور نہ کر دے اور اس جسم کو چھوڑتے ہوئے میرا ’’ انا‘‘ ضعیف نہ ہو۔ میں دوسرے عالم میں ایک قوی ’’ انا‘‘ کے ساتھ داخل ہونا چاہتا ہوں۔ یہ بھی فرماتے تھے کہ اس عالم اور دوسرے عالم کے درمیان ایک برزخ ہے لیکن اس برزخ کی وسعت بھی مختلف انسانوں کے لیے مختلف ہوتی ہے شہداء کے لیے کوئی برزخ نہیں وہ براہ راست ایک برتر عالم میں داخل ہو جاتے ہیں۔

جنت کی طرح دوزخ کو بھی اقبال ایک نفسی کیفیت سمجھتا ہے، دوزخ کی آگ نفس ہی کی آگ ہے، اس عقیدے کے بیان میں یہ اشعار ملتے ہیں۔

دور جنت سے آنکھ نے دیکھا

ایک تاریک خانہ، سرو و خموش

طالع قیس و گیسوے لیلیٰ

اس کی تاریکیوں سے دوش بدوش

خنک ایسا کہ جس سے شرما کر

کرۂ زمہریر ہو روپوش

میں نے پوچھی جو کیفیت اس کی

حیرت انگیز تھا جواب سروش

یہ مقام خنک جہنم ہے

نار سے نور سے تہی آغوش

شعلے ہوتے ہیں مستعار اس کے

جن سے لرزاں ہیں مرد عبرت کوش

اہل دنیا یہاں جو آتے ہیں

اپنے انکار ساتھ لاتے ہیں

اقبال کے نزدیک اسلام کی تعلیم کا ایک اہم حصہ قرآن کریم کے بیان کردہ قصہ آدم میں ملتا ہے۔ اسلام سے قبل ہبوط آدم کی داستان عیسائیوں میں اس انداز سے بیان کی جاتی تھی کہ آدم و حوا جنت میں رہتے تھے، حوا کو شیطان نے بہکایا کہ شجر ممنوعہ کا پھل کھاؤ تو تمہیں خلود حاصل ہو جائے گا۔ حواس کے جھانسے میں آ گئی اور اس نے آدم کو بھی خدا کی عدول حکمی پر راضی کر لیا، اس  کا نتیجہ یہ ہوا کہ آدم و حوا گناہ سے ملوث ہو گئے، جنت سے اس عالم ارضی میں سزا بھگتنے کے لیے بھیج دیے گئے یہ گناہ ایسا عظیم اور ناقابل عفو تھا کہ تب سے اولاد آدم و حوا میں وراثتاً منتقل ہوتا رہتا ہے۔ کوئی بچہ معصوم پیدا نہیں ہوتا، اس کی روح پیدائش ہی سے آبائی گناہ سے داغ دار ہوتی ہے، عورتوں کی بچہ جننے کی مصیبت اسی گناہ کا نتیجہ ہے اور عورتوں کو یہ سزا اسی لیے ملتی ہے کہ آدم کو حوا ہی نے اس گناہ کے ارتکاب پر راضی کیا تھا۔ یہ گناہ ایسا شدید تھا کہ اعمال حسنہ سے بھی اس سے چھٹکارا حاصل نہ ہو سکتا تھا؟آخر خدا کے اکلوتے یسوع مسیح نے اپنے آپ کو بھینٹ بنا کر بطور کفارۂ پیش کیا۔ حضرت مسیح ناکردہ گناہ مصلوب ہوئے تاکہ ان کو ماننے والے دوزخ سے نجات پا سکیں مگر جو شخص کفارہ مسیح کو نہ مانے اس کی نجات اس قربانی کے بعد بھی ممکن نہیں۔ قرآن نے قصہ آدم کو بالکل دوسرے رنگ میں بیان کیا ہے، خلاف ورزی کی کوئی تصریح نہیں، صرف اشارہ کر کے آگے گزر گیا ہے، کیونکہ خلاف ورزی کا داغ فوراً ہی اقبال گناہ سے دھل گیا۔ یہاں یہ تعلیم دینا مقصود تھا کہ گناہ کوئی ہمیشہ کے لیے انسان کو چمٹ جانے والی چیز نہیں، حسنات سے سینات کا اثر زائل ہو جاتا ہے اور زندگی کا رخ صحیح طرف پھیرنے یعنی توبہ کے بعد عروج کی راہیں کھل جاتی ہیں۔ چنانچہ آدم کو عفو و در گزر کے بعد اس عالم ارضی میں خدا کا نائب مقرر کیا گیا عیسائیت کا زوال آدم کا قصہ قرآن میں عروج و کمال آدم کی داستان بن گیا۔ قرآن کا آدم ایک نصب العینی انسان ہے اور اس کی سیرت انسانیت کی نظر گاہ اور اس کی معراج ہے۔ انسان کی زندگی کا مقصود نیابت الٰہی میں عناصر و ارکان پر حکمرانی یعنی تسخیر فطرت ہے جس کا ذکر قرآن نے وضاحت سے کیا ہے؟ جس طرح فطرت خدا کے ہاں مسخر ہے اسی طرح انسان کی جدوجہد سے بھی اس کو مسخر ہونا چاہیے۔ آدم عشق الٰہی کی بدولت نائب ہوا اور ملائکہ سے زیادہ علم حاصل کرنے سے اس کو ان پر فضیلت حاصل ہوئی؟ ابلیس نے تکبر اور ادنیٰ قسم کی زیرکی سے کام لیا اس لیے وہ مردود و مقہور ہو گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ تکبیر اور محدود عقل پر ناز شیوۂ ابلیسی ہے جو انسان کو قعر مذلت میں گرا سکتا ہے۔ اقبال کی تعلیم میں وقار آدم اور عروج آدم کا نظریہ ایک مرکزی عقیدہ ہے۔ اقبال نے اس عقیدے پر افکار و تاثرات کی ایک عظیم الشان عمارت کھڑی کی ہے اور انسانی زندگی کے ممکنات اور تسخیر حیات کو اسلامی تعلیم کی اساس قرار دیا ہے۔ اسلام نے انسان کے اندر اعتماد نفس پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنے تئیں نائب الٰہی سمجھ کر فطرت پر حکمرانی کرے اور فطرت کے عناصر اور اس کی قوتوں سے مرعوب ہونے کی بجائے ان کو بلا استثنا قابل تسخیر سمجھے اس قوت تسخیر میں اضافہ اقبال کے ہاں استحکام خودی کی تلقین بن گیا ہے؟ اسلام میں توحید کا عقیدہ اور وقار انسانی ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، نہ کوئی فطرت کی قوت انسان کی معبود ہو سکتی ہے اور نہ کوئی ایک انسان دوسرے انسانوں کا معبود بن سکتا ہے۔ انسان کے اوپر خدا کے سوا کچھ نہیں، ’’ لا غالب الا اللہ۔ ‘‘

حدیث نبوی کے متعلق علامہ اقبال کے زاویہ نگاہ کی طرف اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے۔ احادیث کے بارے میں افراط اور تفریط نے مسلمانوں کے دو گروہ بنا دیے ہیں، ان دونوں گروہوں کے عقائد میں اعتدال مفقود ہے ایک گروہ علی الاعلان اس کا مدعی ہے کہ حدیث قرآن کا ایک لازمی تکملہ ہے تمام اسلامی کو محض قرآن میں سے اخذ نہیں کر سکتے، اس گروہ میں سے بعض افراد نے یہاں تک غلو کیا ہے کہ بعض احادیث کو نصوص قرآنی کا ناسخ بتاتے ہیں ؟ اس لحاظ سے حدیث قرآں کے مقابلے میں زیادہ مستند ہو جاتی ہے۔ ایک دوسرا گروہ، جو مقابلتاً قلیل ہے اپنے آپ کو اہل قرآن کہتا ہے اور احادیث کے تمام مجموعے کو نہ صرف نا قابل اعتبار سمجھتا ہے بلکہ مخرب اسلام قرار دیتا ہے علامہ اقبال اس بارے میں نہایت معقول رائے رکھتے تھے، ان کے نزدیک اساسی اور ابدی اسلام قرآن میں موجود ہے اور قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ اس میں تمام باتوں کی تبیین اور تفصیل ہے، ان کے نزدیک بالکل برحق ہے؟ اس سے زندگی کی جزئی تفصیلات مراد نہیں ہو سکتیں اس لیے کہ زندگی کی تفصیلات اس کے تغیرات اور تنوع کی وجہ سے لامتناہی اور نا قابل احصا ہیں قرآن کریم جن تفصیلات پر حاوی اور اپنی تعلیمات کے لحاظ سے جامع اور مانع ہے وہ زندگی کے ان بنیادوں اصولوں کی تفصیلات ہیں جو قوانین فطرت کی طرح ناقابل تغیر اور اٹل ہیں۔ قرآن کریم نے خود وضاحت سے اپنے آپ کو قوانین فطرت اور قوانین حیات انسانی کا آئینہ بنایا ہے اور دین قیم اسی دین کو بتایا ہے جس کے متعلق ’’ لا تبدیل للحلق اللہ‘‘ اور’’ لن تجد لسنتہ اللہ تبدیلا‘‘ کہ سکیں۔ علامہ اقبال قرآن کریم کے بارے میں کسی تنسیخ اور تغیر کے قائل نہ تھے لیکن احادیث اور فقہ کے بارے میں از روئے تحقیق اپنے آپ کو آزاد سمجھتے تھے، بہت سی حدیثیں جن کو لوگوں نے مسلم اور مستند سمجھ لیا ہے وہ ان کے نزدیک موضوع اور بے بنیاد تھیں اور بعض دیگر احادیث جن کا استناد ضعیف شمار ہوتا ہے وہ انہیں بصیرت نبوی کا اعلیٰ نمونہ تصور کرتے تھے اور اپنے کلام میں جا بجا ان سے استفادہ کرتے تھے۔ بہت سے مسلمان صوفیہ اور حکما کا بھی اس سے قبل یہی رویہ رہا ہے، مثنوی مولانا روم میں بعض اعلیٰ درجے کے اشعار انہی احادیث کی شرح میں ہیں جو محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔ یہی حال امام غزالی علیہ الرحمہ جیسے بالغ نظر عالم اور حکیم صوفی کا ہے۔ احیاء العلوم اور کیمیائے سعادت پر اکثر محدثین نے یہی اعتراض کیا ہے کہ امام صاحب نے ان کتابوں میں ضعیف حدیثیں بھر دی ہیں۔ معاملات کے متعلق علامہ اقبال جن احادیث کو استناد کے لحاظ سے صحیح بھی خیال کرتے تھے ان کی نسبت بھی ان کی رائے یہ تھی کہ ان کا اطلاق مخصوص حالات پر ہوتا ہے، وہ فقہ اسلامی کے بعض عناصر کو تمام نوع انسانی کے لیے قابل عمل خیال کرتے تھے لیکن بعض فروغ میں وہ اجتہاد کے قائل تھے اور ان کی یہ رائے تھی کہ اجتہاد کا دروازہ بند کر دینے اور اجتہاد کی صلاحیت کے ناپید ہو جانے کی وجہ سے ملت اسلامیہ کو زوال آیا ہے۔

ملت اسلامیہ میں حامیان دین کے دو گروہ عرصہ دراز سے چلے آ تے ہیں ایک کو ملا اور دوسرے کو صوفی کہتے ہیں ملا کا گروہ وہی ہے جسے شیخ کا لقب دے کر شعراء اور متصوفین نے بہت کچھ برا بھلا کہا ہے۔ اقبال ان دونوں طبقوں سے بیزار تھے، انہیں تخریب اسلام کا ذمہ دار قرار دیتے تھے۔ ملا پر یہ طعن تشنیع وہ اطراف سے شروع ہوئی، ایک تو اہل دل اور اہل باطن کی طرف سے جنہوں نے دیکھا کہ فقہا اور علم برداران دین کا ایک بڑا حصہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کی زندگی میں دین کے کچھ ظواہر تو ملتے ہیں لیکن کہیں بھی ظاہر کی تہ میں تزکیہ اور بصیرت قلب نظر نہیں آتی یہی طبقہ فروعات کے متعلق ایک دوسرے سے بر سر پیکار اور دست و گریبان رہتا ہے، چھوٹے چھوٹے اختلافات پر ایک نیا فرقہ بن جاتا ہے جو اس فرقے سے باہر خدا کے نیک بندوں کی تکفیر کو باعث نجات سمجھتا ہے، ایسے اخلاق والے لوگ بھلا عامۃ الناس کی کیا اصلاح کریں گے؟ او خویشتن گم است گرا رہبری کند ان لوگوں کے پاس دین کا چھلکا ہوتا ہے جو ان کی خوراک بن جاتا ہے لیکن اس چھلکے کے اندر کے گودے سے ان کا کام و دہن آشنا نہیں ہوتا:

جنگ ہفتاد و دو ملت ہمہ را عذر بنہ

چوں نہ دیدند حقیقت رہ افسانہ زدند

(حافظ)

ہفتاد و دو طریق حسد کے عدو سے ہیں

اپنا ہے یہ طریق کہ باہر حسد سے ہیں

(ذوق)

حقیقت شناس اہل دل کے علاوہ ایک دوسرا گروہ بھی موقع دیکھ کر اور صوفیہ کے کلام سے شہ پا کر علمائے ظاہر کے خلاف پھبتیاں کسنے لگا، یہ رندوں کا گروہ تھا جو دین کے ظاہر اور باطن دونوں سے بری ہونا چاہتا تھا اس گروہ نے سلایا شنج کو ہدف ظرافت بنا لیا۔ ان کے علاوہ مسلمانوں میں ایک قلیل تعداد حکماء کی تھی جو ملا سے اس لیے بیزار تھے کہ وہ شعائر اسلام احکام شریعت اور عقائد دینیہ کی حکمت سے نا آشنا ہے اور اسی لیے اس کے اقوال و اعمال تمام تر تقلیدی ہوتے ہیں، حیات و کائنات کے کچھ حقائق کا انکشاف عقل سے ہوتا ہے اور کچھ اسرار حیات ایسے ہیں جو عشق کی بدولت منکشف ہوتے ہیں ملا نے حکمت کو بھی دین سے خارج کر دیا اور محبت خدا و خلق سے بھی بیگانہ رہا۔

تصوف کے سلسلے مسلمانوں میں ظاہر پرستوں کے رد عمل کے طور پر شروع ہوئے تاکہ لوگوں کو ظاہر سے باطن کی طرف متوجہ کیا جائے اور دین کو مرد مومن کے لیے ایک ذاتی تجربہ حیات بنایا جائے تاکہ لوگ محض مقلدانہ طور پر دین کی حقیقت کو تسلیم نہ کریں لیکن جس طرح فقہ میں جمود اور تقلید نے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کو جامد اور بے روح بنا دیا تھا، اسی طرح تصوف میں غیر اسلامی عناصر نے دخل پا کر اسلامی زاویہ نگاہ کو خراب کیا اور رفتہ رفتہ تصوف جو تحقیق سے شروع ہوا تھا، خود ایک دوسری قسم کی تقلید بن گیا اور تصوف کے سلسلے بھی جامد ہو گئے دونوں طبقوں نے دین کو دنیاوی منافع اور مفاد حاصل کرنے کے لیے دام تزویر بنا لیا۔

ملا کہلانے والا طبقہ تو در حقیقت قابل رحم ہے؟ ایک طرف حکومت یا دولت والوں کی طرف سے اس کی کوئی سرپرستی نہیں اور دوسری طرف بے چارے ملا کی تعلیم نہایت محدود ہوتی ہے، مفلسی اور کم علمی کی وجہ سے وہ سوسائٹی میں بے حیثیت ہو گیا ہے، اس سے مسجد کی صفائی اور مردہ شوئی کا کام لیا جاتا ہے، حقوق و فرائض کے متعلق اس کا علم بہت خام ہوتا ہے، کئی اسباب اس کی ذہنی اور اخلاقی پستی کے ذمہ دار ہیں، فیضی اس کے متعلق کہتا ہے:

مشاجرات فرائض کہ کس نخوانا دش

زمن مجوے کہ ایں علم مردہ شویان است

اچھی معیشت اور اچھے گھرانوں کے لوگ اپنے بیٹوں کو ملا بنانا نہیں چاہتے اس لیے کہ ملا کے لیے نہ عزت کی روزی ہے اور نہ سوسائٹی میں وقار؟ یہ لوگ زیادہ تر ایسے ہی طبقوں سے آتے ہیں جن میں تعلیم و تربیت نہیں اور خود داری پیداکرنے والی دنیاوی وجاہت نہیں ؟ پھر یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے اور کہ ان بے چاروں سے لوگ بلند خیالی اور بلند حوصلگی کی توقع رکھتے ہیں اور جب وہ توقع پوری نہیں ہوتی تو ان کو متہم کر کے ان پر فقرے کسنے لگتے ہیں۔ جب تک حکومت اور ملت علوم دینیہ میں زندگی وقف کرنے والوں کے لیے با وقار روزگار اور اجتماعی وقار کا بندوبست نہ کرے تب تک ان کی حالت ایسی ہی ناگفتہ بہ رہے گی۔

کچھ ہوشیار ملا ایسے بھی ہیں جنہوں نے د نیا طلبی کے لیے سیاسی لیڈری شروع کر دی ہے، اس طریقے سے روزگار کا بھی اچھا بندوبست ہو جاتا ہے اور سوسائٹی میں بھی چرچا ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے یہ افراد سیاست میں دخل انداز ہوتے ہیں ویسے ویسے رہا سہا دین بھی ان کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے؟ کسی صحت مندانہ سیاست کی ان سے توقع نہیں ہو سکتی کیونکہ جتنے یہ دین سے بے بہرہ ہوتے ہیں اس سے زیادہ معاشرتی اور سیاسی مسائل سے نا آشنا ہوتے ہیں صدیوں پہلے ابن خلدون نے ان کے متعلق فتویٰ دیا تھا کہ (العلماء ابعد الناس عن السیاستہ) موجودہ دنیا میں سیاست ایک بڑی پیچدار چیز بن گئی ہے۔ معاشیات کے پیچ در پیچ مسائل اس کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں، اسلامی بنا پرسیاست اور معیشت میں قابل عمل مشورہ دینے کے لیے علوم جدیدہ اور حالات حاضرہ سے گہری واقفیت درکار ہے جو اس گروہ میں نہیں پائی جاتی، ملت اسلامیہ کی خرابی یہ ہے کہ اہل سیاست دین سے بیگانہ ہیں اور مدعیان دین سیاست کی ابجد سے واقف نہیں۔

ملا کے علاوہ ہمارے ہاں کے صوفی ہیں جنہیں لوگ پیر کہتے ہیں۔ پیری کا سلسلہ اکثر کسی اہل دل سے شروع ہوتا ہے جو تزکیہ باطن اور بصیرت روحانی کی بدولت مرجع خلائق بن جاتا ہے؟ ایسے شخص میں شق الٰہی، اصلاح ذات اور فلاح خلق کے سوا اور کوئی جذبہ یا محرک نہیں ہوتا، وہ انبیاء کی طرح لوگوں سے کسی اجرت کا طالب نہیں ہوتا، اس مرد خدا کے گزر جانے کے بعد اس کی اولاد اس کی جانشین ہو جاتی ہے اور سجادہ نشینی ایک قسم کی جاگیرداری بن جاتی ہے، عقیدت مند نقدی اور نذرانے بھی پیش کرتے ہیں، جو رفتہ رفتہ ایک مستقل ٹیکس کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ زمینوں کے عطیے سے اوقاف قائم ہو جاتے ہیں، پھر کسی طرح سے یہ اوقاف پیروں کی ذاتی ملکیت بن جاتے ہیں، یہاں تک کہ سجادہ نشین صاحب جاگیر ہو جاتا ہے اور سرمایہ داروں کی سی زندگی بسر کرنے لگتا ہے، جہالت کی وجہ سے معتقدین کے اعتقاد میں کچھ خلل نہیں آتا، رفتہ رفتہ ہر شخص (الا باستثناے مردے چند) جس کو پیری ورثے میں ملی ہے اس کو زمینداری اور امیری بھی ورثے میں مل جاتی ہے، حکومت کی طرف سے بڑے بڑے خطابات حاصل ہوتے ہیں پھر کونسلوں میں داخل ہو کر پیری کے بعد وزیری کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔

اقبال کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ مسلمانوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے ایک طبقہ پیدا ہو لیکن اس اہم فریضے کے لیے اہل دل اور اہل علم ہونے کی ضرورت ہے اور زبردست جذبہ ایثار اس کے لیے لازم ہے۔ جب وہ دیکھتا تھا کہ عوام کو دین کی خبر نہیں (اگرچہ اس بے خبری کے باوجود ان کے اخلاق خواص سے کچھ بہتر ہی ہوتے ہیں ) اور حامیان شرع متین ملا اور صوفی کا یہ حال ہے تو بعض اوقات مایوسی میں یہ پکار اٹھتا تھا کہ اے خدا اس ملت کو دنیا سے اٹھا لے اور حسب وعدہ کوئی اور ملت اسلام کی خدمت کے لیے پیدا کر:

کہ ایں ملت جہان را بار دوش است

اقبال نے ملا کی نسبت عام شاعروں کی طرح فقط لطیفہ بازی نہیں کی، اس نے جو کچھ کہا ہے وہ بر بنائے بصیرت اور بر بنائے تجربہ کیا ہے، اس کا انداز ظریفانہ نہیں بلکہ اس کی تہ میں درد و رنج ہے، اکثر اشعار میں ملا پر جو اعتراض کیا ہے اس کی وجہ بھی بتائی ہے۔

ملا میں رواداری نہیں ہوتی:

کوئی یہ پوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے

جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے

ملا کے خدا کا تصور بھی ادنیٰ تشبیہی اور مکانی تصور ہے:

بٹھا کے عرش پہ رکھا ہے تو نے اے واعظ

خدا وہ کیا ہے جو بندوں سے احتراز کرے

بھلا نبھے گی تری ہم سے کیوں کر اے واعظ

کہ ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہیں

اسلام کا خدا رب العالمین اور اس کا نبی رحمۃ للعالمینؐ ہے، تنگ نظری نے خدا کو صرف رب المسلمین اور نبی کو صرف رحمۃ للمسلمین بنا دیا اور یہ رحمت بھی تمام مسلموں کے لیے نہیں بلکہ اپنے فرقے کے چند افراد کے لیے ہے بشرطیکہ وہ تمام فروع میں آپ کے ہم خیال اور ہم نوا ہوں۔ اسلام کا تقاضا یہ تھا کہ رسم محبت کو عام کیا جائے اور عدل و رحم کو صرف اپنے گروہ تک محدود نہ رکھا جائے، تنگ نظر علما نے محبت کو عام کرنے کی بجائے نفرت کو عالمگیر بنا دیا اس لیے کہ خلق خدا کی کثیر تعداد تو کسی ایک ملت اور ایک فرقے سے خارج ہی ہوتی ہے، نفرت اور تکفیر کا بازار گرم ہو گیا، جو تم سے پوری طرح متفق نہیں اس کے ساتھ مل کر نماز بھی نہ پڑھو، جو فلاں امام کے پیچھے نماز پڑھے گا اس کی بیوی پر طلاق عائد ہو جائے گی، مسجدوں میں اس مضمون کے بورڈ لگنے شروع ہو گئے کہ مسلمانوں کے فلاں فلاں فرقوں کے افراد کے لیے اس مسجد میں نماز پڑھنا ممنوع ہے (ایک بڑی مسجد میں اس قسم کا بورڈ راقم الحروف نے طالب علمی کے زمانے میں دیکھا ہے) بلند آواز سے آمین کہنے پر لوگ مسجدوں میں ہی پٹ گئے اور اس کے بعد مسجد کو غسل دیا گیا کہ بلندی آمین کی ناپاکی رفع ہو جائے؟ مسلمان غیر مسلموں سے تو کسی قدر رواداری برتنے بھی لگے لیکن اپنی ملت کے اندر تشدد میں اضافہ کرتے گئے، نئے متبنی اور مجدد ایسے نکلے کہ ملت کے اندر اتحاد کو ترقی دینے کی بجائے افتراق کی آگ کو ہوا دینے لگے، جو ان کے دعووں کو نہ مانے وہ خدا اور سول ؐ کو ماننے کے باوجود کافر یا کم از کم یہ کہ اس سے معاشرتی تعلقات منقطع کر لیے جائیں، رشتہ ناطہ بند، نماز میں شرکت ممنوع اور یہ سب کوشش احیائے ملت اور تجدید دین کے نام پر اگر اسلام دیگر مذہب کے مقابلے میں رسم محبت کو عام کرنے کا نام نہیں ہے تو پھر اس میں اور کونسی فضیلت باقی رہ جاتی ہے۔

ایک شعر میں اقبال نے کہا ہے کہ محبت کی فراوانی اور جہانگیری ہی کا نام اسلام ہے، اسلام نے تو عملاً رواداری کو ترقی دینے کے لیے یہاں تک اجازت دے دی تھی کہ ایک اہل کتاب عورت تمہاری اولاد کی ماں ہو سکتی ہے اور اس کی خدمت مسلمان اولاد کے لیے ویسی ہی فرض ہے جیسی کہ اس ماں کے مسلمان ہونے کی حالت میں ہوتی، لیکن ملائی اسلام نے اس دین کو اتنا تنگ کر دیا کہ فقہی اور فروعی اختلافات کی بناء پر ایک دوسرے کے ہاں کھانا پینا، خدا کی عبادت کرنا اور بیاہ شادی ممنوع و  مقطوع ہو گئی۔ جن مکتبوں میں ایسی تعلیم دی جاتی ہے ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ ایسی تنگ نظری میں رعنائی افکار کہاں سے آئے گی؟ عجیب بات یہ ہے کہ یہ رواداری خانقاہوں سے بھی مفقود ہو گئی ہے حالانکہ یہی خانقاہیں اچھے زمانوں میں کبر و نصاریٰ اور یہود و ہنود کے لیے بھی کشش کا باعث تھیں، کثرت سے غیر مسلم صوفیہ کی رواداری اور حسن سلوک ہی کی وجہ سے اسلام میں داخل ہوئے:

مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے؟

خانقاہوں میں کہیں لذت اسرار بھی ہے؟

پیروں کے ہاں اب قوالی تو ہوتی ہے لیکن وہاں خود انگیختہ وجد و حالی کی تہ میں کہیں پائدار روحانی عشق کا جذبہ نہیں ابھرتا جو قلب کو گرما دے اور روح کو تڑپا دے خانقاہوں میں اب کرامات کا بیان بیچا جاتا ہے اور یہ کرامات جن کا حقیقی روحانیت سے کوئی واسطہ نہیں روحانیت کا معیار بن گئی ہیں ملا بیچارہ ظاہر پرستی سے بے عرفان اور محروم عشق رہ گیا اور صوفی کی باطنیت فقط ہو حق اور کرامات کا افسانہ بن گئی:

رہا نہ حلقہ صوفی میں سوز مشتاقی

فسانہ باے کرامات رہ گئے باقی

کرے گی داور محشر کو شرمسار اک روز

کتاب صوفی و ملا کی سادہ اوراقی

اقبال صرف صوفی اور ملا ہی سے بیزار نہیں وہ ان فلسفہ سے بھی کچھ توقع نہیں رکھتا جو فقط عقل جزوی اور استدلال کی بناء پر حقیقت رس ہونے کے مدعی ہیں۔ ایسے فلسفے سے دماغ کی ورزش تو ہو جاتی ہے لیکن دل محبت اور بصیرت سے بیگانہ ہو کر مردہ ہو جاتا ہے:

نہ فلسفی سے نہ ملا سے ہے غرض مجھ کو

یہ دل کی موت وہ اندیشہ و نظر کا فساد

اقبال کے نزدیک اسلام سراپا حرکت ہے اور ہمہ سمتی جدوجہد کا نام ہے۔ حفاظت دین اور حمایت حق میں تلوار اٹھانا اس جہاد کا فقط ایک ہنگامی پہلو ہے۔ ہمارے فقہا اور حامیان دین کے لیے کوئی اچھا میدان عمل باقی نہ رہا، نہایت دور از کار باتوں پر معرکہ آرائی شروع کر دی اور مختلف گروہوں کو آپس میں لڑانا ان کے لیے جہاد کا بدل بن گیا:

میں جانتا ہو انجام اس کا

جس معرکے میں ملا ہوں غازی

دین کے مدعی ایسے ہی لغو معرکوں میں حریفوں کو شکست دے کر غازی بن بیٹھے۔

تصوف کی بابت اقبال نے اپنے انگریزی خطبات میں بھی یہ بات کہی ہے کہ روحانی وجدان حاصل کرنے کے لیے صوفیوں کے قدیم سلسلے کار آمد نہیں رہے:

تیری طبیعت ہے اور، تیرا زمانہ ہے اور

میرے موافق نہیں خانقہی سلسلہ

دور حاضر کے انسانوں کی نفسیات میں بہت کچھ تبدیلی واقع ہوئی ہے اب روحانی ترقی کے حصول کے لیے پرانے طریقوں کے افکار اور صوفیانہ مشقیں کار آمد نہیں رہیں :

تھا جہاں مدرسہ شیری و شہنشاہی

آج ان خانقہوں میں ہے فقط روباہی

اقبال کو یقین تھا کہ اس شمشیر برہنہ تنقید کی وجہ سے تمام فقہا ان کے مخالف ہو جائیں گے لیکن یہ صورت حال پیدا نہ ہوئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ کہا وہ شعر میں کہا اور مسلمانوں کی ذہنی روایات میں عرصہ دراز سے یہ بات داخل ہو گئی ہے کہ شعر میں جو کچھ کہا جائے وہ معارف ہے۔ رندی و ہوس ناکی ہو یا کفر، یاعناں گسیخنہ آزاد خیالی اور بے راہ روی، اگر اس کا بیان شعر میں ہو تو مسلمان اسے شیر مادر کی طرح پی جاتا ہے لیکن وہی بات اگر نثر میں کہی جائے تو پھر جان و آبرو کی خیریت نہیں، خوش قسمتی سے اقبال کی یہ توقع کہ:

یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے

کہ یک زباں ہیں فقیہان شہر میرے خلاف

پوری نہ ہوئی۔ ہاں اگر فقہ و تفسیر و حدیث پر نثر میں کچھ لکھتے تو سید احمد خاں سے کہیں زیادہ ہدف ملامت بنتے۔ نثر میں لکھنے کے ارادے ہی کرتے رہے لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا، ملت اسلامی کی تشکیل نو کے متعلق خطبات انگریزی میں لکھے اور وہ بھی ایسے فلسفے کی زبان میں جو ملا تو درکنار اعلیٰ انگریزی داں طبقے کے لیے بھی آسانی سے قابل فہم نہیں۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ان کو اردو زبان میں منتقل کرے کیوں کہ ان کو خطرہ تھا کہ بغیر تشریح و توضیح ان سے شدید غلط فہمی پیدا ہو گی:

میں جانتا ہوں جماعت کا محشر کیا ہو گا

مسائل نظری میں الجھ گیا ہے خطیب

اس میں شعر میں یہ شکایت ہے کہ زندگی کے حقیقی مسائل عملی ہوتے ہیں اور خیر و شر کا معیار بھی عمل ہی سے قائم ہوتا ہے لیکن جب کسی قوم کی قوت عمل میں ضعف آ جاتا ہے تو فقہا، خطیب اور حکما نظری بحثوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔

ملا میں لفظی اور فروعی بحث و تکرار کا شوق اس قدر غالب ہے کہ اگر وہ یہی سیرت لے کر جنت میں بھی داخل ہوا تو اس کو اس دار السلام میں بھی کچھ لطف نہ آئے گا، وہاں صلح و سکون کی فضا میں بحث و تکرار کی گنجائش نہیں اور مذاق فتنہ کے لیے تسکین کا سامان نہیں :

ملا اور بہشت

میں بھی حاضر تھا وہاں ضبط سخن کر نہ سکا

حق سے جب حضرت ملا کو ملا حکم بہشت

عرض کی میں نے الٰہی مری تقصیر معاف

خوش نہ آئیں گے اسے حور و شراب و لب کشت

نہیں فردوس مقام جدل و قال و اقول

بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت

ہے بد آموزی اقوام و ملل کام اس کا

اور جنت میں نہ مسجد نہ کلیسا نہ کنشت

اقبال کو اس کا افسوس ہے کہ متصوفین نے تصوف کو خراب کیا، شریعت کے حامیوں نے اس کی وسعت، اس کی حکمت اور اس کے جمال کو مسخ کیا اور متکلمین کے علم کلام مے اسلام کو عجمی اور یونانی افکار کا گورکھ دھندا بنا دیا اب یہ حال ہے کہ ہر ایک سنہ کے لیے پرانی لکیریں ڈھونڈتا ہے:

’’خیال زلف بتاں میں نصیر پیٹا کر

گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر‘‘

علم و عشق دونوں غائب ہیں اور ملت میں فقط روایت پرستی رہ گئی ہے:

تمدن تصوف شریعت کلام

بتان عجم کے پجاری تمام

حقیقت خرافات میں کھو گئی

یہ امت روایات میں کھو گئی

لبھاتا ہے دل کو کلام خطیب

مگر لذت شوق سے بے نصیب

بیاں اس کا منطق سے سلجھا ہوا

لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا

وہ صوفی کہ تھا خدمت حق میں مرد

محبت میں یکتا حمیت میں فرد

عجم کے خیالات میں کھو گیا

یہ سالک مقامات میں کھو گیا

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے

مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

اب تسبیح و مناجات میں بھی روح باقی نہیں رہی، تسبیح کی دانہ شماری ایک میکانکی فعل بن گیا؟ ایران، عربی ممالک اور ترکی میں یہ رواج عام ہے کہ ہر کس و ناکس کے ہاتھ میں تسبیح ہوتی ہے، دنیا داری کی لغو باتیں ہو رہی ہیں لیکن ہاتھ میں سبحہ گردانی جا ری ہے۔ میں نے ان ممالک میں کئی مرتبہ لوگوں سے پوچھا کہ تم اس تسبیح میں کیا ذکر یا ورد کر رہے ہو؟ ہمیشہ جواب یہی ملا کہ یوں ہی عادت ہو گئی ہے، ہم پڑھتے کچھ نہیں، معلوم ہوا کہ جمادات و نباتات کی طرح ایک غیر شعوری حرکت ہے:

یا وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل

یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات

وہ مذہب مردان خود آگاہ و خدا مست

یہ مذہب ملا و جمادات و نباتات

جن طرہ باز، خطاب یافتہ، جاگیر دار پیروں کا اوپر ذکر ہو چکا ہے، وہ پنجاب میں کافی تعداد میں ملتے ہیں۔ اگرچہ ان کا جو زور شور سندھ میں ہے وہ شاید کہیں اور نہیں۔ بنگال میں بھی پیروں کا کافی دور دورہ ہے لیکن غالباً وہاں ان کو زیادہ امیری اور جاگیرداری میسر نہیں آئی۔ اقبال کو پنجاب کا تجربہ تھا اس لیے یہاں کی پیری کے متعلق ایک مستقل نظم لکھ دی ہے:

پنجاب کے پیر زادوں سے

حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر

وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار

اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے

اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحب اسرار

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے

جس کے نفس گرم میں ہے گرمی احرار

وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہبان

اللہ نے بر وقت کیا جس کو خبردار

کی عرض یہ میں نے کہ عطا فقر ہو مجھ کو

آنکھیں میری بینا ہیں و لیکن نہیں بیدار

آئی یہ صدا سلسلہ فقر ہوا بند

ہیں اہل نظر کشور پنجاب سے بیزار

عارف کا ٹھکانا نہیں وہ خطہ کہ جس میں

پیدا کلہ فقر سے ہو طرۂ دستار

باقی کلہ فقر سے تھا ولولہ حق

طروں نے چڑھایا نشہ خدمت سرکار

اسلام کی نسبت علامہ اقبال کے افکار حکیمانہ ہیں۔ انگریزی خطبات میں بھی اور اشعار میں بھی جا بجا یہ زاویہ نگاہ ملتا ہے کہ اسلام ماہیت حیات و کائنات کے عرفان اور اس کے مطابق زندگی کے رحجان اور میلان کا نام ہے۔ جس طرح طبیعیات کے قوانین بلا امتیاز مذہب و ملت سب پر مساوی عمل کرتے ہیں، اسی طرح اخلاقیات اور روحانیات کے آئین بھی عالم گیر ہیں۔ اسلام کسی ایک قبیلے کسی ایک قوم یا کسی ایک ملک کا مذہب نہیں۔ ریاضیات کی طرح اس کی صداقتیں بھی کائنات کے ہر شعبے پر حاوی ہیں۔ قرآن کریم نے اسلام کے عالمگیر ہونے کو جا بجا بیان کیا ہے۔ جب وہ ’’ فطرت اللہ التی فطر الناس علیہا‘‘ کہہ کر اس کو دین قیم قرار دیتا ہے تو وہ انسانوں کے کسی مخصوص گروہ کا ذکر نہیں کرتا۔ وہ اسے تمام نوع انسان کا دین قرار دیتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر اسلام کائنات بھر کا دین ہے۔ ’’ یسبح للہ ما فی السموات وما فی الارض‘‘ کائنات میں ہر شے کی تسبیح خوانی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان سے باہر لامتناہی کائنات کا بھی ایک دین اور یہ دین بھی مشیت و آئین الٰہی کی پابندی ہے۔ از روئے قرآن اطاعت طوعاً بھی ہوتی ہے اور کرہاً بھی۔ عبادت اختیار سے بھی ہو سکتی ہے اور جبر سے بھی۔ اسلام سے قبل مختلف ادیان نے جنت اور نجات کو اپنے لیے مخصوص کر لیا تھا اور ہر گروہ میں یہ عقیدہ راسخ ہو گیا تھا کہ وہ گروہ اپنے مخصوص عقائد کی وجہ سے خدا کی مخصوص اور منتخب قوم ہے اور دنیا و آخرت کی بھلائیوں کی وہی اجارہ داری ہے۔ ادیان کی تاریخ میں سب سے پہلے قرآن کریم نے اس اجارہ داری کو توڑا اور واضح الفاظ میں اس خیال باطل کا قلع قمع کیا کہ اجر و نجات کسی ایک ملت کا اجارہ ہیں خواہ اس کے اعمال کچھ ہی ہوں۔

قالت الیھود لیست النصاریٰ علی شیی وقالت النصاریٰ لیست الیھود علی شیی وھم یتلون الکتاب کذالک قال الذین لا یعلمون مثل قولھم (۲:۱۱۳(

’’ یہودی کہتے ہیں کہ نصاری ٰکی کوئی مذہبی بنیاد نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہود کی کوئی مذہبی بنیاد نہیں حالانکہ یہ دونوں ہی فریق کتاب الٰہی پڑھتے ہیں۔ ‘‘

ان الذین امنو والذین ھادوا والصابؤن والنصاریٰ من آمن باللہ والیوم الاخر و عمل صالحاً فلا خوف علیھم ولاھم یحزنون (۵:۶۹)

جو مسلمان ہیں اور جو یہودی ہیں اور صابی اور نصاریٰ ان میں سے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائیں اور نیک عمل کریں تو ان پر نہ کوئی خوف ہے نہ یہ غمگیں ہوں گے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال اگر اسلام کو اسی طرح کا ایک عالم گیر دین قرار دیتا ہے جو قانون فطرت کی طرح تمام انسانوں کی زندگی پر حاوی ہے تو ملت اسلامیہ میں کیا خصوصیت اور امتیازی شان ہے کہ وہی ہمیشہ تمام نوع انسان پر فائق رہے؟ اس کا جواب قرآن کریم سے بھی مل سکتا ہے اور اقبال کے کلام میں بھی کئی مواقع پر اس کا حل موجود ہے۔ قرآن کریم میں صاف طور پر تنبیہ موجود ہے کہ اے ملت مومنین! تمہاری فوقیت اور تمہارا شہدا علی الناس ہونا اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ تم آئین الٰہی کی پابندی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو لائحہ عمل بناؤ۔ جب تم میں یہ بات نہیں رہے گی تو اسلام کسی اور ملت کے حوالے کر دیا جائے گا جس کے عقائد و اعمال خدا کی کسوٹی پر کھرے ثابت ہوں۔

ملت اسلامیہ کی جو موجودہ حالت ہے وہ اقبال کی نظر سے اوجھل نہیں۔ اس کے اندر مرور ایام سے جو عیوب پیدا ہو گئے ہیں، اس کے عقائد میں اب جو فساد ہے، اس کے اعمال میں اب جو اختلال و انتشار ہے اس کا درد ناک احساس اقبال کے اشعار میں جا بجا ملتا ہے۔ پہلے شکوہ اور جواب شکوہ پر نظر ڈالیے۔ شکوہ اسی ذہنیت کا آئینہ د ار ہے جو عیسائیوں اور یہودیوں اور دوسری امتوں میں پائی جاتی تھی کہ ہم خدا کی منتخب قوم ہیں۔ ہم ہی خدا کے بیٹے ہیں لہٰذا دوسروں کے مقابلے میں ہمیں کسی حالت میں ذلیل اور بے بس نہیں ہونا چاہیے اعمال کا کوئی سوال نہیں ہمارے عقائد تو برقرار ہیں۔ ہم بھی اپنے خدا کو مانتے ہیں۔ اپنے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو برحق سمجھتے ہیں اور اس کی نازل کردہ کتاب کو سراپا صداقت یقین کرتے ہیں۔ خدا کو یہ تو نہیں چاہیے تھا کہ اپنوں کو ذلیل کر دے اور تمام نوازشوں کی بارش اغیار ہی پر کرے۔ اقبال کا شکوہ اس کے اپنے قلب کی گہرائیوں میں سے نکلتی ہوئی آواز نہیں ہے۔ اس شکایت میں اس نے فقط عامۃ المسلمین کی غیر شعوری کیفیت کو بیان کیا ہے کہ مسلمان یوں محسوس کرتے، یوں کہتے اور سمجھتے ہیں۔ اس شکوے میں مسلمانوں نے اپنے اعمال کی کوتاہی کو نظر انداز کیا ہے یا اسے بہت مدھم انداز میں بیان کیا ہے۔ زیادہ تر شکایت کا انداز یہی ہے:

’’ہم نیک ہیں یا بد ہیں پر آخر ہیں تمہارے‘‘

اپنوں کے ساتھ تو ایسی بدسلوکی نہیں ہونی چاہیے:

’’با بندۂ خود ایں ہمہ سخنی نمی رسد‘‘

اس میں جن کارناموں کو زور شور سے بیان کر کے اپنا حق جتایا ہے وہ سب اسلاف کے کارنامے ہیں۔ تلک امۃ قد خلت اپنی موجودہ زندگی میں سے ایک خوبی کا بھی نشان نہیں دیا۔ برائیوں سے انکار تو نہیں کر سکتے تھے لیکن اپنا بچاؤ وہاں یہ پیدا کیا ہے کہ اگر یہ سب تذلیل گنہگاری کی پاداش ہے تو عصیاں کار صرف ہم ہی نہیں :

امتیں اور بھی ہیں ان میں گنہگار بھی ہیں

عجز والے بھی ہیں مست مے پندار بھی ہیں

ان میں کاہل بھی ہیں غافل بھی ہیں ہشیار بھی ہیں

سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر

برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر

شکوہ میں اخلاق و ایثار و جہاد فی سبیل اللہ کے جتنے دعوے ہیں وہ اسلاف کے متعلق تو درست ہیں لیکن اخلاف کے متعلق سر بسر بے بنیاد ہیں۔ ایسے دعوے اقبال کی طرف سے تو پیش نہیں ہو سکتے تھے۔ یہ سب کوتاہ اندیش اور خود شناسی سے محروم مسلمانوں کے بے بنیاد دعوے ہیں۔ یہ کس قدر سفید جھوٹ ہے کہ سلمان، اویس قرنی اور بلال حبشی ہم ہی ہیں اور توحید کے امین ہم ہی چلے آ رہے ہیں، محض اس لیے کہ منہ سے لا الٰہ الا اللہ کہتے ہیں :

تجھ کو چھوڑا کہ رسولؐ عربی کو چھوڑا؟

بت گری پیشہ کیا بت شکنی کو چھوڑا؟

عشق کو عشق کی آشفتہ تری کو چھوڑا؟

رسم سلمان و اویس قرنی کو چھوڑا؟

آگ تکبیر کے سینوں میں دبی رکھتے ہیں

زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں

مسلمانوں میں ایک جاہل اور ملائی طبقہ ایسا ہے جو یہ کہہ کر طبیعت کو خوش کر لیتا ہے کہ دنیا چند روزہ ہے۔ فرنگیوں اور کافروں کا یہ جاہ و جلال اور ان کی مساعی کی یہ خلد آفرینی اور مسلمانوں کے مصائب سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ ’’ الدنیا سجن المومنین و جنت الکافر‘‘ دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔ دوسری قوموں کا یہ عیش و اقتدار کیا ہے:

ہنگامہ گرم ہستی نا پائدار کا

چشمک ہے برق کی کہ تبسم شرار کا

اس کے بعد ابد الا باد تک قائم رہنے والی جنات النعیم اس کا حصہ ہیں۔ جو لا الٰہ الا اللہ کہتا ہوا اس دنیا سے عبور کر گیا ہے، لیکن اقبال کے ہاں دین کا یہ تصور نہیں اور وہ اس ابلہ فریبی کے عقیدے کی لپیٹ میں نہیں آتا۔ اقبال کا عقیدہ ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں کی نعمتیں مومن کا حق ہیں۔ جو سچے مومن تھے ان کو دنیا میں غلبہ بھی حاصل ہوا اور دنیا کی تمام جائز اور حلال نعمتیں بھی ان کو حاصل ہوئیں، وہ وارث ارض بھی بنے۔ دنیا کی دیگر اقوام جب جھونپڑوں میں رہتی تھیں تو یہ صاف ستھرے مکانوں میں رہتے تھے۔ دوسری قومیں چیتھڑے لٹکائے پھرتی تھیں یا ننگی تھیں تو مسلمان خوش پوش تھے اور اعلیٰ سے اعلیٰ پارچہ بافی کی صنعت کے موجد تھے۔ اسلام رہبانیت کا دین نہیں وہ بے نوائی اور بے سر و سامانی کو روحانیت کا لازمہ قرار نہیں دیتا۔ اسی لیے اقبال کو بجا طور پر اس کا رنج ہے اور وہ زندگی سے لطف اٹھانے والی قوموں پر رشک کرتا ہے:

بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جو بیٹھے

سنتے ہیں جام بکف نغمہ کو کو بیٹھے

دور ہنگامہ گلزار سے یک سو بیٹھے

تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر ہو بیٹھے

اپنے ویرانوں کو بھی ذوق خود افروزی دے

برق دیرینہ کو فرمان جگر سوزی دے

ایک اور شعر میں بھی اقبال مغرب کی متمدن اور مہذب زندگی پر رشک کرتے ہوئے خدا سے کہتا ہے:

فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا

افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند

مسلمانوں کے اعمال اور ان کی سیرت کا صحیح نقشہ وہی ہے جو جواب شکوہ میں خدا کی زبان سے بیان ہوا ہے۔ خدا نے مسلمانوں کے ایک ایک دعویٰ باطل کو توڑا ہے اور شکایت بے جا کا جواب دیا ہے۔ تم کہتے ہو کہ خدا اغیار پہ کرم کرتا ہے اور ہم پر نہیں کرتا۔ حصول کرم کے لیے کچھ لازمی شرائط ہیں۔ کوئی رستہ چلنے والا ہو تو اس کی منزل کی طرف رہنمائی بھی کی جائے۔ کوئی جوہر قابل ہو تو اس کی تربیت کا سامان بھی خدا کی طرف سے مہیا ہو جائے۔ جن میں قابلیت ہوتی ہے ان کو عظیم الشان سلطنتیں دی جاتی ہیں اور جویندہ یابندہ کے اصول عالمگیر کے مطابق ڈھونڈنے والے نئی دنیا بھی تلاش کر لیتے ہیں، جیسے کہ کولمبس نے کیا:

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں

ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

تم اس کے مدعی ہو کہ توحید کی امانت کے تم امین ہو اور تکبیر کی آگ تمہارے سینے میں دبی ہوئی ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ مجھے عملاً توحید نہیں بلکہ الحاد ہی نظر آتا ہے۔ منہ پر لا الٰہ الا اللہ اور دل میں صنم خانہ حرص و ہوا:

ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں

امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں

بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں

تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں

تم کو شکایت ہے کہ اغیار اچھے مکانوں میں رہتے ہیں۔ اچھے گھر تو علم و فن اور ہمت سے بنتے ہیں۔ تم علم و فنون سے بے بہرہ ہو گئے ہو اس لیے تمہارے پاس اچھے گھر بھی نہیں :

جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو

نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو

عقائد و اعمال کا مجموعی نام اسلام ہے۔ مسلمانوں کو جو تعلیم دی گئی تھی وہ فطرت کی تعلیم تھی۔ یہ تعلیم وحی سے بھی حاصل ہوتی ہے اور از روئے قرآن مشاہدہ فطرت اور تحقیقی تفکر سے بھی۔ اگر وہ وسیع آزاد اور پاکیزہ ہو تو معرفت کا ذریعہ ہے۔ جس کی فطرت سلیم ہو اس میں سے اخلاق حسنہ خود بخود ابھرتے ہیں۔ علم و فنون سے زندگی میں بے شمار بھلائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ خوبیاں انہیں میں پائی جائیں جو محض حادثہ ولادت سے مسلمان کہلانے والے لوگوں کے گھروں میں پیدا ہوئے ہیں۔ اخلاقی خوبیاں اسلام کی تلقین سے پہلے تمام اقوام کے اچھے افراد میں موجود تھیں۔ چنانچہ رسول کریم ؐ نے فرمایا:

’’ اے گروہ مومنین تم میں اسلام لانے کے بعد بھی وہی لوگ اچھے ہیں جو از روئے فطرت اس دین میں داخل ہونے سے قبل بھی اچھے تھے‘‘ خیار کم فی الجاھلیتہ خیار کم فی الاسلام

حضرت عمر فاروقؓ میں اگر عدل کا جوہر پہلے سے موجود نہ ہوتا تو اسلام میں داخل ہونے کے بعد یک بیک کہاں سے پیدا ہو جاتا؟ اسلام نے اس کو قوی اور منور کر دیا۔ اسی طرح اور صحابہ کرام کی سیرتیں ہیں۔ ان میں سے کوئی ایسا نہیں جو پہلے دروغ گو ہو اور پھر راست گفتاری کا شیوہ بعد از قبول اسلام اختیار کیا ہو۔ اسلام نے لوگوں کی فطری صلاحیتوں کو اچھے اور وسیع اغراض و مقاصد میں لگا دیا۔ اسلام کامل تو کسی مرد کامل ہی میں ہو سکتا ہے لیکن اس کے بہت سے اجزاء میں سے وہ انسان بھی بہرہ اندوز ہو سکتے ہیں جو پیدائشی مسلمان نہیں ہیں، لیکن فطرت اور تجربہ حیات نے ان کو صحیح راستوں کی طرف راہنمائی کر دی ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ پیدائشی مسلمانوں میں اسلام کا ایک چوتھائی حصہ پایا جائے جو زیادہ تر اقرار باللسان پر مشتمل یا بعض شعائر اسلام کی ظاہری پابندی میں محصور ہو اور تین چوتھائی حصہ کسی ایسے شخص کے اقوال و اعمال میں نمایاں ہو جو اتفاق سے اس امت میں پیدا نہیں ہوا جو اسلام کا نام لیوا ہے۔ صحیح بخاری میں دو تین احادیث ہیں جن میں رسول کریم ؐ نے فرمایا ہے کہ اعمال صالحہ ایمان کا قریباً تین چوتھائی حصہ ہیں۔ اسی اصول کے مطابق جواب شکوہ میں شاکی مسلمانوں کو خدا نے ڈانٹ کر کہا ہے کہ تو کہتا ہے کہ غیر مسلمان کو اسی دنیا میں حور و قصور ملتے ہیں اور مسلمان کو فقط آخرت کے وعدوں پر ٹرخایا جاتا ہے۔ تیرا یہ خیال باطل ہے۔ خالی مسلمان کہلانے سے کیا ہوتا ہے۔ خدا کے قوانین حیات عادلانہ قوانین ہیں اور عدل اس کا نام ہے کہ یار و اغیار سب پر اس کا مساوی اطلاق ہو۔ جس کو تو کافر سمجھتا ہے وہ عملاً تجھ سے بہتر مسلمان ہے۔ اس لیے کہ تیرے مقابلے میں اس نے اسلام کا بیشتر حصہ اپنا لیا ہے۔ اس کے اجر میں اس کو یہیں حور و قصور مل گئے ہیں۔ خدا کے ہاں اعمال کا ذرہ ذرہ تلتا ہے۔ اب میزان عمل میں تیری خوبیوں کا پلڑا ہلکا ہو گیا ہے اور جسے تو کافر کہتا ہے اس کا پلڑا بھاری ہو گیا ہے۔ خدا کے ہاں رعایت کا دخل نہیں۔ خدا یہ نہیں کر سکتا کہ محض تمہارے دعووں اور زبانی اقراروں کی وجہ سے تم کو نوازتا جائے اور جو منہ سے تو نہیں کہتے لیکن اچھے عمل کرتے ہیں ان کو نظر انداز کر دے:

کیا کہا بہر مسلماں ہے فقط وعدۂ حور

شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور

عدل ہے فاطر ہستی کا ازل سے دستور

مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور

تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں

جلوۂ طور تو موجود ہے موسیٰ ہی نہیں

یہ جو شور مچا ہوا ہے کہ آزاد و مہذب قوم کی حیثیت سے مسلمان نابود ہو گئے ہیں، اس لیے کہ مقتدر اور علم و فنون سے بہرہ ور اقوام میں ان کا شمار نہیں تو اس کا سیدھا جواب حضرت اقبال خدا کی زبان سے یہ دیتے ہیں کہ مسلمان ہوتے ہوئے کوئی ملت کیسے نابود ہو سکتی ہے؟ اسلام تو ہمیشہ باقی رہنے والی چیز ہے اور جو ملت اس پر عامل ہو اس کی بقا کا بھی خدا اور اس کی فطرت ضامن و کفیل ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مسلمان موجود ہی نہ تھے جو نابود ہو جاتے۔ جو نابود ہوئے ہیں ان میں نام کے سوا اسلام کی کوئی بات نہ تھی۔ عقائد میں، معاشرت میں، تہذیب و تمدن میں وہ دوسری اقوام کے بیہودہ نقال اور مقلد تھے۔ عیسائی تو کئی انقلابات کے بعد زندگی کا تجربہ حاصل کر کے اپنی فکر کو آزادانہ تحقیق میں لگا کر، رہبانیت سے ہٹ کے زندگی میں ہمہ سمتی جدوجہد کو اپنا شعار بنا کر، مسلم آئین ہو گئے اور تم رجعت قہقری سے اسلام کو چھوڑ کر انہیں پرانے باطل عقائد پر آ گئے۔ نصاریٰ کی ظاہری وضع کی نقل کی اور تمدن میں ہندوؤں کے ذات پات کے امتیاز کو اختیار کر لیا اور دوسری طرف یہودیوں کی طرح اپنے آپ کو ابناء اللہ اور خدا کی منتخب قوم سمجھ کر نجات کے اجارہ دار بن گئے۔ خود یہودیوں نے اب یہ خیال بہت کچھ ترک کر دیا ہے، لیکن تم جنہیں جو اس ادعا سے منع کیا گیا تھا اس عقیدے پر اڑ گئے ہو۔ اب تو یہودی بھی تم سے زیادہ حکمت پسند ہو گئے ہیں۔ اپنی جدوجہد، حکمت عملی اور ایثار سے وہ تمہیں دھکیل کر فلسطین میں داخل ہو گئے ہیں :

شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود

ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو

تم سبی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟

مسلمان اور فرنگی نصاریٰ کا مقابلہ کرتے ہوئے مفتی محمد عبدہ مفکر و مصلح مصر نے کیا درست بات کہی ہے جو علامہ اقبال ہی کے خیال کے مطابق ہے کہ ’’ اعمالہم کد یننا، واعمالنا کدینھم‘‘ مغربیوں کے اعمال ہمارے دین کے بہت کچھ مطابق ہو گئے ہیں اور ہمارے اعمال غلط روی میں بہت کچھ ان کے پورے دینی عقائد کے مماثل ہیں۔

ہاں تو سوال یہ تھا کہ ملت اسلامیہ کی موجودہ حالت کی نسبت اگر اقبال کے خیالات یہ ہیں کہ دین، ایمان اور عمل سے محروم ہو گئی ہے اور دوسری قومیں اسلام کے زیادہ حصے پر عامل ہو کر دنیا میں معزز اور قوی ہو گئی ہیں، اس کے باوجود اس گری ہوئی حالت میں بھی ملت اسلامیہ سے اسے اس قدر وابستگی کیوں ہے؟ اب وہ کیوں ان قوموں سے رشتہ نہیں جوڑ لیتا جنہیں وہ زیادہ مطابق اسلام پاتا ہے؟ علاوہ ازیں ملت اسلامیہ کے بارے میں اس زبوں حالی کے باوجود اس پر مایوسی کیوں طاری نہیں ہوتی؟ وہ کیوں مستقبل میں اس سے یہ توقع رکھتا ہے کہ دوبارہ اس کا احیاء ہو گا اور پھر نوع انسان کی قیادت اس کے ہاتھ آ جائے گی؟ اس کا جواب دو تین پہلوؤں سے دیا جا سکتا ہے۔ پہلے تو سیدھی اور فطری بات یہ ہے کہ انسان جس ملت میں پیدا ہوا ہے اس کی نالائقی اور بے راہ روی کے باوجود نہ وہ اس سے اپنا رشتہ منقطع کرنا چاہتا ہے اور نہ کر سکتا ہے۔ بلند پایہ نفوس اپنی قوم کی حالت زبوں سے پریشان اور بے زار ہو کر اس کی طرف سے منہ نہیں موڑ لیتے۔ قوم کی حالت جس قدر گری ہوئی ہو اسی قدر ایک حوصلہ مند اور بلند ہمت مفکر اور مصلح یہ اپنا فرض محسوس کرتا ہے کہ گریز کی بجائے ستیز پر کمر ہمت باندھے۔ مساعد حالات میں تو ہر کہ و مہ عزت و آبرو کی زندگی بسر کر سکتا ہے۔ انسان کا امتحان نامساعد حالات میں ہوتا ہے۔ مساعد حالات میں رہبری کوئی دشوار کام نہیں، لیکن ایسے حالات میں جب کہ قوم نہ صرف تباہ حال ہو بلکہ اس کے دل میں سے احساس زیاں بھی جاتا رہا ہو، صحیح فکر و عمل کی تلقین ایک مجاہدانہ فطرت اور پیمبرانہ سیرت کا تقاضا کرتی ہے:

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

مسلمانوں کی حالت اقبال کے زمانے میں ایسی ہی تھی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے زوال اور انحطاط کی انتہا ۱۸۵۷ء میں ہوئی جب کہ ایک طرف فرنگی فاتحین اور دوسری طرف برادران وطن نے مسلمانوں کو چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پیس ڈالنے کی کوشش کی۔ مولانا حالی نے ’’حیات جاوید‘‘ میں لکھا ہے کہ اس زبوں حالی اور یاس انگیز کیفیت میں جب حالت یہ تھی کہ:

کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

سید احمد خاں جیسے مرد عاقل و مجاہد کے دل میں بھی یہ خیال گزرا کہ اس وطن سے ہجرت کر کے کسی اسلامی ملک میں چلے جائیں جہاں مسلمانوں کا کچھ اقتدار و وقار موجود ہو اور عزت و آبرو سے زندگی کے باقی ایام گزر جائیں۔ کچھ عرصے تک یہ خیال دل میں گردش کرتا رہا لیکن پھر ساداتی غیرت نے جوش مارا کہ ملت کو خراب حالت میں چھوڑ کر ذاتی آسائش اور عزت کے لیے ترک وطن کرنا ایک نہایت مذموم قسم کی ہجرت ہو گی۔ حمیت کا تقاضا یہی ہے کہ انہیں حالات میں پستی اور جہالت پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور جہاں تک ہو سکے اس قوم کو ذلت کے گڑھے میں سے نکالا جائے۔ اس کے لیے غیر معمولی علمی اور عملی کوشش اور غیر معمولی جان نثاری کی ضرورت تھی۔ ان حالات میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہوتی ہے کہ جس قوم کو آپ ابھارنا چاہتے ہیں وہی آپ کو اپنا دشمن سمجھتی ہے۔ جہالت اور غلامی میں خیر و شر کے معیار الٹ جاتے ہیں۔ بھلائی برائی معلوم ہوتی ہے اور برائی بھلائی۔ چنانچہ سید صاحب کی مخالفت نہ انگریزوں نے کی اور نہ ملک کی غیر مسلم ملتوں نے۔ زیادہ مخالفت علماء جامد کی طرف سے ہوئی جنہیں نہ زوال ملت کے اسباب سمجھ میں آتے تھے اور نہ ان کا کوئی صحیح علاج سوجھ سکتا تھا۔ وہ قدامت کو دین اور جدت کو بدعت سمجھتے تھے۔ وہ یہ نہ جان سکتے تھے کہ جو قوم غالب آ گئی ہے اس کے غلبے کے اسباب کیا ہیں۔ یہ بات ان کے وہم میں بھی نہ آ سکتی تھی کہ ان کے عقائد و اعمال اور ان کے نظریہ حیات میں کچھ خلل ہے۔ سید کی کوششوں سے اقبال کے زمانے تک کچھ نہ کچھ بیداری قوم میں پیدا ہو چکی تھی، لیکن ابھی امراض بہت کچھ باقی تھے۔ منزل کی طرف چند قدم اٹھتے تھے، لیکن ابھی منزل بہت دور تھی اور منزل مقصود کا کوئی معین تصور بھی نہ تھا۔ جو کوئی رہبری کا دم بھرتا تھا مسلمانوں کا ایک گروہ اس کے پیچھے ہو لیتا تھا۔ کثرت سے لوگ بے بصیرت اور بے عمل پیرو ں کے پیرو تھے کہ وہ ان کی دنیا اور آخرت کے ضامن ہو جائیں گے۔ بعض پیروں سے بڑھ کر امام حاضر الوقت اور مہدی و مسیح بن گئے تھے۔ بعضوں نے حصول اقتدار کی خاطر لیڈری شروع کر دی تھی۔ بعض حکمرانوں کے بے دام غلام تھے اور حکمران کے ذریعے سے عوام کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتے تھے۔ ہر قسم کے جھوٹے رہبر کو پیر و مل جاتے تھے اور مسلمانوں کی کیفیت یہ تھی:

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

قوم کو ابھارنے کے لیے مختلف علاج تجویز ہوتے تھے۔ کوئی کہتا تھا کہ مغربی تعلیم حاصل کرو تو دین کے ساتھ دنیا بھی درست ہو جائے گی۔ کوئی روایتی دینی تعلیم کو جدید علوم و فنون کی تعلیم پر مرجح سمجھتا تھا اور اس کے نزدیک یہی راہ نجات تھی۔ اقبال اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ سب علاج غلط ہیں۔ ملت کا اصل مرض نفسی مرض ہے۔ وہ فقط قرآن کی بتائی ہوئی اس حکمت بالغہ کا قائل تھا کہ خدا کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی نفسی حالت میں انقلاب پیدا نہ کرے۔ مغرب کے جید عالم نفسیات ولیم جیمز نے لکھا ہے کہ ’’ جدید نفسیات کا سب سے بڑا انکشاف یہ ہے کہ زندگی کے متعلق زاویہ نگاہ بدلنے سے تمام زندگی بدل جاتی ہے۔ ‘‘ دیکھئے علم نفسیات کی ترقی نے انسان کو وہی راز بتایا جو ازروئے وحی مسلمانوں اور تمام انسانوں پر چودہ سو سال پیشتر منکشف کیا گیا تھا۔ اقبال نے جب یہ تہیہ کر لیا کہ اس قوم میں انقلاب پیدا کیا جائے تو نہ وہ سیاست کی طرف مائل ہوا اور نہ مسلمانوں کو نیا علم معیشت سکھانے لگا کہ اقتصادی حالت درست کرو اور اس کے لیے ہر طرح سے دولت کماؤ اور بچاؤ اور نہ اس نے سائنس یا فلسفے یا جدید علوم و فنون کو اس مرض کے لیے اکسیر سمجھا۔ اس نے دیکھا کہ قوم کی نفسیات میں شدید خرابی ہے، اسلامی زندگی کا صحیح تصور اس کے ذہن سے نکل چکا ہے اور اس کی جگہ غلط تصورات نے لے لی ہے ’’ جائے خالی را دیوی گیرد‘‘

کوتاہ اندیش لوگ اقبال کو بھی ایک شاعر اور فلسفی سمجھتے ہیں اور اس پر بے عمل ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک یا دن کے ظواہر کی پابندی عمل کہلاتی ہے یا سیاسی اور معاشی جدوجہد۔ مولویوں کو اقبال اپنے مقابلے میں نماز کا کم پابند نظر آیا اور نہ اس میں سیاسی لیڈروں کی ہیجان آفرینی دکھائی دی۔ ایسے لوگوں کے سامنے اس نے اپنے آپ کو بے عمل کہنا شروع کر دیا:

اقبال بڑا اپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے

گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا

مسجد تو بنا لی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے

دل اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

کہیں کتا ہے:

میں نے اقبال سے از راہ نصیحت یہ کہا

عامل روزہ ہے تو اور نہ پابند نماز

اور کبھی اپنا کارنامہ یہ بیان کرتا ہے:

دیا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا

یہ اک مرد تن آساں تھا تن آسانوں کے کام آیا

لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ کسر نفسی ہے اور اقبال یہ سب کچھ اپنے متعلق کوتاہ اندیشوں کی مخاصمانہ تنقید کے مد نظر استہزاء سے بیان کر رہا ہے ورنہ اس کو یقین کامل اور قوی اعتماد ہے کہ خدا نے نفوس ملت میں انقلاب آفرینی کا کام اس کے سپرد کیا ہے جس میں پیغمبری کا شائبہ پایا جاتا ہے۔ جس روز سے اس کو یہ احساس پیدا ہوا اس سے لے کر یوم وفات تک وہ اٹھتے، بیٹھتے، سوتے جاگتے اسی کام میں منہمک رہا۔ خدا نے اس کو ایسا باکمال شاعر بنایا تھا کہ خالی شاعری سے بھی وہ دنیا بھر کے شعرائے عظام کی صف اول میں کھڑا ہو سکتا تھا لیکن اس نے اس کمال کو محض پیام رسائی اور انقلاب نفوس ملت کے لیے وقف کر دیا۔ محض تفنن طبع کی شاعری کرنے والوں نے کہا کہ اب وہ شاعر نہیں رہا، واعظ اور مبلغ اور پیغمبری کا دعویدار ہو گیا ہے۔ آخر میں اس نے بھی ان  کی تائید شروع کر دی کہ ہاں میں شاعر نہیں ہوں۔ اسی طرح جیسے صوفیائے کرام نے ظاہر پرستوں کے خلاف کہنا اور عمل کرنا شروع کیا اور یہ تلقین کی کہ دین فقط عشق الٰہی اور محبت خلق خدا کا نام ہے، محض حصول ثواب آخرت کی خاطر شریعت کی پابندی دین نہیں ہے تو ارباب ظاہر نے ان کو کافر قرار دیا۔ جب تکفیر کے فتوے سنتے سنتے تنگ آ گئے تو انہوں نے خود اپنے لیے کفر کی اصطلاح اختیار کر لی اور علی الاعلان کہنے لگے کہ بھائی اگر تم مسلمان ہو تو پھر ہم مسلمان نہیں ہم کافر ہیں۔ تمہیں تمہارا اسلام مبارک اور ہمیں ہمارا کفر مبارک:

کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست

ہر رگ من تار گشتہ حاجت زنار نیست

(خسرو)

مذہب عشق از ہمہ دیں با جداست

سخت کافر تھا جس نے پہلے میر

مذہب عشق اختیار کیا

اقبال نے دیکھا کہ دین اور دنیا دونوں کے متعلق مسلمانوں کا زاویہ نگاہ غلط ہو گیا ہے اور اسی لیے وہ خسران دنیا و آخرت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ حکمت کو سوز عشق سے گرما کر اور شعر کی اثر آفرینی سے کام لے کر ان کے نفوس میں انقلاب پیدا کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کی آرزوئیں غلط ہو گئی ہیں ان کی آرزوؤں کو بدلنا چاہیے۔ اس قوم کا حقیقت میں کوئی نصب العین نہیں رہا، اسی لیے اس کی کوششیں بے نتیجہ ہوتی ہیں، اس کی خواہشیں پست ہو گئی ہیں۔ ایک روز علامہ نے میرے سامنے شمع و شاعر کے اس شعر کی شرح فرمائی:

قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں

تنگ ہے صحرا ترا محمل ہے بے لیلا تیرا

فرمانے لگے کہ ہماری قوم کے دیندار ہوں یا دنیا دار، ان کا میدان عمل نہایت تنگ ہوتا ہے اور محمل بے لیلیٰ وہ دل ہے جس میں مقصود زندگی اور غایت حیات کا کوئی ایسا تصور نہ ہو جو اپنی کشش سے انسان سے مجنونانہ جدوجہد کرا سکے۔ بڑے بڑے کام عشق یا جنون ہی سے ہوتے ہیں۔ جہاں میدان عمل تنگ ہے اور محمل میں لیلیٰ ہی نہیں وہاں قیس جیسے مجنوں کہاں پیدا ہوں گے؟ افسوس ہے کہ اس قوم کا کوئی نصب العین نہیں، ہر فرد اپنے ادنیٰ مفاد عاجلہ میں لگا ہوا ہے اور اپنی ذات سے باہر اس کے لیے کچھ نہیں۔ اس میں کوئی زندہ تمنا نہیں جو قلب کو گرما دے اور روح کو تڑپا دے، لیکن قوم کی ایسی حالت کے باوجود بھی اقبال مایوس نہیں تھا۔ مایوسی اس کے نزدیک کفر کے مرادف تھی۔ وہ اسی امید میں اپنے آنسوؤں سے اس مٹی کو تر کرتا رہا کہ

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

اسلام اقبال کے نزدیک زندگی کے اساسی رجحانات کا حامل اور انسانی زندگی کے ارتقاء لا متناہی کا لائحہ عمل ہے، اس لیے یہ دین کبھی فرسودہ نہیں ہو سکتا۔ مرور ایام اس میں کہنگی پیدا نہیں کر سکتا۔ جس حد تک جس زمانے میں کوئی ملت اس پر کاربند ہو گی، اس حد تک وہ قوت اور بصیرت سے بہرہ اندوز ہو گی۔ ملت اسلامیہ صدیوں کے انحطاط سے جادۂ اسلام سے ہٹ گئی ہے لیکن اس اصول کے مطابق کہ ہر چیز اپنی اصلیت کی طرف عود کرتی ہے (کل شیی یرجع الیٰ اصلہ) یہ ملت دوبارہ اسلام کی طرف لوٹے گی۔ ایک صاحب نے دوران گفتگو میں ان سے سوال کیا کہ کیا یہ تاریخی حقیقت نہیں ہے کہ ہر قوم کے عروج کا ایک دور ہوتا ہے، ایک نقطہ کمال تک پہنچ چکنے کے بعد اس کا زوال شروع ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ قوم نابود ہو جاتی ہے۔ یونان و مصر و روما اور دیگر عظیم الشان قومیں جنہوں نے بڑی بڑی تہذیبیں اور بلند پایہ تمدن پیدا کیے، ان میں سے پھر کس کا اعادہ ہوا کہ ہم ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کی امید رکھیں ؟ علامہ نے فرمایا کہ یہ نظر بالکل غلط ہے اور مغرب کی غالب اقوام نے مغلوب اقوام کو مایوس کرنے کے لیے یہ خیال باطل ان کے ذہنوں میں ڈال دیا ہے۔ ایک ملت کا احیاء خدا کے لیے کیا دشوار ہے۔ اسلامی عقیدہ ہے کہ تمام دنیا مر کر پھر زندہ ہو گی۔ اقبال کا خیال کس قدر درست نکلا، ہمارے دیکھتے دیکھتے اقوام کس کس طرح زندہ ہوئی ہیں۔ ایک چین ہی کی مثال لے لیجئے۔ چین کا تمدن اور اس کی تہذیب بڑے عروج پر پہنچ کر ایک ہزار سال سے زائد عرصے سے ساکن و جامد تھے اور مغرب والے کہہ رہے تھے کہ یہ افیون خوردہ قوم اب ہمیشہ اسی طرح اونگھتی رہے گی گذشتہ تیس سال کی جدوجہد نے اس کی ایسی کایا پلٹ دی ہے کہ مغربی اقوام اس سے لرزہ بر اندام ہیں۔ اس میں زندگی کی ایسی لہر دوڑ گئی ہے کہ اس کے فکر و عمل کا ہر شعبہ دگرگوں ہو گیا ہے۔ یونان و روما کی تہذیب و تمدن اور زوال کے بعد طلوع عیسویئت سے لے کر از منہ متوسط کی انتہا تک تمام فرنگ کی یہ حالت تھی کہ فرنگ ہی کے مورخ اس دور کو از منہ مظلمہ یا تاریکی کے زمانے کہتے ہیں۔ گبن جیسے مورخ کا نظریہ ہے کہ اس زوال کی ذمہ دار عیسائیت تھی جس نے لوگوں کا نظریہ حیات بگاڑ دیا۔ ٹائن بی اور بعض دوسرے مقتدر مورخ اس سے متفق نہیں ہیں لیکن یہ واقعہ ہے کہ نشاۃ ثانیہ سے قبل کا قریباً ہزار سال فرنگ ارتقائے حیات سے محروم، جامد اور ہر قسم کے دینی، ذہنی اور سیاسی استبداد کا شکار تھا۔ اس دور میں مسلمان تہذیب و تمدن اور علوم و فنون میں موجد و خلاق تھے اور وہ فرنگ کو اسی زاویہ نگاہ سے دیکھتے تھے جس سے فرنگ نے سترہویں اور اٹھارویں صدی میں ایشیا کو دیکھنا شروع کیا۔ ابن خلدون جیسا حکیمانہ نظر رکھنے والا مورخ بھی اس زمانے کے فرنگ کے متعلق یہ سوچنے لگتا ہے کہ یہ قومیں اس قدر غبی کیوں ہیں۔ جس طرح بعض علمائے فرنگ ایشیا اور افریقہ کی پس ماندگی کو گرم آب و ہوا پر محمول کرتے تھے جو ذہنوں میں جودت اور جدت اور بدن میں قوت اور ہمت پیدا نہیں ہونے دیتی، اسی طرح مغرب کے علوم و فنون سے بے بہرہ ہونے کو مسلمان فرنگ کی آب و ہوا پر محمول کرتے تھے کہ ان ملکوں میں سردی ایسی شدید ہوتی ہے کہ دماغ میں افکار بھی منجمد ہو جاتے ہیں۔ یہی فرنگ جس نے ایشیا والوں کو یہ سبق پڑھانا شروع کیا کہ قوموں کا احیاء نہیں ہوتا، اس سے یہ پوچھنا چاہیے کہ خود تمہارا احیاء کیوں کر ہوا؟ اور اپنے احیاء کو وہ خود نشاۃ ثانیہ کہتے ہیں یعنی جمود اور موت کے بعد زندگی کا از سر نو ابھرنا۔ تمہاری نشاۃ ثانیہ ہو سکتی ہے تو دوسروں کی کیوں نہیں ہو سکتی؟ تم نے اس نشاۃ ثانیہ کے بعد وہ زور باندھا کہ دنیا پر چھا گئے۔ علوم و فنون اور وسعت مملکت میں ملل ماضیہ میں سے کوئی بھی اہل فرنگ کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ قرآن کریم میں اصحاب کہف کا قصہ غالباً اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسانوں کے بعض گروہ صدیوں کی مرگ نما نیند کے بعد دوبارہ زندگی پا سکتے ہیں۔ فرنگ کا عروج اس کی پہلی تہذیبوں اور تمدنوں کے مقابلے میں بہت عظیم تھا اگر اقبال ملت اسلامیہ کے متعلق اس قسم کی امید رکھتا ہے تو اسے محض ایک سہانا خواب سمجھنا ہو کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ اقبال کی بعض شاندار نظمیں یاس و حرماں کے تاثر سے شروع ہوتی ہیں لیکن ہمیشہ امید پر ختم ہوتی ہیں۔ شمع و شاعر کے شروع کے اشعار پڑھیے:

قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں

تنگ ہے صحرا ترا محمل ہے بے لیلا ترا

اے در تابندہ اے پروردہ آغوش موج

لذت طوفاں سے ہے نا آشنا دریا ترا

اب نوا پیرا ہے کیا؟ گلشن ہوا برہم ترا

بے محل تیرا ترنم نغمہ بے موسم ترا

٭٭٭

آہ جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو چکی

پھول کو باد بہاری کا پیام آیا تو کیا

بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصود ہر پروانہ تھا

اب کوئی سودائی سوز تمام آیا تو کیا

٭٭٭

پھول بے پروا ہیں، تو گرم نوا ہو یا نہ ہو

کارواں بے حس ہے آواز درا ہو یا نہ ہو

٭٭٭

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

ایسے کئی اشعار کہہ کر یہ امید کا پیامبر یک بیک چونکتا ہے تو ظلمت شب کے بعد اس کو کچھ روشنی د کھائی دینے لگتی ہے:

شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی

ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی

مژدہ اے پیمانہ بردار خمستان حجاز

بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش

اب زمانہ قریب آ گیا ہے کہ یہ ملت اپنی خود داری کے عوض بادۂ اغیار نہ خریدے گی، اب ملت کو اپنی خودی اور اپنے مقام کا احساس ہونے والا ہے۔ اقبال اس احساس کو تیز کرنا چاہتا ہے اور مقصود تک پہنچنے کے لیے جو کچھ ضروری ہے اس کی تلقین کرتا ہے۔ اب تن آسانی کو چھوڑو کیوں کہ ذوق تن آسانی ہمت کا رہزن ہے، جوئے گلشن ہونے کی بجائے قلزم متلاطم بن جاؤ، اپنی اصلیت پر قائم ہو جاؤ، قطرے سے اسرار حیات سیکھو کہ وہ شبنم اور آنسو ہونے کے علاوہ گوہر بھی بن سکتا ہے۔ افراد میں قوت تنہا روی سے نہیں بلکہ ربط ملت سے پیدا ہوتی ہے، افراد دریائے ملت کی موجیں ہیں، دریا کے باہر موج کا کوئی مستقل وجود نہیں ہو سکتا، دریا کی حقیقت کے مقابلے میں افراد کا وجود مجازی ہے شرق و غرب ہو یا جدید و قدیم، ان میں سے کسی کی تقلید نہ کرو، حیات تحقیق اور جدت کوشی کا نام ہے:

خیمہ زن ہو وادی سینا میں مانند کلیم

شعلہ تحقیق کو غارت گر کاشانہ کر

زندگی اپنے انداز بدلتی رہتی ہے، صوفیہ کہتے ہیں کہ تجلی میں تکرار نہیں، زندگی جو مظہر ذات و صفات الٰہیہ ہے وہ بھی ’’ کل یوم ھو فی شان‘‘ ہے، اب اس نشاۃ ثانیہ میں جو قریب آ رہی ہے تم اپنی قدیم تہذیب و تمدن کے ڈھانچوں کو واپس نہ لا سکو گے۔ ہر نئی زندگی نئے قالب کی متقاضی ہوتی ہے:

کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہی

ہے جنوں تیرا نیا پیدا نیا ویرانہ کر

یہ مضمون کسی قدر دوسرے انداز میں اس شعر میں بھی ملتا ہے جو پہلے درج ہو چکا ہے:

کبھی جو آوارۂ جنوں تجھے وہ بستیوں میں پھر آبسیں گے

برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہو گا

مسلمانوں کی تقدیر آخر کار وہی ہے جو اسلام کی تقدیر ہے، اگر اسلام کا چراغ حوادث کی پھونکوں سے بجھایا نہیں جا سکتا تو اسلام پر عمل کرنے والی امت کیوں آنی اور فانی ہو:

بے خبر تو جوہر آئینہ ایام ہے

تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے

مسلمان کا مستقبل اقبال کو نہایت درخشندہ نظر آتا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اقبال کے نزدیک اسلام نوع انسان کی تقدیر اور اس کے ارتقاء کا جادہ ہے اور منزل بھی۔

شمع و شاعر کے آخری بند میں پیش گوئیاں ہیں، ظالموں کا ظلم ختم ہو کر اس کے نتائج خود اس کی طرف پلٹنے والے ہیں۔ اب پرندے خوشی سے چہچہائیں گے اور صیاد نالہ و زاری کریں گے، خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہونے والی ہے، قوت کے نشے میں سرمست قومیں آپس میں ٹکرا کر پاش پاش ہو جائیں گی، دنیا کا پہلا نظام تہ و بالا ہونے والا ہے اور اس کی جگہ جو نیا عالم ظہور میں آنے والا ہے وہ چشم بصیرت کو نظر آ رہا ہے لیکن وہ اس قدر حیرت انگیز ہو گا کہ اس کے بیان کے لیے الفاظ نہیں مل سکتے۔ یہ انقلاب عالمگیر ہو گا، صرف ملت اسلامیہ ہی اس سے دگرگوں نہ ہو گی بلکہ تمام نوع انسان کا رنگ بدل جائے گا اور یہ انقلاب انسانوں کو اسی مقصود کی طرف لے جائے گا جو اسلام کا منشا تھا۔ لہٰذا سب سے زیادہ مسلمانوں کے لیے باعث مسرت ہو گا، تمام جھوٹے معبودوں کی پرستش ختم ہو جائے گی، لا الٰہ کے بعد الا اللہ کا دور آئے گا:

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں

محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے

یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے

اقبال کے ہاں اسلام اور مسلم اور آدم کے نصب العینی تصورات ملتے ہیں۔ اس کے نزدیک اسلام حیات و کائنات کی ازلی و ابدی صداقتوں کا نام ہے، جہاں تک موجودہ اسلام دور حاضر کے مسلم اور موجودہ انسان کا تعلق ہے یہ سب نصب العین سے بہت دور ہیں، اس وقت اسلام کو پیش کرنے والوں کے جو نظریات یا اعمال ہیں ان سے وہ بے حد بیزار ہے۔ اسلام اور مسلم دونوں کی صورتیں مسخ ہو چکی ہیں، اقبال کا آدم کا تصور قرآنی تصور ہے جس میں انسان کامل نائب الٰہی اور مسخر کائنات ہے۔ موجودہ انسانوں میں یہ صفات کہاں، وہ انسان کی احسن تقویم کا قائل ہے اور پھر یہ بھی بخوبی جانتا ہے کہ اس وقت تک وہ اسفل السافلین کی ذات سے نہیں نکل سکا۔ از روئے قرآں اکثر انسانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ نہ صرف جانوروں کی طرح ہیں بلکہ درجہ حیات میں اسن سے بھی گرے ہوئے ہیں ’’ کالانعام بل ہم اضل‘‘ خدا سے پوچھتا ہے کہ کیا یہی آدم ہے جو سامنے نظر آتا ہے، خلیفۃ اللہ فی الارض ہے، جسے نہ اپنی سمجھ ہے، نہ خدا کی، نہ کائنات کی؟

یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا؟

کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا

نہ خود بیں نے خدا بیں نے جہاں بیں

یہی شہکار ہے تیرے ہنر کا؟

پھر ایک اور جگہ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسانوں کو نصب العینی آدم بننے کے لیے ابھی بے شمار مراحل طے کرنے پڑیں گے۔ جادۂ ارتقاء پر سفر کرتے ہوئے ابھی اس کو بہت لمبی مسافت طے کرنی ہے:

باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں

کار جہاں دراز ہے، اب مرا انتظار کر

مسلم، مومن یا آدم کے متعلق اقبال جو کچھ کہتا ہے اس میں وہ در حقیقت انسان اکمل کے خط و خال کو معین کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ اسلام ایسے انسان پیدا کر چکا ہے اور آئندہ بھی پیدا کرے گا، اگر ایسے لوگ اس وقت اور ملتوں میں پائے جاتے ہیں تو ان کو بھی مسلم ہی کہنا چاہیے اور مسلمان جو اس فکر و عمل سے عاری ہیں وہ اسلام سے خارج ہیں، محض اسلامی نام رکھنے سے کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا:

یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا

اسی زمین میں غالب کا بھی مطلع ہے، جس میں نصب العینی انسان بننے کی دشواری کو بیان کیا ہے:

بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

اقبال کے نزدیک کسی قوم کا ملی شعور اس کی تاریخ سے صورت پذیر ہوتا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ میں مردان خدا کی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ معرفت کوش مسلمان ان نمونوں سے کسب فیض کر کے اپنے آپ کو بلند کر سکتا ہے۔ توحید کو جس خالص طریقے سے اسلام نے پیش کیا ہے اس کی مثال دوسرے ادیان میں نہیں ملتی۔ ملت اسلامیہ اپنی کوتاہیوں کے باوجود ایک روحانی و عرفانی بصیرت کی وارث ہے، یہ بصیرت توحید کو سمجھنے پر مشتمل ہے، اس صداقت پر عمل کرنا سب سے زیادہ مسلمان کا حق اور اس کا فرض ہے۔ جن مسلمانوں نے اس حق کو پہچانا اور اس صداقت کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالا وہ اسی ملت کے افراد تھے جس ملت کے افراد اس وقت خود فراموشی اور خدا فراموشی سے گہری ظلمتوں میں گھر گئے ہیں، لیکن ہر شب کی آخر سحر ہوتی ہے اور ملتوں کی زندگی میں بھی جزر و مد ہوتا ہے، حالی نے مسدس کے شعر میں ایک بڑی یاس انگیز رباعی لکھی ہے:

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے

اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے

مانے نہ کوئی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد

دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے

اقبال کی طبیعت میں بھی کبھی کبھی یاس کی ایک ہلکی سی لہر پیدا ہوتی ہے لیکن بہت جلد امید اس پر غالب آ جاتی ہے۔ اقبال ملت کے انحطاط سے خوب واقف ہے لیکن اس کا مرثیہ گو نہیں، جب کسی لمحہ یاس میں کوئی دوسرا اس سے کہتا ہے یا اس کے اندر سے مسرت و اندوہ کی اس قسم کی صدا نکلتی ہے:

ہر نفس اقبال تیرا آہ میں مستور ہے

سینہ سوزاں ترا فریاد سے معمور ہے

زندہ پھر وہ محفل دیرینہ ہو سکتی نہیں

شمع سے روشن شب دو شینہ ہو سکتی نہیں

تو فوراً اسلام اور مسلمان کا ابدی نصب العین اس کے جواب میں گویا ہو جاتا ہے کہ آخر کار کیا یہ صداقت نہیں کہ توحید ہی حقیقت حیات و کائنات ہے اور خدا نے مجھے اس کا شاہد بنایا ہے۔ اگر یہ تصور مٹ گیا تو نوع انسان رسوا ہو جائے گی، میری حالت عارضی طور پر خراب ہو گئی ہے لیکن تقدیر عالم و آدم کی تقدیر ہے، میں ماضی کی داستانیں جھوٹے تفاخر کی بناء پر نہیں دہراتا بلکہ اس کے آئینے میں اپنے مستقبل کی تصویر دیکھتا ہوں۔ جس زمانے میں اقبال نے اس مضمون کی نظمیں لکھی ہیں اس دور میں مسلمانوں پر حد درجے کی مایوسی طاری تھی۔ سیاسی بے بسی، افلاس، علوم و فنون میں پس ماندگی، غالب اقوام کے مقابلے میں بے چارگی غرضیکہ ہر طر ف ہمت شکنی کا سامان تھا، لوگ نہ صرف اپنے آپ سے بلکہ اسلام سے بھی مایوس ہو رہے تھے کہ یہ دین بھی شاید اپنا کام ختم کر کے اب دفتر پارینہ ہو گیا ہے۔ اچھے اچھے ادیبوں، شاعروں اور مصلحین کی تحریروں اور تقریروں میں یہی فرومائگی نظر آتی تھی کہ سب اچھائیاں اور قوموں میں آئیں اور ہم کچھ نہیں۔ اس قسم کے احساس کمتری کی شدت سے قومیں فنا ہو جاتی ہیں۔ ہر ملت کی بقا اس کے اس شعور کی رہین منت ہوتی ہے کہ دنیا میں ہم کچھ مخصوص صفات عالیہ کی حامل ہیں، اگر یہ بات جاتی رہے تو قومیں یا فنا ہو جاتی ہیں یا دیگر اقوام میں ضم ہو کر گم ہو جاتی ہیں۔ اقبال نے مسلمانوں کے متعلق یہ شدید خطرہ محسوس کیا، اسی لیے اس کے احساس خودی کو ابھارنا اپنی شاعری کا وظیفہ بنا لیا اور مسلمانوں سے پکار پکار کر کہا کہ آؤ میرے ہم نوا ہو کر اس دعوے کا اعلان کرو:

ہم نشیں ! مسلم ہوں میں توحید کا حامل ہوں میں

اس صداقت پر ازل سے شاہد عادل ہوں میں

اور جس صداقت کو مجھے دنیا میں پھیلانا ہے وہ شخصی یا ملی چیز نہیں، وہ کسی قوم یا نسل کا تعصب نہیں، یہ صداقت وہ ہے جس کی بدولت کائنات کا وجود قائم ہے اور جو مقصود تکوین عالم ہے:

نبض موجودات میں پیدا حرارت اس سے ہے

اور مسلم کے تخیل میں جسارت اس سے ہے

حق نے عالم اس صداقت کے لیے پیدا کیا

اور مجھے اس کی حفاظت کے لیے پیدا کیا

دہر میں غارت گر باطل پرستی میں ہوا

حق تو یہ ہے حافظ ناموس ہستی میں ہوا

میری ہستی پیرہن عریانی عالم کی ہے

میرے مٹ جانے سے رسوائی بنی آدم کی ہے

قسمت عالم کا مسلم کوکب تابندہ ہے

جس کی تابانی سے افسون سحر شرمندہ ہے

آشکارا ہیں مری آنکھوں پر اسرار حیات

کہہ نہیں سکتے مجھے نو مید پیکار حیات

کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے

ہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر پر مجھے

یاس کے عنصر سے ہے آزاد میرا روزگار

فتح کامل کی خبر دیتا ہے ہوش کار زار

٭٭٭

ہاں یہ سچ ہے چشم بر عہد کہن رکھتا ہوں میں

اہل محفل سے پرائی داستاں کہتا ہوں میں

یاد عہد رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے

میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے

سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو میں

دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں

٭٭٭

تشکر: فرخ منظور جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید