FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

فضا خاموش تھی

 

 

(ایک طویل غزل اور اسی بحر میں کئی غزلیں)

 

                رفیق سندیلوی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

فضا خاموش تھی وقتِ دعا تھا

میں قرآں کی تلاوت کر رہا تھا

 

لبوں پر سورۂ یاسین تھی اور

مرا سینہ گرجنے لگ گیا تھا

 

کئی دن سے نہیں برسی تھیں آنکھیں

کہیں اندر ہی آنسو رُک گیا تھا

 

اُسی جانب ہی سچے راستے تھے

جدھر رُخ اونٹنی نے کر لیا تھا

 

قریب المرگ تھا تو اُس نے مجھ کو

شفا دی تھی سکونِ دل دیا تھا

 

بڑی شدت تھی میرے المیے میں

سمندر کا بھی پانی جل اٹھا تھا

 

ہوا تھا اک طلسماتی اشارہ

جہاں پر جو بھی تھا ساکن ہوا تھا

 

غلافِ گرد میں ہر شے تھی لیکن

مرا چہرہ دکھائی دے رہا تھا

 

چھما چھم دوسری بارش ہوئی تھی

میں تنہا بالکونی میں کھڑا تھا

 

گلے ہم مل رہے تھے کہ اچانک

دمامہ کوچ کا بجنے لگا تھا

 

گلوں کی خوشبوئیں باسی ہوئی تھیں

پھلوں کا ذائقہ پھیکا ہوا تھا

 

کرن پر چھپکلی اوندھی پڑی تھی

نیولا روشنی سے لڑ رہا تھا

 

اندھیرا کیچوے کی چال چل کر

ہوا کے پیٹ میں داخل ہوا تھا

 

اداسی میں نے خود تخلیق کی تھی

مجھے جو دکھ بھی تھا خود ساختہ تھا

 

مساجد میں عبادت ہو رہی تھی

دلوں میں پھر بھی کوئی وسوسہ تھا

 

تری چاندی بھی میلی ہو گئی تھی

مری مے میں بھی پانی مل گیا تھا

 

سبھی پیروں نے مٹی چھوڑ دی تھی

اکیلا ریچھ چرخہ کاتتا تھا

 

تجھے ماں باپ رخصت کر رہے تھے

تری آنکھوں سے دریا بہ رہا تھا

 

گھروں میں پھر بھی چوری ہو گئی تھی

اگرچہ شہر پر پہرا کڑا تھا

 

مری باتوں میں لکنت آگئی تھی

روانی سے مگر وہ بولتا تھا

 

نگر کو عاجزی کا درس دے کر

وہ خود فرعون بنتا جا رہا تھا

 

خطا اس سے بھی ہو سکتی تھی کوئی

خمیر اس کا بھی مٹی سے اٹھا تھا

 

اُسی کوّے کے بچے گم ہوئے تھے

جو اک چڑیا کے انڈے کھا گیا تھا

 

فشارِ لمس میں اُلجھی تھیں روحیں

شجر سے اژدہا لپٹا ہوا تھا

 

تِری شریانیں بھی جلنے لگی تھیں

مرا خوں بھی رگوں میں کھولتا تھا

 

بہشتی پھل دھرے تھے طشری میں

کوئی بابِ تلذذ کھل گیا تھا

 

کھلے تھے چاندنی کے بال کیونکر

ستارہ کیوں گریباں پھاڑتا تھا

 

کسی نے بت کے ٹکڑے کر دیے تھے

عبادت گاہ میں اک شور سا تھا

 

مری ماں مجھ کو باہر ڈھونڈتی تھی

میں اپنے گھر کے ملبے میں دبا تھا

 

مجھے دو نیلی آنکھیں روکتی تھیں

مگر میں کالے پانی جا رہا تھا

 

محلوں میں ضیافت اڑ رہی تھی

بھکاری شہر میں بھوکا رہا تھا

 

نہیں تھا اُس طرف تیراک کوئی

جدھر سیلاب کا پانی بڑھا تھا

 

تری بیماری کے خط مل رہے تھے

میں کالج کے جھمیلوں میں پڑا تھا

 

میں دادا جان کی ٹوٹی لحد کو

اٹھارہ سال سے بھولا ہوا تھا

 

معموں کی طرح تھے جسم اپنے

اُسے میں وہ مجھے حل کر رہا تھا

 

بہت گنجل تھا اس کا آئینہ بھی

مرا بھی عکس پیچیدہ ہوا تھا

 

پڑے تھے جھول اُس کے پانیوں میں

سقم میری بھی مٹی میں پڑا تھا

 

مجھے سمجھانے میں صدیاں لگی تھیں

سمجھنے میں اُسے عرصہ لگا تھا

 

چراگاہوں میں بھیڑیں چر رہی تھیں

افق کے پار سورج ڈوبتا تھا

 

مرے ماں باپ نے میرے جنم پر

سنہری اونٹ کا صدقہ دیا تھا

 

صلیبوں سے مجھے وحشت ہوئی تھی

میں طبعی موت مرنا چاہتا تھا

 

کٹورے دودھ کے بانٹے گئے تھے

زمینداروں کے گھر بیٹا ہوا تھا

 

یتیمی شہر پر چھائی ہوئی تھی

سبھی کا باپ جیسے مر گیا تھا

 

ترے بھی گرد تھی نارِ جہنم

مرے بھی چاروں جانب ہاویہ تھا

 

زباں میں کیل ٹھونکے جا رہے تھے

شکم آری سے کاٹا جا رہا تھا

 

مری بھی کھال کھینچی جا رہی تھی

ترا بھی جسم داغا جا رہا تھا

 

تجھے بھی کوئی ناگن ڈس رہی تھی

مجھے بھی کوئی بچھو کاٹتا تھا

 

فضا میں گونگھرو بجنے لگے تھے

میں پریوں کے جلو میں آ رہا تھا

 

ہوائیں مجھ کو لوری دے رہی تھی

میں پھولوں کا پنگوڑا جھولتا تھا

 

وہ اک بھیگی اماوس رات تھی جب

مسخر چاند میں نے کر لیا تھا

 

پہاڑ اہنی جگہ سے ہٹ گئے تھے

سمندر نے مجھے رستہ دیا تھا

 

دورانِ آب شمعیں جل رہی تھیں

ہوا کے طاق پر پانی دھرا تھا

 

جڑیں تھیں سبز مائل اور باہر

شجر کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا

 

ہوئے تھے چھید دستِ خاکداں میں

فلک کے پاؤں میں سوراخ سا تھا

 

رکابی میں دھری تھیں سرخ آنتیں

پیالے میں لہو رکھا ہوا تھا

 

پڑا تھا دودھ خالی کھوپڑی میں

دھواں برتن کے منہ سے اٹھ رہا تھا

 

کہیں دیوار سے کھالیں ٹنگی تھیں

کہیں مُردے کا پنجر جھولتا تھا

 

کہیں چربی پگھلتی تھی چتا پر

کہیں شعلوں پہ مینڈک بھن رہا تھا

 

یکایک ہیر کو غصہ چڑھا تھا

کوئی رنگلے پلنگ پر سو رہا تھا

 

جسے مارا تھا اس نے چھمکیوں سے

اسے بھینسوں کا کاماں رکھ لیا تھا

 

اسی کے واسطے کوٹی تھی چوری

اسی کی بانسری پر سر دھنا تھا

 

لڑی تھی کیدو سے اس کے لئے ہی

بہت ماں باپ سے جھگڑا کیا تھا

 

بڑے صدمے سہے تھے اس کی خاطر

مگر ڈولی کو کھیڑا لے گیا تھا

 

حویلی میں چڑیلیں آ گئیں تھیں

کوئی اس رات چھت پر دوڑتا تھا

 

سڑک پر خون کے چھینٹے پڑے تھے

کوئی گاڑی تلے کچلا گیا تھا

 

ہوئی تھیں کُند میری پانچوں حسیں

چھٹی حس کا ہی سارا معجزہ تھا

 

کیا تھا چاک پانی نے گریباں

اندھیرا سر میں مٹی ڈالتا تھا

 

پہاڑی سے نہیں اترا تھا ریوڑ

گڈریا رات بھر روتا رہا تھا

 

کوئی شے بھی نظر آتی نہیں تھی

مری آنکھوں پہ پردہ پڑ گیا تھا

 

پچھل پائی مرے پیچھے لگی تھی

میں سر پر پاؤں رکھ کر بھاگتا تھا

 

مجھے اڑنے کی شکتی مل گئی تھی

مگر مین پیٹ کے بل رینگتا تھا

 

ہزاروں اونٹ میری ملکیت تھے

مگر میں پا پیادہ چل رہا تھا

 

مرے احکام کی تابع تھیں نیندیں

مگر میں تھا کہ شب بھر جاگتا تھا

 

بنفشی آئینوں کی اک روش پر

ہوا کے رتھ پہ سورج گھومتا تھا

 

بچھی تھی فرش پر چاندی کی چادر

اور اس پر اک ستارا ناچتا تھا

 

دیے تھے جس نے کپڑے شہر بھر کو

وہی بازار میں ننگا ہوا تھا

 

بڑی محنت سے جس نے ہل چلائے

اسی کی فصل کو کیڑا لگا تھا

 

جنہوں نے بند کیں نیلام گاہیں

انہی ہاتھوں کا سودا ہو رہا تھا

 

جو چہرے پہلے ہی سے زشت رو تھے

انہی پر کوڑھ کا حملہ ہوا تھا

 

کچھ ایسی تیز سانسیں چل رہی تھیں

منڈیروں پر دیا بجھنے لگا تھا

 

مری ملکہ کی ساتوں بیٹیوں پر

کسی ڈائن نے جادو کر دیا تھا

 

وہ اپنے شہر واپس جا رہا تھا

میں اس کے سامنے گم صم کھڑا تھا

 

یکایک ریل کی سیٹی بجی تھی

مجھے اس نے خدا حافظ کہا

 

کھلی کھڑکی سے تا حدِ بصارت

وہ اپنا ہاتھ لہراتا رہا تھا

 

سمٹ کر چھکڑے نقطہ بن گئے تھے

سٹیشن پر میں تنہا رہ گیا تھا

 

اندھیری رات کے پھیلے تھے سائے

میں تکیے سے لپٹ کر رو دیا تھا

 

بدن میں سوئیاں چبھنے لگی تھیں

عمل سارا ہی الٹا ہو گیا تھا

 

گرفتِ چشم میں تھا آبِ باراں

گھٹا میں اس کا چہرہ تیرتا تھا

 

نگاہیں دھند میں ڈوبی ہوئی تھیں

کہاسا جسم پر چھایا ہوا تھا

 

میں اندھا یاتری بوڑھا تھا لیکن

وہ تبت کا پہاڑی سلسلہ تھا

 

محبت پھر ہماری جاگ اٹھی تھی

پلوں کے نیچے پانی آ گیا تھا

 

دھرے تھے میرے آگے سات کھانے

اور اُن میں لمس اس کے ہاتھ کا تھا

 

نوالے بھی بہت نمکیں تھے لیکن

عجب اُس کے لبوں کا ذائقہ تھا

 

شراب اور گوشت کی اپنی تھی لذت

مگر اس کے بدن کا جو مزا تھا

 

زمیں،عورت،حویلی اور مویشی

سبھی کچھ غدر میں لُٹ پُٹ گیا تھا

 

کجاوے،باغ،جھولےاور پنگھٹ

پرانا وقت یاد آنے لگا تھا

 

برہنہ پشت پر لگتے تھے کوڑے

غلامی کا زمانہ آ گیا تھا

 

رکی تھیں گھر میں آدم خور راتیں

اندھیرا مجھ کو کھانے دوڑتا تھا

 

جب اِندر کا اکھاڑا ہو رہا تھا

میں کالے دیو کے ہتھے چڑھا تھا

 

پری انسان پر عاشق ہوئی تھی

سنہرے دیو کو سکتہ ہوا تھا

 

پرستاں میں اُداسی چھا گئی تھی

اچانک ختم جلسہ ہو گیا تھا

 

پری کے سبز پر نوچے گئے تھے

مجھے بھی قید میں ڈالا گیا تھا

 

مری فرقت میں وہ لاغر ہوئی تھی

میں اُس کے ہجر میں کانٹا ہوا تھا

 

مرا جغرافیہ تھے سرخ شعلے

دھواں ہی میری سرحد بن گیا تھا

 

جڑیں کیا پھیلتیں میری زمیں میں

میں اک چھوٹے سے گملے میں اگا تھا

 

کھلیں جب نصف شب کو میری آنکھیں

کوئی آسیب بستر پر جھکا تھا

 

ڈرامہ ہم نے وہ دیکھا کھ جس کا

ہزاروں سال کا دورانیہ تھا

 

پسِ کہسار خیمے تھے نہ سائے

اب آنکھیں تھیں ہوا تھی اور کیا تھا

 

جمی تھی دھوپ سطحِ آئنہ پر

اور اس کا عکس چھاؤں سے اٹا تھا

 

مچی تھیں میری آنکھیں اور منہ پر

کوئی انگور کا گچھا جھکا تھا

 

پرندہ ڈوبتا تھا آبِ یخ میں

اور آبِ یخ ہوا میں ڈوبتا تھا

 

ستونِ خواب پر بارش کی چھت تھی

اور اُس چھت پر چراغ اور آئینہ تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

لہو آواز کی تہ پر جما تھا

اور اس پر اک پرت آواز کا تھا

 

پرندہ ڈوبتا تھا آبِ یخ میں

اور آبِ یخ ہوا میں ڈوبتا تھا

 

ستونِ خواب پر بارش کی چھت تھی

اور اُس چھت پر چراغ اور آئینہ تھا

 

بدوشِ صاعقہ تھی کوئی میت

اور اُس کو ابر کاندھا دے رہا تھا

 

کفِ تجرید پر رکھا تھا پانی

اور اس سے اک ہیولا پھوٹتا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

سنہری اونٹ ہم نے لے لیا تھا

مگر اس سے زیادہ خوں بہا تھا

 

ڈرامہ ہم نے وہ دیکھا کھ جس کا

ہزاروں سال کا دورانیہ تھا

 

پسِ کہسار خیمے تھے نہ سائے

اب آنکھیں تھیں ہوا تھی اور کیا تھا

 

جمی تھی دھوپ سطحِ آئنہ پر

اور اس کا عکس چھاؤں سے اٹا تھا

 

مچی تھیں میری آنکھیں اور منہ پر

کوئی انگور کا گچھا جھکا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

سلگنا ہی مقدر میں لکھا تھا

کہ میرا برِ اعظم آگ کا تھا

 

مرا جغرافیہ تھے سرخ شعلے

دھواں ہی میری سرحد بن گیا تھا

 

جڑیں کیا پھیلتیں میری زمیں میں

میں اک چھوٹے سے گملے میں اگا تھا

 

بوقتِ صبح میں کیا دیکھتا ہوں

کھ سایہ شام کا پھیلا ہوا تھا

 

کھلیں جب نصف شب کو میری آنکھیں

کوئی آسیب بستر پر جھکا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

جب اِندر کا اکھاڑا ہو رہا تھا

میں کالے دیو کے ہتھے چڑھا تھا

 

پری انسان پر عاشق ہوئی تھی

سنہرے دیو کو سکتہ ہوا تھا

 

پرستاں میں اُداسی چھا گئی تھی

اچانک ختم جلسہ ہو گیا تھا

 

پری کے سبز پر نوچے گئے تھے

مجھے بھی قید میں ڈالا گیا تھا

 

مری فرقت میں وہ لاغر ہوئی تھی

میں اُس کے ہجر میں کانٹا ہوا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

جدھر جاتے ادھر اک راستہ تھا

تم اندھے ہو ہواؤں نے کھا تھا

 

زمیں،عورت،حویلی اور مویشی

سبھی کچھ غدر میں لُٹ پُٹ گیا تھا

 

کجاوے،باغ،جھولے اور پنگھٹ

پرانا وقت یاد آنے لگا تھا

 

برہنہ پشت پر لگتے تھے کوڑے

غلامی کا زمانہ آ گیا تھا

 

رکی تھیں گھر میں آدم خور راتیں

اندھیرا مجھ کو کھانے دوڑتا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

وہ میری میزبانی کر رہا تھا

میں دستر خوان پر بیٹھا ہوا تھا

 

دھرے تھے میرے آگے سات کھانے

اور اُن میں لمس اس کے ہاتھ کا تھا

 

چمک اٹھی تھی میری بھوک جیسے

میں صدیوں سے غذا ناآشنا تھا

 

نوالے بھی بہت نمکیں تھے لیکن

عجب اُس کے لبوں کا ذائقہ تھا

 

شراب اور گوشت کی اپنی تھی لذت

مگر اس کے بدن کا جو مزا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

بھیانک رات تھی دریا چڑھا تھا

مگر میں تیری کشتی کھے رہا تھا

 

نگاہیں دھند میں ڈوبی ہوئی تھیں

کہاسا جسم پر چھایا ہوا تھا

 

میں اندھا یاتری بوڑھا تھا لیکن

وہ تبت کا پہاڑی سلسلہ تھا

 

محبت پھر ہماری جاگ اٹھی تھی

پلوں کے نیچے پانی آ گیا تھا

 

لہو میں چھتریاں کھلنے لگی تھیں

میں اپنی چھاؤں میں سستا رہا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

جو سیکھے تھے وہ منتر پڑھ رہا تھا

میں لوہے کے کڑے میں پھنس گیا تھا

 

بدن میں سوئیاں چبھنے لگی تھیں

عمل سارا ہی الٹا ہو گیا تھا

 

بھر تھے دانوں سے گودام سارے

مگر ہر پیٹ پر پتھر بندھا تھا

 

دعائیں مستجب ہوتی نہیں تھیں

خدا پر سے یقیں بھی اٹھ گیا تھا

 

گرفتِ چشم میں تھا آبِ باراں

گھٹا میں اس کا چہرہ تیرتا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

وہ اپنے شہر واپس جا رہا تھا

میں اس کے سامنے گم صم کھڑا تھا

 

یکایک ریل کی سیٹی بجی تھی

مجھے اس نے خدا حافظ کہا

 

کھلی کھڑکی سے تا حدِ بصارت

وہ اپنا ہاتھ لہراتا رہا تھا

 

سمٹ کر چھکڑے نقطہ بن گئے تھے

سٹیشن پر میں تنہا رہ گیا تھا

 

اندھیری رات کے پھیلے تھے سائے

میں تکیے سے لپٹ کر رو دیا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

خلاؤں میں معلق ہو گیا تھا

مجھے اس رات جانے کیا ہوا تھا

 

کچھ ایسی تیز سانسیں چل رہی تھیں

منڈیروں پر دیا بجھنے لگا تھا

 

مرے اونٹوں کی کونچیں کاٹ کر پھر

قبیلے نے کوئی بدلہ لیا تھا

 

کئی کتے اچانک بھنک اٹھے تھے

گلی میں کوئی سایہ رینگتا تھا

 

مری ملکہ کی ساتوں بیٹیوں پر

کسی ڈائن نے جادو کر دیا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جو بستی کی حفاظت کر رہا تھا

وہی اک روز پھانسی چڑھ گیا تھا

 

دیے تھے جس نے کپڑے شہر بھر کو

وہی بازار میں ننگا ہوا تھا

 

بڑی محنت سے جس نے ہل چلائے

اسی کی فصل کو کیڑا لگا تھا

 

جنہوں نے بند کیں نیلام گاہیں

انہی ہاتھوں کا سودا ہو رہا تھا

 

جو چہرے پہلے ہی سے زشت رو تھے

انہی پر کوڑھ کا حملہ ہوا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

پتہ میں اس محل کا پوچھتا تھا

جہاں ہر در طلائی دھات کا تھا

 

جہاں کھلتے تھے غرفے دل کی جا نب

جہاں رہتا کیوپڈ دیوتا تھا

 

بنفشی آئینوں کی اک روش پر

ہوا کے رتھ پہ سورج گھومتا تھا

 

بچھی تھی فرش پر چاندی کی چادر

اور اس پر اک ستارا ناچتا تھا

 

جہاں فوارے تھے بارہ دری میں

جہاں پانی میں روشن قمقمہ تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

خلا میں جست بھرنا جانتا تھا

مگر میں پہلے زینے پر کھڑا تھا

 

مجھے اڑنے کی شکتی مل گئی تھی

مگر مین پیٹ کے بل رینگتا تھا

 

ہزاروں اونٹ میری ملکیت تھے

مگر میں پا پیادہ چل رہا تھا

 

مرے احکام کی تابع تھیں نیندیں

مگر میں تھا کہ شب بھر جاگتا تھا

 

خطابت گو مرے گھر کی تھی لونڈی

مگر میں ٹوٹے جملے بولتا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ستاروں کا جنازہ اُٹھ رہا تھا

ہوا کے ساتھ بادل چیختا تھا

 

کیا تھا چاک پانی نے گریباں

اندھیرا سر میں مٹی ڈالتا تھا

 

پہاڑی سے نہیں اترا تھا ریوڑ

گڈریا رات بھر روتا رہا تھا

 

کوئی شے بھی نظر آتی نہیں تھی

مری آنکھوں پہ پردہ پڑ گیا تھا

 

پچھل پائی مرے پیچھے لگی تھی

میں سر پر پاؤں رکھ کر بھاگتا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

بغاوت کر کے وہ پچھتا رہا تھا

جب اس کے قد سے پانی بڑھ گیا تھا

 

حویلی میں چڑیلیں آ گئیں تھیں

کوئی اس رات چھت پر دوڑتا تھا

 

سڑک پر خون کے چھینٹے پڑے تھے

کوئی گاڑی تلے کچلا گیا تھا

 

میں وہ گوتم تھا جس نے جنگلوں سے

رہاست کی طرف منہ کر لیا تھا

 

ہوئی تھیں کُند میری پانچوں حسیں

چھٹی حس کا ہی سارا معجزہ تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یکایک ہیر کو غصہ چڑھا تھا

کوئی رنگلے پلنگ پر سو رہا تھا

 

جسے مارا تھا اس نے چھمکیوں سے

اسے بھینسوں کا کاماں رکھ لیا تھا

 

اسی کے واسطے کوٹی تھی چوری

اسی کی بانسری پر سر دھنا تھا

 

لڑی تھی کیدو سے اس کے لئے ہی

بہت ماں باپ سے جھگڑا کیا تھا

 

بڑے صدمے سہے تھے اس کی خاطر

مگر ڈولی کو کھیڑا لے گیا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

زمیں پر اژدہا پھنکارتا تھا

کوئی کاہن خلا میں گھورتا تھا

 

رکابی میں دھری تھیں سرخ آنتیں

پیالے میں لہو رکھا ہوا تھا

 

پڑا تھا دودھ خالی کھوپڑی میں

دھواں برتن کے منہ سے اٹھ رہا تھا

 

کہیں دیوار سے کھالیں ٹنگی تھیں

کہیں مُردے کا پنجر جھولتا تھا

 

کہیں چربی پگھلتی تھی چتا پر

کہیں شعلوں پہ مینڈک بھن رہا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مسلط پیڑ پر جہلِ ہوا تھا

ثمر پکنے سے پہلے گر رہا تھا

 

دورانِ آب شمعیں جل رہی تھیں

ہوا کے طاق پر پانی دھرا تھا

 

جڑیں تھیں سبز مائل اور باہر

شجر کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا

 

ہوئے تھے چھید دستِ خاکداں میں

فلک کے پاؤں میں سوراخ سا تھا

 

کبھی اڑنے کی کوشش کی تو مجھ کو

شکاری موسموں نے آ لیا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

عجب انداز سے وہ دن چڑھا تھا

میں بادل کی سواری کر رہا تھا

 

فضا میں گھونگھرو بجنے لگے تھے

میں پریوں کے جلو میں آ رہا تھا

 

ہوائیں مجھ کو لوری دے رہی تھی

میں پھولوں کا پنگوڑا جھولتا تھا

 

وہ اک بھیگی اماوس رات تھی جب

مسخر چاند میں کر لیا تھا

 

پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ گئے تھے

سمندر نے مجھے رستہ دیا تھا

 

وہ روزِ حشر تھا یا خواب سا تھا

فرشتہ گرز تھامے چل رہا تھا

 

ترے بھی گرد تھی نارِ جہنم

مرے بھی چاروں جانب ہاویہ تھا

 

زباں میں کیل ٹھونکے جا رہے تھے

شکم آری سے کاٹا جا رہا تھا

 

مری بھی کھال کھینچی جا رہی تھی

ترا بھی جسم داغا جا رہا تھا

 

تجھے بھی کوئی ناگن ڈس رہی تھی

مجھے بھی کوئی بچھو کاٹتا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

شکاری کا لقب اُس کو ملا تھا

جو چڑیوں پر نشانے باندھتا تھا

 

کٹورے دودھ کے بانٹے گئے تھے

زمینداروں کے گھر بیٹا ہوا تھا

 

لہو میں گدھ کی خصلت آگئی تھی

میں اپنے جسم کو خود نوچتا تھا

 

کچھ ایسا رعب تھا اُس بادشہ کا

زمیں کا پتا پتا کانپتا تھا

 

یتیمی شہر پر چھائی ہوئی تھی

سبھی کا باپ جیسے مر گیا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

بدن سے جو اچانک چھو گیا تھا

وہ کوئی ہاتھ عزرائیل کا تھا

 

چراگاہوں میں بھیڑیں چر رہی تھیں

افق کے پار سورج ڈوبتا تھا

 

مرے ماں باپ نے میرے جنم پر

سنہری اونٹ کا صدقہ دیا تھا

 

صلیبوں سے مجھے وحشت ہوئی تھی

میں طبعی موت مرنا چاہتا تھا

 

ادھر ڈائن چھری چلکا رہی تھی

اُدھر کوٹھے پہ آدھڑ جاگتا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اندھیرا جیسے جیسے پھیلتا تھا

وہ پُراسرار ہوتا جا رہا تھا

 

معموں کی طرح تھے جسم اپنے

اُسے میں وہ مجھے حل کر رہا تھا

 

بہت گنجل تھا اس کا آئینہ بھی

مرا بھی عکس پیچیدہ ہوا تھا

 

پڑے تھے جھول اُس کے پانیوں میں

سقم میری بھی مٹی میں پڑا تھا

 

مجھے سمجھانے میں صدیاں لگی تھیں

سمجھنے میں اُسے عرصہ لگا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

جواں ملکہ نے جب بیٹا جنا تھا

اُسی دن بادشہ اندھا ہوا تھا

 

محلوں میں ضیافت اڑ رہی تھی

بھکاری شہر میں بھوکا رہا تھا

 

نہیں تھا اُس طرف تیراک کوئی

جدھر سیلاب کا پانی بڑھا تھا

 

تری بیماری کے خط مل رہے تھے

میں کالج کے جھمیلوں میں پڑا تھا

 

میں دادا جان کی ٹوٹی لحد کو

اٹھارہ سال سے بھولا ہوا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مری تحریک سے پیدا ہوا تھا

کہ میں پُرکار تھا وہ دائرہ تھا

 

ہماری گائیاں ڈکرا رہی تھیں

تھنوں میں دودھ جامد ہو گیا تھا

 

کسی نے بت کے ٹکڑے کر دیے تھے

عبادت گاہ میں اک شور سا تھا

 

مری ماں مجھ کو باہر ڈھونڈتی تھی

میں اپنے گھر کے ملبے میں دبا تھا

 

مجھے دو نیلی آنکھیں روکتی تھیں

مگر میں کالے پانی جا رہا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

چٹانوں سے سمندر پوچھتا تھا

یہ شب کو کس کا بجرا ڈوبتا تھا

 

یہ کیا آواز تھی لہروں کے اندر

یہ کیسا شور موجوں میں بپا تھا

 

یہ کیسا ڈر لگا تھا پانیوں کو

کنارا کس لئے سہما ہوا تھا

 

کھلے تھے چاندنی کے بال کیونکر

ستارہ کیوں گریباں پھاڑتا تھا

 

یہ کیسی سسکیاں تھیں بادلوں میں

خلا میں کون دھاڑیں مارتا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

حجاب اُس روز سارا اٹھ گیا تھا

تجھے بانہوں میں مَیں نے بھر لیا تھا

 

فشارِ لمس میں اُلجھی تھیں روحیں

شجر سے اژدہا لپٹا ہوا تھا

 

تِری شریانیں بھی جلنے لگی تھیں

مرا خوں بھی رگوں میں کھولتا تھا

 

بہشتی پھل دھرے تھے طشتری میں

کوئی بابِ تلذذ کھل گیا تھا

 

تھپکتا تھا ہماری پُشت بادل

ستارہ پنڈلیاں سہلا رہا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

شکاری جس جگہ مردہ پڑا تھا

وہ جنگل کا نشیبی راستہ تھا

 

ِادھر کھیتوں میں گیڈر رو رہے تھے

اُدھر باڑے میں کُتا بھونکتا تھا

 

تلاش اُس کو بھی کالے ریچھ کی تھی

مجھے بھی کوئی چیتا ڈھونڈنا تھا

 

اُسی کوئے کے بچے گم ہوئے تھے

جو اک چڑیا کے انڈے کھا گیا تھا

 

گھنے پیڑوں پہ بندر کُودتے تھے

کوئی خرگوش جھاڑی میں چھپا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کسی گھاٹی کے اندر جا رہا تھا

مرے پاؤں تلے جو راستہ تھا

 

گھروں میں پھر بھی چوری ہو گئی تھی

اگرچہ شہر پر پہرا کڑا تھا

 

مری باتوں میں لکنت آگئی تھی

روانی سے مگر وہ بولتا تھا

 

نگر کو عاجزی کا درس دے کر

وہ خود فرعون بنتا جا رہا تھا

 

خطا اس سے بھی ہو سکتی تھی کوئی

خمیر اس کا بھی مٹی سے اٹھا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میں جس لمحے ترا دُولہا بنا تھا

وہ لمحہ سات رنگا ہو گیا تھا

 

مرے کپڑے بھی اچھے لگ رہے تھے

تجھے بھی سرخ جوڑا سج رہا تھا

 

تری سکھیاں بھی تجھ کو چھیڑتی تھیں

مجھے بھی دوستوں کا سامنا تھا

 

تجھے ماں باپ رخصت کر رہے تھے

تری آنکھوں سے دریا بہ رہا تھا

 

قدم جب تو نے ڈولی میں رکھے تھے

ہوا میں کوئی نغمہ گھل گیا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جمورا خون میں نہلا گیا تھا

مداری اپنی چھاتی پیٹتا تھا

 

سبھی پیروں نے مٹی چھوڑ دی تھی

اکیلا ریچھ چرخہ کاتتا تھا

 

ٹکا کر ڈگڈگی پر گال اپنے

خلا کی سمت بندر دیکھتا تھا

 

گلے کی کھردری رسی چھڑا کر

زمیں پر بکرا ٹکر مارتا تھا

 

کہیں اک کاٹھ کی گڑیا پڑی تھی

کہیں خیرات کا کپڑا بچھا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہمیں نے سنگسار اس کو کیا تھا

وہ زانی اس زمیں پر بوجھ سا تھا

 

اداسی میں نے خود تخلیق کی تھی

مجھے جو دکھ بھی تھا خود ساکتہ تھا

 

میں وہ ظالم تھا جس نے بچپنے میں

خود اپنے آپ کو اغوا کیا تھا

 

مساجد میں عبادت ہو رہی تھی

دلوں میں پھر بھی کوئی وسوسہ تھا

 

تری چاندی بھی میلی ہو گئی تھی

مری مے میں بھی پانی مل گیا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کسی کُرے پہ اُلو بولتا تھا

خلا چمگادڑوں سے بھر گیا تھا

 

فلک سے مکڑیاں چمٹی ہوئی تھیں

زمیں پر کیکڑا چپکا ہوا تھا

 

ستاروں کو بھی دیمک کھا رہی تھی

سنہرے چاند کو بھی گھن لگا تھا

 

کرن پر چھپکلی اوندھی پڑی تھی

نیولا روشنی سے لڑ رہا تھا

 

اندھیرا کیچوے کی چال چل کر

ہوا کے پیٹ میں داخل ہوا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

دسمبر کے دنوں کا واقعہ تھا

میں البم دیکھ کر رونے لگا تھا

 

گھنے پتوں میں جگنو سو گئے تھے

خمار آنکھوں میں گہری نیند کا تھا

 

چھما چھم دوسری بارش ہوئی تھی

میں تنہا بالکونی میں کھڑا تھا

 

گلے ہم مل رہے تھے کہ اچانک

دمامہ کوچ کا بجنے لگا تھا

 

گلوں کی خوشبوئیں باسی ہوئی تھیں

پھلوں کا ذائقہ پھیکا ہوا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

سماں اس دم نمازِ ظہر کا تھا

مرا دکھ سن کے سورج بجھ گیا تھا

 

بڑی شدت تھی میرے المیے میں

سمندر کا بھی پانی جل اٹھا تھا

 

ہوا تھا اک طلسماتی اشارہ

جہاں پر جو بھی تھا ساکن ہوا تھا

 

شجر آبِ سیہ میں ڈوبتے تھے

گھنا جنگل بگولوں میں گھرا تھا

 

غلافِ گرد میں ہر شے تھی لیکن

مرا چہرہ دکھائی دے رہا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

متفرق اشعار

 

پیام امن پہ کرنا مذاکرے لیکن

فصیلِ شہر پہ افواجِ جنگجو رکھنا

*

بنا جو شیر کا لقمہ غریب چرواہا

ہراس پھیل گیا بکریوں کے ریوڑ میں

*

لٹ گیا تھا نگر کا چین تمام

یرغمالی تھے والدین تمام

*

بد نما داغ ہیں چہروں پہ پرائی آنکھیں

اس سے بہتر تھا کہ ہر چوک پہ اندھے ہوتے

*

فضا میں قتل ہوا ہے کسی پرندے کا

لہو کی باس رچی ہے ہوا کے جھونکوں میں

*

یہ آسماں کے مناظر تجھے مبارک ہوں

ہماری آنکھیں دبی ہیں چٹان کے نیچے

*

بھوکے اسیر نے یہی سمجھا طعام ہے

سر پوش کو ہٹایا تو ہیرے تھے قاب میں

*

میں سازش کر کے سلطاں کا محل تاراج کیوں کرتا

رعایا پر کوئی باہر سے آ کر راج کیوں کرتا

*

بس واقعہ اتنا ہے کہ حق مانگا گیا تھا

اور گرم سلاخوں سے ہمیں داغا گیا تھا

*

بکھر گیا ہے بدن پھر بھی گھونسلے کی طرف

سجا گیا ہے پرندہ چٹان پر آنکھیں

*

خوں بہا مانگ رہا ہوں تو یہ میرا حق ہے

شہر کے ہر نئے مقتول کا میں بھائی ہوں

٭٭٭

ماخذ:

http://www.freeurdupoetry.com/?q=Urdu-Poetry-Of-Rafiq-Sandeelvi

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید