FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فضائل و آداب قرآن

               صلاح الدین یوسف

جامع اہل حدیث

مدنی روڈ، مصطفی آباد

لاہور، پاکستان

 

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اس نے حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعے سے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا۔ اس اعتبار سے یہ بھی آخری پیغمبر کی طرح آخری آسمانی کتاب ہے۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں، اسی طرح قرآن کریم کے بعد کوئی آسمانی وحی کسی پر نازل نہیں ہو گی۔ اسی لیے قرآن کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں کے لیے نصیحت قرار دیا: {وَمَا ھُوَ اِلَّا ذِکرٌ لِّلعٰلَمِینَ} (سورۃ القلم:۵۲)

اب یہ ہی قرآن کریم قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے کتاب ہدایت اور دستور حیات ہے۔ جن افراد یا اقوام نے اس سے اپنا تعلق جوڑا، اس سے رہنمائی حاصل کی اور اسے اپنا دستور العمل بنایا، وہ یقیناً دین و دنیا کی سعادتوں سے ہم کنار اور اس سے اعراض و تغافل کرنے والے ذلیل وخوار ہوں گے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (أِنَّ اللّٰہَ یَرفَعُ بِھٰذَا الکِتَابِ أَقوَاماً وَّیَضَعُ بِہِ آخَرِینَ) (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمہ … الخ، ح:٨١٧)

’’اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے سے بہت سے لوگوں کو بلندی عطا فرماتا ہے اور کچھ دوسروں کو پستی میں دھکیل دیتا ہے۔ ‘‘

یہ سرفرازی ان ہی لوگوں کا مقدر بنتی ہے جو قرآن کے احکام بجا لاتے اور اس کی حرام کردہ چیزوں سے اجتناب کرتے ہیں اور اس کے برعکس کردار کے حامل لوگوں کے لیے بالآخر ذلت ورسوائی ہے چنانچہ مسلمانوں کو اللہ نے اسلام کی ابتدائی چند صدیوں میں ہر جگہ سرخ رو کیا اور انھیں بلندیاں عطا کیں کیونکہ وہ قرآن کے حامل اور عامل تھے۔ اس پر عمل کی برکت سے وہ دین و دنیا کی سعادتوں سے بہرہ ور ہوئے لیکن مسلمانوں نے جب سے قرآن کے احکام و قوانین پر عمل کرنے کو اپنی زندگی سے خارج کر دیا تب ہی سے ان پر ذلت ورسوائی کا عذاب مسلط ہے۔

اولاً: بنا بریں ضروری ہے کہ مسلمانوں کا تعلق قرآن کریم کے ساتھ صحیح معنوں میں دوبارہ جوڑنے کی کوشش کی جائے تاکہ وہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح اس سے کسب فیض کر کے اپنی زندگی کی راہوں کو روشن اور متعین کرسکیں۔ اس لیے مناسب سمجھا گیا کہ تفسیر کے آغاز میں ایک تو قرآن کریم کے فضائل مختصراً بیان کر دیے جائیں تاکہ لوگوں میں قرآن پڑھنے کی ترغیب پیدا ہو۔

ثانیاً: تلاوت قرآن کے آداب پر بھی کچھ روشنی ڈال دی جائے تاکہ قرآن پڑھنے کے فوائد بھی انھیں حاصل ہو سکیں کیونکہ جب تک کسی کام کو اس کے آداب و شرائط کے مطابق نہ کیا جائے، اس کے ثمرات حاصل نہیں ہوتے۔

ثالثاً: قرآن کریم میں تدبر اور غور و فکر کی اہمیت کو اجاگر کر دیا جائے کیونکہ جب تک قرآن کے معانی ومطالب کو نہ سمجھا جائے، اللہ کی پسندوناپسند کا علم نہ ہو، اس وقت تک قرآن کے پڑھنے کا اصل مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ اُخروی ثواب تو بلا سمجھے پڑھنے سے بھی حاصل ہو جائے گا لیکن دنیا میں ہماری زندگیوں میں محض تلاوت سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ یہ تبدیلی اسی وقت آسکتی ہے جب ہم قرآن کریم کو سمجھتے ہوئے اس نیت سے پڑھیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے مخاطِب ہے اور ہم اس کے مخاطَب ہیں۔ وہ ہمیں زندگی گزارنے کے جو اصول اور ضابطے بتلا رہا ہے، ہم انھیں اختیار کریں گے اور اپنے شب و روز کے معمولات کو ان کے مطابق بنائیں گے کیونکہ عمل ہی اصل بنیاد ہے، اس کے بغیر قرآن کا محض سمجھ لینا بھی بے فائدہ ہے۔ سمجھنے کا اصل مقصداس پر عمل کرنا ہو تب وہ سمجھنا ہی اصل سمجھنا ہے کیونکہ وہی مفید اور نتیجہ خیز ہوتا ہے ورنہ ایک شخص یہ سمجھ بھی لے کہ یہ سنکھیا (زہر) ہے جس سے بچنا ضروری ہے لیکن وہ اس سے بچنا ضروری نہ سمجھے بلکہ اسے کھا جائے تو ظاہر بات ہے کہ اس کی ہلاکت یقینی ہے۔

 

               فضائل قرآن

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن قَرَأَ حَرفاًمِّن کِتَابِ اللّٰہِ فَلَہٗ بِہٖ حَسَنَۃٌ وَالحَسَنَۃُ بِعَشرِ أَمثَالِھَا لاَ أَقُولُ اَلٓمّٓ حَرفٌ، وَلٰکِن اَلِفٌ حَرفٌ، وَلامٌ حَرفٌ، وَمِیمٌ حَرفٌ) (جامع الترمذی، فضائل القرآن، باب ماجاء فی من قرأ حرفا من القرآن مالہ من الاجر، ح: ٢٩١٠)

’’جس شخص نے اللہ کی کتاب (قرآن مجید) کا ایک حرف پڑھا، اس کے لیے ایک نیکی ہے اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے۔ میں نہیں کہتا کہ ’’الم‘‘ ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے‘‘۔

یعنی یہ تین حرفوں سے مرکب ہے اور اس کے پڑھنے والے کو ۳۰ نیکیاں ملیں گی۔

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (اِقرَءُ وا القُرآنَ فَأِنَّہُ یَأتِی یَومَ القِیَامَۃِ شَفِیعاً لِأَصحَابِہِ) (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل قراء ۃ القرآن … الخ، :٨٠٤)

’’قرآن (کثرت سے) پڑھا کرو اس لیے کہ قیامت کے دن یہ اپنے ساتھیوں (پڑھنے والوں ) کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔ ‘‘

سفارشی کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کو قوت گویائی عطا فرمائے گا اور وہ اپنے قاری اور عامل کے گناہوں کی مغفرت کا اللہ سے سوال کرے گا جسے اللہ قبول فرمائے گاجیسا کہ دوسری روایات میں اس کی سفارش کی قبولیت کی نوید دی گئی ہے۔ اسی طرح بہت سی سورتوں کی فضیلت میں بھی یہ چیز بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والوں کی مغفرت کے لیے اللہ کی بارگاہ میں کوشش کریں گی مثلاً ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(یُؤتیٰ بِالقُرآنِ یَومَ القِیَامَۃِ وَأَھلِہِ الَّذِینَ کَانُوا یَعمَلُونَ بِہِ تَقدُمُہُ سُورَۃُ البَقَرَۃِ وَآلُ عِمرَانَ وَضَرَبَ لَھُمَا رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ثَلاثَۃَ أَمثَالٍ مَانَسِیتُھُنَّ بَعدُ قَالَ: کَأَنَّھُمَا غَمَامَتَانِ أَوظُلَّتَانِ سَودَاوَانِ، بَینَھُمَا شَرقٌ أَوکَأَنَّھُمَاَ فِرقَانِ مِن طَیرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَن صَاحِبِھِمَا) (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل قراء ۃ القرآن  … الخ، ح: ٨٠٥)

’’قیامت کے دن قرآن کو اور ان لوگوں کو جو (دنیا میں ) اس قرآن پر عمل کرتے تھے (بارگاہ الٰہی میں ) پیش کیا جائے گا، سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران ان کے آگے ہوں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے تین مثالیں بیان فرمائیں جن کو میں ابھی تک نہیں بھولا، آپ نے فرمایا: (وہ سورتیں اس طرح آئیں گی) گویا کہ وہ دو بدلیاں یا دو سیاہ سائبان ہیں، ان کے درمیان روشنی ہے یا وہ دونوں (ایسے آئیں گی) گویا کہ وہ پر پھیلائے پرندوں کے دو جھنڈ ہیں، وہ دونوں سورتیں (اس طرح آ کر) اپنے (پڑھنے اور عمل کرنے والے) ساتھیوں کی طرف سے اللہ سے جھگڑیں گی۔ ‘‘

اسی طرح کی فضیلت قرآن کریم کی متعدد سورتوں کی احادیث میں بیان کی گئی ہے۔

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم مسجد نبوی کے صفے (چبوترے) پر (جہاں اصحاب صفہ ہوتے تھے) بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: تم میں سے کون یہ پسند کرتا ہے کہ روزانہ صبح صبح بطحان جگہ یا وادی عقیق جائے اور وہاں سے بغیر کسی گناہ یا قطع رحمی کے دو بلند کوہان اونٹ لے کر آئے۔ ہم نے کہا، اے اللہ کے رسول! ہم (سب ہی) یہ پسند کرتے ہیں (کہ اس طرح روزانہ دو اونٹ ہمیں مل جائیں ) آپ نے فرمایا: ’’تو پھر تم میں سے ایک آدمی صبح کے وقت مسجد میں جا کر اللہ عزوجل کی کتاب کی دو آیتیں کیوں نہیں پڑھتا یا ان کا علم کیوں حاصل نہیں کرتا۔ یہ اس کے لیے دو اونٹوں سے بہتر ثابت ہوں گی اور تین تین اونٹوں سے اور چار چار سے اور اسی طرح جتنی آیتیں وہ پڑھے یا جانے گا، اتنے ہی اونٹوں سے وہ اس کے لیے بہتر ہوں گی۔ ‘‘ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل قراء ۃ القرآن فی الصلاۃ وتعلمہٗ ح:٨٠٣)

حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات کو وہ اپنے کھلیان میں قرآن پڑھ رہے تھے کہ ان کا گھوڑا (جو ایک طرف کھڑا ہوا تھا) بدکا۔ (انھوں نے اسے ایک نظر دیکھا) اور پھر پڑھنے لگے، کہ وہ دوبارہ بدکا، (انھوں نے اسے دیکھا اور) پھر پڑھنے میں مصروف ہو گئے تو وہ پھر بدکا۔ اسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں حتیٰ کہ مجھے اندیشہ محسوس ہوا کہ کہیں وہ (میرے لڑکے) یحییٰ کو نہ روند ڈالے چنانچہ میں گھوڑے کی طرف گیا تو دیکھا کہ میرے اوپر سائبان کی مثل کوئی چیز ہے اس میں دیے سے روشن ہیں، (میرے دیکھنے پر) وہ فضا میں اوپر چڑھنے شروع ہو گئے حتیٰ کہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ میں صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ سارا ماجرا آپ کے سامنے بیان کیا تو آپ نے قرآن مجید پڑھنے ہی کا حکم دیا۔ میں نے پھر (دوسری رات کو ) پڑھا تو گھوڑا اسی طرح بدکا، میں نے پھر آ کر بتلایا، تو آپ نے پڑھنے ہی کا حکم دیا۔ میں نے پھر (رات کو) پڑھا تو اسی طرح کا منظر سامنے آیا اور مجھے یحییٰ کے کچلے جانے کا اندیشہ محسوس ہوا اور سائبان کی مثل چیز دیکھی جس میں چراغ سے روشن تھے، وہ آہستہ آہستہ اوپر چڑھنے شروع ہو گئے حتیٰ کہ وہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ فرشتے تھے جو تیرا قرآن سن رہے تھے اور اگر تو پڑھتا رہتا تو صبح کو یہ منظر لوگ بھی دیکھتے۔ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب نزول السکینۃ لقراء ۃ القرآن، ح: ٧٩٦)

ایک اور روایت میں ہے، مذکورہ تفصیل سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فَأِنَّھَا السَّکِینَۃُ تَنَزَّلَت عِندَ القُرآنِ (صحیح مسلم، ح: ٧٩٥)

’’یہ سکینت تھی جو قرآن کی وجہ سے نازل ہو رہی تھی۔ ‘‘

سکینت سے مراد، طمانیت اور رحمت ہے جو فرشتوں کے ساتھ نازل ہوتی ہے گویا تلاوت قرآن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کا نزول ہوتا ہے جس میں طمانیت، تسکین اور راحت ہوتی ہے۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (مَثَلُ المُؤمِنِ الَّذِی یَقرَأُ القُرآنَ کَمَثَلِ الاُترُجَّۃِ رِیحُھَا طَیِّبٌ وَطَعمُھَا طَیِّبٌ، وَمَثَلُ المُؤمِنِ الَّذِی لاَ یَقرَأُ القُرآنَ کَمَثَلِ التَّمرَۃِ لاَ رِیحَ لَھَا وَطَعمُھَا حُلوٌ، وَمَثَلُ المُنَافِقِ الَّذِی یَقرَأُ القُرآنَ کَمَثَلِ اَلرَّیحَانَۃِ، رِیحُھَا طَیِّبٌ وَطَعمُھَا مُرٌّ، وَمَثَلُ المُنَافِقِ الَّذِی لَا یَقرَأُ القُرآنَ کَمَثَلِ الحَنظلَۃِ لَیسَ لَھَا رِیحٌ وَطَعمُھَا مُرٌّ) (صحیح البخاری، باب الأطعمۃ، باب ذکر الطعام، ح: ٥٤٢٧ وصحیح مسلم، صلاۃالمسافرین، باب فضیلۃ حافظ القرآن، ح: ٧٩٧)

’’اس مومن کی مثال جو قرآن کریم پڑھتا ہے، میٹھے لیموں (نارنگی) کی سی ہے کہ اس کی خوشبو بھی اچھی ہے اور اس کا ذائقہ بھی میٹھا ہے اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور کی طرح ہے جس کی خوشبو نہیں اور اس کا ذائقہ میٹھا ہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے، خوشبودار پودے (جیسے نازبو، یاسمین وغیرہ) کی طرح ہے جس کی خوشبو اچھی ہے اور اس کا ذائقہ تلخ ہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا، اندرائن (تمہ) کی طرح ہے جس میں خوشبو نہیں اور اس کا ذائقہ کڑوا ہے۔ ‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پڑھنے والا اور اس پر عمل کرنے والا مومن تو خوش رنگ اور خوش ذائقہ پھل کی طرح عند اللہ بھی مقبول ہے اور لوگوں میں بھی اس کی عزت ہے اور جو مومن قرآن نہیں پڑھتا تاہم قرآن کا عامل ہے، اللہ کے ہاں اور لوگوں کی نظروں میں بھی اچھا ہے اور قرآن پڑھنے والے منافق (یا فاجر) کا ظاہر اچھا ہے لیکن باطن گندا اور تاریک ہے اور آخر میں اس منافق کا ذکر ہے جو قرآن نہیں پڑھتا، اس کا ظاہر اور باطن دونوں ناپاک ہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اَلمَاھِرُ بِالقُرآنِ مَعَ السَّفَرَۃِ الکِرَامِ البَرَرَۃِ، وَالَّذِی یَقرَ أُ القُرآنَ وَیَتَتَعتَعُ فِیہِ وَھُوَ عَلَیہِ شَاقٌّ، لَہُ اَجرَانِ) (صحیح البخاری، التفسیر، سورۃ عبس، ح: ٤٩٣٧ وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل الماہر بالقرآن والذی یتتعتع فیہ، ح: ٧٩٨ واللفظ لمسلم)

’’قرآن کا ماہر (قیامت کے دن) ان فرشتوں کے ساتھ ہو گا جو (دنیا میں ) وحی الٰہی لانے والے بزرگ اور نیکو کار ہوں گے اور جو قرآن اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اور اس کے پڑھنے میں اسے مشقت ہوتی ہے، اس کے لیے دگنا اجر ہے۔ ‘‘

ماہر سے مراد، قرآن کریم کا حافظ اور تجوید وحسن صوت سے پڑھنے والا ہے اور دوسرا وہ شخص ہے جو حافظ ہے نہ حسن صوت اور تجوید سے بہرہ ور، اس لیے قرآن فصاحت اور روانی سے نہیں پڑھ سکتا لیکن اس کے باوجود ذوق و شوق سے اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اور پڑھنے میں اسے جو مشقت ہوتی ہے اسے برداشت کرتا ہے۔ اس مشقت کی وجہ سے اسے دگنا اجر ملے گا۔ تاہم دونوں ہی قرآن کریم کی وجہ سے خصوصی شرف و فضل سے بہرہ ور ہوں گے۔

اسی لیے ایک اور حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (خَیرُکُم مَّن تَعَلَّمَ القُرآنَ وَعَلَّمَہُ) (صحیح البخاری، فضائل القرآن، باب خیر کم من تعلم القرآن وعلمہ، ح: ٥٠٢٧)

’’تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور اسے (دوسروں کو) سکھلائے۔ ‘‘

ایک اور حدیث میں، جو حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یُقَالُ لِصَاحِبِ القُرآنِ اِقرَأ وَارتَقِ، وَرَتِّل کَمَا کُنتَ تُرَتِّلُ فِی الدُّنیَا، فَأِنَّ مَنزِلَکَ عِندَ آخِرِ آیَۃٍ تَقرَؤُھَا) (سنن أبی داود، الوتر، باب کیف یستحب الترتیل فی القراء ۃ، ح: ١٤٦٤، جامع الترمذی، فضائل القرآن، باب ان الذی لیس فی جوفہ من القرآن کالبیت الخرب … ح: ٢٩١٤)

’’صاحب قرآن (قرآن پڑھنے اور اسے حفظ کرنے والے) سے (قیامت کے دن) کہا جائے گا پڑھتا جا اور (درجے) چڑھتا جا اور اس طرح آہستہ آہستہ تلاوت کر جیسے تو دنیا میں ترتیل سے پڑھتا تھا پس تیرا مقام وہ ہو گا جہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہو گی۔ ‘‘

یہ ہی وہ اخروی فضیلت اور سعادت ابدی ہے جس کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حامل قرآن پر رشک کرنے کو جائز قرار دیا ہے چنانچہ ایک حدیث میں جو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے، آپ نے فرمایا: (لاَ حَسَدَ أِلَّا فِی اثنَتَینِ : رَجُلٌ آتَاہُ اللّٰہُ القُرآنَ فَھُوَ یَقُومُ بِہِ آنَاءَ اللَّیلِ وَآنَائَ النَّھَارِ، وَرَجُلٌ آتَاہُ اللّٰہُ مَالاً فَھُوَ یُنفِقُہُ آنَائَ اللَّیلِ وَآنَائَ النَّھَارِ) (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمہ … ، ح: ٨١٥)

’’سوائے دو آدمیوں کے کسی پر رشک کرنا جائز نہیں۔ ایک وہ آدمی جسے اللہ نے قرآن عطا کیا (یعنی اسے حفظ کرنے کی توفیق دی) پس وہ اس کے ساتھ رات اور دن کی گھڑیوں میں قیام کرتا ہے (یعنی اللہ کی عبادت کرتا ہے) اور دوسرا وہ آدمی جسے اللہ نے مال و دولت سے نوازا تو وہ اسے (اللہ کی راہ میں ) رات اور دن کی گھڑیوں میں خرچ کرتا ہے۔ ‘‘

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وَمَا اجتَمَعَ قَومٌ فِی بَیتٍ مِّن بُیُوتِ اللّٰہِ، یَتلُونَ کِتَابَ اللّٰہِ وَیَتَدَارَسُونَہُ بَینَھُم، أِلَّا نَزَلَت عَلَیھِمُ السَّکِینَۃُ وَغَشِیَتھُمُ الرَّحمَۃُ وَحَفَّتھُمُ المَلَائِکَۃُ، وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیمَن عِندَہُ) (صحیح مسلم، الذکروالدعاء، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن … ، ح:٢٦٩٩)

’’جو لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہو کر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اس کا تکرار کرتے (یادرس دیتے) ہیں تو ان پر (اللہ کی طرف سے)سکینت (تسکین و رحمت) نازل ہوتی ہے، رحمت انھیں ڈھانک لیتی ہے، فرشتے انھیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان فرشتوں میں ان کا ذکر فرماتا ہے جو اس کے پاس ہوتے ہیں۔ ‘‘

اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ ایک دوسرے کو قرآن کا درس دیتے ہیں یعنی قرآنی علوم و معارف پر مذاکرہ و مباحثہ کرتے ہیں۔ دوسرا مفہوم ہے کہ قرآن مجید کا باہم دور کرتے ہیں یعنی ایک دوسرے کو قرآن کریم سناتے ہیں۔ یہ دونوں ہی مفہوم صحیح ہیں کیونکہ دونوں ہی کام محمود ومستحسن ہیں اور اللہ کی خصوصی رحمت و رضامندی کے باعث۔

بہر حال مذکورہ احادیث سے واضح ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرنا، اسے حفظ کرنا، اس پر عمل کرنا، اس کی تفہیم وتدریس کے حلقے قائم کرنا، اس کی تعلیم و تعلم سے وابستہ ہونا، اس کی نشر و اشاعت اور تبلیغ و دعوت کا اہتمام کرنا، اس کے ساتھ راتوں کو قیام کرنا اور اس کا آپس میں دور کرنا، یہ سب کا م نہایت پسندیدہ اور بڑے فضیلت والے ہیں۔ قیامت کے دن یہ سب وابستگان قرآن اللہ کے خصوصی قرب اور اس کی رضا سے بہرہ ور، اس کی رحمت و مغفرت سے شاد کام اور جنت کے اعلیٰ درجوں پر فائز ہوں گے اور ظاہر بات ہے کہ اللہ نے جن حاملین قرآن کے لیے یہ اخروی فضیلتیں رکھی ہیں، وہ دنیا میں اپنے قرآن پر عمل کرنے والوں کو ذلیل ورسوا نہیں کرسکتا بلکہ وہ ان کو دنیا میں بھی عزت و وقار اور تفوق و غلبہ عطا کرنے پر قادر ہے۔ مسلمان قرآن پر عمل کر کے تو دیکھیں : {وَلَا تَھِنُوا وَلَا تَحزَنُوا وَاَنتُمُ الاَعلَونَ اِن کُنتُم مُّومِنِینَ} (آل عمران:١٣٩)

               قرآن کریم کا اعجاز اور اس کی تاثیر

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا مقدس کلام ہے جو اپنے اعجاز و بلاغت اور تاثیر و فصاحت میں بے مثال ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنوں کو قرآن کریم کی ایک چھوٹی سی سورت جیسی سورت بنا کر دکھانے کا چیلنج دیا لیکن وہ عرب بھی جن کو اپنی فصاحت و بلاغت پر اتنا ناز تھا کہ وہ اپنے ماسوا (غیر عربوں ) کو عجمی (گونگے) کہا کرتے تھے، قرآن کی نظیر پیش کرنے سے قاصر رہے۔

اس کی یہ ہی تاثیر تھی کہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے جب سورہ مریم کی تلاوت کی تو وہ اور اس کے درباری قرآن کے حسن بیان اور اس کی صداقت سے سخت متاثر ہوئے اور ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے حتیٰ کہ وہ ایمان لے آئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا نقشہ سورۃ المائدہ میں کھینچا ہے، فرمایا: {وَاِذَا سَمِعُوا مَآ اُنزِلَ اِلیَ الرَّسُولِ تَرٰٓی اَعیُنَھُم تَفِیضُ مِنَ الدَّ معِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاکتُبنَا مَعَ الشّٰھِدِینَ} (المائدہ: ٨٣)

’’جب وہ، وہ قرآن سنتے ہیں جو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف نازل ہوا تو آپ دیکھیں گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں، اس وجہ سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ کہتے ہیں، اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے پس تو ہمیں (ایمان کی) گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ ‘‘

سورہ حٰمٓ السجدہ کی جسے سورہ فصلت بھی کہتے ہیں، شان نزول کی روایات میں بتلایا گیا ہے کہ ایک مرتبہ سرداران قریش نے باہم مشورہ کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پیروکاروں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہی ہو رہا ہے، ہمیں اس کے سد باب کے لیے ضرور کچھ کرنا چاہیے چنانچہ انھوں نے اپنے سب سے زیادہ بلیغ و فصیح آدمی ’’عتبہ بن ربیعہ‘‘ کا انتخاب کیا تاکہ وہ آپ سے گفتگو کرے چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں گیا اور آپ پر عربوں میں انتشار و افتراق پیدا کرنے کا الزام عائد کر کے پیش کش کی کہ اس نئی دعوت سے اگر آپ کا مقصد مال و دولت کا حصول ہے تو وہ ہم جمع کیے دیتے ہیں، قیادت وسیادت منوانا چاہتے ہیں تو آپ کو ہم اپنا لیڈر اور سردار مان لیتے ہیں، کسی حسین عورت سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو ایک نہیں ایسی دس عورتوں کا انتظام ہم کر دیتے ہیں اور اگر آپ پر آسیب کا اثر ہے جس کے تحت آپ ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں تو ہم اپنے خرچ پر آپ کا علاج کروا دیتے ہیں۔ آپ نے اس کی تمام باتیں سن کر اس سورت کی تلاوت اس کے سامنے فرمائی جس سے وہ بڑا متاثر ہوا۔ اس نے واپس جا کر سردار ان قریش کو بتایا کہ وہ جو چیز پیش کرتا ہے وہ جادو اور کہانت ہے نہ شعر و شاعری۔ مطلب اس کا آپ کی دعوت پر سردار ان قریش کو غور و فکر کی دعوت دینا تھا لیکن وہ غور و فکر کیا کرتے الٹا عتبہ پر الزام لگا دیا کہ تو بھی اس کے سحر کا اسیر ہو گیا۔ یہ روایات مختلف اندازسے اہل سیروتفسیر نے بیان کی ہیں۔ امام ابن کثیر اور امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہما نے بھی انھیں نقل کیا ہے۔ امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’یہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قریش کا اجتماع ضرور ہوا، انھوں نے عتبہ کو گفتگو کے لیے بھیجا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سورت کا ابتدائی حصہ سنایاجس سے وہ شدید متاثر ہوا‘‘۔

قرآن کریم کی آیت ہے: {اِن تُعَذِّبھُم فَاِنَّھُم عِبادُکَ وَاِن تَغفِر لَھُم فَاِنَّکَ اَنتَ العَزِیزُ الحَکِیمُ} (المائدہ : ١١٨)

’’اگر تو ان کو عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف کر دے توتو غالب حکمت والا ہے۔ ‘‘

مطلب یہ ہے کہ یا اللہ! ان کا معاملہ تیری مشیت کے سپرد ہے کیونکہ تو {فَعَّالٌ لِّمَایُرِیدُ} (البروج: ۱۶) بھی ہے ’’جو چاہے کرسکتا ہے‘‘ اور تجھ سے باز پرس کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ {لَایُسئَلُ عَمَّا یَفعَلُ وَھُم یُسئَلُونَ} (الانبیاء:۲۳)

’’اللہ جو کچھ کرتا ہے اس سے باز پرس نہیں ہو گی البتہ لوگوں سے ان کے کاموں کی بازپرس ہو گی۔ ‘‘

گویا آیت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے بندوں کی عاجزی و بے بسی کا اظہار بھی ہے اور اللہ کی عظمت و جلالت اور اس کے قادر مطلق اور مختار کل ہونے کا بیان بھی اور پھر ان باتوں کے حوالے سے عفو و مغفرت کی التجا بھی۔ سبحان اللہ کیسی عجیب و بلیغ آیت ہے۔ اسی لیے حدیث میں آتا ہے کہ ’’ایک رات، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نوافل میں اس آیت کو پڑھتے ہوئے، ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ بار بار ہر رکعت میں اسے ہی پڑھتے رہے حتیٰ کہ صبح ہو گئی۔ ‘‘(مسند احمد :٥؍١٤٩)

اہل ایمان کی صفات میں اللہ نے فرمایا: { اِنَّمَا المُؤمِنُونَ الَّذِینَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَت قُلُوبُھُم وَاِذَا تُلِیَت عَلَیھِم اٰیٰتُہٗ زَادَ تھُم اِیمَاناً وَّ عَلیٰ رَبِّھِم یَتَوَکَّلُونَ} (الانفال:٢)

’’مومن تو صرف وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیات پڑھی جائیں تو ان کے ایمانوں میں اضافہ ہو جائے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ ‘‘ ایک اور مقام پر اللہ نے فرمایا: {تَقشَعِرُّ مِنہُ جُلُودُ الَّذِینَ یَخشَونَ رَبَّھُم} (الزمر:٢٣) ’’قرآن سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ ‘‘ کیونکہ وہ ان وعیدوں اور تخویف و تہدید کو سمجھتے ہیں جو نافرمانوں کے لیے اس قرآن میں ہیں پھر فرمایا: {ثُمَّ تَلِینُ جُلُودُھُم وَقُلُوبُھُم اِلیٰ ذِکرِ اللّٰہِ } (الزمر:٢٣)

’’پھر ان کی جلدیں اور دل اللہ کے ذکر کے لیے نرم ہو جاتے ہیں۔ ‘‘

یعنی جب اللہ کی رحمت اور اس کے لطف و کرم کی امید ان کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے تو ان کے اندر سوزوگداز پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اللہ کے ذکر میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس میں اولیاء اللہ کی صفت بیان کی گئی ہے کہ اللہ کے خوف سے ان کے دل کانپ اٹھتے، ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں اور ان کے دلوں کو اللہ کے ذکر سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہو تا کہ وہ مدہوش اور حواس باختہ ہو جائیں اور عقل و ہوش باقی نہ رہے کیونکہ یہ بدعتیوں کی صفت ہے اور اس میں شیطان کا دخل ہوتا ہے۔ (ابن کثیر) جیسے آج بھی بدعتیوں کی قوالی میں اس طرح کی شیطانی حرکتیں عام ہیں جسے وہ ’’وجد و حال یا سکرومستی‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اہل ایمان کا معاملہ اس بارے میں کافروں سے بوجوہ مختلف ہے۔ ایک یہ کہ اہل ایمان کا سماع، قرآن کریم کی تلاوت ہے جب کہ کفار کا سماع، بے حیا مغنیات کی آوازوں میں گانا بجانا اور سننا ہے (جیسے اہل بدعت کا سماع مشرکانہ غلو پر مبنی قوالیاں اور نعمتیں ہیں ) دوسرے یہ کہ اہل ایمان قرآن سن کر ادب و خشیت سے، رجا و محبت سے اور علم و فہم سے رو پڑتے ہیں اور سجدہ ریز ہو جاتے ہیں جب کہ کفار شور کرتے ہیں اور کھیل کود میں مصروف رہتے ہیں۔ تیسرے، اہل ایمان سماع قرآن کے وقت ادب و تواضع اختیار کرتے ہیں جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عادت مبارکہ تھی جس سے ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے اور ان کے دل اللہ کی طرف جھک جاتے تھے۔ (ابن کثیر)

 

               تلاوتِ قرآن کے آداب

قرآن کریم کی یہ اثر انگیزی گو مخصوص آداب کی مرہون منت نہیں تھی بلکہ یہ اس کی اپنی شان کا اور اس صفت جذب و انجذاب کا نتیجہ تھا جو ان لوگوں کے دلوں میں ودیعت ہوتی ہے جن کی قسمت میں حق کا قبول کرنا لکھا ہوتا ہے۔ تاہم اہل ایمان کو حکم ہے کہ وہ تلاوت کرتے وقت حق تلاوت ادا کریں تاکہ وہ قرآن کے مواعظ و عبر، قصص و امثال اور انذار و تبشیر سے زیادہ فیض یاب ہوں جیسے اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی صفت بیان فرمائی: {اَلَّذِینَ اٰتَینٰھُمُ الکِتٰبَ یَتلُونَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ اُولٰٓئِکَ یُؤمِنُونَ بِہٖ} (البقرہ :١٢١)

’’وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی، وہ اس کتاب کی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے، یہ ہی لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں۔ ‘‘

تلاوت کا یہ حق وہ کس طرح ادا کرتے ہیں۔ اس کے کئی مطلب بیان کیے گئے ہیں، مثلاً:

٭ وہ کتاب الٰہی کو خوب توجہ اور غور سے پڑھتے ہیں، جنت کا ذکر آتا ہے تو جنت کا سوال کرتے اور جہنم کا ذکر

آتا ہے تو اس سے پناہ مانگتے ہیں۔

٭ اس کے حلال کو حلال، حرام کو حرام سمجھتے اور کلام الٰہی میں تحریف نہیں کرتے (جیسے اہل زیغ و ضلال کا شعار ہے)

٭ اس کی محکم باتوں پر عمل کرتے، متشابہات پر ایمان رکھتے اور جو باتیں سمجھ میں نہیں آتیں، وہ علماء سے حل

کرواتے ہیں۔

٭ اس کی ایک ایک بات پر عمل کرتے، اپنی طرف سے دین میں اضافہ نہیں کرتے۔ (فتح القدیر للشوکانی)

٭ واقعہ یہ ہے کہ حق تلاوت میں یہ سارے ہی مفہوم داخل ہیں اور ہدایت ایسے ہی لوگوں کے حصے میں آتی ہے

جو مذکورہ باتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔

گویا قرآن کا سب سے بڑا ادب مذکورہ باتوں کا اہتمام اور ان کے برعکس رویہ سب سے بڑی بے ادبی ہے، بہر حال چند اور آداب جو قرآن و حدیث سے معلوم ہوتے ہیں، درج ذیل ہیں :

آغاز میں ’’تعوذ‘‘ یعنی اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ پڑھاجائے جیسا کہ سورۃ النحل میں ہے۔ (النحل: ٩٨)

سورہ توبہ کے علاوہ ہر سورت کے شروع کرنے سے پہلے ’’بسملہ‘‘ یعنی بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ پڑھی جائے۔

مومن ہر وقت پاک ہی ہوتا ہے، اس لیے ہر حالت میں مومن مرد اور عورت اور بچے قرآن کی تلاوت کر سکتے ہیں، چاہے بے وضو ہوں یا با وضو۔ با وضو ہونا بہتر ہے لیکن یہ لازمی شرط نہیں جیسا کہ بعض علماء کہتے ہیں بلکہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ہر وقت ہر حالت میں قرآن پڑھا جا سکتا ہے، صرف ناپاک جگہوں میں پڑھنے سے اجتناب ضروری ہے۔ (اس کی تفصیل تفسیر احسن البیان میں سورۃ الواقعہ :۷۹ کے حاشیے میں ملاحظہ کی کی جا سکتی ہے)

قرآن کریم ترتیل اور تجوید سے پڑھا جائے۔ ترتیل کا مطلب ہے آہستہ آہستہ، ٹھہر ٹھہر کر آرام سے پڑھنا اور تجوید کا مطلب ہے، تجوید کے اصول و ضوابط کا لحاظ رکھتے ہوئے پڑھنا یعنی زیر، زبر، پیش کو کس طرح پڑھنا ہے، الف، واؤ وغیرہ حروف کو کیسے پڑھنا ہے، کئی لوگ زبر کو کھینچ کر الف اور الف کو بغیر کھینچے زبر کی طرح پڑھتے ہیں، ھاکو حا اور حا کو ھا پڑھتے ہیں، علاوہ ازیں اس طرح کی اور کئی موٹی موٹی غلطیاں کرتے ہیں۔ اس قسم کی غلطیوں سے معنی کچھ کے کچھ بن جاتے ہیں۔ اس لیے معتبر استاد سے قرآن کریم کا لہجہ اور تلفظ ضروردرست کر لیا جائے۔ تھوڑ ی سی محنت اور توجہ سے مذکورہ غلطیوں سے بچا جا سکتا ہے اور ان غلطیوں سے ضرور بچنا چاہیے۔

               حسن صوت کا اہتمام کیا جائے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (زَیِّنُوا القُرآنَ بِأَصوَاتِکُم فَأِنَّ الصَّوتَ الحَسَنَ یَزِیدُ القُرآنَ حُسناً ) (صحیح الجامع الصغیر، ح: ٣٥٨١)

’’قرآن کو اپنی آوازوں کے ساتھ سنوارو، اس لیے کہ خوب صورت آواز قرآن کے حسن کو بڑھا دیتی ہے۔ ‘‘

ایک دوسری روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 🙁 لَیسَ مِنَّا مَن لَّم یَتَغَنَّ بِالقُرآنِ ) (صحیح البخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ (واسروا قولکم اواجھروابہ … الآیۃ)، ح:٧٥٢٧، سنن أبی داود، الوتر، باب کیف یستحب الترتیل فی القراء ۃ، ح : ١٤٦٩)

’’وہ شخص ہم (مسلمانوں ) میں سے نہیں جو قرآن کو غناء کے ساتھ نہیں پڑھتا۔ ‘‘

’’ہم (مسلمانوں ) میں سے نہیں ‘‘ کا مطلب ہے، ہمارے طریقے اور سنت پر نہیں اور غناء کے ساتھ پڑھنے کا مطلب، گانے کی طرح تکلف اور تصنع سے پڑھنا نہیں ہے جیسے آج کل بہت سے قاری بالخصوص مصر کے بعض قراء پڑھتے ہیں بلکہ اس کا مطلب تجویدوحسن صوت کے ساتھ ایسے سوز سے پڑھنا ہے جس سے رقت طاری ہو۔ اس میں بھی گویا خوش آوازی اور سوز ہی سے قرآن پڑھنے کی ترغیب ہے تاہم یہ ضروری ہے کہ حرفوں کی ادائیگی اس طرح ہو کہ اس میں کمی بیشی نہ ہو۔

آج کل ہمارے دن کا آغاز اخبار پڑھنے یا ٹی وی پر خبرسننے سے ہوتا ہے۔ اس معمول کو بدلنے کی شدید ضرورت ہے، ایک مسلمان کے یومیہ معمولات کا آغاز نماز فجر اور تلاوت کلام پاک سے ہونا چاہیے۔ روزانہ صبح سب سے پہلے قرآن مجید کی تلاوت کی جائے، اس کے لیے جتنا وقت وہ نکال سکے، نکالے۔ تاہم قرآن کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ زیادہ پڑھنے کا شوق رکھنے والا، ایک دن میں زیادہ سے زیادہ دس پارے پڑھے۔ اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے کم میں قرآن مجید ختم کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (فتح الباری، فضائل القرآن، باب فی کم یقرأالقرآن: ٩؍١٢١، طبع دارالسلام)

قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت، اس کے معانی و مطالب پر بھی غور و تدبر کرے تاکہ اس پر اللہ تعالیٰ کی جلالت و عظمت کا نقش قائم ہو اور اس پر خوف و رقت کی کیفیت طاری ہو۔ حدیث میں آتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ، انھوں نے کہا، اللہ کے رسول آپ پرتو قرآن نازل ہوا ہے کیا میں آپ کو پڑھ کر سناؤں ؟ آپ نے فرمایا ہاں، میں اپنے علاوہ کسی سے سننا چاہتا ہوں چنانچہ انھوں نے سورہ نساء سنانی شروع کی، جب وہ آیت: {فَکَیفَ اِذَا جِئنَا مِن کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیدٍ وَّجِئنَا بِکَ عَلیٰ ھٰٓؤُلَآئِ شَھِیدًا } (النساء:٤١) پر پہنچے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ ‘‘

اما م غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : (یستحب البکاء مع القراء ۃ وعندھا، وطریق تحصیلہ أن یحضر قلبہ الحزن والخوف بتأمل مافیہ من التھدید والوعید الشدید والوثائق والعھود ثم ینظر تقصیرہ فی ذلک، فأن لم یحضرہ حزن فلیبک علی فقد ذلک وانہ من اعظم المصائب) (فتح الباری، فضائل القرآن، باب البکاء عند قراء ۃ القرآن:٩؍١٢٣، طبع دارالسلام، الریاض)

’’قرآن پڑھتے اور سنتے ہوئے رونا مستحب (پسندیدہ) ہے اور اس رونے کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ اس قرآن میں، اللہ کے بیان کردہ تہدید، سخت وعید اور اس کے عہد و میثاق پر غور کر کے، اپنے دل میں خوف و حزن کو حاضر کرے پھر اپنی ان تقصیروں کو دیکھے جو ان کی بابت اس سے ہوئیں اگر خوف و حزن کی کیفیت پیدا نہ ہو تو اس کے فقدان پر روئے کہ یہ بھی ایک عظیم آفت ہے۔ ‘‘

قرآن کریم کا جتنا حصہ کسی کو یاد ہو، وہ اسے دہراتا اور پابندی سے پڑھتا رہے تاکہ وہ یاد رہے اور اسے بھول نہ جائے۔ علاوہ ازیں قرآن مجید کا کچھ نہ کچھ حصہ ہر مسلمان کو ضرور یاد کرنا اور یاد رکھنا چاہیے تاکہ وہ نمازوں میں اور قیام اللیل (نماز تہجد) میں پڑھ سکے۔ قرآن مجید کے یاد شدہ حصوں کی یہ حفاظت اس لیے ضروری ہے کہ نسیان پر جو سخت وعید ہے، انسان اس سے بچ جائے۔ علاوہ ازیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : (أِنَّمَا مَثَلُ صَاحِبِ القُرآنِ کَمَثَلِ صَاحِبِ الاِبِلِ المُعَقَّلَۃِ، اِن عَاھَدَ عَلَیھَا أَمسَکَھَا وَاِن أَطلَقَھَا ذَھَبَت) (صحیح البخاری، فضائل القرآن، باب استذکار القرآن وتعاھدہ، ح: ٥٠٣١)

’’صاحب قرآن کی مثال (قرآن کے یاد رکھنے میں ) اونٹوں والے کی سی ہے جو رسی سے بندھے ہوئے ہوں اگر وہ اونٹوں کی حفاظت و نگرانی کرے (اور انھیں باندھ کر رکھے) تو وہ ان کی حفاظت میں کامیاب رہے گا اور اگر وہ رسی سے باندھے بغیر ان کو چھوڑ دے گا تو وہ بھاگ جائیں گے۔ ‘‘

ایک دوسری روایت میں ہے : (تَعَاھَدُوا القُرآنَ فَوَالَّذِی نَفسِی بِیَدِہِ لَھُوَ أَشَدُّ تَفَصِّیاً مِّنَ الأبِلِ فِی عُقُلِھَا) (صحیح البخاری، فضائل القرآن، باب استذکار القرآن وتعاہدہ، ح: ٥٠٣٣)

’’قرآن کی حفاظت کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ قرآن (سینوں سے) اس طرح تیزی سے نکل جاتا ہے کہ اتنی تیزی سے اونٹ بھی رسیاں تڑا کر نہیں بھاگتے۔ ‘‘

ان دونوں حدیثوں سے واضح ہے کہ پابندی سے قرآن کی تلاوت نہایت ضروری ہے تاکہ یاد شدہ حصے یاد رہیں، علاوہ ازیں پابندی سے قرآن پڑھنے کی صورت میں غیر حافظ بھی قرآن روانی سے پڑھ لیتا ہے ورنہ کبھی کبھی پڑھنے والے کے لہجے میں روانی اور سلاست نہیں آتی۔ اس لیے پابندی سے قرآن کی تلاوت حافظ اور غیر حافظ دونوں کے لیے یکساں مفید اور ضروری ہے۔

 

               فہم و تدبر اور عمل کرنے کی ضرورت

قرآن کریم کی تلاوت بجائے خود اجر و ثواب کا باعث ہے، چاہے پڑھنے والا اس کے معانی و مطالب کو سمجھتا ہو یا نہ سمجھتا ہو۔ اس کے ایک ایک حرف پردس دس نیکیاں ہر پڑھنے والے کو ملیں گی جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے تاہم یہ محض اللہ کا فضل و کرم ہے کہ وہ ہر پڑھنے والے کو اجر عظیم سے نوازتا ہے لیکن بغیر سمجھے پڑھنے سے ثواب تو یقیناً مل جائے گا لیکن قرآن کے نزول کا جو اصل مقصد ہے، وہ اسے حاصل نہیں ہو گا۔ وہ مقصد کیا ہے؟ ہدایت اور روشنی، یہ تو صرف اسے ہی ملے گی جو قرآن کو سمجھنے کی اور اس کے معانی و مطالب سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ آج اس قرآن کے پڑھنے والے تو لاکھوں نہیں، کروڑوں کی تعداد میں ہیں لیکن اس میں بیان کردہ اصول و ضوابط اور تعلیمات و ہدایات کو سمجھنے والے کتنے ہیں ؟تھوڑے، بالکل تھوڑے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {وَلَقَد یَسَّرنَا القُراٰنَ لِلذِّکرِ فَھَل مِن مُّدَّکِرٍ} (القمر:١٧)

’’ہم نے قرآن کو آسان کیا ہے نصیحت حاصل کرنے کے لیے، کیا پس کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا۔ ‘‘

یہ واقعہ ہے کہ گو قرآن کریم اعجاز و بلاغت اور نظم و معانی کے مشکلات واسرار کے اعتبار سے دنیا کی عظیم ترین کتاب ہے جس کے دقائق و غوامض کی نقاب کشائی کے لیے مختلف انداز سے توضیح وتفسیر کا ایک ناقابل متناہی سلسلہ چودہ صدیوں سے قائم ہے مگر اس کے عجائب وغرائب ختم ہونے میں نہیں آتے لیکن اس کے باوجود عمل کی حد تک یہ آسان ترین کتاب بھی ہے۔ اس سے ہر شخص علم بدیع و بلاغت کی کتابیں پڑھے اور صر ف و نحو کے قواعد جانے بغیر بھی ہدایت و رہنمائی حاصل کرسکتا ہے۔ یہ بھی قرآن کا ایک اعجاز ہی ہے کہ علمی طور پر مشکل ترین ہونے کے با وصف عمل کے لیے یہ آسان ترین بھی ہے۔ بنابریں ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم کو محض تبرک کے طور پر ہی نہ پڑھا کرے بلکہ اسے سمجھنے کی بھی کوشش کیا کرے تاکہ وہ اس کے اصل مقصد نزول … ہدایت … کو بھی حاصل کرسکے۔

علاوہ ازیں قرآن کریم پر تدبر اور اسے سمجھنے سے اصل مقصد اللہ کی مرضی و منشا معلوم کر کے اس پر عمل کرنا ہو، نہ کہ محض اس کے لطائف و دقائق اور اس کے اسرار و غوامض سے واقفیت حاصل کرنا کیونکہ یہ واقفیت تو عربوں کو حاصل ہے، ان کی زبان عربی ہے اور اس بنا پر وہ قرآن کے مطالب و معانی سے ناآشنا نہیں ہیں لیکن چونکہ ان کا عمل قرآن پر نہیں ہے، اس لیے دیگر مسلمانوں کی طرح وہ بھی دنیا میں مغلوب ہی ہیں۔ ۳۰ لاکھ یہودی گیارہ کروڑ عربوں پر حاوی ہیں۔ یہ قرآن سے اعراض و گریز کی وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس دنیا ہی میں دے رہا ہے۔ اس لیے قرآن کو سمجھ لینا ہی کافی نہیں ہے، اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے اور جب تک مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی قرآن کے سانچے میں نہیں ڈھلے گی، ان کے شب و روز کے معمولات قرآنی ہدایات کے تابع نہیں ہوں گے اور مسلمان قرآن کو اپنا رہنمائے زندگی تسلیم نہیں کریں گے، ان کی ذلت و ادبار کا یہ دور ختم نہیں ہو گا، ان کی مشکلات کم نہیں ہوں گی اور ان کی وہ عظمت رفتہ بحال نہیں ہو گی جس کے وہ خواہش مند ہیں اور جس سے قرون اولیٰ کے مسلمان بہرہ یاب تھے۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے سچ کہا تھا:

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

٭٭٭

ماخوذ:تفسیر سراج البیان، حضرت مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ

ٹائپنگ: ام ثوبان

http://siratulhuda.com/forum

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید