FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

نامعلوم

ماخذ:

۱۔اردو انسائکلو پیڈیا، کاؤنسل برائے فروغ اردو زبان، حکومتِ ہند

۲۔ویب پر ’اردو پیڈیا‘

http://urdupedia.in

 

 

 

 

تعارف

 فرانسیسی زبان و ادب فرانسیسی کا تعلق زبانوں کے ہند آریائی خاندان سے ہے۔  یورپ کے جو علاقے اب فرانس کی حدو دمیں داخل ہیں وہ پہلے سلطنت روما میں شامل تھے۔  اور وہاں کی زبان لاطینی تھی۔  رومی حکمرانوں کی لاطینی ان علاقوں میں رفتہ رفتہ مسخ ہوتی گئی یہاں تک کہ اس کا حلیہ ہی بدل گیا اور ایک الگ زبان بن گئی جو فرانسیسی کہلائی۔  اپنی فطری خوبیوں اور اس کے علاوہ سیاسی حالات کی بنا پر فرانسیسی کو تدبر و  تفکر کی زبان کا ممتاز مقام مل گیا۔  اور تاریخ کے بعض ادوار میں یورپی سماج کے اونچے طبقوں کی تہذیبی زبان بھی یہی تھی۔

فرانسیسی زبان کی بنیاد اس بولی پر قائم ہوئی جو شمالی فرانس کے بعض علاقوں اور خصوصاً پیرس کے گرد و نواح میں بولی جاتی ہے۔  اپنے ارتقا کے سفر میں اس نے جنوبی فرانس کی بولیوں سے تیرہویں تا سولہویں صدی میں ، اطالوی زبان سے چودہویں تا سترہویں صدی میں ، ہسپانوی زبان سے سولہویں اور سترہویں صدی میں الفاظ مستعار لیے۔  اور اس کے علاوہ ولندیزی، عربی اور انگریزی سے بھی اپنے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ کیا۔  جدید فرانسیسی زبان کے ذخیرے میں سب سے زیادہ اضافہ انگریزی الفاظ کی وجہ سے ہوا ہے اور انگریزی کا اثر اس درجہ حاوی نظر آتا ہے کہ اہل فرانس بطور استہزا اس اندیشے کا اظہار کرتے ہیں کہ کہیں ان کی زبان بگڑ کر فرانگ لے (Franglais) یعنی فرانسے (Francais)اورانگ لے (Anglais)سے مرکب دوغلی زبان بن کر نہ رہ جائے۔  فرانسیسی زبان نے دوسری قوموں کی زبانوں کے اثرات بڑی حد تک قبول کیے ہیں۔  لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ فرانسیسی کو زندہ رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً سرکاری اقدامات کی حمایت حاصل رہی۔  نتیجہ اس احتیاط کا یہ ہے کہ جدید فرانسیسی میں اور اس فرانسیسی میں جو آج سے چار پانچ سو سال پہلے بولی جاتی تھی بہ کم فرق پایا جاتا ہے۔  بیشتر دوسری زبانوں کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جا سکتی۔

 

جغرافیائی تقسیم

فرانسیسی نہ صرف پانچ کروڑ اہل فرانس کی زبان ہے بلکہ یہ دنیا کے مختلف حصوں میں مزید پندرہ کروڑ افراد کی بھی یا تو مادری زبان یا سرکاری یا علمی زبان ہے۔  یورپ میں بلجیم کے ۳۵ لاکھ باشندے فرانسیسی بولتے ہیں۔  سوئزر لینڈ میں فرانسیسی بولنے والوں کی آبادی ۵۵ لاکھ یا اس سے زیادہ ہے اور اس لیے یہ ایک دو لسانی ملک بن گیا ہے۔  اس ملک میں سرکاری زبان کا درجہ دو زبانوں کو حاصل ہے۔  ان میں سے ایک فرانسیسی ہے اور دوسری انگریزی۔  افریقہ کی ساڑھے پانچ کروڑ آبادی کے لیے فرانسیسی سرکاری زبان ہے اور اس کے علاوہ نظم و نسق فرانسیسی نو آبادیوں یا زیر حمایت علاقوں سے ہے ، جیسے عرب مغرب، سابق فرانسیسی مغربی افریقہ، سابق فرانسیسی استوائی افریقہ، سابق فرانسیسی شمالی لینڈ اور جمہوریہ میلا گاشی (Masgache)جو پہلے مدغاسکر کہلاتا تھا۔  ان کے علاوہ وہ افراد بھی ہیں جو سابق بلجین کانگو سے تعلق رکھتے ہیں جس کا موجودہ نام جمہوریہ زیرے ہے۔  ہند چین میں جو پہلے ایک فرانسیسی نوآباد تھا فرانسیسی پہلے کی طرح اب بھی تہذیب وشائستگی کی زبان ہے اگرچہ سال بہ سال اس کے مقابلے میں انگریزی زبان اور ویٹ نام، کمبو ڈیہ اور لاؤس کی قومی زبانوں کا زور بڑھتا جا رہا ہے۔  مغربی ایشیا کے دو ملک لبنان اور شام، پہلے فرانس کے زیر حمایت تھے ، فرانسیسی ان کی پسندیدہ زبان ہے۔  اور یہی وجہ ہے کہ بیروف کی کم و بیش ۴۰ فی صد آبادی دو لسانی ہے۔  سمندر پار بحر اوقیانوس اور بحر الکامل کے فرانسیسی علاقوں اور مقبوضات میں بھی فرانسیسی سرکاری اور تہذیبی زبان کی حیثیت سے رائج ہے۔

 

آغاز

عام طور پر فرانسیسی زبان و ادب کی تاریخ میں معاہدات اسٹراسبورگ (Sermentde Strashourg)نقطۂ آغاز مانے جاتے ہیں۔  یہ وہ معاہدات ہیں جو ایک مشترکہ دشمن (ایک عجیب بات یہ ہے کہ جرمن ادب کا آغاز بھی انہی دستاویزات سے ہوا) کے خلاف مقامی سرداروں نے آپس میں کر لیے تھے۔  لیکن ادب میں شمار کیے جانے کے قابل فرانسیسی زبان کی تحریروں کا بارہویں صدی کے آغاز سے قبل پتہ نہیں چلتا۔  بارہویں اور چودھویں صدی شانسوی دی گیسٹ (Chansons de Geste)وہ رزمیہ نظمیں ہیں جن میں فلسطین میں شارلمان (Charlemagene) کے زیر قیادت جنگ جو عیسائیت کے صلیبی محاربات (۱۰۹۶) یاہسپانیہ کے مسلمانوں کے خلاف فوجی مہمات کے گیت گائے گئے ہیں۔  اس دور میں فرانس کے جنوبی علاقے لانگ دو (Langue Doe)میں نغز گو شعراTroubadoursنے اپنے کلام میں جانباز عاشق کی اپنی محبوبہ سے والہانہ محبت کی واردات بیان کی ہے۔  جس میں آئین و آداب عشق کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔  ان گیتوں میں رقیب کی ریشہ دوانیوں ، عاشق کی محرومیوں اور عشق کے تقاضائے نبرد پیشگی کی تصویر کھینچی گئی ہے۔  کرے تیان دی تروا (Chretien de Tryes)نے راؤنڈ ٹیبل کے سورماؤں کے معرکوں کی داستان بیان کی ہے۔

 

چودھویں اور پندرہویں صدی

ان صدیوں کے دوران ادب کے خد و خال سابقہ ادوار کی روایات کے مطابق ہی تھے۔  البتہ ایک نیا عنصر ادب میں داخل ہوا۔  اور وہ تھا ڈرامہ نگاری کا آغاز۔  جہاں تک سنجیدہ ڈرامہ نویسی کا تعلق ہے اس کے موضوعات تو ولادت مسیح اور ان کے مصلوب ہونے کے واقعات تک محدود ہے۔  لیکن ساتھ ہی ساتھ ہر قسم کے تکلف و تصنع سے بری، بے باک مزاحیہ تمثیلیں پہلی بار منظر عام پر آنے لگیں۔  اس عہد میں سب سے زیادہ اہم شخصیت بلا شبہ فرانسواویون (Francois Villon)(۱۴۳۱۔  ۱۴۶۲ء) کی تھیں۔  ویون شاعر بھی تھا اور مہم جو سرفروش بھی جو کئی بار جیل کی ہوا کھا چکا تھا۔  جہاں تک شاعرانہ پرواز تخیل اور خلوص اظہار کا تعلق ہے وہ بجا طور پر فرانس کے نغز گو شعرا کا امام مانا جاتا ہے۔  اس کا شاہکار ۲۰۰۰ مصرعوں پر مشتمل ایک طویل ’’لی تست مان‘‘(Le Testament)ہے۔  اس میں سماج کے ٹھکرائے ہوئے ناکام عاشق کا کردار پیش کیا گیا ہے جو افلاس، فاقہ کشی، جسمانی اذیتوں اور امراض کا شکار رہا ہے لیکن زندگی سے مایوس نہیں ہوا۔  اس کے قلب میں زیست کی چنگاری ابھی کجلائی نہیں ہے اور وہ زندگی کی معمولی خوشیوں کو بھی گلے لگاتا اور ہر  لمحۂ مسرت کو کمال شوق سے نچوڑ لیتا ہے۔  ویون نے اپنی شاعری میں نغمگی ادبی زیبائشوں اشارے کنائے کی حدود سے آگے قدم بڑھا کر موت کی وحشت ناک اذیتوں کا بھیانک منظر پیش کیا ہے۔

 

سولہویں صدی

سولہویں صدی کے نصف اول میں فرانسو اول (Francois I)کے مصاحب کلے ماں مارو (Clement Marot)(۱۴۹۶ء۔  ۱۵۴۴ء) کی درباری اور مذہبی شاعری کا رنگ حاوی رہا۔  لیکن تبدیلی کے آثار بھی نمایاں ہو چکے تھے۔  خود مارو کے بارے میں شبہ ہونے لگا تھا کہ اسے مذہبی اصلاح کی تحریکوں سے ہمدردی ہے لیکن وجدان کا سرچشمہ یونان دوست رجحانات کا زبردست ترجمان تھا۔  اس کے وجدان کا سرچشمہ یونان و روما کا قدیم قبل مسیح دور تھا۔  وہ خود لذیت کا پیرو تھا اور اس نے اپنے ناول ’’گارگان تیوا اور پاتان گوپل (Gargatua and Pantagrue) میں دیو قامت انسانوں کی دو نسلوں کی جو تصویر پیش کی ہے وہ فطرت انسانی سے متعلق اس کے نئے فلسفے (جو جی میں آئے کر جاؤ) اور نظریۂ لذیت کے نظام اخلاق و کردار کی ایک انبساط انگیز ترجمانی ہے۔  ربیلے کی تصانیف خیال کی نیر نگی اور رندانہ شوخی کی بدولت نہایت دلچسپ ہیں۔  بقول والٹیروہ ایک بدمست فلسفی تھا۔  اس کے مطالعے کو صرف تفریح طبع تک محدود سمجھا جائے تو یہ بڑی ناانصافی ہو گی۔  ربیلے نشاۃ ثانیہ کی ایک نہایت زبردست اور نمایاں شخصیت کا حامل تھا جو سائنس طب اور مختلف زبانوں کے علم و کچقتاًعرفاں سے سرشار تھی۔  اس نے لاطینی زدہ مدعیان فضل و کمال کے پرخچے اڑا دئیے۔  اس کے تخلیق کردہ کردار بڑے جاندار ہیں جو ہر قسم کی مبالغہ آمیزی کا بوجھ بہ آسانی سہار سکتے ہیں۔  اور قاری کی رہنمائی ایک ایسی تخیلی دنیا کی سمت کرتے ہیں جہاں تک رسائی صرف اتفاق سے نہیں ہوتی بلکہ اس میں تھوڑی بہت پر خلوص کوشش کا بھی دخل ہوتا ہے۔

  مثل موں تاں (Michel Montaigen) (۱۵۳۳ء۔  ۱۵۹۲ء) ایک نہایت ممتاز مضمون نگار (Essayiste)تھا جس نے مسلک انسان دوستی سے تعلق رکھنے والے پیشرو دانشوروں کی گرم گفتاری میں اعتدال پیدا کرنے کو کوشش کی۔  اس کے مقالوں کی نمایاں خصوصیت معقولیت پسندی اور رواداری ہے۔  ربیلے لذت پرست تھا تو موں تاں بالکل اس کی ضد یعنی زاہد خشک تھا۔  تحریر میں جہاں صرف ایک توصیفی لفظ سے کام چل سکتا ہو ربیلے بیسوں الفاظ استعمال کرتا تھا۔  لیکن موں تاں الفاظ کا استعمال بڑی احتیاط سے اور ہاتھ روک کر کرتا تھا۔  اگرچہ موں تاں نے یورپ کے مختلف ملکوں کی سیاحت بھی کی لیکن اس کے ذہن کی تشکیل میں اس کے داخلی سفر اور قلبی وارداتوں کو بڑا دخل تھا۔  اس نے خود اپنے کردار کا مرقع پیش کیا ہے۔  اس خیال سے نہیں کہ وہ خود کو ایک انوکھی شخصیت سمجھتا تھا بلکہ اس لیے کہ ’’ہر فرد بجائے خود انسانیت کا ایک مکمل نمونہ ہے ‘‘ وہ بول چال کی زبان بے تکلف استعمال کرتا ہے۔  اس کا قلم لکھتا نہیں بولتا ہے۔  مثال کے طور پر یہ چند جملے پیش کیے جا سکتےہیں ’’ لاعلمی کے تکئے کے کیا کہنے ، بڑا ہی آرام دہ ہوتا ہے ‘‘ یا یہ جملہ ’’یہ ایسا ہی ہے جیسے گدھے کو دم آگے کی طرف رکھ کر جوتا جائے ‘‘۔

اس صدی کے وسط کے لگ بھگ فرانسیسی عشقیہ شاعری کا بھی احیا ہوا جس کے علمبردار پیروی ران سار (Pierre de Ronsard) (۱۵۲۴ء۔  ۱۵۸۵ء) اور جواکم دیو بیلے (Joachim Dubellay)(۱۵۲۲ء۔  ۱۵۶۰ء) تھے۔  ان کے علاوہ شعرا کا وہ گروہ بھی تھا۔  جو پلے ای یاد (Pleiade)یعنی سیارہ کہلاتا ہے۔  دیو بیلے (Dubellay)اس نئی ادبی تحریک کے نظریہ کا ماہر مانا جاتا ہے۔  رونسارڈ اس کا سب سے زیادہ باکمال نمائندہ ہے۔  اس نے سانیٹوں (Sonnets)کے ذریعہ اپنی محبوبہ کو امر بنا دیا۔  اس کی یہ نظمیں عشقیہ شاعری کی غیر فانی تخلیقات میں شمار کی جاتی ہیں۔  پلے ای یاد کے مسلک اور رونسارڈ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ ان کے زیر اثر فرانسیسی شاعری ارتقا کے سفر میں ہم عصر انسان دوستانہ علوم کی ہم قدم بن گئی اور اس کا رشتہ یونانی اور لاطینی نظم کی روایات سے زیادہ راست طور پر جڑ گیا۔  اس مسلک نے نظم میں خارجی تبدیلیاں بھی کیں۔  بعض پرانی صنفوں کو بالکل ترک کر دیا گیا اور سانیٹ کی سدا بہار بارہ رکنی بحر کو مقبولیت کے معراج کمال پر پہنچا دیا گیا۔  سترہویں صدی اس صدی کے ابتدائی دور میں اہل قلم نے ادب کی مختلف اصناف میں ہیئت اور اسلوب کے تعین کی کوشش کی۔  اور موضوع مواد اور خیال کے تعلق سے بھی اصول اور ضابطے بنائے۔  فرانسو دی مالہرب (Francois de Malherbe)(۱۵۵۵ء۔  ۱۶۲۸ء) کی اگرچہ بہ حیثیت شاعر کوئی خاص اہمیت نہیں لیکن وہ عقل کل بنا ہوا تھا اور اس کا بڑا اثر تھا۔  اس نے اظہار میں سادگی اور سلاست پر زور دیا۔  یہ اسی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ فرانسیسی شاعری کو ان گھٹیا نظم گویوں کے شکنجے یس جو پلے ای یاد (Pleiade) کے پیرو تھے نجات مل گئی۔  یہ اس درجہ اہم کارنامہ تھا کہ بوالو (Boileau)نیاسے فرانسیسی نظم کا بابا آدم قرار دیا۔

 

رینی دیکارت

 Desacarites۱۵۹۶ء۔  ۱۶۵۰ء) نے جو نہ صرف ایک فلسفی بلکہ ماہر ریاضیات و طبیعیات بھی تھا صاف اور واضح طرز فکر اور اظہار خیال کے اصولوں پر مبنی آفاقی اصول پیش کیے۔  وہ فرانس کی اسپرٹ کے ایک پہلو سے کارتیسی عقلیت کا ترجمان تھا۔  اس نے اپنے طرز فکر کی جس تحریر میں وضاحت کی وہ در اصل فلکیات سے متعلق ایک کتاب کا پیش لفظ تھا۔  اس پیش لفظ کے لیے اس نے لاطینی کے مقابلے میں فرانسیسی زبان کو ترجیح دی۔  دیکارت کی یہ تحریر فرانسیسی نثر کی تاریخ کا ایک سنگ میل بن گئی کیوں کہ اس میں ایک مجرد اور خیالی موضوع پر غیر معمولی سادہ اور سلیس انداز میں اظہار خیال کیا گیا تھا۔  دیکارت کا طرز فکر ازمنۂ وسطی کی منطق کے بالکل برعکس تھا۔  دیکارت کی نمایاں خصوصیات یہ تھیں کہ اس نے نہ تو کہیں مسلمات کا حوالہ دیا اور نہ کسی مذہبی اور برتر عقیدے کاسہارا لیا۔  وہ کہتا ہے کہ انسان کو چاہئے کہ جس بات کا اسے مکمل علم ہے اور جو پوری طرح اس کی سمجھ میں آتی ہے فکر کی بنیاد اسی پر رکھے۔  غیر ذات کا وجود حقیقی ہو یا نہ ہو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں وجود رکھتا ہوں۔  جو وجود نہیں رکھتا وہ سوچ نہیں سکتا ’’میں سوچتا ہوں لہذا میں وجود رکھتا ہو‘‘ دیکارت کے نظام فکر کا بھی معقول اور قابل قبول نقطۂ آغاز بن گیا۔  اس کے مطابق تسلیم کر لیا گیا کہ ایک خالق ہے جس نے انسان کو عقل و شعور سے بہرہ ور کیا ہے مخلوق کو نہ تو کوئی فریب دے سکتا ہے اور نہ گمراہ کر سکتا ہے بشرطیکہ انسان اپنی فکر کو معقول تشکیک کی حدود میں رکھے۔  سترہویں صدی کا یہ مفکر اعظم اٹھارہویں صدی کی عقلیت کانقیب مانا جاتا ہے۔  اگرچہ غائر نظر سے دیکھا جائے تو یہ کہنا آسان نہیں کہ خود دیکارت عقلیت کے مسلک کاپیرو تھا یانہیں۔

 

 پی یر کار نیے (Pierre Corneille)(۱۶۰۶ء۔  ۱۶۸۴ء) اور ژاں را سین (Jean Racine)(۱۶۳۹ء۔  ۱۶۹۹ء)

  پی یر کار نیے (Pierre Corneille)(۱۶۰۶ء۔  ۱۶۸۴ء) اور ژاں را سین (Jean Racine)(۱۶۳۹ء۔  ۱۶۹۹ء)نے  فرانسیسی المیہ ڈرامے کے خدو خال کی ترتیب و تشکیل میں باضابطگی پیدا کر کے اسے ادب عالیہ کے بلند مرتبے پر پہنچا دیا کارنیلی فرانسیسی کلاسک تھیٹر کا بانی مانا جاتا ہے۔  اس نے ڈرامہ کے چیستانی عناصر کو ترک کر کے کردار نگاری پر زور دیا۔  اس کے پیرو اگرچہ گوشت پوست کے انسان ہی ہیں لیکن روحانی عظمت کے حصول کی دھن میں رہتے ہیں۔  اور ان میں ایک فوق الانسان جذبہ کار فرما نظر آتا ہے جس کی مدد سے وہ جبراً تقدیر کو اپنی راہ سے ہٹانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔  ان کے اولو العزمی کے ان کارناموں کو نظم کے قالب میں ڈھالا گیا ہے جس کے اشعار چراغِ ہدایت سمجھے جاتے ہیں۔  راسین کے مسلک میں نفس امارہ ایک سفلی طاقت ہے جو بالآخر اور بہر حال انسان کو پستی کے گڑھے میں ڈھکیل دیتی ہے راسین کی منزل مقصود کلاسیکل المیہ ہے۔  اس کے ڈرامے کا پلاٹ سادہ اور سیدھا ہوتا ہے اور کہانی نمایاں طور پر آگے بڑھتی جاتی ہے۔  پلاٹ کے چوکھٹے میں کردار انتہائی جوش و جذبہ سے اپنا رول ادا کرتے ہیں۔

 

بلیسز پاسکال

Blaise Pascal ۱۶۲۳ء۔  ۱۶۶۲ء) ریاضیات و طبیعیات کا ماہر فلسفی اور مذہبی مناظرہ کار تھا۔  اخلاقی اعتبار سے یہ صدی سب سے زیادہ متاثر اسی سے ہوئی ہے۔  لے پراوینشال (Les Provenciales)اس کے مناظراتی مکاتیب کا نام ہے جو جانسزم (Jansenism)کٹر عقائد کی تائید میں لکھے گئے ہیں۔  یہ وہ مکاتیب ہیں جن کی نگارش کو یسوعیوں اور ان کے علاوہ بعض کیتھلک پادریوں نے بھی بدعت قرار دیا۔  پاسکل اپنی تصنیف ’’استعذار عیسائیت‘‘ کی تکمیل نہ کر سکا۔  اس کے صرف چیدہ چیدہ حصے ہی لے پانسے (La Pensee)کے عنوان سے شائع ہوئے۔  ان کی اشاعت فرانسیسی نثر کے اسلوب اور ہیئت پر بہت اثر انداز ہوئی اور سلیس و شستہ انداز میں اظہار خیال کے لیے راہ ہموار ہو گئی۔  جہاں تک اخلاقی اثر کا تعلق ہے ان مکاتیب کی اشاعت نے اس صدی کی توجہ کو انسانی طرز استدلال کی کوتاہیوں اور گمراہیوں پر غور و خوض کی جانب موڑ دیا۔  یہی وہ اسباب تھے جن کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ پاسکل نے فرانسیسی کلاسزم کے لیے راستہ صاف کیا۔  ایک لحاظ سے اسے بیسویں صدی کی تحریک وجودیت کا نقیب بھی کہا جا سکتا ہے۔  وہ تلاش حق کی راہ میں ایسی تعقل پسندی کو شبہ کی نظر سے دیکھتا تھا جسے مذہبی عقائد کی تائید حاصل نہ ہو کیونکہ ’’دل کی منطق کچھ اور ہے جس سے خرد آشنا نہیں ‘‘ وہ اپنی جستجو میں نری منطق کے نتائج سے رو گردانی کرتا ہے ، چاہے استدلال بدنیتی پر مبنی ہو یا خیر اندیشی پر۔  پاسکل اس دہشت انگیز راز سربستہ پر اپنی فکر کو مرکوز کرتا ہے جس سے حیات انسانی جڑی ہوئی ہے۔  پاسکل کا انسان ایک ایسا ملاح ہے جس کی کشتی سخت طوفانوں میں جھکولے کھا رہی ہے اور ملاح کشتی کو پار لگانے کے لیے سخت جدو جہد پر مجبور ہے چاہے اس میں کامیابی ہو یا نہ ہو۔  اس اعتبار سے وہ سارتر کے انسان کی خبر دیتا ہے جس نے خود کو ایک نظرئیے کا پابند کر لیا ہے جو ہر لمحہ جہد حیات پر مجبور ہے۔  اور جو اپنے ہر عمل کا خود اپنے آپ کو ذمہ دار قرار دیتا ہے۔  کلاسیکی نظریات کے مطابق ادب میں حصول کمال کے لیے اسلوب سے متعلق مقررہ قاعدوں کی پابندی، ربط عبارت، بندش کی ہم آہنگی اور اظہار خیال میں اعجاز و اختصار لازمی ہے۔   یہ خوبیاں ژاں دی لافونتئین (Jean de La Fonlaine)(۱۶۲۱ء۔  ۱۶۸۵ء) کی حکایات۔  نکولا بولو (Nicolas Boileau) (۱۶۳۶ء۔  ۱۷۱۱ء) کے کلام روش فوکولڈ (Roche Foucold)کی نگارشات، ڈیوک فرانسوا (۱۶۱۳ء۔  ۱۶۸۰ء) کے حکیمانہ اقوال، ژاں دی لا بروایر (Jean de la Bruy ere)(۱۶۴۵ء۔  ۱۶۹۶ء) کے مکاتیب ژاک باسیوے (Jacques Bossuet)کے تعزیتی خطبات فرانسو دی سالین (Francois de Salignne)کے سائنسی موضوعات پر مقالات رسین کے المیہ ڈراموں اور مشہور عالم ڈرامہ نویس مولیر (۱۶۲۲ء۔  ۱۶۷۳ء) کے مزاحیہ ڈراموں میں نظر آتی ہیں۔

مولیر کا اصل نام ژاں باپتست پاکلے (Jean Baptiste Poquesliu)تھا وہ صرف ڈرامہ نگار ہی نہیں تھا بلکہ ڈائرکٹر اور اداکار بھی تھا اس نے نہ صرف لوئی چہاردہم سے خراج تحسین حاصل کیا تھا بلکہ پیرس اور اضلاع فرانس کے عوام میں بھی بہت مقبول رہا۔  مولیر نے ڈرامہ نگاری کے بڑے کرتب اور کرشمے دکھائے۔  نہ صرف مضحکہ اور مزاحیہ تماشے لکھے بلکہ انتہائی اعلی اور شائستہ مذاق کے ڈرامے بھی پیش کیے۔  مولیر نے ناظرین کو ہنسانے اور ان کا دل موہ لینے کے تمام امکانات سے کام لیا۔  اس کی بیشتر شاہکار تمثیلیں وہ ہیں جن میں ممتاز شخصیتیں روحانی سطح پر کسی کوتاہی کا شکار ہو جاتی ہیں۔  اور اس کے یہ کردار اس نوع کے آفاقی نقش اول کی حیثیت رکھتے ہیں۔  مولیر کی رائے میں عقل سلیم اور دانش مندی کا تقاضہ یہ ہے کہ کسی معاملے میں بھی غلو سے کام نہ لیا جائے۔  یہاں تک کہ نکوکاری میں بھی غلو سے بچنا چاہئے۔  اچھا آدمی وہ ہے جو فطرت انسانی پر عقل سلیم کی جانب سے عاید کردہ حدود کو پیش نظر رکھتا ہے۔  مولیر کے کئی ڈرامے اہم اور قابل ذکر ہیں۔  ان میں سے ایک ڈرامہ ’’لی تارتیوف (Le Tartuffe)ہے یہ ایک مکار، منافق کی کہانی ہے جو زہد و تقویٰ کی آڑ لے کر ایک خوش اعتقاد خدا ترس خاندان کو تباہ و برباد کرنے کی چالیں چلتا ہے۔  دوسرا دل چسپ ڈرامہ ’’لی مساتھر وپ‘‘ (Le Misanthrope)ہے۔  اس میں ایک مردم بے زار کا کردار پیش کیا گیا ہے جو ہر معاملے میں صرف سچائی اور دیانت داری کو اہمیت دیتا اور اس پر مصر رہتا ہے۔  نتیجہ یہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ شرافت اور نکو کاری ہی اس کی خرابی کاسبب بن جاتی ہے۔  مولیر کا ڈرامہ ’’ڈان جو آن‘‘ (Don Juan) اس کاسب سے زیادہ مشہور و مقبول ڈرامہ ’’لی بورزواجان تیم‘‘ (Le Bourgeois Gentilhomme)ہے جس میں ایک بیوپاری دولت مندوں کے شائستہ اور نستعلیق طبقے میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے۔  تو بڑی مضحکہ خیز صورت حال پیش آتی ہے۔  مولیر بلا شبہ جدید فرانسیسی مزاحیہ ڈرامہ کا بانی تھا۔  اس کی تخلیقات کی مقبولیت کو زوال نہیں۔  فرانس میں اس کی یاد کو برقرار رکھنے کے لیے ’’لاکامیڈی فرانیس تھیٹر‘‘ بھی قائم کیا گیا ہے۔

 

اٹھارہویں صدی

اس صدی کے دوران کارتیسی عقلیت پسندی کے زیر اثر تنقیدی اور سائنسی رجحان کو فروغ ہوا۔  چنانچہ یہی وجہ ہے کہ نثر میں اس کی تصانیف کا غلبہ رہا جن کا مقصد زیادہ تر یہ تھا کہ نفس مضمون کو جہاں تک ممکن ہو فطری انداز سے سیاسی اور معاشی حالات کی روشنی میں تجزیہ کر کے پیش کیا جائے تاکہ جو بات کہی جائے وہ قاری کے پہلے پڑ سکے۔  یہ رجحان اس درجہ حاوی تھا کہ اس صدی میں صرف ایک نغز گو شاعر آندرے شینیے (Andre Chenier)(۱۷۶۳ء۔  ۱۷۹۴ء) منظر عام پر آیا لیکن وہ بھی کوئی نمایاں مقام حاصل نہ کرسکا اور دور دہشت میں گلو ٹین یا سولی کی نذر ہو گیا۔  والٹیر مسلمہ طور پر اس صدی کا سب سے بڑا مصنف تھا۔  اس کا اصل نام فرانسو ماری آروے (Francois Marie Arouet) (۱۶۹۴ء۔  ۱۷۷۸ء) تھا۔  والٹیر نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شعر گوئی اور ڈرامہ نگاری سے کیا۔  ۱۷۳۴ء میں فلسفیانہ مکاتیب کی اشاعت کے بعد اسے شہر بدر کر دیا گیا۔  بعد میں ادیب کی حیثیت سے اس نے بڑی شہرت حاصل کی۔  اس کے چند سال بعد والٹیر نے اپنے پمفلیٹوں اور مکاتیب میں عدالتی ناانصافیوں کے شکار شدہ افراد کی باز آباد کاری کے لیے رائے عامہ کو ہموار کیا۔  شارل دی سکوندادیماتیسکیو (Charles ae secondat de Montestquieu) (۱۶۸۹ء۔  ۱۷۵۵ء) نے اپنی تحریروں کے ذریعہ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات کے علیحدہ علیحدہ تعین کی تحریک کو بڑی حد تک آگے بڑھایا۔  دور انقلاب کی اولین جمہوریہ کا آئین اسی کے افکار و خیالات پر مبنی تھا۔  دینی دیدرو DenisDiderot) ۱۷۱۳ء۔  ۱۷۸۴ء) فرانسیسی مسلک عقلیت پسندی کا سب سے زیادہ سر برآوردہ نمائندہ تھا۔  وہ انسائیکلوپیڈیا (Encyclopaedie) کا اہم ترین معمار تھا اور اس نے بے شمار مشکلات کے باوجود یہ کتاب ۱۷۳۱ء میں شائع کر دی۔  دیدرو کے ناول نہایت دل چسپ ہیں۔  اس کے زور قلم کی داد دینی پڑتی ہے۔  ذہنی بیداری کی اس صدی میں وہ تھیٹر سے متعلق نظریات کا ایک عظیم المرتبت ماہر مانا جاتا ہے۔

ژاں زاک روسو (Jean Jacques Rousseau) (۱۷۱۲ء۔۱۷۷۸ء) ایک گوشہ نشین آدمی تھا۔  اس نے کوئی باضابطہ تعلیم حاصل نہیں کی اور جو کچھ سیکھا بخت و اتفاق سے سیکھا۔  روسو کی ایک تحریر پر ’’دیژاں ‘‘ (DiJon)کی اکیڈمی نے انعام دیا تو وہ یکایک مشہور ہو گیا۔  اس میں نظم و ضبط کا خاص ملکہ تھا۔  اور جب وہ کوئی نظریہ پیش کرتا تو اسے منطق کی آخری حد تک پہنچادیتا تھا۔  روسو کا خیال تھا کہ انسان فطرتاً نیک سیرت پیدا ہوتا ہے لیکن سماج جس میں وہ رہتا بستا ہے اسے بگاڑ دیتا ہے۔  لہذا نجات اسی میں ہے کہ انسان اپنی ازلی نیکی کی جانب مراجعت کرے۔  وہ بستی کے شور و شغب سے دور تنہائی میں مظاہر فطرت کے درمیان تفکر کا عادی تھا اور اس میں اسے بڑا لطف آتا تھا۔  روسو نے سیاسیات اور تعلیم سے متعلق نئے نئے خیالات پیش کیے جو انقلاب فرانس کے لیے نصب العینی اساس کی تشکیل میں بڑی حد تک مفید ثابت ہوئے۔

انقلاب فرانس کی ناکامی کے بعد کے دور میں فرانسیسی ادب میں رومانیت کی تحریک کا آغاز بھی رسو کی افکار کی بدولت ہوا۔  پی یرکارل دی مارلو (PierreCarlet de Marivaux) (۱۶۸۸-۱۷۶۳ء) نے بلند پایہ، پُرلطف و پُر کار مزاحیہ تمثیلیں لکھیں۔  اس کے تمامے ڈرامے عشق و محبت کی نفسیات سے متعلق ہیں۔

پی یر اگستین باروں دی بوماثے (Pierre Augustin Caron de Beaumarchais)۔  (۱۷۳۲ء۔۱۷۹۹ء) نے جو ایک آزاد رَو، رند مشرب سرفروش تھا، دو چونکادینے والے ڈرامے باربئے دی سیویل (Babier de Seville)کے نام سے لکھے ہمعصر فرانسیسی سماجی پر یہ ایک تیز و تند اور بے باکانہ تنقید تھی۔  ڈراموں کی اشاعت اس زبردست جوش و خروش میں شدت پیدا کر گئی جو بالآخر دھماکہ بن کر ۱۷۸۹ء میں انقلاب فرانس کی شکل میں پھوٹ پڑا۔  اس نے انقلاب کے لیے بہت کچھ کیا تھا لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جب انقلاب کے لیے بہت کچھ کیا تھا لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جب انقلاب کا آتش فشاں پھٹ پڑا تو وہ اس کے بارے میں ایک نہایت معمولی جذباتی میلو ڈرامہ کے سوائے کچھ اور نہ لکھ سکا۔  اور زمانے نے بجا طور پر اس کی اس تصنیف کو طاقِ نسیاں کے حوالے کر دیا۔

 

رومانیت

انیسویں صدی نصف اوّل اٹھارہویں صدی کے اواخر میں جب انقلابِ فرانس کے مقصد کی پیش رفت کے تعلق سے مایوسی پھیل گئی تو ادب پر داخلیت کا رنگ چڑھنے لگا اور عقلیت پسندی سے بیزاری کا اظہار کیا جانے لگا۔  فرانسورینے وائکوم تے دی شاتوبریاں (Francoisrene Vicomte de Chateaubriand ۱۷۸۶ء۔۱۸۴۸ء) اور ’’مادام دی رسٹال‘‘ (۱۷۶۶ء۔۱۸۱۷ء) کی تصانیف سے فرانسیسی ادب میں رومانیت کے ایک پُر زور تحریک بن جانے کے امکانات کا پتہ چلتا ہے۔  رومانیت کی تحریک نے کلاسیکی اسلوب کے خلاف سخت ردّ عمل کی شکل اختیار کی۔  اس کے زیر اثر لکھنے والوں کا طائرِ فکر زماں و مکاں کی بندشوں سے آزاد ہو کر بلند پروازی کرنے لگا اور ان کی تخلیقات میں قومی المیے کی جانب اشارے بھی ملتے ہیں۔

الفانسے دی لامارتین۔  Alphonse de Lamaretine) ۱۷۹۰-۱۸۶۹ء)کو رومانیت کے اولین نغز گو ترجمان ہونے کا امتیاز حاصل ہے لیکن اس تحریک کو معراج کمال پر پہنچانے کا سہرا وکٹرہیوگو (۱۸۰۲ء۔ ۱۸۵۵ء) کے سر ہے۔  وکٹر ہیوگو ایک سربرآوردہ شاعرِ رزم و بزم ہونے کے علاوہ ناول نگار ڈرامہ نویس بھی تھا۔  اور اس صدی کے بیشتر حصے میں اس کا مقام سب سے زیادہ بلند و بالا نظر آتا ہے۔  اس نے کئی ضخیم ناول لکھے۔  لے میز رابل (Les Miserables)نامی ناول ژان وال ژان نامی ایکمجرم کی بپتا ہے جو قید سے رِہا ہونے کے بعد شریفانہ زندگی بسر کرنا چاہتا ہے لیکن پولیس کے روپ میں سماج سایہ کی طرح اس کا تعاقب کرتا ہے۔  لانو تردام دی پاری (La Notre Dame de Paris)کی کہانی یہ ہے کہ ایک کبڑا جو گونگا بہرا بھی ہے ایک جپسی حسینہ پر دل و جان سے فریفتہ ہو جاتا ہے۔  سوز عشق کی آگ کبڑے کے سینے میں دہکتی ہے کسی اور کو خبر نہیں ہونے پاتی۔  اپنی مشہور نظم لی لجندی دِی سکل (le Legend Dussiecle)میں اس نے پرواز تخیل کا غیر معمولی کرشمہ دکھایا ہے۔  اس نے ڈرامے بھی لکھے جن کے بارے میں بڑی بحثیں چھڑ گئی تھیں اور جو بہت کامیاب ثابت ہوئے۔  وکٹر ہیوگو نے ڈراموں پر جو پیش لفظ لکھے تھے وہ جدید تھیٹر کی تحریک کے منشور کی حیثیت رکھتے ہیں۔  اس نے ملک کی سیاسی صورتحال سے متعلق پمفلٹ بھی لکھے جو فکر انگیز بحث کا موضوع بن گئے تھے۔  یہ تحریریں زیادہ تر اس زمانے کی ہیں جب وہ شہر بدر کر دیا گیا تھا۔  ان میں اس نے نپولین اعظم کے بھتیجے نپولین ثالث سے نفرت و حقارت کا اظہار کیا تھا۔  وکٹر ہیوگو کی تصانیف نہ صرف فرانس میں مشہور و مقبول ہیں بلکہ اس جیسی عالمی شہرت کسی اور فرانسیسی مصنف کو نصیب نہ ہوسکی۔

رومانی تحریک سے تعلق رکھنے والے چند اور اہلِ قلم بھی ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔  ان میں الفرے دی وینی۔  (Alfred de Vigny)(۱۷۹۷ء۔۱۸۶۳ء) الفرے دی میوسے (Alfred de Musset)۔  (۱۸۱۰ء۔۱۸۵۷ء) نامی شاعر اور ڈرامہ نویس شامل ہیں۔

اس صدی کا نصفِ اول اس وجہ سے بھی شاندار ہے کہ اس میں دو عظیم ناول نگار ایسے پیدا ہوئے جنہیں کسی بھی ادبی مسلک سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا۔  ان میں سے ایک آنرے دی۔  بالزاک (Homore de Baaalzac)۔  (۱۷۹۹ء۔۱۸۵۰ء) ہے جس نے انقلاب فرانس کے بعد کے زمانے کے پیرس کی مسخ شدہ سوسائٹی کی برائیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے تقریباً ایک سو ناول لکھے اور دو ہزار کردار تخلیق کیے۔  اس نے ناولوں کا ایک سلسلہ ’’ کامیڈی ہیومین‘‘ (La Comedie Humain)۔  دانتے کی ’ڈیوائن کامیڈی‘‘ کی ریس میں شروع کیا۔  اور ان کی ذیلی تقسیم ’’ خانگی زندگی‘‘ دیہی زندگی ’’ پیرس کی زندگی‘‘ کے عنوانات کے تحت کی۔  اس کے ہر ایک ناول بجائے خود مکمل ہے۔  لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ایک ناول کے کردار دوسرے ناولوں کے صفحات میں بھی نظر آتے ہیں۔  مثال کے طور پر ایک جرائم پیشہ کردار جس کا نام واترین (Vautrin) ہے یا دیہی علاقے کا ایک وجیہہ مگر نودولیتے نوجوان جو بالزاک کے مختلف ناولوں میں ملتا ہے اور جو قلبِ ماہیت کر کے ایک بد دیانت سیاست داں بن جاتا ہے۔

 اس دور کا دوسرا ناول نویس آنری بیل (Henri Beyle)جس کا ادبی نام استیندال Stendhal) ۱۷۸۳ء۔۱۸۴۲ء) تھا بالزاک ہی کی طرح مشہور ہوا۔  وہ ایک بے مثال ناول نویس تھا جس نے نپولین کے دور کے ہنگاموں اور امکانات کو اپنا موضوع بنایا۔  اس کی غیر فانی شہر دو ناولوں پر مبنی ہے جن کے نام لی روژائے لی نوار (Le Rauge et Le Noir)اورل شیار تریز دی پم (La Chartrense De Parme)ہیں۔  اگر چہ اس نے ان کے علاوہ بھی کئی ناول لکھے ہیں۔  اول الذکر  جولین سارل کی کہانی ہے جو دیہی علاقے کے لکڑہاروں کے خاندان میں پیدا ہوا تھا۔  جولین اپنی صورت شکل کے زور سے اعلیٰ سوسائٹی میں اپنے لیے جگہ نکال لیتا ہے جس میں اس دیہی علاقے کی ایک با اثر خاتون اور پیرس کی ایک لڑکی کی وارفتگی سے مدد ملتی ہے۔  یہ ناول ایک حزنیہ ہے۔  سارل اپنی محبوبہ کو قتل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اقدام قتل کے الزام میں اسے سولی دی جاتی ہے۔  فیبرس دل دنگو (Fabrice Deldongo)اس کے دوسرے ناول کا ہیرو ہے۔  ناول ایک چھوٹے سے اطالوی قصبے کی زندگی عشق و محبت کی واردات اور سازشوں سے متعلق ہے۔

 

انیسویں صدی نصف آخر

اس صدی کے نصف آخر میں بعض نئی نئی ادبی تحریکیں ابھریں۔  اس کے بانی اپنے آپ کو رومانیت سے بے تعلق بتاتے تھے لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ رومانیت ہی کی پیداوار تھے۔  شاعر کی حد تک پارنی سیان (Parnassiens)قابل ذکر ہیں۔  اس گروہ کے ممتاز نمائندے تیوفل گاتئے۔  (Theophile Gautier) (۱۸۱۱ء۔۱۸۷۲ء) اور لیکونت دی الزلLeconte Delilsle) ۱۸۱۸ء۔۱۸۹۴ء) تھے جن کا نظریہ ادب برائے ادب تھا۔  شارلس بودے (۱۸۲۱ء۔۱۸۶۷ء) پول وے لین (Paul Verlaine) (۱۸۴۴ء۔۱۸۹۶ء) اور اس کے بد نصیب دوست آرٹھیو مبو (Arthur Rimbaud) (۱۸۵۴ء۔۱۸۹۱ء) کے اختراعی ذہن نے اشاریت کی تحریک شروع کی۔  اس نظریہ کا ممتاز ترین ماہر اور بہترین ترجمان بلاشبہ استیفان ملارمے (Stephane Mallarme) (۱۸۴۲ء۔۱۸۹۸ء) تھا۔

  بودلیر کی اس کی زندگی میں قدر نہیں ہوئی مگر آج اپنے کلام اور تنقیدی تحریروں کی بدولت اس کا شمار فرانس کے عظیم مصنفین میں کیا جاتا ہے۔  وہ کم گو تھا۔  اس کے کلام کا مختصر مجموعہ لے فلیر دی یومال (Les Fleurs Du Mal)جب شائع ہوا تو مخربِ اخلاق قرار دیا گیا اور اس کی اشاعت ممنوع کر دی گئی۔  لیکن یہ مجموعہ ممانعت کے باوجود مقبول ہو گیا اور آج بھی مقبول ہے۔  اس نے زیادہ نہیں لکھا لیکن ادبیات کے خد و خال پر اس کے اثرات نمایاں ہیں۔

جہاں تک ناول نویسی کا تعلق ہے اس دور میں حقیقت نگاری کا مسلک بہت مقبول ہوا۔  اس مسلک کے سربرآورڈہ نمائندے گستاؤ فلوبیر (۱۸۲۱ء۔۱۸۸۰ء) اور اس کا مقلّد، گے دی موپسان (۱۸۵۰ء۔۱۸۹۳ء) تھے۔  آخر الذکر کو مختصر افسانہ نویسی میں کمال حاصل تھا۔  فلوبیر کا شاہکار اس کا ناول ’’مادام بواری‘‘ ہے۔  ناشر نے اس ناول کے بہت سے حصے حذف کر دیئے تھے اس کے باوجود وہ مخرب اخلاق قرار دیا گیا لیکن مقدمے میں بالآخر مصنف کامیاب رہا۔  ناول کا قصہ یہ ہے کہ ایک کسان کی لڑکی جس کا نام ایما تھا بری صحبت میں پڑ کر یکے بعد دیگرے کئی نوجوانوں سے محبت کرتی ہے اور بالآخر جب سماج کی اخلاقی گرفت میں آ جاتی ہے تو زہر پی لیتی ہے۔

موپسان جس کے افسانے ہندوستان میں مقبول ہیں فرانسیسی ادب میں کوئی خاص مقام نہیں رکھتا۔  وہ فلوبیر کا مقلد تھا۔  ایمل زولا (Emile Zola)۔  (۱۸۴۰ء۔۱۹۰۲ء) نیچر لسٹ حقیقت پسندی کا رہنما تھا۔  زولا نے کئی ناول لکھے جن میں اس نے زیادہ تر پیرس کی زندگی کی خرابیوں ، کشمکش اور شور و شغب کی تصویرکھینچی ہے۔  وہ بڑا جرأت والا اور دُھن کا پکا تھا۔  نسلی امتیاز کے جذبے کے تحت ایک یہودی فوجی افسر پر یہ بے سروپا الزام عاید کیا گیا تھا کہ اس نے جرمنوں کو فوجی راز بتائے تھے۔  زولا نے اس افسر کو رہا کروا کے بحال کروانے میں نمایاں حصہ لیا۔

  ڈرامہ نگاری میں اس دور میں الگزنڈر ڈیوما جونیئر (۱۸۲۴ء۔۱۸۹۵ء) کا بیٹا تھا اسی ڈیوما کا جس نے مشہور مہماتی ناول لکھے تھے جن میں سب سے زیادہ مقبولیت غالباً ’’تین لفنگچی (Three Masqueteers)کو حاصل ہوئی ڈیوما جونیر نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ناول نگاری سے کیا تھا اسے اپنے مشہورِ عام باپ کے مساوی شہرت ڈرامہ نگاری کی بدولت حاصل ہوئی۔  بیسویں صدی اس صدی کی ابتدا سے دوسری جنگ عظیم کے اختتام تک فرانسیسی ادب پر برگساں (۱۸۶۸ء۔۱۹۵۱ء) اور دوسرے عظیم مفکروں کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔  نظریہ معدومیت (Nihilism)جو دادایزم (Dadaism)کہلاتا ہے اس کا زور گو زیادہ عرصے تک قایم نہیں رہا لیکن اس کی وجہ سے شاعری کی بساط درہم برہم ہو گئی اور ادب کی ایک صنف کی حیثیت سے ناول کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا تھا۔

پول کلوڈیل (Paul Claudel) (۱۸۶۸ء۔۱۹۵۵ء) نے جوہرِ رومانیت کے عرفان کے اظہار کی سعی کی تو شارل پیگی (Charles Peguy) (۱۸۷۳ء۔۱۹۱۸ء) نے اپنا زور سخن مذہب کی خدمت اور سماجی اصلاح کے لیے صرف کیا۔  گیوم آپولینیر (Guillaume Apollinaire)(۱۸۸۰ء۔۱۹۱۸ء) نے جو شاعر اور نقاد تھا ماورائیت (Surrealism)کی راہ دکھائی پی برلوتی (Pierrelote) (۱۸۵۰ء۔۱۹۲۳ء) نے مہماتی ناول موثر انداز میں لکھے۔  رومین رولاں (Romain Rolland) (۱۸۶۶ء۔۱۹۴۴ء) نے اپنی تصانیف خصوصاً اپنے شاندار ضخیم ناول ژال کرسٹوف۔  (Jean Christophe)کے ذریعہ انسان دوستی کے نصب العین کو ابھارا۔  اس نے جرمن موسیقار بیتھووین، اطالوی مصور، مائیکل انجیلو، روسی ناول نویس، ٹالسٹائے اور جدید ہندوستان کی تین عظیم شخصیتوں گاندھی جی، راما کرشنا پرما ہنس، اور سوامی ویویکا نند کی سوانح حیات بھی لکھی ہیں۔  ان تصانیف کا مقصد امن پسندی اور انسانی جذبۂ اخوت کا اعلیٰ ترین سطح پر پرچار تھا۔  وہ امن کا جانباز سپاہی تھا اور اس کے بے لوث جذبۂ بین الاقوامیت کے اہم تشکیلی عناصر میں ہندوستان کے فلسفے اور روس میں سوویت تجربے کو بڑا دخل حاصل تھا۔

  انا طول فرانس (۱۸۴۴ء۔۱۹۲۴ء) بھی ایک ممتاز مصنف تھا اس کا موثر ترین حربہ طنز و تعریض تھا۔  اس نے سوشلسٹ طرز فکر کو فرانس میں پھیلانے میں بڑا کام کیا۔  پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے درمیان کے زمانے میں فرانسیسی ادب میں تین نمایاں شخصیتیں تھیں۔  مارسل پروست۔  (Marceal Proust)۔  (۱۸۷۱ء۔۱۹۲۲ء) نے ناول کی تشکیل کا ایک نیا انداز اختیار کیا۔  اس کے ناول ’’یادِ ماضی‘‘ کے مشترک عنوان سے شائع ہوئے جن میں اس نے کئی موضوعات اور واقعات کے امتزاج سے نرالا لطف پیدا کیا ہے۔  مثلاً حدیثِ دیگراں کے روپ میں خود مصنف کی آپ بیتی ہے لیکن آسانی سے پتہ چل جاتا ہے کہ دراصل ذکر کس کا ہے۔  ایک لاڈلے بیٹے کا احوال جو ایک دولت مند گھرانے کا چشم و چراغ ہے۔  انیسویں صدی کے آخر دہے اور پہلی جنگ عظیم کے درمیان کے زمانے میں فرانس کے امرا اور ان کے مصاحبین اور حاشیہ برداروں کے طرزِ زندگی کا ذکر ہے۔  محبت اور جدائی کی صورتِ حال کا نفسیاتی جائزہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جسمانی دوری یا اظہار محبت کے جواب میں انکاری رد عمل یا یک گونہ بے وفائی طالب و مطلوب کے رشتۂ الفت کی برقراری اور استحکام کے لیے لازمی ہے۔  اس کے علاوہ ان ناولوں میں غیر ارادی طور پر ماضی کے بھولے بسرے واقعات اور گریزپا لمحات کی مکمل تصویریں بھی آگئی ہیں۔

مارسل پروست کی یہ لطافت آمیز طویل داستان جس کا ماحول خواب سا ہے فنِ ناول نگاری کا ایک غیر فانی کرشمہ ہے۔  آندرے ژید (Andre Gide) (۱۸۶۹ء۔۱۹۵۱ء) نے جدید دور پر یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی کہ انسان دوستی اور کلاسزم سے کیامراد ہے۔  ژید مضمون نگار (Essayiste)بھی تھا اور نقاد، ناول نگار اور ڈرامہ نویس بھی۔  وہ جدید ادب کی تحریک مطالعۂ نفس (Inter Prospection)خود اعترافی (Self Confession) اور اخلاقی و مذہبی اضطراب کا سب سے زیادہ ممتاز ترجمان تھا۔

پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے درمیان کے زمانے کی نسل کی جمالیاتی اور اخلاقی قدروں پر اس کے نظریات کا بڑا اثر تھا۔  پال والیری (Paul Valery) (۱۸۷۱ء۔۱۹۴۵ء) اس خیال کا حامی تھا کہ تخلیق شعر کے عمل پر روح سے متعلقہ قوانین کی حکمرانی ہے۔  ملک کی اخلاقی اور سماجی صورتحال سے متاثر ہو کر اس دور کے بعض مشہور و معروف اہل قلم نے ناول لکھے۔  جن میں ژیول رومین (Jules Romains)(۱۸۸۵ء) روژے مارتان دیو کار (۱۸۸۱ء۔۱۹۵۸ء) ژارژ دیو آمیل (۱۸۸۴ء۔۱۹۵۶ء) شامل ہیں۔  اس دور میں متعدد ناول لکھے گئے ژال گرودو (Jean Giraudoux) (۱۸۸۲ء۔ ۱۹۴۴ء) نے نفسیاتی ناول لکھے۔  ژولیان گرین (۱۹۰۰ء) فرانسو امور یاک (Francots Mauriac)(۱۸۸۵ء۔ ۱۹۷۰ء) ژارژ بیر نانو (Georges Bernans)(۱۸۸۸ء۔ ۱۹۴۸ء) کے ناول کچھ مذہبی رنگ لیے ہوئے ہیں۔  لوئی اراگان (Louis Aragon) (۱۸۹۷ء) نے علم بغاوت بلند کیا آندرے مالرو (Andre Malrauy (۱۹۰۱ء) آن ری دی مانتیر لا (Henri De Montheralant) (۱۸۹۶ء) اور انتوان دی سینت تیکسیوپری۔  (Antoine de Santexupery) (۱۹۰۰ء۔۱۹۴۴ء) نے اپنے ناولوں میں حرکت اور عمل کو اہمیت دی۔  شاعری پر ماورائیت کا (Surrealism)کا غلبہ ہو گیا

آندرے پرے تان اس تحریک کا سب سے زیادہ ممتاز نظریہ داں مانا جاتا ہے۔  لیکن جہاں تک عمل کا تعلق ہے روبیر دیس نوس (Robert Disnos) (۱۹۰۰ء۔۱۹۴۵ء) اور خصوصاً پول ایلوار (Paul Eluard) (۱۸۹۵ء۔۱۹۵۲ء) اس کے ممتاز ترین پیرو تھے۔  اور بعد میں ایلوار نے ماورائیت کے مسلک کو خیر باد کر دیا اور مقاومت کی تحریک کے زمانے میں کمیونسٹ پارٹی میں شریک ہو گیا۔  اس کے کلام میں عملی، سیاست اور نغزگوئی کا اثر آفریں امتزاج نظر آتا ہے۔  اسٹیج کے لیے گرو دو (Giraudouy)نے جوڈرامے لکھے ہیں ان میں حزن و مزاح کی دھوپ چھاؤں لطف دیتی ہے۔  مارسل پان یول (Marcel Pagnol) (۱۸۹۵ء) طنزیہ ڈرامہ نگار ہے۔  اور ژان انوی (۱۹۱۰ء) کے ڈراموں کا امتیاز فن کارانہ چابکدستی ہے۔  جرمنی کے قبضے اور اس قبضے کے خلاف جدوجہد کے دوران اراگان اور ایلوار نے ادب کی خفیہ (Clandestine)اصناف میں تخلیق کے جوہر دکھائے یہ دونوں اب کمیونسٹ پارٹی میں شریک ہیں اس دور میں گہرے فلسفیانہ رنگ کو بھی فروغ ہوا جس کا ممتاز ترجمان نظریہ وجودیت کا بانی۔  ژاں پول سارتر (۱۹۰۵ء) ہے۔  فرانس کی ادبی اور سیاسی زندگی پر آج سب سے زیادہ اور نمایاں اثر سارتر کے طرز فکر کا ہے۔  اس کا فلسفیانہ شاہکار ’’وجود و عدم‘‘ (Being & Nothingness)ہے۔  ’’کراہئیت‘‘ اور اشمے دل لبرتے اس کے اہم ناول ہیں۔  سارتر کے ڈرامے نہ صرف اس کے نظریات کے ترجمان ہیں بلکہ فنی اعتبار سے اعلیٰ پایہ کے ہیں اس لیے اسٹیج پر بہت کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔  کامیو (Camus) نے جس کا انتقال خیز ناول لکھے ہیں۔  ان میں سے ایک لَ ترانژے (L’Etranger) ہے جس میں ایک نوجوان جھوٹ بولنے اور دھوکہ بازی سے انکار کر دیتا ہے۔  دوسرا ناول ’’لی پسث‘‘ (La Peste)ایک تمثیل (Allegory)ہے جس میں فرانس پر جرمنی کے قبضے کا حال الجیریا کے شہر اور ان میں طاعون کی فرضی وبا کے پردے میں پیش کیا گیا ہے۔  اب ہم اس دور تک پہنچ گئے ہیں جو ہم سے اس درجہ قریب ہے کہ اس کی صحت و سقم کے بارے میں کچھ کہنا آسان نہیں۔

ریماں کینو (Ranand Tuenbeau) (۱۹۰۳ء) کے فینٹیسی (Fantasy) اور ژاک ادی بیرتی (Jacques) (۱۸۹۹ء)کے برلسک (Burlesque) اپنی جگہ اہم ہیں۔  لیکن آئر ستانی سیمیویل بکٹ (Samuel Beckett) (۱۹۰۶ء) رومانی اجین ایولسکو (Eugene Ionesco)(۱۹۱۲ء)اور ایزک ایڈا ماو (Isac Adamou)کا تخلیق کردہ تھیٹر (Theater of the Absurd) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ نسلوں میں بھی صدیوں مقبول رہے گا۔  نتالک سروت (Nathalie Sarraute)آلین روب گرلیے (Alain Robbegrillet) (۱۹۲۲ء) اور مِشل بیوتیر (Michel Butor)کے ناول کائنات کے ایک معروضی تصور کی جستجو کے آئینہ دار ہیں۔  ایسی کائنات کا تصور جس کا عرفان غیبی تائید کے بغیر ممکن نہیں۔  ممکن ہے کہ یہ ناول صدیوں مقبول رہیں اور آنے والی نسلیں ان کو ہمارے موجودہ دور کے نہایت ممتاز اور معنی خیز کارناموں میں شمار کریں۔

  فرانسیسی زبان اس بیش بہا ادب سے بھی مالامال ہے جو سابق سلطنت فرانس میں شامل ملکوں کی دین ہے۔  مغربیت کے اہل قلم میں الجیریا کے خطیب یٰسین اور دیب قابل ذکر ہیں مراقش کے اَدریس شرایبی نے فرانس کے ان محنت کشوں کے مسائل موثر انداز میں پیش کیے ہیں جن کا وطن شمالی افریقہ ہے۔  سیاہ فام افریقہ نے کم از کم ایک ادیب اور شاعر ایسا پیدا کیا جو فرانسیسی ادب میں اپنا ایک مستقل مقام رکھتا ہے۔  وہ ہے لیوپولڈ سیدار سینگھور (Leopold Sedar Senghor)(۱۹۰۶ء) اس نے نیگرویت (Negri tude)کا ایک ایسا تصور پیش کیا ہے جس کا مقصد اس نسل میں اپنی تاریخ و تمدن کے تعلق سے جدبۂ اعتماد و افتخار کو ابھارنا ہے جسے نو آبادیاتی تسلط نے بری طرح کچل ڈالا ہے۔  یہ نہایت ضروری تھا اس لیے کہ جب تک خود اعتمادی اور خودشناسی کا جذبہ بے دار نہ ہو قوم آزاد ہو کر ترقی کے راستے پر آگے نہیں بڑھ سکتی۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید