فہرست مضامین
- غم کے آسماں سے
- مینک اوستھی
- جمع و ترتیب/ تبدیلی رسم الخط: اعجاز عبید
- کوئی دستک کوئی ٹھوکر نہیں ہے
- وہی عذاب وہیں آسرا بھی جینے کا
- آنکھوں میں بس گیا کوئی بانہوں سے دور ہے
- تاروں سے اور بات میں کمتر نہیں ہوں میں
- خشک آنکھوں سے کوئی پیاس نہ جوڑی ہم نے
- جب بھی راہوں میں مرے دھوپ کڑی رہتی ہے
- سیاست کا کوئی چہرہ نہیں ہے
- سادگی پہچان جس کی، خامشی آواز ہے
- چار سو جو خامشی کا ساز ہے
- بس کہ تقدیر ہے ہندو یا مسلماں ہونا
- جو ساتھ چل رہا تھا وہی معتبر نہ تھا
- سرخ پھولوں سی مری نظم کی تصویر ہوئی
- تب اس کا زہر اسی کے بدن میں بھر جائے
- آج تنقید کی لہروں میں اسیروں کی طرح
- بم پھوٹنے لگیں کہ سمندر اچھل پڑے
- فلک ہے سرخ مگر آفتاب کالا ہے
- مرا عشق بھی تھا جنون پر ، تیرا حسن بھی تھا نکھار پر
- زندگی!! یہ سمجھ نہ پائے ہم
- جب بھی تھوڑی رہے لگائے ہم
- زندگی ایک اذیت ترے بن لگتی ہے
- اے سمندر تری تسکین کا ساحل ہوا میں
- بکھر جائے نہ میری داستاں تحریر ہونے تک
- یقیناً سچ کہے گا آئنہ تو
- ستارہ ایک بھی باقی بچا کیا
- وہ سکوں ہے جب سے نکلا ہوں امس بھرے مکاں سے
- آپ سے منھ پھیر کر یہ دیکھتا رہتا ہوں میں
- تھوڑا سا زندگی کا خسارہ ضرور ہے
- وہ کون ہے وہ کیا ہے جو اس دل میں چھپا ہے
- اتنا کہیں گے بس ،کہ حقیقت بیاں نہ ہو
- مری ہی دھوپ کے ٹکڑے چرا کے لاتا ہے
- یہ آنکھ موند، اکیلے میں مسکرانا کیا
- تو کر لے سنگ ونگ کی برسات ہی سہی
- تنہائی میں جانے کیا ہو جاتا ہے
- دھوپ کو چھاؤں کیا چاہتی ہے
- جو مری روشنی ہے ذاتی ہے
- تعارف ہو نہ پایا زندگی سے
- نیندوں کے گھر میں گھس کے چکائے حساب سب
- اک چاند تیرگی میں ثمر روشنی کا تھا
- بیٹھے ہو جس کے خوف سے چھپ کر مچان پر
- بچپن میں اس درخت پہ کیسا ستم ہوا
- اگر ہواؤں کے رخ مہرباں نہیں ہوتے
- حیا اتار چکی ہے لباس محفل میں
- کھلتی ہی نہیں آنکھ اجالوں کے بھرم سے
- پہلے ہل مل کے بہی خواہ بھی ہو جاتا ہے
- تھکو نا آس کے پنچھی! اڑان باقی ہے
- اسے پہنو نہ پہنو کیا کبھی بد رنگ لگتا ہے
- کردار کھولتی ہے بیانات کی مہک
- جب اس میں جوڑ کے تجھ کو تجھے گھٹاتے ہیں
- تمناؤں کو جیسے قوت ِ پرواز دیتی ہے
- مرے آگے بڑی مشکل کھڑی ہے
- جمع و ترتیب/ تبدیلی رسم الخط: اعجاز عبید
- مینک اوستھی
غم کے آسماں سے
مینک اوستھی
جمع و ترتیب/ تبدیلی رسم الخط: اعجاز عبید
کوئی دستک کوئی ٹھوکر نہیں ہے
تمہارے دل میں شاید در نہیں ہے
اسے اس دشت میں کیا خوف ہوگا
وہ اپنے جسم میں ہو کر نہیں ہے
اسے لعنت سمجھیے آئنوں پر
کسی کے ہاتھ میں پتھر نہیں ہے
تری دستار تجھ کو ڈھو رہی ہے
ترے کاندھوں پہ تیرا سر نہیں ہے
یہ دنیا آسماں میں اڑ رہی ہے
یہ لگتی ہے، مگر بے پر نہیں ہے
میاں کچھ روح ڈالو شاعری میں
ابھی منظر پسِ منظر نہیں ہے
٭٭٭
وہی عذاب وہیں آسرا بھی جینے کا
وہ میرا دل ہی نہیں زخم بھی ہے سینے کا
میں بے لباس ہی شیشے کے گھر میں رہتا ہوں
مجھے بھی شوق ہے اپنی طرح سے جینے کا
وہ دیکھ چاند کی پر نور کہکشاؤں میں
تمام رنگ ہے خورشید کے پسینے کا
میں پر خلوص ہوں پھاگن کی دوپہر کی طرح
ترا مزاج لگے پوس کے مہینے کا
سمندروں کے سفر میں سنبھال کر رکھنا
کسی کنویں سے جو پانی ملا ہے پینے کا
مینکؔ آنکھ میں سیلاب اٹھ نہ پائے کبھی
کہ ایک اشک مسافر ہے اس سفینے کا
آنکھوں میں بس گیا کوئی بانہوں سے دور ہے
چاہا ہے چاند کو یہی اپنا قصور ہے
دوزخ میں جی رہا ہوں اسی ایک آس پر
جنت کو راستہ کوئی جاتا ضرور ہے
میں لڑکھڑا رہا ہوں صداقت کی راہ پہ
اس روح پر ابھی بھی بدن کا سرور ہے
یہ روشنی کے داغ ،اجالے تو ہیں نہیں
قاصر سا آسماں کے ستاروں کا نور ہے
اب کیا بتائیں تم کو صفت دل کے داغ کی
ہم مفلسوں کے پاس کوئی کوہ نور ہے
بھگوان بن گیا ہے میرا یار آج کل
رہتا ہے ساتھ پھر بھی لگے دور دور ہے
٭٭٭
تاروں سے اور بات میں کمتر نہیں ہوں میں
جگنو ہوں اس لیے کہ فلک پر نہیں ہوں میں
صدموں کی بارشیں مجھے کچھ تو گھلائیں گی
پتلا ہوں خاک کا کوئی پتھر نہیں ہوں میں
دریائے غم میں برف کے تودے کی شکل میں
مدت سے اپنے قد کے برابر نہیں ہوں میں
اس کا خیال اس کی زباں اس کے تذکرے
اس کے قفس سے آج بھی باہر نہیں ہوں میں
میں تشنگی کے شہر پہ ٹکڑا ہوں ابر کا
کوئی گلہ نہیں کہ سمندر نہیں ہوں میں
کیوں زہر زندگی نے پلایا مجھے مینکؔ
وہ بھی تو جانتی تھی کہ ،شنکر نہیں ہوں میں
٭٭٭
خشک آنکھوں سے کوئی پیاس نہ جوڑی ہم نے
آس ہم سے جو سرابوں کو تھی، توڑی ہم نے
بارہا ہم نے یہ پایا کہ لہو میں ہے شرر
اپنی دکھتی ہوئی رگ جب بھی نچوڑی ہم نے
جو سنورنے کو کسی طور بھی راضی نہ ہوئی
بھاڑ میں پھینک دی دنیا وہ نگوڑی ہم نے
اس طرح ہم نے سمندر کو پلایا پانی
اپنی کشتی کسی ساحل پہ نہ موڑی ہم نے
جب کوئی چاند ملا داغ نہ دیکھے اس کے
آنکھ سورج سے ملا کر نہ سکوڑی ہم نے
فصل برباد تھی آہٹ بھی ہمیں تھی لیکن
جانے کیوں موڑ دی اس دوار پہ گھوڑی ہم نے
گرد غیرت کے بدن پر جو نظر آئی کبھی
دیر تک اپنی انا خوب جھنجھوڑی ہم نے
٭٭٭
جب بھی راہوں میں مرے دھوپ کڑی رہتی ہے
گھر میں ماں بن ہلے پوجا پہ کھڑی رہتی ہے
اک تری یادمسلسل ہے مری آنکھوں میں
ورنہ صحرا میں کہاں اوس پڑی رہتی ہے
عاشقی ، پیار، وفا، درد، جدائی، صحرا
کتنے رنگوں میں محبت کی لڑی رہتی ہے
وقت پر وہ ہی تو پہچان نہیں پاتا ہے
ہم کو جس یار سے امید بڑی رہتی ہے
رات کی کوکھ سے سورج بھی نمایاں کر دے
وقت کے پاس تو جادو کی چھڑی رہتی ہے
٭٭٭
سیاست کا کوئی چہرہ نہیں ہے
وہ جھک جاتا ہے جو سیدھا نہیں ہے
وہ گھر بھی قبر جیسے ہیں کہ جن کا
کسی در سے کوئی رشتہ نہیں ہے
ادھر داناؤں کو شکوہ ہے مجھ سے
یہ مرغا آج کل پھنستا نہیں ہے
لہو ،کی بات تھوڑی مختلف ہے
وگرنہ اور کچھ سستا نہیں ہے
ہر اک دریا کے لب پر ریت دیکھی
کوئی سیراب ہو ، ایسا نہیں ہے
وہاں کی کھڑکیاں کب مانتی ہیں
کہ اس گھر سے مرا رشتہ نہیں ہے
جہاں سب سے زیادہ ہے ضروری
کوئی بم اس جگہ پھٹتا نہیں ہے
وفاؤں پر تمہاری شک نہیں پر
مینک ، اپنی قسم دیتا نہیں ہے
٭٭٭
سادگی پہچان جس کی، خامشی آواز ہے
سوچیے اس آئنے سے کیوں کوئی ناراض ہے
بے سبب سایوں کو اپنے لمبے قد پہ ناز ہے
خاک میں مل جائیں گے یہ، شام کا آغاز ہے
یوں ہوا لہروں پہ کچھ تحریر کرتی ہے مگر
جھوم کر بہتا ہے، دریا کا یہی انداز ہے
دیکھ کر شاہیں کو پنجرے میں پتنگا کچھ کہے
جانتا وہ بھی ہے کس میں قوت پرواز ہے
کیوں مغنی کے لئے بے چین ہے تو اس قدر
اے دلِ ناداں کہ تو تو اک شکستہ ساز ہے
٭٭٭
چار سو جو خامشی کا ساز ہے
وہ قیامت کی کوئی آواز ہے
توڑ دے شاید عناصر کا قفس
روح میں اب قوتِ پرواز ہے
یہ دھندلکا کھل کے بتلاتا نہیں
شام ہے یا صبح کا آغاز ہے
کس لیے دل میں شرر ہیں بیشمار
کیوں زمیں سے آسماں ناراض ہے
انتہائے جبر کرتا ہے وہ اب
دیکھ کر کرتا نظر انداز ہے
مل گیا شاید مجھے کوئی عزیز
یوں نگہ میری نگاہِ ناز ہے
٭٭٭
بس کہ تقدیر ہے ہندو یا مسلماں ہونا
"آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا”
تیرا شیوہ ہے میرے قتل کا ساماں ہونا
میرا حاصل ہے تیرا زود پشیماں ہونا
ایسا لگتا ہے کسی دشت کا شہزادہ ہوں
اتنا اچھا بھی نہیں گھر کا بیاباں ہونا
شکل خودسر سی مگر دل سے ہمارے ہیں وہ
ان کے اقرار کا پہلو ہے گریزاں ہونا
یہ سیہ بخت زمیں شام ڈھلے دیکھے گی
شب کی دہلیز پہ خورشید کا عریاں ہونا
گھر مکانوں میں جو تبدیل اسی طرح ہوئے
پھر تو لازم ہے مرے شہر کا زنداں ہونا
کربلا !! میں بھی یزیدوں سے گھرا ہوں ہر سو
مجھ کو معلوم ہے کیا شے ہے مسلماں ہونا
٭٭٭
جو ساتھ چل رہا تھا وہی معتبر نہ تھا
سایہ بھی تیرگی میں مرا ہم سفر نہ تھا
ہر تیر کھا لیا تھا کلیجے پہ اس لئے
میں اس جگہ گھرا تھا جہاں پر مفر نہ تھا
ہمراہ تیرگی تھی ہوائیں بھی تھیں بضد
اپنے ہی دل میں جوش و جنوں کا شرر نہ تھا
آنکھوں سے لوگ جسم چرانے میں طاق تھے
اپنے بدن سے میں ہی ذرا باخبر نہ تھا
تختی تھی اس کے گھر پہ ہمارے ہی نام کی
"اس کی گلی سے پھر بھی ہمارا گزر نہ تھا”
اجڑے ہوئے چمن کے مناظر گواہ تھے
مٹی تھی خواہشوں کی، وفا کا شجر نہ تھا
میرا بھی کچھ وجود مرے گھر میں تھا مینکؔ
میں خاک ہو چکا تھا مگر در بدر نہ تھا
٭٭٭
سرخ پھولوں سی مری نظم کی تصویر ہوئی
میری ہستی مرے جذبات کی جاگیر ہوئی
طور پہ برق جو چمکی تو غنیمت یہ رہی
ایک لمحہ ہی مرے خواب کی تعبیر ہوئی
سب تھے خوش رنگ لباسوں میں برہنہ لیکن
کوئی شے جسم پہن کر ہی مہاویر ہوئی
اس کو پہچان کے تصویر جلا دی اس کی
چشمِ بیدار مرے خواب کو شمشیر ہوئی
ڈوبتا چھوڑ کے سورج کو سیاہی میں مینک
روشنی چاند ستاروں کی بغل گیر ہوئی
٭٭٭
تب اس کا زہر اسی کے بدن میں بھر جائے
اگر زباں نہ چلائے تو سانپ مر جائے
کھڑی ہے در پہ اجل اور مجھ میں جان نہیں
کہو وہ دیر سے آئی ہے اپنے گھر جائے
کوئی چراغ جہاں روشنی کا ذکر کریں
سیاہ رات کا چہرہ وہیں اتر جائے
اب اک حقیر ہی اس سے شناخت مانگے گا
گزر کے آگ سے جو بارہا نکھر جائے
ادب کی سوچ یہی ہے ، تمہارا تیر نہیں
تمہارا شعر دل و جان میں اتر جائے
ترے بیان میں خوشبو ہے، روشنی دل میں
مینک سب کی تمنا ہے تو بکھر جائے
٭٭٭
آج تنقید کی لہروں میں اسیروں کی طرح
فکر اپنی ہے سمندر میں جزیروں کی طرح
رحمتِ ابر کا طالب ہے فقیروں کی طرح
ایک دریا جو بظاہر ہے امیروں کی طرح
دور کے ڈھول سماعت نہ فنا کر دیں کہیں
ان کے آداب میں بجئے نہ منجیروں کی طرح
انگلیاں وہ مرے اپنوں کی ہیں غیروں کی نہیں
اٹھ کے لگتی ہیں کلیجے پہ جو تیروں کی طرح
ہم مٹاتے ہیں مگر دل پہ بنی رہتی ہیں
کچھ خراشیں جو ہیں پتھر کی لکیروں کی طرح
٭٭٭
بم پھوٹنے لگیں کہ سمندر اچھل پڑے
کب زندگی پہ کون بونڈر اچھل پڑے
دشمن مری شکست پہ منھ کھول کر ہنسا
اور دوست اپنے جسم کے اندر اچھل پڑے
گہرائیاں سمٹ کے بکھرنے لگیں تمام
اک چاند کیا دکھا کہ سمندر اچھل پڑے
مت چھیڑیے ہمارے چراغِ خلوص کو
شاید کوئی شرار ہی ، منھ پر اچھل پڑے
گھوڑوں کی بے لگام چھلانگوں کو دیکھ کر
بچھڑے کسی نکیل کے دم پر اچھل پڑے
گہری نہیں تھی اور مچلتی تھی بے سبب
ایسی ندی ملی تو شناور اچھل پڑے
یوں منھ نہ پھیرنا کہ سبھی دوست ہیں مینکؔ
کب اور کہاں سے پیٹھ پہ خنجر اچھل پڑے
٭٭٭
فلک ہے سرخ مگر آفتاب کالا ہے
"اندھیرا ہے کہ ترے شہر میں اجالا ہے”
تمام شہر کا منظر ہی اب نرالا ہے
کوئی ہے سانپ، کوئی سانپ کا نوالہ ہے
شب سفر تو اسی آس پر بتانی ہے
اجل کے موڑ کے آگے بہت اجالا ہے
جہاں خلوص نے کھائی شکست دنیا سے
وہیں جنون نے اٹھ کر مجھے سنبھالا ہے
براہ طنز سمندر کے دل میں اتروں گا
کنارے بیٹھ کے کنکر جبھی اچھالا ہے
یہ اس کا خوف ہو، جو ہو ، مجھے تو خدشہ ہے
وہ پھر سے طور کا جلوہ دکھانے والا ہے
ازل ابد کی حدوں میں طواف کر ناداں
ترے مکان کے دونوں دروں پہ تالا ہے
میں کھو گیا ہوں کسی خواب کے تعاقب میں
بس ایک جسم میرا آخری حوالہ ہے
غزل شکیب کی، یوں بس گئی ہے آنکھوں میں
غزل کہوں کہ کہوں، آنسوؤں کی مالا ہے
مینک کون ہے ؟ ! ! ! وہ پوچھتے ہیں حیرت سے
پر اس سوال نے ہم کو تو مار ڈالا ہے
٭٭٭
مرا عشق بھی تھا جنون پر ، تیرا حسن بھی تھا نکھار پر
یہ غزل پھرائی گئی بہت ،کبھی شاعری کے ستار پر
یہی رٹ رہے تھے مریض سب ، جو فدا تھے ایک انار پر
میں چمن میں چاہے جہاں رہوں ، مرا حق ہے فصلِ بہار پر
کئی جگنوؤں کے بیان تھے غمِ عاشقی کے مزار پر
کوئی مرد ہم سا ہوا نہیں، جو جیے لہو کے شرار پر
کسی نازنیں کو گمان تھا کہ مینک اس کا قتیل ہے
اسے علم دیر سے ہو سکا، وہ لگا تھا اس کے شکار پر
کئی لوگ اس میں نہائے پھر، اسے اک مقام پہ لائے پھر
سبھی ہاتھ دھو کے نکل گئے ، وہ ندی جب آئی اتار پر
مگر اس کے بعد مینک نے جو پلٹ کے اپنی شناخت کی
یہ لگا کہ عکس چٹخ گیا، کسی آئنے کی درار پر
٭٭٭
زندگی!! یہ سمجھ نہ پائے ہم
تیرے اپنے ہیں یا پرائے ہم
تیرا چہرہ نہ دیکھ پائے ہم
عمر بھر سر رہے جھکائے ہم
کس کو معلوم خشک آنکھوں میں
اک سمندر رہے چھپائے ہم
راہ دشمن کی تنگ ہوتی رہی
اس مروت سے پیش آئے ہم
حیف!! پگڑی اچھالنے والو!
تم کو سر پر رہے چڑھائے ہم
وہ ابھی تک ہیں بدگمانی میں
جن کو اوقات پر نہ لائے ہم
کربلاؤں میں خون سے اپنے
"عمر بھر دھوپ میں نہائے ہم”
جب بھی تھوڑی رہے لگائے ہم
دور غم کو کھدیڑ آئے ہم
تیرا قد ناپنے کو آئے تھے
لوٹ آئے ہیں سر جھکائے ہم
سب کے چلو مے اک سمندر تھا
ڈوب پھر بھی کہیں نہ پائے ہم
جسم بیشک تھا داغدار مگر
” عمر بھر دھوپ میں نہائے ہم”
دل کے زخموں کو دیکھ کر اکثر
اہل زر جیسے مسکرایے ہم
تو نے چہرے کئی دکھائے مگر
تیرا چہرہ نہ دیکھ پائے ہم
آ گئے جب پہاڑ کے نیچے
پھر زیادہ نہ بلبلائے ہم
سجدے کرتے رہے چراغوں کے
بن گئے روشنی کے سائے ہم
اک ترے خواب کے تعاقب میں
چین کی نیند سو نہ پائے ہم
کب ملا ہم کو گوہر تسکیں
سارے دریا کھنگال آئے ہم
کون لمحہ ہے جس کی حسرت میں
بوجھ صدیوں کا ہیں اٹھائے ہم
٭٭٭
زندگی ایک اذیت ترے بن لگتی ہے
پوس کی رات مجھے جیٹھ کا دن لگتی ہے
تم سے شرما کے محبت کا بھرم رکھتا ہوں
سچ مگر یہ ہے کہ تم سے مجھے گھن لگتی ہے
تیری چٹکی سے مجھے درد بھلا کیونکر ہو
تو نے چٹکی میں چھپائی جو، وہ پن لگتی ہے
طنز کی راہ پہ چلنے کا مجھے شوق نہیں
تم سے رشتوں کی ڈگر مجھ کو کٹھن لگتی ہے
کیا فقط طنزو ملامت ہی یہاں رہتے ہیں
دل کی بستی بھی مجھے اب تو ملن لگتی ہے
زار شاہی ہے میرے دل پہ مری بیوی کی
اور مری ساس مجھے راسپتن لگتی ہے
٭٭٭
اے سمندر تری تسکین کا ساحل ہوا میں
پھر بھی کیوں تجھ کو لگا تیرے مقابل ہوا میں
میں ہی دنیا ہوں تو سب کچھ تو میرا حصہ ہے
کیسے دنیا کی ہر اک راہ کی منزل ہوا میں
جب عناصر کی ردا اوڑھ کے سو جاتا ہوں
خواب اک آ کے ڈراتا ہے کہ باطل ہوا میں
آنکھ کھولی تو چھپا تھا تو ہر اک ذرے میں
آنکھ موندی تو تری دید کے قابل ہوا میں
آئنے مجھ سے کئی بار بھڑے ہیں پھر بھی
آج تک خود کے سوا کس کے مقابل ہوا میں
ڈھونڈتے ڈھونڈتے تجھ کو میں کچھ ایسا کھویا
پھر تو خود کو بھی کسی طور نہ حاصل ہوا میں
مسئلہ تھا کہ میں جب شہر کا آئینہ تھا
آج جب ٹوٹ کے بکھرا تو مسائل ہوا میں
اس کی قربت میں تباہی کے ہیں امکان مگر
لو کسی جسم کی لہرائے کہ مائل ہوا میں
یہ جو زر دار ہوا شہرِ غزل میں میں بھی
سب ہے اس در کی بدولت جہاں سائل ہوا میں
دشت آباد کیا ، کاٹ دیا پربت کو
"تجھ کو پانے کی طلب میں کسی قابل ہوا میں”
یہ سیہ بخت زمیں یوں مری جاگیر ہوئی
شب کی دہلیز پہ خورشید کا قاتل ہوا میں
میں وہ ذرہ تھا جسے توڑ دیا دنیا نے
قہر کی شکل میں پھر دہر پہ نازل ہوا میں
کوئی ڈولی میں تجھے لے کے گیا ہے جب سے
تب سے یادوں کی ہی بارات میں شامل ہوا میں
کون تدبیر کی بستی میں پسینے بانٹے
آج اے شہرِ تمنا ترا سائل ہوا میں
٭٭٭
بکھر جائے نہ میری داستاں تحریر ہونے تک
یہ آنکھیں بجھ نہ جائیں خواب کی تعبیر ہونے تک
چلائے جا ابھی تیشہ قلم کا کوہ ظلمت پر
سیاہی وقت بھی لیتی ہے جوئے شیر ہونے تک
اسی خاطر مرے اشعار اب تک ڈائری میں ہیں
کسی عالم میں جی لیں گے یہ عالمگیر ہونے تک
ترے آغاز سے پہلے یہاں جگنو چمکتے تھے
یہ بستی مفلسوں کی تھی تری جاگیر ہونے تک
مجھے طنزو ملامت کی بڑی درکار ہے یوں بھی
انا کو سان بھی تو چاہئیے شمشیر ہونے تک
یہ کیوں لگتا ہے اپنی ذات کا حصہ نہیں ہوں میں
میرا احساس بھارت ورش تھا کشمیر ہونے تک
محبت آخرش لے آئی ہے اک بند کمرے میں
تیری تصویر اب دیکھوں گا خود تصویر ہونے تک
٭٭٭
یقیناً سچ کہے گا آئنہ تو
کوئی صدمے سے لیکن مر گیا تو
مری عریانیوں کو دور پوجے
انھیں پہناؤں جو میں فلسفہ تو
تیرے قدموں میں بچھ جائے گا دریا
تو اپنی تشنگی کو پی گیا تو
عدم سے بھی مجھے آنا پڑے گا
"دیا اس نے جو اپنا واسطہ تو”
ہر اک آندھی کو یہ خدشہ بہت ہے
کہیں میرا دیا جلتا رہا تو
کسی کہسار کی چنتا نہیں پر
میں اپنے آپ سے ٹکرا گیا تو
وہ تیرا آئنہ تھا اے شناور
تو اس دریا کے دل میں جھانکتا تو
لپٹ کر رو پڑا ہوتا میں تم سے
ہمارے بیچ ہوتا راستہ تو
مجھے اک پیاز میں پھر پیاز ملتی
اگر کردار تیرا کھولتا تو
٭٭٭
ستارہ ایک بھی باقی بچا کیا
نگوڑی دھوپ کھا جاتی ہے کیا کیا
فلک کنگال ہے اب، پوچھ لیجے
سحر نے منھ دکھائی میں لیا کیا
سب اک بحرِ فنا کے بلبلے ہیں
کسی کی ابتدا کیا، انتہا کیا
جزیرے سر اٹھا کر ہنس رہے ہیں
ذرا سوچو سمندر کر سکا کیا
خرد اک نور میں ضم ہو رہی ہے
جھروکا آگہی کا کھل گیا کیا
تعلق آن پہنچا خامشی تک
” یہاں سے بند ہے ہر راستہ کیا”
بہت شرماؤ گے یہ جان کر تم
تمہارے ساتھ خوابوں میں کیا کیا
اسے خودکش نہیں مجبور کہیئے
بدل دیتا وہ دل کا فیصلہ کیا
برہنہ تھا میں اک شیشے کے گھر میں
مرا کردار کوئی کھولتا کیا
اجل کا خوف طاری ہے ازل سے
کسی نے ایک لمحہ بھی جیا کیا
مکیں ہو کر مہاجر بن رہے ہو
میاں، یکلخت بھیجا پھر گیا کیا
خدا بھی دیکھتا ہے، دھیان رکھنا
خدا کے نام پر تم نے کیا کیا
اٹھا کر سر بہت اب بولتا ہوں
مرا کردار بونا ہو گیا کیا
٭٭٭
وہ سکوں ہے جب سے نکلا ہوں امس بھرے مکاں سے
مجھے لو کے تیز جھوکے بھی لگے ہیں سائباں سے
یہ تمام عمر گزری بڑے سخت امتحاں سے
نہ تھی خودکشی کی طاقت نہ ہی لڑ سکا جہاں سے
شبِ غم کی ظلمتوں میں یہ زمین مطمئن تھی
کبھی آئے گا اتر کر کوئی نور آسماں سے
میں شکست دے چکا تھا کبھی بہرے بیکراں کو
میں شکست کھا گیا ہوں کسی اشکِ بے زباں سے
کوئی داغ اس جبیں پہ یہ بیان دے رہا ہے
کبھی واسطہ تھا میرا ترے سنگ آستاں سے
وہ یقیں تھا یا گماں تھا، مجھے یہ خبر نہیں پر
جو بھی تھا وہ جا چکا ہے ترے میرے درمیاں سے
مری آنکھ میں ابھی تک کسی مات کی کسک ہے
ابھی برق جھانکتی ہے میرے خاک آشیاں سے
بڑی خامشی میں اب میں ترے ساتھ چل رہا ہوں
کہ پھسل گیا تھا اک دن کوئی لفظ اس زباں سے
٭٭٭
آپ سے منھ پھیر کر یہ دیکھتا رہتا ہوں میں
خود کا ہو سکتا ہوں یا پھر آپ کا رہتا ہوں میں
آئنے کے سامنے اکثر کھڑا رہتا ہوں میں
عکس ہوں میں بھی کسی کا، سوچتا رہتا ہوں میں
تم میرے ہو، میں تمہارا ہوں، ہم اک دوجے کے ہیں
خود سے تنہائی میں کیا کیا بولتا رہتا ہوں میں
بند کمرے میں تری تصویر رکھ کر سامنے
خواہشوں سے سانپ سیڑھی کھیلتا رہتا ہوں میں
پیار کی راہوں میں اک تکرار کی دیوار ہے
اور اس دیوار سے سر پھوڑتا رہتا ہوں میں
سرخیاں جن کی رہیں مشہور میرے نام سے
آج ان ہونٹوں پہ بن کر بد وعا رہتا ہوں میں
آپ اک چہرہ نہیں چہروں کے اک انبار ہیں
آپ سے تھوڑا بنا کر فاصلہ رہتا ہوں میں
میں وفا کے مندروں میں گونجتا اشلوک ہوں
ایک پتھر کے صنم کو پوجتا رہتا ہوں میں
میکدہ کھلوا دیا دیرو حرم کی راہ پر
راستوں کو منزلوں سے جوڑتا رہتا ہوں میں
میں سمندر ہوں مجھے اپنی حدیں معلوم ہیں
ساحلوں کے پاؤں چھو کر لوٹتا رہتا ہوں میں
وقت کی دیوار پر بنتا بگڑتا نقش ہوں
کون ہے میرا مصور پوچھتا رہتا ہوں میں
میں خلاؤں میں بھٹکتا پھر رہا اک چاند ہوں
آسماں کی سرحدوں کو ڈھونڈتا رہتا ہوں میں
اے خلاء، اے وقت، میں وہ جاوداں کردار ہوں
جسم سو جاتا ہے لیکن جاگتا رہتا ہوں میں
بےادب بھی ہو چلا ہوں میں ادب کی راہ پر
آئنے خاموش ہیں اور بولتا رہتا ہوں میں
میں کسی دیوار کا خادم نہیں ہوں دوستو
میں ہوں دروازہ محبت کا کھلا رہتا ہوں میں
٭٭٭
تھوڑا سا زندگی کا خسارہ ضرور ہے
پر غم نے دل کا رنگ نکھارا ضرور ہے
مہتاب پھر رہا ہے خلاؤں میں اس طرح
جیسے کہ آسماں کا کنارہ ضرور ہے
عالم میں دیکھیے تو کوئی بھی خدا نہیں
عالم خدا کی سمت اشارہ ضرور ہے
ہم کو یقیں ہے آپ کے دل کی کتاب میں
اک ان لکھا سا نام ہمارا ضرور ہے
کیا جانیے وہ شوخ، سمندر ہے یا سراب
جو بھی ہو تشنگی کا سہارا ضرور ہے
ویسے مری زباں پہ کوئی اور لفظ تھا
پر ” دوست” کہہ کے تجھ کو پکارا ضرور ہے
دو شعر کہہ کے تم کو گماں یہ ہوا مینکؔ
اک آسماں زمیں پہ اتارا ضرور ہے
٭٭٭
وہ کون ہے وہ کیا ہے جو اس دل میں چھپا ہے
جیسے کہ کوئی سانپ کسی بل میں چھپا ہے
کیوں دوڑ کے آتی ہیں ادھر موجیں مسلسل
کیا کم ہے سمندر میں ،جو ساحل میں چھپا ہے
اک روح بلاتی ہے عناصر کے قفس سے
پر ہوش کسی خواب کی محفل میں چھپا ہے
سینے کو میرے سنگ وہ ہونے نہیں دیتا
کچھ موم کے جیسا بھی اسی سل میں چھپا ہے
میں کیسے دکھاؤں کہ وہ لفظوں سے بنا ہے
اک تیر جو اس سینۂ بسمل میں چھپا ہے
دھڑکن وہ مری چھو کے پرکھتا ہے، پلٹ کر
اک خوف ابھی تک میرے قاتل میں چھپا ہے
٭٭٭
اتنا کہیں گے بس ،کہ حقیقت بیاں نہ ہو
اب ہم پہ مہربان کوئی مہرباں نہ ہو
جس مغربی بیار کے عاشق ہوئے ہیں سب
ڈرتا ہوں اس میں گرد وہاں کی نہاں نہ ہو
اس سے خزاں کا راج ہی اچھا تھا دوستو
بہتر ہو اس چمن میں کوئی باغباں نہ ہو
جب روشنی نہیں تو دھواں روشنی کا کیا
میری شب سیہ میں کوئی کہکشاں نہ ہو
یہ فکرمند مر نہ کہیں جائیں فکر میں
پھیلا ہمارے سر پہ اگر آسماں نہ ہو
٭٭٭
مری ہی دھوپ کے ٹکڑے چرا کے لاتا ہے
مرا ہی چاند مجھے کہکشاں دکھاتا ہے
یہ کس کی پیاس سے دریا کا دل ہے خوفزدہ
ہوا بھی پاس سے گزرے تو تھرتھراتا ہے
بدن کی پیاس وہ شے ہے کہ کوئی سورج بھی
سیاہ جھیل کی بانہوں میں ڈوب جاتا ہے
انا کے دار پہ اک شاہراہ کھلتی ہے
جسے کہ بس کوئی منصور دیکھ پاتا ہے
کوئی حقیر بھٹکتا ہے شاہراہوں پر
انا کا دشت مجھے راستہ دکھاتا ہے
٭٭٭
یہ آنکھ موند، اکیلے میں مسکرانا کیا
تمہارے ساتھ ہے گزرا ہوا زمانہ کیا
غزل کے شعر رقیبوں کو اب سنانا کیا
جو بجھ چکے ہیں انہیں بے سبب جلانا کیا
مجھے یہ علم نہیں تھا کہ خلق اندھی ہے
کوئی چراغ اب اس رات میں جلانا کیا
وہ آسمان سے گرتا تو ہم اٹھا لیتے
جو گر گیا ہو نظر سے اسے اٹھانا کیا
ذرا بتاؤ تمہیں پھر گلے لگاؤں کیوں
تمہارے پاس ہے باقی کوئی بہانہ کیا
مرا نصیب مجھے کربلا میں لایا ہے
کسی یزید سے مانگوں گا آب و دانہ کیا
وفا کی آس ہر اک شے سے ہے تمہیں لیکن
جو شے بچی ہی نہیں اس کو آزمانا کیا
تب اس قدر تو نہیں اجنبی تھے ہم دونوں
تمہیں ہے یاد لڑکپن کا وہ زمانہ کیا
جو دل سے آنکھ تلک خامشی سے آئی ہے
"وہ نرم رو ہے، ندی کا مگر ٹھکانہ کیا”
٭٭٭
تو کر لے سنگ ونگ کی برسات ہی سہی
پر ٹوٹے آئنے کی ہر اک بات تھی صحیح
جب میرے چٹکلوں پہ بھی ہنستا نہیں تھا تو
کیوں میں نے ایک عمر تری دوستی سہی
بھگوان کیا خدا سے جدا شے کا نام ہے
‘اچھا یہ آپ سمجھے ہیں، اچھا یہی سہی’
ہم خودکشی کی تاب جٹا ہی نہیں سکے
اس بے بسی کا نام چلو زندگی سہی
سچ یہ ہے رند وند تو سیراب بھی ہوئے
ہم پارسا تھے ہم نے فقط تشنگی سہی
قدموں میں اس کے جا کے رکی ہے ہماری خاک
پوری ہوئی ہے آج کسر سب رہی سہی
دن سی شب فراق ہوئی ہے تری مینکؔ
اشکوں سے اس بلا کی ہوئی روشنی سہی
٭٭٭
تنہائی میں جانے کیا ہو جاتا ہے
پتھر، جیسے آئینہ ہو جاتا ہے
مجھ میں ایک خلاء یہ کہتا ہے اکثر
ماٹی کا تن ماٹی کا ہو جاتا ہے
سب سے بانہیں پھیلا کر ملتے رہیے
سر اونچا سینہ چوڑا ہو جاتا ہے
کچھ تو ہے اس بےدل کی شخصیت میں
جو ملتا ہے دلدادہ ہو جاتا ہے
کچھ تو ہوتا ہے ہر دل کے پردے میں
عاشق کا دل بے پردہ ہو جاتا ہے
میرے دل کو اپنے دل میں رہنے دو
بےگھر بچہ آوارہ ہو جاتا ہے
ذرے جب جب ٹوٹے ہیں خودکش ہو کر
سورج کے گھر اندھیارا ہو جاتا ہے
پریم گلی سے واپس آ کر مت کہنا
ایسا ہوتا ہے ، ویسا ہو جاتا ہے
پہلے دلکش جھیلیں پاس بلاتی ہیں
"دھیرے دھیرے سب صحرا ہو جاتا ہے”
٭٭٭
دھوپ کو چھاؤں کیا چاہتی ہے
اور کیا ماں کی دعا چاہتی ہے
ایسا جگنو ہوں میں جس کی دھن پر
کہکشاں رقص کیا چاہتی ہے
جونک لپٹی ہے عبث پتھر سے
زندگی خون پیا چاہتی ہے
لفظ بھگوان پرانا ہے بہت
زندگی خواب نیا چاہتی ہے
وہ ہمیں دل سے منور نہ دکھے
"جن چراغوں کو ہوا چاہتی ہے”
دھوپ بارش کی یہ نورا کشتی
فصل برباد کیا چاہتی ہے
میرے جیسی ہی کوئی شے مجھ میں
مجھ کو مسمار کیا چاہتی ہے
روپ ندیوں کا کچھ ایسا ہے اب
تشنگی زہر پیا چاہتی ہے
٭٭٭
جو مری روشنی ہے ذاتی ہے
دل دیا ہے ، امید باتی ہے
میں وہ پتھر ہوں جس میں مدت سے
سانس آتی ہے سانس جاتی ہے
کچھ تو دامن کشاں ہوں میں اس سے
اور کچھ زندگی لجاتی ہے
ایک گھڑکی جو دی ہواؤں نے
لو چراغوں کی تھرتھراتی ہے
چیتھڑا ہو گئی کوئی عصمت
‘اشتہاروں کے کام آتی ہے ‘
سر پہ چڑھتی ہے دھول پیروں کی
جب ہوا حوصلہ بڑھاتی ہے
اتنی راہیں مجھے بلاتی ہیں
جستجو راہ بھول جاتی ہے
میری تدبیر آخرش تھک کر
پاؤں تقدیر کے دباتی ہے
زندگی تیری قتل گاہوں میں
موت اب لوریاں سناتی ہے
٭٭٭
تعارف ہو نہ پایا زندگی سے
رہی وہ دور ہی مجھ اجنبی سے
میں شہرِ سنگ میں اک شیشہ گر ہوں
مسلسل لڑ رہا ہوں خودکشی سے
وہ خود اک موج تھی بحرِ فنا کی
توقع تھی بہت جس زندگی سے
اندھیرے بارہا تھرا رہے ہیں
گھٹاؤں میں بپھرتی روشنی سے
وگرنہ کون ان کو دیکھ پاتا
ستارے خوش بہت ہیں تیرگی سے
خدا کو سونپ کر سارے مسائل
چلو ہم بھاگ لیں پتلی گلی سے
غزل پھر پیل دی میں نے یہ کہہ کر
"میں عاجز آ گیا ہوں شاعری سے”
٭٭٭
نیندوں کے گھر میں گھس کے چکائے حساب سب
بیداریوں نے توڑ دئیے خواب واب سب
اک دھند ہے سحر کی کہانی کے نام پر
محفوظ اب تلک ہیں سیاہی کے باب سب
نام و نشاں تلاش رہی ہے مشین گن
جانے کہاں فرار ہوئے انقلاب سب
کیوں چار دن کے حبس سے بے چین ہو میاں
برسے گا آسماں سے بچا اضطراب سب
اک عزم آہنی جو کیا معجزہ ہوا
پنجوں میں فاختہ کے دبے ہیں عقاب سب
اڑ جائیں گے یہ ہوش خلاؤں میں ایک دن
رہ جائے گی دھری کی دھری آب و تاب سب
ہو بے تکلفی کہ تکلف کی شکل میں
آتے ہیں محفلوں میں پہن کر نقاب سب
٭٭٭
اک چاند تیرگی میں ثمر روشنی کا تھا
پھر بھید کھل گیا وہ بھنور روشنی کا تھا
سورج پہ تو نے آنکھ تریری تھی ، یاد کر
بینائیوں پہ پھر جو اثر روشنی کا تھا
سب چاندنی کسی کی عنایت تھی چاند پر
اس داغدار شے پہ کور روشنی کا تھا
مغرب کی مد بھری ہوئی راتوں میں کھو گیا
اس گھر میں کوئی لختِ جگر روشنی کا تھا
دریا میں اس نے ڈوب کے کر لی ہے خودکشی
جس شے کا آسماں پہ سفر روشنی کا تھا
ذرے کو آفتاب بنایا تھا ہم نے اور
دھرتی پہ قہر شام و سضر روشنی کا تھا
٭٭٭
بیٹھے ہو جس کے خوف سے چھپ کر مچان پر
وہ شعر چڑھ رہا ہے سبھی کی زبان پر
واپس گرے گا تیر تمہاری کمان پر
اے دوست تھوکنا نہ کبھی آسمان پر
اک اجنبی زبان تمہاری غزل میں ہے
کس کا لکھا ہے نام تمہارے مکان پر
دل سے اتر کے شکل پہ بیٹھا ہوا ہے کون
قابض ہوا ہے کون تمہارے جہان پر
اس آئنے میں ایک ہتھوڑا ہے پتھرو!
بہتر ہو اب لگام لگا لیں زبان پر
تشنہ لبوں نے آنکھ جھکا لی ہے شرم سے
ہے ندیوں کا جسم کچھ ایسی اٹھان پر
سکڑا ہوا تھا دشت سہمتا تھا کوہسار
جب عشق کا جنوں تھا کسی نوجوان پر
ٹی شرٹ ڈٹ رہے ہو بڑھاپے میں اے مینک
کیوں رنگ پوتتے ہو پرانے مکان پر
٭٭٭
بچپن میں اس درخت پہ کیسا ستم ہوا
جو شاخ اس کی ماں تھی وہاں سے قلم ہوا
منصف ہو یا گواہ ، منائیں گے اپنی خیر
گر فیصلہ انا سے مری کچھ بھی کم ہوا
اک روشنی تڑپ کے یہ کہتی ہے بارہا
کیوں آسماں کا نور گھٹاؤں میں ضم ہوا
جھوٹے ہیں لب ترے یہ اسے کچھ خبر نہیں
جو بدنصیب شخص تمہارا خصم ہوا
یک لخت آ کے آج وہ مجھ سے لپٹ گیا
جو فاصلہ دلوں میں تھا اشکوں میں ضم ہوا
٭٭٭
اگر ہواؤں کے رخ مہرباں نہیں ہوتے
تو بجھتی آگ کے تیور جواں نہیں ہوتے
ہمیں قبول جو سارے جہاں نہیں ہوتے
میاں یقین کرو تم یہاں نہیں ہوتے
دلوں پہ برف زمیں ہے لبوں پہ صحرا ہے
کہیں خلوص کے جھرنے رواں نہیں ہوتے
ہم اس زمین کو اشکوں سے سبز کرتے ہیں
یہ وہ چمن ہے جہاں باغباں نہیں ہوتے
کہاں نہیں ہیں ہمارے بھی خیرخواہ ، مگر
جہاں گہار لگاؤ، وہاں نہیں ہوتے
ادھر تو آنکھ برستی ہے، دل دھڑکتا ہے
یہ سانحات تمہارے یہاں نہیں ہوتے
وفا کا ذکر چلایا تو ہنس کے بولے وہ
فضول کام ہمارے یہاں نہیں ہوتے
٭٭٭
حیا اتار چکی ہے لباس محفل میں
بجیں گے دیر تلک اب گلاس محفل میں
ملیں گے لوگ بظاہر جھکاس محفل میں
اگرچہ روح ہے سب کی اداس محفل میں
کب التفات ہو ساقی کا اور کس پر ہو
کہ منتظر ہے سبھی کا گلاس محفل میں
ہم ایک خواب ہیں بیدار چشمِ ساقی میں
کوئی نہ جان سکا روشناس محفل میں
جو شخص آپ کو پھولوں سے تول سکتا ہو
اسی کو آپ بھی ڈالیں گے گھاس محفل میں
بجھا بجھا سا ہے چشم و چراغِ محفل یوں
لگی تھی بھیڑ مرے آس پاس محفل میں
سیاہیوں سے سفیدی کا قتل کرنے لگے
کسی کے سر پہ کہاں ہے کپاس محفل میں
فلک کا چھور نہیں ہے سبھی کو ہے معلوم
پر اس پہ روز لگیں گے قیاس محفل میں
وہ ایک آگ گھروں کو جلا بھی دیتی ہے
جو ایک آگ بجھاتی ہے پیاس محفل میں
٭٭٭
کھلتی ہی نہیں آنکھ اجالوں کے بھرم سے
شب رنگ ہوا جاؤں میں سورج کے کرم سے
ترکیب یہی ہے اسے پھولوں سے ڈھکا جائے
چہرے کو بچانا بھی ہے پتھر کے صنم سے
اک جھیل سری کی ہے غزل دشتِ ادب میں
جو دور تھی، جو دور رہی، دور ہے ہم سے
آخر یہ کھلا وہ سبھی تاجر تھے گہر کے
جن کے بھی مراسم تھے میرے دیدۂنم سے
کیونکر وہ کسی میل کے پتھر پہ ٹھہر جائے
کیوں رند کی نسبت ہو ترے دیر و حرم سے
یہ میرے تخلص کا اثر مجھ پہ ہوا ہے
اب یاد نہیں اپنا مجھے نام قسم سے
٭٭٭
پہلے ہل مل کے بہی خواہ بھی ہو جاتا ہے
پھر یہ غم دل کا شہنشاہ بھی ہو جاتا ہے
جب اجالوں کی عنایت ہو مری راہوں پر
میرا سایہ مرے ہمراہ بھی ہو جاتا ہے
کون دشمن ہے ،بھنک دوست کو لگنے مت دو
دوست دشمن کی کمیں گاہ بھی ہو جاتا ہے
کچھ تو ہے دیر و حرم کی بھی صداؤں میں کشش
رند انسان کا گمراہ بھی ہو جاتا ہے
عشق شادی کی پناہوں کا مہاجر نہ ہوا
جس سے ہونا ہو سرِ راہ بھی ہو جاتا ہے
وہ جو قطرہ ہے سمندر کی صدا سننے پر
اپنے انجام سے آگاہ بھی ہو جاتا ہے
٭٭٭
تھکو نا آس کے پنچھی! اڑان باقی ہے
اداسیوں کا ابھی آسمان باقی ہے
نگاہِ ناز کو اقرار تک پہنچنے دے
سمجھ کی نیو پڑی ہے مکان باقی ہے
مزارِ دل میں پڑی حسرتوں کو سونے دے
سفر کے بعد سفر کی تھکان باقی ہے
دھرم کی جات کی دیمک سوال پوچھے ہے
بتاؤ کیا ابھی ہندوستان باقی ہے
سیاہ رات میں آندھی سوال پوچھے گی
مرے چراغ ترا امتحان باقی ہے
٭٭٭
اسے پہنو نہ پہنو کیا کبھی بد رنگ لگتا ہے
کسی سونے کے زیور پر کبھی کیا زنگ لگتا ہے
مجھے اپنی غزل ملک ادب کی حور لگتی ہے
جب اس بڑھیا کے گالوں پر کسی کا رنگ لگتا ہے
گلی میں آج بھی تنہا مرا محبوب رہتا ہے
مگر وہ راستہ مدت سے مجھ کو تنگ لگتا ہے
یہ میری قوت پرواز ہے میرا بیاں اب بھی
شکستہ ساز کی دھن کا کوئی آہنگ لگتا ہے
اسد کی میں حسد ہوں، میر کو دلگیر جیسا ہوں
مگر اک آئنہ مجھ کو سراسر سنگ لگتا ہے
وہ بے آواز ہے جس سے ہمیشہ بلبلاتا ہوں
پر اس پربت کے آگے ہر شتر پاسنگ لگتا ہے
میں گرگٹ ہوں تو جب شاخِ غزل سے رنگ چراتا ہوں
کسی تتلی کا ہنس پڑنا بڑا بیڈھنگ لگتا ہے
سکونِ دل نہ ہو تو محفلوں میں دل نہیں لگتا
ہر اک جلسہ کوئی جلسہ نہیں ہڑدنگ لگتا ہے
٭٭٭
کردار کھولتی ہے بیانات کی مہک
اس کے خطوں میں اب بھی ہے جذبات کی مہک
لادے نہیں ہوں پیٹھ پہ یہ بوجھ بے سبب
رکھتے سفر میں اب بھی ہے سوغات کی مہک
مغرب پکارتا ہے ہر اک آفتاب کو
پردے سے جھانکتی ہے جواں رات کی مہک
آنکھوں میں رنج لب پہ ہنسی بے سبب نہیں
دل کی بساط پر ہے کسی مات کی مہک
ہر زخم روشنی کا سبب بن گیا مجھے
اب دل کو خوشگوار ہے صدمات کی مہک
جو بات تم سے کہہ نہ سکا فون پر مینک
لازم ہے شاعری میں اسی بات کی مہک
٭٭٭
جب اس میں جوڑ کے تجھ کو تجھے گھٹاتے ہیں
ترے بیان کا سچ کیا ہے جان جاتے ہیں
یہ سنگ میل، کہو، سنگ راہ بن جائے
قدم بڑھاؤ تو منظر بدل سے جاتے ہیں
کسی کا قرض اترنے نہ دیں گے اس دل سے
ہر ایک زخم کو ناسور ہم بناتے ہیں
اداس دل کے شراروں کو کہکشاں کہہ کے
یہ آسمان حقیقت کوئی چھپاتے ہیں
یہ ناتواں قراری شکست دیتا ہے
جب اپنے دل پہ کوئی زور آزماتے ہیں
کبھی ملی تھی تری منزلِ مراد کہیں
مرے سفر میں مراحل تمام آتے ہیں
ندی سے پیاس بجھائیں یہی مناسب ہے
ہم اسپے حرف وفا کس لیے بناتے ہیں
٭٭٭
تمناؤں کو جیسے قوت ِ پرواز دیتی ہے
مری پہلی محبت دور سے آواز دیتی ہے
زمانے سے چھپا کے خود کو مجھ پہ کھول دیتی ہے
اشاروں کی زباں سے وہ بدن کے راز دیتی ہے
غزل کے تاج محلوں میں محبت دفن کرنے کی
کوئی آہٹ مجھے اکثر مری ممتاز دیتی ہے
میں وہ محبوب جو دو شیزگی کے سچ سے واقف ہوں
خبر دنیا کو لیکن کب نگاہِ ناز دیتی ہے
وہ دل نغمے سنانے کے لئے بے چین رہتا تھا
مگر ہاتھوں میں قسمت بس شکستہ ساز دیتی ہے
میں اس کی مے کو اپنی زندگی کی مے سمجھتا ہوں
وفا دل کو کہاں سننے صحیح الفاظ دیتی ہے
٭٭٭
اسی خاطر تو اس کی آرتی ہم نے اتاری ہے
غزل بھی ماں ہے اور اس کی بھی شعروں/شیروں کی سواری ہے
محبت دھرم ہے ہم شاعروں کا دل پجاری ہے
ابھی فرقہ پرستوں پر ہماری نسل بھاری ہے
ستارے ، پھول، جگنو، چاند، سورج ہیں ہمارے سنگ
کوئی سرحد نہیں ایسی عجب دنیا ہماری ہے
وہ دل کے درد کی خوشبو کا عالم ہے کہ مت پوچھو
تمہاری راہ میں یہ عمر جنت میں گزاری ہے
یہ دنیا کیا سدھارے گی ہمیں، ہم تو ہیں دیوانے
ہمیں لوگوں نے اب تک عقل دنیا کی سدھاری ہے
٭٭٭
مرے آگے بڑی مشکل کھڑی ہے
مری شہرت مرے قد سے بڑی ہے
کئی صدیوں سے اس کی منتظر تھی
پر اب نرگس پھپھک کر رو پڑی ہے
ہواؤں میں جو چنگاری تھی اب تک
وہ اب جنگل کے دل میں جا پڑی ہے
کوئی آتش فشاں ہے دل میں میرے
بظاہر لب پہ کوئی پھلجھڑی ہے
ترا جوتا سبھی سیدھا کریں گے
تیرے جوتے میں چاندی جو جڑی ہے
ادھر اک در ادھر اس گھر کی عزت
ابھی دہلیز پہ لڑکی کھڑی ہے
٭٭٭
ماخذ: کوتا کوش ڈاٹ آرگ اور لفظ ڈاٹ ورڈ پریس ڈاٹ کام
ہندی سے رسم الخط کی تبدیلی، لرن پنجابی ڈاٹ آرگ کی ویب سائٹ سے
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید