فہرست مضامین
- غزوات
- غزوہ کی لغوی تعریف
- غزوات کی ابتدا
- ۱۔ غزوۃ الابواء (ودّان )
- ۲۔ غزوہ بواط
- ۳۔ غزوۃ العشیرۃ
- ۴۔غزوہ بدر الاولی/سفوان
- ۵۔غزوہ بدر الکبری
- ۶۔غزوہ بنی سلیم
- ۷۔غزوہ بنی قینقاع
- ۸۔غزوۃ السویق
- ۹۔ غزوہ ذی أمر
- ۱۰۔ غزوہ نجران
- ۱۱۔ غزوہ احد
- ۱۲۔ غزوہ حمر الاسد
- ۱۳۔ غزوہ بنی النضیر
- ۱۴۔ غزوہ ذات الرقاع
- ۱۵۔ غزوہ بدر الآخرۃ
- ۱۶۔ غزوہ دومۃ الجندل
- ۱۷۔ غزوہ بنی المصطلق
- ۱۸۔ غزوۃ الخندق/ الاحزاب
- ۱۹۔ غزوہ بنی قریظہ
- ۲۰۔غزوہ بنی لحیان
- ۲۱۔غزوہ ذی قرد یا غابہ
- ۲۲۔ غزوۃ الحدیبیۃ / صلح الحدیبیۃ
- ۲۳۔ غزوہ خیبر
- ۲۴۔ غزوہ عمرۃ القضا
- ۲۵۔غزوہ فتح مکہ
- ۲۶۔ غزوہ حنین
- ۲۷۔ غزوۃ الطائف
- ۲۸۔ غزوہ تبوک
- غزوات میں شہادتوں اور ہلاکتوں کے اعداد و شمار کا اجمالی خاکہ
- عہد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی مہذب اقوام کا ظلم
غزوات
ڈاکٹر ابو عبد اللہ مقبول احمد مکی
غزوہ کی لغوی تعریف
۱۔ ایک دفعہ جنگ کرنا ، غَزَا ، یَغزُو ، غَزواً سے ماخوذ جس کا معنٰی طلب کرنا ، قصد کرنا۔ کہا جاتا ہے : عرفتُ ما یغزی من ہذا الکلام ۔ یعنی اس کلام کے مقصود کو میں نے جان لیا۔
۲۔ غَزَا العدوَّ غَزواً و غَزَواناً القومَ جس کا معنی ہے کسی قوم سے جنگ کے لیے چلنا،جہاد کیلئے نکلنا اور غزوہ کی جمع غزوات ۔
غزوۃ کی اصطلاحی تعریف
وہ جہاد فی سبیل اللہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنفس نفیس شرکت فرمائی ہو۔
غزوات کی ابتدا
ماہ ربیع الاول ۲ ہجری کو مشرکین مکہ کا ایک آدمی کرز بن جابر الفہری مدینہ منورہ پہنچا اور مسلمانوں کے مویشی چوری کر کے واپس مکہ پہنچنے میں کامیاب ہو گیا جس نے یہ باور کرانے کی کوشش کی گی کہ ۴۲۴ کلو میٹر کے فاصلے پر ہونے کے باوجود بھی مسلمان ہماری دسترس میں ہیں۔
پھر ماہ مقدس رمضان المبارک ۲ ہجری کو ابو جہل نے مکہ میں مشہور کر دیا کہ تمہارا تجارتی قافلہ جو شام سے مال و متاع لیکر واپس آ رہا ہے مسلمان اسے لوٹ لیں گے اس لیے اس کی حفاظت کے لیے مدینہ کی طرف نکلو ۔ یہ اعلان سننے کے بعد وہ سب لوگ جن کا مال اس قافلے میں تھا یا کوئی رشتہ دار اس قافلے میں شامل تھا وہ سب مسلمان کے خلاف جنگ کے لیے مدینہ کی طرف کوچ کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہزار کا فوجی لشکر تیار ہو گیا مگر جس قافلے کی حفاظت کا ناٹک کر کے عسکری اجتماع ہوا تھا وہ مکہ میں با حفاظت پہنچ گیا تھا اس کے باوجود ابو جہل کا لشکر مدینہ پر چڑھائی کے لیے آگے بڑھتا رہا ہے ۔ دوسری طرف صورت حال یہ تھی کہ مسلمانوں کو ابھی تک جنگ کی اجازت نہ ملی تھی اور اسلام کا جنگ سے واسطہ بھی کیا۔ کیونکہ اسلام تو امن وسلامتی ، صلح و فروتنی کا مذہب، جو مذہب کائنات کے لیے صلح کا پیغام لے کر آیا ہو جس کا قائد ایمان والوں کو عاجزی وانکساری اور متواضع رہنے کا حکم دیں وہ جنگ کیسے کرتے۔
یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں نے بغیر کسی تردد کے گھر بار، مال و متاع کو مکہ میں چھوڑ دیا ۔ حبشہ اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے مگر ایسی صورت حال بن چکی تھی کہ جنگ کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہ تھا اگر اب بھی مسلمان اپنا دفاع نہ کرتے تو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیئے جاتے اور سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا کہ توحید کی دعوت دینے والا کوئی نہ رہتا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی سورۂ حج کی یہ آیات نازل فرما کر مسلمانوں کو جہاد کی اجازت عطا فرما دی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّـہمْ ظُلِمُوْا ۭ وَاِنَّ اللہ عَلٰي نَصْرِہمْ لَقَدِيْرُۨ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللہ ۭ وَلَوْلَا دَفْعُ اللہ النَّاسَ بَعْضَہمْ بِبَعْضٍ لَّہدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْکرُ فِيْہا اسْمُ اللہ کثِيْرًا ۭوَلَيَنْصُرَنَّ اللہ مَنْ يَّنْصُرُہ ۭ اِنَّ اللہ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ(الحج:۳۹۔۴۰)
اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے ، کیونکہ وہ مظلوم ہیں ، اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے ۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے ’’ ہمارا رب اللہ ہے ‘‘ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں ، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے ، سب مسمار کر ڈالی جائیں ۔ اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے ۔ اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے ۔
نیز فرمایا :
قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہ وَرَسُوْلُہ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْکتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَۃ عَنْ يَّدٍ وَّہمْ صٰغِرُوْنَ (التوبۃ:۲۹)
جنگ کرو اہلِ کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دینِ حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (اُن سے لڑو ) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔
ان تمام مذکورہ بالا وجوہات کی بنا مسلمانوں نے اسلام کے دفاع کے لیے باوجود قلیل اور بے سروسامان ہونے کے مشرکین مکہ کو جو کہ مدینہ منورہ پر حملہ آور ہو رہے تھے ۔ مدینہ سے باہر روکنے کی کوشش اور تلوار اٹھانے کا فیصلہ کیااس کے بعد جو غزوات پیش آئے، ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ غزوۃ الابواء (ودّان )
۲۔ غزوہ بواط
۳۔ غزوۃ العشیرۃ
۴۔غزوہ بدر الاولی
۵۔غزوہ بدر الکبری
۶۔غزوہ بنی سلیم
۷۔غزوہ بنی قینقاع
۸۔غزوۃ السویق
۹۔ غزوہ ذی أمر
۱۰۔ غزوہ نجران
۱۱۔ غزوہ احد
۱۲۔ غزوہ حمر الاسد
۱۳۔ غزوہ بنی النضیر
۱۴۔ غزوہ ذات الرقاع
۱۵۔ غزوہ بدر الآخرہ
۱۶۔ غزوہ دومۃ الجندل
۱۷۔ غزوہ بنی المصطلق
۱۸۔ غزوۃ الخندق/ الاحزاب
۱۹۔ غزوہ بنی قریظہ
۲۰۔غزوہ بنی لحیان
۲۱۔ غزوہ ذی قرد
۲۲۔ غزوۃ الحدیبیۃ / صلح الحدیبیۃ
۲۳۔ غزوہ خیبر
۲۴۔ غزوہ عمرۃ القضاء
۲۵۔غزوہ فتح مکہ
۲۶۔ غزوہ حنین
۲۷۔ غزوۃ الطائف
۲۸۔ غزوہ تبوک
ان غزوات کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
۱۔ غزوۃ الابواء (ودّان )
اس مہم میں ستر مہاجرین کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بہ نفسِ نفیس تشریف لے گئے تھے اور مدینے میں سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام مقرر فرما یا تھا۔ مہم کا مقصد قریش کے ایک قافلے کی راہ روکنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وَدَّان تک پہنچے لیکن کوئی معاملہ پیش نہ آیا۔
اسی غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو ضمرہ کے سردارِ وقت عمرو بن مخشی الضمری سے حلیفانہ معاہدہ کیا۔
یہ پہلی فوجی مہم تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بذات خود تشریف لے گئے تھے اور پندرہ دن مدینے سے باہر گزار کر واپس آئے۔ اس مہم کے پرچم کا رنگ سفید تھا اور سیدناحمزہ رضی اللہ عنہ علمبردار تھے۔
۲۔ غزوہ بواط
اس مہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دو سو صحابہ رضی اللہ عنہم کو ہمراہ لے کر روانہ ہوئے۔ مقصود قریش کا ایک قافلہ تھا جس میں امیہ بن خلف سمیت قریش کے ایک سو آدمی اور ڈھائی ہزار اونٹ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم رضویٰ کے اطراف میں مقام بُواط تک تشریف لے گئے لیکن کوئی معاملہ پیش نہ آیا۔اس غزوہ کے دوران سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو مدینے کا امیر بنایا گیا تھا۔ پرچم سفید تھا اور علمبردار سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔
۳۔ غزوۃ العشیرۃ
اس مہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ڈیڑھ یا دو سو مہاجرین تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی کو روانگی پر مجبور نہیں کیا تھا۔ سواری کے لیے صرف تیس اونٹ تھے۔ اس لیے لوگ باری باری سوار ہوتے تھے۔ مقصود قریش کا ایک قافلہ تھا جو ملک شام جا رہا تھا اور معلوم ہوا تھا کہ یہ مکے سے چل چکا ہے۔ اس قافلے میں قریش کا خاصا مال تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی طلب میں ذوالعشیرہ تک پہنچے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پہنچنے سے کئی دن پہلے ہی قافلہ جا چکا تھا۔ یہ وہی قافلہ ہے جسے شام سے واپسی پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے گرفتار کرنا چاہا تو یہ قافلہ تو بچ نکلا لیکن جنگِ بدر پیش آ گئی۔
اس غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو مُد لِجْ اور ان کے حلیف بنو ضَمْرہ سے عدم جنگ کا معاہدہ کیا۔
ایامِ سفر میں مدینہ کی سربراہی کا کام سیدناابو سلمہ بن عبدالاسد مخزومی رضی اللہ عنہ نے انجام دیا۔ اس دفعہ بھی پرچم سفید تھا اور علمبردار سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ تھے۔
۴۔غزوہ بدر الاولی/سفوان
اس غزوہ کی وجہ یہ تھی کہ کرزبن جابر فہری نے مشرکین کی ایک مختصر سی فوج کے ساتھ مدینے کی چراہ گاہ پر چھاپا مارا اور کچھ مویشی لوٹ لیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ستر صحابہ کے ہمراہ اس کا تعاقب کیا اور بدر کے اطراف میں واقع وادی سفوان تک تشریف لے گئے لیکن کرز اور اس کے ساتھیوں کو نہ پا سکے اور کسی ٹکراؤ کے بغیر واپس آ گئے۔ اس غزوہ کو بعض مؤرخین غزوہ بدر اولیٰ بھی کہتے ہیں۔
اس غزوہ کے دوران مدینے کی امارت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو سونپی گئی تھی۔ علم سفید تھا اور علمبردار سیدناعلی رضی اللہ عنہ تھے۔
۵۔غزوہ بدر الکبری
تاریخ:17 رمضان 2ھ بمطابق 17 مارچ 624ء
مقام: بدر، مدینہ سے 80 میل جنوب مغرب
نتیجہ: مسلمانوں کی عظیم فتح
متحارب: مسلمانانِ مدینہ و مشرکین مکہ
قوت: مسلمان: 313مجاہدین۔
کفار : 1000
نقصانات: 14 مسلمان شہید ہوئے۔
70 ہلاکتیں بشمول ابوجہل،اور70 قیدی
کفار مکہ اور مسلمانوں کے درمیان پہلا معرکہ، جس میں مسلمان تعداد اور اسباب میں کم ہونے کے باوجود فتح یاب ہوئے۔
غزوۂ بدر کی وجہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ کی سرزمین میں اعلان حق کیا تو معاشرے کے مخلص ترین افراد ایک ایک کر کے داعی اسلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے۔ وہ لوگ جن کے مفادات پرانے نظام سے وابستہ تھے تشدد پر اتر آئے نتیجہ ہجرت تھا۔ لیکن تصادم اس کے باوجود بھی ختم نہ ہوا۔ اسلام مدینہ میں تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور یہ بات قریش مکہ کے لیے بہت تکلیف دہ تھی اور وہ مسلمانوں کو ختم کرنے کے منصوبے بناتے رہتے تھے اور مسلمان ہر وقت مدینہ پر حملے کا خدشہ رکھتے تھے۔ اس صورتحال کی نزاکت کا یہ عالم تھا کہ صحابہ ہتھیار لگا کر سوتے تھے اور خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اسی طرح کی حفاظتی تدابیر اختیار کرتے تھے۔
قریش مکہ نے مدینہ کی اس اسلامی ریاست پر حملہ کرنے کا اس لیے بھی فیصلہ کیا کہ وہ شاہراہ جو مکہ سے شام کی طرف جاتی تھی مسلمانوں کی زد میں تھی۔ اس شاہراہ کی تجارت سے اہل مکہ کو لاکھوں اشرفیوں کی سالانہ آمدنی حاصل ہوتی تھی ۔
غزوہ بدر کی اہمیت
غزوہ بدر اسلام اور کفر کا پہلا اور اہم ترین معرکہ تھا اس سے دنیا پر واضح ہو گیا کہ نصرت الہی کی بدولت مومنین اپنے سے کئی گناہ فوج کو شکست دے سکتے ہیں۔ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں سو مومنوں کو ہزار کافروں پر فتح کی بشارت دی۔ غزوہ بدر میں شامل مسلمانوں نے جس قوت ایمانی کا مظاہرہ کیا اس کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ باپ بیٹے کے خلاف اور بیٹا باپ کے خلاف۔ بھانجا ماموں کے خلاف اور چچا بھتیجے کے خلاف میدان میں آیا۔ سیدنا عمر نے اپنے ماموں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ سیدنا ابوبکر کے صاحبزادے عبدالرحمن نے جو قریش کی طرف سے جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ اسلام لانے کے بعد ایک دفعہ سیدنا ابوبکر کو بتایا کہ جنگ میں ایک مرتبہ آپ میری زد میں آ گئے تھے لیکن میں نے آپ پر وار کرنا پسند نہ کیا۔ سیدنا ابوبکر نے فرمایا اللہ کی قسم اگر تم میری زد میں آ جاتے تو کبھی لحاظ نہ کرتا۔ سیدنا حذیفہ کا باب عتبہ بن ربیعہ لشکر قریش کا سپہ سالار تھا اور سب سے پہلے قتل ہونے والوں میں شامل تھا۔ اس جنگ کا ایک اور پہلو یہ تھا کہ مسلمانوں نے بہت نظم و ضبط سے دشمن کا مقابلہ کیا اور اپنی صفیں نہیں ٹوٹنے دیں۔ جنگ کے خاتمے پر اللہ اور رسول معظم صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کے تحت مال غنیمت کی تقسیم ہوئی۔ مال غنیمت کی اتنی پر امن اور دیانت دارانہ تقسیم کی مثال کم ہی ملتی تھی۔ القصہ مختصر مسلمانوں کے تقوی اور اطاعت رسول کی وجہ سے ان کی برتری روز روشن کی طرح ثابت ہو گئی اور کفار کے حوصلے پست ہوئے۔ جب کی مسلمانوں کا اللہ پر توکل بہت بڑھ گیا۔
۶۔غزوہ بنی سلیم
غزوۂ بدر کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو مصدقہ اطلاع ملی کہ قبیلۂ غطفان کی شاخ بنوسلیم کے لوگ مدینے پر چڑھائی کے لیے فوج جمع کر رہے ہیں۔ اس کے جواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسو سواروں کے ساتھ ان پر خود ان کے اپنے علاقے میں اچانک دھاوا بول دیا اور مقام کُدر (بنوسلیم کا ایک چشمہ)میں ان کی منازل تک جا پہنچے۔ بنو سلیم میں اس اچانک حملے سے بھگدڑ مچ گئ اور وہ افراتفری کے عالم میں وادی کے اندر پانچ سو اونٹ چھوڑ کر بھاگ گئے جس پر لشکر مدینہ نے قبضہ کر لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا خمس نکال کر بقیہ مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم کر دیا ۔ ہر شخص کے حصے میں دو دو اونٹ آئے۔ اس غزوے میں یسارنامی ایک غلام ہاتھ آیا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کر دیااس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیار بنی سلیم میں تین روز قیام فرما کر مدینہ پلٹ آئے۔
۷۔غزوہ بنی قینقاع
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف لانے کے بعد یہود کے ساتھ کچھ معاہدات فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پوری کوشش اور خواہش تھی کہ اس معاہدے میں جو کچھ طے پا گیا ہے وہ نافذ رہے، چنانچہ مسلمانوں کی طرف سے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جو اس معاہدے کی عبارت کے کسی ایک حرف کے بھی خلاف ہو۔ لیکن یہود جن کی تاریخ غدر و خیانت اور عہد شکنی سے پر ہے وہ بہت جلد اپنے قدیم مزاج کی طرف پلٹ گئے اور مسلمانوں کی صفوں کے اندر وسیسہ کا ری، سازش، لڑانے بھڑانے اور ہنگامے اور اضطراب بپا کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔
ابن ہشام نے ابوعون سے روایت کی ہے کہ ایک عرب عورت بنوقینقاع کے بازار میں کچھ سامان لے کر آئی اور بیچ کر (کسی ضرورت کے لیے)ایک سنار کے پاس ، جو یہودی تھا، بیٹھ گئی۔ یہودیوں نے اس کا چہرہ کھلوانا چاہا مگر اس نے انکار کر دیا۔ اس پر اس سنار نے چپکے سے اس کے کپڑے کا نچلا کنارا پشت پر باندھ دیا اور اسے کچھ خبر نہ ہوئی۔ جب وہ اٹھی تو اس سے بے پردہ ہو گئی تو یہودیوں نے قہقہہ لگایا۔ اس پر اس عورت نے چیخ پکار مچائی جسے سن کر ایک مسلمان نے اس سنار پر حملہ کیا اور اسے مار ڈالا۔ جوابا ً یہودیوں نے اس مسلمان پر حملہ کر کے اسے مار ڈالا۔ اس کے بعد مقتول مسلمان کے گھر والوں نے شور مچایا اور یہود کے خلاف مسلمانوں سے فریاد کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اور بنی قینقاع کے یہودیوں میں بلوہ ہو گیا۔
محاصرہ، سپردگی اور جلاوطنی:اس واقعے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کا انتظام ابولبابہ بن عبد المنذر رضی اللہ عنہ کو سونپا اور خود، سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں مسلمانوں کا پھریرا وے کر اللہ کے لشکر کے ہمراہ بنوقینقاع کا رخ کیا۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو گڑھیوں میں قلعہ بند ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا سختی سے محاصرہ کر لیا۔ یہ جمعہ کا دن تھا اور شوال سنہ2ھ کی 15 تاریخ-پندرہ روز تک بھی یعنی ہلال ذی القعدہ کے نمودار ہونے تک بھی محاصرہ جاری رہا۔ پھر اللہ تعالی نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا جس کی سنت ہی یہ ہے کہ جب وہ کسی قوم کو شکست و ہزیمت سے دوچار کرنا چاہتا ہے تو ان کے دلوں میں رعب ڈال دیتا ہے، چنانچہ بنوقینقاع نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دیئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی جان و مال، آل و اولاد اور عورتوں کے بارے میں جو فیصلہ کریں گے انہیں منظور ہو گا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان سب کو باندھ لیا گیا۔
لیکن یہی موقع تھا جب عبد اللہ بن ابی نے اپنا منافقانہ کردار ادا کیا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت اصرار و الحاح کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں معافی کا حکم صادر فرمائیں۔
اس نے کہا: ’’اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)!میرے معاہدین کے بارے میں احسان کیجئے‘‘–واضح رہے کہ بنوقینقاع خزرج کے حلیف تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاخیر کی۔ اس پر اس نے اپنی بات پھر دہرائی۔ مگر اب کی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اپنا رخ پھیر لیا۔ لیکن اس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گریبان میں اپنا ہاتھ ڈال دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھے چھوڑ دو! اور ایسے غضبناک ہوئے کہ لوگوں نے غصے کی پرچھائیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر دیکھیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تجھ پر افسوس، مجھے چھوڑ۔ لیکن یہ منافق اپنے اصرار پر قائم رہا اور بولا:’’نہیں بخدا میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا یہا ں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے معاہدین کے بارے میں احسان فرمادیں۔ چار سو کھلے جسم کے جوان اور تین سوزرہ پوش جنہوں نے مجھے سرخ وسیاہ سے بچایا تھا آپ انہیں ایک ہی صبح میں کاٹ کر رکھ دیں گے؟ واللہ! میں زمانے کی گردشوں کا خطرہ محسوس کر رہا ہوں‘‘۔
بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس منافق کے ساتھ (جس کے اظہار اسلام پر ابھی کوئی ایک ہی مہینہ گذرا تھا)رعایت کا معاملہ کیا اور اس کی خاطر ان سب کی جان بخشی کر دی البتہ انہیں حکم دیا کہ وہ مدینے سے نکل جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں نہ رہیں، چنانچہ یہ سب یہود شام کی طرف چلے گئے اور تھوڑے ہی دنوں بعد وہاں اکثر کی موت واقع ہو گئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اموال ضبط کر لیے۔ جن میں سے تین کمانیں، دو زرہیں،تین تلواریں اور تین نیزے اپنے لیے منتخب فرمائے اور مال غنیمت میں سے خمس بھی نکالا۔ غنائم جمع کرنے کا کام محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے انجام دیا۔
۸۔غزوۃ السویق
ایک طرف صفوان بن امیہ، یہود اور منافقین اپنی اپنی سازشوں میں مصروف تھے تو دوسری طرف ابوسفیان بھی کوئی ایسی کاروائی انجام دینے کی تیاری میں تھا جس سے بار کم سے کم پڑے لیکن اثر نمایاں ہو۔ وہ ایسی کاروائی جلد از جلد انجام دے کر اپنی قوم کی آبرو کی حفاظت اور ان کی قوت کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔ اس نے نذر مان رکھی تھی کہ جنابت کے سبب اس کے سرکو پانی نہ چھوسکے گا یہاں تک کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے لڑائی کر لے۔ چنانچہ وہ اپنی قسم پوروی کرنے کے لیے دوسو سواروں کو لے کر روانہ ہوا۔ اور وادی قناۃ کے سرے پر واقع نیب نامی ایک پہاڑی کے دامن میں خیمہ زن ہوا مدینے سے اس کا فاصلہ کوئی بارہ میل ہے، لیکن چونکہ ابو سفیان کو مدینے پر کھلم کھلا حملے کی ہمت نہ ہوئی اس لیے اس نے ایک ایسی کاروائی انجام دی جسے ڈاکہ زنی سے ملتی جلتی کاروائی کہا جا سکتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ رات کی تاریکی میں اطراف مدینہ کے اندر داخل ہوا اور حیی بن اخطب کے پاس جا کر اس کا دروازہ کھلوایا۔ حیی نے انجام کے خوف سے انکار کر دیا۔ ابوسفیان پلٹ کر بنونضیر کے ایک دوسرے سردار سلام بن مشکم کے پاس پہنچا جو بنونضیر کا خزانچی بھی تھا۔ ابوسفیان نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ اس نے اجازت بھی دی اور مہمان نوازی بھی کی۔ خوراک کے علاوہ شراب بھی پلائی اور لوگوں کے پس پردہ حالات سے آگاہ بھی کیا۔ رات کے پچھلے پہر ابوسفیان وہاں سے نکل کر اپنے ساتھیوں میں پہنچا اور ان کا ایک دستہ بھیج کر مدینے کے اطراف میں عریض نامی ایک مقام پر حملہ کرا دیا۔ اس دستے نے وہاں کھجور کے کچھ درخت کاٹے اور جلائے اور ایک انصاری اور اس کے حلیف کو ان کے کھیت میں پاکر قتل کر دیا اور تیزی سے مکہ واپس بھاگ نکلا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واردات کی خبر ملتے ہی تیز رفتاری سے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کا تعاقب کیا لیکن وہ اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے بھاگے، چنانچہ وہ لوگ تو دستیاب نہ ہوئے لیکن انہوں نے بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ستو، توشے اور بہت ساسازوسامان پھینک دیا تھا جو مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرکرۃ الکدر تک تعاقب کر کے واپسی کی راہ لی۔ مسلمان ستو وغیرہ لاد پھاند کر واپس ہوئے اور اس مہم کا نام غزوۂ سویق رکھ دیا یہ غزوۂ بدر کے صرف دو ماہ بعد ذی الحجہ سنہ2ھ میں پیش آیا۔ اس غزوے کے دوران مدینے کا انتظام ابولبابہ بن عبد المنذر رضی اللہ عنہ کو سونپا گیا تھا۔
۹۔ غزوہ ذی أمر
معرکۂ بدر واحد کے درمیانی عرصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر قیادت یہ سب سے بڑی فوجی مہم تھی جو محرم سنہ3ھ میں پیش آئی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مدینے کے ذرائع اطلاعات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع فراہم کی کہ بنو ثعلبہ اور محارب کی بہت بڑی جمعیت مدینے پر چھاپہ مارنے کے لیے اکٹھی ہو رہی ہے۔یہ اطلاع ملتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا اور سوارو پیادہ پر مشتمل ساڑھے چارسو کی نفری کے ساتھ روانہ ہوئے اور سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو مدینے میں اپنا جانشین مقرر فرمایا۔
راستے میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے بنوثعلبہ کے جبار نامی ایک شخص کو گرفتار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی۔ اس نے اسلام قبول کر لیا۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی رفاقت میں دے دیا اور اس نے راہ شناس کی حیثیت سے مسلمانوں کو دشمن کی سرزمین تک راستہ بتایا۔
ادھر دشمن کو جیش مدنیہ کی آمد کی خبر ہوئی تو وہ گردو پیش کی پہاڑیوں میں بکھر گئے لیکن نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش قدمی جاری رکھی اور لشکر کے ہمراہ اس مقام تک تشریف لے گئے جسے دشمن نے اپنی جمیعت کی فراہمی کے لیے منتخب کیا تھا۔ یہ درحقیقت ایک چشمہ تھا جو ’’ذی امر‘‘ کے نام سے معروف تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں بدوؤں پر رعب و دبدبہ قائم کرنے اور انہیں مسلمانوں کی طاقت کا احساس دلانے کے لیے صفر(سنہ3ھ)کا تقریباً پورا مہینہ گذار دیا اور اس کے بعد مدینہ تشریف لائے۔
۱۰۔ غزوہ نجران
یہ ایک بڑی فوجی مہم تھی جس کی تعداد تین سو تھی ۔ اس فوج کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ ربیع الآخر 3ھ میں نجران نامی ایک علاقے کی طرف تشریف لے گئے تھے ۔۔ یہ حجاز کے اندر فرع کے اطراف میں ایک معدنیاتی مقام ہے ۔۔ اور ربیع الآخر اور جمادی الاولٰی کے دو مہینے وہیں قیام فرما رہے ۔ اس کے بعد مدینہ واپس تشریف لائے ۔ کسی قسم کی لڑائی سے سابقہ پیش نہ آیا ۔
۱۱۔ غزوہ احد
احد کا پہاڑ جس کے دامن میں غزوہ احد لڑی گئی
تاریخ: 7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء)
مقام: احد
نتیجہ: مسلمانوں کا پلڑا بھاری رہا
متحارب: مسلمانانِ مدینہ و مشرکین مکہ
قوت: مسلمانوں کی تعداد:1000 سے کم
کفار مکہ کی تعداد :3200
نقصانات: مسلمانوں کی 75 شہادتیں
اور کفار کی27 ہلاکتیں
جنگ احد ماہِ شوال 3ھ میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔جس سے کہا جا سکتا ہے کہ فتح مسلمانوں کی ہوئی تھی۔
۱۲۔ غزوہ حمر الاسد
(شوال۳ہجری)
اُحد میں دونوں فوجیں جب میدان جنگ سے الگ ہوئیں تو مسلمان زخموں سے چُور تھے تا ہم یہ خیال کر کے کہ ابو سفیان مسلمانوں کو مغلوب سمجھ کر دوبارہ حملہ آور نہ ہو،آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ کون اُن کا تعاقب کرے گا، فوراًستّر آدمیوں کی ایک جماعت اس مہم کے لئے تیار ہو گئی جن میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ و سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔(صحیح بخاری)
ابو سفیان اُحد سے روانہ ہو کر جب مقام روحا پہنچا تو یہ خیال آیا کہ کام نا تمام رہ گیا ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو پہلے ہی سے گمان تھا، چنانچہ اُحد کی لڑائی کے دوسرے دن ۸ شوال ۳ہجری کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا عبداللہ بن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر فرمایا اور مجاہدین کے ساتھ ابو سفیان کے تعاقب کے لئے روانہ ہوئے، عَلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا، مدینہ سے آٹھ میل دور مکہ جانے والی شاہراہ پر حمراء الا سد کے مقام پر خیمہ زن ہوئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بنی اسلم کے تین آدمیوں کو قریش کی جانب بطور مخبر روانہ فرمایا تھا، وہ دوبارہ حملہ کی خبرسن کر لوٹ رہے تھے کہ ان میں سے دو پکڑے گئے اور شہید کر دئیے گئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم ابھی حمراء الا سد میں مقیم تھے کہ قبیلہ خزاعہ کا سردار معبد بن ابی معبد خزاعی جو اس وقت تک ایمان نہیں لایا تھا، لیکن در پردہ اسلام کا طرفدار تھا شہدائے اُحد کی تعزیت کے لئے آیا اور واپس جا کر ابو سفیان سے ملا اور کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ تمہارے تعاقب کے لئے آرہے ہیں اس لئے ان کا مقابلہ نا ممکن ہے ، اس نے ابو سفیان کو اپنے ارادہ سے باز رہنے کے لئے مشورہ دیا، ابو سفیان کودو بارہ حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی اور وہ واپس چلا گیا، اس مہم میں قتال کی نوبت نہیں آئی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم حمراء الاسد میں تین روز قیام کے بعد ۱۳شوال کو مدینہ لوٹ آئے ،آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مدینہ واپسی سے پہلے ابو عزّہ جمہی پکڑا گیا جس کو بدر میں گرفتاری کے بعد اس کے فقر اور زیادہ لڑکیاں ہونے کے سبب اس شرط پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف کسی سے تعاون نہیں کرے گا،لیکن اسے نے وعدہ خلافی کی اور اپنے اشعار کے ذریعہ رسول معظم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف لوگوں کو اکسایا اور پھر خود مسلمانوں سے لڑنے کے لئے احد میں آیا مگر گرفتار ہوا ، اس نے اپنی بچیوں کی خاطررسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم سے درخواست کی کہ اسے رہا کر دیں اور وعدہ کیا کہ دوبارہ وعدہ خلافی نہیں کرے گا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم مکہ جا کر اپنے رخسار پر ہاتھ پھیرو اور کہو کہ میں نے محمد( صلی اللہ علیہ و سلم ) کو دو مرتبہ دھوکا دیا، مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ یا حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اس کو قتل کر دیں۔
۱۳۔ غزوہ بنی النضیر
غزوۂ بنی نضیر کے متعلق اہل سیر کی رائے ہے کہ یہ ۴ ہجری کا واقعہ ہے، بخاری شریف میں ہے کہ ابن اسحاق نے بیر معونہ اور اُحد کے بعد کا واقعہ قرار دیا ہے ، ارباب حدیث کی رائے یہ ہے کہ یہ غزوہ‘ غزوۂ اُحد سے پہلے اور غزوۂ بدر کے چھ ماہ بعد کا واقعہ ہے، بخاری میں زہری کی روایت سیدہ اروہ رضی اللہ عنہا سے یہی ہے، اہل سیر نے غزوۂ بنی نضیر کا سبب یہ لکھا ہے کہ بیر معونہ کے واقعہ کے بعد سیدنا عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہا نے قبیلہ عامر کے دو آدمی قتل کر دئے تھے اور جن کا خوں بہا واجب الادا تھا، اور جس کا ایک حصہ معاہدہ کی رُو سے بنو نضیر پر واجب الادا تھا، اس کے مطالبہ کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو نضیر کے پاس تشریف لے گئے ، انھوں نے قبول کیا لیکن درپردہ یہ سازش کی کہ ایک شخص چپکے سے بالا خانہ پر چڑھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر پتھر گرا دے، اتفاق سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت بالا خانہ کی دیوار کے سایہ میں کھڑے تھے، عمرو بن حجاش ایک یہودی اس ارادہ سے کوٹھے پر چڑھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کے ارادہ کا حال معلوم ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم فوراً مدینہ واپس چلے آئے، صحابہ رضی اللہ عنہم کے استفسار پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہود نے بدعہدی کا ارادہ کیا تھا اور اﷲ نے مجھے خبر دی اس لئے میں چلا آیا،بہت پہلے قریش نے بنو نضیر کو کہلا بھیجا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کر دو ورنہ ہم خود آ کر تمہارا اسیتصال کر دیں گے، بنو نضیر پہلے سے اسلام کے دشمن تھے، قریش کے پیغام نے ان کو اور زیادہ آمادہ کیا۔
بنو نضیر نہایت مضبوط قلعوں میں پناہ گزیں تھے جن کا فتح کرنا آسان نہ تھا، اس کے علاوہ عبداللہ بن اُبی نے کہلا بھیجا کہ اطاعت نہ کرنا ‘بنو قریظہ تمہارا ساتھ دیں گے اور میں دو ہزار آدمی لے کر تمہاری اعانت کرو ں گا لیکن بنو نضیر کے تمام خیالات غلط نکلے، بنو قریظہ نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور منافق علانیہ اسلام کے مقابلہ میں نہیں آسکتے تھے، ان حالات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو طلب فرمایا اور حکم دیا کہ بنو نضیر کے پاس جاؤ اور کہو کہ تم نے معاہدہ توڑا ہے ‘ فریب اور غدّاری پر آمادہ ہو ، اس لئے یہاں سے نکلنے کے لئے تمہیں دس دن کی مہلت دی جاتی ہے، اس کے بعد جو شخص پایا جائے گا اس کی جان کی خیر نہیں ، بنو نضیر کے سردار حئی بن اخطب نے یہ سنا تو سناٹے میں آ گیا اور عبداللہ بن ابی کی شہہ پا کر اپنے بھائی جدی بن اخطب سے جواب بھیجا کہ ہم کسی صورت میں اس مقام کو نہیں چھوڑیں گے ، جو جی میں آئے کرو ، اس کے بعد وہ لوگ قلعہ بند ہو گئے ، ان کے پاس خوراک کی کمی تھی نہ پانی کی ، ہتھیار بھی کافی مقدار میں تھے اس لئے ایک سال تک قلعہ بند رہ سکتے تھے ،
آپ کی دی ہوئی مہلت کی مدت ختم ہوئی تو آپ صحابہ کو ساتھ لے کران کی سر کوبی کے لئے نکلے ، مدینہ میں سیدنا عبداللہ بن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ کو نائب مقرر فرمایا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو علم عطا فرمایا، آپ نے پندرہ روز تک ان کے قلعوں کا محاصرہ فرمایا، قلعہ کے گرد اُن کے جو نخلستان تھے ان کے چند درخت کٹوا دئے، سہیلی نے روض الانف میں لکھا ہے کہ سب نخلستان نہیں کاٹے گئے بلکہ صرف لینتہ جو ایک خاص قسم کا کھجور ہے اور عرب کی عام خوراک ہے اس کے درخت کٹوا دئے گئے، قرآن مجید میں اس کا ذکر ہے:
” (اے ایمان والو) کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا ان کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا تو وہ اﷲ کے حکم سے تھا تاکہ وہ کافروں کو ذلیل کرے "۔( سورۂ حشر : ۵)
ممکن ہے کہ درختوں کے جھنڈسے مکیں گاہ کا کام لیا جا تا ہو اس لئے وہ صاف کر ا دئے گئے کہ محاصرہ میں کوئی چیز حائل نہ ہو، بالآخر بنو نضیر اس شرط پر راضی ہوئے کہ جس قدر مال و اسباب اونٹوں پرلے جا سکیں لے جائیں اور مدینہ سے باہر نکل جائیں، چنانچہ سب گھروں کو چھوڑ کر نکل گئے۔ اس غزوہ کے بعد مدینہ کی سر زمین یہودی فتنہ گروں سے بڑی حد تک محفوظ ہو گئی، مسلمان امن و امان کی فضا میں سانس لینے لگے، سودی کاروبار ختم ہو گیا، چونکہ یہ یہودیوں کا ذریعہ معاش تھا، اس کی جگہ قرضۂ حسنہ کا طریقہ رائج ہوا۔
۱۴۔ غزوہ ذات الرقاع
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احزاب کے تین مضبوط بازوؤں میں سے دو مضبوط بازوؤں کو توڑ کر فارغ ہو گئے تو تیسرے بازو کی طرف توجہ کا بھر پور موقع مل گیا ۔ تیسرا بازو وہ بدو تھے جو نجد کے صحرا میں خیمہ زن تھے اور رہ رہ کر لوٹ مار کی کاروائیاں کرتے رہتے تھے ۔
چونکہ یہ بدو کسی آبادی یا شہر کے باشندے نہ تھے اور ان کا قیام مکانات اور قلعوں کے اندر نہ تھا اس لئے اہل مکہ اور باشندگان خیبر کی بہ نسبت ان پر پوری طرح قابو پا لینا اور ان کے شرو فساد کی آگ مکمل طور پر بجھا دینا سخت دشوار تھا۔ لہٰذا ان کے حق میں صرف خوف زدہ کرنے والی تادیبی کاروائیاں ہی مفید ہو سکتی تھیں ۔
چنانچہ ان بدوؤں پر رعب و دبدبہ قائم کرنے کی غرض سے۔ اور بقول دیگر مدینہ کے اطراف میں چھاپہ مارنے کے ارادے سے جمع ہونے والے بدوؤں کو پراگندہ کرنے کی غرض سے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تادیبی حملہ فرمایا جو غزوہ ذات الرقاع کے نام سے معروف ہے ۔
اہل سیر نے اس غزوے کے متعلق جو کچھ ذکر کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ عیہ وسلم نے قبیلہ انمار یا بنوغطفان کی دو شاخوں بنی ثعلبہ اور بن محارب کے اجتماع کی خبر سن کر مدینہ کا انتظام سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ یا سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا اور چار سو یا سات سو صحابہ کرام کی معیت میں بلاد نجد کا رخ کیا ۔ پھر مدینہ سے دو دن کے فاصلے پر مقام نخل پہنچ کر بنو غطفان کی ایک جمعیت سے سامنا ہوا لیکن جنگ نہیں ہوئی ۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر صلوٰۃ خوف (حالتِ جنگ والی نماز ) پڑھائی ۔
۱۵۔ غزوہ بدر الآخرۃ
مسلمانوں کی تعداد: 1500
کفارِ مکہ کی تعداد: 2000
اعراب کی شوکت توڑ دینے اور بدوؤں کے شر سے مطمئن ہو جانے کے بعد مسلمانوں نے اپنے بڑے دشمن (قریش ) سے جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ کیونکہ سال تیزی سے ختم ہو رہا تھا اور احد کے موقع پر طے کیا ہوا وقت قریب آتا جا رہا تھا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فرض تھا کہ میدان کارزار میں ابو سفیان اور اس کی قوم سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے نکلیں اور جنگ کی چکی اس حکمت کے ساتھ چلائیں کہ جو فریق زیادہ ہدایت یافتہ اور پائدار بقا کا مستحق ہو حالات کا رخ پوری طرح اس کے حق میں ہو جائے ۔
چنانچہ شعبان 4 ھ جنوری 626ء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کا انتظام سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو سونپ کر اس طے شدہ جنگ کے لیے بدر کا رخ فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ڈیڑھ ہزار کی جمعیت اور دس گھوڑے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کا علم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دیا اور بدر پہنچ کر مشرکین کے انتظار میں خیمہ زن ہو گئے ۔
دوسری طرف ابو سفیان بھی پچاس سواروں سمیت دو ہزار مشرکین کی جمعیت لے کر روانہ ہوا اور مکے سے ایک مرحلہ دور وادی مرالظّہران پہنچ کر مجنہ نام کے مشہور چشمے پر خیمہ زن ہوا لیکن وہ مکہ ہی سے بوجھل اور بد دل تھا ۔ بار بار مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی جنگ کا انجام سوچتا تھا اور رعب و ہیبت سے لرز اٹھتا تھا ۔ مرالظّہران پہنچ کر اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ واپسی کے بہانے سوچنے لگا ۔ بالآخر اپنے ساتھیوں سے کہا : ’’قریش کے لوگو ! جنگ اس وقت موزوں ہوتی ہے جب شادابی اور ہریالی ہو کہ جانور بھی چر سکیں اور تم بھی دودھ پی سکو ۔ اس وقت خشک سالی ہے ، لہٰذا میں واپس جا رہا ہوں ، تم بھی واپس چلے چلو ‘‘۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارے ہی لشکر کے اعصاب پر خوف و ہیبت سوار تھی ۔کیونکہ ابو سفیان کے اس مشورہ پر کسی قسم کی مخالفت کے بغیر سب نے واپسی کی راہ لی اور کسی نے بھی سفر جاری رکھنے اور مسلمانوں سے جنگ لڑنے کی رائے نہ دی ۔
۱۶۔ غزوہ دومۃ الجندل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر سے واپس ہوئے تو ہر طرف امن و امان قائم ہو چکا تھا اور پوری اسلامی ریاست میں اطمینان کی باد بہاری چل رہی تھی ۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب کی آخری حدود تک توجہ فرمانے کے لئے فارغ ہو چکے تھے اور اس کی ضرورت بھی تھی تاکہ حالات پر مسلمانوں کا غلبہ اور کنٹرول رہے۔ اور دوست و دشمن سبھی اس کو محسوس اور تسلیم کریں
چنانچہ بدر الآخرہ کے بعد چھ ماہ تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطمینان سے مدینے میں قیام فرمایا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاعات ملیں کہ شام کے قریب دُومۃ الجندل کے گرد آباد قبائل آنے جانے والے قافلوں پر ڈاکے ڈال رہے ہیں اور وہاں سے گزرنے والی اشیاء لوٹ لیتے ہیں ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ انہوں نے مدینے پر حملہ کرنے کے لیے ایک بڑی فوج فراہم کر لی ہے ۔ ان اطلاعات کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سباع بن عرفطہ غفاری رضی اللہ عنہ کو مدینے میں اپنا جانشین مقرر فرما کر ایک ہزار مسلمانوں کی نفری کے ساتھ کوچ فرمایا ۔ یہ 25ربیع الاول کا واقعہ ہے۔ راستہ بتانے کے لیے بنو عذرہ کا ایک آدمی رکھ لیا گیا
اس غزوے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں سفر فرماتے اور دن میں چھپے رہتے تھے تاکہ دشمن پر بالکل اچانک اور بے خبری میں حملہ کریں۔ قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ باہر نکل گئے ہیں ،لہٰذا ان کے مویشیوں اور چرواہوں پر ہلہ بول دیا کچھ ہاتھ آئے کچھ نکل بھاگے ۔
جہاں تک دُومۃ الجندل کے باشندوں کا تعلق ہے تو جس کا جدھر سینگ سمایا بھاگ نکلا ۔ جب مسلمان دُومۃ کے میدان میں اترے تو کوئی نہ ملا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند دن قیام فرما کر اِدھر اُدھر متعدد دستے روانہ کئے لیکن کوئی بھی ہاتھ نہ آیا ۔ بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پلٹ آئے۔ اس غزوے میں عُیَینہ بن حصن سے مصالحت بھی ہوئی ۔
۱۷۔ غزوہ بنی المصطلق
قبیلہ بنی مصطلق نے غزوہ احد میں قریش کے ساتھ سازشیں کی تھیں جس کے بعد انہوں نے مسلمانوں سے جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ محمد الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو جنگ کے لیے تیار کیا اور شعبان 6ھ میں مریسع کے مقام پر قبیلہ بنی مصطلق کے ساتھ جنگ کی جس میں جب ان کے دس افراد ہلاک ہو گئے تو وہ فرار ہونا شروع ہو گئے۔ مسلمانوں کے پاس دو ہزار اونٹ، پانچ ہزار بھیڑیں مال غنیمت کے طور پر آئیں اور لاتعداد قیدی بھی ہوئے جن میں عورتیں اور بچے شامل تھے۔ مدینہ پہنچنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس قبیلہ کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی جویریہ سے فدیہ دینے کے بعد نکاح کر لیا۔ سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا جس شخص کی قیدی بنی تھیں ان سے انہوں نے کہا کہ میں تمہیں فدیہ دے کر آزاد ہونا چاہتی ہوں مگر ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئیں، اپنا تعارف کروایا اور ان سے فدیہ دینے کے سلسلے میں مدد طلب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کیا تمہیں پسند ہے کہ میں تمہارے لیے اس سے بہتر کام انجام دوں؟ جن پیسوں کی تم قرضدار ہو اس کو میں ادا کر دوں اور تم سے شادی کر لوں۔ سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا اس بات سے نہایت مسرور ہوئیں چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب ایسا ہوا تو مسلمانوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس نئی قرابت داری کی وجہ سے اپنے قیدیوں کو فدیہ لیے بغیر ہی رہا کر دیا۔ اس حسنِ سلوک کی وجہ سے تمام افراد مسلمان ہو گئے اور اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
۱۸۔ غزوۃ الخندق/ الاحزاب
تاریخ:شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء)
مقام:مدینہ اور اس کے آس پاس
نتیجہ:مسلمانوں کی فتح
متحارب: مسلمانانِ مدینہ و مشرکین مکہ
قوت: مسلمان تقریباً 3000
اور کفار تقریباً 10,000
نقصانات: 6 شہادتیں
8 ہلاکتیں اور کثیر مالی نقصان
شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی، ابوسفیان نے قریش اور دیگر قبائل حتیٰ کہ یہودیوں سے بھی لوگوں کو جنگ پر اکسایا اور اس سلسلے میں کئی معاہدے کیے اور ایک بہت بڑی فوج اکٹھی کر لی مگر مسلمانوں نے سیدنا سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے بے شمار افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ اسے غزوہ خندق یا جنگِ احزاب کہا جاتا ہے۔ احزاب کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ اصل میں یہ کئی قبائل کا مجموعہ تھی۔ جیسے آج کل امریکہ، برطانیہ وغیرہ کی اتحادی افواج کہلاتی ہیں۔ اس جنگ کا ذکر قرآن میں سورۃ الاحزاب میں ہے۔
۱۹۔ غزوہ بنی قریظہ
مدینہ کے اندر ایک یہود قبیلہ بنی قریظہ رہتا تھا جس کے ساتھ مسلمانوں نے امن کا معاہدہ کر رکھا تھا۔ غزوہ خندق میں انہوں نے مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی جو اللہ کے فضل سے ناکام ہو گئی۔ اسی وجہ سے مسلمانوں نے ان سے جنگ کی اور عہد شکنوں کو ہلاک کر دیا۔
۲۰۔غزوہ بنی لحیان
غزوہ بنو لحیان (ربیع الاول۶ھ)
بنو لحیان قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ تھی جو مدینہ کے جنوب مشرق میں آباد تھی، غزوہ بنو قریظہ کے بعد دو مہینے ہی گزرے تھے کہ بنو لحیان نے دھوکے سے دس صحابہ کو تعلیم اسلام کے لئے بلوایا اور انہیں شہید کر دیا، اس غداری کی سزاء دینے کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سیدنا عبداللہ بن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر کر کے دو سو صحابہ اور بیس گھوڑوں کے ساتھ ماہ ربیع الاول میں مدینہ سے نکلے، امج اور عسفان کے درمیان جہاں ان صحابہ کو شہید کیا گیا تھا بطن غران کی وادی میں پہنچ کر ان شہداء کے لئے دعائے مغفرت فرمائی،بنو لحیان کو پتہ چلا تو پہاڑیوں میں چھپ گئے، دو دن تک تلاش جاری رہی مگر کوئی ہاتھ نہ آیا، اس دوران سرئیے بھی بھیجے مگر بنو لحیان نہ مل سکے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم قریش کو مرعوب کرنے کی غرض سے چند روز عسفان کے نواح میں فرو کش رہے اور وہاں سے دس شہہ سوار کراغ الغمیم بھیجے تاکہ قریش کو بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد کی خبر ہو جائے، کل چودہ دن مدینہ سے باہر رہ کر ۱۴ ربیع الاول کو واپس تشریف لائے۔
۲۱۔غزوہ ذی قرد یا غابہ
غزوۂ ذی قرد کو غزوۂ غابہ بھی کہتے ہیں، غابہ ایک چراگاہ کا نام ہے جو انداز اً مدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر واقع تھی اور جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنیاں چرتی تھیں، سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے سیدنا ذر رضی اللہ عنہ اس کے نگران تھے، ایک رات بنو غطفان کی ایک شاخ فزارہ کے سردار عینیہ بن حصین فزاری نے چالیس سواروں کے ساتھ غابہ پر حملہ کیا اور بیس اونٹنیاں ہانک کر لے گیا، ساتھ ہی سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے فرزند سیدنا ذر رضی اللہ عنہ کوبھی قتل کر دیااور سیدناذررضی اللہ عنہ کی بیوی کو اٹھا لے گیا، اتفاق سے سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ اور ایک غلام رباح نے اسے دیکھ لیا ، سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے سلع پہاڑی پر کھڑے ہو کر ” واصبا حا ” کا نعرہ تین بار لگایا جو خطرہ کی گھنٹی تھی، رباح کے ذریعہ مدینہ اطلاع بھیجی اور خود ان کا پیچھا کر کے تیر برسانے شروع کر دئیے جس سے دشمن کے آدمی زخمی ہوئے، آخر کار دشمن نے تمام اونٹ چھوڑ دئیے جنھیں اکوع نے مدینہ کی طرف بھیج دیا، اور خود دشمن کا تعاقب کیا اور سیدنا ذر رضی اللہ عنہ کی بیوی کو آزاد کرا لیا، ان کو تیس نیزے اور تیس چادریں حاصل ہوئیں ،
۲۲۔ غزوۃ الحدیبیۃ / صلح الحدیبیۃ
صلح حدیبیہ سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں مسلمانوں کے ساتھ بیت اللہ میں داخل ہو کر طواف و عمرہ کرتے ہوئے دکھایا گیا۔نبی کا خواب بھی وحی کے مرتبہ میں ہوتا ہے۔ اس خواب میں یہ متعین نہیں تھا کہ ایسا کس سال ہو گا؟ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مسلمان اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت عظیمہ سمجھتے ہوئے، عمرہ کے لئے فوراً ہی تیار ہو کرایک قافلہ کی صورت میں چل پڑے، آخر کار حدیبیہ کے مقام پر وہ صلح ہوئی جو مسلمانوں کے لئے مستقبل میں بہت مفید ثابت ہوئی۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے مطابق اس خواب کی تعبیر آئندہ سال پوری ہونی تھی جیساکہ آئندہ سال مسلمانوںنے نہایت امن و امان کے ساتھ عمرہ کیا اور اللہ ربّ العزّت نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کو سچا کر دکھایا یعنی اگر حدیبیہ کے مقام پر صلح نہ ہوتی تو جنگ کرنے سے مسلمانوں کو نقصان پہنچتا۔ اس صلح کے بعد بہ کثرت لوگ مسلمان ہوئے ۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان پندرہ سو تھے اور فتح مکہ کے موقع پر جب مسلمان مکہّ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے تو ان کی تعداد دس ہزار تھی۔ بے شک صلح کے ان فوائد کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا تھا۔صلح حدیبیہ کا واقعہ یکم ذوالقعدہ 6 ھ کو پیش آیا۔
پندرہ سو کی تعداد میں صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مدینہ سے ہی احرام باندھنے کا حکم دیا تاکہ کفار قریش یہ سمجھیں کہ مسلمان صرف حج و عمرہ کرنے کے لئے آئے ہیں نہ کہ لڑائی جھگڑا کے لئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یکم ذوالقعدہ 6 ھ کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔ ذوالحلیفہ کے مقام پر پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قربانی کے جانوروں کو قلادے (ہار) پہنائے تاکہ مشرکین مکہ کو اطمینان ہو جائے کہ مسلمان صرف حج و عمرہ کرنے کے لئے آرہے ہیں۔ جب قریش کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ سے مکہ روانگی کا علم ہوا تو انہوں نے ایک میٹنگ بلائی جس میں یہ طے پایا کہ ہر صورت مسلمانوں کو بیت اللہ سے دور رکھا جائے۔ انہوں نے خالد بن ولید کو ایک لشکر دے کر مقام کراع الغمیم (جو مکہ جانے والی شاہراہ پر واقع ہے) متعین کیا۔
پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم راستہ تبدیل کرتے ہوئے مکہ کے دائیں جانب ’’ثنیۃ المرار‘‘ پہنچے تو قصواء (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی) بیٹھ گئی۔ لوگوں نے بہت اٹھانے کی کوشش کی لیکن نہ اٹھی تو لوگ کہنے لگے ’’قصواء‘‘ اڑ گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔ ’’قصواء اڑی نہیں اور نہ ہی اس کی یہ عادت ہے بلکہ اس کو اس ہستی نے روک رکھا ہے جس نے (ابرا کے) ہاتھیوں کو روک دیا تھا۔‘‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹنی کو ڈانٹا تو اس نے چلنا شروع کر دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے جا کر حدیبیہ کے مقام پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قیام فرمانے کا حکم فرمایا۔ (بخاری)
بُدَ یْلُ بن ورقہ اور عامر بن لوئی کے ذریعے قریش کو مکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے آنے کا اصل مقصد واضح کیا تاہم پھر بھی کفارِ قریش نے اپنی طرف سے قبائلی سردار حُلیس بن علقمہ کو یہ معلوم کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں کس مقصد سے آئے ہیں۔؟ جب اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں آ کر اپنا مقصد بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی وہی جواب دیا جو پہلے دے چکے تھے۔ وہ اپنی قوم کی طرف جا کر کہنے لگا ’’مجھے یقین ہے کہ ’’محمد( صلی اللہ علیہ و سلم ) ایک سچے انسان ہیں اور تم لوگ اُن کی باتوں کا یقین نہیں کر رہے کہ وہ صرف بیت اللہ کی زیارت کے لئے تشریف لائے ہیں اور تم لوگ آپ ( صلی اللہ علیہ و سلم )کو حج و عمرہ کرنے سے روک رہے ہو اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اب تم لوگ ہی دغا باز اور مکاّر ہو۔ یاد رکھو آج سے میں اور میری تمام قوم تم لوگوں سے الگ ہے ، لہٰذا تم اپنے فیصلے خود ہی کر لیا کرو۔ اب ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں ۔‘‘ا س کے بعد کفارِ قریش نے پھر عروہ بن مسعود کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف روانہ کیا ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو بھی اپنی آمد کا اصل مقصد بتا کر کفارِ قریش کو واضح کر دیا۔اس نے جا کر کفارِ قریش پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات اور جو کچھ صحابہ کرام اور کا آپ سے والہانہ عقیدت دیکھی اسے ذکر کیا۔ جب کفار قریش کے ایک گروہ نے اپنے سرداروں کو صلح کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے مسلمانوںکے کیمپ میں رات کی تاریکی میں گھس کر ہنگامہ آرائی کا منصوبہ بنایا تا کہ جنگ کی آگ بھڑک اٹھے۔ جب انہوں نے جبل تنعیم سے اتر کر کیمپ میں گھسنے کی کوشش کی تو پہرہ دار صحابہ کر ام رضی اللہ عنہم نے ان سب کو گرفتار کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کی خاطر درگزر کرتے ہوئے ان سب کو آزاد کر دیا۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی سفارت اور بیعت رضوان
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام کی باہمی مشاورت سے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو مکہ میں اپنا سفیر بنا کر بھیجا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو قریش مکہ نے حرم میں قید کر دیا اور مسلمانوںمیں یہ افواہ پھیلا دی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے ایک درخت کے نیچے موت اور میدان جنگ سے نہ بھاگنے پر بیعت لی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ سے پکڑ کر فرمایا ’’یہ عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ ہے‘‘ (بخاری)
لیکن جب یہ بیعت مکمل ہو گئی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی آ گئے۔ اس بیعت کو بیعت رضوان کہا جاتا ہے۔ اللہ کو یہ بیعت اتنی پسند آئی کہ قرآن میں بھی اس کا ذکر کیا گیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سہیل بن عمرو سے کافی لمبی گفتگو کے بعد صلح کی تمام شرائط پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو گئے ،با لآخر چند شرائط پر کفارِ مکہ سے صلح ہوئی۔۱۰ سال تک باہمی صلح، اگلے سال مسلمانوں کو عمرہ کی اجازت، قریش میں سے کوئی شخص مسلمان ہو جائے تو وہ واپس کیا جائے لیکن کوئی اسلا م چھوڑ کر قریش میں جا ملے تو واپس نہیں کریں گے۔
صلح نامہ جب مکمل ہوا تو حسبِ معاہدہ سیدنا ابو جندل رضی اللہ عنہ کو بھی واپس بھیجنا پڑا۔
ذوالقعدہ 6 ھ میں صلح نامہ تحریر ہو نے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قربانی کی اور مقام حدیبیہ پر حج و عمرہ کے لئے جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بال منڈوائے تھے ان کے لئے دعا فرمائی۔ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے صرف بال کٹوائے تھے انہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے لئے بھی دعا فرمائیے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل تین مرتبہ بال منڈوانے والوں کے لئے دعا فرمائی اور چوتھی مرتبہ بال کٹوانے والوں کے لئے دعا فرمائی۔ (مسلم)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب دکھایا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ساتھیوں کے ہمراہ فاتحانہ انداز میں مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے ہیں، اس خواب کی تعبیر صلح حدیبیہ کے صرف دوسال بعد فتح مکہ کی صورت میں پوری ہوئی۔
صلح حدیبیہ کے فوائد
صلح کی وجہ سے کفار کی مدینہ اور مسلمانوں کی مکہ آمدورفت شروع ہوئی۔ ہر مسلمان مومنانہ صفات کی مثال تھا اس لئے کفار کے دل خود بخود اسلام کی طرف کھنچتے چلے آئے لہٰذا اس صلح سے فتح مکہ تک بکثرت لوگ مسلمان ہوئے۔ خالد بن ولید اور عمرو بن العاص اسی دور میں اسلام لائے۔
عتبہ بن امیہ (ابو بصیر) بھاگ کر مدینہ آئے لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں واپس کر دیا تو انہوں نے سمندر کے کنارے بسیرہ کر لیا۔ مکہ کے دیگر ستم رسیدہ بھی یہاں آن بسے اور قریش کے قافلے لوٹنے لگے حتیٰ کہ قریش نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو لکھا کہ ہم اس شرط سے باز آئے۔ آپ ساحلی مسلمانوں کو اپنے پاس بلا لیں اور جو مسلمان چاہے مدینہ جا کر آباد ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سارے مسلمانوں کو مدینہ بلا لیا۔ اس طرح جو شرط مسلمانوں کے سخت خلاف تھی مسلمانوں کی سب سے بڑی جیت ثابت ہوئی۔
۲۳۔ غزوہ خیبر
تاریخ:محرم 7ھ (مئی 628ء)
مقام:خیبر
نتیجہ:مسلمانوں کی فتح
متحارب: مسلمانانِ مدینہ ویہودیانِ خیبر
قوت: مسلمان 1600
یہودی دس ہزار سے زائد
نقصانات:مسلمانوں کی18 شہادتیں
93 یہودیوں کی ہلاکتیں اور کثیر مالی نقصان
محرم 7ھ (مئی 628ء) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔ خیبر یہودیوں کا مرکز تھا جو مدینہ سے 150 کلومیٹر عرب کے شمال مغرب میں تھا جہاں سے وہ دوسرے یہودی قبائل کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ مسلمانوں نے اس مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے یہ جنگ شروع کی۔
۲۴۔ غزوہ عمرۃ القضا
صلح حدیبیہ کے بعد جب ذی قعد کا چاند نظر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صلح حدیبیہ میں حاضر تمام صحابہ کرام کو حکم دیا کہ اپنے عمرہ کی قضاء کے طور پر عمرہ کریں، اس حکم کے بعد بچوں اور عورتوں سمیت دو ہزار افراد اس عمرہ کی ادائیگی کے لئے نکل پڑے۔ مدینہ میں ابو رھم غفاری رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین مقرر کر کے عمرہ کی تیاری کر کے نکل پڑے ، چونکہ قریش کی جانب سے بد عہدی کا خطرہ تھا اس لئے ہتھیار اور جنگجو افراد بھی ہمراہ لئے۔وادی یاَجِج میں پہنچ کر ہتھیار یعنی ڈھال، تیر اور نیزے سب رکھ دیے اور اس کی حفاظت کے لئے دو سو کے قریب افراد کو اوس بن خولی انصاری رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں وہاں مامور کیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم باقی مسلمانوں کے ہمراہ میان میں رکھی ہوئی تلواروں کے ہمراہ مکہ میں داخل ہوئے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں داخل ہوتے وقت اپنی قصواء نامی اونٹنی پر سوار تھے، اور مسلمانوں نے تلواریں حمائل کر رکھی تھیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو گھیرے میں لئے ہوئے لبیک پکار رہے تھے۔
مشرکین مسلمانوں کو یہ کہہ کر گھروں سے نکل پڑے کہ یثرب کے بخار زدہ جماعت عمرہ کرنے آ رہی ہے لہٰذا ان کا تماشہ دیکھنے چلو۔
چنانچہ اسی مصلحت کے تحت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ طواف دوڑ کر اور اضطباع کی کیفیت میں کریں۔اس حکم کا مقصد مشرکین مکہ کو مسلمانوں کی ہمت و طاقت کا مظاہرہ کرانا تھا۔عمرہ کے دیگر ارکان سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ مسلمانوں کو یَاجِج بھیج دیا تاکہ وہ ہتھیاروں کی حفاظت کریں اور پہلے سے مامور افراد عمرہ کریں۔حسبِ معاہدہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین روز مکہ میں قیام کیا پھر مکہ سے نکل کر مقامِ سرف میں قیام فرمایا۔
گو کہ اس غزوہ میں لڑائی نہیں ہوئی مگر مسلمان کفار سے بد عہدی کے پیش نظر جنگ کی تیاری کے ساتھ نکلے تھے، اس لئے مورخین نے اسے غزوات میں شمار کیا ہے اور اس غزوہ کا نام ’’ عمرۂ قضا‘‘ کی وجہ یہ تھی کہ یہ عمرہ ٔ حدیبیہ کی قضا کے طور پر تھا اور حدیبیہ میں صلح کے مطابق یہ عمرہ طے پا گیا تھا اور عربی میں اس طرح کی مصالحت کو قضاء کہتے ہیں اس لئے اس کا نام عمرۂ قضا پڑ گیا۔
۲۵۔غزوہ فتح مکہ
تاریخ:رمضان 8ھ (جنوری 630ء)
مقام:مکہ
نتیجہ:مسلمانوں کی فتح
متحارب: مسلمانانِ مدینہ و مشرکینِ مکہ
قوت: مسلمان مجاہدین10,000
کفار: تمام مشرکینِ مکہ
نقصانات:
مسلمان 2 شہادتیں اور کفار 12 ہلاکتیں
رمضان 8ھ (جنوری 630ء) میں مسلمانوں نے مکہ فتح کیا۔ جنگ تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ مسلمانوں کی ہیبت سے مشرکینِ مکہ ڈر گئے تھے۔ اس کے بعد مکہ کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔
صلح حدیبیہ دس سال کے لیے ہوئی تھی مگر 630ء کے بالکل شروع میں مشرکینِ مکہ کے اتحادی قبیلہ بنو بکر نے مسلمانوں کے اتحادی قبیلہ بنو خزاعہ پر حملہ کیا اور کئی آدمی قتل کر دیے۔ اس دوران مکہ کے مشرک قریش نے چہرے پر نقاب ڈال کر بنو بکر کی مدد بھی کی مگر یہ بات راز نہ رہ سکی۔ یہ صلح حدیبیہ کا اختتام تھا۔ مسلمان اس وقت تک بہت طاقتور ہو چکے تھے۔ ابوسفیان نے بھانپ لیا تھا کہ اب مسلمان اس بات کا بدلہ لیں گے اس لیے اس نے صلح کو جاری رکھنے کی کوشش کے طور پر مدینہ کا دورہ کیا۔ ابوسفیان رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی بیٹی امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچا جو اسلام لے آئی تھیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجہ محترمہ تھیں۔ جب اس نے بستر پر بیٹھنا چاہا تو سیدہ امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے بستر اور چادر لپیٹ دی اور ابوسفیان کو بیٹھنے نہ دیا۔ اس نے حیران ہو کر پوچھا کہ بستر کیوں لپیٹا گیا ہے تو سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ آپ مشرک ہیں اور نجس ہیں اس لیے میں نے مناسب نہ سمجھا کہ آپ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جگہ پر بیٹھیں۔ جب ابوسفیان نے صلح کی تجدید کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے رجوع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی جواب نہیں دیا پھر اس نے کئی بزرگوں کی وساطت سے کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوا۔ سخت غصے اور مایوسی میں اس نے تجدیدِ صلح کا یکطرفہ اعلان کیا اور مکہ واپس چلا گیا۔
فتحِ مکہ ایک شاندار فتح تھی جس میں چند کے علاوہ کوئی قتل نہ ہوا۔ فتح کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سب کو عام معافی دے دی۔ کافی لوگ مسلمان ہوئے۔ ان سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے شرک نہ کرنے، زنا نہ کرنے اور چوری نہ کرنے کی تاکید پر بیعت لی۔ اور انہیں اپنے اپنے بتوں کو توڑنے کا حکم دیا۔ مکہ کی فتح عرب سے مشرکین کے مکمل خاتمے کی ابتداء ثابت ہوئی۔
مکہ کی فتح کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سابقہ مشرکین کو مکہ کے اطراف میں بتوں کو توڑنے کے لیے بھیجا۔ مکہ کی فتح کے بعد ارد گرد کے مشرکین پریشان ہو گئے اور ایک اتحاد قائم کیا جس وجہ سے فتحِ مکہ کے اگلے ہی ماہ غزوہ حنین پیش آیا۔
۲۶۔ غزوہ حنین
مکہ اور طائف کی درمیان وادی میں بنو ہوازن اور بنو ثقیف دو قبیلے آباد تھے۔ یہ بڑے بہادر اور جنگجو سمجھے جاتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد بھی انہوں نے اسلام قبول نہ کیا بلکہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کے لیے مکہ پر حملہ کرنے چڑھ دوڑے ۔ نبی کریم بارہ ہزار مجاہدین کے ساتھ ان کے مقابلے کو نکلے۔ ان میں دو ہزار سے زائد نو مسلم بھی شامل تھے۔ دشمنوں نے اسلامی لشکر کے قریب پہنچنے کی خبر سنی تو وادی حنین کے دونوں جانب کمین گاہوں سے اس زور کی تیر اندازی کی کہ مسلمان حیران و پریشان ہو گئے ۔ مکہ کے نو مسلم افراد سب سے پہلے ہراساں ہو کر بھاگے۔ ان کو دیکھ کر مسلمان بھی منتشر ہونا شروع ہو گئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ چند جاں نثار صحابہ میدان میں رہ گئے اور بہادری سے لڑتے رہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تلوار ہاتھ میں لے کر یہ اشعار پڑھے۔ ’’انا النبی لاکذب انا ابن عبدالمطلب‘‘ آپ کی ثابت قدمی اور شجاعت نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کیے اور یہ مٹھی بھر آدمی دشمن کے سامنے ڈٹے رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے نام لے کے مہاجر و انصار کو بلایا۔ اس آواز پر مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے گرد اکھٹے ہو گئے اور اس شدت سے جنگ شروع ہوئی کہ لڑائی کا رنگ بدل گیا۔ کفار مقابلے کی تاب نہ لا سکے اور بھاگ نکلے۔ بنو ثقیف نے طائف کا رخ کیا۔ بنو ہوازن اوطاس میں جمع ہوئے لیکن مسلمانوں نے اوطاس میں انھیں شکست دی۔ مسلمانوں کو شاندار کامیابی ہوئی اور دشمن کے ہزاروں آدمی گرفتار ہوئے۔
۲۷۔ غزوۃ الطائف
یہ غزوہ درحقیقت غزوہ حنین کا پھیلاؤ ہے چونکہ ہوازن و ثقیف کے بیشتر شکست خوردہ افراد اپنے جنرل کمانڈر مالک بن عوف نصری کے ساتھ بھاگ کر طائف ہی آئے تھے اور یہیں قلعہ بند ہو گئے تھے۔ لہٰذا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حنین سے فارغ ہو کر اور جعرانہ میں مال غنیمت جمع فرما کر اسی ماہ شوال 8ھ میں طائف کا قصد فرمایا۔
اس مقصد کے لیے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں ایک ہزار فوج کا ہَراوَلْ دستہ روانہ کیا گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود طائف کا رُخ فرمایا۔ راستہ میں نخلۂ یمانیہ پھر قرن منازل پھر لیہ سے گزر ہوا۔ لیہ میں مالک بن عوف کا ایک قلعہ تھا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے منہدم کروا دیا۔ پھر سفر جاری رکھتے ہوئے طائف پہنچے اور قلعہ طائف کے قریب خیمہ زن ہو کر اس کا محاصرہ کر لیا۔ محاصرہ نے قدرے طول پکڑا۔ چنانچہ صحیح مسلم میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ یہ چالیس دن تک جاری رہا۔ اہل سیر میں سے بعض نے اس کی مدت بیس دن بتائی ہے، بعض نے دس دن سے زیادہ بعض نے اٹھارہ دن اور بعض نے پندرہ دن۔(فتح الباری 45/8)
دورانِ محاصرہ دونوں طرف سے تیر اندازی اور پتھر بازی کے واقعات بھی پیش آتے رہے، بلکہ پہلے پہل جب مسلمانوں نے محاصرہ کیا تو قلعہ کے اندر سے ان پر اس شدت سے تیر اندازی کی گئی کہ معلوم ہوتا تھا بہت بڑا لشکر چھایا ہوا ہے۔ اس سے متعدد مسلمان زخمی ہوئے، بارہ شہید ہوئے اور انہیں اپنے کیمپ اٹھا کر موجودہ مسجد طائف کے پاس لے جانا پڑا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے اہل طائف پر منجیق نصب کی اور متعدد گولے پھینکے جس سے قلعہ کی دیوار میں شگاف پڑ گیا اور مسلمانوں کی ایک جماعت دبابہ کے اندر گھس کر آگ لگانے کے لیے دیوار تک پہنچ گئی۔ لیکن دشمن نے ان پر لوہے کے جلتے ٹکڑے پھینکے جس سے مجبور ہو کر مسلمان دبابہ کے نیچے سے باہر نکل آئے۔ مگر نکلے تو دشمن نے ان پر تیروں کی بارش کر دی جس سے بعض مسلمان شہید ہو گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دشمن کو زیر کرنے کے لیے ایک اور جنگی حکمتِ عملی کے طور پر حکم دیا کہ انگور کے درخت کاٹ کر جلا دیئے جائیں۔ مسلمانوں نے ذرا بڑھ چڑھ کر ہی کٹائی کر دی۔ اس پر ثقیف نے اللہ اور قرابت کا واسطہ دے کر گزارش کی کہ درختوں کا کاٹنا بند کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کے واسطے اور قرابت کی خاطر ہاتھ روک لیا۔
دوران محاصرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے منادی کبروائی جو غلام قلعہ سے اُتر کر ہمارے پاس آ جائے وہ آزاد ہے۔ اس اعلان پر تیئس آدمی قلعہ سے نکل کر مسلمانوں میں آ شامل ہوئے۔ (صحیح بخاری 260/2) انہیں میں سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ وہ قلعہ کی دیوار چڑھ کر ایک چرخی یا گراری کی مدد سے (جس کے ذریعہ رہٹ سے پانی کھینچا جاتا ہے) لٹک کر نیچے آئے تھے۔ (چونکہ گراری کو عربی میں بکرہ کہتے ہیں) اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی کنیت ابو بکرہ رکھ دی۔ ان سب غلاموں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آزاد کر دیا اور ہر ایک کو ایک ایک مسلمان کے حوالے کر دیا کہ اسے سامان بہم پہنچائے۔ یہ حادثہ قلعہ والوں کے لیے بڑا جانکاہ تھا۔
جب محاصرہ طول پکڑ گیا اور قلعہ قابو میں آتا نظر نہ آیا اور مسلمانوں پر تیروں کی بارش اور گرم لوہوں کی زد پڑی اور ادھر اہل قلعہ نے سال بھر کا سامانِ خوردو نوش بھی جمع کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نوفل بن معاویہ ویلی سے مشورہ طلب کیا۔ اس نے کہا، لومڑی اپنے بھٹ میں گھس گئی ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس پر ڈٹے رہے تو پکڑ لیں گے اور اگر چھوڑ کر چلے گئے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے محاصرہ ختم کرنے کا فیصلہ فرما لیا اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ذریعہ لوگوں میں اعلان کروا دیا کہ ہم ان شاء اللہ کل واپس ہوں گے۔ لیکن یہ اعلان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر گراں گزرا۔ وہ کہنے لگے ہونہہ طائف فتح کیے بغیر واپس نہ ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اچھا تو کل صبح لڑائی پر چلنا ہے۔ چنانچہ دوسرے دن لوگ لڑائی پر گئے لیکن چوٹ کھانے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا تو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر فرمایا کہ ہم ان شاء اللہ کل واپس ہوں گے۔ اس پر لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے بے چون و چرا رختِ سفر باندھنا شروع کر دیا۔ یہ کیفیت دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسکراتے رہے۔
اس کے بعد جب لوگوں نے اپنا سامان وغیرہ اٹھا کر کوچ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یوں کہو:
اٰئِبُوٌنَ، تَائِبُوْنَ، عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ
"ہم پلٹنے والے، توبہ کرنے والے، عبادت گزار ہیں اور اپنے رب کی حمد کرتے ہیں۔
کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم ثقیف پر بد دعا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اے اللہ ثقیف کو ہدایت دے اور انہیں لے آ۔
۲۸۔ غزوہ تبوک
تاریخ: رجب 9ھ (اکتوبر 630ء)
مقام: تبوک
نتیجہ: مسلمانوں کی فتح
متحارب: مسلمانانِ مدینہ شام کے عیسائی
قوت: مسلمان: 30,000
عیسائی: 40,000
رجب 9 ھ مطابق 630ء میں مسلمانوں کو اطلاع ملی کہ شام کے عیسائی ہرقل کی مدد سے مدینے پر حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ یہ افواہ پھیل گئی کہ ہرقل قیصر روم نے چالیس ہزار ہتھیار بند فوج بھیج دی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تیاری کا حکم دیا۔ ان دنوں عرب میں سخت قحط تھا اور گرمی بھی شدید تھی ۔ منافقوں نے اسے بہانہ بنا کر انکار کر دیا۔ وہ مسلمانوں کو بھی بہکانے لگے مگر مسلمانوں نے کمال وفاداری کا ثبوت دیا۔ اور جو کچھ ہو سکا حضور کی خدمت میں پیش کر دیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تیس ہزار جان نثار غلاموں کے ساتھ مدینے سے روانہ ہوئے۔ تبوک کے مقام پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ حملے کی خبر غلط تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں چند دن قیام فرمایا اور اردگرد کے عیسائی حکمرانوں کو مطیع بنا کر واپس تشریف لے آئے۔ یہ غزوہ تبوک کے نام سے مشہور ہے۔
غزوات میں شہادتوں اور ہلاکتوں کے اعداد و شمار کا اجمالی خاکہ
غزوہ کا نام مسلمانوں کا نقصان کفار کا نقصان قیدی
غزوۂ بدر 14 70 70
السویق 2 — —
اُحد 75 27 —
حمر الاسد 2 1 —
نبی المصطلق — 10 لا تعداد
الاحزاب 6 8 —
بنو لحیان 10 — —
ذی قرد 1 — —
خیبر 18 93 —
فتح مکہ 2 12 —
حنین 6 61 6000
طائف 12 — —
مجموعی 148 293 6070
عہد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی مہذب اقوام کا ظلم
عہد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی مہذب اقوام ، قیصر وکسریٰ کا حال یہ تھا کہ 613ء میں ایرانی بادشاہ خسر وپرویز نے قیصر روم ہرقل کو شکست دی تو مفتوحہ علاقے میں تمام مسیحی عبادت خانے مسمار کر دیئے اور 60 ہزار غیر مقاتلین (عورتوں،بچوں ، بوڑھوں) کو تہہ تیغ کیا جن میں سے 30 ہزار مقتولوں کے سروں سے شہنشاہ ایران کا محل سجایا گیا۔
قیصر روم کی بربریت
قیصر روم باسل (963ء تا 1025ء) نے بلغاریہ پر فتح حاصل کی تو پندرہ ہزار اسیران جنگ کی آنکھیں نکلوا دیں ہر سو قیدی کے بعد ایک قیدی کی آنکھ باقی رہنے دی تاکہ وہ ان اندھوں کو گھروں تک پہنچا سکیں۔
ایک جنگ میں رومی عیسائیوں نے مسلمانوں کو شکست دی تو تمام مسلم اسیران جنگ کو سمندر کے کنارے لٹاکر ان کے پیٹ میں لوہے کے بڑے بڑے کیل ٹھونک دیئے تاکہ بچے کھچے مسلمان جب جہازوں پر واپس جائیں تو اس منظر کو دیکھ سکیں۔
سپین میں تباہی
۱۴۹۲ء میں سپین سے مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی تو صرف آٹھ برس کی قلیل مدت میں وہاں کی عیسائی حکومت نے مسلمانوں سے اسلام چھڑانے کی مہم شروع کی دی۔ سپین کے ساڑھے تین لاکھ مسلمانوں کو ایک مذہبی عدالت کے سامنے پیش کیاگیا۔ عدالت نے ۲۸ ہزار ، ۵ سو ۴۰ مسلمانوں کو موت کی سزا سنائی اور بارہ ہزار مسلمانوں کو زندہ جلانے کا حکم دیا۔ مسلمانوں کی سینکڑوں لائبریریاں جن میں لاکھوں کتابیں نذر آتش کر دیں۔ بالآخر ۱۶۱۰ء میں تمام مسلمانوں کو ترک وطن کا حکم دے دیا گیا۔ ڈیڑھ لاکھ عربوں کا ایک قافلہ بندرگاہ کی طرف جارہا تھا کہ بلیڈ انامی ایک پادری نے غنڈوں کو ساتھ ملا کر قافلہ پر حملہ کر دیا اور ایک لاکھ مسلمان قتل کر ڈالے اس کے بعد مسلمانوں کے گھروں ، گلیوں اور بازاروں میں قاتلانہ حملے شروع ہو گئے حتی کہ ۱۶۸۰ء تک ایک بھی مسلمان سپین میں باقی نہ رہا۔
1799ء میں مہذب یورپ کے سب سے بڑے جنرل نپولین بوناپارٹ نے یافا کے چار ہزار ترک اسیران جنگ کو محض اس عذر کی بناء پر قتل کر دیا کہ وہ انہیں کھلانے کے لئے خوراک مہیا نہیں کر سکتا اور نہ مصر بھیجنے کا انتظام کر سکتاہے۔
قیامت خیزی
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی ہند میں انگریزوں نے جس بے دردی اور سنگدلی سے بچوں اور عورتوں کو قتل کیا اس کا اندازہ درج ذیل اقتباس سے لگایا جا سکتاہے۔ ’’جنگ آزادی میں ۲۷ ہزار اہل اسلام نے پھانسی پائی ، سات دن برابر قتل عام ہوتا رہا جس کا کوئی حساب نہیں بچوں کو مار ڈالا گیا، عورتوں سے جو سلوک کیا گیا وہ بیان سے باہر ہے اس کے تصور سے ہی دل دہل جاتا ہے ۔
جنگ عظیم دوم میں فلپائن کے محاذ پر قتل عام
جنگ عظیم دوم ( 1939ء تا1945ء) میں فلپائن کے ایک محاذ پر امریکہ اور فلپائن کی مشترکہ فوج کے ۷۵ ہزار فوجیوں نے جاپانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے فاتح فوج نے ۷۵ ہزار اسیران جنگ کو شدید گرمی، بھوک اور پیاس کی حالت میں ۶۵ میل پیدل چل کر نظر بندی کیمپوں تک پہنچنے کا حکم دیا بیشتر اسیران جنگ طویل سفر کی ناقابل برداشت صعوبتوں کی وجہ سے راستے میں ہی ہلاک ہو گئے۔ تاریخ میں اس سنگ دلانہ اور بے رحمانہ سفر کو ’’Death March‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
جنگ عظیم اول و دوم میں مہذب یورپی جرنیلوں کی سنگدلی
جنگ عظیم اول اور دوم میں مہذب یورپ جرنیلوں نے جس سنگدلی کے ساتھ شہری آبادیوں پر بم باری کی اس نے مقاتلین اور غیر مقاتلین کا تصور ہی ختم کر دیا۔ جنگ عظیم دوم میں جدید تہذیب و تمدن کے تین بڑے علمبرداروں (امریکہ کے ٹرومین، برطانیہ کے چرچل اور روس کے سٹالن) نے جاپان کا سلسلہ فتوحات روکنے کے لئے ایک اجلاس میں متفقہ طور پر جاپان کی شہری آبادی کو ایٹم بم کا نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا چنانچہ ۶ اگست ۱۹۴۵ء کو ہیروشیما اور ۹ اگست کو ناگاسا کی پر ایٹم بم گرا کر ڈیڑھ لاکھ غیر مقاتلین کی شہری آبادی کو آن واحد میں صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔
یوگو سلا ویہ میں کیمونسٹ کا خونی انقلاب
1946ء میں یوگو سلا ویہ میں کیمونسٹ انقلاب آیا تو کمیونسٹوں نے چوبیس ہزار سے زائد مسلمانوں کو تہ تیغ کیا، سترہ ہزار سے زائد مساجد اور مدارس مسمار کئے اور بیشتر مساجد کی جگہ ہوٹل اور سینما جات تعمیر کر دیئے۔ آج جس جگہ سربیا کے دار الحکومت بلغراد کا اسمبلی ہاؤس واقع ہے وہاں بلغراد کی سب سے زیادہ خوبصورت وسیع و عریض مسجد واقع تھی۔ جو 1521ء میں تعمیر کی گئی تھی۔
جنگ عظیم میں تباہی و بربادی کی بھیانک شکل
جنگ عظیم اول (1914ء تا 1918ء) میں مجموعی طور پر 75 لاکھ افراد ہلاک ہوئے اور ایک کھرب 86 ارب ڈالر کے وسائل کو نذر آتش کیا گیا۔ جنگ عظیم دو (1939ء تا 1945ء) میں مجموعی طور پر ساڑھے چار کروڑ انسان ہلاک ہوئے صرف ایک شہر سٹالن گراڈ میں دس لاکھ افراد لقمہ اجل بنے جرمنی میں ساٹھ لاکھ انسان گیس چیمبروں کے ذریعے ہلاک ہوئے جاپان کے دو شہر مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹا دئیے گئے بیک وقت چار براعظموں … یورپ ،امریکہ، ایشیاء اور افریقہ … پر مسلسل 6 برس تک اس منحوس جنگ کے مہیب سائے چھائے رہے چار براعظموں کے انسٹھ لاکھ ممالک (پچاس اتحادی اور نومحوری) آپس میں دست وگریبان ہوئے جن میں سے صرف ایک ملک امریکہ کا اس جنگ میں تین کھرب ساٹھ ارب ڈالر کا خرچ اٹھا۔
ویت نام جنگ میں انسانی تہذیب کی تباہی
ویت نام جنگ میں انسانی تہذیب کی تباہی 1965ء سے 1973ءتک کل 8 سال پر محیط ویت نام جنگ میں جدید دور کے مہذب انسانوں کے ہاتھوں انسانی تہذیب کی جو تباہی ہوئی اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
تعلیمی ادارے تباہ ہوئے2923 اسپتال تباہ ہوئے1850 گرجے اور کلیسا تباہ ہوئے465 مندر، مساجد اور دیگر عبادت خانے
تاریخ اسلام اس بات کی شاہد ہے کہ کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کو تعداد اور سامان جنگ کی برتری کبھی حاصل نہیں ہوسکی۔ مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے جذبہ ایمان کی بنیاد پر میدان جنگ میں ایسے ایسے محیر العقول کارنامے سرانجام دئیے کہ دشمنوں کی کثرت تعداد اور کثیر سامان جنگ دھرے کا دھرا رہ گیا۔
غزوہ حنین میں چھ ہزار اسیران جنگ کو محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ صرف بطور احسان بلا فدیہ رہا فرمایا بلکہ رہائی کے وقت تمام قیدیوں کو ایک ایک چادر بطور ہدیہ عنایت فرمائی ۔
1071ء میں سلجوتی سلطان الپ ارسلان نے قیصر روم دیو جانس رومانوس کی شکست دی قیصر گرفتار ہو کر ارسلان کے سامنے پیش ہوا تو اس کے پوچھا ’’اگر میں گرفتار ہو کر تمہارے سامنے پیش ہوتا تو تم مجھ سے کیا سلوک کرتے‘‘ قیصر نے جواب دیا ’’ میں کوڑوں سے تمہاری کھال کھینچ لیتا‘‘۔ سلطان نے کہا ’’ مسلمان فاتح اور غیر مسلم فاتح میں یہی فرق ہے ’’ اس کے بعد قیصر کے ساتھ جزیہ کی انتہائی معقول شرائط طے کر کے اسے بے بہا تحائف عطا کئے اس کی سلطنت اسے واپس کر دی اور بڑے شان و احترام سے رخصت کیا۔
711ء میں مجاہد اسلام محمد بن قاسم رحمہ اللہ نے سندھ فتح کیا اور صرف تین سال وہاں قیام کیا ان تین برسوں میں محمد بن قاسم رحمہ اللہ نے اپنے حسن سلوک اور حسن تدبر سے سندھیوں کو اس حد تک اپنا گرویدہ بنا لیا کہ وہ اس کی ماتحتی میں اپنے ہی فوجی سرداروں سے لڑنا باعث فخر سمجھتے تھے، تین سال بعد جب محمد بن قاسم رحمہ اللہ عراق واپس جانے لگا تو لوگوں کی اشکبار آنکھیں ان کے اندرونی غموں کی غمازی کر رہی تھیں لوگ عرصہ دراز سے اس کی جرأت ، نیک سلوک اور پر وقار شخصیت کی باتیں کرتے رہے۔
711ء میں مسلمانوں نے اندلس کو فتح کیا تو فاتح قوم کے حسن سلوک کی گواہی ایک انگریز مؤرخ ول ڈیوران نے ان الفاظ میں دی ’’ اندلس پر عربوں کی حکومت اس قدر عادلانہ، عاقلانہ اور مشفقانہ تھی کہ اس کی مثال اندلس کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔
1187ء میں سلطان صلاح الدین الایوبی رحمہ اللہ نے بیت المقدس فتح کیا تو کسی عیسائی کو کوئی تکلیف نہ دی اور ہلکا ساٹیکس (جزیہ) لگانے کے بعد سب کو مذہبی آزادی دے دی دوران جنگ عیسائیوں کا سپہ سالار رچرڈ اول بیمار ہوا تو صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ اسے کھانا، پھل اور دیگر مفرحات بھجواتا رہا۔
1193ء میں والی قرطبہ ابو یوسف یعقوب بن منصور نے طلیطلہ کا محاصرہ کیا جس پر ایک عیسائی شہزادی حکومت کر رہی تھی ، شہزادی نے ابو یوسف کو پیغام بھجوایا کہ عورتوں پر حملہ کرنا بہادروں کا شیوہ نہیں ابو یوسف نے شہزادی کو سلام بھجوایا اور محاصرہ فوراً اٹھا لیا۔
1918ء میں سویت یونین نے قازقستان پر قبضہ کیا تو وہاں کی تمام مساجد اور دینی مدارس منہدم کر دیئے، علماء اور اساتذہ کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے بھون دیا گیا۔ ان ظالمانہ کاروائیوں میں دس لاکھ قازاق مسلمان شہید کئے گئے۔
حوالہ جات
۱۔ القرآن الکریم
۲۔ الصحاح الستۃ
۳۔ مصباح اللغات از ابو الفضل عبد الحفیظ بلیادی
۴۔المعجم الوسیط از دکتور ابراہیم انیس وزملاءہ
۵۔المغازی از الواقدي
۶۔ السیرۃ النبویۃ از ابن ھشام
۷۔ تاریخِ طبری
۸۔ تاریخ طبری
۹۔ زاد المعاد في ہدْي خير العباد
۱۰۔رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و سلم از قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری
۱۱۔ الرحیق المختوم از صفی الرحمن مبارکپوری
۱۲۔ کتاب الشفاء از قاضی عیاض اندلسی
۱۳۔ تاریخ ندوۃ العلماء ، از مولوی جلیس
۱۴۔ماہنامہ قومی ڈائجسٹ ، لاہور ، جولائی 1995ء
۱۵۔ماہنامہ مجلہ الدعوۃ ، لاہور ، فروری 1993ء
۱۶۔سیرت احمد مجتبیٰ ، شاہ مصباح الدین شکیل
۱۷۔ یورپ پر اسلام کے احسان، از ڈاکٹر غلام جیلانی برقی
۱۸۔ماہنامہ اردو ڈائجسٹ ، جولائی 1995ء
۱۹۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا
۲۰۔ غزوات مقدس از محمد عنایت اللہ وارثی
۲۱۔ الجہاد فی الاسلام از سید ابو الاعلی مودودی
۲۲۔ اسلامی تاریخ پاک و ہند از ہدایت اللہ خان چوہدری
۲۳۔ جہانگیر انسائیکلو پیڈیا آف جنرل نالج از زاہد حسین انجم
۲۴۔ تاریخ اسلام از معین الدین
٭٭٭
ماخذ:
تدوین ور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید