FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

غزلیات میرؔ کے تجزیاتی مطالعے

                   امتیاز احمد

استاد، شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ۔ ۲۰۲۰۰۲

 

         ہیئتی تنقید کی Close Reading کو اپناتے ہوئے اردو میں شعری متون کے تجزیاتی مطالعے کی جس روایت کا آغاز میراجی نے ’’اس نظم میں ‘‘ (۱۹۴۴ء) کے تجزیوں سے کیا تھا بعد کے زمانے میں سوغات بنگلور کے نظم جدید نمبر کے بعد اس روایت کو زندہ رکھنے اور آگے بڑھانے میں اسلوب احمد انصاری کے شش ماہی نقد و نظر نے ایک اہم اور قابلِ ذکر کردار ادا کیا ہے۔ غالب اور اقبال کے خصوصی مطالعوں کے لیے مخصوص اس مجلہ نے اپنے تیئس سالہ ادبی سفر میں بعض غیر معمولی ادبی کارنامہ انجام دیے ہیں ۔ ان کارناموں میں غالب اور اقبال کے علاوہ اردو کے دوسرے ممتاز شعرا کے کلام کے تجزیاتی مطالعے بھی شامل ہیں ۔ صرف غزل کی حد تک اپنے آپ کو محدود رکھیں تو ولیؔ سے لے کر افتخار عارف، عرفان صدیقی، احمد مشتاق اور شہریار تک لگ بھگ پچاس شعرا کی سوسے زیادہ غزلوں کے تجزیے اس رسالے کے صفحات میں شائع ہوئے۔

        ظاہر ہے یہ کیسے ممکن تھا کہ غزل پر تنقید ہو اور خدا سخن نظرانداز کر دیے جائیں ۔ چنانچہ غزلیاتِ میرؔ کے بھی کئی تجزیے اس مجلہ کے شماروں میں شائع اور بعد میں ’غزل تنقید‘ میں شامل ہوئے۔ اس حقیر سی تحریر کا مقصد انھیں تجزیوں کا مطالعہ کرنا ہے۔ نقد و نظر کے مختلف شماروں میں میرؔ کی جن غزلوں کے تجزیے شائع ہوئے اُن کے مطلعے مندرجہ ذیل ہیں :

شیخ جی آؤ  مصلّٰیٰ کو گر و جام کرو

جنس تقویٰ کے تئیں صرف مئے عام کرو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہوتی ہے گرچہ کہنے سے یارو پرائی بات

پر ہم سے تو تھی نہ کبھی منہ پہ آئی بات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے

 یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھا مستعار حسن سے اُس جو نور تھا

خورشید میں بھی اس کا ہی ذرّہ ظہور تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں

مہلت ہمیں بسان شرر کم بہت ہے یاں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس شوخ سے سنا نہیں نام صبا ہنوز

غنچہ ہے وہ لگی نہیں اس کو ہوا ہنوز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قتل کیے پر غصہ کیا ہے لاش مری اُٹھوانے دو

جان سے بھی ہم جاتے رہے ہیں تم بھی آؤ جانے دو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں

اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا

کل اُس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا

        پہلی غزل جو نقد و نظر میں تجزیاتی مطالعہ کا ہدف بنی ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:

شیخ جی آؤ مصلّٰی کو گر و جام کرو

جنس تقویٰ کے تئیں صرف مئے عام کرو

فرش مستاں کرو، سجادۂ بے تہہ کے تئیں

مے کی تعظیم کرو، شیشے کا اکرام کرو

دامنِ پاک کو آلودہ رکھو بادے سے

آپ کو مغ بچوں کے قابل دشنام کرو

نیک نامی و تفاوت کو دعا جلد کہو

دین و دل پیش کشِ سادۂ خود کام کرو

ننگ و ناموس سے اب گزرو جوانوں کی طرح

پرفشانی کرو اور ساقی سے ابرام کرو

اُٹھ کھڑے ہو جو جھکے گردن مینائے شراب

خدمت بادہ گساراں ہی سرانجام کرو

خنکی اتنی بھی تو لازم نہیں اس موسم میں

پاس جوش گل و دل گرمیِ ایام کرو

آہ تا چند رہو خانقہ و مسجد میں

ایک تو صبح گلستان میں بھی شام کرو

رات ساری تو گئی سنتے پریشاں گوئی

میرؔجی کوئی گھڑی تم بھی تو آرام کرو

        اس غزل کا تجزیہ ڈاکٹرسید عاصم علی نے کیا ہے۔ اس کا مجموعی جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر علی لکھتے ہیں :

’’بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ شاعر نے غزل کے روایتی شیخ کو بہ انداز شوخی روایتی طنز و ملامت کا ہدف بنایا ہے۔ شیخ جو زہد و عبادت اور علائق دنیا سے لاتعلقی کی علامت ہے اس کو یہ دعوت دی جا رہی ہے کہ وہ شراب و شاہد کی طرف متوجہ ہو۔ یہ بھی لگتا ہے کہ مے اور اُس سے متعلق علائم کو دنیا کی علامت کے طور پر برتا گیا ہے جو گویا زہد و تقویٰ کی ضد ہیں ۔ مگر شوخی کی اس باریک پرت کے نیچے دیکھنے پر ایک دوسرا ہی جہان معنی اُبھرتا دکھائی دیتا ہے جو ظاہری مفہوم سے خاصا مختلف ہے۔ اس غزل میں شیخ ایک ایسے رویّے کا استعارہ بن جاتا ہے جو مکمل طور پر انسانی نہیں اور ایسے زہد و تقویٰ سے عبارت ہے جو ایک طرف بھرپور انسانی زندگی سے ہم آہنگ نہیں تو دوسری طرف بھرپور روحانیت سے بھی خالی ہے۔ یہ ایک ایسی خشک اور بنجر کیفیت ہے جو اُس کو دین و دنیا کے کسی Achievement سے ہم کنار نہیں کرتی۔ یہی سبب ہے کہ میرؔ اس کو بادہ گساری کی دعوت دیتے ہیں تاکہ کشت ویراں میں کچھ تو زرخیزی پیدا ہو۔ بہ ایں ہمہ مے کا استعارہ معرفتِ حقیقت کے تلازمے کے طور پر اُبھرتا ہے۔ یعنی ایسا جذبہ جو خشک قسم کی بے کیفی کو دور کر کے ایک انجذابی کیف و سرور اعصاب پر طاری کر دے۔ اور شوق و وارفتگی کی کیفیت پیدا کرے۔ لیکن سکری کیفیت نہیں بلکہ صحوی کیفیت۔ شاعر کی مراد غالباً یہ ہے کہ وہی زہد و تقویٰ روحانی علو کا ضامن ہوسکتا ہے جس میں خودسپردگی اور وارفتگی Unqualified Submission کی کیفیت ہو۔ اس غزل کا Dominant Mood بھی بجائے شوخی کے دردمندی کا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر شیخ جی کے ساتھ محض چھیڑ چھاڑ میں مصروف نہیں ہے۔ بلکہ دراصل اس کو راہ راست پر لانے میں سنجیدہ ہے۔‘‘ (غزل تنقید۔ ص:۱۸۶)

وہ مزید لکھتے ہیں :

’’اس اجتماع ضدّین میں پھر وہی بات ہے کہ خانقاہ ومسجد اور گلستاں کی بوقلمونی ایک دوسرے کی ضد نہیں بلکہ تکملہ ہیں ۔ اور اُن میں سے ہر ایک (دوسرے) کے بغیر ناقص و نامکمل ہے۔ اس لیے میرؔ اُن میں سے کسی ایک کی نفی کرنے کے بجائے دونوں کی یکجائی پر زور دیتے ہیں ۔ اور یہی وہ نکتہ ہے جو ایک عام دین دار اور دنیا دار کی سمجھ میں آسانی سے نہیں آتا۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ حصول دنیا کے لیے ترک دین ضروری ہے اور حصول دین کے لیے ترک دنیا۔ میرؔ یہاں اُسے یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ نظریہ گو کہ معروف ہے بالکل غلط ہے۔ بلکہ دین و دنیا، جلوت و خلوت، انفس و آفاق، اور فکر و عمل کا ایک خاص امتزاج مطلوب ہے۔ نہ کہ درمیان ترک و اختیار۔ انسان کا وجود بہ ذات خود اجتماع ضدین ہے یعنی مادّہ و روح جن میں باہمی تفریق مرگ سے موسوم ہے۔‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۹۳)

        ظاہر ہے اپنے اسی نقطۂ نظر کی روشنی میں ڈاکٹر علی نے اس غزل کا مطالعہ کیا ہے۔ وہ اجتماع ضدَّین کو اس غزل کی بنیادی تکنیک قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اگر یہ کہا جائے کہ اجتماع ضدَّین اس غزل کی بنیادی تکنیک ہے تو شاید بے جا نہ ہو گا۔ پہلے ہی شعر میں شیخ جی، مصلّٰی اور تقویٰ کے ساتھ جام اور میٔ کو جمع کر دیا گیا ہے۔‘‘ (ص:۱۸۷)

        پہلے جملہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ڈاکٹر علی Paradox یا قول محال کے معنی میں ’اجتماع ضدَّین ‘ کا استعمال کر رہے ہیں لیکن مثال اس Illusion کو دور کر دیتی ہے۔ تنقیدی اصطلاح کے طور پر اس ترکیب کا استعمال اردو میں رائج نہیں ہے۔ اردو میں رائج صنعتوں میں سے ایک صنعت، صنعتِ تضاد ضرور ہے جو اجتماع ضدَّین کی قریب المعنی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن مثال سے یہ شبہ بھی دور ہو جاتا ہے۔ لیکن بہرحال وہ اپنے ما فی الضمیر کے اظہار میں اس حد تک ضرور کامیاب نظر آتے ہیں کہ اس غزل کا بنیادی ڈھانچہ تضاد و تخالف سے بنا ہے۔

ڈاکٹر علی کی یہ بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے کہ:

’’غزل کی ابتدا ’’شیخ جی‘‘ کے ندائیہ کلمے سے ہوتی ہے۔ جس سے شیخ اپنے تمام معنوی انسلاکات کے ساتھ پیش نظر میں  آ جاتا ہے۔ گویا یہ محسوس ہوتا ہے (کہ) شیخ دائرے کے مرکز میں ہے یا Fore Grounded)ہے) جس کے گرد ترغیبات کا تانا بانا بنا گیا ہے۔ مگر آخر تک پہنچتے پہنچتے یہ تاثر بدل جاتا ہے۔ کلمہ ’شیخ جی‘ کا پوری غزل میں توارد تو نہیں ہوتا (یہ توارُد کا غلط استعمال ہے) لیکن ترغیبات کی تکرار اتنی مربوط و مستحکم ہے کہ کہیں یہ مغالطہ نہیں ہوتا کہ مخاطب بدل گیا یا نظر سے محو ہو گیا۔‘‘(ایضاً۔ ص:۱۸۷)

        ڈاکٹر علی نے یہاں توارُد کا لفظ تکرار کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ اُن کی یہ بات بھی ٹھیک معلوم ہوتی ہے کہ شیخ:

’’ایک مذہبی ظاہردار ہے۔۔۔۔۔ جس کا کردار تقشف اور ٹھنڈے پن سے عبارت ہے۔‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۸۷)

        لیکن اُن کی اس بات سے اتفاق مشکل ہے کہ پہلے شعر (مطلع) میں شیخ کو یہ دعوت دی جا رہی ہے کہ:

’’وہ اپنے مصلّٰے کو جام (یا محفل مے) کے اطراف بچھائے۔‘‘

        یہ مطلع کے پہلے مصرع میں استعمال ہونے والے لفظ گرَد/ کو/ گِرد/ پڑھنے کے نتیجہ کے طورپر ہوا ہے۔ میرؔ کا مصرع ہے   ؎

شیخ جی آؤ مصلّٰی کو گَردِ جام کرو

ڈاکٹر علی نے اسے اس طرح پڑھ لیا۔

شیخ جی آؤ مصلّٰی کو گِرد جام کرو

        ظاہر ہے گِرد جام کرنے کی کسی روایت سے اردو شاعری یا تصوف کا طالب علم واقف نہیں ہے۔ ہاں وہ حافظؔ کے اس شعر سے ضرور واقف ہے کہ   ؎

بہ مے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید

کہ سالک بے خبر نہ بود زرسم و راہ منزلہا

        ظاہر ہے تقویٰ اور پرہیزگاری کو مے نوشی پر قربان کر دینے کی روایت نئی نہیں ہے۔ میرؔ نے شراب کے پیالے میں سجادہ کو ڈبو دینے کے معنی میں ہی گردِ جام کرنے کا فقرہ استعمال کیا ہے۔ مولوی عبدالحق، ظل عباس عباسی اور ابوالکلام قاسمی اس مصرعہ کی ایک تیسری قرأت پیش کرتے ہیں   ؎

’شیخ جی آؤ مصلّٰی کو گرو جام کریں ‘

یعنی مصلّٰے کو جام کے سامنے گروی رکھ دو۔ اس شعر کے دوسرے مصرعے   ؎

جنس تقویٰ کے تئیں صرف میٔ عام کرو

کابھی وہ اسی لیے غلط مفہوم سمجھ سکے ہیں ۔ اُن کے خیال میں اس مصرعے میں یہ ترغیب دی جا ِوش گل و دل گرمئل: اعجاز عبیدز عبید………

……رہی ہے کہ شیخ:

’’تقویٰ کے حصول کے لیے بہ کثرت مے نوشی کرے۔‘‘

لیکن /صرفِ مے عام/ کا استعمال اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ شیخ کو شراب پینے کی دعوت نہیں دی جا رہی ہے بلکہ اس کا تقویٰ اور اس کی پرہیزگاری جو اس کی ذات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ شاعر اُس تقویٰ اور پرہیزگاری کو صَرفِ مے عام کرنے کی بات کر رہا ہے۔ اور اس کا صرف ایک طریقہ اس کی سمجھ میں آتا ہے کہ اس تقویٰ اور پرہیزگاری کی علامت/ سجادہ/ کو شراب کے پیالے کی گرد بنا دو۔ یعنی اُسے اتنا ارزاں کر دو کہ عام لوگوں کی آسانی سے اُس تک رسائی ممکن ہوسکے۔ یہاں ڈاکٹر علی کے اس نقطۂ نظر کی بھی تردید ہو جاتی ہے کہ:

’’میرؔ یہ نہیں کہتے کہ مصلّٰے کو ایک طرف رکھو۔ تقویٰ ترک کرو اور بادہ گساری اختیار کرو۔ اگر وہ یہ کہتے تو شیخ جی کے ہم مسلک ٹھہرتے کہ اجتماع ضدین ممکن نہیں ۔ اسی مسلک کے تحت شیخ ایک کو ترک اور دوسرے کو اختیار کرتا ہے۔ اور اسی مسلک کے تحت پھر میرؔ دوسرے کو ترک اور پہلے کو اختیار کرنے کا مشورہ دیتے جو شوخی آمیز ہوتا۔ مگر ایسا نہ کر کے میرؔ دونوں کو بہ یک وقت اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔ گویا یہ ظاہری تضادات اُن کی نظر میں دراصل تکمیلی Complementary ہیں ۔‘‘ (ص:۸۸۔۱۸۷)

        شعر کی تیسری قرأت (ظل عباس عباسی اور مولوی عبدالحق) یعنی گِرو جام کو پیش نظر رکھیں تو دو صورتیں سامنے آتی ہیں ۔ ایک معنی تو یہ بنتے ہیں کہ مصلّٰے کو جام کے بدلے میں گروی رکھ دو یعنی مصلّٰی دے کر اُس کے بدلے میں جام اس شرط کے ساتھ لے لو کہ جب تم جام واپس کرو گے تو تمہارا مصلّٰی تمہیں واپس مل جائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مصلّٰے کو جام کی خدمت میں گروی رکھ دو۔ لیکن چوں کہ گروی رکھنے کے تصو ّر میں یہ بات شامل ہے کہ کسی چیز کو گروی رکھ کر اُس کے بدلے میں کوئی چیز لیتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہو گا کہ مصلّٰی کو گروی رکھ کر اس کے بدلے میں کون سی چیز لینے کی بات کی جا رہی ہے؟ ظاہر ہے شعر میں اس کا جواب نہیں دیا گیا ہے نہ ہی شعر میں موجود الفاظ کے تلازمات سے کسی ایسی چیز کی طرف قاری کا ذہن منتقل ہوتا۔ اس لیے گروی رکھنے کے معنی میں پہلی صورت کا ہی جواز باقی رہ جاتا ہے۔ اس صورت میں مصلّٰی تقویٰ اور پرہیزگاری کا ظاہرداری کا اور اس کے ساتھ ہی تقشف اور یبوست کا استعارہ بن جاتا ہے جبکہ ’جام‘ رندی و سرمستی، سرشاری،  اور زرخیزی اور تخلیقیت کا استعارہ بن جاتا ہے۔ یہ بادہ گساری، گنہ گاری کو اور گنہ گاری عجز اور انکسار کو راہ دیتی ہے۔ جب کہ تقویٰ اور پرہیزگاری عُجب و نخوت کو راہ دیتا ہے جسے اقبال غرور زہد سے تعبیر کرتے ہیں   ؎

غرور زہد نے سکھلا دیا ہے واعظ کو

کہ بندگان خدا پر زباں دراز کرے

یہاں بھی ڈاکٹر علی کے نقطۂ نظر کے برعکس میرؔ کا نقطۂ نظر Assimilation کا یا تکمیلیت کا نہیں بلکہ ایک کو ترک کر کے دوسرے کو اختیار کرنے کا ہے۔ شوخی یہ ہے کہ جب تم مصلّٰی کو گروی رکھ کر جام کو اپنا لو گے تو پھر کبھی اس سے چھٹکارے کی صورت ممکن ہی نہیں ہو گی کہ تم جام کو واپس دے کر مصلّٰے کو حاصل کرسکو۔

        دوسرے شعر میں بھی شاعر نے اس سلسلہ کو جاری رکھا ہے۔ جس طرح پہلے شعر میں مصلّٰے کو گِرد جام/گَرد جام/گِرو جام کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا اُسی طرح دوسرے شعر میں بھی اُسی سجادہ کو فرش مستاں کرنے کی بات کی جا رہی ہے   ؎

فرشِ مستاں کرو، سجادہ بے تہہ کے تئیں

میٔ کی تعظیم کرو، شیشے کا اکرام کرو

        تَہہ کہتے ہیں لپیٹ کو، اسی سے ’تہہ بہ تہہ‘ اور تہہ در تہہ بنا ہے اس طرح موڑ کر رکھنا کہ اوپر نیچے کئی تہہ بن جائے جیسے ہم جب نماز نہیں پڑھ رہے ہوتے ہیں تو دو یا چار تہہ میں موڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔ بے تہہ وہ حالت ہے جس میں ہم اُسے کھولتے ہیں یہاں مصلّٰی کی اُس حالت کا بیان جس میں اُسے کھول کر نماز پڑھنے کے لیے بچھا دیا گیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ عام حالت میں بیٹھنے یا لیٹنے کے لیے بچھایا گیا یا بچھایا جانے والا فرش بھی اسی طرح بچھایا جاتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اس کھلے ہوئے سجادہ/ مصلّٰی میں اور رندوں اور سرمستوں کے لیے بچھائے گئے فرش میں کوئی فرق نہیں ہے۔ لیکن چوں کہ کسی کے لیے فرش بچھانا یا فرش فروش سے کسی جگہ کو کسی کی آمد کے موقع پر آراستہ کرنا اُس آنے والے کے احترام سے عبارت ہے اس لیے دوسرے مصرعہ میں شاعر اس کی بھی وضاحت کر دیتا ہے کہ مے کی تعظیم کرو، شیشے کا اکرام کرو۔ ظاہر ہے تینوں Expressions  ایک ہی بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ تمہارے اس سجادہ کے عبادت و ریاضت کے لیے استعمال سے بہتر یہ ہے کہ اسے رندوں /بادہ گساروں کے احترام کے لیے بچھا دیا جائے کیوں کہ وہ تمہارے مقابلے میں زیادہ قابلِ احترام لوگ ہیں ۔

        لیکن ڈاکٹر علی یہاں بھی ’تہہ‘ کے معنی سلوٹ کے لیتے ہیں ، اور ’بے تہہ‘ جائے نماز کی اُس حالت کو سمجھتے ہیں : ’’جس پر کوئی سلوٹ نظر نہیں آتی‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۸۸) ظاہر ہے نہ ہی اردو زبان کا روز مر ّہ و محاورہ اور نہ ہی لغات بے تہہ کے اس معنی کا ساتھ دیتے ہیں ۔ چنانچہ اس کے نتیجہ کے طور پر اس کی بنیاد پر کی گئی تشریح بھی مشتبہ ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر علی اس شعر سے بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’سلوٹ کا نہ ہونا بہ ظاہر شیخ کے حسن ترتیب کی نمائندگی کرتا ہے لیکن یہی اس کی ظاہر بینی اور بالفاظ دیگر لکیر کی فقیری کی چغلی بھی کھاتا ہے (محاورہ لکیر کا فقیر ہونا ہے، لکیر کی فقیری نہیں ) جانماز پر پڑی سلوٹ تو اُس کو منظور نہیں مگر دل و دماغ اور کردار کی سلوٹوں کی طرف اس کی کوئی توجہ نہیں جو آدم بیزاری کے رویّے سے نمودار ہوتی ہیں ۔ چنانچہ اُس کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ اپنی اس بے شکن جانماز کو مستوں کے فرش میں تبدیل کر دے۔ اب ظاہر ہے جس فرش پر مست و بے خود لوگ دھما چوکڑی مچائیں اس پر سلوٹیں ہی سلوٹیں ہوں گی۔ یعنی اصل چیز صرف ظاہری ناہمواری سے اجتناب نہیں بلکہ داخلی ناہمواری کو دور کرنا ہے۔‘‘ (ایضاً۔ص:۱۸۸)

        ظاہر ہے شعر میں دل و دماغ اور کردار کی سلوٹوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لیکن اس لیے اسے بڑی حد تک شعر کی Misreading سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ہاں اُن کی یہ بات درست ہے کہ یہ بنیادی طور پر انسان دوستی کا رویّہ ہے اور:

’’میرؔ کی یہ ترغیب Ritualistic Perfection میں Spiritualistic Perfection شامل کرنے کی ترغیب ہے۔‘‘ (ص:۱۸۹)

        پہلے اور دوسرے شعر کے مصلّٰی اور جام، فرش مستاں اور سجادۂ بے تہہ کی طرح تیسرے شعر کی بنیاد بھی پاکی اور آلودگی کے تضاد و تخالف پر استوار ہوئی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ   ؎

دامن پاک کو آلودہ رکھو بادہ سے

آپ کو مغ بچوں کے قابل دشنام کرو

        یہاں بھی ڈاکٹر علی اجتماع ضدَّین کی بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’دامن اگر پاک ہے تو آلودہ نہ ہو گا اور اگر بادے سے آلودہ ہے تو پاک نہ ہو گا۔ مگر میرؔ کا اصرار ہے کہ بادہ سے آلودہ رہنے کے باوجود شیخ جی کا دامن پاک بھی رہے۔ اس میں یہ مفہوم خاصا بیّن ہے کہ ریا کارانہ تقویٰ سے پیدا ہونے والی آلودگی بادے کی آلودگی سے زیادہ مہلک ہے۔ دامنِ پاک کی ترکیب پر یہاں کسی قدر طنز کی چھوٹ پڑتی محسوس ہوتی ہے۔ یعنی ایسا دامن جس کی پاکی پر ظاہراً بڑی توجہ صرف کی جائے مگر جس باطن کی وہ پردہ پوشی کرے وہ پاک و طاہر نہ ہو۔ اس سے وہ آلودگی بہتر ہے جس کے متعلق کہا گیا ہے   ؎

تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو

دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں ‘‘

        یہاں تک مصنف کی یہ بات قاری کو ٹھیک معلوم ہوتی ہے اور اسی آخری شعر سے قاری کا ذہن میرؔ کے ایک دوسرے شعر کی طرف بھی منتقل ہوتا ہے   ؎

اے آہوان کعبہ نہ اینڈو حرم کے گرد

کھاؤ کسی کا تیر کسی کے شکار ہو

        دوسرا مصرع خاص طورسے اہم ہے۔ پہلے مصرع میں آہوان کعبہ کے اینڈنے میں جس غرور اور تکبر کو دخل ہے اُسی کا عمل دخل دامنِ پاک کی پاکی کے عجب میں بھی موجود ہے۔ اور یہی عُجب سارے اعمال کو گھن کی طرح کھا جانے والا ہے اس لیے شاعر/راوی اس عُجب یا غرور کو بادہ گساری کی آلودگی سے انکسار میں تبدیل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہی انکسار مغ بچوں کے دشنام کا شکار ہونے اور اس کا جواب نہ دینے میں بھی موجود ہے۔ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں میں یہ انکسار موجود نہیں ہے بلکہ اپنی گنہ گاری پر ایک طرح کا فخر موجود ہے جو آثِم کو بھی زاہد کی صف میں کھڑا کر دیتا ہے۔ جب کہ کھاؤ کسی کا تیر کسی کا شکار ہو، والے مصرع میں کسی مقصد کے لیے اپنے آپ کو قربان کرنے کا پہلو موجود ہے۔

        لیکن تجزیہ نگار کی اس رائے سے اتفاق اردو شاعری کے کسی بھی طالب علم کے لیے مشکل ہے کہ:

’’مغبچوں کے سامنے کے مفہوم سے درکنار (قطع نظر کا موقع ہے) یہ دراصل استعارہ ہے نابالغ، نا پختہ، اثرپذیر اور ظاہر بیں ذہن کا۔ نا پختہ ذہن کی رسائی صرف سطح تک ہوتی ہے۔ سطحی ظواہر کی بنیاد پر ہی وہ صحیح غلط کا فیصلہ صادر کرتا ہے۔‘‘

        ڈاکٹر علی کے برعکس اس احقر کا ذہن ریاض خیر آبادی کے اس شعر کی طرف جاتا ہے کہ   ؎

یہ اپنی وضع اور یہ دشنام میٔ فروش

سن کر جو پی گئے یہ مزا مفلسی کا تھا

        ریاض کی مفلسی اور میرؔ کی بادہ خواری دونوں ایک ہے۔ یہاں یہ مفلسی کی وجہ سے منکسرالمزاج ہونے اور گالیاں کھا کر چپ رہنے پر مجبور ہے وہاں وہ (میرؔ کا کردار) کثرت شراب نوشی کی وجہ سے اپنے آپ کو قابلِ دشنام بنا لینا چاہتا ہے۔ یعنی اس حد تک اپنے آپ کو گرا لو، اپنے آپ کو حقیر فقیر بنا لو کہ مغبچے بھی تمہیں بُرا بھلا کہنے سے گریز نہ کریں ۔ تب جا کر خالق کی نظر میں آدمی محترم بنتا ہے نہیں تو بہ قول شاعر   ؎

زمیں شدیم چہ شد آسماں شدیم چہ شد

بہ چشم خلق سبک یا گراں شدیم چہ شد

اس غزل کا چوتھا شعر ہے   ؎

نیک نامی و تفاوت کو دعا جلد کہو

دین و دل پیش کشِ سادۂ خود کام کرو

        اس شعر کی تفہیم میں بھی ڈاکٹر علی ’نیک نامی و تفاوت‘ کو آدم بیزاری کے رویّے سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ یہاں بھی فخر اور غرور کا پہلو موجود ہے اور اس کے مقابلہ میں دین و دل دونوں کو اپنے صاف چہرہ والے محبوب کو پیش کر کے اپنی رسوائی کا سامان کرنے اور اس سے پیدا ہونے والے عجزوانکسار کو اپنانے کا مفہوم ہے۔

        یہی حال پانچویں شعر کا ہے۔ یہاں تجزیہ نگار نے ’ساقی سے ابرام‘ کے مفہوم کو نظرانداز کر دیا ہے۔ ان کی یہ بات ٹھیک معلوم ہوتی ہے کہ اس شعر میں ’’ننگ و ناموس کے مروجہ اصولوں ‘‘ سے قطع تعلق کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ پرفشانی کے ذریعہ اس کا بہترین اظہار ہوا ہے لیکن اسی کے ساتھ ساقی سے ابرام یعنی التماس کی بات بھی کی گئی ہے کہ ساقی سے اپنے سائے میں لے لینے اور حلقہ بادہ گساراں میں شامل کرنے لینے کی درخواست کی جائے، کہ یہی ایک صورت ننگ و ناموس کے مقررہ معیاروں سے باہر نکلنے کی ہے۔ چھٹے شعر میں محفل بادہ گساراں کو دنیا کا استعارہ خیال کرنا شعر کا خون کرنا ہے۔ کیوں کہ اس صورت میں جو لوگ بادہ گسار نہیں ہیں وہ اس دنیا سے ہی باہر ہو جائیں گے۔ پھر یہ کہنا مزید بے معنی ہو جاتا ہے کہ:

’’شیخ کو محفل بادہ گساراں میں موجود فرض کیا گیا ہے۔ میرؔ اُس کو مشورہ دیتے ہیں کہ جب تم اس محفل میں آن موجود ہوئے ہی ہو تو ایک کنارے بیٹھے رہنے سے حاصل! اُٹھو اور یہاں کے کاموں میں حصہ لو۔‘‘

آئیے میرؔ کا شعر پڑھیں   ؎

اُٹھ کھڑے ہو جو جھکے گردن مینائے شراب

خدمت بادہ گساراں ہی سر انجام کرو

یہاں بھی اُٹھ کھڑے ہونا، احترام کا اظہار کرتا ہے۔ یعنی شراب کا احترام کرو، شراب پینے والوں کا احترام کرو، ان کی گنہ گاری پر نفرین نہیں کرو، انھیں برا بھلا نہ کہو۔ Hate the sin not the sinner  ان کی خدمت ہی تمہارے مرتبہ کی بلندی کا موجب ہوسکتی ہے اور کچھ نہیں ۔

        ساتویں شعر کی تفہیم میں ڈاکٹر علی سب سے زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں ۔ شعر ہے:

خنکی اتنی بھی تو لازم نہیں اس موسم میں

پاسِ جوشِ گل و دل گرمیِ ایام کرو

ڈاکٹر علی اس شعر کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’خنکی اور گرمی کے تضاد سے معنی آفرینی کی گئی ہے۔ شیخ کا مزاج خنکی سے عبارت سے اور گرمیِ جوش و جذبات سے عاری۔ اُس نے قصداً اپنے مزاج کو ایسا بنا رکھا ہے کہ وہ اس کو حصول تقویٰ کے مقتضیات میں جانتا ہے۔ لیکن میرؔ کے نزدیک مزاج کی یہ یخ بستگی جو بن پر آئے موسم (حالات کا استعارہ) سے میل نہیں کھاتی۔ وہ شیخ کے اس رویّے کا بطلان کرتے ہیں ۔ ۔۔۔۔۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ میرؔ پھر یہاں خنکی کی سراسر نفی نہیں کرتے یعنی ترک و اختیار کا مسئلہ یہاں بھی نہیں بلکہ بگڑے ہوئے تناسب کو ٹھیک کرنے کا ہے۔ یعنی صرف اس قدر خنکی یا لاتعلقی مطلوب ہے کہ جو حسن ظواہر میں مکمل انجذاب سے بچا سکے اور دنیائے حسن میں رہتے ہوئے اس کا صید نہ بننے دے۔ نہ اس قدر خنکی مطلوب ہے کہ شیخ حسن ظواہر کے تئیں اندھا ہو جائے اور نہ اس قدر فقدان کہ حسن ظواہر اُس کو اپنے میں جذب کر کے ناکارہ بنا دیں ۔‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۹۲)

        یہ Non-Rejection یعنی ایک کو ردّ کیے بغیر دوسرے کو اپنانے کا رویّہ دوسرے اشعار کے مقابلے میں اس شعر میں بہتر طور پر موجود معلوم ہوتا ہے۔ اور ڈاکٹر علی اسے نشان زد کرنے میں بجا طور پر کامیاب ہوئے ہیں ۔

        غزل کے آٹھویں شعر میں یہ Assimilation اور زیادہ واضح ہو کر سامنے آتا ہے۔ میرؔ کا شعر ہے   ؎

آہ تا چند رہو خانقہ و مسجد میں

ایک تو صبح گلستان میں بھی شام کرو

ڈاکٹر علی لکھتے ہیں اور کیا ہی خوب لکھتے ہیں کہ:

’’انداز بیان سے مترشح ہوتا ہے کہ جیسے شاعر کا سارا ترغیباتی استدلال زاہد تنگ نظر کی کٹ حجتی کے آگے بیکار گیا جس سے شاعر ملول ہوا۔ شعر کا ’آہ‘ سے شروع ہونا یہی ظاہر کرتا ہے اور اسی جگہ اس غزل کا Dramatic Monologue ہونا سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ تم خانقاہ و مسجد کو سرے سے خیرباد کہہ دو بلکہ یہ کہ مسجد و خانقاہ میں عبادت و ریاضت کرنے کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی گلستان میں بھی وقت گزارو اور نیرنگی حسن سے خود کو آشنا کر کے صناعی قدرت کی داد دو۔ بالفاظ دیگر میرؔ یہاں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انفس کے ساتھ آفاق میں غور و فکر بھی ضروری ہے۔ درون خانہ مراقبے کے ساتھ جب تک تخلیق کائنات اور اس کے مظاہر (جو آیات خداوندی ہیں ) پر توجہ مرتکز نہ کی جائے تب تک معرفت خداوندی کا حصول ناممکن ہے۔‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۹۳)

        ظاہر ہے مقطع شیخ کی اس کٹ حجتی کے آگے ایک طرح سے ہار مان لینے کا انداز رکھتا ہے   ؎

رات تو ساری گئی سنتے پریشاں گوئی

میرؔ جی کوئی گھڑی تم بھی تو آرام کرو

اور ڈاکٹر علی اسے مناسب طور پر نشان زد کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں ۔

        میرؔ کی دوسری غزل کا تجزیہ بھی ڈاکٹر عاصم علی نے ہی کیا ہے۔ میرؔ کی غزل ہے:

ہوتی ہے گرچہ کہنے سے یارو پرائی بات

پر ہم سے تو تھمی نہ کبھی منہ پر آئی بات

جانے نہ تجھ کو جو یہ تصنع تو اُس سے کر

تس پر بھی تو چھپی نہیں رہتی بنائی بات

لگ کر قدرو رہ گئے دیوار باغ سے

رفتار کی جو تیری صبا نے چلائی بات

کہتے تھے اُس سے ملئے تو کیا کیا نہ کہیے لیک

وہ آ گیا تو سامنے اس کے نہ آئی بات

اب تو ہوئے ہیں ہم بھی ترے ڈھب سے آشنا

وہاں تو نے کچھ کہا کہ ادھر ہم نے پائی بات

بلبل کے بولنے میں سب انداز ہیں مرے

پوشیدہ کب رہی ہے کسی کی اُڑائی بات

بھڑکا تھا رات دیکھ کے وہ شعلہ خو مجھے

کچھ روسیہ رقیب نے شاید لگائی بات

عالم سیاہ خانہ ہے کس کا کہ روز و شب

یہ شور ہے کہ دیتی نہیں کچھ سنائی بات

اک دن کہا تھا یہ کہ خموشی میں ہے وقار

سو مجھ سے ہی سخن نہیں میں جو بتائی بات

اب مجھ ضعیف و زار کو مت کچھ کہا کرو

جاتی نہیں ہے مجھ سے کسو کی اُٹھائی بات

خط لکھتے لکھتے میرؔ نے دفتر کیے رواں

افراط اشتیاق نے آخر بڑھائی بات

        اس غزل کا تجزیہ کرتے ہوئے غزل کی ردیف/بات/خاص طورسے تجزیہ نگار کی توجہ کا مرکز بنی ہے۔ چنانچہ اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’بات کیا ہے؟ اپنے سادہ ترین معنی میں یہ محض بیان یا Utterance ہے لیکن الفاظ کی یہی بہ ظاہر سادہ ادائیگی Speech Act ہونے کے اعتبار سے لامحدود امکانی توانائیوں کی حامل ہے۔ الفاظ کا مخصوص انتخاب، اُن کی مخصوص نشست، اُن کا باہمی تناسب، انداز ادائیگی، لہجے کا اُتار چڑھاؤ، لہجے کا دھیما پن یا تیزی، آواز کی کیفیت، آواز کی کیفیت میں تغزل یا مختلف تغیرات کی آمیزش، صوتی تغیرات اور لہجے کے تغیرات کی آمیزش اور ان تمام اجزا کی انفرادی کیفیات اور ان کے امتزاج کے مختلف تناسبات سے برآمد ہونے والی متنوع وضعیں کثیرالنوع بھی ہوتی ہیں اور بے شمار بھی ہے۔‘‘

                                (ایضاً۔ ص:۱۶۹)

        لفظ کی اسی قوت کا ذکر کرتے ہوئے وہ ’کن‘ سے ’فیکون‘ اور پھر آدم کو آسما کا علم سکھائے جانے اور حضرت عیسیٰ مسیح کے اس قول تک پہنچتے ہیں کہ موت اور حیات زبان کی طاقت کے بس میں ہیں ۔ اس تناظر میں وہ غزل کے مختلف اشعار سے بحث کرتے اور اسے ترسیل کی کامیابی یا ناکامی کے مسئلہ کی غزل بنا دیتے ہیں ۔ وہ اس کائنات کے وجود کو بھی خدا کے Speech Act کا ہی نتیجہ قرار دیتے ہیں اور اسے نظرانداز کر دیتے ہیں کہ کیا اس کا بولنا واقعی اُسی معنی میں بولنا تھا جس معنی میں ہم بولتے یا کہتے ہیں یا بولنے یا کہنے کا عمل ہم سے سرزد ہوتا ہے؟ کیا وہاں بھی ادائیگی اہم ہے؟ کیا لفظ کائنات کے باہر ہے؟ کیا لفظ کائنات کی تخلیق سے پہلے موجود تھا؟ کیا  لفظ خدا سے پہلے موجود تھا؟ کیا لفظ خود خدا ہے؟ جیساکہ بائبل کا فرمان ہے۔ اگر لفظ خود خدا ہے تو خدا کے ذریعہ خدا کے ادا کیے جانے کے کیا معنی ہیں ؟ لیکن ان باتوں سے قطع نظر ڈاکٹر علی ایک نئی اور اہم بات یہ کہتے ہیں کہ ’کن‘ کا حکم وقتی نہیں تھا۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے:

’’اس لیے کائنات بس پیدا ہو کر نہیں رہ گئی بلکہ ہمہ وقت موجود ہوتے چلے جانے کی حالت میں ہے۔ یعنی ہر لحظہ اس میں Becoming کا عمل جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک دوسرا حکم نہ صادر کیا جائے۔ لیکن چوں کہ ’کن‘ محدود مضمرات کا حامل نہیں ہے اس لیے ’یکون‘ کا عمل بھی محدود نہیں ۔ اور اسی لیے تا حکم ثانی لامتناہی ہے۔‘‘ (ایضاً۔ ص:۸۱۔۱۸۰)

        وہ غزل کے مطلع (ہوتی ہے گرچہ کہنے سے یا رو پرائی بات۔ پر ہم سے تو تھمی نہ کبھی منہ پر آئی بات ) پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ذہن میں اُٹھنے والے خیالات، تاثرات یا ردّ عمل کی مجرد لہریں زبان سے ادا ہو کر الفاظ کی (نسبتاً) ٹھوس شکل اختیار کر لیں تو پھر نتائج و عواقب کا ایک سلسلہ شروع ہو گا اور اس سلسلے میں ہر نتیجہ گزرے ہوئے نتیجے کا ماحصل اور آنے والے نتیجے کا پیش خیمہ بنتا جائے گا۔۔۔۔۔ بیان دینے کے بعد بیان دینے والا خود اپنے بیان کے نتائج و عواقب کی زد میں ہو گا۔ یہ بھی ممکن نہ ہو گا کہ Utterance کے بعد (یعنی بات پرائی ہونے کے بعد) اُس کو اس طرح واپس لیا جاسکے کہ گویا بیان دیا ہی نہیں گیا تھا۔‘‘ (ایضاً۔ ۷۰۔۱۶۹)

        اس بات کے ثبوت کے طور پر وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ مثال کے طور پر خدا نے ایک ’کن‘ کے ذریعے یہ کائنات تخلیق کی اب جب وہ:

’’کن کو واپس لے گا تو کائنات اچانک اس طرح غائب نہیں ہو جائے گی کہ جیسے تھی ہی نہیں بلکہ اس کی Undoing حادثۂ عظیم کی صورت میں برپا ہو گی جس کو اصطلاحاً قیامت کہتے ہیں ۔‘‘

                                 (ایضاً۔ ص:۱۷۰)

        ڈاکٹر علی کے خیال میں شاعر کو یہ شعر کہتے ہوئے ان تمام باتوں کا احساس و ادراک ہے۔ گو وہ شعر میں استعمال ہونے والے لفظ گرچہ، کا ذکر نہیں کرتے مگر اس مفہوم تک پہنچ جاتے ہیں جو گرچہ کے ذریعے ادا ہوا ہے یعنی سب کچھ جانتے ہوئے بے پروائی اور بے باکی کا رویہ۔ ان کے الفاظ میں :

’’شاعر یہ جانتا ہے کہ منہ سے نکلی بات کمان سے نکلا تیر ہوتی ہے جو کبھی واپس نہیں آتا۔ اور اگر واپس لے بھی لی جائے تو اس کے تاثر کو Speaker اور سامع کے ذہنوں سے یکسر محو نہیں کیا جاسکتا ۔ اور نتیجتاً دوستی دشمنی میں بدل سکتی ہے مگر اس کے اندر جو حق گوئی اور بے باکی ہے وہ اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ ایسی دوستی کی پروانہ کرے جو حق گوئی کی متحمل نہ ہوسکے۔ چنانچہ وہ حق گوئی اور بے باکی کے نتیجے میں ان خیالات کے اظہار سے باز رہ کر اپنے ضمیر سے ناانصافی نہیں کرسکتا جو اُس کے جذبے کی صداقت سے برآمد ہوتے ہیں ۔ اور تمام منفی اور ناخوش گوار عواقب اور ان کے تسلسل کو بھگتنے کے لیے تیار ہے۔‘‘

                                 (ایضاً۔ ص:۱۷۲)

        تجزیہ کا سب سے دلچسپ حصہ وہ ہے جس میں تجزیہ نگار نے پہلے مصرعے کے الفاظ کی ترتیب کو اُلٹ پلٹ کر مختلف ترتیبوں کے ذریعہ اصل مفہوم تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کائنات کے وجود و عدم کے جن مسائل کو ڈاکٹر علی اس تجزیہ کے سلسلہ میں زیر بحث لائے ہیں اس شعر کے تجزیے میں اُن کا کوئی جواز پیدا ہوتا بھی ہے یا نہیں ؟

        غزل کا دوسرا شعر ہے   ؎

جانے نہ تجھ کو جو یہ تصنع تو اُس سے کر

تس پر بھی تو چھپی نہیں رہتی بنائی بات

        اس شعر کو بھی وہ پہلے شعر سے ہی جوڑ کر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ان کے خیال میں :

’’شاعر اس امر کے تئیں حساس ہے کہ اگر کوئی منہ پر آئی بات کو چھپانا بھی چاہے اور اپنے اوپر جبر کر کے وہ بات نہ کہے جو اس کے ذہن میں بلکہ زبان پر ہے بلکہ اس کی جگہ کوئی اور منفعت بخش، خوش کن یا کم از کم بے ضرر بات کہہ دے تب بھی کسی خاص نتیجے کے برآمد ہونے کی توقع نہیں ہے۔‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۷۲)

        اس شعر کے حوالے سے غالب کے اس شعر کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ   ؎

ہے بس کہ ہر اک اُن کے اشارے میں نشاں اور

کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گمان اور

ظاہر ہے ان دونوں اشعار کا تقابلی مطالعہ دلچسپ نتائج کا حامل ہوسکتا ہے لیکن مصنف نے اس سے شاید شعوری طور پر احتراز کرنے کی کوشش کی ہے۔

        غزل کے پانچویں شعر  ؎

اب تو ہوئے ہیں ہم بھی ترے ڈھب سے آشنا

وہاں تو نے کچھ کہا کہ ادھر ہم نے پائی بات

کو بھی ڈاکٹر علی نے ابتدائی دونوں شعروں سے ہی جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اظہار اور ترسیل کے مسئلے سے بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر علی نے دو بہت ہی دلچسپ فرضی مکالمے تحریر کر کے روز مر ّہ اور محاورہ کی سطح پر زبان کے اظہار و ترسیل کے عمل میں تہذیبی اثرات کی نشان دہی کی ہے کہ جہاں یہ کھانچہ یعنی Gap پیدا ہوتا ہے وہیں ترسیل کی ناکامی کا مسئلہ اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ پانچویں شعر کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر علی لکھتے ہیں :

’’میرؔ کے ہاں یہ ترسیلی سُقم باہم گفتگو کو برباد نہیں کر پاتا کہ وہ اور ان کا محبوب ایک دوسرے کے ڈھب سے آشنا ہیں ۔ اس شعر میں یہ نکتہ بھی مضمر ہے کہ دو دلوں کی قربت دراصل بہ سرعت ترسیل باہمی Perfect Communication کا نام ہے۔ اگر باہمی ترسیل کا وسیلہ نہ ہو تو دو الگ مکانی قربت کے باوجود ذہنی بعد المشرقین کا شکار ہوسکتے ہیں جس کا نتیجہ انتشار، عدم توافق Disharmony اور رشتے کی بربادی کی صورت میں نکلے گا۔‘‘

        دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شعر میں بھی ڈاکٹر علی کو کچھ مذہبی معاملات نظر آ جاتے ہیں ۔ یا اگر نہیں نظر آتے ہیں تو بھی وہ اسے زبردستی داخل کرنا ضروری خیال کرتے ہیں ۔ لکھتے ہیں :

’’خدا اور بندے کے درمیان بھی یہی ایں و آں کا فاصلہ حائل ہے۔ تمام مذاہب اسی فاصلے کو دور کرنے کے مختلف ترسیلی نسخے ہیں ۔ ہندو اور صوفی فلسفے اسی فاصلے کے مٹ جانے کو حقیقت عظمیٰ میں حلول سے تعبیر کرتے ہیں اور قرآن کریم اسی کو صبغۃ اﷲ یعنی اﷲ کے رنگ میں رنگ جانے سے تعبیر کرتا ہے اور جو ایسا کر پاتے ہیں ان کے بارے میں کہتا ہے کہ رضی اﷲ عنہم و  رضو عنہ یعنی اﷲ اُن سے راضی ہوا اور وہ اﷲ سے۔ گویا Perfect Communication والی کیفیت۔‘‘ (ایضاً۔ ص:۷۶۔۱۷۵)

ظاہر ہے میرؔ کا یہ شعر اس گفتگو کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ لیکن تجزیہ نگار کی مذہبیت اسے یہاں Insert کرنا ضروری سمجھتی ہے۔

        غزل کا چوتھا شعر ہے   ؎

کہتے تھے اُس سے ملئے تو کیا کیا نہ کہیے لیک

وہ آ گیا تو سامنے اُس کے نہ آئی بات

        مصنف کے خیال میں یہ ترسیل کی ناکامی کا شعر ہے۔ لیکن دوسرے مصرعہ کا آخری حصہ نہ آئی بات، اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ لیکن یہیں سے تجزیہ نگار نے ایک پہلو تلاش کر لیا ہے کہ:

’’بعض ترسیلی مواقع ایسے ہوتے ہیں کہ جہاں جملہ ترسیلی امکانات کے مسدود ہو جانے سے ہی عمل ترسیل شدید ہو جاتا ہے اور اس کے برخلاف ایسے مواقع بھی ہوسکتے ہیں کہ واضح ترین لفظی معمول کے باوجود ترسیل بالکل نہ ہوسکے۔‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۷۷)

        خود میرؔ کے یہاں اسی مضمون کا ایک دوسرا اس سے زیادہ خوبصورت شعر موجود ہے   ؎

یوں کہتے اور یوں کہتے، یوں کہتے جو وہ آتا

سب کہنے کی باتیں ہیں ، کچھ بھی نہ کہا جاتا

        دونوں کا تقابلی مطالعہ اس مسئلہ کو اور زیادہ واضح طور پر سامنے لاسکتا تھا۔ لیکن تجزیہ نگار کا ذہن Speech Act, Elocutionary Effect, Communicative strategies, Intensified communication, Communication Failure, Utterance Failure, Communicative Intent اور Degree of Intensity وغیرہ اصطلاحوں اور ان کے متعلقہ نظریات میں اس طرح پھنسا رہا کہ اسے اس کے لیے وقت ہی نہیں مل پایا ہو گا۔

        بقیہ تمام اشعار کو بھی تجزیہ نگار نے ترسیل کے مسئلہ سے ہی جوڑ کر دیکھا ہے۔ اور قطع نظر اُن کی اصطلاحی مجبوریوں کے بڑی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں ۔

        اس سلسلہ کی تیسری غزل مندرجہ ذیل ہے   ؎

 دیکھ تو دل کہ جان سے اُٹھتا ہے

یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے

گورکس دل جلے کی ہے یہ فلک

شعلہ اک صبح یاں سے اُٹھتا ہے

خانۂ دل سے زینہار نہ جا

کوئی ایسے مکاں سے اُٹھتا ہے

لڑتی ہے اُس کی چشم شوخ جہاں

ایک آشوب واں سے اُٹھتا ہے

یوں اُٹھے آہ اُس گلی سے ہم

جیسے کوئی جہاں سے اُٹھتا ہے

عشق میرؔ ایک بھاری پتھر ہے

کب یہ تجھ ناتواں سے اُٹھتا ہے

        اس غزل کا تجزیہ ڈاکٹرسیدامین اشرف نے کیا ہے۔ مجموعی طور پر اس غزل سے بحث کرتے ہوئے ان کا ذہن جن باتوں کی طرف متوجہ ہوا ہے وہ (۱) ردیف اُٹھتا ہے کی حرکت پذیری اور نمو پذیری (۲) استفہام کے استعمال کی وجہ سے غور و تامل کا انداز پایا جانا اور (۳) ردیف کا شعر کی نحوی ترکیب سے معنوی وابستگی رکھنا ہے۔

        پہلے شعر کا تجزیہ کرتے ہوئے پہلے جملہ میں ہی ڈاکٹر اشرف نے اپنے تنقیدی محاورہ اور Tool سے قاری کو واقف کرا دیا ہے۔ یعنی یہ کہ وہ اشعار میں استعمال ہونے والے کلیدی الفاظ اور پھر اُن کے متعلقات اور تلازمات کے حوالے سے گفتگو کرنے جا رہے ہیں ۔ چنانچہ پہلے شعر میں ان کے خیال میں ’جان‘ اور ’دھواں ‘ کلیدی الفاظ ہیں ۔ اسی کے حوالے سے آگ کی طرف ذہن جاتا ہے اور آگ کا کام جلانا ہے جس سے دھُواں پیدا ہوتا۔ چوں کہ آگ لگنے کی کوئی جگہ ہوتی ہے اس کہاں ، کے استعمال کے ذریعے غور و فکر کی دعوت کا پہلو پیدا ہو گیا ہے۔ لیکن ڈاکٹر اشرف کے مطابق خاص بات یہ ہے کہ:

’’شعر کے کسی بھی لفظ میں تڑپنے، تلملانے، یا نالہ و شیون کرنے کا قرینہ نہیں ملتا۔‘‘ (ایضاً۔ص:۱۵۹)

شعر کے پہلے دوا لفاظ ’دیکھ تو‘ کے حوالے یہ بات بھی اہم ہے کہ شاعر نے شعوری طور پر یہاں ابہام پیدا کیا ہے۔ ’دیکھ تو‘ کا اشارہ کس طرف ہے شاعر کی ذات کی طرف یا محبوب کی ذات کی طرف؟ اس ابہام نے شعر کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر اشرف کی خوش ذوقی کا ثبوت اس شعر کے تجزیے میں شیفتہؔ اور انیسؔ کے ساتھ ساتھ خود میرؔ کے ایک دوسرے شعر کا حوالہ دینا ہے۔ شیفتہؔ کا شعر ہے   ؎

شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہؔ

اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی

انیسؔ کا شعر ہے   ؎

کھلا باعث یہ اُس بے درد کے آنسو نکلنے کا

دھواں لگتا ہے آنکھوں میں کسی کے دل کے جلنے کا

اور خود میرؔ کا شعر ہے   ؎

کیا جانئے کہ چھاتی جلے ہے کہ داغِ دل

اک آگ سی لگی ہے کہیں کچھ دھواں سا ہے

        ظاہر ہے ان چاروں شعروں کا تقابلی مطالعہ اس تجزیے کی خوب صورتی میں اضافہ کرتا ہے۔ ظاہر ہے ان چاروں شعروں کا تقابلی مطالعہ اس تجزیے کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے۔ لیکن شمس الرحمن فاروقی نے ’’شعر شور انگیز‘‘ میں اس شعر پر گفتگو کرتے ہوئے بعض دوسرے پہلوؤں کی طرف بھی اشارے کیے ہیں ۔ اُن کے خیال میں :

’’سب سے پہلی بات یہ کہ دونوں مصرعے انشائیہ ہیں ، اور ان کے لہجے میں شدید ڈرامائیت ہے۔ اس میں تحیّر، Urgency، افتخار، خفیف سا طنز سب شامل ہیں ۔ پھر متکلم اور مخاطب کا ابہام بھی خوب ہے۔ ممکن ہے شعر کا مخاطب خود ہی متکلم ہو۔ یعنی متکلم اپنے آپ سے کہہ رہا ہو کہ تم کس خیال میں گم ہو؟ کہاں محو ہو، دیکھو دھُواں اُٹھ رہاہے۔ پتہ لگاؤ کہاں سے اُٹھ رہا ہے؟ تمہارا دل جل رہا ہے کہ تمہاری جان جل رہی ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ عاشق (متکلم) معشوق سے کہہ رہا ہے کہ ذرا دیکھ تو سہی میں جلا جاتا ہوں ۔ ذرا سوچ اور پتہ لگاکہ یہ دھواں میرے دل کا (یعنی آہوں کا) ہے یا میری جان (یعنی میری زندگی، میری روح) کا ہے۔ تیسرامفہوم یہ ہے کہ کوئی اور شخص معشوق سے کہہ رہا ہے کہ ذرا دیکھو تو سہی یہ تمہارے عاشق کو کیا ہو گیا؟ یہ دھواں اس کی آہوں کا ہے (دل کاہے) کہ اس کی جان ہی جلی جا رہی ہے۔‘‘ (شعر شور انگیز، جلد چہارم از شمس الرحمن فاروقی، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، ۱۹۹۴ء ص:۲۳۸)

        ظاہر ہے فاروقی نے انشائیہ اسلوب، ڈرامائیت، تحیّر اور طنز وغیرہ کے ساتھ معنی کی جس کثیر الجہتی کی طرف اشارہ کیا ہے وہ ڈاکٹر اشرف کے یہاں نہیں پایا جاتا ہے۔

        دوسرے شعر میں وہ گور، فلک، شعلہ (سورج) اور دل جلا (مدفون) چار الفاظ کو شعر کے مرکز میں رکھتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں ’دل جلے‘ کی ترکیب سے بحث بہت دلچسپ ہے۔ لکھتے ہیں :

’’شعر میں ’دل جلے‘ کی ترکیب میرؔ کی فن کارانہ ہنر مندی پر دال ہے۔ معمولی شاعر اس شعری سانچہ میں عاشق، دیوانہ، وحشی یا مجنوں جیسے کسی لفظ کا استعمال کر کے عہدہ برآ ہو جاتا۔ بظاہر تو ’دل جلے‘ میں ایسے عاشق نامراد کی تصویر سامنے آتی ہے جو یاس و حسرت کا مارا ہوا ہو اور جسے محبوب جلی کٹی سناتا ہو مگر یہاں اس کے برعکس ’دل جلے‘ کا استعمال گورکی شعلگی کی مناسبت سے ہے۔ دوسرے یہ کہ انتقال مکانی کے ساتھ موت زندگی ہی کا تسلسل ہے اور درد عشق زندگی کے ساتھ۔ اور یہی صبح کا جواز ہے جو زندگی کی علامت ہے۔ شعلہ موجود اضافی ہے اور عاشق کے جذبات کی حرارت کا خارجی مظہر اور گور فلک، عاشق کی ناآسودہ خواہشات کی بیکرانی کا استعارہ۔‘‘

                                 (ایضاً۔ ص:۱۶۱)

اُن کے خیال میں :

’’اس تصویرسازی کے وسیلے سے میرؔ اس نکتے کی ترسیل کرنا چاہتے ہیں کہ محرومی اور ناکامی ہی انسانی عشق و محبت کا ماحصل ہیں ۔۔۔۔‘‘

                                 (ایضاً۔ ص:۱۶۱)

وہ میرؔ کے ذاتی تجربات کی روشنی میں اس شعر کا مطالعہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’اس دل سوختہ پر عذاب عشق کا یہ عالم ہے کہ قبر سے بھی شعلہ نکل کر رہا ہے۔‘‘ (ایضاً۔ص:۱۶۱)

اور

’’فلک نیلگوں بھی انھیں کسی دل جلے کی قبر لگ رہا ہے۔‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۶۱)

        تیسرے شعر (خانۂ دل سے زینہار نہ جا۔ کوئی ایسے مکاں سے اُٹھتا ہے) کو ڈاکٹر اشرف نے خود میرؔ ہی کے دو اور شعروں کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے   ؎

طریق عشق میں ہے رہنما دل

پیمبر دل ہے، قبلہ دل، خدا دل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بُت خانہ کو اُجاڑیے، کعبہ کو ڈھائیے

دل کو نہ توڑیے کے خدا کا مقام ہے

لیکن تجزیہ نگار کو زیر تجزیہ شعر کے حوالے سے سودا کا یہ شعر پتہ نہیں کیوں یاد نہیں آیا  ؎

کعبہ اگرچہ ٹوٹا تو کیا جائے غم ہے شیخ

کچھ قصرِ دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا

لیکن اس شعر سے قطع نظر مذکورہ شعر سے بھی تجزیہ نگار نے شعر زیر بحث کا کوئی تقابل نہیں کیا ہے تاکہ شعر زیر بحث کی انفرادیت نمایاں ہوسکے۔

        دوسرے شعر کی طرح تیسرے شعر کو بھی تجزیہ نگار نے شاعر کی ذاتی واردات کے طور پر دیکھا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:

’’خانۂ دل سے نہ جانا اُس کی رونق اور گرم بازاری قائم رکھنے کے مترادف ہے۔ اس کے برعکس خانۂ دل سے چلے جانے کا منطقی نتیجہ ہے عاشق کی حوصلہ شکنی یا پیمان وفا کا ٹوٹ جانا۔ پیمانِ وفا کے ٹوٹ جانے کے باوجود اُمید و بیم کا عالم ہے۔ شاعر اب بھی محبوب سے لَو لگائے ہوئے ہے۔ اُسے ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں محبوب کے چلے جانے سے دل کی ساری رونق پامال نہ ہو جائے۔ ’’زینہار‘‘ کا محل استعمال یہ ہے کہ میرؔ کو ہرگز یہ گوارا نہیں کہ اُن کی زندگی جو آزاد محبت کی سرخوشی سے عبارت ہے اس کے تسلسل میں جبر وقت رخنہ اندازی کرے۔ شعر کے مفہوم میں انسان دوستی کا پہلو بھی مستترہے۔ خانۂ دل سے نہ جانے کی خواہش کا اظہار وہی کرے گا جس کے دل میں گنجائش ہو گی۔

     گنجائش کا انحصار محبت اور انسان دوستی پر ہے۔ دل کی وسعت میں اضافے کے ساتھ انسانی محبت کا دائرہ بھی وسیع تر ہو جائے گا اور اس طرح یہ میل اور رفاقت ایک خوش گوار ماحول کی فضا آفرینی کا وسیلہ بنے گا۔

      ایسے مکان، سے یہ حقیقت مترشح ہے کہ دل کا مکان یا ’خانۂ دل‘ امتیازی شان رکھتا ہے اور سارے مکانوں پر فوقیت شرط یہ ہے کہ آرائش و کدورت سے پاک ہو۔‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۶۱۔۱۶۲)

        یہاں لفظ ’ایسے‘ مزید وضاحت طلب ہے۔ اس میں وسعت اور کشادگی بھی ہوسکتی ہے، خوبصورتی بھی ہوسکتی ہے، دلکشی بھی ہوسکتی ہے، اور جیسا تجزیہ نگار نے ذکر کیا ہے خلوص اور بے ریائی بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ان سب کے علاوہ کوئی بات کو جو راوی کے ذہن میں موجود ہو اور جس کو آنے والے زمانوں ، ذہنوں ، ضرورتوں اور صلاحیتوں کا قاری اپنے اپنے حساب سے De-code کرسکتا ہو۔ ڈاکٹر اشرف کا نقطۂ نظر چوں کہ سوانحی ہونے کی وجہ سے منشائے مصنف کا ہے اس لیے انھوں نے اسے رومانیت کے محدود دائرے میں ہی دیکھا ہے یا پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تجزیہ نگار کی متصوفانہ شخصیت کا پرتو اس میں نظر آنے لگا ہے۔

        چوتھے شعر (لڑتی ہے اُس کی چشم شوخ جہاں ۔ ایک آشوب واں سے اُٹھتا ہے) کے تجزیے میں بھی تجزیہ نگار نے ذاتی واردات کے نقطۂ نظر کو ہی سامنے رکھا ہے۔ چنانچہ ’لڑنے‘ سے بحث کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’لڑنے میں یہ نکتہ ہے کہ میرؔ کی نظریں بھی اُن رہی ہیں ۔۔۔۔ کیوں کہ لڑنے کے لیے دو چیزوں کا متصادم ہونا ضروری ہے۔‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۶۳)

پھر آشوب سے بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’یہ آشوب ہے کیا؟ بے تابی، بے خودی، جامہ دری، صحرا نوردی، گریۂ نیم شبی، اور دیوانگی، غرض کہ کثرت آشوب کا ایک غیر مختتم سلسلہ۔‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۶۳)

’’آشوب کی ذو معنویت لطف دے رہی ہے۔ آشوب روزگار سے مراد ہے اشیائے کائنات اور اشخاص کائنات پر چشم شوخ کی قہر سامانی، اور آشوب چشم سے مراد وہ لذّت آزار ہے جو محبوب کی شوخ نگاہی کی پروردہ ہے۔‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۶۳)

        یہاں تجزیہ نگار سے ایک چوک ہو گئی ہے یعنی آشوب چشم کو آشوب روزگار کا متضاد سمجھنے کی۔ آشوب روزگار کا اُلٹ آشوب محشر ہے۔ آشوب چشم آنکھ کی ایک بیماری ہے جسے عرف عام میں آنکھ آنا کہتے ہیں ۔ پھر آشوب میں قہرسامانی کا مفہوم بھی نہیں پایا جاتا ہے۔ نہ ہی بے تابی، بے خودی، جامہ دری، صحرا نوردی، گریۂ نیم شبی یا دیوانگی کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ ہاں یہ سب کسی فتنہ و فساد (آشوب) کا سبب ہوسکتے ہیں ۔ خود آشوب نہیں ۔ آشوب کے معنی نور اور آصفیہ دونوں میں شور، ہنگامہ، سرکشی، فتنہ، فساد اور پریشانی ہے۔ اسی سے شہر آشوب اور پُر آشوب کی ترکیبات بنی ہیں ۔ اردو کا محاورہ آشوب اُٹھنا، آشوب اُٹھانا، اور آشوب دب جانا ہے۔ خود میرؔ کے یہاں ان کا بہت خوبصورت استعمال ملتا ہے  ؎

ہو شرم آنکھ میں تو بھاری جہاز سے ہے

مت کرتے شوخ چشمی آشوب سا اُٹھا تو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس غصیلے کی سرخ آنکھیں دیکھ

اُٹھے آشوب خانقاہ کے بیچ

آشوب دب جانے کا انشاؔ نے بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے   ؎

ناظم الملک بہادر وہ جناب عالی

دب گئے جس سے زمانے کے سب آشوب و فتن

میرؔ کے شعر زیر بحث میں تو صرف معشوق کی آنکھوں کے فتنہ زا ہونے کا مفہوم بندھا ہے۔ دوسرے مصرعہ میں /ایک/ پُر زور stress کی شدت کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی ایسا فتنہ اُٹھتا ہے جو سب کچھ تباہ و برباد کر دینے کے لیے کافی ہے۔

        پانچویں شعر میں (بیٹھنے کون دے ہے پھر اُس کو ۔ جو ترے آستاں سے اُٹھتا ہے) میرؔ کا ذکر کہیں نہیں ہے۔ لیکن تجزیہ نگار کو یہ میرؔ کے ذکر سے ہی آراستہ نظر آتا ہے۔ لکھتے ہیں :

’’میرؔ محفل سے اُٹھائے جا رہے ہیں یا اُٹھ رہے ہیں ۔ محفل سے اُٹھنے کا سبب التفات محبوب میں کمی یا میرؔ کی نازک مزاجی ہے۔ میرؔ کا محفل سے اُٹھایا جانا وفا کا امتحان لینا یا آزمائش و ابتلا میں ڈالنا ہے۔ اُٹھنے یا اُٹھائے جانے کا سبب ’تیرے‘ یعنی مشارُ اِلیہ کا نخوت حسن ہے۔ نہ میرؔ کی آداب محبت سے روگردانی۔‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۶۳)

ظاہر ہے اس شعر سے ان باتوں کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ہاں تجزیہ نگار کی یہ بات درست ہے کہ:

’’اس شعر کی خوبی اس کی رمزیت میں ہے۔ اس کاروبار شوق میں محبوب کہیں فعال نظر نہیں آتا۔ میرؔ کے دل و دماغ پر حسن کی اثر انگیزی مسلط ہے مگر شعر میں ضمنی طور پر بھی اس رعنائی و دلکشی کا حوالہ تک نہیں ۔ آخر مادی حسن کی شناخت ہوتی ہے ذکر عارض و گیسو، چشم و لب، قد و قامت، انداز سخن اور خرام ناز سے اور کمال یہ ہے کہ لفظ ’تیرے‘ میں یہ سارے معنوی التزامات اور مناسبات شامل ہیں ۔‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۶۳)

ایک شعر کی رمزیت کے اس نظری عرفان کے باوجود جب وہ شعر کی تعبیر پر آتے ہیں تو دامنِ شعر پھر اُن سے دور جا پڑتا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں :

’’میرؔ نے دراصل اس شعر میں اپنا اور اپنے زمانے کا کرب و اضطراب سمو دیا ہے۔ بچپن میں سایۂ پدری سے محرومی، امان اﷲ جیسے مخلص دوست کا غم، اقربا کی سرد مہری، معاشی پریشانیاں ، اکبرآباد سے دلّی اور لکھنؤ کا سفر، دلّی کی تباہیوں اور بربادیوں کے مناظر، نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۶۴)

        سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شعر کے کس لفظ یا کن الفاظ سے مذکورہ مفاہیم کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے؟ کیا شعر میں کوئی ایک لفظ بھی ایسا ہے جس کے تلازمات قاری کے ذہن کو اس طرف لے جاتے ہیں ؟ اور اس کا جواب نفی میں ہے۔

        شمس الرحمن فاروقی اس شعر سے بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’میرؔ کا شعر چند در چند معنی رکھتا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ پہلے معنی تو یہ ہیں کہ جو تیرے آستاں سے اُٹھا وہ دربدر ہو گیا۔ اُسے پھر بیٹھنے (آرام کرنے) کا موقع نہ ملا۔ یعنی عاشقوں کی پناہ گاہ بھی تو یہی ہے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ جو تیرے آستاں سے اُٹھا لوگوں نے اُسے تیرا بے وفا قرار دے کر اُسے پھر قرار نہ لینے دیا۔ بلکہ اسے ہمیشہ کے لیے آوارہ گرد کر دیا۔ تیسرے معنی یہ ہیں کہ جو تیرے آستاں سے اُٹھا وہ پھر کھڑا ہی رہا۔ اُس کو بیٹھنے کی اجازت نہ ملی۔ ان معنی کی رو سے ’’بیٹھنے کون دے ہے۔‘‘ میں استفہام انکاری کے ساتھ ساتھ ایک غیر شخصی استبداد بھی ہے۔ مثلاً ہم کہتے ہیں : ’’جو اس بھنور میں پھنسا پھر اُسے نکالے کون؟‘‘ یعنی بھنور میں پھنسے ہوئے شخص کا نکلنا ممکن نہیں ۔ چوتھے معنی یہ ہیں کہ تیرے آستاں پر لوگوں کا ہجوم اس قدر ہے کہ اگر کوئی شخص وہاں سے اُٹھ جائے تو کوئی دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ اور پہلے والے شخص کو بیٹھنے کا موقع دوبارہ نہیں ملتا۔ ہرصورت میں آستاں سے اُٹھنے والا شخص اپنے بھلے بُرے کی پہچان سے عاری اور لائق تحقیر شخص ٹھہرتا ہے۔ ایسا شخص جس نے خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی اور جس کا اب کوئی ٹھور ٹھکانہ نہیں ۔‘‘ (شعر شور انگیز، جلدچہارم از شمس الرحمن فاروقی، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی ۱۹۹۴ء، ص:۲۴۱)

        غزل کے چھٹے شعر  ؎  یوں اُٹھے۔۔۔۔ کے بارے میں ڈاکٹر اشرف نے ٹھیک لکھا ہے کہ:

’’چھٹے شعر کی اساس تشبیہ پر ہے۔ ’یوں ‘ کلمہ تشبیہ، اُٹھنے کے عمل کی لمحاتی کش مکش مشبّہ، جسم سے روح نکلنے کا وقتی آزار مشبّہ بہہ اور جیسے، حرف تشبیہ، ’آہ حرفِ ندبہ ہے اور چونکہ ’شعر‘ میں مرکزی حیثیت ’گلی‘ کی ہے اس لیے ’گلی‘ ، ’مندوب‘ ٹھہری۔‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۶۴)

’’اصل چیز تو گلی سے جدا ہونے کی کیفیت ہے اور اس گلی کا رشتہ تمام اسماء، اشخاص اور اشیائے کائنات سے مربوط ہے۔ اس دنیائے آب و گل سے خوش دلی کے ساتھ کون جانا چاہتا ہے۔ یہی قلق بزم جاناں سے اُٹھنے پر ہے اور آہ اس کی تصدیق کرتا ہے۔‘‘ (ایضاً۔ص:۱۶۴)

ہاں تجزیہ نگار کی اس بات سے اتفاق مشکل ہے کہ:

’’گلی سے اُٹھنا‘‘ ایک دل خراش تصویری پیکر اور ’’جہاں سے اُٹھنا‘‘ غیر معمولی شاعرانہ مصوری ہے۔‘‘ (ایضاً۔ ص:۱۶۴)

        یہ دونوں اردو کے عام اظہاریے ہیں جن کو شاعر بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے اسی مضمون کے میرؔ کے ایک فارسی اور دیوان ششُم کے ایک اردو شعر سے تقابل کے بعد اس شعر کے سلسلہ میں لکھا ہے:

’’زیر بحث شعر کیفیت سے مال مال ہے اور معنی سے بھی خالی نہیں ۔ دوسرے مصرعے کے ابہام نے حسب ذیل امکانات پیدا کر دیے ہیں ۔ (۱) جب ہم اُٹھے تو بہت سے لوگوں نے آہ و فغاں کی گویا ہم نہ اُٹھے کوئی جنازہ اُٹھا۔ (۲) ہم وہاں سے اس قدر بادل ناخواستہ اور نا رضا مندی سے اُٹھے گویا دنیا سے اُٹھ رہے ہوں ۔ (۳) ہم اپنی مرضی سے نہ اُٹھے، بلکہ اُٹھائے گئے جس طرح جنازہ اُٹھایا جاتا ہے۔ (۴) ہم وہاں سے اس قدر رنجیدہ اور غمگین اُٹھے گویا کوئی دنیا سے اُٹھ رہا ہو اور ہم اس کی مٹی میں شریک ہو رہے ہوں ۔ (۵) معشوق سے دوری میں زندگی کا لطف کچھ نہیں اس لیے جب ہم اس گلی سے اُٹھے تو گویا دنیا ہی سے اُٹھ گئے۔‘‘

 (شعر شور انگیز، جلد چہارم، از شمس الرحمن فاروقی، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی ۱۹۹۴ئ، ص:۴۳۔۲۴۲)

        معنی کی ان مختلف جہتوں کا ڈاکٹر اشرف کے یہاں کوئی فکر نہیں ملتا ہے۔ یہی حال شعری خوبیوں کا بھی ہے۔ فاروقی نے اس شعر کی شعری خوبیوں سے بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

’’یہ بھی ملحوظ رکھیے کہ معشوق کی گلی کو صرف ’’اُس گلی‘‘ کہہ کر واضح کر دیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی لطف بلاغت ہے کہ ’اُٹھنا‘ کو دونوں مصرعوں میں دو الگ الگ معنی میں استعمال کیا۔ مصرع ادنیٰ میں ’آہ‘ بظاہر حشو معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل بہت کارگر ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ لفظ ’آہ‘ کا صوتی آہنگ نقاہت اور بے دلّی سے اُٹھنے کو بڑی خوبی سے واضح کرتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ ’’آہ‘‘ کے لفظ سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ متکلم کسی کو اپنا حال سنارہا ہے۔ داستان عشق کی مختلف منزلیں بیان ہو رہی ہیں ۔ کہیں پر انبساط ہے، کہیں درد و رنج۔ یہ موقع درد و رنج کا ہے۔ اس لیے متکلم آہ بھرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم اُس گلی سے یوں اُٹھے جیسے کوئی جہاں سے اُٹھتا ہے۔‘‘ (ایضاً۔ ص:۲۴۳)

        مقطع کے سلسلہ میں تجزیہ نگار نے بعض قابل ذکر باتیں لکھی ہیں اور اچھا تجزیہ کیا ہے۔ مثلاً اُن کا یہ سوال اپنے آپ ہم بہت اہم ہے کہ پہلے مصرعہ کی ترتیب میں ’عشق‘ پہلے اور ’میرؔ‘ بعد میں کیوں ہے؟ اس کے برعکس کیوں نہیں ؟ اور پھر اس کا یہ جواب کہ:

’’ایسا عشق پر زور دینے کے لیے ہے نہ کہ شاعر پر‘‘ (غزل تنقید جلد اوّل، مرتبہ اسلوب احمد انصاری، یونیورسل بک ہاؤس، علی گڑھ، ۲۰۰۲ء، ص:۱۶۵)

اسی طرح عشق اور پتھر کے تعلق سے یہ تجزیہ بھی اہم ہے کہ:

’’عشق اور پتھر میں لفظی و معنوی تضاد ہے۔ عشق غیر مرئی ہے اور پتھر مرئی۔ عشق کی سنگینی اور پتھر کی گرانی، یعنی پتھر کیفیت عشق کا ایک استعاراتی پیکر ہے۔ عشق، پتھر اس لیے ہے کہ اس سے وابستہ ہیں ایثار و آزمائش، جگر داری، خطر طلبی، مہم جوئی، اور تاب مقاومت۔ یہ ایک جان لیوا سلسلہ ہے اور ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں ۔‘‘

                                 (ایضاً۔ص:۱۶۵)

’کب‘ سے شاعر کی خودسپردگی اور مغلوبیت کا مفہوم لینے کے بعد مصنف نے خود اس سے اختلاف بھی کیا ہے کہ:

’’مگر میرؔ کی پوری شاعری کے سیاق و سباق میں عشق اعلیٰ ترین جذبہ ہے۔ نامساعد حالات و تشددات کے روبرو عملی قوتوں اور ناتوانائیوں کا مظہر اور بلند ترین مدارج تک رسائی کا وسیلہ۔۔۔ میرؔ کی شاعری میں درد عشق ایک نشہ ہے۔ غم کو انگیز کرنا، زندگی کابا مقصد شعور اور حوصلہ مندی اور کامیابی کی بشارت۔ جس کی شخصیت میں یہ اُمنگ اور طنطنہ ہو اُس کے سامنے غم و الم کے پہاڑ روئی کے گالے کی طرح اُڑ جاتے ہیں اور پتھر پھول بن جاتے ہیں ۔‘‘ (ایضاً۔ص:۶۶۔۱۶۵)

        شعر کے دوسرے مصرعہ سے بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر اشرف نے اپنی شعر فہمی کا بہترین ثبوت پیش کیا ہے کہ:

’’دراصل شعر کا دوسرا مصرع استفہام اقراری ہے اور ناتوانی عارفانہ کسر نفسی۔ پہلا مصرع ایک محاوراتی طرز بیان بھی ہے جس میں ’راہ‘ محذوف ہے۔ مگر یہ پتھر سدراہ نہیں ہے۔ یہ راہ عشق کا پتھر ہے جو ہٹایا نہیں جاتا۔ صدمات عشق اُٹھائے جاتے ہیں ۔ یہاں پتھر کو Personify کیا گیا ہے۔ اس پتھر کو اُٹھانا اعلیٰ مقصدیت سے ہم آہنگی اور درماندگیِ حالات سے سمجھوتہ ہے۔ یہ شعر انسانی عظمت کا راگ انسانی وزن و وقار کا نغمہ، عشق کے ناقابل تسخیر ہونے کی تمثیل اور اس طرح تاریخی و تہذیبی بصیرت کا آئینہ دار ہے۔‘‘

                                 (ایضاً۔ص:۱۶۶)

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید