FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

غالب کون؟

 

 

 

                سلیم احمد

 

 

بسم اللہ

 

 

سو سال سے کچھ اوپر کی بات ہے۔ پتا نہیں غالبؔ کے محبوب نے، یا کسی اور بھلے آدمی نے، یا خود روحِ عصر نے پوچھا تھا کہ غالبؔ کون ہے۔ غالبؔ چونکہ بزعمِ خویش خود کو بڑا نامور سمجھتا تھا، اس لیے جواب دینے کے بجائے ٹھٹھول پر اُتر آیا:

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟

لیکن سوال بنیادی اور سچا تھا، اس لیے فضائے ادب میں گونجتا رہا۔ یہاں تک کہ خود غالبؔ کے شاگرد حالیؔ کو جواب میں پوری کتاب لکھنا پڑی۔ جواب لوگوں نے پسند کیا مگر ہر عہد کو اپنے سوال کے لیے نیا جواب چاہیے۔ حالیؔ کے بعد نئے جواب کے لیے عبدالرحمن بجنوری اُٹھے اور غالبؔ کو معلم غیب بنا دیا۔ ان کی بھی بہت واہ وا ہوئی۔ تب سے جوابوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ ہر ادیب، شاعر، پروفیسر، نقاد جواب دینے کی کوشش کر رہا ہے، یہاں تک کہ نوکر شاہی کے افسر، سیاست داں اور تاجر بھی۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے غالبؔ کی سو سالہ برسی منائی گئی۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ لوگوں نے موقع سے فائدہ اٹھا کر اتنی چاں چاں مچائی کہ سننے والوں کو سمجھنا مشکل ہو گیا کہ کون کیا کہہ رہا ہے۔ محمد حسن عسکری کہ اردو کے پروفیسروں سے بہت چڑھتے ہیں۔ اور آج کل مغرب کے ادیبوں سے بھی تپے ہوئے ہیں۔ انھوں نے ہر کس و ناکس، یہاں تک کہ رسلؔ صاحب کو بھی غالبؔ پر بولتے سنا تو ایک بار پھر پوچھ لیا:

غالبؔ کون؟

ایسی فضا میں جب غالبؔ کی شہرت برصغیر پاک و ہند کے گلی کوچوں سے نکل کر یورپ اور امریکا کے بازاروں اور چین اور روس کے مکینوں تک پہنچ چکی ہے، اور لوگ بزعمِ خود ہر سوال کا خاتمہ کر چکے ہیں۔ لوگوں کو عسکری کا استفسار اتنا برا معلوم ہوا کہ چہرے بگڑ گئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سوال اتنا ہی سچا ہے جتنا غالبؔ کی زندگی میں تھا اور یقیناً غالبؔ کی صد سالہ برسی پر برمحل پوچھا گیا۔ عسکری کے سوال کو دو سال اور روحِ عصر کے سوال کو سوا سو سال ہو چکے ہیں، اس لیے مزید تاخیر مناسب نہیں، ہمارا جواب حاضر ہے۔

 

 

 

 

 شاعری اور شخصیت

 

 

جدت پسند لوگوں میں ٹی ایس ایلیٹ کے ایک فقرے کی بڑی دھوم ہے جس میں ایلیٹ نے کہا ہے کہ شاعری شخصیت کا اظہار نہیں ہے بلکہ شخصیت سے فرار ہے۔ اس موضوع پر اتفاق سے ایک مذاکرہ بھی سننے میں آیا جس سے معلوم ہوا کہ کسی بات کی دھوم مچانے کے لیے اسے سمجھنا ضروری نہیں ہوتا، اس کے بعد سے میں نے باقاعدہ یہ مہم چلائی ہے کہ مجھ سے جو کوئی اس فقرے کا ذکر کرتا ہے، میں اس سے اس کے معنی ضرور پوچھتا ہوں۔ سب سے اچھا جواب نظیرؔ صدیقی سے ملا جنھوں نے اپنی پروفیسری سے شرمائے بغیر صاف کہہ دیا کہ وہ ایلیٹ کے اس فقرے کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ دوسروں کے اور ان کے جواب میں صرف اتنا فرق ہے کہ دوسرے لوگ یہ اعتراف نہیں کرتے تھے، بہرحال جہاں تک اس فقرے کے جواب کا تعلق ہے، میں نظیرؔ صدیقی کا پیرو ہوں، یعنی اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے بھی اس کے معنی معلوم نہیں ہیں لیکن ہمارے یہاں ممتاز حسین صاحب ایک ایسے ادیب ضرور ہیں جنھیں اس فقرے کے معنی اس حد تک معلوم ہیں کہ اس کی تفہیم ہی نہیں تردید بھی کر سکتے ہیں، انھوں نے ایک پورا مضمون کھینچ مارا ہے جس میں ایلیٹ کو یہ گالی دی گئی ہے کہ اس نے شخصیت سے فرار کا نظریہ صرف اپنی ٹھنڈی شاعری کے جواز کے لیے پیش کیا ہے۔ اتفاق سے ہربرٹ ریڈ صاحب بھی ایلیٹ کو یہ بتانے بیٹھے تھے کہ اس کے ذہن میں شخصیت اور کردار کا فرق واضح نہیں ہے۔ چنانچہ ہربرٹ ریڈ صاحب نے ایلیٹ کو یہ سمجھایا کہ شاعری شخصیت سے نہیں کردار سے فرار کرتی ہے۔ ہربرٹ ریڈ صاحب کے خیال کے مطابق کردار ایک ٹھوس بلکہ ٹھس چیز ہے جب کہ شخصیت اس کے مقابلے پر بڑی لچک دار اور سیال چیز ہے۔ کردار عمل سے پیدا ہوتا ہے اور عمل کے لیے ضروری بھی ہے۔ چنانچہ کردار کی محدودیت سے آزاد ہوتا ہے مگر یہ آزادی اسے، شخصیت کے اندر رہ کر ہی حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے ممتاز صاحب کا تنقیدی رتبہ اسی سے ظاہر ہے کہ وہ ایلیٹ اور ہربرٹ ریڈ کے درمیان حکم بن کر بیٹھ گئے اور ہربرٹ ریڈ کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ بڑے آدمیوں کی بڑی باتیں، ہم جیسے ایرے غیرے پچ کلیان کیا بول سکتے ہیں۔ چنانچہ عافیت اسی میں معلوم ہوتی ہے کہ نظیرؔ صدیقی کے ساتھ اعتراف کر لیا جائے اور ضیا جالندھری صاحب کے خیالات سنے جائیں۔

البتہ میں نے ایک چالاکی ضرور کی کہ نہ جاننے کا اعتراف کرنے کے بعد دوسروں سے پوچھنے میں دیر نہیں لگائی۔ ملّا کی دوڑ مسجد تک، اپنے سب کچھ تو عسکری صاحب ہی ہیں۔ پوچھنے کی ہر بات انھی سے پوچھتا ہوں۔ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ ان کے اوراد و وظائف میں حارج ہوں گا تو سب سے پہلے انھی کے پاس جاتا مگر ان کی مصروفیت کو دیکھتے ہوئے مجبوراً لارنس کے پاس جانا پڑا۔ لارنس نے جمہوریت پر بحث کرتے ہوئے ایک باقاعدہ مضمون شخصیت اور انفرادیت پر لکھا ہے۔ چنانچہ کیا برا ہے اگر ہم اختصار کے ساتھ لارنس کے خیالات کا جائزہ لیں۔ لارنس کے خیال میں انفرادیت شخصیت سے زیادہ بنیادی چیز ہے، آپ مجھے یاد دلائیں گے کہ یہ پہلا خیال ہی الٹا ہے کیوں کہ انفرادیت شخصیت کی صفت ہوتی ہے، اس لیے انفرادیت شخصیت کے مقابلے پر فروعی ہے۔ اصل چیز شخصیت ہے، انفرادیت اس کی شاخ ہے۔ لیکن لارنس کے کچھ اپنے دلائل ہیں۔ ان دلائل کو واضح کرنے کے لیے ہمیں انفرادیت اور شخصیت کے انگریزی مترادفات کو دیکھنا چاہیے۔ انفرادیت individuality کا ترجمہ ہے اور شخصیت personality کا۔ لارنس کہتا ہے کہ انڈویجولٹی اسی چیز کو کہتے ہیں جو ناقابلِ تقسیم اور ناقابلِ تجزیہ ہوتی ہے، یعنی جوہری۔ یہ بسیط حقیقت ہے اور کسی چیز سے مرکب نہیں ہے، اس کے مقابلے پر پرسنلٹی ایک لفظ ’پرسنا‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں، مصنوعی چہرہ جسے ناٹک والے اپنے اصلی چہروں پر لگاتے ہیں۔ یہ ایک اوڑھی ہوئی، اوپر سے عائد کی ہوئی اکتسابی چیز ہے۔ چنانچہ لارنس کا استدلال یہ ہے کہ ایک اکتسابی چیز ایک فطری جوہر کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اب ہم انفرادیت اور شخصیت دونوں کو ایک اور لفظ ذات کے مقابل رکھ کر دیکھیں گے۔ ذات کا انگریزی مترادف self ہے۔ ان تینوں میں رشتہ یہ ہے کہ انفرادیت ذات کا تعین ہے اور شخصیت ذات کا تصور۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ہمارے وجود کے تین پہلو ہیں :

۱۔ جیسے ہم ہیں

۲۔ جیسے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ہیں اور

۳۔ جیسے ہم دوسروں پر ظاہر ہوتے ہیں

جیسے ہم ہیں، یہ مقامِ ذات ہے۔ اس کا پورا علم ناممکن ہے لیکن اس ذات کا ہم خود ایک تصور رکھتے ہیں اور اس تصور کو دوسروں پر ظاہر کرتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں مل کر شخصیت بناتی ہیں۔ اب شخصیت کے دو پہلو ہوئے : ایک داخلی، ایک خارجی۔ خارجی پہلو عمل اور قول میں ظاہر ہوتا ہے، اسے ہم کردار کہتے ہیں مگر کردار وار شخصیت دونوں ذات پر ایک اضافہ ہیں اور مصنوعی ہیں۔ عمل اور ظہور کی دنیا میں یہ دونوں ضروری ہیں کیوں کہ ان کے بغیر ذات ظاہر نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اپنے مقام پر ان کی اہمیت مسلم ہے مگر ہمارے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ شخصیت اور کردار کے پیچھے اصلی ذات اسی طرح موجود ہوتی ہے جس طرح مصنوعی چہرے کے پیچھے خود ایکٹر اب ہم لارنس کے اس خیال کو شاعری کے مسئلے سے ملا کر دیکھیں گے۔

عام زندگی میں انسان کی دنیا عمل کی دنیا ہے۔ عمل کی دنیا میں وہ سب سے پہلے ایک معاشرے کا حصہ ہوتا ہے۔ ایک باپ، ایک بیٹا، ایک آقا، ایک ملازم، ایک تاجر، ایک گاہک۔ عمل کی دنیا کی یہ ضرورت اسے ایک خاص رویے اور طریقۂ کار اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ زیادہ پختہ ہو کر یہ رویہ اور طریقۂ کار اس کی پوری زندگی پر حاوی ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے سوچنے اور محسوس کرنے کے طریقے کو بھی متعین کرنے لگتا ہے۔ چنانچہ آپ ایسے لوگوں کو روز دیکھتے ہیں جو کلرک ہیں تو ساری زندگی میں کلرک ہی بن کر رہ گئے ہیں۔

کلرک، کلرک بن کر رہ جاتا ہے اور وزیر اعظم، وزیر اعظم، حالانکہ یہ مصنوعی چہرہ لگانے سے پہلے وہ ’انسان‘ تھا، یعنی اس میں بے شمار چیزیں بننے کے امکانات موجود تھے۔ عمل کی زندگی میں اس مصنوعی چہرے کے مستقل استعمال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ استعمال کرنے والے کی کھال میں پیوست ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اسی کو اپنا چہرہ سمجھنے لگتا ہے۔ مگر شاعر کا پہلا کام خود آگہی ہے۔ خود آگہی جتنی مکمل ہے، تخلیقی فن کار اتنا ہی بڑا ہے۔ چنانچہ فن کار کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ مصنوعی چہرے کو ہٹا کر برابر اپنا اصلی چہرہ دیکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ برگساں نے اسی خیال کو اس طرح ظاہر کیا ہے کہ عملی زندگی انسانی فطرت پر ایک چھلکا چڑھا دیتی ہے۔ یہ چھلکا عام آدمیوں میں موٹا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی اصلی فطرت کو نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن فن کار وہ ہوتا ہے جو اس چھلکے کے اُس پار دیکھ سکے۔ برگساں کا خیال ہے کہ جب کبھی کوئی ایسا فن کار پیدا ہو گا، جو اس چھلکے کے اُس پار اس طرح دیکھ سکے جس طرح شفاف شیشے کے پار دیکھا جا سکتا ہے تو دنیا کا سب سے بڑا فن کار وجود میں آ جائے گا۔ برگساں کے خیال میں پوری تہذیب بھی ایک چھلکے کی طرح ہے، اس لیے فن کار تہذیب سے بھی، دھوکا نہیں کھاتا اور یوں انفرادی اور اجتماعی دونوں مصنوعی چہروں کے اندر جھانکنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اب ایلیٹ کے اس فقرے کے معنی صاف ہیں کہ شاعری شخصیت کا اظہار نہیں، شخصیت سے فرار ہے یعنی شاعری مصنوعی چہرے سے بھاگ کر اصلی چہرے کی طرح جاتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ شخصیت کے اظہار کے قائل ہیں، وہ ایسے لوگ ہیں جو مصنوعی چہرے ہی کو اصل سمجھتے ہیں اور اس کو طرح طرح کی رنگ آمیزیوں کے ساتھ دوسروں کو دکھاتے رہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں خود آگہی کے بجائے خود فریبی اور جہاں فریبی میں مبتلا رہتے ہیں۔ لیجیے یہ تو بالکل سادہ سی بات ہے مگر شاید اس کی تفہیم اس لیے نہیں ہوتے کہ اسے سمجھنے کے لیے ٹی ایس ایلیٹ کی ایک شرط ضروری ہے، یہ کہ سمجھنے والے کے پاس شخصیت موجود ہو۔

 

 

 

 

شخصیت:مثبت اور منفی

 

 

اپنے پہلے باب ’’شخصیت اور شاعری‘‘ میں، میں کہہ چکا ہوں کہ شخصیت ’’ذات‘‘ کے تصور کو کہتے ہیں۔ ذات ایک نامعلوم اکائی ہے جس کی وسعت، عمق اور بلندی ناقابلِ پیمائش ہے، ہم اس کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتے کہ ’’ہے ‘‘ کیا ہے، کیسی ہے، اس کا ہم علم نہیں رکھتے، البتہ اس کا ایک ’’تصور‘‘ ضرور رکھتے ہیں۔ مثلاً میں اپنے بارے میں کچھ سوچ سکتا ہوں، آپ کچھ اور۔ جب ہمارے بارے میں اپنا یہ سوچنا مستقل ہو جاتا ہے اور جب ہم لوٹ پھر کر بار بار اپنے متعلق چند تصورات کی تکرار کرنے لگتے ہیں تو ان سے ہماری شخصیت بننے لگتی ہے۔ عموماً یہ تصورات پسندیدہ ہوتے ہیں جنھیں ہم ابتداً اپنے ماحول سے اخذ کرتے ہیں جب بچے کو ماں ’’میرا چاند‘‘، ’’میرا شہزادہ‘‘ ہے، جب باپ اس کی کسی خوبی پر اسے شاباش دیتا ہے تو بچہ ان تصورات کو اپنانے لگتا ہے اور فطری طور پر تخیل کے ذریعے ایک بڑے تصور کی باریک جزئیات اور تفصیلات مرتب کرنے لگتا ہے۔ یہ عمل شخصیت کی پیدائش میں مدد دیتا ہے۔ شریف لڑکا، بہادر لڑکا، ہمدرد لڑکا: یہ سب لڑکے کے وہ تصورات جن کی مدد سے ماں باپ اور دوسرے اسے ایک سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں، آپ بہت آسانی سے اپنے بچوں میں اس سانچے کے بننے کا عمل دیکھ سکتے ہیں۔ جب بچہ ان میں سے کسی تصور کو قبول کرنے لگتا ہے تو پھر رفتہ رفتہ سانچے کو پختہ کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ آپ بچے کی کسی غلطی پر اس کو اس طرح ٹوکتے ہیں ’’چھی چھی‘‘ تم تو بڑے نیک لڑکے ہو، تم نے اپنی بہن کو کیوں مارا۔ ‘‘ بچے نے اپنی بہن کو یوں مارا کہ وہ ’’صرف‘‘ نیک نہیں تھا کچھ اور بھی تھا۔ وہ غصہ ور، شرارت پسند اور حسد کرنے والا بھی تھا، مگر اب وہ بار بار ’’نیک لڑکے ‘‘ کے تصور کو اپنے سامنے رکھنے لگتا ہے اور اس تصور کے مطابق عمل کرنے لگتا ہے۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے وہ ایک سانچے میں ڈھالا جا رہا ہے۔ جب یہ زیادہ مکمل اور پختہ ہو جائے گا تو شخصیت پیدا ہو جائے گی۔ ہم یہ سانچہ کس ذریعے سے پیدا کرتے ہیں ؟ پسندیدگی کے اظہار سے۔ ولیم جیمس نے لکھا ہے کہ پسندیدہ بننے کی خواہش انسان کی سب سے گہری خواہش ہے۔ بچے میں اس خواہش کی موجودگی آپ کے لیے، آپ کے کام کو آسان بنا دیتی ہے اور آپ ہنستے ہنساتے بچے کو اپنے اشاروں پر نچانے لگتے ہیں۔ البتہ یہاں، ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے۔ بچہ صرف ہمارے ’’شعوری‘‘ اعمال سے متاثر نہیں ہوتا، وہ ہمارے ’’غیر شعوری‘‘ اعمال سے بھی متاثر ہوتا ہے۔ مثلاً ایک گھر میں بچے کو نیک اور با اخلاق شخصیت میں ڈھالنے کا عمل کیا جا رہا ہو، مگر گھر کے، افراد خود اس کے خلاف عمل کر رہے ہوں تو بچہ ان اعمال سے بھی متاثر ہوتا ہے اور اس میں ایک کش مکش پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ان اعمال کو پسندیدہ سمجھے جنھیں گھر والے، زبانی دُہراتے رہتے ہیں یا ان اعمال کو جن پر وہ خود عامل ہیں۔ بچے سے زیادہ حساس اور بھانپنے والا اور کوئی نہیں ہوتا، وہ ماں کی غصہ بھری نگاہ میں پیار کو اس طرح پڑھتا ہے جس طرح آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہیں، اسی طرح جھوٹے پیار کو بھی وہ اچھی طرح جان لیتا ہے، میں تو جب کسی اولاد کو یہ کہتے سنتا ہوں، ’’ابا کو نیکی سے کیا فائدہ ہوا جو میں نیک بنوں۔ ‘‘ تو میں فوراًسمجھ لیتا ہوں کہ اس گھر میں لاشعوری طور پر نیکی کے خلاف شکایتیں ضرور کی جاتی ہوں گی اور نیکی پر اعتماد میں کمی ضرور پائی جاتی ہو گی۔

بہرحال شخصیت اس طرح ذات سے ایک الگ چیز ہے جس طرح بس ڈیزل سے چلتی ہے، اسی طرح اس کا ڈیزل پسندیدہ تصور ہے۔ یہ تصور ایک سرشاری کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ ذرا اس وقت کی کیفیت کا اندازہ کیجیے، جب کوئی حسینہ آپ سے کہہ دے کہ ’’آپ بہت خوب صورت ہیں۔ ‘‘ بار بار آئینہ دیکھنے کو دل چاہتا ہے اور ٹائی کی گرہ سو سو بار کھول کر دوبارہ باندھی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک شاعر کو دیکھیے جسے اس کے شعر کی بھرپور داد ملی ہو۔ امیرؔ مینائی کا کہنا ہے کہ سو بوتلوں کا نشہ بھی اتنا نہیں ہوتا۔ یہ سرشاری بار بار حاصل کرنے کے لیے ہم پسندیدہ عمل کو بار بار دُہراتے ہیں۔ ایک عمل جب بار بار دُہرایا جاتا ہے تو وہ ہمارے دوسرے اعمال کو بھی متاثر کرنے لگتا ہے اور اپنے اردگرد اپنے اثر کا ایک دائرہ بنا لیتا ہے۔ یہ دائرہ شخصیت کے سانچے میں بنتا ہے اور خود، شخصیت سے بھی محدود تر ہوتا ہے۔ اب یوں سمجھیے کہ سب سے بڑا دائرہ ذات کا ہوتا ہے، پھر اس کے اندر ایک اس سے چھوٹا دائرہ شخصیت کا بنتا ہے اور پھر شخصیت کے اندر ایک اس سے بھی چھوٹا دائرہ بنتا ہے، اس دائرے کو ہم کردار کہتے ہیں، بڑے اور چھوٹے دائروں کی یہ ترتیب اندرونی نقطۂ نظر سے ہے، یعنی جب ہم اپنے وجود پر اپنے اندر سے غور کریں تو پہلا دائرہ ذات کا ہے، دوسرا شخصیت کا تیسرا کردار کا، سب سے بڑا پہلے، پھر اس سے چھوٹے۔ لیکن اگر اپنی ذات کو باہر سے دیکھیں تو ترتیب الٹ جاتی ہے، باہر سے دیکھنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اپنے وجود کو اس طرح دیکھ رہے ہیں جس طرح دوسرے اسے دیکھتے ہیں یا وہ دوسروں پر ظاہر ہوتا ہے۔ اب کردار پہلے ہے۔ پھر شخصیت، پھر ذات، اب کردار سب سے بڑا دائرہ بن جاتا ہے۔ اور ذات سب سے چھوٹا۔ کردار بار بار دُہرایا ہوا عمل ہے، ایک آدمی کو بار بار ایک ہی قسم کے کام کرتے اور ایک ہی قسم کی باتیں کرتے دیکھ کر پہلے ہم اس کے ’’کردار‘‘ کو سمجھتے ہیں اور پھر کردار سے شخصیت کا اندازہ لگاتے ہیں۔ بس ہمارے علم اور قیاس کی یہ حد ہے۔ ذات ہمارے لیے ’’سر مکتوم‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔

موجودہ زمانے میں ’’بچہ‘‘ میں شخصیت کا جلد پیدا ہو جانا اچھی بات سمجھا جاتا ہے۔ نئے بچوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اتنی چھوٹی عمر میں ایسی باتیں کرتے ہیں جو ان کے بزرگوں کو اچھی خاصی بڑی عمر تک معلوم نہیں ہو سکیں۔ ایسے بچے جن میں شخصیت جلدی پیدا ہو جائے، انھیں ذہین سمجھا جاتا ہے اور ماں باپ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر اپنے دوستوں کو ان کی ذہانت کے کرتب دکھلاتے ہیں۔ ایسے بچوں کی ذہانت میں کوئی کلام نہیں۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ وقت سے پہلے ’’قیدی‘‘ بن چکے ہوتے ہیں۔ بچوں ہی کو نہیں، بڑوں کو بھی قیدی بنانے کی ترکیبیں ہمیں معلوم ہو چکی ہیں۔ ہماری حکومتیں اعزازات اور تمغے دیتی ہیں۔ پبلسٹی کے ادارے تصویریں چھاپتے ہیں اور تاجر حضرات ریڈیو اور ٹیلی وژن پر گا گا کر ہمیں بتاتے رہتے ہیں کہ اگر ہم نے ان کی مصنوعات استعمال کیں تو ہر طرح کی پسندیدگی اور کامیابی ہمارے گرد چکر لگائے گی۔

میں نے کہا، شخصیت کا ڈیزل وہ پسندیدہ تصورات ہیں جو بچہ اپنے ماں باپ یا ماحول سے اخذ کرتا ہے، استادوں اور کتابوں سے سیکھتا ہے، مشاہدے اور مطالعے سے حاصل کرتا ہے۔ یہ شخصیت کا مثبت پہلو ہے۔ شخصیت کا ایک منفی پہلو بھی ہے۔ منفی پہلو شخصیت ان روایتی معنوں میں پسندیدہ تصورات کے برعکس عمل کرتی ہے۔ ایسے بچے ان مسلّم اقدار و تصورات کے خلاف ہوتے ہیں جو گھر اور معاشرے میں موجود ہوتے ہیں۔ وہ ان کے خلاف عمل کرتے ہیں۔ اس عمل سے ڈاکو اور انقلابی دونوں پیدا ہوتے ہیں اور فراقؔ کا خیال ہے کہ پیغمبر بھی۔ غالبؔ نے جب ’’دینِ بزرگان‘‘ کے خلاف عمل کو فرزندِ آذرؔ کا عمل قرار دیا تو اس کے پیچھے بھی یہی خیال موجود تھا کہ اس قسم کی بغاوت پیغمبری میں بھی موجود ہوتی ہے۔ فراقؔ نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ہر نیا پیغمبر ایک معنوں میں لادین ہوتا ہے کیوں کہ مروّجہ دین کی نفی کرتا ہے۔ بغاوت کی تعریف میں بس اس سے زیادہ نہیں کہا جا سکتا۔ پیغمبروں کا تجربہ عام لوگوں سے اتنا مختلف ہوتا ہے کہ اس پر گفتگو کرنے کے لیے غالبؔ اور فراقؔ جیسی ہمت ہی چاہیے۔ اس لیے میں اپنی گفتگو اپنے جیسے عام آدمیوں تک محدود رکھوں گا۔ گھر اور معاشرے کی اقدار بالعموم ’’باپ‘‘ کی اقدار ہوتی ہیں۔ باپ خوش ہو تو کھلونے اور پیسے سب ملتے ہیں اور معاشرہ خوش ہو تو کیا نہیں ملتا۔ اس صورت میں منفی شخصیت والے بچوں کی بغاوت ’’باپ‘‘ کے خلاف ہوتی ہے۔ باپ کے خلاف یہ بغاوت کیوں پیدا ہوتی ہے۔ اور اس کا سرچشمہ کہاں ہے، اس کے بارے میں کوئی قطعی بات آسانی سے نہیں کہی جا سکتی۔ فرائڈ کا خیال ہے کہ اس بغاوت کا سرچشمہ ایک نفسیاتی الجھن ہے جو بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ فرائڈ اسے ایڈیپس الجھن کا نام دیتا ہے۔ یعنی بچہ ماں سے محبت کرتا ہے اور بلا شرکتِ غیرے اس کا مالک بننا چاہتا ہے لیکن باپ کو شریک غالب دیکھ کر اس سے جلنے لگتا ہے۔ چنانچہ باپ کے خلاف منفی عمل شروع ہو جاتا ہے اور وہ باپ کے ہر پسندیدہ معیار کو ٹھکرانے لگتا ہے۔ یہی چیز آگے چل کر معاشرے کی اقدار سے بغاوت کا سبب بنتی ہے۔ باپ سے بغاوت کے سبب کو اتنی گہرائی میں نہ لے جایا جائے۔ تو ایک عام سطح پر اس کا مظاہرہ ہمیشہ اس وقت ہوتا ہے جب بچہ ماں باپ میں اختلاف پاتا ہے۔ کبھی کبھی تو یوں ہوتا ہے کہ ماں باپ کا اختلاف بچے کو شدید الجھن میں مبتلا کر دیتا ہے کہ ماں کی پسندیدگی اختیار کرے یا باپ کی۔ لیکن عموماً فیصلہ ماں کے حق میں ہوتا ہے۔ کیوں کہ بچہ ماں کو کم زور پاتا ہے۔ ’’ماں کم زور ہے اور مجھ سے زیادہ محبت کرتی ہے۔ ‘‘ باپ طاقت ور ہے اور مجھ سے محبت کرنے والی کے خلاف ہے، اس طرح شعوری یا غیر شعوری طور سے بچہ ماں کا طرف دار بن جاتا ہے اور باپ کے خلاف منفی عمل شروع ہو جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں جب باپ نہ ہو، یا ماں نہ ہو یا دونوں نہ ہوں، اس وقت بچے کو اپنے ذاتی معیارات پیدا کرنے پڑتے ہیں۔ جو وہ اپنے کھیل کود کے ساتھیوں یا ماحول کے دوسرے عناصر سے اخذ کرتا ہے۔ بغیر ماں باپ کے بگڑے ہوئے بچے بیشتر اسی عمل کا نمونہ ہوتے ہیں۔ لیکن اگر وہ کسی اور پسندیدہ شخصیت کو معیار بنا لیں تو کامیاب شخصیت بن جاتے ہیں۔ مثلاً استاد یا کوئی اور شفیق بزرگ۔ معاشرے کی کامیاب شخصیتیں بالعموم ’’مثبت‘‘ اور ناکام شخصیتیں بالعموم ’’منفی‘‘ ہوتی ہیں۔ میں تو جب کسی منفی شخصیت کو دیکھتا ہوں تو سب سے پہلے اس کے ماں باپ کے ’’ابتدائی ماحول‘‘ کے بارے میں سوچتا ہوں۔ موجودہ معاشرے میں بغاوت کا جو عام رجحان چلا ہوا ہے، اس کا آغاز ہمارے گھروں میں ہوا ہے، بعض شخصیتیں مثبت اور منفی عمل کا آمیز ہوتی ہیں۔ ان کی شخصیت میں ایک تضاد اور کش مکش بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمیشہ ایسی شخصیتیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ان کی ابتدائی زندگی میں ماں باپ کے معیاراتِ پسندیدگی مختلف تھے یا جہاں سے بھی انھوں نے یہ معیارات اخذ کیے ہیں، ان کے سرچشموں میں اختلاف پایا جاتا تھا۔ کبھی کبھی یہ کش مکش اتنی شدید ہوتی ہے کہ انسان کسی قسم کے عمل ہی کے ناقابل ہو جاتا ہے اور بعض اوقات اس کا نتیجہ اختلالِ ذہنی کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ اب ان سب باتوں کا ادب اور شاعری سے یہ تعلق ہے کہ ادب اور شاعری ان باتوں کی آگاہی میں مدد دیتے ہیں۔ میں کہہ چکا ہوں کہ ادیب کا پہلا فریضہ خود آگہی ہے یعنی ادیب اپنی شخصیت میں الجھ کر نہیں رہ جاتا ہے۔ بلکہ اس سے ماورا جانے اور اس کے آگہی کے روشن دائرے کو پھیلانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ادیب کی منزل شخصیت نہیں ’’لا شخصیت‘‘ ہے۔ وہ شخصیت کو چھوڑ کر لا شخصیت کی طرف مسلسل بڑھتا رہتا ہے۔ لیکن اس عمل کے معنی شخصیت کو ترک کر دینا یا شخصیت سے بے خبر ہو جانا نہیں ہے۔ در اصل لاشخصیت کی طرف بڑھ کر ہی ادیب شخصیت کو بھرپور طور پر سمجھ سکتا ہے۔ چنانچہ ٹی ایس ایلیٹ کے اس فقرے کے، کہ شخصیت سے فرار کو صرف وہ سمجھے گا جس کے پاس خود شخصیت ہو، یہی معنی ہیں۔ پھر وہ شخصیت کا تابع نہیں رہتا ہے، شخصیت اس کے تابع ہو جاتی ہے۔ شخصیت بھی اور کردار بھی۔ میں ان دونوں کو مصنوعی چہرہ کہہ چکا ہوں جو ایکٹر اپنے اصلی چہرے پر لگاتے ہیں۔ لا شخصیت کے مرکز میں اتر کر ادیب یہ دکھاتا ہے کہ انسان ہر رول ادا کرنے کا اہل ہے، بس شرط یہ ہے کہ اسے معلوم ہو کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے، وہ مصنوعی چہرے کے ایک رول کے سوا کچھ نہیں۔ ویدانت میں ’’کرم یوگ‘‘ کا کل فلسفہ ہمیں اتنا ہی بتاتا ہے۔

 

 

 

شخصیت:انا اور اصولِ حقیقت-1

 

 

 

پچھلے باب ’’شخصیت: مثبت اور منفی‘‘ میں، میں نے لکھا ہے کہ شخصیت پسندیدہ تصور سے پیدا ہوتی ہے۔ جو بچہ اپنے ماں باپ یا ماحول سے اخذ کرتا ہے۔ لیکن یہ پوری سچائی نہیں ہے، پوری سچائی شاید ہمارے ہاتھ بھی نہیں آتی، کیوں کہ یہ تو صرف جرمن فلسفیوں کے پاس ہوتی ہے۔ البتہ ہم یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ ہلدی کی ایک گانٹھ کو پوری دکان سمجھنے کے بجائے، زیادہ سے زیادہ گانٹھیں جمع کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ چنانچہ ایک گانٹھ تو آپ دیکھ چکے ہیں، اب دوسری گانٹھ دیکھیے۔ بچہ جب کسی پسندیدہ تصور کو اختیار کرتا ہے تو کچھ دن کے بعد اس میں ایک اور چیز پیدا ہونے لگتی ہے جو اس کی بنتی ہوئی شخصیت پر اثرانداز ہوتی ہے، یعنی تصورِ حقیقت مثلاً ایک بچہ یہ تصور اخذ کرتا ہے کہ وہ ایک سچا بچہ ہے۔ چونکہ یہ تصور پسندیدہ ہے، اس لیے اس کے لاشعور میں یہ بات بھی رہتی ہے کہ سچ بولنا مفید اور قابلِ تعریف بات ہے لیکن فرض کیجیے، آپ کے بچے سے آپ کی گھڑی ٹوٹ جاتی ہے اور وہ سچ بول دیتا ہے کہ گھڑی اس سے ٹوٹی ہے تو آپ کیا کریں گے۔ یقیناً اگر آپ محتاط اور با شعور نہیں ہیں تو آپ اسے ڈانٹیں گے۔ اس تجربے سے بچے کو معلوم ہو گا کہ سچ بولنا ہر موقعے پر مفید اور قابلِ تعریف نہیں ہوتا۔ ممکن ہے اگر آپ کے بچے کا کوئی دوست اس سے کہہ بھی دے کہ یار اگر تو نہ بتاتا کہ گھڑی تجھ سے ٹوٹی ہے تو تجھے ڈانٹ نہ پڑتی۔ ایسا تجربہ دو چار بار عمل میں آ جائے تو بچے میں پسندیدہ تصور اور حقیقت کے درمیان باقاعدہ ایک کش مکش کا آغاز ہو جائے گا یعنی وہ یہ فیصلہ نہ کر سکے گا کہ سچ بولنا اچھا ہے یا برا؟ یہاں ایک ہلدی کی گانٹھ مجھے نظر آ رہی ہے۔ بچہ جو پسندیدہ تصور اختیار کرتا ہے، اس کا محرک ’’انا‘‘ ہوتی ہے۔ یہ انا ہی ہے جو اس بات سے خوش ہوتی ہے، ’’آہا، کتنا اچھا بچہ ہے۔ ‘‘ اور اس سرشاری میں بار بار تعریف سننے کے لیے اس عمل کو دُہراتی ہے۔ اب ہم بچے کی مذکورہ بالا کش مکش کے بارے میں علمی زبان میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس کی انا اور اصولِ حقیقت میں کھینچ تان ہو رہی ہے۔ اس کھینچ تان کا نتیجہ اکثر یہ نکلتا ہے کہ بچے کی شخصیت دو نیم ہو جاتی ہے۔ وہ سچ بولنا چاہتا ہے اور سچ بولنے سے ڈرتا بھی ہے۔ چنانچہ کش مکش کی تکلیف سے بچنے کے لیے وہ جھوٹ بولنا شروع کرتا ہے۔ مگر خود کو سچا بچہ سمجھنا نہیں چھوڑتا۔ ہم آپ زندگی میں ایسے بہت سے لوگوں سے ملتے ہیں۔ جو جس خوبی کے مدعی ہوتے ہیں۔ ان کا ہر عمل اسی کے خلاف ہوتا ہے اور جس چیز کا پرچار سب سے زیادہ کرتے ہیں، اسی کی خلاف ورزی بہ کثرت کرتے ہیں۔ یہ وہی بچے ہیں جن کی انا اور اصولِ حقیقت کے ٹکراؤ میں ان کی شخصیت دونیم ہو گئی ہے۔

لیکن عنفوانِ شباب تک ہم جو پسندیدہ تصورات بھی اختیار کرتے ہیں، اُن کا مقدر حقیقت سے ٹکرا کر ہی پورا ہوتا ہے۔ ہر اوسط درجے کا طالبِ علم جانتا ہے کہ جو ’’اچھی‘‘ باتیں اس نے اپنے گھر اور اسکول یا کالج میں سیکھی تھیں۔ عملی دنیا نہ صرف ان سے مختلف ہے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ان کے خلاف سازش کر رکھی ہے، انا کو اس سے بڑا دھکا لگتا ہے۔ پہلے تو نوجوان مبہوت ہو کر رہ جاتے ہیں اور اس کے بعد شکوہ شکایت کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ بہت سے مایوس ہو جاتے ہیں اور صلح کر لیتے ہیں۔ بہت سے باغی ہو جاتے ہیں، اس طرح باغی اور مصلحت پسند دونوں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک کی انا کم زور ہے، اس لیے صلح کرتی ہے، دوسرے کی طاقت ور ہے، اس لیے بغاوت کرتی ہے مگر دونوں اصولِ حقیقت سے حقیقی رابطہ یا مطابقت پیدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ سارے سنکی، سارے کلبی، سارے قنوطی، سارے انقلابی، سارے رونا رونے والے، سارے منہ سکوڑ کر ہنسنے والے، سارے گھونسا تان کر بات کرنے والے اسی ناکامی کا مظہر ہوتے ہیں۔ دن سپنے بھی کم زور انا کے اصولِ حقیقت سے فرار کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ہم نے بہت سے لوگ دیکھے کہ بچپن اور جوانی میں اس سے بچ گئے۔ تو ادھیڑ ہو کر یا بڑھاپے میں اس کا شکار ہو گئے۔ خدا اس عمر کے پچھتاووں، خود رحمیوں، خوفوں اور ضرورتوں سے بچائے، ایسے ایسے پہاڑ پگھل جاتے ہیں کہ چشمِ مظاہرہ پتھر کی ہو کر رہ جاتی ہے۔ شاعروں اور ادیبوں میں اس کے اتنے بہت سے نمونے دیکھے ہیں کہ اس پر ایک ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ پتا نہیں کب لکھ دی جائے۔

لیکن انا اور اصولِ حقیقت کے ٹکراؤ کا نتیجہ مفاہمت اور بغاوت ہی کی صورت میں نہیں نکلتا، اس کی ایک اور صورت بھی ہے۔ ترک، گوشہ گیری۔ انا نہ مفاہمت کرتی ہے، نہ بغاوت، بس قلعہ بند ہو کر بیٹھ جاتی ہے۔ ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھا کہ مذہب کی طرف دوڑ پڑتے ہیں کہ جس انا کو انسانوں اور دنیا پر استعمال نہیں کر سکے۔ اسے خدا پر استعمال کریں گے، نقلِ کفر، کفر نہ باشد، خدا ان کے لیے خوش اخلاق بیرے کا کام دیتا ہے اور دعا کی شکل میں طرح طرح کے احکام خدا کو دیتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا پردہ مذہب نہیں، ادب ہوتا ہے جو اہمیت ذخیرہ اندوزی کر کے حاصل ہوتی ہے، اسے وہ علم کی ذخیرہ اندوزی سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ عہدہ، افسری، مال، دولت سب کی تلافی شاید کسی حد تک شہرت کر دیتی ہے۔ چنانچہ کیا برا ہے۔ اگر کچھ نہ بننے کے غم کا مداوا رسالے میں تصویر چھپوا کر کر لیا جائے اور اس کو وہ ادب دوستی اور علم کی پیاس کا نام دیتے ہیں۔

فاؤسٹؔ میں بھی علم کی ایسی ہی جھوٹی پیاس تھی۔ افسوس کہ ایسے ادب کو پڑھ کر خود آگہی کے بجائے اور خود فریبی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ کئی پروفیسر، کئی نقاد، کئی ادیب ایسی ہی علم دوستی میں مبتلا ہیں۔ فائدہ اس میں یہ ہے کہ ذخیرہ اندوزوں کو پولیس بھی کبھی کبھی پکڑ لیتی ہے اور دوسرے بھی برا بھلا کہتے ہیں۔ ادب کی ذخیرہ اندوزی میں حسبِ خواہش کرسیِ صدارت نہیں ملتی تو کم از کم جلسوں میں تقریر کرنے یا ادبی عدالتوں میں جج بننے کے لیے تو بلا ہی لیا جاتا ہے۔

بہرحال شخصیت کیسی بھی ہو، اصولِ حقیقت سے اس کا ٹکراؤ ہوتا ہے جس سطح پر میں ابھی گفتگو کر رہا تھا، اس سے اوپر کی سطح پر ایک اور عمل رونما ہوتا ہے، بچپن کے پسندیدہ تصورات میں مذہب کا جو حصہ ہوتا ہے، وہ ظاہر ہے بلکہ زیادہ تر پسندیدہ تصورات براہِ راست مذہب یا مذہب کے پیدا کردہ اخلاق کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ اب تک معاشرے میں یہ صورتِ حال موجود ہے کہ بچپن کے مذہبی تصورات آگے چل کر ’’حقیقت‘‘ سے ٹکرا کر چُور چُور ہو جاتے ہیں۔ کسی کو فزکس کی کوئی دریافت مار رکھتی ہے، کسی کو نفسیات کی، کسی کو حیاتیات کی، کسی کو معاشیات کی۔ مثلاً ہمارے یہاں اس کی ایک مثال سرسیّد ہیں۔ ان کی مذہبیت کا ایک زمانے میں یہ عالم تھا کہ ’’رسالہ در ابطالِ حرکتِ زمین‘‘ لکھا تھا۔ مگر ان کے رسالے سے زمیں حرکت سے باز نہ آئی اور مجبوراً سپر ڈالنی پڑی۔ سپر ایسی ڈالی کہ مذہب کے ہر اصول کو عقل اور طبیعیات سے سمجھنے سمجھانے لگے۔ بعض لوگوں میں اس کی الٹی صورت ہوتی ہے۔ وہ مذہب کو طبیعیات کی روشنی میں دیکھنے کی بجائے طبیعیات کو مذہب کی روشنی میں دیکھنے لگتے ہیں۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شخصیت دو نیم ہو کر دو دائروں میں بٹ جاتی ہے۔ مذہب کا دائرہ ایک طرف، سائنس کا دوسری طرف۔ ایسے بہت سے سائنس دانوں کے بھی نام پیش کیے جا سکتے ہیں اور اہلِ مذہب کے بھی۔ مگر بعض اوقات ترازو کا پلہ ایک طرف زیادہ جھک جانے کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ جیسے ہمارے جوش صاحب ہیں کہ مذہب اور دہریت کے درمیان جھولتے رہتے ہیں مگر ڈنڈی دہریت کی طرف زیادہ مارتے ہیں۔ اقبالؔ میں بھی یہ رجحان تھا مگر ان کا پلڑا مذہب کی طرف زیادہ جھکتا تھا، اس مسئلے کو پوری طرح سمجھنے کے لیے مارکس اور نطشے بھی ہماری مدد کر سکتے ہیں اور نیوٹن اور پا سکل بھی۔

لیکن بہترین شخصیت شاید وہ ہے جس میں انا اور اصولِ حقیقت کی متوازن ہم آہنگی پائی جاتی ہو۔ جو سچ بولنے کو پسندیدہ معیار سمجھ کر قبول کر لے مگر حقیقت کے ٹکراؤ سے پچک نہ جائے۔ پچک نہ جائے اور اُچھل نہ جائے۔ منافقت کر کے صلح نہ کر لے اور بھڑک بھڑک کر بغاوت کے نعرے نہ مارے۔ بس اپنے شعور میں دونوں کے لیے جگہ نکالے دونوں کی آگہی پیدا کر لے۔ توازن اور ہم آہنگی صرف شعور میں ممکن ہے۔ شعور میں ممکن ہو کر وہ عمل میں بھی پھیلتی ہے۔ شعور دونوں کی آگہی حاصل کرے تو انا اور اصولِ حقیقت دونوں ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ذریعے قوت حاصل کرتے ہیں۔ شعور چابک دست کوچوان کی طرح بگھی کے دونوں گھوڑوں کو ایک دوسرے کے قدم بہ قدم دوڑاتا ہے اور دونوں کی دوڑ سے زندگی نئی توانائیوں، نئی وسعتوں، نئی گہرائیوں کی طرف بڑھتی رہتی ہے۔ ادب ہمارے اندر یہی شعور اور آگہی پیدا کرتا ہے۔

 

 

 

 شخصیت: انا اور اصولِ حقیقت-2

 

 

پچھلی مرتبہ ہم نے ’’شخصیت اور اصولِ حقیقت‘‘ کے عنوان کے تحت بتایا تھا کہ بچہ جس پسندیدہ تصور کے تحت عمل شروع کرتا ہے، وہ اس کی انا کی ملکیت ہوتا ہے۔ انا جب اس عمل کو بار بار دُہرانے لگتی ہے تو شخصیت بننے لگتی ہے مگر انا کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ وہ ہر قدم پر حقیقت سے ٹکرا کر مجروح ہو جاتی ہے۔ اس لیے مثبت قسم کی مضبوط شخصیت کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ اس میں حقیقت کا تصور سمویا جائے۔ شخصیت میں حقیقت کے لیے جگہ موجود ہو تو انا حقیقت سے ٹکرا ٹکرا کر زخمی ہونے کی بجائے اس کو قبول کر کے آگے چلتی ہے اور یوں دونوں اصول متوازن طور پر شخصیت کو قوت پہنچاتے ہیں لیکن اس جگہ ایک وضاحت ضروری ہے۔ حقیقت کا لفظ ہم نے یہاں کسی مابعد الطبیعیاتی معنوں میں استعمال نہیں کیا ہے جب کہ عام معنوں میں یہاں حقیقت سے مراد ہر وہ خارجی چیز ہے جو انا سے متصادم ہو لیکن انا کا تصادم صرف خارجی چیزوں سے نہیں ہوتا بلکہ بعض اندرونی چیزیں بھی انا کے خلاف عمل کرتی ہیں، مثلاً جبلّتیں، بھوک، پیاس، نیند، جنسی ضرورت سب انا کے دشمن ہیں۔ انا تو یہ چاہتی ہے کہ خود اپنی جگہ مکمل ہو جائے۔ سے نہ کسی چیز کی ضرورت ہو، نہ خوف، وہ تو کسی دوسرے وجود کو تسلیم ہی نہیں کرنا چاہتی۔ پھر جب تسلیم نہیں کرتی تو اس سے کسی تعلق کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ ہم نے ایک مضمون غالبؔ کی انانیت میں یہ دیکھانے کی کوشش کی تھی کہ غالبؔ انا کے اس مطالبے کو کہاں تک پورا کرتا ہے۔ بہرحال انا کے بالکل برعکس جبلّتوں کا تقاضا یہ ہے کہ دوسروں کو تسلیم کیا جائے۔ جبلّتیں انسان کو انا سے باہر نکلنے پر مجبور کرتی رہتی ہیں۔ بھوک دفتر کے چکر کٹواتی ہے، جنس درِ محبوب کے، انا کو یہ بہت ناگوار ہوتا ہے، اس کا بس چلے تو جبلّتوں کا گلا گھونٹ کر ہلا کر دے۔ مگر جبلّتیں ہلاک نہیں کی جا سکتیں۔ کیوں کہ یہ حیاتیاتی وجود کا بنیادی تقاضا ہیں۔ مجبوراً انا انھیں بے دلی، مجبوری، افسردگی اور تلخی سے صرف اس حد تک تسلیم کرتی ہے کہ وہ کھلم کھلا اس کے مقابلے پر نہ آنے پائیں اور بہت ہوا تو انا کی آنکھیں بچا کر اپنا کام پورا کر لیں جس طرح کسی بزرگ خاندان کی موجودگی میں بچے کھیل کود لیتی    ہیں۔ انا کو دادا ابا بننے کا سچ مچ بڑا شوق ہے بلکہ سچ پوچھیے تو خدا بننے کا۔ یہ تو یہ چاہتی ہے کہ بس وہ ہو اور کوئی نہ ہو۔ اور جو کچھ ہو، اس کی اجازت سے ہو، خوشی سے مرضی سے ہو، جبلّتیں انا کا شوق دیکھتی ہیں تو سچ مچ بچوں کی طرح ’’دادا ابا‘‘ سے کھیل شروع کر دیتی ہیں اور ذرا سی دیر میں بڑے میاں کی داڑھی کا تنکا تنکا اکھاڑ لے جاتی ہیں۔ جبلّتیں اور جسم دونوں انا کے ’’ہمچو من دیگرے نیست‘‘ کے نعرے کو تسلیم نہیں کرتے اور انا کی مطلق العنانی کو ختم کر کے اس کو اس کے صحیح مقام پر واپس لانا چاہتے ہیں، در اصل جبلّتیں اور جسم ہی نہیں کائنات کا پورا نظام ہی ’’انا‘‘ کی چودھراہٹ کے خلاف ہے۔ انا جب ان خطرات کو اپنے چاروں طرف دیکھتی ہے تو ہتھیار اٹھا لیتی ہے، وہ کائنات، جبلت، جسم غرض ’’غیر انا‘‘ کے ہر عنصر کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور خوں ریز پنجے نکال کر حملہ آور ہو جاتی ہے۔ لیکن اسے معلوم ہے کہ وہ تنہا جیت نہیں سکتی، اس لیے ایک عیار دشمن کی طرح وہ ایک دھوکے کی فوج تیار کرتی ہے، لطف یہ ہے کہ اس فوج میں ہر چیز ویسی ہی ہوتی ہے جیسے غیر انا کے پاس مثلاً عشق جبلت کی قوت ہے۔ جبلت عشق کو انا کی شکست کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے اور اسے ہر قسم کے ایسے حربوں سے لیس کرتی ہے جوانا کی ساری قوت توڑ دیں۔ انا نہایت عیاری سے ایک دھوکے کا عشق پیدا کر لیتی ہے۔ جو جبلت کے بجائے انا کا سپاہی ہوتا ہے، اسمیں بظاہر ساری خصوصیات جبلی عشق کی ہوتی ہیں۔ مگر وہ اندر سے کچھ اور ہوتا ہے۔ اخلاق بھی ’’عیر انا‘‘ کی قوت ہے اس کا مقصد بھی عشق کی طرح انا کو زیر کرنا ہے مگر انا نہایت چالاکی سے حقیقی اخلاق کے مقابل پر جھوٹا اخلاق پیدا کر لیتی ہے جو ہر طرح سے سچے اخلاق سے مشابہ ہوتا ہے مگر در اصل انا کا خادم ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ مذہب تک جو انا کا قطعی اور اٹل دشمن ہے۔ انا اس کو بھی جھانسا دے جاتی ہے اور سچے مذہب کی جگہ جھوٹا مذہب پیدا کر لیتی ہے، اس جھوٹے مذہب کی عبادات، ریاضتیں، مجاہدے، سب سچے مذہب جیسے ہوتے ہیں مگر در اصل اس کی عبادت گاہ میں خدا کے بجائے انا پوجی جاتی ہے، یوں انا سچی کائنات کے مقابلے پر ایک جھوٹی کائنات پیدا کرتی ہے جس کے زمین و آسمان، شجر و حجر، چرند و پرند سب اصلی کائنات سے مختلف ہوتے ہیں ہیں اور اس خود تخلیق کردہ کائنات میں انا خدا بن کر دم بہ دم کن فیکون کے نعرے مارتی اور انا المعبود کی آوازیں لگاتی ہیں۔ مگر جبلت جسم کائنات اور خدا ’’انا‘‘ کی اس فریب کاری کو برداشت نہیں کر سکتے۔ نیند، بھوک، جنس اور جبلت و جسم کی دوسری قوتیں پے در پے چھاپے مارنے لگتی ہے۔ کائنات اپنے حادثوں کو آواز دیتی ہے۔ بیماریوں، دکھوں، مصیبتوں کے شکر جمع کرتی ہے اور حملہ کر دیتی ہے، خدا ڈراؤنے خوابوں اور دہشت ناک کا بوسوں میں ظہور کرنے لگتا ہے۔ اس وقت انا کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا قلعہ ریت پر بنا تھا۔ قلعہ کیا منہدم ہوتا ہے کہ انا کو دورے پڑنے لگتے ہیں۔ وہ کبھی خوخیاتی ہے، کبھی غّراتی ہے، کبھی غرے ڈبے دکھاتی ہے۔ کبھی اپنے پنجوں کی نمائش کرتی ہے اور جب اس سب سے کام نہیں چلتا تو ممیانے لگی ہے۔ روتی بسورتی ہے، ٹسوے بہاتی ہے، ہائے وائے کرتی ہے اور بالآخر گربہ مسکین کی طرح دبک کر بیٹھ جاتی ہے۔ ذرا اس کی آنکھوں کو دیکھو اس کی چندھیائی ہوئی آنکھوں میں گزشتہ فتوحات کی یادوں کے کتنے خواب اب بھی لہرا رہے ہیں۔

بہرحال خارجی حقیقت کے بعد اب انا کو جو سب سے بڑا خطرہ ہے، وہ اس غیر انا سے ہے جو خود انسان میں موجود ہوتی ہے۔ ایک مضبوط اور مثبت شخصیت کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ خارجی حقیقت کے ساتھ اس اندرونی حقیقت کی آگاہی بھی حاصل کی جائے۔ پہلے ہم دکھا چکے ہیں کہ سچا بچہ سچ بولنے پر تھپڑ کھا سکتا ہے۔ اسی طرح اس نیک بچے کو دیکھیے جو مثلاً بوڑھی ہمسایہ عورت کی تیمار داری کے لیے رات بھر جاگنا چاہتا ہے۔ ارادہ نیک ہے پورا ہو گا تو اسے دعائیں ملیں گی۔ تعریفیں ہوں گی اور دعاؤں اور تعریفوں سے انا سرشار ہو گی۔ بچہ بے چارہ سو جان سے یہ عمل کرنے کے لیے تیار ہے مگر ہوتا یوں ہے کہ عین اس وقت جب اسے بڑھیا کو دوا پلانے کے لیے پوری طرح بیدار ہونا چاہیے تھا، وہ سو جاتا ہے۔ بڑھیا اس کے خراٹوں کی آواز سنتی ہے تو دعائیں دینے کی بجائے کوستی ہے کہ سونا ہی تھا تو اتنا ڈھونگ کیوں رچایا۔ ہمارے سب سے نیک ارادوں اور خواہشوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے، ہم بڑے جتنوں سے کھیر پکاتے ہیں اور وہ شومیِ قسمت سے دلیہ ہو جاتی ہے۔ نیک ارادے اور منصوبے الٹے نتائج پیدا کرتے ہیں۔ گلاب بوتے ہیں تھوہر اُگتا ہے۔ ایسے موقعوں پر انا کی حالت ہوتی تو قابلِ رحم ہے مگر رحم کھانا غلطی ہو گی، رحم کھا کر ہم صورتِ حال کو تو نہیں بدل سکیں گے۔ البتہ انا کو کوئی اور فریب دینے کے لیے تیار کریں گے۔ شخصیت ایسے فریبوں سے مریض، منفی اور کم زور ہو جاتی ہے۔ آپ ایسے لوگوں کو دیکھتے ہوں گے جو کبھی یہ رونا روتے ہیں کہ دنیا ان کے نیک کاموں کو نہیں سمجھتی۔ کبھی اس بات پر طنز کرتے ہیں کہ دنیا ان کے کاموں کو تو کیا خود ان کو سمجھنے کی اہل نہیں ہے، کبھی اس بات پر ہنستے ہیں کہ ان کا پالا کن احمقوں سے پڑا ہے، کبھی اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ در اصل جیسے وہ ہیں، اگر دوسرے بھی ویسے ہوتے تو جانتے انا، انا، انا، نا آسودہ انا۔ بیمار شخصیتیں نا آسود انا کا چلتا پھرتا اشتہار ہوتی ہیں مگر ہم ان کو اس عمل کو سمجھ سکتے ہیں، انا کو بھی اور حقیقت کو بھی۔ چاہے وہ خارجی ہو یا داخلی۔ خارجی اور داخلی طور پر اصولِ حقیقت کو سمجھ کر ہم انا سے ان کی ہم آہنگی کا امکان پیدا کرتے ہیں۔ یہ ہم آہنگی ہی شخصیت کی بہار ہے۔

 

 

 

 

 شخصیت: انا اور شعور-1

 

اب تک ہم شخصیت کے بارے میں جو کچھ کہہ چکے ہیں، اس کا خلاصہ یہ ہے :

۱۔ شخصیت ذات سے الگ ہوتی ہے اور اس پر ایک اضافہ ہے۔

۲۔ شخصیت اس تصور سے پیدا ہوتی ہے جو ہم اپنی ذات کے بارے میں رکھتے ہیں۔

۳۔ یہ تصور ہمیشہ پسندیدہ اور خوش آئند ہوتا ہے جسے ہم ماں باپ یا اپنے ماحول سے اخذ کرتے ہیں۔

۴۔ ہمیشہ یہ تصور انا کی ملکیت ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں شخصیت انا کا ایک پسندیدہ تصور ہے، جو وہ اپنی ذات کے بارے میں رکھتی ہے۔

اس کے ساتھ ہی ہم نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ انا ہمیشہ غیر انا سے برسرِ پیکار رہتی ہے۔ یہ غیر انا کیا ہے ؟ حقیقت ہے۔ حقیقت کے دو پہلو ہیں : ایک خارجی، دوسرا داخلی۔ خارجی حقیقت میں کائنات، فطرت، ماحول، معاشرہ اور دوسرے انسان شامل ہیں۔ آپ اجازت دیں تو ایک نام اور لے لوں خدا اور داخلی حقیقت میں محسوسات، جذبات، جبلّتیں وغیرہ۔ یہ انا سے ٹکرائی ہیں۔ اس ٹکراؤ سے شخصیت کی تعمیر ایک مشکل کام بن جاتا ہے، بلکہ بعض اوقات ناممکن بن جاتا ہے اور اگر کسی طرح شخصیت بن بھی جائے تو کم زور، مریض اور غیر منظم ہوتی ہے۔ صحت مند، بھرپور اور منظم شخصیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انا اور حقیقت کے درمیان توازن اور ہم آہنگی پیدا ہو۔ انا اس کی اہل نیں ہے اور حقیقت بے پروا انا اس اندھے کی طرح ہے جسے سڑک پار کرنا ہے۔ حقیقت اس بس کی طرح جو سڑک سے گزر رہی ہے۔ اندھا بس کے نیچے بھی آ جائے تو بس کو پروا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا فطرت نے انا کو اندھا بنا کر بس کے آگے چھوڑ دیا ہے ؟ یقیناًیہ بڑا ظلم ہوتا اگر فطرت اندھے کو آنکھیں نہ دیتی۔ ہماری آنکھ شعور ہے۔ ہم نے لکھا تھا کہ انا اور خارجی و داخلی حقیقت کے ٹکراؤ کو دور کرنے کا صرف ایک طریقہ تھا۔ طریقہ یہ ہے کہ شعور میں دونوں کے لیے جگہ نکالی جائے۔ شعور بیک وقت انا اور غیر انا دونوں کی آگاہی ہے۔ شعور انا اور غیر انا دونوں کو دیکھتا ہے۔ اور دونوں کا تعلق پیدا کرتا ہے۔ تعلق انا بھی پیدا کرتی ہے مگر اس طرح جس طرح اندھا بس کا شور سن کر کبھی آگے پیچھے کبھی دائیں بائیں ہٹتا ہے۔ اور اسے معلوم نہیں ہوتا کہ بس کدھر ہے اور وہ کدھر؟ لیکن شعور صحیح تعلق پیدا کرتا ہے۔ میں نے غلط کہا پیدا نہیں کرتا۔ صرف بتاتا ہے کہ صحیح تعلق کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں شعور کا فریضہ آنکھوں کی طرح صرف ایک ہے، دیکھنا۔

مگر آنکھوں کا دیکھنا کئی شرطوں کا تقاضا کرتا ہے۔ آنکھیں بند نہ ہوں کھلی ہوں، آنکھوں پر کوئی رنگین چشمہ نہ ہو، ورنہ چیزیں دوسرے رنگ میں نظر آئیں گی۔ دیکھنے کا زاویہ صحیح ہو، ورنہ چیزیں ٹیڑھی میڑھی، چھوٹی بڑی ہو جائیں گی۔ انا شعور سے اس وقت کام لے سکتی ہے جب یہ شرائط پوری کرے۔ شرائط کا شعور بھی شعور ہی دیتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ آنکھیں ہزار نعمت ہیں۔ انا کے لیے شعور ہزار نعمت ہے۔ مگر انا اکثر کفرانِ نعمت کرتی ہے۔ کفرانِ نعمت کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ولیش نعمت کی نمک حرامی کر کے اس کی ملکیت غصب کر لی جائے۔ انا غاصب ہے، وہ شعور کو جو خدا کی، فطرت کی، کائنات کی یعنی غیر انا کی ملکیت ہے، غصب کر کے اپنی ملکیت بنا لیتی ہے۔ وہ کہتی ہے ’’میری آنکھیں ‘‘ اور پھر اپنی آنکھوں سے جو چاہتی ہے، کرتی ہے۔ کبھی ان پر پٹی باندھ دیتی ہے، کبھی رنگین چشمہ پہنا دیتی ہے، کبھی ان کے فطری زاویے کو الٹ پلٹ کر دیتی ہے۔ یہاں تک کہ کبھی آنکھیں پھوڑ دیتی ہے۔ شعور انا کا غَام ہو کر اپنا فریضہ ادا کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اب وہ دیکھتا ہے جو انا چاہتی ہے، اس رنگ میں دیکھتا ہے، جو انا کو مرغوب ہے، اس زاویے سے دیکھتا ہے جو انا کو پسند ہے، جو زاویہ اور رنگ انا کو پسند نہیں، وہ شعور سے باہر ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ انا اگر کسی چیز کو دیکھنا ہی نہ چاہے تو غلام شعور بھی اسے دیکھنے سے ان کار کر دیتا ہے۔ یوں اندھے کا رہنما بھی اندھا بن جاتا ہے، اور دونوں میں اللہ ملائی جوڑی کا سا مزہ اتا ہے۔ ہم روزمرہ زندگی میں ایسے اندھوں کو اس کثرت سے دیکھتے ہیں کہ ان کے عادی ہو گئے ہیں۔ اب ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآنِ حکیم نے کہا ہے کہ گونگے، بہرے اور اندھے ہیں۔ بصارت، سماعت، گویائی سب غیر انا کی ملکیت تھے۔ انا نے ان پر قبضہ کر لیا تھا۔ اب یہ سب قوتیں اس کی غلام ہیں۔ حریت پسندوں کو غلام بنانے کا تجربہ امریکا، برطانیہ، فرانس سب کو ہو چکا ہے۔ ہٹلر اور مسولینی بھی یہ تجربہ کر چکے ہیں مگر ان کا انجام ہمارے سامنے ہے اور کچھ اور سامنے آ جائے گا۔ انا نے بھی غیر انا کی آزاد قوتوں کو مفتوح کیا ہے، اس کی ہٹلریت کی سزا اس کو ملے گی۔

غیرانا: انا سے اس غاصبانہ حرکت کا انتقام اس طرح لیتی ہے۔ جیسے کوئی اندھے کو غلط راستہ بتا کر دوڑا دے جس پر کنواں ہے۔ انا اپنے زور میں دوڑاتی چلی جاتی ہے، اس کی محکوم بصارت بڑھاوا دیتی ہے۔ ہاں یہی صحیح راستہ ہے، محکوم سماعت کہتی ہے، ’’ارے میں تو منزل کے بلاوے سن رہی ہوں۔ ‘‘ اور محکوم گویائی نعرے مارتی ہے۔ بڑھے چلو، بڑھے چلو، مقصد تو جلدی سے جلدی کنویں میں گرا دینا ہے۔ افسوس کہ کنویں میں گر کر بھی سزا پوری نہیں ہوتی۔ اس وقت یہ ساری محکوم قوتیں استہزا اور طنز کی دیویاں بن جاتی ہیں۔ وہ اندھے سے پورا پورا لطف لینے کے لیے کہتی ہیں۔ واہ وا کیا خوش نما منزل ہے۔ بچپن میں ایک کہانی سنی تھی کہ ایک بندر نے مٹی کا چبوترا بنایا، اس پر گوبر لیپا اور چڑھ کر بیٹھ گیا اور ہر آنے جانے والے سے کہتا تھا، ’’کہو چاندی کا چبوترا، سونے کا تخت، تخت پہ بیٹھا راجا بخت۔ ‘‘ محکوم قوتیں انا کو سچ مچ راجا بخت بنا دیتی ہیں۔ ہم معاشرے میں جب ایسے راجا بختوں کو دیکھتے ہیں تو کیسا مزہ آتا ہے کہ مٹی اور گوبر کو کم بخت کیا سمجھ رہے ہیں۔

پتا چلا کہ شعور کا ہونا کافی نہیں۔ شعور کا اس کے حقیقی مالک کے پاس رہنا ضروری ہے یعنی غیر انا کے پاس، شعور جب غیر انا کے پاس ہوتا ہے تو جو کچھ بولتا ہے۔ وہ وحی ہے، الہام ہے۔ کلمۂ حق ہے، نعرۂ صداقت، آوازِ سروش، ندائے ہاتف ہے، نفسِ جبریل ہے، دیو بانی ہے، نغمۂ خداوندی ہے۔ وید ہے، گیتا ہے، توریت ہے، زبور ہے، انجیل ہے اور بے شک قرآن ہے۔ باقی جو کچھ ہے وہ شعور نہیں، انا کے بچھڑے کی آواز ہے۔ کتنے ہیں کہ اس بچھڑے کی آواز پر جھوم رہے ہیں اور جھوم جھوم کر مستی میں سجدے کر رہے ہیں، اس کی سزا ایک مرتبہ بنی اسرائیل کو مل چکی ہے اور انا کے بچھڑے کے ہر پوجنے والے کو ملے گی۔

لیکن شعور کو اس کی صحیح جگہ پر رکھنے کا ایک چھوٹا سا ذریعہ ادب بھی ہے۔ سچا ادب ہمیشہ ہمیں دکھاتا ہے کہ شعور غیر شخصی چیز ہے۔ یہ انا کا خادم نہیں، غیر انا کا آلۂ کار ہے۔ دنیا کی بہترین شاعری، ادب اور فلسفہ ہمیں اس سے زیادہ نہیں بتاتے جو ادب ہمیں یہ بتاتا ہے، وہ سچا ادب ہے۔ سچا ادب ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ شعور کے شخصی بن جانے یا ان کا غلام بن جانے سے شعور پر کیا گزرتی ہے۔ شعور پر بھی اور خود انا پر بھی۔ لیکن ہر ادب سچا نہیں ہوتا۔ سچے ادب اور جھوٹے ادب میں فرق یہ ہے کہ جھوٹا ادب اس شعور کا اظہار کرتا ہے جو انا کا غلام ہو چکا ہے، یہ جھوٹا ادب اس غلامی کو پختہ تو کرتا ہے، اسے دائمی اور ناقابلِ رہائی بناتا ہے۔ یہ اندھے کو اندھے پن کی داد دیتا ہے اور میٹھی میٹھی باتوں سے مسحور کر کے اپنے اندھے پن پر اور معز ور کر دیتا ہے۔ یہ بات پبلشروں کے خلاف نہ سمجھی جائے اور رائٹرز گلڈ والے اسے اپنے اوپر طنز نہ سمجھیں تو کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے بازار جھوٹے ادب سے بھرے پڑے ہیں۔

 

 

 

 

شخصیت: انا اور لاشعور-2

 

 

میں نے شخصیت، انا اور لاشعور کے بارے میں اب تک جو کچھ لکھا ہے، حتی الامکان غیر علمی انداز میں لکھا ہے۔ شاید میں چاہوں بھی تو علمی انداز اختیار نہیں کر سکتا۔ وجہ ظاہر ہے ایک تو میں علمی آدمی نہیں ہوں۔ دوسرے علمی آدمیوں کو دیکھ کر ڈر بھی گیا ہوں۔ شوکت سبزواری، عبادت بریلوی سے کون نہیں ڈرے گا۔ میرا تو سیدھا سادا اصول یہ ہے کہ جو کچھ میرے تجربے میں آتا ہے اور میں اس تجربے کو جہاں تک سمجھ سکتا ہوں، لکھ دیتا ہوں، چنانچہ مجھے یہ خوش فہمی بالکل نہیں ہے کہ کالج کے لڑکے ان مضامین کو پروفیسر فائق کی کتاب ’’مسائلِ نفسیات‘‘ کی طرح پڑھیں گے، یہ تو اپنے تجربے کو سمجھنے سمجھانے کی صرف ایک کوشش ہے اور بس۔ سمجھانے سے بھی زیادہ سمجھنے کی۔ اس لیے جب میرے دوست احمد ہمدانی نے میرا پہلا مضمون پڑھ کر مجھ سے یہ پوچھا کہ میں ایلیٹ کے شخصیت سے فرار ہونے والے نظریے کی تائید کر کے کہیں یہ تو نہیں کہہ رہا ہوں کہ شاعر کو ایگو اور سپر ایگو سے بھاگ کر اِڈ کی طرف بڑھنا چاہیے تو میں چپ سا ہو گیا۔ یہ تینوں اصطلاحیں فرائیڈ کی ہیں، میں فرائیڈ کو اس بیسویں صدی کا بہت بڑا آدمی سمجھتا ہوں، اس وجہ سے نہیں کہ وہ بہت بڑا معالج یا سائنس دان تھا اور اس نے اپنے نظریات کی تائید میں ہزاروں انسانوں پر تجربے کیے تھے۔ یہ بھی بڑی مرعوب کن بات ہے، مگر میں تو اس لیے قائل ہوں کہ در اصل اس کی تجربہ گاہ صرف ایک ہی تھی، خود وہ یوں دیکھیے تو میرے یہ ہلکے پھلکے مضامین خود فرائیڈ کی چھوٹی سی پیروی کا نتیجہ ہیں۔ بہرحال اپنی جہالت کے باوجود میں چاہتا تو اِڈ پر تھوڑی بہت علمی گپ زنی ضرور کر سکتا تھا، اس لیے احمد ہمدانی صاحب کے جواب میں چپ رہا تو یہ سوچ کر کہ یہ سوال تو ممتاز صاحب سے بھی پوچھ لیں گے۔ جب ممتاز حسین موجود ہیں تو میرا بولنا کیا ضروری ہے۔

لیکن اس مضمون کا عنوان انا اور لاشعور رکھ کر میں نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ بیاض کے دیباچے میں شاعری کو شعور کی اولاد کہہ کر جو گزری، وہ بھولنے کی چیز نہیں۔ ایسے ایسے علمی آدمی بگڑے ہیں کہ جہالت کا آسرا نہ ہوتا تو بھاگ کھڑا ہوتا۔ بہرحال اب عنوان رکھ ہی دیا ہے تو کیے کو بھگتنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ اس لیے آیئے بات شروع کرنے سے پہلے ایک بار اپنی کہی ہوئی دو ایک باتیں دُہرا دوں۔ میں نے کہا کہ انا اور حقیقت کے ٹکراؤ میں انا مجروح ہو کر مریض، غیر متوازن اور غیر منظم ہو جاتی ہے۔ جس سے کم زور یا منفی شخصیت پیدا ہوتی ہے۔ شخصیت کو اس خرابی سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ انا حقیقت کے مقابل ہو کر پچکنے یا اُچھلنے نہ لگے بلکہ اس سے متوازن، حقیقت پسندانہ اور بھرپور رشتہ قائم کر لے۔ یہ رشتہ قائم ہو جائے تو شخصیت میں انا اور اصولِ حقیقت دونوں کی جگہ نکل آتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے قدم بہ قدم چل کر شخصیت کو مستحکم، توانا اور بھرپور بناتے ہیں۔ میں نے اس رشتے کے لیے شعور کو ضروری قرار دیا ہے۔ ہمارے مادری پدری اصول والے سجاد باقر مجھے یاد دلائیں گے کہ شعور تو خود انا کی روشنی کا دائرہ ہے لیکن ان کے اس اعتراض سے پہلے میں جلدی سے اپنی باتوں کو مکمل کر لوں۔ میں نے جب شعور کا لفظ کہا تو اس کی دو صورتیں میرے ذہن میں تھیں، ایک کو آزاد شعور، دوسرے کو غلام شعور کہہ لیجیے، آزاد شعور غیر انا کی ملکیت ہوتا ہے۔ غلام شعور انا کی۔ یا یوں کہیے کہ انا جب اس شعور کو جو غیر انا کی ملکیت ہے، غصب کر لیتی ہے اور اس کی حاکم بن کر اسے اپنا آلۂ کار بنا لیتی ہے تو غلام شعور وجود میں آتا ہے۔ یہ شعور کی مسخ شدہ شکل ہوتی ہے۔ مسخ ہو کر یہ اتنا چابک دست، تیز اور سفاک ہو جاتا ہے کہ چلتی ہوئی تلوار بھی اس کا مقابلہ نہیں کرستکی۔ پچھلے بس برس سے میں عورتوں میں بالخصوص اس مسخ شدہ شعور کی پیدائش کا مشاہدہ کر رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ کس طرح اس نام نہاد شعور نے نسائیت کا قتلِ عام کیا ہے مگر یہ ایک الگ بحث ہے، پھر کبھی سہی۔ بہرحال میں یہ کہہ رہا تھا کہ عام انسانوں میں ہم جس شعور کا مشاہدہ کرتے ہیں، وہ غلام شعور ہوتا ہے۔ وجہ ظاہر ہے۔ عام زندگی عمل کی زندگی ہے۔ یعنی سماجی عمل کی۔ سماجی عمل کے محرکات ابتداً جبلی یا حیاتیاتی ہوتے ہیں مگر سماجی ترقی کے ساتھ ساتھ ان میں انا کا عمل بھی شامل ہو جاتا ہے۔ مثلاً روٹی حاصل کرنے کے لیے نسان جو کچھ کرتا ہے، وہ تو حیاتیات ضرورت ہے، مگر جب انسان کی جد و جہد اس سے آگے بڑھ کر سماجی مرتبے یا حیثیت سے وابستہ ہو جاتی ہے تو یہ عمل حیاتیاتی یا جبلی نہیں رہتا۔ یہ انا کا عمل بن جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ انا ہر حیاتیاتی عمل میں اتنی دخیل ہو جاتی ہے کہ اسے اس کے مرکز سے ہٹا کر خود اس کی جگہ براجمان ہو جاتی ہے۔ ایسے انسانوں کا کل عمل انا کے تابع ہو جاتا ہے، چاہے کوئی پیسا جمع کر لے، چاہے عورتیں۔ جن بے چاروں کو یہ نہیں ملتا، وہ خیالی ’’فتوحات‘‘ پر گزر اوقات کرتے ہیں۔ یعنی شاعر اور ادیب بن جاتے ہیں۔ اس طرح عملی شعور انا کا غلام ہوتا ہے۔ انسان جوں جوں ایسے عمل میں زیادہ گرفتار ہوتا جاتا ہے۔ اس کا اصل یعنی آزاد شعور جسے میں نے غیر انا کی ملکیت کہا ہے۔ غائب ہونے لگتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ اتنا غائب ہو جاتا ہے کہ اس کی جگہ صرف خواب میں باقی رہ جاتی ہے۔ انا اور عملی شعور کی یہ فتح یابی موجودہ معاشرے کی روح ہے۔ مگر وہ کہہ چکا ہوں کہ انا کچھ کر لے، خدا کائنات، جبلّتیں اور جسم یعنی غیر انا کی قوتیں اس کی مطلق العنانی کو برداشت نہیں کر سکتیں۔ وہ چاروں طرف سے اس پر حملہ آور ہو جاتی ہیں۔ نتیجہ اختلال ذہن غیر انا، انا کے قلعے کو مسمار کر دیتی ہے۔ مسمار نہیں کر سکتی تو گولے مار مار کر فصیلوں میں شگاف ڈال دیتی ہے۔ آپ ان شگافوں کے اندر انا کی شکست خوردہ فوج دیکھ سکتے ہیں۔ یہ خود رحمی ہے جو اپنے زخم چاٹ رہی ہے۔ وہ احساسِ کم تری ہے جو خود بہ خود بیٹھا بیٹھا گھلا جا رہا ہے۔ وہ غرور ہے جو غرا غرا کر نئی مورچہ بندی کے منصوبے سوچ رہا ہے۔ غالباً اب ہم فرائیڈ کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔ میں یہ عملی یا انانیت کا غلام شعور ہی تو ہے جس کے مقابلے پر گم شدہ آزاد شعور کو فرائیڈ نے لاشعور کہہ دیا ہے۔

میں نے فرائیڈ کو بیسویں صدی کا بڑا آدمی کہا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ جو میں سمجھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس نے یہ بات دریافت کی۔ نہ صرف دریافت کی کہ بلکہ اسے سائنٹفک حقیقت بنا دیا کہ موجودہ تہذیب میں انسانی اعمال کی محرک انا ہے۔ اور انسانی شعور انا کا تابع ہو گیا ہے۔ چنانچہ فرائیڈ کے نزدیک اختلالِ ذہنی انا کے اس عمل کا نتیجہ ہوتی ہے کہ وہ انسان کے حیاتیاتی یا جبلی وجود کی فطری خواہشات کو دباتا ہے۔ یہاں تک کہ انھیں شعور میں بھی نہیں آنے دیتا۔ تحلیلِ نفسی کا اصول ایسی دبی ہوئی خواہشات اور رجحانات کو شعور میں لے آنا ہے۔ فرائیڈ اور اس کے مقلد اسے لاشعور سے شعور میں لانے کا عمل قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ صرف اصطلا ات کا جھمیلا ہے۔ یہ کہیے کہ لاشعور سے شعور میں آتا ہے، یا یہ کہیے کہ غاصب انا کا غلام شعور آزاد ہو کر غیر انا کی ملکیت میں چلا جاتا ہے۔ بات ایک ہی ہے صرف ناک کو پکڑنے کا فرق ہے۔ میں ناک کو جس طرح پکڑنا چاہتا ہوں، وہ اگر فرائیڈ سے مختلف ہے تو اس کی وجہ میری ضد یا خود پسندی نہیں ہے بلکہ بات یہ ہے کہ میں نے اپنے بزرگوں کو ناک اسی طرح پکڑتے دیکھا ہے، یہ ہماری تہذیب کی روایت ہے۔ ہماری تہذیب غیر انا کے حقیقی اور آزاد شعور کو لاشعور نہیں کہتی ہے، شعور کہتی ہے۔ لاشعور وہ کہیں جن کو صرف غلام شعور کا تجربہ ہے۔

 

 

 

 

شخصیت اور اسلوب

 

 

’’شخصیت اور شاعری‘‘ میں ہم نے اپنے وجود کے بارے میں تین امتیازات قائم کیے تھے :

۱۔ جیسے کہ ہم ہیں

۲۔ جیسا ہم تصور کرتے ہیں اور

۳۔ جیسے ہم دوسروں پر ظاہر ہوتے ہیں یا کرتے ہیں۔

ہم نے لکھا تھا کہ جیسے ہم ہیں، وہ ہماری ذات ہے۔ باقی ہم جیسا سوچتے ہیں کہ ہم ہیں اور جیساکہ دوسروں پر ظاہر ہوتے ہیں کہ ہم ہیں، یہ شخصیت ہے۔ شخصیت کا اظہار دو چیزوں میں ہوتا ہے، عمل میں اور قول میں۔ جب ایک آدمی بار بار ایک ہی قسم کا عمل کرتا ہے اور ایک ہی قسم کی باتیں کرتا ہے۔ تو کردار ظہور میں آتا ہے، کردار سب میں ظاہر چیز ہے۔ شخصیت نیم پوشیدہ، نیم ظاہر، اور ذات بالکل پوشیدہ، کردار میں ہم دھوکا دے سکتے ہیں۔ یا خود کو دھوکے میں رکھ سکتے ہیں۔ مثلاً ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے بارے میں یہ تصور رکھتے ہوں کہ ہم بہت قابل آدمی ہیں مگر قول و عمل میں ہم اپنے کو منکسر آدمی ظاہر کرتے ہوں، ’’اجی میں کس قابل ہوں۔ ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ تصور اور عمل میں دوئی پیدا ہو گئی ہے۔ بعض اوقات ہمیں اس دوئی کا خود پتا نہیں ہوتا، مثلاً اس بچے کی مثال یاد کیجیے جس نے جھوٹ بولنا تو شروع کر دیا۔ مگر خود کو سچا سمجھنا نہ چھوڑا۔ یعنی وہ اپنے تصور میں سچا ہے اور عمل میں جھوٹا، ہم خوداس سے باخبر ہوں یا بے خبر دوسرے جو ہمارے سب سے ظالم ناقد ہیں۔ ہماری شخصیت کی اس دوئی کو تاڑ لیتے ہیں۔ ہمیشہ یہ دوئی شخصیت کے دو نیم ہونے کا پتا دیتی ہے لیکن جب شخصیت میں یہ دوئی نہ ہو تو تصور اور قول و عمل کی مطابقت عمل میں آتی ہے۔ یہ ہم آہنگ شخصیت ہے، پھر بھی قول و عمل کا دائرہ شخصیت کا پورا اظہار نہیں کرتا، یہ شخصیت کی مدھم سی تصویر ہوتا ہے۔ یعنی ہمارے کردار میں ہماری شخصیت کے کئی رنگ، کئی پہلو دب جاتے ہیں۔ وہ ظاہر تو ہوتی ہے مگر ایسی نہیں جیسی وہ ہو بہو ہے۔ شخصیت کے زیادہ سے زیادہ اظہار کا ایک ذریعہ فنونِ لطیفہ ہیں، خصوصاً ادب و شعر اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اپنا جو تصور رکھتے ہیں، وہ قول و عمل سے زیادہ شعر و ادب میں بہتر طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ ایلیٹ نے کہا ہے۔ شاعری کا مقصد شخصیت کا اظہار نہیں، شخصیت سے فرار ہے یعنی ہم جیسا خود کو سمجھتے ہیں، اس سے گزر کر اس کی طرف بڑھتے ہیں۔ جیسے ہم ہیں، دوسرے لفظوں میں زیادہ سے زیادہ خود آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ خودآگاہی اور جہاں آگاہی ایک دوسرے کی تکمیل ہیں، اس لیے ہم خود کو جاننے میں دوسروں کو جانتے ہیں اور دوسروں کو جاننے میں خود کو لیکن جو لوگ شخصیت کے اظہار کے قائل ہیں، وہ خود آگاہی اور جہاں آگاہی کی ایک منزل پر رُک جاتے ہیں۔ یعنی شخصیت سے کبھی فرار نہ کر کے اس میں تبدیلی کا دروازہ بند کر لیتے ہیں۔ شخصیت یوں ہمارے تخلیق کردہ پورے شعر و ادب میں موجود ہوتی ہے۔ لیکن اس کا نچوڑ اسلوب میں ہوتا ہے۔ یہاں شخصیت کا عطر نکل آتا ہے۔ اسلوب شخصیت کا عطر ہے، جوہر ہے، بجلی کی وہ رو ہے جو پوری شخصیت میں دوڑی ہوئی ہے۔ اس لیے کہنے والے کہتے ہیں کہ اسلوب ہی شخصیت ہے، ہمارا سوال یہ ہے کہ جو لوگ شخصیت کے اظہار کے بجائے شخصیت سے فرار کرنا چاہتے ہیں، کیا ان کا اسلوب نہیں ہوتا؟ جواب یہ ہے کہ ہوتا ہے مگر وہ شخصیت کی طرح اسلوب سے بھی فرار کرتے ہیں۔ ہر اسلوب اپنی آگاہی کا نتیجہ ہوتا ہے، خودآگاہی میں اضافہ کے ساتھ ہی اسلوب بدل جاتا ہے۔ خود آگاہی کے ساتھ بھی اور جہاں آگاہی کے ساتھ بھی۔ خود آگاہی میں تغیر سے اسلوب کے بدلنے، اور بدلتے رہنے کی مثالیں ہم پھر کسی اور وقت دیں گے۔ لیکن جہاں آگہی یا دوسروں کی آگاہی سے ہمارا اسلوب جس طرح بدلتا ہے، وہ سامنے کی چیز ہے۔ ہمارے گھر دعوت ہے۔ ہم بزرگوں اور غیروں سے کہتے ہیں، ’’براہِ کرم غریب خانے پر تشریف لا کر ماحضر تناول فرمایئے۔ ‘‘ تعلق کی اور زیادہ مساوی اور قریبی صورت میں ہم کہتے ہیں، ’’کل آپ کی دعوت ہے، ضرور تشریف لایئے گا۔ ‘‘ اور بالکل ہی قریب کے اور برابر کے دوست سے کہتے ہیں، ’’یار کل کھانا میرے ساتھ کھانا۔ ‘‘ دیکھیے دوسروں نے ہمارے اسلوب کو کتنا بدلا ہے۔ اسی طرح دوسروں کی آگاہی سے ہمارا اسلوب اس وقت بھی بدلتا ہے، جب ہم ان کی اہلیت کے مطابق ان سے گفتگو کرتے ہیں، فلسفے کے جاننے والوں سے فلسفیانہ اصطلاحات میں، شاعرانہ طبیعت رکھنے والوں سے شاعرانہ اسلوب میں اور عام لوگوں سے بالکل عام انداز میں۔ ایک فلسفے کے طالب علم سے ہم کہتے ہیں، ’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ خیر اور شر میں کیا فرق ہے ؟ ایک دوسرے آدمی سے شاید ہم صرف یہ کہیں، ’’جناب نیکی کو بدی جاننا ضروری ہے۔ ‘‘ غالباً ایک بچے سے صرف اتنا کہنا ہی کافی ہو گا۔ ‘‘ میاں اچھے برے میں تمیز پیدا کرو۔ ‘‘ ایک ہی حقیقت اظہار کی مختلف سطحوں پر مختلف اسلوب اختیار کر لیتی ہے۔ ‘‘ ’’قطرہ وجودِ دریائے عدم میں شامل ہو گیا۔ ‘‘ تعین لا تعین میں مل گیا۔ یوں ہمارے مخاطب کی حیثیت اور مرتبہ، مزاج اور کردار، علم و ادراک ہمارے اسلوب پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یعنی ہم اپنے اسلوب کو اس کے مطابق بناتے رہتے ہیں۔ نتیجہ شاید یہ نکلا کہ خود آگاہی اور جہاں آگاہی دونوں اسلوب کی دشمن ہیں۔ اسلوب کی بھی، اور شخصیت کی بھی۔ ایک اندر سے، دوسری باہر سے۔ ہماری شخصیت اور اسلوب کو کچھ سے کچھ بنا دیتی ہے۔ در اصل اسلوب پرستی اور شخصیت پرستی، دوتوں دوسرے درجے کے لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔ صفِ اوّل کے لوگوں میں نہیں۔ میرؔ کا کلام دیکھیے، اردو شاعری بلکہ اردو زبان کا کوئی اسلوب ایسا نہیں ہے جو میرؔ کے کلام میں نہ پایا جاتا ہو۔ چرکین سے لے کر اقبالؔ تک۔ لیکن یہاں ایک توضیح ضروری ہے۔ شخصیت سے فرار ’’بے شخصیتی‘‘ نہیں ہے بلکہ شخصیت ہی تو وہ سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر شخصیت کے زنداں سے نکلا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اسلوب سے فرار بھی ’’بے اسلوبی‘‘ نہیں ہے، اسلوب سے فرار بھی اسلوب پیدا کر کے ہی کیا جا سکتا ہے۔

لیکن وہ لوگ جو شخصیت اوراسلوب کے اندر رہنا چاہتے ہیں۔ وہ دو طرح کی حد بندیاں کرتے ہیں، ایک حد بندی اپنے اندر۔ ایک اپنے باہر۔ اندر کی حد بندی انھیں ذات کی طرف بڑھنے سے روکتی ہے۔ دوسری حد بندی ’’دوسروں ‘‘ کی طرف۔ وہ دونوں طرف ایک حصار سا کھینچ لیتے ہیں اور اسی میں مگن رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ بچے کے پیار، محبوبہ کے التفات اور ایٹم بم کے دھماکے سے بھی نہیں بدلتے۔ جب میں نے اسلوب کو شخصیت کا جوہر کہا تو اس سے میری مراد یہ تھی کہ ایسے لوگوں کی شخصیت ان کے اسلوب میں پوری پوری موجود ہوتی ہے اور جب ہم ان کے ایک فقرے سے یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں، دوسروں کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں اور دنیا کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اقبالؔ کا اسلوب ایک ایسے نیم فلسفی شاعر کا اسلوب ہے جو دوسروں کو بے خبر جان کر انھیں عمل کی تلقین کرنا چاہتا ہے۔ یہ ہدایت نامہ بے خبراں کا اسلوب ہے۔ لطف یہ ہے کہ بے خبراں کی بے خبری کے احساس کے باوجود اقبالؔ اپنا فلسفی ہونا نہیں بھولتے۔ حالیؔ کے اسلوب اور اقبالؔ کے اسلوب میں یہ فرق ہے کہ حالیؔ بے خبروں کو تلقین کرنا چاہتے ہیں تو بے خبروں کی سطح پر اتر کر ان سے بات کرتے ہیں۔ جوشؔ کا اسلوب اس پُر جوش خطیب کا اسلوب ہے جو دوسروں کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ ابوالکلام آزادؔ کا اسلوب پہاڑ کی چوٹی سے بولنے والے جھوٹے مسیحا کا اسلوب ہے۔ مذکورہ بالا چند مثالوں کے بارے میں مجھے اعتراف ہے کہ وہ پورے اقبالؔ، پورے حالیؔ، پورے جوشؔ اور پورے آزادؔ کا احاطہ نیں کرتیں، ان لوگوں میں کئی اور چیزیں بھی موجود ہیں اور سب میں خود آگاہی اور جہاں آگاہی کے ایسے لمحات بھی آتے ہیں۔ جس سے اسلوب ہی بدل جاتا ہے، مگر ہماری گفتگو شخصیت اور اسلوب کے اس انداز پر ہے، جو اُن پر عام طور پر غالب رہتا ہے۔ اسلوب میں، ہمارے احساس و خیال کے سارے رویے اور تیور موجود ہیں۔ سعدی نے کہا کہ آدمی جب تک نہیں بولتا، اس کے عیب و ہنر چھپے رہتے ہیں۔ بعض لوگ تو اسلوب کو دیکھ کر یہاں تک اندازہ لگا لیتے ہیں کہ آدمی جنسی فعل کیسے کرتا ہو گا۔ چنانچہ عسکری صاحب نے کہا ہے کہ اسلوب پوری سوانح عمری ہوتا ہے اور ایسی سچی سوانح عمری جس میں کوئی بات چھپائی نہیں گئی بلکہ چھپ نہیں سکی۔ اسلوب ہمارے عیب و ہنر قوت و کم زوری، عمق و سطحیت، ذکاوت و حمق، حساسی اور بے حسی کا ایسا پردہ در ہوتا ہے کہ باتونی بیوی بھی نہ ہو گی۔

 

 

 

شخصیت اور فریضۂ قربانی

 

 

پچھلے ابواب میں ہم نے دکھایا ہے کہ شخصیت کیا ہے، کیسے بنتی ہے، اس کا بننا کیوں ضرور ہے۔ اس کے بننے کے لیے کیا کیا جائے۔ اس کا انا سے کیا تعلق ہے۔ وہ اصولِ حقیقت سے کس طرح متاثر ہوتی ہے۔ شعور اس کے بننے میں کیا حصہ لیتا ہے۔ وہ کب مثبت اور کب منفی ہوتی ہے۔ صحت مند شخصیت کیا ہے، وہ مریض کم زور اور دو نیم کیوں ہو جاتی ہے۔ اب جوان، تندرست، بھرپور شخصیت آپ کے سامنے ہے۔ اس کے دانت پورے ہیں۔ کوئی عیبِ شرعی نہیں، کان، آنکھ، ناک سے درست ہے۔ بھوکی پیاسی نہیں، کھا پی کر تگڑی ہو چکی ہے۔ ہم نے اسے کیوں تیار کیا ہے ؟ جواب یہ ہے کہ قربانی کے لیے شخصیت قربانی کا جانور ہے۔ یہ قربانی کس کے لیے ہو گی، ذات کے لیے شخصیت کو ذات کی قربان گاہ پر قربان کیا جائے گا۔ ہم نے اسے پالا پوسا، بیماری آزاری سے بچایا۔ بھوک پیاس سے محفوظ رکھا۔ اسے خوب غذا کھلائی، خوب ٹہلائی ملائی کی۔ اب ہم اس کی گردن پر چھری رکھیں گے۔ نرم دل لوگ کہیں گے، یہ بڑی سفاکی کا کام ہے۔ بچے قربانی ہوتے دیکھتے ہیں تو افسوس کرنے لگتے ہیں۔ مگر قربانی پر افسوس کرنا منع ہے۔ میری بچی نے ایک بکرا پالا، سال بھر کھلایا پلایا، بقر عید کے دن قربان ہونے لگا تو رونے لگی، وہ  بکرے کو ’’بکرا چاچا‘‘ کہتی تھی۔ قصائی نے چھری مجھے دی تو ڈر گئی، وہ اتنی روئی کہ میرا ہاتھ رک گیا۔ پھر میں نے اسے ڈانٹا اور چھری پھیر دی۔ بکرا ذبح ہو گیا تو وہ روتے ہوئے چلّائی، ’’بکرے چاچا کٹ گئے۔ ‘‘ جب ہم شخصیت کی قربانی کرنا چاہتے ہیں تو ہماری انا بہت شور مچاتی ہے۔ چیختی چلّاتی ہے اور بس نہیں چلتا تو رونے لگتی ہے مگر قربانی کا فریضہ ادا کرنا ضروری ہے۔ بکرے چاچا کی گردن پر چھری تو پھرے گی۔ یہ فرزندِ آذرؔ کی سنت ہے۔ خلیل اللہ نے بیٹے کو قربان کرنا چاہا۔ شخصیت بھی بیٹے کی طرح ہوتی ہے، کیا ہم نے اسے بیٹے ہی کی طرح نہیں پالا۔ کیا وہ ہمارا لختِ جگر نہیں ہے۔ ہمارے خونِ جگر سے نہیں پلی؟ لیکن اس کی قربانی کا حکم ہے۔ شخصیت جتنی بڑی ہے، قربانی بھی اتنی ہی عظیم ہے۔ اب ایک اور مثال دیکھیے۔ چکرورتی راجا گھوڑے کی قربانی کرتا ہے۔ وہ گھوڑے کو سجا بنا کر چھوڑ دیتا ہے کہ جہاں چاہے جائے۔ وہ جہاں گیا، وہاں اس کا خیرمقدم ہوا، اس کے قدموں پر تاج نچھاور کیے گئے، اس کی کلغی میں ہیرے ٹان کے گئے۔ اس کی رکابوں پر باج و خراج نچھاور کیا گیا۔ جس نے ایسا نہ کیا، اس کو تلوار کے ذریعے ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا۔ آخر سفر ختم ہوا۔ گھوڑا واپس آیا، اب گھوڑے کی قربانی ہو گی۔ یہ چکرورتی راجا کی شخصیت ہے۔ فریضۂ قربانی تو اتنا لازمی ہے کہ مسیحیت کے عقیدے کے مطابق خدا نے اپنے بیٹے کو قربان کیا۔ وہ بھی کلام تھا جو گوشت و پوست میں ظاہر ہوا تھا، جس طرح شخصیت تصور سے وجود میں آتی ہے۔ یوں دیو مالا روایات، اور اساطیر سب قربانی پر متفق ہیں لیکن شخصیت قربان ہو کر پھر زندگی ہو جاتی ہے جس طرح مسیح دوبارہ زندہ ہو گئے، جس طرح اسماعیل کی جگہ مینڈھا قربان ہوا۔ شخصیت دوبارہ زندہ ہو کر ذات کے برابر تخت پر بیٹھتی ہے اور ذات کی نائب ہوتی ہے، اس کا حکم ذات کے حکم کی طرح ناطق ہے، وہ جو امر کرتی ہے۔ وہ ذات کا امر ہوتا ہے، جو شفاعت کرتی ہے، وہ پوری ہوتی ہے۔ اب اسے دیکھو تو ذات کا آئینہ ہے۔ ذات اس کے چہرے میں اپنا چہرہ دیکھ رہی ہے، اس کا ہاتھ ذات کا ہاتھ ہے۔ اس کا پاؤں ذات کا پاؤں ہے، وہ ذات ہی ہے جو شخصیت میں ظاہر ہو گئی ہے، اب ذات اور شخصیت میں کوئی فرق نہیں۔ کوئی پردۂ امتیاز نہیں اور ہے بھی تو اتنا باریک کہ نہ ہونے کے برابر۔ اب دونوں غیر نہیں۔ عین یک دگر ہیں۔ کائنات کی ہر شے اس قربانی کی دعوت دے رہی ہے۔ پکار پکار کر قربان گاہ کی طرف بلا رہی ہے، خود ہمارے وجود کا ایک ایک حصہ اس کے لیے بے تاب ہے۔ جبلتیں بھی کہہ رہی ہیں۔ شعور بھی کہہ رہا ہے، احساس بھی کہہ رہا ہے۔ بس ایک انا ہے جو اس فریضۂ قربانی سے گریزاں ہے، حیلے بہانے کر رہی ہے۔ عذر تراش رہی ہے۔ ہچر مچر کر رہی ہے۔ کہیں پنجے نکالے دانت پھاڑے مدافعت کے لیے تیار ہے۔ گائے کی طرح ڈکرا رہی ہے، بکری کی طرح ممیا رہی ہے، اونٹ کی طرح بلبلا رہی ہے، اس کے ہاتھ پاؤس باندھو اور گردن پر چھری رکھو، اس کے لیے موت کا ذائقہ چکھنا ضروری ہے مگر یہ موت کے دروازے سے گزر کر دوبارہ زندہ ہو جائے گی۔ انائے شخصی کے بجائے انائے ذات بن جائے گی۔ پھر یہ ایک ایسا جانور بن جائے گی جو قربان ہو کر پل صراط کی سواری بنے گی۔ بسم اللہ اللہ اکبر، بسم اللہ اللہ اکبر۔ ..

اب ٹی ایس ایلیٹ کے فقرے کو ایک بار پھر دیکھیے۔ اس نے کہا، ’’شاعری شخصیت سے فرار ہے۔ ‘‘ میں کہتا ہوں، فرار بہت معمولی لفظ ہے، اس لفظ میں شدت نہیں، گہرائی نہیں، پوری صداقت نہیں۔ یہ لفظ ظاہر کرتا ہے کہ اس کا کہنے والا ایک ایسے معاشرے ایک ایسی تہذیب کا فرد ہے جو شخصیت میں اتنی الجھ گئی ہے کہ اس پر فرار جیسا خفیف الاثر لفظ بھی گراں ہو گا۔ شاعری شخصیت سے فرار نہیں۔ فرار بھگوڑے کرتے ہیں، وہ کرتے ہیں جو حقیقت کا سامنا نہ کر سکیں جن میں یہ ہمت نہ ہو کہ اپنی اصلیت کو اپنے کاندھوں پر اٹھا لیں جو عمل شہادت کا بارِ گراں نہ اٹھا سکیں، جو حریفِ مقابل کو دیکھ کر صرف آنکھیں چرا لیں۔ شاعری شخصیت سے فرار نہیں، شخصیت کی قربانی ہے شاعری بھی، اخلاق بھی، مذہب بھی۔ جہاں تخلیق ہے، وہاں قربانی ہے۔ کسی نے اسے شخصیت سے فرار کہا، کسی نے نفیِ خودی، کسی نے بالارادہ انتشارِ حواس، کسی نے سپردگی، کسی نے صبر و رضا، کسی نے انہدامِ نفس، کسی نے اثباتِ حق۔ مگر یہ سب اپنی اپنی رسائی، اور اپنے اپنے حدود کے اندر قربانی کی مختلف قسمیں، مدارج اور مرتبے ہیں۔ اس قربانی کے عمل ہی سے تخلیق کا دروازہ کھلتا ہے۔ کیوں کہ تخلیق، عرفانِ ذات اور عرفانِ کائنات ہے جو شخصیت کی قربانی کے بغیر ممکن نہیں۔

 

 

 

غالبِؔ نام آورم

 

 

نجم الدولہ دبیر الملک نواب محمد اسد اللہ خاں بہادر عرف مرزا نوشہ المتخلص بہ اسدؔ ثم غالبؔ مرزا عبداللہ بیگ عرف مرزا دولھا کے بیٹے اور غلام حسین کمیدان کے نواسے تھے۔ دادا کا نام فوقان بیگ تھا۔ چچا کا نام نصر اللہ خاں۔ پیدائش کا ’’تاریخا‘‘ ۱۲۱۲ھ ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سلجوقی، ایبکی، ترکمانی، تورانی، افراسیابی فریدونی اور جمشیدی ہے۔ سلجوقی بڑے پائے کے حکمران تھے مگر ان کا تورانی ہونا مشکوک ہے۔ سلجوقیوں کا یہ نسب نامہ بعض مؤرخوں کے نزدیک اس وقت گھڑا گیا جب سنجرؔ خلیفۂ وقت کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا تھا، اور ضرورت پڑی تھی کہ اسے قدیم بادشاہوں کے خاندان سے ثابت کیا جائے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو نسب نامہ ہی ساقط الاعتبار ہے۔ فوقان بیگ کا پوتا ہونا ضرور ثابت ہے، باقی فریدوں ؔ اور جمؔ سب افسانے ہیں۔ ویسے بھی سترھویں پشت کی بات کون مانتا ہے۔ مگرہم تاریخ نہیں، غالبؔ کی شخصیت لکھ رہے ہیں۔ سلجوقی، تورانی، افراسیابی اور فریدونی ہوں یا نہ ہوں، غالبؔ ضرور ہے، کیوں کہ وہ ایسا ہی سمجھتا تھا۔ افراسیاب سے اس کا خیالی سلسلۂ نسب اس کے تخمینے کے مطابق سترھویں پشت میں ملتا تھا اور حضرت آدمؑ سے حقیقی سلسلۂ نسب میرے تخمینے کے مطابق دو سو سترھویں پشت میں۔ اس حساب سے ہم آپ بھی غالبؔ کے ہم نسب ہیں اور فخر کر سکتے ہیں کہ دودمانِ آدمیہ کا یہ فرزندِ جلیل ہمارا بھی عم زاد تھا۔ افسوس کہ غالبؔ آدم تک نہیں پہنچتا، صرف افراسیاب اور فریدوں وغیرہ تک رہ جاتا ہے۔ شاید ڈرتا ہے کہ ہم اس کی عظمت میں حصہ بٹانے لگیں گے۔ اور ممکن ہے کہ میراثِ آدم کا حصہ بھی طلب کر لیں، اس نے خود نانا کی املاک بیچ کھائیں۔ مگر عارفؔ کے بیٹوں کو حصہ نہ دیا، ہمیں کیا دے گا۔ خیر، ہم قلم کے آدمی ہیں اور وہ سو پشت کی سپہ گری کا مدعی ہے۔ اس سے جھگڑا ٹھیک نہیں۔ ہم میراثِ آدم کی طلب سے دست بردار ہوتے ہیں۔ اور غالبؔ کو افراسیابی، فریدونی جان کر کورنش بجا لاتے ہیں۔ البتہ اب سوال یہ ہے کہ مخاطب کیا کہہ کر کریں۔ مرزا نوشہ کہنے کا برا مانے گا کیوں کہ بچپن میں تو یہ عرف پڑ گیا تھا مگر اس ’’نالائق عرف‘‘ کو ولایت تک کوئی نہیں جانتا تھا۔ اسدؔ بھی نہیں کہہ سکتے، اس سے تو اتنا بیزار ہے کہ لعنت خدا کی بھیجتا ہے۔ نجم الدولہ دبیر الملک ٹھیک ہے مگر میرے منہ میں نہیں سماتا۔ اس کے علاوہ مجھے بہادر شاہ کی عزت کا بھی پاس ہے، وہ بابرؔ اور اکبرِؔ اعظم کا راست جانشیں اور دودمانِ تیموریہ کا مستند فرزند تھا مگر دیکھو خاکساری سے خود کو فقیر بہادر شاہ کہتا ہے۔ اس کے سامنے خود اس کے بنائے ہوئے نجم الدولہ دبیر الملک کی نواب کیا دیکھوں۔ پھر شاید نواب بہادر خود بھی برا مان جائیں۔ وہ بہادر شاہ کی بادشاہی کو نہیں مانتے تھے۔ ان کے دیے ہوئے خطاب کو کیا مانتے ہوں گے۔ اچھا تو نواب مرزا محمد اسد اللہ خاں پورا نام ہی کیوں نہ لے دیں۔ ہاں بیٹا ضرور لو مگر خان کے بعد بہادر کہنا نہ بھولنا اور دیکھو نواب کے ساتھ میر یا مرزا نہیں لگاتے۔ یا نواب کہو یا مرزا۔ ’’چچا‘‘ کو ’’بہادر‘‘ تو بہت عزیز ہے مگر ’’محمد‘‘ عزیز نہیں۔ چونکہ سرکاری کاغذات میں محمد نہیں لکھا تھا، اس لیے نام سے خارج کر دیا۔ اچھا تو اتنا جھگڑا کون پالے۔ لیجیے، ہم تو انھیں سیدھا سادا غالبؔ ہی کہیں گے۔

غالبؔ کے باپ مرزا دولھا سپاہی تھے۔ کہیں پڑھا تھا کہ گھوڑوں کی سوداگری بھی کرتے تھے۔ نام عبداللہ بیگ خان تھا۔ اس کے ساتھ گھوڑے والا اور لگایئے تو رخشِ عمر وغیرہ کے مضامین سمجھ میں آنے لگیں گے۔ ان کا انتقال غالبؔ کے بچپن میں ہو گیا۔ اس کے بعد چچا نصر اللہ خاں نے پرورش کی، وہ بھی ناگہانی فوت ہوئے یا مارے گئے۔ ان دو مورتوں نے غالبؔ کو تو نانہال پہنچا دیا۔ ان کے والد بھی غلام حسین کمیدان کے خانہ داماد تھے۔ خود وہ بھی خانہ زاد ہو گئے۔ نانہال میں پلنے والے بچوں کی نفسیات عجیب ہوتی ہے۔ کھاتے نانہال کا ہیں، گاتے دادیہال کا ہیں۔ باپ کی کمی کیا ہول ناک چیز ہے۔ یہ خلا پیدا ہو جائے تو ذاتی تجربے سے جانتا ہوں کہ یہ پورا نہیں ہوتا۔ کوئی کچھ کرے مگر باپ کہاں، وہ استحقاق کہاں جو باپ پر ہوتا ہے۔ وہ ناز کہاں جو باپ پر ہوتا ہے، وہ اعتماد کہاں جو باپ پر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر خورشید الاسلام نے لکھا ہے کہ غالبؔ کی نفسیات پر نانہال میں پرورش پانے نے گہرا اثر ڈالا۔ نانہال کا ماحول جیسا کچھ ہو گا، ظاہر ہے غلام حسین کو تو میں کچھ کہتا نہیں، آخر نانا تھے۔ مگر ان کے بیٹے، پوتے اور دوسرے ورثا بھی تو ہوں گے۔ ان کا استحقاق دوسرا تھا۔ غالبؔ جیسا حساس آدمی اگر اسے محسوس کرتا ہو تو تعجب کی بات نہیں، افسوس کہایسے استحقاق کے لیے باپ کو کہاں سے لائے۔ کیا پتا کمیدان صاحب کے ورثا کو جو اس کے ہم عمر ہوں، باپ کی اصلی یا فرضی داستانیں سناتا ہو اور سلسلہ بڑھتے بڑھتے افراسیات اور فردوں تک پہنچ گیا ہو۔ خورشید الاسلام کا کہنا ہے کہ نانہال میں پلنے کے باوجود غالبؔ کا نانہال سے بے تعلقی کا یہ عالم ہے کہ نانا نانی، ماموں خالہ کسی کا ذکر نہیں کرتا۔ ذکر کرتا ہے تو باپ اور چچا کا۔ اور ایک پھوپھی کیا مریں کہ غالبؔ نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ ‘‘

’’آپ کو معلوم رہے کہ پرسوں میرے نو آدمی مرے۔ تین پھوپھیاں، تین چچا اور ایک باپ اور ایک دادی اور ایک دادا۔ یعنی اس مرحومہ کے ہونے سے میں یہ جانتا تھا کہ یہ نو آدمی زندہ ہیں۔ اور اس کے مرنے سے میں نے جانا کہ یہ نو آدمی آج ایک بار مر گئے۔ ‘‘

آدمی کی مٹی بھی کتنی کم زور ہوتی ہے۔ خواہ غالبؔ ہی کیوں نہ ہو، ایک پھوپھی کس کس کے نہ ہونے کی تلافی کر رہی تھیں، ایک پھوپھی میں یہ سب کچھ دیکھنا تخیل کی کرشمہ سازی نے ایک پھوپھی کو نو افراد میں تبدیل کر دیا اور آباء و اجداد کو افراسیاب و فریدوں میں یہ باتیں غالبؔ کی شخصیت میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ پروفیسر کرار حسین نے لکھا ہے کہ غالبؔ کو بڑا شاعر کہلانے سے زیادہ فکر یہ تھی کہ لوگ اسے بڑا رئیس زادہ مان لیں۔ جہاں بہادر شاہ کی بادشاہی خطرے میں ہو، وہاں سات سو روپے سالانہ آمدنی اور خیالی افراسیابی پر غالبؔ کو کون مانے۔ خیر، ریاست نہ سہی شاعری سہی۔ غالبؔ دہلی کی ابتدائی زندگی میں جیسی شاعری، کرتا تھا۔ معلوم ہے اردو میں خاصی بے ہنگم فارسی بگھاری ہے۔ اس کی وجہ غالبؔ کے اسلوب میں دیکھیے۔ بہرحال، ایسی فارسی کی سند بھی چاہیے تھی۔ اس کے لیے فریدوں اور افراسیاب کی طرح ایک فرضی اُستاد ملّا عبدالصمد پیدا کیا جس نے فارسی ان کے بن و مو میں اتار دی۔ اور گویا اہلِ فارسی سے زیادہ فارسی دان بنا دیا۔ افسوس کہ شاعری بھی کام آتی نظر نہ آئی۔ رئیسی تو خطرے میں تھی۔ شاعری میں یہ مصیبت پڑی کہ یہاں ذوقؔ کا سکّہ خطبہ چل رہا تھا۔ ذوقؔ سے لڑنے میں غالبؔ رو رو دیا۔ کبھی فارسی کی تلوار چمکائی، کبھی اردو سے دست برداری کا اعلان کیا، کبھی انچہ فخر تست آں ننگ منست کا نعرہ مارا، کبھی استادِ شہ سے پُرخاش نہ ہونے پر خدا کو گواہ کیا۔ قسمت غالبؔ سے کیا کرنا چاہتی تھی۔ باپ، چچا، پھوپھی، سب کو مار کر رئیسی چھنوا دی اور اب شاعری میں بھی گھسنے نہیں دیتی۔ جب غالبؔ شاعری میں خود کو ذلت اٹھاتے محسوس کرتا ہے تو پھر باپ دادا کو آواز دیتا ہے۔ اور سو پشت کی سپہ گری یاد آنے لگتی ہے۔ غالبؔ اور سپہ گری اللہ کی شان!

غالبؔ کو محسوس ہوتا تھا کہ تقدیر اس کے خلاف ہے۔ زمانہ اس کے خلاف ہے، بلکہ خود خدا اس کے خلاف ہے، اس لیے غالبؔ نے سب سے ایک پیکار باندھ رکھی ہے۔ حریف بڑے سخت تھے مگر غالبؔ کے کیا کہنے، کس کس طرح لڑا ہے۔ کبھی چیختا چنگھاڑتا ہے، کبھی رجز خوانی کرتا ہے، کبھی صلح پر آمادہ ہو جاتا ہے، کبھی طنز و تعریض کے تیر و نشتر الٹا لیتا ہے، کبھی خوشامد کرنے لگتا ہے، کبھی ماتم و فریاد میں مبتلا ہو جاتا ہے اور کبھی بالکل سپر انداز ہو جاتا ہے۔ مگر تقدیر، زمانے اور خدا سے اس جنگ میں غالبؔ، غالبؔ بن گیا۔ اسے اپنے اوپر تین فخر تھے۔

۱۔ اعلیٰ خاندانی یعنی رئیس زادہ ہوں۔

۲۔ شاعر ہوں اور

۳۔ انسانوں سے محبت کرتا ہوں۔

پہلے دو عناصر بہت بڑے ہیں، مگر تیسرا بھی کم نہیں۔ یتیم بچوں میں محبت ایک غالب جذبہ بن جاتی ہے، کیوں کہ استحقاق کے بغیر اگر زندگی، کسی طرح بسر کی جا سکتی ہے تو محبت سے۔ غلام حسین کمیدان کے بیٹے پوتے غصہ ور، جھگڑالو، حاسد، نفرت کرنے والے، تنگ نظر اور تنگ دل بھی ہوں گے، تو چل جاتے ہوں گے، کیوں کہ اپنے باپ دادا کے گھر میں تھے۔ غالبؔ کو اس گھر میں رہنے کے لیے ثابت کرنا ہو گا کہ وہ بہت محبتی لڑکا ہے، بہرحال وجہ کوئی بھی ہو، ’’دعویٰ رئیست‘‘ اور فخرِ شاعری کے ساتھ غالبؔ کو غرورِ محبت بھی ہے۔ محبت بھی نوعِ انسان سے۔

میں تو بنی آدم کو مسلمان یا ہندو یا نصرانی عزیز رکھتا ہوں اور اپنا بھائی کہتا ہوں۔ دوسرا مانے یا نہ مانے۔

ایک اور جگہ لکھا ہے کہ:

استطاعت بقدرِ حوصلہ ہوتی تو دنیا میں کسی کو ننگا بھوکا نہ رہنے دیتا۔

ہم شخصیت کے بیان میں لکھ چکے ہیں کہ اس خیال سے پیدا ہوتی ہے جو آدمی خود اپنے بارے میں رکھتا ہے، یعنی شخصیت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی آدمی خود کو کیا سمجھتا ہے یا یہ چاہتا ہے کہ لوگ اسے کیسا سمجھیں۔ ہمیشہ یہ ’’خیال‘‘ انا کا پسندیدہ خیال ہوتا ہے۔ غالبؔ کی بڑی انا نے اپنے بارے میں خیال بھی بڑے بڑے باندھے۔ افراسیابی ہوں، شاعر نغز گوئے خوش گفتار ہوں، بنی نوعِ آدم سے پیمبرانہ محبت رکھتا ہوں۔ غالبؔ کی شخصیت کی مشین بہت بڑی تھی۔ غالبؔ کے یہ تینوں خیال اس دیو ہیکل مشین کے بڑے بڑے پہیے تھے۔ جب یہ چلتے ہیں تو ایک فلک شگاف شور پیدا ہوتا ہے اور اس کی گھڑ گھڑاہٹ سے آسمان و زمین تھرانے لگتے ہیں۔ غالبؔ کا کلام اسی گھڑگھڑاہٹ کا نام ہے۔

غالبؔ کی انا بہت بڑی تھی۔ اس انا نے بہت بڑے خیالات کا بوجھ اٹھایا۔ یہ اتنے بڑے خیالات ہیں کہ میدانِ عمل میں ظاہر ہوتے ہیں تو بابرؔ اور اکبرِؔ اعظم جیسے لوگ ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ غالبؔ تخیل کی دنیا کا اتنا ہی بڑا آدمی تھا۔ اس کے خیال کی وسعت بے کنار ہے۔ اور مملکتِ ادب میں سلطنتِ مغلیہ کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ (اکبر اور بابر کا ہم سر بہادر شاہ کو کیا خاطر میں لاتا) کولن ولسن نے کہا ہے کہ ادب و شعر سے ہیرو غائب ہو گئے اور سارا ادب بے اہمیتی کے مغالطے میں مبتلا ہے۔ ولسن اپنے زمانے کی مخصوص ضروریات کے تحت بے اہمیتی کے مغالطے کی بجائے خود اہمیتی کا حامی ہے۔ غالبؔ کو پڑھ لیتا تو دیوانہ ہو جاتا۔ اس آدمی کو اپنی اہمیت کا ایسا مغالطہ ہے کہ پوری کائنات کو بازیچۂ اطفال سمجھتا ہے۔ یہ مغالطۂ اہمیت ’’انا‘‘ کا عمل ہے۔ اس کا ادراک شخصیت بناتا ہے، غالبؔ کی شخصیت کے تین بنیادی عناصر کا ہم ذکر کر چکے ہیں۔ یہ وہ مقناطیس ہیں جن سے لوہے کی بھاری بھرکم سلاخیں اور ٹکڑے اٹھانے کا کام لیا جاتا ہے۔ یہ تینوں مقناطیس غالبؔ کے بے شمار چھوٹے چھوٹے خیالات کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور شخصیت کا جزو بنا دیتے ہیں۔ اب چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات بھی انھی کے ذریعے متعین ہونے لگتی ہیں۔ ہمیں غالبؔ کی رئیست ذرا مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے اور شاعری کے ہم قائل ہیں۔ مگر محبت پر کچھ گفتگو کرنی ضروری ے۔

محبت ہمیشہ ایک پیکرِمحسوس کی طالب ہوتی ہے۔ بچہ سب سے پہلے ماں سے، پھر باپ، بھائی، بہنوں، ہم جولیوں اور دوستوں سے محبت کرنا سیکھتا ہے اور رفتہ رفتہ جوں جوں اس کے تعلقات کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے، اس کی محبت کے معروضات بھی بڑھتے جاتے ہیں۔ یوں ماں باپ ہوں یا بھائی بہن یا بیوی و محبوبہ، محبت ہمیشہ ایک گوشت پوست کے زندہ وجود سے شروع ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ مذہب میں محبت کا تجربہ پیر و مرشد اور دیگر بزرگوں یا اہلِ دین کی ذات سے ہوتا ہے۔ یہ سب محسوس محبت کی شکلیں ہیں لیکن محسوس پیکروں سے بعض اعلیٰ طبیعتوں میں خود بہ خود ایک مجرد محبت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاً ماں باپ، بھائی، بہن، بیوی و اولاد کی محبت عام انسانیت کی محبت بن جاتی ہے۔ پیر و مرشد اور بزرگوں کی محبت یا رسولِ کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کی محبت تجریدی صورت اختیار کر کے خدا کی محبت ہو جاتی ہے محسوس و مجرد محبت کی یہ ساری صورتیں ابتدا میں ’’انا‘‘ سے وابستہ ہوتی ہے۔ انا کہتی ہے میری ماں، میری محبوبہ، میرا خدا جب تک محبت اس انا کی پابند ہوتی ہے، خام محبت ہوتی ہے، لیکن جوں جوں اس میں اضافہ ہوتا ہے، حد درجہ دکھ اور شدت کے ساتھ اسے محسوس ہوتا جاتا ہے کہ اس کی ماں صرف اس کی ماں نہیں ہے۔ دوسرے بھائی بہنوں کی ماں بھی ہے۔ اس کی محبوبہ بھی صرف اس کی محبوبہ نہیں رہتی، کسی کی بیٹی، کسی بہن، کسی کی ماں نکلتی ہے اور اس کے خدا کے بارے میں بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ بھی ’’کبھی اس سے کبھی غیروں سے شناسائی‘‘ رکھتا ہے۔ انا کو یہ شرکت گوارا نہیں۔ اسے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ مگر وہ صحیح راستے پر چلتی جائے تو رفتہ رفتہ اس کی محبت انا کے قبضے سے نکل کر غیر انا کے پاس چلی جاتی ہے۔ اب یہ پختہ محبت ہو جاتی ہے۔ اس میں شدت کے باوجود ایک نئی وسعت، نئی گہرائی اور نئی بلندی پیدا ہو جاتی ہے۔ اقبالؔ کہتے ہیں :

محبت چوں تمام افتد، رقابت از میاں خیزد

بطوفِ شعلۂ پروانہ با پروانہ می سازد

پختہ محبت کا کچھ ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے۔ لیکن بالعموم انا اس مقام پر پہنچنے سے پہلے غچّہ دے جاتی ہے۔ وہ محسوس محبت کو ایک قسم کی تجریدیت میں مبتلا کر کے ایک چھوٹی قسم کی سیرچشمی پیدا کر لیتی ہے۔ در اصل یہ سیرچشمی نہیں ہوتی۔ ایک طرح کی بے تعلقی ہوتی ہے، وہ محبت کے معروض سے کٹ جاتی ہے۔ ’’محبت برائے محبت‘‘ کی تمام شکلیں بالعموم انا کے اسی فریب کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ انا کہتی ہے، مجھے محبوب سے واسطہ نہیں۔ میں تو محبت سے محبت کرتی ہوں۔ رقابت اس میں بھی درمیان سے اٹھ جاتی ہے۔ مگر اس طرح نہیں، جس طرح اقبالؔ کے شعر میں اٹھی ہے، بلکہ اس طرح جیسے فیضؔ کی نظم ’’رقیب سے ‘‘ میں غائب ہوتی ہے۔

عموماً اس کی وجہ محبت کے معروض سے مایوسی یا اذیت کا تجربہ ہوتا ہے۔ قصہ یہ ہوتا ہے کہ ہر زندہ وجود جو ہماری محبت کا مرکز بنتا ہے، اپنی جگہ ایک علاحدہ وجود ہوتا ہے۔ اس وجود کی ایک اپنی علاحدہ دنیا ایک اپنا دائرۂ عمل اور ایک اپنا قائم بالذات نظام ہوتا ہے۔ اس وجہ سے کوئی بھی زندہ وجود ہماری خواہشات اور مرضی کا پابند نہیں ہو سکتا۔ انا چونکہ یہ چاہتی ہے، اسلیے اس کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس کی محبت کا معروض بالکل اس کا قیدی ہو جائے۔ جو وہ چاہے کرے، جو وہ چاہے نہ کرے۔ اس کی ہر خواہش کا تابع ہو، اس کی ہر مرضی کو پورا کرے، یہاں تک کہ عمل ہی نہیں، سوچ میں بھی اس کا غلام ہو جائے۔ کسی بھی زندہ وجود کے ساتھ انا کا یہ مطالبہ پورا نہیں ہو سکتا۔ نہ ماں یہ کر سکتی ہے، نہ محبوبہ، نہ خدا، بس انا ہتھے سے اکھڑ جاتی ہے۔ وہ سب سے منہ پھیر لیتی ہے۔ اور خود پرستی اور خود رحمی کے ساتھ ’’محبوب‘‘ سے الگ ایک دنیا بسا لیتی ہے۔ یہ تجریدی محبت کی ایک جھوٹی دنیا ہوتی ہے جو انا اپنی تسکین کے لیے گھڑتی ہے۔ اس دنیا میں محبوب بھی ہوتا ہے۔ مگر یہ اصل محبوب نہیں ہوتا۔ اصل محبوب کا ایک خیالی پیکر ہوتا ہے جو انا کے اشاروں پر ناچتا ہے، پختہ محبت میں بھی ایک طرح کی تجریدیت ہوتی ہے مگر وہ اصل محبوب سے کبھی منقطع نہیں ہوتی، سچی تجریدیت یہی ہے۔ خام محبت جھوٹی تجریدیت پیدا کرتی ہے اور نہ صرف اصلی محبوب سے روگرداں ہو جاتی ہے بلکہ شاید اس سے نفرت بھی کرتی ہے۔ ..۔ آیئے اس مختصر سی بحث کے بعد اسے اپنے اصل موضوع سے ملا کر دیکھیں۔

ہم کہہ چکے ہیں کہ غالبؔ کی شخصیت کے بنیادی ستون تین ہیں :

۱۔ رئیس زادگی کا زعم

۲۔ شاعری کا زعم اور

۳۔ نوعِ انسانی سے محبت کا زعم

اس کی شخصیت انھی تین ستونوں پر کھڑی ہے اور غالبؔ نے ان ستونوں پر اتنا بلند و بالا قلعہ بنایا ہے کہ اس کے کنگرے آسمانوں کی وسعتوں میں گم ہوتے نظر آتے ہیں۔ بہادر شاہ ظفرؔ کس پر بھولے ہیں، یہ غالبؔ کا لال قلعہ ہے۔ مگر ہم کہہ چکے ہیں کہ انا کچھ کر لے، اگر وہ خود قربان نہیں ہوتی تو اس کا انجام شکست ہے۔ زندگی کے تجربے کے ساتھ ساتھ اس کی عمارت کے ستون، متزلزل ہونے لگتے ہیں۔ رئیس زادگی کے زعم میں ترکمانی، افراسیابی، ایبکی، فریدونی سب بنا تھا، مگر غلام حسین کمیدان کی جائیداد بک جاتی ہے۔ سات سو روپے سالانہ میں شراب کباب کا خرچ بھی نہیں چلتا۔ قرض ادھار پر زندگی بسر ہوتی ہے۔ انا کہتی ہے ہائے افسوس کس زمانے میں پیدا ہوئے کہ نہ کوئی قصیدے کے قابل مدیح ہے، نہ غزل کے قابل معشوق۔ بہادر شاہ ظفرؔ کا حال ظاہر تھا، دوسرے نوابوں کی حالت بھی پتلی تھی مگر پھر بھی ذوقؔ کے بعد استادِ شہ بن کر مجروح انا کو دبیر الملکی اور نجم الدولائی سے تھوڑی سی تسکین ہوتی ہے۔ دربارِ رام پور سے توسل بھی غنیمت معلوم ہوتا ہے۔ افسوس کہ غدر میں غالبؔ کے کم زور سہارے بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ بہادر شاہ رنگوں سدھارتے ہیں۔ غالبؔ کے دوسرے کرم فرما مقتول ہوتے ہیں یا زیرِ عتاب آتے ہیں۔ ستم بالائے ستم پنشن بھی بند ہو جاتی ہے۔ غالبؔ اپنے قصیدے لیے کمشنروں کے درباروں کے چکر کاٹتا ہے، کلکتہ تک بھاگا بھاگا پھرتا ہے، حاصل کچھ نہیں۔ نتیجہ۔ ..۔ مایوسی و نامرادی، طنز و تعریض، کڑھن اور جلن۔ رئیس زادے کا تو یہ حشر ہوتا ہے، شاعر کے ساتھ بھی کچھ اچھی نہیں گزرتی۔ پہلے شاگردانِ ذوقؔ اور عیشؔ جیسے لوگ پیچھے پڑ گئے تھے۔ پھر محسوس ہوا کہ دوستوں کے لیے بھی اس کا مدعائے کلام عنقا ہے۔ زمانہ خراب تھا۔ شاعری کی محفلیں اُجڑ رہی تھیں۔ عیشؔ، تجمل حسین خان کے قبضے میں تھا۔ اور شاعری کا زمانہ عرفیؔ وغیرہ اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ شیفتہؔ و مومنؔ، تفتہؔ، آزردہؔ، حالیؔ و مجروحؔ نے تعریفیں تو کیں مگر دل کے پھپولوں کو کیا آرام آتا۔ تشنگی دریا آسا تھی اور فیض ساقی شبنم مثال غالبؔ تو وہ تھا کہ ’’دو عالم‘‘ حاصل کر کے بھی بس نہ کرتا۔ شرم تکرار سے چپ رہے تو اور بات ہے۔ یوں رئیس زادے کے ساتھ شاعر بھی ٹھکانے لگ گیا۔ نتیجہ۔ ..۔

’’یہاں خدا سے بھی توقع نہیں۔ مخلوق کا کیا ذکر۔ آپ اپنا تماشائی ہو گیا ہوں۔ رنج و ذلت سے خوش ہوتا ہوں۔ یعنی میں نے اپنے آپ کو اپنا غیر تصور کر لیا ہے۔ جو دکھ مجھے پہنچتا ہے، کہتا ہوں کہ غالبؔ کے ایک اور جوتی لگی۔ بہت اتراتا تھا کہ میں بہت بڑا شاعر ہوں اور فارسی داں ہوں۔ آج دور دور تک میرا جواب نہیں۔ لے اب قرض داروں کو جواب دے۔ سچ تو یوں ہے کہ غالبؔ کیا مرا، بڑا مردود مرا، بڑا ملحد مرا، بڑا کافر مرا، ہم نے از راہِ تعظیم جیسا بادشاہوں کو لوگوں نے ’’جنت آرام گاہ‘‘ اور ’’عرش نشیمن‘‘ خطاب دیے ہیں۔ چونکہ یہ اپنے آپ کو شہنشاہِ قلم و سخن جانتا تھا، ’’سقر مقر‘‘ اور ’’ہاویہ زاویہ‘‘ خطاب تجویز کر رکھا ہے۔ آیئے نجم الدولہ بہادر ایک قرض خواہ کا گریباں ہاتھ میں، ایک قرض خواہ بھوگ سنا رہا ہے، میں ان سے پوچھ رہا ہوں، ’’اجی حضرت نواب صاحب! نواب صاحب کیسے اوغلاں صاحب! آپ سلجوقی و افراسیابی ہیں۔ یہ کیا بے حرمتی ہو رہی ہے۔ کچھ تو کہو، کچھ تو بولو۔ ‘‘ بولے کیا، بے حیا، بے غیرت، کوٹھی سے شراب، گندھی سے گلاب، بزاز سے کپڑا، میوہ فروش سے آم، صراف سے دام قرض لیے جاتا تھا، یہ بھی تو سوچا ہوتا کہاں سے دوں گا۔ ‘‘

خط کیا ہے، رئیس زادے اور شاعرِ نغز گوئے خوش گفتار کا نوحۂ دل خراش ہے۔ انا خود بیان ہوتی ہے، حقیقت بیں نہیں۔ مگر حقیقت بینی دو قسم کی ہے، ایک حقیقت بینی مثبت ہے جو خود مثبت آدمی میں ہوتی ہے۔ دوسری حقیقت بینی وہ ہے جو اپنے قصد و ارادے کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ ایسی حقیقت بینی میں انسان حقیقت کو خود نہیں دیکھتا۔ حقیقت خود مار مار کر اپنے آپ کو دکھائی ہے۔ غالبؔ کی چشم تماشا ایسی ہی حقیقت بینی سے پیدا ہوئی ہے۔ غالبؔ نے لاکھ منشور بنائے کہ دہر سے عبرت بھی حاصل نہ کی جائے اور جو ہو، اپنی ہستی سے ہو لیکن حقیقت نے مار مار کر حلیہ خراب کر دیا۔ نجم الدولہ، دبیر الملک، رشکِ عرفیؔ و طالبؔ نے دامن و گریباں دوسروں کے ہاتھوں میں دیکھے تو پتا چل گیا کہ دنیا کیا چیز ہے۔ ’’آپ اپنا تماشائی بن گیا ہوں۔ ‘‘ یہ جملہ ایک معروضیت کا اظہار کر رہا ہے، اس سے آفتاب احمد جیسے بے مثال مبصر غالبؔ کو دھوکا ہوا کہ غالبؔ معروضیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے، مگر اس خط کو بار بار پڑھیے۔ غالبؔ جس معروضیت تک پہنچتا ہے۔ وہ انا کے اثرات سے آزاد نہیں ہوتی۔ ساری کی ساری انا کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ یہ درست ہے کہ غالبؔ اپنا تماشا بن کر اپنے کو دیکھ رہا ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ دیکھ دیکھ کر پاگل اور سنکی ہوا جا رہا ہے، آخر تک پہنچتے پہنچتے تو باقاعدہ نیم جنون کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ غالبؔ اتنی معروضیت بھی حاصل نہ کر پاتا تو اتنا بڑا شاعر کیسے ہوتا۔ غالبؔ کو معروضیت حاصل ہوئی ہے مگر خود اس کی مرضی سے نہیں۔ وہ تو اس پر زبردستی سوار ہو گئی ہے۔ اس کے مقابلے پر میرؔ کی معروضیت دیکھیے۔ حالات شاید میرؔ کے بھی ایسے ہی ہوں گے مگر کیسا سچا تماشائی ہے :

کہتا تھا کسی سے کچھ تکتا تھا کسی کا منہ

کل میرؔ کھڑا تھا یاں، سچ ہے کہ دوانہ تھا

۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..

نامرادانہ زیست کرتا تھا

میرؔ کا طور یاد ہے ہم

۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..

تیری چال ٹیڑھی، تری بات روکھی

تجھے میرؔ سمجھا ہے یاں کم کسو نے

۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..

عشق میں مجھ کو رہا کرتی ہے اک آوارگی

میرؔ صاحب کیجیے کیا بندگی بے چارگی

۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..

جگر کاویِ ناکامیِ دنیا ہے آخر

نہیں آئے گر میرؔ کچھ کام ہو گا

یہ کامل درجہ کی معروضیت غالبؔ کو نہیں ملی۔ میرؔ اپنا کیسا سچا تماشائی ہے، انا بالکل غائب ہو چکی ہے، اپنی مجبوری، محرومی، بے چارگی، آوارگی، دیوانگی، بندگی غرض اپنی یا انسان کی ہر کیفیت و حالت پر کیسی کھری تنقید کی ہے، مگر کیسی سچی دردمندی کے ساتھ۔ ’’نہ آئیے نجم الدولہ بہادر‘‘ جیسی تھیٹریٹ ہے۔ نہ بے حیا، بے غیرت جیسا سنکی پن، نہ سقر مقر، حاویہ زاویہ جیسا طنز۔ یہ معروضیت انا کے قبضے سے نکل کر غیر انا کے قبضے میں چلی گئی ہے۔ اب میرؔ صرف ’’آنکھ‘‘ بن گیا ہے۔ ایسی چشمِ تماشا غالبؔ کو خواب میں بھی نصیب نہیں ہوئی۔

رئیس زادہ اور شاعر کا انجام آپ دیکھ چکے ہیں، نوعِ انسای کے محب کا احوال رہا جاتا ہے۔ غالبؔ کو دعویٰ ہے کہ وہ نوعِ انسانی کا پرستار ہے، اس سے محبت کرتا ہے، اس کے درد سے پگھلا جاتا ہے مگر یہ نوع انسانی جیتے جاگتے، انسانوں کا مجموعہ نہیں ہے اور صرف غالبؔ کے ذہن کی پیداوار ہے، جیتے جاگتے انسانوں سے تو اسے نفرت ہے، خوف ہے، یہ تو کتوں کی طرح کاٹتے ہیں، ان کے تو طرزِ تپاک سے بھی غالبؔ جل اٹھتا ہے۔ یہ تو اس قابل بھی نہیں کہ انھیں عیادت یا تعزیت کے لیے گوارا کیا جائے۔ غالبؔ ان کی وجہ سے آئینے تک سے ڈرتا ہے اور وبائے عام میں مرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ غالبؔ کی نوعِ انسانی صرف غالبؔ کے تصور میں پائی جاتی ہے۔ وہ اس کے گلشن نا آفریدہ کا ایک حصہ ہے اور بس ہم اپنے زمانے میں دیکھتے ہیں کہ جھوٹی انسان پرستی نے زندہ انسانوں سے نفرت کے کیسے کیسے بہروپ بھر رکھے ہیں۔ عہدِ جدید کے ہر رجحان کی طرح اس انسان پرستی کا ظہور بھی سب سے پہلے غالبؔ کی نفسیات میں ہوا۔ مجھے تو غالبؔ کے دیوان میں کسی ایک جگہ بھی یہ احساس نہ ہوا کہ غالبؔ گوشت پوست کے انسانوں کے سچے درد سے ایک بار بھی پگھلا ہے۔ سوائے ’’درد سے تیرے ہے مجھ کو بے قراری ہائے ہائے ‘‘ والے بے مثال مرثیے کے۔ یہاں غالبؔ کو سچ مچ محبت کا فیض پہنچ گیا ہے۔ کیا مرثیہ ہے۔ اردو شاعری ایسے سچے درد کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یہ کم بخت غالبؔ ایسا ہے کہ اسے کسی طرف سے بھی گھیریے کہیں نہ کہیں سے، سی نہ کسی طرح نکل ہی بھاگتا ہے۔ اس مرثیے میں غالبؔ کی انانیت کہاں چلی گئی ہے، وہ اپنے پندار، اپنی برتری، اپنی زندگی کی ناکامیوں، مجبوریوں اور ان سے پیدا ہونے والے بڑ بولے پن یا خود رحمیوں کو کیسے بھول گیا ہے۔ یہ غالبؔ کی کتابِ زندگی کا راز ہے۔ غالبؔ نے شاید دو صرف سچ مچ کے انسانوں سے محبت کی۔ ایک اس مرثیہ والی محبوبہ اور دوسرے جناب امیرؔ۔ غالبؔ کو اس محبوبہ میں وہ دل نظر آیا تھا تو اس کے درد سے بے قرار ہوتا تھا اور جناب امیرؔ تو غالبؔ کے لیے نمونہ زندگی اور نمونۂ ذات دونوں ہیں۔ غالبؔ کا یہ فقرہ کہ ’’خدا سے لڑا نہیں جا سکتا۔ ‘‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے۔ ۔ ۔ ۔ والے معروف جملے کی یاد دلاتا ہے۔ غالبؔ نے بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے اور خدا سے کیا ستم و جورِ ناخدا کہیے۔ اور کیا وہ نمرود کی تھی۔ سیکڑوں طعنوں اور پھبتیوں کے بعد جب خدا کو سچ مچ پہچانا تو فساخ العزائم کی شکل میں۔ ان دو محبتوں کا فیض غالبؔ کو اس طرح پہنچا ہے کہ جب غالبؔ اپنے دل کے اس گوشے سے بولتا ہے تو بڑے بڑے گرد ہو جاتے ہیں۔

بہرحال رئیس زادہ، شاعر اور محب انسان تینوں کی شکست کا حال ہی ہماری اس کتاب کا موضوع ہے۔ آئندہ ابواب میں آپ اس کے مختلف پہلو مختلف زاویوں سے دیکھیں گے۔

 

 

 

 

 

آشوبِ آگہی

 

 

غالبؔ آشوبِ آگہی کا شاعر ہے، غالبؔ تفکر کرتا ہے، غالبؔ دیدۂ بینا رکھتا ہے۔ یہ اور اس قسم کے بے شمار فقرے ہم روز پڑھتے ہیں، بولتے اور لکھتے ہیں۔ ایک روز جب مولانا محمد ایوب دہلوی مرحوم نے مجھ سے کہا کہ مجھے باون برس غور کرتے ہو گئے ہیں اور آج تک یہ نہ معلوم ہوا کہ غور کسے کہتے ہیں تو مجھے شرم سی آ گئی۔ میں نے نہ غور کیا تھا، نہ غور پر غور۔ اور اس کے ساتھ ہی ایسے نہ جانے کتنے فقرے میرے ذہن میں گونجنے لگے۔ اور میں یہ سوچنے لگا کہ ان کا کیا مطلب ہے ؟

آشوبِ آگہی کا مطلب اگر آشوبِ مطالعہ ہے تو شاید غالبؔ اس میں بہت زیادہ آگے نہ جا سکے۔ اس کے زمانے میں علم کے ایسے ایسے پہاڑ موجود تھے جن کے آگے غالبؔ کی حیثیت طفلِ مکتب سے زیادہ نہیں تھی۔ غالبؔ کوئی مستند دستار بند اور سند یافتہ عالم فاضل نہیں تھے۔ طبیعت بھی ایسی نہیں پائی تھی کہ کتابوں کا کیڑا بن جاتا۔ فسق و فجور اور عیش و عشرت سے اتنی فرصت بھی نہیں تھی اور یہ سب کچھ ہوتا بھی تو غالبؔ کو جس قسم کے علم کی ضرورت تھی، وہ اس زمانے میں موجود نہیں تھا۔ یعنی غالبؔ کی روح جدید ہے تو اس کا نصابِ تعلیم بھی جدید ہونا چاہیے تھا۔ ان دنوں ایسا ہونا ناممکن تھا۔ ہمارے عزیزوں میں ایک صاحب سائنس کے طالبِ علم تھے۔ غالبؔ کا نام سن سن کر کچھ مرعوب ہو گئے تھے۔ جب ایک روز انھیں معلوم ہوا کہ غالبؔ پی ایچ ڈی نہیں تھا اور انگریزی بھی نہیں جانتا تھا تو بہت مایوس ہوئے اور اس کے بعد غالبؔ کا نام لینا چھوڑ دیا۔ غالبؔ پی ایچ ڈی نہیں تھے، اقبالؔ پی ایچ ڈی تھے۔ مگر دونوں کی بنیادی آگہی میں بہت بڑا فرق ہے۔ پھر آشوبِ آگہی اور دیدۂ بینا کا کیا مطلب ہے ؟ اس کے ساتھ ہی ایک سوال یہ بھی ہے کہ علم کا سرچشمہ کہاں ہے۔ انسان آشوبِ آگہی اور دیدۂ بینا حاصل کرتا ہے تو کس طرح۔ یہ کیا بات ہے کہ غالبؔ، نواب مصطفی خاں شیفتہؔ کو شاہ ولی اللہ کے رسالے کے وہ نکات بتا دے جو شیفتہؔ جیسے آدمی کی سمجھ میں نہ آتے ہوں اور اس خوبی سے کہ خود شاہ صاحب نہ بتا سکتے۔ اور ریل کو دیکھ کر وہ باتیں سمجھ جائے تو رضا علی وحشتؔ کی سمجھ میں ساری زندگی نہیں آئیں۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ یہ آشوبِ آگہی ہمارے لیے کس قسم کا استناد رکھتا ہے۔ یعنی غالبؔ کو پڑھ کر ہم کیا سیکھتے ہیں اور کس چیز کے بارے میں۔ غالبؔ سائنس دان نہیں تھا کہ ہم اس سے آئن اسٹائن کی ریاضیاتی مساواتیں پوچھیں، ماہرِ نفسیات نہیں تھا کہ فرائڈ کے نظریات کی تصدیق کریں، ماہرِ معاشیات نہیں تھا کہ مارکس کے افکار معلوم کریں۔ اور جب یہ لوگ موجود ہیں ایک ’’شرح مأتہ عامل‘‘ پڑھے ہوئے آدمی سے پوچھنے کی کیا ضرورت۔ ممکن ہے کہ بعض لوگ یہ کہیں کہ غالبؔ کا علم موجودہ دور کے مطابق نہیں ہے۔ مگر اپنے دور کے مطابق ضرور تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غالبؔ کی آگہی اور دیدۂ بینا تاریخی اہمیت رکھتی ہیں مگر ہم غالبؔ کی شاعری اس لیے نہیں پڑھتے کہ یہ معلوم کریں کہ ۵۷ء سے پہلے تک کی علمی میراث کیا تھا۔ اگر وہ ہمیں اس وقت کچھ نہیں دیتا تو ہمیں اس کے پڑھنے کی ضرورت اسی طرح نہیں ہے جس طرح شرح مأتہ عامل پڑھنے کی۔

کچھ لوگ کہیں گے کہ آشوبِ آگہی کا تعلق علم سے نہیں ادراک سے ہے۔ ادراک جیسا لفظ مجھ سے کہاں ہضم ہو گا۔ مجھے ادراک کا مزا معلوم نہیں۔ ادراک کا حال کیا معلوم ہو گا؟ اور یہ ادراک کہتے کسے ہیں ؟ کیا یہ علم کے بغیر حاصل ہو جاتا ہے۔ اگر علم کے بغیر حاصل ہو جاتا ہے تو کیسے ؟ دیدۂ بینا کے معنی شاید ہمیں معلوم ہیں۔ خود غالبؔ نے کہا ہے کہ یہ قطرے میں دجلہ اور جزو میں کل دیکھنے کا علم ہے۔ جزو کل بھی میری سمجھ میں نہیں آئے۔ کچھ تصوف کی سی اصطلاحیں ہیں۔ صوفی بہت قطرے کے دریا میں ملنے کا ذکر کرتے ہیں اور غالبؔ نے ایک جگہ خود بھی لکھا ہے کہ نہایت غم ہے، اس قطرے کو دریا کی جدائی کا۔ تو یہ شعرا تو تصوف میں چلا گیا۔ ہم تصوف کو نہیں مانتے، تصوف کے اس قسم کے پھڈوں کو کیوں مانیں۔ بقول جوشؔ ملیح آبادی، یہ سب صوفیوں کی زیٹیں ہیں۔ تو کیا غالبؔ کی آگہی اسی زیٹ زپٹ کا نام ہے۔

اب آیئے تیسرے فقرے کی طرف یہ ذرا آسان سا معلوم ہوتا ہے۔ ہم اسے غالباً سہولت سے سمجھ لیں گے، ’’غالبؔ تفکر کرتا تھا۔ ‘‘ تفکر کسے کہتے ہیں۔ اردو ترجمہ شاید یہ ہو کہ سوچتا تھا۔ مگر یہ غالبؔ کی کون سی خصوصیت ہے۔ کیا میرؔ نہیں سوچتے تھے، دردؔ، مصحفیؔ، سوداؔ اور آتشؔ نہیں سوچتے تھے۔ اردو نقادوں کا جواب ہے کہ ’’نہیں، صرف غالب سوچتا تھا۔ ‘‘ مگر یہ سوچنا ہے کیا بلا؟ مولانا ایوب کو غور کے معنی نہیں معلوم تھے۔ مجھے سوچنے کا مفہوم نہیں معلوم۔ الفاظ بھی کم بخت کیا خبیث چیز ہیں۔ ہم ساری عمر انھیں کلیجے سے لگاتے ہیں۔ یہ بھی ہمیں دھوکا دیتے ہیں کہ یہ ہمارے بن چکے ہیں۔ اور اپنے سارے راز ہم پر کھول چکے ہیں۔ مگر ایک روز معلوم ہوتا ہے، ہم سے ان کا کسی قسم کا تعلق نہیں تھا۔

اوپر کی یہ چند سطریں لکھ کر میں اتنا پریشان ہوا کہ بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگا۔ میری چھوٹی بیٹی میری گود میں آ کر بیٹھ گئی۔ میں اس سے پوچھتا ہوں ابو کس کے ؟ کہتی ہے میرے۔ میں پوچھتا ہوں، بیٹی کس کی؟ کہتی ہے ابو کی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک وقت وہ ’’میں ‘‘ کا لفظ نہیں استعمال کرتی تھی۔ خود کو ’’ننھی‘‘ کہتی تھی۔ ننھی دودھ پیے گی، ننھی سوئے گی۔ پھر اسے معلوم ہوا کہ وہ ننھی جو کبھی روتی، کبھی کھاتی پیتی، کبھی کھیلتی کودتی، کبھی سوتی جاگتی ہے، وہ ’’میں ‘‘ ہے۔ یعنی سونے جاگنے کھانے پینے والی مختلف ننھیاں ایک ہیں۔ یہ داخلی اکائی اس کی ذات کا علم تھا۔ پھر اس نے ابو کو پہچاننا شروع کیا۔ ابو وہ ہیں جو کھلونے لاتے ہیں، گود میں لے کر ٹہلتے ہیں، فرمائش پوری کرتے ہیں، کبھی ڈانٹتے ڈپٹتے بھی ہیں۔ پہلے ابو کے مختلف زاویوں سے پیدا ہونے والے یہ سب تاثرات الگ الگ تاثرات تھے۔ یعنی کھلونے دینے والا ہاتھ، گرم گود، غصہ بھرا چہرہ اور آواز میری بچی نے سب کو جوڑ کر ایک ’’ابو‘‘ بنا لیا۔ یہ خارجی اکائی ہے۔ مگر اس کے بعد اس میں ایک اور عمل شروع ہوا۔ اس نے ’’میں ‘‘ اور ’’ابو‘‘ کو جوڑا اور ’’میرے ابو‘‘ کہا۔ اب داخلی اور خارجی اکائی مل گئی۔ کیا یہ سوچنے کا عمل نہیں ہے ؟

تو کیا سوچنے کے معنی ہیں حسیاتی تجربات کو آپس میں ربط دے کر ایک نتیجہ نکالنا؟ حسیاتی تجربات واقعات و حادثات، علمی معلومات سب ہمارے اندر الگ الگ ہوتے ہیں۔ جب ہم انھیں جوڑ کر ایک کل بنانے لگتے ہیں اور اسباب اور نتائج اخذ کرنے لگتے ہیں تو سوچنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اب غالبؔ تفکر کرتا ہے، کے معنی شاید غالبؔ اپنے تجربات کو جوڑ کر ایک کل بنانا جانتا ہے۔

لیکن یہ کام تو میرؔ بھی کرتا ہے۔ اور دوسرے بھی، تو پھر اُن میں اور غالبؔ میں کیا فرق ہے ؟ شاید ہم یہ کہیں کہ دوسروں کے تجربات چھوٹے، معمولی اور ادنیٰ ہیں، غالبؔ کے بڑے، اہم اور اعلیٰ۔ اور دوسرے ان سے معمولی نتائج پیدا کرتے ہیں۔ غالبؔ غیر معمولی، میرؔ کو تو ہم ابھی چھوڑتے ہیں۔ لیکن اور دوسروں کی حد تک یہ بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ معمولی نتائج کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ وہائٹ ہیڈؔ کا کہنا ہے کہ ایک کسان سے آدھ گھنٹے باتیں کیجیے، اس آدھے گھنٹے میں وہ جتنی باتیں کہے گا، وہ سب وہی ہوں گی جو افلاطون کے فلسفے میں پائی جاتی ہیں۔ دونوں کا خام مواد ایک ہے، یعنی زندگی۔ لیکن کسان اور افلاطون میں بہت بڑا فرق ہے۔ یہ فرق کیا ہے ؟ غالباً یہ کہ کسان اپنے تجربات کو ان کی انتہا پر لے جا کر نہیں دیکھتا۔ اور نہ ان کو اس طرح مربوط کر سکتا ہے جس طرح افلاطون کرتا ہے۔ وہ معمولی چیزوں کو جوڑنا تو سیکھ جاتا ہے مگر بڑی چیزیں اس کی دسترس سے دور رہتی ہیں اور دونوں کا ربط اُس کی آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے۔ دونوں میں شاید فرق یہ ہے کہ کسان کو دس سے زیادہ گنتی نہیں آتی، جب کہ افلاطون لامحدود اعداد تک سوچ سکتا ہے۔ تو شاید جب ہم یہ کہتے ہیں کہ غالبؔ دوسروں سے زیادہ سوچتا ہے تو اُس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ:

۱۔ اس کا خام مواد نسبتاً زیادہ ہے۔

۲۔ وہ اپنے تجربات کو ان کی انتہاؤں میں دیکھتا ہے اور

۳۔ اپنے خام مواد یا تجربات کو لامحدود پیمانے پر ربط دے سکتا ہے۔

اب ایک تیسری بات اور ہے۔ ہم صرف اپنے تجربات کی دنیا میں نہیں رہتے ہیں۔ ہمارے ماں باپ اور اہلِ خاندان کے تجربات بھی شامل ہوتے ہیں۔ ہم اس علم کو بڑھائیں تو دنیا کے بہت بڑے بڑے آدمیوں کے تجربات بھی ہمارے شعور میں آ جاتے ہیں۔ انھیں ہم اپنے تجربات سے ربط دیں تو ان کی ایک اکائی بن جاتی ہے۔ اب وہ ہمارے تجربات بھی بن جاتے ہیں۔ ان تجربات کی مدد سے ہمارے سوچنے کا عمل غیر معمولی اہمیت حاصل کر لیتا ہے، فلسفہ، تاریخ، علم و ادب، نفسیات و معاشیات، عمرانیات و انسانیت سب کا علم ہمیں اسی عمل میں مدد دیتا ہے، بس علم و معلومات کی اصل اہمیت یہی ہے، اس کے سوا جو کچھ ہے، مدرّسی اور مکتبیّت ہے۔

ہم نے فلسفہ بہت بگھار لیا۔ آیئے، اب غالبؔ کے سوچنے کی دو ایک مثالیں دیکھیں۔ داغؔ کا ایک شعر ہے :

تم کو آشفتہ مزاجوں کی خبر سے کیا کام

تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے گیسو اپنا

شعر کا مضمون یہ ہے کہ معشوقہ عاشق کی طرف توجہ نہیں دیتی اور اپنے بناؤ سنگھار میں لگی رہتی ہے۔ اس کا تجربہ ہم آپ سب کو ہے۔ داغؔ کو بھی تھا۔ اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ شکایت پیدا ہوتی ہے۔ داغؔ کو بھی پیدا ہوئی۔ اس نے شکایت کو طعنہ بنا دیا۔ تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے گیسو اپنا۔ گیسو کی رعایت سے اپنے آپ کو آشفتہ مزاج کہا۔ عاشق کی آشفتگی اور بالوں کی پریشانی کا ربط ظاہر ہے۔ اس سے شعر بن گیا، اور مطلب یہ نکلا کہ پریشانی ہی دور کرنی تھی تو گیسو کی کیوں کی، عاشق کی کرتے۔ شعر داغؔ کے رنگ کا ہے۔ تجربہ بھی سچا ہے۔ شاعرانہ خوبیاں بھی موجود ہیں۔ مگر اب دیکھیے غالبؔ ایسے ہی ایک تجربے پر کس طرح سوچتا ہے :

تُو اور آرائشِ خمِ کاکل

میں اور اندیشہ ہائے دور و دراز

مضمون کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ ایک سطح پر داغؔ جیسی شکایت ہے۔ دوسری سطح پر مضمون آگے بڑھتا ہے۔ شکایت کے ساتھ ایک اور طرف خیال جاتا ہے۔ محبوب آرائشِ گیسو میں کیوں مصروف ہے۔ کیا کسی اور سے ملنے کی تیاری ہے ؟ وہ کون ہے ؟ محبوب جب اس سے ملے گا تو کس طرح ملے گا۔ کیا کیا باتیں ہوں گی۔ دونوں کتنے خوش ہوں گے۔ خیالات کا سلسلہ ٹوکتا نہیں پھیلتا ہی چلا جاتا ہے۔ اندیشہ ہائے دور و دراز۔ مگر شعر یہاں ختم نہیں ہو گیا۔ اس کی ایک تیسری سطح اور ہے۔ محبوب آرائشِ گیسو کر رہا ہے۔ عاشق سوچ رہا ہے کہ محبوب کی آرائش کے لیے اسے دنیا کی نادر و نایاب چیزیں لانی چاہییں جو اس کے شایانِ شان ہوں۔ عاشق تہی دست کیا کرے۔ اسے اپنی حالت بہتر بنانی چاہیے۔ وہ قوت حاصل کرنی چاہیے جس کے ذریعے وہ محبوب کی آرائش کا سامان خرید سکے، وہ یہ قوت کیسے حاصل کرے۔ محبوب کے شایانِ چیزیں کہاں سے لائے۔ یہ سلسلہ بھی لامتناہی ہے۔ ایک اور سطح یہ ہے کہ محبوب آرائش کر رہا ہے۔ اس آرائش سے دنیا اس کے حسن سے متاثر ہو گی۔ لوگوں میں احساسِ جمال پیدا ہو گا۔ وہ عاشق کی طرح اس کے دل دادہ ہو جائیں گے۔ ان میں بھی خلوص، محبت، دردمندی، صداقت پیدا ہو جائے گی۔ وہ بھی ایثار اور قربانی، صبر و رضا، دلِ دردمند و چشمِ نم سے بہر یاب ہوں گے۔ اُن کا معیار انسانیت بلند ہو جائے گا۔ فراقؔ نے کیا خوب کہا ہے کہ تنگنائی نظم میں یہ وسعت کہاں کہ اس میں غالبؔ کا یہ شعر سما سکے۔ تنگنائے نظم ہی میں نہیں، تنگنائے خیال میں بھی۔ ..۔

اب دیکھیے، اسی قسم کے کسی واقعے سے غالبؔ اور کیا کیا سوچتا ہے۔ شعر ہے :

آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز

پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں

معشوق نے منہ پر نقاب ڈال رکھا ہے۔ مگر نقاب کے پیچھے آئینے میں بھی دیکھتا جاتا ہے۔ غالبؔ کو خیال آتا ہے کہ منہ چھپانے کے باوجود وہ اس سے غافل نہیں ہے۔ اسے شکار کرنا چاہتا ہے، اس سے خوشی ہوتی ہے۔ پتا چلتا ہے کہ محبوب کو بھی اس کی لگن ہے۔ اور وہ اسی کے لیے آرائش میں مصروف ہے۔ اب نقاب بھی لطف دینے لگتا ہہے۔ مگر یہ مضمون بھی ایک جگہ رکتا نہیں، پھیلتا ہی جاتا ہے۔ نقاب میں محبوب ہی نہیں خدا بھی ہے۔ وہ بھی منہ چھپائے ہوئے ہے مگر کائنات کو جو اس کا آئینہ ے، دیکھتا جاتا ہے اور اس میں نئی سے نئی شان سے جلوہ گر ہونا چاہتا ہے۔ شاید خدا اور محبوب دونوں ایک ہیں اور غالبؔ محبوب کا عاشق ہو کر خدا کا عاشق بھی ہے۔ اور خدا بھی یہ سب کچھ عاشق کے لیے کر رہا ہے۔ نقاب اس لیے ڈال رکھا ہے کہ عاشق کے اشتیاق میں اضافہ ہو، یا شاید یہ خیال ہو کہ عاشق سامنے کے دیدار کو برداشت نہیں کر سکے گا اور موسیٰ اور طور والا قصہ ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ۔

اس مضمون کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ محبوب نقاب میں محوِ آرائشِ جمال ہے۔ عاشق اسے دیکھنا چاہتا ہے، مگر نہیں دیکھ سکتا۔ نقاب ہی کو جلوہ سمجھ لیتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ محبوب کا حسن نقاب ہی میں سمٹ آیا ہے، بلکہ نقاب کی وجہ سے دوبالا ہو گیا ہے۔ اگر نقاب ہٹ جائے تو شاید یہ کیفیت نہ رہے۔ یا عاشق تاب نہ لا کر دیکھنے ہی سے محروم ہو جائے۔ اس لیے نقاب کی بہار ہی اچھی ہے۔ کیا نقاب ہے کہ حسنِ محبوب دوبالا ہو کر اس سے چھن رہا ہے۔ غالبؔ اس کو یوں کہتا ہے :

منہ نہ کھلنے پر وہ عالم ہے کہ دیکھا ہی نہیں

زلف سے بڑھ کر نقاب اُس شوخ کے رُخ پر کھلا

آپ نے دیکھا غالبؔ ہمارے آپ کے ایسے تجربات کو جن سے ہم روزمرہ زندگی میں دوچار ہوتے رہتے ہیں، کیا سے کیا بنا رہا ہے۔ پوری اردو شاعری کے مضامین اس طرح غالبؔ کے ہاتھوں میں پہنچ کر کچھ سے کچھ بن جاتے ہیں۔ غالبؔ کا وجدان مسِ خام کو زرِ خالص بنا رہا ہے۔ معمولی خس و خاشاک اس کے سوزِ نفس سے دہک کر رنگین شعلے بن جاتے ہیں۔ یہ غالبؔ کا کمالِ فکر بھی ہے اور کمالِ شاعری بھی۔ ..۔

لیکن غالبؔ نے اسے آشوبِ آگہی کیوں کہا۔ شاید کھولا بہت تھا۔ غالبؔ کے کھولنے کی وجہ کیا ہے۔ غالبؔ کا تجربہ ہے کہ اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں بھی پوری نہیں ہوتیں۔ اُمیدیں ٹوٹ جاتی ہیں، آرزوئیں، حسرتیں بن جاتی ہیں، اور سب کا انجام شکست ہے۔ یہ ہماری آپ کی زندگی کا معمولی تجربہ ہے۔ مگر غالبؔ اسے کس طرح محسوس کرتا ہے اور کیا بنا دیتا ہے۔ اس کے لیے مجھے اشعار نقل کرنے کی ضرورت نہیں۔ اشعار آپ کو خود یاد ہوں گے، صرف غور کرنے کی ضرورت ہے کہ غالبؔ مائدۂ لذتِ درد کسے کہتا ہے۔ شمعِ ماتم خانہ برق کیوں ہے۔ غالبؔ جمع و خرچ دریا کا حساب کیوں رکھتا ہے۔ اُس کا ہر حسرت پر دم کیوں نکلتا ہے۔ وہ ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی داد کیوں طلب کرتا ہے۔ اور پھر یہ سب تجربات مل جل کر کیا بن جاتے ہیں۔ ذاتی شکستوں سے غالبؔ آفاقی نتائج تک پہنچ جاتا ہے۔ اس نے ذاتی سطح پر شکایت کی تھی کہ ’’مضمحل ہو گئے قویٰ غالبؔ ‘‘ مگر آفاقی سطح پر یہ کچھ اور ہو جاتا ہے :

ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام

مہر گردوں ہے چراغِ رہگزارِ بادیاں

اب غالبؔ مضمحل نہیں ہوا، سورج مضمحل ہو گیا، آفرینش مضمحل ہو گئی، کائنات مضمحل ہو گئی ہے اور یہ سب ’’چراغِ رہگزارِ باد‘‘ ہیں۔ غالبؔ اسی طرح چھوٹے چھوٹے تجربات کو ان کی انتہاؤں میں دیکھتا ہے۔ ان سے بڑے بڑے نتائج نکالتا ہے۔ اور انھیں آپس میں ربط دے کر حقیقت کے روبرو رکھ دیتا ہے۔ حقیقت اس آئینے میں اپنا منہ دیکھتی ہے۔ یہ غالبؔ کا کلام ہے۔ مگر غالبؔ نے اسے آشوبِ آگہی یوں کہا کہ یہ تلخ حقیقت ہے۔ حد درجہ تلخ، روح فرسا، جاں گداز اور استخواں سوز ہے۔ غالبؔ اس حقیقت کو دیکھتا ہے مگر غالبؔ کی انا بڑی ہے۔ وہ اس حقیقت کو قبول نہیں کرنا چاہتی۔ اس کے آگے سر نہیں جھکانا چاہتی۔ وہ اس کے خلاف ہتھیار اٹھا لیتی ہے۔ غالبؔ بے مثال لڑنے والا ہے۔ وہ اپنی چھوٹی چھوٹی آرزوؤں کی شکست کے پیچھے بھی پوری کائنات کو سرگرمِ عمل دیکھتا ہے۔ بلکہ خدا کو، خدا اور کائنات مل کر کیا کر رہے ہیں۔ اسے یتیم بنا دیا، ذوقؔ کو استادِ شہ کر دیا، مکان پر چھاپہ ڈال کر قید کرا دی، عارف کو چھین لیا، پنشن ضبط کرا دی، افلاس کا شکار بنایا، بیماری آزاری میں مبتلا کیا، غریب الوطنی میں مارا۔ غالبؔ یہ سب جانتا ہے اور لڑتا ہے۔ وہ روز نئے نئے محاذ کھولتا ہے۔ نئی ئی پناہ گاہیں تیار کرتا ہے، ایک پناہ گاہ اس کی داخلیت ہے۔ غالبؔ اس کمین گاہ میں بیٹھ جاتا ہے اور وہاں سے ناوک فگنی شروع کر دیتا ہے۔ اللہ اکبر کیسے زہریلے تیر ہیں۔ رستم و اسفندیار ہوتے تو ہلاک ہو جاتے۔ مگر اس کا مقابلہ حقیقت سے ہے، خدا سے ہے۔ غالب کے سارے تیر تکّے ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے پر میرؔ کو دیکھیے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ میرؔ سوچتا نہیں ہے۔ صرف محسوس کرتا ہے، مگر یہ غلط ہے۔ اتنی غلط بات تاریخِ ادب میں نہیں کہی گئی۔ صرف احساس یہ شاعری پیدا نہیں کر سکتا۔ میرؔ قائم نہیں ہے۔ قائمؔ، دردؔ، تاباں ؔ، بیدارؔ، دہلویؔ یہ احساس کی شاعری جگرؔ کی شاعری، حالیؔ اور حسرتؔ کی شاعری ہے اور جی ہاں اپنے ناصرؔ کاظمی کی شاعری ہے۔ میرؔ کی شاعری وہ ہے کہ غالبؔ بھی چیں بول جاتا ہے، یگانہؔ بھی چیں بول گئے، ناسخؔ و آتشؔ بھی، مصحفیؔ و جرأتؔ بھی۔ میرؔ خدائے سخن ہے، وہ احساسک بنا پر خدائے سخن نہیں بنا۔ احساس کسان کے پاس ہوتا ہے، میرؔ تو وہ کرتا ہے جو غالبؔ نہیں کر سکا۔ غالبؔ جہاں احساس سے فکر پیدا کرتا ہے، وہاں بہتر ہے۔ مگر اس کی نام نہاد فکر یہ شاعری جس کا بہت شہرہ ہے، اِدھر اُدھر سے مستعار لیا گیا ہے۔ یعنی یہ اس کے جذبات کی تعمیم نہیں۔ غالبؔ نے دوسروں کے تعمیم کردہ تجربات قبول کر لیے ہیں۔ یہ تجربات بھی اس کے اپنے ہو سکتے ہیں، بشرطے کہ غالبؔ انھیں اپنے محسوسات بنا لے۔ مگر غالبؔ اس میں ناکام ہو جاتا ہے۔ مستعار فکر مستعار ہی رہتی ہے۔ وہ اس کی اپنی نہیں بننے پاتی۔ بدقسمتی سے غالبؔ کی اس ناکامی کو ہم کامیابی سمجھتے ہیں اور ایسے اشعار پر سر دھُنتے ہیں :

ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ

عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے

یہ خیال نہیں، واقعی دامِ خیال ہے :

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

دوسرا مصرع بے کار ہے، اس کی شہرت زیادہ ہے، بری شاعری اور بری فکر نے ہمیں مار رکھا ہے۔ اس شعر میں پہلا مصرع ہی سب کچھ ہے۔ باقی سب کچھ بھرتی ہے۔ میرؔ اس کے برعکس دونوں باتوں پر قادر ہے۔ وہ اپنے تجربات کی بھی بے مثال تعمیم کرنا جانتا ہے اور دوسروں کے تجربات کی تعمیم کو اپنے محسوسات بنانا بھی جانتا ہے۔ یہ دونوں صلاحیتیں اردو شاعری میں اور کسی کو نصیب نہیں ہوئیں۔ نہ غالبؔ کو، نہ اقبالؔ کو۔

ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ غالبؔ کے مقابلے پر میرؔ کو دیکھیے۔ صبر و رضا کا پُتلا ہے۔ اس نے کیسے غم اُٹھائے، کیسی شکستیں کھائی ہیں، کیسے مصائب جھیلے ہیں۔ غالبؔ سے کم نہیں، شاید کچھ زیادہ۔ وہ پاگل تک ہو چکا ہے مگر اس سب کے باوجود نہ کہیں خود رحمی کا پتا ہے، نہ سنکی پن کا، نہ جھلّاہٹ کا، نہ طنز و تعریض کا، نہ منہ سکوڑ کر ہنسنے کا، نہ خواہشِ مرگ کا، خواہشِ مرگ کیسی، وہ تو موت کو بھی ماندگی کا وقفہ سمجھتا ہے۔ غالبؔ کو ذاتی شکست سے احساس ہوا کہ کائنات خود معرضِ شکست میں ہے۔ اس سے غالبؔ کو دُکھ ضرور ہوا مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ میرؔ کو یہ احساس ہوا تو اس نے اردو شاعری میں ایک آیت لکھ دی:

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

کیسی سچی دردمندی ہے، کائنات کا کیسا سچا دکھ ہے، دکھ ہی نہیں احترام بھی، رقت بھی۔ اب کائنات غالبؔ کی زوال آمادہ کائنات نہیں ہے، یہ کچھ اور ہو گئی ہے۔ دیکھو اس کے شیشوں پر سانس کی ضرب بھی نہیں لگنی چاہیے، کیوں کہ ان شیشوں میں حقیقت جلوہ گر ہے۔

 

 

 

 

مسائلِ تصوف

 

 

گزشتہ باب میں ہم نے غالبؔ کی فکر پر اظہارِ خیال کیا تھا۔ فکر کیا ہے، کسی کا اپنے تجربات کو جوڑنا، اور جوڑ کر ایک کل بنانا ہے۔ تجربات میں سب کچھ شامل ہے، یعنی جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا، جو کچھ مشاہدے میں آیا اور جو کچھ ہم نے مطالعہ کیا یا دوسروں سے سیکھا۔ یہ سب چیزیں مل کر جب ایک ’’کُل‘‘ بنتی ہیں اور اُس کل میں ان میں سے ہر چیز کو ایک جگہ مل جاتی ہے تو فکر پیدا ہو جاتی ہے۔ اس سے پہلے ہم دکھا چکے ہیں کہ غالبؔ کس طرح اپنے تجربات کی تعمیم کرتا ہے۔ کس طرح انھیں ان کی انتہاؤں پر دیکھتا ہے اور کس طرح انھیں ربط دے کر ایک نتیجہ نکالتا ہے۔ مگر فکر کا لفظ کسی نہ کسی طرح انفرادی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔ انفرادی فکر کیا ہے، وہ ہے جو ہم نے سوچا ہے، جو کسی اور نے نہیں سوچا، جو کوئی اور سوچ ہی نہیں سکتا۔ آج کل ایسی ہی فکر کا چرچا ہے۔ اور ہر لکھنے والا یا تو اس فکر کا مدعی ہے یا طالب ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ نمایاں تشخص حاصل کر لیں۔ زیادہ سے زیادہ دوسروں سے مختلف ہو جائیں۔ زیادہ سے زیادہ کوئی ایسی بات کریں جو کسی اور نے نہ کی ہو۔ آپ اسے انفرادی فکر کہہ لیجیے، لیکن اس کے علاوہ ایک فکر ہے جو انفرادی نہیں ہے۔ یہ ہماری انفرادی سوچ کو ظاہر نہیں کرتی۔ اس کے مقدمات ہمارے تجربات کا نتیجہ نہیں ہیں، نہ اس کا مقصد دوسروں سے مختلف ہونا ہے، وہ نہ ہماری ملکیت ہے، نہ بننا چاہتی ہے۔ وہ تو بنی نوع انسان کی ملکیت ہے۔ ہم اسے پیدا نہیں کر سکتے، صرف دریافت کر سکتے ہیں۔ وہ ہماری سوچ کا نتیجہ نہیں۔ سوچ صرف اسے اپنا سکتی ہے۔ وہ نہ انفرادی ہے، نہ شخصی۔ وہ تو انسانی فکر یا آفاقی، میں اس فکر کو روایتی فکر کہتا ہوں۔ پہلے لوگ اس کو فکر نہیں کہتے تھے، انکشاف، الہام، القا وغیرہ کہتے تھے۔ یہی چیز اپنی تکمیل یافتہ شکل میں دیو بانی تھی۔ روح القدس کا فیضان تھی۔ آوازِ سروش تھی۔ صدائے ہاتف تھی، حضورﷺ نے کہا، میں تمھارے لیے نیا دین نہیں لایا، یہ تو دینِ ابراہیم و موسیٰ ہے، دینِ آدم ہے۔ اولیاء اللہ کو دیکھو، مکاشفہ و الہام کا ذکر کرتے جاتے ہیں، یاں تک کہ شاعر بھی اس کی نسبت اپنے آپ سے نہیں کرتے۔ کسی میوز، کسی سرسوتی، کسی اپالو کو دین بتاتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں، ’’ہم نے سوچا، ‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’ہم نے نہیں سوچا۔ ‘‘ سوچنے والا کوئی اور ہے۔ میں شاہ ولی اللہ کی ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ بار بار تاکید کر کے بتایا ہے کہ یہ کتاب نہ ذاتی تجربے کا نتیجہ ہے، نہ ذاتی فکر کا۔ یہ تو وہ ہے جو انھیں بتایا گیا ہے۔ آپ روایتی فکر اور انفرادی فکر کے اس فرق پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ایک فکر کا تعلق انا سے ہے۔ دوسری کا غیر انا سے۔ ایک میں غالبؔ، اقبالؔ، جوشؔ سوچتے ہیں، دوسری میں غالبؔ، اقبالؔ، جوشؔ کوئی چیز نہیں۔ خود حقیقت سوچتی ہے۔ ہم اس فکر کو اکتساب سے حاصل نہیں کر سکتے۔ کوشش سے معلوم نہیں کر سکتے، خواہش سے اپنا نہیں سکتے، یہ تو ملتی ہے تو مل جاتی ہے۔ نہیں ملتی تو نہیں ملتی۔ مگر ایک کام ہم ضرور کر سکتے ہیں۔ ہمارے سامنے روایتی فکر کے نمونے ہیں۔ ہم سے پہلے بہت سے ایسے لوگ گزرے ہیں جن کو یہ روایتی فکر ملی ہے جنھوں نے ملائے اعلیٰ سے فیض پایا ہے جن کی زبان پر روح القدس جاری ہوئے۔ جنھوں نے دیوبانی سنی ہے، جو آوازِ سروش سے بہرہ یاب ہوئے ہیں۔ ہم ان کے تجربات جان سکتے ہیں، روایتی فکر کے نتائج کو ذہنی طور پر اختیار کر سکتے ہیں، ان کے فارمولوں کو الجبر و المقابلہ کے فارمولوں کی طرح رٹ سکتے ہیں، ان کے بنیادی افکار کو ہضم کر سکتے ہیں، دوسرے لفظوں میں روایتی فکر کو اپنا سکتے ہیں۔ یہ اپنانا کیا ہے۔ سب سے پہلے یہ ذہن کا عمل ہے۔ آپ انھیں دماغ میں اُتاریے، پھر روح میں رچایئے بسایئے، وہ آپ کے لیے ایسے ہو جائیں جیسے آپ کا گھر۔ آپ سوجائیں گے تو انھی کی فضا میں، کھائیں گے تو انھی کے ماحول میں، بیوی بچوں کے پاس جائیں گے تو انھی کی روشنی میں، پھر جب آپ اس طرح ہر وقت ان کے ساتھ رہیں گے تو وہ دماغ سے نیچے اُتریں گے۔ وہ ذہن سے محسوسات میں اتر آئیں گے، جذبات میں گھل مل جائیں گے۔ خون میں حل ہو جائیں گے، یہاں تک کہ آپ کا سانس بن جائیں گے۔ اب آپ نہیں بولیں گے، وہ بولیں گے۔ آپ نہیں سوچیں گے، وہ سوچیں گے، آپ نہیں محسوس کریں گے، وہ محسوس کریں گے۔ لیجیے میں نے کتنا آسان نسخہ بتایا ہے، مگر کیا واقعی یہ آسان ہے ؟ یہ دنیا کا مشکل ترین کام ہے وجہ یہ ہے کہ ہم انا کے تحت سوچتے ہیں۔ انا کے تحت محسوس کرتے ہیں، ہماری ہر بات کا محرک ہمارا تجربہ ہوتا ہے۔ ہم کہتے ہیں، ہم نے سوچا ہے، روایتی فکر کو اس انفرادیت پسندی سے چڑھ ہے۔ اس کے بیچ میں جہاں آپ بولے اس نے کان پکڑ کر باہر نکال دیا۔ جہاں اس کی بات کو آپ نے اپنے سے منسوب کیا، اُس نے آپ سے کلام ترک کر دیا۔ جہاں اس کی بات میں آپ نے اپنی بات ملائی، اس نے نظریں دوسری طرف پھیر لیں۔ ایسی صورتوں میں روایتی فکر یا تو بن نہیں پاتی یا انفرادی فکر میں گڈمڈ ہو جاتی ہے۔ اور جہاں صرف روح القدس کو بولنا چاہیے، وہاں ہم اپنا ٹیپ ریکارڈ لگانے لگتے ہیں۔

تصوف روایتی فکر ہے۔ اس کے تجربات وہ ہیں جو ان لوگوں کو حاصل ہوئے جن پر فیضانِ الٰہی جاری ہوا، جنھوں نے روح القدس سے کلام سنا، جن پر دیوبانی وارد ہوئی۔ اس لییاس کے تجربات غیر شخصی ہیں۔ یہ کسی نسل و قوم کی ملکیت نہیں۔ کسی مذہب و ملت کی جاگیر نہیں۔ کسی فرقہ و طبقہ کی میراث نہیں۔ ہندی، چینی، مسیحی، مسلمان سب کو اس کا فیض پہنچا ہے۔ یہ آفاقی فکر ہے، اس کا تعلق نہ کسی مقام سے ہے، نہ وقت سے۔ یہ ازلی ہے، ہندوؤں میں یہ ویدانت ہے، چینیوں میں یہ تاؤ ازم ہے۔ مسیحیوں میں سریت۔ یہودیوں میں قبالہ، مستشرقین نے ایک گھپلا یہ چلایا کہ اسے بھی انفرادی فکر کی طرح اکتاسیب سمجھ بیٹھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لگے انفرادی فکر کی طرح اس میں بھی کسب و اختیار کی تلاش کرنے۔ محی الدین ابنِ عربی، فلاطونس سے متاثر ہوئے ہیں، فلاطونس، افلاطون سے متاثر ہوا اور افلاطون نہ جان کس سے متاثر ہوا ہے۔ جہاں سرا نہیں مل سکا، وہاں حیرت بھی فرمائی اور کوئی تکّا بھی لگا دیا۔ چنانچہ ہمیشہ سے ان کی عادت یہ ہے کہ مختلف روایتی افکار کی دُم سے دُم جوڑتے چلے جاتے ہیں اور جہاں دُم نہیں ملتی، وہاں۔ ۔ ۔ بھی باندھ دیتے ہیں۔ محی الدین ابنِ عربی نے فلاطونس سے لیا مگر فلاطونس نے کیا ویدانت سے لیا ہے اور ویدانت کیا چینیوں سے آیا ہے۔ کیا یہ ثابت بھی ہے کہ یہ قومیں اس طرح ایک دوسرے سے ملیں ؟ بعض اوقات ان لوگوں کے بھان متی کا پٹارہ اس بری طرح کھلتا ہے اور اس میں سے ایسی مضحکہ خیز چیزیں برآمد ہوتی ہیں کہ ہنسی بھی آتی ہے اور غصہ بھی۔ ..۔ مگر وہ سکۂ رائج الوقت ہیں۔ انھیں ٹھکراؤں گا تو کھاؤں گا کہاں سے۔ مجبوراً آیئے اپنے موضوع کی طرح چلیں، یعنی غالبؔ کا تصوف!

غالبؔ ایک چشتی بزرگ کالے میاں کے مرید ہو گئے تھے اور یہ بھی ثابت ہے کہ ’’عرفا کے کلام سے حقیقتِ حقہ وحدت الوجود کو اپنے دل نشیں کرتے رہتے تھے۔ ‘‘ سب سے بڑی بات یہ کہ منبعِ تصوف علی ابنِ ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے غلام تھے۔ بڑے در کا بڑا فیضان، تو پھر کیا تعجب ہے، اگر بقولِ حالیؔ توحیدِ وجودی ان کی شاعری کا عنصر بن گئی تھی۔ خود لکھتے ہیں، ’’میں زبان سے لا الٰہ الا اللہ کہتا ہوں اور دل میں لا موجود الا اللہ اور لامؤثر فی الموجود الا اللہ سمجھے ہوئے ہوں۔ ‘‘ چنانچہ کیا شک ہے اگر ولی پوشیدہ ہوں۔ خیر ولی پوشیدہ ہوں یا کافر کھلا، یہ تو ان کا خدا جانے مگر انھیں یہ دعویٰ ضرور ہے کہ انھوں نے مسائلِ تصوف لکھے ہیں اور خوب لکھے ہیں۔ شعر میں تصوف کے معنی ڈھونڈنا ایک زمانے میں شعر کی اعلیٰ تفہیم کا ایک ثبوت تھا۔ آج کل مدرسوں کا مذاق ہے۔ مدرس بھی اسے مذاق سمجھ کر ہی کرتے ہیں۔ پٹی ہوئی اصطلاحوں اور احمقوں کی تکرارِ بے معنی نے دنیا کی زندہ ترین روایتی فکر کو مردہ اور بے جان بنا دیا۔ پچھلے دنوں تک تو یہ عالم تھا کہ اگر غالبؔ کو صوفی شاعر کہا جاتا تو لوگ ہنستے ہنستے پاگل ہو جاتے یا پاگل کر دیتے۔ مگر کچھ دنوں سے ہوا پلٹ گئی ہے۔ عسکری صاحب نے اعلان کر دیا ہے کہ اردو کی اصل شعری روایت تصوف کی ہے۔ ہمارے بزرگوار حمید نسیم صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ غالبؔ کو ساری زندگی فلسفی شاعر سمجھ کر پڑھا، اب معلوم ہوا صوفی شاعر ہے۔ جیلانی کامرانی صاحب نے ایک پورا مضمون غالبؔ اور محی الدین ابنِ عربی پر کھینچ مارا۔ اور لکھا کہ ابنِ عربی کو سمجھے بغیر غالبؔ نہیں سمجھ میں آ سکتا۔ یہاں تک کہ بعض ایسے نوجوانوں تک یہ بات پہنچ گئی کہ طبیعت حیران ہوتی ہے۔ عبید اللہ علیم تک کہتے ہیں کہ غالبؔ تصوف کا دردؔ سے بڑا شاعر ہے۔ ہم نے ممتاز حسین صاحب کی کتاب دیکھی، بعض اصطلاحوں اور فقروں کے غلط ترجمے کے باوجود بھی غالبؔ کے تصوف کے منکر نہیں ہیں۔ اب ترقی پسند اور غیر ترقی پسند غالبؔ کی سرکار میں پہنچ کر ایک ہو گئے ہیں اور سوئے تصوف سجدہ ریزی شروع کر دی ہے۔ ہمارے عسکری صاحب عجیب ہیں۔ انھوں نے داغؔ کو تو صوفی شاعر مان لیا مگر غالبؔ کے سلسلے میں صاف مکر گئے کہ تصوف جانتا تھا۔ انھوں نے تو حد یہ کر دی کہ کہہ دیا کہ ذوقؔ، غالبؔ سے زیادہ تصوف کا شاعر ہے۔ زیادہ بھی اور بہتر بھی۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم نہ تو حسین آزادؔ کے پیرو ہیں، نہ حالیؔ کے مقلد۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ذوقؔ اور غالبؔ میں کس کو بہتر مانیں۔ ویسے ہماری دوسری مشکل یہ ہے کہ ذوقؔ کے ہمیں کل تین شعر یاد ہیں۔ اور غالبؔ کا پورا دیوان حفظ ہے۔ ساری زندگی غالبؔ کو غالبؔ سمجھا، اب ایک دن کے ذوقؔ سے پوری زندگی کے غالبؔ کو کیسے بھول جائیں گے۔ اس لیے آیئے غالبؔ تصوف کا حال خود دیکھیں۔

شاعری میں ایک بڑی دقت یہ ہے کہ یہ لاکھ انفرادی ہو، اسے روایت کا فیض پہنچتا ہی رہتا ہے۔ اور معمولی سے معمولی اشعار میں بھی ایک ماورائی جہت پیدا ہو جاتی ہے۔ میں نے بابا ذہین شاہ تاجی جیسے بزرگ کو بعض ایسے شعرا کے کلام پر وجد کرتے دیکھا جو تصوف سے کوئی واقفیت نہیں رکھتے۔ مگر وجد اس لیے برحق ہے کہ شعر میں وہ سمت موجود ہے۔ فراقؔ صاحب نے مذاق اُڑایا کہ ایک طوائف گا رہی تھی:

اگر یوں ہی توڑا مروڑی رہے گی

تو کا ہے کو انگیا نگوڑی رہے گی

اس پر ایک بزرگ کو حال آ گیا۔ فراقؔ صاحب کہتے ہیں کہ یوں تو دنیا کی ہر بات تصوف ہے۔ فراقؔ صاحب کو کیا کہوں، ان کا اپنا یہ عالم ہے کہ مادیت مادیت کرتے ہیں اور شعر میں تصوف ڈالتے چلتے ہیں۔

یہ شعر دیکھیے :

بس ایک تو نہ ملا راہِ شوق میں ورنہ

قدم قدم پہ ملی ہیں نشانیاں تیری

۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..

ابھی جہاں میں تھی افواہ تیرے آنے کی

چراغِ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا

۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..

عشق کی آزمائشیں اور فضاؤں میں ہوئیں

پاؤں تلے زمیں نہ تھی، سر پہ یہ آسماں نہ تھا

فراقؔ صاحب کو اپنی کفریات و دہریت پر بڑا ناز ہے مگر کیا ان اشعار پر تصوف کی چھوٹ پڑ رہی ہے یا نہیں ؟ اردو شاعری کے بہت بڑے حصے میں تصوف ہو یا نہ ہو، تصوف کی فضا ضرور ہے۔ اس فضا کے ایک بہت نمایاں شاعر اصغرؔ گونڈوی ہیں۔ کچھ ایسا لگتا ہے جیسے اس فضا کے بغیر شعر شعر نہیں رہتا۔ روزمرہ واقعات کی ڈائری بن جاتا ہے۔ آج کل غزلوں میں یہی ڈائری لکھی جا رہی ہے اور ساقیؔ فاروقی اور شہزاد احمد لکھتے ہیں کہ اُسے ٹیلی فون کر رہا ہوں یا اخبار پڑھ رہا ہوں۔ آیئے انھیں وہیں اخبار اور ٹیلی فون پر چھوڑیے اور ہم کچھ لمحے غالبؔ کے ساتھ بسر کریں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ غالبؔ نے ذہنی طور پر تصوف اختیار کیا۔ اس کا یہ دعویٰ بھی درست ہے کہ وہ عرفا کے کلام سے مذہبِ حقہ وحدت الوجود کو دل نشیں کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک بھی صحیح ہے کہ وہ لامؤثر فی الوجود الا اللہ سمجھتا ہے۔ مگر غالبؔ کے یہاں ہمیں تصوف کے اس قسم کے اشعار ملتے ہیں :

وہی اک بات ہے جو یاں نفس واں نکہتِ گل ہے

چمن کا جلوہ باعث ہے مری رنگیں نوائی کا

۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..

محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا

یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا

۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..

نفی سے مکرتی ہے اثبات ترا وش گویا

دی ہے جائے دہن اس کو دم ایجاد نہیں

۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..

نہیں گر سرو و برگ ادراک معنی

تماشائے نیرنگِ صورت سلامت

۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..

اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے

حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں

زیادہ اشعار کی ضرورت ہیں، آپ کو خود یاد ہوں گے۔ آپ دیکھیے یہ رسمی اشعار نہیں ہیں۔ ان میں ایک قوت ہے، ایک جان ہے۔ ہم ان کی رفعت اور گہرائی سے متاثر ہوتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ بڑے زور سے بات کہی گئی ہے مگر یہ زور دماغ کا ہے۔ غالبؔ کا دماغ ان خیالات سے، شدت سے متاثر ہوا ہے۔ اور شدت سے متاثر بھی کرتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ دماغ میں جگہ حاصل کر کے یہ دماغ ہی میں رہ گئے ہیں، جذبہ و احساس میں نہیں اُترے، خون میں نہیں گھلے، غالبؔ کی سانس نہیں بنے۔ ہمارے بابا ہم سے کہا کرتے تھے، سلیم احمد! تصوف سے کچھ حاصل کرنا ہے تو اسے گھٹ میں اُتار لو۔ تصوف غالبؔ نے حاصل تو کیا ہے مگر گھٹ میں نہیں اُترا۔ صرف ذہن ہی میں رہ گیا ہے۔ اس لیے غالبؔ مرعوب تو کر دیتا ہے، اندر نہیں اُترتا۔ میر دردؔ نے سیدھا سا شعر کہا ہے :

جگ میں آ کر اِدھر اُدھر دیکھا

تُو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

بات یہ ہے کہ شعر کیسا بھی ہو مگر دردؔ نے دیکھا تو ہے۔ غالبؔ نے شعر کیسے ہی کہے ہوں، بس دیکھا ہی نہیں ہے۔ علمِ سماعی یا علمِ مطالعہ ’’شنید‘‘ تو بہت اچھی طرح ہوا ہے، ’’دید‘‘ نہیں بنا۔ آخری شعر بہت اہم ہے، یہ ہمیں بتاتا ہے کہ تصوف گھٹ میں کیوں نہیں اُترا۔ پچھلے دنوں میں نے اپنی چھوٹی بچی کو اردو قاعدہ پڑھانا شروع کیا، ’’الف‘‘ پڑھایا، خیریت تھی، جب ’’ب‘‘ پڑھانا چاہا تو وہ اڑ گئی، ’’ابو یہ ’’ب‘‘ کیوں ہے، الف کیوں نہیں ہے میں نے کہا، بیٹی دیکھو الف یہ سیدھا سیدھا ہے، اور ’’ب‘‘ لیٹا لیٹا۔ بولی تو ’’ب‘‘ لیٹا لیٹا کیوں ہے۔ ابو میں تو اسے بھی ’’الف‘‘ کہوں گی۔ میں نے کہا، بیٹی دیکھو ’’ب‘‘ کے نیچے نقطہ ہے، الف کے نیچے کوئی نقطہ نہیں۔ بولی، نقطہ نہیں ہے تو میں کیا کروں ؟ اور نقطہ کیوں نہیں ہے۔ میں نے قاعدہ بند کر دیا۔ اور تعلیم کی نفسیات پر غور کرنے لگا۔ تعلیم کی نفسیات یہ ہے کہ طالب علم جب تک کچھ سیکھے، اس وقت تک سوال نہ کرے، تنقید نہ کرے، اردو پڑھنی ہے تو اردو حروفِ تہجی بغیر سوال کے یاد کرنے ہوں گے۔ ریاضی پڑھنی ہے تو گنتی کا گھوٹا تو لگانا ہی پڑے گا۔ غالبؔ یہی نہیں کرتا۔ اسے سوال پوچھنے کا شوق ہے۔ ابھی یہ بات تجربہ ہی نہیں بنی کہ اصل شاہد و مشہود ایک ہے بھی یا نہیں، نہ تجربہ بنی، نہ پوری طرح سمجھ میں آئی، مگر اسے یہ جاننے کی دھن ہو گئی ہے کہ اگر ان کی اصل ایک ہے تو پھر مشاہدہ کس حساب میں ہے ؟ یار لوگ تصوف کے ویسے ہی خلاف ہیں۔ انھوں نے یہ تک نتیجہ نکال لیا کہ غالبؔ تصوف کے ماننے والا تو درکنار، تصوف کا مخالف ہے۔ کسی چیز کی مخالفت کے لیے اس کا جاننا ضروری ہے۔ غالبؔ تصوف جانتا ہی نہیں، مخالفت کیا کرے گا۔ وہ تو بے صبرا طالب علم ہے، میری بچی کی طرح۔ وہ تو حروفِ تہجی ہی نہیں کہنا چاہتا ہے، بس الف پر اڑ کر رہ گیا ہے۔ اسی طرح غالبؔ کی ایک اور غزل ہے، جس میں انھوں نے سبزہ و گل کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔ کچھ لوگ اسے سائنس کی ابتدا کہتے ہیں، کچھ فلسفے کی۔ بعض لوگوں نے اس سے غالبؔ کی تشکیک برآمد کی ہے۔ رشید احمد صدیقی جیسے آدمی کو دھوکا ہو گیا ہے کہ یہ خدا پر شک ہے۔ خدا پر شک نہیں ہے، وحدت الوجود پر شک ہے :

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

توحیدِ وجودی کے نقطۂ نظر سے وجود صرف خدا کا ہے۔ غالبؔ کہتا ہے اگر یہ درست ہے تو پھر یہ عالمِ کثرت کیا ہے۔ اس سوال کو غالبؔ نے ایک جگہ کثرت آرائیِ وہم سے تعبیر کیا ہے اور اعتراف کیا ہے کہ اسے اصنامِ خیالی نے کافر بنا دیا ہے۔ شعر میں کئی اور پہلو بھی نکلتے ہیں مگر انھیں فی الحال چھوڑیے۔ فی الحال تو دیکھنے کی بات یہ ہے کہ خدا کے وجود پر اعتراض یا استفسار نہیں ہے، توحیدِ وجودی پر سوال ہے۔ سوال کو تصوف کے مخالف قطعی طور پر اعتراض ثابت کرتے ہیں۔ اور جوشؔ صاحب تو یہاں تک کہتے ہیں کہ غالبؔ اگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے محبت نہ کرتا تو بہت بڑا دہریہ ہوتا:

اپنے پہ کرتا ہوں قیاس اہلِ دہر کا

جوشؔ صاحب جو تجربہ خود رکھتے ہیں، اُسے غالبؔ پر چپکاتے ہیں۔ غالبؔ کا سوال غالبؔ کے بے صبرے پن کی دلیل ہے۔ غالبؔ مسئلے کو سمجھاہی نہیں ہے، اسیر کا ایک شعر دیکھیے، فہیم کا فرق نظر آ جائے گا۔

باغِ عالم میں یہی فکر رہی مجھ کواسیرؔ

دیکھیے گل کی طرف یا چمن آرا کی طرف

اسیرؔ نے مسئلے کو پانی کر دیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ توحیدِ وجودی خلق سے حق کی طرف لے جاتی ہے۔ حق کی طرف اس سفر میں خلق معدوم ہو جاتی ہے۔ یہ مقام جمع ہے، لیکن پھر نزول شروع ہوتا ہے اور سالک حق سے خلق کی طرف پھر رجوع کرتا ہے، اب خلق پھر موجود ہو جاتی ہے۔ مگر سالک نزول نہیں چاہتا۔ اس کے نفس میں نزول اور صعود کے درمیان کش مکش رہتی ہے۔ اسیرؔ نے اس کش مکش کو بیان کیا ہے۔ غالبؔ تو ابھی بچوں کی طرح الف ہی میں اٹکا ہوا ہے۔ غالبؔ کا ایک قصیدہ البتہ بڑے دھوم دھام سے شروع ہوتا ہے۔

دہر جز جلوۂ یکتائیِ معشوق نہیں

ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں

حسن خود بیں ہے، اس لیے اپنے آپ کو دیکھنے کے لیے یہ آئینہ پیدا کیا ہے جسے کائنات کہتے ہیں۔ یہ محل ظہور ہے۔

حقیقت واحدہ اور اس آئینے میں بصورتِ کثرت ظاہر ہوتی ہے۔ چنانچہ حسن نے جب آئینہ دیکھا تو اس سے ہم نمودار ہو گئے۔ لیکن قصیدے کی تشبیب بتاتی ہے کہ غالبؔ اس نموداری اور پیدائی سے خوش نہیں، وہ تو کہہ چکا ہے کہ ’’ڈبویا مجھ کو ہونے نے ‘‘، یہ خیال اسے اس کی ذاتی زندگی سے پیدا ہوا ہے۔ اس کی ذاتی زندگی مصائب و آلام سے پُر ہے۔ وہ اپنی زندگی سے حد درجہ بے زار ہے۔ غالبؔ نے تشبیب میں اپنی کیفیت بیان کی ہے۔ یہ کیفیت ظاہر کر رہی ہے کہ غالبؔ کے دل میں وسوسہ ہے کہ اگر دہر حسنِ خود بیں کا جلوۂ یکتائی ہے تو اے کاش وہ خود بیں نہ ہوتا۔ اور ہم پیدا نہ ہوتے۔ قصیدے کا مقصد یہ ہے کہ اس وسوسے کو دور کیا جائے اور حسنِ خود بیں کی جلوہ آرائی یعنی اپنے اور دوسرے انسانوں یا کائنات کے وجود کو تسلیم کر لیا جائے اور توحیدی وجود میں اپنی زندگی کا جواز تلاش کیا جائے۔ لیکن یہ سب آگے کی منزلیں ہیں۔ پہلے تو وہ کیفیت دیکھ لیجیے جو غالبؔ کی موجودگی یا وجودِ انسانی کی موجودگی سے پیدا ہوئی ہے :

توڑے ہے نالہ سرِ رشتۂ پاس انفاس

سر کرے ہے دلِ حیرت زدہ شغل تسکیں

بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق

بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں

ہرزہ ہے نغمۂ زیر و بم ہستی و عدم

لغو ہے آئینۂ فرق جنوں و تمکیں

پاس امثال بہار آئینہ استغنا

وہم آئینہ پیدائیِ امثالِ یقیں

لافِ دانش غلط و نفع عبادت معلوم

دُردِ یک ساغر غفلت ہے چہ دنیا و چہ دیں

یہ اشعار بڑے زوردار ہیں۔ غالبؔ تجربے میں ڈوب گیا ہے اور پوری قوت سے بولا ہے۔ اردو شاعری میں ایسے اشعار کم یاب ہیں۔ اور ایسی تشبیب تو بالکل نایاب ہے۔ اُمید بنتی ہے کہ تشبیب کا یہ زور آگے چل کر رنگ لائے گا۔ قصیدہ جناب امیرؔ کا ہے یقیناً غالبؔ، جناب امیرؔ کے فیض سے اگلی منزل طے کرے گا۔ وہ اپنے وجود کی بے معنویت سے ملے گا۔ اور اسے معلوم ہو گا کہ حسنِ خود بیں جس کا وہ عکس ہے، اس نے اس کے وجود کو پیدا کر کے اس کے ساتھ ظلم نہیں کیا بلکہ جود کیا ہے۔ اس کے وجود ’’محدود‘‘ کی مایوسیاں، ناکامیاں، محرومیاں، تلخیاں، جب وجودُِ کلی کے سمندر سے ملیں گی تو دھل کر پاک ہو جائیں گی۔ اور اسے خود اپنے وجود اورُ کل وجودِ کائنات کے مثبت ہونے کا اندازہ ہو جائے گا۔ لیکن قصیدہ جوں جوں آگے بڑھتا جاتا ہے، یہ اُمید مایوسی میں بدلتی جاتی ہے۔ غالبؔ جذباتی تو زیادہ ہو جاتا ہے مگر اس کا ادراک نہیں بدلتا۔ اس کے تجربے میں تبدیلی نہیں آتی۔ وہ اپنے بے معنی وجود کی بے معنویت سے نہیں نکلتا۔ اس کے سوالات جواب نہیں پاتے۔ صرف حضرت علیb کی محبت میں معطل کر دیے جاتے ہیں۔

کس قدر ہرزہ سرا ہوں کہ عیاذاً باللہ

یک قلم خارج آداب وقار و تمکیں

ختم کر ایک اشارت میں عباداتِ نیاز

جوں مہِ نو ہے نہاں گوشۂ ابرو میں چیں

نقشِ لاحول لکھ اے خامۂ ہذیاں تحریر

یاعلیؓ عرض کرائے فطرتِ وسواس قریں

غالبؔ اپنے سوالات کا جواب نہیں پاتا، صرف لاحول پڑھ کر بات ختم کر دیتا ہے۔ لیکن لاحول کہنے سے تشبیب میں شیطان کی شیطانی دور نہیں ہوتی۔ وہ اور زیادہ سچی ہو جاتی ہے، یہاں تک کہ غالبؔ کا یہ قصیدہ اگر یاد رہتا ہے تو صرف تشبیب کی وجہ سے، باقی جو کچھ ہے، جذباتیت تو ہے، ادراک نہیں۔ غالبؔ تصوف کی یہ اعلیٰ ترین مثال تھی مگر آپ نے دیکھا کہ غالبؔ چیں بول گیا ہے۔ در اصل تصوف اس کے لیے نقشِ لاحول سے زیادہ اور کچھ ہے بھی نہیں۔

 

 

 

 

آئینہ زدُودن

 

 

ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ خدا کی کسی بھی مخلوق کی طرح انا بھی بے کار نہیں۔ اس کا ایک اپنا مقام، حیثیت اور مقصد ہے۔ ہم شخصیت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ کیوں کہ عمل ہی نہیں کر سکتے۔ انا شخصیت بناتی ہے۔ وہ ارادہ کو متحرک کرتی ہے۔ اور جبلّتوں کی گاڑی کو گھوڑے کی طرح کھینچتی ہے۔ صرف جبلّتیں جو سفر برسوں میں طے کریں، انا انھیں لمحوں میں طے کراتی ہے۔ چنانچہ انا کا ہونا اسی طرح فطری اور لازمی ہے جس طرح غیر انا کا۔ در اصل انا اس وقت قابلِ اعتراض، مضر اور مہلک ہوتی ہے، جب وہ اپنی حدود سے تجاوز کرتی ہے۔ جب وہ غیر انا کی نیابت چھوڑ دیتی ہے اور خود تحت نشین ہو جاتی ہے۔ غیر انا کی حکومت پر اس کا یہ قبضہ مخالفانہ اس کو باغی تاغی بنا دیتا ہے۔ اور پھر اس کا یہ انجام ضروری ہو جاتا ہے۔ جو ایسے باغی غلاموں کے لیے مقر ر ہے۔

انا شخصیت کی معمار ہے۔ اچھا معمار اچھا گارا چونا استعمال کرتا ہے۔ اچھی شخصیت وہ ہے جو مثبت ہو، متوازن ہو، صحت مند ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ شخصیت میں تین چیزوں کا توازن ہو۔

۱۔ انا

۲۔ خارجی حقیقت

۳۔ داخلی حقیقت

شخصیت میں جب تینوں کے لیے جگہ نکلتی ہے تو وہ مثبت، متوازن اور بھرپور ہوتی ہے۔ میرؔ کی شخصیت ایسی ہے۔ غالبؔ کی شخصیت ایسی نہیں۔ اس کی انا بے لگام گھوڑے کی طرح ہے، جو ایک طرف جبلتوں کی گاڑی کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے یعنی داخلی حقیقت سے کٹ جاتا ہے۔ دوسری طرف خود دنیا سے ٹکرا جاتا ہے۔ یعنی خارجی حقیقت سے ہم آہنگی نہیں پیدا کر سکتا۔ اس دو طرفہ ٹکراؤ سے شخصیت منفی، غیر متوازن اور مریض ہو جاتی ہے۔ غالبؔ کی شخصیت میں یہ سب عناصر موجود ہیں۔ غالبؔ ہی میں نہیں، ہم سب میں۔ غالبؔ کے اس گلشنِ نا آفریدہ کے ہر شخص میں جو ہمارا عہد ہے۔ البتہ غالبؔ میں اور دوسروں میں ایک فرق ہے۔ دوسرے حقیقت کو کسی حالت میں بھی نہیں دیکھتے، غالبؔ دیکھتا ہے۔ میں نے غلط کہا۔ غالبؔ نہیں دیکھتا، نہیں دیکھنا چاہتا مگر وہ ’’دیدہ ور‘‘ ہے۔ حقیقت اس دیدہ وری کی قدر کرتی ہے۔ اور اپنا جلوہ غالبؔ کو دکھا دیتی ہے۔ خواہ غالبؔ کی انا پر کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ غالبؔ کی چشمِ تماشا غالبؔ کا انتخاب نہیں، غالبؔ کی مجبوری ہے۔ غالبؔ جب اس چشمِ تماشا کو انا کے آلۂ کار کی حیثیت سے استعمال کرتا ہے، تو ایسے اشعار پیدا ہوتے ہیں جیسے میرے آگے والی غزل۔ غزل کیا ہے، انا کا منشور ہے، یہ غالبؔ نہیں لکھ رہا، انا لکھ رہی ہے۔ یہ غالبؔ نہیں بول رہا ہے، انا بول رہی ہے۔ مگر انا کے اس منشور میں بھی حقیقت گھس آتی ہے اور چپکے سے کہتی ہے :

گو ہاتھوں میں جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے

پوری غزل میں یہ شعر دیکھیے۔ یہی ایک زندہ شعر ہے۔ اس کے پیچھے انا نہیں حقیقت ہے۔ غیرانا ہے۔ جہاں انا تختِ حکومت پر نبکار رہی ہے، وہاں غیر انا جو اصل حاکم ہے اور انا کے قبضۂ غاصبانہ کے بعد شاید تخت کے پائے کے نیچے دبی پڑی ہے، چپکے سے کراہتی ہے۔ یہ کراہ شعر بن گئی ہے۔ غالبؔ کی شاعری میں حقیقت اسی طرح چپکے سے در آتی ہے، کبھی چپکے سے، کبھی فاتحانہ انداز میں، جب فاتحانہ انداز میں آتی ہے تو غالبؔ پر سوار ہو جاتی ہے۔ اور ان کے گھوڑے کو سچ مچ گھوڑا بنا لیتی ہے۔ وہ لاکھ ہنہنائے، لاکھ دو لتیاں جھاڑے، لاکھ اگلی ٹانگوں پر کھڑا ہو، حقیقت چابک دست شہسوار کی طرح اس کی پیٹھ پر سوار ہو جاتی ہے اور ایڑیں مار مار کر اور راتوں میں مسل مسل کر چیں بلوا دیتی ہے۔ غالبؔ کی انا منشور بناتی ہے۔ ’’حاصل نہ کیجیے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو۔ ‘‘ حقیقت کان پکڑ لیتی ہے اور کہتی ہے، ’’مارا زمانے اسد اللہ خاں تمھیں۔ ‘‘ غالبؔ کی انا کہتی ہے، اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو۔ حقیقت گدی پکڑ کر اگلواتی ہے۔

’’غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں ‘‘

غالبؔ یہ اعترافات خود نہیں کرتا، غالبؔ کا فن کار کرتا ہے، فن کار ہمیشہ غیر انا کا آلۂ کار ہوتا ہے، وہ تو حقیقت کا اسٹینو ٹائپسٹ ہے۔ غالبؔ لاکھ انانیت بگھارے، حقیقت اور انا کے تصادم میں انا کی کیفیت کو لاکھ چھپانا چاہے۔ فن کار، غیر انا جو کچھ ڈکٹیٹ کراتی ہے، لکھتا جاتا ہے۔ حقیقت جو کچھ بتاتی رہتی ہے، سب کی رپورٹیں دیتا رہتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ غالبؔ غیر انا کے سامنے حقیقت کے سامنے کیسے چیں بول گیا ہے۔

میں نے میرزا یگانہ کے بارے میں لکھتا تھا کہ وہ غالبؔ سے اپنی مخالفانہ کی جو وجہ چاہے، بتائیں مگر اصل وجہ یہ ہے کہ وہ اردو شاعری کے واحد غالبی ہیں۔ لاگ ڈانٹ کی وجہ یہ ہے کہ انھیں خود اپنے اندر غالبؔ نظر آتا ہے جو ان کا راستہ روکے ہوئے ہے۔ دونوں انا کے پتلے ہیں۔ ہم دونوں میں یہ مطالعہ کرتے ہیں کہ معاشرے میں، دوسرے انسانوں کے درمیان، حقیقت سے مقابلے میں انا پر کیا گزری۔ جہاں تک انانیت کے مظاہرہ کا تعلق ہے، یگانہؔ، غالبؔ کے دوش بدوش چلتے رہتے ہیں بلکہ عملی زندگی میں غالب سے بھی آگے قدم مارتے ہیں مگر ان کا فن کار غالبؔ سے چھوٹا ہے۔ جب انا شکست کھاتی ہے تو غالبؔ کا فن کار سچ بول دیتا ہے۔ یگانہؔ کا فن کار چھپا جاتا ہے۔ اس لیے یگانہؔ غالبؔ کے برابر نہیں پہنچ سکے گو عملی زندگی کے تیور کچھ اور بتاتے تھے۔

غالبؔ انا کی تعمیر میں بھی یگانہ سے آگے جاتا ہے اور شکست میں بھی یگانہؔ کہتے ہیں کہ برا ہو پائے سرکش کا کہ تھک جانا نہیں آتا۔ مگر وہ تھک جاتے ہیں، غالبؔ کہتا ہے :

ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور

اور بڑھتا جاتا ہے۔ اصل میں فن کار غالبؔ کی راہ میں سب سے بڑا سنگِ گراں خود غالبؔ تھا۔ غالبؔ کی انا تھی۔ یہ بڑا پتھر ہٹا تو فن کار غالبؔ کو دنیا کچھ اور نظر آنے لگی۔ ابتدائی منزل پر غالبؔ کو حقیقت نظر نہیں آئی۔ صرف حقیقت کی صورت نظر آئی۔ مگر اس صورت کا جلوہ ہی ایسا مدہوش کن تھا کہ غالبؔ چیخ اُٹھا:

گر بہ معنی نہ رسی جلوۂ صورت چہ کم است

اُردو میں اس بات کو یوں کہا ہے :

نہیں گر سرو برگ ادراک معنی

تماشائے نیرنگِ صورت سلامت

فن کار غالبؔ انا کی قید سے آزاد ہوا تو سہی مگر ابتدا میں گرفتاری کے خوگر پاؤں چلنے میں لڑکھڑاتے رہے۔ جیسے اچانک کوئی تیز روشنی میں آ جائے، اس کی آنکھیں چندھیائی سی رہیں۔ حقیقت کا منظر صاف نظر نہیں آتا۔ ایک شعر دیکھیے :

لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی

چمن زنگار ہے آئینۂ بادِ بہاری کا

حقیقت اس کے اُلٹ ہے۔ کثافت لطافت کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی، نہ کہ لطافت۔ لیونارڈو ڈا ونچی نے بھی ایک ایسے ہی خیال کا اظہار کیا ہے۔ اُس نے کہا سچ جھوٹ کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جھوٹ سچ کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ جھوٹ کو قائم ہونے کے لیے سچ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ سچ سے مشابہت پیدا کرنی پڑتی ہے۔ تھوڑا سا سچ بھی شامل کرنا پڑتا ہے، مگر ونچیؔ اُلٹا دیکھتا ہے۔ در اصل پوری روحِ جدے دیت اُلٹا دیکھنے کا نام ہے۔ غالبؔ بھی اس روح کا مظہر ہے، وہ یہ نہیں سمجھتا کہ کثافت تو در اصل لطافت کا جسم ظہور ہے۔ خود لطافت نے اپنے اظہار کے لیے یہ روپ اختیار کیا ہے۔ ایسا نہیں کہ کثافت کچھ اور ہے اور طافت کو سہارا دیے ہوئے ہے۔ مگر یہ تعین غالبؔ کے ذہن میں موجود ہے، وہ اس تعین سے اوپر نہیں اُٹھ سکتا۔ اس کی نظر کثافت میں اُلجھی ہوئی تھی۔ وہاں سے آگے بڑھتی ہے تو لطافت کو بھی کثافت میں اسیر دیکھتی ہے۔ غالبؔ کی نظر ایسی نہ ہوتی تو وہ دونوں تعینات کا پردہ چاک کر دیتی اور دیکھتی کہ حقیقتِ واحد ہی ہے کہ دونوں تعینات میں جلوہ گر ہے، اس الٹا دیکھنے کی وجہ بہت نازک ہے، شاید بیان نہیں کر سکوں گا، کوشش کرتا ہوں۔ کائنات ایک الٹا درخت ہے، اس کی جڑیں اوپر ہیں اور شاخیں نیچے۔ یہ اس کی اصل حالت ہے۔ مگر ہماری آنکھوں کو اس کی جڑیں نیچے نظر آتی ہیں اور شاخیں اوپر۔ اس کو صحیح طور پر دیکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں اس کو الٹا دیکھیں۔ عسکری صاحب نے لکھا ہے کہ حقیقت کو دیکھنے کا صرف ایک طریقہ ہے۔ آدمی سر کے بل کھڑا ہو جائے۔ اس بظاہر چھوٹے سے فقرے کے پیچھے در اصل یہی بڑی حقیقت پوشیدہ ہے۔ دنیا کی ساری تہذیبیں کائنات کو اس طرح دیکھتی تھیں، کہتی تھیں کہ آسمان اصل ہے، آخرت اصل ہے، دوسری دنیا اصل ہے۔ افلاطون جب کہتا ہے کہ اعیان نا مشہود ہیں، دنیا تو ان کی نقل ہے تو وہ بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ روحِ جدے دیت کہتی ہے، یہ سب غلط نظریے ہیں۔ آسمان نہیں زمین اصل ہے۔ آخرت نہیں دنیا اصل ہے۔ دوسری دنیا نہیں یہی دنیا اصل ہے۔ اس کے بے شمار شاخسانے ہیں مگر بنیادی بات یہی ہے۔ روح جدے دیت دیکھنا بھول گئی ہے۔ اس لیے لیونارڈو ڈا ونچی کو جھوٹ اصلی نظر آتا ہے۔ غالبؔ کو کثافت، نطشے کو زمین، ڈاروِن کو جبلّت، فرائیڈ کو جنس۔ پہلے سماوی، علوی انسان اہم تھا، روحانی انسان اہم تھا، اب زمینی، سفلی انسان اہم ہے، جسمانی انسان اہم ہے بلکہ انسان ہی کیوں کہیے، انسان نہیں حیوان، خیر، یہ ایک لمبی بحث ہے۔ کسی اور جگہ تفصیل سے بات کریں گے۔ غالبؔ کی نظر چونکہ کثافت سے خود آلودہ ہے، اس لیے کثافت کو اصل دیکھ رہا ہے۔ مگر ساتھ ہی انا سے آزاد ہونے کا فیض بھی پہنچتا ہے اور تصوف کی روایت کا بھی اس لیے ’’جلوہ پیدا کر نہیں سکتی‘‘ کا ٹکڑا آ گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ لطافت ہی اصل ہے۔ مگر ظہور کے لیے اسے کثافت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ یہ پہلی نظر میں تھوڑی سی تصحیح ہو گئی ہے۔ نظر جوں جوں حقیقت آشنا ہوتی جاتی ہے۔ غالبؔ بہتر طور پر دیکھنے لگتا ہے۔

منہ نہ کھلنے پر وہ عالم ہے کہ دیکھا ہی نہیں

زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے رُخ پر کھلا

غالبؔ ابھی حقیقت کے جلوے تک نہیں پہنچا۔ صرف نقاب کو دیکھ رہا ہے۔ مگر نقاب کا بھی کیا عالم ہے کہ مسحور کیے دے رہی ہے۔ یہ انا سے آزادی کا انعام ہے۔ اردو شاعری میں غالبؔ اس سے آگے نہیں جاتا۔ مگر فارسی شاعری کے کچھ حصے اور خطوط دیکھیے تو آگے کی کئی منزلیں کھلتی ہیں۔ وہ میرے موضوع سے باہر ہیں۔ کیوں کہ میں اردو شاعری کی بات کر رہا ہوں، صرف اشارتاً اتنا کہہ دوں کہ غالبؔ نے جو یہ کہا ہے کہ ’’آئینہ زدودن و صورتِ معنی نمودن نیز کارِ نمایاں است۔ ‘‘ یہ در اصل غالبؔ کا خیال نہیں، ایک روایتی خیال ہے۔ غالبؔ نے روایت سے لیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دل کو آئینے کی طرح چمکاؤ۔ حقیقت خود اس میں منعکس ہو جائے گی، مگر دل اور ہے اور دماغ اور۔ ہم کہتے ہیں، دماغ عقل کا مرکز ہے۔ روایتی تہذیبیں کہتی ہیں کہ قلب عقل کا مرکز ہے۔ حدیثِ رسولﷺ ہے، العقل فی القلب۔ یونانی بھی یہی کہتے ہیں، قلب عقل کا مرکز ہے اور دماغ حیات کا۔ حقیقت پہلے حسیات اور دماغ پر وارد ہوتی ہے، یہ اس کا پہلا آئینہ ہے، اس میں حقیقت اُلٹی دکھائی دیتی ہے۔ حقیقت کا دوسرا آئینہ قلب ہے، قلب کا آئینہ دماغ کے آئینے کے مقابلے ہے۔ حقیقت کا پہلا عکس دماغ میں ہوتا ہے، پھر وہاں سے قلب میں منعکس ہوتا ہے۔ اب دماغ میں جو عکس الٹا پڑا تھا، وہ قلب میں پھر سیدھا ہو جاتا ہے۔ قلب میں جو عکس پڑتا ہے، وہی حقیقت کے مطابق ہوتا ہے۔ دماغ کا عکس اُلٹا ہے۔ جدے دیت چونکہ دماغ کی عقل کو اصل سمجھتی ہے، اس لیے اُلٹے عکس ہی کو حقیقت کے مطابق قرار دیتی ہے۔ بہرحال غالبؔ جس آئینے کو چمکانا چاہتا ہے، وہ قلب کا آئینہ ہے۔ اس آئینے میں حقیقت جھلک جائے گی۔ افسوس کہ غالبؔ کا یہ منشورِ شاعری و دیدہ وری اردو شاعری میں پورا نہ ہو سکا۔

 

 

 

 

 خندہ ہائے بے جا

 

 

انسان کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ ہنسنے والا جانور ہے۔ مولانا حالیؔ نے اپنے انسان ہونے کا ثبوت یہ کہہ کر دیا کہ غالبؔ حیوانِ ظریف تھا۔ اردو کے دوسرے نقاد بھی اس پر متفق ہیں کہ اردو کے دوسرے شعرا خواہ کسی اور معاملے میں غالبؔ کے برابر پہنچ جائیں مگر ایک بات میں اس کا کوئی ہم سر نہیں ہے۔ ..۔ ظرافت میں۔ میں خود بھی اس سے پہلے لکھ چکا ہوں کہ غالبؔ کی وٹ کسی اور اردو شاعر کو نہیں ملی۔ اب تک میں ہر معاملہ میں غالبؔ پر میرؔ کی برتری دکھاتا آیا ہوں، لیکن یہاں میرؔ بھی مار کھا جاتا ہے۔ غالبؔ سچ مچ اردو شاعری کا بے مثال ہنسنے والا ہے۔ اس اعتراف کے بعد ہم دیکھیں گے کہ غالبؔ کی ہنسی کس قسم کی ہے۔ اور اس کی شاعری میں کیا کام دے رہی ہے۔ لیکن اس سے پہلے آیئے اس سوال پر غور کر لیں کہ ہم ہنستے کیوں ہیں ؟

ہنسی جیسی عام بات کیا ہو گی۔ جو ہنسنے والے ہیں، ان کی تو بات ہی کیا ہے، لیکن جو ہنسنے کے خلاف ہیں، وہ بھی یہ کہہ کر ہنسنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہنسی مرضِ متعدی ہے۔ مگر ہنسی ہے کیا؟ دنیا کے ہر چھوٹے مسئلے کی طرح یہ مسئلہ بھی حل نہیں ہوا ہے۔ اہلِ یورپ کی عادت ہے کہ تعریفیں پیش کرنے کے بادشاہ ہیں۔ تعریف تجربے کی حد بندی ہے۔ اس لیے ساری تعریفیں ہمارے تجربے سے پیدا ہوتی ہیں۔ ان سب کی ظاہری شکلیں کچھ بھی ہوں اور ان کے درمیان کتنا ہی اختلاف کیوں نہ پایا جاتا ہو، مگر ان کے پیچھے ایک حقیقتِ واحدہ برسرِ عمل ہوتی ہے۔ مغربی انسان۔ اس کے علاوہ اہلِ یورپ میں ایک کمال یہ پایا جاتا ہے کہ وہ مغربی انسان میں جو بات دریافت کرتے ہیں، اُسے بنیاد بنا کر شواہد پر شواہد، دلائل پر دلائل پیش کرتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ ثابت کر دیتے ہیں یا کم از کم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ در اصل مغربی انسان ہی انسان ہے، گویا اہلِ مغرب کی ہر تحقیق کے پیچھے ایک بِن کہا دعویٰ یہ موجود ہوتا ہے کہ دنیا کا ہر انسان ہمیشہ سے ویسا ہی تھا جیسا مغربی انسان ہے۔ بس فرق صرف یہ ہے کہ مغربی انسان دنیا کے دوسرے انسانوں کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ اس تصور کا نام ظالموں نے ارتقا رکھا ہے۔ سب سے پہلے پا سکلؔ نے اس کا اظہار کیا۔ پھر ڈاروِن نے اسے حیاتیات پر اور مارکس نے معاشیات پر منطبق کر دیا۔ ڈاروِن کا ارتقائی حیوان اور مارکس کا معاشی حیوان در اصل مغرب کا انسان ہے جس کا دوسرے انسانوں سے اتنا تعلق ہے جتنا بندروں کا انسانوں سے۔ اس طرح اہلِ مغرب کی نفسیات، معاشیات، حیاتیات، عمرانیات اور انسانیات مغربی انسان کی تعمیم کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ بندروں کی صرف یہ قیاس آرائی ہے کہ انسان ہمارے ہی جیسے ہوتے ہوں گے۔

اب مجھے اس بات پر ہنسی آ رہی ہے کہ میں ہنسی کی بات کرنے بیٹھا اور اتنا سنجیدہ ہو گیا۔ آپ چاہیں تو اب بھی اس پر ہنس سکتے ہیں۔ مگر کیا اچھا ہو اگر اس ہنسی ہنسی میں ہم ہنسنے کے معنی بھی دریافت کر لیں۔ آپ مجھ پر ہنسیں گے تو کس بات پر؟ شاید اس بات پر کہ میں ہنسی کی بات میں سنجیدہ ہو گیا۔ یعنی میں نے ایک ایسا عمل کیا جو آپ کی توقع کے خلاف تھا۔ ایسٹ مین نے لکھا ہے کہ آپ ایک بچے کی طرف ہاتھ بڑھایئے جیسے اُسے کچھ دے رہے ہوں۔ اس کے بعد جیسے ہی وہ ہاتھ بڑھائے، ہاتھ کھینچ لیجیے۔ وہ بھونچکا ہو جائے گا۔ مگر اس عمل کو پھر دُہرایئے، وہ ہنسنے لگے گا۔ سرکس کے مسخرے اسی عمل کا مظاہرہ کر کے ہمیں ہنساتے ہیں۔ ایک پہلوان آ کر ایک بھاری وزن اٹھاتا ہے۔ لوگ طاقت کے اس مظاہرے سے محظوظ ہوتے ہیں۔ اب ایک مسخرہ آتا ہے اور پہلوان کے انداز میں وزن کے پاس آ جاتا ہے۔ اٹھانے کا ارادہ کرتا ہے اور دھم سے گر جاتا ہے۔ لوگ ہنستے ہنستے پاگل ہو جاتے ہیں۔ مگر شاید یہ مثال اور تعریف دونوں غلط ہیں۔ دونوں صورتوں میں ہم توقع کے خلاف عمل ہونے پر نہیں ہنس رہے ہیں بلکہ توقع کے مطابق ہونے پر۔ توقع کے خلاف ہونے پر ہنستا تو بچہ ہمارے پہلی بار ہاتھ کھینچنے پر ہنستا۔ مگر ہم نے دیکھا کہ وہ بھونچکا ہو کر رہ گیا ہے۔ اس طرح اگر ہمیں یہ معلوم نہیں ہو کہ دوسری بار وزن اُٹھانے والا مسخرہ ہے تو ہم اُس کے گرنے پر قطعی نہیں ہنسیں گے۔ اس سلسلے میں ایک اور مثال دی جاتی ہے۔ ایک سڑک پر پانی پڑا ہوتا ہے۔ ایک سائیکل والا گزرتا ہے اور پھسل کر اُلٹ جاتا ہے۔ ہم اس پر ہنستے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ گرنے کا عمل چونکہ خلافِ توقع تھا، اس لیے ہنسی آئی۔ یہ مثال بھی غلط ہے۔ سڑک پر پانی دیکھ کر ہمیں پہلے سے توقع تھی کہ کوئی گزرنے والا گرے گا۔ اگر یہ توقع نہ ہوتی تو ہم گرنے والے پر ہنسنے کی بجائے اس کی ہمدردی میں دوڑ پڑتے۔

ہنسی کی ایک دوسری تعریف یہ کی گئی ہے کہ ہنسی اس جذبۂ افتخار یا احساسِ برتری کا نام ہے جو دوسروں کی کم زوریوں یا اپنی گزشتہ خامیوں سے آگاہی کے باعث معرضِ وجود میں آتا ہے۔ یہ جناب ہابزؔ ہیں۔ اس کے ساتھ ہم ارسطو کی بات اور شامل کرتے ہیں۔ ارسطو کہتا ہے کہ ہنسی کسی ایسی کمی یا بدصورتی کو دیکھ کر پیدا ہوتی ہے جو درد انگیز نہ ہو۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں یہ مضمون لکھنے سے پہلے میں باہر سے گھر واپس آیا تھا۔ میری دونوں بچیاں خوشی سے پھول کی طرح کھلی ہوئی، میری طرف یہ کہتی ہوئی دوڑیں، ’’ابو آ گئے، ابو آ گئے۔ ‘‘ ان کے چہرے پر ہنسی نہیں تھی، چاندنی تھی۔ یہ ایسی ہنسی تھی جو روح سے پھوٹ رہی تھی۔ وہ اس ہنسی کی روشنی میں نہا رہی تھیں اور مجھے بھی نہلا رہی تھیں۔ میں نے ہنستے ہوئے دونوں کو گود میں اٹھا لیا اور کہا، ’’ہاں بیٹا ابو آ گئے، ‘‘ اور پورا گھر مسرت انگیز ہنسی سے منور ہو گیا۔ جناب ہابزؔ یا ارسطو بتائیں گے کہ اس ہنسی میں کس کا احساسِ برتری تھا جو کسی کم زوری یا خامی کی آگاہی سے پیدا ہوا۔ یا کون سی کمی یا بدصورتی تھی جو ہنسی کی محرک بنی۔ مگر ہابزؔ اور ارسطو کی یہ تعریف ایک مقام پر رُکتی نہیں، پھیلتی جاتی ہے۔ ماہرینِ علم الانسان نے جب ارسطو اور ہابزؔ یا ان کے بھائی بندوں کی رایوں کی روشنی میں تاریخِ انسانیت پر نظر ڈالی تو اس نتیجے پر پہنچے کہ قدیم آدمی نے سب سے پہلے دشمن پر اپنی فتح یابی کے بعد قہقہے لگائے۔ اور اس نتیجے سے یہ نتیجہ نکلا کہ ہنسی کی فطرت میں احساسِ برتری، جارحیت اور دل آزاری شامل ہے۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ انسان نے تہذیب کے دوران اس ہنسی کو بھی ایسے عناصر سے پاک کیا ہے اور دل آزادی کے بغیر ہنسنا سیکھا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسی ہنسی مغربی انسان کے سوا اور کون ہنس سکتا ہے کیوں کہ شجرِ ارتقا کی آخری شاخ یہی تو ہیں۔ ..۔ ہنسی کی اس تعریف کے خلاف میں ایک مثال اوپر پیش کر چکا ہوں۔ میری بچیوں میں کوئی احساسِ برتری یا میری کسی کمی کا احساس موجود نہیں تھا، مگر پھر بھی وہ ہنس رہی تھیں۔ حالانکہ یہ ننھی سی جانیں ابھی تہذیب سے بہرہ مند نہیں ہوئی ہیں، کیا قدیم انسان بھی کسی موقعے پر اس طرح نہیں ہنستا ہو گا؟ دوسری مثال بے تکلف دوستوں کی اس ہنسی کی ہے جب ان میں مساوی درجے کی نسبت قائم ہو اور ان میں سے کوئی احساسِ برتری یا کم تری میں مبتلا نہ ہو۔ اور سب دل کی خوشی سے ایک دوسرے کی باتوں پر ہنس رہے ہوں، کیسی اُجلی رات کی سی کیفیت ہوتی ہے، اس ہنسی میں، جس سے دوستی کا سرور دو گنا چوگنا ہو جاتا ہے۔ اور ایسے لمحات حاصلِ زندگی معلوم ہوتے ہیں۔ معاف کیجیے گا، میں شاید غیر علمی باتیں کر رہا ہوں۔ ارسطو، ہابزؔ اور ماہرِ علم الانسان کے مقابلے پر میری بچیوں اور دوستوں کی ہنسی کی طرف کون دیکھے گا۔ بہرحال مجھے کبھی علمی آدمی ہونے کا دعویٰ بھی نہیں رہا۔ اور ہو بھی تو کون مانے گا۔ اس لیے میں تو اپنی ہی مثالوں پر غور کر کے ہنسی کو سمجھنے سمجھانے کی کوشش کروں گا۔

ہمارے پچھلے سلسلۂ گفتگو میں یہ بات کئی بار دُہرائی جا چکی ہے کہ ہماری عام زندگی عمل کی زندگی ہے۔ عمل کی زندگی کے بنیادی محرکات دو ہیں :

۱۔ دوسروں سے اپنا بچاؤ کرنا اور

۲۔ دوسروں کو زیر کرنا

ہم اس زندگی میں یا تو دوسرے انسانوں، حیوانوں اور کائنات کی دوسری قوتوں سے اپنا دفاع کرتے رہتے ہیں یا انھیں اپنے قابو میں لانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ دفاع اور حملے کا یہ عمل اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنی انا کو بروئے کار نہ لائیں۔ انا خواہش سے ملتی ہے، خواہش ارادہ بناتی ہے، ارادہ عمل کی تخلیق کرتا ہے اور یوں عملی زندگی انا کی قوت سے برسرِ عمل رہتی ہے۔ یہ عمل اتنا شدید، اُلجھانے والا اور ہماری ساری صلاحیتوں کو جذب کر لینے والا ہوتا ہے کہ ہم انا کے ہاتھ میں ایک کٹھ پُتلی بن جاتے ہیں۔ اور ہمارے سارے اعمال انا کے غلام ہو جاتے ہیں۔ ہنسی بھی ہمارا ایک عمل ہے۔ جب یہ عمل انا کے ساتھ ہوتا ہے تو ہنسی سے بھی دو کام لیتے ہیں، دفاع یا حملہ۔ ہماری ہنسی یا تو ہماری انا کی قلعہ بندی ہوتی ہے یا گولہ باری۔ ہم ہنسی کے ذریعے یا تو دوسروں کے پھینکے ہوئے گولے سے بچتے ہیں یا دوسروں پر گولے پھینکتے ہیں۔ وہ ہنسی جس میں اپنی برتری یا دوسروں کی کم تری کا احساس ہوتا ہے جو دفاع کرتی ہے یا حملہ۔ جو تکلیف سے بچاتی ہے یا تکلیف پہنچاتی ہے۔ یہی انا کی قابو یافتہ ہنسی ہے۔ مگر کیا ہنسی اپنی فطرت میں یہی ہے۔ انسان کے ہر عمل کی طرح اس کی ہنسی بھی اپنی اصل میں ’’غیر انا‘‘ کی ملکیت تھی۔ اس کا منبع غیر انا کے اہتزاز میں تھا۔ (بیوی بچوں اور دوستوں کی مثال یاد کیجیے ) یہ اس وقت دفاع اور حملے دونوں کی میکانکیت میں مبتلا نہیں ہوئی تھی۔ اس میں نہ اپنی برتری کا احساس تھا، نہ دوسروں کی کم تری کا۔ یہ تو بس ایسی ہی ہنسی تھی جیسی پھولوں کی ہوتی ہے مگر غاصب انا نے انسان کے دوسرے اعمال کی طرح اس پر بھی قبضہ کر لیا۔ اور یہ یا تو فتح یابی کا قہقہہ بن گئی یا شکست کو گوارا کرنے کرنے کی کوشش۔ چنگیز اور ہلاکو کی ہنسی تو میں نے سنی نہیں مگر فلموں میں ایسے کرداروں کے قہقہے ضرور سنے ہیں۔ کیا یہ قہقہے فطری ہنسی ہوتے ہیں۔ در اصل ان میں جو چیز نہیں ہوتی، وہ ہنسی ہی ہوتی ہے۔ یہ ہنسی نہیں ہوتی۔ ہنسی کے ساتھ ایک بھیانک مذاق ہوتے ہیں۔ ارسطو اور ہابزؔ اگر اس کو ہنسی سمجھتے ہیں تو اس کا علام انھی کے معنوں میں ہنسی کے سوا اور کچھ نہیں۔

مگر سچی ہنسی کی ایک اور قسم بھی ہے۔ یہ ہنسی اس وقت آتی ہے جب غیر انا اسے انا کے خلاف استعمال کرتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا بچہ روٹھ گیا اور منہ پھلا کر بیٹھ گیا۔ چنانچہ ہم اس کی نقل کرتے ہیں۔ ہم اس کی طرح روٹھنے کا انداز بنا لیتے ہیں۔ اور اُسے منہ پھلا کر دیکھتے ہیں۔ وہ ہمیں یہ نقل کرتے دیکھ کر اور خفا ہو جاتا ہے اور چڑھ کر رونے لگتا ہے۔ ہمارا عمل انا سے بالکل خالی تھا۔ اس میں صرف خوش دلی تھی۔ ..۔ خوش دلی اور محبت۔ ہم نہ اس پر رعب جھاڑ رہے تھے، نہ اسے تکلیف پہچانا چاہ رہے تھے۔ نہ اس پر حملہ آور تھے۔ ہم تو صرف یہ دکھانا چاہتے تھے کہ بیٹا دیکھو مفت میں بگڑ کر تمھارا منہ ایسا ہو گیا ہے۔ مگر وہ ہمارے اس عمل پر رونے اس لیے لگا کہ اس کی مجروح انا اور تڑپ اٹھی، مگر بعض اوقات انا کے مارے ہوئے لوگوں کا علاج ایسی ہی ہنسی ہوتی ہے۔ جب ہم کسی ایسے افسر پر ہنستے ہیں جو بہت زیادہ ہٹلریت جھاڑ رہا ہو، جب کسی عالم پر ہنستے ہیں جو بہت زیادہ بقراطیت دکھا رہا ہو۔ جب کسی ایسے انسانیت دوست پر ہنستے ہوں جو بہت زیادہ نیک اور ہم درد بن رہا ہو تو ہماری ہنسی اس کی انا کے خلاف ہوتی ہے۔ ہماری ہنسی اس سے کہتی ہے کہ ’’کھال میں رہ، کھال میں۔ ‘‘ اب اگر اس میں غیر انا کا عمل جاری ہے اور وہ تمام و کمال ’’انا‘‘ کا بندۂ بے دم نہیں بن گیا ہے تو ہماری غیر انا کی آواز سنتا ہے۔ اس میں بھی ایک خوش دلی پیدا ہوتی ہے اور وہ بھی ہنسنے لگتا ہے۔ اس کا زخم بھی مندمل ہو جاتا ہے اور ہماری تکلیف جو ہمیں اس کے انا پرستانہ عمل سے ہوئی تھی، دور ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر اس کے وجود پر ’’انا‘‘ کا قبضہ مکمل ہے اور اس نے ’’غیر انا‘‘ کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑی تو وہ اور براہم ہو جاتا ہے اور لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے یا کینہ دل میں لے کر بیٹھ جاتا ہے۔ یہ ہنسی جو ہم انا کے خلاف استعمال کرتے ہیں، خواہ اپنی خواہ دوسروں کی۔ ہمارے ہاتھ میں مقدس ترین تلوار ہے۔ جب ہم اسے صحیح جگہ استعمال کرتے ہیں تو ہم۔ سچ مچ اپنی ہنسی کو بھی اپنے جہاد کا حصہ بنا دیتے ہیں لیکن جب غلط جگہ استعمال کرتے ہیں تو ویسی ظرافت وجود میں آتی ہے جیسی اردو کے صحافتی کالم نگاروں میں پائی جاتی ہے۔ی ہنسی بھی چونکہ حملہ اور دفاع کے لیے ہے، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس کا مقصد بھی دل آزاری ہے۔ اس کا مقصد دل آزاری نہیں، انا آزاری ہے۔ ہم اس ہنسی کے ذریعے انا کو اس لیے آزار پہنچاتے ہیں تاکہ دل انا سے آزاد ہو جائے اور حقیقی زندگی اور خوشی سے بہرہ یاب ہو۔ مگر اس ہنسی کی تاب لانا آسان نہیں۔ یہ ہماری انا پر اس طرح اثر کرتی ہے جیسے بجلی گری ہو۔ بڑے بڑے آمر اس بجلی کی چمک سے چندھیا جاتے ہیں، انا کے حمق میں زیادہ سے زیادہ مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وہ ہنسنے والوں تک کو قتل کرا دیتے ہیں۔ سنا ہے کہ اسٹالن نہ کبھی ہنستا تھا، نہ کسی کو ہنسنے دیتا تھا۔ ایسے آمر ہم نے بھی دیکھے ہیں، خدا ہمارے ساتھ ایسا مذاق کرتا ہے کہ دوسروں کو اگر اصل آمر دیتا ہے تو ہمارے لیے بھی ایک آدھ کاٹھ کا آامر بھیجتا رہتا ہے۔ ایوب خاں بھی کاٹھ کا آمر تھا، جسٹس کیانی مرحوم نے اس پر چند فقرے لگائے تو شکایت کی کہ تنقید کیجیے، میں برانا نہیں مانتا مگر سنجیدگی سے کیجیے۔ وہ تنقید کا برا کیوں نہیں مانتا تھا؟ کیوں کہ انا اس خیال سے بھی تسکین پاتی تھی کہ میں اتنا بڑا حکمراں ہو کر بھی دوسروں کی تنقید سنتا ہوں۔ اور لوگوں کو نکتہ چینی کی اجازت دیتا ہوں۔ جسٹس کیانی کی ہنسی یہ بتاتی تھی کہ وہ ایوب خاں کی اجازت سے نہیں، خود اپنی طاقت سے ظاہر ہو رہی ہے۔ اور اتنی معصوم ہے جیسے بچہ کسی ننگے کو دیکھ کر ہنس پڑے۔ اتنی معصوم اور اتنی ہی خوں ریز۔ ہنسی کی خوں ریزی کی تاب لانا آسان نہیں۔ انشاء اللہ خاں نے سعادت علی خاں پر ہنس کر دکھایا تھا۔ سعادت علی نے جو کیا، وہ معلوم ہے۔ چھوٹا حکمران اور چھوٹا آدمی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے پر اکبر اعظم تھا کہ بیربل کو اپنے ساتھ رکھتا تھا اور ایسا دوست سمجھتا تھا کہ ایک بار اس کے گھوڑے کی رکاب پکڑ کر چلا۔ بڑے حکمران ایسے ہوتے ہیں، انھیں معلوم ہوتا ہے کہ تخت نشین انا کے لیے ایک ہنسی کتنی بڑی اصلاح ہے۔ شاید اسی لیے پرانے درباروں میں اور لوگوں کی طرح ایک مسخرا بھی رکھا جاتا تھا۔

جب ہم ہنسی کو اصلاح کے لیے استعمال کریں تو ہمیں اس کا احساس ہونا چاہیے کہ ہم ہنسی سے یہ کام لے رہے ہیں۔ اس وقت ہنسی ہمارا جہاد بن جاتی ہے۔ مقدس اور با مقصد۔ اکبرؔ الٰہ آبادی ایسی ہی ہنسی ہنسنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ تو ہوئی غیرانا کی ہنسی کی مثالیں، لیکن انا کی ہنسی یقیناًایسی ہے جو ارسطو اور ہابزؔ کی تعریفوں میں پائی جاتی ہے، اس کی جارحیت، دل آزاری اور سخت دلی میں کلام نہیں۔ یہ واقعی دفاع اور حملے کی میکانکیت کا نتیجہ ہوتی ہے اور ہمیشہ حریف کو نیچا دکھانا اور خود کو اوپر رکھنا اس کا مقصد ہوتا ہے۔ یہ ہمیشہ احساسِ برتری سے پیدا ہوتی ہے اور ہمیشہ دوسروں کی کم تری اور برائی دیکھنے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ پتا چلا کہ یورپ نہ صرف انا پسند ہے بلکہ در اصل انا پرستی کے سوا اور کچھ دیکھ ہی نہیں سکتا، اس مضمون کے کچھ حصے میں، میں نے مغرب کی اسی انا پر ہنسنے کی کوشش کی ہے، کیوں کہ میری غیر انا کہتی ہے کہ یورپ کی تاریخ کا بہت کم حصہ اس انا پرستانہ کیفیت سے آزاد ہے تو پھراب کیا میں کہوں کہ یورپ کو اپنی ہنسی پر بہت ناز ہے مگر در اصل ہنسنا تو صرف مشرق کو آتا ہے جیسے شیخ سعدی کو۔

آیئے اب اس بحث کی روشنی میں غالبؔ کی ہنسی کو دیکھیں۔ ہم کہہ چکے ہیں کہ اردو شاعری غالبؔ کی وٹ کا جواب نہیں پیش کر سکتی۔ میرؔ بھی نہیں۔ میرؔ نے انا سے آزاد ہونے کے عمل کو رونا بنا لیا تھا۔ میرؔ کا رونا مقدس ہے، غالبؔ کا ہنسنا۔ میرؔ آنسو بہا کر انا سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ غالبؔ گریہ کی ہوا باندھنے کے باوجود رو نہیں سکتا۔ وہ ہنس کر اس سے آزاد ہو جانے کی کوشش کرتا ہے، پتا چلا کہ رونا اور ہنسنا دونوں غیر انا کی ملکیت ہیں اور انا دونوں پر قبضہ کرنے کے بعد دونوں کے قابل نہیں رہتی۔ انا پرست انسان نہ ہنس سکتا ہے، نہ رو سکتا ہے۔ غالبؔ کو دیکھیے کتنا ہی بستیوں کو ویران کرنے کا دعویٰ کرے، در اصل گریہ سے خالی ہے۔ البتہ خدا جانے کس طرح اس نے ہنسنا سیکھ لیا ہے، وہ جب اپنی ہنسی کو غیرانا کے حوالے کر دیتا ہے تو وہ اس کی ذات کے لیے شفا بن جاتی ہے۔ وہ اپنے آپ پر ایسے ہنستا ہے جیسے حضرت موسیٰ فرعون کی ڈاڑھی سے کھیلتے تھے، اس کی انا کی فرعونیت اس ہنسی سے دور ہو جاتی ہے۔ اور ایک بے مثال اہتزاز پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً:

چاہتے ہیں خوبرویوں کو اسدؔ

آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے

۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..

میں نے کہا کہ بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی

سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں

۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..

رات کے وقت مے پئے ساتھ رقیب کو لیے

آئے وہ یاں خدا کرے پر نہ خدا کرے کہ یوں

۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..

گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئے

اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے

ایسے اشعار جہاں کہیں بھی ہیں اور جتنے بھی ہیں، غیر انا کی ہنسی کی مثالیں ہیں، اردو شاعری میں ایسی ہنسی نایاب ہے۔ غالبؔ اس کی مدد سے خوب بھی انا پرستی سے شفا یاب ہو جاتا ہے اور ہمیں بھی تندرست کر دیتا ہے۔ مگر غالبؔ کی ہنسی صرف ایسی ہنسی نہیں ہے۔ اس کے بیشتر اشعار میں اس کی ہنسی بھی انا زدگی کا شہکار ہے۔ وہ دفاعی بھی ہے اور جارحانہ بھی۔ غالبؔ کی یہ ہنسی بعض لوگوں کو بہت اچھی لگتی ہے۔ کیوں کہ ان کی انا کو بھی تسکین دیتی ہے، وہ بھی جب دیکھتے ہیں کہ غالبؔ اپنے حریف پر حملہ کر رہا ہے، چوٹ لگا رہا ہے۔ یا فتح کر رہا ہے تو ہنسنے لگتے ہیں۔ مگر یہ ہنسی ہنسنے کی نہیں رونے کی بات ہے۔ رونے کی بات یوں ہے کہ اس سے پتا چلتا ہے کہ غالبؔ ہنسی جیسے مقدس ہتھیار کو بھی غیرانا کے جہاد کی بجائے انا کے فساد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ایسے اشعار میں غالبؔ کی ہنسی میں احساس برتری، دل آزاری، تشدد اور وہ سب کچھ ملتا ہے، جو انا کی پہچان ہے۔ غالبؔ اس ہنسی کے ذریعے شفا یاب نہیں کرتا، قتلِ عام کرتا ہے۔

تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو

مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو

کس آسانی سے محبوب کو بے عصمت، ہرجائی، ٹخیائی کہا ہے، لوگ اس پر ہنستے ہیں۔ رشید احمد صدیقی بھی ہنسے ہیں۔ یہ رونے کا مقام ہے اور اس قبیل کے سارے اشعار بری ہنسی کی بہترین مثالیں ہیں۔ ہم چونکہ احساسِ کم تری میں مبتلا ہیں اور احساسِ برتری کا مغالطہ پیدا کرنا چاہتے ہیں، اس لیے غالبؔ کے ساتھ ہنسنے میں شریک ہو جاتے ہیں۔ گویا ہماری انا کی لڑائی جو شاید ہم ہار جاتے۔ غالبؔ کی مدد سے ہم اسے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم انا کے سپاہی ہیں اور غالبؔ ہمارا کمانڈر انچیف ہے، وہ دشمن کو ذلیل کرنے، زیر کرنے اور زخمی کرنے کے کیسے کیسے گُر جانتا ہے، کیسے کیسے ہتھیار نکالتا ہے، کبھی گیس چھوڑتا ہے، کبھی تھری ناٹ تھری چلاتا ہے اور کبھی ایٹم بم مار دیتا ہے۔ عسکری صاحب نے چھوٹی بحر پر اپنے ایک مضمون میں غالبؔ کی ذہنیت پر کچھ لکھا ہے، اسے اس تحریر کے ساتھ ملا کر دیکھنا چاہیے۔ چھوٹی بحر غالبؔ کو چوٹ کرنے، پھبتی اُڑانے اور منہ سکوڑ کر ہنسنے میں مدد دیتی ہے۔ میں تو غالبؔ کو جب اس طرح ہنستے دیکھتا ہوں تو غالبؔ کی ہنسی پر ہنسنے کو جی چاہنے لگتا ہے۔

 

 

 

 

 

اندازِ بیاں اور

 

 

ہم کہہ چکے ہیں، اسلوب شخصیت کا عطر ہے، جوہر ہے، یہ بجلی کی وہ روہے جو شخصیت سے پھوٹ رہی ہے۔ اپنے اسلوب میں ہم پورے کے پورے موجود ہوتی ہیں۔ یہ ہماری پوری سوانح عمری ہوتا ہے، اسلوب کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے کتنی زندگی بسر کی ہے اور کیسی۔ ہم خود کو کتنا ہی چھپائیں مگر ہمارا اسلوب ہمیں ظاہر کر دیتا ہے، یہ ہمارا ایسا پردہ در ہے کہ در انداز دشمن اور راز دار دوست بھی نہ ہو گا، اسلوب بتاتا ہے کہ ہم کیا ہیں، خود کو کیا سمجھتے ہیں، دوسروں کی طرف ہمارا رویہ کیا ہے، ہم دنیا سے کیسا تعلق رکھتے ہیں۔ در اصل اسلوب ہی ہماری شخصیت ہے۔

غالبؔ کی شاعری میں کئی اسلوب ملتے ہیں۔ مشکل ترین اسلوب، نیم مشکل اسلوب، سہل اسلوب اور سہل ممتنع۔ یہ غالبؔ کی شاعری کے ارتقا کو ظاہر کرتے ہیں۔ صرف شاعری ہی کے ارتقا کو نہیں۔ شخصیت کے ارتقا کو بھی۔ یہ ہمیں دکھاتے ہیں کہ خود آگاہی اور جہاں آگاہی کے راستے پر غالبؔ کس طرح بڑھا ہے۔ مشکل اسلوب معنوی اعتبار سے سہل تر اسلوب ہے، سہل ترین اسلوب معنوی اعتبار سے مشکل تر۔ غالبؔ کے مقلد نہیں پیدا ہوئے یا کم پیدا ہوئے، جو پیدا ہوئے وہ مضحکہ خیز بن کر رہ گئے۔ بقول فراقؔ، غالبؔ بڑا پاجی شاعر ہے جس پر اس کے اسلوب کی چھوٹ پڑ جائے، اسے خراب کر دیتا ہے۔ مگر غالبؔ کے یہ نام نہاد مقلد بھی اس کے مشکل اسلوب کی طرف دوڑتے ہیں کیوں کہ آسان ہے، آسان اسلوب کی پیروی کی ہمت کس کو نہیں ہوتی، کیوں کہ مشکل ترین ہے۔ بھاری پتھر کو سب چوم کر چھوڑ دیتے ہیں۔ غالبؔ جہاں سہل ہے، ایسا مشکل ہے کہ اردو کا کوئی شاعر اس تک نہیں پہنچتا، سوائے میرؔ کے۔ مفتی آزردہؔ نے میرؔ کے ایک شعر پر شعر کہتے وقت کہا تھا کہ قل ہو اللہ کا جواب لکھ رہا ہوں۔ میرؔ کا پورا اسلوب ہی قل ہو اللہ ہے۔ غالبؔ یہاں تک نہیں پہنچتا۔ وہ میرؔ کے مضامین سے مضامین اخذ کرتا ہے، ان کے برابر کا شعر کہنا چاہتا ہے مگر کمی رہ جاتی ہے۔ میرؔ کی پُر عظمت سادگی نصیب نہیں ہوتی۔ سادگی، دردمندی اور ایک ایسی گمبھیر فضا جو آفاق پر محیط ہے، غالبؔ اپنی مجبوری جانت ہے، وہ شعر کو میرؔ کی روح نہیں دے سکتا۔ اس لیے شعر میں طراری پیدا کرتا ہے۔ طراری، شوخی ایک ٹکراؤ کی سی کیفیت اور کبھی کبھی ایک شوخ فقرے یا پھبتی کا سا انداز خواہ دوسروں پر، خواہ خود اپنے پر۔

چاہتے ہیں خوبرویوں کو اسدؔ

آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے

یہ غالبؔ کی وٹ ہے اور اس کے مزے کا کیا کہنا۔ غالبؔ اس کا بادشاہ ہے، کسی اور کو یہ چیز نصیب نہیں ہوئی۔ مگر غالبؔ اور میرؔ کے دو اشعار پیش کرتا ہوں۔ ان سے میرؔ اور غالبؔ کے اسلوب کا فرق ظاہر ہو جائے گا۔ میرؔ کہتے ہیں :

بے خودی لے گئی کہاں ہم کو

دیر سے انتظار ہے اپنا

دیکھیے کیا سوچتا ہوا، گمبھیر، گہری آواز والا لہجہ ہے۔ بے خودی لے گئی۔ شعر کا آغاز ہی قیامت ہے، بے خودی لے گئی کہاں ہم کو۔ کہاں میں کتنی وسعت چھپی ہوئی ہے۔ یہ کہاں پورے آفاق پر حاوی ہے، شاید ماورا آفاق پر بھی۔ اس کے بعد ’’ہم کو‘‘، ’’کہاں ‘‘ سے نول کی کیفیت ظاہر کر رہا ہے۔ ’’ہم کو‘‘ ایسا ہے جیسے کہاں کی وسعت ایک دم سمٹ گئی ہے لیکن نزول مکمل نہیں ہوتا۔ میرؔ کی بے خودی ختم نہیں ہوتی۔ میرؔ کا انتظار، انتظار ہی رہتا ہے۔ وہ کہاں کی وسعت سے واپس نہیں آتا، اس انتظار ہے اپنا۔ اپنا کے لفظ میں خاتمے کے الف کی آواز دیکھیے کتنی پھیلی ہوئی ہے، اب پورا شعر دیکھیے الفاظ سادہ ہیں، ایک لفظ بھی مشکل نہیں۔ بول چال کا انداز ہے جیسے کوئی دھیمے دھیمے باتیں کر رہا ہو۔ باتوں میں خود نمائی نہیں، کسی بھی چیز کا مظاہرہ نہیں۔ بولنے والا خود سے بول رہا ہے۔ دوسرے بھی سن رہے ہیں، یہ دوسری بات ہے۔ بلکہ شاید دوسروں میں اور اس میں کوئی فرق نہیں رہا، دوسرے اور میرؔ ایک ہو گئے ہیں اور مکالمہ خود کلامی ہو گیا ہے۔ اب اس کے مقابلے پر غالبؔ کو دیکھیے :

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

کچھ ہماری خبر نہیں آتی

شعر کا آغاز ہی ہم سے ہوا ہے۔ غالبؔ اس ہم کو کبھی نہیں بھولتا۔ وہ محبوب کو دیکھتا بھی ہے تو یہ جتائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ:

تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں

اس ہم کے پیچھے ’’میں ‘‘ چھپا ہوا ہے۔ بہت بڑا میں غالبؔ کبھی ’’میں ‘‘ اور ’’ہم‘‘ سے نہیں نکل سکتا، اس شعر میں صرف ایک مصرعے میں ’’ہم‘‘ دوبارہ استعمال ہوا ہے۔ میرؔ نے ’’ہم‘‘ لکھا ہے۔ مگر مصرعے کے آخر میں ڈالا ہے، ’’اپنا‘‘ بھی آخر میں آیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بے خودی میں یہ دونوں غائب تھے۔ نزول کی کیفیت شروع ہونے پر موجود ہو گئے ہیں مگر اہمیت اختیار نہیں کرنے پائے۔ غالبؔ کے یہاں اصل اہمیت انھی کی ہے، ہم اور ہماری۔ میں اپنے دوست ہمایوں مرزا کو ’’ہم ہم مرزا‘‘ کہتا ہوں مگر اصل ’’ہم ہم مرزا‘‘ غالبؔ ہی ہے۔ اب پورے شعر کا لہجہ دیکھیے۔ شعر میں میرؔ جیسی گمبھیرتا سوچ اور دردمندی نہیں۔ پھڑکتا ہوا طرار لہجہ البتہ ہے۔ شعر اس سے زیادہ شوخ اور رنگیں ہو گیا ہے۔ مگر میرؔ جیسی معصومیت اور سچائی غالب ہو گئی۔ اب یہ میرؔ جیسی خود کلامی نہیں۔ دو ایسے آدمیوں کے درمیان مکالمہ ہے جس میں بولنے والا سننے والے پر اثرانداز ہونا چاہتا ہے۔ شاید اسے کچھ مرعوب بھی کرنا چاہتا ہے۔ لہجے میں ایک نمائش اور اکڑ سی موجود ہے جو میرؔ کے یہاں بالکل ناپید ہے۔ غالبؔ اور میرؔ کے بہترین اشعار میں یہی فرق پایا جاتا ہے۔ اب دونوں کا ایک ایک شعر اور دیکھیے۔ میر کہتے ہیں :

وجہِ بیگانگی نہیں معلوم

تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں

اس شعر میں بحیثیتِ مجموعی وہ ساری خوبیاں موجود ہیں جو مذکورہ بالا شعر میں تھیں۔ یعنی سادگی، دردمندی، سوچتا ہوا انداز، معصومیت، سچائی اور ایک پُر عظمت گمبھیرتا۔ پہلا مصرع دیکھیے، وجہِ بیگانگی نہیں معلوم۔ مصرعے کا مخاطب کوئی نہیں ہے۔ یہ بیگانگی محبوب کی بھی ہے، دوستوں کی بھی اور عام آدمیوں کی بھی۔ شاید پوری دنیا یا کائنات کی میرؔ کو اس بیگانگی پر اچنبھا ہے، ایک معصوم سا استعجاب ہے۔ شاید اس پر درد بھی ہے۔ درد تو ہے مگر احتجاج نہیں۔ کچھ صبر و رضا کی سی کیفیت ہے، وجہِ بیگانگی نہیں معلوم۔ میرا اس بیگانگی کو یگانگت بنانا چاہتے ہیں۔ مگر یگانگت کس بنا پر پیدا ہو۔ میرؔ یگانگت کے طالب اس لیے نہیں ہیں کہ وہ میرؔ ہیں۔ یعنی ان میں کوئی ذاتی خوبی ہے۔ ذاتی خوبی کی بنا پر یگانگت، محبت یا تعلق میرؔ کا مسئلہ نہیں ہے، میرؔ کا مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ یگانگت پیدا ہو جو ذاتی خوبی کے بغیر انسان اور انسان کے درمیان ہونی چاہیے۔ کیوں ہونی چاہیے، اس لیے کہ دونوں کی اصل ایک ہے، دونوں آدمی ہیں اور ایک ہی دنیا یا کائنات کے باشندے ہیں یا دونوں عالم ارواح سے آئے ہیں یا دونوں خلوقی راز نہاں ہیں۔ میرؔ کا کہنا ہے کہ دونوں کی اصل ایک ہے تو پھر بیگانگی کیوں ہے۔ بس میرؔ کا استفسار صرف اتنا ہے، استفسار تو ہے، مگر شاید جواب کے لیے نہیں۔ بس سوال ہی سب کچھ ہے، بحث مباحثہ، مناظرہ، قائل معقول کرنے کی خواہش کچھ نہیں پائی جاتی۔ بس مطلق استفسار ہے اور یہ استفسار بھی مکالمے سے خود کلامی بن گیا ہے۔ اب اس کے مقابلے پر غالب کا شعر دیکھیے :

ہم ہیں مشتاق اور وہ بے زار

یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے

دیکھیے آغازِ شعر پھر ’’ہم‘‘ سے ہے، ’’ہم‘‘ تو غالبؔ کی بسم اللہ ہے۔ شعر کا لہجہ حسبِ سابق طرار اور شوخ ہے، انداز مکالمے کا ہے اور مکالمہ بھی گٹھائی کے لیے۔ غالبؔ اپنی گٹھائی کرنا خوب جانتا ہے۔ وہ تو ایک بات میں یہ جتا دیتا ہے کہ دیکھنا، غالبؔ بات کر رہا ہے اور غالبؔ کا اندازِ بیاں کچھ اور ہے اور غالبؔ غزل سرا نہ ہوا تو بڑی محرومی ہے۔ غالبؔ کے شعر میں بیگانگی پر استعجاب ہے۔ مگر میرؔ کے مقابلہ پر کچھ نمائشی سا۔ دیسی نمائش جو دو غیرمساوی آدمیوں کے درمیان مکالمے سے بہتر آدمی میں پیدا ہو جاتی ہے اور غالبؔ، میرؔ کی طرح بیگانگی پر صبر نہیں کرتا۔ احتجاج بھی ہے نمایاں ہے۔ احتجاج بھی ہے اور ہلکا سا تمسخر کا انداز بھی۔ اس کے علاوہ غالبؔ یہ نہیں کہتا کہ بیگانگی کی بجائے یگانگت اس لیے پیدا ہونی چاہیے کہ دونوں کی اصل ایک ہے یا دونوں کا وطن ایک ہے۔ یا دونوں کی بنیادی انسانیت ایک ہے۔ وہ تو اپنی مشتاقی کا دعویٰ رکھتا ہے۔ یہ کہتا ہے کہ میں مشتاق ہوں اور وہ بے زار ہیں۔ گویا غالبؔ جیسے آدمی کی مشتاقی تو بہت بڑی چیز ہے اور محبوب یا دوسرے انسان ایسے ویسے ہی ہیں۔ غالبؔ تو مشتاقی کا آسان دھر رہا ہے اور احسان فراموشی پر حیران ہے۔ اس کا خیال ہے کہ غالبؔ جیسے عظیم آدمی کی مشتاقی کے بعد تو محبوب کو قدموں پر جھک جانا چاہیے۔ یہ کیا تماشا ہے کہ محبوب کو الٹی بے زاری ہے۔ محبوب کو یا عام انسانوں کو یا پوری دنیا کو میرؔ کے استفسار و استعجاب اور غالبؔ کے استفسار و استعجاب میں یہ بنیادی فرق ہے۔ غالبؔ اور میرؔ کے بہترین اشعار میں یہ فرق ہر جگہ موجود رہتا ہے۔

میرؔ کے بارے میں استاد یگانہؔ کا کہنا ہے کہ میرؔ کے آگے زور چل نہ سکا۔ تھے بڑے مرزا یگاینہ دبنگ لیکن غالبؔ کے بارے میں ان کا انداز مختلف ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ غالبؔ کو بھی چچا بنا کر چھوڑا۔ جہاں صلح پر آمادہ ہوتے ہیں، وہاں بھی یہ انداز ہے :

صلح کر لو یگانہؔ غالبؔ سے

تم بھی استاد وہ بھی اک استاد

غالبؔ کی ’’اک استادی‘‘ میں کلام نہیں، غالبؔ بھی میرؔ کی برتری تسلیم کرتے ہیں تو اسی انداز میں۔

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا

’’کوئی‘‘ کو دیکھیے اور ’’تھا‘‘ کو دیکھیے۔ ’’تھا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کسی زمانے میں میرؔ تھا۔ اب میں ریختہ کا استاد ہوں اور ’’کوئی‘‘ میں ذرا ٹالنے کا سا انداز ہے۔ مگر یگانہؔ کہتے ہیں کہ غالبؔ پرلے درجے کا چور اور بے سُرا ہے۔ چوری کا جواب غالبؔ یہ کہہ کر دے چکے ہیں کہ چور غالبؔ نہیں، دوسرے ہیں جو اس کا مال اس سے پہلے نہاں خانۂ ازل سے لے اُڑے، بے سُرے پن کا جواب البتہ نہیں ملا ہے۔ غالبؔ کے اسلوب میں بے سُرے پن کی بے شمار مثالیں ہیں لیکن یہ بے سُرا پن اس کی شخصیت کا ہے۔ موسیقی کیا ہے، روح کی سپردگی ہے۔ موسیقار کا کمال یہ ہے کہ موسیقار خود غائب ہو جائے اور سرسوتی بولنے لگے۔ موسیقار کو سب سے پہلے اپنی انا کو بھینٹ چڑھانا پڑتا ہے۔ غالبؔ یہی نہیں کر سکتا، وہ دیوی کے ساتھ ساتھ خود بھی بولنے لگتا ہے۔ اس کے خود بولنے سے، انا کے بیچ میں گھس جانے سے موسیقی میں بد آہنگی اور بے سُرا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ غالبؔ ایک اس سے بھی بری حرکت کرتا ہے۔ باورچی جب کھانا پکاتا ہے تو سارے مصالحوں کو ایک جان کر دیتا ہے یہاں تک کہ وہ صرف ایک ’’ذائقہ‘‘ بن جاتے ہیں۔ برے باورچی کے کھانے میں ہلدی کی بو الگ آتی ہے، پیاز کی جھل الگ۔ تیج پات الگ دکھائی دیتا ہے اور دارچینی الگ۔ اس سے بدمزہ اور بد رنگ قورمہ پکتا ہے۔ بعض باورچی چالاک ہوتے ہیں، کھانے کی بد ذائقی چھپانے کے لیے نمک مرچ زیادہ جھونک دیتے ہیں۔ غالبؔ یہ سب کرتا ہے۔ میں ان سب کی مثالیں نہیں پیش کروں گا، لیکن میرؔ اور غالبؔ کے دو اشعار کا تقابل دیکھ لیجیے۔ میرؔ کہتے ہیں :

مرگِ مجنوں پہ عقل گم ہے میرؔ

کیا دوانے نے موت پائی ہے

پہلے مصرعے کا دوسرا ٹکڑا دیکھیے۔ عقل گم ہے میرؔ۔ بہت شدت سے کہا ہے۔ جذبہ صادق ہے۔ اس لیے لفظوں میں بھی سچائی کی روح بھری ہوئی ہے۔ اس سے زیادہ کہنا امکان میں نہیں۔ کہا جائے گا تو تصنع اور بناوٹ ہو جائے گا۔ بہت سے لوگ جذبے کے اظہار میں دور کی کوڑی لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے غالبؔ گریہ اور رشک کے مضامین باندھتا ہے، غالبؔ نے کہا ہے۔ ہم بھی اک اپنی ہوا باندھتے ہیں۔ ایسے اشعار میں جذبہ غائب ہو جاتا ہے۔ صرف ہوا بندی باقی رہ جاتی ہے۔ ایسے اشعار میں رشک ہے نہ گریہ۔ تجربے کا پتا نہیں، احساس مفقود ہے۔ صرف لفظ ہیں، وہ بھی نمائشی۔ مگر لوگوں میں سچی شاعری کا احساس اس طرح غائب ہو گیا ہے کہ رشید احمد صدیقی جیسے لوگ بھی انھیں سراہتے ہیں۔ عقل گم ہے میرؔ اس قسم کی ہوا بندی نہیں، عقل واقعی گم ہو گئی ہے اور اس کا گم ہونا شدت سے محسوس کیا گیا ہے۔ احساس کی کیمیا سے لفظ سونا بن گئے ہیں۔ کیا دوانے نے موت پائی ہے۔ کیا لفظ دیکھیے، کچھ کہے بغیر کتنا کچھ کہہ دیا ہے۔ اس ’’کیا‘‘ کی وسعت میں دنیا سمٹی ہوئی ہے۔ کیسی حیرت ہے، کیسی سچی تعریف ہے، عظمت کا کیسا زندہ احساس ہے۔ کیا دوانے نے موت پائی ہے۔ ’’پائی ہے ‘‘ کمال کا ٹکڑا ہے۔ ’’کیا دوانے کو موت آئی ہے ‘‘ کہتے تو بات نہ بن پاتی ’’پائی‘‘ میں کمال دکھا دیا۔ یہ پانا کیا ہے، گویا ساری زندگی اسی کے لیے کوشش کی تھی۔ اسی کی دعائیں مانگی تھیں۔ اسی کے لیے اپنا سب کچھ تباہ کیا تھا۔ اور اس کو وہ موت مل گئی۔ میرؔ کو اس موت پر حیرت بھی ہے اور رشک بھی۔ شاید یہ پہلو بھی نکلتا ہے کہ کاوش خود کو بھی ایسی موت ملتی۔ الفاظ ان سب خیالوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ مگر خود واضح طور پر کچھ نہیں کہتے۔ وہ تو صرف اشارے ہیں، اشاروں میں جتنے معنی چاہیے، بھر لیجیے، اب اس کے بعد غالبؔ کا شعر دیکھیے :

ہے ہر مکاں کو اپنے مکیں سے شرف اسدؔ

مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے

پہلے مصرعے میں کلیہ بنایا ہے، اس نے شعر کا ستیاناس مار دیا۔ یہ کلیہ کس چیز سے پیدا ہوتا ہے۔ احساس کچا رہ گیا ہے۔ اس لیے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے، دوسرا مصرع اچھا ہے۔ اداس کا لفظ سچا اور حساسیت سے بھرا ہوا ہے مگر مجنوں کے مرنے پر جنگل اداس ہے۔ شاید خود غالبؔ نہیں ہے، غالبؔ تو صرف جنگل کی اداسی کو دیکھ رہا ہے اور بیان کر رہا ہے۔ وہ متاثر ضرور ہے مگر جیسے ہم کسی غیر کیموت پر متاثر ہیں۔ میرؔ جس طرح متاثر ہوا، غالبؔ اس کے قریب نہیں پہنچتا۔ اس نے تو مجنوں کی موت دیکھی ہے۔ اور اس کی وجہ سے جنگل کی اداسی۔ اور اس مشاہدے سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ہر مکاں کا شرف اس کے مکیں سے ہوتا ہے۔ میرؔ کے لہجے میں مرگِ مجنوں پر جو رشک کا پہلو نکلتا تھا اورایسی موت کی تمنا سی محسوس ہوتی تھی، وہ باریک سر غالبؔ کے شعر میں نہیں آنے پائے۔ یہ مجنوں کی موت پر ایک حساس آدمی کا بیان ضرور ہے۔ مگر وہ آدمی مجنوں کی موت کو اپنے لیے نمونہ نہیں بنانا چاہتا، وہ نہ تو صرف امرِ واقعہ بیان کر رہا ہے اور اگر جنگل کی اداسی خود اس کی اداسی بھی ہے تو ایسی نہیں جیسی ’’عقل گم ہے میر‘‘ میں پائی جاتی ہے۔ میرؔ تجربے میں ڈوب گیا ہے۔ غالبؔ ذرا الگ تھلگ کھڑا ہے۔ دوسرے مصرعے سے پہلے مصرعے کی بے آہنگی ظاہر ہے دونوں مصرعوں میں دو الگ الگ سُر لگے ہیں۔ ان کے تال میل سے نغمہ نہیں بننے پایا۔ دو الگ الگ سُر البتہ سنائی دے رہے ہیں۔ میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ پورا اچھا شعر بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ کسی کو ایک مصرع ملتا ہے، کسی کو آدھا مصرع، کسی کو صرف ایک ترکیب، کسی کو صرف ایک لفظ۔ میرؔ کا پورا شعر اچھا ہے۔ غالبؔ کا صرف ایک لفظ ’’اداس‘‘ یا زیادہ سے زیادہ صرف دوسرا مصرع۔ یہ دونوں کی شخصیت اور شاعری دونوں کا فرق ہے۔

مذکورہ بالا شعر میں پہلے مصرعے کا آہنگ دوسرے مصرعے سے الگ ہے۔ دونوں مصرعوں میں دو الگ الگ سُر بول رہے ہیں، جو مل کر نغمہ بن جاتے ہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں ہیں۔ مثلاً:

نہ ہو بہ ہرزہ بیاباں، نور دو ہم وجود

ہنوز تیرے تصور میں ہے نشیب و فراز

شعر نسبتاً اچھا ہے۔ ورنہ برے اشعار میں تو ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ برے اشعار اس لیے پیش نہیں کرتا کہ لوگ کہیں گے کہ یہ نمائندہ اشعار نہیں ہیں۔ نمائندہ اشعار برے اشعار نہیں ہو سکتے اور مثال برائی کی پیش کرتی ہے۔ پھر کیا کروں۔ یہ شعر اچھا ہے مگر لہجے کی شتر گربگی موجود ہے۔ دوسرا مصرع صاف اور سادہ ہے۔ ہنوز تیرے تصور میں ہے۔ نشیب و فراز لہجہ ذرا اتنا ہوا ضرور ہے۔ مگر برا نہیں لگتا، ذرا پڑھے لکھوں کی سی زبان ہے جس میں تھوڑا سا تصنع موجود ہے۔ مگر پھر بھی غنیمت ہے۔ اس کے مقابلے پر پہلا مصرع دیکھیے :

نہ ہو بہ ہرزہ بیاں نور دو ہم وجود

یہ سُر ہی کوئی اور ہے۔ دونوں مصرعے معنوی اعتبار سے مربوط ہیں مگر لفظی طور پر دو لخت ہیں۔ ایک روڑا کہیں اور کا ہے، دوسرا کہیں اور کا۔ غالبؔ کے اشعار میں ایسے اَن مل، بے جوڑ کنبے بہت ملتے ہیں۔ اچھے اشعار میں گوارا ہو جاتے ہیں، برے اشعار میں ناقابلِ برداشت ہوتے ہیں۔ مثالیں خود تلاش کر لیجیے۔ بعض اشعار کے دو مصرعوں کا آہنگ ہی مختلف نہیں ہوتا۔ خود ایک مصرعے میں بھی آدھا مصرع ایک سُر میں ہوتا ہے، باقی آدھا دوسرے سُر میں۔ اس کی مثالیں اتنی کثرت سے ملتی ہیں کہ غالبؔ نہ ہوتا تو کوئی اس کے دیوان کو چھوتا بھی نہیں۔ پھر ایسا بھی ہے کہ پورا مصرع اچھا خاصا چلا جا رہا ہے، اسی میں ایک لفظ ایسا رکھا ہوا ہے کہ مزہ کرکرا ہو گیا ہے۔ یہ بے سُرا پن یا بد آہنگی شاعری کے ابتدائی دور میں بہت نمایاں تھی۔ آہستہ آہستہ کم ہوتی گئی مگر بعض اچھے اشعار میں بھی آخر تک باقی رہی۔ مثلاً ایک اچھا مصرع تھا۔ سو رہتا ہے بانداز چکیدن سر نگوں وہ بھی۔ یہ ’’چکیدن‘‘ خوب آیا ہے۔ غالبؔ ایسے چکیدن پتیدن دمیدن کا بادشاہ ہے۔ یہ الفاظ اشعار میں دوڑوں کی طرح محسوس ہوتے ہیں۔ یا ایسے چاولوں کی طرح جن میں دو تین کنیں رہ گئی ہیں۔ مگر برا باورچی چالاک اتنا ہے کہ اشعار میں فارسی کی خوش آہنگ ترکیبیں کثرت سے بھرتا چلا جاتا ہے۔ یہ ترکیبیں تیز مرچوں کی طرح کھانے کا پورا ذائقہ محسوس نہیں کرنے دیتیں۔ زبان اور دماغ دونوں ترکیبوں میں الجھ جاتے ہیں اور غالبؔ کھانے کی بد ذائقی چھپا جاتا ہے، فلم میں دیکھتا ہوں جو میوزک ڈائریکٹر سیدھا، پُر تاثیر نغمہ نہیں بنا سکتا۔ وہ آرکسٹرا کو پیچیدہ کر دیتا ہے۔ بعض اوقات بری آواز کو موسیقی کا شور چھپا لیتا ہے۔ بعض اوقات موسیقی کے شور کو بری آواز۔ غالبؔ اس چالاکی سے واقف ہے۔ اوّل تو سارے ترکیب پسند شعرا اس ترکیب سے کام لیتے ہیں کہ پورے تجربے کو محسوس کرنے کی بجائے ٹکڑوں میں سوچتے ہیں۔ پہلے سوچ کر ترکیب لکھ لی، پھر اسے شعر میں گانٹھ دیا۔ ذہن ترکیب کی داد فریاد میں رہ جاتا ہے اور وہ پورا شعر چلا دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ مگر غالبؔ کے یہاں یہ عم اس کی فطرتِ ثانیہ بن گیا ہے۔ ایک ایک شعر میں تین تین، چار چار ترکیبیں استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتا، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں زیادہ تر اچھی ترکیبیں ہوتی ہیں۔ ان میں معنویت بھی ہوتی ہے اور خوش آہنگی بھی۔ مگر وہ پورے شعر میں ایسی ہوتی ہے جیسے موسم کے چھتے میں شہد۔ شہد ترکیبوں میں ہوتا ہے۔ باقی الفاظ موم ہوتے ہیں۔ یہ ترکیبیں نکال لیجیے، صرف موم باقی رہ جائے گا۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ غالبؔ کی فارسی دانی اس کا کمال ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وبال ہے۔ یہ کمال یا وبال جو کچھ ہے، غالبؔ کی فارسی دانی کا نہیں۔ غالبؔ کی ذہنیت کا ہے۔ یہ ذہنیت احساسِ برتری کی ذہنیت ہے بلکہ احساسِ کم تری کی۔ غالبؔ اپنے زعم میں دوسروں سے الگ تھلگ رہنا چاہتا ہے مگر الگ تھلگ رہنا ایک دفاعی صورت بھی ہے، اس کا فارسی دانی سے کوئی تعلق نہیں۔ اردو شاعری کی روایت کو ٹھیٹ اردو بول چال کی روایت تھی۔ آپ کسی سے پوچھیے غالبؔ نے اس روایت کو کیوں توڑا۔ جواب ملے گا، اس کا مزاج فارسی میں رچا بسا ہوا تھا، لیکن اردو مکتوب نویسی کی روایت فارسی آمیز اردو کی روایت تھی۔ غالبؔ نے اسے کیوں توڑا۔ جہاں اردو کی ضرورت تھی وہاں فارسی لگائی، جہاں فارسی کا چرچا تھا، وہاں اردو داں ہو گئے۔ یہاں فارسی کا مزاج کہاں چلا جاتا ہے۔ یہ سب غالبؔ کے پھڈے ہیں۔ اردو کے نقاد بے چارے دھوکا کھاتے ہیں اور فارسی مفت بدنام ہوتی ہے۔ رشید احمد صدیقی کا بیان ہے کہ غالبؔ جب دہلی آیا تو اکبر آباد کا بانگڑو تھا، غالبؔ کو کیسی توہین محسوس ہوتی ہو گی۔ یہ لوگ کیسی سحل اردو بولتے تھے اور کیسے صاف سیدھے، مگر شستہ و شائستہ لب و لہجے میں بات کرتے تھے۔ غالبؔ یہ نہیں کر سکتا تھا۔ گاؤں سے شہر آئے ہوئے دیہاتی کی طرح اسے معلوم تھا کہ یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں اور جیسی آسانی سے کرتے ہیں، وہ اس کے بس کا روگ نہیں۔ کوئی اور ہوتا تو پچک جاتا اور اکبر آباد واپس چلا جاتا مگر غالبؔ، غالب تھا، وہ احساسِ کم تری میں مبتلا ہوا تو فارسی کی تلوار نکال لایا۔ اور الٹی سیدھی گھمانی شروع کر دی۔ دعویٰ یہ تھا کہ بیدلؔ کی تلوار ہے۔ کہاں بیدلؔ اور کہاں غالبؔ کی ابتدائی شاعری۔ غالبؔ کے پاس تلوار نہیں صرف نیام تھا۔ غالبؔ یہ خالی نیام باندھ کر شرفائے دہلی میں گھس آیا۔ اور بار بار نیام پر ہاتھ رکھتا ہے کہ نکالوں تلوار۔ دلّی کے لوگ کیا دھوکا کھاتے، مسکراتے تھے مگر غالبؔ بچہ تھا۔ چودہ چودہ برس کے بچوں کو دیکھتا ہوں کہ چار چار فارسی ترکیبوں کے اشعار سناتے ہیں اور ایسی قابلیت بگھارتے ہیں کہ لطف آ جاتا ہے۔ ایسے بچوں کو دیکھ کر غالبؔ کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ غالبؔ سیدھا سچا نہیں بول سکا تو جناتی زبان بولنے لگا بلکہ جنات بھی کا ہے کو بولتے ہوں گے۔ وہ احساسِ کم تری میں مبتلا تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔

مگر غالبؔ کا احساسِ کم تری بیشتر اظہارِ برتری کی شکل اختیار کرتا ہے، وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ وبائے عام میں مرنا بھی پسند نہیں کرتا مگر در اصل وہ آمیوں سے ڈرتا ہے، ایک سطح پر یہ دلّی کے عام لوگ ہیں، دوسری سطح پر شعرائے دلّی، تیسری سطح پر اہلِ قلعہ جو ذوقؔ کو مانتے ہیں اور چوتھی سطح پر کل نوعِ انسانی۔ غالبؔ کو شکایت ہے کہ آدمی انسان نہیں بنتا مگر در اصل وہ یہ کہتا ہے کہ لوگ غالبؔ جیسے نہیں بنتے۔ غالبؔ جیسا کون ہے ؟ استاد ذوقؔ سے ایک مرتبہ بادشاہ نے تاسف سے کہہ دیا کہ استاد جب ہم نہیں رہیں گے تو کیا تم دوسروں کے قصیدے بھی اسی طرح کہو گے۔ ذوقؔ جب مرنے لگے تو آب دیدہ ہو گئے اور خدا کا شکر ادا کیا کہ بادشاہ سے پہلے مر رہا ہوں اور زبان خدا نے کسی اور کی مدح سے آلودہ نہیں کی۔ ذوقؔ بے چارے کے پاس دھرا ہی کیا تھا ایک غیرت اور اخلاص ہی تو تھا۔ غالبؔ ایسے افراسیابی اور ترکمانی تھے کہ جو قصیدے بادشاہ کے لیے لکھے تھے، انھیں نام بدل بدل کر کمشنروں کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے۔ رام پور سے مفتی آزردہؔ کی بیوہ کو وظیفہ ملتا تھا، غالبؔ نے نواب کو خط لکھا کہ یہ میرا حق ہے، عارفؔ کو بیٹا بنایا تھا، انھوں نے دو بیٹے چھوڑے تھے۔ کچھ جائیداد وغیرہ کا معاملہ درپیش ہوا تو انجم الدولہ دبیر الملک صاف مکر گئے۔ یہ ہے وہ انسان جو دوسرے نہیں ہوتے اور غالبؔ ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ شاعر کی زندگی نہیں دیکھی جاتی، شاعری دیکھی جاتی ہے۔ کچھ لوگ زندگی میں بڑے اور شاعری میں چھوٹے ہوتے ہیں، جیسے حسرتؔ۔ کچھ لوگ شاعری میں بڑے اور زندگی میں چھوٹے ہوتے ہیں جیسے غالبؔ۔ یہ فقرہ اتنی بار سنا ہے کہ جی متلانے لگا ہے۔ اس کو لوگ کچھ جنتر منتر کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ویسے اس فقرے کے پیچھے جو حقیقت ہے مجھے اس سے ان کار نہیں۔ خود قرآنِ حکیم نے شاعروں پر الزام لگایا ہے یا تعریف بیان کی ہے کہ جو کچھ کہتے ہیں، وہ کرتے نہیں، یہ الزام یا تعریف جو کچھ بھی ہو، اسے غالبؔ کے معترضوں کا منہ کیلنے کے لیے استعمال کرنے بجائے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اصل میں شاعری دو چیزوں کی پیکار کا نام ہے، ذات اور شخصیت۔ ہم شاعری میں دو باتوں سے دوچار ہوتے ہیں :

۱۔ شاعر جو ہے۔

۲۔ اور شاعر جیساکہ وہ سمجھتا کہ وہ ہے۔

ہر آدمی میں یہ کش مکش ہوتی ہے۔ مگر بڑے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اس کش مکش کو شعلہ بنا دیتے ہیں۔ ان بڑوں میں سے جو لوگ اس کش مکش کو عمل میں ڈھالتے ہیں۔ وہ سیاست داں، حکمراں وغیرہ بنتے ہیں۔ جو اسے دوسرے ذرائع اظہار میں استعمال کرتے ہیں، وہ شاعر، موسیقار، مصور وغیرہ اس طرح ان کی کش مکش اظہار تو پاتی ہے مگر عمل کے بجائے فن میں۔ ان معنوں میں فن کار عام طور پر غیر عملی زندگی بسر کرتے ہیں اور اقبال کا یہ کہنا درست ہوتا ہے کہ خود قوال کو وجد نہیں آنا چاہیے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شاعر کے جوہرِ ذات اور شخصیت کا اس کی شاعری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تعلق نہ ہو تو شاعری پیدا نہیں ہو سکتی۔ اب در اصل ہمارا اعتراض غالبؔ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو جیسا سمجھتا ہے، حقیقت میں ویسا نہیں ہے، اس کی ذات کچھ اور ہے، شخصیت کچھ اور۔ اور وہ اپنی شاعری کے غالب حصے میں شخصیت سے ذات کی طرف بڑھنے یا شخصیت اور ذات کو ٹکرانے یا شخصیت کو ذات پر قربان کرنے یا شخصیت اور ذات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے بجائے شخصیت کا ڈھنڈورا پیٹنے میں لگا رہتا ہے۔ وہ صرف یہ دکھاتا ہے کہ وہ خود کو کیا سمجھتا ہے، وہ ہمیں یہ نہیں دیکھنے دیتا کہ وہ خود کیا ہے۔ ہمیں بھی نہیں دیکھنے دیتا اور خود بھی نہیں دیکھتا۔ یاد رہے کہ میں غالبؔ کے غالب رجحان کا ذکر کر رہا ہوں۔ غالبؔ کی شاعری میں دوسرے رجحانات بھی موجود ہیں جن کے بغیر وہ اتنا بڑا شاعر بن ہی نہیں سکتا تھا۔ لیکن ان کا ذکر بعد میں آئے گا، اب اس مسئلے کا اسلوب سے کیا تعلق ہے ؟ تعلق یہ ہے کہ غالبؔ جب اپنے بڑک پن کا اظہار کرتا ہے تو کچھ کھوکھلا سا لگنے لگتا ہے جیسے میرے آگے والی غزل میں ہے۔ جو اشعار یقیناً بہتر ہیں، ان میں یہ کھوکھلا پن تو نہیں، مگر ایک جھوٹی اکڑ، دکھاوا اور مصنوعی اندازِ گفتگو ضرور پایا جاتا ہے۔ مثلاً ایک مشہور شعر دیکھیے :

غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس

برق سے کرتے ہیں روشن شمع ماتم خانہ ہم

پورا شعر مصنوعی ہے۔ حساس پڑھنے والا جانتا ہے کہ یہ اکڑ دکھاوے کی ہے، اس میں مبالغے کی مقدار ضرورت سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ فارسیت زدگی اس دکھاوے میں مدد دے رہی ہے۔ یہی حال اس شعر کا ہے جس میں غالبؔ نے درِ کعبہ وا نہ ہونے پر اُلٹے پھر آنے کا دعویٰ کیا ہے۔ دونوں میں تصنع اور ساختہ بے ساختگی کی سی کیفیت ہے۔ غالبؔ اس کو اتنی بار دُہراتا ہے کہ ہم اس کی زبان سے ایسی باتیں سننے کے عادی ہو جاتے ہیں اور غور کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے مضامین کو جب ایک ایسا آدمی جس کی زندگی سچ مچ ایسی ہی ہو، ادا کرتا ہے تو اس کا انداز ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ جیسے میرؔ ذرا میرؔ کا انداز دیکھیے :

آگے کسو کے کیا کریں دست طمع دراز

وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے

۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..

نہ جانے کون ہوتے ہیں جنھیں ہے بندگی خواہش

ہمیں تو شرم دامن گیر ہوتی ہے خدا ہوتے

غالبؔ کے اسلوبی فارسیت کے بارے میں کہہ چکا ہوں کہ احساسِ کم تری کی پیداوار ہے۔ یہ احساسِ کم تری بیشتر احساسِ برتری کی صورت میں نمایاں ہوتا ہے۔ غالبؔ دکھانا چاہتا ہے کہ وہ دوسروں سے مختلف ہے۔ اسے اس اختلاف پر الجھن نہیں ہوتی۔ افسوس نہیں ہوتا بلکہ فخر۔ وہ اپنے اور دوسروں کے درمیان خلیج کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا چاہتا ہے۔ اس کے برعکس میرؔ لوگوں سے مختلف تھے اور عام لوگوں سے کٹ کر بالکل الگ ہو گئے تھے۔ مگر خلیج کو کم کرنا چاہتے تھے۔ عام لوگوں کی زندگیوں میں شریک ہونا چاہتے تھے، اس خواہش سے میرؔ کا اسلوب پیدا ہوا ہے۔ میرؔ کا اسلوب انھی لوگوں سے جوڑتا ہے، غالب کا اسلوب توڑتا ہے۔ میرؔ اپنے اسلوب کے ذریعے دوسروں کے قریب آ جاتا ہے، غالبؔ اپنے اسلوب کے ذریعے دوسروں کو پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ میرؔ کا اسلوب چمکار ہے، غالبؔ کا ڈانٹ پھٹکار ہے۔ میرؔ کا اسلوب بتاتا ہے کہ وہ ہمارے لیے دل کھولے بیٹھے ہیں۔ غالبؔ کا اسلوب تاتا تھا کہ غالبؔ کا یہ مدعا عنقا ہے۔ مختصر یہ کہ غالبؔ کا اسلوب وہ چابک ہے جو وہ نجم الدولہ دبیر الملک لوگوں کو دور رکھنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

لیکن ہم کہہ چکے ہیں کہ غالبؔ کا شاعر ہے۔ کیوں ؟ یوں کہ رفتہ رفتہ شخصیت اصولِ حقیقت سے زیادہ ہم آہنگی حاصل کرتی جاتی ہے۔ اصولِ حقیقت سے بھی اور ذات سے بھی۔ دونوں کے درمیان شخصیت کا قلعہ ہے۔ مگر اندر باہر سے ایسی گولہ باری ہوتی ہے کہ قلعہ مسمار ہو جاتا ہے۔ غالبؔ بہت چیختا چلاتا ہے مگر فطرت کی قوتیں اپنے کام میں لگی ہیں۔ غالبؔ بڑا انسان تھا۔ وہ اسے آدمی بنانے کے در پے ہو جاتی ہیں۔ عشق سے غالبؔ نے بڑا اچھل قریب کیا تھا، وہ پندار کا صنم کدہ ویران کرنے لگتا ہے۔ دوسروں کو چابک مار کر بھگایا تھا، وہ پہلے نکتہ چیں اور پھر مشورہ دینے والے بلکہ مصلح بن جاتے ہیں۔ خدا پر بڑے اعتراض کیے تھے مگر معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا سے لڑا نہیں جا سکتا، صرف اس کے آگے سر جھکایا جا سکتا ہے۔ یوں غالب سچ مچ آدمی بننے لگتا ہے۔ آدمی اور صوفی اس انجام تک پہنچنے کے کئی مرحلے ہیں اور ان میں کئی باتوں کی داغ بیل ابتدائی عمر ہی میں پڑ چکی تھی مگر آخر تک پہنچتے پہنچتے غالبؔ کئی لہجوں میں بولتا ہے خاتمۂ کلام اب اللہ ہی اللہ ہے۔ غالبؔ کی ان تبدیلیوں کے ساتھ اسلوب بھی بدلنے لگتا ہے۔ غالبؔ، میرؔ کی زبان بولنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ جناتوں کی نہیں، عام انسانوں کی زبان ہے، غالبؔ کا اسلوب سادگی کی طرف بڑھتا جاتا ہے اور کیسی سادگی کہ پُرکاری سے گلے مل رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کوشش کے باوجود غالبؔ عام آدمیوں سے پوری طرح ہم آہنگی نہیں حاصل کر پاتا اور اس کی زبان اور اسلوب کا میرؔ اور دوسرے سادگی پسند شعرا کی زبان اور اسلوب سے موازنہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ غالبؔ بہت بدل کر بھی لوگوں میں پوری طرح گھل مل نہیں سکا، لوگوں کے بہت قریب آ کر بھی ایسا نہیں لگتا کہ جیسے میر کی طرح وہ انھی میں سے ہے، بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنے مقام برتر سے اتر کر نیچے آیا ہے اور ابھی اپنی برتری کو بھولا نہیں ہے۔ غالبؔ کے اشعار کا میرؔ سے بہت مقابلہ ہو چکا، اس کے اسلوب کو ایک بار یگانہؔ کے اسلوب کے سامنے رکھ کر دیکھ لیجیے۔ معلوم ہو جائے گا کہ غالبؔ کی زبان بہرحال اس جن کی زبان ہے جو لوگوں سے بات کرنے کے لیے اردو سیکھ گیا ہے۔ غالبؔ کی یہ کامیابی بھی عشق، تصوف اور اردو زبان کا معجزہ ہے، ورنہ غالبؔ گلشنِ نا آفریدہ کا عندلیب ہی رہتا۔

 

 

 

 

عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ

 

 

 

اپنے ایک مضمون ’’غالبؔ اور نیا آدمی‘‘ میں، میں نے لکھا تھا کہ غالبؔ ہماری تہذیبی شکست و ریخت کا نمائندہ ہے اور جب تک اس تہذیب کی ٹوٹ پھوٹ اپنی انتہا کو پہنچ کر ختم نہیں ہو جائے گی یا ہماری تاریخ کا نیا تہذیبی دور شروع نہیں ہو گا۔ بیسویں کیا ہر صدی غالبؔ کی ہو گی۔ جس طرح مغرب میں نئے انسان کی پیدائش کی علامت شیکسپیئر ہے، اسی طرح ہمارے یہاں موجودہ تہذیب کی پہلی علامت غالبؔ ہے۔ غالبؔ میں ہمارے یہاں موجودہ تہذیب کی پہلی علامت غالبؔ ہے۔ غالبؔ میں ہمارے دور کی ذہنیت بند ہے۔ اس کی روح غالبؔ کی روح ہے۔ در اصل یہ غالبؔ ہی ہے جو پھیل کر ہمارا دور بن گیا ہے۔ غالبؔ کی یہ اہمیت ایسی نہیں ہے جیسی تاریخی اہمیت کے شاعروں کی ہوتی ہے۔ غالبؔ ۱۷۹۷ء میں پیدا ہوا اور ۱۸۶۹ء میں مرا۔ مگر وہ پیدا ہونے اور مرنے والا غالبؔ، مرزا عبداللہ بیگ کا بیٹا تھا۔ اسد اللہ خاں نہ تھا۔ عبداللہ بیگ کا بیٹا مر گیا۔ مگر غالبؔ اپنے دیوان ہی میں نہیں، ہمارے وجود میں بھی زندہ ہے۔ ہم جو دیکھتے ہیں، اسی کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ جو سوچتے ہیں، اسی کے دماغ سے سوچتے ہیں، جو محسوس کرتے ہیں، اسی کے دل سے محسوس کرتے ہیں۔ در اصل وہ جو غالبؔ تھا، وہ ہمارا ہی خلاصا تھا۔ جس طرح نقطۂ میں خطوط، مثلثیں، مربعے اور مستطیلیں بند ہوتی ہیں۔ اسی طرح غالبؔ وہ نقطہ ہے۔ جس میں ہم بند ہیں۔ غالبؔ ہماری بسم اللہ ہے اور تمت بھی۔ اسی لیے ہمیں میں سے ایک عبدالرحمن بجنوری کو دیوان غالبؔ دید مقدس کا ہم پلہ نظر آیا ہے، کچھ لوگوں کی شہادت ہے کہ ہندوستان و پاکستان ہی نہیں، اُدھر پورا یورپ بھی ’’گالب گالب‘‘ کر رہا ہے۔ اس عالم میں ہمارے عسکری صاحب کو یہ دل لگی سوجھی کہ انھوں نے ذوقؔ کو ایک اعتبار سے غالبؔ سے بہتر شاعر کہہ دیا۔ عسکری صاحب کی یہ بات لوگوں کو ایسی لگی جیسے انھیں بدترین گالی دی گئی ہے۔ میں چونکہ اپنے ایک مضمون میں پندرہ سال پہلے اعلان کر چکا ہوں کہ میں تو لکھتا ہی گالیاں دینے اور گالیاں کھانے کے لیے ہوں، اس لیے عسکری صاحب کی ہم نوائی میں ذوقؔ کی حمایت کروں یا نہ کروں، غالبؔ کی مخالفت ضرور کرنا چاہتا ہوں یعنی خود اپنے زمانے کی بلکہ اپنی۔

لیکن اس سے پہلے آیئے ذرا اپنے زمانے یا خود اپنے اندر جھانک کر دیکھ لیں۔ کہ ہم کیا ہیں۔ ہماری قدیم تہذیب میں معاشرے ایک فطری چیز تھا۔ جیسے مچھلی کے لیے سمندر ہوتا ہے، اس وقت افراد تو تھے مگر فرد پرستی پیدا نہیں ہوئی تھی، یہ ایک جما جمایا معاشرہ تھا۔ جس میں ہر چیز کی حیثیت اور جگہ متعین تھی، کوئی چیز یا انسان نہ اس حیثیت اور جگہ سے آگے بڑھ سکتا تھا، نہ اس کی اپنی حیثیت اور جگہ چھینی جا سکتی تھی۔ باپ باپ ہے، بیٹا بیٹا ہے، بھائی بھائی ہے، شوہر مجازی خدا ہے، بیوی گھر کی مالکہ ہے، استاد باپ کا قائم مقام ہے۔ ہمسایہ ماں جایا ہے، دوست منہ بولے بھائی ہیں۔ خیرات کرو تو پہلا حق ذوی القربیٰ کا ہے، دوسرا یتیموں کا، تیسرا مسکینوں کا، چوتھا مسافروں کا۔ محبت کرو تو پہلا حق خدا کا ہے، دوسرا نفس کا، تیسرا بندگانِ خدا کا۔ سوچنا بولنا اچھا ہے مگر فتنہ انگیز سچ سے مصلحت آمیز جھوٹ بہتر ہے۔ قتل برا ہے مگر فتنہ قتل سے بدتر ہے۔ غرض یہ تہذیب ایک نظام مراتب پر قائم تھی، اس میں جو چیز جہاں تھی، اس کی جگہ نہ کوئی غصب کر سکتا تھا، نہ وہ کسی کی جگہ غصب کر سکتی تھی۔ اس سوسائٹی میں شاعری کا بھی ایک مقام تھا۔ وہ نہ پیغمبری تھی، نہ بازی گری، نہ سب سے اہم کام تھی، نہ سب سے بے کار۔ اس کا مقام درمیان میں تھا۔ وہ پیغمبری کا ایک جزو تھی اور شعرا تلمیذ الرحمن تھے۔ میں اس تہذیب کو روایتی تہذیب کہتا ہوں۔ اس کے مقابلے پر ہم جس تہذیبی ماحول میں سانس لے رہے ہیں، وہ اس کا بالکل الٹ ہے، یہاں کسی چیز کی کوئی جگہ نہیں اور ہر جگہ ہر چیز کے لیے ہے، گھریلو زندگی کا خاتمہ ہو چکا ہے یا ہونے کے قریب ہے، خاندانی اقدار الٹ پلٹ ہو گئی ہیں۔ باپ ماں، بہن بھائی، شوہر بیوی، دوست استاد سب کے رشتے ٹوٹ کر بکھر گئے ہیں۔ نظامِ اخلاق کا بندوبست چوپٹ ہو گیا ہے۔ معاشرہ یا تو فرد کی شکارگاہ بن گیا ہے یا فرد کو شکار بنا رہا ہے۔ مذہب من مانی تاویلات کا کھیل بن گیا ہے، شاعری کبھی پیغمبری سمجھی جاتی ہے، کبھی بازی گری بھی نہیں رہتی۔ ایک طرف اسے سب سے اہم اور مقدس چیز کہا جا رہا ہے، دوسری طرف ہر جگہ اسے دیس نکال مل رہا ہے۔ روایتی تہذیب کے مقابلے پر یہ کسری تہذیب ہے۔

اس کسری تہذیب کی بنیاد میں اتر کر دیکھیے تو یہ صرف ایک پتھر پر کھڑی ہوئی ہے، وہ ہے فرد پرستی۔ فرد پہلے اپنے شعور کے کسی گوشے میں، یا احساس و جذبہ کے کسی چھپے ہوئے کونے میں یا روح کے کسی عمیق غار میں معاشرے کے خلاف ہو گیا۔ اسے محسوس ہونے لگا کہ معاشرہ اس پر ایک جبر ہے، ایک اوپر سے تھوپی ہوئی، ایک خارج سے عائد کی ہوئی چیز ہے۔ یہ وہ سمندر نہیں جس میں مچھلی تیرتی ہے بلکہ وہ جال ہے جس میں مچھلی پھنسی ہوتی ہے، یہ احساس پیچیدہ بن کر جذبہ بنا۔ پھر شعور میں پھیلا۔ پھر روح میں اُتر گیا۔ چنانچہ اس کے نتیجے کے طور پر فردمیں معاشرے میں بے اطمینانی، بے زاری، بے دلی دشمنی پیدا ہوئی۔ یہ احساس پیچیدہ بن کر جذبہ بنا، پھر شعور میں پھیلا، پھر روح میں اُتر گیا۔ چنانچہ اس کے نتیجے کے طور پر فرد میں معاشرے میں بے اطمینانی، بے زاری، بے دلی دشمنی پیدا ہوئی، آپ چاہیں تو میں اس کے لیے ایک لفظ استعمال کر لوں، بغاوت حالانکہ بغاوت بہت بعد کی منزل ہے۔ مگر بغاوت کی تیاری یا ضرورت کا احساس بھی بغاوت ہی ہے۔ تب سے فرد معاشرے کے جال کو توڑنے لگا ہے۔ ماہرینِ عمرانیات کہتے ہیں کہ فرد پرستی صنعتی معاشرے کا نتیجہ ہے۔ سرمایہ داری کی بنیاد بھی یہی ہے۔ اشتراکیت فرد پرستی کے خلاف ہے اور اجتماعیت پرستی پر مبنی ہے مگر اجتماعیت پرستی وہ چیز نہیں جو فرد اور معاشرے کے درمیان فطری یا روایتی معاشرے میں موجود تھی، مگر اجتماعیت پرستی اس فرد کو جو اندر سے معاشرے سے ٹوٹ کر الگ ہو گیا ہے۔ دوبارہ اسے معاشرے میں باندھتی ہے مگراس طرح جیسے کوئی کسی کو زنجیر میں باندھے۔ یعنی اجتماعیت پرستی فرد کو اندر سے نہیں بدلتی، صرف اسے خارج میں پابند کر دیتی ہے، بس بنیادی طور پر مسئلہ زیرِ بحث میں سرمایہ داری اور اشتراکیت میں اتنا ہی فرق ہے۔ اس روشنی میں دیکھیے تو ’’آزاد دنیا‘‘ اور ’’آہنی پردہ‘‘ وغیرہ کی اصطلاحیں روشن ہو جاتی ہیں۔ آزاد دنیا فرد کی آزادی کو تسلیم کرتی ہے۔ آہنی پردے کی دنیا فرد کو مار باندھ کر رکھتی ہے، آزاد دنیا میں فرد کی آزادی کا مطلب سرمایہ داری کی آزادی ہے۔ آہنی پردے کی پابندی کا مطلب سرمایہ بنانے پر پابندی ہے، بس اس سے زیادہ اس میں کچھ نہیں اور اگر کچھ ہے تو ممتاز حسین سے پوچھیے :

اب روایتی معاشرے کا بنیادی پتھر خاندان تھا۔ یہ وہ پہلی اکائی تھی جس پر معاشرہ تعمیر ہوا تھا۔ چند خاندان مل کر گاؤں بناتے۔ گاؤں مل کر شہر بنتے، شہر مل کر تحصیلیں، ضلع اور صوبے بنتے ہیں اور پھر سب مل کر پورا ملک یا پورا معاشرہ۔ خود خاندان میں مرکزی حیثیت باپ کی تھی۔ خاندانی نظامِ شمسی اس کے گرد گھومتا تھا۔ چنانچہ معاشرے سے بے زاری، بے دلی، بے اطمینانی، یا بغاوت کی پہلی لہر باپ کے خلاف اُٹھی۔ (فرزند آور رنگر) پھر خاندان اور پورے معاشرے میں پھیل گئی (رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو) لیکن باپ کو چھوڑنے کا عمل آسان ہے، نہ معاشرے کو، دونوں بہت بڑی قوت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ باپ چھوڑ بھی دیا جائے تو معاشرے کیسے چھوڑا جائے۔ چنانچہ باپ اور معاشرہ کو چھوڑنے کا عمل ہمارے اندر ہی اندر ہوتا ہے، اندر ہی اندر اپنی روح کی گہرائیوں میں، جذبہ و احساس کی تاریکیوں میں ہم اپنے سارے رشتوں کو توڑ دیتے ہیں۔ ویسے خارج میں عموماً یہ رشتے قائم رہتے ہیں، مگر شعور و احساس، جذبہ و روح میں ہم ان سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ غالبؔ کی شاعری اسی اندرونی عمل کی مظہر ہے۔ غالبؔ کی روح میں سب رشتے ٹوٹ گئے ہیں یا رفتہ رفتہ ٹوٹ رہے ہیں، پہلے یہ عمل غالبؔ میں رونما ہوا، لیکن جب کسری تہذیب آگے بڑھی تو یہ عمل خارج میں بھی رونما ہونے لگا اور آہستہ آہستہ بڑھتا ہوا موجودہ صورتِ حال تک آ پہنچا تو کیا اب ہم یہ کہہ دیں کہ ہمارے یہاں پچھلے سو سوا، سو برس میں جو کچھ ہوا، وہ اسی اندرونی عمل کا نتیجہ ہے جس کا پہلا مظہر غالبؔ ہے۔

لیکن شاید یہ ایک ایسی بات ہے جسے نہ سرمایہ دار تسلیم کریں گے، نہ اشتراکی، کیوں کہ دونوں میں وہی رشتہ ہے جو باپ بیٹے میں ہوتا ہے۔ سرمایہ دار جدید باپ ہے، اشتراکی جدید بیٹا جس طرح بعض پرانے قبیلوں میں دستور تھا کہ اولاد باپ کو مار کر کھا جاتی تھی اور اس کی ملکیت پر خود قابض ہو جاتی تھی۔ اسی طرح اشتراکیت بھی سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے اس کے سرمایہ پر قبضہ جمانا چاہتی ہے۔ ہمارے یہاں چونکہ سرمایہ داری بغیر کسی فلسفے کے آئی ہے اور سرسیسد اور حالیؔ کی تحریروں میں جہاں تہاں اشاروں کے سوا اس کا کوئی مربوط نظامِ فکر نہیں ملتا، اس لیے ہم اشتراکیوں کے خیالات سنیں گے، جنھیں ۳۶ء کی تحریک کے بعد ہمارے ادب کی دنیا میں نمایاں جگہ مل گئی ہے اور اجتماعی فکر پر اگر کوئی کام کیا ہے تو انھوں نے ہی کیا ہے، اشتراکی کہتے ہیں کہ ہندوستان میں یہ تبدیلیاں انگریزوں کے لائے ہوئے صنعتی نظام سے رونما ہوئیں، صنعتی نظام نے شہروں کو روزگار کا مرکز بنا دیا جس کی وجہ سے گاؤں اُجڑنے لگے اور ان کی جگہ شہری آبادی بڑھنے لگی۔ صنعتی نظام نے معاشرتی رشتوں کو بھی بدل دیا اور پرانے رشتوں کی جگہ نئے رشتے پیدا کیے۔ نئے رشتے ذرائع پیداوار کی تبدیلی سے پیدا ہوتے ہیں۔ انگریز اپنے ساتھ ذرائع پیداوار کو بدلنے والی چیزیں لائے تھے، یہ چیزیں بنیادی انسانی تعلقات پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ انگریزوں کی آمد کے بعد ہمارا پرانا معاشرہ آہستہ آہستہ بدلنے لگا اور یوں ہم رفتہ رفتہ صنعتی دور میں داخل ہو کر اس کی آخری منزل اشتراکیت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ چنانچہ غالبؔ جو اس صنعتی نظام کی ابتدا پر کھڑا ہے، در اصل ان تبدیلیوں کا مظہر ہے جنھوں نے ہندوستان کو زرعی ملک کے بجائے صنعتی ملک بنانے کا عمل شروع کیا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ غالبؔ انگریزوں کے لائے ہوئے نظام سے متاثر ہوا ہے۔ اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے غالبؔ کی زندگی سے وہ واقعات اور شواہد ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے جاتے ہیں جن سے ثابت ہو کہ غالبؔ کو انگریزوں کے لائے ہوئے صنعتی نظام کی آگاہی تھی۔ چنانچہ کبھی اس کے انگریزوں سے تعلقات پر زور دیا جاتا ہے، کبھی ’سفرِ کلکتہ کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں ‘ والی غزل کا۔ مراد یہ کہ غالبؔ چونکہ یہ سب چیزیں دیکھ چکا تھا، اس لیے صنعتی نظام سے ہونے والی تبدیلیوں کو تاڑ گیا اور ان کا اظہار شروع کر دیا۔ اس فارمولے پر ہمارے محترم ممتاز حسین صاحب نے پوری کتاب لکھ ماری ہے۔ اور بہرحال ان کی محنت کی داد دینی پڑتی ہے کہ کسی اور ترقی پسند سے بھی یہ کام نہ ہو سکا۔ ممتاز حسین کی انھی خوبیوں کی بنا پر میں ان کا مداح اور مقر ہوں۔ یہ خیال صحیح ہو یا غلط، مجھے اس خیال سے لڑنے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن میرے دو ایک سوالات ضرور ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ صنعتی نظام کی جن تبدیلیوں کو ہم لوگ صنعتی نظام کے بیچ میں رہنے کے باوجود نہیں سمجھ پاتے یا ان کا اظہار نہیں کر پاتے، انھیں غالبؔ ابتدا ہی یں دیکھ کر سمجھ گیا۔ میرے خیال میں اگر انگریزوں سے واقفیت اور کلکتہ کا سفر اس تفہیم کا باعث ہے۔ تو یہ تفہیم بعد کے آنے والے شاعروں کو زیادہ ہونی چاہیے تھی۔ مثلاً حسرتؔ کو جو نہ صرف بعد میں پیدا ہوئے بلکہ علی گڑھ میں پڑھے اور فرانس تک گھوم آئے یا پھر رضا علی وحشتؔ کو یقیناً ماننا پڑے گا کہ اس کے لیے صرف انگریزوں سے واقفیت اور سفرِ کلکتہ ہی کافی نہیں ہیں، کچھ اور بھی چاہیے۔ شاید دیدہ وری! غالبؔ دیدہ ور تھا، آشوبِ آگہی رکھتا تھا۔ گرمی نشاطِ تصور سے نغمہ سنج ہوتا تھا۔ شاید حسرتؔ، وحشتؔ، فانیؔ، جگرؔ، جوشؔ، یگانہؔ، کسی کو یہ دیدہ وری نہیں ملی اور شاید اقبالؔ کو بھی کم ملی۔ حالانکہ وہ یورپ کے تعلیم یافتہ تھے۔ ترقی پسند ترقی غالبؔ کی دیدہ وری کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سی فکری یا ادبی رجحان کے لیے صرف خارجی حالات کافی نہیں۔ اس کے لیے ایک اندرونی عمل بھی چاہیے، خواہ اسے ہم کچھ بھی نام دیں۔ اس اندرونی عمل کے بغیر خارجی حالات کچھ بھی ہوں، کوئی غالبؔ نہیں بن سکتا۔ تو اب سوال کی صورت یہ ہے کہ خارجی حالات اور اندرونی عمل میں اہمیت کس کی ہے ؟ اس کے بعد ایک دوسرا سوال یہ ہے کہ ہمارے یہاں تو صنعتی نظام انگریز لے آئے مگر یورپ میں صنعتی نظام کون لایا۔ اور تاریخ کے وہ کون سے عوامل تھے جنھوں نے اس کی صورت گری کی اور اندرونی تبدیلیاں پہلے پیدا ہوئیں یا صنعتی انقلاب پہلے آیا؟ اگر میرے ان سوالات کو اشتعال انگیزی پر محمول نہ کیا جائے اور تعصب کے بغیر دیکھا جائے تو میں ایک سوال اور بھی پوچھنا چاہتا ہوں، کیا خارجی حالات اور اندرونی عمل کی دنیا میں تقدیم و تاخیر کا فیصلہ اتنا حتمی ہے کہ اس پر آخری قطعیت کے ساتھ بات کی جا سکے۔

شاید اب ہم مرغی پہلے یا انڈا قسم کے حکایتی سوال کے آس پاس پہنچ گئے ہیں۔ افسوس کہ میرے اندر اتنی زیادہ بقراطیت موجود نہیں ہے کہ انڈا اور مرغی کی پیدائش میں کسی ایک کو مقدم یا مؤخر کہہ سکوں۔ اس لیے میرے خیال میں بہتر صورت یہ ہے کہ ہم ان بحثوں کو چھوڑ کر ایک بار پھر غالبؔ سے رجوع کریں۔ غالبؔ کے بارے میں غالباً ترقی پسند اور غیر ترقی پسند دونوں ان کار نہ کر سکیں گے کہ خواہ خارجی حالات کی بنا پر، خواہ گرمیِ نشاط و تصوری وجہ سے۔ بہرحال وہ اس گلشن کا عندلیب بن گیا جو اس کے مرنے کے بعد پیدا ہوا اور جس کی شاخوں پر حالیؔ سے لے کر ممتاز حسین تک سب جھول رہے ہیں۔ تقدیم و تاخیر کے سوال کو ہم یوں ختم کریں گے کہ تھوڑی دیر کے لیے مان لیں گے کہ غالبؔ خارجی حالات سے بھی متاثر ہوا اور اس نے اس میں اپنی دیدہ وری بھی ملائی۔ ان دو باتوں کا نتیجہ غالبؔ کی شاعری ہے، اب چونکہ وہ خارجی حالات روز بروز زیادہ سے زیادہ واضح ہو جاتے ہیں جن کو غالب نے آغاز ہوتے دیکھا اور ترقی پسندوں کے نقطۂ نظر کے مطابق نئے پیداوار رشتوں نے معاشرے میں جگہ جما لی ہے اور پورے انسانی تعلقات کو متاثر کر رہے ہیں، اس لیے ہم آپ سب اس صورتِ حال کے اسیر ہیں جن سے پہلے صرف غالبؔ دوچار ہوا تھا اور اس عالم میں غالبؔ پر جو ذہنی، جذباتی، محسوساتی، کیفیات گزریں، ہم بھی انھی سے گزر رہے ہیں۔ ہم یہ سب باتیں اس لیے مان لیں گے کہ ہمیں آم کھانے سے مطلب ہے، پیڑ گننے سے نہیں۔ ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ غالبؔ کی ذہنی، جذباتی اور نفسی کیفیات کیا ہیں اور وہ اپنے تجربے میں کن کن مقامات سے گزرتا ہے۔ ہم دکھا چکے ہیں کہ غالبؔ کے کلام میں کئی قسم کے لہجے اور کئی قسم کے مضامین ہیں۔ مثلاً کبھی وہ بہت بلند آہنگ، پُر جوش اور پُر قوت انداز میں باتیں کرتے ہیں۔ دنیا اسے بازیچۂ اطفال نظر آتی ہے، صحرا اس کے خیال کی حدت سے جل جاتا ہے۔ دریا اس کے سامنے خاک پر ما تھا گھستا ہے، وہ درِ کعبہ کے وا نہ ہونے سے الٹا پھر آتا ہے۔ اور بیش از یک نفس غمگیں نہیں ہوتا۔ وہ منظر اک اور بلندی پر بنانا چاہتا ہے اور اپنی آہِ آتشیں سے بال عنقا جلا دیتا ہے، اس کے دیدۂ بینا کو جزو میں کل نظر آتا ہے اور فکرِ رسا اندیشہ ہائے دور و دراز سوچتی ہے، لیکن اس بلند آہنگ جوشیلے اور پُر قوت انداز کے ساتھ ہی ساتھ غالبؔ کا نچلا سُر بہت ہی مدھم ہے۔ یہاں وہ مردم گزیدگی کی بنا پر آئینے سے ڈرتا ہے۔ اسدؔ اللہ خاں تمام ہوا کا نوحہ کرتا ہے۔ کبھی مضمحل ہو گئے قویٰ غالبؔ کا رونا روتا ہے، کبھی مرنے کی فال نکالتا ہے۔ افسوس کہ یہ حسرت بھی پوری نہیں ہوتی۔ ستم گر اس کے مرنے پر راضی نہیں ہوتا۔ اس کی امید صرف مرنے پر منحصر ہے۔ مگر یہ اُمید بھی نا اُمیدی ہی رہتی ہے، اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ نہ گلِ نغمہ ہے، نہ پردۂ ساز، وہ تو صرف اپنی شکست کی آواز ہے۔ کبھی وہ اس ساری صورتِ حال سے پریشان ہو کر یہی چاہتا ہے کہ دنیا سے کہیں دور چلا جائے اور بے معنی در و دیوار سا ایک گھر بنائے جہاں بیماری میں تیمار دار نہ ہوں اور مرنے میں نوحہ خواں۔ آخر عزیز و اب اللہ ہی اللہ ہے، کہتا ہوا اس جہانِ فانی سے رخصت ہوتا ہے۔ یہ دو کتنے متضاد اندازِ نظر ہیں۔ کتنے مختلف قسم کے تجربات ہیں۔ ایک غالب ویسا کیوں ہے، ایک غالبؔ ایسا کیوں ہے ؟ کسی نے کہا ہے کہ دوسروں کے پڑھنے میں ہم آپ کو پڑھتے ہیں، کچھ اپنے رجائیت پسند لوگ غالبؔ کو پڑھتے ہیں تو رجائی اشعار نکال لیتے ہیں۔ کچھ قنوطی قسم کے لوگ پڑھتے ہیں تو قنوطی اشعار نکال لیتے ہیں۔ شاید ایک شاعر میں یہ اچھا بھی ہے کہ وہ مختلف لوگوں کی نمائندگی کر سکے۔ مگر غالبؔ کے ساتھ غالباً ایسا نہیں ہے کہ اس نے لوگوں کی ’’ضروریات‘‘ پیشِ نظر رکھی ہیں اور ان کے مطابق مال فراہم کیا ہے، شاید یہ سب کیفیات اس پر گزری تھیں۔ اگر گزری تھیں تو ہمیں معلوم کرنا ہو گا کہ ان میں سے کون سا سر سُچا ہے، یا کون سا سُر نسبتاً زیادہ سچا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ پوچھیں گے کہ اصل غالبؔ کہاں ہے، یا دونوں اصلی غالبؔ ہیں۔ اگر دونوں اصلی غالبؔ ہیں اور دونوں سُر سچے ہیں تو ہمیں ان کے اختلاف اور تضاد کا معما حل کرنا ہو گا۔ کچھ اس معمے کو اس طرح حل کرتے ہیں کہ بلند آہنگ، پُر جوش اور رجائی اشعار ’’نئے انسان‘‘ کے کھاتے میں ڈال دیے اور دوسری قسم کے اشعار یا تو نظر انداز کر دیے یا انھیں غالبؔ کے ذاتی اعمال نامے میں لکھ دیا۔ غالبؔ اگر ایک اکائی ہے تو مسئلے کی یہ آسان تفہیم کام نہیں دے گی۔ ہم یہ سوال اٹھائیں گے کہ شاعری ذاتی زندگی کا اظہار کس حد تک کرتی ہے، کیا اس میں اس قسم کی تقسیم ممکن ہے کہ اس کے کچھ حصے کو ذاتی اور کچھ کو غیر ذاتی کہہ دیا جائے۔ شاعری، بڑی سے بڑی شاعری ذاتی تجربے کی تعمیم سے پیدا ہوتی ہے۔ فردوسیؔ تک نے رستم کو خواب میں دیکھا تھا اور تاریخی رسم کی بجائے خود اسے اپنے جوہرِ ذات سے پیدا کیا تھا۔ ورنہ یلے بود از سیستان جب رزمیہ کا یہ حال ہو تو غالبؔ کی شاعری تو غزلیہ شاعری ہے۔ یہاں تو ذاتی تجربہ ہی سب کچھ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ غالبؔ یہ دو قسم کی تعمیمات کیوں کرتا ہے ؟ اور انسان کے دو چہرے کیوں بناتا ہے۔ ایک چہرے پر عظمت لکھتا ہے، دوسرے پر فلاکت، ایک پر رجائیت، دوسرے پر قنوطیت، ایک پر نشاط، دوسرے پر غم۔ یہاں ہم پھر ایک مدرّسانہ اندازِ نظر سے دوچار ہوتے ہیں۔ مدرّس لوگ کہتے ہیں کہ آدمی پر خوشی اور غم، کامیابی اور ناکامی کے لمحات آتے رہتے ہیں اور شاعری ان لمحات کے اظہار کا نام ہے، اس لیے غالبؔ نے بھی ایسا کر دیا ہے۔ مگر اس مدرّس میں یہ بات نظر انداز ہو جاتی ہے کہ غم اور خوشی کے لمحات سے آدمی بدل نہیں جاتا۔ غم اور خوشیاں آتی جاتی رہتی ہیں۔ مگر خود آدمی قائم و دائم رہتا ہے اور ہر خوشی اور غم میں اپنے بنیادی ’’وجود‘‘ کو ظاہر کرتا رہتا ہے۔ یوں شخصیت کی اکائی قائم رہتی ہے۔ غم حسینؔ پر بھی آیا اور سقراطؔ پر بھی۔ مگر حسینؔ کو بھی دیکھو اور سقراطؔ کو بھی۔ کیا غم میں وہ کچھ اور ہو گئے ہیں بلکہ شاید غم میں ان کی بنیادی عظمت اور چمک اٹھی ہے۔ غالبؔ کے غم میں یہ کیفیت نہیں ہے۔ غم کی حالت میں وہ بھول جاتا ہے کہ وہ برق سے شمع ماتم خانہ روشن کرنے کا دعویٰ کر چکا ہے۔ وہ تو ہائے ہائے کرنے لگتا ہے، طنز و تعریض پر اُتر آتا ہے، سنکی ہو جاتا ہے، خواہشِ مرگ کرنے لگتا ہے، کبھی کبھی اس میں حد درجہ مریضانہ خود رحمی جھلکنے لگتی ہے۔ اور یوں تو بہت ہوتا ہے کہ وہ اپنی بنیادی اقدار ہی کو چھوڑ بھاگتا ہے۔ زندگی میں ہی نہیں، شاعری میں بھی اس نے کہا تھا کہ عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا۔ مگر یہ دردِ لادوا بھی سے خللِ دماغ معلوم ہونے لگتا ہے۔ درِ کعبہ سے الٹا پھر آنے کا دعویٰ کرنے والا بہادر شاہ سے بھی ننگے بھوکے ہونے کی شکایت کرنے لگتا ہے جو خود ننگا بھوکا تھا۔ گرمیِ نشاط تصور پر ناز کرنے والا چیخنے لگتا ہے کہ غمِ زمانہ نے نشاطِ عشق کی مستی جھاڑ دی۔ وہ جو حسینوں کے بارے میں کہتا تھا کہ:

یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے

اسے اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ان کے چاہنے سے بھی کوئی تلافی نہیں ہوتی۔ میرؔ کو غالبؔ سے کم غم نہیں ہوئے۔ شاید زیادہ ہی ہوئے ہوں، مگر میرؔ کے بنیادی تیور ہمیشہ ایک رہے۔ وہ ہمیں دکھاتا ہے کہ نامرادانہ زیست کرنے کا حوصلہ کیا چیز ہے۔ غالبؔ میں یہ حوصلہ نہیں۔ وہ تو بڑے بڑے دعوے کرتے کرتے ایک دم جی چھوڑ بیٹھتا ہے، چیں بول جاتا ہے۔ اس وقت ہم ایک اور سوال سے دوچار ہوتے ہیں اور ہمیں کچھ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے، جیسے اس کے بلند آہنگ دعوے بھی اتنے سچے نہیں تھے۔ شاید وہ اکڑ تکڑ جھوٹی تھی، شاید عظمت کا تصور صرف ایک غبارہ تھا جسے اس کے تخیل نے ہوا بھر کر چھوڑ دیا تھا جب غبارے کی ہوا نکل گئی تو وہ زمین پر آ رہا۔ اب ہمیں یاد آتا ہے کہ اس کے پُر عظمت اشعار کے لہجے میں کچھ نہ کچھ تصنع، کچھ نہ کچھ بناوٹ، کچھ نہ کچھ تھیٹرانہ انداز ضرور تھا (تفصیل کے لیے ’’اندازِ بیاں اور‘‘ دیکھیے ) ہملٹ نے بھی انسان کی عظمت پر ایک ایسی ہی تقریر کی ہے۔ کچھ ترقی پسند قسم کے نقاد ہملٹ کی اس تقریر کو اس اعتماد کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جو صنعتی انقلاب سے انسانوں میں پیدا ہوا، اس کی آمد سے پہلے بھانپ لیا گیا کہ انسان اب نوامیس فطرت کا مالک بننے والا ہے۔ غالبؔ کے پُر عظمت لب و لہجے والے کلام کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر ہم ایک سوال اور پوچھیں گے۔ اگر پُر عظمت لب و لہجے والا کلام صنعتی انقلاب کی کامیابیوں کو بھانپ جانے یا تاڑ لینے کا نتیجہ ہے تو شکستہ لب و لہجے والا کلام کس چیز کا نتیجہ ہے۔ کیا ہم یہ کہیں گے کہ یہ صنعتی نظام کی اس توڑ پھوڑ کی پیش بینی سے پیدا ہوا ہے جو آئندہ ہونے والی تھی؟ اب ایک سوال اور ہے۔ اگر غالبؔ نے صنعتی نظام کی، ابتدا ہی میں اس کی فتوحات اور شکستوں کا اندازہ کر لیا تو کیا یہ ممکن ہے کہ آدمی صرف اپنے وجدانی شعور سے ان منزلوں کو بھی دیکھ لے جو ابھی خارج میں اشارے کے طور پر بھی ظاہر نہیں ہوئی ہیں یعنی ابھی جب کہ صنعتی فتوحات کی بھی ابتدا نہیں ہوئی تھی، اس کی شکست کا اندازہ کیسے ہوا۔ فتوحات کے بارے میں تو خیر کہا جا سکتا ہے کہ غالبؔ ریل گاڑی اور تار برقی کی قوت کو دیکھ چکا تھا مگر شکست کے اندازے کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ یہ ابھی خارج میں ابتدائی طور پر بھی موجود نہیں تھی۔ یہ سوال پوچھتے وقت مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں اپنی مانی ہوئی بات سے تھوڑا تھوڑا کھسکتا جا رہا ہوں، میں نے غالبؔ کے پُر عظمت لب و لہجے والے کلام کے بارے میں یہ مان کر سلسلۂ گفتگو، شروع کیا تھا کہ چلیے اسے صنعتی انقلاب کی آمد کا اثر کہہ لیجیے۔ مگر غالبؔ کی شکست کی آواز نے دوسری طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ میرے دل میں بار بار یہ سوال آتا ہے کہ غالبؔ اس کا اندازہ کیسے کر سکا کہ آگے چل کر صنعتی رشتے انسانی شکست سے دوچار ہو جائیں گے ؟ یقیناً صرف خارج پسندانہ نقطۂ نظر اس کی توجیہ سے قاصر ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا شاعری صرف آنے والے حالات کو بھانپ کر ہو سکتی ہے۔ میں کہہ چکا ہوں، شاعری میں جوہرِ ذات اور شخصیت دونوں حصے ملتے ہیں اور شاعر اپنے تجربات کی تعمیم سے زیادہ اور کچھ نہیں کر سکتا۔ اگر یہ صحیح ہے تو ہمیں یہ سوچنا ہے کہ جو زندگی غالبؔ نے بسر نہیں کی اور ابھی خارج میں ظہور پذیر نہیں ہوئی وہ غالبؔ کی شاعری میں کیسے موجود ہے۔ وہ غالبؔ کا تجربہ کیسے نبی اور تجربہ بھی کیسا جو روح و دل میں اترا ہوا ہو۔

ان سوالات میں الجھ کر کبھی میں سوچتا ہوں کہ شاید یہ خیال ہی غلط ہے کہ غالبؔ جس ’’جدید روح‘‘ کا ترجمان یا مظہر ہے، اس کا انگریزوں کی آمد سے کوئی تعلق ہے۔ یہ تعلق نہ بھی ہوتا تو غالبؔ ایسی ہی شاعری کرتا کیوں کہ یہ سفرِ کلکتہ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ سفرِ ذات کا۔ شاید یہاں ترقی پسندوں کی سہل پسندی نے دھوکا کھایا ہے۔ غالبؔ کے سلسلے میں بھی اور شیکسپیئر کے سلسلے میں بھی۔ غالبؔ کا کلام نئے انسان کا کلام ہے۔ اور ہملٹ بھی نیا انسان تھا جو صنعتی انقلاب سے دو سو سال پہلے پیدا ہوا۔ پھر جب ہملٹ صنعتی انقلاب سے پہلے پیدا ہو سکتا ہے تو غالبؔ کا کلام بھی کیوں نہیں پیدا ہو سکتا۔ شاید ترقی پسند خارجی صورتِ حال کو غیر ضروری اہمیت دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر خورشید الاسلام نے غالبؔ پر اپنی کتاب میں دکھا دیا ہے کہ اس کی شخصیت کے بنیادی اجزا بچپن اور عنفوانِ شباب ہی میں بن چکے تھے۔

لیکن غالبؔ نے ہمیں جس سوال سے دوچار کر دیا ہے، وہ ہمیں کلکتہ اور ریل گاڑی وغیرہ سے پیچھے ہٹا کر کچھ اور سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ کہیں روحِ جدے دیت اس سے بھی پہلے معاشرے میں موجود نہ ہو اور غالبؔ صرف اس کا پہلا نمایاں مظہر ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کا سراغ کہاں ہے اور کون سی گم شدہ کڑیوں کو جوڑ کر ہم اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ غالبؔ جس نشاط تصور سے نغمہ سنج تھا، وہ انگریزوں سے ملاقات کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ خود اپنی ذات و شخصیت سے آگاہی کا۔ اس سلسلے کی شاید کوئی کڑی روشن ہو سکے، اگر ہم اس بات پر غور کریں گے کہ معاشرے میں تبدیلی کے محرکات کیا ہوتے ہیں، کچھ دیر پہلے میں نے سوال کیا تھا کہ اچھا صنعتی نظام تو ہندوستان میں انگریز لے آئے مگر مغرب میں کون لایا؟ اس کا منشا یہ ظاہر کرنا ہے کہ معاشرے میں انقلاب کے لیے کچھ اس سے لینے، کچھ اس سے چھیننے کی طرف شاید اتنی زیادہ نہیں ہوتی۔ شاید معاشرے میں انقلاب خود اس کے اندرونی عمل یا قانون سے ہوتا ہے، اشتراکی فلسفہ اس قانون کو مادے کی حرکت کا قانون کہتا ہے یعنی مادہ خود اپنے اندر سے اپنی ضد پیدا کرتا ہے۔ ہم اس قانون کو کیا سمجھتے ہیں۔ اسے چھوڑیے لیکن ترقی پسندوں سے اور خاص طور پر ممتاز حسین صاحب سے میرا سوال یہ ہے کہ اگر ہندوستان میں انگریز نہ آتے تو کیا ہم خود اپنے اندر سے انقلاب کو پیدا نہ کر لیتے ؟ پھر اگر انقلاب انگریزوں کی مدد کے بیر معاشرے کے اندرونی قانون سے پیدا ہو سکتا ہے تو اس قانون کے نتیجے میں غالبؔ کیوں نہیں پیدا ہو سکتا اور اسے کلکتہ تک دوڑانے کی کیا ضرورت ہے۔

غالبؔ کی دیدہ وری غالبؔ کے جوہرِ ذات میں موجود تھی۔ یہ اس کی تعمیر میں مضمر اور اس کے وجود کی بنیاد میں شامل تھی۔ غالبؔ جو بولتا ہے، خارج سے نہیں بولتا۔ واقعی گرمیِ نشاطِ تصور سے بولتا ہے۔ اس تجربے سے بولتا ہے جو خود اس کی ذات میں موجود تھا، یہی تجربہ ہے جو پہلے کلامِ غالبؔ میں ظاہر ہوا اور پھر رفتہ رفتہ ہمارے پورے معاشرے کی تقدیر بن گیا۔ میں نے غالبؔ کے بارے میں ’’نئی نظم اور پورا آدمی‘‘ میں لکھا تھا کہ اس کے ڈیڑھ جزو کے دیوان میں جس کا مطلع و مقطع غائب ہے، ہماری تہذیب کا نہ جانے کیا کچھ گم ہو گیا ہے۔ جو کچھ گم ہوا ہے، وہ پھر دکھاؤں گا، اس وقت صرف یہ دیکھیے کہ یہ دیوان ہمارا قرآن کیوں ہے ؟ یعنی غالبؔ کی عصریت کے کیا معنی ہیں ؟

غالبؔ کی عصریت جیساکہ ہم جانتے ہیں، کئی دور سے گزری ہے وہ، حالیؔ کا ہم عصر تھا جس نے یادگارِ غالبؔ لکھی اور بتایا کہ غالبؔ اس کا شاعر ہے، وہ عبدالرحمن بجنوری کا ہم عصر ہے جس نے اعلان کیا کہ غالبؔ اس کا وید مقدس ہے۔ وہ اقبالؔ کا ہم عصر ہے جس نے اس میں شاعر المانوی کا مقابل پایا، وہ ہمارا ہم عصر ہے کہ ہم آم بھی کھاتے ہیں تو غالبؔ کا حوالہ دے کر پُر عظمت لب و لہجے والے غالبؔ کو یوں تو ہم بھی سراہتے ہیں مگر در اصل وہ غالبؔ ہم سے پہلے لوگوں کا ہم عصر تھا یعنی عبدالرحمن بجنوری اور ان لوگوں کا جو ماہنامہ ’’نگار‘‘ میں لکھتے تھے اور نطشے، برنارڈ شا اور آ سکر وائلڈ وغیرہ سے متاثر تھے۔ اس نسل کا مزاج وہ تدمغ لیے ہوئے ہے جو غالبؔ کے بلند آہنگ کلام میں پایا جاتا ہے، یہ تدمغ نیاز فتح پوری میں بھی ہے اور ابوالکلام آزادؔ میں بھی۔ یہ لوگ کولن ولسن کی اصطلاح میں وہ لوگ تھے جو ’’ہیرو‘‘ پر یقین رکھتے تھے بلکہ خود کو ہیرو سمجھتے تھے۔ اس کے بعد غالبؔ ایک طرف فانیؔ کا غم پرست بلکہ مرگ پرست انسان بن گیا اور دوسری طرف اقبالؔ اور جوشؔ سے ہوتا ہوا ترقی پسند شاعری کی طرف نکل گیا۔ یہ سب بلند آہنگ، مثبت، پُر عظمت غالبؔ کی چھوٹی بڑی شکلیں ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی دوسرا غالبؔ بھی برسرِ عمل رہا۔ وہ فانی سے آگے بڑھ کر کچھ ویران لوگوں میں ظاہر ہوا جن پر ترقی پسند قنوطیت، شکست خوردگی اور مایوسی کا الزام لگاتے تھے، بظاہر ایسا لگا کہ جیسے یہ لوگ سردارؔ جعفری جیسے لوگوں سے ہار جائیں گے مگر یہ ایک دھوکا تھا، شکست کی آواز والا غالبؔ شاعروں کی نئی نسل میں پھر ظہور پذیر ہو گیا اور اس قوت کے ساتھ کہ ترقی پسند بھی بھونچکا رہ گئے بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ سردارؔ اور مخدومؔ تک غم زدگی کی شاعری کی طرف پلٹ آئے۔ دیکھیے بقولِ فراقؔ، غالبؔ کیا پاجی پن دکھا رہا ہے۔

اب ہم ۷۱ء کی بات کریں تو ہمارے لیے غالبؔ کی عصریت غالبؔ کا وہ لہجہ نہیں ہے جس میں وہ بڑھ چڑھ کر بولتا ہے بلکہ اس کے برعکس وہ غالبؔ ہے جو شکست کا نوحہ پڑھتا ہے۔ ہم جس غالبؔ سے متاثر ہیں، وہ اقدار کو بحال کرنے والا غالبؔ نہیں ہے بلکہ اقدار کی شکست قبول کر کے ان سے بھاگنے والا ہمیں غالبؔ کی یہ بات پسند ہے کہ اس نے ’’عشق کو خلل ہے دماغ کا‘‘ کہا۔ ہمیں وہ غالبؔ پسند ہے جس نے غمِ زمانہ کو غمِ عشق پر ترجیح دی۔ ہمیں وہ غالبؔ پسند ہے جس نے معشوقِ فریبی کی داغ بیل ڈالی اور معشوق سے صاف کہہ دیا کہ اس کے ملنے سے غمِ زمانہ کی تلافی نہیں ہو گی۔ ہمیں وہ غالبؔ پسند ہے جو مرنے کا خواہش مند ہے اور بے در و دیوار سا اک گھر بنانا چاہتا ہے۔ غرض کہ دوسرے لفظوں میں ہم نغمۂ شادی والے غالبؔ کو نہیں، نوحۂ غم والے غالبؔ کو پسند کرتے ہیں اور اس کی کلبیت، دنیا بے زاری، احساسِ شکست، مایوسی اور نامرادی بلکہ خواہشِ مرگ سے متاثر ہوتے ہیں، اس کا کیا مطلب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ صنعتی انقلاب نے انسان اور معاشرتی رشتوں کو جس طرح بدلا ہے، اس میں ہمارے لیے فتح کا آہنگ نایاب ہے۔ شکست کی آواز نمایاں ہے۔ ترقی پسند کہیں گے یہ مرتے ہوئے متوسط طبقے کی روحِ شکست ہے اور چونکہ ابھی تک انقلاب کے ہراول دستے یعنی مزدوروں نے خود اپنا شاعر پیدا نہیں کیا ہے، اس لیے ابھی تک رونا دھونا چل رہا ہے۔ ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ یہ طبقہ جلد یا بہ دیر وہ شاعر پیدا کرے گا جو ایسے کم زوری کے لمحات اور کیفیات سے آمادہ ہو گا۔ خدا مبارک کرے۔ مگر شاید ہم اس بات پر غور کر رہے تھے کہ ہمارے یعنی ہماری عصریت کے لیے غالبؔ کا کون سا سُر سچا ہے اور در اصل جھوٹے منہ سے بلند آہنگ غالبؔ کو سراہنے کے باوجود ہم کس غالبؔ کو مانتے ہیں۔ میرے خیال میں اس سوال کا جواب ہمیں مل جائے گا، اگر ہم فیضؔ کی ’تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے ‘ والی غزل کے بعد ان کے بعد آنے والے شعرا کی روح کا مطالعہ ان کے کلام کی روشنی میں کر ڈالیں۔ میں نے جدید شاعری زیادہ نہیں پڑھی مگر اتنا وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس میں احساسِ فتح تو درکنار، غالبؔ جیسی برتری کا احساس بھی نہیں۔ یہ تو صرف شکست کی آواز کی شاعری ہے، یہ اس فرد کی شکست کی آواز ہے جسے کسری تہذیب نے خاندان سے، معاشرے سے الگ کیا تھا، اس علاحدگی کے وقت اسے اس قوت، طاقتِ پرواز اور رہائی و آزادی کا احساس ہوا تھا جو غالباً بس کے پہیے کو بس سے نکل کر ہوا میں اچھلتے ہوئے محسوس ہوتا ہو گا مگر اچھلنے کا زور ختم ہونے کے بعد پہیہ زمین پر گر چکا ہے اور بس کریش ہو گئی ہے۔ ہم ٹھیک اسی نقطے پر ہیں، ہم زمین پر پڑے ہوئے ہیں، بے سدھ، بے قوت اور ہمیں نہیں معلوم کہ نئی بس کب آئے گی اور آئے گی تو ہم اس میں فٹ ان ہو سکیں گے یا نہیں۔ بس غالبؔ کی ہم عصریت یہ ہے کہ وہ ہمارے زمین سے اچھلنے سے لے کر زمین پر گرنے تک سب منزلوں کو ایک ساتھ دکھا دیتا ہے۔

 

 

 

 

 فرزندِ آذرؔ

 

غالبؔ کی شخصیت پر ہم اپنے خیالات واضح طور پر بیان کر چکے ہیں، اس شخصیت نے اس کی شاعری، اسلوب، فن، فکر پر عصریت پر کیا اثر ڈالا۔ یہ بھی ہم تفصیلاً دکھا چکے ہیں۔ ایک بار ان خیالات کا خلاصا کر لیجیے :

۱۔ غالبؔ کی شخصیت بہت بڑی ہے مگر اتنی بڑی نہیں جتنی بن سکتی تھی، وہ کسی نہ کسی حد تک منفی، غیر متوازن اور مریض ہے۔

۲۔ غالبؔ اپنی شخصیت کو نہ غیر انا یا حقیقت کے حوالے کرنا چاہتا ہے، نہ اس کے تابع بنانا چاہتا ہے، اس کی خواہش تو یہ ہے کہ وہ ہمیشہ شخصیت یا انا کے قلعے ہی میں محبوس رہے لیکن151

۳۔ غیر انا اور حقیقت کی قوتیں غالبؔ پر حملہ کر دیتی ہیں اور اس کا قلعہ مسمار کر دیتی ہیں۔ یہاں غالبؔ کا فن کار غالبؔ کے خلاف گواہی دیتا ہے اور غیر انا اور حقیقت کی فتح کا بیان کرنے لگتا ہے۔ غالبؔ کا یہی فن کار اس کی چشمِ تماشا ہے، یہی اس کا دیدۂ بینا ہے۔ یہی وہ غالبؔ ہے جس نے اردو شاعری کو الٹ پلٹ کر دیا ہے۔

دوسرے لفظوں میں غالبؔ فریضۂ قربانی سے رو گردان ہے۔ اس نے جانور بہت بڑا پکڑا ہے، دوسرے اردو شاعروں کے جانور اس کے آگے چھوٹے موٹے ہیں۔ سوائے میرؔ کے جانور کے۔ کسی کا جانور بکری ہے، کسی کا دُنبہ، کسی کا مینڈھا، کسی کا گائے اور جرأت تو مرغی پکڑ کر لائے ہیں ) مگر غالبؔ نے اونٹ پکڑا ہے۔ جانور بڑا ہے مگر اس میں کئی خرابیاں ہیں۔ بیمار ہے، آنکھوں کی بینائی جاتی رہی ہے، کانوں نے جواب دے دیا ہے، قویٰ بھی مضمحل ہیں، لاغر ہو گیا ہے، ہڈیاں نکل آئیں ہیں۔ میرؔ کا اونٹ تگڑا ہے اور کھا پی کر تیار ہے، اس کی نگہداشت بھی اچھی ہوئی ہے اور آنکھ، ناک، کان بھی درست ہے۔ پھر میرؔ کا جذبۂ قربانی غالبؔ سے بہت بڑا ہے اتنا بڑا جانور لے کر آیا ہے مگر چھری پکڑ کر قربانی کے لیے تیار ہے۔ غالبؔ ہچر مچر کر رہا ہے، کبھی چھری کو دیکھتا ہے، کبھی جانور کو۔ زبان سے چچ چچ بھی کرتا جاتا ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا فرزندِ آذرؔ را نگر۔ غالبؔ کو فرزندِ آذرؔ کی جو بات پسند آئی، وہ ان کا دینِ بزرگان سے انحراف ہے مگر فرزندِ آذرؔ کی ایک صفت قربانی بھی ہے۔ غالبؔ دینِ بزرگاں کے خلاف تو خوف اُچھلا کودا مگر فریضۂ قربانی میں پچک گیا، حالانکہ اس کے بغیر دینِ بزرگان کی نفی کے بھی کوئی معنی نہیں۔ اردو شاعری میں فرزندِ آذرؔ تو ایک آدمی پیدا ہوا۔ میرؔ، غالبؔ میں یہ امکان تھا مگر وہ تو آذرؔ کی طرح شخصیت اور انا کا بت تراش کر بیٹھ گیا اور اس کی پوجا شروع کر دی۔ ہمیں غالبؔ کی قسمت پر افسوس ہے۔ میرؔ نے قربانی کی اور پورے دل کے ساتھ کی اور خدائے سخن بن گیا لیکن غالبؔ 151 غالبؔ نے قربانی سے گریز کیا، پھر قربانی مجبوری بن گئی تو غالبؔ نے بے دلی سے چھری پھیری۔ میرؔ کی قربانی رنگ لائی۔ میرؔ اردو شاعری کی عظمت و دوام کے پلِ صراط پر بجلی کی طرح گزر گیا۔ غالبؔ گزر رہا ہے مگر دیکھیے آئندہ کیا ہوتا ہے۔ بیسویں صدی کے خاتمے میں انیس سال باقی ہیں اور وہ دنیا اپنے خاتمے کے قریب ہے جس کے ایک گوشے میں غالبؔ کا گلشنِ نا آفریدہ، آفریدہ ہو کر آباد ہے۔ یہ جدے دیت کی وہ دنیا ہے جو مغرب نے پیدا کی ہے۔ غالبؔ کی تقدیر مغرب کی تقدیر سے جدے دیت کی تقدیر سے وابستہ ہے اور مغرب کی تقدیر کے بارے میں خود مغرب کے لوگ کہہ چکے ہیں کہ یہ اپنے دن پورے کر چکی ہے۔ یہ اعلان اسپنگلر کا بھی ہے، ٹوائن بھی کا بھی، لارنس کا بھی، پال والیری اور شیخوں کے شیخ رینے گینوں عبدالواحد یحییٰ کا بھی۔ اقبال نے کہا تھا:

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں

اقبالؔ کے اس مصرعے پر میرا بھی دل دھڑک رہا ہے۔ پردۂ در کو جنبش ہے اور میں نہیں جانتا کہ پردے سے کیا نمودار ہونے والا ہے، بس صرف پردۂ در کو ہلتا ہوا دیکھ رہا ہوں اور اقبالؔ کا شعر گنگنا رہا ہوں۔

دیکھیے اس بحر کی تہ سے اُچھلتا ہے کیا

گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا

شاید غالبؔ کو بھی، جو کچھ ہونے والا ہے، اس سے ڈر لگ رہا ہے۔ دیکھیے کس درد سے کہتا ہے :

رات دن گردش میں سات آسماں

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

 

 

 

 

غالبؔ کی انانیت

 

 

یہ تو سبھی کہتے ہیں کہ غالبؔ کے مزاج میں انانیت تھی، لیکن کسی شاعر کو اس کے مزاج کی بنا پر پسند یا ناپسند کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ اسے لمبا یا ٹھنگنا ہونے کی بنا پر مطعون کریں یا سراہیں۔ شاعری میں اصل مسئلہ مزاج کا نہیں ہوتا کیوں کہ مزاج تو حالات سے، تربیت سے، خاندانی وراثت سے جیسا بننا ہوتا ہے، بن جاتا ہے اور بالعموم شاعر کے شاعر بننے سے پہلے بن جاتا ہے اور خود شاعر کو بھی اس پر قابو نہیں رہتا۔ دیکھنا تو یہ ہوتا ہے کہ شاعر نے اپنی شاعری میں اس سے کیا کام لیا ہے۔ کیا وہ اس کی مدد سے انسانی فطرت کے کسی گوشے کو بے نقاب کرتا ہے، کیا اس کے پردے میں وہ اپنے دور کے کسی رجحان کی عکاسی کرتا ہے، کیا وہ اسے حقیقت کی تفتیش کا ذریعہ بناتا ہے ؟ شاعر نے اگر ان میں سے کوئی بات بھی کر دی تو اپا کام پورا کر دیا۔ اب اس کا مزاج انفرادی مسئلہ نہیں رہا بلکہ اپنے زمانے کے لیے ایک ایسی چیز بن گیا جیسے موسمی معلومات کے لیے حرارت ناپنے کا آلہ۔ آپ آلے پر یہ اعتراض تو کر سکتے ہیں کہ اس نے درجۂ حرارت ٹھیک نہیں بتایا لیکن یہ اعتراض نہیں کر سکتے ہیں کہ اس نے درجۂ حرارت بتاتا ہی کیوں ہے۔ غالبؔ کی انانیت کا مطلع بھی ہمیں اسی نقطۂ نظر کی روشنی میں کرنا چاہیے۔ یعنی انفرادی خصوصیت کے طور پر نہیں بلکہ تہذیبی درجۂ حرارت کے پیمانے کے طور پر۔

جہاں تک میری ناقص معلومات کا تعلق ہے، غالبؔ کی انانیت کو بالعموم سراہا ہی گیا ہے۔ کچھ تو اس بنا پر کہ لوگوں کو اس میں اپنی انانیت کی آسودگی کا سامان نظر آتا ہے اور کچھ اس بنا پر کہ غالبؔ کی انانیت میں بعض لوگوں کو روایتی تہذیبی اقدار سے بغاوت کا سراغ ملتا ہے اور یہ بات انھیں اپنے مخصوص مقاصد کے لیے کارآمد معلوم ہوتی ہے۔ صرف ایک آفتاب احمد صاحب ایسے ہیں جنھوں نے غالبؔ کی انانیت پر یہ کہہ کر تنقید کی ہے کہ وہ انانیت کی بنا پر سپردگی سے محروم ہیں، اس لیے بڑی عشقیہ شاعری نہیں کر سکتے۔ ذاتی طور پر مجھے ان دونوں نقطہ ہائے نظر میں ایک نا آسودگی سی محسوس ہوتی ہے۔ انانیت کو پسند کرنے والے تو مجھے یوں پسند نہیں ہیں کہ ایک تو یہ میری اُتادِ طبع کے خلاف ہے اور دوسرے میں اپنی تہذیب کی روایت سے بغاوت کو بجائے خود کوئی قابلِ قدر بات نہیں سمجھتا۔ رہ گئی آفتاب احمد صاحب کی تنقید تو مجھے اس میں وزن، تہ داری، بصیرت اور معقولیت سب کچھ نظر آتی ہے۔ لیکن میں اُن سیاور اپنے آپ سے یہ سوال کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ بلند عشقیہ تجزیہ یا بلند عشقیہ شاعری سے محرومی صرف غالبؔ کا المیہ ہے یا غالبؔ کے پورے دور کا۔ دوسرے لفظوں میں غالبؔ کی انانیت ان کی صرف ذاتی خصوصیت ہے یا انھوں نے اس سے کوئی غیر ذاتی کام بھی لیا ہے ؟

یوں انانیت تو میرؔ کے مزاج میں بھی تھی اور غالبؔ سے کم ہیں تھی بلکہ شاید عام زندگی میں غالبؔ سے زیادہ تھی۔ غالبؔ کی انانیت تو لچک بھی جاتی ہے، سودا اور سمجھوتا بھی کر لیتی ہے، لیکن میرؔ کی زندگی اس قسم کی باتوں سے پاک ہے۔ پھر میرؔ نے ایسی بلند عشقیہ شاعری کیسے کی؟ میرؔ جیسی عشقیہ سپردگی اردو شاعری میں اور کہاں ملے گی مگر میرؔ کا مزاج صرف سپردگی کا نہیں ہے۔ میرؔ کی سپردگی میں بلا کا کھنچاؤ ہے۔ میرؔ نے ایسی بلند عشقیہ شاعری اس لیے نہیں کی کہ ان میں انانیت نہیں تھی۔ ایسی شاعری صرف اس لیے ہو سکی کہ انھوں نے اپنی انانیت کو اقدار کے تحفظ کا ذریعہ بنا لیا تھا۔ غالبؔ تو اپنے زمانے کی پستی کے سارے گلے شکووں کے باوجود زمانہ ساز بھی تھے۔ میرؔ نے تو اپنے زمانے پر تھوک دیا۔ میرؔ کی انانیت میں اتنی قوت تھی کہ وہ صرف اپنے بل پر اپنے زمانے کے خلاف کھڑے ہو سکتے تھے، مخالف دھارے کے رخ پر تیر سکتے تھے اور ان تمام ترغیبات اور تحریفات سے بلند ہو سکتے تھے جن کا سامنا کرنے میں غالبؔ کی ہڈیاں بول گئیں۔ میرؔ کی زندگی میں جو استغنا، درویشی اور دست کشی پائی جاتی ہے، کچھ لوگ اسے فراری ذہنیت کا نتیجہ کہتے ہیں لیکن در اصل اس کے پیچھے اتنی زبردست قوتِ ارادی ہے کہ اس زمانے کے کسی با عمل آدمی میں نہیں تھی۔ میرؔ تو زندہ ہی اپنی انانیت سے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی انانیت کا اظہار بڑے نرم اور مہذب لہجے میں کرتے ہیں :

تری چال ٹیڑھی، تری بات روکھی

تجھے میرؔ سمجھا ہے یاں کم کسو نے

غالبؔ اور میرؔ میں انانیت کے ہونے یا نہ ہونے کا فرق نہیں ہے۔ انانیت تو دونوں میں تھی اور دونوں اپنے زمانے اور اپنی ذات کے بعض گوشوں سے برسرِ پیکار تھے۔ فرق یہ ہے کہ میرؔ نے یہ لڑائی تہذیبی اقدار کی مدد سے لڑی۔ اس لڑائی میں میرؔ کی انفرادی قوت کے ساتھ ایک جمے جمائے معاشرے کی اعلیٰ ترین قدروں کی کمک شامل تھی۔ میرؔ نے اپنی تہذیبی قدروں کو مضبوطی سے پکڑا اور مر کھپ کر اتنا چمکایا کہ میرؔ کا کلام ہند اسلامی تہذیب کی سب سے زندہ دستاویز بن گیا۔ غالبؔ کو یہ لڑائی تنہا لڑنا پڑی۔ ذوق اور مومن، غالبؔ کے ہم عصر کہلاتے ہیں مگر ان کا شعور ’عصریت‘ سے خالی ہے۔ یہ می ان دونوں کی تنقیص نہیں کر رہا۔ ذوقؔ اور مومنؔ دونوں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہند کی اسلامی تہذیب میں ابھی اتنی جان باقی تھی کہ وہ زندگی اور زمانے کی منفی رفتار کو سنبھال لے۔ غالبؔ اگر غالبؔ نہ ہوتا تو اپنی تہذیب کی باطنی شکست و ریخت سے آنکھیں چرا کر ایسی مثبت شاعری کر سکتا تھا، جو عظیم روایت سے ہم آہنگ ہوتی۔ لیکن غالبؔ نے تہذیبی انتشار کی اس آندھی میں اپنا چراغ کھلی ہواؤں کی زد پر کچھ دیا۔

غالبؔ کی شاعری میں منفی اثرات کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے زمانے کا سب سے سچا گواہ تھا۔ یہ جو وہ عشق اور عشق کی قدروں کا مذاق اڑاتا ہے، یہ جو وہ حسن پر نکتہ چینی کرتا ہے اور حریمِ ناز میں بھی خود نمائی سے باز نہیں رہتا، یہ جو وہ نہ صرف محبوب کو بلکہ اپنے آپ کو بھی خدا کو سونپنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، یہ سب باتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ غالبؔ نے اپنے زمانے کی حقیقی روح کو سمیٹ لیا تھا۔ تہذیب جب باطنی طور پر نشو و نما کرتی ہے تو اس میں ہمیشہ وہ لوگ پیدا ہوتے ہیں جو نیچے سے اوپر اٹھتے ہیں، لیکن تہذیبی انحطاط کے زمانے میں اوپر سے نیچے آنے کا عمل ہوتا ہے۔ جس طرح چھلانگ لگانے والا آدمی ہمیشہ اوپر نہیں جا سکتا، اسے دوسری چھلانگ لگانے کے لیے زمین پر اپنے پاؤں ٹکانے پڑتے ہیں، اسی طرح تہذیب بھی اپنے دورِ انحطاط میں نیچے اترتی ہے۔ اس زمانے میں قدروں پر باطنی یقین ختم ہو جاتا ہے۔ روایات فرسودہ اور باسی نظر آنے لگتی ہیں۔ معاشرے کے اخلاق، عقائد اور ادارے نیم جان ہو جاتے ہیں۔ اور انھیں ازسرِنو تازگی، جان اور قوت دینے کے لیے منفی عمل سے گزارنا پڑتا ہے۔ ایسے زمانے میں انحطاط کا کھلی آنکھ سے مطالعہ کرنا اور انحطاط کو گلے لگانا ہی سب سے بڑا تخلیقی عمل ہوتا ہے، غالبؔ نے نفی کے عمل کو اختیار کیا اور اس طرح ایک نئے اثبات کی طرف نیا قدم اٹھانے کا امکان پیدا کیا۔ نفی کے اس عمل میں غالبؔ کے پاس اثبات کے لیے کچھ تھا تو صرف ایک چیز151 اس کی اپنی انانیت۔ تہذیبی خلا کے دور میں جب ہمارے پاس کچھ باقی نہ رہے، اس وقت فن کار کے پاس ایک چیز باقی رہتی ہے، اس کی اپنی ذات جہاں وہ نئی قدروں کی تخلیق کر سکتا ہے۔ ان معنوں میں غالبؔ کی انانیت اس کے لیے تخلیقِ اقدار کا ایک ذریعہ تھی۔ وہ ایک طرف انحطاط کے عمل کو اپنے اندر محسوس کرنا چاہتا تھا اور دوسری طرف اس سے اوپر اٹھنا چاہتا تھا۔ نفی و اثبات کے اس دُہرے عمل میں غالبؔ کی حقیقی عظمت کا راز چھپا ہوا ہے۔

غالبؔ کی انانیت کیا ہے۔ پشنگی و افراسیابی ہونا ہیں، یہ اس کی انانیت کی پست ترین سطح ہے۔ یہ انانیت کمالِ فن کا احساس بھی نہیں ہے۔ ایسے دعوے تو شعرا بہت کیا کرتے ہیں۔ یہ حسن و عشق کے معاملات میں اکڑ تکڑ بھی نہیں ہے، ان معنوں میں کہ یہ اس کی بلند ترین سطح نہیں ہے۔ غالبؔ کی انانیت اپنی بلند ترین سطح کو اس وقت چھوتی ہے جب وہ پوری کائنات کے مقابل کھڑا ہو جاتا ہے :

ہنگامۂز بونیِ ہمت ہے انفعال

حاصل نہ کیجئے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو

اور صاف اعلان کرتا ہے کہ:

اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو

آپ نے دیکھا غالبؔ نے اپنی انانیت کو کیا بتایا۔ اب یہ صرف غالبؔ کے مزاج کی انانیت نہیں ہے، اب یہ حقیقت کی تفتیش کا ایک ذریعہ ہے۔

حقیقت کی تفتیش اور تخلیق اقدار151 یہ دو ذمے داریاں ہیں جو غالبؔ نے تنہا اپنے بل پر قبول کی ہیں۔ وہ بنے بنائے جوابوں سے مطمئن نہیں ہو سکتا۔ روایتی ردِ عمل کا اظہار نہیں کر سکتا۔ اسے تو جو کچھ دریافت کرنا ہے، اپنے تجربے سے دریافت کرنا ہے، جو کچھ پانا یا کھونا ہے، اپنے عمل سے پانا کھونا ہے۔ یوں غالبؔ اپنی انا یا ذات کو کائنات کی تمام قوتوں کے مقابل رکھتا ہے۔ خدا، انسان، کائنات، سب سے غالبؔ کا تعلق حریفانہ ہے۔ وہ چیز جسے ہم غالبؔ کی دیدہ وری کہتے ہیں، غالبؔ کے اسی حریفانہ تعلق سے پیدا ہوئی ہے۔ اب غالبؔ ایک فرد نہیں ہے، ایک تہذیب کی ذمے داری ہے۔ غالبؔ کے کلام میں ہمیں جس دماغی قوت کا احساس ہوتا ہے، وہ جس طرح اپنے تجربات کا تجزیہ کرتا ہے، انھیں ایک دوسرے کے تقابل میں رکھ کر دیکھتا ہے، اور پھر سب کو ملا کر ایک نقش بنانا چاہتا ہے، یہ سارے عناصر غالبؔ کے کلام میں اسی ذمے داری سے پیدا ہوئے ہیں۔ ایک بہت چوکس مدِمقابل کی طرح وہ اپنی ساری قوتوں اور کم زوریوں پر نظر رکھتا ہے، اسے حملہ کرنے، پیچھے ہٹنے اور حصار بندی کے سارے گُر معلوم ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ شکست اس کا مقدر ہے، خدا سے لڑا نہیں جا سکتا اور مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی۔ یہاں سے اس غالبؔ کی طرف ایک راستہ جاتا ہے جو وحدت الوجود کا قائل ہوا اور ’عزیزو اب اللہ ہی اللہ‘ کہتا ہوا مرا۔ آپ چاہیں تو اسے غالبؔ کی شکست کہہ سکتے ہیں لیکن غالبؔ کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی شکست کا مطالعہ بھی کر سکتا ہے۔

میں نے کہا ہے کہ غالبؔ کی انانیت کا ایک پہلو تخلیقِ اقدار سے متعلق ہے۔ انا جب دوسری اناؤں سے تعلق پیدا کرتی ہے تو اس سے اقدار پیدا ہوتی ہیں۔ یعنی اس کا تعلق انسانوں کے باہمی رشتے سے ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ غالبؔ دوسرے انسانوں کے بارے میں خوش گوار محسوسات نہیں رکھتے۔ انھیں اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں اور خود ایک ایسی خیالی دنیا کا باشندہ ہونے پر فخر کرتے ہیں جس میں کسی اور انسان کا کوئی حصہ نہیں۔ اس بات میں تعریف و تنقیص کے جو پہلو بھی نکلتے ہوں لیکن یہ ایک نامکمل بات ہے۔ دوسرے انسانوں پر غالبؔ کی تنقید انسان کے نامکمل ہونے کے احساس سے پیدا ہوئی ہے اور یہ احساس دوسروں ہی تک ختم نہیں ہو جاتا ہے۔ غالبؔ انسان کے نامکمل ہونے کا تجربہ اپنی ذات میں بھی کرتے ہیں، اور یوں ہر پیکرِ تصویر انھیں نقش فریادی نظر آتا ہے۔ اس بلند سطح پر دوسرے انسانوں کی تنقید غالبؔ کے کلام میں خود اپنی تنقید بھی بن جاتی ہے۔ یہ شکست انا کا مقام ہے۔ اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو، کہہ کر غالبؔ نے اپنی انانیت کو جو ایک گنبدِ بے در بنایا تھا، اس میں ایک شگاف پیدا ہوتا ہے، اب غالبؔ کی انانیت اپنی حریف بن کر خود اپنے آپ پر نکتہ چینی کرنے لگتی ہے۔ اور غالبؔ میں وہ معروضیت پیدا ہوتی ہے جس سے وہ خارجی دنیا یا دوسرے انسانوں کے تجربے سے عبرت بھی حاصل کرتے ہیں اور آگہی بھی۔ غالبؔ کی یہی معروضیت ہے جو اُن کی قادار کو یکسر منفی ہونے سے بچا لیتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ وہ میرؔ کی طرح نہ دوسرے انسانوں سے مکمل ہم آہنگی پیدا کر سکے، نہ اپنے اندر کے آدمی سے۔ یہ ان کے لیے ممکن بھی نہیں تھا۔ جو کام پوری تہذیب کا ہوتا ہے، اس کی توقع آپ ایک فرد سے نہیں کر سکتے۔ لیکن ہمارے لیے یہ بات اہم ہے کہ غالبؔ ہم آہنگی کے نہ ہوتے ہوئے ہم آہنگی کے فریب میں نہیں رہے۔ پروفیسر کرار حسین نے لکھا ہے کہ غالبؔ سے پہلے انا اور غیر انا یعنی کائنات میں جو ہم آہنگی تھی، وہ غالبؔ میں ٹوٹ گئی۔ غالبؔ کا کمال یہ ہے کہ وہ ہم آہنگی ٹوٹنے کے اس عمل کا سب سے بڑا مبصر ہے۔ وہ اس کا ادراک رکھتا ہے۔ اس کے کرب کو برداشت کرتا ہے اور اس صورتِ حال میں اپنی ذمے داری کو جانتا ہے 151 یہ ذمے داری کیا ہے، تہذیبی درجۂ حرارت کا صحیح اندراج۔ غالبؔ نے ہمیں صحیح صورتِ حال دکھا دی ہے۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ ایک ایسی نظر کی تلاش کرتا ہے جو زندگی کے کے پست و بلند، خیر و شر، نفی و اثبات کو ایک بلند سطح سے دیکھ سکے اور تضادات کی اس بازی گاہ میں ہر پہلو اور ہر رنگ سے زندگی کا اثبات کرسے۔ غالبؔ اس تلاش میں کہاں تک کامیاب ہوا، یہ تو سخن فہم جانیں یا غالبؔ کے طرف دار۔ لیکن غالبؔ، میرؔ کی طرح یہ کہہ سکے یا نہ کہہ سکے کہ:

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

یہ ضرور کہا ہے :

نہیں گر سر و برگ ادراکِ معنی

تماشائے نیرنگ صورت سلامت

 

 

 

 

شکریہ

 

 

خدا بخشے مولانا ایوب دہلوی مرحوم کہا کرتے تھے کہ کتاب صرف ایک ہے، ’’کتاب اللہ۔ ‘‘ باقی سب کتبیاں ہیں۔ ہماری یہ کتبیا جیسی کچھ بھی ہے، برادر احمد ہمدانی اور جمالؔ پانی پتی کہتے ہیں کہ اچھی ہے۔ الحمد للہ، دوستوں کی کتنی سچی رفاقت مجھے ملی ہے، انھوں نے روز آ آ کر اس کتاب کے ابواب سنے اور ہماری حوصلہ افزائی کی، نیز بعض مقامات پر کچھ مبہم گوشوں کی وضاحت کے کچھ مشورے بھی دیے۔ ہم ان دونوں حضرات کے شکرگزار ہیں، خدا انھیں اس محبت و اخلاص کی جزائے خیر دے۔ یہ کتاب برادرم اطہر نفیسؔ اور شمیم احمد کے حسبِ فرمائش اور ثمر نظامی صاحب کے زیرِ اہتمام شائع ہو رہی ہے۔ برادرم عذیر ہاشمی اور قیصرؔ حسنی نے اس کی پروف ریڈنگ کی ہے، ہم ان کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں۔

آخر میں ہمارا شکر صرف رب العزیز کے لیے ہے جس کی تائید و نصرت کے بغیر انسان تنکا بھی نہیں توڑ سکتا۔ فاعلِ حقیقی وہ ہے اور باقی سب اس کے ادنیٰ کارندے ہیں۔

٭٭٭

ماخذ:

http://ghalibkaun.blogspot.in/?view=classic

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید