عید
فہرست مضامین
- شہزاد قیس
- آپ گر ہوں قریب عید کے دِن
- کھلی نگاہوں سے دیکھا یہ خواب عید کے دِن
- بام پر دیکھ کے اُن کو جو ہنسا عید کا چاند
- عید آئی کہے سارا جہاں ، عید مبارَک
- عید اِس بار جو پردیس میں آئی ہو گی
- غم کے ریلے میں دھُلے دِل کی دُعا عید کا چاند
- عنبر کہے خوشبو سے اَذاں ، عید مبارَک
- شرابِ وَصل کا مل جائے جام عید کے دِن
- رَمضان جا رَہا ہے اور عید آ رہی ہے
- دِل ، رُوح تک اُداس ہے اور چاند رات ہے
- ہمارا ہی نہیں بدنام نام عید کے دِن
- یہ ہاتھ رُخ سے ہٹاؤ کہ عید آئی ہے
- چھٹی پر تھے طبیب عید کے دِن
- مہک وَفا کی کوئی پھول سے جدا نہ کرے
- لبوں سے اُٹھتی ہُوئی چاندنی سے جلتے ہیں
- زَخم اَپنانا کتنا مشکل ہے
شہزاد قیس
آپ گر ہوں قریب عید کے دِن
عرش پر ہوں نصیب عید کے دِن
حُسن والے ، شراب یا کہ موت
کوئی تو ہو طبیب عید کے دِن
دَم بخود رِہ گیا میں دیکھتے ہی
پھول سی عندلیب کے دِن
عشق مصلوب ہونے میں لاچار
حُسن بے بس صلیب عید کے دِن
اُن سے ملنے کی صف نے سمجھایا
یار ہی ہیں رَقیب ، عید کے دِن
ہر کسی کو خدا نصیب کرے
آپ سا اِک حبیب عید کے دِن
آئینہ سال بھر رہا ہمزاد
پر لگا کچھ عجیب عید کے دِن
قہقہے بانٹتا ہے لوگوں میں
خوبصورت خطیب عید کے دِن
دُنیا والو! خدارا لے آؤ
دِل کو دِل کے قریب عید کے دن
شکل یہ بھی جنون کی ہے قیس
بن گئے ہم اَدیب عید کے دِن
٭٭٭
کھلی نگاہوں سے دیکھا یہ خواب عید کے دِن
پڑھیں وُہ زانو پہ میرے کتاب عید کے دِن
خدایا ہجر گَزیدوں کا یہ سہارا بنے
میں لکھ رہا ہوں جدائی کا باب عید کے دِن
صنم کا نام نہ تم جھوم کر بتا دینا
ستم زَدو! ذرا ہلکی شراب عید کے دِن
حسین ہاتھوں نے جادُو حنا کا پہنا ہے
جمالِ یار پہ صدقے گلاب عید کے دِن
ذرا سا آپ بھی شرمانا چھوڑئیے صاحب
ذرا سے ہوتے ہیں سب ہی خراب عید کے دِن
ہِلالِ عید کا منہ چومو اِس کے آنے سے
زَمیں پہ دیکھے کئی ماہتاب عید کے دِن
گداز پاؤں اَبھی پالکی سے نکلا تھا
حسین ہو گئے سب آب آب عید کے دِن
گلابی رَنگ کی ظالم سے کی جو فرمائش
گلابی رَنگ کا پہنا نقاب عید کے دِن
کتاب بھیجی اُنہیں ’’عید ملنا واجب ہے‘‘
وُہ سب سے عید ملے بے حجاب عید کے دِن
کتاب بھیج تو دُوں قیس ، ’’بوسہ واجب ہے‘‘
نہ جانے کیا بنے اِس کا جواب عید کے دِن
٭٭٭
بام پر دیکھ کے اُن کو جو ہنسا عید کا چاند
پھول سے ہاتھوں کی چلمن میں چھپا ’’عید کا چاند‘‘
قَد میں یہ بَدر کے آگے کسی گنتی میں نہیں
قَدر میں بَدر سے ہے کتنا بڑا عید کا چاند
ہر ترقی سے بڑھے شان ، ضروری تو نہیں
قَدر کم ہوتی گئی جوں جوں بڑھا عید کا چاند
مدتوں بعد سَرِ راہ نظر آئے ہیں
آپ تو ہو گئے اے جانِ وَفا عید کا چاند
ایک معصوم کے اَرمانوں کا خوں ہم سے ہُوا
عمر بھر لیتا رہا خون بہا عید کا چاند
میرے بس میں ہو تو اِعلان سراسر کر دُوں
آپ نہ دیکھیے حضرات مرا عید کا چاند
ہو خوشی کوئی بھی چاہو گے تو ہاتھ آئے گی
آٹھ اَرب لوگوں کو ، وَرنہ تو دِکھا عید کا چاند
دیکھنے چاند لبِ بام وُہ شب یوں آئے
دیکھ کر اُن کو ہُوا محوِ دُعا عید کا چاند
دیکھ کر چاند وُہ ملنے کی دُعا جب بھی کریں
دیکھنے لگتا ہے خوش رَنگ حنا عید کا چاند
٭٭٭
عید آئی کہے سارا جہاں ، عید مبارَک
ہم مانیں گے جب تم کہو جاں ، عید مبارَک
یاروں کو تو فرصت ہی نہیں جشنِ طرب سے
سنتے وُہ بھلا میری کہاں ، عید مبارَک
دِل لے کے جنہیں بھول گئے آپ کبھی کا
کہتے ہیں وُہی سوختہ جاں ، عید مبارَک
مصروفِ تبسم جو رہا یار اُسی کو
کہتا رہا دِل گریہ کناں ، عید مبارَک
برسات نگاہوں کی اُتارے تیرا صدقہ
رِہ رِہ کے کہے گھر کی خزاں ، عید مبارَک
اُس موسمی مخلص کو جو دیکھو تو پرندو!۔
کہنا تمہیں کہتا تھا فلاں ، عید مبارَک
روتے نہیں تو دِل کا نشاں تک بھی نہ رہتا
یادوں سے وُہ اُٹھتا ہے دھُواں ، عید مبارَک
کہتا ہے جہاں آج تو دُشمن کو بھی تبریک
کیوں تجھ پہ ہیں دو لفظ گراں ، عید مبارَک
ہم تو تری آواز کو ترسے ہُوئے ہیں دوست
گو کہتا رہے سارا جہاں ، عید مبارَک
ویران مکاں کے کسی کونے میں دَبی قیس
ہچکی کا ہُوا وِردِ زَباں ، عید مبارَک
٭٭٭
عید اِس بار جو پردیس میں آئی ہو گی
یار نے ہچکیاں لے لے کے منائی ہو گی
چاند بھی بام پہ ماتم کناں آیا ہو گا
بزمِ غم قطبی ستارے نے سجائی ہو گی
رَنگ تو میرا پسندیدہ ہی پہنا ہو گا
نام کی منہدی بھی غلطی سے لگائی ہو گی
سابقہ عید کا منظر کوئی یاد آتے ہی
لاج کے مارے نظر اُس نے جھکائی ہو گی
گھر مری مرضی کے رَنگوں سے سجایا ہو گا
میری من چاہی غذا دِل سے بنائی ہو گی
پھر غزل کھول کے تعویذ پڑھی ہو گی مری
چیخ حسرت سے کلیجے میں دَبائی ہو گی
اَپنے پلو سے مری یاد کو پونچھا ہو گا
جھوٹے غازے کی ہنسی رُخ پہ سجائی ہو گی
پہلے تو اُس نے گنے ہوں گے کئی سو تارے
پھر دَوا نیند کی اُٹھ کر کوئی کھائی ہو گی
عقل بولی کہ نہیں عید صنم کی ایسے
دِل بضد ہے کہ نہیں ایسے ہی آئی ہو گی
یا تو اِحساسِ ندامت نے رُلایا ہو گا
یا غزل قیس کی شوہر نے سنائی ہو گی
٭٭٭
غم کے ریلے میں دھُلے دِل کی دُعا عید کا چاند
چشمِ پُر نم کو ہے رِم جھِم کی سزا عید کا چاند
پہلے آویزاں رہا گوہرِ مِژگاں پہ ہِلال
صبر کی ڈور کٹی ، چھن سے گرا عید کا چاند
غش میں دیکھا سَرِ دِہلیز کوئی زَخمی سر
رینگ کر اَوٹ میں بادل کی چھپا عید کا چاند
چند لمحے نظر آتا ہے ، چلا جاتا ہے
کچھ تو ہے جس پہ ہے ہم سب سے خفا عید کا چاند
عید ہے طفل تسلی ، مرے خوش خوش بچو!۔
بچپنے میں ہمیں بھاتا تھا بڑا عید کا چاند
سسکیاں ہجر گَزیدوں کی سِوا ہوتی گئیں
جانے کس دَرد کی ہوتا ہے دَوا عید کا چاند
چاند کو دیکھ کے اِک چاند بہت یاد آیا
اَب کے آنکھوں میں نہیں دِل میں چبھا عید کا چاند
گیلی لکڑی سا سلگتے تھے مگر زِندہ تھے
نیم جاں دِل کی جلاتا ہے چتا عید کا چاند
دیکھ کر مجھ کو ہنسا ، میں نے کچھ ایسے دیکھا
سال بھر ساتھ مرے روتا رہا عید کا چاند
نیم بسمل ہیں اِسی شہر میں ایسے بھی قیس
جن کے مر جانے کی کرتا ہے دُعا عید کا چاند
٭٭٭
عنبر کہے خوشبو سے اَذاں ، عید مبارَک
عید آ گئی اے جانِ جہاں ، عید مبارَک
یاقوت لبوں پر ترے قربان شگوفے
چندا ترے ہنسنے کا نشاں ، عید مبارَک
دیدار جنہیں تیرا ملے اُن کو بھی تبریک
جو تجھ کو جہاں دیکھے ، وَہاں عید مبارَک
ملنے کو تجھے صف میں کھڑے ہوں سرِ دَربار
ملکائیں ، شہنشاہِ زَماں ، عید مبارَک
بوسوں کی ترے رُخ کے ملے تتلی کو عیدی
ہر سمت ہو خوشیوں کا سماں ، عید مبارَک
اَللہ مری ساری خوشی بھیج دے تجھ کو
غم بھیجے ترے سارے یہاں ، عید مبارَک
راتیں تری تاباں رہیں ، دِن نورِ دَرخشاں
خوشبو ہو تری اور جواں ، عید مبارَک
کشمش ہو دَہَن میں تو لب اَنگور کو چومیں
منہ میٹھا ہو ، نمکین زَباں ، عید مبارَک
ہر پل ترا عشرت کدے میں شان سے گزرے
غنچوں سا ہنسے ، غنچہ دَہاں ، عید مبارَک
وُہ جوڑیں گے ہر شعر کے کب پہلے حرف کو!
کر دیتے ہیں قیس اِن میں نہاں عید مبارَک
٭٭٭
شرابِ وَصل کا مل جائے جام عید کے دِن
تو رِند کھل کے کریں اِہتمام عید کے دِن
بہارِ عید ہے مینائے عشق کی مستی
دھُلے گلاب بنے خاص و عام عید کے دِن
یہ ننھی پریاں پرستاں سے سج کے آئی ہیں؟
یہ ننھے غنچے ہیں کس کے غلام عید کے دِن
نئے لباس زَمانے نے اِس لیے پہنے
کہ وُہ کرائیں گے دیدارِ عام عید کے دِن
بس اَپنے چاند پہ نظریں جمائے رَکھنا ہے
کہاں ہے عاشقوں کو اور کام عید کے دِن
وُہ توبہ کر چکے روزوں میں یا اِلٰہی کیا؟
کیا ہے پردے کا خوب اِنتظام عید کے دِن
خوشی ہے عید کی یا اَپنے حُسن کا ہے غرور
وُہ چل رہے ہیں بہت خوش خرام عید کے دِن
مٹھائی دینے کا ہائے یہ معنی ہو نہ کہیں
بغیر بوسہ بنو شیریں کام عید کے دِن
کسی سے ہاتھ ملانے کا بہتریں نسخہ
ہر ایک شخص کو کر لو سلام عید کے دِن
وُہ بھول جانے کی قربانی نہ طلب کر لیں!
ہُوئے ہیں قیس بہت خوش کلام عید کے دِن
٭٭٭
رَمضان جا رَہا ہے اور عید آ رہی ہے
یا رَب صنم جدا ہے اور عید آ رہی ہے
غربت کا مارا کوئی ، پٹری پہ عید والی
سر رَکھ کے رو رَہا ہے اور عید آ رہی ہے
کیسا چراغاں صاحب ، اَب کی تو بارشوں سے
گھر ٹوٹنے لگا ہے ، اور عید آ رہی ہے
یہ ظلم ہے سراسر ، پہلے ہی دِل ہمارا
مر مر کے چپ ہُوا ہے اور عید آ رہی ہے
دِل غم کا آبلہ ہو تو رونے کی بجائے
ہنسنا کڑی سزا ہے اور عید آ رہی ہے
پنجرے کو زَخمی کر کے ، اُمید کا کبوتر
دَم سادھ کر کھڑا ہے اور عید آ رہی ہے
حیرت سے دَم بخود ہوں ، اِس بار کیا ہُوا کہ
خط تک نہیں ملا ہے اور عید آ رہی ہے
وَحشت نے یوں پڑھا ہے ، تنہائی کا صحیفہ
دِل سخت بھر گیا ہے اور عید آ رہی ہے
بانہوں میں عید ہو گی ، جس نے کیا تھا وعدہ
بانہوں میں جا چکا ہے اور عید آ رہی ہے
جانم! اِس عید پر ہم ، چلتے ہیں قیس کے گھر
دُشمن نے یہ کہا ہے اور عید آ رہی ہے
٭٭٭
دِل ، رُوح تک اُداس ہے اور چاند رات ہے
اِک بدترین یاس ہے اور چاند رات ہے
وُہ آخری ٹرین میں بیٹھا ہُوا ہو گا
پر یہ تو بس قیاس ہے اور چاند رات ہے
دِل کا سکوں ، جگر کا سکوں ، ذہن کا سکون
سب کچھ تو اُس کے پاس ہے اور چاند رات ہے
بادَل نے تشنگی کو کئی چند کر دِیا
اُوپر سے من کی پیاس ہے اور چاند رات ہے
ٹھنڈی ہَوا کا پَہرا ہے یادوں کے شہر میں
ہر زَخم بے لباس ہے اور چاند رات ہے
کچھ لوگ چاند رات میں لوٹیں گے پیار سے
جو کچھ بھی اَپنے پاس ہے اور چاند رات ہے
اَشکوں نے صف بنائی ہے وُہ بھی بہت طویل
اِک سال کی بھڑاس ہے اور چاند رات ہے
شب دیدہ جنگلات سے لاتے ہو جو حنا
اُس میں لہو کی باس ہے اور چاند رات ہے
اِک وعدہ اُس کی دید کا ، اِک پڑیا زہر کی
دونوں کی یکساں آس ہے اور چاند رات ہے
کچھ لیلیٰ کو جنون ہے تقسیمِ زَخم کا
کچھ قیس غم شناس ہے اور چاند رات ہے
٭٭٭
ہمارا ہی نہیں بدنام نام عید کے دِن
ہر اِہلِ عشق کا اَنجام جام عید کے دِن
شراب سے ہوں شرابور جیسے چست گلاب
کھڑے ہیں مست بدن گام گام عید کے دِن
کمند عقابوں پہ ڈالیں حسین زُلفیں کئی
بنے ہیں پھول سے اَندام دام عید کے دِن
حجاب میں بھی کوئی بھینٹ لے کے چھوڑیں گے
نگاہیں جن کی پڑھیں رام رام عید کے دِن
کہیں وُہ عید پہ جو ہنس کے کون سا وَعدہ؟
بڑھانے لگتے ہیں بادام دام عید کے دِن
کسی کی یاد دَبانے میں ، میں نہیں تنہا
کیا سبھی نے یہ ناکام کام عید کے دِن
غریب پلکوں کا منہ موتیوں سے بھر سا گیا
ملا یوں دید کا اِنعام ، عام عید کے دِن
وُہ جن کا گر گیا آنچل زَمیں پہ ہنستے ہُوئے
اُنہی کا جپتے ہیں اَصنام نام عید کے دِن
نجانے دیکھا ہے کیا کیا تراشتے زُلفیں
کہ چھوڑتے نہیں حجام جام عید کے دِن
کہا بھی قیس دَروغہ کو وُہ رَہا دِل چور
کہاں پہ کرتے ہیں حکام کام عید کے دِن
٭٭٭
یہ ہاتھ رُخ سے ہٹاؤ کہ عید آئی ہے
نظر نظر سے ملاؤ کہ عید آئی ہے
سہیلیوں کے ، خریداری کے ، عزیزوں کے
کسی بہانے سے آؤ کہ عید آئی ہے
کسی کو دیکھ کے بے اِختیار میں نے کہا
چراغ گھی کے جلاؤ کہ عید آئی ہے
غموں کی جبری مشقت میں اِنتخاب کہاں
خوشی تو دِل سے مناؤ کہ عید آئی ہے
دو لب ملیں گے محبت کا لفظ جو بھی کہے
صنم لبوں کو ملاؤ کہ عید آئی ہے
میں شرط باندھ چکا ہُوں ہِلالِ عید کے ساتھ
ذرا نقاب ہٹاؤ کہ عید آئی ہے
قریب آؤ کوئی بات چھیڑیں موسم کی
چلو حنا ہی دِکھاؤ کہ عید آئی ہے
وُہ بولے آپ ہیں میرے بزرگ ، میں نے کہا
تو پھر یہ پیر دَباؤ کہ عید آئی ہے
بہت سی باتوں کو ٹالا تھا عید پر صاحب
حساب اَپنا چکاؤ کہ عید آئی ہے
پرانے سارے بہانے ہیں قیس کو اَزبر
نئے بہانے بناؤ کہ عید آئی ہے
٭٭٭
چھٹی پر تھے طبیب عید کے دِن
مر گئے کچھ غریب عید کے دِن
نازُک اِحساس لوگ چڑھتے ہیں
زِندہ زِندہ صلیب عید کے دن
بُت بھی صف باندھ لیں عقیدت سے
عشق ہو گر خطیب عید کے دِن
گُلِ تر تم کو ، زَخم ہم کو ملیں
جس کے جیسے نصیب عید کے دن
چشمِ پُرنم کی تہہ میں ڈُوب گیا
چاند جیسا حبیب عید کے دِن
آئینوں سے کہاں تک عید ملیں
ہر گھڑی ہے مہیب عید کے دِن
چل رہا ہے قلم ، رَواں ہیں اَشک
با اَدب ، ’’بے نصیب‘‘ عید کے دِن
غمِ فرقت بڑھا جو حد سے تو
مر گئی عندلیب عید کے دن
یار تو یار ، ایسی وَحشت تھی
یاد آئے رَقیب عید کے دِن
اِہلِ دِل باقی مر چکے ہیں قیس
اور ہم عنقریب عید کے دن
٭٭٭
مہک وَفا کی کوئی پھول سے جدا نہ کرے
کروں میں عید ترے بن کوئی خدا نہ کرے
دُعا کا کاسہ بنائیں ملا کے اِک اِک ہاتھ
کوئی بھی اَپنے دَو ہاتھوں سے اَب دُعا نہ کرے
جو چاند دیکھیں تو ہونٹوں کے چار چاند ملیں
سِوائے شکر کے پلکوں سے کچھ گرا نہ کرے
گلے لگیں تو کئی صدیوں تک سُکُوت رہے
رُکیں یوں گردِشیں دَھڑکن تلک چلا نہ کرے
نگاہیں بات نگاہوں کی یوں سمجھتی ہوں
لبوں سے کوئی کبھی عرضِ مدعا نہ کرے
خدا کرے کہ جفا عمر بھر میں کر نہ سکوں
اَگر کروں تو میری زِندگی وَفا نہ کرے
وُہ بازُو کیا جو سمیٹیں نہ عمر بھر تجھ کو
وُہ سر ہی کیا ، ترے زانو پہ جو رَہا نہ کرے
لبوں سے یوں چنوں پلکوں سے تیری غم ریزے
نصیب نام سے بھی غم کے آشنا نہ کرے
وِصال و ہجر تو مولا کی دین وُہ جانے
نماز پیار کی دَھڑکن کبھی قضا نہ کرے
جدائی ہو تو مری عمر تجھ کو لگ جائے
وُہ قیس کیا جو حیات عشق میں فنا نہ کرے
٭٭٭
لبوں سے اُٹھتی ہُوئی چاندنی سے جلتے ہیں
ہمارے پنکھ کسی پنکھڑی سے جلتے ہیں
بھڑک وُہ اُٹھتے ہیں جب چاند رات آتی ہے
کچھ ایسے دِل جلے جو چاند ہی سے جلتے ہیں
یوں زَعفرانی حنا گُل بدن لگاتے ہیں
کہ شوخ تتلی کے پر ، جل پری سے جلتے ہیں
بہت ہی پیار سے اِہلِ حسد سے یہ کہیے
جو آگ سے بنے ، وُہ آدمی سے جلتے ہیں
یہ کہہ کے صاف بری ہو گئے سب اِہلِ خرد
پتنگے پیار میں اَپنی خوشی سے جلتے ہیں
کنویں کی اَندھی گھٹن میں خیال کے جگنو
چمکنا چاہیں تو پر روشنی سے جلتے ہیں
فُضول رَسموں پہ اَب گفتگو ضروری ہے
بتانِ وِہم و گماں آگہی سے جلتے ہیں
بہت سکون سے شکوے کو سننا حکمت ہے
کہ رِشتے دِل میں دَبی آگ ہی سے جلتے ہیں
بروزِ عید فقط میں نماز پڑھتا ہوں
اور اُس پہ لوگ میری بندگی سے جلتے ہیں
لہو سے شعر لکھے قیس لوحِ دِل پہ جبھی
وَفا کے دیپ میری شاعری سے جلتے ہیں
٭٭٭
زَخم اَپنانا کتنا مشکل ہے
ٹیس دَفنانا کتنا مشکل ہے
کتنی آساں ہے صبر کی تلقین
صبر آ جانا کتنا مشکل ہے
عید کے دِن مجھے ہُوا معلوم
خوش نظر آنا کتنا مشکل ہے
جو نبھاتے ہیں اُن سے پوچھے کوئی
ہاتھ پکڑانا کتنا مشکل ہے
کتنی آساں تھی فیصلے کی گھڑی
آہ! پچھتانا کتنا مشکل ہے
آپ نے بھی کبھی کیا محسوس؟
بات پلٹانا کتنا مشکل ہے
سُولی پر جاگنا ہے موت تلک
دِل کو بہلانا کتنا مشکل ہے
مجھ پہ بیتی ہے مجھ سے پوچھو جناب
لاش گھر لانا کتنا مشکل ہے
کاش سمجھانے والے بھی سمجھیں
خود کو سمجھانا کتنا مشکل ہے
آہ! ڈولی نما جنازے پر
پھول برسانا کتنا مشکل ہے
قیس بننے کے بعد جانا قیس
قیس بن جانا کتنا مشکل ہے
٭٭٭
ماخذ:
http://www.sqais.com/content/Eid-Poetry-%D8%B9%DB%8C%D8%AF-%D8%B4%D8%A7%D8%B9%D8%B1%DB%8C
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید