FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

چند اہم اسلامی آداب

ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر

 

چند اہم اسلامی آداب

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اس دین کی تکمیل فرما کر اس کے آخری اور پسندیدہ دین ہونے کا اعلان فرمایا، جیسا کہ ارشاد باری ہے:

"اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا” (المائدہ،:۳)

ترجمہ:۔” آ ج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کا مل کر دیا ،اور تم پر میں نے اپنا احسان پورا کر دیا، اور پسند کیا میں نے تمہارے لئے اسلام کو دین”۔

دین اسلام زندگی کے ہر شعبہ کو شامل ہے، ایمانیات ہوں یا عبادات ، معاملات ہوں یا اخلاق و آداب ،لہٰذا ایک شخص اسی وقت کامل مسلمان کہلا سکتا ہے ، جب وہ ان تمام شعبوں کا قائل اور عامل ہو۔

نیز ہر شعبہ اپنی جگہ اہم ہے ،آداب و اخلاق کی اہمیت عبادات سے کم نہیں،اسی لئے قرآن کریم نے بعض آداب کو بڑی اہمیت کے ساتھ بیان فرمایا ہے ، چنانچہ ارشاد باری ہے:

"یٰأیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَدْخُلُواْ بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَأنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰی أہْلِہَا۔۔۔” (نور:۲۷)

ترجمہ:” اے ایمان والو تم اپنے ( خاص رہنے کے ) گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل مت ہو جب تک کہ ( ان سے ) اجازت حاصل نہ کر لو،اور(اجازت لینے سے قبل ) ان کے رہنے والوں کو سلام نہ کر لو۔ "

اسی طرح احادیث نبویہ میں جابجا ان آداب کا ذکر اور تاکید آئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بھائیوں میں سے چھوٹے سے فرمایا ” کَبِّرْ کَبِّرْ” یعنی بڑے بھائی کو بولنے دو۔ (بخاری ، مسلم)

اسلامی آداب و اخلاق کی اہمیت اور تاکید کی بنا پر محدثین حضرات عموماً احادیث کی کتابوں میں آداب کا مستقل باب باندھتے ہیں ،اور بعض علماء کرام نے عوام کی سہولت کے لئے ان کی زبانوں میں اسلامی آداب یا حسنِ معاشرت کے عنوان سے کتابیں اور رسائل لکھے ہیں ،چنانچہ حضرت حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے رسالہ” حسنِ معاشرت ” اور ہماری جامعہ کے ایک نوجوان فاضل مولانا محمد زبیر عبدالمجید نے ” اسلامی آداب ” کے نام سے ایک مفصل کتاب لکھی ہے،اسی طرح دینی رسالوں میں اسلامی آداب پر مضامین بھی شائع ہوتے رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کتابوں اور مضامین سے مسلمانوں کو نفع پہنچائے ۔

ان آداب میں سے بعض آداب ایسے ہیں جن میں سے عموماً عوام و خواص سب ہی کوتاہی کے مرتکب ہو تے ہیں،ان حالات کو دیکھ کر ہمارے شیخ العلامة المحقق الشیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے چند اسلامی آداب کو جمع کر کے اس کا نام ” من أدب الاسلام ” رکھا ،یہ کتاب بلاد عربیہ میں بار بار چھپ چکی ہے اور اس سے عوام و خواص فائدہ اُٹھا رہے ہیں ۔

نیز آپ نے بعض ایسے آداب کی نشاندہی کی ہے ،جن کی تطبیق میں بعض اہل علم بھی کوتاہی کرتے ہیں ، بطور مثال: اگر مجلس میں میزبان مہمانوں کا اکرام کرتے ہوئے کوئی مشروب پیش کرے تو کہاں سے ابتدا کرے ؟ اپنی دائیں جانب سے یا صدر مجلس اور پھر اس کی دائیں جانب سے؟

بعض اہل علم مطلق میزبان کی دائیں جانب کو ترجیح دیتے ہیں ،چاہے وہاں چپڑاسی ،ڈرائیور یا ایک عام شخص بیٹھا ہو، اور دلیل میں ” اَلْاَیْمَنْ فَالْاَیْمَنْ” (بخاری ومسلم )کی روایت پیش کرتے ہیں، اور ” کَبِّرْ کَبِّرْ” والی روایت کو چھوڑ دیتے ہیں ، حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ نے دونوں روایتوں میں عمدہ تطبیق دیتے ہوئے فرمایا کہ :ابتدا تو صدر مجلس سے ہو، یا مجلس میں جو بھی اپنے علم ، تقویٰ ،منصب یا عمر کے اعتبار سے بڑا ہو ، اس سے کی جائے ، پھر اس کے دائیں سے ،چاہے وہ عام شخص کیوں نہ ہو ، اس طرح دونوں روایتوں پر عمل ہو جاتا ہے۔

جب عربوں کا یہ حال ہے تو ہمارے معاشرے میں ان آداب سے ناواقفیت و کوتاہی کا کیا عالم ہو گا؟ جی میں آیا کہ اس رسالہ کا ترجمہ کر دیا جائے ،تاکہ ہمارے عوام و خواص اور اُردو دان طبقہ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں ۔

چنانچہ اس مقصد کے لئے حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ کے صاحبزادے الاستاذ سلمان ابو غدہ حفظہ اللہ تعالیٰ سے فون پر اس رسالہ کی طباعت اور ترجمہ کی اجازت کی درخواست کی گئی تو انہوں نے بخوشی اس کی اجازت دے دی – فجزاہ اللّٰہ عنی احسن الجزاء-

درج ذیل صفحات میں اس کتاب کا ترجمہ پیش خدمت ہے ، اللہ تعالیٰ مجھے اور سب پڑھنے والوں کو ان اسلامی آداب پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائیں

٭٭٭

اہم اسلامی آداب

دین اسلام کے بہت سے آداب و فضائل ہیں ، اور ان کا تعلق زندگی کے ہر شعبہ سے ہے۔یہاں تک کہ جن کا موں کو معمولی سمجھا جاتا ہے، اسلام نے ان میں بھی آداب کی تعلیم دی ہے، جیسے بیت الخلاء میں داخل ہو نا ، اس سے باہر نکلنا ، اس میں بیٹھنے کی کیفیت ،استنجاء کا طریقہ ۔چنانچہ جب ایک مشرک نے غصہ دلانے کے لئے طنزیہ انداز میں جلیل القدر صحابی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ : تمہارے نبی نے تو تمہیں ہر چیز کی تعلیم دی ہے ،یہاں تک کہ استنجاء کا طریقہ بھی سکھایا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ:

"جی ہاں! ایسا ہی ہے ،ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پیشاب یا قضائے حاجت کے وقت استقبال قبلہ سے روکا ہے اور اس سے بھی روکا ہے کہ ہم دائیں ہاتھ سے استنجاء کریں یا تین پتھروں سے کم سے استنجاء کریں…”الحدیث

اس حدیث کو امام مسلم نے ” کتاب الطہارة” کے "باب الاستطابہ "میں ذکر کیا ہے ،نیز ابوداؤد ، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے بھی کتاب الطہارة میں ذکر کیا ہے، یہاں الفاظ مسلم کے ہیں۔

اسی طرح ان کا تعلق ہر بڑے ،چھوٹے اور مر دو عورت سے ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

"إنَّ النِّسَاءَ شَقَائِقُ الرِّجَال۔ِ”

"یعنی عورتیں مردوں کا جزء ہیں "۔

امام ابو داؤدؒ نے حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کتاب الطہارة ،باب الرجل یجد البلة ، اور ترمذی اور امام احمد نے مسند میں،مسند اما م احمد اور ابو داؤد کے الفاظ یہ ہیں:

” نعم إنما النساء شقائق الرجال”

اور ترمذی میں :

” نعم إن النساء شقائق الرجال”

یعنی عورتیں مردوں جیسی ہیں اپنی خلقت ،طبیعت اور شرعی احکام میں، سوائے ان احکام کے جو مردوں یا عورتوں کے ساتھ خاص ہیں۔

لہٰذا جن اسلامی آداب کا مطالبہ مرد سے کیا جاتا ہے، ان کا مطالبہ عورت سے بھی کیا جائیگا،کیونکہ ان دونوں سے مسلمان معاشرہ وجود میں آتا ہے اور اسلام دونوں کو مخاطب بناتا ہے۔

یہ وہ آداب ہیں جن کی اسلام نے تلقین کی ہے اور جن کو اپنانے کی ترغیب اور ان پر عمل پیرا ہونے کی تاکید کی ہے، تاکہ ان کی برکت سے ایک مومن کی شخصیت اپنے کمال کو پہنچے اور لوگوں میں اتفاق اور محبت پیدا ہو، بیشک مسلمان جب ان آداب اور فضائل کو اختیار کرتا ہے تو اس کے حسن معاشرت میں اضافہ ہو تا ہے ، اس کے محاسن کو قوت حاصل ہو تی ہے اور اس کی شخصیت محبوب بن جاتی ہے اور دوسروں کے دل وجان میں جگہ بنا لیتی ہے۔

یہ آداب جو یہاں ذکر کئے گئے ہیں، یہ شریعت کی روح اور مقاصد میں سے ہیں اور ان کو آداب کے نام سے تعبیر کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ان کا تعلق معمولاتِ زندگی کے ان حصوں سے ہے جس میں کرنے اور نہ کرنے کا انسان کو اختیار ہے یا ان پر عمل کرنا صرف اولیٰ اور بہتر ہے۔

امام قرافی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب” الفروق” میں ادب اور عمل کی باہمی نسبت کوبیان کرتے ہوئے ادب کی عمل پر فوقیت کو یوں بیان فرمایا ہے :

"جان لو ! کہ تھوڑا سا ادب زیادہ عمل سے بہتر ہے”۔

اسی لئے حضرت رویم ،جو ایک عالم اور صالح بزرگ گزرے ہیں ،انہوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :

” پیارے بیٹے! اپنے عمل کو نمک بناؤ اور اپنے ادب کو آٹا بناؤ”

یعنی ادب پر اتنی کثرت سے عمل کرو کہ کثرت کے اعتبار سے اس کی حیثیت ایسی ہو جائے جیسے گوندھے ہوئے آٹا کی نمک کے مقابلہ میں ۔اور ادب سے معمور تھوڑاسا عملِ صالح اس زیادہ عمل سے بہتر ہے جس میں ادب کی کمی ہو ۔

میں کہتا ہوں کہ اگر ان آداب میں سے کسی ادب میں سادگی یا عمومیت نظر آئے تو اس پر تنبیہ کو تعجب سے نہ دیکھا جائے ،کیونکہ ہم میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو ان آداب کے بارے میں غلطی کرتے ہیں اور ان آداب میں کوتا ہی کرنے کی وجہ سے ایک مسلمان کی شخصیت بد نما نظر آتی ہے، جب کہ مسلمان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے جمال ،کمال اور علامات کی وجہ سے ممتاز نظر آئے ،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی جو ا بو داؤد ،امام احمد ،اور حاکم نے مستدرک میں سہل بن حنظلہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔سے راہنمائی ملتی ہے ،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا:

"إنکم قادمون علی إخوانکم ،فأحسنوا لباسکم ،وأصلحوا رحالکم ،حتیٰ تکونواکأنکم شامّة (۱)فی الناس ۔ فإن اللّٰہ لایحب الفحش والتفحش "۔

ترجمہ:۔ ” تم اپنے بھائیوں سے ملنے والے ہو، لہٰذا اپنے اچھے لباس پہن لو، اپنی سواریوں کے پالان درست کر لو ، تاکہ تم مجلس میں ممتاز نظر آؤ،کیونکہ اللہ کو بدزبانی اور بے حیائی پسند نہیں "۔

فائدہ :شامة:اس تل کو کہتے ہیں جو عموماً چہرہ پر ہو تا ہے اور جس سے جمال میں اضافہ ہو تا ہے ،

لہٰذا ایک مسلمان کو چاہیئے کہ وہ اپنے عمدہ لباس، ظاہری حالت اور اچھی ہیئت سے مسلمان نظر آئے، اللہ تعالیٰ ہی سیدھی راہ دکھانے والا ہے۔

ادب :۱

جب آپ اپنے گھر میں داخل ہوں یا گھر سے باہر نکلیں تو زور سے دروازہ نہ بند کریں ، اور نہ ہی اسے اس طرح چھوڑ دیں کہ وہ زور سے خود بند ہو جائے ،کیونکہ یہ حرکت اس اسلام کی تعلیم کردہ نرم مزاجی کے خلاف ہے جس کی طرف آپ کو نسبت کا شرف حاصل ہے، بلکہ آپ کو چاہیے کہ نہایت نرمی سے دروازہ بند کریں ،شاید آپ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کی روایت سنی ہو گی جس میں وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول نقل فرماتی ہیں کہ آپ صلی لله علیہ وسلم نے فرمایا :

"إن الرفق لایکون فی شئ إلا زانہ ولایُنزع من شئ إلاشانہ۔”(مسلم)

ترجمہ:۔”نرمی جس چیز میں بھی پائی جائے وہ اسے خوبصورت بنادیتی ہے اور نرمی جس چیز سے نکال دی جائے وہ اسے بدصورت بناد یتی ہے "۔

ادب :۲

جب آپ اپنے گھر میں داخل ہوں یا گھر سے باہر نکلیں تو گھر میں موجود اپنے گھر والوں کو، چاہے مرد ہوں یا خواتین، مسلمانوں اور اسلام والا سلام کریں یعنی "السلام علیکم و رحمة الله و برکاتہ "کہیں۔

اسلام کے سلام کو چھوڑ کر… جو کہ اسلام کا شعار اور مسلمانوں کی پہچان ہے… دوسری قوموں کے سلام جیسے:” گڈ مارننگ "اور”ہیلو”وغیرہ کو اپنانا اسلام کے سلام کو ختم کرنے کے مترادف ہے ،حالانکہ یہ وہ سلام ہے جس کی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے امت کو تعلیم دی ہے اور جو سلام آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے جلیل القدر خادم حضرت انس رضی الله عنہ کو سکھایا تھا ۔

چنانچہ حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :

"یا بُنیّ إذا دخلت علی أھلک فسلّم یکون برکة علیک وعلی أھلک۔”

ترجمہ:…”پیارے بیٹے !جب گھر میں داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کرو ، یہ سلام تمہارے اور تمہارے گھر والوں کے لیے برکت ہو گا”۔

حضرت قتادہ رحمہ الله جو بہت بڑے فضلا تابعین میں سے ہیں ،فرماتے ہیں :

"إذا دخلت بیتک فسلّم علی أھلک فھم أحق من سلمت علیھم ۔”

ترجمہ:۔”جب تو اپنے گھر میں داخل ہو تو اپنے گھر والوں کو سلام کرو کیونکہ وہ سلام کے زیادہ حق دار ہیں "۔

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :

"إذا انتھی أحدکم إلی مجلس فلیسلّم،……ثم اذا قام فلیسلّم، فلیست الأولی بأحق من الأخرة۔” (الترمذی)

ترجمہ:…”جب تم میں سے کوئی مجلس میں جائے تو سلام کرے اور جب مجلس سے جانے کا ارادہ کرے تو سلام کرے ،کیوں کہ پہلا سلام دوسرے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔”

ادب :۳

جب آپ اپنے گھر میں داخل ہونے لگیں تو گھر میں موجود افراد کو داخل ہونے سے پہلے اپنے آنے سے مطلع کریں تاکہ آپ کے یک دم داخل ہونے سے وہ گھبرا نہ جائیں یا ایسا نہ ہو کہ گویا آپ ان کی کسی کمزوری کو تلاش کر رہے ہیں ۔

حضرت ابو عبیدالله عامر بن عبدالله بن مسعود رضی لله عنہ فرماتے ہیں، کہ میرے والد عبدالله بن مسعود ؓجب گھر میں آتے تو پہلے مانوس کرتے یعنی گھر والوں کو مانوس کرنے کے لیے ان کو مطلع کرتے، کوئی بات کرتے، اور آواز بلند کرتے تاکہ وہ مانوس ہو جائیں ۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

"جب کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہو نا چاہے تو اسے چاہئے کہ کھنکھارے یا اپنے جوتوں کی آواز سنائے۔”

امام احمدؒ کے صاحبزادے عبد اللہؒ فرماتے ہیں کہ میرے والد صاحب جب مسجد سے گھر لوٹتے تو گھر میں داخل ہونے سے پہلے پیر زمین پر مارتے تاکہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے ان کے جوتے کی آواز آئے اور کبھی کھنکھار تے تاکہ گھر میں موجود افراد کو اپنے اندر آنے کی اطلاع دے سکیں۔

یہی وجہ ہے کہ بخاری اور مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے یہ روایت آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی شخص سفر وغیرہ سے واپسی پر گھر والوں کو بتائے بغیر رات کو اپنے گھر میں لوٹے، یعنی سفر وغیرہ سے گھر والوں کو بغیر بتائے  آ جائے ،تاکہ اس طرح ان کی خیانت یا کمزوریوں کو تلاش کرے۔

ادب :۴

جب آپ کے گھر کے افراد میں سے کوئی فرد کسی علیحدہ کمرے میں ٹھہرا ہوا ہو اور آپ اس کے پاس جانا چاہتے ہوں تو اس سے پیشگی اجازت لیں، تاکہ آپ اسے ایسی حالت میں نہ دیکھیں ،جس حالت میں وہ یا آپ خود دیکھنا ناپسند کرتے ہوں ،چاہے وہ بیوی ہو یا محارم وغیرہ میں سے کوئی ہو، جیسے آپ کی والدہ ،والد ،بیٹیاں اور بیٹے۔ امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ نے ” موطأ ،کتاب الاستیذان” میں عطاء بن یسارؒ سے مرسلا نقل کیا ہے کہ:

"ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ:حضرت ! کیا میں اپنی ماں سے بھی اجازت لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں،اس شخص نے عرض کیا: میں تو اپنی ماں کیساتھ گھر میں رہتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اجازت لے کر جاؤ، کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ تو اپنی ماں کو ننگی حالت میں دیکھے ؟ اس نے عرض کیا: نہیں ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس اجازت لے کر جاؤ۔”

ایک شخص حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور آ کر سوال کیا کہ: کیا میں اپنی ماں سے بھی اجازت لوں؟ انہوں نے فرمایا : تو ہر حالت میں اس کو دیکھنا پسند نہیں کر تا،(لہٰذا اجازت لو)۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب کسی کام سے گھر لوٹتے تو کھنکھارتے، تاکہ ہماری کسی ایسی حالت پر نگاہ نہ پڑے، جسے وہ پسند نہیں کرتے۔

ابن ماجہ میں کتاب الطب کے آخر میں ایک روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ جب گھر آتے تو پہلے کھنکھار تے اور آواز لگاتے ۔

حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا: کیا میں اپنی ماں سے بھی اجازت لوں؟ تو آپ ﷺنے فرمایا: ہاں، اگر تو اجازت نہیں لے گا تو اسے ایسی حالت میں دیکھے گا،جسے تو پسند نہیں کرتا۔

حضرت موسیٰ تابعی جو صحابی جلیل حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ہیں، فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد صاحب کے ساتھ والدہ صاحبہ کے پاس گیا، جب والد صاحب کمرہ میں داخل ہوئے تو میں بھی پیچھے پیچھے داخل ہو گیا تو والد صاحب نے اتنے زور سے میرسے سینے سے دھکا دیا کہ میں زمین پر گر گیا اور کہنے لگے :کیا بغیر اجازت داخل ہوتے ہو؟

حضرت نافع مولیٰ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما کی عادت مبارک تھی کہ ان کا کوئی صاحبزادہ بلوغت کو پہنچ جاتا تو اسے الگ کر دیتے۔ یعنی اپنے کمرہ سے الگ کر دیتے ، اور اس کے بعد وہ بغیر اجازت ان کے کمرہ میں داخل نہ ہو تا تھا۔

ابن جریج ؒ،عطاء بن ابی رباحؒ سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا : کیا میں اپنی دو بہنوں سے بھی اجازت لوں ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں! میں نے عرض کیا: وہ میری پرورش میں ہیں، یعنی میرے گھر میں ہیں اور میری ذمہ داری میں ہیں اور میں ہی ان کی پرورش کرتا ہوں اور ان پر خرچ کرتا ہوں، فرمایا: کیا تجھے پسند ہے کہ تو ان کو ننگی حالت میں دیکھے ، پھر حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی :

﴿وَاِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْکُمُ الْحُلُمَ فَلْیَسْتَأْذِنُوْا کَمَا اسْتاْذَنَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ﴾ (نور:۵۹)

ترجمہ :…” اور جب پہنچیں لڑکے تم میں کے عقل کی حد کو تو ان کوویسی ہی اجازت لینی چاہیے ،جیسے لیتے رہے ہیں ان سے اگلے "۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اجازت لینا سب لوگوں پر واجب ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہر شخص کو اپنے والد ، والدہ،بھائی اور بہن سے اجازت لینی چاہیے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہر شخص کو اپنے بیٹے سے اجازت لینی چاہیے، اپنی ماں سے اگر چہ وہ بوڑھی ہو، اپنے بھائی سے، اپنی بہن سے ،اور اپنے باپ سے۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے ان روایات میں اکثر کو اپنی کتاب ” الادب المفرد”میں ذکر کیا ہے اور بعض کو امام ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس سابقہ آیت کے ضمن میں ذکر کیا ہے۔

ادب: ۵

جب آپ اپنے کسی بھائی ، دوست ،جاننے والے یا جس شخص سے آپ کو ملنا ہو ،اس کے دروازہ کو کھٹکھٹائیں تواتنی نرم آواز سے کھٹکھٹائیں، کہ جس سے پتہ چلے کہ دروازہ پر کوئی آیا ہے ،اور اتنی زور اور شدت سے نہ کھٹکھٹائیں،جیسے کوئی سخت دل اور ظالم انتظامیہ کے لوگ کھٹکھٹاتے ہیں ،جس سے صاحب خانہ پریشان ہو جائے ،کیونکہ یہ ادب کے خلاف ہے۔

ایک خاتون حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ہاں کوئی دینی مسئلہ پوچھنے آئیں ،اور دروازہ اس طرح کھٹکھٹایا جس میں کچھ شدت تھی، امام صاحب باہر تشریف لائے اور فرمانے لگے: یہ تو پولیس والوں جیسا کھٹکھٹانا ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے غایت ادب کی بناء پر وہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ کو ہاتھ کے ناخنوں سے کھٹکھٹاتے تھے ،جیسا کہ امام بخاری نے ” الادب المفرد” میں ذکر کیا ہے۔

یاد رہے کہ یہ نرمی سے کھٹکھٹا نا اس صورت میں ہے کہ جب صاحبِ خانہ دروازہ کے نزدیک بیٹھا ہو، لیکن اگر صاحبِ خانہ دروازہ سے دور ہو ،تو پھر اتنے زور سے کھٹکھٹانا چاہیے کہ صاحب خانہ آواز سن لے، اور اس میں بھی زیادہ شدت سے اجتناب کرے،اس سے پہلے حدیث شریف گزر چکی ہے کہ(نرمی جس چیز میں ہو گی وہ اسے خوبصورت بنا دے گی،او ر جس چیز سے نرمی سلب کر لی جاتی ہے تو وہ اسے بد صورت بنا دیتی ہے،نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"جو شخص نرمی سے محروم کر دیا گیا وہ ہر خیر سے محروم کر دیا گیا۔”( مسلم شریف )

نیز اگر آپ کے دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد کسی نے دروازہ نہیں کھولا تو دوسری دفعہ کھٹکھٹانے سے پہلے اتنا وقفہ دیجے کہ وضو کرنے والا وضو سے اطمینان سے فارغ ہو جائے ، نماز پڑھنے والا اطمینان سے نماز سے فارغ ہو جائے، اگر کھانا کھا رہا ہے تو حلق سے اطمینان سے لقمہ اتار لے، بعض علماء نے اس کی مقدار چار رکعت کی بیان کی ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ جب آپ نے دروازہ کھٹکھٹا یا ،اسی وقت اس نے نماز کی نیت باندھی ہو، تین بار وقفہ وقفہ سے کھٹکھٹانے کے بعد اگر آپ کو اندازہ ہو جائے کہ اگر صاحبِ خانہ مشغول نہ ہوتا تو ضرور باہر نکل آتا ، تو آپ واپس لوٹ جائیں ،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:

” جب تم میں سے کوئی تین بار اجازت مانگے اور اسے اجازت نہ ملے تو اسے چاہیے کہ واپس چلا جائے ۔” ( بخاری و مسلم)

نیز جب آپ اندر جانے کی اجازت مانگیں تو دروازہ کے بالکل سامنے مت کھڑے ہوں ، بلکہ دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی شخص کے دروازہ پر تشریف لے جاتے تو بالکل دروازہ کے سامنے کھڑے نہیں ہوتے تھے ،بلکہ دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے تھے ۔ ( ابو داؤد)

ادب: ۶

جب آپ نے اپنے کسی بھائی کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر سے آواز آئی :آپ کون؟ تو آپ اپنا وہ پورا نام بتلائیں جس سے آپ کو پکارا جاتا ہو کہ میں فلاں ہوں،لہٰذا یہ نہ کہیں کہ:کوئی ایک ہوں ،یا میں ہوں ،یا ایک شخص ہوں ،کیونکہ اندر سے پوچھنے والا ان الفاظ سے آنے والے کو نہیں پہچان سکتا ،اور آپ کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ صاحب خانہ آپ کی آواز پہچانتے ہیں، کیونکہ آوازیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں اور انداز بھی ایک دوسرے سے مشابہ ہوتے ہیں، لہٰذا ضروری نہیں کہ گھر والے آپ کی آواز کو پہچان سکیں یا امتیاز کرسکیں، کیونکہ کان بھی آواز کے پہچاننے میں غلطی کرتے ہیں ،اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے جواب میں "میں” کہنے کو ناپسند کیا ہے، کیونکہ اس سے صحیح پہچان نہیں ہوتی ۔

حضرت جابر بن عبدالله رضی الله عنہما سے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت نقل کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جب میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : کون ؟ میں نے جواب میں عرض کیا : "میں "تواس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے بطور نکیر فرمایا : "میں،میں” گویا آپ صلی الله علیہ وسلم کو میرا "میں "کہنا ناگوار گزرا۔یہی وجہ ہے کہ جب صحابہ کرام رضی الله عنہم سے کہا جاتا: کون ؟تو وہ اپنا نام لیتے تھے ۔

بخاری اورمسلم میں حضرت ابوذر غفاری رضی الله عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: ایک رات جب میں اپنے گھر سے نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تنہا تشریف لے جا رہے ہیں ،میں چاند کے سائے میں چلنے لگا ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے مڑ کر دیکھا تو مجھے دیکھ لیا اور فرمایا : یہ کون ہے؟میں نے عرض کیا: ابوذر!

نیز امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ کی بہن اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی چچازاد بہن ام ہانی ؓسے روایت نقل کی ہے کہ میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی ، آپ غسل فرما رہے تھے اور آپ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا پردہ پکڑے ہوئے تھی ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : یہ کون ہیں ؟ تو میں نے کہا : میں ام ہانی ہوں ۔

ادب ۷

جب آپ بغیر کسی پیشگی وعدہ کے کسی بھائی سے ملاقات کے لیے جائیں ،یا پہلے کوئی وعدہ تھا، مگر اس نے اس وقت ملاقات سے معذرت کر لی تھی، تو آپ اس کی معذرت کو قبول کر لیں، کیونکہ وہ اپنے گھر کے حالات اور اپنی معذوریوں کو خوب جانتا ہے ،ممکن ہے کہ اسے کوئی خاص مانع پیش آگیا ہو، یا کوئی خاص ایسی حالت درپیش ہو کہ اس وقت وہ آپ کا استقبال نہ کرسکتاہو ،اور ایسے حالات میں آپ سے معذرت کرنے میں کوئی تنگی محسوس نہیں کرتا، جلیل القدر تابعی حضرت قتادہ بن دعامة السدوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ایسے لوگوں کے دروازے پر مت کھڑے ہوں جنہوں نے آپ کو اپنے دروازہ سے واپس کر دیا ہو ، کیونکہ اگر آپ کی ضرورتیں ہیں تو ان کی بھی مصروفیات ہیں، لہٰذا ان کو عذر کرنے کا زیادہ حق ہے۔

حضرت امام مالک رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: ہر آدمی اپنا عذر بیان نہیں کرسکتا، اسی لئے سلف صالحین کی عادت تھی کہ کسی کی ملاقات کے لئے جاتے تو اس سے کہتے: ممکن ہے، اس وقت آپ کو کوئی مشغولیت ہو! تاکہ صاحبِ خانہ اگر عذر پیش کرے تو اس کے لئے آسانی ہو۔

مذکورہ ادب کی اہمیت اور صاحبِ خانہ کی جانب سے معذرت کی صورت میں بعض حضرات کے نفس میں احساس پیدا ہو نے کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں زیارت اور اجازت کے ضمن میں فرمایا:

"وَاِنْ قِیْلَ لَکُمْ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا ھُوَ اَزْکٰی لَکُمْ”۔ ( نور،:۲۸)

ترجمہ :…”اور اگر تم کو جواب ملے کہ پھر جاؤ، تو پھر جاؤ، اس میں خوب ستھرائی ہے تمہارے لیے "۔

قرآن کریم کے اس ادب سے اس شخص کو بھی سہولت ہے ،جو بعض غلطیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے،مثلاً یہ کہ اُ سے کسی سے ملنا ناگوار ہو تا ہے تو وہ مجبوراً جھوٹ بولتا ہے، اور کسی سے کہلواتا ہے کہ وہ گھر میں نہیں ہے، حالانکہ وہ گھر میں موجود ہو تا ہے ،اس طرح اس سے جھوٹ کا گناہ سرزد ہوتا ہے ،اور اس سے گھر میں موجود چھوٹے بچے بھی یہ ناپسندیدہ عادت سیکھتے ہیں اور بسا اوقات اس غلط تصورسے دلوں میں دشمنی اور کینہ پیدا ہو تا ہے ۔

قرآن کریم کی ہدایت ہمیں اس بُرائی میں پڑنے سے روکتی ہے ،اس لئے وہ صاحبِ خانہ کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ بڑی نرمی سے اپنے آنے ولے بھائی سے معذرت کر لے ،اور آنے والے کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ صاحبِ خانہ کا عذر قبول کرے ۔اس لئے فرمایا:

"﴿وَاِنْ قِیْلَ لَکُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا ھُوَ اَزْکٰی لَکُمْ﴾۔”

ادب ۸

جب آپ کسی کے گھر میں جانے کی اجازت لیں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کی نگاہ گھر کے اندر یا کسی خاتون پر نہ پڑے ،کیونکہ وہ عیب اور بُرائی ہے۔

امام ابو داؤد اور طبرانی نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر کھڑا ہو گیا اور دروازہ کی طرف نگاہ کرتے ہوئے اندر آنے کی اجازت چاہی ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ: اس طرح کھڑے ہوا کرو، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وہاں سے ہٹایا اور حکم دیا کہ دروازہ کے سامنے سے ہٹ کر کھڑے ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اجازت تو اسی لئے لی جاتی ہے تاکہ نگاہ کی حفاظت ہو ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب” الادب المفرد ” میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"لا یحل لامرئ أن ینظر إلی جوف بیت حتی یستأذن ،فإن فعل فقد دخل”۔

ترجمہ:…”کسی شخص کے لئے یہ حلال نہیں کہ بغیر اجازت کسی کے گھر کے اندر دیکھے ،پس اگر اس نے ایسا کیا تو گو یا وہ گھر میں داخل ہو گیا”۔

یعنی اجازت لینے سے پہلے اگر اس نے گھر کے اندر دیکھ لیا تو ایسا ہے جیسے وہ بغیر اجازت گھر کے اندر داخل ہو گیا، اور یہ اس کے لئے حرام فعل ہے۔

نیز امام بخاری اور امام ابو داؤد اور امام ترمذی رحمہم اللہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"إذا دخل البصر فلاإذن لہ۔”

ترجمہ:”جب نگاہ اندر پڑ گئی تو اجازت نہیں ہے”۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عمار بن سعیدتتجیبی سے روایت کی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا :

"من ملأ عینہ من قاعة بیت أی ساحتہ وداخلہ قبل أن یؤذن لہ، فقد فسق۔”

یعنی جس شخص نے اجازت ملنے سے پہلے گھر میں خوب جی بھر کے دیکھ لیا تو وہ فاسق ہو گیا۔

نیز امام بخاری اور امام مسلم وغیرہ ائمہ حدیث نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ: ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک کے دروازے کے سوراخ سے جھانک رہا تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کھجلانے کی لکڑی تھی جس سے آپ اپنا سر مبارک کھجلا رہے تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جھانکتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اگر مجھے معلوم ہو تا کہ تم اندر جھانک رہے ہو تو میں اسی لکڑی سے تمہاری آنکھ پھوڑ دیتا! اجازت لینے کا حکم اسی لئے دیا گیا ہے تاکہ نگاہ اندر نہ پڑے۔

ادب :۹

جب آپ اپنے مسلمان بھائی سے ملنے جائیں یا اپنے ہی گھر میں داخل ہوں ،تو آپ گھر میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت نہایت مہذب انداز اختیار کریں: اپنی نگاہ نیچی رکھیں،اپنی آواز پست رکھیں ،اپنے جوتے اپنی جگہ پر اتاریں، اور جوتے اتار کر ترتیب سے رکھیں اور ان کو ادھر اُدھر مت ڈالیں،نیز جوتے پہننے اور اتار نے کے آداب کو نہ بھولیں، پہنتے وقت داہنا جوتا ،دائیں پاؤں میں پہنیں اور اتارتے وقت بائیں جو تے کو پہلے اتاریں ۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

"إذا انتعل أحدکم فلیبدأ بالیمنیٰ، وإذا نزع فلیبدأ بالشمال لتکن الیمنیٰ أولہما تنعل وآخرھما تنزع۔” ( رواہ مسلم ۔)

یعنی جب تم میں سے کوئی جوتا پہنے تو دائیں سے شروع کرے ،اور جب جوتا اتارے تو بائیں سے شروع کرے ،دائیں جوتے کو پہلے پہنا جائے اور آخر میں اتارا جائے۔

نیز اپنے یا اپنے مسلمان بھائی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنے جوتے کو اچھی طرح دیکھ لو ،اگر جوتے کے ساتھ راستے میں کوئی چیز لگ گئی ہے تو اسے اس سے دور کر دو، اور جوتوں کو زمین پر رگڑ دو تاکہ ان کے ساتھ جو چیز لگی ہو، وہ دور ہو جائے ، کیونکہ اسلام پاکیزگی اور تہذیب کا دین ہے۔

ادب: ۱۰

اپنے بھائی یا اپنے میزبان کے ساتھ بیٹھنے کی جگہ پر کھینچا تانی نہ کریں، بلکہ وہ آپ کو جہاں بٹھائے وہیں بیٹھیں، کیونکہ اگر آپ اپنی مرضی کی جگہ بیٹھیں گے تو ممکن ہے کہ ایسی جگہ بیٹھیں جہاں سے مستورات پر نظر پڑتی ہو، یا صاحب خانہ وہاں بیٹھنے سے بوجھ محسوس کرے ،لہٰذا آپ اپنے میزبان کی فرمائش کے مطابق بیٹھیں، اور اس کے اکرام کو قبول کریں۔

جلیل القدر صحابی حضرت عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے واقعہ میں آتا ہے: کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا اکرام کرتے ہوئے ان کو بیٹھنے کے لئے تکیہ پیش کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر بیٹھ گئے۔

چنانچہ حضرت عدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے اپنے ساتھ لے کر چلے ، جب گھر میں داخل ہوئے تو چمڑے کا ایک تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی میری طرف بڑھایا اور فرمایا: اس پر بیٹھ جاؤ ، میں نے عرض کیا : آپ اس پر بیٹھیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں، آپ اس پر بیٹھیں، پس میں اس پر بیٹھ گیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر بیٹھ گئے۔

( ابن کثیر نے اس واقعہ کو ” البدایة والنہایة” :۵/۶۴، میں سیرت ابن ہشام سے نقل کیا ہے)

خارجہ بن زید ،محمد ابن سیرین رحمہ اللہ کی ملاقات کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے ، تو کیا دیکھتے ہیں کہ ابن سیرینؒ تکیہ چھوڑ کر زمین پر بیٹھے ہیں ،حضرت خارجہ رحمہ اللہ نے چاہا کہ ان کے ساتھ زمین پر بیٹھ جائیں،اس لئے ان سے کہنے لگے: آپ نے اپنے لئے جس چیز کو پسند کیا ہے ،یعنی زمین پر بیٹھنا ،میں بھی اپنے لئے اسی کو پسند کرتا ہوں ،اس پر ابن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: میں ا پنے گھر میں آپ کے لئے وہ پسند نہیں کرتا جو اپنے لئے پسند کرتا ہوں، لہٰذا آپ وہاں بیٹھیں جہاں بیٹھنے کے لئے آپ سے کہا جاتا ہے۔

اسی طرح آپ میزبان کی خاص جگہ پر نہ بیٹھیں ،مگر وہ خود آپ کو وہاں بٹھا ئے ،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

"لا یؤم الرجل الرجل فی سلطانہ ،ولا یقعد فی بیتہ علی تکرمتہ إلا بإذنہ۔”

یعنی کوئی شخص دوسرے شخص کی امامت نہ کرے اس کے منصب کی جگہ میں اور نہ ہی اس کے گھر میں اس کی خاص جگہ پر بیٹھے مگر یہ کہ وہ اسے اجازت دے (اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے)

ادب :۱۱

جب آپ اپنے بھائی یا اپنے دوست کے گھر جائیں اور وہ آپ کو کسی جگہ بٹھا دے یا سلادے ،تو اپنی نگاہ کو اس طرح نہ ڈالیں جیسے کوئی شخص کسی چیز کو تلا ش کر رہا ہو، بلکہ آپ اپنی نگاہ کو نیچا رکھیں، جب آپ بیٹھے ہوں یا سونا چاہتے ہوں ،تو صرف اسی چیز پر نظر ڈالیں جس کی آپ کو ضرورت ہے، کسی بند الماری کو مت کھولیں، اسی طرح کسی صندوق کو مت کھولیں، یا کوئی بیگ اور تھیلی لپٹی ہوئی ہو ، یا کوئی ڈھانکی ہو ئی چیز ہو تواس کو نہ کھولیں، کیونکہ یہ اسلامی ادب کے خلاف ہے اور اس امانت کے بھی خلاف ہے جس کی بنا پر آپ کے بھائی یا دوست نے آپ کو اپنے گھر آنے اور ٹھہرنے دیا ہے، لہٰذا کسی کو ملنے سے پہلے زیارت کے آداب سیکھ لیں ۔

اور حسنِ معاشرت کی وسعتوں میں داخل ہو جائیں اور اپنے میزبان کے ہاں محبوب اور پسندیدہ رتبہ پر فائز ہو جائیں، اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کا دوست ہو۔

ادب :۱۲

آپ کو چاہیئے کہ آپ ملاقات کے لئے مناسب وقت کا انتخاب کریں ،اور جب ملاقات کریں تو میزبان کے پاس اتنا ٹھہریں جتنا آپ کے اور اس کے تعلقات کے مناسب ہو، اور جو اس کی حالت سے مناسب ہو ، لہٰذا ملاقات لمبی نہ کریں،اور نہ ہی میزبان پر بوجھ بنیں، اور نہ ایسے وقت میں آئیں جو ملاقات کے مناسب نہ ہو، مثلاً: کھانے کے وقت ، سونے کے وقت ، یا آرام کے وقت ملاقات سے احتراز کریں۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب "الاذکار”میں سلام کے باب کے آخر میں سلام کے مسائل ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے :

ایک مسلمان کیلئے جس مستحب کی تاکید ہے :وہ یہ ہے کہ وہ نیک لوگوں ، اپنے بھائیوں ،اپنے پڑوسیوں ،اپنے دوستوں اور اپنے رشتہ داروں سے ملتا رہے ،ان کا اکرام کرے ،احسان و بھلائی سے پیش آئے ، اور صلہ رحمی کر ے ،اس ملاقات کا معیار ،حالات ،مراتب ،اور فراغت کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے ،لہٰذامناسب یہ ہے کہ ان سے ملاقات ایسے موقع پر ہو جسے وہ ناپسند نہ کرتے ہوں ،اور ایسے وقت میں ہو کہ جسے وہ پسند کرتے ہوں ،اور اس سلسلہ میں بہت سی احادیث اور آثار مشہور ہیں ۔

ادب :۱۳

جب آپ اپنے میزبان کیساتھ گفتگو کریں تواس کے مقام اور مرتبہ کا لحاظ رکھتے ہوئے مختصر گفتگو کریں ،اور اگر آپ مجلس میں سب سے چھوٹے ہیں ، تو آپ با ت نہ کریں ، الا یہ کہ مجلس والوں میں سے کوئی آپ سے سوال کرے ، تو آپ اس کا جواب دیں ،ہا ں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی گفتگو اور کلام سے وہ خوش ہونگے اوراس کی قدر کریں گے ،تو کلام میں پہل کر سکتے ہیں ،لیکن بات کو لمبا نہ کریں اورمجلس میں بیٹھنے کے آداب ،اور گفتگو کے انداز کو نہ بھولیں ۔

ادب :۱۴

جب آپ کسی مجلس میں جائیں تو سب سے پہلے سب کو سلام کریں اور اگر سلام کے بعد آپ مصافحہ بھی کرنا چاہتے ہیں تو مصافحہ کی ابتدا اس شخص سے کریں جو سب سے افضل ہو ،یا عالم ہو یا بڑا پرہیزگار ہو یا عمر کے اعتبار سے سب سے بڑا ہو یا کسی ایسی صفت میں ممتا زہو  جو شرعاً قابل احترام ہے،اور افضل کو چھوڑ کر کسی ایسے شخص سے ہر گز مصافحہ نہ کریں جو اگر چہ صف اول میں پہلا ہو یا دائیں طرف ہو،مگر وہ دوسروں کے مقابلہ میں عامی شمار ہو تا ہو ،بلکہ سب سے پہلے اس شخص سے مصافحہ کریں جو اس مجلس میں اپنی خاص صفت کی وجہ سے سب سے افضل ہو ،اور اگر آپ کو معلوم نہیں کہ ان میں سے افضل کون ہے؟یا آپ سمجھتے ہوں کہ مرتبہ میں سب برابر ہیں ،تو جو عمر میں سب سے بڑا ہو، اس سے ابتداء کریں ،کیونکہ بڑی عمر والے کی پہچان عموماً مشکل نہیں ہو تی ،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

کبّر کبّر (بخاری ونسائی )”یعنی بڑے کو آگے کرو”۔

ایک اور روایت میں ہے:

"کبّر الکبر فی السن۔”

"یعنی جو عمر میں بڑا ہے اسے آگے کرو ۔”

امام بخاری اور امام مسلم نے اسے روایت کیا ہے ،ایک اور روایت میں ہے کہ :

"ابدؤا بالکبراء أوقال :بالأکابر”۔

"یعنی بڑوں سے ابتداء کرو ۔”

اس کو امام ابو یعلی اور طبرانی نے الاوسط میں ذکر کیا ہے ۔

ادب:۱۵

جب آپ کسی مجلس میں جائیں تو ساتھ بیٹھے ہو ئے دو شخصوں کے درمیان نہ بیٹھیں ،بلکہ دونوں کے دائیں یا بائیں بیٹھیں ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

"لایجلس بین رجلین الا باذنہما”․ (ابوداؤد)

یعنی دو آدمیوں کے درمیان نہ بیٹھا جائے ،مگر ان کی اجازت سے ․

اگر اکرام کرتے ہوئے ان دونوں نے آپ کو اپنے درمیان بیٹھنے کی جگہ دے دی ہے تو آپ سکڑ کر بیٹھیں ،زیا دہ کھل کر نہ بیٹھیں ۔

ابن الاعرابی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :بعض حکماء کا قول ہے کہ :دو شخص ظالم ہیں ،ایک وہ شخص جسے نصیحت کا تحفہ دیا گیا اور اس نے اسے گناہ کا ذریعہ بنا لیا، اور دوسرا وہ جس کیلئے تنگ جگہ میں بیٹھنے کی جگہ بنائی گئی مگر وہ پھیل کر بیٹھ گیا۔

نیز جب دو آدمیوں کے پاس بیٹھیں تو ان کی باتوں کی طرف کان مت لگائیں ․الا  یہ کہ وہ راز کی بات نہ ہو ،اور نہ ہی ان دونوں سے متعلق ہو ،کیونکہ ان کی باتوں کی طرف کان لگانا آپ کے اخلاق کی کمزوری اور ایسی برائی ہے جس کے آپ مرتکب ہو رہے ہیں ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

"من استمع الی حدیث قوم وھم لہ کارھون صبّ فی اذنیہ اٰلانک یوم القیامة․”

"یعنی جو شخص دوسروں کی بات کان لگا کر سنتا ہے جس کا سننا ان کوپسند نہیں ،قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ ڈالا جائیگا۔” (یعنی پگھلا ہوا سیسہ )

اس کو امام بخاری وغیرہ نے روایت کیا ہے ۔

جاننا چاہئے کہ جب آپ تین آدمی بیٹھے ہو ں تو دو کو آپس میں سرگوشی نہیں کرنی چاہئے ،کیونکہ اس طرح آپ تیسرے آدمی کو اپنے سے الگ کر رہے ہیں اور اسے وحشت میں ڈال رہے ہیں،نتیجتاًاس طرح اس کے ذہن میں مختلف قسم کے خیالات آئیں گے،اور یہ خصلت مسلمانوں کو زیب نہیں دیتی ،اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خصلت کی مسلمانوں سے نفی فرمائی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا :

"لایتناجٰی اثنان بینہما ثالث․”(رواہ الامام ابو داؤد)

یعنی دو مسلمان آپس میں سرگوشی نہیں کرتے جب کہ ان کے درمیان تیسرا ہو ۔

یہاںآ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہی کا صیغہ استعمال نہیں فرمایا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفی کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے خبر دے رہے ہیں کہ یہ ایسی صفت ہے کہ جس کا کسی مسلمان سے صادر ہو نے کا تصور نہیں ہوسکتا ، لہٰذا اس سے رُکا جائے ، کیونکہ یہ ایک ایسی خصلت ہے جس کا غلط ہو نا ایک فطری چیز ہے۔

اس حدیث کو امام مالک اور امام ابو داؤد نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے ، اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا کہ: اگر تین کے بجائے چار آدمی ہوں(دو دو آدمی) ہوں تو سرگوشی کر سکتے ہیں ؟تو آپ نے فرمایا :پھر کوئی حرج نہیں ۔

ادب :۱۶

قدر و منزلت میں اپنے سے بڑے کا حق پہچانو،پس اگر آپ اس کے ساتھ چل رہے ہوں تو اس کی دائیں جانب ذرا پیچھے ہٹ کر چلیں اور جب آپ گھر میں داخل ہوں یا گھر سے باہر نکلیں تو اسے اپنے سے آگے کرو ،جب آپ کسی بڑے سے ملاقات کریں تو سلام اور احترام سے اس کا حق ادا کریں ، اور جب ان سے گفتگو کریں تو پہلے ان کو بات کرنے کا موقع دیں ،اور نہایت احترام سے کان لگا کر ان کی بات سنیں اور اگر گفتگو کا موضوع ایسا ہو کہ جس میں بحث کی ضرورت ہے تو نہایت ادب ،سکون اور نرمی سے بحث کریں ،اور بات کرتے وقت آواز کو پست رکھیں، اور ان کو بلاتے وقت اور خطاب کرتے وقت اس کے احترام کو نہ بھولیں ۔

اب مذکورہ بالا آداب کے بارے میں کچھ احادیث پیش کی جاتی ہیں :

۱:…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو بھائی آئے… تاکہ ان کے ساتھ جو حادثہ پیش آیا ہے،وہ آپ کے سامنے عرض کریں …ان میں ایک بڑا بھائی تھا ، پس چھوٹے بھائی نے بات کرنی چاہی ،تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا :کبّر کبّر ․․․․․․․ یعنی اپنے بڑے بھائی کو اس کا حق دو ، اور اسے بات کرنے کا موقع دو ، (بخاری اورمسلم)

۲:…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

"لیس منا من لم یجل کبیرنا۔”

یعنی وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے بڑے کی عزّت نہیں کرتا ۔

۳:…اور ایک روایت میں ہے:

"لیس منا من لم یوّقر کبیرنا ،ویرحم صغیرنا ، ویعرف لعالمنا حقّہ ۔”

یعنی وہ شخص ہم میں نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کی عزت نہیں کرتا ،اور ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کھاتا ، اور ہما رے عالم کا حق نہیں جانتا ۔”

اس روایت کو امام احمد ،حاکم اور طبرانی نے حضرت عبادة بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ۔

ادب :۱۷

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد خوب غور سے سنو! جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوجوانوں کو، اجتماع اور مجلس کے آداب اور بڑے کو چھوٹے پر مقدم کرنے کے بارے میں بیان فرما رہے ہیں ۔

چنانچہ جلیل القدر صحابی حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ،اور ہم سب نوجوان اور ہم عصر تھے ،ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیس دن ٹھہرے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت مہربان اور شفیق تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس فرمایا کہ ہمیں اپنے گھر والے یاد آرہے ہیں ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے پوچھا : پیچھے گھر میں کس کس کو چھوڑ کر آئے ہو ؟جب ہم نے آپ کو بتایا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: واپس اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ اور ان کے درمیان رہو اور ان کو تعلیم دو اور اچھے کاموں کا حکم دو،پھر جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان دے اور جو تم میں سے بڑا ہو، وہ نماز کی امامت کرائے ۔ حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ الله تعالیٰ نے "ذیل طبقات الحنابلة”میں فقیہ ابوالحسن علی بن مبارک کرخیؒ المتوفی: ۴۸۷ھ جو امام فقیہ ابویعلی حنبلی جو اپنے زمانے میں شیخ الحنابلة کہلاتے تھے رحمہم الله تعالیٰ کے شاگرد ہیں، ان کے ترجمہ میں لکھاہے، وہ فرماتے ہیں کہ: ایک دن میں قاضی ابویعلی کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا، اسی اثناء میں انہوں نے مجھ سے سوال کیاکہ: اگر تم کسی ایسے شخص کے ساتھ چل رہے ہو، جس کی تم تعظیم کرتے ہو تو اس کے ساتھ کس جانب چلوگے ؟میں نے عرض کیا: مجھے معلوم نہیں، فرمایا: اس کے دائیں طرف چلو اور اسے نماز کے امام کے قائم مقام سمجھواور بائیں جانب اس کے لیے چھوڑ دو، تاکہ ضرورت کے وقت وہ اُسے تھوک وغیرہ کے لیے استعمال کرسکے ۔

ادب :۱۸

مہمانی اور اکرام کے موقع پر بڑے اور صاحب فضل کو ہمیشہ ترجیح دو اور پہلے بڑے سے شروع کرو،پھر جو اس کی دائیں جانب مجلس میں بیٹھے ہوں،نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی یہی سنت ہے، جس کی دلیل سابقہ دو حدیثیں: "کبر،کبر” اور”لیس منا من لم یؤقر کبیرنا”کے علاوہ بہت سی حدیثیں ہیں، جن میں سے چند ایک کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے :

۱:۔امام مسلم نے اپنی "صحیح ” میں”باب آداب الطعام والشراب واحکامہما”میں حضرت حذیفہ بن الیمان رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے کہ: جب کبھی ہمیں بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ کھانے پر بلایا جاتا تو ہم اس وقت تک اپنے ہاتھ نہ بڑھاتے جب تک رسول الله صلی الله علیہ وسلم شروع نہ فرماتے اور اپنا ہاتھ نہ ڈالتے "۔

۲۔امام نووی رحمہ الله اپنی کتاب "ریاض الصالحین” میں اس موضوع پر ایک خاص باب باندھا ہے اور بہت سی احادیث ذکر کی ہیں ، ان میں سے اکثر کو میں یہاں ذکر کر رہا ہوں ،چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ نے عنوان باندھا ہے :

"باب توقیر العلماء والکبار وأھل الفضل وتقدیمہم علی غیر ہم ورفع مجالسھم واظہار مرتبتہم ۔”

الف:۔الله تعالیٰ کا فرمان ہے :

"قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون إنما یتذکر اولو الالباب ۔”

یعنی آپ کہہ دیجیے کیا علم والے اور جہل والے (کہیں ) برابر ہوتے ہیں؟ وہی لوگ نصیحت پکڑتے ہیں جو اہل عقل (سلیم) ہیں

ب:۔حضرت ابومسعود عقبہ بن عمروالبدری الانصاری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :

"یؤم القوم اقرؤھم لکتاب الله، فإن کانوا فی القراء ة سواء فاعلمھم بالسنة،فإن کانوا فی السنة سواء فأقدمھم ھجرة،فإن کانوا فی الھجرة سواء فأقدمھم سنا ۔”

یعنی لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جو کتاب الله کا عالم اور قاری ہو، اگر قرأ ت میں سب برابر ہوں تو جو سنت کا بڑا عالم ہو، پھر اگر سنت میں سب برابر ہوں، تو جو ہجرت میں بھی پہلا ہو، پھر اگر ہجر ت میں سب برابر ہوں تو جو عمر میں بڑا ہو ۔ ج:۔اور عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :

"لیلینی منکم اولو الاحلام والنھی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم ۔”

یعنی میرے قریب (نماز میں) وہ لوگ کھڑے ہوں جو عقل مند اور سمجھدا رہوں، پھر جو ان کے قریب ہوں، پھر جوان کے قریب ہوں۔

د:۔اورحضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد کے شہداء کو دو دو کر کے ایک قبر میں رکھتے تھے ۔پھر آپ پوچھتے :کہ ان دونوں میں قرآن کریم کا زیادہ حافظ کون ہے ؟جب دو میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قبلہ رخ قبر میں پہلے لٹاتے ۔

ہ:۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"أرانی فی المنام اتسوّک بسواکِِ فجاء نی رجلان:أحدھما أکبر من الاٰخر،فناولت السّواک الأصغر۔فقیل لی : کبر ۔فدفعتہ الی الاکبر منہما۔” (مسلم)

ترجمہ:۔میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مسواک کر رہا ہوں اور میرے پاس دو آدمی آئے جن میں ایک بڑا تھا ، تو میں نے وہ مسواک چھوٹے کودے دی ،تو مجھ سے کہا گیا کہ: بڑے کو دو ۔ تو ان میں جو بڑا تھا وہ مسواک میں نے اسے دے دی ۔ و:۔ اور حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

"ان من اجلال اللّٰہ تعالٰی اکرام ذی الشیبة المسلم ،وحامل القرآن غیر الغالی فیہ والجانی عنہ ،واکرام ذی السلطان المقسط۔”

ترجمہ:۔”اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں سے یہ بھی ہے کہ بڑی عمر والے مسلمان اور قرآن کریم کے حافظ جو اس میں غلو اور جفاء نہ کرتا ہو ،اس کا اکرام کیا جائے اور عدل و انصاف والے حاکم کا۔”

حضرت میمون بن أبی شبیب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے دروازے پر ایک سائل آیا، آپ نے اسے روٹی کا ٹکڑا دیا(اور وہ چلا گیا)پھر ایک اور سفید پوش سائل آ یا تو آپ نے اسے بٹھا کر کھانا کھلایا ، جب آپ سے دونوں میں امتیاز کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

"انزلوا الناس منازلہم ․”

ترجمہ :۔”لوگو ں کے ساتھ ان کی حیثیت کے مطابق معاملہ کرو۔”

ج:۔حضرت ابوسعید سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چھوٹا بچہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث یاد کرتا تھا ،لیکن ادب کی وجہ سے مجلس میں بات نہیں کرتا تھا، کیونکہ وہاں ایسے حضرات موجود تھے جو مجھ سے بڑی عمر والے تھے۔

لہٰذا سنت یہ ہے کہ مجلس میں جو عمر کے اعتبار سے بڑا ہو، یا افضل ہو، یا بڑا عالم ہو ،یعنی مجلس میں ایسا شخص موجود ہو جو دوسرں میں کوئی امتیازی وصف رکھتا ہو، چاہے عمر میں بڑا ہو یا علم کے اعتبار سے یا  وجاہت یا اہل بیت کے شرف کے اعتبار سے یا عہدہ و منصب کے اعتبار سے یا جہاد فی سبیل اللہ کے اعتبار سے یا جود وسخاء کے اعتبار سے یا ان جیسی دوسری صفات کے اعتبار سے ہو تو اکرام کی ابتداء اس سے کی جائے ۔

خلاصہ یہ کہ مہمانی اور اکرام میں سنت یہ ہے کہ کسی امتیازی وصف والے آدمی سے شروع کیا جائے ،پھر جو اس کے دائیں جانب ہو، تاکہ دونوں نصوص میں تطبیق ہو جائے ،یعنی جن نصوص میں دائیں طرف سے شروع کرنے کا حکم ہے ، یا جن نصوص میں (کبّر کبّر) اور (لیس منّا من لم یوقر کبیر نا)اور (ابدؤا بالا کابر)وارد ہوا ہے۔

بعض لوگ نصوص کے سمجھنے میں غلطی کی بنا ء پر نصوص کو صحیح محل پر حمل کرنے میں کوتاہی کا شکار ہوئے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ : سنت یہ ہے کہ جو شخص میزبان کے دائیں جانب ہو، چاہے کوئی بھی ہو، اس سے شروع کیا جائے ۔اور ان احادیث سے استدلال کرتے ہیں جن میں دائیں طرف سے شروع کرنے کا حکم دیا گیا ہے ،حالانکہ یہ حکم اس وقت ہے جب مجلس میں موجود سب افراد عمر کے اعتبارسے یا دوسری صفات کے اعتبار سے برابر ہوں تو اس صورت میں جو بھی دائیں جانب ہو ،اس سے شروع کیا جائے ۔

لیکن اگر وہ سب باقی تمام صفات میں برابر ہوں لیکن ان میں ایک کسی اور جہت سے ممتاز ہو، مثلاً عمر میں سب سے بڑا ہو تو اس سے ابتداء کی جائے گی، کیونکہ اس وصف کی وجہ سے اسے دوسروں پر فوقیت حاصل ہو گی،لہذا اس وصف کو ترجیح دیتے ہوئے اس شخص سے ابتداء کی جائے گی ۔

امام ابن رشد رحمہ تعالی اپنی عظیم کتاب "البیان والتحصیل” میں فرماتے ہیں کہ:

اہل مجلس کے حالات اگر ایک جیسے یا قریب قریب ہوں تو ابتداء دائیں طرف سے کی جائے گی ۔ مکارم اخلاق میں یہی پسند یدہ طریقہ ہے ۔کیونکہ اس میں کسی کو کسی پر ترجیح کا اظہار نہیں ہوتا

لیکن اگر مجلس میں کوئی عالم ہو ،سن رسیدہ یا صاحب فضل ہو تو سنت طریقہ یہ ہے کہ اس بڑے سے ابتداء کی جائے،چاہے وہ جہاں بھی بیٹھا ہو ۔پھر اس کی دائیں سے شروع کیا جائے ۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پیش کیا گیا جس میں پانی ملایا گیا تھا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرمانے کے بعد اپنے دائیں بیٹھے ہوئے اعرابی کو دیا۔جبکہ آپ کے بائیں جانب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد بھی فرمایا :․․․الایمن فالایمن ․تو بائیں جانب والے کو پہلے نہیں دیا جائے گا ،چاہے وہ دائیں جانب والے کے مقابلہ میں اپنے علم و فضل اور بڑی عمر کی وجہ سے ابتداء کا زیادہ مستحق ہو ،الا یہ کہ دائیں والے سے اجازت لے کر بائیں والے کو پہلے دیا جائے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ،کہ ایک دفعہ آپ کو پینے کی کوئی چیز پیش کی گئی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا ، آپ کے دائیں جانب ایک بچہ اور بائیں جانب بڑی عمر کے حضرات تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکے سے فرمایا :کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اسے ان حضرات کو دے دوں؟ تو لڑکے نے کہا : بخدا ہرگز نہیں یا رسول اللہ ! میں آپ کی طرف سے پہنچنے والے حصہ پر کسی کو تر جیح نہیں دیتا ، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشروب اس لڑکے کے ہا تھ میں دے دیا ، جس میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ یہ اس کا حق ہے ۔(امام ابن رشد کی بات ختم ہوئی)

لہٰذا یہ بات واضح ہو گئی کہ جب مجلس میں کوئی ممتاز شخصیت نہ ہو تو مطلق دائیں طرف سے شروع کرنا ہی شرعی طریقہ ہے ،جیسا کہ ابھی ابھی ذکر ہوا۔ لیکن اگر مجلس میں کوئی ایسا شخص موجود ہے جس میں کوئی ایسا وصف پایا جاتا ہے جسے شارع علیہ السلام نے باعث شرف قرار دیا ہے تو بلا شک ابتداء اسی صاحب فضل سے کی جائے گی ۔

اور قائل کے اس زعم کے مطابق کہ میزبان شروع کرے جو بھی اس کے دائیں جانب بیٹھا ہو،وہ چاہے بچہ ہو، چھوٹا لڑکا ہو ، صدر مجلس کا نو کر ہو ،یا اس کا ڈرائیور ہو ، جب کہ بعض اوقات ڈرائیور غیر مسلم بھی ہو تے ہیں ۔یا قبیلہ کے سردار کا ڈرائیور ہو ، جب کہ مجلس کا سرتاج کبھی بڑا عالم ،گورنر ، دادا،یا والد کا صاحب فضل چچا ہو تا ہے ، تو بتائیے کہ کیا اسلام کے احکام اور آداب اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ان بزرگانِ قوم کو چھوڑ کر اکرام اور ضیافت کی ابتداء بچوں،خادموں اور ڈرائیوروں سے کی جائے ، پھر ان کے بعد جوان سے اعلیٰ ہوں یا ان جیسے ہوں ان سے کی جائے؟!حالانکہ کبھی سرتاج مجلس سے پہلے دسیوں چھوٹے لوگ ہو تے ہیں ۔ تواس صورت میں میزبان کبھی دس اور کبھی بیس چھوٹوں کے بعد صدر مجلس تک پہنچے گا۔

اس لئے فقہ اسلام اور آداب اسلام اس سے منزہ ہیں کہ وہ اس بے ترتیبی اور فطری ادب کے خلاف کرنے کی اجازت دیں۔

ہاں اگر اہل مجلس میں کوئی چھوٹا یا ایک عام آدمی خود پانی مانگتا ہے تو وہ مانگنے کی وجہ سے اس بات کا حق دار ہو جاتا ہے کہ اس کی فرمائش پوری کی جائے اور اس سے ابتداء کی جائے ،اور اس کے بعد اس کے دائیں جانب والے کو دیا جائے، چاہے وہ سب سے زیا دہ کم سن یا کم مرتبہ والا ہو ،اور جب اس چھوٹے کو پانی وغیرہ پیش کیا جائے اور وہ دیکھے کہ اس سے کوئی بڑا اس پانی وغیرہ کی طرف دیکھ رہا ہے اور وہ ایثار کرتے ہوئے اس بڑے سے ابتداء کرتا ہے اوراسلامی ادب کی رعایت کرتا ہے تو اس نے ایک بڑی فضیلت حاصل کر لی ،جس سے اس کی چہک مہک بڑھے گی ،اور اس کی قدر و منزلت اور ثواب میں اضافہ ہو گا،

ادب :۱۹

اپنے والد محترم اور والدہ محترمہ کا پورا پورا ادب و احترام ملحوظ رکھیں ،کیونکہ وہ دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں آپ کے ادب کے زیادہ حقدار ہیں۔

ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا :یارسول اللہ ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ کون حقدار ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"امّک ،ثم امّک ،ثم امّک ،ثم ابوک ،ثم ادناک ادناک۔” (بخاری)

یعنی تیری ماں ،تیری ماں ،تیری ماں ،پھر تیرا باپ ،پھر درجہ بدرجہ۔

حضرت ہشام بن عروہ نے اپنے والد عروہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا، وہ ایک شخص کے آگے آگے چل رہا ہے ،یعنی آپؐ نے اس آگے چلنے والے سے پو چھا :یہ تمہارے کیا لگتے ہیں ؟اس نے کہا : یہ میرے والد ہیں،اس پر آپؐ نے فرمایا:اس کے آگے مت چلو ،اور جب تک وہ نہ بیٹھ جائے تم مت بیٹھو، اور اس کا نام لے کر مت پکا رو ،

(بخاری فی الادب المفرد)و(مصنف عبد الرزاق)

ابن وھب نے امام مالک بن انس رحمہ اللہ کے شاگرد امام عبدالرحمن بن القاسم عتقی مصری رحمہ اللہ․․․ جن کی پیدائش ۱۳۲ھ میں اور وفات ۱۹۱ھ میں ہوئی ہے․․․کے بارے میں حکایت نقل کی ہے کہ ان کے سامنے موطا امام مالک پڑھی جا رہی تھی کہ فوراً کھڑے ہو گئے اور دیر تک کھڑے رہے ، پھر بیٹھ گئے ۔جب ان سے اس کا سبب پوچھا گیا تو فرمانے لگے : میری والدہ مکان کے اوپر سے نیچے اتری تھی اور کچھ مانگ رہی تھی اور وہ کھڑی رہی تو میں اس کے قیام کی وجہ سے کھڑا رہا ، پھر جب وہ اوپر چلی گئی تومیں بیٹھ گیا ۔

جلیل القدر تابعی حضرت طاؤس بن کیسان فرماتے ہیں کہ :سنت میں سے یہ بھی ہے کہ چار قسم کے لوگوں کا احترام کیا جائے :عالم کا،بڑی عمر والے کا ،حاکم کا اور  والد کا  اور یہ گنوار پنا ہے کہ انسان اپنے والد کو اس کے نام سے پکارے ۔

ادب :۲۰

امام حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ اپنی کتاب (الکافی) فی فقہ السادةالمالکیة میں فرماتے ہیں:والدین کے ساتھ احسان کرنا لازمی فرض ہے اور یہ آسان کام ہے․․․جس کے لئے اللہ آسان کر دے․․․اور ان کے ساتھ نیکی یہ ہے کہ :اولاد ان کے سامنے تسلیم خم کرے ،گفتگو نرم کرے ،اور ان کی طرف محبت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے ،ان کے ساتھ گفتگو کے وقت اپنی آواز بلند نہ کر ے ،مگر اس صورت میں کہ ان کو سنانا مقصود ہو اور جو نعمت اللہ نے انہیں دی ہے اسے ان کے ہاتھوں میں پھیلا دے،اور کھانے پینے کی چیزوں میں ان کے بالمقابل اپنے آپ کو ترجیح نہ دے ۔اور جب والد کے ساتھ چلے تو اس کے آگے نہ چلے اور مجلس میں اس سے پہلے گفتگو نہ کرے ، جب کہ وہ جانتا ہو کہ والد اس کا زیادہ حقدار ہے ،اور جتنا ممکن ہو ان کی ناراضگی سے بچے اور ان کو خوش کرنے میں اپنی طاقت خرچ کر دے۔

والدین کو خوش رکھنا نیکی اور افضل اعمال میں سے ہے ،جب وہ اسے پکاریں تو فورا جواب دے ،چاہے دونوں پکاریں یا کوئی ایک ۔اگر وہ نفلی نماز میں ہو تو نماز مختصر کر کے اس سے فارغ ہو کر فوراََ ان کا جواب دے ۔اسی طرح والدین پر بھی یہ حق ہے کہ اولاد سے نرمی کا برتاؤ کریں، اپنے ساتھ نیکی کرنے پر اس کی مدد کریں ،اور اس کے ساتھ نہایت رفق اور شفقت کا معاملہ کریں ،کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی انسان اطاعت اور فرائض بجا لاتا ہے ۔

ادب :۲۱

جب آپ اپنے والد ،یا کسی قابل احترام قریبی شخص ، یا اپنے برابر ،یااپنے سے کم درجہ کے دوست کے استقبال کیلئے گھرسے باہر نکلیں ،یا آپ خود سفر سے آرہے ہوں ،تو اپنی صفائی اور ظاہری وضع قطع کا خیال رکھیں ،اگر وہ آپ سے کم ہے تو اپنی ظاہری ہیئت کو اس طرح بنائیں جو آپ کے مناسب ہو۔اور اگر آپ سے اونچا ہو تو اپنی ہیئت ایسی بنائیں جو اس کے مناسب ہے ،اس لئے کہ آنکھ خوبصورت،اچھی ہیئت ، صاف ستھری اور با وقار صورت کو دیکھ کر خوش ہو تی ہے اور ظاہری ہیئت میں کوتاہی سے بچو،کیونکہ اس سے ملاقات کی خوشی اور لذت میں کمی آتی ہے ،اور آنکھ کو محبوب اور محترم کو دیکھنے کا حق ہے ،اسے دیکھنے سے آنکھ خوش ہوتی ہے۔

ان ہی آداب کی طرف رسول معظم اور نبی امی صلوات اللہ وسلامہ علیہ اپنے اس قول اور ارشاد میں راہنمائی فرماتے ہیں:

"انکم قادمون علی اخوانکم ،فاحسنوا لباسکم، واصلحوا رحالکم،مظہر دوابکم و مراکبکم ،حتیٰ تکونوا کانکم شامة فی الناس،فان اللّٰہ لا یحب الفحش والتفحش۔”( ابو داؤد ، حاکم مسند امام احمد )

ترجمہ:۔”تم عنقریب اپنے بھائیوں سے ملنے والے ہو، لہٰذا اچھے لباس پہن لو، اپنی سواریوں کو درست کر لو، یعنی ان کا ظاہری منظر ،تاکہ تم لوگوں میں ممتاز نظر آؤاور اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا بُرے عمل اور فحش گوئی کو۔”

اگر ممکن ہو تو آپ اپنے ساتھ کوئی تحفہ وغیرہ ضرور رکھ لیں ،جو آپ اپنے میزبان یا اپنے مہمان کو پیش کرسکیں، تاکہ یہ ان کے تحفہ کا بدلہ ہو جائے تو آپ ایسا ضرور کر لیں ،کیونکہ آنکھ ملاقات میں اچھے منظر کا انتظار کرتی ہے ، اور توقع رکھتی ہے کہ ایسی ملاقات میں نفس کو ظاہری اور باطنی خوشی حاصل ہو، اور تحفہ محبت پیدا کرتا ہے ،اسی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”تھادَوا تحابُّوا۔” یعنی ایک دوسرے کو ہدیہ دو آپس میں محبت بڑھے گی۔”

سلف صالحین کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ جب وہ کسی کو ملنے جاتے تو اپنے ساتھ تحفہ لے کر جاتے ،اگر چہ وہ پیلو کی مسواک ہی کیوں نہ ہو ۔

ادب :۲۲

جب آپ کے ہاں کوئی مہمان آئے تو آپ کو اس کی مہمانی کے آداب معلوم ہو نے چاہئیں، اور اس کے اکرام کا حق ادا کرنا چاہئے ،اس سے میرا مقصد یہ نہیں کہ آپ اس کے کھانے پینے میں مبالغہ کریں، کیونکہ ان امور میں اعتدال سنت ہے، اور بغیر اسراف کے اکرام مطلوب ہے ،میرا مقصد اس سے یہ ہے کہ آپ اس کے بیٹھنے ،آرام کرنے اور سونے کا اچھا بندوبست کریں،اور گھر میں اُسے قبلہ کی سمت اور رُخ بتائیں،اوراُسے وضو اور طہارت کی جگہ بتلائیں ،اور اس جیسے دوسری ضروریات کا خیال رکھیں۔

جب آپ اپنے مہمان کو وضو کے بعد یا کھانے کے بعد یا ہاتھ دھونے کے بعد تولیہ پیش کریں تو وہ صاف ستھرا ہو نا چاہئے ،وہ آپ کے یا آپ کے گھر والوں کے استعمال والا نہیں ہو نا چاہئے ،اسی طرح اگر ممکن ہو توآپ اس کے سامنے خوشبو بھی پیش کریں تاکہ وہ خوشبو لگائے۔ اسی طرح آئینہ بھی پیش کریں ، تاکہ وہ اپنے آپ کو سنوارسکے ، ایسے ہی غسل خانہ اور بیت الخلاء میں استعمال ہونے والی تمام اشیاء صاف ستھری ہونی چاہئیں اور غسل خانہ سے ایسی تمام چیزیں اٹھا دیں جن پر مہمان اور اجنبی شخص کی نگاہ پڑنا مناسب نہیں۔

نیند اور آرام کے وقت مہمان کی راحت کا خیال رکھیں، بچوں کی چیخ و پکار اور گھر کے شور و غل سے اسے بچائیں۔

مہمان کی نگاہ سے مستورات کے کپڑے اور ان سے متعلق جو چیزیں ہیں انہیں دور رکھیں،کیونکہ یہ وقار کا حصہ ہے ،اوریہ آپ کے اور مہمان کے لئے عزت کا باعث ہے۔

آپ خود بھی مہمان کے سامنے اچھی ہیئت میں آئیں ،اگر چہ اس میں تکلف نہ ہو، نہایت ذوق اور احترام سے اس کی خدمت کریں اور اچھی دوستی اور محبت کی وجہ سے اس میں سستی اور وقار کے خلاف وضع و قطع اختیار نہ کریں، ہمارے سلفِ صالحین جب ایک دوسرے سے ملتے تھے تو اپنے ظاہر کا بہتر اہتمام کرتے تھے۔

جب آپ خود کسی دوسرے یا رشتہ دار کے ہاں مہمان ہوں تو کوشش کریں کہ اس پر آپ بار نہ بنیں، اس کے مشاغل اور کام کے اوقات کا خیال رکھیں،اور مہمانی کے وقت کو جتنا ممکن ہو، مختصر رکھیں۔کیونکہ ہر شخص کے تعلقات ،فرائض اور مختلف ظاہری اور مخفی ذمہ داریاں ہوتی ہیں ، لہٰذا اپنے میزبان کے ساتھ نرم برتاؤ کیجئے اور اس کے اپنے امور ،اعمال اور فرائض کے ادا کرنے میں اس کے معاون بن جائیے۔

جب آپ میزبان کے گھر میں ہوں تو اپنی نگاہ کو تتبع اور تلاش میں آزاد نہ چھوڑیں ،خصوصاً جب آپ کو کسی دوسرے کمرہ میں بلا یا جائے جو مہمانوں کے لئے خاص نہیں ہے، لہٰذا اپنی نگاہ کو نیچا رکھیں، کیونکہ ممکن ہے وہاں کوئی ایسی چیز ہو جس کا دیکھنا آپ کے لئے نامناسب ہو ،نیز غیر متعلقہ سوالات سے بھی بچیں۔

ادب :۲۳

آپ کے مسلمان بھائی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ جب وہ بیمار ہو جائے تو آپ اس کی تیمار داری کریں ،اس سے اسلامی اخوت اور شجرہ مراسم کی سیرابی ہو تی ہے اور اس میں بہت زیادہ اجرو ثواب بھی ہے جس میں نیکیوں کا حریص کبھی کوتاہی نہیں کرتا،جیسا کہ رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

"إن المسلم إذا عاد أخاہ المسلم ، لم یزل فی خرفة الجنة حتیٰ یرجع،قیل یا رسول اللّٰہ :وما خرفة الجنة؟ قال : جناہا۔”

یعنی ایک مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی تیمار داری کرتا ہے تو وہ برابر جنت کے خوشوں میں رہتا ہے جب تک کہ واپس نہ لوٹے ،آپ سے پوچھا گیا: یارسول الله! جنت کے خوشوں کا کیا مطلب ہے؟ تو آپ نے فرمایا : اس کے پھل ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

"من عاد مریضا لم یزل یخوض فی الرحمة حتیٰ یجلس ،فإذا جلس اغتمس فیہا۔” ( رواہ احمد وابن ماجہ)

یعنی ایک مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی تیمار داری کرتا ہے تو وہ برابر اللہ کی رحمت میں غوطے لگاتا ہے یہاں تک کہ بیٹھ جائے، اور جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو رحمت میں ڈوب جاتا ہے۔

ادب :۲۴

جب آپ کسی بیمار کی تیمار داری کریں تو یہ نہ بھولیں کہ تیمار داری کے بھی کچھ آداب ہیں، جو کہ تیمار داری کرنے والے سے مطلوب ہیں ،تاکہ یہ تیمار داری مریض کے لئے نشاط کا ذریعہ بنے اور اس کی ہمت کو بڑھائے ،اور اس کی تکالیف کو ہلکا کرنے میں مدد گار ہو۔ اور یہ اس اجر و ثواب کے علاوہ ہے جو اسے صبر کرنے اور اجر کی نیت پر ملتا ہے۔

مریض کی تیمار داری کرنے والے کو چاہئے کہ مریض کے پاس زیادہ دیر نہ ٹھہرے، کیونکہ مریض کے مرض کے بعض حالات ایسے ہوتے ہیں، جو زیادہ دیر بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتے ،مریض کی عیادت کی مثال جمعہ کے خطیب کے جلسہ کی سی ہے یعنی جس طرح وہ دو خطبوں کے درمیان مختصر اور ہلکا سابیٹھتا ہے، اسی طرح مریض کے پاس بھی مختصر وقت بیٹھنا چاہیئے، اس سلسلہ میں عربی کے چند اشعار ہیں:

"ادب العیادة ان تکون مسلما وتکون فی اثر السلام مودعا” ترجمہ:۔” تیمار داری کے آداب میں سے یہ ہے کہ مریض کو سلام کرو ،اور سلام کے بعد اسے الوداع کہہ دو،نیز کہا گیا ہے:

"حسن العیادة یوم بین یومین

واقدر قلیلا کمثل اللحظ با لعین

لا ُتبرَ منَّ علیلا فی مسأ لة

یکفیک من ذاک تسالہ بحرفین”

ترجمہ:۔” تیمار داری کا حسن ایک دن چھوڑ کر ہے، اور مریض کے پاس اتنا تھوڑا بیٹھو جیسے آنکھ جھپکنے کا وقت ،اور مریض سے سوالات کر کے اسے پریشان مت کرو، پس دو حرفی سوال کافی ہے،یعنی تیمار داری کرنے والا مریض سے کہے: آپ کے مزاج کیسے ہیں؟ اللہ تعالیٰ آپ کو شفا دے ۔”

حافظ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ تعالیٰ نے” الکافی ” میں لکھا ہے :” جو شخص کسی تندرست سے ملاقات کرے یا کسی بیمار کی تیمار داری کرے تو اسے چاہئے کہ جہاں وہ اسے بیٹھائے وہاں بیٹھے، کیونکہ ہر شخص اپنے گھر کے پردہ کی جگہ کو خوب جانتا ہے۔

بیمار کی عیادت سنت مؤکدہ ہے ،اور سب سے اچھی عیادت وہ ہے جو مختصر ہو، تیمار دار کو چاہئے کہ بیمار کے پاس زیادہ نہ بیٹھے ۔ الا یہ کہ وہ اس کا دوست ہو، جو اس سے مانوس ہے ،اور اس کے بیٹھنے سے وہ خوش ہو تا ہو۔

ادب :۲۵

تیمار داری کرنے والے کو چاہئے کہ اس کا لباس، صاف ستھرا ہو، اور ہلکی پھلکی خوشبو والا ہو، تاکہ مریض کی طبیعت میں انشراح پیدا ہو، اور اس کی صحت میں اضافہ ہو، اور یہ مناسب نہیں کہ مریض کے پاس ایسے لباس میں جائے جو عموماً خوشی اور شادی وغیرہ کی مناسبت سے پہنا جاتا ہے،اور ایسی تیز خوشبو بھی نہ لگا کر جائے جس سے مریض پریشان ہو جائے، کیونکہ وہ اپنی کمزوری اور عدم تحمل کی وجہ سے ایسی خوشبو برداشت نہیں کرسکتا۔

نیز تیمار دار کو چاہئے کہ مریض کو ایسی کوئی خبر نہ سنائے اور نہ ہی اس کے پاس بیان کرے ،جس سے وہ غم اور فکر میں پڑ جائے ،جیسے تجارت میں نقصان کی خبر جس میں اس مریض کا بھی حصہ ہے ،یا کسی کی وفات کی خبر ،یا کوئی بھی مریض سے متعلق بیکار خبر ،یا اسی طرح کی خبر جو مریض کے غم کا ذریعہ بنے یا جس سے اس کی صحت اور جذبات پر اثر پڑے۔

نیز تیماردار کو مناسب نہیں کہ وہ بیمار سے اس کے مرض کے بارے میں تفصیلی سوال کرے ،کیونکہ اس سے مریض کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ،ہاں اگر وہ ڈاکٹر ہے جو اس مرض کا اسپیشلسٹ ہے تو وہ پوچھ سکتا ہے۔

نیز تیمار دار کو یہ بھی مناسب نہیں کہ مریض کو کسی دواء یا  غذاء کے استعمال کا مشورہ دے ، اس بناء پر کہ خود اس کو اس سے نفع ہوا ہے، یا کسی دوسرے سے اس کے فائدہ کا سنا ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ مریض اپنی ناسمجھی یا بیماری کی شدت سے اسے استعمال کر لیتا ہے، اور اس دواء سے اسے نقصان پہنچ سکتا ہے، یا معالج اور ڈاکٹر کے علاج میں خلل پڑ سکتا ہے،اور کھبی مریض کی ہلا کت تک نوبت آ جاتی ہے۔اور یہ بھی مناسب نہیں کہ مریض کے سامنے اس کے معالج ڈاکٹر سے تکرار کرے ،جب کہ وہ خود ڈاکٹر اور متخصص نہیں ہے، اس سے مریض کے نفس میں اپنے ڈاکٹر کے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہو سکتے ہیں۔

ادب:۲۶

جب آپ اپنے کسی دوست ، رشتہ دار یا متعلقین میں سے کسی کو ناخوشگوار خبر یا افسوسناک حادثہ ،یا اس کے کسی قریبی رشتہ دار یا دوست کی وفات کی خبر بتانے پر مجبور ہوں تو اسے یکدم خبر نہ سنائیں بلکہ اسے لطیف انداز میں پیش کریں ،پہلے ایک تمہید باندھیں جس سے مصائب کے نزول کے اثرات میں کمی آئے، مثلاً آپ اس سے کہیں: بھائی! سنا ہے فلان صاحب بہت سخت بیمار تھے ،پھر ان کی حالت زیادہ خراب ہو گئی،اب سنا ہے کہ وہ فوت ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ لیکن بعض لوگوں کی طرح یہ انداز اختیار نہ کریں کہ اس سے یوں کہیں: آپ کو معلوم ہے کہ آج کس کی وفات ہو ئی ہے؟ یا ملتے ہی یوں کہے کہ آج فلاں صاحب وفات پا چکے ، بلکہ مناسب یہ ہے کہ پہلے اس شخص کا نام لیں جس کی وفات کا آپ ذکر کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ اگر آپ نے یہ کہا :کہ آپ کو معلوم ہے کہ آج کس کی وفات ہوئی ہے؟ یا یہ کہا : کہ آج فلاں کی وفات ہو گئی ہے، تواس کے ذہن میں فوراً پریشان کن خیالات آئیں گے ،اور وہ یہ سمجھے گا کہ اس کے کسی قریبی رشتہ دار کی وفات ہو ئی ہے۔ جو بیمار تھا یا بوڑھا تھا یا جوان تھا، تو آپ کے اس سوالیہ طرز یا اس خبر سے وہ بہت سخت پریشان ہو گا۔

لیکن اگر آپ نے نام لے کر اسے وفات کی خبر دی تو اس کا اثر ہلکا ہو گا، اور پریشانی سے محفوظ ہو جائے گا۔اور اصل خبر ،جو غم لا نے والی ہے، یا ناپسندیدہ ہے وہ کم رہ جائیگی۔

اسی طرح جب آپ خدانخواستہ آگ لگنے ،پانی میں کسی کے غرق ہو نے یا کسی دوسرے افسوسناک حادثہ کی خبر دیں تو اس کی تعبیر کے الفاظ کا خاص خیال رکھیں۔ اور خبر دینے سے پہلے ایسی تمہید باندھیں جس سے مخاطب پر اس حادثہ کے اثرات کم ہوں ،بڑے نرم انداز میں حادثہ میں متاثر شخص کا نام لیں۔ اور یکدم اپنے دوست رشتہ دار یا اپنے ہم مجلس حضرات کے کانوں کو اس تکلیف دہ خبر سے نہ کھٹکھٹائیں، کیونکہ بعض کمزور دل حضرات میں ایسی خبر کے سننے کی طاقت کمزور ہو تی ہے، اور بعض اوقات بعض حضرات کو خبر سن کر بے ہو شی کا دورہ پڑ جاتا ہے ، لہٰذا اگر آپ کو مجبور اً ایسی افسوسناک خبر دینی پڑ جائے تو نہایت نرم اور معقول انداز میں اسے خبر دیں۔

اسی طرح افسوسناک خبر سنانے کے لئے مناسب وقت کا انتخاب کریں، لہٰذا ایسے وقت میں اسے خبر نہ سناؤ جب وہ کھانا کھا رہا ہو،یا سونے کی تیاری کر رہا ہو، یا بیمار ہو، یا پریشانی کی حالت میں ہو ،یا اس قسم کی کوئی کیفیت ہو، ایسی حالت میں آپ کی عقلمندی اور حکمت کا ظہور ہو گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی ہو، اور آپ کی راہنمائی فرمائے۔

ادب :۲۷

جب آپ کے رشتہ دار یا دوست کے خاندان سے کسی شخص کی وفات ہو جائے تو اس کی تعزیت کو نہ بھولیں،اور اس میں دیر یا سستی نہ کریں، اور اسے محسوس کرائیں کہ آپ اس کے غم اور مصیبت میں برابر کے شریک ہیں ،کیونکہ یہ قرابت داری ،دوستی اور اخوتِ اسلامی کے حقوق میں سے ہے۔

اگر ممکن ہو تو میت کے ساتھ اس کی آخری آرام گاہ …قبر… تک جائیں، کیونکہ اس میں بہت بڑا اجر و ثواب ہے، اور واضح اور خاموش عبادت ہے، اور اس میں ایسا سبق ہے جو آپ کو ہر مخلوق کے یقینی انجام کا درس دیتا ہے، جیسا کہ ایک شاعر میت کو خطاب کر کے کہتا ہے:

وکانت فی حیاتک لی عظات

فأنت الیوم أوعظ منک حیّا

ترجمہ :۔” تیری زندگی میں میرے لئے بہت سی عبرتیں تھیں ،لیکن آج زندگی سے زیادہ تو میرے لئے باعثِ عبرت ہے۔”

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"حق المسلم علی المسلم خمس : رد السلام، وعیادة المریض، واتباع الجنائز…” ( بخاری و مسلم)

ترجمہ:۔” مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں: سلام کا جواب دینا ، بیمار کی تیمار داری،اور جنازہ کے پیچھے چلنا…”

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"عودوا المرضی، واتبعوا الجنائز تذکرکم الآخرة۔” (امام احمد)

ترجمہ :۔”بیماروں کی تیمار داری کرو، جنازوں کے پیچھے چلو ، تمہیں وہ آخرت یاد دلائیں گے ۔”

ادب :۲۸

جب آپ اپنے بھائی ،رشتہ دار، یا جاننے والے کے پاس اس کی مصیبت میں تعزیت کے لئے جائیں تو مستحب یہ ہے کہ اپنے میت بھائی کے لئے دعا بھی کریں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو سلمة رضی اللہ عنہ کے لئے دعاء فرمائی تھی، اور ان کے گھر والوں سے تعزیت فرمائی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔

"اللّٰھم اغفر لأبی سلمة، وارفع درجتہ فی المہدیین ،واخلفہ فی عقبہ فی الغابرین، ای کن لہ خلیفة، فی ذریتہ،الباقین من اسرتہ ، واغفرلنا ولہ یا رب العالمین، وافسح لہ فی قبرہ ، ونور لہ فیہ۔” ( مسلم)

ترجمہ:۔” اے اللہ تو ابو سلمہ کی مغفرت فرما، ہدایت یافتہ لوگوں میں اس کا درجہ بلند فرما، پیچھے رہ جانے والوں اور باقی ماندہ لوگوں کے لئے اس کا خلیفہ بن جا،ہماری اور اس کی مغفرت فرما ،اے رب العالمین !اور اس کی قبر کو کشادہ اور روشن کر دے۔(اس کو امام مسلم نے روایت کیا)

جس شخص سے آپ تعزیت کر رہے ہیں اس سے آپ کی گفتگو ایسی ہو کہ جس سے اس کی مصیبت کا غم ہلکا ہو ،وہ اس طرح کہ آپ اس کے سامنے مصیبت پر اجر اور اس پر صبر کرنے پر اجر و ثواب کا ذکر کریں، اور یہ کہ دنیا فانی اور ختم ہونے والی ہے، اور آخرت ہی ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے۔

اس سلسلہ میں اس سے متعلق بعض آیات کریمہ اور احادیث شریفہ ذکر کی جائیں ،نیز سلف صالحین، کے اقوال پیش کئے جائیں ،مثلاً: اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:

” وبشرالصابرین الذین، اذا اصابتہم مصیبة، قالوا انا للّٰہ وانا الیہ راجعون، اولئک علیہم صلوٰت من ربہم ورحمة واولئک ہم المہتدون”۔ (البقرہ:۱۵۵،۱۵۶،۱۵۷،)

ترجمہ:۔”اور آپ ایسے صابرین کو بشارت دیجئے ( جن کی عادت یہ ہے)کہ ان پر جب کوئی مصیبت پڑتی ہے، تو وہ کہتے ہیں، کہ ہم تو ( مع مال و اولاد حقیقتاً) اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہیں، اور ہم سب (دنیا سے) اللہ تعالیٰ کے پاس جانے والے ہیں،ان لوگوں پر (جدا جدا) خاص خاص رحمتیں بھی ان کے پروردگار کی طرف سے ہوں گی اور سب پر اشتراک عام رحمت بھی ہو گی، اور وہی لوگ ہیں جن کی حقیقت حال تک رسائی ہو گی۔”

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:

"کل نفس ذائقة الموت، وانما توفون اجورکم یوم القیامة، فمن زحزح عن النار وادخل الجنة فقد فاز، وما الحیاة الدنیا الا متاع الغرور۔” ( آل عمران:۱۸۵)

ترجمہ:۔”ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور تم کو پوری پاداش تمہاری قیامت ہی کے روز ملے گی، تو جو شخص دوزخ سے بچا لیا گیا، اور جنت میں داخل کیا گیا، سو پورا کامیاب وہ ہوا، اور دنیاوی زندگی تو کچھ بھی نہیں مگر دھوکے کا سودا ہے۔” اور اللہ کا یہ فرمان:

” کل من علیہا فان ،ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔” ( رحمٰن :۲۶،۲۷)

ترجمہ:۔”جتنے روئے زمین پر موجود ہیں سب فنا ہو جائیں گے ،اور آپ کے پروردگار کی ذات جو عظمت اور احسان والی ہے ۔ باقی رہ جائیگی۔”

اور جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد :

"اللّٰھم اجر نی فی مصیبتی واخلف لی خیر ا منھا۔”

ترجمہ:۔”اے اللہ میری مصیبت میں مجھے اجر عطا فرما، اور اس سے مجھے بہتر بدل عطا فرما۔” ( صحیح مسلم)

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول:

” ان للّٰہ ما اخذ، ولہ ما اعطیٰ ،وکل شئی عندہ باجل مسمیّ۔”

ترجمہ:۔”الله ہی کے لئے ہے جو اس نے لیا، اور اسی کا ہے جو اس نے دیا، اور ہر چیز کا اس کے ہاں ایک وقت مقرر ہے۔” (صحیح بخاری و مسلم)

اور جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قول جو آپ نے اپنے صاحبزادے ابراہیم کو وداع کرتے وقت فرمایا، جب ان کی وفات ہوئی:

"ان العین تدمع، والقلب یحزن، ولا نقول الا ما یرضی ربنا ، وانا بفراقک یا ابراہیم لمحزونون۔”

ترجمہ:۔”آنکھیں پُر نم ہیں،دل غمگین ہے، اور ہم وہی بات کریں گے جو ہمارے رب کو راضی کرنے والی ہے، اور اے ابراہیم !ہم تمہاری جدائی پر غمگین ہیں۔” ( بخاری و مسلم)

نیز یہ بھی مناسب ہے کہ مصیبت والے کے سامنے اس کا غم ہلکا کرنے کے لئے اقوال ذکر کریں ،مثلاً ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:

"ہر روز کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص وفات پا گیا۔ فلاں دنیا سے چلا گیا، اور ایک دن ایسا بھی ضرور آنے والا ہے کہ اس دن کہا جائیگا ، عمر بھی وفات پا گئے۔”

اور خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ تعالیٰ کا یہ قول سنائیں کہ:

"جس شخص کے درمیان اور حضرت آدم علیہ السلام کے درمیان کوئی باپ زندہ نہیں، وہ بھی موت میں ڈوبنے والا ہے۔”

اور جلیل القدر تابعی حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول:

"اے آدم کے بیٹے، تو تو چند دنوں کا مجموعہ ہے۔ جب ایک دن گزر جاتا ہے، تو تیرا ایک حصہ چلا جاتا ہے۔”

نیز انہیں کا یہ قول کہ:”اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لئے جنت سے کم کسی چیز میں راحت نہیں رکھی۔”

حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ کے شاگرد مالک بن دینار کا قول:”اہل تقویٰ کی خوشی کا دن تو قیامت کا دن ہو گا۔”

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

وانا لنفرح بالأیّام نقطعہا

وکل یوم مضی یدنی من الأجل

ترجمہ:۔” ہم خوش ہوتے ہیں کہ دن گزر رہے ہیں، لیکن ہر دن جو گزر تا جاتا ہے وہ ہمیں موت کے قریب کر رہا ہے۔”

اور تعزیت کے سلسلہ میں بہت ہی عمدہ شعر کہا گیا ہے:

إنا نعزک لا أنا علی ثقة من الحیاة ولکن سنة الدین

فما المعزَی بباق بعد میتتہ ولا معزِی وإن عاشا إلی حین

ترجمہ:۔”ہم آپ کی تعزیت کرتے ہیں، اس لئے نہیں کہ ہمیں اپنی زندگی کا یقین ہے، بلکہ اس لئے تعزیت کرتے ہیں، کہ یہ دینِ اسلام کی سنت ہے، میت کے بعد نہ تو جس کی تعزیت کی جاتی ہے، وہ باقی رہے گا اور نہ ہی تعزیت کرنے والا، اگر چہ وہ لمبی عمر تک زندہ رہے۔”

اسی مناسبت سے کہنے والے نے کیا خوب کہا ہے:

نموت و نحیا کل یوم ولیلة

ولا بد من یوم نموت ولا نحیا

ترجمہ:۔”ہم ہر روز مرتے ہیں اور زندہ ہو تے ہیں( یعنی سو کر اُٹھتے ہیں) اور ایک دن ضرور آنے والا ہے کہ ہم مریں گے اور زندہ نہ ہونگے۔

اور ایک شاعر نے زندگی اور غفلت کی سچی تصویر کھینچتے ہوئے کہا ہی:

وإنا لفی الدنیا کرکب سفینة

نظن وقوفا والزمان بنا یجری

ترجمہ:۔”دنیا میں ہماری مثال ایسی ہے جیسے کشتی کے سوار ،ہم خیال کرتے ہیں کہ وہ کھڑی ہے ، اور زمانہ کی کشتی ہمیں لے کر چل رہی ہوتی ہے۔”

مجھے ان آیات، احادیث اور بزرگوں کے اقوال…جن کا تعزیت میں ذکر  کرنا مناسب ہو تا ہے …کے ذکر کرنے کی اس لئے حاجت محسوس ہوئی کہ میں نے بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ مصیبت زدہ شخص کی مجلس تعزیت میں غیر متعلقہ موضوعات چھیڑ دیتے ہیں جن کا اس مصیبت زدہ غمگین شخص کی حالت سے کوئی جوڑ نہیں ہو تا۔اور جو ایک غمگین طبیعت پر گراں گذرتے ہیں، اور یہ ذوقِ سلیم اور اسلامی آداب کے خلاف ہے۔

ادب :۲۹

مجلس کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ جب آپ اپنے مہمان یا جس شخص سے بھی گفتگو کر رہے ہوں تو آپ کی آواز نہایت نرم اور پست ہو نی چاہئے ،اور ضرورت کے مطابق اپنی آواز کو بلند کریں، کیونکہ ضرورت سے زائد آواز بلند کرنا گفتگو کرنے والے کو زیب نہیں دیتا ۔اور وہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل میں مخاطب کی پوری عزت نہیں ہے،

یہ وہ ادب ہے، جس کا خیال رکھنا اپنے دوست ،ہم منصب ، جسے آپ جانتے ہیں ، یا نہیں جانتے ، آپ سے چھوٹا ہے یا آپ سے بڑا ہے، سب کے لئے ہے۔ اور اس ادب کا خیال رکھنا اس وقت اور زیادہ اہم ہو جاتا ہے جب آپ اپنے والدین یا والدین جیسے یا جوآپ کے نزدیک قابلِ تعظیم اور قابل احترام ہوں، ان سے گفتگو کر رہے ہوں، اس سلسلہ کی چند آیات اور احادیث پیش کی جاتی ہیں:

قرآن کریم نے حضرت لقمان حکیم کی نصیحت…جو انہوں نے اپنے بیٹے کو فرمائی ہے، ذکر کی ہے:” واغضض من صوتک” یعنی جب لوگوں سے بات کرو تو اپنی آواز کو پست رکھو، اور اسے اونچا مت کرو، کیونکہ ضرورت سے زیادہ آواز بلند کرنا ناپسندیدہ اور بُرا عمل ہے۔

صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:

” یایہا الذین امنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی ، ولا تجہروا لہ بالقول کجہر بعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم وانتم لا تشعرون ، ان الذین یغضون اصواتہم عند رسول اللّٰہ اولئک الذین امتحن اللّٰہ قلوبہم للتقویٰ لھم مغفرة واجر عظیم۔” (الحجرات:۲،۳)

ترجمہ:۔”اے ایمان والو! تم اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے بلند مت کیا کرو، اور نہ ان سے ایسے کھل کر بولا کرو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے سے کھل کر بولا کرتے ہو۔ کہیں تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔ بے شک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول اللہ کے سامنے پست رکھتے ہیں،یہ وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کو اللہ نے تقویٰ کے لئے خالص کر دیا ہے، ان لوگوں کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔”

تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، اس آیت کے اترنے کے بعد، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات عرض کرتے تو اس طرح بات کرتے جیسے کوئی سرگوشی کرنے والا بات کرتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بات دہرانے کے لئے ارشاد فرماتے۔ الغرض حضرت عمر رضی اللہ عنہ اتنی آواز پست کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھنے کے لئے ان سے پوچھنا پڑتا۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب” تاریخ الاسلام” :۴/۱۹۷۔ میں جلیل القدر فقیہ اور تابعی امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں عبداللہ بن عونؒ سے روایت نقل کی ہے کہ امام محمد بن سیرینؒ جب اپنی والدہ محترمہ کے پاس ہوتے تو دیکھنے والا جو ان کو جانتا نہ ہو ،یہ سمجھتا کہ وہ بیمار ہیں ۔ کیونکہ والدہ کے سامنے وہ اپنی آواز بہت پست کرتے تھے۔

نیز حافظ امام ذہبی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب”تاریخ الاسلام” : ۶/۲۱۳، میں امام ابن سیرین ؒکے شاگرد ایک بڑے امام عبداللہ بن عون بصری رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک بار ان کی والدہ محترمہ نے ان کو بلایا ، تو جواب میں ان کی آواز والدہ کی آواز سے زیادہ اونچی ہو گئی۔ تو وہ بہت گھبرائے ،کہ یہ ان سے گناہ ہو گیا ہے۔اس لئے فوراً دو غلام آزاد کر دیے۔

کوفہ کے مشہور قاری عاصم بن بہدلہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں ایک بار خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیزؒ کے پاس حاضر ہوا، تو ایک شخص ان کی مجلس میں بلند آواز سے بولنے لگا تو حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا: ایسا مت کرو، ایک شخص کے لئے اتنا کافی ہے، کہ وہ گفتگو کے وقت اتنی آواز بلند کرے ، جتنی اسکا بھائی یا ہم مجلس سن سکے۔ (تہذیب تاریخ دمشق لابن عساکر لعبد القادر بدران:۷/۱۲۳) ادب :۳۰

مجلس کے آداب میں یہ بھی ہے کہ جب آپ کا ہم مجلس آپ کو کوئی ایسی خبر سنا رہا ہے ، جس کے بارے میں اس کا خیال ہے کہ وہ آپ کو معلوم نہیں ،حالانکہ آپ کو معلوم ہے تو آپ یہ کہہ کر اسے شرمندہ نہ کریں کہ مجھے تو یہ بات معلوم ہے اور نہ ہی اس کی بات میں دخل اندازی کریں۔

جلیل القدر تابعی امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، کبھی ایک نوجوان مجھے کوئی حدیث سناتا ہے ، تو میں اسے خوب غور سے سنتا ہوں۔گویا کہ میں اسے جانتا نہیں، حالانکہ اس کی پیدائش سے پہلے میں اس حدیث کو سن چکا ہوتا ہوں۔

خالد بن صفوان تمیمیؒ ،جو خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیزؒ اور خلیفہ ہشام بن عبدالملکؒ کے ہم نشین تھے ،فرماتے ہیں:جب آپ کسی محدث کو دیکھیں کہ وہ ایسی حدیث بیان کر رہا ہے جو آپ سن چکے ہیں،یا ایسی خبر سنا رہا ہے جو آپ کو معلوم ہے تو آپ اس میں شریک نہ ہوں ،یعنی حاضرین پر یہ ظاہر نہ کریں کہ آپ اسے جانتے ہیں، کیونکہ ایسا کرنا آپ کے لئے خفت کا باعث ہے اور ادب کے خلاف ہے۔

جلیل القدر امام عبداللہ بن وہبؒ قریشی مصری ،جو امام مالکؒ اور امام لیث بن سعدؒ اور امام ثوریؒ وغیرہ کے صحبت یافتہ ہیں ،فرماتے ہیں :بعض دفعہ میں کسی شخص سے ایسی حدیث سنتا ہوں جو میں نے اس وقت سے سنی ہو تی ہے، جب کہ اس کے ماں باپ آپس میں ملے بھی نہ تھے، یعنی اس شخص کی ولادت اور وجود سے پہلے ، تو میں اسے اس توجہ اور غور سے سنتا ہوں ،جیسے میں نے اسے پہلے نہیں سنا تھا۔

حضرت ابراہیم بن جنیدؒ فرماتے ہیں : ایک حکیم ،عقلمند نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: جیسے تم گفتگو کرنے کے آداب سیکھتے ہو، ایسے ہی گفتگو سننے کے آداب سیکھو ،اور گفتگو سننے کے آداب یہ ہیں کہ آپ گفتگو کرنے والے کو پہلے اپنی پوری بات کرنے دیں، اور پوری توجہ اور یکسوئی سے اس کی بات سنیں، اور اگر اس کی گفتگو میں آپ کو کچھ معلوم ہے تو آپ اس کا اظہار نہ کریں۔اس مناسبت سے حافظ خطیب بغدادیؒ نے اس مقام پر ایک شعر کہا ہے:

ولا تشارک فی الحدیث أہلہ

وان عرفت فرعہ واصلہ

یعنی جو شخص گفتگو کر رہا ہے اس میں تم شریک مت ہو، اگر چہ آپ کو اس کی اصل اور تفصیل معلوم ہو۔

ادب :۳۱

مجلس کے آداب میں یہ بھی ہے کہ جب گفتگو کرنے والے کی گفتگو میں آپ کو کوئی اشکال ہو تو آپ اس کے اظہار میں جلدی نہ کریں،بلکہ صبر کریں اور متکلم کو اپنی بات پوری کرنے دیں۔ جب وہ اپنی بات مکمل کر لے تو اب آپ نہایت ادب و احترام اور نرمی اور عمدہ تمہید کے ساتھ اس سے سوال کریں، لیکن گفتگو کے درمیان ہر گز اس کی بات کو نہ کاٹیں۔کیونکہ یہ ادب کے خلاف ہے ،اور اس سے دلوں میں ناپسندیدگی کے جذبات پیدا ہو تے ہیں، ہاں اگر مجلس تعلیم اور تدریس کی ہے تو اس کی شان دوسری ہے، لیکن اس میں بھی بہتر یہ ہے کہ جب استاذ جملہ پورا کر لے ،یا کسی معنی اور مسئلہ کی شرح پوری کر لے تب سوال کریں ،اور اس میں بھی علمی مناقشہ میں ادب اور سمجھداری ملحوظ رہنی چاہئے۔ خلیفہ مامون الرشید کا قول ہے:”العلم علی المناقشة ،اثبت منہ علی المتابعة۔”یعنی وہ علم جو مناقشہ کے بعد حاصل ہو تا ہے ،وہ زیادہ پائیدار ہو تا ہے اس علم سے جو صرف سننے سے حاصل ہو۔مشہور عالم ادیب مؤرخ خلیفہ ابو جعفر منصور ،مہدی ، ہادی اور رشید کے ہم مجلس ہیثم بن عدی رحمہم اللہ نے فرمایا: حکماء کا قول ہے: بُرے اخلاق میں سے یہ بھی ہے کہ دوسرے کی گفتگو میں اپنی گفتگو چھیڑ دینا، اوردوسرے کی بات کاٹتے ہوئے دوران گفتگو اعتراض کر دینا ۔

ادب :۳۲

مجلس کے آداب میں یہ بھی ہے کہ اگر آپ کے ہم مجلس سے سوال پوچھا جائے تو آپ جواب دینے میں پہل نہ کریں، بلکہ جن سے پوچھا گیا ہے، اسے جواب دینے کا موقع دیدیں۔

اور جب تک آپ سے پوچھا نہ جائے آپ خاموش رہیں،۔ اس سے آپ کا ادب ،آپ کی شخصیت اور آپ کا مقام بلند ہو گا، جلیل القدر تابعی مجاہد بن جبرؒ نے فرمایا کہ لقمان حکیمؒ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: خبر دار !اگر کسی دوسرے سے پوچھا جائے اور تم اس طرح جو اب دینے لگو کہ جیسے تمہیں مال غنیمت یا کو ئی تحفہ مل گیا ۔ پس اگر تم نے ایسا کیا ،یعنی جواب دیا تو تم نے جواب دینے کی تحقیر کی ،اور سائل کو بوجھل کیا اور بیوقوفوں کو اپنی بیو قو فی اور بے ادبی پر مطلع کیا ۔

مشہور محدث فقیہ حنبلی ابن بطہؒ فرماتے ہیں کہ : میں امام ابو عمر زاھد حافظ علامہ لغوی محمد بن عبد الواحدبغدادیؒ جو ثعلب کے لقب سے مشہور ہیں ۔کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ ان سے ایک مسئلہ پوچھا گیا ،تو میں نے جلدی کی اورسائل کو جواب دے دیا، تو ابو عمر زاھد میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھے یہ کہتے ہوئے شرمندہ کر دیا:کیا تم چھپی ہو ئی فضولیات کو جانتے ہو،یعنی تم فضولی ہو۔

ادب :۳۳-

ایک مختصرسی نصیحت اپنی پیاری مسلمان بہن کو کرنا چاہتا ہوں:جب آپ اپنے گھر والوں سے یا اپنی بعض سہیلیوں سے ملاقات کا ارادہ کریں تواس کے لئے مناسب دن اورمناسب وقت کا خیال رکھیں۔ابتداء اور انتہاء دونوں اعتبار سے ،کیونکہ بعض اوقات ایسے ہوتے ہیں جن میں ملاقات اچھی سمجھی جاتی ہے اور بعض اوقات ایسے ہوتے ہیں جن میں ملاقات مناسب نہیں ہوتی ،چاہے وہ رشتہ دار یادوست ہی کیوں نہ ہوں۔ملاقات میں آپ کی حالت ایک ہلکے عمدہ اور پسندیدہ سائے کی ہونی چاہئے ،جس سے نہ دوسرے پر بوجھ پڑے اور نہ وہ تنگ ہوں،نہ فضول باتیں ہوں اور نہ لمبی رام کہانیاں ہوں، بلکہ یہ ملاقات صلہ رحمی کے لئے ہو اور دوستی اور رشتہ داری کی تازگی کے لئے ہو۔ملاقات جب مختصر اور محبت بھری ہو تو وہ پسندیدہ شمار ہوتی ہے،اور جب طویل اور تنگ کرنے والی ہو تو بھاری سمجھی جاتی ہے، جس میں گپ بازی ہوتی ہے اور اچھی باتوں کے علاوہ بے کار گفتگو تک بات جا پہنچتی ہے ۔جلیل القدر تابعی حضرت محمد بن شہاب زہری رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : جب مجلس لمبی ہو جائے تو شیطان کا اس میں حصہ ہوتا ہے۔آپ کی گفتگو ملاقات کے وقت ساری کی ساری یا زیادہ تر ایسی ہو نی چاہئے جس میں فائدہ اور نفع ہو، اور وہ غیبت،چغلی ،اور بے ہو دگی سے دور ہو، اور ایک مسلمان عقلمند خاتون وقت کا خیال کرتے ہوئے ملاقات اور گفتگو کرے۔

ادب :۳۴-

جب آپ ایسی جگہ جائیں جہاں کچھ لوگ سوئے ہوئے ہو ں، دن ہو یا رات ، تو ان کا خیال کیجئے، اور اپنی حرکت اور آواز میں نرمی اختیار کریں ،اور اس جگہ میں داخل ہونے یا نکلنے کے وقت ایسا شور نہ مچائیں جس سے ان پر گراں گزرے ،بلکہ نہایت نرمی اور لطف کا مظاہرہ کریں،کیونکہ آپ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان توسن چکے ہیں:”من یحرم الرفق یحرم الخیر کلہ۔”یعنی جو نرمی سے محروم ہوا وہ ہر ایک خیر کے کام سے محروم ہوا۔جلیل القدر صحابی مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لئے آپ کے حصہ کا دودھ رکھ دیتے تھے جب آپ رات کو تشریف لاتے تو اتنی آواز سے سلام فرماتے کہ جاگنے والا سن لیتا اور سوتا ہوا نہ جاگتا ( مسلم اور ترمذی)

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو تہجد کے لئے اُٹھتے تو ایسی آواز سے قرآن پڑھتے کہ جاگنے والا لطف اندوز ہوتا اور سونے والا نہ جاگتا۔

ادب :۳۵

جب آپ کو عقد نکاح یا ولیمہ کی دعوت دی جائے تو وہاں ضرور جائیں، کیونکہ اس میں حاضری سنت ہے، جب کہ اس میں کوئی شرعی محرمات نہ ہوں، کیونکہ شریعت نے نکاح اور شادی کو عبادت اور اطاعت میں شمار کیا ہے۔اسی لئے مستحب یہ ہے کہ نکاح مسجد میں ہو ،جیسا کہ فقہاء کرام نے اس کی تصریح کی ہے،اور حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

"أاعلنوا النکاح ،واجعلوہ فی المساجد واضربوا علیہ بالدفوف۔”

‘(ترمذی و ابن ماجہ)

ترجمہ:۔”اس نکاح کا اعلان کرو، اور اسے مسجدوں میں منعقد کرو، اور اس نکاح پر دف بجاؤ۔”

اور اس کی تائید ” اعلنوا النکاح "…نکاح کا اعلان کرو …والی حدیث سے بھی ہوتی ہے، (احمد اور حاکم)اور حدیث ” فصل ما بین الحلال والحرام الصوت والدف فی النکاح”…حلال اور حرام میں شہرت اور دف کافرق ہے… والی حدیث اس کی تائید کرتی ہے( اس کو احمد ،ترمذی ،نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح میں عورتوں کو دف بجانے کی اجازت دی ہے ، جس میں کسی کا اختلاف نہیں، اور بعض علماء کے نزدیک مردوں کے لئے بھی اجازت ہے، تاکہ شادی کی شہرت ہو او راس کا اعلان ہو،تاکہ اپنے اور غیر سب کو معلوم ہو کہ یہ شادی ہوئی ہے۔

اس اعلان اور تشہیر میں شریعت کے اونچے مقاصد ہیں ،ایک تو یہ کہ پاکیزہ اور حلال نکاح اور حرام اور خبیث جوڑ میں فرق کرنا ہے، جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پہلے گزر چکا:

"فصل ما بین الحلال والحرام الصوت والدف فی النکاح۔”

(احمد،ترمذی، نسائی ،ابن ماجہ)

یعنی حلال اور حرام میں فرق کرنے والی چیز آواز اور دف ہے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ: آواز سے مراد نکاح کا علان ہے اور لوگوں میں اس کا تذکرہ ہے، اسی طرح عورتوں اور مردوں کی اس موقع پر خاص آواز ( جیسے بعض عرب ملکوں میں ہوتا ہے۔)

آپ کا عقدِ نکاح کی مجلس میں شریک ہو نا اس مطلوب اعلان کو ثابت کرتا ہے، اور نکاح پر گواہی میں قوت حاصل ہوتی ہے، اور ایک مومن بھائی یا مومن بہن کے نیک عمل میں آپ شریک ہوتے ہیں، جس کے ذریعہ ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنا نصف دین محفوظ کر لیا ہے، اب ان کو چاہئے کہ باقی نصف میں اللہ سے ڈرتے رہیں۔

نیز اس شرکت سے دولہا اور دلہن دونوں کی تکریم بھی ہے کہ ان کے عزیز و اقارب اور نیک دوست ان کی اس خوشی میں شریک ہیں، او ران دونوں کے لئے صلاح ،کامیابی ،برکت اور توفیق کی دعاء مانگتے ہیں ، اس کا تعلق مسلمانوں میں اسلامی اخوت کے حقوق میں سے ہے۔

جب آپ کو شادی میں بلا یا جائے تو دعوت کے قبول کرنے میں آپ کی نیت یہ ہو نی چاہئے کہ آپ ایک مبارک دعوت میں شریک ہو رہے ہیں اور ایک ایسی خوشی کی تقریب میں شرکت کر رہے ہیں، جو شرعاً مطلوب ہے، اور اس میں شرکت کرنے کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے،اور اس میں ان تمام آداب کا خیال رکھیں جن کی طرف پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے۔

آپ اس پاکیزہ تقریب کے لئے شریعت کے دائرے میں رہ کر زیب و زینت اختیار کرسکتے ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب ایک دوسرے کی ملاقات کے لئے جاتے تو ظاہری زینت اختیار کر کے جاتے تھے۔

نیز جب آپ کوئی بات شروع کریں، اور کسی بات میں حصہ لیں تو اس محفل اور خوشی کی مناسبت سے کریں، ایسی بات نہ کریں جس سے حاضرین کو غم اور پریشانی ہو، یا جس سے سامعین کی سمع خراشی ہو، مومن کو عقلمند اور ہوشیار ہو نا چاہئے۔مستحب یہ ہے کہ جب آپ زوجین کو مبارک باد دیں تو ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعاء سے مبارکباد دیں !

"بارک اللّٰہ لک ،وبارک علیک وجمع بینکما بخیر۔”(ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ)

یعنی اللہ تجھے برکت دے،اور تجھ پر برکت نازل فرمائے اور تم دونوں کو خیر پر جمع فرمائے۔

ان الفاظ سے مبارک باد نہ دے، جن سے بعض لوگ مبارک باد دیتے ہیں۔ ( بالرفاء والبنین) آپ میں اتفاق ہو اور آپ کے بیٹے ہوں، کیونکہ یہ زمانہ جاہلیت کی مبارکباد ہے۔ اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دعاء سکھا کر اس سے مستغنی کر دیا ہے۔نیز مسنون دعاء یہ بھی ہے:

"بارک اللّٰہ لکم ، وبارک علیکم ۔” (نسائی ، ابن ماجہ)

یعنی اللہ آپ کو برکت دے، اور آپ پر برکت نازل فرمائے۔

ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میری شادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو میری ماں آئیں اور مجھے ایک گھر میں پہنچا دیا، وہاں انصار کی کچھ خواتین موجود تھیں، تو انہوں نے کہا:

"علی الخیر والبرکة، وعلی خیر طائر۔” ( بخاری)

یعنی خیر اور برکت ہو، اور خوش بختی اور خوش نصیبی ہو۔

شریعت نے عورتوں کو اجازت دی ہے ،شادی میں ایسے گیت گائیں جو مباح ہیں، اور اچھے اشعار اور اچھے اقوال کو دف کے ساتھ گائیں ، جن اشعار میں محبت، جمال یا حسن کے مظاہر اور بے حیائی کا ذکر نہ ہو ، بلکہ ایسے پاکیزہ اور عمدہ اقوال ہوں جن میں اس بابرکت شادی پر خوشی کا اظہار ہو۔

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دلہن کو ایک انصاری کے گھر پہنچا یا گیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"یا عائشة ماکان معکم لہو، فان الأنصاریعجبہم اللہو” (بخاری)

ترجمہ :”عائشہ ! تم لوگوں کے ہاں مشغولیت کا کوئی سامان نہ تھا، کیونکہ مدینہ والے انصار کو اس قسم کی چیز پسند ہے۔”

یہاں ” لہو” سے مراد گیت گانا اور دف بجانا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ” فتح الباری:۹/۲۳۳۶” میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے۔کہ :طبرانی نے” الاوسط” میں ام المؤمنین رضی اللہ عنہا سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اس دلہن کے ساتھ کسی بچی کو نہیں بھیجا، جو گاتی اور دف بجاتی؟ تو میں نے عرض کیا : کہ وہ کیا گاتی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ یوں کہتی:

أتینا کم أتیناکم فحیّانا و حیّاکم

ولو لا الذہب الأحمر ما حلت بِوَادیکم

ولو لا الحنطة السمرأ ما سمنت عذاریکم

یعنی ہم تمہارے پاس آئے ،ہم تمہارے پاس آئے، ہم بھی زندہ رہیں، اور تم بھی زندہ رہو، اگر یہ سرخ سونا نہ ہوتا، تو دلہن تمہاری وادی میں نہ آتی ،اور اگر سرخ گندم نہ ہوتی تو تمہاری دوشیزائیں موٹی نہ ہوتیں۔

اس طرح کے پاکیزہ گانے اور اشعار جن کو عورتیں گاسکتی ہیں،گائے جائیں مگر عشق بازی، محبت اور بے حیائی کے اشعار اور گانے حرام اور منع ہیں۔

یہ اسلام کے چند آداب ہیں، جن پر آپ کے باپ دادا عمل کرتے رہے ہیں، اور جن کو میں نے صاف اور سمجھ میں آ نے والے الفاظ میں پیش کر دیا ہے، تاکہ آپ ان پر عمل کریں اور ان پر چلیں،اور عمل کے لئے بہترین میدان آپ کا گھر اور آپ کے مسلمان بھائی کا گھر ہے، اور آپ کی شخصیت اور آپ کے بھائی کی شخصیت ہے، لہٰذا اپنے اور اپنے بھائی کے درمیان ان پر عمل کرنے میں سستی نہ کریں، اس خیال سے کہ گھر والوں اور بھائیوں میں کوئی تکلف ہو تا نہیں ،کیونکہ وہ سب سے زیادہ آپ کی نیکی اور نرمی کے حقدار ہیں۔

ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا ، یارسول اللہ ! کون شخص میری حسنِ معاشرت کا زیادہ حقدار ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"أمّک ، ثم أمّک ،ثم أمّک ، ثم أبو ک ،ثم أدناک أدناک۔”

یعنی فرمایا : تیری ماں،پھر تیری ماں، پھر تیری ماں،پھر تیرا باپ پھر درجہ بدرجہ۔(بخاری و مسلم)

میرے بھائی! خبر دار حسنِ معاشرت میں ایسے لوگوں کے حق میں تو کوتاہی برتو جو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ حقدار ہیں، اور غیروں کے ساتھ اخلاق برتو۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو اپنے آپ کو نقصان پہنچاؤ گے اور اپنے حق میں کوتاہی کے مرتکب ہو گے ،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہو ئی ہدایت سے دور ہو گے ،لہٰذا اللہ تعالیٰ سے اس کی مرضیات اور اس کی شریعت کے آداب پر چلنے کی توفیق طلب کرو، اور اللہ تعالیٰ ہی نیک لوگوں کا دوست ہے۔

اللہ تعالیٰ آپ کا ،آپ کے رشتہ داروں کا اور آپ سے محبت کرنے والوں کا نگہبان ہو،اور وہ آپ کی مدد فرمائے ،اپنے احکام پر عمل پیرا ہو نے اور اپنی طاعت ، اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اس کی سچی محبت کی محض اپنے احسان اور فضل و کرم سے توفیق عطاء فرمائے۔

وصلی اللّٰہ علی سیدنا و نبینا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا ،والحمد للّٰہ رب العالمین۔

٭٭٭

ماخذ:

http://banuri.edu.pk

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید