فہرست مضامین
- عہد نامہ جدید
- ۴۴۔ کتاب اعمال
- باب : 1
- باب : 2
- باب : 3
- باب : 4
- باب : 5
- باب : 6
- باب : 7
- باب : 8
- باب : 9
- باب : 10
- باب : 11
- باب : 12
- باب : 13
- باب : 14
- باب : 15
- باب : 16
- باب : 17
- باب : 18
- باب : 19
- باب : 20
- باب : 21
- باب : 22
- باب : 23
- باب : 24
- باب : 25
- باب : 26
- باب : 27
- باب : 28
- کتاب ۴۵: رومیوں
- باب : 1
- باب : 2
- باب : 3
- باب : 4
- باب : 5
- باب : 6
- باب : 7
- باب : 8
- باب : 9
- باب : 10
- باب : 11
- باب : 12
- باب : 13
- باب : 14
- باب : 15
- باب : 16
عہد نامہ جدید
حصہ پنجم۔ کتاب ۴۵، ۴۴ : اعمال، رومیوں
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
۴۴۔ کتاب اعمال
باب : 1
1 اَے تھیفلس۔ مَیں نے پہلا رسالہ ان سب باتوں کے بیان میں تصنیف کیا جو یسوع شروع میں کرتا اور سکھاتا رہا۔
2 اس دن تک جس میں وہ ان رَسولوں کو جنہیں اس نے چنا تھا روح القدس کے وسیلہ سے حکم دے کر اوپر اٹھایا گیا۔
3 اس نے دکھ سہنے کے بعد بہت سے ثبوتوں سے اپنے آپ کو ان پر زندہ ظاہر بھی کیا۔ چنانچہ وہ چالیس دن تک انہیں نظر آتا اور خدا کی بادشاہی کی باتیں کہتا رہا۔
4 اور ان سے مل کر ان کو حکم دیا کہ یروشلیم سے باہر نہ جاؤ بلکہ باپ کے اس وعدہ کے پورا ہونے کے منتظر رہو جس کا ذکر تم مجھ سے سن چکے ہو۔ کیونکہ یوحنّا نے تو پانی سے بپتسمہ دیا مگر تم تھوڑے دنوں کے بعد روح القدس سے بپتسمہ پاو گے۔
5 پَس انہوں نے جمع ہو کر اس سے یہ پوچھا کہ اَے خداوند۔ کیا تو اسی وقت اسرائیل کو بادشاہی پھر عطا کرے گا ؟۔
6 7 اس نے ان سے کہا ان وقتوں اور میعادوں کا جاننا جنہیں باپ نے اپنے ہی اختیّار میں رکھّا ہے تمہارا کام نہیں۔
8 لیکن جب روح القدس تم پر نازل ہو گا تو تم قوّت پاو گے اور یروشلیم اور تمام یہودیہ اور سامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہو گے۔
9 یہ کہہ کر وہ ان کے دیکھتے دیکھتے اوپر اٹھا لیا گیا اور بدلی نے اسے ان کی نظروں سے چھپا لیا۔
10 اور اس کے جاتے وقت جب وہ آسمان کی طرف غَور سے دیکھ رہے تھے تو دیکھو دو مرد سفید پوشاک پہنے ان کے پاس آ کھڑے ہوئے۔
11 اور کہنے لگے اَے گلیلی مردو۔ تم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو؟ یہی یسوع جو تمہارے پاس سے آسمان پر اٹھایا گیا ہے اسی طرح پھر آئے گا جس طرح تم نے اسے آسمان پر جاتے دیکھا ہے۔
12 تب وہ اس پہاڑ سے جو زَتیون کا کہلاتا ہے اور یروشلیم کے نزدیک سَبت کی منزل کے فاصلہ پر ہے یروشلیم کو پھرے۔
13 اور جب اس میں داخل ہوئے تو اس بالاخانہ پر چڑھے جس میں وہ یعنی پطرس اور یوحنّا اور یعقوب اور اندریاس اور فلپّس اور توما اور برتلمائی اور متّی اور حلفئی کا بَیٹا یعقوب اور شمعون زیلوتیس اور یعقوب کا بَیٹا یہوداہ رہت تھے۔
14 یہ سب کے سب چند عَورتوں اور یسوع کی ماں مریم اور اس کے بھائیوں کے ساتھ ایک دل ہو کر دعا میں مشغول رہے۔
15 اور انہی دنوں پطرس بھائیوں میں جو تخمینا ایک سَوبیس شَخصوں کی جماعت تھی کھڑا ہو کر کہنے لگا۔
16 اَے بھائیو اس نوشتہ کا پورا ہونا ضرور تھا جو روح القدس نے داؤد کی زبانی اس یہوداہ کے حق میں پہلے سے کہا تھا جو یسوع کے پکڑنے والوں کا رہنما ہوا۔
17 کیونکہ وہ ہم میں شمار کیا گیا اور اس نے اس خدمت کا حصّہ پایا۔
18 اس نے بدکاری کی کمائی سے ایک کھیت حاصل کیا اور سر کے بل گرا اور اساکا پیٹ پھٹ گیا اور اس کی سب انتڑیاں نکل پڑیں۔
19 اور یہ یروشلیم کے سب رہنے والوں کو معلوم ہوا۔ یہاں تک کہ اس کھیت کا نام ان کی زبان میں ہَقَل دما پڑ گیا یعنی خون کا کھیت۔
20 کیونکہ زبور میں لکھا ہے کہ اس کا گھر اجڑ جائے اور اس میں کوئی بسنے والا نہ رہے اور اس کا عہدہ دوسرا لے لے۔
21 پَس جتنے عرصہ تک خداوند یسوع ہمارے ساتھ آتا رہا یعنی یوحنّا کے بپتسمہ سے لے کر خداوند کے ہمارے پاس سے اٹھائے جانے تک جو برابر ہمارے ساتھ رہے۔
22 چاہئے کہ ان میں سے ایک مرد ہمارے ساتھ اس کے جی اٹھنے کا گواہ بنے۔
23 پھر انہوں نے دو کو پیش کیا۔ ایک یوسف کو جو برسّبا کہلاتا اور جس کا لقب یوستس ہے۔ دوسرا متیّاہ کو۔
24 اور یہ کہہ کر دعا کی کہ اَے خداوند۔ تو جو سب کے دلوں کی جانتا ہے۔ یہ ظاہر کر کہ ان دونوں میں سے تو نے کس کو چنا ہے۔
25 کہ وہ اس خدمت اور رسالت کی جگہ لے جسے یہوداہ چھوڑ کر اپنی جگہ گیا۔
26 پھر انہوں نے ان کے بارے میں قرعہ ڈالا اور قرعہ متیّاہ کے نام کا نکلا۔ پَس وہ ان گیارہ رَسولوں کے ساتھ شمار ہوا۔
باب : 2
1 جب عید پنتکست کا دن آیا تو وہ سب ایک جگہ جمع تھے۔
2 کہ یکایک آسمان سے اَیسی آواز آئی جَیسے زور کی آندھی کا سنّاٹا ہوتا ہے اور اس سے سارا گھر جہاں وہ بَیٹھے تھے گونج گیا۔
3 اور انہیں آگ کے شعلہ کی سی پھٹتی ہوئی زبانیں دکھائی دیں اور ان میں سے ہر ایک پر آ ٹھہریں۔
4 اور وہ سب روح القدس سے بھر گئے اور غَیر زبانیں بولنے لگے جس طرح روح نے انہیں بولنے کی طاقت بخشی۔
5 اور ہر قَوم میں سے جو آسمان کے تَلے ہے خدا ترس یہودی یروشلیم میں رہتے تھے۔
6 جب یہ آواز آئی تو بھیڑ لگے گئی اور لوگ دَنگ ہو گئے کیونکہ ہر ایک کو یہی سنائی دیتا تھا کہ یہ میری ہی بولی بول رہے ہیں۔
7 اور سب حَیران اور متعّجب ہو کر کہنے لگے دیکھو۔ یہ بولنے والے کیا سب گیلی نہیں؟۔
8 پھر کیونکر ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے وطن کی بولی سنتا ہے؟۔
9 حالانکہ ہم پارتھی اور مادی اور عیلامی اور مسوپتامیہ اور یہودیہ اور کَپّرکیہ اور پنطس اور آسیہ۔
10 اور فروگیہ اور پمفیلیہ اور مصر اور لبوآ کے علاقہ کے رہنے والے ہیں جو کرینے کی طرف ہے اور رومی مسافر خواہ یہودی خواہ ان کے مرید اور کریتی اور عرب ہیں۔
11 مگر اپنی اپنی زبان میں ان سے خدا کے بڑے بڑے کاموں کا بیان سنتے ہیں۔
12 اور سب حَیران ہوئے اور گھبرا کر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ یہ کیا ہوا چاہتا ہے؟۔
13 اور بعض نے ٹھٹھا کر کے کہا کہ یہ تو تازہ مَے کے نشہ میں ہیں۔
14 لیکن پطرس ان گیارہ کے ساتھ کھڑا ہوا اور اپنی آواز بلند کر کے لوگوں سے کہا کہ اَے یہودیو اور اَے یروشلیم کے سب رہنے والو۔ یہ جان لو اور کان لگا کر میری باتیں سنو۔
15 کہ جَیسا تم سَمَجھتے ہو یہ نشہ میں نہیں کیونکہ ابھی تو پہر ہی دن چڑھا ہے۔
16 بلکہ یہ وہ بات ہے جو یوئیل نبی کی معرفت کہی گئی ہے کہ۔
17 خدا فرماتا ہے کہ آخری دنوں میں اَیسا ہو گا کہ مَیں اپنے روح میں سے ہر بشر پر ڈالوں گا اور تمہارے بَیٹے اور تمہاری بیٹیاں نبوّت کریں گی اور تمہارے جوان رویا اور تمہارے بڈھے خواب دیکھیں گے۔
18 بلکہ مَیں اپنے بندوں اور اپنی بندیوں پر بھی ان دنوں میں اپنے روح میں سے ڈالوں گا اور وہ نبوّت کریں گی۔
19 اور مَیں اوپر آسمان پر عجیب کام اور نیچے زمین پر نشانیاں یعنی خون اور آگ اور دھوئیں کا بادل دکھاوں گا۔
20 سورج تاریک اور چاند خون ہو جائے گا۔ پیشتر اس سے کہ خداوند کا عظیم اور جلیل دن آئے۔
21 اور یوں ہو گا کہ جو کوئی خداوند کا نام لے گا نجات پائے گا۔
22 اَے اسرئیلیو۔ یہ باتیں سنو کہ یسوع ناصری ایک شَخص تھا جس کا خدا کی طرف سے ہونا تم پر ان معجزوں اور عجیب کاموں اور نشانوں سے ثابت ہوا جو خدا نے اس کی معرفت تم میں دکھائے چنانچہ تم آپ ہی جانتے ہو۔
23 جب وہ خدا کے مقررّہ انتظام اور علم سابق کے موافق پکڑوایا گیا تو تم نے بے شرع لوگوں کے ساتھ سے اسے مصلوب کروا کر مار ڈالا۔
24 لیکن خدا نے مَوت کے بند کھول کر اسے جلایا کیونکہ ممکن نہ تھا کہ وہ اس کے قبضہ میں رہتا۔
25 کیونکہ داؤد اس کے حق میں کہتا ہے کہ مَیں خداوند کو ہمیشہ اپنے سامنے دیکھتا رہا۔ کیونکہ وہ میری دہنی طرف ہے تاکہ مجھے جنبش نہ ہو۔
26 اسی سبب سے میرا دل خوش ہوا اور میری زبان شاد بلکہ میرا جسم بھی امید میں بسا رہے گا۔
27 اس لئے کہ تو میری جان کو عالَم ارواح میں نہ چھوڑے گا اور نہ اپنے مقدّس کے سڑنے کی نَوبت پہنچنے دے گا۔
28 تو نے مجھے زندگی کی راہیں بتائیں۔ تو مجھے اپنے دیدار کے باعث خوشی سے بھر دے گا۔
29 اَے بھائیو۔ مَیں قَوم کے بزرگ داؤد کے حق مَیں تم سے دلیری کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ موا اور دفن بھی ہوا اور اس کی قَبر آج تک ہم مَیں مَوجود ہے۔
30 پَس نبی ہو کر اور یہ جان کر کہ خدا نے مجھ سے قَسم کھائی ہے کہ تیری نسل سے ایک شخس کو تیرے تخت پر بٹھاؤں گا۔
31 اس نے پیشین گوئی کے طَور پر مسیح کے جی اٹھنے کا ذکر کیا کہ نہ وہ عالَم ارواح میں چھوڑا گیا نہ اس کے جسم کے سڑنے کی نَوبت پہنچی۔
32 اسی یسوع کو خدا نے جلایا جس کے ہم گواہ ہیں۔
33 پَس خدا کے دہنے ہاتھ سے سر بلند ہو کر اور باپ سے وہ روح القدس حاصل کر کے جس کا وعدہ کیا گیا تھا اس نے یہ نازل کیا جو تم سیکھتے اور سنتے ہو۔
34 کیونکہ داؤد تو آسمان پر نہیں چڑھا لیکن وہ خود کہتا ہے کہ میری دہنی طرف بَیٹھ۔
35 جب تک مَیں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں تَلے کی چَوکی نہ کردوں۔
36 پَس اسرائیل کا سارا گھرانا یقین جان لے کہ خدا نے اسی یسوع کو جسے تم نے مصلوب کیا خداوند بھی کیا اور مسیح بھی۔
37 جب انہوں نے یہ سنا تو ان کے دلوں پر چوٹ لگی اور پطرس اور باقی رَسولوں سے کہا کہ اَے بھائیو۔ ہم کیا کریں؟۔
38 پطرس نے ان سے کہا کے توبہ کرو اور تم میں سے ہر ایک گناہوں کی معافی کے لئے یسوع مسیح کے نام پر بپتسمہ لے تو تم روح القدس انعام میں پاو گے۔
39 اسلئے کہ یہ وعدہ تم اور تمہاری اولاد اور ان سب دور کے لوگوں سے بھی ہے جن کو خداوند ہمارا خدا اپنے پاس بلائے گا۔
40 اور اس نے اَور بہت سی باتیں جتا جتا کر انہیں یہ نصیحت کی کہ اپنے آپ کو اس ٹیڑھی قَوم سے بَچاو۔
41 پَس جن لوگوں نے اس کا کلام قبول کیا انہوں نے بپتسمہ لیا اور اسی روز تین ہزار آدمیوں کے قریب ان میں مل گئے۔
42 اور یہ رَسولوں سے تعلیم پانے اور رفاقت رکھنے میں اور روٹی توڑ نے اور دعا کرنے میں مشغول رہے۔
43 اور ہر شَخص پر خَوف چھاگیا اور بہت سے عجیب کام اور نشان رَسولوں کے ذریعہ سے ظاہر ہوتے تھے۔
44 اور جو ایمان لائے تھے وہ سب ایک جگہ رہتے تھے اور سب چیزوں میں شریک تھے۔
45 اور اپنا مال واسباب بیچ بیچ کر ہر ایک کی ضرورت کے موافق سب کو بانٹ دیا کرتے تھے۔
46 اور ہر روز ایک دل ہو کر ہَیکل میں جمع ہوا کرتے اور گھروں میں روٹی توڑ کر خوشی اور سادہ دلی سے کھانا کھایا کرتے تھے۔
47 اور خدا کی حمد کرتے اور سب لوگوں کو عزیز تھے اور جو نجات پاتے تھے ان کو خداوند ہر روز ان میں ملا دیتا تھا۔
باب : 3
1 طرس اور یوحنّا دعا کے وقت یعنی تیسرے پہر ہَیکل کو جا رہے تھے۔
2 اور لوگ ایک جنم کے لنگڑے کو لا رہے تھے جس کو ہر روز ہَیکل کے اس دروازہ پر بٹھا دیتے تھے جو خوبصورت کہلاتا ہے تاکہ ہَیکل میں جانے والوں سے بھیک مانگے۔
3 جب اس نے پطرس اور یوحنّا کو ہَیکل میں جاتے دیکھا تو ان سے بھیک مانگی۔
4 پطرس ا اور یوحنّا نے اس پر غَور سے نظر کی اور پطرس نے کہا ہماری طرف دیکھ۔
5 وہ ان سے کچھ ملنے کی امید پر ان کی طرف متوّجہ ہوا۔
6 پطرس نے کہا چاندی سونا تو میرے پاس ہے نہیں مگر جو میرے پاس ہے وہ تجھے دئے دیتا ہوں۔ یسوع مسیح ناصری کے نام سے چل پھر۔
7 اور اس کا دہنا ہاتھ پکڑ کر اس کو اَٹھایا اور اسی دم اس کے پاؤں اور ٹخنے مضبوط ہو گئے۔
8 اور وہ کود کر کھڑا ہو گیا اور چلنے پھرنے لگا اور چلتا اور کودتا اور خدا کی حمد کرتا ہوا ان کے ساتھ ہَیکل میں گیا۔
9 اور سب لوگوں نے اسے چلتے پھرتے اور خدا کی حمد کرتے دیکھ کر۔
10 اس کو پہچانا کہ یہ وہی ہے جو ہَیکل کے خوبصورت دروازہ پر بَیٹھا بھیک مانگا کرتا تھا اور اس ماجرے سے جو اس پر واقع ہوا تھا بہت دَنگ اور حیَران ہوئے۔
11 جب وہ پطرس اور یوحنّا کو پکڑے ہوئے تھا تو سب لوگ بہت حَیران ہو کر اس برآمدہ کی طرف جو سلیمان کا کہلاتا ہے ان کے پاس دَوڑے آئے۔
12 پطرس نے یہ دیکھ کر لوگوں سے کہا اَے اسرائیلیو۔ اس پر تم کیوں تعّجب کرتے ہو اور ہمیں کیوں اس طرح دیکھ رہے ہو کہ گویا ہم نے اپنی قدرت یا دینداری سے اس شَخص کو چلتا پھرتا کر دیا؟۔
13 ابرہام اور یضحاق اور یعقوب کے خدا یعنی ہمارے باپ دادا کے خدا نے اپنے خادم یسوع کو جلال دیا جسے تم نے پکڑوا دیا اور جب پیلاطس نے اسے چھوڑ دینے کا قصد کیا تو تم نے اس کے سامنے اس کا انکار کیا۔
14 تم نے اس قدّوس اور راستباز کا انکار کیا اور دوخواست کی کہ ایک خونی تمہاری خاطر چھوڑ دیا جائے۔
15 مگر زندگی کے مالک کو قتل کیا جسے خدا نے مردوں میں سے جلایا۔ اس کے ہم گواہ ہیں۔
16 اسی کے نام نے اس ایمان کے وسیلہ سے جو اس کے نام پر ہے اس شَخص کو مضبوط کیا جسے تم دیکھتے اور جانتے ہو۔ بیشک اسی ایمان نے جو اس کے وسیلہ سے ہے یہ کامل تندرستی تم سب کے سامنے اسے دی۔
17 اور اَب اَے بھائیو۔ مَیں جانتا ہوں کہ تم نے یہ کام نادانی سے کیا اور اَیسا ہی تمہارے سَرداروں نے بھی۔
18 مگر جن باتوں کی خدا نے سب نبیوں کی زبانی پیشتر خَبر دی تھی کہ اس کا مسیح دکھ اٹھائے گا وہ اس نے اسی طرح پوری کیں۔
19 پَس توبہ کرو اور رجوع لاؤ تاکہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں اور اس طرح خداوند کے حضور سے تازگی کے دن آئیں۔
20 اور وہ اس مسیح کو جو تمہارے واسطے مقرّر ہوا ہے یعنی یسوع کو بھیجے۔
21 ضرور ہے کہ وہ آسمان میں اس وقت تک رہے جب تک کہ وہ سب چیزیں بحال نہ کی جائیں جنکا ذکر خدا نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کیا ہے جو دنیا کے شروع سے ہوتے آئے ہیں۔
22 چنانچہ موسیٰ نے کہا کہ خداوند خدا تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے مجھ سا ایک نبی پَیدا کرے گا۔ جو کچھ وہ تم سے کہے اس کی سننا۔
23 اور یوں ہو گا کہ جو شَخص اس نبی کی نہ سنے گا وہ امّت میں سے نیست و نابود کر دیا جائے گا۔
24 بلکہ سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنے نبیوں نے کلام کیا ان سب نے ان دنوں کی خَبر دی ہے۔
25 تم نبیوں کی اَولاد اور اس عہد کے شریک ہو جو خدا نے تمہارے باپ دادا سے باندھا جب ابرہام سے کہا کہ تیری اَولاد سےدنیا کے سب گھرانے بَرکَت پائیں گے۔
26 خدا نے اپنے خادم کو اٹھا کر پہلے تمہارے پاس بھیجا تاکہ تم میں سے ہر ایک کو اس کی بدیوں سے ہٹا کر بَرکَت دے۔
باب : 4
1جب وہ لوگوں سے یہ کہہ رہا تھا تو کاہن اور ہَیکل کا سَردار اور صدوقی ان پر چڑھ آئے۔
2 وہ سخت اور رنجیدہ ہوئے کیونکہ یہ لوگوں کو تعلیم دیتے اور یسوع کی نظیر دے کر مردوں کے جی اٹھنے کی منادی کرتے تھے۔
3 اور انہوں نے ان کو پکڑ کر دوسرے دن تک حوالات میں رکھّا کیونکہ شام ہو گئی تھی۔
4 مگر کلام کے سننے والوں میں بہتیرے ایمان لائے۔ یہاں تک کے مردوں کی تعداد پانچ ہزار ہو گئی۔
5 دوسرے دن یوں ہوا کہ ان کے سَردار اور بزرگ اور فقیہ۔
6 اور سَردار کاہن حنّا اور کائفا اور یوحنّا اور اسکندر اور جتنے اور جتنے سَردار کاہن کے گھرانے کے تھے یروشلیم میں جمع ہوئے۔
7 اور ان کو بیچ میں کھڑا کر کے پوچھنے لگے کہ تم نے یہ کام کس قدرت اور کس نام سے کیا؟۔
8 اس وقت پطرس نے روح القدس سے معمور ہو کر ان سے کہا۔
9 اَے امّت کے سَردار اور بزرگو! اگر آج ہم سے اس احسان کی بابت باز پرس کی جاتی ہے جو ایک ناتوان آدمی پر ہوا کہ وہ کیونکر اچھّا ہو گیا۔
10 تو تم سب اور اسرائیل کی ساری امّت کو معلوم ہو کہ یسوع مسیح ناصری جس کو تم نے مردوں میں سے جلایا اسی کے نام سے یہ شَخص تمہارے سامنے تندرست کھڑا ہے۔
11 یہ وہی پتھّر ہے جسے تم معماروں نے حقیر جانا اور وہ کونے کے سرے کا پتھّر ہو گیا۔
12 اور کسی دوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے ہم نجات پاسکیں۔
13 جب انہوں نے پطرس اور یوحنّا کی دلیری دیکھی اور معلوم کیا کہ یہ اَن پڑھ اور ناواقف آدمی ہیں تو تعّجب کیا۔ پھر انہیں پہچانا کہ یہ یسوع کے ساتھ رہے ہیں۔
14 اور اس آدمی کو جو اچھّا ہوا تھا ان کے ساتھ کھڑا دیکھ کر کچھ خلاف نہ کہہ سکے۔
15 مگر انہیں صدر عدالت سے باہر جانے کا حکم دے کر آپس میں مَشوَرَہ کرنے لگے۔
16 کہ ہم ان آدمیوں کے ساتح کیا کریں؟ کیونکہ یروشلیم کے سب رہنے والوں پر روشن ہے کہ ان سے ایک صریح معجزہ ظاہر ہوا اور ہم اس کا انکار نہیں کر سکتے۔
17 لیکن اس لئے کہ یہ لوگوں میں زیادہ مشہور نہ ہو ہم انہیں دھمکائیں کہ پھر یہ نام لے کر کسی سے بات نہ کریں۔
18 پَس انہیں بلا کر تاکید کی کہ یسوع کا نام لے کر ہرگز بات نہ کرنا اور نہ تعلیم دینا۔
19 مگر پطرس اور یوحنّا نے جواب میں ان سے کہا کہ تم ہی انصاف کرو۔ آیا خدا کے نزدیک یہ واجب ہے کہ ہم خدا کی بات سے تمہاری بات زیادہ سنیں۔
20 کیونکہ ممکن نہیں کہ جو ہم نے دیکھا اور سنا ہے وہ نہ کہیں۔
21 انہوں نے ان کو اَور دھمکا کر چھوڑ دیا کیونکہ لوگوں کے سبب سے ملا۔ اس لئے کہ سب لوگ اس ماجرے کے سبب سے خدا کی تمجید کرتے تھے۔
22 کیونکہ وہ شَخص جس پر یہ شفا دینے کا معجزہ ہوا تھا چالیس برس سے زیادہ کا تھا۔
23 وہ چھوٹ کر اپنے لوگوں کے پاس گئے اور جو کچھ سَردار کاہنوں اور بزرگوں نے ان سے کہا تھا بیان کیا۔
24 جب انہوں نے یہ سنا تو ایک دل ہو کر بلند آواز سے خدا سے التجا کی کہ اَے مالک تو وہ ہے جس نے آسمان اور زمین اور سَمَندَر اور جو کچھ ان میں ہے پَیدا کیا۔
25 تو نے روح القدس کے وسیلہ سے ہمارے باپ خادم داؤد کی زبانی فرمایا کہ قَوموں نے کیوں دھوم مچائی؟ اور امّتوں نے کیوں باطل خیال کئے؟۔
26 خداوند اور اس کے مسیح کی مخالفت کو زمین کے بادشاہ اٹھ کھڑے ہوئے اور سَردار جمع ہو گئے۔
27 کیونکہ واقعی تیرے پاک خادم یسوع کے بر خلاف جسے تو نے مسح کیا ہیرودیس اور پنطسیں پیلاطس غَیر قَوموں اور اسرائیلیوں کے ساتھ اسی شہر میں جمع ہوئے۔
28 تاکہ جو کچھ پہلے سے تیری قدرت اور تیری مصلحت سے ٹھہر گیا تھا وہی عمل میں لائیں۔
29 اب اَے خداوند! ان کی دھمکیوں کو دیکھ اور اپنے بندوں کو یہ توفیق دے کہ وہ تیرا کلام کمال دلیری کے ساتھ سنائیں۔
30 اور تو اپنا ہاتھ شفا دینے کو بڑھا اور تیرے پاک خادم یسوع کے نام سے معجزے اور عجیب کام ظہور میں آئیں۔
31 جب وہ دعا کر چکے تو جس مکان میں جمع تھے وہ ہل گیا اور وہ سب روح القدس سے بھر گئے اور خدا کا کلام دلیری سے سناتے رہے۔
32 اور ایمانداروں کی جماعت ایک دل اور ایک جان تھی اور کسی نے بھی اپنے مال کو اپنا نہ کہا بلکہ ان کی سب چیزیں مشترک تھیں۔
33 اور رَسول بڑی قدرت سے خداوند یسوع کے جی اٹھنے کی گواہی دیتے رہے اور ان سب پر بڑا فضل تھا۔
34 کیونکہ ان میں سے کوئی بھی محتاج نہ تھا۔ اس لئے کہ جو لوگ زمینوں یا گھروں کے مالک تھے ان کو بیچ بیچ کر بکی ہوئی چیزوں کی قیمت لاتے۔
35 اور رَسولوں کے پاؤں میں رکھ دیتے تھے۔ پھر ہر ایک کو اس کی ضرورت کے موافق بانٹ دیا جاتا تھا۔
36 اور یوسف نام ایک لاوی تھا جس کا لقب رَسولوں نے برنباس یعنی نصحت کا بَیٹا رکھّا تھا اور جس کی پَیدائش کپرس کی تھی۔
37 اس کا کا ایک کھیت تھا جسے اس نے بیچا اور قیمت لا کر رَسولوں کے پاؤں میں رکھ دی۔
باب : 5
1اور ایک شَخص حننیاہ نام اور اس کی بیوی سفیرہ نے جائیداد بیچی۔
2 اور اس نے اپنی بیوی کے جانتے ہوئے قیمت میں سے کچھ رکھ چھوڑ اور ایک حصّہ لا کر رَسولوں کے پاؤں میں رکھ دیا۔
3 مگر پطرس نے کہا اَے حننیاہ۔ کیوں شَیطان نے تیرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تو روح القدس سے جھوٹ بولے اور زمین کی قیمت میں سے کچھ رکھ چھوڑے؟۔
4 کیا جب تک وہ تیرے پاس تھی تیری نہ تھی؟ اور جب بیچی گئی تو تیرے اختیّار میں نہ رہی؟ تو نے کیوں اپنے دل میں اس بات کا خیال باندھا؟ تو آدمیوں سے نہیں بلکہ خدا سے جھوٹ بولا۔
5 یہ باتیں سنتے ہی حننیاہ گر پڑا اور اس کا دم نکل گیا اور سب سننے والوں پر بڑا خَوف چھا گیا۔
6 پھر جوانوں نے اٹھ کر اسے کَفنایا اور باہر لے جا کر دفن کیا۔
7 اور قریباً تین گھنٹے گزر نے جانے کے بعد اس کی بیوی اس ماجرے سے بے خَبر اَندر آئی۔
8 پطرس نے اس سے کہا مجھے بتا تو۔ کیا تم نے اتنے ہی کو زمین بیچی تھی؟ اس نے کہا ہاں۔ اتنے ہی کو۔
9 پطرس نے اس سے کہا تم نے کیوں خداوند کے روح کو آزمانے کے لئے ایکا کیا؟ دیکھ تیرے شوَہر کے دفن کرنے والے دروازہ پر کھڑے ہیں اور تجھے بھی باہر لے جائیں گے۔
10 وہ اسی دم اس کے قدموں پر گر پڑی اور اس کا دم نکل گیا اور جوانوں نے اَندر آ کر اسے مردہ پایا اور باہر لے جا کر اس کے شوَہر کے پاس دفن کر دیا۔
11 اور ساری کلیسیا بلکہ ان باتوں کے سب سننے والوں پر بڑا خَوف چھا گیا۔
12 اور رَسولوں کے ہاتھوں سے بہت سے نشان اور عجیب کام لوگوں میں ظاہر ہوتے تھے۔ اور وہ سب ایک دل ہو کر سلیمان کے برآمدہ میں جمع ہوا کرتے تھے۔
13 لیکن اَوروں میں سے کسی کو جرات نہ ہوئی کہ ان میں جا ملے۔ مگر لوگ ان کی بڑائی کرتے تھے۔
14 اور ایمان لانے والے مرد و عَورت خداوند کی کلیسیا میں اَور بھی کثرت سے آملے۔
15 یہاں تک کہ لوگ بیماروں کو سڑکوں پر لالا کر چارپائیوں اور کھٹولوں پر لٹا دیتے تھے تاکہ جب پطرس آئے تو اس کا سایہ ہی ان میں سے کسی پر پڑ جائے۔
16 اور یروشلیم کی چاروں طرف کے شہروں سے بھی لوگ بیماروں اور ناپاک روحوں کے ستائے ہوؤں کو لا کر کثرت سے جمع ہوتے تھے اور وہ سب اچھّے کر دئے جاتے تھے۔
17 پھر سَردار کاہن اور اس کے سب ساتھی جو صدوقیوں کے فرقہ کے تھے حسد کے مارے اٹھے۔
18 اور رَسولوں کو پکڑ کر عام حوالات میں رکھ دیا۔
19 مگر خداوند کے ایک فرشتہ نے رات کو قَید خانہ کے دروازے کھولے اور انہیں باہر لا کر کہا کہ۔
20 جاؤ ہَیکل میں کھڑے ہو کر اس زندگی کی سب باتیں لوگوں کو سناؤ۔
21 وہ یہ سن کر صبح ہوتے ہی ہَیکل میں گئے اور تعلیم دینے لگے مگر سَردار کاہن اور اس کے ساتھیوں نے آ کر صدر عدالت والوں اور بنی اسرائیل کے سب بزرگوں کو جمع کیا اور قَید خانہ میں کہلا بھیجا کہ انہیں لائیں۔
22 لیکن پیادوں نے پہنچ کر انہیں قَید خانہ میں نہ پایا اور لَوٹ کر خَبر دی۔
23 کہ ہم قَید خانہ کو تو بڑی حفاظت سے بند کیا ہوا اور پہرے والوں کو دروازوں پر کھڑے پایا مگر جب کھولا تو اَندر کوئی نہ ملا۔
24 جب ہَیکل کے سَردار اور سَردار کاہنوں نے یہ باتیں سنیں تو ان کے بارے میں حَیران ہوئے کہ اس کا کیا انجام ہو گا۔
25 اتنے میں کسی نے آ کر انہیں خَبر دی کہ دیکھو۔ وہ آدمی جنہیں تم نے قَید کیا تھا ہَیکل میں کھڑے لوگوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔
26 تب سَردار پیادوں کے ساتھ جا کر انہیں لے آیا لیکن زبردستی نہیں کیونکہ لوگوں سے ڈرتے تھے کہ ہم کو سنگسار نہ کریں۔
27 پھر انہیں لا کر عدالت میں کھڑا کر دیا اور سَردار کاہن نے ان سے یہ کہا۔
28 کہ ہم نے تو تمہیں سخت تاکید کی تھی کہ یہ نام لے کر تعلیم نہ دینا مگر دیکھو تم نے تمام یروشلیم میں اپنی تعلیم پَھیلا دی اور اس شَخص کا خون ہماری گَردَن پر رکھنا چاہتے ہو۔
29 پطرس اور رَسولوں نے جواب میں کہا کہ ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔
30 ہمارے باپ دادا کے خدا نے یسوع کو جلایا جسے تم نے صلیب پر لٹکا کر مار ڈالا تھا۔
31 اسی کو خدا نے مالک اور منجّی ٹھہرا کر اپنے دہنے ہاتھ سے سر بلند کیا تاکہ اسرائیل کو تَوبہ کی تَوفیق اور گناہوں کی معافی بخشے۔
32 اور ہم ان باتوں کے گواہ ہیں اور روح القدس بھی جسے خدا نے انہیں بخشا ہے جو اس کا حکم مانتے ہیں۔
33 وہ یہ سن کر جل گئے اور انہیں قتل کرنا چاہا۔
34 مگر گملی ایل نام ایک فریسی نے جو شرع کا معلّم اور سب لوگوں میں عزّت دار تھا عدالت میں کھڑے ہو کر حکم دیا کہ ان آدمیوں کو تھوڑی دیر کے لئے باہر کر دو۔
35 پھر ان سے کہا کہ اَے اسرئیلیوں۔ ان آدمیوں کے ساتھ جو کچھ کیا چاہتے ہو ہوشیاری سے کرنا۔
36 کیونکہ کہ ان دنوں سے پہلے تھیوداس نے اٹھ کر دعویٰ کیا تھا کہ مَیں بھی کچھ ہوں اور تخمینا چارسَو آدمی اس کے ساتھ ہو گئے تھے مگر وہ مارا گیا اور جتنے اس کے ماننے والے تھے سب پراگندہ ہوئے اور مٹ گئے۔
37 اس شَخص کے بعد یہوداہ گلیلی اسم نویسی کے دنوں میں اٹھا اور اس نے کچھ لوگ اپنی طرف کر لئے۔ وہ بھی ہلاک ہوا اور جتنے اس کے ماننے والے تھے سب پراگندہ ہو گئے۔
38 پَس اَب مَیں تم سے کہتا ہوں کہ ان آدمیوں سے کنارہ کرو اور ان سے کچھ کام نہ رکھّو۔ کہیں اَیسا نہ ہو کہ خدا سے بھی لڑنے والے ٹھہرو کیونکہ یہ تدبیر یا کام اگر آدمیوں کی طرف سے ہے تو آپ برباد ہو جائے گا۔
39 لیکن اگر خدا کی طرف سے ہے تو تم ان لوگوں کو مغلوب نہ کرسکو گے۔
40 انہوں نے اس کی بات مانی اور رَسولوں کو پاس بلا کر ان کو پٹوایا اور یہ حکم دے کر چھوڑ دیا کہ یسوع کا نام لے کر بات نہ کرنا۔
41 پَس عدالت سے اس بات پر خوش ہو کر چلے گئے کہ ہم اس نام کی خاطر بے عزّت ہونے کے لائق تو ٹھہرے۔
42 اور وہ ہَیکل میں اور گھروں میں ہر روز تعلیم دینے اور اس بات کی خوشخَبری سنانے سے یسوع ہی مسیح ہے باز نہ آئے۔
باب : 6
1ان دنوں میں جب شاگرد بہت ہوتے جاتے تھے تو یونانی مائل یہودی عبرانیوں کی شکایت کرنے لگے۔ اس لئے کہ روزانہ خَبر گیری میں ان کی بیواؤں کے بارے میں غفلت ہوتی تھی۔
2 اور ان بارہ نے شاگردوں کی جماعت کو اپنے پاس بلا کر کہا مناسب نہیں کہ ہم خدا کے کلام کو چھوڑ کر خانے پینے کا انتظام کریں۔
3 پَس اَے بھائیو! اپنے میں سے سات نیک نام شَخصوں کو چن لوجو روح اور دانائی سے بھرے ہوئے ہوں کہ ہم ان کو اس کام پر مقرّر کریں۔
4 لیکن ہم تو دعا میں اور اور کلام کی خدمت میں مشغول رہیں گے۔
5 یہ بات ساری جماعت کو پسند آئی۔ انہوں نے ستفنس نام ایک شَخص کو جو ایمان اور روح القدس سے بھرا ہوا تھا اور فلپَس اور پر خرس اور نیکا نور اور تیمون اور پرمناس کو اور نیکلاؤس کو جو نَو مرید یہودی انطاکی تھا چن لیا۔
6 اور انہیں رَسولوں کے آگے کھڑا کیا۔ انہوں نے دعا کر کے ان پر ہاتھ رکھّے۔
7 اور خدا کا کلام پھَیلتا رہا اور یروشلیم میں شاگردوں کا شمار بہت ہی بڑھتا گیا اور کاہنوں کی بڑی گروہ اس دین کے تحت میں ہو گئی۔
8 اور ستفنس فضل اور قوت سے بھرا ہوا لوگوں میں بڑے عجیب کام اور نشان ظاہر کیا کرتا تھا۔
9 کہ اس عبادت خانہ سے جو لبرتینوں کا کہلاتا ہے اور کرینیوں اور اسکندریوں اور ان میں سے جو کلکیہ اور آسیہ کے تھے بعض لوگ اٹھ کر ستفنس سے بحث کرنے لگے۔
10 مگر وہ اس دانائی اور اور روح کا جس سے وہ کلام کرتا تھا مقابلہ نہ کرسکے۔
11 اس پر انہوں نے بعض آدمیوں کو سکھا کر کہلوا دیا کہ ہم نے اس کو موسیٰ اور خدا کے بر خلاف کفر کی باتیں کرتے سنا۔
12 پھر وہ عوام اور بزرگوں اور فقیہوں کو ابھار کر اس پر چڑھ گئے اور پکڑ کر صدر عدالت میں لے گئے۔
13 اور جھوٹے گواہ کھڑے کئے جنہوں نے کہا کہ یہ شَخص اس پاک مقام اور شَریعَت کے برخلاف بولنے سے باز نہیں آتا۔
14 کیونکہ ہم نے اسے یہ کہتے سنا ہے کہ وہی یسوع ناصری اس مقام کو برباد کر دے گا اور ان رسموں کو بدل ڈالے گا جو موسیٰ نے ہمیں سَونپی ہیں۔
15 اور ان سب نے جو عدالت میں بَیٹھے تھے اس پر غَور سے نظر کی دیکھا کہ اس کا چہرہ فرشتہ کا سا ہے۔
باب : 7
1پھر سَردار کاہن نے کہا کیا یہ باتیں اسی طرح پر ہیں ؟۔
2 اس نے کہا اَے بھائیو اور بزرگو سنو! خدای ذوالجلال ہمارے باپ ابراہام پر اس وقت ظاہر ہوا جب وہ حاران میں بسنے سے پیشتر مسوپتا میہ میں تھا۔
3 اور اس سے کہا کہ اپنے ملک اور اپنے کنبے سے نکل کر اس ملک میں چلا جا جسے مَیں تجھے دکھاؤں گا۔
4 اس پر وہ کسدیوں کے ملک سے نکل کر حاران میں جا بسا اور وہاں سے اس کے باپ کے مرنے کے بعد خدا نے اس کو اس ملک میں لا کر بسا دیا جس میں تم اَب بستے ہو۔
5 اور اس کو کچھ میراث بلکہ قدم رکھنے کی بھی اس میں جگہ نہ دی مگر وعدہ کیا کہ مَیں یہ زمین تیرے اور تیرے بعد تیری نسل کے قبضہ میں کر دوں گا حالانکہ اس کے اَولاد نہ تھی۔
6 اور خدا یہ فرمایا کہ تیری نسل غیر ملک میں پردیسی ہو گی۔ وہ ان کو غلامی میں رکھّیں گے اور چار سَو برس تک ان سے بدسلوکی کریں گے۔
7 پھر خدا نے کہا کہ جس قَوم کی وہ غلامی میں رہیں گے اس کو مَیں سزا دوں گا اور اس کے بعد وہ نکل کر اسی جگہ میری عبادت کریں گے۔
8 اور اس نے اس سے ختنہ کا عہد باندھا اور اسی حالت میں ابراہام سے اضحاق پَیدا ہوا اور آٹھویں دن اس کا ختنہ کیا گیا اور اضحاق سے یَعقوب اور یَعقوب سے بارہ قبیلوں کے بزرگ پَیدا ہوئے۔
9 اور بزرگوں نے حسد میں آ کر یوسف کو بیچا کہ مصر میں پہنچ جائے مگر خدا اس کے ساتھ تھا۔
10 اور اس کی سب مصیبتوں سے اس نے اس کو چھڑایا اور مصر کے بادشاہ فرعون کے نزدیک اس کو مقبولیت اور حکمت بخشی اور اس نے اسے مصر اور سارے گھر کا سَردار کر دیا۔
11 پھر مصر اور کے سارے ملک اور کنعان میں کال پڑا اور بڑی مصیبت آئی اور ہمارے باپ دادا کو کھانا نہ ملتا تھا۔
12 لیکن یعقوب نے یہ سن کر کہ مصر میں اناج ہے ہمارے باپ دادا کو پہلی بار بھیجا۔
13 اور دوسری بار یوسف اپنے بھائیوں پر ظاہر ہو گیا اور یوسف کی قَومیّت فرعون کو معلوم ہو گئی۔
14 پھر یوسف نے اپنے باپ یعقوب اور سارے کنبے کو جو پچھّتر جانیں تھیں بلا بھیجا۔
15 اور یعقوب مصر میں گیا۔ وہاں وہ اور ہمارے باپ دادا مر گئے۔
16 اور وہ شہر سکم میں پہنچائے گئے اور اس مقَبرہ میں دفن کئے گئے جس کو ابرہام نے سکم میں روپیہ دے کر بنی ہمور سے مول لیا تھا۔
17 لیکن جب اس وعدہ کی میعاد پوری ہونے کو تھی جو خدا نے ابرہام سے فرمایا تھا تو مصر میں وہ امّت بڑھ گئی اور ان کا شمار زیادہ ہوتا گیا۔
18 اس وقت تک کہ دوسرے بادشاہ مصر پر حکمران ہوا جو یوسف کو نہ جانتا تھا۔
19 اس نے ہماری قَوم سے چالاکی کر کے ہمارے باپ دادا کے ساتھ یہاں تک بدسلوکی کی کہ انہیں اپنے بچّے پھینکنے پڑے تاکہ زندہ رہیں۔
20 اس مَوقع پر موسیٰ پَیدا ہوا جو نہایت خوبصورت تھا۔ وہ تین مہینے تک اپنے باپ کے گھر میں پالا گیا۔
21 مگر جب پھینک دیا گیا تو فرعون کی بیٹی نے اسے اٹھا لیا اور اپنا بَیٹا کر کے پالا۔
22 اور موسیٰ نے مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی اور وہ کلام اور کام میں قوّت والا تھا۔
23 اور جب وہ قریبا چالیس برس کا ہوا تو اس کے جی میں آیا کہ مَیں اپنے بھائیوں بنی اسرائیل کا حال دیکھوں۔
24 چنانچہ ان میں سے ایک کو ظلم اٹھاتے دیکھ کر اس کی حمایت کی اور مصری کو مارکر مظلوم کا بدلہ لیا۔
25 اس نے تو خیال کیا کہ میرے بھائی سَمَجھ لیں گے کہ خدا میرے ہاتھوں انہیں چھٹکارا دے گا مگر وہ نہ سَمَجھے۔
26 پھر دوسرے دن وہ ان میں سے دو لڑتے ہوؤں کے پاس آ نکلا اور یہ کہہ کر انہیں صلح کرنے کی ترغیب دی کہ اَے جوانو۔ تم تو بھائی بھائی ہو۔ کیوں ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہو؟۔
27 لیکن جو اپنے پڑوسی پر ظلم کر رہا تھا اس نے یہ کہہ کر اسے ہٹا دیا تجھے کس نے ہم پر حاکم اور قاضی مقرّر کا؟۔
28 کیا تو مجھے بھی قتل کرنا چاہتا ہے جس طرح کل اس مصری کو قتل کیا تھا؟۔
29 موسیٰ یہ بات سن کر بھاگ گیا اور مدیان کے ملک میں پردیسی رہا کیا اور وہاں اس کے دو بَیٹے پَیدا ہوئے۔
30 اور جب پورے چالیس برس ہو گئے تو کوہ سینا کے بیابان میں جلتی ہوئی جھاڑی کے شعلہ میں اس کو ایک فرشتہ دکھائی دیا۔
31 جب موسیٰ نے اس پر نظر کی تو اس نظّارہ سے تعّجب کیا اور جب دیکھنے کو نزدیک گیا تو خداوند کی آواز آئی۔
32 کہ مَیں تیرے باپ دادا کا خدا یعنی ابرہام اور اضحاق اور یَعقوب کا خدا ہوں۔ تب موسیٰ کانپ گیا اور اس کو دیکھنے کی جراَت نہ رہی۔
33 خداوند نے اس سے کہا کہ اپنے پاؤں سے جوتی اتار لے کیونکہ جس جگہ تو کھڑا ہے وہ پاک زمین ہے۔
34 مَیں نے واقعی اپنی اس امّت کی مصیبت دیکھی جو مصر میں ہے اور ان کا آہ و نالہ سنا پَس انہیں چھڑانے اترا ہوں۔ اَب آ۔ مَیں تجھے مصر بھیجوں گا۔
35 جس موسیٰ کا انہوں نے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ تجھے کس نے حاکم اور قاضی مقرّر کیا؟ اسی کو خدا نے حاکم اور چھڑانے والا ٹھہرا کر اس فرشتہ کے ذریعہ سے بھیجا جو اسے جھاڑی میں نظر آیا تھا۔
36 یہی شَخص انہیں نکال لایا اور مصر اور بحر قلزم اور بیابان میں چالیس برس تک عجیب کام اور نشان دکھائے۔
37 یہ وہی موسیٰ ہے جس نے بنی اسرائیل سے یہ کہا کہ خدا تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے مجھ سا ایک نبی پَیدا کرے گا۔
38 یہ وہی ہے جو بیابان کی کلیسیا میں اس فرشتہ کے ساتھ جو کوہ سینا پر اس سے ہمکلام ہوا اور ہمارے باپ دادا کے ساتھ تھا۔ اسی کو زندہ کلام ملا کہ ہم تک پہنچا دے۔
39 مگر ہمارے باپ دادا نے اس کے فرمانبردار ہونا چاہا بلکہ اس کو ہٹا دیا اور ان کے دل مصر کی طرف مائل ہوئے۔
40 اور انہوں نے ہارون سے کہا کہ ہمارے لئے اَیسے معبود بنا جو ہمارے آگے آگے چلیں کیونکہ یہ موسیٰ جو ہمیں ملک مصر سے نکال لایا ہم نہیں جانتے کہ وہ کیا ہوا۔
41 اور ان دنوں میں انہوں نے ایک بچھڑا بنایا اور اس بت کو قربانی چڑھائی اور اپنے ہاتھوں کے کاموں کی خوشی منائی۔
42 پَس خدا نے منہ موڑ کر انہیں چھوڑ دیا کہ آسمانی فَوج کو پوجیں۔ چنانچہ نبیوں کی کتاب میں لکھا ہے کہ اَے اسرائیل کے گھرانے۔ کیا تم نے بیابان میں چالیس برس مجھ کو ذبیحے اور قربانیاں گزرانیں؟۔
43 بلکہ تم مولک کے خَیمہ اور رفان دیوتا کے تارے کو لئے پھرتے تھے۔ یعنی ان مورتوں کو جنہیں تم نے سجدہ کرنے کے لئے بنایا تھا۔ پَس مَیں تمہیں بابل کے پرے لے جا کر بساؤں گا۔
44 شہادت کا خَیمہ بیابان میں ہمارے باپ دادا کے پاس تھا جَیسا کہ موسیٰ سے کلام کرنے والے نے حکم دیا تھا کہ جو نمونہ تو نے دیکھا ہے اسی کے موافق اسے بنا۔
45 اسی خَیمہ کو ہمارے باپ دادا اگلے بزرگوں سے حاصل کر کے یشوع کے ساتھ لائے۔ جس وقت ان قَوموں کی ملکیّت پر قبضہ کیا جن کو خدا نے ہمارے باپ دادا کے سامنے نکال دیا اور وہ داؤد کے زمانہ تک رہا۔
46 اس پر خدا کی طرف سے فضل ہوا اور اس نے دَرخواست کی کہ مَیں یَعقوب کے خدا کے واسطے مسکن تیّار کروں۔
47 مگر سلیمان نے اس کے لئے گھر بنایا۔
48 لیکن باری تعالٰے ہاتھ بنائے ہوئے گھروں میں نہیں رہتا۔ چنانچہ نبی کہتا ہے کہ۔
49 خداوند فرماتا ہے آسمان میرا تخت اور زمین میرے پاؤں تَلے کی چَوکی ہے۔ تم میرے لئے کَیسا گھر بناؤ گے یا میری آرامگاہ کَونسی ہے؟۔
50 کیا یہ سب چیزیں میرے ہاتھ سے نہیں بنیں؟۔
51 اَے گَردَن کشو اور دل اور کان کے نامختونو۔ تم ہر وقت روح القدّس کی مخالفت کرتے ہو جَیسے تمہارے باپ دادا کرتے تھے وَیسے ہی تم بھی کرتے ہو۔
52 نبیوں میں سے کس کو تمہارے باپ دادا نے نہیں ستایا؟ انہوں نے تو اس راستباز کے آنے کی پیش خَبری دینے والوں کو قتل کیا اور اَب تم اس کے پکڑوانے والے اور قاتل ہوئے۔
53 تم نے فرشتوں کی معرفت سے شَریعَت تو پائی پر عمل نہ کیا۔
54 جب انہوں نے یہ باتیں سنیں تو جی میں جل گئے اور اس پر پیسنے لگے۔
55 مگر اس نے روح القدّس سے معمور ہو کر آسمان کی طرف غَور سے نظر کی اور خدا کا جلال اور یسوع کو خدا کی دہنی طرف کھڑا دیکھ کر۔
56 کہا کہ دیکھو۔ مَیں آسمان کو کھلا اور ابن آدم کو خدا کی دہنی طرف کھڑا دیکھتا ہوں۔
57 مگر انہوں نے بڑے زور سے چلّا کر اپنے کان بند کر لئے اور ایک دل ہو کر اس پر جھپٹے۔
58 اور شہر سے باہر نکال کو اس کو سنگسار کرنے لگے اور گواہوں نے اپنے کپڑے ساڈل نام ایک جوان کے پاؤں کے پاس رکھ دئے۔
59 پَس یہ ستفَنس کو سنگسار کرتے رہے اور وہ یہ کہہ کر دعا کرتا رہا کہ اَے خداوند یسوع۔ میری روح کو قبول کر۔
60 پھر اس نے گھٹنے ٹیک کر بڑی آواز سے پکارا کہ اَے خداوند۔ یہ گناہ ان کے ذمہ نہ لگا اور یہ کہہ کر سوگیا۔
باب : 8
1اور ساؤل اس کے قتل پر راضی تھا۔ اسی دن اس کلیسیا پر جو یروشلیم میں تھی بڑا ظلم برپا ہوا اور رَسولوں کے سوا سب لوگ یہودیہ اور سامریہ کی اطراف میں پراگندہ ہو گئے۔
2 اور دیندار لوگ ستفنس کو دفن کرنے کے لئے لے گئے اور اس پر بڑا ماتم کیا۔
3 اور ساؤ کلیسیا کو اس طرح تباہ کرتا رہا کہ گھر گھر گھس کر اور مردوں اور عَورتوں کو گھسیٹ کر قَید کراتا تھا۔
4 پَس جو پراگندہ ہوئے تھے وہ کلام کی خوشخَبری دیتے تھے۔
5 اور فلپّس شہر سامریہ میں جا کر لوگوں میں مسیح کی منادی کرنے لگا۔
6 اور جو معجزے فلپّس دکھاتا تھا لوگوں نے انہیں سن کر اور دیکھ کر بالاتفاق اس کی باتوں پر جی لگایا۔
7 کیونکہ بہتیرے لوگوں میں سے ناپاک روحیں بڑی آواز سے چلّا چلّا کر نکل گئیں اور بہت سے مفلوج اور لنگڑے اچھّے کئے گئے۔
8 اور اس شہر میں بڑی خوشی ہوئی۔
9 اس سے پہلے شمعون نام ایک شَخص اس شہر جادو گری کرتا تھا اور سامریہ کے لوگوں کو حَیران رکھتا اور یہ کہتا تھا کہ مَیں بھی کوئی بڑا شَخص ہوں۔
10 اور چھوٹے سے بڑے تک سب اس کی طرف مَتَوَجّہ ہوتے اور کہتے تھے کہ یہ شَخص خدا کی وہ قدرت ہے جسے بڑی کہتے ہیں۔
11 وہ اس لئے اس کی طرف متوّجہ ہوتے تھے کہ اس نے بڑی مدّت سے اپنے جادو کے سبب سے ان کو حَیران کر رکھّا تھا۔
12 لیکن جب انہوں نے فلپّس کا یقین کیا جو خدا کی بادشاہی اور یسوع مسیح کے نام کی خوشخَبری دیتا تھا تو سب لوگ خواہ مرد خواہ عَورت بپتسمہ لینے لگے۔
13 اور شمعون نے خود بھی یقین کیا اور بپتسمہ لے کر فلپّس کے ساتھ رہا کیا اور نشان اور بڑے بڑے معجزے ہوتے دیکھ کر حیَران ہوا۔
14 جب رَسولوں نے جو یروشلیم میں تھے سناکہ سامریوں نے خدا کا کلام قبول کر لیا تو پطرس اور یوحنّا کو ان کے پاس بھیجا۔
15 انہوں نے جا کر ان کے لئے دعا کی کہ روح القدس پائیں۔
16 کیونکہ وہ اس وقت تک ان میں سے کسی پر نازل نہ ہوا تھا۔ انہوں نے صرف خداوند یسوع کے نام پر بپتسمہ لیا تھا۔
17 پھر انہوں نے ان پر ہاتھ رکھّے اور انہوں نے روح القدس پایا۔
18 جب شمعون نے دیکھا کہ رَسولوں کے ہاتھ رکھنے سے روح القدس دیا جاتا ہے تو ان کے پاس روپے لا کر۔
19 کہا کہ مجھے بھی یہ اختیّار دو کہ جس پر مَیں ہاتھ رکھّوں وہ روح القدس پائے۔
20 پطرس نے اس سے کہا تیرے روپے تیرے ساتھ غارت ہوں۔ اس لئے کہ تو نے خدا کی بخشش کو روپیَوں سے حاصل کرنے کا خیال کیا۔
21 تیرا اس امر میں نہ حصّہ ہے بخرہ کیونکہ تیرا دل کیونکہ تیرا دل خدا کے نزدیک خالص نہیں۔
22 پَس اپنی اس بدی سے تَوبہ کر اور خداوند سے دعا کر کہ شاید تیرے دل کے اس خیال کی معافی ہو۔
23 کیونکہ مَیں دیکھتا ہوں کہ تو پت کی سی کڑواہٹ اور ناراستی کے بند میں گرفتار ہے۔
24 شمعون نے جواب میں کہا تم میرے لئے خداوند سے دعا کرو کہ جو باتیں تم نے کہیں ان میں سے کوئی مجھے پیش نہ آئے۔
25 پھر وہ گواہی دے کر اور خداوند کا کلام سنا کر یروشلیم کو واپَس ہوے اور سامریوں کے بہت سے گاؤں میں خوشخَبری دیتے گئے۔
26 پھر خداوند کے فرشتہ نے فلپّس سے کہا کہ اٹھ کر دکھّن کی طرف اس راہ تک جا یروشلیم سے غزّہ کو جاتی ہے اور جنگل میں ہے
27 وہ اٹھ کر روانہ ہوا تو دیکھو ایک حبشی خوجہ آ رہا تھا۔ وہ حبشیوں کی ملکہ کنداکے کا ایک وزیر اور اس کے سارے خزانہ کا مختار تھا اور یروشلیم میں عبادت کے لئے آیا تھا۔
28 وہ اپنے رتھ پر بَیٹھا ہوا اور یسعیاہ نبی کے صحیفہ کو بڑھتا ہوا واپَس جا رہا تھا۔
29 روح نے فلپّس سے کہا کہ نزدیک جا کر اس رتھ کے ساتھ ہولے۔
30 پَس فلپّس نے اس طرف دَوڑ کر یسعیاہ نبی کا صحیفہ پڑھتے سنا اور کہا کہ جو تو پڑھتا ہے اسے سَمَجھتا بھی ہے؟۔
31 اس نے کہا یہ مجھ سے کیونکر ہو سکتا ہے جب تک کوئی مجھے ہدایت نہ کرے؟ اور اس فلپّس سے دَرخواست کی کہ میرے پاس آ بَیٹھ۔
32 کتاب مقدّس کی جو عبادت وہ پڑھ رہا تھا یہ تھی کہ لوگ اسے بھیڑ کی طرح ذبح کرنے کو لے گئے اور جس طرح برّہ اپنے بال کترنے والے کے سامنے بے زبان ہوتا ہے اسی طرح وہ اپنا منہ نہیں کھولتا۔
33 اس کی پست حالی میں اس کا انصاف نہ ہوا اور کَون اس کی نسل کا حال بیان کرے گا؟ کیونکہ زمین پر سے اس کی زندگی مٹائی جاتی ہے۔
34 خوجہ نے فلپّس سے کہا مَیں تیری منّت کر کے پوچھتا ہوں کہ نبی یہ کس کے حق میں کہتا ہے؟ اپنے یا کسی دوسرے کے؟۔
35 فلپّس نے اپنی زبان کھول کر اسی نوشتہ سے شروع کیا اور اسے یسوع کی خوشخَبری دی۔
36 اور راہ میں چلتے چلتے کسی پانی کی جگہ پر پہنچے۔ خوجہ نے کہا پانی مَوجود ہے۔ اَب مجھے بپتسمہ لینے سے کونسی چیز روکتی ہے؟۔
37 پَس فلپّس نے کہا کہ اگر تو دل و جان سے ایمان لائے تو بپتسمہ لے سکتا ہے۔ اس نے جواب میں کہا میں ایمان لاتا ہوں کہ یسوع مسیح خدا کا بَیٹا ہے۔
38 پَس اس نے رتھ کو کھڑا کرنے کا حکم دیا اور فلپّس اور خوجہ دونوں پانی میں اتر پڑے اور اس نے اس کو بپتسمہ دیا۔
39 جب وہ پانی میں سے نکل کر اوپر آئے تو خداوند کا روح فلپّس کو اٹھا لے گیا اور خوجہ نے اسے پھر نہ دیکھا کیونکہ وہ خوشی کرتا ہوا اپنی راہ چلا گیا۔
40 اور فلپّس اشدود میں آنکلا اور تبصریہ میں پہنچنے تک سب شہروں میں خوشخَبری سناتا گیا۔
باب : 9
1اور ساڈل جو ابھی تک خداوند کے شاگردوں کے دھمکانے اور قتل کرنے کی دھن میں تھا سَردار کاہن کے پاس گیا۔
2 اور اس سے دمشق کے عبادت خانوں کے لئے اس مضمون کے خط مانگے کہ جن کو وہ اس طریق پر پائے خواہ مرد خواہ عَورت ان کو باندھ کر یروشلیم میں لائے۔
3 جب وہ سفر کرتے کرتے دمشق کے نزدیک پہنچا تو اَیسا ہوا کہ یکایک آسمان سے ایک نور اس کے گرداگرد آ چمکا۔
4 اور وہ زمین پر گر پڑا اور یہ آواز سنی کہ اَے ساڈل اَے ساڈل۔ تو مجھے کیوں ستاتا ہے؟۔
5 اس نے پوچھا اَے خداوند۔ تو کَون ہے؟ اس نے کہا مَیں یسوع ہوں جسے تو ستاتا ہے۔
6 مگر اٹھ شہر میں جا اور جو تجھے کرنا چاہئے وہ تجھ سے کہا جائے گا۔
7 جو آدمی اس کے ہمراہ تھے وہ خاموش کھڑے رہ گئے کیونکہ آواز تو سنتے تھے مگر کسی کو دیکھتے نہ تھے۔
8 اور ساڈل زمین پر سے اٹھا لیکن جب آنکھیں کھولیں تو اس کو کچھ نہ دکھائی دیا اور لوگ اس کا ہاتھ پکڑ کر دمشق میں لے گئے۔
9 اور وہ تین دن تک نہ دیکھ سکا اور نہ اس نے کھایا نہ پیا۔
10 دمشق میں حننیاہ نام ایک شاگرد تھا۔ اس سے خداوند نے رویا میں کہا کہ اَے حننیاہ اس نے کہا اَے خداوند مَیں حاضر ہوں۔
11 خداوند نے اس سے کہا اٹھ۔ اس کوچہ میں جا جو سیدھا کہلاتا ہے اور یہوداہ کے گھر میں ساڈل نام ترسی کو پوچھ لے کیونکہ دیکھ وہ دعا کر رہا ہے۔
12 اور اس نے حننیاہ نام ایک آدمی کو اَندر آتے اور اپنے اوپر ہاتھ رکھتے ہے تاکہ پھر نینا ہو۔
13 حننیاہ نے جواب دیا کہ اَے خداوند مَیں نے بہت لوگوں سے اس شَخص کا ذکر سنا ہے کہ اس نے یروشلیم میں تیرے مقدّسوں کے ساتھ کیَسی کیَسی برائیاں کی ہیں۔
14 اور یہاں اس کو سَردار کاہنوں کی طرف سے اختیّار ملا ہے کہ جو لوگ تیرا نام لیتے ہیَں ان سب کو باندھ لے۔
15 مگر خداوند نے اس سے کہا کہ تو جا کیونکہ یہ قَوموں بادشاہوں اور بنی اسرائیل پر میرا نام ظاہر کرنے کا میرا چنا ہوا وسیلہ ہے۔
16 اور مَیں اسے جتا دوں گا کہ اسے میرے نام کی خاطر کس قدر دکھ اٹھانا پڑے گا۔
17 پَس حننیاہ جا کر اس گھر میں داخل ہوا اور اپنے ہاتھ اس پر رکّھ کر کہا اَے بھائی ساڈل۔ خداوند یعنی یسوع جو تجھ پر اس راہ میں جس سے تو آیا ظاہر ہوا تھا اسی نے مجھے بھیجا ہے کہ تو بینائی پائے اور روح القدس سے بھر جائے۔
18 اور فوراً اس کی آنکھوں سے چھلکے سے گرے اور وہ بینا ہو گیا اور اٹھ کر بپتسمہ لیا۔
19 پھر کچھ کھا کر طاقت پائی۔ اور وہ کئی دن ان شاگردوں کے ساتھ رہا جو دمشق میں تھے۔
20 اور فوراً عبادت خانوں میں یسوع کی منادی کرنے لگا کہ وہ خدا کا بَیٹا ہے۔
21 اور سب سننے والے حیَران ہو کر کہنے لگے کیا یہ وہ شَخص نہیں ہے جو یروشلیم میں اس نام کے لینے والوں کو تباہ کرتا تھا اور یہاں بھی اسی لئے آیا تھا کہ ان کو باندھ کر سَردار کاہنوں کے پاس لے جائے؟۔
22 لیکن ساڈل کو اَور بھی قوّت حاصل ہوتی گئی اور وہ اس بات کو ثابت کر کے کہ مسیح یہی ہے دمشق کے رہنے والے یہودیوں کو حَیران دلاتا رہا۔
23 اور جب بہت دن گزر گئے تو یہودیوں نے اسے مار ڈالنے کا مَشوَرَہ کیا۔
24 مگر ان کی سازش ساڈل کو معلوم ہو گئی۔ وہ تو اسے مار ڈالنے کے لئے رات دن دروازوں پر لگے رہے۔
25 لیکن رات کو اس کے شاگردوں نے اسے لے کر ٹوکرے میں بٹھایا اور دیوار پر سے لٹکا کر اتار دیا۔
26 اس نے یروشلیم میں پہنچ کر شاگردوں میں مل جانے کی کوشش کی اور سب اس سے ڈرتے تھے کیونکہ ان کو یقین نہ آتا تھا کہ یہ شاگرد ہے۔
27 مگر برنباس نے اسے اپنے ساتھ رَسولوں کے پاس لے جا کر ان سے بیان کیا کہ اس نے اس اس طرح راہ میں خداوند کو دیکھا اور اس نے اس سے باتیں کیں اور اس نے دمشق میں کیَسی دلیری کے ساتھ یسوع کے نام سے منادی کی۔
28 پَس وہ یروشلیم میں ان کے ساتھ آتا جاتا رہا۔
29 اور دلیری کے ساتھ خداوند کے نام کی منادی کرتا تھا اور یونانی مائل یہودیوں کے ساتھ گفتگو اور بحث بھی کرتا تھا مگر وہ اسے مار ڈالنے کے درپَے تھے۔
30 اور بھائیوں کو جب یہ معلوم ہوا تو اسے قَیصریہ میں لے گئے اور ترسس کو روانہ کر دیا۔
31 پَس تمام یہودیہ اور گلیل اور سامریہ میں کلیسیا کو چَین ہو گیا اور اس کی ترقّی ہوتی گئی اور وہ خداوند کے خَوف ار روح القدس کی تسّلی پر چلتی اور بڑھتی جاتی تھی۔
32 اور اَیسا ہوا کہ پطرس ہر جگہ پھرتا ہوا مقدّسوں کے پاس بھی پہنچا جولدّہ میں رہتے تھے۔
33 وہاں اَینیاس نام ایک مفلوج کو پایا جو آٹھ برس سے چار پائی پر پڑا تھا۔
34 پطرس نے اس سے کہا اَے اَینیاس یسوع تجھے شفا دیتا ہے۔ اٹھ آپ اپنا بستر بچھا۔ وہ فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔
35 تب لدّہ اور شارون کے سب رہنے والے اسے دیکھ کر خداوند کی طرف رجوع لائے۔
36 اور یافا میں ایک شاگرد تھی تبیتا نام جس کا ترجمہ ہرنی ہے وہ بہت ہی نیک کام اور خَیرات کیا کرتی تھی۔
37 انہی دنوں میں اَیسا ہوا کہ وہ بیمار ہو کر مر گئی اور اسے نہلا کر بالا خانہ میں رکھ دیا۔
38 اور چونکہ لدّہ یافا کے نزدیک تھا شاگردوں نے یہ سن کر کہ پطرس وہاں ہے دو آدمی بھیجے اور اس سے دوخواست کی کہ ہمارے پاس آنے میں دیر نہ کر۔
39 پطرس اٹھ کر ان کے ساتھ ہولیا۔ جب پہنچا تو اسے بالا خانہ میں لے گئے اور سب بیوائیں روتی ہوئی اس کے پاس آ کھڑی ہوئیں اور جو کرتے اور کپڑے ہرنی نے ان کے ساتھ میں رہ کر بنائے تھے دکھانے لگیں۔
40 پطرس نے سب کو باہر کر دیا اور گھٹنے ٹیک کر دعا کی۔ پھر لاش کی طرف متوّجہ ہو کر کہا اَے تبیتا اٹھ۔ پَس اس نے آنکھیں کھول دیں اور پطرس کو دیکھ کر اٹھ بَیٹھی۔
41 اس نے ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھایا اور مقدّسوں اور بیواؤں کو بلا کر اسے زندہ ان کے سپرد کیا۔
42 یہ بات سارے یافا میں مشہور ہو گئی اور بہتیرے پر ایمان لے آئے۔
43 اور اَیسا ہوا کہ وہ بہت دن یافا شمعون نام دبّاغ کے ہاں رہا۔
باب : 10
1قَیصریہ میں کرنیلیس نام ایک شَخص تھا۔ وہ اس پلٹن کا صوبہ دار تھا جو اطالیانی کہلاتی ہے۔
2 وہ دیندار تھا اور اپنے سارے گھرانے سمیت خدا سے ڈرتا تھا اور یہودیوں کو بہت خَیرات دیتا اور ہر وقت خدا سے دعا کرتا تھا۔
3 اس نے تیسرے پہر کے قریب رویا میں صاف صاف دیکھا کہ خدا کا فرشتہ میرے پاس آ کر کہتا ہے کرنیلیس۔
4 اس نے اس کو غَور سے دیکھا اور ڈر کر کہا خداوند کیا ہے؟ اس نے اس سے کہا تیری دعائیں اور تیری خَیرات یادگاری کے لئے خدا کے حضور پہنچیں۔
5 اب یافا میں آدمی بھیج کر شمعون کو جو پطرس کہلاتا ہے بلوا لے۔
6 وہ شمعون دباغ کے ہاں مہمان ہے جس کا گھر سمندر کے کنارے ہے۔
7 اور جب وہ فرشتہ چلا گیا جس نے اس سے باتیں کی تھیں تو اس نے دو نَوکروں کو ان میں سے جو اس کے پاس حاضر رہا کرتے تھے ایک دیندار سپاہی کو بلایا۔
8 اور سب باتیں ان سے بیان کر کے انہیں یافا میں بھیجا۔
9 دوسرے دن جب وہ راہ میں تھے اور شہر کے نزدیک پہنچے تو پطرس دوپہر کے قریب کوٹھے پر دعا کرنے کو چڑھا۔
10 اور اسے بھوک لگی اور کچھ کھانا چاہتا تھا لیکن جب لوگ تیّار کر رہے تھے تو اس پر بیخودی چھا گئی۔
11 اور اس نے دیکھا کہ آسمان کھل گیا اور ایک چیز بڑی چادر کی مانند چاروں کونوں سے لٹکتی ہوئی زمین کی طرف اتر رہی ہے۔
12 جس میں زمین کے سب قسم کے چَوپائے اور کیڑے مکوڑے اور ہوا کے پرندے ہیں۔
13 اور اسے ایک آواز آئی کہ اَے پطرس اٹھ! ذبح کر اور کھا۔
14 مگر پطرس نے کہا اَے خداوند! ہرگز نہیں کیونکہ مَیں نے کبھی کوئی حرام یا ناپاک چیز نہیں کھائی۔
15 پھر دوسری بار اسے آواز آئی کہ جن کو خدا نے پاک ٹھہرایا ہے تو انہیں حرام نہ کہہ۔
16 تین بار اَیسا ہی ہوا اور فی الفَور وہ چیز آسمان پر اٹھا لی گئی۔
17 جب پطرس اپنے دل میں حیَران ہو رہا تھا کہ یہ رویا جو مَیں نے دیکھی کیا ہے تو دیکھو وہ آدمی جنہیں کرنیلیس نے بھیجا تھا شمعون کا گھر دریافت کر کے دروازہ پر آ کھڑے ہوئے۔
18 اور پکار کر پوچھنے لگے کہ شمعون جو پطرس کہلاتا ہے یہیں مہمان ہے؟
19 جب پطرس اس رویا کو سوچ رہا تھا تو روح نے اس سے کہا کہ تین آدمی تجھے پوچھ رہے ہیں۔
20 پَس اٹھ کر نیچے جا اور بے کھٹکے ان کے ساتھ ہولے کیونکہ مَیں نے ہی ان کو بھیجا ہے۔
21 پطرس نے اتر کر ان آدمیوں سے کہا دیکھو جس کو تم پوچھتے ہو وہ مَیں ہی ہوں۔ تم کس سبب سے آئے ہو۔
22 انہوں نے کہا کرنیلیس صوبہ دار جو راستباز اور خدا ترس آدمی اور یہودیوں کی ساری قَوم میں نیک نام ہے اس نے پاک فرشتہ سے ہدایت پائی کہ تجھے اپنے گھر بلا کر تجھ سے کلام سنے۔
23 پَس اس نے انہیں اَندر بلا کر ان کی مہمانی کی۔ اور دوسرے دن وہ اٹھ کر ان کے ساتھ روانہ ہوا اور یافا میں سے بعض بھائی اس کے ساتھ ہو لئے۔
24 وہ دوسرے روز قَیصر یہ میں داخل ہوئے اور کرنیلیس اپنے رشتہ داروں اور دلی دوستوں کو جمع کر کے ان کی راہ دیکھ رہا تھا۔
25 جب پطرس اَندر آنے لگا تو اَیسا ہوا کہ کرنیلیس نے اس کا استقبال کیا اور اس کے قدموں میں گر کر سجدہ کیا۔
26 لیکن پطرس نے اسے اٹھا کر کہا کہ کھڑا ہو۔ مَیں بھی تو انسان ہوں۔
27 اور اس سے باتیں کرتا ہوا اَندر گیا اور بہت سے لوگوں کو اکٹھا پا کر۔
28 ان سے کہا کے تم جانتے ہو کہ یہودی کو غَیر قَوم والے سے صحبت رکھنا یا اس کے ہاں جانا ناجائز ہے مگر خدا نے مجھ پر ظاہر کیا کہ مَیں کسی آدمی کو بخس یا ناپاک نہ کہوں۔
29 اسی لئے جب مَیں بلایا گیا تو بے عذر چلا آیا۔ پَس اَب مَیں پوچھتا ہوں کہ مجھے کس بات کے لئے بلایا ہے؟۔
30 کرنیلیس نے کہا اس وقت پورے چار روز ہوئے کہ مَیں اپنے گھر میں تیسرے پہر کی دعا کر رہا تھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شَخص چمکدار پوشاک پہنے ہوئے میرے سامنے کھڑا ہوا۔
31 اور کہا کہ اَے کرنیلیس تیری دعا سن گئی اور تیری خَیرات کی خدا کے حضور یاد ہوئی۔
32 پَس کسی کو یافا میں بھیج کر شمعون کو جو پطرس کہلاتا ہے اپنے پاس بلا۔ وہ سَمَندَر کے کنارے شمعون دبّاغ کے گھر میں مہمان ہے۔
33 پَس اسی دم مَیں نے تیرے پاس آدمی بھیجے اور تو نے خوب کیا جو آگیا۔ اَب ہم سب خدا کے حضور حاضر ہیں تاکہ جو کچھ خداوند نے تجھ سے فرمایا ہے اسے سنیں۔
34 پطرس نے زبان کھول کر کہا۔ اَب مجھے پورا یقین ہو گیا کہ خدا کسی کا طرفدار نہیں۔
35 بلکہ ہر قَوم میں جو اس سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اس کو پسند آتا ہے۔
36 جو کلام اس نے بنی اسرائیل کے پاس بھیجا جبکہ یسوع مسیح کی معرفت (جو سب کا خداوند ہے) صلح کی خوشخَبری دی۔
37 اس بات کو تم جانتے ہو جو یوحنّا کے بپتسمہ کی منادی کے بعد گلیل سے شروع ہو کر تمام یہودیہ میں مشہور ہو گئی۔
38 کہ خدا نے یسوع ناصری کو روح القدّس اور قدرت سے کس طرح مسح کیا۔ وہ بھلائی کرتا اور ان سب کو جو ابلیس کے ہاتھ سے ظلم اٹھاتے تھے شفا دیتا پھرا کیونکہ خدا اس کے ساتھ تھا۔
39 اور ہم ان سب کاموں کے گواہ ہیں جو اس نے یہودیوں کے ملک اور یروشلیم میں کئے اور انہوں نے اس کو صلیب پر لٹکا کر مار ڈالا۔
40 اس کو خدا نے تیسرے دن جلایا اور ظاہر بھی کر دیا۔
41 نہ کہ ساری امّت پر بلکہ ان گواہوں پر جو آگے سے خدا کے چنے ہوئے تھے یعنی ہم پر جنہوں نے اس کے مردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد اس کے ساتھ کھایا پیا۔
42 اور اس نے ہمیں حکم دیا کہ امّت میں منادی کرو اور گواہی دو کہ یہ وہی ہے جو خدا کی طرف سے زندوں اور مردوں کا منصف مقرّر کیا گیا۔
43 اس شَخص کی سب نبی گواہی دیتے ہیں کہ جو کوئی اس پر ایمان لائے گا اس کے نام سے گناہوں کی معافی حاصل کرے گا۔
44 پطرس یہ بات کہہ ہی رہا تھا کہ روح القدّس ان سب پر نازل ہوا جو کلام سن رہے تھے۔
45 اور پطرس کے ساتھ جتنے منحتون ایمان دار آئے تھے وہ سب حَیران ہوئے کہ غَیر قَوموں پر بھی روح القدّس کی بخشش جاری ہوئی۔
46 کیونکہ انہیں طرح طرح کی زبانیں بولتے اور خدا کی تمجید کرتے سنا۔ پطرس نے جواب دیا۔
47 کیا کوئی پانی سے روک سکتا ہے کہ یہ بپتسمہ نہ پائیں جنہوں نے ہماری طرح روح القدّس پایا؟۔
48 اور اس نے حکم دیا کہ انہیں یسوع مسیح کے نام سے بپتسمہ دیا جائے۔ اس پر انہوں نے اس سے دَرخواست کی کہ چند روز ہمارے پاس رہ۔
باب : 11
1اور رَسولوں اور بھائیوں نے جو یہودیہ میں تھے سنا کہ غَیر قَوموں نے بھی خدا کا کلام قبول کیا۔
2 جب پطرس یروشلیم میں آیا تو منحتون اس سے بحث کرنے لگے۔
3 کہ تو نا منحتونوں کے پاس گیا اور ان کے ساتھ کھنا کھایا۔
4 پطرس نے شروع سے وہ امر ترتیب وار ان سے بیان کیا کہ۔
5 مَیں یافا شہر میں دعا کر رہا تھا اور بیخودی کی حالت میں ایک رویا دیکھی کہ کوئی چیز بڑی چادر کی طرح چاروں کونوں سے لٹکتی ہوئی آسمان سے اتر کر مجھ تک آئی۔
6 اس پر جب مَیں نے غَور سے نظر کی تو زمین کے چَوپائے اور جنگلی جانور کیڑے مکَوڑے اور ہوا کے پرندے دیکھے۔
7 اور یہ آواز بھی سنی کہ اَے پطرس اٹھ! ذبح کر اور کھا۔
8 لیکن مَیں نے کہا اَے خداوند ہرگز نہیں کیونکہ کبھی کوئی حرام یا ناپاک چیز میرے منہ میں نہیں گئی۔
9 اس کے جواب میں دوسری بار آسمان سے آواز آئی کہ جن کو خدا نے پاک ٹھہرایا ہے تو انہیں حرام نہ کہہ۔
10 تین بار اَیسا ہی ہوا۔ پھر وہ سب چیزیں آسمان کی طرف کھینچ لی گئیں۔
11 اور دیکھو! اسی دم تین آدمی جو قیَصریہ سے میرے پاس بھیجے گئے تھے اس گھر کے پاس آ کھڑے ہوئے جس میں ہم تھے۔
12 روح نے مجھ سے کہا کہ تو بلا امتیاز ان کے ساتھ چلا جا اور یہ چھ بھائی بھی میرے ساتھ ہولئے اور ہم اس شَخص کے گھر میں داخل ہوئے۔
13 اس نے ہم سے بیان کیا کہ مَیں نے فرشتہ کو اپنے گھر میں کھڑے ہوئے دیکھا۔ جس نے مجھ سے کہا کہ یافا میں آدمی بھیج کر شمعون کو بلوا لے جو پطرس کہلاتا ہے۔
14 وہ تجھ سے اَیسی باتیں کہے گا جن سے تو اور تیرا سارا گھرانا نجات پائے گا۔
15 جب مَیں کلام کرنے لگا تو روح القدّس ان پر اس طرح نازل ہوا جس طرح شروع میں ہم پر نازل ہوا تھا۔
16 اور مجھے خداوند کی وہ بات یاد آئی جو اس نے کہی تھی کہ یوحنّا نے تو پانی سے بپتسمہ دیا مگر تم روح القدّس سے بپتسمہ پاؤ گے۔
17 پَس جب خدا نے ان کو بھی وہی نعمت دی ہم کو خداوند یسوع مسیح پر ایمان لا کر ملی تھی تو مَیں کوَن تھا کہ خدا کو روک سکتا؟۔
18 وہ یہ سن کر چپ رہے اور خدا کی تمجید کر کے کہنے لگے کہ پھر تو بیشک خدا نے غَیر قَوموں کو بھی زندگی کے لئے تَوبہ کی تَوفیق دی ہے۔
19 پَس جو لو گے اس مصیبت سے پراگندہ ہو گئے تھے جو ستفنس کے باعث پڑی تھی وہ پھرتے پھرتے فینیکے اور کپرس اور افطاکیہ میں پہنچے مگر یہودیوں کے سوا اَور کسی کو کلام نہ سناتے تھے۔
20 لیکن ان میں سے چند کپرسی اور کرینی تھے جو انطاکیہ میں آ کر یونانیوں کو بھی خداوند یسوع کی خوشخَبری کی باتیں سنانے لگے۔
21 اور خداوند کا ہاتھ ان پر تھا اور بہت سے لوگ ایمان لا کر خداوند کی طرف رجوع ہوئے۔
22 ان لوگوں کی خَبر یروشلیم کی کلیسیا کے کانوں تک پہنچی اور انہوں نے برنباس کو انطاکیہ تک بھیجا۔
23 پہنچ کر اور خدا کا فضل دیکھ کر خوش ہوا اور ان سب کو نصیحت کی کہ دلی ارادہ سے خداوند سے لپٹے رہو۔
24 کیونکہ وہ نیک مرد اور روح القدّس اور ایمان سے معمور تھا اور بہت سے لوگ خداوند کی کلیسیا میں آ ملے۔
25 پھر وہ ساڈل کی تلاش میں ترسس کو چلا گیا۔
26 اور جب وہ ملا تو اسے انطاکیہ میں لایا اَیسا ہوا کہ وہ سال بھر تک کلیسیا کی جماعت میں شامل ہوتے اور بہت سے لوگوں کو تعلیم دیتے رہے اور شاگرد پہلے انطاکیہ ہی میں مسیحی کہلائے۔
27 انہی دنوں میں چند نبی یروشلیم سے انطاکیہ میں آئے۔
28 ان میں سے ایک نے جس کا نام اَگبَس تھا کھڑے ہو کر روح کی ہدایت سے ظاہر کیا کہ تمام دنیا میں بڑا کال پڑے گا اور یہ کلَودیس کے عہد میں واقع ہوا۔
29 پَس شاگردوں نے تجویز کی کہ اپنے اپنے مقدور کے موافق یہودیہ میں رہنے والے بھائیوں کی خدمت کے لئے کچھ بھیجیں۔
30 چنانچہ انہوں نے اَیسا ہی کیا اور برنباس اور ساڈل کے ہاتھ بزرگوں کے پاس بھیجا۔
باب : 12
1قریبا اسی وقت ہیرودیس بادشاہ نے ستانے کے لئے کلیسیا میں بعض پر ہاتھ ڈالا۔
2 اور یوحنّا کے بھائی یَعقوب کو تلوار سے قتل کیا۔
3 جب دیکھا کہ یہ بات یہودیوں کو پسند آئی تو پطرس کو بھی گرفتار کر لیا اور یہ عید فطیر کے دن تھے۔
4 اور اس کو پکڑ کر قَید کیا اور نگہبانی کے لئے چار چار سپاہیوں کے چار پہروں میں رکھّا اس ارادہ سے کہ فسح کے بعد اس کو لوگوں کے سامنے پیش کرے۔
5 پَس قَید خانہ میں تو پطرس کی نگہبانی ہو رہی تھی مگر کلیسیا اس کے لئے بَدَن و جان خدا سے دعا کر رہی تھی۔
6 اور جب ہیرودیس اسے پیش کرنے کو تھا تو اسی رات پطرس دو زنجیروں سے بندھا ہوا دو سپاہیوں کے درمیان سوتا تھا اور پہرے والے دروازہ پر قَید خانہ کی نگہبانی کر رہے تھے۔
7 کہ دیکھو خداوند کا ایک فرشتہ آ کھڑا ہوا اور اس کوٹھڑی میں نور چمک گیا اور اس نے پطرس کی پسلی پر ہاتھ مارکر اسے جگایا اور کہا کہ جلد اٹھ! اور زنجیریں اس کے ہاتھوں میں سے کھل پڑیں۔
8 پھر فرشتہ نے اس سے کہا کمر باندھ اور اپنی جوتی پہن لے۔ اس نے نے کہا اپنا چوغہ پہن کر میرے پیچھے ہولے۔
9 وہ نکل کر اس کے پیچھے ہولیا اور یہ نہ جانا کہ جو کچھ فرشتہ کی طرف سے ہورہا ہے وہ واقعی ہے۔ بلکہ یہ سَمَجھا کہ رویا دیکھ رہا ہوں۔
10 پَس وہ پہلے اور دوسرے حلقہ میں سے نکل کر اس لوہے کے پھاٹک پر پہنچے جو شہر کی طرف ہے۔ وہ آپ ہی ان کے لئے کھل گیا۔ پَس وہ نکل کر کوچہ کے اس سرے تک گئے اور فوراً فرشتہ اس کے پاس سے چلا گیا۔
11 اور پطرس نے ہوش میں آ کر کہا کہ اَب مَیں نے سَچ جان لیا کہ خداوند نے اپنا فرشتہ بھیج کر مجھے ہیرودیس کے ہاتھ سے چھڑا لیا اور یہودی قَوم کی ساری امید توڑ دی
12 اور اس پر غور کر کے اس یوحنّا کی ماں مریم کے گھر آیا جو مرقس کہلاتا ہے۔ وہاں بہت سے آدمی جمع ہو کر دعا کر رہے تھے۔
13 جب اس نے پھاٹک کی کھڑکی کھٹکھٹائی تو ردی نام ایک لَونڈی آواز سننے آئی۔
14 اور پطرس کی آواز پہچان کر خوشی کے مارے پھاٹک نہ کھولا بلکہ دَوڑ کر اَندر خَبر کی کہ پطرس پھاٹک پر کھڑا ہے۔
15 انہوں نے اس سے کہا تو دیوانی ہے لیکن وہ یقین سے کہتی رہی کہ یونہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا فرشتہ ہو گا۔
16 مگر پطرس کھٹکھٹا تا رہا۔ پَس انہوں نے کھڑی کھولی اور اس کو دیکھ کر حیَران ہو گئے۔
17 اس نے انہیں ہاتھ سے اشارہ کیا کہ چپ رہیں اور ان سے بیان کیا کہ خداوند نے مجھے اس اس طرح قَید خانہ سے نکالا۔ پھر کہا کہ یَعقوب اور بھائیوں کو اس بات کی خَبر کر دینا اور روانہ ہو کر دوسری جگہ چلا گیا۔
18 جب صبح ہوئی تو سپاہی بہت گھبرائے کہ پطرس کیا ہوا۔
19 جب ہیرودیس نے اس کی تلاش کی اور نہ پایا تو پہرے والوں کی تحقیقات کر کے ان کے قتل کا حکم دیا اور یہودیہ کو چھوڑ کر قیصریہ میں جارہا۔
20 اور وہ صور اور صیدا کے لوگوں سے نہایت ناخوش تھا۔ پَس وہ ایک دل ہو کر اس کے پاس آئے اور بادشاہ کے حاجب بلستس کو اپنی طرف کر کے صلح چاہی۔ اس لئے کہ ان کے ملک کو بادشاہ کے ملک سے رسد پہنچی تھی۔
21 پَس ہیرودیس ایک دن مقرر کر کے اور شاہانہ پوشاک پہن کر تخت عدالت پر بَیٹھا اور ان سے کلام کرنے لگا۔
22 لوگ پکار اٹھے کہ یہ خدا کی آواز ہے نہ انسان کی۔
23 اسی دم خدا کے فرشتہ نے اسے مارا۔ اس لئے کہ اس نے خدا کی تمجید نہ کی اور وہ کیڑے پڑ کر مرگیا۔
24 مگر خدا کا کلام ترقّی کرتا اور پھَیلتا گیا۔
25 اور برنباس اور ساؤل اپنی خدمت پوری کر کے اور یوحنّا کو مرقس کہلاتا ہے ساتھ لے کر یروشلیم سے واپَس آئے۔
باب : 13
1انطاکیہ میں اس کلیسیا کے متعلّق جو وہاں تھی کئی نبی اور معلّم تھے یعنی برنباس اور شمعون جو کالا کہلاتا ہے اور لوکیس کرینی اور مناہیم جو چَوتھائی ملک کے حاکم ہیرودیس کے ساتھ پلا تھا اور ساؤل۔
2 جب وہ خداوند کی عبادت کر رہے اور روزے رکھ رہے تھے تو روح القدس نے کہا میرے لئے برنباس اور ساؤل کو اس کام کے واسطے مخصوص کر دو جس کے واسطے مَیں نے ان کو بلایا ہے۔
3 تب انہوں نے روزہ رکھ کر اور دعا کر کے اور ان پر ہاتھ رکھ کر انہیں رخصت کیا۔
4 پَس وہ روح القدس کے بھیجے ہوئے سلوکیہ کو گئے اور وہاں سے جہاز پر کپرس کو چلے۔
5 اور سَلَیمیس میں پہنچ کر یہودیوں کے عبادت خانوں میں خدا کا کلام سنانے لگے اور یوحنّا ان کا خادم تھا۔
6 اور اس ٹاپو میں ہوتے ہوئے پافس تک پہنچے۔ وہاں انہیں ایک یہودی جادوگر اور جھوٹا نبی بر یسوع نام ملا۔
7 وہ سرگیس پولس صوبہ دار کے ساتھ تھا جو صاحب تمیز آدمی تھا۔ اس نے برنباس اور ساؤل کو بلا کر خدا کا کلام سننا چاہا۔
8 مگر الیماس جادو گرنے (کہ یہی اس کے نام کا ترجمہ ہے) ان کی مخالفت کی صوبہ دار کو ایمان لانے سے روکنا چاہا۔
9 اور ساؤل نے جس کا نام پولس بھی ہے روح القدس سے بھرکر اس پر غور سے نظر کی۔
10 اور کہا کہ اَے ابلیس کر فرزند! تو تمام مکاری اور شرارت سے بھرا ہوا اور ہر طرح کی نیکی کا دشمن ہے کیا خداوند کی سیدھی راہوں کو بگاڑنے سے بز نہ آئے گا؟۔
11 اب دیکھ تجھ پر خداوند کا غضب ہے اور تو اَندھا ہو کر کچھ مدّت تک سورج کو نہ دیکھے گا اسی دم کہر اور اَندھیرا اس پر چھا گیا اور وہ ڈھونڈتا پھرا کہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کر لے چلے۔
12 تب صوبہ دار یہ ماجرا دیکھ کر اور خداوند کی تعلیم سے حیَران ہو کر ایمان لے آیا۔
13 پھر پولس اور اس کے ساتھی پافس سے جہاز سے روانہ ہو کر واپَس چلا گیا۔
14 اور وہ پرگہ سے چل کر پسدیہ کے انطاکیہ میں پہنچے اور سَبت کے دن عبادت خانہ میں جا بَیٹھے۔
15 پھر توریت اور نبیوں کی کتاب کے پڑھنے کے بعد عبادت خانہ کے سَرداروں نے انہیں کہلا بھیجا کہ اَے بھائیو! اگر لوگوں کی نصیحت کے واسطے تمہارے دل میں کوئی بات ہو تو بیان کرو۔
16 پَس پولس نے کھڑے ہو کر اور ہاتھ سے اشارہ کر کے کہا اَے اسرائیلیو اور اَے خدا ترسو! سنو۔
17 اس امّت اسرائیل کے خدا نے ہمارے باپ دادا کو چن لیا اور جب یہ امّت ملک مصر میں پردیسیوں کی طرح رہتی تھی اس کو سر بلند کیا اور زبردست ہاتھ سے انہیں وہاں سے نکال لایا۔
18 اور کوئی چالیس برس تک بیابان میں ان کی عادتوں کی برداشت کرتا رہا۔
19 اور کنعان کے ملک میں سات قَوموں کو غارت کر کے تخمینا ساڑے چار سَو برس میں ان کا ملک ان کی میراث کر دیا۔
20 اور ان باتوں کے بعد کے سموئیل نبی کے زمانہ تک ان میں قاضی مقرّر کئے۔
21 اس کے بعد انہوں نے بادشاہ کے لئے دَرخواست کی اور خدا نے بینمین کے قبیلہ میں سے ایک شَخص ساؤل قیس کے بَیٹے کو چالیس برس کے لئے ان پر مقرّر کیا۔
22 پھر اسے معزول کر کے داؤد کو ان کا بادشاہ بنایا جس کی بابت اس نے یہ گواہی دی کہ مجھے ایک شَخص یسّی کا بَیٹا داؤد میرے دل کے موافق مل گیا۔ وہی میری تمام مرضی کو پورا کرے گا۔
23 اسی کی نسل میں سے خدا نے اپنے وعدہ کے موافق اسرائیل کے پاس ایک منجّی یعنی یسوع کو بھیج دیا۔
24 جس کے آنے سے پہلے یوحنّا نے اسرائیل کی تمام امّت کے سامنے تَوبہ کے بپتسمہ کی منادی کی۔
25 اور جب یوحنّا اپنا دَور پورا کرنے کو تھا تو اس نے کہا کہ تم مجھے کیا سَمَجھتے ہو؟ مَیں وہ نہیں بلکہ دیکھو میرے بعد وہ شَخص آنے والا ہے جس کے پاؤں کی جوتیوں کا تَسمہ مَیں کھولنے کے لائق نہیں۔
26 اَے بھائیو! ابراہام کے فرزندو اور اَے خدا ترسو! اس نجات کا کلام ہمارے پاس بھیجا گیا۔
27 کیونکہ یروشلیم کے رہنے والوں اور ان کے سَرداروں نے نہ اسے پہچانہ اور نہ نبیوں کی باتیں سَمَجھیں جو ہر سَبت کو سنائی جاتی ہیں۔ اس لئے اس پر فتویٰ دے کر ان کو پورا کیا۔
28 اور اگرچہ اس کے قتل کی کوئی وجہ نہ ملی تَو بھی انہوں نے پیلاطس سے اس کے قتل کی دَرخواست کی۔
29 اور جو کچھ اس کے حق میں لکھا تھا جب اس کو تمام کر چکے تو اسے صلیب پر سے اتار کر قَبر میں رکھّا۔
30 لیکن خدا نے اسے مردوں میں سے جلایا۔
31 اور وہ بہت دنوں تک ان کو دکھائی دیا جو اس کے ساتھ گلیل سے یروشلیم میں آئے تھے۔ امّت کے سامنے اَب وہی اس کے گواہ ہیں۔
32 اور ہم تم کو اس وعدہ کے بارے میں جو باپ دادا سے کیا گیا تھا یہ خوشخَبری دیتے ہیں۔
33 کہ خدا نے یسوع کو جلا کر ہماری اَولاد کے لئے اسی وعدہ کو پورا کیا۔ چنانچہ دوسرے مزمور میں لکھّا ہے کہ تو میرا بَیٹا ہے۔ آج تو مجھ سے پَیدا ہوا۔
34 اور اس کے اس طرح مردوں میں سے جلانے کی بابت کہ پھر کبھی نہ مرے اس نے یوں کہا کہ مَیں داؤد کی پاک اور سَچّی نعمتیں تمہیں دوں گا۔
35 چنانچہ وہ ایک اَور مزمور میں بھی کہتا ہے کہ تو اپنے مقدّس کے سڑنے کی نَوبت پہنچنے نہ دے گا۔
36 کیونکہ داؤد تو اپنے وقت میں خدا کی مرضی کا تابعدار رہ کر سوگیا اور اپنے دادا سے جا ملا اور اس کے سڑنے کی نَوبت پہنچی۔
37 مگر جسکو خدا نے جلایا اس کے سڑنے کی نَوبت پہنچی۔
38 پَس اَے بھائیو! تمہیں معلوم ہو کہ اسی کے وسیلہ سے تم کو گناہوں کی معافی کی خَبر دی جاتی ہے۔
39 اور موسیٰ کی شَریعَت کے باعث جن باتوں سے تم بری نہیں ہوسکتے تھے ان سب سے ہر ایک ایمان لانے والا اس کے باعث بری ہوتا ہے۔
40 پَس خَبردار! اَیسا نہ ہو کہ جو نبیوں کی کتاب میں آیا ہے وہ تم پر صادق آئے کہ۔
41 اَے تحقیر کرنے والو! دیکھو تعّجب کرو اور مٹ جاؤ کیونکہ مَیں تمہارے زمانہ میں ایک کام کرتا ہوں۔ اَیسا کام کہ اگر کوئی تم سے بیان کرے تو کبھی اس کا یقین نہ کرو گے۔
42 ان کے باہر جاتے وقت لوگ منّت کرنے لگے کہ اگلے سَبت کو بھی یہ باتیں ہمیں سنائی جائیں۔
43 جب مجلس برخاست ہوئی تو بہت سے یہودی اور خدا پرست نَو مرید یہودی پولس اور برنباس کے پیچھے ہولئے۔ انہوں نے ان سے کلام کیا اور ترغیب دی کہ خدا کے فضل پر قائم رہو۔
44 دوسرے سَبت کو تقریباً سارا شہر خدا کا کلام سننے کو اکٹھّا ہوا۔
45 مگر یہودی اتنی بھیڑ دیکھ کر حسد سے بھر گئے اور پولس کی باتوں کی مخالفت کرنے اور کفر بکنے لگے۔
46 پولس اور برنباس دلیر ہو کر کہنے لگے کہ ضرور تھا کہ خدا کا کلام پہلے تمہیں سنایا جائے لیکن چونکہ تم اس کو ردّ کرتے ہو اور اپنے آپ کو ہمیشہ کی زندگی کے ناقابل ٹھہراتے ہو تو دیکھو ہم غَیر قَوموں کی طرف متوّجہ ہوتے ہیں۔
47 کیونکہ خداوند نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ مَیں نے تجھ کو غَیر قَوموں کے لئے نور مقرّر کیا تاکہ تو زمین کی انتہا تک نجات کا باعث ہو۔
48 غَیر قَوم والے یہ سن کر خوش ہوئے اور خدا کے کلام کی بڑائی کرنے لگے اور جتنے ہمیشہ کی زندگی کے لئے مقرّر کئے گئے تھے ایمان لے آئے۔
49 اور اس تمام علاقہ میں خدا کا کلام پھَیل گیا۔
50 مگر یہودیوں نے خدا پرست اور عزّت دار عَورتوں اور شہر کے رئیسوں کو ابھارا اور پولس اور برنباس کو ستانے پر آمادہ کر کے انہیں اپنی سرحّدوں سے نکال دیا۔
51 یہ اپنے پاؤں کی خاک ان کے سامنے جھاڑ کر اکنیم کو گئے۔
52 مگر شاگرد خوشی اور روح القدس سے معمور ہوتے رہے۔
باب : 14
1اور اکنیم میں اَیسا ہوا کہ وہ ساتھ ساتھ یہودیوں کے عبادت خانہ میں گئے اور اَیسی تقریر کی کہ یہودیوں اور یونانیوں دونوں کی ایک بڑی جماعت ایمان لے آئی۔
2 مگر نافرمان یہودیوں نے غَیر قَوموں کے دلوں میں جوش پَیدا کر کے ان کو بھائیوں کی طرف بدگمان کر دیا۔
3 پَس وہ بہت عرصہ تک وہاں رہے اور خداوند کے بھروسے پر دلیری سے کلام کرتے تھے اور وہ ان کے ہاتھوں سے نشان اور عجیب کام کرا کر اپنے فضل کے کلام کی گواہی دیتا تھا۔
4 لیکن شہر کے لوگوں میں پھوٹ پڑ گئی۔ بعض یہودیوں کی طرف ہو گئے اور بعض رَسولوں کی طرف۔
5 مگر جب غَیر قَوم والے اور یہودی انہیں بے عزّت اور سنگسار کرنے کو اپنے سَرداروں سمیت ان پر چڑھ آئے۔
6 تو وہ اس سے واقف ہو کر لکا انیہ کے شہروں لسترہ اور دربے اور ان کے گرد نواح میں بھاگ گئے۔
7 اور وہاں خوشخَبری سناتے رہے۔
8 اور لسترہ میں ایک شَخص بَیٹھا تھا جو پاؤں سے لاچار تھا۔ وہ جنم کا لنگڑا تھا اور کبھی نہ چلا تھا۔
9 وہ پولس کو باتیں کرتے سن رہا تھا اور جب اس نے اس کی طرف غَور کر کے دیکھا کہ اس میں شفا پانے کے لائق ایمان ہے۔
10 تو بڑی آواز سے کہا اپنے پاؤں کے بل سیدھا کھڑا ہو جا۔ پَس وہ اچھل کر چلنے پھرنے لگا۔
11 لوگوں نے پولس کا یہ کام دیکھ کر لکا انیہ کی بولی میں بلند آواز سے کہا کہ آدمیوں کی صورت میں دیوتا اتر کر ہمارے پاس آئے ہیں۔
12 اور انہوں نے برنباس کو زیوس کہا اور پولس کو ہرمیس۔ اس لئے کہ یہ کلام کر لے میں سبقت رکھتا تھا۔
13 اور زیوس کے اس مندر کا پجاری جو ان کے شہر کے سامنے تھا بَیل اور پھولوں ہار پھاٹک پر لا کر لوگوں کے ساتھ قربانی کرنا چاہتا تھا۔
14 جب برنباس اور پولس رَسولوں نے سنا تو اپنے کپڑے پھاڑ کر لوگوں میں جا کودے اور پکار پکار کر۔
15 کہنے لگے کہ لوگو! تم یہ کیا کرتے ہو؟ ہم بھی تمہارے ہم طبیعت انسان ہیں اور تمہیں خوشخَبری سناتے ہیں تاکہ ان باطل چیزوں سے کنارہ کر کے اس زندہ خدا کی طرف پھرو جس نے آسمان اور زمین اور سمندر اور جو کچھ ان میں ہے پَیدا کیا
16 اس نے اگلے زمانہ میں سب قَوموں کو اپنی راہ چلنے دیا۔
17 تَو بھی اس نے اپنے آپ کو بے گواہ نہ چھوڑا۔ چنانچہ اس نے مہربانیاں کیں اور آسمان سے تمہارے لئے پانی برسایا اور بڑی بڑی پَیداوار کے مَوسم عطا کئے اور تمہارے دلوں کو خوراک اور خوشی سے بھر دیا۔
18 یہ باتیں کہہ کر بھی لوگوں کو مشکل سے روکا کہ ان کے کے لئے قربانی نہ کریں۔
19 پھر بعض یہودی انطاکیہ اور اکنیم سے آئے اور لوگوں کو اپنی طرف کر کے پولس کو سنگسار کیا اور اس کو مردہ سَمَجھ کر شہر کے باہر گھسیٹ لے گئے۔
20 مگر جب شاگرد اس کے گردا گرد آ کھڑے ہوئے تو وہ اٹھ کر شہر میں آیا اور دوسرے دن برنباس کے ساتھ دربے کو چلا گیا۔
21 اور وہ اس شہر میں خوشخَبری سنا کر اور بہت سے شاگرد کر کے لستر اور اکنیم اور انطاکیہ کو واپَس آئے۔
22 اور شاگردوں کے دلوں کو مضبوط کرتے اور نصیحت دیتے تھے کہ ایمان پر قائم رہو اور کہتے تھے ضرور ہے کہ ہم بہت مصیبتیں سہہ کر خدا کی بادشاہی میں داخل ہوں۔
23 اور انہوں نے ہر ایک کلیسیا میں ان کے لئے بزرگوں کو مقرّر کیا اور رورہ سے دعا کر کے انہیں خداوند کے سپرد کیا جس پر وہ ایمان لائے تھے۔
24 اور پسدیہ میں ہوتے ہوئے پمفیلیہ میں پہنچے۔
25 اور پرگہ میں کلام سنا کر اتلیہ کو گئے۔
26 اور وہاں سے جہاز پر اس انطاکیہ میں جہاں اس کے کام کے لئے جو انہوں نے اَب پورا کیا خدا کے فضل کے سپرد کئے گئے تھے۔
27 وہاں پہنچ کر انہوں نے کلیسیا کو جمع کیا اور ان کے سامنے بیان کیا کہ خدا نے ہماری معرفت کیا کچھ کیا اور یہ کہ اس نے غَیر قَوموں کے لئے ایمان کا دروازہ کھول دیا۔
28 اور وہ شاگردوں کے پاس مدّت تک رہے۔
باب : 15
1پھر بعض لوگ یہودیہ سے آ کر بھائیوں کو تعلیم دینے لگے کہ موسیٰ کی رسم کے موافق تمہارا ختنہ نہ ہو تو تم نجات نہیں پاسکتے۔
2 پَس جب پولس اور برنباس کی ان سے بہت تکرار اور بحث ہوئی تو کلیسیا نے ٹھہرایا کہ پولس اور برنباس اور ان میں سے چند اَور شَخص اس مسئلہ کے لئے رَسولوں اور بزرگوں کے پاس یروشلیم جائیں۔
3 پَس کلیسیا نے ان کو روانہ کیا اور وہ غَیر قَوموں کے رجوع لانے کا بیان کرتے ہوئے فینیکے اور سامریہ سے گزرے اور سب بھائیوں کو بہت خوش کرتے گئے
4 جب یروشلیم میں پہنچے تو کلیسیا اور رَسول اور بزرگ ان سے خوشی کے ساتھ ملے اور انہوں نے سب کچھ بیان کیا جو خدا نے ان کی معرفت کیا تھا۔
5 مگر فریسیوں کے فرقہ سے جو ایمان لائے تھے ان میں سے بعض نے اٹھ کر کہا کہ ان کا ختنہ کرانا اور ان کو موسیٰ کی شَریعَت پر عمل کرنے کا حکم دینا ضرور ہے۔
6 پَس رَسول اور بزرگ اس بات پر غور کرنے کے لئے جمع ہوئے۔
7 اور بہت بحث کے بعد پطرس نے کھڑے ہو کر ان سے کہا کہ اَے بھائیوں! تم جانتے ہو کہ بہت عرصہ ہوا جب خدا نے تم لوگوں میں سے مجھے چنا کہ غَیر قَومیں میری زبان سے خوشخَبری کا کلام سن کر ایمان لائیں۔
8 اور خدا نے جو دلوں کی جانتا ہے ان کو بھی ہماری طرح روح القدس دے کر ان کی گواہی دی۔
9 اور ایمان کے وسیلہ سے ان کے دل پاک کر کے ہم میں اور ان میں کچھ فرق نہ رکھّا۔
10 پَس اَب تم شاگردوں کی گَردَن پر اَیسا جوا رکھ کر جس کو نہ ہمارے باپ دادا اٹھا سکتے تھے نہ ہم خدا کو کیوں آزماتے ہو؟۔
11 حالانکہ ہم کو یقین ہے کہ جس طرح وہ خداوند یسوع کے فضل ہی سے نجات پائیں گے اسی طرح ہم بھی پائیں گے۔
12 پھر ساری جماعت چپ رہی اور پولس اور برنباس کا بیان سننے لگی کہ خدا نے ان کی معرفت غَیر قَوموں میں کَیسے کَیسے نشان اور عجیب کام ظاہر کئے۔
13 جب وہ خاموش ہوئے تو یَعقوب کہنے لگا کہ اَے بھائیو میری سنو!۔
14 شمعون نے بیان کیا ہے کہ خدا نے پہلے پہل غَیر قَوموں پر کس طرح توجّہ کی تاکہ ان میں سے اپنے نام کی ایک امّت بنا لے۔
15 اور نبیوں کی باتیں بھی اس کے مطابق ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے کہ۔
16 ان باتوں کے بعد مَیں پھر آ کر داؤد کے گرے ہوئے خَیمہ کو اٹھاؤں گا اور اس کے پھٹے ٹوٹے کی مرَمَّت کر کے اسے کھڑا کروں گا۔
17 تاکہ ماتی آدمی یعنی سب قَومیں جو میرے نام کی کہلاتی رہیں خداوند کو تلاش کریں۔
18 یہ وہی خداوند فرماتا ہے جو دنیا کے شروع سے ان باتوں کی خَبر دیتا آیا ہے۔
19 پَس میرا فَیصلہ یہ ہے کہ جو غَیر قَوموں میں سے خدا کی طرف رجوع ہوتے ہیں ہم ان کو تکلیف نہ دیں۔
20 مگر ان کو لکھ بھیجیں کہ بتوں کی مکروہات اور حرامکاری اور گلا گھونٹے ہوئے جانوروں اور لہو سے پرہیز کریں۔
21 کیونکہ قدیم زمانہ سے ہر شہر میں موسیٰ کی توریت کی منادی کرنے والے ہوتے چلے آئے ہیں اور وہ ہر سَبت کو عبادت خانوں میں سنائی جاتی ہے۔
22 اس پر رَسولوں اور بزرگوں نے ساری کلیسیا سمیت مناسب جانا کہ اپنے میں سے چند شَخص چن کر پولس اور برنباس کے ساتھ انطاکیہ کو بھیجیں یعنی یہواہ کو جو برسبّا کہلاتا ہے اور سیلاس کو۔ یہ شَخص بھائیوں میں مقدّم تھے۔
23 اور ان کے ہاتھ یہ لکھ بھیجا کہ انطاکیہ اور سوریہ اور کلکیہ کے رہنے والے بھائیوں کا سَلام پہنچے۔
24 چونکہ ہم نے سنا ہے کہ بعض نے ہم میں سے جن کو ہم نے حکم نہ دیا تھا وہاں جا کر تمہیں اپنی باتوں سے گھبرا دیا اور تمہارے دلوں کو الٹ دیا۔
25 اس لئے ہم نے ایک دل ہو کر مناسب جانا کہ بعض چنے ہوئے آدمیوں کو اپنے عزیزوں برنباس اور پولس کے ساتھ تمہارے پاس بھیجیں۔
26 یہ دونوں اَیسے آدمی ہیں جنہوں نے اپنی جانیں ہمارے خداوند یسوع مسیح کے نام پر نثار کر رکھّی ہیں۔
27 چنانچہ ہم نے یہوداہ اور سیلاس کو بھیجا ہے۔ وہ یہی باتیں زبانی بھی بیان کریں گے۔
28 کیونکہ روح القدس نے اور ہم نے مناسب جانا کہ ان ضروری باتوں کے سوا تم پر اَور بوجھ نہ ڈالیں۔
29 کہ تم بتوں کی قربانیوں کے گوشت سے لہو اور گلا گھونٹے ہوئے جانوروں اور حرامکاری سے پرہیز کرو۔ اگر تم ان چیزوں سے اپنے آپ کو بَچائے رکھّو گے تو سَلامت رہو گے۔ والسّلام۔
30 پَس وہ رخصت ہو کر انطاکیہ میں پہنچے اور جماعت کو اکھٹّا کر کے خط دے دیا۔
31 وہ پڑھ کر اس کے تسلّی بخش مضمون سے خوش ہوئے۔
32 اور یہوداہ اور سیلاس نے جو خود بھی ہی تھے بھائیوں کو بہت سی نصیحت کر کے مضبوط کر دیا۔
33 وہ چند روز رہ کر اور بھائیوں سے سَلامتی کی دعا لے کر اپنے بھیجنے والوں کے پاس رخصت کر دئے گئے۔
34 [لیکن سیلاس کو وہاں رہنا اچھّا لگا]۔
35 مگر پولس اور برنباس انطاکیہ ہی میں رہے اور بہت سے اَور لوگوں کے ساتھ خداوند کا کلام سکھانے اور اس کی منادی کرتے رہے۔
36 چند روز بعد پولس نے برنباس سے کہا کہ جن جن شہروں میں ہم نے خدا کا کلام سنایا تھا آؤ پھر ان میں چل کر بھائیوں کو دیکھیں کہ کَیسے ہیں۔
37 اور برنباس کی صلاح تھی کہ یوحنّا کو جو مرقس کہلاتا ہے اپنے ساتھ لے چلیں۔
38 مگر پولس نے یہ مناسب نہ جانا کہ جو شَخص پمفیلیہ میں کنارہ کر کے اس کام کے لئے ان کے ساتھ نہ گیا تھا اس کو ہمراہ لے چلیں۔
39 پَس ان میں اَیسی سخت تکرار ہوئی کہ ایک دوسرے سے جدا ہو گئے اور برنباس مرقس کو لے کر جہاز پر کپرس کو روانہ ہوا۔
40 مگر پولس نے سیلاس کو پسند کیا اور بھائیوں کی طرف سے خداوند کے فضل کے سپرد ہو کر روانہ ہوا۔
41 اور کلیسیاؤں کو مضبوط کرتا ہوا سوریہ اور کلکیہ سے گزرا۔
باب : 16
1پھر وہ دربے اور لسترہ میں بھی پہنچا۔ تو دیکھو وہاں تمیتھیس نام ایک شاگرد تھا۔ اس کی ماں تو یہودی تھی جو ایمان لے آئی تھی مگر اس کا باپ یونانی تھا۔
2 وہ لسترہ اور اکنیم کے بھائیوں میں نیکنام تھا۔
3 پولس نے چاہا کہ یہ میرے ساتھ چلے۔ پَس اس کو لے کر ان یہودیوں کے سبب سے جو اس نواح میں تھے اس کا ختنہ کر دیا کیونکہ وہ سب جانتے تھے کہ اس کا باپ یونانی ہے۔
4 اور وہ جن جن شہروں میں سے گزرے تھے وہاں کے لوگوں کو وہ احکام عمل کرنے کے لئے پہنچاتے جاتے تھے جو یروشلیم کے رَسولوں اور بزرگوں نے حاری کئے تھے۔
5 پَس کلیسیائیں ایمان میں مضبوط اور شمار میں روز بروز زیادہ ہوتی گئیں۔
6 اور وہ فروگیہ گلَتیہ کے علاقہ میں سے گزرے کیونکہ روح القدس نے انہیں آسیہ میں کلام سنانے سے منح کیا۔
7 اور انہوں نے موسیہ کے قریب پہنچ کر بتونیہ میں جانے کی کوشش کی مگر یسوع کے روح نے انہیں جانے نہ دیا
8 پَس وہ موسیہ سے گذر کر تروآس میں آئے۔
9 اور پولس نے رات کو رویا میں دیکھا کہ ایک مَکدنی آدمی کھڑا ہوا اس کی منّت کر کے کہتا ہے کہ پار اترکر مَکدنیہ میں آ اور ہماری مدد کر۔
10 اس کے رویا دیکھتے ہی ہم نے فوراً مَکدنیہ میں جانے کا ارادہ کیا کیونکہ ہم اس سے یہ سَمَجھتے کہ خدا نے انہیں خوشخَبری دینے کے لئے ہم کو بلایا ہے۔
11 پَس ترو آس سے جہاز پر روانہ ہو کر ہم سیدھے سمتراکے میں اور دوسرے دن نیاپلس میں آئے۔
12 اور وہاں سے فلپّی میں پہنچے جو مَکدنیہ کا شہر اور اس قسمت کا صدر اور رومیوں کی بستی ہے اور ہم چند روز اس شہر میں رہے۔
13 اور سَبت کے دن شہر کے دروازہ کے باہر ندی کے کنارے گئے جہاں سَمَجھتے کہ دعا کرنے کی جگہ ہو گی اور بَیٹھ کر ان عَورتوں سے جو اکٹھّی ہوئی تھیں کلام کرنے لگے۔
14 اور تھوار تیرہ شہر کی ایک خدا پرست عَورت لدیہ نام قرمر بیچنے والی بھی سنتی تھی۔ اس کا دل خداوند نے کھولا تاکہ پولس کی باتوں پر تَوَجّہ کرے۔
15 اور جب اس نے اپنے گھرانے سمیت بپتسمہ لے لیا تو منّت کر کے کہا کہ اگر تم مجھے خداوند کی ایماندار بندی سَمَجھتے ہو تو چل کر میرے گھر میں رہو۔ پَس اس نے ہمیں مجبور کیا۔
16 جب ہم دعا کرنے کی جگہ جا رہے تھے تو اَیسا ہوا کہ ہمیں ایک لَونڈی ملی جس میں غَیب دان روح تھی۔ وہ غَیب گوئی سے اپنے مالکوں کے لئے بہت کچھ کماتی تھی۔
17 وہ پولس کے اور ہمارے پیچھے آ کر چلانے لگی کہ یہ آدمی خدا تعالٰے کے بندے ہیں جو تمہیں نجات کی راہ بتاتے ہیں۔
18 وہ بہت دنوں تک اَیسا ہی کرتی رہی۔ آخر پولس سخت رنجیدہ ہوا اور پھر کر اس روح سے کہا کہ مَیں تجھے یسوع مسیح کے نام سے حکم دیتا ہوں کہ اس میں سے نکل جا۔ وہ اسی گھڑی نکل گئی۔
19 جب اس کے مالکوں نے دیکھا کہ ہماری کمائی کی امید جاتی رہی تو پولس اور سیلاس کو پکڑ کر حاکموں کے پاس چَوک میں کھینچ لے گئے۔
20 اور انہیں فَوجداری کے حاکموں کے آگے لے جا کر کہا کہ یہ آدمی جو یہودی ہیں ہمارے شہر میں بڑی کھلبلی ڈالتے ہیں۔
21 اور اَیسی رسمیں بتاتے ہیں جن کو قبول کرنا اور عمل میں لانا ہم رومیوں کو روا نہیں۔
22 اور عام لوگ بھی متّفق ہو کر ان کی مخالفت پر آمادہ ہوئے اور فَوجداری کے حاکموں نے ان کے کپڑے پھاڑ کر اتار ڈالے اور بینت لگانے کا حکم دیا۔
23 اور بہت سے بینت لگوا کر انہیں قَید خانہ میں ڈالا اور داروغہ کو تاکید کی بڑی ہوشیاری سے ان کی نگہبانی کرے۔
24 اس نے اَیسا حکم پا کر انہیں اَندر کے قَید خانہ میں ڈال دیا اور ان کے پاؤں کاٹھ میں ٹھونک دئے۔
25 آدھی رات کے قریب پولس اور سیلاس دعا کر رہے اور خدا کی حمد کے گیت گا رہے تھے اور قَیدی سن رہے تھے۔
26 کہ یکایک بڑا بھَونچال آیا۔ یہاں تک کہ قَید خانہ کی نیو ہل گئی اور اسی دم سب دروازے کھل گئے اور سب کی بیڑیاں کھل پڑیں۔
27 اور داروغہ جاگ اٹھا اور قَید خانہ کے دروازے کھلے دیکھ کر سَمَجھا کہ قَیدی بھاگ گئے۔ پَس تلوار کھینچ کر اپنے آپ کو مار ڈالنا چاہا۔
28 لیکن پولس نے بڑی آواز سے پکار کر کہا کہ اپنے تئیں نقصان نہ پہنچا کیونکہ ہم سب مَوجود ہیں۔
29 وہ چراغ منگوا کر اَندر جا کود اور کانپتا ہوا پولس اور سیلاس کے آگے گرا۔
30 اور انہیں باہر لا کر کہا اَے صاحبو! مَیں کیا کروں کہ نجات پاؤں ؟
31 انہوں نے کہا خداوند یسوع پر ایمان لا تو تو اور تیرا گھرانا نجات پائے گا۔
32 اور انہوں نے اس کو اور اس کے سب گھر والوں کو خداوند کا کلام سنایا۔
33 اور اس نے رات کو اسی گھڑی انہیں لے جا کر ان کے زخم دھوئے اور اسی وقت اپنے سب لوگوں سمیت بپتسمہ لیا۔
34 اور انہیں اوپر گھر میں لے جا کر دستر خوان بچھایا اور اپنے سارے گھرانے سمیت خدا پر ایمان لا کر بڑی خوشی کی۔
35 جب دن ہوا تو فوجداری کے حاکموں نے حوالداروں کی معرفت کہلا بھیجا کہ ان آدمیوں کو چھوڑ دے۔
36 اور داروغہ نے پولس کو اس بات کی خَبر دی کہ فَوجداری کے حاکموں نے تمہارے چھوڑ دینے کا حکم بھیج دیا۔ پَس اَب نکل کر سَلامت چلے جاؤ۔
37 مگر پولس نے ان سے کہا کہ انہوں نے ہم کو جو رومی ہیں قصور ثابت کئے بغَیر علانیہ پٹوا کر قَید میں ڈالا اور اَب ہم کو چپکے سے نکالتے ہیں ؟ یہ نہیں ہو سکتا بلکہ وہ آپ آ کر ہمیں باہر لے جائیں۔
38 حوالداروں نے فَوجداری کے حاکموں کو ان باتوں کی خَبر دی۔ جب انہوں نے سنا کہ یہ رومی ہیں تو ڈر گئے۔
39 اور آ کر ان کی منّت کی اور باہر لے جا کر دَرخواست کی کہ شہر سے چلے جائیں۔
40 پَس وہ قَید خانہ سے نکل کر لدیہ کے ہاں گئے اور بھائیوں سے مل کر انہیں تسلّی دی اور روانہ ہوئے۔
باب : 17
1پھر وہ امفپلس اور اَپلّونیہ ہو کر تھسّلنیکے میں آئے جہاں یہودیوں کا ایک عبادت خانہ تھا۔
2 اور پولس اپنے دستور کے موافق ان کے پاس گیا اور تین سبتوں کو کتاب مقدّس سے ان کے ساتھ بحث کی۔
3 اور اس کے معنی کھول کھول کر دلیلیں پیش کرتا تھا کہ مسیح کو دکھ اٹھانا اور مردوں میں سے جی اٹھنا ضرور تھا اور یہی یسوع جس کی مَیں تمہیں خَبر دیتا ہوں مسیح ہے۔
4 ان میں سے بعض نے مان لیا اور پولس اور سیلاس کے شریک ہوئے اور خدا پرست یونانیوں کی ایک بڑی جماعت اور بہتیری شریف عَورتیں بھی ان کی شریک ہوئیں۔
5 مگر یہودیوں نے حسد میں آ کر بازاری آدمیوں میں سے کئی بدمعاشوں کو اپنے ساتھ لیا اور بھیڑ لگا کر شہر میں فساد کرنے لگے اور یاسون کا گھر گھیر کر انہیں لوگوں کے سامنے لے آنا چاہا۔
6 اور جب انہیں نہ پایا تو یاسون اور کئی اَور بھائیوں کو شہر کے حاکموں کے پاس چلّاتے ہوئے کھینچ لے گئے کہ وہ شَخص جنہوں نے جہان کو باغی کر دیا یہاں بھی آئے ہیں۔
7 اور یاسون نے انہیں اپنے ہاں اتارا ہے اور یہ سب کے قیصر کے احکام کی مخالفت کر کے کہتے ہیں کہ بادشاہ تو اَور ہی ہے یعنی یسوع۔
8 یہ سن کر عام لوگ اور شہر کے حاکم گھبرا گئے۔
9 اور انہوں نے یاسون اور ماقیوں کی ضمانت لے کر انہیں چھوڑ دیا۔
10 لیکن بھائیوں نے فوراً راتوں رات پولس اور سیلاس کو بیریہّ میں بھیج دیا۔ وہ وہاں پہنچ کر یہودیوں کے عبادت خانہ میں گئے۔
11 یہ لوگ تھسّلنیکے کے یہودیوں سے نیک ذات تھے کیونکہ انہوں نے بڑے شوق سے کلام کو قبول کیا اور روز بروز کتاب مقدّس میں تحقیق کرتے تھے کہ آیا یہ باتیں اسی طرح ہیں۔
12 پَس ان میں سے بھی بہت سی عزّت دار عَورتیں اور مرد ایمان لائے۔
13 جب تھسّلنیکے کے یہودیوں کو معلوم ہوا کہ پولس بیریہّ میں بھی خدا کا کلام سناتا ہے تو وہاں بھی جا کر لوگوں کو ابھارا اور ان میں کھلبلی ڈالی۔
14 اس وقت بھائیوں نے فوراً پولس کو روانہ کیا کہ سمندر کے کنارے تک چلا جائے لیکن سیلاس اور تیمتھیس وہیں رہے۔
15 اور پولس کے رہبر اسے اتھینے تک لے گئے اور سیلاس اور تیمتھیس کے لئے یہ حکم لے کر روانہ ہوئے کہ جہاں تک ہوسکے جلد میرے پاس آؤ۔
16 جب پولس اتھینے میں ان کی راہ دیکھ رہا تھا تو شہر کو بتوں سے بھرا ہوا دیکھ کر اس کا جی جل گیا۔
17 اس لئے وہ عبادت خانہ میں یہودیوں اور خدا پرستوں سے اور چَوک میں جو ملتے تھے ان سے روز بحث کیا کرتا تھا۔
18 اور چند اپکوری اور ستوئیکی فیسوف اس کا مقابلہ کرنے لگے۔ بعض نے کہا کَہ یہ بکواسی کیا کہنا چاہتا ہے؟ اَوروں نے کہا یہ غیر معبودوں کی خَبر دینے والا معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ وہ یسوع اور قیامت کی خوشخَبری دیتا تھا۔
19 پَس وہ اسے اپنے ساتھ اریوپگس پر لے گئے اور کہا آیا ہم کو معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ نئی تعلیم جو تو دیتا ہے کیا ہے؟۔
20 کیونکہ تو ہمیں انوکھی باتیں سناتا ہے پَس ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ان سے غرض کیا ہے۔
21 (اس لئے کے سب اتھینوی اور پردیسی جو وہاں مقیم تھے اپنی فرصت کا وقت سنی سنی باتیں کہنے سننے کے سوا اور کسی کام میں صرف نہ کرتے تھے).
22 پولس نے اریو پگس کے بیچ میں کھڑے ہو کر کہا کہ اَے اتھینے والو! مَیں دیکھتا ہوں کہ تم ہر بات میں دیوتاؤں کے بڑے ماننے والے ہو۔
23 چنانچہ میں سیر کرتے اور تمہارے معبودوں پر غَور کرتے وقت ایک اَیسی قربان گاہ بھی پائی جس پر لکھا تھا کہ نا معلوم خدا کے لئے۔ پَس جس کو تم بغَیر معلوم کئے پوجتے ہو مَیں تم کو اسی کی خَبر دیتا ہوں۔
24 جس خدا نے دنیا اور اس کی سب چیزوں کو پَیدا کیا وہ آسمان اور زمین کا مالک ہو کر ہاتھ کے بنائے ہوئے مندروں میں نہیں رہتا۔
25 نہ کسی چیز کا محتاج ہو کر آدمیوں کے ہاتھوں سے خدمت لیتا ہے کیونکہ وہ تو خود سب کو زندگی اور سانس اور سب کچھ دیتا ہے۔
26 اور اس نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قَوم تمام ردی زمین پر رہنے کے لئے پَیدا کی اور ان کی میعادیں اور سکونت کی حدیں مقرر کیں۔
27 تاکہ خدا کو ڈھونڈیں۔ شاید کہ ٹٹول کر اسے پائیں ہر چند وہ ہم میں سے کسی سے دور نہیں۔
28 کیونکہ اسی میں ہم جیتے اور چلتے پھرتے اور مَوجود ہیں۔ جیَسا تمہارے شاعروں میں سے بھی بعض نے کہا ہے کہ ہم تو اس کی نسل بھی ہیں۔
29 پَس خدا کی نسل ہو کر ہم کو یہ خیال کرنا مناسب نہیں کہ ذات الہیٰ اس سونے یا روپے یا پتھّر کی مانند ہے جو آدمی کے ہنر اور ایجاد سے کھڑے گئے ہوں۔
30 پَس خدا جہالت کے وقتو سے چشم پوشی کر کے اَب سب آدمیوں کو ہر جگہ حکم دیتا ہے کہ تَوبہ کریں۔
31 کیونکہ اس نے ایک دن ٹھہرایا ہے جس میں وہ راستی سے دنیا کی عدالت اس آدمی کی معرفت کرے گا جسے اس نے مقرّر کیا ہے اور اسے مردوں میں سے جلا کر یہ بات سب پر ثابت کر دی ہے۔
32 جب انہوں نے نے مردوں کی قیامت کا ذکر سنا تو بعض ٹھٹھا مارنے لگے اور بعض نے کہا کہ یہ بات ہم تجھ سے پھر کبھی سنیں گے۔
33 اسی حالت میں پولس ان کے بیچ میں سے نکل گیا۔
34 مگر چند آدمی اس کے ساتھ مل گئے اور ایمان لے آئے۔ ان میں دیونسی یس اریوپگس کا ایک حاکم اور دَمَرس نام ایک عَورت تھی اور بعض اَور بھی ان کے ساتھ تھے۔
باب : 18
1ان ماتوں کے بعد پولس اتھینے سے روانہ ہو کر کرنتھس میں آیا۔
2 اور وہاں اس کو اَکولہ نام ایک یہودی ملا جو پنطس کی پَیدایش تھا اور اپنی بیوی پرسکلہ سمیت اطالیہ سے نیا نیا آیا تھا کیونکہ کلو دیس نے حکم دیا تھا کہ سب یہودی رومہ سے نکل جائیں۔ پَس ان کے پاس گیا۔
3 اور چونکہ ان کا ہم پیشہ تھا ان کے ساتھ رہا اور وہ کام کرنے لگے اور ان کا پیشہ خَیمہ دوزی تھا۔
4 اور وہ ہر سَبت کو عبادت خانہ میں بحث کرتا اور یہودیوں اور یونانیوں کو قائل کرتا تھا۔
5 اور جب سیلاس اور تمتھیئس مَکدنیہ سے آئے تو پولس کلام سنانے کے جوش سے مجبور ہو کر یہودیوں کے آگے گواہی دے رہا تھا کہ یسوع ہی مسیح ہے۔
6 جب لوگ مخالفت کرنے اور کفر بکنے لگے تو اس نے اپنے کپڑے جھاڑ کر ان سے کہا تمہارا خون تمہاری ہی گَردَن پر۔ مَیں پاک ہوں۔ اَب سے غَیر قَوموں کے پاس جاؤں گا۔
7 پَس وہاں سے چلا گیا اور ططس یوستیس نام ایک خدا پرست کے گھر کیا جو عبادت خانہ سے ملا ہوا تھا۔
8 اور عبادت خانہ کا سَردار کرسپس اپنے تمام گھرانے سمیت خداوند پر ایمان لایا اور بہت سے کرنتھی سن کر ایمان لائے اور بپتسمہ لیا۔
9 اور خداوند نے رات کو رویا میں پولس سے کہا خَوف نہ کر بلکہ کہے جا اور چپ نہ رہ۔
10 اس لئے کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور کوئی شَخص تجھ پر حملہ کر کے ضرر نہ پہنچا سکے گا کیونکہ اس شہر میں میرے بہت سے لوگ ہیں۔
11 پَس وہ ڈیڑھ برس ان میں رہ کر خدا کا کلام سکھاتا رہا۔
12 جب گلّیو اخَیہ کا صوبہ دار تھا یہودی ایکا کر کے پولس پر چڑھ آئے اور اسے عدالت میں لے جا کر۔
13 کہنے لگے کہ یہ شَخص لوگوں کو ترغیب دیتا ہے کہ شَریعَت کے بر خلاف خدا کی پرستش کریں۔
14 جب پولس نے بولنا چاہا تو گلیو نے یہودیوں سے کہا اَے یہودیو! اگر کچھ ظلم یا بڑی شرارت کی بات ہوتی تو واجب تھا کہ مَیں صبر کر کے تمہاری سنتا۔
15 لیکن جب یہ اَیسے سوال ہیں جو لفظوں اور ناموں اور خاص تمہاری شریعت سے علاقہ رکھتے ہیں تو تم ہی جانو۔ میں اَیسی باتوں کا مصنف بننا چاہتا۔
16 اور اس نے انہیں عدالت سے نکلوا دیا۔
17 پھر سب لوگوں نے عبادت خانہ کے سَردار سوستھنیس کو پکڑ کر عدالت کے سامنے مارا مگر گلیو نے ان باتوں کی کچھ پروانہ کی۔
18 پَس پولس بہت دن وہاں رہ کر بھائیوں سے رخصت ہوا اور چونکہ اس نے مَنّت مانی تھی۔ اس لئے کنخریسیہ میں سر منڈایا اور جہاز پر سوریہ کو روانہ ہوا اور پرسکّلہ اور اَکولہ اس کے ساتھ تھے۔
19 اور افس میں پہنچ کر اس نے انہیں وہاں چھوڑا اور آپ عبادت خانہ میں جا کر یہودیوں سے بحث کرنے لگا۔
20 جب انہوں نے اس سے دَرخواست کی کہ اَور کچھ عرصہ ہمارے ساتھ رہ تو اس نے منظور نہ کیا۔
21 بلکہ یہ کہہ کر ان سے رخصت ہوا کہ اگر خدا نے چاہا تو تمہارے پاس پھر آؤں گا افس سے جہاز پر روانہ ہوا۔
22 پھر قیصریہ میں اتر کر یروشلیم کو گیا اور کلیسیا کو سَلام کر کے انطاکیہ میں آیا۔
23 اور چند روز رہ کر وہاں سے روانہ ہوا اور ترتیب وار گلتیہ کے علاقہ اور فروگیہ سے گزرتا ہوا سب شاگردوں کو مضبوط کرتا گیا۔
24 پھر اپلّوس نام ایک یہودی اسکندریہ کی پَیدایش خوش تقریر اور کتاب مقدّس کا ماہر افس میں پہنچا۔
25 اس شَخص نے خداوند کی راہ کی تعلیم پائی تھی اور روحانی جوش سے کلام کرتا اور یسوع کی بابت صحیح صحیح تعلیم دیتا تھا مگر صرف یوحنّا کے بپتسمہ سے واقف تھا۔
26 وہ عبادت خانہ میں دلیری سے بولنے لگا مگر پرسکلّہ اور اَکولہ اس کی باتیں سن کر اسے اپنے گھر لے گئے اور اس کو خدا کی راہ اَور زیادہ صحت سے بتائی۔
27 جب اس نے ارادہ کیا کہ پار اتر کر اَخیہ کو جائے تو بھائیوں نے اس کی ہمّت بڑھا کر شاگردوں کو لکھا کہ اس سے اچھّی طرح ملنا۔ اس نے وہاں پہنچ کر ان لوگوں کی بڑی مدد کی جو فضل کے سبب سے ایمان لائے تھے۔
28 وہ کتاب مقدّس سے یسوع کا مسیح ہونا ثابت کر کے بڑے زور شور سے یہویوں کو علانیہ قائل کرتا رہا۔
باب : 19
1اور جب اپلوس کرنتھس میں تھا تو اَیسا ہوا کہ پولس اوپر کے علاقہ سے گزر کر افس میں آیا اور کئی شاگردوں کو دیکھ کر۔
2 ان سے کہا کیا تم ایمان لاتے وقت روح القدس پایا انہوں نے اس سے کہا کہ ہم نے تو سنا بھی نہیں کہ روح القدس نازل ہوا ہے۔
3 اس نے کہا یس تم نے کس کا بپتسمہ لیا ؟ انہوں نے کہا یوحنّا کا بپتسمہ۔
4 پولس نے کہا یوحنّا نے لوگوں کو یہ کہہ کر تَوبہ کا بپتسمہ دیا کہ جو میرے پیچھے آنے والا ہے اس پر یعنی یسوع پر ایمان لانا۔
5 انہوں نے یہ سن کر خداوند یسوع کے نام کا بپتسمہ لیا۔
6 جب پولس نے ان پر ہاتھ رکھّے تو روح القدس ان پر نازل ہوا اور وہ طرح طرح کی زبانیں بولنے اور نبّووت کرنے لگے۔
7 اور وہ تخمیناً مارہ آدمی تھے۔
8 پھر وہ عبادت خانہ میں جا کر تین مہینے تک دلیری سے بولتا اور خدا کی بادشاہی کی بابت بحث کرتا اور لوگوں کو قائل کرتا رہا۔
9 لیکن جب بعض سخت دل اور نافرمان ہو گئے بلکہ لوگوں کے سامنے اس طریق کو برا کہنے لگے تو اس نے ان سے کنارہ کر کے شاگردوں کو الگ کر لیا اور ہر روز ترنّس کے مدرسہ میں بحث کیا کرتا تھا۔
10 دو برس تک یہی ہوتا رہا۔ یہاں تک کے آسیہ کے رہنے والوں کیا یہودی کیا یونانی سب نے خداوند کا کلام سنا۔
11 اور خدا پولس کے ہاتھوں سے خاص خاص معجزے دکھاتا تھا۔
12 یہاں تک کے رومال اور پٹکے اس کے بَدَن سے چھوڑ کر بیماروں پر ڈالے جاتے تھے اور ان کی بیماریاں جاتی رہتی تھیں اور بری روحیں ان میں سے نکل جاتی تھیں۔
13 مگر بعض یہودیوں نے جو جھاڑ پھونک کرتے پھرتے تھے یہ اختیّار کیا کہ جن میں بری روحیں ہوں ان پر خداوند یسوع کا نام یہ کہہ کر پھونکیں کہ جس یسوع کی پولس منادی کرتا ہے مَیں تم کو اسی کی قَسم دیتا ہوں۔
14 اور سکوا یہودی سَردار کاہن کے سات بَیٹے اَیسا کیا کرتے تھے۔
15 بری روح نے جواب میں ان سے کہا کہ یسوع کو تو مَیں جانتی ہوں اور پولس سے بھی واقف ہوں مگر تم کون ہو؟
16 اور وہ شَخص جس پر بری روح تھی کود کر ان پر جا پڑا اور دونوں پر غالب آ کر اَیسی زیادتی کہ وہ ننگے اور زخمی ہو کر اس گھر سے نکل بھاگے۔
17 اور یہ بات افسس کے سب رہنے والے یہودیوں اور یونانیوں کو معلوم ہو گئی۔ پَس سب پر خَوف چھاگیا اور خداوند یسوع کے نام کی بزرگی ہوئی۔
18 جو ایمان لائے تھے ان میں سے بہتیرے نے آ کر اپنے اپنے کاموں کا اقرار اور اظہار کیا۔
19 اور بہت سے جادوگروں نے اپنی اپنی کتابیں اکٹھی کر کے سب لوگوں کے سامنے جلا دیں اور جب ان کی قیمت کا حساب ہوا تو پچاس ہزار روپے نکلیں۔
20 اسی طرح خدا کا کلام زور پکڑ کر پھَیلتا اور غالب ہوتا گیا۔
21 جب یہ ہو چکا تو پولسنے جی میں ٹھانا کہ مَکدنیہ اور اخیہ سے ہو کر یروشلیم کو جاؤں گا اور کہا کہ وہاں جانے کے بعد مجھے رومہ بھی دیکھنا ضرور ہے۔
22 پَس اپنے خدمت گزاروں میں سے دو شَخص یعنی تیمتھیس اور اراستس کو مَکدنیہ میں بھیج کر آپ کچھ عرصہ آسیہ میں رہا۔
23 اس وقت اس طریق کی بابت بڑا فساد اٹھا۔
24 کیونکر دیمیتریس نام ایک سنا تھا جو اَرتمس کے رو پہلے مندر بنوا کر اس پیشہ والوں کو بہت کام دلوا دیتا تھا۔
25 اس نے ان کو اور ان کے متعلق اَور پیشہ والوں کو جمع کر کے کہا اَے لوگو! تم جانتے ہو کہ ہماری آسودگی اسی کام کی بدَولت ہے
26 اور تم دیکھتے اور سنتے ہو کہ صرف افسس ہی میں نہیں بلکہ تقریباً تمام آسیہ میں اس پولس نے بہت سے لوگوں کو یہ کہہ کر قائل اور گمراہ کر دیا ہے کہ جو ہاتھ کے بنائے ہوئے ہیں وہ خدا نہیں ہیں۔
27 پَس صرف یہی خطرہ نہیں کہ ہمارا پیشہ بے قدر ہو جائے گا بلکہ بڑی دیوی اَرتمس کا مندر بھی نا چیز ہو جائے گا اور جسے تمام آسیہ اور ساری دنیا پوجتی ہے خود اس کی عظمت جاتی رہے گی۔
28 وہ یہ سن کر قہر سے بھر گئے اور چلّا چلّا کر کہنے لگے کہ افسیوں کی اَرتمس بڑی ہے۔
29 اور تمام شہر میں ہلچل پڑ گئی اور لوگوں نے گَیس اور اَرستر خس مَکدنیہ والوں کو جو پولس کے ہم سفر تھے پکڑ لیا اور ایک دل ہو کر تماشا گاہ کو دَوڑے۔
30 جب پولس نے مجمع میں جانا چاہا تو شاگردوں نے جانے نہ دیا۔
31 اور آسیہ کے حاکموں میں سے اس کے بعض دوستوں نے آدمی بھیج کر اس کی منّت کی کہ تماشہ گاہ میں جانے کی جرات نہ کرنا۔
32 اور بعض کچھ چلّائے اور بعض کچھ کیونکر مجلس درہم برہم ہو گئی تھی اور اکثر لوگوں کو یہ بھی خَبر نہ تھی کہ ہم کس لئے اکٹھے ہوئے ہیں۔
33 پھر انہوں نے اسکندر کو جسے یہودی پیش کرتے تھے بھیڑ میں سے نکال کر آگے کر دیا اور اسکندر نے ہاتھ سے اشارہ کر کے مجمع کے سامنے عذر بیان کرنا چاہا۔
34 جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ یہودی ہے تو سب ہم آواز ہو کر کوئی دو گھنٹے تک چلّاتے رہے کہ افسیوں کی اَرتمس بڑی ہے۔
35 پھر شہر کے محرّر نے لوگوں کو ٹھنڈا کر کے کہا اَے افسیوں کا شہر بڑی دیوی ارتمس کے مندر اور اس مورت کا محافظ ہے جوزیوس کی طرف سے گری تھی؟۔
36 پَس جب کوئی ان باتوں کے خلاف نہیں کہہ سکتا تو واجب ہے کے تم اطمینان سے رہو اور بے سوچے کچھ نہ کرو۔
37 کیونکہ یہ لوگ جن کو تم یہاں لائے ہو نہ مندر کو لوٹنے والے ہیں نہ ہماری دیوی کی بد گوئی کرنے والے۔
38 پَس اگردیمیتریس اور اس کے ہم پیشہ کسی پر دعویٰ رکھتے ہوں تو عدالت کھلی ہے اور صوبہ دار مَوجود ہیں۔ ایک دوسرے پر نالش کریں۔
39 اور اگر تم کسی اَور امر کی تحقیقات چاہتے ہو تو باضابطہ مجلس میں فَیصلہ ہو گا۔
40 کیونکہ آج کے بلوے کے سبب سے ہمیں اپنے اوپر نالش ہونے کا اندیشہ ہے اس لئے کہ اس کی کوئی وجہ نہیں ہے اور اس صورت میں ہم اس ہنگامہ کی جوابدہی نہ کرسیں گے۔
41 یہ کہہ کر اس نے مجلس کر برخاست کیا۔
باب : 20
1جب ہلّڑ مَوقوف ہو گیا تو پولس نے شاگردوں کو بلوا کر نصیحت کی اور ان سے رخصت ہو کر مَکدنیہ کو روانہ ہوا۔
2 اور اس علاقہ سے گزر کر اور انہیں بہت نصیحت کر کے یونان میں آیا۔
3 جب تین مہینے رہ کر سوریہ کی طرف جہاز پر روانہ ہونے کو تھا تو یہودیوں نے اس کے برخلاف سازش کی۔ پھر اس کی یہ صلاح ہوئی کہ مَکدنیہ ہو کر واپَس جائے۔
4 اور پرس کا بَیٹا سوپترس جو بیریہّ کا تھا اور تھسّلنیکیوں میں سے ارسترخس اور سکندس اور گیس جو دربے کا تھا اور تیمتھیس اور آسیہ کا تخکس ترفمس آسیہ تک اس کے ساتھ گئے۔
5 یہ آگے جا کر ترو آس میں ہماری راہ دیکھتے رہے۔
6 اور عید فطیر کے دنوں کے بعد ہم فلپّی سے جہاز پر روانہ ہو کر پانچ دن کے بعد تروآس میں ان کے پاس پہنچے اور سات دن وَہیں رہے۔
7 ہفتہ کے پہلے دن جب ہم روٹی توڑنے کے لئے جمع ہوئے تو پولس نے دوسرے دن روانہ ہونے کا ارادہ کر کے ان سے باتیں کیں اور آدھی رات تک کلام کرتا رہا۔
8 جس بالا خانہ پر ہم جمع تھے اس میں بہت سے چراغ جل رہے تھے۔
9 یوتخس نام ایک جوان کھڑکی میں بَیٹھا تھا۔ اس پر نیند کا بڑا غلبہ تھا اور جب پولس زیادہ دیر تک باتیں کرتا رہا تو وہ نیند کے غلبہ میں تیسری منزل سے گر پڑا اور اٹھایا گیا تو مردہ تھا۔
10 پولس اتر کر اس سے لپٹ گیا اور گلے لگا کر کہا گھبراؤ نہیں۔ اس میں جان ہے۔
11 پھر اپر جا کر روٹی توڑی اور کھا کر اتنی دیر تک ان سے باتیں کرتا رہا کہ پھٹ گئی۔ پھر وہ روانہ ہو گیا۔
12 اور وہ اس لڑکے کو جیتا لائے اور ان کی بڑی خاطر جمع ہوئی۔
13 ہم جہاز تک آگے جا کر اس ارادہ سے استس کو روانہ ہوئے کہ وہاں پہنچ کر پولس کو چڑھا لیں کیونکہ اس نے پَیدل جانے کا ارادہ کر کے یہی تجویز کی تھی۔
14 پَس جب استس میں ہمیں ملا تو ہم اسے چڑھا کر متلینے میں آئے۔
15 اور وہاں سے جہاز پر روانہ ہو کر دوسرے دن خیس کے سامنے پہنچے اور تیسرے دن سامس تک آئے اور اگلے دن میلیتس میں آ گئے۔
16 کیونکہ پولس نے ٹھان لیا تھا کہ افسس کے پاس سے گزرے اَیسا نہ ہو کہ اسے آسیہ میں دیر لگے۔ اس لئے کہ وہ جلدی کرتا تھا کہ اگر ہوسکے تو پنتیکست کے دن یروشلیم میں ہو۔
17 اور اس نے میلیتس سے افسس میں کہلا بھیجا اور کلیسیا کے بزرگوں کو بلایا۔
18 جب وہ اس کے پاس آئے تو ان سے کہا تم خود جانتے ہو کہ پہلے ہی دن سے کہ مَیں نے آسیہ میں قدم رکھّا ہر وقت تمہارے ساتھ کس طرح رہا۔
19 یعنی کمال فروتنی سے اور آنسو بہا بہا کر اور آزمائشوں میں جو یہودیوں کی سازش کے سبب سے مجھ پر واقع ہوئیں خداوند کی خدمت کرتا رہا۔
20 اور جو جو باتیں تمہارے فائدہ کی تھیں ان کے بیان کرنے اور علانیہ اور گھر گھر سکھانے سے کبھی نہ جھجکا۔
21 بلکہ یہودیوں اور یونانیوں کے رو برو گواہی دیتا رہا کہ خدا کے سامنے تَوبہ کرنا اور ہمارے خداوند یسوع مسیح پر ایمان لانا چاہئے۔
22 اور اَب دیکھو مَیں بندھا ہوا یروشلیم کو جاتا ہوں اور نہ معلوم کہ وہاں مجھ پر کیا کیا گزرے۔
23 سوا اس کے کہ روح القدس ہر شہر میں گواہی دے دے کر مجھ سے کہتا ہے کہ قَید اور مصیبتیں تیرے لئے تیّار ہیں۔
24 لیکن مَیں اپنی جان کو عزیز نہیں سَمَجھتا کہ اس کی کچھ قدر کروں بمقابلہ اس کے کہ اپنا دَور اور وہ خدمت جو خداوند یسوع سے پائی ہے پوری کروں یعنی خدا کے فضل کی خوشخَبری کی گواہی دوں۔
25 اور اَب دیکھو مَیں جانتا ہوں کہ تم سب جن کے درمیان مَیں بادشاہی کی منادی کرتا پھرا میرا منہ پھر نہ دیکھو گے۔
26 پَس مَیں آج کے دن تمہیں قطعی کہتا ہوں کہ سب آدمیوں کے خون سے پاک ہوں۔
27 کیونکہ مَیں خدا کی ساری مرضی تم سے پورے طَور پر بیان کرنے سے نہ جھجکا
28 پَس اپنی اور اس سارے گلّہ کی خَبرداری کرو جس کا روح القدس نے تہیں نگہبان ٹھہرایا تاکہ خدا کی کلیسیا کی گلّہ بانی کرو جسے اس نے خاص اپنے خون سے مول لیا۔
29 مَیں یہ جانتا ہوں کہ میرے جانے کے بعد پھاڑے والے بھیڑیئے تم میں آئیں گے جنہیں گلّہ پر کچھ ترس نہ آئے گا۔
30 اور خود تم میں سے اَیسے آدمی اٹھیں گے جو الٹی الٹی باتیں کہیں گے تاکہ شاگردوں کو اپنی طرف کھینچ لیں۔
31 اس لئے جاگتے رہو اور یاد رکھّو کہ مَیں تین برس تک رات دن آنسو بہا بہا کر ہر ایک کو سمجانے سے باز نہ آیا۔
32 اب مَیں تمہیں خدا اور اس کے فضل کے کلام کے سپرد کرتا ہوں جو تمہاری ترقّی کر سکتا ہے اور تمام مقدّسوں میں شریک کر کے میراث دے سکتا ہے۔
33 مَیں نے کسی کی چاندی یا سونے یا کپڑے کا لالچ نہیں کیا۔
34 تم آپ جانتے ہو کہ انہی ہاتھوں نے میری اور میرے ساتھیوں کی حاجتیں رفع کیں۔
35 مَیں نے تم کو سب باتیں کر کے دکھا دیں کہ اس طرح محنت کر کے کمزوروں کو سنبھالنا اور خداوند یسوع کی باتیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس نے خود کہا دینا لینے سے مبارک ہے۔
36 اس نے یہ کہہ کر گٹنے ٹیکے اور ان سب کے ساتھ دعا کی۔
37 اور وہ سب بہت روئے اور پولس کے گلے لگ لگ کر اس کے بوسے لئے۔
38 اور خاص کر اس بات پر غمگین تھے جو اس نے کہی تھی کہ تم پھر میرا منہ نہ دیکھو گے۔ پھر اسے جہاز تک پہنچایا۔
باب : 21
1اور جب ہم ان سے بمشکل جدا ہو کر جہاز پر روانہ ہوئے تو اَیسا ہوا کہ سیدھی راہ سے کوس میں آئے اور دوسرے دن ردس میں اور وہاں سے پترہ میں۔
2 پھر ایک جہاز سیدھا فینیکے کو جاتا ہوا ملا اور اس پر سوار ہو کر روانہ ہوئے۔
3 جب کپرس نظر آیا تو اسے بائیں ہاتھ چھوڑ کر سوریہ کو چلے اور صور میں اترے کیونکہ وہاں جہاز کا مال اتارنا تھا۔
4 جب شاگردوں کو تلاش کر لیا تو ہم سات روز وہاں رہے۔ انہوں نے روح کی معرفت پولس سے کہا کہ یروشلیم میں قدم نہ رکھنا۔
5 اور جب وہ دن گزر گئے تو اَیسا ہوا کہ ہم نکل کر روانہ ہوئے اور سب نے بیویوں اور بچّوں سمیت ہم کو شہر کے باہر تک پہنچایا۔ پھر ہم نے سمندر کے کنارے گھٹنے ٹیک کر دعا کی۔
6 اور ایک دوسرے سے وداع ہو کر ہم تو جہاز پر چڑھے اور وہ اپنے اپنے گھر واپَس چلے گئے۔
7 ہم صور سے جہاز کا سفر تمام کر کے پَتلَمیس میں پہنچے اور بھائیوں کو سَلام کیا اور ایک دن ان کے ساتھ رہے۔
8 دوسرے دن ہم روانہ ہو کر قیصریہ میں آئے اور فلپّس مبشر کے گھر جو ان ساتوں میں سے تھا اتر کر اس کے ساتھ رہے۔
9 اس کی چار کنواری بیٹیاں تھیں جو نبّوت کرتی تھیں۔
10 اور جب وہاں بہت روز رہے تو اگبس نام ایک نبی یہودیہ سے آیا۔
11 اس نے ہمارے پاس آ کر پولس کا کمر بند لیا اور اپنے ہاتھ پاؤں باندھ کر کہا روح القدس یوں فرماتا ہے کہ جس شَخص کا یہ کمر بند ہے اس کو یہودی یروشلیم میں اسی طرح باندھیں گے اور غَیر قَوموں کے ہاتھ میں حوالہ کریں گے۔
12 جب یہ سنا تو ہم نے اور وہاں کے لوگوں نے اس کی منّت کی کہ یروشلیم کو نہ جائے۔
13 مگر پولس نے جواب دیا کہ تم کیا کرتے ہو؟ کیوں رو روکر میرا دل توڑتے ہو؟ مَیں تو یروشلیم میں خداوند یسوع کے نام پر نہ صرف باندھے جانے بلکہ مرنے کو بھی تیّار ہوں۔
14 جب اس نے نہ مانا تو ہم یہ کہہ کر چپ ہو گئے کہ خداوند کی مرضی پوری ہو۔
15 ان دنوں کے بعد ہم اپنے سفر کا اسباب تیّار کر کے یروشلیم کو گئے۔
16 اور قیصریہ سے بھی بعض شاگرد ہمارے ساتھ چلے اور ایک قدیم شاگرد مَنَاسون کپڑی کو ساتھ لے آئے تاکہ ہم اس کے ہاں مہمان ہوں۔
17 جب یروشلیم میں پہنچے تو بھائی بڑی خوشی کے ساتھ ہم سے ملے۔
18 اور دوسرے دن پولس ہمارے ساتھ یَعقوب کے پاس گیا اور سب بزرگ وہاں حاضر تھے۔
19 اس نے انہیں سَلام کر کے جو کچھ خدا نے اس کی خدمت سے غَیر قَوموں میں کیا تھا مفّصل بیان کیا۔
20 انہوں نے یہ سن کر خدا کی تمجید کی۔ پھر اس سے کہا اَے بھائی تو دیکھا ہے کہ یہودیوں میں ہزارہا آدمی ایمان لے آئے ہیں اور وہ سب شَریعَت کے بارے میں سرگرم ہیں۔
21 اور ان کو تیرے بارے میں سکھا دیا گیا ہے کہ تو غَیر قَوموں میں رہنے والے سب یہودیوں کو یہ کہہ کر موسیٰ سے پھر جانے کی تعلیم دیتا ہے کہ نہ اپنے لڑکوں کا ختنہ کرو نہ موسوی رسموں پر چلو۔
22 پَس کیا کیا جائے؟ لوگ ضرور سنیں گے کہ تو آیا ہے۔
23 اس لئے جو ہم تجھ سے کہتے ہیں وہ کر۔ ہمارے ہاں چار آدمی اَیسے ہیں جنہوں نے مَنت مانی ہے۔
24 انہیں لے کر اپنے آپ کو ان کے ساتھ پاک کر اور ان کی طرف سے کچھ خرچ کرتا کہ وہ سر منڈائیں تو سب جان لیں گے کہ جو باتیں انہیں تیرے بارے میں سکھائی گئی ہیں ان کی کچھ اصل نہیں بلکہ تو خود بھی شَریعَت پر عمل کر کے درستی سے چلتا ہے۔
25 مگر غَیر قَوموں میں سے جو ایمان لائے ان کی بابت ہم نے یہ فَیصلہ کر کے لکھا تھا کہ وہ صرف بتوں کی قربانی کے گوشت سے اور لہو اور گلا گھونٹے ہوئے جانوروں اور حرامکاری سے اپنے آپ کو بَچائے رکھّیں۔
26 اس پر پولس ان آدمیوں کو لے کر اور دوسرے دن اپنے آپ کو ان کے ساتھ پاک کر کے ہَیکل میں داخل ہوا اور خَبر دی کہ جب تک ہم میں سے ہر ایک کی نذر نہ چڑھائی جائے تقدّس کے دن پورے کریں گے۔
27 جب وہ سات دن پورے ہونے کو تھے تو آسیہ کے یہودیوں نے اسے ہَیکل میں دیکھ کر سب لوگوں میں ہلچل مچائی اور یوں چلّا کر اس کو پکڑلیا۔
28 کہ اَے اسرئیلیوا مدد کرو۔ یہ وہی آدمی ہے جو ہر جگہ سب آدمیوں کو امّت اور شَریعَت اور اس مقام کے خلاف تعلیم دیتا ہے بلکہ اس نے یونانیوں کو بھی ہَیکل میں لا کر اس پاک مقام کو ناپاک کیا ہے۔
29 کیونکہ انہوں نے اس سے پہلے ترفمس افسی کو اس کے ساتھ شہر میں دیکھا تھا۔ اسی کی بابت انہوں نے خیال کیا کہ پولس اسے ہَیکل میں لے آیا ہے۔
30 اور تمام شہر میں ہلچل پڑ گئی اور لوگ دَوڑ کر جمع ہوئے اور پولس کو پکڑ کر ہَیکل سے باہر گھسیٹ کر لے گئے اور فوراً دروازے بند کر لئے گئے۔
31 جب وہ اسے قتل کرنا چاہتے تھے تو اوپر پلٹن کے سَردار کے پاس خَبر پہنچی کہ تمام یروشلیم میں کھلبلی پڑ گئی ہے۔
32 وہ اسی دم سپاہیوں اور صوبہ داروں کولے کر ان کے پاس نیچے دَوڑا آیا اور وہ پلٹن کے سَردار اور سپاہیوں کو دیکھ کر پولس کی مار پیٹ سے باز آئے۔
33 اس پر پلٹن کے سَردار نے نزدیک آ کر اسے گرفتار کیا اور دو زنجیروں سے باندھنے کا حکم دے کر پوچھنے لگا کہ یہ کَون ہے اور اس نے کیا کیا ہے؟۔
34 بھیڑ میں سے بعض کچھ چلائے اور بعض کچھ۔ پَس جب ہلّڑ کے سبب سے کچھ حقیقت دریافت نہ کرسکا تو حکم دیا کہ اسے قلعہ میں لے جاؤ۔
35 جب سیڑھیوں پر پہنچا تو بھیڑ کی زبردستی کے سبب سے سپاہیوں کو اسے اٹھا کر لے جانا پڑا۔
36 کیونکہ لوگوں کی بھیڑ یہ چلاتی ہوئی اس کے پیچھے پڑی کہ اس کا کام تمام کر۔
37 اور جب پولس کو قلعہ کے اَندر لے جانے کو تھے تو اس نے پلٹن کے سَردار سے کہا کیا مجھے اجازت ہے کہ تجھ سے کچھ کہوں؟ اس نے کہا تو یونانی جانتا ہے؟۔
38 کیا تو وہ مصری نہیں جو اس سے پہلے غازیوں میں سے چار ہزار آدمیوں کو باغی کر کے جنگل میں لے گیا؟۔
39 پولس نے کہا مَیں یہودی آدمی کلکیہ کے مشہور شہر ترسس کا باشندہ ہوں مَیں تیری منّت کرتا ہوں کہ مجھے لوگوں سے بولنے کی اجازت دے۔
40 جب اس نے اسے اجازت دی تو پولس نے سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کو ہاتھ سے اشارہ کیا۔ جب وہ چپ چاپ ہو گئے تو عبرانی زبان میں یوں کہنے لگا کہ۔
باب : 22
1اَے بھائیو اور بزرگو! میرا عذر سنو جو اَب تم سے بیان کرتا ہوں۔
2 جب انہوں نے سنا کہ ہم سے عبرانی زبان میں بولتا ہے تو اَور بھی چپ چاپ ہو گئے۔ پَس اس نے کہا۔
3 مَیں یہودی ہوں اور کلکیہ کے شہر تَرسس میں پَیدا ہوا مگر میری تربیت اس شہر میں گملی ایل کے قدموں میں ہوئی اور مَیں نے باپ دادا کی شَریعَت کی خاص پابندی کی تعلیم پائی اور خدا کی راہ میں اَیسا سرگرم تھا جَیسے تم سب آج کے دن ہو۔
4 چنانچہ مَیں نے مردوں اور عَورتوں کو باندھ باندھ کر اور قَید خانہ میں ڈال ڈال کر مسیحی طریق والوں کو یہاں تک ستایا کہ مروا میں ڈالا۔
5 چنانچہ سَردار کاہن اور سب بزرگ میرے گواہ ہیں کہ ان سے مَیں بھائیوں کے نام خط لے کر دمشق کو روانہ ہوا تاکہ جتنے وہاں ہوں انہیں بھی باندھ کر یروشلیم میں سزا دلانے کو لاؤں۔
6 جب مَیں سفر کرتا کرتا دمشق کے نزدیک پہنچا تو اَیسا ہوا کہ دوپہر کے قریب یکایک ایک بڑا نور آسمان سے میرے گردا گرد آ چمکا۔
7 اور مَیں زمین پر گر پڑا اور یہ آواز سنی کہ اَے ساؤل اَے ساؤل! تو مجھے کیوں ستاتا ہے؟۔
8 میں نے یہ جواب دیا کہ اَے خداوند! تو کَون ہے ؟ اس نے مجھ سے کہا مَیں یسوع ناصری ہوں جسے تو ستاتا ہے؟
9 اور میرے ساتھیوں نے نور دیکھا لیکن جو مجھ سے بولتا تھا اس کی آواز نہ سنی۔
10 مَیں نے کہا اَے خداوند مَیں کیا کروں ؟ خداوند نے مجھ سے کہا اٹھ کر دمشق میں جا۔ جو کچھ تیرے کرنے کے لئے مقرّر ہوا ہے وہاں تجھ سے سب کہا جائے گا۔
11 جب مجھے اس نور کے جلال کے سبب سے کچھ دکھائی نہ دیا تو میرے ساتھی میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے دمشق میں لے گئے۔
12 اور حننیاہ نام ایک شَخص جو شَریعَت کے موافق دیندار اور وہاں کے سب رہنے والے یہودیوں کے نزدیک نیکنام تھا۔
13 میرے پاس آیا اور کھڑے ہو کر مجھ سے کہا بھائی ساؤل پھر بینا ہو! اسی گھڑی بینا ہو کر مَیں نے اس کو دیکھا۔
14 اس نے کہا ہمارے باپ دادا کے خدا نے تجھ کو اس لئے مقرّر کیا ہے کہ تو اس کی مرضی کو جانے اور اس راستباز کو دیکھے اور اس کے منہ کی آواز سنے۔
15 کیونکہ تو اس کی طرف سے سب آدمیوں کے سامنے ان باتوں کا گواہ ہو گا جو تو نے دیکھی اور سنی ہیں۔
16 اب کیوں دیر کرتا ہے؟ اٹھ بپتسمہ لے اور اس کا نام لے کر اپنے گناہوں کو دھو ڈال۔
17 جب مَیں پھر یروشلیم میں آ کر ہَیکل میں دعا کر رہا تھا تو اَیسا ہوا کہ مَیں بے خود ہو گیا۔
18 اور اس کو دیکھا کہ مجھ سے کہتا ہے جلدی کر اور فوراً یروشلیم سے نکل جا کیونکہ وہ میرے حق میں تیری گواہی قبول نہ کریں گے۔
19 مَیں نے کہا اَے خداوند! وہ خود جانتے ہیں کہ جو تجھ پر ایمان لائے مَیں ان کو قَید کراتا اور جا بجا عبادت خانوں میں پٹواتا تھا۔
20 اور جب تیرے شہید ستفَنس کا خون بہایا جاتا تھا تو مَیں بھی وہاں کھڑا تھا اور اس کے قتل پر راضی تھا اور اس کے قاتلوں کے کپڑوں کی حفاظت کرتا تھا۔
21 اس نے مجھ سے کہا جا۔ مَیں تجھے غَیر قَوموں کے پاس دور دور بھیجوں گا۔
22 وہ اس بات تک تو اس کی سنتے رہے۔ پھر بلند آواز سے چلّائے کہ اَیسے شَخص کو زمین پر سے فنا کر دے! اس کا زندہ رہنا مناسب نہیں۔
23 جب وہ چلّاتے اور اپنے کپڑے پھینکتے اور خاک اڑاتے تھے۔
24 تو پلٹن کے سَردار نے حکم دے کر کہا کہ اسے قلعہ میں لے جاؤ اور کوڑے مارکر اس کا اظہار لو تاکہ مجھے معلوم ہو کہ وہ کس سبب سے اس کی مخالفت میں یوں چلّاتے ہیں۔
25 جب انہوں نے تسموں سے باندھ لیا تو پولس نے اس صوبہ دار سے جو پاس کھڑا تھا کہا کیا تمہیں روا ہے کہ ایک رومی آدمی کو کوڑے مارو اور وہ بھی قصور ثابت کئے بغَیر؟۔
26 صوبہ دار یہ سن کر پلٹن کے سَردار کے پاس گیا اور اسے خَبر دے کر کہا تو کیا کرتا ہے؟ یہ تو رومی آدمی ہے۔
27 پلٹن کے سَردار نے اس کے پاس آ کر کہا مجھے بتا تو۔ کیا تو رومی ہے؟ اس نے کہا ہاں۔
28 پلٹن کے سَردار نے جواب دیا کہ مَیں نے بڑی رقم دے کر رومی ہونے کا رتبہ حاصل کیا۔ پولس نے کہا مَیں تو پَیدایشی ہوں۔
29 پَس جو اس کا اظہار لینے کو تھے فوراً اس سے الگ ہو گئے اور پلٹن کا سَردار بھی یہ معلوم کر کے ڈرگیا کہ جس کو مَیں نے باندھا ہے وہ رومی ہے۔
30 صبح کو یہ حقیقت معلوم کرنے کے ارادہ سے کہ یہودی اس پر کیا الزام لگاتے ہیں اس نے اس کو کھول دیا اور سَردار کاہن اور سب صدر عدالت والوں کو جمع ہونے کا حکم دیا اور پولس کو نیچے لیجا کر ان کے سامنے کھڑا کر دیا۔
باب : 23
1پولس نے صدر عدالت والوں کو غَور سے دیکھ کر کہا اَے بھائیو! مَیں نے آج تک کمال نیک نیتّی سے خدا کے واسطے عمر گزاری ہے۔
2 سَردار کاہن حننیاہ نے ان کو جو اس کے پاس کھڑے تھے حکم دیا کہ اس کے منہ پر طمانچہ مارو۔
3 پولس نے اس سے کہا کہ اَے سفیدی پھری ہوئی دیوار! خدا تجھے مارے گا۔ تو شَریعَت کے موافق میرا انصاف کرنے کو بَیٹھا ہے اور کیا شَریعَت کے برخلاف مجھے مارنے کا حکم دیتا ہے۔
4 جو پاس کھڑے تھے انہوں نے کہا کیا تو خدا کے سَردار کاہن کو برا کہتا ہے؟۔
5 پولس نے کہا اَے بھائیو! مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ سَردار کاہن ہے کیونکہ لکھا ہے کہ اپنی قَوم کے سَردار کو برا نہ کہہ۔
6 جب پولس نے یہ معلوم کیا کہ بعض صدوقی ہیں بعض فریسی تو عدالت میں پکار کر کہا کہ اَے بھائیو! مَیں فریسی اور فریسیوں کی اَولاد ہوں۔ مردوں کی امید اور قیامت کے بارے میں مجھ پر مقدّمہ ہو رہا ہے۔
7 جب اس نے یہ کہا تو فریسیوں اور صدوقیوں میں تکرار ہوئی اور حاضرین میں پھوٹ پڑ گئی۔
8 کیونکہ صدوقی تو کہتے ہیں کہ نہ قیامت ہو گی نہ کوئی فرشتہ ہے نہ روح مگر فریسی دونوں کا اقرار کرتے ہیں۔
9 پَس بڑا شور ہوا اور فریسیوں کے فرقہ کے بعض فقیہ اٹھے اور یوں کہہ کر جھگڑنے لگے کہ ہم اس آدمی میں کچھ برائی نہیں پاتے اور اگر کسی روح یا فرشتہ نے اس سے کلام کیا ہو تو پھر کیا ؟۔
10 اور جب بڑی تکرار ہوئی تو پلٹن کے سَردار نے اس خَوف سے کہ مبادا پولس کے ٹکڑے کر دئے جائیں فَوج کا حکم دیا کہ اتر کر اسے ان میں سے زبردستی نکالو اور قلعہ میں لے آؤ۔
11 اسی رات خداوند اس کے پاس آ کھڑا ہوا اور کہا خاطر جمع رکھ کہ جَیسے تو نے میری بابت یروشلیم میں گواہی دی ہے وَیسے ہی تجھے رومہ میں بھی گواہی دینا ہو گا۔
12 جب دن ہوا تو یہودیوں نے ایکا کر کے اور لعنت کی قَسم کھا کر کہا کہ جب تک ہم پولس کو قتل نہ کر لیں نہ کچھ کھائیں گے نہ پئیں گے۔
13 اور جنہوں نے آپس میں یہ سازش کی وہ چالیس سے زیادہ تھے۔
14 پَس انہوں نے سَردار کاہنوں اور بزرگوں کے پاس جا کر کہا کہ ہم نے سخت لعنت کی قَسم کھائی ہے کہ جب تک پولس کو قتل نہ کر لیں کچھ نہ چکھّیں گے۔
15 پَس اَب تم صدر عدالت والوں سے مل کر پلٹن کے سَردار سے عرض کرو کہ اسے تمہارے پاس لائے۔ گویا تم اس کے معاملہ کی حقیقت زیادہ دریافت کرنا چاہتے ہو اور ہم اس کے پہنچنے سے پہلے اسے مار ڈالنے کو تیّار ہیں۔
16 لیکن پولس کا بھانجا ان کی گھات کا حال سن کر آیا اور قلعہ میں جا کر پولس کو خَبر دی۔
17 پولس نے صوبہ داروں میں سے ایک کو بلا کر کہا اس جوان کو پلٹن کے سَردار کے پاس لے جا۔ یہ اس سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔
18 پَس اس نے اس کو پلٹن کے سَردار کے پاس لے جا کر کہا کہ پولس قَیدی نے مجھے بلا کر دَرخواست کی کہ اس جوان کو تیرے پاس لاؤں کہ تجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔
19 پلٹن کے سَردار نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اور الگ جا کر پوچھا کہ مجھ سے کیا کہنا چاہتا ہے؟۔
20 اس نے کہا یہودیوں نے ایکا کیا ہے کہ تجھ سے دَرخواست کریں کہ کل پولس کو صدر عدالت میں لائے۔ گویا تو اس کے حال کی اَور بھی تحقیقات کرنا چاہتا ہے۔
21 لیکن تو ان کی نہ ماننا کیونکہ ان میں چالیس شَخص سے زیادہ اس کی گھات میں ہیں جنہوں نے لعنت کی قَسم کھائی ہے کہ جب تک اسے مار نہ ڈالیں نہ کھائیں گے نہ پئیں گے اور اَب وہ تیّار ہیں۔ صرف تیرے وعدہ کا انتظار ہے۔
22 پَس سَردار نے جوان کو یہ حکم دے کر رخصت کیا کہ کسی سے نہ کہنا کہ تو نے مجھ پر یہ ظاہر کیا۔
23 اور وہ صوبہ داروں کو پاس بلا کر کہا کہ دوسَو سپاہی اور ستّر سوار اور دو سَو نیزہ بردار پہر رات گئے قیصریہ جانے کو تیّار کر رکھنا۔
24 اور حکم دیا کہ پولس کی سواری کے لئے جانوروں کو بھی حاضر کریں تاکہ اسے فیلکس حاکم کے پاس صحیح سَلامت پہنچا دیں۔
25 اور اس مضمون کا خط لکھا۔
26 کلودیس لوسیاس کا فیلکس بہادر حاکم کو سَلام۔
27 اس شَخص کو یہودیوں نے پکڑ کر مار ڈالنا چاہا مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ رومی ہے تو فَوج سمیت چڑھ گیا اور چھڑایا لایا۔
28 اور اس بات کے دریافت کرنے کا ارادہ کر کے کہ وہ کس سبب سے اس پر نالش کرتے ہیں اسے ان کی صدر عدالت میں لے گیا۔
29 اور معلوم ہوا کہ وہ اپنی شَریعَت کے مسئلوں کی بابت اس پر نالش کرتے ہیں لیکن اس پر کوئی اَیسا الزام نہیں لگایا گیا کہ قتل یا قَید کے لائق ہو۔
30 اور جب مجھے اطلاع ہوئی کہ اس شَخص کے برخلاف سازش ہونے والی ہے تو مَیں نے اسے فوراً تیرے پاس بھیج دیا ہے اور اس کے مدّعیوں کو بھی حکم دے دیا ہے کہ تیرے سامنے اس پر دعویٰ کریں۔
31 پَس سپاہیوں نے حکم کے موافق پولس کو لے کر راتوں رات انتتیپترس میں پہنچا دیا۔
32 اور دوسرے دن سواروں کو اس کے ساتھ جانے کے لئے چھوڑ کر آپ قلعہ کو پھرے۔
33 انہوں نے قَیصریہ میں پہنچ کر حاکم کو خط دے دیا اور پولس کو بھی اس کے آگے حاضر کیا۔
34 اس نے خط پڑھ کر پوچھا کہ یہ کس صوبہ کا ہے؟ اور یہ معلوم کر کے کہ کلکیہ کا ہے۔
35 اس سے کہا کہ جب تیرے مدّعی بھی حاضر ہوں گے تو مَیں تیرا مقدّمہ کروں گا اور اسے ہیرودیس کے قلعہ میں قَید رکھنے کا حکم دیا۔
باب : 24
1پانچ دن کے بعد حننیاہ سَردار کاہن بعض بزرگوں اور ترطلس نام ایک وکیل کو ساتھ لے کر وہاں آیا اور انہوں نے حاکم کے سامنے پولس کے خلاف فریاد کی۔
2 جب وہ بلایا گیا ترطلس الزام لگا کر کہنے لگا کہ اَے فیلکس بہادر! چونکہ تیرے وسیلہ سے ہم بڑے امن میں ہیں اور تیری دور اندیشی سے اس قَوم کے فائدہ کے لئے خرابیوں کی اصلاح ہوتی ہے۔
3 ہم ہر طرح اور ہر جگہ کمال شکر گزاری کے ساتھ تیرا احسان مانتے ہیں۔
4 مگر اس لئے کہ تجھے زیادہ تکلیف نہ دوں مَیں تیری منَت کرتا ہوں کہ تو مہربانی سے ہماری دو ایک باتیں سن لے۔
5 کیونکہ ہم نے اس شَخص کو مفسد اور دنیا کے سب یہودیوں میں فتنہ انگیز اور ناصریوں کے بدعتی فرقہ کاسرگر وہ پایا۔
6 اس نے ہَیکل کو ناپاک کرنے کی کوشش کی تھی اور ہم نے اسے پکڑا [اور ہم نے چاہا کہ اپنی شَریعَت کے موافق اس کی عدالت کریں۔
7 لیکن لوسیاس سرادر آ کر بڑی زبردستی سے اسے ہمارے ہاتھ سے چھین لے گیا۔
8 اور اس کے مدّعیوں کو حکم دیا کہ تیرے پاس جائیں] اسی سے تحقیق کر کے تو آپ ان سب باتوں کو دریافت کر سکتا ہے جن کا ہم اس پر الزام لگاتے ہیں۔
9 اور یہودیوں نے بھی اس دعویٰ میں متفق ہو کر کہا کہ یہ باتیں اسی طرح ہیں۔
10 جب حاکم نے پولس کو بولنے کا اشارہ کیا تو اس نے جواب دیا چونکہ مَیں ہوں کہ تو بہت برسوں سے اس قَوم کی عدالت کرتا ہے اس لئے میں خاطر جمعی سے اپنا عذر بیان کرتا ہوں۔
11 تو دریافت کر سکتا ہے کہ بارہ دن سے زیادہ نہیں ہوئے کہ مَیں یروشلیم میں عبادت کرنے گیا تھا۔
12 اور انہوں نے مجھے نہ ہَیکل میں کسی کے ساتھ بحث کرتے یا لوگوں میں فساد اٹھاتے پایا عبادت خانوں میں نہ شہر میں۔
13 اور نہ وہ ان باتوں جن کا مجھ پر اَب الزام لگاتے ہیں تیرے سامنے ثابت کرسکتے ہیں۔
14 لیکن تیرے سامنے یہ اقرار کرتا ہوں کہ جس طریق کو وہ بدعت کہتے ہیں اسی کے مطابق مَیں اپنے باپ دادا کے خدا کی عبادت کرتا ہوں اور جو کچھ توریت اور نبیوں کے صحیفوں میں لکھا ہے اس سب پر میرا ایمان ہے۔
15 اور خدا سے اسی بات کی امید رکھتا ہوں جس کے وہ خود بھی منتظر ہیں کہ راستبازوں اور ناراستوں دونوں کی قیامت ہو گی۔
16 اسی لئے مَیں خود بھی کوشش میں رہتا ہوں کہ خدا اور آدمیوں کے باب میں میرا دل مجھے کبھی ملامت نہ کرے۔
17 بہت برسوں کے بعد مَیں اپنی قَوم کو خَیرات پہنچانے اور نذریں چڑھانے آیا تھا۔
18 انہوں نے بغَیر ہنگامہ یا بلوے کے مجھے طہارت کی حالت میں یہ کام کرتے ہوئے ہَیکل میں پایا۔ ہاں آسیہ کے چند یہودی تھے۔
19 اور اگر ان کا مجھ پر کچھ دعویٰ تھا تو انہیں تیرے سامنے حاضر ہو کر فریاد کرنا واجب تھا۔
20 یا یہی خود کہیں کہ جب مَیں صدر عدالت کے سامنے کھڑا تھا تو مجھ میں کیا برائی پائی تھی۔
21 سوا اس ایک بات کے کہ مَیں نے ان میں کھڑے ہو کر بلند آواز سے کہا تھا کہ مردوں کی قیامت کے بارے میں آج مجھ پر تمہارے سامنے مقدّمہ ہو رہا ہے۔
22 فیلکس نے جو صحیح طَور پر اس طریق سے واقف تھا یہ کہہ کر مقدّمہ کو ملتوی کر دیا کہ جب پلٹن کا سَردار لوسیاس آئے گا تو مَیں تمہارا مقدّمہ فَیصل کروں گا۔
23 اور صوبہ دار کو حکم دیا کہ اس کو قَید تو رکھ مگر آرام سے رکھنا اور اس کے دوستوں میں سے کسی کو اس کی خدمت کرنے سے منع نہ کرنا۔
24 اور چند روز کے بعد فیلکس اپنی بیوی دروسلّہ کو جو یہودی تھی ساتھ لے کر آیا اور پولس کو بلوا کر اس سے مسیح یسوع کے دین کی کَیفیت سنی۔
25 اور جب وہ راست بازی اور پ ہیز گاری اور آیندہ عدالت کا بیان کر رہا تھا تو فیلکس نے دہشت کھا کر جواب دیا کہ اس وقت تو جا۔ فرصت پا کر تجھے پھر بلاؤں گا۔
26 اسے پولس سے کچھ روپے ملنے کی امید بھی تھی اس لئے اسے اَور بھی بلا بلا کر اس کے ساتھ گفتگو کیا کرتا تھا۔
27 لیکن جب دو برس گزر گئے تو پرکیس فیستس کی جگہ مقرّر ہوا اور فیلکس یہودیوں کو اپنا احسان مند کرنے کی غرض سے پولس کو قَید ہی میں چھوڑ گیا۔
باب : 25
1یروشلیم کو گیا۔
2 اور سَردار کاہنوں اور یہودیوں کے رئیسوں نے اس کے ہاں پولس کے خلاف فریاد کی۔
3 اور اس کی مخالفت میں یہ رعایت چاہی کہ وہ اسے یروشلیم میں بلا بھیجے اور گھات میں تھے کہ اسے راہ میں مار ڈالیں۔
4 مگر فیستس نے جواب دیا کہ پولس تو قَیصریہ میں قَید ہے اور مَیں آپ جلد وہاں جاؤں گا۔
5 پَس تم میں سے جو اختیّار والے ہیں وہ ساتھ چلیں اور اگر اس شَخص میں کچھ بیجا بات ہو تو اس کی فریاد کریں۔
6 وہ ان میں آٹھ دس دن رہ کر قَیصریہ کو گیا اور دوسرے دن تخت عدالت پر بَیٹھ کر پولس کے لانے کا حکم دیا۔
7 جب وہ حاضر ہوا تو جو یہودی یروشلیم سے آئے تھے وہ اس کے آس پاس کھڑے ہو کر اس پر بہتیرے سخت الزام لگانے لگے مگر ان کو ثابت نہ کرسکے۔
8 لیکن پولس نے یہ عزر کیا کہ مَیں نے نہ تو کچھ یہودیوں کی شَریعَت کا گناہ کیا ہے نہ ہَیکل کا نہ قَیصریہ کا۔
9 مگر فیستس نے یہودیوں کو اپنا احسان مند بنانے کی غرض سے پولس کو جواب دیا کیا تجھے یروشلیم جانا منظور ہے کہ تیرا یہ مقدّمہ وہاں میرے سامنے فیَصل ہو؟۔
10 پولس نے کہا مَیں قَیصر کے تخت عدالت کے سامنے کھڑا ہوں۔ میرا مقدّمہ یہیں فَیصل ہونا چاہئے۔ یہودیوں کا مَیں نے کچھ قصور نہیں کیا۔ چنانچہ تو بھی خوب جانتا ہے۔
11 اگر بدکار ہوں یا مَیں نے قتل کے لائق کوئی کام کیا ہے تو مجھے مرنے سے انکار نہیں لیکن جن باتوں کا وہ مجھ پر الزام لگاتے ہیں اگر ان کی کچھ اصل نہیں تو ان کی رعایت سے کوئی مجھ کو ان کے حوالہ نہیں کر سکتا۔ مَیں قَیصر کے ہاں اپیل کرتا ہوں۔
12 پھر فیستس نے صلاح کاروں سے مصلحت کر کے جواب دیا کہ تو نے قَیصر کے ہاں اپیل کی ہے تو قَیصر ہی کے پاس جائے گا۔
13 اور کچھ دن گزر نے کے بعد اگرپّا بادشاہ اور برنیکے نے قیصریہ میں آ کر فیستس سے ملاقات کی۔
14 اور ان کے کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد فیستس نے پولس کے مقدّمہ کا حال بادشاہ سے کہہ کر بیان کیا کہ ایک شَخص کو فیلکس قَید میں چھوڑ گیا ہے۔
15 جب میں یروشلیم میں تھا تو سَردار کاہنوں اور یہودیوں کے بزرگوں نے اس کے خلاف فریاد کی اور سزا کے حکم کی دَرخواست کی۔
16 ان کو میں نے جواب دیا کہ رومیوں کا یہ دستور نہیں کہ کسی آدمی کو رعایتہً سزا کے لئے حوالہ کریں جب تک کہ مدّعا علَیہ کو اپنے مدعیوں کے روبرو ہو کر دعویٰ کے جواب دینے کا مَوقع نہ ملے۔
17 پَس جب وہ یہاں جمع ہوئے تو مَیں نے کچھ دیر نہ کی بلکہ دوسرے ہی دن تخت عدالت پر بَیٹھ کر اس آدمی کو لانے کا حکم دیا۔
18 مگر جب اس کے مدّعی کھڑے ہوئے تو جن برائیوں کا مجھے گمان تھا ان میں سے انہوں نے کسی کا الزام اس پر نہ لگایا۔
19 بلکہ اپنے دین اور کسی شَخص یسوع کی بابت اس سے بحث کرتے تھے جو مرگیا تھا اور پولس اس کو زندہ بتاتا ہے۔
20 چونکہ مَیں ان باتوں کی تحقیقات کی بابت الجھن میں تھا اس لئے اس سے پوچھا کیا تو یروشلیم میں جانے کو راضی ہے کہ وہاں ان باتوں کا فَیصلہ ہو؟
21 مگر جب پولس نے اپیل کی کہ میرا مقدّمہ شہنشاہ کی عدالت میں فَیصل ہو تو مَیں نے حکم دیا کہ جب تک اسے قَیصر کے پاس نہ بھیجوں وہ قَید رہے۔
22 اگرپّا نے فیستس سے کہا مَیں بھی اس آدمی کی سننا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا کہ توکل سن لے گا۔
23 پَس دوسرے دن جب اگرپّا اور برنیکے بڑی شان و شوکت سے پلٹن کے سَرداروں اور شہر کے رئیسوں کے ساتھ دیوان خانہ میں داخل ہوئے تو فیستس کے حکم سے پولس حاضر کیا گیا۔
24 پھر فیستس نے کہا اَے اگرپّا بادشاہ اور اَے سب حاضرین تم اس شَخص کو دیکھتے ہو جس کی بابت یہودیوں کی ساری گروہ نے یروشلیم میں اور یہاں بھی چلّا چلّا کر مجھ سے عرض کی کہ اس کا آگے کو جیتا رہنا مناسب نہیں۔
25 لیکن مجھے معلوم ہوا کہ اس کے قتل کے لائق کچھ نہیں کیا اور جب اس نے خود شہنشاہ کے ہاں اپیل کی تو مَیں نے اس کو بھیجنے کی تجویز کی۔
26 اس کی نسبت مجھے کوئی ٹھیک بات معلوم نہیں کہ سرکار عالی کو لکھوں۔ اس واسطے مَیں نے اس کو تمہارے آگے اور خاص کر اَے اگرپا بادشاہ تیرے حضور حاضر کیا ہے تاکہ تحقیقات کے بعد لکھنے کے قابل کوئی بات نکلے۔
27 کیونکہ قَیدی کے بھیجتے وقت ان الزاموں کو جو اس پر لگائے گئے ہوں ظاہر نہ کرنا مجھے خلاف عقل معلوم ہوتا ہے۔
باب : 26
1اگرپّا نے پولس سے کہا تجھے اپنے لئے بولنے کی اجازت ہے۔ پولس ہاتھ بڑھا کر اپنا جواب یوں پیش کرنے لگا کہ۔
2 اَے اگرپّا بادشاہ جتنی باتوں کی یہودی مجھ پر نالش کرتے ہیں آج تیرے سامنے ان کی جو ابد ہی کرنا اپنی خوش نصیبی جانتا ہوں۔
3 خاص کر اس لئے کہ یہودیوں کی سب رسموں اور مسلوں سے واقف ہے۔ پَس مَیں منّت کرتا ہوں کہ تحمّل سے میری سن لے۔
4 سب یہودی جانتے ہیں کہ اپنی قَوم کے درمیان اور یروشلیم میں شروع جوانی سے میرا چال چلن کیَسا رہا ہے۔
5 چونکہ وہ شروع سے مجھے جانتے ہیں اگر چا ہیں تو گواہ ہوسکتے ہیں کہ مَیں فریسی ہو کر اپنے دین کے سب سے زیادہ پابند مزہب فرقہ کی طرح زندگی گزارتا تھا۔
6 اور اَب اس وعدہ کی امید کے سبب سے مجھ پر مقدّمہ ہو رہا ہے جو خدا نے ہمارے باپ دادا سے کیا تھا۔
7 اسی وعدہ کے پورا ہونے کی امید پر ہمارے بارہ کے بارہ قبیلے دل و جان سے رات دن عبادت کیا کرتے ہیں۔ اسی امید کے سبب سے اَے بادشاہ! یہودی مجھ نالش کرتے ہیں۔
8 جب کہ خدا مردوں کو جلاتا ہے تو یہ بات تمہارے نزدیک کیوں غَیر معتبر سَمَجھی جاتے ہے؟۔
9 مَیں نے بھی سَمَجھا تھا کہ یسوع ناصری کے نام کی طرح طرح سے مخالفت کرنا مجھ پر فرض ہے۔
10 چنانچہ مَیں نے یروشلیم میں اَیسا ہی کیا اور سَردار کاہنوں کی طرف سے اختیّار پا کر بہت سے مقدّسوں کو قَید میں ڈالا اور جب وہ قتل کئے جاتے تھے تو مَیں بھی یہی رائے دیتا تھا۔
11 اور ہر عبادت خانہ میں انہیں سزا دلا دلا کر زبردستی ان سے کفر کہلواتا تھا بلکہ ان کی مخالفت میں اَیسا دیوانہ بناکہ غَیر شہروں میں بھی جا کر انہیں ستاتا تھا۔
12 اسی حال میں سَردار کاہنوں سے اختیّار اور پروانے لے کر دمشق کو جاتا تھا۔
13 تو اَے بادشاہ مَیں نے دوپہر کے وقت راہ میں یہ دیکھا کہ سورج کے نور سے زیادہ ایک نور آسمان سے میرے اور میرے ہمسفروں کے گردا گرد آ چمکا۔
14 جب ہم سب زمین پر گر پڑے تو مَیں نے عبرانی زبان میں یہ آواز سنی کہ اَے ساڈل اَے ساڈل! تو مجھے کیوں ستاتا ہے؟ پَینے کی آر پر لات مارنا تیرے لئے مشکل ہے۔
15 مَیں نے کہا اَے خداوند تو کَون ہے؟ خداوند نے فرمایا مَیں یسوع ہوں جسے تو ستاتا ہے۔
16 لیکن اٹھ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کیونکہ مَیں اس لئے تجھ پر ظاہر ہوا ہوں کہ تجھے ان چیزوں کا بھی خادم اور گواہ مقرّر کروں جنکی گواہی کے لئے تو نے مجھے دیکھا ہے اور ان کا بھی جن کی گواہی کے لئے مَیں تجھ پر ظاہر ہوا کروں گا۔
17 تجھے اس امّت اور غَیر قَوموں سے بَچاتا رہوں گا جن کے پاس تجھے اس لئے بھیجتا ہوں۔
18 کہ تو ان کی آنکھیں کھول دے تاکہ اَندھیرے سے روشنی کی طرف اور شَیطان کے اختیّار سے خدا کی طرف رجوع لائیں اور مجھ پر ایمان لانے کے باعث گناہوں کی معافی اور مقدّسوں میں شریک ہو کر میراث پائیں۔
19 اس لئے اَے اگرپّا بادشاہ! مَیں اس آسمانی رویا کا نافرمان نہ ہوا۔
20 بلکہ پہلے دمشقیوں کو پھر یروشلیم اور سارے ملک یہودیہ کے باشندوں کو اور غَیر قَوموں کو سَمَجھاتا رہا کہ تَوبہ کریں اور خدا کی طرف رجوع لا کر تَوبہ کے موافق کام کریں۔
21 انہی باتوں کے سبب سے یہودیوں نے مجھے ہَیکل میں پکڑ کر مار ڈالنے کی کوشش کی۔
22 لیکن خدا کی مدد سے مَیں آج تک قائم ہوں اور چھوٹے بڑے کے سامنے گواہی دیتا ہوں اور ان باتوں کے سوا کچھ نہیں کہتا جن کی پیشین گوئی نبیوں اور موسیٰ نے بھی کی ہے۔
23 کہ مسیح کو دکھ اٹھانا ضرور ہے اور سب سے پہلے وہی مردوں میں سے زندہ ہو کر اس امّْت کو اور غَیر قَوموں کو بھی نور کا اشتہار دے گا۔
24 جب وہ اس طرح جوابدہی کر رہا تھ تو فیستس نے بڑی آواز سے کہا اَے پولس! تو دیوانہ ہے۔ بہت علم نے تجھے دیوانہ کر دیا ہے۔
25 پولس نے کہا اَے فیستس بہادر! مَیں دیوانہ نہیں بلکہ سَچّائی اور ہوشیاری کی باتیں کہتا ہوں۔
26 چنانچہ بادشاہ جس سے مَیں دلیران کلام کرتا ہوں یہ باتیں جانتا اور مجھے یقین ہے کہ ان باتوں میں سے کوئی اس سے چھپی نہیں کیونکہ یہ ماجرا کہیں کونے میں نہیں ہوا۔
27 اَے اگرپّا بادشاہ کیا تو نبیوں کا یقین کرتا ہے؟ مَیں جانتا ہوں کہ تو یقین کرتا ہے۔
28 اگرپّا نے پولس سے کہا تو تو تھوڑی ہی سی نصیحت کر کے مجھے مسیحی کر لینا چاہتا ہے۔
29 پولس نے کہا مَیں تو خدا سے چاہتا ہوں کہ تھوڑی نصیحت سے یا بہت سے صرف توہی نہیں بلکہ جتنے لوگ آج میری سنتے ہیں میری مانند ہو جائیں سوا ان زنجیروں کے۔
30 تب بادشاہ اور حاکم اور برنیکے اور ان کے ہمنشین اٹھ کھڑے ہوئے۔
31 اور الگ جا کر ایک دوسرے سے باتیں کرنے اور کہنے لگے کہ یہ آدمی اَیسا تو کچھ نہیں کرتا جو قتل یا قَید کے لائق ہو۔
32 اگرپّا نے فیستس سے کہا کہ اگر یہ آدمی قَیصر کے ہاں اپیل نہ کرتا تو چھوٹ سکتا تھا۔
باب : 27
1جب جہاز اطالیہ کو ہمارا جانا ٹھہر گیا تو انہوں نے پولس اور بعض اَور قَیدیوں کو شہنشاہی پلٹن کے ایک صوبہ دار یولیس نام کے حوالہ کیا۔
2 اور ہم ادر متیمّ کے ایک جہاز پر آسیہ کے کنارے کی بندر گاہوں میں جانے کو تھا سوار ہو کر روانہ ہوئے اور تھّسلینکے کا ارسترخس مَکدنی ہمارے ساتھ تھا۔
3 دوسرے دن صَیدا میں جہاز ٹھہرا اور یولیس نے پولس پر مہربانی کر کے دوستوں کے پاس جانے کی اجازت دی تاکہ اس کی خاطر داری ہو۔
4 وہاں سے ہم روانہ ہوئے اور کپرس کی آڑ میں ہو کر چلے اس لئے کہ ہوا مخالف تھی۔
5 پھر ہم کلکیہ اور پمفیلیہ کے سَمَندَر سے گزر کر لوکیہ کے شہر مورہ میں اترے۔
6 وہاں صوبہ دار کو اسکندریہ کا ایک جہاز اطالیہ جاتا ہوا ملا۔ پَس ہم کو اس میں بٹھا دیا۔
7 اور ہم بہت دنوں تک آہستہ آہستہ چل کر جب مشکل سے کَندس کے سامنے پہنچے تو اس لئے کہ ہوا ہم کو آگے بڑھنے نہ دیتی تھی سلمونے کے سامنے سے ہو کر کریتے کی آڑ میں چلے۔
8 اور بپشکل اس کے کنارے کنارے چل کر حسین بندر نام ایک مقام میں پہنچے جس سے لسَیَہ شہر نزدیک تھا۔
9 جب بہت عرصہ گزر گیا اور جہاز کا سفر اس لئے خطرناک ہو گیا کہ روزہ کا دن گزر چکا تھا تو پولس نے انہیں یہ کہہ کر نصیحت کی۔
10 کہ اَے صاحبو! مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اس سفر میں تکیف اور بہت نقصان ہو گا۔ نہ صرف مال اور جہاز کا بلکہ ہماری جانوں کا بھی۔
11 مگر صوبہ دار نے نا خدا اور جہاز کے مالک کی باتوں پر پولس کی باتوں سے زیادہ لحاظ کیا۔
12 اور چونکہ وہ بندر جاڑوں میں رہنے کے لئے اچھّا نہ تھا اس لئے اکثر لوگوں کی صلاح ٹھہری کہ وہاں سے روانہ ہوں اور اگر ہوسکے تو فینکس میں پہنچ کر جاڑا کاٹیں۔ وہ کریتے کا ایک بندر ہے جس کا رخ شمال مشرق اور جنوب مشرق کو ہے۔
13 جب کچھ کچھ دکھّنا ہوا چلنے لگی تو انہوں نے یہ سَمَجھ کر کہ ہمارا مطلب حاصل ہو گیا لنگر اٹھایا اور کریتے کے کنارے کے قریب قریب چلے۔
14 لیکن تھوڑی دیر ایک بڑی طوفانی ہوا جو یورکلون کہلاتی ہے کریتے پرسے جہاز پر آئی۔
15 اور جب جہاز ہوا کے قابو میں آگیا اور اس کا سامنا نہ کرسکا توہم نے لاچار ہو کر اس کو بہنے دیا۔
16 اور کَودہ نام ایک چھوٹے جزیرہ کی آڑ میں بہتے بہتے ہم بڑی مشکل سے ڈونگی کو قابو میں لائے۔
17 اور جب مَلّاح اس کو اوپر چڑھا چکے تو جہاز کی مضبوطی کی تدبیریں کر کے اس کو نیچے سے باندھا اور سوررس کے چور بالو میں دھس جانے کے ڈر سے جہاز کا ساز و سامان اتار لیا اور اسی طرح بہتے چلے گئے۔
18 مگر جب ہم نے آندھی سے بہت ہچکولے کھائے تو دوسرے دن وہ جہاز کا مال پھینکنے لگے۔
19 اور تیسرے دن انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے جہاز کے آلات واسباب بھی پھینک دئے۔
20 اور جب بہت دنوں تک نہ سرج نظر آیا نہ تارے اور شدّت کی آندھی چل رہی تھی تو آخر ہم کو بچنے کی امید بالکل نہ رہی۔
21 اور جب بہت فاقہ کر چکے تو پولس نے ان کے بیچ میں کھڑے ہو کر کہا اَے صاحبو! لازم تھا کہ تم میری بات مان کر کریتے سے روانہ نہ ہوتے اور یہ تکلیف اور نقصان نہ اٹھاتے۔
22 مگر اَب میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ خاطر جمع رکھّو کیونکہ تم میں سے کسی کی جان کا نقصان نہ ہو گا مگر جہاز کا۔
23 کیونکہ خدا جس کا مَیں ہوں اور جس کی عبادت بھی کرتا ہوں اس کے فرشتہ نے اسی رات کو میرے پاس آ کر۔
24 کہا اَے پولس! نہ ڈر۔ ضرور ہے کہ تو قَیصر کے سامنے حاضر ہو اور دیکھ جتنے لوگ تیرے ساتھ جہاز میں سوار ہیں ان سب کی خدا نے تیری خاطر جان بخشی کی۔
25 اس لئے اَے صاحبو! خاطر جمع رکھّو کیونکہ مَیں خدا کا یقین کرتا ہوں کہ جَیسا مجھ سے کہا گیا ہے وَیساہی ہو گا۔
26 لیکن یہ ضرور ہے کہ ہم کسی ٹاپو میں جا پڑیں۔
27 جب چَودھویں رات ہوئی اور ہم بحر اور یہ میں ٹکراتے پھرتے تھے تو آدھی رات کے قریب مَلّاحوں نے اٹکل سے معلوم کیا کہ کسی ملک کے نزدیک پہنچ گئے۔
28 اور پانی کی تھاہ لے کر بیس پرسہ پایا اور تھوڑا آگے بڑھ کر اور پھر تھاہ لے کر پندرہ پرسہ پایا۔
29 اور اس ڈر سے کہ مبادا چٹانوں پر جا پڑیں جہاز کے پیچھے سے چار لنگر ڈالے اور صبح ہونے کے لئے دعا کرتے رہے۔
30 اور جب مَلّاحوں نے چاہا کہ جہاز پر سے بھاگ جائیں اور اس بہانہ سے کہ گلہی سے لنگر ڈالیں ڈونگی کو سمندر میں اتارا۔
31 تو پولس نے صونہ دار اور سپاہیوں سے کہا کہ اگر یہ جہاز پر نہ رہیں گے تو تم نہیں بچ سکتے۔
32 اس پر سپاہیوں نے ڈونگی کی رسّیاں کاٹ کر اسے چھوڑ دیا۔
33 اور جب دن نکلنے کو ہوا تو پولس نے سب کی منّت کی کہ کھانا کھالو اور کہا کہ تم کو انتظار کرتے کرتے اور فاقہ کھینچتے آج چَودہ دن ہو گئے اور تم نے کچھ نہیں کھایا۔
34 اس لئے تمہاری منّت کرتا ہوں کہ کھانا کھالو کیونکہ اس پر تمہاری بہتری مَوقوف ہے اور تم میں سے کسی کے سرکا ایک بال بیکا نہ ہو گا۔
35 یہ کہہ کر اس نے روٹی لی اور ان سب کے سامنے خدا کا شکر کیا اور توڑ کر کھانے لگا۔
36 پھر ان سب کی خاطر جمع ہوئی اور آپ بھی کھانا کھانے لگے۔
37 اور ہم سب مل کر جہاز میں دوسَو چھہتّر آدمی تھے۔
38 جب وہ کھا کر سیر ہوئے تو گیہوں کو سمندر میں پھینک کر جہاز کو ہلکا کرنے لگے۔
39 جب دن نکل آیا تو انہوں نے اس ملک کو نہ پہچانا مگر ایک کھاڑی دیکھی جس کا کنارہ صاف تھا اور صلاح کہ اگر ہوسکے تو جہاز کو اس پر چڑھا لیں۔
40 پَس لنگر کھول کر سمندر میں چھوڑ دئے اور پتواروں کی بھی رسّیاں کھول دیں اور اگلا پال ہوا کے رخ پر چڑھا کر اس کنارے کی طرف چلے۔
41 لیکن ایک اَیسی جگہ جا پڑے جس کی دونوں طرف سمندر کا زور تھا اور جہاز زمین پر ٹک گیا۔ پَس گلہی تو دھکا کھا کر پھنس گئی مگر دنبالہ لہروں کے زور سے ٹوٹنے لگا۔
42 اور سپاہیوں کی یہ صلاح تھی کہ قَیدیوں کو مار ڈالیں کہ اَیسا نہ ہو کوئی تَیر کر بھاگ جائے۔
43 لیکن صوبہ دار نے پولس کو بَچانے کی غرض سے ان کو اس ارادہ سے باز رکھّا اور حکم دیا کہ جو تیَر سکتے ہیں پہلے کود کر کنارے پر چلے جائیں۔
44 اور باقی لوگ بعض تختوں پر اور بعض جہاز کی اَور چیزوں کے سہارے سے چلے جائیں اور اسی طرح سب کے سب خشکی پر سَلامت پہنچ گئے۔
باب : 28
1جب ہم پہنچ گئے تو جانا کہ اس ٹاپو کا نام ملتے ہے۔
2 اور ان اجنبیوں نے ہم پر خاص مہربانی کی کیونکہ مینہ کی جھڑی اور جاڑے کے سبب سے انہوں نے آگ جلا کر ہم سب کی خاطر کی۔
3 جب پولس نے لکڑیوں کا گٹھا جمع کر کے آگ میں ڈالا تو ایک سانپ گرمی پا کر نکلا اور اس کے ہاتھ پر لپٹ گیا۔
4 جس وقت ان اجنبیوں نے وہ کیڑا اس کے ہاتھ سے لٹکا ہوا دیکھا تو ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ بیشک یہ آدمی خونی ہے۔ اگرچہ سمندر سے بچ گیا تَو بھی عدل اسے جینے نہیں دیتا۔
5 پَس اس نے کیڑے کو آگ میں جھٹک دیا اور اسے کچھ ضرر نہ پہنچا۔
6 مگر وہ منتظر تھے کہ اس کا بَدَن سوج جائے گا یا یہ مر کر یکایک گر پڑے گا لیکن جب دیر تک انتظار کیا اور دیکھا کہ اس کو کچھ ضرر نہ پہنچا تو اَور خیال کر کے کہ یہ تو کوئی دیوتا ہے۔
7 وہاں سے قریب پبلیس نام اس ٹاپو کے سَردار کی ملک تھی اس نے گھر لیجا کر تین دن تک بڑی مہربانی سے ہماری مہمانی کی۔
8 اور اَیسا ہوا کہ پبلیس کا باپ اور پیچش کی وجہ سے بیمار پڑا تھا۔ پولس نے اس کے پاس جا کر دعا کی اور اس پر ہاتھ رکھ کر شفا دی۔
9 جب اَیسا ہوا تو باقی لوگ جو اس ٹاپو میں بیمار تھے آئے اور اچھّے کئے گئے۔
10 اور انہوں نے ہماری بڑی عزّت کی اور چلتے وقت جو کچھ ہمیں درکا تھا جہاز پر رکھ دیا۔
11 تین مہینے کے بعد ہم اسکندریہ کے ایک جہاز پر روانہ ہوئے جو جاڑے بھر اس ٹاپو میں رہا تھا اور جس کا نشان دیسکوری تھا۔
12 اور سرَکوسہ میں جہاز ٹھہرا کر تین دن رہے۔
13 اور وہاں سے پھیر کھا کر رے گیم میں آئے ایک روز بعد دکھّنا چلی تو دوسرے دن پتیلی میں آئے۔
14 وہاں ہم کو بھائی ملے اور ان کی منّت سے ہم سات دن ان کے پاس رہے اور اسی طرح رومہ تک گئے۔
15 وہاں سے بھائی ہماری خَبر سن کر اَپّیس کے چوک اور تین سرای تک ہمارے استقبال کو آئے اور پولس نے انہیں دیکھ کر خدا کا شکر کیا اور اس کی خاطر جمع ہوئی۔
16 جب ہم رومہ میں پہنچے تو پولس کو اجازت ہوئی کہ اکیلا اس سپاہی کے ساتھ رہے جو اس پر پہرا دیتا تھا۔
17 تین روز کے بعد اَیسا ہوا کہ اس نے یہودیوں کے رئسیوں کو بلوایا اور جب جمع ہو گئے تو ان سے کہا اَے بھائیو! ہر چند مَیں نے امّت کے اور باپ دادا کی رسموں کے خلاف کچھ نہیں کیا تو بھی یروشلیم سے قَیدی ہو کر رومیوں کے ہاتھ حوالہ کیا گیا۔
18 انہوں نے میری تحقیقات کر کے مجھے چھوڑ دینا چاہا کیونکہ میرے قتل کا کوئی سبب نہ تھا۔
19 مگر جب یہودیوں نے مخالفت کی تو مَیں نے لاچار ہو کر قیصر کے ہاں اپیل کی مگر اس واسطے نہیں کہ اپنی قَوم پر مجھے کچھ الزام لگانا تھا۔
20 پَس اس لئے مَیں نے تمہیں بلایا ہے کہ تم سے ملو اور گفتگو کروں کیونکہ اسرائیل کی امید کے سبب سے مَیں اس زنجیر سے جکڑا ہوا ہوں۔
21 انہوں نے اس سے کہا نہ ہمارے پاس یہودیہ سے تیرے بارے میں خط آئے نہ بھائیوں میں سے کسی نے آ کر تیری کچھ خَبر دی نہ برائی بیان کی۔
22 مگر ہم مناسب جانتے ہیں کہ تجھ سے سنیں کہ تیرے خیالات کیا ہیں کیونکہ اس فرقہ کی بابت ہم کو معلوم ہے کہ ہر جگہ اس کے خلاف کہتے ہیں۔
23 اور وہ اس سے ایک دن ٹھہرا کر کثرت سے اس کے ہاں جمع ہوئے اور وہ خدا کی بادشاہی کی گواہی دے دے کر اور موسیٰ کی توریت اور نبیوں کے صحیفوں سے یسوع کی بابت سَمَجھا سَمَجھا کر صبح سے شام تک ان سے بیان کرتا رہا۔
24 اور بعض نے اس کی باتوں کو مان لیا اور بعض نے مانا۔
25 جب آپس میں متفق نہ ہوئے تو پولس کے اس ایک بات کے کہنے پر رخصت ہوئے کہ روح القدس نے یسعیاہ کی معرفت تمہارے باپ دادا سے خوب کہا کہ۔
26 اس امّت کے پاس جا کر کہہ کہ تم کانوں سے سنو گے اور ہرگز نہ سَمَجھو گے اور آنکھوں سے دیکھو گے اور ہرگز معلوم نہ کرو گے۔
27 کیونکہ اس امّت کے دل پر چربی چھا گئی ہے اور وہ کانوں سے اونچا سنتے ہیں اور انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں کہیں اَیسا نہ ہو کہ آنکھوں سے معلوم کریں اور کانوں سے سنیں اور دل سے سَمَجھیں اور رجوع لائیں اور مَیں انہیں شفا بخشوں۔
28 پَس تم کو معلوم ہو کہ خدا کی اس نجات کا پَیغام غَیر قَوموں کے پاس بھیجا گیا ہے اور وہ اسے سن بھی لیں گی۔
29 [جب اس نے کہا تو یہودی آپس میں بہت بحث کرتے چلے گئے].
30 اور وہ پورے دو برس اپنے کرایہ کے گھر میں رہا۔
31 اور جو اس کے پاس آتے تھے۔ ان سب سے ملتا رہا اور کمال دلیری سے بغَیر روک ٹوک کے خدا کی بادشاہی کی منادی کرتا اور خدا یسوع مسیح کی باتیں سکھاتا رہا۔
کتاب ۴۵: رومیوں
باب : 1
1 پَولس کی طرف سے جو یسوع مسیح کا بندہ ہے اور رَسول ہونے کے لئے بلایا گیا اور خدا کی اس خوشخَبری کے لئے مخصوص کیا گیا ہے۔
2 جس کا اس نے پیشتر سے اپنے نبیوں کی معرفت کتاب مقدّس میں۔
3 اپنے بَیٹے ہمارے خداوند یسوع مسیح کی نسبت وعدہ کیا تھا جو جسم کے اعتبار سے داؤد کی نسل سے پَیدا ہوا۔
4 لیکن پاکیزگی کی روح کے اعتبار سے مردوں میں سے جی اٹھنے کے سبب سے قدرت کے سبب سے قدرت کے ساتھ خدا کا بَیٹا ٹھہرا۔
5 جس کی کی معرفت ہم کو فضل اور رسالت ملی تاکہ اس کے نام کی خاطر سب قَوموں میں سے لوگ ایمان کے تابع ہوں۔
6 جن میں سے تم بھی یسوع مسیح کے ہونے کے لئے بلائے گئے ہو۔
7 ان سب کے نام جو رومہ میں خدا کے پیارے ہیں اور مقدّس ہونے کے لئے بلائے گئے ہیں۔ ہمارے باپ خدا اور خداوند یسوع مسیح کی طرف سے تمہیں فضل اور اطمینان حاصل ہوتا رہے۔
8 اوّل تو مَیں تم سب کے بارے میں یسوع مسیح کے وسیلہ سے اپنے خدا کا شکر کرتا ہوں کہ تمہارے ایمان کا تمام دنیا میں شہرہ ہو رہا ہے۔
9 چنانچہ خدا جس کی عبادت مَیں اپنی روح سے اس کے بَیٹے کی خوشخَبری دینے میں کرتا ہوں وہی میرا گواہ ہے کہ مَیں بلا ناغہ تمہیں یاد کرتا ہوں۔
10 اور اپنی دعاؤں میں ہمیشہ یہ دَرخواست کرتا ہوں کہ اَب آخر کار خدا کی مرضی سے مجھے تمہارے پاس آنے میں کسی طرح کی کامیابی ہو۔
11 کیونکہ مَیں تمہاری ملاقات کا مشتاق ہوں تاکہ تم کو کوئی روحانی نعمت دوں جس سے تم مضبوط ہو جاؤ۔
12 غرض مَیں بھی تمہارے درمیان ہو کر تمہارے ساتھ اس ایمان کے باعث تسلّی پاؤں جو تم میں اور مجھ میں دونوں میں ہے۔
13 اور اَے بھائیو! مَیں اس سے تمہارا ناواقف رہنا نہیں چاہتا کہ مَیں نے بارہا تمہارے پاس آنے کا ارادہ کیا تاکہ جَیسا مجھے اَور غَیر قَوموں میں پھَل ملا وَیسا ہی تم میں بھی ملے مگر آج تک رکا رہا۔
14 مَیں یونانیوں اور غَیر یونانیوں۔ داناؤں اور نادانوں کا قرضدار ہوں۔
15 پَس مَیں تم کو بھی جو رومہ میں ہو خوشخَبری سنانے کو حتّیٰ المقدور تیّار ہوں۔
16 کیونکہ مَیں انجیل سے شرماتا نہیں۔ اس لئے کہ وہ ہر ایک ایمان لانے والے کے واسطے پہلے یہودی پھر یونانی کے واسطے نجات کے لئے خدا کی قدرت ہے۔
17 اس واسطے کہ اس میں خدا کی راستبازی ایمان سے اور ایمان کے لئے ظاہر ہوتی ہے جَیسا لکھّا ہے راست باز ایمان سے جیتا رہے گا۔
18 کیونکہ خدا کا غضب ان آدمیوں کی تمام بے دینی اور ناراستی پر آسمان سے ظاہر ہوتا ہے جو حق کو ناراستی سے دبائے رکھتے ہیں۔
19 کیونکہ جو کچھ خدا کی نسبت معلوم ہو سکتا ہے وہ ان کے باطن میں ظاہر ہے۔ اس لئے کہ خدا نے اس کو ان پر ظاہر کر دیا۔
20 کیونکہ اس کی اَن دیکھی صفتیں یعنی اس کی ازلی قدرت اور الوہیت دنیا کی پَیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعہ سے معلوم ہو کر صاف نظر آتی ہیں۔ یہاں تک کہ ان کو کچھ عذر باقی نہیں۔
21 اس لئے کہ اگرچہ انہوں نے نے خدا کو جان تو لیا مگر اس کی خدائی کے لائق اس کی تمجید اور شکر گزاری نہ کی بلکہ باطل خیالات میں پڑ گئے اور ان کے بے سَمَجھ دلوں پر اَندھیرا چھا گیا۔
22 وہ اپنے آپ کو دانا جتا کر بیوقوف بن گئے۔
23 اور غَیر فانی خدا کے جلال کو فانی انسان اور پرندوں اور چَوپایوں اور کیڑے مکَوڑوں کی صورت میں بدل ڈالا۔
24 اس واسطے خدا نے ان کے دلوں کی خواہشوں کے مطابق انہیں ناپاکی میں چھوڑ دیا کہ ان کے بَدَن آپس میں بے حرمت کئے جائیں۔
25 اس لئے کہ انہوں نے نے خدا کی سَچّائی کو بدل کر جھوٹ بنا ڈالا اور مخلوقات کی زیادہ پرستش اور عبادت کی بہ نسبت اس خالق کے جو ابد تک محمود ہے۔ آمین۔
26 اسی سبب سے خدا نے ان کو گندی شہو توں میں چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ ان کی عَورتوں نے اپنے طبعی کام کو خلاف طبع کام سے بدل ڈالا۔
27 اسی طرح مرد بھی عَورتوں سے طبعی کام چھور کر آپس کی شہوت سے مست ہو گئے یعنی مردوں نے مردوں کے ساتھ روسیاہی کے کام کر کے اپنے آپ میں اپنی گمراہی کے لائق بدلہ پایا۔
28 اور جس طرح انہوں نے خدا کو پہچاننا نا پسند کیا اسی طرح خدا نے بھی ان کو نا پسندیدہ عقل کے حوالہ کر دیا کہ نالائق حرکتیں کریں۔
29 پَس وہ ہر طرح کی ناراستی بدی لالچ اور بد خواہی سے بھر گئے اور حسد خونریزی جھگڑے مکّاری اور بغض سے معمور ہو گئے اور غیبت کرنے والے۔
30 بد گو۔ خدا کی نظر میں نفرتی اَوروں کو بے عّزت کرنے والے مغرور شیخی باز بدیوں کے بانی ماں باپ کے نافرمان۔
31 بیوقوف عہد شکن طبعی محبّت سے خالی اور بے رحم ہو گئے۔
32 حالانکہ وہ خدا کا یہ حکم جانتے ہیں کہ اَیسے کام کرنے والے مَوت کی سزا کے لائق ہیں۔ پھر بھی نہ فقط آپ ہی اَیسے کام کرتے ہیں بلکہ اَور کرنے والوں سے بھی خوش ہوتے ہیں۔
باب : 2
1پَس اَے الزام لگانے والے! تو کوئی کیوں نہ ہو تیرے پاس کوئی عذر نہیں کیونکہ جس بات کا تو دوسرے پر الزام لگاتا ہے اسی کا تو اپنے آپ کو مجرم ٹھہراتا ہے۔ اس لئے کہ تو جو الزام لگاتا ہے خود وہی کام کرتا ہے۔
2 ہم جانتے ہیں کہ اَیسے کام کرنے والوں کی عدالت خدا کی طرف سے حق کے مطابق ہوتی ہے۔
3 اَے انسان! تو جو اَیسے کام کرنے والوں پر الزام لگاتا ہے اور خود وہی کام کرتا ہے کیا یہ سَمَجھتا ہے تو خدا کی عدالت سے بچ جائے گا؟۔
4 یا تو اس کی مہربانی اور تحمّل اور صبر کی دَولت کو ناچیز جانتا ہے اور نہیں سَمَجھتا کہ خدا کی مہربانی تجھ کو تَوبہ کی طرف مائل کرتی ہے؟۔
5 بلکہ تو اپنی سختی اور غَیر تائیب دل کے مطابق اس قہر کے دن کے لئے اپنے واسطے غضب کما رہا ہے جس میں خدا کی سَچّی عدالت ظاہر ہو گی۔
6 وہ ہر ایک کو اس کے کاموں کے موافق بدلہ دے گا۔
7 جو نیکو کاری میں ثابت قدم رہ کر جلال اور عزّت اور بقا کے طالب ہوتے ہیں ان کو ہمیشہ کی زندگی دے گا۔
8 مگر جو تفرقہ انداز اور حق کے نہ ماننے والے بلکہ ناراستی کے ماننے والے ہیں ان پر غضب اور قہر ہو گا۔
9 اور مصیبت اور تنگی ہر ایک بدکار کی جان پر آئے گی۔ پہلے یہودی کی۔ پھر یونانی کی۔
10 مگر جلال اور عزّت اور سَلامتی ہر ایک نیکوکار کو ملے گی۔ پہلے یہودی کو پھر۔ یونانی کو۔
11 کیونکہ خدا کے ہاں کسی کی طرف داری نہیں۔
12 اس لئے کہ جنہوں نے بغَیر شَریعَت پائے گناہ کیا وہ بغَیر شَریعَت کے ہلاک بھی ہوں گے اور جنہوں نے شَریعَت کے ماتحت ہو کر گناہ کیا ان کی سزا شَریعَت کے موافق ہو گی۔
13 کیونکہ شَریعَت کے سننے والے خدا کے نزدیک راستباز نہیں ہوتے بلکہ شَریعَت پر عمل کرنے والے راستباز ٹھہرائے جائیں گے۔
14 اس لئے کہ جب وہ قَومیں جو شَریعَت نہیں رکھتیں اپنی طبیعت سے شَریعَت کے کام کرتی ہیں تو باوجود شَریعَت نہ رکھنے کے وہ اپنے لئے خود ایک شَریعَت ہیں۔
15 چنانچہ وہ شَریعَت کی باتیں اپنے دلوں پر لکھی ہوئی دکھاتی ہیں اور ان کا دل بھی ان باتوں کی گواہی دیتا ہے اور ان کے باہمی خیالات یا تو ان پر الزام لگاتے ہیں یا ان کو معذور رکھتے ہیں۔
16 جس روز خدا میری خوشخَبری کے مطابق یسوع مسیح کی معرفت آدمیوں کی پوشیدہ باتوں کا انصاف کرے گا۔
17 پَس اگر تو یہودی کہلاتا اور شَریعَت پر تکیہ اور خدا پر فخر کرتا ہے۔
18 اور اس کی مرضی جانتا اور شَریعَت کی تعلیم پا کر عمدہ باتیں پسند کرتا ہے۔
19 اور اگر تجھ کو اس بات پر بھی بھروسا ہے کہ مَیں اَندھوں کا رہنما اور اَندھیرے میں پڑے ہوؤں کے لئے روشنی۔
20 اور نادانوں کا تربیت کرنے والا اور بچّوں کا استاد ہوں اور علم اور حق کا جو نمونہ شَریعَت میں ہے وہ میرے پاس ہے۔
21 پَس تو جو اَوروں کو سکھاتا ہے اپنے آپ کو کیوں نہیں سکھاتا؟ تو جو وعظ کرتا ہے کہ چوری نہ کرنا آپ خود کیوں چوری کرتا ہے؟۔
22 تو جو کہتا ہے کہ زنا نہ کرنا آپ خود کیوں زنا کرتا ہے؟ تو جو بتوں سے نفرت رکھتا ہے آپ خود کیوں مندروں کو لوٹنا ہے؟۔
23 تو جو شَریعَت پر فخر کرتا ہے شَریعَت کے عدول سے خدا کی کیوں بے عزّتی کرتا ہے؟۔
24 کیونکہ تمہارے سبب سے غَیر قَوموں میں خدا کے نام پر کفر بکا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ لکھا بھی ہے۔
25 ختنہ سے فائدہ تو ہے بشرطیکہ تو شَریعَت پر عمل کرے لیکن جب تو نے شَریعَت سے عدول کیا تو تیرا ختنہ نامختونی ٹھہرا۔
26 پَس اگر نامختون شَخص شَریعَت کے حکموں پر عمل کرے تو کیا اس کی نامختونی ختنہ کے برابر نہ گنی جائے گی؟۔
27 اور جو شَخص قَومیّت کے سبب سے نامختون رہا اگر وہ شَریعَت کو پورا کرے تو کیا تجھے جو باوجود کلام اور ختنہ کے شَریعَت سے عدول کرتا ہے قصور وار نہ ٹھہرائے گا؟۔
28 کیونکہ وہ یہودی نہیں جو ظاہر کا ہے اور نہ ختنہ ہے جو ظاہری اور جسمانی ہے۔
29 بلکہ یہودی وہی ہے جو باطن میں ہے اور ختنہ وہی ہے جو دل کا اور روحانی ہے نہ کہ لفظی۔ اَیسے کی تعریف آدمیوں کی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہوتی ہے۔
باب : 3
1پَس یہودی کو کیا فَوقیّت ہے اور ختنہ سے کیا فائدہ؟۔
2 ہر طرح سے بہت۔ خاص کر یہ کہ خدا کا کلام ان کے سپرد ہوا۔
3 اگر بعض بے وفا نکلے تو کیا ہوا؟ کیا ان کی بے وفائی خدا کی وفاداری کو باطل کرسکتی ہے؟۔
4 ہرگز نہیں۔ بلکہ خدا سَچّا ٹھہرے اور ہر ایک آدمی جھوٹا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ تو اپنی باتوں میں راستباز ٹھہرے اور اپنے مقدّمہ میں فتح پائے۔
5 اگر ہماری ناراستی خدا کی راسبازی کی خوبی کو ظاہر کرتی ہے تو ہم کیا کہیں؟ کیا یہ کہ خدا بے انصاف ہے جو غضَب نازل کرتا؟ (میں یہ بات انسان کی طرح کہتا ہوں).
6 ہرگز نہیں۔ ورنہ خدا کیونکر دنیا کا انصاف کرے گا؟۔
7 اگر میرے جھوٹ کے سبب سے خدا کی سَچّائی اس کے جلال کے واسطے زیادہ ظاہر ہوئی تو پھر کیوں گنہگار کی طرح مجھ پر حکم دیا جاتا ہے؟۔
8 اور ہم کیوں برائی نہ کریں تاکہ بھلائی پَیدا ہو؟ چنانچہ ہم پر یہ تہمت لگائی جاتی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ انکا یہی مقَولہ ہے مگر اَیسوں کا مجرم ٹھہرنا انصاف ہے۔
9 پَس کیا ہوا ؟ کیا ہم کچھ فضیلت رکھتے ہیں ؟ بالکل نہیں کیونکہ ہم یہودیوں اور یونانیوں دونوں پر پیشتر ہی یہ الزام لگا چکے ہیں کہ وہ سب کے سب گناہ کے ماتحت ہیں۔
10 چنانچہ لکھا ہے کہ کوئی راستباز نہیں۔ ایک بھی نہیں۔
11 کوئی سَمَجھ دار نہیں کوئی خدا کا طالب نہیں۔
12 سب گمراہ ہیں سب کے سب نکمّے بن گئے۔ کوئی بھلائی کرنے والا نہیں۔ ایک بھی نہیں۔
13 ان کا گلا کھلی ہوئی قَبر ہے۔ انہوں نے اپنی زبان سے فریب دیا۔ ان کے ہونٹوں میں سانپوں کا زہر ہے۔
14 ان کا منہ لعنت اور کڑواہٹ سے بھرا ہے۔
15 ان کے قدم خون بہانے کے لئے تیز رَو ہیں۔
16 ان کی راہوں میں تباہی اور بد حالی ہے۔
17 اور وہ سَلامتی کی راہ سے واقف نہ ہوئے۔
18 ان کی آنکھوں میں خدا کا خوف نہیں۔
19 اب ہم جانتے ہیں کہ شَریعَت جو کچھ کہتی ہے ان سے کہتی ہے جو شَریعَت کے ماتحت ہیں تاکہ ہر ایک کا منہ بند ہو جائے اور ساری دنیا خدا کے نزدیک سزا کے لائق ٹھہرے۔
20 کیونکہ شَریعَت کے اعمال سے کوئی بشر اس کے کے حضور راستباز نہیں ٹھہرے گا۔ اس لئے کہ شَریعَت کے وسیلہ سے تو گناہ کی پہچان ہوتی ہے۔
21 مگر اَب شَریعَت کے بغَیر خدا کی ایک راستبازی ظاہر ہوئی ہے جس کی گواہی شَریعَت اور نبیوں سے ہوتی ہے۔
22 یعنی خدا کی وہ راستبازی جو یسوع مسیح پر ایمان لانے سے سب ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتی ہے کیونکہ کچھ فرق نہیں۔
23 اس لئے کے سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔
24 مگر اس کے فضل کے سبب سے اس مخلصی کے وسیلہ سے جو مسیح یسوع میں ہے مفت راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں۔
25 اسے خدا نے اس کے خون کے باعث ایک اَیسا کفّارہ ٹھہرایا جو ایمان لانے سے فائدہ مند ہو تاکہ جو گناہ پیشتر ہو چکے تھے اور جن سے خدا نے تحمّل کر کے طرح دی تھی ان کے کے بارے میں وہ اپنی راستبازی ظاہر کرے۔
26 بلکہ اسی وقت اس کی راستبازی ظاہر ہو تاکہ وہ خود بھی عادل رہے اور جو یسوع پر ایمان لائے اس کو بھی راستباز ٹھہرانے والا ہو۔
27 پَس فخر کہا رہا ؟ اس کی گنجایش ہی نہیں۔ کونسی شَریعَت کے سبب سے ؟ کیا اعمال کی شَریعَت سے ؟ نہیں بلکہ ایمان کی شَریعَت سے۔
28 چنانچہ ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ انسان شَریعَت کے اعمال کے بغَیر ایمان کے سبب سے راستباز ٹھہرتا ہے۔
29 کیا خدا صرف یہودیوں کا ہی ہے غَیر قَوموں کا نہیں ؟ بیشک غَیر قَوموں کا بھی ہے۔
30 کیونکہ ایک ہی خدا ہے جو مختونوں کو بھی ایمان سے اور نامختونوں کو بھی ایمان ہی کے وسیلہ سے راستباز ٹھہرائے گا۔
31 پَس کیا ہم شَریعَت کو ایمان سے باطل کرتے ہیں ؟ ہرگز نہیں بلکہ شَریعَت کو قائم رکھتے ہیں۔
باب : 4
1پَس ہم کیا کہیں کہ ہمارے جسمانی باپ ابرہام کو کیا حاصل ہوا؟۔
2 کیونکہ اگر ابرہام اعمال سے راستباز ٹھہرایا جاتا اس کو فخر کی جگہ ہوتی لیکن خدا کے نزدیک نہیں۔
3 کتاب مقدّس کیا کہتی ہے؟ یہ کہ ابرہام خدا پر ایمان لایا اور یہ اس کے لئے راستبازی گنا گیا۔
4 کام کرنے والے کی مزدوری بخشش نہیں بلکہ حق سَمَجھی جاتی ہے۔
5 مگر جو شَخص کام نہیں کرتا بلکہ بے دین کے راستباز ٹھہرانے والے پر ایمان لاتا ہے اس کا ایمان اس کے لئے راستبازی گنا جاتا ہے۔
6 چنانچہ جس شَخص کے لئے خدا بغَیر اعمال کے راستبازی محسوب کرتا ہے داؤد بھی اس کی مبارک حالی اس طرح بیان کرتا ہے۔
7 کہ مبارک وہ ہیں جن کی بد کاریاں معاف ہوئیں اور جن کے گناہ ڈھانکے گئے۔
8 مبارک وہ شَخص ہے جس کے گناہ خداوند محسوب نہ کرے گا۔
9 پَس کیا یہ مبارکبادی مختونوں ہی کے لئے ہے یا نا مختونوں کے لئے بھی؟ کیونکہ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ ابرہام کے لئے اس کا ایمان راستبازی گنا گیا۔
10 پَس کس حالت میں گنا کیا؟ مختونی میں یا نا مختونی میں؟ مختونی میں نہیں بلکہ نا مختونی میں۔
11 اور اس ختنہ کا نشان پایا کہ اس ایمان کی راستبازی پر مہر ہو جائے جو اسے نا مختونی کی حالت میں حاصل تھا تاکہ وہ ان سب کا باپ ٹھہرے جو باوجود نا مختون ہونے کے ایمان لاتے ہیں اور ان کے لئے بھی راستبازی محسوب کی جائے۔
12 اور ان مختونوں کا باپ ہو جو نہ صرف مختون ہیں بلکہ ہمارے باپ ابرہام کے اس ایمان کی بھی پیروی کرتے ہیں جو اسے نا مختونی کی حالت میں حاصل تھا۔
13 کیونکہ یہ وعدہ کہ وہ دنیا کا وارث ہو گا نہ ابرہام سے نہ اس کی نسل سے شَریعَت کے وسیلہ سے کیاگیا تھا بلکہ ایمان کی راستبازی کے وسیلہ سے۔
14 کیونکہ اگر شَریعَت والے ہی وارث ہوں تو ایمان بے فائدہ رہا اور وعدہ لا حاصل ٹھہرا۔
15 شَریعَت تو غضب پَیدا کرتی ہے اور جہاں شَریعَت نہیں وہاں عدول حکمی بھی نہیں۔
16 اسی واسطے وہ میراث ایمان سے ملتی ہے تاکہ فضل کے طَور پر ہو اور وہ وعدہ کل نسل کے لئے قائم رہے۔ نہ صرف اس نسل کے لئے جو شَریعَت والی ہے بلکہ اس کے لئے بھی جو ابرہام کی مانند ایمان والی ہے۔ وہی ہم سب کاباپ ہے۔
17 ( چنانچہ لکھا ہے کہ مَیں نے مجھے بہت سی قَوموں کا باپ بنایا ) اس خدا کے سامنے جس پر وہ ایمان لایا اور جو مردوں کو زندہ کرتا ہے اور جو چیزیں نہیں ہیں ان کو اس طرح بلا لیتا ہے کہ گویا وہ ہیں۔
18 وہ نا امیدی کی حالت میں امید کے ساتھ ایمان لایا تاکہ اس قَول کے مطابق کہ تیری نسل اَیسی ہی ہو گی وہ بہت سی قَوموں کا باپ ہو۔
19 اور وہ جو تقریباً سَوبرس کا تھا باوجود اپنے مردہ سے بَدَن اور سارہ کے رّحم کی مردگی پر لحاظ کرنے کے ایمان میں ضعیف نہ ہوا۔
20 اور نہ بے ایمان ہو کر خدا کے وعدہ میں شک کیا بلکہ ایمان میں مضبوط ہو کر خدا کی تمجید کی۔
21 اور اس کو کامل اعتقاد ہوا کہ جو کچھ اس نے وعدہ کیا ہے وہ اسے پورا کرنے پر بھی قادر ہے۔
22 اسی سبب سے یہ اس کے لئے راستبازی گنا گیا۔
23 اور یہ بات کہ ایمان اس کے لئے راستبازی گنا گیا نہ صرف اس کے لئے لکھی گئے۔
24 بلکہ ہمارے لئے بھی جن کے لئے ایمان راستبازی گنا جائے گا۔ اس واسطے کہ ہم اس پر ایمان لائے ہیں جس نے ہمارے خداوند یسوع کو مردوں میں سے جلایا۔
25 وہ ہمارے گناہوں کے لئے حوالہ کر دیا گیا اور ہم کو راستباز ٹھہرانے کے لئے جلایا گیا۔
باب : 5
1پَس جب ہم ایمان سے راستباز ٹھہرے تو خدا کے ساتھ اپنے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے صلح رکھیّں۔
2 جس کے وسیلہ سے ایمان کے سبب سے اس فضل تک ہماری رسائی بھی ہوئی جس پر قائم ہیں اور خدا کے جلال کی امید پر فخر کریں۔
3 اور صرف یہی نہیں بلکہ مصیبتوں میں بھی فخر کریں یہ جان کر کہ مصیبت سے صبر پَیدا ہوتا ہے۔
4 اور صبر سے پختگی اور پختگی سے امید پَیدا ہوتی ہے۔
5 اور امید سے شرمندگی حاصل نہیں ہوتی کیونکہ روح القدس جو ہم کو بخشا گیا ہے اس کے وسیلہ سے خدا کی محبّت ہمارے دلوں میں ڈالی گئی ہے۔
6 کیونکہ جب ہم کمزور ہی تھے تو عَین وقت پر مسیح بے دینوں کی خاطر مئوا۔
7 کسی راستباز کی خاطر بھی مشکل سے کوئی اپنی جان دے گا مگر شاید کسی نیک آدمی کے لئے کوئی اپنی جان تک دے دینے کی جرات کرے۔
8 لیکن خدا اپنی محبّت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر مئوا۔
9 پَس جب ہم اس کے خون کے باعث اَب راستباز ٹھہرے تو اس کے وسیلہ سے غضب الہٰی سے ضرور ہی بچیں گے۔
10 کیونکہ جب باوجود دشمن ہونے کے خدا سے اس کے بَیٹے کی مَوت کے وسیلہ سے ہمارا میل ہو گیا تو میل ہونے کے بعد تو ہم اس کی زندگی کے سبب سے ضرور ہی بچیں گے۔
11 اور صرف یہی نہیں بلکہ اپنے خداوند یسوع مسیح کے طفَیل سے جس کے وسیلہ سے اَب ہمارا خدا کے ساتھ میل ہو گیا خدا پر فخر بھی کرتے ہیں۔
12 پَس جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دنیا میں آیا اور گناہ کے سبب سے مَوت آئی اور یوں مَوت سب آدمیوں میں پھَیل گئی اس لئے کہ سب نے گناہ کیا۔
13 کیونکہ شَریعَت کے دئے جانے تک دنیا میں گناہ تو تھا مگر جہاں شَریعَت نہیں وہاں محسوب نہیں ہوتا۔
14 تَو بھی آدم سے لے کر موسیٰ تک مَوت نے ان پر بھی بادشاہی کی جنہوں نے اس آدم کی نافرمانی کی طرح جو آنے والے کا مثیل تھا گناہ نہ کیا تھا۔
15 لیکن گناہ کا جو حال ہے وہ فضل کی نعمت کا نہیں کیونکہ جب ایک شَخص گناہ سے بہت سے آدمی مر گئے تو خدا کا فضل اور اس کی جو بخشش ایک ہی آدمی یعنی یسوع مسیح کے فضل سے پَیدا ہوئی بہت سے آدمیوں پر ضرور ہی افراط سے نازل ہوئی۔
16 اور جَیسا ایک شَخص کے گناہ کرنے کا انجام ہوا بخشش کا وَیسا حال نہیں کیونکہ ایک ہی کے سبب سے وہ فَیصلہ ہوا جس کا نتیجہ سزا کا حکم تھا مگر تیرے گناہوں سے اَیسی نعمت پَیدا ہوئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ راستباز ٹھہرے۔
17 کیونکہ جب ایک شَخص گناہ کے سبب سے مَوت نے اس ایک کے ذریعہ سے بادشاہی کی تو جو لوگ فضل اور راستبازی کی بخشش افراط سے حاصل کرتے ہیں وہ ایک شَخص یعنی یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہمیشہ کی زندگی میں ضرور ہی بادشاہی کریں گے۔
18 غرض جَیسا ایک گناہ کے سبب سے وہ فَیصلہ ہوا جس کا نتیجہ سب آدمیوں کی سزا کا حکم تھا وَیسا ہی راستبازی کے ایک کام کے وسیلہ سے سب آدمیوں کو وہ نعمت ملی جس سے راستباز ٹھہر کر زندگی پائیں۔
19 کیونکہ جس طرح ایک ہی شَخص کی نافرمانی سے بہت سے لوگ گنہگار ٹھہرے اسی طرح ایک کی فرمانبرداری سے بہت سے لوگ راستباز ٹھہریں گے۔
20 اور بیچ میں شَریعَت آ مَوجود ہوئی تاکہ گناہ زیادہ ہو جائے مگر جہاں گناہ زیادہ ہوا وہاں فضل اس سے بھی نہایت زیادہ ہوا۔
21 تاکہ جس طرح گناہ نے مَوت کے سبب سے بادشاہی کی اسی طرح فضل بھی ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہمیشہ کی زندگی کے لئے راستبازی کے ذریعہ سے بادشاہی کرے۔
باب : 6
1پَس ہم کیا کہیں؟ کیا گناہ کرتے رہیں تاکہ فضل زیادہ؟۔
2 ہرگز نہیں۔ ہم جو گناہ کے اعتبار سے مر گئے کیونکر اس میں آیندہ کو زندگی گزاریں؟۔
3 کیا تم نہیں جانتے کہ ہم جتنوں نے مسیح یسوع میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا تو اس کی مَوت میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا؟۔
4 پَس مَوت میں شامل ہونے کے بپتسمہ کے وسیلہ سے ہم اس کے ساتھ دفن ہوئے تاکہ جس طرح مسیح باپ کے جلال کتے وسیلہ سے مردوں میں سے جلایا گیا اسی طرح ہم بھی نئی زندگی میں چلیں۔
5 کیونکہ جب ہم اس کی مَوت کی مشابہت سے اس کے ساتھ پیَوستہ ہو گئے تو بیشک اس کے جی اٹھنے کی مشابہت سے بھی اس کے ساتھ پیَوستہ ہوں گے۔
6 چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری پرانی انسانیت اس کے ساتھ اس لئے مصلوب کی گئی کہ گناہ کا بَدَن بیکار جائے تاکہ ہم آگے کو گناہ کی غلامی میں نہ رہیں۔
7 کیونکہ جو مؤا وہ گناہ سے بری ہوا۔
8 پَس جب ہم مسیح کے ساتھ موئے تو ہمیں یقین ہے کہ اس کے ساتھ جئیں گے بھی۔
9 کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ مسیح جب مردوں میں سے جی اٹھا ہے تو پھر نہیں مرنے کا مَوت کا پھر اس پر اختیّار نہیں ہونے کا۔
10 کیونکہ مسیح جو مؤا گناہ کے اعتبار سے ایک بار مؤا مگر اَب جو جیتا ہے تو خدا کے اعتبار سے جیتا ہے۔
11 اسی طرح تم بھی اپنے آپ کو گناہ کے اعتبار سے مردہ مگر خدا کے اعتبار سے مسیح یسوع میں زندہ سَمَجھو۔
12 پَس گناہ تمہارے فانی بَدَن میں بادشاہی نہ کرے کہ تم اس کی خواہشوں کے تابع رہو۔
13 اور اپنے اعضا ناراستی کے ہتھیار ہونے کے لئے گناہ کے حوالہ نہ کیا کرو بلکہ اپنے آپ کو مردوں میں سے زندہ جان کر خدا کے حوالہ کرو اور اپنے اعضا راستبازی کے ہتھیار ہونے کے لئے خدا کے حوالہ کرو۔
14 اس لئے کہ گناہ کا تم پر اختیّار ہو گا کیونکہ تم شَریعَت کے ماتحت نہیں بلکہ فضل کے ماتحت ہو۔
15 پَس کیا ہوا کیا ہم اس لئے گناہ کریں کہ شَریعَت کے ماتحت نہیں بلکہ فضل کے ماتحت ہیں؟ ہرگز نہیں۔
16 کیا تم نہیں جانتے کہ جس کی فرمانبرداری کے لئے اپنے آپ کو غلاموں کی طرح حوالہ کر دیتے ہو اسی کے غلام ہو جس کے فرمانبردار ہو خواہ گناہ کے جس کا انجام مَوت ہے خواہ فرمانبرداری کے جس کا انجام راستبازی ہے۔
17 لیکن خدا کا شکر ہے کہ اگرچہ تم گناہ کے غلام تھے تو بھی دل سے اس تعلیم کے فرمانبردار ہو گئے جس کے سانچے میں تم ڈھالے گئے تھے۔
18 اور گناہ سے آزاد ہو کر راستبازی کے غلام ہو گئے۔
19 مَیں تمہاری انسانی کمزوری کے سبب سے انسانی طَور پر کہتا ہوں۔ جس طرح تم نے اپنے اعضا بدکاری کرنے کے لئے ناپاکی اور بدکاری کی غلامی کے حوالہ کئے تھے اسی طرح اَب اپنے اعضا پاک ہونے کے لئے راستبازی کی غلامی کے حوالہ کر دو۔
20 کیونکہ جب تم گناہ کے غلام تھے تو راستبازی کے اعتبار سے آزاد تھے۔
21 پَس جن باتوں سے تم اَب شرمندہ ہو ان سے تم اس وقت کیا پھَل پاتے تھے؟ کیونکہ ان کا انجام تو مَوت ہے۔
22 مگر اَب گناہ سے آزاد اور خدا کے غلام ہو کر تم کو اپنا پھَل ملا جس سے پاکیزگی حاصل ہوتی ہے اور اس کا انجام ہمیشہ کی زندگی ہے۔
23 کیونکہ گناہ کی مزدوری مَوت ہے مگر خدا کی بخشش ہمارے خداوند مسیح یسوع میں ہمیشہ کی زندگی ہے۔
باب : 7
1اَے بھائیو! کیا تم نہیں جانتے(مَیں ان سے کہتا ہوں جو شَریعَت سے واقف ہیں) کہ جب تک آدمی جیتا ہے اسی وقت تک شَریعَت اس پر اختیّار رکھتی ہے؟۔
2 چنانچہ جس عَورت کا شَوہر مَوجود ہے وہ شَریعَت کے موافق اپنے شَوہر کی زندگی تک اس کے بند میں ہے لیکن اگر شوہر شوہر مرگیا تو وہ شَوہر کی شَریعَت سے چھوٹ گئی۔
3 پَس اگر شَوہر کے جیتے جی دوسرے مرد کی ہو جائے تو زانیہ کہلائے گی لیکن اگر شَوہر مر جائے تو وہ اس شَریعَت سے آزاد ہے۔ یہاں تک کہ اگردوسرے مرد کی ہو بھی جائے تو زانیہ نہ ٹھہرے گی۔
4 پَس اَے میرے بھائیو! تم بھی مسیح کے بَدَن کے وسیلہ سے شَریعَت کے اعتبار سے اس لئے مردہ بن گئے کہ اس دوسرے کے ہو جاؤ جو مردوں میں سے جلایا گیا تاکہ ہم سب خدا کے لئے پھَل پَیدا کریں۔
5 کیونکہ جب ہم جسمانی تھے تو گناہ کی رغبتیں جو شَریعَت کے باعث پَیدا ہوتی تھیں مَوت کا پھَل کرنے کے لئے ہمارے اعضا میں تاثیر کرتی تھیں۔
6 لیکن جس چیز کی قَید میں تھے اس کے اعتبار سے مر کر اَب ہم شَریعَت سے اَیسے چھوٹ گئے کہ روح کے نئے طَور پر نہ کہ لفظوں کے پرانے طَور پر خدمت کرتے ہیں۔
7 پَس ہم کیا کہیں ؟ کیا شَریعَت گناہ ہے ؟ ہرگز نہیں بلکہ بغَیر شَریعَت کے مَیں گناہ کو نہ پہچانتا مثلاً اگر شَریعَت یہ نہ کہتی کہ تو لالچ نہ کر تو مَیں لالچ کو نہ جانتا۔
8 مگر گناہ نے مَوقع پا کر حکم کے ذریعہ سے مجھ میں ہر طرح کا لالچ پَیدا کر دیا کیونکہ شَریعَت کے بغَیر گناہ مردہ ہے۔
9 ایک زمانہ میں شَریعَت کے بغَیر مَیں زندہ تھا مگر جب حکم آیا تو گناہ زندہ ہو گیا اور مَیں مرگیا۔
10 اور جس حکم کا منشا زندگی تھا وہی میرے حق مَیں مَوت کا باعث بن گیا۔
11 کیونکہ گناہ نے مَوقع پا کر حکم کے ذریعہ سے مجھے بہکایہ اور اس کے ذریعہ سےمجھے مار بھی ڈالا۔
12 پَس شَریعَت پاک ہے اور حکم بھی پاک اور راست اور اچھّا ہے۔
13 پَس جو چیز اچھّی ہے کیا وہ میرے لئے مَوت ٹھہری ؟ ہرگز نہیں بلکہ گناہ نے اچھّی چیز کے ذریعہ سےمیرے لئے مَوت پَیدا کر کے مجھے مار ڈالا تاکہ اس کا گناہ ہونا ظاہر ہو اور حکم کے ذریعہ سے سے گناہ حّد سے زیادہ مکروہ معلوم ہو۔
14 کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ شَریعَت تو روحانی ہے مگر مَیں جسمانی اور گناہ کے ہاتھ بکا ہوا ہوں۔
15 اور جو مَیں کرتا ہوں اس کو نہیں جانتا کیونکہ جس کا مَیں ارادہ کرتا ہوں وہ نہیں کرتا بلکہ جس سے مجھ کو نفرت ہے وہی کرتا ہوں۔
16 اور اگر مَیں اس پر عمل کرتا ہوں جس کا ارادہ نہیں کرتا تو مَیں مانتا ہوں کہ شَریعَت خوب ہے۔
17 پَس اس صورت میں اس کا کرنے والا مَیں نہ رہا بلکہ گناہ ہے جو مجھ میں بسا ہوا ہے۔
18 کیونکہ مَیں جانتا ہوں کہ مجھ میں یعنی میرے جسم میں کوئی نیکی بسی ہوئی نہیں البّتہ ارادہ تو مجھ میں موجود ہے مگر نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے۔
19 چنانچہ جس نیکی کا ارادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کرتا مگر جس بدی کا ارادہ نہیں کرتا اسے کر لیتا ہوں۔
20 پَس اگر مَیں وہ کرتا ہوں جس کا ارادہ نہیں کرتا تو اس کا کرنے والا مَیں نہ رہا بلکہ گناہ ہے جو مجھ میں بسا ہوا ہے۔
21 غرض میں اَیسی شَریعَت پاتا ہوں کہ جب نیکی کا ارادہ کرتا ہوں تو بدی میرے پاس آ مَوجود ہوتی ہے۔
22 کیونکہ باطنی انسانیّت کی رو سے تو مَیں خدا کی شَریعَت کو بہت پسند کرتا ہوں۔
23 مگر مجھے اپنے اعضا میں ایک اَور طرح کی شَریعَت نظر آتی ہے جو میری عقل کی شَریعَت سے لڑ کر مجھے اس گناہ کی شَریعَت کی قَید میں لے آتی ہے جو میرے اعضا میں مَوجود ہے۔
24 ہائے مَیں کَیسا کمبخت آدمی ہوں! اس مَوت کے بَدَن سے مجھے کَون چھڑائے گا ؟۔
25 اپنے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے خدا کا شکر کرتا ہوں۔ غرض مَیں خود اپنی عقل سے تو خدا کی شَریعَت کا مگر جسم سے گناہ کی شَریعَت کا محکوم ہوں۔
باب : 8
1پَس اَب جو مسیح یسوع میں ہیں ان پر سزا کا حکم نہیں۔
2 کیونکہ زندگی کے روح کی شَریعَت نے مسیح یسوع میں مجھے گناہ اور مَوت کی شَریعَت سے آزاد کر دیا۔
3 اس لئے کہ جو کام شَریعَت جسم کے سبب سے کمزور ہو کر نہ کرسکی وہ خدا نے کیا یعنی اس نے اپنے بَیٹے کو گناہ آلودہ جسم کی صورت میں اور گناہ کی قربانی کے لئے بھیج کر جسم کی میں گناہ کی سزا کا حکم دیا۔
4 تاکہ شَریعَت کا تقاضا ہم میں پورا ہو جو جسم کے مطابق نہیں بلکہ روح کے مطابق چلتے ہیں۔
5 کیونکہ جو جسمانی ہیں وہ جسمانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں لیکن جو روحانی ہیں وہ روحانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں۔
6 اور جسمانی نیّت مَوت ہے مگر روحانی نیّت زندگی اور اطمینان ہے۔
7 اس لئے کہ جسمانی نیّت خدا کی دشمنی ہے کیونکہ نہ تو خدا کی شَریعَت کے تابع ہے نہ ہوسکتی ہے۔
8 اور جو جسمانی ہیں وہ خدا کو خوش نہیں کرسکتے۔
9 لیکن تم جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہو بشرطیکہ خدا کا روح تم میں بسا ہوا ہے۔ مگر جس میں مسیح کا روح نہیں وہ اس کا نہیں۔
10 اور اگر مسیح تم میں بَدَن تو گناہ کے سبب سے مردہ ہے مگر روح راستبازی کے سبب سے زندہ ہیں۔
11 اور اگر اسی کا روح تم میں بسا ہوا ہے جس نے یسوع کو مردوں میں سے جلایا تو جس نے مسیح یسوع کو مردوں میں سے جلایا وہ تمہارے فانی بَدَنوں کو بھی اپنے اس روح کے وسیلہ سے زندہ کرے گا جو تم میں بسا ہوا ہے۔
12 پَس اَے بھائیو! ہم قرضدار تو ہیں مگر جسم کے نہیں کہ جسم کے مطابق زندگی گزاریں۔
13 کیونکہ اگر تم جسم کے مطابق زندگی گزارو گے تو ضرور مرو گے اور اگر روح سے بَدَن کے کاموں کو نیست و نابود کرو گے تو جیتے رہو گے۔
14 اس لئے کہ جتنے خدا کے روح کی ہدایت سے چلتے ہیں وہی خدا کے بَیٹے ہیں۔
15 کیونکہ تم کو غلامی کی روح نہیں ملی جس سے پھر ڈر پَیدا ہو بلکہ لے پالک ہونے کی روح ملی جس سے ہم ابّا یعنی اَے باپ کہہ کر پکارتے ہیں۔
16 روح خود ہماری روح کے ساتھ مل کر گواہی دیتا ہے کہ ہم خدا کے فرزند ہیں۔
17 اور اگر فرزند ہیں تو وارث بھی ہیں یعنی خدا کے وارث اور مسیح کے ہم میراث بشرطیکہ ہم اس کے ساتھ دکھ اٹھائیں تاکہ اس کے جلال بھی پائیں۔
18 کیونکہ میری دانست میں اس زمانہ کے دکھ درد اس لائق نہیں کہ اس جلال کے مقابل ہوسکیں جو ہم پر ظاہر ہونے والا ہے۔
19 کیونکہ مخلوقات کمال آرزو سے خدا کے بَیٹوں کے ظاہر ہونے کی راہ دیکھتی ہے۔
20 اس لئے کہ مخلوقات بطالت کے اختیّار میں کر دی گئی تھی۔ نہ اپنی خوشی سے بلکہ اس کے باعث سے جس نے اس کو۔
21 اس امید پر بطالت کے اختیّار میں کر دیا کہ مخلوقات بھی فنا کے قبضہ سے چھوٹ کر خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی میں داخل ہو جائے گی۔
22 کیونکہ ہم کو معلوم ہے کہ ساری مخلوقات مل کر اَب تک کراہتی ہے اور درد زہ میں پڑی تڑپتی ہے۔
23 اور نہ فقط وہی بلکہ ہم بھی جنہیں روح کے پہلے پھَل ملے ہیں آپ اپنے باطن میں کراہتے ہیں اور لے پالک ہونے یعنی اپنے بَدَن کی مخلصی کی راہ دیکھتے ہیں۔
24 چنانچہ ہمیں امید کے وسیلہ سے نجات ملی مگر جس چیز کی امید ہے جب وہ نظر آ جائے تو پھر امید کَیسی؟ کیونکہ جو چیز کوئی دیکھ رہا ہے اس کی امید کیا کرے گا؟۔
25 لیکن جس چیز کو نہیں دیکھتے اگر ہم اس کی امید کریں تو صبر سے اس کی راہ دیکھتے ہیں۔
26 اس طرح روح بھی ہماری کمزوری میں مدد کرتا ہیں کیونکہ جس طَور سے ہم کو دعا کرنا چاہئے ہم نہیں جانتے مگر روح خود اَیسی آ ہیں بھر بھر کر ہماری شفاعت کرتا ہے جن کا بیان نہیں ہو سکتا۔
27 اور دلوں کو پرکھنے والا جانتا ہے کہ روح کی کیا نیّت ہے کیونکہ وہ خدا کی مرضی کے موافق مقدّسوں کی شفاعت کرتا ہے۔
28 اور ہم کو معلوم ہے کہ سب چیزیں مل کر خدا سے محبّت رکھنے والوں کے لئے بھلائی پَیدا کرتی ہیں یعنی ان کے لئے جو خدا کے ارادہ کے موافق بلائے گئے۔
29 کیونکہ جن کو اس نے پہلے سے جانا ان کو پہلے سے مقرّر بھی کیا کہ اس کے بَیٹے کے ہمشکل ہوں تاکہ وہ بہت سے بھائیوں میں پہلوٹھا ٹھہرے۔
30 اور جن کو اس نے پہلے سے مقرّر کیا ان کو بلایا بھی اور جن کو بلایا ان کو راستباز بھی ٹھہرایا اور جن کو راستباز ٹھہرایا ان کو جلال بھی بخشا۔
31 پَس ہم ان باتوں کی بابت کیا کہیں ؟ اگر خدا ہماری طرف ہے تو کَون ہمارا مخالف ہے؟۔
32 جس نے اپنے بَیٹے ہی کو دریغ نہ کیا بلکہ ہم سب کی خاطر اسے حوالہ کر دیا وہ اس کے ساتھ اَور سب چیزیں بھی ہمیں کس طرح نہ بخشے گا ؟۔
33 خدا نے برگزیدوں پر کَون نالش کرے گا ؟ خدا وہ ہے جو ان کو راستباز ٹھہراتا ہے۔
34 کَون ہے جو مجرم ٹھہرائے گا ؟ مسیح یسوع وہ ہے جو مرگیا بلکہ مردوں میں سے جی بھی اٹھا اور خدا کے دہنی طرف ہے اور ہماری شفاعت بھی کرتا ہے۔
35 کَون ہم کو مسیح کی محبّت سے جدا کرے گا ؟ مصیبت یا تنگی یا ظلم یا کال یا ننگا پن یا خطرہ یا تلوار ؟۔
36 چنانچہ لکھا ہے کہ ہم تیری خاطر دن بھر جان سے مارے جاتے ہیں۔ ہم ذبح ہونے والی بھیڑوں کے برابر گنے گئے۔
37 مگر ان سب حالتوں میں اس کے وسیلہ سے جس نے ہم سے محبّت کی ہم کو فتح سے بھی بڑھ کر غلبہ حاصل ہوتا ہے۔
38 کیونکہ مجھ کو یقین ہے کہ خدا کی محبّت ہمارے خداوند مسیح یسوع میں ہے اس سے ہم کو نہ مَوت جدا کرسکے گی نہ زندگی۔
39 نہ فرشتے نہ حکومتیں۔ نہ حال کی نہ استقبال کی چیزیں۔ نہ قدرت نہ بلندی نہ پستی نہ کوئی اَور مخلوق۔
باب : 9
1مَیں مسیح میں سَچ کہتا ہوں۔ جھوٹ نہیں بولتا اور میرا دل بھی روح القدس میں گواہی دیتا ہے۔
2 کہ مجھے بڑا غم ہے اور میرا دل برابر دکھتا رہتا ہے۔
3 کیونکہ مجھے یہاں تک منظور ہوتا کہ اپنے بھائیوں کی خاطر جو جسم کے روسے میرے قرابتی ہیں مَیں خود مسیح سے محروم ہو جاتا۔
4 وہ اسرائیلی ہیں اور لے پالک ہونے کا حق اور جلال اور عہود اور شَریعَت اور عبادت اور وعدے ان ہی کے ہیں۔
5 اور قَوم کے بزرگ ان ہی کے ہیں اور جسم کے رو سے مسیح بھی ان ہی میں سے ہوا جو سب کے اوپر اور ابد تک خدا ہی محمود ہے۔ آمین۔
6 لیکن یہ بات نہیں کہ خدا کا کلام باطل ہو گیا۔ اس لئے کہ جو اسرائیل کی اَولاد ہیں وہ سب اسرائیلی نہیں۔
7 اور نہ ابراہام کی نسل ہونے کے سبب سے سب فرزند ٹھہرے بلکہ یہ لکھا ہے کہ اضحاق ہی سے تیری نسل کہلائے گی۔
8 یعنی جسمانی فرزند خدا کے فرزند نہیں بلکہ وعدہ کے فرزند نسل گنے جاتے ہیں۔
9 کیونکہ وعدہ کا قَول یہ ہے کہ مَیں اس وقت کے مطابق آؤں گا اور سارہ کے بَیٹا ہو گا۔
10 اور صرف یہی نہیں بلکہ ربقہ بھی ایک شَخص یعنی ہمارے باپ اضحاق سے حاملہ تھی۔
11 اور ابھی تک نہ تو لڑکے پَیدا ہوئے تھے اور نہ نے نیکی یا بدی کی تھی کہ اس سے کہا گیا کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے گا۔
12 تاکہ خدا کا ارادہ جو برگزیدگی پر مَوقوف ہے اعمال پر مبنی نہ ٹھہرے بلکہ بلانے والے پر۔
13 چنانچہ لکھا ہے کہ مَیں نے یَعقوب سے تو محبّت کی مگر عیسو سے نفرت۔
14 پَس ہم کیا کہیں ؟ کیا خدا کے ہاں بے انصافی ہے ؟ ہرگز نہیں!۔
15 کیونکہ کہ وہ موسیٰ سے کہتا ہے کہ جس پر رحم کرنا منظور ہے اس پر رحم کروں گا اور جس پر ترس کھانا منظور ہے اس پر رحم کروں گا اور جس پر ترس کھانا منظور ہے اس پر ترس کھاؤں گا۔
16 پَس یہ نہ ارادہ کرنے والے پر مخصر ہے نہ دَوڑ دھوپ کرنے والے پر بلکہ رحم کرنے والے خدا پر۔
17 کیونکہ کتاب مقدّس میں فرعون سے کہا گیا ہے کہ مَیں نے اسی لئے تجھے کھڑا کیا ہے کہ تیری وجہ سے اپنی قدرت ظاہر کروں اور میرا نام تمام روہی زمین پر مشہور ہو۔
18 پَس وہ جس پر چاہتا ہے رحم کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے سخت کر دیتا ہے۔
19 پَس تو مجھ سے کہے گا پھر وہ کیوں عَیب لگاتا ہے؟ کَون اس کے ارادہ کا مقابلہ کرتا ہے؟۔
20 انسان بھلا تو کَون ہے جو خدا کے سامنے جواب دیتا ہے؟ کیا بنی ہوئی چیز بنانے والے سے کہہ سکتی ہے کہ تو مجھے کیوں اَیسا بنایا؟۔
21 کیا کمہار کو مّٹی پر اختیّار نہیں کہ ایک ہی لَوندے میں سے ایک برتن عزّت کے لئے بنائے اور دوسرا بے عزّتی کے لئے؟۔
22 پَس کیا تعّجب ہے اگر خدا اپنا غضب ظاہر کرنے اور اپنی قدرت آشکارا کرنے کے ارادہ سے غضب کے برتنوں کے ساتھ جو ہلاکت کے لئے تیّار ہوئے تھے نہایت تحمّل سے پیش آیا۔
23 اور یہ اس لئے ہوا کہ اپنے جلال کی دَولت رحم کے برتنوں کے ذریعہ سے آشکارا کرے جو اس نے جلال کے لئے پہلے سے تیّار کئے تھے۔
24 یعنی ہمارے ذریعہ سے جن کو اس نے نہ فقط یہودیوں میں سے بلکہ غَیر قَوموں میں سے بھی بلایا۔
25 چنانچہ ہوسیع کی کتاب میں بھی خدا یوں فرماتا ہے کہ جو میری امّت نہ تھی اسے اپنی امّت کہوں گا اور جو پیاری نہ تھی اسے پیاری کہوں گا۔
26 اور اَیسا ہو گا کہ جس جگہ ان سے یہ کہا گیا تھا کہ تم میری امّت نہیں ہو اسی جگہ وہ زندہ خدا کے بَیٹے کہلائیں گے۔
27 اور یسعاہ اسرائیل کی بابت پکار کر کہتا ہے کہ گو نبی اسرائیل کا شمار سمندر کی ریت کے برابر ہو تو بھی ان میں سے تھوڑے ہی بچیں گے۔
28 خداوند اپنے کلام کو تمام اور منقطع کر کے اس کے مطابق زمین پر عمل کرے گا۔
29 چنانچہ یسعیاہ نے پہلے بھی کہا ہے کہ اگر ربّ الافواج ہماری کچھ نسل باقی نہ رکھتا تو ہم سدوم کی مانند اور عمورہ کے برابر ہو جاتے۔
30 پَس ہم کیا کہیں؟ یہ کہ غَیر قَوموں نے جو راستبازی کی تلاش نہ کرتی تھیں راستبازی حاصل کی یعنی وہ راست بازی جو ایمان سے ہے۔
31 مگر اسرائیل جو راستبازی کی شَریعَت کی تلاش کرتا تھا اس شَریعَت تک نہ پہنچا۔
32 کس لئے؟ اس لئے کہ انہوں نے ایمان سے نہیں بلکہ گویا اعمال سے اس کی تلاش کی۔ انہوں نے اس ٹھوکر کھانے کے پتھّر سے ٹھوکر کھائی۔
33 چنانچہ لکھا ہے کہ دیکھو مَیں صیّون میں ٹھیس لگنے کا پتھّر اور ٹھوکر کھانے کی چٹان رکھتا ہوں اور جو اس پر ایمان لائے گا وہ شرمندہ نہ ہو گا۔
باب : 10
1اَے بھائیو! میرے دل کی آرزو اور ان کے لئے خدا سے میری دعا یہ ہے کہ وہ نجات پائیں۔
2 کیونکہ مَیں ان کا گواہ ہوں کہ وہ خدا کے بارے میں غَیرت تو رکھتے ہیں مگر سَمَجھ کے ساتھ نہیں۔
3 اس لئے کے وہ خدا کی راستبازی سے ناواقف ہو کر اور اپنی راستبازی قائم کرنے کی کوشش کر کے خدا کی راستبازی کے تابع نہ ہوئے۔
4 کیونکہ ہر ایک ایما لانے والے کی راستبازی کے لئے مسیح شَریعَت کا انجام ہے۔
5 چنانچہ موسیٰ نے یہ لکھا ہے کہ جو شَخص اس راستبازی پر عمل کرتا ہے جو شَریعَت سے ہے وہ اسی کی وجہ سے زندہ رہے گا۔
6 مگر جو راستبازی ایمان سے ہے وہ یوں کہتی ہے کہ تو اپنے دل میں یہ نہ کہہ کہ آسمان پر کَون چڑھے گا؟ ( یعنی مسیح کے اتار لانے کو )۔
7 یا گہراؤ میں کَون اترے گا؟ ( یعنی مسیح کو مردوں میں سے جلا کر اوپر لانے کو )۔
8 بلکہ کیا کہتی ہے؟ یہ کہ کلام تیرے نزدیک ہے بلکہ تیرے منہ اور تیرے دل میں ہے۔ یہ وہی ایمان کا کلام ہے جس کی ہم منادی کرتے ہیں۔
9 کہ اگر تو اپنی زبان سے یسوع کے خداوند ہونے کا اقرار کرے اور اپنے دل سے ایمان لائے کہ خدا نے اسے مردوں میں سے جلایا تو نجات پائے گا۔
10 کیونکہ راست بازی کے لئے ایمان لانا دل سے ہوتا ہے اور نجات کے لئے اقرار منہ سے کیا جاتا ہے۔
11 چنانچہ کتاب مقدّس یہ کہتی ہے کہ جو کوئی اس پر ایمان لائے گا وہ شرمندہ نہ ہو گا۔
12 کیونکہ یہودیوں اور یونانیوں میں کچھ فرق نہیں اس لئے کہ وہی سب کا خداوند ہے اور اپنے سب دعا کرنے والوں کے لئے فیّاض ہے۔
13 کیونکہ جو کوئی خداوند کا نام لے گا نجات پائے گا۔
14 مگر جس پر وہ ایمان نہیں لائے اس سے کیونکر دعا کریں؟ اور جس کا ذکر انہوں نے سنا نہیں اس پر ایمان کیونکر لائیں؟ اور بغَیر منادی کرنے والے کے کیونکر سنیں؟۔
15 اور جب تک وہ بھیجے نہ جائیں منادی کیونکر کریں؟ چنانچہ لکھا ہے کہ کیا ہی خوشنما ہیں ان کے قدم جو اچھّی چیزوں کی خوشخَبری دیتے ہیں۔
16 لیکن سب نے اس خوشخَبری پر کان نہ دھرا۔ چنانچہ یسعیاہ کہتا ہے کہ اَے خداوند ہمارے پیَغام کا کس نے یقین کیا ہے؟۔
17 پَس ایمان سننے سے پیَدا ہوتا ہے اور سننا مسیح کے کلام سے۔
18 لیکن میں کہتا ہوں کیا انہوں نے نہیں سنا؟ بیشک سنا چنانچہ لکھا ہے کہ ان کی آواز تمام روی زمین پر اور ان کی باتیں دنیا کی انتہا تک پہنچیں۔
19 پھر مَیں کہتا ہوں کیا اسرائیل واقف نہ تھا؟ اوّل تو موسیٰ کہتا ہے کہ مَیں ان سے تم غَیرت دلاؤں گا جو قَوم ہی نہیں۔ ایک نادان قَوم سے تم کو غصّہ دلاؤں گا۔
20 پھر یسعیاہ بڑا دلیر ہو کر یہ کہتا ہے کہ جنہوں نے مجھے نہیں ڈھونڈا انہوں نے مجھے پا لیا۔ جنہوں نے مجھ سے نہیں پوچھا ان پر مَیں ظاہر ہو گیا۔
21 لیکن اسرائیل کے حق میں یوں کہتا ہے کہ مَیں دن بھر ایک نافرمان اور حجّتی امّت کی طرف اپنے ہاتھ بڑھائے رہا۔
باب : 11
1پَس مَیں کہتا ہوں کیا خدا نے اپنی امّت کو ردّ کر دیا ؟ ہرگز نہیں! کیونکہ مَیں بھی اسرائیلی ابراہام کی نسل اور بنیمین کے قبیلہ میں سے ہوں۔
2 خدا نے اپنی اس امّت کو رّد نہیں کیا جسے اس نے پہلے سے جانا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ کتاب مقدّس ایلیّاہ کے ذکر میں کیا کہتی ہے؟ کہ وہ خدا سے اسرائیل کی یوں فریاد کرتا ہے کہ۔
3 اَے خداوند انہوں نے تیرے نبیوں کو قتل کیا اور تیری قربان گاہوں کو ڈھا دیا۔ اَب میں اکیلہ باقی ہوں اور وہ میری جان کے بھی خواہاں ہیں۔
4 مگر جواب الہیٰ اس کو کیا ملا ؟ یہ کہ مَیں نے اپنے لئے سات ہزار آدمی بَچا رکھّے ہیں جنہوں نے بعل کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے۔
5 پَس اسی طرح اس وقت بھی فضل سے برگزیدہ ہونے کے باعث کچھ باقی ہیں۔
6 اور اگر فضل سے برگزیدہ ہیں تو اعمال سے نہیں ورنہ فضل فضل نہ رہا۔
7 پَس نتیجہ کیا ہوا ؟ یہ کہ اسرائیل جس چیز کی تلاش کرتا ہے وہ اس کو نہ ملی مگر برگزیدوں کو ملی اور باقی سخت کئے گئے۔
8 چنانچہ لکھا ہے کہ خدا نے ان کو آج کے دن تک سست طبیعت دی اور اَیسی آنکھیں جو نہ دیکھیں اور اَیسے کان جو نہ سنیں۔
9 اور داؤد کہتا ہے کہ ان کا دستر خوان ان کے لئے جال اور پھندا اور ٹھوکر کھانے اور سزا کا باعث بن جائے۔
10 ان کی آنکھوں پر تاریکی آ جائے تاکہ نہ دیکھیں اور تو ان کی پیٹھ ہمیشہ جھکائے رکھ۔
11 پَس میں کہتا ہوں کہ کیا انہوں نے نے اَیسی ٹھوکر کھائی کہ گر پڑیں ؟ ہرگز نہیں! بلکہ ان کی لغرش سے غَیر قَوموں کو نجات ملی تاکہ انہیں غَیرت آئے۔
12 پَس جب ان کی لغزش دنیا کے لئے دَولت کا باعث اور ان کا گھٹنا غَیر قَوموں کے لئے دَولت کا باعث ہوا تو ان کا بھر پور ہونا ضرور ہی دَولت کا باعث ہو گا۔
13 مَیں یہ باتیں تم غَیر قَوموں سے کہتا ہوں چونکہ مَیں غَیر قَوموں کا رَسول ہوں اس لئے اپنی خدمت کی بڑائی کرتا ہوں۔
14 تاکہ کسی طرح سے اپنے قَوم والوں کو غیرت دلا کر ان میں سے بعض کو نجات دلاؤں۔
15 کیونکہ جب ان کا خارج ہو جانا دنیا کے آ ملنے کا باعث ہوا تو کیا ان کا مقبول ہونا مردوں میں سے جی اٹھنے کے برابر نہ ہو گا ؟۔
16 جب نذر کا پہلا پیڑا پاک ٹھہرا تو سارا گوندھا ہوا آٹا بھی پاک ہے اور جب جڑ پاک ہے ڈالیاں بھی اَیسی ہی رہیں۔
17 لیکن اگر بعض ڈالیاں توڑی گئیں اور تو جنگلی زَیتون ہو کر ان کی جگہ پَیوند ہوا اور زَیتون کی روغن دار جڑ میں شریک ہو گیا۔
18 تو تو ان ڈالیوں کے مقابلہ میں فخر نہ کر اور اگر فخر کرے گا تو جان رکھ کہ تو جڑ کو نہیں بلکہ جڑ تجھ کو سنبھالتی ہے۔
19 پَس تو کہے گا کہ ڈالیاں اس لئے توڑی گئیں کہ مَیں پیَوند ہو جاؤں۔
20 اچھّا وہ تو بے ایمانی کے سبب سے توڑی گئیں اور تو ایمان کے سبب سے قائم ہے۔ پَس مغرور نہ ہو بلکہ خوف کر۔
21 کیونکہ جب خدا نے اصلی ڈالیوں کو نہ چھوڑا تو تجھ کو بھی نہ چھوڑے گا۔
22 پَس خدا کی مہربانی اور سختی کو دیکھ۔ سختی ان پر جو گر گئے ہیں اور خدا کی مہربانی تجھ پر بشرطیکہ تو اس مہربانی پر قائم رہے ورنہ تو بھی کاٹ ڈالا جائے گا۔
23 اور بھی اگر بے ایمان نہ رہیں تو پیَوند کئے جائیں گے کیونکہ خدا انہیں پیَوند کر کے بحال کرنے پر قادر ہے۔
24 اس لئے کہ جب تو زَیتون کے اس دَرخت سے کٹ کر جس کی اصل جنگلی ہے اصل کے برخلاف اچھّے زَیتون میں پیَوند ہو گیا تو وہ جو اصل ڈالیاں ہیں اپنے زَیتون میں ضرور ہی پیَوند ہو جائے گی۔
25 اَے بھائیو کہیں اَیسا نہ ہو کہ تم اپنے آپ کو عقلمند سَمَجھ لو۔ اس لئے مَیں نہیں چاہتا کہ تم اس بھید سے ناواقف رہو کہ اسرائیل کا ایک حصّہ سخت ہو گیا ہے اور جب تک غَیر قَومیں پوری پوری داخل نہ ہوں وہ اَیسا ہی رہے گا۔
26 اور اس صورت سے تمام اسرائیل نجات پائے گا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ چھڑانے والا صیّون سے نکلے گا اور بے دینی کو یَعقوب سے دفع کرے گا۔
27 اور ان کے ساتھ میرا یہ عہد ہو گا۔ جبکہ مَیں ان کے گناہوں کو دور کروں گا۔
28 انجیل کے اعتبار سے تو وہ تمہاری خاطر دشمن ہیں لیکن برگزیدگی کے اعتبار سے باپ دادا کی خاطر پیارے ہیں۔
29 اس لئے کہ خدا کی نعمتیں اور بلاوا بے تبدیل ہے۔
30 کیونکہ جس طرح تم پہلے خدا کے نافرمان تھے مگر اَب ان کی نافرمانی کے سبب سے تم پر رحم ہوا۔
31 اسی طرح اَب یہ نافرمان ہوئے تاکہ تم پر رحم ہونے کے باعث اَب ان پر بھی رحم ہو۔
32 اس لئے کہ خدا نے سب کو نافرمانی میں گرفتار ہونے دیا تاکہ سب پر رحم فرمائے۔
33 واہ! خدا کی دَولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے! اس کے فَیصلے کس قدر ادراک سے پرے اور اس کی راہیں کیا ہی بے نشان ہیں!
34 خداوند کی عقل کو کس نے جانا ؟ یا کَون اس کا صلاح کار ہوا ؟۔
35 یا کس نے پہلے اسے کچھ دیا ہے جس کا بدلہ اسے دیا جائے؟۔
36 کیونکہ اسی کی طرف سے اور اسی کے وسیلہ سے اور اسی کے لئے سب چیزیں ہیں۔ اس کی تمجید ابد تک ہوتی رہے۔ آمین۔
باب : 12
1پَس اَے بھائیو۔ مَیں خدا کی رحمتیں یاد دلا کر تم سے التماس کرتا ہوں کہ اپنے بَدَن اَیسی قربانی ہونے کے لئے نذر کرو جو زندہ اور پاک اور خدا کو پسندیدہ ہو۔ یہی تمہاری معقول عبادت ہے۔
2 اور اس جہان کے ہمشکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہو جانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ تاکہ خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے رہو۔
3 مَیں اس تَوفیق کی وجہ سے جو مجھ کو ملی ہے تم میں سے ہر ایک سے کہتا ہوں کہ جَیسا سَمَجھا چاہئے اس سے زیادہ کوئی اپنے آپ کو نہ سَمَجھے بلکہ جَیسا خدا نے ہر ایک کو اندازہ کے موافق ایمان تقسیم کیا ہے اعتدال کے ساتھ اپنے کو وَیسا ہی سَمَجھے۔
4 کیونکہ جس طرح ہمارے ایک بَدَن میں بہت سے اعضا ہوتے ہیں اور تمام اعضا کا کام یکساں نہیں۔
5 اسی طرح ہم بھی جو بہت سے ہیں مسیح میں شامل ہو کر ایک بَدَن ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے اعضا۔
6 اور چونکہ اس تَوفیق کے موافق جو ہم کو دی گئی ہمیں طرح طرح کی نعمتیں ملیں اس لئے جس کو نبّوت ملی ہو وہ ایمان کے اندازہ کے موافق نبّوت کرے۔
7 اگر خدمت ملی ہو تو خدمت میں لگا رہے۔ اگر کوئی معلّم ہو تو تعلیم میں مشغول رہے۔
8 اور اگر ناصح ہو تو نصیحت میں۔ خَیرات بانٹنے والا سخاوت سے بانٹنے۔ پیشوا سرگرمی سے پیشوائی کرے۔ رحم کرنے والا خوشی کے ساتھ رحم کرے۔
9 محبّت بے ریا ہو۔ بدی سے نفرت رکھّو نیکی سے لپٹے رہو۔
10 برادرانہ محبّت سے آپس میں ایک دوسرے کو پیار کرو۔ عزّت کے رو سے ایک دوسرے کو بہتر سَمَجھو۔
11 کوشش میں سستی نہ کرو۔ روحانی جوش میں بھرے رہو۔ خداوند کی خدمت کرتے رہو۔
12 امید میں خوش۔ مصیبت میں صابر۔ دعا کرنے میں مشغول رہو۔
13 مقدّسوں کی احتیاجیں رفع کرو۔ مسافر پروری میں لگے رہو۔
14 جو تمہیں ستاتے ہیں ان کے واسطے بَرکَت چاہو۔ بَرکَت چاہو۔ لعنت نہ کرو۔
15 خوشی کرنے والوں کے ساتھ خوشی کرو۔ رونے والوں کے ساتھ روؤ۔
16 آپس میں یکدل رہو۔ اونچے اونچے خیال نہ باندھو بلکہ ادنٰے لوگوں کی طرف متّوجہ ہو۔ اپنے آپ کو عقلمند نہ سَمَجھو۔
17 بدی کے عوض کسی سے بدی نہ کرو۔ جو باتیں سب لوگوں کے نزدیک اچھّی ہیں ان کی تدبیر کرو۔
18 جہاں تک ہوسکے تم اپنی طرف سے سب آدمیوں کے ساتھ میل ملاپ رکھّو۔
19 اَے عزیزو! اپنا انتقام لینا میرا کام ہے۔بدلہ مَیں ہی دوں گا۔
20 بلکہ اگر تیرا دشمن بھوکا ہو تو اس کو کھانا کھلا۔ اگر پیاسا ہو تو اسے پانی پلا کیونکہ اَیسا کرنے سے تو اس کے سر پر آگ کے انگاروں کا ڈھیر لگائے گا۔
21 بدی سے مغلوب نہ ہو بلکہ نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب آؤ۔
باب : 13
1ہر شَخص اعلٰے حکومتوں کا تابعدار رہے کیونکہ کوئی حکومت اَیسی نہیں جو خدا کی طرف سے نہ ہو اور جو حکومتیں مَوجود ہیں وہ خدا کی طرف سے مقرر ہیں۔
2 پَس جو کوئی حکومت کا سامنا کرتا ہے وہ خدا کا انتظار کا مخالف ہے اور جو مخالف ہیں وہ سزا پائیں گے۔
3 کیونکہ نیکوکار کو حاکموں سے خَوف نہیں بلکہ بدکار کو ہے۔ پَس اگر حاکم سے نڈر رہنا چاہتا ہے تو نیکی کر۔ اس کی طرف سے تیری تعریف ہو گی۔
4 کیونکہ وہ تیری بہتری کے لئے خدا کا خادم ہے لیکن اگر تو بدی کرے تو ڈر کیونکہ وہ تلوار بے فائدہ لئے ہوئے نہیں اور خدا کا خادم ہے کہ اس کے غضب کے موافق بدکار کو سزا دیتا ہے۔
5 پَس تابعدار رہنا نہ صرف غضب کے ڈر سے ضرور ہے بلکہ دل بھی یہی گواہی دیتا ہے۔
6 تم اسی لئے خراج بھی دیتے ہو کہ وہ خدا کے خادم ہیں اور اس خاص کام میں ہمیشہ مشغول رہتے ہیں۔
7 سب کا حق ادا کرو۔ جس کو خراج چاہئے خراج دو۔ جس کو محصول چاہئے محصول۔ جس سے ڈرنا چاہئے اس سے ڈرو۔ جس کی عزّت کرنا چاہئے اس کی عزّت کرو۔
8 آپس کی محبّت کے سوا کسی چیز میں کسی کے قرضدار نہ ہو کیونکہ جو دوسرے سے محبّت رکھتا ہے اس نے شَریعَت پر پورا عمل کیا۔
9 کیونکہ یہ باتیں کہ زنانہ کر۔ خون نہ کر۔ چوری نہ کر۔ لالچ نہ کر اور ان کے سوا اَور جو کوئی حکم ہو ان سب کا خلاصہ اس بات میں پایا جاتا ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبّت رکھ۔
10 محبّت اپنے پڑوسی سے بدی نہیں کرتی۔ اس واسطے محبّت شَریعَت کی تعمیل ہے۔
11 اور وقت کو پہچان کر اَیسا ہی کرو۔ اس لئے کہ اَب وہ گھڑی آ پہنچی کہ تم نیند سے جاگو کیونکہ جس وقت ہم ایمان لائے تھے اس وقت کی بسبت اَب ہماری نجات نزدیک ہے۔
12 رات بہت گزر گئی اور دن نکلنے والا ہے۔ پَس ہم تاریکی کے کاموں کو ترک کر کے روشنی کے ہتھیار باندھ لیں۔
13 جَیسا دن کو دستور ہے شایستگی سے چلیں نہ کہ ناچ رنگ اور نشہ بازی سے۔ نہ زناکاری اور شہوت پرستی سے اور نہ جھگڑے اور حسد سے۔
14 بلکہ خدا یسوع مسیح کو پہن کو اور جسم کی خواہشوں کے لئے تدبیریں نہ کرو۔
باب : 14
1کمزور ایمان والے کو اپنے میں شامل تو کر کو مگر شک و شبہ کی تکراروں کے لئے نہیں۔
2 ایک کو اعتقاد ہے کہ ہر چیز کا کھانا روا ہے اور کمزور ایمان والا ساگ پات ہی کھاتا ہے۔
3 کھانے والا اس کو جو نہیں کھاتا حقیر نہ جانے اور جو نہیں کھاتا وہ کھانے والے پر الزام نہ لگائے کیونکہ خدا نے اس کو قبول کر لیا ہے۔
4 تو کَون ہے جو دوسرے کے نَوکر پر الزام لگاتا ہے؟ اس کا قائم رہنا یا گر پڑنا اس کے مالک ہی سے متعّلق ہے بلکہ وہ قائم ہی کر دیا جائے گا کیونکہ خداوند اس کے قائم کرنے پر قادر ہے۔
5 کوئی تو ایک دن کو دوسرے سے افضل جانتا ہے اور کوئی سب دنوں کو برابر جانتا ہے۔ ہر ایک اپنے دل میں پورا اعتقاد رکھّے۔
6 جو کسی دن کو جانتا ہے وہ خداوند کے لئے مانتا ہے اور جو کھاتا ہے وہ خداوند کے واسطے کھاتا ہے کیونکہ وہ خدا کا شکر کرتا ہے اور جو نہیں کھاتا وہ بھی خداوند کے واسطے نہیں کھاتا اور خدا کا شکر کرتا ہے۔
7 کیونکہ ہم میں سے نہ کوئی اپنے واسطے جیتا ہے نہ کوئی اپنے واسطے مرتا ہے۔
8 اگر ہم جیتے ہیں تو خداوند کے واسطے جیتے ہیں اگر مرتے ہیں تو خداوند کے واسطے مرتے ہیں۔ پَس ہم جئیں یا مریں خداوند ہی کے ہیں۔
9 کیونکہ مسیح اسی لئے مؤا اور زندہ ہوا کہ مردوں اور زندوں دونوں کا خداوند ہو۔
10 مگر تو اپنے بھائی پر کس لئے الزام لگاتا ہے؟ یا تو بھی کس لئے اپنے بھائی کو حقیر جانتا ہے؟ ہم تو سب خدا کے تخت عدالت کے آگے کھڑے ہوں گے۔
11 چنانچہ یہ لکھّا ہے کہ خداوند فرماتا ہے مجھے اپنی حیات کی قَسم ہر ایک گھٹنا میرے آگے جھکے گا اور ہر ایک زبان خدا کا اقرار کرے گی۔
12 پَس ہم میں سے ہر ایک خدا کو اپنا حساب دے گا۔
13 پَس آیندہ کو ہم ایک دوسرے پر الزام نہ لگائیں بلکہ تم یہی ٹھان لو کہ کوئی اپنے بھائی کے سامنے وہ چیز نہ رکھّے جو اس کے ٹھوکر کھانے یا گرنے کا باعث ہو۔
14 مجھے معلوم ہے بلکہ خداوند یسوع میں مجھے یقین ہے کہ کوئی چیز بزاتہ حرام نہیں لیکن جو اس کو حرام سَمَجھتا ہے اس کے لئے حرام ہے۔
15 اگر تیرے بھائی کو تیرے کھانے سے رنج پہنچتا ہے تو پھر تو محبّت کے قاعدہ پر نہیں چلتا۔ جس شَخص کے واسطے مسیح مئوا اس کو تو اپنے کھانے سے ہلاک نہ کر۔
16 پَس تمہاری نیکی کی بدنامی نہ ہو۔
17 کیونکہ خدا کی بادشاہی کھانے پینے پر نہیں بلکہ راستبازی اور میل ملاپ اور اس خوشی پر موقوف ہے جو روح القدس کی طرف سے ہوتی ہے۔
18 اور جو کوئی اس طَور سے مسیح کی خدمت کرتا ہے وہ خدا کا پسندیدہ اور آدمیوں کا مقبول ہے۔
19 پَس ہم ان باتوں کے طالب رہیں جن سے میل ملاپ اور باہمی ترقّی ہو۔
20 کھانے کی خاطر خدا کے کام کو نہ بگاڑ چیز پاک تو ہے مگر اس آدمی کے لئے بری ہے جس کو اس کے کھانے سے ٹھوکر لگتی ہے۔
21 یہی اچھّآ ہے کہ تو نہ گوشت کھائے۔ نہ مَے پئے۔ نہ اَور کچھ اَیسا کرے جس کے سبب سے تیرا بھائی ٹھوکر کھائے۔
22 جو تیرا اعتقاد ہے وہ خدا کی نظر میں تیرے ہی دل میں رہے۔ مبارک وہ ہے جو اس چیز کے سبب سے جسے وہ جائز رکھتا ہے اپنے آپ کو ملزم نہیں ٹھہراتا۔
23 مگر جو کوئی کسی چیز میں چیز میں شبہ رکھتا ہے اگر اس کو کھائے تو مجرم ٹھہرتا ہے اس واسطے کہ وہ اعتقاد سے نہیں کھاتا اور جو کچھ اعتقاد سے نہیں وہ گناہ ہے۔
باب : 15
1غرض ہم زور آوروں کو چاہئے کہ ناتوانوں کی کمزوریوں کی رعایت کریں نہ کہ اپنی خوشی کریں۔
2 ہم میں ہر شَخص اپنے پڑوسی کو اس کی بہتری کے واسطے خوش کرے تاکہ اس کی ترقّی ہو۔
3 کیونکہ مسیح نے بھی اپنی خوشی نہیں کی بلکہ یوں لکھا ہے کہ تیرے لعن طعن کرنے والوں کے لعن طعن مجھ پر آ پڑے۔
4 کیونکہ جتنی باتیں پہلے لکھی گئیں وہ ہماری تعلیم کے لئے لکھی گئیں تاکہ صبر سے اور کتاب مقدّس کی تسلّی سے امید رکھّیں۔
5 اور خدا صبر اور تسلّی کا چشمہ تم کو یہ تَوفیق دے کہ مسیح یسوع کے مطابق آپس میں یک دل رہو۔
6 تاکہ تم یک دل اور یک زبان ہو کر ہمارے خداوند یسوع مسیح کے خدا اور باپ کی تمجید کرو۔
7 پَس جس طرح مسیح کے خدا کے جلال کے لئے تم کو اپنے ساتھ شامل کر لیا ہے اسی طرح تم بھی ایک دوسرے کو شامل کر لو۔
8 مَیں کہتا ہوں کہ مسیح خدا کی سَچّائی ثابت کرنے کے لئے مختونوں کا خادم بنا تاکہ ان وعدوں کو پورا کرے جو باپ دادا سے کئے گئے تھے۔
9 غَیر قَومیں بھی رحم کے سبب سے خدا کی حمد کریں۔ چنانچہ لکھا ہے کہ اس واسطے مَیں غَیر قَوموں میں تیرا اقرار کروں گا اور تیرے نام کے گیت گاؤں گا۔
10 اور پھر وہ فرماتا ہے کہ اَے غَیر قَومو! اس کی امّت کے ساتھ خوشی کرو۔
11 پھر یہ کہ اَے سب غَیر قَومو! خداوند کی حمد کرو اور سب امّتیں اس کی ستایش کریں۔
12 اور یسعیاہ بھی کہتا ہے کہ یسّی کی جڑ ظاہر ہو گی یعنی وہ شَخص جو غَیر قَوموں پر حکومت کرنے کو اٹھے گا اسی سے غَیر قَومیں امید رکھّیں گی۔
13 پَس خدا جو امید کا چشمہ ہے تمہیں ایمان رکھنے کے باعث ساری خوشی اور اطمینان سے معمور کرے تاکہ روح القدس کی قدرت سے تمہاری امید زیادہ ہوتی جائے۔
14 اور اَے میرے بھائیو! مَیں خود بھی تمہاری نسبت یقین رکھتا ہوں کہ تم آپ نیکی سع معمور اور تمام معرفت سے بھرے ہو اور ایک دوسرے کو نصیحت بھی کرسکتے ہو؟
15 تَو بھی مَیں نے بعض جگہ زیادہ دلیری کے ساتھ یاد دلانے کے طَور پر اس لئے تم کو لکھا کہ مجھ کو خدا کی طرف سے غَیر قَوموں کے لئے مسیح یسوع کے خادم ہونے کی توفیق ملی ہے۔
16 کہ مَیں خدا کی خوشخَبری کی خدمت کاہن کی طرح انجام دوں تاکہ غَیر قَومیں نذر کے طَور پر روح القدس سے مقدّس بن کر مقبول ہو جائیں۔
17 پَس مَیں ان باتوں میں جو خدا سے متعلّق ہیں مسیح یسوع کے باعث فخر کر سکتا ہوں۔
18 کیونکہ مجھے اَور کسی بات کے ذکر کرنے کی جرات نہیں سوا ان باتوں کے جو مسیح نے غَیر قَوموں کے تابع کرنے کے لئے قَول اور فعل سے نشانوں اور معجزوں کی طاقت سے اور روح القدس کی قدرت سے میری وساطت سے کیں۔
19 یہاں تک کہ مَیں نے یروشلیم سے لے کر چاروں طرف الّرکم تک مسیح کی خوشخَبری کی پوری پوری منادی کی۔
20 اور مَیں نے یہی حَوصلہ رکھّا کہ جہاں مسیح کا نام نہیں لیا گیا وہاں خوش خَبری سناؤں تاکہ دوسرے کی بنیاد پر عمارت نہ اٹھاؤں۔
21 بلکہ جَیسا لکھا ہے وَیسا ہی ہو کہ جن کو اس کی خَبر نہیں پہنچی وہ دیکھیں گے اور جنہوں نے نہیں سنا وہ سَمَجھیں گے۔
22 اسی لئے مَیں تمہارے پاس آنے سے بار بار لکا رہا۔
23 مگر چونکہ مجھ کو اَب ان ملکوں میں جگہ باقی نہیں رہی اور بہت برسوں سے تمہارے پاس آنے کا مشتاق بھی ہوں۔
24 اس لئے جب اسفانیہ کو جاؤں گا تو تمہارے پاس ہوتا ہوا جاؤں گا کیونکہ مجھے امید ہے کہ اس سفر مَیں تم سے ملوں گا اور جب تمہاری صحبت سے کسی قدر میرا جی بھر جائے گا تو تم مجھے اس طرف روانہ کر دو گے۔
25 لیکن بالفعل تو مقدّسوں کی خدمت کرنے کے لئے یروشلیم کو جاتا ہوں۔
26 کیونکہ مکدنیہ اور اخنیّہ کے لوگ یروشلیم کے غریب مقدّسوں کے لئے کچھ چندہ کرنے کو رضا مند ہوئے۔
27 کیا تو رضا مندی سے مگر وہ ان کے قرضدار بھی ہیں کیونکہ جب غیر قَومیں روحانی باتوں میں ان کی شریک ہوئی ہیں تو لازم ہے کہ جسمانی باتوں میں ان کی خدمت کریں۔
28 پَس مَیں اس خدمت کو پورا کر کے اور جو کچھ حاصل ہوا ان کو سَونپ کر تمہارے پاس ہوتا ہوا اسفانیہ کو جاؤں گا۔
29 اور مَیں جانتا ہوں کہ جب تمہارے پاس آؤں گا تو مسیح کی کامل بَرکَت لے کر آؤں گا۔
30 اور اَے بھائیو! مَیں یسوع مسیح کا جو ہمارا خداوند ہے واسطہ دے کر اور روح کی محبّت کو یاد دلا کر تم سے التماس کرتا ہوں کہ میرے لئے خدا سے دعائیں کرنے میں میرے ساتھ مل کر جانفشانی کرو۔
31 کہ مَیں یہودیہ کے نافرمانوں سے بَچا رہوں اور میری وہ خدمت جو یروشلیم کے لئے ہے مقدّسوں کو پسند آئے۔
32 اور خدا کی مرضی سے تمہارے پاس خوشی کے ساتھ آ کر تمہارے ساتھ آرام پاؤں۔
33 خدا جو اطمینان کا چشمہ ہے تم سب کے ساتھ رہے۔ آمین۔
باب : 16
1مَیں تم سے فتیبے کی جو ہماری بہن اور کنخریہ کی کلیسیا کی خادمہ ہے سفارش کرتا ہوں۔
2 کہ تم اسے خداوند میں قبول کرو جَیسا مقدّسوں کو چاہئے اور جس کام میں وہ تمہاری محتاج ہو اس کی مدد کرو کیونکہ وہ بھی بہتوں کی مدد گار رہی ہے بلکہ میری بھی۔
3 پرسکہ اور اَکولہ سے میرا سَلام کہو۔ وہ مسیح یسوع میں میرے ہم خدمت ہیں۔
4 انہوں نے میری جان کے لئے اپنا سردے رکھّا تھا اور صرف مَیں ہی نہیں بلکہ غَیر قَوموں کی سب کلیسیائیں بھی ان کی شکر گزار ہیں۔
5 اور اس کلیسیا سے بھی سَلام کہو جو ان کے گھر میں ہے۔ میرے پیارے اپینتس سے سَلام کہو جو مسیح کے لئے آسیہ کا ہے پہلا پھَل ہے۔
6 مریم سے سَلام کہو جس نے تمہارے واسطے بہت محنت کی۔
7 اندرنیکس اور یونانیاس سے سَلام کہو۔ وہ میرے رشتہ دار ہیں اور میرے ساتھ قَید ہوئے تھے اور رَسولوں میں نامور ہیں اور مجھ سے پہلے مسیح شامل ہیں۔
8 اَمپلیاطس سے سَلام کہو جو خداوند میں میرا پیارا ہے۔
9 اربانس سے جو مسیح میں ہمارا ہم خدمت ہے میرے پیارے استخس سے سَلام کہو۔
10 اَپلّیس سے سَلام کہو جو مسیح میں مقبول ہے۔ اَرستبولس کے گھر والوں سے سَلام کہو۔
11 میرے رشتہ دار ہیرودیون سے سَلام کہو۔ نَرکّسس کے ان کے گھر والوں سے سَلام کہو جو خداوند میں ہیں۔
12 تروفینہ اور تروفیسہ سے سَلام کہو جو خداوند میں محنت کرتی ہیں۔ پیاری پرسس سے سَلام کہو جس نے خداوند میں بہت محنت کی۔
13 روفس جو خداوند میں برگزیدہ ہے اور اس کی ماں جو میری بھی ماں ہے دونوں سے سَلام کہو۔
14 آسن کرتس اور فلگون اور ہرمیس اور پترباس اور ہرماس اور ان بھائیوں سے جو ان کے ساتھ ہیں سَلام کہو۔
15 فللکَس اور یولیہ اور نیر بوس اور اس کی بہن اور المپاس اور سب مقدّسوں سے جو ان کے ساتھ ہیں سَلام کہو۔
16 آپس میں پاک بوسہ لے کر ایک دوسرے کو سَلام کرو۔ مسیح کی سب کلیسیا تمہیں سَلام کہتی ہیں۔
17 اب اَے بھائیو! مَیں تم سے التماس کرتا ہوں کہ جو لوگ اس تعلیم کے برخلاف جو تم نے پائی نے اور ٹھوکر کھانے کا باعث ہیں ان کو تاڑ لیا کرو اور ان سے کنارہ کیا کرو۔
18 کیونکہ اَیسے لوگ ہمارے خداوند مسیح کی نہیں بلکہ اپنے پیٹ کی خدمت کرتے ہیں اور چکنی چپڑی باتوں سے سادہ دلوں کو بہکاتے ہیں۔
19 کیونکہ تمہاری فرمانبرداری سب میں مشہور ہو گئی ہے اس لئے مَیں تمہارے بارے میں خوش ہوں لیکن یہ چاہتا ہوں کہ تم نیکی کے اعتبار سے دانا بن جاؤ اور ابدی کے اعتبار سے بھولے بنے رہو۔
20 اور خدا جو اطمینان کا چشمہ ہے شَیطان کو تمہارے پاؤں سے کچلوا دے گا۔ ہمارے خداوند یسوع مسیح کا فضل تم پر ہوتا رہے۔
21 میرا ہمخدمت تیمتھیس اور میرے رشتہ دار لوکیس اور یاسون اور سوسپطرس تمہیں سَلام کہتے ہیں۔
22 اس خط کا کاتب ترتیس تم کو خداوند میں سَلام کہتا ہے۔
23 گیس میرا اور ساری کلیسیا کا مہمان دار تمہیں سَلام کہتا ہے۔ ارستس شہر کا خزانچی اور بھائی کو ارتس تم کو سَلام کہتے ہیں۔
24 [ہمارے خداوند یسوع مسیح کا فضل تم سب کے ساتھ ہو۔ آمین].
25 اب خدا جو تم کو میری خوشخَبری یعنی یسوع مسیح کی منادی کے موافق مضبوط کر سکتا ہے اس بھید کے مکاشفہ کے مطابق جو ازل سے پوشیدہ رہا۔
26 مگر اس وقت ظاہر ہو کر خدائے ازل کے حکم کے مطابق نبیوں کی کتابوں ذریعہ سے سب قَوموں کو بتایا گیا تاکہ وہ ایمان کے تابع ہو جائیں۔
27 اسی واحد حکیم خدا کی یسوع مسیح کے وسیلہ سے ابد تک تمجید ہوتی رہے۔ آمین۔
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید