FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

عکاس

 

گوپی چند نارنگ نمبر

 

               مدیر: ارشد خالد

 

 

 

 

 

 

 

مہمان اداریہ

 

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اردو تحقیق و تنقید کا ایک معتبر نام سمجھا جاتا رہا ہے۔ان کے بعض علمی کام اہمیت کے حامل تھے، لیکن نہ جانے ان کے سر میں کیا دھُن سمائی کہ خود کو علمی لحاظ سے بہت ہی منفرد ظاہر کرنے کے لیے انہوں ما بعد جدیدیت کی باگ ڈور سنبھالنے کا ذمہ لے لیا  اور اسے نبھانے کے لیے کسی محنت و ریاضت کی بجائے براہِ راست مغربی دنیا کی علمی کتابوں پر ہاتھ صاف کر دیا۔مغربی کتابوں کے سرقے کرتے ہوئے انہوں نے اتنی دریا دلی کا مظاہرہ کیا کہ نقل کرنے کے لیے جتنی کم از کم عقل سے کام لینا چاہئے، اتنی عقل سے بھی کام نہیں لیا۔ عمران شاہد بھنڈر  کا یادگار کام ہے کہ انہوں نے اپنے مسلسل مضامین کے ذریعہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے سرقوں کو ادبی دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ان کا پہلا مضمون انگلینڈ کے اخبار پاکستان پوسٹ  اور ادبی رسالہ نیرنگِ خیال راولپنڈی میں چھپنے کے باوجود قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول نہیں کرا سکا تھا جبکہ جدید ادب جرمنی میں اس مضمون کی اشاعت سے پوری ادبی دنیا میں ان سرقوں کا چرچا ہو گیا۔(خیال رہے کہ مزید اضافوں کے نتیجہ میں جدید ادب میں چھپنے والا پہلا مضمون نیرنگِ خیال والے مضمون سے دوگنا ہو گیا تھا)۔روزنامہ منصف حیدرآباد دکن، روزنامہ اردو ٹائمز ممبئی، عکاس اسلام آباد، شب خون خبر نامہ الہٰ آباد، انٹرنیٹ میگزین دستک کینیڈا  اور مزید نہ جانے کتنے اخبارات و رسائل نے اس مضمون کی مکرر اشاعت کی۔(ایک  اور مضمون حال ہی میں مژگاں کلکتہ نے بھی شائع کیا ہے )چونکہ یہ ساری اشاعتِ مکرر جدید ادب کی وجہ سے ہوئی تھی اسی لیے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے اشارے پر اصل مضمون نگار کے مقابلہ میں جدید ادب کے مدیر حیدر قریشی کو زیادہ زد پر رکھا گیا۔انہیں متعدد نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، حیدر قریشی نے بعض نقصانات کے بارے میں کھل کر بتا دیا ہے، بعض کو اس لائق ہی نہیں سمجھا کہ ان کا ذکر کرتے۔تاہم ایک اہم ترین نقصان کا انہوں نے ابھی تک اظہار نہیں کیا۔اس کے لیے حیدر قریشی مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔حال ہی میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے لندن کے ایک نہایت ہی غلیظ شخص  اور فارسی سے چوریاں کر کے ’’نقاد‘‘ بننے والے شخص سے غلیظ گالیوں  اور فرقہ پرستانہ رویوں پر مشتمل ایک مضمون لکھوایا  اور شائع کروایا ہے۔وہ شخص تو اس لائق نہیں کہ اس کی کسی بد زبانی کا جواب دیا جائے لیکن اس کے نتیجہ میں عمران شاہد بھنڈر نے ’’سرقے کا کوہ ہمالیہ‘‘ لکھ کر نارنگ صاحب کے مزید سرقے بے نقاب کیے ہیں۔ اور اسی کے نتیجہ میں عکاس کا یہ گوپی چند نارنگ نمبر اشاعت پذیر ہو رہا ہے۔اس کا کریڈٹ ڈاکٹر نارنگ کی پی آر کے طریقۂ واردات کو دیا جانا چاہیے۔اس مضمون میں مضمون نگار عمران شاہد بھنڈر کا انداز ان کے سابقہ مضامین سے بھی زیادہ زیادہ جارحانہ ہو گیا ہے لیکن جس مضمون کے نتیجہ میں یہ لکھا گیا ہے اس کے مقابلہ میں یہ ابھی بھی بہت شائستہ ہے۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ بظاہر خود کو سیکولر ذہن کا آدمی کہتے ہیں لیکن یہ حقیقت کھل کر ظاہر ہو چکی ہے کہ وہ اپنے مفاد کی خاطر کسی طرح کی فرقہ پرستانہ حد تک جا سکتے ہیں  اور جا چکے ہیں۔ اور اس میں کسی بھی حد تک گر جانے کو وہ گرنا بھی نہیں سمجھتے۔اپنی ذات  اور اپنے مفاد کے لیے یہ ان کی ’’اعلیٰ ظرفی‘‘ کا ثبوت ہے۔یہاں اس امر کا اظہار کرنا بھی ضروری ہے کہ عمران شاہد اپنے مضامین میں گوپی چند نارنگ کے سرقوں کی نشاندہی کے علاوہ جن دوسرے متعلقات میں جاتے ہیں وہاں پر ان کے سرقوں کی نشاندہی کی داد دینے کے باوجود ان سے اختلاف کرنا پڑتا ہے۔جدید ادب (شمارہ نمبر ۱۰ صفحہ نمبر ۲۰۶) میں حیدر قریشی نے بھی(نمبر ہذا ص ۴۱پر) اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اور یہاں بھی ان تحفظات کا اظہار ضروری ہے۔ مثلاً فضیل جعفری صاحب نے دس سال پہلے سے یہ لکھ رکھا ہے کہ گوپی چند نارنگ جن کتابوں کے حوالے دے رہے ہیں لگتا ہے انہوں نے وہ اصل کتابیں پڑھی نہیں ہیں۔بعض دیگر ناقدین بھی یہ بات اپنے اپنے انداز میں کئی برس پہلے سے کہہ چکے ہیں۔جیسے سکندر احمد نے انہیں ’’ادنیٰ ترین تراجم کی بد ترین مثال‘‘ قرار دیا۔احمد ہمیش نے ’’انگریزی متن کے ناقص تراجم‘‘ سے موسوم کیا۔اسی طرح ہمارے بہت سارے ناقدین نے ما بعد جدیدیت کی محض رپورٹنگ نہیں کی۔اس قسم کے بیانات سے عمران شاہد بھنڈر کے اردو میں مطالعہ کی کمی کا احساس ہوتا ہے  اور ایسا لگتا ہے وہ اپنی نصابی حدود میں جو کارنامہ سر انجام دے چکے ہیں، اگر وہ ان کا پی ایچ ڈی کا موضوع نہ ہوتا تو وہ اپنے کسی  اور سبجیکٹ تک ہی محدود ہوتے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے ما بعد جدید مغربی تصورات سے بحث کرتے ہوئے محض رپورٹنگ نہیں کی۔ ’مصنف کی موت‘ کے تصور کو مکمل طور پر رد کیا، متن کی اہمیت کو شدت کے ساتھ اجاگر کیا۔فضیل جعفری  اور وزیر آغا وغیرہ کی یہ صرف دو مثالیں ہیں۔اردو تنقید و ادب میں مزید کئی مثبت  اور روشن مثالیں موجود ہیں۔سب کچھ منفی نہیں ہے۔اسی طرح عمران کے بعض دوسرے مباحث پر بھی ہمارے تحفظات ہیں۔خصوصاً جہاں ایسی غیر متعلقہ باتوں کی بھرمار ہے جن کا سرقہ کی نشاندہی کے بنیادی مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں  اور جو ان کے یونیورسٹی نوٹس  اور نصابی نوعیت کے مواد پر مبنی دکھائی دیتی ہیں۔ تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عمران شاہد اردو تنقید میں  اور کوئی کتنا اہم کام کر لیں لیکن گوپی چند نارنگ کے سرقوں کو بے نقاب کرنا ان کا سب سے اہم کام  اور یہی ان کی ادبی شناخت رہے گا۔ارشد خالد کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے اس نمبر کو ترتیب دینے میں کام کرنے کا موقعہ دیا۔

جدید ادب کے شریک مدیر کی حیثیت سے بھی  اور اپنے پی ایچ ڈی کے موضوع کی وجہ سے بھی میں اس کارِ خیر میں پہلے بھی شامل تھا  اور اب بھی شامل ہوں۔اس نمبر کی اشاعت کے بعد ہماری اردو کی ادبی دنیا کی حق گوئی و بے باکی  اور منافقت و ریاکاری کے دونوں پہلو زیادہ نمایاں ہوں گے۔

 

 

پروفیسر گوپی چند  اور جامعہ ملیہ اسلامیہ

               پروفیسر مسعود حسین خاں

(سابق وائس چانسلر۔جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی)

 

(خود نوشت سوانح ’’ورودِ مسعود‘‘ سے ماخوذ)

میں ذاتی علم کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ نارنگ صاحب فرقہ وارانہ ذہن نہیں رکھتے۔لیکن جب دیگر اساتذہ نے ان کے خلاف اس حربے کو استعمال کرنا چاہا تو پھر انہوں نے بھی اس کے استعمال میں دریغ نہیں کیا۔جامعہ کالج میں ہندو طلبہ کا تعلق بیشتر سماج کے ان طبقات سے تھا جہاں فرقہ واریت کے جذبات عام تھے۔وہ جامعہ کی روایات سے بھی واقف نہیں تھے، نہ اس کے خلقیہ سے۔انہیں میں ایک شورہ پشت نوجوان رہتاس نامی تھا جس کا تعلق پاس پڑوس کے ایک گاؤں جلینا سے تھا۔میں اُسے شورہ پشت اس لیے کہہ رہا ہوں کہ وہ ہمیشہ جامعہ کو بدنام کرنے کے درپے رہتا۔ایک بار اُس نے سیڑھیاں لگا کر جامعہ کالج کی تمام عمارتوں پر نعرے لکھ دیے تھے۔جب میں نے اس سے باز پرس کی تو ہنس کر کہا ’’شیخ الجامعہ صاحب ان عمارتوں پر کئی سال سے قلعی  اور رنگ نہیں ہوا ہے۔چاہتا ہوں کہ اسی طرح ہو جائے !‘‘ خیر تو نارنگ صاحب نے سیاست کا جواب سیاست سے دینے کے لیے اس سے  اور اس جیسے چند طالب علموں سے ربط ضبط پیدا کیا  اور جامعہ میں مسلم فرقہ واریت، کے نقطے پر دونوں ہم رائے ہو گئے۔اس شورہ پشت نے اس کی اطلاع معاشیات کے شعبے کے (جہاں وہ طالب علم تھا)ایک مسلمان استاد انور رضا رضوی صاحب کو دی جو نارنگ صاحب کی تاک میں تھے۔دونوں میں سانٹھ گانٹھ ہوئی۔انہوں نے اسے امتحان میں بہت اونچے نمبر دینے کا وعدہ کیا  اور اس نے نارنگ صاحب کی گفتگو کو ٹیپ کرنے کی پیش کش کی۔چنانچہ اسے ایک نہایت اثر پذیر ٹیپ ریکارڈر فراہم کیا گیا۔اس نے پلان کے مطابق نارنگ صاحب کو ٹیلی فون کیا۔گفتگو کا سلسلہ جامعہ ملیہ سے شروع ہوا  اور یہاں ہندو طالب علموں سے جو تعصب برتا جاتا ہے اس سے ہوتا ہوا بعض اشخاص تک جا پہنچا۔جن کے بارے میں اس نے اس انداز سے سوالات کیے کہ نارنگ صاحب کھل گئے۔ٹیلی فون پر گفتگو کا یہ سلسلہ تقریباً آدھ گھنٹے چلتا رہا اور ٹیپ ہوتا رہا۔نارنگ صاحب کو یہ سان گمان بھی نہ ہوا کہ میری صدا بندی کی جا رہی ہے۔غرض کہ اس نے اپنے سوالات سے ان سے ایسے جوابات حاصل کر لیے جن سے ان کے دل کی بات کا پتہ چلتا تھا۔یہ اُس نے اس امید میں کہ اب تو مجھے بی اے میں فرسٹ کلاس مل ہی جائے گا، اپنے معاشیات کے استاد کو لا کر دیا۔وہ دوسرے دن فاتحانہ انداز میں میرے مکان پر آئے  اور بولے ’’شیخ الجامعہ صاحب! میں آپ کو ایک ٹیپ سنانا چاہتا ہوں ‘‘۔میں نے سنا تو حیرت میں رہ گیا۔لیکن گولی بندوق سے نکل چکی تھی۔اس کے بعد وہ ٹیپ جگہ جگہ سنایا گیا۔ٹیپ سے مزید بنائے گئے  اور اب وہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے بڑے بڑے مجمعوں کو سنایا جانے لگا۔مجھ سے مانگ کی گئی کہ مجلسِ عاملہ کا خصوصی جلسہ طلب کر کے نارنگ صاحب کو فوری طور پر معطل کیا جائے۔۔۔۔۔۔میں اپنی تجویز پر اڑا رہا  اور کہتا رہا کہ جامعہ برادری اس سے قبل جامعہ کی عمارتوں پر جو کچھ ان کے بارے میں لکھتی رہی ہے وہ اس سے کہیں زیادہ سخت تھا جو کچھ کہ نارنگ صاحب نے جامعہ کے بعض اصحاب کے بارے میں ٹیلی فون پر کہا ہے۔بہر حال ہنگامہ آرائی بڑھتی رہی  اور اب ہمہ وقتی سیاست بازوں نے اس کا رُخ نارنگ صاحب کے بجائے میری جانب پھیر دیا۔صدر شعبہ کا ایک خفیہ اجلاس ہوا جس میں میرے خلاف عدم اعتماد کا میمورنڈم تیار کیا گیا۔ اور وہ اشوکا ہوٹل جا کر جسٹس ہدایت اللہ امیر جامعہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔۔۔۔۔میں نے ان سے اس مسئلے پر گفتگو کرنی چاہی، انہوں نے اغماز کیا اور میمورنڈم کو اس لائق تک نہیں سمجھا کہ مجھ سے تفصیلات تک پوچھتے۔اتنے میں بھبھکتی ہوئی کافی کے دو پیالے آ گئے  اور ہم لوگ اس سے لطف اندوز ہونے لگے۔جسٹس ہدایت اللہ کا مجھ پر  اور میرا اُن پر جو اعتماد تھا وہ  اور بڑھ گیا۔نارنگ صاحب کے خلاف جامعہ میں تحریک جب کسی طرح ختم ہوتی نظر نہ آئی تو مجھے پولیس کے مشورے پر تین اساتذہ  اور ایک طالب علم کے مچلکوں کے لیے اجازت دینا پڑی۔اس کے بعد خدا خدا کر کے دن رات کے وہ میلے ختم ہوئے جہاں ٹیپ بجا کر نارنگ صاحب کے خلاف جذبات کو بھڑکایا جاتا تھا۔اس واقعۂ نارنگ پر سب سے اچھا تبصرہ امیر جامعہ(چانسلر جامعہ ملیہ)ہی نے کیا۔ایک ملاقات میں کہنے لگے ’’مسعود صاحب! یہ پروفیسر صاحبان کتنے عقل مند لوگ ہوتے ہیں کہ طالب علموں سے آدھ آدھ گھنٹہ ٹیلی فون پر بات کرتے ہیں  اور ان کا عندیہ نہیں سمجھ پاتے ؟‘‘ ۱؂۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱

یہ وہی معروف ٹیپ تھا جس میں رہتاس نامی طالب علم سے گفتگو کرتے ہوئے نارنگ صاحب نے اپنا دل کھول دیا تھا۔اس ٹیپ کو سننے والوں کا کہنا ہے کہ نارنگ صاحب نے پوری ہندوستانی مسلم قوم کے بارے میں ایسے خیالات ظاہر کیے تھے جیسے آر ایس ایس  اور شیو سینا والے بھی بس خاص خاص مواقع پر ہی ظاہر کرتے ہیں۔انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو ’’مسلمانوں  اور اسلامیت‘‘ سے ہمیشہ کے لیے آزاد کرا لینے کے لیے مبینہ طور پر ایک طویل جدوجہد کا خاکہ پیش کیا تھا۔عین ممکن ہے کہ انسانی اقدار کے حامل کشادہ ذہن دانشور مسعود حسین خاں کا مشاہدہ  اور معلومات اپنی جگہ درست ہوں کہ نارنگ صاحب کو بائیں بازو والوں  اور بعض مفاد پرستوں ہدف بنایا ہوا تھا اور انہیں ایسی باتیں کہنے پر مجبور ہونا پڑا جو ان کے اندر فطری طور پر موجود تھیں۔

(فاروق ارگلی کا خصوصی نوٹ۔بحوالہ ’’تماشائے اہلِ قلم‘‘ صفحہ نمبر ۹۴۔مرتب فاروق ارگلی)

***

 

 

 

گوپی چند نارنگ سے جمیل تابش اور جمیل تابش سے گوپی چند نارنگ تک

 

 

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا ایک دلچسپ رنگ اردو دنیا میں یہ حقیقت سبھی جانتے ہیں کہ ڈاکٹر نارنگ مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے  اور وہ دہلی جامع مسجد کے امام عبدالحمید صاحب کے ہاتھوں پر ایمان لائے  اور اپنا آبائی نام  اور مذہب ترک کر کے جمیل تابش اپنا نام رکھا۔اس کے بعد انہوں نے اپنی پہلی بیوی کو قانونی طور پر طلاق دی  اور پھر ایک نو عمر لڑکی منورما کو مسلمان کر کے اس سے شادی کی۔اگرچہ افسوس ہے کہ اس کے بعد وہ اپنے اعمال میں کہیں سے بھی مسلمان نظر نہیں آتے ہیں  اور نہ ہی اپنا اسلامی نام استعمال کرتے ہیں۔ وسیم مینائی۔

 

(بحوالہ ماہنامہ گلابی کرن دہلی۔نومبر ۱۹۹۸ء)

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اپنی پرسنل لائف میں بھی پروفیسر نارنگ نے کافی گل کھلائے ہیں۔وشوسنی(معتبر)سوتروں کا کہنا ہے کہ منورمہ نام کی ایک مہیلا سے دوسری شادی کرنے گئے پروفیسر نارنگ نے ۱۹۷۱ء کے جون ماہ میں دلّی کی جامع مسجد میں دھرما منترڑ(تبدیلِ مذہب)تک کر ڈالا تھا جامع مسجد سے جاری ایک سارٹیفکیٹ میں ان کا نام، پتا، دھرم ہندو کھتری، ماتھے پر چوٹ کا نشان وغیرہ لکھا ہے، انہوں نے بنا زور زبردستی کے اسلام قبول کیا۔۔۔سارٹیفکیٹ میں پروفیسر نارنگ کا اسلامی نام جمیل تابش لکھا ہوا ہے۔ کمارل انل

 

(ہندی اخبار ہمالیہ درپن میں مشہور ہندی صحافی کمارل انل کی رپورٹ سے اقتباس)

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کہتے ہیں پنر وواہ کے آرزومند تھے کیوں کہ پرانی بیگم کا پرانا پن راس نہ تھا۔ان کے مشرب میں چار نکاحوں کی سہولت نہ تھی، محبت کرنے والے بہتوں کا آزمودہ مجرب نسخہ آزما ڈالا۔تھوڑی دیر کو جمیل تابش بن گئے تو کیا زہر گھل گیا جو اشرار ’ہائے توبہ‘ مچا رہے ہیں۔کون سا وہ سچ مچ کے مسلمان بن گئے۔ماشاء اللہ پہلے سے زیادہ راسخ العقیدہ  اور پوتر وچاروں والے بن گئے کہ جامعہ ملیہ کا ’’اسلامیہ‘‘ تک شاق گزرا۔ فاروق ارگلی

 

(فاروق ارگلی کی مرتب کردہ کتاب ’’تماشائے اہلِ قلم‘‘ صفحہ نمبر ۱۳ سے اقتباس)

***

 

 

ڈاکٹر نارنگ ’ساختیات‘ ہی کے نہیں ’’خود ساختیات‘‘ کے بھی ماہر ہیں

 

               مشفق خواجہ

 

 

ڈاکٹر نارنگ صاحب جب بھی پاکستان تشریف لاتے ہیں تو یہاں کی ادبی دنیا میں زلزلہ سا آ جاتا ہے۔عام زلزلے سے زیر زمین سطح پر ارتعاش پیدا ہوتا ہے، ڈاکٹر نارنگ قضیۂ زمین برسرِ زمین کے قائل ہیں۔

ان سے ملنے کے لیے لوگ بے تاب ہوتے ہیں  اور وہ خود بھی سراپا اشتیاق بن جاتے ہیں۔ہر ایک سے اس طرح ملتے ہیں جیسے صرف اسی سے ملنے کے لیے انہوں نے زحمتِ سفر اُٹھائی ہو۔پچھلے ہفتے کراچی میں ایک مرتبہ پھر ڈاکٹر نارنگ کے حوالے سے خلوص و محبت کے بے مثال مناظر دیکھے میں آئے۔اس مرتبہ موصوف کی آمد کا سبب عالی صاحب تھے۔اس ابہام کی توضیح یہ ہے کہ مئی کے دوسرے ہفتے میں عرب امارات میں عالی صاحب کا جشن منایا گیا۔نارنگ صاحب نے اس جشنِ طرب میں شرکت کی  اور ان کی شان میں ایک خوبصورت مقالہ پڑھا۔اس مقالے میں عالی صاحب کی اتنی تعریف تھی کہ ان کے لیے اکیلے واپس آنا مشکل ہو گیا۔لہٰذا نارنگ صاحب انہیں کراچی چھوڑنے آئے۔کراچی میں نارنگ صاحب کا قیام ایک ایسے علاقے میں تھا جو شہر سے بہت دور ہے، اس لیے خیال تھا کہ وہ ہجومِ عاشقاں سے محفوظ رہیں گے  اور عالی صاحب کے بارے میں مقالہ لکھنے سے جو تھکن ہوئی ہے اس کا ازالہ کریں گے۔لیکن سننے میں آیا ہے کہ صبح کاذب ہی سے عشاق ان کے ہاں پہنچ جاتے تھے۔کوئی اخبار کے لیے انٹرویو لیتا تھا کوئی اپنی کتاب پر رائے کے لیے تحریری درخواست سامنے رکھتا تھا۔حد تو یہ ہے کہ ڈاکٹر عالیہ امام نے بھی انہیں اپنے ہاں مدعو کیا حالانکہ ترقی پسند ڈاکٹر نارنگ سے اتنا ہی پرہیز کرتے ہیں جتنا خالص ادب سے۔لیکن ڈاکٹر عالیہ امام بہت فراخ دل ہیں، وہ خاص خاص رجعت پسندوں کو بھی شایانِ توجہ سمجھتی ہیں۔خود ڈاکٹر نارنگ بھی فراخ دلی میں کچھ کم نہیں ہیں۔ترقی پسندوں سے وہ ایسی محبت سے ملتے ہیں جیسے ساتھ کے کھیلے ہوں۔ایک محفل میں تو انہوں نے پروفیسر ممتاز حسین کو اپنا معنوی استاد بھی کہہ دیا۔اس پر استاد لاغر مرادآبادی نے فرمایا: ’’ڈاکٹر نارنگ ساختیات کے ماہر ہیں۔ساختیات میں لفظوں سے بحث ہوتی ہے، معنوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔اس لیے معنوی استاد کا مطلب ہے لفظی استاد۔‘‘ ڈاکٹر نارنگ نے بھی ساختیات کا نقارہ اس زور سے بجایا ہے کہ سننے والوں کے کان گنگ  اور دماغ ماؤف کر دیے ہیں۔سمجھنے والے خاموش ہیں  اور نہ سمجھنے والے واہ واہ، سبحان اللہ کا شور مچا رہے ہیں۔نارنگ صاحب کی کراچی میں موجودگی کے دوران انتظار حسین نے بھی لندن جاتے ہوئے چند گھنٹوں کے لیے کراچی میں قیام کیا۔لندن کے اردو مرکز میں ان کے ساتھ ایک شام منائی جا رہی ہے۔کراچی کی ایک دعوت میں ڈاکٹر نارنگ  اور انتظار حسین کی ملاقات ہوئی۔کسی نے انتظار حسین سے پوچھا: ’’آپ لندن اکیلے جا رہے ہیں یا آپ کے ساتھ کوئی مقالہ نگار بھی جا رہا ہے۔‘‘ انہوں نے ڈاکٹر نارنگ کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا ’’میں جمیل الدین عالی کی طرح مقدور نہیں ہوں کہ نوحہ گر کو ساتھ رکھوں۔‘‘ نارنگ صاحب کا نیا تنقیدی مجموعہ ’’ادبی تنقید  اور اسلوبیات‘‘ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔اس کا ایک نسخہ انہوں نے ہمیں عنایت فرمایا ہے۔یہ نہایت فکر انگیز مقالات کا مجموعہ ہے۔اردو میں ایسے تنقیدی مجموعے کم شائع ہوئے ہیں جن میں روایتی تنقید سے ہٹ کر بات کی گئی ہو۔اس میں میرؔ، انیسؔ  اور اقبال کی اسلوبیات کے تجزیے ہیں۔فیض و عالی کے معنیاتی نظام کے جائزے ہیں۔شہر یار، بانی، ساقی فاروقی  اور افتخار عارف کی شاعری کے توصیفے ہیں۔نثری نظم کی شناخت بتائی ہے۔خواجہ حسن نظامی  اور ڈاکٹر ذاکر حسین کی خصوصیات بیان کی ہیں۔اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو یہ مجموعہ ضرور پڑھنا چاہیے کہ اردو شاعری کی اتنی تعریف کسی دوسری جگہ نہیں ملے گی۔ڈاکٹر نارنگ نے ان دونوں پر لکھتے ہوئے قلم توڑ دیا ہے۔انہوں نے یہ اچھا ہی کیا ہے۔اگر وہ خود قلم نہ توڑتے تو اس کتاب کے پڑھنے والے توڑ دیتے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اردو زبان و ادب کی جتنی خدمت ادبی معموں نے کی ہے اتنی ہمارے خیال سے کسی نے بھی نہیں کی ہو گی۔یہاں معموں سے ہماری مراد وہ چلتی پھرتی محترم شخصیتیں ہر گز نہیں ہیں جن کے نام کے ساتھ پروفیسر یا ڈاکٹر کا لاحقہ جڑا رہتا ہے  اور جنہوں نے جدیدیت، ما بعد جدیدیت  اور ساختیات و پسِ ساختیات کے چکر میں ڈال کر خود اردو ادب کو ایک معمہ بنا ڈالا ہے۔۔۔۔اُس زمانے میں ادبی معمے اردو والوں کو  اور بھی کئی خرافات سے دور رکھتے تھے۔نہ انہیں اس کی فکر رہتی تھی کہ کس اردو اکادمی نے اس مرتبہ کس غیر مستحق ادیب کو ایوارڈ سے نوازا ہے  اور نہ وہ اس بحث میں پڑتے تھے کہ ما بعد الجدیدیت  اور ساختیات و پسِ ساختیات کی اوّلین دریافت کا سہرہ کس کے سر باندھا جائے۔نیز یہ کہ جدیدیت کے بعد ما بعد جدیدیت آئی ہے تو کیا اس اصول کے تحت ما بعد جدیدیت کے بعد ما ما بعد جدیدیت آئے گی؟ اور کیا سن ۲۱۵۵ء تک آتے آتے اردو ادب میں ما ما ما ما  ما  ما ما بعد جدیدیت پڑھی جا رہی ہو گی؟

 

(نصرت ظہیر کے طنزیہ اردو کے ادبی معمے سے اقتباس)

 

 

نارنگ کی کتابوں کی فہرست  اور اصل تصانیف

 

               سکندر احمد

(ممبئی)

 

نارنگ کی کتابوں کی فہرست حامد علی خاں کی کتاب میں درج ہے مگر لطیفہ یہ ہے کہ فہرست میں درج پہلی ہی کتاب غیر مطبوعہ ہے۔۔کوئی بھی شخص غیر مطبوعہ کتابوں کی طویل فہرست پیش کر سکتا ہے۔۔چالیس کتابوں کی فہرست میں بارہ کتابوں کے پروفیسر موصوف نرے مرتب ہیں، مصنف نہیں۔اب پروفیسر موصوف کی تصانیف کی تعداد ٹھہری:۴۰- ۱۲= ۲۸۔۔۔ان اٹھائیس کتابوں میں سے ایک کتاب (معراج العاشقین)کے پروفیسر موصوف حاشیہ نگار ہیں۔چھ کتابیں ایسی ہیں جنہیں نارنگ نے خود ترتیب نہیں دی ہیں بلکہ ترتیب کے عمل میں موصوف شامل ہیں۔ اب تصانیف کی تعداد ٹھہری۲۸- ۶= ۲۲ حضرت نے کرشن چندر  اور راجندر سنگھ بیدی کیAnthologyکو مرتب کیا ہے۔Anthology کا لغوی معنی ہوتا ہے، انتخاب۔انہیں کسی بھی طرح تصنیف نہیں کہا جا سکتا۔اب پروفیسر موصوف کی تصانیف کی تعداد ہوئی بیس۔طوالت سے بچتے ہوئے صرف یہی کہنا ہے کہ حامد علی خاں کے مطابق چالیس سے زیادہ کتابیں گوپی چند نارنگ کی تصانیف میں درج ہیں، مگر ان کتابوں میں سے چھبیس ستائیس کتابیں ایسی ہیں جنھیں پروفیسر موصوف نے یا تو ترتیب دیا ہے یا ان کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل رہے ہیں یا کسی کے اشتراک سے ان پر کام کیا ہے۔ الفاظ (علی گڑھ)شمارہ ۱، ۲، جلد۔۱۱ کے صفحات ۹۴۔۹۵ میں بھی پروفیسر موصوف کی کتابوں کی فہرست درج ہے۔اس فہرست کے مطابق شری نارنگ صرف چھ، جی ہاں صرف چھ کتابوں کے مصنف کہے جا سکتے ہیں۔وہ کتابیں ہیں :1۔ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں ۱۹۶۰ء۔ 2۔کرخنداری اردو کا لسانیاتی مطالعہ (انگریزی) ۱۹۶۱ء۔ 3۔اردو کی تعلیم کے لسانیاتی پہلو۔۱۹۶۲ء۔ 4۔ریڈنگز اِن اردو پروز(انگریزی۔اردو) ۱۹۶۷ء۔ 5۔سفر آشنا۔۱۹۸۲ء۔ 6۔اسلوبیات میر۔۱۹۸۴ء۔ان کتابوں میں صرف دو کتابیں ایسی ہیں جن کا شمار تنقیدی تصانیف میں ہو سکتا ہے۔الفاظ کے مذکورہ شمارہ کی اشاعت کے بعد پروفیسر موصوف نے یہ اردو کتابیں شائع کرائیں۔1۔قاری اساس تنقید۔۱۹۹۲ء 2۔ساختیات، پس ساختیات  اور مشرقی شعریات۔۱۹۹۳ء مذکورہ دونوں کتابیں ادنیٰ ترین تراجم کی بد ترین مثالیں ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سکندر احمد کے مضمون گوپی چند نارنگ کی تصانیف کی حقیقی تعداد سے اقتباس مطبوعہ اعتراف پٹنہ یکم مارچ ۲۰۰۲ء بحوالہ کتاب تماشائے اہل قلم مرتب فاروق ارگلی)

***

 

 

 

نارنگ صاحب کا اصلی رنگ کیا ہے ؟

 

               ارون کمار

 

(دہلی)

نارنگ صاحب کا اصلی رنگ کیا ہے ؟ساہتیہ اکادمی کے صدر کا چناؤ ہو چکا ہے  اور اردو کے دانشور گوپی چند نارنگ، مہا شویتا دیوی کو ہرا کے صدر کی کرسی پر براجمان ہو چکے ہیں۔جب تک وہ اس کرسی پر بیٹھے رہیں گے، اس پوری مدت ہمارے جیسے لوگ سوال کرتے رہیں گے کہ نارنگ صاحب کا رنگ کیا ہے ؟ہم بلا خوفِ تنقید، نئی معلومات کے

 

سہارے اعلان کرتے رہتے ہیں کہ نارنگ صاحب کا رنگ بھگوا ہے۔ سماج کے ہر فرد کو، ہر لکھنے پڑھنے والے کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اتہاس، زبان  اور ادب کو ہمیشہ توڑنے کی، مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ذہنی طور پر لوگوں کو شکست دینے کے لیے، ان میں احساسِ کمتری پیدا کرنے کے لیے، انہیں غلام بنانے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔اس لیے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ایسی ہر کوشش کی مخالفت کریں، مخالفت ہی نہیں احتجاج بھی کریں۔

 

گوپی چند نارنگ کو ساہتیہ اکادمی کی کرسی پر اس لیے بٹھایا گیا تاکہ سنگھ پریوار اتہاس کی طرح زبان و ادب کو بھی نشانہ بنا سکے۔صاحبان آر ایس ایس کے ہندی جریدہ ’’پانچ جنّیہ ‘‘ میں ’’نامور کی وام پنتھی راج نیتی دھرا شائی‘‘ مضمون شائع ہوا ہے جس میں گوپی چند نارنگ کے انتخاب کا سواگت کیا گیا ہے۔اسی سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ نارنگ صاحب کے آر ایس ایس سے لنکس ہیں۔سنگھ پریوار کے موجودہ دورِ اقتدار میں دو ہی خیمے ہیں۔سنگھی  اور سنگھ مخالف۔اس وقت سماج کا کوئی بھی فرد نیوٹرل نہیں ہو سکتا۔اگر وہ اپنے آپ کو نیوٹرل کہتا ہے تو سنگھی خیمے کی حمایت کرتا ہے، اسے تقویت پہنچاتا ہے۔ یعنی آپ یا تو سنگھ پریوار کے مخالف ہیں یا اس کے حمایتی، بیچ کا کوئی راستہ نہیں ہے۔اگر گوپی چند نارنگ  اور ان کے حواری خود کو نیوٹرل بھی کہیں  تب بھی وہ سنگھ حمایتی ہی ہوں گے کہ ان لوگوں نے سنگھ مخالف طاقتوں کی امیدوار مہاشویتا دیوی کے خلاف چناؤ لڑا تھا۔اس چناؤ کے بعد گوپی چند نارنگ کے حواری  اور حمایتی کہہ رہے ہیں کہ نارنگ صاحب نے کمیونسٹوں کو شکست دے کر ادب کو بچا لیا ہے۔اس سلسلے میں ہندی ادب کے اشوک باجپئی  اور کرشناسوبتی کا نام بھی کمیونسٹوں کے زمرے میں رکھا جا رہا ہے۔دھیان دینے والی بات ہے کہ سنگھ پریوار کے لیے ہر سنگھ مخالف ’’کیمونسٹ‘‘ یا ’’سیکولرسٹ‘‘ ہوتا ہے۔اشوک باجپئی  اور کرشنا سوبتی کیمونسٹ نہیں ہیں۔انہیں تو ’’دہشت پسند‘‘ کہا جاتا ہے جو لیفٹ نظریہ سے متاثر ’’حقیقت پسندی‘‘ کے منافی ہے۔یہ دونوں بھی کٹّر سنگھ ورودھی ہیں اس لیے انہیں بھی کمیونسٹ خیمے میں داخل کر دیا گیا ہے۔نامور سنگھ، کرشنا سوبتی، اشوک باجپئی وغیرہ گوپی چند نارنگ ساز کوئی ذاتی کھندک تو رکھتے نہیں۔نارنگ جہاں سنگھ حمایتی نظریہ کی نمائندگی کر رہے تھے، وہیں سنگھ مخالف طاقتیں مہاشویتادیوی کے ساتھ تھیں۔ظاہر ہے سنگھ مخالفین کی تعداد کم تھی۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سنگھ پریوار اپنی جڑیں تیزی سے جماتا جا رہا ہے  اور وقت رہتے اس کا مداوا نہ کیا گیا تو ملک کے ہر سیکولر ادارے پر اس کا قبضہ ہو جائے گا۔

(مطبوعہ روزنامہ قومی آواز دہلی۔۷مارچ ۲۰۰۳ء)

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اب ذرا اس سارے منظر کو بھاجپا صدر وینکٹ نائڈو کے اس ہدایت نامے کی روشنی میں دیکھیے جس میں انہوں نے بھاجپا کے کلچر کے وزیر جگ موہن سے کہا تھا کہ وہ تینوں قومی اکادمیوں میں ان کو منصب دار بنائیں جو بھاجپا کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں  اور بائیں بازو کا رجحان رکھنے والوں کو اکادمیوں سے نکال باہر کریں۔

 

(زبیر رضوی کے تحریر کردہ ذہنِ جدید کے اداریہ سے اقتباس)

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ بی جے پی رہنما مُرلی منوہر جوشی کی مدح میں رطب اللسان ڈاکٹر مُرلی منوہر جوشی ہندی  اور سنسکرت کے ساتھ ساتھ اردو سے بھی آشنا ہیں۔اگرچہ انہوں نے اردو کے بارے میں کبھی دعویٰ نہیں کیا، لیکن جو لوگ اردو کے لیے دعوے کرتے رہتے ہیں ان سے بہتر کام انہوں نے کر دکھایا۔پچھلے دو تین برسوں میں پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ وزارت میں اردو کے بارے میں فضا بدلی ہے۔اب اردو وزارت کا دشوار ایجنڈا نہیں ہے، کوئی اچھوت موضوع نہیں ہے۔سب دل و جان سے اردو کا کام کرتے ہیں۔دیکھتے ہی دیکھتے قومی اردو کونسل کا بجٹ ایک کروڑ سے بڑھ کر آٹھ کروڑ ہو گیا ہے۔خود ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کو اس بات کا یقین ہے کہ اردو ہماری قومی میراث کا ایک حصہ ہے۔ہمیں اپنی تہذیب کے رنگوں کو  اور چوکھا کرنا ہے یا قومی زبان ہندی کو ہی مضبوط کرنا ہے تو پورے نقشے میں کوئی دوسری جدید ہندوستانی زبان ہندی سے اتنی قریب نہیں جتنی اردو۔۔۔۔ہر چند کہ ہندی کا سرچشمہ سنسکرت ہے لیکن عام استعمال  اور روزمرہ کی سب سے بڑی طاقت اردو سے آتی ہے۔اردو ہند آریائی زبان ہے۔اردو کی جڑیں ہندوستان میں ہیں۔سو اگر میں کہوں کہ ڈاکٹر جوشی اردو کے اداشناس ہیں  اور اس میں ان کی انسانیت کا بھی کار گر ہے  اور ان کی سائنسی نظر بھی تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔۔۔حق بات تو یہی ہے کہ اگر حق کا اقرار نہ کیا جائے تو یہ نا حق ہے۔ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی صحیح معنوں میں اردو کے ماتھے پر تلک ہیں۔

 

(بحوالہ تماشائے اہلِ قلم، مرتب فاروق ارگلی۔صفحہ نمبر ۵۷)

***

 

 

جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲ کی کہانی

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی مہربانی در مہربانی

               حیدر قریشی

 

(جرمنی)

 

جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲ بابت جنوری تا دسمبر۲۰۰۹ء کی اشاعت اکتوبر ۲۰۰۸ء میں ہو رہی تھی۔جدید ادب کو عام طور پر معلنہ تاریخ سے دو ماہ پہلے چھپوانے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ بحری ڈاک سے بیرون برِ صغیر کے پیکٹ بروقت پہنچ جائیں۔جدید ادب کبھی انڈیا سے چھپوا لیتا ہوں، کبھی پاکستان سے۔

گزشتہ چار شمارے (نمبر ۸، ۹، ۱۰، ۱۱ )جو ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی کے مصطفی کمال پاشا صاحب نے شائع کیے، وہ اشاعت کے لحاظ سے بتدریج بہترین ہو رہے تھے۔اس لیے مجھے ان کے ذریعہ ہی یہ کام کرانا اچھا لگ رہا تھا۔ ان کا کام کرنے کا انداز پروفیشنل ہے، بحیثیت پبلشر مجھے پاشا صاحب بہت اچھے لگے ہیں۔ شمارہ نمبر ۱۲ کی سیٹنگ کر کے میں نے فائنل فائلز انہیں بھیج دیں۔اکتوبر میں ہی ۲۸۸ صفحات کا رسالہ چھپ گیا، لیکن بائنڈنگ ہونے سے پہلے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب نے پبلشر پر قانونی چارہ جوئی کا دباؤ ڈال دیا۔پاشا صاحب کی مجبوری بجا تھی کہ وہ اشاعتی امور میں تو اچھا پروفیشنل کام کر سکتے تھے لیکن کسی قانونی جھگڑے میں الجھنا ان کے لیے ٹھیک نہ تھا۔سو اس کے نتیجہ میں چھپا ہوا جدید ادب بائنڈنگ سے روک لیا گیا۔نارنگ صاحب کا تقاضہ تھا کہ ان کے خلاف جدید ادب میں کچھ بھی نہیں شائع ہو۔لیکن جدید ادب شمارہ نمبر ۱۲ کی اشاعت میں ڈاکٹر نارنگ صاحب کی طرف سے ناجائز دباؤ کی روداد بعد میں، پہلے ان کی ناراضی کی وجہ جان لیں۔جدید ادب کے شمارہ ۹، ۱۰  اور ۱۱ میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی شہرہ آفاق تصنیف ’’ساختیات، پسِ ساختیات  اور مشرقی شعریات‘‘ کے بارے میں عمران شاہد بھنڈر کے تین مضامین شائع ہو چکے ہیں۔میں نے جدید ادب کے صفحات پر عمران شاہد بھنڈر کے مندرجات  اور سرقہ کے سنگین الزام سے بریت کے لیے نارنگ صاحب کو کھلی پیش کش کی کہ وہ جو بھی جواب لکھیں گے، اسے من و عن شائع کیا جائے گا۔لیکن انہوں نے جہاں خود کو ’’چہ دل اور است دزدے کہ بکف چراغ دارد‘‘ کی جیتی جاگتی مثال بنایا وہاں اب انہوں نے ’’چوری  اور سینہ زوری‘‘ کا بھی کھلا ثبوت فراہم کر دیا ہے۔علمی اختلاف رائے کسی سے بھی کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے دلیل سے کام لینا پڑتا ہے۔لیکن جب جواب بن نہ پڑے تو پھر انسان اپنی سماجی و سیاسی حیثیت سے فائدہ اُٹھا کر دلیل کا جواب پتھر سے دیتا ہے۔ نارنگ صاحب نے اب یہی کیا ہے۔جہاں دلیل کو پتھر سے توڑنا ٹھہرا وہ شہرِ سنگ دلاں سخت امتحان میں ہے اپنے کھلے سرقوں کا نارنگ صاحب کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔کیتھرین بیلسی، جولیا کرسٹوفر، کرسٹوفر نورس، ٹیری ایگلٹن، رامن سیلڈن، جان سٹرک، جیسے مغربی مصنفین کی کتابوں سے پیراگرافس کے پیراگرافس چوری کر لینے کا جواب نارنگ صاحب کے ذمہ ہے۔ٹیرنس ہاکس کی کتابStructuralism and Semiotics پیراگرافس کے معمولی سے ادل بدل کے ساتھ پوری کی پوری اپنی شاہکار ’’تصنیف‘‘ ساختیات، پسِ ساختیات  اور مشرقی شعر یا ت میں شامل کر لی۔Selden, Raman کی کتاب Contemporary Literary Theory سے اتنے صفحات چوری کیے کہ ہر اقتباس کے ساتھ سرقہ شدہ اقتباس دینا محال ہو گیا۔سرقہ کی نشاندہی کے لیے جدید ادب شمارہ ۱۱ کے صفحہ نمبر ۸۰ پراصل کتاب  اور نارنگ صاحب کی شاہکار کتاب کے صفحات نمبرز کی نشاندہی پر اکتفا کرنا پڑا۔مذکورہ سرقہ شدہ صفحات کا یہاں بھی حوالہ دے دیتا ہوں۔ رامن سیلڈن کی کتاب کے صفحات گوپی چند نارنگ کی کتاب کے سرقہ شدہ صفحات۲۷ تا ۴۲، ۷۹ تا ۱۰۶، ۴۹ تا ۷۰، ۲۸۸ تا ۳۲۹، ۱۴۹ تا ۱۵۸،  ۲۳۴ تا ۲۴۶، ۸۰تا ۱۰۳،  ۲۴۳ تا ۲۶۷ جس کتاب کی پیشانی پر اس قسم کے الفاظ جگمگا رہے ہوں : ’’پروفیسر نارنگ کی اب تک کی علمی و ادبی کتابوں میں سب سے وقیع  اور فکر انگیز کام‘‘ ’’نئی ادبی تھیوری ساختیات، پسِ ساختیات  اور ردِ تشکیل کا مکمل  اور مستند تعارف  اور تجزیہ‘‘ اور جس کا علمی پوسٹ مارٹم شرمناک سرقوں کو کھول کر سامنے لے آئے، اس کے بعد نارنگ صاحب نے اپنا دفاع تو کیا کرنا تھا، جدید ادب کی اشاعت میں رخنہ ڈالنے کی سازش شروع کر دی۔یہاں یہ مان لینا چاہیے کہ ساختیات، پسِ ساختیات  اور مشرقی شعریات نارنگ صاحب کی اب تک کی علمی و ادبی کتابوں میں سب سے اہم کتاب ہے۔اگر اس کتاب کو عمران شاہد بھنڈر نے مغربی کتابوں کا سرقہ ثابت کر دیا ہے تو نارنگ صاحب کی باقی کتابوں کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے ؟ اور ان کی یہ شاہکار ’’تصنیف‘‘ تو ’’نئی ادبی تھیوری ساختیات، پسِ ساختیات  اور ردِ تشکیل کا مکمل سرقہ‘‘ ثابت ہو چکی ہے۔

 

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب سارق تو اتنے دلیر ہیں ہی کہ چراغ ہتھیلی پر لے کر سرقہ کر چکے ہیں  اور یہ بھول گئے کہ اس سائبر ایج میں کہیں بھی کچھ چھُپا ہوا نہیں رہ گیا۔لیکن وہ چور ی کے ساتھ سینہ زوری بھی کر رہے ہیں  اور اس میں بھی انہیں امتیاز حاصل ہو گیا ہے۔جدید ادب کے شمارہ نمبر ۸ سے لے کر شمارہ نمبر ۱۱ تک سب ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی والوں نے شائع کیے  اور بڑے اچھے طریقے سے شائع کیے۔شمارہ نمبر۱۲، بھی اشاعت کے لیے انہیں بھیجا گیا۔رسالہ شائع ہو گیا لیکن اس کو ریلیز کرنے میں نارنگ صاحب رکاوٹ بن گئے۔پہلے کہا گیا کہ اس شمارہ میں سے نارنگ صاحب کے خلاف میٹر کو حذف کیا جائے۔ میں نے بتایا کہ اس شمارہ میں نارنگ صاحب کے سرقوں کی نشاندہی کرنے والا کوئی مضمون شامل نہیں ہے البتہ بعض قارئین نے اپنا ملا جلا ردِ عمل دیا ہے۔ نارنگ صاحب سے کہیں کہ اس بار اسے برداشت کر لیں۔آئندہ یا آپ کی مجبوری کا خیال رکھوں گا یا پھر کوئی  اور پبلشر ڈھونڈ لوں گا۔

لیکن پاشا صاحب کی طرف سے اصرار رہا کہ ایسا میٹر بھی حذف کیا جائے۔چنانچہ مجھے خطوط کے صفحات پر شامل تمام خطوط میں سے وہ حصے حذف کرنا پڑے جن میں قارئین ادب نے نارنگ صاحب کے سرقوں کی داد دی تھی۔اس کے نتیجہ میں ڈیڑھ صفحات سے کچھ کم خالی جگہ بچ گئی۔صفحہ کی بچی ہوئی جگہ پر میں نے یہ نوٹ دے دیا ضروری نوٹ: آخری مرحلہ میں خطوط کے صفحات میں سے محترمہ حمیدہ معین رضوی صاحبہ کا خط اشاعت سے روکنا پڑا۔دیگر خطوط میں بھی بہت سے حصے حذف کرنا پڑے۔وجہ۔۔۔ابھی ناگفتنی ہے۔قارئین کرام دعا کریں کہ اب رسالہ جرمنی سے ہی شائع کرنے کے قابل ہو جاؤں پھر آزادیِ اظہار کا کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو گا۔انشا ء اللہ!۔۔۔۔آخری مرحلہ کی سنسر شپ کے باعث اس شمارہ کا ایک صفحہ خالی بچ گیا تو اس پر اپنی دو تازہ غزلیں شامل کر رہا ہوں۔ حیدر قریشی  اور ایک صفحہ پر اپنی دو تازہ غزلیں شامل کر دیں۔ان غزلوں میں پہلی غزل کا مطلع یہ تھا:جتنے سیاہ کار تھے نردوش ہو گئے ہم سر جھکا کے شرم سے خاموش ہو گئے آخری سولہ صفحات کی ان پیج فائل فائنل کر کے پاشا صاحب کو بھیج دی تو بعد میں اس مطلع کی وجہ سے خیال آیا کہ نارنگ صاحب غزل کے اس مطلع کو بھی خود پر نہ محمول کر لیں۔چنانچہ میں نے پھر از خود اس غزل کو حذف کر کے ایک  اور غزل شامل کر دی۔ اور پاشا صاحب کو بھی لکھ دیا کہ اس وجہ سے یہ غزل بھی حذف کر رہا ہوں۔اتنی احتیاط کے باوجود میں نے پاشا صاحب سے کہا کہ اب اگر شمارہ ۱۲ میں کہیں نارنگ صاحب کے بارے میں کچھ ہلکا پھلکا سا لکھا ہوا رہ گیا ہو تو انہیں کہئے کہ اسے برداشت کر لیں۔چنانچہ خطوط کے صفحات کی فائل کے سولہ صفحات کی کاپی دوبارہ اشاعت پذیر ہوئی۔رسالہ کی جلد بندی ہو گئی  اور ایک بار پھر ’’آزادیِ اظہار‘‘ کے علمبردار ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اپنی سنسر شپ کا فیصلہ صادر کر دیا کہ اس میں دہلی یونیورسٹی کے علی جاوید صاحب کاجو خط شامل ہے، اسے بھی حذف کرایا جائے۔ یہ انتہائی تکلیف دہ سنسر شپ تھی لیکن میں نہ صرف اس کے لیے بھی راضی ہو گیا بلکہ ایک روز پہلے ۲۷اکتوبر کو موصول ہونے والے سلیم آغا قزلباش کے ایک خط کا اقتباس متبادل کے طور پر بھیج دیا۔سلیم آغا کا اضافہ کردہ خط جو علی جاوید کے خط کو حذف کر کے شامل کرنا پڑا وہ یہاں پیش ہے :جدید ادب کا شمارہ نمبر ۱۱ نظر نواز ہوا۔تازہ شمارے کے مشمولات سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اردو ادب کی متعدد اصناف نظم و نثر کو مذکورہ شمارے میں جگہ دی گئی ہے تاہم انشائیہ کی عدم موجودگی نے تشنگی کا احساس دلایا۔آپ خود بھی معیاری انشائیے باقاعدگی سے لکھتے رہے ہیں، اس حوالے سے انشائیے کو ’’جدید ادب‘‘ کے ہر تازہ شمارے میں جگہ ملنی چاہئے۔آپ کے ’’سدھارتھ‘‘ پر تحریر کردہ تجزیاتی مطالعے نے بعض ایسے گوشوں کو اجاگر کیا ہے جو کم از کم میرے لیے بالکل نئے ہیں۔اس قدر عمدہ تجزیاتی مطالعہ پیش کرنے پر میری جانب سے مبارکباد قبول فرمائیے۔ سلیم آغا قِزلباش(وزیر کوٹ۔ سرگودھا) چنانچہ خطوط کے صفحات کی سولہ صفحات کی فائل تیسری بار اس ترمیم کے ساتھ شائع کی گئی کہ علی جاوید کا خط حذف کر کے، اس کی جگہ سلیم آغا قزلباش کا خط شامل کیا گیا۔قطع نظر اس سے کہ نارنگ صاحب دہلی میں بیٹھے ہوئے علی جاوید کو تو روکنے کی ہمت نہیں رکھتے لیکن جدید ادب میں چھپا ہوا ان کا خط حذف کرانے کے لیے پاشا صاحب پر ہر طرح کا دباؤ ڈالتے ہیں۔ میری طرف سے اتنی لچک دکھائے جانے کے باوجود ڈاکٹر گوپی چند کی تشفی نہیں ہوئی۔چنانچہ اس کے باوجود رسالہ کو ریلیز نہیں کیا گیا۔ میں نے مجبوری کی صورت میں جتنی لچک دکھانا تھی، دکھا دی۔اس کے بعد میرے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ پاشا صاحب کی مجبوریوں کا خیال کرتے ہوئے کسی  اور پبلشر سے رابطہ کروں۔لیکن کچھ پاشا صاحب کی ہمت سے  اور کچھ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی مہربانی سے پھر رسالہ ریلیز کرنے کی اجازت دے دی گئی  اور اب جدید ادب کا شمارہ نمبر ۱۲ جنوری ۲۰۰۹ء سے پہلے نومبر کی آخری تاریخوں ہی میں پاکستان  اور جرمنی میں پہنچ چکا ہے۔مجھے نارنگ صاحب کی ذہنی حالت پر بھی کچھ شک ہونے لگا ہے۔وہ شمارہ ۹، ۱۰  اور ۱۱ کے تفصیلی مضامین کو تو جیسے تیسے برداشت کر گئے لیکن چند ہلکے پھلکے سے تنقیدی ردِ عمل پر اتنے گھبرا گئے کہ بار بار سنسر کرتے چلے گئے۔یہ خطوط کچھ ایسے خطرناک نہ تھے۔ریکارڈ کے طور پر وہ سارے خطوط یہاں درج کر رہا ہوں جنہیں سنسر کرنے کا اعزاز بخشا گیا۔بعض خطوط میں سے صرف نارنگ صاحب کا نام حذف کر دیا گیا  اور باقی جملہ ویسے رہنے دیا گیا تو وہ اسی پر خوش ہو گئے۔سو جن خطوط میں سے صرف نارنگ صاحب کا نام حذف کیا گیا  اور باقی جملے چھاپ دئیے گئے، انہیں بھی شامل کر رہا ہوں البتہ ان کے سنسر شدہ حصوں کو گہرا کر کے نمایاں کر دیا ہے

 

جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲ کے سنسر شدہ خطوط

 

 

The article of Imran Shahid Bhender in Jadeedadab.com is indeed an eye opener. We are very well familiar with many other qualities of Narang sahib but this aspect is particularly interesting.  Anyway, this is very unfortunate and plagiarism should be discouraged and condemned at every level. To achieve this goal I think wider publicity should be given to such cases.I am writing this letter to request you to allow us to reproduce the article in a new quarterly journal launched from Delhi. The journal ‘Behs-o-Mubahisa’ is started by a group of teachers and writers from Delhi. Asif Azmi is its editor and publisher. If you allow us, we would also like to have the matter as inpage file. I hope you would do this favour. However, if the permission is required from Imran Shahid sahib, I would request you to send his email ID

 

علی جاوید

 

(دہلی)

 

گوپی چند نارنگ سے متعلق عمران شاہد کی مفصل  اور مدلل تحریر ہر لحاظ سے لائق مطالعہ ہے۔بلا شبہ مصنف کا لہجہ کہیں کہیں پر کچھ زیادہ ہی درشت ہو گیا ہے، تاہم تحریر کی افادیت (بلکہ حقانیت) سے انکار نہیں کیا جا سکتا  اور اس کی بازگشت اردو دنیا میں دیر  اور دور تک سنی جا سکے گی۔ حیرت ہے کہ گوپی چند نارنگ جیسا جہاں دیدہ  اور زیرک نقاد اس دھوکے میں کیسے آگیا کہ سرقے کا یہ معاملہ ہمیشہ صیغۂ راز میں ہی رہے گا ! ایسا لگتا ہے کہ نارنگ صاحب نے اردو والوں کو کچھ زیادہ ہی Underestimate کر لیا  اور دھوکا کھا گئے۔ ایک طرف عمران شاہد بھنڈر کی صریح واضح  اور مدلل تحریر ہے (جس کا تحقیقی اعتراف محترمہ شبانہ یوسف (برمنگھم)نے اپنے مراسلے میں کیا ہے )تو دوسری جانب ڈاکٹر نار نگ کی ’شان استغناء‘ سے پُر خاموشی، …… اب ایسے میں سرقے کی بات کو کیونکر نظر انداز کیا جا سکتا ہے ! اس سلسلے میں کاوش عباسی کے مراسلے کے ساتھ آپ نے جو ادارتی نوٹ لگایا ہے اس کی برجستگی مجھے بہت پسند آئی۔ در اصل آپ نے ہم اردو والوں کی دکھتی رگ پر انگلی رکھ دی ہے۔ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے گیان چند جین کی کتاب ’ایک بھاشا، دو لکھاوٹ، دو ادب‘ پر اردو عوام الناس نے صدائے احتجاج بلند کیا تو چند ایک کو چھوڑ کر ہمارے بیشتر ادیبوں نے اس معاملے میں ( تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے ) ایسی ’’پر اسرار خاموشی‘‘ اختیار کر لی کہ اس کی گونج آج تک سنی جا سکتی ہے۔  اور اسکے بنیادی اسباب وہی تھے جن کا ذکر آپ نے اپنے ادارتی نوٹ میں کیا ہے۔

 

ارشد کمال

 

(دہلی)

 

ایک بار  پھر عمران شاہد بھنڈر کا مضمون گوپی چند نارنگ کے سرقہ کے بارے میں پڑھنے کو ملا۔انہوں نے اس مضمون میں اس کے سرقے کے بارے میں مزید شواہد پیش کئے۔حالانکہ بات تو پہلے ہی مضمون کے ساتھ واضح ہو گئی تھی۔ اور شاید عمران صاحب کو اس بات کا علم ہو گا کہ پاکستان  اور بھارت میں یہ کوئی نئی بات بھی نہیں۔یہاں تو شروع سے یہ کام چلا آ رہا ہے۔آپ انیس جیلانی  اور اس کے باپ کی مبارک اردو لائبریری کو تو جانتے ہیں۔انیس جیلانی نے اپنے باپ کے نام نوازش نامے کے ساتھ جو خط چھاپے ہیں۔اس میں نوح ناروی صاحب بھی اپنا ایک دیوان فروخت کرنے لئے پیشکش لئے بیٹھے ہیں۔اس طرح کی ادبی جعل سازی کے خلاف تو آپ نے ایک لمبی قلمی جدوجہد بھی کی ہے۔آپ کو معلوم ہے کہ پنجاب یونیورسٹی لاہور  اور زکریا یونیورسٹی ملتان کے کئی پروفیسروں (لیکچرار نہیں ) کے پی۔ایچ ڈی کے تھیسیز چوری کے نکلے ہیں۔جو انہوں نے باہر کے ملکوں میں جا کر سرکاری خرچوں پر چوری کئے تھے۔ایسے پروفیسروں میں کئی برطرف ہو گئے ہیں  اور کئی کے خلاف کاروائیاں چل رہی ہیں۔میں یہ بھی ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ بہت سے پروفیسروں کی کتابیں جن پر ان کے نام چھپے ہیں ان کے ایم۔ اے۔ایم۔فل  اور پی ایچ ڈی سٹودنٹس کی تحقیقات کا نتیجہ ہیں۔بات کچھ لمبی ہو گئی ہے در اصل میں بھنڈر صاحب سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اب نارنگ صاحب کی کسی  اور کتاب کا جائزہ لیں مثال کے طور پر اردو زبان  اور لسانیات وغیرہ کا  اور اس میں دیکھیں کہ نارنگ صاحب نے کن کن پر ہاتھ صاف کیا ہے۔ آخری باب خاص طور پر قابل ملاحظہ ہے۔ اسلم رسولپوری۔جام پور رسالہ مل گیا۔ ابھی اچھی طرح نہیں پڑھا ہے۔عمران شاہد کا مضمون بہت معلومات افزا ہے۔ہائی ڈ یگا۔اور ڈریدا اس عہد کے بہت بڑے بو رشوازی  اور استعماری مقاصد کے آلۂ کار ہیں اس سے بڑا یہ سچ ہے کہ ہمارے عہد کے ’’بڑ ے نقاد‘‘ عموماً  خود ساختہ بڑے ہیں۔  اور مغربی افکار کے، زہریلے مقاصد کو، اس میں پوشیدہ ایجنڈے کو صحیح طور پہ سمجھے بغیر پنڈت بن کر پڑھانے لگتے ہیں،  اور اذیت کی بات یہ ہے کہ اگر آپ عام آدمی کی نہیں خواص کے بھی ذ ہنی ا فق کو وسعت دینا چاہیں  اور انھیں باخبر کرنا چاہیں تو اس قسم کا سوال کیا جاتا ہے کہ۔ مغربی تنقیدی کلیات سے ہمارا کیا کام؟ اگر اکثریت ایسے لوگوں کی ہو جو جہا لت اوڑھے رکھنے پہ بضد ہوں تو نارنگ صاحب جیسے پنڈت خدائے تنقید نہ بنیں تو کیا کریں۔میرے اپنے ایک مضمون ’’قاری کی ردِ عمل تنقید کیا ہے ‘‘ (مطبوعہ سہ ماہی تجدیدِ نو۔لاہور شمارہ اکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۶ء) کا تعلق اس بات سے تھا کہ مغرب میں ادب سیاسی مقاصد کیلئے کیسے استعمال ہوتا ہے۔  اور قاری کے ردِ عمل کی تنقید اسی سلسلے کی کڑی کیسے ہے ؟اسی رویے کے خلاف ایڈورڈ سعید نے اشارہ کیا ہے کہ دانشوروں کو مکتبی،  اور ادارتی منتظمین کا غلام نہیں ہونا چاہئے۔ ما بعد جدیدیت ایک مجہول نقطۂ نظر تھا مگر ہمارے ہاں نقادوں نے بزعمِ خود خوب میدان مارے، بغیر جانے کہ اس تحریک کا مقصد نئی استعماریت کا فروغ تھا۔ عمران شاہد کے نارنگ صاحب پہ اعتراضات سے مجھے پورا اتفاق ہے اس لئے بھی کہ میں نے گزشتہ سا ل ڈریدا  اور فیمنزم کے گٹھ جوڑ پہ ایک مضمون لکھا تھا اس سلسلے میں تنقیدی نظریات کی پو ری تاریخ پڑھی تھی۔ اور وہ دماغ میں تازہ ہے، ایک دلچسپ بات  اور بھی ہے کہ مجھے ایک قریبی جاننے والے نے بتایا کہ نارنگ صاحب سربیٹن کی لائبریری میں بیٹھ کر اردو تنقید پہ کوئی کتاب لکھا کر تے تھے۔ مجھے بہت حیرت یوں ہوئی کہ اردو کی ایک کتاب بھی ہمارے علاقے کی لائبریری میں نہیں تھی میں نے مقامی ایم پی سے مل کر جنگ اخبار لگوا یا تھا اور تب سے یہاں چند اردو کی کتابیں رکھی جانے لگیں ہیں۔ تو یقیناً وہ اُن دنوں اردو کی نہیں انگریزی کی کتاب ترجمہ کرہے تھے  اور یہاں اردو کتابیں آنے سے بہت پہلے نارنگ صاحب اپنی علمیت کے شہرہِ آفاق پہ پہنچ چکے تھے۔انگریزی کی کوئی کتاب بھی کچھ پیسے دیکر منگوائی جا سکتی ہے جو انڈیامیں نہیں ملے گی۔ اگرچہ کاپی رائٹ کا قانون یہاں موجود ہے تاہم انڈیا پاکستان میں آپ پوری کتاب اپنے نام سے چھپوا لیں کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں لو گوں نے نارنگ صاحب سے اس سرقے کے بارہ میں پوچھا تھا

 

مگر انھوں کوئی جواب نہیں دیا۔ جس سے عمران صاحب کے الزامات کو تقویت ملتی ہے۔ویسے نارنگ صاحب کو یقین ہے کہ انڈیا میں کوئی انکا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ انکی علمیت کا بت تو پاکستان میں بہت اونچے مقام پہ ہے۔ جب لوگوں کو براہِ راست پڑھنے کے بجائے دوسروں کا ملغوبہ مل جائے  اور شاعری میں تک بندی معراجِ ادب قرار دیجائے تو سب کچھ ممکن ہے۔ لوگ آئے دن ڈاکٹریٹ کرتے ہیں  اور دوسروں کے خیالات کو دبارہ پیش کر دیتے ہیں۔ کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ حمیدہ معین رضوی(لندن)جدید ادب شمارہ نو(۹) شمارہ دس (۱۰)  اور شمارہ گیارہ (۱۱) میں جناب گوپی چند نارنگ پر جناب عمران شاہد بھنڈر کے مضامین کا ہنگامہ۔ آپ کے ادارتی نوٹ  اور جوئیہ صاحب کا رد عمل یہ سب خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔ جناب عمران شاہد بھنڈر نے اپنے انکشافات کو بڑے مدلل طریقہ سے اقتباسات  اور حوالوں کے ساتھ پیش کرتے ہوئے مغربی مفکرین کی نقالی  اور سرقے کو ہی نارنگ کی ادبی شناخت ثابت کر دیا ہے۔ اس سلسلہ میں محترمہ شبانہ یوسف نے ان تمام کتب تک رسائی حاصل کی جن کا حوالہ بھنڈر صاحب نے اپنے مضمون میں دیا محترمہ کا تفصیلی خط شمارہ نمبر گیارہ بے حد اہم گواہی پیش کرتا ہے۔ جس کے بعد شک و شبہے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اب اس بحث نے نیا دروازہ کھول دیا ہے۔ فی الوقت نارنگ صاحب کی مجرمانہ خاموشی پر ہنسی آ رہی ہے۔ رد عمل کے طور پر جاوید حیدر جوئیہ صاحب کا مضمون نفس مضمون سے ہٹ کر ذاتیات کو نشانہ بناتے ہوئے مخالفت برائے مخالفت کا ایک نمونہ پیش کرتا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔۔۔

تنہا تما پوری

(تما پور)

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ہندوستان کے بارے میں ابھی تک میرا تاثر  اور تجربہ یہی تھا کہ وہاں آزادیِ اظہار زیادہ ہے۔میں نے اپنے صحافتی کالموں میں ہندوستان کے انتہا پسند ہندوؤں  اور ان کے رہنماؤں کے بارے میں خاصے سخت الفاظ لکھے ہیں لیکن میرا وہ لکھا ہوا انڈیا ہی میں چھپتا رہا ہے۔کالم کی صورت میں بھی  اور کتابی صورت میں بھی۔لیکن کسی نے بھی اس آزادیِ اظہار میں رخنہ پیدا نہیں کیا۔اسی وجہ سے میرے دل میں انڈیا کی حکومتوں  اور اداروں کے لیے احترام کا جذبہ رہا ہے۔مجھے احساس ہے کہ انڈیا میں صحافتی آزادی کا مجموعی تاثر وہی ہے جو میرے دل میں موجود ہے لیکن ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب نے مغربی ادب سے اپنے کھلے سرقوں کے کھلے ثبوتوں کا جواب دینے کی بجائے جو طرزِ عمل اختیار کیا ہے وہ ہندوستان کی علمی، ادبی  اور صحافتی ساکھ پر ایک بد نما داغ ہے۔میں حکومت ہند سے درخواست کرتا ہوں کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی جانب سے کی جانے والی اس بلیک میلنگ کا نوٹس لے، جس نے انڈیا میں مہذب طریقے سے کیے جانے والے  آزادیِ اظہار کا گلا گھونٹنے والی حرکت کی ہے۔اسی طرح ان کی کتاب ساختیات، پسِ ساختیات  اور مشرقی شعریات کے سلسلہ میں ایک علمی کمیٹی بٹھائی جائے جو تحقیق کرے کہ نارنگ صاحب نے واقعی یہ سارے شرمناک سرقے کیے ہیں یا ان پر بے جا الزام ہیں۔اگر وہ پاک صاف ثابت ہوں تو ان کی مذکورہ کتاب کا انگریزی ترجمہ سرکاری طور پر شائع کرایا جائے۔ اور میں جدید ادب میں اس کتاب کے سرقوں کے حوالے سے چھپنے والے سارے میٹر کے لیے انڈیا کے قانون کے مطابق بخوشی ہر سزا بھگتنے کے لیے تیار رہوں گا۔مغربی دنیا میں اردو کے جتنے رسائل چھپتے ہیں، سب کے سب پاکستان  اور ہندوستان سے چھپ کر وہاں سے ریلیز کیے جاتے ہیں۔ان میں زیادہ تر کتابی سلسلے ہی ہیں۔میرے پاس ایسے تمام رسائل کی پوری لسٹ موجود ہے جو انڈیا سے چھپ کر یورپ سے ریلیز کیے جاتے ہیں۔ اور تو  اور ایک پاکستانی رسالہ بھی انڈیا سے چھپ کر دنیا بھر میں ریلیز کرنے کی خبر آ چکی ہے۔ادبی رسائل میں چھپنے والے مواد کا تعلق علم و ادب سے ہوتا ہے۔نارنگ صاحب کے بارے میں بھی جو کچھ شائع کیا گیا وہ سراسر علمی و ادبی معاملہ ہے۔اردو دنیا جس نقاد پر ناز کرتی رہی اس کا جو اصلی علمی حدود اربعہ سامنے آ چکا ہے وہ خود اردو والوں کے لیے انتہائی افسوسناک ہے۔اپنے سرقوں کا سامنا کرنے کی بجائے آئینہ دکھانے والوں کے آئینہ کو توڑنے کی کاوش کرنا ہر گز مستحسن نہیں ہے۔آپ کتنے آئینے توڑیں گے ؟اپنے آپ کو دیکھئے  اور پہچانئے نارنگ صاحب!

 

(تحریر کردہ :۴؍دسمبر ۲۰۰۸ء۔جرمنی سے )

 

(مطبوعہ سہ ماہی اثبات ممبئی۔شمارہ نمبر ۳۔دسمبر ۲۰۰۸ء تا جنوری، فروری۲۰۰۹ء)

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

’’ابھی تک ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے جو علمی سرقے نشان زد کئے گئے تھے، علمی سطح پر ان پر مسلسل سوال اُٹھائے جا رہے ہیں۔ڈاکٹر غفور شاہ قاسم کا ایک تازہ انٹرویو نوائے وقت میں شائع ہوا ہے، اس میں انہوں نے بھی سنجیدگی سے ان سرقوں کا سوال اُٹھایا ہے  اور اس بات پر زور دیا ہے کہ ڈاکٹر نارنگ کو ہی ان کا جواب دینا چاہئے۔۔۔۔۔ڈاکٹر نارنگ جتنے چاہیں خوشامد ی اپنے ارد گرد جمع رکھیں  اور چا ہے جتنی عالمی کانفرنسیز کرتے پھریں، ان کی کتاب ’’ساختیات، پس ساختیات  اور مشرقی شعریات‘‘ کے سرقے پوری طرح بے نقاب ہو چکے ہیں۔کانفرینسز اور سیمینارس میں شرکت کے باوجود ان پر ان سرقوں کی وضاحت کرنا لازم ہے وگرنہ وہ ادب میں جس کتاب کو اپنی شاہ کار کتاب قرار دے رہے تھے وہی انھیں مہا چور قرار دے رہی ہے۔‘‘

 

(ارشد خالد۔اسلام آباد)

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

غفورشاہ قاسم:۔۔۔۔۔

 

مجھے ایک بات کی ضرور نشان دہی کرنا ہے کہ ’’جدید ادب‘‘ جرمنی میں اشاعت پذیر ہونے والے عمران شاہد بھنڈر کے مضمون میں گوپی چند نارنگ پر مترجم ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس مضمون کا ابھی تک تسلی بخش جواب سامنے نہیں آیا۔ کاظم جعفری:مختصراً ہمارے قارئین کے لئے بتائیے کہ عمران شاہد بھنڈر نے اس مضمون میں کیا لکھا ہے ؟ غفور شاہ قاسم:عمران شاہد بھنڈر نے لکھا ہے کہ گوپی چند نارنگ کی کتاب ’’ساختیات، پس ساختیات  اور مشرقی شعریات‘‘ تحقیق و تنقید کی کتاب نہیں، یہ مغربی ناقدین کی تحریروں کا ترجمہ ہے۔جاوید حیدر جوئیہ نے اس مضمون کا جواب لکھا ہے جو قطعاً تشفی بخش دلائل پر مبنی نہیں ہے۔لیکن سب سے بہتر ہو گا کہ گوپی چند نارنگ خود اس کی وضاحت فرمائیں۔

 

(انٹرویو مطبوعہ ’’نوائے وقت‘‘ لاہور، ادبی ایڈیشن، مورخہ۱۸ جولائی ۲۰۰۸)

 

 

 

ایک یونیورسٹی میں حق گوئی و بے باکی کا جنازہ

 

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدر آباد کی جانب سے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کو ۲۱فروری ۲۰۰۹ء کو ڈی لٹ کے اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔۔۔۔۔۔ادارہ عکاس انٹر نیشنل کی جانب سے بیسویں صدی کے سب سے بڑے علمی و ادبی سارق کو یہ اعزاز دینے پر یونیورسٹی کو مبارکباد! ’’جدید ادب‘‘ کے تین شماروں میں ما بعد جدیدیت سے متعلق جو تاریخی مواد محفوظ ہو چکا ہے۔ وہ ریاست کرناٹک کے ایک چھوٹے سے گاؤں تماپور تک بھی پہنچ چکا ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے ساری دنیا میں پھیل چکا ہے تو کیا ہندوستان کی کسی بھی یونیورسٹی تک اس مدلل  اور تحقیقی مواد کی اطلاع بھی نہیں پہنچی ہو گی؟ مسروقہ مال پر اپنانا جائز قبضہ جما کر اس طرح کی ادبی جعلسازی کو اپنا کارنامہ بنا کر پیش کرنے والے کو ہماری یونیورسٹیوں میں آج بھی اعزازی ڈگریوں سے نوازا جا رہا ہے۔ تہنیتی پروگرام منعقد کئے جا رہے ہیں۔۔۔ اپنی بُرائی کو چھپانے کیلئے لوگ کیا کیا ڈھونگ رچا رہے ہیں۔ ہمارے اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے، حق گوئی  اور بیباکی کے جنازے اٹھائے ہوئے بازار میں آ چکے ہیں۔ہمارا تعلیم یافتہ، دانشور طبقہ خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ کوئی احتجاج نہیں، کوئی اختلاف نہیں  اور کوئی حق گوئی کیلئے منہ کھولنے کو تیار نہیں۔

 

تنہا تما پوری کے خط بنام حیدر قریشی سے اقتباس

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اردو اکادمی دہلی کے توسط سے اردو کا کیا بھلا کیا گیا؟ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے ٹورنٹو، کناڈا کی ایک نجی محفل میں کہا کہ: ’’اردو  اور ہندی ایک ہی زبان کا نام ہے۔بلکہ اردو تو کوئی زبان ہی نہیں، دراصل ہندی کو اردو کا نام دے دیا گیا ہے ‘‘ واضح رہے کہ بعینہ یہی خبر موقر روزنامہ جنگ کراچی میں اس کے ٹورنٹو کے نمائندے کے حوالے سے چھپی تھی۔جس کی کوئی تردید نہیں کی گئی تھی۔اب قارئین خود نتیجہ اخذ کر لیں  اور فیصلہ فرمائیں۔مزید ثبوت کے لیے ماہنامہ ’’قومی محاذ‘‘ اورنگ آباد، بھارت میں اگست ۲۰۰۰ء کے شمارے میں ’’گوپی چند ابن الوقتی کا شاہکار‘‘ کے عنوان سے جو گرانقدر  اور اہم اداریہ چھپا ہے، اس سے چند اقتباسات حاضر ہیں۔ ’’برسہا برس نارنگ کا اردو اکادمی دہلی پر قبضہ رہا۔۔۔نارنگ کا عہد در اصل دہلی پر بی جے پی  اور سنگھ پریوار کے اقتدار کا عہد ہے۔نارنگ نے ما بعد جدیدیت کے زیر عنوان ایک ادبی سرکس کی۔۔۔گوپی چند نارنگ سے پوچھا جانا چاہیے کہ دہلی میں اردو کی ترقی و بقا کی خاطر کیا کیا؟کتنے مدارس  اور کالج قائم ہوئے ؟اردو داں افراد کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوا؟ظاہر ہے ایسے سوالات سے گوپی چند کو کیا لینا دینا ہے۔‘‘

محمد احمد سبزواری کے اداریہ افکار کراچی۔شمارہ نومبر۲۰۰۰ء سے بحوالہ مضمون ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی نیرنگیاں از محسن بھوپالی

٭٭٭

 

 

امریکی شوگر ڈیڈی  اور ما بعد جدیدیت

 

               فضیل جعفری

 

(ممبئی)

 

ہمارے لیے وثوق کے ساتھ یہ کہنا ممکن نہیں کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اس تھیوری کو کسی باقاعدہ لائسنس کے تحت امپورٹ کیا ہے یا پھر یہ محض اسمگل شدہ مال ہے۔ حقیقت حال خواہ کچھ بھی ہو، صورت حال بہرکیف سنگین  اور خطرناک ہے۔ ہم نے اس مضمون کی پہلی قسط میں عرض کیا تھا کہ تھیوری، ساختیات، پس ساختیات، رد تشکیل  اور ما بعد جدیدیت جیسے نظریات کی ’ماں ‘ ہے۔ جے۔ہلس ملر (J. Hillis Miller) کے منقولہ بالا بیان کے مد نظر ہم اب یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ تھیوری ’ماں ‘ نہیں، دراصل ام الخبائث ہے۔ واضح رہے کہ مسٹر ملر کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ امریکہ کے تین مشہور ترین رد تشکیلی نقادوں میں سے ایک ہیں۔ ان کے اس اعتراف کو کہ امریکہ تھیوری کو ایٹم بم کی طرح ایکسپورٹ کر رہا ہے نہ تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے  اور نہ ہی رواروی میں ٹالا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔نارنگ صاحب کا یہ خیال بالکل صحیح ہے کہ تھیوری کی یورش کافی دنوں سے جاری ہے۔ ظاہر ہے کہ اس یلغار کا حقیقی مقصد ادب  اور دیگر انسانی علوم کی سالمیت، حرمت  اور خودمختاری کو ختم کرنا ہے۔ خود نارنگ صاحب کے نزدیک ادب حاکم نہیں، محکوم ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حاکم کون ہے۔ ہماری ناچیز رائے میں اصل حاکم امریکی سرمایہ دارانہ نظام ہے جسے تھیوری کا جنم داتا ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ تھیوری  اور مارکسزم (یا بقول نارنگ بائیں بازو کی ترجیحات) کے آپسی تعلق کے بارے میں ہم نسبتاً تفصیل کے ساتھ آگے لکھیں گے۔فی الحال صرف اتنا عرض کرنا کافی ہو گا کہ اس ادب دشمن تھیوری  اور اس کے بغل بچوں مثلاً پس ساختیات  اور ما بعد جدیدیت وغیرہ کا بنیادی مقصد ہی مارکسزم، پارلیمانی جمہوریت، طبقاتی جدوجہد  اور سیاسی احتجاج پر کاری ضرب لگانا  اور ان اقدار کو حتی الامکان ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دینا ہے۔ نارنگ صاحب نے تھیوری کی تعریف میں تجریدی بیانات کے انبار تو لگا دیے ہیں لیکن کہیں یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ جس تھیوری کی یورش، مسلسل کئی دہائیوں سے جاری ہے، اس کی پیدائش کیسے ہوئی، کب ہوئی  اور کہاں ہوئی؟ اس سلسلے میں عرض خدمت یہ ہے کہ تھیوری کا جنم ۱۹۶۶ میں جان ہاپکنز یونیورسٹی میں ہوا۔ یوں تو اس کے بیج دریدا، بارتھ  اور لاکاں جیسے دائیں بازو کی سیاست سے تعلق رکھنے والے فرانسیسی دانشوروں نے ڈالے، دایہ گیری کے فرائض جے۔ہلس ملر، پال دی مان  اور کلر نے انجام دیے لیکن اس کے اصلی پدر بزرگوار ہیں، امریکہ کے نامی گرامی سرمایہ دار  اور صنعت کار ہنری فورڈ دوئم۔آخر یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ ۱۹۵۴ میں شروع ہونے والی ویت نام جنگ ۶۵۔۱۹۶۴ تک ایک خطرناک موڑ پر پہنچ چکی تھی۔ امریکی پروفیسر  اور طلبہ یونیورسٹیوں سے باہر نکل کر سڑکوں پر آ گئے تھے۔ حکومت کے انسان کش رویے کے خلاف دھواں دھار تقریریں کی جا رہی تھیں  اور نعرے لگائے جار ہے تھے۔ چونکہ امریکہ میں سو فی صد خواندگی کے علاوہ عوامی ترسیل و ابلاغ کے ذرائع بھی بہت عام ہیں، اس لیے کالجوں  اور یونیورسٹیوں سے اٹھنے والی صدائے احتجاج ملک کے کونے کونے میں پہنچنے لگی تھی۔ان حالات میں امریکی حکومت کا فکر و تشویش میں مبتلا ہو جانا ایک فطری امر تھا۔ اسی نازک موڑ پر انتظامیہ نے ہنری فورڈ دوئم سے مدد طلب کی۔ فلنڈرس یونیورسٹی (آسٹریلیا) کے پروفیسر جان ہارورڈ (John Harwood) نے اپنی کتاب Eliot to Derrida: The poverty of Interpretation (1989) میں تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی حکومت کی ایما پر ہنری فورڈ دوئم نے ۱۹۶۵ کے آخر میں اپنے سازشی رفقا ئے کار (Co-conspirators) کی ایک میٹنگ طلب کی۔ واضح رہے کہ اس وقت تک رولاں بارتھ  اور ژاک دریدا وغیرہ کی سارتر دشمنی  اور سارتر کے حوالے سے کمیونسٹ دشمنی کے چرچے عام ہو چلے تھے۔ دریدا، سارتر کے بارے میں اپنا یہ مشہور جملہ لکھ چکا تھا:میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اتنے ڈھیر سارے مسائل پر بالکل غلط رائے رکھنے کے باوجود سارتر کو اتنی شہرت کیسے مل گئی  اور اسے اپنے عہد کا دانشورانہ ضمیر کیسے کہہ دیا گیا… (فلپ نورس کی کتاب: دریدا، ۱۹۸۷، ص۲۱)چنانچہ ۱۹۶۵ والی اس میٹنگ میں یہ طے کیا گیا کہ فرانسیسی دانشوروں کے اس گروہ کو امریکہ مدعو کیا جائے تاکہ یہ لوگ ایسے مباحث اٹھائیں کہ ریڈیکل امریکی پروفیسر  اور طلبہ ان میں الجھ کر رہ جائیں  اور پھر دسیوں برس تک سڑکوں پر نہ آ سکیں۔ نتیجے کے طور پر جے۔ہلس ملر  اور پال دی مان نے بحکم حاکم (فورڈ دوئم) اکتوبر ۱۹۶۶ میں The Language of Criticism and the Science of Man کے موضوع پر وہ سمینار منعقد کیا جس میں رولاں بارتھ  اور لاکاں کے علاوہ ژاک دریدا بھی موجود تھا۔ اس سمینار کے سارے مصارف ہنری فورڈ دوئم نے ہی برداشت کیے  اور یہیں سے امریکہ کے توسط سے دریدا کی عالمی شہرت کا آغاز ہوا۔ بقول پروفیسر سدرلینڈ، ردتشکیلی نقاد  اور تھیوری کے علم بردار اسٹبلشمنٹ کے خلاف چیختے چنگھاڑتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ امریکی سرمایہ داری ہی رد تشکیل  اور تھیوری کی ’’شوگر ڈیڈی‘‘ ہے۔ (شوگر ڈیڈی سے مراد وہ بوڑھا شخص ہے جو کسی نوجوان عورت پر بے دریغ دولت خرچ کرتا ہے تاکہ آگے چل کر اس کا جنسی  اور جسمانی استحصال کر سکے :ف۔ج)قیاس غالب ہے کہ محب مکرم ڈاکٹر نارنگ نے ما بعد جدیدیت پر دہلی میں جو سمینار منعقد کیا تھا، اس کا ماڈل (غالباً) جان ہاپکنز یونیورسٹی والے سمینار سے ہی اخذ کیا گیا تھا۔

 

(فضیل جعفری کے طویل مضمون سے اقتباس)

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

نارنگ صاحب نے ’’ساختیات، پس ساختیات  اور مشرقی شعریات‘‘ میں حوالے تو سینکڑوں کتابوں کے دیے ہیں لیکن ان کی تحریر سے ہر گز نہیں لگتا کہ انہوں نے ان کتابوں کو پڑھا بھی ہے۔

 

(فضیل جعفری کی ۱۹۹۷ء تحریر مضمون ساختی کباب میں ردِ تشکیل کی ہڈی۔مطبوعہ ذہنِ جدید دہلی، شمارہ ۲۲۔۲۳۔ ۱۹۹۷ء

***

 

 

گوپی چند نارنگ مترجم ہیں مصنف نہیں

تازہ ترین علمی اضافوں کے ساتھ

 

               عمران شاہد بھنڈر

 

(برمنگھم)

عمران شاہد بھنڈر کا یہ مضمون اپنی ابتدائی شکل میں نیرنگِ خیال راولپنڈی میں شائع ہوا تھا۔جب گوپی چند نارنگ کے مزید سرقے دریافت ہوئے تو مضمون دوگنا ہو گیا اور یہ جدید ادب جرمنی شمارہ جولائی تا دسمبر ۲۰۰۷ء میں شائع ہوا۔اس دوران گوپی چند نارنگ کے مزید سرقہ شدہ اقتباسات ہی نہیں ملے، بعض ابواب انگریزی کتابوں سے نقل کر کے اپنی دانشوری بگھارنے کا حیران کن انکشاف بھی ہوا۔اس طرح یہ مضمون اب مزید تازہ ترین ہو گیا ہے۔جس طریقے سے گوپی چند نارنگ نے انگریزی سے ما بعد جدیدیت کے ترجمے بغیر حوالے کے اپنی دانش کے طور پر چھاپے ہیں، اس سے کچھ بعید نہیں کہ ابھی یہ مضمون مزید وسعت اختیار کرے۔ تاہم اس وقت تک یہ تازہ ترین صورت میں ہے۔عمران شاہد بھنڈر پوسٹ ماڈرن ازم پر انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں لیکن لگتا ہے یہ گوپی چند نارنگ پر بھی انگلینڈ سے پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔ ہمارا علمی المیہ دیکھیں کہ گوپی چند نارنگ نے انگریزی سے سرقے کر کے جو کتاب لکھی ہے، پاکستان سے انہیں اسی کتاب پر ایک بہت بڑا ایوارڈ دیا گیا ہے۔

ارشد خالد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

گوپی چند نارنگ کا نام اردو ادب کی خدمات کے حوالے سے خاصا اہم سمجھا جاتا ہے۔ ان کی خدمات کے عوض ان کو حکومتِ ہند نے پدم شری  اور حکومتِ پاکستان نے نیشنل ایوارڈ سے نوازا۔ حالیہ چند برسوں کے دوران ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب انھوں نے پوسٹ ماڈرن ازم، جو مغربی سیاسی، سماجی، معاشی  اور ثقافتی سرگرمیوں کا نتیجہ تھا، کا تعارف اہلِ اردو سے کروایا۔اہلِ اردو کی اکثریت نے پوسٹ ماڈرن ازم کو مغرب زدہ کہہ کر مسترد کرنے کی کوشش کی، تاہم گوپی چند نارنگ نے اپنی علمی جستجو کو جاری رکھا  اور مخالفتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پوسٹ ماڈرن ازم کی ما بعد جدیدیت کے نا م سے اپنی کتاب ساختیات، پسِ ساختیات  اور مشرقی شعریات میں تشریح کی، جو ۱۹۹۴ء میں لاہور سے شائع ہوئی۔ساختیات دراصل ایک لسانیاتی تحریک تھی جسے سوئس ماہرِ لسانیات سیوسے ئرکے لسانیاتی ماڈل سے اخذ کیا گیا۔ یہ لسانیاتی نظریہ چونکہ سائنسی ہونے کا دعویدار تھا اس لیے اس ماڈل میں معنی کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے بعد ازاں ترامیم کی گئیں، بہرحال آج لسانیات مغربی درسگاہوں میں بحیثیت سائنس ہی پڑھائی جاتی ہے۔ لیوائی سٹراس نے یہ دعویٰ کیا کہ سماجی سائنسوں میں صرف لسانیات ہی ایک ایسا شعبہ ہے جسے حقیقی سائنس کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔رولاں بارتھ نے اسی لسانیاتی ماڈل کی بنیاد پر فرانسیسی ثقافت کے امتیازی خدوخال وضع کیے۔لسانیاتی کے باطنی رشتوں پر ثقافتی عوامل کی بنیاد دوسری جنگِ عظیم کے بعد رکھی گئی، جس کی وجہ سیاسی  اور معاشی حالات تھے۔ نظریہ سازوں نے یہ سوچا کہ امن و سکون سے اگر مختلف معاشروں کے ظاہری خد و خال کی بنیاد ہی تہہ نشین نسبت  اور افتراق پر رکھ دی جائے تو شاید مستقبل میں جنگوں کی ضرورت محسوس نہیں کی جائے گی۔ سیو سئیرکا ’’سگنیفائڈ‘‘ حتمیت کی علامت تھا، رولاں بارتھ کی کتاب "مائیتھالوجی” بھی ’’سگنیفائڈ‘‘ کی حتمیت کی داعی ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ معنی متعین شدہ ہیں۔ لسانیاتی بنیادوں پر اگر معنی حتمی ہے تو لسانیاتی ثقافتوں کی وضع کردہ شناختوں کو بھی حتمی تسلیم کرنا ضروری ہو گیا۔ اس خطرناک پہلو کا ادراک رولاں بارتھ کو بھی ہو گیا تھا فرانس میں ۱۹۶۰ء میں ساختیاتی ماڈل کے انہدام کی وجہ بھی یہی تھی۔رولاں بارتھ کے علاوہ لاکاں  اور دریدا وغیرہ کو بھی اس نظریے میں مضمر تباہ کن عوامل کا احساس مکمل طور پر ہونے گیا تھا، جس کی وجہ سے انھوں نے انفرادی، ثقافتی  اور ادبی سطح پر شناخت کے تصور کو ہی داؤ پر لگا دیا، تاہم اس سے پہلے ہی معاشی تقاضوں کی وجہ سے مغربی سامراج نے منڈیوں کی تلاش میں غریب ممالک پر یلغار کر دی تھی۔ مغربی سیاسی حکمران پسِ ساختیات کے برعکس ساختیاتی فکر سے چمٹے رہے۔ انھوں نے اسے حتمی سمجھ کر ظلم و جبر کا جواز تلاش کر لیا۔ سماجی و ثقافتی سطح پر لسانیاتی ماڈل نے محض جبر کو پروان چڑھایا، جبکہ ادبی سطح پر یہ اب بھی کار آمد ہے۔پوسٹ ماڈرن ازم کی ثقافتی یا معاشرتی جہت سے اختلاف ممکن ہے، لیکن لسانیاتی ماڈل کو محض اس بناء پر اہلِ مشرق کالعدم قرار نہیں دے سکتے کہ یہ مغرب زدہ ہے۔ اگر اہلِ اُردو اس سائنسی نظریے کی بنیاد میں مغربی سماجی، سیاسی یا ثقافتی عنصر کا عمل دخل دیکھ کر اسے مسترد کرتے ہیں تو یقیناً انھیں نیوٹن کے کششِ ثقل کے نظریے کو بھی رد کرنا چاہیے۔ اس مثال سے یہ نتیجہ اخذ کرنا عبث ہو گا کہ ان دونوں سائنسی نظریات کو ایک ہی کلیے کے تحت پرکھا جائے، مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ سائنسی نظریات کی قبولیت یا استرداد کا عمل ہر طرح کے تعصب سے بالا معروضی قوانین کے تابع ہونا چاہیے۔ سائنسی نظریات دنیا کی کسی بھی لیبارٹری میں ایک ہی جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں۔سیوسئر کی انقلاب آفریں دریافت یہی تھی کہ اس نے پہلے سے موجود زبان کے اصول و قواعد کو دریافت کیا، جو معنی کو ممکن بنا تے تھے۔اُردو بھی اپنی ایک ساخت رکھتی ہے۔اس میں معنی کے امکانات کو واضح کرنے والے اصول و قواعد کو سیوسئر کے لسانیاتی نظریے کی رو سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ جہاں پر ثقافتی، سیاسی، معاشرتی یا پھر معاشی تضادات اور امکانات کی وجہ سے اُمید و یاسیت کا تعلق ہے تو اس کے لیے مخصوص تناظر کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔اس لیے اس مرحلے پر مباحث و تجزیات کے لیے راستے کھل جانے چاہیں نا کہ فتوے جاری کر کے اُمید و امکانات کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دئیے جائیں۔اہلِ اُردو کو تو ویسے بھی اس حکم کا پابند رہنا چاہیے کہ علم کی کھوج کے لیے خواہ چین بھی جانا پڑے تو ضرور جائیں۔عرب فلاسفر اس حکم کی افادیت سے بخوبی آگاہ تھے۔کنڈی نے پلوٹینس کی کتاب Enneads کا ترجمہ ارسطو کی دینیات کے نام سے عربی میں شائع کیا۔ محمد بن موسیٰ الخوارزمی نے سنسکرت زبان سے علمِ ریاضی  اور علمِ ہئیت کا ترجمہ ۸۳۰ء میں عربی میں شائع کیا۔ ابنِ رشد نے ارسطو کی منطق  اور ما بعدالطبیعات کی تشریح کی(برٹرینڈ رسل، مغربی فلسفے کی تاریخ، ص، ۴۲۲۔۴۱۳)۔منطق، ریاضی، سائنس  اور فلسفیانہ تحقیقات کو انھوں نے (آج کے قنوطی فکر کے حامی جعلی تخلیق کاروں کے برعکس) ’’خیالات کی جگالی‘‘ کبھی نہیں سمجھا تھا، بلکہ ان علوم کے حصول کو انھوں نے ذہن و تخیل کی وسعت  اور انسانی عظمت کی معراج کا ذریعہ گردانا تھا۔علوم کی درآمد کے اس دور کو آج ہم لوگ فخر سے بیان کرتے ہیں۔گوپی چند نارنگ کو بھی بحیثیت ایک شارح کافی مشکلات پیش آئیں، جو ان کی طبیعت پر کچھ اس طرح اثر انداز ہوئیں کہ دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ’’بعض کرم فرما ہر کام میں کیڑے ڈالتے ہیں۔یہ بھی مبارک کام ہے، لیکن کچھ لوگ سرے سے ہی ہاتھ اُٹھا دیتے ہیں کہ ہماری تو سمجھ میں نہیں آتا۔ یوں وہ اختلاف کرنے کے حق سے بھی خود کو محروم کر دیتے ہیں، کیونکہ اختلاف کرنے کے لیے بھی بات کا سمجھنا شرط ہے۔۔۔۔ایسے لوگ اصلاً ہمدردی کے مستحق ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ اس سے نقصان ڈسکورس کا نہیں خود انھیں کا ہے ‘‘ ( ص، ۱۳۔۱۲ )۔تاریخِ انسانی کا کوئی بھی دور ہو نئی فکر کی مخالفت ہر عہد میں کسی نہ کسی صورت میں ہوتی رہی ہے۔ کانٹ کا یہ کہنا درست ہے کہ ’’بیشتر لوگ ہر تجدید کو اپنی مصلحتوں سے متصادم سمجھتے ہیں۔‘‘ تاہم ارتقاء کا سفر اس طرح کے مزاحمتی خیالات کے باوجود جاری و ساری رہتا ہے۔

اس حقیقت کو کسی کتاب میں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ معاشرتی و ثقافتی حالتوں کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔پوسٹ ماڈرن ازم عہدِ حاضر کی غالب تحریک ہے، جسے بعض مغربی نظریہ ساز ہائی ماڈرن ازم کا بحران بھی قرار دیتے ہیں، یہی زاویہ فکر میرے مقالے کا موضوع ہے جس کی تکمیل کے لیے میں یونیورسٹی آف سینٹرل انگلینڈ، برمنگھم سے منسلک ہوں۔پوسٹ ماڈرن ازم میں برپا ہونے والے ادبی و تنقیدی نظریات کی تحقیق کے سلسلے میں مجھے اُردو میں متعارف کرائے گئے نظریات تک رسائی کا موقع ملا۔کافی جستجو کے بعد میں گوپی چند نارنگ کے حوالے سے متذکرہ بالا حقائق تک پہنچا۔ اُردو میں ساختیاتی فکر کس طرح داخل ہوئی ہے ؟مجھے اُمید تھی کہ یہ ایک نیا زاویہ ہو گا۔ اُمید تھی کہ ہندوستانی  اور پاکستانی معاشرے کی ضروریات  اور ترجیحات کو سامنے رکھ کر کسی حد تک دفاعی حربہ اختیار کیا ہو گا۔، کیونکہ علوم کے حوالے سے مغرب پر سبقت کا خیال محض اب داستان پارینہ بن کر رہ گیا ہے۔ دفاع تو دور، گوپی چند کی وضاحتیں بھی مشکوک نکلیں۔ جوں جوں اُن کی کتاب کا مطالعہ کرتا رہا مایوسی بڑھتی رہی، کیونکہ کتاب میں کسی بھی سطح پر اوریجنیلٹی کا فقدان تھا۔مغربی نظریہ سازوں کے انتہائی پیچیدہ و دقیق افکار کی تفہیم کے بغیر حرف بہ حرف نارنگ صاحب نے بغیر کوئی حوالہ دئیے انھیں اپنے نام سے منسوب کر دیا ہے۔مغربی درسگاہوں میں یہ روایت جڑیں پکڑ چکی ہے کہ اگر ہم کسی بھی نظریہ ساز کے اقتباس کو لفظ بہ لفظ قلم بند کریں تو کتاب کا ایڈیشن، پبلیشر کا نام  اور صفحہ نمبر کا حوالہ دینا ضروری ہوتا ہے۔بصورتِ دیگر Plagiarism کے مرتکب کے خلاف ڈسپلینری ایکشن لیا جاتا ہے۔جس کے نتیجے میں درسگاہ سے بے دخلی بھی ممکن ہو سکتی ہے۔گوپی چند نارنگ کی کتاب میں سب سے بنیادی نقص یہ ہے کہ انھوں نے پوسٹ ماڈرن ازم کے حقیقی نظریہ سازوں، سیوسئر، لیوائی سٹراس، لاکاں، فوکو، دریدا اوربار تھ وغیرہ کے افکار تک براہِ راست رسائی حاصل نہیں کی بلکہ ان کے شارحین، رابرٹ سکولز(شولز بھی پڑھا جا سکتا ہے )، جوناتھن کلر، کیتھرین بیلسی، پیٹر بیری، ٹیرنس ہاکس اور کرسٹوفر نورس کے تجزیات و افکار کو بغیر حوالہ دئیے لفظ بہ لفظ اپنے نام سے بیان کیا ہے۔ گو کہ انھوں نے چند جگہوں پر حوالے کے ساتھ اُردو  اور انگریزی اقتباسات کو جوں کا توں نقل کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں دوسروں کے خیالات کی اہمیت کا احساس تھا۔ دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ’’افکار و خیالات تو فلسفیوں  اور نظریہ سازوں کے ہیں، تفہیم و ترسیل البتہ میری ہے ‘‘ (ص، ۱۴ )۔ یہاں یہ واضح رہے کہ گوپی چند نارنگ نے مصادر میں کتب کی تفصیل دے رکھی ہے  اور جہاں انھوں نے ضروری سمجھا صفحات کی تفصیل بھی رقم کی۔ جو تفصیل انھوں نے دے رکھی ہے اس مضمون میں انھیں فکری دیانت کی بناء پر نظر انداز کیا گیا ہے۔اگر چند ایک اقتباسات لفظ بہ لفظ، مصادر میں بغیر صفحہ نمبر کی تفصیل کے تحریر کیے ہوتے تو شک کے فائدے کی بناء پر انھیں یقیناً نظر انداز کر دیا جاتا، لیکن اتنی اہم اغلاط کی پردہ پوشی کرنا اُردو ادب میں قائم شدہ روایت کو مزید طول دینے کے مترادف ہے، جو یقیناً قابلِ تحسین عمل نہیں ہے۔اس مضمون میں میں نے گوپی چند نارنگ کے نقل کے رجحان کو عیاں کرنے کے علاوہ پوسٹ ماڈرن ازم کے حوالے سے ان کے فکری تضادات  اور قباحتوں پر بھی مختصر بحث کی ہے۔

 

آئیے چند ایک اقتباسات پر غور کرتے ہیں۔گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں، ’’اس سوسے ئری تناظر سے ظاہر ہے کہ ادب کا وہ نظریہ جسے حقیقت نگاری کہتے ہیں، قابلِ مدافعت نہیں ہے۔ یہ دعویٰ کہ ادبی فارم حقیقت کا عکس پیش کرتی ہے، صرف تکرار بالمعنی، (Tautological) ہے۔اگر حقیقت سے ہماری مراد وہ حقیقت ہے جس کا ہم تجربہ کرتے ہیں، یعنی جو تفریقی طور پر زبان کے ذریعے قائم ہوتی ہے تو یہ دعوی کہ ’حقیقت نگاری حقیقت کا عکس پیش کرتی ہے، دراصل یہ ہوا کہ، حقیقت نگاری اس دنیا کا عکس پیش کرتی ہے جو زبان کے ذریعے قائم ہوتی ہے ‘ (Constructed in Language) ظاہر ہے یہ ’تکرار بالمعنی‘ (Tautology) کے سوا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔(ص، ۷۸)کیتھرین بیلسی لکھتی ہے

From this post-Saussurean perspective it is clear that the theory of literature as expressive realism is no longer tenable. The claim that a literary form reflects the world is simply tautological. If by ‘the word’ we understand the world we experience, the world differentiated by language, then the claim that realism reflects the world means that realism reflects the world constructed in language. This is a tautology…………….(Belsey, Catherine. Critical Practice, London, Routledge, 2003, P,43)

 

گوپی چند نارنگ نے جو اقتباس درج کیا ہے اس میں سے بیلسی کے لفظ پوسٹ کو حذف کیا ہے جس سے بیلسی کا قائم کردہ معنی بھی متاثر ہوا ہے۔تاہم اس کے صفحہ نمبر کا حوالہ کہیں نہیں ہے۔ دوسرا انھوں نے مندرجہ بالا اقتباس میں ” تکرار بالمعنی” کو واوین میں لکھ کر یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ خاص اصطلاح کسی دوسرے نظریہ ساز سے ماخوذ ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ سارے کا سارا اقتباس جسے یہاں مختصراً پیش کیا گیا ہے بیلسی کی کتاب سے ماخوذ ہے۔ مندرجہ بالا تجزیہ کیتھرین بیلسی کا ہے گوپی چند نارنگ کا نہیں ہے۔مغرب میں بیلسی کی یہ کتاب ایک تعارفی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے، جو برطانیہ میں بی اے کے طلبہ کے لیے تنقیدی نظریات کا مختصر تعارف پیش کرتی ہے۔ یہاں قارئین کے لیے اس امر کا ادراک بھی ضروری ہے کہ گوپی چند نارنگ نے محض ایک ہی اقتباس کو نقل نہیں کیا بلکہ بیلسی کی اسی کتاب سے کئی اقتباسات لفظ بہ لفظ اپنے نام سے ترجمہ کیے ہیں۔آئیے ایک  اور اقتباس پر توجہ مرکوز کریں، ’’سیو سئر کی دلیل لفظوں کی ان کڑیوں پر مبنی ہے جو ایک تصور کے لیے مختلف زبانوں میں پائے جاتے ہیں۔

’اگر لفظ ما قبل موجود تصورات کے لیے قائم‘ ہوتے تو ایک زبان سے دوسری زبان میں ان کے معنی متبادل پائے جاتے، لیکن ایسا نہیں ہے، (کورس ص، ۱۱۶) حقیقت یہ ہے کہ مختلف زبانیں دنیا کی چیزوں کو مختلف طور پر دیکھتی  اور ظاہر کرتی ہیں۔سیوسئر نے کئی مثالیں دی ہیں۔فرانسیسی میں ایک لفظ ہے Mouton اس کے برعکس انگریزی اس کے متبادل Mutton اور Sheepمیں فرق کرتی ہے ‘ (گوپی چند نارنگ، ص، ۶۸)۔اب بیلسی کی طرف رجوع کرتے ہیں، Saussure’s argument depends on the different division of the chain of meaning

in different languages. ‘ If words stood for pre-existing concepts’ they would all have exact equivalents in meaning from one language to the next; but this is not true’ (Saussure, 1974: 116). The truth is that different languages divide or articulate the world in different worlds. Saussure gives a number of examples. For instance, where French has the single mouton, English differentiates between mutton, which we eat, and sheep………….(Belsey, 36-37)

 

. طوالت کے باعث اس اقتباس کو بھی مختصر رکھا گیا ہے، تاہم انتہائی قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ بیلسی نے اپنے تجزیے میں سیوسئر کی کتاب سے لیے گئے حوالے کو بشمول صفحہ نمبر پیش کیا ہے، جبکہ گوپی چند نارنگ نے یہ تاثر قائم کیا ہے کہ سیوسئر کا حوالہ انھوں نے بیلسی کی کتاب سے اخذ نہیں کیا بلکہ انھوں نے سیوسئر کا براہِ راست مطالعہ کیا ہے، یہ ادبی بد یانتی کی واضح مثال ہے۔گوپی چند نارنگ کے مندرجہ ذیل اقتباس کو دیکھئے، ’’ا نیسویں صدی کے نصفِ آ خر  اور بیسویں صدی نصفِ اوّل میں فکرِ انسانی تخصیص کے مختلف میدانوں میں بٹ بٹا کر اس حد تک پارہ پارہ ہو گئی تھی کہ اس میں کسی طرح کی کوئی شیرازہ بندی ممکن نظر نہیں آتی تھی۔  اور تو  اور خالص فلسفہ بھی جسے علومِ انسانیہ کا بادشاہ کہا جاتا ہے، وہ بھی لفظوں کے الگ تھلگ پڑ جانے والے کھیل میں لگ چکا تھا۔وٹگنسٹائن کا فلسفہ لسان ہو یا یورپی مفکرین کی وجودیت، اصلاً یہ سب مراجعت کے فلسفے ہیں۔(ص، ۳۴ )۔آئیے انگریزی میں رابرٹ سکولز کے اس اقتباس پر غور کریں

 

‘The last half of the nineteenth century and the last half of the twentieth were characterized by the fragmentation of knowledge into isolated disciplines so formidable in their specialization as to seem beyond all synthesis. Even philosophy, the queen of the human sciences, came down from her throne to play solitary word games. Both the language- philosophy of Wittgenstein and the existentialism of the Continental thinkers are philosophy of retreat……(Scholes, Structuralism in Literature, New York, Vail-Ballou Press,1974, p,1)

 

اس اقتباس سے نارنگ صاحب یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہوں نے وٹگنسٹائن کا مطالعہ کیا ہے۔اگر یہ خود وٹگنسٹاین  کا مطالعہ کرنے کی زحمت فرماتے تو شاید مختلف نتائج اخذ کرتے لیکن انہوں نے سکولز پر پختہ اعتقاد رکھا  اور اس کے نتائج کو ہی حتمی حیثیت عطا فرما دی۔ رابرٹ سکولز کی مذکورہ بالا کتاب سے نارنگ صاحب نے اپنی کتاب کے کئی ابتدائی صفحات نقل کیے ہیں۔اس کے علاوہ سیوسئر  اور ساختیات پر لکھا گیا سارا مواد اسی کتاب کا لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے۔ مصادر میں گو کہ اس کتاب کا نام درج ہے لیکن سوال تو لفظ بہ لفظ ترجمے کا ہے، محض ترجمہ کر دینے سے کوئی بھی خود کو مصنف کہلوانے میں حق بجانب نہیں ہو سکتا۔ رابرٹ سکولز نے اس کتاب میں ساختیات کی حمایت میں لکھا ہے۔یہ ان کا تجزیہ ہے جسے مدلل طریقے سے مسترد بھی کیا جا سکتا ہے۔ اُنیسویں  اور بیسویں صدی کے سماجی، سیاسی یا پھر معاشی کشمکش کے نتیجے میں نظریات کی تخریب  اور تشکیل کے بعد جو ساختیاتی ماڈل انھوں نے ماہرِ لسانیات سیوسیر سے مستعار لیا ہے اس کا انہدام بھی پسِ ساختیات کے مباحث کے آغاز کے ساتھ ہو گیا تھا۔ اس وقت کئی مفکر خود کو ساختیات کا حامی کہنے سے کترانے لگے تھے۔ مختصر یہ کہ یہ تجزیہ رابرٹ کے مکتبہ ءِ فکر کا نقطۂ نظر ہے۔ریڈیکل مارکسی مفکرین اس اجتماعی تناظر کی مختلف طرز پر تشریح و تجزیہ پیش کرتے ہیں جو پوسٹ ماڈرن تھیوری کے حوالے سے مضبوط بھی ہے  اور موئثر بھی، لیکن سوال یہ ہے کہ گوپی چند نارنگ کہاں کھڑے دکھائی دیتے ہیں ؟ آئیے گوپی چند نارنگ کی کتاب سے ایک  اور اقتباس پر غور کریں، ’’دریدا فلسفے کو بحیثیت ضابطہ علم یہ آمرانہ درجہ دینے کو تیار نہیں کہ فکرِ انسانی کے جملہ حقوق فلسفے کے نام محفوظ کر دیے جائیں۔اس کا دعوی ٰ ہے کہ فلاسفہ اپنے نظام ہائے فکر کو مسلط کرنے کے لیے زبان کے داخلی تضادات کو دباتے، پسِ پشت ڈالتے یا نظر انداز کرتے رہے ہیں۔۔۔۔۔ (ص، ۲۱۸۔۲۱۷) کرسٹوفر نورس انگریزی میں لکھتے ہیں،

 

Derrida refuses to grant philosophy the kind of privileged status it has always claimed as the sovereign dispenser of reason. Derrida confronts this pre-emptive claim on its own chosen grounds. He argues that philosophers have been able to impose their various systems of thought only by ignoring, suppressing, the disruptive effects of languages……..

(Norris, Christopher. Deconstruction.3rd ed, London, Routledge,2002, P18-19)

 

گوپی چند نارنگ کی کتاب میں دریدا  اور ردِ تشکیل پر تقریباً تمام مواد کرسٹوفر نورس کی کتاب کا ہو بہو ترجمہ ہے۔مضمون کی طوالت کے پیشِ نظر یہاں اقتباسات، جو کہ بے شمار ہیں، دینے سے گریز کیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا حوالہ جات کے علاوہ روسی ہئیت پسندی پر لکھے گئے باب کا بیشتر حصہ جوناتھن کلر کی Structuralist Poeticsسے نقل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ رومن جیکبسن پر لکھا گیا مکمل باب ٹیرنس ہاکس کی کتابStructuralism and Semioticsسے لفظ بہ لفظ گوپی چند نارنگ نے ترجمہ کیا ہے۔ آئیے اقتباس ملاحظہ فرمائیں، ’’روسی ہئیت پسندوں کے ضمن میں ہم مکارووسکی کے اس خیال سے بحث کر آئے ہیں کہ ’زبان کا تخلیقی استعمال فن پارے میں زبان کو ’پیشِ منظر‘ میں لے آتا ہے، یعنی اظہاری عمل اپنے آپ کو نمایاں کرتا ہے، جیکبسن اس پر اضافہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ شاعری کی تخلیقی زبان میں استعاراتی پہلو نمایاں رہتا ہے، نثر کی تخلیقی زبان میں انسلاکی پہلو زیادہ حاوی رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرادفیت (equivalence)  شاعری میں اس قدر اہمیت رکھتی ہے۔ متوازیت بھی مرادفیت کا ایک رخ ہے۔۔۔‘‘  (۱۴۰)اب Terence Hawkesکے  اس انگریزی اقتباس پر توجہ فرمائیں،

We have already noticed the argument of Jakobson’s fellow Prague school critic Mukarovsky with regard to foregrounding: that the aesthetic use of language pushes into the foreground the ‘act of expression’ itself. Jakobson offers the more refined proposal that the metaphoric mode tends to be foregrounding in poetry, whereas the metonymic mode tends to be foregrounded in prose. This makes the operation of ‘equivalence’ of crucial importance to poetry……..(Structuralism and semiotics, 1984, p80)

مندرجہ بالا دونوں اقتباسات سے یہ نمایاں ہو رہا ہے کہ مکارووسکی کا حقیقی تجزیہ گوپی چند نارنگ کے برعکس ہاکس کی بصیرت کا نتیجہ ہے۔ اس اقتباس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ نارنگ صاحب کتنی چالاکی سے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مکارووسکی کی براہِ راست مطالعہ کیا ہیں، جبکہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔نارنگ صاحب نے محض ایک دو الفاظ کے افتراق سے اقتباس کو نقل کیا ہے۔جسے راقم نے اس لیے یہاں قلم بند کیا کہ یہ واضح کیا جا سکے کہ نارنگ صاحب سے  یہ کوتاہی ارادۃََ سر زد ہوئی ہے۔ ان کا خیال ہو گا کہ ایسا کرنے سے ان کی کاروائی پر پردہ پڑ جائے گا۔دیکھیے ہاکس ’جمالیاتی‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے  اور نارنگ اسے ’تخلیقی‘ سے تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نارنگ صاحب بھی واوین کا استعمال کر رہے ہیں  اور ہاکس بھی، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ کس کی اصطلاح کو کیوں  اور کب استعمال کرنا چاہتا ہے۔بحیثیت مجموعی یہ کتاب نارنگ صاحب کی کاروائی کے حوالے سے نہایت اہم ہے۔ اس مضمون کے قاری کو چاہیے کہ وہ دیگر کتب کے ساتھ ساتھ ہاکس کی اس کتاب کا مطالعہ زیادہ توجہ سے کرے کیونکہ اس باب کی حرف بہ حرف نقل کے علاوہ مسٹر نارنگ نے Levi Straus, Barthes, Greimas اور Todorovپر لکھا گیا تمام موادہ اکس کی اسی کتاب (ص، ۱۹۶۔ ۸۷) سے نقل کیا ہے۔

 

یہاں پر تمام اقتباسات کو درج کر کے مضمون کو طول دے کر قاری کے لیے کر اکتاہٹ کا سامان کرنا مقصود نہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ قاری خود اصل ذرائع تک رسائی حاصل کرے۔اس کے علاوہ لاکاں پر لکھے گئے باب کے لیے دیکھیے ( نارنگ، ص، ۱۹۳۔ ۱۸۱) اور پیٹر بیری کا Psychoanalytic criticismپر لکھا گیا باب (ص، ۱۱۸۔ ۹۶)۔ایماندارانہ طریقۂ کار یہ تھا کہ گوپی چند نارنگ براہِ راست اصل کتابوں سے استفادہ کرتے  اور جہاں کہیں فقروں کو لفظ بہ لفظ نقل کرتے وہاں حوالہ درج کرتے۔ اگر وہ ثانوی ذرائع استعمال کرنا بھی چاہتے تھے تو علمی دیانت داری کا ثبوت دیتے ہوئے مکمل حوالے دیتے۔ انہیں یہ فکر تو ستاتی رہی کہ مغربی منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے لیکن مغربی ممالک میں علمی دیانت داری کے عمل نے انہیں کسی بھی طرح کی تحریک عطا نہیں کی۔ ایسا عمل یقیناً اُردو سے وابستہ نئی نسل کے لیے ایک اچھی مثال کے ساتھ ساتھ اُمید افزا بھی ہوتا۔ کتاب کا وہ حصہ جو مشرقی شعریات پر مبنی ہے وہ میری تحقیق کا قطعاً موضوع نہیں تھا۔ اس لیے وہ حصہ اس مضمون کی بحث سے خارج ہے۔ اس مضمون میں کتاب کے مآخذات کا انکشاف کر کے ایک رجحان تشکیل دے دیا گیا ہے اب اگر اُردو سے وابستہ محققین مشرقی شعریات والے حصے کو بھی زیرِ تحقیق لانا چاہیں تو شاید مزید انکشافات ممکن ہو سکیں۔.برصغیر پاک و ہند کے دانشوروں نے مشرقی انسان کو ذرات کی محض انفعالی تجسیم تصور کیا ہے جو مغرب زدہ نظریاتی و فکری دلدل میں پھنس کر اس کی قوت کی شدّت کو زیر کرنے کے لیے فکری سطح پر اپنا نظریہ تخلیق نہیں کرتا جو مغربی نظریے کی مزاحمت کرے (مخالفت نہیں )، مشرقی خود ساختہ دانشور مغربی فکر میں اترتے ہی غرقاب ہونے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہتا ہے۔وہ مزاحمت کی بجائے اسی کی حرکت کی سمت میں دھنستا چلا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج شناخت متعین کرنے والے عوامل اس کے لیے مسئلہ ہی نہیں رہے۔

وہ اس حد تک ذہنی کشمکش کا شکار ہے کہ نعرہ تو روایت کا بلند کرتا ہے  اور بہتا پوسٹ ماڈرن ازم کی رو میں ہے۔ بات مذہبی آئیڈیالوجی کی کرتا ہے  اور کچلا شدّتِ خواہش کے تحت جاتا ہے، علَم آزادیِ فکر کا بلند کرتا ہے لیکن تخیل پر غلامی بھی خود ہی مسلط کرتا ہے۔جینا مستقبل میں چاہتا ہے زندگی کی تلاش ماضی بعید کے دھندلکوں میں کرتا ہے۔”اصل” کے مسائل کو ترک کر کے ” دوسرے ” کی تلاش میں چل نکلا ہے۔ وہ یہ بھی نہیں سمجھ رہا کہ” دوسرے ” کا ظہور مغربی تاریخ کے ایک خاص وقت پر ہوا ہے۔گوپی چند نارنگ کو بھی مغرب میں Jazz کی دھن پرکشش محسوس ہوتی ہے لیکن ہندوستان میں غیر انسانی جرائم کا ارتکاب متحرک نہیں کرتا۔برطانیہ میں اسّی کی دہائی میں تیار شدہ جوتوں کا سرخ رنگ ضرور متاثر کرتا ہے جو پوسٹ ماڈرن ازم کا جزوِ لازم ہے، لیکن ہندوستان میں اقلیتوں پر مسلط کی گئی برسوں پرانی کتھا جو آج بھی پورے تعصب سے دہرائی جاتی ہے، نارنگ صاحب کی توجہ کا مرکز نہیں بنتی۔ برصغیر پاک و ہند کے ساٹھ کروڑ عوام خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اردو دنیا کا پچاسی فیصد سرمایہ چار سو نوے خاندانوں کے پاس مرتکز ہے یہ سب کچھ برصغیر کے دانشور کو آج بھی نظر نہیں آتا۔ویسے مارکس نے دولت کے اس ارتکاز کی پیشین گوئی اُنیسویں صدی کے آغاز میں کمیونسٹ مینی فیسٹو میں کر دی تھی۔ اگر یہی پوسٹ ماڈرن ازم کا ماحصل ہے تو پھر مارکس ہی سب سے بڑا پوسٹ ماڈرنسٹ کہلوانے کا مستحق ہے  اور اس کے ساتھ وہ افلاس زدہ عوام بھی پوسٹ ماڈرنسٹ ہیں جو مارکس کی پیشین گوئی کی سچائی کا مواد ہیں۔یہاں پر سوال یہ ہے کہ کیا ’ازم‘ محض چند افراد کی سرگرمی پر محیط ہے ؟ ما بعد جدیدیت کے حوالے سے گوپی چند نارنگ نے جن نکات پر گفتگو کی ہے وہ تضادات سے پُر نظر آتے ہیں، جن کا اظہار مذکورہ کتاب کے علاوہ ان کی دوسری مرتب کردہ کتاب (اُردو ما بعد جدیدیت پر مکالمہ، ۲۰۰۰)میں بھی کیا گیا ہے۔جیسا کہ کتاب کے نام سے واضح ہے کہ اس میں اُردو ادب میں برپا ہونے والی تبدیلیوں کو اس کے اپنے سیاسی، معاشی، سماجی  اور ثقافتی پسِ منظر میں بیان کیا جانا چاہیے تھا، لیکن اس کتاب میں ایسا کچھ نہیں ہے۔گوپی چند نارنگ نے ادبی و ثقافتی سطح پر عالمی منظر نامے کی اہمیت پر زور دیا ہے، جس سے ان کی مراد مغربی منظرنامہ ہے، جو یقیناً مغربی آئیڈیالوجی کا مظہر ہے جس نے نہ صرف مغربی معاشرے، بلکہ تیسری دنیا کے ممالک میں پائے جانے والے انگنت تضادات کو دبا رکھا ہے۔ایسا کرنے سے اُردو ادب کے اپنے پس منظر میں جنم لینے والے حقیقی مسائل بھی دبے رہیں گے۔کتاب میں بعض جگہوں پر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گوپی چند نارنگ ارادتاً اپنے مسائل کی پردہ پوشی میں مصروف ہیں۔دوسری صورت میں اُنھیں شاید مسائل یا ڈسکورس کا ادراک و شعور نہیں ہے۔ مثلاً جیسے وہ اپنی کتاب ’’ساختیات پسِ ساختیات  اور مشرقی شعریات‘‘ کے دیبا چہ میں لکھتے ہیں ’’متن ہر گز خود مختار و خود کفیل نہیں ہے کیونکہ اخذِ معنی کا عمل غیر مختتم ہے ‘‘ (ص ۱۱)۔ نارنگ صاحب سے یہاں یہ غلطی سر زد ہوئی ہے کہ وہ اخذِ معنی کو متن سے با ہر دیکھ رہے ہیں۔ دریدا کے مطابق اخذِ معنی کا عمل متن سے باہر قطعاً نہیں ہے۔اسی کتاب کے چوتھے باب میں جو ’’ردِتشکیل‘‘ کے نام سے لکھا گیا ہے اس میں مو صوف لکھتے ہیں ’’دریدا کا کہنا ہے معنی کوئی ماورائی موجودگی نہیں ہے جو متن سے ورے، قریب یا دور وجود رکھتی ہو  اور جس کو نقاد ڈھونڈ نکالے۔معنی متن کے اندر ہے  اور جیسے ہی متن تحریر ہوتا ہے  وہ اپنی ردِ تشکیل کا بیج بو دیتا ہے ‘‘ (ص ۲۳۲)۔گو پی چند نارنگ کے مندرجہ بالا دونوں بیانات میں واضح تضاد ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اُنھیں ما بعد جدید تھیوری کی تفہیم کی مزید ضرورت ہے، بالخصوص دریدا کی ’’ردِ تشکیل‘‘ کی۔دریدا واضح طور پر Of Grammatology میں کہتا ہے کہ There is nothing outside the text (p227). اس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ جونہی متن وجود میں آتا ہے، اس کی حیثیت خود مختار ہو جا تی ہے۔اس کے بعد معنی کے اخذ ہونے کے عمل کا انحصار متن پر ہوتا ہے نہ کہ خارجی دنیا پر۔زبان تو خود بھی خارجی عوامل سے مبرا قرار نہیں پاتی۔ البتہ ردِ تشکیل کے عمل کے دوران متن خود کو سائنسی بنیادوں پرDeconstruct کرنے کا مکمل طور پر اہل ہوتا ہے۔ بہر حال اس تضاد سے یہ واضح ہوتا ہے کہ گوپی چند نارنگ پوسٹ ماڈرن تھیوری کی تفہیم سے عاری ہیں۔مغربی ما بعد جدیدیت کی حتمیت کو تسلیم کرنا اس کی مرکزیت کو قائم کرنے کے مترادف ہے، جو ما بعد جدیدیت کی اپنی روح کے بھی منافی ہے۔کہیں کہیں یہ گمان بھی ہوتا ہے کہ گوپی چند نارنگ کو اپنے معاشرے کی اہمیت کا احساس بھی جگانے کی کوشش کرتا ہے۔اس کیفیت میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔تمام معاشروں  اور ثقافتوں کو نئے چیلنج  اور نئی تبدیلیوں کا سامنا ہے۔ ہم بھی نئے حالات  اور نئے مسائل سے دوچار ہیں، اور انھی کی رعایت سے علومِ انسانیہ  اور ادب  اور آرٹ میں نئی سوچ  اور نئے رویے سامنے آرہے ہیں، ظاہر ہے کہ اُردو کی ہماری ادبی فکر، ہمارے اپنے چیلنج  اور ہماری اپنی ضرورتوں کی روسے ہو گی‘‘ (ص، ۱۳)۔وہ نئے حالات  اور ضروریات کیا ہیں، ؟ان کی طرف مکمل توجہ کی ضرورت تھی تاہم اُنھوں نے محض بیان جاری کیا ہے، ڈسکورس کی تشکیل نہیں کی۔اس پیراگراف  اور کتاب کے بقیہ صفحات میں درج مواد کا تضاد اس امر کا داعی ہے کہ اہلِ اُردو کو محض تسلی کے چند کلمات سنائے جاتے ہیں۔ تبدیلی کی نوعیت  اور تقاضے مخصوص ثقافت  اور سماج کے بطن سے جنم لیتے ہیں جس کے پس منظر میں انگنت عوامل عمل آراء ہوتے ہیں، جن کی تلاش و تجزیہ نظریہ سازوں کا کام ہے۔ اس کے برعکس اُردو ادب  اور ہندوستانی معاشرے میں پائے جانے والی تبدیلی کی خبر گوپی چند نارنگ کو فریڈرک جیمسن یا لیوٹارڈ کی بدولت ہوئی ہے  اور اس خبر کے بعد جس ڈسکورس کی تشریح ہو رہی ہے، وہ مغربی تشکیل ہے جسے آنکھیں بند کر کے قبول کرنے کا درس دیا جاریا ہے۔اگر تناظر الگ الگ ہے تو سب کے لیے معنی کی حتمیت کیوں ؟زبان  اور سوچ الگ نہیں ہیں۔ بیلسی کہتی ہے کہ ’’زبان  اور سوچ کا تعلق نئے معنی  اور دنیا کے تجزیے کے نئے طریقوں کی وضاحت کرتا ہے، جو طریقہ ہائے کار وضع ہو جاتا ہے معنی اسی کے اندر قائم ہوتا ہے۔نئے معنی قائم کرنے کے لیے، زبان  اور سوچ کے تعلق کو تبدیل کرنا ہو گا۔‘‘ جس کے لیے ایک نئے ڈسکورس کی ضرورت ہے جو پاک و ہند کے یکساں  اور متضاد مفادات سے تشکیل پائے۔فریڈرک جیمسن کی نظر سے دیکھنے سے اسی کا لفظ  اور معنی ایک مخصوص تناظر  اور ’’ساخت‘‘ میں خود کا اظہار کرے گا۔گوپی چند نارنگ چونکہ مختلف تناظر میں ہیں، اس لئے بھی انھیں ما بعد جدیدیت کی رو سے اپنا ڈسکورس تشکیل دینا پڑے گا۔ دوسرا نکتہ جس کا سرسری طور پر ذکر کیا گیا ہے وہ ما بعد جدیدیت کو تسلیم کر کے مغرب کی مرکزیت کو تسلیم کرنا ہے، یعنی ما بعد جدیدیت کو آفاقیت عطا کر دی جائے، جو کہ خود آفاقیت کے خلاف ہے۔گوپی چند نارنگ نے ’ما بعد جدیدیت، بعد از جدیدیت، بعد جدیدیت، پسِ جدیدیت‘ (ص، ۹۲)۔جیسی اصطلاحیں مغربی پوسٹ ماڈرن مفکروں کی اندھی تقلید میں استعمال کر کے ما بعد جدیدیت کو آفاقیت عطا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسا کرنے سے وہ ما بعد جدیدیت کی وضع کردہ اصطلاحوں سے مکمل طور پر انحراف کر رہے ہیں۔اپنے ایک مضمون ’’ما بعد جدیدیت عالمی تناظر میں ‘‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ما بعد جدیدیت تھیوری سے زیادہ صورتحال ہے، یعنی جدید معاشرے کی تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی حالت، نئے معاشرے کا مزاج، مسائل، ذہنی رویے یا معاشرتی و ثقافتی فضا یا کلچر کی تبدیلی، جو کرائسس کا درجہ رکھتے ہیں ‘‘ (ص، ۱۹)۔ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ہم میں بہت سے، سابقہ مفروضات کے اسیر ہیں  اور ان سے ہاتھ اُٹھانے کو تیار نہیں، اس لیے نئے قضایا نے جو نئی روشنی دی ہے، اس کو اکثر لوگ دیکھ ہی نہیں پاتے۔‘‘ مندرجہ بالا دونوں اقتباسات کو بنظرِ غور دیکھیں تو تضادات کھل کر سامنے آ جائیں گے۔ایک طرف ما بعد جدیدیت انھیں روشنی کا منبع دکھائی دیتا ہے تو دوسری طرف خود ہی اسے کرائسس بھی سمجھتے ہیں، جو حقیقت میں کرائسس ہی ہے۔اہلِ اُردو کا تو المیہ ہی یہ رہا ہے کہ انھیں ’روشنی‘ اپنی سرحدوں سے باہر ہی دکھائی دیتی ہے۔اس پر بھی کوئی خاص اعتراض نہیں ہے۔، اگریہ روشنی ہے تو کس کے لیے ؟ اگر مشرقی  اور مغربی سماجی، سیاسی  اور معاشی قضایہ کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے نظریہ وضع کیا جائے جس میں ایک مؤقف اختیار کیا جائے۔ اس میں بھی ہندوستان کے کسی ایک طبقے کی نمائندگی نہیں بلکہ تمام طبقات کو ذہن میں رکھا جائے۔ کیا نارنگ صاحب جانتے ہیں کہ دریدا کی ردِ تشکیل  اور پال دی مان کی ردِ تشکیل سماجی، سیاسی سطح پر عملیت  اور ادبی نظریات کے درمیان تفاوت سے طے پاتی ہے ؟نارنگ صاحب کو ما بعد جدیدیت کرائسس دکھائی دیتی ہے تو اس کو کرائسس کی جانب دھکیلنے والے عوامل کو تجزیاتی بنیادوں پر پرکھا جائے۔ اردو میں مغرب کی مرکزیت نہ صرف ما بعد جدیدیت کے حوالے سے، بلکہ اُردو میں جدیدیت کی بناء پر بھی مسلّم ہے اس طرح ترقی پسندی جس کا مارکسیت کی حقیقی روح سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا، جو صرف کم علمی کا نتیجہ تھی، اس نے بھی اپنی مرکزیت کو پاک و ہند سے باہر تلاش کیا۔ ما بعد جدیدیت ہو، جدیدیت یا پھر ترقی پسندی، یہاں پر ان کی مخالفت مقصود نہیں ہے، بلکہ مخالفت کو تخلیقی  اور اختراعی جہت پر استوار کرنا ہے۔جہاں تک ’عظیم نظریات‘ کی موت کا دعوی ہے تو اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جو معاشی ترقی ہوئی تو کسی قدر عام انسان کی خوشحالی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فرض کر لیا گیا کہ ’عظیم نظریات‘ دم توڑ چکے ہیں۔ مغربی درسگاہوں سے وابستہ زر خرید دانشوروں نے یہ کہنے میں جلد بازی سے کام لیا کہ مغرب میں طبقات کا بھی خاتمہ ہو چکا ہے۔ پیداواری عمل سے جنم لینے والے طبقات کو نظر انداز کر دیا گیا۔ظاہر ہے کہ اگر طبقہ ہی نہیں رہا تو مارکسیت کس کی نمائندگی کرے گی۔ اس جھوٹ کو چھپانے کے لئے دانشوروں نے نظریاتی سطح پر کئی طرح کے گل کھلانے کی کوشش کی، جو بدقسمتی سے رائیگاں گئی۔ اور ایک بار پھر مارکس کی ’’کمیونسٹ مینے فیسٹو‘‘ میں بیان کی گئی حقیقت کھل کر سامنے آ گئی کہ سرمایہ داری کی ترقی یافتہ شکل میں صرف دو طبقات ہی آمنے سامنے ہوں گے یعنی ورکنگ کلاس  اور سرمایہ دار طبقہ۔یہ وہ طبقات ہیں جن کے مفادات سرمایہ داری نظام میں کبھی بھی ایک نہیں ہو سکیں گے۔امریکہ میں دیکھیں توہیگلیائی مارکسی مفکر فریڈرک جیمسن ما بعد جدیدیت پر کاری ضرب لگاتا ہے  اور دوسری طرف وہ ’عظیم نظریات‘ کے لاشعور کی تہوں میں چلے جانے کا داعی ہے۔ایسا وہ اس لیے کہتا ہے کہ وہ امریکی معاشرے میں سرمایہ داری کے تیسرے مرحلے میں چلے جانے پر یقین رکھتا ہے (یہ تصور اس نے ارنیسٹ مینڈل سے مستعار لیا ہے )۔اس کے باوجود وہ ما بعد جدیدیت کی تناظراتی حیثیت کو واضح کر دیتا ہے۔تناظر کے در آنے سے تاریخ کی اہمیت قائم رہتی ہے۔بلاشبہ اس نکتے پراس کا طریقہ کار مارکس سے مستعار لیا ہوا ہے جس کے مطابق سرمایہ داری نظام میں پیداواری قوتیں مسلسل ترقی کرتی رہتی ہیں  اور آخر کار تضادات سامنے آنے لگتے ہیں۔ فریڈرک جیمسن ما بعد جدیدیت کو قطعََ خلائی طیارہ تصور نہیں کرتا جسے کسی بھی ملک میں اتارا جا سکے۔وہ اسے زمینی قوتوں سے وابستہ دیکھتا ہے جن کا تعلق پیداواری عمل  اور صارفی ثقافت سے جڑ جاتا ہے۔ اس حوالے سے امریکی یا یورپی معاشرے میں بھی ’’عظیم نظریات‘‘ کے غیر متحرک ہونے یا ختم ہونے کے متعلق بحث کی خاصی گنجائش موجود ہے۔ پاکستان یا ہندوستان میں ’عظیم نظریات‘ (اسلام، ہندوازم، مارکسیت وغیرہ)کی گمشدگی کا اعلان سراسر دروغ گوئی پر مبنی ہے۔نظریاتی مباحث میں کوئی قباحت نہیں ہے، تاہم عملی سطح پر انگنت تضادات ہیں۔یہ عملی تضادات بالآخر صورتحال کو مبہم بنا دیتے ہیں جس طرح آج اردو کے نام نہاد دانشوروں نے بنا رکھا ہے۔ہندوستان میں حالیہ برسوں میں مذہبی انتہا پسند جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کے کارناموں کا انکار کیسے کیا جا سکتا ہے۔پنجاب میں سکھوں  اور گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام کو کیا نام دیا جائے گا ؟دوسری جانب اسلامی انتہا پسندی بھی عروج پر ہے۔مغرب میں بھی آنکھیں بند کر کے ما بعد جدیدیت کی Whole Saleتبدیلی کا دعویٰ جھوٹ پر مبنی ہے۔ ٹیری ایگلٹن کو آکسفورڈ یونیورسٹی سے اس کے نظریات کی بدولت ہی فارغ کیا گیا۔عملی سطح پر انتہا پسندی  اور نظریاتی سطح پر ما بعد جدید مباحث۔ تضادات کتنے واضح ہیں ! پاکستان یا ہندوستان کے حوالے سے ’عظیم نظریات‘ کے انہدام کا دعویٰ قطعاً غلط ہے۔گوپی چند نارنگ کے فکری تضادات کو دیکھ کر یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ اُن میں لاکاں کی اصطلاح میں شعور، زبان کے علامتی نظام کی شکل میں، جبکہ لاشعور امیجنری کے روپ میں، بیک وقت عمل آراء ہو رہے ہیں۔ایک  اور جگہ پر کہتے ہیں، ’’مارکسزم کی آزاد تعبیروں  اور سوشل ازم کی معنویت ختم ہو گئی ہے ایسا بھی نہیں، بلکہ یہ معنویت آج کی دنیا میں بالخصوص تیسری دنیا کے ممالک میں  اور ہندوستان میں پہلے سے زیادہ ہے ‘‘ (ص، ۸۷)۔اگر زیادہ ہے تو یہ بوجھ اُنھوں نے کس کے کندھے پر رکھا ہے ؟مندرجہ بالا اقتباس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں انھوں نے ادبی سے زیادہ معاشرتی  اور سیاسی جہت کی طرف اشارہ کیا ہے۔محض اشارہ کر دینا ہی کافی نہیں، بلکہ اس کی مختلف  اور نئی تعبیروں سے نظریاتی  اور عملی سطح میں مطابقت قائم کرنا ہے۔ گوپی چند کا لہجہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اُنھیں کسی نظریے سے کوئی مخالفت نہیں، بلکہ وہ تو آزاد فکر انسان ہیں۔ یہ کہنے کے بعد وہ پھر ما بعد جدیدیت کی جانب ہی لوٹتے ہیں۔ اگر ہندوستانی یا پاکستانی معاشرے میں ماضی کی نسبت امتیازات قائم ہو بھی چکے ہیں تو اُنھیں مغربی ما بعد جدیدیت کے جھنڈے تلے ہی نشان زد کیوں کیا جائے، تاہم یہ واضح رہے کہ مارکسزم تشریح  اور تعبیر کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک عملی سرگرمی ہے۔نظریہ سازوں کا حقیقی مقصد نظریے  اور عمل میں ہم آہنگی قائم کرنا ہے۔جیسا کہ ایلن ووڈز لکھتا ہے کہMarxism is not an academic exercise. گوپی چند نارنگ ایک پڑھے لکھے انسان ہیں  اور ثقافتی و سماجی نقاد کے برعکس ادبی نقاد ہیں۔دوسری طرف ہندوستانی عوام کی اکثریت تما م تر حیاتیاتی افتراق کے باوجود انسانوں کے زمرے میں ہی آتی ہے۔ایک غریب انسان کی فکری پرواز اس کی معاشی  اور سماجی ترجیحات کے جبر تلے آ کر معذور ہو چکی ہوتی ہے۔وہ اس قابل ہی نہیں ہوتا کہ تصورات کی تشکیل کر سکے۔ما بعد جدیدیت جس طریقے سے اہلِ اُردو میں متعارف کرائی جا رہی ہے، یہ اس فرق کو دوام عطا کرنے کی ایک کوشش ہے، جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جاہل  اور عالم، امیر  اور غریب، رجائی  اور قدامت پسند اور برہمن  اور شودر کے درمیان پائی جانے والی تفاوت کو ختم کیا جائے یا پھر اسے رولاں بارتھ کی ’’مائیتھالوجی‘‘ میں تشکیل کردہ ثقافتی تہوں کی حتمیت کو قبول کر کے قومی شناخت کا مظہر قرار دے دیا جائے۔یعنی ہندوستان میں برہمن  اور شودر کے درمیان تفاوت کو ہندوستانی ثقافت کا جزوِ لاینفک قرار دے کر ما بعد جدیدیت کی تقلید میں حتمی شناخت عطا کر دی جائے۔بصورتِ دیگر اگر گوپی چند نارنگ اس صورتحال کا ادراک رکھتے ہیں تو نظریہ سازی کا عمل ممکن ہو سکتا ہے۔طاقتور ملک کمزور ملک کا اسی طرح ذہنی و مادی استحصال کرتا ہے، جس طرح کمزور ملک کا حاکم اپنے ہی ملک کے کمزور عوام کا کرتا ہے۔ موافقت اور ہم آہنگی دونوں سطحوں پر ضروری ہے، کیونکہ یہ انصاف کا تقاضا ہے  اور ما بعد جدیدیت کی واحد مبنی بر موافقت قدر ’انصاف‘ ہی ہے، جس کی حمایت کرنا  اور اسے مرکزیت عطا کرنا اس لیے ضروری ہو گیا تھا کہ لیوٹارڈ کے پاس کہنے کو کچھ  اور نہیں تھا  اور وہ نٹشے کا ہم خیال بھی نہیں بننا چاہتا تھا۔پاک و ہند کے پس منظر میں ما بعد جدیدیت کے حوالے سے تھیوری کی تشکیل کس طرح کی جائے ؟ آئیے دو ما بعد جدید مفکروں کے متخالف نظریات پر غور کرتے ہیں۔ ہیبر ماس مغربی معاشرتی زندگی کو ٹکروں میں بٹا ہوا دیکھتا ہے۔اس کے نزدیک سائنس، تکنیک، فن  اور سیاست جیسے شعبوں میں بھی وسیع خلیج حائل ہو چکی ہے۔اس نے ان ٹکڑوں میں وحدت قائم کرنے کے لیے ’ابلاغی نظریے ‘ کو متعارف کرایا۔ ہیبرماس کلیت پسندی پر یقین رکھتا ہے  اور دوسری طرف عقل کا بھی مخالف ہے اس کے نزدیک ذہن عقلیت کا منبع نہیں ہے، اس کے برعکس ابلاغ کی قابلیت ہے، جس کو بنیاد بناکر وہ مختلف شعبوں میں موافقت قائم کرنا چاہتا ہے۔ہیبر ما س کے نزدیک تھیوری کا کام ان شرائط کو متعین کرنا ہے، جن کی بنیاد پر حقیقی ابلاغ ممکن ہو سکے۔ہیبر ماس کے ’ابلاغی نظریے ‘ میں فن کا کردار اہم ہے، جس کا مقصدکلیت پسند فلسفوں کی پیدا کی ہوئی ’نجات‘ کی خواہش کو عملی جامہ پہنانا ہے۔یہ ہے ما بعد جدیدیت سے نمٹنے کا طریقۂ کار، جو ہیبر ماس کا تخلیق کردہ ہے۔ دوسری طرف لیوٹارڈ لسانیاتی چالوں کے ساتھ طاقت کا رشتہ جوڑ کر بٹی ہوئی لسانیاتی چالوں کو باطنی طور پر عمل آرا ء دیکھتا ہے، جو ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔لسانیاتی چالیں مختلف اداروں سمیت ہر جگہ عمل آراء ہیں۔

انھی کی بنیاد پر اصول و قواعد وضع کر کے مخالف  اور کمزور آوازوں کو خاموش کر دیا جاتا ہے۔ یعنی طاقت کا اصول ہر جگہ متحرک ہے۔ تاہم وہ ہیبر ماس کے برعکس فن کی علویت کو پانے کی صلاحیت پر یقین کرتے ہوئے ہیگلیائی  اور کسی قدر ہیبر ماس کی کلیت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔وہ اپنے مضمون What is Postmodernism میں ہیبر ماس کی سماجی و ثقافتی نامیاتی وحدت کا مذاق اُڑاتا ہے۔ وہ فن سے کلیت کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کرنے کا متقاضی ہے۔مقصود یہاں ہیبر ماس یا لیوٹارڈ کے طریقہ ہائے کار کی وکالت کرنا نہیں ہے، کیونکہ عملی فلسفیانہ نقطہ ء نظر سے ان کے طریقۂ کار میں بھی نقائص پائے جاتے ہیں۔ یہاں پر اس نکتے کی وضاحت کرنا ہے   کہ اہلِ اُردو بالخصوص گوپی چند نارنگ نے مغربی ما بعد جدیدیت  اور ہندوستانی معاشی، سیاسی  اور سماجی صورتحال میں کیا تضادات دیکھے ہیں یا پھر وہ ہندوستان  اور امریکی معاشرے میں کوئی فرق ہی نہیں سمجھتے۔کیا ہندوستان کے انگنت داخلی تضادات  اور پھر عالمی سطح پر اس کی ترجیحات و تلازمات کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے ہی کسی طریقۂ کار کی توقع گوپی چند نارنگ سے کی جا سکتی ہے ؟فرانسیسی فلسفی مثل فوکو ما بعد جدید مفکر ہے جو مارکسی اقدار کا بھی قائل ہے  اور اسے سرمایہ داری ہی کی طرح طاقت کا سرچشمہ بھی گردانتا ہے۔ اس کے نزدیک طاقت کا مرکز صرف ریاست، فوج یا پولیس ہی نہیں ہے، بلکہ سماجی گروہ، مختلف ڈسکورس کو وضع کر کے اپنی آئیڈیالوجی پر مبنی معنی کا قیام عمل میں لا سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ مزاحمتی طریقۂ کار کو اپنایا جائے۔مغربی ڈسکورس میں یہی خیالات ما بعد جدیدیت کی حقیقی روح ہیں۔ یعنی macro-narrative نہیں بلکہ micro-narrative۔اقلیتیں اپنے حقوق مانگیں نہیں، بلکہ چھین لیں۔ وہ ملکی نظام میں اصلاحات کی خواہش نہ کریں، بلکہ مزاحمتی طریقۂ کار اختیار کریں، فوکو سر عام سماجی گروپوں کی حمایت میں نکلتا تھا۔اس کے مزاحمتی فلسفے کو بنیاد بنا کر ہم جنس پرستوں نے مغربی معاشرے میں اپنی شناخت کو قائم کیا۔ سرمایہ داری منطق کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ان مزاحمتوں کے مدِ مقابل اپنی مزاحمت قائم کر کے اپنی توانائی کو ضائع نہ کرے۔اس سارے عمل کو سامنے رکھتے ہوئے سرمایہ داری نظام کے اندر انقلابیت کے مستقل ہونے کو تسلیم کر لیا گیا، جبکہ حقیقت میں ان گروپوں کے مفادات کو معاشی مفادات کے تابع کر کے کنٹرول کرنے کا اک نیا ذریعہ دریافت کر لیا گیا۔ہندوستان اپنے داخلی تضادات کی وجہ سے بدترین صورتحال سے دوچار ہے۔

کیا گوپی چند نارنگ بحیثیت پوسٹ ماڈرن مفکر، ہندوستان میں مسلمانوں، سکھوں  اور عیسائیوں کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کی الگ شناخت قائم کرنے کا بیڑا اُٹھا سکتے ہیں ؟کیا وہ بحیثیت ما بعد جدید مفکر اُنھیں ہندوستان میں اقلیتوں کو مزاحمتی فلسفہ اپنانے کا درس دے سکتے ہیں ؟ہندوستان میں اکثریت کی رسائی ہی ان مزاحمتی فلسفوں تک نہیں ہو پاتی۔جن افراد کی رسائی ان تک ممکن ہوتی ہے ان کے اذہان پہلے ہی کئی طرح کی فکری پراگندگی کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں۔ جو کمی رہ جاتی ہے اسے برہمن ازم کی غیر انسانی آئیڈیالوجی سے پورا کر دیا جاتا ہے۔ثقافتی عوامل کو آئیڈیالوجی سے کچلا جاتا ہے۔ اور دعوے اس طرح کے کیے جاتے ہیں کہ آئیڈیالوجی کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ رولاں بارتھ کی "متھ” مارکس کا بیان کردہ بورژوا تصورِ آئیڈیالوجی، مشرقی مذہبیت و توہم پرستانہ روایتِ تصوف ابھی بھی مغربی  اور مشرقی معاشرے میں ظاہری و باطنی سطح پر متحرک ہیں۔وہ اپنے جبری تفاعل سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ان کی تدفین کا محض غلط تاثر قائم کر دیا جائے ؟اگر نہیں تو پھر کس آئیڈیالوجی کا خاتمہ مقصود ہے ؟اگر آئیڈیالوجی ابھی زندہ ہے تو سماجی سطح پر ما بعد جدیدیت کیسی؟

ٹیری ایگلٹن کا یہ کہنا درست ہے،

A dominant power may legitimate itself by promoting beliefs and values congenial to it; naturalising and universalising such beliefs so as to render them self-evident and apparently inevitable; denigrating ideas which might challenge it, excluding rival forms of thought, perhaps by some but systematic logic; and obscuring social reality……(Ideology, p5)

 

ہندوستان میں کئی تحریکیں  اسی کی زد میں آ کر دم توڑ رہی ہیں۔دوسری طرف کئی محاذوں پر مزاحمتیں بڑھ رہی ہیں، لہذا دانشوروں کو چاہیے کہ صدیوں سے قائم شدہ ’معنی‘ کے نیچے دبے ہوئے معنی کے ظہور کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کریں۔اس کے لیے یقیناً ایک الگ عملی ڈسکورس کی ضرورت ہے۔Bakhtin کے نقطۂ نظر سے وہ خارجیت سے تشکیل پائی ہوئی زبان سے جنم لے۔عہدِ حاضر کا سب سے اہم مسئلہ مشرق  اور مغرب کے مابین اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جس کی تکمیل مشرق کو عالمی ایجنڈے سے حذف کر کے ممکن نہیں بلکہ بحیثیت اہم فریق اس کی شمولیت ضروری ہے۔ اس شمولیت کو با معنی اسی صورت بنایا جا سکتا ہے جب مغربی نظریات کی تہہ میں پیوست عوامل کی تفہیم کر کے انھیں مشرقی ثقافتی، سماجی، سیاسی  اور معاشی صورتِ حال کے مدمقابل رکھ کر جانچا جائے۔ اس تقابل کے دوران جہاں مشرق و مغرب کی صورتِ حال کے مابین تضادات ظاہر ہوں انھیں اپنے مفادات کی روشنی میں نظریا نہ چاہیے۔لیوٹارڈ نے تکنیکی عہد میں علوم کی صورت پذیری کا نظریہ یورپی  اور امریکی سیاسی، معاشی  اور سائنسی صورتِ حال کو سامنے رکھ کر پیش کیا ہے، جیسا کہ وہ خود اپنی کتاب ’ما بعد جدیدحالت علم پر ایک رپورٹ‘ کے تعارف میں کہتا ہے کہ،

The text that follows is an occasional one. It is a report on knowledge in the most highly developed societies……

 

پاکستان یا ہندوستان کس حد تک ترقی یافتہ ممالک کے صف میں شمار ہوتے ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔تاہم ما بعد جدیدیت کا لفظ بہ لفظ پاکستان یا ہندوستان کی صورتِ حال پر اطلاق کہاں کی دانشوری ہے۔ما بعد جدیدیت مغربی ثقافتی حالت ہے، جو بحران کی عکاس ہے، جیسا کہ نارنگ صاحب نے بھی سن رکھا ہے۔ ویسے بھی یہ کو ئی آسمانی صحیفہ نہیں جسے سب کے لیے لازمی قرار دے دیا جائے۔ ویسے اب تو صحیفوں کے حوالے سے بھی ردِ عمل سامنے آنے لگا ہے۔ما بعد جدیدیت تو ایک خاص مقام پر انسانی سرگرمی کا اظہار ہے۔(یہ واضح رہے کہ مذکورہ مضمون میں مقصود پوسٹ ماڈرن ازم یا پھر ساختیاتی فکر پر مفصل تنقید نہیں ہے، بلکہ چند اہم نکات کی جانب اشارہ کرنا  اور نارنگ صاحب کے کارنامے کا انکشاف ہے )۔پاک و ہند کا المیہ یہ ہے کہ ہر عہد میں بے شک نظریہ سازی کا عمل ہو یا کوئی تخلیقی عمل، افسانہ نویس کی کہانی کی تلاش کا عمل ہو، مشرق کا کوئی شاعر ہو یا مشرق کا کوئی ’’فلسفی شاعر‘‘ اوریجنیلٹی کا ہمیشہ فقدان رہا ہے۔چند لوگ جو ادب پر براجمان ہوتے ہیں ان کو اہلِ اُردو کی ذہنی معذوریوں کا شاید ادراک ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل قریب یا بعید میں ان کی غیر تخلیقی سرگرمیاں آشکار نہیں ہونگی، جس کی وجہ سے وہ مغربی افکار کو اپنے ناموں سے منسوب کر کے خود نظریہ ساز بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ان حقائق کے ظاہر ہو جا نے سے علمی ہیجان سرد پڑ جاتا ہے۔ادب سے وابستہ افراد کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ نا اہلی کا احساس بڑھنے لگتا ہے  اور احساسِ کمتری پروان چڑھنے لگتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ایسے اعمال سے چشم پوشی کرنا بھی جرم کا ارتکاب کرنے کے مترادف ہے۔ اوریجنیلٹی کی کمی کی وجہ سے ہی اُردو کی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ نہیں ہوتا  اور نہ ہی کبھی مغربی درسگاہوں میں اس امر کی ضرورت محسوس کی گئی ہے، کیونکہ ایسی کتابیں مغربی درسگاہوں میں فکر کی کسی بھی نہج کو مہمیز عطا نہیں کر سکتیں۔فرض کیجئے کہ گوپی چند نارنگ کی مذکورہ کتاب کا اگر انگریزی میں ترجمہ کیا جائے تو کتنے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، کیونکہ مغرب کی تمام کتب کے حقوق یا تو مصنفین کے پاس یا پھر پبلیشرز کے پاس ہوتے ہیں۔ ان کتب کی انگریزی زبان میں اشاعت سے گوپی چند نارنگ کی ساری زندگی کی محنت بھی رائیگاں جائے گی  اور ان کی ساکھ بھی متاثر ہو گی۔ ہندوستان میں ہونے والی تحقیق جن خطوط پر استوار ہے یہ راز بھی فاش ہو جائے گا۔

***

 

 

عمران شاہد بھنڈر کا گوپی چند نارنگ کی کتاب۔ گوپی چند نارنگ مصنف یا مترجم؟

ادارتی نوٹ

               حیدر قریشی

 

 

’’ساختیات، پسِ ساختیات  اور مشرقی شعریات‘‘ کے اصل مآخذات کے انکشاف کے حوالے سے یہ دوسرا مضمون ہے۔ پہلا مضمون ’جدید ادب‘ شمارہ نمبر ۹میں شائع ہو چکا ہے۔ جدید ادب کے گزشتہ شمارہ میں عمران شاہد بھنڈر کا مضمون شائع کرتے ہوئے میں نے بڑی صراحت کے ساتھ لکھا تھا کہ اس مضمون کا جواب گوپی چند نارنگ صاحب کو خود دینا چاہئے۔کیونکہ عمران شاہد بھنڈر کے ساتھ طے ہوا تھا کہ دوسرے شاعروں، ادیبوں  اور قارئین کا ردِ عمل تو شائع کیا جائے گا لیکن مضمون کا اصل جواب صرف ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی طرف سے آنے پر ہی شائع کیا جائے گا۔ نارنگ صاحب نے تا حال جواب دینے کی زحمت نہیں فرمائی۔عام معترضین کے جواب میں خاموشی شانِ استغناء ہو سکتی ہے لیکن علمی سطح پر سرقہ کا مدلل الزام سر پر پڑا ہو تو ایسی صورت میں خاموشی معنی خیز ہی نہیں بلکہ مجرمانہ ہو جاتی ہے۔اس دوران برادرِ عزیز جاوید حیدر جوئیہ صاحب نے میری طرف سے رائے پوچھنے پر پورا مضمون عنایت کر دیا۔اصولاً مجھے صرف نارنگ صاحب کا جواب چھاپنا تھا[اب بھی ان کے ہی جواب کو چھاپنا چاہتا ہوں، جس میں وہ بطور خاص مغربی کتابوں سے بغیر حوالے کے ترجمہ(سرقہ) کے حوالوں کے بارے میں وضاحت فرمائیں ]۔ اب جاوید حیدر جوئیہ صاحب کا جواب چھاپنا میرے لئے ذاتی طور پر واجب ہو گیا تو عمران شاہد بھنڈر صاحب سے اس کا جواب مانگنا بھی لازم ہوا۔سو دونوں ردِ عمل قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔عمران شاہد کے مضمون پر قارئین ادب کا جو مختصر ردِ عمل سامنے آیا ہے اسے خطوط کے صفحات میں شامل کیا ہے۔یہاں ان پانچ مکتوب نگاروں سے معذرت کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے مختصر ردِ عمل میں کچھ غیر متعلق باتیں چھیڑ کر نارنگ صاحب کی ذات کو ہدف بنا لیا۔ایسے ایک مکتوب میں ’’حالی کے بعد والے کی علمی بد حالی‘‘ کے الفاظ نرم ترین الفاظ کہے جا سکتے ہیں۔اصلاً عمران شاہد نے نارنگ صاحب کو بلا حوالہ ترجمہ کے شائستہ الفاظ سے ملزم کیا تھا لیکن ان کے غیر ضروری دفاع کے نتیجہ میں اب براہ راست سرقہ کی بات ہونے لگی ہے۔جوئیہ صاحب کے مضمون کا مجموعی تاثر میرے نزدیک یہ بنا کہ نارنگ صاحب کی غلطی کا ہلکا سا اقرار کر کے پھر اسے جلدی میں حوالہ نہ دے سکنے  اور صفحات کی نمبرنگ نہ دے پانے سے جوڑ کر بے ضرر غلطی بنادیا۔اس کے بعد مضمون کی روح  اور اصل کو چھوڑ کر فروعات میں بحث کو الجھا دیا، تاکہ نارنگ صاحب کے بلا حوالہ تراجم سرقہ سے توجہ ہٹ جائے۔جہاں تک دوسرے اشوز کا تعلق ہے میرا خیال ہے کہ میں عمران شاہد کے مقابلہ میں جاوید حیدر جوئیہ سے زیادہ قریب ہوں۔لیکن یہاں ان پر ساری توجہ مرکوز کرنا نفسِ مضمون ’’بلا حوالہ ترجمہ ؍ سرقہ‘‘ کی طرف سے توجہ ہٹا کر در حقیقت دوسرے مباحث میں الجھا دینا ہے۔اگر جوئیہ صاحب ایسا کچھ لکھتے کہ ’’نارنگ صاحب کے جو اقتباسات دئیے گئے ہیں وہ حیران کن ہیں  اور بے شک انہیں ان کے بارے میں وضاحت کرنی چاہئے کہ ایسا کیسے ہو گیا ہے۔اس سلسلہ میں انہیں کی وضاحت سے ہی اصل معاملہ واضح ہو گا۔تاہم میں اس مضمون سے قطع نظر کرتے ہوئے عمران شاہد کے دوسرے مندرجات پر توجہ دینا چاہتا ہوں ‘‘ ، تو ایسے جواب کے لئے عمران شاہد سے جواب حاصل کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔عمران شاہد کے مضمون کے سلسلہ میں بھی یہ عرض کر دوں کہ میرے نزدیک جاوید حیدر جوئیہ خود پڑھے لکھے آدمی ہیں  اور ان کا مشیروں کا کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے جیسا عمران شاہد نے لکھا ہے۔چونکہ دونوں طرف تھوڑا بہت غصہ ظاہر ہوا ہے تو غبار نکالنے کے لئے دونوں تحریریں پیش خدمت ہیں۔اس یقین کے ساتھ کہ دونوں طرف سے تلخی تدریجاً کم ہو گی اور نارنگ صاحب کے بلا حوالہ تراجم ؍ سرقہ کے بارے میں غیر ضروری الزام تراشی  اور غیر ضروری دفاع دونوں سے گریز کر کے حقیقت کو کھل کر سامنے آنے دیا جائے گا۔ بہر حال یہ بحث اب جس رنگ میں بھی چل نکلی جدید ادب کے صفحات حاضر ہیں۔ عمران شاہد کے بارے میں یہاں بتاتا چلوں کہ انہوں نے ۲۰۰۴ء میں یونیورسٹی آف سینٹرل انگلینڈ، برمنگھم سے ’’انٹرنیشنل براڈکاسٹ جرنلزم‘‘ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد ۲۰۰۶ء میں انہوں نے اسی یونیورسٹی سے ’’انگلش لٹریری سٹڈیز‘‘ میں ایم اے کی دوسری ڈگری حاصل کی۔ عمران بھنڈر نے اپنا مختصر مقالہ جرمن فلسفی عمانوئیل کانٹ کے فلسفہ جمالیات پر تحریر کیا  اور فائنل مقالہ بیسویں صدی کی روسی تنقید پر لکھا جس میں انہوں نے لیون ٹراٹسکی کے نظریہ ادب کا ہیئت پسندوں کے نظریات سے تقابلی جائزہ لیا۔اس وقت وہ پی ایچ ڈی کے مقالے پر کام کر رہے ہیں۔ جدید ادب کے شمارہ نمبر ۹ میں شائع شدہ ان کا مضمون عکاس اسلام آباد شمارہ ۶ میں اضافوں کے ساتھ چھپا ہے۔یہ سارے اضافے مغربی مصنفین کے مزید بلا حوالہ تراجم یا سرقہ(اصل میں دونوں ایک ہیں )کی نشاندہی کرتے ہیں۔اس شمارہ میں جو اقتباسات شامل ہیں وہ جدید ادب ۹  اور عکاس ۶ والے اقتباسات کے علاوہ ہیں  اور ابھی ایسے اقتباسات کی دریافت کا سلسلہ کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہا۔عمران شاہد نے اس بار یہ دعویٰ کیا ہے کہ گوپی چند نارنگ نے ٹیرنس ہاکس کی ساری کتاب کو صرف چند ایک پیراگرافس کی ترتیب بدل کر لفظ بہ لفظ اپنے نام سے اردو میں شائع کرایا ہے۔یہ محض الزام تراشی نہیں ہے، بلکہ اردو ادب کی اعلیٰ ترین علمی سطح کی افسوسناک صورتحال ہے۔ڈاکٹر گوپی چند کی شانِ استغنا ء پر مبنی خاموشی بر حق، لیکن اتنا کچھ سامنے آنے کے بعد ترجمہ یا سرقہ کے حوالے سے اپنے کئے کرائے کی انہیں خود ہی وضاحت کرنا ہو گی۔تمام سابقہ  اور موجودہ سرقوں کے ساتھ ٹیرنس ہاکس کی کتاب کے حوالے سے نارنگ صاحب کو اب توجہ فرمانی چاہئے۔ اگر ٹیرنس ہاکس کی کتاب میں سے دو تین پیرا گراف ایسے ہوں جنہیں نارنگ صاحب نے اپنی کتاب میں ترجمہ نہ کیا ہو تو وہ یا ان کا کوئی بہی خواہ ان پیراگرافس کی نشاندہی کرے، میں ان پیراگرافس کو شامل نہ کرنے پر ان سے معذرت کروں گا۔ خدا نہ کرے کہ انگلینڈ کے متعلقہ پبلشر کے علم میں یہ ساری داستان آ جائے  اور وہ ڈاکٹر نارنگ صاحب کو کاپی رائٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا نوٹس بھیج دے۔

 

 

ردِ عمل

 

               جاوید حیدر جوئیہ

 

(بورے والا)

 

عمران شاہد بھنڈر شاہد صاحب کا مضمون بہ عُنوان ’’گوپی چند نارنگ مترجم ہیں، مصنف نہیں ‘‘ مَیں نے پڑھا۔ یہ تحریر اِسی مضمون پر اپنے ذاتی تاثرات کے لیے ہے۔ بات شروع کرنے سے پہلے یہ وضاحت کرنا بھی مَیں ضروری سمجھتا ہوں کہ گوپی چند نارنگ صاحب یا بھنڈر صاحب کی حمایت، تائید، یا پھر ان کی مخالفت میرا مقصد نہیں ہے۔ جہاں نارنگ صاحب نے انگریزی کتابوں کے حوالے نہ دے کر زیادتی/زیادتیاں کی ہیں، وہاں بھنڈر صاحب نے بھی کُچھ زیادتیاں کی ہیں ___ کُچھ نارنگؔ صاحب کے ساتھ،  اور کُچھ خود اپنے ساتھ۔گوپی چند نارنگ صاحب کے حوالے سے بھنڈر صاحب کی سوچ کے چند زاویے جو اُن کے زیرِ نظر مضمون ’’گوپی چند نارنگ مترجم ہیں، مصنف نہیں ‘‘ سے سامنے آئے ہیں، یہ ہیں

:۱:نارنگ مصنّف نہیں ہیں۔

۲: نارنگ محض مترجم اور نقال ہیں۔

۳: نارنگ نے پوسٹ ماڈرن ازم جو مغربی سیاسی، سماجی، معاشی  اور ثقافتی سرگرمیوں کا نتیجہ تھا، کا تعارف اہلِ اُردو سے کرایا

۴:سوسئیر کا لسانیاتی نظریہ سائینسی ہونے کا دعویدار تھا۔ اس لیے اس میں معنی کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ترامیم کی گئیں۔

۵: سائینسی نظریات دنیا کی کسی بھی لیبارٹری میں ایک جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں۔

۳:اُردو میں ساختیات کو نئے زاویے سے داخل ہونا چاہیے تھا،  اور یہ زاویہ ہندوستانی  اور پاکستانی معاشرے کی ضروریات  اور ترجیحات کے مطابق دفاعی حربہ ہونا چاہیے تھا۔

۴: ساختیات کے بارے دفاع تو ایک طرف گوپی چند نارنگ کی وضاحتیں بھی مشکوک نکلیں۔۵:اُردو بھی اپنی ایک ساخت رکھتی ہے، اس میں معنی کو پیدا کرنے والے اصول و قواعد کو سوسئیر کے لسانیاتی نظریے کی رُو سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔

۶:یہاں یہ واضح رہے کہ گوپی چند نارنگ نے مصادر میں کُتب کی تفصیل دے رکھی ہے،  اور جہاں انھوں نے ضروری سمجھا، صفحات کی تفصیل بھی رقم کی۔جو تفصیل اُنھوں نے دے رکھی ہے، اس مضمون میں انھیں فکری دیانت کی بنا پر نظر انداز کیا گیا ہے۔

۷:۔لیکن اتنی اہم اغلاط کی پردہ پوشی کرنا اردو ادب میں قائم شدہ روایت کو مزید طول دینے کے مترادف ہے، جو یقیناً قابلِ تحسین عمل نہیں ہے۔

۸: کتاب کا وہ حصہ جو مشرقی شعریات پر مبنی ہے، وہ میری تحقیق کا قطعاً موضوع نہیں تھا، اس لیے وہ حصہ اس مضمون کی بحث سے خارج ہے۔

۹: گوپی چند نارنگ کو بھی مغرب میں Jazz کی دھن پر کشش محسوس ہوتی ہے، لیکن ہندوستان میں غیر انسانی جرائم کا ارتکاب متحرک نہیں کرتا۔۔۔

۱۰:کتاب( ساختیات، پسِ ساختیات  اور مشرقی شعریات )میں کسی بھی جگہ اوریجنیلیٹی نہیں۔

۱۱:کتاب میں بعض جگہوں پر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گوپی چند نارنگ ارادتاً اپنے مسائل کی پردہ پوشی میں مصروف ہیں۔

۱۲:۔(گوپی چند نارنگ )دیباچہ میں لکھتے ہیں، ’’متن ہر گز خود مختار و خود کفیل نہیں ہے کیونکہ اخذِ معنی کا عمل غیر مختتم ہے ‘‘ (ص۱۱)۔ نارنگ صاحب سے یہاں یہ غلطی سر زد ہوئی ہے کہ وہ اخذِ معنی کو متن سے باہر دیکھ رہے ہیں۔

۱۳:اسی کتاب کے چوتھے باب میں جو ردِ تشکیل کے نام سے لکھا گیا ہے، اس میں موصوف لکھتے ہیں : ’’دریدا کا کہنا ہے معنی کوئی ماورائی موجودگی نہیں ہے جو متن سے ورے، قریب یا دور وجود رکھتی ہو،  اور جس کو نقاد ڈھونڈ نکالے۔ معنی متن کے اندر ہے،  اور جیسے ہی متن تحریر ہوتا ہے، وہ اپنی ردِ تشکیل کا بیج بو دیتا ہے ‘‘ ( ص۲۳۲)

گوپی چند نارنگ کے مندرجہ بالا دونوں بیانوں میں واضح تضاد ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انھیں ما بعد جدید تھیوری کی تفہیم کی مزید ضرورت ہے۔

۱۴ :گوپی چند نارنگ چونکہ ( مغرب سے ہٹ کر) دوسرے تناظر میں ہیں، اس لیے بھی انھیں ما بعد جدیدیت کی رو سے اپنا ڈسکورس تشکیل دینا پڑے گا۔( مضمون کے صفحات نمبرز راقم نے عمداً نہیں دیے، تا کہ ’’جدید ادب‘‘ کے قارئین بھنڈر صاحب کے سارے مضمون کو پڑھ کر میری معروضات پر نظر ڈالیں )بھنڈر صاحب کے مضمون کا عنوان پڑھتے ہی مجھے پہلایہ خیال آیا کہ انھیں ’مترجم‘ کہنے سے آخر کیا ثابت کرنا مقصود ہے ؟ لیکن سارا مضمون دو تین بار پڑھ چُکا تو جو کُچھ مجھے محسوس ہُوا وہ نہایت دیانت داری سے قارئینِ ’’جدید ادب‘‘ کے مطالعہ کے لیے پیش کر رہا ہوں۔ذرا نیچے نظر گئی تو دِل ذرا مرعوب سا ہُوا کہ حیدرؔ قریشی صاحب نے یہ نوٹ بھی دے رکھا تھا کہ بھنڈر صاحب Postmodern literary theory کے موضوع پر برمنگھم یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ ڈی بھی کر رہے ہیں۔ مَیں سوچنے لگا کیا پوسٹ ماڈرن ازم ’’تھیوری‘‘ ہے ؟اس کے بعد نظریں پڑھتے پڑھتے بھنڈر صاحب کے اس جملے پر آ کر ٹھہر گئیں : ’’۔۔۔ساختیات در اصل ایک لسانیاتی تحریک تھی، جسے سوئس ماہرِ لسانیات سوسئیر کے لسانیاتی ماڈل سے اخذ کیا گیا۔ یہ لسانیاتی نظریہ چونکہ سائینسی ہونے کا دعویدار تھا، اس لیے اس ماڈل میں معنی کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ترامیم کی گئیں۔‘‘ ’’ترامیم‘‘ ؟؟ مَیں سوچنے لگا کہ یہ Amendments کس نے کی ہوں گی؟ لاکاں ؔ نے Psychoanalysis کی نئی تشریح کے لیے یا دریدا نے Differance کے لیے ؟  اور یہ ’’ترامیم‘‘ تھیں یا سوسئیر کے لسانیاتی ماڈل کی جدا گانہ تشریحات  اور توسیعات؟ خیر، مَیں نے اَپنے اِس خیال کو بھی جھٹک دِیا کہ جھٹکنے ہی میں عافیت تھی۔بھنڈر صاحب نے یہ بھی درست لکھا کہ دریدا کے بہ قول ’’متن سے باہر کُچھ نہیں ہے ‘‘۔ لیکن اس ’’متن‘‘ کی تشریح یا وضاحت مجھے کہیں دکھائی نہیں دی۔ کیا بھنڈر صاحب کے نزدیک متن محض وہ ہے جو لفظوں پر مشتمل  اور قلم سے لکھا جاتا  اور چھاپہ خانے میں چھاپا جاتا ہے ؟ اگر ایسا ہی ہے تو بھنڈر صاحب کی یہ رائے بالکل درست ہے کہ ’’۔۔ جونہی متن وجود میں آتا ہے، اس کی حیثیت خود مختار ہو جاتی ہے ‘‘ ، لیکن نظری سطح پر ہی سہی، معانی کے ’’نا مختتم طور پر ملتوی  اور فرق پر ہوتے جانے ‘‘ سے اُس کی ’’خود مختاری‘‘ کس حد تک قائم رہ سکتی ہے ؟ مجھے اس کا کوئی جواب بھنڈر صاحب کی تحریر سے نہیں مِلا۔Differance کا عمل معنی کو defer  اور differ کرتا رہے،  اور اس کا کوئی انت  اور آخری تھاہ نہ ہو، تو ’’متن‘‘ کا ’’اختیار‘‘ ، یا اتھارٹی کی کیا حیثیت ہو گی؟ معاملہ لا ینحل رہا۔ پھر جب پڑھا: ’’۔۔۔اُردو میں ساختیاتی فکر کس طرح داخل ہوئی ہے ؟ مجھے اُمید تھی کہ یہ ایک نیا زاویہ ہو گا۔ امید تھی کہ ہندوستانی  اور پاکستانی معاشرے کی ضروریات  اور ترجیحات کو سامنے رَکھ کر کسی حد تک دفاعی حربہ اِستعمال کیا ہو گا، کیونکہ علوم کے حوالے سے مغرب پر سبقت کا خیال محض اب داستانِ پارینہ بن کر رہ گیا ہے۔ دفاع تو دُور گوپی چند کی وضاحتیں بھی مشکوک نکلیں۔ جوں جوں اُن کی کتاب کا مطالعہ کرتا رہا مایوسی بڑھتی رہی۔ کیونکہ کتاب میں کسی بھی سطح پر اوریجنیلیٹی کا فقدان تھا۔۔۔‘‘ مَیں سوچتا رہا کہ کیا ساختیات ہر مُلک میں الگ الگ ہے ؟ الگ الگ ہے تو یہ ’سائینس‘ کیسے ہو گئی؟  اور سائینس ہے،  اور بہ قول بھنڈر صاحب، ’’سائینسی نظریات دنیا کی ہر لیبارٹری میں ایک ہی جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں ‘‘ ، تو پھر سائینس کا ’دِفاع‘ کیوں کر ممکن ہے،  اور وہ کون کون سی سائینسز ہیں جنھیں ملکی ’معاشروں کی ضروریات  اور ترجیحات‘ کو مدِ نظر رکھ کر ’’دفاعی حربہ اختیار‘‘ کیا گیا ہے ؟ جملۂ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ ’دفاع‘ تو نہیں البتّہ ڈاکٹر وزیر آغا نے ساختیات کے ’’مرکزیت‘‘ کے تصوّر کو وحدت الوجود کی فکر کے مماثل کہا ہے،  اور بجا طور پر کہا۔ اس کا احساس مجھے پچھلے دنوں ایک انگریزی کتاب میں دریدا کے  اُس مقالے کا ایک حصہ پڑھتے ہوئے ہُوا جو اُس نے جان ہاپکنز یونیورسٹی میں ساختیات کے موضوع پر ہونے والے مذاکرے میں پڑھا،  اور جس سے پسِ ساختیات کا ایک نیا دَر وَا ہو کر ڈیکنسٹرکشن کے تصوّر پر منتج ہُوا۔(اس کی تفصیل کتابی سلسلہ ’’ ’حریمِ اَدَب‘‘ کتاب۔۴ میں عنقریب شائع ہو گی)سچ جانیے کہ بھنڈر صاحب کا متذکرہ بالا جملہ پڑھ کر مجھے گوپی چند نارنگ پر  اور بھی ’تپ چڑھی‘۔مَیں نے سوچا یہ شخص اَدَبی نقّاد ہی کیوں رہا، سیاسی لیڈر یا سوشل مفکر بن کر ’’مَیدانِ کار زار‘‘ میں کیوں نہیں آیا؟ اپنی کوئی غریبوں کی پارٹی کیوں تشکیل نہیں دی؟ جب کہ اسے علم ہونا چاہیے تھا کہ برطانیہ میں مقیم، ’پوسٹ ماڈرن لٹریری تھیوری‘ کے پی۔ ایچ ڈی کے ایک محترم اُردو محقّق جناب عمران شاہد بھنڈر کی صائب خواہش ہے کہ ساختیات کو پاکستانی  اور ہندوستانی معاشروں کی ترجیحات کے مطابق ’نافذ العمل‘ دِکھایا جائے۔ ’’اوریجنیلیٹی‘‘ کا لفظ بھی بھنڈر صاحب کا ساختیات کے حق میں ایک بڑا ’دفاعی حربہ‘ ہے۔حالانکہ جولیا کرسٹیوا کی پیش کردہ Intertextuality کی تھیوری بتاتی ہے کہ کوئی متن ’’خودمختار‘‘ نہیں، بلکہ یہ دوسرے متن یا متون کی تقلیب Transformation سے پیدا ہوتا ہے۔ ’اوریجنل‘ کا کوئی  اور بھی مفہوم ہے ؟۔ہاں اِستفادے کی بعض کُتب کے صفحات کے نمبرز اپنی کتاب میں درج نہ کرنا البتہ گوپی چند نارنگ صاحب کا ’گناہِ کبیرہ‘ محسوس ہُوا۔ جس سے اُنھیں توبہ کرنی چاہیے۔ اب ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ بھنڈر صاحب اپنی تحقیق کا دائرہ اُردو میں مارکسزم، جدیدیت، وجودیت وغیرہ کا تعارف کرانے والوں کی کتابوں تک بھی پھیلائیں گے،  اور مزید ’’مترجمین‘‘ کو آشکار کریں گے،  اور اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو اس کا مطلب اس کے سوا  اور کیا ہو سکتا ہے  کہ انھیں صرف گوپی چند نارنگ کو ’’ننگا‘‘ کرنا مقصود تھا۔ انھیں لازماً چاہیے کہ وہ ’اردو میں پہلے سے قائم‘ اس روایتی حمام کے سب ننگوں کو ننگا دکھائیں۔زیرِ نظر مضمون سے یہ واضح نہیں ہے کہ بھنڈر صاحب کا Origin ہندوستانی ہے یا پاکستانی۔ اگر وہ ان میں سے کسی بھی ملک کے باشندے رہے ہیں، یا اَب بھی ہیں، تو اُن سے یہ بھی اُمید رکھی جا سکتی ہے کہ جب وہ اُردو اَدَب میں Plagiarism کی اپنی تحقیق  اور انگریزی اَدَب کی اپنی پی۔ ایچ۔ ڈی مکمل کر لیں گے تو وہ ’پوسٹ ماڈرن لٹریری تھیوری‘ کو پاکستانی  اور ہندوستانی معاشروں کی ’ضروریات  اور ترجیحات کے مطابق‘  اور ان کا ’دِفاع‘ کرنے کے بعد، اپنے مقالے کو اردو یا ہندی میں ترجمہ کرنے کے بعد واپس اُسی خطۂ زمین کی طرف لَوٹیں گے، جہاں اُن کے بہ قول: ’’برّصغیر کے ساٹھ کروڑ عوام خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ‘‘ ، اور ’’دُنیا کا پچاسی فی صد سرمایہ چار سو نوّے خاندانوں کے پاس مرتکز ہے ‘‘ ، ’’یہ سب کچھ بر صغیر کے دانشور کو آج بھی نظر نہیں آتا۔۔۔۔۔‘‘ اور امید یہ بھی کی جانی چاہیے کہ وہ اُردو کی ’’ترقی پسندی‘‘ ، ماڈرنزم پر نہیں بلکہ ’پوسٹ ماڈرن لٹریری تھیوری‘ پر ’اپنا ڈسکورس‘ قائم کر کے ایسا کریں گے، کیونکہ اُن کے بقول : ’’۔۔ مغرب کی مرکزیت نہ صرف ما بعد جدیدیت کے حوالے سے، بلکہ اُردو میں جدیدیت کی بنا پر بھی مسلّم ہے۔ اس طرح ترقی پسندی جس کا مارکسیت کی حقیقی رُوح سے دُور کا بھی واسطہ نہیں تھا، جو صرف کم علمی کا نتیجہ تھی، اِس نے بھی اپنی مرکزیت کو پاک و ہند سے باہر تلاش کیا۔ ما بعد جدیدیت ہو، جدیدیت، یا پھر ترقی پسندی، یہاں پر ان کی مخالفت مقصود نہیں ہے، بلکہ مخالفت کو تخلیقی  اور اختراعی جہت پر اُستوار کرنا ہے ‘‘ کہیں مجھے یہ بھی نظر آیا: ’’پوسٹ ماڈرن ازم عہدِ حاضر کی غالب تحریک ہے، جسے بعض مغربی نظریہ ساز ہائی ماڈرن ازم کا بحران بھی قرار دیتے ہیں، یہی زاویہ فکر میرے مقالے کا موضوع ہے، جس کی تکمیل کے لیے مَیں یونیورسٹی آف سینٹرل انگلینڈ، برمنگھم سے منسلک ہوں۔پوسٹ ماڈرن ازم میں برپا ہونے والے ادبی و تنقیدی نظریات کی تحقیق کے سلسلے میں، مجھے اُردو میں متعارف کرائے گئے نظریات تک رسائی کا موقع مِلا۔‘‘ مَیں نے سوچا کیا بھنڈر صاحب کو اُردو کی طرف اس لیے آنا پڑا کہ پہلے ماڈرن ازم کی کسی انگریزی تحقیق میں اُردو کے Plagiarism کا کوئی حوالہ اُن کے پیشِ نظر تھا؟ یا وہ اُردو میں ہائی ماڈرن ازم کا کرائیسس کہیں دیکھ رہے تھے ؟ ہو سکتا ہے ! لیکن پھر مَیں نے سوچا یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ انھیں اپنے مقالے کی آسانی کے لیے اُردو بہ طَور ’’ذریعہ‘‘ زیادہ سہل ہونے کی اُمید ہو! لیکن اِس مضمون کا جواز تو پھر سمجھ میں آ نہیں رہا تھا۔مَیں نے سوچا کہ سوچ کو مثبت رکھنا چاہیے۔شاید بھنڈر صاحب کو عنوان دینا چاہیے تھا ’’گوپی چند نارنگؔ مترجم ہیں، محقّق نہیں ‘‘ تب مَیں نے خود سے کہا اِتنا اِختیار تو ہر کسی کو ہے کہ وہ اپنے Message کو جس طرح چا ہے، ’کوڈ‘ کرے، اس لیے تُم کَون ہوتے ہو ایسا مشورہ دینے کا سوچنے والے ؟ یہی نہیں ہُوا بلکہ مجھے گوپی چند نارنگ صاحب پر بھی رہ رہ کر غصّہ آتا رہا کہ وہ جلدی میں کچھ ’’اصل‘‘ ماخذات کا حوالہ کیوں نہیں دیتے رہے ؟ جبکہ کچھ کا بہ قول بھنڈر صاحب مصادر کی شکل میں دیتے رہے۔ صرف اِتنا ساکام اَور کر لیتے تو بھنڈر صاحب کی ’’فکری دیانت‘‘ کو کوئی شکایت شاید نہ ہوتی۔لیکن جب مَیں اس جملے پر پہنچا : ’’گوپی چند نارنگ ؔ کو بھی بہ حیثیت شارح بہت سی مشکلات پیش آئیں۔۔۔‘‘ تو مَیں سمجھا۔ اوہو ! بھنڈر صاحب در اصل ’’مصنّف‘‘ اور ’’شارح‘‘ کا سیگنیفائڈ ایک ہی سمجھتے ہیں۔ تب تویہ سب ٹھیک ہے !ذرا آگے بڑھا، تو پھر چونکا : ’’۔۔۔ اگر چند ایک اقتباسات لفظ بہ لفظ مصادر میں بغیر صفحہ نمبر کی تفصیل کے بیان کیے ہوتے تو تو شک کے فائدے کی بنا پر انھیں یقیناً نظر انداز کر دیا جاتا، لیکن اتنی اہم اغلاط کی پردہ پوشی کرنا اُردو اَدَب میں قائم شدہ روایت کو مزید طُول دینے کے مترادف ہے، جو یقیناً قابلِ تحسین عمل نہیں ہے ‘‘ تو یقین جانیے، میری تو سِٹّی ہی گُم ہو گئی۔ مُجھے پہلی بار معلوم ہُوا کہ اُردو اَدَب کی تنقیدی روایت میں صفحہ نمبر درج نہ کرنے کی روایت پہلے سے ’قائم‘ ہے۔ اِس لیے بھنڈ ر صاحب کا یہ مغربی جامعات کا اُصول اُردو ادَب پر بھی لاگو ہونا چاہیے،  اور سارے اُردو اَدَب پر Plagiarism کے ’’قانون‘‘ کے تحت ’’ڈسپلنری ایکشن‘‘ لیا جانا چاہیے، جس کے نتیجے میں بھنڈر صاحب کے الفاظ میں ’یونیورسٹی سے بے دخلی بھی ممکن ہو سکتی ہے ‘ اور مَیں سوچنے لگا کہ بھنڈر صاحب گوپی چند نارنگ صاحب سے ہی نہیں، بلکہ اُردو اَدَب کی ساری تنقیدی روایت( کے مصنفین یا شارحین ) ہی سے ناراض ہیں۔مجھے یہ ناراضی بھی اچھّی لگی کہ دیکھیے کس خلوص کے ساتھ وہ انگریزی میں پی۔ایچ۔ ڈی کے لیے اُردو اَدَب کی کتابوں پر غور و فکر کر رہے ہیں۔  اور مَیں نے یہ بھی سوچا کہ اپنے نوٹ میں حید ر قریشی صاحب شاید یہ لکھنا بھول گئے ہیں کہ عمران شاہد بھنڈر صاحب کی تحقیق کا موضوع Plagiarism in Urdu literature ہے،  اور سہواً Postmodern literary theory لِکھ گئے ہیں۔تاہم اگر ایسا نہیں بھی ہے، اور میرے فہم و ادراک میں یہ خلل یونہی دَر آیا ہے، تو دِل کہنے لگا کہ بھنڈر صاحب اگر اَپنے لیے اِس موضوع کا چناؤ کر لیں تو اُنھیں ساری تاریخ ادبِ اُردو کا (صفحہ نمبرز ایڈیشن  اور پبلشرز کے حوالوں کے ساتھ ) اَنگریزی میں ترجمہ کرنے کا موقع بھی میسّر آ جائے گا، اور پھر مقالے کے آخر میں وہی جملہ لکھ دینے سے برمنگھم یونیورسٹی سے ڈِگری بھی امتیاز کے ساتھ مِل جائے گی، جس میں اُنھوں نے اِس ’’نقل کے رُجحان‘‘ کو ’اُردو اَدَب میں پہلے سے قائم ایک روایت کا تسلسل‘ بتا یا ہے

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

گوپی چند نارنگ۔۔۔ پہلی بار آئے تو جوگندر پال  اور ان کی بیگم بھی پنڈی میں تھیں  اور میرے یہاں مقیم تھیں۔ ہم اس فنکشن میں نہ جا سکے جس میں نارنگ نے کلیدی خطبہ پڑھنا تھا، لیکن اس فنکشن کی جو روداد لوگوں سے سنی وہ بڑی دلچسپ تھی۔نارنگ کو دو چار ناموں کے علاوہ کسی سے واقفیت نہ تھی، انہوں نے اسلام آباد کے افسانہ نگاروں کی جو فہرست پڑھی وہ بہت ہی دلچسپ تھی۔ایک نام دوسرے سے جوڑ دیا گیا تھا۔مثلاً مظہر، اسلام احمد، داؤد جاوید، محمد منشا، یاد مرزا، حامد بیگ وغیرہ۔ظاہر ہے کسی نے انہیں نام لکھ کر دئیے تھے۔نارنگ صاحب نے ان کے غلط ٹکڑے کر دئیے، آخر اسلوبیاتی نقاد جو ٹھہرے۔فنکشن کے بعد افسانہ نگاروں کا گروپ انہیں ملا، اپنی کتابیں پیش کیں۔نارنگ صاحب نے راتوں رات نام درست کیے، حوالے یاد کئے  اور اگلی نشستوں میں یہ تاثر جما دیا کہ وہ فکشن کو باقاعدگی  اور ترتیب سے پڑھتے ہیں۔نارنگ بہت اچھے مقرر ہیں۔بات کرنا  اور محفل میں رنگ جمانا انہیں خوب آتا ہے۔اس کے بعد وہ دو یا شاید تین بار  اور اسلام آباد آئے۔یہاں آتے تو ضیاء الحق سے بھی ضرور ملتے۔

 

(ڈاکٹر رشید امجد کی خود نوشت سوانح تمنا بے تاب سے اقتباس ص ۱۴۷، ۱۴۸)

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

گوپی چند نارنگ نے شمس الرحمن فاروقی کے ورڈکٹ سے فرار حاصل کرنے کی کوشش میں ساختیات، پسِ ساختیات، ردِ تشکیل  اور ما بعد جدیدیت کا کاروبار برپا کیا یہ ایک طرح سے علم نما جہل کا مچھلی بازار تھا، جس میں علم کے بیش قیمت پرفیوم کو آسانی سے محسوس نہیں کیا جا سکتا تھا۔ظاہر ہے وقتی طور پر نارنگ کا محض وہ حسد تھا، جو فاروقی کے تن تنہا جدید رجحان ساز ہونے کے ردِ عمل میں پیدا ہوا۔پھر جو اس کے بہت سارے انڈے بچے سیلابی بہاؤ کے ساتھ سطح پر آ گئے۔وہ ’’نئے فقیر کو بھیک کی جلدی‘‘ کے مثل مغرب سے امپورٹ کیے گئے انگریزی متن کے ناقص تراجم کو اوریجنل ب اور کراتے ہوئے نارنگ کے قبیلہ میں پائے گئے۔

 

(احمد ہمیش کے مضمون کون ہوتا ہے حریفِ مئے مرد افگن عشق سے اقتباس بحوالہ پندرہ روزہ سائبان دہلی

 

۔۱۵ تا ۳۱ جنوری ۲۰۰۴ءٌ

٭٭٭

 

 

 

اردو ادب میں سرقہ  اور اس کا دفاع کب تک؟

 

               عمران شاہد بھنڈر

 

(برمنگھم)

 

گزشتہ برس میں نے گوپی چند نارنگ کی کتاب ’’ساختیات پسِ ساختیات  اور مشرقی شعریات‘‘ میں نقالی کے رجحان کی نشاندہی کرنے کے لئے ایک مضمون بہ عنوان ’’گوپی چند نارنگ مترجم ہیں مصنف نہیں ‘‘ تحریر کیا، جو پہلی بار ۲۰۰۶ میں ’’نیرنگِ خیال‘‘ کے سالنامے میں شائع ہوا۔اُس کے بعد اس مضمون پر از سرِ نو نظر ڈالی  اور نئے تحقیقی مواد کی بنیاد پر چند  اور اقتباسات بشمول تمام تفصیلات ضبطِ تحریر میں لایا، جو ’’جدید ادب‘‘ کے شمارہ نمبر ۹، جولائی تا دسمبر۲۰۰۷ء میں دوبارہ شائع ہوا۔اس مضمون میں تناظر کے اعتبار سے اپنی ترجیحات متعین کرنے کے سلسلے میں بھی چند حوالے مغربی ما بعد جدید مفکروں (لیوٹارڈ، ہیبرماس، فوکو وغیرہ) کے افکار کے مختصر تنقیدی جائزے کے بعد پیش کیے گئے تھے۔اس مضمون میں نقالی کے رجحان کو عیاں کرنے کے علاوہ مقصود محض تناظر کی اہمیت کو واضح کرنا تھا تاکہ ادبی و نظریاتی اعتبار سے ’’پر اسراریت‘‘ کو بنیاد بنا کر اہلِ اُردو جس ’’خلائی مشن‘‘ پر رواں دواں ہیں  اور تجرید کی مسلسل تبلیغ پر کمر بستہ ہیں وہ زمین پر اُتر کر گرد و پیش کی تفہیم اپنے داخلی و خارجی محرکات کی نوعیت  اور ضرورت کے تحت کر کے ادبی یا سماجی سطح پر کوئی اپنا لائحۂ عمل تیار کریں، بجائے اس کے کہ دوسروں کے نظریات  اور اُن نظریات کی باطنی منطق میں ربط بطورِ دلیل تلاش کرتے رہیں۔ایسا کرنے سے اپنے معاشرے میں ادبی میدان صوفی کی خانقاہ بننے کے علاوہ  اور کچھ نہیں بن سکے گا۔ معاشرہ خارجی اثر کے تحت اپنی نامیاتی وحدت سے محروم ہو کر صرف دماغوں کے اندر ما بعد جدید منطق کے تابع ہو جائے گا۔ادبی، سماجی، حتی کہ سیاسی اعتبار سے مغربی فکر پر فیصلہ کن اثر چھوڑنے والی فرانز فینن کی کتاب The Wretched of the Earth کا حوالہ مثال کے طور پر دیا جا سکتا ہے جس نے مغرب میں پوسٹ کالونیل ادبی و سماجی تنقید پر شدید اثرات مرتب کیے تھے۔کیا اردو ادب یا تنقید میں کوئی ایسی کتاب موجود ہے کہ جو داخلی و خارجی مفادات کی غیر یکسانیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے، تمام معاشرتی مفادات کو اپنے تناظر کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے لکھی گئی ہو  اور جس کا انگریزی ترجمہ پڑھنے کے بعد مغربی مفکر اپنی تنقید کے خطوط درست کرنے لگیں  اور اپنی جامعات میں اس کو بھی جگہ دیں، جیسا کہ فینن کی کتاب کے بعد ہوا تھا۔نہ کہ وہ الٹا یہ کہنے لگیں کہ یہ مخلوق تو ہماری ہی تقلید پر کمر بستہ ہے۔ اگر ایڈورڈ سعید ان کے دفاع پر اترتا ہے تو تعریف کا حامل قرار پاتا ہے  اور حوالے کے لیے اس کا نام کئی محفلوں میں سننے کو ملتا ہے۔

اگر مشرق کا کوئی باشندہ ادب و تنقید میں اپنا موقف پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ساتھ ہی ادب میں سماجی مسائل کے آنے سے ادب خطرے میں پڑ جاتا ہے۔اگر فینن اپنی تصنیف کے ذریعے نظریاتی اعتبار سے عالمی استحصالی زاویوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے تو اہلِ اردو تمام تضادات کے باوجود مغرب کے ساتھ کس اشتراکیت کے خواہاں ہیں ؟ مغربی مفکر اگر اپنے داخلی مفادات کے حق میں دلائل تراشتے ہیں تو اردو والوں کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔کیا وہ محض خود کو عالم ثابت کرنے کے چکر میں رہتے ہیں ؟ اس میں بھی کوئی حرج نہیں اگر ان کی علمیت کسی تنقیدی سوچ کو پروان چڑھائے، مگر نقل کا رجحان تو خود تنقیدی سوچ کے نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ اس نکتے کا میں بعد میں تفصیلی جائزہ لوں گاْ۔میں اپنے مضمون ’’گوپی چند نارنگ مصنف یا مترجم؟‘‘ میں نقالی کے رجحان کو عیاں کرنے کے علاوہ صرف مذکورہ بالا نکتے کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کی تھی۔ گوپی چند نارنگ کے کارنامے کے انکشاف کے سلسلے میں تحریر کیے گئے مضمون کے مرکزی نکتے پر کوئی خاص ردِ عمل نہیں ہوا جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ بے شمار خود ساختہ ادیبوں، نقادوں  اور محققوں نے اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا شروع کر دیا ہو گا کہ اسی عمل کی بنا پر تو وہ تنقید کے عالم بنے ہوئے ہیں۔ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ما بعد جدید مباحث ادب سے وابستہ زیادہ تر لوگوں کی فہم سے بالا ہوں، لیکن اس مضمون میں مباحث  اور تجزیات پر تو توجہ مرکوز ہی نہیں کی گئی تھی۔ اس کا مرکزی زاویہ تو علمی و فکری بددیانتی کے رجحان کی نشاندہی تھی  اور اگر توجہ نقالی سے ذرا ہٹتی تو شاید تناظر کی اہمیت واضح ہونے سے کچھ پیش قدمی داخلی تقاضوں کے تحت بھی ہو جاتی مگر یہاں تو حالات یہ ہیں کہ بلاواسطہ طور پر نقالی کے حق میں دلائل دیے جانے لگے ہیں۔ پاکستان کے علاقے بورے والا سے بہر حال اہلِ اُردو کی جانب سے اختیار کی گئی خاموشی ٹوٹی ہے۔جاوید حیدر جوئیہ صاحب نے ’’جدید ادب‘‘ میں شائع ہونے والے مضمون ’’گوپی چند نارنگ مترجم یا مصنف؟‘‘ کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اُنھوں نے گوپی چند نارنگ کے نقالی کے رجحان کو ہدفِ تنقید نہ بنا کر جہاں اس رویے کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کی ہے تو دوسری طرف ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے مشیروں کے پیشگی دفاع پر چل نکلے ہیں۔ جوئیہ صاحب کے مضمون یا خط کا میں نے بنظرِ غور جائزہ لیا ہے۔ اس مضمون میں میں نے یہ کوشش کی ہے کہ اُن کے تمام اہم اعتراضات کا اُسی ترتیب سے جواب پیش کروں جو اُنھوں نے اپنی تحریر میں اختیار کی ہے۔ان کے کئی ایک نکات کو میں نے غیر ضروری  اور انتہائی ابتدائی نوعیت کے سمجھ کر نظرانداز کر دیا ہے۔یہاں پر یہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ جوئیہ صاحب نے میرے مضمون کا مطالعہ بقول اُن کے ’دو تین بار‘ کیا ہے اور جس نتیجے پر وہ پہنچے ہیں وہ مضمون کو ’دو تین‘ بار پڑھنے کے بعد ہی پہنچے ہیں یہ امر بھی قابلِ غور ہے انہیں اس بات کا بھی پوری طرح یقین نہیں ہے کہ انہوں نے مضمون کو کتنی بار پڑھا ہے ؟ بہرحال اُن کے اعتراضات کا جائزہ لیتے وقت اس مضمون کے قاری کو اصل مضمون کے حوالے سے جوئیہ صاحب کے بھر پور مطالعے کا خیال اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ گوپی چند نارنگ نے ٹیرنس ہاکس کی کتاب Structuralism and Semioticsکو چند ایک پیراگراف کی ترتیب کو تبدیل کر کے ساری کی ساری کتاب ترجمہ کر کے اپنے نام سے شائع کرا دی ہے۔پہلے ہم جوئیہ صاحب سے بات شروع کرتے ہیں۔جناب جوئیہ صاحب فرماتے ہیں کہ ’’میں سوچتا رہا کہ کیا ساختیات ہر ملک میں الگ الگ ہے ؟ الگ الگ ہے تو یہ ’’سائنس‘‘ کیسے ہو گئی؟  اور سائنس ہے،  اور بقول بھنڈر صاحب ’’سائنسی نظریات‘‘ دنیا کی ہر لیبارٹری میں ایک ہی جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں ‘‘ ، تو پھر سائنس کا ’دفاع‘ کیونکر ممکن ہے، اور وہ کونسی ’’سائنسز‘‘ ہیں جنھیں ملکی معاشروں کی ضروریات  اور ترجیحات کو مدِ نظر رکھ کر ’’دفاعی حربہ اختیار‘‘ کیا گیا ہے ؟‘‘ اس سے قبل کہ اس پیراگراف پر بات شروع کی جائے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے گزشتہ مضمون سے ایک اقتباس دیا جائے جس میں میں نے مختلف سائنسز میں حدِ امتیاز کھینچنے کی کوشش کی تھی، ملاحظہ فرمائیں، ’’اس مثال سے یہ نتیجہ اخذ کرنا عبث ہو گا کہ ان دونوں سائنسی نظریات کو ایک ہی کلیے کے تحت جانچا جائے، مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ سائنسی نظریات کی قبولیت یا استرداد کا عمل ہر طرح کے تعصب سے بالا معروضی قوانین کے تابع ہونا چاہیے۔‘‘۔۔۔۔۔اس مضمون میں جوئیہ صاحب کو نارنگ صاحب کا دفاع مقصود تھا اس لیے انہوں نے بیشتر حوالوں کو غلط پیرائے میں استعمال کر کے اپنی جانب داری کا ثبوت دیا ہے۔ اگر اس مضمون سے جوئیہ صاحب کا نام حذف کر دیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس مضمون کو گوپی چند نارنگ نے خود تحریر کیا ہے کیونکہ اس سے زیادہ دفاع کرنے میں نارنگ صاحب خود بھی ناکام رہتے۔مندرجہ بالا نکتے کی بحث کو سمجھنے کے لیے یہ ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ میں اس بحث میں سیوسے ئر کی لسانیاتی تھیوری کا مفصل جائزہ نہیں لوں گا  اور نہ ہی سیوسے ئر کی تھیوری کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کروں گا کیونکہ اس کے لیے موضوع سے ہٹنا پڑے گا۔ میں صرف معنی آفرینی کے لیے سیوسے ئر کی تھیوری میں معروضی عنصر کے نہ ہونے سے جنم لینے والے قضیوں کا ذکر کروں گا جو معنی کی نوعیت کو یکسر تبدیل کر دیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ صرف ’لفظ‘ کو معروضی تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔یا یوں کہیں کہ لفظ کی ’’میٹیریل‘‘ حیثیت پر توجہ مرکوز کروں گا۔جہاں تک لسانیاتی ساختیات کا تعلق ہے تو وہ سیوسئیر کے نظریے کے مطابق اپنی ہی باطنی منطق کے تحت معنی کو وجود میں لاتی ہے، جس میں افتراق، اضافیت، خود مختار، (Arbitrary)، لونگ  اور پارول وغیرہ جیسے عناصر شامل ہوتے ہیں۔سیوسئیر زبان کو معنی آفرینی کے لئے معروضایہ(Objectified) ہوا نہیں سمجھتا۔اس کے نزدیک لفظ یا سائن self referential ہے۔اس طرح وہ ’لفظ‘ کو اس کے مادی پہلو سے محروم کر کے محض تجرید کی سطح تک لے جاتا ہے، جبکہ مادی نقطہ نظر سے ہم جانتے ہیں کہ معنی آفرینی کے لئے ’لفظ‘ کو تناظر عطا کرنا ضروری ہے  اور یہ ثابت کرنا انتہائی مشکل ہے کہ ’لفظ‘ میں معروضیت کا کوئی بھی پہلو شامل نہیں ہے۔زبان معنی آفرینی کے لئے اپنے ہی باطنی رشتوں (افتراق، اضافیت، خود مختار، لونگ  اور پارول )کی محتاج ضرور ہو سکتی ہے، لیکن یہ عمل کسی نہ کسی تناظر میں طے پانا چاہیے۔ فرض کریں کہ کوئی ب شخص کہتا ہے کہ ’’غریب کا استحصال ہو رہا ہے ‘‘ یقیناً یہ فقرہ موضوعیت کے برعکس معروضی اہمیت کا حامل ہے  اور بغیر تناظر کے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہو سکتی۔مزید وضاحت کے لئے اپنے ہی مضمون ’’گوپی چند نارنگ مترجم یا مصنف‘‘ سے کیتھرین بیلسی کا ایک اقتباس دے رہا ہوں جسے جوئیہ صاحب پہلے ہی دو یا تین بار پڑھ چکے ہیں۔بیلسی کے مطابق ’’زبان  اور سوچ کا تعلق نئے معنی  اور دنیا کے تجزیے کے نئے طریقوں کی وضاحت کرتا ہے، جو طریقہ ہائے کار وضع ہو جاتا ہے معنی اُسی کے اندر قائم ہوتا ہے۔نئے معنی قائم کرنے کے لئے زبان  اور سوچ کے تعلق کو تبدیل کرنا ہو گا۔‘‘ زبان  اور سوچ کا تعلق دو سطحوں پر عمل آراء ہوتا ہے، ایک داخلی  اور دوسری خارجی۔داخلی  اور خارجی کے درمیان رشتہ انتہائی پیچیدہ، متضاد  اور مبہم ہے۔یہ بہر حال طے ہے کہ سوچ کی تشکیل میں خارجی عناصر فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ شعور کی نوعیت داخلی بھی ہو سکتی ہے  اور خارجی بھی تو پھر ہمیں بڑی باریکی سے ان دونوں کے مابین افتراق کی نشاندہی کرنی ہو گی۔آئیے عمانوئیل کانٹ کی کتابs Critique of Pure Reason The میں بیان کیے گئے فرد کے داخلی و خارجی شعور پر غور کرتے ہیں۔ اس کے بعد میں اسی تصور کی روشنی میں ہیگل کے فلسفے کا مختصر جائزہ لے کر دریدا کے Differance کے بارے میں پراسرار تھیوری پر تنقیدی نظر ڈالوں گا۔ژاک دریدا کے بارے میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس نے مغربی دنیا کے سب سے عظیم فلسفی عمانوئیل کانٹ کے خیالات کو ہیگل، فختے  اور شیلنگ کے ذریعے جان کر ان کی اہم فلسفیانہ اصطلاحات کو لسانیات پر لاگو کر دیا۔اس نے عقلیت، شعور، سیلف، افترق وغیرہ جیسی اصطلاحوں کا مفہوم سمیٹ کر مختلف ناموں سے لسانیات کی مناسبت سے اصطلاحات وضع کیں (Difference, Trace, Supplement, etc,)  اور زبان کے اندر سے معنی کی تلاش شروع کر دی۔ یہاں پر جو کچھ دریدا کہتا ہے اسے آنکھیں بند کر کے تسلیم کرنا قابلِ قبول نہیں ہے۔ دریدا کے فلسفے کے مآخذات کا سراغ لگانا  اور ان کی سچائی کو جاننے کی کوشش کرنا بھی مقصود ہے۔ یہ دسویں جماعت کا امتحان نہیں جس میں صرف سوالات کا جواب دینا ہی کافی ہوتا ہے۔ یہ آزادانہ تحقیق کا ا پنے موقف کی روشنی میں تجزیہ کرنے کا سوال ہے۔ ہمارا اپنا ایک موقف ہے جس کے مطابق سچائی زبان کے اندر ہی نہیں پائی جاتی بلکہ ہماری تمناؤں کے برعکس خارجی دنیا میں بھی موجود ہے جس کا انسان اپنی ہی سرگرمی کے ذریعے شعور حاصل کر کے  اسے تبدیل کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔عمانوئیل کانٹ کے فلسفے کے سکالرز کو اس کے فلسفے میں شامل تصورِ بدیہیت  اور خارجی اعتبار سے اس کے تفاعل سے پوری طرح آگاہ ہونا چاہیے۔ کانٹ کے فلسفے میں ’بدیہی‘ (a Priori) کا استعمال ’فوق تجربی جمالیات‘ (Transacendental Aesthetic) میں فطرت کو بحیثیت وجدانی مظہر کے طور پر کیا جاتا ہے، جس میں فطرت کا ادراک ہمیں حسیات کے ذریعے ہوتا ہے، اس میں کوئی بھی خارجی طریقہ ہائے کار وضع نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ ہر طرح کے معروض، دلچسپی، خواہش  اور تصور سے بالا تر ہے۔اس میں صرف  اور صرف فوق تجربی سیلف باطنی طور پر تفکراتی عمل سے گزرتا ہے۔ کانٹ نے واضح کیا تھا کہ شعور کی منطقی اہلیت دراصل سیلف کی موجودگی بطورِ سوچنے والے فرد کی حیثیت سے کرتی ہے۔ ایسا فرد اپنی ہی منطق کے تحت تشکیل پاتا ہے۔اس طرح کے فرد کو کانٹ کے فلسفے کی رو سے NoumenalI کہا جاتا ہے۔ کانٹ کا ’’نومینل سیلف‘‘ زمان  اور ہر طرح کی ترکیبی وحدت سے آزاد ہے لیکن مکان سے آزاد نہیں ہے۔جبکہ دوسرا ’سیلف‘ زمان و مکان میں موجود ہوتا ہے۔ گو کہ خارجی عوامل کی شمولیت سے متشکل ہوتا ہے مگر خارج کے تمام مقولات پہلے ہی سے دیے گئے ہوتے ہیں، جنہیں سبجیکٹ اپنی ہی داخلی حس سے جانتا ہے، یعنی جب فرد یہ کہتا ہے کہ وہ ترکیبی وحدت سے قبل ازادراک کی خصوصیت کو جانتا ہے تو وہ دراصل خود کے شعور ہونے کا پتہ دیتا ہے۔ ایک طرف وہ خود کے شعور ہونے کا پتہ دیتا ہے  اور دوسری طرف اسے شعوری سرگرمی کا بھی شعور ہوتا ہے۔یعنی یہ شناخت وہ اپنے شعور سے جو اس کا ’’دوسرا‘‘ ہے، سے قائم کرتا ہے۔یہاں پر افتراق تو ہے لیکن شناخت کا لمحہ بھی آتا ہے۔اس طرح کانٹ نے فرد کی دوئی کا تصور پیش کیا تھا جس نے ایک طرف تو ڈیکارٹ کے تصورِ فرد کی دھجیاں بکھیر دیں، کیونکہ ڈیکارٹ کا فرد مطلق حیثیت کا مالک تھا، جبکہ دوسری طرف سیلف کو دو لخت ((Decentered کر کے بعد کے تمام فلسفے کے لیے راستہ ہموار کیا۔کانٹ کے مطابق دوسرے فرد کی نوعیت پر مزید غور کرتے ہیں جو مظہراتی دنیا سے وابستہ ہوتا ہے جسے Phenomenal I کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ظاہرسے تشکیل پاتا ہے۔ ’’فوق تجربی فرد‘‘ کی وضاحت کرنے کے بعد کانٹ واضح کرتا ہے کہ ’استخراجی منطق‘ (Deductive Logic) فطرت کو ’تصوراتی مظہر‘ (Conceptual Representation) کے طور پر دیکھتی ہے، یعنی مظہراتی فطرت ’ترکیبی وحدت‘ (Synthetic Unity) کے طور پر شامل ہوتی ہے۔جسے فہم کے اشتراک سے تصور کی صورت دی جاتی ہے۔ اس عمل میں کانٹ کے مطابق مادہ فرد کے اندر بھی موجود ہوتا ہے جو حسیات کی بنیاد پر خارجی مادے پر ردِ عمل کرتا ہے، لیکن اس میں فہم شامل ہوتی ہے۔جہاں تک فطرت (خارجی دنیا) کا تعلق ہے تو اس کی حیثیت وجدانی ہوتی ہے جس میں ’زمان و مکان‘ مادی صورتوں میں موجود ہوتے ہیں۔زمان ومکاں میں مادیت کے عنصر کا مطلب یہ ہے کہ اسے سوچ کے ذریعے تشکیل دیا جا سکتا ہے۔اس میں داخلیت  اور خارجیت دونوں عناصر شامل ہیں۔اس طرح کانٹ نیا ایک طرف ’’مخفی سیلف‘‘  اور ’’مظہراتی سیلف‘‘ کے درمیان یہ حدِ فاصل کھینچی تھی کہ علم کے حصول  اور اس میں اضافے کے لیے ’’مظہراتی سیلف‘‘ کو ہی متحرک ہونا پڑتا ہے کیونکہ اس میں فرد معروض سے برسرِ پیکار ہوتا ہے، دوسری طرف اس نے ’’نومینل سیلف‘‘ کو اس کے تفاعل کے اعتبار سے الگ کر دیا۔ کانٹ کا Transcendental subject سماجی عمل میں شریک نہیں ہو سکتا مگر وہ اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ قائم رہتا ہے۔دوسری طرف مظہراتی سبجیکٹ ہے جو سماجی عمل میں شریک تو ہوتا ہے لیکن سچائی کو نہیں پا سکتا کیونکہ بقول کانٹ ’’شے بالذات‘‘ خود کو مخفی رکھتی ہے۔یہی نکات ہیں جنہوں نے ہیگل کو اپنا الگ فلسفہ تشکیل دینے کے لیے بنیادی مواد مہیا کیا۔ ہیگل ایک طرف تو کانٹ کی ’’شے بالذات‘‘ کو تسلیم نہیں کرتا  اور دوسری طرف کانٹ کے Transcendental subject کے عدم شمولیت کے کردار کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔کانٹ کے ’’نومینل سیلف‘‘ کی حیثیت قبل از تاریخ کی ہے، یعنی اس کا مآخذ تاریخ کے ہر مآخذ سے قبل ہے، جو وجدان کی a Priori حیثیت کا قائل ہے اور  جو تمام انسانی تجربے کی لازمی شرط بھی ہے۔ اسے دنیا میں تلاش کرنا  اور اس میں سے تجربے کے تما م عناصر کو دریافت کرنا ناممکنات میں سے ہے۔دریدا کا Differance یا Trace بھی بقول اس کے ’مآخذ‘ سے قبل کا ’مآخذ‘ ہے۔ دریدا نے Differance کے بارے میں کئی بار کہا ہے کہ اس کا مآخذ ہر طرح کی ’موجودگی‘ او ’ر شناخت‘ سے قبل دریافت کیا جا سکتا ہے۔ کانٹ کے مفہوم میں دریدا کا پراسرار عنصر معنی خیزی کو تو ممکن بناتا ہے لیکن خود اپنے مآخذ کی کوئی خبر نہیں دیتا۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ Differance کی حیثیت Objectified نہیں ہے۔ اس طرح دریدا کانٹ کے ’نومینل سیلف‘ کے قریب چلا جاتا ہے جو خود Objectified نہ ہوتے ہوئے بھی معنی خیزی کا سبب بنتا ہے۔ دریدا کے نزدیک Differance and Trace اس طرح کا پراسرار عنصر ہے جو معنی خیزی کے عمل کو ممکن بناتا ہے، اگر

each so-called present element, each element appearing on the scene of presence, is related to some thing other than itself. ( SP, p,142-143(.

لیکن اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ خود کو مخفی رکھے۔ دریدا چونکہ systematic مفکر نہیں تھا اس لیے اس نے ایک ہی تھیم کی وضاحت کے لیے مختلف اصطلاحات بغیر کسی ربط کے استعمال کر کے نقادوں کے ڈیکنسٹرکشن سے مختلف نتائج اخذ کرنے کے لیے راستہ کھول دیا۔اب یہاں پر ایک طرف تو دریدا معنی کی تلاش میں ہیگل کی The science of Logicکے سب سے بنیادی تھیم ’افتراق و اپو زیشن‘ کی بنیاد پر معنی خیزی کے عمل کو مستعار لیتا ہے  اور دوسری جانب کانٹ کے ’نومینل سیلف‘ کے مماثل ہو جاتا ہے۔ کانٹ نے اس تصور کو ادھورا چھوڑ دیا جسے بعد ازاں اس کے پیش رو جرمن فلسفی شیلنگ نے واضح طور پر تشکیل دیا۔

پیٹر ڈیوز نے ثابت کیا ہے کہ دریدا کا تصورِ Differance حقیقت میں شیلنگ کے ’’سبجیکٹ‘‘ کے تصور کے مشابہ ہے، جو اپنی عدم شمولیت کے بغیر معنی کو متعین کرتا ہے۔ ہیگل کے دریدا پر اثر کا جائزہ لینے کے لیے دریدا کے مضمون Differance کا مطالعہ بہت ضروری ہے جس میں اس نے واضح طور پر ہیگل کے اثر کو تسلیم کیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جس سوچ  اور زبان کے تعلق کی ہم وضاحت کرنا چاہتے ہیں وہ تو یقیناً خارج سے ہی تشکیل پائی ہوئی ہونی چاہیے، خارج سے تشکیل ہونے والی زبان کی نوعیت کیا ہو گی؟  اور اس زبان  اور باطنی زبان میں حدِ امتیاز کس طرح قائم کیا جا سکتا ہے ؟ اگر خارج میں زمان و مکان کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھا جانا چاہیے تو بے شک زبان اپنی ہی باطنی منطق کے تحت عمل کرے، لیکن اس کے باوجود خارجی عوامل معنی کے اعتبار سے زمان و مکان کے تقاضوں کے تحت مختلف معنی کی تشکیل کریں گے۔ خارج ہی وہ لیبارٹری ہے جو زبان کے اپنے معنیاتی رشتوں کے باوجود تناظر کو ملحوظِ خاطر رکھے گی  اور ایک تناظر کو دوسرے تناظر سے خارجی منطق کے تحت جدا کرے گی۔جن کے حوالے سے داخلیت کی اپنی زبان ہو سکتی ہے جیسا کہ کانٹ نے The Critique of Pure Judgement میں واضح کیا تھا۔ مارکسی نقطہ نظر سے اس پہلو سے بھی اختلاف کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں حیاتیاتی نقطہ نظر سے آغاز سے ہی ماحولیاتی عوامل کی شمولیت ہو جاتی ہے۔یہاں چونکہ دونوں ’’سیلف‘‘ کے امتیاز کو واضح کرنا ہے اس لیے داخلی و خارجی زبان کو الگ الگ کیا جا رہا ہے۔مارکسی لسانیات کی وضاحت کے لیے یہ مناسب موقع نہیں ہے۔لسانیات کا شمار سوشل سائنسز میں ہوتا ہے  اور لیوائی سٹراس کو تو ویسے بھی یقین ہو گیا تھا کہ لسانیات ہی حقیقی سائنس ہونے کا درجہ رکھتی ہے، جو اپنے قوا نین کے مطابق مختلف قسم کے معنی پیدا کرتی ہے، یقیناً یہ عمل انتہائی پیچیدہ  اور متضاد عوامل کی پیکار کا نتیجہ ہے۔ہر زبان اگر اپنے پس منظر میں تشکیل پائے تو بالائی سطح پر معنی کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے۔ ہمارا سوال پھر وہی ہے کہ برطانوی معاشرتی یا ثقافتی تناظر میں جنم لینے والے معنی کا ہو بہو اطلاق پاکستانی ثقافت پر کیسے کیا جا سکتا ہے ؟دریدا کی Of Grammatology کے دیباچے پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر ڈیرک نے مجھے کہا کہ گائتری سپیوک لٹریچر کی استاد تھی نہ کہ فلسفے کی، اس لیے اس کا دریدا کی کتاب کا ترجمہ  اور اس کا تحریر کیا ہوا دیباچہ شک سے بالا نہیں ہے۔فلسفے کی اپنی اصطلاحات ہوتی ہیں جنہیں ادب کے قاری کو محتاط رویہ اختیار کر کے پڑھنا چاہیے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جرمن فلسفی مارٹن ہائیڈیگر اس بات پر مصر تھا کہ زبان فرد کے اندر از خود بولتی ہے، اس عجب خیال کو سادہ الفاظ میں تھیوری کے برعکس اپنے  اور زبان کے تعلق کی نوعیت کو سمجھ کر بھی مسترد کیا جا سکتا ہے۔اگر زبان پر ہمارا اختیار ہے  اور ’’خلائی مشن‘‘ کے برعکس سماج کے ساتھ بھی ہمارا کوئی تعلق ہے تو سماجی عمل کی بہتر تفہیم کر کے ہم پہلے سے موجو د مغربی ’’کوڈز‘‘ کی جگہ اپنا ایک الگ ’کوڈ‘ بھی تشکیل دے سکتے ہیں۔اسی کو میں نے ’دفاعی حربہ‘ قرار دیا تھا۔اگر اس عمل کے لیے زیادہ صلاحیت درکار ہے تو کم از کم اپنے تناظر میں زبان کے objectification کے پہلو کو سامنے رکھ کر اپنا نقطہ نظر پیش کیا جا سکتا تھا۔بیسویں صدی میں ’’بیگانگی‘‘ کے نتیجے میں اس طرح کی علمیات کی توقع کرنا قطعاً حیرت انگیز امر نہیں ہے۔ مجموعی طور پر بیسویں صدی جنگوں، انقلابات  اور ردِ انقلابات کی صدی تھی۔ اس کے علاوہ بیسویں صدی سامراج کے وجود میں آنے کی صدی تھی۔جس کے اثرات نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ مغربی ممالک کے داخلی تضادات کی صورت میں بھی سامنے آئے۔معیشت کی چوکھٹ پر ہر قابلِ قدر چیز بکنے لگی۔ مزدور کی پیدا کردہ جنس (commodity ) کے ساتھ ساتھ فنی پیداوار بھی معیشت کی غلامی کرنے لگی۔پیداواری عمل سے جنم لینے والی ’بیگانگی‘ ثقافتی سطح پر پوسٹ ماڈرن ازم کے روپ میں سامنے آئی  اور مغربی تہذیب کے رکھوالوں نے اسے ’’ردِ ثقافت‘‘ (Counter culture) کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔اس سارے عمل کو مارکسی مفکروں نے ایک صدی قبل ہی آشکار کر دیا تھا۔سرمایہ داری نظام کے سامراج کا روپ اختیار کرنے کا انتہائی شاندار تجزیہ مارکس کے ’’سرمایہ‘‘ کی پہلی جلد کے باب چھبیس میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے، جسے بعد ازاں لینن نے اپنی کتاب ’’سامراج، سرمایہ داری کی آخری منزل‘‘ میں ٹھوس سائنسی بنیادوں پر ثابت کیا  اور سامراج کے وجود میں آنے کی سچائی سے آگاہ کیا۔ما بعد جدیدیت کی ادبی جہت، مغربی ثقافت یا اس کافلسفہ (پسِ ساختیات) یہ ’’بیگانگی‘‘ کی صورتیں ہیں۔پسِ ساختیاتی رجحان مغربی ممالک کے اپنے داخلی تضادات کا نتیجہ ہے۔سوال یہ نہیں ہے کہ یہ سائنس ہے تو اسے ہر حال میں قبول کرنا ہے بلکہ اصل سوال تو اس کی حدود کا تعین  اور اس کے تضادات کی نشاندہی کرنا ہے۔اس کے علاوہ یہ جاننے کی کوشش کہ ما بعد جدید فلسفے کا اس کے عہد سے کیا تعلق ہے ؟نیوٹن کی تھیوری اگر ناقابلِ عمل ہو تو اسی کے اطلاق کرنے کا مسلسل اصرار اس سے اعلی حقائق تک پہنچنے میں رکاوٹ بن جاتا ہے، اس کے لیے یقیناً آئن سٹائن کو پکارنا ہو گا۔اسی طرح اگر اہلِ اردو کے اپنے تقاضے ’’ڈیکنسٹرکشن‘‘ پورے نہیں کرتی تو  اور بھی ایسی سائنسز موجود ہیں جو ان کی معروضی صورتحال سے ہم آہنگ ہونے کی پوری صلاحیتیں رکھتی ہیں۔۱۹۶۸ میں جب فرانس میں طالب علم اورفیکٹری مزدوروں کا انقلاب آیا تو سارتر، فوکو، لاکاں  اور لیوٹارڈ وغیرہ ڈرائنگ رومز(خانقاہ) میں بیٹھ کر شاعری کے عروض پر بحث نہیں کر رہے تھے۔ وہ تو سڑکوں پر نکل کر مزدوروں  اور طالب علموں سے سوال پوچھتے تھے تاکہ ان وجوہ کا علم ہو جن کی وجہ سے یہ لوگ سڑکوں پر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے نظریے کو صرف تجریدی تصور کیا جائے۔ ان کی کوشش یہ تھی کہ وہ اپنے نظریات کی سچائی کو زمین پر ہی ثابت کریں۔یہی وجہ ہے کہ دریدا اگر فرد کی تشکیل ثقافتی زبان کے اندر کرتا ہے تو لیوٹارڈ اسی زبان میں طاقت کے عنصر کو غالب دیکھتا ہے، جبکہ فوکو زبان کے برعکس سماج میں طاقت کے کھیل کی عمل آرائی کو حتمی تصور کرتا ہے۔فوکو کہتا ہے کہ

I believe one’s point of reference should not be the great model of language and signs, but that of war and battle. The history which bears and determines us has the form of a war rather than a language: relations of power, not relations of meaning. (Power/Knowledge, p,114(.

اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ فوکو کسی ٹھوس بنیاد پر اپنی تھیوری وضع کرنا چاہتا تھا۔معنی کی مخالفت کا مقصد صرف روشن خیالی منطق میں کار فرما معنی کا انہدام تھا۔مشل فوکو کا ’فرد‘ طاقت کی تشکیل تھا، اس طرح فوکو معروضیت کو تو سمیٹتا ہے مگر اپنے دلائل کا پسِ منظر چھپانے میں ناکام رہتا ہے۔ اسے تو فرد کی فطرت کا انہدام  اور اپنے عہد میں جنم لینے والی ہم جنس پرستانہ تحریکوں کی کامیابی درکار تھی۔ اگر فوکو ’معنی‘ کو تسلیم کر لیتا تو اسے اپنے فرد کی نفی کرنی پڑتی، اس نے مناسب سمجھا کہ فرد کی فطری حیثیت کو چیلنج کرے۔اس لیے اس نے معروضی  اور عقلی سچائی کا انکار کر دیا۔ ظاہر ہے کہ اگر عقلیت پسندی کی بنا پر قائم کیا گیا سچائی کی دریافت کا تصور ہی غلط ہے تو وہ فرد کیسے قائم رہ سکتا تھا۔نئے فرد کو وہی درجہ دلانے کے لیے اس نے طاقت  اور مزاحمت جیسی اصطلاحات استعمال کیں۔ اپنی تحریک کو فتح دلانے کی خاطر فوکو کہنے لگا کہ ’مزاحمت  اور طاقت‘ ہر جگہ پر ہے۔مزاحمت، طاقت کے اندر موجود ہے جو اس کو کمزور کرتی ہے۔فوکو کی یہ تھیوری ۱۹۶۸ کے پس منظر میں مزید ترقی کرتی گئی۔ جیسا کہ میں نے واضح کیا ہے مغرب میں ادبی و سماجی نقاد ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر مختلف موضوعات پر خیال آرائی اپنے سماجی پس منظر میں کرنے کے علاوہ سماجی عمل میں حصہ بھی لیتے ہیں۔ جس فوکو، دریدا، سارتر یا ہائیڈیگر کاحوالہ اردو تنقید میں بطورِ عالمانہ قسم کی بحث کے استعمال کیا جاتا ہے، یہ لوگ تو مختلف قسم کی تنظیموں سے وابستہ رہے ہیں  اور مختلف گروہوں  اور طبقات کے ساتھ ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے نظریاتی  اور عملی سطح پر لڑے ہیں۔ اس طرح جو فلسفہ وہ پیش کرتے رہے ہیں ان کا ان کے سماج کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے۔ژاک دریدا کو ہی دیکھیں کہ کس طرح اس نے گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد امریکہ کی حمایت کی، جبکہ امریکہ کے عراق پر حملے کو غلطی قرار دیا۔۱۹۶۸ کے طالب علم انقلاب کی اس نے حمایت کی  اور بعد میں دست بردار ہو گیا۔۱۹۹۵ میں دریدا نے سوشلسٹ امیدوار لیونل جوزفن کی سیاسی پارٹی میں حصہ لیا  اور اس کی باقاعدہ حمایت کی۔سیاسی سطح پر اختلاف بھی اپنی تھیوری کی روشنی میں ہی کیا۔ اُردو کا دانشور یا ’’سوشل مفکر‘‘ سیاست کے نام سے بھی خائف ہو جاتا ہے  اور اس کا ادب خطرے میں پڑنے لگتا ہے۔ بالکل ملاّ یا پنڈت کی طرح جو خدا کو طاقت ور بھی کہتے ہیں  اور خطرے میں بھی سب سے پہلے خدا کو ڈالتے ہیں۔نارنگ صاحب جیسے نقاد بغیر کسی پس منظر کے اس انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ اب کونسی تھیوری تشکیل پانے والی ہے تاکہ دوسروں سے پہلے وہ اس تھیوری کی رپورٹنگ کر کے بڑا نقاد کہلوانے کا تمغہ حاصل کر لیں، جس میں ان کو خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہو جاتی ہے، لیکن علمی بددیانتی کی جس روایت کو وہ مضبوط کر رہے ہیں اس کے لیے آج نہیں تو کل انہیں قصور وار ضرور ٹھہرایا جائے گا، اگر چند لوگ جو ئیہ صاحب جیسے ہو سکتے ہیں جو اس قسم کے رویوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو مستقبل میں ایماندارانہ نقطہ نظر رکھنے والے لوگ بھی سامنے آ سکتے ہیں۔

یہ تو مختصر سی بحث لسانیات کی اس کے اپنے اصولوں کے تحت معروضیت کو سمیٹ کر معنی کی تشکیل کرنے کے بارے میں تھی۔جوئیہ صاحب نے اپنے خط میں جو اعتراضات اٹھائے ہیں، ان پر بحث کی گنجائش شاید موجود ہو۔ گوپی صاحب کے دفاع میں انہوں نے جو دلیل پیش کی ہے کہ گوپی صاحب ’جلدی‘ میں صفحہ نمبر لکھنا بھول گئے تھے، یہ دلیل ان کے  اور گوپی صاحب کے درمیان ایک interaction کی خبر دیتی ہے۔ جوئیہ صاحب کو یہ کیسے علم ہوا کہ گوپی صاحب ’جلدی‘ میں صفحہ نمبر لکھنا بھول گئے تھے ؟ہمیں اس امر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ویسے یہاں پر یہ عرض کر دی جائے کہ کتاب لکھتے وقت اگر مصنف کو تفکراتی عمل سے گزر کر اوریجنل زاویہ اختیار کرنا ہے تو وہ دوسرے کئی معاملات میں ’’جلدی‘‘ کر سکتا ہے، مگر کتاب کے بارے میں نہیں۔آئزک نیوٹن جب اپنے کام میں مصروف ہوتا تھا تو اکثر اس کا کھانا اس کی بلی کھا جایا کرتی تھی نہ کہ وہ بلی کو دھیان لگا کر اس کا کھانا خود کھا جاتا تھا۔گزشتہ مضمون ’’گوپی چند نارنگ مصنف یا مترجم؟‘‘ میں جو اقتباسات پیش کیے گئے تھے، شاید اس مضمون کے قاری نے یہ سوچا ہو کہ بس یہی اقتباسات ہیں، حالانکہ اس مضمون میں یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ اقتباسات کو اختصار سے پیش کیا جا رہا ہے۔

اس مضمون کی طوالت کے پیش نظر بھی اقتباسات کو مختصر رکھا گیا ہے۔ ہمارا یہ دعوی ہے کہ گوپی چند نارنگ صرف کتاب کے تعارف میں بحیثیت شارح دکھائی دیتے ہیں۔ ’’مشرقی شعریات‘‘ والے حصے کے بارے میں کچھ بھی یقین سے کہنا مشکل ہے  اور کتاب کا باقی حصہ لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے۔اپنے اس دعوے کی سچائی ثابت کرنے کے لیے ایک بار پھر مجھے اس تمام مواد (صفحہ نمبر، کتب کا نام وغیرہ سمیت) کو ترتیب دینے کے لیے تگ و دو کرنی پڑی۔ اس بار کچھ اس طرح کی غلطیوں کا انکشاف کیا گیا ہے کہ جوئیہ صاحب تو دور گوپی صاحب خود بھی اس کا دفاع کرنے میں ناکام رہیں گے۔ بہرحال حق ان کے پاس محفوظ رہے گا۔ ٹیرنس ہاکس کی کتاب Structuralism and Semiotics میں سے گوپی صاحب نے ساری کتاب لفظ بہ لفظ محض ان کی ترتیب بدل کر نقل کی ہے۔ مثلاً اگر ٹیرنس ہاکس ایک پیراگراف پہلے لکھتا ہے تو اسی پیراگراف کو گوپی صاحب درمیان میں لکھ دیتے ہیں۔اگر الفاظ وہی ہیں تو محض پیراگراف کی ترتیب بدلنے سے کیا ہو گا۔ ویسے یہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت ان کے ذہن میں جولیا کرسٹیوا کیintertexuality کی تھیوری گردش کر رہی ہو۔ آئیے اس پیراگراف کا flavour دیکھتے ہیں۔ ٹیرنس ہاکس، Todorov پر لکھے ہوئے باب میں کچھ یوں کہتا ہے،

The notion that literary works are ultimately about language, that their medium is their message, is one of the most fruitful of structuralist ideas and we have already noticed its theoretical foundations in the work of Jakobson. It validates the post-romantic sense that form and content are one, because it postulates that form is content. At one level, this permits, for instance, Todorov to argue that the ultimate subject of a work like The Thousand and One Night is the act of story-telling, of narration itself: that for the character involved- indeed for homo loquens at large- narration equals life: ‘the absence of narration death’……….. (Structuralism and Semiotics, p,100)

گوپی چند نارنگ صاحب یوں تحریر فرماتے ہیں، ’’یہ خیال کہ ادبی فن پارہ زبان سے قائم ہوتا ہے،  اور زبان ہی پیغام ہے : ‘THE MEDIUM IS THE MESSAGE’بنیادی ساختیاتی نظریہ ہے،  اور جیکب سن نے اس کی نظریاتی بنیادوں کو واضح کیا تھا۔ یہ خیال پَس رومانوی تصور کی بھی توثیق کرتا ہے کہ فارم  اور مواد دراصل ایک ہیں، کیونکہ اس میں یہ تصور جاگزیں ہے کہ فارم ہی مواد ہے۔ اسی خیال کی بنا پر تودوروف نے ایک جگہ یہ نہایت دلچسپ بحث اٹھائی کہ الف لیلی جیسے شاہکار کا بنیادی ’موضوع‘ دراصل خود کہانی کہنے کا عمل‘ ہے کیونکہ کردار سب انسان (HOMO LOQUENS) یعنی ’بولنے والے جاندار‘ ہیں   اور ان کے لیے کہانی سنانا زندہ رہنے کی علامت ہے  اور کہانی کے ختم ہو جانے کا مطلب ہے موت۔‘‘ ‘NARRATION EQUALS LIFE: THE ABSENCE OF NARRATION DEATH’ P’ 92 (ساختیات، پس ساختیات  اور مشرقی شعریات، صفحات، ۱۲۹۔۱۳۰)۔مندرجہ بالا پیراگراف قارئین سے انتہائی توجہ کا تقاضہ کرتا ہے۔ گوپی صاحب نے اوپر والے اقتباس میں بعض فقرے واوین میں بھی لکھے ہیں  اور اس کے بعد آخر میں ایک فقرہ انگریزی میں بھی لکھا ہے اور یہاں تک کہ صفحہ نمبر بھی درج کیا ہے جس میں اصل ذریعے کا حوالہ نہیں ہے۔اس سے وہ یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہوں نے Todorov کی کتاب کا مطالعہ کیا ہے۔ جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ لفظ بہ لفظ اس اقتباس کا مطالعہ ٹیرنس ہاکس کی کتاب کے صفحہ نمبر ۱۰۰ پر کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نقاد گوپی چند نارنگ صاحب نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تاکہ قاری کہیں اپنی توجہ ٹیرنس ہاکس کی کتاب کی طرف مرکوز نہ کر بیٹھے۔اگر ٹیرنس ہاکس کی کتاب ۱۹۸۴ میں شائع نہ ہوتی تو عین ممکن تھا کہ گوپی چند نارگ، ٹیرنس ہاکس پر سرقے کا الزام عائد کر دیتے۔

 

(یہ یاد رہے کہ یہ سارا باب ہاکس کی کتاب سے ترجمہ کیا گیا ہے )

 

۔آئیے اب ایک  اور اقتباس پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ٹیرنس ہاکس کہتا ہے،

We have already noticed the arguments of Jakobson’s fellow Prague school critic Mukarovsky with regard to ‘foregrounding’: that the aesthetic use of language pushes into the foreground ‘the act of expression’ itself. Jakobson offered the most refined proposal that the metaphoric mode tends to be foregrounded in poetry, whereas the metonymic mode tends to be foregrounded in prose. This makes the operation ‘equivalence’ of crucial importance to poetry, not only in the area of analogy, but also in the area of ‘sound’ of those metrical, rythmic and phonic devices,…….continue. (Terence Hawkes, P, 80).

نارنگ صاحب کا یہ توجہ طلب اقتباس یوں ہے، ’’روسی ہیئت پسندوں کے ضمن میں ہم مکارووسکی کے اس خیال سے بحث کر آئے ہیں کہ ’زبان کا تخلیقی استعمال فن پارے میں زبان کو ’پیش منظر‘ میں لے آتا ہے، یعنی اظہاری عمل اپنے آپ کو نمایاں کرتا ہے۔ جیکب سن اس پر اضافہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ شاعری کی تخلیقی زبان میں استعاراتی پہلو نمایاں رہتا ہے، نثر کی تخلیقی زبان میں انسلاکی پہلو زیادہ حاوی رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’مرادفیت‘ EQUIVALENCE شاعری میں اس قدر اہمیت رکھتی ہے۔ متوازیت بھی مرادفیت کا ایک رخ ہے۔ ردیف و قوافی، اصوات،  اور اوزان وبحور تکرار و متوازیت کی جو اہمیت ہے، وہ اسی قبیل سے ہے ‘‘ جاری ہے (ص، ۱۴۰)۔آئیے ٹیرنس ہاکس کے ایک  اور اقتباس پر غور کرتے ہیں

Poetic language is deliberately self-conscious, self-aware. It emphasises itself as a medium over and above the ‘message’ it contains: it characteristically draws attention to itself and systematically intensifies its own linguistic qualities. As a result, words in poetry have the status not simply of vehicles for thought, but of objects in their own right, autonomous concrete entities, In Sausure’s terms, then, they cease to be ‘signifiers’ and become ‘signifieds’, …(P, 63-64)

نارنگ صاحب لکھتے ہیں : ’’شعری زبان عمداً اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے، یہ خود آگاہ  اور خود شناس ہوتی ہے۔ یہ موضوع یا پیغام سے بلند تر ہو کر، جو اس کے ذریعے بیان ہوا ہے، خود اپنی حیثیت کا احساس دلاتی ہے۔ شعری زبان کا بنیادی تفاعل توجہ کو اپنی جانب مبذول کرنا  اور اپنے اوصاف کو نمایاں کرنا ہے۔ نتیجتاً شعری زبان میں الفاظ فقط خیال یا جذبے کی ترسیل کا ذریعہ نہیں رہتے، بلکہ خود ٹھوس حقیقت بن جاتے ہیں جو قائم بالذات ہوتی ہے۔ ساسئیر کے معنی میں لفظ محض signifiers نہیں رہتے بلکہsignified بن جاتے ہیں۔۔۔‘‘ جاری ہے (ص، ۸۹)۔ٹیرنس ہاکس کے اس اقتباس پر غور فرمائیں،

Formalist theory realised that the ‘meaning’ habitually carried by words can never be fully separated from the words themselves because no word has ‘simple’ one meaning. The ‘meaning of A is not simply A1 or A2 or A3, for A has a larger capacity to mean which derives from its particular context or use. No word is ever really a mere proxy for a denoted object. In fact the transaction of ‘meaning’ has a complexity of dimensions which the ‘poetic’ use of language further complicates. Poetry, in short, does not seperate a word from its meaning, so much as multiply – bewildering – the range of meanings available to it… (P, 64)

نارنگ صاحب کے اس اقتباس پر نظر ڈالتے ہیں : ’’ہیئت پسندوں کو اس کا احساس تھا کہ لفظ معنی سے  اور معنی لفظ سے یکسر جدا نہیں کیے جا سکتے،  اور معنی کا نظام اتنا سادہ نہیں جتنا بالعموم سمجھا جاتا ہے۔الف کا مطلب محض الف ۱، الف۲، یا الف ۳ نہیں ہے کیونکہ الف کے معنی سیاق و سباق سے  اور دوسرے لفظوں سے مل کر یکسر بدلتے رہتے ہیں۔ کوئی لفظ کسی شے کے محدود معنی میں ہمیشہ کے لیے قائم نہیں ہے۔ پس شعری زبان اگرچہ لفظ کو قائم بالذات کرتی ہے لیکن اس کو معنی سے جدا نہیں کرتی، بلکہ اس کے مختلف مفاہیمی امکانات کو ابھارتی ہے، یعنی معنیاتی قوسِ قزح کو پیدا کرتی ہے۔ معنی کی یہ بوقلمونی اکثر طلسمِ خیال یا حیرت و استعجاب کی کیفیت کی حامل ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ جاری ہے (ص، ۸۹)۔ان تمام حوالہ جات کے بعد، اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے، مثبت انداز میں سوچنے کی ضرورت ہے، نہ کہ نقالی کے دفاع کی تیاری کے لیے فقروں کو غلط پیرائے میں بیان کرنے کے لیے نقالی کے حق میں دلائل تراشنے کی کوشش کی جائے۔آج وہ وقت نہیں ہے کہ مغربی علمی آمریت کے سامنے سجدہ ریز ہوا جائے۔ایک بار پھر ایسے رویے پنپنے چاہئیں جن سے علوم کا ارتقاء ممکن ہو۔ لیوٹارڈ ’’پوسٹ ماڈرن کنڈیشن‘‘ کے پہلے باب میں کمال کی پیشین گوئی کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مستقبل میں مغربی اقوام اس لیے دنیا پر حکومت کریں گی کیونکہ علوم پر ان کی بالا دستی ہو گی۔ لیوٹارڈ کے اس بصیرت افروز فقرے کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس حقیقت کو عملی جامہ نقل یا سرقے سے کبھی نہیں پہنایا جا سکتا۔اب ان تمام علوم میں آگے بڑھنا مقصود ہے ورنہ اہلِ اردو اسی بات پر خوش ہوتے رہیں گے کہ ’’اہلِ مغرب نے سب کچھ ہم سے لیا ہے۔‘‘ اس کے بعد جوئیہ صاحب کی ساختیات میں تصورِ مرکزیت کے حوالے سے ’’ڈاکٹر وزیر آغا‘‘ کے مضمون کی روشنی میں دی گئی اطلاع کہ ’’ساختیات کے مرکزیت کے تصور کو وحدت الوجود کی فکر کے مماثل‘‘ سمجھنا چاہیے، کا جوئیہ صاحب کے اس خط سے کوئی خاص تعلق واضح نہیں ہو رہا۔اگر ان کا ارادہ کسی مختلف موقف کی بنا پر بحث کا آغاز کرنے کے بارے میں تھا تو یقیناً انہیں اس امر کی کچھ وضاحت پیش کرنی چاہیے تھی بالکل ایسی جیسی وہ مجھ سے دریدا کے ’’متن‘‘ کے بارے میں میرے نفسِ مضمون سے غیر متعلقہ ہونے کے باوجود توقع کر رہے تھے۔ اگر اس بحث کے لیے نارنگ صاحب کی کتاب سے کوئی قضیہ اٹھاتے تو زیادہ بہتر تھا کیونکہ ہم نے گوپی چند نارنگ صاحب کے عدم موقف کا ذکر کیا تھا۔ابھی تک نارنگ صاحب کی کتاب میں صرف نقل کے رجحانات پر توجہ دی گئی ہے۔ فکر کے اعتبار سے ان کے تمام تضادات  اور مضمون نگاری کے تقاضوں کے تحت ان کی قباحتوں کا تفصیلی جائزہ نہیں لیا گیا۔ جوئیہ صاحب یا نارنگ صاحب اپنی کمزوری کو وزیر آغا کے ’’وحدت الوجود‘‘ موقف سے دور نہیں کر سکتے۔تاہم وزیر آغا کا یہ عمل اس اعتبار سے قابلِ تحسین ہے کہ وہ اپنا ایک موقف رکھتے ہیں، وہ کس حد تک ڈیکنسٹرکشن  اور ’’وحدت الوجود‘‘ میں ربط تلاش کر پائے، اس امر کا تجزیہ کرنا اس مضمون کے دائرہ سے خارج ہے۔ اگر جوئیہ صاحب کو وزیر آغا کا موقف ’’بجا‘‘ لگا ہے تو کیا کسی  اور شخص کو نارنگ صاحب کے کسی بھی موقف کو اختیار نہ کرنے کا عمل بھی ’’بجا‘‘ لگا ہے یا نہیں ؟ اگر محترم جوئیہ صاحب ان کی نقل یا ان کے مفہوم میں Intertexuality کے دفاع پر کمربستہ ہو سکتے ہیں تو ان کے کسی موقف کو عیاں کیوں نہیں کر سکتے ؟ شاید وہ کسی  اور جگہ یہ موقف پیش کریں کہ گوپی چند نارنگ نے ’’مشرقی شعریات‘‘ والے حصے میں ساختیاتی تھیوری کو چار ہزار برس قبل، ہندسوتان کے کسی گاؤں میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے  اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ایک یا دو فقروں کا حوالہ بھی تلاش کر لیں، تو یہاں پر عرض یہ ہے کہ ایک یا دو فقرے مفروضہ Hypothesis تو ہو سکتے ہیں، مربوط انداز میں پیش کی گئی تھیوری نہیں۔افلاطون کے فلسفے میں ’شعور‘ کا لفظ پڑھ کر یہ فیصلہ دے دینا کہ شیلنگ یا کولرج نے بھی یہی لفظ استعمال کیا ہے، لہٰذا ان دونوں کا فلسفہ افلاطون کے فلسفے سے ملتا جلتا ہے، یہ رویہ گہرے تنقیدی تجزیے کا غماز معلوم نہیں ہوتا۔ شعور کا لفظ تو تمام فلسفی استعمال کرتے ہیں، اصل سوال تو اصطلاحات میں امتیاز قائم کرنا ہوتا ہے۔اگرجوئیہ صاحب کو یقین ہے کہ ’’مشرقی شعریات‘‘ کی گوپی چند نارنگ صاحب کی تشریح درست ہے  اور یہ مشرقی موقف ہے تو اس کا انگریزی ترجمہ بھی ہو جانا چاہیے، کم از کم کوئی موقف تو سامنے آئے، ابھی تک تو سیاست سے لے کر ادب تک کچھ بھی اپنا نہیں ہے۔ دوسری طرف شاید گوپی چند نارنگ صاحب ساختیات یا ڈیکنسٹرکشن کے بارے میں اپنا موقف جان بوجھ کر چھپانا چاہتے ہیں۔اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔بہرحال جہاں تک وزیر آغا کے ساختیات کو ’وحدت الوجود‘ سمجھنے کا سوال ہے تو جس پیرائے میں جوئیہ صاحب اس نکتے کو بیان کر رہے ہیں اس کا اس بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جہاں تک ’’مماثل‘‘ ہونے کا تعلق ہے تو اسے زبان کے اندر سے اس کے اپنے رشتوں  اور تضادات میں تلاش کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ویسے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تمام پرندوں کے پر ہوتے ہیں، تو کیا اس سے تمام پرندوں کو ایک ہی نام دیا جا سکتا ہے ؟ محض پروں کی بنیاد پر توہم پرستی کو تو ترقی مل سکتی ہے لیکن سائنسی طرزِ فکر پنپنے میں اس طرح کے رویے مانع ہوں گے۔کسی بھی ایک فلسفے کو کسی دوسرے فلسفے سے رد کرنا غیر منطقی اورغیر سائنسی سوچ کا نتیجہ ہوتا ہے۔کانٹ کے فلسفے کو ہیگل کے فلسفے سے رد نہیں کیا جا سکتا تاوقتیکہ ہیگل، کانٹ کے فلسفے کے تضادات کانٹ کے فلسفے کے اندر سے نہ دکھائے۔نارنگ صاحب بھی ساختیات کے تضادات دکھا سکتے تھے لیکن اس سے پہلے ان تضادات کو سمجھنا ضروری تھا۔نارنگ صاحب تو لاکاں پر لکھے گئے باب، جس کا ترجمہ انہوں نے پیٹر بیری کی کتاب Beginning Theory سے کیا ہے، میں لاکاں  اور فرائیڈ کے درمیان تضاد کو بھی نہیں دکھا سکے۔عام قاری کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ فرائیڈکو یہاں پر گھسیٹنے کی کیا ضرورت پیش آ گئی تھی؟ کیا نارنگ صاحب صرف یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ فرائیڈ کے بارے میں بھی جانتے ہیں ؟محض جاننا ہی کافی نہیں ہوتا۔ مفکر کی فکر کو آگے بڑھانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اگر دو نظریہ سازوں کا ذکر کیا ہے تو دونوں کے درمیان فرق دکھانا ضروری ہو جاتا ہے  (اس فقرے کے بعد اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ جوئیہ صاحب اس بات پر اعتراض اٹھا دیں کہ لاکاں کو نظریہ ساز نہیں کہنا چاہیے تھا)۔اگر نارنگ صاحب ہی کسی خیال کو آگے نہیں بڑھا سکے تو طالبِ علم سے کیا امید رکھیں گے کہ وہ علوم کے ارتقاء میں اپنا حصہ کیسے ڈالیں ؟ کیا علوم کو صرف ایک بار سیکھنا ہی ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بعد اسے فارمولے کی شکل عطا کر دی جائے  اور آنے والی نسلوں کے لیے اسے مقدس قرار دے دیا جائے۔ادبی تھیوری، فلسفہ یا سائنس کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ وہ بچپن میں ملاّ یا پنڈت سے لیا ہوا کوئی درس معلوم ہو۔اس طرح ملاّ، پنڈت یا پھر نارنگ صاحب میں فرق کیسے کیا جائے گا؟اس طرح کا فرق محض موضوع کے مختلف ہونے کی بنا پر قائم نہیں کیا جا سکتا۔یہ دیکھنا ہے کہ اس موضوع تک پہنچنے کے لیے ہم کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں۔

اب پھر اسی نکتے کی جانب لوٹتے ہیں جس میں مرکزیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگر ژاک دریدا سیوسئیر کے حتمی سگنیفائڈ میں ما بعدالطبیعاتی جمود  اور مرکزیت کو عیاں کر چکا تھا  اور اس میں تسلسل کا دعویدار تھا تو جوئیہ صاحب ’’وحدت الوجود‘‘ کا ذکر کر کے کیا ثابت کر رہے ہیں، اس کی مزید وضاحت کی ضرورت تھی۔ ویسے اُن سے یہ عرض ہے کہ جس سمپوزیم کا انہوں نے ذکر کیا ہے جس میں مضمون پڑھا گیا تھا اس کا کوئی نام بھی تو ہونا چاہیے یا شاید ان کا ارادہ یہ ہو کہ اس مضمون کو بھی نارنگ صاحب کیIntertextuality کی بھینٹ چڑھا کر جناب نارنگ کا نام بطورِ مصنف تحریر کر دیا جائے۔ بہرحال دریدا کے مضمون جس کا شاید وہ حوالہ دینا چاہتے تھے لیکن گریز کیا، اس کا نام Structure, Sign and Play تھا۔) اس مضمون کا نام اس لیے دیا جا رہا ہے تاکہ مستقبل میں کہیں نارنگ صاحب اس کے ترجمے پراپنا نام نہ تحریر فرما دیں (۔ اسی میں دریدا نے لسانیات کی بنیاد پر ہر جگہ مرکزیت قائم کرنے کی کوشش کچھ ان الفاظ میں کی تھی،

The center is the center of totality, and yet, since the center does not belong to the totality…the totality has its center elsewhere.(Structuralist Controversy, 247)

اگر جوئیہ صاحب اس طرح کی کسی تشریح میں ’’وحدت الوجود‘‘ کو تلاش کر رہے ہیں تو پھر ان کے اس تیقن کو واقعی ’بجا‘ کہنا چاہیے۔افلاطون کو پڑھنے کے بعد جب کانٹ کو پڑھا جائے تو چند صفحات کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید افلاطون کو ہی پڑھا جا رہا ہے۔ تا وقتیکہ کہ کانٹ کے فلسفے کی صحیح تفہیم ہونی شروع نہ ہو جائے۔تاہم اس قضیے میں بحث کی کافی گنجائش موجود ہے۔دریدا سے بھی قبل رومن جیکب سن  اور رولاں بارتھ ’مرکزیت‘ کے تصور کی نشاندہی کر چکے تھے   اور اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے راستہ بھی ہموار کر چکے تھے۔یہ رجحان بارتھ کے مضمون ’’مصنف کی موت‘‘ ہی میں پنہاں نہیں تھا بلکہ اس کے ایک  اور مضمون Myth Today میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے جس میں اس نے ’متھ‘ کو ’’لونگ‘‘ کے مماثل قرار دیا  اور اس کے ذریعے ثقافت کو ’نیچرل لائز‘ کرنے کی وضاحت پیش کی۔بارتھ نے ثقافتی سطح پر معنی خیزی(Signification ) کے عمل میں ٹھہراؤ کی بجائے تسلسل کو لازمی گردان کر ’’مائیتھالوجی‘‘ کے مرکزی خیال کی نفی خود ہی کر دی تھی۔جبکہ رومن جیکب سن نے ۱۹۴۲ میں ’فونیم‘ کی تنقید کے دوران ’فونیم‘ کو سیوسے ئر کے برعکس باقی تمام لسانیاتی اکائیوں سے مختلف قرار دیا جس کو سیوسئیر سمجھ کر اس کا اطلاق ’سائن‘ کی سطح پر کرنے میں ناکام رہا تھا۔جیکب سن نے ’فونیم‘ میں معنی آفرینی کے لیے سائن میں اپوزیشن کے رجحان کو نمایاں کیا۔ جیکبسن کی ’فونیم‘ کی تھیوری ’سگنیفائیڈ‘ کی حتمیت کو چیلنج کرتی تھی، مثال کے طور پر اس نے جرمن زبان کے الفاظ (nacht ) رات  اور (nachte ) راتیں کو پیش کر کے علیحدگی میں معنی کے نہ ہونے کی اغلاط کو واضح کر دیا کیونکہ ایک ہی لفظ میں تکثیریت کا پہلو برآمد ہو رہا تھا، تو کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا جائے کہ ساختیات محض ایک واہمہ تھا؟

اگر اردو میں زبان کے حوالے سے کسی نے اس قدر بھرپور مطالعہ پیش کیا ہو تو جوئیہ صاحب مہربانی فرما کر اس کا حوالہ ضرور پیش کر دیں۔ جوئیہ صاحب کی مفروضہ قائم کرنے کی کوشش سے میری حیرت میں بدستور اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ ژاک دریدا کو ڈیکنسٹرکشن کی تھیوری پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اردو میں اس طرح کے اعلیٰ درجہ کے نقاد بھی موجود ہیں جو ڈیکنسٹرکشن کے حق میں بھی بولتے ہیں  اور اپنی حمایت میں پروپیگنڈا قسم کے مضمون لکھوا کر اپنی مستقل موجودگی قائم کرنے کے بھی خواہاں دکھائی دیتے ہیں۔

دریدا جس ’موجودگی‘ Presence کے تصور کے خلاف دریدا، کانٹ، ہیگل، سیوسے ئر، ہسرل  اور ہائیڈیگر وغیرہ کی مدد سے برسر پیکار ہوتا رہا ہے، آج اس کی تھیوری کے تقریباً اکتالیس  اور اس کی موت کے تین برس بعد اس کی اپنی ’موجودگی‘ تمام دنیا کو ایک بار پھر عدم ’موجودگی‘ کے تصور کے خلاف لڑنے پر مجبور کر  رہی ہے۔فرد موجود ہے لیکن اپنی عدم موجودگی کے حق میں دلائل دے رہا ہے۔اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس نے بحیثیت ایک لسانیاتی خیال پرست ’ما بعد الطبیعات‘ کے خلاف جنگ لڑی تھی۔اگرچہ اس نے ’ما بعد الطبیعات‘ کو محض اپنے دماغ کے اندر ہی ختم کرنا چاہا تھا۔ Gershom Scholem تو یہ کہتا ہے کہ دریدا ’’قدیم عہد نامہ‘ کے مرکزی تصور کہ یہودیوں کا خدا فرد کے اندر خود کو ظاہر کرے گا، کو ڈیکنسٹرکشن کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔یقیناً یہ تصور یہودی متصفوانہ روایت سے جا ملتا ہے، تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دریدا چالاکی سے تمام دنیا کو یہودیت کی سچائی کا یقین دلانے کی کوشش کر رہا ہے، جس کے لیے اس نے الفاظ کا سہارا لیا۔ہیبر ماس، دریدا کے بارے میں یوں اظہارِ خیال کرتا ہے کہ

All denials not withstanding, remains close to Jewish mysticism. (PDM, P, 183)

ژاک دریدا نے سماجی تعلقات کو ان کی اپنی فطرت میں دیکھنے کی بجائے لسانیات میں تلاش کیا۔ بہرحال اس کی بعد میں آنے والی کتابوں بالخصوص Spectres of Marx میں وہ ایک بار پھر مارکس کی جانب رجوع کرنے پر اصرار کرتا ہے۔اس طرح وہ اپنی ہی تھیوری کی حدود متعین کر دیتا ہے۔(اس کی مکمل بحث کے لیے میرا مضمون، ’ژاک دریدا کے فلسفے کا مآخذ‘ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے )۔

جوئیہ صاحب نے نارنگ صاحب کے بارے میں میرے مضمون کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا  اور جس سے اُنھیں شاید کافی ’’تپ چڑھی‘‘ تھی کہ گوپی چند نارنگ ’’ادبی نقاد ہی کیوں بنا سیاسی لیڈر یا سوشل مفکر بن کر ’’میدانِ کار زار‘‘ میں کیوں نہیں آیا؟‘‘ اُن کی اس ’’تپ‘‘ کا محرک اُن کی ’’وحدت الوجود‘‘ کی خواہش کے اظہار میں نظر آ رہا ہے۔در اصل وہ مجھے ’’سوشل مفکر‘‘ کے بر عکس ’خلائی‘ یا ’وحدت الوجودی‘ مفکر کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے۔ویسے اگر ’جلدی‘ نہ کی جائے  اور ذرا ٹھہر کر سوچنے کی کوشش کی جائے تو واضح ہو گا کہ اس خواہش کے اظہار میں اُنھوں نے ٹھوس سماجی عوامل کے بر عکس ما بعد الطبیعاتی تناظر کو خوب ملحوظِ خاطر رکھا ہے۔ لیکن سوال تو پھر تجرید کی تبلیغ پر ہی منتج ہوتا ہے۔اس فکر نے تو ایک عرصہ سے اُردو ادب کا محاصرہ کر رکھا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ادب کا بڑا حصہ محض گناہ بخشوانے کی سعی معلوم ہوتی ہے، جبکہ اصل سوال تو ’ٹھوس‘ کی وضاحت کا ہے۔ دوسری جانب جن مفکروں کی تھیوریوں کو درآمد کیا جاتا ہے وہ تو سارے کے سارے سماجی، سیاسی  اور ادبی مفکر تھے جیسا کہ ہم وضاحت کر آئے ہیں۔جوئیہ صاحب نے اُردو ادب میں اوریجنیلٹی کے فقدان  اور نقالی کے جواز کے رجحان کی حوصلہ افزائی کے لئے جولیا کرسٹیوا کی بین المتونیت Intertextuality کی ’تھیوری‘ کا حوالہ پیش کیا ہے۔ نقالی کے دفاع کے لئے شاید اُن کے نزدیک اس سے بہتر حوالہ کوئی نہیں تھا۔

 

اب ہم اُمید کر سکتے ہیں کہ اُن کی اس سوچ کی اشاعت کے بعد دریدا کی Of Grammatology یا پھر فوکو کی کتاب The Archaeology of Knowledge میں چند ایک ترامیم کے ساتھ جوئیہ صاحب کے کسی ’نقاد‘ قسم کے مشیر کا نام بحیثیت مصنف کے لکھا ہو گا۔ویسے اگر جولیا کرسٹیوا کو اس بات کا علم ہو جاتا کہ اُردو میں اس کی تھیوری کا یہ مطلب لیا جا رہا ہے تو وہ شاید اپنی زندگی میں ہی اس نظریے سے دست بردار ہو جاتی  اور اگر اسے کہیں یہ خبر ہو جاتی کہ اردو کا کوئی خود ساختہ بڑا ’نقاد‘ اس کے تمام کام کو ’ہتھیانے ‘ کی تیاری میں ہے تو وہ شاید علمی و فکری کام چھوڑ کر کسی ’حمام‘ کی سرپرستِ اعلیٰ بننے کو ترجیح دیتی۔ اب وہ حمام میں بھی تو حصہ دار نہیں بن سکتی تھی۔اپنے اسی intertextuality کے نقطۂ نظر کی وضاحت کے سلسلے میں محترم جوئیہ صاحب اپنے ہی چند نکات سے تضاد پیدا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، کیونکہ وہ بڑی حیرت سے اس امر کا اظہار کر چکے ہیں کہ ’’کیا پوسٹ ماڈرن ازم تھیوری ہے ؟‘‘  اور اب خود ہی کہہ رہے ہیں کہ ’’جولیا کرسٹیو ا کی intertextuality کی تھیوری۔‘‘ اگر جولیا کرسٹیوا کی ’تھیوری‘ بقول جوئیہ صاحب ’تھیوری‘ ہے تو کیا وہ پوسٹ ماڈرن فکر کی حامل نہیں ہے ؟ پوسٹ ماڈرن تھیوری دراصل تھیوری ہی ہے، جس کی تہہ میں ساختیات کے برعکس پسِ ساختیاتی علمیات کارفرما ہے۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ پس ساختیات پوسٹ ماڈرن بالائی ساخت کی بنیاد ہے۔ پسِ ساختیات افتراق، اضافیت، خود مختار وغیرہ جیسے عوامل کو حتمی سمجھتی ہے تو دوسری طرف پوسٹ ماڈرن ثقافت میں بھی سگنیفائر کے تسلسل کی منطق کارفرما ہے۔بالکل اس طرح جیسے لیوائی سٹراس کے علم البشریات کی تہہ میں لسانیات متحرک تھی۔پوسٹ ماڈرن ازم کے متعلق مندرجہ بالااقتباس میں جناب جوئیہ صاحب نے جولیا کرسٹیوا کی Intertextuality کو ’تھیوری‘ کہا ہے، جبکہ راقم کی پوسٹ ماڈرن لٹریری تھیوری کی اصطلاح پسند نہیں آئی۔اگر اتنی سی وضاحت سے اُن کی تسلی نہ ہوئی ہو تو Lucy Niall کی مرتب کردہ اینتھالوجی، جو The Postmodern Literary Theory کے نام سے شائع ہوئی ہے، محترم اُس کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اہل اردو کا المیہ یہ ہے کہ خود ساختہ مفکر خود بھی  اور اپنے طالب علموں کو بھی اصطلاحات میں پھنسائے رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے اصطلاحات کو تقدس عطا کرنا ہوتا ہے، نہ کہ انہیں تنقیدی نظر سے دیکھنا مقصود ہوتا ہے۔ اس وجہ سے جن اصطلاحات کو وہ رٹہ لگا لیتے ہیں پھر اس سے باہر انہیں کوئی معنی دکھائی ہی نہیں دیتا تاوقتیکہ بارتھ یا دریدا انہیں نیا معنی سمجھانے کے لیے میدان میں نہ اتر آئیں۔ یہاں پر یہ عرض کردوں کہ بعض اوقات خود بھی سوچ لینا ضروری ہوتا ہے۔ کیا جوئیہ صاحب یا ان کے مشیر اس بات سے باخبر ہیں کہ فرانسیسی ڈیکنسٹرکشن کو امریکہ میں اہم تبدیلیوں کے بعد قبول کیا گیا تھا۔اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ڈیکنسٹرکشن مختلف تناظر میں پہنچ چکی تھی۔کیا اردو والوں کے لیے اپنا کوئی تناظر موجود ہے یا پھر وہ ہر تناظر کو ہی اپنا تناظر سمجھتے ہیں ؟

جوئیہ صاحب نے کرسٹیوا کا ذکر بھی صحیح وقت پر کیا ہے۔ یقیناً کرسٹیوا کی سوچ میں واضح تبدیلی فرانس میں ۱۹۶۸ کے طالب علم اور مزدور انقلاب کے بعد آتی ہے کیونکہ اس وقت زبان کے حوالے سے تناظر کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ کرسٹیوا نے ۱۹۶۸ کے بعد Revolution in Poetic Language The تحریر کی، جس میں زبان کے حوالے سے ’صورتحال‘ کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔ اگر رولاں بارتھ ’حظ‘ اٹھانے کے لیے ایک تناظر کی تخلیق ضروری سمجھتا ہے تو لکھنے کے لیے صورتحال کی اہمیت سے انکار کیونکر کیا جا سکتا ہے۔بہرحال اسی وقت کرسٹیوا نے اپنی کتاب میں مارکسی Vocabulary کا استعمال کیا  اور زبان کو ہی صورتحال کے مطابق ٹھوس معنی عطا کرنے کی کوشش پر زور دیا۔یہی وجہ ہے کہ کرسٹیوا کو Situationist کہا جانے لگا۔ یہ بات طے ہے کہ ’لفظ‘ اپنے محرکات کو چھپانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ ویسے تو مغربی ڈسکورس میں ظلم، ناانصافی، تشدد وغیرہ جیسے ’الفاظ‘ استعمال کرنے سے گریز کیا جاتا ہے، لیکن اگر ان کا استعمال کر بھی لیا جائے تو لفظ اصل تناظر کی شدت کو مدھم کر سکتا ہے۔دانشور کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔ متذکرہ بالا الفاظ کے استعمال سے ان کی الفاظ کے محرکات کی طرف توجہ مبذول ہونے لگتی ہے۔ فرض کریں کہ اگرمارکسی مفہوم میں لفظ ’استحصال‘ یا جنس (commodity) کا استعمال کیا جاتا ہے تو جب تک ان الفاظ کا پسِ منظر دریافت نہیں کیا جائے گا، حقیقی معنی کا تعین کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ مارکسی مفکروں کو سگنیفائر کی آمریت کبھی قبول نہیں ہو سکتی۔وہ حالات جو ان الفاظ کو استعمال کرنے کا راستہ ہموار کر رہے ہیں جب تک انہیں سمجھنے کی کوشش نہیں کی جائے گی، اس وقت تک تناظر کی اہمیت بھی واضح نہیں ہو گی  اور الفاظ محض ’’جمالیاتی تماش بینی‘‘ کا ذریعہ بننے کے علاوہ  اور کوئی اثر پیدا نہیں کریں گے۔ کرسٹیوا کو اس امر کا ادراک تھا کہ زبان معنی تو اپنی ہی منطق سے پیدا کرے گی لیکن اگر زبان کو ’سچویشن‘ عطا کر دی جائے تو اس وجہ سے خارجی، متعلقہ  اور لازمی تقاضوں کی تکمیل ہو سکتی ہے۔ اس مفہوم میں زبان ہر ’لیبارٹری‘ میں سائنس تو رہتی ہے لیکن معنی کی نوعیت یکسر بدل جاتی ہے۔ جب ۱۹۶۸ء میں ساختیاتی ماڈل کا شیرازہ بکھرا  اور ساختیاتی مفکر اپنی ساختیاتی شناخت سے انحراف کرنے لگے تو حتمی شناختوں کے تصور کو زک پہنچی تو عمل کے برعکس نظریاتی سطح پر سگنیفائڈ سے چھٹکارا مل گیا(صرف نظریاتی سطح پر)۔اُسی پسِ ساختیاتی رجحان کے پیشِ نظر فرانسیسی فلسفی لیوٹارڈ نے امریکی حکومتی ادارے کی استدعا پر امریکی معاشرے کی حالت پر۱۹۷۹ء میں ایک رپورٹ لکھی جسے The Postmodern condition: A Report on Knowledge کا نام دیا گیا۔اس رپورٹ میں لیوٹارڈ نے دو سو پچاس سے زائد تحریروں کے حوالے قلمبند کیے۔ جن میں سے صرف ایک حوالہ بھی مشرقی ممالک سے تلاش کرنے کی کوشش مایوسی پر منتج ہو گی، یعنی مغربی مفکر نے مشرقی ممالک کو اپنے فکری ایجنڈے سے حذف کرنے میں ہی اپنی بقا محسوس کی۔ مقصود اُسے سماجی و ادبی مفکروں  اور سائنسدانوں کے افکار کی روشنی میں معروضی رجحان کو عیاں کرنا تھا۔لیوٹارڈ پر پسِ ساختیاتی رجحان غالب تھا۔اس نے بالائی ساخت کی تشریح اسی تصور کے تحت کی۔اس وضاحت کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ پسِ ساختیاتی رجحان، پوسٹ ماڈرن ازم کی علمیات ہے۔ما بعد جدید یت دراصل عہدِ حاضر کی انحطاط پذیر معروضی صورتحال ہے، اس کے وجود میں آنے کے تمام محرکات میں مغربی دنیا کے داخلی تضادات کے علاوہ عالمی سرمایہ داری نظام  اور بالخصوص سٹالن ازم کا انہدام تھا۔ مغربی معیشت نے ۱۹۳۰ کے بحران کے بعد جان مینارڈ کینز کی ریاستی مداخلت کی تھیوری کو بنیاد بنا کر خاطر خواہ ترقی کی تھی۔ مغربی بورژوازی نے اسے مارکسی معیشت کا نعم البدل قرار دے دیا۔ دوسری جنگِ عظیم سے پہلے تضادات پھر شدت اختیار کر گئے  اور سامراج نے دنیا میں تباہی برپا کر دی۔ ۱۹۵۰ کے بعد پھر جان کینز کو ہی مدد کے لیے پکارا گیاجس سے معاشی ترقی ریکارڈ سطح پر ہوئی۔یہاں تک کے ۱۹۷۰ کے بعد نیو کینزازم کی تھیوری کے غبارے سے بھی ہوا نکل چکی تھی گو کہ وہ مستقل نہیں تھی۔ایک بار پھر تکنیکی انقلاب برپا ہوا جس نے مغربی معاشرے کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا۔مختصر یہ کہ عظیم لینن کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی  اور سرمایہ داری سامراجی مراحل میں داخل ہو گئی۔ تکنیکی انقلاب سے معیشت کے تمام میدانوں میں ری سٹرکچرنگ کی ضرورت محسوس ہوئی جس سے ایک نئے بحران کا اضافہ ہوا۔اس ذہنی کشمکش کے بعد  اور کوئی چارہ کار موجود نہیں تھا کہ منتشر شدہ سماج کی تشریح روایتی فلسفوں کے برعکس نئے انداز میں کی جاتی۔ ثقافتی سطح پر جن تفریقات نے جنم لیا ان کے بعد نظریہ سازوں نے بالائی ساخت کو زبان کی ساخت کا عکس قرار دے دیا۔ یہی وہ دور تھا جب معروضیت، سچائی، ارتقاء  اور سماج کی نامیاتی وحدت کو شک کی نظر سے دیکھا گیا۔

پوسٹ ماڈرن علمیات کا تقاضہ یہ تھا کہ ہر اس خیال، فلسفے  اور نظریے کی دھجیاں بکھیر دے جو نجات کا علمبردار ہونے کا دعوی کرے۔ ما بعد جدید مفکروں نے یہ سوچا گیا کہ سماج کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ ’نجات‘ کا مقصد یہ ہے کہ کسی صورتحال کو کسی چوکھٹے سے گزارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ لاکاں سمیت ارتقاء کے کئی مخالف نظریہ سازوں نے یہ کہا کہ کسی بھی عمل کی تفہیم حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کی جائے۔ فرانس میں فوکو  اور رولاں بارتھ وغیرہ نے اپنی جبلی ہم جنس پرستانہ ضرورت کا دفاع کیا، جو ان کے ہر قول سے جھلکتا ہے۔اردو میں گوپی چند نارنگ صاحب جیسے نقاد اپنے داخلی تضادات پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے علمیت کا اثرپیدا کرنے کے چکر میں مصروف ہو گئے  اور تھیوری کو اس کے تناظر سے محروم کر کے مشرقی طالب علم کو فکری حوالوں سے گمراہ کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا۔

جوئیہ صاحب کا آخری قابلِ ذکر نکتہ یہ ہے کہ راقم کو ’’اردو میں پہلے سے قائم‘ اس روایتی حمام کے سب ننگوں کو ننگا‘‘ دکھانا چاہیے۔ بہر حال جوئیہ صاحب نے یہ تو تسلیم کیا کہ ’’ننگے ‘‘ کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں، لیکن اس بات کی کوئی سمجھ نہیں آئی کہ یہ ذمہ داری وہ مجھے کیوں سونپنا چاہتے ہیں، جبکہ خود وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے دریدا کے انگریزی مضمون کا خود مطالعہ کیا تھا، یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اس مضمون کا نام نہیں بتایا، بہرحال ان کی انگریزی پر دسترس ہونے کو تسلیم کر لیتے ہیں  اور اسی تناظر میں ان سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ ’حمام‘ مجھ سے زیادہ ان کے قریب ہے  اور ویسے بھی مقالے کا موضوع ’’پلیجر ازم ان اردو لٹریچر‘‘ نہیں ہے اس لیے جوئیہ صاحب کو خود بھی کچھ تگ و دو کرنی چاہیے ورنہ ’حمام‘ میں ’ننگوں ‘ کی تحسین کا پہلو تو ہمہ وقت موجود ہے۔

٭٭٭

 

 

 

گوپی چند نارنگ کی ’سچائی‘  اور تناظر سرقے کی زد میں

 

               عمران شاہد بھنڈر

 

(برطانیہ)

 

 

 

نوٹ: اس مضمون میں سرقہ شدہ ۳ اقتباس پہلے والے دہرائے گئے ہیں کیونکہ نفسِ مضمون کے تسلسل میں ان کا حوالہ ضروری تھا۔سرقہ سلسلہ کے یہ مضامین مکمل ہونے پر کتابی صورت میں شائع کیے جائیں گے )

 

گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ ’’بعض لوگ خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں  اور انہیں یقین ہوتا ہے کہ آخری سچائی انھیں پر اتری ہے۔افسوس ہے کہ ادب میں نہ تو کوئی آخری پیغمبر ہوتا ہے  اور نہ کوئی آخری سچائی ہوتی ہے ‘‘

( اردو ما بعد جدیدیت پر مکالمہ، ص ۸۰)

 

۔یہاں چونکہ ادبی سچائی کا ذکر زیادہ اہم ہے اس لئے ہمیں گوپی چند نارنگ کے اس اقتباس کے دوسرے حصے سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ تاہم اس امر کا یقین ہے کہ اقتباس کے پہلے حصے کے بارے میں لکھتے وقت نارنگ صاحب کے ذہن میں ’سچائی‘ کا قدیم معیار ضرور ہو گا جس کی بناء پر انھوں نے ’سچائیوں ‘ کے مابین تفریق کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ نارنگ صاحب کے ذہن میں ادب کی سچائی کا تقاضہ کرنے والی سنجیدگی کے برعکس ایک خاص قسم کا تعصب بطورِ قوتِ محرکہ کارفرما ہے۔ بہرحال نارنگ صاحب کے اس اقتباس میں اس طرح کے عوامل پائے جاتے ہیں کہ جن سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ انھوں نے ادبی سچائی کو اپنی مخصوص آئیڈیالوجی کے مطابق آشکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر نارنگ صاحب کو ادبی ’سچائی‘ ہی درکار ہوتی تو وہ اس ’سچائی‘ کی بنیاد پر محض اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے کے لئے ادبی بددیانتی یا ’غیر سچائی‘ کے مرتکب کبھی نہ ہوتے۔چونکہ نارنگ صاحب کا سچائی کا معیار ’آخری‘ کے برعکس ’قدیم‘ ہے، اس لئے علمی بددیانتی کا تقاضا شاید یہی تھا کہ وہ نارنگ صاحب کی ادبی ’سچائی‘ کے مطابق معنی حاصل کرتی۔ادب کا تعلق چونکہ انسان کی ذات کے علاوہ خارجی دنیا کے ساتھ بھی ہے جس میں تغیراتی عوامل کی اولیت کی بناء پر ’ادبی سچائی‘ کا تغیر لازمی ہے، جیسا کہ جدید طبعی سائنس نے بھی ہر مرحلے پر ثابت کیا ہے کہ فطرت کوئی جامد چیز نہیں ہے۔اگر تغیر حتمی ہے تو وہ نظریات جو خارج سے متشکل ہوتے ہیں، ان کا تغیر بھی یقینی ہے۔خارجی تغیر کی نوعیت فطرت کی سی ہو یا سماجی متغیر عمل سے صورت پذیر ہو رہی ہو، کسی بھی نقطۂ نظر سے اس کی اوریجنیلیٹی کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ خارجی تغیر کی سب سے اہم شہادت نارنگ صاحب کے مندرجہ بالا اقتباس کی بجائے تاریخی مطالعے سے بآسانی اخذ کی جا سکتی ہے۔ فکری و جمالیاتی اعتبار سے تغیر کی سچائی کا انکار ممکن نہیں ہے، کیونکہ دونوں رجحانات دقیانوسیت کی تبلیغ کے باوجود کلی طور پر خود کو اس عمل سے محفوظ نہیں کر سکتے۔بہرحال یہ طے ہے کہ ادب سے وابستہ لوگوں کے دروغ گوئی پر مبنی رویے ادب کے سب سے گھناؤنے جھوٹ ضرور ہیں، جو ہر لحظہ ادب کو پراگندہ کرتے آرہے ہیں۔اردو کی ادبی تاریخ میں شاید ہی کوئی دور ایسا ہو، کہ جس میں ادب کو اخلاقیات سے الگ کر کے دیکھا گیا ہو، حالانکہ ادبی اخلاقیات، سماجی اخلاقیات سے مختلف ہے، ادبی اخلاقیات کا تقاضا یہی ہے کہ ادب کو بد دیانت افعال سے محفوظ رکھا جائے، جمالیات آخری تجزیے میں ہی اپنی جداگانہ حیثیت کو قائم رکھتی ہے۔جمالیات اپنی فطرت میں الگ شعبہ ہے، جس کے اپنے داخلی تقاضے ہیں (ساختیاتی مفہوم میں نہیں )، جن کا تعلق اکائی کی سطح پر اس کی یکتائی کے اظہار میں ہے، اکائی الگ ہوتے ہوئے بھی اجتماع میں بامعنی بنتی ہے۔یہاں اکائی سے مراد اس کے اظہار میں ہے، جو ایک طرف تو اجتماعیت سے شناخت کے لمحے کو نہیں روکتی  اور دوسری طرف خود کو ظاہر کر کے اجتماعیت میں پہنچتی ہے۔اجتماعیت تک کا سفر سیدھا نہیں ہے، اس کے راستے میں کئی ’اشیاء، مظاہر،  اور سماجی عمل کی ’اشکال‘ ہوتی ہیں۔ مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اکائی کا خود کو اکائی کی شکل میں ظاہر کرنا تاریخی تقاضا ہے۔

اُردو ادب و تنقید کے بڑے حصے میں اس جمالیاتی سچ کا فقدان ہے جس کا اظہار فرد(اکائی) کی انفرادیت میں ہی ممکن ہوتا ہے۔اردو میں جو مباحث ہوئے ہیں، ان کے مطابق بھی جمالیات کا تعلق انسانی احساس و جذبات کے ساتھ ہے، گو کہ اس میں دیگر عوامل (آئیڈیالوجی، عقلیت وغیرہ)کو بھی حذف نہیں کیا جا سکتا۔جہاں تک جذبات و احساسات کا تعلق ہے تو ابھی تک کوئی ایسی شہادت موجود نہیں ہے جس کے مطابق یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ان کی نوعیت کلی طور پر تجریدی ہوتی ہے۔سماجی عمل میں ان کا متشکل ہونا قبول و استرداد دونوں رویوں میں نمایاں ہو سکتا ہے۔ مغرب میں احساسات و جذبات سے اس لئے دست برداری اختیار کر لی گئی کہ وہ جذبات جن کا اظہار صرف تخیلی سطح پر ہی ممکن تھا، ان کو قابل عمل بنا دیا گیا۔اس لئے ادب کی نفاست کا یہ تصور جو جذبات و احساسات کے ساتھ و ابستہ تھا، روایتی شکل اختیار کر گیا، اردو میں اس کی صداقت مغرب کے برعکس ادباء کے مجہول رویوں کے عکس کی شکل میں برقرار رہی۔مغرب میں شعور یا جذبات و احساسات کی کئی منزلیں سماجی ارتقاء سے طے ہوئیں، طے ہونے کے اس عمل میں نئے جذبات و احساسات اور شعور جو پہلے جذبات و احساسات  اور شعور سے مختلف تھے، ان کے تقاضے مختلف تھے، جب انسان کی حسیات بدل گئیں، اس کے جمالیاتی تقاضے بدل گئے، اسے اپنی طے شدہ منزلوں کا شعور حاصل ہو گیا تو نظری مباحث کی نوعیت کا بدل جانا یقینی ہو گیا۔ مگر یہ تمام عمل خارج سے منقطع ہو کر وقوع پذیر نہیں ہوا۔جہاں تک خارج کا تعلق ہے تو وہ انگنت عوامل کے درمیان آویزش کا نتیجہ ہے۔کوئی ایسا فلسفہ موجود نہیں ہے جو زمان کے اعتبار سے انسانی عمل کو معروض سے منقطع کر سکے۔اخلاقی جمالیات کے اعتبار سے اُردو ادب کا ذکر کیا جائے تو اذہان میں ایک ’نفیس‘  اور مجہول شخص کی تصویر ابھرتی ہے، جو ردِ عمل کی تمام صلاحیتیں کھو چکا ہے۔جمالیات اس کے لئے اس کی مجہول طبع کا عکس ہے۔اُردو کا گہرا  اور غیر جانب دار مطالعہ یہ بھی آشکار کرتا ہے کہ نفاست و مجہولیت کے لبادے میں ادب و تنقید میں داخل کی گئی گندگی کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ ادب میں بھی گندگی کو سمونے کا اتنا ہی رجحان ہوتا ہے، جتنا کہ سیاست یا انسانی جبلت میں۔ فرق محض یہ ہے کہ ادب کی پراگندگی پر بآسانی جذبوں کی آڑ میں نفاست کا لبادہ چڑھا یا جا سکتا ہے۔ ادب کے نفیس پہلو کی آڑ میں نارنگ صاحب کی حرکت ادبی جرم ہے، چونکہ یہ جرم صاحبِ اقتدار طبقے کی جائیداد یا ان کے اقتدار کو کمزور کرنے والے عوامل کی شکل اختیار نہیں کرتا، اس لئے قانون میں اس کی کوئی سزا تجویز نہیں کی گئی۔اگر کوئی سرکاری دستاویز (کتاب ) چرائی جاتی تو شاید عبرت ناک سزا متعین کر دی جاتی۔ حالانکہ ادبی جرم کہیں زیادہ جذبات کو ’ناپاک‘ کرتا ہے  اور اپاہج بناتا ہے۔اس کی واضح مثال عہد حاضر کا اُردو ادب ہے۔یہ ادبی بددیانتی نہیں تو  اور کیا ہے کہ شاعری میں بھی دعوے الہام کے کئے جائیں  اور نظمیں یا غزلیں ایلیٹ یا پاؤنڈ کی کسی نظم کو سامنے رکھ کر لکھی جائیں۔ دعویٰ تخلیقی لمحے کے انتظار کا کیا جائے، جو کسی پراسرار قوت کے خود کو ظاہر کرنے کا لمحہ ہے، لیکن ساختیات کی کوئی کتاب یا فلسفے کی کتاب کو سامنے رکھ کر شاعری بنا لی جائے۔تخلیقی لمحے کو خود پر مسلط کرنے کے لئے ٹی ایس ایلیٹ کے طریقۂ کار پر عمل کیا جائے، لیکن تنقید میں اکتسابی عمل کے تجزیے کو رخصت کر دیا جائے، حوالے کولرج کے پیش کئے جائیں، لیکن اس کی ادبی صداقت کا مذاق بھی اُڑایا جائے۔دعوے بڑے نقاد بننے کے کئے جائیں مگر مغربی دانشوروں کی کتابوں کا سرقہ بھی ضروری سمجھا جائے۔ اس تناظر میں کیا نارنگ صاحب کا سرقہ بھی اس غیر اخلاقی جمالیات کی واضح مثال نہیں ہے ؟نارنگ صاحب کا قدیم ’سچائی‘ کا معیار بجا مگر یہاں پر یہ لازم تھا کہ وہ تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ’ادبی سچائی‘ پر زور دینے کے علاوہ متغیر ’ادبی سچائی‘ تک پہنچنے کے لئے خود سچے ذرائع تلاش کرتے۔ ادب میں اس سے بدترین  اور کوئی جھوٹ ہو ہی نہیں سکتا کہ دوسروں کے خیالات کو لفظ بہ لفظ اپنے نام سے شائع کرا دیا جائے  اور تبلیغ ادبی سچائی کی، کی جائے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اسی جھوٹ کو بنیاد بنا کر ایوارڈ بھی حاصل کئے جائیں۔ سچے ادیب کا فرض ہے کہ اگر اس سے کہیں کوتاہی ہو بھی گئی ہے تو اس حقیقت کو اپنی غلطی سے تعبیر کرے  اور اس غلطی کا سچائی کے ساتھ لوگوں کے سامنے اعتراف کرے، نہ کہ چند ایک افراد کو بد دیانتی کے دفاع پر مقرر کر دے۔ نارنگ صاحب کی سرقے کی گھناؤنی حرکت کو دیکھ کر ان کی سچائی کی تعریف  اور معیار پر افسوس ہوتا ہے۔اس مضمون میں میں نے نارنگ صاحب کی ’آخری‘ نہیں بلکہ قدیم ’سچائی‘ کے معیار کو ایک بار پھر سامنے لانے کی کوشش کی ہے، جس کے تحت انھوں نے ادبی ’سچائی‘ کے معیار کا ذکر کیا ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی دکھایا ہے کہ قدیم ’سچائی‘ کا نارنگ صاحب کا معیارِ ’سچائی‘ اصل سچائی کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ان کا مقرر کردہ ادبی سچائی کا معیار نئی ’سچائی‘ سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے غلط ثابت ہو جاتا ہے۔قدیم ’سچائی‘ میں بددیانتی (نارنگ صاحب کی) قابلِ تکریم تھی، نئی ’سچائی‘ میں دیانت قابل احترام ہے۔قدیم سچائی غیر حقیقی سچائی ہے، نئی سچائی حقیقی نوعیت کی ہے۔قدیم سچائی میں جانچ پرکھ کی ضرورت ہی نہیں تھی جو ایک بار طے ہو گیا اس کی اندھی تقلید شروع ہو گئی۔ نئی سچائی مادیت سے آشنائی کے بعد کسی بھی چوکھٹے کو بغیر تنقیدی تجزیے کے قبول نہیں کرتی۔نارنگ صاحب کی قدیم ’سچائی‘ کو نئی ادبی سچائی نے کیسے بے نقاب کیا اس مضمون میں قارئین ایک بار پھر ملاحظہ فرمائیں گے۔آئیے گوپی چند نارنگ صاحب کے ’سچائی‘ کے قدیم معیار کو نئی ’سچائی‘ کے مقابل رکھ کر پرکھتے ہیں۔ نئی سچائی کا اصرار ہے، کہ قدیم سچائی کے معیار پر قائم رہنے والے نارنگ صاحب نے پروفیسر رامن سیلڈن کی جس اہم تعارفی کتاب سے اپنی کتاب میں کئی باب لفظ بہ لفظ سرقہ کئے ہیں، ان کی حقیقت کو آشکار کرنا ضروری ہے۔اس ’سچائی‘ کے انکشاف کے دوران تمام ابواب کو لفظ بہ لفظ رقم کرنا یقیناً ایک دشوار کن مرحلہ ہے۔ نارنگ صاحب کے اس(سچے ) فعل کی وجہ سے کئی مقتدر ادارے انھیں ایوارڈ دینے کے لئے بے چین تھے، اس لئے انھوں نے سرقے جیسا کٹھن کام بآسانی سرانجام دیا۔آج ثابت ہو گیا ہے کہ اس ایوارڈ کی حیثیت ادبی خدمت کے برعکس اُردو ادب کو غلط رجحانات سے مالا مال کرنے کی وجہ سے سیاسی نوعیت کی تھی۔پاکستان کا مقتدر طبقہ جس کا تعلیم سے کچھ خاص واسطہ نہیں ہے مگر خود کو ’سیکولر‘ کہلوانے کی ان کی خواہش اس قسم کے ایوارڈ دینے سے مزید نمایاں ہو جاتی ہے۔ہندوستان میں دوسرے کئی طرح کے پروپیگنڈے کے ساتھ ’سیکولر ازم‘ کے نعرے کی نوعیت بھی عملی انسانی اقدار کے برعکس سیاسی نوعیت کی ہے۔ مغرب کی طرح وہاں کے ’ادیبوں ‘ اور ’دانشوروں ‘ کو ادب میں بھی ہر قیمت پر گمراہ کن رجحانات کی اشاعت پر کمربستہ کیا جاتا ہے، صلے کے طور پر بلند عہدوں سے بھی نوازا جاتا ہے۔ادب و آگہی کو جدو جہد سے دور، انسانی زندگی کی لاتعلقی  اور خانقاہی نوعیت کی شخصیت پرستی کے فروغ، اقدار کی شناخت سے نجات، ماضی پرستی کے رجحان کے احیاء کے لئے باقاعدہ چندے عنایت کئے جاتے ہیں۔آسکر وائلڈ نے جب ادب میں اخلاقی اقدار کا ذکر کرنے والوں کی سخت الفاظ میں تحقیر کی تو کسی نے جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اخلاقیات سے اس کی نفرت کا محرک اس کی اپنی ہم جنس پرستانہ طبع ہے۔ خارجی عوامل سے قطع نظر آسکر وائلڈ اپنی ذات کے حصار میں مقید ہو گیا، اس طرح اس نے مقصدیت کو صرف خارجی حقیقت سے الگ کیا، جبکہ مقصدیت کو اپنی جبلی احتیاج کے تابع کر دیا۔بالکل اسی طرح نارنگ صاحب الطاف حسین حالی کے بعد سب سے بڑے نقاد بننے کی خواہش رکھتے تھے جس کی وجہ سے ان میں ضرورت سے زیادہ ’شکتی‘ پیدا ہو گئی۔ اتنی ’شکتی‘ کہ تمام کتاب کو ہی اپنی ’سچائی‘ کے معیار کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے سرقے سے بھر دیا۔ کتاب کے سرورق پر یہ سوچ، نتیجے  اور حقیقی سچائی سے عاری الفاظ ملاحظہ فرمائیں، ’’پروفیسر نارنگ کی اب تک کی علمی و ادبی کتابوں میں سب سے وقیع  اور فکر انگیز کام‘‘ ادب کے سنجیدہ قاری کے لئے نارنگ صاحب کا سرقہ یقیناً ایک ’فکر انگیز‘ لمحہ ہے۔نارنگ صاحب کا تو ’فکر انگیزی‘ کا معیار بالکل مختلف ہے جو ان کی قدیم ’سچائی‘ کی عکاسی کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے، لیکن سنجیدہ قاری کے لئے یہ اس اعتبار سے ’فکر انگیز‘ ہے کہ اردو ادب کو کب تک اس کی اپنی حرکت سے جنم لینے والی ’فکر انگیزی‘ سے محروم رکھا جائے گا؟ کب تک ادب کی تفہیم اپنے تناظر کی بجائے مغربی تناظر میں کی جاتی رہے گی؟کب تک کتابوں کے سرقے کی روایت قائم رہے گی؟ اس مضمون میں کئے گئے تجزیے کے مطابق نارنگ صاحب کی ’ساختیات، پسِ ساختیات  اور مشرقی شعریات‘ کا ’فکر انگیز‘ پہلو یہی ہے کہ اگر اس کتاب میں سے سرقہ نکال لیا جائے تو کیا دس صفحات بھی ایسے رہ جائیں گے جو نارنگ صاحب کے اپنے تجزیے پر مبنی ہوں ؟تجزیے کا ذکر نارنگ صاحب کی کتاب کے سرورق پر لکھے گئے ان الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں، ’’نئی ادبی تھیوری ساختیات، پسِ ساختیات  اور ردِ تشکیل کا مکمل  اور مستند تعارف  اور تجزیہ‘‘ اس فقرے میں بھی نارنگ صاحب کو تجزیہ نگار دکھانے کی کوشش کی گئی ہے، اب صورتحال یہاں تک آ پہنچی ہے کہ سرقے  اور تجزیے کا امتیاز ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ ہمارا مطالعہ ہر لمحہ یہ ثابت کرتا ہے کہ نارنگ صاحب کا کردار تجزیہ نگار کا تو دُور، مرتب کا بھی نہیں ہے۔ مرتب تسلیم کرتا ہے کہ وہ دوسروں کی تحریروں کو ترتیب دیتا ہے۔ نارنگ صاحب اس کتاب کی بنیاد پر ایک ’فکر انگیز‘ مکالمہ شروع کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ہماری بھی یہی خواہش ہے کہ مکالمہ شروع ہو  اور اس کی نوعیت بھی ’فکر انگیز‘ ہو، مگر نارنگ صاحب کی خواہش کے برعکس ہماری خواہش ’سچائی‘ کے فروغ، بددیانتی سے نجات، تقلید سے چھٹکارا، احساسِ کمتری کے خاتمے، تناظر کی اہمیت  اور انہی نکات کی بنیاد پر ادب و تنقید کے فروغ کے لئے ہے۔ نارنگ صاحب کی حرکت سے تو یہی ثابت ہوا ہے کہ وہ خود سارق سے نظریہ ساز بننے کی ’معیاری جست‘ لگانے کی سعی پیہم کرتے رہے ہیں۔ نئی ’سچائی‘ چونکہ قدیم سچائی سے زیادہ قوی ہے جس میں حقائق سے پردہ اٹھانے کی صلاحیت اس قدر ہے کہ نارنگ صاحب اپنی شخصیت پرستی کی خواہش کے لازوال نہ ہونے کی وجہ سے صرف ایک ہی دہائی لطف اندوز ہو پائے ہیں۔ قدیم ’سچائی‘ کا جامد معیار تغیر پذیر سماج میں کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لینن نے درست لکھا تھا کہ ’’مظہر ہمیشہ علم سے زیادہ بھر پور ہوتا ہے۔‘‘ کیونکہ وہ ہمہ وقت حرکت پذیر رہتا ہے، اس کی حرکت علم کے جامد معیار پر قائم قدیم چوکھٹوں کو بے دردی سے چیلنج کرتی ہے۔نارنگ صاحب کی اس حرکت کا انکشاف نئی سچائی کے ارتقاء کے لئے ضرور راستہ ہموار کرے گا۔سرورق پر نارنگ صاحب کی ’سچائی‘ کا اظہار ان الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں، ’’بنیادی نوعیت کی ایسی کتاب جو کہیں برسوں میں لکھی جاتی ہے  اور جس سے نئے ادبی سفر کا آغاز ہوتا ہے۔‘‘ سرقے کو تسلیم کر لینے کی صورت میں بھی، افکار کو ان کے ٹھوس سماجی تناظر سے محروم کرنے کی وجہ سے اس کتاب کا کردار علم کو ترقی دینے کی بجائے گمراہی کے زیادہ قریب رہتا، تاوقتیکہ قاری خود اتنا با شعور ہوتا کہ وہ افکار کے سماجی محرکات، مغربی معاشرے کے انگنت طبقاتی تضادات، ’آقاؤں ‘ اور ’غلاموں ‘ کی شناخت کے لئے مسلسل جدوجہد،  اور زر خرید  بورژوا دانشوروں کے ’آقاؤں ‘ کے نظریاتی  اور معاشی عوامل کو تحفظ فراہم کرنے کی تگ و دو کو سمجھنے کی کوشش کرتا۔اسی وقت وہ دیکھ پاتا کہ روشن خیالی کا استرداد جس ’دوسرے ‘ کو حذف کرنے کی شکل میں ہوا ہے، اس کی اپنی حیثیت صدیوں سے ایک ایسے ’دوسرے ‘ کی ہے جس کا مشرقی ’دانشوروں ‘ نے علمی غداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے احساس تک بھی چھین لیا ہے۔ اڈورنو جب یہودیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے میدان کارزار میں اترتا ہے تاکہ وہ مغربی فکر میں فکری سطح پر کچلنے والے عوامل کو دریافت کرے تو پاک و ہند میں ایک بار پھر تناظر کے دبنے سے صورتحال مسخ ہو جاتی ہے۔ جب یہودی قوت حاصل کر لیتا ہے تو ژاک دریدا ’سچائی‘  اور ’برائی‘ اور ’شناخت‘ کا ہی منکر ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے جب ’شناخت‘ درکار تھی تو اڈورنو نے یہ خدمت سرانجام دی۔ جب یہودیوں کی کلی ’شناخت‘ قائم ہو گئی اور انھوں نے ’دوسروں ‘ کی ’شناخت‘ تسلیم کرنے سے انکار کر دیاتو ساتھ ہی نئی تھیوری ابھری جس کا نام ڈیکنسٹرکشن ہے، جو ’شناخت‘ کے لئے جدو جہد سے روکتی ہے۔گیارہ ستمبر سے پہلے جب بورژوا قمار باز دانشوروں نے اپنا مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دے دیا جسے گیارہ ستمبر کے بعد عالمی سطح پر عیسائی دہشت گردی سے پایۂ تکمیل تک پہنچانا تھا تو درسگاہوں میں ڈیکنسٹرکشن کا بیوپار بھی شروع ہو گیا۔ مشرقی چرب زدہ تخیل اس کے محرکات کو سمجھے بغیر ہی تبلیغ پر کمربستہ ہو گیا۔اردو ادب کے ان ’پرانے لکھنے والوں ‘ کی اکثریت کا المیہ یہ ہے کہ انھوں نے صرف لکھنا ہی سیکھا، لکھنا کیا تھا اس کے لئے جس تنقیدی بصیرت اور ’تخلیقی تخیل‘ کی ضرورت ہوتی ہے (کانٹین مفہوم میں نہیں ) اس کے فقدان کی وجہ سے ’پرانے لکھنے والوں ‘ کی اکثریت مغربی علوم یا پھر ماورائیت سے سرقہ کرنے پر مجبور ہوئی۔ دادی کی سنائی ہوئی بچپن کی ماورائی نوعیت کی کہانیاں انہی ماورائی خطوط پر ان کی نام نہاد ’تخلیقی‘  اور ’تنقیدی‘ تحریروں کے موضوعات کی شکل میں ظاہر ہوئیں، مگر تجزیے  اور تنقید کے لئے جس وسیع مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے، اس سے یہ ’پرانے لکھنے والے ‘ مکمل طور پر نابلد رہے۔ آج ان کے پاس یہ استحقاق تو موجود ہے کہ یہ ’پرانے لکھنے والے ‘ ہیں، لیکن یہ لکھ کیا  اور کس کے لئے رہے ہیں ؟ اسے کوئی پڑھ بھی رہا ہے یا نہیں ؟ ان عوامل کے بھر پور تجزیے کی ضرورت ہے، یقیناً ان تجزیات کے لئے نہ ہی ژاک دریدا سے کوئی مدد لی جا سکتی ہے  اور نہ ہی بارتھ وغیرہ سے۔ اس کے لئے اُردو ادب و تنقید کا اپنے مخصوص پس منظر میں تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔قطع نظر خیال پرستانہ یا مادی موقف کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر کہیں بارتھ وغیرہ کو اُردو ادب سے مخاطب ہونا پڑتا تو وہ کبھی بھی اُردو معاشرے کو نظر انداز نہ کرتے۔وہ اُردو کو اس کے ارتقاء  اور اس کی اپنی حرکت میں دیکھتے۔وہ غیر ملکی ادبی کلیوں کو ریاضی کے پہاڑوں کی طرح رٹا نہ لگاتے۔ان کو اس امر کا احساس ہوتا کہ ایک معاشرے کے جمالیاتی تقاضے کسی دوسرے معاشرے میں ممکن ہے غیر جمالیات میں تبدیل ہو جائیں۔ کیا یہ کہنے میں کوئی مبالغہ ہے کہ نام نہاد ما بعد جدیدیت کی آواز فرانس سے بلند ہوئی لیکن جرمنی میں ہیبرماس وغیرہ جرمن فلسفیانہ روایت کا دامن چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں ؟ کیا اڈورنو اپنی برادری کی تمام تر ضرورتوں کے باوجود جرمن روایت کے دو عظیم فلسفیوں (کانٹ، ہیگل)کی روایت پر کاربند نہیں ہے ؟کیا دریدا خود کو ہیگلیائی نہیں کہلاتا(دیکھیے، پوزیشنز) مگر فرانسیسی معاشرے  اور یہودی روایت کے حصار کو توڑنے میں بھی ناکام رہتا ہے۔ کیا فرانسیسی معاشرے کی ما بعد جدیدیت کا اچھائی  اور برائی کا عدم امتیاز ان کی تھیوری میں نہیں جھلکتا؟صارفی ثقافت کا تعلق محض حسیاتی مسرت کے ساتھ ہے، تقاضا جس کا صرف  اور صرف ’ویلیو ججمنٹ‘ سے نجات ہے۔ کافی حد تک یہ کہا جا سکتا ہے کہ ما بعد جدیدیت فرانسیسی یا امریکی معاشرے کی معروضی حالت ہے۔ کیا پاکستان اس سطح پر ہے کہ اچھائی  اور برائی کے معیار سے دست بردار ہو جائے ؟ اگر نہیں تو ادب و تنقید میں سماجی ’وحدت‘ کی بجائے Fragmentation کی تبلیغ کس لئے ؟کیا گزشتہ دنوں ہم نے پاکستان میں صرف ایک آمر کی وجہ سے سماج کے ہر شعبے (صحافت، سول سوسائٹی، عدلیہ، وغیرہ)کی شکست و ریخت ’وحدت‘ کے تصور کے تحت ہوتے ہوئے نہیں دیکھی؟مغرب میں بھی اس عمل کے گھناؤنے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں، جو اس عہد کے ادب میں جھلکتے ہیں۔ تاہم ۱۹۷۰ء کی دہائی میں ’مائیکرو سیاست‘ کا تصور ابھرتا ہے، مگر اگر کہیں سماجی تضادات شدت اختیار کر گئے تو کیا ’میکرو سیاست‘ حاوی نہیں ہو جائے گی؟کیا ان حالات میں ادب و تنقید سماجی تقاضوں سے انحراف کر سکیں گے ؟اگر ایسا کبھی ہوا ہے تو اس کی مثال بھی تلاش کرنی چاہیے۔مغربی ادبی تاریخ کا ہر دور سماج کے ساتھ ایک اٹوٹ رشتے میں بندھا رہا ہے، یا تو مثالی حوالوں سے یا پھر مادی نقطۂ نظر کے مطابق۔ بے شک اٹھارویں یا انیسویں صدی کی رومانویت ہو یا پھر بیسویں صدی کی جدیدیت۔نارنگ صاحب جیسے نقاد جو سرقے پر گزارہ کرتے ہیں، جو تفکر سے عاری ہیں، کسی کی کاوش کو اپنے نام سے شائع کراتے ہیں۔دوسرے معاشروں کے داخلی تضادات سے ظہور ہونے والے نظریات کو سمگل کرتے ہیں، جو حوالہ جات کو غلط پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔تنقید کے بارے میں حقیقی مسائل سے ان نقادوں کے انحراف کی وجہ ہی سے آج اُردو شعر بازی کا غالب حصہ جنس کے حصار میں ہے، مکھی پر مکھی ماری جا رہی ہے۔ مغرب میں ناولوں یا شاعری میں رجحانات پہلے نمودار ہوئے، ان کو وسیع تناظر میں نظریائے جانے کی کوششوں سے تحاریک نے جنم لیا۔ہمارے ہاں تنقید پہلے ٹپک پڑتی ہے، اس کے بعد متن کا بیڑا غرق کر کے اس میں سے ما بعد جدیدیت کو تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آج تک نثری نظم کو رجعت پسندوں کا ایک گروہ شاعری ماننے کو تیار نہیں ہے، مگر تبلیغ ما بعد جدیدیت کی ہو رہی ہے۔ مغرب میں عروض و بحور کے مباحث ختم ہوئے ایک عرصہ گزر گیا، اگر شاعری یا ناول میں پرانی تکنیک استعمال کر لی جائے، تو ما بعد جدیدیت کو فوراً چیلنج کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں لاعلمی کا تقاضا یہ ہے کہ تبلیغ ما بعد جدیدیت کی ہو رہی ہے، مگر شاعری میں اگر کہیں ’الف‘ اور ’بے ‘ کا فرق پڑ جائے تو بے وزن کے فتوے صادر کر دیے جاتے ہیں۔ ادب ’روحانی پولیس‘ کے پیدا کردہ خوف کا نتیجہ ہے، گو کہ آج خوف ختم ہوتا ہوا معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت میں یہ خوف ان ’پرانوں ‘ کی سرشت کا حصہ بن گیا ہے، جس سے صرف خوف کا احساس ہی ختم ہو سکا ہے۔حقیقت میں یہ خاتمہ واہمے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ان پرانوں کی انتہائی خستہ ادبی حالت کا تقابل برٹرینڈ رسل کی اس وضاحت سے کیا جا سکتا ہے کہ برطانیہ میں تعلیم کے حوالے سے عوام کی صورتحال یہ تھی کہ حکمران طبقہ لوگوں کو پڑھنا تو سکھا دیتا تھا، مگر پڑھنے کے لئے ان کے ہاتھوں میں اخبارات تھما دیے جاتے تھے۔ان اخبارات میں حکمرانوں کے حق میں پروپیگنڈے کے علاوہ  اور کچھ نہیں ہوتا تھا۔عوام اسی کو اخبارات میں چھپا ہوا تصور کر کے سچ تسلیم کر لیتے تھے۔ اُردو میں لکھنے والے شعر بازوں  اور ادیبوں کی صورتحال بھی، کم از کم ’پرانوں ‘ کے ذکر کے حوالوں سے مختلف نہیں ہے۔ان کو لکھنے کے لئے زیادہ تر موضوعات ’روحانی پولیس‘ نے ہی عطا کئے ہیں۔ نارنگ صاحب کے حوالے سے جہاں تک تنقید کا تعلق ہے، اس میں صرف  اور صرف سرقہ ہی اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔مقصود اس بحث سے یہ واضح کرنا نہیں کہ مغربی خطوط پر استوار ہوا جائے بلکہ اپنے ہی خطوط پر استوار ہونا چاہیے، موازنہ  اور تقابل سماج کی کلی وحدت میں ہونا چاہیے۔

اگرلکھنے کے حوالے سے ’اچھائی‘ اور ’برائی‘ کے ’پرانوں ‘ کے معیار کی جانچ پڑتال نئے لکھنے والوں نے نہ کی توان ’پرانے لکھنے والوں ‘ کے حقیقی چہرے کو بے نقاب کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ’اچھائی‘  اور ’برائی‘ کایہی عدم امتیاز نارنگ صاحب کو بھی سرقے سے تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ان ’پرانے لکھنے والوں ‘ نے قاری کو احمق بنانے کی کوشش ’جلدی میں ‘ نہیں بلکہ شعوری طور پر کی ہے۔اس اعتبار سے ’پرانوں ‘ کی ’لکھنے ‘ کی روایت میں سرقے کے علاوہ کچھ بھی موجود نہیں ہے۔بے شک یہ سرقہ مغربی علوم سے کیا گیا ہے یا پھر نام نہاد روحانیت کے یرغمال بننے کی شکل میں سامنے آیا ہے۔نارنگ صاحب کی کتاب کے سرورق پر لکھے الفاظ نارنگ صاحب کو حالی کے بعد اُردو دنیا کا سب سے بڑا نقاد  اور نظریہ ساز ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔کیا اس سے یہ مطلب اخذ کیا جائے کہ اُردو ادب میں نقاد بننے کے لئے سارق ہونا لازمی ہے ؟ایک سو سال پہلے جس حرکت کی بنا ء پر حالی بطورِ نقاد سامنے آئے اس سے کہیں زیادہ سرقے کی گھناؤنی حرکت نارنگ صاحب کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اس سے قبل کہ نارنگ صاحب کی جانب لوٹیں، پہلے ان کے مزید سرقے کی جانب رخ موڑتے ہیں۔ پروفیسر رامن سیلڈن لکھتے ہیں،

There is another stand in poststructuralist thought which believes that the world is more than a galaxy of text, and that some theories of textuality ignore the fact that the discourse is involved in power. They reduce political and economic forces, and ideological and social control, to aspects of signifying processes. When a Hitler or a Stalin seems to dictate to an entire nation by wielding the power of discourse, it is absurd to treat the effect as simply occurring within discourse. It is evident that real power is exercised through discourse, and that this power has real effects……. The father of this line of thought is the German philosopher Nietzsche, who said that people first decide what they want and then fit the facts to their aim: ‘Ultimately man finds in things nothing but what he himself has imported into them.’ All knowledge is an expression of the ‘will to power’. This means that we can not speak of any absolute truths or of objective knowledge…. Foucault regards discourse as a central human activity, but not as a universal, ‘general text’, a vast sea of signification. He is interested in the historical dimension of discursive change. What it is possible to say will change from one era to another. In science a theory is not recognised in its own period if it does not conform to the power consensus of the institutions and official organs of science. Mendel’s genetic theories fell on deaf ears in the 1860s; they were promulgated in a ‘void’ and had to wait until the twentieth century for acceptance. It is not enough to speak the truth; one must be ‘in the truth’.(Selden, Raman. Contemporary Literary Theory, 3rd ed, Britain, 1993,P158-159)

گوپی چند نارنگ کے سرقے کی جانب توجہ مبذول کرتے ہیں، ’’پس ساختیات میں ایک فکری دھارا  اور بھی ہے جو اصرار کرتا ہے کہ ’متنیت‘ (TEXTUALITY) ہی سب کچھ نہیں، بلکہ دنیا میں طاقت کے کھیل میں بجائے متن کے ’ڈسکورس‘ (مدلل مبرہن بیان) شامل ہے۔ مثل فوکو(MICHEL FOUCAULT) کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ’متنیت‘ کے نظریے سیاسی  اور سماجی طاقتوں  اور آئیڈیالوجی کو ’معنی خیزی‘ کے وسائل قرار دے کر ان کی حیثیت کو گھٹا دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی ہٹلر، موسولینی، یا اسٹالن ایک پوری قوم کو اپنے حکم پر چلاتا ہے، تو ایسا ’ڈسکورس‘ کی طاقت کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس طاقت کے اثرات کو ’متن‘ تک محدود رکھنا مہمل بات ہے۔فوکو کہتا ہے کہ اصل طاقت کا استعمال ’ڈسکورس‘ کے ذریعے ہوتا ہے،  اور اس طاقت کے ٹھوس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔۔۔۔۔نٹشے نے کہا تھا کہ ’لوگ پہلے طے کرتے ہیں کہ انھیں کیا چاہیے، اور پھر حقائق کو اپنے مقصد کے مطابق ڈھال لیتے ہیں ‘۔نتیجتاً انسان کو اشیاء میں وہی کچھ نظر آتا ہے جو ان میں خود اس نے داخل کیا ہے۔ فوکو اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے کہ تمام علم طاقت کی خواہش ( WILL TO POWER) کا مظہر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم مطلق صداقت یا معروضی علم کی بات نہیں کر سکتے۔ لوگ کسی فلسفے یا سائنسی نظریے کو صرف اسی وقت تسلیم کرتے ہیں، جب وہ اپنے عہد کے سیاسی  اور دانشورانہ متقدرات یا آئیڈیالوجی یا سچائی سے لگا کھائے یا وقت کے رائج پیمانوں پر پورا اُترے۔فوکو ’ڈسکورس‘ کو ذہنِ انسانی کی مرکزی سرگرمی قرار دیتا ہے، ایک عام آفاقی ’متن‘ کے طور پر نہیں بلکہ ’معنی خیزی‘ کے ایک وسیع سمندر کے طور پر۔وہ تبدیلی کی تاریخی جہت میں دلچسپی رکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جو کچھ کہنا ممکن ہے وہ ایک عہد سے دوسرے عہد میں بدل جاتا ہے۔ سائنس میں بھی کوئی نظریہ اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جاتا، جب تک کہ وہ سائنس کے مقتدر اداروں  اور ان کے سرکاری ترجمانوں کے طاقتی توافق سے مطابقت پیدا نہ کر لے۔فو کو کہتا ہے کہ مینڈل (MENDEL) کے علم توالّد کے نظریے کی ۱۸۶۰ء کے زمانے میں کوئی پذیرائی نہ ہوئی تھی گویا یہ خیالات خلاء میں پیش ہوئے تھے،  اور ان کی اپنی قبولیت کے لئے بیسویں صدی کا انتظار کرنا پڑا۔ اس کا مشہور قول ہے کہ ’صرف سچ بولنا کافی نہیں ہے سچائی کے ’اندر‘ ہونا بھی ضروری ہے ‘ (نارنگ، ص، ۱۹۴۔ ۱۹۶)۔اس اقتباس میں جگہ جگہ نارنگ صاحب کے واوین کے استعمال کو دیکھا جا سکتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف یہی تاثر قائم کر رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے خود ساختہ تجزیے کے دوران دوسروں کی اصطلاحات کا بخوبی خیال رکھا ہے، اصول یہ تھا کہ نہ صرف یہ اقتباس بلکہ پروفیسر سیلڈن کے فوکو پر لکھے گئے باب کو، جس کو باتمام و کمال نارنگ صاحب نے سرقہ کیا ہے، واوین میں لکھتے۔انہوں نے ایسا کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ہمارا مطالعہ یہ حتمی طور پر ثابت کرتا ہے کہ نارنگ صاحب کی کتاب میں فوکو پر لکھا گیا ہر لفظ پروفیسر سیلڈن کی کتاب کا ترجمہ ہے۔اس اقتباس کے بعد نارنگ صاحب مندرجہ بالا واوین میں لکھے گئے اقتباس کو انگریزی میں واوین میں ہی لکھتے ہیں، ‘IT IS NOT ENOUGH TO SPEAK THE TRUTH, ONE MUST BE IN THE TRUTH'(نارنگ، ص، ۱۹۶)۔اس اقتباس کو انگریزی میں بیان کرنے سے نارنگ صاحب کی نیت عیاں ہو رہی ہے کہ وہ صرف اسی اقتباس کو ہی مستعار سمجھتے ہیں، لیکن اس انگریزی اقتباس کے بعد صفحہ نمبر کا کوئی حوالہ نہیں ہے، جس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اصل مآخذ کو چھپانا چاہتے تھے۔جہاں تک اقتباس کا تعلق ہے جس کو پروفیسر سیلڈن نے بھی فوکو سے جوڑا ہے، دراصل یہ مارکسی جدلیات کا بنیادی پہلو ہے جسے فوکو مارکس ہی سے مستعار لیتا ہے۔اگر نارنگ صاحب اس کے بارے میں کچھ جانتے ہوتے تو اس ’سچائی‘ کا انکشاف بھی کر سکتے تھے۔جیسا کہ ہم نے واضح کیا ہے کہ نارنگ صاحب نے اس کتاب سے بیشتر باب سرقہ کئے ہیں، اس دعوے کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے پروفیسر سیلڈن کے جوناتھن کلر پر لکھے گئے باب سے اقتباس پیش کرتے ہیں۔سیلڈن لکھتے ہیں،

Jonathan Culler (see also chapter 5) has argued that a theory of reading has to uncover the interpretative operations used by readers. We all know that different readers produce different interpretations. While this has led some theorists to despair of developing a theory of reading at all, Culler argues in The Pursuit of Signs (1981) that it is this variety of interpretation which theory has to explain. While readers may differ about meaning, they may well follow the same set of interpretative conventions…. (Selden, P62.)

نارنگ صاحب کا کارنامہ ملاحظہ فرمائیں، ’’جونتھن کلر اس بات پر زور دیتا ہے کہ قراَت کے نظریے کے لئے ضروری ہے کہ وہ افہام و تفہیم  اور تحسین قاری کو ضابطہ بند کر سکے جو بالعموم قارئین قراَت کے  دوران استعمال کرتے ہیں۔اس بات کو نظر میں رکھنا چاہیے کہ ایک ہی متن سے مختلف قاری مختلف مفاہیم برآمد کرتے ہیں۔ اگرچہ تعبیر و تفہیم کا یہی تنوع دراصل قاری اساس تنقید کے بہت سے نظریہ سازوں کے لئے دقّت کا باعث بنتا ہے، لیکن کلر بحث کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نظریے کا چیلنج یہی ہے کہ مختلف قرأتوں کے امکانات  اور مفاہیم کے تنوع کو ضابطہ بند کیا جائے، اس لئے قارئین میں معنی کا اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن تفہیم و تعبیر کے لئے قارئین جو پیرائے  اور طور طریقے استعمال کرتے ہیں، ان میں کچھ تو ملتے جلتے ہونگے، اُن کو دریافت کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے ‘‘ (نارنگ، ص، ۳۱۸۔۳۱۹)۔سیلڈن کے جولیا کرسٹیوا پر لکھے گئے باب میں سے اس اقتباس کو ملاحظہ فرمائیں،

The word ‘revolution’ in Kristeva’s title is not simply metaphoric. The possibility of radical social change is, in her view, bound up with the disruption of authoritarian discourses. Poetic language introduces the subversive openness of the semiotic ‘across’ society’s ‘closed’ symbolic order: ‘What the theory of the unconscious seeks, poetic language practices, within and against the social order.’ Sometimes she considers that the modernist poetry actually prefigures a social revolution which in the distant future will come about when society has evolved a more complex form. However, at other times she fears that bourgeois ideology will simply recuperate this poetic revolution by treating it as a safety valve for the repressed impulses it denies in society. Kristeva’s view of the revolutionary potential of women writers in society is just as ambivalent…. (Selden, P14)2

نارنگ صاحب کو دیکھیں، ’’کرسٹیوا کا انقلاب کا تصور یہ ہے کہ سماجی ریڈیکل تبدیلی مقتدر ڈسکورس میں تخریب  اور خلل اندازی کے عمل پر منحصر ہے۔ شعری زبان سماج کے ضابطہ بند  اور مقید علامتی نظام میں نشانیاتی تخریب کاری کی آزادہ روی ( کھلی ڈھلی تنقید) کو راہ دیتی ہے۔لاشعور جو چاہتا ہے، شعری زبان اس کو سماج کے اندر  اور سماج کے خلاف برت سکنے پر قادر ہے۔کرسٹیوا کو یقین ہے کہ سماجی نظام جب زیادہ ضابطہ بند، زیادہ پیچیدہ ہو جائے گا تو نئی شعری زبان کے ذریعے انقلاب لایا جا سکے گا، لیکن اس کو یہ بھی خدشہ ہے کہ بورژوا آئیڈیالوجی ہر نئی چیز کو اپنا کر اس کا ڈنک نکال دیتی ہے، چناچہ ممکن ہے کہ شعری انقلاب کو بھی بورژوا آئیڈیالوجی ایک سیفٹی والو کے طور پر استعمال کرے، ان دبے ہوئے ہیجانات کے اخراج کے لئے جن کی سماج میں بالعموم اجازت نہیں ہے ‘‘ (نارنگ، ص، ۲۰۲)۔جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ نارنگ صاحب کی ساری کتاب ترجمہ ہے، لیکن انہوں نے چونکہ خود کو مترجم نہیں کہا اس لئے ہمیں ان کو سارق کہنا پڑ رہا ہے۔ سیلڈن کی تمام کتاب چند ایک اقتباسات چھوڑ کر نارنگ صاحب نے اپنے نام سے شائع کرائی ہے۔ نارنگ صاحب کے لئے بیٹھ کر سرقہ لکھنا اس لئے آسان ہو گیا کہ ایوارڈ ان کا منتظر تھا۔ کسی بھی دوسرے شخص کے لئے یہ کام آسان نہیں ہے کہ وہ قاری کو یقین دہانی کرانے کے لئے اپنے وقت کا زیاں کرتا رہے۔اس لئے یہاں پر سیلڈن کی کتاب سے اقتباسات کے مزید حوالے دینے کی بجائے ہم صرف صفحات کی تفصیل دینے پر ہی اکتفا کریں گے۔ سنجیدہ قاری اصل مآخذات تک ضرور رسائی حاصل کریں گے۔رامن سیلڈن کی کتاب کے صفحات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گوپی چند نارنگ کی کتاب کے صفحات

 

27 – 42۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 79 -10649 – 70۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔288 – 329149 – 158۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔234 – 24086 – 103۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔243 – 267

 

ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ سیلڈن کی کتاب سے دئیے گئے تمام صفحات گوپی چند نارنگ نے اپنے نام سے شائع کرائے ہیں۔حیرت زدہ کرنے والا امر یہ ہے کہ نارنگ صاحب نے اس کتاب میں شاید ہی چند الفاظ خود تحریر کئے ہوں۔ راقم کی حیرت میں اس لئے بھی اضافہ ہوا کہ نارنگ صاحب کو کتاب پر بطورِ مصنف اپنا نام لکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا ان کو خود بھی یہ خبر نہ ہو سکی کہ آج نہیں تو کل یہ راز آشکار ہو جائے گا۔سیلڈن کی کتاب سے نارنگ صاحب کے سرقے کے حقائق بمعہ تمام تر تفصیل پیش کرنے کے اب ایک دوسری کتاب کی جانب رجوع کرتے ہیں۔ اس کتاب سے نارنگ صاحب نے رولاں بارتھ پر لکھے گئے مضمون کا سرقہ فرمایا ہے۔ یاد رہے کہ اسی مضمون کے بعض حصے جوناتھن کلر کی Structuralist Poetics سے چرائے گئے ہیں۔لیکن یہاں پر جو اقتباسات پیش کئے جا رہے ہیں وہ John Sturrock کی کتاب سے لئے گئے ہیں۔ سٹرک نے اس کتاب میں پانچ ما بعد جدید مفکروں پر لکھے گئے مضامین کو مرتب کیا ہے۔جس مضمون کا نارنگ صاحب نے سرقہ کیا ہے وہ سٹرک کا اپنا تحریر کردہ ہے۔سٹرک نے مصنفانہ سچائی کا لحاظ کیا  اور تمام مضامین کو ان کے مصنفوں کے نام سے شائع کیا۔ نارنگ صاحب نے دوسری زبان کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے بارتھ پر لکھے ہوئے مضمون کو اپنے نام کر لیا۔آئیے دونوں کا موازنہ پیش کرتے ہیں۔ جان سٹرک لکھتے ہیں،

Existentialism, on the contrary, preaches the total freedom of the individual constantly to change….. Barthes, like Sartre, pits therefore the fluidity, the anarchy, even, of existence against the rigor mortis of essentialism; not least because, again following Sartre, he sees essentialism as the ideology which sustains that tradional bugbear of all French intellectuals, the bourgeoisie… he writes at the conclusion of his most feroriously anti-bourgeois book, the devastating Mythologies (1957……… In one way, Barthes goes beyond Sartre in his abhorrence of essentialism. Sartre, as so far as one can see, allows the human person a certain integrity or unity; but Barthes professes a philosophy of disintegration, whereby the presumed unity of any individual is dissolved into a plurality or discontinuous. This biography is especially offensive to him as a literary form because it represents a counterfeit integration of its individual. It is a false memorial to a living person……. (Sturrock, John. Structuralism and Since. London, Oxford University Press,1979, P 53)

نارنگ صاحب کی طرف چلتے ہیں : ’’لازمیت ‘‘ (ESSANTIALISM) کے مقابلے میں وجودیت نے انسان کی اس بنیادی آزادی پر زور دیا تھا جو ہر تبدیلی کی بنیاد ہے۔ بارتھ بھی سارتر کی طرح لازمیت  اور جبریت کے خلاف ہر طرح کی بغاوت بلکہ نراجیت (انارکی) تک کا قائل تھا۔ سارتر کی طرح وہ بھی لازمیت کو بورژوازی کا نشان سمجھتا تھا،  اور پوری قوت سے اس کو رد کرتا تھا جیسا کہ اس کی ایک ابتدائی بحث انگیز تصنیف MYTHOLOGIES (1957) سے ظاہر ہے۔لازمیت  اور بورژوازی کی مخالفت میں بارتھ ایک اعتبار سے سارتر سے بھی آگے نکل گیا، کیونکہ سارتر وحدت  اور سا لمیت (INTEGRITY)کا منکر نہیں تھا، لیکن بارتھ اپنی دھن میں بورژوازی سا لمیت کے خلاف شکست و ریخت کے فلسفے کی حمایت تک سے گریز نہیں کرتا تھا۔ اس کا کہنا تھا انسان کی وحدت ایک طرح کا واہمہ ہے، اگر غور سے دیکھا جائے تو ہم میں سے ہر ایک دراصل ’کئی‘ ہے۔ وہ وحدت کا سرے سے قائل ہی نہیں تھا، خدا کا بھی نہیں، ہر وہ چیز جو غیر مسلسل  اور غیر واحد ہے، بارتھ اس کی حمایت کرتا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ سوانح اسی لئے ادب نہیں کہ وحدت پیدا کرنے کی کوشش میں جعل کا نمونہ پیش کرتی ہے  اور غیر اصل ہے۔‘‘ (نارنگ، ص، ۱۶۲۔۱۶۱)۔ جان سٹرک کے اسی مضمون میں سے ایک  اور اقتباس پر غور کرتے ہیں،

his arch enemy is the doxa, the prevailing view of things, which very often prevails to the extent that people are unaware it is only one of several possible alternative views. Barthes may not be able to destroy the doxa but he can lesson its authority by localizing it, by subjugating it to a paradox of his own…… Barthes is only fully to be appreciated, then, as some one who set out to disrupt as profoundly as he could the orthodox views of literature he found in France………..The grievances against contemporary criticism with which Barthes began were deeply influential on what he came to write later. There were four main ones. First, he objected that literary criticism was predominantly ahistorical, working as it did on the assumption that the moral and the formal values of the texts it studied were timeless…..Barthes was never a member of the Communist party – let us say neo-Marxist objection. He dismissed existing histories of French literature as meaningless chronicles of names and dates… (Sturrock, P, 54-55)

 

اسی صفحے پر نارنگ صاحب نے قاری کی آنکھ میں دھول جھونکنے کے لئے پیراگراف کی تفصیل کو بڑی مہارت سے تبدیل کیا ہے، اگر قاری بھی سمجھ بوجھ کا حامل ہو تو یہ سرقہ بھی اس کی نظر سے اوجھل نہیں رہ سکتا۔نارنگ صاحب کے اقتباس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ’’DOXA یعنی اشیاء و صورتحال کا تسلیم شدہ تصور جسے اکثریت قبول کرتی ہو، اُسے بارتھ اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا تھا۔ وہ DOXA کو تباہ کر سکا یا نہیں، لیکن اس نے اسکا احساس دلا دیا کہ حقیقت کا وہ تصور جسے بالعموم لوگ صحیح سمجھتے ہیں، حقیقت کے ممکنہ تصورات میں سے محض ایک ہوتا ہے۔۔۔۔چنانچہ ادب کے مقلدانہ تصور پر بھی رولاں بارتھ نے کاری ضرب لگائی۔ مدرسانہ تنقید  اور مکتبی تنقید پر اس نے بار بار حملے کیے۔اُسے ادبی نظریات پر چار خاص اعتراض تھے :اوّل یہ کہ ادبی تنقید میں غالب رجحان غیر تاریخیت کا ہے، کیونکہ عام خیال ہے کہ متن کی ہئیتی  اور اخلاقی اقدار دائمی ہیں۔بارتھ کبھی کمیونسٹ نہیں رہا لیکن ادب کی تاریخیت کے بارے میں اس کا نظریہ مارکسی نہ سہی تو نو مارکسی ضرور ہے۔ اس نے اپنے عہد کی ادبی تاریخوں کو ناموں  اور سنین کا بے جان پُشتارہ قرار دیا‘‘ (نارنگ، ص، ۱۶۳۔۱۶۲)۔سٹرک نے بارتھ کے حوالے سے دوسرا اعتراض ان الفاظ میں اٹھایا ہے :

Barthes’s second complaints against academic criticism was that it was psychologically naive and deterministic….when critics chose to explain textual data by biographical ones, or the work by the life….The elements of a literary work – and this is an absolutely central point in literary structuralism – must be understood in the first instance in their relationship to other elements of that work….. (Sturrock, P,56)

نارنگ صاحب نے سٹرک کے بارتھ کے حوالے سے دوسرے اعتراض پر ان الفاظ میں قبضہ جمانے کی کوشش کی ہے : ’’مکتبی یک سطحی تنقید پر اس کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ مکتبی تنقید کا نفسیات کا شعور مجرمانہ حد تک معصومانہ ہے۔ سوانح معلومات کی مدد سے متن کو سمجھنا اس کے نزدیک ناقابلِ معافی جرم تھا۔۔۔اس کے نزدیک ادبی متن کے عناصر کو صرف ان داخلی رشتوں کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے جو وہ متن کے دوسرے عناصر سے رکھتے ہیں۔ یہ نکتہ ساختیاتی فکر کا بنیادی پتھر ہے ‘‘ (نارنگ، ص، ۱۶۳)۔سٹرک کے بارتھ کے حوالے سے مکتبی تنقید پر تیسرا اعتراض سٹرک کے الفاظ میں کچھ یوں ہے :

They could see only one meaning in the texts they concerned themselves with, and that one meaning was usually a very literal one. This they subsequently held the meaning of the text, and that to search further for supplementary or alternative meanings was futile. They were men of narrow and autocratic temper who fancied they were being scientific when they were merely being culpably dogmatic. Their minds were closed to the ambiguities of language, to the co-existence of various meaning within a single form of words,……. (Sturrock, P 57-58)

نارنگ نے  سٹرک کے بیان کردہ بارتھ کے تیسرے اعتراض کو ان الفاظ میں اپنے سرقے کی بھینٹ چڑھایا ہے : ’’مکتبی تنقید متن کے صرف متعینہ طے شدہ معنی کو صحیح سمجھتی ہے  اور نہایت ڈھٹائی سے اس پر اصرار کرتی ہے۔ متعینہ معنی تو صرف لغوی معنی ہو سکتے ہیں،  اور ادب میں اکثر و بیشتر بے ہودگی کی حد تک غلط ہوتے ہیں۔ مکتبی نقادوں کے بارے میں بارتھ نے لکھا ہے کہ اُن کا ذہن چھوٹا  اور نظر محدود ہوتی ہے، وہ ادعائیت کا شکار ہیں  اور ادب میں اکثریت کے علمبردار ہیں۔۔۔ادب فی نفسہ ابہام سے لبریز ہے  اور ایک ہی فارم میں کئی معنی ساتھ ساتھ عمل آراء ہو سکتے ہیں ‘‘ (نارنگ، ص، ۱۶۳)۔یہاں پر ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ چوتھے ’اعتراض‘ کی سچائی جاننے کے لئے قاری جان سٹرک کے صفحہ نمبر ۵۹۔۵۸  اور نارنگ صاحب کی کتاب کے صفحہ نمبر ۱۶۴ کا خود مطالعہ کرے گا۔ ہمارا یہاں نارنگ صاحب کے مسروقہ ’اعتراضات‘ پر یہ اعتراض ہے کہ وہ اس حد تک سرقے کے مرتکب ہو کر اُردو ادب میں پہلے سے قائم روایت کو کیوں طول دینا چاہتے تھے ؟ قاری ان اقتباسات کے بعد یہ قطعاً نتیجہ اخذ نہ کرے کہ نارنگ صاحب کے بارتھ پر لکھے گئے مضمون کے حوالے سے سرقے کی حد صرف یہاں تک ہی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ نارنگ صاحب نے سٹرک کے مضمون میں بارتھ کی تمام کتابوں کے مختصر تجزیے کو بھی لفظ بہ لفظ سرقہ کیا ہے۔ جان سٹرک کا یہ مضمون ستائیس صفحات پر مشتمل ہے۔ سٹرک کا پیش کردہ تجزیہ بھی بھر پور نوعیت کا ہے۔نارنگ صاحب نے چونکہ کسی بھی اصل مآخذ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اس لئے ان کی علمی قابلیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔بہرحال ان کے علاوہ کچھ مزید کتب پر غور کرتے ہیں۔کیتھرین بیلسی لکھتی ہے :

 

From this post-Saussurean perspective it is clear that the theory of literature as expressive realism is no longer tenable. The claim that a literary form reflects the world is simply tautological. If by ‘the word’ we understand the world we experience, the world differentiated by language, then the claim that realism reflects the world means that realism reflects the world constructed in language. This is a tautology……………. (Belsey, Catherine. Critical Practice, London, Routledge, 2003, P,43)

نارنگ صاحب یوں سرقہ فرماتے ہیں : ’’اس سوسے ئری تناظر سے ظاہر ہے کہ ادب کا وہ نظریہ جسے حقیقت نگاری کہتے ہیں، قابلِ مدافعت نہیں ہے۔ یہ دعویٰ کہ ادبی فارم حقیقت کا عکس پیش کرتی ہے، صرف تکرار بالمعنی، (Tautological) ہے۔اگر حقیقت سے ہماری مراد وہ حقیقت ہے جس کا ہم تجربہ کرتے ہیں، یعنی جو تفریقی طور پر زبان کے ذریعے قائم ہوتی ہے تو یہ دعوی کہ ’حقیقت نگاری حقیقت کا عکس پیش کرتی ہے، دراصل یہ ہوا کہ، حقیقت نگاری اس دنیا کا عکس پیش کرتی ہے جو زبان کے ذریعے قائم ہوتی ہے ‘ (Constructed in Language) ظاہر ہے یہ ’تکرار بالمعنی‘ (Tautology) کے سوا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔(نارنگ، ص، ۷۸)گوپی چند نارنگ نے جو اقتباس سرقہ کیا ہے اس میں سے بیلسی کے لفظ ’پوسٹ‘ کو حذف کر دیا ہے جس سے بیلسی کا قائم کردہ معنی متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے صفحہ نمبر کا حوالہ بھی کہیں نہیں دیا گیا۔ دوسرا انھوں نے مندرجہ بالا اقتباس میں ” تکرار بالمعنی” کو واوین میں لکھ کر یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ خاص اصطلاح کسی دوسرے مفکر سے ماخوذ ہے  اور یہ عظیم کام نارنگ صاحب خود سرانجام دے رہے ہیں، ہمارا مطالعہ یہ کہتا ہے کہ نارنگ صاحب نے غلط تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ سارے کا سارا اقتباس، جسے یہاں مختصراً پیش کیا گیا ہے، بیلسی کی کتاب سے ہو بہو ماخوذ ہے۔ مندرجہ بالا تجزیہ کیتھرین بیلسی کا ہے، گوپی چند نارنگ کا نہیں ہے۔مغرب میں بیلسی کی یہ کتاب ایک تعارفی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے، جو برطانیہ میں بی اے کے طلبہ کے لیے تنقیدی نظریات کا مختصر تعارف پیش کرتی ہے۔ یہاں قارئین کے لیے اس امر کا ادراک بھی ضروری ہے کہ گوپی چند نارنگ نے محض ایک ہی اقتباس کو نقل نہیں کیا بلکہ انھوں نے بیلسی کی اسی کتاب سے کئی اقتباسات لفظ بہ لفظ ترجمہ کر کے اپنے نام سے شائع کرائے ہیں۔اب بیلسی کی طرف رجوع کرتے ہیں :

Saussure’s argument depends on the different division of the chain of meaning in different languages. ‘ If words stood for pre-existing concepts’ they would all have exact equivalents in meaning from one language to the next; but this is not true’ (Saussure, 1974: 116). The truth is that different languages divide or articulate the world in different worlds. Saussure gives a number of examples. For instance, where French has the single mouton, English differentiates between mutton, which we eat, and sheep………….(Belsey, 36-37)

نارنگ صاحب کے کارنامے کی طرف دیکھیں : ’’سیو سئر کی دلیل لفظوں کی ان کڑیوں پر مبنی ہے جو ایک تصور کے لیے مختلف زبانوں میں پائے جاتے ہیں۔ ’اگر لفظ ما قبل موجود تصورات کے لیے قائم‘ ہوتے تو ایک زبان سے دوسری زبان میں ان کے معنی متبادل پائے جاتے، لیکن ایسا نہیں ہے، (کورس ص، ۱۱۶) حقیقت یہ ہے کہ مختلف زبانیں دنیا کی چیزوں کو مختلف طور پر دیکھتی  اور ظاہر کرتی ہیں۔سیوسئر نے کئی مثالیں دی ہیں۔فرانسیسی میں ایک لفظ ہے Mouton اس کے برعکس انگریزی اس کے متبادل Mutton اور Sheepمیں فرق کرتی ہے ‘ (گوپی چند نارنگ، ص، ۶۸)۔ طوالت کے باعث اس اقتباس کو بھی مختصر رکھا گیا ہے۔اس اقتباس میں انتہائی قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ بیلسی نے اپنے تجزیے میں سیوسئر کی کتاب سے لیے گئے حوالے کو بشمول صفحہ نمبر پیش کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیلسی سیوسے ئر کا تجزیہ اپنے انداز میں پیش کر رہی ہے۔ نارنگ صاحب یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیوسئر کا حوالہ انھوں نے بیلسی کی کتاب سے اخذ نہیں کیا بلکہ انھوں نے سیوسئر کا براہِ راست مطالعہ کیا ہے۔یہ ادبی بددیانتی کی واضح مثال ہے۔نارنگ صاحب بہرحال اس حوالے سے کافی متحرک واقع ہوئے ہیں کہ انہوں نے کسی ایک کتاب پر ہاتھ صاف نہیں کیا بلکہ کئی کتابوں کو یرغمال بنایا ہے، ایک طرف تو ان کو کتاب کی ضخامت درکار تھی جبکہ دوسری طرف شاید انہیں اپنی ادبی قامت مطلوب تھی۔ان کو یہ بھی احساس تھا کہ اہلِ اردو کی اکثریت جو چند ایک انگریزی کے ناموں سے ہی متاثر ہو جاتی ہے، کئی طرح کی کتابوں کے نام لینے سے کئی دہائیاں ان کے اذہان پر نارنگ صاحب کے کارنامے کا اثر رہے گا۔بہرحال صرف ایک دہائی تک ہی ان کی اس خواہش کی تسکین ہو پائی ہے، اس کے بعد نارنگ صاحب کی ’سچائی‘ کے معیار کے برعکس سچائی کا انکشاف لازمی تھا۔نارنگ صاحب نے مندرجہ بالا تمام مصنفین کا تمسخر اڑانے کے بعد رابرٹ سکولز پر بھی اپنی ’سچائی‘ کو مسلط کیا ہے۔آئیے پہلے سکولز کی طرف چلتے ہیں :

Attempting to distinguish between constant and variable elements in a collection of a hundred Russian fairytales, Propp arrives at the principle that though the personage of a tale are variable, their functions in the tales are constant and limited. Describing function as "an act of a character, defined from the point of view of its significance for the course of the action,” Propp developed inductively four laws which put the study of folk literature and of fiction itself on a new footing. I their baldness and universality, laws 3 and 4 have the shocking effect of certain scientific discoveries: 1. Functions of characters serve as stable, constant elements in a tale, independent of how and by whom they are fulfilled. They constitute the fundamental components of a tale. 2. The number of function known to the fairy-tale is limited. 3. The sequence of functions is always identical. 4. All fairy tales are of one type in regard to their structure. (Morphology of the Folktale, pp. 21,22,23) In comparing the functions of tale after tale, Propp discovered that his total numbers of functions never surpassed thirty-one, and that however many of the thirty-one functions a tale had (none has every one) those that it had always appeared in the same order…. After the initial situation, in which the members of a family are enumerated or the future hero is introduced, a tale begins, consisting of some selection of the following functions in the following order: 1. One of the members of a family absents himself from home. 2. An interdiction is addressed to the hero. 3. The interdiction is violated. 4. The villain makes an attempt at reconnaissance. 5. The villain receives information about his victim. 6. The villain attempts to deceive his victim in order to take possession of him or of his belongings. 7. The victim submits to deception and thereby unwittingly helps his enemy.

. یہ فہرست اکتیس پر جا کر ختم ہوتی ہے۔ مکمل فہرست دینے سے مضمون کی طوالت میں اضافہ ہو جائے گا، جو قطعی غیر ضروری ہو گا۔اگر مکمل فہرست دی جائے تو صفحات کی تعداد تقریباً نو تک چلی جاتی ہے۔اس لئے قاری ان صفحات پر از خود غور کرے، جبکہ نارنگ کے سرقے کی تفصیل میں قلمبند کر رہا ہوں

Scholes, Robert, Structuralism in Literature, New York, Vail-Ballou Press,1974 P, 62-70.

نارنگ صاحب کی حرکت پر توجہ مرکوز کرتے ہیں  ’’پروپ نے ایک سو لوک کہانیوں کا انتخاب کیا  اور اپنے تجزیے سے بتایا کہ کرداروں  اور ان کے ’تفاعل‘ ( FUNCTIONS) کی بناء پر ان لوک کہانیوں کی داخلی ساخت کو بے نقاب کیا جا سکتا ہے،  اور ان کی درجہ بندی کس خوبی سے کی جا سکتی ہے۔ اس نے ان کہانیوں کے مختلف  اور مشترک عناصر کا تجزیہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ان کہانیوں میں اگرچہ کردار بدلتے رہتے ہیں، لیکن کرداروں کا ’تفاعل‘ (FUNCTIONS) مقرر ہے،  اور تمام کہانیوں میں ایک سا رہتا ہے۔ کردار کے تفاعل کو کردار کا وہ عمل قرار دیتے ہوئے جو کہانی کی معنویت کے دوسرے اجزا سے جڑا ہوا ہے، پروپ نے استقراری طور پر چار قوانین مرتب کیے جنھوں نے آگے چل کر لوک ادب  اور بیانیہ کے مطالعے کے نئی دنیا فراہم کر دی۔ آفاقی اطلاقیت  اور صداقت کے اعتبار سے قانون تین  اور چار کو اکثر مفکرین نے سائنسی دریافت کا درجہ دیا ہے

:۱۔کرداروں کے تفاعل کہانی کے راسخ  اور غیر مذبذب عناصر ہیں، قطع نظر اس سے کہ کون ان کو سر انجام دیتا ہے، یہ کہانی کے بنیادی اجزا ہیں۔

۲۔ ’تفاعل‘ کی تعداد کہانیوں میں محدود ہے۔

۳۔ ’’تفاعل‘ کی ’ترجیع‘ (SEQUENCE) ہمیشہ ایک سی رہتی ہے

۴۔باوجود تنوع کے تمام کہانیوں میں ساخت ایک جیسی ہے۔کرداروں کے ’تفاعل‘ (FUNCTIONS) کے اعتبا ر سے ایک کے بعد ایک کہانی کا تجزیہ کرتے ہوئے پروپ اس نتیجہ پر پہنچا کہ کہانیوں میں کرداروں کے ’تفاعل‘ (FUNCTIONS) کی کُل تعداد اکتیس۳۱ سے کسی طرح نہیں بڑھتی، اور اگرچہ بعض کہانیوں میں عمل کی کچھ لڑیاں نہیں ملتیں، لیکن ہمیشہ اُن کی ترتیب وہی رہتی ہے۔۔۔۔۔ابتدائی منظر کے بعد جب گھرانے کے افراد سامنے آتے ہیں،  اور ہیرو کی نشاندہی ہو جاتی ہے تو کہانی ان تفاعل (FUNCTIONS) میں سے سب یا بعض کی مدد سے اسی ترتیب سے بیان ہوتی ہے :

۱۔ خاندان کا کوئی فرد گھر سے غائب ہو جاتا ہے ۔

۲۔ ہیرو کی ممانعت کی جاتی ہے ۔

۳۔ممانعت کی خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔

۴۔ولن جاسوسی کی کوشش کرتا ہے۔

۵۔ولن کو اپنے ’شکار‘ (VICTIM) کے بارے میں اطلاع ملتی ہے۔

۶۔ولن اپنے ’شکار‘ کو دھوکہ دیتا ہے تا کہ اس پر یا اس کے مال و اسباب پر قبضہ کر لے۔

۷۔ ’شکار‘ دامِ تزویر میں آ جاتا ہے  اور نا دانستہ اپنے دشمن کی مدد کرتا ہے۔ (نارنگ، ص، ۱۰۹۔۱۱۰)۔

نارنگ صاحب بھی اس فہرست کو اکتیس تک لفظ بہ لفظ نقل کرنے کے علاوہ سکولز کے تجزیے کو لفظ بہ لفظ نقل کرتے ہوئے صفحہ نمبر۱۱۷ تک لے جاتے ہیں، لیکن کہیں بھی حوالہ دینا ضروری نہیں سمجھتے۔ ان صفحات کے علاوہ نارنگ صاحب اسی کتاب کے مختلف حصوں سے بھی خاطر خواہ اقتباسات کا سرقہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آئیے پہلے انگریزی میں رابرٹ سکولز کے اس اقتباس پر غور کریں:

The last half of the nineteenth century and the last half of the twentieth were characterized by the fragmentation of knowledge into isolated disciplines so formidable in their specialization as to seem beyond all synthesis. Even philosophy, the queen of the human sciences, came down from her throne to play solitary word games. Both the language -philosophy of Wittgenstein and the existentialism of the Continental thinkers are philosophy of retreat……Scholes, Structuralism in Literature, New York, Vail-Ballou Press,1974, p 1.

گوپی چند نارنگ کے مندرجہ ذیل اقتباس کو دیکھئے : ’’انیسویں صدی کے نصفِ آ خر  اور بیسویں صدی نصفِ اوّل میں فکرِ انسانی تخصیص کے مختلف میدانوں میں بٹ بٹا کر اس حد تک پارہ پارہ ہو گئی تھی کہ اس میں کسی طرح کی کوئی شیرازہ بندی ممکن نظر نہیں آتی تھی۔  اور تو  اور خالص فلسفہ بھی جسے علومِ انسانیہ کا بادشاہ کہا جاتا ہے، وہ بھی لفظوں کے الگ تھلگ پڑ جانے والے کھیل میں لگ چکا تھا ۔وٹگنسٹائن کا فلسفہ لسان ہو یا یورپی مفکرین کی وجودیت، اصلاً یہ سب مراجعت کے فلسفے ہیں )ص، ۳۴ (۔اس اقتباس میں سکولز بیسویں صدی کی اس صورتحال کو اپنے زاویے سے بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مسٹر نارنگ اگر ان مغربی تحریکوں سے براہ راست واقفیت رکھتے تو شاید اس سے مختلف نتائج اخذ کرتے۔ بیسویں صدی میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ہونے والی تباہی کے ہندوستان پر بھی اثرات مرتب ہوئے تھے۔ نارنگ صاحب کو اس امر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ تو یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہوں نے وٹگنسٹائن کا مطالعہ کیا ہے۔اگر یہ خود وٹگنسٹاین  کا مطالعہ کرنے کی زحمت فرماتے تو مختلف نتائج اخذ کر سکتے تھے مگر وہ سکولز پر پختہ اعتقاد رکھتے ہیں۔ اس کے نتائج کو نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی حتمی قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ رابرٹ سکولز کی مذکورہ بالا کتاب سے مسٹر نارنگ نے اپنی کتاب کے کئی ابتدائی صفحات نقل کیے ہیں۔اس کے علاوہ سیوسئر  اور ساختیات پر لکھا گیا سارا مواد اسی کتاب کا لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے۔ رابرٹ سکولز نے اس کتاب میں ساختیات کی حمایت میں لکھا ہے۔یہ ان کا تجزیہ ہے جسے مدلل طریقے سے مسترد بھی کیا جا سکتا ہے۔ اُنیسویں  اور بیسویں صدی کے سماجی، سیاسی یا پھر معاشی کشمکش کے نتیجے میں نظریات کی تخریب  اور تشکیل کے بعد جو ساختیاتی ماڈل انھوں نے ماہرِ لسانیات سیوسیرسے مستعار لیا ہے اس کا انہدام بھی پسِ ساختیات کے مباحث کے آغاز کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ اس وقت کئی مفکر خود کو ساختیات کا حامی کہنے سے کترانے لگے۔ مختصر یہ کہ یہ تجزیہ شولز کے مکتبۂ فکر کا نقطۂ نظر ہے۔

ریڈیکل مارکسی مفکرین اس اجتماعی تناظر کی مختلف طرز پر تشریح و تجزیہ پیش کرتے ہیں جو پوسٹ ماڈرن تھیوری کے حوالے سے مضبوط بھی ہے  اور موثر بھی۔ سوال یہ ہے کہ گوپی چند نارنگ کہاں کھڑے دکھائی دیتے ہیں ؟۔۔۔۔۔برطانوی سوشل مفکر کرسٹو فر نورس لکھتے ہیں :

Derrida’s professional training was as a student of philosophy (at the Ecol Normale Superieure in Paris, where he taught until recently), and his writings demand of the reader a considerable knowledge of the subject. Yet Derrida’s texts are like nothing else in modern philosophy, and indeed represent a challenge to the whole tradition and self-understanding of that discipline. Norris, Christopher. Deconstruction.3rd ed, London, Routledge,2002, P18-19)

نارنگ صاحب لکھتے ہیں : ’’تربیت کے اعتبار سے بھی دریدا فلسفی ہے،  اور اس وقت بھی وہ۔۔Ecol Normale Superieure, Paris میں فلسفے کا استاد ہے۔ نیز اس کی تحریروں کو فلسفے کی بنیادی باتوں کو جانے بغیر سمجھنا بھی ناممکن ہے۔تاہم دریدا کی تحریروں کو فلسفے میں شمار کرنا بھی مشکل ہے، اس لئے کہ فلسفے میں دریدا کی تحریروں کے مماثل کوئی چیز نہیں ملتی، کیونکہ وہ پوری فلسفیانہ روایت کو  اور ان بنیادوں کو جن پر فلسفہ بحیثیت ضابطہ علم قائم ہے، چیلنج کرتا ہے ‘‘ (نارنگ، ص ۲۱۷)۔

۔۔۔

کرسٹوفر نورس لکھتے ہیں :

Derrida refuses to grant philosophy the kind of privileged status it has always claimed as the sovereign dispenser of reason. Derrida confronts this pre-emptive claim on its own chosen grounds. He argues that philosophers have been able to impose their various systems of thought only by ignoring, suppressing, the disruptive effects of languages. His aim is always to draw out these effects by a critical reading which fastens on, and skillfully unpicks, the elements of metaphor and other figural devices at work in the texts of philosophy. Deconstruction in this, its most rigorous form acts as a constant reminder of the ways in which language deflects or complicates the philosophers project. Above all deconstruction works to undo the idea-according to Derrida, the ruling illusion of Western metaphysics- that reason can somehow dispense with language and achieve a knowledge ideally unaffected by such mere linguistic foibles. Norris, P18-19)

گوپی چند نارنگ کی کتاب کے اس اقتباس پر غور کریں

: ’’دریدا فلسفے کو بحیثیت ضابطہ علم یہ آمرانہ درجہ دینے کو تیار نہیں کہ فکرِ انسانی کے جملہ حقوق فلسفے کے نام محفوظ کر دیے جائیں۔اس کا دعوی ٰ ہے کہ فلاسفہ اپنے نظام ہائے فکر کو مسلط کرنے کے لیے زبان کے داخلی تضادات کو دباتے، پسِ پشت ڈالتے یا نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ دریدا اپنے ردِ تشکیلی مطالعات میں فلسفے کی ان کمزوریوں  اور معذوریوں کو نمایا ں کرتا ہے۔ وہ بار بار نہایت سختی سے یاد دلاتا ہے کہ زبان کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ فلسفی کے کام کو مشکل سے مشکل تر بناتی ہے۔ اگرچہ مغربی ما بعد الطبیعات میں یہ خیال عام رہا ہے کہ فکر انسانی کسی نہ کسی طرح زبان سے چھٹکارہ پا سکتی ہے  اور سچائی کو بیان کرنے کا کوئی خالص  اور مستند طریقہ وضع کر سکتی ہے۔۔۔(ص، ۲۱۸۔۲۱۷) کرسٹوفر نورس سوشل فلاسفر ہونے کی حیثیت سے فلسفے کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔اس لئے وہ کوئی ایسا انتہا پسندی پر مبنی بیان جاری نہیں کرتے، جس سے فلسفے کی غیر ضروری تضحیک کی جائے۔مندرجہ بالا اقتباس میں جہاں پر انہوں نے ڈیکنسٹرکشن کے حوالے سے فلسفے کا ذکر کیا ہے، وہاں پر انہوں نے واضح الفاظ میں ’’دریدا کے مطابق‘‘ لکھ دیا ہے۔نارنگ صاحب کی اگر اب تک کی تصانیف کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے مضامین میں کسی بھی فلسفی کے افکار پر بحث نہیں اٹھائی۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ فلسفے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، جو ان کے اس اقتباس سے واضح ہے ’’لیکن دریدا ناقابلِ تردید طور پر ثابت کرتا ہے کہ فلسفے کی یہ توقع واہمے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی،  اور فلسفے کا زبان کے شکنجے سے آزاد ہونا قطعاً ناممکن ہے ‘‘ (ص۲۱۸)۔یہ سوال انتہائی بچگانہ ہے کہ زبان کے بغیر کسی قسم کا کوئی خیال پیش کیا جا سکتا ہے، یا کسی معروض کو اس کے تمام تر یا کسی بھی پہلو کو بیان کیا جا سکتا ہے۔اس کے لئے دریدا سے کسی مصدقہ سند کی ضرورت نہیں ہے۔تفکراتی فلسفے میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ ڈیکنسٹرکشن جیسی تھیوریوں کو بآسانی خود میں سمیٹ سکے۔ ابھی تک مغرب میں صرف ما بعد جدید مفکروں بالخصوص دریدا کی ڈیکنسٹرکشن تفکراتی فلسفے کے خلاف عمل آراء ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ڈیکنسٹرکشن ہیگلیائی کلیت یا  لازمیت کو رد کر سکی ہے یا دلائل کی بنا پر اس کو غلط ثابت کر سکی ہے یا اس کی حدود کا تعین کر پائی ہے ؟نارنگ صاحب بھی مغربی ما بعد جدیدیت کے علم برداروں کی تقلید میں یہ نعرہ بھی بلند کر چکے ہیں کہ ’’ما بعد جدیدیت ہر طرح کی کلیت پسندی کو رد کرتی ہے۔‘‘ رد کیوں  اور کیسے کرتی ہے ؟ اس کے بارے میں نارنگ کے علاوہ کسی بھی نقاد کے پاس کہنے کو چار فقرے تک نہیں ہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ ادب سے زیادہ فلسفے کا مسئلہ ہے  اور فلسفے کے مباحث کا اُردو میں فقدان رہا ہے۔

اُردو میں ان لوگوں کو فلسفی تصور کر لیا گیا ہے جو فلسفے سے زیادہ تصوف کی تبلیغ پر کمر بستہ رہے ہیں۔نارنگ صاحب کا مغرب کے کسی شارح کو بنیاد بنا کر ہیگلیائی کلیت یا لازمیت کے سوال کو بطور ’سچائی‘ پیش کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ اس کی حیثیت بھی نارنگ صاحب کے اپنے ’سچائی‘ کے معیار سے مختلف نہیں ہے۔جہاں تک ژاک دریدا کا تعلق ہے تو وہ تمام زندگی ہیگل کا معتقد رہا ہے۔جن اصحاب نے ہیگل کا توجہ سے مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ ہیگل کے لئے ’افتراق‘ کی حیثیت تضاد کی بنا پر حتمی ہے، لیکن ہیگل کے تضاد کی تحلیل ہو جاتی ہے، یعنی نفی کی نفی، لیکن افتراق ہر وقت برقرار رہتا ہے۔ اس طرح ہیگل کا افتراق ایک منزل طے کر کے بھی حتمی رہتا ہے۔ دریدا ہیگل کے افتراق کی جگہ اپنے Differenceکو شامل کر لیتا ہے، جس کا کام افتراق کی حتمیت کی بنا پر شناخت کو روکنا ہے۔ اسی نکتے پر ژاک دریدا، ہیگل کی عظمت کو ان الفاظ میں تسلیم کرتا ہے، Difference (at a point of almost absolute proximity to Hegel, as I have emphasised…. (Positions, 1982, P44). مغرب میں اس طرح کی فضا قائم ہو گئی ہے کہ جہاں ادبی و تنقیدی تھیوریوں کے حوالے سے نظریہ ساز اپنی حیثیت کو سیاست کے حوالے سے واضح کرنا بہت ضروری سمجھتے ہیں۔اسی طرح ان کے شارحین کو پروپیگنڈا کرنے کا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ان کا کام ہی یہ ہے کہ وہ مختلف افکار کو بورژوازی کے مفادات کی روشنی میں واضح کریں۔مغربی نظریوں کے حوالے سے اس پس منظر کو سامنے رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ انسانی ذہن کے اندر جنم لینے والے خیالات کی اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں ہوتی جب تک ان کی کوئی عملی شکل موجود نہ ہو۔پس ساختیاتی رجحان کے وجود میں آتے ہی اسے سماجی، سیاسی،  اور معاشی تھیوری کا حصہ سمجھ لیا گیا۔جامعات میں اس پر مباحث اٹھائے گئے۔ سماجی رجحانات کو پسِ ساختیات کی رو سے جاننے کی کوشش کی گئی، جسے ما بعد جدیدیت کا نام دیا گیا، تاکہ عمل میں  اس کی حقیقت کھل سکے۔ کیا نارنگ صاحب جانتے ہیں کہ ہیگل کی کلیت پسندی کیا ہے ؟ اگر انہیں اس بات کا یقین ہے کہ ما بعد جدیدیت ’کلیت پسندی‘ کے خلاف ہے تو خود ایک مضمون تحریر کریں جس میں اس امر کو واضح کریں کہ ان کی ما بعد جدیدیت کیسے کلیت پسندی کو رد کرتی ہے ؟جہاں تک دریدا کا تعلق ہے تو وہ یہودیت کے تناظر میں کلیت پسندی سے نجات چاہتا ہے۔یہ فکر اڈورنو سے جنم لیتی ہوئی دریدا تک پہنچتی ہے، ان مفکروں کو یقین تھا کہ ہولوکاسٹ کو نظری جواز تفکراتی فلسفے (ہیگلیائی جدلیات)نے مہیا کیا ہے، کیونکہ وہ معروض (دوسرا)کو اس کی اپنی حرکت میں دیکھنے کی بجائے اس کو اپنی حرکت(پہلے ) کے مطابق ڈھالنے کی سعی کرتی ہے  اور یہ عمل صرف نظریے کی شکل میں تفکر کے ذریعے طے ہوتا ہے، اس لئے اصل کی حقیقت مخفی رہتی ہے۔عدم شناخت کے یہ تصورات ہیگل کے فلسفے میں پہلے سے موجود تھے۔ اڈورنو اس حوالے سے ہیگل کے تضادات کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہندستانی تناظر میں ڈیکنسٹرکشن اہم ہے یا ہیگل کی کلیت؟ اس امر پر بحث کی ضرورت ہے۔ دریدا یا پسِ ساختیات کا کردار اس لئے بھی زیادہ اہم نہیں ہے کہ اس کی حیثیت سماجی عوامل سے کٹنے کی وجہ سے تجریدی ہو جاتی ہے۔بہرحال اس بار نارنگ یا ان کے ہم خیال ساتھیوں کو سرقے سے گریز کر کے یہ واضح کرنا چاہیے کہ ان کے تناظر میں کس فلسفے سے مطابقت قائم کی جا سکتی ہے  اور کس کا کلی یا جزوی استرداد ضروری ہے ؟ہیگلیائی کلیت نارنگ یا ان جیسے کسی دوسرے خیال پرست کے ذہن میں تشکیل نہیں پاتی۔ہیگل اس کو ’جوہر‘ میں تلاش کرتا ہے۔ہیگل کے لئے اہمیت ’حسی تیقن‘ کی ہے لیکن اس تیقن سے قبل ہی وہ سپرٹ کی مظہریت کو تصور کرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہیگل کے ’تصور‘ میں شعور کی موجودگی سے معروض کی اپنی جدلیاتی حرکت متاثر ہوتی ہے، لیکن اس پہلو سے آسانی سے یہ کہنا مشکل ہے کہ ہیگل خیال پرست ہے یا وہ صرف شعور ہی کے ذریعے حقیقت کو مسخ کرتا ہے۔ لینن اپنی ’فلسفیانہ نوٹ بک‘ میں ہیگل کی مختصر منطق‘ کا بھر پور تجزیہ پیش کرتے ہوئے اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ ’’سوچ کو معروض کی حرکت میں جاننا ہے لیکن سوچ کو جدلیاتی انداز اختیار کرنا چاہیے۔۔۔ حسیات حرکت کو بحیثیت کل نہیں جان سکتیں، لیکن سوچ ایسا کر سکتی ہے  اور اسے ایسا کرنا چاہیے ‘‘ (ص، ۲۲۷)۔لینن، ہیگل کی خیال پرستی کو ان الفاظ میں واضح کرتے ہیں کہ حسیاتی انعکاس سے حاصل کی گئی سوچ، حقیقت کو منعکس کرتی ہے ؛ زمان معروضی حقیقت کے وجود کی شکل ہے۔لیکن ہیگل ایسا زمان کے تصور میں نہ کہ نمائندہ حسیات کی سوچ سے تعلق کی بناء پر خیال پرست ہے۔لینن انتہائی با کمال طریقے سے ہیگل کی خیال پرستی کو واضح کرتے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ خیال پرست فلسفیوں کے لئے (برکلے وغیرہ) ہیگل خیال پرست نہ ہو۔یہاں پر ما بعد جدید مفکر(سرقے باز نہیں ) یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ وہ ’شعور‘ کی بحث میں الجھنا ہی نہیں چاہتے، کیونکہ ان کو تو زبان کے حوالے سے ’بھگوان‘ کے آشیر باد سے قدیم ’سچائی‘ کی اشاعت کا لائسنس جاری ہو چکا ہے۔اس طرح تو عین ممکن ہے کہ وہ زندگی کے تمام فیصلے بھی زبان کے فونیم کی ’کریپا‘ سے کرنا چاہیں۔ نارنگ صاحب دو چار اقوال سن کر فتوے صادر فرما رہے ہیں۔ ما بعد جدید مفکروں کی اندھی تقلید میں ہر اس فلسفے کو صرف فیشن کے طور پر مسترد کر دینا چاہتے ہیں، جو تناظر کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ ان کے لئے لازم ہے کہ وہ ان فلسفیانہ قضایہ کا علم حاصل کریں  اور مغربی تھیوریوں پر اپنی حیثیت کو اپنے تناظر میں واضح کریں۔علمی قضایا کی بحث میں الجھنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ نارنگ صاحب کو ان کے سرقے کے بارے میں یاد دہانی کرائی جائے۔ویسے اگر نارنگ صاحب کو سرقے سے فرصت ملتی تو شاید ان قضایا کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ ایک  اور اقتباس کو دیکھتے ہیں۔ کرسٹوفر نورس لکھتے ہیں

، In this sense Derria’s writings seem more akin to literary criticism than philosophy. They rest on the assumption that modes of rhetorical analysis, hitherto applied mainly to literary texts, are in fact indispensable for reading any kind of discourse, philosophy included. Literature is no longer seen as a kind of poor relation to philosophy, contenting itself with mere fictive or illusory appearances and forgoing any claim to philosophic dignity and truth. This attitude has, of course, a long prehistory in Western tradition. It was Plato who expelled the poets from his ideal republic, who set up reason as a guard against the false beguilements of rhetoric, and who called forth a series of critical ‘defenses’ and ‘apologise’ which runs right through from Sir Philip Sydney to I. A. Richards and the Americans new critics. The lines of defence have been variously drawn up, according to whether the critic sees himself as contesting philosophy on its own argumentative ground, or as operating outside its reach on a different – though equally privileged – ground. (Norris,P19)

نارنگ صاحب اس اقتباس سے متاثر ہو کر کیا کمال دکھا رہے ہیں : ’’اس نظر سے دیکھا جائے تو فلسفے سے زیادہ ادب کی ذیل میں آتی ہیں، اس کا بنیادی ایقان یہ ہے کہ لسانی یا بدیعی تجزیہ جو فقط ادبی متن کا منصب سمجھا جاتا ہے، وہ درحقیقت کسی بھی بیان(discourse )بشمول فلسفیانہ بیان کے سنجیدہ مطالعے کے لئے ضروری ہے۔دریدا کا موقف ہے کہ ادب فلسفے کا دور کا رشتہ دار نہیں، جس کو فلسفی محض لفظوں کے تخیلی توتے مینا بنانے والے ضابطے کے طور پر رد کرتے رہے ہیں، بلکہ سچائی کا حصہ دار ہونے کے ناطے ادب اسی عزت و افتخار کا مستحق ہے جو فلسفے کے لئے مخصوص ہے۔ اتنی بات معلوم ہے کہ افلاطون نے ادیبوں، شاعروں کو اپنی مثالی ریاست سے اسی لئے خارج کر دیا تھا کہ عقل کے مقابلے میں ادب کی مجازیت قابلِ برداشت نہ تھی۔ سر فلپ سڈنی سے لے کر رچرڈز  اور نئی تنقید تک ادب کی آزادانہ حیثیت کا دفاع کیا جاتا رہا ہے۔۔۔۔۔‘‘ (نارنگ، ص، ۲۱۸)۔نارنگ صاحب نے یہاں پر نورس کے لفظ ’امریکی‘ کو حذف کر دیا ہے، کہیں اُردو والے امریکہ کے نام سے ناراض نہ ہو جائیں۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ڈسکورس کو انگریزی میں لکھ دیا ہے، جس سے یہ تاثر ابھرے کہ نارنگ صاحب خود یہ تجزیہ پیش کر رہے ہیں جہاں انہوں نے ضروری سمجھا انگریزی لفظ کا استعمال بھی کر دیا۔راقم کا یہ دعویٰ ہے کہ گوپی چند نارنگ کی کتاب میں دریدا  اور ردِ تشکیل پر لکھا ہوا تمام مواد کرسٹوفر نورس کی کتاب سے ہو بہو ترجمہ ہے۔آئیے ایک  اور اقتباس پر غور کریں۔کرسٹوفر نورس لکھتے ہیں :

The counter-arguments to deconstruction have therefore been situated mostly on commonsense, or ‘ordinary-language’ ground. There is support from the philosopher Ludwig Wittgenstein (1889-1951) for the view that such sceptical philosophies of language rest on a false epitemology, one that seeks (and inevitably fails) to discover some logical correspondence between language and the world. Wittgenstein himself started out from such a position, but came round to believing that language had many uses and legitimating ‘grammars’, non of them reducible to a clear-cut logic of explanatory concepts. His later philosophy repudiates the notion that meaning must entail some one-to-one link or ‘picturing’ relationship between propositions and factual status of affairs. Languages now conceived of as a repertoire of ‘games’ or enabling conventions, as diverse in nature as the jobs they are require to do (Wittgenstein 1953). The nagging problems of philosophy most often resulted, Wittgenstein thought, from the failure to recognise multiplicity of language games. Philosophers looked for logical solutions to problems which were only created in the first place by a false conception of language, logic and truth. Scepticism he argued, was the upshot of a deluded quest for certainty in areas of meaning and interpretation that resist any such strictly regimented logical account. (Norris, P127-128).

نارنگ صاحب کی ’لسانیاتی چال‘ دیکھیں : ’’دریدا کی ردِ تشکیل کے خلاف جتنی بھی بحث کی گئی ہے وہ عام زبان  (ORDINARY-ANGUAGE) کے نکتۂ نظر سے کی گئی ہے۔خاطر نشان رہے کہ ایسے لوگوں سے پہلے لدو گ وٹگنسٹائن۔۔(LUDWIG WITTGENTEIN 1889 – 1951)کہہ چکا ہے کہ زبان سے متعلق متشککانہ نظریے اس جھوٹی علمیات (EPISTEMOLOGY) کا حصہ ہیں جو زبان  اور اشیاء میں کسی نہ کسی طرح کا منطقی ربط پیدا کرنا چاہتی ہے۔وٹگنسٹائن نے خود اپنا فلسفیانہ سفر اسی تشکیک سے شروع کیا، لیکن بعد میں وہ اسی نتیجے پر پہنچا کے زبان کے کئی طرح کے استعمال ہیں، جن سے کئی طرح کی گرائمریں پیدا ہوتی ہیں،  اور ان میں سے کوئی بھی گرائمر منطق کے صاف شفاف اصولوں کی سطح پر نہیں لائی جا سکتی۔وٹگنسٹائن کا فلسفہ اس بات کی تردید ہے کہ زبان میں لفظ  اور شئے میں ایک  اور ایک کا رابطہ ہے۔وہ زبان کا تصور ایک ایسے نظام کے طور پر کرتا ہے جس میں طرح طرح کے مقاصد کے لئے طرح طرح کے کھیل کھیلے جاتے ہیں وٹگنسٹائن کا کہنا ہے کہ فلسفے کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ زبان کی کثیرالمعنیت کو زیرِ دام نہیں لاس کتا۔ فلاسفہ کو مسائل کے منطقی حل کی ضرورت ہوتی ہے، اور تشکیک تیقن کی کھوج کا نتیجہ ہے کیونکہ معنی کی منطقی تحلیل ممکن نہیں۔ غرض بقول وٹگنسٹائن وہ تمام متشککانہ فلسفے جو زبان، منطق  اور حقیقت کے درمیان مختلف النوع مطابقتوں کو نہیں دیکھ سکتے، حیرت کا شکار ہونے پر مجبور ہیں۔‘‘ (نارنگ، ص، ۲۱۹)۔اس پیراگراف کے بعد کرسٹو فر نورس، وٹگنسٹائن کے فلسفے کی روشنی میں ردِ تشکیل کے خلاف بحث کا آغاز کرتے ہیں۔ کرسٹوفر نورس نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ وٹگنسٹائن بطور فلسفی سیوسئیر  اور ما بعد سیوسئیری لسانیاتی نظریے میں کن نقائص کو دیکھتا ہے ؟نارنگ صاحب وٹگنسٹائن کی سیوسئیر پر فلسفیانہ تنقید کو پیش کرنا مناسب نہیں سمجھتے، کیونکہ اس طرح نارنگ صاحب کی ساختیات کی تبلیغ متاثر ہو جاتی۔اسی لئے نارنگ صاحب کو وٹگنسٹائن کی تنقید پسند نہیں آئی۔ انہیں تو صرف ان پیراگراف کا سرقہ مقصود تھا جوان کے نزدیک ردِ تشکیل کی سچائی ثابت کرنے کے لئے ضروری تھا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ نارنگ صاحب کا کوئی بھی مسروقہ اقتباس ’’واوین میں نہیں ہے، لیکن مندرجہ بالا اقتباس کے بعد والے اقتباس کو واوین میں لکھتے ہیں، گو کہ یہ اقتباس بھی انہوں نے نورس کی کتاب ہی سے اٹھایا ہے۔ نارنگ وٹگنسٹائن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’اگر تم ہر چیز پر شک کرنے لگو گے تو پھر تم کسی چیز پر بھی شک نہ کر سکو گے۔ہر شک کی تہہ میں تیقن ہوتا ہے ‘‘ )نارنگ، ص، ۲۱۹(۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نارنگ کو اس امر کا ادراک ہے کہ کس طرح انہوں نے قاری کی آنکھوں میں دھول جھونکنی ہے۔ اسی لئے ایک ہی صفحے پر لکھے گئے اقتباسات میں سے صرف دو جملوں کو ہی واوین میں دکھاتے ہیں جبکہ بیشتر حصے کو اپنی ’تجزیاتی بصیرت‘ کا کرشمہ ثابت کر رہے ہیں۔

نارنگ صاحب کے اس طرح سرقہ کرنے کے بعد اس خیال کا ذہن میں ابھرنا جائز ہے کہ اگر نارنگ صاحب خود ما بعد جدید تھیوری کو نہیں سمجھ سکے تو طالب علموں کو کیسے سمجھا سکتے ہیں ؟ اگر وہ خود اس تھیوری کو سمجھ چکے ہوتے تو لفظ بہ لفظ سرقے کی ضرورت پیش نہ آتی۔اگر تھیوری کو سمجھ کر اسے مغربی پس منظر میں بیان کرتے، یعنی ماڈرنٹی کے امتیازی اوصاف جو اسے پوسٹ ماڈرنٹی سے الگ کرتے ہیں، اس کے بعد برِصغیر کی سماجی یا ثقافتی صورتحال کے ساتھ اس کا موازنہ  اور ان امتیازات کی نشاندہی جو ان دونوں تناظر میں موجود ہیں۔ اس صورت میں یہ نارنگ صاحب کا ایک اہم کارنامہ تصور کیا جاتا۔مشکل فکر پر مبنی کتابوں کے بارے میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی مفکر تعارف پیش کرتا آیا ہے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کتاب کے مشکل مفہوم کو اس طرح پیش کیا جائے کہ دوسروں کے لئے اسے سمجھنا آسان ہو جائے۔جہاں تک فلسفیوں یا عالموں کا تعلق ہے تو ان کے باطن میں علمی تجسس کی شدت ہی اس قدر ہوتی ہے کہ وہ براِ ہ راست ا صل ذرائع کا فہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ الفارابی لکھتا ہے کہ اس نے ارسطو کی شہرۂ آفاق تصنیف ’میٹافزکس‘ کا چالیس بار مطالعہ کیا لیکن پھر بھی اسے سمجھ نہ پایا۔اس طرح مغربی فلسفی شوپنہ اور کہتا ہے کہ وہ کانٹ کی بے مثل تصنیف ’’تنقید عقل محض‘‘ کو اسّی بار پڑھنے کے بعد سمجھ پایا۔اُردو کے ’عالموں ‘ سے یہ توقع کرنا بے کار ہے کہ وہ کسی فلسفیانہ کتاب کو چند بار پڑھنے کے بعد اگر تفہیم نہیں ہو سکی تو اس کو دو بارہ سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ ان کے نزدیک کسی مفکر کے پیش کردہ تعارف کو بغیر تفہیم کے اپنے نام سے منسوب کر دینا زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔گوپی چند نارنگ نے جو حرکت کی ہے وہ بھی اسی ذیل میں آتی ہے۔ اگر وہ ما بعد جدید تھیوری کو سمجھ چکے ہوتے تو اس کے بعد اسے اپنے الفاظ میں بیان کرنا مشکل نہ ہوتا۔اس طرح ان پر سرقے کی مصدقہ مہر بھی چسپاں نہ ہو پاتی۔اگر وہ ما بعد جدید تھیوری کو اس کے تناظر یعنی ان تمام تر سماجی، سیاسی  اور معاشی تضادات کی روشنی میں اورمغربی مفکروں کے افکار کو تجریدی انداز میں نہیں بلکہ ان کے تناظر کو سمجھنے کی سعی کے طور پر پیش کرتے تو اُردو کے طالب علم کے لئے تھیوری کا پسِ منظر عیاں ہونے سے تاریخ، سماج  اور معیشت جیسے عوامل کی اہمیت سماجی تشکیل کے حوالے سے قابلِ تفہیم ہوتی۔نارنگ صاحب نے جو طریقہ ء کار اختیار کیا ہے، ایک طرف تو وہ کھلم کھلا سرقہ ہے دوسری طرف انہوں نے ما بعد جدید تھیوری کو جنم دینے والے تضادات کو نظر انداز کر کے ما بعد جدید تھیوری کو مکمل طور پر تجریدی رنگ میں نہ صرف پیش کیا ہے، بلکہ اسے قبول بھی کیا ہے۔ جہاں تک نارنگ صاحب کی اپنی علمیت کا سوال ہے تو ظاہر ہے کہ جو شخص صرف سرقہ ہی پیش کر سکا ہے  اور ظاہر ہونے کے بعد سرقے کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے تو اس کا محرک یقیناً علم سے محبت نہیں بلکہ شخصیت پرستی کا پہلو ہے۔ مغربی زر خرید دانشوروں کی تقلید میں شخصیت پرستی کے پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے سبجیکٹ کے ختم ہونے کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ جبکہ اسی سبجیکٹ پر شخصیت پرستی کے تمام تصور کی بنیاد ہے، اگر یہ تصورِ سبجیکٹ ختم ہو گیا ہے، تو وہ کون سی حتمی شناخت قائم کرنے کا داعی ہے ؟ نارنگ صاحب کو تو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ عدم شناخت کا تمام تصور ہی بے کار ہے۔لیکن سب سے پہلے یہ ہمیں ہر انسان کے باطن میں ملتا ہے، جو سماجی عوامل کی مطابقت یا عدم مطابقت سے کمزور یا مضبوط ہوتا ہے۔ شناخت کا تصور، جس کے خلاف ما بعد جدید مفکر برسرِ پیکار ہیں، وہ ہمیں ہیگل کے فلسفے میں ملتا ہے، مگر اس مفہوم میں نہیں کہ جس میں اسے پیش کیا جا رہا ہے، بلکہ اس تصور کو مغربی بورژوائی کے مفادات سے ہم آہنگ کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔ ہیگل کے لئے ’دوسرا‘ اہم ہے، اس کا استحصال نہیں ہو سکتا، گو کہ ہیگل کے لئے یہ تصور خیال پرستانہ انداز میں موجود ہے۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہیگل معروضی تقاضوں کے تحت انسانی پیداواری عمل کی قوت سے آگاہ نہیں تھا۔یہ درست ہے کہ ہیگل کا ’تصور‘ کافی حد تک عمل کے برعکس تفکر کے ذریعے تبدیلی کا خواہاں ہے۔مارکس نے ہیگل کی کتاب ’سپرٹ کی مظہریات‘ میں محنت سے وابستہ اس پہلو کو دیکھ لیا تھا۔  اور اس کی اتھاہ گہرائی میں اتر کر تفکراتی فلسفے کی بجائے تبدیلی کو عمل سے مشروط کر دیا۔ژاک دریدا بھی مارکس کی تفکر کے برعکس عمل میں تبدیلی کے عمل کو واضح طور پر دیکھتا ہے مگر وہ ہیگل کے فلسفے میں ان عوامل کو نہیں دیکھ سکا جو مارکس نے کافی عرصہ قبل دیکھ لئے تھے (دریدا کے اس پر ذکر کے حوالے سے دیکھیے ’پوزیشنز‘ صفحہ نمبر، ۴۳)۔دریدا جانتا ہے کہ تفکراتی فلسفے پر حملہ کرنا آسان ہے، اسی وجہ سے اس کا حملہ اسے اس مقام پر لے جاتا ہے جہاں پر ژاک دریدا صرف  اور صرف خیال پرست بن کر ہی سامنے آتا ہے، کیونکہ وہ بھی تفکراتی جدلیات کو عمل کے برعکس زبان میں ہی تلاش کرتا ہے۔جہاں تک مارکس، اینگلز  اور لینن کا تعلق ہے تو ان کے خلاف دریدا کوئی بھی حتمی بیان جاری نہیں کرتا۔ وہ جانتا ہے کہ مارکس یا لینن کا شعور ہیگل کے  شعور سے بنیادی طور پر مختلف ہے اس لئے اس کوDifferanceکے احاطے میں گھسیٹنا درست نہیں ہے، سماجی سطح پر مادی جدلیات بنیادی طور پر پیداواری عمل  اور انسانوں کے عمل سے جنم لینے کی وجہ سے تفکراتی جدلیات سے مختلف ہے، جس میں عامل عمل کے دوران نہ صرف خارجی صورتحال کو پیش نظر رکھتا ہے بلکہ وہ خود کو عمل  اور اس عمل کو نظریائے جانے کے عمل کو بھی تجزیے میں شامل کرتا ہے۔اس طرح وہ خود تجزیے کے دوران تجزیے میں داخلی  اور معروضی حوالوں سے شامل ہوتا ہے۔معروضیت سے یہاں مراد تجزیے کے عمل کی معروضیت سے بھی ہے۔دریدا کہتا ہے :

But it is true that in Marx, as in Engels and Lenin, the putting into question of the self-certainty of consciousness is not "based on Difference”.(Position,P62)

اگر مارکس  اور اینگلز کا قائم کردہ تصورِ شعور، جو سماجی حرکت سے تشکیل پاتا ہے، وہ نہیں ہے جو ساختیاتی خیال پرست یقین کرتے ہیں تو دریدا کی مارکسیت پر تنقید یا دریدا کے مبلغوں کی مارکسیت پر اپنی اذعانی طبع کے تحت فضول قسم کی تنقید کاکوئی جواز موجود نہیں رہ جاتا، کیونکہ دریدا کے فلسفے میں Differance کا کردار بنیادی ہے جو ’التوا‘  اور ’مختلف‘ کے راستے میں حائل رہتا ہے  اور شناخت کو قائم نہیں ہونے دیتا۔ دریدا واضح الفاظ میں یہ اعتراف کرتا ہے کہ ’’مارکسیت کے خلاف وہ کچھ نہیں کہہ رہا کیونکہ وہ اس کا قائل ہے ‘‘ (ایضاً، ص، ۶۳)۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ دریدا کو مادیت پسند تصور کیا جائے۔خود کو مادیت پسند کہنے سے مادیت کا کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ مادیت کا مسئلہ یہ ہے کہ خارجی عمل کو کچھ اس طرح نظریایہ جائے کہ مادیت کا تصور ذہن سے ابھرنے کی بجائے خارجی حقیقت  اور اس تک پہنچنے والے عمل کا احاطہ کر لے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو دریدا کی بجائے اڈورنو اپنے فلسفے کے تمام تر نقائص کے باوجود مادیت پسند ہے۔ہیگل پر اڈورنو کی تنقید اس کا واضح ثبوت ہے۔ دریدا کے برعکس خارجی دنیا اڈورنو کے لئے اسی لئے اہم ہے کہ وہ مادیت کی تلاش میں ما بعد الطبیعات کی آغوش میں پناہ نہیں لیتا۔ اڈورنو کا لوکاچ پر حملہ بھی اس کے ’شعور‘ کے خلاف ردِ عمل کا نتیجہ ہے، اسی وجہ سے پرولتاریہ کی شعور کے ذریعے ہوئی علمیاتی تفریق کو اڈورنو تنقید کا نشانہ بناتا ہے، لوکاچ کے لئے شناخت انقلاب کے لئے ضروری ہے گو کہ وہ سماجی کے برعکس شعوری ہے۔ اڈورنو کے نزدیک تفکراتی شناخت کا ہر تصور معروض کی خود میں شناخت ختم کرنے کے مترادف ہے۔ (یہاں پر یہ واضح رہے کہ اڈورنو  اور دریدا دونوں یہودی ہیں  اور دونوں کے لئے ’دوسرے ‘ کا سوال اہم تھا، دونوں ’دوسرے ‘ کو ہیگلیائی کلیت سے نجات دلوانا چاہتے تھے )۔  وہ اس حقیقت سے باخبر ہے کہ مادی جدلیات میں سچائی (نارنگ صاحب کی سچائی نہیں ) کی حیثیت اضافی  اور محدود ہے جو خود کو معروضی حرکت سے مطابقت قائم کرنے کے عمل میں تقویت بخشتی ہے۔مادی جدلیات معروض کو جمود کے برعکس اس کی حرکت میں دیکھتی ہے، جس میں حرکت ہمہ وقت تضاد کو خود میں شامل رکھتی ہے، جس سے تغیر بھی مستقل ہوتا ہے۔ اس طرح جدلیات از خود تشکیل پاتی ہے۔اس اعتبار سے دیکھیں تو دریدا کی Trace ’نشان‘ کو اس اعتبار سے پیش کرتی ہے کہ وہ تناظر کے حوالے سے تاریخ (ماضی) اور مستقبل کے عوامل کو ’نشان‘ میں شامل کر لے۔ ’نشان‘ کا اس طرح خارجیت سے تشکیل پانا اسے معروضایہ ہوا تصور کرنے کے لئے شواہد فراہم کرتا ہے۔ دریدا چونکہ ہیگل، کانٹ  اور مارکس وغیرہ سے متاثر ہے اس لئے متن کے باہر سے وہ داخلی حس، مادیت، ما بعدالطبیعات  اور دیگر عوامل کو شامل کرتا ہے۔اگر دریدا ایسا نہیں کرتا تو اس کے لئے ڈیکنسٹرکٹ کرنے کا عمل مشکل ہو جاتا ہے۔ ’ٹریس‘ کے دم چھلے سے مندرجہ بالا عوامل کی شمولیت کے اسی عمل کی بناء پر وہ خود کو مادیت پسند بھی کہلوانا چاہتا ہے۔چونکہ وہ دیگر عوامل کو بھی شامل سمجھتا ہے اس لئے اسے مادیت پسند کہنا مناسب نہیں ہے۔مارکسی مادیت میں ان عوامل کو ذہن نشین کیا جاتا ہے۔  اور خیال پرستانہ عوامل کی شناخت قائم کر کے جدلیات کی روشنی میں سارے عمل کو نظریایہ جاتا ہے۔دریدا جن موجود عوامل کو وہ متن میں شامل کرتا ہے پھر انہی کو وہ اپنی خود ساختہ تھیوری کے ذریعے ڈیکنسٹرکٹ کرنے کا دعوی کرتا ہے۔ دریدا اس عمل کو صرف زبان کے اندر سرانجام دیتا ہے۔ جبکہ حقیقی مادیت کے لئے خارجیت میں انسانی عمل سے ارتباط میں سچائی کا ظہور پذیر ہونا ضروری ہے۔ اس اعتبار سے دریدا کو مادیت پسند کہنا صحیح نہیں ہے۔ (دریدا خود کو مادیت پسند کہلا کر فخر محسوس کرتا تھا)۔ دریدا کے حوالے سے قابل غور نکتہ یہ ہے کہ وہ مارکسزم کی سچائی کو ایک ایسے وقت تسلیم کرنے لگا، جب مغرب  اور امریکہ میں مارکسیت کی موت کے دعوے کئے جا رہے تھے۔اس کی وجہ سیاسی  اور معاشی حالات تھے، جن کو نظر انداز کر کے مغربی ما بعد جدیدیت کی تبلیغ کسی ادبی گناہ سے کم نہیں ہے۔ قاری کو یہ علم ہونا چاہیے کہ ما بعد جدید تھیوری کا دعوی ۱۹۴۰ کے بعد ہی کیوں کیا گیا ہے ؟ ڈیکنسٹرکشن پندرھویں صدی میں سامنے کیوں نہیں آئی؟ سماجی حوالوں سے ماڈرنٹی کا تعلق صنعتی انقلاب کے ساتھ کیوں قائم کیا جاتا ہے ؟کیا صرف سوچ بدلتی ہے  اور خارجی عوامل جوں کے توں رہتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ خارج میں برپا ہونے والی تبدیلیاں فکری اعتبار سے صورتحال کو نظریانے کی کوشش ہوتی ہے۔ اگر سوچ ہی سب کچھ ہوتی تو زمان کے دورانیے کی ضرورت کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔پاکستان یا ہندوستان میں خود ساختہ نقادوں کا مغربی تھیوری کو اس کے پس منظر سے محروم کر کے بیان کرنے کا عمل مجرمانہ سرگرمی کے مترادف ہے۔طالب علم یا قاری حقیقی دنیا سے کٹ کر صرف خیالات کی دنیا میں بسیرا کر لیتا ہے۔ایک ایسا قاری جس کے لئے استحصال  اور شناخت کا مسئلہ زیادہ اہم ہے۔ افسوس کہ ایسے نقادوں کے تجریدی سرقوں کی وجہ سے ہی دربار کے خاتمے کے باوجود اس کا بھرپور احساس ذہنوں سے محو نہیں ہوتا۔ درباری سوچ آج بھی زندہ ہے، شاعری میں قافیہ پیمائی یا یوں کہیں مکھی پہ مکھی مارنے کے رجحان کے علاوہ کوئی مثبت رجحان نہ پنپ سکا۔آج اسی سوچ کے تحت شاعری  اور تنقید تماش بینی کے علاوہ  اور کچھ بھی نہیں۔شناخت  اور عملی زندگی میں جدوجہد جیسی اقدار، ان سارق ’نقادوں ‘ کے ناقابلِ معافی جرائم کے فروغ کی وجہ سے رخصت ہو گئی ہیں، ان کے پاس ’سچائی‘ کا اپنا معیار ہے جو کسی صورت بھی عہدِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ کسی ایسی سچائی کو حاصل کر رہے ہیں جو بیش قیمت ہے۔ ویسے تو اس سوچ کا ماخذ قدیم توہم ہی ہے، مگر جدید دور میں جمالیات کو اس نظر سے دیکھنے کا رجحان جرمن فلسفی عمانوئیل کانٹ کے زور دار ’جمالیات محض‘ کے فلسفے سے پروان چڑھا ہے۔ کانٹ کی قائم کردہ عقل و وجدان کی یہ تفریق عہدِ قدیم کی خوف زدہ صورتحال کی عکاسی کرتی معلوم ہوتی ہے، جب عیسائی دہشت گرد پادری آزاد طبع فلسفیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے تھے۔مغربی تہذیب کا یہ پہلو عیسائی دہشت گردی کی وجہ سے دب گیا، جسے صرف عیسائی دہشت گردوں کے ماورائی مفادات کے تحت دیکھ کر ہی قابل فہم بنایا جا سکتا ہے۔ جب تک ان فلسفوں کے ظہور کے محرکات کا سراغ نہیں لگایا جاتا اس وقت تک گمراہی کے اس سلسلے کو دوام حاصل رہے گا۔ علم صرف مغربی درسگاہوں میں ہی نہیں بکتا بلکہ ہمارے سماج کے ہر پہلو سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔آقا  اور غلام کی برسوں پرانی تفریق کے ختم ہونے کا وقت ہے۔جرمن فلسفی ہیگل Master  اور Slave کے درمیان دو طرفہ شناخت کو خود شعوری کے احساس میں شعور کی اپنی خواہش کو مدِ نظر رکھ کر کرتا ہے، جس کے مطابق ’معروض‘ کو فنا کرنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ اسے تسلیم کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ’دوسرے ‘ کو ختم کر کے قائم کی گئی شناخت کا رخ بدل بھی سکتا ہے۔اس لئے آقا کی فتح مکمل نہیں بلکہ اندر سے خالی ہے۔ہیگل واضح کرتا ہے کہ ’دوسرا‘ بھی ایسا کر سکتا ہے۔اس لئے اصل سوال ہم آہنگی قائم کرنے کا ہے۔ہیگل کا مسئلہ یہ رہا کہ اس نے صرف تفکراتی جدلیات کے ذریعے، یعنی فکر کے ذریعے، اس عمل پر قابو پانے کی کوشش کی۔اڈورنو جب ہیگل پر اپنی ’منفی جدلیات‘ میں حملہ کرتا ہے تو اس کے ذہن میں ’دوسرے ‘ کا تصور ہٹلر کی ’ہولوکاسٹ‘ کی شکل میں موجود ہے، جو مغربی بورژوازی کے مطابق یہودیوں پر مسلط کی گئی۔اڈورنو کے مطابق ’دوسرے ‘ سے مراد یہودی ہے، جسے تفکر کرنے والا صرف تفکر سے فتح کرنا چاہتا ہے۔جہاں کہیں ظلم ٹوٹتا ہے وہاں پر ’شعور‘ جواز فراہم کرتا ہے۔اس طرح اڈورنو اسے ’شعور‘ کا کارنامہ قرار دے کر ہیگل کے فلسفے سے جوڑتا ہے۔

یہ صحیح ہے کہ اڈورنو کی فکر کسی حد تک مارکسی خطوط پر استوار ہے، لیکن آخری تجزیے میں اڈورنومارکس کے عظیم مقصد سے بے نیاز ہو کر یہودیت کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ہیگل کی مخالفت کا مقصد بھی یہی ہے۔ اس کی واضح مثال فرانس میں ۱۹۶۸ کے طالب علم انقلاب کے اس واقعے کی صورت میں ملتی ہے، جب ایک ایرانی طالب علم کا قتل ہوا۔ اڈورنو سے کہا گیا کہ وہ اپنا لیکچر منسوخ کر کے طالب علم انقلاب کی حمایت کرے، مگر اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔اڈورنو مارکسیت کے مرکزی خیال، جو کہ پرولتاریہ کی جدوجہد سے وابستہ ہے، کے معیار پر پورا نہ اتر سکا۔اس مغربی تناظر میں ۱۹۴۰ کے بعد ’روشن خیالی پروجیکٹ‘ کی مخالفت کا تصور کلی طور پر سماجی، سیاسی،  اور معاشی عوامل کا تابع ہے، جس نے یہودیوں کی شناخت کو داؤ پر لگا دیا۔اس لئے اس کا اصل محرک یہودیوں کی ’شناخت‘ کا مسئلہ ہی رہا ہے۔جہاں تک دوسرے پسے ہوئے طبقات کا تعلق ہے، ان کی جدوجہد ان کی نظریاتی وابستگیوں کے مطابق آگے بڑھتی رہی ہے۔اس اعتبار سے مغرب میں افکار کی جنگ مغربی زمین پر لڑی گئی، جس کا محرک زمینی تضادات کے علاوہ آسمانی آئیڈیالوجی بھی ہے۔ اگر کہیں تھیوری نے کلی تجریدی شکل اختیار کی (آلتھیوسے وغیرہ کی سائنسی جبریت کی شکل میں )، وہاں پر بھی حقیقی عوامل کا تعلق سماج کے ساتھ ہی رہا، جو ہر نئی سماجی تشکیل  اور معاشی ارتقاء سے معنی بدلتا رہا۔ ان عوامل کو کلی طور پر سمجھے بغیر اس کے بارے میں معقول بات کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اُردو کے نقاد جب مغربی اصطلاحات، روشن خیالی، ماڈرنٹی یا پوسٹ ماڈرنٹی کا ذکر کرتے ہیں تو وہ واضح نہیں کر پاتے کہ ان اصطلاحات سے ان کی کیا مراد ہے ؟ مغربی پوسٹ ماڈرنٹی کو مشرقی پوسٹ ماڈرنٹی کے مقابل کیسے رکھا جائے ؟(کیا پاکستان یا ہندوستان میں پوسٹ ماڈرنٹی کا ظہور ہو چکا ہے ؟ ’نقادوں ‘ کے تبلیغی عمل کے حوالے سے نہیں، بلکہ ٹھوس سماجی  اور پیداواری قوتوں کے حوالوں سے جن کے ارتقاء سے ما بعد جدیدیت کی بحث کا آغاز ہوا)۔ مغربی ماڈرنٹی کا گہرا تعلق صنعتی انقلاب کے ساتھ ہے جو برطانیہ میں واقع ہوا، روشن خیالی کی تحریک کا آغاز فرانس میں ڈیکارٹ کی عقلیت پسندی سے ہوا۔اگر پاکستان یا ہندوستان کے تناظر میں ان اصطلاحات کا استعمال مغربی تناظر میں پیداواری ساختوں  اور سماجی عمل میں عقلی و وجدانی کردار کو واضح نہیں کرتا، تو یہ صورتحال کو گنجلک بنانے کے علاوہ  اور کچھ بھی نہیں ہے۔ایک ایسا گمراہ کرنے والا عمل جس کی پھیلائی گئی پراگندگی کی صفائی کا ذمہ آنے والی نسلوں کے سر رہے گا۔نارنگ صاحب فلسفیانہ مباحث میں اپنی غیر تفکرانہ طبع کی وجہ سے قدیم ’سچائی‘ کے معیار کی تبلیغ کے علاوہ، ہر طرح کی تنقیدی بصیرت سے عاری دکھائی دیتے ہیں، اسی وجہ سے وہ سرقہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ان حالات میں فلسفے سے بے زاری کے ا ظہار کا محرک بھی فطری نوعیت کا ہے۔ کرسٹوفر نورس کے تمام اقتباسات کو جناب نارنگ اپنے نام سے منسوب کرتے ہیں مگر جہاں نورس بحیثیت فلسفی(کسی حد تک) فلسفے کا ذکر کرتے ہیں، نارنگ صاحب ان کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔جہاں پر نورس، وٹگنسٹائن کے حوالے سے سیوسئیرپر اس کی تنقید کا ذکر کرتے ہیں، نارنگ صاحب اس کو کمال صفائی سے حذف کر جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ وٹگنسٹائن کا فکری رویہ ’اینٹی ڈیکنسٹرکشنسٹ‘ ہے۔ نورس کاخیال ہے کہ وٹگنسٹائن کے نزدیک ما بعد سیوسے ئر ی متونی مباحث میں کئی قباحتیں پائی جاتی ہیں (جن مفکروں نے سیوسئیر کا خود مطالعہ کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ سیوسئیر کبھی تو زبان کو معروض سے جوڑ کر دیکھتا ہے  اور کبھی سیوسئیر کے تجزیے میں زبان  اور معروض کے تعلق میں معروض حذف ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ وٹگنسٹائن کا خیال ہے کہ ’’سگنیفائر  اور سگنیفائڈ کے درمیان شگاف کا مطلب تشکیک پسندی کے روایتی فلسفے کی غلطی کو دہرا نے کے مترادف ہے ‘‘ )۔ نارنگ صاحب ان قباحتوں کا ذکر نہیں کرنا چاہتے، کیونکہ اس سے ان کے ماورائی موقف  اور ان کی تجزیے سے یکسر عاری علمیت کو زک پہنچتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ’سچائی‘ کے بارے میں ان کے اپنے نظریات انتہائی پختہ ہیں۔ انھیں صرف اس قدیم ’سچائی‘ کی تبلیغ ہی مطلوب ہے، جس کا دامن انھوں نے اپنی ’شہرۂ آفاق‘ کتاب کی تکمیل کے دوران تھامے رکھا۔ان کے افکار کس آئیڈیالوجی سے جنم لے رہے ہیں، یہ ان کے یک طرفہ انتہا پسندانہ تبلیغی رویے سے ظاہر ہو رہا ہے۔ انھیں ’ردِ تشکیل‘ بھی شاید اسی لئے پرکشش دکھائی دیتی ہے کہ اس میں قدیم توہم کا پر تو نظر آتا ہے۔شاید اسی لئے ہیگلیائی ’کلیت‘ کی تفہیم کے بغیر صرف  اور صرف مغربی بورژوا ’دانشوروں ‘ کی تقلید میں رد کرنے کا واویلا کر رہے ہیں۔یہ استرداد کیسے ہوا ؟اس کے بارے میں تجزیہ تو دور، ان کی شہرۂ آفاق مسروقہ کتاب سے چند متعلقہ فقرے تک تلاش کرنا ایک عملِ بیکار سے زیادہ کچھ نہیں، جو کلیت یا لازمیت پر ان کی فلسفیانہ بصیرت(اگر ہے ) کی جانب اشارہ کر سکیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ اُردو زبان میں عمانوئیل کانٹ، ہیگل یا مارکس کے فلسفے کا بھر پور تنقیدی جائزہ کہیں موجود ہی نہیں ہے۔ خود ساختہ نقادوں کی اکثریت نے ایک یا دو ’فقرے ‘ یاد کر رکھے ہوتے ہیں، کسی مخصوص آئیڈیالوجی کے مطابق وہ ان فقروں کو ’احکامات‘ کی شکل میں پیش کرتے ہیں، جبکہ مخالفین متخالف نظریات سے چند فقروں کو اپنی آئیڈیالوجی کے تحت ’احکامات‘ ہی کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ اس طرح بیشتر نقاد ایک یا دو فقروں میں فلسفے کا ذکر کرنا کافی سمجھتے ہیں۔ وہ لاعلم قاری جو فلسفیوں کے فلسفے کی پیچیدگیوں سے قطعاً ناواقف ہوتا ہے، جسے اشعار پر ’واہ واہ‘ کرنے کا پیشہ عنایت کیا گیا ہے، وہ ان نقادوں کے ان ’احکامات‘ پر بھی ستائش کے رویے کو قائم رکھتا ہے۔ فلسفیانہ گہرائی یا فلسفے کی تفہیم کی صورت میں فلسفے کے اثرات نہ ہی نقادوں کے افکار میں کہیں دکھائی دیتے ہیں  اور نہ ہی قاری کے عملِ قرأت سے مطالعے کا احساس جھلکتا ہے۔عدم تفہیم کی وجہ سے سماجی تغیر میں لازمیت کے متقاضی موقف کی تشکیل ہی نہیں ہو پاتی۔اس طرح بیسویں صدی  اور پہلی صدی کے امتیازی خدوخال ان نقادوں کی ماورائیت میں نجات پانے کی خواہش کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ ان گمراہ کرنے والے رویوں سے نجات پانے کے لئے آج جہاں سرقے سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے تو وہاں علوم کو تنقیدی نظر سے اپنے تناظر میں دیکھنا بھی بے حد ضروری ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭٭٭

ما بعد جدیدیت کی اصلیت کی ایک جھلک؟؟ ’’شیطانی آیات‘‘ کے حوالے سے سلمان رشدی ما بعد جدیدیت کا علم بردار ’’یہ میرے لیے بے حد دلچسپی کی بات تھی کہ مجھے جدیدیت کے عظیم نمائندہ جوزف  کونراڈ کے بعد ما بعد جدیدیت کے علم بردار سلمان رُشدی پر کام کرنے کا موقع ملا۔۔۔رُشدی کی بطور مصنف نشوونما  اور اس کے فن کی اختراعی نوعیت نے اسے ما بعد جدیدیت فکر کا بڑا نمائندہ بنا دیا ہے۔‘‘

 

(ما بعد جدید مفکرD.C.R.A. Goonetilleke کی کتاب Salman Rushdie سے اقتباس)

٭٭٭

 

 

تعزیت نامہ برائے ما بعد جدیدیت

               اشعر نجمی

 

(مدیر سہ ماہی اثبات۔ممبئی)

 

اس بار اس باب میں ایک ایسے ادبی مسئلہ کو شامل کیا جا رہا ہے جس کا قصہ تقریباً تمام ہو چکا ہے۔ میری مراد ما بعد جدیدیت سے ہے۔ جو لوگ عالمی ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں، وہ یقیناً میری تائید کریں گے کہ تھیوری ہر محاذ پر ناکام ہو چکی ہے اور اپنا بوریا بستر باندھ کر رخصت بھی ہو چکی۔ مغربی ممالک بطور خاص امریکہ  اور برطانیہ میں اب اس کا کوئی نام لیوا بھی باقی نہیں رہا۔لیکن ہندوستان میں کچھ ’’باقیات الصالحات‘‘ ہیں جنھیں اب بھی امید ہے کہ ما بعد جدیدیت کو کم سے کم ’’بزور بازو‘‘ تو منوایا ہی جا سکتا ہے۔ اردو میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ما بعد جدیدیت کے علم بردار ہیں  اور ان کا کہنا ہے : ’’یہ سیاسی مسائل نہیں، یہ فلسفۂ ادب کے مسائل ہیں  اور فلسفۂ ادب یعنی تھیوری کی سطح پر طے پا رہے ہیں۔ اردو میں ان مسائل کی تفہیم میں کچھ وقت لگے گا۔ اس لیے کہ جب تک ہم سابقہ مفروضات سے ہاتھ نہیں اٹھائیں گے  اور مانوس Categories سے ہٹ کر سوچنے کے لیے (جنھیں ہم نے ایمان کا درجہ دے رکھا ہے ) خود کو تیار نہیں کریں گے، ہم برابر مغالطوں  اور خوش فہمیوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔‘‘ نارنگ کا یہ بیان ان کی کتاب ’’ترقی پسندی، جدیدیت  اور ما بعد جدیدیت‘‘ میں شامل ہے۔ یہ اقتباس اس خطبے سے ماخوذ ہے جو موصوف نے دسمبر ۱۹۹۵ میں غالب اکادمی، نئی دہلی کی سلور جوبلی کے موقع پر دیا تھا۔ ۱۳ سال پہلے نارنگ صاحب نے یہ امید جتائی تھی کہ ’’اردو میں ان مسائل کی تفہیم میں کچھ وقت لگے گا‘‘ لیکن صد حیف کہ اب تک یہ ’’مسائل‘‘ توضیح طلب ہیں۔ نارنگ ما بعد جدیدیت کی تعبیر و تفہیم  اور اردو ادب میں اس کے اطلاق کی وضاحت کرنے سے قاصر رہے ہیں لیکن کم سے کم انھیں ان سوالوں کے جواب ضرور دینے چاہئیں تھے جو گذشتہ دو برسوں سے عمران شاہد بھنڈر ان سے کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی خاموشی شان استغنا کا استعارہ نہیں بلکہ اعتراف جرم کا وسیلہ ضرور نظر آتی ہے۔ آج پوری اردو دنیا کی نظر نارنگ پر ہے  اور وہ ان سنگین الزامات پر ان کے جواب کی منتظر ہے جو عمران شاہد نے دلائل  اور حوالوں کی مدد سے ان پر لگائے ہیں۔اصل موضوع پر آنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قارئین کو سب سے پہلے عمران شاہد بھنڈر کے ان الزامات سے مختصر اً آگاہ کر دیا جائے جو انھوں نے نارنگ پر لگائے ہیں۔ عمران شاہد بھنڈر کا تعارف گذشتہ شمارے میں کرایا جا چکا ہے لیکن ایک بار پھر ہم بتا دیں کہ وہ برمنگھم یونیورسٹی (برطانیہ)میں ما بعد جدیدیت پر پی۔ایچ۔ڈی کر رہے ہیں۔ انھوں نے نارنگ کی معروف کتاب ’’ساختیات، پس ساختیات  اور مشرقی شعریات‘‘ پر سرقے کا الزام عائد کیا ہے  اور اس ضمن میں انھوں نے صرف ’ہوائی فائرنگ‘‘ کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مسلسل دو طویل مضامین میں کئی مغربی مفکرین مثلاً کیتھرین بیلسی، رابرٹ سکولز، کرسٹوفر نورس، رامن سیلڈن، جان سٹرک وغیرہ کی کتابوں کے اقتباسات در اقتباسات کا نارنگ کی کتاب میں شامل ڈھیروں اقتباسات سے براہ راست موازنہ کر کے سبھی کو انگشت بدنداں کر دیا۔ ان کے یہ دونوں مضامین ۱؂ جرمنی سے شائع ہونے والے معروف ادبی جریدہ ’’جدید ادب‘‘ میں متواتر شائع ہوئے جس کے مدیر حیدر قریشی ہیں۔ ان مضامین کے کچھ اقتباسات ’’شب خون خبر نامہ‘‘ (الہٰ آباد) میں بھی شائع ہو چکے ہیں  اور میری اطلاعات کے مطابق سہ ماہی ’’مژگاں ‘‘ (کولکاتہ) کے تازہ شمارے میں بھی بطور ’قند مکرر‘ شائع ہوئے ہیں۔ یہاں یہ بھی بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ عمران شاہد بھنڈر کا یہ طویل  اور چشم کشا مقالہ اب کتابی شکل میں ’’اثبات پبلی کیشنز‘‘ میں طباعت کے مرحلوں سے گزر رہا ہے جو بہت جلد قارئین کے ہاتھوں میں ہو گا۔ عمران شاہد کا لگایا ہوا الزام ذاتی نہیں، ادبی ہے جسے صرف یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے پیچھے گروہی تعصب کارفرما ہے۔

وہ قارئین جنھوں نے اب تک عمران شاہد کے دونوں مضامین نہیں پڑھے ہیں، ہمارا مشورہ ہے کہ اس باب کو پڑھنے سے قبل انھیں ضرور پڑھ لیں ورنہ وہ اپنی رائے قائم کرنے میں حق بجانب نہ ہوں گے۔ اس معاملے کو ’’فاروقی بنام نارنگ‘‘ کا نام بھی نہیں دیا جا سکتا، کیوں کہ اول تو عمران شاہد، فاروقی سے ہزاروں کیلومیٹر دور برطانیہ میں بیٹھے ہیں، دوم یہ کہ فاروقی  اور عمران صرف ایک دوسرے کے ’’نام  اور کام‘‘ سے واقف ہیں  اور سوم یہ کہ عمران کے وہ تمام الزامات دلائل  اور حوالوں کے ساتھ ہیں جنھیں کوئی آنکھ کا اندھا ہی ردّ کر سکتا ہے۔ جدید ادب کے مدیر حیدر قریشی نے صحافتی دیانت داری کا ثبوت دیتے ہوئے نارنگ کو کئی بار دعوت دی کہ اگر وہ چاہیں تو ان الزامات کا جواب ’’جدید ادب‘‘ کے صفحات میں دے سکتے ہیں ( ’’اثبات‘‘ کے صفحات بھی نارنگ کے جواب کے لیے حاضر ہیں ) لیکن نارنگ نے جواب دینا تو کجا، ایسی خاموشی اختیار کر لی جس سے اس شک کو تقویت ملنے لگی کہ ان کے پاس عمران شاہد کے لگائے گئے الزامات کے جواب ہی نہیں ہیں۔یہی نہیں بلکہ انھوں نے حیدر قریشی  اور ان کے جریدے پر اپنے ’’ذرائع‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے دباؤ بھی ڈالا کہ وہ اس سلسلے کو بند کریں ورنہ انھیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ہم اس باب میں حیدر قریشی کا وہ مضمون بھی شائع کر رہے ہیں جس میں اس قضیے کی پوری روداد شامل ہے۔ حیدر قریشی کے ساتھ نارنگ نے جو نازیبا حرکت کی ہے، وہی عمران شاہد بھنڈر کے الزامات کی تصدیق کے لیے کافی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ زبان و ادب کی سب سے اونچی کرسی پر بیٹھا شخص جس کے علم و بصیرت کی لوگ قسمیں کھاتے ہوں، وہ اس طرح کی حرکت کرے۔ لیکن نارنگ کی مجبوری یہ ہے کہ وہ جب اپنے ’بے پایاں علم‘ کے ذریعہ عمران شاہد کے دعووں کو مسترد نہ کر سکے تو ’بزور بازو‘ جواب دینے پر آمادہ ہو گئے۔ پتہ نہیں، ’ارادت مندان نارنگ‘ کا حیدر قریشی کا خط پڑھ کر کیا رد عمل ہو گا؟

ممکن ہے کہ ساجد رشید جیسے نارنگ کے حمایتی ایک بار پھر یہ الزام جڑ دیں کہ نارنگ ’’ہندو‘‘ ہیں، اس لیے انھیں سارق ثابت کیا جا رہا ہے اور اس طرح ایک بار پھر اس ایشو کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جائے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ ہم گذشتہ دو شماروں میں عمران شاہد بھنڈر کے دو مضامین شائع کر چکے ہیں جن کا اس قضیے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ میں نے گذشتہ شمارے میں قارئین کے استفسار پر عمران شاہد کا ایک مختصر تعارف بھی پیش کیا تھا جس پر صحافی  اور ادیب شمیم طارق کا ایک طویل خط ہمیں موصول ہوا ہے، جو من و عن شائع کیا جا رہا ہے۔ دراصل یہی خط اس سنگین ادبی مسئلے کو اس باب میں شامل کرنے کا بنیادی محرک بھی ہے۔

شمیم طارق نے گوپی چند نارنگ کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’الزام تراشی کسی قلم کار کا ادبی تعارف نہیں بن سکتی‘۔حیرت ہے کہ شمیم طارق جیسا پڑھا لکھا  اور غیر جانب دار شخص عمران شاہد بھنڈر کے ان مضامین کو اب تک صرف ’’الزام تراشی‘‘ کے خانے میں رکھنا چاہتا ہے، جب کہ مذکورہ مضامین میں نارنگ کے ذریعہ کیے گئے سرقے کو حوالوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ شمیم طارق، نارنگ کی مذکورہ کتاب میں شامل دیباچہ پیش کرتے ہیں، جو کچھ یوں ہے کہ ’’افکار و خیالات تو فلسفیوں  اور نظریہ سازوں کے ہیں، تفہیم و ترسیل البتہ میری ہے ‘‘۔اب اگر نارنگ کی اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے ان فلسفیوں  اور نظریہ سازوں کے افکار و نظریات کو ان کی متنازعہ کتاب میں سے خارج کر دیا جائے تو ہاتھ میں شاید صرف گرد پوش ہی باقی رہ جائے گا۔کسی کی فکری کاوشوں سے اثر قبول کرنا یا انھیں بطور استدلال اپنے کام میں لانا برا نہیں ہے۔ حتیٰ کہ کسی مضمون یا کتاب سے بعض حصوں کو مستعار لینا بھی جرم نہیں ہے۔ بس شرط اتنی ہے کہ اصل مضمون یا کتاب کا حوالہ متن کے ساتھ دے دیا جائے  اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو عبارتوں کے ساتھ واوین کا التزام رکھا جائے  اور حاشیے پر یا مضمون کے آخر میں وضاحتی نوٹ دے کا اصل ماخذ کا اعلان کر دیا جائے۔ یہ طریقہ ان لوگوں کا ہے جو لکھنے  اور پڑھنے کی Ethics کا لحاظ رکھتے ہیں  اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں۔ لیکن صد حیف کہ ’اردو زبان و ادب  اور تنقید و تحقیق کی با اعتبار  اور با وقار شخصیت‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ جنھوں نے مغربی مفکرین کی تحریروں سے صفحے کے صفحے  اور پیراگراف بغیر حوالوں  اور وضاحتی نوٹ کے اغوا کر لیے  اور انھیں اپنی ملکیت بنا کر قارئین کے سامنے پیش کر دیا، ان کے دفاع کے لیے شمیم طارق جواز جوئی کر رہے ہیں۔ میری سمجھ میں ایک بات  اور نہیں آئی کہ شمیم طارق نے نارنگ کی فضیلت  اور عمران شاہد کے الزام کو بے بنیاد ثابت کرنے کے لیے شمس الرحمن فاروقی کو تیسرے فریق کی حیثیت سے کیوں پیش کیا؟ اگر فاروقی نے نارنگ کی اس کتاب کو ’بین العلومی کارنامہ‘ کبھی کہا بھی تھا تو اس سے عمران شاہد کے دعوے کی تکذیب کیسے ہو جاتی ہے ؟ ممکن ہے کہ فاروقی نے اس وقت ان مفکرین کو نہ پڑھا ہو جن کی کتابوں سے نارنگ نے سرقہ کیا ہے، ورنہ ’’شب خون خبرنامہ‘‘ میں عمران شاہد کے مذکورہ مضامین کے اقتباسات شائع کر کے وہ اپنے ہی قول کو کیوں ردّ کرتے ؟

اس ضمن میں تیسری  اور آخری بات یہ ہے کہ اگر شمیم طارق، نارنگ کے دفاع کے لیے فاروقی کا یہ بیان معتبر سمجھتے ہیں تو پھر فاروقی کے ان بیانات کے بارے میں موصوف کا رد عمل میں ضرور جاننا چاہوں گا جن میں نارنگ کی مختلف ادبی  اور غیر ادبی دھاندلیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ کیا شمیم طارق ان بیانات کو بھی سند تسلیم کرتے ہیں جس طرح فاروقی کے اس بیان کو انھوں نے بطور سند پیش کیا ہے ؟اب رہی شمیم طارق کی یہ بات کہ ’الزام تراشی کسی قلم کار کا ادبی تعارف نہیں بن سکتی‘ ، تو انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ عمران شاہد بھنڈر نے کسی غزل یا نظم یا افسانے کے سرقے کا انکشاف نہیں کیا ہے بلکہ گذشتہ صدی کے سب سے بڑے ادبی  اور علمی سرقے کو اس صدی میں Expose کیا ہے  اور اس کے لیے انھوں نے ما بعد جدیدیت ہی نہیں دیگر علوم کے مفکرین کی کتابوں کو کھنگالا، جو آسان کام نہیں ہے۔ شمیم طارق نے اپنے خط میں ایک دلچسپ بات یہ بتائی کہ ’’جن سیکڑوں کتابوں کا حوالہ بار بار آیا ہے، ان پر ستارے کا نشان ہے ‘‘۔عمران شاہد کا مقالہ شاید ان کی نظروں سے گزرا نہیں ہے یا پھر ان کے لگائے گئے الزامات کی تصدیق شمیم طارق نے نارنگ کی متنازعہ کتاب سے نہیں کی ورنہ انھیں معلوم ہوتا کہ عمران شاہد جن صفحات  اور پیراگراف کو سرقہ کہہ رہے ہیں، وہاں نہ تو ستارے کا نشان ہے، نہ ہی چاند  اور سورج کا۔ نارنگ کی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے شمیم طارق اتنے جذباتی ہو جاتے ہیں کہ وہ یہ بھی کہنے سے نہیں چوکتے کہ ’’ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ مسائل کو پانی کر دیتے ہیں  اور ان کی بات دل میں اتر جاتی ہے ‘‘۔ اس کے بعد وہ شاہد بھنڈر کے حق میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’بھنڈر صاحب کو اللہ توفیق دے تو بجائے منفی چیزوں کے وہ نارنگ صاحب سے بڑا کام کر کے دکھائیں۔ اردو میں کام کرنے والوں کی بڑی ضرورت ہے ‘‘۔ نارنگ کی خوبیوں پر پانی پھیرنے والے عمران شاہد کے کارنامے کو منفی کہہ کر شمیم طارق نے ایک طرح سے ’’سرقہ‘‘ جیسی لعنت کا دفاع کیا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ نارنگ کی اس مذموم حرکت کی مذمت کرتے  اور عمران شاہد کے شکر گذار ہوتے، انھوں نے ’’مثبت‘‘ اور ’’منفی‘‘ کی تعریف ہی بدل ڈالی۔ کیا شمیم طارق یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اس طرح کے اخلاقی جرم سے چشم پوشی کرنی چاہیے ؟ کیا انھیں یہ نہیں پتہ کہ نارنگ کی اس حرکت سے عالمی ادب میں ہندوستان  اور اردو زبان پر کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے ؟ کیا انھیں یہ نہیں معلوم کہ پاکستان کے جامعات میں اب نارنگ کی دوسری کتابوں کو بھی چھانا پھٹکا جانے لگا ہے ؟ کیا شمیم طارق یہ چاہتے ہیں کہ اس روش کی حمایت کر کے اردو میں اس چلن کو عام کر دیا جائے  اور ان کا پردہ فاش کرنے والوں کو ہی مطعون کیا جائے ؟ شمیم طارق میرے  اور ’’اثبات‘‘ کے سچے خیرخواہوں میں شمار ہوتے ہیں لیکن اس کے عوض حق بینی  اور حق شناسی کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انھیں یہ تو معلوم ہی ہو گا کہ عمران شاہد بھنڈر سے بہت پہلے فضیل جعفری نے اپنے ایک طویل مضمون میں اشارہ کر دیا تھا کہ مذکورہ کتاب نارنگ کی تصنیف نہیں تالیف ہے۔ سکندر احمد نے تو نارنگ کی تمام کتابوں کا محاسبہ کر ڈالا  اور اعداد و شمار سے بتا دیا تھا کہ نارنگ کی کتنی کتابیں تصنیف ہیں، کتنی تالیف ہیں، کتنے تراجم ہیں  اور کتنی مرتبہ ہیں۔ شمیم طارق نے اپنے خط میں ایک سوال بھی اٹھایا ہے کہ ’’ایک زبان سے دوسری زبان میں سرقہ کرنے والے میں اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ایک زبان سے تھیوری کا سرقہ کر کے کسی دوسری زبان کے فن پارے کا تجزیہ کر سکے …‘‘۔ ان کی اس بات نے مجھے چونکا دیا، کیوں کہ انھوں نے بہت ہی معقول سوال اٹھایا ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر نارنگ کی متنازعہ کتاب سرقے کا نتیجہ ہے تو پھر یقیناً ان کی بقیہ کتابیں بھی تضادات کا شکار ہوں گی جن میں انھوں نے ما بعد جدیدیت کا تجزیہ پیش کیا ہے  اور جو اب تک سرقے کے الزام سے مبرّا ہیں۔ میں نے فون پر عمران شاہد سے بات کی تو انھوں نے اپنی زیر تکمیل کتاب میں سے وہ باب مجھے فوراً ارسال کر دیا جس میں انھوں نے نارنگ کی دوسری کتابوں پر گرفت کی ہے۔ اس مضمون کو پڑھ کر اس بات کی ایک بار پھر تصدیق ہو جاتی ہے کہ نارنگ نے ما بعد جدیدیت کو سمجھا ہی نہیں ہے، لہٰذا ان کی بقیہ کتابوں میں تضادات کا ایک سلسلہ ہے جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ ما بعد جدیدیت تو دور، فلسفے کے ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں۔زیر نظر شمارے میں عمران شاہد کا یہ مضمون ۲؂ اس لیے زیادہ توجہ طلب ہو جاتا ہے کہ اس بار نارنگ کی دوسری کتابیں زد میں ہیں جن کی مدد سے صاحب مضمون نے ایک طرف تو نارنگ کی ’’ما بعد جدید علم برداری‘‘ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، دوسری طرف انھوں نے یہ بھی دکھا دیا کہ نارنگ چونکہ سارق ہیں، اس لیے وہ ما بعد جدیدیت کو Assimilate نہیں کر پائے جس کے نتیجے میں یہ تضادات نظر آ رہے ہیں۔ فضیل جعفری کا زیر نظر مضمون اگرچہ ’’ذہن جدید‘‘ میں دو قسطوں میں شائع ہو چکا ہے لیکن اس خیال سے اس کی دوسری قسط کو شامل اشاعت کر لیا گیا ہے کہ اس مضمون سے بھی ہمیں نارنگ کے فکری تضادات کو قریب سے دیکھنے میں مدد ملتی ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ عمران شاہد کی زبان فلسفیانہ ہے (کیوں کہ وہ بنیادی طور پر فلسفے کے ہی آدمی ہیں ) جب کہ فضیل جعفری کا مضمون اردو قارئین کو پیش نظر رکھ کر رقم کیا گیا ہے۔ حیدر قریشی کی صحافتی دیانت داری پر، میں انھیں سلام کرتا ہوں۔ اس کے عوض انھیں جو قیمت چکانی پڑی، میں اس کی مذمت کرتا ہوں  اور انھیں یقین دلاتا ہوں کہ ’’اثبات‘‘  اور اردو دنیا کے تمام دیانت دار، مخلص اور انصاف پسند قارئین اس آزمائشی گھڑی میں ان کے ساتھ ہیں۔ قارئین !آپ کا کیا خیال ہے ؟ (مطبوعہ سہ ماہی اثبات ممبئی۔شمارہ نمبر ۳۔دسمبر ۲۰۰۸ء تا فروری۲۰۰۹ء)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱

جدید ادب میں نارنگ صاحب کے سرقہ کے حوالے سے دو نہیں بلکہ شمارہ نمبر۹، ۱۰  اور ۱۱ میں تین مضامین شائع کیے جا چکے ہیں۔ان میں سے پہلا مضمون اضافوں کے ساتھ عکاس کے شمارہ ۵ میں بھی شائع کیا گیا تھا۔اس مضمون کو متعدد اخبارات و رسائل نے جدید ادب کا حوالہ دے کر شائع کیا تھا۔ ۲؂یہ مضمون اثبات میں شائع ہوا ہے، یہاں اسے شامل نہیں کیا گیا۔کیونکہ یہاں صرف سرقہ کے حوالہ جات والے عمران شاہد کے مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔

(ادارہ عکاس انٹرنیشنل)

٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا عذرِ لنگ

 

               نند کشور وکرم

 

کہا جاتا ہے کہ ساختیاتی تنقید کو اردو ادب میں پیش کرنے والوں نے اُسے ترجمہ یا اخذ و تلخیص کی صورت میں پیش کیا ہے آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں "گو پی چند نا رنگ:جب میں نے تھیوری پر کام کرنا شروع کیا چونکہ میری تربیت ساختیاتی لسانیات کی ہے، مجھے احسا س تھا کہ فلسفے میں بنیادی ضرورت سائنسی معروضیت کی ہوتی ہے، میرے سامنے ایسے نمونے تھے جہاں لوگ بات تو فلسفے کی کرتے ہیں لیکن بہت جلد تخئیل کے پروں سے اڑنے لگتے ہیں  اور ’ایجاد بندہ‘ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بہت سے اصل متن سے زیادہ خود کو نمایاں کرنے میں لگ جاتے ہیں یا پھر اپنے اسلوب کا شکار ہو کر کم  و بیش انشائیہ لکھنے لگتے ہیں۔ ایک تو اصطلاحیں نہیں تھیں دوسرے نئے فلسفیوں کا انداز ایسا پیچیدہ، معنی سے لبریز  اور گنجلک ہے کہ اسے سائنسی معروضی صحت کے ساتھ قاری تک منتقل کرنا زبردست مسئلہ تھا۔ اصل متن کی Precision ness اور زور و صلابت Rigourکو بنائے رکھنے کے لئے بھی بے حد ضروری تھا کہ افہام و تفہیم میں ہر ممکن وسیلے سے مدد لی جائے  اور فلسفے کے ڈسپلن کی رو سے تخئیل کی رنگ آمیز ی سے اور موضوعی خیال بافی سے ممکنہ حد تک بچا جائے۔میری کتاب کے شروع کے دونوں حصے تشریحی نوعیت کی ہیں۔ تیسرا حصہ یعنی مشرقی شعریات  اور اختتام والے حصوں کی نوعیت بالکل دوسری ہے۔ نئے فلسفیوں  اور اُن کے نظریوں اور ان کی بصیرتوں کی افہام و تفہیم میں نے اخذ و قبول سے بے دھڑک مدد لی ہے۔ جہاں ضروری تھا وہاں تلخیص اور ترجمہ بھی کیا ہے۔ بات کا زور بنائے رکھنے کے لئے اصل کے Quotationsبھی جگہ جگہ دیے ہیں تاکہ فلسفیانہ نکتہ یا مفکرین کی بصیر ت پوری قوت سے اردو قاری تک منتقل ہو سکے۔ ہر حصے کے ساتھ اس کے جملہ مآخذ اور کتب حوالہ کی فہرست دی ہے  اور جن کتابوں سے نسبتاً زیادہ استفادہ کیا ہے یا جن سے زیادہ مدد لی ہے، مآخذ کی فہرست میں ان ناموں پر اسٹار(*)کا نشان بنا دیا ہے۔واضح رہے خیالات سوسئیر، لیوی سٹراس، رومن جیکب سن، لاکاں، دریدا، بارتھ فوکو، کرسٹیوا، شکلووسکی، باختن وغیرہ کے ہیں، میرے نہیں۔ اِسی لئے کتاب کا انتساب اُن سب فلسفیوں  اور مفکروں کے نام ہے جن کے خیالات پر کتاب مشتمل ہے۔ اس امر کی وضاحت دیبا چے میں کر دی گئی ہے کہ "خیالات اور نظریات فلسفیوں کے ہیں افہام و تفہیم  اور زبان میری ہے۔”(سہ ماہی "ادبِ عالیہ انٹرنیشنل "وہاڑی۔ اپریل، مئی، جون 2008ء) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’کچھ لوگ علم کی طاقت کو اپنے کردار کے بعض ناجائز  اور بد نما پہلوؤں کو چھپانے  اور جائز ثابت کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔‘‘

 

(منو بھائی کے کالم گریبان (تعلیم یا تبلیغ) مطبوعہ روزنامہ جنگ۔۲۱اپریل ۲۰۰۸ء سے اقتباس)

٭٭٭

 

 

سرقے کا کوہ ہمالیہ

               عمران شاہد بھنڈر

برمنگھم

 

جب سے ہم نے گوپی چند نارنگ کے سرقے کا انکشاف کیا ہے اس کے بعد سے اب تک نارنگ کے حواریوں کی طرف سے جو جوابات سامنے آئے ہیں، ان میں نارنگ  اور ہمنوا یہ ثابت نہیں کر پائے کہ نارنگ نے سرقے کا ارتکاب نہیں کیا، ہم اس سے قبل بھی اس ضمن میں لکھ چکے ہیں کہ اصل مسئلہ نارنگ کے سرقے کا انکشاف  اور اس کے بعد حقیقی ادیبوں سے یہ توقع کرنا ہے کہ اس رجحان کو ادبی جرم گردانتے ہوئے اس انداز میں حوصلہ شکنی کی جائے کہ مستقبل میں آزادانہ تحقیق و تنقید کا رویہ جنم لے سکے۔ اس سے یہ ہو گا کہ سارقوں کے برعکس محنتی لوگ ادبی میدان میں داخل ہونگے  اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے۔بریخت نے انیسویں صدی کے ناول سے اخذ کیے ہوئے ’اعلیٰ‘ اصولوں کو بیسویں صدی کے آغاز میں جنم لینے والے سماجی و سیاسی تناقضات کے لیے مکمل طور پر غیر ہم آہنگ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں ’’پرانی اعلیٰ چیزوں سے آغاز نہیں کرنا بلکہ بدترین نئی چیزوں کو بنیاد بنانا ہے۔‘‘ سرقہ اعلی خیالات کا احاطہ کر رہا ہو یا غلیظ خیالات کو پروان چڑھا رہا ہو، سرقہ تو سرقہ ہی رہتا ہے، جو ’خدمت‘  اور تکریم کے برعکس تذلیل و رسوائی کا باعث بنتا ہے۔ مذکورہ بالا نکتے کی کئی بار وضاحت کے باوجود نارنگ  اور ان کے حواریوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ سرقے کے مسئلے کو مخفی رکھا جائے  اور سرقے کی جگہ شخصیت پرستی  اور تضحیکِ شخصیت میں سے کوئی ایک زاویہ اختیار کر کے اردو میں ایک مخصوص گروہ کی قائم کی ہوئی برسوں سے چلی آ رہی روایت پر کاربند رہتے ہوئے، خود کو اس روایت کا پاسبان سمجھتے ہوئے، اس غلیظ روایت پر فخر کیا جائے۔یہ بھی درست ہے کہ کم تعداد ہونے کے باوجود اردو دنیا میں ہی ایسے لوگ موجود ہیں جو اس مکروہ روایت کو تضحیک کی نظر سے دیکھتے ہیں  اور اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔جدید ادب کے مدیر حیدر قریشی پر بھی کیچڑ اچھالنے کا آغاز کر دیا گیا ہے، ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ ادب کے ایک سنجیدہ قاری ہیں  اور ان لوگوں سے زیادہ ادبی اقدار کا عملی ثبوت دیتے ہیں جو عمل کے برعکس ’اعلیٰ‘ نظری مباحث میں بددیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ حیدر قریشی کی بھی یہ خواہش ہے کہ ان نام نہاد ادیبوں کو بے نقاب کیا جائے جو سرقے کی بنیاد پر بڑے نقاد و شعراء بن چکے ہیں، سرقے کو ناپسندیدہ رجحان کے طور پر دیکھنے میں حرج ہی کیا ہے ؟ ہماری جب حیدر قریشی سے شناسائی ہوئی اس سے قبل ہمارے مضامین ’’دی پاکستان پوسٹ لندن، ۲۰۰۵‘‘  اور ’’سالنامہ نیرنگِ خیال ۲۰۰۶‘‘ میں شائع ہو چکے تھے۔ہمارے آشکار کیے ہوئے نارنگ کے سرقوں کو اردو ادب میں ایک غلاظت تصور کرتے ہوئے جس طرح حیدر قریشی نے اس حقیقی معنوں میں منفی  اور مجرمانہ رجحان کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے ہمارے مضامین کو دوبارہ شائع کیا ہے، مستقبل میں ان کے اس مثبت اقدام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔

تاہم وہ لوگ اس اقدام کی تحسین کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے جو ادب میں اس رہزانہ رجحان کو پروان چڑھانے میں ملوث ہیں، جن حواریوں کے لیے نارنگ کا سرقہ ابھی تک عقدۂ لاینحل ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ ابھی تک سرقے  اور حقیقی تنقید و تخلیق کے مابین جزوی طور پر بھی امتیاز کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے باطن میں ابھی تک اصل  اور نقل کی اضدادی کشمکش بھی شروع نہیں ہو پائی۔ ان کا سفر یک رخا ہے، ان کے باطن میں اثبات کی امکانی ترکیب کچھ اس انداز میں سلب ہو چکی ہے کہ اس کے بحال ہونے کے امکانات تک مخدوش ہیں۔نارنگ کے حواریوں کی تین مختلف تحریریں ہماری نظر سے گزر چکی ہیں۔ تینوں تحریروں میں سرقے کو نظر انداز کر کے ذاتیات کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے، جو قطعی طور پر غیر ادبی رجحان کو برقرار رکھنے کی ایک کوشش ہے۔نارنگ یا ان کے کسی حواری سے ادب میں مثبت اقدار کا رجحان پیدا کرنے کی امید بھی کیسے رکھی جا سکتی ہے ؟ ان کے نزدیک خدا کو سرقے کا انکشاف کرنے والوں کو ’توفیق‘ دینی چاہیے کہ نارنگ سے بڑا کام کر کے دکھائیں، ہمیں یہ خبر نہیں کہ نارنگ کو یہ ’توفیق‘ کس نے عطا فرمائی ہے کہ اس قدر دلیری سے انھوں نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ بہرحال ہم اس قسم کی ’توفیق‘ کو انتہائی معذرت کے ساتھ قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ نارنگ  اور ان کے وہ حواری جن کی تحریریں پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کو فلسفیانہ اصطلاحات کی تفہیم کے لیے کم از کم دس برس درکار ہیں، نارنگ کو سہارا دینے کے لیے میدان میں کود پڑے ہیں۔ علمی سطح پر دیکھیں تو یہ لوگ نارنگ کو کیا سہارا دے سکتے ہیں جن کو خود نارنگ کی بیساکھیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اہم نکتہ یہ ہے کہ اب تک اردو دنیا سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص نہ ایسے حوالے پیش کر سکا ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ ہم نے نارنگ کے سرقے سے متعلق جن ابواب کے حوالے رقم کیے تھے وہ صحیح نہیں تھے، اور نہ ہی اس سچ کو اردو دنیا سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص چیلنج کر سکا ہے کہ نارنگ کی کتاب میں ساختیات  اور پس ساختیات والا حصہ لفظ بہ لفظ ترجمہ نہیں ہے۔ہمارا یہ بھی کہنا ہے کہ مترجم  اور سارق بننے میں زیادہ فرق نہیں ہوتا، اس فرق کو قائم رکھنے کے لیے متعلقہ ادیب میں سچی ادبی روح کا ہونا ضروری ہوتا ہے، نارنگ کے حوالے سے اس کا مسلسل فقدان نظر آ رہا ہے۔اگر نارنگ خود کو سارق تسلیم نہیں کرتے تو کتاب پر بحیثیت مترجم نارنگ کا نام لکھنے پر بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، جب چند فقرے تک خود تحریر نہیں کیے، ’افہام و ترسیل‘ کے لیے شارحین کی کتابوں کو لفظ بہ لفظ ترجمہ کیا گیا ہے تو مصنف ہونے کی دہائی کس لیے دی جا رہی ہے ؟ سارق کو ’ادب کا کوہ ہمالیہ‘ کون کہہ سکتا ہے ؟ کوہِ ہمالیہ کا تعین کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ نارنگ کی ’’ادبی میراث‘‘ میں سے سرقے کے پہلو کو حذف کر کے نہ دیکھا جائے۔یہ حقیقت سامنے آ چکی ہے کہ نارنگ نے بلاشبہ سرقے کا ’کوہِ ہمالیہ‘ تیار کیا ہے۔ ادبی سچائی  اور ادبی اقدار کی بات وہ لوگ کیسے کر سکتے ہیں جو علمی و انسانی سچائی سے کوئی واسطہ تک نہیں رکھتے۔جو اپنی تحریروں میں سماجی و اخلاقی اقدار کے برعکس خود ساختہ ادبی اقدار کی بنیاد پر ادب کا دربار عالیہ تعمیر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ؟حقیقت یہ ہے کہ گروہ بندیوں میں حواریوں کی حیثیت کسی ضمیر فروش شخص سے زیادہ ہرگز نہیں ہوتی، جبکہ سچے لوگوں کے لیے ’ادبی‘ شخصیات کی صرف اتنی اہمیت ہوتی ہے، جس حد تک شخصیات ادبی اقدار کے معیار پر پورا اترتی ہیں۔حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ادب برائے ادب کا واویلا کرنے والے ’ادب‘ کو اہمیت دیتے ہیں، لیکن ادیبوں کی ادبی ’میراث‘ کا تعین ذاتی تعلقات کی بنا پر کرتے ہیں۔ نارنگ کے حوالے سے دیکھیں تو اس قسم کے رویوں کو پروان چڑھانے کی ذمہ داری خود نارنگ پر عائد ہوتی ہے کہ کیوں انھوں نے سرقے سے متعلقہ صورتحال کو پیچیدہ بنا رکھا ہے ؟ گزشتہ برس سرقے سے متعلق نکات کے حوالے سے نارنگ سے ایک سوال کیا گیا جس کا نارنگ نے مشکوک سا جواب دیا۔پہلے سوال کی جانب چلتے ہیں : ’’کہا جاتا ہے کہ ساختیاتی تنقید کو اردو ادب میں پیش کرنے والوں نے اُسے ترجمہ یا اخذ و تلخیص کی صورت میں پیش کیا ہے آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ‘‘ نارنگ نے سوال کا دو ٹوک  اور متعلقہ جواب دینے کی بجائے اردو کے مضمون نویسوں کے لیے اپنے مذکورہ انٹرویو میں ’’شہرہ آفاق تصنیف‘‘ کے بارے میں صفائی پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’میرے سامنے ایسے نمونے تھے جہاں لوگ بات توفلسفے کی کرتے ہیں لیکن بہت جلد تخئیل کے پروں سے اڑنے لگتے ہیں  اور ’ایجاد بندہ‘ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بہت سے اصل متن سے زیادہ خود کو نمایاں کرنے میں لگ جاتے ہیں یا پھر اپنے اسلوب کا شکار ہو کر کم و بیش انشائیہ لکھنے لگتے ہیں ‘‘ (ص، ۱۱)۔نارنگ صاحب اگر وہ انشائیہ لکھنے لگتے ہیں تو لکھنے دیں، آپ اپنے سرقے کی وضاحت کریں۔سوال تو آپ سے کیا گیا ہے  اور آپ نے تسلیم کیا ہے کہ آپ نے ’’ترجمہ و تلخیص‘‘ بھی کی ہے۔ یہ کیا مہمل جواب ہے کہ ’’ترجمہ و تلخیص میں نے کی ہے ‘‘ محض اس لیے کہ اہلِ اردو انشائیہ لکھنے لگتے ہیں ؟ کیا انٹرویو کو مزاح کے کسی پروگرام کے طور پر پیش کرنا تھا؟مزید فرماتے ہیں ’’ایک تو اصطلاحیں نہیں تھیں دوسرے نئے فلسفیوں کا انداز ایسا پیچیدہ، معنی سے لبریز  اور گنجلک ہے کہ اسے سائنسی معروضی صحت کے ساتھ قاری تک منتقل کرنا زبردست مسئلہ تھا‘‘ (ص، ۱۱)۔ اس سے زیادہ کم فہمی پر مبنی اقتباس راقم نے اپنی تمام زندگی میں نہیں پڑھا۔ جو شخص مغربی تھیوری کا لفظ بہ لفظ ترجمہ کرتا ہے وہ سائنسی معروضیت کی بات ہی کیسے کر سکتا ہے ؟ ہندوستان میں پروگریس پریس یا Penguin کی شائع شدہ کوئی ڈکشنری دستیاب ہو گی، اس طرح کی اصطلاحات کے استعمال سے قبل اس قسم کی ڈکشنریوں کا مطالعہ ہی فرما لیا ہوتا۔ شری نارنگ صاحب اگر آپ کے پاس ’اصطلاحیں نہیں تھیں تو اس میں دوسروں کا کیا قصور ہے ؟ دوسروں کا حوالہ دیکر، ان کے نقائص نکال کر اپنی غلطی پر پردہ کیسے ڈالا جا سکتا ہے ؟ اس سے مضحکہ خیز بات  اور کیا ہو سکتی ہے کہ کوئی شخص زید یہ کہے کہ اس نے سرقہ اس لیے کیا تھا کہ دوسرے شخص بکر کو لکھنا نہیں آتا۔ اسے یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ اگر وہ سرقہ نہ کرتا تو وہ خود ’تخئیل کے پروں سے اڑنے لگتا۔‘‘ ان اقتباسات کودیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وجہ سے نارنگ نے سرقے کا ارتکاب کیا تاکہ وہ خود کو خود ساختہ مضمون نویسوں  اور نام نہاد نقادوں سے ممیز کر سکیں، ممیز ہونے کے پہلو کو قبول کیا جا سکتا ہے، مگر اس امتیاز کی گہرائیوں میں سرقہ پیوست ہے۔ اگر وہ سرقے کا ارتکاب نہ کرتے تو پھر دوسروں سے خود کو الگ کیسے کر سکتے تھے ؟اس کا جواب دینا باقی ہے۔ حقیقت میں اس اقتباس میں اردو سے تعلق رکھنے والے نقادوں کا احاطہ کیا گیا ہے، مگر خود کو سرقے ہی سے ان سے الگ رکھا گیا ہے۔ یہ اقتباس جہاں دیگر نقادوں کی علمی بصیرت کو عیاں کرتا ہے وہاں نارنگ کی اہلیت کو بھی کھول کر سامنے رکھ دیتا ہے۔ اسی لیے اوپر کہا گیا ہے کہ نارنگ  اور حواریوں کو زیرِ سرقہ نہیں بلکہ زیرِ تعلیم رہنے کی اشد ضرورت ہے۔تاہم نارنگ نے غلط موقع پر یہ کہہ کر کہ ’’فلسفے میں سائنسی معروضیت درکار ہوتی ہے ‘‘ (ص، ۱۱)، اپنی کم علمی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ سائنسی معروضیت کی اس حد تک مہمل تعبیر کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ نارنگ سرقے کے ارتکاب کے بعد صورتحال کو پیچیدہ یا ابہام میں رکھنے کے لیے جو کچھ بھی کہیں گے، اس سے ان کے فکری تضادات مزید نمایاں ہوتے چلے جائیں گے۔ نارنگ نے جو دلیل استعمال کی ہے اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ وہ فلسفہ علمیات میں ’سائنسی معروضیت‘ کا ذکر کر رہے ہیں یا پھر فلسفہ جمالیات میں انھیں ’سائنسی معروضیت‘ درکار ہے ؟ ما بعد جدیدیت میں زبان سے الگ کسی بھی معروضی حقیقت کو تسلیم نہیں کیا جاتا، جبکہ جدلیاتی فلسفوں میں معروضی حقیقت انسانی سبجیکٹ سے الگ، اپنی حرکت میں موجود رہتی ہے۔ نارنگ کے کچھ ایسے بھی اقتباسات موجود ہیں جن میں وہ ’’پورے وثوق‘‘ سے عرض کرنا چاہتے ہیں، کہ تھیوری یعنی ادبی نظریہ سازی یا فلسفہ ادب ایک مکمل مثالی (آدرشی) صورتحال ہے ‘‘۔(ما بعد جدیدیت  پر مکالمہ، ص، ۵۰)۔ اس دعوے سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ معروضیت نارنگ کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ان کے اس فقرے میں رومانوی جمالیات کی وہ گونج سنائی دے رہی ہے جو کانٹین فلسفے سے شروع ہوئی  اور ما بعد جدیدیت تک پہنچی۔ نارنگ نے تھیوری کو معروضی عمل سے کیسے الگ کر لیا اور اس کے بعد محض اپنے سرقے کے دفاع کے لیے ’سائنسی معروضیت‘ کی اصطلاح کو کیوں تراش لیا؟ اس کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔اگر ہم یہ سمجھیں کہ نارنگ کے ذہن میں کوئی بھی اصطلاح واضح انداز پر موجود نہیں ہے، وہ شعرا ہی کی طرح تھیوری یا پھر فلسفہ جمال کو بھی کسی ’کیفیت‘ کے اثر کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، یا پھر یہ سمجھیں کہ وہ فلسفے کی بنیاد پر سائنسی معروضیت پر یقین رکھتے ہیں ؟ تاہم یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ یہ دونوں رویے و ترجیحات ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ اگر وہ فلسفہ جمالیات میں سائنسی معروضیت کے دعوے سے انحراف کریں، ایک طرف ان کا جواب اثبات میں ہے دوسری طرف نفی میں، تو پھر انھیں یا ان کی پوری ٹیم کو لوکاچ کے فلسفے سے تجزیاتی بحث کرنا پڑے گی، قطع نظر اس سے کہ ان کی تحریروں میں تجزیاتی مباحث کا کلی طور پر فقدان ہے۔لوکاچ کے معروضی جمالیاتی نظریے کے بارے میں یہ ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ علمیات کا مسئلہ ہو یا جمالیات کا، لوکاچ دونوں صورتوں میں معروضی تضادات میں مماثلت کو دیکھتا ہے، تعقلات ہو یا تخیل دونوں صورتوں میں ان کی نوعیت یکساں رہتی ہے، مگر ان تضادات کی تحلیل کا عمل علمیاتی  اور جمالیاتی حوالوں سے مختلف طریقوں سے طے پاتا ہے۔اگر نارنگ خود سے متصادم ہو کر فلسفہ جمالیات میں معروضیت کا انکار کر دیں، جیسا کہ انھوں نے اوپر کیا ہے، تو پھر انھیں ’’ترجمے یا تلخیص‘‘ کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات کے جواب کے لیے کوئی  اور دلیل تلاش کرنا ہو گی۔اگر نارنگ معروضیت کے دعوے پر قائم رہیں تو ’خیالی‘ یا ’آدرشی‘ کو داؤ پر لگانا کم از کم اس صورت میں ضروری ہو جاتا ہے، جس صورت میں نارنگ اس کو پیش کرتے ہیں۔نارنگ کے دعوے  اور جواز سے اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں ہے کہ نارنگ بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ انھوں نے ’’فلسفے میں سائنسی معروضیت‘‘ کا استعمال محض سرقے کے دفاع کے لیے کیا ہے، ورنہ نارنگ سے یہ توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ایک طرف ما بعد جدیدیت کو بغیر کسی بھی طرح کی تنقید کے قبول کر لیں  اور اس کے بعد ’سائنسی معروضیت‘ کا سہارا لینا شروع کر دیں ؟

ما بعد جدیدیت کو جس انداز میں مغرب سے ہتھیایا گیا ہے، اس سے زیادہ ’سائنسی معروضیت‘ کی تضحیک  اور کیسے ہو سکتی ہے ؟ ’سائنسی معروضیت‘ میں جو مقولات تشکیل دیے جاتے ہیں ان میں شعور کی درستگی سے زیادہ معروضی انداز میں متشکل ہوئے مقولات کی درستگی درکار ہوتی ہے۔جب سوچ کو تجریدات کے سپرد کر دیا جاتا ہے تو سوچ کی درستگی سے غرض ہوتی ہے۔ لیکن سوچ کی درستگی معروض کے تمام پہلوؤں کی درستگی کیسے ہو سکتی ہے ؟نارنگ نے سرقے کے علاوہ ما بعد جدیدیت کو سمگل کرنے کی جو حرکت کی ہے اگر ان ’لاتشکیلی‘ مقولات کو اپنے تناظر سے ماخوذ مقولات کے مدِ مقابل رکھ کر جانچتے تو اس کے باوجود کہ مقولاتی تجریدات کی نوعیت معروضیت سے عاری ہوتی، پھر بھی ان کی اس ’کاوش‘ کو کسی حد تک پذیرائی مل سکتی تھی۔ ما بعد جدید علمیات سے آگاہی رکھنے والے قارئین جانتے ہونگے کہ یہ فلسفے کی حدود متعین کرنے کی ایک کوشش ہے۔ فلسفے میں سائنسی معروضیت کا سوال فلسفے کو درپیش چیلنج کے ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔فلسفے میں سائنسی معروضیت کے دعوے کی سب سے جامع مثال ہیگل کا جدلیاتی فلسفہ ہے۔تاہم ہیگل کے فلسفے میں معروضیت کا سوال انسانی شعور سے الگ نہیں ہے۔لیکن ہیگل کے فلسفے میں مقولات کا کردار کانٹین فلسفے کے برعکس مقرونی نوعیت کا ہے، گو کہ ہیگل کی معروضیت کی تشریح میں شعور کے اولین کردار میں نفی کی نوعیت تجریدی ہو جاتی ہے، جو معروضیت کے سوال کو کسی حد تک نظر انداز کرتی ہے، اس کے باوجود ہیگل کے فلسفے میں معروض کے تجزیے کے دوران سائنسی معروضیت کا پہلو اس لیے بھی غالب رہتا ہے کہ اس میں مقولات فلسفے کی تمام تاریخ کا احاطہ کرتے ہیں، جبکہ ہیگل کے اپنے عہد میں پائے جانے والے رجحانات سے، جو حسی ادراکات سے حاصل ہوتے ہیں، ان مقولات کا موازنہ کیا جاتا ہے، یہ بالکل ایسا ہے جیسا کہ آئن سٹائن اپنے پیش رو ہیگل کے طریقے پر عمل کرتا ہوا نیوٹن کے مطالعے کے دوران نیوٹن کی تھیوری کو اپنے عہد میں ابھرنے والے نئے حقائق سے منسلک کر کے دیکھتا ہے،  اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ وہ اس کے عہد کے حقائق کا ساتھ دینے سے قاصر ہیں۔معروضیت کا دوسرا پہلو فلسفہ مادیت کے زمرے میں آتا ہے، اگر نارنگ اس کو تسلیم کرتے ہیں، تو انھیں ان امتیازات کی نشاندہی کرنا ہو گی جو معروضیت کا مادی پہلو (جس میں شعور کا سوال ثانوی حیثیت اختیار کر جاتا ہے )  اور معروضیت کا وہ پہلو جس میں شعور کی اولیت برقرار رہتی ہے۔لیکن افسوس کے نارنگ کا علم انتہائی سطحی ہے، نارنگ نے نہ ہی کبھی سائنس کی کسی کتاب کو چھوا ہے  اور نہ ہی کبھی فلسفے کو درخور اعتنا سمجھا ہے۔ما بعد جدید مفکر ژاک دریدا نے اپنی مختصر کتاب ’پوزیشنز‘ میں ’لاتشکیل‘  اور سائنس کے مسئلے پر سوال اٹھایا ہے۔اگر ہمارے اذہان میں ’فلسفہ لاتشکیل‘ واضح  اور صریح انداز میں موجود ہے، تو ہمیں یہ علم ہونا چاہیے کہ اس میں تعقلات (Concepts )سے جڑے ہوئے ہر اس فلسفے  اور سائنسی عمل کی تنقید شامل ہوتی ہے، جو ’وجودی و الہیاتی‘ یا پھر لوگوس وغیرہ کی بنیاد پر وجود پذیر ہوا ہو۔ دریدا کو چونکہ یقین ہے کہ جس سائنس کا آغاز یونان سے ہوا، اس میں ما بعد الطبیعات کی تنقید کے باوجود ما بعد ’الطبیعاتی ثبوتیت‘ (Metaphysical Positivism) قائم رہتی ہے، لہذا لاتشکیل کو لوگوس سے اس انداز میں نبرد آزما ہونا ہے کہ سائنس کو ما بعد الطبیعات کے اس پہلو سے نجات مل جائے، جو تعقلات کی بنیاد پر معنویت کو جنم دیتا ہے۔دریدا کے الفاظ میں ’’تحریریات کو لوگوس کی بنیاد پر قائم ہوئی سائنسی معنویت سے تجاوز کرنے والے سائنسی عمل کو مضبوط بنانا ہے ‘‘ (ص، ۳۶۔۳۵)۔جہاں تک سماجی سائنسوں کا تعلق ہے جن سے فلسفہ نبرد آزما ہوتا آیا ہے، ان میں تعقلات کی بحث سے نجات حاصل نہیں کی جا سکتی، جبکہ ’لاتشکیل‘ انہی تعقلات کی تنقید کا نام ہے۔ دریدا کے الفاظ میں یہ ’’سائنس کی حدود متعین کرتی ہے۔‘‘ لاتشکیل جس ’تحریریات‘ کو تعقلاتی فلسفے ‘ کی تنقید کے لیے استعمال کرتی ہے، جو سائنسی معروضیت کی دعویدار ہے، اسے نئی سائنس کہنا بھی مناسب نہیں ہے، جو ’’نئے مافیہ  اور نئے علاقے سے سروکار رکھتی ہو‘‘ (ایضاً، ص، ۳۶)۔ ’لاتشکیل‘ کا مفہوم سمجھنے والے  اور اس پر یقین رکھنے والے شخص کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنی حرکت کا دفاع کرنے کے لیے جب چا ہے جس مرضی دلیل کو غلط پیرائے میں پیش کر دے ؟ اس پہلو کو ذہن میں رکھتے ہوئے فلسفے سے نابلد قاری کو یہ مشورہ دینا ضروری ہے کہ وہ جمالیاتی تھیوری سے متعلق نارنگ کی کتابوں کا مطالعہ ہرگز نہ کرے، کیونکہ دلائل  اور ان کے تسلسل میں فقدان سے گمراہی کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ نارنگ مزید فرماتے ہیں کہ ’’میری کتاب کے شروع کے دونوں حصے تشریحی نوعیت کے ہیں۔۔۔۔جہاں ضروری تھا وہاں تلخیص اور ترجمہ بھی کیا ہے۔۔۔نئے فلسفیوں  اور اُن کے نظریوں اور ان کی بصیرتوں کی افہام و تفہیم میں نے اخذ و قبول سے بے دھڑک مدد لی ہے۔۔۔۔واضح رہے خیالات سوسئیر، لیوی سٹراس، رومن جیکب سن، لاکاں، دریدا، بارتھ فوکو، کرسٹیوا، شکلووسکی، باختن وغیر ہ کے ہیں، میرے نہیں۔ اِ سی لئے کتاب کا انتساب اُن سب فلسفیوں  اور مفکروں کے نام ہے جن کے خیالات پرکتاب مشتمل ہے۔ اس امر کی وضاحت دیباچے میں کر دی گئی ہے کہ "خیالات اورنظریات فلسفیوں کے ہیں افہام وتفہیم  اور زبان میری ہے۔”‘‘ (سہ ماہی "ادبِ عالیہ انٹرنیشنل "وہاڑی کے شمارہ نمبر2 ، جلد نمبر8 کے اپریل، مئی، جون 2008ء صفحہ نمبر11)۔نارنگ نے جو نام گنوائے ہیں (سوسئیر، لیوی سٹراس، رومن جیکب سن، لاکاں، دریدا، بارتھ فوکو، کرسٹیوا، شکلووسکی، باختن) نارنگ کی ’’شہرہ آفاق تصنیف‘‘ کو پڑھ کر کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ نارنگ نے براہِ راست ان میں سے کسی بھی کتاب کا مطالعہ کیا ہے۔ دریدا، بارتھ فوکو، کرسٹیوا، شکلووسکی، باختن وغیرہ پر لکھا گیا ہر لفظ رامن سیلڈن کی کتاب کا حرف بہ حرف ترجمہ ہے (دریدا  اور ردِ تشکیل پر کافی مواد نورس کی کتاب سے لیا گیا ہے، گزشتہ مضامین میں اس پہلو کو حوالوں سے ثابت کیا جا چکا ہے )۔ اس انٹرویو کے پہلے فقرے کے مطابق نارنگ سمجھتے ہیں کہ ان کی کتاب کے دو حصے ’’تشریحی نوعیت کے ہیں ‘‘ ( واضح رہے کہ انہی دو حصوں میں ساختیات  اور ما بعد ساختیات کی ’بحث‘ ہے )۔حقیقت یہ ہے کہ یہ دو حصے واقعی تشریحی نوعیت کے ہیں مگر یہ تشریح نارنگ نے ہرگز نہیں کی، نارنگ نے تو مغربی شارحین کی تشریحات کو جوں کا توں اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اگر نارنگ کی دیگر کتابوں کا ذکر کریں جس میں آپ نے تھیوری یا تنقید پر ’بحث‘ کرنے کی کوشش کی ہے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کی دیگر ’تصانیف‘ بھی تمام و کمال تشریحی نوعیت کی ہیں۔ اس لیے اس کتاب (ساختیات پس ساختیات  اور مشرقی شعریات)  اور ان کتابوں (جدیدیت کے بعد، ما بعد جدیدیت پر مکالمہ) کے درمیان اس فرق کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ انٹرویو لینے والا اگر تشریح  اور تنقید و تجزیے کے مابین فرق کو سمجھ رہا ہوتا  اور اس نے نارنگ کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہوتا، تو یہ سوال ضرور اٹھاتا۔اگر کتابوں کا مطالعہ ہی نہیں کیا تو انٹرویو لینے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی ؟ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے حلقے میں مطالعے کے بغیر محض صلاح مشورے ہی سے ادبی و علمی قضایا کا جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نارنگ کے انٹرویو، جس کا اقتباس اوپر پیش کیا گیا ہے، کو توجہ سے پڑھیں تو واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے کسی حد تک یہ تسلیم کر لیا ہے کہ ان کی کتاب کے بعض حصے ’ترجمہ و تلخیص‘ ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ نارنگ نے ’ترجمہ و تلخیص بھی‘ نہیں بلکہ ’ترجمہ و تلخیص‘ ہی کی ہے۔ اگر ان کے جواب کو مزید کریدنے کی کوشش کی جاتی تو کچھ  اور حقائق سامنے لائے جا سکتے تھے، یا پھر راقم کے لکھے ہوئے مضامین میں سے ترجمہ کیے ہوئے ابواب انگریزی حوالوں کے ساتھ پیش کیے جاتے  اور ان سے یہ سوال کیا جاتا کہ ان کے حوالے کہیں بھی موجود نہیں ہیں،  اور ان مضامین میں پیش کیے گئے اقتباسات چند فقروں پر مشتمل نہیں بلکہ سرقہ کیے ہوئے ابواب کا ایک طویل سلسلہ ہے جو نارنگ کی کتاب تقریباً ۲۰۰ صفحات پر محیط ہے (پہلے تین مضامین کی حد تک)۔ اور اگر نارنگ صاحب سمجھتے ہیں کہ ان کے حوالے ان ابواب کے اندر موجود ہیں تو ان سے ان حوالوں کی نشاندہی کی درخواست کی جاتی۔ اس کے بعد نارنگ کا جواب خالی از دلچسپی ہر گز نہ ہوتا۔ نارنگ نے اپنے جواب میں ابہام کو قائم رکھنے کی حتی الوسع کوشش کی ہے، جھجک نمایاں ہے، کہیں کہیں شرمندگی کا پہلو بھی ابھرتا ہے۔ اگر نارنگ صرف یہی کہتے کہ مذکورہ کتاب ’’تلخیص و ترجمہ‘‘ ہی ہے تو ابہام دور ہو جاتا، لیکن ایک اہم ترین سوال پھر بھی باقی رہتا کہ پھر نارنگ خود کو مصنف کیوں کہہ رہے ہیں ؟ نارنگ کا جواب ایک بار پھر قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتا، جو اردو سے تعلق رکھنے والے بیشتر خود ساختہ ادیب و نقاد  اور فکری و علمی سطح پر معذور نارنگ کے ان حواریوں کو مزید تسلی دینے کے لیے کافی ہو سکتا تھا جو نارنگ کے دفاعی کمان میں بددیانتی کے تمام اوزاروں سے لیس کھڑے ہیں، مگر سچے ادیب کے لیے نارنگ کی اس کتاب کی حقیقت کو سمجھنا مزید آسان ہو جاتا۔ اوریجنل لکھنے والوں کے لیے نارنگ سے لیے گئے انٹرویو کے مذکورہ بالا اقتباس میں پیش کیے گئے اعترافات ناکافی ہیں۔ مثلاً ان کا یہ تسلیم کر لینا کہ انھوں نے ’’ترجمہ و تلخیص‘‘ بھی کی ہے، کسی حد تک تسلی بخش ضرور ہو سکتا ہے، مگر یہ کتاب سے متعلق کل سچائی کا انکشاف نہیں ہے۔ جس حد تک ادبی دیانت کی ضرورت تھی یا ہے، وہ نہ ہی نارنگ میں کہیں دکھائی دیتی ہے  اور نہ ہی ان کے کسی ذہنی معذور حواری میں نظر آتی ہے۔یہاں تک کہ انٹرویو لینے والوں میں بھی مفقود ہے، جو مکمل تیاری کے ساتھ انٹرویو لینے کے لیے نہیں بیٹھتے۔ انٹرویو کی نوعیت دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ نارنگ سے لیے گئے انٹرویو میں سوالات کا انتخاب یقیناً نارنگ کے انٹرویو لینے والے کے ساتھ تعلق کی نوعیت کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے۔انٹرویو میں سوالات کے نتیجے میں سامنے آنے والے جوابات میں سے پھر سوالات نکالے جاتے ہیں۔یہاں پر ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ انٹرویو بھی غیر جانب دار نہیں ہے۔مستقبل میں اگر کوئی غیر جانب دار شخص نارنگ کا انٹرویو کرے تو صرف یہ سوال پوچھا جائے کہ نارنگ صاحب آپ اپنی ’’شہرہ آفاق‘‘ تصنیف کے حوالے سے خود کو مترجم تسلیم کرتے ہیں یا پھر خود کو سارق کہلوانا پسند کریں گے ؟ اگر انھیں مترجم پر اعتراض ہو تو ان کے وہ تمام صفحات انھیں پیش کیے جائیں جو لفظ بہ لفظ ترجمہ ہیں، گو کہ ان صفحات کی تفصیل متن کے اندر نہیں دی گئی، اس کے باوجود اگر نارنگ یہ کہیں کہ انھوں نے کہیں خلا میں ہی صفحات کی تفصیل دے رکھی ہے، تو پھر نکتہ یہ ہے کہ انھیں مصنف کیسے تصور کر لیا جائے ؟نارنگ نے اپنے انٹرویو میں ’بے دھڑک‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ کم از کم میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ علمی و فکری قضایا کی بحث میں ’بے دھڑک‘ سے کیا معنی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ آپ خواہ کتنے ہی ’بے دھڑک‘ کیوں نہ ہو جائیں، لیکن صرف یہ خیال رہے کہ کسی کی کتاب یا مضمون پر پر اپنا نام نہ لکھ دیں۔ اگر آپ یہ فرماتے ہیں کہ ’’بے دھڑک‘‘ سے ہم اپنی مرضی کا مطلب نکال لیں تو اس سے ہم یہی کہیں گے کہ نارنگ نے لفظ بہ لفظ جو ترجمہ پیش کیا ہے، اس کے حوالے تک نہیں دیے۔اگر یہ سچ ہے تو اس کو قبول کر لینے میں کیا حرج ہے ؟ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ نارنگ نے ایک  اور کتاب ’’ما بعد جدیدیت پر مکالمہ‘‘ میں اپنا نام بطورِ مرتب لکھا ہے۔ ’’ساختیات، پس ساختیات  اور مشرقی شعریات‘‘ میں جب تمام ابواب لفظ بہ لفظ ترجمہ ہیں تو خود کو مصنف کے طور پر پیش کرنے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے۔سرقے سے متعلق مسئلے کو مغربی فلسفیوں کے خیالات سے متعلق بحث میں گم نہیں کیا جا سکتا۔یہ بالکل درست ہے کہ خیالات مغربی فلسفیوں کے ہی ہیں، لیکن اس نکتے کا اطلاق نارنگ کی مذکورہ کتاب پر نہیں ہوتاکیونکہ اس میں الفاظ تک مغربی شارحین سے جوں کے توں اٹھائے گئے ہیں، اس کا اطلاق البتہ ان کی دیگر کتابوں پر کیا جا سکتا ہے، کیونکہ ان میں الفاظ تو نارنگ کے ہیں مگر خیالات ان میں مغربی مفکرین ہی کے ہیں۔ ان میں پیش کیے گئے خیالات کا تعلق نارنگ کی ان قضایا کی تفہیم سے ہے، بے شک ان کی تفہیم بھی ادھوری ہے۔ جیسا کہ ان کی کتاب ’’جدیدیت کے بعد‘‘  اور مرتب کردہ ’’ما بعد جدیدیت پر مکالمہ‘‘ اسی کتاب کا چربہ ہیں، کوئی ایک بھی خیال ایسا نہیں جس کو نارنگ نے مغرب سے اٹھا نہ لیا ہو۔ راقم نے اپنے کسی  اور مضمون میں اس کا احاطہ کر دیا ہے۔ ہمارے لیے ان کتابوں میں بھی دلچسپی محض نارنگ کی صحیح یا غلط تفہیم کی حد تک ہے، نہ کہ یہ کہ ان میں نارنگ کو نظریہ ساز تسلیم کر لیا جائے۔ یہ واضح رہے کہ ’’ساختیات پس ساختیات  اور مشرقی شعریات‘‘ پر ہمارے اعتراضات کا تعلق صرف ان پہلوؤں سے ہے، جو نارنگ کے اعتراف کی صورت میں یا تو ’ترجمہ ہیں ‘ ، بصورتِ دیگر سرقے کے علاوہ  اور کچھ نہیں ہیں۔ نارنگ یا تو یہ تسلیم کریں کہ کتاب لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے  اور کتاب پر اپنا نام بطورِ مترجم تحریر کریں، اگر نارنگ یہ تسلیم نہیں کرتے تو وجہ بیان کریں کہ انھیں سارق کیوں نہ کہا جائے ؟ راقم نے اپنے پہلے مضمون کا عنوان ہی یہ دیا تھا ’’گوپی چند نارنگ مترجم ہیں مصنف نہیں۔‘‘ اس کی وجہ یہ تھی کہ اردو کا ایوارڈ یافتہ نقاد اتنے سنگین جرم کا ارتکاب کیسے کر سکتا ہے ؟ اس لیے ہماری نشاندہی کے بعد ممکن ہو سکتا تھا کہ نارنگ اس جانب توجہ مرکوز کرتے  اور اگر یہ واقعی غلطی ہے تو اسے تسلیم کر کے اس کا ازالہ کر لیا جاتا۔ نارنگ نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا  اور لمبی خاموشی تان لی تو ہمیں انھیں سارق کہنا پڑا، جو سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی انھیں سارق تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے وہ بھی نارنگ ہی کی طرح ادبی میدان کا رہزن ہے۔

نارنگ نے اسی انٹرویو میں ایک  اور دلچسپ نکتہ اٹھایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’بات کا زور بنائے رکھنے کے لئے اصل کے Quotationsبھی جگہ جگہ دیے ہیں تاکہ فلسفیانہ نکتہ یا مفکرین کی بصیر پوری قوت سے اردو قاری تک منتقل ہو سکے ‘‘ (ص، ۱۱)۔ اس اعتراف سے ان کی بدنیتی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ ہم اعتراف کرتے ہیں کہ اس کتاب میں انگریزی کے Quotations موجود ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ انگریزی کے یہ حوالہ جات نارنگ کے ما بعد جدید مفکروں کے براہِ راست مطالعے کا نتیجہ نہیں ہیں۔ قارئین آگے چل کر دیکھیں گے کہ سیلڈن کی جس کتاب سے نارنگ نے جن ابواب کا سرقہ کیا ہے، ان ابواب میں جو Quotations سیلڈن نے قاری کی افہام و ترسیل کے لیے ما بعد جدید مفکروں کی کتابوں سے استعمال کیے ہیں، نارنگ نے بھی ان کو بالکل اسی طرح لکھ دیا ہے۔ یہ حوالہ جات سیلڈن یا دوسرے شارحین نے پیش کیے ہیں۔ نارنگ انٹرویو میں دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں۔

راقم نے اپنے پہلے مضمون میں یہ واضح کر دیا تھا کہ Quotations کا اس طرح استعمال قاری کو احمق بنانے کی غرض سے کیا گیا ہے۔ پوری کتاب میں کوئی ایک بھی اقتباس ایسا نہیں ہے جسے براہ راست اصل ذرائع یعنی نظریہ سازوں کی کتاب سے پیش کیا گیا ہو۔ تماشہ یہ ہے کہ فوکو، دریدا بارتھ  اور دوسرے کئی مفکروں کی کتابوں کی تفصیل بھی دے رکھی ہے مگر ان کتابوں سے کوئی ایک اقتباس تک پیش نہیں کیا گیا۔اگر کوئی بھی اقتباس پیش ہی نہیں کیا گیا تو مصادر میں ان کتابوں کی تفصیل پیش کرنے کی وجہ کیا ہے ؟ہماری سمجھ میں صرف یہ وجہ آتی ہے کہ نارنگ نے پوری تیاری کے ساتھ قاری کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے نارنگ کی کتاب کے ہر ایک صفحے کو انتہائی توجہ سے پڑھا ہے،  اور مغربی نظریہ سازوں (دریدا، فوکو، لاکاں، بارتھ وغیرہ)  اور ان کے شارحین ( نورس، سیلڈن، ہاکس، بیلسی وغیرہ) کی کتب کا بھی توجہ سے مطالعہ کیا ہے۔ نارنگ کی کتاب میں ’’ساختیات، پس ساختیات  اور رد تشکیل‘‘ سے متعلق ’بحث‘ صفحات ۳۳۴۔۳۳ تک جاری ہے۔ ہمارا یہ چیلنج ہے کہ صفحہ ۳۳ سے لے کر صفحہ ۳۳۴ تک (ساختیات  اور ما بعد ساختیات کی بحث سے متعلق)صرف بیس صفحات ایسے نکال کر دکھا دیے جائیں جو مغربی مفکروں کی کتابوں کا لفظ بہ لفظ ترجمہ نہ ہوں۔ نارنگ یا ان کا کوئی بھی حواری اگر بیس سے زائد صفحات پیش کرتا ہے تو ہم محض ایک ہفتے کے اندر وہ تمام حوالے پیش کر دیں گے جو نارنگ کے لفظ بہ لفظ ترجمے کو ایک بار پھر ثابت کریں گے۔ نارنگ نے البتہ انتہائی چالاکی سے ایک چال یہ کھیلی ہے کہ کہیں کہیں یا دو فقروں میں غالب وغیرہ کا نام بھی لیا ہے۔ اس کا محرک یہ ہے کہ جہاں کہیں سیلڈن یا کسی دوسرے شارح نے جان ملٹن یا ورڈزورتھ کی مثال پیش کی، نارنگ نے وہاں پر غالب کو داخل کر لیا، لیکن ان فقروں کی تعداد اس قدر محدود ہے کہ ان کو ملا کر بھی بیس صفحات مکمل نہیں ہو سکتے۔ نارنگ کے سرقے کے بارے میں ہمارے انکشاف کو گروہ بندی کی آڑ میں چھپانے کا رجحان بھی نظر آ رہا ہے۔ اس سلسلے میں حیدر قریشی نے درست لکھا ہے کہ یہ خالصتاً علمی و ادبی معاملہ ہے، اسے پروپیگنڈے سے نہیں بلکہ دلائل سے حل کیا جا سکتا ہے۔ راقم اس سلسلے میں دو ٹوک الفاظ میں یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس سرقے کا کسی بھی گروہ بندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تمام کتاب کا سرقہ تقریباً بارہ برس تک جس طرح گروہ بندیوں کے شکار ادیبوں  اور نقادوں کی نظروں سے اوجھل رہا، اس سے ان کی علمیت کا اصل چہرہ بھی سامنے آ جاتا ہے۔

اس سلسلے میں دو سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں : اول یہ کہ یا تو یہ خود ساختہ ادیب و نقاد جانتے تھے کہ نارنگ نے یہ سرقہ کیا ہے، مگر خود بھی اسی کشتی کا سوار ہونے کی وجہ سے خاموش رہے۔ دوئم یہ کہ ان نقادوں کا اتنا مطالعہ ہی نہیں تھا کہ یہ لوگ سرقے کی حقیقت تک پہنچ سکتے۔ اگر مطالعہ نہیں تھا تو سماجی  اور تنقیدی نظریات کے بارے میں کم علمی کی وجہ سے ان کے ’بڑے نقاد‘ ہونے پر بھی سوالات قائم کیے جا سکتے ہیں۔ اگر ان کا مطالعہ وسیع ہے  اور گروہ بندیوں میں مقید یہ نقاد خود ساختہ نقاد نہیں ہیں، تو پھر بحیثیت ادیب و نقاد ان کے ادبی و تنقیدی کردار کو شک سے بالا قرار دینا کم از کم ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ ہمارا یہ ہرگز مقصد نہیں کہ نارنگ کو بدنام کیا جائے، بدنام کرنے یا ہونے کا پہلو کسی کی ذات سے جڑا ہوتا ہے۔ اس وقت نارنگ کو اپنی ادبی ساخت کے حوالے سے اگر کسی سے کوئی خطرہ درپیش ہے تو وہ صرف سارق نارنگ ہی سے ہے۔ جس دن گوپی چند نارنگ نے ادبی دیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سارق نارنگ کا سامنا کر لیا، تو نقاد نارنگ ہی سارق نارنگ کو دفن کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ نارنگ نے بہرحال کچھ اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کر دیے ہیں، جن کا ادب و علم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نارنگ  اور ان کے حواریوں کی جانب سے شائع ہونے والی تحریر میں شخصیت پرستی کچھ اس انتہا کو پہنچتی دکھائی دی ہے کہ ادبی اقدار پارہ پارہ ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ان ’تحریروں ‘ میں ہمارے مضامین کے مطالعے کے بغیر محض نارنگ کے مشورے ہی سے اصل نکات سے توجہ ہٹانے کے لیے، حقائق کو مسخ کرتے ہوئے، مصنف کی ذات کو موضوع بنایا جا رہا ہے، اس لیے ضروری یہ ہے کہ نارنگ  اور ہمنوا  اور سنجیدہ قارئین کی توجہ ایک بار پھر نارنگ کے سرقے  اور نارنگ کی غلط ما بعد جدید تعبیروں پر مرکوز رکھیں، تاکہ علمی و فکری بددیانتی کا یہ پہلو، جسے نارنگ  اور حواریوں نے تکریم بخشنے کی کوشش کی ہے، کہیں ذاتیات  اور فرقہ پرستی کی نظر نہ ہو جائے۔نارنگ کے حواریوں کی تحریریں راقم کے مضامین کے مطالعے کا ماحصل نہیں ہیں۔ محض ادبی سازش کا حصہ ہیں۔ علمی و فکری اعتبار سے ان ’تحریروں ‘ کا جواب دینا قطعاً غیر ضروری ہے۔ ان تحریروں میں نارنگ یا سرقے کی مدح سرائی کے علاوہ ذاتی حوالوں سے لکھے گئے مواد میں حتی المقدور حقائق کو مسخ کیا جا رہا ہے، اس لئے بعض موقعوں پر یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ حقائق کو درستگی کے ساتھ پیش کیا جائے۔ نارنگ کے ایک حواری حیدر طباطبائی نے انتہائی دروغ گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارا تعلق ’’جماعت احمدیہ‘‘ سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا نارنگ کے سرقے کے متعلق کیے گئے انکشافات سے کیا تعلق ؟ادبی و علمی معاملات کو فرقہ پرستی کی نذر کرنا واقعی نارنگ  اور حواریوں سے بہتر  اور کوئی نہیں جانتا۔ اس طرح کے انتہائی مضحکہ خیز ہتھکنڈے یقیناً وہ لوگ استعمال کرتے ہیں جو خود پر ادب کا لبادہ تو اوڑھ لیتے ہیں، لیکن اپنی سرشت میں پیوست غیر ادبیت کے پہلوؤں سے نجات نہیں پا سکتے۔اس موقع پر یہ جاننا ضروری نہیں کہ کس کا کس فرقے یا مذہب سے کیا تعلق ہے، کیونکہ یہ بحث تو ادب و تنقید کے بارے میں ہو رہی ہے،  اور ادب ان لوگوں کے لیے ’اعلیٰ آدرشوں ‘  اور ’’آفاقی اقدار کا ترجمان‘‘ ہوتا ہے۔ادب کی بحث میں ’جماعت احمدیہ‘ ہو یا ’جماعت جعفریہ‘ ، جماعت برہمنیہ ہو یا ’جماعت شودریہ‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اقبال ہی کو دیکھیں کہ فرقہ پرستوں نے اس شریف انسان کو جماعت کافریہ سے جوڑنا شرع کر دیا۔ خود نارنگ کو دیکھیں کہ کس طرح بھگوان کی منشا کے خلاف جا کر مغربی ملحد مفکروں کی تھیوریوں کو ’پرشاد‘ سمجھ کر قبول کر رہے ہیں۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ ادب کی بحث میں اگر کسی فرقے کو تضحیک کی نظر سے دیکھنا ہے تو وہ صرف فرقہ سارقیہ ہے، دورِ جدید میں جس کے سب سے اہم نمائندے اردو کے ماہرِ لسانیات، ہندوستان کے معتبر ترین اعزازات سے نوازے ہوئے شری گوپی چند نارنگ ہیں۔ فرقہ سارقیہ سے نفرت کرنا سچے اہل قلم لوگوں کی مجبوری ہے۔ یہ نفرت دائمی نہیں ہے، یہ سارقوں کی اپنے سرقے کو قبول کرنے  اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے احساسِ ندامت کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گی۔ اس مضمون میں ہماری یہ کوشش ہے کہ سرقے  اور ترجمے سے متعلق کچھ مزید حقائق سامنے لائے جائیں۔ اس سے قبل بھی یہ عرض کیا جا چکا ہے کہ نارنگ نے رامن سیلڈن کی کتاب Contemporary Literary Theory میں سے بہت زیادہ سرقہ یا ترجمہ(تسلیم کرنے کی صورت میں ) کیا ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق نارنگ نے سیلڈن کی کتاب کا پہلا  اور آخری باب چھوڑ کر تقریباً تمام کتاب کا ترجمہ کر دیا ہے۔ایگلٹن، جیمسن، یاؤس  اور رفارٹے ئر وغیرہ پر لکھا گیا ایک ایک لفظ سیلڈن کی کتاب میں سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ ان ابواب پر نظر ڈالتے ہیں جو اس سے قبل کہیں بھی پیش نہیں کیے گئے۔  اور پھر فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ شخص سارق ہے یا مترجم؟ سیلڈن لکھتے ہیں۔

Eagleton, like Althusser, argues that criticism must break with its ‘ideological prehistory’ and become a ‘science’. The central problem is to define the relationship between literature and ideology, because in his view texts do not reflect historical reality but rather work upon ideology to produce an effect of the ‘real’. The text may appear to be free in its relation to reality (it can invent characters and situations at will), but it is not free in its use of ideology. ‘Ideology’ here refers not to formulated doctrines but to all those systems of representations (aesthetic, religious, judicial and others) which shapes the individuals mental pictures of lived experience. The meanings and perceptions produced in the text are a reworking of ideologie’s on working of reality. This means that the text works on reality at two removes. Eagleton goes on to deepen the theory by examining the complex layering of ideology from its most general pre-textual forms to the ideology of the text itself. He rejects Althusser’s view that literature can distance itself from ideology; it is a complex reworking of already existing ideological discourses. However, the literary result is not merely a reflection of other ideological discourses but a special production of ideology. For this reason criticism is concerned not with just the laws of literary form or the theory of ideology but rather with ‘the laws of the production of ideological discourses as literature’. Eagleton surveys a sequence of novels from George Eliot to D.H Lawrence in order to demonstrate the interrelations between ideology and literary form…. Eagleton examines each writer’s ideological situations and analyses the contradictions which develope in their thinking and the attempted resolutions of the contradictions in their writing. After the destruction of liberal humanism in the first world war Lawrence developed a dualistic pattern of ‘female’ and ‘male’ principles. This antithesis is developed and reshuffled in the various stages of his work, and finally resolves in the characterization of Mellors (Lady Chatterley’s Lover) who combines impersonal ‘male’ power and ‘female’ tenderness. This contradictory combination, which takes various forms in the novels, can be related to a ‘deep-seated ideological crises’ within contemporary society. The impact of poststructuralist thought produced a radical change in Eagleton’s work in the late 1970s. His attention shifted from the ‘scientific’ attitude of Althusser towards the revolutionary thought of Brecht and Benjamine. This shift had the effect of throwing Eagleton back towards the classic Marxist revolutionary theory of the Thesis on Feuerbach (1845): ‘The question whether objective truth can be attributed to human thinking is not a question of theory but is a practical question…The philosophers have only interpreted the world in various ways; the point is to change it’. Eagleton believes that ‘deconstructive’ theories, as developed by Derrida, Paul de Man and others can be used to undermine all certainties, all fixed and absolute forms of knowledge…………..Raman Seldon, Contemporary Literary Theory, 3rd ed, Britain, 1993,P, 92-93.

 

واضح رہے کہ سیلڈن کا ایگلٹن پر یہ مضمون ختم نہیں ہوا(ہم دیکھیں گے کہ نارنگ کا سرقہ بھی ختم نہیں ہوتا)، بلکہ سیلڈن کی کتاب میں صفحہ نمبر ۹۵ تک جاتا ہے۔ اس کے بعد سیلڈن نے جیمسن پر بحث کا آغاز کر دیا ہے۔یہاں یہ نکتہ بھی ذہن نشیں رہے کہ ایگلٹن کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے یہ سیلڈن کا لکھا ہوا ہے۔ سیلڈن نے ایگلٹن کی کتابوں کا مطالعہ کیا  اور قاری کے لیے چند صفحات پر ہی ’’افہام و ترسیل‘‘ کو کو ممکن بنا دیا۔ایسا لگتا ہے کہ نارنگ افہام و ترسیل کا مطلب بھی نہیں جانتے۔ نارنگ کے انتہائی علمی و فکری سطح پر معذور حواری بھی نارنگ کا یہی اقتباس پیش کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ علمی بددیانتی کے تسلسل نے علمی و ادبی روح تک ان کے باطن میں پیدا نہیں ہونے دی۔ ایگلٹن کے حوالے سے نارنگ کے برعکس، یہ تجزیہ اور ’’افہام و ترسیل‘‘ پروفیسر سیلڈن کی ہے۔ نارنگ کے لفظ بہ لفظ ترجمے کو قاری کے سامنے لانا ضروری ہے۔نارنگ کا ’’بے دھڑک‘‘ ہونا ملاحظہ کریں ’’التھیوسے سے اتفاق کرتے ہوئے ایگلٹن کہتا ہے کہ ’تنقید کے لیے ضروری ہے کہ وہ آئیڈیولاجیکل ماضی سے اپنا رشتہ منقطع کرے  اور سائنس بن جائے۔‘ اصل مسئلہ ادب  اور آئیڈیالوجی کے رشتے کا تعین ہے، کیونکہ ادب تاریخی حقیقت کا عکس پیش نہیں کرتا، بلکہ آئیڈیالوجی کے ساتھ عمل آرا ہو کر حقیقت کا اثر پیدا کرتا ہے۔ متن حقیقت سے اپنے رشتے میں آزاد ہے، وہ کرداروں  اور صورتحال کو آزادانہ خلق کر سکتا ہے، لیکن آئیڈیالوجی سے اپنے رشتے میں آزاد نہیں۔ آئیڈیالوجی سے صرف وہ سیاسی تصورات  اور اصول و ضوابط مراد نہیں جن کا ہم شعور رکھتے ہیں، بلکہ بشمول جمالیات، الہیات، عدلیات، وہ تمام نظامات جن کی روح سے فرد ’جھیلے ہوئے تجربے ‘ کا ذہنی تصور قائم کرتا ہے۔ متن کے ذریعے رونما ہونے والے معنی  اور تصورات دراصل اس تصورِ حقیقت کا بازِ تصور ہوتے ہیں جنھیں آئیڈیالوجی نے قائم کیا ہے۔ اس طرح گویا متن میں حقیقت کا تصور دو طرح سے در آتا ہے۔ ایگلٹن متن سے پہلے کی  اور بعد کی آئیڈیالوجی کی شکلوں  اور ان کے پیچیدہ رشتوں کا تجزیہ کر کے اپنے نظریے میں مزید وسعت پیدا کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے التھیوسے کا یہ کہنا مناسب نہیں کہ ادب آئیڈیالوجی سے فاصلہ پر ہوتا ہے۔بقول ایگلٹن ادب تو آئیڈیالوجی کے مباحث کی بازیافت ہوتا ہے۔بہرحال نتیجتاً ادب آئیڈیالوجی کے مباح کے عکس کے طور پر نہیں، بلکہ آئیڈیالوجی کی ایک خاص ’پیداوار‘ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔بس تنقید کا کام صرف ہیئت کے اصول و ضوابط کا یا آئیڈیالوجی کا نظریاتی تعین نہیں، بلکہ ان قوانین کا طے کرنا بھی ہے، جن کی رو سے آئیڈیولاجیکل مباحث ادب کی ’پیداوار‘ میں ڈھلتے ہیں۔ایگلٹن جارج ایلیٹ سے ڈی ایچ لارنس تک متعدد ناولوں کا مطالعہ کرتا ہے  اور دکھاتا ہے کہ آئیڈیالوجی ادبی ہیئت میں کیا رشتہ ہے۔ ایگلٹن ہر مصنف کے آئیڈیولاجیکل موقف کا جائزہ لیتا ہے  اور تجزیہ کر کے ان کے افکار کے تضادات کو ظاہر کرتا ہے،  اور یہ کہ بلآخر ان تضادات کو حل کرنے کی کیا کوشش کی گئی۔پہلی جنگ عظیم کے بعد لارنس کے یہاں ’مردانہ‘ اصول  اور ’نسوانی‘ اصول کی ثنویت ملتی ہے، بہرحال اس کا ’رد مقدمہ بھی رونما ہوتا ہے ‘  اور کئی منزلوں سے گزرتے ہوئے بلآخر ’لیڈی چیٹر لیز لور‘ میں میلرز کے کردار میں حل کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یعنی میلرز کا کردار غیر شخصی سطح پر ’مردانہ‘ قوت  اور ’نسوانی‘ نرمی دونوں کا بیک وقت حامل ہے۔بقول ایگلٹن اس طرح کے متضاد ارتباط اس اندرونی آئیڈیولاجیکل کرائسس کو ظاہر کرتے ہیں جس کا سماج شکار ہے۔۱۹۷۰ کے بعد پسِ ساختیاتی فکر کے باعث ایگلٹن کے کام میں بنیادی تبدیلی یہ رونما ہوئی کہ اب اس کی توجہ التھیوسے کے سائنسی رویے سے ہٹ کر بریخت  اور بینجمن کی انقلابی فکر پر مرکوز ہو گئی۔ نتیجتاً ایگلٹن مارکس کے کلاسیکی انقلابی نظریے

Thesis on Feuerbach (1845).”THE QUESTION WHETHER OBJECTIVE TRUTH CAN BE ATTRIBUTED TO HUMAN THINKING IS NOT A QUESTION OF THEORY BUT AIS A PRACTICAL QUESTION…. THE PHILOSOPHERS HAVE ONLY INTERPRETED THE WORLD IN VARIOUS WAYS; THE POINT IS TO CHANGE IT’

‘. ایگلٹن کو اس سے اتفاق ہے کہ نظریہ رد تشکیل جس کو دریدا، پال دی مان  اور دوسروں نے قائم کیا ہے، اس کو پہلے سے طے شدہ معنی کو بے دخل کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ‘‘ (نارنگ، ۲۶۵۔۲۶۴)۔واضح رہے کہ نارنگ کا سرقہ جاری ہے جو صرف ایگلٹن کی بحث میں ہی صفحہ نمبر ۲۶۷ تک چلا جاتا ہے۔ ’’ساختیات پس ساختیات  اور مشرقی شعریات‘‘ کی کتاب دو کے پانچویں باب میں ’’مارکسیت، ساختیات  اور پس ساختیات‘‘ کے عنوان سے ایگلٹن وغیرہ پر لکھا گیا تمام مواد لفظ بہ لفظ اٹھا لیا گیا ہے، وہاں پر صفحات کی کوئی تفصیل نہیں دی گئی۔ مصادر میں کتاب دو کے پانچویں باب کی تفصیل صفحہ ۳۳۲ پر دی گئی ہیں، وہاں پر بھی صفحات کی تفصیل موجود نہیں ہے۔گوپی چند نارنگ نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’جہاں ضروری تھا وہاں تلخیص اور ترجمہ بھی کیا ہے۔ بات کا زور بنائے رکھنے کے لئے اصل کے Quotationsبھی جگہ جگہ دیے ہیں۔‘‘ مذکورہ بالا اقتباس پر توجہ مرکوز کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ نارنگ نے تمام و کمال اس کو سیلڈن کی کتاب سے ترجمہ کر دیا ہے، مگر اس اقتباس میں ایک Quotation انگریزی میں دی گئی ہے، جس سے یہ تائثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ صرف یہی ایک اقتباس کسی دوسرے مصنف سے ماخوز ہے، نارنگ نے انٹرویو میں کہا ہے کہ جہاں ضرورت محسوس کی گئی وہاں ’’بات کا زور بنائے ‘‘ رکھنے کے لیے Quotation پیش کیے گئے ہیں، جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس انداز میں Quotation کا استعمال بات کا ’زور بنائے رکھنے ‘ کے لیے نہیں، بلکہ ذہنی طور پر اپاہج حواریوں میں ’اپنا زور بنائے ‘ رکھنے کی کوشش ہے، جس میں ان کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔مذکورہ بالا اقتباس سے ایسا لگتا ہے کہ اردو میں لکھا گیا ہر لفظ نارنگ کا تجزیہ ہے، یہ کہنا ادبی مفہوم میں کسی گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرنے کے مترادف ہو گا۔

اس کے بعد پروفیسر سیلڈن نے جیمسن پر مختصر بحث کی ہے، اس کو بھی نارنگ نے جوں کا توں اٹھالیا ہے۔جوں کا توں اٹھانے کا مطلب یہ ہوا کہ ایگلٹن ہی کی طرح نارنگ نے جیمسن کی بھی کسی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا، سیلڈن جیمسن کے حوالے سے بھی مغربی طالب علم کو آسان الفاظ میں سمجھانے کے لیے جو تعارف پیش کرتے ہیں، نارنگ اس کو لفظ بہ لفظ اٹھاکر سیلڈن کی افہام و ترسیل کو ایک بار پھر اپنی ’’افہام و ترسیل‘‘ بنا کر پیش کرتے ہیں۔پہلے سیلڈن کی جانب چلتے ہیں :

In America, where the labour movement has been partially corrupted and totally excluded from political power, the appearance of a major Marxist theorist is an important event. Jameson believes that in the post-industrial world of monoply capitalism the only kind of Marxism which has any purchase on the situation which explores the ‘great themes of Hegel’s philosophy – the relationship of part to whole, the opposition between concrete and the abstract, the concept of totality, the dialectic of appearance and essence, the interaction between subject and object’. For dialectical thought there are no fixed and unchanging ‘objects’; an ‘object’ is inextricably bound up with a larger whole, and is also related to a thinking mind which is itself part of a historical situation. Dialectical criticism does not isolate individual literary works for analysis; an individual is always a part of a larger structure (a tradition or a movement) or part of a historical situation. The dialectical critic has no pre-set categories to apply to literature and will always be aware that his or her chosen categories (style, character, image, etc.) must be understood ultimately as an aspect of the critics on historical situation…….. A Marxist dialectical criticism will always recognise the historical origins of its own concepts and will never allow the concepts to ossify and become insensitive to the pressure of reality. We can never get outside our subjective existence in time, but we can try to break through the hardening shell of our ideas ‘into a more vived apprehension of reality itself’. His The Political Unconscious (1981) retains the earlier dialectical conception of theory but also assimilates various conflicting traditions of thought (structuralism, poststructuralism, Freud, Althusser, Adorno) in an impressive and still recognisably Marxist synthesis. Jameson argues that the fragmented and alienated condition of human society implies an original state of primitive communism in which both life and perception were collective………….. All ideologies are ‘strategies of containment’ which allow society to provide an explanation of itself which suppresses the underlying contradiction of history; it is history itself (the brute reality of economic Necessity) which imposes this strategy of repression. Literary texts work in the same way: the solutions which they offer are merely symptoms of the suppression of history. Jameson cleverly uses A.J Greimas’ structuralist theory (the ‘semiotic rectangle’) as an analytic tool for his own purposes. Textual strategies of containment present themselves as formal patterns. Greimas’ structuralist system provide a complete inventory of possible human relations… which when applied to a text’s strategies, will allow the analyst to discover the possibilities which are not said. This ‘not said’ is the represses history. Jameson also develops a powerful argument about narrative and interpretation. He believes that narrative is not just a literary form or mode but an essential ‘epistemological category’; reality presents itself to the human mind only in the form of the story. Even a scientific theory is a form of story.( Seldon, P, 95-97.)

نارنگ کی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں، ’’امریکہ میں فریڈرک جیمیسن جیسے اہم مارکسی نظریہ ساز کا پیدا ہونا خاصا دلچسپ ہے۔۔۔۔ جیمسن کا خیال ہے کہ ’پس صنعتی‘ دنیا میں جہاں اجارہ دارانہ سرمایہ داری کا دور دورہ ہے، مارکسزم کی صرف وہی قسم کامیاب ہو سکتی ہے جو ہیگل کے فلسفے کی عظیم تھیم سے جڑی ہوئی ہو، یعنی جز کا کل سے مربوط ہونا، ٹھوس  اور مجرد کا متضاد ہونا، کلیت کا تصور، ظاہری شکل  اور اصل میں جدلیانہ کشمکش  اور موضوع  اور معروض کا عمل در عمل، وغیرہ۔ بقول جیمسن جدلیاتی فکر میں کوئی مقررہ  اور تغیر نا آشنا معروض نہیں ہے،  اور ہر معروض ایک بڑے کل سے ناقابل شکست طور پر جڑا ہوا ہے،  اور سوچنے والے ذہن سے جو خود تاریخی صورتحال سے جڑا ہوتا ہے۔ جدلیاتی تنقید انفرادی فن پاروں کا الگ الگ تجزیہ نہیں کرتی، کیونکہ فرد ایک وسیع تر بڑی ساخت کا حصہ ہے جو ایک روایت یا تحریک بھی ہو سکتی ہے۔ سچا جدلیاتی نقاد ادب پر پہلے سے طے شدہ زمروں کا اطلاق نہیں کرتا، وہ اس بات کا بھی لحاظ کرتا ہے کہ خود اس کے منتخب کردہ زمرے مثلاً اسلوب، کردار، امیج وغیرہ بالآخر خود اس کی تاریخی صورتحال کا جُز ہیں۔ مارکسی جدلیاتی تنقید کو ہمیشہ اپنے تاریخی مآخذ کا احساس ہونا چاہیے  اور تصورات کو ہرگز جامد نہ ہونے دینا چاہیے تاکہ حقیقت کا صحیح ادراک ممکن ہو۔ بے شک ہم زماں کے اندر اپنی موضوعی حالت سے باہر نہیں آ سکتے، لیکن خیالات کے سخت ہوتے ہوئے خول کو توڑ سکتے ہیں تاکہ حقیقت کی بہتر طور پر تفہیم کر سکیں۔جیمسن کی کتاب THE POLITICAL UNCONSCIOUS, (1981) میں جدلیاتی فکر کے تسلسل کے ساتھ متعدد متضاد عناصر کو سمونے کا عمل ملتا ہے، مثلاً ساختیات، پسِ ساختیات نو فرائیڈیت، التھیوسے ادورنو وغیرہ۔ جیمسن کا کہنا ہے کہ موجودہ سماج کی پارہ پارہ  اور اجنبیانہ حالت میں قدیم زمانے کی اشتراکی زندگی کا تصور مضمر ہے، جس میں زیست  اور تصورات سب ملے جھلے  اور اجتماعی نوعیت کے تھے، جیمسن کا یہ بھی خیال ہے کہ تمام آئیڈیالوجی اقتدار حاصل کرنے  اور قابو میں رکھنے (CONTAINMENT) کے طور طریقوں کی شکل ہے جو سماج کو اس بات کا موقع دیتی ہے کہ تاریخ کے تہہ نشیں تضادات کو دبایا جا سکے۔  اور لطف کی بات یہ ہے کہ تاریخ جو ’’اقتصادی ضرورت کی وحشی حقیقت ہے ‘‘ ”THE BRUTE REALITY OF ECONOMIC NECESSITY” جبر کے ان طور طریقوں کو خود ہی مسلط کرتی ہے۔ ادبی متن بھی اسی طرح عمل آرا ہوتا ہے، کیونکہ بالعموم متن جو حل پیش کرتا ہے، وہ خود تاریخ کے جبر کی علامت ہوتا ہے۔جیمسن نے ساختیاتی مفکر گریما کے نشانیاتی مثلث کو اپنے مقاصد کے لیے کامیابی سے برتا ہے۔ تاریخی جبر کے طور طریقے ہیئتی نمونوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ گریما کا ساختیاتی نظام ممکنہ انسانی رشتوں کے گوشواروں پر مبنی ہے۔ اسے اگر متون پر آزمایا جائے تو وہ مقامات ظاہر ہو جاتے ہیں جو نہیں کہے گئے۔ یہ نہ کہے گئے مقامات وہ تاریخ ہیں جو دبا دی گئی۔جاری ہے۔۔۔۔۔جیمسن نے بیانیہ  اور اس کی توضیح کے بارے میں بڑی کارآمد بحث کی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ بیانیہ محض ایک ادبی فارم یا طور نہیں ہے بلکہ ایک ’علمیاتی زمرہ‘ (EPISTEMOLOGICAL CATEGORY) ہے، اس لیے کہ حقیقت قابلِ فہم ہونے کے لیے خود اپنے آپ کو کہانی کے فارم میں پیش کرتی ہے۔  اور تو  اور ایک سائنسی نظریہ بھی کہانی ہو سکتا ہے ‘‘ (۲۶۹۔۲۶۷)۔نارنگ کا یہ اقتباس یہیں پر ختم نہیں ہوتا۔ اگر قاری کو توفیق ہو تو اسی تسلسل میں دونوں کتابوں کو سامنے رکھتے ہوئے مطالعہ جاری رکھنے سے یہ انکشاف ہو جائے گا کہ لفظ بہ لفظ ترجمے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ گو کہ نارنگ انتہائی عیاری سے مختلف پیراگرافوں کو لفظ بہ لفظ ترجمہ کرنے کے باوجود ان کی ترتیب بدلنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن راقم نے مسروقہ مواد کی شناخت کو آسان کرنے کے لیے تسلسل کو ختم نہیں ہونے دیا۔ مثال کے طور پر نارنگ پہلے ایک صفحے کا ترجمہ کرتے ہیں اس کے بعد اگلے صفحے سے ایک پیراگراف اٹھا کر دوبارہ پہلے صفحے سے ترجمے کو جاری رکھتے ہیں۔ یقیناً اس طرح کے سرقے کو گرفت میں لانا آسان نہیں ہوتا، کیونکہ عام قاری جب دیکھتا ہے کہ دو فقرے لفظ بہ لفظ ترجمہ ہیں، لیکن اس کے بعد آٹھ فقرے چھوڑ دیے گئے ہیں، تو وہ سوچ سکتا ہے کہ شاید یہی دو فقرے ترجمہ ہیں  اور ان کا حوالہ غلطی سے نہیں دیا گیا۔ اس کے ذہن میں یہ نکتہ آسکتا ہے کہ اس کے بعد اس صفحے سے کوئی  اور پیراگراف نہیں اٹھایا گیا تو وہ سرقے کے پہلو کو نظر انداز کر سکتا ہے۔دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ نارنگ دوبارہ پہلے صفحے کی جانب پلٹتے ہیں،  اور تمام و کمال ترجمہ کر کے قاری کو احمق بنانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ قاری کو پیچیدگی سے محفوظ رکھنے کے لیے، راقم نے یہ کوشش کی ہے کہ نارنگ کی کتاب  اور دیگر ترجمہ شدہ کتابوں میں تسلسل کو قائم رکھا جائے۔اوپر والے اقتباس میں دیکھیں کہ کس طرح نارنگ نے اردو میں انگریزی کا حوالہ استعمال کیا ہے  اور اسے واوین میں لکھ دیا ہے۔ گو کہ اس انگریزی اقتباس کا صفحہ نمبر نہیں دیا گیا۔ چونکہ یہ واضح ہے اس لیے اعتراض کی گنجائش نہیں ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پورا اقتباس جو یہاں پیش کیا گیا ہے،  اور اس باب میں جس دیگر مواد کی نشاندہی کی گئی ہے اس کا حوالہ کہیں نہیں ہے۔ایمانداری کا تقاضا تو یہی تھا کہ مکمل باب ہی واوین میں رکھا جاتا، لیکن اس کے لیے خود کو صرف مترجم کی حد تک ہی ظاہر کیا جا سکتا تھا جو نارنگ کو گوارہ نہ ہو سکا۔اس کے بعد دلچسپی کی بات یہ ہے کہ نارنگ مارکسزم  اور مارکسی ادبی تنقید پر کھل کر رائے دیتے ہیں۔ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ ’سرمایہ‘ کے تینوں ابواب کا مطالعہ تو انھوں نے ضرور کر رکھا ہو گا۔ اس کے علاوہ جدلیات کو بھی بخوبی سمجھ رہے ہونگے۔ اینگلز کے وضع کیے ہوئے جدلیاتی اصولوں کی گہرائی میں بھی اترے ہونگے۔اس لیے جیمسن  اور ایگلٹن وغیرہ پر تو بڑے وثوق سے کچھ کہنے کی حالت میں ہونگے۔ پھر یہ خیال آتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ نارنگ نے مارکس  اور اینگلز کو سیاسی معاشیات کے زمرے میں رکھ کر ان کا مطالعہ ضروری نہ سمجھا ہو، جیسا کہ اردو ادب میں مطالعے کے بغیر فتوے جاری کرنے کا رجحان موجود ہے۔ لیکن اس امر پر کوئی شک نہیں ابھرتا کہ نارنگ نے ایگلٹن  اور جیمسن تک کو نہیں پڑھا۔ ایگلٹن  اور جیمسن دونوں ادبی و ثقافتی ناقدین ہیں، مغربی دنیا میں ان کو نظر انداز کر کے موجودہ ادبی و ثقافتی رجحان کے بارے میں معقول بات کیسے کہی جا سکتی ہے ؟ جونہی رامن سیلڈن کی کتاب کا مطالعہ کرتے چلے جائے یہ حقیقت منکشف ہوتی چلی جاتی ہے کہ نارنگ نے ایگلٹن  اور جیمسن کے علاوہ بے شمار دوسرے ناقدین کی کتب کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ اس لیے نارنگ علم کی اس سطح پر نہیں کہ انھیں نقاد کہا جا سکے، تنقید میں ان کی حیثیت شارح سے زیادہ نہیں ہے۔ قطع نظر اس کے کہ ان کے حواری انھیں کس مقام پر فائز کرتے ہیں۔ اپنے دعوے کے حق میں ثبوت فراہم کرنے کے لیے ہمیں ایک بار پھر رامن سیلڈن کی کتاب کے اس باب کا مطالعہ کرنا ہو گا جو نارنگ کے سرقے کی بھینٹ چڑھا ہے۔ آئیں یاؤس پر لکھے گئے باب پر غور کرتے ہیں، سیلڈن کے الفاظ ملاحظہ کریں،

Jauss, an important German exponant of "reception” theory, gave a historical dimension to reader-oriented criticism. He tries to achieve a compromise between Russian Formalism which ignores history, and social theories which ignores the text. Writing during a period of social unrest at the end of the 1960, Jauss and others wanted to question the old canon of German literature and to show that it was perfectly reasonable to do so…. He borrows from the philosophy of science (T.S Kuhn) the term "paradigm” which refers to the scientific framework of concepts and assumptions operating in a particular period. "Ordinary science” does its experimental work within the mental world of a particular paradigm, until a new paradigm displaces the old one and throws up new problems and establishes new assumptions. Jauss uses the term "horizon of expectations” to describe the criteria readers use to judge literary texts in any given period…. For example, if we consider the English Augustan period, we might say that Popes’s poetry was judged according to criteria, naturalness, and stylistic decorum (the words should be adjusted according to the dignity of the subject) which were based upon values of Popes’s poetry. However this does not establish once and for all the value of Pope’s poetry. During the second half of the eighteenth century, commentators began to question whether Pope was a poet at all and to suggest that he was a clever versifies who put prose into rhyming couplets and lacked the imaginative power required of true poetry. Leapfrogging the nineteenth century, we can say that modern readings of Pope work within a changed horizon of expectations: we now often value his poems for their wit, complexity, moral insight and their renewal of literary tradition. In Jauss’s view it would be equally wrong to say that a work is universal, that its meaning is fixed forever and open to all readers in any period: ‘A literary work is not an object which stands by itself and which offers the same face to each reader in each period. It is not a monument which reveals its timeless essence in a monologue.’ This means, of course, that we will never be able to survey the successive horizons which flow from the time of a work down to the present day and then, with an Olympian detachment. to sum up the works final value or meaning. To do so would be to ignore the historical situation. Whose authority are we to accept? That of the readers? The combined opinion of readers over time? (Raman Seldon. P,52-53)

اس اقتباس کے بعد پروفیسر سیلڈن ویلیمز بلیک کی مثال دینے لگتے ہیں  اور نارنگ بھی اپنے سرقے کا کام جاری رکھتے ہیں، آئیں نارنگ کے مجرمانہ فعل کو دیکھتے ہیں، ’’روبرٹ یاؤس نے نظریہ قبولیت کے ذریعے ’قاری اساس تنقید‘ کو تاریخی جہت عطا کی ہے۔ یاؤس نے روسی ہیئت پسندی (جس نے بڑی حد تک تاریخ کو نظر انداز کیا تھا)  اور سماجی نظریوں میں (جو متن کو نظر انداز کرتے ہیں )ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔۱۹۶۰ میں جب جرمنی میں اضطراب کا دور تھا۔ یاؤس  اور اس کے ساتھیوں نے جرمن ادب کو پھر سے کھنگالا،  اور جرمن ادبی روایت پر نئی نظر ڈالنے کی ضرورت پر زور دیا۔ یاؤس کی اصطلاح ’زمرہ‘ (PARADIGM) دراصل سائنس کے فلسفی ٹی ایس کوہن سے مستعار ہے اس سے یاؤس تصورات  اور معروضات کا وہ مجموعہ مراد لیتا ہے جو کسی بھی عہد میں کارفرما ہوتا ہے۔ سائنس میں ہمیشہ تجرباتی کام کسی ایک خاص ’زمرے ‘ کی ذہنی دنیا میں انجام پاتا رہتا ہے حتٰی کہ تصورات کا کوئی دوسرا ’زمرہ‘ پہلے ’زمرے ‘ کو بے دخل کر دیتا ہے،  اور اس طرح نئے تصورات  اور نئے مفروضات قائم ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی عہد کے قارئین متن کی پرکھ کے لیے جن قوانین کا استعمال کرتے ہیں، یاؤس ان کے لیے ’افق  اور توقعات‘ (Horizon and Expectations)  کی اصطلاحیں استعمال کرتا ہے جو ’زمرے ‘ کے سائنسی تصور پر مبنی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ مثال کے طور پر اگر ہم انگریزی شاعری کے آگسٹن دور پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ پوپ کی شاعری اس وقت کے ادبی افق  اور توقعات کے عین مطابق تھی۔ چنانچہ اس وقت اس کی سلاست و قدرت، شائستگی  اور شکوہ،  اور اس کے خیالات کے فطرت کے مطابق ہونے کی داد دی گئی۔تاہم اس زمانے کے ادبی افق  اور توقعات کی رو سے پوپ کی شاعری کی قدر و قیمت ہمیشہ کے لیے طے نہیں ہو گئی۔ چنانچہ اٹھارویں صدی کے نصف دوئم کی انگریزی تنقید میں اکثر یہ سوال اٹھایا جانے لگا کہ کیا پوپ واقعی شاعر تھا، یا وہ محض ایک قادر الکلام ناظم تھا جس نے نظم میں قافیے ڈال کر اسے منظوم کر دیا۔سچی شاعری کے لیے جو تخیل شرط ہے، کیا وہ پوپ کے یہاں ہے یا نہیں۔ بیسویں صدی میں اس بارے میں پھر تبدیلی ہوئی۔ ادھر دیکھیں تو پوپ کی جدید قرأتیں ایک بدلے ہوئے ذہنی افق  اور دوسری طرح کی توقعات کے ساتھ ملتی ہیں۔ آج کل پوپ کی شاعری کو ایک ہی رنگ میں دیکھا جا رہا ہے۔ یعنی صناعی کے علاوہ اس میں مزاح، اخلاقی بصیرت  اور روایت کی علم برداریت، یہ سب خوبیاں تلاش کر لی گئی ہیں،  اور قدر کی نگاہوں سے دیکھی جانے لگی ہیں ‘‘ ( نارنگ، ص، ۳۰۴۔۳۰۳)۔ نارنگ کا سرقہ ابھی جاری ہے، صرف صفحہ تبدیل کرنے سے عیاں ہو جاتا ہے۔ توجہ فرمائیں،  اور اس کے بعد نارنگ کی تعریفوں کے پل باندھنے کی بجائے اس حرکت کو حقارت کی نظر سے دیکھنے کی اخلاقی و ادبی جرأت پیدا کریں۔ سیلڈن کا پیراگراف وہی ہے جو اوپر پیش کیا گیا ہے۔نارنگ کا سرقہ اسی کا تسلسل ہے ۔

’’یاؤس کہتا ہے کہ یہ سوچنا غلط ہے کہ کوئی بھی فن پارہ تمام زمانوں کے لیے ہے یا آفاقی ہے، یا اس کے جو معنی خود اس کے زمانے میں متعین ہو گئے، وہی معنی ہر عہد میں قاری پر واجب ہیں۔ ادبی فن پارہ ایسی چیز نہیں جو قائم بالذات ہو،  اور جو ہر عہد میں قاری کو ایک ہی چہرہ دکھاتا ہو۔ بقول یاؤس فن پارہ کوئی یاد گار تاریخی عمارت نہیں، جو تمام زمانوں سے ایک ہی زبان میں بات کرے گی۔ گویا ادب کی دنیا میں ہم کسی ایسے ’افق  اور توقعات‘ کا تصور قائم نہیں کر سکتے جو سب زمانوں کے لیے ہو۔ ایسا کرنا تاریخی حالت کو نظر انداز کرنا ہو گا۔ یعنی ہم کس کو صحیح مانیں، سابقہ قارئین کی رائے کو، یا ما بعد کے قارئین کی رائے کو، یا خود اپنے دور کی قارئین کی رائے کو‘‘ ( نارنگ، ص ۳۰۶۔ ۳۰۵)۔ اس کے بعد ویلیمز بلیک کے ذکر سے نارنگ نے سرقہ جاری رکھا ہوا ہے۔واضح رہے کہ کہیں بھی صفحہ نمبر نہیں دیا گیا۔ایک بار پھر رامن سیلڈن کی جانب چلتے ہیں،

The French semiotician Michael Riffaterre agrees with the Russian Formalists in regarding poetry as a special use of language. Ordinary language is practical and is used to refer to some sort of ‘reality’, while poetic language focuses on the message as an end in itself. He takes this formalist view from Jakobson, but in a well-known essay he attacks Jakobson’s and Levi-Strauss’s interpretation of Baudelaire’s ‘Les Chats’. Riffaterre shows that the linguistic features they discover in the poem could not possibly be perceived even by an in formed reader. All manner of grammatical and phonemic patterns are thrown up by their structuralist approach, but not all the features they note can be part of the poetic structure for the reader. However, Riffaterre has some difficulty in explaining why something perceived by Jakobson does not count as evidence of what readers perceive in a text. Riffaterre developed his theory in Semiotics of Poetry (1978), in which he argues that competent readers go beyond surface meaning. If we regard a poem as a string of statements, we are limiting our attention to its ‘meaning’, which is merely what it can be said to represent in units of information. If we attend only to a poem’s ‘meaning’ we reduce it to a (possibly nonsensical) string of unrelated bits. A true response starts by noticing that the elements (signs) in a poem often appear to depart from normal grammar or normal representation: the poem seems to be establishing significance only indirectly and in doing so ‘ threatens the literary representation of realty’. It requires only ordinary linguistic competence to understand the poem’s ‘meaning’, but the reader requires ‘literary competence’ to deal with the frequent ‘ ungrammaticalities’ encountered in reading a poem. Faced with the stumbling-block of ungrammaticalness the reader is forced, during the process of reading, to uncover a second (higher) level of significance which will explain the grammatical features of the text. What will ultimately be uncovered is a structural ‘matrix’, which can be reduced to a single sentence or even a single word. The matrix can be deduced only indirectly and is not actually present as a word or statement in the poem. The poem is connected to its matrix by actual versions of the matrix in the form of familiar statements, cliches, quotations, or conventional associations. it is the matrix which ultimately gives a poem unity. this reading process can be summarised as follows: 1. Try to read it for ordinary ‘meaning’: 2. Highlight those elements which appear ungrammatical and which obstruct on ordinary mimetic interpretation: 3. Discover the ‘hypograms’ (or commonplaces) which receive expanded or unfamiliar expression in the text; 4. Derive the ‘matrix’ from the ‘ hypograms’; that is, find a single statement or word capable of generating the ‘ hypograms’ and the text. (Seldon, P,60-61(.

نارنگ کے سرقے کی جانب چلتے ہیں، ’’مائیکل رفاٹیر شعری زبان کے بارے میں روسی ہئیت پسندوں کا ہم نوا ہے کہ شاعری زبان کا خاص استعمال ہے۔ عام زبان اظہار کے عملی پہلو پر مبنی ہے،  اور کسی نہ کسی حقیقت (REALTY ) کو پیش کرتی ہے، جبکہ شعری زبان اس ’اطلاع‘ پر مبنی ہے جو ہئیت کا حصہ ہے  اور مقصود بالذّات ہے۔ ظاہر ہے اس معروضی ہئیتی رویے میں رفاٹیر، رومن جیکبسن سے متاثر ہے، لیکن وہ جیکبسن کے ان نتائج سے متفق نہیں جو جیکبسن  اور لیوی سٹراس نے بودلئیر کے سانٹ Les Chat کے تجزیے میں پیش کیے تھے۔ ریفا ٹیر کہتا ہے کہ وہ لسانی خصائص جن کا ذکر جیکبسن  اور سٹراس کرتے ہیں، وہ کسی عام ’باصلاحیت قاری‘ کے بس کے نہیں۔ ان دونوں نے اپنے ساختیاتی مطالعے میں جس طرح کے لفظیاتی  اور صوتیاتی نمونوں کا ذکر کیا ہے، یہ خصائص کسی بھی ’جانکار قاری‘ کی ذہنی صلاحیت کا حصہ نہیں ہو سکتے۔ ایک تربیت یافتہ قاری سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ متن کو اس خاص طریقے سے پڑھے۔ تاہم رفاٹیر یہ بتانے سے قاصر ہے کہ جیکبسن کا مطالعہ اس بات کی شہادت کیوں فراہم نہیں کرتا کہ قاری متن کا تصوّر کس طرح کرتا ہے۔رفاٹیر کے نظریے کی تشکیل اس کی کتاب:semiotics of poetry (1978) میں ملتی ہے۔ اس میں رفاٹیر نے اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے کہ با صلاحیت قاری متن کی سطح پر پیدا ہونے والے معنی سے آگے جاتا ہے۔ اگر ہم نظم کو محض معلومات کا مجموعہ سمجھتے ہیں توہم صرف اس معنی تک پہنچ پائے ہیں جو معلومات سے متعلق ہیں۔ ایک صحیح قرات ان نشانات (signs ) پر توجہ کرنے سے شروع ہوتی ہیں جو عام گرامر یا عام معنی کی ترجمانی سے ہٹے ہوئے ہوں۔ شاعری میں معنی خیزی بالواسطہ طور پر عمل آرا ہوتی ہے،  اور اس طرح وہ حقیقت کی لغوی ترجمانی سے گریز کرتی ہے، متن کی سطح پر کے معنی جاننے کے لیے معمولی لسانی اہلیت کافی ہے، لیکن ادبی اظہار کے رموزو نکات  اور عام گرامر سے گریز کو سمجھنے  اور اس کی تحسین کاری کے لیے خاص طرح کی اَدبی اہلیت شرط ہے۔ ایسے لسانی خصائص جن میں استعمالِ عام سے انحراف کیا گیا ہو، قاری کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ معنی خیزی کی داخلی سطح کو بھی دیکھے، جہاں اظہار کے اجنبی خصائص معنی سے روشن ہو جاتے ہیں۔ نیز ان تمام مقامات پر بھی نگاہ رکھے جن میں زبان و بیان کے بعض خصائص کی تکرار ہوئی ہے۔ ریفاٹیر اسے نظم کا ساختیاتی MATRIX کہتا ہے جسے مختصر کر کے ایک کلمے یا ایک لفظ میں بھی سمیٹا جا سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ MATRIX ایک کلمے یا ترکیب کی صورت میں نظم میں موجود ہو، چنانچہ اس کو متن سے اخذ کر سکتے ہیں۔ نظم اپنے ظاہریMATRIX کے ذریعے داخلیMATRIX سے جڑی ہوتی ہے۔ ظاہری MATRIX بالعموم جانے پہچانے بیانات، کلیشے، یا عمومی تلازمات  اور مناسبات سے بُنا ہوتا ہے۔ نظم کی وحدت اس کے داخلی MATRIX کی دین ہے۔۔۔۔۱۔ سب سے پہلے متن کو عام معنی کے لیے پڑھنا چاہیے۔۲۔پھر ان عناصر کو نشان زد کرنا چاہیے، جن میں زبان کے عام گرامری چلن سے گریز ہے،  اور جو حقیقت کی عام ترجمانی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔۳۔اس کے بعد ان عام اظہارات پر نظر رکھی جائے جن کو متن میں اجنبیایا گیا ہے۔۴۔ آخراً ان تمام اظہارات سے داخلی Matrix اخذ کیا جائے، یعنی وہ کلیدی کلمہ یا لفظ یا ترکیب جو تمام اظہارات یا متن کو خلق generate کرتی ہو‘‘ ( نارنگ، ص، ۳۱۸۔۳۱۶)۔ اس اقتباس میں ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے  اور جو اس اقتباس کو دوسرے اقتباسات سے ممیز کرتا ہے کہ اس میں نارنگ نے سیلڈن کا نام لیا ہے، یقیناً سیلڈن اپنا نام خود نہیں لے سکتے تھے۔ سیلڈن کا نام لینے کے بعد نارنگ نے سیلڈن کے الفاظ کو لفظ بہ لفظ ترجمہ کر دیا، گو کہ اس کا حوالہ نہیں دیا، چونکہ لفظ بہ لفظ ترجمہ کیا گیا ہے،  اور سیلڈن کے نام کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، اس لیے نارنگ کو یہ رعایت مل سکتی ہے کہ جہاں انھوں نے سیلڈن کا حوالہ دیا وہاں پر انھیں سارق نہ کہا جائے، لیکن مترجم اس صورت میں بھی کہنا ضروری ہے۔ یعنی اس اقتباس کے صرف دوسرے مختصرحصے میں سارق نہیں تو مترجم ہیں، گو کہ حوالہ دینے کا طریقہ کار غلط ہے، جب کسی کے خیالات کا خلاصہ کیا جاتا ہے تو اس صورت میں اپنے الفاظ کا استعمال ضروری ہوتا ہے۔نارنگ نے سیلڈن کے خلاصے کو پیش کیا ہے، اس لیے اس میں ’’افہام و تفہیم‘‘ تک سیلڈن کی ہے۔فرض کریں کوئی شخص افلاطون کی کتاب ’’ریپبلک‘‘ کا اردو میں دس صفحات پر تعارف پیش کرتا ہے، ایسی صورتحال میں ’’افہام و ترسیل‘‘ کا معیار اس کا اپنا ہو گا۔اگر اس اردو تعارف کو کوئی شخص انگریزی میں ترجمہ کر دیتا ہے

تو وہ یہ ہرگز نہیں کہہ سکتا کہ ’افہام و ترسیل‘ اس کی اپنی ہے۔ اگر وہ کسی  اور زبان کے مفکر کے مضمون یا تعارف کو اپنی زبان میں لفظ بہ لفظ ترجمہ کرتا ہے تو اس صورت میں خود کو ’’افہام و ترسیل‘‘ کا وسیلہ سمجھنا بددیانتی کی مثال ہو گی۔ اگر اردو میں نارنگ یا ان کے گرد پھیلے ہجوم کے کسی رکن کی جانب سے اس طرح کے کسی معیار کو قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تو اردو ادب کی بقا کے لیے اس طرح کی کاوشوں کو نیست و نابود کرنا ہو گا۔ اسی اقتباس میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جہاں سیلڈن کا حوالہ نہیں دیا گیا وہاں بھی حرف بہ حرف ترجمہ کیا جا رہا ہے،  اور صفحہ نمبر کا حوالہ کہیں نہیں دیا جا رہا، نہ ترجمے کی صورت میں  اور نہ سرقے کی صورت میں۔ تاہم دیگر ابواب میں نام تک نہ لینے والی حرکت نارنگ کو سارقوں کی فہرست میں لا کھڑا کرتی ہے

۔ The notion of ‘structure’, he argues, even in ‘structuralist’ theory has always presupposed a ‘centre’ of meaning of some sort. This ‘centre’ governs the structure but is itself not subject to structural analysis (to find the structure of the centre would be to find another centre). People desire a centre because it guarantees being as presence. For example, we think of our mental and physical life as centred on an ‘I’; this personality is the principle of unity which underlies the structure of all that goes on in this space. Freud’s theories completely undermine this metaphysical certainty by revealing a division in the self between conscious and unconscious. Western thought has developed innumerable terms which operate as centring principles: being, essence, substance, truth, form, begining, end, purpose, consciousness, man, God, and so on. It is important to not that Derrida does not assert the possibility of the thinking outside such term; any attempt to undo a particular concept is to become caught up in the terms which the concept depends on. For example if we try to undo the centring concept of consciousness by asserting the disruptive counter force of the ‘unconscious’, we are in danger of introducing a new centre, because we can not choose but enter the conceptual system (conscious/unconscious) we are trying to dislodge. All we can do is to refused to allow either pole in a system (body/soul, good/bad, serious/unserious) to become the centre and guarantor of presence. This desire for a centre is called ‘Logocentrism’ in Derrida’s classical work Of Grammatology. ‘Logos’ (Greek for ‘word’) is a term which in the New Testament carries the greatest possible concentration of presence: ‘ In the beginning was the word’……… Phonocentrism treats writing as a contaminated form of speech. Speech seems nearer to originating thought. When we hear speech we attribute to it a presence which we take to be lacking in writing. The speech of the great actor, orator, or politician is thought to posses presence; it incarnates, so to speak, the speaker’s soul. Writing seems relatively impure and obtrudes its own system in physical marks which have a relative permanence; writing can be repeated (printed, reprinted, and so on) and this repition invites interpretation and reinterpretation. Even when a speech is subjected to interpretation it is usually in written form. Writing does not need the writer’s presence, but speech always implies an immediate presence. The sounds made by a speaker evaporate in the air and leave no trace (unless recorded), and therefore do not appear to contaminate the originating thought as in writing. Philosophers have often expressed there dislike of writing; they fear that it will destroy the authority of philosophic truth. This Truth depends upon pure thought ( logic, ideas, propositions) which risk contamination when written. Francis bacon ………… (Seldon, 144-145(

واضح رہے کہ سیلڈن یہاں پر ختم نہیں کرتے، بیکن کی بحث دیکھنے کے لیے قاری مذکورہ ایڈیشن کے صفحہ۱۴۵ سے مطالعہ جاری رکھے جو اسے صفحہ ۱۵۷ تک لے جائے گا جس میں سیلڈن نے دی مان، بلوم، ہارٹمین  اور ملر وغیرہ کا تعارف بھی پیش کیا ہے۔ سیلڈن کی یہ کتاب بی اے کے طالب علموں کے لیے ہے جبکہ نارنگ کی یہ حرکت اردو کے ’اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ ادیبوں کی سمجھ سے بھی باہر ہے۔ اس وقت ضروری یہ ہے کہ نارنگ کے سرقے کی نشاندہی کی جائے

’’ساختیات سے بحث کرتے ہوئے دریدا کہتا ہے کہ ساختیاتی فکر میں ساخت (سٹرکچر) کا تصور اس مفروضے پر قائم ہے کہ معنی کاکسی نہ کسی طرح کا مرکز ہوتا ہے ۔ یہ مرکز ساخت کو اپنے تابع رکھتا ہے، لیکن خود اس مرکز کو تجزیے کے تابع نہیں لایا جا سکتا ( ساخت کے مرکز کی نشاندہی کا مطلب ہو گا دوسرا مرکز تلاش کرنا) انسان ہمیشہ مرکز کی خواہش کرتا ہے اس لیے کہ مرکز ’موجودگی‘ کی ضمانت ہے : ‘CENTRE GUARANTEES BEING AS PRESENCE’مثال کے طور پر ہم اپنی ذہنی  اور جسمانی زندگی کو مرکزیت عطا کرتے ہیں ضمیر ’میں ‘ کے استعمال سے ضمیر ’میں ‘ یا ’ہم‘ کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ فرض کیجیے زبان میں ضمیر ’میں ‘ یا ’ہم‘ نہ ہوں تو ہم اپنی ’موجودگی‘ کا اثبات کیسے کریں گے۔ الغرض ’موجودگی‘ اس وحدت کا اصول ہے جو دنیا کی تمام سرگرمیوں کی ساخت کی تہہ میں کارفرما ہے۔ دریدا کا کہنا ہے کہ فرائڈ نے شعور  اور لاشعور کی تقسیم کو بے نقاب کر کے وجود کی وحدت کے ما بعد الطبیعاتی اعتقاد کی جڑ کھوکھلی کر دی۔ غور سے دیکھا جائے تو فلسفے کی بنیاد ہی ایسے تصورات پر ہے جو معنی کو ’مرکز‘ عطا کرنے کے اصول پر قائم ہے، مثلاً خدا، انسان، وجود، وحدت، ’شعور‘ ، حق، خیر، شر، جوہر، اصل۔ دریدا یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ ان اصطلاحات سے باہر ہو کر سوچنا ممکن ہے۔ بلکہ یہ اصطلاحات معنی کے جس ’مرکز‘ پر قائم ہیں، وہ ان میں نہیں ہے۔ فرض کیجیے کہ اگر یہ بھی کہیں کہ یہ تصورات قائم بالذات نہیں ہیں، بلکہ قائم بالغیر ہیں تو معنی کا مرکز ’غیر‘ میں بھی نہیں ہے۔ ’غیر‘ کو مرکز تسلیم کرنے کا مطلب ہو گا پھر سے اصطلاحوں میں گرفتار ہونا یا نیا مرکز تسلیم کرنا کیونکہ ’غیر‘ بھی تو قائم بالذات نہیں ہے۔ مثلاً اگر ’شعور‘ کے مرکز کو یہ کہہ کر ختم کیا جائے کہ لاشعور کی تخریبی قوت انسانی شخصیت میں ایک رد کرنے والے معمل کے طور پر کارفرما رہتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم ایک نئے مرکز کو تسلیم کر رہے ہیں، کیونکہ تصور کے جس نظام(شعور/لاشعور) کو ہم بے دخل UNDO کر رہے ہیں۔ اس سے ہم انتخاب نہیں کر سکتے، بلکہ اس میں ہمیں خود داخل ہونا پڑے گا۔ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کر سکتے ہیں کہ طرفین ( شعور/لاشعور، جسم/روح، حق/باطل) میں سے کسی ایک کو مرکز بننے یا ’موجودگی‘ (PRESENCE) کا ضامن بننے کی اجازت نہ دیں۔۔۔۔۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ دریدا کے کلاسیکی کارنامے OF GRAMMATOLOGY میں لفظوں پر تصورات کے قائم ہونے کو) (LOGOCENTRISM، لفظ مرکزیت کہا گیا ہے۔LOGOS یونانی لفظ ہے نیا عہد نامہ میں LOGOS ایسی اصطلاح ہے جو ’موجودگی‘ کے تصور سے لبا لب بھری ہوئی ہے۔۔۔۔ ‘IN THE BEGINING WAS THE WORD’ (نارنگ، ص، ۲۰۸۔۲۰۷)۔ ’’صوت مرکزیت PHONOCENTRISM) ) کی رو سے تحریر دراصل تقریر (تکلم) کی وہ شکل ہے جو تقریر کی ملاوٹ لیے ہوئے ہے۔ تقریر ہمیشہ اصل خیال سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ جب ہم تقریر (تکلم) سنتے ہیں تو ہم اسے ’موجودگی‘ PRESENCE) ) سے منسوب کرتے ہیں جس کی تحریر میں کمی محسوس ہوتی ہے۔ کسی بھی بڑے خطیب، اداکار یا سیاست داں کی تقریر کے بارے میں برابر محسوس ہوتا ہے کہ یہ ’موجودگی‘ رکھتی ہے، یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ تقریر بولنے والے کی روح کی تجسیم ہے۔تقریر کے مقابلے میں تحریر غیر خالص ہے  اور اپنے نظام کو تحریری نشانات سے آلودہ کرتی ہے جو بے شک نسبتاً مستقل ہیں۔ تحریر کو دہرا سکتے ہیں، محفوظ کر سکتے ہیں، بار بار چھاپ سکتے ہیں۔  اور یہ تکرار تفہیم  اور باز تفہیم کے لامتناہی سلسلے کو راہ دیتی ہے۔ تقریر کی بھی جب تفہیم کی جاتی ہے تو بالعموم ایسا اس کو ضبطِ تحریر میں لا کر ہی ممکن ہے۔ تحریر کے لیے مصنف کی ’موجودگی‘ ضروری نہیں۔ اس کے برعکس تقریر سے مراد متکلم کی فوری ’موجودگی‘ ہے۔ مقرر کی آواز فوری ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے  اور اس کا کوئی نشان باقی نہیں رہتا۔ اسی لیے تقریر کے خیال میں ملاوٹ کا شائبہ نہیں، جو تحریر میں ممکن ہے۔ قدیم فلسفہ دانوں نے اسی لیے تحریر کی مخالفت کی ہے، کیونکہ وہ خائف تھے کہ تحریر سے فلسفیانہ صداقت کا تحکم ختم ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ صداقت خالص فکر پر مبنی ہے (منطق، خیالات، قضایا) ان کو تحریر سے آلودگی کا خدشہ تھا۔ فرانسس بیکن۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ جاری ہے (نارنگ، ص، ۲۱۰) یہاں پر بھی یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ نارنگ نے لفظ بہ لفظ ترجمہ کر کے صفحہ نمبر کا حوالہ نہ ہی متن  اور نہ ہی مصادر میں پیش کیا ہے، لیکن اس بات سے انکار کرنا محال ہے کہ یہ ترجمہ نہیں ہے۔جب رامن سیلڈن کے ژاک دریدا پر لکھے ہوئے باب یا پھر ان کی تمام کتاب کا مطالعہ کریں تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ سیلڈن کی اس کتاب کے دریدا سمیت تمام مضامین تنقیدی نوعیت کے قطعی طور پر نہیں ہیں، بلکہ یہ کتاب برطانیہ میں کالجوں کے بچوں کو سامنے رکھ کر اس انداز میں لکھی گئی ہے کہ بچوں کو تفہیم میں آسانی رہے۔ نارنگ نے اردو کے ’اعلیٰ ادیبوں ‘ (ان کے ارد گرد پھیلے ہوئے ) کو سامنے رکھ کر اس کا ترجمہ کیا ہے۔ مطلب یہ کہ نارنگ کی نظر میں برطانیہ کے چھوٹی جماعتوں میں زیرِ تعلیم بچوں  اور اردو کے علم و فکر سے دور ’اعلیٰ ادیبوں ‘ میں قطعی کوئی فرق نہیں ہے۔ سیلڈن کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ ان کا مقصد بالکل واضح ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ پیچیدہ خیالات کی ان کی ’تشریح‘ کا مقصد کیا ہے ؟

جن لوگوں نے براہِ راست ژاک دریدا کا مطالعہ کیا ہے ان کے لیے یہ جاننا مشکل نہیں ہو گا کہ سیلڈن نے دریدا پر جو کچھ لکھا ہے وہ ’تحریریات‘ کے پہلے باب، ’فلسفے کی حدود‘ میں سے The Closure of the Concepts کے علاوہ اسی کتاب میں سے دریدا کے ایک  اور مضمون ’دستخط، واقعہ  اور تناظر کا‘ خلاصہ ہے۔ خیالات بلاشبہ دریدا ہی کے ہیں یا دیگر ابواب میں دوسرے تمام فلسفیوں ہی کے ہیں ’’البتہ افہام و ترسیل‘‘ سیلڈن کی ہے۔ نارنگ کی فہم سرقے کی حدود عبور نہیں کر پائی۔ دریدا نے ’فلسفے کی حدود‘ لکھی جبکہ نارنگ نے ’سرقے کی حدود‘ کو اپنے عمل سے تہس نہس کر دیا۔راقم نے اپنے ایک مضمون ’’نارنگ کی باطل  اور محکومانہ ما بعد جدید تعبیریں ‘‘ میں یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ نارنگ نے چونکہ ترجمے کیے ہیں اس لیے نارنگ کی عقل میں فلسفے کے پیچیدہ قضایا داخل نہیں ہو سکے۔ سیلڈن کے مذکورہ بالا اقتباس میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح سیلڈن نے معنویت  اور مرکزیت کو ’لاتشکیل‘ کے فلسفوں سے جوڑا ہے، اس کی وجہ صاف ظاہر ہے جو دریدا کے براہِ راست مطالعے سے ان لوگوں کی سمجھ میں آنے لگتی ہے جو علمی نقطہ نظر سے فلسفیانہ پسِ منظر رکھتے ہوں۔ نارنگ نے مذکورہ بالا اقتباس ترجمہ تو کر دیا مگر اس کی تفہیم میں ناکام رہے۔ اس لیے جب کبھی ترجمے کی کتابوں کو بند کر کے کچھ کہنا چاہتے ہیں، کسی نامعلوم قسم کی ’لاتشکیل‘ میں الجھ جاتے ہیں۔سرقہ حواریوں کو تو مجتمع کر سکتا ہے، عمیق تنقیدی بصیرت عطا نہیں کر سکتا۔ نارنگ کے حواریوں کی تحریروں کا مقصد نارنگ کے سرقوں سے چشم پوشی  اور ان کو قبل از تجربہ تصور کر کے ان کی شخصیت کا دفاع کرنا ہے۔ نظریہ علم ہویا فلسفہ جمال یا پھر شخصیت پرستی کا ہی کوئی پہلو کیوں نہ ہو، اعلیٰ و ادنیٰ کا تعین محض بدیہی a priori)) بنیادوں پر نہیں کیا جا سکتا۔شخصیات کی عظمت کا تعین بھی فوق تجربی نقطہ نظر سے نہیں بلکہ بعد از تجربی بنیادوں پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ہمیں فلسفی برکلے کے فلسفہ فوق الطبیعی جوہریت سے کوئی دلچسپی نہیں رہی، اس کا استرداد انیسویں صدی کے آغاز ہی میں عمل میں آ چکا تھا۔ اس کے مطابق تو بدیہیت کی بنیاد پران اوصاف کو بھی بیان کر دیا جاتا ہے جو کبھی ’موجود‘ ہی نہیں ہوتے۔ ’’کوہ ہمالیہ‘‘ کی اونچائی دیکھ کر ہی اسے ’’کوہ ہمالیہ‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ ’’کوہ ہمالیہ‘‘ کو فوق تجربی بنیادوں پر محض تصور کر لینا درست نہیں ہے۔ ہم شخصیات کے حوالے سے بھی جو معروضی مقولات تشکیل دیتے ہیں ان میں تصوریت کی غلاظت کے برعکس عمل کا استناد درکار ہوتا ہے۔اوصاف کو منسوب کرنا نہیں بلکہ عمل کی معروضی ماہیت سے اخذ کرنا ہمارے فلسفے کا جزوِ لازم ہے۔ عمل کا مقرونی تسلسل وحدتِ خیال کی تحلیل  اور اسے متصوری کے برعکس حقیقی بنیادوں پر پارہ پارہ کر دیتا ہے۔اس موقع پر یہ ذکر بھی بے جا نہ ہو گا کہ گزشتہ چھ برس سے ہر برس ہم عہد حاضر کے بے شمار اردو شعراء  اور افسانہ نگاروں  اور نقادوں کی کتابوں کو کوڑے میں پھینکتے ہیں۔ پچھلے بدھ کو ہم نے اردو کی پینتس کتابیں کالے بیگ میں ڈال کر کوڑے میں محض اس لیے پھینک دیں کہ، ان پینتیس کتابوں میں ایک بھی قابل ذکر شعر  اور ایک بھی ایسا افسانہ نہیں تھا جسے ادب کے زمرے میں رکھا جا سکے، یہ واضح ہی نہیں ہو پاتا کہ یہ لوگ کیوں  اور کیا لکھ رہے ہیں ؟ حوصلہ ہے ان پبلشروں کا جو محض پیسے کی خاطر اردو ادب کو اس طرح کے کوڑے کرکٹ سے بھر رہے ہیں۔ ’مصنفین‘ کو تو شہرت درکار ہوتی ہے، اس کے لیے ہر جائز و ناجائز وسیلہ استعمال کیا جاتا ہے، لیکن ادب میں جو غلاظت مجتمع ہو رہی ہے، اس کے بارے میں کوئی بھی سنجیدگی سے سوچنے کو تیار نہیں ہے۔ہمارے ایک قریبی غیر ادبی دانشور دوست نے کہا کہ ان کتابوں کو لائبریری میں جمع کرا دیں، ہم نے جواب دیا کہ اس گندگی کو محفوظ کرنے کے جرم کا ہم ہرگز مرتکب نہیں ہونا چاہتے۔ ہمارا ایمان ہے کہ جہاں اچھی کتاب بہترین دوست ہے تو وہاں بری کتاب بدترین دشمن بھی ہے۔برٹرینڈ رسل اپنی کتاب ’’لوگوں کو سوچنے دو‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’اس طرح کی کتابیں پڑھ کر ہر برس ہزاروں کی تعداد میں جامعات سے شاہ دولے شاہ کے چوہے نکلتے ہیں۔‘‘ نارنگ کی سرقہ کی ہوئی کتابیں ابھی تک کوڑے کی نذر اس لیے نہیں کیں کہ ممکن ہے مستقبل میں سرقے سے متعلق مزید حقائق درکار ہوں۔جو لوگ براہِ راست بارتھ، فوکو  اور دریدا کا مطالعہ کر سکتے ہیں انھیں بد نیتی پر مبنی مواد کو پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر زبان کا مسئلہ ہے تو جو لوگ جامعات میں درس دیتے ہیں، وہ انتظامیہ سے استدعا کر کے ان کتابوں کے تراجم بھی کرا سکتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ ایسی جگہوں پر معمور بااختیار لوگوں کو سب سے زیادہ دانشور بننے کا شوق ہے۔شوقیہ ادیب، شوقیہ افسانہ نویس، شوقیہ شعراء  اور اب شوقیہ نقاد و دانشور  اور اب شوقیہ مدیران !کیا اس امر سے کوئی اختلاف کر سکتا ہے کہ اگر تراجم کا کام شروع ہو گیا تو ادبی خدمت گزار قسم کے افسانہ نویسوں  اور نقادوں کی موت واقع ہو سکتی ہے ؟ابنِ رشد  اور ابنِ سینا وغیرہ نے ارسطو کی کتب کے تراجم کیے  اور ان کی شرح کی۔ ارسطو  اور رُشد کے افکار کے درمیان واضح حد امتیاز کھینچی جا سکتی ہے۔ہم نے ابنِ رشد، ابنِ خلدون  اور ابِن سینا کی کتابیں حاصل کرنے کے لیے پاکستان  اور ہندوستان کے علاوہ مغرب میں بھی بے شمار پبلشروں کو فون کیے۔ ابنِ رشد، ابنِ سینا یا ابن خلدون کا کوئی حواری موجود نہیں ہے، جو انھیں ’’کوہ ہمالیہ‘‘ کہہ سکے، اس کے باوجود ان دانشوروں کی علمی اہمیت کو شک کی نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا۔نارنگ کے حواری ان کے سرقے کی ’میراث‘ کو تضحیک کی نظر سے دیکھنے کی بجائے، گوپی چند نارنگ کو ’’ایک اعلی ادبی میراث کے حامل‘‘ ادیب و نقاد قرار دیتے ہیں۔‘‘ جیسا کہ حواری نارنگ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ نارنگ ’’ادب کے کوہ ہمالیہ‘‘ ہیں، جن پر لکھ کر شہرت حاصل ہوتی ہے۔یہ ایک ایسی غلیظ  اور مکروہ سوچ ہے جس نے برسوں سے اردو ادب کا محاصرہ کر رکھا ہے کہ کسی نام نہاد ’’بڑے نام‘‘ پر لکھنے سے ’شہرت‘ حاصل ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے ارسطو، افلاطون، مارکس، کانٹ  اور ہیگل پر بھی لکھا ہے، وہ بھی شہرت کے حصول کے لیے تھا؟نارنگ  اور ان کے حواریوں کا جمِ غفیر ان فلسفیوں کے پیچیدہ افکار کی تفہیم تک کرنے سے قاصر ہے، نارنگ سے سوال کریں کہ اگر مسئلہ شہرت کا حصول نہیں تھا، تو سرقے کی ضرورت ہی کیا تھی؟شہرت کی خواہش اس سے بڑھ کر  اور کیا ہو سکتی ہے کہ تحقیق کی اصل روح تک پہنچنے سے پہلے ہی محض اپنے گرد حواریوں کے ہجوم کے حجم میں اضافہ کرنے کے لیے سرقوں کا ارتکاب کر لیا جائے۔

ہمارے ہاں ایک مکروہ روایت یہ بھی پروان چڑھ چکی ہے جو شاید فارسی سے اردو میں داخل ہوئی ہے کہ اگر کسی لکھنے والے کے سرقوں، مغالطوں  اور غلط تعبیروں کو عیاں کیا جائے تو اس نقص کو ’منفی‘ تحریر تصور کر لیا جاتا ہے۔اگر یہ درست ہے تو قدیم یونان سے لے کر ’’ما بعد جدید‘‘ عہد حاضر تک مغرب میں پیش کیا گیا ہر فلسفہ و فکر ’منفی‘ تحریروں پر ہی مشتمل سمجھا جانا چاہیے، اگر یہ سچ ہے تو پھر کیوں سر سید سے اقبال تک مغربی تحریروں سے متاثر ہونے کی روایت کو ’منفی‘ تصور کیا جائے ؟ اقبال نے تو خود نٹشے، افلاطون اور کانٹ سے استفادہ کیا  اور پھر انکے خلاف بھی لکھا تو کیا اسے بھی ’منفی‘ تصور کر لیا جائے ؟یا پھر اقبال پر کچھ نازل ہونا شروع ہو چکا تھا؟یہ ذہن نشین رہے کہ اقبال کی مخالفت کے باوجود نٹشے کو کوئی فرق نہیں پڑا۔نٹشے بیسویں صدی میں یورپ کی گلیوں میں زندہ ہو گیا، جبکہ اقبال کو حضرت کے مقام پر فائز کر کے الماری کی آخری شیلف پر رکھ دیا گیا۔نٹشے سے انگنت زاویے اخذ کیے گئے، اس کے لیے اس کے فلسفے میں مضمر فاشسٹ خیالات کی وجہ سے نٹشے کورسوا ہونا پڑا، اقبال کو تعریف و تحسین تک محدود کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نٹشے لامحدود ہو گیا  اور اقبال محدود ہو کر رہ گیا۔اس نکتے پر بحث یہاں مقصود نہیں ہے، اس کا تفصیلی تجزیہ ہم نے اپنے غیر مطبوعہ مضمون ’’اقبال  اور جرمن فلسفہ‘‘ میں کر دیا ہے۔خود نارنگ کی توجہ جب سرقے سے ہٹتی ہے تو جدیدیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس نے ’’ابہام و اشکال کو فارمولہ بنا کر اجنبیت  اور مریضانہ داخلیت کو ایمان کا درجہ دے کر۔۔۔۔ادبی چھوت چھات کو فروغ دے کر ادب کو بے جان کر دیا‘‘ (جدیدیت کے بعد، ۵۰)۔ قطع نظر اس امر کے کہ یہ اقتباس اردو کے مفہوم میں ’منفی‘ ہے، یہ ما بعد جدیدیت کے بنیادی فلسفے کے بھی منافی ہے، کیونکہ نارنگ کے یہ فقرے ’’ویلیو ججمنٹ‘‘ کے حامل ہیں۔اس قسم کے فقرے ما بعد جدیدیت کے علم برداروں سے سن کر حیرت ہوتی ہے، کسی بھی طرح کا تصدیقی عمل ما بعد جدیدیت کی نفی کرتا ہے۔برطانیہ کے اسکولوں میں جی سی ایس ای (بارہ جماعتیں ) کرنے والے بچوں کو کسی نئے زاویے سے شیکسپیئر پر سخت تنقید کرنے کے علاوہ مغرب کے اہم ترین فلسفیوں  اور ادبی نقادوں کے افکار کو فکری و نظری سطح پر، لیکن دلائل کی بنیاد پر پرخچے اڑانے کا کہا جاتا ہے، ایسی ہزاروں تحریریں موجود ہیں جن میں فلسفیوں، نقادوں اور ناول نگاروں سے اختلاف کیا جاتا ہے، لیکن جب کوئی حقیقی زاویہ سامنے آتا ہے تو اس سے علمی و نظری سفر آگے بڑھتا ہے،  اور کسی کی ’شہرت‘ خراب نہیں ہوتی۔نارنگ اگر ادیب و نقاد ہیں تو ان کی ’شہرت‘ کوئی خراب نہیں کر سکتا، لیکن اگر وہ سارق ہیں، تو سرقے کے حوالے سے ان کی ’شہرت‘ کو ’شہرت‘ کے اعلیٰ معیار پر کوئی تیسرے درجے کا حواری کبھی نہیں لا سکتا۔راقم نے خود جب یونیورسٹی آف سنٹرل انگلینڈ میں جرمن فلسفی عمانوئیل کانٹ پر اپنے مضمون کا خاکہ تیار کر کے معروف فلسفی ڈاکٹر مارک ایڈیس کو دکھایا تو مارک ایڈس کے راقم کے ذہن پر نقش الفاظ ملاحظہ فرمائیں ’’تمہیں مضمون لکھنے کے لیے کہا تھا، تم نے رپورٹ تیار کر دی، یہ بتاؤ کہ کانٹ کا فلسفہ عہد حاضر سے کیونکر ہم آہنگ نہیں ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’تمہیں کانٹ کو تباہ Destroy)) کرنا ہے۔‘‘ مارک ایڈیس کی بات سن کر ہمارے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ نارنگ سمیت پاکستان  اور ہندوستان میں ما بعد جدیدیت کے مبلغ نہ ہی نقاد ہیں، نہ ہی یہ مضمون نویس ہیں  اور نہ ہی یہ اوریجنل لکھاری ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ مغربی ادب کے رپورٹرز ہیں، جو صرف یہ بتاتے ہیں کہ رولاں بارتھ نے کیا کہا تھا؟ کرسٹیوا کے الفاظ یہ ہیں، وغیرہ وغیرہ۔تاہم یہ بھی سچ ہے کہ یہ لوگ اچھے رپورٹرز بھی نہیں ہیں، کیونکہ ان کی قوتِ مدرکہ اپنے حقیقی تفاعل، یعنی ادراک کے عمل سے محروم ہے۔نارنگ کو نقاد بننے کے لیے کم از کم چار سال برطانیہ جیسے ملک سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نارنگ ایک اعلیٰ نقاد بن جائیں گے بلکہ نارنگ کے باطن میں حقیقی تنقیدی روح بیدار ہو جائے گی، اعلیٰ و ادنیٰ کا تعین اس کے بعد ہی ہو سکے گا۔فرانس کے معروف فلسفی  اور ثقافتی حوالوں سے ما بعد جدیدیت کے پہلے داعی لیوٹارڈ ہیں، جن کی کتاب The Postmodern Condition: A report on Knowledge سے حقیقت میں ما بعد جدیدیت کی بحث کا آغاز ہوا، کیونکہ لیوٹارڈ ہی وہ شخص تھا جس نے ’’بڑے بیانیوں کی موت‘‘ کا اعلان کیا۔ اس کتاب کا بنظرِ غور مطالعہ فرما نے سے عیاں ہو گا کہ اس کتاب میں لیوٹارڈ کا طرز اظہار مغربی تناظر میں تجزیاتی نہیں ہے، وجہ صاف ظاہر ہے  اور جو عنوان سے بھی عیاں ہے کہ یہ مغربی معاشروں کی حالت کو جوں کا توں بیان کرنے کی کوشش ہے، جسے رپورٹ کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں وضاحتیں  اور تشریحات درکار ہوتی ہیں، گو کہ مغرب میں لکھی گئی رپورٹیں بھی تجزیاتی نوعیت کی ہوتی ہیں، لیکن تجزیاتی رپورٹ میں مضامین جیسی گہرائی نہیں ہوتی۔نارنگ نے سرقے کا ارتکاب کیا، وہاں پر نارنگ سارق ہیں، جہاں پر اپنے الفاظ میں کچھ لکھنے کی کوشش کی وہاں پر رپورٹر ہیں۔مختصر یوں کہ نارنگ ادب کے صحافی ہیں۔نارنگ  اور حواریوں کے نزدیک نارنگ ’’ادب کا کوہ ہمالیہ‘‘ ہیں، جبکہ ہم یہ ثابت کر چکے ہیں کہ نارنگ نے سرقے کا ’کوہ ہمالیہ‘ تیار کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نارنگ سے اختلاف کرتے وقت بھی محتاط رہنا پڑتا ہے کہ مستقبل میں کہیں اختلافی نکات کا سرقہ بھی سامنے نہ آ جائے، جس سے یقیناً ہماری کم علمی بھی سامنے آسکتی ہے کہ ہمیں یہ معلوم کیوں نہ ہو سکا کہ یہ حصہ بھی مسروقہ ہے۔اس سرقے کے باوجود نارنگ کی پذیرائی وہی لوگ کر سکتے ہیں، جن کا ادب سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ نارنگ ہی کی طرح ادب میں گھس آئے ہیں، یہ ادب کی خدمت نہیں کر رہے بلکہ یہ ادب کا سہارا لے کر ادب سے اپنی خدمت کرا رہے ہیں۔ مجموعی طور پر فہم سے عاری حواریوں کے وسیلے سے نارنگ کے یہ تضحیکی  اور دفاعی ہتھکنڈے کسی طرح بھی قاری کی نظر میں ان کی تکریم کا باعث نہیں بن سکتے۔ ہماری زیرِ طبع کتاب میں سرقے سے متعلق مزید انکشافات کیے گئے ہیں، سرقے کے علاوہ ما بعد جدیدیت پر کی گئی بحث نارنگ  اور ان کے حواریوں کی فہم سے کلی طور پر بالا ہو گی، جبکہ سرقے سے متعلق بھی حواریوں کے سارق ’کوہ ہمالیہ‘ کو کلی طور پر مسمار کر دے گی۔ نئی نسل کو یقین ہے کہ سرقے کی بنیادوں پر قائم کیے گئے ان ادبی کدوں کے منہدم ہونے سے اردو میں اوریجنل ادبی و تنقیدی اقدار کا، سماجی اقدار کی حرکت میں، ان کے تناظر میں، تعین ہو سکے گا۔ہمارا اس بات پر بھی پختہ یقین ہے کہ ارسطو کا نظریہ نقل آج تک غیر متعلقہ نہیں ہو سکا، گو کہ اس کی ہیئت میں تبدیلی ضرور ہوئی ہے، ہمارے معاشروں میں جاگیر داری  اور راہبانہ نظام آج بھی سماج میں بسنے والی اکثریت کے علاوہ ادب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے اذہان میں راسخ ہو چکا ہے، نارنگ کے گرد ذہنی معذور حواریوں کا جم غفیر اسی نظام کا شاخسانہ ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ شخصیت پرستی کے مارے ان ادبی جاگیرداروں  اور بیساکھیوں کے متلاشی حواریوں کے پاس ادبی نظام کی اصلاح کا کوئی طریقہ ء کار موجود نہیں ہے، یہ لوگ زوال کے تسلسل کے علاوہ  اور کچھ نہیں ہو سکتے۔ ادبی جاگیردار کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی ادبی جاگیر کو ہر جائز و ناجائز طریقے سے وسعت دیتا رہے، یہی کچھ نارنگ نے کیا ہے۔بہرحال جاگیرداری نظام میں بھی آہستہ اصلاح پسندی کا رجحان موجود ہوتا ہے۔ اگر ہم یہ توقع کریں کہ نارنگ کو ادب سے سچا لگاؤ ہے  اور علمی و ادبی قضایا بقول نارنگ ان کی ’’داخلی ضرورت کا بھی حصہ ہیں ‘‘ تو نارنگ کو اپنے گزشتہ ادبی جرائم پر پشیمان ہو کر نئے سرے سے سچائی و سنجیدگی کے ساتھ ادب میں داخل ہونا پڑے گا۔

داخلیت کو خارجیت سے برسرِ پیکار کرنا پڑے گا۔نارنگ کے سرقے کا محرک شہرت و تحسین کی خواہش  اور شہرت دینے والے حواریوں کی تحسین نارنگ کو مزید سرقوں کی جانب لے گئی۔اب ضروری یہ ہے کہ نارنگ اپنے سرقوں کو تسلیم کر کے دوبارہ الف سے آغاز کریں۔ نارنگ کے لئے اپنے ادبی جرائم کا کفارہ ادا کرنے کا  اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔ ’’ادب کے کوہ ہمالیہ‘‘ جیسے عنوان کا تعین آخر میں ہونا چاہیے نہ کہ آغاز یا درمیان میں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حرفِ آخر:ما بعد جدیدیت نے مصنف  اور متن دونوں کو بے توقیر کر کے تخلیقی لحاظ سے بانجھ نقادوں کو ادب پر مسلط کرنا چاہا تھا۔ما بعد جدیدیت ہی کے ایک طالب علم کے ذریعے گوپی چند نارنگ کے سرقوں کے انکشاف کے بعد مصنف  اور متن کی توقیر میں اضافہ  اور تخلیقی لحاظ سے بانجھ نقادوں کے تحکمانہ فیصلوں کا رد ہو گیا ہے۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے سرقوں سے متعلق اس خاص نمبر کے ورق تمام ہوئے اور سرقے باقی ہیں۔۔۔۔ ارشد خالد

٭٭٭

ماخذ:

http://www.sarqay.blogspot.com/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید