فہرست مضامین
ادبی کتابی سلسلہ
عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد
(26)
مرتب: ارشد خالد
مکتبہ عکاس
Akkas Publications
House No 1164 Street No 2 Block C
National Police Foundation Sector O- 9
Lohi Bhair, Islamabad
E mail
akkasurdu2@gmail.com
Cell No 0333 5515412
0300 5114739
مکمل جریدہ ڈاؤن لوڈ کریں
اپنی بات
سانحۂ پشاور (دسمبر ۲۰۱۴) سے سانحۂ مردان یونیورسٹی (اپریل (۲۰۱۷) تک وطنِ عزیزکی عمومی فضا اتنی مسموم ہو گئی ہے کہ کچھ لکھتے ہوئے یا کہتے ہوئے بھی خوف محسوس ہونے لگا ہے۔ لگ بھگ تیس سال پہلے ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنی طویل نظم ’’اک کتھا انوکھی‘‘ میں تخلیقی سطح پر انسانی معاشرے کی جو حالت بیان کی تھی، وہ تب سے کہیں زیادہ آج ہم پر پوری اترتی ہے۔ اس نظم کا ایک اقتباس اس بار اپنی بات کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔
جب دھرتی پر
آوازوں کا شور اٹھا تھا
اور فولاد کا راج ہوا تھا
انساں سارے
لوہے کے رو بوٹ بنے تھے
بے چہرہ، بے نام ہوئے تھے
کالے، پیلے ہند سے بن کر
لفظوں کے انکھووں پر جیسے ٹوٹ پڑے تھے
اک اک ’’لفظ‘‘ پہ ثبت ہوئے تھے
اور اب
ہند سے ہی ہند سے ہیں
جمع کرو تو دگنے تگنے ہو جاتے ہیں
لاکھوں کا اک لشکر بن کر
آگ اور خون کے کھیل کا منظر
دکھلاتے ہیں
ضرب لگے تو
بھنور سا بن کر تیز ہوا کا
پاگل بھوتوں کے
وحشی گرداب کی صورت
ایک ہی پل میں دھرتی اور آکاش سے اونچے اٹھ جاتے ہیں
گرو اگر تفریق، صفر ہو جاتے ہیں !
تو کہتا ہے
چپ کی تہہ در تہہ سلوٹ میں
انسانوں پر کیا بیتی ہے
کس نے ان کی رکھشا کی ہے ؟
میں کہتا ہوں
ان کو رکھشا کی حاجت ہی کیا ہے
یہ سب
نسلی پاگل پن کی رکھشا میں ہیں ! (اقتباس از اک کتھا انوکھی۔ وزیر آغا)
بوجھل دل کے ساتھ
ارشد خالد
پروین شاکر۔۔ ۔ اس کا عہد اور شاعری ۔۔۔ عبداللہ جاوید (کینیڈا)
پروین شاکر کا پاکستان جس میں وہ ولادت سے جسمانی اور ذہنی بلاغت کو پہنچی ایک فوجی آمر کا پاکستان تھا۔ وہ پاکستان نہ تھا جس کو اس کے بڑوں نے سلطنت خدا داد کا اور فلسفی شاعر اقبال کے خواب کا نام دے رکھا تھا۔ اس کے عہد کے بارے میں اتنا کہہ دینا اس کے ان پڑھنے والوں کے لیے ایک تاریخ یا تاریخی داستان کہنے کے برابر ہے جن کا تعلق ہند و پاک سے ہے۔
میں جب یہ کہتا ہوں کہ پروین کی شاعری میں اس کے عہد کا پاکستان اور کسی حد تک اس کے عہد کی دنیا چھوٹی چھوٹی جھلکیوں کی صورت میں منعکس ہوتی ہے تو سیدھی سچی حقیقت کا اظہار کرتا ہوں۔ مزید وضاحت کی خاطر یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ ’’فوجی آمر کا پاکستان‘‘ کہنے سے بات پوری نہیں ہوتی صرف ریاستی سچائی تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے جب کہ معاملہ ریاستی اور سیاسی ہونے کے ساتھ سماجی بھی ہے اور سب سے زیادہ گھمبیر بھی ہے۔ پروین شاکر کے پاکستان میں ریاست میں فوجی آمر مسلط ہے تو سماج پر اعلیٰ طبقہ کی حکمرانی ہے۔ مذکورہ اعلیٰ طبقہ بیور وکریٹ (جن میں بیشتر کالے انگریز ہیں ) جاگیر داروں، دولت مند خاندانوں اور بڑے تاجروں پر مشتمل ہے۔ اس سماج کی شکل بھی نارمل نہیں ہے کیونکہ بڑی حد تک یہ دو طبقاتی ہے یعنی اعلیٰ طبقہ اور ادنیٰ طبقہ موجود ہے لیکن متوسط طبقہ یا تو موجود ہی نہیں یا اس کا شائبہ سا پایا جاتا ہے تو بھی وہ قطعی غیر فعال ہے۔
اب اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان اور اس کا سماجی فارمیٹ کے بارے میں جو کچھ اوپر کہا گیا ہے وہ پروینؔ کی شخصیت اور شاعری میں منعکس ہے تو شایداس کے بیشتر قاری اس کو مبالغہ خیال کریں۔ ممکن ہے اس کے سخن فہموں کو بھی یہ بات قابلِ قبول نہ لگے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ پروین شاکر کی شاعری میں یہ سب کچھ ہی نہیں، اور بھی بہت کچھ ہے جن کا ذکر ہم نے مناسب نہیں جانا۔ پروین شاکر کی شاعری میں افسر شاہی کی جھلکیوں کے ساتھ طبقاتی اور قبائلی سماج کی ایسی عکاسی بھی ہے جو نچلے طبقے کے ساتھ ساتھ خواتین کے استحصال پر مبنی ہے۔
پروین شاکر کو تعلیمی حلقوں میں اس وقت سے شہرت حاصل ہو گئی تھی جب وہ ہنوز کالج میں پڑھتی تھی۔ کالج سے نکلتے نکلتے وہ قبولِ عام کی سند سے بھی بہرہ یاب ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان اور بیرونِ ملک اس کی شہرت کا آفتاب نقطۂ عروج تک بلند ہو گیا۔ یہ کہنا بھی حقیقت سے بعید نہ ہو گا کہ اس قبولِ عام شہرت نے اس کے پڑھنے والوں کو اور چاہنے والوں کو اتنی مہلت بھی نہیں دی کہ اس کی شخصیت اور شاعری پر سنجیدگی سے توجہ دیتے۔ شاید اسی سبب سے وہ اپنے سخن شناسوں، قدر دانوں اور داد تحسین کے ڈونگرے برسانے والوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتی رہی۔ پروین شاکر کو پڑھنے اور چاہنے والوں کے جمِ غفیر میں سے کتنے اس تلخ حقیقت سے آگاہ ہوں گے کہ ہمہ وقت اپنے آپ کو سنبھالے (کمپوز) رکھنے والی اس بظاہر بھولی بھالی، معصوم، قدرے شگفتہ اور قدرے شوخ و شریر لڑکی (بعد میں خاتون) کے بباطن زندگی کی شمشیرِ زہر آلود کے لگائے ہوئے زخموں سے چور چور وجود کو یہ طمانیت بھی نصیب نہیں ہوئی کہ لوگ اس کو صحیح معنوں میں سنتے، پڑھتے اور سمجھتے بھی ہیں۔ وہ غریب تو تا عمر یہ سمجھتی رہی کہ بیشتر لوگ اس کے شعر کو کم، اس کے جسمانی حسن کو زیادہ شوق سے پڑھتے ہیں۔ شعر و ادب کی دنیا میں شاید ہی کسی اور شاعر یا شاعرہ نے اپنے قصیدہ گو سخن فہموں اور نقادوں کو اس طرح نہ صرف لتاڑا بلکہ ذلیل کیا ہو گا جس طرح پروین نے کیا ہے۔ اس ضمن میں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ایک مقام پر وہ کہتی ہے۔
’’میرا قبیلہ
مرے حروف سے روشنی ڈھونڈ نکالتا ہے
لیکن مجھ کو
اچھی طرح معلوم ہے
ان میں
کسی کی نظریں لفظ پر ہیں
اور کسی کی لفظ کے خالق پر‘‘
مندرجہ بالا اقتباس پروین شاکر کے شعری مجموعے ’’صد برگ‘‘ میں شامل نظم ’’مس فٹ‘‘ سے لیا گیا تھا۔ نظم کتوں کا ’ سپاسنامہ‘ میں اس نے نقادوں کی فن نوازی کے عقب میں فنکارہ نوازی کا انتہائی حقارت سے ذکر کرتے ہوئے ان کو کتوں کی مماثل قرار دیا ہے جن کی کھلی ہوئی بانچھوں سے فنکارہ کے لئے رالیں ٹپک رہی ہیں۔ اس ضمن میں وہ ’’سارہ شگفتہ‘‘ کا ذکر بھی بے انتہا تلخی سے کرتی ہے۔ پروینؔ کو اس بات کا قلق رہا کہ سارہ شگفتہ کو پاکستان کی امرتا پریتم قرار دینے والے انبوہ دانشوراں و نقاداں میں سے تقریباً ہر ایک نے زندگی بھر اس کو بھیڑیوں کی طرح بھنبھوڑ کھایا (بھیڑیے کی اصطلاح پروینؔ امریکی محاورے کے طور پر استعمال کرتی ہے جس سے مراد جوان لڑکی پر بھوکے بھیڑیے کی مانند ٹوٹ پڑنے والا مرد ہے۔ ) جب وہ غریب مر گئی تب بھی اس کو بخشنے کے لیے تیار نہیں ہوئے بلکہ بطور ٹماٹو کیچپ استعمال کرنے لگے۔
ؔؔؔ ’’بس یہ کہ اب وہ اس پر دانت نہیں گاڑ سکتے
مرنے کے بعد انھوں نے اسے
ٹماٹو کیچپ کا درجہ دے دیا ہے ‘‘
ّآپ نے اس نظم کے لہجے کی تلخی اور کاٹ کو محسوس کر لیا ہو گا۔ کیا پروین شاکر کی شاعری کا یہ روپ آپ کو اس کی شاعری کے مقبول عام روپ سے خاصا مختلف نہیں لگا؟۔ در حقیقت پروینؔ کی ساری زندگی ایک ایسی شاعرہ کی زندگی ہے جو مرد کے زیرِ نگیں سماج میں، مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئی، اور اس نے اپنی صلاحیتوں کا کھل کر اظہار کیا لیکن سارہ شگفتہ بننے سے انکار کیا۔ اس نے شعر و ادب کے میدان میں مردوں کی نہ صرف ہمسری کی بلکہ اکثر پر اپنی برتری ثابت کر دکھائی۔ اس کو بھی دانشوروں (نام نہاد) نے گھیرنے کی کوشش کی لیکن اس نے ان کے ہاتھوں سے نہ تو نرودہؔ کے بسکٹ قبول کئے اور نہ ہی کافکاؔ کی کافی قبول کی۔ دانشور اس کے آگے دبک shrink جاتے۔ کتنے اپنی تھوتھنیوں میں آ جانے والی رال خود ہی نگل لیتے اور ’’بھیڑیے آدمی‘‘ کھال سے باہر آنے کی ہمت ہی نہیں کرتے۔ اس سے آپ یہ نہ مراد لینے لگیں کہ وہ ایک طرح کی مرد مار خاتون تھیں۔ پروین شاکر میں تو عصمت چغتائی جیسی سختی اور سخت گیری بھی نہیں تھی، جس کا مظاہرہ ترقی پسند ادیبوں کے جلسوں میں وہ کبھی کبھار کیا کرتی تھیں۔ البتہ کسی کو کتنے فاصلے پر رکھنا ہے پروینؔ اس کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا کرتی تھی۔
مجھے اس حقیقت کا اعتراف کر کے اپنی بات چیت کو آگے بڑھانا پڑے گا کہ پروین شاکر کی شخصیت عوام میں اس سے مختلف ہے جس کا ذکر میں نے مندرجہ بالا زاویہ نگاہ سے چھیڑا ہوا تھا۔ پروین شاکر اور اس کی شاعری کے بارے میں عام تاثر کی فضا رومانوی یا نیم رومانوی ہے۔ اس فضا کی تشکیل میں خود اس کے ایک مخصوص لہجے کے اشعار نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ مثال کے طور پر ان کے درج ذیل شعر دیکھئے۔
وہ رت بھی آئی کہ میں پھول کی سہیلی ہوئی
مہک میں چمپا کلی، روپ میں چنبیلی ہوئی
پروین شاکر اور اس کی شاعری کا عوامی اور عمومی تصور یہی بنتا ہے۔ پھول کی سہیلی کا، چمپا کا چنبیلی کا، حسین و جمیل لڑکی کا اور نو بلوغتی کی منہ بولتی تصویر کا۔ یہ حقیقت ہے کہ پروینؔ کی شاعری میں ایسی لڑکی ملتی ہے۔ اس کا کردار زندہ اور متحرک ملتا ہے۔ وہ کلی سے پھول بن کر مہکتی، شاخِ گل کے روپ میں لچکتی، قوسِ قزح کے رنگتوں میں ملبوس تتلی کی طرح نیچی پروازیں کرتی، محبت کی برکھا میں پھول پھول پات پات بھیگتی، جگنوؤں کی مانند نقطہ نقطہ دمکتی، ماہ تمام کی طرح احساس کے آنگنوں اور جذبوں کے پھیلے پانیوں کو اپنے عکس کی تابانی بظاہر خنک، بباطن گرم چاندنی کی آغوش میں سمیٹتی، پل پل زندگی کی نت نئی رعنائیوں کا جادو جگاتی، لفظ لفظ، حرف حرف، آنکھ مچولی سی کھیلتی ہوئی موجود بھی ہے اور غیر موجود بھی۔ پروین شاکرؔ کا یہ کردار (لڑکی) اس کی شاعری کے پرستاروں (fans ) کی اکثریت کے ذہنوں میں کچھ اس طرح رچ بس گیا ہے کہ ان لوگوں نے اس لڑکی اور پروین شاکر میں تمیز کرنا بھی چھوڑ دیا ہے، اس کی وفات کے برسوں بعد بھی اس صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس کے بیشتر پڑھنے والے آج بھی اس کی شاعری کے اس ایک جزو ہی کو ’کُل‘ خیال کرتے ہیں۔
پروین شاکر کی شاعر کی ’ لڑکی‘ سے جب ہم اس کی شاعری کی ’ عورت‘ کی طرف آتے ہیں تو ہمیں محبوبۂ دلنواز کی جگہ عاشق وفا شعار سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس عورت کو آپ ہندی کلاسیکی شاعری میں موجود پائیں گے۔ فارسی شاعری میں ایک آدھ ہی مثال مل پائے گی (یاسمین طاہرہ) اس کو میں پروین شاکر کی نسوانی ’انا‘ کی ایک صورتِ اظہار کے طور پر دیکھتا ہوں۔ وہ ایک عاشق ہے۔ عشق کے ہر مرحلے پر وہ ایک عاشق کی طرح فعال (active ) ہے۔ معشوق کی مانند معمول (passive ) نہیں۔ اس کے اشعار میں خود سپردگی بھی ملتی ہے مجھے اس سے انکار نہیں لیکن اس میں ادائے محبوبانہ کی جگہ عطائے رندانہ اور داد و د ہشِ عاشقانہ جھلکتی ہے۔ کبھی کبھی ممتا بھی، چند اشعار دیکھئے۔
سب ضدیں اس کی میں پوری کروں، ہر بات سنوں
ایک بچے کی طرح سے اسے ہنستا دیکھوں
کیا اس شعر میں ممتا نہیں جھلک رہی؟
جرم کس کا تھا سزا کس کو ملی
کیا گئی بات پہ حجت کرنا
کوئی چاہے نہ تمہیں میری طرح
اب کسی سے نہ محبت کرنا
یہ اشعار محبوبانہ ہیں کہ عاشقانہ آپ ہی فیصلہ کیجئے۔ عاشقانہ سوچ ملاحظہ فرمائیں۔
میں سوچتی ہوں کہ مجھ میں کمی تھی کس شے کی
کہ سب کا ہو کے رہا وہ بس اک مِرا نہ ہوا
ایسے ہرجائی محبوب سے جتنی بھی اور جیسی بھی اپنائیت ملے اسے غنیمت جاننا پڑتا ہی ہے۔
وہ جہاں بھی گیا لَوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
شاید اسی سبب سے
دل کا دروازہ کھلا رکھا ہے
وقت مل جائے تو زحمت کرنا
اس کے باوجود صورتِ حال کچھ یوں ہے
ویسے تو کج ادائی کا دکھ کب نہیں سہا
آج اس کی بے رخی نے مگر دل دکھا دیا
صورتِ حال کا حقیقت پسندانہ تجزیہ بھی تو کچھ کام نہیں آیا
وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے، پھول کِدھر جائے گا
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
کیا خبر تھی رگِ جاں میں اتر جائے گا
دکھے دلوں کو دست دعا میں بدلتے دیر نہیں لگتی لیکن پروینؔ کا المیہ دیکھئے۔
آسمانوں میں وہ مصروف بہت ہے شاید
بانجھ ہونے لگے الفاظ مناجاتوں کے
ایسے میں خود داری اور عزتِ نفس کا معاملہ دگر گوں ہو کر ’ انا‘ لے مسائل بھی پیدا ہو جاتے ہیں
تجھے مناؤں کہ اپنی انا کی بات سنوں
الجھ رہا ہے مرے فیصلوں کا ریشم پھر
انا کا مسئلہ آگے چل کر محض انتخابoption کا معاملہ نہیں رہتا بلکہ کوئی اور ہی رخ اختیار کر لیتا ہے۔ یہ سوال ملاحظہ فرمائیں
میری خود داری برتنے والے
تیرا پندار بھی ٹوٹا کہ نہیں
ّآپ نے یہ تو محسوس کر لیا ہو گا کہ پروین شاکر کی شاعری میں عشق و محبت کے معاملات عام رومانس اور عشق کے معاملات سے مختلف اور منفردہیں۔ ان کا ایک اور منفرد دکھ دیکھئے۔
مری تقدیر کی نیرنگیوں میں
مری تدبیر کی شرکت عجب تھی
یا پھر اس شعر پر غور کیجئے۔
پرندہ اپنی رضا سے زمین پر اترا
وگرنہ ایسی ہوا تھی نہ ایسا جال ہی تھا
آپ نے پروین شاکر کی شاعری میں ’ لڑکی‘ کو دیکھا اور عورت کو بھی۔ اب ذرا مرد کو بھی ملاحظہ کر لیں۔ پروین کی شاعری میں جو مرد ہمیں ملتا ہے۔ وہ عجیب مرد ہے کہ اپنی مُرسی (مردانگی) پر نازاں تو ہے لیکن اس کا بھرم رکھنے کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ہر ایسے مرحلے پر وہ راہِ فرار حاصل کر لیتا ہے۔ مشرقی عورت خاص طور پربرِ صغیر کی عورت کی چادر کی اہمیت کس پر واضح نہیں لیکن وہ تو چادر کی حفاظت بھی نہیں کرتا۔ محبوب، بیوی، بہن کے سر سے رِدا چھن جاتی ہے اور تو اور ماں کی عزت سرِ عام نیلام کی جاتی ہے لیکن اس کی رگِ مردانگی نہیں پھڑکتی۔
یوں سرِ عام، کھلے سر میں کہاں تک بیٹھوں
کسی جانب سے تو اب میری رِدا آئی ہو
رِدا چھٹی مرے سر سے مگر میں کیا کہتی
کٹا ہوا تو نہ تھا ہاتھ میرے بھائی کا
اب کیسی پردہ داری خبر عام ہو چکی
ماں کی رِدا تو دن ہوئے نیلام ہو چکی
آپ نے دیکھا کہ مقبولیت کی بلند و بالا چوٹی پر متمکن اور نام نہاد رومانوی مزاج کی اس شاعرہ نے اپنی زندگی کو ایک حقیقت نگار کی آنکھوں سے دیکھا، برتا، اورپیش کیا۔ زمان و مکاں کے لامحدودفیتے پر جو پٹی پروینؔ کو ملی اس میں پوری دنیا کے سبھی معاشروں کو از سرِ نو مرتب، مدوّن اور متوازن ہونا تھا لیکن ایک آدھ ملک کے ما سوا معاشروں کی بعد از جنگ عظیم دوم تدوین عمل میں نہ آ سکی اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ پرانی دنیا مر گئی۔ سب کچھ ’روایات‘ اقدار اتھل پتھل ہو کر رہ گئے۔ اس ٹوٹ پھوٹ سے پاکستان میں جو ایک نوزائیدہ، ترقی پذیر ملک (حال میں پسماندہ) کس طرح محفوظ رہتا۔ اس ملک کا معاشرہ زوال پذیر رہا (آج بھی ہے ) جس بے حمیت مرد کی تصویر کشی پروین شاکر کی شاعری میں ملتی ہے وہ اس زوال پذیر معاشرے کا فرد ہے۔ اسی معاشرے میں ایسے مرد بھی ہیں جن کی محبوبہ، بیوی، بیٹی، بہن اور ماں کے سروں سے چادر کھینچنے کی کوئی ہمت نہیں کرے گا اور وہ بھی جو کمزور مردوں سے متعلق خواتین کے سروں سے چادر کھینچتے ہیں اور کھینچتے رہیں گے۔ یہ سب ہی معاشرے اور زمان و مکاں کی رواں اکائی کی تخلیق ہیں، زوال پذیر معاشرے کا زوال ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہوتا ہے۔ کسی بہتے دھارے کی مانند ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے کر چلتا ہے۔ زوال پذیر معاشرہ باہر کچھ اور ہوتا ہے اور اندر کچھ۔
؎کھلونے پا لئے ہیں میں نے لیکن
مرے اندر کا بچہ مر رہا ہے
اس عہد میں انسانی صورتِ حال دیکھئے
پورے انسانوں میں گھس آئے ہیں
سر کٹے، جسم کٹے، ہاتھ کٹے
یوں محسوس ہوتا ہے شہر کا شہر بندشوں میں جھکڑا ہوا ہے
پا بہ گِل سب ہیں، رہائی کی کرے تدبیر کون
دست بستہ شہر میں کھولے مری زنجیر کون
پروینؔ کے شعر پڑھتے سمے یہ بات ذہن میں رکھئے کہ جو کچھ بیان کیا جا رہا ہے یا جو تصاویر پیش کی جا رہی ہیں وہ شاعرانہ یا تخیلاتی نہیں ہیں اور نہ ہی غلو اور مبالغے پر مبنی ہیں، ہر طرح سے حقیقت پسندانہ ہیں۔ یہ اس معاشرے کی تصویر کشی ہے۔ جس میں جینا اس پر مشروط ہے۔
سو اب یہ شرطِ حیات ٹھہری
کہ شہر کے سب نجیب افراد
اپنے اپنے لہو کی حرمت سے منحرف ہو کر
جینا سیکھیں
اپنی نظم ’’سندھ کی ایک بیٹی کا اپنے رسول سے سوال‘‘ میں اس شہر کا حال کچھ ان لفظوں میں بیان کیا گیا ہے
ہم بھی تو ترے ہی امتی ہیں
اس لشکرِ اولین کی صورت
تجھ سے ہی سلسلہ تو ہے اپنا
پھر کیا ہے کہ ہم میں اور ان میں
ہلکی سی مشابہت بھی نہیں ہے
اب گھر ہے نہ کوئی دل کشادہ
لگتا ہے ہر درخت اپنے
سائے کے خلاف ہو گیا ہے
بھائی بھائی کو کھا رہا ہے
خاکم بدہن یہ تیرے ہوتے
کیا ہم پر کسی کی بد دعا ہے
بستی یہ ہماری جس میں اب بھی
خوشبو ترے نام کی بسی ہے
بارود میں کیوں نہا رہی ہے
شعلے اسے کیوں نگل رہے ہیں
جو شہر کی اپنی شخصیت میں
شبنم تھا، گلاب تھا، صبا تھا
اب آگ ہے، خون ہے، دھواں ہے
یہ شہر ہے، سانحہ ہے، کیا ہے
کوفہ ہے کہ کربلا ہے، کیا ہے
نظم ’’کراچی۔۔ ۔ ۸۹ء کی آخری شام‘‘ سے چند اشعار دیکھئے
عکسِ گلِ تر جلا ہوا تھا
خوابوں کا نگر جلا ہوا تھا
یا دستِ دعا نہ اُٹھ سکا تھا
یا اس کا اثر جلا ہوا تھا
ہر گھر تھا لٹا ہوا کئی بار
اور بارِ دگر جلا ہوا تھا
آنکھوں کی جگہ پہ آبلے تھے
اور تارِ نظر جلا ہوا تھا
ملبہ تھا تمام، شہرِ خوبی
اور ہو کے کھنڈر جلا ہوا تھا
اسی موضوع پر غزل کے اس شعر کو پڑھ لیجئے۔
شہرِ جمال کے خس و خاشاک ہو گئے
اب آئے ہو جب آگ سے ہم خاک ہو گئے
دو شعر مزید پڑھ لیجئے
خون پینے کو یہاں کوئی بلا آتی ہے
قتل تو روز کا معمول نہیں بن سکتے
جان سے گزر گئے مگر بھید نہیں کھلا کہ ہم
کس کی شکار گاہ تھے، کس کے لئے ہدف ہوئے
پروین شاکر کو کسی نے بھی کبھی’ مزاحمتی شاعرہ‘ کے طور پر نہیں دیکھا لیکن اس کی شاعری نے غیر ارادی اور غیر شعوری انداز میں ایسا رویہ بھی اختیار کیا لیکن شاعری کو مبارز طلبی اور نعرہ بازی نہیں بنایا۔ اس کی شاعری کی محض جھلکیوں سے آپ پر واضح ہو گیا ہو گا کہ ملک میں معاشرتی زوال کے لوازمات کیا ہیں۔ قانون کی زیر دستی اور کسمپرسی، جنگل کے قانون کا نفوذ و نفاذ، ریاستی، سیاسی اور مذہبی تخریب کاری، دشت گردی اور جبر، ریاستی ذمہ داریوں کی عدم ادائیگی اور حقوق پر اصرار، شہریوں کے حقوق کی نفی اور فرائض میں اضافہ، لوٹ کھسوٹ اہل ریاست اور حکومت کی، با اثر افراد اور گروہوں کی، شہریوں کے جان و مال کی، عزت و آبرو، چادر اور چار دیواری کی حفاظت کے معاملے کا ریاستی انتظامیہ کی فہرست فرائض سے اخراج اور ہمہ گیری اخلاقی پستی جو سماج کے ہر طبقے اور زندگی کے ہر شعبے سے متعلق افراد اور گروہوں پر مسلط ہو۔ اس خاتون شاعرہ نے اپنے تمام عصری مسائل پر قلم اٹھایا۔ فرق صرف یہ ہوا کہ یہ سارے مسائل خارجی دنیا سے اس کی باطنی شخصیت پر منعکس ہوئے، جذب ہوئے اور الفاظ کی صورت میں، موزوں سانچوں اور قلبوں میں، تخلیق کی صورت گری کے عمل سے گزر کر خارجی دنیا کی نذر ہوئے، شعر کے قالب میں، نثر میں، اخباری کالموں کے تراشوں میں۔ پروین شاکر شاعرہ ہونے کے ساتھ، نثر نگار اور کالم نویس تخلیق کار تھی۔
پروین شاکر کے بارے میں اس مختصر تحریر کا تشنہ رہ جانا لازمی ہے۔ اس کے فن پر تو کچھ کہا نہ جا سکا۔ نہ تو اسلوب پر، نہ ہی لفظیات پر، نہ علامات پر اور نہ اس کے تخلیقی سانچوں پر، نہ ہی نظموں اور غزلوں میں اس کی آر کی ٹیکچرل (تشکیلی اور ساختیاتی) صلاحیتوں پر،۔۔ ۔ اور تو اور فکری مشمولات (thought contents) پر بات کرنے کے باوجود اس کی شاعری سے کسی نظریۂ حیات یا نظریۂ ادب کو اخذ کرنے کی کوشش نہیں کی۔
پروین شاکر کی شاعری میں فیمینیزم سے ہمہ رشتہ موضوعات فراوانی سے موجود ملتے ہیں۔ جب کہ اس کے وقت میں اردو شعر و ادب میں یہ تحریک داخل نہ ہو پائی تھی۔
پروین شاکر کی شاعری میں آج کے پڑھنے والوں کو قطعی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی اس کا سبب یہ ہے کہ اس کی شاعری آج کی شاعری ہے اور نہ جانے کتنے زمانوں تک آج کی شاعری رہے گی۔ پروین شاکر شاعرِ دیروز بھی ہے، شاعرِ امروز بھی ہے اور شاعرِ فردا بھی۔ پروین شاکر شاعر کے علاوہ ایک کامیاب سرکاری بیور کریٹ بھی تھی۔ ایک اعلیٰ عہدے کی امیدوار کے طور پر بیرونِ ملک خصوصی تربیت لے کر لوٹی لیکن وطنِ عزیز میں سرکار کی دی ہوئی کار میں حادثے سے اس کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ وہ جو لفظ لفظ، حرف حرف موجود ہے اور موجود رہے گی۔ مہک میں چنپا کلی، روپ میں چنبیلی ہو کر۔۔ ۔
٭٭٭
گزارشِ احوالِ واقعی ۔۔۔ حیدر قریشی (جرمنی)
(ثمینہ راجہ کے خطوط کے حوالے سے )
’’ثمینہ راجہ کے خطوط‘‘ جناب انیس شاہ جیلانی کے نام لکھے گئے خطوط ہیں جنہیں حال ہی میں شائع کیا گیا ہے۔ ۲۸ جنوری ۲۰۱۷ء کو مجھے کراچی سے جناب راشد اشرف نے اس کتاب کی اشاعت کی خبر بذریعہ ای میل بھیجی اور ساتھ ہی لکھا کہ اس میں دو تین جگہوں پر آپ کا ’’ذکرِ خیر‘‘ بھی ہے۔ نہایت کھلے الفاظ میں ‘‘ تو میں نے انہیں لکھا کہ ’’اگر میرے ذکر والا حصہ فراہم کر سکیں تو ممنون ہوں گا۔ ‘‘ چنانچہ انہوں نے کرم کیا اور مجھے آٹھ تصویروں کی صورت میں متعلقہ صفحات فراہم کر دئیے۔ وہی صفحات میرے پیش نظر ہیں اور انہی کی بنیاد پر میں اپنی ’’گزارشِ احوالِ واقعی‘‘ پیش کر رہا ہوں۔
اکتوبر۱۹۷۸ء میں ’’جدید ادب‘‘ خان پور کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ یہ میری ادبی زندگی کا ابتدائی زمانہ تھا۔ ۱۹۷۹ء میں ثمینہ راجہ کی طرف سے ایک خط موصول ہوا تو میرا ان کا رابطہ ہوا۔ اس کے بعد ادبی زندگی میں وقفہ وقفہ سے ثمینہ راجہ کے ساتھ جو قلمی رابطہ ہوا، اس کی ترتیب مختصراً بیان کرتا ہوں۔
۱۔ اوّلین رابطہ ۱۹۷۹ء میں ہوا جب انہوں نے خط لکھا۔ اس دوران وہ جدید ادب میں چھپنے لگیں اور ’’کرنیں ‘‘ کی اشاعت کے منصوبہ میں بھی شامل ہوئیں۔ اسی دورانیہ میں ان کی ایک غزل (یا شاید نظم) روزنامہ امروز کے ادبی صفحہ پران کی تصویر کے ساتھ شائع ہوئی۔ انہوں نے لکھا تھا کہ اس پر گھر میں خاصا ہنگامہ ہوا، ان پر تشدد کیا گیا۔ پھر رابطہ نہ رہا، البتہ اتنا معلوم ہوا کہ اپنا گھر چھوڑ کر وہ کسی نہ کسی طرح اسلام آباد پہنچ گئی ہیں۔ پھر اسلام آباد میں زمان ملک سے ان کی شادی کی خبر سننے میں آئی۔
۲۔ دوسرا رابطہ غالباً ۱۹۹۱ء۔ ۱۹۹۲ء میں روبرو ہوا۔ عذرا اصغر نے اپنے گھر پر ایک گیٹ ٹو گیدر کا انتظام کیا تھا۔ یہاں ثمینہ راجہ بھی آئی ہوئی تھیں، زمان ملک بھی تھے۔ یہاں میں نے خوشگوار انداز میں ہلکا پھلکا سا جملہ بھی کہا تھا کہ اس محفل میں راجہ بھی ہیں اور مہاراجہ بھی ہیں۔
۳۔ تیسرا رابطہ تب فیس بک پر ہوا جب ثمینہ راجہ کی فیس بک پر ریحانہ قمر اور نوشی گیلانی کے خلاف شدید جنگ جاری تھی۔ فیس بک پر یہ بہت ہی افسوسناک جنگ تھی۔ محاذ جنگ پر دونوں طرف سے شدید گولہ باری ہو رہی تھی۔ الزامات کی نوعیت کا اندازہ اس سے کر لیں کہ ریحانہ قمر کی ٹیم ثمینہ راجہ پر فیصل عجمی اور احمد فراز کے حوالے سے بہت ہی کھلے الزامات عائد کر رہی تھیں۔ تب میں نے ثمینہ راجہ سے رابطہ کیا۔ انہیں لکھا کہ اس نوعیت کا گند اچھالا جا رہا ہے تو آپ کو لا تعلق ہو جانا چاہئے۔ لیکن وہ نہیں مانیں۔ پھر میں نے انہیں دو مشورے دئیے۔ نوشی گیلانی کو کبھی کوئی اصلاح دیتا رہا ہو گا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اب وہ شعر کہہ سکتی ہیں اور اپنے ڈھب کی اچھی شاعری کر رہی ہیں۔ اس لئے نوشی کے خلاف محاذ بند کریں اور صرف ریحانہ کے ساتھ لڑائی کر لیں۔ یوں بھی ایک وقت میں ایک محاذ پر ہی لڑنا مناسب ہوتا ہے۔ دوسرا مشورہ یہ دیا کہ فیس بک پر ہر بندہ متعدد ناموں کے ساتھ براجمان ہے۔ الزام کے طور پر جو لوگ دوسروں کے فیک اکاؤنٹس کی بات کرتے ہیں وہ خود دس دس فیک اکاؤنٹس کھول کر کام کر رہے ہیں اور اوپر سے معلم اخلاق بھی بنے ہوئے ہیں۔ اس لئے اگر اس قسم کی لڑائی لڑنی ہے تو اپنے احباب کو آگے کریں اور خود پیچھے رہ کر مقابلہ کریں۔ فیس بک پر اسی طرح مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ کے بارے میں جس قسم کا گند اچھالا جا رہا ہے، اس معاملہ میں آپ کو سامنے نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن انہوں نے میرے دونوں مشورے نہیں مانے۔ جب خواتین کی گالی گلوچ انتہا تک پہنچ گئی تو فیصل عجمی اور عباس تابش کے درمیان رابطہ ہوا اور پھر ایک دم ثمینہ راجہ اور ریحانہ قمر کے درمیان جنگ بندی ہو گئی۔ لیکن تب بعض لوگوں نے کمنٹ دئیے کہ اس جنگ بندی کے انداز سے دونوں اطراف سے اچھالے گئے الزامات کی بالواسطہ طور پر تصدیق ہو گئی۔ یہ سانحہ ۲۰۱۰ء کی بات ہے۔
۴۔ چوتھا رابطہ ۲۰
اکتوبر۲۰۱۲ء کو تب ہوا جب ان کی وفات کی خبر ملی اور میں نے اپنے ادبی فورم
urdu_writers@yahoogroups.com پر ان کی وفات کی خبر جاری کی۔ وہ خبر یہاں بھی شامل کر رہا ہوں۔ پہلے ناصر علی سید نے ایک خبر جاری کی۔
’’اردو کے ادبی حلقوں میں یہ خبر انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ اردو کی معروف شاعرہ ثمینہ راجہ اب ہمارے درمیان نہیں رہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ‘‘
میں نے اسی خبر کو بنیاد بناتے ہوئے اپنے مذکورہ فورم پر وفات کے روز ہی یہ خبر ریلیز کی۔
’’انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اس خبر سے دلی صدمہ ہوا۔ ثمینہ راجہ میرے آبائی علاقہ ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کی زندگی میں میری یادوں کا باب ’’۔۔ ۔ ادبی کائنات میں رنگ‘‘ شائع ہوا تھا۔ اس میں ان کا ذکرِ خیر بایں الفاظ کیا گیا:
ثمینہ راجہ رحیم یار خان کے قریب ایک گاؤں راجہ کوٹ میں رہتی تھیں۔ ان میں شروع سے ہی شاندار تخلیقی صلاحیتیں تھیں۔ گاؤں کے ماحول میں تو شاید یہ صلاحیتیں پوری طرح ابھر نہ پاتیں تاہم انہوں نے ہمت سے کام لیا اور قسمت نے یاوری کی اور وہ جلد ہی اسلام آباد کے کشادہ ماحول میں پہنچ گئیں۔ اردو کے ایک اچھے شاعر زمان ملک سے ان کی شادی ہو گئی۔ پھر غالباً رشتہ زیادہ نبھ نہیں سکا۔ تاہم ثمینہ راجہ نے بڑی بہادری کے ساتھ سماجی سطح پر بھی اور ادبی سطح پر بھی زندگی کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔ ثمینہ راجہ کو ادبی دنیا میں کافی حد تک پذیرائی ملی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ان کا جو ادبی مقام بنتا ہے ابھی تک ان کے ساتھ وہ انصاف نہیں کیا گیا۔ میری ان کے ساتھ رحیم یار خان کے زمانے سے ہی خط و کتابت تھی۔ ادبی رابطہ تھا۔ تاہم ان سے بالمشافہ ملاقات غالباً ۹۲۔ ۱۹۹۱ء ہوئی تھی۔ عذرا اصغر نے میری اسلام آباد میں آمد پر اپنے گھر میں ہی ایک ’’گیٹ ٹو گیدر‘‘ کا اہتمام کیا تھا۔ ثمینہ راجہ بھی اس موقعہ پر آئی تھیں۔
دعا ہے کہ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا کرے۔ آمین۔
ناصر علی سید صاحب! اس خبر کو بروقت ریلیز کرنے کے لئے آپ کا خصوصی شکریہ۔ (حیدر قریشی)
۵۔ اب پانچواں رابطہ میں کتاب ثمینہ راجہ کے خطوط کے متعلقہ صفحات کے حوالے سے اپنے اس مضمون کے ذریعے کر رہا ہوں۔
ان سابقہ رابطوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ثمینہ راجہ کے بارے میں میری سوچ ہمیشہ مثبت رہی ہے۔ انہیں ایسا کیا صدمہ پہنچا کہ وہ میرے بارے میں اتنے نامناسب انداز میں رائے مستحکم کرتی گئیں۔ اب مجھے خود ثمینہ راجہ کے خطوط کے اندر سے ہی اپنے موقف کی صفائی اور ان کی سوچ کی تردید کرنا پڑے گی تو مجھے اس کا بھی افسوس رہے گا لیکن یہ شائع ہوئے ہیں تو اپنی طرف سے وضاحت تو کرنا پڑے گی۔
اب میں ثمینہ راجہ کے خطوط میں اپنے ذکر والے سارے موصولہ حصے پیش کر دیتا ہوں تاکہ پھر مختلف نکات پر آسانی سے بات ہو سکے۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
’’یاد آیا حیدر قریشی سے اس کا رسالہ منگوائیے، اس نے تو مارے طعنوں کے میرا جینا دوبھر کر دیا ہے، بے چارہ غضب کا کنجوس آدمی ہے۔ اس کا ایک لطیفہ آپ کو سناؤں پچھلے دنوں میں نے تخلیق میں ’’جدید ادب‘‘ کا اشتہار دیکھا اور ’’شفق رنگ ‘‘ کا بھی، یہ کتاب ضلع رحیم یار خان کے شعراء اور شاعرات کے کلام کے انتخاب پر مشتمل ہے، میں نے اسے خط لکھا کہ اپنا پرچہ اور کتاب بذریعہ وی پی پی بھجواؤ، جواب میں اس کا خوب لمبا چوڑا خط آیا۔ ایک ایک لفظ سے بے تابی ٹپکتی تھی۔ بتائیے آپ نے اس سے پہلے خط کیوں نہیں لکھا، اتنی دیر کیوں لگائی، میں کب سے آپ کے خط کا منتظر تھا، ہر دوسری سطر کے بعد انہیں جملوں کی تکرار، میں سخت حیران ہوئی کہ یہ کیا ماجرا ہے بعد میں اس نے بتایا کہ وہ نہیں جانتا کہ میں بھی رحیم یار خان سے تعلق رکھتی ہوں۔ ’’شفق رنگ‘‘ کی اشاعت کے بعد لاہور اور سرگودھا کے بعض ادیبوں اور مدیروں نے اس سے پوچھا کہ ثمینہ راجہ بھی تو رحیم یار خان کی ہے اسے کتاب میں کیوں شامل نہیں کیا۔ اس پر بیچارہ میرے خط کا انتظار فرمانے بیٹھ گیا۔ ظاہر ہے میرا پتہ تو اسے معلوم تھا نہیں کہ خود رابطہ قائم کرتا۔ اچھا یہ تو تعارف تھا لطیفہ آگے ہے۔ کتاب پر اس نے لکھا ’’بی بی ثمینہ کی نذر جن کا نام شامل نہ ہونے کی وجہ سے یہ کتاب ہمیشہ کے لئے ادھوری ہو گئی۔ ‘‘ کتاب اور رسالے کا بھجوایا بھی پارسل، میں سمجھی کہ اعزازی طور پر بھجوایا ہے لیکن خط کے آخر میں چند سطریں تھیں، ملاحظہ فرمائیے۔ ’’وی پی بھجوانے کی عادت میں نے سیکھی نہیں، اعتماد کر کے پارسل بھجوایا کرتا ہوں، اکثر دھوکہ بھی ملتا ہے مگر وی پی پی نہیں بھجوایا کرتا، آگے آپ جانیں۔ ‘‘ اب کون کافر ہے جو ’’دھوکے ‘‘ کا لفظ سن کر بھی اس کے رسالے اور کتاب کو ہضم کرے گا۔ سو میں نے ۴۵ روپے منی آرڈر کرا دئیے، کتاب کی قیمت سمیت۔ کتاب پر نوٹ تھا خیال تھا کہ یہ تو یقیناً نذر ہو گی اور آجکل میں معذرت کا خط آئے گا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی، مگر توبہ کیجئے صاحب، جواب میں ایک عدد شکریہ آیا منی آرڈر کی وصولی پر۔ اب جب بھی کتاب دیکھتی ہوں نوٹ دیکھ کر دل جل کر کباب ہو جاتا ہے، آپ براہ کرم اسے تیس روپے منی آرڈر کروائیے تاکہ وہ اپنا پرچہ آپ کو ’’اعزازی طور‘‘ پر بھجوا سکے۔ ‘‘ (ص ۲۰۱)
’’پہلی انتہا حیدر قریشی ہے۔ آپ نے بہت اچھا کیا روپے اسے بھجوا دئیے۔ تیس چالیس یا سو روپوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہاں آدمی کی ’’اوقات‘‘ معلوم ہو جاتی ہے۔ ‘‘ (ص۲۰۶)
’’جدید ادب ‘‘ کے دو شمارے رجسٹرڈ بھجوائے تھے موصول ہوئے ہوں گے۔ حیدر قریشی صاحب ’’کرنیں ‘‘ کے نام سے بہاول پور ڈویژن کے شعراء اور شاعرات کے کلام کے انتخاب پر مشتمل ایک مجموعہ چھاپ رہے ہیں۔ مجھے کہتے ہیں اس خیال کا محرک آپ ہیں، میں نے آپ کو ’’شفق رنگ میں شامل نہیں کیا تھا، مگر اتنا بتا دوں کہ پانچ سو روپے ہر شاعر سے وصول کر چکے ہیں عجیب آدمی ہیں یہ صاحب بھی۔ ‘‘ (ص ۲۲۱)
’’یہ تو آپ نے عجیب بات لکھی ہے کہ آپ لوگ یعنی ضلع رحیم یار خان کے لال بجھکڑ اگر مل جائیں تو لاہور، کراچی پر بھاری پڑ سکتے ہیں، حیدر قریشی صاحب بھی یہی بات کہتے ہیں مگر میں متفق نہیں ہو سکتی۔ ‘‘ (ص۲۲۲)
’’جدید ادب ‘‘ واقعی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے پا کر وقت کٹنے کا کوئی سامان ہو سکے مگر چھپتا بھی تو خان پور سے ہے نا۔ مدیر کی فرمائش پر میرا خیال ہے تمام بڑے لکھنے والے مطبوعہ چیزیں ہی بھجواتے ہیں، غیر مطبوعہ چیزیں معمولی رسالے میں دینے سے ان کی ساکھ پر اثر پڑتا ہو گا۔ حیدر قریشی کی واقفیت بھی زیادہ لوگوں سے نہیں ہے کچھ یہ شخص انانیت زدہ بھی ہے لوگ رسمی طور پر جو چند جملے تعریف کے طور پر لکھ دیتے ہیں اسی پر یہ حضرت پھولے نہیں سماتے۔ آپ کیوں ہمت نہیں کرتے، حیرت شملوی اکیڈمی صرف نام کی اکیڈمی ہے، کچھ کام بھی لیجئے اس سے، کوئی رسالہ نکالئے، آئیے ہم مل کر رسالہ نکالیں، سید انیس شاہ جیلانی صاحب اور ثمینہ راجہ۔ ہم کوئی معمولی لوگ تھوڑے ہیں، بس ہمت کی بات ہے ‘‘ (ص۲۲۲، ۲۲۳)
’’جدید ادب‘‘ نے میری شاعری پر کچھ خاص نہیں لکھا۔ حیدر قریشی ایک مضمون لکھ رہے تھے مجھ ناچیز پر، مکمل کر لیا تو مجھے بھی دکھایا، میری تعریف کم تھی پروین شاکر کی مذمت زیادہ۔ حیرت ہے پروین نے بڑے بڑوں کو چکرا دیا ہے۔ مجھے بعض اوقات تو بڑا لطف آتا ہے کوئی صاحب اسے آفتاب بنانے پر تلے ہوئے ہیں کوئی ذرہ بھی نہیں سمجھتے۔ میں نے حیدر قریشی سے کہا کہ ’’اگر وہ مجھ پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں توپروین شاکر کی مذمت مت کریں، ورنہ براہِ کرم مضمون لکھنے کا ارادہ ترک فرمادیں۔ کسی شخص کو خوامخواہ اس کے مقام سے گرانے کی کوشش کرناسخت ذلیل حرکت ہے۔ میں بھلا اپنی دکان چمکانے کے لئے کسی کو کیوں نیچا دکھانے کی کوشش کروں، مجھے تو یہ بالکل پسند نہیں۔ اب میرا خیال ہے انہوں نے مضمون ہی رکھ چھوڑا ہے۔ گروپ بازی کی لعنت ہمارے ادب پر مسلط ہو چکی ہے۔ ‘‘ (ص ۲۲۳)
’’حیدر قریشی کا خط تلاش کرنا پڑے گا اتنے بہت سے خطوط میں لیکن میں بھجوا ہی دوں گی۔ آپ ذرا اس شخص کا لہجہ ملاحظہ فرمائیے گا، مجھے زندگی بھر کسی شخص پر اتنا غصہ نہیں آیا۔ آپ سوچتے ہوں گے پھر اس سے خط و کتابت کیا ضروری ہے۔ لیکن سچ پوچھئے تو سانپ کے منہ میں چھچھوندرکا معاملہ ہو گیا ہے۔ جب میں نے آپ کے لئے غلط الفاظ استعمال کرنے پر جھاڑا تو حضرت معذرت کرنے لگے لیکن میں نے تہیہ کیا ہے کہ اب ختم۔ ‘‘ (راشد اشرف کی ارسال کردہ پکچر ۷ پر صفحہ نمبر درج نہیں ہے۔ )
’’حیدر قریشی کا کوئی اور خط مجھے ملا نہیں، کاغذوں میں ادھر ادھر ہو گیا ہو گا، تحریر تو آپ نے اس شخص کی دیکھ لی، انداز گفتگو بھی ملاحظہ فرما لیا، اب لعنت بھیجئے۔ ‘‘ (ص ۲۲۸)
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
اب میں ان فرمودات کے مختلف نکات کا الگ الگ جائزہ پیش کرتا ہوں۔ ثمینہ راجہ کے الزامات کو ان کی اپنی تحریر اور حقائق کی روشنی میں پرکھتے ہیں۔
۱۔ عزت کے ساتھ استقبال کرنے کا گناہ: ثمینہ راجہ کو بعض ادبی رسائل میں پڑھا تھا، جب یہ معلوم ہوا کہ وہ میرے ہی ضلع کی رہنے والی ہیں تو خوشی ہوئی۔ جب ان کا پہلا خط ملا تو میں نے اپنی خوشی کا بے ساختہ اظہار کیا۔ میرے خط کے جو مندرجات انہوں نے بیان کئے ہیں وہ کسی ’’بے تابی‘‘ کا نہیں بلکہ خوشی کا اظہار تھا۔ اسی لیے بعد میں جب انہیں کتاب ’’شفق رنگ‘‘ بھیجی تو اس میں یہ لکھا کہ:
’بی بی ثمینہ کی نذر جن کا نام شامل نہ ہونے کی وجہ سے یہ کتاب ہمیشہ کے لئے ادھوری ہو گئی۔ ‘‘
یہ عبارت تو میری ادبی ایمانداری کا ثبوت ہے کہ اگر پہلے اپنے ضلع میں ان کے موجود ہونے کا علم نہ ہونے کے باعث ’’شفق رنگ‘‘ ان کے کلام کے بغیر چھپ گئی تھی تو میں نے اس انتخاب کو ادھورا قرار دیا۔ کوئی میرے ساتھ اس انداز کا سلوک کرے تو میں اس کی عزت افزائی کا ہمیشہ شکر ادا کرتا ہوں۔ میری متعدد تحریروں میں اپنے معاصرین کی ادبی اہمیت کے برملا اعتراف اور شکر گزاری کی مثالیں موجود ہیں۔ یہاں اپنے ایک بیان اور شکر گزاری کی دو مثالیں پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔
’’ہماری ادبی دنیا میں بہت سارے ایسے ادیب ہیں جو کسی دوسرے ادیب کے بارے میں جو توصیفی رائے رکھتے ہیں، کسی مجلس میں اس ادیب کی موجودگی یا غیر موجودگی میں ذکر آنے پر بھی اس کا فراخدلانہ اعتراف کر لیتے ہیں جبکہ بعض ایسے ادیب بھی ہیں جو کسی سے ادبی سطح پر بہت زیادہ متاثر بھی ہوں تو اسے چھپا کر رکھتے ہیں، بلکہ اس کے تئیں اپنی بے نیازی ظاہر کرتے ہیں۔ میں کسی بھی بڑے یا چھوٹے بلکہ بہت ہی چھوٹے ادیب کے بارے میں بھی جو اچھی رائے رکھتا ہوں اس کا برملا اعتراف کرنے سے دریغ نہیں کیا کرتا۔ ‘‘
(تسلیم الٰہی زلفی کی فیض شناسی یا خود نمائی؟ از حیدر قریشی۔
مطبوعہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد۔ شمارہ نمبر ۲۳۔ فروری ۲۰۱۶ء)
ماسکو سے ڈاکٹر لدمیلاوسیلیویاکی ۲۴ستمبر ۲۰۱۶ء کی ایک خوش کن ای میل کے جواب میں، میں نے لکھا:
’’میں تو آپ کی اس خبر سے ہی خوش تھا کہ آپ برصغیر سے باہر کے ادبی رسائل پر کام کر رہی ہیں۔ یہ جان کر مزید خوشی ہوئی کہ یہ کام تو صرف ایک حصہ ہے جبکہ آپ برصغیر سے باہر کی اردو دنیا پر پوری کتاب لکھ رہی ہیں۔ پھر اسی حوالے سے جدید ادب کے بارے میں اور میرے تئیں آپ کی محبت اور اخلاص کا اظہار، ذکرِ خیر بھی اور شاعری کا روسی زبان میں ترجمہ بھی، اتنی خوشیاں۔۔ ۔۔ ۔ سچی بات ہے میرا دامن چھوٹا پڑ گیا ہے۔ (میں ایسی خوشیوں پر اپنے جذبات کو چھپاتا نہیں ہوں۔ ہمیشہ اپنی خوشی کا بے ساختہ اظہار کرتا ہوں ) اللہ آپ کو خوش رکھے اور صحت تندرستی والی زندگی عطا کرے۔ آمین۔ ‘‘
ڈاکٹر ظہور احمد اعوان نے روزنامہ آج پشاور۔ ۲۵ جولائی ۲۰۱۰ء میں اپنے کالم میں ’’جرمنی کا ایک ادبی رسالہ‘ ‘کے ذیلی عنوان سے میری بہت زیادہ عزت افزائی کی، میری حیثیت سے زیادہ مجھے اہم گردانا۔ میں نے ان کا تمسخر نہیں اڑایا بلکہ یوں شکریہ ادا کیا۔
’’۱؎: ڈاکٹر صاحب آپ کی محبت اور حوصلہ افزائی ہمیشہ میرے لیے تقویت کا موجب بنی ہے۔ آپ کے بعض القاب اور جملے میری حیثیت سے زیادہ ہو کر بھی مجھے اچھے لگے ہیں لیکن یہ ’’بابائے ادب‘‘ کا لقب میری حیثیت سے زیادہ ہی نہیں بہت زیادہ ہے۔ ادبی لحاظ سے تو بالکل ہی نہیں اور عمر کے لحاظ سے بھی ابھی ایسا بزرگ نہیں ہوا کہ اس لقب کا متحمل ہو سکوں۔ سو آپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوں۔ (حیدر قریشی) ‘‘
مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔ شمارہ نمبر ۱۶۔ ص۔ ۵۵۔ ۵۶
میری زندگی کا یہ رویہ شروع سے اب تک ایسا ہی ہے۔ ثمینہ راجہ نے اس کے برعکس میری طرف سے خوشی اور عزت کے ساتھ اپنا استقبال کئے جانے پر طنزیہ اور تمسخرانہ انداز اختیار کیا تو یہ ان کا اپنا مزاج اور ان کا اپنا ظرف ہے۔ میں صرف شرمندگی کا اظہار ہی کر سکتا ہوں۔
٭٭٭ جدید ادب کی فروخت کا گناہ: ثمینہ راجہ نے لکھا کہ ’’اپنا پرچہ اور کتاب بذریعہ وی پی پی بھجواؤ‘‘ ۔ میں نے لکھا کہ ’’وی پی بھجوانے کی عادت میں نے سیکھی نہیں، اعتماد کر کے پارسل بھجوایا کرتا ہوں، اکثر دھوکہ بھی ملتا ہے مگر وی پی پی نہیں بھجوایا کرتا، آگے آپ جانیں۔ ‘‘
اس پر ثمینہ راجہ نے جس نوعیت کی طعنہ زنی کی ہے وہ بے حد افسوسناک ہے۔ نہ تو میں نے کوئی بل بھیجا۔ نہ کسی معیّن رقم کا تقاضا کیا۔ پارسل انہیں ملا اور انہوں نے جو مناسب سمجھا بھیج دیا۔ اس کے بعد اس پر جتنے جملے تراشے گئے وہ ثمینہ راجہ کی ’’عالی ظرفی‘‘ ہی کہلاسکتے ہیں۔ اب ’’جدید ادب‘‘ کی فروخت کی بات ہی آئی ہے تو آج اس حقیقت کا اظہار بھی کر دوں کہ جدید ادب خانپور کے دور میں ایک شمارہ بھی ایسا نہیں تھا جس کو دس خریدار نصیب ہوئے ہوں۔ اکا دکا کسی نے تعاون کیا وہ بھی کبھی کبھار۔ ثمینہ راجہ کی صورت میں حاتم طائی ایک ہی نصیب ہوئیں۔
جدید ادب خانپور ہی نہیں جدید ادب جرمنی کا معاملہ بھی ایسا ہی رہا ہے۔ بمشکل تین یا چار احباب تعاون کرتے تھے۔ رسالہ میں جیسے تیسے شائع کر لیتا تھا۔ ڈاک خرچ بھی برداشت کر لیتا تھا۔ لیکن جب ڈاک خرچ بہت زیادہ ہو گیا، رسالے کی اشاعت کی لاگت سے بھی بڑھ گیا، تب میں نے مجبوراً رسالہ بند کر دیا۔ اس معاملہ میں جدید ادب کے اداریوں اور بعض انٹرویوز اور دوسری تحریروں میں ثبوت موجود ہیں۔ کسی نے طلب کئے تو وہ بھی پیش کر دوں گا۔ یہ بھی نصیب کی بات ہے کہ ’’جدید ادب‘‘ خان پورکو ایک دو بندوں نے ۴۵ روپے عنایت کر دئیے تو اس کا اعلان بھی اس انداز میں کر دیا گیا۔ اور ہم جو گھر پھونک کر رسالہ چلا رہے تھے وہ سارا دریا برد ہوا۔
یہاں اپنے ایک انٹرویو کا اقتباس بھی دے دیتا ہوں۔ صورتِ حال مزید واضح ہو جائے گی۔
’’ادبی رسائل کے حوالے سے ‘‘ عزیز نبیل کے سوالوں کے جواب
سوال نمبر۸: کیا آپ کو اپنے رسالے کے زیادہ تر نسخے اعزازی طور پر شعراء و ادبا کو روانہ کرنے پڑتے ہیں ؟
جواب: زیادہ تر نسخے نہیں جناب۔۔ سارا رسالہ ہی اعزازی جاتا ہے۔ میں نے اپنے رسالے پر قیمت درج ہی نہیں کرائی۔ ایک بار چند دوستوں کے اصرار پر قیمت درج کرائی تو اتنی شرمندگی ہوئی کہ پھر فوراً پہلی ڈگر پر آ گیا۔ ہاں کچھ دوست ڈاک خرچ کے طور پریا ویسے تعاون کے طور پر کبھی کبھار کچھ عنایت کر دیتے ہیں تو ان کا شکر گزار رہتا ہوں۔ جو مدیرانِ جرائد ادب کے قارئین اور ادیبوں کو اپنا رسالہ سہولت کے ساتھ قیمتاً بھیجتے ہیں، مجھے ان کی کامیابی سے خوشی ہوتی ہے۔
(مطبوعہ دستاویز۔ دوحہ، قطر۔ شمارہ نمبر ۲۔ سال اشاعت ۲۰۱۲ء)
٭٭٭ جدید ادب کی مزید ملامت: ثمینہ راجہ لکھتی ہیں۔ ’’جدید ادب ‘‘ واقعی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے پا کر وقت کٹنے کا کوئی سامان ہو سکے مگر چھپتا بھی تو خان پور سے ہے نا۔ مدیر کی فرمائش پر میرا خیال ہے تمام بڑے لکھنے والے مطبوعہ چیزیں ہی بھجواتے ہیں، غیر مطبوعہ چیزیں معمولی رسالے میں دینے سے ان کی ساکھ پر اثر پڑتا ہو گا۔ حیدر قریشی کی واقفیت بھی زیادہ لوگوں سے نہیں ہے۔ ‘‘
’’جدید ادب‘‘ کی توصیف یا تنقیص کرنا ہر قاری کا حق ہے لیکن یہ تاثر دینا غلط ہے کہ اس میں بڑے لکھنے والے اپنی مطبوعہ چیزیں بھیجتے تھے۔ پہلے شمارہ میں ہی ڈاکٹر سید عبداللہ کا مضمون اردو ادب میں پاکستانیت کے مسئلہ پر تھا اور اسے بعد کے شماروں میں انورسدید اور شمیم احمد جیسے نقادوں نے مزید آگے بڑھایا۔ یہاں زیادہ تفصیل میں جانے کی بجائے ڈاکٹر لدمیلا ہی کی۱۹ستمبر۲۰۱۶ء کی ای میل کا اقتباس پیش کر دیتا ہوں۔ وہ خانپور کے زمانے سے جرمنی کے زمانے تک جدید ادب کو دیکھتے ہوئے لکھتی ہیں۔
’’محترم حیدر قریشی صاحب، آپ کے تفصیل جواب کے لیے بیحد شکریہ۔
جہاں تک ‘جدید ادب” کے خانپور کے دور کی بات ہے تو اس کی پوری داستان مجھے معلوم ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا اور دوسرے اہل ادب سے آپ کے روابط، مالی سمیت وہ ساری مشکلات بھی جو آپ کو رسالہ نکالنے کی راہ میں عبور کرنا پڑیں اور آپ کی اَن دیکھی قوت ارادی اور استقلال، سب معلوم، اور اس سب کچھ سے میں بہت ہی متاثر ہوئی ہوں۔ برِ صغیرسے باہر شائع ہونے والے جریدوں پر، جو سترکے عشرے سے لے کر آج تک نکالے جاتے تھے، میرے مطالعہ، جائزہ میں آپ کا کردار اور آپ کا "جدید ادب” مرکز توجہ ہے۔ آپ کا ایک مثالی فقرہ جو "جدید ادب” کے شمارہ نمبر ۷ ۱، ۲۰۱۱ء کے اداریہ میں درج ہے، آپکی ادبی سرگرمیوں کی بہترین وضاحت ہے، جس پر خاص زور دئیے بغیر نہیں رہا جا تا ہے کہ "میں کوئی ادبی خدمت نہیں کر رہا بس اپنی زندگی اور ادبی زندگی بسر کر رہا ہوں "۔ کیا خوب آپ نے کہا۔ ‘‘
پھر اپنی ۲۰ستمبر ۲۰۱۶ء کی ای میل میں ڈاکٹر لدمیلا وسیلیویا لکھتی ہیں۔
’’مجھے افسوس ہے کہ اس قدر معیاری رسالہ تاریخ کے طاق پر آیا ہے۔ لیکن جس کے پاس اس رسالے کے کتابی شمارے ہیں اس نے ضرور گھر کی لائبریری میں ان کو ایک نمایاں جگہ پر رکھا ہو گا۔ کم از کم میں اپنی بات بتا رہی ہوں۔ جب کچھ پڑھنے کو جی چاہتا ہے اکثر "جدید ادب "کا کوئی شمارہ اٹھا لیتی ہوں۔ اپنے کام کے لیے بھی کافی مواد ملتا ہے۔ ‘‘
جدید ادب کے بارے میں ڈاکٹر لدمیلا اور ثمینہ راجہ کے تاثر اور خیال کا فرق صاف ظاہر ہے !
ثمینہ راجہ کا خیال کہ تمام بڑے لکھنے والے ’’مطبوعہ چیزیں ‘‘ ہی بھجواتے ہیں۔ اس سلسلے میں شمیم احمد جیسے مشکل نقاد کے ایک خط کا اقتباس بھی پیش کرتا ہوں۔ اس سے عمومی صورتِ حال کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
’’آپ نے جمیل جالبی کے معاملہ میں بری طرح پھانس لیا ہے۔ اتنا شدید پھندہ نہ ڈالا کیجئے۔ اخلاقی طور پر آپ اذیت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ بہر حال کوشش کروں گا کہ آئندہ ماہ فرمائش پوری کر سکوں۔ ‘‘
(جدید ادب خان پور شمارہ مارچ ۱۹۸۳ء،ص ۳۰۱)
٭٭٭ بندے کی اوقات: ثمینہ راجہ اپنی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔
’’پہلی انتہا حیدر قریشی ہے۔ آپ نے بہت اچھا کیا روپے اسے بھجوا دئیے۔ تیس چالیس یا سو روپوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہاں آدمی کی ’’اوقات‘‘ معلوم ہو جاتی ہے۔ ‘‘ (ص۲۰۶)
’’جدید ادب ‘‘ کے دو شمارے رجسٹرڈ بھجوائے تھے موصول ہوئے ہوں گے۔ حیدر قریشی صاحب ’’کرنیں ‘ ‘ کے نام سے بہاول پور ڈویژن کے شعراء اور شاعرات کے کلام کے انتخاب پر مشتمل ایک مجموعہ چھاپ رہے ہیں۔ مجھے کہتے ہیں اس خیال کا محرک آپ ہیں، میں نے آپ کو ’’شفق رنگ میں شامل نہیں کیا تھا، مگر اتنا بتا دوں کہ پانچ سو روپے ہر شاعر سے وصول کر چکے ہیں عجیب آدمی ہیں یہ صاحب بھی‘‘ (ص ۲۲۱)
جہاں تک بندے کی اوقات کا تعلق ہے میں خود اس سے بخوبی واقف ہوں۔ میں نے اپنی یادوں کے ایک باب کا عنوان ہی ’’بندۂ مزدور کی اوقات‘‘ رکھا ہے۔ جب جدید ادب کا اجرا کیا تھا میری تنخواہ ڈیڑھ سو سے دو سوروپے ماہانہ کے درمیان تھی۔ رضی صاحب نے ابتدائی ڈیڑھ برس میں سو ڈیڑھ سو روپے فی شمارہ اشتہار مہیا کئے۔ باقی بیوی کا زیور بیچ کر رسالہ چھاپتا رہا۔ (حوالہ: خاکہ ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘ ) ویسے اللہ کے فضل سے وہ سارا زیور اسے جرمنی میں بنوا کر دے دیا ہے۔ اب کوئی مائی کا لال دکھا دیں جس نے ایسی بے سروسامانی کے عالم میں ’’جدید ادب‘‘ خانپور جتنا ہی رسالہ نکال دکھایا ہو۔ بے شک یہ میرا اپنا شوق تھا لیکن اہلِ نظر اسے گہری نظر سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر انور سدیدکا ایک اقتباس:
’’حیدر قریشی کو اردو ادب کی ترویج کا شوق اس وقت پیدا ہوا تھا جب وہ خانپور کی ایک فیکٹری میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ غزل کہتے تھے، افسانہ لکھتے تھے۔ ڈاکٹر وزیر آغا سے شناسائی ہوئی تو ان کے باطن سے انشائیے کے شگوفے بھی پھوٹنے لگے۔ لیکن ادب کا یہ عمل ان کی ذات تک محدود تھا۔ اردو ادب کی خدمت کے لئے وہ اپنے عمل کے دائرے کووسیع کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے خانپور جیسے دور افتادہ مقام سے رسالہ جدید ادب جاری کیا۔ فیکٹری سے محنت مشقت سے حاصل کیا ہوا رزقِ حلال اس پرچے کی طباعت اور اشاعت پر خرچ کر ڈالتے۔ تھوڑے عرصہ میں جدید ادب اتنا معیاری پرچہ بن گیا کہ اس دور کے پاک و ہند کے بیشتر اہم ادیب اپنی اعلیٰ تخلیقات جدید ادب کو اشاعت کے لئے بھیجنے لگے۔ متعدد نئے لکھنے والوں کو حیدر قریشی نے اعتماد اشاعت عطا کیا۔ اور آج وہ اردو ادب کی کہکشاں کے روشن ستارے بن گئے ہیں۔ ‘‘
(جدید ادب اور حیدر قریشی۔ از ڈاکٹر انورسدید۔ مطبوعہ ادبی صفحہ روزنامہ نوائے وقت لاہور۔ ۱۹دسمبر۲۰۰۸ء)
یہاں یہ وضاحت بھی کر دوں کہ شفق رنگ اور کرنیں دونوں کتابیں ہی امدادِ باہمی کے ساتھ شائع کی گئیں تھیں۔ میرا ابتدائی ادبی زمانہ تھا۔ وسائل تھے نہیں مگر کام کرنے کا شوق بھی تھا۔ سو دوستوں کے ساتھ صلاح مشورہ کیا تو سب نے تعاون کیا۔ ثمینہ راجہ سے بھی جب بات ہوئی تو میں نے صاف گوئی کے ساتھ انہیں بتا دیا کہ آپ کو اتنا ساتھ دینا ہو گا۔ اس میں شاید صاف گوئی ہی عجیب چیز رہی ہے۔
٭٭٭ اہلِ ملامت کی مزید ملامت: ثمینہ راجہ لکھتی ہیں۔
’’حیدر قریشی کی واقفیت بھی زیادہ لوگوں سے نہیں ہے کچھ یہ شخص انانیت زدہ بھی ہے لوگ رسمی طور پر جو چند جملے تعریف کے طور پر لکھ دیتے ہیں اسی پر یہ حضرت پھولے نہیں سماتے۔ آپ کیوں ہمت نہیں کرتے، حیرت شملوی اکیڈمی صرف نام کی اکیڈمی ہے، کچھ کام بھی لیجئے اس سے، کوئی رسالہ نکالئے، آئیے ہم مل کر رسالہ نکالیں، سید انیس شاہ جیلانی صاحب اور ثمینہ راجہ۔ ہم کوئی معمولی لوگ تھوڑے ہیں، بس ہمت کی بات ہے ‘‘ (ص۲۲۲، ۲۲۳)
ایک چیز ہوتی ہے اپنی عزت نفس کا احساس اور ایک چیز ہوتی ہے انانیت۔ اگر میں انانیت زدہ ہوتا تو ثمینہ راجہ کے پہلے خط پر ان کا اتنی خوشی اور عزت کے ساتھ استقبال نہ کرتا۔ میرے بارے میں خود ان کے بقول: ’جب میں نے آپ کے لئے غلط الفاظ استعمال کرنے پر جھاڑا تو حضرت معذرت کرنے لگے ‘‘
کیا انانیت زدہ اس انداز میں معذرت کرتے ہیں ؟
جہاں تک انیس شاہ جیلانی کے بارے میں میری کسی رائے کا تعلق ہے، اگر ثمینہ نے کسی رائے کا اظہار کیا اور میں نے ان سے اختلاف کیا تو اس میں کیا غلط تھا؟حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس سلسلہ میں کچھ بھی یاد نہیں۔ اگر انیس شاہ جیلانی صاحب، ثمینہ راجہ کے فراہم کردہ میرے خط کی فوٹو کاپی عنایت کر دیں تو ہو سکتا ہے کچھ بھولا بسرا ہوا یاد آ جائے۔ وگرنہ نہ تو میں کہیں انیس شاہ جیلانی کی راہ میں آتا ہوں اور نہ ہی وہ کہیں میرے رستے میں آتے ہیں۔ ہم الگ الگ راہوں کے راہی ہیں۔
اسی خط میں ثمینہ راجہ اپنے تئیں لکھتی ہیں۔ ’’ہم کوئی معمولی لوگ تھوڑے ہیں، ‘‘ اب پتہ نہیں انانیت زدہ کون نکلا؟۔ کون ہے کتنا گنہگار کہوں یا نہ کہوں !
ضلع رحیم یار خان سے اپنا رسالہ نکالنے کا خیال عمدہ تھا۔ ثمینہ راجہ اور انیس شاہ صاحب دونوں صاحبِ حیثیت لوگ تھے۔ دونوں مل کر رسالہ نکالتے تو بہت اچھا رسالہ نکال سکتے تھے۔ ضلع رحیم یار خان سے اور بھی ادیبوں نے ادبی رسائل نکالے۔ کوئی ایک شمارہ نکال پایا، کوئی دوسرے شمارے کے آنے تک ہانپ گیا۔ یہ سارے لوگ بڑے باوسیلہ اور بارسوخ لوگ تھے، نجی طور پر بھی اور پبلک ریلیشننگ کے حوالے سے بھی۔ لیکن شاید کچھ بات توفیق ملنے کی بھی ہوتی ہے۔ میرے بارے میں ثمینہ راجہ کا یہ فرمان بھی دیکھتے ہیں۔ ’’لوگ رسمی طور پر جو چند جملے تعریف کے طور پر لکھ دیتے ہیں اسی پر یہ حضرت پھولے نہیں سماتے۔ ‘‘
ڈاکٹر لدمیلا کے نام اپنی ای میل درج کر چکا ہوں، اس کا یہ جملہ دہرا دیتا ہوں۔
(میں ایسی خوشیوں پر اپنے جذبات کو چھپاتا نہیں ہوں۔ ہمیشہ اپنی خوشی کا بے ساختہ اظہار کرتا ہوں )
اور اب جدید ادب خانپور کے شمارہ ۴ (۱۹۷۹ء) میں چھپنے والے چند ادیبوں کے خطوط، جو بقول ثمینہ راجہ ’’رسمی طور پر‘‘ لکھ دئیے گئے۔ لیکن سچی بات ہے ایسے خطوط میرے شوق کو ہمیشہ مہمیز کرتے رہے ہیں۔ یہ ۸۰ صفحات پر مشتمل تین شماروں کے شائع ہونے کے بعد جید ادیبوں میں جدید ادب کے بارے میں پیدا ہونے والے تاثر کی ایک جھلک ہے۔
سید ضمیر جعفری (اسلام آباد) : چھوٹے بھائی!آپ نے تو خانپور سے اتنا عمدہ ادبی جریدہ نکال کر خانپور کو بڑا شہر بنا دیا۔ آفرین!میرے سامنے جدید ادب کا وہ شمارہ ہے جس میں میرا مضمون بھی شامل ہے، سو سوائے میرے مضمون کے باقی تمام رسالہ موتیوں کی مالا ہے۔ اللہ تمہارے حوصلوں کو جوان رکھے۔
ڈاکٹر وزیر آغا (سرگودھا) : آپ کا محبت نامہ ملا، ساتھ ہی جدید ادب کا تازہ شمارہ بھی، جسے پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ خوشی اس لیے بھی ہوئی کہ جدید ادب نے تھوڑے ہی عرصہ میں اپنی شخصیت دریافت کر لی ہے۔ اکثر رسائل سالہا سال کی محنت کے بعد اس مقام پر پہنچتے ہیں۔
ممتاز مفتی (اسلام آباد) : مضامین آپ ہمیشہ اچھے حاصل کرتے ہیں اور ’’ناموں ‘‘ والے حیرت ہے کہ کیسے حاصل کر لیتے ہیں۔
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا (لاہور) : خط ملا ساتھ ہی جدید ادب کا شمارہ بھی۔ خانپور جیسے دور افتادہ مقام سے ایسے معیاری جریدے کی اشاعت نے خوشگوار حیرت سے دوچار کر دیا۔
علامہ منظور احمد رحمت (ایڈیٹر ویکلی مدینہ بھاولپور) : آپ نے جدید ادب کے سلسلہ میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ ٹھوس بھی ہیں اور صحت مند بھی۔ آپ قلم کی آبرو کے محافظ ہیں۔ ایسے لوگ خوش نصیب بھی ہوتے ہیں اور مرجع خلائق بھی۔ راستے کی دشواری، حریفوں کی ملامت گری، وسائل کی کمیابی اور غمِ روزگار کی خلش، یہ سب پُر خلوص انسانوں کے نصیبے میں لکھ دئیے گئے ہیں۔ منافق اور شوریدہ سر ان نعمتوں کے جلال و جمال کو کیا جانیں !‘‘
یہ محض رسمی تاثرات نہیں ہیں۔ اگر ان تاثرات کو غور سے پڑھیں تو ان میں معترضین کے کئی اعتراضوں کے بالواسطہ طور پر جواب بھی موجود ہیں۔
٭٭٭ لاہور اور کراچی کے حوالے سے وضاحت: ثمینہ راجہ لکھتی ہیں
’’یہ تو آپ نے عجیب بات لکھی ہے کہ آپ لوگ یعنی ضلع رحیم یار خان کے لال بجھکڑ اگر مل جائیں تو لاہور، کراچی پر بھاری پڑ سکتے ہیں، حیدر قریشی صاحب بھی یہی بات کہتے ہیں مگر میں متفق نہیں ہو سکتی۔ ‘‘ (ص۲۲۲)
میری طرف سے لاہور اور کراچی پر بھاری پڑنے والی بات غلط ہے۔ یہ انیس شاہ جیلانی صاحب کا خیال ہو سکتا ہے۔ میرا موقف یہ رہا ہے کہ بڑے شہروں کے ساتھ چھوٹے شہروں کے ادیبوں کو بھی توجہ اور اہمیت دی جانی چاہئے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہی بات ذہن پر نقش ہے۔ ثبوت بھی پیش ہے۔
سوال نمبر4: رسالے کا مختصر تاریخی پس منظر اور محرکات؟
جواب: میں خان پور ضلع رحیم یار خاں میں رہتا تھا۔ تب ادبی رسائل بڑے شہروں سے نکلا کرتے تھے۔ لاہور کے اہلِ ادب چھوٹے شہروں کے ٹیلنٹ کی طرف توجہ دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ سو چھوٹے شہروں کی طرف سے ادب کے مرکزی دھارے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے کتابی سلسلہ کی صورت میں جدید ادب کا اجرا کیا۔ (سعید الرحمن کے تحقیقی سوالنامہ کے جواب۔ ۲۹جون ۲۰۱۲ء۔
مشمولہ کتاب ’’انٹرویوز‘‘ مرتب سعید شباب۔ انٹرنیٹ ایڈیشن ص ۲۰۹)
یہی موقف بعد میں ایک اور ہی احساس میں بدل گیا۔ ڈاکٹر نذر خلیق کے ساتھ انٹرنیٹ مکالمہ میں ان کے ایک سوال کے جواب میں، میں نے یہ عرض کیا:
’’یہ بات تو میں جدید ادب کے نئے دور کے پہلے شمارہ کے اداریے میں واضح طور پر لکھ چکا ہوں کہ جدید ادب کا اجراء میری ادبی سرگرمی کا حصہ ہے اور ادب میرے نزدیک خود زندگی کی ایک اہم اور با معنی سرگرمی ہے۔ اس لئے یہ کوئی ادبی خدمت نہیں ہے۔ رسالہ نکال کر ادب کی خدمت کرنے والے پہلے ہی بہت ہیں۔ میں کوئی ادبی خدمت نہیں کر رہا بس اپنی زندگی اور ادبی زندگی بسر کر رہا ہوں۔
(’’انٹر نیٹ کے ذریعے مکالمہ ڈاکٹر نذر خلیق۔ سہ ماہی توازن، مالے گاؤں، شمارہ: ۴۰۔۔ ۔۔ حریمِ ادب، بورے والا۔ کتاب نمبر ۲)
٭٭٭ پروین شاکر کا ذکر: ثمینہ راجہ ایک خط میں لکھتی ہیں۔
’’جدید ادب‘‘ نے میری شاعری پر کچھ خاص نہیں لکھا۔ حیدر قریشی ایک مضمون لکھ رہے تھے مجھ ناچیز پر، مکمل کر لیا تو مجھے بھی دکھایا، میری تعریف کم تھی پروین شاکر کی مذمت زیادہ۔ حیرت ہے پروین نے بڑے بڑوں کو چکرا دیا ہے۔ مجھے بعض اوقات تو بڑا لطف آتا ہے کوئی صاحب اسے آفتاب بنانے پر تلے ہوئے ہیں کوئی ذرہ بھی نہیں سمجھتے۔ میں نے حیدر قریشی سے کہا کہ ’’اگر وہ مجھ پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو پروین شاکر کی مذمت مت کریں، ورنہ براہِ کرم مضمون لکھنے کا ارادہ ترک فرما دیں۔ ‘‘
اس سلسلہ میں واضح کر دوں کہ ثمینہ راجہ کی شاعری کے بعض حصوں میں جنسی جذبوں کا اظہار بہت شدید تھا۔ ایک نظم کا عنوان تھا ’’حریمِ جاں میں وائلن‘‘ ۔ اب ذرا تصور کریں کہ جنوبی پنجاب کا آخری کونہ، جہاں کی اپنی اخلاقیات اور اپنی تہذیب ہے۔ پھر لڑکی غیر شادی شدہ، (۱۹۶۱ء کی پیدائش کے حساب سے ۱۹۷۹ء میں ۱۹ سال کی عمر ہے ) ، اورایسے حالات میں جنسی جذبات کا بے محابا اظہار۔ میں نے اپنی سی کوشش کی تھی کہ ثمینہ کی شاعری پر اس طرح سے لکھا جائے کہ وہ اپنی فکری تطہیر کی طرف مائل ہو جائیں۔ ’’کرنیں ‘‘ میں ثمینہ راجہ کے تعارف میں بھی میں نے یہ کاوش کی تھی، ایک اقتباس دیکھ لیں:
’’اس کے اندر یقیناً بغاوت کے جذبات ملتے ہیں لیکن اس نے ان جذبات کو بھی مشرقیت کے حصار سے باہر نہیں نکلنے دیا۔ بغاوت اور مشرقیت کے تصادم سے ثمینہ نے مشرقیت کی فتح کا اعلان بھی کیا ہے اور اپنی تخلیقیت کو بھی جاوداں بنا لیا ہے۔ ‘‘ (’’کرنیں ‘‘ ص ۷۳)
یہ سب لکھنے سے میرا مقصد یہ تھا کہ کسی طرح وہ شعوری طور پر بغاوت سے باز آنا شروع کر دیں اور اپنی معاشرتی تہذیب کے ساتھ شاعری میں آگے بڑھ سکیں۔ یہ چھوٹا سا ثبوت اس بات کا ہے کہ میری تحریر کی نیت اور مقصد واضح ہو جائے کہ میں نے باتوں باتوں میں ان کی باغیانہ سوچ کی تطہیر کرنے کی کاوش کی۔
جب ثمینہ راجہ اسلام آباد چلی گئیں، زمان ملک کے ساتھ شادی ہو گئی، تب ان کی ایک اچھی نظم ’’اوراق‘‘ میں شائع ہوئی تھی اور اس پر پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے میں نے اس مفہوم کی رائے لکھی تھی۔ ’’جذبات کی تطہیر کے بعد اعتدال کی طرف مراجعت خوش آئند ہے، ثمینہ راجہ کے لیے بھی اور اردو شاعری کے لیے بھی۔ ‘‘ ادبی جریدہ ’’اوراق‘‘ کے اس زمانے کی فائل کے دو شماروں میں وہ نظم اور میرا خط آسانی سے تلاش کیا جا سکتا ہے۔ میری یہ رائے اسی تسلسل کو ظاہر کرتی ہے جو ان کی شاعری میں جنسی جذبات کے بے محابا اظہار کے حوالے سے میرا ابتدائی موقف اور مقصد تھا۔
جہاں تک پروین شاکر کے ساتھ موازنہ کا تعلق ہے، یہ مضمون کا تقاضا تھا۔ ویسے ہی جیسے میں نے پروین شاکر پر مضمون لکھتے وقت کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض کے ساتھ اس کا موازنہ کیا ہے۔ اور دونوں سینئیرز پر پروین کو فوقیت دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے پروین شاکر کی بعض کمزوریوں کو بھی نشان زد کیا ہے۔ یہ مضمون ’’شعر و سخن‘‘ مانسہرہ کے پروین شاکر نمبر میں چھپ چکا ہے۔ میرے مضامین کے پہلے مجموعہ ’’حاصلِ مطالعہ‘‘ میں شامل ہے۔ ’’ہمارا ادبی منظر نامہ ‘‘ میں شامل ہے۔ سو پروین شاکر کے بارے میں مجھے اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے، دوسروں کو اختلاف رائے کا حق بھی حاصل ہے لیکن بدزبانی کا حق کسی کو حاصل نہیں۔ جو بدزبانی کرتا ہے وہ اپنی تربیت کو یا فطرت کو ظاہر کرتا ہے۔
چونکہ ثمینہ نے خود ’’ورنہ مضمون لکھنے کا ارادہ ترک فرما دیں ‘‘ لکھ دیا تھا، چنانچہ میں نے مضمون ضائع کر دیا۔ میری کاوش ناکام ہوئی۔ ثمینہ راجہ نے بغاوت کو فوقیت دی اور پھر وہ المیہ رونما ہوا جو بالآخر کم عمری میں ہی ان کی موت پر منتج ہوا۔ بغاوت کرنے کے بعد وہ سماج سے لڑتے لڑتے کینسر کا شکار ہو گئیں۔ ۵۱ سال کی ہوئیں اور ۵۲ ویں سال میں قدم دھرتے ہی راہیِ ملکِ عدم ہو گئیں۔ اللہ مجھے بھی معاف کرے اور ثمینہ راجہ کو بھی معاف کرے اور ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین
٭٭٭ ذلیل حرکت اور لعنت بھیجیں: پروین شاکر والے بیان کے تسلسل میں ثمینہ راجہ مزید لکھتی ہیں۔
’’کسی شخص کو خوامخواہ اس کے مقام سے گرانے کی کوشش کرناسخت ذلیل حرکت ہے۔ میں بھلا اپنی دکان چمکا نے کے لئے کسی کو کیوں نیچا دکھانے کی کوشش کروں، مجھے تو یہ بالکل پسند نہیں، اب میرا خیال ہے انہوں نے مضمون ہی رکھ چھوڑا ہے، گروپ بازی کی لعنت ہمارے ادب پر مسلط ہو چکی ہے ‘‘ (ص ۲۲۳)
میں پروین شاکر کے بارے میں جو اچھی بری رائے رکھتا ہوں، وہ مطبوعہ موجود ہے اور یہ میرے ادبی اظہار کا حق ہے۔ کسی شخص کو اس کے مقام سے گرانے کی کوشش تو خود ثمینہ نے سرِ عام کی تھی۔ جب وہ فیس بک پر ریحانہ قمر اور نوشی گیلانی کی مذمت کر رہی تھیں، انہیں نیچا دکھانے کے لیے اس حد تک کوشش کر رہی تھیں کہ خود فریق ثانی کے الزامات سے لہولہان ہو گئی تھیں، تب کون سی ادبی خدمت ہو رہی تھی؟میں اس لڑائی کے پس منظر میں نہیں جاؤں گا۔ وہ تب بھی میرے مشورے مان لیتیں تو اتنا بڑا تماشا نہ بنتیں۔
گروپ بازی کے سلسلہ میں میرا موقف ’’لعنت ‘‘ بھیجنے والا نہیں ہے۔ میرا موقف دیکھ لیں۔
’’ادبی گروہ بندیاں ہر دور میں رہی ہیں ہمارے قدیم شعرا ء ایک دوسرے کے خلاف ہجویات ہی نہیں لکھتے رہے، فرضی جنازے بھی نکالتے رہے ہیں۔ آج وہ دور ہے جب ہمارے معاشرے میں دکانداروں، موچیوں اور نائیوں تک کی انجمنیں بنی ہوئی ہیں۔ سو ٹریڈ یونین کے اس دور میں ادیبوں نے بھی اپنے اپنے گروہ بنا لئے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ گروہ بندی اگر تخلیقی لحاظ سے مسابقت حاصل کرنے کے جذبے کو پروان چڑھائے تو ادب کے لئے بے حد مفید ہے لیکن اگر مادی مقاصد کے حصول کی دوڑ جیتنے کے لئے گروہ بندی ہے تو وہ اچھی چیز نہیں ہے۔ اردو ادب میں اگرچہ تخلیقی مسابقت حاصل کرنے والا جذبہ بھی موجود ہے تاہم مادی مقاصد کے حصول کی افسوسناک مثالیں زیادہ ہیں۔ ‘‘
(ثریا شہاب کا حیدر قریشی سے انٹرویو۔ ڈیلی جنگ لندن۔ شمارہ ۷ نومبر۱۹۹۶ء۔۔ ادبی صفحہ)
المیہ یہ ہے کہ ثمینہ خود انیس شاہ جیلانی کے ساتھ مل کر بھی اپنا گروپ بنانے کی کوشش کر رہی تھیں اور اسلام آباد جا کر بھی انہوں نے جن افراد کے ساتھ تعلق رکھا وہ یا تومسندِ اقتدار کے قریب تھے یا خود انتہائی مال دار تھے۔ دونوں صورتوں میں مادی مقاصد کا حصول آسان بنا رہا۔
اگلے خط میں ثمینہ راجہ لکھتی ہیں:
’’حیدر قریشی کا خط تلاش کرنا پڑے گا اتنے بہت سے خطوط میں لیکن میں بھجوا ہی دوں گی۔ آپ ذرا اس شخص کا لہجہ ملاحظہ فرمائیے گا، مجھے زندگی بھر کسی شخص پر اتنا غصہ نہیں آیا۔ آپ سوچتے ہوں گے پھر اس سے خط و کتابت کیا ضروری ہے۔ لیکن سچ پوچھئے تو سانپ کے منہ میں چھچھوندر کا معاملہ ہو گیا ہے۔ جب میں نے آپ کے لئے غلط الفاظ استعمال کرنے پر جھاڑا تو حضرت معذرت کرنے لگے لیکن میں نے تہیہ کیا ہے کہ اب ختم۔ ‘‘ (راشد اشرف صاحب کی ارسال کردہ ’’پکچر ۷‘‘ پر صفحہ نمبر درج نہیں ہے۔ )
’’حیدر قریشی کا کوئی اور خط مجھے ملا نہیں، کاغذوں میں ادھر ادھر ہو گیا ہو گا، تحریر تو آپ نے اس شخص کی دیکھ لی، انداز گفتگو بھی ملاحظہ فرما لیا، اب لعنت بھیجئے۔ ‘‘ (ص ۲۲۸)
اگر انیس شاہ جیلانی صاحب ثمینہ راجہ کے نام میرے خطوط میں سے دستیاب خطوط فراہم کر دیں تو واضح ہو جائے گا کہ میرا لہجہ کیسا تھا۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ میں کسی خط میں بھی تہذیب سے نیچے نہیں گرا۔ ’’ذلیل حرکت‘‘ اور ’’لعنت بھیجیں ‘‘ جیسے الفاظ ثمینہ راجہ کے قلم سے زیب نہیں دیتے۔ اوپر سے انہوں نے ’’سانپ کے منہ میں چھچھوندر‘‘ لکھ کر خود ہی سانپ کا منصب سنبھال لیا ہے۔ محاورتاً سہی لیکن ان کے لیے سانپ کا لفظ مجھے اس وقت بھی اچھا نہیں لگ رہا۔ حالانکہ ان کے لب و لہجہ اور ان کی لفظیات میں خاصا زہر ہے، پھر بھی ان کے ساتھ سانپ کا لفظ اچھا نہیں لگ رہا۔
ثمینہ راجہ کے ساتھ جتنا تعلق رہا، یا بے تعلقی رہی اس سارے دورانیہ میں میری طرف سے ایسا کچھ نہیں لکھا گیا جس میں ان کی اہانت کا شائبہ تک ہو۔ میں نے ان کی نسبت عزت کا رویہ ہی ظاہر کیا یا پھر خاموشی اختیار کی۔ اگر کوئی شخص آپ کی عزت کرتا ہو اور آپ بے سبب اس کی اہانت پر تل جائیں تو جلد یا بدیرایسے لوگوں کے ساتھ قدرت کا نظام کچھ نہ کچھ ضرور ظاہر کرتا ہے۔
اپنی طرف سے اس وضاحتی مضمون کے ساتھ میں اپنا اور ثمینہ راجہ کا معاملہ ادبی تاریخ اور اللہ کے سپرد کرتا ہوں !
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
اضافی نوٹ:
٭٭٭۱۔ اگر راشد اشرف صاحب نے ثمینہ راجہ کے خطوط کے مزید صفحات فراہم کیے تو اس مضمون کو اپ ڈیٹ کر لوں گا۔ ضرورت پڑی تو ایک اور مضمون بھی لکھا جا سکتا ہے۔
٭٭٭ ۲۔ ڈاکٹر لدمیلا وسیلیویاکے ساتھ خط و کتابت کو ان کی اجازت سے اپنے ایک مضمون ’’ڈاکٹر لدمیلا کی دو نئی کتابیں ‘‘ میں شامل کر چکا ہوں۔ ِ
٭٭٭
ماجد الباقری
عکاس کے پرانے کاغذات میں سے اتفاقاً شکیب جلالی سے متعلق ماجد الباقری صاحب کا ایک خط اور دو مضامین ملے ہیں۔ وہ سب کچھ ’’عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد‘‘ کے قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ارشد خالد
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
شکیب جلالی کے حوالے سے ۳۶ سال پرانا خط
عزیزی ارشد خالد صاحب
سلام مسنون
آپ کا ۵ فروری کا مکتوبِ محبت باصرہ نواز ہوا۔ تعمیلِ ارشاد میں ایک تازہ غزل ارسال کر رہا ہوں یہ مطلع کے بغیر ہی ہے۔
میری محکمانہ مصروفیات آجکل کچھ ایسی ہیں کہ ادبی کام ڈھنگ سے نہیں ہو سکتا۔ اکثر دوروں پر رہتا ہوں۔ دفتر میں بیٹھتا ہوں تو آنے والے کم نہیں ہوتے۔ شکیب جلالی مرحوم پر ایک بہت اچھا مضمون محمد اسماعیل نے لکھا جو روزنامہ جنگ کراچی کے ادبی ایڈیشن مجریہ ۲۹ دسمبر۸۰ء میں شائع ہوا تھا۔ امید ہے اس کی کاپی آپ کو مل جائے گی، نہ ملے تو میں عکسی کاپی ارسال کر دوں گا۔ یہ مضمون حرف بہ حرف درست ہے۔ اگر آپ اس کو چھاپ سکیں تو بہت سی غلط بیانیوں کا سدِ باب ہو سکتا ہے۔ شکیب کا ایک مضمون میں نے ۷ تا ۱۳ فروری کے ’’اخبارِ خواتین ‘ ‘ میں دیکھا ہے یہ واقعات من گھڑت ہیں اور تاریخیں بھی نا درست اور غیر مصدقہ۔ البتہ محمد اسماعیل کا مضمون بہت تحقیقی اور قابلِ قدر ہے۔
شکیب جلالی کی بیشتر تصاویر آہستہ آہستہ احباب لے گئے۔ پھر بھی میں کوئی نگیٹیو تلاش کر لوں گا۔ جلد بنوا کر ارسال کر دوں گا۔
نام آشناؤں کی خدمت میں سلام خلوص۔
نیاز کیش
سید ماجد الباقری ۸۱ء۔ ۲۔ ۸
محمد اسماعیل
منفرد لہجے کا شاعر شکیب جلالی: ایک جدید غزل گو
آ کر گرا ہے ایک پرندہ لہو میں تر
تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر
شکیب جلالی جن کا شمار بلاشبہ جدید غزل کہنے والے شاعروں کی پہلی کھیپ میں ہوتا ہے۔ انہوں نے ۱۴ نومبر ۱۹۶۶ء کو سرگودھا میں چلتی ریل گاڑی کے آگے لیٹ کر خود کشی کر لی تھی۔ اس ملک کے ادبی دھڑوں کو ان کی عظمت کا اعتراف کرنے کی ضرورت، ان کی خود کشی کرنے کے بعد ہی محسوس ہوئی۔ اپنی زندگی میں تو وہ ادبی اجارہ داروں کی بے اعتنائی کا شکار ہی رہے۔ ان کی درد ناک موت کے بعد ہر ادبی دھڑے نے ان کی موت پر بظاہر اظہار افسوس تو کیا مگر زیادہ زور شکیب کو اپنے دھڑے کا شاعر ثابت کرنے پر صرف کیا۔ پاکستان کے ایک بڑے ادبی دھڑے کے سرخیل نے تو شکیب کی موت کے بعد اپنے مضمون میں یہاں تک لکھ دیا کہ ’’وہ (شکیب ) بارہ برس کا تھا جب بنارس سے لاہور آیا۔ یہیں اس کی شاعری کا آغاز ہوا، اور اس ماحول میں اس کا فن نکھرا اور سنورا۔ اس لئے وہ سب سے پہلے لاہور کا متاع تھا۔ ‘‘
اس قسم کے دعوے یقیناً حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہیں۔ وگرنہ شکیب جلالی مرحوم سے متعلق معمولی معلومات رکھنے شخص بھی با خوبی جانتا ہے کہ شکیب ۸ مئی ۱۹۴۸ء کو ساڑھے تیرہ سال کی عمر میں سرسی (بریلی) انڈیا سے راولپنڈی آئے اور پھر ۱۹۵۳ء تک یہاں مستقل قیام کیا۔ اس علاقے کے رہنے والوں کو رہنے بسنے والوں کو اس بات پر فخر ہے کہ شکیب کی شاعری نے یہیں آنکھیں کھولیں، نشو و نما پائی اور ایسی پروان چڑھی کہ بڑے بڑے ناقدین اسے غزل کا نیا انداز دینے والا پیشرو ماننے لگے۔
یہ امر بہرحال قابلِ افسوس ہے کہ شکیب جلالی پر لکھا جانے والا ایم اے کا تھیسس جو ایک متعلمہ امتیاز کلثوم نے تحریر کیا ہے، بھی بعض صاحبان کی شہرت پسندی اور خود نمائی کی نذر کر دیا گیا۔ اور بعض لوگوں نے ایم اے کے اس تھیسس اور ذرائع ابلاغ میں شکیب کے متعلق شائع شدہ اپنے مضامین میں اپنے مفاد کی باتیں شائع کر کے ادب کے طالب علموں سے بے انصافی کی کوشش کی اور شکیب کے بارے میں حقیقت پر مبنی مواد کی اشاعت میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے۔ یہ امر خوشا آئندہ ہے کہ اب ملتان کی ایک طالبہ سعیدہ پروین بھی شکیب جلالی پر اپنا ایم اے کا تھیسس مکمل کر رہی ہیں جن میں بعض چھپے ہوئے گوشوں کو بھی منظر عام پر لایا جائے گا۔ اس ضمن میں شکیب کے متعلق بعض اچھے مضامین بھی شائع ہوئے ہیں۔ جن میں شہزاد احمد کا مضمون ’’دوسرا رخ‘‘ ماجد الباقری کا شائع شدہ مضمون ’’آہ شکیب!‘‘ اور پرویز بزمی کا مضمون ’’شکیب جلالی‘‘ شامل ہیں۔ شہزاد احمد اور ماجد الباقری کا شمار تو شکیب کے بہترین محسنوں میں ہوتا ہے۔ تھل ڈیولپمنٹ بھکر کی ملازمت انہیں شہزاد احمد کی وساطت سے ملی۔ تو انڈیا سے راولپنڈی آتے ہی انہیں ماجد الباقری کی سنگت میسر ہوئی۔ شہزاد احمد اور دیگر اہلِ قلم نے تو ماجد الباقری کو شکیب کا استاد ہونے کا بھی اشارہ کیا، مگر ماجد الباقری کی طرف سے اس قسم کا کوئی دعویٰ یا تردید نہیں کی گئی۔
شکیب جلالی نے اپنے ابتدائی چند غزلوں میں کمالؔ تخلص پسند کیا انہوں نے ماجد الباقری سے مل کر راولپنڈی سے ایک ماہنامہ ’’گونج ‘‘ کے نام سے اجراء کیا جس کا تمام ریکارڈ ابھی تک محفوظ ہے۔ علاوہ ازیں ۱۹۴۸ء سے ۱۹۵۳ء تک شکیب کے نام آئے ہوئے بے شمار دعوت نامے، ادیب فاضل کے امتحانات کے لئے تیار کی ہوئی کاپیاں، ابتدائی دور کی شکیب کے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی غزلیں اور چند تصویریں اب بھی موجود ہیں۔ شکیب کا راولپنڈی میں قیام ماجدالباقری کے قریب ہی رہا۔ دونوں اہلِ قلم لنڈا بازار کے ڈی بلاک میں رہتے تھے۔ شکیب کا اصل نام سید حسن رضوی ہے۔ (شروع میں بعض اہلِ قلم نے سید حسن رضوی لکھا مگر ۱۹۷۰ء کے ’’شاخسار‘‘ میں شائع مضمون کی اشاعت کے بعد اپنے اپنے طور پر تصحیح کی کوشش کی۔ اگست ۱۹۷۲ء میں شائع شدہ شکیب کے مجموعہ کلام ’’روشنی اے روشنی‘‘ کے فلیپ پر موجود تحریر میں بھی ’’شاخسار‘‘ والے مضمون سے استفادہ کیا گیا ہے۔ )
شکیب کی تاریخ پیدائش ان کی اپنی تحریر کے مطابق یکم اکتوبر ۱۹۳۴ء ہے۔ وہ ۱۹۴۰ء میں اسلامیہ انٹر کالج بریلی کی جماعت سوم میں داخل ہوئے۔ مئی ۱۹۴۴ء میں جب ان کی والدہ ماجدہ بریلی شہر کے اسٹیشن پر چلتی ریل گاڑی کے آگے آ کر انتقال کر گئیں۔ انہوں نے ۱۴ رجب المرجب کو وفات پائی۔ اس وقت شکیب جماعت ششم پاس کر چکے تھے۔ اور اپنی نانی کے ہاں بدایوں جا رہے تھے۔ والدہ کی وفات کے بعد وہ بریلی میں اپنے پرائیویٹ استاد ماسٹر عبدالرشید کے ہاں مقیم تھے۔ ۲۴ جولائی ۱۹۴۴ء کو ان کا نام دوبارہ جماعت ہفتم میں لکھوا دیا گیا۔ نہم اور دہم جماعتوں کی اپنی تعلیم کے دوران شکیب طلباء کو ٹیوشن بھی پڑھاتے رہے۔ ان کے دسویں جماعت کے امتحان شروع ہونے والے تھے کہ ان کے گھر والے راولپنڈی چلے آئے، اور شکیب اپنے دوست رشید الظفر لودھی کے ہاں بدایوں میں ہی رہے۔ امتحان سے فارغ ہو کر وہ پہلے آبائی قصبہ سرسی اور پھر بریلی گئے۔ جہاں پھر ماسٹر عبدالرشید کے ہاں قیام رہا۔ وہ ۱۹۴۸ء میں راولپنڈی آتے ہی ۲۱ جون کو مقامی ’’ڈمپ‘‘ میں ۴۵ روپے ماہانہ تنخواہ پر ملازم ہو گئے۔ اس کے بعد ۹ اکتوبر ۱۹۴۸ء کو سینٹرل کوآپریٹیو بنک کی راولپنڈی شاخ میں ملازم ہوئے، یہاں ان کی تنخواہ پچاس روپے ماہانہ تھی، جو نومبر ۱۹۴۹ء کوچھیاسی روپے اور پھر دسمبر ۱۹۴۹ء کو ایک سو آٹھ روپے ماہانہ ہو گئی۔ شکیب کے ماموں محمد میاں نقوی بھی ان دنوں جی، ایچ، کیو میں ملازم تھے جو بعد میں کمانڈر انچیف رائل پاکستان ائر فورس کے پرنسپل اسسٹنٹ بن کر بمعہ اہل و عیال جن میں شکیب کی چھوٹی بہنیں، خالہ اور خالہ زاد بھی شریک تھیں، کراچی چلے آئے۔ ستمبر ۱۹۵۲ میں ان کی ادارت میں ’’گونج‘‘ راولپنڈی کا پہلا شمارہ منظر عام پر آیا۔ گونج شکیب کے راولپنڈی چھوڑنے کے بعد بھی نئے ادارتی سٹاف، جس میں سید علی زاہد مرحوم اور نثار نازش ایڈوکیٹ وغیرہ شامل تھے۔ نگرانی میں کافی عرصہ تک چھپتا رہا۔ اخبارات کے پرانے فائلوں سے کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ راولپنڈی میں شکیب جلالی انجمن معاونین قلم و سخن کے سیکریٹری رہے ہیں جن کے سر پرست علامہ سید فاضل مقبل دہلوی تھے، اس کے علاوہ وہ حلقہ ارباب سخن، بزم معراج الادب، روح الادب، فروغِ اردو اور حلقۂ ارباب ذوق وغیرہ کی ادبی محفلوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے۔ جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
٭حلقۂ ارباب سخن کے ۱۴ اکتوبر ۱۹۵۰ئ کو منعقد تنقیدی اجلاس میں غزل پیش کی۔ ۲۱ اکتوبر ۱۹۵۰ئ کو اسی تنظیم کے ایک اجلاس میں افسانہ پڑھا۔
٭۲۴ فروری ۱۹۵۱ء کو جگر مراد آبادی کی آمد پر امپریل سینما کے ہال میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی صدارت میں منعقد ہونے والے مشاعرے میں دیگر شعراء کے ساتھ شکیب جلالی کا نام بھی ملتا ہے۔ اس مشاعرے میں خمار بارہ بنکوی، راز مراد آبادی، مجاز رودلوی، حفیظ جالندھری، اطہر ہاپوڑی، نواب اشک رامپوری، مولانا اجمل انبالوی، مولانا جدت میرٹھی، عبدالحمید عدم، نیر اکبر آبادی، خورشید انور جیلانی، پرو فیسر صفدر حسین، ماجد الباقری، مسرور دیرا دونی (مسرور صابری) ، کرار نوری، مظہرالدین مظہر، صفیہ شمیم ملیح آبادی، ادا جعفری، رابعہ نہاں اور ثریا جبیں نے بھی شرکت کی۔
٭۸ دسمبر ۱۹۵۱ء اور پھر ۲۱ جنوری ۱۹۵۲ء کو نواب رمضان علی خان جالندھری کی کوٹھی واقع کالج روڈ راولپنڈی کے مشاعرے میں شرکت کی تھی۔
٭یکم مارچ ۱۹۵۲ء کو امپریل سینما ہال میں منعقد ایک مشاعرہ میں شرکت کی۔
٭۱۴ اگست ۱۹۵۲ء کو انجمن فروغِ اردو راولپنڈی کے زیر اہتمام یوم استقلال کے سلسلہ میں منعقدہ ایک مشاعرہ میں اپنا کلام سنایا۔
٭۲۲ اگست ۱۹۵۲ء کو اسی انجمن کے زیر اہتمام چرچ روڈ راولپنڈی صدر میں منعقدہ ایک مجلسِ مذاکرہ میں ’’اردو ادب میں ترقی پسندی و حقیقت نگاری کے جدید رجحانات‘‘ کے موضوع پر تقریر کی۔
٭ ۲۸ ستمبر ۱۹۵۲ء اتوار کو بزم ادب راولپنڈی کے زیر اہتمام لنڈا بازار میں فلسفہ شہادتِ حسینؑ پر تقریر کی۔
٭ یکم اکتوبر ۱۹۵۲ء کو انجمن معاونین قلم و سخن کے زیر اہتمام شہدائے کربلا کی یاد میں منعقدہ ایک تعزیتی مجلسِ مشاعرہ میں شرکت کی۔
٭۱۲ اکتوبر۱۹۵۲ء کو سرکلر روڈ راولپنڈی صدر میں انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام’’ فلمی شاعری پر ایک تنقیدی نگاہ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون پڑھا،
٭ ۱۶ اکتوبر ۱۹۵۲ء کو شہیدِ ملے لیاقت علی خان کی پہلی برسی کے سلسلے میں یومِ قائدِ ملت پر اصلاح الادب نامی ادبی تنظیم کے زیر اہتمام شہری دفاع کے دفتر میں منعقدہ مشاعرے میں شرکت کی۔
٭ ۲۶ اکتوبر ۱۹۵۲ء کو ’’یوم کشمیر ‘‘ پر بھابھڑا بازار میں کشمیر کے موضوع پر کلام سنایا۔
٭ یکم نومبر ۱۹۵۲ء کو ڈی، اے، وی کالج روڈ پر بزم ادب کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے مشاعرہ میں اپنا کلام سنایا۔۔ ۔۔ ۔
٭ ۲ نومبر ۱۹۵۲ء کو اسی انجمن کے زیر اہتمام ایک مجلس، مذاکرہ میں ’’اردو کا دنیا کی عظیم ترین زبانوں میں مقام‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔
٭٭٭
شکیب جلالی کا شعری سرمایہ بہت مختصر ہے۔ لیکن ان مٹھی بھر غزلوں کے متن پر انفرادیت کا نقش مرتسم ہے ‘ لب و لہجے کا ایک نیا قرینہ اور انداز۔ غزل کی روایت میں محبوب کا سراپا پیش کیا جانا بھی ایک ہنر سمجھا جاتا تھا۔ اب نظریں خارجی ہیئت سے ہٹ کر اندرون پر گاڑی جانے لگی ہیں۔ اور عاشق اور محبوب ایک دوسرے سے الگ رہنے کی بجائے یا تو ایک دوسرے سے متصادم نظر آتے ہیں یا ایک دوسرے میں مدغم۔ کیونکہ شخصیت اور انفرادیت کا تصور اب یکسر بدل گیا ہے۔ روایتی غزل میں ان کا منصب اور اہمیت علیحدہ علیحدہ تھی اور وہ کبھی بھی ایک دوسرے سے آنکھ ملا کر نہیں دیکھ سکتے تھے۔ شکیب جلالی کی غزلوں میں ہمیں ایسی شوخ و شنگ تصویریں نہیں ملتیں جن کی خیرگی نظروں میں چکا چوند پیدا کرے۔ بلکہ یہاں ایک درماندگی کی سی کیفیت ہے۔ اپنے اندرون میں جھانکنے اور اپنے آپ کو ٹٹولنے کی مسلسل ریاضت اور جد و جہد شکیب نہ ہمیں اپنے تجربات اور یادوں میں شریک ہونے اور ان کا محاسبہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور نہ کسی کی ہمدردی حاصل کرنے کا انہیں کوئی شوق۔ وہ بس مختلف سیاق و سباق میں اپنے تجربات کی نقش گری کر کے رخصت ہو جاتے ہیں۔ انہیں کسی کی EMPATHY درکار نہیں ‘نہ وہ اس کے آرزو مند ہیں ‘ اور نہ اس کی عدم فراہمی اور عدم دستیابی کے شکوہ سنج۔ یہ کہنا بھی صحیح نہ ہو گا کہ انھوں نے کوئی نگار خانہ سجایا یا ترتیب دیا ہے یہ غزلیں تو ایک اداس راگنی کے مختلف اجزا اور عناصر ہیں۔ ان میں ایسی باہمی وحدت اور یک رنگی ہے جو انہیں ملا کر دیکھنے سے ایک جمالیاتی تجربہ معلوم ہوتی ہے۔ کاش ان کی عمر وفا کرتی اور ان کے بربط سے اور بھی دلکش اور دلنواز نغمے نکلتے رہتے۔ (’’غزل گو شکیب جلالی‘‘ از پروفیسر اسلوب احمد انصاری سے اقتباس)
سیدماجد الباقری
٭٭٭
آہ ! شکیب جلالی
(جن کی برسی ۱۲ نومبر ۱۹۸۰ء کو منائی جا رہی ہے۔ )
۱۴ نومبر ۱۹۶۶ء کے اخبارات میں جب یہ خبر میری نظر سے گزری کہ شکیب جلالی نے ۱۲ نومبر کو سرگودہا میں خود کشی کر لی تو شکیب کے دیگر اعزا اور احباب کی طرح مجھے بھی یقین نہیں آیا۔ میں نے فوراً روزنامہ جنگ راولپنڈی کے دفتر رشید الظفر لودھی صاحب جو کی جلیس جبران کے نام سے افسانے لکھا کرتے ہیں، سے ٹیلیفون پر رابطہ قائم کیا تو انہوں نے اتنا ہی بتایا کہ صرف خبر پڑھی ہے اور کچھ معلوم نہیں۔ راولپنڈی کے علمی ادبی حلقوں میں صف، ماتم بچھ گئی۔ دوسرے دن سے ملک بھر کے روزناموں اور جرائد میں تعزیت کے جلسوں کی کاروائیاں چھپنا شروع ہو گئیں۔ احباب نے بڑی پر شور نظمیں کہیں جن کا سلسلہ بہت دنوں تک جاری رہا۔ آ خر ایک ایسی حقیقت جو کہ وقوع پذیر ہو چکی تھی اس پر ذہنی اور فکری ہر اعتبار سے یقین کرنا پڑا۔
شکیب جلالی ۱۹۵۳ء میں راولپنڈی سے ایسا گیا کہ پھر واپس ہی نہیں آیا۔ یہاں اس کے اتنے احباب ہیں، انہیں یہی گمان ہوتا ہے کہ جیسے وہ پہلے کی طرح نگاہوں سے دور سیالکوٹ، لاہور، کراچی، سرگودھا، بھکر یا جوہر آباد میں ہو گا اور ہم سے آ کر وہ ضرور ملے گا یا راولپنڈی میں کوئی پاک بھارت نوعیت کا مشاعرہ ہو گا تو وہ ایک رات کے لئے ہی آئے گا ضرور۔
۱۹۴۸ء سے ۱۹۵۳ء تک اس کے نام پر آئے ہوئے بے شمار دعوت نامے، ادیب فاضل کے امتحانات کے لئے تیار کی ہوئی مختلف درسی و غیر درسی کتب کے خلاصوں کی کاپیاں، ماہنامہ ’’گونج‘‘ کا ابتدائی ریکارڈ، گونج کے سر ورق کے وہ دونوں بلاک جن پر شکیب کا نام بحیثیت مدیر کنندہ ہے، ابتدائی دور کی خود اس کے ہاتھ کی لکھی ہوئی غزلیں، چند تصاویر اور گروپ فوٹو گراف مجھے اس کی یاد دلاتے رہنے کے لئے کافی ہیں۔
علاقہ پوٹھوہار کے رہنے بسنے والوں کو اس بات پر فخر ہے کہ شکیب جلالی کی شاعری نے یہیں آنکھیں کھولیں، نشو و نما پائی اور ایسی پروان چڑھی کہ بعض ناقدین اسے غزل کو ایک نیا انداز دینے کے سلسلے میں ایک پیش رو سمجھنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ وہ در اصل شعر و نغمہ کا ایک ایسا پیکر تھا جسے قدرت کاملہ نے بڑی چابکدستی سے تراشا تھا۔ اس نے جب سے شعر کہنا شروع کیا وہ آخری دم تک شعر کہتا رہاَ۔ یہ اور بات ہے کہ جذباتی طور پر کبھی کبھی رفتار کم ہو گئی اور کبھی بڑھ گئی۔ لیکن شعر گوئی میں حرکت قائم رہی۔ پھر ایک وہ مقام بھی آ گیا جہاں دلی جذبات اور محسوسات کو لفظی جامہ پہنانا مشکل ہو گیا۔ اور اس نے ڈرامائی طور پر خود کو موت کے منہ میں دھکیل کر ایک ایسا شعر کہہ دیا جس کی تفسیریں نظم اور نثر میں آئندہ لکھتے رہیں گے۔ ہم سب الفاظ کا جامہ پہناتے رہیں گے۔ ہم بھی ختم ہو جائیں گے اور مکمل مفہوم ادا نہیں کر سکیں گے۔ اس کی اس درد ناک موت نے اسے عزت و احترام کے زینے پہ لا کھڑا کیا ہے، جہاں اعتراض کی گنجائش کم ہے۔
مختصر سوانح حیات۔
شکیب مجھ سے جب راولپنڈی میں ملا تھا تو اس کی عمر ۱۳ سال کچھ ماہ کی تھی اور وہ ملازمت کی وجہ سے راولپنڈی کو خیر باد کہنے تک برابر مجھ سے ملتا رہا۔ مختلف مقامات پر رہنے کی وجہ سے شکیب کی زندگی کے واقعات کچھ اس طرح بکھر گئے ہیں کہ کوئی بھی شخص انہیں جلدی یکجا نہیں کر سکتا۔ ان چند احباب کے مسلسل اصرار پر میں اس کے کچھ سچے اور مسند واقعات ضبط تحریر میں لا رہا ہوں اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رکھوں گا۔ تاکہ مستقبل میں سوانح نگاروں کو اپنے کام میں زیادہ دقت نہ ہو۔ روزنامہ جنگ راولپنڈی ۲۰ نومبر ۶۶ء میں احمد ندیم قاسمی صاحب کا ایک فیچر ’’اردو کے ایک منفرد غزل گو شکیب جلالی کی خود کشی‘‘ شائع ہوا۔ اس میں موصوف نے لکھا۔ ’’وہ بارہ برس کا تھا جب بنارس سے لاہور آیا اور یہیں اس کی شاعری کا آغاز ہوا اور اسی ماحول میں اس کا فن نکھرا، سنورا۔ اس لئے وہ سب سے پہلے لاہور کا متاع تھا۔ ‘‘
اسی طرح احمد ندیم قاسمی صاحب کے ایک مداح نے جو شکیب کو پاگل خانے میں داخل کرانے کے سلسلے میں ممد و معاون ثابت ہوا تھا۔ سستی شہرت کے شوق میں ماہنامہ گلفشاں (۲۲ نکلس رود لاہور) کی اشاعت خصوصی (۹) بابت مارچ ۶۹ء میں ایک مضمون سپردِ قلم کیا جس کے بیشتر واقعات من گھڑت اور مصنوعی ہیں۔ چند اقتباسات پیش کر رہا ہوں۔
’’شکیب کے ساتھ میں نے شاعری کی، ہوٹلوں میں چائے پی، سڑکوں پر گھنٹوں گشت کی، مشاعروں میں شرکت کی، قہقہے لگائے، شعر و ادب پر بحث کی پھر میں نے اسے منٹل ہسپتال میں داخل کروایا۔ وہاں اس کی تیمار داری کی۔ وہ اچھا ہو کر آیا، اس کا حوصلہ بڑھا، زندگی کی اہمیت جتائی۔۔ ۔ وہ میرا ۵۲۔ ۱۹۵۱ء سے دوست تھا۔ ہفتہ میں ایک شام ضرور آتا اور رات کے دو بجے تک سڑکوں پر میرے ساتھ گھومتا پھرتا۔۔ ۔۔ بہر حال میرا قیاس ہے کہ شکیب۱۹۳۴ء میں بدایوں میں پیدا ہوا۔ ان کے والد سید جعفر حسین رضوی پولیس میں ملازم تھے۔ شکیب کا نام سید حسین رضوی رکھا گیا۔ اسلامیہ انٹر میڈیٹ کالج بریلی میں وہ میرا ہم جماعت تھا۔ (یہ چھٹے درجے کی بات ہے۔ ) اس کی پرورش غالباً ننھیال میں جلالی میں ہوئی۔ جلالی سادات کا ایک قصبہ ہے جو علی گڑھ کے قریب ہے۔۔ ۔۔ ۔ پاکستان بنتے ہی شکیب یہاں ہجرت کر کے یہاں آ گیا۔ جب مجھ سے ملاقات ہوئی تو ان دنوں وہ ماہنامہ ’’شاہکار‘‘ لاہور کا ایڈیٹر تھا۔۔ ۔۔ یہ ۱۹۵۵ء کی بات ہے۔ کہ وہ کراچی شادی کرنے گیا۔ ‘‘
یہ یا اس قسم کے بے معنی واقعات پیش کرنے سے میں سمجھتا ہوں کہ ایک وقائع نگار کی شہرت کو جلد یا بدیر نقصان ہی پہنچتا ہے۔ اس لئے کہ حقائق بہر حال ٹھوس پتھر کی طرح سامنے آتے ہیں اور خود کو منوا کر رہتے ہیں۔ مرحوم کا پورا نام سید حسین نہیں سید حسن رضوی ہے۔ ابتدائی چند غزلوں میں ’کمال‘ تخلص پسند کیا تھا۔ پیار میں چند عزیز و اقارب انہیں ’ سلطان میاں ‘ بھی کہا کرتے تھے۔ میرے کہنے پر انہوں نے شکیب جلالی تخلص اختیار کیا۔ اس ضمن میں جلالی کے لفظ کا کوئی تعلق حکیم سید ضامن جلالی سے نہیں ہے۔ اور نہ استاد قمر جلالوی یا ان کی جائے پیدائش سے بلکہ تخلص کی انفرادیت قائم رکھنے کے لئے جلالی کا لفظ شامل کیا گیا تھا اور نام کی یہ انفرادیت تا حال قائم ہے۔ شکیب ایک اور قلمی نام سے افسانے بھی لکھا کرتے تھے۔ جس کا ذکر آگے چل کر کروں گا۔ دنیائے شعر و ادب انہیں صرف شکیب جلالی کے نام سے جانتی ہے۔ میں انہیں صرف ’ سید‘ کہا کرتا تھا۔ تخاطب کے اس انداز میں یقیناً میرا خلوص اور محبت شامل تھے۔ ان کی پیدائش ان کی تحریر کے مطابق یکم اکتوبر ۳۴ء کو بدایوں میں ہوئی اسلامیہ انٹر کالج بریلی میں ان کا داخلہ۱۹۴۰ء میں جماعت سوم میں ہوا، شکیب اسلامیہ انٹر کالج بریلی سے جماعت ششم پاس کر چکے تھے اور بدایوں اپنی نانی کے پاس جانے کو تیار تھے کہ غالباً مئی ۱۹۴۴ء میں والد صاحب نے جنون اور پاگل پن میں ان کی والدہ ماجدہ کو بریلی شہر کے اسٹیشن پر چلتی ہوئی ترین کے آگے دھکیل دیا۔ جس سے انہوں نے ۱۴ رجب المرجب کو وفات پائی۔ واضح رہے کہ کہ ۱۲ نومبر کو شکیب نہا دھو کر گھر سے نکلا تھا اور ریل کی پٹری کے قریب ایک درخت کی اوٹ میں کھڑا رہا تھا۔ جب لائل پور سے آنے والی گاڑی سرگودھا میں اس کے قریب سے گزری تو وہ دوڑ کر پٹری پر جا پڑا اور یہ واقعہ اس کے لاشعور میں بیٹھ گیا کہ شکیب بھی ریل اور پٹری کے بغیر نہ مر سکا۔ اس حادثہ کی وجہ سے بدایوں نانی کے گھر جانا ملتوی ہو گیا۔ اس سے قبل کہ اس کے نانا صاحب بریلی جا کر انہیں بدایوں لاتے وہ اپنے ایک نجی استاد جناب عبدالرشید کے ہاں مقیم رہے۔
۲۴ نومبر ۱۹۴۴ء کو ان کا نام دوبارہ جماعت ہفتم میں لکھوا دیا گیا۔ کم عمر ہونے کی وجہ سے اکثر ہم جماعت ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے لیکن وہ محنتی اتنے تھے کہ ہر درجے میں پاس ہوتے چلے گئے۔ جب وہ جماعت نہم میں داخل ہوئے تو انہیں ’’گلشن علم ‘‘ کا سیکریٹری مقرر کر دیا گیا۔ یہ علمی و ادبی انجمن محلے کے ہی چند احباب نے بنائی تھی۔ اس کے علاوہ وہ بدایوں میں انجمن اقبال ادب اور انجمن دربار ادب کے تقریری مقابلوں میں انہیں اوّل دوم اور سوم انعامات حاصل ہوتے رہے۔
نہم اور دہم جماعتوں کی تعلیم کے دوران شکیب طلباء کو ٹیوشن بھی پڑھایا کرتے تھے تا کہ کچھ مالی مدد ہو سکے۔ شکیب کا اپنا بیان ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں نانا صاحب اور ماموں صاحب نے کبھی کوئی شکایت کا موقع نہیں دیا اور ہمیشہ اپنے بچوں کی طرح پالا پوسا اور ان کا یہ احسان انہیں ہمیشہ یاد رہے گا۔ دسویں جماعت کے امتحان ہونے ہی والے تھے کہ تین چار دن پہلے سب گھر والے پنڈی چلے آئے اور شکیب امتحانات کی وجہ سے اپنے دوست رشید الظفر لودھی (جن کا ذکر ابتدا میں ہو چکا ہے ) کے یہاں مقیم رہے۔ امتحانات سے فارغ ہو کر وہ پہلے قصبہ سرسی اپنی آبائی وطن اور پھر بریلی گئے۔ وہاں جا کر ماسٹر عبد الرشید صاحب کے یہاں ٹھہرے۔
شکیب کی پاکستان آمد۔
وہ ۸ مئی ۱۹۴۸ء کو پاکستان پہنچے اور۲۱ جون کو مقامی ’’ڈمپ‘‘ میں ۴۵ روپے ماہانہ تنخواہ پر ملازم ہو گئے۔ اور اس کے بعد ۹ اکتوبر ۱۹۴۸ء کو سنٹرل کواپریٹو بنک شاخ راولپنڈی میں ملازم ہو گئے۔ یہاں تنخواہ ۵۰ روپے ماہوار مقرر ہوئی۔ نومبر ۱۹۴۹ء میں ۸۶ روپے ماہوار ماہانہ ہو گئی۔ اور پھر دسمبر ۱۹۴۹ء ایک سو آٹھ روپے ماہوار مقرر ہو گئی۔ اس بنک کے منیجر جناب دین محمد صاحب شکیب سے بہت پیار کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے شکیب جب بھی راولپنڈی آتے تو موصوف سے ملے بغیر نہیں جاتے تھے۔ اس بنک میں ۵۰ فیصد عملہ شکیب کے دوستوں پر مشتمل ہے جو کہ مرحوم کو اکثر یاد کرتا رہتا ہے۔ نومبر ۱۹۵۱ء میں میرے والد بزرگوار امجد علی مرحوم بیمار پڑ گئے تھے۔ انہیں آنتوں کی بیماری تھی، خان اشتیاق علی خان (آئی سی ایس) سابق رئیس محمد آباد جو اُس زمانے میں سرگودھا میں محکمہ مال کے بڑے افسر تھے۔ انہوں نے والد صاحب کو سرگودھا کے سول ہسپتال میں داخل کرا دیا تھا۔ جب وہ اچھے نہ ہو سکے تو میں اور شکیب جلالی انہیں سرگودھا سے واپس لانے کے لئے گئے تھے۔ میرے والد بزرگوار کا انتقال ۴ نومبر ۱۹۵۱ء بروزا توار راولپنڈی میں ہوا۔ میری کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ والد صاحب کے سوم تک کوئی ساتھی ایسا نہ تھا جو میری دلجوئی کر سکتا۔ صرف شکیب جلالی مرحوم اور سید علی زاہد مرحوم تھے کہ اپنے اپنے بستر لے کر میرے پاس آ گئے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ والد صاحب کے انتقال پُر ملال کی خبریں بیشتر روزناموں میں شائع ہوئی تھیں۔
شکیب راولپنڈی میں اپنے ماموں محمد میاں نقوی جو کہ جی، ایچ، کیو میں سپرنٹنڈنٹ تھے کہ ساتھ ہی مکان ۷۶۸ واقع لنڈا بازار میں اقامت پذیر تھے۔ اور جب محمد میاں نقوی صاحب یہاں سے تبدیل ہو کر کمانڈر انچیف فضائی افواج کے پرسنل اسسٹینٹ بن کر مع اہل و عیال جن میں شکیب کی چھوٹی بہنیں، خالہ اور خالہ زاد بہن بھی شریک تھیں، کراچی چلے گئے تو وہاں سے شکیب میری بیٹھک واقع ڈی ۵۲۱ لنڈا بازار میں آ گئے۔
۱۹۵۲ء میں ماہنامہ ’’گونج‘‘ راولپنڈی کا اجراء ان کی ہی ادارت میں ہوا تھا۔ دوسرا نام اس پر سید علی زاہد مرحوم کا آتا تھا۔ (اس رسالے کا ایک ماہنامہ چھوڑ کر باقی تمام شمارے میرے پاس موجود ہیں ) ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عارف عبدالمتین نے راولپنڈی سے ’’ماحول‘‘ نکالا تھا جو زیادہ دنوں نہ چل سکا۔ اردو صحافت کی تاریخ میں گونج پہلا ماہنامہ تھا جس کی پبلسٹی۱۲ عدد سینما سلائڈیوں کے ذریعے کرائی گئی تھی۔ اس کی سلائیڈ سب سے پہلے لاہور کے رتن سینما میں چلائی گئی تھی۔ اس کے بعد اخبارات اور جرائد کی پبلسٹی سلائیڈ کے ذریعے کروانا رواج میں داخل ہو گیا تھا۔ ہفت روزہ ’’اداکار‘‘ میکلو روڈ نے اس باب میں پہل کی تھی۔ انہوں نے گونج کی سلائیڈ دیکھ کر جریدے کی پبلسٹی سلائیڈ کے ذریعے کروائی۔ ’’گونج‘‘ نام میں اتنا چھوٹا تھا کہ اس کے نام سے متاثر ہو کر بمبئی کے ایک فلم ساز نے ’’گونج‘‘ کے نام سے ایک فلم کا اعلان کر دیا جو بعد میں مکمل بھی ہو گئی تھی۔ گونج کے لئے مجھے اور شکیب جلالی کو متعدد فرضی ناموں سے لکھنا پڑا۔ شکیب افسانہ عموماً ’’رمز گارکی‘‘ کے نام سے لکھا کرتے تھے۔ اور اسی نام سے متعدد جرائد میں انہوں نے افسانے لکھے۔ جہاں جہاں اخبارات کے ریکارڈ مکمل ہیں وہ آج بھی تحقیق کر سکتے ہیں۔ ۲۰ ستمبر ۱۹۵۱ء کے اے پی پی نیوز ایجنسی نے ہندو پاک میں ایک خبر کریڈ کی تھی، جس کا منشا یہ تھا کہ میسرز ’’گونج‘‘ کے پہلے شمارے سے ایک کہانی جو ’’سمالی ایساکی‘‘ نے معاوضہ لے کر لکھی تھی اُسے ’’اداکار‘‘ نے اسی ماہ کسی اور نام سے اپنے جریدے میں چھاپ دیا تھا۔ یہ خبر جا بجا بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی تھی۔ بروز ہفتہ ۱۲ جنوری ۱۹۵۲ء کو نواب رمضان علی خان صاحب جان جیری کی کوٹھی واقع ایچ ۵۶ کالج روڈ راولپنڈی پر سالِ نو کے استقبال میں مشاعرہ کروایا۔ اس مشاعرہ کے متعلق دعوت ناموں پر شکیب جلالی نے بطور سیکریٹری دستخط کئے تھے۔ یہ بات میں نے ایک پرانے دعوت نامے سے اخذ کی ہے جو مرحوم کے دستخط سے جناب مصطفیٰ برلاس راہی شاگرد جگر مراد آبادی جن کا برادرِ خورد مرتضیٰ برلاس جدید غزل کے مشہور شاعر ہیں، کے نام جاری ہوا تھا۔
اس مشاعرے میں دیگر شعراء کے علاوہ جناب عابد منٹو اور مجاز اکبر آبادی بھی شامل ہوئے تھے۔ ایک بات اور صاف کر دوں کہ نواب صاحب کی کوٹھی مشاعروں کے انعقاد کے لئے خاصی مشہور رہی ہے۔ یہاں نواب جعفر کی خان اثرؔ مرحوم کے اعزاز میں بھی ۲۷ مارچ ۵۲ء کی شام ایک مشاعرہ منعقد ہوا تھا جسے راولپنڈی میں تاریخی حیثیت حاصل ہے۔
۹مئی۵۳ء کے ایک مکتوب میں لاہور سے شکیب نے مجھے اطلاع دی تھی کہ وہ یکم مئی سے ’’جاوید لمیٹڈ‘‘ لاہور کی سیالکوٹ کے انچارج مقرر ہو گئے ہیں۔ پھر سیالکوٹ جا کر اس نے اطلاع دی کہ وہ ماہنامہ ’’عجیب‘‘ نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ البتہ عجیب کا کوئی شمارہ میری نظر سے نہیں گزرا۔ سیالکوٹ کے قیام کے دوران میں صرف ایک مرتبہ وہاں گیا تھا جن نئے احباب سے میری ملاقات ہوئی۔ ان میں جناب پرویز گل، سرورمجاز، عاصم صہبائی، تصور کرتپوری کے اسماء گرامی مجھے آج تک یاد ہیں۔ سرور مجاز آجکل لاہور میں کسی اخبار کے دفتر میں کام کرتے ہیں اور پرویز گل سے میری خط و کتابت قائم رہی تھی۔ ویسے راولپنڈی سے سید علی زاہد، تمہید الاسلام سید، ممتاز علی عاصی جالندھری، شکیب کی خیریت معلوم کرنے کے لئے ہفتے عشرہ کے بعد سیالکوٹ جاتے رہتے تھے۔ ۵ فروری ۱۹۵۵ء کے ایک مراسلے میں مذکور ہے کہ وہ (شکیب) ہفت روزہ ’’وحدت‘‘ لاہور کے مدیر ہو گئے ہیں اور پہلا شمارہ ادبی ایڈیشن کی شکل میں ۱۰ مارچ ۵۵ء کو منصۂ شہود پر آ جائے گا۔ ’’وحدت ‘‘ کے علاوہ لاہور سے ان کی ادارت میں ’’شاہکار‘‘ جو بعد میں ’’جاوید‘‘ ہو گیا تھا، بھی نکلتے رہے ہیں۔ ایڈیٹر کے سب سے پہلے دوست ہوتے ہیں۔ غالباً یہی وہ زمانہ تھا جب لاہور میں شکیب کو بہت زیادہ دوست ملے ہوں گے۔ متذکرہ صدر جرائد کے دو شمارے میرے پاس ابھی تک موجود ہیں جن میں میرا کلام شاملِ اشاعت ہے باقی سب ضائع ہو چکے ہیں۔
۱۶ ستمبر ۵۵ء کے ایک مکتوب میں اطلاع دی تھی کہ جناب اقبال عقیل شکیب کے (دولہا بھائی) کے والد ماجد علامہ فاضل مقبل دہلوی کا انتقال ۴ اگست ۵۵ء کو ہو گیا ہے، جس کا مجھے بہت قلق ہوا۔ علامہ فاضل مقبل دہلوی کپڑا مارکیٹ انار کلی لاہور میں ’’پیسہ اخبار‘‘ کی با لائی منزل میں رہا کرتے تھے۔ ان سے میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب میں اور شکیب جلالی بہن کے رشتے کے لئے جناب اقبال مقبل (پروپرائٹر شبلی اینڈ کمپنی ۲۵ اردو بازار لاہور) کو دیکھنے کے لئے گئے تھے۔ ہم دونوں کو اقبال کی طبیعت بہت پسند آئی تھی اور جس کے نتیجے میں بہن کی شادی بڑی دھوم دھام سے راولپنڈی سے کی گئی۔ اس کے بعد بھی علامہ مرحوم کو کئی بار مل چکا تھا۔ آخری دنوں میں ان کی بینائی بہت کمزور ہو گئی تھی لیکن آواز سے وہ اپنے ملنے والوں کو پہچان لیا کرتے تھے۔ شکیب نے ۹ دسمبر ۱۹۵۵ء کے ایک مکتوب میں مجھے لاہور سے اطلاع دی تھی کہ وہ بی اے کے سپلیمنٹری امتحان میں کامیاب ہو گئے ہیں اور اب ۱۲ دسمبر کو کراچی چلے جائیں گے۔ ۱۱جون ۱۹۵۶ء کے مکتوب میں انہوں نے لاہور سے اطلاع دی تا کہ ۱۰ جولائی کو میں کراچی پہنچ کر ان کی نیز دوسری ہمشیرہ خورد کی تقریبات شادی خانہ آبادی میں شریک ہو سکوں، لیکن میری صحت ان دنوں اتنی خراب تھی کہ میں ان تقریبات میں شریک نہ ہو سکا۔
میں نے شکیب جلالی کی دیگر رشتہ داروں سے خط و کتابت کر کے ایک خاکہ سا مرتب کیا ہے تاکہ مستند واقعات زندگی کی روشنی میں ان کی زندگی کے حالات کو آگے بڑھایا جا سکے۔ سرِ دست میں جن موضوعات پر مواد اکٹھا کر رہا ہوں وہ درج ذیل ہیں۔
۱۔ شکیب جلالی کی علمی ادبی مصروفیات۔
۲۔ شکیب کے اطوار و عادات۔
۳۔ شکیب اپنے خطوط کے آئینے میں۔
شکیب جلالی نے کچھ دنوں صوبائی محکمہ اطلاعات کے دفتر واقع ایبٹ روڈ (جو اب ۵۰ اے لارنس روڈ لاہور ) میں ملازمت کی تھی۔ اس کے بعد ۲۴۔ اگست ۱۹۵۹ء کو تھل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے شعبہ اطلاعات میں بطور نشر و اشاعت اسسٹنٹ ملازم ہو گئے۔ اور جس زمانے میں خود کشی کا حادثہ رونما ہوا وہ بھکر میں متعین تھے۔ شکیب کے بڑے بھائی کا نام حسین اقدس عرف عالی ہے اور بچی کا نام حنا ہے۔ حادثے کے بعد جو رقعہ بر آمد ہوا اس پر تحریر تھا۔
’’میں ذہنی پریشانی سے تنگ آ کر خود کشی کر رہا ہوں۔ عزیزو اقارب خداوند سے میری بخشش کے لئے دعا مانگیں ‘‘
غالباً یہی وہ مقام ہے جہاں سب کو متحد ہو کر وہ پڑھنا چاہیے، جس کی طرف شکیب نے اشارہ کر دیا ہے۔
کب سے ہیں ایک حرف پہ نظریں جمی ہوئیں
وہ پڑھ رہا ہوں جو نہیں لکھا کتاب میں
اقتصادی نا ہمواریوں اور معاشی بے انصافیوں کے سبب آج بھی یہی ہے کہ ایک شخص کے مر جانے کے بعد ہی اس کے جوہر کا پتہ چلتا ہے۔ مرگ سے پہلے جانتے ہوئے بھی لوگ اس امر کا اظہار نہیں کرتے۔ اپنی زندگی میں عزت کرا لینا صرف سرمایہ داروں ہی کا حصہ ہے۔ یہ کاروبار مالدار فنکاروں کا بھی مقدر ہے۔ انہیں بے اندازہ سہولت ہے کہ وہ اپنے خرچ پر اپنی شہرت میں مخصوص محفلیں سجائیں۔ وہ محفلوں میں ایسے لوگوں کو بلاتے چلاتے جو کہ جواباً انہیں بھی اپنے یہاں بلا سکیں۔ کچھ علمی اور ادبی جرائد بھی ایسے ہیں جو معاوضہ پر صرف ایسے فنکاروں کا کلام نظم و نثر شائع کرتے ہیں۔ جن سے جواب میں کسی اقتصادی مدد کی توقع ہوتی ہے۔ ایسے جرائد میں غیر معروف لوگوں کا کلام بھی شائع ہوتا ہے۔ مگر ان کو پورا معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ ہوتا یہ ہے کہ رقم کی وصولی کی رسید کسی چوٹی کے فنکار (دلال) کی معرفت پہلے ہی ریکارڈ پر آ جاتی ہے اور حساب کتاب بعد میں نہ جانے ہوتا ہے یا کہ نہیں۔ جس طرح سرکو لیشن منیجر اخبارات کے نامہ نگاروں اور نمائندوں کا تقرر اس شرط پر دوسرے شہروں میں کرتے ہیں کہ نامہ نگار زیادہ سے زیادہ اخبارات بھی فروخت کر سکے۔ اسی طرح مالدار قسم کے علمی و ادبی جرائد کے ایجنٹ دوسرے شہروں میں موجود ہیں اور وہ ہر اُبھرنے والے فنکاروں کی جڑیں کاٹنے کا کام کرتے ہیں۔ خیر یہ بحث بڑی طویل ہے۔ مجھے کہنا یہ ہے کہ علی ادبی حلقوں میں اس بد دیانتی کی بنا پر ایسے ادیب و شاعر جس کے کندھوں پر بڑے بڑے کنبے کی کفالت کا بوجھ ہے اپنی جیتے جی صحیح مقام سے نہ صرف محروم رہتے ہیں بلکہ اپنے فن کی تخلیق کی وجہ سے روز بروز کمزور ہوتے رہتے ہیں۔ اور مفلوک المالی کا شدت سے شکار ہو جاتے ہیں، اور جب انہیں زمانے کی کسی بے رحمی کا علم ہوتا ہے جس کا ذکر وہ کنایۃً بھی نہیں کر سکتے تو ان کے ذہنی امراض میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کی قسم کی مسلسل نا انصافی شدید مالی اور دماغی بحران کا موجب بن کر غریب فنکار کی جان وقت سے پہلے لے لیتی ہے۔ شکیب بھی ایسے ہی فنکاروں میں سے ایک ہیں، جنہیں اپنی علمی و ادبی تخلیقات سے جیتے جی مالی فائدہ نہ ہونے کے برابر حاصل ہوئے۔ انہیں ایسے مشاعروں میں کم ہی بلایا جاتا تھا جہاں سے معقول معاوضے کی امید ہوتی تھی، کئی بار کوشش کے باوجود ان کا معاہدہ ریڈیو سے بھی نہ ہو سکا۔ یہاں یہ عرض کرنا بے محل نہ ہو گا کہ ستمبر ۱۹۶۶ء میں شکیب کو ان کے لاہور اور بھکر کے دوستوں نے پاگل خانے میں داخل کروا دیا تھا۔ ایک ماہ بعد وہ صحت یاب ہو گئے تھے اور کام پر جاتے رہے تھے۔ ۱۱ نومبر کو سرگودھا اپنے بیوی بچوں اور بہنوئی کے پاس چلے گئے تھے اور ۱۲ نومبر کو خود کشی کر لی۔ شکیب جلالی کا کلام ان کے مرتے ہی احمد ندیم قاسمی کی تحویل میں آ گیا تھا۔ جسے بعد میں انہوں نے شائع کیا۔ آج شکیب کو ہم سے جدا ہوئے چودہ برس مکمل ہو رہے ہیں۔ میں اس مضمون میں شکیب کے فن کے متعلق کوئی اظہار نہیں کرنا چاہتا، ویسے یہ اگر شکیب کے فن و فکر کے لیے انتہا حوصلہ افزا ہے کہ ہند و پاک کے مقتدر ناقدین و مرتبین انتخابات (جن میں ڈاکٹر وزیر آغا، شمس الرحمن فاروقی، حامد حسن حامد، کرامت علی کرامت، مدحت الاختر، شاہد کبیر، خلیل الرحمن اعظمی، فیض جعفری، سلطان اختر، رشید نثار اور عبدالرحیم نشتر وغیرہ شامل ہیں ) نے گزشتہ برسوں میں مرحوم کے فن کا جا بجا ذکر کیا ہے۔ پروفیسر رشید امجد نے اپنے مضامین کی پہلی کتاب ’’نیا ادب‘‘ میں شکیب جلالی کو اہم شاعر قرار دیا ہے۔ ان کے ایک مضمون ’’تین نئے غزل گو‘‘ کے اختتامی جملوں کے ایک اقتباس پر میں اپنا مضمون ختم کرتا ہوں جس سے شکیب کے فن کا قدرے اندازہ ہو جائے گا۔
’’شکیب سے متاثر ہونے والوں میں افضل منہاس، مرتضیٰ برلاس، سیف زلفی، اختر امام رضوی اور پرانے شاعروں میں سے احمد ندیم قاسمی شامل ہیں۔ یہ لوگ شکیب سے شعوری طور پر متاثر ہیں۔ ان کے الفاظ مثلاً لہو، پرندہ۔ چٹان، پیاس۔ بادل۔ شور۔ آنکھ کی پتلی، ستون وغیرہ کا استعمال ان متاثرین کے یہاں فیشن کے طور پر ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی شکیب کا ان لوگوں کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے، یہ لوگ تاثیر، ترسیل اور ابلاغ کی سطح پر مشکلات سے دو چار دکھائی دیتے ہیں۔ جس سے شکیب کا نکھرا نکھرا امیج زندہ و متحرک اور منفرد نظر آتا ہے۔ ‘‘
(بتاریخ ۱۳ فروری۱۹۸۱ سید ماجدالباقری نے یہ مضمون ’’عکاس‘‘ کو بھیجا تھا)
٭٭٭
مکمل جریدہ ڈاؤن لوڈ کریں